فہرست مضامین
- زبدۃ الفقہ
- زکوٰۃ کا بیان
- سائمہ(چرنے والے جانوروں ) کی زکوٰۃ کا بیان
- اونٹوں کی زکوٰۃ کا بیان
- گائے بیل اور بھینس کی زکوٰۃ کا بیان
- بکری و بھیڑ کی زکوٰۃ کا بیان
- سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا بیان
- مال تجارت کی زکوٰۃ کا بیان
- زکوٰۃ متفرق مسائل
- عاشر کا بیان
- کان اور دفینہ کا بیان
- عشر یعنی کھیتی اور پھلوں کی زکوٰۃ کا بیان
- مصارف زکوٰۃ و عشر
- زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ
- صدقۂ فطر کا بیان
زبدۃ الفقہ
جلد۔۳، کتاب الزکوٰۃ
سید زوار حسین شاہ
زکوٰۃ کا بیان
زکوٰۃ کے معنی
اسلام کا تیسرا رکن زکوٰۃ ہے ، شرع شریف میں زکوٰۃ کے معنی یہ ہیں کہ اپنے مخصوص مال کا ایک مخصوص حصہ جو شرع شریف نے مقرر کیا ہے اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کسی مسلمان فقیر یا مسکین وغیرہ کو جو زکوٰۃ لینے کا شرع میں حقدار ہے دے کر اُسے اس طرح مالک کر دینا کہ اپنا نفع اس سے بالکل ہٹا لے
زکوٰۃ کا حکم
زکوٰۃ ادا کرنا، فرضِ قطعی ہے جو شخص اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے اور اس سے روکنے والے کو شرعی قاضی قتل کی سزا دے سکتا ہے اور جو شخص انکار تو نہیں کرتا مگر اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے روز اس کو بڑا سخت عذاب ہو گا فرض ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا واجب ہے اور بلا عذر تاخیر کرنا مکروہِ تحریمی اور گناہ ہے ایسا شخص فاسق ہے اور اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی
زکوٰۃ کی فرضیت کا سبب
زکوٰۃ کے فرض ہونے کا سبب مال ہے جو بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر چکا ہو نصاب کی تشریح آگے آتی ہے
زکوٰۃ فرض ہونے کی شرطیں
زکوٰۃ فرض ہونے کی دس شرطیں ہیں
۱. آزاد ہونا
۲. مسلمان ہونا
۳. عاقل ہونا
۴. بالغ ہونا
۵. بقدر نصاب مال کا مالک ہونا
۶. مال نصاب کا پورے طور پر مالک ہونا
۷. مال نصاب کا اصلی حاجتوں سے زیادہ ہونا
۸. مال نصاب کا قرض سے بچا ہوا ہونا
۹. مال نصاب کا بڑھنے والا ہونا
۱۰. مالک ہونے کے بعد مال پر ایک سال گزرنا
ان میں سے کچھ شرطیں صاحب مال میں پائی جاتی ہیں اور کچھ مال میں ان شرطوں کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے
۱. آزاد ہونا
زکوٰۃ فرض ہونے کی ایک شرط آزاد ہونا ہے پس غلام پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے
۲. مسلمان ہونا
دوسری شرط مسلمان ہونا ہے پس کافر پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے خواہ کافر اصلی ہو یا مرتد ہو، کسی کے ذمہ زکوٰۃ باقی رہنے کے لئے بھی اسلام شرط ہے اس لئے اگر کوئی شخص زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد العیاذباللّٰہ مرتد ہو گیا تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی پس اگر وہ کئی سال کے بعد پھر اسلام لے آیا تو زمانہ ارتداد کے سالوں کی زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہو گی کافر اگر دار الحرب میں اسلام لے آیا اس کے بعد چند سال تک وہاں رہا تو اگر وہ زکوٰۃ کی فرضیت کو جانتا تھا تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی اور اس کے ادا کرنے کا فتویٰ دیا جائے گا ورنہ نہیں بخلاف اس کے اگر ذمی کافر دار السلام میں مسلمان ہوا تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ فرضیتِ زکوٰۃ کا مسئلہ اس کو معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ دار السلام میں نہ جاننا عذر نہیں ہے
۳. عاقل ہونا
ایک شرط عاقل ہونا ہے لہذا اس مجنون ( دیوانہ) و معتوبہ ( نیم پاگل) پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے جو تمام سال مجنون ر ہے پس اگر نصاب کا مالک ہونے کے بعد سال کے کسی حصہ میں خواہ اول میں یا آخر میں بہت دنوں کے لئے یا تھوڑے دنوں کے لئے افاقہ ہو گیا تو زکوٰۃ لازم ہو گی یہ ظاہر الروایت ہے اور یہی اصح ہے جس شخص پر بےہوشی طاری ہو اس پر صحیح کی مانند زکوٰۃ واجب ہو گی اگرچہ کامل ایک سال تک بیہوش ر ہے
۴. بالغ ہونا
ایک شرط بالغ ہونا ہے پس نابالغ لڑکے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس کے مال پر بالغ ہو جانے کے وقت سے سال شروع ہو گا اور سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی اس سے پہلے نہیں
۵. بقدر نصاب مال کا مالک ہونا
ایک شرط یہ ہے کہ وہ مال کا مالک ہو اور وہ مال بقدر نصاب ہو، مال سے مراد سکہ رائج الوقت درہم و دینار یا روپیہ اشرفی وغیرہ اور سونا چاندی یا ان دنوں کے زیورات برتن سچا گوٹہ ٹھپہ وغیرہ اور سامانِ تجارت اور جنگل میں چرانے والے جانور ہیں اور بقدر نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ نصاب کی جو مقدار شرع شریف میں مقرر ہے اس سے کم نہ ہو سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور چاندی کا ساڑھے باون تولہ، تجارت کے مال کا سونا یا چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر ہونا ہے ان سب نصابوں اور ان کی زکوٰۃ کی تفصیل آگے الگ الگ بیان میں درج ہے
۶. مال نصاب کا پورے طور پر مالک ہونا
ایک شرط یہ ہے کہ وہ بقدر نصاب مال کا پورے طور پر مالک ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت اور قبضہ دونوں پائے جائیں ، اگر صرف ملکیت ہو اور قبضہ نہ ہو جیسا کہ عورت کا مہر قبضے سے پہلے یا قبضہ ہو اور ملکیت نہ ہو جیسا کہ مکاتب غلام اور مقروض کی ملکیت تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی مال ضمار کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ آگے آتا ہے کہ قبضہ کے بعد سے نیا سال شروع ہو گا تجارت کے لئے خریدی ہوئی چیز قبضہ سے پہلے صحیح یہ ہے کہ نصاب ہوتی ہے پس جو مال تجارت کے لئے خریدا اور سال بھر تک اس پر قبضہ نہ کیا تو خریدار پر قبضہ سے قبل زکوٰۃ واجب نہیں اور قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سال کی زکوٰۃ بھی واجب ہے
۷. مال نصاب کا اس کی اصلی حاجتوں سے زائد ہونا
ایک شرط یہ ہے کہ اس کا مال اس کی اصلی حاجتوں سے فارغ و زائد ہو اصلی حاجتوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی انسان کو زندگی بسر کرنے میں ضرورت پڑتی ہے خواہ تحقیقی طور پر ہو جیسا کہ روزمرہ کا خرچ، رہنے کا گھر، لڑائی کے ہتھیار، پہنے اور سردی گرمی سے بچانے کے کپڑے خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اور اسی طرح دستکاروں کے اوزار، خانہ داری کا سامان، سواری کے جانور اور اہل علم کے لئے علمی کتابیں وغیرہ لیکن اگر کپڑوں میں سچا کام بنا ہوا ہے اور وہ اتنا ہے کہ اگر چاندی کو الگ کیا جائے تو ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ نکلے یا اس کے پاس اور چاندی یا نقدی یا سونا ہو یا تجارت کا مال ہو اور اس کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس چاندی پر زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں ، یا تقدیراً ان کی طرف محتاج ہو مثلاً قرضہ، پس ان چیزوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اس لئے یہ نصاب میں شامل نہیں کی جائیں گی اسی طرح آرائش کے برتن جو سونے چاندی کے نہ ہوں اور جواہرات، موتی، یاقوت و زمرد، سچے موتیوں کا ہار وغیرہ جب کہ وہ تجارت کے لئے نہ ہو اور خرچ کرنے کے لئے جو پیسے خریدے ہوں گھر کا اسباب، چھوٹے بڑے برتن مثلاً پتیلی، دیگچی، دیگ چھوٹی ہو یا بڑی، سینی لگن کھانے پینے کے برتن وغیرہ خواہ کتنے ہی ہوں اور چا ہے روزمرہ کے استعمال میں آتے ہوں یا نہ آتے ہوں ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ سونا چاندی کے علاوہ اور جتنا مال و اسباب ہو اگر وہ تجارت کے لئے نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن اگر یہ چیزیں تجارت کے لئے ہوں تو پھر ان میں زکوٰۃ فرض ہے دستکاروں کی وہ چیزیں جو خود تو استعمال میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان کا اثر باقی رہتا ہے جیسے قسم اور زعفران کپڑا رنگنے کے لئے اور کس و تیل کھال رنگنے کے لئے یہ چیزیں اگر بقدر نصاب قیمت کی ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہو جائے گی عطاروں کی شیشیاں اور ان گھوڑوں وغیرہ کے لگام، رسیاں ، مہاریں ، جھول وغیرہ جو تجارت کے لئے خریدے گئے ہیں اگر یہ چیزیں ساتھ میں فروخت کی جائیں گی تو ان میں بھی زکوٰۃ ہے ورنہ نہیں کرایہ پر چلانے والے مال و اسباب میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی پس اگر کسی کے پاس کچھ مکانات ہوں یا برتن ہوں جن کو وہ کرایہ پر چلاتا ہو تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں
۸. مال نصاب کا قرض سے بچا ہوا ہونا
۱. ایک شرط یہ ہے کہ اس کا مال قرض سے بچا ہوا ہو، کیونکہ مال قرض میں ہونے کی وجہ سے تقدیراً حاجت اصلیہ میں لگا ہوا ہے پس اگر کسی شخص کے پاس دو سو درہم ہیں اور اتنے ہی درہموں کا وہ قرضدار ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، اس لئے وہ نہ ہونے کے حکم میں ہے اور اس لئے بھی کہ وہ قبضہ میں نہ ہونے کی وجہ سے ملکِ تام نہیں ہے
۲. قرضہ سے مراد وہ قرضہ ہے جس کا طلب کرنے والا کوئی بندہ ہو خواہ وہ قرض اللّٰہ تعالیٰ کا قرض ہی ہو جیسا کہ زکوٰۃ اور خراج کا قرض اور جس کا طلب کرنے والا کوئی بندہ نہیں وہ وجوب زکوٰۃ کا مانع نہیں جیسے نذر کفارہ اور حج وغیرہ کا دین اور صدقہ فطر اور قربانی وغیرہ کا دین،
۳. دَینِ مہر معجل زکوٰۃ واجب ہونے کا مانع ہے متعلقاً بلا اختلاف اور دَینِ مہر موجل کے وجوب زکوٰۃ کا مانع ہونے میں اختلاف ہے ، بعض فقہ نے معجل و موجل دونوں کو مانع زکوٰۃ کہا ہے عالمگیری میں ہے کہ ظاہر مذہب کے بموجب یہی صحیح ہے اور بعض مشائخ کے نزدیک معجل مانع وجوبِ زکوٰۃ ہے موجل مانع نہیں ہے ، اور قہستانی نے جواہر سے اس کی تصحیح کی ہے اور بعض علماء نے اِس کو فتویٰ کے لئے اختیار کیا ہے لیکن اکثر کے نزدیک فتویٰ کے لئے مختار یہ ہے کہ دینِ مہر معجل و موجل دونوں مانع وجوب زکوٰۃ ہیں واللّٰہ اعلم بالصواب
۴. دین ( قرضہ) خواہ اصالت کے طور پر ہو یعنی وہ شخص خود مقروض ہو یا کفالت کے طور پر ہو یعنی کسی قرضدار کا کفیل ہو ہر طرح زکوٰۃ واجب ہونے کا مانع ہے
۵. زکوٰۃ کا قرضہ بھی وجوب زکوٰۃ کا مانع ہے پس اگر کسی شخص کے پاس بقدر نصاب مال مثلاً دو سو درہم ہے اور اس پر دو سال گزر گئے اور اس نے ان دو سالوں کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس پر دوسرے سال کی زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ پہلے سال کی زکوٰۃ پانچ درہم جو اس کے ذمہ قرض ہے نکالنے کے بعد اس کا مال بقدر نصاب نہیں ر ہے گا
۶. اسی طرح خراج کا قرضہ بھی زکوٰۃ واجب ہونے کا مانع ہے اس لئے کہ اس کا بھی بندوں کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے
۷. قرضہ اس صورت میں مانع وجوبِ زکوٰۃ ہے جب کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے سے پہلے کا ہو پس اگر زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد یعنی سال پورا ہونے کے بعد لاحق ہوا تو زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی
۸. جو قرضہ دوران سال لاحق ہوا اور وہ تمام نصاب کے برابر ہے یا نصاب کو کم کر دینے والا ہے پھر اگر سال کے اخیر تک نصاب پورا نہیں ہو سکا تو بالاتفاق مانع وجوبِ زکوٰۃ ہے اگر سال پورا ہونے سے پہلے وہ قرض معاف ہو کر یا کسی اور ذریعہ سے نیا مال حاصل ہو کر دَین نکالنے کے بعد نصاب پورا ہو گیا تو امام محمد کے نزدیک وہ مانع وجوب ہو گا اور قرض معاف ہونے یا نیا مال حاصل ہونے کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا، بحر الرائق میں اسی کو ترجیع دی ہے اور شامی نے اسی کو اوجہ کہا ہے لیکن المجتبیٰ اور بدائع کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وجوب زکوٰۃ کا مانع نہ ہونا ہمارے تینوں اماموں کا قول ہے واللّٰہ اعلم
۹. اگر مقروض چند نصابوں کا مالک ہے اور ہر نصاب سے قرضہ ادا ہو جاتا ہے تو قرضہ اس نصاب کی طرف لگایا جائے گا جس سے قرض ادا کرنا زیادہ آسان ہو پس پہلے درہم و دینار( روپیہ و اشرفی وغیرہ نقدی) کی طرف لگایا جائے گا اگر اس سے پورا نہ ہو تو پھر تجارت کے مال کی طرف لگایا جائے گا اگر پھر بھی بچ ر ہے تو چرنے والے جانوروں کی طرف لگایا جائے گا یہ حکم اس وقت ہے جب کہ بادشاہ کی طرف سے وصول کرنے والا ہو اور اگر خود صاحب مال ادا کرے تو اس کو اختیار ہے چا ہے جس سے ادا کرے
۹ مال نصاب کا بڑھنے والا ہونا
۱. ایک شرط یہ ہے کہ مال نصاب بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا ہو جیسے نقدی کا تجارت سے اور جانوروں کا تولد وتناسل سے بڑھنا یا تقدیراً یعنی حکماً بڑھنے والا ہو یعنی وہ تجارت وغیرہ کے ذریعہ اس کے بڑھانے پر قادر ہو اس طرح پر کہ مال اس کے یا اس کے نائب کے قبضہ میں ہو
۲. بڑھنے والا مال دو طرح کا ہوتا ایک خلقی اور وہ سونا چاندی ہے ، ان دونوں میں خواہ تجارت کی نیت کرے یا نہ کرے یا خرچ کرنے کی نیت کرے یا زیور وغیرہ بنا کر یا ویسے ہی رکھ چھوڑے استعمال نہ بھی کرے ہر حال میں زکوٰۃ واجب ہے دوسرا فعلی، سونے چاندی کے علاوہ سب اموال فعلی طور پر بڑھنے والے ہیں کیونکہ یہ تجارت یا چرائی کے فعل سے بڑھیں گے ، اس قسم کے مال میں تجارت کی نیت سے یا جانوروں کے چرانے کی نیت سے بڑھنے پر زکوٰۃ ہے ورنہ نہیں اور نیت کا تجارت یا چرائی کے فعل کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے ورنہ نیت معتبر نہیں ہو گی نیت کبھی صریحاً بھی ہوتی ہے جیسا معاملہ کرتے وقت یہ نیت کرے کہ یہ تجارت کے لئے ہے پس اگر روزمرہ کے استعمال کی نیت کی تو وہ تجارت کے لئے نہیں ہو گا اور کبھی دلالتاً بھی ہوتی ہے مثلاً تجارت کے مال کے بدلہ کوئی چیز خریدے یا جو گھر تجارت کے لئے ہے اس کو کسی اسباب کے عوض کرایہ پر دے تو خواہ صریحاً تجارت کی نیت نہ بھی کرے یہ اسباب تجارت کے لئے ہو جائے گا مضاربت کے مال کے لئے تجارت کی نیت کا ہونا شرط نہیں ہے پس مضاربت خواہ کسی نیت سے مال خریدے وہ تجارت ہی کا ہو گا
۳. مال ضمار میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس لئے کہ اس میں مِلک ہونا اور بڑھنا دونوں نہیں پائے جاتے اور مال ضمار شرعاً وہ مال ہے جس کی اصل اس کی مِلک میں باقی ر ہے لیکن وہ اس کے قبضہ سے ایسا نکل گیا ہو کہ غالب طور پر اس کے واپس ملنے کی امید نہ ر ہے پس جب مالِ ضمار پر قبضہ کرے تو اس پر گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے منجملہ مالِ ضمار وہ قرضہ ہے جس کا قرضدار نے انکار کر دیا ہو خواہ اس پر گواہ ہوں یا نہ ہوں اور خواہ گواہ عادل ہوں یا غیر عادل ہوں اور خواہ قاضی نے حلف لے لیا ہو یا نہ لیا ہو ہر حال میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی، اور اگر مقروض قرضہ کا اقرار کرتا ہے تو خواہ وہ مالدار ہو یا مفلس، اگر قاضی نے اس کو مفلس ہونے کا حکم جاری نہیں کیا ہے تو بالاتفاق اس مال پر قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر قاضی نے اس کو مفلس ہونے کا حکم جاری و مشتہر کر دیا تو اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب ہے پس جب وہ اس مال پر قبضہ کر لے تو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرے اسی پر فتویٰ ہے
۴. کسی نے کسی کا مال غضب کر لیا خواہ اس پر گواہ ہوں یا نہ ہوں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ بھی مال ضمار ہے اور اس میں بھی قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، قبضہ کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا ظلماً لئے ہوئے مال کا بھی یہی حکم ہے ، اسی طرح جو مال گم ہو گیا ہو پھر کئی سال کے بعد مل گیا ہو اور جو جانور یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کو ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد پا لیا ہو اور جو مال دریا یا سمندر میں گر گیا ہو پھر ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد نکالا گیا ہو اور وہ مال جس کو جنگل یا بڑے احاطہ میں دفن کیا ہو اور جگہ بھول گیا ہو پھر کئی سال کے بعد وہ جگہ یاد آئی ہو اور مال مل گیا ہو اور وہ مال جو کسی اجنبی کے پاس امانت رکھا ہو اور پھر اس شخص کو بھول گیا ہو پھر ایک سال یا چند سال کے بعد وہ مال مل گیا ہو تو یہ سب مالِ ضمار کی صورتیں ہیں ان سب میں قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی بلکہ قبضہ کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا
اقسام قرض
اگر کسی پر تمہارا قرض آتا ہے تو اس قرض پر بھی زکوٰۃ واجب ہے لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرض کی تین قس میں ہیں
۱. قوی
۲. متوسط
۳. ضعیف
جن کے احکام یہ ہیں
قوی یہ ہے کہ نقد روپیہ یا اشرفی یا سونا یا چاندی کسی کو قرض دیا یا تجارت کا سامان بیچا تھا اور اس کی قیمت باقی ہے اس کا حکم یہ ہے کہ وصول ہونے پر گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی بشرطیکہ قرض تنہا یا اور مال کے ساتھ جو پہلے سے اس کے پاس ہے مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اگر یکمشت وصول نہ ہو تو جب اس میں سے نصاب کا پانچواں حصہ یعنی چالیس درہم وصول ہو جائے گا اس وقت ہر سال کا ایک درہم زکوٰۃ میں ادا کرنا واجب ہو گا اس سے پہلے نہیں اور اسی طرح باقی رقم میں سے ہر چالیس درہم کے وصول ہونے پر اس کی زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گیا اور گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی واجب ہو گی اگر چالیس درہم سے کم پر قبضہ ہو تو اس پر زکوٰۃ کی ادائگی واجب نہیں ہو گی اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور رقم بقدر نصاب ہے تو وصول شدہ رقم خواہ چالیس درہم سے کم ہی ہو اس رقم میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی، اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں ہو گا البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہو گا
متوسط یہ ہے کہ قرضہ نقد نہیں دیا اور نہ ہی تجارت کا سامان بیچا بلکہ خانگی سامان بیچا اور اس کی قیمت وصول نہیں ہوئی پھر چند سال کے بعد وصول ہوئی تو اس قسم کے قرض کی بھی گزشتہ سب سالوں کی زکوٰۃ قرض وصول ہونے پر ادا کرنی واجب ہو گی اور اگر سارا ایک دفعہ میں وصول نہ ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو جب تک بقدر نصاب (دو سو درہم) وصول نہ ہو جائے زکوٰۃ ادا کرنی واجب نہیں ، جب کم از کم نصاب کی مقدار یا اس سے زائد یا تمام رقم وصول ہو جائے تو تمام گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ حساب کر کے ادا کرنا واجب ہے اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور مال بقدر نصاب موجود ہے تو وصول شدہ رقم خواہ کسی قدر بھی ہو اس پہلے مال میں ملا کر پہلے رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی اور اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں کیا جائے گا البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہی ہو گا
ضعیف یہ ہے کہ وہ کسی مال کا بدلہ نہیں ہے یعنی نہ نقدی یا تجارت کے مال کا بدلہ ہے اور نہ مال تجارت کے علاوہ گھریلو سامان کا بدلہ ہے بلکہ یہ مہر ہے یا بدلہ خلع وغیرہ ہے اور چند سال کے بعد وصول ہوا ہے تو اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے بلکہ کم از کم بقدر نصاب یا اس سے زیادہ یا تمام قرضہ وصول ہونے کے بعد سے اس رقم کا سال شروع ہو گا اور پھر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی لیکن اگر پہلے سے اور رقم بھی بقدر نصاب موجود ہو تو وصول شدہ رقم اس میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی
صاحبین کے نزدیک تمام قرضے برابر ہیں اور ان کی زکوٰۃ قبضہ سے پہلے ہی واجب ہو جاتی ہے اور اس کی ادائگی قبضہ کے وقت واجب ہو گی جس قدر وصول ہوتا جائے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس کی زکوٰۃ ادا کرتا جائے لیکن کتابت وسعایت دیت کی دَین اور زخمی کرنے کا جرمانہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ چیزیں حقیقتاً دین نہیں ہیں
۱۰. مال پر سال کا گزرنا
۱. ایک شرط یہ ہے کہ مال نصاب پر سال گزر جائے یعنی وہ مال پورا سال اس کی ملکیت میں ر ہے
۲. زکوٰۃ میں قمری ( چاند کے حساب سے ) سال کا اعتبار ہے
۳. پورا سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ سال کے دونوں سروں میں پورا ہو درمیان میں اگر نصاب سے کم رہ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں مثلاً کسی کے پاس دس تولہ سونا تھا مگر سال کے بیچ میں پانچ تولہ رہ گیا مگر پھر آخر سال میں دس تولہ ہو گیا تو اسے دس تولہ کی زکوٰۃ دینی ہو گی، اسی طرح اگر کسی کے پاس سو روپے ضرورت سے زائد تھے پھر سال پورا ہونے سے پہلے پچاس روپے اور مل گئے تو سال پورا ہونے پر اس پر پورے ڈیڑھسو روپے کی زکوٰۃ واجب ہو گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ پورے ڈیڑھسو پر سال گزر گیا ہے ، اسی طرح اگر کسی کے پاس سو تولہ چاندی رکھی تھی پھر سال گزرنے سے پہلے دو چار تولہ یا زیادہ سونا مل گیا تو اب اس سونے کا سال نیا شروع نہیں ہو گا بلکہ جب چاندی کا سال پورا ہو جائے گا تو سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت میں ملا کر سب مال کی زکوٰۃ واجب ہو گی
۴. اگر تجارت کے مال کو نقدی یعنی سونے چاندی یا روپیوں اشرفیوں سے بدلہ یا سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے سے بدلہ تو سال کا حکم منقطع نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب ایک جنس ہیں اور اگر چرانے والے جانوروں سے بدلا یا چرنے والے جانوروں کو ان کی جنس یا غیر جنس سے بدلا تو سال کا حکم منقطع ہو جائے گا اور نئے سرے سے سال شروع ہو گا
۵. جو مال سال کے دوران میں حاصل ہو وہ اس کی جنس میں شامل کیا جائے گا اور پہلے والے مال کا سال پورا ہونے پر نئے اور پرانے سب کو ملا کر زکوٰۃ ادا کی جائے گی مثلاً کسی کے پاس دو سو درہم تھے مگر سال ختم ہونے سے پہلے اس کے پاس دو سو درہم اور آ گئے اور چار سو درہم ہو گئے تو وہ چار سو درہم کی زکوٰۃ دے گا اور اگر سال گزرنے کے بعد نیا مال حاصل ہوا تو وہ پہلے مال میں شامل نہیں کیا جائے گا
۶. سونا چاندی اور اس کے سکے و زیور و برتن وغیرہ اور تجارت کا مال ایک ہی جنس ہیں اور ایک دوسرے میں ملائے جائیں گے چرانے والے جانور الگ جنس ہیں وہ نقدی میں نہیں ملائیں گے اسی طرح چرانے والے جانوروں میں بھی الگ اگ جنس ہیں یعنی اونٹ الگ ایک جنس ہیں ، گائے بیل بھینس بھینسا الگ ایک جنس ہیں اور بھیڑ بکری دُنبہ الگ ایک جنس ہیں پس یہ بھی ایک جنس دوسری میں نہیں ملائی جائے گی، مثلاً شروع سال میں کسی کے پاس اونٹ بقدر نصاب تھے اب درمیان سال میں اس کو کچھ بکریاں حاصل ہوئیں تو ان کو اونٹوں کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا
۷. جو مال دورانِ سال میں حاصل ہوا اس کو ملانا اس وقت درست ہے جبکہ اصل مال پہلے سے بقدر نصاب ہو اور اگر نصاب سے کم ہو تو اب نیا مال پہلے مال میں ملا کر پہلے مال کے حساب سے سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ اگر نیا مال ملا کر نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اب سے سال شروع ہو گا اور اس سال کے پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض ہو گی اسی طرح اگر کسی کے پاس شروع سال میں نصاب پورا تھا پھر دورانِ سال میں کچھ مال خرچ ہو گیا اور نصاب سے کم رہ گیا اس کے بعد نیا مال حاصل ہو گیا تو اس کو ملا کر کل رقم کی زکوٰۃ پہلے مال پر سال پورا ہونے کے بعد ادا کرنی واجب ہو گی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے لیکن اگر سال کے درمیان میں تمام مال ہلاک ہو گیا یا خرچ ہو گیا اس کے بعد اور مال بقدر نصاب حاصل ہو گیا تو اب پہلے مال کے سال کا اعتبار نہیں ہو گا کیونکہ اس مال کے ختم ہو جانے سے اس کا سال بھی منقطع ہو گیا اب نئے مال پر اس کے ملنے سے سال شروع ہو گا اور اس سال کے پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض ہو گی مثلاً اگر کسی شخص کے پاس دس تولہ سونا تھا مگر سال گزرنے سے پہلے سب ضائع ہو گیا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے پھر اگر سال ختم ہونے سے پہلے اس کو اور دس تولہ سونا حاصل ہو گیا تو اس کے حاصل ہونے کے وقت سے اس پر سال شروع ہو گا اگر کسی شخص کے پاس دو سو درہم تھے اور ان پر ایک دن کم تین سال گزر گئے پھر اس کو پانچ درہم اور حاصل ہوئے تو پہلے سال کے پانچ درہم ادا کرے گا اور دوسرے اور تیسرے سال کے لئے کچھ ادا نہیں کرے گا اس لئے کہ دوسرے اور تیسرے سال میں زکوٰۃ کے دین کی وجہ سے وہ رقم نصاب میں کم رہ گئی ہے پس چونکہ سال کے شروع میں نصاب پورا نہیں ہے اس لئے تیسرے سال میں جو پانچ درہم نئے حاصل ہوئے ہیں وہ اس میں نہیں ملائے جائیں گے کسی کے پاس زکوٰۃ کا مال تھا اس نے سال گزرنے کے بعد ابھی تک اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی کہ وہ سارا مال ضائع ہو گیا تو اس کی زکوٰۃ معاف ہے
زکوٰۃ کی ادائگی کی شرط
۱. زکوٰۃ ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ دیتے وقت متصل ہی زکوٰۃ دینے کی نیت کرے یا زکوٰۃ کی رقم اپنے مال سے علیحدہ کرنے کے وقت زکوٰۃ میں دینے کی نیت سے الگ کرے اور یہ نیت کافی ہے خواہ زکوٰۃ کی کل رقم علیحدہ کرتے وقت نیت کرے یا اس کا بعض حصہ نکالتے وقت نیت کرے کیونکہ مستحقین کو متفرق وقتوں میں دینا ہوتا ہے اور ہر وقت نیت کے حاضر ہونے میں دقت ہے اس لئے زکوٰۃ کی رقم یا سامان علیحدہ کرتے وقت کی نیت کو شرع نے کافی قرار دیا ہے
۲. اگر اپنے مال میں سے زکوٰۃ کی نیت سے مالِ زکوٰۃ علیحدہ نہیں کیا اور یہ نیت کر لی کہ آخر سال تک جو کچھ دوں گا وہ زکوٰۃ ہے تو یہ جائز نہیں پس اس صورت میں وقتاً فوقتاً جو کچھ وہ فقیروں کو دیتا رہا اگر اس نے ہر دفعہ اس کے دینے کے وقت زکوٰۃ کی نیت کر لی تھی تو جائز و درست ہے اور بغیر نیت کے دیتا رہا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی البتہ وہ صدقہ و خیرات ہو گا اس کا ثواب الگ ملے گا
۳. اگر کسی فقیر کو زکوٰۃ کی نیت کے بغیر زکوٰۃ کا مال دے دیا تو جب تک وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے اس نے اس کو خرچ نہیں کیا تو خواہ کتنے ہی دن ہو جائیں اس میں زکوٰۃ کی نیت کر لینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور یہ نیت کا حکماً متصل ہونا ہے اور اگر فقیر نے اس مال کو خرچ کر لیا ہے اس کے بعد زکوٰۃ دینے والے نے زکوٰۃ کی نیت کی تو اب وہ زکوٰۃ ادا نہ ہو گی پھر سے ادا کرے
۴. وکیل کو زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کر لینا بھی کافی ہے کیونکہ زکوٰۃ دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے اور اگر اس نے وکیل کو دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہ کی اور جب وکیل نے فقراء کو دیا اس وقت مالک نے نیت کر لی تب بھی جائز ہے ( بلکہ جب تک فقیر کے پاس وہ مال بجنسہ موجود ہے تب تک بھی نیت کر لینے سے ادا ہو جائے گی)
۵. اگر کسی شخص نے سال پورا ہونے پر تمام مالِ نصاب خیرات کر دیا اور اس میں نہ زکوٰۃ کی نیت کی اور نہ کسی اور واجب مثلاً نذر وغیرہ کی نیت کی بلکہ نفل صدقہ کی نیت کی ہو یا بالکل کوئی نیت نہ کی ہو تو کل مال خیرات کرنے سے اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی اور اگر نذر وغیرہ کسی دوسرے واجب کی نیت سے دیا تو وہ اُس ہی سے ادا ہو گا اور بقدرِ واجب زکوٰۃ اس کے ذمہ باقی ر ہے گی، اور اگر کل مال خیرات نہیں کیا بلکہ اس کا کچھ حصہ خیرات کیا تو امام ابو حنیفہ و امام محمد کے نزدیک خیرات کئے ہوئے حصہ کی زکوٰۃ اس سے ساقط ہو جائے گی یہی ارجح ہے
۶. اگر کسی فقیر پر قرض تھا اور قرض خواہ نے وہ قرضہ اس فقیر کو معاف کر دیا تو یہ معاف کر دینا صحیح ہے اور اتنے حصہ کی زکوٰۃ اس سے ساقط ہو جائے گی خواہ اس معاف کرنے میں اس نے زکوٰۃ کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو اور اگر تھوڑا سا قرض معاف کیا تو صرف اس قدر حصہ کی زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی باقی حصہ کی زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی اگرچہ اس نے اس معاف کر دینے میں باقی کی زکوٰۃ دینے کی نیت کی ہو
۷. اگر غنی مقروض کو سال پورا ہونے کے بعد وہ قرضہ ہبہ کر دیا یا قرضہ معاف کر دیا تو ہبہ یا معاف کئے ہوئے کی زکوٰۃ کی مقدار کا ضامن ہو گا یہی اصح ہے کیونکہ غنی کو ہبہ یا معاف کرنا مال کو ہلاک کرنا سمجھا جائے گا اور زکوٰۃ کے مال کو ہلاک کر دینے سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی
۸. اور اگر کسی فقیر کو یہ حکم دیا کہ دوسرے شخص پر جو میرا قرض ہے وہ وصول کر لے اور اس میں اس مال کی زکوٰۃ دینے کی نیت کی جو اس کے پاس موجود ہے تو جائز ہو اور فقیر کے قبضہ کر لینے کے بعد وہ زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اس لئے کہ فقیر عین پر قبضہ کرتا تو یہ عین کو زکوٰۃ عین سے ہوئی
۹. اگر فقیر کو اپنا قرضہ ہبہ کر دیا اور اس سے اپنے دوسرے قرض کی زکوٰۃ کی نیت کی جو کسی دوسرے شخص پر ہے یا اس مال کی زکوٰۃ کی نیت کی جو اس کے پاس ہے تو جائز نہیں ، مثلاً کسی شخص کے کسی فقیر پر دس روپے قرض ہیں اور اس کے دوسرے مال کی زکوٰۃ بھی دس روپے یا زیادہ ہے اُس نے اس فقیر کو اپنا قرضہ دس روپیہ زکوٰۃ کی نیت سے معاف کر دیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی، البتہ اس کی ترکیب یہ ہے کہ اس کو اپنے پاس سے دس روپے زکوٰۃ کی نیت سے دے دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اب یہی روپیہ اپنی قرض میں اس سے لے لینا درست ہے اور اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ عین اور دین کی زکوٰۃ عین سے دینا جائز ہے اور عین کی زکوٰۃ اور ایسے قرض کی زکوٰۃ جو عنقریب وصول ہو جائے گا دین سے ادا کرنا یعنی دین اس میں مَجرا کر دینا جائز نہیں مال عین وہ مال ہے جو اس کے مِلک میں قائم ہو خواہ نقد ہو یا اسباب ( یعنی جس میں ملکیت اور قبضہ دونوں پائے جائیں ) دَین سے مراد وہ مال ہے جو دوسرے کے ذمہ ثابت ہو ( یعنی صرف ملکیت پائی جائے )
۱۰. زکوٰۃ کو اعلان و اظہار سے دینا افضل ہے بخلاف نفلی صدقہ کے کہ اس کا چھپا کر دینا افضل ہے
۱۱. اگر کسی شخص نے مثلاً پانچ درہم فقیر کو دیے اور اس میں زکوٰۃ اور نفلی صدقہ دونوں کی اکٹھی نیت کی تو امام ابو یوسف کے نزدیک زکوٰۃ سے واقع ہوں گے اور امام محمد کے نزدیک نفلی صدقہ سے ہوں گے
۱۲. اصح قول کے بموجب زکوٰۃ لینے والے کو اس بات کا علم ہونا شرط نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ صرف دینے والے کی نیت زکوٰۃ کی ہونا کافی ہے پس اگر کسی شخص نے کسی مسکین کو کچھ رقم یا کوئی چیز یا قرض یا ہبہ کہہ کر دیے اور اپنے دل میں زکوٰۃ کی نیت کی تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی یہی اصح ہے اسی طرح اگر زکوٰۃ کی رقم اپنی غریب رشتہ داروں کے سمجھدار بچوں کو عید وغیرہ کے موقع پر عیدی کے نام سے دے دی اس میں زکوٰۃ دینے کی نیت کر لی یا کسی خوشخبری لانے والے یا نیا پھل لانے والے کو زکوٰۃ کی نیت سے دے دی اور اس میں اس کا بدلہ دینے کی نیت نہیں کی تو جائز و درست ہے بعض محتاج ضرورت مند ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو زکوٰۃ کا روپیہ کہہ کر دیا جائے گا تو نہیں لیں گے اس لئے ان کو زکوٰۃ کا نہ کہیں بلکہ بچوں کی مٹھائی عیدی ہدیہ وغیرہ کہہ کر دے دیا جائے
۱۳. زکوٰۃ کا اپنی مال عین سے ادا کرنا بھی شرط نہیں ہے پس اگر کسیدوسرے آدمی کو کہہ دیا کہ وہ اس کی زکوٰۃ ادا کر دے تو اس کے اپنے پاسسے ادا کرنے سے ادا ہو جائے گی اب وہ شخص اس اجازت دینے والے سے یہ رقم وصول کر لے لیکن اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی زکوٰۃ اس کے حکم کے بغیر ادا کر دی پھر اس کو اطلاع مل گئی اور اس نے اس کو تسلیم و منظور بھی کر لیا تب بھی یہ زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی اگر کسی نے کسی دوسرے شخص کو دو روپے زکوٰۃ میں دینے کے لئے دیے لیکن اس نے بعینہ وہ دو روپے فقیر کو نہیں دیے بلکہ اپنے پاس سے دو روپے اس کی طرف سے دے دیے اور یہ خیال کیا کہ اپنے ان دو روپوں کے بدلہ میں اس کے وہ دو روپے لے لے گا تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اب وہ اپنے دو روپے کے بدلہ میں اس کے دو روپے لے لے لیکن اگر اس کے د یے ہوئے روپے دوسرے شخص نے پہلے خرچ کر دیے اس کے بعد اپنے پاس سے دو روپے اس کی زکوٰۃ میں فقیر کو دئے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اسی طرح اگر اپنے پاس دو روپے دیتے وقت یہ نیت نہیں کی کہ وہ دو روپے لے لے گا جو اس کے پاس اس شخص کے رکھے ہیں تب بھی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اب وہ دونوں روپے پھر سے زکوٰۃ میں دے
۱۴. کسی شخص کے ذمہ زکوٰۃ بھی ہے اور قرضہ بھی ہے اور اس کے پاس صرف اتنا مال ہے کہ دونوں میں سے ایک کے لئے پورا ہوتا ہے تو پہلے قرض خواہ کو قرضہ ادا کرے پھر جب توفیق ہو جائے تو اللّٰہ کریم کا حق ادا کریں زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت
۱. جب زکوٰۃ کے مال پر سال پورا ہو جائے تو زکوٰۃ فوراً ادا کرنا واجب ہے اگر بغیر عذر تاخیر کرے گا تو گناہگار ہو گا وہ شخص فاسق ہو گا اور اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بظاہر تھوڑی تاخیر مثلاً ایک یا دو دن کی تاخیر سے بھی گناہگار ہو گا بعض کے نزدیک فوراً سے مراد یہ ہے کہ آنے والے سال تک تاخیر نہ کی جائے
۲. نصاب کا مالک ہونے کے بعد وقت سے پہلے زکوٰۃ دے دینا جائز ہے نصاب( دو سو درہم) کا مالک ہونے سے پہلے زکوٰۃ پیشگی دینا جائز نہیں ، پس وقت سے پہلے زکوٰۃ دینا تین شرطوں سے جائز ہے اول یہ کہ پیشگی زکوٰۃ دیتے وقت صاحبِ نصاب ہو دوم یہ کہ جس نصاب کی زکوٰۃ پیشگی دے دی وہ نصاب سالپورا ہونے پر بھی کامل ر ہے سوم یہ کہ اس درمیان میں نصاب منقطع یعنی بالکل ختم نہ ہو جائے
۳. اگر صاحبِ نصاب ایک سال سے زیادہ کی زکوٰۃ پیشگی دے دے تو جائز ہے اس کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس تین سو درہم ہیں اس نے ان میں سے دو سو درہم کی زکوٰۃ بیس سال کے لئے سو درہم دے دے تو یہ جائز ہے
۴. جس طرح ایک نصاب کا مالک ہونے کے بعد وقت سے پہلے زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح بہت سے نصابوں کی زکوٰۃ بھی وقت سے پہلے دینا جائز ہے لیکن ان سب نصابوں کا جنس واحد سے ہونا ضروری ہے ورنہ جائز نہیں مثلاً کسیکے پاس تین سو درہم ہیں اس نے ان میں سے سو درہم زکوٰۃ میں اس تفصیل سے دیدے کہ موجودہ نصاب دو سو درہم کی زکوٰۃ میں پانچ درہم اور غیر موجود درہموں یا سونے یا چاندی یا مال تجارت کے انیس نصابوں کی زکوٰۃ میں جن کے حاصل ہونے کی اس کو اسی سال میں امید ہے پچانوے درہم دیے پھر اگر وہانیس نصاب اس کو اسی سال میں حاصل ہو گئے تو یہ زکوٰۃ صحیح ہو گی اور اگر وہ غیر موجودہ نصاب اسی سال میں حاصل نہ ہوئے بلکہ آئندہ سال حاصل ہوئے تو اب یہ ان کی زکوٰۃ میں شمار نہ ہو گی بلکہ ان کی زکوٰۃ علیحدہ دینا ضروری ہے اور وہ سو درہم پیشگی زکوٰۃ موجودہ نصاب یعنی دو سو درہم کیبیس سال کے لئے ہو جائے گی جیسا کہ مثال ۳ میں ہے اسی طرح اگر کسی کے پاس سو درہم ضرورت سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں اور سو درہم کہیں اور سے ملنے کی امید ہے اس نے دو سو درہم کی زکوٰۃ سال پورا ہونے سے پہلے پیشگی دے دی تو یہ درست ہے لیکن اگر سال ختم ہونے پر روپیہ نصاب سے کم ہو گیا تو زکوٰۃ معاف ہو گی اور وہ دی ہوئی زکوٰۃ نفلی صدقہ ہو گی
۵. اگر کسی کے پاس دو نصاب ہیں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا اور اسنے ان میں سے ایک کی زکوٰۃ وقت سے پہلے دے دی تو وہ دونوں سے ادا ہو گی کیونکہ یہ دونوں ایک ہی جنس ہیں اور اگر ان میں سے ایک نصاب ہلاک ہو گیا تواس صورت میں دوسرا نصاب متعین ہو جائے گا اور وہ اسی کی زکوٰۃ ہو گی
۶. اگر وقت سے پہلے کسی فقیر کو زکوٰۃ دے دی اور سال پورا ہونے سے پہلے وہ فقیر مالدار ہو گیا یا مر گیا یا مرتد ہو گیا تو وہ زکوٰۃ ادا ہو گی اس لئے کہ زکوٰۃ دیتے وقت اس کا صحیح مصرف میں ہونا ضروری ہے آگے پیچھے کا کوئی اعتبار نہیں
۷. اگر کسی شخص کے پاس مال نصاب تھا اس نے زکوٰۃ نہیں دی یہاں تک کہ وہ بیمار ہو گیا تو اب وارثوں سے پوشیدہ زکوٰۃ دے اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اگر اس کو یہ گمان غالب ہے کہ قرض لے کر زکوٰۃ ادا کر دے گا اور پھر اس قرض کے ادا کرنے میں کوشش کرے گا اور ادا کر سکے گا ایسے آدمی کے لئے افضل یہ ہے کہ قرض لے کر ادا کرے پھر اگر قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہوا یہاں تک کہ مر گیا تو امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آخرت میں اس کا قرض ادا فرمائے گا اور اگر ادا کر سکنے کا گمان غالب نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ قرض نہ لے اس لئے کہ صاحب قرض کی دشمنی بہت ہی سخت ہے
سائمہ(چرنے والے جانوروں ) کی زکوٰۃ کا بیان
۱. جو جانور سال کا اکثر حصہ مباح چرائی پر یعنی جس چرئی میں مالک کو کچھ دینا نہ پڑے اکتفا کرے وہ شرعاً سائمہ ( چرانے والے جانور) کہلاتے ہیں پس سائمہ وہ جانور ہے جو دودھ حاصل کرنے یا بچے ( نسل) لینے کے لئے یا موٹے ہو کر بیش قیمت ہو جانے کے لئے جنگلوں میں چرائے جاتے ہیں ایسے جانوروں میں خواہ وہ نر ہوں یا مادہ یا ملے جلے ہوں زکوٰۃ واجب ہے جب کہ وہ بقدر نصاب ہوں جو جانور پالتو اور جنگلی جانور کے ملنے سے پیدا ہوا ہو اگراس کی ماں پالتو ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے یعنی اس بارے میں ماں کا اعتبار کیا جائے گا یا اگر ماں پالتو ہے تو بچہ بھی پالتو ہے اور ماں جنگلی ہے تو بچھ بھی جنگلی سمجہا جائے گا پس بکری اور ہرن سے کوئی جانور پیدا ہو تو وہ بکری کی حکم میں ہے اور نیل گاو اور گائے سے پیدا ہو تو وہ گائے کے حکم میں ہے
۲. اگر وہ جانور گوشت کھانے یا لادنے یا سواری کے لئے ہوں اور دودھ کے لئے یا نسل بڑھانے کے لئے نہ ہو تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور اگر جانور تجارت کے لئے ہو تو ان میں تجارتی مال کی طرح قیمت کے حساب سے چالیسواں حصہ زکوٰۃ دی جائے گی
۳. سال کا نصف سے زیادہ حصہ جنگل میں چرانے سے وہ جانور سائمہ ہو جائیں گے نصف سال یا اس سے کم حصہ چرانے سے سائمہ نہیں ہوں گے اور ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی
۴. اگر تجارتی جانوروں کو سائمہ بنانے کی نیت سے جنگل میں چرنے کی نیتسے چھوڑ دیا تو نیت سے چرنے کے لئے چھوڑنے کے وقت سے سال شروع ہو گا اور تجارتی مال کا سال ختم ہو جائے گا اسی طرح سائمہ جانوروں کو سال کے درمیان میں تجارت کی نیت سے بیچ دیا جائے تو اس سال کی زکوٰۃ واجب نہ ہو گی بلکہ تجارت کی نیت کے وقت سے سال شروع ہو گا لیکن اگر اس کے پاسنقدی یا مال تجارت کا نصاب ہے تو یہ سائمہ کی قیمت اس میں ملائی جائے گی اور سب کی اکٹھی زکوٰۃ اس نقدی و مال تجارت کے نصاب کا سال پورا ہونے پر دی جائے گی
۵. اندھے اور پاؤں کٹے ہوئے جانوروں میں زکوٰۃ نہیں ہے اس لئے کہ وہسائمہ نہیں ہیں
۶. جانوروں کے بچوں میں جب کہ وہ تنہا ہوں زکوٰۃ فرض نہیں ہے اگر بڑوں کے ساتھ شامل ہوں تو ان میں بھی زکوٰۃ ہے یعنی بڑوں سے ملا کر نصاب میں شمار کئے جائیں گے لیکن زکوٰۃ مین بڑا جانور دیا جائے گا بچہ نہیں دیا جائے گا
۷. جن سائمہ جانوروں میں زکوٰۃ واجب ہے ان کی تین جنسیں ہیں اونٹ گائے بکری ان کے علاوہ کسی اور سائمہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ان تینوں جنسوں :کے نصاب کی تفصیل علیحدہ علیحدہ درج ہے
اونٹوں کی زکوٰۃ کا بیان
اونٹوں کا نصاب پانچ اونٹ ہیں اس سے کم میں زکوٰۃ فرض نہیں ، وہ پانچ اونٹ خواہ نر ہوں یا مادہ یا ملے جلے ہوں اور چھوٹے بڑے ملے جلے ہوں سب چھوٹے نہ ہوں ، چھوٹا بچہ بڑوں کو ساتھ ملا کر نصاب میں شمار ہو گا لیکن زکوٰۃ میں لیا نہیں جائے گا، چرنے والے اونٹوں میں کم سے کم عمر جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور جس کا زکوٰۃ میں لیا جانا جائز ہے یہ ہے کہ دوسرا سال شروع ہو چکا ہو اس سے کم عمر کا جائز نہیں ہے پانچ اونٹ سے لے کر چوبیس اونٹ تک ہر پانچ اونٹ پر ایک ایسے بکری واجب ہو گی جس کو ایک سال پورا ہو کر دوسرا سال شروع ہو گیا ہو خواہ ایک ہی دن اوپر ہوا ہو اور خواہ وہ نر ہویا مادہ ہو، پس پانچ اونٹ پر ایک بکری، دس میں دو، پندرہ میں تین اور بیس میں چار بکری دینا فرض ہے اور درمیان میں کچھ نہیں ہے اور پھر پچیس اونٹ میں ایک اوٹنی جس کو دوسرا برس شروع ہو چکا ہو دی جائے گی چھبیس سے پینتیس تک اور کچھ نہیں اور چھتیس اونٹ میں ایک ایسی اونٹنی جس کو تیسرا برس شروع ہوا ہو دی جائے پھر سینتیس سے پنیتالیس تک اور کچھ نہیں اور چھیالیس میں ایک ایسی اونٹنی جس کو چوتھا برس شروع ہوا ہو دی جائے اور سینتالیس سے ساٹھ تک کچھ نہیں پھر اکسٹھ میں ایک ایسی اونٹنی جس کو پانچواں برس شروع ہوا ہو دی جائے اور باسٹھ سے پچھتر تک کچھ نہیں پھر چھہتر میں دو اونٹنیاں دیں جن کوتیسرا برس شروع ہوا ہو اور ستر سے نوے تک کچھ نہیں پھر اکیانوے اونٹ میں دو اونٹنیاں دیں جن کو چوتھا برس شروع ہوا ہو اور بانوے سے ایک سو بیس تک کچھ نہیں پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو پھر نیا حساب شروع ہو جائے گا یعنی اگر چار زیادہ ہوئیں تو کچھ نہیں اور جب زیادتی پانچ تک پہنچ جائے یعنی ایک سو پچیس ہو جائے تو چوتھے سال والی دو اونٹنیوں کے ساتھ ایک بکری بھی دی جائے گی اسی طرح ہر پانچ کی زیادتی پر ایک بکری اور دینی آئے گی یعنی ایک سو سینتیس اونٹوں پر دو چوتھے سال والی اونٹنیوں کے ساتھ دو بکریاں اور ایک سو پینتیس پر تین بکریاں اور ایک سو چالیس پر چار بکریاں ملائی جائیں گی اور جب پچیس کی زیادتی ہو جائے یعنی ایک سو پینتالیس ہو جائیں تو دو اونٹنیاں چوتھے سال والی اور ایک اونٹنی دوسرے سال والی واجب ہو گی اور ایک سوپچاس میں تین اونٹنیاں چوتھے سال والی واجب ہوں گی اور جب ڈیڑھ سو سے بھی بڑھ جائے تو پھر نئے سرے سے حساب ہو گا یعنی چوبیس کی زیادتی تک ہر پانچ کی زکوٰۃ میں ایک بکری کا اضافہ ہو گا پھر جب پچیس کی زیادتی ہو جائے یعنی ایک سو پچھتر ہو جائیں تو (ایک سو پچیاسی ) تک تین چوتھے سال والی اونٹنیوں کے ساتھ ایک دوسرے سال والی اونٹنی دی گا اور پھر ایک سو چھیاسی میں تین چوتھے سال والی اونٹنیوں کے ساتھ ایک تیسرے سال والی بھی دے گا ایک سو پچانوے تک یہی حکم ہے ، جب ایک سو چھیانوے ہو جائیں تو چار اونٹنیاں ایسی دے جن کو چوتھا سال شروع ہوا ہو، دو سو تک یہی حکم ہے ، یہاں پہنچ کر دوسرا نیا حساب بھی ختم ہو جاتا ہے اس سے آگے پانچویں سال والی اونٹنی واجب نہیں ہوتی دوسو میں اختیار ہے چا ہے ایسی چار اونٹنیاں دے جن کو چوتھا سال شروع ہوا ہے یعنی ہر پچاس پر چوتھے سال کی اونٹنی کے حساب سے دے اور چا ہے تو پانچ ایسی اونٹنیاں دے جن کو تیسرا سال شروع ہوا ہو یعنی ہر چالیس میں ایکتیسرے سال کی اونٹنی ہو گی دو سو کے بعد ہمیشہ اسی طرح حساب چلتا ر ہے گا جس طرح ڈیڑھ سو کے بعد پچاس میں یعنی دو سو تک چلا ہے اونٹ کی زکوٰۃ میں جب اونٹ واجب ہوتا ہے تو مادہ جانور یعنی اونٹنی زکوٰۃ میں دی جائے گی نر جائز نہیں ہے لیکن قیمت کے اعتبار سے جائز ہے پس اگر نر قیمت میں مادہ کے برابر ہو تو جائز و درست ہے اور جب بکری واجب ہوتی ہے تو اس کا مذکر یا مونث دینا جائز ہے
گائے بیل اور بھینس کی زکوٰۃ کا بیان
گائے اور بھینس ( نر و مادہ) ایک قسم میں ہیں دونوں کا نصاب ایک ہی ہے اور اگر دونوں کے ملانے سے نصاب پورا ہوتا ہو تو دونوں کو ملائیں گے مثلاً بیس گائیں ہوں اور دس بھینسیں تو دونوں کو ملا کر تیس کا نصاب پورا کر لیں گے مگر زکوٰۃ میں وہی جانور دیا جائے گا جس کی تعداد زیادہ ہو یعنی اگر تعداد میں گائے زیادہ ہوں تو زکوٰۃ میں گائے دی جائے گی اور بھینس زیادہ ہو تو بھینس دی جائے گی جیسا کہ مثال مذکورہ میں گائے زیادہ ہیں پس گائے دی جائے گی اور اگر دونوں برابر ہوں تو اختیار ہے چا ہے جس سے ادا کر دے لیکن قسم اعلیٰ میں جو جانور کم قیمت کا ہو یا قسم ادنیٰ میں جو جانور زیادہ قیمت کا ہو وہ دیا جائے گا گائے بیل بھینس اور بھینسا میں جب تک تیس سے کم ہوں زکوٰۃ نہیں ہے جب تیس ہو جائیں اور وہ سائمہ (جنگل میں چرنے والے ) ہوں تو ایک گائے یا بھینس کا بچہ نر یا مادہ دے جس کو دوسرا سال شروع ہو چکا ہو تیس کے بعد انتالیس تک اور کچھ واجب نہیں ہے اور جب چالیس پورے ہو جائیں تو جو بچہ پورے دو برس کا ہو کر تیسرے میں لگ گیا ہو لیا جائے گا خواہ نر ہو یا مادہ ہو اکتالیس سے انسٹھ تک کچھ نہیں اور جب ساٹھ ہو جائیں تو ایسے دو بچے نر یا مادہ واجب ہوں گے جن کو دوسرا سال شروع ہو چکا ہو کیونکہ ساٹھ میں تیس تیس کے دو نصاب ہیں ، ساٹھ کے بعد چالیس چالیس اور تیس تیس کا حساب کیا جائے گا اور ہرچالیس میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ تیسرے سال کا (دو سالہ) اور ہر تیس میں ایک بچہ دوسرے سال کا( یک سالہ) واجب ہو گا یعنی ہر دس کے بعد واجب بدلتا ر ہے گاپس ستّر میں ایک تیسرے سال کا ایک دوسرے سال کا بچہ واجب ہو گا کیونکہ اس میں ایک نصاب چالیس کا ہے اور ایک تیس کا ہے اور اسّی میں چالیس چالیس کے دو نصاب ہیں اس لئے تیسرے سال کے دو بچے واجب ہوں گے علی الہذا القیاس نوے میں تین بچے دوسرے سال والے اور سو میں ایک بچہ تیسرے سال اور دو بچے دوسرے سال کے واجب ہوں گے کیونکہ نوے میں تیس تیس کے تین نصاب ہیں اور سو میں تیس تیس کے دو اور چالیس کا ایک نصاب ہے اور اگر ایسا ہو کہدوسرے سال کے بچوں سے بھی حساب ٹھیک رہتا ہے اور تیسرے سال کے بچوں سے بھی ٹھیک رہتا ہے تو اختیار ہے دونوں میں سے جو بھی چا ہے دے دے مثلاً ایک سو بیس گائے بیل ہوں تو چا ہے تین بچے تیسرے سال کے دے دے یا چار بچے دوسرے سال کے دے دے کیونکہ اس میں چالیس چالیس کے تین نصاب اور تیس تیسکے چار نصاب ہیں اسی طرح دو سو چالیس میں آٹھ بچے دوسرے سال کے یا چھبچے تیسرے سال کے دے دیں گائے بیل بھینس اور بھینسا کی زکوٰۃ میں نر و مادہ کا حکم برابر ہے جو بھی چا ہے زکوٰۃ میں دے دے چرانے والی گائے بھینس میں کمسے کم عمر جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور جس کا زکوٰۃ میں لیا جانا جائز ہے یہ ہے کہ دوسرا سال شروع ہو چکا ہو، اس سے کم کا بچہ زکوٰۃ میں نہیں لیا جائے گا
بکری و بھیڑ کی زکوٰۃ کا بیان
جنگل میں چرنے والی بکریوں اور بھیڑوں کا نصاب چالیس ہے چالیس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جب چالیس ہو جائیں اور ان پر سال پورا ہو جائے تو ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی ایک سو بیس تک یہی حکم ہے صرف ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی اور زائد کچھ واجب نہیں ہو گا جب ایک سو اکیس ہو جائیں تو دو بکریاں یادو بھیڑیں واجب ہوں گی دو سو تک یہی حکم ہے اور جب دو سو ایک ہو جائیں تو تین بکریاں یا بھیڑیں واجب ہوں گی پھر تین سے ننانوے تک یہی حکم ہے اور جب چار سو پوری ہو جائیں تو چار بکریاں یا بھیڑیں واجب ہوں گی اس کے بعد ہرسیکڑے پر ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی خواہ کتنی ہی ہو جائیں یہی حسابر ہے گا اور سو سے نیچے کی زیادتی میں کچھ واجب نہیں ہو گا اور جو چیزیں زکوٰۃ میں مجتمع ہیں ان کو جدا جدا نہیں کریں گے اور جو جدا جدا ہیں ان کو جمع نہیں کریں گے مثلاً اگر کسی شخص کے پاس اسّی بکریاں ہیں تو ان کا حساب جدا جدا نصاب بنا کر اس طرح نہیں کریں گے کہ اگر یہ دو آدمیوں کے پاس چالیس چالیس ہوتیں تو دو بکریاں واجب ہوتیں پس ایک آدمی پر دو بکریاں واجب کر دی جائیں ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جب مالک ایک ہے تو چالیس سے ایک سوبیس تک ایک ہی نصاب ر ہے گا اور ایک ہی بکری واجب ہو گی اور اگر انہی بکریوں کے دو شخص نصف نصف حصہ کے مالک ہوں تو اس صورت میں دونوں کو جمع کر کے ایک نصاب نہیں بنائیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ اگر ایک شخص کے پاس اسّی بکریاں ہوتی تو ایک بکری واجب ہوتی لہذا ان دونوں سے بھی ایک بکری لے لی جائے کیونکہ یہ درست نہیں ہے بلکہ دونوں کے الگ الگ نصاب پر ایک ایک بکری واجب ہو گی اسی طرح اگر کسی ایک شخص کی ملکیت میں ایک سوبیس بکریاں ہیں تو صدقہ وصول کرنے والا اس سے ایک ہی بکری وصول کرے گا جدا جدا نصاب کر کے ہر چالیس پر ایک بکری کے حساب سے تین بکریاں لینا جائز نہیں ہے اس کے برخلاف اگر ایک سو بیس بکریوں کے تین برابر کے مالک ہوں توہر ایک کے حصہ کی ایک ایک بکری کے حساب سے تین بکریاں وصول کرے گا ایک بکری سب کی جگہ لینا درست نہیں ہے اور اگر چالیس بکریاں دو آدمیوں میں برابر برابر مشترک ہوں تو کسی پر زکوٰۃ نہیں ہو گی کیونکہ ہر ایک کا حصہ نصاب سے کم ہے اونٹوں اور گائے بیلوں میں بھی یہی حکم ہے چرانے والی بکریوں میں کم سے کم عمر جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور جس کا زکوٰۃ میں لیا جانا جائز ہے یہ ہے کہ ایک سال پورا ہو کر دوسرا سال شروع ہو چکا ہو ایک سال سے کم کا بچہ زکوٰۃ میں نہیں لیا جائے گا، یہی حکم بھیڑوں دنبوں سبکے لئے ہے اس پر فتویٰ ہے اور نر و مادہ کی قید نہیں ہے نصاب پورا کرنے کے لئے بکریاں (نر و مادہ) اور بھیڑ و دنبہ ( نر و مادہ ) ان سب کا ایک ہی حکم ہے کہ ایک کو دوسرے میں ملا کر نصاب کو پورا کریں گے اور مجموعہ پر زکوٰۃ لی جائے گی مثلاً کسی کے پاس چالیس بکریاں اور چالیس بھیڑیں ہیں تو اس کے دو نصاب نہیں کہیں گے اور دو جانور واجب نہیں ہوں گے بلکہ ان کے مجموعہ یعنی اسی پر ایک بھیڑ یا بکری واجب ہو گی لیکن اگر بکری دے گا تو ادنیٰ درجہ کی جائز ہے اور بھیڑ دے گا تو اعلیٰ درجہ کی دے گا زکوٰۃ میں دینے کے لئے اگر صرف بکریاں ( نر و مادہ ) ہیں تو بکریوں سے زکوٰۃ لی جائے گی،بھیڑ یا دنبہ نہیں لیا جائے گا اور بھیڑیں اور دنبہ ( نر و مادہ) ہیں تو انہی میں سے زکوٰۃ لی جائے گی بکری نہیں لی جائے گی اور اگر مخلوط ہوں جو زیادہ ہے زکوٰۃ میں بھی وہی لی جائیں گی اور اگر برابر ہوں تو اختیار ہے چا ہے جس میں سے ادا کر دے لیکن اعلیٰ قسم میں سے ادنیٰ قیمت کا اور ادنیٰ قسم میں سے اعلیٰ قیمت کا دے جیسا کہ گائے کی زکوٰۃ میں بیان ہوا ہے
ان جانوروں کا بیان جن میں زکوٰۃ نہیں ہے
۱. گھوڑوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن اگر تجارت کے لئے ہوں تو وہ مال تجارت کے حکم میں ہیں جب ان کی قیمت بقدر نصاب ہو گی تب ان پر تجارتی مالکی طرح قیمت کی حسب سے چالیسواں حصہ زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ وہ جنگل میں چرتے ہوں یا گھر پر گھاس کھانے والے ہوں
۲. وقف کے مویشیوں میں زکوٰۃ نہیں
۳. گدھے ، خچر، چیتے اور سکھائے ہوئے کتوں اور ہرن وغیرہ جنگلی جانوروں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے لیکن اگر تجارت کے واسطے خرید کر رکھے ہوں تو تجارتی مال کی طرح ان کی زکوٰۃ قیمت کے اعتبار سے چالیسواں حصہ دی جائے گی
۴. جن سائمہ جانوروں میں زکوٰۃ واجب ہے اگر ان کے صرف بچے ہوں اور ان بچوں کے ساتھ بڑا جانور ایک بھی نہ ہو تو ان بچوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے یہی صحیح قول ہے اور اگر ان کے ساتھ ایک جانور بھی پوری عمر کا ہو گا تو وہسب بچے نصاب پورا کرنے میں اس کے تابع ہو جائیں گے اور ان سب کی تعداد ملا کر نصاب پورا ہونے پر بالاجماع زکوٰۃ واجب ہو جائے گی مگر زکوٰۃ میں بچے نہیں دئے جائیں گے بلکہ پوری عمر کا بکری دیا جائے گا مثلاً کسی کے پاس بکریوں کے انتالیس بچے ایک سال سے کم عمر کے ہیں ایک بکری ایک سال سے اوپر کی ہے تو ان پر زکوٰۃ واجب ہو گی پس اگر وہ ایک سال سے زیادہ عمر کی بکریاوسط درجہ کی ہے تو وہی لی جائے گی اور اول درجہ کی ہے تو صاحب مالاوسط درجہ کی بکری دے گا اور اگر وہ بکری اوسط درجہ سے کم کی ہو تو پھر یہی واجب ہے اسی طرح اونٹوں اور گائے بیلوں میں سمجھ لیجئے ، اگر کئی جانور واجب ہوں تو اگر بڑوں سے زکوٰۃ پوری نہ ہوتی ہو تو بڑے جانور جو موجود ہیں وہی واجب ہوں گے اور باقی ساقط ہو جائیں گے ، چھوٹے جانور ملا کر تعداد پوری نہیں کریں گے
۵. جو جانور کام کرتے ہیں مثلاً ہل چلاتے اور زمین سیراب کرتے ہیں یا ان پر بوجھ لادا جاتا ہو یا سواری کے لئے ہوں یا نصف سال سے زیادہ گھر پر چارہ کھِلایا جاتا ہو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن گھر پر چارہ کھانے والے جانور اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان میں زکوٰۃ قیمت کے اعتبار سے واجب ہو گی بلکہسائمہ بھی اگر تجارت کے لئے ہوں تب بھی اس کی زکوٰۃ قیمت لگا کر دی جائے گی جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے
سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا بیان
۱. سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اور چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور جب زکوٰۃ کے مال پر پورا سال گزر جائے تو اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا فرض ہے پس ہر بیس مثقال سونے میں پوار سالگزرنے پر چالیسواں حصہ یعنی نصف مثقال سونا واجب ہوتا ہے اور ہر دو سودرہم میں پانچ درہم واجب ہوتا ہے اور ہر سو روپے میں اڑھائی روپے اور ہرچالیس روپے میں ایک روپیہ واجب ہوتا ہے بیس مثقال تولہ کے حساب سے ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے پس ہمارے ملک میں سونے کا یہی نصاب ہے اور دوسو درہم کے ساڑھے باون تولہ ہوتے ہیں پس یہ چاندی کا نصاب ہے
سونا چاندی خواہ سکہ دار ہو یعنی روپے اشرفیاں وغیرہ ہوں یا بے سکہ ہو اور خواہ زیور ہو یا برتن وغیرہ اور چیز ہو مثلاً تلوار کا زیور یا پٹا یا لگام یا زین یا قرآن شریف میں سونے کو تار یا ستارے وغیرہ لگے ہوئے ہوں یا سچا گوٹہ ٹھپہ وغیرہ ہو خواہ یہ چیزیں استعمال میں آتی ہوں یا نہ آتی ہوں یا نہ آتی ہوں اور خواہ اس کا استعمال مباح ( جائز) ہو جیسے عورتوں کے لئے زیور اور خواہ مباح نہ ہو جیسے مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی اور خواہ اس سے تجارت کرے یا نہ کرے غرض کہ سونے چاندی اور اس کے سامان اور اس کے سکوں وغیرہ میں ہر حال میں زکوٰۃ واجب ہے اگر کسی کے پاس اتنے روپے یا نوٹ موجود ہوں جن کی بازار کے بھاؤ کے مطابق ساڑھے باون تولے چاندی آ سکے اور ان پر سال گزر چکا ہو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی
۲. جب صرف سونا یا صرف چاندی ہو تو ادا اور وجوب دونوں کے لحاظ سے وزن کا اعتبار ہے قیمت کا اعتبار نہیں ہے ادا کے لحاظ سے وزن کا اعتبار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زکوٰۃ میں دیا جائے اگر وہ اُسی جنس سے دیا جائے تو وزن میں زکوٰۃ واجب کی مقدار کے برابر ہو مثلاً ۱۰۰ روپیہ پھر چاندی کے زیور کی قیمت فروخت پچاس روپے ہے تو اس قیمت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا بلکہ اس کی زکوٰۃ چاندی کے وزن کے موافق سو روپیہ بھر چاندی کے زیور میں اڑھائی روپیہ بھر ( ڈھائی تولہ) چاندی دینی چاہئے خواہ زیور وغیرہ سے دے یا چاندی کی ڈلی دے یا چاندی کا روپیہ اگر رائج ہو وہ دے یا اڑھائی تولہ چاندی کی قیمت بازار کے نرخ سے دے یا مثلاً اگر چاندی کا لوٹہ وغیرہ کوئی برتن ہو جس کا وزن دو سو درہم ہو اور بنوائی کی اجرت لگا کر اس کی قیمت تینسو درہم ہے تو اگر اس کی زکوٰۃ چاندی میں دے تو اس کی زکوٰۃ پانچ درہم ہو گی لیکن اگر زکوٰۃ میں اس سے دوسری جنس دے تو بالاجماع قیمت کا اعتبار ہو گا مثلاً اگر بناوٹ کے اعتبار سے اس چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو بناوٹ کی قیمتسمیت جو کل قیمت ہو گی اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ واجب ہو گی
مثال مذکورہ بالا میں چاندی کے برتن کی قیمت بناوٹ کے اعتبار سے تین سو درہم ہے تو غیر جنس کی زکوٰۃ ادا کرنے میں اس کی عمدگی و بناوٹ کی قیمت لگائی جائے گی اور اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات درہم کا سونا وغیرہ دوسری جنس دینی چاہئے اگر صرف پانچ درہم دئے ہوں گے تو وہ قدر مستحق سے واقع ہو جائیں اور باقی اڑھائی درہم کا سونا وغیرہ اور دینا ہو گا وجوب کے حق میں وزن کا اعتبار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وزن کے اعتبار سے نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں اور بالاجماع اس میں قیمت اور تعداد کا اعتبار نہیں ہو گا مثلاً اگر کسی کے پاس سونے یا چاندی کا برتن ہو جس کا وزن دس مثقال یا سو درہم کے برابر ہو اور اس کی قیمت بناوٹ کے اعتبار سے پیس مثقال یا دو سو درہم ہے یا چاندی کے کسی برتن کا وزن ڈیڑھ سو درہم ہو اور اس کی قیمت دو سو درہم ہے تو ان میں کچھ زکوٰۃ واجب نہیں ہے اسی طرح اگر گنتی میں دو سو درہم پورے ہوں اور وزن میں کم ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں اگرچہ وہ کمی تھوڑی ہی ہو
۳. اگر سونا اور چاندی میں کھوٹ ملا ہوا ہو تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر چاندی میں کھوٹ ملا ہوا ہو اور چاندی غالب ہو تو وہ چاندی کے حکم میں ہے اور سونے میں کھوٹ ملا ہوا ہو اور سونا غالب ہو تو سونے کے حکم میں ہے اور اگر ان دونوں میں ملا ہوا کھوٹ غالب ہو تو یہ دونوں اسباب تجارت کی مانند ہیں پس اگر ان میں تجارت کی نیت کی ہو تو قیمت کے لحاظ سے زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر تجارت کی نیت نہ کی ہو تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی درہموں اور روپیوں میں کھوٹ ملا ہوا ہو تو اگر چاندی غالب ہے تو وہ خالص درہموں اور روپیوں یعنی چاندی کے حکم میں ہیں ، اور اگر کھوٹ اور چاندی برابر برابر ہوں تب بھی مختار یہ ہے کہ زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر کھوٹ غالب ہو تو وہ چاندی کے حکم میں نہیں ہے پس اگر وہ سکہ رائج الوقت ہیں یا سکہ تو اب نہیں ر ہے لیکن ان میں تجارت کی نیت کی ہو تو ان کی قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ دی جائے گی، اور اگر ان درہموں کا رواج نہیں رہا ہو تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں لیکن اگر بہت ہوں اور ملاوٹ سے چاندی الگ ہو سکتی ہو اور ان میں اتنی چاندی ہو کہ دو سو درہم کی مقدار ہو جائے یا کسی دوسرے مال، چاندی سونا یا اسبابتجارت کے ساتھ مل کر نصاب ہو جائے تب بھی زکوٰۃ واجب ہو گی، اور اگر چاندی اس سے جدا نہ ہو سکتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے کھوٹے درہموں میں جو اس وقت سکہ رائج ہوں ہر حال میں زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ ان میں چاندی مغلوب ہی ہو اور الگ نہ ہو سکتی ہو اور خواہ ان میں تجارت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو کیونکہ ان میں نیت تجارت کا ہونا شرط نہیں ہے ملاوٹ کے سونے کا بھی وہی حکم ہے جو ملاوٹ کی چاندی کا بیان ہوا ہے ، اور اگر سونا اور چاندی آپس میں ملے ہوئے ہوں تو اگر چاندی مغلوب ہو اور سونا غالب ہو خواہ وزن کے اعتبار سے غالب ہو یا قیمت کے اعتبار سے تو وہ سونے کے حکم میں ہے اور اگر چاندی غالب ہو لیکن سونا اپنے نصاب کو پہنچ جائے تب بھی وہ کل سونے کے حکم میں ہے اور اس کل میں سونے کی زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر سونا نصاب کو نہ پہنچے لیکن چاندی نصاب کو پہنچ جائے تو کل میں چاندی کی زکوٰۃ واجب ہو گی، اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ مخلوط سونا قیمت میں چاندیسے کم ہو ورنہ کل میں سونے کی زکوٰۃ واجب ہو گی جاننا چاہئے کہ سونا اور چاندی کے مخلوط ہونے کی بارہ صورتیں مرتب ہوئیں یعنی سونا غالب ہو اورسونا اور چاندی بقدرِ نصاب ہوں ، یا سونا غالب ہو اور فقط سونا بقدر نصاب ہو،یا چاندی غالب ہو اور ہر ایک بقدرِ نصاب ہو، یا چاندی غالب ہو اور فقط سونابقدرِ نصاب ہو یا دونوں برابر ہوں اور ہر ایک بقدرِ نصاب ہو، یا دونوں برابر ہوں اور فقط سونا بقدرِ نصاب ہو ( ان چھ صورتوں میں حکم سونے کا ہو گا اورسونے ہی کی زکوٰۃ واجب ہو گی) یا چاندی غالب ہو اور فقط چاندی بقدرِ نصاب ہو(ان صورت میں حکم چاندی کا ہو گا اور چاندی کی زکوٰۃ واجب ہو گی)، یا سوناغالب ہو اور دونوں میں سے کوئی بقدرِ نصاب نہ ہو، یا چاندی غالب ہو اور دونوں میں سے کوئی بقدرِ نصاب نہ ہو، یا دونوں برابر ہوں اور بقدرِ نصاب نصاب نہ ہو ( ان صورتوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی یا سونا غالب ہو اور فقط چاندی بقدرِ نصاب ہو یا دونوں برابر ہوں اور فقط چاندی بقدرِ نصاب ہو( یہ دونوں صورتیں ناممکن ہیں کیونکہ سونا بہت قیمتی چیز ہے ) ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سونا یا چاندی سے الگ الگ نصاب پورا نہیں ہوتا لیکن دونوں کو ملا کر نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اس کا حکم جیسا کہ آگے آتا ہے یہ ہے کہ سونے کی زکوٰۃ واجب ہو گی
۴. امام صاحب کے نزدیک نصاب سے اوپر جو زیادتی ہو جب تک وہ نصاب کا پانچواں حصہ نہ ہو جائے معاف ہے اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں پس چاندی میں نصاب سے اوپر انتالیس درہم تک نہ ہو جائیں معاف ہے اور جب زیادتی چالیسدرہم ہو جائے تو ایک درہم اس کی زکوٰۃ میں دینا واجب ہے ، اسی طرح ہر چالیسدرہم میں ایک درہم زکوٰۃ واجب اور انتالیس تک معاف ہے سونے میں چار مثقال اور ہر چار مثقال کی زیادتی ہو جائے تو دو قیراط اس کی زکوٰۃ کے واجب ہوں گے اور ہر چار مثقال کی زیادتی پر دو قیراط زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گی، اگر سونے کے نصاب کی زیادتی اور چاندی کے نصاب کی زیادتی الگ الگ پانچوں حصہ سے کم ہو اور ملا کر پانچواں حصہ ہو جائے تو دونوں کو ملائیں گے صاحبین کے نزدیک نصاب پر زیادتی خواہ کم ہو یا زیادہ کل رقم پر زکوٰۃ واجب ہے اور کل رقم کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کیا جائے گا صاحبین کے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور فتویٰ کے لئے یہی مختار ہے جیسا کہ فتاویٰ دیوبند وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے
۵. تجارت کے مال کی قیمت سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ دی جائے گی اسی طرح سونے اور چاندی کو آپس میں قیمت کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ ادا کریں گے پس اگر کسی کے پاس کچھ چاندی کچھ سونا اور کچھ تجارت کا مال ہے اگر سب کو ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں اور ایک نقدی کا دوسرینقدی کے ساتھ قیمت کے ساتھ ملایا جانا امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے اور اقل کو اکثر کے ساتھ یا اکثر کو اقل کے ساتھ ملانے میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں بھی نصاب پورا ہو جائے گا زکوٰۃ واجب ہو جائے گی، اور صاحبین کے نزدیک اجزا کے اعتبار سے ملایا جائے گا اور یہ چاندی کو سونے میں یا سونے کو چاندی میں ملانا اس وقت واجب ہے جبکہ دونوں جنسیں موجود ہوں اور دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بقدرِ نصاب نہ ہو، پس اگر صرف ایک جنس موجود ہے مثلاً صرف سونا یا چاندی ہے تو قیمت کا اعتبار نہیں بلکہ وجوب اور ادا دونوں کے لئے وزن کا اعتبار ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا اسی طرح اگر دونوں میں سے ایک کا نصاب پورا ہو تو ملانا واجب نہیں ہے بلکہ ان میں سے ہر ایک کی زکوٰۃ علیحدہ علیحدہ دینا جائز ہے اور اگر ملا کر کسی ایک سے زکوٰۃ ادا کر دے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کے لئے واجب ہے کہ دونوں میں سے اس کے ساتھ قیمت لگائی جائے جس میں فقرا کو زیادہ فائدہ ہو وضاحت:کے لئے مندرجہ ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں
اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی میں سے ہر ایک نصاب سے کم ہے اگر ان دونوں کی قیمت ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے یاساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں ، اگر کسی کے پاس دو تولہ سونا اور پانچ روپے نقد سال بھر تک ر ہے اور اس زمانہ میں سونے کا بھاؤ پچاس روپے تولہ ہے اور چاندی ایک روپے کی ڈیڑھ تولہ ملتی ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ دو تولہ سونا پچاس روپے کا ہوا اور پچاس روپے کی چاندی پچھتر تولہ ہوئی پس دو تولہ سونے کی چاندی پچھتر تولے ملے گی اور پانچ روپے پہلے سے پاس ہیں اس لئے یہ رقم سے زائد ہو کر زکوٰۃ فرض ہو جائے گی
اگر کسی کے پاس تیس تولہ چاندی ہے اور ایک روپے کی دو تولہ چاندی ملتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ جب صرف چاندی یا صرف سونا پاس ہو تو وزن کا اعتبار ہے قیمت کا اعتبار نہیں ہے
مال تجارت کی زکوٰۃ کا بیان
۱. تجارتی مال خواہ کسی قسم کا ہو جب اس کی قیمت سونے چاندی کے نصاب کے برابر ہو گی اس میں زکوٰۃ واجب ہو جائے گی اور نقدی (سونا،چاندی اور اس کا سامان زیور برتن وغیرہ اور اس کے سکہ وغیرہ) کے علاوہ جو سامان تجارت کے لئے ہو وہ مال تجارت ہے تجارت کا مال وہ ہے جو تجارت ہی کے ارادہ سے خریدا گیا ہو لیکن اگر کسی نے گھر پر خرچ کے لئے یا شادی وغیرہ کے لئے مثلاً چاول خریدے پھر ارادہ ہو گیا کہ اس کو فروخت کر لیں تو وہ تجارت کا مال نہیں ہے اس لئے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے
۲. مال تجارت کی قیمت مروجہ سکوں سے لگائی جائے گی ان کے علاوہ کسیدوسری چیز سے نہیں لگائی جائے گی
۳. جب مالِ تجارت کی قیمت شروع سال میں ایسے دو سو درہموں کی برابر ہو جن میں چاندی غالب ہو تو اس کی زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے نصاب کی قیمت کاحساب سال پورا ہونے کے وقت لگایا جائے گا
۴. تجارتی مال میں اختیار ہے خواہ سونے کے سکے سے قیمت لگائی جائے یا چاندی کے سکہ سے لیکن اگر ان میں سے کسی ایک سے نصاب پورا ہو جاتا ہو اور دوسرے سے پورا نہ ہوتا ہو تو جس سے نصاب پورا ہوتا ہو اس سے ہی قیمت لگانا متعین و ضروری ہو جائے گا، اور یہ اس وقت ہے جبکہ دونوں سکے برابر چلتے ہوں ورنہ جو زیادہ رائج ہو گا اسی سے قیمت لگانا مقرر و متعین ہو جائے گا
۵. جس شہر میں مال موجود ہو اس شہر کے نرخ کے بموجب قیمت لگائی جائے گی اور اگر مال جنگل میں ہو تو اس شہر کی قیمت کا حساب لگایا جائے جو وہاں سے زیادہ قریب ہو یہی اولیٰ ہے
۶. اگر زکوٰۃ قیمت کے حساب سے دے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وجوب کے دن کی قیمت کا اعتبار ہے اور صاحبین کے نزدیک ادائگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہو گا، جیسا کہ چرنے والے جانوروں میں ہے لیکن اگر جنس کی ذات میں قیمت کی زیادتی ہو گئی مثلاً گندم کی رطوبت خشک ہو گئی جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی تو بالاجماع قیمت کا اعتبار اُسی زمانہ سے کیا جائے گا جب زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اور اگر ان کی ذات میں نقصان ہو گیا مثلاً گیہوں بھیگ گئے تو بالاجماع زکوٰۃ ادا کرتے وقت جو قیمت ہے اس کا اعتبار ہو گا۷. اگر تجارت کے مال مختلف جنس کے ہوں تو بعض کو بعض میں قیمت کے ساتھ ملائیں گے
۸. موتیوں میں اور یاقوت وغیرہ جواہرات میں زکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگر یہ تجارت کے لئے ہوں تو ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی اور نصابِ مشترک میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہے خواہ سائمہ ہو یا مالِ تجارت ہو نصابِ مشترک سے مراد یہ ہے کہ الگ الگ ہر شخص کا مال زکوٰۃ کے لائق نہ ہو لیکن جب دونوں کا مال ملا لیں تو نصاب پورا ہو جاتا ہو
۹. اگر کسی شخص نے کانسی پیتل کی دیگچیاں خریدیں اور وہ ان کو کرایہ پر چلاتا ہے تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ ان کے گھروں پر زکوٰۃ نہیں ہے جن کو وہ کرایہ پر چلاتا ہے اسی طرح اگر کسی نے غلہ بھرنے کے لئے باردانہ (بوری گونیں وغیرہ) اس لئے خریدیں کہ ان کو کرایہ پر چلائے گا تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ یہ تجارت کے لئے نہیں ہیں
۱۰. اگر کسی کی زمین میں سے گیہوں حاصل ہوئے جن کی قیمت بقدرِ نصاب ہو اور اس نے یہ نیت کی کہ ان کو روکے گا یا بیچے گا پھر ان کو ایک سال تک روکا تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی
۱۱. اگر جانوروں کا سوداگر خرید و فروخت کے جانوروں کے گلے میں ڈالنے کے لئے گھونگھرو یا باگ ڈوریں یا منھ پر ڈالنے کے برقعے و جھول وغیرہ خریدے تو اگر یہ چیز اُن جانوروں کے ساتھ بیچنے کی ہیں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر جانوروں کی حفاظت کے لئے ہیں تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی، اسیطرح عطّار شیشیاں خریدے تو اس کا بھی یہی حکم ہے
۱۲. تجارت کے مال کی زکوٰۃ خواہ اس کی قیمت لگا کر چالیسواں حصہ ادا کر دی جائے یا اسی مال میں سے چالیسواں حصہ مالِ زکوٰۃ دے دیا جائے یا کسیدوسری جنس سے اس کی قیمت کی برابر مال دے دیا جائے تینوں طرح جائز ہیں
زکوٰۃ متفرق مسائل
۱. اگر کسی شخص کو زکوٰۃ کے ادا کرنے میں شک ہوا اور یہ معلوم نہ ہو کہ زکوٰۃ دی ہے یا نہیں دی تو احتیاطاً دوبارہ زکوٰۃ دے ، اسی طرح اگر کوئی شخص متفرق طور پر زکوٰۃ ادا کرتا رہا اور اس کو یاد و حساب میں نہیں رکھا تواس کو چاہئے کہ اٹکل کرے کہ کس قدر ادا کر چکا ہے جس قدر اس کے گمان غالب میں آئے کہ ادا کر دی ہے اس قدر اس کے ذمہ سے ادا ہو گئی باقی ادا کرے اور اگر گمان غالب میں کچھ بھی نہ آئے تو کُل ادا کرے
۲. اگر جانوروں میں دو شخص شریک ہوں تو اگر ہر ایک کا حصہ بقدرِ نصاب ہو تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ واجب نہ ہو گی، اور اگر ایک کا حصہ بقدرِ نصاب ہو اور دوسرے کا بقدرِ نصاب نہ ہو تو جس کا حصہ بقدرِ نصاب ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی دوسرے پر واجب نہیں ہو گی
۳. اگر باغی لوگ بادشاہِ اسلام (خلیفہ) سے باغی ہو کر خراج اور چرنے والے جانوروں کا صدقہ لوگوں سے وصول کر لیں تو ان سے دوبارہ نہیں لیا جائے گا۴. زکوٰۃ کفارات، صدقہ فطر، عشر اور نذر میں قیمت کا دینا جائز ہے پس اگرکسی شخص کے پاس مثلاً دو سو قفیر (ایک پیمانہ کا نام) گندم ہوں جن کی قیمت دوسو درہم ہوتی ہے تو اس کے مالک کو اختیار ہے چا ہے انہی گیہوں میں سے پانچ قفیر گیہوں دے دے اور چاہئے ان کی قیمت پانچ درہم دے دے
۵. جانوروں کی زکوٰۃ میں اوسط درجہ کا جانور لیا جائے گا یعنی جس عمر کا جانور واجب ہوا ہے اس عمر کا درمیانی قیمت کا جانور لیا جائے گا اور اگراوسط درجہ کا جانور نہ ہو تو ادنی درجہ کا دے گا اور جس قدر قیمت کا جانور واجب ہوتا ہے اس کی کمی کی رقم بھی ادا کرے گا یا اعلی درجہ کا جانور دے گا اور قدر واجب سے زائد رقم واپس لے لے گا
۶. اگر کسی عورت نے چالیس سائمہ بکریوں کے مہر پر نکاح کیا اور بکریوں پر قبضہ کر لیا پھر ان پر ایک سال گزر گیا اس کے بعد دخول سے پہلے اس کے خاوند نے اس کو طلاق دے دی تو کیونکہ نصف مہر کی بکریاں خاوند کو واپسکرے گی اس لئے جو نصف بکریاں اس کے پاس رہیں گی ان کی زکوٰۃ دینی پڑے گی
۷. اگر کسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ ادا نہ کرتا ہو تو فقیر کو یہ حلال نہیں کہ بغیر اس کی اجازت کے اس کے مال میں سے لے لے اور اگر اسطرح فقیر نے لے لیا تو اگر وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے تو مال کے مالک کوواپس لینے کا اختیار ہے اور اگر خرچ ہو گیا تو فقیر اس کا ضامن ہو گا۸. اگر بادشاہ خراج یا کچھ مال ظلماً لے لے اور صاحب مال اس کے دینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت کرے تو اس کے ادا ہونے میں فقہا کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی
۹. کسی شخص نے دوسرے شخص کو زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے وکیل بنایا تو وکیل کو جائز و اختیار ہے کہ وہ خود کسی غریب کو دے دے یا کسی اور کے سپرد کر دے کہ تم یہ روپیہ زکوٰۃ میں دے دینا اور زکوٰۃ دینے والے کا نام بتانا بھی ضروری نہیں اگر وکیل وہ روپیہ کسی غریب رشتہ دار یا ماں باپ یا اپنی اولاد یا بیوی کو جبکہ یہ فقیر ہوں دے دے گا تو جائز ہے ، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ مالک نے کوئی تعین نہ کیا ہو ورنہ جائز نہیں ، اگر اس کا لڑکا نابالغ اور محتاج و فقیر ہو تو خود وکیل کا فقیر ہونا بھی ضروری ہے اس لئے کہ نابالغ اولاد اپنے باپ کے غنی ہونے سے غنی ہو جاتی ہے وکیل کو خود اپنے لئے زکوٰۃ کا روپیہ رکھ لینا جائز نہیں اگرچہ وہ فقیر ہو لیکن اگر زکوٰۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو وہ خود بھی لے سکتا ہے
۱۰. زکوٰۃ دینے والے نے وکیل کو روپیہ دیا، وکیل نے وہ روپیہ رکھ لیا اور اپنے مال میں سے اتنا روپیہ اس کی زکوٰۃ میں دے دیا تو اگر اس کی یہ نیت ہے کہ اس کے عوض میں وہ اپنے مؤکل کا روپیہ لے لے گا اور وہ روپیہ وکیل کے پاس موجود ہو تو یہ جائز و درست ہے اور اگر وکیل نے مؤکل کا وہ روپیہ پہلے اپنے کام میں خرچ کر لیا پھر اپنا روپیہ اس کی زکوٰۃ میں دیا اس نے اپنے روپیوں کے عوض میں لینے کی نیت نہ کی ہو تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی بلکہ یہ تبرع (نفلی صدقہ) ہو گا اور موکل کی زکوٰۃ کی رقم کا تاوان دے گا۱۱. زکوٰۃ کے وکیل کو یہ اختیار ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسیدوسرے کو وکیل بنا دے
۱۲. عفو میں زکوٰۃ نہیں ہے اور عفو وہ تعداد ہے جو دو نصابوں کے درمیان ہو، سائمہ یعنی جنگل میں چرنے والے جانوروں میں ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک عفو ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک نقدی میں بھی ہوتی ہے یعنی امام صاحب کے نزدیک تمام قسم کے مالوں میں ہے اور صاحبین کے نزدیک عفو صرف سائمہ جانوروں میں ہوتی ہو نقدی میں نہیں لہذا امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر دو سو درہم پر زیادتی ہو تو جب تک چالیس درہم نہ ہو جائیں عفو(معاف) ہیں اس میں زیادتی پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور جب پورے چالیس درہم زائد ہو جائیں تو ایک درہم مزید لازم آئے گا یعنی چھ درہم دئے جائیں اسی طرح ہر چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گی اور اس سے کم پر کچھ لازم نہیں ہو گا اور صاحبین کے نزدیک دو سو درہم سے خواہ تھوڑا زیادہ ہو یا بہت وہ معاف نہیں ہے بلکہ کل مال کا چالیسواں حصہ لازم آتا و یہی احوط ہے اور فتوی کے لئے یہی مختار ہے فتاویٰ دار العلوم دیوبند وغیرہ سے یہی معلوم ہوتا ہو جیسا کہ سونے چاندی کی زکوٰۃ میں بھی بیان ہو چکا ہے
۱۳. اگر زکوٰۃ واجب ہو جانے یعنی سال پورا گزرنے کے بعد نصاب خود ہلاک ہو جائے مثلاً چوری ہو جائے یا وہ خیرات کر دے تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ ساقط ہو جاتی ہے خواہ نصاب سونے چاندی اور مال تجارت کا ہو یا سائمہ جانوروں کا ہو، اس لئے اگر زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد سارا مال ہلاک ہو گیا مثلاً چوری ہو گیا یا اس نے خود سارا مال خیرات کر دیا تو تمام مال کی زکوٰۃساقط ہو جائے گی اگر کچھ مال ہلاک ہو گیا تو حساب سے اس قدر مال کی زکوٰۃساقط ہو گی، مثلاً اگر کسی کے پاس دو سو درہم تھے ایک سال کے بعد اس میں سے ایک سو چوری ہو گئے یا اس نے خیرات کر دئے تو ان ایک سو درہم کی زکوٰۃ معاف ہو گئی صرف ایک سو درہم کی زکوٰۃ دینی پڑے گی اگر زکوٰۃ کی ادائگی میں بہت تاخیر کر دی یہاں تک کہ مال ہلاک ہو گیا تب بھی صحیح یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ ساقط ہو گئی عام فقہا کے نزدیک یہی حکم ہے ، اور اگر سال گزرنے کے بعد مال خود ہلاک نہیں ہوا بلکہ صاحب مال نے قصداً اس کو ہلاک کر دیا تواس سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی بلکہ دینی پڑے گی اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے قصداً ہلاک کر دیا تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ اس مال پر سال کا گزرنا نہیں پایا گیا اور اگر ایسا اس لئے کیا تاکہ اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے پائے مثلاًسائمہ کے نصاب کو کسی دوسرے نصاب سے بدل دیا یا سال پورا ہونے سے پہلے اپنی ملکیت سے نکال کر دوسرے شخص کی ملکیت میں دے دیا اور سال پورا ہونے کے بعد پھر اپنی ملکیت میں لے لیا تو امام ابو یوسف کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اس لئے کہ یہ وجوب کو روکنا ہے غیر کے حق کو باطل کرنا نہیں ہے اور یہی اصح ہے اور امام محمد کے نزدیک مکروہ ہے اس لئے کہ اس میں فقرا کے حق کو نقصان پہچانا ہے اور نتیجہ اس کے حق کو باطل کرنا ہے بعض فقہا نے کہا کہ زکوٰۃ کے بارے میں فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے اور یہ فیصلہ اچھا ہے اور مال کا خود قصداً ہلاک کر دینا یہ ہے کہ صاحبِ مال اپنے مالِ نصاب کو بغیر کسی ایسے بدل کے جو اس کا قائم مقام ہوتا ہو اپنی ملکیت سے خارج کر دے پس مالِ تجارت کا غیر مالِ تجارت سے بدلنا قصداً ہلاک کرنا ہے تجارت کے ایک مال کو دوسرے مالِ تجارت سے بدلنا ہلاک کرنا نہیں ہے یہ حکم بلا خلاف ہے خواہ اُسی جنس کے مال سے بدلے یا دوسری جنس کے مال سے بدلے اس لئے کہ دوسرا مال پہلے مال کا قائم مقام ہو جائے گا پس سونے چاندی کو آپس میں بدلنا یا مال تجارت سے بدلنا ہلاک کرنا نہیں ہے اور سائمہ کو فروخت کرنا یا بدلنا ہر حال میں قصداً ہلاک کرنا ہے خواہ سائمہ کو اس جنس کے سائمہسے تبدیل کیا ہو یا غیر جنس سائمہ سے بدلا ہو یا نقدی یا مال تجارت سے بدلا ہو، پس جب تبدیل کیا ہوا سائمہ وغیرہ خود ہلاک ہو گیا تو زکوٰۃ واجب ہو گی یہ حکم اس وقت ہے جب یہ استبدال سال گزرنے کے بعد کیا ہو لیکن اگر سال کے اندر اندر استبدال کر لیا ہو تو جب تک اس تبدیل شدہ پر نئے سرے سے سال نہیں گزر جائے گا زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی
اگر کسی نے سائمہ کا گھانس یا پانی نہیں دیا اور باندھ رکھا یہاں تک کہ ہلاک ہو گیا تو اس میں فقہا کا اختلاف ہے ، راجح قول یہ ہے کہ یہ خود ہلاک کرنا ہے اور وہ شخص زکوٰۃ کا ضمان دے گا
مالدار مقروض کو قرضہ سے بری کر دینا بھی مال کو خود ہلاک کر دینا ہے لیکن تنگدست مقروض کو قرضہ معاف کر دینا خود ہلاک کر دینا نہیں ہے بلکہ مال کا خود ہلاک ہو جانا ہے
عاشر کا بیان
۱. عاشر اُس کو کہتے ہیں جسے بادشاہِ اسلام نے راستہ پر اِس لئے مقرر کیا ہو کہ جو تاجر لوگ مال لے کر گزریں ان سے صدقات وصول کرے اور وہ اس لئے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کے عوض میں تاجروں کو چوروں اور ڈاکوؤں سے بچائے اور امن دے پس اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کی حفاظت پر قادر ہو اس لئے بادشاہ ان سے جو مال لیتا ہے وہ ان اموال کی حفاظت کے لئے لیتا ہے
۲. عاشر کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ آزاد، مسلمان اور غیر ہاشمی ہو پسعاشر کا غلام اور کافر ہونا درست نہیں ہے ، اور ہاشمی کے لئے اگر بادشاہ بیتِ المال سے کچھ مقرر کر دے یا ہاشمی تبرع کے طور پر اس خدمت کو انجام دے اور اس کا معاوضہ عشر و زکوٰۃ سے نہ لے تو اس کو مقرر کرنا جائز ہے
۳. مال دو قسم کا ہوتا ہے اول ظاہر اور وہ مویشی ہیں اور وہ مال ہے جسکو تاجر لے کر عاشر کے پاس سے گزرے دوم اموالِ باطن ہیں وہ سونا چاندی اور تجارت کا وہ مال ہے جو آبادی میں اپنی جگہوں میں ہو عاشر اموال ظاہر کا صدقہ لیتا اور ان اموالِ باطن کا صدقہ بھی لیتا ہے جو تاجر کو ساتھ ہوں
۴. صدقہ وصول کرنے کی ولایت کے لئے کچھ شرطیں ہیں اول یہ کہ بادشاہِاسلام کی طرف سے چوروں اور ڈاکوؤں سے حفاظت پائی جائے ، دوم یہ کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، سوم مال کا ظاہر ہونا اور مالک کا موجود ہونا پس اگر مالک موجود ہے اور مال گھر میں ہے تو عاشر اس سے زکوٰۃ نہیں لے گا۵. شرع میں عاشر کا مقرر کرنا جائز و درست ہے حدیث شریف میں جو عاشر کی مذمت آئی ہے وہ اس عاشر کے متعلق ہے جو لوگوں کے مال ظلم سے لیتا ہے
۶. اگر کوئی شخص یہ ک ہے کہ اس کے مال کو سال پورا نہیں ہوا، یا یہ ک ہے کہ اس کے ذمہ قرضہ ہے یا یہ ک ہے کہ میں نے زکوٰۃ دے دی ہے ، یا یہ ک ہے کہ میں نے دوسرے عاشر کو دے دی ہے اور جس کو وہ دینا بتاتا ہے وہ واقعی عاشر ہے ، اگر وہ ان تمام صورتوں میں اپنے بیان پر حلف اٹھائے تو اس کا قول مان لیا جائے گا اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ دوسرے عاشر کی رسیددکھائے ، اگر سائمہ جانوروں کے متعلق بیان کرے کہ ان کی زکوٰۃ اس نے اپنے شہر کے فقیروں کو دے دی ہے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا بلکہ اس سے دوبارہ وصول کی جائے گی خواہ بادشاہِ اسلام کو اس کی ادائگی کا علم بھی ہو کیونکہ یہ اموالِ ظاہرہ میں سے ہے جس کی زکوٰۃ لینے کا حق بادشاہ ہی کو ہے اس کو خود تقسیم کر دینے کا اختیار نہیں ہے اگر صاحبِ مال یہ ک ہے کہ یہ مالِ تجارت کا نہیں ہو تو اس کا قول مان جائے گا
۷. جن امور میں مسلمانوں کا قول مانا جاتا ہے ذمی کافر کا قول بھی مانا جائے گا کیونکہ اس کے مال میں بھی وہ تمام شرطیں پائی جانی ضروری ہیں جو زکوٰۃ میں ہیں اور اس سے زکوٰۃ کا ہی دو چند لیا جاتا ہے لیکن ذمی کافر اگر یہ ک ہے کہ میں نے فقرا کو دے دیا ہے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا اس لئے کہ اہل ذمہ کے فقرا اس کا مصرف نہیں ہیں اور مسلمانوں میں صرف کرنے کا اس کو اختیار نہیں ہے
۸. کافر حربی کا قول کسی بات میں نہیں مانا جائے گا اور اس سے عشر لیا جائے گا لیکن اگر وہ باندیوں کو اُم ولد اور غلاموں کو اپنی اولاد بتائے تو اس کا قول مانا جائے گا کیونکہ نسب جس طرح دار الاسلام میں ثابت ہوتا ہے دار الحرب میں بھی ثابت ہوتا ہے اور بیٹے کی ماں ہونا نسب کے تابع ہے اس صورت میں باندی اور غلام مال نہ رہیں گے
۹. عاشر مسلمانوں سے مال کا چالیسواں حصہ لے گا اور ذمی کافروں سے مسلمانوں کی نسبت دوگنا یعنی بیسواں حصہ لے گا اور حربی کافروں سے دسواں حصہ لے گا بشرطیکہ ان تینوں میں سے ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہو اور کافر بھی مسلمانوں سے خراج لیتے ہیں ذمی و حربی کافروں سے جو کچھ لیا جائے گا وہ جزیہ کے مصارف میں صرف کیا جائے گا، اگر حربی کافر ہمارے تاجروں سے کم و بیش لیتے ہوں تو ان سے بھی اس قدر لیا جائے اور اگر وہ کچھ نہ لیتے ہوں تو ہم بھی کچھ نہ لیں گے ، اگر مسلمانوں کا سارا مال لیتے ہوں تو ان کا بھی سارامال لیا جائے گا لیکن اس قدر چھوڑ دیا جائے گا کہ جس سے وہ اپنے ملک میں واپس پہنچ جائیں ، اور اگر وہ ان کا لینا یا نہ لینا معلوم نہ ہو تو ان سے عشر مذکورہ یعنی دسواں حصہ ہی لیا جائے گا
۱۰. اگر کوئی شخص باغیوں کے عاشر کے پاس سے گزرا اور اس نے عشر لے لیا پھر وہ شخص بادشاہ کے عاشر کے پاس سے گزرا تو اس سے دوبارہ عشر لیا جائے گا کیونکہ باغیوں کے عاشر کے پاس جانا اس کا قصور ہے لیکن بادشاہ کے باغی لوگ کسی شہر پر غالب ہو جائیں اور وہاں کے لوگوں سے چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ لیں لیں یا مال والا شخص اُن کے پاس سے گزرنے پر مجبور ہو اور وہ اس سے عشر وصول کر لیں تو اب اس شخص یا ان لوگوں پر کچھ واجب نہیں ہو گا کیونکہ بادشاہ نے ان کی حفاظت نہیں کی اور بادشاہ جو مال لیتا ہے ان کی حفاظت کی وجہ سے لیتا ہے پس قصور اُس کا ہے نہ کہ مال والوں کا اہل حرب کے غالب آنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے جو باغیوں کا بیان ہوا ہے
۱۱. امانت کے مال میں سے عشر نہیں لیا جائے گا اور اسی طرح مالِ مضاربت میں بھی عشر نہیں لیا جائے گا، ماذون غلام کی کمائی میں بھی یہی حکم ہے کہ عشر نہیں لیا جائے گا لیکن ماذون غلام کا آقا اس کے ساتھ ہو تو اس سے عشر لیا جائے گا
۱۲. اگر کوئی شخص عاشر کے پاس سے ایسی چیز لے کر گزرا جو بہت جلد خراب ہو جاتی ہے مثلاً سبزیاں ، دودھ، کھجوریں ، تازہ پھل وغیرہ تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے عشر نہیں لیں گے اور صاحبین کے نزدیک عشر لیں گے ، لیکن اگر عامل کے ساتھ فقراء ہوں یا اپنے عملہ کے لئے لے لیا تو امام صاحب کے نزدیک یہ بھی جائز ہے اور اگر مالک عشر میں قیمت دے دے تو بھی بالاتفاق لے لینا جائز ہے
کان اور دفینہ کا بیان
۱. کان (معدن) اور دفینہ میں خمس لیا جائے گا
۲. کان سے جو چیزیں نکلتی ہیں تین قسم کی ہیں : اول جو آگ میں پگھل جاتی ہیں ،دوم مائعات یعنی بہنے والی چیزیں ، سوم جو نہ پگھلتی ہیں اور نہ بہنے والی ہیں پہلی قسم کی چیزوں میں خُمس یعنی پانچوں حصہ واجب ہے اور وہ چیزیں یہ ہیں : سونا، چاندی، لوہا، رانگ، تانبا اور کانسی وغیرہ پارہ میں بھی خُم سواجب ہے یہی صحیح ہے دوسری اور تیسری قسم کی چیزوں میں خمس واجب نہیں ہے ، بہنے والی چیزوں کی مثال پانی اور تیل وغیرہ ہیں اور وہ چیزیں جو نہ پگھلتی ہیں نہ بہتی ہیں ان کی مثال چونا، گچ، جواہرات مثلاً یاقوت، زمرد، فیروزہ،موتی، سرمہ اور پھٹکڑی وغیرہ ہیں پس ان دونوں قسموں میں کوئی خمس نہیں لیا جائے گا
۳. کان یا دفینہ عشری زمین میں نکلے یا خراجی زمین میں ہر حال میں اس میں خمس واجب ہو گا
۴. اگر کسی کے گھر یا اس کی دکان میں کان نکل آئی تو خمس واجب ہونے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس میں خمس واجب نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک خمس واجب ہے اور باقی چار حصہ بالاتفاق مالک مکان کا ہو گا مملوکہ زمین کی کان میں امام ابوحنیفہ سے دو روایتیں ہیں کتاب الاصل کی روایت میں مملوکہ زمین اور گھر میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی امام صاحب کے نزدیک ان میں کچھ واجب نہیں ہے سب مالک کا ہے اور دوسری روایت میں جو جامع الصغیر کی ہے اس کے مطابق دونوں میں فرق ہے یعنی گھر (مکان و دکان ) میں کچھ لازم نہیں ہے اور مملوکہ زمین میں خمس واجب ہے بعض کے نزدیک اصل کی روایت کو ترجیع ہے اور بعض کے نزدیک جامع الصغیر کی روایت کو ترجیع ہے اورقیاسبھی اسی کا مقتضی ہے
۵. جاہلیت کے دفینے میں خمس لیا جائے گا دفینہ خواہ کسی قسم کا ہو، خواہ وہ زمین کی جنس سے ہو لیکن قیمت والا ہو ہر حال میں خمس لیا جائے گا پسمادنیات کی تینوں قسموں میں سے جو چیز بھی زمین میں مدفون پائی جائے اگر وہ زمانہ جاہلیت کا یعنی غیر مسلموں کا دفینہ ہے تو اس میں خمس واجب ہے کیونکہ وہ بمنزلہ غنیمت کے ہے جو کہ کفار کے قبضہ میں تھی پھر ہمارے قبضے میں آ گئی اور دفینہ نقدی و غیر نقدی مثلاً ہتھیار، آلات، گھر کا سامان،نگینے اور کپڑے وغیرہ سب کو شامل ہے اہل اسلام کے دفینوں میں خمس نہیں ہے ان کا حکم لقتہ کا ہے جس کا حکم یہ ہے کہ مسجد کے دروازوں پر اور بازاروں میں اتنے دن تک اعلان کیا جائے کہ گمان غالب ہو جائے کہ اب اس کا مالک نہیں ملے گا پھر اگر خود فقیر ہے تو اپنے صرف میں لائے ورنہ کسیدوسرے فقیر کو دے دے لیکن جب بھی اس کا مالک تلاش کرتا ہوا آئے تو یہ اس کو ضمان دے گا دفینہ علامات سے معلوم کیا جائے گا کہ اہل اسلام کا ہے یا غیرمسلموں کا ہے پس اگر اس میں اہل اسلام کا سکہ ہے مثلاً اس پر کلمہ شہادت ہے یا کوئی اور ایسا نقش ہے جو مسلمانوں کی نشانی ہے تو وہ لقطہ ہے اور اگر اس میں جاہلیت کے سکے ہیں مثلاً درہموں پر صلیب یا بت کی تصویر بنی ہوئی ہے یا ان کے مشہور بادشاہوں کا نام وغیرہ منقوش ہے تو وہ مدن (کان)کے حکم میں ہے اور اس میں خمس ہے ، اگر کوئی علامت نہ ہو اور شبہ پڑ جائے تو اس میں اختلاف ہے ظاہر مذہب کے بموجب وہ جاہلیت کے زمانے کاہی سمجھا جائے گا کفار کے درہم مسلمانوں کے درہموں میں مخلوط ہونے کی صورت میں جیسا کہ ہمارے زمانے میں رواج ہے بلاخلاف اسلامی ہی ہونے چاہئیں کان یا دفینہ کا پانے والا خواہ بالغ ہو یا نابالغ عورت ہو یا مرد آزاد ہو یا غلام مسلمان ہو یا ذمی سب اس حکم میں برابر ہیں
۶. اگر دفینہ مملوکہ زمین میں ملے تو سب فقہ کا اتفاق ہے کہ اس میں پانچوں حصہ دینا واجب ہے اور چار حصے جو باقی ر ہے ان میں اختلاف ہے امام ابویوسف کے نزدیک باقی سب پانے والے کے لئے ہے جیسا کہ غیر مملوکہ زمین کے دفینہ کا حکم ہے اور اسی پر فتوی ہے
۷. کان اور دفینہ اگر دار الحرب میں ملے تو اس میں خمس نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ کل پانے والے کا ہو گا اگر دار الحرب میں مسلمانوں کی ایک شوکت و طاقت والی جماعت داخل ہو اور ان کا کچھ خزانہ یا مدن ان کو دستیاب ہو جائے تو اس میں خمس واجب ہو گا کیونکہ وہ غنیمت ہے اس لئے کہ وہ غلبہ اور قہر سے حاصل ہوا ہے
۸. دفینہ اور کان پانے والے کے لئے جائز ہے کہ خمس اپنی ذات پر اور اپنی اصل یعنی ماں باپ پر یا فرع یعنی اولاد پر اور اجنبی پر صرف کرے بشرطیکہ یہ محتاج ہوں یعنی اس کو اموال باطنہ کی زکوٰۃ کی طرح اس خمس کو فقرا پر خرچ کر دینے کا اختیار حاصل ہے پھر اگر وہ بادشاہ کو اطلاع دے تو بادشاہ کو چاہئے کہ اس کے کئے ہوئے کو قبول کر لے
عشر یعنی کھیتی اور پھلوں کی زکوٰۃ کا بیان
۱. عشر یعنی کھیتی یا پھلوں کی زکوٰۃ فرض ہے اور اس کی فرضیت کا حکم بھی زکوٰۃ کی طرح ہے یعنی فرض ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا واجب ہے اور تاخیر کرنے سے گناہگار ہو گا
۲. اس کے واجب ہونے کی شرطیں یہ ہیں اول مسلمان ہونا دوم اس کی فرضیت کا علم ہونا، عاقل و بلوغ وجوبِ عشر کے لئے شرط نہیں ہے اس لئے لڑکے اور مجنون کی زمین میں بھی عشر واجب ہوتا ہے ، اسی طرح جس شخص پر عشر واجب ہو چکا ہے اگر وہ مر جائے اور اناج موجود ہو تو اس میں سے عشر لیا جائے گا لیکن زکوٰۃ کا یہ حکم نہیں ہے اسی طرح زمین کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے پس وقف کی زمین اور غلامِ ماذون و مکاتب کی زمین میں بھی عشر واجب ہے سوم وہ زمین عشری ہو پس جو پیداوار خراجی زمین سے حاصل ہواس میں عشر واجب نہیں ہو گا چہارم وہ پیدا وار اس قسم کی ہو جس کی زرائتسے زمین کا فائدہ و ترقی مقصود ہوتی ہو، پس جس پیداوار سے زمین کی آمدنی لینا یا زمین کو فائدہ مند بنانا غالب مقصود نہ ہو اس میں عشر واجب نہیں ہے مثلاً لکڑی ( ایندھن) گھانس، نرکل، چھاؤ اور کھجور کے پتوں میں عشر واجب نہیں ہو گا گیہوں ، چنا، چاول، ہر قسم کا غلہ ساگ، ترکاریاں ، سبزیاں ، پھل، پھول،ککڑی، خربوزہ، کھجوریں ، گنّا، زیرہ، کھیرا، شہد وغیرہ پر عشر واجب ہو گا،عشری زمین یا جنگل اور پہاڑوں سے جو شہد حاصل کیا جائے اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک اس میں عشر واجب ہو گا اسی پر فتویٰ ہے جیسا کہ کتب فتاویٰ سے ظاہر ہے اسی طرح جو پھل ایسے درختوں سے جمع کئے جائیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں مثلاً جنگل اور پہاڑوں کے درخت تو ان میں بھی یہی اختلاف ہے کہ طرفین کے نزدیک عشر واجب ہے درختوں پر عشر واجب نہیں ہے وہ بمنزلہ زمین کے ہیں کیونکہ وہ زمین کے تابی ہیں اور زمین کے ساتھ بکتے ہیں اسی طرح گوند رال، لاک وغیرہ اور دواؤں ہلیلہ، کندر،اجوائن، کلونجی، خطمی وغیرہ پر بھی عشر واجب نہیں ہوتا لیکن اگر زمین کو انہی چیزوں میں لگا دے گا تو عشر واجب ہو گا، کپاس بھی پھل میں داخل ہے اوراس میں عشر ہے اگر گھانس دانہ بننے سے پہلے کاٹ لی جائے تو اس میں عشر واجب ہو گا، ساگ و سبزیات کے بیجوں میں عشر نہیں ہے اگر کسی نے گھر کے صحن وغیرہ میں کوئی پھلدار درخت لگائے اور ان میں پھل آیا، یا اناج و سبزیوغیرہ کچھ بویا تو اس گھر کے باغ یا کھیت کی پیداوار میں عشر واجب نہیں ہو گا کیونکہ وہ گھر کے تابع ہے
۳. پیداوار میں عشر واجب ہونے کے لئے کوئی مقدارِ نصاب مقرر نہیں ہے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ سب میں عشر واجب ہوتا ہے بشرطیکہ کم از کم ایک صاع ہو اور اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ وہ چیزیں تمام سال تک باقی رہیں پس سبزیات وغیرہ میں بھی عشر واجب ہے اور عشر واجب ہونے کے لئے پوراسال گزارنا بھی شرط نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت میں زمین کی پیداوار میں ہے اور اس لئے پیداوار سال میں کئی بار حاصل ہو تو ہر بار عشر واجب ہو گا
۴. اگر زمین ایسی ہو جس کو بارش کے پانی نے سیراب کیا ہو یا ندی، نالوں اور نہروں کے جاری پانی سے بغیر آلات کے سیراب ہوئی ہو تو اس میں عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے ، اور اگر چرس یا رہٹ وغیرہ آلات کے ذریعہ پانی دیا ہو، یا پانی مول لے کر سیراب کیا ہو تو اُس زمین کی پیداوار میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے اگر سال کا کچھ حصہ ندی نالوں وغیرہ سے پانی دیا اور کچھ آلات یعنی چرس اور رہٹ وغیرہ سے دیا تو سال کے نصف سے زیادہ حصہ میں جس طرح پانی دیا جائے گا اس کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر دونوں طرح برابر پانی دیا ہو تو بیسواں حصہ واجب ہے کھیتی کے اخراجات مثلاً کام کرنے والوں کی مزدوری بیلوں وغیرہ کا خرچہ، نہروں کی کھدائی، محافظ کی اجرت اور بیج وغیرہ اس میں سے وضع نہیں کئے جائیں گے بلکہ ان کو منہا کئے بغیر کا آمدنی میں سے دسواں یا بیسواں حصہ لیا جائے گا
۵. خراجی پانی وہ ہے جن پر پہلے کفار کا قبضہ تھا پھر مسلمانوں نے ان سے زبردستی لے لیا ہو اس کے علاوہ سب پانی عشری ہیں ، دریاؤں اور بارشوں کا پانی تو عشری ہے ہی کنوئیں اور چشمے وغیرہ جن کو اسلام کے غلبہ کے بعدمسلمانوں نے بنایا ہو یا جن کا کچھ حال معلوم نہ ہو وہ سب اسلامی ہوں گے اور ان کا پانی عشری ہو گا
۶. اگر کسی شخص نے عشری زمین اجارہ پر دی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک عشر مالک پر واجب ہو گا اور صاحبین کے نزدیک مستاجر پر واجب ہو گا بعض کے نزدیک صاحبین کے قول پر فتویٰ ہے اور متاخرین کی ایک جماعت نے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیا ہے پس اگر مالک زمین کی پوری اجرت لیتا ہو اورمستاجر کے پاس بہت کم بچے تو امام صاحب کے قول پر فتوی دیا جائے گا اور عشر مالکِ زمین سے لیا جائے اور اگر مالک کم اجرت لے اور مستاجر کے پاس زیادہ بچے تو فتویٰ صاحبین کے قول پر دیا جائے اور عشر مستاجر سے لیا جائے واللہ عالم بالصواب
۷. اگر کسی مسلمان نے زمین مانگ کر زراعت کی تو زمین مانگ کر لینے والے پر عشر واجب ہو گا اور اگر کافر کو زمین مانگی ہوئی دی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک مالکِ زمین پر عشر واجب ہو گا اور صاحبین کے نزدیک اس کافر پر عشر واجب ہے امام صاحب سے بھی ایک روایت میں اسی طرح ہے لیکن امام محمد کے نزدیک ایک عشر واجب ہو گا اور امام ابویوسف کے نزدیک دو عشر واجب ہوں گے ۸. اگر زمین مزارعت( کھیتی کی شرکت) پر دی تو صاحبین کے قول کے بموجب کاشتکار اور زمیندار دونوں پر اپنے اپنے حصہ کے مطابق عشر واجب ہو گا اسی پر فتویٰ ہے
۹. اگر عشری زمین کو کوئی شخص غصب کر کے اس میں کھیتی کرے ، پھراس میں زراعت سے کچھ نقصان نہ ہو تو زمین کے مالک پر عشر واجب نہ ہو گا بلکہ غاصب پر واجب ہو گا اور اگر زراعت سے اس میں نقصان ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک زمین کے مالک پر عشر واجب ہو گا صاحبین کے نزدیک پیداوار میں ہے
۱۰. عشری زمین جس میں زراعت تھی اور وہ تیار ہو چکی تھی، اگر اس کو مالک نے مع زراعت کے فروخت یا فقط زراعت بیچی تو بیچنے والے پر عشر واجب ہو گا خریدار پر نہ ہو گا اور اگر زمین بیچی اور زراعت ابھی سبز تھی اگر خریدار نے اس کو اسی وقت جدا کر دیا تو عشر بیچنے والے پر ہو گا اور اگر پکنے تک اس کو رکھا تو عشر خریدار پر واجب ہو گا یعنی اگر صرف کھیتی بیچی اور وہ پک چکی ہے یا ابھی نہیں پکی لیکن خریدار نے مالک زمین کی اجازت سے پکنے تک بدستور رہنے دیا تو عشر خریدار پر ہے اور اگر زمین کھیتی کے بغیر بیچی اور اس کو خریدار کے سپرد کر دیا اور فصل کے لئے تین مہینے ابھی باقی ہیں تو عشر خریدار پر ہے ورنہ بائع پر ہے ، اور اگر زمین کو کھیتی کے ساتھ بیچا اور وہ کھیتی ابھی کچی (سبز) ہے تو ہر حال میں خریدار پر عشر ہے ، اور اگر دانہ بن چکا تھا اور کھیتی پک چکی تھی تو عشر بائع پر ہے اور اگر خریدار نے کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دیا اور اس نے تیسرے کے ہاتھ بیچ دیا یہاں تک کہ زراعت کا وقت جاتا رہا تو عشر کسی پر لازم نہیں ہو گا
۱۱. جس زمین کا کوئی مالک نہ ہو یعنی سرکاری زمین ہو اور وہ حکومت کواس کا محصول دیتے ہوں تو ان پر عشر واجب نہیں ہے
۱۲. اگر عشری اناج کو بیچا تو صدقہ وصول کرنے والے کو اختیار ہے کہ خریدار سے اس کا عشر لے یا بائع سے لے
۱۳. عشر کے واجب ہونے کا وقت امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ ہے کہ جب کھیتی اُگ جائے اور پھل ظاہر ہو جائیں اور امام ابو یوسف کے نزدیک کھیتی یا پھل پکنے کے وقت ہے اور امام محمد کے نزدیک کاٹ کر اور روند کر دانے نکالنے کے وقت ہے ( امداد الفتاوی میں فتوی کے لئے امام ابو یوسف کا قول اختیار کیا گیا ہے ) اگر اپنی زمین کا عشر زراعت کرنے سے پہلے یا بیج بونے کے بعد اگنے سے پہلے ادا کر دیا تو جائز نہیں اور اگر بونے اور اگنے کے بعد ادا کیا تو جائز ہے اگر پھلوں کا عشر پھلوں کے ظاہر ہونے کے بعد دیا تو جائز ہے اور اگر پھلوں کے ظاہر ہونے سے پہلے دیا تو جائز نہیں ہے
۱۴. اگر عشر ادا کرنے سے پہلے اس کی پیداوار کھائے تو اس کے عشر کا ضمان دے گا عشر جدا کرنے کے بعد باقی مال کا کھانا حلال ہے ، اسی طرح اگر کل پیداوار کا عشر ادا کرنے کا ارادہ ہے تب بھی کھانا حلال ہے اور اگر دستورکے موافق تھوڑا سے کھا لے تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے
۱۵. اگر فصل کٹنے کے بعد اس کے فعل کے بغیر کچھ پیداوار تلف یا چوری ہو گئی تو جس قدر باقی ہے اس میں عشر واجب ہو گا ضائع شدہ میں واجب نہیں ، اگر سب پیداوار ہلاک ہو جائے تو کل کا عشر ساقط ہو جائے گا، اگر مالک خود ہلاک کر دے تو عشر ضامن ہو گا اور وہ اس کے ذمہ قرض ہو جائے گا اور اگر مالک کے علاوہ کوئی اور شخص ہلاک کر دے تو مالک اس سے ضمان لے گا اور اس میں سے عشر ادا کرے گا
۱۶. مرتد ہونے سے عشر ساقط ہو جاتا ہے
۱۷. اگر مالک وصیت کئے بغیر مر جائے تب بھی عشر ساقط ہو جائے گا جبکہاس نے پیداوار کو خود تلف کر دیا ہو اور اگر کوئی شخص جس پر عشر تھا مرگیا اور اناج موجود ہے تو اس میں سے عشر لیا جائے گا بخلاف زکوٰۃ کے جیساکہ اوپر بیان ہوا
مصارف زکوٰۃ و عشر
مصارف مصرف کی جمع ہے ، شرع میں اس مسلمان کو کہتے ہیں جس کو زکوٰۃ دینا شریعت کے مطابق درست ہے جو مصارف زکوٰۃ کے ہیں وہی عشر، صدقہ فطر، کفارات، نذر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے بھی ہیں معدنیات اور دفینوں کے مصارف غنیمت کے مصارف کی مانند ہیں ، جن کی تفصیل کتب فقہ میں جہاد کے بیان میں ہے قرآن مجید میں زکوٰۃ کو آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک مصرف المولفتہ قلوبھم (کفار کی تالیف کے لئے دینا) بہ اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ساقط ہو چکا ہے اب سات مصارف باقی ہیں جن میں زکوٰۃ کا خرچ کرنا جائز ہے وہ یہ ہیں
۱. فقیر
۲. مسکین
۳. عامل
۴. رقاب (غلام)
۵. غارم ( قرضدار)
۶. فی سبیل اللّٰہ
۷. ابن السبیل ( مسافر)
ان سب کی مختصر وضاحت درج ذیل ہے :۱. فقیر فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس تھوڑا سا مال ہو یعنی بڑھنے والا اور قرضہ سے بچا ہوا ہونے کو باوجود نصاب کی مقدار سے کم ہو یا بقدر نصاب ہو لیکن بڑھنے والا نہ ہو، فقیر عالم کو زکوٰۃ دینا فقیر جاہل کو دینے سے افضل ہے
۲. مسکین مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور وہ اپنے کھانے کے لئے یا بدن ڈھاپنے کے لئے مانگنے کا محتاج ہو اور اس کے لئے سوال کرنا حلال ہو بخلاف فقیر کے کہ اس کو سوال کرنا حلال نہیں پس مسکین فقیر سے زیادہ تنگ حال ہوتا ہے
۳. عامل عامل وہ شخص ہے جس کو بادشاہِ اسلام نے صدقات و عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو اور یہ لفظ ساعی (باطنی اموال کی زکوٰۃ وصول کرنے والا) اور عاشر(ظاہری اموال کی زکوٰۃ وصول کرنے والا) دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ خود جا کر امام (بادشاہ) کو(یعنی اس کے مقررہ دفتر میں ) دے دے تو اس میں عامل کا کچھ حق نہیں ہے ، عامل کو اوسط درجہ کا خرچ دیا جائے عامل کو کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں اپنی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے اور امام کو لازم ہے کہ ایسے آدمی کو بھیجے جو اوسط خرچی پر راضی ہو عامل اگرچہ غنی ہو اس کے لئے زکوٰۃ و صدقات میں سے خرچ لینا جائز ہے ، اگر عامل کے پاسمال ہلاک ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو عامل کا حق ساقط ہو جائے گا اس کو نہیں ملے گا اور زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، عامل گر ہاشمی ہو تو اس کو زکوٰۃ وغیرہ صدقاتِ واجبہ میں سے لینا حلال نہیں ہے یعنی مکروہِ تحریمی ہے ، اگر اس کو دوسری جائز مد سے روزینہ دیا جائے اور وہ بلا اجرت تبرّعاً یہ کام کرے تو ہاشمی کو عامل مقرر کرنا جائز و درست ہے ، اگر صدقہ وصول کرنے والا شخص اپنے کام کا حق واجب ہونے سے پہلے لے لے تو جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے نہ لے
۴. رقاب(غلام) رقاب سے مراد مکاتب غلام ہے ، ان کو آزاد کرانے میں زکوٰۃ دے کر ان کی مدد کی جائے ، خواہ مکاتب کا مالک فقیر ہو یا غنی ہو یہی صحیح ہے ، ہاشمی کے مکاتب غلام کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ، مکاتب کو جو زکوٰۃ کی رق مدی جائے گی بعض کے نزدیک وہ اسی اپنے آزاد کرانے میں ہی صرف کرنے ہو گی اس کے علاوہ اور جگہ اس کا صرف کرنا جائز نہیں لیکن صحیح یہ ہے کہاس کو جائز ہے کہ جس چیز میں چا ہے خرچ کرے
۵. غارم (قرضدار) غارم کے معنی قرضدار کے ہیں ، جس کے ذمہ کسی کا قرض ہو اور اس کے پاس ادا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو اگر ایسا شخص غیر ہاشمی ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اگر کسی کے پاس ہزار روپے نقد موجود ہوں اور وہ ہزار روپے یا اس سے زائد کا مقروض بھی ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے جس شخص کا قرضہ لوگوں کے اوپر ہے اور وہ اس کو وصول کرنے پر ادر نہیں ہے اور اس کے پاس اور کچھ بقدرِ نصاب نہیں ہے تویہ شخص غارم نہیں بلکہ غریم (قرض خواہ) فقیر ہے اگرچہ اس کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے لیکن فقیر ہونے کی حیثیت سے قرضدار کی حیثیت سے نہیں
۶. فی سبیل اللّٰہ ی سبیل اللّٰہ کا مطلب ہے اس شخص کو دینا جو اللّٰہ کے راستہ میں جہاد کر رہا ہو، امام ابویوسف کے نزدیک فی سبیل اللّٰہ سے مراد وہ غازی لوگ ہیں جو فقیری کی وجہ سے لشکر اسلام کے غازیوں سے جدا ہیں یعنی جو اپنے فقیر ہونے کی وجہ سے خرچہ یا سواری وغیرہ نہ ہونے کے باعث لشکرِ اسلام کے ساتھ ملنے سے عاجز رہ گئے ہوں ان کو زکوٰۃ لینا حلال ہے اگرچہ وہ سب کسب کر سکتے ہوں کیونکہ اگر وہ کسب میں مشغول ہوں گے تو جہاد سے رہ جائیں گے ، یہی صحیح و اظہر ہے بعض نے فی سبیل اللّٰہ سے طالب علم اور سفر حج میں قافلہ سے بچھڑا ہوا حاجی وغیرہ مراد لیا ہے جبکہ وہ خرچ نہ ہونے کی وجہ سے قافلہ میں نہ مل سکے اگرچہ فقیر و محتاج ہونے کی وجہ سے وہ بھی مصرف ہیں اور اس میں شامل ہو سکتے ہیں ، طالب علموں اور دیندار مستحق عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے
۷. ابن السبیل (مسافر) ابن السبیل سے مراد مسافر ہے یعنی وہ مسافر جو دور ہونے کی وجہ سے اپنی مال سے جدا ہو اور اس کے پاس خرچ ختم ہو گیا ہو یا اس کا مال چوری ہو گیا ہے یا کوئی اور وجہ ایسی ہو گئی کہ گھر تک پہنچنے کا خرچ نہیں ہے یا مثلاً حاجی کا خرچ ختم ہو گیا ہے اگرچہ وہ اپنے وطن میں مالدار ہے پس اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اگر چہ اس کے گھر والے مال میں اسپر زکوٰۃ واجب ہے اور اپنے وطن پہنچ کر اس کو اُس مال کی زکوٰۃ دینے کا حکم ہے فقیر مسافر کو اپنی ضرورت کے مطابق یعنی جتنا اس کا گمان غالب میں بقدر حاجت ہو لینا جائز ہے ضرورت سے زیادہ لینا حلال نہیں ، لیکن جو شخص اپنے وطن میں بھی فقیر ہے اس کو ضرورت سے زیادہ لینا درست ہے جو شخص اپنے شہر میں اپنے مال سے جدا ہو وہ بھی ابن السبیل کے حکم میں ہے مسافر کو زکوٰۃ لینے سے قرضہ لینا اولیٰ ہے
زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ
۱. مالکِ مال کو اختیار ہے کہ ان ساتوں مصارف میں سے ہر قسم کے آدمی کو تھوڑا تھوڑا دے یا ایک ہی قسم کے مصرف کو سب زکوٰۃ دے دے اگرچہ دوسری اقسام کے لوگ بھی موجود ہیں ، اور اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ سب زکوٰۃ ایک ہی شخص کو دے دے
۲. اور جس قدر زکوٰۃ دینی ہے اگر وہ بقدر نصاب نہیں ہے تو ایک شخص کو دینا افضل ہے اور ایک فقیر کو نصاب کی مقدار یا اس سے زیادہ دینا مکروہ ہے لیکن اگر دے دے گا تو جائز ہو گی اور یہ حکم اس وقت ہے جب کہ فقیر قرضدار نہ ہو اور اگر قرضدار ہو تو اس قدر دینا کہ قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد نصاب کی مقدار سے کم ہو تو بلا کراہت جائز ہے ، اسی طرح اگر اس کے اہل و عیال بہت ہوں تو اس کو اس قدر دینا(بلا کراہت) جائز ہے کہ اگر وہ سب اہل و عیال پر تقسیم کرے تو ایک قدر نصاب (دو سو درہم) سے کم پہنچے اور اگر فقیر کے پاس پہلے سے کچھ رقم ہو تو اتنا دینا مکروہ ہو گا جس سے مل کر وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے
۳. ایک فقیر کو اس قدر دینا مستحب ہے کہ اس روز اس کو سوال کی حاجت نہ ہو، اس میں اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت کا اعتبار کیا جائے گا ضرورت سے مراد صرف خوراک نہیں ہے بلکہ کپڑا، تیل مکان کا کرایہ وغیرہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کا وہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لئے اس روز محتاج ہے
۴. زکوٰۃ کے مال کا ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجنا مکروہِ تنزیہی ہے اور بعض کتابوں میں مکروہِ تحریمی لکھا ہے لیکن دس صورتوں میں دوسرے شہر کو بھیجنے میں کوئی کراہت نہیں ہے اور وہ یہ ہے :
جبکہ دوسرے شہر میں زکوٰۃ دینے والے کوئی رشتہ دار ہوں
یا دوسرے شہر کے لوگ اس شہر والوں سے زیادہ محتاج ہوں ،
یا دوسرے شہر کا فقیر زیادہ پرہیزگار ہو،
یا وہ زیادہ نیک ہوں ،
یا وہ ایسا شخص ہو جس سے مسلمانوں کو زیادہ نفع پہنچ رہا ہو،
یا طالب علم ہو،
یا وہ شخص زاہد ہو،
یا دار الحرب سے دار السالم کے فقرا کی طرف بھیجے ،
یا مسلمان قیدیوں کے لئے دوسرے شہر میں بھیجے ،
یا اگر وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کی جائے تو دوسرے شہروں کو بھیجنا خواہ بلاکسی وجہ کے ہو تب بھی مکروہ نہیں ہے
۵. زکوٰۃ کے مصارف کو زکوٰۃ دیتے وقت افضل یہ ہے کہ اول اپنے بھائی بہنوں کو دے پھر ان کی اولادوں کو پھر چچاؤں اور پھوپھیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اور خالاؤں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ذوی الارحام کو پھرپڑوسیوں کو پھر اپنے ہم پیشہ لوگوں کو پھر اپنے شہر یا گاؤں والوں کو دے
۶. زکوٰۃ ادا کرنے میں وہاں کے فقیر معتبر ہیں جہاں مال ہو، زکوٰۃ دینے والے کے مکان کا اعتبار نہیں ہو گا اور صدقۂ فطر ادا کرنے میں صدقۂ فطر دینے والے کے مکان کا اعتبار ہو گا اس پر فتویٰ ہے اور ان کے مکان کا اعتبار نہیں ہو گا جن کی طرف سے دے رہا ہے
۷. زکوٰۃ کی ادائگی کے لئے یہ شرط ہے کہ زکوٰۃ دینا تملیک کے طور پر ہو اباحت کے طور پر نہ ہو یعنی اس کو پوری طرح مالک بنا دے کہ جس طرح چا ہے اس میں تصرف کرے اگر صرف اس چیز کو کام میں لانا مباح کر دیا تو یہ کافی نہیں ہے جیسا کہ اگر کسی یتیم کو کھانا مباح کر دیا تو اس کو صرف اس کے کھا لینے کا اختیار ہے اس کے سوا اور کچھ اختیار نہیں اور اگر اس کو کھانے کا مالک کر دیا تو اب اس کو اختیار ہے کہ خود کھائے یا دوسرے کو دے دے پسزکوٰۃ میں زکوٰۃ لینے والے کو اس کا مالک کر دینا شرط ہے اگر کسی فقیر کو اپنے گھر میں ایک سال تک رکھا اور اس میں زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادانہ ہو گی اس لئے کہ اس کو نفع یعنی سکونت کا مالک کیا ہے جو کہ مال نہیں ہے اور مال(مکان) کا مالک نہیں کیا ہے اگر کسی فقیر کا قرضہ اپنے مال کی زکوٰۃ سے ادا کیا تو اگر اس کے حکم سے ادا کیا تو جائز ہے اور اگر بغیر حکم کے ادا کیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی اور قرض ساقط ہو جائے گا یہ زکوٰۃ دینے والی کی طرفسے نفلی صدقہ ہو گا اور بالغ و عاقل ہونا اس میں شرط نہیں ہے اس لئے کہنا بالغ بچہ کی تملیک صحیح ہے لیکن اگر وہ قبضہ کو نہیں سمجھتا تو اس کا وصی یا ماں باپ یا جو شخص اس کی کفالت کرتا ہو وہ اس کی طرف سے قبضہ کر لے
۸. ہمارے زمانے میں جو ظالم حاکم صدقہ، عشر، خراج، محصول اور مصادرات(جرمانہ) وغیرہ لیتے ہیں اصح یہ ہے کہ یہ سب مال والوں کے ذمہ سے ساقط ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ دیتے وقت ان کو صدقہ دینے کی نیت کر لیں
۹. اپنے غریب رشتہ داروں کے سمجھدار بچوں کو عید وغیرہ کی تقریب کے نامسے زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح خوشخبری لانے والے اور نیا پھل لانے والے کو زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے دینا جائز ہے اگرچہ اس کو انعام کہہ کر دی جائے لیکن معاوضہ میں نہ دی جائے جیسا کہ نیت کے بیان میں گزر چکا ہے
۱۰. ایک عورت کا مہر ہزار روپیہ ہے لیکن اس کا خاوند بہت غریب ہے کہ ادا نہیں کر سکتا تو ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر اس کا شوہر امیر ہے لیکن مہر نہیں دیتا یا اس عورت نے مہر معاف کر دیا تب بھی اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر یہ امید ہے کہ جب وہ مانگے گی تو خاوند ادا کر دے گا، ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
۸. ہمارے زمانے میں جو ظالم حاکم صدقہ، عشر، خراج، محصول اور مصادرات(جرمانہ) وغیرہ لیتے ہیں اصح یہ ہے کہ یہ سب مال والوں کے ذمہ سے ساقط ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ دیتے وقت ان کو صدقہ دینے کی نیت کر لیں
۹. اپنے غریب رشتہ داروں کے سمجھدار بچوں کو عید وغیرہ کی تقریب کے نامسے زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح خوشخبری لانے والے اور نیا پھل لانے والے کو زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے دینا جائز ہے اگرچہ اس کو انعام کہہ کر دی جائے لیکن معاوضہ میں نہ دی جائے جیسا کہ نیت کے بیان میں گزر چکا ہے
۱۰. ایک عورت کا مہر ہزار روپیہ ہے لیکن اس کا خاوند بہت غریب ہے کہ ادا نہیں کر سکتا تو ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر اس کا شوہر امیر ہے لیکن مہر نہیں دیتا یا اس عورت نے مہر معاف کر دیا تب بھی اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر یہ امید ہے کہ جب وہ مانگے گی تو خاوند ادا کر دے گا، ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
۱۱. جب مال پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہو گئی تو خواہ وہ ایک ہی دفعہ تمام زکوٰۃ ادا کر دے یا متفرق طور پر مختلف وقتوں میں دیتا ر ہے جائز ہے پس اگر زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے علیحدہ کر کے رکھ لی اور اس کے بعد تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف وقتوں میں نیت کئے بغیر دیتا رہا یا زکوٰۃ کی نیت سے الگ نکال کر نہیں رکھی بلکہ سال کے اندر فقراء کو تھوڑا تھوڑا دیتا رہا اور دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت سے دیا تو جائز ہے جیسا کہ نیت کے بیان میں مذکور ہو چکا ہے
جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے
۱. زکوٰۃ کا مال کافروں کو دینا اگرچہ ذمی ہوں بالاتفاق جائز نہیں ہے اِسیطرح عشر و خراج بھی ان کو دینا جائز نہیں ہے نفلی صدقہ کافروں کو دینا بالاتفاق جائز ہے صدقہ فطر و نذر و کفارہ یعنی باقی تمام واجب صدقات کے دینے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ و امام محمد کے نزدیک ان کا ذمی کافر کو دینا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمان فقرا کو دیا جائے اس کو ترجیع ہے حربی کافرمستامن ( یعنی جو امن میں آیا ہوا ہو ) ذمی کافر کے حکم میں ہے اور حربی کافر محارب ( لڑنے والا) کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں ہے
۲. مالدار کو جو نصاب کا مالک ہو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے خواہ وہ نصاب بڑھنے والے مال کا ہو یا نہ بڑھنے والے مال کا ہو لیکن اس مال کا اس کی ضروریات اصلیہ مثلاً رہنے کا مکان، گھر کا سامان، کپڑے ، خادم، سواری ہتھیار اور کتابیں وغیرہ سے فارغ ہونا شرط ہے بڑی بڑی دیگیں ، بڑے بڑے فرش اور شامیانے وغیرہ ایسی چیزیں جن کی برسوں میں کبھی کبھار ضرورت پڑتی ہوں وہ ضروریات اصلیہ میں شامل نہیں ہیں ایسے سامان والے شخص کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے
۳. غنی کا غلام اگر مکاتب نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور یہ حکماس وقت ہے جب کہ اس غلام پر اتنا قرض نہ ہو جو اس کے کسب و رقبہ(ذات)کو محیط ہو لیکن اگر یسا ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے غنی کے مکاتب غلام کو زکوٰۃ دینا جائز ہے مالدار آدمی کی چھوٹی اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ باپ کے مالدار ہونے سے نابالغ اولاد بھی مالدار شمار ہو گی مالدار آدمی کی بالغ اولاد کو جب کہ فقیر ہوں زکوٰۃ دینا مطلقاً جائز ہے ، مالدار آدمی کی عورت یا بالغ بیٹی اگر فقیر ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ باپ اور خاوند کے مالدار ہونے سے بیوی یا بیٹی مالدار نہیں ہو جاتی، مالدار آدمی کا باپ اگر مفلس ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ بیٹے کے مالدار ہونے سے باپ مالدار شمار نہیں ہوتا مالدار عورت کے مفلس نابالغ لڑکے کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے مالدار ہونے سے مالدار شمار نہیں ہو گا
۴. اپنے اصل یا ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اوپر کے لوگ اور اپنے فروع بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہم نیچے کے لوگ ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں بلکہ ہر واجب صدقہ کفارات صدقہ فطر اور صدقہ نذر کا دینا بھی جائز نہیں ہے لیکن نفلی صدقہ ان کو دینا جائز ہے بلکہ اولیٰ و مستحسن ہے ، ان اصول و فروع رشتوں کے سوا باقی رشتے داروں مثلاً بھائی بہنوں ، چچا چچی، خالہ خالوؤں وغیرہ کو دینا جبکہ وہ فقیر ہوں زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ کا دینا جائز بلکہ اولیٰ ہے سوتیلی ماں اپنے بیٹے کی بیوی اور اپنی بیٹی کے خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اور اصول و فروع اور بیوی کے علاوہ جس رشتہ دار کا نفقہ اس پر واجب ہے اگر وہ اس رشتے دار کو زکوٰۃ دے تو جائز ہے جبکہ اس زکوٰۃ کو نفقہ کے حساب میں شمار نہ کرے ، اور یہ بات مکروہ ہے کہ اپنے غریب والدین کو زکوٰۃ دینے کے لئے حیلہ کیا جائے کہ زکوٰۃ کا مال کسی فقیر کو دیا جائے پھراس فقیر کو کہا جائے کہ وہ اس کے والدین کو دے دے
۵. خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے
۶. اپنی خوشدامن(ساس) کو جبکہ وہ نصاب کی مالک نہ ہو زکوٰۃ دینا جائز ہے
۷. اپنے غلام و مکاتب و مدبر، ام الولد اور معتق البعض غلام کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے گھر کے نوکروں ، خدمتگاروں ، ماما دائی کھلائی وغیرہ کو زکوٰۃ دینادرست ہے لیکن ان کی تنخواہ میں نہ دے بلکہ تنخواہ سے زائد ان کو انعام کہہ کر دے دے اور اپنے دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو جائز ہے
۸. زکوٰۃ و دیگر صدقات واجبہ کا مال بنی ہاشم کو دینا جائز نہیں ہے اور بنی ہاشم سے مراد حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حارث بن عبد المطلب کی اولاد ہیں ان کے علاوہ جو بنی ہاشم ہیں مثلاً ابو لہب کی اولاد ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اوقاف کی آمدنی بنی ہاشم کو دینا جائز ہے خواہ وقف کرنے والے نے ان کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو اور یہی حق ہے کیونکہ وقف کا صدقہ نفلی صدقے کی مانند ہے اور نفلی صدقہ بنی ہاشم کو دینا بالاجماع جائز ہے سید ( بنی ہاشم) کی زوجہ اگر غیر سید (غیر بنی ہاشم) مثلاً پٹھانی وغیرہ ہو اور وہ غریب ہو تو اس کو صدقہ فطر و زکوٰۃ کا لینا درست ہے اوراس پر کچھ گناہ نہیں ہے نیز دینے والوں کا صدقہ فطر و زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۹. بنی ہاشم کے غلاموں کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں
۱۰. زکوٰۃ کے مال سے مسجد بنانا، پل بنانا، پانی کی سبیل بنانا، راستہ بنانا، نہر بنانا، حج و جہاد کے واسطے دینا اس میں کسی لا وارث میت کی کفن دینا اور میت کا قرض ادا کرنا آزاد کرنے کے لئے غلام خریدنا یا کسی اور نیک کام میں لگانا اور وہ سب صورتیں جس میں اس کو مالک نہیں بنایا جاتا جائز نہیں ہے
۱۱. مال زکوٰۃ ایسے بدعتی کو دینا جائز نہیں ہو جس کی بدعت کفر تک پہنچا دے مثلاً جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی بعض صفات کو حادث کہتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی صفات میں تشبیہ کے قائل ہیں جیسے کرامیہ ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے
۱۲. اگر اٹکل کرنے کے بعد ایسے شخص کو زکوٰۃ دے دی جس کو وہ اپنے گمان میں زکوٰۃ کا مصرف سمجھتا ہے پھر اس کے خلاف ظاہر ہوا مثلاً ظاہر ہوا کہ وہ مالدار ہے یا سید ہے تو اس کی زکوٰۃ جائز ہو گی لیکن اگر وہ اس کا غلام یا مکاتب ہو تو جائز نہیں ہو گی اور اٹکل اس وقت کی جائے گی جبکہ یہ شک ہو جائے کہ وہ شخص زکوٰۃ کا مصرف ہے یا نہیں ، اور ایسے شخص کے بارے میں اٹکل کرنے کے بعد جو کچھ گمانِ غالب میں آئے اُس پر عمل کرنا چاہئے اگر ایسیحالت میں اٹکل کے ذریعہ گمان حاصل کئے بغیر یا شک کے بعد اس گمان سے کہ یہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے کسی کو زکوٰۃ دے دی پھر ظاہر ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے تو یہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور اگر بعد میں کچھ بھی ظاہر نہ ہوا تب بھی ادا نہیں ہو گی لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ مصرف ہے تو ادا ہو جائے گی یعنی اگر کسی شخص کو زکوٰۃ دیتے وقت شک تھا اس نے تہری(اٹکل) نہ کی لیکن تہری تو کی لیکن یہ ظاہر نہ ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف ہے یا گمان غالب یہ ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے اس کے باوجود اس کو زکوٰۃ دے دی تو وہ ادا نہ ہو گی لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف تھا تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی فقیروں کی صف میں دیکھ کر فقیر گمان کرنا یا فقیروں جیسی شکل و صورت بنائے ہونا یا فقیر جیسا عمل کرنا یہ سب اس باب تہری ( اٹکل کرنے ) میں داخل ہیں
بیت المال کے اقسام اور اس کے مصارف
بیت المال میں جو مال رکھا جاتا ہے وہ چار قسم پر ہے اول چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ اور عشر و اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ جس کی تفصیل عشر کی بیان میں گزری ہے ان کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں جو کہ بیان ہو چکے ہیں دوم غنیمتوں ، کانوں اور دفینوں کا مال اس کے مصارف اس زمانے میں تین قسم کے لوگ ہیں یہ یتیم مسکین اور ابن السبیل سوم خراج و جزیہ اور وہ مال جو عاشر ذمی کافروں اور مستامن حربیوں کے تاجروں سے لیتا ہے اس مال کومسلمانوں کی مصلحتوں میں خرچ کیا جائے یعنی لڑنے والوں کے عطیات دینے ،حدود ملک کی حفاظت، قلعوں کے بنانے اور ملک کے راستوں کی حفاظتی چوکیاں قائم کرنے ، پل وغیرہ بنانے اور درست کرانے ، بڑی نہروں کو کھودنے ، مسافرخانے ، مسجدیں بنانے دریاؤں کا پانی روکنے کے لئے بند بنانے میں خرچ کیا جائے ، قاضیوں ، مفتیوں ، محتسبوں ، معلموں اور طالبعلموں کا روزینہ بھی اس میں سے دیا جائے چہارم وہ اموال جو پڑے ہوئے ملیں جس مال کا کوئی وارث نہ ہو یہ مال مریضوں کے خرچ اور ان کی دواؤں میں خرچ کریں بشرطیکہ وہفقیر ہو، اور ان مُردوں کے کفن میں جن کے پاس مال نہ ہو اور لا وارث فقیر بچوں میں جو کہیں پڑے ہوئے ملیں اور ان کی خطا کے جرمانے میں اور جو شخص کسب سے عاجز ہو اس کے کھانے پہننے وغیرہ میں اور اسی قسم کے دیگر کاموں میں صرف کرے خلاصہ یہ کہ اس کا مصرف عاجز فقرا ہے بادشاہ اسلام کو چاہئے کہ چار بیت المال بنائے یعنی ہر قسم کے مال کے لئے الگ الگ بیت المال ہو، ایک کا مال دوسرے میں شامل نہ کیا جائے اگر ان میں سے کسیقسم میں کوئی مال نہ ہو تو بادشاہ کو جائز ہے کہ دوسری قسم میں سے قرض لے کر اس کے مصارف میں خرچ کر دے اور جب اس بیت المال کی رقم آ جائے وہ قرضہ اس سے ادا کر کے اس بیت المال کو واپس کر دے جس سے قرض لیا تھا لیکن جو مصارف ان میں مشترک ہوں اگر ان میں خرچ کیا ہو تو واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے مثلاً صدقات یا غنیمتوں کا مال خراج والوں پر صرف کیا ہو اور وہ فقیر ہوں تو اب اس بیت المال کو کچھ بھی واپس نہ کیا جائے کیونکہ فقیر ہونے کی وجہ سے وہ ان صدقات کے بھی مستحق ہیں
بادشاہِ اسلام پر واجب ہے کہ حق داروں کو ان کے حقوق پہنچائے اور مال کو ان سے روک کر نہ رکھے ، اور ان کو ان کی ضرورت اور علم و فضل کے مطابق دے اگر اس نے اس میں قصور کیا تو اللّٰہ تعالیٰ اس سے حساب لے گا بادشاہِاسلام اور اس کے مددگاروں کو بیت المال سے اِسی قدر لینا حلال ہے جو کہ ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لئے کافی ہو اگر بادشاہ اس میں قصور کرے گا تو اس کا وبال اس کی گردن پر ہو گا
صدقۂ فطر کا بیان
۱. صدقۂ فطر اس شخص پر واجب ہے جو آزاد اور مسلمان ہو اور ایسے نصاب کا مالک ہو جو اس کی اصلی حاجتوں سے زائد ہو خواہ وہ مال نصاب بڑھنے والا ہو یا نہ ہو زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے نصاب میں یہ فرق ہے کہ زکوٰۃ فرض ہونے کے لئے چاندی سونا یا تجارت کا مال ہونا ضروری ہے ،صدقۂ فطر کے نصاب میں ہر قسم کا مال حساب میں لیا جاتا ہے جو حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو اور قرض سے بچا ہوا ہو پس اگر کسی شخص کے پاسروزمرہ کے استعمالی کپڑوں اور برتنوں و دیگر سامان کے علاوہ اگر حاجاتِ اصلیہ سے زائد سامان ہو اور ان سب کی قیمت نصابِ زکوٰۃ کے برابر یا زیادہ ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی مگر صدقۂ فطر واجب ہو گا
۲. صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرطیں یہ ہیں آزاد ہونا، غلام پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہے مسلمان ہونا، کافر پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہے صاحبِ نصاب ہونا، اور نصاب کا اس کی اور اس کے اہل و عیال کی اصلی حاجتوں سے زائد ہونا حوائج اصلیہ کی تفصیل زکوٰۃ کے بیان میں گزر چکی ہے ، اس نصاب کا بڑھے والا ہونا اور اس پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے ، جس کی تفصیل بھی زکوٰۃ میں مذکور ہے عاقل و بالغ ہونا امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کے قول کے بموجب صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرطوں میں سے نہیں ہے اس لئے اگر نابالغ اور مجنون کا مال ہو تو ان پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے اور ان کا ولی یعنی باپ یا اس کا وصی یا دادا یا اس کا وصی ان کے مال سے صدقۂ فطر نکالے اگر یہ لوگ نہ نکالیں تو نابالغ بالغ ہونے پر اور مجنون افاقہ ہونے کے بعد خود نکالے ، ان کے غلاموں کا فطرہ بھی ان دونوں کے مالوں میں سے ادا کرنا واجب ہے
۳. صدقۂ فطر واجب ہونے کا سبب خود اس کی ذات اور وہ لوگ ہیں جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اور وہ ان پر کامل ولایت رکھتا ہے پس صدقۂ فطر اپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے اگر کسی شخص نے کسی عذرسے یا بلا عذر روزے نہ رکھے ہوں تب بھی اس پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے
اوراس کے نابالغ بچوں اور بچیوں کی طرف سے بھی اس پر واجب ہے لیکن اگر نابالغ بچہ خود مالدار ہو تو اس کے مال میں سے صدقۂ فطر واجب ہو گا کم عقل، دیوانہ اور مجنون کا بھی وہی حکم ہے جو نابالغ بچے کا ہے یعنی اس کی طرف سے باپ صدقۂ فطر ادا کرے
بیوی کا صدقۂ فطر خاوند پر واجب نہیں ہے
بالغ اولاد کا نفقہ بھی باپ پر واجب نہیں ، اگر بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے اور جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے ان سب کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر صدقۂ فطر دے دیا تو ادا ہو جائے گا اِسی پر فتویٰ ہے کیونکہ عادتاً اجازت موجود ہے ، اگرچہ نیت کے بغیر فطرہ ادا نہیں ہوتا لیکن اس صورت میں حکماً نیت موجود ہے
اپنی عیال اور اہل نفقہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے فطرہ دینا ان کی اجازتسے جائز ہے اجازت کے بغیر جائز نہیں پس اگر عورت نے اپنے خاوند کی طرفسے اس کی اجازت کے بغیر فطرہ ادا کر دیا تو جائز نہیں ہے اپنے دادا دادی، نانا نانی، پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب نہیں ہے اور اپنے ماں باپ کا فطرہ دینا بھی واجب نہیں اگرچہ ان کا نفقہ ان کے ذمہ ہو کیونکہ ان پر اس کو ولایت نہیں ہے جیسا کہ بڑی اولاد پر نہیں ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی فقیر اور دیوانہ ہو تو اس کا صدقہ اس پر واجب ہو گا
اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقۂ فطر دینا اس پر واجب نہیں اگرچہ ان کا نفقہ اس کے ذمہ ہو کیونکہ اس کو ان پر ولایت حاصل نہیں ہے اور صدقۂ فطر واجب ہونے کو لئے اس شخص پر ولایت کاملہ حاصل ہونا اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے اگر اپنی چھوٹی لڑکی کا نکاح کر دیا اور اس کو خاوند کے گھر رخصت کر دیا،اگر وہ خاوند کی خدمت و موانست کے لائق ہے تو اس کا صدقۂ فطر کسی پر واجب نہیں ہے نہ باپ پر، نہ خاوند پر اور نہ خود اس لڑکی پر جب کہ لڑکی خود محتاج ہو اور اگر شوہر کی خدمت و موانست کے لائق نہیں ہے تو اس کا صدقۂ فطر اس کے باپ کے ذمہ ہو گا اور اگر شوہر کے گھر رخصت نہیں کی گئی تو ہر حال میں اس کے باپ کے ذمہ ہے لڑکی کے فطرہ کے متعلق مزید وضاحت یہ ہے کہ اگر لڑکی مالدار ہے تو خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور خواہ بالغ ہو یا نابالغ خود اس کے مال میں صدقۂ فطر واجب ہے اور اگر مالدار نہیں لیکن بالغ ہے تو خواہ شادی شدہ ہو یا شادی شدہ ہے اس کا فطرہکسی کو ذمہ نہیں اور اگر مالدار نہیں لیکن نابالغ شاذی شدہ ہے اور رخصت نہیں ہوئی تو باپ کے ذمہ ہے اور رخصت ہو گئی ہو تو کسی کے ذمہ نہیں اور اگر شادی نہیں ہوئی اور نابالغ محتاج ہے تو اس کا فطرہ باپ کے ذمہ ہے دادا کے ذمہ پوتوں کا صدقۂ فطر واجب نہیں ہے جب کہ ان کا باپ مفلس ہو اور زندہ ہو اور اگر مفلس باپ فوت ہو چکا ہو تو اس میں اختلاف ہے ظاہر الروایت کے بموجب اس صورت میں بھی دادا کے ذمہ پوتوں کا صدقۂ فطر واجب نہیں ہے اور امام حسن کی روایت میں واجب ہے
۴. صدقۂ فطر عیدالفطر کے روز صبحِ صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے پس جو شخص اس سے پہلے مر جائے اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہو گا اور جو شخص اس دن کی طلوع فجر کے بعد مرے تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہو گا اسی طرح جو بچہ طلوع فجر سے پہلے پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تواس پر صدقۂ فطر واجب ہو گا اور جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہ ہو گا، اور اسی طرح اگر فقیراس دن کی طلوع فجر سے پہلے مالدار ہو جائے یا مالدار آدمی طلوع فجر کے بعد فقیر ہو جائے تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہو گا اس کے برعکس اگر مالدار طلوع فجر سے پہلے فقیر ہو جائے یا فقیر طلوع فجر کے بعد مالدار ہو جائے تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہو گا
۵. عید الفطر کا دن آنے سے پہلے صدقہ ادا کر دیں تو جائز ہے اور یہ عیدالفطر سے پہلے دینے کا حکم مطلق ہے اس میں مدت کی مقدار کی کوئی تفصیل نہیں ہے اس لئے خواہ رمضان المبارک میں دیا جائے یا اس سے پہلے دے دیا جائے ہر وقت جائز ہے یہی صحیح و مختار ہے بعض فقہا نے اس بات کی تصحیح کی ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جائے اس میں پیشگی صدقۂ فطر دینا جائز ہے اس سے پہلے نہیں ، دونوں قول صحیح ہیں اور مفتیٰ بہ ہیں لیکن پہلا قول ظاہر الروایت ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور دوسرے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور عمل کے لئے یہی مناسب ہے عیدالفطر کے دن کسی وقت بھی ادا کر دے گا تو وہ ادا کرنے والا ہو گا قضا کرنے والا نہیں ہو گا، اگر عید کا دن گزر گیا اور کسی شخص نے فطرہ ادا نہیں کیا تو صحیح یہ ہے کہ اس سے ساقطنہیں ہو گا بلکہ اس کا دینا واجب ر ہے گا لیکن یومِ فطر کے بعد اس کا ادا کرنا بعض فقہا کے نزدیک قضا کہلائے گا اور بعض نے اس کو ترجیع دی ہے اور بعض فقہا کے نزدیک عمر بھر میں جب بھی ادا کرے گا ادا ہی کہلائے گا کیونکہ ان کے نزدیک تاخیر سے ادا کرنا یعنی عمر میں ادا کر دینا واجب ہے بعض نے اس کو ترجیع دی ہے اور زیادہ راجح بھی یہی ہے ۶. صدقۂ فطر ادا کرنے کا مستحب وقت یہ ہے کہ عید الفطر کے روز طلوع فجر کے بعد عیدگاہ کو جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کر دیں ، اور اس سے تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے
۷. صدقۂ فطر چار چیزوں گیہوں ، جو، کھجور اور کشمش میں سے ادا کرنا واجب ہے ، یعنی وزن مقررہ کے حساب سے دینے کے لئے یہ چار چیزیں ہی منصوص علیہ ہیں فطرہ کی مقدار گیہوں میں نصف صاع اور جو و کھجور میں ایک صاع ہے کشمش میں اختلاف ہے صحیح اور مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ ایک صاع دی جائے گیہوں و جو کے آٹے اور ستوں کا وہی حکم ہے جو خود اُن کا ہے گیہوں میں جَو وغیرہ ملے ہوئے ہوں تو غلبہ کا اعتبار ہو گا پس اگر گیہوں غالب ہو گی تو نصف صاع دیا جائے گا، مذکورہ چار منصوص چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری جنس سے صدقہ فطر ادا کیا جائے مثلاً چاول، جوار، باجرہ وغیرہ دیا جائے تو اشیائے منصوصہ مذکورہ میں سے کسی ایک چیز کی قیمت کے برابر ہونا چاہئے مثلاً چاول وغیرہ دے تو جس قدر قیمت میں نصف صاع گیہوں آتے ہوں یا ایک صاع جَو آتے ہوں اتنی قیمت کے چاول وغیرہ دے سکتا ہے ، اور اگر وہاں گندم و جَو و کھجور اور کشمش نہ ہوتے ہوں تو وہاں سے زیادہ قریبی جگہ میں جہاں ہوتے ہوں وہاں کی قیمت معتبر ہو گی گیہوں یا جو کی روٹی صدقۂ فطر میں وزن سے دینا جائز نہیں بلکہ قیمت کے اعتبار سے دے گا تو جائز ہو گا یہی اصح ہے ، اگر منصوص علیہ یعنی چاروں مذکورہ اجناس میں سے کسی ایک کی قیمت ادا کرے تو یہ بھی جائز ہے بلکہ عین اس چیز کے دینے سے اس کی قیمت کا دینا افضل ہے اسی پر فتویٰ ہے ( انگریزی سیر کے وزن سے جو کہ اسی تولہ ہوتا ہے اور ہند و پاکستان میں رائج ہے ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر کا اور نصف صاع پونے دو سیر کا ہوتا ہے یہی فتویٰ بہ ہے بہتر یہ ہے کہ احتیاطاً گیہوں دو سیر اور جو چار سیر دے دئے جائیں
۸. صدقۂ فطر کے مصارف عامل کے سوا وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ، ذمی کافر کو صدقۂ فطر دینے میں اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ جائز و مکروہ ہے اورمسلمان فقیر کو دینا اولیٰ ہے ایک شخص کا صدقۂ فطر بعض کے نزدیک ایک ہی شخص کو دینا واجب ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ متعدد شخصوں کو ایک ایک شخص کا فطرہ دینا جائز ہے یہی مذہب ہے ، متعدد شخصوں کا فطرہ کسی ایکمسکین کو دینا بھی جائز ہے جب کوئی ایسا شخص جس کے ذمہ زکوٰۃ یا صدقۂ فطر یا کفارہ یا صدقہ نذر ہو بلا وصیت کے فوت ہو جائے تو اس کے ترکہ میں سے ادا نہیں کیا جائے گا لیکن اگر اس نے وصیت کی ہو تو ترکہ میں سے ادا کیا جائے گا اور وہ وصیت اس کے تہائی مال میں جاری ہو گی خواہ وہ پوری زکوٰۃ و فطرہ وغیرہ کو کفایت کرے یا نہ کرے لیکن اگر اس کے وارث تہائی سے زیادہ دینے پر راضی ہوں تو جس قدر زیادہ وہ خوشی سے دے دیں لے لیا جائے گا اگر وصیت نہیں کی اور اس کے وارث تبرعاً اس کی طرف سے ادا کر دیں تو جائز ہے اور اگر وہ ادا نہ کریں یا ان میں سے کوئی اپنے حصہ میں سے نہ دے تو مجبور نہیں کیا جائے گا
۹. صدقۂ فطر وصول کرنے کے لئے کسی عامل کو مقرر کر کے قبائل میں نہ بھیجا جائے کیونکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے لیکن کسی شخص کو اس طرح مقرر کر دینا کہ لوگ خود آ کر اس کو دے جایا کریں تو جائزو ثابت ہے
٭٭٭
ماخذ:
مواد کی فراہمی میں تعاون: سعادت
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید