فہرست مضامین
ٹمپل ٹائیگر اور کماؤں کے آدم خور
Temple Tiger and Other Maneaters of Kumaon
مکمل کتاب کے لیے
جم کاربٹ
ترجمہ منصور قیصرانی
ٹمپل ٹائیگر
1
ایسے افراد جو ہمالیہ کے بالائی علاقوں میں نہیں رہے، ان کے لیے یہ اندازہ کرنا نا ممکن ہے کہ اس انتہائی کم آباد علاقے میں توہم پرستی کس حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ بالائی علاقوں میں رہنے والے افراد کی توہم پرستی اور کم بلند علاقوں پر رہنے والے نسبتاً تعلیم یافتہ افراد کے عقائد کے درمیان حد فاضل مقرر کرنا بہت دشوار ہے۔ جہاں ایک کے عقائد ختم ہوتے ہیں، وہیں سے دوسرے کی توہم پرستی شروع ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ میری اس داستان میں بیان کردہ توہم پرستی پر آپ کو ہنسی آئے تاہم ہنسنے سے قبل آپ ان توہمات کا مقابلہ اپنے ان عقائد سے کیجئے جن میں آپ نے پرورش پائی ہے۔
قیصر کی جنگ کے فوراً بعد رابرٹ بلئیرس اور میں کماؤں کے اندرونی علاقوں میں شکار کھیل رہے تھے اور ہمارا کیمپ ستمبر کی ایک شام تری سول کے دامن میں لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہر سال 800 بکریاں تری سول کے شیطان کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ 15 بہترین اور ماہر پہاڑی تھے جو میرے ساتھ ہمیشہ سے شکاری مہمات پر ہمراہ ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک گڑھوالی کا نام بالا سنگھ ہے جو میرے ساتھ کئی سالوں سے ہے اور میرے شکاری کیمپ پر وہ ساتھ رہتا ہے۔ اس کا محبوب مشغلہ میرے کیمپ کا سب سے بھاری سامان اٹھا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اور پورے قافلے کو گانے وغیرہ سنا کر محظوظ کرتا۔ رات کو کیمپ فائر کے گرد یہ افراد جمع ہو کر گاتے اور پھر سونے چلے جاتے۔ تری سول کے دامن میں پہلی رات زیادہ دیر تک گانے گا کر، تالیاں بجاتے، شور کرتے اور پیپے وغیرہ بجا کر پھر یہ لوگ سونے چلے گئے۔
ہمارا ارادہ تھا کہ اس جگہ ہم کئی دن رکتے اور آس پاس کے علاقے میں پہاڑی بکریوں وغیرہ کا شکار کرتے۔ تاہم صبح اٹھتے ہی ایک عجیب سا منظر دکھائی دیا۔ سارے ہمراہی سامان باندھ کر کیمپ منتقل کرنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ بہت نم ہے، پانی بھی اچھا نہیں، ایندھن کے لکڑیاں دور سے لانی پڑتی ہیں اور یہ کہ محض دو میل آگے بہت عمدہ مقام موجود ہے۔
میرے سامان کو اٹھانے کے لیے چھ افراد تھے لیکن میرا سارا سامان پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ بالا سنگھ کیمپ فائر کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سر اور شانوں پر کمبل تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر میں جونہی بالا سنگھ کی طرف بڑھا، تمام افراد اپنے کام کاج چھوڑ کر انتہائی توجہ سے مجھے دیکھنے لگے۔ بالا سنگھ نے مجھے آتے دیکھا لیکن خوش آمدید نہیں کہا۔ یہ بات بہت عجیب تھی۔ میرے ہر سوال کا اس نے صرف ایک ہی جواب دیا کہ وہ ٹھیک نہیں۔ دو میل کا سفر ہم نے اس دن انتہائی خاموشی سے طے کیا۔ بالا سنگھ سب سے پیچھے چل رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے خواب میں چل رہا ہو یا نشے میں ہو۔
یہ بات صاف ظاہر تھی کہ بالا سنگھ کے ساتھ جو بھی واقعہ پیش آیا، اس سے دیگر 14 افراد بھی پوری طرح متاثر تھے۔ روز مرہ کے کام کاج کو یہ لوگ انتہائی بے دلی اور عدم توجہی سے کر رہے تھے۔ ہر ایک کا چہرہ اترا ہوا اور پریشان دکھائی دیتا تھا۔ میرا چالیس پاؤنڈ وزنی خیمہ جو رابرٹ اور میں ایک ساتھ استعمال کر رہے تھے، جب تک نصب ہوتا، میں نے اپنے پرانے ملازم موٹھی سنگھ کو پکڑا اور اس سے پوچھا کہ بالا سنگھ کو کیا ہوا ہے۔ موٹھی سنگھ 25 سال سے میرے ساتھ ہے۔ انتہائی ٹال مٹول اور لیت و لعل کے بعد مجھے بالا سنگھ کی مختصر کہانی پتہ چلی۔ موٹھی سنگھ نے کہا کہ کل جب وہ لوگ گذشتہ رات کیمپ فائر کے گرد بیٹھے گا بجا رہے تھے، تری سول کا شیطان سیدھا بالا سنگھ کے منہ میں گھسا اور بالا سنگھ نے اسے نگل لیا۔ موٹھی سنگھ نے کہا کہ انہوں نے ٹین بجائے اور شور و غل کر کے اس شیطان کو بھگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
بالا سنگھ ایک طرف کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ چونکہ وہ دوسروں سے اتنی دور تھا کہ وہ ہماری بات چیت نہ سن سکتا تھا، میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ گذشتہ رات کیا ہوا تھا۔ کافی دیر تک وہ مجھے تکتا رہا اور پھر مایوس لہجے میں بولا کہ "صاحب اب کیا بتانا کہ کل رات کیا ہوا تھا۔ آپ نے یقین ہی نہیں کرنا”۔ میں نے جواب دیا کہ "میں نے کبھی پہلے اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا”؟ اس نے کہا کہ "نہیں۔ آپ نے ہمیشہ میری بات پر یقین کیا ہے۔ تاہم یہ بات یقین کی نہیں بلکہ سمجھنے کی ہے”۔ میں نے کہا کہ "چاہے مجھے سمجھ آئے یا نہ آئے، تم اپنی بات پوری کرو۔ لفظ بلفظ مجھے بتاؤ کہ کل رات کیا ہوا تھا”۔ لمبے وقفے کے بعد اس نے کہا: "اچھا صاحب۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کل رات کیا ہوا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم پہاڑی لوگ رات کو اس طرح گاتے ہیں کہ ایک بندہ بول اٹھاتا ہے اور باقی مل کر اس بول کو دہراتے ہیں۔ میں نے گانا گاتے ہوئے جب منہ کھولا تو تری سول کا شیطان میرے منہ میں گھس گیا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسے اگل دوں، لیکن وہ میرے منہ سے ہوتے ہوئے معدے میں اتر گیا۔ چونکہ آگ کی روشنی کافی تھی، سب نے یہ منظر دیکھا اور انہوں نے شور مچا کر اور پیپے بجا شیطان کو بھگانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اس نے سسکی لے کر کہا کہ شیطان اب جانے والا نہیں”۔ میں نے پوچھا کہ "شیطان اب کہاں ہے”؟ بالا سنگھ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ "شیطان یہاں ہے صاحب۔ مجھے اس کی حرکت صاف محسوس ہو رہی ہے”۔
رابرٹ نے سارا دن ہمارے کیمپ کے مغرب کے علاقے کا جائزہ لیتے ہوئے گذارا۔ انہوں نے بہت ساری پہاڑی بکریاں دیکھیں اور ایک شکار بھی کی۔ رات کو کھانے کے بعد ہم نے مل کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس شکار سے ہمیں بہت امیدیں وابستہ تھیں اور ہم کئی ماہ سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ رابرٹ سات دن کا پیدل سفر کر کے اور میں دس دن کا مشکل راستہ طے کر کے یہاں پہنچے تھے اور پہلی ہی رات بالا سنگھ نے تری سول کا شیطان نگل لیا۔ ہماری ذاتی رائے اس بارے چاہے کچھ بھی ہو، لیکن ہمارے ہمراہیوں کو پورا یقین تھا کہ بالا سنگھ کے پیٹ میں تری سول کا شیطان موجود ہے اور خوف کے مارے سارے ہی اس سے کنی کترا رہے تھے۔ اس صورتحال میں شکار پر ایک ماہ گذارنا نا ممکن تھا۔ واحد حل یہی تھا کہ میں بالا سنگھ کے ساتھ نینی تال واپس لوٹ جاؤں جبکہ رابرٹ اپنا شکار جاری رکھیں۔ اگلی صبح میں نے سامان باندھا اور رابرٹ کے ساتھ قبل از وقت ناشتہ کر کے ہم دس دن کے پیدل سفر پر واپس نینی تال روانہ ہو گئے۔
بالا سنگھ تیس سال کا ہٹا کٹا بندہ جب نینی تال سے نکلا تو زندگی سے بھرپور تھا۔ اب جب وہ واپس جا رہا تھا تو اس کی آنکھوں سے پریشانی جھلک رہی تھی اور اس کے اطوار سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اب اسے زندگی سے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ میری بہنوں نے، جن میں سے ایک میڈیکل مشنری تھیں، نے اپنی پوری کوشش کی۔ دور اور نزدیک کے دوست احباب بھی بالا سنگھ کو ملنے آئے لیکن وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھا رہتا، اگر کوئی اس سے بات کرتا تو جواب دیتا ورنہ خاموش رہتا۔ نینی تال کے سول سرجن کرنل کک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹر تھے اور ہمارے گہرے خاندانی دوست بھی۔ میری درخواست پر وہ میرے ساتھ چل کر بالا سنگھ کے گھر اسے دیکھنے آئے۔ ہر ممکن طریقے سے معائینے کے بعد انہوں نے بتایا کہ بالا سنگھ جسمانی طور پر سو فیصد صحت مند ہے اور وہ اس کی موجودہ حالت کی کوئی وجہ نہیں جان سکے۔ چند دن بعد مجھے ایک خیال سوجھا۔ نینی تال میں ایک انتہائی قابل مقامی ہندو نوجوان ڈاکٹر بھی تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر وہ ڈاکٹر جو بذات خود ہندو اور مقامی بندہ ہے، اگر آ کر بالا سنگھ کا معائینہ کرے اور اسے بتائے کہ اس کے اندر تری سول کا شیطان موجود نہیں تو شاید بالا سنگھ کو افاقہ ہو۔ تاہم یہ خیال بیکار ثابت ہوا۔ جب اس ڈاکٹر نے دہلیز پر بیٹھے بالا سنگھ کو دیکھا تو اسے شک گذرا۔ چند سوال جواب کے بعد جب اسے پتہ چلا کہ بالا سنگھ کے اندر شیطان گھس گیا ہے تو خوف زدہ ہو کر وہ ڈاکٹر پیچھے ہٹ گیا اور بولا کہ معاف کیجئے، میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔
وہاں بالا سنگھ کے گاؤں کے دو افراد نینی تال میں موجود تھے۔ اگلے دن میں نے انہیں بلوا بھیجا۔ انہیں معلوم تھا کہ بالا سنگھ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے اور وہ کئی بار اسے ملنے کے لیے بھی آئے تھے۔ میری درخواست پر وہ بالا سنگھ کو اس کے گھر پہچانے پر راضی ہو گئے۔ انہیں زاد راہ اور پیسے میں نے مہیا کیے۔ اگلے دن صبح کو وہ لوگ اپنے آٹھ روزہ سفر پر روانہ ہو گئے۔ تین ہفتے بعد یہ دونوں آدمی واپس لوٹے اور مجھے اطلاع دی۔
بالا سنگھ نے یہ سارا سفر آسانی سے طے کیا۔ رات کو جب بالا سنگھ کے گرد اس کے سارے دوست اور رشتہ دار جمع تھے تو بالا سنگھ نے کہا کہ تری سول کا شیطان چاہتا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کرتری سول کو لوٹ جائے۔ تاہم واحد حل یہ ہے کہ وہ مر جائے۔ یہ کہہ کر بالا سنگھ زمین پر لیٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے مر گیا۔ اگلی صبح ہم نے اس کی ار تھی جلانے میں مدد کی۔
میرے خیال میں توہم پرستی خسرے کی طرح ہے۔ جب اس کا حملہ ہوتا ہے تو اس سے بہت افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن کئی افراد پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میں اس بات کو اتنا قابل فخر نہیں سمجھتا کہ پہاڑی علاقے میں رہنے کے باوجود بھی میں نے بالا سنگھ والی توہم پرستی کو نہیں اپنایا۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں توہم پرست نہیں لیکن چمپاوت کی آدم خور شیرنی کے شکار کے دوران بنگلے میں جو واقعات پیش آئے یا ٹھاک کے ویران گاؤں سے رات کو آنے والی چیخ ہو یا جو شیر کے شکار کا ایک واقعہ جس میں میں بار بار ناکام ہوا، کی وضاحت پیش کرنا میرے لیے نا ممکن ہے۔ یہ واقعہ کچھ ایسے ہے۔
2
کوئی فرد جو دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس سے دکھائی دینے والے مناظر کو کوئی بھی شخص نہیں بھلا سکتا۔ یہ ریسٹ ہاؤس "بھگوان” کے پہاڑ کی چوٹی کے نزدیک بنایا گیا ہے۔ اس چھوٹے تین کمرے والے ریسٹ ہاؤس کے برآمدے سے پہاڑی ڈھلوان کی صورت میں سیدھی دریائے پانار کی وادی کو جاتی ہے۔ اس وادی کے بعد پہاڑیاں پھر تہہ در تہہ اٹھنے لگتی ہیں حتی کہ برفانی چوٹیاں دکھائی دینے لگ جاتی ہیں۔ ہمیشہ برف سے ڈھکی رہنے والی یہ چوٹیاں ہوائی جہاز کی ایجاد سے قبل ہندوستان کو اس کے شمالی ہمسایوں سے الگ رکھتی تھیں۔
کماؤں کے انتظامی صدر مقام سے ہولار گھاٹ کو ایک تنگ سی سڑک جاتی ہے۔ لوہار گھاٹ اس ضلع کا ایک سرحدی علاقہ ہے۔ یہ سڑک دیبی دھورا سے ہو کر گذرتی ہے اور اسی سڑک کی ایک شاخ دیبی دھورا کو الموڑا سے ملاتی ہے۔ اسی شاخ پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کر رہا تھا جس کے بارے میں آگے چل کر تفصیل سے لکھوں گا، کہ مجھے الموڑا جانے والے ایک روڈ اوور سیئر نے بتایا کہ آدم خور نے دیبی دھورا میں ایک بندے کو ہلاک کیا ہے۔ سو میں دیبی دھورا کو چل پڑا۔
دیبی دھورا کو مغرب سے جانے والا راستہ کماؤں کی ڈھلوان ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔ شاید اس کو بنانے والے نے چوٹی تک پہنچنے کا مختصر ترین راستہ اختیار کرنے کا سوچا تھا۔ چوڑے موڑوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ سڑک تقریباً سیدھی ہی 8000 فٹ بلندی کو جاتی ہے۔ اس سڑک کو اپریل کی چلچلاتی دوپہر میں عبور کر کے جب میں تھکا ہارا ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں بیٹھا ڈھیروں چائے پیتے ہوئے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ دیبی دھورا کا پنڈت ملنے آیا۔ دو برس قبل جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کر رہا تھا تو اس پنڈت سے میں نے واقفیت پیدا کر لی تھی۔ یہ پنڈت دیبی دھورا کے مندر کی دیکھ بھال اور پوجا پاٹ کا کام کرتا تھا۔ چند منٹ قبل مندر سے گذرتے ہوئے میں نے رسمی چڑھاوا چڑھایا تھا اور پنڈت اس وقت اشلوک پڑھ رہا تھا اور اس نے سر ہلا کر میرے چڑھاوے کو قبول کیا تھا۔ اب عبادت سے فارغ ہو کر میرے پاس آیا اور میرے سگریٹ کو قبول کرتے ہوئے وہ برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگا کر اطمینان سے گپ شپ کے لیے تیار ہو گیا۔ چونکہ میرا بقیہ دن فارغ ہی تھا، اس لیے میں نے تفصیلی گپ شپ کا سوچا۔
پنڈت نے مجھے بتایا کہ مجھے غلط اطلاع ملی تھی۔ چیتے نے گذشتہ شب کوئی انسانی شکار نہیں کیا تھا۔ یہ بندہ پنڈت کا ایک مہمان چرواہا تھا جو الموڑا سے اپنے گاؤں کو جا رہا تھا جو دیبی دھورا کے جنوب میں تھا، رات کے کھانے کے بعد چروا ہے نے مندر کے چبوترے پر سونے کا ارادہ کیا۔ اگرچہ پنڈت نے اسے بار بار منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ رات گئے جب مندر کے پیچھے والی چٹان کا سایہ مندر پر پڑنے لگا تو آدم خور رینگتا ہوا آیا اور چروا ہے کو ٹخنے سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ تاہم بیدار ہوتے ہی اس نے چیخ ماری اور آگ سے جلتی لکڑی نکال کر اس نے آدم خور کو پیچھے ہٹایا۔ اس کی چیخ سن کر پنڈت اور کچھ دیگر لوگ بھی آ گئے اور انہوں نے مل جل کر چیتے کو بھگا دیا۔ چونکہ اس بندے کے زخم زیادہ گہرے نہ تھے، بنیے نے اس کی مرہم پٹی کی اور وہ بندہ اپنے گاؤں کو اگلی صبح چل دیا۔
پنڈت کے مشورے پر میں نے فیصلہ کیا کہ دیبی دھورا ہی رکوں۔ مندر اور بنیے کی دکان پر ہر روز دور دراز دیہاتوں کے لوگ آتے تھے۔ یہ دیہاتی ہر طرف میری آمد کی خبر پھیلا دیتے۔ اس طرح کسی بھی انسان یا مویشی کی ہلاکت کی صورت میں مجھے فوراً ہی اطلاع مل جاتی۔
جب پنڈت روانہ ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کوئی شکار مل جائے گا؟ میرے ساتھی بہت دنوں سے بغیر گوشت کے تھے اور دیبی دھورا کے بازار میں گوشت بکاؤ نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں، مندر کا شیر ہے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اس شیر کو ہلاک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تو وہ ہنسا اور بولا کہ صاحب مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ اس شیر کو مارنے کی کوشش کریں۔ لیکن نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی اور کبھی بھی اس شیر کو ہلاک کر سکے گا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے دیبی دھورا کے مندر کے اس شیر کے بارے میں سنا۔ آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ اس شیر کے شکار کا تجربہ میری زندگی کے یادگار ترین تجربات میں سے ایک ہے۔
3
دیبی دھورا میری آمد کی اگلی صبح میں لوہار گھاٹ والی سڑک پر روانہ ہوا تاکہ آدم خور کے نشانات کو تلاش کروں یا کسی دوسرے دیہات سے اس کے بارے کوئی خبر ملے۔ مندر کے چبوترے پر چروا ہے پر حملے کے بعد چیتا اسی راستے پر گیا تھا۔ ریسٹ ہاؤس واپسی پر میں نے دیکھا کہ ایک بندہ میرے ملازم سے بات کر رہا تھا۔ اس بندے نے بتایا کہ اسے پنڈت سے علم ہوا ہے کہ میں شکار کھیلنا چاہ رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ مجھے جڑاؤ یعنی سانبھر دکھا سکتا ہے جس کے سینگ اتنے بڑے ہیں جیسے کسی درخت کی شاخیں ہوں۔ پہاڑی علاقوں میں بعض اوقات سانبھر کے سینگ بہت بڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کماؤں میں شکار کردہ ایک سانبھر کے سینگ 47 انچ نکلے۔ چونکہ سانبھر جیسا بڑا جانور نہ صرف میرے ساتھیوں بلکہ پورے دیبی دھورا کے لیے گوشت مہیا کر سکتا تھا، میں نے اس بندے کو کہا کہ دوپہر کا کھانا کھا کر میں اس کے ساتھ چلوں گا۔
چند ماہ قبل جب میں کلکتہ گیا تھا تو میں نے مینٹن نامی ایک اسلحہ فروش کی دوکان کا رخ کیا۔ دروازے کے پاس ہی شیشے کی ایک الماری میں ایک رائفل دکھائی دی۔ ابھی میں اس رائفل کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دکان کامنیجر آ گیا۔ یہ بندہ میرا پرانا دوست ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ اعشاریہ 275 بور کی رائفل ہے جو ویسٹلے رچرڈز نامی کمپنی نے بنائی ہے۔ یہ نیا ماڈل کمپنی والے ہندوستان کے شکاریوں میں متعارف کرانے کے لیے بے چین ہیں۔ چونکہ یہ رائفل بہت خوبصورت تھی، مینجر کو زیادہ اصرار نہیں کرنا پڑا اور میں نے اس شرط پر یہ رائفل خرید لی کہ اگر مجھے پسند نہ آئی تو میں واپس کر دوں گا۔ اب جب ہم سانبھر کے شکار کے لیے نکلے تو میں نے یہ رائفل ساتھ لے لی۔
دیبی دھورا کے جنوب میں پہاڑی شمال کی نسبت کم ڈھلوان ہے اور دو میل جتنا دور گئے ہوں گے کہ گھاس کا ایک قطعہ سامنے آیا اور یہاں سے وادی کا بہترین نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ وادی کے بائیں جناب موجود گھاس کے ایک مختصر قطعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہمارے رہنما نے بتایا کہ اس قطعے پر ہر روز صبح اور شام کو سانبھر گھاس چرنے آتے ہیں۔ یہ قطعہ جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وادی کے دائیں جناب موجود پگڈنڈی پر سے جب وہ دیبی دھورا کو آتا جاتا ہے ہے تو ہمیشہ اسے یہاں سانبھر دکھائی دیتے ہیں۔ میری رائفل کی شست 500 گز پر درست کی ہوئی تھی اور پگڈنڈی سے اس قطعے کا فاصلہ بمشکل 300 گز رہا ہو گا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ راستے پر مزید آگے جا کر انتظار کروں۔
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ میں نے ہمارے سامنے بائیں جانب گدھ چکر لگاتے دیکھے۔ جب میں نے اپنے ہمراہی کی توجہ ان کی جانب مبذول کرائی تو اس نے کہا کہ اس جگہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کے خیال میں اس گاؤں کا کوئی مویشی مارا گیا ہے جسے کھانے کے لیے گدھ جمع ہو رہے ہیں۔ تاہم اس نے یہ بھی بتایا کہ ہمارا راستہ اسی گاؤں سے ہو کر گذرے گا اور جلد ہی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ تاہم یہ گاؤں گھاس پھونس سے بنے محض ایک جھونپڑے پر مشتمل تھا۔ اس کے سامنے مویشیون کا باڑہ اور پھر ایک ایکڑ جتنے تہہ در تہہ کھیت تھے۔ ان کھیتوں سے فصل کچھ دن قبل ہی کاٹ لی گئی تھی۔ جھونپڑے اور باڑے اور اس کھیت کے درمیان دس فٹ چوڑا برساتی نالہ تھا جس کھیت میں گدھ کسی بڑے جانور کی ہڈیاں چچوڑ رہے تھے۔ جونہی ہم نزدیک پہنچے تو جھونپڑے سے ایک آدمی نکلا اور سلام دعا کے بعد اس نے میرے بارے اور میری آمد کا مقصد دریافت کیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور تیندوے کو ہلاک کرنے آیا ہوں تو اس نے میری آمد پر اپنی لاعلمی پر ندامت کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ اگر اسے میری آمد کا علم ہوتا تو میں اس کی گائے کو ہلاک کرنے والے شیر کو مارنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ اس نے مزید بتایا کہ اس نے اسی گدھوں والے کھیت میں گذشتہ شب اپنے پندرہ مویشی باندھے تھے اور رات کو شیر آیا اور اس کی ایک گائے کو ہلاک کر کے کھا گیا۔ چونکہ اس کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی سے اس شیر کو ہلاک کرنے کا کہہ سکتا تھا، اس لیے وہ گاؤں جا کر اس آدمی سے ملا جس کے پاس اس علاقے میں کھالیں جمع کرنے کا ٹھیکہ تھا۔ یہ بندہ میری آمد سے دو گھنٹے قبل آ کر گائے کی کھال اتار گیا تھا۔ اس کے بعد گدھوں نے باقی گائے ہڑپ کر لی تھی۔ جب میں نے اس بندے سے پوچھا کہ جب اسے علم تھا بھی کہ اس علاقے میں ایک شیر رہتا ہے تو اس نے اپنے مویشی اس طرح کھلے عام کیوں باندھے۔ اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا کہ دیبی دھورا کی پہاڑی پر ہمیشہ سے شیر رہتا آیا ہے لیکن گذشتہ شب کے علاوہ اس نے کبھی کسی مویشی پر بری نگاہ نہیں ڈالی۔
جونہی میں جھونپڑے سے ہٹا، اس بندے نے پوچھا کہ اب میرا کیا ارادہ ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں سانبھر مارنے نکلا ہوں۔ اس نے درخواست کی کہ سانبھر کو چھوڑ کر میں شیر کی فکر کروں۔ اس نے بتایا کہ اس کی زمین اور مویشی بہت کم ہیں۔ اگر شیر اس کے مویشی کھانے پر تل گیا تو اس کا خاندان بھوکا مر جائے گا۔
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ پہاڑی کے سرے سے میں نے ایک گھڑا اور پھر عورت کا سر دیکھا۔ پھر پوری عورت، سر پر گھاس کا گٹھا اٹھائے ایک لڑکی اور خشک لکڑیاں اٹھائے لڑکا نمودار ہوئے۔ چار افراد کا خاندان اس بے کار زمین اور تھوڑے سے دودھ پر زندہ تھا۔ پہاڑی علاقوں کے مویشی کم دودھ دیتے ہیں۔ یہ دودھ وہ دیبی دھورا کے بنیے کو بیچ دیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ بندہ شیر کی ہلاکت کے لیے اتنا بے چین کیوں تھا۔
گدھوں نے شکار خراب کر دیا تھا۔ تاہم مجھے اس کی زیادہ فکر نہیں تھی کیونکہ اس جگہ کے آس پاس کہیں بھی گھنا جنگل نہیں تھا جہاں شیر چھپ کر گدھوں کو دیکھتا۔ اس لیے مجھے تقریباً یقین تھا کہ یہ شیر لازمی واپس لوٹے گا کیونکہ گذشتہ شب اس نے آرام سے گائے کھائی تھی۔ میرا رہنما بھی سانبھر کو بھول کر شیر کے شکار کے لیے مضطرب ہو رہا تھا۔ میں شیر کی روانگی کا راستہ جاننے کے لیے چل پڑا۔ چونکہ یہاں کھیت کے نزدیک کوئی درخت نہیں تھا جہاں میں بیٹھ کر شیر کی آمد کا انتظار کر سکتا، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شیر کی واپسی کے راستے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کروں۔ پہاڑی پر مویشیوں کی پگڈنڈیاں آڑی ترچھی تھیں اور زمین نہایت سخت۔ اس لیے پگ نہیں مل سکے۔ گاؤں کے گرد دو بار ناکام چکر لگانے کے بعد میں نے برساتی نالے کو آزمانے کا سوچا۔ یہاں کی نرم اور نم مٹی زمین پر مجھے ایک بڑے نر شیر کے پگ دکھائی دیئے۔ گائے کو کھانے کے بعد شیر یہاں سے گذرا تھا اور اس بات کے کافی امکانات تھے کہ شیر اسی راستے سے واپس آئے گا۔ اس جگہ نالے کے جھونپڑے والے کنارے پر جھونپڑے سے 30 گز دور ایک ٹنڈ منڈ درخت تھا جس کے تنے پر جنگلی گلاب کی بیل اگی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت پر چڑھا جو نالے پر جھکا ہوا تھا اور یہاں مجھے اپنے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ دکھائی دی۔
واپس جا کر میں نے دونوں آدمیوں کو بتایا کہ میں ریسٹ ہاؤس واپس جا کر اپنی بھاری اعشاریہ 500 بور کی رائفل لاتا ہوں جو دو نالی ہے۔ تاہم میرے رہنما نے مجھے اس پریشانی سے بچا لیا کہ وہ خود جا کر رائفل لے آتا ہے۔ اسے ہدایات دے کر میں نے روانہ کیا اور پھر جھونپڑے کی دہلیز پر بیٹھ کر اس بندے سے اس کی مشکل زندگی اور فطرت کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں سے اس کی روز مرہ کی کشمکش کے بارے گفتگو شروع کر دی۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہیں اور جا کر بہتر زمین پر قسمت آزمائی کیوں نہیں کرتا تو اس نے سیدھا سا جواب دیا کہ یہ اس کا گھر ہے۔
سورج غروب ہونے والا تھا کہ پہاڑی سے دو بندے جھونپڑے کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ تاہم دونوں میں سے کسی کے پاس بھی رائفل نہیں تھی۔ تاہم بالا سنگھ جس کے بارے میں نے ابھی آپ کو بتایا ہے، اپنی افسوس ناک موت تک میرے ساتھ شکاری مہمات پر جاتا رہا ہے اور بہترین ہمراہی تھا، کے ہاتھ میں لالٹین تھا۔ نزدیک پہنچ کر بالا سنگھ نے بتایا کہ چونکہ بھاری رائفل کی گولیاں میرے سوٹ کیس میں مقفل تھیں اور میں چابی بھیجنا بھول گیا تھا، اس لیے وہ خالی رائفل نہیں لایا۔ خیر اب مجھے شیر کو اسی نئی رائفل سے شکار کرنا تھا اور نئی رائفل کا پہلا شکار اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا۔
درخت پر اپنی منتخب کردہ جگہ پر بیٹھنے سے قبل میں نے جھونپڑے کے مالک سے کہا کہ میری کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اس کے بچے جو کہ آٹھ سالہ لڑکی اور چھ سالہ لڑکا تھے، بمع اس کی بیوی کے بالکل خاموش رہیں اور جب تک یا تو میں شیر کو ہلاک نہ کر لوں یا پھر شیر کی آمد سے مایوس نہ ہو جاؤں، رات کا کھانا نہ بنائیں۔ بالا سنگھ سے میں نے کہا کہ وہ جھونپڑے کے مکینوں کو خاموش رکھے اور میری سیٹی سنتے ہی لالٹین جلا کر میرے اگلے احکامات کا انتظار کرے۔
شام کے وقت پرندوں کی چہکار اور بولیاں سورج کے پہاڑیوں کے پیچھے ڈوبنے کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئیں۔ شفق گہری ہوتی گئی اور سینگوں والا الو میرے اوپر پہاڑی سے بولنے لگا۔ چاند نکلنے تک کچھ وقت نیم تاریکی میں گذارنا تھا۔ جھونپڑے کے مکین بالکل خاموش تھے۔ رائفل کو اٹھائے ہوئے میں اپنی آنکھوں پر زور دے دے کر دیکھ رہا تھا کہ اچانک پتہ چلا کہ شیر گائے کی لاش پر پہنچ چکا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے درخت کے پاس سے گذرنے کی بجائے سیدھا کھیت کو گیا تھا اور وہاں گائے کی حالت کو دیکھ کر غصے میں آ گیا۔ ہلکی آواز سے شاید وہ گدھوں کو کوس رہا تھا جو خود تو دو گھنٹے قبل ہی اڑ گئے تھے لیکن ان کی بو زمین میں موجود تھی۔ دو، تین یا شاید چار منٹ تک وہ اسی طرح بولتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ روشنی اب بڑھ رہی تھی۔ اگلے چند منٹ گذرنے کے بعد چاند پہاڑی کے کنارے سے ابھرا اور ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ گدھوں کی چھوڑی ہوئی ہڈیاں چاندنی میں سفید دکھائی دے رہی تھیں لیکن شیر غائب تھا۔ سسپنس کے مارے اپنے خشک ہونٹ تھوک سے گیلے کر کے میں نے ہلکی سی سیٹی بجائی۔ بالا سنگھ پوری طرح متوجہ تھا اس لیے فوراً ہی مجھے اس کی آواز سنائی دی کہ وہ جھونپڑے کے مالک کو لالٹین جلانے کا کہہ رہا تھا۔ پھر جھونپڑے کی جھریوں سے روشنی دکھائی دینے لگی۔ پھر بالا سنگھ نے لالٹین اٹھایا اور دروازہ کھول کر باہر نکلا اور میرے اگلے احکامات کا انتظار کرنے لگا۔ درخت پر بیٹھنے کے بعد سے لے کر اب تک میں نے کوئی حرکت نہیں کی تھی اور نہ ہی سیٹی کے علاوہ میں نے کوئی آواز نہیں نکالی تھی۔ اب جب میں نے نیچے دیکھا تو چاندنی میں مجھے شیر عین میرے نیچے کھڑا گردن موڑ کر دائیں شانے کے اوپر سے بالا سنگھ کو دیکھ رہا تھا۔ رائفل کے نال سے شیر کے سر کے درمیان پانچ فٹ کا فاصلہ تھا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ بارود سے شیر کے بال خراب نہ ہو جائیں۔ رائفل کے سفید دیدبان عین شیر کے دل کی سیدھ میں تھے، لبلبی دباتے ہوئے میں نے سوچا کہ یہاں گولی لگتے ہی شیرکی فوری ہلاکت یقینی تھی۔ لبلبی دبی لیکن گولی نہ چلی۔
خدایا۔ کتنا لاپرواہ ہوں میں بھی۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ درخت پر بیٹھنے کے بعد میں نے پوری پانچ گولیوں کا کلپ رائفل میں لوڈ کیا تھا تاہم شاید جب میں نے بولٹ چڑھایا تو شاید کسی وجہ سے گولی میگزین سے نکل کر چیمبر تک نہیں پہنچی اور میں اس بات کو محسوس نہ کر سکا۔ اگر رائفل پرانی ہوتی تو شاید میں اس غلطی کا ازالہ کر سکتا تھا لیکن چونکہ رائفل بالکل نئی تھی اور جب میں نے بولٹ چڑھایا تو کلک کی واضح آواز آئی اور ایک ہی چھلانگ میں شیر نالے کے کنارے سے ہوتا ہوا غائب ہو گیا۔ سر گھما کر بالا سنگھ کو دیکھا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو میں نےد یکھا کہ وہ الٹے قدم جھونپڑے میں واپس چلا گیا اور دروازہ بند کر لیا۔
چونکہ اب مزید خاموش رہنے کی ضرورت نہیں تھی اس لیے میں نے بالا سنگھ کو آواز دی تاکہ وہ مجھے درخت سے اترنے میں مدد دے۔ تاہم جب میں نے بولٹک کھینچا کہ رائفل کے میگزین کو خالی کروں تو میں نے دیکھا کہ چیمبر میں گولی موجود تھی۔ یعنی رائفل بھری ہوئی تھی اور سیفٹی کیچ بھی ہٹا ہوا تھا، پھر رائفل کیوں نہیں چلی۔ اتنی تاخیر کے بعد مجھے یاد آیا کہ اسلحہ فروش دکان کے مینجر نے جو ہدایات دیں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رائفل "ڈبل پل آف” ہے یعنی اس کی لبلبی دو بار دبانے پڑتی تھی۔ چونکہ میں نے اس قسم کی رائفل کبھی نہیں استعمال کی تھی اس لیے مجھے علم نہیں تھا کہ پہلی بار لبلبی دبانے کے بعد دوسری بار بھی دبانی تھی تاکہ گولی چلتی۔ جب میں نے بالا سنگھ کو اس بارے بتایا تو اس نے سارا الزام اپنے سر لے لیا کہ اگر وہ میری بھاری رائفل اور سوٹ کیس ساتھ لے آتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ اس وقت تو میں اس سے متفق ہو گیا تھا لیکن اگلے چند دنوں کے واقعات سے یہ ظاہر تھا کہ اگر اس رات میرے پاس بھاری رائفل بھی ہوتی تو بھی شیر نہ مارا جاتا۔
5
آدم خور کے بارے کوئی خبر سننے کے لیے کافی طویل سفر کیا اور جب میں ریسٹ ہاؤس پہنچا تو وہاں ہیجان میں مبتلا ایک بندہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ شیر نے اس کی گائے ہلاک کر دی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ وادی کے دوسرے سرے پر مویشی چرا رہا تھا کہ اچانک شیر نمودار ہوا اور اس کی سرخ گائے جس نے چند دن قبل ہی بچھڑے کو جنم دیا تھا، کو ہلاک کر دیا۔ چونکہ اور کوئی گائے دودھیل نہیں تھی، بچھڑا لازمی مر جائے گا۔
اگرچہ قسمت شیر کے ساتھ گذشتہ رات تھی لیکن اس کی قسمت ہمیشہ تو اس کا ساتھ نہ دیتی۔ مویشیوں کی ہلاکت کے بدلے شیر کو اپنی جان دینی تھی کیونکہ پہاڑی علاقوں میں مویشی ویسے بھی کم ہوتے ہیں اور غریب آدمی کے لیے دودھ دینے و الی گائے کی ہلاکت بہت بڑی پریشانی تھی۔ چونکہ چروا ہے کا باقی ریوڑ گاؤں کو بھاگ گیا تھا اس لیے وہ مویشیوں کی فکر چھوڑ کر انتظار کر رہا تھا جب تک کہ میں نے دوپہر کا کھانا کھا لیا۔ ایک بجے ہم لوگ روانہ ہوئے۔ دو ساتھی مچان کا سامان اٹھائے ہوئے تھے۔
پہاڑی کے کنارے پر کھلے میدان سے میرے ہمراہی نے اشارے سے مجھے اس مقام کی تفصیل سمجھائی۔ اس کے مویشی اس جگہ سے چوتھائی میل نیچے گھاس کے قطعے پر اپنے مویشی چرا رہا تھا۔ شیر وادی کی جانب سے آیا اور اس کی گائے کو ہلاک کر دیا۔ باقی ریوڑ بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھا اور دوسری جانب اپنے گاؤں کو نکل گیا۔ ہمارا مختصر راستہ تو براہ راست ہی اس وادی میں اتر کر دوسری جانب نکل جانا ہوتا لیکن چونکہ میں شیر کو خبردار نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے وادی کے سرے سے ہو کر ہم لوگ اس جگہ کے اوپر پہنچے جہاں گائے ماری گئی تھی۔ جہاں مویشی چر رہے تھے، وہاں سے پہاڑی کے اوپر تک جنگل کھلے درختوں پر ہی مشتمل تھا۔ نرم مٹی پر مویشیوں کے کھروں کے گہرے نشانات ثبت تھے۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے شیر کے حملے کی جگہ تک پہنچنا آسان تھا۔ وہاں پہنچ کر ہمیں خون کا ایک بڑا تالاب سا دکھائی دیا اور یہاں سے گھسیٹنے کے نشانات بھی دکھائی دیئے۔ یہ نشانات پہاڑی سے ہو کر 200 گز دور گہری کھائی میں گئے تھے جہاں پانی کا ایک چشمہ بہتا تھا۔ یہاں سے شیر اپنے شکار کو لے کر گیا تھا۔
گائے کھلے میدان میں صبح کو 10 بجے ماری گئی تھی اور بظاہر شیر کا پہلا کام اپنے شکار کو کھلے میدان سے ہٹا کر کسی خفیہ جگہ پھر گدھوں اور دیگر مردار خوروں سے بچانا تھا۔ اس لیے شیر گائے کی لاش کو گھسیٹ کر اسی کھائی میں لے گیا اور کسی خفیہ جگہ چھپا کر اسی کھائی سے ہوتا ہوا نیچے وادی کو چلا گیا تھا۔ ایسی جگہ جہاں انسان اور مویشی بکثرت پھرتے ہوں، اس بات کا اندازہ لگانا غلط ہے کہ شیر کہاں سو رہا ہو گا۔ ہلکی سی بھی آہٹ سے شیر اپنی جگہ تبدیل کر سکتا تھا۔ اگرچہ شیر کے پگ کھائی کے نیچے کی طرف جا رہے تھے لیکن میں نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مخالف سمت انتہائی احتیاط سے گھسیٹنے کے نشانات کا تعاقب جاری رکھا۔
پہاڑی کے کنارے سے 200 گز نیچے جہاں سے ہو کر ہم آئے تھے، بارش کے پانی نے زمین کو کاٹ کر ایک بڑا سا سوراخ بنا دیا تھا۔ یہاں سے کھائی شروع ہو رہی تھی۔ یہ سوراخ بہت سال پہلے بنا تھا اور اب یہاں دس بارہ فٹ اونچے مختلف درخت اگ آئے تھے۔ انہی درختوں کے درمیان اور پندرہ فٹ کی گہرائی پر چھوٹا سا کھلا قطعہ تھا جہاں شیر نے گائے کو چھپا دیا تھا۔ گائے کے مالک نے آنسو بھری آنکھوں سے بتایا کہ یہ گائے اس نے خود پالی تھی اور اس کی پسندیدہ گائے تھی۔ میں محض افسوس کا ہی اظہار کر سکتا تھا۔ گائے کی لاش کو شیر نے ابھی کھانا نہیں شروع کیا تھا اور بظاہر شیر نے اس لاش کو کسی دوسرے وقت کھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
اب بیٹھنے کے لیے جگہ کا انتخاب باقی رہ گیا تھا۔ کھائی کے دونوں جانب کئی بڑے درخت تھے لیکن کسی بھی درخت سے لاش نہیں دکھائی دیتی تھی اور نہ ہی ان پر چڑھنا ممکن تھا۔ لاش سے تیس گز نیچے اور بائیں جناب کھائی کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لیکن مضبوط درخت اگا ہوا تھا۔ تنے سے اس کی شاخیں سیدھی نکلی ہوئی تھیں۔ زمین سے چھ فٹ کی بلندی پر میرے بیٹھنے کے لیے ایک مناسب شاخ تھی اور اس کے نیچے پاؤں رکھنے کے لیے دوسری شاخ بھی موجود تھی۔ میرے ساتھیوں نے زمین کے اتنے قریب بیٹھنے پر شدید احتجاج کیا۔ چونکہ اور کوئی مناسب جگہ نہیں تھی اس لیے یہ درخت ہی میرے لیے مناسب تھا۔ اپنے ساتھیوں کو میں نے کہا کہ وہ اس جھونپڑے کو چلے جائیں جہاں میں پچھلی شام کو تھا اور کہا کہ جب تک میں انہیں آواز نہ دوں یا خود نہ آؤں، وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ یہ جھونپڑا یہاں سے نصف میل دور تھا اور اگرچہ وہاں سے میرے ساتھی مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن درخت کی شاخوں سے مجھے وہ جھونپڑا دکھائی دے رہا تھا۔
میرے ساتھی 4 بجے روانہ ہوئے اور میں اپنے اندازے کے مطابق لمبے انتظار کے لیے تیار ہو گیا۔ وادی کا رخ مغرب کی جانب تھا اور شیر سورج غروب ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے آتا۔ میرے بائیں جناب شاخوں کے درمیان سے مجھے وادی تقریباً پچاس گز تک دکھائی دے رہی تھی۔ یہ وادی دس فٹ گہری اور بیس فٹ چوڑی تھی۔ میرے سامنے والی پہاڑی پر جگہ جگہ چٹانیں نکلی ہوئی تھیں لیکن کوئی درخت نہیں تھا۔ دائیں جانب مجھے پہاڑی کی چوٹی تک صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن گھنے درختوں کی وجہ سے لاش میری نظروں سے اوجھل تھی۔ میرے پیچھے پہاڑی بانسوں کا جھنڈ تھا جو میرے درخت تک پھیلا ہوا تھا۔ شیر نے برساتی پانی سے بنے سوراخ میں اپنا شکار چھپایا اور نیچے کو چلا گیا۔ مجھے پوری امید تھی شیر اسی راستے سے ہی واپس آئے گا۔ اسی لیے میں نے اپنی پوری توجہ اسی طرف مرکوز کر دی۔ میرا ارادہ تھا کہ شیر جونہی میرے سامنے آئے گا تو میں گولی چلا دوں گا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ شیر کو اتنے کم فاصلے سے میں لازماً ہلاک کر دوں گا اور اپنی تسلی کے لیے میں نے دوسری گولی چلانے کے لیے دوسرے گھوڑے کو بھی چڑھا دیا۔
جنگل میں سانبھر، کاکڑ اور لنگور تھے۔ اس کے علاوہ فیزنٹ، کوے، بلبل اور دیگر پرندے بھی بے شمار تھے۔ یہ سارے پرندے اور جانور شیر وغیرہ کو دیکھتے ہی خوب شور مچاتے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کی آمد کے بارے مجھے کافی پہلے پتہ چل جائے گا۔ تاہم یہ ان7دازہ غلط نکلا۔ کسی بھی پرندے یا چرندے کی آواز کے بغیر اچانک شیر لاش پر پہنچ گیا۔ کھائی سے شاید پانی پینے کے بعد واپسی پر شیر نے پہاڑی بانسوں کے جھنڈ سے کترا کر گذرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے وہ میری نظروں میں آئے بنا لاش پر پہنچ گیا۔ تاہم مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ دن کی روشنی میں شیر اپنے شکار کردہ جانور پر آتے وقت کافی محتاط ہوتے ہیں۔ مجھے پوری طرح یقین تھا کہ جلد یا بدیر شیر میرے سامنے کھلے میدان میں آئے گا۔ ابھی شیر کو کھاتے پندرہ منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ میں نے پہاڑی کے سرے کے ایک ریچھ کو بائیں طرف سے دائیں کو آتےد یکھا۔ یہ ریچھ کافی بڑا اور کالے رنگ کا تھا۔ انتہائی آرام سے چلتے پھرتے ریچھ آگے چلتا آیا۔ اچانک ہی ایک جگہ ریچھ رکا اور پہاڑی کے نیچے کی طرف رخ کر کے لیٹ گیا۔ ایک یا دو منٹ بعد اس نے سر اٹھایا، سونگھا اور پھر نیچے لیٹ گیا۔ ہمیشہ کی طرح دن کے وقت ہوا نیچے سے اوپر کو چل رہی تھی اور ریچھ کو گوشت اور خون کے ساتھ ساتھ شیر کی بو بھی آ گئی تھی۔ چونکہ میں شکار سے تھوڑا سا دائیں جانب تھا اس لیے ریچھ کو میری بو نہیں پہنچی۔ پھر ریچھ اٹھا اور زمین سے قریب جھکا ہوا شیر پر گھات لگانے لگا۔
ریچھ کو پہاڑی سے اترتے ہوئے اور شیر پر گھات لگاتے ہوئے مجھ پر کئی نئے انکشافات ہوئے۔ اگرچہ شیر یا چیتوں کی مانند ریچھ کا جسم گھات لگانے کے لیے نہیں بنالیکن دو سو گز کا فاصلہ ریچھ نے کسی سائے کی طرح خاموشی اور سانپ کی طرح آسانی سے طے کیا۔ جتنا قریب وہ ہوتا گیا اتنا ہی محتاط ہوتا گیا۔ مجھے یہاں سے اس سوراخ کا کنارہ دکھائی دے رہا تھا جہاں شیر اپنے شکار سمیت موجود تھا۔ اس کنارے سے چند فٹ دور جب ریچھ پہنچا تو زمین سے لگ گیا۔ جب شیر نے لاش کو پھر سے ادھیڑنا شروع کیا تو ریچھ نے انتہائی آہستگی سے اپنا سر کنارے سے اوپر کیا اور نیچے دیکھ کر پھر سر نیچے کر لیا۔ میں اس ساری صورتحال سے اتنا ہیجان میں مبتلا ہو چکا تھا کہ میرا سارا جسم کانپ رہا تھا اور منہ اور گلا خشک ہو گئے تھے۔
دو بار میں نے ہمالیائی ریچھوں کو شیر کو ان کے شکار کردہ جانورکھاتے دیکھا ہے۔ دونوں بار ہی شیر موقعے پر موجود نہیں تھے۔ دو بار میں نے ریچھوں کو پیٹ بھرتے چیتوں تک جاتے چیتوں کو بھگاتے دیکھا ہے۔ چیتوں کے جانے کے بعد ریچھ ان کا شکار کردہ جانور لے کر رفو چکر ہو گئے تھے۔ تاہم اس بار ایک بڑا نر شیر موقعے پر موجود تھا اور شیر کو چیتوں کی طرح ڈرا کر بھگایا نہیں جا سکتا۔ تاہم میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود تھا کہ یہ ریچھ اتنا احمق نہیں ہو سکتا کہ جنگل کے بادشاہ کو اس کے شکار کردہ جانور سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ تاہم ریچھ بظاہر یہی کام کرنے والا تھا۔ جونہی شیر نے ایک بڑی ہڈی کو توڑا، ریچھ نے حملہ کر دیا۔ ریچھ اس موقعے کا انتظا رکر رہا تھا یا کیا، جونہی شیر نے ہڈی توڑی، ریچھ نے اپنا جسم اکٹھا کیا اور خوفناک چیخ مار کر گڑھے میں کود گیا۔ میرا خیال ہے کہ چیخ کا مقصد شیر کو ڈرانا تھا۔ تاہم ڈرنے کی بجائے شیر الٹا آگ بگولا ہو گیا کیونکہ ریچھ کی چیخ کے فوراً بعد شیر کی دھاڑ سنائی دی۔
جنگل میں اس طرح کی لڑائیاں انتہائی کم ہوتی ہیں اور میرے مشاہدے میں یہ دوسرا واقعہ تھا جب دو مختلف انواع کے جانور ایک دوسرے سے محض لڑائی کی نیت سے لڑ رہے تھے نہ کہ شکار کے لیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، مجھے یہ لڑائی دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن میں نے اس کو پوری طرح سنا۔ چھوٹی سی اور تنگ جگہ سے یہ آوازیں مزید ہولناک سنائی دے رہی تھیں۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ اس لڑائی میں دو فریق ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے نہ کہ سہ فریقی، جس میں میں بھی ایک فریق ہوتا۔ اس طرح کے ہیجان خیز لمحات میں وقت تھم سا جاتا ہے۔ شاید یہ لڑائی تین منٹ تک جاری رہی یا پھر زیادہ وقت کے لیے، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ جب شیر نے محسوس کیا کہ اس نے ریچھ کو اچھا خاصا سبق دے دیا ہے تو وہ لڑائی چھوڑ کر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا میرے سامنے کھلے قطعے سے گذرا اور ریچھ ابھی بھی چیختا چلاتا اس کے پیچھے تھا۔ ابھی میں شیر کے بائیں شانے پر شست لے ہی رہا تھا کہ اچانک شیر بائیں جانب مڑا اور بیس فٹ چوڑی کھائی ایک ہی چھلانگ میں عبور کر کے سیدھا میرے قدموں میں پہنچا۔ ابھی شیر فضا میں ہی تھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی اور میرا خیال ہے کہ یہ گولی اس کی گردن میں لگی۔ گولی چلتے ہی شیر غرایا اور میرے پیچھے پہاڑی بانس کے جھنڈ کے پیچھے غائب ہو گیا۔ چند سیکنڈ بعد شیر کی حرکت اور آوازیں رک گئیں۔ میں نے سوچا کہ گولی اس کے دل میں لگی ہے اور شیر اب مر چکا ہے۔
اعشاریہ 500 بور کی رائفل جب چلتی ہے تو اچھی خاصی آواز پیدا کرتی ہے۔ تاہم اس تنگ وادی میں اس کی آواز توپ سے مشابہہ تھی۔ تاہم اس سے ریچھ پر کوئی فرق نہ پڑا۔ شیر کے برعکس ریچھ سیدھا میری طرف بھاگتا ہوا آ رہا تھا۔ مجھے اس بہادر ریچھ پر گولی چلانے کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ اس ریچھ نے شیر جیسے جانور کو اس کے شکار کردہ جانور سے بھگا دیا تھا لیکن اب غصے سے پاگل ریچھ کو اپنے مزید قریب آنے کا موقع دینا حماقت ہوتی۔ ابھی وہ مجھ سے چند ہی فٹ دور ہو گا کہ میں نے بائیں نالی کی گولی اس کی پیشانی میں اتار دی۔ آہستگی سے ریچھ زمین پر پھسلتے ہوئے دوسرے کنارے سے جا لگا۔
ابھی لمحہ بھر قبل ہی پورا جنگل اس لڑائی اور میری بھاری رائفل کی آواز سے گونج رہا تھا اور اب اچانک ہی خاموشی چھا گئی۔ جب میرے دل کی دھڑکن دوبارہ نارمل ہوئی تو میں نے سگریٹ پینے کا سوچا۔ خالی رائفل کو گھنٹوں پر رکھ کر میں نے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے اور سگریٹ کیس اور ماچس نکالنے لگا۔ اسی وقت اچانک مجھے اپنے دائیں جناب حرکت محسوس ہوئی۔ سر موڑا تو دیکھا کہ شیر عام رفتار سے چلتا ہوا ریچھ کی طرف جا رہا تھا۔
مجھے پتہ ہے کہ اوپر بیان کردہ واقعات کی روشنی میں میرے شکاری دوست مجھے برا نشانچی اور لاپرواہ کہیں گے۔ برا نشانچی کہنے میں شاید وہ حق بجانب ہوں لیکن لاپرواہی کا الزام درست نہیں۔ جب میں نے شیر پر اس کی کمر پر گولی چلائی تو میرا خیال تھا کہ یہ گولی شیر کے دل میں ترازو ہو گئی ہے۔ اس کا ثبوت شیر کی غراہٹ، اس کے بھاگنے اور پھر اچانک اس کی آوازوں کا تھم جانا ہیں۔ دوسری گولی میں نے غصے سے پاگل ریچھ پر چلائی اور ریچھ کو اسی جگہ ہلاک کر دیا۔ چونکہ میں ابھی درخت پر ہی بیٹھا تھا اس لیے میں نے رائفل کو دوبارہ بھرنے کو بے کار سمجھا اور گھٹنوں پر رکھ دی۔
شیر کو اس طرح صحیح سلامت دیکھ کر ایک یا دو ثانئے کے لیے تو میں ششد رہ گیا۔ تاہم میں نے فوراً ہی خود کو سنبھالا۔ رائفل انڈر لیور ماڈل کی تھی اور اسے عجلت میں بھرنا مشکل تھا۔ مزید مشکل یہ کہ کارتوس پینٹ کی جیب میں تھے۔ کھڑی حالت میں تو ان کارتوسوں کو نکالنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن پتلی سی شاخ پر بیٹھے ہونے کی صورت میں یہ کام انتہائی مشکل تھا۔ شاید شیر جانتا تھا کہ ریچھ مر چکا ہے یا پھر اس نے محض حملے سے بچاؤ کا سوچا، ریچھ پر نگاہ رکھتے ہوئے شیر سیدھا پہاڑی پر چڑھا۔ چالیس گز دور پہنچا تو وہ میرے سامنے ہلکا سا بائیں جانب تھا۔ جب وہ ایک بڑی پتھریلی چٹان کے پاس سے گذر رہا تھا تو میں نے ایک نال بھر لی تھی اور رائفل سیدھا کرتے ہوئے میں نے گولی چلائی۔ گولی چلتے ہی شیر اچھلا اور پہلو کے بل گرا اور پھر اٹھتے ہوئے وہ بھاگا اور پہاڑی کے کنارے سے ہوتا ہوا دوسری طرف گم ہو گیا۔ بھاگتے وقت اس کی دم ہوا میں تھی۔ نرم نکل والی گولی شیر کے منہ سے چند انچ دور چٹان پر لگی۔ جب گولی ٹکرا کر مڑی تو اس نے شیر کا توازن تو خراب کر دیا لیکن شیر کو کوئی زخم نہیں پہنچا۔
خاموشی سے سگریٹ ختم کر کے میں درخت سے نیچے اترا اور ریچھ کو دیکھنے چلا۔ یہ ریچھ میرے اندازے سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اس کی اپنی مرضی سے شروع کرنے والی لڑائی حقیقتاً بہت خوفناک تھی۔ اس کی گردن پر کئی جگہ گہرے کھاؤ تھے جن سے خون رس رہا تھا اور کھوپڑی پر کئی جگہ شیر کے ناخن ریچھ کی کھال چیرتے ہوئے ہڈی تک پہنچ گئے تھے۔ تاہم اس ریچھ جیسے سخت جان جانور کے لیے اس طرح کے زخم عام سی بات ہیں۔ اصل زخم ریچھ کو ناک پر لگا تھا۔ ناک پر لگنے والے زخم انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہوتے ہیں اور ریچھ کو نہ صرف ناک پر چوٹ لگی تھی بلکہ شیر نے اس کی ناک آدھے سے زیادہ کاٹ لی تھی۔ اس چوٹ کے بعد ریچھ کو میری گولی کی آواز سننے کا ہوش نہیں رہا ہو گا اور اس کی آنکھوں میں شیر کی موت جھلک رہی ہو گی۔
چونکہ اب اپنے آدمیوں کو بلا کر ریچھ کی کھال اتارنے کے لیے مناسب وقت نہیں بچا تھا، میں انہیں لے کر ریسٹ ہاؤس کو چل دیا تاکہ اندھیرا ہونے سے قبل وہاں پہنچ جائیں۔ یاد رہے کہ آدم خور اسی علاقے میں سرگرم تھا۔ میرے ساتھیوں کے علاوہ درجن بھر دیہاتی بھی جھونپڑے کے گرد جمع تھے اور انتہائی تعجب سے مجھے وادی سے گذرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جب میں ان کے قریب پہنچا تو وہ ششدر تھے۔ بالا سنگھ سب سے پہلے ہوش میں آیا اور اس کی کہانی سننے سے مجھے پتہ چلا کہ ان کی نگاہوں میں میں دوبارہ زندہ ہو کر لوٹا تھا۔ بالا سنگھ نے کہا کہ صاحب ہم نے آپ سے کہا بھی تھا کہ زمین سے اتنا نزدیک نہ بیٹھیں۔ جب ہم نے آپ کی چیخ اور پھر شیر کی دھاڑ سنی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر نے آپ کو درخت سے کھینچ کر اتار لیا ہے اور آپ اپنی زندگی بچانے کے لیے شیر سے دو بدو لڑائی کر رہے ہیں۔ پھر جب شیر کی دھاڑ بند ہوئی لیکن آپ کی چیخیں سنائی دیتی رہیں تو ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شیر آپ کو اٹھا کر لے جا رہا ہے۔ پھر دو گولیوں کی آواز سنائی دی اور پھر تیسری گولی چلی اور ہم انگشت بدنداں تھے کہ جس آدمی کو شیر اٹھا کر لے جا رہا ہو، وہ کیسے گولی چلا سکتا ہے۔ ابھی ہم سب مل کر یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا کریں کہ اچانک آپ خود سامنے آ گئے اور ہم حیرت کے مارے چپ ہو کر رہ گئے۔ جب شیر کے انتظار میں شکاری بیٹھا ہو تو اس کے ساتھی انتہائی توجہ سے ہر آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں اور ریچھ کی آواز ویسے بھی انسانی آواز سے کافی مشابہہ ہوتی ہے اور کچھ فاصلے سے تو ان میں فرق کرنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔
جتنی دیر میں ریچھ اور شیر کی لڑائی کے بارے ان لوگوں کو بتا رہا تھا، بالا سنگھ نے میرے لیے چائے کا کپ تیار کر لیا تھا۔ ریچھ کی چربی کو گٹھیا کے مرض کے مجرب مانا جاتا ہے اور یہ سارے لوگ یہ جان کر انتہائی خوش ہو گئے کہ ساری چربی ان لوگوں اور ان کے دوستوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگلی صبح میں ڈھیر سارے آدمیوں کے ساتھ ریچھ کی کھال اتارنے لوٹا۔ یہ لوگ نہ صرف چربی وصول کرنے آئے تھے بلکہ وہ اس جانور کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے شیر سے لڑائی لڑی تھی۔ میں نے کبھی ریچھ کا وزن یا پیمائش نہیں کی تاہم میں نے بہت سے ریچھ دیکھے ہیں۔ اس ریچھ جتنا بھاری اور بڑا ہمالیائی ریچھ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جب چربی اور دیگر حصے تقسیم ہو گئے تو سب نے دیبی دھورا کا رخ کیا۔ ان میں سب سے زیادہ خوش بالا سنگھ تھا جسے میں نے ریچھ کی کھال تحفتاً دی تھی۔ وہ اس کھال کو اپنی پشت پر باندھے ہوئے تھا۔
شیر دوبارہ نہ پلٹا اور شام تک گدھوں نے نہ صرف گائے بلکہ ریچھ کی لاش بھی صاف کر دی۔
6
چربی سے بھرے ریچھ کی کھال اتارنا انتہائی غلیظ کام ہے اور جب میں فارغ ہوا تو ریسٹ ہاؤس کو لوٹا تاکہ غسل کر کے ناشتہ کر سکوں۔ ریسٹ ہاؤس میں انتہائی ہیجان میں مبتلا دیبی دھورا کا فارسٹ گارڈ ملا۔ آج صبح جب وہ اپنی رات کی ڈیوٹی پوری کر کے جب دیبی دھورا پہنچا تو بنیا کی دکان پر اسے پتہ چلا کہ میں نے ریچھ مارا ہے۔ اپنے والد کے گٹھیا کے مرض کے لیے اسے ریچھ کی چربی کی اشد ضرورت تھی۔ اس لیے جب وہ ہماری طرف روانہ ہوا تو راستے میں اس نے مویشیوں کا ایک ریوڑ بھاگتے دیکھا جس کے پیچھے ایک لڑکا بھی بھاگا چلا آ رہا تھا۔ اس لڑکے نے اسے بتایا کہ شیر نے ابھی ابھی اس کی ایک گائے کو ہلاک کیا ہے۔ فارسٹ گارڈ کو کسی حد تک اس جگہ کا اندازہ تھا جہاں شیر نے گائے کو ہلاک کیا تھا۔ جتنی دیر میں بالا سنگھ اور دیگر ساتھی دیبی دھورا پہنچتے میں شیر کے شکار کو تلاش کرنے کی نیت سے چل پڑا۔ پہاڑی اور اترتے چڑھتے ہم لوگ دو میل دور گئے ہوں گے کہ ایک چھوٹی سی وادی سامنے آ گئی۔ فارسٹ گارڈ کے مطابق اسی وادی میں شیر نے گائے کو ہلاک کیا تھا۔ الموڑا کے گورکھا ڈپو پر کچھ عرصہ قبل ناکارہ سامان کی نیلامی ہوئی تھی اور میرے ساتھی فارسٹ گارڈ نے اسی نیلامی سے اپنے لیے پرانے فوجی بوٹ خریدے تھے جو اس کے پاؤں سے کافی بڑے تھے۔ انہی جوتوں کے ساتھ وہ چلتا ہوا میرے ساتھ یہاں تک آیا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے اسے جوتے اتارنے کی ہدایت کی۔ جب اس نے جوتے اتارے تو اس کے پیروں کی حالت دیکھ کر مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ یہ بندہ ساری زندگی ننگے پیر رہا تھا اور اب محض جوتوں کی خواہش میں اس نے اپنے پیروں کی شاندار درگت بنا لی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس نے اس نیت سے بڑے جوتے خریدے تھے کہ وہ کچھ عرصہ استعمال کے بعد سکڑ جائیں گے۔
یہ وادی کشتی نما شکل کی تھی اور اس کا رقبہ تقریباً پانچ ایکڑ ہو گا۔ پوری وادی میں جگہ جگہ شاہ بلوط کے درخت موجود تھے اور جس طرف سے میں آ رہا تھا، وہاں سے اترائی اتنی سخت نہیں تھی اور نہ ہی جھاڑیاں وغیرہ تھیں۔ تاہم دوسری جانب چڑھائی کافی سخت تھی اور کچھ جھاڑیاں بھی موجود تھیں۔ اسی کنارے پر کھڑے ہو کر میں نے پوری وادی کا جائزہ لیا لیکن کہیں کوئی مشکوک چیز نظر نہ آئی۔ پھر میں وادی میں اترا اور فارسٹ گارڈ میرے پیچھے ننگے پیر خاموشی سے آیا۔ جونہی ہم مسطح جگہ پہنچے، میں نے خشک پتوں اور مردہ ٹہنیوں کا ایک انبار دیکھا۔ اگرچہ مجھے گائے کا کوئی حصہ نظر نہیں آیا تھا پھر بھی مجھے پتہ چل گیا تھا کہ شیر نے گائے کو اسی ڈھیر میں چھپایا ہے۔ میری حماقت کہ میں نے اپنے ساتھی کو اس ڈھیر کی حقیقت کے بارے کچھ نہیں بتایا۔ اس نے مجھے بعد میں بتایا کہ اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ شیر اپنے شکار کردہ جانوروں کو اس طرح بھی چھپاتے ہیں۔ جب شیر اس طرح اپنے شکار کو چھپاتا ہے تو اس کا مطلب عموماً یہ ہوتا ہے کہ شیر کہیں نزدیک نہیں ہو گا۔ تاہم ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ اگرچہ میں نے پوری وادی کا اچھی طرح جائزہ لے لیا تھا پھر بھی میں نے رک کر دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اس ڈھیر سے کچھ پیچھے پہاڑی اٹھنا شروع ہو جاتی ہے اور 45 درجے زاویہ بناتی ہے۔ چالیس گز کی بلندی پر جھاڑیوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دکھائی دیا۔ ابھی میں اسی جگہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میں نے شیر کو دیکھ لیا۔ ایک چھوٹے سے مسطح قطعے پر شیر میری طرف ٹانگیں کیے سو رہا تھا۔ مجھے اس کے سر کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا اور شانوں سے دم تک تین انچ چوڑی پٹی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اس موقع پر شیر کے سر پر گولی چلانا بے کار تھا کیونکہ اس سے محض ہلکا سا ہی زخم پہنچتا۔ ابھی میرے پاس پوری دوپہر اور شام کا وقت تھا اور شیر جلد یا بدیر اپنی جگہ سے حرکت کرتا۔ اس لیے میں نے وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے کی ٹھانی۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہی تھا کہ بائیں جانب حرکت سی محسوس ہوئی۔ سر کو موڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک ریچھنی دو بچوں سمیت اسی سمت آ رہی ہے۔ لازماً ریچھنی نے شیر کو گائے ہلاک کرتے ہوئے سنا ہو گا اور مناسب وقفے کے بعد وہ تفتیش کی غرض سے آ رہی ہو گی۔ جب تک کوئی انتہائی ضرورت نہ ہو، ریچھ دوپہر کے وقت اس طرح مٹر گشت نہیں کرتے۔ اگر میں اس جگہ کی بجائے وادی کے سرے پر ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ انتہائی دلچسپ لڑائی دیکھائی دیتی۔ جب ریچھ اپنی بہترین قوت شامہ سے شکار کو ڈھونڈ نکالتے اور اس پر سے پتے وغیرہ ہٹانے لگتے تو شیر لازماً بیدار ہو جاتا اور بغیر لڑائی کے وہ ریچھوں کو شکار پر ہاتھ صاف نہ کرنے دیتا۔ یہ لڑائی قابل دید ہوتی۔
اس دوران فارسٹ گارڈ میرے پیچھے کھڑا تھا اور اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا کہ اچانک اس کی نظر ریچھوں پر پڑی اور وہ چلایا، دیکھو صاحب بھالو، بھالو۔ بجلی کی تیزی سے شیر اٹھا تاہم اسے ابھی بیس گز مزید کھلے میدان سے گذرنا تھا۔ جونہی میں نے نشانہ باندھ کر لبلی دبائی، فارسٹ گارڈ نے یہ سوچ کر میرے بازو کو پکڑ کر مجھے گھمایا کہ میں غلط سمت گولی چلا رہا ہوں۔ نتیجتاً میری چلائی ہوئی گولی چند گز دور ایک درخت پر لگی۔ اپنے غصے پر قابو نہ پا سکنا حماقت ہے اور جنگل میں یہ مزید بھی نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ فارسٹ گارڈ چونکہ نہ تو اس ڈھیر کے بارے جانتا تھا اور نہ ہی اسے شیر کی موجودگی کا علم تھا، اس نے سوچا کہ اس نے ریچھوں سے میری جان بچا لی ہے۔ اس لیے اسے کچھ ڈانٹ ڈپٹ کرنا بے کار تھا۔ گولی کی آواز سنتے ہی ریچھ واپس دوڑ پڑے۔ میرے ساتھی نے مجھے بار بار کہا کہ مارو، مارو۔
انتہائی مایوس فارسٹ گارڈ میرے ساتھ دیبی دھورا لوٹا۔ اسے خوش کرنے کے خیال سے میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی جگہ نزدیک ہے جہاں میں گڑھل کا شکار کر سکوں۔ میرے ساتھیوں کو ابھی تک گوشت نہ ملا تھا۔ نہ صرف اسے اس جگہ کا علم تھا بلکہ وہ ہماری رہنمائی کرنے کے لیے فوراً تیار ہو گیا۔ حالانکہ اس کے پیر چھالوں سے بھرے تھے۔ چائے کا ایک کپ پی کر فارسٹ گارڈ، میں اور دو ساتھی مزید ساتھ چل پڑے تاکہ وہ فارسٹ گارڈ کے مطابق شکار کردہ جانور کو اٹھا سکیں۔
ریسٹ ہاؤس کے برآمدے سے پہاڑی تیزی سے نیچی ہوتی جاتی ہے۔ اسی جگہ سے چند سو گز نیچے اتر کر فارسٹ گارڈ نے ہماری رہنمائی کی حتیٰ کہ ایک پگڈنڈی دکھائی دی جو گڑھل استعمال کرتے تھے۔ یہاں سے میں سب سے آگے ہوا اور چلنے لگا۔ نصف میل دائیں جا کر جہاں ایک چٹانی چھجہ سا آیا، میں نے وادی کے پار دیکھا تو ایک گڑھل دکھائی دیا جو دوسرے کنارے پر ایک پتھر پر کھڑا نہ جانے آسمان پر کیا دیکھ رہا تھا۔ گڑھل، پہاڑی بکروں، آئی بکس اور مارخور وغیرہ سب ہی کی یہ عادت ہے کہ وہ اسی طرح کھڑے ہو کر کچھ نہ کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ گڑھل نر تھا جیسا کہ اس کے گلے پر موجود سفید نشان سے دکھائی دے رہا تھا۔ درمیانی فاصلہ دو سو گز سے ذرا سا زیادہ تھا۔ اب نہ صرف اپنے ساتھیوں کے لیے گوشت کا انتظام کرنے کا بلکہ نئی رائفل کے نشانے کی درستگی کا امتحان کرنے کا بہترین موقع تھا۔ نیچے لیٹ کر میں نے دو سو گز کی پتی چڑھائی اور احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی گڑھل نیچے گرا اور لڑھکنے لگا۔ اسی جگہ سے کئی سو فٹ کی ڈھلوان تھی۔ دوسرا گڑھل جسے میں نے ابھی تک نہیں دیکھا تھا، اپنے بچے کی ساتھ بھاگتا ہوا اوپر چوٹی تک چڑھا۔ یہاں وہ رک کر کئی بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے کے بعد پہاڑی کی دوسری جانب چلا گیا۔
جتنی دیر میں میرے ساتھی گڑھل کو لاتے، میں اور فارسٹ گارڈسگریٹ پینے لگے۔ اگرچہ اسے ریچھ کی چربی تو نہ مل سکی تھی لیکن اسے میں نے پیشکش کی کہ وہ گڑھل کی کھال کے ساتھ ساتھ گوشت کا بھی کچھ حصہ لے سکتا ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوا اور بولا کہ وہ گڑھل کی کھال سے اپنے باپ کے لیے نشست بنائے گا جو بڑھاپے اور گٹھیا کی وجہ سے سارا دن دھوپ سینکتا رہتا ہے۔
اگلے دن جب میں دوبارہ گائے کی لاش پر لوٹا تو میرے اندازے کے عین مطابق شیر کی بجائے ریچھ آ کر اپنا پیٹ بھر گئے تھے۔ انہوں نے گائے کی لاش کی محض ہڈیاں ہی باقی چھوڑی تھیں اور اب ایک گدھ اس پر اپنی چونچ تیز کر رہا تھا۔
چونکہ ابھی صبح کا وقت تھا اس لیے میں نے سوچا کہ اس سمت جا کر کچھ تحقیق کروں جس سمت کل شیر فرار ہوا تھا۔ اس لیے پہاڑی کی دوسری جانب جا کر میں لوہار گھاٹ والی سڑک تک آدم خور تیندوے کے پگوں کو تلاش کرتا چلا گیا۔ جب واپس لوٹا تو پتہ چلا کہ شیر نے ایک اور شکار کر لیا ہے۔ میرا مخبر کافی عقلمند آدمی تھا لیکن چونکہ وہ عدالت پیشی کے سلسلے میں جا رہا تھا اس لیے اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ البتہ اس نے برآمدے کے فرش پر کوئلے سے نقشہ بنا کر مجھے وہ جگہ سمجھائی جہاں شیر نے شکار کیا تھا۔ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ایک ساتھ کھا کر میں شیر کے شکار کو تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ اگر نقشہ درست تھا تو جہاں میں نے کل شیر پر گولی چلائی تھی، اس جگہ سے پانچ میل دور یہ واردات ہوئی تھی۔ یہ شیر جیسا کہ میں نے جائے وارات کے مشاہدے سے جانا، ندی کے کنارے چرتے ہوئے اس ریوڑ تک پہنچا اور کافی مشکل کے بعد اس نے گائے کو ہلاک کیا۔ عموماً گائے کا وزن 600 یا 700 پاؤنڈ ہوتا ہے، اس لیے اتنے وزنی اور طاقتور جانور کو ہلاک کرنے کے بعد شیر عموماً کچھ دیر آرام کرتے ہیں۔ تاہم خون کے نشانات کی عدم موجودگی سے پتہ چلا کہ اس شیر نے گائے کو ہلاک کرتے ہی اسے اٹھایا اور ندی عبور کر کے وادی کے دامن میں موجود جنگل میں گھس گیا۔
کل شیر نے اپنے شکار کو ہلاک کر کے وہیں جھاڑ جھنکار سے ڈھانپ دیا تھا اور آج وہی شیر اپنے شکار کو کہیں دور لے جانے کا ٹھانے ہوئے تھا۔ دو میل تک میں نے ان نشانات کا پیچھا کیا۔ شیر نے گائے کو اٹھائے اٹھائے گھنے جنگل سے بھری پہاڑی پر گیا اور چوٹی سے چند سو گز نیچے گائے کی پچھلی ٹانگیں دو درختوں کے درمیان پھنس گئیں۔ انتہائی طاقتور جھٹکے سے شیر نے گائے کو کھینچا جس سے گائے کی ٹانگ گھٹنے سے ٹوٹ کر الگ ہو گئی۔ بقیہ لاش کو اٹھائے ہوئے شیر ٍآگے بڑھا۔ جس جگہ سے شیر چوٹی پر پہنچا، وہ مسطح اور شاہ بلوط کے درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہ درخت ایک سے دو فٹ چوڑے تنوں والے تھے۔ اسی جگہ شیر نے گائے کو ڈالا اور چل دیا۔ اس بار اس نے گائے کو پتوں سے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
شیر کا تعاقب کرتے ہوئے میرے پاس صرف رائفل اور چند گولیاں ہی تھیں پھر بھی اس پہاڑی کی چڑھائی جب ختم ہوئی تو میرے کپڑے پسینے سے تر اور گلا خشک تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ شیر اس مشقت کے بعد کتنا پیاسا ہو گا۔ چونکہ میں بھی شدید پیاسا تھا اس لیے میں نے نزدیکی ندی تلاش کرنے کی ٹھانی۔ ظاہر ہے کہ شیر سے بھی اسی جگہ ملاقات ہو سکتی تھی۔ جس وادی میں میں نے ریچھ پر گولی چلائی تھی، یہاں سے نصف میل دور تھی اور وہاں چشمہ تھا۔ لیکن اس سے پہلے ایک کھائی بائیں جانب تھی جسے میں نے آزمانے کا سوچا۔
ابھی میں اس کھائی میں ایک میل سے کچھ کم دور گیا ہوں گا اور اس جگہ کھائی کافی تنگ ہو گئی تھی۔ ایک بڑی چٹان سے نکلتے ہی میں نے اچانک شیر دیکھا جو 20 گز دور لیٹا ہوا تھا۔ اس جگہ پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا اور دائیں کنارے اور تالاب کے درمیان پتلی سی پٹی پر شیر سو رہا تھا۔ اس جگہ وادی اچانک مڑتی ہے اور شیر کا نصف حصہ موڑ سے پہلے اور نصف حصہ موڑ کی وجہ سے چھپا ہوا تھا۔ شیر بائیں پہلو پر سو رہا تھا اور اس کی کمر تالاب کی جانب تھی۔ مجھے اس کی دم اور پچھلی ٹانگیں ہی دکھائی دے رہی تھیں۔ میرے اور شیر کے درمیان کافی بڑی مقدار میں درختوں کی خشک شاخیں پڑی تھیں جو بہت عرصہ قبل مویشیوں کے چارے کے لیے کاٹی گئی تھیں۔ چونکہ ان شاخوں سے خاموشی سے گذرنا ممکن نہیں تھا اور نہ ہی کناروں پر چڑھائی ممکن تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ وہیں رک کر انتظار کروں کہ شیر بیدار ہو کر حرکت کرے تو میں گولی چلاؤں۔
اتنی مشقت اور پیٹ بھر کر پانی پینے کے بعد شیر آرام سے نصف گھنٹہ سوتا رہا۔ پھر اس نے دائیں کروٹ لی۔ اس کی ٹانگوں کا مزید کچھ حصہ دکھائی دینے لگا۔ چند منٹ اسی حالت میں رہنے کے بعد شیر کھڑا ہوا اور موڑ کی دوسری جانب غائب ہو گیا۔ لبلبی پر انگلی رکھے میں منتظر رہا کہ شیر کب نمودار ہوتا ہے کیونکہ اس کا شکار میرے عقب میں پہاڑی پر تھا۔ منٹوں پر منٹ گذرتے گئے لیکن شیر نہ دکھائی دیا۔ پھر سو گز دور سے کاکڑ بھونکتے ہوئے وادی کے نیچے کی جانب بھاگا۔ کچھ دیر بعد سانبھر کی آواز سنائی دی۔ شیر جا چکا تھا لیکن کیوں ؟ اتنی مشقت کے بعد بھی، یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ شیر نے میری بو پا لی ہو کیونکہ شیروں کی قوت شامہ بالکل نہیں ہوتی۔ خیر، اتنی مشقت کے بعد وہ اپنے شکا رکو کسی قیمت پر نہ چھوڑتا اورپہاڑی پر میں اس کا منتظر ہوتا۔ جس جگہ شیر لیٹا تھا اس تالاب کا پانی برف کی طرح سرد تھا اور اپنی پیاس بجھانے کے بعد میں نے سگریٹ پیا۔
ابھی سورج غروب ہونے والا تھا کہ میں نے لاش سے دس گز مشرق اور تھوڑا سا دائیں جانب شاہ بلوط کے ایک درخت پر ڈیرا جما لیا۔ چونکہ شیر مغرب سے پہاڑی پر چڑھتا اس لیے بہتر تھا میں اس کی آمد کی جگہ اور لاش کے درمیان نہ ہوتا۔ شیر اگرچہ سونگھ نہیں سکتے لیکن ان کی نظر انتہائی تیز ہوتی ہے۔ اس جگہ سے مجھے وادی اور اس کے پیچھے پہاڑیاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ جب غروب ہوتا ہوا سورج سرخ گیند کی شکل میں پہاڑی کے سرے پر دکھائی دے رہا تھا کہ نیچے وادی سے سانبھر کی آواز آئی۔ شیر روانہ ہو چکا تھا اور جتنی دیر میں اندھیرا ہوتا، شیر اس سے قبل ہی شکار پر پہنچ جاتا۔
سورج ڈوب گیا۔ شفق کی جگہ تاریکی نے لے لی۔ چاند کو نکلنے میں کافی دیر تھی لیکن ہمالیہ میں ستارے اتنے روشن دکھائی دیتے ہیں کہ مجھے سفید رنگ والی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لاش کا سر میری طرف تھا اور اگر شیر لاش کے عقب سے آ کر اسے کھانا شروع کرتا تو میں اسے نہ دیکھ پاتا۔ تاہم لاش کا نشانہ لینے کے بعد رائفل کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر کہ جب لاش دکھائی دینا بند ہو جاتی، میں اندازاً شیر پر گولی چلا سکتا تھا۔ یہ گولی ففٹی ففٹی ہوتی۔ تاہم ایسا خطرہ صرف اور صرف آدم خور کے شکار میں ہی مول لیا جاتا ہے۔ یہ عام سا "ٹمپل” ٹائیگر تھا۔ اگرچہ چار دنوں میں اس نے چار مویشی مارے تھے لیکن اس نے کبھی کسی انسان کو تنگ نہیں کیا تھا اور مویشی مارنے کے سلسلے میں اس نے جنگل کے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ مویشیوں کو اس سے بچانے کے لیے اس پر اس طرح گولی چلانا جائز تھا کہ وہ فوراً ہی مارا جاتا۔ لیکن اس طرح اوچھی گولی چلا کر اسے زخمی کرنا کہ وہ گھنٹوں تک زخم کی تکلیف سہتا رہے اور اگر اسے ڈھونڈ کر ہلاک نہ کیا جاتا تو اس کے آدم خور بننے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے۔ مشرق سے روشنی آنے لگ گئی تھی اور کچھ ہی دیر بعد چاند نکل آیا۔ اس وقت شیر آ گیا۔ اگرچہ میں نے اسے دیکھا نہیں تھا لیکن مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ شیر آ چکا ہے۔ کیا شیر لاش کے پیچھے پہاڑی کے کنارے پر چھپا ہوا مجھے دیکھ رہا ہے ؟ناں، جب سے میں اس درخت پر بیٹھا تھا، میں اس درخت کا حصہ بن چکا تھا اور کوئی حرکت نہیں کی تھی اور بغیر کسی معقول وجہ کے شیر شکار پر لوٹتے وقت جنگل میں راستے کے ہر درخت کی چھان بین نہیں کرتے۔ پھر بھی شیر آ گیا تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔
جب چاندنی اتنی پھیل گئی کہ مجھے صاف دکھائی دینے لگا تو میں نے اپنے سامنے زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جونہی میں نے پیچھے دیکھنے کے لیے سر کو دائیں گھمایا، شیر دکھائی دیا۔ شیر ایک روشن قطعے پر پچھلی ٹانگوں پر لاش کی طرف رخ کیے اور گردن موڑ کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ جونہی اس نے مجھے اپنی جانب دیکھتے پایا تو اس نے اپنے کان پھیلا دیئے۔ جب میں نے مزید کوئی حرکت نہیں کی تو اس نے کان دوبارہ کھڑے کر لیے جیسے وہ مجھ سے کہہ رہا ہو، ہاں بھئی، مجھے دیکھ تو لیا لیکن اب کیا کرو گے ؟ اس وقت میں شاید ہی کچھ کر سکتا۔ گولی چلانے کے لیے مجھے نصف دائرے جتنا گھومنا پڑتا جس سے شیر لازماً خبردار ہو جاتا کیونکہ ہمارا درمیانی فاصلہ بمشکل پندرہ فٹ ہو گا۔ خیر دوسری صورت یہ تھی کہ میں بائیں شانے سے رائفل چلاتا۔ رائفل میرے گھٹنوں پر آڑی رکھی تھی اور نال کا رخ بائیں جانب تھا۔ جونہی میں نے رائفل اٹھائی اور اس کا رخ دائیں جانب پھیرنے لگا تو شیر نے اپنا سر جھکایا اور کان پھیلا دیئے۔ جتنی دیر میں نے حرکت نہیں کی شیر بھی وہیں رہا لیکن جونہی میں نے دوبارہ رائفل کا رخ پھیرنا شروع کیا، شیر اٹھا اور ایک سامنے موجود سایوں میں گم ہو گیا۔
خیر، میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ شیر نے ایک بار پھر فتح یاب رہا تھا۔ جتنی دیر میں یہاں رکتا، شیر نے نہ آتا۔ لیکن اگر میں یہاں سے چل پڑتا تو لازمی طور پر شیر آتا اور گائے کو لے جاتا۔ چاہے وہ جتنا بھی کوشش کرتا، پوری گائے کھانا اس کے بس سے باہر تھی اور میں اگلے دن دوبارہ کوشش کر سکتا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوا کہ میں کہاں رات گذاروں ؟ میں دن بھر 20 میل چل چکا تھا اور 8 میل مزید سفر کر کے ریسٹ ہاؤس جانے کو دل نہیں چاہا۔ کسی بھی دیگر مقام پر میں لاش سے دو یا تین سو گز دور جا کر زمین پر سو جاتا لیکن یہاں اس علاقے میں آدم خور تیندوا موجود تھا اور آدم خور تیندوے رات کو شکار کرتے ہیں۔ شام کو جب درخت پر بیٹھنے لگا تو میں نے دور سے مویشیوں کی گھنٹیوں کی آواز سنی اور اس کے مقام کو بخوبی سمجھ لیا تھا۔ یہ مویشی کسی گاؤں یا پھر کسی باڑے میں ہوں گے جسے تلاش کرنے کے لیے میں روانہ ہو گیا۔ ہمالیہ میں مویشی چوری کبھی نہیں ہوتے اور لوگوں کے مویشی مشترکہ باڑوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ مویشی سو کے لگ بھگ ہوں گے اور کسی ایسے مشترکہ باڑے میں بند تھے۔ اس طرح کے باڑے کھلے میدان میں بنائے جاتے ہیں اور لکڑیوں سے دیواریں سی بنا دی جاتی ہیں۔ یہ باڑے جنگل میں اتنی دور اس بات کا ثبوت تھے کہ یہاں کے لوگ کتنے ایمان دار ہیں اور یہ بھی کہ میری آمد سے قبل تک شیر نے کبھی مویشیوں پر بری نظر نہیں ڈالی تھی۔
جنگل میں رات کے وقت سارے ہی جانور کافی مشکوک ہوتے ہیں اور اگر میں نے اس باڑے کے مویشیوں کے ساتھ سکون سے رات بسر کرنی تھی تو مجھے ان کے شکوک دور کرنے پڑتے۔ کالا ڈھنگی کے ہمارے گاؤں میں 900 سے زیادہ مویشی ہیں اور بچپن سے ان کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے ان کی زبان سمجھ آ گئی ہے۔ آہستگی سے چلتے ہوئے اور مویشیوں سے باتیں کرتے ہوئے میں باڑے تک پہنچا اور اس سے ٹیک لگا کر سگریٹ پینے لگا۔ جہاں میں بیٹھا تھا، وہاں کئی گائیں کھڑی تھیں اور پھر ان میں سے ایک آگے بڑھی اور ڈنڈوں سے سر نکال کر اس نے میری گدی چاٹنا شروع کر دی۔ اگرچہ اس کا یہ عمل دوستانہ تھا لیکن مجھے گیلا کر گیا۔ 8000 فٹ کی بلندی پر راتیں کافی سرد ہوتی ہیں۔ سگریٹ ختم کر کے میں نے رائفل کو خالی کیا اور گھاس پھونس سے ڈھانپ کر میں چاردیواری پر چڑھا۔
اس طرح کی جگہ پر سوتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ اگر رات کو کوئی خطرہ نزدیک ہو تو باڑے کے جانور باڑے کے اندر دائرے کی شکل میں بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر بندہ زمین پر بے خبر سو رہا ہو تو ایسی صورتحال جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ اس باڑے کے درمیان میں چھت کے ستون کے ساتھ دو گایوں کے درمیان کچھ خالی جگہ تھی۔ بوقت ضرورت میں اس ستون پر چڑھ سکتا تھا۔ جانوروں کے بیچ سے ہوتا ہوا میں اس ستون تک پہنچا اور دونوں گایوں کے درمیان لیٹ گیا۔ رات سکون سے گذری اور مجھے ستون پر پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ مویشیوں کی جسمانی حرارت سے رات کی خنکی کا احساس نہیں ہوا اور ان کے جسموں کی خوشبو کے درمیان میں ساری دنیا بشمول شیر اور آدم خور تیندوے، سے بے خبر سویا۔
طلوع آفتاب کے وقت آدمیوں کی آواز سن کر میری آنکھ کھلی۔ جب میں جاگا تو دیکھا کہ تین بندے دودھ کے برتنوں کے ساتھ باڑے کے باہر کھڑے مجھے تعجب سے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں میں نے اپنے بارے بتایا اور جب ان کی حیرت دور ہوئی تو دودھ دوہنے کے بعد انہوں نے مجھے پینے کے لیے تازہ دودھ دیا۔ گذشتہ روز ناشتے کے بعد چند گھونٹ پانی ہی میں نے پیا تھا۔ اس لیے دودھ میرے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ تاہم ان لوگوں کی کھانے کی دعوت سے انکار کرتے ہوئے میں اپنی رہائش اور دودھ کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔ باقاعدہ کھانے اور غسل کے لیے ریسٹ ہاؤس جانے سے قبل میں نے سوچا کہ گائے کی لاش کا معائینہ کرتا جاؤں۔ تعجب کی بات کہ شیر نے دوبارہ لاش پر چکر نہیں لگایا تھا۔ لاش کو گدھوں وغیرہ سے بچانے کے لیے میں نے اسے ٹہنیوں سے ڈھانپا اور ریسٹ ہاؤس کی طرف چل دیا۔
میرا اندازہ ہے کہ ہندوستان کے ملازمین جتنا اپنے مالکان کی بری عادتوں کو جتنی آسانی سے برداشت کرتے ہیں، دنیا کے کسی دوسرے کونے میں نہیں کرتے ہوں گے۔ 24 گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد جب میں ریسٹ ہاؤس واپس لوٹا تو کسی نے نہ تو حیرت کا اظہار کیا اور نہ ہی کوئی سوال پوچھے۔ غسل کے لیے گرم پانی تیار تھا اور صاف کپڑے ساتھ ہی رکھے تھے۔ جتنی دیر میں میں غسل سے فارغ ہوتا، ناشتہ تیار تھا۔ دلیہ، آملیٹ، گرم چپاتی اور شہد سے ناشتہ کر کے میں نے چائے پی۔ ناشتہ ختم ہونے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے گھاس پر بیٹھا اور خوبصورت منظر کو دیکھتے ہوئے منصوبہ سوچنے لگا۔ نینی تال سے میں ایک ہی مقصد کے لیے نکلا تھا جو کہ پانار کے آدم خور تیندوے کی ہلاکت تھا۔ جس رات اس نے مندر کے چبوترے سے چروا ہے کو ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی، کے بعد سے اس کی خبر مفقود تھی۔ پنڈت، بنیا اور آس پاس کے دیہاتوں کے لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ آدم خور تیندوا لمبے عرصے کے لیے گم ہو جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا ہی ایک وقفہ ابھی شروع ہوا ہے۔ کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ یہ کتنا عرصہ غائب رہے گا۔ جس علاقے میں آدم خور تیندوا موجود تھا، وہ بہت وسیع تھا۔ یہاں کم از کم دس سے بیس تیندوے ہوں گے۔ ایسے آدم خور تیندوے کو اس علاقے میں تلاش کر کے ہلاک کرنا کہ جب اس نے آدم خوری کو کچھ عرصے کے لیے ترک کر دیا ہو کارے وارد تھا۔
اس لیے جہاں تک آدم خور تیندوے کا تعلق تھا، میں ناکام ہو چکا تھا اور دیبی دھورا میں مزید رکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا۔ اب اس "ٹمپل” ٹائیگر کا سوال باقی رہ گیا تھا۔ مجھے نہیں لگا کہ یہ شیر کسی بھی طرح میری ذمہ داری ہے۔ لیکن مجھے یہ ضرور محسوس ہوا کہ جتنی دیر میں اس کا تعاقب جاری رکھوں گا اتنا ہی وہ مویشیوں کو ہلاک کرتا رہے گا۔ ایک نر شیر بغیر کسی وجہ سے اسی دن سے مویشی مارنا شروع کرے جس دن میں دیبی دھورا پہنچا، ناقابل توجیہہ ہے۔ کیا میرے جانے کے بعد وہ رک جائے گا، یہ سوال فی الوقت تشنہ تھا۔ تاہم میں نے ہر ممکن کوشش سے اسے شکار کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے شکار کردہ مویشیوں کے مالکان کو اپنی جیب کی گنجائش کے مطابق معاوضہ بھی دیا تھا اور اس شیر نے جنگل میں مجھے بہترین تجربات میں سے ایک سے روشناس کرایا تھا۔ اس لیے میرے دل میں اس کے خلاف کوئی رنجش نہیں تھی۔ اگرچہ ہر بار اس شیر نے مجھے زک پہنچائی تھی۔ یہ چار دن میرے لیے انتہائی پریشان کن تھے اور میں نے فیصلہ کیا کہ آج کا دن آرام کر کے کل صبح نینی تال روانہ ہو جاؤں گا۔ ابھی میں نے اتنا ہی سوچا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔ سلام صاحب۔ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ شیر نے میری گائے ہلاک کر دی ہے۔ اس شیر کے شکار کا ایک اور موقع آ گیا۔ چاہے میں کامیاب ہوتا یا ناکام، ہر حال میں اگلی صبح میں نینی تال کے لیے روانہ ہو جاتا۔
7
انسان اور ریچھ کی مداخلت سے ناراض شیر نے شکار کی جگہ بدل لی تھی۔ اس بار اس نے دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس سے کئی میل دور اور دیبی دھورا پہاڑ کے مشرقی سرے پر شکار کیا تھا۔ اس جگہ زمین ناہموار تھی اور جگہ جگہ جھاڑیوں کے جھنڈ اور اکا دکا درخت موجود تھے۔ یہ مقام چکور کے شکار کے لیے بہترین لیکن شیر کے شکار کے لیے انتہائی ناموزوں تھا۔
پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک گہرا نشیب سا تھا۔ اسی نشیب میں کئی جگہ جھاڑیوں کے گھنے جھنڈ سے تھے اور دیگر جگہوں پر چھوٹی چھوٹی گھاس اگی ہوئی تھی۔ انہی کھلے قطعوں میں سے ایک کے سرے پر شیر نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور چند گز دور جھاڑیوں میں اسے گھیسٹ کر لے گیا اور کھلے میدان میں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی مخالف سمت پر شاہ بلوط کا ایک درخت تھا جو سو گز کے دائرے میں واحد درخت تھا۔ اسی درخت پر میں نے بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
جتنی دیر میں میرے ساتھی میرے لیے چائے کے لیے پانی کی کیتلی ابالتے، میں نے آس پاس گھوم کر یہ جائزہ لیا کہ آیا شیر کہیں موجود تو نہیں۔ میرے خیال میں اسی نشیب میں شیر کسی جگہ سو رہا تھا۔ اگرچہ میں نے پورے ایک گھنٹے تک اس نشیب کا جائزہ لیا لیکن شیر نہیں دکھائی دیا۔
جس درخت کو میں نے بیٹھنے کے لیے چنا، وہ گھاس کے قطعے پر جھکا ہوا تھا۔ سالہا سال تک اس سے لوگ مویشیوں کے چارے کے لیے ٹہنیاں کاٹتے رہے تھے اور اس پر چڑھنا انتہائی آسان تھا۔ تاہم اوپر بیٹھ کر تنا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بیس فٹ کی بلندی پر واحد شاخ ایسی تھی جہاں میں بیٹھ سکتا۔ تاہم اس شاخ تک چڑھنا نہ تو آسان تھا اور نہ ہی بیٹھنا آرام دہ۔ چار بجے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ گاؤں کی طرف جا کر پہاڑی کے سرے پر میرا انتظار کریں۔ میرا ارادہ تھا کہ سورج ڈوبتے ہی میں واپس چلا جاؤں گا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، لاش مجھ سے دس گز دور تھی اور اس کا پچھلا حصہ جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ اسی حالت میں بیٹھے ہوئے مجھے ایک گھنٹہ گذرا ہو گا اور میں سرخ بلبلوں کو جنگلی بیریاں کھاتے دیکھ رہا تھا کہ جب میں نے آنکھیں موڑ کر لاش کی طرف دیکھا تو شیر کا سر جھاڑیوں کے پیچھے سے دکھائی دے رہا تھا۔ بظاہر لیٹ کر شیر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کا پنجہ آگے بڑھا اور پھر دوسرا اور خود کو گھیسٹ کر لاش تک پہنچا۔ اسی طرح شیر اب بھی زمین سے چپکا ہوا تھا۔ کئی منٹ تک بے حس و حرکت رہا۔ پھر اس نے اپنے منہ سے ٹٹول کر گائے کی دم کتری اور ایک طرف پھینک دی۔ اس کی آنکھیں سارا وقت مجھ پر مرکوز تھیں۔ تین دن قبل ریچھ سے ہونے والی لڑائی کے بعد سے اس نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس لیے کھال کو بھول کر وہ بڑے بڑے لقمے نگل رہا تھا۔
رائفل میرے گھٹنوں پر رکھی تھی اور اس کا رخ شیر کی جانب تھا۔ مجھے صرف اسے اٹھا کر شانے تک لانا تھا۔ جونہی شیر اپنی آنکھیں مجھ سے ہٹاتا میں رائفل کو اٹھا کر نشانہ لے سکتا تھا۔ لیکن شیر کو شاید اس خطرے کا علم تھا کیونکہ اس نے مجھ سے نظریں ہٹائے بغیر آرام سے پیٹ بھرنا جاری رکھا۔ جب اس نے پندرہ یا بیس پاؤنڈ جتنا کھا لیا ہو گا اور اس کے پیچھے بلبل اور دیگر پرندے اچھا خاصا شور کرنے لگے تو میں نے سوچا کہ اب مجھے حرکت کرنی چاہئے۔ اگر میں انتہائی آہستگی سے رائفل اٹھاوں تو عین ممکن ہے کہ شیر اس کو نہ دیکھ پائے کیونکہ اس کے عقب میں پرندے خوب شور و غل مچا رہے تھے۔ میں نے بمشکل چھ انچ جتنی رائفل اٹھائی ہو گی کہ شیر اچانک اس طرح پھسل کر پیچھے ہوا جیسے کسی سپرنگ نے اسے کھینچ لیا ہو۔ رائفل کو شانے سے لگائے میں منتظر رہا کہ شیر کا سر کب دوبارہ نمودار ہو۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی شیر دوبارہ دکھائی دے گا۔ منٹوں پر منٹ گذرتے رہے لیکن شیر نہ دکھائی دیا۔ پھر اچانک ہی میں نے شیر کی آواز سنی۔ جھاڑیوں کے گرد چکر کاٹ کر شیر میرے درخت کے پیچھے پہنچا اور وہاں اس نے مزے سے درخت کے تنے پر اپنے پنجے تیز کرنے شروع کر دیئے۔ اس جگہ چھوٹی چھوٹی شاخوں کی وجہ سے وہ مجھے دکھائی نہیں دیا۔ بار بار خوشی سے آواز نکالتے ہوئے وہ اپنے پنجے تیز کرتا رہا اور درخت پر بیٹھے ہوئے میں خاموش قہقہوں سے جھومتا رہا۔
مجھے علم تھا کہ کوؤں اور بندروں میں حس مزاح ہوتی ہے لیکن آج سے پہلے تک مجھے علم نہیں تھا کہ شیروں میں بھی یہ حس پائی جا سکتی ہے۔ نہ ہی میں نے کسی جانور کو اتنا خوش قسمت پایا تھا جتنا کہ یہ شیر تھا۔ پانچ دنوں میں اس نے پانچ گائیں ماری تھیں اور چار تو اس نے دن دیہاڑے ہلاک کی تھیں۔ ان پانچ دنوں میں میں نے اسے آٹھ بار دیکھا تھا اور چار بار اس پر میں نے لبلبی دبائی تھی۔ اب نصف گھنٹہ تک پیٹ بھرنے کے بعد یہی شیر میرے درخت کے تنے سے اپنے رگڑ کر میرے بارے اپنی لاپرواہی ظاہر کر رہا تھا۔
جب بوڑھے پجاری نے مجھے شیر کے بارے بتایا تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ صاحب مجھے اس شیر کے شکار پر صرف ایک اعتراض ہے۔ وہ یہ کہ آپ یا کوئی اور اسے کبھی شکار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ یہ شیر اپنے انداز میں پنڈت کے بیان کی تصدیق کر رہا تھا۔ چار دن سے جاری اس کھیل میں جس میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کو ضرر پہنچائے بغیر حصہ لیا تھا میں اب شیر نے آخری چال چلی۔ تاہم میں اس کو آرام سے بازی جیتنے نہیں دینے والا تھا۔ رائفل کو رکھ کر میں نے دونوں ہاتھوں سے بھونپو بنایا اور جونہی شیر نے پنجے روکے، میں پوری طاقت سے چیخا جو پہاڑیوں میں گونجی۔ چیخ سنتے ہی شیر نے دوڑ لگائی اور سیدھا وادی میں اتر گیا۔ میرے آدمی فوراً ہی بھاگتے ہوئے پہنچے کہ معاملے کو جان سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیر ان کے سامنے سے گذرا اور اس کی دم ہوا میں تھی۔ اسی وقت ان کی نظر درخت کے تنے پر پڑی۔
اگلی صبح میں دیبی دھورا میں اپنے دوستوں سے ملا اور انہیں یقین دلایا کہ جونہی آدم خور تیندوا دوبارہ فعال ہو گا، میں فوراً لوٹ آؤں گا۔
اگلے کئی سال تک میں وقتاً فوقتاً دیبی دھورا جاتا رہا لیکن کبھی کسی شکاری نے اس شیر کو شکار نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ یہ شیر فطری موت مرا ہو گا۔
٭٭٭
مکتسر کی آدم خورنی
نینی تال سے شمال مشرق میں اٹھارہ میل دور، 8000 فٹ بلند اور 12 سے 15 میل چوڑی ایک پہاڑی ہے جو شرقاً غربا واقع ہے۔ اسی پہاڑی کے مغربی سرا اچانک بلند ہونے لگتا ہے اور اسی جگہ مکتسر ویٹرنیری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم ہے جہاں ہندوستان کے مویشیوں کی بیماریوں کے لیے ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ لیبارٹری اور سٹاف کی رہائش گاہیں پہاڑی کے شمالی سرے پر ہیں اور ہمالیائی برف سے ڈھکی چوٹیوں میں سے بہترین نظارہ پیش کرتی ہیں۔ ہندوستان کے دیگر پہاڑی سلسلوں کی طرح یہ بھی شرقاً غرباً پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے نہ صرف پہاڑی سلسلے بلکہ وادیوں میں تاحد نگاہ نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ متکسر کے رہائشی لوگ اسے کماؤں کا خوبصورت ترین مقام گردانتے ہیں اور اس کے بہترین موسم کا کوئی جوڑ نہیں۔
مکتسر کی ایک شیرنی جس نے اس مقام کو اپنی رہائش کے لیے بہترین چنا اور اس آبادی کے پاس موجود گھنے جنگل میں آ کر بسنے لگی۔ یہاں وہ سانبھروں، کاکڑوں اور جنگلی سوؤروں پر قانع تھی۔ ایک دن سیہہ کے ساتھ ہونے والی جھڑپ اس کے لیے بہت خوفناک ثابت ہوئی۔ اس مقابلے میں اس نے نہ صرف ایک آنکھ گنوائی بلکہ اس نے دائیں پنجے اور شانے کے اندرونی حصے پر 50 کے لگ بھگ کانٹے بھی وصول کیے۔ یہ کانٹے ایک سے نو انچ لمبے تھے۔ ان میں سے کئی کانٹے ہڈی سے ٹکرا کر یو کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ جہاں جہاں اس نے دانتوں سے کانٹے نکالنے کی کوشش کی وہاں زخم بنے جن میں پیپ پڑ گئی۔ ایک دن جب وہ گھاس کے قطعے میں لیٹی اپنے زخم چاٹ رہی تھی کہ ایک عورت نے اسی قطعے سے اپنے مویشیوں کے چارے کے لیے گھاس کاٹنا شروع کی۔ پہلے پہل تو شیرنی نے توجہ نہ کی لیکن جب عورت گھاس کاٹتے کاٹتے شیرنی کے انتہائی قریب پہنچ گئی تو شیرنی نے جھلا کر اس عورت کے سر پر پنجہ مارا جس سے اس عورت کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔ اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ اگلے دن جب لوگ اسے تلاش کرتے پہنچے تو اس کے ایک ہاتھ میں گھاس اور دوسرے ہاتھ میں درانتی ابھی تک دبی ہوئی تھی۔ اس عورت کو وہیں چھوڑ کر شیرنی لنگڑاتی ہوئی ایک میل آگے جا کر ایک گرے ہوئے درخت کی اوٹ میں لیٹ گئی۔ دو دن بعد ایک آدمی اسی درخت سے لکڑیاں کاٹنے پہنچا۔ شیرنی جو اسی درخت کی دوسری جانب سو رہی تھی نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ یہ آدمی درخت کے تنے پر گرا اور چونکہ اس آدمی نے اپنی صدری اور قمیض اتاری ہوئی تھی، شیرنی نے اسے ہلاک کرتے وقت اس کی کمر پر پنجے بھی مارے۔ شاید اس کی کمر سے بہتے ہوئے خون سے شیرنی نے اس لاش سے اپنی بھوک مٹانے کا سوچا ہو گا۔ خیر آگے جانے سے قبل اس نے اس بندے کی کمر سے کچھ گوشت کھا لیا۔ اگلے دن اس نے تیسرا شکار بغیر کسی وجہ کے کیا۔ اس دن سے اسے باقاعدہ آدم خور کا درجہ دے دیا گیا۔
اس شیرنی کے بارے میں نے اس کے آدم خور بننے کے کچھ عرصے بعد سنا۔ چونکہ مکتسر میں بہت سارے شکاری موجود تھے جو اس شیرنی کو ہلاک کرنے پر تلے ہوئے تھے، میں نے سوچا کہ کسی دوسرے بندے کا وہاں جانا شاید مناسب نہ سمجھا جائے۔ تاہم جب اس کے شکار کردہ انسانوں کی تعداد 24 سے بڑھ گئی اور آس پاس کی آبادیوں کے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا اور تحقیقاتی ادارے کا کام بھی کافی سست پڑ گیا تو ادارے کے سربراہ نے حکومت کو میری خدمات کے لیے لکھا۔
اگرچہ اس علاقے کے بارے میرے معلومات صفر تھیں اور آدم خوروں سے مقابلے کا مجھے کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن پھر بھی میں نے سوچا کہ یہ انتہائی آسان سا کام تھا۔
ایک ملازم اور دو ساتھیوں کے ساتھ جو میرا بستر اور سوٹ کیس اٹھائے ہوئے تھے، میں نینی تال سے دوپہر کو نکلا اور دس میل چل کر رام گڑھ کے ڈاک بنگلے پر پہنچا جہاں میں نے رات گذاری۔ ڈاک بنگلے کا خانساماں میرا پرانا دوست تھا اور جب اس نے سنا کہ میں مکتسر آدم خور کے شکار پر جا رہا ہوں تو اس نے مجھے واضح طور پر سفر کے آخری دو میل انتہائی محتاط رہنے کا کہا۔ اس دو میل کے فاصلے پر بہت سارے انسان مارے گئے تھے۔
اپنے ساتھیوں کو آرام سے سارا سامان باندھ کر اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر میں دو نالی اعشاریہ 500 بور کی ایکسپریس رائفل اٹھائی اور اگلی صبح بہت سویرے سویرے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی دن کی روشنی پھیل ہی رہی تھی کہ میں اس دورا ہے پرپہنچا جہاں سے نینی تال سے الموڑا جانے والی سڑک مکتسر کی سڑک سے ملتی ہے۔ اس جگہ سے احتیاط ضروری تھی کہ یہ علاقہ آدم خور کی سرگرمی کا محور تھا۔ پہاڑی پر آڑی ترچھی چڑھنے سے قبل سڑک کچھ دور تک مسطح زمین سے گذرتی تھی۔ یہاں دونوں طرف مقامی پھول اگے ہوئے تھے جن کے سخت بیجوں کو لوگ مزل لوڈر بندوقوں میں بطور چھرے کے استعمال کرتے تھے۔ چونکہ اس پہاڑی پر میں پہلی بار چڑھ رہا تھا اس لیے میں غاروں کو انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ چونکہ یہ غاریں ہوا نے بنائی تھیں اس لیے طوفان کے دوران ان سے کافی عجیب آوازیں آتی ہوں گی۔
جب سڑک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتی ہے تو وہاں چھوٹا سا مسطح قطعہ سا ہے جس کے دوسرے سرے پر مکتسر کا ڈاک خانہ اور چھوٹا سا بازار ہے۔ ابھی ڈاک خانہ نہیں کھلا تھا لیکن ایک دوکاندار نے مجھے ڈاک بنگلے کے بارے بتایا جو پہاڑی کے شمالی سرے پر نصف میل دور تھا۔ مکتسر میں دو ڈاک بنگلے تھے جن میں سے ایک سرکاری افسران کے لیے جبکہ دوسرا ہر ایک کے لیے بنایا گیا تھا۔ چونکہ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا اور اس دوکاندار نے مجھے سرکاری افسر سمجھا، اس نے غلط بنگلے کی طرف میری رہنمائی کی۔ بنگلے کے خانساماں نے میرے لیے ناشتہ تیار کیا اور میں نے ناشتہ کیا۔ ہم دونوں ہی سرکاری سرخ فیتے سے ناخوش تھے۔ بعد میں میں نے اس بات پر توجہ دی کہ میری غلطی کی وجہ سے خانساماں کو کوئی دقت نہ ہوئی ہو۔
جتنی دیر ناشتہ تیار ہوتا میں نے برفانی چوٹیوں کا مشاہدہ جاری رکھا۔ میں نے بارہ یورپیوں کی ایک جماعت دیکھی جو سرکاری رائفلیں اٹھائے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ان کا سارجنٹ دو بندوں کے ساتھ نشانے کی جھنڈیاں اٹھائے گذرا۔ سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ وہ سارے چاند ماری کے لیے جا رہے تھے اور چونکہ آدم خور اس علاقے میں موجود تھا اس لیے وہ سارے اکٹھے ہو کر چل رہے تھے۔ سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ تحقیقاتی ادارے کے سربراہ کو کل حکومت کی طرف سے تار ملا تھا جس میں اسے میری آمد کے بارے بتایا گیا تھا۔ سارجنٹ نے میری کامیابی کی امید ظاہر کی اور بتایا کہ صورتحال کافی خراب ہو چکی ہے۔ دن کے وقت بھی لوگ اکیلے سفر سے کتراتے ہیں اور رات کو دروازے مقفل کر دیئے جاتے ہیں۔ اس شیرنی کی ہلاکت کی کئی بار کوششیں کی گئی ہیں لیکن یہ شیرنی کبھی بھی واپس اپنے شکار پر نہیں لوٹی۔
ناشتے کے بعد میں نے خانساماں کو ہدایت کی کہ جب میرے ساتھی پہنچیں تو وہ انہیں بتائے کہ میں آدم خور کے بارے مزید معلومات لینے گیا ہوا ہوں اور میری واپسی کا کوئی پتہ نہیں۔ رائفل اٹھا کر میں ڈاک خانے چل دیا تاکہ اپنی والدہ کو بخیریت یہاں پہنچنے کی اطلاع دے سکوں۔
ڈاک خانے کے سامنے والی مسطح زمین اور بازار کے جنوبی کنارے پر مکتسر کی پہاڑی اچانک نیچی ہوتی ہے اور یہاں گھنی جھاڑیوں سے گھری ہوئی کھائیاں اور چھجے سے بنے ہوئے ہیں اور اکا دکا درخت بھی موجود تھے۔ میں پہاڑی کے سرے پر کھڑا تھا اور نیچے موجود وادی اور اس کے پار رام گڑھ کی پہاڑیاں صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اتنی دیر میں پوسٹ ماسٹر اور کئی دوکاندار بھی پہنچ گئے۔ چونکہ پوسٹ ماسٹر نے کل والا حکومتی تار پڑھا تھا اور میرے آج والے تار کے دستخطوں سے اسے علم ہو گیا تھا کہ میں ہی وہی شکاری ہوں جو آدم خور کو مارنے کے لیے آیا ہوا ہے تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ مجھے یہ بتانے آیا تھا کہ وہ میری ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہیں۔ مجھے اس بات سے انتہائی خوشی ہوئی کیونکہ بازار آنے والے ہر بندے سے ان کا واسطہ پڑتا اور ہر بندہ آدم خور کے بارے ہی باتیں کرتا تھا، ان کے پاس لازماً معلومات ہوتیں جو میرے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتی تھیں۔ دیہاتوں میں بنیے کی دکان اور ڈاک خانے کلب وغیرہ کا کام دیتے ہیں۔
پہاڑی کے سرے پر ہمارے بائیں جانب سامنے دو میل دور اور 2000 فٹ نیچے ایک آبادی تھی۔ یہ آبادی بدری شاہ کے سیبوں کا باغ تھا۔ بدری میرے ایک پرانے دوست کا بیٹا تھا اور کئی ماہ قبل نینی تال آیا تھا اور مجھے اس نے پیش کش کی تھی میں اس کے مہمان خانے میں آ کر رکوں اور آدم خور کی ہلاکت کے سلسلے میں وہ میری ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے وجہ بتائی تھی، اس کی پیش کش کو میں نے قبول نہیں کیا تھا۔ تاہم اب چونکہ میں مکتسر اسی کام کے سلسلے میں ہی آیا تھا اس لیے اب اس کی پیش کش قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ آدم خور کی آخری وارادات بدری کے باغ کے نیچے والی وادی میں ہوئی تھی۔
اپنے گرد موجود ہر بندے کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ مزید معلومات مجھے ان سے ہی مل سکتی ہیں۔ اس کے بعد میں دھری والی سڑک پر چل پڑا۔ ابھی دن شروع ہو رہا تھا اور بدری سے ملنے سے قبل میں چاہتا تھا کہ پہاڑی پر مشرق میں واقع چند دیہاتوں کا چکر لگا لوں۔ چونکہ یہاں سنگ میل نہیں تھے اس لیے اندازاً چھ میل کا سفر کرنے اور دو دیہاتوں کا چکر لگانے کے بعد میں نے واپسی کی ٹھانی۔ ابھی میں تین میل ہی واپس لوٹا ہوں گا کہ میری ملاقات سڑک پر موجود ایک بچی سے ہوئی جو بیل کو لے جا رہی تھی۔ بچی کی عمر آٹھ سال رہی ہو گی اور وہ بیل کو مکتسر کی جانب لے جا رہی تھی جبکہ بیل مخالف سمت جانا چاہتا تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو اس وقت تک دونوں ہی ایک دوسرے کے مخالف سمت جانے کو تیار تھے۔ بیل کافی بوڑھا تھا اور اب آگے آگے لڑکی بیل کی رسی پکڑے چل پڑی اور میں پیچھے سے بیل کو ہنکار رہا تھا۔ کچھ فاصلہ چلنے کے بعد میں نے کہا۔
"ہم کلوا چوری تو نہیں کر رہے”؟ میں نے بچی سے بیل کو کلوا کہتے سنا تھا۔
اس نے جواب دیا۔ "نہیں تو۔”
"پھر یہ بیل کس کا ہے ؟” میں نے پوچھا۔
"میرے والد کا”۔ اس نے جواب دیا۔
"اور ہم اسے کہاں لے جا رہے ہیں ؟”
"میرے چچا کی طرف۔”
"لیکن چچا کو کلوا کی ضرورت کیوں آ پڑی؟”
"تاکہ کھیتوں میں ہل چلا سکے۔”
"لیکن کلوا اکیلے تو کھیتوں میں ہل چلانے سے رہا؟”
"بالکل نہیں۔” اس نے جواب دیا۔ ظاہرہے کہ میرا سوال احمقانہ تھا لیکن ایک "صاحب” کو ان سب باتوں کا کیسے علم ہو سکتا تھا۔
"کیا چچا کے پاس صرف ایک بیل ہے ؟” میں نے پوچھا۔
"ہاں۔ اس کے پاس ایک ہی بیل باقی رہ گیا ہے۔ لیکن اس کے پاس دو بیل تھے۔” اس نے جواب دیا۔
"دو بیل؟ پھر دوسرا بیل کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ میرا خیال تھا کہ دوسرا بیل کسی قرض کی ادائیگی کے لیے بیچ دیا گیا ہو گا۔
"اسے شیر نے کل مار دیا تھا۔” اس نے بتایا۔ یہ وہ خبر تھی جس کا مجھے انتظار تھا۔ جتنی دیر میں اسے ہضم کرتا، ہم خاموشی سے چلتے رہے۔ بچی بار بارمڑ کر مجھے دیکھتی رہی اور جب اسے حوصلہ ہوا تو اس نے پوچھا۔
"کیا آپ شیر کو مارنے آئے ہیں ؟”
"ہاں، میں اسے مارنے کی کوشش کرنے آیا ہوں۔”
"تو پھر آپ غلط سمت کیوں جا رہے ہیں ؟”
"تاکہ ہم کلو کو چچا تک پہنچا سکیں۔” میرا جواب شاید تسلی بخش تھا۔ ہم نے سفر جاری رکھا۔ چونکہ یہ معلومات ادھوری تھیں اس لیے میں نے پھر پوچھا۔
"کیا تمھیں علم نہیں کہ شیر آدم خور ہے ؟”
"ہاں مجھے علم ہے۔ اس نے کنٹھی کے باپ کو اور بنشی سنگھ کی ماں کے علاوہ دیگر بہت سارے لوگ کھا لیے ہیں۔”
"پھر تمہارے باپ نے تمہیں اکیلے کیوں بھیجا ہے ؟”
"اسے بھابری بخار (ملیریا) ہے۔”
"تمہارا کوئی بھائی نہیں ؟”
"نہیں۔ ایک بھائی تھا جو بہت عرصہ قبل مر گیا۔”
"ماں ؟”
"ہاں ماں تو ہے لیکن وہ کھانا پکا رہی ہے۔”
"بہن؟”
"نہیں میری کوئی بہن نہیں۔” یہ بہادر بچی اپنے باپ کا بیل اپنے چچا کو پہچانے جا رہی تھی۔ اس سڑک پر لوگ محض جماعت کی صورت میں ہی چلنے کو محفوظ سمجھتے تھے اور گذشتہ چار گھنٹوں کے دوران میں نے ایک بھی انسان اس سڑک پر نہیں دیکھا تھا۔
ہم سیدھا اسی راستے پر چلتے رہے۔ پھر ہم اس کے دوسرے سرے پر ایک کھیت تک پہنچے جس کے پیچھے ایک کچا مکان تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بچی نے اپنے چچا کو آواز دی اور بتایا کہ وہ بیل لے آئی ہے۔
"اچھا۔ اب تم ایسا کرو کہ کلوا کو باندھ دو پتلی اور گھر چلی جاؤ۔ میں کھانا کھا رہا ہوں۔” ہم نے بیل کو باندھا اور واپس چل پڑے۔ چونکہ اب کلوا ساتھ نہیں تھا اس لیے وہ شرمائی ہوئی تھی۔ اس لیے میں آگے چلتے ہوئے اس کی رفتار سے اپنی رفتار ملاتا رہا۔ کچھ دیر تک خاموشی سے چلنے کے بعد میں نے پھر پوچھا۔
"میں اس شیر کو مارنا چاہتا ہوں جس نے چچا کے بیل کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن مجھے اس بیل کی لاش کی جگہ کا علم نہیں۔ کیا تم مجھے وہ جگہ دکھاؤ گی؟”
"ہاں۔ ضرور۔” اس نے فورا” کہا۔
"تم نے لاش دیکھی ہے ؟” میں نے پوچھا۔
"نہیں۔ میں نے تو نہیں دیکھا لیکن چچا نے میرے والد کو بتایا تھا کہ وہ کہاں پڑی ہے۔” اس نے کہا۔
"کیا وہ جگہ سڑک کے پاس ہی ہے ؟”
"پتہ نہیں۔”
"کیا بیل اکیلا تھا جب شیر نے حملہ کیا؟”
"نہیں تو۔ گاؤں کے دیگر مویشی بھی ساتھ ہی تھے۔”
"شیر نے صبح کے وقت حملہ کیا کہ شام کے وقت؟”
"شیر نے صبح کے وقت حملہ کیا تھا جب گایوں کے ساتھ وہ چرنے جا رہا تھا۔”
جتنی دیر میں اس بچی سے باتیں کرتا رہا، میں نے چاروں طرف پوری توجہ سے آنکھیں کھلی رکھیں۔ اس جگہ سڑک کے بائیں جانب گھنا جنگل اور دائیں جانب گھنی جھاڑیاں تھیں۔ اسی طرح چلتے ہوئے ہم ایک میل جتنا آگے گئے جہاں مویشیوں کی ایک پگڈنڈی دائیں جانب مڑ کر جنگل میں چلی گئی تھی۔ یہاں بچی رکی اور اس نے کہا کہ اس کے چچا کے مطابق اسی راستے پر شیر نے بیل کو مارا تھا۔ چونکہ اب اس بیل کی لاش کو تلاش کرنے کے لیے ہر ممکن ضروری معلومات میرے پاس تھیں، بچی کو بحفاظت گھر گھستے دیکھ کر میں وہاں سے مویشیوں والی پگڈنڈی کو چل پڑا۔ یہ راستہ وادی سے ہو کر گذرتا تھا اور ابھی میں چوتھائی میل جتنا گیا ہوں گا کہ اس جگہ پہنچا جہاں مویشیوں میں بھگڈر مچی تھی۔ راستہ چھوڑ کر اب میں جنگل میں گھسا راستے سے پچاس گز نیچے اور متوازی سمت چل پڑا۔ تھوڑا دور ہی گیا ہوں گا کہ مجھے گھسیٹنے کے نشانات دکھائی دیئے۔ یہ نشانات سیدھے وادی میں اترے اورچند سو گز تک ان کا پیچھا کرتے ہوئے میں بیل کی لاش تک جا پہنچا۔ اس بیل کے پچھلے حصے سے تھوڑا سا ہی گوشت کھایا گیا تھا۔ یہ بیل بیس فٹ اونچے کنارے کے نیچے تھا اور کھائی کا سرا یہاں سے چالیس فٹ دور تھا۔ لاش اور کھائی کے سرے کے درمیان ایک ٹنڈ منڈ سا درخت تھا جس کے نیچے جنگلی گلاب کی بیل اگی ہوئی تھی۔ شکار سے مناسب فاصلے تک یہ واحد درخت تھا جہاں بیٹھ کر میں شیرنی کے شکار کا سوچ سکتا۔ راتیں اندھیری تھیں اور اگر شیرنی اندھیرا ہونے کے بعد آتی جیسا کہ مجھے یقین تھا تو لاش سے میں جتنا قریب ہوتا اتنا ہی بہتر تھا۔
ابھی دو بج رہے تھے اور میرے پاس اتنا وقت تھا کہ بدری کے پاس جا کر چائے کا کپ پی سکتا۔ رام گڑھ سے چار بجے صبح کو نکلا تھا اور اب چائے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ بدری کے باغ کو جانے والا راستہ اس جگہ سے قریب تھا جہاں مویشیوں کی پگڈنڈی راستے سے ملتی تھی اور آگے چل کر ڈھلوان پہاڑی پر ایک میل جتنا گھنے جنگل سے گذرتی تھی۔ جب میں وہاں پہنچا تو بدری اپنے مہمان خانے میں ہی موجود تھا جو باغ کے پاس ہی ہے۔ جتنی دیر ہم برآمدے میں بیٹھے اور چائے کا انتظار کر رہے تھے کہ میں نے اسے بتایا کہ میں مکتسر کس مقصد کے لیے آیا ہوں۔ اسے میں نے بیل کی لاش کے بارے بھی بتایا جو اس بچی کی مدد سے میں نے تلاش کیا تھا۔ جب میں نے بدری سے پوچھا کہ اس شکار کے بارے مکتسر کے شکاریوں کو کیوں نہیں آگاہ کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ بار بار کی ناکامیوں سے دیہاتیوں کا شکاریوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ بدری کے مطابق ان کی ناکامی کی وجہ ان کی ضرورت سے زیادہ تیاریاں تھیں۔ وہ لوگ پہلے لاش کے آس پاس کا سارا علاقہ جھاڑ جھنکار اور چھوٹے موٹے درختوں سے پاک کراتے اور پھر پھر بڑی مچانیں بناتے جن پر کئی کئی آدمی بیٹھتے۔ ظاہر ہے کہ انہی وجوہات پر شیرنی اپنے شکار کردہ جانور پر نہیں لوٹتی تھی۔ بدری کے مطابق مکتسر کے ضلع میں صرف ایک ہی شیر تھا جس کی اگلی دائیں ٹانگ کچھ لنگڑی سی تھی۔ تاہم اسے یہ علم نہیں تھا کہ آیا وہ شیر نر ہے یا مادہ۔
ہمارے ساتھ ہی برآمدے میں ایک آئیرڈیل ٹیرئیر بھی تھا۔ اچانک ہی اس کتے نے ایک طرف رخ کر کے غرانا شروع کر دیا۔ اس کی نظروں کا پیچھا کیا تو دیکھا کہ ایک بڑا لنگور سیب کے درخت کی شاخ تھامے زمین پر بیٹھا تھا اور کچے سیب کھا رہا تھا۔ برآمدے میں رکھی ہوئی بندوق اٹھا کر بدری نے چار نمبر کارتوس بھرا اور بندوق چلا دی۔ چھروں کے لیے یہ فاصلہ بہت زیادہ تھا اور اگر کوئی چھرہ لنگور کو لگ بھی جاتا تو اسے کچھ نہ ہوتا۔ لیکن دھماکے سے ڈر کر لنگور پہاڑی کی سمت بھاگا اور کتا اس کے پیچھے پیچھے لپکا۔ میں نے بدری سے کہا کہ کتے کو بلا لے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ کتا بہت مایوس ہو گا۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں یہ کتا ہر بار ہی اسی لنگور کا پیچھا کرتا ہے اور یہ لنگور درختوں کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے۔ کتا لنگور کے قریب ہوتا جا رہا تھا اور ابھی وہ چند گز پیچھے ہو گا کہ اچانک لنگور مڑا اور کتے کو کانوں سے پکڑا اور سر کی ایک جانب سے گوشت کا بڑا سا ٹکڑا دانتوں سے کاٹ لیا۔ زخم کافی گہرا تھا اور جتنی دیر ہم اس زخم کی مرہم پٹی کرتے، گرم پوڑیاں اور چائے آ گئی۔
میں نے بدری کو بتایا کہ میں کس درخت پر بیٹھنے والا ہوں اور جب میں واپس لوٹا تو بدری اور اس کے دو ساتھی میری چھوٹی سی مچان کے لیے ضروری سامان اٹھائے ساتھ تھے۔ بدری اور اس کے ساتھی ایک سال سے زیادہ آدم خور کے علاقے میں رہ رہے تھے اور جب انہوں نے میرا مطلوبہ درخت دیکھا تو رائے دی کہ میں آج رات یہاں نہ بیٹھوں۔ شاید شیرنی بیل کو کسی دوسری جگہ لے جائے جہاں بیٹھنا نسبتاً آسان ہو گا۔ اگر شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا لیکن آدم خور شیر کے سلسلے میں میں کوئی بھی موقع نہیں گنوانا چاہتا تھا چاہے اس کے لیے مجھے تھوڑا بہت خطرہ بھی مول لینا پڑتا۔ اس علاقے میں کئی ریچھ بھی تھے اور اگر کسی ریچھ کو لاش کی بو آ جاتی تو شیر پر گولی چلانے کے امکانات ختم ہو جاتے۔ پہاڑی ریچھ شیر کا بالکل لحاظ نہیں کرتے اور موقع ملتے ہی شیر کے شکار پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ درخت پر چڑھنا جب کہ اس کے تنے پر جنگلی گلاب کی بیل موجود ہو، آسان کام نہیں تھا۔ تاہم ہر ممکن طریقے سے خود کو آرام دہ حالت میں لا کر بدری سے میں نے رائفل پکڑی اور بدری اپنے ساتھیوں سمیت اگلی صبح واپس آنے کا کہہ کر چل دیا۔
میرا رخ پہاڑی کی جانب تھا اور کھائی میرے پیچھے تھی۔ سامنے سے آنے والے ہر جانور کو میں بخوبی دیکھ پاتا لیکن اگر شیر میرے عقب سے آتا جیسا کہ مجھے توقع تھی تو جب تک وہ لاش تک نہ پہنچتا، میں اسے نہ دیکھ سکتا۔ بیل سفید رنگ کا تھا اور دائیں پہلو کے بل اس کی لاش پڑی تھی اور اس کی ٹانگیں میری جانب تھی۔ چار بجے میں نے اپنی نشست سنبھالی تھی اور ایک گھنٹے بعد وادی کے ایک سرے سے دو سو گز نیچے کاکڑ بولنے لگا۔ ظاہر ہے کہ شیر چل پڑا تھا اور اسے دیکھتے ہوئے کاکڑ بول رہا تھا۔ کافی دیر تک کاکڑ بولتا رہا پھر اس کی آواز دور جانے لگی۔ حتیٰ کہ آواز پہاڑی کی دوسری جانب جا کر غائب ہو گئی۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ شیر لاش سے اتنے قریب پہنچ کر لیٹ گیا جہاں سے وہ لاش کو دیکھ سکتا تھا۔ چونکہ بدری نے مجھے بتایا تھا کہ شیر کے شکار کردہ جانور پر بیٹھ کر کی جانے والی ناکام کوششوں کے سبب مجھے اس کی توقع تھی۔ مجھے علم تھا کہ شیر اب کہیں آس پاس ہی لیٹا ہوا سن گن لے رہا ہو گا اور آنکھیں کھلی رکھی ہوں گی تاکہ آنے سے قبل وہ اندازہ لگا سکے کہ کیا کوئی شکاری اس کی گھات میں تو نہیں بیٹھا؟ منٹوں پر منٹ گذرتے گئے اور میرے سامنے پہاڑی پر موجود مناظر دھندلے ہوتے ہوتے غائب ہو گئے۔ تاہم سفید لاش اب بھی کچھ نہ کچھ دکھائی دے رہی تھی کہ اچانک کھائی کے سرے پر ایک خشک ٹہنی چٹخی اور پھر دبے قدم کسی جانور کی آمد سنائی دی۔ پھر یہ آواز عین میرے نیچے آ کر رک گئی۔ ایک یا دو منٹ تک خاموشی رہی اور پھر شیر درخت کے نیچے خشک پتوں پر لیٹ گیا۔
سورج غروب ہونے سے تھوڑا قبل آسمان پر بادل جمع ہونے شروع ہو گئے تھے اور اب ہر طرف بادلوں نے آسمان کو ڈھک لیا تھا۔ آخر کار جب شیر اٹھا اور لاش کی طرف گیا تو رات سیاہ تاریک تھی۔ پوری کوشش کے باوجود بھی مجھے نہ تو لاش اور نہ ہی شیردکھائی دے رہا تھا۔ لاش پر پہنچ کر شیر نے پھونکیں مارنا شروع کر دیں۔ ہمالیہ میں بالخصوص گرمیوں کے موسم میں شکار کردہ جانوروں پر بھڑ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھڑ عموماً سورج ڈوبتے ہی اڑ جاتے ہیں لیکن جن کا پیٹ بہت زیادہ بھرا ہوا ہو، وہ اڑ نہیں پاتے۔ شاید کسی تلخ تجربے کے پیش نظر شیر کھانا شروع کرنے سے قبل انہیں پھونک مار کر اڑا رہا تھا۔ چونکہ مجھے گولی چلانے کی کوئی عجلت نہیں تھی کیونکہ شیر چاہے جتنا بھی قریب کیوں نہ ہو، مجھے اس وقت تک نہ دیکھ پاتا جب تک میں کوئی حرکت نہ کرتا۔ عام تاریک راتوں میں تاروں کی مدھم روشنی میں میں کافی حد تک دیکھ سکتا ہوں لیکن چونکہ بادلوں کی وجہ سے نہ تو ستارے تھے اور نہ ہی آسمانی بجلی چمک رہی تھی۔ چونکہ شیر نے کھانا شروع کرنے سے قبل لاش کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا تھا اس لیے مجھے بخوبی علم تھا کہ شیر میرے سامنے آڑی حالت میں لیٹا لاش کو کھا رہا ہے۔
چونکہ شیر کو ہلاک کرنے کی بہت ساری ناکام کوششیں ہو چکی تھیں اس لیے مجھے شک تھا کہ شیر اندھیرا ہونے سے قبل نہیں آئے گا۔ تاہم میرا خیال تھا کہ ستاروں کی مدھم روشنی میں میں لاش کا نشانہ لوں گا اور پھر رائفل کی نال کو ایک یا دو فٹ جتنا دائیں پھر کر گولی چلا دوں گا۔ اب چونکہ بادلوں کی وجہ سے گھپ اندھیرا تھا اور آنکھیں بے کار ہو کر رہ گئی تھیں تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے کانوں کو استعمال کروں (اس وقت تک میری سماعت بہترین کام کر رہی تھی)؟ رائفل کو اٹھا کر میں نے کہنیاں اپنے گھٹنوں پر ٹکائیں اور شیر کے کھانے کی آواز پر میں نے بہت احتیاط سے نشانہ لیا۔ رائفل کو اسی حالت میں رکھ کر میں نے سر موڑ کر دائیں کان سے سنا۔ میرا نشانہ ذرا سا اوپر کی جانب تھا۔ رائفل کو رتی بھر نیچے کر کے میں نے پھر اپنا سر موڑا اور سننے کی کوشش کی۔ جب کئی بار اس طرح سننے کے بعد میں نشانے کی درستگی کے بارے مطمئن ہو گیا تو میں نے رائفل کو ذرا سا دائیں جانب موڑا اور لبلبی دبا دی۔ گولی چلتے ہی شیر نے دو چھلانگوں میں بیس فٹ اونچا کنارہ عبور کر لیا۔ اس کے بعد وہاں کچھ مسطح زمین تھی جہاں سے پہاڑی اچانک بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس مسطح جگہ تک میں نے شیر کی آوازیں سنیں اور اس کے بعد اچانک خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی کا یا تو یہ مطلب تھا کہ شیر اس جگہ تک پہنچتے ہی مر گیا یا پھر اسے گولی لگی ہی نہیں۔ رائفل کو کندھے سے ٹکائے میں تین یا چار منٹ تک پوری توجہ سے سننے کی کوشش کرتا رہا لیکن چونکہ مزید کوئی آواز نہ آئی تو میں نے رائفل کندھے سے ہٹا لی۔ فوراً ہی نالے کے کنارے سے شیر کی غراہٹ سنائی دی۔ یعنی شیر کو گولی نہیں لگی اور اب اس نے مجھے دیکھ بھی لیا تھا۔ میری نشست گاہ زمین سے دس فٹ بلند تھی اور چونکہ میں گلاب کی جھاڑیوں پر بیٹھا تھا جو میرے وزن سے دب کر جھک گئی تھیں۔ یعنی اب میں زمین سے بمشکل آٹھ فٹ اونچا تھا اور میرے پاؤں اس سے بھی نیچے تھے۔ تھوڑا سا اوپر اور دائیں جانب وہ شیر بیٹھا غرا رہا تھا جس کے بارے مجھے پورا یقین تھا کہ وہ آدم خور ہے۔
قریب موجود شیر جس نے آپ کو نہ دیکھا ہو، دن دیہاڑے بھی آپ کے اعصاب میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ تاہم جب شیر عام شیر نہ ہو بلکہ آدم خور ہو اور تاریک رات کے دس بجے ہوں اور آپ کو اچھی طرح علم ہو کہ شیر آپ کو دیکھ رہا ہے تو اعصابی ہیجان انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ میں ایک بار پھر اس بات پر زور دوں گا کہ شیر اپنی ضرورت سے زیادہ کبھی شکار نہیں کرتا اور یہ شیر جو مجھ پر غرا رہا تھا، کے سامنے دو یا تین دن کی خوراک موجود تھی اور اسے میری ہلاکت سے کوئی غرض نہیں تھی۔ تاہم اس موقع پر مجھے یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ شاید یہ شیر اس اصول کی خلاف ورزی کرے۔ کئی بار جب شیروں پر گولی چلائی جائے تو وہ کچھ دیر بعد شکار کردہ جانور پر لوٹ آتے ہیں۔ تاہم مجھے علم تھا کہ یہ شیر ایسا نہیں کرنے والا۔ مجھے علم تھا کہ میرے خدشات کے باوجود جب تک میرا توازن برقرار رہا، مجھے کوئی خطرہ نہیں۔ چونکہ میرے پاس کوئی شاخ وغیرہ نہیں تھی اور اگر میری آنکھ لگ جاتی تو میں نیچے گر جاتا۔ خیر، اب سگریٹ پینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اس لیے میں نے سگریٹ کیس نکالا اور ماچس جلائی تو شیر کنارے سے ہٹ گیا۔ تاہم کچھ دیر بعد وہ پھر لوٹ آیا اور غرانے لگا۔ میں نے تین سگریٹ پیے اور شیر پھر بھی وہیں کا وہیں تھا۔ اچانک بارش شروع ہو گئی۔ پہلے چند موٹی موٹی بوندیں گریں اور پھر موسلا دھار بارش۔ رام گڑھ سے صبح نکلتے وقت میں نے ہلکے کپڑے پہنے تھے اور چند ہی منٹ میں اچھی طرح بھیگ گیا۔ میرے اوپر ایک پتا تک نہ تھا جو بارش کو روکتا۔ مجھے معلوم تھا کہ پہلی بوند گرتے ہی شیر کسی پناہ گاہ کی تلاش میں بھاگا ہو گا اور کسی درخت کے نیچے یا چٹان کی آڑ میں چھپ گیا ہو گا۔ رات کو گیارہ بجے بارش شروع ہوئی اور صبح چار بجے جا کر رکی۔ پھر اچانک ہوا چلنے لگی اور ٹھنڈ انتہائی بڑھ گئی۔ کافی عرصہ بعد جب مجھ پر گٹھیا کا ہلکاسا حملہ ہوا تو مجھے یہ رات اور اس جیسی کئی راتیں یاد آئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ ہلکا سا ہی حملہ تھا۔
بدری میرا اچھا دوست تھا اور سورج نکلتے ہی وہ اپنے ایک آدمی اور گرم چائے کی کیتلی کے ساتھ آن پہنچا۔ رائفل کو نیچے دے کر میں پھسلتے ہوئے اترا۔ دونوں نے مجھے پکڑا کیونکہ ساری رات ایک ہی جگہ بیٹھنے سے میری ٹانگیں اکڑ گئی تھیں۔ جتنی دیر میں زمین پر لیٹ کر چائے پیتا رہا، دونوں ساتھی میری ٹانگوں کی مالش کرتے رہے۔ جب میں کھڑا ہونے کے قابل ہوا تو بدری نے اس بندے کو روانہ کیا کہ وہ جا کر مہمان خانے میں آگ جلائے۔ چونکہ میں نے پہلے کبھی آواز پر گولی نہیں چلائی تھی اس لیے میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ میری چلائی ہوئی گولی شیر کے سر سے چند انچ دور لگی تھی۔ بلندی بالکل درست تھی لیکن میں نے رائفل کو پوری طرح دائیں طرف نہیں گھمایا تھا جس کے نتیجے میں گولی اس جگہ سے چھ انچ دور بیل کی لاش میں لگی جہاں شیر گوشت کھا رہا تھا۔
چائے اور نصف میل کے پیدل سفر نے ساری کسلمندی دور کر دی۔ جب ہم بدری کے مہمان خانے کی جانب روانہ ہوئے تو بھیگے کپڑے اور خالی پیٹ ہی مجھے تنگ کر رہے تھے۔ یہ راستہ سرخ مٹی سے گذرتا تھا جو بارش کی وجہ سے بہت پھسلوان ہو گئی تھی۔ اس مٹی پر تین نشانات تھے۔ بدری اور اس کے ساتھی کے آنے کے اور بدری کے اس ساتھی کے واپسی کے نشانات جو آگ جلانے گیا تھا۔ پچاس گز تک یہ تین ہی نشانات تھے۔ اور پھر راستے پر ایک موڑ کے بعد سے اچانک شیرنی کے نشانات دکھائی دینے لگے جو موڑ کے پیچھے دائیں جانب سے چھلانگ لگا کر راستے پر آئی اور اس آدمی کا تعاقب کرنے لگی۔ دونوں کے نشانات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ تیزی سے چلتے جا رہے تھے۔ چونکہ وہ بندہ ہم سے 20 منٹ پہلے روانہ ہوا تھا، اس لیے اگروہ اب تک باغیچے تک نہیں پہنچا تو اب اس کے لیے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہی سوچوں میں غلطاں ہم باغیچے تک اس جگہ پہنچے جہاں سے باغیچہ اور اس میں کام کرنے والے افراد صاف دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں سے اس بندے کے نشانات سیدھے باغیچے کو جبکہ شیرنی کے نشانات راستے سے اتر کر دوسری جانب چلی گئی تھی۔ جب اس بندے سے ہم نے شیرنی کی بابت پوچھا تو اسے شیرنی کے تعاقب کے بارے کچھ بھی علم نہیں تھا۔
بھڑکتی ہوئی آگ کے سامنے بیٹھ کر کپڑے سکھاتے ہوئے میں نے بدری سے اس جنگل کے بارے پوچھا جہاں شیرنی گئی تھی۔ بدری نے بتایا کہ جس راستے سے شیرنی گئے تھی وہ گہرے اور گھنے درختوں سے بھرے ہوئے نالے سے گذرتا ہے۔ یہ نالہ ایک بہت ڈھلوان پہاڑی تک جاتا ہے۔ میل بھر دور جا کر اسی نالے پر دائیں جانب سے ایک اور نالہ آن ملتا ہے۔ اسی سنگم پر ایک چھوٹی سی نہر گذرتی ہے اور ساتھ ہی کھلا میدان سا ہے اور یہاں سے دونوں نالے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ بدری کا خیال تھا کہ جس نالے سے شیرنی گئی تھی، اسی نالے میں ہی وہ کہیں سو رہی ہو گی۔ چونکہ یہ نالہ شیرنی کے لیے بہترین جائے رہائش ہو سکتا تھا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر کافی بندے اکٹھے ہو جائیں تو ہم اس نالے پر ہانکا کرا سکتے ہیں۔ بدری نے اپنے مالی گوند سنگھ کو بلایا اور اسے دوپہر تک کی مہلت دی۔ گوند سنگھ کا خیال تھا کہ دوپہر ہوتے ہوتے وہ کم از کم تیس بندے جمع کر لے گا۔ اس کے علاوہ وہ بدری کے لیے پانچ من مٹر بھی جمع کر لے گا۔ سیب کے باغ کے علاوہ بدری سبزیوں کے باغ کا بھی مالک تھا۔ گذشتہ شام ہی بدری کو نینی تال سے تار ملا تھا کہ مٹروں کا بھاؤ اچانک بڑھ کر چار آنے فی پاؤنڈ ہو گیا ہے۔ بدری اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین تھا۔ گدھے پر لاد کر مٹر وہ راتوں رات نینی تال بھیج دیتا جو علی الصبح وہاں پہنچ جاتے۔
رائفل کو صاف کر کے اور باغ کا چکر لگا کر میں بدری کے ساتھ ناشتے میں شریک ہو گیا۔ دوپہر کو گوند سنگھ تیس آدمیوں کے ساتھ آ گیا۔
اپنی رائفل کو صاف کر کے میں نے باغ کے گرد چکر لگایا اور پھر ناشتے کے وقت بدری کے پاس پہنچا جس نے میری خاطر ناشتے کو ایک گھنٹہ ملتوی کر دیا تھا۔ دوپہر کو گوند 30 بندوں کے ساتھ پہنچا۔ چونکہ مٹر چننے والوں کی نگرانی بھی ضروری تھی اس لیے بدری نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا اور گوند سنگھ کو میرے ساتھ ہانکے کے لیے بھیج دیا۔ گوند سنگھ اور اس کے ساتھی سب مقامی تھے اور انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ کس خطرناک کام کے لیے جا رہے ہیں۔ خیر میں نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ میں ان سے کیا چاہتا ہوں تو انہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی کہ وہ میری ہدایات کے عین مطابق عمل کریں گے۔ میری روانگی کے ایک گھنٹے بعد بدری نے ہانکا شروع کرانا تھا تاکہ میں کھائی میں جا کر شیرنی کو تلاش کر سکوں اوراگر میں ناکام رہا تو ندی کے کنارے کسی اونچی جگہ چھپ کر بیٹھ جاؤں گا۔ گوند کے ذمے ان افراد کو دو گروہوں میں بانٹ کر خود ایک گروہ کی سربراہی اور دوسرے کی سربراہی کسی ذمہ دار بندے کو دینا تھے۔ ایک گھنٹے بعد بدری ہوائی فائر کر کے ان دونوں گروہوں کو روانہ کرتا اور یہ لوگ کھائی کے دونوں کناروں پر شور مچاتے اور پتھر لڑھکاتے ہوئے آگے بڑھتے آتے۔ بظاہر یہ ہانکا انتہائی آسان تھا لیکن میرے بھی کچھ تحفظات تھے کیونکہ میں نے اس سے کہیں بہتر طور پر منظم کیے گئے ہانکے خراب ہوتے دیکھے ہیں۔
جس راستے سے میں صبح آیا تھا، پر واپس لوٹ کر میں نے شیرنی کے پگوں کا پیچھا شروع کیا۔ تاہم تھوڑی دور جا کر یہ نشانات بہت وسیع اور گھنی جھاڑیوں کے قطعے میں گم ہو گئے۔ چند سو گز تک انتہائی دشواری سے راستے بناتے ہوئے میں چلتا رہا۔ راستے میں نے جگہ جگہ گہرے نالے اور کھائیاں دیکھیں۔ کنارے پر اس جگہ پہنچ کر کہ جہاں مطلوبہ کھائی سامنے سے گذرتی، میں نے دیکھا کہ دائیں اور بائیں سے آنے والی دو کھائیاں مل رہی تھیں اور اسی جگہ ندی بہہ رہی تھی۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں کھڑا تھا کہ وہ کھلا قطعہ کہاں ہو گا جہاں میں نے چھپ کر شیرنی کا انتظار کرنا تھا کہ میری توجہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی جانب مبذول ہو گئی۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے میں نے ہفتے قبل ماری گئی گائے کی باقیات دیکھیں۔ گائے کے گلے پر موجود دانتوں کے نشانات ظاہر کر رہے تھے کہ یہ کام شیر کا ہے۔ شانوں، گردن اور سر کے کچھ حصوں کے علاوہ شیر نے پوری گائے کھا لی تھی۔ بغیر کسی معقول وجہ کے میں نے گائے کی لاش کو کھینچ کر کھائی میں لڑھکا دیا جو عمودی ڈھلوان سے سیدھا نیچے گری۔ تقریباً سو گز نیچے جا کر لاش ندی سے ذرا پہلے ایک ابھار پر رک گئی۔ بائیں جانب گھوم کر میں نے ایک کھلا قطعہ دیکھا جو اس کھائی سے 300 گز دور تھا۔ اس جگہ زمین میری توقع سے کہیں مختلف تھی۔ یہاں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں کھڑے ہو کر میں ہانکے کا اور ہانکے کے نتیجے میں نکلنے والی شیرنی کا سامنا کر سکتا۔ تاہم چونکہ بدری کا ہوائی فائر میں سن چکا تھا اس لیے مجھے علم ہو گیا تھا کہ ہانکا شروع ہو چکا ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ پھر کافی فاصلے سے میں نے ان لوگوں کی آوازیں سنیں۔ کچھ دیر تک تو ایسے محسوس ہوا کہ ہانکے والے سیدھے میری جانب آ رہے ہیں لیکن پھر اچانک ان کی آوازیں مدھم ہوتے ہوتے غائب ہو گئیں۔ گھنٹے بھر بعد پھر سے آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس بار وہ میرے دائیں جانب سے آ رہے تھے۔ جب وہ میرے سامنے پہنچے تو میں نے چلا کر انہیں ہانکا روکنے اوراپنے پاس آنے کا کہا۔ ہانکے کی ناکامی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں تھی۔ اتنے و سیع اور گھنے علاقے میں بغیر کسی تیاری اور معلومات کے چند ناتجربہ کار افراد کے ذریعے جو ہانکا ہوا تھا اس کے لیے کئی سو تجربہ کار افراد بھی ناکافی رہتے۔
گھنے جنگل سے گذرنے میں ان لوگوں کو بہت دقت ہوئی تھی۔ جتنی دیر بیٹھ کر وہ میری دی ہوئی سگریٹیں پیتے اور پیروں سے کانٹے نکالتے، گوند اور میں آمنے سامنے کھڑے ہو کر اگلے دن اسی طرح کے ایک اور ہانکے کا منصوبہ بنانے لگے۔ میری خواہش تھی کہ اس ہانکے میں مکتسر اور آس پاس کے دیہاتوں کے تمام افراد شامل ہوں۔ اچانک فقرہ ادھور اچھوڑ کر گوند چپ ہو گیا۔ اس کے چہرے کے تائثرات اورسکڑی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا کہ میرے عقب میں اسے کچھ عجیب دکھائی دیا ہے۔ جب میں مڑا تو دیکھا کہ دور سے ایک ویران کھیت میں آرام سے چلتی ہوئی شیرنی دکھائی دی۔ ہم سے سو گز دور اس وقت شیرنی ندی کی دوسری جانب تھی اور اس کا رخ سیدھا ہماری جانب تھا۔
جب جنگل میں، انسانی آبادی سے بہت دور بھی اگر شیر آپ کی جانب آ رہا ہو تو آپ کے ذہن میں بے شمار خیالات آتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے کہ شکار یا تصویر لینے کی کوشش ناکام ہو جائے۔ ایک بار میں ایک پہاڑی کے کنارے بیٹھا شیر کا منتظر تھا۔ میرے سامنے جنگل کی پگڈنڈی تھی جو جنگل میں ایک بہت پرانے مندر کو جاتی تھی۔ اسے برم کا تھان کہتے تھے۔ برم جنگل کا دیوتا مانا جاتا ہے جو انسانوں کو جنگلی جانوروں سے بچاتا ہے اور اس کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے زیر نگرانی علاقے میں جنگلی جانوروں کا شکار بھی نہ ہو۔
یہ جنگل جس کے عین وسط میں یہ مندر واقع ہے، آس پاس کے چور شکاریوں اور پورے ہندوستان کے شکاریوں کی بہترین شکارگاہ ہے۔ تاہم میری ساری زندگی میں میں نے ایک بار اس مندر کے آس پاس کسی جانور کا شکار ہوتے دیکھا ہو یا سنا ہو۔ اسی وجہ سے جب میں اس شیر کے شکار کی نیت سے نکلا تو میں نے اس مندر سے ایک میل دور اپنے بیٹھنے کی جگہ چنی۔ شام چار بچے ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ گھنٹے بھر بعد اسی جانب سے سانبھر کی آواز سنائی دی جہاں سے مجھے شیر کی آمد کی توقع تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس سے کچھ کم فاصلے سے کاکڑ کے بھونکنے کی آواز آئی۔ شیر اسی راستے پر چلتا ہوا آ رہا تھا جس پر میں اس کا منتظر تھا۔ اس جگہ جنگل اتنا گھنا نہیں تھا اور زیادہ تر جامن کے نوجوان درخت اگے ہوئے تھے جن کے تنے تین فٹ موٹائی کے رہے ہوں گے۔ دو سو گز دور آتے ہوئے ایک بڑے نر شیر پر میری نظر پڑی۔ آہستگی سے چلتا ہوا شیر جب ایک سو گز دور رہ گیا تو اچانک مجھے پتوں کی سرسراہٹ سنائی دی۔ جب میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ جامن کا درخت جس کی شاخیں دوسرے درخت سے گھتی ہوئی تھیں، نے جھکنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ جھکتے ہؤئے یہ درخت کچھ دیر بعد اسی جسامت کے دوسرے جامن کے درخت سے لگ کر رک گیا۔ تھوڑی دیر دوسرا درخت پہلے درخت کا بوجھ سہارے رہا پھر دوسرا درخت بھی جھکنے لگا۔ جھکتے جھکتے یہ دونوں درخت نسبتاً کم موٹے جامن کے درخت پر جا کر ٹھہر گئے۔ ایک یا دو لمحے بعد تینوں درخت دھماکے سے زمین پر گرے۔ یہ درخت مجھ سے چند گز دور تھے اور جتنی دیر میں انہیں دیکھتا رہا، میں شیر سے بھی غافل نہیں رہا۔ پہلے درخت کے ہلنے کی آواز سنتے ہی شیر اپنی جگہ رک گیا تھا اور جب یہ درخت گرے تو شیر بغیر گھبرائے مڑا اور واپس اسی طرف چل دیا جہاں سے آ رہا تھا۔ میرے مشاہدے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے میں نہیں جانتا۔ تینوں درخت کم عمر اور خوب مضبوط تھے اور نہ ہی بارش ہوئی تھی کہ ان کی جڑیں کمزور ہو جاتیں اور نہ ہی ہوا چل رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہ درخت مندر کو جانے والے راستے پر آڑے گرے جہاں ستر گز مزید بڑھنے پر میں شیر پر گولی چلا دیتا۔
گولی چلانے کے امکانات اس وقت مزید کم ہو جاتے ہیں جب آپ شکار کی تلاش میں آباد علاقے میں موجود ہوں جہاں لوگوں کے گروہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا پھر بازاروں کو آتے جاتے رہتے ہوں یا سیبوں کے باغ کا رکھوالا اپنی بندوق سے کارتوس چلا کر لنگوروں کو بھگاتے ہوں۔ شیرنی کو ابھی تین سو گز مزید چلتے ہوئے ندی تک پہنچنا تھا جس میں سے دو سو گز تک جھاڑی یا درخت کی کوئی آڑ نہیں تھی۔ شیرنی تھوڑا سا ترچھی آ رہی تھی اور اگر ہم میں سے کوئی بھی حرکت کرتا تو شیرنی اسے فوراً دیکھ لیتی۔ اس لیے ہم اپنی جگہ ساکت رکے شیرنی کو چلتا دیکھتے رہے۔ میں نے کسی بھی شیر کو اس سے زیادہ آہستگی سے چلتے نہیں دیکھا۔ مکتسر کے لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ شیرنی لنگڑی ہے لیکن مجھے شیرنی کا لنگ نہیں دکھائی دیا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ جب تک شیرنی گھنے جنگل تک نہیں پہنچتی، میں بے حس و حرکت رہوں۔ پھر بھاگ کر میں ندی تک پہنچوں اور جب شیرنی اسے عبور کرنے والی ہو یا کر چکی ہو تو اس پر گولی چلاؤں۔ اگر ہمارے اور شیرنی کے درمیان مناسب آڑ ہوتی تو میں آگے بڑھ کر اسی کھلے میدان میں شیرنی پر گولی چلاتا اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو پھر ندی عبور کرتے وقت اس پر گولی چلاتا۔ چونکہ ابھی میرے سامنے کوئی آڑ نہیں تھی اس لیے میں اس وقت تک رکا رہا جب تک شیرنی کھلے میدان اور ندی کے درمیان واقع جھاڑیوں میں نہ گھسی۔ جونہی شیرنی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں دوڑ پڑا۔ پہاڑی کافی ڈھلوان تھی اور جب میں موڑ پر پہنچا تو دیکھا کہ جنگلی گلاب کی ایک جھاڑی اگی ہوئی تھی جو راستے پر سے ہوتی ہوئی کئی گز نیچے تک چلی گئی تھی۔ اس جھاڑی کے درمیان سے ایک سرنگ سی بنی ہوئی تھی۔ جب میں نیچے جھک کر اس سرنگ سے گذرنے لگا تو میرا ہیٹ گر گیا۔ جب دوسرے سرے کے قریب پہنچ کر میں نے سر اٹھایا تو گلاب کے کانٹے میرے ننگے سر میں چبھ گئے۔ ان میں سے کچھ کانٹے میری بہن میگی نے میری واپسی پر بمشکل نکالے۔ میرے چہرے پر خون کی ہلکی ہلکی لکیریں بہنے لگیں۔ یہاں میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے اوپر سے گائے کا ڈھانچہ نیچے پھینکا تھا۔ یہ جگہ 40 گز لمبی اور 30 گز چوڑی تھی۔ اس کے اوپری سرے پر لاش موجود تھی اور اس کے اوپر والی پہاڑی پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ تاہم میری جانب والا نچلا حصہ جھاڑیوں سے پاک تھا۔ جب میں کنارے پر پہنچا اور اوپر اٹھ کر دوسری جانب دیکھا تو ہڈی چٹخنے کی آواز سنائی دی۔ مجھ سے قبل شیرنی یہاں پہنچ گئی تھی اور پرانے شکار کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ اپنا پیٹ بھر لے۔
لاش پر بہت کم گوشت تھا اور اگر شیرنی اسے چھوڑ کر کھلے میدان کی طرف آئے تو میں آسانی سے اس پر گولی چلا سکتا ہوں لیکن اگر شیرنی پہاڑی پر چڑھی یا دوسرے کنارے کو چلی گئی تو مجھے دکھائی نہیں دے گی۔ ان گھنی جھاڑیوں میں جہاں سے میں شیرنی کی آواز سن رہا تھا، سے ایک پتلا سا راستہ میری موجودہ جگہ سے ایک گز دور سے گذرتا تھا۔ اس جگہ راستے سے ایک گز دور سے کم از کم 50 فٹ گہری کھائی تھی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیسے شیرنی کے اوپر پہاڑی پر پتھر پھینک کر اسے اس کھلے قطعے کی طرف لاؤں کہ میں نے اپنے پیچھے آہٹ سنی۔ مڑا تو دیکھا کہ گوند سنگھ میرا ہیٹ لیے کھڑا تھا۔ ان دنوں ہندوستان میں کوئی یورپی ہیٹ کے بغیر نہیں باہر نکلتا تھا اور جب گوند سنگھ نے میرا ہیٹ گرتے دیکھا تو فوراً اسے اٹھا کر میرے پاس لایا۔ ہمارے پاس ہی پہاڑی میں ایک غار نما گڑھا تھا۔ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر میں نے گوند سنگھ کو بازو سے پکڑا اور اسے اس گڑھے میں بٹھا دیا۔ جب وہ بیٹھا تو اس کے گھٹنے اس کی تھوڑی کو لگ رہے تھے اور میرا ہیٹ دبائے وہ بمشکل اس گڑھے میں پورا آیا۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا کہ اس سے چند گز دور شیرنی گائے کی ہڈیاں چچوڑ رہی تھی۔ سیدھا کھڑا ہو کر میں دوبارہ اپنی جگہ پہنچا ہی تھا کہ شیرنی کی آواز بند ہو گئی۔ شاید اسے گائے کا گوشت پسند نہیں آیا ہو گا۔ کچھ دیر تک بالکل خاموشی رہی اور پھر اچانک میں نے شیرنی کو دیکھا۔ شیرنی دوسرے کنارے پر چڑھی اور اب پہاڑی کی طرف جا رہی تھی۔ اس جگہ پاپلر کے پودے اگے ہوئے تھے جن کے تنے بمشکل 6 انچ موٹے ہوں گے جن کے درمیان سے مجھے شیرنی کا خاکہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس توقع پر کہ شاید گولی پاپلر سے بچتی ہوئی شیرنی کو جا لگے، میں نے رائفل اٹھا کر گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی شیرنی مڑی اور انتہائی تیزی سے بھاگتے ہوئے وہ کنارے پر پہنچی اور میری جانب آئی۔ اس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ میری گولی اس کے سر کے پاس ایک تنے میں لگی تھی اور یہ کہ شیرنی کانی تھی۔ بظاہر انتہائی غصے سے بھاگتی ہوئی شیرنی در حقیقت محض انتہائی خوفزدہ جانور تھی جسے اس جگہ یہ علم نہیں ہو سکا تھا کہ یہ دھماکہ کہاں ہوا ہے۔ خیر میں یہ سمجھا کہ شیرنی انتہائی غصے سے میری جانب آ رہی ہے۔ جب شیرنی مجھ سے دو گز دور تھی تو میں نے آگے جھک کر اس کی گردن اور شانے کے جوڑ میں انتہائی خوش قسمتی سے گولی اتار دی۔ اعشاریہ 500 کی بھاری گولی کے دھکے سے شیرنی سیدھی 50 فٹ گہری کھائی میں جا گری۔ اگر میری گولی خطا جاتی تو شیرنی سیدھا میرے بائیں شانے سے آ ٹکراتی۔ ایک قدم بڑھا کر میں نے نیچے جھانکا تو دیکھا کہ شیرنی پانی کے چھوٹے سے تالاب میں گری ہوئی تھی۔ اس کے پیر ہوا میں تھے اور تالاب کا پانی اس کے خون سے سرخ ہونے لگا تھا۔
گوند ابھی تک اسی جگہ بیٹھا تھا۔ میرا اشارہ پاتے ہی وہ باہر نکلا اور شیرنی کو دیکھتے ہی اس نے مڑ کر زور سے چیخ کر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ "شیر مارا گیا۔ شیر مارا گیا”۔ تیس کے تیس آدمی شور مچانے لگے۔ بدری نے جب یہ آوازیں سنیں تو اس نے اپنی بندوق سے دس کارتوس چلا دیئے۔ ان کی آواز مکتسر اور آس پاس موجود تمام دیہاتوں کے افراد نے سنی اور ہر طرف سے لوگ ادھر آنے لگے۔ لوگوں نے خوشی خوشی شیرین کو تالاب سے نکالا اور ایک درخت کے تنے سے باندھ کر بدری کے باغ تک لائے۔ یہاں بھوسے کے ڈھیر پر شیرنی کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اتنی دیر میں میں بدری کے مہمان خانے میں جا کر چائے پینے لگا۔ ایک گھنٹے بعد لالٹینوں کی روشنی اور لوگوں کے ہجوم میں کہ جن میں مکتسر کے کئی شکاری بھی شامل تھے، بیٹھ کر میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔ اس وقت مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ شیرنی کی محض ایک آنکھ تھی اور اس کے جسم میں 50 کے قریب سیہی کے کانٹے پیوست تھے۔ یہ کانٹے ایک سے لے کر 9 انچ تک لمبے تھے اور اس کے دائیں پیر سے لے کر دائیں شانے تک پیوست تھے۔ دس بجے کھال اتارنے کا کام پورا ہوا۔ شب بسری کے لیے بدری کی درخواست کو نرمی سے رد کر کے میں اس کے ساتھ مکتسر کی چڑھائی چڑھا۔ ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو مکتسر سے آئے تھے اور میرے دو ساتھی بھی جنہوں نے شیرنی کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈاک خانے کے ساتھ کھلی جگہ پر میں نے شیرنی کی کھال بچھا دی تاکہ پوسٹ ماسٹر اور اس کے احباب اسے دیکھ سکیں۔ نصب شب کو میں عوامی ڈاک بنگلے میں چند گھنٹے کی نیند لینے کے لیے لیٹا۔ چار گھنٹے بعد ہم پھر روانہ ہو گئے تھے اور 72 گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد میں اپنے گھر نینی تال پہنچ گیا۔
آدم خور کے شکار کے بعد ایک عجیب سی تسکین ملتی ہے۔ ایسی تسکین جیسے کوئی انتہائی ضروری کام پورا ہو گیا ہو۔ ایسی تسکین کہ ایک انتہائی ماہر شکاری کو اس کے اپنے فطری ماحول میں شکست دی ہو۔ سب سے زیادہ یہ تسکین کہ زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اتنا محفوظ ہو گیا تھا کہ ایک چھوٹی سی بہادر بچی اس پر آرام سے چل سکے۔
٭٭٭
پانار کا آدم خور
1
1907 میں جب میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے پہلی بار اس آدم خور تیندوے کے بارے سنا جس نے الموڑا ضلع کے مشرقی کنارے پر دیہاتوں پر لرزہ طاری کر رکھا تھا۔ اس تیندوے کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوالات پوچھے گئے۔ اس تیندوے کو مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا اور اس نے 400 مصدقہ انسانی شکار کیے تھے۔ تاہم چونکہ میں اسے پانار کے آدم خور کے نام سے جانتا ہوں اس لیے میں اس کہانی میں اسے اسی نام سے پکاروں گا۔
حکومتی ریکارڈوں میں 1905 سے قبل اس تیندوے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ چمپاوت اور پانار کے آدم خور سے قبل کماؤں میں کسی آدم خور کا نہیں سنا گیا تھا۔ تاہم جب ان دونوں جانوروں نے 836 انسان کھا لیے تو حکومت کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا کہ وہ انہیں ختم کرنے کے لیے مقرر کرتی۔ اس لیے سرکاری حکام مختلف شکاریوں سے ذاتی طور پر درخواستیں ہی کرتے رہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کماؤں میں بہت کم شکاری ایسے تھے جو ان جانوروں کے شکار میں دلچسپی محسوس کرتے تھے۔ زیادہ تر کے خیال میں یہ انتہائی خطرناک کام تھا اور اسی طرح کے ایک خطرناک کام کا منصوبہ ولسن نے چند سال بعد ماؤنٹ ایورسٹ پر اکیلے چڑھنے کا بنایا۔ اس وقت میں آدم خوروں سے اتنا ہی اجنبی تھا جتنا ولسن کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ رہی ہو گی۔ تاہم آدم خور کے خلاف میری کامیابی اور ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کے لیے ولسن کی ناکامی کا سبب محض قسمت ہی ہے۔
جب میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کو ہلاک کر کے نینی تال اپنے گھر واپس پہنچا تو حکومت نے مجھے پانار کے اس آدم خور تیندوے کو ہلاک کرنے کی درخواست کی۔ ان دنوں میری معاشی صورتحال کافی تنگ تھی اور کئی ہفتے بعد اس کام کے لیے میں وقت نکال سکا۔ ابھی میں الموڑا روانہ ہونے کے لے تیار ہو ہی رہا تھا کہ مجھے نینی تال کے ڈپٹی کمشنر برتھوڈ کا پیغام ملا کہ میں فوراً مکتسر پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو آدم خور شیر سے بچاؤں جس نے وہاں اپنی دہشت طاری کر رکھی تھی۔ پچھلے صفحات پر آپ مکتسر کی آدم خور کی کہانی پڑھ چکے ہیں۔ اب میں پانار کے آدم خور کے تعاقب میں نکلا۔
چونکہ میں اس علاقے میں پہلے کبھی نہیں گیا تھا، اس لیے میں نے سوچا کہ الموڑا سے ہوتا چلوں تاکہ وہاں کے ڈپٹی کمشنر سٹیفی سے اس آدم خور کے بارے تمام تر معلومات لے سکوں۔ انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کر کے مجھے تمام تر معلومات اور نقشہ جات مہیا کیے۔ روانگی کے وقت جب انہوں نے پوچھا کہ کیا مجھے اس خطرناک کام کے نتائج و عواقب کا پوری طرح علم ہے ؟ کیا میں نے اپنی وصیت مرتب کر لی ہے ؟ مجھے اس بات سے کافی دھچکا سا لگا۔
نقشوں کے مطابق متاثرہ علاقے تک پہنچنے کے دو راستے تھے۔ پہلا راستہ پتھورا گڑھ روڈ پر چلتے ہوئے پنوانولا سے ہوتے ہوئے جبکہ دوسرا راستہ لامگرا سے ہوتا ہوئے دیبی دھورا روڈ سے تھا۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور دوپہر کے کھانے کے بعد بلند حوصلے کے ساتھ ہم روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ ایک ملازم اور چار دیگر افراد میرا سامان اٹھانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں اور میرے ساتھ پہلے ہی 14 میل کا سخت سفر کر چکے تھے لیکن چونکہ ہم جوان اور سخت جان تھے اس لیے ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ابھی کافی سفر کرنے کے بعد ہی جا کر رکیں گے۔
چود ہویں کا چاند ابھی پہاڑیوں سے نکل ہی رہا تھا کہ ہم ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کے قریب پہنچے۔ اس کی دیواروں کی لکھائی اور جا بجا پڑے کاغذ کے ٹکڑوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سکول کی عمارت ہے۔ ہمارے پاس خیمہ نہیں تھا اور عمارت کا دروازہ مقفل ہونے کی وجہ سے ہم نے وہیں صحن میں ہی ڈیرہ لگانے کا سوچا۔ اس جگہ میں اور میرے ساتھی آدم خور سے قطعی محفوظ ہوتے کیونکہ ابھی ہم آدم خور کے علاقے سے کئی میل دور تھے۔ صحن بیس مربع فٹ کا تھا اور سڑک کے کنارے اور باقی تین اطراف سے دو فٹ اونچی دیوار سے گھرا ہوا تھا۔ چوتھی طرف سکول کی عمارت تھی۔
سکول کے پیچھے کے جنگل میں جلانے کے لیے کافی لکری موجود تھی اس لیے جلد ہی میرے ساتھیوں نے لکڑی جمع کر کے صحن کے ایک کونے میں آگ جلا لی۔ میرے ملازم نے میرے لیے کھانا بنانا شروع کر دیا۔ سکول کی عمارت کے مقفل دروازے سے ٹیک لگائے میں سیگرٹ پی رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے ملازم نے بکرے کی بھنی ہوئی ٹانگ آگ سے اٹھا کر دیوار پر رکھ کر آگ کی طرف مڑا ہی تھا کہ دیوار کے پیچھے سے تیندوے کا سر نمودار ہوا۔ حیرت کے مارے میں چپکا بیٹھ کر دیکھتا رہا۔ تیندوے کا رخ میری طرف ہی تھا اور جب میرا ملازم چند فٹ دور ہٹا تو تیندوے نے لپک کر ران اٹھائی اور جنگل میں گھس گیا۔ میرے ملازم نے کاغذ پر ران رکھی تھی اور کاغذ گوشت سے چمٹا ہوا تھا۔ جب تیندوے نے ران اٹھائی تو کاغذ نے آواز پیدا کی۔ میرا ملازم سمجھا کہ شاید کوئی آوارہ کتا ران لے کر دوڑ گیا ہے۔ وہ پیچھے لپکا۔ لیکن جونہی اسے علم ہوا کہ ران کتے کی بجائے تیندوے نے اٹھائی ہے تو وہ میری جانب دوڑا۔ مشرق میں سفید فام لوگوں کو تھوڑا سا کھسکا ہوا مانتے ہیں۔ تاہم جب میرے ملازم نے مجھے آ کر افسوس ناک لہجے میں یہ خبر سنائی کہ "تیندوا آپ کا کھانا لے گیا اور میرے پاس اب آپ کے لے کچھ بھی نہیں۔” تو میں ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ شاید میرے ملازم نے مجھے عام سفید فاموں سے زیادہ کھسکا ہوا سمجھا ہو۔ خیر پھر بھی اس نے میرے لیے بہت عمدہ کھانا تیار کیا اور تیندوے نے ران سے اور میں نے کھانے سے پورا انصاف کیا۔
اگلی صبح جلدی نکلتے ہوئے ہم لام گرا پہنچ کر کھانے کے لیے رکے۔ شام ہوتے ہوتے ہم ڈول کے ڈاک بنگلے پر پہنچے۔ یہاں سے آدم خور کی سلطنت شروع ہوتی تھی۔ اپنے ساتھیوں کو بنگلے میں چھوڑ کر اگلی صبح میں آدم خور کی خبر لینے نکلا۔ گاؤں گاؤں ہوتے ہوئے اور راستے پر آدم خور کے پگ تلاش کرتے ہوئے شام کو میں ایک الگ تھلگ موجود ایک منزلہ پختہ گھر کے قریب پہنچا۔ اس کے پاس چند ایکڑ جتنی مزروعہ زمین تھی اور ہر طرف جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ اس گھر کو جانے والے راستے پر میں نے ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دیکھے۔
جونہی میں اس گھر کے نزدیک پہنچا تو اس کی بالکنی پر ایک بندہ دکھائی دیا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ سیڑھیوں سے نیچے اترا اور صحن عبور کر کے مجھے ملنے آیا۔ بائیس سال کے لگ بھگ کا نوجوان مجھے بہت پریشان دکھائی دیا۔ اس نے بتایا کہ گذشتہ رات وہ اپنی بیوی کے ہمراہ اس گھر کے واحد کمرے کے فرش پر سو رہا تھا۔ دروازہ کھلا تھا کیونکہ اپریل میں یہاں کافی گرمی ہو جاتی ہے۔ آدم خور بالکنی پر چڑھا اور کمرے میں داخل ہو کر اس کی بیوی کو گلے سے دبوچ کر دروازے کو بڑھا۔ عورت نے چیخ مار کر اپنے شوہر کو پکڑا تو وہ بیدار ہو گیا۔ اس نے فوراً ایک ہاتھ سے بیوی کو پکڑا اور دوسرے سے کمرے کے ستون کو۔ جھٹکا دے کر اس نے بیوی کو چھڑایا اور لپک کر دروازہ بند کر دیا۔ بقیہ رات میاں بیوی خوف کے مارے کمرے کے ایک کونے میں دبکے رہے اور تیندوا دروازہ توڑنے کی کوشش میں لگا رہا۔ رات بھر گرمی اور حبس کی وجہ سے اس عورت کے زخموں میں پیپ پڑنے لگ گئی اور صبح ہوتے ہوتے وہ خوف اور تکلیف کی شدت سے بے ہوش تھی۔
سارا دن یہ بندہ اپنی بیوی کے ساتھ موجود رہا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ بیوی کو چھوڑ کر مدد لینے گیا تو تیندوا واپس لوٹ کر اسے کھا جائے گا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر وہ گھر سے نکلا تو نزدیکی ہمسائے اور اس کے گھر کے درمیان موجود ایک میل گھنا جنگل وہ کیسے بحفاظت عبور کر پائے گا۔ شام ہوتے ہوتے اس کے سامنے ایک اور رات اس دہشت میں گذارنے کا حوصلہ اس میں نہیں بچا تھا۔ اس کی کہانی سن کر مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ مجھے دیکھتے ہی میرے قدموں میں گر کر کیوں رونے لگ گیا تھا۔
اب میرے سامنے انتہائی مشکل صورتحال تھی۔ اس وقت تک میں نے حکومت کو یہ درخواست نہیں کی تھی کہ آدم خور کے علاقے میں ابتدائی طبی امداد کا سامان بھجوا دیا جائے۔ الموڑا سے قبل کسی قسم کی طبی امداد ممکن نہیں تھی۔ الموڑا یہاں سے پچیس میل دور تھا۔ اب اگر طبی امداد لانے میں اکیلا جاتا تو زخمی عورت کے ساتھ رات اکیلے گذارنا اور تیندوے کی واپسی کا امکان اس بندے کو ہمیشہ پاگل کر دینے کے لیے کافی ہوتا۔
اس کی بیوی اٹھارہ سال کی تھی اور کمر کے بل بے ہوش پڑی تھی۔ تیندوے کے دانتوں کے زخم اس کے گلے پر تھے۔ جب بندے نے اسے اپنی طرف کھینچا تو تیندوے نے گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے اس کی چھاتی میں پنجہ گاڑ دیا تھا۔ جب تیندوے کی گرفت سے عورت نکلی تو تیندوے کے ناخنوں سے اس کی چھاتی میں چار گہرے زخم بن گئے۔ چھوٹے سے کمرے کی گرمی، حبس اور مکھیوں کے غول کی وجہ سے یہ زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی اور ایک ہی دروازہ تھا۔ چونکہ اس کے زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے اس لیے اگر میں جا کر اس کے لیے طبی امداد لاتا تو بھی اس کے بچے کے امکانات انہتائی کم تھے۔ اس وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ رات اس بندے کے ساتھ یہیں گذاروں۔ میری انتہائی خلوص دل سے دعا ہے کہ میرے قارئین کو کبھی بھی کسی انسان یا جانور کی تکلیف دیکھنے کا موقع نہ ملے جسے شیر یا تیندوے نے گلے سے پکڑا ہو اور ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے رائفل کی گولی کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
بالکنی اس گھر کی پوری لمبائی تک پھیلی ہوئی پندرہ فٹ لمبی اور چار فٹ چوڑی تھی۔ اس کی دونوں اطراف بند تھیں۔ اس تک پہنچنے کے لیے مختصر سی سیڑھیاں تھیں۔ سیڑھیوں کے اوپر کمرے کا دروازہ تھا۔ بالکنی کے نیچے چار فٹ چوڑی اور چار فٹ اونچی جگہ تھی جہاں جلانے کی لکڑی رکھی جاتی تھی۔
اس بندے نے میری منتیں کیں کہ میں اس کے ساتھ کمرے کے اندر رہوں۔ اگرچہ مجھے آسانی سے متلی نہیں ہوتی لیکن کمرے کی فضاء ایسی تھی کہ میں متلی نہ روک پاتا۔ اس لیے ہم نے مل کر بالکنی کے نیچے ایک کنارے سے لکڑیاں ہٹا کر اتنی جگہ بنا دی کہ میں کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ سکتا۔ رات ہونے والی تھی اس لیے نزدیکی چشمے پر نہا کر اور پانی پی کر میں اپنی کمین گاہ میں بیٹھ گیا۔ اس بندے نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا کہ "صاحب جب تیندوا رات کو آپ کو اٹھا کر لے جائے تو میں کیا کروں ؟” میں نے کہا کہ "دروازہ بند کر کے دن نکلنے کا انتظار کرنا۔”
چاند کی سولہ تاریخ تھی اور سورج ڈوبنے کے بعد چاند نکلنے کے درمیان دو گھنٹے جتنی تاریکی رہتی۔ یہ دو گھنٹے مجھے ڈرا رہے تھے۔ اس بندے نے بتایا تھا کہ صبح دن نکلنے تک تیندوا اس کے دروازے پر موجود رہا تھا، اس کا یہی مطلب تھا کہ تیندوا زیادہ دور نہیں گیا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ ابھی بھی تیندوا کہیں آس پاس چھپ کر مجھے دیکھ رہا ہو۔ ابھی تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے نصف گھنٹہ ہوا ہو گا اور میں مسلسل چاند نکلنے کی دعا کر رہا تھا۔ اچانک کافی دور سے مجھے گیدڑ کی آواز سنائی دی۔ جب گیدڑ پورے زور سے بولے تو اس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے۔ اس کی آواز کو "فیوں فیوں” سے مشابہہ کہہ سکتا ہوں۔ کئی بار یہ آواز آئی۔ بظاہر جتنی دیر خطرہ گیدڑ کے سامنے رہا، اس نے خطرے کی گھنٹی بجائے رکھی۔ عام طور پر جب تیندوا شکار کرنے یا شکار پر آنے کو نکلتا ہے تو قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے۔ اگر یہ تیندوا آدم خور ہی تھا تو نصف میل طے کرنے میں اسے کافی وقت لگتا اور اتنی دیر میں اگر چاند نہ بھی نکلتا تو بھی اتنی روشنی ہو جانی تھی کہ میں گولی چلا سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ ابھی خطرہ کافی دور ہے۔
منٹوں پر منٹ گذرتے رہے۔ گیدڑ چپ ہو گیا تھا۔ چاند پہاڑیوں سے نکل آیا تھا اور میرے سامنے کی زمین اس کی روشنی سے منور تھی۔ تاہم روشنی میں بھی مجھے کوئی حرکت نہ محسوس ہوئی اور واحد آواز اس بدقسمت عورت کی تھی جو اوپر کمرے میں سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ منٹ گھنٹوں میں بدلتے گئے اور چاند اوپر پہنچ کر مائل بہ زوال ہو گیا۔ اب اس مکان کا سایہ میرے سامنے پڑنے لگا۔ اب پھر خطرہ تھا کیونکہ تیندوا بہ آسانی چھپ کر ساری رات شکار کی گھات میں بیٹھ سکتا ہے۔ اگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا تو وہ آرام سے اس وقت کا منتظر ہو گا جب مکان کا سایہ اس کی حرکات کو چھپانے کے لیے گہرا ہو جاتا۔ اس لیے مجھے اپنی احتیاط مزید بڑھا دینی تھی۔ تاہم ساری رات گذر گئی اور سورج نکل آیا۔ یہ رات ان طویل ترین راتوں میں سے ایک تھی جو میں نے آدم خور کی تلاش میں بیٹھ کر گذاری تھیں۔ اب چاند کی جگہ سورج کی روشنی پھیل گئی تھی۔
پچھلی رات جاگنے کے بعد یہ بندہ اس رات گہری نیند سویا تھا۔ جب میں اپنی کمین گاہ سے نکل کر اپنا دوران خون درست کر رہا تھا تو یہ بندہ نیچے اترا۔ وہ افراد جو سخت زمین پر گھنٹوں بے حس و حرکت رہ چکے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کام کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں چند جنگلی رس بھریوں کے علاوہ میں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اب یہاں مزید رکنا بے کار ہوتا، اس لیے اس بندے سے اجازت لے کر میں واپس ڈول کے ڈاک بنگلے کی طرف روانہ ہوا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس بے چاری عورت کے لیے طبی امداد کا بندوبست کروں۔ ابھی میں راستے ہی میں تھا کہ میرے ساتھی آن پہنچے۔ میری طویل غیر حاضری سے پریشان ہو کر انہوں نے ڈاک بنگلے کا کرایہ ادا کیا اور میرا سامان باندھ کر میری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی میں ان سے بات کر ہی رہا تھا کہ رود اوؤر سئیر آن پہنچا۔ یہ وہی اوؤر سئیر تھا جس کا تذکرہ میں ٹمپل ٹائیگر میں کر چکا ہوں۔ اس کے پاس ایک عمدہ خچر تھا اور الموڑا جا رہا تھا۔ اس نے میرا خط بخوشی سٹیف تک پہچانے کی حامی بھر لی۔ میرا خط ملتے ہی سٹیف نے فوراً اس عورت کے لیے طبی امداد روانہ کر دی۔ تاہم امداد پہنچنے سے قبل ہی اس عورت کی تکلیف تمام ہو چکی تھی۔
اسی اوؤر سئیر نے مجھے دیبی دھورا کی ہلاکت کے بارے بتایا تھا جہاں میں نے شکار کے بہترین تجربات میں سے ایک سے سامنا کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے دیبی دھورا کے بوڑھے پجاری سے پوچھا کہ کیا آدم خور کو بھی اسی طرح مندر کی حفاظت تو نہیں ؟ تو اس نے فوراً جواب دیا کہ "نہیں صاحب، یہ شیطان تو میرے مندر کے بے شمار لوگوں کو کھا چکا ہے۔ اب چوں کہ آپ یہاں آ گئے ہیں تو میں آپ کی کامیابی کے لیے دن رات دعائیں مانگوں گا۔
2
چاہے ہماری زندگی میں کتنی ہی خوشیاں کیوں نہ ہوں، پھر بھی بعض واقعات ایسے ہیں کہ ان پر نگاہ ڈالنے سے حقیقی مسرت ملتی ہے۔ میری زندگی میں ایک ایسا ہی عرصہ 1910 کا سال ہے۔ اس سال میں نے مکتسر کے آدم خور شیر اور پانار کے آدم خور تیندوے کا شکار کیا۔ ان دونوں کے درمیانی عرصے میں میرے آدمیوں اور میں نے مل کر محکمہ گھاٹ پر سامان کی منتقلی کا ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ بغیر کسی مشینی مدد کے ہم نے ایک دن میں 5500 ٹن سامان منتقل کیا۔
پانار کے آدم خور کے پیچھے میں نے پہلی کوشش اپریل 1910 میں کی۔ اسی سال ستمبر میں مجھے اتنی فرصت ملی کہ اس تیندوے کے پیچھے دوسری بار نکلوں۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں کہ اس دوران کتنے افراد اس تیندوے کی بھینٹ چڑھے کیونکہ اس بارے حکومت نے کوئی معلومات نہیں مہیا کیں اور ما سوائے ہاؤس آف کامنز میں ایک بار اس بارے پوچھے گئے سوال کے علاوہ مجھے نہیں علم کہ کبھی ہندوستانی پریس میں اس کا تذکرہ آیا ہو۔ پانار کا یہ آدم خور 400 انسانوں کی جان لے چکا تھا جبکہ ردرپریاگ کے آدم خور نے 125 ہلاکتیں کی تھیں۔ پھر بھی ردرپریاگ کے آدم خور کو کہیں زیادہ شہرت ملی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پانار کا آدم خور انتہائی دور دراز علاقے میں سرگرم تھا جہاں عام لوگوں کی زیادہ آمد و رفت نہیں ہوتی جبکہ ردرپریاگ کا آدم خور ان علاقوں میں سرگرم تھا جہاں ہر سال کم از کم 60، 000 یاتری ہر شعبہ ہائے زندگی اور ہندوستان کے کونے کونے سے آتے تھے۔ انہی یاتریوں اور حکومتی اعلانات سے ہی ردرپریاگ کے آدم خور کو اتنی شہرت ملی تھی حالانکہ اس کی انسانی ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔
ایک ملازم اور چار ساتھیوں کے ہمراہ جو میرے کیمپ کا سامان وغیرہ اٹھائے ہوئے تھے، میں 10 ستمبر کو نینی تال سے نکلا۔ 4 بجے صبح جب ہم نکلے تو مطلع ابر آلود تھا۔ ابھی ہم چند ہی میل گئے ہوں گے کہ بارش شروع ہو گئی۔ سارا دن بارش ہوتی رہی اور جب ہم 28 میل کا سفر کر کے الموڑہ پہنچے تو رواں رواں بھیگ چکا تھا۔ میں نے یہ رات سٹیف کے ساتھ گذارنی تھی لیکن اپنا حلیہ دیکھ کر میں نے پروگرام ملتوی کر دیا۔ یہ رات ہم نے ڈاک بنگلے میں گذاری۔ یہاں کوئی دوسرا مسافر نہیں تھا اس لیے چوکیدار نے دو کمرے ہمیں دے دیئے۔ کمروں میں جلانے کے لیے کافی ساری لکڑیاں موجود تھیں اور صبح تک ہم اور ہمارا سامان اتنا خشک ہو چکے تھے کہ ہم سفر جاری رکھ سکتے تھے۔
میرا ارادہ تھا کہ الموڑہ سے آگے ہم وہی راستہ لیں گے جو اپریل میں ہم نے چنا تھا اور اسی گھر سے اپنی مہم کا آغاز کروں گا جہاں آدم خور کی شکار لڑکی نے جان دی تھی۔ ابھی میں ناشتہ کر رہا تھا کہ پنوا نام کا ایک راج آن پہنچا۔ یہ بندہ نینی تال میں ہمارے چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ پنوا کا گھر وادئ پانار میں تھا۔ جب اس نے میرے ساتھیوں سے یہ سنا کہ ہم پانار کے آدم خور کو مارنے پانار ہی جا رہے ہیں تو اس نے مجھ سے اجازت مانگی کہ ہم اسے ساتھ لے چلیں کیونکہ اکیلے جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ چونکہ پنوا اس علاقے سے بخوبی واقف تھا اس لیے اس کے مشورے سے میں نے اس سکول والے راستے کو چھوڑا اور پتھورا گڑھ والے راستے کو چل پڑے۔ پنوا نولا کے ڈاک بنگلے میں رات گذار کر ہم اگلی صبح جلدی روانہ ہوئے اور چند میل آگے چل کر ہم نے پتھورا گڑھ سڑک چھوڑ دی اور دائیں جانب ایک پگڈنڈی پر چل پڑے۔ اب ہم آدم خور کی سلطنت میں داخل ہو چکے تھے جہاں باقاعدہ راستے نہیں تھے۔ ایک گاؤں سے دوسرے تک جانے کے لیے محض پگڈنڈیاں استعمال ہوتی تھیں۔
ہماری پیش رفت کافی آہستہ تھی کیونکہ کئی سو مربع میل پر بے شمار گاؤں جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ آدم خور کے بارے جاننے کے لیے ہمیں ہر گاؤں سے معلومات لینی تھیں۔ سالن اور رنگوٹ پٹیوں (پٹی سے مراد گاؤں کا مجموعہ ہے ) کے درمیان میں شام ڈھلے چکاٹی پہنچا جہاں کے نمبردار نے نے بتایا کہ پانار دریا کی دوسری جانب سانولی گاؤں میں چند روز قبل آدم خور نے ایک بندہ ہلاک کیا ہے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے دریائے پانار میں سیلاب کی سی کیفیت تھی۔ نمبردار نے کہا کہ آج کی رات ہم وہیں رکیں اور اگلی صبح وہ ہمیں ایک رہنما دے گا جو ہمیں دریا کو محفوظ جگہ عبور کرائے گا۔ اس جگہ دریائے پانار پر پل نہیں تھا۔
نمبردار کے ساتھ گفتگو دو منزلہ عمارتوں کی قطار کے ساتھ کھڑے ہو کر کی تھی۔ جب نمبردار کے مشورے پر میں نے رات وہیں گذارنے کا فیصلہ کیا تو نمبردار نے بتایا کہ وہ میرے لیے اپنے گھر کی بالائی منزل کے دو کمرے خالی کرا دے گا۔ تاہم جہاں ہم کھڑے تھے اس جگہ پہلا کمرہ خالی دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے نمبردار کو بتایا کہ میں اس کمرے میں رہوں گا۔ اس طرح اسے اپے گھر میں ایک کمرہ خالی کرنا پڑے گا۔ جو کمرہ میں نے اپنے لیے چنا تھا، کا دروازہ نہیں تھا۔ تاہم چونکہ سابقہ واردات دریا کے دوسرے کنارے کی جانب ہوئی تھی اور دریا خوب چڑھا ہوا تھا، اس لیے مجھے تیندوے کی جانب سے کوئی فکر نہیں تھی۔
اس کمرے کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے کمرہ اچھی طرح صاف کیا اور فرش پر چادر ڈال کر میرا بستر بچھا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کمرے میں کوئی انتہائی غلیظ انسان رہ رہا تھا کیونکہ ڈھیروں گند اور چیتھڑے موجود تھے۔ صحن میں میرے ملازم نے کھانا بنایا جسے بستر پر بیٹھ کر میں نے کھایا۔ چونکہ سارا دن میں نے کافی فاصلہ طے کیا تھا اس لیے سونے میں مجھے دیر نہیں لگی۔ اگلی صبح سورج طلوع ہو رہا تھا اور کمرے میں خوب روشنی پھیلی ہوئی تھی کہ میری آنکھ آہٹ سن کر کھل گئی۔ میری نظر فوراً ہی میرے پیروں کی جانب بیٹھے شخص پر پڑی۔ اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہو گی اور بدقسمت انسان جذام یعنی کوڑھ کی آخری منزل پر تھا۔ مجھے جاگتے دیکھ کر اس بے چاری زندہ لاش نے کہا کہ امید ہے کہ اس کے کمرے میں مجھے اچھی نیند آئی ہو گی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ دو دن کے لیے پاس والے گاؤں میں اپنے دوست کو ملنے گیا ہوا تھا اور واپسی پر اس نے مجھے اپنے کمرے میں سویا دیکھا تو بیٹھ کر میرے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
کوڑھ کا مرض مشرقی امراض میں سب سے اذیت ناک ہے اور چھوت سے پھیلتا ہے۔ یہ مرض پورے کماؤں بالخصوص الموڑا میں پھیلا ہوا ہے۔ چونکہ یہ لوگ ہر کام قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں اس لیے لوگ اس بیماری کو خدا کا عذاب سمجھتے ہیں اور اسے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی مریضوں کو الگ کرتے ہیں۔ بظاہر اسی وجہ سے نمبردار نے مجھے یہ بتانے کی کوشش بھی نہیں کہ کہ جس کمرے میں میں نے سونا ہے وہ برسوں سے کوڑھی کی رہائش گاہ ہے۔ فوراً ہی کپڑے بدل کر میں تیار ہو گیا اور رہنما کے آتے ہی ہم چل پڑے۔
کماؤں میں سفر کرتے ہوئے ہمیشہ میرا پالا کوڑھیوں سے پڑتا رہتا ہے تاہم جتنی کراہت مجھے اس وقت محسوس ہو رہی تھی وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ جونہی پہلی ندی کے کنارے ہم پہنچے تو وہیں رک کر میں نے اپنے ملازم کو ناشتہ تیار کرنے کا حکم دیا اور پھر اپنے ساتھیوں کو اپنے بستر کو دھونے کا حکم دے کر میں نے کاربالک صابن اٹھایا اور ندی پر جا کر میں نے غسل کے لیے ایک گوشہ چنا۔ سارے کپڑے اتار کر میں نے پہلے انہیں دھو کر پتھروں پر سوکھنے ڈال دیئے اور پھر باقی ماندہ صابن سے اپنے آپ کو مل مل کر دھویا۔ دو گھنٹے بعد اگرچہ میرے کپڑے تھوڑے سے سکڑ گئے تھے لیکن میری کراہت دور ہو گئی تھی۔ پھر میں واپس صاف ستھرا ہو کر ناشتے کو لوٹا۔
ہمارا رہنما ساڑھے چار فٹ کا بندہ تھا جس کے بڑے سر پر لمبے بالوں کی چٹیا تھی۔ موٹا پیٹ، چھوٹی ٹانگیں اور کم گفتار بندہ تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا راستے میں مشکل چڑھائی تو نہیں آئے گی تو اس نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر کہا کہ راستہ اتنا مسطح ہے جیسے اس کی ہتھیلی۔ یہ کہہ کر وہ ہمیں سیدھا اتنہائی ڈھلوان سے اتار کر وادی میں لے گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس وادی میں دریا عبور کرنا ہو گا۔ لیکن نہیں، کچھ کہے بغیر اونٹ کی طرح سیدھا وادی عبور کر کے اس نے اگلے پہاڑ کا رخ کیا۔ نہ صرف اس پہاڑ کی چڑھائی انتہائی ڈھلوان اور کانٹے دار جھاڑیوں سے بھری تھی بلکہ اس پر ریت اور کنکر بھی بکثرت تھے جس کی وجہ سے قدم جمانا اور بھی مشکل ہوتا گیا۔ سورج عین سر پر تھا کہ ہم پسینے میں ڈوبے چوٹی پر پہنچے۔ ہمارا رہنما جس کی ٹانگیں شاید بنی ہی پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے تھیں، اسی طرح تازہ دم تھا۔
یہاں پہاڑ کی چوٹی سے نیچے وادی کا بہترین منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ جب ہمارے رہنما نے یہ بتایا کہ ابھی ہمیں مزید دو پہاڑ عبور کر کے پانار دریا پہنچنا ہے تو پنوا نے، جس کے پاس اپنے خاندان کے لیے تحفے تحائف اور ایک بہت وزنی اوور کوٹ تھا، نے یہ کوٹ ہمارے رہنما کو دے دیا اور کہا کہ چونکہ وہ ہمیں زبردستی کماؤں کے تمام پہاڑ عبور کرنے پر مجبور کر رہا ہے اس لیے یہ کوٹ بھی خود ہی اٹھائے۔ بکری کے بالوں سے بنی رسی سے اس کوٹ کو اپنی کمر کے گرد ہمارے رہنما نے باندھ لیا۔ پہاڑ سے اتر کر دوسرے پہاڑ پر چڑھے اور اس سے اتر کر ہم ایک گہری کھائی میں جا پہنچے تو دریا دکھائی دیا۔ یہاں تک ہمارا سارا سفر بغیر کسی پگدنڈی کے ہوا تھا اور نہ ہی کوئی دیہات دکھائی دیا تھا۔ تاہم اس جگہ سے سیدھا دریا تک ایک پگڈنڈی جا رہی تھی۔ جوں جوں ہم دریا کے قریب ہوتے گئے، مجھے اس سے الجھن ہوتی گئی۔ دریا کے دونوں کنارے موجود راستے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ دریا کو اسی جگہ سے عبور کیا جاتا ہے لیکن اس وقت طغیانی پر آئے دریا کو عبور کرنا میرے نزدیک بہت خطرناک تھا۔ تاہم ہمارے رہنما کے مطابق یہاں سے دریا عبور کرنا انتہائی آسان تھا۔ اس لیے جوتے اور جرابیں اتار کر میں نے پنوا کے بازوں میں بازو ڈالے اور پانی میں اترا۔ یہاں دریا تقریباً چالیس گز چوڑا ہو گا اور پانی کی سطح سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہاں تہہ بہت کٹی پھٹی ہے۔ میرا اندازہ درست نکلا اور کئی بار ٹھوکریں کھانے اور ایک بار تقریباً بہہ جانے کے باوجود ہم دوسرے کنارے پہنچ گئے۔
ہمارا رہنما بھی ہمارے پیچھے آ رہا تھا۔ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو اسے کافی مشکل ہو رہی تھی۔ جو پانی ہماری رانوں تک تھا، اس کی کمر تک پہنچ رہا تھا۔ دریا کے وسط میں پہنچ کر بجائے اس کے کہ وہ بہاؤ کی مخالف سمت رخ کر کے ترچھا چلتا، اس نے بہاؤ کی سمت رخ کیا اور نتیجتاً فوراً ہی تیز پانی نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے۔ تاہم پنوا نے اپنا گٹھڑ پھینکا اور فوراً کنارے پر آگے جو بھاگا جہاں پچاس گز دور ایک چٹان پانی پر جھکی ہوئی تھی۔ دوڑتے ہوئے اسے نوکیلے پتھروں کی بھی پروا نہیں تھی۔ اس چٹان پر پنوا لیٹ کر ہمارے رہنما کا انتظار کرنے لگا۔ جونہی ہمارا رہنما اس کے قریب پہنچا، پنوا نے اس کو سر کے بالوں سے پکڑ کر بہت مشکل سے پانی سے نکال لیا۔ جب دونوں میرے پاس پہنچے تو ہمارا رہنما بیچارہ بھیگا چوہا لگ رہا تھا۔ میں نے پنوا کو شاباش دی کہ اس نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کر کے اس کی جان بچائی ہے۔ پنوا نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا کہ "ارے نہیں صاحب، میں اس کی جان بچانے نہیں بلکہ اپنا نیا کوٹ بچانے گیا تھا جو اس نے کمر سے باندھ رکھا تھا۔” خیر کچھ بھی ہو، ہمارے رہنما کی جان بچ گئی تھی۔ جب ہمارے سارے ساتھی بحفاظت ہماری جانب پہنچ گئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ یہیں رات بسر کریں گے۔ پنوا کا گاؤں یہاں سے پانچ میل دور ہو گا اور اس نے ہمارے رہنما کو ساتھ لیا اور رخصت چاہی۔ ہمارا رہنما دریا عبور کرنے کے خیال سے ہی دہشت زدہ تھا۔
3
اگلی صبح ہم سانولی کو ڈھونڈنے نکلے جہاں آخری انسانی ہلاکت ہوئی تھی۔ شام ڈھلے ہم لوگ ایک بڑی اور کھلی وادی میں پہنچے جہاں ہمیں کوئی انسانی آبادی دکھائی نہیں دی۔ ہم نے رات وہیں گذارنے کا سوچا۔ نم اور ٹھنڈی زمین پر رات انتہائی بے آرامی سے گذری کیونکہ ہم اس وقت آدم خور کی سلطنت کے عین وسط میں تھے۔ اگلے دن دوپہر کو ہم سانولی جا پہنچے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگ ہمیں دیکھ کر انتہائی خوش ہوئے۔ انہوں نے میرے ساتھیوں کے لیے ایک کمرہ جبکہ میرے لیے سرکنڈوں کی چھت والا ایک کھلا چبوترہ مہیا کر دیا۔
یہ گاؤں پہاڑی کے کنارے ایسی جگہ بنا تھا جہاں سے ہمیں وادی اور کھیت دکھائی دیتے تھے۔ ان کھیتوں سے چاول کی فصل کچھ دن قبل ہی کاٹی گئی تھی۔ وادی کی دوسری جانب پہاڑی بتدریج بلند ہوتی گئی تھی اور کھیتوں سے سو گز دور گھنی جھاڑیوں کا ایک قطعہ سا تھا جو 20 ایکڑ جتنا ہو گا۔ پہاڑی کے کنارے پر اور اسی قطعے کے اوپر ایک اور گاؤں تھا اور پہاڑی کے دائیں جانب بھی ایک گاؤں آباد تھا۔ بائیں جانب پہاڑی انتہائی ڈھلوان ہو گئی تھی۔ اس طرح اس قطعے کے تین اطراف میں کھیت اور ایک طرف گھاس کا کھلا میدان تھا۔
جتنی دیر میں ناشتہ تیار ہوتا، دیہاتی لوگ وہیں بیٹھ کر ہم سے باتیں کرتے رہے۔ مارچ کے وسط سے اپریل کے وسط تک اس علاقے میں چار انسان مارے جا چکے تھے۔ پہلا شکار پہاڑی کے کنارے، دوسرا اور تیسرا پہاڑی کی چوٹی والے گاؤں اور چوتھا سانولی میں ہوا تھا۔ ساری ہلاکتیں رات کو ہوئی تھیں اور چیتا لاشوں کو گھیسٹ کر اس قطعے میں اندازاً پانچ سو گز اندر تک لے گیا تھا۔ وہاں جا کر تیندوے نے اطمینان سے پیٹ بھرا تھا۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں تھا اس لیے تینوں دیہاتوں کے لوگ ہی لاشیں لانے کے ہچکچا رہے تھے۔ آخری واردات 6 دن قبل ہوئی تھی اور ان لوگوں کو یقین تھا کہ تیندوا ابھی تک ان جھاڑیوں میں ہی چھپا ہوا ہے۔
صبح ایک گاؤں سے گذرتے ہوئے میں نے دو بکرے خریدے تھے۔ شام کو چھوٹے بکرے کو میں نے جھاڑیوں کے کنارے لے جا کر باندھ دیا تاکہ دیہاتیوں کے اس مفروضے کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا تیندوا یہاں موجود ہے بھی کہ نہیں ؟ تاہم چونکہ اس جگہ کوئی درخت نہیں تھے اور گہرے بادلوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ رات کو بارش ہو گی، اس لیے میں نے وہیں بیٹھنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ چونکہ میرا چبوترہ کھلا تھا، اس لیے اپنے ساتھ بکرا باندھ کر میں نے یہ فرض کر لیا کہ اگر تیندوا رات کو گاؤں آیا تو انسانی گوشت کی بجائے بکرے کا گوشت زیادہ پسند کرے گا۔ رات گئے تک دونوں بکرے ایک دوسرے کو بلاتے رہے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ تیندوا نزدیک موجود نہیں۔ تاہم یہ فرض کرنا بھی مناسب نہیں تھا کہ تیندوا کبھی بھی ادھر لوٹ کر نہیں آئے گا اس لیے میں آرام سے سو گیا۔
رات کو ہلکی سی بارش ہوئی اور صبح جب سورج نکلا تو مطلع صاف تھا۔ گھاس اور درختوں کے پتے دھل کر جگ مگ کر رہے تھے۔ پرندے خوشی سے چہچہا رہے تھے۔ میرے پاس والا بکرا جھاڑیاں کترے جا رہا تھا اور وقتاً فوقتاً ممیا رہا تھا۔ دوسرا بکرا خاموش تھا۔ اپنے ملازم کو ناشتہ تیار کرنے کا کہہ کر میں نے رائفل اٹھائی اور وادی عبور کر کے دوسرے بکرے کی جانب گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ تیندوے نے بارش سے قبل بکرے کو مار کر رسی توڑی اور اسے لے گیا۔ بارش کی وجہ سے گھسیٹنے کے نشانات تو مٹ چکے تھے لیکن یہاں صرف ایک جگہ ایسی تھی جہاں تیندوا بکرے کو لے جاتا۔ یہ جگہ اسی راستے پر ہوتی جو ان جھاڑیوں سے گذرتا تھا۔
تیندوے یا شیر کو اس کے شکار پر گھات لگا کر شکار کرنا میرے نزدیک بہترین تفریح ہے۔ تاہم اس شکار کے لیے بہت ساری شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے ورنہ کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اس جگہ حالات کافی نامساعد تھے اور جھاڑیاں اتنی گھی تھیں کہ خاموشی سے آگے بڑھنا نا ممکن تھا۔ ناشتہ کر کے میں نے دیہاتیوں کو جمع کیا اور ان سے آس پاس کے علاقے کے بارے معلومات لیں۔ بکرے کی لاش کو تلاش کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگر اس میں کچھ بچا تھا تو میں اس پر مچان باندھتا، لیکن بکرے کی لاش کو ڈھونڈنتے ہوئے اتنا شور لازماً ہوتا کہ تیندوا بھاگ جاتا۔ اس لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ آیا آس پاس مناسب فاصلے پر کوئی ایسا گھنا جنگل یا پناہ گاہ موجود ہے جہاں تیندوا بھاگ کر پناہ لیتا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ تیندوے کے چھپنے کے لیے قریب ترین پناہ گاہ بھی کم از کم دو میل دور تھی اور اس تک پہنچنے کے لیے تیندوے کو مزروعہ زمینوں سے گذرنا پڑتا۔
دوپہر کے وقت میں واپس لوٹا اور جہاں تیندوے نے بکرے کو ہلاک کیا تھا، اس سے سو گز دور بکرے کی باقیات ملیں۔ تیندوے نے کھروں، سینگوں اور اوجھڑی کے ٹکڑے کے علاوہ سب کچھ کھا لیا تھا۔ چونکہ اس وقت تیندوے کے لیے اس جنگل کو چھوڑ کر دو میل دور جانا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے کئی گھنٹوں تک مختلف پرندوں کی مدد سے تیندوے کا پیچھا جاری رکھا۔ یہ پرندے مجھے تیندوے کی ہر حرکت کی خبر دیتے رہے۔ اگر آپ میں سے کوئی یہ جاننا چاہے کہ میں نے ان تینوں دیہاتوں کے افراد کو جمع کر کے ہانکا کیوں نہپں کرایا کہ تیندوا جونہی اس جنگل سے باہر نکلتا، میں اس پر گولی چلا سکتا تھا۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر ہم ایسا کرتے تو ہانکا کرنے والوں کے لیے انتہائی زیادہ خطرہ ہوتا۔ تیندوا جونہی یہ محسوس کرتا کہ اسے کھلے میدان کی طرف نکلنے کو مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ الٹا ہانکے والوں پر الٹ پڑتا۔
ناکام ہو کر جب میں گاؤں لوٹا تو ملیریا کا حملہ ہو گیا۔ اگلے چوبیس گھنٹے میں نے بخار میں گذارے۔ اگلے روز شام کو جب بخار اترا تو میں اپنی مہم جاری رکھنے کے قابل ہوا۔ اس دوران میرے ساتھیوں نے دوسرا بکرا اسی شام وہیں باندھ دیا جہاں پہلا بکرا مارا گیا تھا لیکن تیندوے نے اسے چھوا تک نہیں۔ تاہم چونکہ اب تیندوا بھوکا ہو گا، اس لیے تیسری شام میری امیدیں کافی بلند تھیں۔
ان جھاڑیوں کے قطعے میں ہماری جانب اس جگہ سے سو گز دور، جہاں پہلا بکرا مارا گیا تھا، برگد کا ایک درخت تھا۔ یہ درخت دو کھیتوں کے درمیان چھ فٹ اونچی منڈیر پر اگا ہوا تھا۔ تاہم یہ درخت پہاڑی کی جانب اس طرح جھکا ہوا تھا کہ اس پر چڑھنا انتہائی آسان تھا۔ نچلی جانب کھیت سے پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک شاخ اگی ہوئی تھی۔ یہ شاخ ایک فٹ موٹی ہو گی اور کھوکھلے ہونے کی بنا پر انتہائی نامناسب نشست تھی۔ چونکہ کئی سو گز تک دوسرا کوئی درخت یہاں موجود نہیں تھا اس لیے میں نے اس شاخ پر بیٹھنے کا خطرہ مول لے ہی لیا۔
چونکہ جنگل میں موجود پگوں کو دیکھ کر میں نے پہچان لیا تھا کہ یہ وہی پانار کا آدم خور تیندوا ہے جس کے پگ میں نے اپریل میں اس اکلوتے گھر کے پاس دیکھے تھے جہاں بے چاری لڑکی ماری گئی تھی، اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ کانٹے دار جھاڑیاں کاٹیں۔ جب میں نے درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر اپنی جگہ سنبھال لی تو میں نے انہیں ہدایت کی کہ ان جھاڑیوں کو گھٹڑیوں کی شکل میں باندھ کر درخت کے تنے سے لگا کر موٹی رسی سے خوب اچھی طرح باندھ دیں۔ انہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے سے میں سمجھتا ہوں کہ میری جان بچ گئی۔
یہ جھاڑیاں دس سے بیس فٹ لمبی تھیں اور درخت کے دونوں جانب سے نکلی ہوئی تھیں۔ چونکہ توازن برقرار رکھنے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں تھا اس لیے میں نے انہیں پکڑ کر اپنی بغلوں میں دبا لیا۔ پانچ بجے تک میں تیار ہو چکا تھا۔ اپنی جگہ مضبوطی سے بیٹھ کر میں نے اپنے کوٹ کا کالر کھڑا کر لیا تاکہ پیچھے سے بچاؤ ہو سکے۔ بکرا میرے سامنے تیس گز دور لکڑی کے کھونٹے سے بندھا ہوا تھا اور میرے ساتھی کھیت میں بیٹھے سیگرٹ پی اور زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔
اس دوران جھاڑیوں میں مکمل خاموشی رہی تھی لیکن پھر اچانک ایک پرندے نے خطرے کا اعلان کیا۔ ایک یا دو منٹ بعد دوسرے پرندوں نے اس کا جواب دیا۔ پہاڑی علاقے میں یہ دونوں پرندے بہت اہم مخبر ہوتے ہیں۔ ان کی آوازیں سنتے ہی میں نے اپنے ساتھیوں کو واپس لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ اجازت ملتے ہی وہ بخوشی گاؤں کو زور زور سے باتیں کرتے روانہ ہو گئے۔ بکرے نے بھی ممیانا شروع کر دیا۔ اگلے نصف گھنٹے تک خاموشی رہی اور پھر جونہی سورج گاؤں کے اوپر والی پہاڑی کے پیچھے غروب ہونے لگا تو میرے اوپر درخت پر بیٹھے دو ابابیل اڑے اور میرے اور جھاڑیوں کے درمیان کسی جانور کی موجودگی کی خبر دینے لگے۔ بکرا جو اب تک گاؤں کی جانب رخ کیے ممیا رہا تھا، نے اب اپنا رخ اسی جانب کر لیا جہاں ابابیل تھے اور چپ ہو گیا۔ بکرے کی حرکات کو دیکھ کر مجھے اس جانور کی حرکات کا درست اندازہ ہو رہا تھا جس پر ابابیل شور کر رہے تھے۔ یہ جانور محض تیندوا ہی ہو سکتا تھا۔
چاند کی آخری تاریخیں تھیں اور ابھی کئی گھنٹے تاریکی رہتی۔ چونکہ مجھے اندازہ تھا کہ تیندوا اس وقت آئے گا جب حالات اس کے حق میں ہوں گے۔ اس لیے میں بارہ بور کی دونالی بندوق لایا تھا۔ اس میں میں نے چھرے کے کارتوس بھرے تھے کیونکہ ایک گولی کی نسبت آٹھ چھروں کے تیندوے کو لگنا آسان تھا۔ رات کو شکار کے لیے برقی ٹارچیں اور روشنیاں وغیرہ ہندوستان میں اس وقت نہیں ہوتی تھیں جس وقت کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ نشانے کی درستگی کے لیے ہتھیار کی نالی کے گرد سفید کپڑا باندھ دیا جاتا تھا۔
کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی اور پھر اچانک مجھے اپنی بغل میں دبی جھاڑی پر ہلکا سا جھٹکا محسوس ہوا۔ مجھے اپنی دور اندیشی پر انتہائی خوشی ہوئی کہ درخت کے جھکے ہوئے تنے پر میں نے کانٹے دار جھاڑیاں بندھوا دی تھیں۔ بصورت دیگر میں اپنے عقب میں دفاع کرنے سے معذور ہوتا اور کوٹ کا کالر اور ہیٹ مجھے تیندوے کے دانتوں سے نہ بچا پاتے۔ یہ بات اب یقینی تھی کہ میرا سامنا پانار کے آدم خور تیندوے سے تھا جو مجھے لقمہ بنانے کے لیے بے چین تھا۔ جب ہلکے جھٹکے سے تیندوے نے جھاڑی کو جانچا تو پھر اس نے ان کے نچلے سرے دانتوں میں دبائے اور پوری قوت سے جھٹکے لگانے لگا۔ اس دوران دن کی روشنی پوری طرح ختم ہو گئی اور اب حالات تیندوے کے حق میں تھے۔ تیندوے نے تمام تر انسانی ہلاکتیں رات کے اندھیرے میں کی تھیں جبکہ رات کے اندھیرے میں انسان واحد جانور ہے جو دیکھنے سے بالکل معذور ہو جاتا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو اندھیرے میں حوصلہ بالکل جواب دے جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں چار سو انسانی شکار کے بعد تیندوا اب مجھ سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا کیونکہ اب وہ جھاڑیوں کو اکھاڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کی غراہٹ اتنی بلند ہو گئی تھی کہ گاؤں میں بیٹھے افراد بھی اسے سن سکتے ہوں گے۔ اگرچہ میرے آدمیوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ تیندوے کی غراہٹ سے ان کے حوصلے ہوا ہو رہے تھے جبکہ مجھ پر اس کا الٹا اثر ہو رہا تھا۔ اس کی غراہٹ سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ تیندوا اب کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ جب تیندوا خاموش ہوتا تو مجھ پر دہشت طاری ہوتی کہ اب تیندوا کہاں ہو گا اور کیا کرنے والا ہو گا۔ کئی بار تیندوے نے شاخیں کھینچ کر اچانک چھوڑیں تو میں نیچے گرتے گرتے بچا۔ اندھیرے میں اور بغیر کسی سہارے کے بیٹھا ہونے کی وجہ سے مجھے پورا یقین تھا کہ اگر تیندوا جست لگا کر مجھے محض چھو بھی لیتا تو میں نیچے گر جاتا۔
کئی بار خاموشی کے وقفوں کے بعد تیندوا جست لگا کر منڈیر پر چڑھا اور بکرے کی جانب بھاگا۔ روشنی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا تھا کہ تیندوے کو آتا دیکھ سکوں گا۔ اسی وجہ سے میں نے بکرا تیس گز دور بندھوایا تھا تاکہ تیندوے کو بکرے تک پہنچنے سے پہلے مار سکوں۔ تاہم اب تاریکی کی وجہ سے بکرے کو بچانا ممکن نہیں تھا۔ تاہم سفید رنگ کی وجہ سے بکرا مجھے محض دھندلے سے دھبے کی شکل کا دکھائی دے رہا تھا۔ جب بکرے کی جد و جہد ختم ہو گئی تو میں نے احتیاط سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے اندازے کے مطابق تیندوا تھا اور بندوق چلا دی۔ بندوق چلتے ہی تیندوے کی غصیلی غراہٹ سنائی دی اور میں نے سفید رنگ کے جسم کو الٹی قلابازی کھا کر اوپری کنارے والے کھیت کے پیچھے گم ہوتے دیکھا۔
دس پندرہ منٹ تک میں نے انتہائی پریشانی سے تیندوے کی آوازیں سننے کی کوشش کی اور پھر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا وہ آ سکتے ہیں ؟ اگر وہ بلند زمین سے ہوتے ہوئے آتے تو ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ صنوبر کی مشعلیں جلا کر اور میری ہدایات پر سختی سے عمل کرتے آئیں۔ صنوبر کے زندہ درخت سے ایک سے ڈیڑھ فٹ لمبے یہ ٹکڑے کاٹے جاتے ہیں۔ چونکہ ان میں کافی گوند اور تیل موجود ہوتا ہے، اس لیے جلانے پر خوب روشنی ہوتی ہے۔ کماؤں کے دور دراز علاقوں میں رات کو روشنی کا یہ واحد ذریعہ ہے۔
کافی شور و غل کے بعد بیس بندے مشعلیں اٹھائے میری ہدایات پر عمل کرتے گاؤں سے نکلے۔ کھیتوں کے اوپر سے چکر کاٹ کر یہ لوگ میرے درخت کے عقب سے پہنچے۔ تیندوے کی ناکام کوششوں سے ان رسیوں کی گرہیں بہت سخت ہو گئی تھیں جنہیں کاٹنا پڑا۔ جب جھاڑیاں ہٹ گئیں تو میرے ساتھی اوپر چڑھے اور مجھے نیچے اترنے میں مدد دی۔ اس شاخ پر بیٹھے بیٹھے میرا نچلا دھڑ سن ہو گیا تھا۔
بیس مشعلوں کی روشنی سے مردہ بکرے والا پورا کھیت روشن تھا لیکن اس سے آگے تاریکی تھی۔ ان لوگوں کو سیگرٹ دے کر میں نے انہیں بتایا کہ تیندوا زخمی ہوا ہے لیکن مجھے زخم کی شدت کا اندازہ نہیں۔ ابھی ہم گاؤں واپس جاتے ہیں اور صبح کو واپس لوٹ کر دیکھیں گے۔ اس پر یہ سب انتہائی مایوس ہوئے اور بولے کہ "اتنی دیر میں تیندوا مر چکا ہو گا۔ ہم اتنے سارے بندے ہیں اور آپ کے پاس تو بندوق بھی ہے۔ پھر خطرہ کا ہے کا؟ کم از کم اس کھیت کے کنارے تک جا کر تو ہم دیکھ ہی سکتے ہیں کہ کیا تیندوے کے زخم بہنے والے خون کے نشانات ہیں ؟” اس بات کے حق اور مخالفت میں اچھی طرح بحث کرنے کے بعد طے ہوا کہ میری مرضی کے برخلاف ہم سب اس کھیت کے کنارے تک جا کر نیچے والے کھیت میں جھانکیں۔
ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے میں نے یہ شرط لگائی کہ وہ میرے پیچھے ایک قطار کی صورت میں چلیں گے اور ان کی مشعلیں بلند ہوں گی اور اگر تیندوے نے حملہ کیا تو وہ مجھے تاریکی میں چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ بخوشی انہوں نے وعدہ کیا اور مشعلوں کو تازہ کر کے ہم چل پڑے۔ میں سے سے آگے اور وہ لوگ میرے پیچھے پانچ گز کے فاصلے پر تھے۔
بکرے تک تیس گز کا فاصلہ اور اس سے پھر آگے بیس گز تک کھیت کا کنارہ، ہم خاموشی اور احتیاط سے بڑھے۔ جب ہم بکرے تک پہنچے تو نیچے خون کے نشانات دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے، دوسرے کھیت پر روشنی پھیلتی گئی۔ جب ایک چھوٹی سی پٹی اندھیرے کی رہ گئی تو اچانک غراتے ہوئے تیندوے نے جست لگائی اور منڈیر پر چڑھ کر سامنے آ گیا۔
تیندوے کی غصیلی غراہٹوں میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ میں نے ہاتھیوں کی قطار کو بھاگتے دیکھا ہے۔ حالانکہ یہی ہاتھی شیر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہتے تھے۔ اس لیے تیندوے کی غراہٹیں سنتے ہی جب میرے ہمراہیوں نے مشعلیں پھینک کر جب دوڑ لگانے کی کوشش کی تو مجھے قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ خوش قسمتی سے اس بھگدڑ میں وہ ایک دوسرے سے الجھ کر گرے اور چند مشعلیں نیچے گرنے کے بعد بھی جلتی رہیں اور مجھے تیندوے کے سینے میں چھرے اتارنے میں کوئی دقت نہیں پیش آئی۔
بندوق کی آواز سن کر سب رکے اور ایک کی آواز آئی، "ارے نہیں۔ صاحب بالکل بھی ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس شیطان نے ہمارا پتہ پانی کر دیا تھا۔” واقعی، چند منٹ قبل درخت پر مجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ آدم خور کس طرح انسانی حوصلے کو پانی کر دیتا ہے۔ جہاں تک مجھے چھوڑ کر بھاگنے کی بات ہے تو اگر میں ان کی طرح کسی شکاری کے پیچھے مشعل اٹھائے ہوتا تو میں بھاگنے میں ان سے آگے ہوتا۔ اس لیے میری ناراضگی بے جا ہوتی۔ بظاہر جتنی دیر میں تیندوے کے معائینے میں مصروف رہا تاکہ ان کی شرمندگی ختم ہو، وہ دو دو اور تین تین کی ٹولیوں میں لوٹے۔ جب سب جمع ہو گئے تو نظریں اٹھائے بغیر میں نے ان سے پوچھا کہ "تیندوے کو گاؤں تک لے جانے کے لیے بانس اور رسیاں لائے ہو؟” تو انہوں نے فوراً کہا "جی بالکل۔ لیکن وہ درخت کے پاس چھوڑ آئے ہیں۔” میں نے کہا کہ "جا کر لے آؤ۔ میں جب تک گاؤں جا کر چائے پیتا ہوں۔” شمالی یخ بستہ ہوا سے ملیریا کا حملہ ہو گیا تھا اور جب جوش ختم ہوا تو کھڑا ہونا بھی دشوار لگ رہا تھا۔
اس رات، کئی برسوں بعد سانولی کے لوگ آرام سے سوئے اور اس کے بعد سے ہمیشہ خطرے سے پاک نیند سوتے آ رہے ہیں۔
٭٭٭
مکمل کتاب کے لیے
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/temple-tiger-and-other-maneaters-of-kumaon.98148/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید