FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

 ودربھ میں اردو افسانہ کا آغاز و ارتقاء

 

 

 

 

                محمد  اسد اللہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

زبان و ادب اور علم و ثقافت کے ارتقاء میں جہاں اردو کے کئی مراکز شاندار تاریخی روایات کے حامل ہیں علاقۂ ودربھ بھی متوازی خطوط پر پیش رفت کی مثالیں اپنی تاریخ کے صفحات پر سجائے ہوئے ہے۔ اردو زبان کی مختلف اصناف کی آ بیاری اور نشو و نما میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے والے کئی تخلیق کار اس خاکدان سے اٹھے، اردو افسانے سے متعلق فنکاروں کی خدمات پر ہم یہاں نظر ڈالیں گے۔ ارد و کے معروف جدید شاعر اور ادیب ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر نے ۱۹۸۰ء؁ میں اپنی مرتّبہ کتاب نورِ نژاد میں ۱۹۳۰ء؁سے  ۱۹۸۰ء؁ تک ودربھ میں اردو افسانے کا جائزہ لیا تھا اور اس صنف کے اوّلین نقوش کا سراغ لگانے کی ایک مستحسن کو شش کی تھی۔

۲۰۰۵ء؁ میں شائع شدہ ایک منی کہانیوں کی کتاب پر فلیپ پر انھوں نے یہ رائے ظاہر کی تھی :

’’اردو زبان ایک عالمی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔  اس کے بعض افسانے اور افسانہ نگار عالمگیر شہرت اور معیار کے حامل ہیں لیکن افسوس ہے کہ علاقہ ودربھ سے اردو افسانہ کو انٹر نیشنل فیگر نہیں مل سکا۔ ‘‘(۱)

ودربھ کی ایک خاتون افسانہ نگار کی کہانیوں کے مجموعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے راقم الحروف نے لکھا تھا:

’’یہاں خواتین افسانہ نگاروں کی نمائندگی پر بھی افسانہ ہی کا گمان ہوتا ہے۔ ‘‘(۲)

عصری زندگی کی ترجمان صنف افسانہ کا افسوں بھی سامری کے بچھڑے کی طرح پر اسرار آوازوں کو جنم دینے میں کامیاب ہوا مگر اس شور شرابے میں اصل اور نقل کی جانچ پڑتال کی جائے تو زیورِ طباعت سے آراستہ کتنی ہی نگارشات فنّی تقاضوں اور لوازمات کے ضربِ کلیمی کی تاب نہیں لا پائیں گی اور فن کی کسو ٹی پر پر کھی گئی بے شمار تحریریں کوئی ادبی معجزہ پیش کرنے سے قاصر رہیں گی۔  یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ودربھ کے کتنے ہی اہم فنکاروں کو ان کے مقدر میں لکھی ہجرتوں نے اس زمیں سے اکھاڑ کر بڑے شہروں کی زینت بنا دیا اور اس چمن کے پھول وطن سے نکل کر عزت،  شہرت اور ادبی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔  ادب کی ان معزز شخصیات کو علاقہ ودربھ سے دور کی نہیں بہت قریب کی نسبت ہے۔  ان میں واجدہ تبسم،  شفیقہ فرحت،  رفیعہ منظور الامین، م ناگ،  عظیم راہی،  مظہرسلیم،  غنی غازی،  کلیم ضیاء،  سکندر عرفان وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔  قبل اس کے کہ ہم ان مسافروں پر ایک نظر ڈالیں جن کے قدموں کی آہٹ نے اس دیار میں فنِ افسانہ نگاری کو زندگی بخشی ودربھ کے تاریخی اور جغرافیائی حالات کا بھی جائزہ لے لیں۔

مہاراشٹر اسٹیٹ کو سرکاری انتظام کے تحت ممبئی، پونا، اورنگ آ باد اور ناگپور ڈیویژن کے نام سے چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔  موجودہ ودربھ گیارہ اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس کا مشرقی علاقہ برار کہلاتا ہے جس میں امراؤتی،  ایوت محل،  آکولہ،  بلڈانہ اور واشم اضلاع شامل ہیں۔  مغربی حصّے میں نا گپور،  بھنڈارہ،  گوندیا،  چندرپور،  گڑچرولی،  وردھا ضلعے ہیں یہ علاقہ گونڈوانہ کے نام سے مشہور تھا۔  علاقۂ ودربھ میں علمی اور ادبی سرگر میاں عہدِ قدیم ہی سے جاری و ساری رہی ہیں۔  گونڈوانہ کی بہ نسبت سابق صوبہ متوسط برار میں علمی و ادبی شخصیات کے کارنامے یہاں کی علمی فضا کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوئے۔

تاریخ امجدی (چراغ برار) میں مورخِ جناب امجد حسین خطیب رقمطراز ہیں :

’’تاریخ شیدالمتاخرین کہ خلاصہ مہا بھارت و سنگھاسن بتیسی و  پدماوت دورجاؤلی و اجترنگی اور آئینی اکبری کا ہے۔  ایسا لکھا ہے کہ اصل نام صوبہ برار کا وردھا تٹ یعنی وردھا کا کنارا اور وردھا برار کی مشہور نہروں میں سے ہے اور تٹ کنارہ کو کہتے ہیں۔  چونکہ یہ خطہ اس ندی کے کناروں پر واقع ہے اس واسطے اس کا اصل نام وردھا تٹ ہے۔  بہرحال خطہ برار حسبِ اقوال خلاصتہ التاریخ وغیرہ کے مابین دو پہاڑوں کے ہے ایک کوہِ بندیاچل اور سینہا چل عبارت انہیں پہاڑوں سے ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے اس علاقہ کی تاریخ بیان کر تے ہوئے لکھا ہے:

’’دورِ آ صفیہ میں یہ علاقہ ’ملک مانی حیدر آ باد ‘ کے نام سے یاد کیا جا تا تھا۔  اس وقت اس میں چھ اضلاع شامل تھے۔ لیکن ستمبر۱۹۰۵ء؁ میں جب برار کا الحاق صوبہ متوسط سے ہو گیا تو ایلچپور و امراؤتی او ر باسم کو اکولہ میں ملا کر چار اضلاع بنائے گئے۔ یہ چاروں اضلاع یکم مئی ۱۹۶۰ء؁ کو اس نئی ریاست میں شامل کر لئے گئے جو ریاستِ مہاراشٹر کہلاتی ہے۔ برار میں مسلم تہذیبی و تمدّنی تاریخ کا باقاعدہ آغاز ۱۲۹۴ء؁ میں دیو گری پر علاو الدین خلجی کے حملے سے ہو تا ہے۔ لیکن شاہ دولہا رحمن غازی کے مشہور و معروف واقعۂ جہاد سے یہ بات بھی ثابت ہو تی ہے کہ اس حملے سے تقریباً ۲۹۰سال پہلے مسلمانوں نے اس علاقہ میں اپنا قدم جما لیا تھا۔ ‘‘(۳)

برار میں سب سے پہلے جن نثری تصنیفات کا تذکرہ ملتا ہے وہ ان سندھی علماء کی تصانیف ہیں جو بہمنی دور میں صفدر خاں سیستانی ناظم صوبۂ برار کے قائم کردہ مدرسہ میں تعلیمی وتدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔  یہ ۱۳۴۹ء؁  کا زمانہ تھا۔  منشی حیات خاں مظہر،  سیّد مبین الرحمن، خواجہ لطیف احمد،  حبیب الر حمن صدیقی راشد اللہ  انعامدار اور میر غلام احمد حسن کے نام اس علاقہ کے نثرنگاروں میں لئے جاتے ہیں۔

ودربھ میں آزادی کے بعد ہی تخلیقی نثر کو فروغ حاصل ہوا اور بیشتر نو جوان مختلف اصناف کی جانب مائل ہوئے ان میں طنز و مزاح اور منی افسانے کے علاوہ افسانوں کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا۔  برار کی بہ نسبت ناگپور اور کامٹی میں افسانہ نگاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد مو جود تھی یہ وہی زمانہ تھا جب اس علاقہ سے اردو اخبارات شائع ہو نے لگے تھے۔  ناگپور میں ۱۸۵۷ء؁  میں اردو صحافت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ ’’ترجمان ‘‘ناگپور(۱۸۸۴ء؁)صوبۂ متوسط برار کا پہلا قابلِ ذکر اخبار تھا۔

عبدالستّار فاروقی جنھوں نے۱۹۳۱ء؁  میں کامٹی سے ہفتہ وار ’’ امّید‘‘ جاری کیا تھا۔ اپنے مضامین میں افسانوی طرزِ اظہار کو بروئے کار لا کر افسانہ نگاری کے لئے ابتدائی نقوش ثبت کئے انھیں ودربھ کے اوّلین افسانہ نگاروں میں شمار کیا جا تا ہے،  ان کے کئی افسانے مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ ’’ آہ تم کہا ں ہو ‘‘ اس افسانے کو ان کا پہلا افسانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔  برار میں سیّد حبیب الرزّاق کی تحریروں میں چند مضامین ملتے ہیں جن میں واقعات کو شگفتہ انداز میں بیان کیا گیا۔

عبدالستارفاروقی کے بعد ودربھ میں ابھر نے والے افسانہ نگاروں میں قادر نیازی،  ریاض رؤفی،  شاکر اورنگ آبادی، فیض انصاری،  حمید جمال،  شریف اورنگ، فہمیدہ پر وین، پروفیسر زہرہ جبیں،  حکیم عزیز قدوسی کامٹوی، شیام سوشل، عبدالصمد قیصر بدنیروی، تبسّم شفائی، نواب تقی علی،  شارق نیازی امراؤتوی، متین پرویز اکولوی،  حنیف فاتح،  ماسٹر عثمان ناظر کامٹوی کے علاوہ ودربھ کے شاعروں میں علّامہ ناطق گلاؤٹھوی کا ایک افسانہ ماہنامہ’’ جن ‘‘میں شائع ہوا۔  شاہد کبیر شاعر جنھوں نے جدید شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ایک ناول ’’ مٹی کا مکان ‘‘ کے علاوہ چند افسانے لکھے۔  برار میں اس دور میں افسانہ نگاری کی کوئی قوی روایت نہیں ملتی۔  ودربھ کے جن افسانہ نگاروں نے باقاعدہ اس صنف کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اس کے فنّی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی شناخت قائم کی ان میں سے چند افسانہ نگاروں کی نگارشات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

                قادر نیازی

 

قادر نیازی، ضلع ایوت محل میں پیدا ہوئے تھے لیکن ناگپور میں تعلیم حاصل کر نے کے بعد  ۱۹۴۲ء؁ میں اورینٹ پریس میں ٹائیپسٹ مقرر ہوئے اور ۱۹۷۵ء؁ میں کلرک کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔  انھوں نے ماہنامہ ’’ ایجوکیشنل ٹائمز‘‘ جاری کیا تھا جس کے توسّط سے کئی نثر نگار اور افسانہ نگار سامنے آئے۔  قادر نیازی نے ۱۹۳۹ء؁ اور۱۹۵۵ء؁ کے دوران افسانے لکھے ان میں سادہ زبان میں اپنے عہد کے مسائل کو دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے،  ان کے چند افسانوں کے عنوانات یہ ہیں۔  بازگشت، لاج کا خون، سمندر کی تہہ میں وغیرہ۔

 

                زہرہ جبیں

 

پروفیسر زہرہ جبیں بنیادی طور پر ڈراما نگار تھیں ان کی دو کتابیں : ’’ مشعلِ راہ‘‘ اور ’’ صبح کے بھولے‘‘ ڈراموں کے مجموعے ہیں ۱۹۷۸ء؁ میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ نشیب و فراز ‘‘ شائع ہوا۔  چھٹی دہائی میں ان کے کئی افسانے مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔  ان پر عصمت چغتائی کے افسانوی انداز کا اثر نمایاں ہے۔ انہوں نے تقریباً سو افسانے تحریر کئے۔  ان کی چار کتابیں شائع ہوئیں۔  اردو کی مختلف اصناف میں زود نویسی کے علاوہ زہرہ جبیں نے انگریزی میں بھی شاعری کی۔  انگریزی شاعری کے ایک انتخاب میں بھی ان کی نظمیں شامل کی گئی تھیں۔

 

                 شریف اورنگ

 

شریف اورنگ،  ۱۶ ؍اپریل ۱۹۲۵ء؁ کو ناگپور میں پیدا ہوئے۔ انجمن ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر نے کے بعد اپنے استاد مولانا زین الحق سے تحریک حاصل کر کے اپنا قلمی سفر شروع کیا۔ ان کے ہمعصر قادر نیازی اور دیگر احباب کی حوصلہ افزائی سے لکھتے رہے۔  ان کی تخلیقات اس زمانے میں ماہنامہ شفق، پرواز،  فلمی دنیا، ایجوکیشنل ٹائمز،  نبّاض اور راہی کے علاوہ ماہنامہ فانوس میں شائع ہوئیں۔ انسان اپنے تصورات میں بسی تصویروں کی تلاش میں کس طرح سرگرداں رہتا ہے اس حقیقت کو شریف اورنگ ایک مجسمّہ کے حوالے سے اس کہانی میں بیان کرتے ہیں :

’’ ندیم کا مجسّمہ نہیں رہا تو کیا ہوا، اس کا کہا ہوا ناظمہ کی صورت میں مجسّم موجود تو ہے۔  ناظمہ…عذرا کی طرح خوبصورت تو نہیں ہے لیکن شباہت میں سرِمو فرق نہیں ہے …میں اب ناظمہ جیسی بیوی پاکر اس مجسّمہ اور عذرا دونوں کو فراموش کر چکا تھا۔  اور زندگی کی گاڑی چلی جا رہی تھی۔  ‘‘(۴)

 

                زرینہ ثانی

 

۵؍جولائی ۱۹۳۶ء میں ناگپور میں پیدا ہوئیں۔ زرینہ ثانی نے ناگپور گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کر نے کے بعد ناگپور یونی ورسٹی سے مولوی کا امتحان پا س کیا۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کر نے کے بعدسیماب کی نظمیہ شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کا پہلا افسانہ ماہنامہ بانو،  دہلی میں شائع ہوا تھا۔  ان کے نمائندہ افسانوں میں : قصور اپنا نکل آ یا، بدلہ تیرے ستم کا، عورت کی خود داری،  ایک کرن اجالے کی،  خیال اپنا اپنا،  مجرم،  ضمیر اور پھاٹک وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے افسانے اس عہد کے نسوانی اور خصوصاً ازدواجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان کے کردار جاندار ہیں اور حقیقی زندگی سے قریب تر محسوس ہو تے ہیں۔ ان کے افسانوں میں گھریلو زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر وہ افسانہ نگاری کی طرف مکمّل توجّہ دے پاتیں تو یقیناً ایک زبردست فنکار ودربھ کے افسانوی ادب کو مل جا تا لیکن انھوں نے تحقیق اور شاعری کی طرف رخ موڑ لیا۔

 

                قیصر واحدی، کامٹی

 

کامٹی کے معروف افسانہ نگار قیصر واحدی پیدائش(۱۹۴۹ء؁)کے افسانچے اور افسانے مختلف اخبارات اور رسائل کی زینت بنے۔  دھولیہ سے شائع ہو نے والے ایک رسالہ کا قیصر واحدی نمبر بھی ۱۹۹۹ء؁ میں منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ ان کی ایک منی کہانی درج ذیل ہے:

’’ وہ اپنے آپ کو شطرنج کا ماہر کھلاڑی سمجھتا تھا اس کی بساط پر ہاتھی گھوڑے اونٹ وزیر بادشاہ اور پیدل نہ ہو کر رشتوں کی دیواریں تھیں جس میں ماں باپ بہن بھائی دولت اور رشتہ دار موجود تھے۔  بچپن ہی سے اسے ان دیواروں سے سایہ نصیب نہ ہو سکا تھا اس لئے وہ برسوں سے پیاس اور سائے کے لئے ترس رہا تھا وہ دھوپ میں چلاتا رہا جھلستار ہا اور سسکتارہا لیکن جب حالات سے لڑتے ہوئے وہ ہار گیا تو بازاروں کی گلیوں اور چوراہوں کی ویرانیوں کو سایہ سمجھا کر بیٹھ گیا اور اپنے حسن کی آگ ان ہی راستوں کی پگڈنڈیوں سے بجھاتا رہا اور جب وہ بے لگام گھوڑے کی طرح ڈھائی گھر چھوڑ کر اڑنے لگا تو اس کی اڑان سے رشتوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگی۔

آخرکار ایک دن اس نے اپنی بساط کے سب سے کمزور مہرے (باپ) کے سہارے پر سب سے طاقت ور مہر ے کو شہ دی لیکن جب دی کوئین ازان ڈینجر ‘The queen is in danger’  ہوئی تو اس نے خود کو تیاگ کر انھیں ان ہی کی بساط پر مات دے دی۔

اب بساط کے دونوں گھوڑے چلنے سے محروم ہو چکے ہیں اور رشتوں کی دیواریں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گر چکی ہیں اب وہاں نہ سایہ ہے اور نہ ہی سکون اور نہ ہی اڑان کا کوئی دوسرا ذریعہ اب ان کی بساط پر کاغذات فائیلیں کورٹ کچہری وکلا اور منصف ہیں دیکھنا ہے زمانے کے منصف کون سی چال چلتے ہیں جن سے مات کھاتے ہیں یا نہیں یا پھر کوئی اور بساط بچھتی ہے۔  ‘‘(رشتوں کی دیوار )

 

                تبسّم شفائی

 

تبسّم شفائی نے جن کا تعلق کامٹی سے تھا،  متعدد افسانے اور کہانیاں قلمبند کیں۔  ان کی چند کہانیاں ماہنامہ بیسویں صدی میں بھی شائع ہوئیں۔  بقول عبد الرحیم نشتر:

’’انھوں نے رومانی، جاسوسی اور اصلاحی کہانیوں کے علاوہ ناول بھی فرضی ناموں سے شائع کر وائے تھے۔  جواں عمری میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ‘‘

 

                واجدہ تبسّم

 

واجدہ تبسّم ۱۶؍ مارچ۱۹۳۵ء؁کو امراؤتی میں پیدا ہوئیں۔ جہاں انھوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی پھر تقسیمِ  ہند کے ہنگاموں میں حیدر آ باد منتقل ہو نا پڑا اور وہیں سکونت اختیار کی۔ انھوں نے ناگپور یونی ورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔  واجدہ تبسّم کی تقریباً ۲۲ کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔  ماہنامہ شمع میں ان کے افسانے بڑے اہتمام سے شائع ہوا کر تے تھے۔  ان کی قابلِ ذکر تصانیف میں : آ یا بسنت سکھی،  شہرِ ممنوع، نتھ اترائی،  نتھ کا غرور، نتھ کا بوجھ،  نتھ کا زخم، پھول کھلنے دو اور زر، زن اور زمین شامل ہیں۔  مسلم معاشرہ میں صنفِ نازک پر اندرونِ خانہ مظالم اور خاص طور پر نوابانِ حیدر آ باد کے جنسی استحصال کے قصّے ان کی کہانیوں کی مقبولیت کا سبب بنے۔ عورت کی نفسیات کی عکاسی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہے:

’’آج صبح سے میرا دل ہے کہ ڈوبا جا رہا ہے، یوں رہ رہ کر تو میرا دل کبھی نہ دھڑکا تھا۔ مٹّی کے اس ننھے چراغ میں ایسی کیا بات تھی کہ اس کے ٹوٹتے ہی میرا اپنا دل بھی جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ ‘‘(۵)

واجدہ تبسّم کا اپنا اسلوب اور سماجی حقیقت نگاری کا اپنا انداز تھا۔ اس پر خار راہ پر ان کی تقلید دشوار ہے۔ فنکارانہ منظر نگاری،  بے باکی،  گرم و نازک اظہارِ بیان کی جرأت اور چٹخارے دار فقرے ان کی پہچان بنے۔

’’ایک دم چونک پڑی،  جتنی آ ہستگی سے میں نے دروازہ کھولا تھا اتنی ہی آ ہستگی سے میرے دل کا دروازہ بھی کھل گیا۔ ‘‘(برسات،  مطبوعہ : روزی کا سوال،  ص:۲۷)

پاکستانی افسانہ نگار زاہدہ حنا نے واجدہ تبسّم کے بارے میں لکھا ہے:

’’ واجدہ کے جملوں میں کانٹے اگے ہوئے تھے، سچ یہ بھی ہے کہ وہ ان کانٹوں سے معاشرے کے سڑے گلے جسد سے فاسد مادّہ نکالنا چاہتی تھیں یہ اور بات کہ بعض لوگوں نے اس مواد کو شہد سمجھ لیا تھا۔  ‘‘

واجدہ تبسّم نے کرداروں کو ان کے ماحول اور اس میں موجود مسائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔  مقامی لب و لہجے اور منظر کشی نے بھی اس بیانیہ میں جان ڈال دی ہے۔ روزی کا سوال اس افسانے میں ایک داشتہ کے یہ مکالمے گہرے مشاہدے کا ثبوت ہیں :

’’ہؤینگا کوئی بھی ڈاکٹر کا سگا میرے کو کیا؟ہاں تو معاملہ کائے سے پلٹ ہو گیا۔ معلوم؟وہ پھلم بنانے والا میرے کو سکھایا کہ اب تم نے ایک ڈیالوگ بولنا…دیکھو سائب میں پہلے ہی بول دی کہ ادھر بس ایکلی کو میرے کو انگریجی آتی ہے۔ ‘‘( روزی کا سوال، ص:۱۱۸ )

۷ دسمبر ۲۰۱۰ء؁کو ممبئی میں واجدہ تبسّم کا انتقال ہو گیا۔

 

                نیّر جہاں

 

نیّر جہاں ضلع ایوت محل کے قصبہ ونی میں پیدا ہوئیں۔ امراؤتی میں محمّڈن ہائی اسکول میں افسانہ نگار واجدہ تبسّم کی ہم جماعت تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور پھر وہیں سے امریکہ چلی گئیں۔  امریکہ میں مرکز انٹر نیشنل کی صدر ہیں۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں مصروف اور آپائے ارد و کے نام سے معروف ہیں ’ ’پسِ چہرہ‘ ‘ان کا شعری مجموعہ ہے۔  شاعری کے علاوہ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔  ان کے افسانوں میں سیامیز ٹوئینز Twins Siamese، ’دھنک سے تپتی ریت تک‘مشہور ہیں ان کے افسانوں کا مجموعہ’ ’مہندی کے دورنگ‘ ‘زیرِ اشاعت ہے۔

 

                شفیقہ فرحت

 

۱۹۵۰ء؁  کے بعد جن ادیبوں نے صنف افسانہ کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا اور چند تخلیقات شائع کیں ان میں شفیقہ فرحت کا نام بھی ہے جنھوں نے ناگپور سے بچوں کے لئے رسائل شائع کئے لیکن بعد میں انھوں نے طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ان کے چند کہانیوں کو افسانوں کے مقابلوں میں انعام سے بھی نوازا گیا۔

 

                 شیام سوشل

 

پنجاب کے رہنے والے تھے انھوں نے ۱۹۶۰ء؁  تک شہر ناگپور سے قریب واقع کامٹی میں قیام کے دوران کئی  افسانے تحریر کئے جن میں سے چند ماہنامہ جمالستان میں شائع ہوئے۔  اسی طرح شارب قریشی کی چند کہانیاں خیام لا ہور اور ساقی دہلی میں شائع ہوئیں۔ بلدیو دیوان جو ودربھ میں آ کر سکونت پذیر تھے ناگپور سے شائع ہو نے والے رسالے نبّاض کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ درپن زیرِ  طبع تھا۔ نورِ نژاد (مرتّبہ ڈاکٹر عبدا لرحیم نشتر ) میں ان کے ایک افسانے کا یہ اقتباس نقل کیا گیا ہے :

’’ہر طوفان کے بعد کچھ وقت ایسا بھی آتا ہے جب فضا پر منجمد سکوت مسلّط ہو جا تا ہے، لیکن ہمارے یہاں طوفان آیا۔  آ زادی کا حادثہ واقع ہوا تو ہم تیز دھارے کی روانی میں بہہ گئے۔  بھنور سے دوچار ہوئے،  مو جوں کے تھپیڑے بھی سہے اور یہی وجہ ہے کہ سکون میسّر نہیں ہوا۔  ظاہری سکون ہو بھی تو کیا؟خلش تو ہے، درد تو ہے، تڑپ تو ہے۔  انسان کے لئے ہمدردی تو باقی ہے۔  مذہب کی تفریق نے ہمیں کیا دیا،  جھلسے ہوئے ہاتھ، ٹوٹی ہوئی ہڈّیاں اور خون میں لتھڑے ہوئے لاشے۔  نہ کوئی راہزن تھا نہ جلّاد پھر بھی خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ ‘‘

 

                قیصر بدنیروی

 

عبدالصمد قیصر بدنیروی(۱۸۹۴ء؁-۱۹۶۶ء؁ ) بحیثیت شاعر زیادہ مشہور ہیں۔  ان کی افسانہ نگاری قیامِ بمبئی کے دوران آغا حشر کاشمیری کے فیضِ صحبت کا نتیجہ ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے’’ ربابِ ہستی‘‘ کے افسانوں میں، انسانی بے رحمی،  ظلم و ستم اور بدعنوانوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ان تحریروں میں سماجی تبدیلیوں کا رجحان عام ہے اور ان کے کردار اصلاحِ معاشرہ کے جذبات سے سر شار نظر آ تے ہیں۔

 

                ق۔ حسرت

 

محمّد قطب الدین حسرت براری ۱۹۲۸ء میں بالاپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے افسانے اس دور کے معروف ادبی رسائل،  بیسویں صدی، بانو،  خاتون مشرق، اداکار اورجمالستا ن وغیرہ میں منظرِ عام پر آئے۔ ان کی تحریروں میں شگفتگی اور مزاح کا رنگ غالب ہے۔ سماجی مسائل کی عکاسی ان کے افسانوں کی امتیازی خصوصیت ہے۔  ان کے چند افسانوں کے عنوانات درج ذیل ہیں۔ پسِ پشت، گمراہ، سسکیاں،  ساحرہ اور دیوتا۔ (بحوالہ :برار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء،  از ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن، ص:۳۹۷)

 

                ڈاکٹر نگہت ریحانہ

 

ڈاکٹر نگہت ریحانہ کی پیدائش ۷؍ جو لائی ۱۹۴۲ء؁ کو ناگپور میں ہوئی۔  ان کے والد ملازمت سے سبک دوش ہو نے پر امراؤ تی منتقل ہو گئے تھے۔  موصوفہ نے’ اردو مختصر افسانہ: نویسی فن و تحقیقی مطالعہ ۱۹۴۷ء؁ تا حال‘،  اس موضوع پر دہلی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔  انھوں نے امراؤتی اور ناگپور کے ڈگری کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دئے۔  ڈاکٹر نگہت ریحانہ کے افسانوں کا مجموعہ ’شیشوں کا مسیحا‘ ۱۹۹۰ء؁ میں شائع ہوا۔  ڈاکٹر نگہت ریحانہ کے افسانوں میں تکنک کے تجربات بھی ملتے ہیں، ’’گنہگار فرشتے میں ‘‘ Dramatic monologue  کی تکنک کو بروئے کار لایا گیا ہے۔  اسی طرح ’’زلفِ مشک بو کی داستان‘ ‘ اور ’’بے نیازی حد سے گزری‘ ‘ افسانوں کی عام روش سے ہٹ کر لکھی گئی کہانیاں ہیں۔  زلفِ مشک بو کی داستان سے ایک اقتباس :

’ ’ اگر تمہاری محبوبہ کو تم سے جدا کر دیا جائے تو کیا یہ اندھیرے اور گہرے نہ ہو جائیں گے؟

’’اسے مجھ سے کون جدا کر سکتا ہے۔  ‘‘

’’وقت‘‘

’’میں وقت کے دھارے کا رخ موڑ دوں گا۔ ‘‘( زلفِ مشک بو کی داستان،  ڈاکٹر نگہت ریحانہ،  بحوالہ :مقتدر خواتینِ برار، از ڈاکٹر نو ر السعیداختر، ۲۰۰۱ء؁، ص:۸۸ا)

 

                ثریّا صولت حسین

 

ثریّا صولت حسین ناگپور کی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے۔  یوپی کے ایک معزز گھرانے سے تعلّق ہونے کے علاوہ ان کے متعلّق یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت امیر مینائی ان کے حقیقی پر نا نا تھے اور علاقہ برار کی ایک معتبر ادبی شخصیت امجدحسین خطیب جنھوں نے برار کی تاریخ قلمبند کی ان کی بہو ہونے کا شرف بھی انھیں حاصل تھا۔  ایڈیشنل سیشن جج قاضی صولت حسین کی اہلیہ،  ثریّا صولت حسین کے افسانوں کا مجموعہ ’’مدّو جزر ‘‘ ۱۹۸۶ء؁ میں مہاراشٹر اردو اکادمی کے مالی تعاون سے منظرِ عام پر  آیا اس میں اٹّھارہ افسانے اور پانچ مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔ افسانہ’ بیگم‘ میں نواب صاحب اور ان کی بیگم کے درمیان پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے وسیلے سے انسانی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اسی طرح افسانہ فیصلہ میں ایک طلاق شدہ عورت کے درد کو پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے:

’’عدالت اس کے سابق شوہر جان محمّد ولد دین محمّد کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنی مطلّقہ بیوی خیر النساء کو تا زندگی یا پھر مدّعیہ کے عقدِ ثانی تک پانچ سو روپیے ماہوار نان نفقہ ادا کرتا رہے…

فیصلہ صادر ہو تے ہی کورٹ میں کھلبلی مچ گئی۔ جسٹس چنائے اٹھ کر چیمبر میں چلے گئے۔ ادھر خیر النساء خوشی کے مارے ہاتھ پھیلا کر جسٹس چنائے کو دعائیں دیتی جا رہی تھی۔

تقریباً  ڈھائی ماہ بعد وہی خیر النساء کورٹ میں زبردستی گھس آئی ہے اور با آ وا ز بلند چلّا چلّا کر کہہ رہی ہے، حضور میرا گھر والا مر گیا۔ ایک ٹرک والے نے اسے کچل ڈالا…آپ کا فیصلہ الٹا نکلا…اب میرا کیا ہو گا۔ میرے بچّوں کو روٹی کون دے گا؟‘‘(۷)

 

                بانو سرتاج

 

فی الحال ودربھ میں بانو سرتاج کو اردو افسانہ کی سب سے توانا آواز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔  ان کی ۶ ۳ مطبوعات میں سے ۸ افسانوی مجموعے ہیں۔  ان کے قدموں پر قدم رکھتی ہوئی کئی خواتین افسانہ نگار آج اپنی شناخت قائم کر چکی ہیں۔

بانو سرتاج کے افسانوں میں نئے حالات کا سامنا کر تی ہوئی عورت کے کئی روپ نمایاں ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عورت زندگی کے مختلف شعبوں میں حالات سے نبرد آزما ہے۔ ان تحریروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں مصنّفہ مسلسل ان مسائل کے اسباب کا جائزہ لیتی ہوئی اور ان کے حل کی تلاش میں سر گر داں نظر آ تی ہے۔ افسانہ ’’تیسرے راستے کے مسا فر‘‘  میں جہاں ایک قصبہ میں پلی بڑھی لڑکی کی آزاد ہواؤں میں اڑنے کی امنگ کو حالات کے جبر تلے کچلتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہیں اس کی دوسری ممکنہ صورت اور اس کا انجام  دو تصویروں کے موازنے کے ساتھ موجود ہے۔ شہزادی جو اپنی پسندیدہ راہ پر چل کر ایک طوائف بن گئی۔ راوی نے اپنے حالات سے سمجھوتا کر لیا اب اس کی بیٹی عالیہ پھر اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ اس واقع پر افسانہ نگار نے ایک نئی جہت کی طرف اشارہ کیا ہے:

’’کوئی تیسرا راستہ بھی تو ہوتا ہو گا شہزادی ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ہاں ہو تا ہے، تیسرا راستہ تو سب سے سہل ہے پہلے اور دوسرے راستے کے مسافر محبّت کر نے والے ہوتے ہیں ان ر استوں پر جاتے ہیں تو لوٹ کر نہیں آ تے۔ ان کے لوٹ کر آ نے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ تیسرے راستے کے مسافرمحبّت کر نے والوں کے والدین ہوتے ہیں۔  وہ حضرت خضر کی طرح بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتے ہیں ان کی منزل کا تعیّن کرتے ہیں۔ انھیں نئی زندگی دیتے ہیں۔ ‘‘(۸)

بانو سر تاج کا افسا نہ ’’اس کے لئے‘‘ جو ان کے اس افسانوی مجموعے کا بھی نام ہے، عورت کی تنہائی کو موثّر انداز میں نمایاں کرتا ہے۔  اپنوں کے درمیان ناقدری اور مجبوری اس افسانے کا موضوع ہے۔  اس افسانے میں سہاسنی کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو نے کے بعد بہو بیٹیوں کی نفرت کا شکار ہو کر آشرم میں رہنے پر مجبور ہو جا تی ہے۔ شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کے گھر آ نا بھی اسے نصیب نہیں ہو تا۔ بیٹی کو دلہن بنے دیکھنے کی آرزو اسے کس کس انتہا تک لے جاتی ہے یہ ہمارے سماج کی ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والی سچّائی بانو سرتاج نے اس افسانے میں بے نقاب کی ہے:

’’پھولوں سے سجی کار تک سریکھا کو لے جاتے ہوئے ان کی نظر سڑک کے اس پا ر کھانے کی امّید میں بیٹھے بھکاریوں کی قطار پر جا پڑی لال ہرے پھولوں والی ساری کی گٹھری پر ان کی نظر ٹک گئی…ان کے کپکپاتے ہاتھوں سے ْسریکھاکی بانہہ چھوٹ گئی۔  تھوڑا آ گے بڑھے چشمہ اتار کے دھوتی کے پلّو سے صاف کیا۔ پھر دیکھا وہی تھی پلّو کی آڑ سے دلہن بنی سہاسنی بٹیا کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ‘‘(۹)

بانو سرتاج کے افسانوں کے متعلق نذیر فتح پوری کی یہ رائے ان کی تحریروں کے تاثر کی گواہی دیتی ہے :

’’ بانو سرتاج کے افسانے ان کی باطنی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے آ نسو ہیں جو زندگی اور متعلقاتِ زندگی کی داستانِ خونچکاں پڑھ کر بہے ہیں اور صفحۂ قرطاس پر پھیل گئے ہیں۔ ‘‘ (اس کے لئے)

 

                میم ناگ

 

میم ناگ ودربھ کے افسانہ نگاروں میں اپنے معیاری افسانوں کی بہ دولت ایک مقامِ افتخار حاصل کر چکے ہیں۔  اپنے فن کو جدید اسلوب و فکر سے کامیابی کے ساتھ جلا بخشنے والے افسانہ نگاروں میں میم ناگ کا شمار کیا جا تا ہے، ودربھ میں جدید افسانہ کے سلسلہ میں ان کا دم غنیمت ہے۔  عصری حسیت کو انہوں نے اپنے افسانوں میں فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔  ’ڈاکو طے کریں گے‘ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ میم ناگ نے جہاں افسانوں میں اپنے جو ہر دکھائے ہیں وہیں منی افسانے کی صنف کو بھی اپنی فنکاری سے وقار بخشا ہے۔  میم ناگ کی زبان اور الفاظ اور تراکیب کا استعمال خاص طور پر ہمیں متوجہ کر تا ہے۔ ان کی کہانیوں میں مکالمے کر داروں کے اندرون کی بھر پور نمائندگی کر تے ہیں۔

’’شاید تمہارا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے ؟

نہیں۔ کوئی فوت نہیں ہوا۔

پھر یہ قبر کیوں کھو د رہے ہو ؟

قبر تو کھودنی ہی پڑتی ہے کم عقل

کس کے لئے ؟

اپنے لئے اور کس کے لئے۔  اس نفسانفسی کے عالم میں کون کس کے لئے قبر کھودتا ہے بھلا۔ ‘‘(غولِ بیابانی )

میم ناگ کا لہجہ جدیدافسانے کا وہ مخصوص انداز ہے جو اپنے اندر تہہ داری لئے ہوئے ہے یہ پر اسرار انداز اپنے اندر بھر پور معنویت کے ساتھ موضوع کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ منکشف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  ان کے متعلق عبد الرحیم نشتر رقمطراز ہیں :

’’میم ناگ کے یہ افسانے ماضی قریب کے اردو افسانے سے اپنی ہم رشتگی استوار رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی ایساواضح خطِ امتیاز نہیں ہے جو ان کے افسانوں کو منفرد پہچان عطا کر تا ہو لیکن وہ پھر بھی کہیں کہیں توسیع کاری کی مثال بن کر ابھرتے ہیں۔  میم ناگ کا طرزِ اظہار پُر اثر اور دل پذیر ہے۔  ان کے یہاں بیانیہ اپنی شد و مد کے ساتھ اٹھتا ہے اور یہ اٹھان محض رپورٹنگ نہیں ہو تی کیونکہ ان کے تخلیقی عمل میں افسانہ نگار کا اپروچ تماشائی کے بجائے جزوِ تماشا کا ہو تا ہے۔  وہ کسی واقعہ واردات یا منظر کو محض دیکھ کر نہیں رہ جا تے بلکہ انھیں اپنے فکر و احساس اور جذبہ میں اس طرح رچا لیتے ہیں کہ وہ ان کے تجربہ کا ایک حصّہ معلوم ہو تا ہے۔ ‘‘(۱۰)

میم ناگ کے افسانے کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:

’’چاروں طرف دھوپ تھی۔ میں نے اپنی ہتھیلیاں پھیلائیں،  لکیریں بھاگ رہی تھیں۔  میں نے انھیں پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر وہ میرے ہاتھ نہ آئیں اور نکل بھاگیں …یوں میری ہتھیلی صاف ہو گئی اور میں نے چار و ناچارسوچ لیا۔ ان لکیروں کو مجھ سے بہتر ہاتھ مل گیا ہو گا۔ ‘‘(۱۱)

 

                طارق کھولا پوری

 

ودربھ کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے طارق کھولا پوری۔ ایک مدّت سے پورے خلوص و انہماک سے اس صنف کے فنّی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی تکنک اور اسلوب کی ندرت کے ساتھ لکھ رہے ہیں اور روایت کی لکیر پیٹنے والے اس علاقے کے افسانہ نگاروں کی بھیڑ میں بجا طور پر ان سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔  اب تک ۸۵۰ افسانے تحریر کر چکے ہیں۔  ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’کانٹے دار فصل‘‘ ۱۹۹۱ء؁ میں شائع ہوا تھا پھر عینی شاہد ۲۰۰۷ء؁ میں منظرِ عام پر آ یا۔

طارق کھولا پو ری کے یہاں سماجی حقیقت نگاری اور فنّی قدروں کا حسین امتزاج مو جود ہے۔  تکنک اور تجربات کے لئے بھی وہ جانے جاتے ہیں انھوں نے مزاحیہ مضامین بھی قلمبند کئے ہیں لیکن افسانہ ان کی پہلی محبت ہے جہاں انھوں نے طنز کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ طارق کھولا پو ری کے افسانوں میں عصری حسّیت فنکا رانہ انداز میں نمایاں ہوئی ہے۔  ان کے بیشتر افسانوں کا موضوع فسادات ہیں چونکہ سعادت حسن منٹو ان کے آئیڈئل افسانہ نگار ہیں اور منٹو کے سیاہ حاشیوں میں تقسیمِ ہند کے بعد ہو نے والے فسادات کے دھوئیں کی لکیریں طارق کھو لا پو ری کے یہاں گہری ہو تی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد سے یہ مسئلہ اب تک وہی شدّت اختیار کئے ہوئے ہے۔

’’انکل رو رو کر کہنے لگے ’ بیٹا میں مجبور تھا…میں بوڑھا کمزور تھا، کچھ نہ کر سکا۔  میرا کوئی جوان بیٹا بھی نہیں تھا جو تمہارے گھر کی حفاظت کرسکتا۔  ایسادنگا جب دیش آ زاد ہوا تھا۔ تب بھی نہیں ہو ا۔ ہاں تب میں جوان تھا طاقت ور تھا۔  اسی محلّے میں میں نے تمہارے خاندان والوں کو بلوائیوں سے بچا یا تھا۔  تب میں جوان تھا، طاقتور تھا،  ذی حیثیت تھا۔  میرا حکم مانا جا تا تھا۔  میرے اصولوں آ درشوں کا احترام کیا جاتا تھا۔  اب میں بوڑھا کمزور ہو چکا ہوں،  میرے اصولوں اور آدرشوں کا مذاق اڑا یا جا ہے میں نہیں بچا پا یا۔  کچھ نہیں کر سکا میں۔ ‘‘(۱۲)

طارق کے افسانہ ’ گرہ ‘ میں گجرات کے فساد میں کمر کی ہڈّی ٹوٹ جانے کے سبب مارا جانے والا باپ اپاہج کتّے کی شکل میں ایک زخم بن کر اس افسانے کے مرکزی کر دار کے دل و دماغ میں ایک ناسور بن کر رہ جا تا ہے۔  یہ افسانہ نہ صرف فساد کی سنگینی بلکہ انسانی نفسیات کا بھی احاطہ کر تا ہے۔  عام آ دمی کے ذہن میں حالات کی جو ہیبت طاری ہے اس کی تصویر کشی اور اجتماعی سائیکی میں موجود بھیانک تصویریں طارق کھولا پوری کے افسانوں میں بولنے لگتی ہیں۔ ڈاکٹر صفدر ان کی تحریروں کے متعلق لکھتے ہیں :

’’فنّی برتاؤ زندہ ہے۔  کہانی کار وعظ و نصیحت نہیں کرتا۔ وہ ظلم و استبداد کا ہدف بنے انسانوں کے روحانی کرب کو گویائی دے کر کمینگی کو بے نقاب کرتا ہے۔  ان کے باطن میں امن کی کونپل زندہ ہے۔  وہ اس کونپل کی پر ورش پر یقین رکھتے ہیں۔ ‘‘(۱۳)

اس بیان کی تصدیق میں طارق کھولا پوری کے افسانوں میں قدم قدم پر مثالیں مو جود ہیں :

’’آج اسے پہلی بار لگا کہ وہ ایک ایسے جسم میں جی رہا ہے جو ذات و دھرم کے لیبل سے بے حیثیت بن چکا ہے۔

بے اختیار اس کا جی چاہا کہ وہ اپنے بے حیثیت جسم سے کہیں نکل بھاگے ! کاش جسم سے نکل بھا گنا میرے اختیا ر میں ہو تا۔ اپنی اس ناکام چاہت کے زیرِ احساس اس کے شریا نوں میں لہو سنسنانے لگا دل و دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ ‘‘(۱۴)

 

                کلثوم ممتاز

 

ناگپور کی خواتین افسانہ نگاروں میں کلثوم ممتاز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک مدّت سے افسانہ نگاروں کے قافلہ میں شامل ہیں،  ان کی نگارشات لگاتار ادبی رسائل میں شائع ہو تی رہی ہیں، ان کے بعد آ نے والی دیگر خواتین اپنے افسانوں مجموعوں کے ساتھ اپنی شناخت قائم کر چکی ہیں اور اب دیر آ یددرست آید کی مصداق گذشتہ برس ان کی کتاب ’’ آغوش بہار‘‘ زیورِ طبع سے آ راستہ ہو کر منظرِ عام پر آئی ہے۔

ان کے ہمعصر قادر نیازی جو بذاتِ خود ایک اہم افسانہ نگار تھے، ان کے رسالہ ماہنامہ ایجوکیشنل ٹائمز اور بعد ازاں ماہنامہ ’ قرطاس،  ناگپور‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل ہوئیں۔

آغوش بہار، میں پچّیس افسانے شامل ہیں جن میں اپنے زمانے کے رجحانات اور مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔  بقول شاغل ادیب:

’’ ان کے موضوعات متنوع ہیں۔  ان میں میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات، مالدار ساسوں کی اپنے دامادوں کے افرادِ خاندان سے  بد سلوکی، مال و زر کی ہوس میں کسی دوشیزہ سے شادی رچانا اور اسے ہنی مون کے بہانے کسی اجنبی شہر میں لے جا کر یکہ و تنہا چھوڑ کر فرار ہو جانا۔  ‘‘

عورت کی نفسیاتی الجھنیں اور اس کی سوچ کی عکاسی کلثوم ممتاز کے افسانوں کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کر تی ہیں :

’’اس کے دل کا چمن خوشیوں کے روح پرور ہوا کے جھونکے سے کھل اٹھا۔  اس کی زندگی کے چمن میں بھی ہزاروں مسرت کے پھول کھل اٹھے۔  اب اس کا دل چاہنے لگا دنیا کا ہر انسان اس کی ذات میں دلچسپی لے اور وہ ان سب کا مسکراہٹوں سے خیر مقدم کرے۔ ‘‘(۱۵)

 

                وکیل نجیب

 

وکیل نجیب نے کئی کہانیاں اور ناول بچوں کے لئے تحریر کئے جو مشہور پبلی کیشنز اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے توسط سے شائع ہوئے۔  ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’سنگ ریزے‘‘  ۲۰۰۰ء؁ میں شائع ہوا تھا۔  اس کے متعلق وہ اپنی ۲۱ویں کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

’’ناگپور کامٹی سے شائع ہونے والا یہ پہلا افسانوی مجموعہ تھا۔  اس کے بعد چند خواتین افسانہ نگاروں کے مجموعے اور ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب کی کہانیوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ‘‘(۱۶)

یہ بیان اس لحاظ سے قابلِ قبول نہیں ہے کہ پروفیسر زہرہ جبیں کا ایک افسانوی مجموعہ ’’نشیب و فراز‘‘ ۱۹۷۸ء؁ میں شائع ہوا تھا  (بحوالہ: نورِ نژاد، از عبدالرحیم نشتر، ص:۲۴) اور ڈاکٹر اشفاق احمد کی منی کہانیوں کا مجموعہ ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ ۱۹۹۳ء؁ میں منظرِ عام پر آ یا تھا۔  وکیل نجیب ادبِ اطفال کا ایک اہم نام ہے۔ وکیل نجیب کی کتابوں کو بچے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔  اسی لئے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سنگ ریزے کے سرِ ورق پر یہ لکھ دیا جائے صرف بالغوں کے لئے۔ سلیم شہزاد نے اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ:

’’ وہ بچوں کے۔ نا بالغ کہانیاں،  ناول اور نظمیں لکھتے لکھتے اپنی بلوغت کے ثبوت میں پختہ عمر کے قارئین کے لئے جذبات و احساسات سے تپیدہ افسانوں کی تخلیق کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(۱۷)

وکیل نجیب کے افسانوں میں بیانیہ بہت خوب ہے۔  واقعات کی مخصوص ترتیب،  کلائمکس اور چونکا دینے والے اختتام کے ذریعے انھوں نے کہانیوں میں دلکشی پید ا کی ہے۔ وکیل نجیب کے افسانے ’’دوسرا فریب‘‘ کے اس اقتباس سے ان کی کہانیوں میں موجود ڈرامائی عنصر کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے:

’’بالآخر تمام معاملات طے ہو گئے اور بہت ہی سادہ طریقے سے ہمارا نکاح ہو گیا۔  میں نے نو کری سے استعفیٰ دے دیا۔  چند دنوں تک ہم ناسک میں رہے اور پھر میں اس کے ساتھ اس کے شہر چلی آئی اس کے بڑے سے دو منزلہ مکان کے سامنے ہمارا آ ٹو رکشا رکا اور میں اس کے ساتھ مکان میں داخل ہوئی لیکن مکان میں اس کی دو عدد بیویوں اور آ ٹھ دس بچّوں کو دیکھ کر میں سنّاٹے میں رہ گئی۔ ‘‘(۱۸)

 

                ڈاکٹر اشفاق احمد

 

ڈاکٹر اشفاق احمد یوں تو ادبِ اطفال کے معماروں میں شمار کئے جاتے ہیں،  انہوں نے طلبا کیلئے کہانیاں لکھی ہیں :’’صبح کا بھولا‘‘(۱۹۸۵ء؁)،  ’’خوشبو کی واپسی‘‘(۱۹۹۸ء؁)ان کہانیوں کے مجموعے ہیں۔  اس کے علاوہ طلبا کے لئے مفید کتب کی تدوین و تصنیف میں بھی وہ کوشاں رہتے ہیں۔  ودربھ کے منی افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنی شناخت قائم کی ہے۔  یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے(۱۹۹۳ء؁) اور ایک زخم اور سہی( ۲۰۰۵ء؁) کی اشاعت کے بعد ودربھ میں منی افسانوں کا ہر تذکرہ ان کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔  ان کی مختصر کہانیوں میں کوئی سماجی پہلو، زندگی کی کوئی اہم حقیقت یا فکر کا کوئی نیا زاویہ منفرد انداز میں سامنے آتا ہے:

’’صبح ہوتے ہی بیٹے نے ملازمہ کے ہاتھوں ایک چٹھی دے کر اپنی والدہ کے پاس بھیجا… امی جان۔  آپ ہماری عدم موجود گی میں آ کر ہمارے بیٹے عاصم کولے کر چلی گئیں۔  اگر ہم موجود ہوتے تو شاید اُسے آپ کے ہمراہ جانے نہ دیتے کیونکہ وہ ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اس کے بغیر ایک دن گذارنا ہمارے لئے محال ہے وہ نہیں تھا تو کل شام کا کھانا بھی کھا یا نہ جا سکا رات میں اس کی امّی اور میں سو نہ سکے ملازمہ کو بھیج رہا ہوں ہمارا بیٹا لوٹا دو…

ماں نے اپنے پوتے کو لوٹا دیا مگر ساتھ میں ایک چٹھی بھی دی جس میں لکھا تھا‘‘ تمہیں معلوم ہوا ہو گا کہ بیٹے کی جدائی کا غم کیا ہوتا ہے۔  اپنی شادی ہو جانے کے بعد تم نے ہمارا چہرا بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔  تمہارا ایک دن میں یہ حال ہوا ہے۔

ذرا سوچو…تم مجھ سے دس سال سے جدا ہو… میرا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ ‘‘(۱۹)

 

                نواب رونق جمال

 

نام غلام احمد جمال ہے ادبی دنیا میں نواب رونق جمال کے نام سے جانے جاتے ہیں۔  آپ۲۵؍مئی ۱۹۴۵ء؁ کو کھولا پور ضلع امراؤتی میں پیدا ہوئے۔  ۱۹۸۰ء؁ کے آس پاس قلم سنبھالا۔  ابتدا کہانی نویسی سے ہوئی۔  منی افسانوں پر مشتمل آپ کے مجموعے:’’ قتل کا موسم‘‘،  ’’پھو ل کھلنے دو‘‘ اور ’’پنجرے کا آ دمی‘ ‘منظر عام پر آ چکے ہیں،  منی افسانوں کے علا وہ آپ ڈرامے اور مزاحیہ مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں آپ کی تخلیقات بیسویں صدی،  باجی،  خاتونِ مشرق،  گلابی کر ن،  اسباق،  گل کدہ، تکلم،  شاہین،  آواز اور گل نو میں شائع ہو چکی ہیں چند سالوں پیشتر آپ نے امراؤتی سے چھتیس گڑھ کے شہر درگ ہجرت کی اور اسے اپنا وطن ثانی بنا لیا۔ نواب کے افسانے سماج میں جاری سیاسی سرگرمیاں،  عشق اور فسادات جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔  ان کے کردار اپنے مکالموں کے ساتھ حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔  نواب کا بیانیہ افسانہ کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔  افسانہ لالچی،  دولت کے لئے اپنے پیار کو ٹھکرا کر ایک رئیس زادی سے نکاح کرنے والے شخص کی پشیمانی اور اس کی لالچ کا شکار ہونے والی لڑکی کی جھنجھلاہٹ کو خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے:

’’ہما تم خوش ہو نا؟

بہت! امیّد سے زیادہ۔ میرے غریب شوہر نے میری ازدواجی زندگی کو خوشی اور مسرّت کے پھولوں سے سجا دیا ہے۔

’کیا…تمہیں کبھی…میری یاد…آتی ہے ؟ ‘

’کبھی نہیں ! ‘

’ یہ بچّہ تمہارا ہے؟ ‘

’ ہاں ‘

’بہت پیارا ہے۔ ‘

تمہاری مالدار بیوی نے ابھی بچّہ پیدا نہیں کیا کیا؟‘‘(۲۰)

 

                شیخ رحمن اکولوی

 

شیخ رحمن اکولوی طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں ان کی پہلی تصنیف منی افسانوں کا مجموعہ ’’عکسِ شعور‘‘۱۹۷۸ء؁ میں منظر عام پر آ یا تھا۔  آپ کی دیگر تصانیف: ’’بلا عنوان، الف سے قطب مینار، ناٹ آوٹ‘‘مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔  یہ سچ ہے کہ شیخ رحمن میں ایک مزاح نگار کا قدافسانہ نگار سے بڑا ہے۔  شایداسی خود انکشافی کے بعد انھوں نے ظرافت کی قلمرو کا رخ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ اپنی جگہ درست سہی،   بہر حال ودربھ کے اولین افسانہ نگاروں میں اپنی ایک کتاب کے ساتھ وہ بھی شامل ہیں۔   ان کے ایک افسانے کا اقتباس درج ذیل ہے:

’’رامو جو مر نے سے پہلے لو گو ں کی نظر میں فرشتہ تھا مر نے کے بعد فرشتے سے بھی کچھ اونچا ہو گیا تھا۔ لیکن یہ تو رادھا جانتی تھی کہ فرشتے کے بھیس میں چھپا ہوا یہ شیطان اپنے نا پاک جسم میں کتنی گھناؤنی خواہشات رکھتا تھا۔ کتنی عجیب ہے یہ دنیا یہاں دھر ماتما بنتا ہے تو کون جو معصوموں کی عزّت سے کھیلتا ہے۔  گناہگار دیوتا۔ ‘‘(۲۱)

 

                عظیم راہی

 

عظیم راہی کا تعلق بھی ودربھ کے ایک قدیم شہر اچلپور سے ہے۔ فی الحال اورنگ آ باد میں مقیم ہیں۔ منی افسانہ نگاری سے ان کا رشتہ ادب میں ان کی پہچان ہے،  یہ رشتہ ان کی تصنیف اردو افسانچہ کی روایت کی اشاعت سے اور بھی گہرا ہو گیا ہے۔ منی کہانیوں کو موضوع بنا کر انھوں نے تحقیقی کام کیا اور اس نو خیز صنف پر ان کی اس کتاب کو اولین تحقیقی اور تنقیدی تصنیف کی حیثیت حاصل ہے۔ ’’ اردو میں افسانچہ کی روایت‘‘ کے متعلق مناظر عاشق ہرگانوی لکھتے ہیں :

’’عظیم راہی نے پہلی بار افسانچہ پر سنجیدگی سے توجہ دی ہے اور حقیقی و تنقیدی مطالعہ و مکاشفہ پیش کیا۔ تخلیقی حسیت اور بصیرت سے بھر پو ر اردو میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب مشعلِ راہ ثابت ہو گی اور محرک بنے گی۔  ‘‘

عظیم راہی نے افسانے بھی لکھے جن میں سماج کے وہ مسائل ان کی توجّہ کا مرکز ہیں جنھیں بدلتے ہوئے حالت اور نئی تہذیب کی ہواؤں نے جنم دیا ہے۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’اگلی صدی کے موڑ پر‘ ادبی دنیا میں خراجِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔  ان کے افسانے تلاش، اپنے گھر میں اجنبی اگلی صدی کے موڑ پر وغیرہ اپنے مخصوص کر داروں کے ذریعے زندگی کے حقائق کو نمایاں کر تے ہیں۔ ان کے دو منی افسانے ملاحظہ فرمائیں :

’’حمل ساقط کروانے کے بعد ایک نوجوان لڑ کی نے ڈاکٹر کا بھاری بل دیکھ کر اس لیڈی ڈاکٹر سے عاجزی سے کہا… میڈم پلیز کچھ کنسیشن کیجئے نا۔  میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں اور ابھی میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔ ‘‘ (کنسیشن)

’’وہ شخص جس نے میرے قتل کی سازش رچی تھی۔

معجزاتی طور پر…میرے بچ جانے پر…مبارک باد دینے والوں میں سب سے آ گے تھا۔ ‘‘ (چلن)

 

                 ایم آئی ساجد

 

ایم آئی ساجد کو ودربھ کے منی افسانہ نگاروں کے پیش رو کی حیثیت حاصل ہے۔  ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’آواز کے پتّھر ‘‘شائع ہو چکا ہے۔  ان کے افسانے زندگی کی حقیقی تصویر پیش کر تے ہیں عام زندگی کے بظاہر غیر معمولی مظاہر میں بھی وہ نئی معنویت تلاش کر نے پر قادر ہیں۔  ان کی کہانیوں میں جہاں مثبت قدروں کی تلاش کا جذبہ نظر آ تا ہے وہیں زندگی کے کریہہ رخ کو پیش کر کے وہ سماج کے مختلف طبقوں میں در آئی بد عنوانیوں کو بھی بے نقاب کر تے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۶۵ء؁ س[ے قلم سنبھالا ان کا پہلا افسانہ’ انجامِ تکبر ‘صحیفۂ انجمن کھام گاؤں میں شائع ہوا۔ ان کی بیشتر تحریریں ابتدا میں روزنامہ اردو ٹائمز کی زینت بنیں۔  بعد ازاں ملک کے مقتدر جرائد میں ان کے تحقیقی مضامین اور بچّوں کے لئے لکھی گئی کہانیاں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اپنی منی کہانیوں میں فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔  ان کے افسانے سوچ کی دہلیز سے کا ایک اقتباس درج یل ہے:

’’مہیب رات کے بے کراں سنّاٹوں کے ان دیکھے عفریت دن کے اُجالے میں اس کی طرف بڑھ رہے تھے اور سوچ کے مکروہ گدھ اس کے شعور کے مغز کو اپنی نکیلی چونچوں سے ٹھونگیں مار رہے تھے۔ آخر سوچ کی پرواز اپنی آخری حد پہ آ کے تھم گئی اور گوشت خور گدھ مالِ غنیمت سمیٹ کر پھڑا پھڑا کر اُڑ گئے۔ ‘‘

دھوئیں کی دیوار اس افسانے میں انھوں نے ایک فنکار کی پریشانی کو اس طرح بیان کیا ہے:

’’کرخت، تلخ و تند اور گونجدار آواز کے زیر و بم میں قلم کانپ جا تا ہے۔ قلم تھامی ہوئی تینوں انگلیوں میں لرزش پیدا ہو جا تی ہے۔ کاغذ کا چکنا،  نرم و نازک صفحہ اپنے وسیع و شفاف سینے پر قلم کو سبک روی سے چلنے سے روک دیتا اور وہ ہاتھ روک کر الجھی الجھی سرد اور دھندلائی نظروں سے کرخت اور گونجدار آواز کی سمت دیکھنے لگتا۔ قلم کو سگریٹ کی طرح ہو نٹوں کے گوشوں میں دبائے وہ سوچتا ہے۔ بندوق کی اندھی گولی کی طرح یہ بے کیف، بے مزہ اور تلخ و تند آواز کبھی چین و سکون کا سانس لینے بھی دے گی یا نہیں ؟‘‘(۲۲)

 

                غنی غازی

 

غنی غازی کا آبائی وطن لاکھنڈواڑہ ضلع بلڈانہ ہے۔  ان کی تعلیم ناندورہ میں مکمل ہوئی اس کے بعد ڈی ایڈ کی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ممبئی چلے گئے اور درس و تدریس کے علاوہ اہم اردو اخبارات سے جڑے رہے۔  انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھی ہیں۔  ’’ریت کے گھروندے ‘‘ اور ’’شبنم کے موتی ‘‘ کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ غنی غازی کے منی افسانوں میں اپنے اطراف کی زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں فرقہ وارانہ فسادات اور حالات کا شکار افراد کی زندگیوں میں رونما ہو نے والے رویّوں کو انھوں نے منی افسانے کے چھوٹے پردے پر معنویت کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔  ان کی ایک دلچسپ منی کہانی ملاحظہ فرمائیں :

’’وہ سب کو سکون بانٹتی ہے۔ آ دمی اس کے حسن کا دیوانہ ہے اسی کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے عزّت جیسی انمول شے اس پر نچھاور کر دی جاتی ہے ہر فرد کڑی محنت و مشقت کر کے اس کو پا تا ہے۔  صرف چار حرفوں پر مشتمل اس کا نام ہے۔ ر۔ و۔ ٹ۔ ی۔ ‘‘(۲۳)

 

                مظہرؔسلیم

 

مظہر سلیم بھیونڈی سے شائع ہو نے والے سہ ماہی تکمیل اور اوراقِ تعلیم جیسے ادبی رسائل کی ادارت سے وابستہ ہیں۔  تدریس ذریعہ روزگار ہے۔ ودربھ کے اہم افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔  مظہر سلیم نے جدید یت کے زیرِ اثر افسانے تحریر کئے اور اپنی پہچان بنائی۔

مظہر سلیم کے افسانوں میں ابھرنے والے کردار ہمارے ارد گرد پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے زندگی کی تلخیوں کو ان کے نکیلے گوشوں سمیت نمایاں کر کے ہمیں سوچنے اور زندگی کو نئی نظر سے دیکھنے پر آمادہ کر تے ہیں۔  ’’اندر کا آدمی‘‘ افسانہ میں حالات کے جبر سے نبرد آزما ہمارے اندر کے آدمی کے ٹوٹنے بکھرنے اور سنگلاخ حقیقتوں سے مفاہمت کرنے کی مجبوری کو مظہر سلیم نے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔  یہ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔  جس میں انسانی وجود کی کشمکش ظاہر کی گئی ہے۔  ان کے افسانوں میں واقعات کی کھتونی نہیں ہے،  بلکہ معنویت کی نئی تہیں دستیاب ہوتی ہیں۔

افسانہ دستک اور سائبان عورت کے فطری تقاضوں اور نا آسودگی کو بیا ن کرتے ہیں۔  انہوں نے منی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔  ان کی ایک منی کہانی درج ذیل ہے:

’’مینڈک ایک عرصے تک خشکی پر رہا۔ شاید وہ یہیں رہنا چاہتا تھا۔  اونچی عمارتوں میں مگر جب اس نے محسوس کیا کہ ہر آدمی کے پاس ایک کنواں ہے اور وہ اس میں رہتا ہے اس کنویں سے باہر بھی آنا نہیں چاہتا ہے تو پھر وہ مینڈک مایوس اور افسردہ واپس اپنے کنویں میں لوٹ گیا… !!‘‘(مینڈک )

ان کے افسانے اندر کا آ دمی کا یہ اقتباس ملاحظہ فر مائیں :

’’اب ہم جہاں رہتے ہیں وہ مسلمانوں کا محلہ کہلاتا ہے لیکن ماحول میں کیا فرق ہے ؟ وہی نکّڑ، غنڈے، آوارہ لڑکے اور ان کا خوف ! اب تو مجھے سب کے چہرے ایک ہی جیسے دکھائی دے رہے تھے صرف ان کے نام مختلف تھے وہاں کا چھوٹا رگھو یہاں کا چھوٹا جمیل بن گیا تھا۔ ‘‘(۲۴)

 

                طفیل سیماب

 

طفیل سیماب کھام گاؤں میں ۱۹۵۶ء؁  میں پیدا ہوئے۔  ان کے منی افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’لمحوں کی حرکت‘‘ ۱۹۸۳ء؁  میں اور دوسرا مجموعہ ’’ نیم کے پتّے‘‘۱۹۹۶ء؁  میں شائع ہوا۔  دونوں کتابوں کو مہاراشٹر اردو اکادیمی کے انعامات سے سر فراز کیا۔  طفیل سیماب نے بچّوں کے لئے بھی کہانیو ں کا ایک مجموعہ ’ ’کر ن کرن خوشبو‘ ‘ شائع کیا۔

طفیل سیماب نے اپنے زمانے کے سلگتے ہوئے موضوعات کو اپنی کہانیوں میں فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔  منٹو کے سیاہ حاشئے دیگر منی افسانہ نگاروں کی طرح ان پر بھی اثر انداز ہوئے اسی قبیل کی ایک کہانی درج ذیل ہے:

’’تمام شہر میں نفسا نفسی کا عالم تھا …ایک طبقہ صبح و شام میٹنگوں میں مصروف تھا تو دوسراطبقہ زور و شور سے تیاریاں کر رہا تھا…ان کے اقدام کی رپورٹ پولس کو موصول ہورہی تھی ’’گنیش جی‘‘ کا تہوار قریب آ گیا لوگ گھبرا کر شہر چھوڑنے لگے ہر کسی کو اپنی عزت و آبرو کا خطر ہ تھا پولس پریشان تھی صورت حال سے متاثر ہو کر ایک عظیم رہنما نے اپنی تجویز پیش کی جسے تمام حکام نے تسلیم کیا …جلو س نکالا گیا جو ش اور ولولے کے ساتھ ہر شخص گلال میں نہا رہا تھا…ہر کسی کے ہاتھ میں جھلملاتا ہتھیار تھا صر ف ذرا سے اشارے پر بھی شور بلند ہو جاتا ’’ہر ہر مہادیو‘‘ …’’نعرۂ تکبیر اللہ اکبر‘‘ لیکن جلوس میں اچانک ٹھہراؤ آ گیا …ہر فرد کے جسم میں انجانے خوف کی لہر دوڑ گئی کہ…’’دور دور تک پولس فورس کا کوئی پتہ نہ تھا…!؟‘‘(اور فساد نہ ہوا)

 

                صبغت اللہ

 

ودربھ کے افسانہ نگاروں میں انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ابھر نے والے افسانہ نگاروں میں صبغت اللہ ایک اہم نام ہے۔  ۱۹۶۱ء؁  میں کھام گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کی کہانیوں میں سماجی حقیقت نگاری کے علاوہ انسانی رشتوں کی بدلتی ہوئی نوعیت کو فنکاری کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔  انھوں نے ادبِ اطفال کے تحت بھی کئی کہانیاں تحریر کیں۔  ان کی بیشتر کہانیاں ماہنامہ، بانو،  بیسویں صدی، کھلونا اور نور میں شائع ہوئیں۔ ان کی چند کہانیوں کے عنوانات یہ ہیں :انصاف کا پتھر، سر حدیں، آخری جنّت، مجازی خدا، ماضی کی سیر۔

 

                حبیب ریتھپوری

 

حبیب ریتھپوری کے افسانے اور منی کہانیاں متعدد رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے۔  انھوں نے فنکارانہ انداز میں اپنے زمانے کے اہم مسائل کو افسانے کا موضوع بنایا۔  حبیب ریتھپوری کی ایک کہانی انیس بیس کے چند جملے درج ذیل ہیں :

’’دونوں ہی ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہ تھے بلکہ غصّے کی شدت میں یہاں تک کہتے کہ… اگر اب میں مرا تو میری لاش پر اس کا سایہ  نہ پڑ نے دینا…

…اپنا سفر طے کر تی ہوئی منزل قریب تھی کہ…اچانک زلزلے کے دہلا دینے والے لرزہ خیز جان لیوا جھٹکوں سے زمین لرزنے لگی…

…لاشیں نکالنے والے والوں نے دونوں کی لاشیں نکال کر سڑک پر رکھ دیں۔  انیس بیس کا نمبر ان کی لاشوں پر لگا دیا گیا۔ ‘‘(۲۵)

 

                سعید احمد خاں

 

پیشۂ درس و تدریس سے وابستہ اکولہ کے ادیب سعید احمد خاں جاسوسی ناول نگار کے طور پر مشہور ہیں۔  ان کے تین جاسوسی ناول نشہ اترتا ہے، کھنڈروں کا قیدی اور وحشتستان کے علاوہ ایک افسانوی مجموعہ دیکھا جائے گا بھی منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ ان کے افسانے ماہنامہ ایوانِ اردو،  راشٹریہ سہارا اور فروغِ اردو ادب میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شگفتہ تحریریں ماہنامہ شگوفہ میں بید براری خان کے نام سے شائع ہوئیں۔

 

                خواجہ غلام السیدین ربّانی

 

خواجہ غلام السیدین ربّانی۱۹۵۶ء؁  میں پاتور میں پید ا ہوئے۔ شہر ناگپور میں محکمۂ آثارِ قدیمہ میں سپرٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔  ادب و تاریخ سے متعلق ان کی تحقیقی کاوشیں اردو اور انگریزی میں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ شاعری اور اسٹیج کے علاوہ فنِ افسانہ نگاری بھی ان کی فطری صلاحیتوں کے اظہار کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔  ان کے افسانے:نیا کابلی والا، تمنّا کے سراب اور اپنا اپنا محاذ شائع ہو چکے ہیں۔ بقول ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن:

’’ربّانی کا افسانہ رومانیت کی گھسی پٹی راہ سے نکل کر اچھوتے موضوعات کی تلاش کر تا دکھائی دیتا ہے۔  کر داروں کی نفسیاتی اور جذباتی کشمکش کی عکاسی ان کے افسانوں کی خو بی ہے۔ ‘‘(۲۶)

 

                شکیل شاہجہاں

 

شکیل شاہجہاں نے ڈراما نگاری کے ذریعے اپنی ادبی شناخت قائم کی تھی لیکن ان کے ادبی سفر کا آغاز منی افسانہ نگاری سے ہوا ابھی تک آپ کے تقریباً ۸۰ منی افسانے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔  ان کے کئی ڈرامے اسٹیج ہو چکے ہیں اور انھیں علاقائی اور ریاستی انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کی تین کتابیں : ’’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ‘‘(یک بابی ڈرامے )،  ’’قطار میں آئیے‘‘(بچوں کے ڈرامے) اور’’ جھوٹا سچ‘‘(یک بابی ڈرامے) اردو ڈرامہ نگاری میں قابل قدر اضافہ ہیں آپ کا وطن کامٹی ضلع ناگپور ہے۔  لیکن روزگار کی تلاش میں کو کن چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ اچانک ایک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا ایک منی افسانہ درج ذیل ہے:

’’جب تک وہ سچائی اور ایماندار ی کو اپنائے رہا… فریب اور دغا بازی سے دور رہا… چاپلوسی اور مکاّری سے بچتا رہا… تو وہ غریب رہا لوگ اس کو دھتکارتے رہے۔ اس سے نفرت کرتے رہے۔

…اور اب وہ سچائی اور ایمانداری کو اپنے دامن سے جھٹک چکا ہے … فریب اور دغا بازی کو اپنا چکا ہے…چاپلوسی اور مکاّری اپنا پیشہ بنا لیا ہے… اب لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں …مگر وہ جب بھی تنہا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غریب پاتا ہے۔ کیونکہ اب اس کا ضمیر اسے دھتکارتا ہے۔ ‘‘ (ضمیر)

 

                غلام رسول اشرف

 

محمد غلام رسول اشرف ۱۹۹۰ء؁  سے منی افسانے لکھ رہے ہیں۔  آپ کے کئی منی افسانے ماہنامہ قرطاس،  اردو میلہ، آرینج سٹی اور اردو ٹائمز میں شائع ہو چکے ہیں۔  سانے گروجی اردو جونیئر کالج ناگپور کے پرنسپل کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔  ان کی کہانیوں میں شعبہ تعلیم سے متعلق سچّائیاں فنکارانہ انداز میں پیش کی گئی ہیں۔ عصری زندگی کا گہرا مشاہدہ اور سماجی کمزوریوں کو تاڑ کر بیان کر نے کی جرات انھیں ممتاز مقام عطا کر تی ہے۔  اسی قسم کی ان کی ایک منی کہانی ہے تعلقات:

’’آج وہ کئی دنوں بعد اسکول آیا تھا۔ اس کے کلاس ٹیچر نے آ ج بھی اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا:’’تم پہلے ہی ہر مضمون میں بہت کمزور ہو اور نہ ہی کہیں ٹیوشن پڑھتے ہو اور ہمیشہ بلا وجہ اسکول سے غیر حاضر ہو جایا کرتے ہو۔ اگر یہی حال رہا تو تم میٹرک کے امتحان میں یقیناً فیل ہو جاؤ گے۔ ‘‘ہمیشہ کی طرح وہ خاموش رہا اور مسکر ا کر بیٹھ گیا۔  کچھ مہینوں بعد جب میٹرک کا نتیجہ ظاہر ہوا تو اس کے دوسرے ساتھی کئی مضامین میں فیل ہو گئے تھے اور وہ کا میا ب ہو گیا تھا۔ اسکول میں اور اس کے ساتھیوں میں یہ چرچا عام تھا:’’وہ فیل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔  اس کے والد کے تعلقات تو کئی بڑ ے بڑے ماسٹروں سے تھے۔  ‘‘

 

                عمر حنیف

 

عمر حنیف یکم اپریل ۱۹۵۳ء؁  کو سرس گاؤں ضلع امراؤتی میں پیدا ہوئے۔  ۱۹۷۴ء؁  سے منی افسانے لکھ رہے ہیں آپ کے مختصر افسانے اور طنز و مزاحیہ مضامین بھی بیسویں صدی،  روبی،  گل فام،  شگوفہ،  ہم زباں وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں سماجی زندگی کی جھلکیاں موثر انداز میں پیش کی گئی ہیں۔  ایک کہانی کا اقتباس درج ذیل ہے:

’’ اچھا تو میں چلتی ہوں رشتہ کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔ دو تین روز بعد تمہیں میری رائے معلوم  ہو جائے گی۔  ‘

پانچویں دن ظہیر میاں کو لڑکے والوں کی طرف سے ایک مختصر سی تحریر ملی۔ جس میں آ داب و سلام کے بعد لکھا تھا:’تمہاری لڑکیاں ہمیں پسند ہیں لیکن آج کل صرف پسند سے کچھ نہیں ہو تا اور جس سے ہو تا ہے اس سے تم محروم ہو۔ ‘ ‘(نورِ نژاد، ص:۷۹)

 

                بلقیس شبیہ

 

بلقیس شبیہ کا تعلق اکولہ سے ہے۔ اسی ضلع کی ایک تحصیل آ کو ٹ میں پیدا ہوئیں۔  ان کی کہانیاں ماہنامہ بتول، تعمیرِ ہریانہ، درخشاں اور نیا دور جیسے رسائل میں شائع ہوئیں۔ آ ل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر بھی ہوئیں۔ اس علاقے میں جب بہت کم خواتین تخلیقِ ادب کی طرف متوجہ تھیں، بلقیس شبیہ نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر مقبولیت حاصل کی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’خالی سیپ‘‘۱۹۸۲ء؁  میں شائع ہو ا جس میں بارہ کہانیاں ہیں۔ چند کہانیاں : کربِ خود کلامی، خالی سیپ، ساحل کا تھپیڑا، خط کے فارم میں ہیں۔  بلقیس شبیہ نے اس تکنک کو بڑی عمدگی کے ساتھ برتا ہے۔  ان کی کہانیوں میں خاص طور پر مشرقی قدروں کی پروردہ عورت جن مسائل سے دوچار ہو تی ہے اور جس ردِّ  عمل کا اظہار کرتی ہے۔  اس صورتِ حال کو مصنفہ نے مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔  فنِ افسانہ نگاری پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور بیانیہ بھی خوب ہے۔  ’’خالی سیپ‘‘ افسانے میں ایک عورت کی جذباتی کشمکش کو جو اپنے شوہر سے علاحدہ ہو کر زندگی گزار تی ہے، خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے:

’’ممی میں نے سویٹ پا پا کو خواب میں دیکھا۔ سفید براق گھوڑے پر سوار مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھ رہے ہیں ہمارے درمیان ایک ندی حائل ہے۔ میں ان کی طرف ہاتھ بڑھا تا ہوں تو وہ مجبوری سے کہتے ہیں، بیٹے!جب تک یہ پانی سوکھ نہ جائے تم ہم مل نہیں سکتے۔  میں چیخ کر ان سے کہتا ہوں پاپا !ممی تو کہتی ہیں آپ بہت اچّھے تیراک ہیں پھر کیوں ایک چھوٹی سی ندی سے ڈر رہے ہیں۔  ڈال دیجئے نا گھوڑا پانی میں۔ اور تب میرے کہنے پر پا پا گھوڑا پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن کمبخت اسی وقت نیند کھل جا تی ہے۔ اور تب مجھے خیال آ یا آپ کے اور سیف کے درمیان وہ پانی کی نہر میں ہی ہوں۔ ‘‘(۲۷)

 

                ڈاکٹر قمر جہاں

 

علاقۂ ودربھ کے افسانہ نگاروں کی محفل میں ڈاکٹر قمر جہاں کی آمد اور ان کے اولین افسانوی مجموعہ ’’دھوپ چھاؤں ‘‘ ۲۰۰۵ء؁  کی اشاعت یقیناً ایک نیک فال ہے۔  خصوصاً ان حالات میں جب کہ یہاں خواتین افسانہ نگاروں کی نمائندگی پر بھی افسانہ ہی کا گمان ہوتا ہے۔

’’دھوپ چھاؤں ‘‘ میں شامل تحریریں ہمارے آس پاس بکھری ہوئی زندگی کی تصویریں ہیں۔  ان کے افسانوی کردار اپنی مٹی کی مہک لئے ہوئے ہیں اس لئے وہ حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔  مصنفہ کا قلم ایک نشتر کی طرح اُن دکھتی رگوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے،  جس کرب کو ہم محسوس تو کرتے ہیں،  اظہار نہیں کر پاتے۔ ’’دھوپ چھاؤں ‘‘ کے افسانے کرداروں کے بننے،  بگڑنے اور ٹوٹنے کے عمل کو حالات اور واقعات کے ذریعہ بیان کرتے ہیں۔  ان کہانیوں میں بدلتی ہوئی قدروں کے گھیرے میں کھڑا سماج ہے،  کھوکھلی ہوتی ہوئی جڑوں کے ذریعے مٹی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں،  ان کی آوازیں ہیں اور عصری زندگی کی پر چھائیاں بھی۔  ان کے افسانوں کے متعلق قاضی مشتاق احمد لکھتے ہیں :

’’مصنفہ کی کہانیاں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک ایسی افسانہ نگار سانسیں لے رہی ہے جو معاشرہ کی برائیوں سے بے حد مضطرب ہے اور معاشرے کو بدلنے کی خواہش مند ہے۔  انہوں نے سماج سے جڑے ہوئے انسانوں کے مسائل کو بڑی ایمانداری کے ساتھ اپنی کہانیوں میں ڈھالا ہے۔ ‘‘(پیش لفظ، دھوپ چھاؤں )

ان کی ایک کہانی کا اقتباس درج ذیل ہے:

’’دنیا میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے بارے میں ایک بار جو رائے قائم کر لی جاتی ہے،  سبھی لوگ اسے اسی عینک سے دیکھتے ہیں۔  سوتیلی ماں کا تصور بھی ایسا ہی ہے۔  خواہ کوئی عورت اپنے آپ کو مٹا ہی کیوں نہ دے۔ ‘‘(۲۸)

 

                ڈاکٹر سروشہ نسر ین قاضی

 

ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی نے کئی افسانے اور مضامین لکھے نیز نہال چند پرتاپ شاہ آبادی کے کلام کو مرتّب کر کے’’ نو ائے دل‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’نشیب و فراز‘‘ اوردوسرامجموعہ ’’یہ ایک تبسّم‘‘ایک ہی سال کے دوران یعنی۲۰۰۸ء؁  میں منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔

سروشہ نسرین روایتی رجحان کی نمائندہ افسانہ نگار ہیں ان کے افسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حقیقی واقعات پر مبنی ہیں۔  ان کے افسانوں میں ماحول اور سماج کی جیتی جاگتی تصویریں نظروں کے سامنے سے گذرتی محسوس ہو تی ہیں اور پڑھنے والے کو اپنے تجربات اور مشاہدات کا عکس ان افسانوں میں سمویا ہوا محسوس ہو تا ہے۔  وہ اپنے افسانوں کے لیے مواد اور موضوعات اپنے گردو پیش ہی سے حاصل کرتی ہیں۔  بعض افسانوں میں انھوں نے اپنے گاؤں کے جیتے جاگتے انسانوں اور ان کے مسائل کی حقیقتوں کو افسانہ کی شکل میں پیش کیا ہے اور کہیں انھوں نے اپنے نجی تجربات بھی افسانوی انداز میں بیان کر دئے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں عام زندگی کے بے معنی واقعات بھی کہانی کو نئے معنی سے آشنا کر تے ہیں۔  ان کے افسانے کو را کاغذ کا ایک اقتباس ملاحظہ فر مائیں :

’’وہاں بیٹھے کلرک نے اس سے پوچھ تاچھ شروع کر دی :’’کاغذ کی کیوں ضرورت ہے آپ کو ؟ ‘‘

در اصل میرے پاس بہت وقت ہے اور ٹائم پاس کرنا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں اس میں کچھ لکھا جائے۔ ’’کیا لکھیں گے آپ ؟ ‘‘

’’کوئی لیکھ لکھوں گا ؟ ‘‘

’’اچّھا،  تو آپ لیکھک ہیں ؟ لیکھک لوگوں کے پاس بہت فالتو ٹائم رہتا ہے،  میرے پاس کاغذ نہیں ہے، لیکن آپ نے میرا قیمتی ٹائم برباد کیا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائیل اٹھایا اور کچھ بٹنیں دبانے کے بعد بولنا شروع کر دیا :’’ ہاں اُپاسے!میں واگھ مارے بول رہا ہوں، کل پارٹی میں آ رہے ہو کہ نہیں ؟‘‘(۲۹)

 

                 صفیہ سلطانہ

 

صفیہ سلطانہ ناگپور کے معروف جدید شاعر مرحوم سید یونس کی اہلیہ ہیں۔  ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’دل کے آنگن میں ‘‘۲۰۰۳ء؁  میں شائع ہوا جس میں گیارہ کہانیاں ہیں۔

ان کا افسانوی مجموعہ’’ دل کے آنگن میں ‘‘ شہر ناگپور کے افسانوی ادب میں ایک اضافہ ہے۔  ان کی کہانیوں میں گھریلو زندگی کے واقعات دلچسپ انداز میں بیان ہوئے ہیں۔  صفِ نازک کے احساسات اور نو عمر لڑکیوں کے جذبات کو انھوں نے اپنی تحریروں میں بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔  ’جنت سرک گئی‘ اس افسانہ میں ماں کی ممتا سے بیوی کی محبت کی طرف مراجعت کرنے والے نوجوان کی کشمکش کو انھوں نے نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے:

’’بیٹی !ازدواجی زندگی ایک پل صراط ہی تو ہے۔ جو لوگ سسرال میں اپنی نئی زندگی کو پیار،  محبّت، عاجزی، انکساری اور اپنے پن سے رہ کر گزارتے ہیں وہ آ سانی سے زندگی کے پل صراط سے گزر جا تے  ہیں اور جو لوگ کدورت، نفرت، حسد، جلن،  خود غرضی او ر برائیوں کو دل میں رکھ کر زندگی گزار تے ہیں وہ لوگ ازدواجی زندگی کے پل صراط سے کٹ کٹ کر اندھیرے غار میں گر جا تے ہیں۔ ‘‘(۳۰)

 

                زہرہ جمال

 

زہرہ جمال ناگپور کی ایک افسانہ نگار ہیں جن کی تحریریں رسائل و اخبارات سے زیادہ انٹرنیٹ کے ذریعے منظرِ عام پر آئیں، اسی لئے ادبی حلقوں میں انھیں خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہ ہو پائی۔ نو ر الصباح کے نام سے ان کی نظمیں اور افسانے انٹر نیٹ پر مو جو د ہیں۔  ان کے چند افسانے ماہنامہ قرطاس ناگپور میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ صنفِ  نازک کی تنہائی اور درد و غم کو انھوں نے پر اثر انداز میں نمایاں کیا ہے۔  زبان و بیان کی لطافت اور اپنے ما فی الضمیرکو افسانوں کی شکل دینے کی صلاحیت ان کی تحریروں کو قابلِ مطالعہ بنا تی ہیں۔  افسانہ رہائی میں اس کے مرکزی کر دار کائنات کے دکھ کو زہرہ جمال نے ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے:

’’زندگی کی رواں ندی میں ٹھہراؤ کہاں ہو تا ہے۔ وہ تو ہلچل سے عبارت ہو تی ہے۔  کبھی پر سکون تو کبھی طوفانِ بلا خیز، اکثر طوفان اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جا تے ہیں اور اپنے پیچھے تباہیوں کے نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔  سب سے پہلا حادثہ اس کی زندگی میں جو ہوا وہ اس کی امّی کی اچانک موت تھی۔ ‘‘(رہائی،  زہرہ جمال)۔  (انٹر نیٹ سے)

 

                عاجز ہنگن گھاٹی

 

عاجز ہنگنگھاٹی شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں ان کا شعری مجموعہ ’’میٹھا نیم‘‘ ادبی حلقوں میں دادِ تحسین حاصل کر چکا ہے انھوں نے ابتدا میں کئی افسانے تحریر کئے، ان کی کہانیوں میں انسانی نفسیات کی لطیف گرہوں کو سلجھانے کی کوشش نمایاں ہے۔

عاجز ہنگن گھاٹی کا پہلا افسانہ ’ ’سوئی اور بٹن‘ ‘ ماہنامہ گونج فروری۱۹۷۶ء؁  میں شائع ہوا تھا۔  ان کے دیگر افسانوں میں زندہ در گور، رنگِ ہوس،  میرے بعد میں، مسیحا، رشتہ، کتّوں کو کھیر اور ہم سے گلہ قابلِ ذکر ہیں۔ ہنگن گھاٹی کی کہانیوں میں اس قسم کے تخلیقی جملے بھی ملتے ہیں :

’’وہ اپنے جسم کے شکستہ مکان کو کئی بار مٹّی کا پیوند لگا چکی تھی اور عمر کے ٹوٹے ہوئے دروازہ پر تصنّع کا بوسیدہ پر دہ لگائے ہوئے اکثر سوچتی رہتی۔ ‘‘ ( تسکین کا زہر)

ان کے متعلق ڈاکٹر اشفاق احمد لکھتے ہیں :

’ ’ آپ کے افسانوں میں احساس کی شدت جا بجا نظر آ تی ہے۔  اسی کیفیت کی وجہ سے آپ قاری کے جذبات و احساسات تک پہنچنے میں کامیاب ہو تے ہیں۔ عاجز ہنگن گھاٹی کے تمام افسانے معیاری ہیں اور فنّی لوازمات سے پر ہیں۔  اگر عاجز صاحب شاعری سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو جاتے اور افسانوں کی تخلیق میں مصروف ہو جاتے تو یقیناً ودربھ کو ایک منفرد اور قد آور افسانہ نگارمیسر آ جا تا۔ ‘‘(۳۱)

ان کی ایک منی کہانی درج ذیل ہے:

وہ احساسِ حق کی تلاش میں عمر کی اُنگلی پکڑ کر لمحہ لمحہ بھٹک رہا تھا۔  کبھی راتوں کی کجلائی ہوئی وحشت سے کبھی سحر کی شگفتہ امید سے کبھی ڈوبتے سورج کی شرمیلی کرن سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے لمحوں کو روک کر پوچھ لیتا تھا۔  ذات کی تحقیق کیا ہے ؟ جسم کی تخلیق کیا ہے ؟ روح کی پرواز کیا ہے ؟…احساس کی انتہا کیا ہے ؟ الغرض جب اُسے دور نزدیک کے رشتے ناطے کی موثر دلیلیں مطمئن نہ کر سکیں تو لفظوں کے راستے صحیفوں کے صحرا میں شعور کی جستجواس کی اداس آنکھوں کی قندیلیں لئے نکل پڑی۔  حالانکہ لا علمی کی وجہ سے بے سمت صداؤں کی رفعت کے گمان نے بہت ٹھوکریں کھلائیں …!

آخر ایک شب یقین کی سرحد پر بقیہ زندگی کے لئے اچانک وہ احساسِ حق مل ہی گیا جسے اس کی روح برسوں سے ڈھونڈ رہی تھی!‘‘ (بازیافت)

 

                عبدالقدیر صدیقی

 

عبدالقدیر صدیقی ۱۹۵۵ء؁  میں پیدا ہوئے ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’سوکھے پیڑ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔  ماہنامہ بیسویں صدی،  روبی اور امیج میں ان کی تحریریں شائع ہوئیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن رقمطراز ہیں :

’’ان کی زبان معیاری ہے۔ یہ اگر مسلسل لکھتے رہے تو ان سے ادبی دنیا توقع کر سکتی ہے کہ وہ اس میں قابل قدر اضافہ کر سکیں گے۔  ‘‘

 

                نیلوفر ناہید

 

نیلوفر ناہید کے کئی خوبصورت افسانے بزم ہند، آسنسول میں شائع ہوئے۔  ان کی تحریروں میں بیانیہ اور کردار نگاری قابل تحسین ہے۔

 

                کلیم ضیاء

 

ڈاکٹر کلیم ضیاء کا تعلق ملکہ پور سے ہے۔ ۱۹۵۶ء؁  میں پیدا ہوئے اردو،  فارسی اور عربی میں ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔  ممبئی میں مقیم ہیں۔  کئی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد اسمٰعیل یوسف کالج میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

کلیم ضیاء نے بچّوں کے لئے بھی کہانیاں اور نظمیں لکھی ہیں۔ کلیم ضیاء کی کہانیوں کا مجموعہ ’ناسور‘‘۱۹۹۷ء؁  میں شائع ہوا۔ ان کی کہانیوں میں شہری زندگی کی جھلکیاں عشق اور ازدواجی زندگی کے قصّے سیدھی سادی زبان میں بیان کئے گئے ہیں۔ بقول میم ناگ:

’تشبیہات اور استعارات کے جھمیلے میں نہ پڑتے ہوئے افسانہ نگار نے اپنی بات قاری تک پہنچا دی ہے۔  ‘‘

ان کی کہانی سے ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے:

’’چاند نے لو گوں کو خوشیاں اور مسرّت سے لبریز میٹھی اور لذیذ سویّوں کے پیالوں کے عوض فکر و تردّد کے ایاغ عطا کر دئے۔ عید آج منائی جائے یا کل یہ سوال ہر ذہن پر ہتھوڑے بر سا رہا تھا لیکن شرف الدین عرف شرفو کا گھر ماتم کدہ بنا ہو ا تھا۔ شرفو کی عید سے کچھ روز قبل گرفتاری نے اہلِ خانہ ہی کو نہیں اہلِ محلہ اور اسکول کے پورے اسٹا ف کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ‘‘(۳۲)

 

                رضیہ مبین نقوی

 

رضیہ مبین نقوی کی دو کتابیں :’’ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا‘‘ (آپ بیتی ) اور ’’میں جانوں یا میرا خدا‘‘ (کہانیاں )منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔  رضیہ مبین نقوی شعبۂ تدریس سے وابستہ تھیں او ر اب ملازمت سے سبکدوش ہو نے کے بعد اکولہ میں سکونت پذیر ہیں۔ اپنی آپ بیتی میں انھوں نے اپنے ارد گرد بکھری زندگی اور اور اپنے حالاتِ زندگی، تجربات،  تلخ اور شیریں یادوں کو رواں دواں اور شستہ زبان میں بیان کیا ہے۔  زبان کا یہی وصف ان کی کتاب’’ میں جانوں یا میرا خدا‘‘ میں بھی موجود ہے۔ ان کی کہانیاں جزئیات نگاری اور لطفِ بیان کے اعتبار سے لائقِ تحسین ہیں۔ مگر بیشتر تحریریں احوالِ واقعی کا بیان بن کر رہ گئی ہیں جبکہ فنِ افسانہ نگاری عالمِ امکاں میں دوسرا قدم رکھنے سے عبارت ہے۔  رضیہ مبین کی کہانیوں میں جہاں کہانی پن کی کمی خاص طور پر محسوس ہو تی ہے وہیں اشعار کا بے محابا استعمال گراں گزرتا ہے۔ انھوں نے گھریلو زندگی کی تصویریں پیش کی ہیں،  کرداروں کے مکالموں میں مقامی زبان کو جگہ دے کر اس علاقے کے مخصوص فطری ماحول میں پہنچنے کے لئے قاری کا راستہ ہموار کیا ہے اور اپنی تحریروں کو عصری زندگی کی مہک سے آراستہ کیا ہے:

’’انسپکٹر کمار نے پلٹ کر دیکھا اور ان کے حواس بھی گم ہو گئے۔ منشی جی دوبارہ انسپکٹر سے مخاطب ہوئے،  اب زینے پر دیکھئے،  زینے پر تین خوبصورت صحت مند نوجوان اور ان کی بیویاں،  بچّے اتر کر ڈرائنگ روم میں آ رہے تھے۔ ایک خو بصورت خاتون بھی زار و قطار روتے ہوئے واکر کے سہارے ایک کم عمر لڑکی کی مددسے سیڑھیوں سے اتر رہی تھی۔ منشی جی کہہ رہے تھے، بیگم سر کار نے جن کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوائی ہے وہ گمشدہ بچّے یہی ہیں۔  آپ کو جو تصویر دی گئی تھی اس کا انلارجمنٹ دیوار پر موجود ہے۔ ‘‘( تلاشِ گمشدہ، رضیہ مبین نقوی، مطبوعہ : میں جانوں یا میرا خدا،  ص:۲۸،  اکولہ،  ۲۰۱۱ء؁)

 

                یحییٰ جمیل

 

ودربھ کے جن فنکاروں سے بجا طور پر یہ امّید بندھتی ہے کہ وہ تخلیقی سطح پر نئے افق دریافت کریں گے انھوں نے افسانہ کو اسلوب، تکنیک اور تجربات کی جس توانائی سے روشناس کروایا ہے،  اظہار و بیان کی ان نادر لذّتوں سے آشنا ایک ایسے ہی افسانہ نگار ہیں یحییٰ جمیل۔

یحییٰ جمیل کا افسانہ لیمپ پوسٹ جہاں داستان کی زبان کا لطف لئے ہوئے ہے وہیں انتظار حسین کے اتّباع میں ہنر مندی کا مظاہرہ بھی ہے۔  وہ سپاٹ واقعہ نگاری سے اوپر اٹھ کر علامتوں کے استعمال سے نئے معنی تخلیق کر تے ہیں۔  ان کے افسانوں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے صفدر ان کہانیوں کے متعلق لکھتے ہیں :

’’یہ سب کہانیاں فنکارانہ ٹریٹمنٹ کی گواہ ہیں۔  علامت سازی اور بیانیہ کے ذریعے کہانیاں دلچسپی قائم رکھتی ہیں۔  اناڑی افسانہ نگار جو بات خود بیان کر دیتا ہے،  لیمپ پوسٹ کا قاری وہاں تک اپنی تخلیقی صلاحیت کے ذریعے پہنچتا ہے۔  چنانچہ اصل بات انکشاف کی صورت میں قاری تک پہنچتی ہے۔ ‘‘

’’ایک جن کا قصاص ‘‘ اس افسانے کے اختتامی جملے گہرا تاثر مرتّب کر تے ہیں :

’’کیا بات ہے آ قا ؟…میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پوچھا۔  میں نے اسے سارے حالات سے آ گاہ کیا وہ زمیں پر بیٹھا متاسف چہرے سے میری باتیں سنتا رہا۔  عبدالجبّار صاحب !میں اس کے قریب بیٹھے ہوئے بولا۔ آپ گاؤں والوں کو تبلیغی اور سنّی جماعت کے بجائے صرف مسلمان بنا دو بس،  اس کی پھٹی پھٹی آنکھیں مجھے آ ج بھی یاد ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں عبدالجبّار کے خون کا قصاص کسی سے لوں یا آپ دوں ؟‘‘(۳۳)

 

                محمد رفیع الدین مجاہد

 

نوجوان افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے۔ ان کی منی کہانیاں متعدد رسائل اور اخباروں میں شائع ہو چکی ہیں۔  ان کی دو کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ’’تلخیاں اور ترش روئیاں ‘‘ ۲۰۱۰ء؁  اور ’’عقلمند لڑکا‘‘۲۰۰۶ء؁ ۔  افسانہ نگاری کے علاوہ طنز و مزاحیہ مضامین بھی انھوں نے لکھے ہیں۔  ان کی کہانیوں میں ندرتِ خیال اور حقیقت کو عام روش سے جدا گانہ انداز میں پیش کر نے کی کوشش نمایاں ہے۔  ان کا ایک افسانچہ بعنوان ’’لمحاتی کشمکش ‘‘درج ذیل ہے:

’’میں جا رہا ہوں۔ ‘‘ایک لمحہ بولا۔

’’کیوں ؟‘‘دوسرے لمحے نے پوچھا۔

’’تم جو آ گئے ہو۔ ‘‘پہلے لمحے نے جواب دیا۔

’’لیکن اس سے تو پوچھ لیا ہو تا۔ ‘‘دوسرا لمحہ بولا۔

’’کس سے؟ ‘‘پہلے لمحے نے پو چھا۔

’’اسی سے…جسے ہمارے آنے جانے کا کوئی احساس ہی نہیں …! دوسرے لمحے نے جواب دیا۔

ان کی ایک کہانی میں جانوروں کے توسط سے ایک فساد زدہ بستی کا المیہ بیان کیا گیا ہے:

’’شہر میں خطر ناک فساد پھوٹ پڑا ہے۔

پولس کہیں بالکل نہیں اور کہیں تو ہو کر بھی نہیں ہمارے ساتھی بھی جل بھن کر مرتے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ ہماری بھی مکمل نسل کشی کر دی جائے ہمیں فوراً حرکت میں آ جا نا چاہئے۔

گدھے نے سبھوں کو آ گاہ کیا۔  اسی دوران پولس جیپ آ گئی، ارے یہ اتنے سارے جانور یہاں کیوں جمع ہیں۔  جب کہ شہر میں دفعہ ۱۴۴ لاگو ہے۔ پولس انسپکٹر نے چلاتے ہوئے پو چھا۔  انھیں یہاں سے بھگا دینا چاہئے کہیں یہ امن اور نظم اور نسق قائم کر نے میں رکاوٹ نہ کھڑی کر دیں۔ ‘ ‘(۳۴)

 

                اکبر عابد

 

اکبر عابد قریشی کا تعلق ملکہ پور سے ہے۔ پیدائش۱۹۵۸ء؁ ۔ بسلسلۂ ملازمت ممبئی میں مقیم ہیں۔ وہیں سے ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’چپ چاپ‘‘ شائع ہوا۔ کم لفظوں میں گہری بات کہنے کا ہنر ان کے افسانوں کی امتیازی خو بی ہے۔  بقول عظیم راہی:

’’اکبر عابد نے اپنے اطراف کے ماحول میں جو کچھ دیکھا اسے شدّت سے محسوس بھی کیا ہے اور اپنے خلاقانہ جوہر دکھا کر مختصر لفظوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔  ‘‘

ان کی کہانی فاتح درج ذیل ہے:

’’وہ ہر روز مجھ سے بازی جیت جاتا تھا۔ ایک دن اچانک وہ مجھ سے شکست کھا گیا۔ لیکن میں پھر بھی نہ جیت سکا۔ کیونکہ وہ ہا ر کر بھی فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ ‘‘(۳۵)

 

                فیروز خاں یاس

 

فیروز خاں یاس کا وطن پا تور ہے ان کی منی کہانیوں کا مجموعہ’ ’تیر نیم کش‘‘ شائع ہو چکا ہے۔  ان کی کہانیوں میں سماجی مسائل کے علاوہ انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں سمجھنے اور لطیف جذبات کو افسانوی انداز میں پیش کر نے کی کوشش نمایاں ہے۔  ان کے افسانوی مجموعے: ’’تیرا ہی سنگِ آ ستاں کیوں ہو‘‘ اور’’ زہریلی فضا ‘‘زیرِ ترتیب ہیں۔

 

                سلمیٰ نسرین

 

سلمیٰ نسرین اکولہ میں ۱۹۸۵ء؁  میں پیدا ہوئیں۔ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے علاوہ انھوں نے کہانیاں بھی لکھیں جن پر اصلاحِ معاشرہ کا رنگ غالب ہے۔ ان کی بیشتر تحریریں ماہنامہ حجاب، بتول،  ہلال،  پیامِ تعلیم اور امنگ میں شائع ہوئیں۔  ان کا ایک اصلاحی ناول  ’’صداقتوں کے پاسبان‘‘ ماہنامہ حجاب میں قسط وار شائع ہوچکا ہے:

’’اس کے آ نسو ہمیشہ سے ہی ہماری کمزوری رہے ہیں۔ میں ہمیشہ عباس بھائی پر رشک کرتا تھا وہ ان تینوں کو بہت اچھی طرح ٹریٹ کرتے تھے، کبھی محبت سے،  کبھی خفگی سے اور کبھی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے،  مگر اس معاملے میں وہ بھی کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ وہ بہت پریشان نظر آرہا تھا۔  ‘‘(صداقتوں کے پاسبان، سلمیٰ نسرین،  ماہنامہ حجاب، اپریل ۲۰۱۱ء؁)

 

                سکندر عرفان

 

سکندر عرفان کا تعلق شہر اچلپور سے ہے۔  حصولِ روزگار کے سلسلے نے انھیں شہر کھنڈوہ کا باشندہ بنا دیا۔  ان کی متعدد کہانیاں رسائل و اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے اور ادبِ اطفال کے تحت دو کتابیں :’’ آنگن پھولوں کا‘‘ اور’’ بکھرے موتی‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔  ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’چیختی خاموشی‘‘بھی منظرِ عام پر آ چکا ہے جو ۳۱ افسانوں اور منی کہانیوں پر مشتمل ہے۔  اپنے آس پاس بکھرے سماج کی حقیقتوں کو انھوں نے رواں دواں زبان میں کہانی کا روپ دیا ہے۔  ان کی کہانیاں بدلتے ہوئے سماج کی عکاسی کر تی ہیں۔  کہانی’ ’لمحہ لمحہ زندگی‘‘سے ایک اقتباس:

’’ اس نے بڑی معصوم ادا سے کہا،  تم بڑے بھولے ہو۔  تم مجھے بھی بھول گئے…میں تمہاری زندگی ہوں اور یہ سڑک جو تم دیکھ رہے ہو… یہ جادۂ حیات ہے…سفر ہی اس کا مقدر ہے۔ جہاں مسافر رک گیا وہی اس کی منزل ہے۔ تم خوش نصیب ہو جو مجھے کھو کر پالیا۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔  رفتہ رفتہ اس کا وجود سحر انگیز خوشبو میں بدلنے لگا۔ ‘‘(۳۶)

 

                 بابر شریف

 

بابر شریف،  ناگپور کے معروف شاعر مرحوم شریف احمد شریف کے فر زند، بنیادی طور پر مصّور ہیں۔  فائن آ رٹ کی ڈگری حاصل کی اور اب ایک کالج میں لکچرر ہیں۔  جدید ادب اور مصّوری سے خصوصی لگاؤ ہے۔  ان کی چند کہانیاں عام روش سے ذرا مختلف قسم کی، گذشتہ برسوں کے دوران شائع ہوئی ہیں۔  ایک خط ادھورا سا…افسانوی انداز کی تحریر جسے انھوں نے مقامی فنکاروں کی مدد سے اسٹیج پر پیش کیا تھا روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی میں شائع ہوا تھا۔ ان کی کہانی ’’صبح تک ‘‘سے ایک اقتباس:

’’کیا اس پو ری کائنات میں کوئی بھی موضوع ایسا نہیں جس پر ہم کھل کر بات کر سکیں ؟‘‘ الف نے بات شروع کی۔

ب بو لا:’’ ہے کیوں نہیں، ضرور ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارا علم محدود ہے۔ ‘‘

ج نے بگڑ کر کہا :’’ تم نے ہمارے علم کی حد کس طرح متعین کر لی ؟ ذرا کھل کر بتاؤ ۔ ‘‘(۳۷)

 

                ڈاکٹر محمد ابو الکلام

 

اسلامیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ناگپور کے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔  بچوں کے لیے سبق آموز ناول ’’توبہ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔  گزشتہ دنوں افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔  ان کے ایک افسانے ’’جنون‘‘ کا اقتباس درج ذیل ہے:

’’بات دراصل یہ ہے کہ اس پر آخری عمر میں تخلیقات کا بھوت جنون کی حد تک سوار تھا۔ وہ اپنے فارغ اوقات میں وہی کام کیا کرتا تھا۔ ایک رات ایسا ہوا کہ وہ پنسل لے کر اپنے پلنگ کے سامنے کی دیوار پر بے تحاشہ لکیریں کھینچنے لگا اور دیر تک کھینچتا رہا۔ ‘‘(ماہنامہ قرطاس،  جنوری-فروری ۲۰۱۱ء؁،  ص:۱۱۲)

 

                مظہر حیات

 

مظہر حیات کے چند افسانے مختلف رسائل میں شائع ہوئے اور آ ل انڈیا ریڈیوسے نشر بھی ہوئے۔ ان کی کہانیوں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے جذباتی رشتے اور زندگی کے دکھ درد کا بیان واقعات کے وسیلے سے ہوا ہے۔ شکستِ آرزو، درد کا رشتہ ان کی خوبصورت کہانیاں ہیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے۔ ایک کہانی ’’تقدیر کا مذاق‘‘ کا اقتباس درج ذیل ہے:

’’چند دنوں بعد اس کا ٹرانسفر کسی دوسرے شہر میں ہو گیا۔ میں اس کی یاد میں تڑپتا رہا اس کا انتظار کر تا رہا۔ کچھ دنوں بعد اس کا خط ملا۔  لکھا تھا، میرے ڈیڈی نے میری شادی میری مرضی کے خلاف دوسری جگہ کر دی ہے اور میں تمہاری یاد میں جی رہی ہوں۔ ہو سکے تو مجھے بھلادو۔  مجھے معاف کر دو۔ ‘‘

 

                عبدالوحید

عبدالوحید کا وطن ہنگولی ہے۔ بنک کی ملازمت کے سلسلے میں ناگپور تشریف لائے اور یہیں سکونت پذیر ہیں شاعری کے علاوہ انھوں نے متعدد مختصر افسانے اور منی کہانیاں لکھیں، جن میں سے بیشتر اردو ٹائمز، ممبئی،  اورنگ آ باد ٹائمز اور روزنامہ منصف کے علاوہ ادبی کارواں میں شائع ہو چکی ہیں،  یہ کہانیاں ریڈیوسے بھی نشر ہو چکی ہیں اور ان تحریروں پر عبدالوحید ادبی مجلسوں میں دادِتحسین حاصل کر چکے ہیں :

’’یہ تو گیا۔ ‘‘ سیکریٹری نے کہا۔ اب کیا کیا جائے ؟ غریب چند جی کچھ پریشان نظر آئے۔ اندھیری رات،  سنسان سڑک اور ایک بھکاری کون پوچھتا، میری مانئے چپ چاپ چل نکلئے۔ ڈرائیور نے رائے دی۔

’’بروبر بولتا۔ ایسا کتنا لوگ مرتا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘بھگت نے مسکا مارا۔

’’ایسے لفڑے میں پھنسنے کی کیا ضرورت ہے۔  آپ کو قوم کے لئے بڑے بڑے کام انجام دینے ہیں۔ ‘‘سیکریٹری نے تنخواہ حلال کر نے کی کو شش کی۔

’’ٹھیک ہے۔ چلو سب گاڑی میں بیٹھو۔  ‘‘

کار پھر ایک مرتبہ منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔ ‘‘(۳۸)

 

                نیر شبنم

 

نیر شبنم ہندی کی مشہور افسانہ نگار ہیں۔  ان کے کئی افسانوی مجموعے دیوناگری رسم الخط میں شائع ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔  انھیں اردو زبان و ادب سے لگاؤ ہے۔  انھوں نے اپنے چند منتخب افسانے اردو میں ترجمہ کر کے ۲۰۰۲ء؁  میں ’’اگرچہ آئینہ نہ ہوتا‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں پیش کئے ہیں۔  اس مجموعے میں ۵ا؍افسانے ہیں۔  ان کے متعلق ڈاکٹر شرف الدین ساحل رقمطراز ہیں :

’’ان کا لب و لہجہ ریشم کی طرح ملائم ہے،  زبان میں روانی اور برجستگی ہے۔ انھوں نے زیادہ تر رومانی دنیا کے مشاہدے پیش کئے ہیں اور حقائق کو کہانی کا روپ عطا کیا ہے۔ ‘‘

ان کے کہانی ’’دودھیا چاندنی کی آنچ‘‘ کا اقتباس :

’’یکایک صابر نے بے رحمی سے اپنے اشک پوچھے اور زورسے ایک ٹہوکالگا کر کہا… میں کیسا نادان ہوں،  مجھے تو تمہارے اشک پوچھنے تھے۔  تم کیوں رو رہی ہو شہزادی؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ میں تمہارا شریک حیات ہوں۔ ‘‘(اگرچہ آئینہ نہ ہوتا،  ازپروفیسر نیر شبنم،  ۲۰۰۲ء؁،  ص:۶۷)

 

                فرزانہ اسد

 

فرزانہ اسد کی کہانیوں میں عام طور پر کسی سانحے یہ سماجی حالات سے دبے کچلے لوگوں کی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے۔  ’’چوتھی لڑکی‘‘ میں ذ ہنی طور پر معذور ایک لڑکی کو اس کے والدین ہی کے ذریعہ سماج کی نظروں سے چھپائے رکھنے کی کوشش۔  اپنی اولاد کے لئے رشتوں کی تلاش میں پیش آنے والی مجبوریوں کی داستان سناتی ہے۔  اسی طرح ’’جل اٹھے پھر چراغ‘‘ میں ایک لیڈی ٹیچر کی بد ہیئت بیٹی کو تعلیم میں در پیش مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔  فرزانہ اسد کی ایک منی کہانی،  دہرائی جانے والی کہانی درج ذیل ہے:

’’صفیہ کی بیٹی نے ایک دن اپنی ماں سے کہا:’’ممی، آپ نے کبھی غور کیا کہ چھوٹی چاچی ہمارے گھر کب کب آتی ہیں ؟ ‘‘

’’ہفتہ میں ایک دو بار تو آتی ہی ہیں۔  ‘‘

’’نہیں، کس دن آتی ہیں ؟‘‘

’’اب دن کون یاد رکھتا ہے؟‘‘

’’ممی، آپ یاد کیجئے، وہ سوائے منگل اور سنیچر کے کبھی آتی ہی نہیں۔ ‘‘

’’و ہ کیوں بھلا؟‘‘

’’مجھے تو کسی جادو ٹونے کا چکر لگتا ہے۔ ‘‘

’’ارے ہاں، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ سنا تو ہے آج کل اسے ان دھندوں سے بڑی دلچسپی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس کا کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ مگر کیا کریں ؟‘‘

’’ایسا کرتے ہیں ہم سنیچر اور منگل کو پھوپھی کے گھر چلے جایا کریں گے۔ ‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘

…اور پھر وہ دونوں اپنا گھر لاک کر کے چاچی کے جادو ٹونے سے بچنے کی غرض سے پھو پھی کے گھر جانے لگے جو اسی شہر میں تھا۔ کئی ہفتوں تک یہی معمول رہا۔

دو ماہ بعد…

پھوپھی کی بیٹی اپنی ماں سے کہنے لگی:’’ممی، آپ نے کبھی غور کیا ہے،  صفیہ آنٹی ہمارے گھر کب کب آتی ہیں ؟‘‘

 

                قیصر انجم

 

قیصر انجم ودربھ کے افسانہ نگاروں میں بہت زیادہ معروف نہیں تاہم ان کی کئی تحریریں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان کے متعلق خلیل انجم لکھتے ہیں :

’’قیصر انجم کے مورثِ اعلیٰ گوالیار کے نامی گرامی لو گوں میں شمار کئے جا تے ہیں۔  ان کی والدہ محترمہ بھی اچّھے مضامین اور افسانے لکھ لیتی ہیں۔  آج ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر قیصر انجم کی گہری نظر ہے کہانی ’بہت دن ہوئے ‘گر چہ محبت کی بنیاد پر لکھی گئی ہے مگر چھوت چھات اور امیری اور غریبی کی تفریق اس میں واضح طور پر نظر آ تی ہے۔  مصنفہ خود ایک جا گیر دار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن سماجی مسائل اور معاشرہ کی برائیوں کو سمجھتی ہیں اور بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ انھیں الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کر تی ہیں۔ ‘‘

’’صلیب ‘‘اس افسانے سے چند جملے ملاحظہ فر مائیں :

’’یہ نام بھی کیا ہوتے ہیں جو کہاں سے کہاں تک ذہن کو کھرچ ڈالتے ہیں۔ اس نام سے جانے کتنی یادوں کی کڑیاں مل کر ایک نئی زنجیر بن چکی تھی جس میں وہ بری طرح جکڑ چکی تھی اپنے آپ کو۔  ‘‘

’’ہر کنواری ماں مریم نہیں ہو سکتی جو عیسیٰ کو جنم دے اور صلیب پر لٹکانے کے لئے عیسیٰ ہو۔ یہاں تو ہر کنواری ماں کو لوگ وقت کی صلیب پر لٹکا دیتے ہیں۔ ‘‘(۳۹)

 

                محمّد اسد اللہ

 

انشائیہ اور طنز و مزاحیہ مضامین کے علاوہ راقم الحروف کی چند کہانیاں بھی شائع ہو چکی ہیں۔  عورت، کو شش، چپلوں کی چوری، سر بریدہ عورت،  اس موڑسے آ گے وغیرہ۔ بچّوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ’’آٹھواں عجوبہ‘‘ عنقریب منظرِ عام پر آ رہا ہے۔  افسانہ عورت کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:

’’اب اس گاؤں کے اندر سے ابھرتے ہوئے عفریت جیسے شہر نے اس بستی کو نگلنا شروع کر دیا تھا۔  میرے قریب سے ایک آٹو رکشا گذرا جسے ایک عورت چلا رہی تھی۔ شہر کی طرح یہ مجبوریاں اب قصبوں میں داخل ہو چکی تھیں۔  مگر یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

مجھے حیرت سے اس منظر کو دیکھتے ہوئے ببلو نے کہا: ’’ بھائی جان! عورتاں آج کل بھؤت ترقّی کر لیاں،  ادھر گاؤں گاؤں میں عورتاں آٹو چلانے لگ گیاں۔  ‘‘

میری آنکھوں کے آ گے صائمہ خالہ کا چہرہ آ گیا جو ملازمت ملنے کے بعد اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی تھیں۔  پھر لڑکھڑاتا ہوا نانی جان کا ہیولہ ابھرا اور گر کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

’’ببلو! عورت چاہے آ ٹو چلائے یا ہوائی جہاز، دنیا والے عورت کی ترقّی کے کتنے ہی افسانے بنا ڈالیں، حقیقت یہ ہے کہ عورت آج بھی اتنی ہی بے بس اور لا چار ہے جتنی کل تھی۔ ‘‘(۴۰)

ودربھ میں افسانہ نگاری کے متعلق یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہاں ابتدا میں روایتی انداز کی تحریریں ہی افسانے کے نام پر آئیں اور یہاں کے کئی قلمکار افسانہ نگاری میں جاری وساری اسلوب ہیئت،  موضوع اور برتاؤ کے اعتبار سے اردو ادب میں جاری تجربات سے اکثر یا بے خبر رہے یا بے نیازی اختیار کی۔

نئے لکھنے والوں میں افسانوں کے بجائے منی کہانی لکھنے کا شوق رواج پاتا گیا۔  منی افسانوں کے کئی مجموعے منظرِ عام پر آئے،  جن میں،  عکس ریز(شیخ رحمن اکولوی)،  قتل کا موسم (نواب رونق جمال)، یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے(ڈاکٹر اشفاق احمد)، پھول کھلنے دو(نواب رونق جمال)، ایک زخم اور سہی(ڈاکٹر اشفاق احمد)،  لمحوں کی حرکت(طفیل سیماب)،  چپ چاپ(اکبر عابد)،  چنگاریاں (محمد رفیع الدین مجاہد) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

یہ سچ ہے کہ طویل افسانوں کا مطالعہ وقت طلب ہے اور اس کے قارئین کی تعداد منی افسانوں کی بہ نسبت کم ہے کہ اس کے پڑھنے اور لکھنے میں کم وقت درکار ہے۔  منی افسانہ نگاری کے فروغ کو سہل نگاری سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔  حالانکہ چاول پر قْل ہو اللہ لکھنے کا فن زیادہ مہارت چاہتا ہے۔  یہ بھی ممکن ہے کہ ودربھ میں افسانہ نگاری کے نام پر منی افسانے اور ان کے مجموعوں کے ڈھیر لگے ہوں۔  یہی چیز طویل افسانوں کی تخلیق میں رکاوٹ ثابت ہوئی ہو۔  بہر حال ودربھ میں منی افسانہ نما کپاس کے پھولوں کے لیے آب و ہوا ابتدا ہی سے ساز گار رہی ہے۔  اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کی کاشت اب بھی جاری ہے۔

٭٭٭

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔   عبدالرحیم نشتر، پیش لفظ،  ایک زخم اور سہی، ڈاکٹر اشفاق احمد،  ناگپور، ۲۰۰۵ء؁

۲۔  دھوپ چھاؤں، ڈاکٹر قمر جہاں،  ناگپور، ۲۰۰۵ء؁

۳۔   برار کی تمدّنی و علمی تاریخ، از ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ۲۰۰۱ء؁، ص: ۳۴

۴۔   شریف اورنگ، مجسّمہ، مطبوعہ ایجوکیشنل ٹائمز، ۱۹۸۰ء؁،  ص: ۴۵

۵۔  کوئلہ بھئی نہ راکھ، از واجدہ تبسم،  مطبوعہ روزی کا سوال، ص:۵۶

۶۔  نورِ نژاد،  مرتبہ عبدالرحیم نشتر،  ۱۹۸۹ء؁،  ص:۲۲

۷۔  فیصلہ، مطبوعہ شیشہ و سنگ، ثریا صولت حسین، ص:۶۲، ناگپور، ۲۰۱۰ء؁

۸۔  تیسرے راستے کے مسافر،  مطبوعہ اس کے لئے، بانو سرتاج،  ص:۳۱

۹۔   تیسرے راستے کے مسافر،  مطبوعہ اس کے لئے،  بانو سرتاج، ص:۱۱۶

۱۰۔  ودربھ میں اردو افسانہ، عبد الرحیم نشتر، مطبوعہ نورِ نژاد، ۱۹۸۰ء؁، ص:۳۱

۱۱۔  ہتھیلیاں اور لکیریں،م ناگ، مطبوعہ ممبئی، ۲۰۰۹ء؁،  ص:۹۶

۱۲۔  آتنک واد،  عینی شاہد، طارق کھولا پوری، امراؤتی، ۲۰۰۷ء؁، ص:۲۵

۱۳۔  ڈاکٹر صفدر، عینی شاہد، طارق کھولا پوری،  ص:۱۲

۱۴۔  آ تنک واد، عینی شاہد، طارق کھولا پوری، ص:۲۳

۱۵۔  خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے،  آغوشِ بہار،  کلثوم ممتاز، ناگپور،  ۲۰۰۷ء؁   ص:۴۰

۱۶۔  پیش لفظ، مطبوعہ سیاہ رات،  وکیل نجیب، ناگپور، ۲۰۰۸ء؁،  ص :۷

۱۷۔  پیش لفظ،  سلیم شہزاد،  مطبوعہ سیاہ رات

۱۸۔  دوسرا فریب،  وکیل نجیب، مطبوعہ سنگریزے،  ۲۰۰۰ء؁،  ص:۱۰۷

۱۹۔   اپنا دکھ، مطبوعہ ایک زخم اور سہی،  ڈاکٹر اشفاق احمد، ناگپور، ۲۰۰۵ء؁،  ص:۲۴

۲۰۔  لالچی، مطبوعہ پھول کھلنے دو،  نواب رونق جمال، امراؤتی، ۱۹۸۵ء؁

۲۱۔   ڈاکٹر شیخ رحمن اکولوی ایک مطالعہ،  مرتبہ محمّد یعقوب الرحمن، اکولہ، ۲۰۱۱ء؁،  ص:۲۳۹

۲۲۔  دھوئیں کی دیوار،  ایم آئی ساجد، مطبوعہ ماہنامہ قرطاس،  نومبر۲۰۰۸ء؁، ناگپور،  ص:۱۰۱

۲۳۔  وہ کون ہے ؟، غنی غازی، مطبوعہ ایجوکیشنل ٹائمز،  ناگپور، ص:۱۰۱

۲۴۔  اندر کاآ دمی، مظہر سلیم، نیا منظر نامہ:مظہر سلیم کے منتخب افسانے،  مرتبہ ابراہیم اشک،  ۲۰۰۷ء؁،  ممبئی،  ص:۲۷

۲۵۔  انیس بیس، حبیب ریتھپوری، ماہنامہ قرطاس، ناگپور، اگست ۱۹۹۹ء؁، ص: ۷۷

۲۶۔  بحوالہ:برار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء، از ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن،  ص:۴۰۶

۲۷۔  خالی سیپ، بلقیس شبیہ، مطبوعہ خالی سیپ،  اکولہ، ص:۵۱

۲۸۔  سورج اور ستارہ،  مطبوعہ دھوپ چھاؤں،  ڈاکٹر قمر جہاں، ۲۰۰۵ء؁،  ناگپور،  ص:۱۹

۲۹۔  کورا کاغذ،  یہ ایک تبسّم،  ڈاکٹر سروشہ نسرین، ۲۰۰۸ء؁،  ناگپور،  ص: ۵۵

۳۰۔  پل صراط، دل کے آنگن میں، صفیہ سلطانہ، ۲۰۰۳ء؁،  ناگپور،  ص: ۷۶

۳۱۔  عاجز ہنگن گھاٹی:بحیثیت افسانہ نگار، ڈاکٹر اشفاق احمد،  گوشۂ عاجز ہنگن گھاٹی ماہنامہ قرطاس، ناگپور،  جون۲۰۰۸ء؁،  ص:۱۰۲

۳۲۔  چاند کا اغوا،  مطبوعہ ناسور، کلیم ضیاء،  ۱۹۹۷ء؁،  ص:۳۶

۳۳۔  ایک جن کا قصاص،  محمّد یحییٰ جمیل،  مطبوعہ افکارِ ملّی،  دہلی، اپریل۲۰۰۵ء؁

۳۴۔  جانور، محمد رفیع الدین مجاہد، ماہنامہ قرطاس، ناگپور، جون ۲۰۰۳ء؁،  ص:۱۰۱

۳۵۔  چپ چاپ، اکبر عابد، ممبئی،  ص:۲۴

۳۶۔  لمحہ لمحہ زندگی، سکندر عرفان، مطبوعہ ماہنامہ قرطاس، جنوری۲۰۱۲ء؁، ص: ۱۱۴

۳۷۔  مجلہ تہذیب الکلام ۲۰۰۰ء؁،  ناگپور، ص:۸۵

۳۸۔  منزل،  شیخ وحید،  مطبوعہ ماہنامہ قرطاس،  ناگپور،  فروری۲۰۰۵ء؁، ص:۱۱۶

۳۹۔  ودربھ کی قابل ذکر ادیبہ قیصر انجم،  از خلیل انجم، مطبوعہ ماہنامہ شیرازہ،  سرینگر،  ص:۸۷-۸۸

۴۰۔  عورت،  محمّد اسد ا للہ، مطبوعہ ماہنامہ آج کل، نئی دہلی

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید