فہرست مضامین
مرثیہ
پانی
جوش ملیح آبادی
ہاں اے صباحِ طبع شبِ تار سے نکل
اے فکر سوئے آبِ خضر گنگنا کے چل
اے کلکِ نغمہ بار برستی گھٹا میں ڈھل
اے چشمۂ تخیلِ برگ آفریں اُبل
جس میں ہو رقص و رنگ و روانی کی داستاں
اے دل کی آگ چھیڑ وہ پانی کی داستاں
پانی خوش اِضطراب و خوش انداز و خوش جمال
خوش آب و خوش خرام و خوش آواز و خوش مقال
شیریں قوام و شیشہ مزاج و گہر خصال
سرشاری و شگفتگی و رقص و وجد و حال
سرمایہ آب و رنگ کی تانیں لئے ہوئے
لاکھوں ہر ایک بوند میں جانیں لئے ہوئے
پانی چناب و راوی و گنگا و رود نیل
جوئے حیات و کوثر و تسنیم و سلسبیل
رقاصِ بے نظیر و غزل خوانِ بے عدیل
موج ہوا پہ ہمسرِ گلبانگِ جبریل
دست خنک میں ساغر زم زم لئے ہوئے
کلیوں کی خواب گاہ میں شبنم لئے ہوئے
بہتی ہوئی ندی کی روانی کا جل ترنگ
متوالیوں کے دل کی گرجتی ہوئی اُمنگ
سبزے کی لہر، پھول کی خوشبو، دھنک کا رنگ
آہنگ میں بھرے ہوئے مدھ ماتیوں کے انگ
اور یہ جو عود و چنگ ہیں برکھا کی رات میں
ان سب کی باگ ڈور ہے پانی کے ہاتھ میں
پانی ہزار روپ سے ہوتا ہے منجلی
شبنم، بہار، گونج، گرج، راگنی، جھڑی
بالی، درخت، دوب، ثمر، برگ، خس، کلی
کونپل، شگوفہ، گاہ کلی، پھول، پنکھڑی
کرتا ہے نصب موج پہ خیمے حباب کے
بھرتا ہے وقتِ صبح کٹورے گلاب کے
پانی بخار، بھاپ، گھٹا، جھلملی دھواں
سنبل، بنفشہ، لالہ، سمن، سروِ نیستاں
شاداب و نرم و نازک و سرشار و شادماں
بُستان و سبزہ زار و خیابان و گلستاں
آنچل رخِ صباح پہ آبی لیے ہوئے
کاندھوں پہ زندگی کی گلابی لیے ہوئے
جولاں، رقیق، سرد، سُبُک سیر، نغمہ خواں
مستی فروغ، زمزمہ انگیز، دُر فشاں
وادی میں آبشار، صراحی میں گلستاں
رقصاں، جواں، جہندہ و جولاں، رواں دواں
ہیجان و اضطراب و تلاطم لیے ہوئے
گونگی زمیں پہ نغمۂ قلزم لیے ہوئے
پانی فروغ ولولۂ دجلہ و فرات
آہنگ و ارتقاء و نشیدِ تغیرات
سلطانِ ہفت قلزم و دارائے شش جہات
تخمِ وجود، وجہ نمو، طلعتِ حیات
جادو جگائے گیسوئے عبرو سرشت میں
کھولے ہوئے زمین پہ غرفے بہشت کے
ہلچل کے بیشمار بکھیڑے لیے ہوئے
چھل بل کی شوخیوں میں تھپیڑے لیے ہوئے
پرُ حول مدّو جزر میں بیڑے لیے ہوئے
شاداب گھاٹیوں میں دریڑے لیے ہوئے
جھلمل فضا میں بال پریشاں کیے ہوئے
بوچھار کی رقیق دلائی سیے ہوئے
ماوائے تازا کاری و ملجائے شست و شو
دولت سرائے زمزمہ و جنّتِ سبو
جولاں گہِ شگفتگی و چشمۂ نمو
پروردگارِ جودت و خلاقِ رنگ و بو
ہر بلبلے میں تارِ مقرنس لیے ہوئے
پنگھٹ پہ نازِ صبحِ بنارس لیے ہوئے
پانی متاعِ کیف ہے سرمایۂ سبو
چہروں پہ ضو، رگوں میں تھرکتا ہوا لہو
پیرِ مغاں کی بزم میں فرمانِ ہا و ہو
کچے پھلوں میں شہد ہے پھولوں میں رنگ و بو
سینے میں روحِ سنبل و سوسن لیے ہوئے
چٹکی میں بادِ صبح کا دامن لیے ہوئے
نے چھیڑتا جوان ترنگیں اُبھارتا
رندوں کو سوئئے ساغر و مینا پکارتا
مڑتا، لرزتا، گونجتا، پتاّ گہارتا
چنگھاڑتا، دھاڑتا، گاتا، ڈکارتا
جھنکاے پائے ناز میں چھاگل بہار کی
بدھی گلوئے نرم میں آڑی گہار کی
آلامِ تشنگی کا گریباں سیے ہوئے
مکھڑوں کو رشکِ صبح بہاراں کیے ہوئے
جھونکوں میں شاخِ گُل کو سہارا دیئے ہوئے
خوابیدہ انکھڑیوں میں گھٹائیں لیے ہوئے
لے میں پروئے شور و شغب آبشار کے
خیمے اُٹھائے دوشِ خنک پر بہار کے
دامن میں آبِ گوہر و مرجاں لیے ہوئے
جامِ رواں میں قطرۂ نیساں لیے ہوئے
موجِ دواں میں عشوۂ ترکاں لیے ہوئے
کالی گھٹا میں زلفِ نگاراں لیے ہوئے
کولھوں پہ ہاتھ طرفہ ادا سے دھرے ہوئے
پھولوں سے مرغزار کی جھولی بھرے ہوئے
پانی کا لوچ، ابر کی رو، موتیوں کی آب
مٹّی کی جان، گل کی مہک، بحر کا جواب
ساغر کی آگ، تیغ کا پانی، سمن کی داب
کڑکے تو موجِ صاعقہ، کھنچ جائے تو شراب
پُروا میں ابرِ تیرہ کے لکےّ بنُے ہوئے
لیلائے برشگال کی چندری چنے ہوئے
بھنوروں کی گونج، نہر کی سیاّل راگنی
پی ہو کی دھوم گونجتی سرشار دلکشی
شوئندگی و شوخی و شنگی و شاعری
رنگینی و روانی و رقص و رُبودگی
کویل کی کوک بوڑھ کی خوشبو لیے ہوئے
مدرا، پیالا، زمزمہ، دارو لیے ہوئے
ٹپ ٹپ، شرر شرار، تڑاتڑ ، چھنن چھنن
دھمال، دھوم، دھام، دمادم، دھنن دھنن
گم کاؤ ، رُوم جھُوم ، جھما جھم، جھنن جھنن
گھن گھن، گرج، گھماؤ، گھماگھم ، گھنن گھنن
ہول و ہراس و ہیبت و ہیجاں لیے ہوئے
بجلی کی تیغ نوح کا طوفاں لیے ہوئے
خستّ کرے تو قحط سے عالم ہو بیقرار
گرمِ سخا اگر ہو تو رزّاقِ روزگار
دوڑے تو سازِ نور ، جو بھاگے تو سوزِ نار
کڑکے تو برق ریز جو ٹھٹھرے تو برق و بار
ٹپکائے بوندیاں تو چمن بولنے لگے
پتھراؤ پر جو آئے تو رن بولنے لگے
روپوش ہو تو دھوپ جما دے زمین پر
بگڑے تو فرش گرم بچھا دے زمین پر
تاڑے کرے تو آنچ بسا دے زمین پر
منھ پھیر لے تو بھوک اُگا دے زمین پر
خوش ہو تو سر کو قشقہ کلائی کو بانک دے
لعل و گہر زمین کی چولی میں ٹانک دے
آئے جو موج میں تو اُڑیں بوتلوں کے کاگ
افسردہ ہو تو کھیت میں رینگیں مہیب ناگ
چھیڑے جو آسمان پہ دریا دلی کا راگ
چولھوں کی سمت دوڑ پڑے گنگنا کے آگ
گرجے فقط تو کفر سے ڈسوائے دین کو
برسے تو تختِ زر پہ بٹھا دے زمین کو
جھمکے فراز پر تو گھٹا جھومنے لگے
مچلے نشیب میں تو فضا جھومنے لگے
چہکے تو کجریوں کی صدا جھومنے لگے
ناچے تو روحِ ارض و سما جھومنے لگے
کروٹ صبا میں لے تو چمیلی مہک اٹھے
پس جائے تو بتوں کی ہتھیلی مہک اٹھے
مثلِ بخار اُڑے تو گھٹائیں ہو نغمہ گر
خم سے اُبل پڑے تو بہک جائیں بام و در
اُمڈے تو رنگ و رقص ہوں گنگا کے گھاٹ پر
چھلکے جو گاگروں سے تو گھٹائیں ہو تر بتر
نہلائے الھڑوں کو تو پنڈے بِکس پڑیں
ٹپکے جو گیسوؤں سے تو موتی برس پڑیں
بادل کی چادروں میں جو اُلجھے تو کتھئی
کرنوں کی زد پہ آ کے جو چمکے تو چمپئی
موجوں کی مدّ و جزر سے اُبھرے تو سردئی
لکوّ ں کی ظلمتوں میں جو ڈوبے تو اگرئی
گرجے جو ابر میں تو فلک چہچہا اُٹھے
انگڑائی لے تو سر پہ دھنک جگمگا اُٹھے
برسے جو ٹوٹ کر تو جہاں ناچنے لگے
عشرت سرائے بادہ کشاں ناچنے لگے
قلقل کی رو میں بانگِ اذاں ناچنے لگے
شمعوں کی لو، اگر کا دھواں ناچنے لگے
بوچھار میں جو بندِ قبا کھولنے لگے
مکھڑوں پہ رنگِ ماہ وشاں بولنے لگے
برکھا کا راگ گائے تو ساغر چھلک اُٹھیں
چہکے جو دھوم سے تو خُمِستاں لہک اُٹھیں
رس بوندیاں گرائے تو پتےّ کھنک اُٹھیں
کوثر میں گنگنائے تو حوریں تِھرک اُٹھیں
پہنچے جو عرش پر تو ملک شست و شوُ کریں
زلفیں نچوڑ دے تو پیمبر وضو کریں
صد حیف کربلا میں وہی آبِ خوش گوار
جس پر حیاتِ نوعِ بشر کا ہے اِنحصار
جس کے بغیر آتشِ سوزاں ہے روزگار
بجتا ہے جس کے ساز پہ انفاس کا ستار
جس کا عَمَہ ہے بارگہِ مشرقین پر
اہلِ جفا نے بند کیا تھا حسین پر
اِس حادثے پہ آج بھی گریاں ہیں بحر و بر
اللہ یہ تلاطمِ پُر ہولِ جوئے شر
یہ کفر الحفیظ یہ عدوان الحذر
پانی سی چیز بند ہو وہ بھی حسین پر
مولا کسی پہ کوئی نہ ایسی جفا کرے
کافر پہ بھی نہ بند ہو پانی خدا کرے
میدانِ کربلا کا وہ پُر ہول التہاب
برسا رہا تھا آگ جہاں سوز آفتاب
خیموں میں جل رہا تھا گلستانِ بو تراب
دریا تھا انتہائے خجالت سے آب آب
موجوں پہ تشنگی تھی تسلط کئے ہوئے
ہر قطرۂ فرات تھا آنسو پئے ہوئے
شعلوں پہ فرشِ گرم شراروں پہ سائبان
دوشِ ہوا پہ ابر اٹھائے ہوئے نشان
چہروں پہ گرد سر پہ کمانیں دلوں میں بان
سینوں میں لو جگر میں شعاعیں لبوں پہ جان
پیشِ نظر حیات کی بستی لٹی ہوئی
زیرِ قدم زمین کی نبضیں چھٹی ہوئی
ذرات آب دیدہ تھے صحرا اداس تھا
گرداب اشک بار تھے دریا اداس تھا
فرشِ زمین و عرش معلی اداس تھا
روئے مبین فاطمہ زہرا اداس تھا
گردوں کی بارِ غم سے کمر تھی جھکی ہوئی
گیتی کی سانس فرطِ الم سے رکی ہوئی
ذرات محوِ خواب، فضا غرقِ شور و شین
تپتی ہوئی زمین پر اکبر سا نورِ عین
اصغر کی سرد لاش پہ سیدانیوں کے بین
اے وائے بر تباہی و مظلومیِ حسین
خیمے کے در کو دیدۂ گریاں کیے ہوئے
زینب کھڑی تھیں بال پریشاں کیے ہوئے
سکتے میں تھے رسول ، ملائک تھے سوگوار
گردوں پہ مرتضی و محمد تھے اشک بار
ویران پالنے سے اداسی تھی آشکار
زہرا کی آ رہی تھی یہ آواز بار با
سن لے صدائیں بارِ خدا شور و شین کی
پروردگار خیر ہو میرے حسین کی
اے میرے لال اف یہ سماں ہائے کیا کروں
اک جان اور یہ بار گراں ہائے کیا کروں
تو اور دھوپ میں ہو تپاں ہائے کیا کروں
سینے سے اٹھ رہا ہے دھواں ہائے کیا کروں
ہے ہے کوئی نہیں جو سنبھالے حسین کو
یا رب کسی جتن سے بچا لے حسین کو
گونجی ہوئی تھی عرش پہ زہرا کی یہ صدا
اور فرش تھا نمونۂ محشر بنا ہوا
حوا کھڑی تھیں سر سے اتارے ہوئے ردا
ٹکرا رہی تھیں بارِ مشیت سے کربلا
ہر ذرہ قتل گاہ کا مائل تھا بین پر
تاریخ کی نگاہ لگی تھی حسین پر
ذروں پہ سو رہے تھے رفیقانِ تشنہ کام
ہونٹوں تک آ رہا تھا شہادت کا تلخ جام
شعلوں کے بڑھ رہے تھے پرے جانبِ خیام
تنہا کھڑے تھے حلقۂ اشرار میں امام
پروا نہ دھوپ کی نہ کوئی فکر سائے کی
خیمے سے آ رہی تھی صدا ہائے ہائے کی
لیکن بایں ہجوم ستم ہائے روزگار
مولا کے لب تھے عزمِ شہادت سے آبدار
سر رکھے خزاں کے دوش پہ سرمایۂ بہار
چہرے سے تابِ وجہِ ذوالاکرام آشکار
کوثر کی ہر نفس میں روانی لیے ہوئے
سیلابِ روزگار کو پانی لیے ہوئے
پھر بھی یہ چاہتے تھے کہ برپا نہ ہو فساد
اربابِ کلمہ گو سے نہ کرنا پڑے جہاد
دوہرا سکے نہ وقت مال ثمود و عاد
خطبے کے ڈونگڑے سے بجھے آتشِ عناد
گرتی ہوئی خلوص کی دیوار روک لیں
چلتی ہوئی زبان پہ تلوار روک لیں
لیکن ہوا ذرا بھی نہ حجت کا جب اثر
مائل ہوئے جہاد پہ سلطانِ بحر و بر
اٹھتی ہوئی نگاہ سے اڑنے لگے شرر
جھومے علی کی شان سے تلوار چوم کر
گویا گھٹا کی اوٹ سے بجلی نکل پڑی
ٹھہری زباں، نیام سے تلوار ابل پڑی
شورِ رجز بلند ہوا دار ہو گیا
لہجے سے گرم خوف کا بازار ہو گیا
روزِ عروجِ شام شبِ تار ہو گیا
نکلا جو منہ سے حرف وہ تلوار ہو گیا
آخر فضا پہ ایک کٹاری ابھر گئی
کانوں سے کافروں کی کمر تک گزر گئی
مسکن جو تھے غرور کے وہ سرجھکا دیئے
ایوانِ خسروئی کے پرخچے اڑا دیئے
لب تشنگی نے خون کے دریا بہا دیئے
پیا سے نے آب تیغ کے جوہر دکھا دیئے
برپا دیارِ کفر میں کہرام ہو گیا
دیوِ فساد لرزہ بر اندام ہو گیا
پل بھر میں ظالموں کے سفینے الٹ گئے
جوہاتھ اٹھے حسین کی نظروں سے کٹ گئے
قوت پہ جن کو ناز بہت تھا وہ لٹ گئے
سوئے حرم جو تیر چلے تھے اچٹ گئے
اہل جفا کی موت کا فرمان آ گیا
دشتِ بلا میں نوح کا طوفان آ گیا
شیرازۂ کتابِ حکومت بکھر گیا
سلطان کے غرور کا دریا اتر گیا
کردار تشنہ کام بڑا کام کر گیا
پانی سپاہِ شام کے سر سے گزر گیا
حق کی نگاہ ضرب سے بے تاب ہو گئے
باطل کے پیروؤں کے جگر آب ہو گئے
اٹھی نگاہ چہرۂ باطل جھلس گیا
اک ناگ تھا کہ ہمتِ اعدا کو ڈس گیا
پاتال میں سفینۂ اہل ہوس گیا
پانی علی کی تیغ کا چھاجوں برس گیا
(۔۔۔۔۔۔۔) برق ہو گئے
خود اپنے ہی لہو میں شقی غرق ہو گئے
(نسخہ میں مٹا ہوا ہے)
سبطِ نبی کے عزم نے کڑکائی یوں کماں
لَو، دے اٹھا یقیں، دھواں بن گیا کماں
اللہ ری حرب و ضرب امام زماں کی شاں
منھ سے نکل پڑی عمرِ سعد کی زباں
ندی غرورِ جاہ کی پایاب ہو گئی
فوج یزید ماہی بے آب ہو گئی
جب حلم کا فرشتہ غضبناک ہو گیا
پیاسوں کا خون شعلۂ بے باک ہو گیا
ایوانِ شر میں آگ لگی خاک ہو گیا
غم سے معاویہ کا جگر چاک ہو گیا
اہل دغا کی عمر کا پیمانہ بھر گیا
مروانیوں کی تیغ کا پانی اتر گیا
پل بھر میں سانس اہلِ جفا کی اکھڑ گئی
بیعت کی طمطراق کی صورت بگڑ گئی
دست خدا سے کسوت شاہی ادھڑ گئی
دریا پر بحکم قضا اوس پڑ گئی
حق نے رگِ سقیفہ کی چھل بل نکال دی
پائے بنی امیہ میں زنجیر ڈال دی
شاہی کا رنگ کاہکشانی نہیں رہا
دریائے شر میں شورِ روانی نہیں رہا
چترو علم میں فرکیانی نہیں رہا
شمشیر تاجدار میں پانی نہیں رہا
ہیبت سے ناریوں کا لہو سرد ہو گیا
بیعت طلب یزید کا منہ زرد ہو گیا
اے کربلا کے ابر گہر بار السلام
اے ہادیوں کے قافلہ سالار السلام
اے کعبۂ سواد کے معمار السلام
اے جنس آبرو کے خریدار السلام
اے سورما، دلیر، جیالے تجھے سلام
اے فاطمہ کی گود کے پالے تجھے سلام
اے میرِ ارض و صدرِ سموات السلام
اے بادشاہِ کشورِ آیات السلام
اے میزبانِ لشکر آفات السلام
اے ناقدِ نہفتگیِ ذات السلام
اے کج کلاہِ مورثِ کونین السلام
اے وارثِ عبادتِ ثقلین السلام
اے مصحفِ حیات کی تفسیر السلام
اے مدعائے آیۂ تطہیر السلام
اے دست ذوالجلال کی شمشیر السلام
اے مصطفی کے خواب کی تعبیر السلام
اے زندگی کے سوز نہانی سلام لے
کوثر بدوش تشنہ دہانی سلام لے
اے زخم قلب خیر کے مرہم تجھے سلام
اے ناصرِ پیمبرِ اعظم تجھے سلام
ہاں اے رسولِ دینِ محرّم تجھے سلام
اے حجتِ شرافتِ آدم تجھے سلام
اے تاجدار ملک تحمل سلام لے
اے فخر کے عظیم تمول سلام لے
اے سایۂ دامانِ مصطفی
اے مد و جزرِ چشمۂ ایوانِ مصطفی
اے نورِ عینِ حیدرو، اے جانِ مصطفی
اے خوش جمال یوسفِ کنعانِ مصطفی
اے تشنہ ابنِ ساقی کوثر سلام لے
آفاق کی زباں سے بہتر سلام لے
اے بے پناہ قوتِ اخلاق السلام
اے خلوتی داورِ اطلاق السلام
اے حق نگر شعور کے رزاق السلام
اے افتخارِ انفس و آفاق السلام
اے طرۂ کلاہِ نبوت سلام لے
اے شاہِ کشورِ ابدیت سلام لے
اے اقتدارِ صبرِ فراواں تجھے سلام
طوفاں شکار کشتی عرفاں تجھے سلام
اے آبروئے چشمۂ حیواں تجھے سلام
اے کردگارِ عظمت انسا ں تجھے سلام
ہاں اے گلوئے موت کے خنجر سلام لے
اے پختگیِ فکرِ پیمبر سلام لے
ہاں مرحمت ہو خاطرِ بیدار یا حسین
حرفِ غلط سے جرأت انکار یا حسین
تاب و توانِ عابدِ بیمار یا حسین
جھنکار ذوالفقار کی جھنکار یا حسین
ہاں سوئے جذبۂ حرکت باگ مو ڑ دے
ہاں توڑ دے جمود کی زنجیر توڑ دے
مولا، ہجوم درد نہانی کا واسطہ
زینب کے عزم شعلہ بیانی کا واسطہ
اصغر کے سوزِ تشنہ دہانی کا واسطہ
اکبر کی تشنہ کام جوانی کا واسطہ
ہاں آج آنسوؤں سے شرارے نکال دے
ہاں آگ میں حیات کے پانی کو ڈال دے
ہاں اے حسین برق سوار و اجل فگار
سلطان کوہ، تخت شکن، قاہری شکار
کوثر نگاہ، قصر شکن، سلطنت فشار
عرش افتخار، فرش فروغ ، انبیاء وقار
اے آفتاب تحفۂ شبنم قبول کر
ہاں سجدۂ جبینِ دو عالم قبول کر
اے ذوالفقارِ حیدر کرار السلام
اے جانشین احمد مختار السلام
اے بے نیاز اندک و بسیار السلام
اے محور ثوابت و سیار السلام
اے بے مثال پختگی ہمت السلام
اے آدمی کے نازِ الوہیت السلام
اے وجہِ افتخار اب و جَد سلام لے
اے کارسازِ ابیض و اسود سلام لے
اے ذی حیات منبر و معبد سلام لے
اے عارفِ ضمیرِ محمد سلام لے
ناموس انبیاء کے نگہبان السلام
اے رحلِ کائنات کے قرآن السلام
٭٭٭
ٹائپنگ: الف نظامی
الف نظامی کے شکریے کے ساتھ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
جادو جگائے گیسوئے عبرو سرشت میں
کھولے ہوئے زمین پہ غرفے بہشت کے
اس شعر میں عبرو ہے یا عنبر ہے