FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

پارسا بی بی کا بگھار

 

(مکمل ناولٹ)

 

 

ذکیہ مشہدی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

تو جب وہ بی بی دال بگھارتی تو زیرے، لہسن اور اصلی گھی کی سوندھی خوشبو اڑ کر سات آسمانوں تک پہنچتی اور فرشتے کہتے:  لو آج پھر پارسا بی بی کے گھر ارہر کی سنہری سنہری دال پکی ہے۔  پارسا بی بی بیٹی تو تھی بادشاہ کی، لیکن بیاہ کے آ گئی تھی غریب منشی کے گھر۔

دادی تو یہ کہانی صدیوں سے سناتی آ رہی تھیں، لیکن کبھی کسی بہو نے ان سے یوں منھ لگ کر سوال نہیں کئے تھے۔  رہی بات قمر کی تو وہ بہو نہیں، پوتی تھی اور طرہ یہ کہ اسکول پڑھنے جاتی تھی۔  اوپر سے ککڑی کی بیل کی طرح دھڑادھڑ بڑھ رہی تھی۔  اس نے پٹ سے سوال کیا:

بھلا بادشاہ زادی بیاہ کے غریب منشی کے گھر آئی کیسے؟ دادی اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں۔

بتائیے نا دادی.. ایسا ہوتا ہے کہیں؟ اب بادشاہ زادی بیاہ کے بادشاہ کے گھر جائے نہ جائے، نواب کے گھر تو جائے ورنہ سپہ سالار، وزیر، کچھ تو ہو۔

کہانی سنے گی یا بال کی کھال نکالے گی؟ کٹھ حجت کہیں کی – اور پڑھاؤ اسکول بھیج کے اور وہ موئی کرنٹان استانیاں … دادی بگڑ گئیں۔

ماتھے سے سرکتا آنچل پھر سے اچھی طرح جما کے اماں نے بھی تنبیہ کی:  کتنی بار سمجھایا، بڑوں سے حجت نہیں کرتے ہیں۔

اور اگر بڑے ایسی باتیں کریں جو سمجھ میں نہ آئیں تو؟

قمر نے نصیحت یکسر نظر انداز کر دی۔  اس کی محبوب ٹیچر مسز نارٹن نے، جنہیں دادی”ناٹنگ” بلکہ”نو ٹنکی” کہا کرتی تھیں، سمجھایا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینا چاہئے، گفتگو سے ذہن کے دروازے کھلتے ہیں۔

اچھا چل سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو سمجھ ہی لے، کیونکہ اس میں نصیحت بھی ہے۔  بادشاہ زادی کوتوال کے بیٹے سے …. دادی کی زبان ذرا رکی، ذرا لڑکھڑائی لیکن پھر سنبھالا لے لیا۔

بادشاہ زادی کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا کر کے بیٹھی تھی، اس لئے سزا دینے کے لئے بادشاہ نے اسے، جو پہلا لڑکا نظر آیا، اس سے بیاہ دیا۔  اب وہ نکلا منشی کا بیٹا اور منشی کی مجال جو بادشاہ کے حکم سے سرتابی کرے۔

دادی، منشی کے بیٹے سے کوتوال کا بیٹا تو اچھا رہتا نا-

اوئی بی بی.. یہ لڑکیاں اپنا بر کب سے خود چننے لگیں؟ ایسی بیٹیوں کو تو گلا دبا کے مار دینا چاہئے۔  اللہ آمین کی بیٹی رہی ہو گی، سوبادشاہ نرم پڑ گیا۔  زندہ رہنے دیا ایسی بیٹی کو۔

اچھا تو دادی، اگر کیا کہتے ہیں کہ اس نے اپنا بر خود چننے کا گناہ کیا تھا تو وہ پارسا بی بی کیسے کہلائی؟

پارسا بی بی اس لئے کہلائی کہ اس نے سر جھکا کر باپ کی مرضی کو قبول کر لیا، پھر شوہر کے علاوہ کسی کو آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔  جس کے چاروں طرف لونڈی غلام ہاتھ باندھے گھومتے تھے وہ جھاڑو بہارو کرتی، گائے کی سانی پانی کرتی، کھانا پکاتی اور جب دال بگھارتی تو….

کہانی کے اس موڑ پر دادی نے ڈرامائی انداز میں گھوم کر فاطمہ بی بی یعنی قمر کی اماں یعنی اپنی بہو کی طرف دیکھا اور آواز قدرے تیز کر دی

اور جب وہ دال بگھارتی تو ایک بڑے پیالے میں شوہر، سسر اور بیٹے کے لئے دال نکال کر بگھار کر پورا کرچھل اس پیالے میں انڈیل دیتی اور اپنے لئے پتیلی کے پیندے میں چھوڑی ہوئی تھوڑی سی

دال میں خالی کرچھل ڈبو دیتی۔  گرم کرچھل چھن سے کرتا اور در اصل یہی چھناکا اس کے گھر کے روشندان سے ہو کر آسمانوں تک پہنچتا اور فرشتے کہتے کہ لو، آج پھر پارسا بی بی نے ارہر کی سنہری سنہری دال پکائی ہے۔

اچھا تو دادی.. قمر نے پھر لقمہ دیا، اگر وہ لوگ اتنے غریب تھے تو خالص گھی میں دال کیسے بگھاری جاتی تھی؟

دادی نے ناک بھوں چڑھائی۔  یہ مٹ گیا ڈالڈا تو ابھی حال میں نکلا ہے۔  پہلے معمولی گھروں میں بھی دال گھی سے ہی بگھاری جاتی تھی۔  گھی کم ہونے کی وجہ سے ہی تو پہلے مردوں کے پیالے میں ڈال دیا جاتا تھا۔  پہلا حق تو ان کا ہی ہوا نا!

ان کے گھر کبھی گوشت پکتا تھا دادی؟ قمر کو گوشت بہت پسند تھا اس لئے اس نے بڑے تاسف سے پوچھا۔

ہاں، ہفتے کے ہفتے پکتا تھا۔

دادی نے یوں کہا جیسے وہ پارسا بی بی، بادشاہ زادی، ان کی بھانجی بھتیجی کچھ تھی اور وہ اس کی گرہستی میں رہ آئی تھیں۔

پارسا بی بی، گوشت پکا کر پورا سالن بڑے چینی کے پیالے میں انڈیل کر گھر کے مردوں کے سامنے رکھ دیتی اور خود روٹی سے پتیلی پونچھ لیتی۔  کبھی آلو یا اروی گوشت میں ڈالتی تو ہاں اس کا ایک آدھ ٹکڑا اپنے لئے روک لیا کرتی۔

ہا، دکھیا

قمر نے ناک پر انگلی رکھ کر بالکل دادی کے انداز میں کہا۔

ارے دکھیا کیوں؟ کھڑی جنت میں گئی۔  جب مری تو سارا گھر خوشبو سے مہک رہا تھا۔

آپ نے خوشبو سونگھی تھی، دادی؟

اماں اس درمیان اٹھ کر، کہ وہ یہ کہانی دسیوں بار سن چکی تھیں، باورچی خانے میں مردوں کے پیالے میں پورا بگھارا انڈیلنے جاچکی تھیں۔  ان کے ہاتھ سے کرچھل بہک گیا۔  خیریت تھی کہ خالی ہو چکا تھا۔  یہ قمر ضرور کسی دن مار کھائے گی۔  ان کا آنچل پھر سرکنے لگا۔  کرچھل اور آنچل دونوں سنبھال کر وہ تاسف کے ساتھ قمر کے مستقبل پر غور کرنے لگیں جو خاصا تاریک نظر آ رہا تھا۔  اس قدر بک، بک، اتنی حجت۔  باسی کھانا اکثر اماں ہی سوارت لگاتی تھیں۔  گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو بچا کر مردوں کے لئے رکھ دیتیں کہ دوسرے وقت بھی کھا لیں گے۔  خود کبھی پہلے کے بچے کھچے کے لئے برتن ٹٹولتیں۔  نہیں تو اچار ہمیشہ ہی رہتا تھا۔  اکثر انہیں باسی کھاتے دیکھ کر قمر ہاتھ سے رکابی چھین لیتی اور تازہ کھانا ان کی پلیٹ میں ڈالتی۔

کھانا پھینکنا کبھی نہیں چاہیے بیٹا، گناہ ہوتا ہے۔

وہ کہتیں

تو سب مل کے کھائیں۔  ابا کو اور بھیا کو اور دادی کو، سب کو دیا کرو تھوڑا تھوڑا۔

اماں مسکراتیں۔  دادی اپنے وقت میں بہت باسی کھا چکی ہوں گی۔  اب وہ گھر کی بزرگ ہیں۔

جھوٹن کھانا رہ گیا ہے، وہ بھی تم کھا لیا کرو۔

ایک دن قمر نے جلبلا کر کہا تھا۔  اس دن ابا نے اپنے کچھ دوستوں کو مدعو کیا تھا۔  باہر سے برتن آئے تو کچھ پلیٹوں میں بہت کھانا بچا ہوا تھا۔  اماں نے اسے سمیٹ کر اکٹھا کیا اور بھیا سے کہا کہ باہر ڈال دے، کتا کھا لے گا۔

کوڑے میں مت ملانا، صاف جگہ پہ رکھنا۔

انہوں نے بیٹے کو ہدایت دی۔

کتا کیوں کھائے گا؟ تم کھالو۔  مرغ کی دو دو بوٹیاں ہیں، اچھا خاصا پلاؤ ہے۔  یہ ابا کے پیٹ بھرے دوست نیاز خاں، گھر میں حرام کا بہت آتا ہے، اس لئے برباد کرتے جی نہیں دکھتا۔

اماں نے سر پہ ہاتھ مار لیا:  ارے کم بخت لڑکی- باہر آواز جائے گی۔  ذرا دھیرے بول، جو منھ میں آتا ہے، بک جاتی ہے۔

اماں کو یہ خدشہ ہر وقت لگا رہتا تھا کہ آواز باہر جائے گی۔  ایک دن دادی نے ابا سے جانے کیا لگائی بجھائی کی کہ وہ خوب چلائے۔  اماں کو یہ رنج کم تھا کہ ابا بغیر معاملے کی تحقیق کیے ان پر چلائے تھا، یہ فکر زیادہ لاحق ہو گئی تھی کہ کہیں آواز باہر نہ گئی ہو اور پاس پڑوس والوں یا کسی راہ چلتے کو پتا نہ چل گیا ہو کہ اس گھر میں کوئی چپقلش ہوئی ہے، لیکن یہ قمر سن کے ہی نہیں دیتی تھی۔  پرائی امانت، کہاں جائے گی تتیّا مرچ؟

ہاں تو دادی، تم گئی تھیں جب پارسا بی بی مری تھی؟..دادی بڑے زور سے بھڑکیں -:

ہر بات خود دیکھی جاتی ہے کیا؟ ارے خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے پہچانا ہے! یہ کہانی ہمیں ہماری جنت مکانی والدہ نے سنائی تھی۔  ہو سکتا ہے کسی نے پارسا بی بی کو دیکھا بھی ہو۔

نہ دیکھا ہو تو ہماری اماں کو دیکھ لے۔  یہ کون سا پارسا بی بی سے کم ہیں۔  قمر کا انداز چڑانے والا تھا۔

تیری اماں .. انہوں نے گھور کر پوتی کو دیکھا، پھر ایک خشمگیں نظر سر جھکائے باورچی خانے میں کام کرتی بہو پر ڈالی۔  (باورچی خانہ آنگن پار کر کے برآمدے کی سیدھ میں تھا جہاں دادی کا تخت پڑا رہتا تھا۔  قمر اسے”راج سنگھاسن” کہتی تھی۔  وہاں سے کوئی آیا گیا، بہو، نوکر، سب دادی کی نظر میں رہتے تھے۔)

تیری ماں ذرا تجھ پارسا بی بی کو تو سنبھال لے۔  چل، ادھر آ۔  یہ مٹ گئے عیسائیوں کی سی وضع بنا رکھی ہے –

انہوں نے قمر کی دو چوٹیوں کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔  یہ تیری عالم فاضل ممانی آ کر تجھے سکھا گئی ہے۔

اماں سے ملنے آئی ممانی قمر کے گھنے بال سلجھانے میں مدد کر رہی تھیں تو قمر نے ٹھنک کر کہا تھا کہ اسکول میں زیادہ تر لڑکیاں دو چوٹیاں بنا کر آتی تھیں۔  بس، مارے لاڈ کے ممانی نے دو چوٹیاں بنا کر سرخ ربن سے پھول بھی بنا دیا۔  تھاپی جیسی ایک چوٹی سے وہ دو چوٹیاں کیسی اچھی تھیں۔  اماں سارے طعنے، سارے کہانیاں شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتی تھیں، بس میکے کے بارے میں بڑی حساس تھیں۔

ہمارے وقت میں لڑکیوں کو مانگ نہیں نکالنے دیتے تھے۔  بغیر مانگ نکالے ایک چوٹی بندھا کرتی تھی، اب وہ تھاپی لگے یا نیولے کی دم۔  (قمر اپنی موٹی چوٹی کو”نیولے کی دم” کہا کرتی تھی) تو بیٹا، تمہیں تو مانگ نکالنے کی اجازت ہے، کیوں دو چوٹیوں کی ضد کر کے دادی سے ڈانٹ سنتی اور ممانی کو برا کہلواتی ہو؟

اماں کے لہجے میں تاسف تھا۔

دو چوٹیاں باندھنے سے کسی کے مذہب کا کیا لینا دینا؟ مجھے بڑا غصہ آتا ہے جب دادی کہتی ہیں کہ عیسائیوں کی سی وضع بنا رکھی ہے۔”(دادی کے”مٹ گئے” عیسائی اس وقت بھی ساری دنیا پر دندنا رہے تھے، جیسے آج دندنا رہے ہیں اور جس کو چاہتے تھے اسے مٹانے کا مقدور رکھتے تھے، جیسے آج رکھتے ہیں۔  نہ جانے کتنی تہذیبوں کو کتنی حکومتوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا، لیکن قمر کا شعور اس وقت اتنا بالیدہ نہیں ہوا تھا۔  ہاں، یہ سمجھتی تھی کہ اس کی دو چوٹیوں سے عیسائیوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔)

قمر نے امتیازی نمبروں سے بی۔  اے پاس کرنے کے بعد بی۔  ایڈ میں داخلہ لیا تو اس نے اپنے بال کٹوا دیے۔  وجہ یہ تھی کہ پریکٹس ٹیچنگ کے لئے جوڑا بنا کر جانا لازمی تھا۔  جن لڑکیوں کے بال تراشے ہوئے تھے ان پر یہ ضابطہ لاگو نہیں تھا۔  کم عمر قمر کے لئے جوڑا بنانا، وہ بھی گھنے روکھے بالوں سے ٹیڑھی کھیر تھا۔  ویسے تو یہ بی۔  ایڈ نہایت ٹیڑھی کھیر تھا۔  بچے بڑے شاطر تھے۔  انہیں معلوم تھا یہ لڑکیاں ان کی اصلی ٹیچر نہیں ہیں، یہ تو موسمی پرندے ہیں جو چند ماہ کے لئے ایک مخصوص مدت میں آتے اور پھر اڑ جاتے ہیں، اس لئے قطعی بات نہ سنتے۔  اگر سپروائزر سے شکایت کرو تو وہ جواب دیتے کہ بچوں کو ڈسپلن کرنا آپ کی تربیت کا حصہ ہے۔  آپ سمجھئے، آپ کیا کریں گی۔  ایسے میں بال اور لباس درست رہنا بہت ضروری تھا۔  چھٹیوں میں قمر گھر آئی تو اماں نے سر پیٹ لیا۔  خیریت تھی کہ اس وقت دادی جنت مکانی خلد آشیانی ہو چکی تھیں، اس لئے سر اماں نے اکیلے ہی پیٹا۔  بی۔  اے کے بعد، بلکہ اور پہلے سے، دادی نے تو قمر کی شادی کی ضد باندھ رکھی تھی۔  اس وقت انہیں صرف ایک منطق نے چپ کرایا تھا۔  قمر پڑھ لکھ کر پیروں پر کھڑی ہو جائے گی تو بغیر جہیز کے آسانی سے”اچھا” لڑکا مل جائے گا، پھر استانی بننا تو عزت کی بات ہے۔  وہ کرنٹان مسز نارٹنگ کی بٹیا سلومی کی طرح آفس میں ٹپ ٹپ ٹائپ کرنے تھوڑی ہی جا رہی ہے۔  دادی قمر کے استانی بننے سے پہلے چل بسیں، لیکن کچھ معاملوں میں اماں کون سی کم تھیں، وراثت سنبھالے بیٹھی ہوئی تھیں۔  جبھی تو قمر کے بال دیکھ کر اس قدر ہول گئیں کہ انہوں نے پہلی بار شوہر کو کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی ہمت کی جو ان کے لئے مجازی

خدا کا درجہ رکھتے تھے اور جن پر یہ الزام تراشی کفر تھی۔  ویسے بھی اماں نیک اور فطرتاً ڈرپوک انسان تھیں، اپنے وقت کی زیادہ تر شریف بیبیوں کی طرح، جن کا ہیاؤ عموماً اسی وقت کھلتا جب وہ ادھیڑ عمر ہو کر ساس کے مرتبے پر فائز ہو جاتیں اور ایک انہی کی طرح کی کمزور لڑکی بہو بن کر گھر میں آ جاتی، لیکن اس دن انہوں نے بڑی ہمت کی، شوہر کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئیں:

قمر کو آپ نے بگاڑا ہے۔  بی۔  اے کر لیا تھا، بہت کافی تھا۔  سلمان چچا اتنا اچھا رشتہ لائے تھے، آپ نے میرے اصرار کے باوجود انکار کر دیا اور لڑکی کو بھیج دیا بی۔  ایڈ کرنے، پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کیا کرتی گھوم رہی ہے۔

کیا کرتی گھوم رہی ہے؟ ابا نے چونک کر آخری جملہ پکڑا۔  باقی باتیں صاف ٹال گئے۔

بال کٹوا لیے ہیں اس نے۔  اماں کا لہجہ ایسا مضطرب تھا جیسے کانے دجال کے نکل آنے کی اطلاع دے رہی ہوں۔

اوہ.. ابا کی رکی ہوئی سانس سینے سے باہر آ گئی۔  وہ بڑی زور سے کھٹکے تھے۔  انہیں لگا تھا بیوی خبر دیں گی کہ بیٹی کسی لونڈے کے ساتھ گھومتی دیکھی گئی ہے، اس لئے”میموں” جیسے بال کٹوا لینے کی خبر خاصی دلدوز ہونے کے باوجود اپنا اثر کھو بیٹھی تھی۔  زور کا جھٹکا دھیرے سے لگا۔

اچھا.. لیکن میں نے تو نہیں دیکھا۔” ابا کو ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید قمر کی اماں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا وہ کچھ مبالغے سے کام لے رہی ہیں، لیکن ان کی آواز کمزور ضرور تھی۔

آپ کے سامنے آپ کی چالاک بیٹی سر ڈھکے رہتی ہے۔  سر کھلا رکھتی ہے تو پیچھے کلپ لگا کر بال سمیٹ لیتی ہے۔

ابا کے اجلاس میں قمر کی طلبی ہوئی تو اس نے بغیر کسی گھبراہٹ کے وضاحت پیش کی۔  ابا کو یہ اطمینان ضرور ہوا کہ قمر نے بال محض فیشن ایبل لگنے اور”میموں کی وضع” اختیار کرنے کے لئے نہیں کٹوائے ہیں۔

بی۔  ایڈ کا کورس ختم ہونے میں بس دو مہینے باقی ہیں۔  امتحان ہو جائیں تو پھر بڑھا لینا۔

ابا نے تحکمانہ، لیکن نرم لہجے میں اتنا ہی کہا۔

جی ابا، ضرور قمر نے منمنا کر جواب دیا، لیکن ان کے باہر چلے جانے کے بعد اماں پر الٹ پڑی:

چغلی لگا کے کیا ملا تمہیں؟ لڈو؟ خوب تعلیم ہے بھائی تمہاری۔  خاندان میں اور لڑکیاں نہیں ہیں کیا؟ اور کسی نے نہ کٹوا لیا چونڈا-

ابا نے قمر کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کی تھی، اس لئے اماں آزردہ خاطر تھیں اور منھ ہی منھ میں بڑبڑاتی جا رہی تھیں ….اسکولوں کالجوں میں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ بڑوں سے بدتمیزی کرو؟ اب یہی تم اپنے شاگردوں کو سکھانا۔  رہ گئے تمہارے ابا، تو بسنت کی خبر نہیں۔  کون کرے گا پر کٹی سے بیاہ؟

ایک تو”چونڈا کٹوانے” جیسا غیر فصیح، اہانت انگیز جملہ، اوپرسے جلے پر نمک،”پر کٹی” پھر خاندان کی دوسری غبی، کند ذہن، گھر بیٹھ کر پرائیوٹ اردو فارسی کے امتحان پاس کرنے والی لڑکیوں سے موازنہ — قمر کی ایڑی میں لگی اور چوٹی میں بجھی۔  جلبلا کر بولی:

اور اسے بھول گئیں، وہ تمہارے چچا زاد بھائی کی بیٹی ثریا۔  اس نے بال کٹوائے ہی نہیں بلکہ لکھنو

جا کر ان میں گھونگھرو بھی ڈلوائے۔  یہ نہ کہنا کہ تمہیں معلوم نہیں۔  ابھی تو ملی تھی فرزانہ خالہ کے یہاں میلاد میں۔

ثریا کی شادی ہو گئی ہے۔  اب وہ جانے اور اس کا شوہر اور سسرال والے اور ہاں، میرے چچا زاد بھائی تمہارے ماموں ہوئے۔  خبردار جو یوں ذکر کیا ہے کہ تمہارے چچا زاد بھائی۔

ہاں ہاں، چلو نا- بڑے آئے ماموں۔  ایک نمبر کے تگڑم باز، معمولی صورت کی بارہویں پاس بیٹی کے لئے سرکاری نوکری والا لڑکا لے آئے۔  تم نے بھی کر دی ہوتی ہماری شادی، پھر بلا سے ہم سرہی مونڈ کر رکھ دیتے۔  شادی نہ ہوئی، ہر آزادی کا پروانہ ہو گئی۔

قمر پیر پٹختی وہاں سے چل دی۔

اماں، ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم، بت بنی بیٹھی دیکھتی رہ گئیں۔  ایسی خاموش ہوئیں کہ سارا دن گزر گیا اور وہ ہوں ہاں کے علاوہ کچھ

بوا نے اپنا تام چینی کا تاملوٹ اسی وقت چائے سے بھرا تھا۔  اس میں سے کچھ چائے ایک چھوٹی پیالی میں ڈال کر پیالی پرچ میں رکھ کر دریبر کی بی بی کو بڑھا دی۔  انہوں نے چائے پرچ میں نکال کر سڑپ سڑپ کر کے پی لی۔  رمضانی بوا نے دہکتے انگارے کرچھل میں ڈالے اور کرچھل انہیں تھما دیا۔  وہ کرچھل پر پھونکیں مارتی، اٹنگی ساری کا پلو سر پر سنبھالتی، سٹر پٹر دروازے کی طرف بڑھیں، لیکن پھر یکایک پلٹیں۔  چلتے ہیں باجی انہوں نے اماں کو مخاطب کیا۔

اب جلدی بیٹا کے ہاتھ پیلے کرو تو ہم چوڑی کا ٹوکرا لے کے آئیں۔  اب کسی کے یہاں نہیں جاتے، مگر آپ کی بات دوسری ہے۔  کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔  (انہوں نے”کب سے” پر خاصا زور دیا تھا) کب ختم ہو گی بٹیا کی پڑھائی؟ اچھا سلا ما لیکم

وہ سلا ما لیکم تک پہنچتے پہنچتے دروازے سے باہر ہو چکی تھیں اس لئے سلام بھی ذرا زور سے ادا کیا، جیسے پتھر کھینچ مارا ہو۔

بڑی آئیں خیر خواہ.. رمضانی بوا نے چائے تو پلا دی تھی، لیکن دریبر کی بی بی کی دریدہ دہنی انہیں پسند نہیں آئی تھی۔

دیکھئے نا باجی، جتا رہی تھیں، بٹیا اتنا پڑھ لکھ گئیں اور اب تک شادی بیاہ کی سن گن نہیں ہے۔ "کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔ ” ارے آسرا تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں، مگر ہم کچھ بولتے ہیں کیا؟ وہ بھی ایسے ..،

اماں کے جلے پر نمک پڑ گیا۔  اندر ہی اندر تلملا گئیں۔  محلے میں لوگ دو دو تین تین بیٹیاں بیاہ چکے تھے، یہاں ایک کا نصیب کھلنے میں اتنی دیر…. اور پڑھاؤ جتنا پڑھیں گی اتنا ہی لڑکا ملنا مشکل ہوتا جائے گا۔

پگلی مہترانی آنگن بہار رہی تھی۔  وہ دریبر کی بی بی کے نکلنے کے بعد داخل ہوئی تھی۔  بات بدلنے کو اماں نے اسے بلا وجہ پکارا، بہو، دیکھو ذرا ٹھیک سے جھاڑو لگانا۔  پت جھڑ آ گیا ہے، چاروں طرف پتے اڑتے پھر رہے ہیں۔  قمر… انہوں نے قمر کو بھی آواز دی:

دیکھو، ذرا نالی دھلوا دینا۔

خاصے بڑے آنگن میں امرود کے دو نوجوان درخت تھے اور نیم کا پرانا جغادری پیڑ۔  اس کے علاوہ لسوڑہ اور انجیر بھی لگے ہوئے تھے۔  لسوڑے کا کوئی مصرف نہیں تھا، سوائے اس کے کہ محلے والے اچار کے لئے مانگ لے جائیں، لیکن اماں اسے کٹوانے کو تیار نہیں تھیں۔  انجیر گھر میں کوئی نہیں کھاتا تھا، سوائے اماں کے۔  نیم کی ہوا بیماریاں دور کرتی ہے اور انجیر صحت کے لئے مفید ہے، خشک لسوڑے کی چائے آنتوں کے لئے فائدہ مند تو تھی ہی، ساتھ ہی خشک کھانسی بھی دور کرتی تھی۔  اس معاملے میں اماں کسی کی سننے کو تیار نہیں تھیں۔  وہ حجت نہیں کرتی تھیں، بس خاموش ہو جاتیں۔  ان کی ناراضگی، نا رضا مندی اور دل گرفتگی سب کے اظہار کا ایک ہی ذریعہ تھا — ایک پتھرائی ہو ئی خاموشی۔

قمر کی کل کی بات کے بعد بھی وہ خاموش ہو گئی تھیں۔  ابھی جو انہوں نے اسے مخاطب کیا تو اسے بڑی راحت کا احساس ہوا۔  اسے اماں کی خاموشی سے بڑی کوفت ہوتی تھی۔  بولتی ہیں تو گھر میں ماحول نارمل اور خوشگوار لگتا ہے۔  ایسا کیا کہہ دیا تھا قمر نے کہ انہیں چپ لگ گئی تھی؟ اس نے بالٹی میں پانی بھرا اور آنگن کے کنارے کنارے لمبائی میں گزرتی نالی میں ڈال کر نالی پگلی سے دھلوائی، پھر اماں کے پاس آ کر ان کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے:

اماں، ہم کل الٰہ آباد واپس جا رہے ہیں۔  تم کو ناراض چھوڑ کر کیسے جائیں؟ تم ہم سے بات نہیں کر رہیں۔  آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

بٹیا، ہم سے جو ہو رہا ہے تمہارے بیاہ کے لئے کر رہے ہیں۔  اپنی طرف سے تو اچھا ہی چاہتے ہیں، لیکن اللہ کی مرضی۔  تمہارے لائق رشتہ نہیں مل رہا ہے۔” ان کی آواز مدھم تھی۔

قمر ایک دم سے آنسو پونچھ کر بدک کر کھڑی ہو گئی۔  وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔  کیا اماں سوچ رہی ہیں کہ اسے اپنی شادی کی جلدی پڑی ہے؟ وہ لاکھ منھ پھٹ سہی، ایسا کیسے کہہ سکتی تھی، پھر یہ کہ وہ ایسا سوچتی بھی نہیں تھی۔  نہ اس کی ایسی عمر آئی تھی، نہ ایسی بے شرمی طاری ہوئی تھی، یہ اور بات تھی کہ جتنی بے شرمی وہ برت لیا کرتی تھی وہ اماں کے حساب سے بہت زیادہ تھی، اس لئے اکثر معنی مطلب پہنا لیتی تھیں۔  قمر تلملا کے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک پگلی آن کے سر پر کھڑی ہو گئی۔  کام ختم کر کے اس نے آنگن میں لگے نلکے پر رگڑ رگڑ کر ہاتھ کہنیوں تک دھو لئے تھے۔  دو پٹے میں ہاتھ پونچھتی ہوئی بولی کہ آج وہ بہو سے لڑ کر بغیر کھائے پیے

نکل کھڑی ہوئی تھی، اس لئے اماں اسے فوری طور پر کچھ کھانے کو دے دیں، ورنہ اگلی ججمانی میں جاتے جاتے وہ بے ہوش ہو کر گر جائے گی۔  در اصل پگلی کا ناشتہ کھانا کچھ بندھا ہوا نہیں تھا۔  بس مہینے میں دو، کہیں چار روپے تنخواہ کے ملتے تھے۔  کبھی کچھ بچا کھچا ہوا یا از خود مانگ بیٹھی تو مل جایا کرتا تھا۔  جاڑوں میں کسی کسی گھر میں الگ رکھے ٹوٹے ہوئے مگ یا تام چینی کے چینی جھڑے پیالے میں کبھی کبھار چائے مل جاتی تھی۔

ہا، دکھیا

اماں آنگن پار کر کے باورچی خانے میں چلی گئیں۔

پگلی جا کے نلکے کے پاس بیٹھ گئی اور اطمینان سے آم کے اچار کے ساتھ رات کی باسی روٹیاں ہبڑ ہبڑ کھاتے ہوئے، پھولتی سانسوں کے درمیان اچار جیسی چٹ پٹی خبر بھی سنائی۔

حاکم کی سب سے چھٹکی بٹیا الٰہ آباد ماں پڑھت رہی نا۔  سردارن کا بٹوا بھی وہیں چلا گوا ہے۔

تو کیا ہوا۔  سب لڑکے لڑکیاں پڑھنے کو بڑے شہروں میں نکل رہے ہیں۔  ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ بے پڑھے لڑکیوں کا بھی گزر نہیں۔

اماں ایسی باتوں میں دلچسپی کم لے تی تھیں جن کی صداقت مشکوک ہو اور جن سے خواہ مخواہ کسی پر حرف آئے۔ "اپنے کام سے کام رکھا کر، پگلیا۔

اپنے کام سے کام رکھنے کو پگلی نے نظر انداز کر دیا۔

کا ہوا؟ پگلی کے گلے میں چاندی کی خلال پڑی رہتی تھی اور ناک میں چاندی کا بڑا سا پھول۔  اس نے خلال سے دانت کریدے اور ناک کا پھول گھمایا:

ارے ہوئیں نام لکھایا ہے جہاں حاکم کی بٹیا پڑھت ہے۔  کچھ سمجھا کرو دیدی-

اماں گھبرا گئیں۔  پگلی جنہیں حاکم کہتی تھی وہ مسلمان تھے اور لڑکا سردار۔  ملک کے بٹوارے کو ابھی پندرہ سال بھی نہیں ہوئے تھے۔  جنہوں نے براہ راست کچھ نہیں جھیلا تھا انہیں بھی اس کا بہت کچھ علم تھا اور پھر ایسا کون سا گھر تھا جس کے ٹکڑے نہیں ہوئے تھے اور بھی بہت کچھ دکھائی دیتا رہتا تھا۔  مثلاً پرتاپ گڑھ میں ریلوے ڈپو کے پاس کنکریٹ کے بہت سے چھوٹے چھوٹے چوکور بکسے جیسے لگنے والے کوارٹروں کی ایک پوری کالونی اُگ آئی تھی۔  اس میں جو لوگ رہنے آئے وہ مقامی لوگوں سے الگ تھے۔  ان کا رہن سہن، ان کی زبان، ان کی عورتیں، ان کے گھر کی تہذیب، سب مختلف تھے۔  ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان کے گھر کے مرد اردو اخبار خریدتے تھے۔  لوگ انہیں”شرنارتھی” کہتے تھے، لیکن دس سال ہوتے ہوتے وہ عام آبادی میں گھل مل گئے۔  رفتہ رفتہ لوگوں نے انہیں شرنارتھی کہنا بھی بند کر دیا، پنجابی کہلاتے یاسردار۔  بڑے محنتی لوگ تھے۔  زیادہ تر نے چھوٹے موٹے کاروبار کیے۔  ایک صاحب تھر مس میں رکھ کر گھر کی بنی ہوئی قلفی لوگوں کے یہاں پہچانے لگے تھے۔  کوئی پانچ سات برس بعد انہوں نے برف بنانے کی فیکٹری کھول لی۔  فرج لوگ ابھی بالکل نہیں جانتے تھے۔  گرمی میں برف کی بڑی بڑی سلیں برادے کی موٹی تہہ سے ڈھک دی جاتی تھیں، پھر اوپر سے موٹا ٹاٹ ڈال دیا جاتا تھا۔  یہ سلیں جگہ جگہ دکانوں پر رکھی ہوتیں۔  وہاں سے گاہک تلوا کر برف لے جاتے۔  کچھ لوگ اپنے تھرمس لے کر آتے تھے۔  ان میں چھوٹے ٹکڑے کرا کے بھر کے پہنچاتے۔  یہ برف قریب کے بڑے شہروں سے آتا تھا اور لانے میں کافی ضائع ہوتا تھا۔  شہر میں کارخانہ کھلا تو لوگوں کو بڑی آسانی ہو گئی۔  وہاں آئس کریم بھی جمائی جانے لگی۔  پہلے سردار جی گھر پر گھما گھما کر چلائی جانے والی چھوٹی مشینوں میں قلفی جماتے تھے۔  جن لوگوں نے ذرا ذرا سے کھوکھوں میں کپڑے اور بساط خانے کی دکانیں کھولی تھیں، ان کی اب بڑی بڑی شیشوں سے مزین دکانیں ہو گئی تھیں۔  لڑکے بالے پڑھنے جاتے تھے۔  عورتیں گھر میں ایک نوکر نہ رکھتیں ؛ سارا کام خود کرتی تھیں۔  مقامی لوگوں کے یہاں تو معمولی متوسط طبقے میں بھی کل وقتی نہیں تو جز وقتی نوکرانیاں ضرور کام کرتی تھیں۔  مسلمانوں کے یہاں بوائیں اور ہندو گھروں میں کہاریاں۔

بڑے جیالے لوگ ہیں، ایک بار ابا نے کہا تھا –

لٹ پٹ کے آئے، لیکن دیکھو، شہر پہ چھا گئے۔  کیا مجال جو کبھی کسی نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا ہو۔  ان کے یہاں کا کوئی

شخص بھیک مانگتا نظر نہیں آیا۔  کاروبار کرنا کوئی ان سے سیکھے۔  مقامی زبان و مقامی لب و لہجے میں بولنے لگے ہیں۔  مقامی آبادی میں پوری طرح گھل مل گئے۔

انہی جیالے، گھل مل جانے والے لوگوں کے یہاں کا ایک گورا، اونچا پورا، نہایت وجیہ لڑکا ایس۔  ڈی۔  ایم صاحب کے یہاں آنے جانے لگا تھا۔  افسروں کے یہاں حواری مواریوں کی جو بھیڑ رہتی ہے اسی میں وہ بھی کھپا رہتا۔  آخری پوسٹنگ میں ڈپٹی صاحب کو وطن مل گیا تھا، اس لئے ریٹائر ہو کر بھی وہ یہیں رہ پڑے تھے۔  ریٹائر ہوئے تو کچھ ہی عرصے میں خوشامد خوروں کی بھیڑ چھٹ گئی، لیکن وہ لڑکا بنا رہا۔  جب دیکھو تب موجود۔  آنٹی آنٹی کر کے ڈپٹیائن کے پیچھے آگے لگا رہتا۔  گھر کا سودا سلف تک لا دیتا۔

اماں نے گھبرا کر قمر کو دیکھا اور پھر پگلی کی طرف۔

اچھا چپ رہا کر، بہت بکتی ہے۔

قمر کی آنکھیں کاغذوں پر تھیں۔  آنسو پونچھ کر وہ برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر اپنے نوٹس درست کرنے لگی تھی۔  چہرے سے ایسا نہیں محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے پگلی کی کوئی بات سنی ہے۔  اماں نے اطمینان کی سانس لی اور رمضانی بوا کو ترکاری لانے کے لئے پیسے نکال کر دینے لگیں، گویا پگلی کو بات بالکل ختم ہو جانے کا سگنل دے دیا۔

قمر نے نوٹس پر سے نظریں اوپر اٹھائیں اور جھانجھر بجاتی، پیٹھ پھیر کر باہر نکلتی پگلی کو گھور کر دیکھا۔  نظریں اگر برما ہوتیں تو پیٹھ میں چھید ہو گئے ہوتے۔

ان لوگوں نے اماں کا دماغ اور خراب کر رکھا ہے۔  ہول گئی ہوں گی۔  الٰہ آباد میں تو میں بھی پڑھتی ہوں۔  کہیں میرے پیچھے تو آ کے کسی لونڈے نے وہاں نام نہیں لکھوا لیا، میرے ہی ڈپارٹمنٹ میں بی۔  ایڈ کرنے کے لئے۔

ایسی باتیں لڑکیوں بالیوں کے کان میں نہیں پڑنی چاہئیں۔

رمضانی بوا نے باورچی خانے کی کھونٹی سے ٹنگا اور دھواں کھا کے ملگجا ہوا ترکاری لانے کا تھیلا اتارتے ہوئے کہا۔

اب تم چپ رہو بوا، اماں پھسپھسائیں۔

جو نہ سنا ہو تو اب تم سے سن لے۔  کل وہ چلی آئی تھیں سڑن، امیرن آپا، ایسی ہی کچھ ہی کچھ اول فول سناتی ہوئی۔  اللہ سے توبہ ہے۔  کیا زمانہ آن لگا ہے؟

انہوں نے غصے میں چولہے کی جلتی آگ میں بلا وجہ پھکنی اٹھا کر پھونک ماری، پھر زور سے بولیں، جیسے قمر کو سنا رہی ہوں کہ یہاں سبزی ترکاری آٹے دال کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔

آدھا سیر مٹر ضرور لے لینا بوا۔  سنا ہے مٹر آ گئی ہے بازار میں اور سیر بھر نئے آلو تلوا لینا۔  اللہ مارے پرانے بڑے میٹھے ہو چلے ہیں۔  ترکاری کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔

قمر زیر لب مسکرائی۔  اماں، تم ڈال ڈال تو ہم پات پات۔  ہمیں تو یہ بھی پتا ہے کہ امیرن خالہ کیا پھسپھسا گئی ہیں۔

چھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسٹوڈنٹس لوٹتے تو الٰہ آباد یونیورسٹی کے کئی لڑکے لڑکیاں اکثر بس میں ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے۔  یہ معمول تھا، اتفاق نہیں۔  کئی لڑکیاں گھر سے برقع اوڑھ کر نکلتیں اور بس میں اتار دیتیں۔  گھر والے یہ بات جانتے تھے۔ "حاکم” کی بیٹی آمنہ سے تو قمر کی کئی بار بس میں ہی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ یونیورسٹی میں بھی آمنا سامنا ہو گیا تھا۔  آج بھی وہ بس میں تھی۔  کئی اور لڑکے بھی تھے۔  جگجیت بھی تھا جو بالکل پیچھے آ کر بیٹھ گیا تھا۔  آمنہ اور قمر برابر کی سیٹوں پر تھیں۔

ہمارے تمہارے درمیان الٰہ آباد کے علاوہ ایک اور لنک (Link) بھی ہے –

قمر نے مسکرا کر آمنہ سے کہا۔  آمنہ بے حد کم سخن تھی۔  جواب میں اس نے صرف بڑی بڑی اداس آنکھیں اٹھا کر دیکھنے پر اکتفا کیا۔

پگلی مہترانی

قمر نے آمنہ کی خاموش نگاہوں کے سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ وہ کم سخن لڑکی بھی بے اختیار ہنس پڑی۔  پگلی آمنہ کے یہاں بھی کام کرتی تھی، مگر شناساؤں کے درمیان اس کا ذکر کبھی یوں نہیں آیا تھا۔

ہنس لو قمر نے پھر کہا:

وہ اماں سے کہہ رہی تھی کہ حاکم کی بٹیا جہاں پڑھتی ہے وہاں سرداروں کے لونڈوں نے بھی نام لکھوایا ہے۔

ایک اضطرابی کیفیت کے تحت آمنہ کا سر پل بھر کو پیچھے گھوما۔  اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر قمر سے خاموش رہنے کی گزارش کی۔  اس کی اچانک آ جانے والی ہنسی یوں غائب ہو گئی تھی جیسے سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ گھاس پر پڑی اوس کی بوندیں۔

پگلی کو ابھی یہ پتا نہیں چلا ہے کہ میری شادی تقریباً طے ہو چکی ہے، ورنہ یہ بھی الم نشرح ہو جاتا۔

کچھ دیر کے بعد آمنہ نے رسان سے کہا، اس کے بعد پورا سفر خاموشی سے گزار دیا۔

فروری کے مہینے میں ریٹائرڈ حاکم کے یہاں سے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کا کارڈ آیا۔  یہ کارڈ در اصل آمنہ نے قمرسے یاد اللہ کی وجہ سے بھجوایا تھا۔  قمر کے امتحان مارچ میں ہونے والے تھے، اس لئے وہ گھر نہیں آ سکی تھی۔  اب ڈپٹی صاحب کے گھر کا بلاوا تھا، اس لئے اماں گئیں۔  نہ جانے کیوں انہوں نے راحت کی سانس لی تھی۔  بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ..کنکھیوں سے انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک اونچا پورا، گورا چٹا، خوبصورت سردار لڑکا سارے انتظامات میں پیش پیش ہے اور گھر کے اندر بھی بلا تکلف آ جا رہا ہے۔

"سنتے ہیں، بٹیا کی ڈولی اٹھی تھی تو بہت رویا۔ ” سارے فسانے میں جس بات کا ذکر نہیں تھا، یقیناً پگلی نے اپنی طرف سے جوڑی ہو گی، اماں نے سوچا، لیکن شہر کے کئی گھرانوں، خصوصاً سول لائنز کی آبادی میں یہ بات چرچا کا موضوع بنی کہ آمنہ کی ڈولی اٹھی تو جگجیت سنگھ بہت رویا تھا۔

"عورتوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔  کون تھا وہ لڑکا؟” ایک خاتون نے رخصتی کے فوراً بعد پوچھا تھا۔

آمنہ کی والدہ نے کہا-” بہت زمانے سے آتا تھا، بہن کی طرح مانتا تھا مِنّا کو۔ ”

مقامی ڈاکٹر رام چرن داس کھتری کی دو بیٹیاں بھی الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں۔  ایک تو آمنہ کی کلاس فیلو بھی تھی۔  ڈپٹیائن نے جب یہ بہن کی طرح ماننے والی بات کہی تو دونوں وہیں موجود تھیں۔  لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرائیں۔

سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سامنے بڑا سا لان تھا۔  اس میں پتھر کے اسٹول بنے ہوئے تھے۔  وہاں وہ دونوں اکثر چپ چاپ بیٹھے دکھا ئی دیتے۔  ان کے چہروں پر ایسی معصومیت، ایسی اداسی، ایسی خاموشی بکھری ہوتی تھی کہ کسی نے مذاق نہیں اڑایا، کبھی ایک بھی نازیبا جملہ نہیں کسا۔  بس ایک مرتبہ ایک لڑکی نے، جو خود جگجیت پر فدا تھی، بڑی حسرت سے کہا تھا –

آمنہ، یہ جگجیتا بڑا خیال رکھتا ہے تمہارا. خفیف سی دھار رقابت کی بھی تھی۔  تمہارے لئے گھرکا کھانا لے کے آتا رہتا ہے۔

ہاں، ماں بھیجتی رہتی ہیں۔

آمنہ نے ستھری نظریں اٹھا کر سادگی کے ساتھ سادہ سا جواب دیا۔  کس کی ماں، یہ وضاحت اس نے نہیں کی۔  جگجیت ہمیشہ سے آمنہ کے بنگلے پر آتا رہتا تھا۔  الٰہ آباد اور پرتاپ گڑھ میں فاصلہ اتنا کم تھا کہ اکثر وہ سنیچر کی شام کو گھر بھاگ آتا اور پیر کو علی الصباح واپس لوٹ کر کلاسز کر لیتا۔  لوٹتا تو ڈبوں میں بھرواں پراٹھے، کوئی سوکھی سبزی اور آم کا اچار لے کر آتا۔  اس کی ماں بڑے عمدہ پراٹھے بناتی تھی۔

گرم اور زیادہ مزیدار ہوتے ہیں منا -” وہ ہر بار کہتا۔

لیکن میری ماں پراٹھے اتار رہی ہو اور تم پاس بیٹھ کر کھا رہی ہو، یہ سپنا تو سپنا ہی رہ جائے گا۔  اور آمنہ کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہو جاتی۔

یہ اور ایسے بہت سے سپنے دل میں لیے آمنہ، فرسٹ کلاس ایم۔  اے سوشیالوجی، ریٹائرڈ پی۔  سی۔  ایس افسر کی بیٹی، خاموشی سے کسی اور کی ماں کو پراٹھے تل کر کھلانے کے لئے وداع ہو گئی۔

ایسے قصے خال خال سہی، لیکن سننے میں آ رہے تھے۔  سنانے والوں کے لہجے میں معنی کی دنیا پنہاں ہوتی۔  کوئی سمجھتا، کوئی ٹال جاتا، لیکن قمر کی اماں بیٹی کے الٰہ آباد جانے کے بعد سے ہر وقت خوفزدہ رہا کرتی تھیں۔  امیرن خالہ بتا رہی تھیں کہ پرلے محلے کے ایک با عزت کایستھ گھرانے کی بیٹی اپنے سگے چچا زاد کے ساتھ بھاگ گئی اور شادی رچا کے واپس لوٹی۔  اب بھلے ہی دکن کے کچھ ہندو سگے ماموں بھانجی کی

شادی کو افضل قرار دیں، لیکن شمالی ہندوستان کا کوئی ہندو کسی بھی”زاد” سے شادی کو قبول نہیں کرتا۔

ہمارے یہاں یہ شادیاں جائز ہیں، اسی لئے ہمارے وقت میں ماموں زاد، خالہ زاد وغیرہ سے بھی زیادہ گھلنے ملنے نہیں دیتے تھے۔  سامنے تو خیر جاتے تھے، تھوڑا بہت ہنس بول بھی لیتے تھے، لیکن ماں، نانی، دادی، خالہ، پھوپھی کی چیل جیسی نظروں تلے۔  اب دیکھو تو لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ پڑھ رہی ہیں۔  قمر کہہ رہی تھی کہ بس میں آ رہی تھی تو ساتھ کے دو لڑکے بھی تھے۔  راستے بھر ہنستے بولتے چلے آئے۔  بڑے اطمینان سے کہہ گئی، جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔  اس کے باپ کی مت ماری گئی تھی جو پہلے بی۔  اے اور پھر بی۔  ایڈ کے لئے بھی باہر بھیج دیا۔  پرتاپ گڑھ میں تو مجال نہیں کہ بغیر برقعے کے نکل جائیں، لیکن ادھر بس میں چڑھیں یا ٹرین میں بیٹھیں اور برقع جھولے میں۔

لاکھ قمر چڑتی، لیکن اماں اس کے سیاہ رنگ کے بڑے سے اسمارٹ بیگ کو وہ جھولا ہی کہتیں اور بی۔  ایڈ نہ کہہ کراستانیوں والی پڑھائی۔

رزلٹ آنے سے پہلے سے ہی قمر اخباروں پر جھکی، نوکریوں کے اشتہار دیکھتی رہتی تھی۔  دو انگریزی اخبار لگا لئے تھے۔  ابا تو”سیاست” منگایا کرتے تھے۔  ماں بولتی کچھ نہیں تھیں، بس گھبراتی رہتی تھیں۔ "لو جی، اب یہ نوکری بھی کریں گی۔  اب تک تو یہ تھا کہ لڑکی پڑھ رہی ہے، لڑکی پڑھ رہی ہے۔  یا مولا مشکل کشا-

رزلٹ آیا تو وہ اور شد و مد سے خالی جگہوں کے کالم پر نظریں دوڑانے لگی۔

ابا، ایک دن اس نے خبر سے نظریں اٹھائے بغیر باپ کو مخاطب کیا:  یہ ملازمت بہت معقول معلوم ہو رہی ہے، لیکن درخواست منگائی ہے باکس نمبر کی معرفت۔  اللہ جانے کہاں ہے اسکول، کس شہر میں ہے۔  درخواست دیں؟

درخواست دینے میں حرج نہیں، ابا نے جواب دیا۔

جگہ بھی مناسب ہوئی، یعنی آس پاس، تو ٹھیک، ورنہ چھوڑ دینا، مت جانا۔

میں کچھ کہوں تو کانوں تیل ڈال کے بیٹھ جاتے ہیں، نوکری کے لئے جھٹ سے بیٹی کی بات سننے کو تیار۔  لڑکا ڈھونڈنے میں مستعدی دکھائیں تو ہم جانیں –

اماں منھ ہی منھ میں بدبدائیں۔  ابا کے زیادہ منھ لگنے کی ہمت نہیں تھی۔  وہ تو کچھ ایسا قائل کرتے رہے تھے کہ جیسے بی۔  ایڈ کرتے ہی لڑکا آسمان سے اب اترا کہ جب اترا۔ "سلمان چچا والے رشتے کو منع نہ کیا ہوتا تو بلا سے روٹیاں پکاتی، بیس کہ پچیس کی، آج گود میں ایک دو بچے کھیلتے ہوتے اور اب کون سی روٹیاں پکانے سے فرصت ملے گی-عورت کا جنم — ماشٹری بھی کریں گی اور روٹی بھی ٹھوکیں گی۔  ہم سے زیادہ سخت زندگی گزرے گی۔  انہوں نے سروتا چلایا اور کھٹاک سے ڈلی کے دو ٹکڑے کیے۔

اماں کل جبھی تھیں کیا؟

قمر نے اپنے گالوں پر تھپڑ لگائے۔ "میں کتنی بری بیٹی ہوں -میں یہ بھی تو سوچ سکتی تھی کہ اماں کو الہام ہوا تھا، یا ان کی زبان پر سرسوتی آن بیٹھی تھی۔  اس نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور پڑوس کے مکان کی کال بیل دبائی۔  دونوں بچیاں اچھلتی ہوئی باہر آئیں۔  پیچھے پیچھے نیک دل، ادھیڑ عمر، تنہا رہنے والی، مہربان پڑوسن جنہیں گویا اللہ میاں نے تعینات کر دیا تھا کہ قمر کی نوکری اور گرہستی دونوں چلتی رہیں۔  ہاں بھائی، سنبھالو، انہوں نے روز کا جملہ دہرایا اور شفقت سے مسکرا کر دروازہ بند کر لیا۔

بچیوں کا اسکول قمر کے اسکول سے پہلے چھوٹ جایا کرتا تھا، وہ کوئی دو گھنٹے بعد آتی تھی۔  اس دوران بچیاں ان خاتون کے گھر رہتی تھیں جنہیں قمر”شانتی آنٹی” کہتی تھی اور لڑکیاں”شانتی نانی۔ ”

اپنے دروازے کا تالا کھول کر قمر اندر داخل ہوئی۔  دو دن سے بوا نہیں آ رہی تھی۔  باورچی خانے کا سنک برتنوں سے بھرا ہوا تھا۔  قمر نے جلدی سے ایپرن چڑھایا اور کچھ ضروری برتن دھوکر الگ ہٹائے، باقی یونہی رہنے دیے۔  فرج سے گندھا ہوا آٹا اور سبزی نکالی جو وہ سویرے ہی دھو کاٹ کر رکھ گئی تھی۔  جلدی سے ایک طرف سبزی چڑھا کر توا ڈالا اور پراٹھے سینکنے شروع کیے۔  بچیوں نے فرج کھول کر اپنے لئے کولڈ ڈرنک نکال لیا تھا اور میز پر رکھے کیلوں کے گچھے سے کیلے لے لئے تھے۔

زیادہ کیلے مت کھانا.. قمر نے پکار کر کہا۔

کھانے کا وقت ہے۔  بس ابھی لائی، یوں -” اس نے چٹکی بجائی، پھر اس نے جلدی سے میز پر پراٹھے، سبزی اور دہی کا سادہ سا کھانا لا کر رکھ دیا اور دل میں سوچا کہ آج یہ گیس، پریشر کوکر اور فرج ایک ہاؤس وائف کے لئے کتنی بڑی نعمت ہیں۔  اس نے تولیہ سے ہاتھ پونچھے اور خود بھی پاس بیٹھ گئی۔

پھر وہی لوکی” بڑی بچی منمنائی۔

چپ چاپ کھالو۔  دیکھ نہیں رہی ہو، ممی کتنی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں۔

قمر نے حیرت سے دیکھا۔  چھوٹی کو چھ سال پورے ہونے میں ابھی دو تین مہینے باقی ہی تھے۔  اتنی سمجھ اور ماں کے لئے ایسی ہمدردی؟ قمر کا جی بھر آیا۔  ویسے بڑی صرف گیارہ مہینے بڑی تھی۔  دونوں آگے پیچھے اتنی جلدی ہو گئی تھیں کہ جڑواں جیسی لگتی تھیں۔  پراٹھے کا نوالہ لے کر بڑی لڑکی نے اپنی نکتہ چینی کی تلافی کی:

کوئی بات نہیں ممی، دہی بھی تو ہے۔  ہم دہی شکر کے ساتھ بھی کھا لیں گے۔  قمر نے شکر دان اس کے سامنے سرکا دیا جو وہیں میز پر رکھا تھا، پھر دونوں کی پلیٹ میں کھانا نکال کر اٹھ گئی۔

ممی، تم؟

میں پہلے کچن صاف کر لوں، پھر نہا کر اطمینان سے کھاؤں گی۔  صفائی کے کوئی گھنٹہ بھر بعد وہ غسل خانے میں داخل ہوئی۔  نہا کر ساری کی جگہ شلوار قمیص پہنی۔  اس نے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالا تو نیند سے آنکھیں جھکی جا رہی تھیں۔  گرمیوں کی سہ پہر تھی۔  ایک گھنٹہ ہلکی جھپکی، پھر اٹھ کر بچیوں کا ہوم ورک کرانا، شام کی چائے کے لئے کچھ تیار کرنا۔  چھ بجے انیس آ جائے گا، اس کے حوالے بچیوں کو کر کے وہ بازار جائے گی۔  رات کے کھانے میں کچھ اچھا پکنا چاہیے۔  دال، چاول، ایک سبزی گوشت یا مرغ کا سالن، روٹیاں۔  کبھی کبھی گوشت پکانے کی جگہ وہ کباب لے آتی تھی۔  انیس شاذ و نادر ہی خریداری کے لئے نکلتا، لیکن کھانے میں کمی ہو تو ٹوک ضرور دیتا تھا۔ "ایک وقت ہی تو چین سے پورا کھانا کھانے کو ملتا ہے، ورنہ آفس میں تو وہی سوکھی روٹی، سوکھی سبزی۔

کبھی تم بھی کچھ لے آیا کرو، قمر نے ایک آدھ بار طعنہ دیا تو اس نے ٹکا سا جواب ٹکا دیا، یہ تمہارا ڈپارٹمنٹ ہے۔  بس کبھی کبھی بیوی اور دونوں بچیوں کو اسکوٹر پر بیٹھا کر حضرت گنج لے جا کر آئس کریم کھلاتا تھا یا کچھ پھل خرید لیتا۔

آں … بڑی لڑکی قمر کی پلیٹ میں جھانکنے لگی تھی۔

ہم کو لوکی کھلا کر تم کیا کھا رہی ہو؟…. اس نے متجسس نظروں سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

من و سلویٰ …. کھاؤ گی؟ قمر نے ہنس کر کہا: "بے وقوف، فرج میں پرسوں سے دال پڑی تھی، میں نے سوچا کھا کے ختم کروں۔  تمہارے پاپا تو فرج میں رکھی دال کھاتے نہیں اور تمہیں ہری سبزی کھانی چاہئے، اس لئے لوکی بنا دی۔  لڑکی اتنا طویل لکچر سننے سے پہلے سانپ سیڑھی کے لوڈو پر جھک گئی تھی۔  دال اسے یوں بھی سخت نا پسند تھی۔  اس سے اچھی تو لوکی کی سبزی تھی۔

میں بالکل اماں جیسی ہوتی جا رہی ہوں، قمر نے ہول کر سوچا:  کہیں لڑکیوں کے ساتھ اتنی ہی سخت گیر بھی نہ ہو جاؤں۔

ادھر آؤ اس نے دونوں کو پکارا۔  وہ فوراً پاس آ گئیں۔  قمر نے پلیٹ ہاتھ سے رکھ دی، انہیں گود میں بیٹھا لیا، پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور دل ہی دل میں بولی:

میرے اور تمہارے بیچ اتنا جنریشن گیپ نہیں ہو گا جتنا میرے اور اماں کے بیچ تھا، بھلے ان کی طرح باسی کھانا سوارت لگاتی پھروں۔

لوڈو پھر کھیل لینا، کچھ دیر چلو چل کر سوتے ہیں، پھر ہوم ورک اور تب کھیل۔  اس نے پیار سے دونوں کو گود سے ہٹا دیا۔  چھوٹی اس سال اپر کے جی ختم کر کے اسٹینڈرڈ ون میں آنے والی تھی اور بڑی آ چکی تھی۔  دونوں کو ہوم ورک ملتا تھا۔  انیس تو صفا ہاتھ جھاڑ لیتا:

” تم ٹرینڈ ٹیچر ہو، اسکول میں پڑھا تی ہو، میں نو بجے سے چھ بجے تک آفس کرتا ہوں۔  میرے دماغ میں یوں بھی طاقت نہیں رہ جاتی۔ ” انیس اس بات پر بہت زور دیتا رہتا تھا کہ وہ نو سے چھ تک آفس کرتا ہے جب کہ قمر دو ڈھائی بجے گھر آ جاتی ہے اور پھر اسے چھٹیاں بھی بہت ملتی ہیں۔  جب دیکھو تب کسی نہ کسی وجہ سے اسکول بند۔

ارے تمہارا کیا ہے، عیش ہیں تمہارے تو، عیش۔  دو مہینے پورے -ہمیں نہ مل جائیں گرمی کی چھٹیاں۔  ارے دس بیس روز کی بھی مل جائیں۔  گرمی کی چھٹیوں بھر وہ طوطے کی طرح دہراتا رہتا تھا۔

بظاہر یہ سچ بھی تھا، لیکن انیس نے یہ سوچنے کی زحمت شاید کبھی نہیں کی تھی کہ ایک بار گھر واپس آ جانے کے بعد اسے کچھ نہیں کرنا ہوتا تھا۔  کبھی کبھار تو اسے بھی چھٹی ملتی تھی، پھر اتوار تو تھا ہی۔  اس میں وہ سوتا تھا یا دوستوں کے ساتھ کافی ہاؤس جا بیٹھتا۔  گھر پر مزے سے ٹی وی دیکھتا، چائے کے ان گنت کپ پیتا جو ظاہر ہے قمر ہی بناتی تھی۔  کبھی کبھی تو محسوس ہوتا کہ وہ قمر کو تنگ کرنے کے لئے اتنی چائے پی رہا ہے۔  قمر نے ایک بہت مہنگی کمپنی کا ہیلتھ ڈرنک خریدا تھا۔  وہ رات میں بچیوں کو دیتی تھی اور اسی وقت ایک کپ بنا کر انیس کو بھی۔  خود اس نے کبھی نہیں لیا۔  گھر دو تنخواہیں آ رہی تھیں، لیکن پھر خرچ بھی تو ویسے تھے۔  سب سے بڑھ کر تو بچیوں کا انگریزی اسکول۔  اگر وہ بھی ملازمت نہ کر رہی ہوتی تو بچیاں اس مہنگے اسکول میں کبھی نہیں جا سکتی تھیں۔  انیس چاہتا تھا کہ ان کے یہاں ایک بچہ اور ہو۔  شاید اس بار لڑکا ہو جائے۔

میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹ بال کھیلوں گا اور کرکٹ…

وہ بڑے ارمان سے کہتا تھا اور اسے اپنی ماں اور قمر کی ماں، دونوں بوڑھیوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن قمر ابھی تک اڑی ہوئی تھی۔

تم سب نے مل کر گارنٹی لی ہے کیا کہ اس بار بیٹا ہی ہو گا؟ ایک بار اس نے اپنی فطری کٹھ حجتی کے ساتھ چڑ کر کہا تھا۔

اماں کو ایک بیٹی کے بیاہ میں دانتوں تلے پسینہ آ گیا۔  میرے پاس دو ہیں۔  تیسری بھی بیٹی ہو گئی تو کہاں ٹھکانے لگاؤں گی؟ لیکن یہ کہتے ہوئے قمر کو شدت سے محسوس ہوا تھا کہ اماں تو اماں، اس میں پگلی جمادارن کی روح کا بھی کچھ حصہ حلول کر چکا ہے۔

اس دن قمر کا ہائی اسکول کا رزلٹ آیا تھا، اس لئے وہ صبح اسے اچھی طرح یاد تھی۔  فرسٹ ڈویژن کا نشہ اچھی طرح یاد تھا۔  انٹرمیڈیٹ کے لئے باہر نہ جا سکنے، بوائز اسکول میں نام لکھوا کر سائنس نہ پڑھ سکنے کی شدید مایوسی اچھی طرح یاد تھی اور یاد تھی پگلی جمادارن، جو آنگن میں جھاڑو لگاتے لگاتے یکایک رک کر جھاڑو کے لانبے ڈنڈے پر ٹھڈی ٹکا کر کھڑی ہو گئی تھی اور انتہائی تاسف کے ساتھ ایک ہاتھ کی انگلی ناک پر رکھ کر بولی تھی:

ہائے رے دیا، پھن بٹیا-(یا مالک، پھر بیٹی ہو گئی)

ہاتھ میں اخبار لہراتے ابا اور برقع پھڑکاتی امیرن خالہ ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے۔  امیرن خالہ تو سلام تک کرنا بھول گئیں۔  صبح صبح بٹیا ہوئی ہے شکلائن کے یہاں۔  انہوں نے پھولتی سانسوں کے درمیان بتایا۔  ان کے ساتھ ہی ابا نے تقریباً نعرہ لگایا

لو بٹیا، آ گیا فرسٹ کلاس-کتنا ڈری ہوئی تھیں تم۔

قمر دوڑ کر ابا سے لپٹ گئی۔  انہوں نے ہولے سے سر پر ہاتھ رکھا اور الگ کو ہٹ گئے۔  بچوں کو لپٹا چمٹا کر پیار کرنا اس وقت کے بڑوں کا شیوہ نہ تھا۔  سچ پوچھا جائے تو براہ راست پیار کا کسی بھی طرح کا اظہار نہیں تھا۔

چلو جاؤ، نفل نماز ادا کرو، قمر اماں نے اتنا ہی کہا اور امیرن خالہ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔  شکلائن سے ان کی بڑی پٹتی تھی۔

اے ہے، تیسری بھی بیٹی ہی ہو گئی، کہاں نمٹائیں گے؟ ان لوگوں کے یہاں تو تلک میں بھاری بھاری رقمیں بھی خرچ ہو تی ہیں۔

"ہئی ہے .. امیرن خالہ نے برقع اتار کر تخت پر رکھتے ہوئے کہا۔ "شکلا جی کی اماں کہتی تھیں، اس بار بھی بیٹی ہوئی تو انہیں کچھ سوچنا پڑے گا۔  در اصل یہ تیسری نہیں، چوتھی بیٹی ہے۔  پہلی دو چار دن کی ہوکے سوری میں ہی ختم ہو گئی تھی۔ ”

اماں، ہمارا فرسٹ ڈویژن آیا ہے – قمر نے زچ ہو کر زور سے پکار کر کہا۔

جاہل عورتیں – وہ پہلے شکلا جی کی بیوی کا ماتم تو کر لیں – بڑبڑاتے ہوئے ابا باہر چلے گئے۔

امیرن خالہ رشتے میں اماں کی بہن لگتی تھیں۔  عمر میں چھوٹی تھیں اس لئے سالی ہونے کے ناتے ابا کے منھ لگ کر بول لیا کرتی تھیں۔  ویسے بھی وہ ہڑبڑ ہڑ بڑ بولنے کے لئے مشہور تھیں۔  تنک کے بولیں:

ہاں بھائی صاحب، کہہ لیجئے، ہم تو واقعی جاہل ٹھہرے، لیکن قمر سے پہلے ہماری آپا نے دو بیٹے نہ جنے ہوتے تو ہم آپ سے پوچھ لیتے کہ آپ کتنے عالم فاضل ہیں اور بیٹے بھی کیسے کہ لائق — علی گڑھ میں پڑھ رہے ہیں۔ ” پھر آواز قدرے نیچی کر کے بولیں .

ایک ہی لڑکی ہے اس لئے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہیں۔  ارے زیادہ چھانئے مت، کہیں خدا نخواستہ کرکرا نہ کھائیں۔

ابا ان کی زد سے باہر نکل گئے تھے، لیکن اماں تو سب سن رہی تھیں۔  بات بدلنے کو انہوں نے بٹوے سے دو روپے نکال کر پگلی کو مٹھائی کھانے کے لئے دیے۔

چلو، بٹیا کے پاس ہوئے کی مٹھائی تو کھانے کو ملی۔  سوچا تھا اب کی شکلائن سے چاندی کی جھانجھر لیں گے۔  پھر اماں کا دیا ہوا ڈلی چونا ہاتھ کے پیالے میں لیتی ہوئی بولی

ٹھیک کہت ہیں بڑی سکلائن۔  شکلا جی کو چاہئے کہ دوسر بیاہ کر لیں۔  اتنی جمین جائیداد گاؤں میں ہے۔  سب داماد آ کے کھائے جہیں۔  ایک ٹھو، بٹوا جروری ہے۔

وہ اپنی گلٹ کی جھانجھریں بجاتی چل دی۔

اس کا نام یونہی پگلی تھوڑی پڑ گیا۔  پاگل تو ہئی ہے، خبطی کہیں کی! قمر نے غصے سے کہا۔

"گھر کے پرانے لگے ہوئے نوکروں سے اس طرح بات نہیں کرتے!” اماں نے جھڑکا۔ "خواہ وہ جمادارن ہی کیوں نہ ہو۔  اچھا ہے جو سنا نہیں۔

"سن لیتی تو کیا کرتی؟”

"کچھ نہیں کرتی۔  اسے تکلیف ہوتی تو تمہیں گناہ ہوتا۔  پلٹ کے جواب دیتی تو تمہاری بے عزتی ہوتی۔ ”

"اماں، تمہارے نزدیک ہم پگلی سے بھی گئے گزرے ہیں؟” قمر نے پیر پٹخے۔ ” مہترانی تمہیں زیادہ عزیز ہے۔ ”

کیا ہو گیا ہے آج کل کے بچوں کو؟ اماں نے تاسف سے سوچا۔  یہ لڑکی کہاں کھپے گی۔  اس قدر بد زبان

قمر کی”کھپتے کھپتے” عمر شریف اٹھائیس برس ہو رہی تھی اور اماں کو برے برے خواب آنے لگے تھے۔  بڑی خوش فہمی تھی اماں کو — پڑھائی ختم ہوتے ہی شادی کر دیں گی، لڑکا اب حاضر ہوا کہ تب۔  لڑکا فوری طور پر حاضر نہیں ہوا تو نوکری تو ہو جاتی۔  لڑکوں میں سے ایک نے انگریزی میں ایم۔  اے کیا تھا۔

چونکہ گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، اس لئے وہیں اپنے ہی ڈپارٹمنٹ میں جگہ مل گئی۔  دوسرے نے ایم۔  کام کیا تھا، وہ ایل آئی سی میں نوکری پا گیا۔  انٹرویو کے لئے بمبئی بلایا گیا تھا، آرام سے چلا گیا۔  ناسک میں پوسٹنگ ہو گئی، آرام سے رہ پڑا۔  قمر نے باکس آفس کی معرفت جہاں درخواست بھیجی تھی، وہ ایک دور افتادہ شہر تھا۔  اسکول میں بورڈنگ نہیں تھا۔  سلیکشن ہو جانے کے باوجود قمر نہیں جا سکی۔  پرنسپل نے کہا بھی کہ وہ ایک شریف گھرانے کو جانتے ہیں، وہاں بطور پیئنگ گیسٹ رکھوا دیں گے، لیکن ابا اماں دونوں نے سختی سے انکار کر دیا۔  لڑکی پڑھ رہی ہے، یہ لوگ سمجھتے ہیں، لیکن نوکری کرنے کے لئے اکیلی لڑکی نہ جانے کہاں، کس کے یہاں رہتی پھر رہی ہے، یہ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہو گا۔  ایک بار سرکاری ملازمت ملی۔  اس میں تو اور بھی خوردہ دیہات میں بھیج دیا گیا۔  قمر نے خود انکار کر دیا۔  وہاں جا کر اسکول دیکھنے کے بعد اس کا دل بیٹھنے لگا تھا۔

"ابا، ہم آفس کی نوکریوں کے لئے درخواست دیں؟” ایک دن قمر نے پوچھا.

"آخر ہم گریجویٹ تو ہیں ہی۔ ” ابا نے اسے صرف گھور کر دیکھا، کوئی جواب نہیں دیا۔  وہ خشمگیں نظریں بذات خود جواب تھیں۔

ملا کی دوڑ مسجد۔  قمر کو آخر اس کے اپنے چھوٹے سے شہر نے ہی پناہ دی۔  وہاں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں وہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر پرائمری درجات کی ٹیچر مقرر ہوئی۔  اماں اس کے ہاتھ پر پچیس روپے رکھ کر باقی بڑی پابندی سے جمع کر دیا کرتی تھیں اور خوش تھیں کہ لڑکی گھر پر ہی ہے۔  کہیں باہر نوکری کے نام سے ان کی جان نکلا کرتی تھی، لیکن قمر نے ہار نہیں مانی تھی۔  آس پاس مناسب جگہ مل گئی تو کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔  وہ لکھنو، الٰہ آباد، بنارس سے کوئی جگہ نکلی دیکھتی جو اس کی تعلیم کے مطابق ہوتی، تو پٹ سے درخواست بھیج دیتی، تب اماں کی واویلا کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔  ایک دن اس نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا تھا-"اماں، بھول جاؤ کہ کوئی آسمان سے اترنے والا ہے، اس لئے نوکری تو ایسی کرنے دو جو کسی معقول اسکول میں معقول تنخواہ کے ساتھ ہو۔  میں یہاں برقع پہن کے زنگ کھاتی رہوں” ڈیڑھ سو پا کر تین سو پر دستخط کروں؟”

ایک دن قمر نے اعلان کیا-"کل ہم لکھنؤ جا رہے ہیں۔  ہمارا انٹرویو لیٹر آیا ہے۔  عرشی خالہ کے یہاں ٹھہر جائیں گے۔  اسکول بہت اچھا ہے۔  شاید قسمت ساتھ دے جائے۔  اماں اب تک قسمت پر شاکر ہونے لگی تھیں، زیادہ واویلا نہیں مچائی۔  لکھنؤ پر تو ابا بھی کچھ نہیں بولتے تھے، وہاں کئی رشتے دار موجود تھے۔

تب ہی وہ انہونی ہوئی۔

حسب دستور کمپارٹمنٹ میں گھستے ہی قمر نے برقع اتار کر جھولے میں ڈالنے کے لئے اس کی زپ کھولی ہی تھی کہ اس کی نظر اُس پر پڑی۔  وہ لانبے قد کا، سانولا لیکن جاذب نظر نوجوان تھا جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔  چہرے پر سنجیدگی کے باوجود اس کی آنکھوں میں قمر کی برقع بیگ میں ڈالنے کی حرکت سے نہایت محظوظ ہونے والی کیفیت تھی۔  قمر سٹپٹا گئی۔  وہ نوجوان بھی دوسری طرف کو دیکھنے لگا۔  کچھ دیر بعد جھجکتے ہوئے دوچار جملوں کا تبادلہ ہوا۔

ایک چھوٹے اسٹیشن پر اس نے چائے خریدی تو ایک کوزہ قمر کو بھی پیش کر دیا۔  وہ لکھنؤ کے کسی بینک میں اکاؤنٹنٹ تھا۔  پرتاپ گڑھ اس کی بیوی کا میکہ تھا۔  وہ گویا اپنی سسرال آیا ہوا تھا۔

"تو اہلیہ وہیں رک گئیں؟” قمر نے چائے قبول کر لی تھی اور بھرتی کا سوال کر رہی تھی۔

ان کی دوسری برسی تھی۔” اس کا چہرہ تاریک ہو گیا۔  (کسی کنواری کے نصیب سے بیاہی مرتی ہے، ایک بار امیرن خالہ نے کہا تھا تو کٹھ حجت قمر ہنس پڑی تھی۔ "اگر مرحومہ کا شوہر کسی بیوہ سے شادی کرے تو؟” اس نے امیرن خالہ کو چھیڑا تھا۔ "بیوہ سے شادی کون کرے ہے جی؟ کنواری کو جڑتا نہیں، مطلقہ اور بیوہ کو بر کہاں سے جڑے گا؟” پھر انہوں نے کئی قصے سنائے جن میں پچاس پچپن، یہاں تک کہ ساٹھ برس کے رنڈوے پچیس، زیادہ سے زیادہ تیس کی لڑکیاں لے کر آئے تھے۔  سب کے نام پتے انہوں نے گنوا دیے۔ "جھوٹا جانو تو تصدیق کر لو۔ ”

اوہ، معاف کیجئے گا۔ ” قمر گڑبڑا گئی۔

"میں صبح ناشتہ کر کے نہیں چلا تھا۔  مرحومہ کی والدہ نے کچھ پیک کر دیا ہے۔  آپ شیئر کریں گی؟” اس نے اخبار بچھایا اور ڈبا کھولتے ہوئے قمر سے پوچھا۔  ڈبے میں انڈے اور پراٹھے تھے اور کچھ مٹھائی بھی۔  قمر نے شائستگی سے انکار کر دیا۔  وہ یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھ چکی تھی، بات چیت میں کوئی جھجک نہیں تھی، لیکن اجنبی مردوں سے بے تکلف ہونا اس کا شیوہ نہیں تھا — اس کا ماحول ہی کچھ ایسا رہا تھا، پھر یہ کہ اس وقت اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ناشتہ شیئر کرنے سے تو انکار کر دیا تھا، لیکن وہ مرحومہ کی والدہ کے داماد کو مرحومہ کے ساتھ شیئر کرنے والی تھی۔

باقی سفر لگ بھگ خاموشی سے کٹ گیا۔  لکھنؤ قریب آ رہا تھا تو اس نے بینک کا کارڈ دیا-

"اگر آپ لکھنؤ میں نوکری کریں گی تو اپنا اکاؤنٹ میرے بینک میں کھلوا لیجئے گا۔ ”

قمر ہنس پڑی۔ "آپ کے منھ میں گھی شکر۔  نوکری مل گئی تو ضرور کھلواؤں گی۔ ”

"پرتاپ گڑھ میں آپ کس اسکول میں ہیں؟”

قمر نے جھجکتے ہوئے نام بتا دیا، پھر بولی-

"آپ تو وہاں سب کو جانتے ہوں گے؟”

میرے سسر تحصیلدار ہیں ٹرانسفر ہو کر حال میں وہاں آئے ہیں، اس لئے میں مقامی لوگوں کو نہیں جانتا۔

قمر یکلخت ہنس پڑی۔

"”آپ ہنسیں کیوں؟

اس نے مشکوک انداز میں بھنویں چڑھائیں۔

ہماری ایک امیرن خالہ ہیں۔  اماں انہیں”شہر خبرو” کہتی ہیں۔  وہ بتا رہی تھیں کہ کوئی مسلمان تحصیلدار شہر میں وارد ہوئے ہیں۔  انہی کو کہہ رہی ہوں گی۔  در اصل مسلم افسر کم ہی آتے ہیں نا۔

شہر خبرو””پر وہ بھی خفیف سا مسکرا دیا۔

ایسی خواتین تقریباً ہر گھر میں ہوتی ہیں۔  لکھنؤ اسٹیشن پر اترتے وقت وہ خاصی بے تکلفی سے گفتگو کر رہے تھے۔

قمر کو نوکری یہ بھی نہیں ملی، لیکن وہ نوجوان بار بار ذہن میں آتا رہا۔  چار سال قبل شادی ہوئی تھی۔  دو سال میں بیوی چٹ پٹ ختم ہو گئی۔  رکشے سے اسکول جاتے وقت کئی بار نادانستہ طور پر وہ سوچ بیٹھتی کہ شاید وہ انسان جس نے اپنا نام انیس احمد بتایا تھا، جو لکھنؤ کے ایک بینک میں اکاؤنٹینٹ تھا اور جس کی بائیس سالہ بیوی شادی کے دو برس بعد ہی گزر گئی تھی، شاید پھر دکھائی پڑ جائے، لیکن دکھائی پڑنے سے بھی فائدہ کیا تھا! کیا وہ نقاب الٹ کر کسی مسلم سوشل فلم کی ہیروئن کی طرح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی تھی؟

بھائیوں کی شادی کو اماں نے بہت دن ٹالا تھا، لیکن دونوں پردیس میں تھے۔  آخر ان کی شادیاں کرنی ہی پڑیں۔  اب بہن کو لے کر کتنے دن بیٹھے رہتے، پھر اونچ نیچ تو لڑکوں کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے نا۔  قمر کی قسمت پر تو جیسے تالا لگ گیا تھا۔

ایک دن اچانک ایک خاتون وہ تالا کھولنے وارد ہوئیں۔  دو دن پہلے قمر کا اٹھائیسواں سال مکمل ہوا تھا۔  اماں نے اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگنے کے بعد آنسو بھری آنکھوں سے اتنا اور کہا تھا -"یا مولا مشکل کشا! کتنی بار دہراؤں؟”

خاتون قدرے پختہ عمر، نک سک سے درست غرارہ پہنے، بڑی شائستہ اور مہذب تھیں۔  ان کے جانے کے بعد اماں تو مارے خوشی کے پاگل بنی جا رہی تھیں۔

لڑکا دوہاجو ہے لیکن کم عمر ہے۔  بالکل کنوارا لگتا ہے۔  اے ہے، دکھیا کی شادی کو دو برس ہی تو گزرے تھے۔  بال بچہ بھی نہیں ہے۔  ہوتا بھی تو کیا تھا! کوار کوٹلہ تو بچا رہے چننے سے۔

قمر کا ما تھا بڑی زور سے ٹھنکا۔  تصویر دیکھی تو دانتوں تلے انگلی دبا لی۔  اتفاقات صرف فلموں میں نہیں ہوتے، حقیقی زندگی میں بھی رونما ہوتے ہیں۔

اماں، ہم ان سے ملے تھے۔  جب ہم لکھنؤ جا رہے تھے تب…. کہتے ہوئے قمر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

میل ملاقات ہے؟ اماں کا سارا ایکسائٹمنٹ کافور ہو گیا۔

ہئے ہئے …

تمہارا دماغ چل گیا ہے، اماں!

قمر نے سارا لحاظ بھلا دیا، اسے اس قدر غصہ آیا۔  ایسا بھی نہیں تھا کہ پسند کی شادیاں سننے میں نہیں آ رہی تھیں، لیکن جہاں ایسی کسی بات کا سوال ہی نہ ہو وہاں بلاوجہ کی ہئے ہئے! شادی سے پہلے ماتم! وہ پیر پٹختی چل دی، لیکن پھر کچھ خیال کر کے پلٹی۔  خر دماغ والدین کا کیا ٹھکانا! کیا پتا اماں محض یہی سوچ کے انکار کر دیں کہ صاحبزادی گل کھلاتی رہی ہیں۔  بھلا کہیں لڑکی خود بر چنتی ہے۔

ہم قسم کھاتے ہیں، ہمارا اس رشتے میں کوئی دخل نہیں ہے، لیکن ایک بات ضرور کہیں گے کہ رشتہ بہت اچھا ہے، انکار مت کر دینا۔  اس نے بغیر آنکھیں ملائے ہوئے کہا اور کمرے میں گھس گئی۔

جب قمر نے کہا: "ہم قسم کھاتے ہیں”، تو اس کے لہجے میں بڑی کاٹ تھی۔  وہ اماں پر ضائع نہیں ہوئی۔  انہیں لڑکی پر بڑا ترس آیا، شاید اسے غلط کٹگھرے میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے قمر کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا: "بٹیا، ہمیں تم پر بھروسا ہے لیکن ہم جو بھی کہتے ہیں، اس کے پیچھے تمہاری، سب کی عزت کا خیال دامن گیر رہتا ہے۔  لڑکی کی عزت سے زیادہ نازک کوئی شیشہ نہیں۔ ” قمر نے آنکھیں پٹپٹا کر آنسو پئے۔

حجلہ عروسی میں قمر نے دولہا سے پوچھا

"آپ نے ہمیں ڈھونڈا کیسے؟”

بہت آسانی سے! دولہا نے مسکرا کر جواب دیا۔

آپ کے شہر میں ہماری پہلی سسرال والے تو تھے ہی۔  بڑی آپا کو وہاں بہانے سے بھیج دیا۔  آپ نے اسکول کا نام بتایا تھا جہاں آپ پڑھاتی تھیں۔  آپا وہاں بھی ہو آئیں۔  ساری معلومات چپکے چپکے اکٹھا کر لیں۔

ہم نے آپ کی تصویر دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔  پرتاپ گڑھ کی سڑکوں پر انجانے پر آپ کو ڈھونڈا تھا۔  آپ نے ہم پر بڑا گہرا امپریشن ڈالا تھا۔  ہم نے اماں سے کہہ دیا کہ اس رشتے سے انکار نہ کریں۔

دولہا بہت خوش ہوا، لیکن کہیں کسی چھٹی حس نے خبردار کیا، عورت کو پہلے ہی دن اتنا بے تکلف نہیں ہونا چاہئے۔  اٹھائیس تیس کی ہو رہی ہیں، نوکری کر رہی ہیں، کھائی کھیلی نہ ہوں

آپ نے پہلے کسی کو، میرا مطلب ہے، کسی مرد کو اس نظرسے دیکھا تھا؟

"آپ یقین کرنا چاہیں تو کر لیں کہ نہیں۔ ”

"اتنی عمریوں ہی گزار دی ہے؟”

"یقین کرنا چاہیں تو کر لیں کہ ہاں۔ ”

یونیورسیٹی، کالج، اسکول؟

جنہیں میں پسند کر سکتی تھی انہوں نے میری طرف نہیں دیکھا، جنہوں نے دیکھا وہ میرے معیار کے نہیں تھے۔

"باپ رے ..” انیس نے سوچا۔ "تو کچھ معاملات تھے”

مطلب یہ کہ کچھ لوگوں کو آپ نے پسند کیا تھا؟

جو چیزیں میری پہونچ یا بساط سے باہر ہوں، انہیں میں دائرۂ خیال میں نہیں لاتی۔  مجھے معلوم ہے، میں ہیرے نہیں خرید سکتی۔  بلکہ میں تو بھاری سونا بھی نہیں خرید سکتی، اس لئے میں اس کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔  اس موضوع کو یہیں چھوڑ دیجئے۔  ہماری نئی شادی ہوئی ہے، ہم بحث میں کیوں پڑیں —

اس نے بڑی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کو دیکھا۔

"بولتی بہت ہے -” انیس نے سوچا، لیکن کافی کریدنے کے باوجود دلہن ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ "ضدی بھی معلوم ہوتی ہے۔ ”

اس نے ایک اور رائے قائم کی اور موضوع بدل دیا۔

"”بچوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

قمر گڑبڑا گئی۔  شادی تو ہو نہیں رہی تھی، بچوں کے بارے میں کون سوچتا، تھوڑا توقف کے بعد بولی-"شادی سے پہلے …. شاید کوئی سوچتا ہے کیا؟” اسے کوئی معقول جواب نہیں سوجھا تھا۔

اب تو شادی ہو گئی۔ ” وہ مسکرایا۔  (کمبخت کی مسکراہٹ بڑی سنجیدہ مسکراہٹ تھی، اس لئے بہت پیاری)

"میڈیکل سائنس کہتا ہے کہ عورت کا پہلا بچہ تیس سال سے پہلے ہو جانا بہتر ہوتا ہے۔  مردوں کے لئے کوئی عمر نہیں شاید۔ ”

وہ ہنسی۔

"شادی کی ہی طرح۔  ساٹھ برس میں بھی کر لیتے ہیں۔ ”

باپ رے! بڑی بے تکلف ہیں۔  بزرگ اسی لئے عورتوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔  انیس نے سوچا، پھر بولا اور کتنے؟”

دوسے زیادہ نہیں۔  بائی دی وے، ہمیں لڑکا لڑکی کا کوئی ہینگ اَپ نہیں۔  کہہ کر قمر نے اس موضوع کو بند کر دیا۔  اس طرح کی باتوں کے لئے وقت پڑا تھا۔  یہ اس کی سہاگ رات تھی، اس نے مہندی رچی ہتھیلیاں دولہا کے سامنے پھیلائیں۔

ہماری اماں بے حد روایتی خاتون ہیں۔  کہتی ہیں، سہاگ کی مہندی بالکل سادہ ہونی چاہئے، کوئی ڈیزائن، پھول پتی کچھ نہیں۔

آپ نے ضد نہیں کی پھول بنوانے کی؟وہ ہنسا اور دلہن کا ہاتھ تھام لیا۔

"اماں کے سامنے ہماری ضد نہیں چلتی۔  شاید ہی کبھی….”

"میرے سامنے بھی نہیں چلے گی۔ ” اس نے بات کاٹی۔  وہی سنجیدہ مسکراہٹ، وہی گہری آنکھیں۔

"”دیکھیں گے۔ ” وہ ہنسی۔ "آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنائیں؟

ضرور آج آپ کا جتنا جی چاہے بولئے، ہم سنیں گے۔  بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔  اس کے لہجے میں شرارت تھی۔

اماں کی شادی کے وقت ان کے مائیکے میں نوجوان رشتہ دار عورتوں نے ایک رسم کی۔  انہوں نے اماں کی مٹھی میں ایک انگوٹھی بند کرائی اور ابا سے کہا، مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالیں۔  اماں دھان پان سی تھیں اور صرف سترہ برس عمر۔  ابا کو ڈر رہا ہو گا کہ کہیں کلائی میں موچ نہ آ جائے، اس لئے زیادہ زور آزمائی نہ کی ہو گی۔  نہیں کھلوا سکے۔  عورتوں نے شور مچا دیا کہ دولہا کمزور ہے، دلہن حاوی رہے گی۔  ابا نے بڑی سنجیدگی سے کہا”کھیل مذاق کی بات اور ہے، جہاں تک مٹھی کھلوانے کا سوال ہے کہئے ابھی کھلوا دیں”،”کھلوائیے!” شور بلند ہوا۔  ابا نے نہایت سنجیدگی سے کہا”فاطمہ بی بی، میں آپ کو آپ کے شوہر کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ آپ اپنی مٹھی کھول دیں۔ ” گٹھری بنی اماں نے پٹ سے مٹھی کھول دی جس میں انگوٹھی چمچما رہی تھی۔  محفل پر سناٹا طاری ہو گیا۔”

"لیکن شاید کہیں تفریح بھی سناٹے میں گم ہو گئی-"( یہ قمر نے دل میں سوچا۔)

لمحہ بھر کو تو انیس بھی خاموش رہ گیا۔  وہ شاید اس”پنچ لائن” کے لئے تیار نہیں تھا۔  قدرے توقف کے بعد بولا

حکم دینے کی مجال تو نہیں، درخواست ہے قمرالنسا بیگم، کہ ہماری دلہن کی حیثیت سے آپ ہمارے اور قریب آ جائیں۔

اس بار اس کی مسکراہٹ بہت گہری تھی اور اس کی سنجیدگی کی جگہ شرارت نے لے لی تھی۔  قمر شرم سے سرخ ہو گئی۔  اور دولہا نے سوچا .. چلو، اتنا تو ہے کہ لاج شرم بالکل ہی بیچ نہیں کھائی ہے۔

انیس کی درخواست اب کچھ حد تک حکم میں بدلتی جا رہی تھی اور قمر کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ، کہ تم نے گارنٹی لی ہے کہ ہمارے یہاں بیٹا ہو گا؟

ہمارے پڑوس میں وہ تھے نا دلشاد چچا۔  ان کے یہاں ساتویں بھی بیٹی ہی ہوئی۔  لڑکیاں تو لڑکیاں، ماں باپ کے چہرے پر ہمیشہ یتیمی برستی رہی۔  اوپر سے چچا مرے تو دو بیٹیاں ابھی بن بیاہی رہ گئی تھیں۔

ہم سات کے لئے تو نہیں کہہ رہے، تمہارے دلشاد چچا سے ہمیں کیا لینا دینا؟

تیسری کے لئے بھی کیوں کہہ رہے ہو؟ پالو گے؟ پالنا تو ہمیں ہی پڑے گا۔

اگر تیسرا بچہ بھی لڑکی ہی ہوا تو ….ہم اسے بھیا کو دے دیں گے۔  بھیا بھابی تو لپک لیں گے گھر کے بچے کو۔  (انیس کے بڑے بھائی لا ولد تھے۔)

"معاف کرنا، سنا ہے ڈاکٹری معائنے سے نقص بھیا میں ظاہر ہوا تھا۔ "انیس بھڑک گیا۔

یہاں اس کا کیا ذکر ہے کہ نقص کس میں تھا؟ بات کو ٹالو مت اور اٹھا کے پھینکو وہ اپنی گولیوں کی شیشی۔  بیٹا ہوا تو ہمارا، لڑکی ہوئی تو بھیا بھابی کی۔

ہرگز نہیں! میرے جسم پر صرف میرا حق ہے۔  میری اولاد میری رہے گی۔  اگر میں نے تیسرا بچہ پیدا کیا بھی تو لڑکا ہویا لڑکی، اسے میں ہی رکھوں گی۔  تمہاری کسی بات سے میں نے انکار نہیں کیا۔  ہمیشہ مصالحت کا راستہ اپنایا۔  ملازمت کے علاوہ سخت محنت کر کے ٹیوشن بھی کر رہی ہوں کہ بچیاں اچھے اسکول میں پڑھیں۔  گھرکا معیار اونچا رکھنے میں میری محنت بھی شامل ہے۔  اب کہیں کچھ تو ہو جو صرف میرا ہو۔  اس کی آواز بھرا گئی تھی۔  انیس آخری جملے پورے ہونے سے پہلے اٹھ کر جا چکا تھا۔

قمر نے گولیوں کی شیشی نہیں پھینکی، لیکن کہیں کچھ تھا جو چھن سے اس کے اور انیس کے درمیان ٹوٹ گیا تھا۔  قمر کے تئیں اس کے اندر ایک سردمہری گھر کر گئی تھی جو بڑی تکلیف دہ تھی۔

سب ٹھیک ہو جائے گا، وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔  سوچتے سوچتے وقت یونہی گزرتا رہا اور کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔  انیس ذرا ذرا سی بات پر جھنجھلاتا، طعنے دیتا۔  اس کے جن کاموں سے ہمیشہ مطمئن رہتا تھا ان میں بھی عیب نکالتا۔  دانت پر دانت بھینچ کر قمر برداشت کرتی رہی۔  اماں قمر کو تتیا مرچ کہا کرتی تھیں، لیکن اس کی ساری تیزی انیس کی سردمہری کے سامنے ہوا ہو گئی تھی اور اب تیسرے بچے کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔

گھر میں آج کل رولا مچا ہوا تھا۔  رضوانہ نے پلس ٹوکا امتحان دے دیا تھا۔  باپ کی ضد پر اس نے سائنس لے لیا تھا، لیکن اب پری میڈیکل امتحانوں میں بیٹھنے سے صاف انکار کر رہی تھی۔

"ہمیں ڈاکٹر نہیں بننا۔  بس مرغے کی ایک ٹانگ””تو کیا بننا ہے؟” آج کل سمپل گریجویٹ کی کہیں کھپت نہیں۔

کھپت تو اس کی بھی ہے، پاپا۔  آج کل بہت ایونیوز ہو گئے ہیں، لیکن ہاں، ہمارا ایک ٹارگٹ ہے۔  ہم اکنامکس اور انگلش لے کر گریجویشن کریں گے اور اس کے بعد لا پڑھیں گے۔

لڑکی وکیل بنے گی؟ لوگ سکتے میں آ گئے۔  اسے باز رکھنے کی ایک پوری مہم چل پڑی۔  گاؤں سے انیس کی والدہ آ گئیں پوتی کو سمجھانے۔  بڑے بھائی اور بھابی تو لکھنؤ میں ہی رہتے تھے۔  ذرا دور رہا کرتے تھے اس لئے کم آتے تھے، لیکن ادھر کئی دن سے روز آ رہے تھے۔ "بیٹا، ہماری کوئی اولاد تو ہے نہیں۔  ایک اچھا خاصا پلاٹ زمین کا ہے۔  ہم تو سوچتے تھے، تم ڈاکٹر بنو گی تو تمہیں وہاں نرسنگ ہوم بنوا دیں گے۔

اب بڑے ابا، آپ کے اس پلاٹ کو استعمال کرنے کے لئے ہم مرضی کے خلاف ڈاکٹر بن جائیں؟ چلئے اچھا، اس پر ہمارا دفتر بنوا دیجئے گا۔ "رضوانہ احمد ایڈووکیٹ” کا بورڈ لگ جائے گا۔”

رضوانہ احمد ایڈووکیٹ سے لڑکے کانوں پہ ہاتھ لگا کے بھاگیں گے۔  بڑی چچی نے جل کے کہا۔  وہ اپنی اتنی قیمتی زمین دیور کی اولادوں کو دئے جانے کے خیال سے ہی کبیدہ خاطر ہو جاتی تھیں۔

اچھا ہے نا بڑی اماں، لڑکی سے دور ہی رہیں گے۔

اب کی دادی کود پڑیں اور نہایت ناراض ہو کر،”کیا بری باتیں منھ سے نکالتی رہتی ہے۔  ارے شادی بیاہ کرنا ہے کہ نہیں؟ چلیں وہاں سے۔  لڑکی ڈاکٹر بن جاتی ہے تو لڑکے والے دوڑ کے ہاتھوں ہاتھ لے جاتے ہیں۔

ہاں! اب تو مسلمانوں میں بھی جہیز کا اتنا چلن ہو گیا ہے۔ ” قمر” نے بھی ٹھنڈی سانس لے کر دبی زبان سے کہا۔

"اور جہیز ہو نہ ہو، وکیل لڑکی کے نام پر تو لڑکا ویسے بھی نہ ملے گا۔ ” یہ انیس تھا۔

لڑکی کی بات چھوڑو میاں!” بڑے بھائی کہہ رہے تھے۔  ہم تو جانتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست ایڈووکیٹ ہیں۔  ارے وہی علی رضا، جانتے ہو گے۔  ان کی لڑکی کی کہیں بات چلائی گئی تو لڑکے کے والد نے کہا، نہ بھائی، وکیل کی بیٹی نہ لائیں گے۔

وہی مرغے کی ایک ٹانگ! سب کی تان شادی پر کیوں ٹوٹتی ہے؟ رضوانہ نے نہایت خفا ہو کر کہا-نہیں کرنی ہے ہمیں شادی۔

مرغے کی ایک ٹانگ تمہاری کہ دوسروں کی؟ آخر تم کیوں اڑ گئی ہو وکالت پہ؟

ہمیں اس میں دلچسپی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت بھی ہے۔  اچھا، گریجویشن تو کرنے دیجئے۔  اس کے بعد بہت کچھ ہے۔  جرنلزم کر لیں گے، یوپی ایس سی دے لیں گے۔  کہیں نہ آئے تو بی ایڈ کر کے آپ کی طرح جھک ماریں گے۔  اسکول میں پڑھائیں گے ماسٹرائن بن کے۔

اس کے لہجے میں استہزا تھا۔  قمر کو کہیں بہت تکلیف پہونچی۔

ماسٹرائنیں اگر تمہیں نہ پڑھائیں تو تم آگے آگے اتنا کودو گی کیسے۔  اس نے دل ہی دل میں کہا، لیکن اوپر سے پرسکون رہی۔  یہ مکالمے ایک دن کی بات نہیں تھے، کئی دن سے چل رہے تھے۔

آخر لوگوں کو ہار ماننی پڑی۔  رضوانہ کا یونیورسیٹی میں آرٹس فیکلٹی میں داخلہ ہو گیا اور لوگوں کو مزید ہار یہ ماننی پڑی کہ ان تین سالوں میں اسے”برین واش” کرنے کی سب کوششیں بیکار رہیں۔  اس نے بی، اے کے بعد علی گڑھ میں لاکورس جوائن کر لیا۔  قمر کی ساس رہتی تو بارہ بنکی کے گاؤں میں تھیں، لیکن اکثر آتی رہتیں اور جب آتیں، رضوانہ کو لے کر قمر کو باتیں سنا کر جاتیں

لڑکی کو بہت آزادی دے رکھی ہے اور پڑھاؤ انگریزی اسکولوں میں۔  یہ کرنٹان، انہوں نے ہماری تہذیب کا ستیاناس کر دیا ہے۔  ماں باپ بے فکر ہیں، لڑکی دندناتی گھوم رہی ہے۔

پھر انہیں اچانک خیال آیا کہ”باپ” کہہ کر وہ اپنے بیٹے کو بھی بیٹی کو بگاڑنے میں ملوث کر رہی ہیں اس لئے جلدی سے بولیں۔  اب باپ بیچارہ کرے بھی تو کیا۔  وہ تو دن بھر گھر سے باہر رہتا ہے۔  بچوں کی تربیت تو ماں کا کام ہے۔  انہیں غلط راستے پر چلنے سے روکنا بھی ماں کا ہی کام ہے اور یہ چھوٹی فتنی! اری تو کیا کرنے والی ہے ری عمرانہ؟

دادی..چھوٹی فتنی نے نیل فائل سے ناخنوں کو گھس کر حسب مرضی شیپ دیتے ہوئے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔

ماس کوم (Masscom)

یہ آج کل کی لڑکیاں کتنے اطمینان سے اپنا کریئر طے کر رہی ہیں اور کتنا واضح مقصد ذہن میں رہتا ہے۔  ہو سکتا ہے سب کا نہ بھی ہوتا ہو، لیکن اچھے اسکولوں سے جو لڑکیاں پڑھ کر نکل رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر نہایت صاف سوچ رکھتی ہیں اور لڑکے بھی تو۔  ہمارے تو اماں ابا بس اسکولوں میں نام لکھوا کر بے فکر ہو جایا کرتے تھے۔  نہ کبھی ہوم ورک دیکھیں نہ یہ سوچیں کہ بچے کریں گے کیا۔  بس بے نتھے بیل کی طرح بی اے، ایم اے کر لو، پھر لڑکے جوتیاں چٹخائیں نوکریوں کے لئے اور لڑکیاں شادی کے انتظار میں گھر میں سوکھیں۔  ہم نے لاکھ چاہا تھا کہ سائنس پڑھ لیں، لیکن ہمارے گھر میں لڑکیوں کے اسکول میں تھا ہی نہیں اور ہائی اسکول کے فوراً بعد اماں قطعی باہر بھیجنے کو راضی نہیں تھیں۔  ارے یہاں جو پڑھ رہی ہیں وہ گھاس کھود رہی ہیں کیا؟ان کی یہی ایک دلیل تھی۔  در اصل وہ اس پھیر میں تھیں کہ انٹر کے بعد قمر کی شادی ہو جائے گی۔  شادی نہ ہونے پر مجبوری میں گریجویشن کے لئے الٰہ آباد بھیجا۔  دور کی جگہ نوکری کے لئے نہیں جانے دیا۔  قمر نے نظریں اٹھا کر عمرانہ کو دیکھا اور سوچتی رہی کہ ماس کوم تو لکھنؤ میں ہے ہی نہیں۔  ایل ایل بی یہاں ہوتے ہوئے بھی رضوانہ علی گڑھ چلی گئی تو ان صاحبزادی کو تو باہر جانا ہی ہے۔  دلی جائیں گی اور کیا۔  کہیں بمبئی نہ چل دیں۔  اس کا دل جیسے ہچکولے کھانے لگا۔  بمبئی تو بھائی، ہمیں برداشت نہ ہو گا۔

رضوانہ نے علی گڑھ سے خط لکھا تھا۔

قمر کی جان جل گئی۔  کتنی بار کہا کہ انگریزی میں خط مت لکھا کرو۔  ٹھیک ہے، تمہاری ماں پڑھی لکھی ہے، انگریزی داں ہے، لیکن اگر اب ہم لوگ بھی آپس میں انگریزی استعمال کرنے لگیں تو اردو کا کیا ہو گا؟ ٹھیک کہتی ہیں انیس کی ماں کہ انگریز چلے گئے، تم لوگوں کو چھوڑ گئے۔  مارے غصے کی جی چاہا، خط واپس لفافے میں ڈال کے اسے بھیج دے، لیکن تجسس اور بیٹی کی محبت غالب آ گئی۔  ساری زندگی تو معاف کرتے کرتے ہی گزر رہی تھی۔  اس نے خط پڑھنا شروع کر دیا۔  مختصر ہی تھا۔  بس دو پیراگراف۔  آخر تک پہنچتے پہنچے قمر کے جسم میں کچھ سن سن کرنے لگا۔  تردد، گھبراہٹ، اندیشے۔  کیا بیٹوں کی پیدائش پر تھالی کٹورا پیٹنے اور بیٹیوں کی پیدائش پر منھ لٹکانے والے لوگ حق بجانب ہوتے ہیں؟ وہ کاغذ ہاتھ میں پکڑے، خلا میں دیکھنے لگی۔  رضوانہ نے لکھا تھا:

بمبئی کی ایک لا فرم میں بڑی اچھی ملازمت ملنے کے پورے امکانات ہو گئے ہیں۔  بس رسمیات پوری کرنی ہیں۔  وہ انٹرویو کے لئے بمبئی جا رہی ہے۔  بمبئی؟ اکیلے؟ اور اگر نوکری مل گئی تو کہاں رہے گی؟ کیسے رہے گی؟ علی گڑھ میں تو کالج کا اپنا گرلز ہوسٹل تھا۔  دوسرے کہیں تحت الشعور میں ایک موہوم سی امید تھی کہ وہاں مسلمان لڑکے بہت ہیں، شاید کہیں وکالت پڑھنے والے کو ہم پیشہ لڑکی پسند آ جائے، لیکن بمبئی

That big bad metro? اسے چکر سا آنے لگا۔

کس کا خط ہے؟ انیس نے قریب آ کر پوچھا۔ "فکر مند کیوں لگ رہی ہو؟ اس نے خط شوہر کی طرف بڑھا دیا۔

دماغ خراب ہو گیا ہے لڑکی کا۔  علی گڑھ جانے دیا تو اور پر نکل آئے۔  انیس سخت ناراض ہو اٹھا۔  مردوں کو شاید ایک ہی جذبے کا اظہار کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے، غصہ۔  نہ پریشانی نہ گھبراہٹ نہ محبت، لیکن کیا یہ ناراضگی محبت کا ہی مظہر نہیں تھی؟ محبت کا اور سروکار کا؟ لڑکی کے تحفظ کی فکر، اس کی عزت آبرو کی فکر، اس کا گھر بسانے کی فکر؟ پڑھ لکھ لیا، اس لائق ہو گئیں کہ ضرورت پڑے تو اپنے ساتھ چار اور لوگوں کی کفالت کر لیں۔  اب بھیا اپنے گھر بار کی ہو جاؤ، پھر جو جی چاہے کرو۔  قمر دل میں بکتی جھکتی رہی۔

ابھی ای میل اور فیس بُک کا زمانہ کچھ دور تھا۔  موبائل خال خال لوگوں کے پاس تھے، اس لئے رضوانہ نے اپنی دوست میرا کو بھی خط ہی لکھا جو لکھنو میں ہی تھی۔  رضوانہ کی ہم عمر تھی، لیکن دوسرے بچے کی ماں بننے والی تھی۔

میں نے مما سے کہہ دیا ہے، بمبئی جا رہی ہوں انٹرویو کے لئے۔  وہاں میرے ایک کلاس فیلو کے چاچا چاچی ہیں۔  دو دن ان کے یہاں ٹھہروں گی۔  اگر ملازمت مل گئی تو وہیں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کا انتظام بھی کرا دیں گے۔  مجھے معلوم ہے، پاپا گھوم گھوم کر مجھے اور مما دونوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں گے۔  مما دعائیں مانگیں گی۔  شاید منت بھی مان لیں کہ نوکری نہ ملی تو حضرت شاہ مینا کی درگاہ پہ جا  کے چادر چڑھا کے آئیں گی۔  پتا ہے میرا، مما پکی وہابی تھیں۔  وہابی تو نہیں جانے گی، بس یوں سمجھ لے، جو لوگ پیر فقیر دعا تعویذ وغیرہ میں یقین نہیں رکھتے، لیکن جب سے میں اور عمرانہ گھر سے باہر نکلے ہیں وہ یہ سب کرنے لگی ہیں، اپنی دانست میں پڑھی لکھی، میری روشن خیال ماں۔  قسم سے میرا، مجھے ان میں اور نانی میں خاص فرق نظر نہیں آتا۔

اچھا یہ بتا، اتنی جلدی دوبارہ کیسے پھنس گئی؟ اور اگر اس بار بھی بیٹی ہوئی تو کیا کرے گی؟ سنجے کا کیا خیال ہے؟ اس کی اماں نے پچھلی بار کتنا واویلا مچایا تھا۔  اس بار کہیں سنجے بھی اماں کے ساتھ مل کر تجھے پیٹے گا تو نہیں دوبارہ بیٹی پیدا کرنے پر؟

میرا نے جواب دیا-رشک آتا ہے تیرے اوپر۔  جا گھوم چھٹا سانڈ بن کے۔  رہا اماں اور نانی میں فرق، تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔  میری اماں بنارس ہندویونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے ہیں۔  پاپا کھانا کھاتے ہوتے ہیں تو گرم پھلکا پلیٹ میں ڈالتی ہیں، پھر بیچ سے آدھا کھایا پھلکا ہٹا کر، کہ ٹھنڈا ہو گیا ہو گا، دوسرا جلدی سے لا کے ڈالتی ہیں۔  بچا ہوا آدھا اٹھا کے اپنی پلیٹ میں رکھ لیتی ہیں، پھر بیٹھ کے وہ دو تین آدھے آدھے ٹکڑے پرساد سمجھ کے کھا جاتی ہیں۔

("پرساد سمجھ کے” میں کہہ رہی ہوں)

پیر فقیر تعویذ گنڈا کرتی گھومتی ہیں۔  تم مسلمان تو ہندوؤں کے سادھو سنتوں کے پاس جاتے نہیں، اماں تو سیدھی حضرت شاہ مینا کے یہاں پہنچتی ہیں۔  دلی گئی تھیں تو میری شادی سنجے سے ہو جائے اس کے لئے حضرت نظام الدین منت مان کے آئی تھیں۔  ان کی رینج زیادہ وسیع ہے۔  ہم کچھ نہیں مانتے ہیں، پھر بھی لگتا ہے کہ کہیں کچھ ہوا تو؟ ہم نے بھی منگل کو ہنومان مندر جانا شروع کر دیا ہے۔  اس بار بیٹا ہو جائے تو فیملی مکمل ہو جائے گی۔  جھنجھٹ سے بچیں گے، ورنہ ایک بار پھر …. بچے پل جائیں تو ہم بھی کچھ کریں۔  بڑا غصہ آتا ہے۔  اماں نے ماسٹرز کی ڈگری لی، لیکن ہمیں بی اے کا امتحان دینے سے پہلے بیاہ دیا کہ بڑے گھر کا انجینئر لڑکا مل رہا تھا۔  ہم ایسے گئے گزرے تھے؟ پھر نہ ملتا کیا؟ مگر چل، ٹھیک ہی ہے جو ہو رہا ہے۔  دوچار سال بعد ضرور ہم کچھ کریں گے۔  جا  تیرا کلیان ہو، تجھے نوکری مل جائے۔  بول تو جا کے ہم ہنومان جی سے تیرے لئے بھی پرارتھنا کر آئیں، مگر بڑی مشکل ہو جائے گی اگر قمر چاچی نے حضرت شاہ مینا کے یہاں جا کے دھاگا باندھ دیا۔  ہندوستان پاکستان والی Tussle ہو جائے گی۔  ہاہاہا! اور ہاں! بغیر ٹھوکے بجائے شادی کے لئے ہاں مت کیجیو۔  ایسی قسمت کم ہوتی ہے کہ سنجے جیسا میمنا مل جائے۔

(ویسے ماں جی آئی ہوئی ہوتی ہیں تو وہ بھی خاصا شیر بنا رہتا ہے۔)

قمر نے بیٹی کو لکھا- بیٹا، ہر چیز کا وقت ہوتا ہے۔  تعلیم ہو گئی۔  نوکری کہیں نہیں جائے گی۔  تم تو پریکٹس بھی کر سکتی ہو۔  لکھنو میں اچھے اچھے وکیل پاپا کی جان پہچان میں ہیں۔  اب شادی ہونی چاہئے۔  رشتے سامنے ہیں، ایک خوشگوار ازدواجی زندگی سے زیادہ سکون بخش اور کچھ نہیں۔  دھن دولت سے بھی زیادہ دل کا سکون اہم ہے۔  ساری تحقیقیں، سارے سروے اسی مغرب سے آتے ہیں جس کی تعلیم سے تم متاثر ہو، تو تم نے پڑھا ہی ہو گا کہ کئی سروے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ کنوارے، طلاق شدہ اور رنڈوے شادی شدہ لوگوں کی بہ نسبت کم عمر پاتے ہیں۔  کبھی سوچا کہ کیوں؟ اس لئے کہ جوڑا بنا کر رہنے میں جو طمانیت قلب ملتی ہے وہ عمر تک بڑھا دیتی ہے۔  چھوٹے چھوٹے جھگڑے، اونچ نیچ، سب کے باوجود۔  تو بیٹا، گھر آ جاؤ، ہم نے سوچا تھا، ہماری شادی دیر سے ہوئی، ہم بیٹی کی شادی وقت سے کریں گے۔  تم ہم سے زیادہ

Privileged Position پر ہو۔  دیر تم خود کرا رہی ہو۔  ایک تو تمہاری یہ وکالت….

رضوانہ نے یہاں تک پڑھ کر خط اٹھا کر کتاب تلے دبا دیا۔

کتنا بولتی ہو ممی! کتنا دماغ چاٹتی ہو۔  انٹرویو ہو چکا تھا اور نہایت تشفی بخش۔  اس نے انگڑائی لی اور میرا کو پھر خط لکھنے بیٹھ گئی۔

مما ادھ کچری معلومات لے کر میرا دماغ خراب کرتی رہتی ہیں۔  ان سے کوئی پوچھے، ان کی ازدواجی زندگی کتنی خوشگوار گزری؟ وہ خوشگوار کسے کہتی ہیں؟، مجھے دل کے لائق لڑکا ملا تو کیا شادی نہیں کروں گی؟ بمبئی جانے اور مردوں کے بیچ مردوں والی نوکری کرنے کو وہ ویمینز لب قرار دے رہی ہیں۔  میں کیا بمبئی کے ساحل پر ننگی ہو کر دوڑ لگانے والی ہوں؟ میرا ارادہ اپنی برا جلانے کا بھی قطعی نہیں ہے۔  براسے سپورٹ پا کر فگر اور خوبصورت ہو جاتا اور سیکسی لگتا ہے۔  مماسے کہوں؟ ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔  ہاہاہا! اور مما کو ایک بات سے اور ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔  میں سمیر کے ساتھ پکچر دیکھنے گئی تھی۔  سمیر نام مسلمانوں میں بھی ہوتا ہے، لیکن وہ تیرا جات بھائی ہے۔  ہندو تو ہے ہی، برہمن بھی ہے۔  مزید ہا ہا ہا! لیکن تو بھی ایسی ویسی بات نہ سوچنا۔  میرا ارادہ تیری بھابی بننے کا قطعی نہیں ہے۔  مما کی سمجھ میں کسی لڑکے اور لڑکی کی ایسی دوستی ہرگز نہیں آئے گی جس میں وہ ….ارے وہی …. مرد عورت والا معاملہ نہ ہو۔  سمیر اور میں اچھے دوست ہیں۔  ویسے وہ بھی کہہ رہا تھا کہ ماں کو فون کر کے کہہ دوں کہ رضوانہ کے ساتھ ایک بیہودہ سی انگریزی فلم دیکھ کر آیا ہوں تو واویلا مچا کے رکھ دیں گی۔  لونڈیوں کے ساتھ گھومنا ہوتا ہے، وہ بھی میاں مسلمان! وہ ویجیٹیرین ہیں۔  کرم کانڈی سناتن دھرمی! بسنت کی خبر نہیں۔  بیٹا ایک بار اشوکا میں جا کے بیف کھا کے آیا تھا۔  ایک نمبر کا حرامی! اور ہاں، انہوں نے الٰہ آباد سے ہندی میں آنرز کیا ہے۔  مہا دیوی ورما کی فین ہیں۔  ارے یار، یہ مہا دیوی ورما کون ہیں؟ ذرا میں بھی پڑھ کے دیکھوں۔  کبھی ملاقات ہوئی تو کامن ٹاپک تو ہو گا بات کرنے کو۔  ارے جاہل کی بچی! بچے کی جنس تو حمل ٹھہرتے ہی طے ہو جاتی ہے۔  اب یہ تو ہنومان جی سے کیا پرارتھنا کرتی گھوم رہی ہے؟ وہ کیا کریں گے؟ لنگوٹ دھاری، برہمچاری۔  انہیں کیا، تو بیٹی جن کہ بیٹا۔

میرا نے جواب میں لکھا-سمیر وہی نا جو ابھی یو پی ایس سی کی تیاری کر رہا ہے؟ تو اس کا نام پہلے بھی لے چکی ہے۔  ہونے والی ساس کے بارے میں خاصی معلومات اکٹھا کر رکھی ہیں۔  اچھی بہو بنے گی۔  زیادہ دقت نہیں ہو گی۔  بیٹی لانا آسان ہوتا ہے، بیٹی دینا مشکل۔  سبھی جاتوں برادریوں میں۔  قمر چاچی اور انیس چاچا کو زیادہ دقت ہو جائے گی یہ سوچ کے رہنا۔  سمیر کی اماں تیرے منھ میں پنچا مرت ڈال کے شدھی کرائیں گی۔  ذرا دھیان رکھنا، گوبر اور گو موتر بھی پنچا مرت میں آتے ہیں اور مہا دیوی ورما کو تو کیا سمجھے گی، انہیں تو میں بھی نہ سمجھ پائی۔  ہاں! اپنی ہم نام میرا کو جانتی ہوں – جو میں ایسا جانتی پریت کے دکھ ہوئے، نگر ڈھنڈورا پیٹتی مت پریت کریو کوئے۔

تیری تو ایسی کی تیسی- رضوانہ نے ہنس کر خط تہہ کر کے چائے کے کپ سے دبا کر میز پر رکھ دیا۔  وہ انٹرویو میں کامیاب رہی تھی۔  فرم نے جواب دیا تھا کہ تھرڈ ایئر مکمل ہونے کے بعد وہ وہاں آ کر جوائن کر سکتی ہے۔  وہ بے حد خوش، کامیابی کے نشے میں سرشارعلی گڑھ واپس آئی تھی اور تندہی سے پڑھائی میں جٹ گئی تھی۔  میرا بائی! تمہارے وقت میں لڑکیاں وکالت نہیں پڑھا کرتی تھیں ورنہ زہر بھیجنے والے رانا جی کا گلا دبا دیتیں۔  تمہیں عشق حقیقی پریشان کرتا نہ عشق مجازی۔  مزے سے ہماری طرح دندناتی پھرتیں کہ ہم صرف اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں۔  ارے ذرا رکو تو! ہاں، تھوڑا مما سے، ذرا سا پاپا سے، تھوڑاسا اس عمرانہ کی بچی سے اور ایک پاؤ بچا کے رکھا ہے۔  اس میں نانی دادی اور میرا کا حصہ ہے اور اس بیہودہ سمیر کا بھی، مگر ابھی ہمیں ایسا عشق کسی سے نہیں ہے کہ ہم کہیں، پریت کئے دکھ ہوئے۔  اس نے خوشی سے کلکاری مارکر بستر پر ایک لوٹ لگائی اور قانون کی موٹی سی کتاب تھپ سے بند کی جو وہ دیر سے پڑھ رہی تھی۔

اس دن قمر سارے دن اتنا پریشان رہی تھی کہ شام کو اسے سر درد کی گولی کھانی پڑی۔  انیس آفس سے ابھی نہیں آیا تھا۔  اس نے چائے کے برتن ٹرے میں لگائے، ناشتے کا انتظام کیا اور اون سلائیاں اٹھا کر آرام کرسی پر نیم دراز ہو گئی۔  انیس کا سوئٹر نصف مکمل ہو چکا تھا۔

جاڑوں کی آمد آمد تھی۔  فضا میں بڑی پیاری سی خنکی تھی اور گلابی جاڑوں کی خوشبو۔

جاڑوں کا اگر رنگ ہو سکتا ہے تو یقیناً ان کی خوشبو بھی ہو سکتی ہے۔  وہ ذہنی پراگندگی کے باوجود مسکرا پڑی۔  ہاں! خوشبو ہوتی تو ہے۔  ہرے دھنیے کی، تازہ ہری سبزیوں کی جو گرمیوں میں عنقا ہو جاتی ہیں، رات بھر پک کر صبح صبح تیار ہونے والی نہاری کی، بھوبل میں بھنتی شکر قندیوں کی اور رنگ و بو ہی نہیں، جاڑوں کی تو آواز بھی ہوتی ہے۔  کڑک کڑک کر کے دانتوں تلے ٹوٹتی گزک اور ریوڑیوں کی، مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کی، گہراتی شام میں دور بجتے کسی درد بھرے نغمے کی، ٹھنڈی یخ راتوں میں سرسر کر کے آتی ہوا کی اور بزرگوں کی شفقت بھری ڈانٹ کی کہ سرڈھکو، سر سے ٹھنڈ زیادہ اثر کرتی ہے اور اس پر بچوں اور نوجوانوں کی ہی ہی ٹھی ٹھی کی، کہ کہاں کی ٹھنڈ، کون سی ٹھنڈ۔

اس کا دل یکلخت ایک بے وجہ اداسی سے بھر اٹھا۔  جاڑوں کا رنگ گلابی تھا، لیکن آس پاس آوازیں نہیں تھیں۔  آوازیں تو انسانوں سے ہوتی ہیں۔  وہ قلقل مینا جیسی ہنسی کہاں تھی؟ دادی کی کہانیاں کہاں تھیں؟ ان کی حماقت بھری باتوں اور کبھی کبھی کی بے جا ڈانٹ کے باوجود ان کے سایہ دار وجود کا احساس کہاں تھا؟بچے کہاں تھے اور جوان کہاں غائب ہو گئے تھے؟

انیس کے کبھی کبھار آ نکلنے والے والدین اب زیادہ بوڑھے ہو کر گاؤں میں ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے۔  ابا کا انتقال ہو چکا تھا۔  اماں کو تو بیٹی کے یہاں کا پانی پینا بھی گوارا نہیں تھا۔  ایک دو بار دو چار روز کے لئے آئی تھیں کہ عزیز از جان بیٹی کو گھر، شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش دیکھ لیں۔  دیکھ لیا۔  بس، اب ملنا ہے تو قمر جا کے مل آئے۔  وہ تو بیٹوں تک کے گھر جا کے رہنے کو تیار نہیں تھیں، بس زچگی جاپے نمٹا دیتیں، ہفتہ دس دن یوں بھی جا کے رہ آتیں کہ بیٹوں کے یہاں بار بار جانے یا ہفتہ دس دن رہ آنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔  کس سے کہے اور کیا کہے۔  رضوانہ نے بے حد سمجھانے اور باپ کے ناراض ہونے کے باوجود بمبئی جا کر ملازمت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔  ویسے انیس کے زیادہ ناراض ہونے پر اس نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ وہ کوشش کرے گی کہ بمبئی چھوڑ کر دلی یا پھر (بادل نخواستہ) لکھنؤ آ جائے، لیکن فی الحال تو جوائن کرنا ہی ہے۔  کسی دوست کی معرفت ایک کنبے میں پیئنگ گیسٹ بن کر رہنے کا انتظام بھی کر لیا تھا۔  یہ ایک پارسی کنبہ تھا۔  ادھیڑ سے کچھ آگے بڑھتی عمر کے والدین اور ان کی پانچ اولادیں، جن میں دو جوان لڑکے تھے۔  قمر نے جس دوست کی معرفت کا ذکر کیا تھا وہ خود بھی لڑکا ہی تھا۔  سمیر، للہ جانے ہندو تھا کہ مسلمان۔  اب یہ نام ایسا دو رخا ہے کہ کچھ پتا نہیں چل رہا۔  کاش کوئی اچھا مسلمان لڑکا ہو۔  لڑکے کی معرفت اس نے مدد کی بات تو کی، لیکن اس کا نام قمرانیس سے چھپا لے گئی تھی۔  کہہ دیا، رضوانہ کا خط کہیں گم ہو گیا ہے۔  یہ رضوانہ اتنی ضدی کیوں ہے؟ ضدی اور بدتمیز۔  کیا میری پرورش میں کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے؟ سوچتے اور کرسی آگے پیچھے جھلاتے ہوئے قمر نے آنکھیں بند کر لیں۔

اماں میرے لئے بھی یہی کہتی تھیں کہ میں ضدی اور بدتمیز ہوں۔  شاید خود سے یہی سوال بھی کرتی ہوں گی کہ کیا ان کی پرورش میں کہیں کوئی غلطی ہوئی تھی۔  میں نے بی ایڈ کرنے کی ضد کی تھی، بی اے کے بعد گھر بیٹھے رہنے سے انکار کیا تھا، بال کٹوا دئے تھے، ایک موٹے لڑکے سے، جو اماں ابا کے حساب سے باقی اور پہلوؤں سے صحیح میچ تھا، شادی سے انکار کیا تھا، شلوار کی مہریاں تنگ کی تھیں اور قمیص کا گھیر کم کر کے آستینیں اڑا دی تھیں اور ٹیڈی تو نہیں، لیکن لگ بھگ ٹیڈی لباس پہنا تھا۔

قمر یکلخت ہنس پڑی۔  ایک بار وہ چھٹیوں میں گھر آئی تو اس نے جھاڑ پونچھ کر سلائی مشین نکالی۔  تیل ڈال کر اسے دن بھر کو چھوڑ دیا۔  اماں خوش ہوئیں کہ بیٹی کچھ سلائی پرائی کرنے جا رہی ہے۔  کافی دن سے کہہ رہی تھیں کہ بھائیوں کے لئے پاجامے سی دے، لیکن دوسرے دن قمر قینچی اور اپنے کئی جوڑے لے کر بیٹھی تو بڑی ٹیڑھی ٹیڑھی نظروں سے اماں نے اسے دیکھا۔

"اوئی بیوی، کیا کرنے جا رہی ہو؟ میں تو سمجھی، نیا کچھ سینا ہے۔”

"اماں، ہمارے کپڑے بڑے جھولا جیسے ہیں۔  شلوار کے پائینچے اتنے چوڑے نہیں پہنے جا رہے ہیں۔  ہمیں بڑی خفت ہوتی ہے۔  قمیصیں بھی اتنی لانبی چوڑی نہیں رہ گئیں۔”

"تو….؟”

تو کیا اماں؟ کاٹ کے شلوار کی مہریاں ذرا کم کر دیں گے اور قمیصوں کو بھی چھانٹ دیں گے اور اماں، اب ہم دو جوڑے کپڑے الٰہ آباد میں درزی سے سلوائیں گے۔  تم ہمارے کپڑے سیتی ہو یا ہم خود سیتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ گھر کے سلے ہوئے ہیں، فٹنگ کا نام نہیں۔

جو جی چاہے کرو، بس آپے میں رہنا۔  لباس میں ننگا پن نہ آئے، ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔

قمر نے غصے میں قینچی پٹخی-ہر چیز میں الٹا ہی سوچتی ہو۔  اب ننگا پن کہاں سے آ گیا؟

ہاں، دیکھا نا ننگا پن۔  سنا، بغیر آستینوں کی قمیصیں پہنی جا رہی ہیں اور ساڑی کے بلاؤز بھی۔

قمر غصہ بھول کر سناٹے میں آ گئی۔  ایک قمیص کی آستینیں اس نے بھی اڑا دی تھیں۔  اچھی طرح چھپا کر رکھنا ہو گا۔  یہاں پہننے کا تو سوال نہیں، لیکن بھنک نہ لگے کہ الٰہ آباد میں پہن رہی ہے۔  کانووکیشن کے موقعے پر ایک سہیلی سے مانگ کر لپ اسٹک لگا لی تھی اور اماں کے سامنے اس کا ذکر کر دیا تھا کہ سہیلیوں نے کہا، قمر لپ اسٹک لگا کے بہت اچھی لگ رہی ہے، تو اماں ہول گئیں کہ کنواری لڑکی اور لڑکوں کے بیچ میں ہونٹوں میں لالی لگا کے گھومی!

ہم نہ جانے کتنی باتوں سے نظریں چراتے رہے۔  لڑکیوں نے جینز پہننا شروع کی۔  انگریزی اسکولوں میں ویسے بھی یونیفارم اسکرٹ بلاؤز ہی تھی۔  پلس ٹو تک اٹھارہ برس کی لڑکیاں اسکرٹ بلاؤز پہن کر جاتی رہیں۔  لڑکیاں لڑکوں سے گھل مل کر بات کرتی تھیں، لیکن ہم نے ہائے ہائے نہیں مچائی۔  اب تو لڑکے لڑکی کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔  ایک ہم تھے بغل میں لڑکا آ کے بیٹھ گیا تو جلدی سے سمٹ گئے۔  معلوم ہو کہ کھا ہی تو جائے گا۔  اب لونڈوں سے ابے تبے کر کے باتیں ہو رہی ہیں۔  ہم سمجھتے تھے، اماں کم پڑھی لکھی ہیں، ہم پڑھ لکھ گئے ہیں، انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے پرابلم ہو جاتا ہے، مگر ہمارے لئے جو چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں وہ اماں کے لئے بڑی تھیں اور جو باتیں آج ہمیں بڑی لگ رہی ہیں وہ ہماری بیٹیوں کے لئے چھوٹی ہیں۔

رضوانہ کہتی ہے -دلی اور لکھنو میں فاصلہ ہے ہی کتنا اور ممی، ہم دو لڑکیوں کے ساتھ فلیٹ لے کے رہ رہے ہیں۔  ذرا پیسے آ جائیں، پھر موبائل لے لیں گے، جب چاہنا بات کر لینا۔  اتنا ہولتی کیوں ہو؟

ہولیں کیوں نہیں؟ پھر وہی دلی، big bad metro

رضوانہ کے فائنل امتحان ختم ہونے اور بمبئی جا کر ملازمت جوائن کرنے کے درمیان کوئی پندرہ بیس دن کا وقفہ تھا۔  لڑکی اس وقفہ میں گھر آ رہی تھی۔  ایک آخری کوشش کر لی جائے گی۔  ارے بھائی، وکالت پڑھ لی، اب کچھ دن گھر میں رہ لو۔  یہیں پریکٹس کر لینا۔  کسی وکیل سے اٹیچ ہو جانا۔  گرچہ یہ وکالت کی پریکٹس نہایت گڑبڑ معاملہ تھا، پھر بھی بمبئی جا کر اکیلے رہ کر کسی لا فرم میں نوکری کرنے کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔

چائے کی پیالی قمر کے ہاتھ میں کانپنے لگی۔  کیا رضوانہ سنے گی؟ کیا اپنے کریئر کے مقابلے میں والدین کے جذبات اور ایک ایسا مستقبل جس میں شادی از حد ضرور ہو، اسے منظور ہو گا؟

ماں کی طویل گفتگو رضوانہ نے خاموشی اور صبر کے ساتھ سنی، اتنے صبر سے کہ قمر کو حیرت ہونے لگی کہ یہ وہی رضوانہ ہے؟ ذرا خیال آیا کہ اس کی طبیعت تو خراب نہیں؟ شاید سست ہو رہی ہے۔  وہ نہ کسی دلیل پر جھنجھلائی، نہ جواب دیا۔  اطمینان سے ناخن گھس کر، ہاتھ پھیلا کر مخروطی نازک انگلیاں تکتی رہی۔  جب قمر خاموش ہو گئی تو اس نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا:

مما تمہاری یہ اس ریکارڈ پر اٹکی سوئی جگہ سے کبھی ہٹے گی یا نہیں؟ اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔  کچھ دیر بعد باہر نکل کر اس نے اعلان کیا

ہم جا رہے ہیں میرا سے ملنے۔  دوپہر کا کھانا اس کے ساتھ کھائیں گے، مگر شام کے لئے کچھ انتظام کر کے مت رکھنا، آج پورا ڈنر ہم بنائیں گے۔  آج تم آرام کر لو۔  خدا حافظ۔  -اس نے ماں کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا، پرس جھلاتی باہر نکل گئی۔

میرا انتظار ہی کر رہی تھی، دوڑ کر لپٹ گئی۔  اچانک رضوانہ بڑے زور سے چونکی۔

اری میرا، تیرا تو ساتواں آٹھواں مہینہ ختم ہونے پر ہونا چاہئے تھا۔  کیا ہوا؟ یہ….یہ…. اس نے بڑی پریشانی کے ساتھ میرا کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

صبر، رضوانہ، ذرا صبر! میرا نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

خیریت ہے۔  ذرا دم لے لے اور بیٹھ۔

رضوانہ بیٹھ گئی۔  اس کا چہرہ متردد تھا

"تین مہینے ہوئے کہ میں نے ایم ٹی پی کرا دی۔  چوتھا مہینہ تھا۔”

"ایم ٹی پی کرا دی، کیا مطلب؟” رضوانہ نے مزید پریشان ہو کر پوچھا۔

"الٹراساؤنڈ کرایا تھا۔  بیٹی تھی۔”

"تیرا دماغ خراب ہو گیا تھا کیاری میرا؟” رضوانہ سکتے کی کیفیت میں تھی۔

"ساس اور شوہر دونوں کا دباؤ تھا۔”

"اور تو دباؤ میں آ گئی؟ پڑھ لکھ کر گدھے پر لاد دیا؟”

رضوانہ بے حد خفا تھی۔ "تجھ سے اچھی تو میری مما ہیں۔  ایک جنریشن پہلے انہوں نے دو بیٹیاں پیدا کر کے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے، بیٹیاں سہی، لیکن اب اور نہیں۔  تو بھی تو یہ کر سکتی تھی یا زیادہ سے زیادہ ایک تیسری بار ٹرائی کر لیتی۔”

"شاید قمر چاچی پر اتنا دباؤ نہیں پڑا تھا۔  تمہارے پاپا کا کوئی بزنس ایمپائر بھی نہیں تھا جس کے لئے لڑکے کی چاہ حد پار کرتی اور پھر ہمارے یہاں یہ مکھ اگنی والا چکر بھی تو ہے۔  منھ میں آگ نہیں دی تو موکش نہیں ملے گا۔”

"اور اگلی بار بھی کوکھ میں بیٹی آئی تو؟”

"دیکھتی ہوں، کتنی بار اور ابارشن کرائیں گے۔  ایک بار کے لئے اور رضا مند ہو جاؤں گی اور وہ آخری بار ہو گا۔  پھر بھی بیٹی ہو تو ہو۔”

"ایک بار اور؟میرا، تیری تو امیج خراب ہو رہی ہے۔  میں تو تجھے بڑا آئیڈیل مانتی تھی۔”

میرا ہنسی۔ "اس” اہروا”کے fiasco کے بعد بھی؟”

"وہ بات اور تھی۔  تو نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ اس اہروا کے ساتھ تیرا کوئی فیوچر نہیں ہے، پھر گھر والوں کو کیوں ناراض کیا جائے۔  گھوم پھر کے، تفریح کر کے واپس آ گئی تھی کھونٹ پر۔  سچ میرا، اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔”

ایک زمانہ تھا، میرا کو چار گھر آگے والے پڑوسی کا بیٹا بہت پسند ہوا کرتا تھا۔  رہی پڑوسی کے بیٹے کی بات، تو وہ تو یہاں تک کہہ رہا تھا کہ میرا تیار ہو تو وہ خاموشی سے نکال لے جائے گا، پھر شادی کر کے آ کے بڑوں کے پیر چھولیں گے، لیکن میرا کو معلوم تھا، لڑکا یادو تھا، ان کے گھر میں اماں کے حساب سے کوئی بھی بات گڑبڑ ہوتی تو اماں پھٹ سے کہتی تھیں۔

"ہیں نا اہیر، بھینس چرانے والے! تمیز کہاں سے آئے گی؟ افسر بن گئے تو کیا اور دے گورنمنٹ ریزرویشن۔  نا اہل آن آن کے کرسی پہ بیٹھ رہے ہیں۔” اور تو اور، ایک بار ٹرین بہت لیٹ ہو گئی تو اماں نے کہا کہ:

"یہ کم ذات نیچ ذات بڑے عہدوں پر چڑھے بیٹھے ہیں، ہر محکمے کا بھٹہ نہ بیٹھے تو کیا ہو۔  کوئی کھٹک، کوئی اہیر ریل ہانک رہا ہو گا۔  اب چلا رہا ہے اسے بھینسا گاڑی کی طرح۔”

میرا ناراض ہونے کے باوجود ہنسی کے مارے لوٹ گئی تھی۔  تصور کیا کہ ریل کے آگے بھینس جتی ہوئی ہے۔  ارے، یہاں تو ملک کے آگے ہی بھینس جتی ہوئی ہے۔  چل رہا ہے ہچر مچر۔

ان دنوں رضوانہ بڑی پریشان رہا کرتی تھی۔  جانے میرا پہ کیاری ایکشن ہو، لیکن میرا بہت جلدی سنبھل گئی تھی۔  کچھ گھر والوں کو بھی سمجھ میں آ رہا تھا، اس لئے اتنی تندہی سے رشتہ لانے میں جٹے اور یوں پھٹ سے شادی طے کی کہ گریجویشن تک پور انہیں ہونے دیا۔  میرا کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا، پھر خوش بھی رہی۔  شوہر اچھا ملا تھا۔  گھر والے بھی ٹھیک تھے، لیکن ابھی جو حال میں میرا نے خط میں لکھا تھا کہ اپنی ہم نام میرا کو جانتی ہوں جو کہہ گئی تھی۔  جو میں ایسا جانتی …. تو رضوانہ کو کہیں کچھ کھٹکتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔

"میرا، سچ بتانا، کیا تو سیریس تھی؟”

"پرانی بات ہو گئی، چھوڑ اسے۔  وہ بتا، وہ میرا جات بھائی، وہ کہاں تک پہونچا؟” میرا نے بات پلٹ دی۔

"مائی فٹ، میرا! اب تو بھی؟” پھر وہ یکلخت خاموش ہو گئی۔

اسے ایک بار رنجنا سریواستو نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کے حلقے میں ایک بڑا اسمارٹ سامسلمان لڑکا تھا، سلمان قریشی۔  وہ کہہ رہا تھا۔

"یار مجھے رضوانہ بہت پسند ہے، لیکن کیا کروں۔  She is "Sameer’s gal” رضوانہ بہت خفا ہوئی۔

پھر دو ایک بار وہ سمیر کے گھر جا نکلی تھی تو اس کی ممی ملیں تو خندہ پیشانی سے، لیکن بیٹے سے بولیں:

"ذرا سنبھل کے چلنا۔  لڑکی مسلمان ہے، گھر تک چلی آ رہی ہے۔  ہمیں تو گھبراہٹ ہو رہی ہے۔”

"کیوں اماں، آئی ایس آئی کی ایجنٹ لگ رہی ہے جو گھبراہٹ ہو رہی ہے؟”

"اوندھی کھوپڑی تیری! ارے بات آگے مت بڑھا۔  رشتہ توڑو تو دکھ ہووے، جوڑو تو جگ ہنسائی۔”

"اس رشتے سے آگے کچھ سوجھتا ہے اماں؟ ایک رشتہ دوستی کا بھی تو ہوتا ہے۔”

"لڑکے لڑکی میں کوئی دوستی نہیں ہوتی۔  سلام دعاسے آگے ہو رہا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو بھگوان نے گڑھا ہے۔  استری پرش کا رشتہ۔  ہم کوئی جاہل جھپٹ نہیں ہیں، پڑھے لکھے ہیں۔”

"پڑھ لکھ کے گدھے پہ لاد دیا۔”سمیر منھ ہی منھ میں بھنبھنایا اور آ کے پورے ڈائیلاگ رضوانہ کو سنائے۔  خوب ہی تو ہنسا۔  پھر چڑانے کے لئے بولا:

"تو رجوانہ ڈارلنگ آگے کیوں نہ وہی رشتہ ہو جائے جو بھگوان نے گڑھا ہے، استری پرش کا رشتہ؟” (سمیر کی ماں رضوانہ کو رجوانہ کہتی تھیں۔)

"چپ کیوں ہو گئی؟” میرا نے پوچھا۔

"کچھ نہیں، سوچ رہی تھی کہ سمیر کی ماں میں اور تجھ میں کیا فرق ہے؟ مردوں اور عورتوں کے درمیان افلاطونی دوستی کا تصور ابھی تک ہندوستان میں پیدا نہیں ہو سکا ہے۔” اس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔

"پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں!” میرا مسکرائی۔ "میری ایک بنگلہ دیشی فرینڈ ہے ….”

رضوانہ نے بات کاٹ دی۔ "ایک ہی گھر میں لوگ رہ رہے ہوں اور دیواریں اٹھا کر آنگن بانٹ دو تو لوگ بدل جائیں گے کیا؟ سارا کچھ تو ایک ہی ہے۔  جب بات کرو اس میں پاکستان گھسادے گی، بنگلہ دیش کو لے آئے گی۔  بجرنگی ہو گئی ہے کیا؟ یا دُرگا واہنی میں شامل ہو گئی ہے؟” رضوانہ اور زیادہ خفا ہوئی۔

"بجرنگی” پر میرا زور سے ہنسی۔ "کیا اب ہم پالیٹکس ڈسکس کریں گے؟”

"بالکل نہیں کریں گے، اس لئے کہ ہم اتنے دن بعد اس کے لئے نہیں ملے ہیں، لیکن میرا، اس بار میں نے پاکٹ منی سے بچا بچا کے دو کھلونے خریدے تھے۔  میرا بیگ دیکھ۔  ایک تیری بٹیا کے لئے اور دوسرا ہونے والے بچے کے لئے۔  تیرا پیٹ دیکھ کر تو میں سناٹے میں آ گئی۔  تو نے اس کی اطلاع بھی نہیں دی تھی۔  سچ بتانا میرا، کوئی  guilt feeling نہیں ہوئی؟ صدمہ نہیں ہوا؟”

"رضوانہ، زخم مت کرید۔  ہم نے کچھ سوچ کر جیسے نیرج یادو کو چھوڑا تھا، اسی طرح اس بچے کو بھی، اور بچہ کہنا نہیں چاہئے۔  وہ صرف ایک foetus تھا۔” پھر قدرے توقف کے بعد بولی:

"تجھ سے تو بہت پرانا رشتہ ہے۔  تیری نانیہال میں ہی تو ممی کے چاچا تھے جن کے یہاں چوتھی بیٹی ہوئی تو دادی نے شروع ہی سے دھمکی دینی شروع کی تھی کہ اگلی بار بیٹی ہوئی تو وہ چاچا کی دوسری شادی کرائیں گی، لیکن چلو، ماما ہو گئے، ونئے ماما۔  چھٹی اولاد پھر بیٹی ہی ہوئی۔  دادی کا اصرار تھا کہ کم از کم دو بیٹے ضرور ہوں۔  خیر چلو، ایک تو آ گیا تھا منھ میں آگ لگانے والا، اس لئے ممی کی چاچی بچ گئیں۔  اب میں تو پانچ اور چھ کی لائن لگانے سے رہی۔”

رضوانہ ہنسی: "ممی جب میکے کے قصے سناتی ہیں تو اس میں دو بہت دلچسپ کردار ہوتے ہیں ؛ ایک پگلی جمادارن اور ایک امیرن خالہ۔  کہاں کے لوگ کہاں مل جاتے ہیں! تیری ممی کی چاچی کو مما شکلائن چاچی کہا کرتی تھیں۔  ان کی چوتھی بٹیا پر پگلی جمادارن نے بڑے تاسف کا اظہار کیا تھا۔”

میرا بھی ہنسی۔ "چوتھی بیٹی پیدا کرنے والی عورت ہے ہی اس لائق کہ مہترانی بھی اس پر ترس کھائے۔  72میں ابارشن کو قانونی اس لئے بھی بنایا گیا کہ لوگ لڑکے کی چاہ میں لڑکیوں کی لائن لگاتے چلے جاتے ہیں۔”

"اور ہم اکیسویں صدی میں داخل ہونے والے ہیں!” رضوانہ نے لقمہ دیا۔

"مگر ہم جی رہے ہیں اٹھارہویں صدی میں۔  اسے نہ تم بدل سکتی ہو نہ میں۔”

"میں تو بدل لوں گی۔  تو شاید ڈرپوک ہے۔  تیری بیٹی بدلے گی۔” رضوانہ کے لہجے میں سرزنش تھی۔

میرا زور سے ہنسی۔ "تیری برادری تو اور بیک ورڈ ہے۔  ایک تو ہی bondبنی پھر رہی ہے۔  ہاں، ابھی تیرے یہاں دلہنیں جلائی نہیں جا رہی ہیں اور ذات کو لے کے بھی اتنا رَولا نہیں مچتا۔”

"ہاں، دلہنیں جلائی نہیں جاتیں، یک طرفہ طلاق دے کر گھر بھیج دی جاتی ہیں کھڑے گھاٹ۔  تین طلاق کو لے کے تم جتنی نکتہ چینی کر لو، لیکن یہ فائدہ ضرور ہے کہ جان بخش دی جاتی ہے۔  اب اگر کسی لائق ہو تو کھا کما لو۔  زیادہ خوش قسمت ہو تو دوسرا بھی شاید مل جائے ورنہ اماں ابا پر بوجھ بنو، بھائی بھاوج کی چاکری کرو، جوتیاں بھی کھاؤ۔  رہی ذات، تو اشرافیہ کی چار ذاتوں سید، شیخ، مغل، پٹھان پر اتنا رَولا نہیں مچتا۔  سید کی بیٹی جلاہا گھر لا کے دیکھے تو سہی!”

"پھر بھی ذات کو لے کر honour killing نہیں ہے۔  جلا کر مار دینے سے تو یہ option بہتر لگتا ہے۔  عورت جاہل ہوئی تو جھاڑو برتن کرے گی۔  مری نہیں تو کسی طرح جی لے گی۔  زندگی ہر حال میں موت سے اچھی لگتی ہے۔”

"لوگ خود کشی بھی تو کرتے ہیں۔”

"کٹھ حجت وکیلنی! خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ ویسا extremeحالات میں کبھی کبھی ہی ہوتا ہے، اور یہ لوگ نارمل نہیں رہ جاتے جو اپنی جان لے لیتے ہیں، سمیر خودکشی کی دھمکی دے رہا ہے کیا؟” اس نے خفا ہو کر کہا۔

رضوانہ قہقہہ مار کے ہنسی: "مما جاننا چاہ رہی تھیں کہ وہ مسلمان ہے کہ ہندو۔  ہم صفا ٹال گئے، اس لئے نہیں کہ ہندو کہنے پر ہمیں کوئی جھجھک تھی، مگر مما کا suspense قائم رکھنے میں بڑا مزہ آ رہا ہے۔”

"رہی بدتمیز کی بدتمیز! بیچاری قمر چاچی۔”

"ارے ہم تو بہت شریف ہیں۔  بالکل مما، بلکہ نانی کی جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں۔  اصل تو وہ عمرانہ بم پھوڑنے والی ہے۔  وہ انوراگ کا معاملہ ذرا سیریس ہوتا جا رہا ہے۔”

میرا کھانا لگوانے کے لئے اٹھنے لگی تھی۔  اس نے چلتے چلتے ذرا زور سے کہا: "ہمیں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔  جب پچھلی بار عمو سے ملے تھے تو اس کے پاس انوراگ کے علاوہ کوئی ٹاپک ہی نہیں تھا۔  عزیز کے یہاں سے مٹن دو پیازہ منگوا  لیا ہے اور مٹر پلاؤ خود بنایا ہے۔  چلے گا؟”

"دوڑے گا، دوڑے گا۔”

میرا کھانے کی بہت شوقین تھی۔  اس کے اپنے گھر میں سب لوگ سبزی خور تھے، لیکن سسرال میں مرد گوشت کھاتے تھے۔  شادی سے پہلے میرا چکھ چکی تھی، لیکن گھر میں کسی سے بتایا نہیں تھا۔  وہ جب بھی قمر چاچی کے یہاں آتی اور بریانی پکی ہوتی تو گوشت کی بوٹیاں ہٹا کر چاول لے کر کھایا کرتی تھی، پھر سووایک دن دھیرے سے اس نے ایک چھوٹا سا ٹکڑا مٹن کا بھی لیا۔  بھر پیٹ بریانی کھا کر بولی: "چاچی، پتا نہیں یہ vegetarianismکہاں سے آ گیا۔  اب دیکھو نا، اتنی مزیدار چیز سے اتنے لوگ محروم ہیں۔  ہماری اماں تو پریشان رہتی ہیں کہ ہم آپ کے یہاں ہر وقت بیٹھے رہتے ہیں، ضرور گوشت کھا کے آئیں گے۔  آریہ تو گوشت کھایا کرتے تھے۔”

"آریہ تو پتا نہیں کیا کیا کھاتے تھے، لیکن تو تو چپ ہی رہ!” قمر ہنس پڑی۔

"ہمارا مطلب یہ چاچی کہ یہ ساری food habits ہیں، ان کا دھرم سے کیا لینا دینا ہے؟ اگر ہے تو انسانوں نے ہی جوڑا ہے۔”

"تجھے گوشت کھانا ہے تو کھا، بکرے کیوں گن رہی ہے؟”

رضوانہ گرمی کی چھٹی میں گھر آئی ہوئی تھی۔  میرا کی شادی طے ہو چکی تھی۔  وہ دونوں کافی وقت ساتھ گزار رہی تھیں، گھوم گھوم کر خریداری کر رہی تھیں۔

"چاچی، اماں کے سامنے بول مت دیجئے گا کہ ہم یہاں آ کے بریانی اڑاتے ہیں۔”

در اصل دوستی لڑکیوں میں ہی زیادہ تھی۔  قمر کا نانہال اور میرا کی ماں کا دادیہال ایک ہی شہر میں تھا۔  شکلائن کو اماں جانتی تھیں، ابو اور شکلا جی میں جان پہچان تھی، لیکن خواتین میں آنا جانا بہت کم تھا۔  اب یہاں لکھنؤ میں لڑکیوں میں اتنی دانت کاٹی دوستی ہو گئی تھی۔  میرا کی شادی بہت جلدی طے کر دی گئی تھی۔  ویسے قمر کا خیال تھا کہ اچھا ہی ہے۔  رضوانہ کی وجہ سے وہ پریشان رہ رہی تھی۔  اسے بھی ناتھ دیا جاتا تو اچھا تھا۔

"ایک تو تمہاری اماں سے ملاقات ہی چھٹے چھ ما ہے ہوتی ہے۔  دوسرے یہ کہ کسی چوری میں وہ لوگ شریک ہوں تو دونوں ڈرے رہتے ہیں، کون کس کا راز کھولے گا۔”

"آپ چور کہاں سے ہو گئیں؟” میرا قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔

"کیوں، ہمارے اوپر تمہارا دھرم بھرشٹ کرنے کا الزام نہیں لگے گا؟”

"ہم نے آپ کی پتیلی سے چرا کر بریانی کھائی۔  آپ تو منع کرتی ہی تھیں۔” وہ پھر ہنسی۔

میرا کا مزاج ہی ایسا تھا۔  قمر اسے”قلقل مینا” کہا کرتی تھی۔  ہنستی ہے تو لگتا ہے چاندی کی تھالی پر چاندی کے کنچے لڑھک رہے ہوں۔  صبح صبح گومتی کے کنارے ہنومان مندر میں پوجا آرتی ہوتی ہے اور دور سے گھنٹوں کی آواز آتی ہے تو لگتا ہے، میرا ہنس رہی ہے۔

"قمر چاچی!”

"ہاں، بولو بٹیا۔” قمر کے لہجے میں اتنی محبت تھی کہ رضوانہ جل بھن گئی۔

"مما، کبھی ہم سے بھی ایسا میٹھا بول لیا کرو۔”

"تم میرا کی طرح تمیز دار بن جاؤ۔”

"قمر چاچی، ابھی تو ہم قطعی تمیز کی بات نہیں کر رہے۔  ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں لفظ چور نہایت فنی (funny)لگتا ہے۔  بلاوجہ ہنسی آتی ہے اور اگر یہ لفظ آپ کے حوالے سے استعمال کریں تب تو ہاہاہا….” وہ اتنی زور سے ہنسی کہ انیس کمرے سے باہر آ گیا۔

"کیا ہو رہا ہے، لڑکیو؟”میرا جلدی سے دبک گئی۔

"نمستے چاچا!”

اس نے چہرہ سنجیدہ بنا لیا اور اٹھ کر انیس کے پیر چھوئے۔

وہ واپس لوٹ گیا۔  تینوں خواتین خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔  عمرانہ کے امتحان نہیں ہوئے تھے، وہ کمرے میں پڑھ رہی تھی۔  چلتے چلتے پلٹ کر بولا: "ذرا دھیرے سے ہنسو، عمو پڑھ رہی ہے۔”

میرا نے ہونٹ کاٹے، پھر دھیرے سے بولی: "چاچی، ہم بڑے خوش قسمت ہیں۔”

"کیوں؟” رضوانہ نے تیوریاں چڑھائیں۔ "بی اے کرتے سے اٹھا کر شادی کر دی جا رہی ہے، اور یہ خوش قسمت ہیں!”

"بی اے تو ہم کر ہی لیں گے۔  ایم اے بھی کریں گے۔  اس کے بعد بھاڑ بھی جھونکیں گے۔  فی الحال خوش قسمت اس لئے کہ ہماری سسرال میں گوشت کھایا جاتا ہے۔  مطلب، مرد کھاتے ہیں۔  پلیٹ میں سے جھوٹن ہمیں بھی مل جایا کرے گی،” وہ مسرور لہجے میں بولی۔

"ہے ہے بچی! تو جھوٹن کیوں کھائے گی۔  بری باتیں منھ سے نہیں نکالتے” قمر نے خالص اپنی اماں کے انداز میں کہا۔

"مما، ڈونٹ بی سلی!” رضوانہ نے کہا: "مما سارا مذاق چوپٹ کر دیتی ہیں۔”

"مذاق نہیں۔  سلی تو ہے! ارے، عورتیں گوشت نہیں کھاتیں تو پھر ہم چپکے سے پلیٹ سے اٹھا کر ہی کھا سکیں گے نا؟ ہاں، ساتھ میں چوک جا کے ٹنڈے کے کباب اڑا آئیں یا کسی ہوٹل میں کھالیں، وہ الگ بات ہے،” قمر نے کہا۔

"بہت سے گھروں میں عورتیں گوشت نہیں کھاتیں، مرد کھاتے ہیں۔”

"مگر عورتوں کو ان کے لئے بنانا پڑ جاتا ہے۔  ہماری ایک دوست کی چاچی ناک پر کپڑا رکھ کے ڈوئی کے ڈنڈے سے گوشت دھوتی تھیں اور بنا کر رسوئی سے ہٹ جاتی تھیں۔  ان کے ہسبنڈکو رات کے کھانے میں تو چاہئے ہی چاہئے۔”

"لیکن میری ایک کایستھ دوست کہہ رہی تھیں کہ ان کے خاندان میں سہاگن عورتوں کو تھوڑا سا گوشت ضرور کھانا ہوتا تھا۔  ہفتے میں کوئی دو دن،” قمر نے کہا۔

"سہاگن کو کیوں؟” بیوہ کو کیوں نہیں؟ اور کنواری کو؟”

"کنواری کو بھی نہیں۔” قمر ہنسی

"مگر کیوں”؟ رضوانہ جھنجھلائی۔

” میری مت ماری گئی جو میں تم لڑکیوں کے سامنے یہ بات لے بیٹھی۔  بات میں بات نکل گئی تم کٹھ حجتوں کے سامنے۔  ضروری نہیں ہر بات تم جانو۔”

"چل رضوانہ، میرے لئے چکن کی ساڑیاں لینی ہیں۔  چوک چلتے ہیں۔” میرا نے بات ختم کرتے ہوئے پرس ٹٹولا۔ "ہاں، پیسے رکھ لئے ہیں۔”

دونوں خوش و خرم لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوئیں۔  میرا کے بال بہت گھنے اور لانبے تھے۔  اٹھتے ہوئے اس نے گھنی لانبی چوٹی پیچھے پھینکی تو اس کا دلکش مسرور چہرہ قمر کے دل پر نقش ہو گیا۔  اللہ سب کی بیٹیوں کو خوش رکھے۔  کیسی معصوم بچی ہے اور اللہ میری بیٹیوں کے لئے بھی جلد ہی ایسے لڑکے مہیا کر دے کہ ہم خوشی خوشی ان کا بیاہ کریں۔

میرا کے گھر والے خاصے پیسے والے تھے۔  پہلی بیٹی کی شادی کر رہے تھے، اس لئے حیثیت سے بھی بڑھ کر خرچ کر رہے تھے۔  ان دنوں لڑکیوں میں ایک فیشن چل نکلا تھا کہ زیور نہیں پہنیں گی، ناک نہیں چھدوائیں گی۔  سیندور ڈالیں گی تو چھپا کر، مانگ کے اندر ایک ننھی سی بندی، لیکن میرا آج کے فیشن میں نہیں بہی تھی۔  اسے یہ سب بہت پسند تھا۔ "شادی کے بعد تو ہم چھمک چھلو بن کر رہیں گے۔” وہ زیور ٹرائی کر رہی ہوتی تو کانوں کے جھومک ہلاتی، ہاتھوں میں سونے کے کنگن بجاتی۔  تھرک تھرک کے سب دکھاتی اور پوچھتی: "یہ کیسا لگ رہا ہے؟” ساڑی کے پلو کو سر پر لیتی۔  کبھی کبھی گھونگھٹ بھی نکال لیتی۔  وہیں دکان میں ہی ساری نوٹنکی ہو جاتی۔  عمرانہ کو جب موقع ملتا تھا، وہ بھی ساتھ لگ لیتی تھی۔  میرا کا گھونگھٹ اور آگے کھینچ کر بہت بوڑھی آواز بنا کر کہتی: "ذرا ٹھیک سے پردہ کرو بہو، سامنے سسر بیٹھے ہیں۔  اماں نے کیا سکھا کے بھیجا ہے؟” سامنے سسر بیٹھے ہیں، کہتے ہوئے ایک بار تو اس نے کہنی مار کر للو لال بمل کشور کی مشہور دکان میں گدی پر بیٹھے ہوئے تھلتھلے سیٹھ جی کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔  میرا ہنستے ہنستے وہیں لوٹ گئی۔  ساتھ بیٹھی خریدار عورتیں پلٹ پلٹ کر اسے دیکھنے لگیں۔

للو لال بمل کشور والوں نے میرا کا شادی کا لہنگا، راجستھان سے گوٹے کا کام کرا کے منگایا۔  میرا نے ڈیزائن خود تیار کر کے اس کا اسکیچ ان لوگوں کو دیا تھا۔  جب جوڑا بن کے آیا تو فوراً ہی پہن کے بیٹھ گئی، پھر بھر ہاتھ چوڑیاں پہن کے، کندن کا ٹیکہ لگا کے کمرے سے نکلی تو ماں نے ایک دو ہتڑ اس کی پیٹھ پر مارا اور دوسرا اپنے ماتھے پر۔ "اری بے شرم، شادی سے پہلے جوڑا چڑھا لیا۔  اپ شگن ہوتا ہے۔”

میرا نے دو ہتڑ کی قطعی پرواہ نہ کی، حالانکہ لگا زور سے تھا۔ "ارے ممی، ہم ٹرائل لے رہے تھے اور دیکھ رہے تھے، دلہن بن کے کیسے چپنڈخ لگیں گے۔  ممی، ایسا مردانہ ہاتھ ہے تمہارا! اچھا مار لو، مار لو، پھر ہم نند رانی مشرا کی بہو بن جائیں گے، تب مار کے دیکھنا۔  بڑی دبنگ ساس ہے ہماری۔”

شبھ شبھ بول! یہ تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ نند رانی مشرا بڑی دبنگ ہیں؟”

"ارے ہمیں سب خبر ہے۔  پوری ریسرچ کر لی ہے ہم نے۔  بڑی بہو کو تو جلانے کی کوشش بھی کر چکی ہیں۔”

"ہے ہے لڑکی، بھگوان سے ڈر! سچ ہے، کلجگ آ گیا ہے۔  پہلے ساسیں بہوؤں پر دوش لگاتی تھیں، اب بہوئیں ….” لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت میرا کی ممی دل ہی دل میں ڈر گئی تھیں۔  کہاں سے ایسا سن لیا لڑکی نے؟ ذرا پتا لگائیں، لیکن ساری ریت رسمیں پوری کر کے سگائی تک ہو چکی تھی۔  انہوں نے ٹوہ لینی شروع کی۔  سگائی ہی تو ہوئی ہے۔  اگر خاندان میں ایسی کوئی افواہ بھی ہے تو میرا کے پاپا سے کہنا ہو گا۔  میرا دل ہی دل میں ہنس ہنس کر لوٹیں لگاتی رہی۔

رکھب داس کے یہاں کندن کا پورا سیٹ آرڈر کر دیا گیا۔  کندن کے زیور میرا کو بہت پسند تھے۔  اس کی نانی نے اس کے لئے کشمیرسے شاہ توش کی شالیں منگوائیں۔  چاندی کا ڈنر سیٹ دیا گیا۔

رضوانہ کے گھر سے شادی میں سب لوگ شریک ہوئے۔

"ارے دلہن بی بی، ذرا شرم کر لو!” میرا کے زیادہ چھم چھم کرنے پر رضوانہ نے مصنوعی خفگی سے آنکھیں نکال کر اسے کہنی ماری تھی۔

"جل مت!” اس نے گھونگھٹ اٹھا کر کہا: "تیری شادی جلدی ہی کرائیں گے۔” پاس کھڑا دولہا بھی ہنس پڑا۔  میرا کی کوئی بہن نہیں تھی۔  وہ اکلوتی لڑکی تھی۔  دولہا نے خوش دلی سے رضوانہ اور عمرانہ کو سالیاں تسلیم کر لیا۔  میرا کی ممی نے جوتا چرائی کی رقم میں میرا کی چاچا ماما کی لڑکیوں کے ساتھ ان دونوں بہنوں کا برابر کا حصہ لگایا۔

رخصت ہوتے وقت میرا نے گھونگھٹ ذرا لمبا کھینچ لیا تھا اور قدرے جھکے شانوں کے ساتھ اس کے اندر منھ چھپا کے یوں کھی کھی کھی کھی کرتی ہل رہی تھی کہ لوگ سمجھے وہ رو  رہی ہے۔  صرف رضوانہ کو بقول خود اس کے”یہ کمینہ پن” معلوم تھا۔  بعد میں اس نے کہا تھا: "ارے کون سی رخصتی، کہاں کی رخصتی! ڈالی گنج سے اٹھ کے ڈالی باغ چلے آئے۔  سسرال والے بھی ڈر کے رہیں گے۔  بہو کو مائیکے بھاگنے میں پل بھر بھی نہ لگے گا۔  یہ بھی نہیں کہ اسٹیشن سے پکڑ کے واپس لے آئے۔  رونے کی بات ہی نہیں رہ گئی تھی۔  اور سن رضوانہ، جل مت جائیو۔  ہمارے سسرال والوں نے یاقوت کا سیٹ چڑھایا ہے۔”

"جلے ہماری جوتی!”رضوانہ چڑ گئی۔

"دیکھا نہیں تھا کیا بری پہ؟”

بچی بہت جلدی ہو گئی تھی، لیکن اس سے پہلے میرا نے بی اے مکمل کر لیا تھا۔  پھر کچھ دن کے لئے اس کی پڑھائی میں بریک لگ گیا تھا، گرچہ سسرال والوں کا کہنا تھا کہ وہ اسے پڑھائی سے روک نہیں رہے ہیں، وہ خود ہی گھر گرہستی اور بچے میں لگ گئی ہے۔  سسرکا بہت بڑا پرنٹنگ پریس تھا۔  اس میں بھی ہاتھ بٹانے لگی تھی۔

"اری میرا، تولکھنوجیسے شہر میں ہے، جوائنٹ فیملی میں رہ رہی ہے۔  بچی کو ساس دیکھ لیں گی، آگے کی پڑھائی کر لے۔”رضوانہ کی دیکھا دیکھی، یا از خود، میرا کو بھی قانون پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔

"ارے تو لاکر لے نا۔  لکھنؤ میں تو ہے ہی۔”

"لا اور میں؟”وہ زور سے ہنسی تھی۔ "ابھی میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی Plain Tales From British Raj۔  اس میں لکھا تھا کہ سولہویں صدی کے وسط میں جب لڑکیاں جہاز میں بھر بھر کر شوہروں کی تلاش میں برٹش انڈیا آیا کرتی تھیں تو انہیں صرف دو باتیں سکھائی جاتی تھی۔ "چار چھ شام کو پہننے کے اچھے لباس رکھ لینا کہ دلکش نظر آؤ اور زیادہ عقلمند اور تیز طرار بننے کی کوشش مت کرنا، اس لئے کہ مردوں کو زیادہ ذہین اور زیادہ تعلیم یافتہ بیویاں قطعی پسند نہیں ہیں۔ ” اس ایٹی ٹیوڈ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔  میرے شوہر اور سسرال والوں کو بی اے سے زیادہ تعلیم یافتہ بہو کی قطعی ضرورت نہیں اور لا! ارے باپ رے ….” اس نے آنکھیں پھیلائیں۔

"وہ تو تو ہی کر۔  ابھی اونٹ پہاڑ تلے نہیں آیا ہے۔”

"ارے، تو تجھے میوزک کا اتنا شوق تھا، سیکھ بھی چکی ہے، وہی جوائن کر لے۔  بھات کھنڈے سنگیت ودیالیہ موجود ہے۔”

"اور پھر چوک میں جا کے بیٹھ جاؤں امراؤ جان ادا بن کے؟” میرا کا لہجہ تلخ ہو اٹھا۔  رضوانہ ہکا بکا رہ گئی۔  میرا منھ پھٹ تھی اور الھڑ بھی، جو منھ میں آئے بکتی رہتی تھی، لیکن یہ ذرا کچھ زیادہ ہو گیا تھا۔

"مر، جو جی چاہے کر۔”

اب رضوانہ نے میرا جیسی پیاری، زندگی سے بھرپور لڑکی اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ ایک عزیز ترین سہیلی سے سچ مچ تو نہیں کہا تھا کہ مر۔

رضوانہ کو بمبئی کی اس لا فرم میں کام کرتے کئی سال ہو چکے تھے۔  لوگوں کے پاس اب موبائل فون آ گئے تھے۔  رضوانہ نے نمبر دیکھ کر کہا۔ "کتنی بار کہا مما سے کہ آفس کے اوقات میں فون نہ کیا کریں۔  پتا نہیں کیا بات ہے۔  اب انہیں بھی ایک موبائل لے کر دینا پڑے گا، کہ زیادہ ضرورت ہو تو میسج کر دیں۔”اس نے فون بند کر دیا، لیکن دوبارہ رِنگ آیا تو اٹھانا ہی پڑا۔  قمر چہکو پہکو رو رہی تھی۔  رضوانہ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

"کیا بات ہے، مما؟”

"میرا …. میرا نہیں رہی۔”

"کیا؟”

"میرا نہیں رہی، رضوانہ۔”

رضوانہ وہیں دھپ سے زمین پر بیٹھ گئی۔  فائل اس کے ہاتھ سے گر پڑی تھی جو وہ کھڑی ہو کر پلٹ رہی تھی۔  اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں۔  میرا کی بچی آپریشن سے ہوئی تھی، پھر ایک اسقاط کرایا تھا۔  پھر ایسا ہی کچھ ہوا ہو گا اور ساری جدید سہولیات کے باوجود کیس بگڑ گ  یا ہو گا، ورنہ میرا تو بڑی صحت مند لڑکی تھی اور عمر کیا، یہی تیس ایک سال۔

"میرا نے خودکشی کی ہے۔”

قمر نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔

رضوانہ دوسرے ہی دن ہوائی جہاز سے لکھنؤ پہنچ گئی۔  دلی سے عمو بھی آ گئی تھی۔  لوگ میرا کے پھول چننے گل لالہ گئے ہوئے تھے۔

(لکھنؤ والوں کی ستم ظریفی، شمشان گل لالہ ہے اور قبرستان عیش باغ)

میرا تو بس اتنی ہی پڑھی لکھی تھی کہ شوہر کے منھ کو نہ آ سکے، لیکن ساتھ ہی فراٹے سے انگریزی بول کر اس کی عزت افزائی کا سبب بھی بنے۔  وہ بے حد سگھڑ گرہستن تھی گرچہ اس نے کبھی گھر پر کام نہیں کیا تھا اور انیس برس کی عمر میں کھاتے پیتے گھرکی کون سی لڑکی کام کرتی ہوئی جاتی ہے، لیکن جب وہ بہو اور بیوی بنی تو اسے سال بھر بھی نہ لگا گھر سنبھالنے میں اس نے نوکروں کے باوجود کچن سنبھالنا بھی سیکھ لیا۔  اس کی ساس نے”نان ویج” کا چولہا الگ کر دیا تھا۔  وہاں وہ شوہر کے لئے گوشت اور مرغ کے نت نئے پکوان بناتی جن کے لئے اس نے کھانا پکانے کا ایک کورس جوائن کیا تھا، پھر برتن خود مانجھ کر الگ کر دیتی اس لئے کہ اس کی ساس کو اعتراض ہوتا تھا کہ کہارن اُدھر کے برتن مانجھ کر پھر اِدھر وہی ہاتھ لگائے گی۔  وہ اتنی کم عمر لڑکی اتنی سمجھدار کہ ساس کے سامنے گوشت نہیں کھاتی تھی۔  چپکے سے شوہر کی پلیٹ سے اٹھا کر کھا لیتی تھی۔

"گوشت پکے تو ٹیبل پر لانے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے کمرے میں ہی کھاتے ہیں۔  ہمارے تو چھکے پنجے۔  ہم خوب اڑاتے ہیں۔  ممی کو ہمارا گوشت کھانا پسند نہیں ہے۔  کہتی ہیں، گوشت کھانے سے لڑکیاں ایگریسیو (aggressive)  ہو جاتی ہیں۔”وہ منھ چھپا کر خوب ہنسی۔ "خود تو پیاز لہسن تک نہیں کھاتی ہیں، پھر چنڈی کا اوتار کیوں بنی رہتی ہیں۔” اس نے ٹھی ٹھی ٹھی شروع کی۔

"بند کر یہ پاگلوں والی ہنسی۔”کہنے کو تو کہہ دیا، لیکن رضوانہ خود اس کے ساتھ ہنسنے لگی تھی۔ "اچھا یہ بتا، پھر تو کھاتی کیسے ہے؟ دو بار کھاتی ہے کیا؟ ساس سسر کے ساتھ ٹیبل پر تو بیٹھنا ہوتا ہو گا؟”

"یہ عام طور سے دیر سے کھاتے ہیں۔  اس سے پہلے تھوڑا ڈرنک بھی کرتے ہیں، اس لئے ہم ٹیبل پر بیٹھ کر تھوڑا سا چکھ کر، کچھ لپاڈگی کر کے اٹھ جاتے ہیں اور بریانی، دو پیازہ دکھائی پڑے تو ہم تو بھرے پیٹ پر کھالیں۔” وہ پھر ہنسی۔

"اور یہ تو گنوار کی طرح”ان، انہیں، وہ” کیا کرنے لگی ہے۔  منگنی کے بعد تو سنجے سنجے یوں کرتی تھی جیسے سنجے نہ ہوا، چھوٹا بھائی ہوا۔”

"ممی کو ناپسند ہے۔  پہلے ہم نے ان کے سامنے نام لینا بند کیا، لیکن اکیلے میں نام لیتے رہنے سے عادت نہیں چھوٹ رہی تھی، منھ سے نکل ہی جاتا تھا تو ساس سسر، آئے گئے، چاچا چاچی، سب گھورنے لگتے تھے۔  اب بھائی، ہمیں نندرانی مشرا کی بڑی بڑی آنکھوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔  ہم نے کہا، چھوڑ بھائی، ٹنٹا ختم۔  کیا فرق پڑتا ہے۔  رہے گا تو شوہر ہی، نام میں کیا رکھا ہے۔”

اس نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی بڑوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھا تھا (یا اس سے رکھوایا گیا تھا۔)

کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟

لوگ باگ بہت دن بات کرتے رہے۔  رضوانہ نے چھٹیاں سنبھال کر رکھی تھیں، اس لئے تیرھویں تک رک گئی تھی۔  ایک دن اس کی چھوٹی سی بیٹی کا منھ دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ اس کا جی چاہا، کس کس کے جھانپڑ لگا کے میرا کا بیضوی، گورا چہرہ لال کر دے۔  (پھر اپنے خیال کے انتہائی درجے کے بے تکے پن پر اپنا ہی منھ پیٹ لیا۔) اس بچی کا تو خیال کیا ہوتا۔  بڑھتی عمر والے ماں باپ کا خیال کیا ہوتا۔  خود سارے دکھوں سے بے نیاز ہو گئی، مگر ایسے کون سے دکھ تھے؟ ایسا کون سا پاگل کر دینے والا لمحہ ذہن پر حاوی ہو گیا تھا جو انسان کی بنیادی کمزوری، اس کی زندہ رہنے کی خواہش کو کہنی مار مار کر پیچھے ڈھکیل دے؟

میرا کی ہم عمر کزن نے کئی باتیں بتائیں جو کہیں جگ ساپزل (Jigsaw Puzzle) کے ٹکڑوں کی طرح مل کر ایک تصویر اجاگر کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔

"ہم سے تو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا، جانہوی۔  ہم تو بچپن سے اس کے راز دار تھے۔  ذرا سا بھی شک ہوتا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تو کچھ کرتے۔  اس نے تو موقع ہی نہیں دیا۔”رضوانہ رونے لگی تھی۔

"کہا تو ہم سے بھی کچھ نہیں، رضوانہ دیدی۔  ہم بس آتے جاتے، ملتے جلتے، کچھ سمجھ رہے تھے اور کبھی کبھی دوسطروں کے درمیان، دو شبدوں کے پیچھے لکھی لکھائی پڑھنے کی کوشش کر لیتے تھے۔  آپ تو یہاں تھیں نہیں، کبھی کبھی ہی آتی تھیں۔” اس نے بات جاری رکھی۔

"میرا آگے پڑھنا چاہتی تھی۔  اس کی اجازت نہیں ملی۔  کہا، بی اے کرا تو دیا، اب اور کیا کرنا ہے؟ میوزک کلاس کرنی چاہی، وہ منع۔  تھیٹر آرٹس گروپ جوائن کرنا چاہا تو پورا وبال ہی کھڑا ہو گیا۔  کسی زمانے میں اس کے بانی، جب وہ نوجوان تھے، ایک اینگلوانڈین لڑکی کے ساتھ سات سال گھومے، پھر اسے چھوڑ کر ایک خود سے پندرہ برس چھوٹی، کسی رجواڑے کی لڑکی سے اچانک شادی رچا لی۔  اس لڑکی کے دادا بندوق لے کر ان حضرت کا انتظار کرتے تھے کہ دکھائی دیں تو سیدھے شوٹ کر دیں، لیکن پھر لڑکی کے یہاں بیٹا ہو گیا تو معافی تلافی ہو گئی۔  اب یہ بوڑھے ہو گئے تھے، لیکن نندرانی مشرا سمجھتی تھیں کہ تھیٹرآرٹس گروپ لفنگوں کا اڈہ ہے۔”

رضوانہ خاموشی سے سن رہی۔  میرا کی بڑی خوبصورت آواز تھی۔  انٹرمیڈیٹ تک اس نے باقاعدہ میوزک سیکھی بھی تھی۔  گھرکی تقریبوں میں، سہیلیوں کی محفلوں میں وہ خوب گاتی۔

"پھر؟”

"پھر اس نے چار ماہ کا حمل گروایا۔  اس کا اسے بہت رنج تھا۔  آخر دوسرا بچہ ہی تو تھا۔  پھر بھی ہنس کر جھیل لے گئی، لیکن جب دوسرا حمل گروایا گیا، وہ بھی دھوکے سے، جس میں شوہر، ساس، سسر، ڈاکٹر، سب شامل تھے، تو اسے شوہر کے شامل ہونے سے بہت صدمہ پہنچا۔”

"دھوکے سے مطلب؟” رضوانہ سخت حیران تھی۔

"ایک ٹیسٹ کے بہانے اسے بے ہوش کر دیا گیا تھا۔  ڈاکٹر نے اسے یقین دلایا کہ اندر بچے کی گروتھ رک گئی تھی، اس لئے فوری اسقاط ضروری ہو گیا تھا۔  زہر پھیلنے کا ڈر تھا۔  بعد میں تو جرح کرنے سے سب ظاہر ہی ہو گیا۔  میرا نے شوہر کو خوب لتاڑا۔  اس کی بند زبان کھل گئی تھی، ساس کے سامنے چیخنے چلانے لگی تھی۔  یہ سارا کچھ مجھے ٹکڑوں میں معلوم ہوا۔  کچھ یہاں سے، کچھ وہاں سے، آپ کو جس طرح بتا رہی ہوں اس طرح نہیں۔”

"بات زیادہ بگڑتی تو میرا علیحدگی اختیار کر سکتی تھی۔  آخر جان دینے کی کیا تک تھی؟ جانہوی، تو ہی بتا۔” رضوانہ ہاتھ ملنے لگی تھی۔

"علیحدگی کی تجویز میں نے رکھی تھی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ سنجے اب اس پر ہاتھ چھوڑنے لگا ہے، لیکن میرا کے گھر والوں نے اسے فوری طور پر رد کیا۔  دادی نے کہا، لڑکی کو اتنی زبان نہیں چلانی چاہئے۔  جو ہوا سو ہوا۔  اب کیا گھر گرہستی اور سہاگ پھونکے گی؟ شاید اسی لئے اس نے خود اپنی جان پھونک کر سب سے انتقام لیا۔”

"لگتا ہے، پہلے کی ساری دادیوں کی تربیت ایک ہی اکیڈمی میں ہوا کرتی تھی۔” رضوانہ نے زہر خند کے ساتھ کہا: "ہماری دادی بتاتی ہیں کہ ان کے سسر، یعنی پاپا کے دادا کے ایک طوائف سے مراسم تھے۔  وہ لکھنؤ کی نامی گرامی طوائف بدر منیر تھی۔  پہلا فخر تو اسی بات کا تھا کہ بدر منیر بلانے پر ان کے گھر بھی آ جاتی تھی۔  وہ مردان خانے میں بیٹھتی اور دادی اپنے ہاتھ کے مشہور پراٹھے سینک سینک کر شامی کبابوں کے ساتھ قابوں پر قابیں بھجواتی رہتیں۔  پاپا کے دادا کی بیشتر دولت ان ہی بدر منیر اور ان کی بہن پر نچھاور ہوئی۔  حتیٰ کہ کچھ نہ رہا تو بیوی کی پہنچیاں دے آئے۔”

وہ غم و غصے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔  اب کیسا غم اور کیسا غصہ۔ "میرا …. میرا …. یوں ہارنا چاہئے تھا کیا؟”

جانہوی نے جتنا کچھ بتایا تھا اس کے علاوہ بھی پتا نہیں کیا کیا ہوتا رہا تھا۔  پچھلی بار جب رضوانہ میرا سے ملی تھی تو اسے محسوس ہوا تھا کہ بار بار خوش مزاجی کا نقاب سرک کر اندر سے ایک اور چہرہ جھانک رہا ہے۔  تب تک وہ سارے”ایپی سوڈ” ہو چکے رہے ہوں گے، لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں تھا۔  چلتے وقت بولی تھی۔ "قمر چاچی اور انیس چاچا کے دباؤ میں آ کر بیاہ مت کرنا رضوانہ۔  جب جی چاہے اور جب صحیح آدمی ملے تبھی کرنا اور یہ ضرور بات کر لینا کہ تمہیں کتنی اولادیں پیدا کرنی ہیں اور کب۔”

"ممی کو اب بھیانک خواب آنے لگے ہیں۔  وہ عمو بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔  اٹکی ہوئی ہے انوراگ پر۔  ممی کو معلوم ہو چکا ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ پاپا کو معلوم ہوا تو ایک اور”آنرکلنگ” کی خبر میڈیا میں آ جائے گی۔  ویسے عمو کو زیادہ فکر نہیں۔  دونوں ساتھ کام کرتے ہیں، شامیں اکٹھی گزارتے ہیں۔”

"ہمارے گھر تو آنرکلنگ کا خطرہ محض ذات الگ ہونے سے ہو گیا تھا، دھرم کی تو بات ہی چھوڑ۔  ماں اور دادی کو بھیانک خواب آنے لگے تھے، اس لئے جلدی سے جلدی جو لڑکا پکڑ میں آیا اس سے بیاہ دیا۔” وہ ہنسی۔ "ویسے دیکھا جائے تو لڑکا دیکھنے میں اچھا، کماؤ، پڑھا لکھا، ذات برادری اونچی۔  اب ہمیں بھی اور کیا چاہئے تھا؟ تو بتا رضوانہ، ایک عورت کو کچھ اور چاہئے کیا؟”

میرا کی ماں نے رضوانہ سے بتایا: "ہم ایک دن سمدھن جی کے سامنے کہہ بیٹھے”بھگوان سمجھے اس اہروا سے، نہ وہ زندگی میں آتا نہ ہمیں میرا کی شادی کی اتنی جلدی ہوتی۔  تھوڑا رک گئے ہوتے تو رشتوں کی کیا کمی تھی۔ ” در اصل اس دوسرے ابارشن کے بعد ہماری ہنستی بولتی بیٹی کو چپ لگ گئی تھی اور وہ کمزور بھی بہت ہو گئی تھی۔  دوائیں، ٹانک، سب اٹھا کے پھینک دیتی۔  نان ویج کھاتی تھی، وہ چھوڑ دیا۔  اس لئے سمدھن جی سے ملاقات ہوئی اور اس کے باوجود انہوں نے میرا کی شکایتیں شروع کیں تو ہمیں آ گیا غصہ۔  اسی لئے شاستروں میں غصے کو چار بڑی برائیوں میں گنا گیا ہے۔  آدمی کی مت ماری جاتی ہے۔  ہم جو وہ انرگل بول گئے تو سمدھن جی کے کان تو خرگوش کے کانوں سے بھی لمبے ہو گئے۔  اب لاکھ ہم لیپا پوتی کریں، لیکن انہوں نے جا کے شک کا بیج داماد جی کے دماغ میں بو دیا۔ "وہ اہیر کون تھا؟ کب تھا؟اب کہاں ہے؟ اب بھی ملتا ہے کیا؟” در اصل انہیں میرا کے الزام سے اپنا بچاؤ کرنے کے لئے برہماستر ہاتھ لگ گیا، سراسر ہماری غلطی سے۔  میرا الزام لگاتی تھی کہ اسے دھوکا دے کر چوتھے مہینے کے آخر میں جیتے جاگتے بچے کو مارا گیا۔  وہ ڈاکٹر کا نام سامنے لانے کی دھمکی دینے لگی تھی۔  یوں چپ رہتی تھی، لیکن غصے کا دورہ پڑتا تو …. شاید وہ ہمیں یہ سب بتاتی بھی نہ، لیکن اس دن اس نے اپنا غصہ ہم پر اتارا۔ "اماں، تمہاری زبان قابو میں کیوں نہیں رہتی؟ اب بتاؤ اپنے داماد اور اس کی چنڈی ماتا کو کہ وہ کون تھا، کب تھا اور کہاں ہے۔  تمہیں کو معلوم ہو گا، ہمیں تو خبر نہیں۔”

"پھرسنا، داماد ہاتھ چھوڑنے لگے تھے۔  ہم تو جانیں، اس لئے کہ اس کی زبان بند رہے۔”

"اور اس نے اپنی زبان ہمیشہ کے لئے بند کر لی! اور چاچی، اس میں اس کے سسرال والوں کا ہی نہیں، آپ سب کا بھی ہاتھ ہے۔  آپ سب جو پڑھے لکھے ہیں، اعلیٰ خاندان ہیں۔”لیکن رضوانہ نے بھی اپنی زبان بند ہی رکھی، سوچ کے رہ گئی۔  جو آپ ہی مر رہا ہو اسے مار کے کیا ملے گا۔  میرا نے زندہ رہنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑنے کی سوچی جا سکتی تھی۔  عورتوں کی یہ نسل تعلیم سے بے بہرہ نہیں تھی۔  میرا کی ماں، خود اس کی اپنی ماں، میرا کی ساس اور مرد تو خیر تعلیم یافتہ تھے ہی، لیکن یہ کیسی تعلیم تھی کہ ایک سائنس گریجویٹ نے بیوی کو اس لئے مارا تھا کہ اس نے دوسری بار بھی بیٹی پیدا کی تھی؟ سائنس پڑھ کر بھی اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ بیٹی یا بیٹا مرد کی دین ہوتا ہے؟ یہ مما نے بتایا تھا اور ساتھ ہی جوڑ دیا تھا۔ "یہ ۴۷ کی بات ہے، اس وقت حمل میں بچے کی جنس پتا کرنا اور اسقاط کرانا عام نہیں ہوا تھا، ورنہ وہ لڑکی یوں مار نہ کھاتی۔  ہاں! بچی جو پیدا ہوئی وہ ماردی گئی ہوتی۔”

نندرانی مشرا کی دلیل اس سلسلے میں کچھ الگ ہی تھی، جو میرا نے پہلے اسقاط کے بعد ہنس ہنس کر رضوانہ کو بتائی تھی۔ "عورت کے جسم کے اندر جو کیفیت ہوتی ہے وہی یہ تعین کرتی ہے کہ عورت کا بیج مرد کے ایکس کروموسوم قبول کرتا ہے یا وائی، اس لئے عورت ہی ذمہ دار ہے۔”

"یہ آپ نے کہاں پڑھا ممی؟ کس نے بتایا آپ کو؟” میرا نے ساس سے ملائمت سے پوچھا تھا۔

"ہم نوٹس نہیں بناتے پھرتے کہ تمہیں ریفرنس دیں۔  تصدیق کرنا چاہتی ہو تو اپنے طور پر ریسرچ کر لو۔” انہوں نے رکھائی سے جواب دیا تھا اور میرا کو بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتی، کٹھ حجت قرار دیتی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

اور اس کے آفس میں لوگ کم تعلیم یافتہ تھے کیا؟ سب وکیل۔  کئی تو تجربہ کار گھاگ بھی۔  مجرم کو معصوم بنا دیں، معصوم کو مجرم۔  جب سے رضوانہ نے عمر کے تیسویں سال کا کیک کاٹا تھا، بیشتر اس کا حوالہ”اولڈمیڈ” کہہ کر دینے لگے تھے۔  ایک بار کسی نے کمنٹ کیا تھا۔ "یار کھائی کھیلی لگتی ہیں۔  اب ایسی معصوم بھی نہیں جیسا پوز کرتی ہیں۔”

"کولھے خاصے بھاری ہیں۔  ایسے کولھوں کا مطلب ہے کہ ہر تجربے سے گزر چکی ہیں۔” جواب ملا۔

ایک شادی شدہ ہمکار نے براہ راست پروپوز کیا تھا۔  پس منظر میں دی جانے والی موسیقی کے طور پر وہ نہایت لطیف پیرائے میں یہ بتاتے چلے آ رہے تھے کہ بیوی سے ان کے تعلقات صحیح نہیں ہیں۔  بغیر نام بتائے انہوں نے ہی رضوانہ پر کی جانے والی چھینٹا کشی کا بھانڈا پھوڑا تھا۔  کچھ اِدھر اُدھر سے، کچھ بالواسطہ تبصروں سے، اسے خود بھی پتا چلتا رہتا تھا اور وہ چومکھی لڑائی لڑتی رہتی تھی، اسی لطیف پیرائے، اسی بلاواسطہ اظہار کے ذریعے۔

"مجھے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کا پورا حق ہے۔”

اس نے مضبوطی کے ساتھ اپنے آپ سے کئی بار کہا تھا اور اس پر قائم تھی۔  یہاں تک کہ اس وقت بھی جب کچھ لوگوں نے یہ اشارہ کیا کہ جس لڑکی کے ساتھ وہ فلیٹ میں رہ رہی ہے اس کے ساتھ اس کے لیزبین تعلقات ہیں۔

"چھی، گھن آتی ہے ہمیں۔” رضوانہ نے کہا تھا تو اس کی دوست ہنسی تھی۔

"اتنی سی بات سے گھن آنے لگی؟اوکھل میں سردیا ہے تو موسل کے دھمکے کھانے سیکھو۔”

وہ مزاج میں میرا جیسی لگتی تھی۔  ہنسوڑ، ہر بات کو چٹکیوں میں اڑانے والی، اپنے آپ میں مگن، رضوانہ نے سوچا تھا۔

اس سال لکھنؤ میں ٹھنڈ معمول سے زیادہ پڑی تھی۔  کہرے سے سرشام اندھیرا چھا جاتا۔  کئی دن سے سورج نہیں نکلا تھا۔  میرا کی ماں کے یہاں سے آنے کے بعد رضوانہ کو لگ رہا تھا، ایک ٹھنڈا اندھیرا اس کے وجود میں بھی اتر آیا ہے۔  میرا کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، ان ٹھنڈے اداس لمحوں میں رضوانہ نے اسے قمر کے ساتھ بانٹا۔

"دنیا اب زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے اور اپنی ساری تعلیم اور ساری تکنیکی ترقی کے باوجود زیادہ سفاک اور بے رحم۔  اب لڑکیاں بول رہی ہیں۔  پہلے بولتی نہیں تھیں۔  کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا ہونے پر جس پہلے لڑکے کے ہاتھ لگنے پر بادشاہ اپنی بیٹی بیاہ دیتا اس کے ساتھ خاموشی سے زندگی گزار دیتیں اور مر کھپ کر جنت پہنچ جایا کرتیں۔”

قمر نے لمبی سانس کھینچ کر لمبی بات کی۔  پھر دونوں ماں بیٹی کچھ عرصے خاموش رہیں۔  انگیٹھی کے کوئلوں پر راکھ کی پرت موٹی ہونے لگی تھی۔  قمر نے اسے لوہے کی تیلی سے کریدا (اسے ہیٹر کی جگہ انگیٹھی جلانا زیادہ اچھا لگتا تھا) اور بات کا سرا دوبارہ پکڑا۔

"ہم اور تمہارے پاپا، دونوں نے اب تمہاری اور عمرانہ کی زندگی میں دخل دینا بند کر دیا ہے، لیکن شاید تمہیں معلوم نہیں کہ لوگ ہمیں کیا کیا سناتے ہیں۔  ایک دن ایک ٹیچر نے ہمیں سنا کر اسکول میں کہا”لڑکیاں پڑھ لکھ کر کمانے لگیں تو ماں باپ بے فکر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ بر بھی خود ہی ڈھونڈ لائیں گی۔ ” اس کا لے کوسوں دور بمبئی سے یہاں آ جاؤ تو کم از کم گھر میں آرام اور اطمینان سے رہو گی تو۔  لکھنؤ کوئی دیہات تو نہیں۔”

"ہاں! اس گھونسلے میں بڑی عافیت ہے۔  ماں باپ ہیں، ان کی شفقت کا تحفظ ہے، لیکن ممی، اس دنیا میں ہم جیسے بھی بہت ہیں۔  پرائے پھٹے میں ٹانگ نہ اڑانے والے، اپنی آزادانہ زندگی ایسے اصولوں کے تحت گزارنے والے جن سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔  تم اٹھائیس برس کی ہو گئی تھیں تو نانی نے سوچا تھا کہ تمہاری شادی اب نہ ہو گی۔  پھر ہوئی نا؟ ہم اکتیس برس کے ہو گئے ہیں تو تم بھی اسی طرح سوچ رہی ہو۔  کتنی ترقی ہوئی تمہاری تعلیم کی وجہ سے؟ صرف دو تین سال کی؟ مما، شادی از ناٹ دی اینڈ آف دی ورلڈ، کوئی ایسا مل گیا جس کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا دل چاہا تو ضرور کریں گے۔  فی الحال تو پرسوں کی فلائٹ کا ٹکٹ بک ہے۔  واپس جا رہے ہیں۔  ہماری فکر مت کیا کرو، مما….”

اس کی آنکھیں دور خلا میں کچھ دیکھنے لگی تھیں۔  انگیٹھی پرجمی راکھ کی پرت موٹی ہو گئی تھی اور قمر کے دل پر جمی بے چینی کی بھی۔

اس دن پھر قمر نے آفس کے دوران فون کیا۔  گھر پر اس نے رضوانہ کو یقین دلایا تھا کہ اشد ضرورت کے علاوہ وہ کبھی آفس کے اوقات میں فون نہیں کرے گی۔  رضوانہ کا دل طوفان میل کی رفتار سے دھڑکنے لگا۔  کیا ممی، اب کیا سناؤنی سنانے جا رہی ہو۔

"سنجے کو عدالت نے با عزت بری کر دیا ہے۔” قمر کی آواز میں آنسوؤں کی لرزش تھی۔  ایک اہم فائل سامنے تھی، پھر بھی رضوانہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔  فون پر اس کا ہاتھ لرزنے لگا تھا۔

"میرا کے گھر والوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، لیکن سنجے اور اس کے گھر کے کسی بھی فرد کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔  سنجے کو بھری عدالت میں یہ کہنے میں کسی سبکی کا احساس نہیں ہوا کہ….” قمر کی آواز قدرے لڑکھڑائی”….کہ شادی سے پہلے اس کی بیوی کی کسی سے شناسائی تھی اور وہ اس کی وجہ سے شدید ڈپریشن کے عالم میں رہا کرتی تھی۔  دوسرے بچے کے وقت اس نے اسی لئے حمل ساقط کرا دیا تھا کہ دو دو بچے اس کے پیروں کی بیڑیاں نہ بن جائیں۔  وہ طلاق لے کر واپس لوٹ جانے کے پھیرے میں تھی۔  اپنے بیان کی تصدیق میں اس نے نہ جانے کہاں کہاں سے گواہ لا کر کھڑے کر دیے۔  دوسرے اسقاط کے بعد وہ یقیناً ڈپریشن کے عالم میں تھی، لیکن وجہ وہ نہیں تھی جو بیان کی گئی، لیکن ہوا یہ کہ ڈاکٹر کے کچھ نسخے موجود تھے جن میں Antidepressantاور نیند لانے والی دوائیں تجویز کی گئی تھیں۔”

رضوانہ بت بنی سنتی رہی۔  قمر نے اتنا بتا کر فون رکھ دیا۔ "مجھ سے برداشت نہیں ہوا رضوانہ۔  ابھی فوراً تم سے یہ دکھ نہ باٹتی تو شام ہوتے ہوتے نہ جانے دل کی کیفیت کیا ہو جاتی۔”میرا سے جو تعلق تھا اس کے علاوہ مجھے تو یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ آج بھی عورتیں کس قدر Vulnerableہیں۔  تو ایسے عورت موافق قانون بنائے ہیں ہم نے۔

باقی جتنا وقت آفس میں گزرا، رضوانہ کو ہر فائل میں سے میرا جھانکتی نظر آئی۔  ایک ناکام محبت کا درد لے کر بھی انتہا ئی زندہ دلی کے ساتھ جینے والی لڑکی۔  زندگی میں جو ہاتھ آیا اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے والی لڑکی۔  کردار کشی لیکن برداشت نہ کر سکی اس لئے کہ جس شخص کا نام لے کر اس پر کیچڑ اچھالی گئی اسے تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔  اسے واقعی یہ نہیں معلوم تھا (اور نہ اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی) کہ اب وہ کہاں تھا، شادی شدہ تھا یا کنوارا۔  اسے یاد کرتا تھا یا ماضی کی غلطی سمجھ کر بھلا چکا تھا۔  دو بیٹیوں کو حمل میں ہی مار دینے کی اذیت کے ساتھ مل کر اس اذیت نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔  اس کی پاکدامنی پر اچھالی گئی کیچڑ اس کے لئے تیزاب بن گئی۔  میرا، میرا تو….کتنی بار جنم لے گئی؟ کب تک لیتی رہے گی؟

گھر لوٹ کر اس نے سمیر کو فون کیا۔  ممبئی کے فاصلوں کے حساب سے سمیر بہت قریب رہا کرتا تھا بغیر بتائے تھوڑی دیر میں آ گیا۔

"چلو تمہیں کچھ Comfort Foodکھلا کے لاتے ہیں۔  راستے سے اوما کو بھی اٹھا لیں گے۔”

"ایسے کہہ رہے ہو جیسے اوما کو اغوا کرنے کا ارادہ ہے۔” رضوانہ اس اداسی کے باوجود مسکرا پڑی۔  سمیر کی موجود گی بڑے سے بڑے ڈپریشن کو دور کر دیا کرتی تھی۔

"تمہارا دماغ ٹیڑھا ہی چلتا ہے۔  یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ اوما کوئی چیز ہے کیا جسے اٹھا لیا جائے یا یہ کہہ کر لڑ سکتی تھیں کہ تم مرد عورتوں کو چیز بست سمجھتے ہو وغیرہ۔  یہ تمہارے دماغ میں اغوا کا لفظ کیسے آیا، کہاں سے آیا؟”

"لگتا ہے وکیل میں نہیں تم ہو۔”

” جب کچھ نہیں سوجھتا تو تان اسی گھسے پٹے جملے پر ٹوٹتی ہے اچھا یہ بتاؤ یہ تمہاری پٹاخہ روم میٹ کہاں ہے اس وقت۔  اسے بھی لے لیتے۔”

"لڑکیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے واقعی تم سب اوقات پہ آ جاتے ہو۔  پٹاخہ، چک، سیکس بم کم از کم تم جیسے مہذب شخص کے منھ سے تو یہ لفظ بالکل اچھے نہیں لگتے۔”

"چلو یہ تو مانا کہ ہم مہذب ہیں، ہم سمیر چترویدی۔  ورنہ ہمارے چاروں ویدوں کے علم کے باوجود تم نے ہمیشہ ہمیں غیر مہذب گردانا۔  ہمیں ہی نہیں ہماری پوری قوم کو۔” وہ شرارت سے مسکرایا۔

رضوانہ نے اسے قہر آلود نظروں سے گھور کر دیکھا۔ "تم اور تمہارا علم! اجداد کے علم پر کودتے ہو۔  نہ جانے کب کس نے حاصل کیا تھا چار ویدوں کا علم اور چتر ویدی بن گئیں آنے والی جاہل نسلیں۔”

"ہاہاہا ….آ گئی لڑکی فارم میں چل اٹھ تیار ہو۔” سمیر نے قہقہہ لگا کر کہا۔  کچھ لیپا پوتی بھی کر لینا۔  صورت پہ بارہ بج رہے ہیں۔”

رضوانہ نے واش روم میں لگے آئینے میں چہرے پر نظر ڈالی۔  واقعی ستا ہوا ہو رہا تھا۔  وہ خوبصورت کسی زاویے سے نہیں تھی بس چہرے پر جاذبیت تھی اور سراپا متناسب تھا-

ہاں کپڑے سلیقے سے پہنتی تھی۔  حسیں لڑکیاں تو ماتمی شکل بنا لیں تو بھی حسین لگتی ہیں۔  اوسط صورت ہر منفی جذبے کے ساتھ مسنح ہونے لگتی ہے اور اوسط سے نیچے اتر آتی ہے، لیکن یہ مجھے صورت کا احساس کب سے ہونے لگا؟ وہ چونکی مجھے، حقیقت کی سنگلاخ زمینوں پر چلنے والی لڑکی کو۔

اس نے ہاتھ منھ دھوکر چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا اور وارڈ روب سے ایک خوبصورت شلوار سوٹ نکالا۔  روزانہ تو کالے سفید کپڑوں میں گزر ہو جاتی تھی۔  شام کو کہیں جانا نہ ہوا تو وہ سیدھے ہاؤس کوٹ پہن کر آرام کرسی پر نیم دراز ہو جایا کرتی تھی۔

ڈرائینگ روم میں آئی تو سمیر نے اس پر توصیفی نظریں ڈالیں۔  اسے قدرے حیا کا احساس ہوا اور اس نے سہم کر منھ موڑ لیا۔  یہ کیا ہو رہا ہے اسے۔

اوما خوشی خوشی ساتھ ہو لی۔  اس کا شوہر سنگا پور گیا ہوا تھا۔  وہ دس منٹ میں تیار ہو کر آ گئی۔  سوچ ہی رہی تھی کہ شام کو کیا کروں۔  بہت بور ہو رہی تھی۔  اس نے مسرور لہجے میں کہا: ” اور اسے کیوں نہیں لے لیا؟ وہ باہر ہے کیا؟”

"کون؟”

"ارے وہی تمہاری چھمک چھلو۔”

سمیر اتنی زور سے ہنسا کہ اسٹرینگ پر اس کے ہاتھ ذرا کی ذرا بہک گئے۔

"ایسی کون سی بات کہہ دی میں نے؟ اوما ناراض ہو گئی۔

تم عورتیں! بائی گاڈ! میں نے اسے پٹاخہ کہا تھا تو وکیل صاحبہ ناراض ہو گئیں۔  تم نے چھمک چھلو کہا تو کوئی ری ایکشن نہیں ہوا۔

چھمک چھلو، پٹاخہ جیسا گھٹیا نہیں لگتا۔  پھر ہم تو good humour میں کہہ رہے ہیں”

"تم جو کہو وہ، good humour، ہم جو کہیں وہ گھٹیا، در اصل تم عورتیں عورتوں کی سب سے بڑی دشمن ہو۔”

"کیوں؟ مرد دشمن نہیں ہیں مردوں کے؟ قتل و غارت گری کون کر رہا ہے؟”

"تم نے تو محاذ کھول رکھا ہے ہمارے خلاف یہ تمہارا فیمنیزم!جھنڈے لے لے کے کھڑی ہو رہی ہو!”

"تم میرا ڈپریشن دور کرنے کو باہر نکلے تھے سمیر!”

رضوانہ نے ہولے سے کہا۔

"لڑنے سے بھی ڈپریشن دور ہوتا ہے اور کٹھ حجتی تمہاری سرشت میں ہے۔  میں تمہارا ڈپریشن ہی تو دور کر رہا ہوں۔  ویسے جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔  کچھ بھی گڑھا ہوا نہیں۔”

"اور کیا کیا ہے عورتوں کی سرشت میں؟” اوما کے لہجے میں شرارت تھی۔ "سب سے بڑی بات تو یہ کہ سیدھے راستے سے بھٹکا دیتی ہیں۔  پتھ پھرشٹ کرنے والی اور مسلمان ہوئیں تو سونے پہ سہاگا۔  دھرم بھی بھرشٹ کرا دیں۔” سمیر نے قہقہہ لگایا۔

"ہاں گوتم بدھ بیوی کو چھوڑ کر چل دیے تھے۔”

"اور بھرتری ہری بھی”

اور تلسی داس بھی۔”

"اور حضرت عیسیٰ نے شادی ہی نہیں کی تھی۔”

"اور کبیر نے کی بھی تو کہا کہ عورت ناگن ہے یا باگھن، بلکہ دونوں۔”

دونوں لڑکیوں نے ایک کے بعد ایک نہایت روانی سے کسی واعظ کے انداز میں کہا:

سب حق گو تھے۔  حق گو اور راست باز

(سمیر نے میڈیوئیل ہسٹری پڑھنے کے دوران کچھ فارسی پڑھی تھی اور پھر اردو)

"اگر مجھے گاڑی کے ایکسڈنٹ کا ڈر نہ ہوتا تو تمہاری پیٹھ پر اتنی زور کا گھونسہ مارتی کہ slipped discکا خطرہ لاحق ہو جاتا۔” رضوانہ نے کہا:

"گاڑی سے اتر کر مار لینا۔  میرا تو کچھ نہ بگڑے گا، تمہاری کلائی میں موچ آ سکتی ہے۔  تم عورتیں برابری کے دعوے کرتی اچھی نہیں لگتی ہو۔  جتنے بھی بزرگ گزرے ہیں سنت مہاتما، پیرپیغمبرسب نے ہی ایسا کچھ کہا ہے اور مذہبی صحیفوں نے بھی۔”

"وہ سارے سا دھو سنت، پیر، پیغمبر مرد تھے اور صحیفے بھی یا مردوں نے لکھے ہیں یا ان پر اترے ہیں۔”

"گیان صرف مردوں کے پاس رہا۔  وہی اس کے لائق تھے۔”

سمیر نے کنکھیوں سے دونوں لڑکیوں کو دیکھا”مردوں کے پاس ہی نہیں تم کم بخت چتر ویدیوں، دویدیوں کے پاس۔  شودروں اور عورتوں کو تم نے ٹاٹ باہر کر دیا۔”

"ارے اب تو آسمان میں تھگلی لگا رہی ہو۔  اب لے لو گیان۔  اب کیوں عقل کے پیچھے لٹھ لے کے دوڑ رہی ہو؟”

سمیر نے گاڑی روکی ان لوگوں کا پسندیدہ کافی ہا وس آ گیا تھا۔  وہاں عمدہ کافی اور کچھ چیزوں کے علاوہ بہت ہی سبک چھوٹی چھوٹی پیسٹریاں بھی ملتی تھیں، جن پر پھلوں کے باریک ٹکڑوں سے ایسی خوبصورت سجاوٹ ہوتی تھی جیسے کشیدہ کاری کی گئی ہو۔  سبزکیوی تیز گلابی اسٹرا بیری، چمکیلے زرد آڑو اور خوبانی، ارغوانی آلو بخارے انہیں باریک اور دیدہ زیب صورتوں میں تراشنا بذات خود ایک فن تھا اور ایسی ہلکی کہ بقول رضوانہ کھا کے لگتا تھا خود تتلی بن کے اڑنے لگے۔

رضوانہ سے پوچھے بغیر سمیر نے بہت سی پیسٹریاں آرڈر کیں اور چکن پف اور کپچنو  اوما سے اس نے کہا کہ اگر وہ اپنے لئے کچھ اور منگانا چاہے تو آرڈر کر دے۔

وہ سب وہاں دیر تک بیٹھے گپ کرتے، دوستانہ جھگڑے کرتے، دھواں دھار بحثیں کرتے اور کافی کی چسکیاں لیتے رہے۔

سمیر جیسا شوہر میرا کو کیوں نہیں ملا۔  میرا پیاری میرا….

سمیر اسے واپس ڈراپ کر رہا تھا تو میرا جو تھوڑی دیر کے لئے ذہن سے محو ہو گئی تھی پھر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگی۔

اور میں خود؟ کیا میں سمیر کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی؟ اس نے فوراً دل و دماغ کے دروازے بند کر لئے جیسے ذراسی درز کھلنے پر کسی بھوت کا چہرہ دکھائی دے گیا ہو۔

فلیٹ میں روشنی جل رہی تھی۔  سمیر نے باہر آ کر اس کے لئے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا: "آ گئی ہے وہ…. کیا کہتے ہیں کہ ….چھمک چھلو تو کہہ سکتا ہوں نا؟”

"تم ہو ایک نمبر کے کمینے۔  خیر تھنکیو۔  تھینکیو ویری مچ۔  کم از کم اس وقت تو تم نے ڈپریشن دور کر دیا۔”

"روز کر سکتا ہوں۔  میرے ساتھ رہو گی تو کبھی اداس نہیں ہو گی۔”یہ کہتے ہوئے کیا وہ واقعی سنجیدہ تھا یا رضوانہ کو ایسا محسوس ہوا کہ اس مسخرے انسان میں کہیں اندر اندر بڑی گہری سنجیدگی موجود ہے۔

"فلرٹ کرنے کی کوشش مت کیا کرو۔  گدھے لگنے لگتے ہو۔  بائی۔ "اس نے بلڈنگ کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

جوہی شاید کچھ دیر پہلے ہی لوٹی تھی۔  اس کا بیگ سامنے ہی تھا اور اس نے ابھی میک اپ بھی نہیں اتارا تھا۔ "ہائی!” اس نے اپنی ائرہوسٹس والی پیشہ ورانہ مسکراہٹ پھینکی۔

جوہی مسکراتی تو اس کے دونوں گالوں میں ننھے ننھے بھنور بنتے اور وہ اوسط درجے کی قبول صورت سی لڑکی اچانک حسین لگنے لگتی۔  وہ طویل قامت اور متوازن جسم کی لڑکی تھی اور بڑے فخر سے کہا کرتی تھی، لوگ مجھے سیکسی کہتے ہیں”ضرور کہتے ہوں گے، لیکن میرے سامنے اس طرح کی بکواس مت کیا کرو۔” رضوانہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے کئی بار تنبیہ کی تھی۔

"تم مجھ سے کوئی چار پانچ برس بڑی ہو لیکن ہمارے درمیان بھر پور جنریشن گیپ ہے۔  آنے دو اماں اور پاپا کو تم سے خوب نبھے گی۔”جوہی نے ایک مرتبہ جواب میں کہا تھا۔  وہ نہایت ڈھیٹ لڑکی تھی۔  اپنی زبان بولتی اور اپنی مرضی کی حرکتیں کرتی رہتی۔  اکثر نہا کر صرف ایک تولیہ لپیٹ کر نکل آتی۔  رضوانہ غصے سے گھورتی تو کہتی، تمہیں میرا جسم خوبصورت نہیں لگتا۔  مانا تم لزبئین نہیں ہو، لیکن aesthetic sense بھی تو کوئی چیز ہے۔  بھر ایڑیوں پر گھوم کر کہتی۔  فلموں یا ماڈلنگ میں چانس مل جائے تو ہم تو اس طرح نہ جانے کتنے مردوں کے سامنے نکل آئیں تم تو عورت ہو اور اس فلیٹ کے کمرے میں بند۔”

اس کی بے باکی اور بعض قابل اعتراض الفاظ کے استعمال کے باوجود اس سے کبھی کوئی شکایت رضوانہ کو نہیں ہوئی۔  وقت پر اپنے حصے کا کرایہ ادا کرتی، گھر پر ہوتی تو کچن میں ہاتھ بٹاتی، اگر رضوانہ کام کر رہی ہو تی تو خاموشی سے دوسری طرف چلی جاتی۔

"تم پر فیکٹ انسان ہو۔  بس پیا مت کرو۔”تعلقات میں نزدیکی آئی تو رضوانہ نے کہا۔

"تمہارے سامنے کہاں پیتی ہوں؟ انتظار میں ہوں کہ تم شروع کرو۔”

"لونڈوں کے ساتھ گھومتی ہو۔  پی کے آتی ہو تو صاف پتہ چلتا ہے۔”

اور تم؟ اولڈ میڈ بنتی جا رہی ہو۔  ذرا بوائے فرینڈز بناؤ بس لے دے کے وہی ایک سمیر….”

رضوانہ نے غصے میں بات کاٹ دی۔

"وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔”

"کیوں؟ فرینڈ بھی ہے اور بوائے بھیGayہے کیا؟ لگتا تو نہیں۔”

رضوانہ واقعی ناراض ہو گئی۔” کترنی کی طرح زبان چلتی ہے۔  جو منھ میں آیا بک دیتی ہو۔  تم اچھی طرح جانتی ہو بوائے فرینڈ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور تم اسے کس سنس میں استعمال کر رہی ہو۔”

"چچ چچ چچ۔  اب اگر وہ بھی صرف فرینڈ ہے تو لعنت ہے تم پر۔  کس دور کی پیداوار ہو؟”

"تمہاری دادی کے دور کی۔”

رضوانہ نے جل کر جواب دیا تھا۔

ائر ہوسٹس ہونے کی وجہ سے جوہی کب آتی تھی اور کب جاتی تھی اس کا کوئی حساب نہیں تھا۔  ایک مشترکہ دوست کی معرفت ان دونوں کی ملاقات کرائی گئی تھی اور فلیٹ لیا گیا تھا۔  دونوں نے جو سمجھوتہ کیا تھا اس میں علاوہ دوسری شرائط کے یہ بھی تھی کہ کوئی کسی کے معاملات میں دخل نہیں دے گا۔

رضوانہ کو کئی بار محسوس ہوا تھا کہ جوہی کا لائف اسٹائل اس کی تنخواہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگا تھا، لیکن اس نے کبھی کسی تجسس کا اظہار نہیں کیا تھا۔  کیا پتہ اس کے والدین دولت مند ہوں۔  پھر یہ بات تو تھی ہی کہ جوہی پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔  جو کماتی تھی اس کا اپنا تھا۔  سب اڑا دیتی ہو گی۔  نہایت لا ابالی تھی۔  بتاتی تھی کہ زبردستی گھر سے لگ بھگ بھاگ کر یہ ملازمت کی تھی اس لئے کہ والدین شادی کے لئے بضد تھے اور وہ ابھی شادی کے لئے قطعی رضا مند نہیں تھی۔  چھٹیوں میں نہ جانے کہاں کہاں اڑی پھرتی۔  ایک بار سنگا پور گئی تھی۔  واپس آئی تو بے تحاشہ شاپنگ کر کے لوٹی تھی۔  اس میں رضوانہ کے لئے ایک یوروپیئن ڈریس بھی تھا۔

"میں یہ پہنوں گی؟ کبھی ایسا کچھ پہنے دیکھا ہے؟”

رضوانہ نے آنکھیں نکالیں۔

"ارے پہن لے اولڈ میڈ، سیکسی لگے گی۔”

رضوانہ کسی طرح راضی نہ ہوئی تو جو ہی نے اس کے بدلے مگر مچھ کے چمڑے کا ہینڈ بیگ دیا جو بہت قیمتی تھا۔ "میں اسے لے کر چلوں گی تو باقی حلیے کو دیکھ کر لوگ سمجھیں گے کہ میں نے اسے کسی بڑے اسٹور سے چرایا ہے۔” رضوانہ نے تحفہ قبول تو کر لیا لیکن ہنس کر کمنٹ بھی دے ڈالا۔

"تو کپڑے بھی لا دیتی ہوں جو میچ کریں۔”

"ارے بیوقوف لڑکی۔  میرے پاس کیا پیسے نہیں ہیں۔  یہ تو اپنا اپنا لائف اسٹائل ہے۔”

"شرط لگا لو۔  تمہیں تمہارے مرد کو لیگ سنڈے اسکول ٹیچر کہتے ہوں گے۔”

رضوانہ لمحے بھر کو چونک گئی۔  اپنے بارے میں یہ کمنٹ وہ سن چکی تھی۔  خود سمیر نے اسے کئی بار سنڈے اسکول ٹیچر کہا تھا۔  پارٹیوں میں جانے کا وقت بھی کم تھا اور جاتی بھی تو لباس اور میک اپ قابو میں رہتے۔  جہاں بیئر اور وہسکی سے شغل ہو رہا ہو وہاں ایک کونے میں سافٹ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں لئے بیٹھی رہتی اور یہ ممبئی کی ہائی سوسائٹی نہیں تھی۔  خالص مڈل کلاس۔  ہائی سوسائٹی میں تو اس کے دخل کا سوال بھی نہیں تھا کہ وہ اس طبقے کا فرد تھی نہ اس طبقے کے کسی فرد کی دوست۔

"کہنے دو۔  تمہیں کیا۔  تم بنی رہو چھمک چھلو۔”

"ہاہاہا میری ماں کی ساری پریشانی یہی ہے کہ میں چھمک چھلو بنی پھر رہی ہوں حالاں کہ جب میں گھر جاتی ہوں تو میرا سارا میک اپ کا سامان اور پسندیدہ کپڑے یہیں پڑے رہتے ہیں۔  ویسے چھٹیاں بھی بہت کم ملتی ہیں۔”

"اور ملتی ہیں تو کہیں باہر اڑ جاتی ہو۔”

"میں کیا کروں۔” اس نے لا پروائی سے کہا۔

” ہیں نا اڑا کے لے جانے والے۔”

رضوانہ خاموش رہی۔  کسی قسم کے تبصرے کا حق اس نے خود کو نہیں تھا۔  وہ تو عمرانہ کے معاملے میں بھی نہیں بول پاتی تھی۔

جوہی خود ہی کہنے لگی۔ "اماں کو بڑا ڈر ہے کہیں کسی ہائی فائی قسم کے دولت مند آدمی سے شادی نہ کر بیٹھوں۔  پڑھی لکھی ہیں۔  اخبار اور میگزین پڑھتی رہتی ہیں۔  کہتی ہیں اس طرح شادیاں کامیاب نہیں رہتیں۔  بس ایک ہی شادی ایسی دیکھی جو کامیاب رہی، نسلی اور مورین واڈیا۔  اب چہار دیواری کے اندر جو بھی ہو رہا ہو لیکن شادی نبھی ہوئی تو دکھائی دے رہی ہے۔”

"کیا پتہ تجھے بھی ویسا ہی شریف انسان مل جائے۔  ہائی فائی اور دولت مند ہونے کے باوجود”

رضوانہ ہنسی۔  گپ کے موڈ میں تھی۔

"اور جو کہیں جات دھرم الگ ہو گیا تو۔  زیادہ امید یہی ہے کہ الگ ہی ہو گا۔”

شادی، شادی، شادی جس برادری جس خطے میں دیکھو ماں باپ مرے جا رہے ہیں، لیکن ذات برادری کو بھی ابھی تک چمٹے ہوئے ہیں۔  ڈر کے مارے ڈھیل ڈالیں گے بھی تو اتنی کہ اونچی ذات کی لڑکی ہوئی اور اتفاق سے ٹکر کی ذات والا لڑکا لے آئی تو چلو مارے باندھے قبول کر لیا، مگر یہ مذہب تو بڑے مسئلے کھڑے کر دیتا ہے۔  اس نے جو ہی کی ماں کا تصور کیا۔  متوسط طبقے کی ڈری سہمی ماں۔  تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بھی روایتوں میں جکڑی ہوئی ماں۔  کہیں”ایسا ویسا” ہو جانے کے ڈرسے رات کی نیند یں کھوتی ہو ئی ماں۔  اکیسویں صدی میں پیدا ہو کر عہد وسطیٰ میں جیتی ہوئی ماں۔  بیٹی کے ائر ہو سٹس بننے پر شاید ائر کریش سے زیادہ ڈرا نہیں یہی لگا رہتا ہو گا کہ نہ جانے کس ذات، کس فرقے کا لڑکا پکڑ لائے گی۔  کہیں کسی کے ساتھ بغیر شادی کئے تو رہنے نہیں لگے گی۔  کتنی کم ترقی کی ہے ماؤں نے۔  بس اتنا ہی کہ لڑکی نے ضد کی تو ائرہوسٹس بن جانے دیا۔  ہاتھ پیر توڑ کر گھر پر نہیں بیٹھا یا نہ جو پہلا لڑکا نظر آیا اس سے شادی کر ڈالی(لیکن میرا کے ساتھ تو لگ بھگ یہ بھی ہو چکا تھا)

جوہی کے والدین اکثر بلا اطلاع آ جایا کرتے تھے اور ایک دو دن رہ کر واپس چلے جاتے تھے۔ "They are keeping tabs on me ”

جوہی نے کہا تھا۔

کیوں تم اسے اس نظر سے کیوں نہیں دیکھتیں کہ تم ان کی اکلوتی لڑکی ہو اور بھائیوں سے چھوٹی ہو اس لئے تمہاری محبت انہیں یہاں کھنچ لاتی ہے۔  تم کمبخت ماری کو چھٹیاں ملتی ہیں تو چل دیتی ہو ہانگ کانگ اور سنگاپور تفریح کرنے۔  اگلا پروگرام یو روپ کا بنا چکی ہو۔”

"سوچتی ہوں زندگی کا جتنا لطف اٹھا سکتی ہوں اٹھا لوں۔  پتہ نہیں کس کمبخت مارے کے حوالے کر دی جاؤں وہ کس طرح کی زندگی دے گا مجھے۔”

"تم، تم سے تو بھوت بھی ڈرے۔  تمہارا کوئی کیا بگاڑے گا۔” رضوانہ نے ہنس کر کہا۔

"بھوت سے بڑی چیز تم نے دیکھی نہیں وکیل صاحبہ۔  میں عمر میں پانچ برس چھوٹی، مگر تجربے میں پچاس برس آگے ہوں۔  باہر نکلو ذرا۔”

اور کتنا باہر نکلوں گی۔  رضوانہ نے سوچا۔  میری نانی گاؤں سے ہجرت کر کے پرتاب گڑھ آئیں، ممی وہاں سے نکل کے لکھنؤ پہنچیں جہاں نسبتاً بڑے شہر کی نسبتاً زیادہ آزاد زندگی تھی۔  بقول ان کے میں نے ایسے پر پرزے نکالے کہ وہ اچھا بھلا شہر چھوڑ دیا۔  اب؟

جس طرح جوہی کے والدین بے سان و گمان نمودار ہو جایا کرتے تھے ویسے ہی وہ بھی اچانک آن نکلا تھا۔  رضوانہ نے نظریں اٹھائیں تو ایک اجنبی کو کھڑا پایا۔  موکل براہ راست اس کے پاس نہیں آیا کرتے تھے۔  یہ کون ہو سکتا ہے۔  اس نے کارڈ پر دوبارہ نظر دوڑائی، اسلم فاروقی۔

"جی کہیے”

"آپ سے ملنا تھا۔  آپ رضوانہ انیس احمد ہیں نا۔”

"کسی کیس کے سلسلے میں؟”

"کیا آپ کو واقعی میرے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں۔  اور میں بیٹھ سکتا ہوں کیا؟”

"جی ضرور بیٹھئے اور میرے خیال میں صاف بات کیجئے۔  کتنے سوال جواب کرتے رہیں گے ہم لوگ؟”

اس نے کرسی کھینچی”میں آپ کے والدین کی مرضی سے آپ سے ملنے آیا ہوں۔” اس نے ایک ایک لفظ کو واضح طور پر ادا کرتے ہوئے کہا۔  انہوں نے اخبار میں میرا میٹری مونیل ایڈ دیکھ کر اس کے جواب میں آپ کی تصویر اور بایو ڈاٹا بھیجا تھا۔  ظاہر ہے میرے والدین نے میرا بھی بھیج دیا ہو گا۔  انہوں نے آپ کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔  تعجب ہے کہ آپ کے والدین نے آپ سے اس کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی۔”

رضوانہ قدرے پریشان ہو گئی۔  خیریت ہے اس وقت اس کے کیبن میں کوئی نہیں تھا۔  ویسے ہوتا تو وہ خود بھی کھل کر اتنی باتیں نہ کرتا۔  آدمی معقول نظر آ رہا تھا۔  بات کرنے کے ڈھنگ اور ظاہری صورت دونوں کے اعتبار سے۔

"ہم یہ باتیں یہاں نہیں کر سکتے۔  لنچ آور ہے۔  چلئے پاس کی کافی شاپ میں چلتے ہیں۔  ویسے یہ حقیقت ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے واقف نہیں ہوں۔”

کافی شاپ میں بیٹھتے ہی رضوانہ نے پہلا سوال کیا”آپ یہاں تک پہونچے کیسے۔  میں نہیں سمجھتی کہ ممی پاپا نے میرا پتہ دے کر کہا ہو گا کہ آپ یہاں براہ راست آ جائیں۔”

"نہیں۔  نہ انہوں نے ایسی ہدایت دی تھی کہ میں آپ سے مل لوں، نہ آپ کا پتہ بتایا تھا۔  فون پر گفتگو کے دوران، میرے والدین سے کہا تھا کہ ہم لوگوں کے مل لینے پر انہیں اعتراض نہیں ہو گا، بلکہ وہ اسے بہتر سمجھیں گے۔  آپ کا اور آپ کی لاء فرم کا نام آپ کے بایو ڈاٹا میں تھا۔  ممبئی میں کہیں پہنچ جانا اتنا آسان نہیں، لیکن اتفاق سے میرا ایک دوست بس سال بھر پہلے تک یہاں کام کرتا تھا اور میں پونے میں ہونے کے سبب یہاں آتا جاتا رہتا ہوں۔  اب بھی کمپنی کے کام سے ہی آیا تھا۔”

رضوانہ خاموش رہی۔

"آپ کو برا لگا کیا؟ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا؟”

"نہیں برا لگنے کی بات نہیں۔  نہ جانے کتنے لوگوں سے ملتی رہتی ہوں۔  شاید ممی پاپا نے سوچا ہو گا کہ آپ کے متعلق اور معلومات اکٹھا کر لیں تب بات کریں۔  (اس نے دل ہی دل میں دانت پیس کر سوچا کہ ممی سے تو بعد میں نمٹوں گی۔  ابھی اس اجنبی کے سامنے ان کی عزت رکھنی ہے)

قدرے توقف کے بعد بولی: "میری ماں بھی ملازمت کرتی ہیں۔  فرصت کی انہیں بھی کمی ہے۔  پاپا اتنے ماڈرن نہیں کہ مجھ سے براہ راست شادی کی گفتگو کریں۔”

وہ مسکرایا۔  فرصت آج کل سب کے پاس عنقا ہے۔  زندگی چوہا دوڑ بن کے رہ گئی ہے۔  rat raceکے اردو ترجمے پر رضوانہ مسکرائی۔

"میں سول انجینئر ہوں۔  اس نے بات جاری رکھی۔  پونے میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتا ہوں۔  ملازمت مستقل ہے۔  کمپنی بھی خاصی بڑی ہے۔  آپ چاہیں تو اور سوال کر سکتی ہیں۔” وہ پھر مسکرایا خفیف سی، دوستانہ سی مسکراہٹ۔

"مجھے اور کچھ نہیں پوچھنا، بس بتانا ہے۔  وہ یہ کہ اپنی ملازمت اور کیر ئر کو داؤ پر لگا کر شادی نہیں کروں گی۔  ممبئی چھوڑ سکتی ہوں بشرطیکہ میرے شوہر کے شہر میں میرے کیرئر کے جاری رہنے کے مواقع ہوں۔”

"مجھے ورکنگ وومن پر اعتراض ہوتا تو میں آپ سے ملنے کیوں آتا۔  میں پونا میں لگ بھگ مستقل طور پر رہتا ہوں۔  ممبئی آتا جاتا رہتا ہوں۔  یہاں ٹرانسفر یا نیا جاب لے لینے کے امکانات بھی ہیں۔  سب سوچ سمجھ کر آیا ہوں۔”

"ہوں” اس کی آنکھیں کچھ سوچتی نظر آئیں، پھر قدرے مسکرا کر بولی: "تب تو یہ بھی صاف ہے کہ آپ کو میرے وکیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔  کچھ لوگ وکیل بیوی لانا پسند نہیں کرتے۔”پھر جلدی سے کہا”ایسا میری ممی کا خیال ہے۔”

وہ ہنسا۔

"دیکھئے ڈر تو مجھے لگا تھا۔  اب کہیں میں کام سے دیرسے لوٹا، رات کو خراٹے لینے لگا، باتھ روم میں غیر ضروری وقت لگایا تو آپ مقدمہ ٹھوک دیں گی۔  پھر میں نے سوچا جرح کرنے میں تو معاف کیجئے گا ساری خواتین استاد ہوتی ہیں، مل ہی لوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔”

"بہت خوش فہم ہیں آپ۔  یہ مان کر چل رہے ہیں کہ یہ ابتدا کسی رشتے میں بدلنے والی ہے۔”وہ پھر مسکرائی۔

"قطعی نہیں۔  میں صرف امکانات پر غور کر رہا ہوں۔”

کافی ختم ہو چکی تھی۔  لنچ آور بھی اختتام پر تھا۔  رضوانہ نے بیگ سے چھوٹا سا پرس نکالا اور ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کیا۔  اس نے جلدی سے پرس پر ہاتھ رکھ دیا۔

"بل مجھے ادا کرنے دیجئے۔   It’s a man’s privilege.”

"یہاں میں لائی تھی آپ کو۔  آپ مجھے نہیں لائے۔”

"اس سے فرق نہیں پڑتا۔  فرض پھر بھی میرا ہی ہے۔”

فرائض کو خانوں میں باٹنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔  رضوانہ نے سوچا اور تیزی سے کچھ رقم پرس سے نکالی۔  کچھ ضدی معلوم ہوتی ہیں۔  اسلم فاروقی نے دل میں سوچا۔  ایسی کوئی خوبصورت بھی نہیں۔  ہاں یہ وکیلوں والا کالا سفید لباس، رنگ اختیار کرے اور پیچھے کھینچ کر باندھے گئے بال اتنا کھینچے نہ جائیں تو بہتر لگیں گی۔  جاذب نظر کہا جا سکتا ہے، لیکن چلیں گی۔  بزرگ کہتے ہیں جتنا چھانو اتنا کرکرا کھاؤ، اب کیا کیا دیکھا جائے۔  تعلیم، خاندان اس پر سے پری زاد۔

شام کو واپس آنے کے بعد رضوانہ نے سب سے پہلے ماں کو فون ملایا اور برس ہی تو پڑی: "ممی حد کرتی ہو۔  بتایا تک نہیں سیدھے سرپر سوار کرا دیا۔” قمر کے ذہن میں چھن سے کچھ ہوا۔  یہ اتنی جلدی اسے کہاں سے خبر لگ گئی۔  آج نہ مشترکہ خاندان رہ گئے ہیں، نہ مشاطائیں۔  نہ فرض کا احساس دلانے والے چچا، ماموں اور کم بخت اولادیں بھی بے نتھا بیل بن گئی ہیں۔  زیادہ تر لوگوں کے لئے اخبار اور میرج بیورو ہی کام آ رہے ہیں۔  اب ان کا بھی سہارا نہ لیں تو کیا کوار کوٹلے چنیں۔  شادی تو آج بھی ضروری ہے۔  آگے اللہ جانے کون سا دور آئے گا، جن کے سامنے آئے گا وہ جھیلیں گے (میں اپنی ماں اور دادی سے کتنا آگے آئی ہوں؟ شاید اتنا ہی کہ بیٹی سے براہ راست اس کی شادی کی بات کر لوں اور اگر وہ خود کوئی معقول رشتہ لے آئے تو ہائے توبہ نہ مچاؤں)

"بیٹا۔  کون؟ کسے کہہ رہی ہو؟”(قمر نے سوچا پہلے تصدیق تو کر لوں کیا بات وہی ہے، جو اس نے سمجھی یا کچھ اور)

"اب بنو مت مما۔  خوب سمجھ رہی ہو، میں کیا کہہ رہی ہوں۔  وہ حضرت بلا اطلاع آفس میں آن موجود ہوئے۔  معلوم ہوتا تو کہیں اور مل لیتی۔  وکیل کا لباس اوپر سے بال چپڑے، کس کر باندھے ہوئے۔  چہرہ ہونق۔”

قمر کو رضوانہ کے لہجے میں تلخی کے باوجود ایک طمانیت کا احساس ہوا۔  لڑکی نے دلچسپی تو ظاہر کی۔  حلیہ صحیح رکھنے کا خیال ذہن میں آیا۔  اگر بالکل ہی خلاف ہو تی تو کٹ کھنی بلی کی طرح غراتی اور ذرا پرواہ نہ کرتی کہ کس حلیے میں ملی تھی۔  اس نے ٹھنڈی سانس لی۔  رات کو بہت دن کے بعد جھاڑ کر جانماز نکالی۔  صاحبزادی خفا ضرور ہوئی تھیں، لیکن پھر بھی رد عمل نارمل تو تھا۔  کیسا لگا لڑکا، کے جواب میں ہنسی تھی۔ "لڑکا” وہ اتنا ہی لڑکا ہے جتنی میں لڑکی۔  اڑتیس برس عمر بتا کے گیا ہے۔  ویسے معقول لگا۔  بس ذرا بڑبولا ہے۔”

ہو سکتا ہے جسے تم بڑبولا کہہ رہی ہو وہ اس کا اپنے آپ کو پریزنٹ کرنے کا طریقہ ہو۔  اب تم کو اور کوئی بتانے والا تو تھا نہیں۔  وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہو گا کہ اسے نتھو بدھو نہ سمجھا جائے۔  جانے اتنے دن کنوارا کیسے رہ گیا۔  انجینئر ہے اور ملازمت میں ہے۔”

"جیسے میں ہوں۔” رضوانہ کے لہجے میں رکھائی تھی۔  لڑکی کا کیا۔  اچھی اچھی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔  انہیں لینے کو لوگ جب ہی دوڑتے ہیں جب حسین ہوں یا دولت مند اور ہاں ڈاکٹر ہوئی تو بھی مانگ لی جاتی ہے۔  وکیل سے تو الٹا لوگ بدکتے ہیں۔  خدا کا شکر ہے، ان لوگوں کو اعتراض نہیں۔  لگتا ہے ناپسند کر کے نہیں گیا۔  ٹچ میں رہنے کی بات کر گیا ہے۔  ایک تو نمٹے دو میں سے۔”لیکن قمر نے اتنا کچھ کہا نہیں۔  کہتی تو رضوانہ سننے والی بھی نہیں تھی۔

قمر نے اخبار میں ضرورت رشتہ کے اشتہار دیکھنا اور نفلیں پڑھنا جاری رکھا(ایک زمانہ تھا کہ وہ اخبار میں ملازمت کے لئے”خالی جگہوں” کے اشتہار دیکھا کرتی تھیں)

اس نے انیس کو اسلم فاروقی کے رضوانہ سے ملنے کی بات بتا دی تھی۔  معاملے کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔  انیس نے کہا تھا۔

"لڑکا جا کر مل آیا ہے۔  اب صاف بات کرے اور تمہاری صاحبزادی کیا فرما رہی ہیں۔  وہ بھی بتا دیں تو ان لوگوں کو یہاں بلا لیا جائے، یا ہم چلیں۔”

"صاحبزادی نے صاف تو کچھ کہا نہیں۔  بس یہ کہ وہ رابطہ رکھنے کی بات کر کے گیا ہے۔  مطلب یہ تو ہے کہ” نا” نہیں ہے۔”

انیس بھڑک گیا:

"جی ہاں اب یہ لوگ فون پر گفتگو فرمائیں گے، کمپیوٹر پر چیٹنگ کریں گے، فیس بک پر تصویر یں چپکائیں گے، اس کے بعد اعلان کریں گے کہ ہمیں ایک دوسرے میں   compatibility  نہیں نظر آ رہی۔  کیا کہتی ہیں تمہاری دونوں بیٹیاں کہ ہمیں سب سے زیادہ "compatibility”کی ضرورت ہے۔  تم نے ڈھونڈی تھی؟ ہماری تو دو بار شادی ہوئی۔  مرحومہ کی صورت تک شادی سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔  اگر چھوڑ نہ جاتیں تو ہم بغیر compatibilityڈھونڈے ان کے ساتھ خوش تھے۔” پھر وہ جلدی سے بولا۔ "ویسے آپ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔  خوش ہی ہیں۔”

عمر بڑھنے پر انیس بہت بولنے لگا تھا اور ادھر قمر سے بہت ناراض بھی تھا۔  اس کی ناراضگی سیلی ہو ئی پھلجھڑی کی طرح وقت بے وقت چنگاریاں پھینکتی رہتی تھی۔

کچھ عرصہ پہلے کچھ خواتین نے (جنہیں بقول انیس کوئی اور کام نہیں تھا۔  بچوں کو سیٹل کر چکی تھیں اور شوہر سے وہ بیزار تھیں یا شوہر ان سے بیزار تھے)ایک انجمن بنائی تھی۔  اس انجمن کو ایپوا

(All India Progressive Women’s Association)کی حمایت حاصل تھی۔  رضوانہ نے ماں کی خوب ہمت افزائی کی۔  تمہارے ریٹائر ہونے میں زیادہ دن نہیں رہ گئے۔  اچھا ہے کسی مشغلے میں مصروف رہو گی۔  وہ بھی ایسے مثبت کاموں میں جن سے غریب عورتوں کی مدد ہو جائے۔  پاپا بھی ریٹائر ہونے ہی والے ہیں۔  دونوں لڑتے رہو گے اور زیادہ شدومد سے میری اور عمو کی شادی کرانے میں جٹ گے۔  ہی ہی ہی۔  وہ ہنسی تھی کہیں جو پہلا لڑکا دکھائی دے اسی سے نہ کر دو۔”

قمر کے جوائن کرنے کے بعد جو پہلی فریاد ان لوگوں کے پاس آئی وہ ایک گھریلو کام کرنے والی نوجوان لڑکی کی تھی۔  وہ سولہ سال میں بیاہی گئی، سترہویں سال میں ایک بیٹے کی اماں بنی اور اٹھارویں میں طلاق دے کر گھر بٹھا دی گئی۔  سسرال لکھنؤ کے مضافات میں تھا اور میکہ پرانے لکھنؤ کی گلیوں میں۔  واپس آ کر اس نے پھر گھریلو ملازمہ کا کام کرنا شروع کر دیا، بلکہ جن کے یہاں وہ شادی سے پہلے کام کرتی تھی انہیں لوگوں نے اسے رکھ لیا۔  لڑکی جس وقت گھر آئی اس کا بچہ چھ سات ماہ کا تھا۔  وہ کوئی سال بھر کا ہوا تو ایک دن اس کا شوہر آیا اور گھر میں گھس کر بچے کو اٹھا لے گیا۔  اس وقت وہاں بچے کی کم عمر خالہ تھی جو اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔  مرد اور بڑی عمر کی عورت سب اپنے اپنے روزانہ کے کاموں پر نکلے ہوئے تھے۔

"بیٹا ہے۔  بیٹی ہوتی تو چھوڑ دیتے۔  بس بہت ہوا۔  سال بھر ماں کا دودھ پی لیا۔  اب ہم گائے کا دودھ پلا کر پال لیں گے۔  باہر آنکھ مٹکا کر تی گھومتی ہے تو تم لوگ بھی تو اب کچھ اور کھلا پلا کر پال رہے ہو۔”

اس نے سخت لہجے میں سالی سے کہا تیرے پاس تو ابھی کچھ نہیں۔  وہ اس قدر گھبرا گئی کہ احتجاج بھی نہ کر سکی۔  گھر بند کر کے جا کر ماں کو بلا کر لانا اس کے بس کا نہیں تھا۔  آنسو بہاتی انتظار کرتی رہی کہ کوئی آئے تو بتائے کہ کیا واردات گزری۔  بچے سے اسے بھی بڑی محبت ہو گئی تھی۔

انجمن نے اپنی میٹنگ بلائی ابھی صرف سات خواتین تھیں اور ایک نوجوان لڑکا۔  یہ سب شدومد سے اپنی ممبر شپ اور دائرہ کار بڑھانے میں کوشاں تھے۔  لڑکی ان کے سامنے آئی تو سب نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ آنکھوں سے آنسو تو رواں تھے ہی، اس کا کرتا سامنے سے دودھ کی دھاروں سے بھیگ رہا تھا۔  کئی خواتین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پلکیں جھپکائیں۔  ان کے گلے میں کچھ پھنسنے لگا تھا۔  نوجوان لڑکا کچھ حیرت، کچھ گھبراہٹ کے عالم میں ایسا کچھ ہوتے دیکھ رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اسے فوری طور پر سمجھ پانے سے قاصر تھ

خواتین نے لڑکی کی روداد سنی، اسے تسلی دی اور طے کیا کہ وہ پچیس کیلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اس کے شوہر اور سسرال والوں سے مل کر سمجھائیں گی کہ کم از کم پانچ برس تک وہ بچہ نہ لیں۔  اس کے بعد جوائنٹ کسٹڈی طے کر لیں ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا جائے گا اور عدالت ماں کے حق میں پانچ برس سے زیادہ کا فیصلہ کرے گی۔

"ہم نے میتھلی شرن گپت کی کویتا”ابلا جیون ہائے تیری یہی کہانی” آنچل میں ہے دودھ اور آنکھوں میں پانی، کو اس طرح ساکار ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔  اسے ہم سب Symbolicسمجھتے تھے۔  یہ تو ساکشات سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔” انجمن کی سکریٹری شانتی بھٹناگر گاڑی چلا رہی تھیں۔  انہوں نے کہا ان کے لہجے میں درد مندی بھی تھی اور ایک طرح کی حیرت بھی۔

"اور میتھلی شرن گپت کو یہ لکھے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا۔  آج آبادی کا بڑا حصہ وہیں کا وہیں تھما ہوا ہے۔” قمر نے تاسف کے ساتھ کہا۔

"changeتو دکھائی دے رہا ہے، لیکن بس یونہی کہ سڑک پر بڑھیا بڑھیا امپورٹڈ گاڑیاں ہیں اور بیل گاڑی بھی چل رہی ہے۔

"ہاں دیکھئے نا، ابھی ایک بارات میں گئے تھے۔  دولہا انجینئر تھا۔  لڑکی بنگلور میں سا تھ پڑھتی تھی، لیکن مائکہ بہار کے کسی ایسے گاؤں میں تھا جو بالکل ہی اللہ میاں کے پچھواڑے تھا۔  لڑکے والوں کی کاریں ایک مخصوص پوائنٹ پر روک دی گئیں۔  آگے جو پگڈنڈیاں تھیں ان پر صرف بیل گاڑی چل سکتی تھی۔”

مسز نگم نے پہلے بھی یہ قصہ سنایا تھا۔  در اصل وہ اس قدر حیرت زدہ تھیں اور محظوظ بھی کہ سناتی رہتی تھیں۔ ” اور دولہا کو ہاتھی پر بٹھایا گیا۔” قمر نے لقمہ دیا جو وہ قصہ پہلے سن چکی تھیں۔

ہا ہا ہا۔  مسز نگم ادھیڑ عمر خاتون تھیں، لیکن نوجوان لڑکیوں کی طرح بات بے بات قہقہے لگاتی تھیں۔ "سب سے مزیدار بات یہ تھی کہ رخصتی کے وقت دلہن اچک کر بندریا کی طرح ٹریکٹر پر بیٹھی۔  پھر بیل گاڑیوں، ہاتھی اور ٹریکٹر پر لادا گیا یہ قافلہ وہاں پہونچا جہاں باراتیوں کی کاریں کھڑی تھیں۔  چلئے اب ذرا ان صاحب سے نمٹیں جو ماں کی گود سے بچہ لے کر بھاگے ہیں۔” چونکہ وہ بستی قریب آ گئی تھی جہاں کا پتہ دیا گیا تھا۔  خواتین چوکس ہو گئیں۔

بتائے ہوئے مکان سے وہ نوجوان لڑکا برآمد ہوا جو اس لڑکی کا سابق شوہر تھا۔  اس کے تیور نہایت جارحانہ تھے۔

"کون ہیں آپ لوگ؟ یہاں کیوں آئی ہیں؟ یہاں نہ پولیو کی دوا پلانی ہے نہ بچے پیدا کرنا بند کرنے کے طریقے بتانے ہیں۔  ایک ہی بچہ ہے ہمارا۔  پولیو کی دوا پلا چکے ہیں۔”

"بچے کی ماں کہاں ہے؟”

"جچگی میں مر گئی تھی۔”

"نام بتاؤ”

"کیوں بتائیں؟”

"ہم لوگ جچگی میں ہونے والی موت یا کم عمر بچوں کی موت کا لیکھا جوکھا رکھ رہے ہیں۔”

"خلیقُن کہاں ہے؟”

آوازیں سن کر اندر سے ایک عورت نکل آئی تھی۔  ادھیڑ عمر، تیز طرار۔  کمر پر ہاتھ رکھے۔

"اس کی بات کون پوچھ رہا ہے؟ بھاگی ہوئی عورت کی؟ اس سے ہمارا اب کوئی رشتہ نہیں۔”

"آپ لوگوں نے طے نہیں کیا ہے کہ خلیق النسا کے بارے میں کیا کہنا ہے۔  وہ مر گئی ہے یا بھاگ گئی ہے یا اسے طلاق دی گئی ہے۔”

"ہاں تو بھاگ گئی تھی اس لئے بیٹا ہمارا کیا کرتا۔  ایسی عورت کو واپس لاتا؟ ہم غریب ہیں تو کیا ہماری عزت نہیں ہے؟” وہ عورت بڑے جارحانہ انداز میں بول رہی تھی۔

قمر یکلخت سناٹے میں آ گئی۔  جب میرا سے اس کے شوہر اور سسرال والوں نے پلا جھاڑنا چاہا تھا تو انہوں نے اس کے ماضی سے ایک ایسا لڑکا ڈھونڈ نکالا تھا جس سے کبھی اس کے مراسم رہے تھے، گر چہ اس نے پوری طرح اپنے شوہر کو قبول کیا تھا، لیکن انہوں نے آخری فیصلہ کرتے وقت اسے بد چلنی کا مورد الزام ٹھہرایا۔

یہ کون بول رہا ہے؟ ایک نچلے طبقے کی جاہل عورت اور اس کا ایک گارمنٹ فیکٹری میں کپڑے پیک کرنے کا کام کرنے والا بیٹا جو محض اتنا پڑھا لکھا تھا کہ دستخط کر لیتا تھا یا ایک اونچے متوسط، اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے کا انجینئر اور اس کی ڈگری یافتہ ماں؟ اسے ایسی چپ لگی کہ پھر کچھ بولی ہی نہیں۔  بعد میں ان لوگوں نے پوچھا بھی کہ آخر وہ اس قدر خاموش کیوں ہو گئی تھی۔

خواتین نے ان دونوں سے آرام سے بات کرنے کو کہا۔  خود ان کی بد کلامی کا ذرا بھی اثر نہیں لیا۔  لڑکے کو اغوا کر کے لانے کو قانونی جرم بتایا۔  دودھ پیتا بچہ عدالت ماں کے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔  ٹھنڈے دماغ سے سمجھنے کو کہا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔  اس کا ٹیپ کا بند یہ تھا کہ اس آوارہ لڑکی نے یار سے بغیر کسی رکاوٹ شادی کرنے کے لئے بچے کو بیچ دیا ہے۔

"ہمیں تو یہ بھی پتہ ہے کہ کتنے میں؟”

"تو آپ اپنے بچے کو بچانے کیوں نہیں گئے؟” اس کا جواب تھا کہ اسے بہت بعد میں پتہ چلا اب بچہ کہاں ہے کون جانے۔  شاید کوئی صاحب اسے لے کر فرار ہو چکا ہے۔

ان لوگوں کی مزید کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لئے کہ اس دن ان خواتین کے وہاں پہنچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچے کی دادی اسے لے کر نہ جانے کہاں فرار ہو گئی۔  کار روائی جاری رہی۔  اب بھی جاری تھی۔  خلیق النسا کے دودھ کی دھاریں گرتے گرتے خشک ہو گئیں۔  آنسووں کے سوتے البتہ کبھی خشک نہیں ہوئے۔

انیس ہمیشہ قمر کا مذاق بناتا رہتا تھا بلکہ باقی سب خواتین کا بھی۔  اس کے مذاق بنانے میں مذاق اڑانے کا عنصر حاوی رہتا تھا، ایک پر خلوص طریقے سے بیوی کو چڑانے، ہنسی ٹھٹھا کرنے کا نہیں۔  اسے یہ ساری خواتین فضول لگتی تھیں۔  اپنا اپنا گھر سنبھال لیں وہی بہت ہے۔  چلیں پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانے۔  ایک دو ٹکے کے آدمی کو راہ راست پر نہ لا سکیں اور وہ گالیوں کی بوچھار پر اتر آیا۔  قمر کی شامت آئی تھی وہ انیس کو بتا بیٹھی کہ دوسری ملاقات میں شکل دیکھتے ہی اس نے بے نقط سنانی شروع کی تھیں اور ان مکلف خواتین سے ذرا نہیں ڈرا تھا جو کار پر بیٹھ کر اس کے غریبا مؤ دروازے پر آئی تھیں۔  بستی کے بہت سے لوگ نکل کر ٹھی ٹھی ٹھی کر کے ہنسنے لگے تھے اور ان لوگوں نے گرچہ اوپر سے ظاہر نہیں ہونے دیا، لیکن اندر ہی اندر نہایت شرمندہ ہوئیں۔  کا ہے کو کبھی کسی نے انہیں اختو بختو، کٹنی، حرافہ جیسی گالیاں دی ہوں گی اور سب پر مستزاد چھنال جو اپنی جیسی چھنال کی حمایت میں ماری ماری پھر رہی تھیں۔

خیر گزری جو قمر نے یہ الفاظ نہیں دوہرائے تھے ورنہ انیس بالکل ہی ہتھّے سے اکھڑ جاتا۔

اس سے پہلے یہ انجمن ایک معاملے میں دھرنا دینے جا رہی تھی اور کئی خواتین پہنچ بھی گئیں، لیکن انیس نے سختی سے کہہ دیا کہ اگر قمر کسی دھرنے جیسی ایکٹیوٹی میں شریک ہوئی تو وہ سرے سے اس کا ان میٹنگوں میں جانا بند کر دے گا۔  اس نے بتایا کہ ایک معاملے میں اسی طرح کی کسی انجمن کی اراکین نے کہیں دھرنا دیا تھا۔  ان میں ایک آئی۔  پی۔  ایس افسر کی بیوی بھی تھیں، جو فیمنسٹ ایکٹوسٹ تھیں۔  کچھ دن بعد ان کے شوہر کو شنٹنگ میں ڈال دیا گیا تھا۔

قمر کے عدم تعاون کا تذکرہ ہوا اور اس پر نکتہ چینی بھی ہوئی، لیکن اس نے کہہ دیا کہ وہ ایک حد تک ہی شریک ہے، اس کے آگے نہیں۔  خواتین کہنے لگیں، چلو اسی کے گھر پر دھرنا دیتے ہیں۔

"کیا تیر مار آئیں؟” انیس نے پوچھا۔

"بچہ مل سکا؟”

"نہیں، مگر شاید آگے کچھ بات بنے۔” انیس ہنسا۔  یہ ہندوستان جنت نشان ابھی مزید سو برس یو نہی چلتا رہے گا اور یہ آپ کا فیمنزم یہ مغرب سے آیا ہے اور وہاں کیا حال کیا ہے سماج کا، سو دیکھ لیجئے۔  طلاق کے ڈر، بچوں کی چھیچھا لیدر کے خوف سے اب بیشتر لوگ شادی ہی نہیں کر رہے۔  گوروں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔”

"انیس، فیمنزم صرف زن و شو کے تعلقات تک تھوڑی ہی محدود ہے۔  اب اسی معاملے کو لے لو ہم کوئی طلاق شدہ جوڑے کو دوبارہ یکجا کرانے نہیں گئے تھے۔  ماں کو اس کا حق دلانا چاہتے تھے۔”

"پہلے اپنا حق مادری تو لے لو۔  تمہاری بیٹیاں تمہیں ٹھینگا دکھا کر نہ جانے کیا کیا کرتی گھوم رہی ہیں۔” قمر چپ ہو گئی پھر اس نے نظر بھر کر انیس کو دیکھا۔  اس کے چہرے پر درشتی نہیں، تاسف تھا۔  کچھ عرصے سے اس نے بھی لڑکیوں کے معاملے میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان سے کسی طرح کی بحث میں نہیں الجھتا تھا۔  قمر کو اس پر ترس آ گیا۔  وہ کچھ پرانے خیال کا ضرور تھا کچھ سخت گیر اور اپنی بات منوانے والا، لیکن اس کی ساری ہیکڑی لڑکیوں نے بھلا دی تھی۔  وہ بد تمیزی نہیں کرتی تھیں، لیکن بڑے اطمینان سے جو چاہتی کرتی رہتیں۔  ویسے کوئی بڑی بغاوت بھی نہیں کی تھی۔  ابھی تک تو نہیں۔  قمر کو سارے اگر مگر کے باوجود اس سے بڑی محبت تھی۔  وہ گھر کا مکھیا تھا، ہیڈ آف اسٹیٹ، اس کے اس تصور نے رشتے کو سنبھال کر رکھا تھا۔  اس محفوظ گھونسلے میں بڑی عافیت تھی۔  پتہ نہیں یہ لڑکیاں کیا سوچ رہی ہیں۔  بڑھاپا تنہا گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔  آج انیس کا ساتھ کیسا غنیمت لگ رہا ہے۔  وہ انیس کے پاس گئی اور اس کے شانوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔ "چائے بناؤں” اس کے لہجے میں محبت تھی۔ "چائے بناؤں؟ پوچھنے کی ضرورت ہے؟” اس نے قمر کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔  نہ لہجے میں محبت تھی، نہ آنکھوں میں، لیکن دسوں انگلیاں زبان تھیں، شیریں زبان۔

"ویسے ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں۔  خوش ہی ہیں۔” کئی بار کہا تھا اس نے۔

قمر نے رضوانہ کو فون کیا۔ "تمہارے پاپا چاہتے ہیں کہ اس بات کو جلدی ہی ایک رخ دیا جائے۔”

"کس بات کو؟”

"بنو مت۔  میں اسلم فاروقی کی بات کر رہی ہوں اور تم جانتی ہو کہ میں اس کی بات کر رہی ہوں۔”

"مما، قسم خدا کی، اس وقت وہ میرے ذہن میں دور دور نہیں تھا، لیکن آپ یہ بتائیے کہ میں اس سلسلے میں کیا کروں۔  اپنا اسٹینڈ بتا چکی ہوں۔  مجھے وہ شخص ناپسند نہیں ہوا، لیکن سمجھ میں بھی نہیں آیا۔”

"بیٹا یہ یوروپ یا امریکہ نہیں ہے، ہندوستان ہے۔  یہاں سمجھنا سمجھانا سب شادی کے بعد ہوتا ہے، جو چیزیں دیکھی جاتی ہیں وہ ظاہری ہی ہوتی ہیں۔  اصل شخصیت ساتھ رہنے کے بعد کھلتی ہے اور بیٹا ہر رشتے میں ایڈ جسمنٹ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔”

"تو جائیے پوچھئے نا اس سے۔  دو لانبی لانبی میلز بھیجنے کے بعد سے خاموش بیٹھا ہوا ہے۔  اب مجھے اس سے عشق تو ہوا نہیں ہے کہ پیچھے پڑ جاں۔”

قمر کچھ خفیف ہو گئی۔  واقعی اب تو انہیں لوگوں کو رابطہ کرنا چاہیے۔  اگر وہ خاموش ہو گیا ہے تو اسے ہم کیا معنی پہنائیں۔

انیس کے سوال کرنے پر اس کے والدین نے کہا: "ہم ابھی تک لڑکے کے فائنل جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔  ویسےر شتے تو اور بھی زیر غور ہیں۔” قمر کا دل بیٹھنے لگا۔  خدا خدا کر کے لڑکی نے کہا تھا کہ اسے لڑکا ناپسند نہیں ہوا ہے۔

پھر جیسے وہ پہلے اچانک آ نکلا تھا ویسے ہی دوبارہ نمودار ہو گیا۔  بقول رضوانہ کی گہری دوست نرگس داجی رضوانہ کی زندگی کے افق پر۔

کافی شاپ میں اس نے رضوانہ کی پسندیدہ کولڈ کافی وِد آئس کریم آرڈر کی اور اپنے لئے کپچینو پھر اِدھر اُدھر کی گپ کرنے کے بعد اس نے بغیر کسی لاگ لپٹ کے کہا: "تو رضوانہ صاحبہ کیا ہم لوگ تیار ہیں؟ کیا اپنے اپنے والدین سے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں آگے جو کار روائی کرنی ہے وہ کریں۔”

اچانک رضوانہ کو اپنے گرد و پیش کی پوری دنیا تبدیل ہو تی نظر آئی۔  کیا وہ بھی ایک عام سی نارمل ہندوستانی لڑکی کی طرح کسی کے گھر میں اس کی بیوی بن کر رہے گی؟ اس کے بچوں کی ماں بنے گی؟ شام کو بن سنور کر (کیا گھٹیا خیال ہے) اس کا انتظار کیا کرے گی؟ اس کے گرد وہ حفاظتی خول ہو گا جسے شادی کہتے ہیں، وہ محافظ ہو گا جسے شوہر کہتے ہیں، وہ اس آدھی ادھوری زندگی سے کٹ کر خود کو مکمل محسوس کرے گی۔  اس کے والدین چین کی سانس لیں گے، لیکن کیا واقعی وہ بھی اس زندگی کو ادھوری سمجھ رہی تھی؟ یہ لفظ آیا کیوں اس نے ذہن میں اس کے جسم میں لرزش پیدا ہوئی۔  شاید لب بھی کانپے۔  اس نے نظریں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا۔  اس کے چہرے پر خلوص تھا۔

"اس سے قبل کہ آخری فیصلہ ہو، مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے۔”

وہ کچھ پریشان ہو گیا۔  کیا کسی افیئر کا اعتراف کرنے والی ہیں۔  میں نے اس دوران جو تفتیش کی اس میں تو انہیں کلین چٹ ملتی نظر آئی تھی۔  لمحہ بھر میں اس کے ذہن میں نہ جانے کتنے خیال آ کر گزر گئے۔

"کہئے۔” اس نے کہا:

"میری پنڈلی پر ایک چھوٹا سا سفید داغ ہے۔  یہی کوئی چونی برابر یا شاید ذرا سابڑا۔”

اس کی پریشانی مایوسی میں بدلتی دکھائی دی جس کو نظر انداز کرتے ہوئے رضوانہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

"پچھلے پانچ سال سے اتنا ہی ہے، بڑھا نہیں۔  ڈاکٹر کو دکھایا تھا۔  انہوں نے کہا کہ لیو کوڈرما نہیں ہے، لیکن میں بتا دینا مناسب سمجھتی ہوں۔  کسی پردہ دار جگہ پر نہیں ہے۔  آپ دیکھ بھی سکتے ہیں۔  اس نے جھک کر ساری ذرا سی اوپر چڑھانی چاہی۔”

” اس کی ضرورت نہیں، میں دیکھ کر کیا کروں گا۔  آپ مجھے ڈاکٹر کی رپورٹ دکھا سکیں تو بہتر ہو گا۔” ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ڈوبتا تنکے کا سہارا لے رہا ہو۔

رضوانہ کی تیور یوں پر بل پڑ گئے۔  میرے پاس کسی ڈاکٹر کی رپورٹ محفوظ نہیں ہے۔  بھروسہ کر سکتے ہیں تو کرئے۔  میں خاموش بھی رہ سکتی تھی۔  اسے کسی زخم کا نشان کہہ کر بات چھپا بھی سکتی تھی۔  وہ بھی جب، جب یہ آپ کی نظر میں آتا۔  میں نے تو حتی الامکان کوشش یہ کرنی چاہی کہ ابتدا میں ہی کوئی اختلاف کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔”

وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا: "کیا ہم کسی ڈاکٹر سے فریش رپورٹ لے سکتے ہیں؟”

"میں نے جب اسے پہلی بار نوٹس کیا تو والدین کے ساتھ جا کر لکھنو کے کنگ جارج ہاسپٹل کے جلدی امراض کے شعبے میں مکمل چیک اپ کرا لیا تھا۔  اب میں آپ کے ساتھ چیک اپ کے لئے جانا اپنی توہین سمجھتی ہوں۔  آپ میری ایمانداری کی قدر نہیں کر رہے۔  مجھ پر یقین نہیں کر رہے۔”

"ٹھیک ہے سوچ کے بتاتا ہوں۔”وہ تھوڑی سی رسمی گفتگو کے بعد اٹھ گیا۔  اس باراس نے کافی کا بل بھی رضوانہ کو ادا کرنے دیا۔  پونے واپس آ کر اس نے انگوٹھی کی ڈبیہ جیب سے نکال کر وارڈ روب کے لاکر میں رکھ دی۔

ا ر الو کی پٹھی! سمیر نے دھپ سے رضوانہ کے شانے پر ہاتھ مارا، لیڈی ڈائنا اسپنسرکو Virginity Testسے گزرنا پڑا تھا اور تم پنڈلی کے اس چونی بھر داغ کا ٹسٹ کرانے نہ گئی کہ اسے اطمینان ہو جاتا۔  اتنا اچھا لڑکا ہاتھ سے گنوا دیا۔  اب دلتی رہو مونگ اماں ابا کی چھاتی پر۔

"اور سماج کی چھاتی پر بھی” نرگس نے لقمہ دیا۔  نرگس جلد ہی انعام دار کے فلیٹ میں منتقل ہونے جا رہی تھی۔  انعام دار مسلمان تھا پارسیوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہونے کے باوجود یہ لوگ اب بھی برادری سے نکل جانے والی لڑکی کی اولادوں کو پارسی نہیں تسلیم کرتے تھے۔  ان کے یہاں تبلیغ بھی نہیں تھی، پھر بھی لڑکیاں باہر شادی کر رہی تھیں اور اس فرقے میں آنر کلینگ نہیں تھی نہ زیادہ رولا مچتا تھا۔  بزرگ کچھ تشویش کا اظہار ضرور کر لیتے تھے۔  نرگس کے دادا، دادی نے کچھ نصیحتیں ضرور کیں۔  کچھ اونچ نیچ سے آگاہ بھی کیا تو اس نے کہا”ارے ابھی تو ہم صرف تجربہ کر رہے ہیں، کون سا بیاہ کر رہے ہیں۔  ابھی بچے نہیں پیدا کریں گے۔  شادی کی تو دیکھا جائے گا، ورنہ ہم اپنے رستے اور شارق اپنے رستے۔” یہ پورا مکالمہ دادا، دادی کی نقل کر کے اس نے قریبی دوستوں کے حلقے میں سنایا تھا۔  شارق اس کے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا اور پھر باپ کا بزنس سنبھال رہا تھا۔  متمول والدین کا بیٹا تھا۔  پتہ نہیں اس نے اپنے گھر میں کیا سبق پڑھا یا تھا۔

یہ کون سا سماج ہے؟ یہ ہندوستان کا کون سا چہرہ ہے؟

نرگس اور سمیر بقول خود رضوانہ کی ٹریجک کا میڈی یا کامک ٹریجیڈی(اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا تھا کہ واقعے کو کیا نام دیا جائے) کو سیلیبریٹ، کرنے کا فی شاپ میں اکٹھے ہوئے تھے۔  ان کو چند اور قریبی دوستوں کو انتظار تھا کہ لکھنؤ جا کر وہاں کے مشہور و معروف باورچیوں کا پکایا روایتی قورمہ بریانی کھائیں گے اور رضوانہ کو اتنا تنگ کریں گے کہ وہ سچ مچ کسی روایتی دلہن کی طرح روتی دھوتی رخصت ہو سکے، ورنہ وہ تو رخصتی کے وقت رونے والی تھی نہیں۔

"لیڈی ڈائنا اسپنسرکو بر طانیہ کے تخت وتاج کا وارث مل رہا تھا۔  بعد میں جو تعلقات رہے ان کی پیشنگوئی کرنے والا تو کوئی تھا نہیں اور ویسے اس کی اولاد تو وارث ہو ہی گئی۔”رضوانہ نے جل کر منھ مارا۔ "مجھے کسی سلطنت کا وارث پروپوز کرے تو شاید اسکن اسپیشلسٹ کے پاس تو چلی جاؤں، لیکن کنوار پن کا سرٹیفکٹ لانے کو کہا تو گولی ماردوں گی۔”

"کیوں؟ ورجن نہیں ہو کیا؟ ڈر جاؤ  گی ٹسٹ سے؟” سمیر نے قہقہہ لگایا۔

"کمینے ہو تم۔  صریح کمینے۔  کسی ملک کا تاج اس ذلت کی قیمت نہیں چکا سکتا۔  اس ترقی یافتہ ملک کی اس لڑکی نے یہ کیسے گوارا کیا اور شاہی خاندان کی ہمت بھی کیوں کر ہوئی۔  پرنس چارلز کا ٹسٹ نہ کرایا؟ تم سالے جہاں جی چاہے، جب جی چاہے منھ مارو اور ہم اپنا جسم لئے بیٹھے رہیں، پھر لاکھ کہیں کہ ہاں ورجن ہیں تو یقین نہ کرو۔  جب ہم میں اپنی مرضی سے جسمانی رشتہ بنانے کی ہمت آئے گی تو اسے تسلیم کرنے کی ہمت بھی ہو گی۔”

"باپ رے باپ ورجینا وولف، کیٹ ملر، سیمون دی بوا، رضوانہ انیس آگے آیت۔  تحریک ختم۔”

"ہندوستان میں فیمنزم آیا ہی کہاں ہے۔  آئے تو سہی” رضوانہ ابھی تک خفا تھی۔

” فیمنزم والیاں جتنی برابری چاہتی ہیں وہ کبھی نہیں آ سکتی۔  کیا مارکسزم کے بعد معاشی برابری آئی؟ طبقاتی فرق مٹا؟ کیا سارے پیر پیغمبروں کے بعد سماجی برابری آئی۔  ذات پات ہٹی؟ اہنسا کو مذہب کی بنیاد بنانے والے بدھسٹ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور چین نے اس سے پہلے تبت کے ساتھ کیا کیا؟ اب مانو نہ مانو قدرت نے ہی عورت کو ایسا بنایا ہے کہ مکمل مساوات کی مانگ….” نرگس شستہ انگریزی میں کہہ رہی تھی۔

"نرگس تم عورت ہو کر؟”

رضوانہ نے بات کاٹ کر حیرت سے اسے دیکھا۔

"جس دن بچے گملوں میں اگنے لگیں گے اس دن عورت برابری کا دعویٰ زیادہ مضبوطی کے ساتھ کر سکے گی، لیکن ابھی تک تو سائنس ایسا کچھ نہیں کر سکا ہے۔  بچہ اب بھی ماں کی کوکھ میں پلتا ہے۔  وہ کرایے کی کوکھ کیوں نہ ہو، لیکن ہو تی تو عورت کے اندر ہی ہے۔  ہاں برابری کا سلوک، انسان سمجھنا، فیصلوں میں ساجھے داری….”

"یار Cut the crap

سمیر بور ہو کر بولا۔  شاید ہم کچھ سیلیبریٹ کرنے آئے تھے۔  رضوانہ کی پسند کے سنہرے جھیں گے آرڈر کریں؟ تم پڑھی لکھی عورتیں جہاں بیٹھو گی وہاں یہی سب ڈسکس کرو گی۔  بھول جاؤ  گی کہ زندگی میں کچھ اور بھی ہے۔”

(کیا زندگی میں کچھ اور کی ہی تلاش میں رضوانہ نے اسلم فاروقی پر غور نہیں کیا تھا؟ کیا بظاہر خوش اور مطمئن نظر آنے والی لڑکی زندگی میں کچھ اور آسودگیوں کی متلاشی نہیں تھی؟)

"ایک بات بتاؤ سمیر”

سمیر نے پہلے نظر بھر کر رضوانہ کو دیکھا پھر نرگس سے مخاطب ہوا میں نے سوال کیا تھا۔ ” بولو”

"تمہاری بیوی تم سے زیادہ کوالیفائڈ ہو، یا زیادہ تنخواہ لا رہی ہو یا دونوں ….”

"اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔  کہاں ہے وہ مجھ سے زیادہ تنخواہ والی۔  ملاؤ۔” وہ بہت خوش ہو کر بولا۔

"مسخرہ پن نہیں۔”

"بالکل نہیں۔”

"اچھا اگر تم اس بینک والے کی جگہ ہوتے ….”

"کون بینک والا۔ ؟”

جس کی بیوی نے کوی سمیلن میں جا کر کویتا پڑھنے کی جرا ¿ت کی تھی اور شوہر نے گھر آنے کے بعد پیٹا تھا کہ اس نے مردوں کے خلاف کچھ کہہ دیا تھا گرچہ اس میں اس کے شوہر کی طرف قطعی کوئی اشارہ نہیں تھا۔”

"میں تصور کے سہارے کیا کہہ سکتا ہوں۔  جب تک انسان واقعی اس سچویشن میں نہ ہو کچھ نہیں کہہ سکتا۔  کیا پتہ بیوی اپنے achievements کے نشے میں شوہر کو اسکرٹ پہنا کر خود پینٹ پہننے کے پھیر میں ہو اور مجھ سے کٹھ حجتی پر کیوں اتری ہوئی ہو۔  جاؤ جا کے اس کم بخت اسلم فاروقی کو پکڑو۔  ویٹر ….” اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور جیسے کسی کوئز کے مقابلے میں تیز گام(Rapid Fire)سوالات داغے جائیں اس طرح دھڑا دھڑ آرڈر دیا۔ "دو پلیٹ گولڈن فرائیڈ پران، ایک پلیٹ چیز پکوڑے، دو کپچینو، ایک کولڈ کافی، دو آئس کریم بعد میں جو اور مانگیں۔” ماحول کچھ بھاری ہوا ٹھا تھا۔  بڑے مصنوعی لمحات میں مصنوعی قہقہے لگاتے ہوئے ان تینوں اچھے، مخلص دوستوں نے شام اور کافی دونوں سے لطف اندوز ہونے کی اداکاری کی۔

رضوانہ نے ماں سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا، لیکن قمر انیس سے یہ بات چھپا گئی کہ بیٹی صاحبہ اتنی بڑی ستیہ وادی ہریش چندر بنتی ہیں کہ اس بے ضرر سے داغ کو بھی نہ چھپا سکیں اور اچھا بھلا رشتہ کٹوا دیا۔  انیس پتہ نہیں کتنا ہنگامہ کھڑا کرتا۔  وہ یہ سوچ کر خاموش رہ گیا کہ لڑکے والوں کو کہیں کچھ اور زیادہ پسند آ گیا ہے۔  قمر نے البتہ رضوانہ کو اچھی طرح کھری کھوٹی سنائیں۔  یہاں تک کہا کہ سامنے ہوتی تو ایک آدھ جھاپڑ بھی رسید کر دیتی۔ "کیا مما، کیا قیامت آ گئی؟ ارے ابھی میں بوڑھی تھوڑی ہی ہوئی ہوں۔  ابھی بہت گنجائش ہے۔  دوسرے یہ کہ خوش ہوں۔  مجھے کوئی کامپلیکس نہیں ہے، اس بات کو لے کر کہ میری شادی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔” رضوانہ نے اپنی خفگی پر قابو پا کر ماں کو تسلی دی۔  بعد میں خود ان کے لئے افسوس کرنے لگی۔  بے چاری پڑھ لکھ کر بھی سسٹم سے باہر نہیں آ سکی ہیں اور پاپا وہ تو بالکل روایتی ہیں۔  بہت سا ٹکراؤ تو اس لئے بھی ہے کہ عورتیں بدل رہی ہیں، مرد اپنی جگہ ویسے کے ویسے ہیں۔

"رضوانہ، ارے بے وقوف لڑکی، مجھے ملیں یہ تمہاری بڑے بڑے دعوے کرنے والیاں تو میں ان سے پوچھوں کہ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر تم ہمسری کا دعویٰ کہاں سے کر لیتی ہو۔  ابھی ایک سروے رپورٹ آئی ہے کہ طلاق یا رنڈاپے کے بعد شادی کرنے والے مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔”

"مجھے نہیں پتہ مما آپ کیا کیا پڑھتی رہتی ہیں اور پھر اسے میرے پر لادتی ہیں۔”

"میں صرف یہ بتا رہی ہوں کہ ایک عورت کے لئے عمر بہت اہم ہے۔  تم جن عورتوں کی مثالیں دیتی ہو وہ فلم اور ماڈلنگ کی دنیا کی عورتیں ہیں۔  وہ تیس بتیس برس کنواری رہتی ہیں اس کے بعد یا تو کوئی کم عمر لڑکا ملتا ہے، جو کچھ دن بعد چھوڑ کر بھاگ لیتا ہے یا پھر کوئی ایسا ملتا ہے، جس کی ایک یا دو بار شادی ہو چکی ہے۔”

رضوانہ بہت خفا ہو گئی۔ ” لیکن شادی لکھی کسی حکیم نے نسخے میں ہے۔  نہیں کرتے ہم۔  تم عمو کو پکڑو۔  دو میں سے ایک سے نمٹ کے گنگا نہاؤ۔”اس اچانک میل نے رضوانہ کو حیران کر دیا، بالکل ایسے ہی جیسے اس کی آمد نے حیران کیا تھا۔  میل باکس میں اوپر ہی اسلم فاروقی کا نام تھا۔  رضوانہ کے ذہن میں کمبخت خیال آیا کہ شاید اس نے معافی مانگی ہے یا یہ کہ اس نے لکھا ہے کہ وہ اس داغ کی بات بھلا کر تعلقات چاہتا ہے یا پھر اس نے رضوانہ کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دوبارہ چیک اَپ کے لئے راضی ہو جائے تو اس کے حق میں اچھا ہو گا۔  اس طرح کی کسی بھی چیز کے لئے چوکنا تو رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔  مجھے اب اس کی کسی تجویز سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔  گھٹیا انسان، رضوانہ نے سر جھٹک کر سوچا اور میل نہیں دیکھی۔

رات کو کھانا کھانے کے بعد اس نے قانون کی ایک موٹی سی کتاب اٹھائی۔  جوہی دوسرے شہر میں ہو گی، آج اس کی واپسی نہیں تھی۔  اس نے اطمینان سے ایک کیس کے سلسلے میں کچھ حوالے دیکھے۔  ضروری نوٹس بنائے، دل کچھ بے چین محسوس ہوا۔  ایک بے کلی، خاصی رات گزر جانے کے بعد بھی نیند آنکھوں سے دور۔  چلو یہ خلش دور کر ہی لوں، اس نے میل کھولی، اس کی آنکھیں پھیل گئیں، میل میں ایک دعوت نامہ تھا۔  اسلم فاروقی کی شادی کا کارڈ۔  اگلے ہفتے اس کی شادی یہیں ممبئی میں ہی ہو رہی تھی۔  چند سطریں الگ سے تھیں۔

"آپ سے جو سابقہ رہا اس سے ایک دوستانہ تعلق بن ہی گیا ہے، ہم لوگ جس رشتے کی طرف بڑھے وہ تو نہیں ہو سکا، لیکن جوبنا وہ برقرار رہ سکتا ہے۔  ایک دوست کی حیثیت سے میں آپ کو بارات میں مدعو کر رہا ہوں۔  ریسپشن میرے آبائی گاؤں میں ہو گا۔  وہاں شاید آپ نہیں آ سکیں گی، لیکن یہاں شریک ہو سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔  ساتھ کے لئے اپنے کسی کولیگ یا دوست کو لانا چاہیں تو لا سکتی ہیں۔”

ہمت تو دیکھو۔  رضوانہ نے دانت پیسے، بیٹا تم میرا ظرف آزما رہے ہو۔  وہ بھی دیکھ لینا، اس نے اسی وقت جواب ٹائپ کیا۔  مبارک ہو اسلم فاروقی صاحب میں شرکت کی پوری کوشش کروں گی۔  بلکہ آپ کے آبائی گاؤں بھی آ سکتی ہوں، لکھیم پور لکھنؤ سے بہت قریب ہے، اس بہانے مجھے گھر آنے کا موقع مل جائے گا۔  چھٹیاں ڈیو ہیں۔  امید ہے آپ نے لڑکی کو خوب ٹھوک بجا کے دیکھ لیا ہو گا۔” کچھ سوچ کر اس نے آخری جملہ کاٹ دیا، میل بھیج دی اور چادر تان کر آرام سے سوگئی۔  اسلم فاروقی دنیا تمہارے اوپر ختم نہیں ہو جاتی۔  بھاڑ میں جاؤ۔

عمرانہ کا خط تھا۔  اس کی اپنی ہینڈ رائٹنگ میں لکھا ہوا خط۔  فون اور میل کی دنیا میں خط جیسی مسرت آگیں شے اس قدر عنقا ہو گئی ہے کہ حیرت پہلے ہوتی ہے، مسرت بعد میں۔  خط لکھنے اور خط پانے کا اپنا ہی الگ لطف تھا۔  ویسے وہ خود کب کسی کو خط لکھتی تھی۔  اٹھایا فون، بات کر لی، اس نے خط اٹھا کر پرس میں رکھ لیا اور رات کوسارے کام ختم کرنے کے بعد اطمینان سے بستر میں لیٹ کر بیڈ سائیڈ لیمپ جلایا اور لفافہ یوں چاک کیا جیسے کوئی بچہ کسی چاکلیٹ کا ریپر اتار رہا ہو۔  پہلا ہی جملہ تھا۔ "انوراگ اور میں الگ ہو گئے ہیں۔  بغیر کسی تلخی کے ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ رشتہ چلنے والا نہیں۔”

رضوانہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور تیزی سے آگے پڑھنے لگی۔ "بہت دنوں سے ہمارے درمیان دوریاں بڑھ رہی تھیں۔  باقی ساری زندگی ساتھ گزارنے کا فیصلہ مناسب نہ ہوتا۔  دل اداس تو ہے، لیکن ایسا نہیں کہ دواؤں کا سہارا لینا پڑے یا کسی کاؤنسلر کے پاس جانے کی سوچنے لگوں۔  تمہیں ایک دلچسپ بات بتاؤں۔  پتہ نہیں دلچسپ ہے کہ تلخ، تلخ ہے کہ مضحکہ خیز۔  پتہ ہے پہلی بار دل میں اس کا احترام کم ہونے کا احساس کب ہوا؟ دوستوں کے درمیان گپ شپ کے دوران اس نے کہا”عورتیں صرف دو زمروں میں رکھی جا سکتی ہیں۔

G.I.B. اور not so G.I.B. میں نے اسے گھور کر دیکھا۔  کیا مطلب؟ کہنے لگا، گدھی ہو تم۔  مطلب یہ کہ good in bed and not so good in bed۔  مجھے بڑا غصہ آیا۔  میں نے کہا اس تقسیم میں ماں، بہنیں، خالہ، چچی، پھوپی، دادی، نانی سب کو سمیٹ رہے ہو کیا؟ بڑے اطمینان سے بولا جو میرے لئے ان رشتوں میں آتی ہیں وہ کسی نہ کسی کے بستر میں ہیں یا رہی ہیں۔  یہ تو ایک biological  حقیقت ہے۔  پھر وہ مجھ سے ناراض بھی ہو گیا کہ اس وقت وہ اتنے اچھے موڈ میں اتنی مزے مزے کی باتیں کر کے قہقہے لگا رہا تھا اور میں نے اس کا ستیاناس کر دیا۔  ستیاناس اس لئے نہیں کہ میں نے اس کی ماں، بہن، دادی، نانی کو درمیان میں گھسیٹ لیا بلکہ اس لئے کہ میں نے اسے گھٹیا قرار دیا۔  سچ کہوں رضوانہ میں نے گھٹیا لفظ تو استعمال بھی نہیں کیا تھا جب کہ بعد میں میرے ذہن نے اس کی گرد ان شروع کر دی تھی۔  میں انوراگ کو بہت با ذوق اور نفیس سمجھتی تھی۔  آفس میں کئی مرتبہ میں نے مرد ہم کاروں کو عورتوں کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ گھٹیا باتیں کرتے سنا ہے، لیکن انوراگ کہیں بہت اونچے ستون پر تھا۔

اچھا تمہاری بوریت رفع کرنے کو بتا دوں کہ میں شادی کے لئے تیار ہوں اور مما سے کہہ دیا ہے کہ کوئی اچھا لڑکا دِکھے تو مل لوں گی بقول ان کے لاتیں نہیں جھاڑوں گی، مگر ہاں شادی کو جب ہی رضا مند ہوں گی جب مجھے بھی وہ اچھا لگے اور میرا virginity test نہ کرائے۔  زیادہ تو نہیں، لیکن کبھی کبھی "Anurag and I had been physical”

"کم بخت، یہ بوریت رفع کی ہے یا زور کا جھٹکا دیا ہے۔  اسے ایمانداری اور صاف دلی کہوں یا حرمزدگی۔  سارے اصول گھول کر پی جانا، ساری قدریں طاق پر رکھ دینا کیا معنی رکھتا ہے، کیا آزادی یہی ہے؟”رضوانہ نے دل میں سوچا۔

"بے ہودہ کہیں کی۔  کم از کم خاموش ہی رہتی۔”

پھر اس نے آگے پڑھنا شروع کیا۔

"وہ تمہارے اسلم فاروقی تو نہایت  Bond  نکلے اور ان سے زیادہ تم کہ کہتی ہو ان کی بارات میں جاؤ گی۔

آج کی تازہ خبر دیکھ لی ہو گی۔  ملالہ پر حملہ کرنے والوں کو کلین چٹ مل گئی۔  ہم لوگ ہاشم پورہ کو رو رہے تھے۔  پھر ارونا شان باغ۔  قسم خدا کی رضوانہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ زنا بالجبر وہ بھی اس طرح کا جیسا ارونا کے ساتھ ہوا یا نربھیا کے ساتھ یا بدایوں والی بہنوں کے ساتھ، اس کی سزا اسلامی شریعت میں ہی ہے۔  تمہارے قانون نے تو کہہ دیا کہ اس سوہن لال والمیک کا اب کچھ نہیں ہو سکتا اور اب کچھ ہوکے بھی کیا ہو گا۔  اسے پھانسی دے کر بھی کیا کر لیں گے لوگ۔  میرا خون کھولتا ہے رضوانہ۔  ایک impotent rage  مجھے پاگل بنانے لگتا ہے۔  ختم کرتی ہوں۔  میرا دماغ خراب ہونے لگا ہے۔  سارا موڈ غارت ہو گیا۔  سوچا تھا اور کچھ لکھوں گی۔  بہت سا پیار…. عمو

رضوانہ نے بھی جواب میں ہاتھ سے خط لکھا اور اسپیڈ پوسٹ سے بھجوا دیا۔

"عمو! ابھی سماج بین المذہبی شادیوں کے لئے تیار نہیں ہے۔  ہو رہی ہیں، لیکن مڈل کلاس کے والدین تباہ ہو جاتے ہیں، خاص طور پر لڑکی کے والدین۔  تیرے اور انوراگ کے تعلقات کو لے کر تو میرا بھی پریشان ہونے لگی تھی اوپر سے جتنا مسخرہ پن کر لیتی، لیکن انیس چاچا اور قمر چاچی کی بڑی فکر تھی اسے۔  چل اچھا ہوا تو ایک جھمیلے سے تو بچ گئی، لیکن جہاں تک آگے بڑھ گئی تھی وہ اچھا نہیں ہوا تھا۔  میں تجھ سے صرف سال بھر بڑی ہوں، مساوات کی زبردست قائل ہوں۔  ذاتی طور پر مجھے تو انوراگ سے بھی کوئی پرابلم نہ ہوتا، لیکن ہاں یہ جسم کی بات۔  میں اصولوں کی قائل ہوں، کچھ بندشیں ہیں جنہوں نے ہمیں انسان بنایا ہے ورنہ حیاتیاتی طور پر تو ہم بھی ہیں تو جانور ہی۔  اب ایک بات سن لے کان کھول کے اور ہوش میں رہ۔  مجھ سے کہا سو کہا اور کسی سے نہ کہنا اور اگر واقعی اچھا لڑکا مل جائے تو اس سے ہرگز نہ بتانا ورنہ بھاری پڑ جائے گا۔  ملالہ والی نیوز پڑھی۔

( تو تو اسی پروفیشن میں ہے)

شاید گزشتہ اکتوبر یا نومبر میں ایک خبر کسی نے دوبئی سے مجھے میل کی تھی وہ بھی یاد ہو گی۔  پاکستان کے کسی شہر میں ایک صاحبزادے نے تیس سال کے بعد اپنی ماں کو ڈھونڈ کے نکالا جنہوں نے اس لڑکے کے باپ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کر لی تھی۔  اب نئے شوہر کے ساتھ ان کے تین چار بچے بھی تھے۔  سب کو چچا کی مدد سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔  وہ غریب گھر سے بھاگی بھی نہیں تھی، اس نے تو بیوگی کے بعد دوبارہ گھر بسایا تھا۔  سچ کہوں مجھے اودھم سنگھ یاد آ گیا جس نے بیس برس بعد جنرل ڈائر کو مارا تھا۔  اس عورت کا قصور اتنا ہی بھیانک تھا جتنا جلیاں والا باغ کا قتل عام۔  میں دیر تک انگشت بدنداں رہی۔  رہی شریعت والی سزا تو مستحقین کے ساتھ کئی بے گناہ پس جاتے ہیں، وہ بھی زیادہ تر عورتیں۔  میں خوفناک قوانین کی قائل نہیں ہوں۔  چل، ممی سے کہہ دے مجھے چھوڑیں، تیرے لئے کسی کو لائیں پکڑ کے۔

all the best  اور ہاں۔  میں بھی ٹرائی کروں گی۔  اپنے لئے نہیں ایڈیٹ، تیرے لئے۔”

سلمان سے عمو کی ملاقات رضوانہ نے ممبئی میں بیٹھے بیٹھے کرا دی۔  وہ جب وکالت پڑھ رہی تھی، سلمان اس سے ایک سال سینئر تھا اور اس کا اچھا دوست تھا، دونوں نے دوستی کے علاوہ کبھی کچھ اور نہیں سوچا۔  مذاق مذاق میں ایک بار اس نے کہا تھا کہ عورتیں ویسے ہی کٹھ حجت ہوتی ہیں، وکیل بن جائیں تو کڑوا کریلا نیم پہ جا چڑھتا ہے۔  وہ شادی کسی پروفیشنل سے تو کرنا چاہے گا، لیکن وکیل سے نہیں۔  فی الحال دہلی ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہا تھا۔  فیس بک کے ذریعے رضوانہ سے رابطہ تھا۔  رضوانہ کو عمو کے لئے اس کا خیال آیا۔  وہ بھی دہلی میں ہی تھی۔  اکثر نیوز کے لئے ہائی کورٹ کے چکر بھی لگا آتی تھی۔

رضوانہ نے اسے فون کیا:

"کیوں بے، شادی کیوں نہیں کر رہا۔”

"تم کیوں نہیں کر رہیں؟”

"سوال میں نے کیا ہے۔”

"ابھی تک وہ نہیں ملی جس سے شادی کرنا چاہوں۔”

"میری بہن کو دیکھے گا؟”

"وہی جو جرنلسٹ ہے اور ایک اخبار میں کام کر رہی ہے۔”

"وہی۔”

"شاید ایک بار اس سے ملا ہوں۔”

"پھر سے مل لے اور ذرا شرافت سے۔  ملنے کا انتظام میں کراتی ہوں۔”

بندہ ہے اسمارٹ۔  عمرانہ نے سوچا۔

"لڑکی اچھی ہے اور بڑی بہن جیسی بقراط بھی نہیں۔” سلمان نے سوچا۔

"شادی کیوں نہیں کی اب تک؟ خاصے  eligible  بیچلر ہیں۔”

"سچ بولوں یا جھوٹ؟”

"وکیل زیادہ تر جھوٹ ہی بولتے ہیں، لیکن میں آپ کی کلائنٹ نہیں ہوں۔  مجھ سے سچ بولئے۔”

"میری زندگی میں ایک لڑکی تھی تین سال اس کے ساتھ ضائع ہو گئے۔  ایک آدھ سال اس رشتے کو مکمل طور پر بھولنے میں لگا۔  اب میں آزاد ہوں اور گھر بسانے کا خواہش مند بھی۔  آپ جو چاہیں ابھی پوچھ لیں۔  میں سچ بولوں گا۔  اس کے بعد یہ چیپٹر بند کر دیا جائے گا۔”

"قربت کتنی تھی؟”

"live-in relation ship۔  ڈیڑھ سال۔”

عمرانہ کے اندر کچھ چھن سے ہوا۔

"رشتہ ٹوٹا کیوں؟”

"بس دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگا۔  وہ کہیں اور دلچسپی لینے لگی۔  اس کے بعد شادی بھی جھٹ سے کر ڈالی۔”

"ایک بات بتائیے۔  اگر میں آپ سے کہوں یا کوئی اور لڑکی کہے کہ اس کا کہیں ایسا کوئی رشتہ تھا تو آپ اسے قبول کریں گے؟”

"اگر وہ اس رشتے سے اسی طرح باہر آ چکی ہے جس طرح میں تو ضرور قبول کر لوں گا۔  میں دوہرے معیار کا قائل نہیں ہوں۔  آخر بیوہ اور طلاق شدہ لڑکیوں سے بھی تو شادی کی جاتی ہے۔”

"انہیں شاید اس لئے قبول کر لیا جاتا ہے کہ ان کے پہلے رشتے کوسماج کی منظوری حاصل تھی۔  میں اپنی مرضی کے رشتے کی بات کر رہی ہوں۔  میرا ایک بوائے فرینڈ تھا۔  میں اس کے ساتھ رہی کبھی نہیں، لیکن کچھ کمزور لمحے ہمارے درمیان ضرور آئے۔

I am not a virgin”

وہ ہکا بکا رہ گیا۔  پھر اٹھ کر عمرانہ کا ہاتھ تھام لیا۔ ” میں آپ کی بیباکی اور حق گوئی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔” پھر مسکرا کر قرون وسطیٰ کے کسی نائٹ کی طرح گھٹنے ٹیک کر بولا:

"May I?”

عمرانہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  قدرے توقف کے بعد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی:

"Yes !”

رضوانہ بے حد خوش تھی۔  دونوں بہنوں نے بڑی ہوشیاری سے والدین سے یہ بات چھپا  لی کہ سلمان ذات کا مینہار تھا۔  بس کوئی دو پشت پہلے اس کے گھر کے لوگ فیروز آباد میں شیشہ گری کرتے تھے۔  دوچار غریب رشتے دارایسے بھی تھے جن کے گھر کی خواتین سرپر ٹوکرا لے کر چوڑیاں پہنانے نکلتی تھیں، لیکن سلمان کے دادا نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کر کے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور بیٹے یعنی سلمان کے والد کو ڈاکٹر بنایا۔

"تم اتنی بڑی بات ہضم کر گئیں، لیکن میری ذات کو لے کر والدین سے جھوٹ بولنا چاہتی ہو۔  ایسا کیوں ہے؟”

اس نے عمرانہ سے پوچھا تھا۔

"سنو سلمان، ایک مرد کہیں منھ مارتا پھرا تھا یہ برداشت کر لیا جائے گا، لیکن وہ”کم ذات” ہے یہ اشرافیہ میں برداشت نہیں ہو گا۔  ان کے نزدیک اعلیٰ ذات سارے عیب جھپا لیتی ہے۔  ویسے تم کم ذات کم، بد ذات زیادہ ہو۔” رضوانہ نے کہا۔

سلمان مسکرایا”کتنے شیریں ترے لب کہ رقیب….”

"ارے ارے، اسے تو اردو آتی ہے۔”

عمو نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں نکالیں۔  تینوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔

"میرے ہنسنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے ….” رضوانہ نے مسرور لہجے میں کہا۔

"بتا ڈالو….” سلمان نے شرارت سے لب بھینچے۔

میری رشتے کی ایک چچی نے بیٹی کی نسبت طے کی۔  رشتہ طے ہونے کے بعد سننے میں آیا کہ صاحبزادے کا اپنی کسی ہم جماعت کے ساتھ عشق رہا تھا۔  کچھ لوگوں نے رشتہ توڑنے کی رائے دی۔  چچی نے جواب دیا ہم نے بیٹی کا رشتہ مرد سے طے کیا ہے کسی سادھو سنت سے نہیں اور اطمینان سے شادی کر دی۔

انہیں چچی نے ایک بہت اچھا، کلاس ون سرکاری افسر کا رشتہ صرف اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ اس لڑکے کے خاندان میں تین پشت پہلے کسی بزرگ نے ایک طوائف سے شادی کر لی تھی۔  وہ بی بی تائب ہو کر بڑی اللہ والی ہوئیں۔  محلے میں ایک مسجد بنوا کے گئیں، مگر ان کے گناہ ان کا پیچھا کرتے رہے۔  کسی”نجیب الطرفین” نے ان کے یہاں بیٹی نہیں دی۔

سلمان کچھ سنجیدہ ہو گیا۔

"میں رشتوں میں کچھ چھپا نا نہیں چاہتا۔  اگر شادی کے بعد معلوم ہوا تو؟ اور واقعہ یہ ہے کہ معلوم ہو ہی جائے گا۔”

عمرانہ ہنسنے لگی۔  یہاں بھی ایک چچی ہیں۔  ان کا تعلق بہار سے ہے۔  وہ بھوج پوری کی بڑی فصیح و بلیغ مثل سناتی ہیں۔

"بھئیل بیاہ مور، کرباکا۔  یعنی اب تو بیاہ ہو چکا، کر لو کیا کرو گے؟”

بڑی دھوم دھام سے عمو کا بیاہ اس مرد حق گو سے ہوا جسے حق سننا آتا تھا اور سن کر اسے برداشت کرنا بھی۔

رضوانہ عمو کی شادی کے تیسرے ہی دن واپس ہو گئی۔  اس کا آن اجانا یوں ہی طوفانی ہوا کرتا تھا۔  شادی میں میرا کی ماں اور کزن، جانہوی بھی آئی تھیں۔  دونوں بہنوں کے گلے لگ کر خوب روئیں۔  چھان پھٹک تو لیا ہے نا؟ انہوں نے آنکھیں پونچھتے ہوئے قمر سے پوچھا۔

انیس نے اب رضوانہ سے ہاتھ دھو لئے تھے۔  چلو ایک بیٹی کا بیاہ کر کے سماج میں سرخرو ہو لئے۔  کچھ دن کے لئے لوگ بھی خاموش ہو جائیں گے۔  وہ خود سرضدی لڑکی جانے اور اس کا کام، لیکن وہ قمر کے سامنے بڑبڑاتا اکثر رہتا تھا۔  میں عورتوں کے زیادہ پڑھنے کے حق میں کبھی نہیں رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔  ایک دن قمر ہنسی: "تم کیا بڑے بڑے نہیں رہے۔  سرسیداحمد خاں جنہوں نے پوری قوم کو اتنی بڑی درسگاہ کا تحفہ دیا، عورتوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔  مولانا اشرف علی تھانوی نے تو صاف صاف کہا کہ عورتوں کو تعلیم ملی تو وہ اپنا حق مانگنے لگیں گی۔” اس کے لہجے میں طنز تھا۔

"اب تو خوب حاصل کر رہی ہیں تعلیم۔  آپ کون سی کم ہیں۔  آپ ہی کا فیض ہے کہ بیٹیوں نے جو چاہا کیا۔  رہے سرسید یا مولانا تھانویؒ، تو وہ پرانے بزرگ تھے۔  ان کی سوچ اتنی ہی تھی۔”

"آپ کی سوچ کون سی آگے بڑھی۔  آپ پرانے بزرگ کب سے ہو گئے۔”

"لڑنے کے علاوہ تعلیم سے اور کیا کیا آتا ہے؟”

"گھر کی آمدنی میں اضافہ۔  سراٹھا کے جینا۔  کسی عنوان مرد کا سایہ سرپر نہ ہو تو خود کفیل ہونا۔”

"اور گھر سے دور تنہا رہ کر نہ جانے کیا کیا کرتی پھرنا جو ہماری رضوانہ صاحبہ کر رہی ہیں۔” اس نے بات کاٹ کر لقمہ دیا۔

"کیا کرتی پھر رہی ہے! کسی نے کچھ کہا کیا؟”

"کوئی کہے گا کیا، لیکن قیاس بھی تو کوئی چیز ہے۔  آخر وہ اسلم فاروقی کیوں بھاگ نکلا۔  اسے تو محترمہ نے پسند کر لیا تھا۔”

اپنی ہی بیٹی کے لئے انیس کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی اور شدید ناپسندیدگی کا عنصر۔

اسلم فاروقی کی شادی کا دعوت نامہ رضوانہ نے سمیر اور نرگس کو بڑھا دیا تھا چونکہ اسلم نے لکھا تھا کہ چاہے تو ساتھ کے لئے ایک دو دوستوں کو مدعو کر سکتی ہے۔  سمیر نے اسے مذاق سمجھا اور توجہ ہی نہیں دی۔  نرگس دوست کے ساتھ ہم کار بھی تھی۔  وہ چلی آئی۔

اسلم حیرت زدہ رہ گیا۔  اسے لگ رہا تھا رضوانہ نے یونہی کہہ دیا ہے۔  شاید یہ دکھانے کے لئے کہ اسے اسلم کی کہیں اور شادی سے کوئی مسئلہ نہیں۔  آئے گی تھوڑے ہی۔  بڑی جی دار لڑکی ہے، اس نے سہرے کی لڑیوں کے پیچھے سے اسے غور سے دیکھا اور پھر کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔  رضوانہ نے بے حد سلیقے سے میک اپ کیا تھا۔  بے داغ گندمی جلد، شانوں تک تراشے ہوئے کھلے بال۔  کپڑے نہایت با ذوق، نہ چیختے چلاتے جیسے اکثر خواتین شادی میں روا رکھتی ہیں، نہ آفس والے کالے سفید، سراپا شاخ گل، پھر ایسی وضع داری کہ کچھ لوگوں کے سوال کرنے پر اس نے بڑی متانت سے بتایا کہ اسلم کی کمپنی اور اس کی لاء فرم کے کاروباری تعلقات کی وجہ سے وہ اور نرگس اپنی فرم کے سربراہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

اچانک اسلم کو احساس ہوا کہ اس نے کہیں کوئی غلطی تو نہیں کی ہے۔  واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ داغ برص کا داغ تھا تو اب تک پھیل چکا ہوتا۔  جس لڑکی کے گھر وہ بارات لے کر آیا تھا، وہ والدین کی موجودگی میں چائے کی ٹرے لے کر داخل ہوئی تھی اور بس ایک بار کی اس نہایت روایتی ملاقات کے بعد رشتہ طے پا گیا تھا۔  بیشک اس کے بعد فون پر گفتگو ہوتی رہی تھی، لیکن بس دو ماہ کے اندر شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی۔  لڑکی قبول صورت تھی، گفتگو میں معقول محسوس ہوتی رہی تھی، لیکن یہ”بات” نہیں تھی اس میں، یہ اعتماد بھی نہیں تھا۔

پھر اس نے دل کو تسلی دی۔  عورتوں میں خود اعتمادی وصف نہیں، منفی پہلو ہو سکتا ہے۔  مہمانوں میں ایک صاحب رضوانہ کے پرانے شناسا نکل آئے تھے۔  شاید لاء کالج میں ساتھ تھے، بڑی گرمجوشی سے ان سے ہاتھ ملایا پھر دیر تک چہک چہک کر باتیں کرتی رہیں۔  کیا پتہ کبھی کوئی”معاملہ” رہا ہو۔  ایسی آزاد، خود مختار لڑکیاں اتنے دنوں تک کنواری رہ جائیں اور کوئی معاملہ نہ رہا ہو۔  نا ممکن، او کے، نا ممکن نہ سہی، لگ بھگ نا ممکن next to impossible۔  اچھا خیر نہ ہو کچھ، لیکن مردوں سے اتنی بے تکلفی برتنے والی خواتین ہمارے گھر میں کہاں کھپیں گی۔  شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کا ارادہ بھی تھا۔  پتہ چلتا کہ گھر میں مرددوست چلے آ رہے ہیں، یہ لڑکی یقیناً گھریلو مزاج کی ہو گی ہمیشہ والدین کے ساتھ رہی ہے، عمر میں کم ہے۔  کمپیوٹر کا کورس کر چکی ہے۔  اگر گھر میں کچھ زائد، ذاتی آمدنی چاہے گی تو پارٹ ٹائم کام کرنے دوں گا۔  جو مل رہا ہے بہت ٹھیک ہے۔  اس نے طمانیت کے ساتھ سوچا اور خوشی خوشی نکاح نامے پر دستخط کر دئے۔

جو ملا وہ بہت ٹھیک نہیں تھا، وقت نے بتایا، وقت جو سب سے بڑا منصف ہے، وقت جو سب سے بڑا مزاج داں ہے، وقت جو زخم بھرتا بھی ہے اور زخم دیتا بھی ہے۔

سال، ڈیڑھ برس کے اندر اسلم فاروقی کی بیوی گھر جا کر بیٹھ گئی۔  بات یہ نہیں تھی کہ اسلم میں کوئی کمی تھی، بات یہ بھی نہیں تھی لڑکی بری تھی یا اپنے مرد دوستوں کو گھر پر بلاتی پھرتی تھی۔  وہ تو سرے سے کریئر گرل تھی بھی نہیں۔

اسلم کو ملازمت پیشہ بیوی پر اعتراض نہیں تھا، ایک خاموش پسندیدگی ہی تھی کہ گھر میں دوہری آمدنی بہتر معیار کی ضامن ہوتی ہے، لیکن نہایت دولتمند سسرال سے اس کی بھرپائی ہو رہی تھی۔  بہ حیثیت مجموعی دونوں شریف گھروں کے عام سے میاں بیوی تھے بس اس لڑکی کا موسیقی سے غیر معمولی شغف اختلافات کی بنا بن گیا، اس نے باقاعدہ کلاسیکی موسیقی کچھ عرصے تک سیکھی بھی تھی، لیکن اس سے کیا، اس کے”بایو ڈاٹا” میں تو اس کا ذکر بھی تھا کہ اسے موسیقی کا شوق ہے۔

تو اس سے یہ کہ ہر کونسرٹ کا ٹکٹ چاہئے، آئے دن ممبئی کے کوڑی پھیرے، ہر وقت موبائل پر یا لیپ ٹاپ پر یو ٹیوب پر زور زور سے گانے سنے جا رہے ہیں۔  آواز کم کرنے کو کہو تو مزا نہیں آتا، پھر یہ کہ آن چھوڑ کر اٹھ جانے پر کان میں آواز آتی رہتی ہے اس لئے والیوم کم نہیں ہو گا۔  اماں ابا نے کچھ عرصے بعد میوزک کی تعلیم رکوا دی تھی کہ شریف مسلمان گھرانوں میں اس سے زیادہ کا کیا کام، بہت ہوا، شوق پورا کر لیا، ہم تو بھائی یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ شادی کے بعد آزاد ہوں گے۔  آج کے شوہر کو ایسا اعتراض تھوڑی ہو گا۔  سو استاد مقرر کر لئے گئے، اب ہر وقت ریاض ہو رہا ہے۔

بات یہاں تک بھی رہ جاتی تو خون کے گھونٹ پی پی کر برداشت ہو جاتی، جیسے ہو رہی تھی اس لئے کہ باقی معاملوں میں لڑکی اچھی تھی۔  گھر بہت سلیقے کے ساتھ رکھتی، باورچی خانے میں دلچسپی لیتی اور انوراگ کی جس درجہ بندی کی وجہ سے عمرانہ کا جی کھٹا ہوا تھا، اس کے مطابق جی آئی بی تھی۔  گڈ ان بیڈ۔  پانی سر سے اونچا یوں ہوا کہ جو صاحب میوزک سکھانے آتے تھے انہوں نے اسٹیج پر پروگرام دینے کے خواب جگائے اسلم نے سخت نا رضا مندی کا اظہار کیا تو انہوں نے بہت دیر بیٹھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

"دیکھئے رومی (وہ ادھیڑ عمرانسان تھے، اس کی عرفیت استعمال کرنے لگے تھے) میں بڑی ٹیلنٹ ہے۔  میرا تو خیال ہے کہ اگر وہ کوشش جاری رکھے تو پلے بیک سنگر تک بن سکتی ہے۔  آپ اس کی صلاحیت کو دبائیے مت۔  ہر انسان اپنی تکمیل چاہتا ہے۔”

انہوں نے دوچار نفسیات دانوں کو کوٹ کیا۔  اسلم مزید بھڑکا، یہ اس کے گھر کا معاملہ تھا۔  بیوی بھی اُلار ہو گئی۔

"جس کو کھرچو اس کے اندر سے ایک فیمنسٹ برآمد ہو رہی ہے۔” ایک دن وہ چڑھ کر بولا تھا۔

"کس کس کو کھرچ چکے ہیں آپ؟”

تیزاب میں ڈوبا جوابی حملہ ہوا۔

رومی گھر سے بے نیاز ہوتی چلی گئی، پھر اسلم سے بھی، اس نے اسٹیج پر پروگرام تو نہیں دیا، لیکن صبح کا وقت جو پہلے ساتھ میں بڑا خوبصورت گزرا کرتا تھا، ریاض میں گزرتا تھا۔  اسلم کو کلاسیکی موسیقی سے کوئی شغف نہیں تھا۔  وہ اسے چیخ پکار لگتی

(جیسے راج کے دوران بعض انگریزوں کو لگا کرتی تھی۔)

اب اسلم بیڈ ٹی تنہا پیتا تھا۔  اکثر ناشتہ تنہا کرتا تھا۔  اس نے میوزک ٹیچر کو ہٹانے کی بات کی تو وہ میکے چل دی۔  یہ سارا معاملہ شادی کے چھ ماہ بعد شروع ہو کر اگلے سال بھر کے اندر سنگین صورت اختیار کر چلا۔  آئے دن جھگڑے، آئے دن بات چیت بند، اخراجات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔  بڑے گھر کی لڑکی کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا، شروع میں اس کے پاس بھاری رقم تھی جواسے شادی کے وقت ملی تھی، لیکن اب وہ ہر چیز کے لئے اسلم سے فرمائش کرتی تھی۔  غرض یہ کہ ایک بنیادی اختلاف نے بہت سے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی راہیں بھی کھول دی تھیں جو آگ میں گھی ڈالتے رہتے تھے۔

پہلے میں نے سوچا ہمارے یہاں جلدی ایک بچہ آ جائے تو بیوی اس میں بندھ کر میوزک بھول جائے گی۔  پھر میں نے سوچا کہ نہیں ابھی بچہ مزید مسئلے پیدا کر سکتا ہے، پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ شادی چل سکے گی یا نہیں۔  بیوی نے بچے کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔  مجھے یہ بھی شک ہوا کہ کہیں وہ اچھی ماں ثابت ہو سکے گی یا نہیں۔  ابھی اس کی عمر کم ہے۔  کسی دن باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ اسے شادی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔  بڑے رومانی تصور پال رکھے تھے اس نے۔  میں نے پوچھا کہ پھر تم راضی کیوں ہوئیں۔  بولی میں نے سوچا یہ بھی ایک تجربہ ہے، کر لیا جائے۔  تو؟ جواب ملا

I am sorry, it doesn’t seem working۔  ویسے کوشش تو کر رہی ہوں۔

اسلم نے یہ ساری باتیں اختصار کے ساتھ، لیکن صاف صاف لکھ ڈالی تھیں۔

کوئی اٹھارہ بیس ماہ کے وقفے کے بعد جب وہ کبھی دھندلی سی یاد بن کر بھی شاید ہی ابھرا ہو، اس کا نام میل باکس میں دیکھ کر رضوانہ کی آنکھیں ہر مرتبہ سے زیادہ حیرت زدہ ہو اٹھیں۔  ڈھیٹ کہیں کا۔  اب کیا بچے کی چھٹی میں مدعو کر رہا ہے۔

سارا کچھ پڑھ کر اس نے جواب دیا: "آپ مجھ سے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔”

جواب کا جواب آیا۔ "ملنا چاہتا ہوں۔”

رضوانہ نے لکھا۔ "میں طلاق میں اسپیشلائز نہیں کرتی۔  نہ ہی میرج کاؤنسلر ہوں۔  آپ غلط بٹن دبا رہے ہیں۔”

اسلم نے اب کی کوئی جواب نہیں دیا۔  وہ اسی طرح رضوانہ کے پاس پہنچ گیا جیسے ڈھائی تین سال پہلے پہنچا تھا۔

"میں، آپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے آیا ہوں۔  اگر آپ رضامند ہوں تو ابھی آپ کے سامنے طلاق نامہ لکھ کر سسرال بھجوا دوں گا۔”

رضوانہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

"مجھے دروازے پر آئے لوگوں کو بے عزت کرنا اچھا نہیں لگتا اسلم فاروقی صاحب۔  آپ کا چہرہ میں آج آخری مرتبہ دیکھوں۔  آج کے بعد آپ نظر نہ آئیں، جو یاد اللہ آپ سے ہوئی اس کے تحت ایک مشورہ ضرور دوں گی، جائیے کسی میرج کاؤنسلر سے ملئے۔  یہ ایڈجسٹمنٹ کے معمولی مسئلے ہیں۔  بیوی کپڑوں کی طرح نہیں بدلی جاتی۔”

"یہ آپ کا آخری جواب ہے؟”

رضوانہ نے کچھ فائلیں اٹھائیں اور چیمبر سے باہر نکل گئی۔  کوری ڈور میں بیٹھے چپراسی سے کہتی گئی، میرے کیبن میں جو صاحب ہیں ان سے کہو تشریف لے جائیں۔

نرگس اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہ کر تجربہ کر رہی تھی کہ شادی کرنا مناسب رہے گا یا نہیں۔  جوہی نے دوچار عشق لڑا کر ماں باپ کی پسند سے شادی کر کے ائرلائنس کی نوکری چھوڑ دی تھی اس لئے کہ اس کے شوہر اور سسرال والوں کو ائرہوسٹس کی نوکری پسند نہیں تھی۔

"مجھے فیشن ڈیزائننگ کا شوق رہا ہے۔” اس نے رضوانہ کو شادی کا کارڈ دیتے ہوئے بتایا تھا۔

"بہ آسانی کوئی کورس کر کے اپنا بوتیک کھولوں گی۔  ائرہوسٹس کی نوکری چھوڑنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔  خوب انجوائے کر چکی ہوں، مگر ہاں کچھ تو کروں گی۔  شوہر کے آگے ہاتھ پھیلانا مجھے پسند نہیں۔” قدرے توقف کے بعد بولی:

"نوکری اس لئے چھوڑ دی کہ میں خود اب اکتا چکی تھی ورنہ میں شرطیں مان کر شادی کرنے والی نہیں ہوں۔  آنا ضرور، اس نے خوش دلی سے کہا، ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گی۔”

"کرایہ دے گی ہوائی جہاز کا؟ ٹرین کا وقت میرے پاس نہیں ہے۔” رضوانہ نے بھی خوش دلی سے جواب دیا۔

"دوں گی۔” وہ پیکنگ میں مصروف ہو گئی۔  ایک دن پہلے ممبئی کی ساری شاپنگ رضوانہ کو دکھا چکی تھی۔  راجستھان میں گوٹے کا کام بہت خوبصورت ہوتا ہے۔  ممی نے بھاری لہنگا بنوایا ہے اور کئی شفان کی ساریوں پر بھی گوٹے کا کام بنوایا ہے، اس نے کپڑے سمیٹتے ہوئے کہا تھا۔  میرا بھی ایسی ہی خوش خوش شاپنگ کرتی پھر رہی تھی۔

رضوانہ نے اداس ہو کر سوچا۔  اس کی اداسی اس کے چہرے پر کھنڈ آئی۔  عورتیں کب کپڑوں، زیورات اور میک اپ سے اوپر اٹھ سکیں گی، لیکن اگر ساری کی ساری عورتیں ان سے بے نیاز ہو جائیں تو کائنات سے رنگ نہیں اڑ جائیں گے؟ کیا خوبصورت کپڑے پہننے اور خوشنما نظر آنے میں کوئی برائی ہے؟ قطعی نہیں، اس نے سوچا بشرطیکہ زندگی صرف ان سے عبارت نہ ہو جائے اور کوئی مرد یہ نہ کہہ سکے کہ نہیں اور کام کیا ہے۔  گہنے تڑواؤ، گہنے بنواؤ۔

عمو اپنے گھر میں خوش تھی، اس کے یہاں جڑواں بچے ہوئے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔  سلمان بے حد خوش تھا۔  دقت تو ہو گی، لیکن ساتھ ساتھ پل جائیں گے۔  پھر یہ کہ بیٹا، بیٹی دونوں۔  اتفاق سے عمو کی زچگی اور جوہی کی شادی کا وقت ایک ہی تھا۔

رضوانہ جے پور میں بس ایک دن رک کر دہلی چلی آئی۔  عمو کا روشن چہرہ دیکھ کر اسے پہلی بار زندگی میں کسی کمی کا احساس ہوا۔  نرگس کی بات یاد آئی۔  جس دن بچے گملوں میں اگنے لگیں گے اس دن عورتیں ہمسری کا دعویٰ خم ٹھوک کر کر سکیں گی۔  فی الحال تو تھوڑا سا جھکنا پڑے گا۔  اس نے بچوں کو گود میں اٹھایا تو اسے محسوس ہوا اس کی چھاتیوں میں سرسراہٹ ہو رہی ہے۔  کچھ دودھ اترنے جیسی سرسراہٹ، میں نارمل ہوں، میں نارمل ہوں۔  ذہن نے گردان کی، لیکن میں جس ذہنی، سماجی اور جذباتی سطح پر ہوں، وہاں کسی شخص کو صرف اس لئے قبول نہیں کر سکتی کہ مجھے ایک شوہر چاہئے، میں اپنی اس خواہش کے ساتھ بھی نارمل ہوں کہ مجھے اس سے مل کر ذہنی ہم آہنگی کا احساس ہو تبھی میں اسے قبول کر سکوں۔

اسے سمیر کا خیال آیا، وہ بہترین دوست تھا، ہر مسئلے میں سہارا، ہر پریشانی میں دوڑ پڑنے والا، اس نے کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا، لیکن رضوانہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے اپنی ماں کو کسی طرح راضی کر کے پرانا فلیٹ بکوا دیا اور دوسرا ایسے علاقے میں خریدا جو رضوانہ کے علاقے سے قریب تھا، ورنہ ممبئی کے فاصلے الامان، اکثر آ نکلتا تھا، میں اس کے ساتھ پوری زندگی آرام سے گزار سکتی تھی، لیکن راہ کے پتھروں کو کیا کروں۔  دنیا کہے گی بیٹی کو چھوڑ دیا تھا، کیا کرتی، جو ملا اس سے شادی کر لی۔

(جو ملے اس سے پکڑ کر شادی کر دینے والے والدین کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔)

بے چارے، بے قصور مورد الزام ٹھہرائے جائیں گے۔  بچوں کے لئے مذہب کا جھمیلا ہو جاتا ہے۔  لوگ پہلے سوچتے نہیں، بعد میں چپقلش سارے رومانس پر پانی پھیر دیتی ہے۔  شاید سمیر اور میں اس چپقلش سے اوپر اٹھ جائیں۔  ہم دونوں پختہ عمر، پختہ ذہن ہیں۔  چھوڑ دیں گے بچوں کو یونہی۔  بڑے ہوں گے تو جو چاہیں لیبل لگائیں اپنے اوپر۔  کچھ تو کرنا ہو گا۔  محض دوست رہ کر تو ساری زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔  نرگس کی طرح ساتھ رہنے لگوں؟ وہ پارسن مسلمان کے ساتھ آرام سے رہ رہی ہے۔  آخری شادی کے دو بول پڑھوا کے یا پھیرے لے کے ہوتا کیا ہے؟ لیکن تب ہاں اگر میرے اندر کی عورت جاگ کر ماں بننا چاہے تو؟ دو بول ان بچوں کو جائز بناتے ہیں۔  اتنا تو کرتے ہیں ورنہ امرتا پریتم اور اندرجیت کو لے لو۔  کس قانونی شادی سے کمتر رشتہ تھا ان کا۔  اس کا سر دکھنے لگا، واقعی میں اولڈ میڈ بنتی جا رہی ہوں۔  اچھا تھوڑا اور سوچ لوں اور ممی سے بات کر کے دیکھوں، کیا ری ایکشن ہوتا ہے۔

ممبئی واپس آ کر اس نے سب سے پہلے سمیر کو فون کیا۔ "ہائی، آئی ایم بیک۔”

"اوہ رضوانہ، میں تمہیں فون کرنے ہی والا تھا۔  یار، اماں میرا رشتہ طے کر آئی ہیں۔”اس کی آواز قدرے کھسیائی ہوئی تھی۔

تو خوش ہو کے بتاؤ نا، مرے کیوں جا رہے ہو، رضوانہ کو اپنی آواز کھوکھلی محسوس ہوئی، بے حد کھوکھلی، اس نے کبھی سمیر کے ساتھ بات کرتے ہوئے خود کو یوں دوغلا نہیں محسوس کیا تھا۔

رضوانہ اسلم فاروقی کی بارات میں شریک ہوئی تھی، سمیر کی تو ساری رسموں میں شریک ہوئی۔  الٹی سیدھی ڈھولک بجا کے بے سری آواز میں گیت بھی گائے۔  سمیر کو جب دولہا بنایا جا رہا تھا تو بے حد مسرور آواز میں ہنسی مذاق بھی کرتی جا رہی تھی، لیکن اس کی گہری سیاہ اداس آنکھیں بالکل الگ کھڑی تھیں۔

سمیرنے ہولے سے کہا: ” میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔”

"مجھے کوئی شکایت نہیں۔” اس نے جواب دیا، لیکن الفاظ ٹھن ٹھن بجے، ایسے خالی جیسے اس کا دل۔

آفس کی مصروفیتیں خالی دل بھرتی تو رہیں، لیکن کہیں رات کو وہ پھر خالی ہو جاتا تھا اور نیند جلدی نہیں آتی تھی۔  پھر ایک دن قمر کا فون آیا۔  یہی آفس کے اوقات میں۔

مما اب کیا؟ اس نے سوچا، لیکن فون ریسیو کرتے ہوئے اس کے ہاتھ قدرے کانپے۔

"تمہارے پاپا پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔” قمر نے خشک آواز میں کہا اور فون رکھ دیا۔

انیس کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہو گیا تھا اور گویائی جاتی رہی تھی۔  باقی سارے احساسات باقی تھے۔  رضوانہ سامنے آئی تو اس نے منھ پھیر لیا۔  قمر نے کہا سامنے مت جاؤ، بول تو سکتے نہیں، گوں گا غصہ اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

میں نے کیا کیا ہے مما؟ لیکن الفاظ اس کے منھ سے باہر نہیں آئے۔  وہ بھی پل بھر کو گوں گی ہو گئی جیسے اس پر بھی فالج نے حملہ کیا ہو۔  پھر آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہو گئے۔  اس پرائیویٹ نرسنگ ہوم کے ایک گوشے میں خاموش بیٹھی روتی رہی۔

رضوانہ نے چھٹی بڑھائی۔  ذاتی فلیٹ بک کرانے والی تھی، لیکن وہ پیسہ ماں کے اکاؤنٹ میں ڈال کر انیس کو زیادہ مہنگے نرسنگ ہوم میں شفٹ کرایا۔  ڈاکٹروں نے کہا بھی کہ دوائیں وہی دی جائیں گی چاہے کہیں لے جائیے، لیکن یہاں نرسنگ زیادہ اچھی تھی۔  اٹنڈنٹ کے لئے بھی سہولیات زیادہ تھیں۔

انیس آئی سی یو سے باہر آ گیا اور کمرے میں منتقل ہوا تو رضوانہ واپس چلی گئی، چلتے ہوئے اس نے شیشے کے چوکور حصے سے باپ پر نظر ڈالی۔  اتفاق سے آنکھیں چار ہو گئیں۔  اس نے انتہائی غصے میں سر پیٹنا شروع کیا اور پھر رونے لگا۔  یہ رونا کسی جدائی کے غم میں نہیں تھا بلکہ اس سے بے بسی کے احساس کے تحت تھا کہ وہ نہ بول سکتا ہے نہ اُٹھ کر بیٹی کو دھکا دے کر ہسپتال سے باہر نکال سکتا ہے۔

"جا رہی ہے، جا رہی ہے، واپس جا رہی ہے۔”

قمر نے شوہر کو تسلی دی، انیس نے بائیں ہاتھ سے دفع ہونے جیسا اشارہ کیا اور پھر اسی ہاتھ سے آنسو پونچھے۔

دل کا درد بڑھ گیا تھا۔  پاپا میں نے کیا برا کیا؟ کیا مجھے اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں ہے؟ آپ اپنی مرضی سے جیئے، آخر کو آپ نے مما سے ان کی ایک ایک ایکٹویٹی چھڑوا ہی دی جو رٹائرمنٹ کے بعد ان کو مصروف رکھنے کا بڑا سہارا ہوتی۔  شاید کبھی ان کی انجمن کے ذریعے لوگوں کا بھلا کرنے کی کوششیں کامیاب بھی ہوتیں۔  آخر ان کے چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد دو لڑکیاں بردہ فروشوں کے چنگل سے رہا کرائی گئی تھیں۔  ایک طلاق یافتہ لڑکی کو عدالت کے ذریعہ گزارہ بھتہ دلوایا گیا۔  چراغ جلتا ہے تو کچھ دور تو روشنی ہوتی ہی ہے۔  انہوں نے بوتیک کھولنا چاہا تو آپ نے کہا درزی گیری ہمارے خاندان کا پیشہ نہیں ہے۔  میری اور تمہاری پنشن کافی سے زیادہ ہے۔  ہوس کیوں ہو گئی ہے تمہیں۔  پاپا ہر کام ہمیشہ ہوس کے لئے نہیں کیا جاتا۔  زندگی کچھ مصروفیت چاہتی ہے۔  وقت گزاری کا ذریعہ چاہتی ہے، کچھ کر پانے کی طمانیت چاہتی ہے۔  ہاں اب تو آپ نے مما کو وہ مہیا کرا دی۔  پڑے رہئے بستر میں۔  ان کا وقت آپ کی دیکھ بھال میں گزرے گا، کہیں جو وہ آپ سے پہلے چلی گئیں تو! ذرا اس کا خیال کر لیں، پھر تو میرے پاس ہی آئیے گا۔  عمو کے بچے ہیں، شوہر ہے۔  وہ اتنا وقت نہیں دے پائے گی۔

بھاری دل کے ساتھ باپ کو دور سے دیکھ کر وہ لوٹ آئی۔  انیس کو نرسنگ ہوم نے ڈسچارج کر کے گھر، بھیج دیا تھا۔  اب وہاں وہ صاحب فراش تھا۔  رضوانہ نے اس کے لئے ایک مرد نرس کا انتظام کر دیا تھا اور اخراجات اپنے ذمہ لے لئے تھے گرچہ کوئی مالی دشواری گھر پر نہیں تھی۔

عمو بھی کچھ دن رہ کر لوٹ گئی۔  شروع میں اور بہت سے عزیز رشتہ دار آئے۔  پھر سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوئے۔  ایک خاموش اداس ماحول میں قمر اور انیس کی زندگی لگے بندھے ڈھرے پر گزرنے لگی۔  وہ اداسی لکھنو سے اٹھ کر آتی، ممبئی میں رضوانہ کے فلیٹ کی کھڑکیوں سے جھانکتی، کچھ دیر ٹھہرتی پھر دوبارہ لوٹ آنے کے لئے کہیں گم ہو جاتی تھی۔  کبھی نیند کے دھندلکوں میں، کبھی کام کے ڈھیر میں، کبھی کچھ زبردستی چھینے گئے تفریح کے لمحوں میں، مگر وہ کبھی مرتی نہیں تھی کہ اسے بقائے دوام حاصل تھی۔  وہ شاخسانہ تھی اپنی راہیں خود متعین کرنے کا، وہ قیمت تھی سماج کے ڈر سے کچھ راہوں کو مسدود کر دینے کا۔  اس لئے وہ دروازے پر دستک دیتی رہتی تھی اور ایک روسی لوک کتھا کی چڑیل کی طرح دھکا دے کر نکالے جانے کے باوجود دوسرے دن شام ڈھلے پھر آن موجود ہوتی تھی۔

سمیر سے بات کم ہی ہوتی تھی۔  ملنا جلنا تو برائے نام رہ گیا تھا، دونوں اپنی اپنی جگہ سمجھ رہے تھے کہ اب پہلی جیسی بات نہیں رہ سکتی۔  شاید کہیں یہ ڈر تھا کہ سمیر کی بیوی کو شک ہو جائے گا، یا پھر یہ ڈر تھا کہ زخموں پر کبھی کھرنڈ آ ہی نہیں سکیں گے۔  کہیں کسی قسم کا پے چیدہ رشتہ نہ بن جائے، جس پودے نے سر اٹھا لیا تھا وہ تناور درخت کی صورت نہ اختیار کر لے جسے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہ ہو۔

(لیکن کیا وہ صرف پودا تھا؟ کیا اسے اکھاڑتے اکھاڑتے وہ تھک نہیں چکی تھی؟ کیا سنگلاخ دل کی زمین سے لہو نہیں پھوٹ بہا تھا؟)

اس نے سمیر کو پاپا کے صاحب فراش ہو جانے کی اطلاع نہیں دی کہ دکھ بانٹ سکے۔  پہلے وہ نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لئے اس کی طرف دوڑ جایا کرتی تھی۔  جوہی کے جانے کے بعد فلیٹ کے لئے کسی شرکت دار کی تلاش، فلیٹ خریدنے کا پیسہ جمع ہوا تو بساط کے مطابق علاقہ اور فلیٹ دیکھنے کی بات، بینک سے لئے جانے والے قرض پر گفتگو کر لینے کی بات، اسلم فاروقی منظر نامے پر لکھا گیا تو اسے پرکھنے کی بات، یہ سارے مسئلے بہت چھوٹے تھے، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود مختار، خود کفیل نوجوان عورت تھی۔  آج کی عورت، لیکن کسی کے ساتھ، کسی کے قرب کا وہ طمانیت بخش احساس، وہ ایک شخص جس سے وہ اماں یار اور ابے تبے کر کے بات کر لیتی تھی۔

"الو کے پٹھے ہو تم….” ایک بار تو وہ یہ تک بول گئی تھی۔  وہ چونکا تھا، لیکن پھر دوسرے ہی لمحے ہنس پڑا تھا۔

"یہ legal language ہے کیا؟ اگر میں نے تمہیں پرپوز کیا تو اس میں الو کا پٹھا ہونے کی کیا بات ہے؟”

"اس لئے کہ تمہاری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ آئی ایم ناٹ ان لو وِد یو۔  تم گہرے دوست ہو، تمہیں پسند کرتی ہوں اور بس۔”

اس نے کس طرح تھپک تھپک کر اپنے دل کو سلا رکھا تھا، کن کن الفاظ کے تلے اس ایک لفظ کو دبا دیا تھا جسے محبت کہتے ہیں۔  صرف اس لئے کہ سماج نے اسے حق نہیں دیا تھا کہ وہ اس شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرے جس کے ساتھ اسے ہمیشہ خوش رہنے کی امید تھی۔

اس نے کچھ حق ضرور چھینے تھے، لیکن ان کے آگے لکیر بھی کھینچی تھی کہ اب بس۔  گرچہ دل تو اور بہت کچھ مانگتا تھا، جن لوگوں کے لئے اس کے سماج نے، اس کو ورثے میں ملی اخلاقی قدروں نے کچھ فرائض تفویض کئے تھے ان سے اس نے پہلو تہی نہیں کی تھی، لیکن بدلے میں اسے کیا ملا؟ یہی کہ اس کے باپ نے اسے دیکھ کر نفرت سے منھ پھیر لیا وہ بھی ایسے وقت جب وہ اس کے پاس بیٹھ کر، اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر کہنا چاہ رہی تھی۔ "پاپا میں ہوں نا، میں آپ کی بیٹی، آپ کی غم گسار۔”

عمو سے اس کی اگلی ملاقات چھ ماہ بعد انیس کے انتقال کے موقعے پر ہوئی، اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ دونوں بیٹیوں میں سے کوئی بھی آخری وقت میں نہیں پہونچ سکا تھا۔  صرف قمر تھی جو قالین پر اس کی پٹی پکڑے بیٹھی کسی کتاب سے کچھ پڑھ کر سنا رہی تھی۔

سیوم کے بعد دونوں بہنوں نے ماں سے کہا کہ وہ ان میں سے جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے یا باری باری دونوں کے درمیان وقت تقسیم کر سکتی ہے۔  قمر نے سختی سے انکار کر دیا۔

"میری صحت بالکل ٹھیک ہے اور میں نے ابھی ساٹھ کی دہائی پار ہی کی ہے۔  لکھنؤ میرا شہر ہے اور یہ میرا گھر ہے، میں یہاں خوش ہوں اور یہاں تنہا بھی نہیں ہوں۔  زندگی نے ایسی پٹخنی دی کہ گزر نہ کر سکوں تب دیکھا جائے گا۔” اس کے لہجے میں سفاکانہ قطعیت تھی۔

لڑکیاں واپس ہو گئیں۔

عدت پوری ہونے کے بعد قمر نے انجمن نسواں پھر سے جوائن کر لی۔  کچھ عرصے بعد گھر ہی میں ایک چھوٹا سا بوتیک بھی کھول لیا۔  انجمن کی سرگرمیاں جزوقتی تھیں۔

"میں اب کسی کی پابند نہیں، کسی کو جوابدہ نہیں، صرف اپنے ضمیر کی جوابدہ ہوں اس لئے ایساکوئی کام نہ کبھی کیا نہ اب کروں گی جو میرے ضمیر پر بوجھ ہو۔” ایک دن عمو سے فون پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔  ایک بار عمو کے یہاں جا کر رہ بھی آئی تھی، اس کے بچوں سے اسے بے حد محبت تھی جو دن بدن زیادہ پیارے، زیادہ دلچسپ ہوتے جا رہے تھے۔  عمرانہ کی مطمئن و مسرور زندگی قمر کی بہت سی اپنی محرومیوں کی تلافی کرتی محسوس ہوتی تھی۔

(اس کو انیس کے ساتھ اپنے گھر بسا دیکھ کر اور اولادیں ہو جانے پر اماں بھی ایساہی کچھ محسوس کرتی تھیں۔  ان کا چہرہ ان کے جذبات کا آئینہ ہوا کرتا تھا۔)

انیس کے انتقال کوسال بھر ہو چکا تھا۔

"آج مرے کل دوسرا دن” رضوانہ نے بے حداداس ہو کر کہا۔  بہت سے محاورے زندگی میں بڑی دیرسے سمجھ میں آتے ہیں۔

"ابھی نہ جانے کتنے اور سمجھ میں آنے باقی ہیں۔” عمو نے اسی لہجے میں کہا۔  اس کا انداز مصرعہ اٹھانے والا تھا۔

قمر خاموشی سے قرآن کو جزدان میں واپس رکھنے لگی۔

لڑکیاں ماں کی دلجوئی کے لئے آ گئی تھیں۔  ان لوگوں نے روایتی برسی کا اہتمام نہیں کیا تھا۔  خاموشی سے دیگیں پکوا کر کھانا یتیم خانے اور کچھ غریب لوگوں میں بھجوا دیا تھا۔  تینوں ماں بیٹیاں خاموشی سے سرجوڑے، جانے والے کی کمی کو محسوس کرتی رہیں۔  انیس کے بغیر گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔  انیس جو بولتا کم تھا، لیکن سارے گھر پر حاوی، ساری فضا میں رقصاں رہا کرتا تھا۔  اس کی غیر موجودگی سال بھر بعد بھی گھر میں کہیں نہ کہیں دبے پاؤں پھرتی رہتی تھی۔

رات کو عمو بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔  یکایک رضوانہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رکی اور پلٹ کر بولی، مما، میں تمہارے ساتھ سوجاؤں۔  قمر کو گلے میں کچھ پھنستا سا محسوس ہوا۔  بولی کچھ نہیں صرف ایک ہاتھ بیٹی کے کاندھے پر رکھ دیا۔  رضوانہ کو محسوس ہوا اس لمس میں خوشی ہی نہیں، ممنونیت بھی تھی۔  بستر پر آنے کے بعد اس نے ایک معصوم بچے کی طرح سر ماں کے سینے سے ٹکا دیا۔

مما، ایک بات پوچھوں؟ کچھ دیر بعد اس کی سرگوشی سناٹے میں یوں سرسرائی جیسے درختوں کے درمیان ہلکی سی ہوا ہولے سے گزرے۔

"پوچھو بیٹا۔”

"پاپا مجھ سے اس قدر ناراض کیوں تھے؟ ایسا کیا کر دیا میں نے؟ انہوں نے جس طرح مجھے دیکھ کر منھ پھیرا اس کے اثر سے میں آج تک نکل نہیں پائی ہوں۔”

"وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔  اب یہ جاننا فضول ہے۔” قمر نے بیٹی کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔

"میں باقی ساری عمر خلجان میں مبتلا رہوں گی، اس لئے جانتی ہوں تو بتا دیجئے۔

"کیا واقعی اس سے تمہیں سکون ملے گا؟ کیا تلخیوں کو نہ جاننا بہتر نہیں ہے؟”

"اس کا مطلب ہے آپ کو معلوم ہے۔  مما میری خلش دور ہو جائے گی۔  بات کتنی بھی کڑوی کیوں نہ ہو۔”

"اسلم کے والد نے ان کو فون کیا تھا۔  اسلم کی شادی ناکام رہی تھی۔” قمر نے طویل سانس لے کرآہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔ "انہوں نے کہا، معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیٹی کی نسبت ابھی تک کہیں طے نہیں ہوئی ہے۔  ہم پچھلی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔  پھر انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ ان کے دوسری جگہ جانے کا سبب تمہاری ہٹ دھرمی تھی۔” کہہ کر قمر خاموش ہو گئی۔

"میں سن رہی ہوں۔”

انیس پہلے تو چراغ پا ہوئے، ان پر نہیں، تم پر۔  پھر دوچار دن کے توقف کے بعد کہہ دیا کہ انہیں اعتراض نہیں۔

"انہیں یہ معلوم تھا کہ اسلم نے بیوی کو طلاق ابھی نہیں دی ہے؟”

"یہ معلوم تھا، لیکن ان لوگوں نے کہا کہ رشتے کو منظوری مل گئی تو طلاق نامہ بھیج دیا جائے گا۔  ان کی شہ پا کر ہی اسلم تمہارے پاس ایک بار پھر گیا۔”

"تو گویا آپ لوگوں کو بعد کی داستان بھی معلوم ہو گئی تھی۔”

میرا اتنی طویل ازدواجی زندگی میں ان سے سب سے بڑا جھگڑا اسی بات کو لے کر ہوا۔  آخری دنوں میں وہ مجھ سے بھی بہت ناراض رہے۔  ایک بار یہاں تک کہا کہ زندگی کا آخری پڑاؤ نہ ہوتا تو طلاق دے دیتے۔  میں بھی سخت غصے میں تھی۔  میں نے جواب دیا شاہ بانو تو پچھتر سال کی تھی۔  میں اس سے بہت کم عمر ہوں۔  وعدہ کرتی ہوں نان نفقہ کا دعویٰ نہیں کروں گی۔  اس یک طرفہ فیصلے کا حق آپ کو ملا ہی ہوا ہے۔  بسم اللہ۔”

پیروں کی جوتیاں اسی لئے منھ کو آ رہی ہیں کہ پیسے کمانے لگی ہیں۔  مرد پر نان نفقے کی ذمہ داری تھی۔  تم پر نہیں تھی، آج بھی نہیں ہے، اسی لئے اسے یہ حق دیا گیا۔  مگر تم ….وہ مارے غصے کے ہکلانے لگے۔

میں نے بات کاٹ دی۔” آج کے دور میں عورتیں برابر سے کام کر رہی ہیں تو مل جانا چاہئے انہیں بھی طلاق طلاق کہنے کا حق۔”

"اپنی مرضی سے کام کرتی ہو تم لوگ، صرف اس لئے کہ سرپر چڑھ جاؤ، سماج کے اصول توڑو، عیش کی زندگی گزارو پھر جب چاہے شوہر کو چھوڑ کر چل دو۔” بات تو شروع ہو ئی تھی تمہاری اس، تریاہٹ سے کہ تم اپنے سفید داغ کا ایک بار پھر چیک اپ نہیں کراؤ گی اور پہونچ گئی ہم دونوں کی ذاتیات پر۔  باقی ساری زندگی میں اس احساس جرم کے ساتھ جاؤں گی کہ انیس کا بلڈ پریشر شاید اسی جھگڑے کی وجہ سے برابر ہائی رہنے لگا تھا۔  ایک دن ہیمرج کا سبب بن گیا۔

لیکن مما اسلم کا میرے پاس دوبارہ آنا تو پاپا کی بیماری سے بہت پہلے کی بات ہے۔” اسے آپ اپنے آپ سے کیوں جوڑ رہی ہیں۔”

"انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ تم نے دوبارہ اسے تقریباً دھکا دے کر نکال باہر کیا تھا۔  اس پر مرے پہ سو درے میں نے یوں بدزبانی کی۔  شاید میں بھی کبھی اس طرح نہیں چلائی تھی نہ کبھی ان کی بے عزتی کی تھی، معمولی بحث، چھوٹے موٹے اختلافات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔”

"ٹھیک ہے ممی، لیکن پھر بھی وجہ تو میں ہوئی نا۔  آپ اس احساس جرم سے چھٹکارا پا لیجئے، بالکل نارمل ہو کر زندگی بسر کیجئے۔  پاپا تو اب نہیں آ سکیں گے۔  بس اتنا ہی کہوں گی۔”

"میں حتی الامکان نارمل زندگی ہی بسر کر رہی ہوں۔  مصروفیت کے ذریعے نکال لئے ہیں، دوستوں اور عزیزوں سے ملتی رہتی ہوں۔  اب تو تقریبوں میں بھی جانا شروع کر دیا ہے۔  کچھ لوگوں نے مجھے  merry widow  کا خطاب دے رکھا ہے۔  ان کی پرو انہیں کرتی۔” قدرے توقف کے بعد اس نے گلو گیر آواز میں ہولے ہولے کہا۔ "بیشک رات کو سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔  کھڑکی کے سامنے والے چھتنار برگد پر پچھلی پیریاں دانت نکو سے ہنستی نظر آتی ہیں۔  میں گھبرا کر بغل میں انیس کو ٹٹولتی ہوں پھر چادر میں منھ چھپا کر سوجاتی ہوں۔  ہر صبح ایک نئے نارمل دن کا آغاز کرتی ہے۔”

فضائے بسیط میں ایک سناٹا پسرگیا۔  پھر ماں بیٹی کے آنسو گنگ و جمن کے پانیوں کی طرح ایک دوسرے میں گھل گئے کہ ایک دوسرے کے دکھ کو بہا لے جائیں، لیکن کیا دکھ کبھی پوری طرح بہائے جا سکتے ہیں؟

ان دونوں سے بے خبر عمو اپنے کمرے میں بچوں کو کہانی سنا کر سلانے میں مصروف تھی، لیکن اس کہانی کا نام پارسابی بی کا بگھار نہیں تھا۔  عمو کو ایسی کوئی کہانی نہیں معلوم تھی۔  وہ انہیں ایلس اِن ونڈر لینڈ(Alice in wonder land)سنا رہی تھی۔

٭٭٭

ماخذ:

https:  //www.deedbanmagazine.com/blog/prs-by-by-kh-bghr

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل