FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نماز حنفی احادیث کی روشنی میں

 

 

 

محمد ذاکر حسین قادری رضوی

(ایم۔ اے )

شعبۂ اردو، ونوبا بھاوے یونیورسٹی، سابق امیر ’’ بزم رضا‘‘، کھرگاؤں، ہزاری باغ (جھارکھنڈ)

 

 

تقریظ جلیل

 

مناظر اہل سنت حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد عبد المنان کلیمی دامت برکاتہم العالیہ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم

اَمَّا بَعْد

زیر نظر رسالہ ’’نماز حنفی احادیث کی روشنی میں ‘‘کا میں نے سر سری مطالعہ کیا۔ماشاء اللہ موضوع و عنوان کے اعتبار سے یہ رسالہ نہایت مفید و مؤثر ہے۔

غیر مقلدین زمانہ نے یہ غلط پروپیگنڈہ کر رکھا ہے کہ حنفی المسلک کے اعمال و اشغال یہاں تک کہ اول العبادات نماز کے ارکان و اطوار سراسر احادیث نبویہ کے خلاف و معارض ہے۔ سبحان اللہ یہ رسالہ اس غلط پروپیگنڈہ کا دندان شکن جواب لا جواب ہے۔

فقیر راقم السطور مرتب گرامی عزیزم مولوی محمد ذاکر حسین رضوی قادری سَلَّمَہٗ کو اس رسالہ کی ترتیب و اشاعت پر صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہے اور اس رسالہ کو مفید خاص و عام جانتے ہوئے دعاء گو ہے کہ رب کریم اپنے محبوب اقدسﷺ کے صدقہ و طفیل اس رسالہ کو قبول عام اور غیر مقلدین زمانہ کے لئے تازیانۂ عبرت بنائے اور فاضل مرتب کو سعادت دارین سے سرفراز فرمائے۔اٰمِیْن ثُمَّ اٰمِیْن وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہ

فقیر ابو الضیاء محمد عبد المنان کلیمیؔ عفی عنہ

مفتی شہر مراد آباد و صدر مجلس علمائے ہند

بتاریخ۳؍ رجب المرجب۱۴۳۵ھ

بمطابق۲؍ جون ۲۰۱۴ء

بمنزل مدینہ مسجد ہزاری باغ شہر

 

 

 

 

تقریظ جلیل

 

ماہر علوم جدیدہ و لسان حضرت علامہ و مولانا مفتی شہر یار خان دامت برکاتہم العالیہ

 

لَکَ الْحَمْدُ یَا اللّٰہ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یاَ رَسُوْلَ اللّٰہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ زیر نظر کتاب ’’نماز حنفی احادیث کی روشنی میں ‘‘کہیں کہیں سے سر سری طور پر دیکھا بہت مفید اور حنفی اصول کی مضبوط کتاب پایا۔اللہ مصنف کو جزائے خیر دے اور اس کتاب کو عوام و خواص کے لئے نفع بخش بنائے اور غیر مقلدین کو بدزبانی سے باز آنے کی توفیق عطا فرمائے۔

! آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم

محمد شہر یار رضا قادری

پرنسپل دار العلوم

 

 

 

تقریظ جلیل

 

جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ مفتی محمد محبوب عالم رضوی مصباحی

خلیفۂ گلزار ملت ورئیس افتاء دار العلوم اہلسنت فیضان رسول پلاول، ہزاری باغ

 

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم

حمد لا محدود خالق دو عالم عز و جل کو اور درود نا معدود مالک دو عالمﷺ کو ! عباد اللّٰہ عنہ اسمہ اور امت رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام میں ہمیشہ ایک جماعت حق پر قائم رہے گی جو مخالفین و معاندین کے بیجا اعتراضات کا جواب دے کر اہل سنت والجماعت کے عقائد و اعمال کو قرآن و حدیث، سنت مصطفیٰﷺ اور طریقۂ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے ثابت کرتی رہے گی۔ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی جناب محمد ذاکر حسین رضوی کی تالیف ’’نماز حنفی احادیث کی روشنی میں ‘‘ ہے۔ موصوف نے احادیث سے نماز حنفی کو ثابت کر کے مسلک امام اعظم ابو حنیفہؒ کو واضح کر دیا کہ ہمارے مسلک کا ایک بھی طریقہ قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے۔ بادی النظر سے میں نے پوری کتاب کا مطالعہ کیا۔ بحمدہٖ تعالیٰ خوب بہتر پایا۔ مولیٰ تعالیٰ موصوف کے قلم میں مزید روانی عطا فرمائے اوراس رسالہ کو مقبول عام بنائے اور اس خدمت دین کو قبول فرما کر توشۂ آخرت بنائے ! آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم

خادم القوم

محمد محبوب عالم رضوی مصباحی

دار العلوم اہل سنت فیضان رسول، پلاول، ہزاری باغ

۲؍رجب المرجب۱۴۳۵ھ بمطابق 2؍مئی 2014ء

 

 

 

 

نذرانۂ عقیدت

 

ان تمام فقہاء و محدثین کے نام

جنہوں نے حنفیت کو اپنے قلم کا موضوع بنایا۔

بالخصوص

سیدی تاج الشریعہ، قاضی القضاۃ فی الہند

حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری

دامت برکاتہم العالیہ کے نام

جن کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کے دن ہی سے

مجھ میں حیرت انگیز تبدیلی آئی، مطالعہ اور دین و سنت کی خدمت کا جذبہ بیدار ہوا۔

 

زہے قسمت قبول حاصل کرے ادنیٰ سی یہ کاوش

غلام حاضر ہے در پہ لے کے نذرانہ عقیدت کا

 

عقیدت کیش

محمد ذاکر حسین قادری رضوی

 

 

 

 

حدیث دل

 

تمام تعریفیں اس اللہ عز و جل کے لئے جس نے اپنی ربوبیت کے اظہار کے لئے اپنے محبوب محمد رسول اللہﷺ کو پیدا فرمایا۔ اور کروڑہا کروڑ درود و سلام ہو اس نبی آخر الزمانﷺ پر جن کی ذات اقدس نے ہمیں اللہ کی وحدانیت کا مقر بنایا۔ اَمَّا بَعْد

اسلام کے پیارے شہزادوں اور شہزادیوں ! کسی بھی کام کے پیچھے کچھ نہ کچھ وجہ ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ موت و حیات کی پیدائش کی وجہ یوں بیان فرماتا ہے :

اِلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ (سورۃالملک:2)

وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔

الغرض یہ رسالہ جو اس وقت آپ کے ہاتھوں اور نگاہوں کی زینت ہے۔اس کی ترتیب کی وجہ، میرا سفر بنگال ہے۔ میں اپنے دوست کے یہاں مغربی بنگال ربیع النور کے جلوس محمدی میں بغرض بیان مدعو تھا۔ فون پر میرے دوست نے مجھے اطلاع دی کے یہاں چند غیر مقلد نام نہاد اہل حدیث فتنہ انگیزی کر رہے ہیں۔ لہٰذا میں اپنے ساتھ صحاح ستہ کی تمام کتابیں لے کر پہنچا۔ بعد نماز مغرب سوالات و جوابات کی محفل منعقد کی گئی بہت سارے سوالات عقائد و اعمال کے متعلق پوچھے گئے۔ جن کے جوابات میں نے سنی علماء کی کتابوں کے حوالے سے اپنے علم کے مطابق دیا۔ دوسرے دن مجھے خبر دی گئی کہ مولانا دلنواز صاحب، خطیب و امام سیمل گرام مسجد مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں خود ان کی بارگاہ میں حاضری دوں گا۔ مغرب کی نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ پھر انہیں بذریعہ فون اطلاع بھیج دی کہ نماز مغرب میں حاضر ہوتا ہوں۔ میں حاضر ہوا مغرب انہیں کی اقتدا میں ادا کی پھر ان کے حجرے میں چلا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ چند غیر مقلدین اس آبادی میں پیدا ہو گئے ہیں، میں نے ابھی ان کو بلایا ہے۔لیکن اس وقت تک کوئی نہ آیا تھا۔ میں نے عرض کی ابھی تک تو کوئی نہیں آیا ہے۔ انہوں نے چند لڑکوں کو ان کی طرف بھیجا تاکہ انہیں بلا لائیں۔ ان میں سے صرف ایک آیا۔ اس نے چند سوالات نماز حنفی اور عقائد اہل سنت کے متعلق کئے جس کا جواب میں نے اپنے علم کے مطابق دیا۔ اور چونکہ صحاح ستہ کی تمام کتابیں میرے ساتھ تھیں جو میں نے ان غیر مقلدین کے آنے کی خبر سن کر منگوا لی تھی۔ کھول کھول کر دکھا دی۔ اللہ کا فضل رہا کہ وہ مطمئن ہو گیا اور مسجد ہی میں توبہ کر لی۔ میں نے فورا ً اس کا خیر مقدم کیا اور غیر مقلدیت قبول کرنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ:

’’ ان لوگوں ( غیر مقلدین) نے کتابیں کھول کھول کر مجھے اپنے مطلب کی چیزیں دکھائیں چونکہ میں علماء کی صحبت میں نہ تھا لہٰذا میں نے سمجھا یہی صحیح ہے اور مجھے یہ بھی باور کرایا گیا کہ حنفیوں کی کوئی بھی نماز کی کتاب اٹھا لو کہیں بھی قرآن و حدیث کا حوالہ نہیں ملتا۔ ان کی نماز قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ قیاس اور رائے سے ماخوذ ہے۔‘‘

اسی وقت میرے ذہن میں آیا کہ کوئی ایسی کتاب ہونی چاہئے جس میں نماز حنفی کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہو اور وہ کم صفحات پر مشتمل ہو تاکہ عوام تک بہ آسانی پہنچائی جا سکے۔ الحمد اللہ آج وہ مکمل ہو کر آپ کے ہاتھوں اور نگاہوں کو چومنے کا شرف حاصل کر رہی ہے۔ اسے لکھنے میں میں نے حتی المقدور درج ذیل با توں کا التزام کیا ہے :

٭                                   زبان نہایت شستہ اور عام فہم ہو تاکہ عوام اس تک رسائی حاصل کر سکے۔

٭                                   زیادہ تر احادیث صحاح ستہ سے ہو تاکہ مخالفین دم بہ خود رہیں۔

٭                                   تمام احادیث کا مکمل حوالہ، کتاب اور باب کے ساتھ ہو۔تاکہ ذرا بہت بھی اردو جاننے والے قارئین آسانی سے حوالہ اصل کتاب میں دیکھ سکیں۔

میں ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہوں حضرت علامہ مفتی محمد مبین احمد مصباحی رضوی کا کہ جنہوں نے اس رسالے کا مقدمہ اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود رقم فرما کر میری کوشش کو وقیع بنایا اور حضرت علامہ مفتی محمد محبوب عالم رضوی مصباحی، رئیس افتاء دار العلوم اہلسنت فیضان رسول، ہزاری باغ، حضرت علامہ مفتی عبد المنان صاحب کلیمی اور حضرت علامہ مفتی شہریار رضا خان قادری کا دل کی عمیق گہرائیوں سے ممنون ہوں کہ انہوں نے میری کوشش کو سراہا اور حوصلہ افزا تقریظ رقم فرمائی۔بالخصوص اپنے بڑے بھائی جناب محمد شریف عالم رضوی کا زندگی بھر احسان مند رہوں گا کہ انہوں نے مجھے دنیا کے لہو و لعب سے نکال کر دینی علوم سیکھنے اور سکھانے پر مصر رہے۔ جس کا پہلا ثمرہ ’’نماز حنفی احادیث کی روشنی میں ‘‘کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ معاونین کو دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب فرمائے اور میری اس کوشش کو قبول عام بنائے۔ میرے والد مرحوم محمد شاکر القادری کی قبر پر رحمت و نور کی بارشیں نازل فرمائے جو چند روز پہلے ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ آمین یا رب العلیٰ بَطُفَیْلِ مُصْطَفیٰ عَلَیْہِ تَحِیَّۃُ وَالثَّنَاء

 

محمد ذاکر حسین قادری رضوی

ایم۔اے، شعبۂ اردو، ونوبا بھاوے یونیورسٹی

۱۹؍جمادی الاول۱۴۳۵ ھ بمطابق20؍اپریل2014ء

Email:-zrazvi.zakir@gmail.com

موبائل نمبر:09955171661

 

 

 

 

مقدمہ

 

مفتی محمد مبین احمد رضوی مصباحی

شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت گلشن بغداد

منڈئی کلاں ہزاری باغ(جھارکھنڈ)

 

اللہ رب العزت نے انسان کے مقصد تخلیق کو یوں بیان فرمایا :وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذٰریات:56)یعنی میں نے انسان و جن کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا۔ عبادت دو طرح کی ہوتی ہیں (1)مالی عبادت (2)بدنی عبادت۔جن عبادتوں کا تعلق مال سے ہو انہیں مالی عبادت کہتے ہیں جیسے زکوٰۃ، صدقات وغیرہ اور جن کا تعلق اعضاء و جوارح سے ہو انہیں بدنی عبادت کہتے ہیں جیسے نماز، حج کے ارکان وغیرہ۔

نماز اہم العبادات مومنوں کے لئے معراج اور رب تعالیٰ سے مناجات کا ذریعہ ہے مگر نماز کا طریقہ اس کی رکعتوں کی تعداد، سجدے کی کیفیت، قعدہ و رکوع کا طریقہ قرآن پاک میں نہیں دیکھ سکتے ان تمام چیزوں کا طریقہ احادیث کریمہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ پھر احادیث بھی ضرورت اور حالات کے مطابق ہماری فکر و نظر سے مختلف کہ ان تمام احادیث پر عمل ممکن نہیں۔ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی ایسے مجتہد کی جو قرآن و احادیث سے مسائل کا استنباط و استخراج کر کے قوم کے سامنے پیش کرے اور مسلمان اس پر عمل کریں۔ آج فقہ حنفی پر عمل کرنے والے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کی ذات پر حملہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حدیث کے مقابلے قیاس کو ترجیح دی یہ کھلا ہوا بہتان عظیم ہے اس سلسلے میں امام باقر اور امام اعظمؒ کی ملاقات کی ایک روایت نقل کرتا ہوں :

 

امام اعظم اور امام باقر کی ملاقات

 

حضرت امام اعظمؒ کے اساتذہ میں حضرت امام باقرؒ بھی ہیں ایک بار مدینہ طیبہ کی حاضری میں جب حضرت امام باقرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے ساتھ نے تعارف کرایا کہ یہ ابو حنیفہ ہیں امام باقر نے امام اعظم سے کہا :وہ تمہیں ہو جو قیاس سے میرے جد کریم کی احادیث رد کرتے ہو؟ امام اعظم نے عرض کیا معاذ اللہ حدیث کو کون رد کر سکتا ہے ؟ حضور اجازت دیں تو میں کچھ عرض کروں۔ اجازت کے بعد امام اعظم نے عرض کیا حضور! مرد ضعیف ہے یا عورت؟ ارشاد فرمایا : عورت، عرض کیا وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا؟ فرمایا: مرد کا، عرض کیا میں قیاس سے حکم کرتا تو عورت کو مرد کا دونا حصہ دینے کا حکم کرتا۔ پھر عرض کیا نماز افضل ہے کہ روزہ؟ ارشاد فرمایا:نماز، عرض کیا قیاس یہ چاہتا ہے کہ جب نماز روزہ سے افضل ہے تو حائضہ پر نماز کی قضا بدرجہ اولیٰ ہونی چاہئے اگر احادیث کے خلاف قیاس سے حکم کرتا تو یہ حکم دیتا کہ حائضہ نماز کی قضا ضرور کرے۔ اس پر امام باقر خوش ہو کر ان کی پیشانی چوم لیا۔                            (نزہۃ القاری شرح بخاری، ج1، ص123)

یہ غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث جو عامل بالحدیث کا دعویٰ کرتے ہیں اور امام اعظم کی شخصیت کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں اور ہم حنفیوں کی نماز وغیرہ کو خلاف حدیث قرار دیتے ہیں اور بات بات پر بخاری و مسلم کی رٹ لگا کر یہ باور کرانے کی سعی کرتے ہیں کہ صحاح ستہ کے علاوہ کوئی کتاب احادیث صحیحہ پر مشتمل نہیں ہے مگر انہیں کیا پتہ کہ امام اعظم کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟

 

مقام امام اعظم

 

امام بخاری و مسلم وغیرہم محدثین کے استاذ حضرت یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’ امام حدیث ابو حنیفہ ثقہ تھے۔‘‘                                                                                             (تہذیب التہذیب، ج10، ص50)

انہیں کا قول ہے کہ ’’امام ابو حنیفہ میں جرح و تعدیل کی رو سے کوئی عیب نہیں وہ کبھی کسی برائے سے متہمم نہ ہوئے۔‘‘                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                (تذکرۃ الحفاظ، ج1ص152)

صاحب سنن امام ابو داؤد نے فرمایا: ’’امام (ابو حنیفہ)امام شریعت تھے۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ، ج1ص152)

حافظ ابن حجر مکی نے کہا کہ علی بن مدینی نے فرمایا کہ: ’’ امام ابو حنیفہ سے ثوری، ابن مبارک، حماد بن زید، ہشام، وکیع نے روایت کی‘‘ نیز فرمایا کہ ’’وہ ثقہ ہیں ان میں کوئی عیب نہیں۔‘‘علاوہ ازیں ابن حجر مکی ہیتمی شافعی نے لکھا کہ حضرت سفیان ثوری نے فرمایا: ’’ امام ابو حنیفہ حدیث و فقہ دونوں میں ثقہ اور صدوق ہیں۔‘‘  (الخیرات الحسان، ص113)

ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اعظم ایک عظیم محدث ثقہ راوی، استاذ المحدیثن، قرآن و حدیث کے معانی و مطالب میں غوطہ لگا کر مسلمانوں کے مسائل کے موتیاں نکالنے والے تھے۔وہ قیاس پر نہیں بلکہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے اِمَامُ الْاَئِمَّۃ کَاشِفُ الْغُمَّۃ سِرَاجُ الْاُمَّۃ تھے۔علامہ عینی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :

’’اِنَّ اَبَا حَنِیْفَۃَ قَالَ:لَا اَتَّبِعُ الرَّایَ وَالْقِیَاسَ اِلَّا اِذَا لَمْ اَظْفُرْ بِشَیْئٍ مِنَ الْکِتَابِ اَو السُّنَّۃِ اَو الصَّحَابَۃِ رَضِیْ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘‘

یعنی امام اعظم نے فرمایا کہ میں رائے اور قیاس کی پیروی نہیں کرتا مگر اس وقت جب کہ حدیث یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کچھ نہ ملے۔

فقہ حنفی اس اجمال کی پوری تفصیل ہے۔ عمل بالحدیث کا یہ حال ہے کہ حضرت امام اعظم نے اپنا بنیادی دستور یہ بنا لیا تھا کہ ’’اِذَا صَحَ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِیْ‘‘ ہر حدیث صحیح میرا مذہب ہے۔امام اعظم کے عمل بالحدیث کی سب سے روشن اور قوی دلیل فقہ حنفی ہے۔ فقہ حنفی کے کلیات، جزئیات اٹھا کر دیکھو اور دوسری طرف احادیث کی کتابیں اٹھا کر دیکھو جن جن ابو اب جن جن مسائل میں صحیح غیر مؤل، غیر منسوخ، کتاب اللہ کے غیر معارض احادیث ہیں وہ سب کے سب فقہ حنفی کے مطابق ہیں۔ اس کی تصدیق کے لئے امام ابو جعفر طحاوی کی ’’شرح معانی الآثار ‘‘علامہ عینی کی ’’عمدۃ القاری‘‘ ابن ہشام کی ’’فتح القدیر‘‘ کا مطالعہ کریں تو حرف بحرف اس کی تصدیق ہو جائے گی۔ جب ان کی کوئی بات خلاف حدیث نہیں تو ان کا قول ہمارے لئے حجت کیوں نہیں ہو سکتا۔

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کے استاذ حضرت عبدا للہ بن مبارک کے سامنے کسی نے امام اعظم کی برائی کی تو فرمایا تم علماء میں ان کا مثل دکھا دو ورنہ ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔ ان کی مجلس میں بڑوں کو چھوٹا دیکھتا ہوں اور میں ان کی مجلس میں اپنے آپ کو جتنا کم رتبہ دیکھتا ہوں کسی کی مجلس میں نہ دیکھتا۔ نیز فرمایا: ’’ امام اعظم کی نسبت تم لوگ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ حدیث نہیں جانتے تھے ‘‘ اور فرمایا : ’’ابو حنیفہ کی رائے مت کہو حدیث کی تفسیر کہو۔ اگر ابو حنیفہ تابعین کے زمانے میں ہوتے تو تابعین بھی ان کے محتاج ہوتے۔                                                                              (موفق کر دوئی، بحوالہ نزہۃ القاری، ج1، ص126)

امام اعظم ابو حنیفہؒ کی ذات محتاج تعارف نہیں ان کی شخصیت کے بارے میں بتانے کا مقصد ان کا تعارف کرانا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ فقہ حنفی کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث کے موافق ہے اور جسے قیاس کا نام دیتے ہیں وہ قیاس مطلق نہیں بلکہ مستنبط من القرآن و الاحادیث ہے جو بالواسطہ عمل بالحدیث و القرآن ہے اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے یہ رسالہ ’’نماز حنفی احادیث کی روشنی میں ‘‘ میرے محب گرامی پیکر اخلاص مبلغ اسلام محمد ذاکر حسین رضوی نے بہت محنت سے ترتیب دیا ہے جس میں حنفی نماز کو از ابتدا تا انتہا صحاح ستہ کی حدیثوں سے ثابت کیا ہے اور حدیثوں کو مع اسناد تخریج کر کے حدیث کے بحر ذخار میں غوطہ لگا کر سیپ اور موتیوں کو باہر نکالا ہے۔ کہنے کو تو یہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں مگر میری نظر میں مسلک اہل سنت(مسلک اعلیٰ حضرت) کے داعی اور قوم مسلم کی دکھتی ہوئی رگ پر دست شفقت رکھنے والے ایک عظیم مبلغ ہیں۔ یہ موصوف کی پہلی کاوش ہے جس میں حریفوں کی طرف سے ہونے والے اعتراض کا حسن اسلوبی کے ساتھ جواب ہے۔ مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس رسالہ کو مقبول خاص و عام فرمائے اور عقائد فاسدہ اور غلط نظریات رکھنے والے لوگوں کے لئے مشعل راہ راست بنائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین!

طالب دعا

خاک پائے بزرگان

محمد مبین احمد قادری مصباحی

خادم الافتاء والتدریس، دار العلوم گلشن بغداد

منڈئی کلاں، ہزاری باغ

۵؍رجب المرجب۱۴۳۵ھ بمطابق 5؍مئی2014ء

 

 

 

اذان کے کلمات

 

{1}           حَدَّثَنَا أَبُو عُبَیْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ مَیْمُونٍ الْمَدَنِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ الْحَرَّانِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ ہَمَّ بِالْبُوقِ، وَأَمَرَ بِالنَّاقُوسِ فَنُحْتَ، فَأُرِیَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ زَیْدٍ فِی الْمَنَامِ، قَالَ: رَأَیْتُ رَجُلًا عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ یَحْمِلُ نَاقُوسًا، فَقُلْتُ لَہُ: یَا عَبْدَ اللَّہِ تَبِیعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِہِ؟ قُلْتُ: أُنَادِی بِہِ إِلَی الصَّلَاۃِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّکَ عَلَی خَیْرٍ مِنْ ذَلِکَ؟ قُلْتُ: وَمَا ہُوَ؟ قَالَ تَقُولُ:

اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ،

أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اَللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اَللّٰہُ

أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ

حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ

حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ

اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ

لَا إِلَہَ إِلَّا اَللّٰہُ

قَالَ: فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ زَیْدٍ، حَتَّی أَتَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَہُ بِمَا رَأَی، قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، رَأَیْتُ رَجُلًا عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، یَحْمِلُ نَاقُوسًا، فَقَصَّ عَلَیْہِ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ صَاحِبَکُمْ قَدْ رَأَی رُؤْیَا، فَاخْرُجْ مَعَ بِلَالٍ إِلَی الْمَسْجِدِ فَأَلْقِہَا عَلَیْہِ، وَلْیُنَادِ بِلَالٌ؛فَإِنَّہُ أَنْدَی صَوْتًا مِنْکَ٭

حضرت عبد اللہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص دو سبز کپڑے پہنے اور ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہے۔ میں نے اس سے کہا اے اللہ کے بندے !کیا تو ناقوس بیچتا ہے ؟ اس نے پوچھا تم کیا کرو گے ؟ میں نے جواب دیا کہ لوگوں کو نماز کے لئے بلاؤں گا۔ اس نے کہا کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ میں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ یوں کہا کرو۔

اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ

أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اَللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اَللّٰہُ

أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ

حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ

حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ

لَا إِلَہَ إِلَّا اَللّٰہُ

پھر عبد اللہ بن زیدؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اپنا خواب بیان کیا تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا: تمہارے ساتھی نے خواب دیکھا ہے۔ اے عبد اللہ ! بلال کے ساتھ جاؤ اور انہیں اذان سکھا دو کیونکہ ان کی آواز بلند ہے۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، ابو اب الاذان، باب: بَداِالْاَذَان، ص219-20، حدیث:752)

(سنن ابو داؤد،ج 1، کتاب الصلوٰۃ، باب:کَیْفَ الْاَذَان، ص226، حدیث:496)

{2}           حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ عَطِیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ یَشْفَعَ الأَذَانَ، وَأَنْ یُوتَرَ الإِقَامَۃَ، إِلَّا الإِقَامَۃَ٭

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ کو یہ حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ’’قَدْقَامَتِ الصَّلوٰۃ‘‘ کے علاوہ ایک ایک بار کہیں۔

(صحیح بخاری، ج1کتاب الاذان، باب:الْاَذَانُ مَثْنیٰ مَثْنیٰ، ص290، حدیث:575)

اس حدیث میں اذان کے کلمات دو۔دو مرتبہ کہنے کا حکم ہے اور ثابت ہوا کہ ترجیع یعنی کلمات اذان کو اولاً دو مرتبہ آہستہ پھر دو مرتبہ بلند آواز سے نہ کہا جائے۔ ورنہ کلمات اذان چار مرتبہ ہو جائیں گے۔البتہ اقامت کے کلمات کا ایک ایک مرتبہ کہنے کا ذکر ہے لیکن آگے آنے والی احادیث میں اقامت کے کلمات کو بھی دو۔ دو مرتبہ کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

{3}            حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِی لَیْلَی، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: کَانَ أَذَانُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَفْعًا شَفْعًا فِی الأَذَانِ وَالإِقَامَۃِ ٭

حضرت عبد اللہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی اذان اور اقامت کے کلمات دو۔ دو مرتبہ تھے۔

(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الصلوٰۃ، باب: ماَجَائَ فِیْ اَنَّ الْاِقَامَۃَ مَثْنیٰ مَثْنیٰ، ص162، حدیث:185)

{4}            حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ شَرِیْکٌ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا مَحْذُوْرَۃَ یُؤَذِّنُ مَثْنیٰ مَثْنیٰ وَیُقِیْمُ مَثْنیٰ٭

حضرت عبد العزیز بن رُفَیعؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو محذورہ ؓ سے سنا کہ آپ اذان اور اقامت کے کلمات دو۔ دو بار کہتے تھے۔

(طحاوی شریف، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:اَلْاِقَامَۃِ کَیْفَ ہِیَ، ص279، حدیث:772)

{5}            حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانَ قَالَ ثَنَا یَحْیٰ بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ قَالَ ثَنَا فَطْرُ بْنُ خَلِیْفَۃَ عَنْ مُجَاہِدٍ فِی الْاِقَامَۃِ مَرَّۃً مَرَّۃً اِنَّمَا ھُوَ شَیْئٔ اِسْتَخَفَّہُ الْاُمَرَآئُ۔ فَاَخْبَرَ مُجَاہِدٌ اَنَّ ذٰلِکَ مُحْدَثٌ وَ اِنَّ الْاَصْلَ ھُوَالتَّثْنِیَّۃُ٭

فطر بن خلیفہؓ نقل کرتے ہیں کہ اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنا حکمرانوں نے تخفیف کی خاطر اختیار کیا تو حضرت مجاہدؓ نے بتایا کہ یہ بدعت ہے اور اصل بات دو دو بار کہنا ہے۔ (طحاوی شریف، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:اَلْاِقَامَۃِ کَیْفَ ہِیَ، ص279، حدیث:773)

 

دونوں پاؤں کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ رکھیں

 

{6}            حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَقِیمُوا صُفُوفَکُمْ، فَإِنِّی أَرَاکُمْ مِنْ وَرَاء ظَہْرِی، وَکَانَ أَحَدُنَا یُلْزِقُ مَنْکِبَہُ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہِ، وَقَدَمَہُ بِقَدَمِہِ٭

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اپنی صفیں ٹھیک کر لیا کرو کیونکہ میں اپنی پیٹھ پیچھے بھی دیکھتا ہوں اور ہم میں سے ہر آدمی اپنا کندھا ساتھ والے آدمی کے کندھے سے سٹا دیتا اور اپنا قدم ان کے قدم سے ملا دیتا۔

(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب إِلْزَاقِ المَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ وَالقَدَمِ بِالقَدَمِ فِی الصَّفِّ، ص325، حدیث 686)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صف میں کندھا بغل والے کے کندھے سے سٹا لیا جائے اور اپنے پیر کی ایڑی کو بغل والے کی ایڑی کے برابر کر لیا جائے۔ اگر دونوں پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ ہو تو اپنا کندھا بغل والے کے کندھے سے نہیں سٹے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کی تخلیق ان حکمتوں کے سبب کچھ ایسی کی ہے کہ جب کندھا بغل والے سے ملے گا تو پاؤں نہیں ملے گا اور پاؤں ملے گا تو کندھا نہیں۔لیکن جب دونوں پاؤں کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ ہو تو اپنا کندھا بغل والے نمازی کے کندھے سے بالکل سٹ جائے گا اور صف بھی سیدھی رہے گی۔

 

دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانا

 

{7}            حَدَّثَنِی أَبُو کَامِلٍ الْجَحْدَرِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا کَبَّرَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّیٰ یُحَاذِیَ بِہِمَا أُذُنَیْہِ٭

حضرت مالک بن حویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے، یہاں تک کہ وہ دونوں کانوں کے برابر آ جاتے۔

(صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب اِسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْیَدَیْن، ص325، حدیث، 769)

{8}            وَحَدَّثَنَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، بھِٰذَا الْاِسْنَادِ أَنَّہُ رَأَی نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:حَتّیٰ یُحَاذِیَ بِہِمَا فُرُوعَ أُذُنَیْہِ٭

(امام مسلم فرماتے ہیں ( ایک اور سند کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے (مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو دیکھا اور فرمایا کہ یہاں تک کہ وہ کانوں کی لو کے برابر آ گئے۔

(صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب اِسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْیَدَیْن، ص325، حدیث، 770)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاحِ، باب رَفْعُ الْیَدَیْنِ حِیَالَ الْاُذْنَیْنِ، ص276)

{9}            حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ، حَدَّثَنِی عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ، وَمَوْلًی لَہُمْ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ عَنْ أَبِیہِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ: أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ حِینَ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ کَبَّرَ، وَصَفَ ہَمَّامٌ حِیَالَ أُذُنَیْہِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِہِ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ٭

حضرت وائل بن حجر صبیان کرتے ہیں، میں نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے۔ حضرت ہمام فرماتے ہیں کہ آپ نے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا تھا اور انہیں کپڑے میں لپیٹ لیا اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعِ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ، ص335، حدیث، 800)

{10}أَخْبَرَنَا قُتَیْبَۃُ، قَالَ: دَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ:صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ کَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّیٰ حَاذَتَا أُذُنَیْہِ، ثُمَّ یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْہَا قَالَ: آمِینَ یَرْفَعُ بِہَا صَوْتَہُ٭

حضرت وائل بن حجرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھی جب آپ نے نماز شروع کی تو تکبیر کہی اور دونوں ہاتھوں کو دونوں کانوں تک اٹھائے، پھر آپ نے سورۃ فاتحہ پڑھی، جب فارغ ہوئے تو کھینچ کر آمین کہی۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاحِ، باب رَفْعُ الْیَدَیْنِ حِیَالَ الْاُذْنَیْنِ، ص276)

غیر مقلدوں کے امام مولانا نصیر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

{11}                                              حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فِطْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ إِبْہَامَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ إِلَی شَحْمَۃِ أُذُنَیْہِ٭

عبد الجبار بن وائل اپنے والد حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ نماز میں اپنے دونوں انگوٹھے کانوں کی لو تک اٹھایا کرتے۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب رَفْعِ الْیَدَیْن، ص300، حدیث732)

{12}أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیفَۃَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ، رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّیٰ تَکَادَ إِبْہَامَاہُ تُحَاذِی شَحْمَۃَ أُذُنَیْہِ٭

حضرت وائل بنؓ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا جب نبی کریمﷺ نماز شروع کی تو دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انگوٹھے کانوں کی لو تک پہنچ گئے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاحِ، باب مَوْضِعِ الْاِبْہَامَیْنِ عِنْدَ الرَّفْعِ، ص277)

{13}                                               حَدَّثَنِی عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ النَّخَعِیِّ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ أَبْصَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّیٰ کَانَتَا بِحِیَالِ مَنْکِبَیْہِ وَحَاذَی بِإِبْہَامَیْہِ أُذُنَیْہِ، ثُمَّ کَبَّرَ٭

عبد الجبار بن وائل اپنے والد حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کندھوں کے برابر ہوتے اور انگوٹھے کانوں سے لگ جاتے تو تکبیر کہتے۔ (سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب رَفْعِ الْیَدَیْن، ص294، حدیث720)

نوٹ:۔                                         جس جس حدیث میں ہاتھ کاندھوں تک اٹھانے کے بارے میں کہا گیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ ہاتھ کاندھوں تک ہو اور انگوٹھے کانوں کی لو کو چھو جائے۔

 

انگلیاں نارمل اور ہتھیلی قبلہ کی طرف رکھنا

 

{14}                                               حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، وَأَبُو سَعِیدٍ الأَشَجُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا یَحْییٰ بْنُ الیَمَانِ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ سِمْعَانَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا کَبَّرَ لِلصَّلاَۃِ نَشَرَ أَصَابِعَہٗ٭

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نماز کے لئے تکبیر کہتے وقت انگلیاں کشادہ رکھتے۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِیْ نَشْرِ الْاِصَابِعِ عِنْدَ التَّکْبِیْر، ص183، حدیث227)

 

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا

 

{15}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِیَادِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ، أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: مِنَ السُّنَّۃِ وَضْعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ٭

ابو حجیفہؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا نماز میں ایک ہتھیلی کا دوسری ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔          (ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعِ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ، ص305، حدیث751)

نوٹ:۔                                         اس روایت کو امام ابو داؤد نے بیان کر کے ضعیف کا کوئی قول نہیں کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ امام احمد کا ضعیف کہنا معتبر نہیں۔ ’’ آثار سنن‘‘ میں مصنف ابن ابی شیبہ سے منقول تمام احادیث کو صحیح یا حسن صحیح کہا گیا ہے۔

{16}حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ رَبِیعٍ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: یَضَعُ یَمِینَہُ عَلَی شِمَالِہِ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ٭

ابو معشر، حضرت ابراہیم ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر نماز میں ناف کے نیچے رکھتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ، حدیث3939)

{17}                                               حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ حَسَّانَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ، أَوْ سَأَلْتُہُ قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ یَصْنَعُ؟ قَالَ: یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِینِہِ عَلَی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہِ وَیَجْعَلُہَا أَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ٭

حجاج بن حسان نے فرمایا کہ میں نے ابو مِجْلَزؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ نماز میں کس طرح ہاتھ باندھے جاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا اندرونی حصہ بائیں ہاتھ کے اوپر والے حصہ پر رکھیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ، حدیث3942)

نوٹ:۔                                         مصنف ابن ابی شیبہ کی دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔جیسا کہ علامہ نیموی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔

 

دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا

 

{18}حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُونَ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ الیَدَ الیُمْنَی عَلَی ذِرَاعِہِ الیُسْریٰ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَبُو حَازِمٍ لاَ أَعْلَمُہُ إِلَّا یَنْمِی ذٰلِکَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ٭

حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھیں اور ابو حازم کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے یہ بات نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے منقول ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وَضْعِ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ، ص330، حدیث 701 )

{19}حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ، حَدَّثَنِی عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ، وَمَوْلًی لَہُمْ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ عَنْ أَبِیہِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّﷺ رَفَعَ یَدَیْہِ حِینَ دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ کَبَّرَ، وَصَفَ ہَمَّامٌ حِیَالَ أُذُنَیْہِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِہِ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ٭

حضرت وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں، میں نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے۔حضرت ہمام فرماتے ہیں کہ آپ نے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا تھا اور انہیں کپڑے میں لپیٹ لیا اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعِ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ، ص335، حدیث، 800)

{20}                                               حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکَّارِ بْنِ الرَّیَّانِ، عَنْ ہُشَیْمِ بْنِ بَشِیرٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَبِی زَیْنَبَ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ کَانَ یُصَلِّی فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُسْریٰ عَلَی الْیُمْنیٰ، فَرَآہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ٭

حضرت ابو عثمان نہدی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعودص بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ پر رکھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔پس نبی کریمﷺ نے انہیں دیکھا تو ان کا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ دیا۔

(ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعِ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ، ص305، حدیث750)

(ابن ماجہ، ابو ابُ اِقَامَتِ الصَّلوٰۃِ، باب وَضْعِ الْیَمْنِ عَلَی الشِّمَالِ،ص 247، حدیث857)

{21}حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ہُلْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَؤُمُّنَا، فَیَأْخُذُ شِمَالَہٗ بِیَمِینِہٖ.٭

قبیصہ بن ہُلْبؓ اپنے والد سے راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری امامت فرماتے اور بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِی وَضْعِ الْیَمْنَیْنِ عَلَی الشِّمَالِ ص190، حدیث239)

(سنن ابن ماجہ، ابو ابُ اِقَامَتِ الصَّلوٰۃِ، باب وَضْعِ الْیَمْنِ عَلَی الشِّمَال،ص 247، حدیث855)

{22}                                              حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیسَ،ح وَحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِیرُ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمَفَضَّلِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی، فَأَخَذَ شِمَالَہُ بِیَمِینِہِ٭

حضرت وائل بن حجرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پکڑتے دیکھا۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَابُ اِقَامَتِ الصَّلوٰۃِ، باب وَضْعِ الْیَمْنِ عَلَی الشِّمَال،ص 247، حدیث856)

نوٹ:۔                                         جس حدیث میں ہاتھ کا کلائی پر رکھنے کا ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ اس طرح رکھے جائیں کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں کی پشت پر اور دائیں ہاتھ کی بیچ کی تین انگلیاں بائیں ہاتھ کی کلائی پر ہو اور چھونگلی و انگوٹھا کلائی کے اغل بغل ہو۔

 

ثنا ء اور اس کے الفاظ

 

{23}                                               حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِہْرَانَ الرَّازِیُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ، عَنْ عَبْدَۃَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، کَانَ یَجْہَرُ بِہَؤُلَاء الْکَلِمَاتِ یَقُولُ: ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، تَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ ‘‘وَعَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ کَتَبَ إِلَیْہِ یُخْبِرُہُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّہُ حَدَّثَہُ قَالَ: ” صَلَّیْتُ خَلَفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَکَانُوا یَسْتَفْتِحُونَ بِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، لَا یَذْکُرُونَ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ) فِی أَوَّلِ قِرَاء ۃٍ وَلَا فِی آخِرِہَا٭

عبدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ تکبیر تحریمہ کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے : ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، تَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘ اور قتادہ کے بارے میں منقول ہے انہوں نے امام اوزاعی کو خط لکھا جس میں انہیں یہ اطلاع دی کہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ کی اقتدا میں نمازیں ادا کی ہیں، یہ سب حضرات قرأت کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، سے کرتے اور سورۂ فاتحہ کی قرأت کے آغاز یا اختتام پر (جہرسے )بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم نہیں پڑھا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب حُجَّۃِ مَنْ قَالَ لَا یُجْھَرُ بِالْبَسْمَلَہِ، ص333، حدیث:796)

{24}حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَۃَ، وَیَحْییٰ بْنُ مُوسیٰ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ أَبِی الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَۃَ قَالَ: سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلاَ إِلَہَ غَیْرُکَ٭

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ نماز شروع کرتے وقت ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ ‘‘پڑھا کرتے تھے۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ عِنْدَ اِفْتِتَاحِ الصَّلوٰۃ، ص185، حدیث231)

(سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَابُ اِقَامَتِ الصَّلوٰۃِ، باب اِفْتِتَاحِ الصَّلوٰۃ،ص 246، حدیث852)

{25}                                               حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ:حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنِی جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الضُّبَعِیُّ قَالَ:حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ عَلِیٍّ الرِّفَاعِیُّ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَسْتَفْتِحُ صَلَاتَہُ یَقُولُ: ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، تَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ ‘‘٭

ابو سعید خدریؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع فرماتے تو یہ پڑھتے ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، تَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘

نوٹ:۔                                         ثناء کے الفاظ امام و مقتدی دونوں آہستہ پڑھیں گے۔اس تعلق سے حدیث آمین کہنے کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَابُ اِقَامَتِ الصَّلوٰۃِ، باب اِفْتِتَاحِ الصَّلوٰۃ،ص 246، حدیث850)

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ عِنْدَ اِفْتِتَاحِ الصَّلوٰۃ، ص184، حدیث230)

 

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے

 

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مقدس کتاب ’’قرآن عظیم‘‘ جس کی صرف ایک آیت کا انکار مسلمان کو کافر بنانے کے لئے کافی ہے، میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ

اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو

(اَلْاَعْرَاف، آیت:204)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر علیہ الرحمہ اپنی تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں رقم پرداز ہیں :

وقال أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلاً فی السریۃ ولا الجہریۃ بما ورد فی الحدیث: (من کان لہ إمام فقرائتہ قرائۃ لہ) ”ہذا الحدیث رواہ أحمد عن جابر مرفوعاً وہو فی الموطأ عن جابر موقوفاً قال ابن کثیر: وہذا أصح ٭

امام ابو حنیفہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر قرأت بالکل واجب نہیں، نہ سری نمازوں میں اور نہ جہری نمازوں میں، کیونکہ حدیث میں آتا ہے : ’’جس کا امام ہو اس کی قرأت ہی اس(مقتدی) کی قرأت ہے۔‘‘یہ حدیث مسند احمد میں حضرت جابرؓ سے مرفوعاً اور موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے (امام ابن کثیر نے فرمایا)اور یہی مذہب زیادہ صحیح ہے۔

(تفسیر ابن کثیر، ج2، ص485)

{26}حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی، وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ، وَقُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ – قَالَ یَحْیَی بْنُ یَحْیَی: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ وَہُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ، عَنِ ابْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ عَطَاء بْنِ یَسَارٍ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاء ۃِ مَعَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: لَا، قِرَاء ۃَ مَعَ الْإِمَامِ فِی شَیْء ٍ٭

حضرت عطا بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام کی اقتدا میں کوئی قرأت نہیں۔

(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:سُجُوْدِ التِّلَاوَت، ص454، حدیث:1199)

{27}                                               حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّیصِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ بِہَذَا الْخَبَرِ زَادَ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ٭

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔

(سنن ابن ماجہ، ج1کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب :اِذَا قَرَأَ الْاِمَامُ فَاَنْصِتُوْ، ص255، حدیث:892)

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الْإِمَامِ یُصَلِّی مِنْ قُعُودٍ، ص263، حدیث:600)

{28} فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ: فَحَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ؟ فَقَالَ: ہُوَ صَحِیحٌ یَعْنِی وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ: ہُوَ عِنْدِی صَحِیحٌ فَقَالَ: لِمَ لَمْ تَضَعْہُ ہَا ہُنَا؟ قَالَ: لَیْسَ کُلُّ شَیْء ٍ عِنْدِی صَحِیحٌ وَضَعْتُہُ ہَا ہُنَا ٭

ابو بکر (نامی محدث) نے حضرت امام مسلم سے پوچھا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی {حدیث 27} کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ تو امام مسلم نے فرمایا:وہ روایت صحیح ہے یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ یہ روایت میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ ابو بکر نے سوال کیا تو آپ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں درج کیوں نہیں کیا؟ تو امام مسلم نے فرمایا :ایسا نہیں کہ جس حدیث کو میں صحیح سمجھتا ہوں اسے لازمی طور پر اس کتاب میں نقل کروں۔

(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّشہُّدِ فِی الصَّلَاۃِ، ص338-39حدیث:809)

{29}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَۃَ بْنَ أَوْفَی، یُحَدِّثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ یَقْرَأُ خَلْفَہُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَیُّکُمْ قَرَأَ – أَوْ أَیُّکُمُ الْقَارِئُ – فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا، فَقَالَ: قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَکُمْ خَالَجَنِیہَا٭

حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ مقتدیوں میں سے کسی نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلیٰ کی قرأت شروع کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون قرأت کر رہا تھا؟ ایک صاحب نے عرض کی :میں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا میں نے یوں محسوس کیا کہ تم میری قرأت میں خلل پیدا کر رہے ہو۔

(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:نَہْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَہْرِہِ بِالْقِرَاء ۃِ خَلْفَ إِمَامِہِ، ص332، حدیث:792)

مذکورہ بالا حدیث پاک میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے جو سری پڑھی جاتی ہے لہٰذا نماز جہری ہو یا سری مقتدی قرأت نہیں کر سکتا۔

{30}حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ٭

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:وُجُوبِ القِرَاء ۃِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ، ص334، حدیث:717)

{31}حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِیُّ قَالَ:حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ:حَدَّثَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ:مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ، إِلَّا أَنْ یَکُونَ وَرَاء الإِمَامِ :ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ٭

حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کے علاوہ جس شخؓ نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھیا س کی نماز مکمل نہیں۔

(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الصلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِی تَرْکِ القِرَاء ۃِ خَلْفَ الإِمَامِ، ص217، حدیث:297)

(موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَاجَائَ فِیْ اُمِّ الْقُرْاَن، ص95، حدیث:38)

{32}حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًا، قَالَ سُفْیَانُ: لِمَنْ یُصَلِّی وَحْدَہُ٭

حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اس بات کی تبلیغ فرماتے کہ جو سورۃ فاتحہ یا اس سے زائد نہ پڑھے اس کی نماز مکمل نہیں۔ حضرت امام سفیان ثوری ؓ نے فرمایا یعنی جو منفرد نماز پڑھ رہا ہو۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء ۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، ص324-25، حدیث:813)

{33}اَخْبَرْنَامُحَمَّدُ بْنُ اَبَانَ بْنِ صَالِحٍ الْقُرَشِیُّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْنَخْعِیْ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْمَا یَجْھَرُ فِیْہِ وَ فِیْمَا یُخَافَتُ فِیْہِ فِیْ الْاُوْلَیَیْنِ وَلَا فِی الْاُخْرَیَیْنِ وَاِذَا صَلّیٰ وَحْدَہٗ قَرَأَ فِی الْاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ وَ لَمْ یَقْرَأْ فِی الْاُخْرَیَیْنِ شَیْئًا٭

علقمہ بن قیسؓ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ  امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے نہ جہری میں، نہ سری میں، نہ پہلی دو رکعتوں میں نہ آخری دو رکعتوں میں۔ اور جب تنہا نماز پڑھتے تو( فرض کی) پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورۃ پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے۔

{33}(موطا امام محمد، کتاب الصلوٰۃ، باب:اَلْقِرَأَۃِ فِی الصَّلوٰۃِ خَلْفَ الْاِمَام، ص95-96، حدیث:121)

اب آخر میں غیر مقلد نام نہاد اہل حدیث کے متفق علیہ امام علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ پیش کرنا کافی ہو گا جسے حافظ عبد الرزاق چشتی نے اپنی کتاب ’’نماز حبیب کبریا‘‘ کے صفحہ نمبر241 پر نقل کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

’’ولہذا روی فی الحدیث مثل الذی یتکلم و الامام یخطب کمثل الحمار یحمل اسفارا فھٰکذا اذا کان یقرأ و الامام یقرأ علیہ‘‘

ترجمہ:حدیث پاک میں اس شخص کی مثال بیان کی گئی جو امام کے خطبہ دینے کے دوران کلام کرے اس کی مثال گدھے جیسی ہے جو بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ ایسے ہی جو شخص قرأت کر رہا ہو جب امام قرأت کر رہا ہو۔                 (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج23، ص279)

 

بِسْمِ اللّٰہ آہستہ پڑھنا

 

{34}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، وَابْنُ بَشَّارٍ، کِلَاہُمَا عَنْ غُنْدَرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّی: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَۃَ، یُحَدِّثُ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ” صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَقْرَأُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ٭

حضرت قتادہؓ حضرت انسص کا یہ بیان نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ کی اقتدا میں نمازیں ادا کی ہیں لیکن اِن حضرات میں سے کسی کو بھی بلند آواز سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم پڑھتے نہیں سنا۔

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب حُجَّۃِ مَنْ قَالَ لَا یُجْھَرُ بِالْبَسْمَلَہِ، ص332-33، حدیث، 794)

(سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَنْ لَمْ یَرَ الْجھَْرَ بِبِسْمِ اللّٰہِ، ص313، حدیث 773)

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِیْ اِفْتِتَاحِِ الْقِرأَتِ بِا لْحَمْدُ لِلّٰہِ، ص187، حدیث234)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاحِ، باب تَرْکُ الْجھَْرِ بِبِسْمِ اللّٰہِ، ص285)

{35}                                                حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَاء، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ یَفْتَتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیرِ وَالْقِرَاء ۃِ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ٭

ابو الجَوزا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ تکبیر تحریمہ سے نماز شروع فرماتے اور قرأت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، سے شروع کرتے۔

{35}(سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَنْ لَمْ یَرَ الْجھَْرَ بِبِسْمِ اللّٰہِ، ص314، حدیث774)

{36}                                                حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِیعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِیدٌ الجُرَیْرِیُّ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَایَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: سَمِعَنِی أَبِی وَأَنَا فِی الصَّلاَۃِ، أَقُولُ: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ لِی: أَیْ بُنَیَّ مُحْدَثٌ إِیَّاکَ وَالحَدَثَ، قَالَ: وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَبْغَضَ إِلَیْہِ الحَدَثُ فِی الإِسْلاَمِ، یَعْنِی مِنْہُ، قَالَ: وَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ أَبِی بَکْرٍ، وَمَعَ عُمَرَ، وَمَعَ عُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ یَقُولُہَا، فَلاَ تَقُلْہَا، إِذَا أَنْتَ صَلَّیْتَ فَقُلْ: الحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ٭

حَدِیثُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ.وَالعَمَلُ عَلَیْہِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمْ: أَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِیٌّ، وَغَیْرُہُمْ، وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنَ التَّابِعِینَ.٭

حضرت عبد اللہ بن مغفلؓ فرماتے ہیں میرے والد نے مجھے نماز میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا اے بیٹے ! یہ بدعت ہے بدعت سے بچو نیز فرمایا میں نے صحابہ کرام کو اس سے زیادہ کسی بدعت سے بغض رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور یہ بھی کہا کہ میں نے نبی کریمﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر و حضرت عثمانؓ کے ساتھ نماز پڑھی لیکن ان میں سے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا، لہٰذا تم بھی جہراً نہ کہو اور جب نماز پڑھو تو صرف اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینسے قرأت شروع کرو۔

امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور اکثر اصحاب رسولﷺ جن میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ بھی ہیں اور تابعین کا اسی پر عمل ہے۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ تَرْکِ الْجھَْرِ بِبِسْمِ اللّٰہِ،ص 185، حدیث 232)

{37}حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ الْجَہْضَمِیُّ وَبَکْرُ بْنُ خَلَفٍ وَعُقْبَۃُ بْنُ مُکْرَمٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیسیٰ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عَمِّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ” کَانَ یَفْتَتِحُ الْقِرَاء ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ٭

حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ قرأت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین سے شروع فرماتے۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، ابو اب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب اِفْتِتَاحِ الْقِرأَۃ، ص248، حدیث860)

 

سورۂ فاتحہ پڑھنا

 

{38}                                                حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ:حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ:حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ:أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ٭

حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس کی نماز نہیں جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔

(صحیح بخاری، ج1، کِتَابُ الاذَان، باب وُجُوْبُ الْقِرْأَۃِ لِلْاِمَام وَالْمَامُوْن، ص334حدیث717)

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، بَابُ وُجُوبِ قِرَاء ۃِ الْفَاتِحَۃِ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ، ص328، حدیث، 778)

{39}حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًا، قَالَ سُفْیَانُ: لِمَنْ یُصَلِّی وَحْدَہٗ٭

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ انہیں نبی کریمﷺ کا یہ فرمان پہنچا کہ اس کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ اور کچھ زیادہ نہ پڑھے۔ حضرت سفیانؓ فرماتے ہیں کہ یہ اس شخص کے لئے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔

{39} (سنن ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَنْ تَرَکَ الْقِرأَۃِ فِیْ الصَّلوٰۃ، ص324، حدیث 813)

نوٹ:۔                                         دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہوا کہ امام و منفرد سورۂ فاتحہ پڑھیں گے اور امام کے پیچھے پڑھنے والے مقتدی، سورۂ فاتحہ نہیں پڑھیں گے۔

 

آمین آہستہ یعنی پست آواز میں کہنا سنت ہے

 

{40}حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ سُمَیٍّ، مَوْلَی أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَالَ الإِمَامُ:غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ(الفاتحۃ: 7) فَقُولُوا:آمِینَ، فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ المَلاَئِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ٭

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّین کہے تو تم آمین کہو کیوں کہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گا تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

(صحیح بخاری، ج1، کِتَابُ الْاَذَان، باب جھَْرِ الْمَامُوْنِ بِا التَّامِیْن، ص342، حدیث743)

{41}                                               حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، وَابْنُ خَشْرَمٍ قَالَا: أَخْبَرَنَا عِیسیٰ بْنُ یُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا یَقُولُ: ” لَا تُبَادِرُوا الْاِمَامَ إِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُواوَإِذَا قَالَ:وَلَا الضَّالِّینَ فَقُولُوا: آمِینَ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ "٭

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ہمیں تلقین کیا کرتے کہ امام سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرو جب تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ وَلَا الضَّالِّینَ کہے تو تم آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہو۔

{41} (صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، بَابُ اِتْمَامِ الْمَامُوْمِ بِالْاِمَامِ، ص345، حدیث، 836)

نوٹ:۔                                         چونکہ اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ آہستہ کہی جاتی ہے لہٰذا آمین بھی آہستہ کہی جائے اور فرشتوں کی آمین بھی آہستہ ہوا کرتی ہے۔

{42}حَدَّثَنَا سُلَیْمٰنُ بْنُ شُعَیْبٍ الْکَیْسَانِیْ قَالَ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا اَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ کَانَ عُمَرَ وَ عَلِیُّ لَا یُجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ وَلَا بِالتَّعَوُّذِ وَلَا بِالتَّامِیْنِ٭

حضرت وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علیؓ بِسْمِ اللّٰہ، اعوذ باللّٰہ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔

{42}                                               (طحاوی شریف، ج1، باب قِرْأَۃِ بِسْمِ اللّٰہ فِیْ الصَّلوٰۃِ، ص419، حدیث1119)

{43}عَنِ الثَّوْرِیِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: خَمْسٌ یُخْفَیْنَ: سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، وَآمِینَ، وَاللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ٭

حضرت ابراہیم نخعیؓ فرماتے ہیں کہ پانچ باتیں آہستہ کہی جائیں (1) سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِک(2)اَعُوْذُ بِاللّٰہ(3)بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، (4)آمِینَ اور(5) اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ٭

(مصنف عبد الرَّزَّاق، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَا یُخْفِی الْإِمَامُ، حدیث2597)

 

سورۂ فاتحہ کے بعد کم از کم تین آیتیں پڑھنا

 

{44}حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًا، قَالَ سُفْیَانُ: لِمَنْ یُصَلِّی وَحْدَہُ٭

حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اس بات کی تبلیغ فرماتے کہ جو سورۃ فاتحہ یا اس سے زائد نہ پڑھے اس کی نماز مکمل نہیں۔ حضرت امام سفیان ثوری ؓ نے فرمایا یعنی جو منفرد نماز پڑھ رہا ہو۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء ۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، ص324-25، حدیث:813)

نوٹ:۔                                         چونکہ قرآن مجید میں سب سے چھوٹی سورۃ، اَلْکَوْثَر(پارہ:30)میں ہے جو صرف تین آیتوں کی ہے۔لہٰذا امام اعظم ابو حنیفہؒ نے کم سے کم تین آیتوں کا پڑھنا واجب قرار دیا۔

 

رکوع میں پیٹھ سیدھی رکھنا

 

{45}                                                حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِیعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تُجْزِئُ صَلاَۃٌ لاَ یُقِیمُ فِیہَا الرَّجُلُ، یَعْنِی، صُلْبَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ٭

حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا وہ نماز کافی نہیں جس کے رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے۔

( ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ مَنْ لَا یُقِیْمُ صُلْبَہٗ،ص 194، حدیث251)

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب الرُّکُوْع فِیْ الصَّلوٰۃ، ص261، حدیث916)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب اِقَامَتِ صُلْبِ فِیْ الرُّکُوْع، ص318)

{46}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ:حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَیْلٍ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَاء، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ:کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا رَکَعَ لَمْ یَشْخَصْ رَأْسَہٗ، وَلَمْ یُصَوِّبْہُ، وَلَکِنْ بَیْنَ ذٰلِکَ٭

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ رکوع میں نہ اپنا سر جھکاتے اور نہ اٹھاتے بلکہ برابر رکھتے۔

{46} (ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب الرُّکُوْع فِیْ الصَّلوٰۃ، ص261، حدیث915)

{47}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ:حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَدْرٍ قَالَ:أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَلِیِّ بْنِ شَیْبَانَ، عَنْ أَبِیہِ عَلِیِّ بْنِ شَیْبَانَ، وَکَانَ مِنَ الْوَفْدِ، قَالَ:خَرَجْنَا إِلَی رَسُولِ اللّٰہِﷺ، فَبَایَعْنَاہُ وَصَلَّیْنَا خَلْفَہُ، فَلَمَحَ بِمُؤْخِرِ عَیْنِہِ رَجُلًا، لَا یُقِیمُ صَلَاتَہُ، یَعْنِی صُلْبَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ، فَلَمَّا قَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ، قَالَ:یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَا یُقِیمُ صُلْبَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ٭

حضرت علی بن شیبانؓ نے فرمایا کہ ہم وفد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ سے بیعت کی اور آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی، نبی کریمﷺ نے کنکھیوں سے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدے میں پشت برابر نہیں رکھتا آپ نے نماز پوری کرنے کے بعد فرمایا:اے مسلمانوں ! جو رکوع میں پیٹھ برابر نہ رکھے اس کی نماز کامل نہیں۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب الرُّکُوْع فِیْ الصَّلوٰۃ، ص261، حدیث917)

{48}                                                حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ الْفِرْیَابِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَطَاء ٍ قَالَ:حَدَّثَنَا طَلْحَۃُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ رَاشِدٍ، قَالَ:سَمِعْتُ وَابِصَۃَ بْنَ مَعْبَدٍ، یَقُولُ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی، فَکَانَ إِذَا رَکَعَ سَوَّی ظَہْرَہُ، حَتّیٰ لَوْ صُبَّ عَلَیْہِ الْمَاء لَاسْتَقَرَّ٭

وابصہ بن معبدؓ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ جب نماز پڑھتے تو رکوع میں اپنی پیٹھ ایسی سیدھی رکھتے کہ اگر اس پر پانی ڈالا جاتا تو وہیں رک جاتا۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب الرُّکُوْع فِیْ الصَّلوٰۃ، ص261، حدیث918)

 

دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنا

 

{49}                                                حَدَّثَنِی الْحَکَمُ بْنُ مُوسیٰ، حَدَّثَنَا عِیسیٰ بْنُ یُونُسَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ إِلَی جَنْبِ أَبِی، فَلَمَّا رَکَعْتُ شَبَّکْتُ أَصَابِعِی وَجَعَلْتُہُمَا بَیْنَ رُکْبَتَیَّ، فَضَرَبَ یَدَیَّ، فَلَمَّا صَلَّی قَالَ: قَدْ کُنَّا نَفْعَلُ ھٰذَا، ثُمَّ أُمِرْنَا أَنْ نَرْفَعَ إِلَی الرُّکَبِ٭

حضرت مصعب بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے اپنی دونوں ہتھیلیاں ملا کر اپنے گھٹنوں میں دبا لیا۔ میرے والد نے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا ہم ایسا کیا کرتے تھے لیکن ہمیں منع کر دیا گیا تھا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیا کریں۔

(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وَضْعِ الْاَکُفِّ عَلَی الرُّکْب، ص344، حدیث 751)

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الْمَسَاجِد، بَابُ النَّدْبِ اِلیٰ وَضْعِ الْاَیْدِی عَلَی الرُّکَبِ، ص425، حدیث، 1099)

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب تَفْرِیْحِ الْاَبْوَابِ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِص341حدیث 858)

{50}                                                أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: سُنَّتْ لَکُمُ الرُّکَبُ، فَأَمْسِکُوا بِالرُّکَبِ٭

حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔لہٰذا گھٹنوں کو پکڑ لو۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب اَلْاِمْسَاکُ بِالرُّکَبِ فِیْ الرُّکُوْع، ص320)

{51}                                               حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ أَبِی الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْکَعُ، فَیَضَعُ یَدَیْہِ عَلَی رُکْبَتَیْہِ، وَیُجَافِی بِعَضُدَیْہِ٭

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب رکوع فرماتے تو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ لیتے اور اپنے بازو پھیلا لیتے۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعِ الْیَدَیْنِ عَلَی الرُّکْبَتَیْنِ، ص262، حدیث920)

نوٹ:۔                                         گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا ذکر یہاں پر درج ہے اور گھٹنوں کو پکڑنے والی حدیث حوالہ نمبر {53}میں دیکھیں۔

 

رکوع میں انگلیاں کشادہ رکھنا

 

{52}                                               حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، عَنْ یَزِیدَ یَعْنِی ابْنَ أَبِی حَبِیبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْعَامِرِیِّ، قَالَ:کُنْتُ فِی مَجْلِسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَذَاکَرُواصَلَاۃَ رَسُولِ اللّٰہِﷺ، فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ:فَذَکَرَ بَعْضَ ھٰذَا الْحَدِیثِ، وَقَالَ:فَإِذَا رَکَعَ أَمْکَنَ کَفَّیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِہٖ٭

محمد بن عمرو بن حَلحَلہ کا بیان ہے کہ محمد بن عمرو عامریؓ نے فرمایا میں رسول اللہﷺ کے اصحاب کی مجلس میں تھا تو انہوں نے حضور کی نماز کا ذکر کیا۔ حضرت ابو حمیدؓ نے فرمایا: پھر اس حدیث کے بعض حصے ذکر کرنے کے بعد فرمایا:جب رکوع کرتے تو اپنی ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر جما لیتے اور انگلیوں کے درمیان فاصلہ رکھتے۔

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب اِفْتِتَاحِ الصَّلوٰۃ، ص297حدیث 726)

 

بازوؤں کو پہلو سے جدا رکھنا

 

{53}                                                حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ العَقَدِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ سَہْلٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَیْدٍ، وَأَبُو أُسَیْدٍ، وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ، فَذَکَرُوا صَلاَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ: أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلاَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺ رَکَعَ، فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی رُکْبَتَیْہِ کَأَنَّہُ قَابِضٌ عَلَیْہِمَا، وَوَتَّرَ یَدَیْہِ، فَنَحَّاہُمَا عَنْ جَنْبَیْہِ٭

عباس بن سہل کہتے ہیں کہ ابو حمید، ابو اُسَید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہث ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور رسول اللہﷺ کی نماز کا ذکر کرنے لگے۔ ابو حمید نے کہا :میں رسول اللہﷺ کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔پھر فرمایا کہ آپﷺ نے رکوع فرمایا ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا گویا آپﷺ نے ان کو پکڑا ہوا ہے۔ آپ نے ہاتھوں کو کمان کی طرح رکھتے ہوئے پہلوؤں سے جدا رکھا۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ یُجَافِی یَدَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہ فِی الرُّکُوعِ، ص193، حدیث247)

{54}                                                أَخْبَرَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ ابْنِ عُلَیَّۃَ، عَنْ عَطَاء بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ، قَالَ: قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَلَا أُرِیکُمْ کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی؟ قُلْنَا: بَلَی فَقَامَ فَکَبَّرَ، فَلَمَّا رَکَعَ جَافَی بَیْنَ إِبْطَیْہِ، حَتّیٰ لَمَّا اسْتَقَرَّ کُلُّ شَیْء ٍ مِنْہُ رَفَعَ رَأْسَہٗ فَصَلَّی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ ہَکَذَا، وَقَالَ: ہَکَذَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی٭

حضرت سالم البرادؓ سے مروی ہے کہ ابو مسعودؓ نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں رسول اللہﷺ کی نماز دکھاؤں ؟ ہم نے عرض کی ضرور۔ آپ کھڑے ہوئے اور تکبیر ارشاد فرمائی۔ جب رکوع فرمایا تو اپنے بغلوں کو کھلا رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر جم گیا تو آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور چاروں رکعتیں اسی طرح پڑھیں۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح پڑھتے دیکھا ہے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب التَّجَافِی فِیْ الرُّکُوْع، ص321)

{55}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ أَبِی الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْکَعُ، فَیَضَعُ یَدَیْہِ عَلَی رُکْبَتَیْہِ، وَیُجَافِی بِعَضُدَیْہِ٭

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب رکوع فرماتے تو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ لیتے اور اپنے بازوں کو پھیلا لیتے۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَۃِ الصَّلوٰۃ، باب: وَضْعِ الْیَدَیْنِ عَلَی الرُّکْبَتَیْنِ، ص262، حدیث:920)

 

رکوع اور سجدے میں کیا پڑھے ؟

 

{56}                                                حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَیْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ:سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَیْدَۃَ یُحَدِّثُ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، أَنَّہُ صَلَّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَکَانَ یَقُولُ فِی رُکُوعِہِ:سُبْحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ، وَفِی سُجُودِہِ، سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی٭

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپﷺ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ العَظِیم اور سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلیٰ پڑھا کرتے۔

( ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ التَّسْبِیْح فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُوْد،ص 194، حدیث249)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب الذِّکْرِ فِیْ الرُّکُوْع، ص323)

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ الرَّجُلُ فِیْ رُکوُعِہٖ وَ سُجُوْدِہٖ، ص342حدیث 862)

{57}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاہِلِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ یَزِیدَ الْہُذَلِیِّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ” إِذَا رَکَعَ أَحَدُکُمْ، فَلْیَقُلْ فِی رُکُوعِہِ: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ ثَلَاثًا، فَإِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدْ تَمَّ رُکُوعُہُ، وَإِذَا سَجَدَ أَحَدُکُمْ، فَلْیَقُلْ فِی سُجُودِہِ: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی ثَلَاثًا، فَإِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدْ تَمَّ سُجُودُہُ، وَذٰلِکَ أَدْنَاہُ "٭

حضرت ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو وہ تین بارسُبْحَانَ رَبِّیَ العَظِیم کہے۔جب وہ ایسا کرے گا تو اس کا رکوع پورا ہو جائے گا اور جب سجدہ کرے تو سجدہ میں تین بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی کہے جب وہ ایسا کرے گا تو اس کا سجدہ پورا ہو جائے گا اور یہ کم از کم تعداد ہے۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، بابالتَّسْبِیْح فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُوْد، ص266، حدیث937)

(ترمذی، ج1اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب التَّسْبِیْح فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُوْد، ص193، حدیث248)

{58}                                                حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِیُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِی الْأَزْہَرِ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِذَا رَکَعَ: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَإِذَا سَجَدَ قَالَ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی ثَلَاثَ مَرَّاتٍ٭

حذیفہ بن یمانؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہﷺ رکوع میں تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ العَظِیم کہتے اور جب سجدے میں جاتے تو تین مرتبہسُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی کہا کرتے۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، بابالتَّسْبِیْح فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُوْد، ص265، حدیث935)

 

رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟

 

{59}                                                حَدَّثَنَا الأَنْصَارِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِکٌ، عَنْ سُمَیٍّ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ، فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ الْمَلاَئِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ.٭

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہو کیونکہ جس کی بات فرشتوں کی بات کے موافق ہو گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

( ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ الرَّجُلُ اِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ، ص-96 195حدیث253)

 

رَبَّنَا لَکَ الحَمْد کہنے کی دلیل

 

{60}                                                حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ:لَا یَقُولُ الْقَوْمُ خَلْفَ الْإِمَامِ:سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، وَلٰکِنْ یَقُولُونَ:رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ٭

حضرت مطرف سے روایت ہے کہ حضرت عامرؓ نے فرمایا: لوگ امام کے پیچھے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ نہ کہیں بلکہ رَبَّنَاَ لَکَ الحَمْد کہیں۔

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ الرَّجُلُ اِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ ٖ، ص335 حدیث 840)

نوٹ:۔ امام کے پیچھے پڑھنے والے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ نہ کہیں۔

 

رَبَّنَا وَ لَکَ الحَمْد کہنے کی دلیل

 

{61}حَدَّثَنَا الأَنْصَارِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِکٌ، عَنْ سُمَیٍّ عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ، فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ الْمَلاَئِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ.٭

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہو، کیونکہ جس کی بات فرشتوں کی بات کے موافق ہو گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

( ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ الرَّجُلُ اِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ عَنِ الرُّکُوعِ، ص-96 195، حدیث253)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب قَوْلِہٖ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد، ص328)

{62}                                               حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ٭

حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہو۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب: مَایَقُوْلُ الرَّجُلُ اِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ مِنَ الرُّکُوع، ص262، حدیث922)

 

اللّٰہُمَّ رَبَّنَاوَ لَکَ الحَمْدُ کہنے کی دلیل

 

{63}                                                حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ سُمَیٍّ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا: اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الحَمْدُ، فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ المَلاَئِکَۃِ، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ٭

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب امامسَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الحَمْدُ کہو کیوں کہ جس کی بات فرشتوں کی بات سے موافقت کرے گیا س کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب فَضْلِ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الحَمْدُ، ص346، حدیث 757)

{64}                                                حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ یَعْنِی الْحِزَامِیَّ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّمَا الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ، فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَیْہِ فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا وَإِذَا قَالَ:سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا:اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ٭

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔اس لئے اس سے اختلاف نہ کرو، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہو۔

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، بَابُ اِتْمَامِ الْمَامُوْمِ بِالْاِمَامِ، ص345، حدیث، 834)

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب اَلْاِمَامُ یُصَلِّی مِنْ قُعُوْد، ص263 حدیث 599)

{65}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ:حَدَّثَنَا یَحْییٰ بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِﷺ یَقُولُ:إِذَا قَالَ الْإِمَامُ:سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا:اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ٭

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہو۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ الرَّجُلُ اِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ مِنَ الرُّکُوع، ص262، حدیث923)

نوٹ:۔                                         اس باب میں تین طرح کی حدیثیں آئیں ہیں جو اوپر درج ہیں (1) رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد(2) رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد(3)اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کی۔ سب سے بہتر اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہنا ہے۔

 

قومہ یعنی رکوع کے بعد کھڑا ہونا

 

{66}                                                حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِیدِ، قَالَ:حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الحَکَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی عَنِ البَرَاء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ:کَانَ رُکُوعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسُجُودُہُ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوعِ وَبَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ قَرِیبًا مِنَ السَّوَاء ٭

حضرت براء بن عازبؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کا رکوع، سجدہ، رکوع سے سر اٹھانا اور سجدوں کے درمیان بیٹھنا تقریباً برابر ہوتا تھا۔

(صحیح بخاری،ج 1، کتاب الاذان، باب الطُّمَأْنِینَۃِ حِینَ یَرْفَعُ رَأْسَہٗ، ص347، حدیث 762)

{67}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَیْلٍ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَاء، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوعِ لَمْ یَسْجُدْ حَتّیٰ یَسْتَوِیَ قَائِمًا، فَإِذَا سَجَدَ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ، لَمْ یَسْجُدْ حَتّیٰ یَسْتَوِیَ جَالِسًا، وَکَانَ یَفْتَرِشُ رِجْلَہُ الْیُسْرَی٭

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے نہ کھڑے ہو جاتے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک دوسرا سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے اور آپ اپنا بایاں پیر بچھا تے۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب الْجُلُوْسِ بَیْنَ السَّجَدَتَیْن، ص266، حدیث940)

 

سجدے میں پہلے گھٹنا پھر ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی رکھی جائے

 

{68}حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَعْمِدُ أَحَدُکُمْ فِی صَلَاتِہِ، فَیَبْرُکُ کَمَا یَبْرُکُ الْجَمَلُ٭

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسے بیٹھتا ہے جیسے اونٹ بیٹھا کرتا ہے۔

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب کَیْفَ یَضَعُ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، ص332، حدیث832)

نوٹ:۔                                         اونٹ جب بیٹھتا ہے تو پہلے آگے کے پاؤں کے گھٹنوں کو زمین پر رکھتا ہے جسے اس کا ہاتھ بھی کہہ سکتے ہیں۔لہٰذا ہمیں اس سے روکا گیا کہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھو۔

{69}                                                حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِیکٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ٭

حضرت وائل بن حجرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ فرماتے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے اور جب اٹھتے تو گھٹنوں سے پہلے ہاتھ اٹھاتے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب اَوَّلُ مَایُصِلُ اِلَی الْاَرْرضِ مِنَ الْاِنْسَان، ص328)

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب کَیْفَ یَضَعُ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، ص332، حدیث829)

( ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ وَضْعِ الرُّکْبَتَیْنِ قَبْلَ الیَدَیْن،ص 196حدیث254)

 

دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدہ کرنا

 

{70}                                                حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنِ الحَجَّاجِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: قُلْتُ لِلْبَرَاء بْنِ عَازِبٍ: أَیْنَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضَعُ وَجْہَہُ إِذَا سَجَدَ، فَقَالَ: بَیْنَ کَفَّیْہِ٭

ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازبؓ سے پوچھا کہ نبی کریمﷺ سجدے میں چہرہ کہاں رکھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا :دونوں ہتھیلیوں کے درمیان۔

( ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَا جَاء أَیْنَ یَضَعُ الرَّجُلُ وَجْہَہُ،ص 197حدیث257)

 

پاؤں اور ہاتھ کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو

 

{71}                                               حَدَّثَنَا عِیسیٰ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْمِصْرِیُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ، عَنِ اللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِیِّ، وَیَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاء ٍ، نَحْوَ ھٰذَا قَالَ:فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِہِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِہِ الْقِبْلَۃَ٭

حضرت محمد بن عمرو بن عطاءؓ روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریمﷺ نے سجدہ کیا تو بازو زمین پر نہ بچھائے اور نہ انہیں اکٹھا کیا اور اپنی انگلیوں کے سرے قبلے کی جانب رکھے۔

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، ص297، حدیث727)

 

بازو کو کروٹوں سے، پنڈلی کو ران سے اور ران کو پیٹ سے جدا رکھنا

 

{72}                                               أَخْبَرَنَا یَحْییٰ بْنُ بُکَیْرٍ، حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیعَۃَ، عَنِ ابْنِ ہُرْمُزَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ ابْنِ بُحَیْنَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا صَلَّی فَرَّجَ بَیْنَ یَدَیْہِ حَتّیٰ یَبْدُوَ بَیَاضُ إِبْطَیْہِ٭

حضرت عبد اللہ بن مالک بن بُحَینہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز کے دوران بازوؤں کو اتنا کشادہ رکھتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب یُبْدِی ضَبْعَیْہِ وَیُجَافِی فِی السُّجُودِ، ص229، حدیث 380)

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، بَابُ اَلْاِعْتِدَالِ فِی السُّجُوْد، ص399، حدیث، 1007)

{73}                                                حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ، حَدَّثَنِی عُتْبَۃُ، حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عِیسیٰ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ السَّاعِدِیِّ، عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ، بھِٰذَا الْحَدِیثِ قَالَ: وَإِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطْنَہُ عَلَی شَیْء ٍ مِنْ فَخْذَیْہِ٭

عباس بن سہل ساعدی نے حضرت ابو حُمَیدؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ جب سجدہ کیا تو اپنی رانوں کے درمیان فاصلہ رکھا اور شکم مبارک کا ذرا بھی حصہ رانوں پر نہ رکھا۔

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، ص299، حدیث730)

{74}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَرُ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنْ کُنَّا لَنَأْوِی لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِمَّا یُجَافِی بِیَدَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہِ إِذَا سَجَدَ٭

صاحب رسول حضرت احمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سجدہ میں تشریف لے جاتے تو بازوؤں کو اتنا الگ رکھتے کہ ہمیں آپ کی تکلیف کا خیال ہونے لگتا۔

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب السُّجُوْدِ، ص265، حدیث933)

 

پاؤں کی انگلیوں کا پیٹ زمین سے لگا ہو

 

{75}                                                یَسْتَقْبِلُ بِأَطْرَافِ رِجْلَیْہِ قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ٭

ابو حُمَیدؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا کہ دونوں پاؤں کی انگلیاں بھی قبلہ رخ ہوں۔

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فَضْلِ اسْتِقْبَالِ القِبْلَۃِِ، ص229، باب نمبر269)

 

دوسجدے کے بعد اپنے پیروں کے بل کھڑے ہو نا

 

{76}                                                حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِیکٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ٭

حضرت وائل بن حجرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ فرماتے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے اور جب اٹھتے تو گھٹنوں سے پہلے ہاتھ اٹھاتے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب اَوَّلُ مَایُصِلُ اِلَی الْاَرْرضِ مِنَ الْاِنْسَان، ص328)

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب کَیْفَ یَضَعُ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، ص332، حدیث829)

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِیْ وَضْعِ الرُّکْبَتَیْنِ قَبْلَ الیَدَیْن،ص 196حدیث254)

{77}                                                حَدَّثَنَا یَحْییٰ بْنُ مُوسیٰ، قَالَ:حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، قَالَ:حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ صَالِحٍ، مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَضُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی صُدُورِ قَدَمَیْہِ ’’حَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَیْہِ العَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ العِلْمِ:یَخْتَارُونَ أَنْ یَنْہَضَ الرَّجُلُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی صُدُورِ قَدَمَیْہِ‘‘٭

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ بغیر بیٹھے اپنے قدموں کے اگلے حصے پر کھڑے ہوتے۔ ’’امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ کی اس روایت پر اہل علم کا عمل ہے اور یہی مختار مذہب ہے کہ نمازی قدموں کے اگلے حصے پر کھڑا ہو۔‘‘

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب کَیْفَ النُّہُوضُ مِنَ السُّجُودِ،ص 203حدیث272)

{78}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ أَبِی الْعَلَاء، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُولَی وَالثَّالِثَۃِ لَا یَقْعُدُ حِینَ یُرِیدُ أَنْ یَقُومَ حَتّیٰ یَقُومَ٭

حضرت ابراہیمؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ان مسعودص جب پہلی اورتیسری رکعت سے اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو نہیں بیٹھتے یہاں تک کہ کھڑے ہو جاتے۔

(مُصَنِّف اِبْنِ اَبِیْ شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَنْ کَانَ یَنْہَضُ عَلَی صُدُورِ قَدَمَیْہِ، حدیث3986)

{79}                                                حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِیَادِ بْنِ زَیْدٍ السُّوَائیِّ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: إِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوبَۃِ إِذَا نَہَضَ الرَّجُلُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُولَیَیْنِ أَنْ لَا یَعْتَمِدَ بِیَدَیْہِ عَلَی الْأَرْضِ، إِلَّا أَنْ یَکُونَ شَیْخًا کَبِیرًا لَا یَسْتَطِیعُ٭

حضرت حجیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ فرض نماز میں سنت یہ ہے کہ انسان جب پہلی دو رکعت کے بعد اٹھے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر سہارا نہ لگائے۔ لیکن اگر بہت بوڑھا ہو اور طاقت نہ رکھتا ہو(تو زمین پر ہاتھ رکھ سکتا ہے )۔

(مُصَنِّف اِبْنِ اَبِیْ شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الرَّجُلِ یَعْتَمِدُ عَلَی یَدَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ، حدیث3998)

نوٹ:۔                                         دوسری اور تیسری رکعت میں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل اٹھنے والی حدیث بھی ہے اور وہ بھی صحیح ہے۔ لیکن دونوں حدیثوں پر ایک وقت میں عمل کرنا دشوار ہے۔لہٰذا جب طاقت اور قوت موجود ہو تو سیدھا پاؤں کے بل کھڑا ہو اور اگر طاقت جاتی رہی ہو تو بیٹھ کر ہاتھ کے بل اٹھنے میں کوئی قباحت نہیں۔

 

تشہد میں کس طرح بیٹھا جائے ؟

 

{80}                                                حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ القَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ: أَنَّہُ کَانَ یَرَی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، یَتَرَبَّعُ فِی الصَّلاَۃِ إِذَا جَلَسَ، فَفَعَلْتُہُ وَأَنَا یَوْمَئِذٍ حَدِیثُ السِّنِّ، فَنَہَانِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ، وَقَالَ: إِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلاَۃِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَکَ الیُمْنَی وَتَثْنِیَ الیُسْریٰ، فَقُلْتُ: إِنَّکَ تَفْعَلُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: إِنَّ رِجْلَیَّ لاَ تَحْمِلاَنِی٭

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو دیکھتا تھا کہ جب نماز میں بیٹھتے تو چار زانو بیٹھتے لہٰذا میں نے بھی ایسا ہی کیا۔میں اس زمانے میں کم سن تھا۔عبد اللہ بن عمرؓ نے مجھے منع فرمایا اور کہا نماز کا طریقہ تو یہی ہے کہ تم اپنا دایاں پاؤں کھڑا رکھو اور بایاں بچھا لو۔میں نے عرض کی اور آپ جو ایسا کرتے ہیں ؟ فرمایا میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھاسکتے۔

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاَذَان، باب سُنَّۃُ الْجُلُوْسِ فِی التَّشَہُّد، ص357، حدیث786)

(موطا امام مالک، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْعَمَلُ فِیْ الْجُلُوْسِ فِیْ الصَّلوٰۃ، ص100، حدیث51)

{81}                                               حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ، قُلْتُ: لأَنْظُرَنَّ إِلَی صَلاَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَلَسَ، یَعْنِی لِلتَّشَہُّدِ، : افْتَرَشَ رِجْلَہُ الیُسْریٰ، وَوَضَعَ یَدَہُ الیُسْریٰ، یَعْنِی، عَلَی فَخِذِہِ الیُسْریٰ، وَنَصَبَ رِجْلَہُ الیُمْنَی .قَالَ اَبُوْعِیْسیٰ ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌوَالعَمَلُ عَلَیْہِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ العِلْمِ٭

حضرت وائل بن حجرؓ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا اور کہا کہ میں رسول اللہﷺ کی نماز ضرور دیکھوں گا۔ جب آپﷺ تشہد کے لئے بیٹھے تو آپ نے بایاں پاؤں بچھا کر ران پر بایاں ہاتھ رکھا اور دایاں پاؤں کھڑا کیا۔امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے اور اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

( جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب کَیْفَ الجُلُوسُ فِی التَّشَہُّدِ،ص 205حدیث276)

 

تحیات کے کلمات، نیز آہستہ پڑھنا

 

{82}                                               حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: کُنَّا إِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: السَّلاَمُ عَلَی جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ السَّلاَمُ عَلَی فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ” إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ السَّلاَمُ، فَإِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَلْیَقُلْ: التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، فَإِنَّکُمْ إِذَا قُلْتُمُوہَا أَصَابَتْ کُلَّ عَبْدٍ لِلّٰہِ صَالِحٍ فِی السَّمَاء وَالأَرْضِ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ”٭

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا جب ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے یہ دعا پڑھتے السَّلاَمُ عَلَی جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ السَّلاَمُ عَلَی فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ تو رسول اللہﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ تو خود ہی سلام ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ کہے : ’’ التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہٗ‘‘تویہ سلام اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچ جائے گا چاہے وہ آسمان میں ہو یا زمین میں۔

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاَذَان، باب التَّشَہُّدِ فِی الْاٰخِرَۃِ، ص359، حدیث790)

(صحیح مسلم، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، بَابُ التَّشَہُّدِ فِی الصَّلوٰۃ، ص335، حدیث، 801)

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب التَّشَہُّد، ص373-374، حدیث955)

{83}                                                حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الدَّوْرَقِیُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ الأَشْجَعِیُّ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدْنَا فِی الرَّکْعَتَیْنِ أَنْ نَقُولَ: التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلآَ اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ٭

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں تشہد کی تعلیم دی کہ جب ہم دو رکعتوں کے بعد بیٹھیں تو یہ پڑھیں : ’’ التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہٗ‘‘٭

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِی التَّشَہُّدِ،ص 203-204حدیث273)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب کَیْفَ التَّشَہُّدُ الْاَوَّلُ، ص358)

{84}                                                حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ الأَشَجُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ یُخْفِیَ التَّشَہُّدَ٭

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ تشہد آہستہ پڑھنا سنت ہے۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ اَنَّہٗ یُخْفِی التَّشَہُّد،ص 204حدیث275)

 

شہادت کی انگلی اٹھانا حرکت نہ دینا

 

{85}                                                حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَیْلاَنَ، وَیَحْییٰ بْنُ مُوسیٰ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا جَلَسَ فِی الصَّلاَۃِ وَضَعَ یَدَہُ الیُمْنَی عَلَی رُکْبَتِہِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَہُ الَّتِی تَلِی الإِبْہَامَ یَدْعُو بِہَا، وَیَدُہٗ الیُسْریٰ عَلَی رُکْبَتِہِ بَاسِطَہَا عَلَیْہِ٭

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نماز میں بیٹھتے وقت دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔جب کہ بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر بچھائے رکھتے۔

(جامع ترمذی، ج1، اَبْوَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَاجَائَ فِی الْاِشَارَۃِ فِی التَّشَہُّد،ص 206حدیث278)

{86}                                                حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَدْ حَلَّقَ بِالْإِبْہَامِ وَالْوُسْطَی، وَرَفَعَ الَّتِی تَلِیہِمَا، یَدْعُو بِہَا فِی التَّشَہُّدِ٭

حضرت وائل بن حجرؓ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ نے انگوٹھے اور داہنی انگلیوں کا حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی اٹھائی۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب الْاِشَارَۃِ فِی التَّشَہُّدِ، ص272، حدیث960)

{87}                                                أَخْبَرَنَا أَیُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَزَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: أَخْبَرَنِی زِیَادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ إِذَا دَعَا، وَلَا یُحَرِّکُہَا، قَالَ: ابْنُ جُرَیْجٍ: وَزَادَ عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو کَذٰلِکَ، وَیَتَحَامَلُ بِیَدِہِ الْیُسْرَی عَلَی رِجْلِہِ الْیُسْرَی٭

حضرت عبد اللہ بن عامر بن عبد اللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ جب دعا(التحیات) پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے لیکن آپﷺ اس کو حرکت نہ دیتے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ السَّہْو، باب بَشْطِ الْیُسْریٰ عَلَی الرُّکْبَۃِ، ص389)

 

درود شریف پڑھنا

 

{88}                                                حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ حَفْصٍ، وَمُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَۃَ مُسْلِمُ بْنُ سَالِمٍ الہَمْدَانِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عِیسَی، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِی لَیْلَی، قَالَ: لَقِیَنِی کَعْبُ بْنُ عُجْرَۃَ، فَقَالَ: أَلاَ أُہْدِی لَکَ ہَدِیَّۃً سَمِعْتُہَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَی، فَأَہْدِہَا لِی، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ الصَّلاَۃُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ البَیْتِ، فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ عَلَیْکُمْ؟ قَالَ: قُولُوا: اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ "٭

حضرت عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰؓ فرماتے ہیں کہ مجھے کعب بن عُجرہؓ  ملے تو میں نے کہا کیا میں تمہیں ایسا تحفہ نہ دوں جو میں نے نبی کریمﷺ سے سنا ہے ؟ کہنے لگے ضرور مجھے ایسا تحفہ دیجیے۔ فرمایا: ہم نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، یا رسول اللہ! آپ پر اہل بیت سمیت ہم کیسے درود بھیجا کریں ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام عرض کرنے کا طریقہ تو بتا دیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم یوں کہا کرو:۔ اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ إِبْرَاہِیمَ، وَعَلیٰ آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ إِبْرَاہِیمَ، وَعَلیٰ آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ "٭

(صحیح بخاری،ج 2، کِتَابُ الْاَنْبِیَاء، باب یَزِفُّنَ النَّسْلَانُ فِی الْمَشْیِ، ص273-74، حدیث595)

دعائے ماثورہ پڑھنا

{89}                                                حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، قَالَ:حَدَّثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ، عَنْ أَبِی الخَیْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّہُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِی دُعَاء ً أَدْعُو بِہِ فِی صَلاَتِی، قَالَ: "قُلْ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا، وَلاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ ٭

حضرت عبد اللہ بن عمرث حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کی: مجھے کوئی ایسی دعا بتائیے جو میں اپنی نمازوں میں پڑھا کروں ! رسول اللہﷺ نے فرمایا اِسے پڑھا کرو:۔ ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا، وَلاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ‘‘

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب الدُّعَاء قَبْلَ السَّلَام، ص359-60، حدیث792)

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاح، باب الدُّعَاء بَعْدَ الذِّکْر، ص400)

نوٹ:۔ دعائے ماثورہ اس دعا کو کہتے ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو۔ لہٰذا کوئی بھی دعائے ماثورہ پڑھ سکتے ہیں۔

 

سلام پھیرنا

 

{90}                                                حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَی، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: صَلَّیْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْنَا حِینَ سَلَّمَ٭

حضرت عتبان بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔

{90}(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب یُسَلِّمُ حِینَ یُسَلِّمُ الإِمَامُ، ص361، حدیث796)

{91}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَیْدٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ حَتَّی یُرَی بَیَاضُ خَدِّہِ، السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ٭

حضرت عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ دائیں طرف سلام پھیرتے اور بائیں طرف سلام پھیرتے یہاں تک کہ ہمیں رخساروں کی سفیدی نظر آتی اور فرماتے : ’’السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘‘

(سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب التَّسْلِیْم، ص273، حدیث962)

 

سلام کے بعد ذکر کرنا

 

{92}                                               حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَیْدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ، اسْمُہُ شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ، عَنْ أَبِی أَسْمَاء، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ:اللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ قَالَ الْوَلِیدُ: فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِیِّ: کَیْفَ الْاسْتِغْفَارُ؟ قَالَ:تَقُولُ:أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ "٭

حضرت ثوبان صبیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار پڑھا کرتے اور یوں دعا فرماتے : اللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ حضرت ولید فرماتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی سے دریافت کیا کہ استغفار کیسے پڑھا کرتے تھے ؟ فرمایا: أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ٭

(صحیح مسلم، ج1کِتَابُ الْمَسَاجِدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّکْر بَعْدَ الصَّلوٰۃ، ص463حدیث1235)

(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ بَعْدَ السَّلَام، ص276، حدیث976)

{93}                                                وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عِیسَی، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَکَمَ بْنَ عُتَیْبَۃَ، یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مُعَقِّبَاتٌ لَا یَخِیبُ قَائِلُہُنَّ – أَوْ فَاعِلُہُنَّ – دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ مَکْتُوبَۃٍ، ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ تَسْبِیحَۃً، وَثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ تَحْمِیدَۃً، وَأَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ تَکْبِیرَۃً٭

حضرت کعب بن عُجرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان کلمات کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے والا کبھی محروم نہیں رہتا۔ 33مرتبہ سُبْحٰنَ اللّٰہ 33مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ 34مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر۔

(صحیح مسلم، ج1کِتَابُ الْمَسَاجِدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّکْر بَعْدَ الصَّلوٰۃ، ص468حدیث1250)

 

نماز کے بعد دعاء کرنا

 

{94}أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَطَاء بْنِ أَبِی مَرْوَانَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ کَعْبًا حَلَفَ لَہُ بِاللَّہِ الَّذِی فَلَقَ الْبَحْرَ لِمُوسَی إِنَّا لَنَجِدُ فِی التَّوْرَاۃِ: أَنَّ دَاوُدَ نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِہِ قَالَ: اللَّہُمَّ أَصْلِحْ لِی دِینِی الَّذِی جَعَلْتَہُ لِی عِصْمَۃً، وَأَصْلِحْ لِی دُنْیَایَ الَّتِی جَعَلْتَ فِیہَا مَعَاشِی، اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ نِقْمَتِکَ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ، قَالَ: وَحَدَّثَنِی کَعْبٌ، أَنَّ صُہَیْبًا حَدَّثَہُ، أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُہُنَّ عِنْدَ انْصِرَافِہِ مِنْ صَلَاتِہٖ٭

ابی مروان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت کعبؓ نے اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ اس اللہ کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کے لئے دریا کو چیر دیا۔ ہم نے توریت میں دیکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام جب نماز سے فارغ ہوتے تو یوں دعاء فرماتے :

’’اے اللہ! میرے لئے میرا دین سنوار دے جس کو تو نے میری حفاظت کا سبب بنایا ہے اور میری دنیا سنوار دے جس میں تو نے میری روزی پیدا کی ہے۔ اے اللہ! میں تیری خوشنودی کے ساتھ تیرے غصے سے اور تیری معافی کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔ جو چیز تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روکے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ اور تیرے فیصلے کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور کسی کی دولت اسے تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی‘‘

حضرت صہیب ؓ(راوی حدیث)نے بیان فرمایا کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نماز کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ السَّہْو، باب الدُّعَاء عِنْدَ الِانْصِرَافِ مِنَ الصَّلَاۃِ، ص414-15)

{95}أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِیٍّ، قَالَ:حَدَّثَنَا یَحْیَی، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ:کَانَ أَبِی یَقُولُ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِ:اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، فَکُنْتُ أَقُولُہُنَّ، فَقَالَ أَبِی: أَیْ بُنَیَّ، عَمَّنْ أَخَذْتَ ہَذَا؟ قُلْتُ عَنْکَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُہُنَّ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِ٭

حضرت مسلم بن ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ میرے والد نماز کے بعد یہ دعا فرماتے اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔(ترجمہ : اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر اور محتاجی اور عذاب قبر سے ) میں نے بھی نماز کے بعد ایسا کرنا شروع کر دیا۔ میرے والد نے مجھ سے دریافت فرمایا اے بیٹے ! تم نے یہ کہاں سے سیکھا؟ میں نے کہا آپ سے۔ فرمایا کہ رسول اللہﷺ نماز کے بعد یوں ہی دعا فرماتے تھے۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ السَّہْو، باب التَّعَوُّذِ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِِ، ص415)

{96}                                                حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ، عَنْ مَوْلًی لِأُمِّ سَلَمَۃَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: إِذَا صَلَّی الصُّبْحَ حِینَ یُسَلِّمُ اللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَیِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا٭

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صبح کی نماز کے بعد یوں دعا فرماتے : ’’اللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَیِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا‘‘(ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع اور پاک رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں )

(سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ بَعْدَ السَّلَام، ص275، حدیث973)

فی الزوائد رجال إسنادہ ثقات یعنی زوائد میں ہے کہ اس کے اسناد کے رجال ثقہ ہیں۔ اور غیر مقلدوں کے امام نصیر الدین البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔

 

عورتوں کی نماز مردوں سے تھوڑا الگ ہے۔

عورتیں مسجد میں نہ آئیں

 

{97}حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَیُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَۃِ، فَیُؤَذَّنَ لَہَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوتَہُمْ،۔۔۔۔۔۔۔٭

ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کی قبضے میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ اقامت کرے اس کے بعد انہیں چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب وُجُوْبِ الصَّلوٰۃِ الْجَمَاعَۃِ، ص300، حدیث613)

{98}حَدَّثَنَا خَلَفٌ، قَالَ:حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ :لَوْلَا مَا فِی الْبُیُوتِ مِنَ النِّسَاء وَالذُّرِّیَّۃِ، لَأَقَمْتُ الصَّلَاۃَ، صَلَاۃَ الْعِشَاء، وَأَمَرْتُ فِتْیَانِی یُحْرِقُونَ مَا فِی الْبُیُوتِ بِالنَّارِ”٭

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں نماز عشا کا حکم دے کر خادموں کو حکم دیتا کہ وہ ان کے گھروں کو آگ سے جلا ڈالیں۔

(مسند امام احمد، مُسْنَدِ اَبِی ہُرَیْرَہ، حدیث8796)

نوٹ:۔                                         اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں پر جماعت نہیں ہے۔

{99}حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّی، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ، حَدَّثَہُمْ قَالَ: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَلَاۃُ الْمَرْأَۃِ فِی بَیْتِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِی حُجْرَتِہَا، وَصَلَاتُہَا فِی مَخْدَعِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِی بَیْتِہَا٭

حضرت عبد اللہ (ابن مسعود)ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت کی نماز گھر میں پڑھنا اس کے صحن میں پڑھنے سے بہتر  ہے اور گھر کی کوٹھری میں پڑھنا اس کے گھر میں پڑھنے سے بہتر ہے۔

(سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَا جَاء فِی خُرُوجِ النِّسَاء إِلَی الْمَسْجِدِ، ص253، حدیث567)

سلفی غیر مقلدوں کے امام نصیر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا۔

 

بعض لوگ بخاری کی اس حدیث

 

’’حضرت ابن عمرؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ہے کہ تمہاری عورتیں جب رات کے وقت تم سے مسجد کی طرف جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دیا کرو۔‘‘           (بخاری، کتاب الاذان، حدیث 820)

کو دلیل بناتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں سے روکنا غلط ہے اور صحابہ کرام کی بارگاہ میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کا مظاہرہ اس انداز میں کرتے ہیں گویا بے ادبی اور گستاخی ان کو وراثت میں ملی ہے۔ دیکھئے ان کی گستاخی، کہتے ہیں :

’’جب رسول اللہ نے اجازت دی ہے تو حضرت عمر کون ہوتے ہیں منع کرنے والے ‘‘

معاذ اللہ ایسے جملے اپنی زبان سے ادا کرنے سے پہلے ذرا یہ سوچ لئے ہوتے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عمرؓ کے لئے ہی فرمایا کہ ’’جس راستے پر حضرت عمر چلتے ہیں تو شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو حضرت عمرؓ ہوتے۔‘‘ تو شاید ایسی گستاخی کرنے سے رک جاتے۔ مگر صحیح کہا کسی نے کہ ’’ خدا جب دین لیتا ہے تو عقلیں چھین لیتا ہے۔‘‘بہر حال یہ ان کی خبیثانہ ذہنیت کی دلیل ہے۔

اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہم سنیوں کو گستاخ نہیں بنایا۔ اور عشق رسول اور عشق صحابہ و اولیاء ہمارے دلوں میں موجزن فرمایا۔

رہی بات حدیث {99}کی تو اس حدیث میں مسجد حرام اور مسجد نبویﷺ میں عورتوں کی حاضری کو روکنے سے منع کیا گیا تھا پھر حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مذکورہ مسجدوں سے بھی روک دیا گیا۔آنے والی حدیث یعنی حدیث{100} کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مسجد حرام اور مسجد نبویﷺ کے علاوہ دیگر مسجدوں میں عورتوں کے لئے نماز مناسب نہیں۔ملاحظہ فرمائیں :

{100}حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: مَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ فِی مَکَانٍ خَیْرٌ لَہَا مِنْ بَیْتِہَا إِلَّا أَنْ یَکُونَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، أَوْ مَسْجِدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا امْرَأَۃً تَخْرُجُ فِی مَنْقَلَیْہَا یَعْنِی خُفَّیْہَا٭

حضرت عبد اللہ مسعودؓ سے مروی ہے کہ عورت کی نماز مکان کے اندرونی حصہ سے زیادہ بہتر کہیں نہیں سوائے مسجد حرام اور مسجد نبویﷺ کے مگر یہ کہ وہ اپنے موزے پہن کر نکلے۔                                                                                                                                                                        (اَلمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلْطِبْرَانِی، باب عین 1، 9472)

{101}                                  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ یَحْییٰ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: لَوْ أَدْرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاء لَمَنَعَہُنَّ کَمَا مُنِعَتْ نِسَاء بَنِی إِسْرَائِیلَ قُلْتُ لِعَمْرَۃَ: أَوَمُنِعْنَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ٭

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:۔ اگر رسول اللہﷺ دیکھ لیتے جو بعد میں عورتوں نے کیا تو انہیں مسجدوں سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئی تھیں۔ میں (یحییٰ)نے عمرہ سے کہا:۔ کیا وہ منع کی گئی تھیں فرمایا، ہاں۔

(صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب خُرُوجِ النِّسَاء إِلَی المَسَاجِدِ، ص369-370، حدیث824)

عورتوں کا سجدہ

{102}                                  حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا٭

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو بہت سمٹ کر سجدہ کرے اور رانوں کو آپس میں ملا لے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2777)

{103}                                   حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَہُ عَلَی فَخِذَیْہِ إِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْأَۃُ ٭

حضرت مجاہدؓ سے مروی ہے کہ مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ سجدہ میں اپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2780)

{104}                                   حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا، وَلَا تُجَافِی کَمَا یُجَافِی الرَّجُلُ٭

حضرت ابراہیم نخعیؓ سے روایت ہے کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے ملا لے اور اپنی سرین کو زیادہ نہ اٹھائے، اعضاء کو ایک دوسرے سے دور نہ رکھے جیسے مرد دور رکھتے ہیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2782)

 

عورت نماز میں کس طرح بیٹھیں ؟

 

{105}                                   حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَۃَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، قَالَ: کُنَّ النِّسَاء یُؤْمَرْنَ أَنْ یَتَرَبَّعْنَ إِذَا جَلَسْنَ فِی الصَّلَاۃِ، وَلَا یَجْلِسْنَ جُلُوسَ الرِّجَالِ عَلَی أَوْرَاکِہِنَّ، یُتَّقیٰ ذَلِکَ عَلَی الْمَرْأَۃِ مَخَافَۃَ أَنْ یَکُونَ مِنْہَا الشَّیْئُ٭

خالد بن لجلاجؓ سے روایت ہے کہ عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ چوکڑی مار کر بیٹھیں، مردوں کی طرح اپنی سرین کو پاؤں پر رکھ کر نہ بیٹھیں،۔۔۔۔۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الْمَرْأَۃِ کَیْفَ تَجْلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، حدیث2783)

{106}حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاء ٍ: تَجْلِسُ الْمَرْأَۃُ فِی مَثْنًی عَلَی شِقِّہَا الْأَیْسَرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: ہُوَ أَحَبُّ إِلَیْکَ مِنَ الْأَیْمَنِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَجْتَمِعُ جَالِسَۃً مَا اسْتَطَاعَتْ، قُلْتُ: تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِی مَثْنًی، أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَہَا الْیُسْرَی مِنْ تَحْتِ أَلْیَتِہَا؟ قَالَ: لَا یَضُرُّہَا أَیُّ ذَلِکَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ٭

حضرت ابن جریجؒ  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا ؓ سے عرض کی کہ عورت ہماری طرح بائیں طرف بیٹھیں گی؟انہوں نے فرمایا ہاں۔ میں نے کہا بائیں طرف بیٹھنا مجھے دائیں طرف بیٹھنے سے زیادہ پسند ہے۔انہوں نے کہا :ہاں بیٹھے مگر جتنی طاقت رکھے اتنی ہی سمٹ کر مجتمع (سمٹ)ہو کر بیٹھے۔ میں نے عرض کی مردوں کی طرح بیٹھے جیسے ہم بیٹھتے ہیں یا اپنا بایاں پاؤں سرین کے نیچے سے باہر نکال کر بیٹھے ؟ انہوں نے فرمایا کوئی ضرر نہیں البتہ بیٹھے مجتمع ہو کر یعنی سمٹ کر۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الْمَرْأَۃِ کَیْفَ تَجْلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، حدیث2791)

نتیجہ واضح ہو گیا کہ مقصد عورت کے پردے کا ہے، وہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا بھی ہو سکے اپنے بدن کے حصے کو دوسرے بدن کے حصے سے ملا کر، زمین سے سمٹ کر بیٹھے، خواہ یہ مقصد چوکڑی مار کر بیٹھنے سے حاصل ہو یا سرین کو زمین پر رکھنے اور پاؤں کو باہر نکالنے سے حاصل ہو۔

عورت تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کانوں تک نہ اٹھائے کیونکہ اس کے بازو زیادہ کھل جانے اور سینے کے ابھار کا ظاہر ہونے کا خدشہ رہے گا جوا س کی بے پردگی پر دلالت کریں گے، لیکن عورت جب اپنے ہاتھ کندھے تک بمشکل اٹھائے گی۔ توا س کا پردہ برقرار رہے گا۔اسی طرح عورت جب ہاتھ باندھتے وقت اپنے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر باندھے گی تو اس کا زیادہ پردہ ہو گا۔

 

وتر واجب ہے

 

{107}حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّی، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِیُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْعَتَکِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ یُوتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ یُوتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ یُوتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا٭

حضرت عبد اللہ بن بُرَیدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نماز وتر حق ہے، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔نماز وتر حق ہے، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔نماز وتر حق ہے، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، ابو اب الوتر، باب:فِیمَنْ لَمْ یُوتِرْ، ص527، حدیث:1405)

وتر تین رکعت ہے

{108}                                   حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ المَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ: أَنَّہُ سَأَلَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، کَیْفَ کَانَتْ صَلاَۃُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلاَ فِی غَیْرِہِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّی أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّی أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَلاَثًا۔قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ: أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: یَا عَائِشَۃُ إِنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلاَ یَنَامُ قَلْبِی٭

ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہﷺ کی نماز رمضان میں کیسی تھی؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہﷺ گیارہ(11) رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں ایسی پڑھتے کہ ان کی عمدگی اور طوالت کے بارے میں تو مت پوچھو، پھر چار رکعتیں ایسی پڑھتے کہ ان کی عمدگی اور طوالت کا کیا کہنا، پھر تین رکعتیں (وتر) پڑھتے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہیں سوتا۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الجُمْعَہ، باب:قِیَامِ النَّبِیِّﷺ بِاللَّیْلِ فِی رَمَضَانَ وَغَیْرِہِ، ص451، حدیث1076)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ رمضان یا رمضان کے علاوہ دنوں میں وتر تین رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔

{109}                                   حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِیکٌ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الوِتْرِ: بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی، وَقُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ، وَقُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ فِی رَکْعَۃٍ رَکْعَۃٍ٭

حضرت ابن عباسث فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی، دوسری میں قُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ اور تیسری رکعت میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھا کرتے۔

(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الوتر، باب:مَا جَاء مَا یُقْرَأُ فِی الوِتْرِ، ص284، حدیث:445)

ایسی ہی روایت’ ’’سنن ابن ماجہ، ج1، ابو اب اِقَامَت الصَّلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِیمَا یُقْرَأُ فِی الْوِتْرِ، ص335، حدیث:1221‘‘میں حافظ صحابی، حضرت اُبَی بن کعبؓ سے صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہے۔

{110}                                  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَأَبُو یُوسُفَ الرَّقِّیُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الصَّیْدَلَانِیُّ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ خُصَیْفٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَائِشَۃَ، بِأَیِّ شَیْء ٍ کَانَ یُوتِرُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: کَانَ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُولَی بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ، وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ٭

حضرت عبد العزیز بن جُرَیج روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہﷺ وتروں میں کیا پڑھا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا: پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی، دوسری میں قُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ اور تیسری رکعت میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور معوذتین(سورۃ الفَلَق اور النَاس)پڑھا کرتے۔

(ابن ماجہ، ج1، ابو اب اقامت الصلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِیمَا یُقْرَأُ فِی الْوِتْرِ، ص336، حدیث:1224)

{111}حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ الحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوتِرُ بِثَلَاثٍ یَقْرَأُ فِیہِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ المُفَصَّلِ، یَقْرَأُ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُہُنَّ:قُلْ ہُوَاللَّہُ أَحَدٌقَالَ سُفْیَانُ: وَالَّذِی أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَکَعَاتٍ٭

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ وتر تین رکعت پڑھا کرتے تھے جس میں قصار مفصل (سورۃ البَیِّنَہ سے سورۃ النَاس تک )کی نو(9) سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ ہر رکعت میں تین سورۃ، سورۃ اخلاص سب سے آخر میں ہوتی تھی۔حضرت سفیان ثوریؓ فرماتے ہیں کہ تین رکعتیں وتر پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الوتر، باب:مَا جَاء فِی الوِتْرِ بِثَلَاثٍِ، ص283، حدیث:443)

 

وتر ایک سلام سے ہے

 

{112}                                 اخْبَرْنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمَسْعُوْدِیُّ عَنْ عَمْرِو بْنَ مُرَّۃَ عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ مَسْعُوْدِ الْوِتْرُ کَثَلٰثِ ثَلٰثُ الْمَغْرِبَ٭

حضرت ابو عبیدہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا وتر کی نماز، مغرب کی نماز کی طرح تین رکعتیں ہیں۔

(موطا امام محمد، کِتَابُ الصلوٰۃ، باب :اَلسَّلَام فِیْ الْوِتْرِ، ص153، حدیث:260)

{113}                                  اَخْبَرْنَا سَعِیْدُ بْنُ اَبِیْ عُرْوُبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفیٰ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ ھِشَامٍ عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کَانَ لَا یُسَلِّمُ فِیْ رَکْعَتِی الْوِتْرِ٭

حضرت سعید بن ہشامؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک رسول اللہﷺ وتروں کی دو رکعتوں میں سلام نہیں پھیرتے تھے۔

(موطا امام محمد، کِتَابُ الصلوٰۃ، باب :اَلسَّلَام فِیْ الْوِتْرِ، ص154، حدیث:265)

ان احادیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ وتر کی دو رکعت پر سلام نہیں پھیرنا چاہئے، بلکہ ایک سلام سے پوری وتر ادا کرنی چاہئے۔ غیر مقلدین کہتے ہیں : حدیث میں فرمایا گیا کہ وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو۔لہٰذا دو رکعت پر تشہد نہیں کرنا چاہئے۔

مجھے حیرت ہے کہ اتنے کم فہم و فراست ہونے کے باوجود مجتہد ہونے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ اگر یہ بھی حدیث ہے جو وہ لوگ پیش کرتے ہیں تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ بغیر دعائے قنوت اور تیسری رکعت کو بغیر قرأت کے نہ پڑھوں۔ چونکہ مغرب میں تیسری رکعت میں قرأت فرض نہیں اور مغرب میں دعائے قنوت بھی نہیں۔

 

دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے

 

{114}قَالَ عَبْدُ العَزِیزِ وَسَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا عَنِ القُنُوتِ أَبَعْدَ الرُّکُوعِ أَوْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنَ القِرَاء ۃِ؟ قَالَ: لاَ بَلْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنَ القِرَاء ۃِ٭

حضرت عبد العزیزؓ نے فرمایا کہ ایک شخؓ نے حضرت انسؓ سے دعائے قنوت کے متعلق دریافت فرمایا کہ دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے یا قرأت سے فارغ ہو کر؟ تو حضرت انسؓ نے فرمایا نہیں بلکہ قرأت سے فارغ ہونے کے بعد۔

(صحیح بخاری، ج2، کِتَابُ الْمُغَازِی، باب:غَزْوَۃِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَکْوَانَ، ص552، حدیث:1257)

{115}حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ الرَّقِّیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ یَزِیدَ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ زُبَیْدٍ الْیَامِیِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُوتِرُ فَیَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوعِ٭

حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھا کرتے۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، کتاب اِقَامَۃِ الصَّلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِی الْقُنُوتِ قَبْلَ الرُّکُوعِ وَبَعْدَہُ، ص338، حدیث:1233)

 

سفر کی مسافت تین دن کا سفر ہے

 

{116}حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا یَحْیَی، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ، أَخْبَرَنِی نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تُسَافِرِ المَرْأَۃُ ثَلاَثًا إِلَّا مَعَ ذِی مَحْرَمٍ٭

حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا کوئی عورت بغیر محرم کے تین دن کا سفر نہ کرے۔

(بخاری، ج1، کتاب الجمعہ، ابو اب تقصیر الصلوٰۃ، باب:فِی کَمْ یَقْصُرُ الصَّلاَۃَ، ص434، حدیث:1022)

یہ تین دن کی مسافت عام اچھے راستوں پر تقریباً ستّاون(57) میل ہوتا ہے ہر منزل انیس(19)میل کی، کل تین منزلیں 57 میل جو تقریباً ساڑھے بانوے (92.5) کیلو میٹر بنتا ہے اور ریتیلی یا پہاڑی راستہ اس سے کم بنے گا غرض یہ کہ تین دن کی راہ کا اعتبار ہے۔

 

سفر میں فرض نماز دو رکعت ہے

 

{117}حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہَا قَالَتْ: فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ فِی الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاۃُ السَّفَرِ، وَزِیدَ فِی صَلَاۃِ الْحَضَرِ٭

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پہلے دو رکعت نماز فرض کی گئی۔ دو رکعت سفر میں اور دو رکعت حضر میں، پھر سفر کی نماز اسی طرح برقرار رہی اور حضر کی نماز میں دو رکعت اضافہ کر دیا گیا۔

(صحیح مسلم، ج1، کتاب صَلَاۃِ الْمُسَافِرِین، باب:صَلَاۃِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِہَا، ص537، حدیث:1467)

{118}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی الشَّوَارِبِ، وَجُبَارَۃُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: افْتَرَضَ اللَّہُ الصَّلَاۃَ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِی السَّفَرِ رَکْعَتَیْنِ٭

حضرت ابن عباسث کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی درخواست پر حضرمیں چار رکعت اور سفر میں دو رکعت نماز فرض فرمائی۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، کتاب اِقَامَۃِ الصَّلوٰۃ، باب:تَقْصِیرِ الصَّلَاۃِ فِی السَّفَرُِ، ص309،حدیث:1116)

 

سفر میں کتنے دنوں تک قصر کیا جائے ؟

 

{119}حَدَّثَنَا أَبُو یُوسُفَ الصَّیْدَلَانِیُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّقِّیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَامَ بِمَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ خَمْسَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ٭

حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے سال پندرہ دن قیام فرمایا اور قصر فرماتے رہے۔

(سنن ابن ماجہ، ج1، کتاب اِقَامَۃِ الصَّلوٰۃ، باب:کَمْ یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ الْمُسَافِرُ، ص311، حدیث:1124)

نوٹ:۔ اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ یا اس سے زیادہ دن قیام کا ارادہ ہو تو قصر نہیں بلکہ پوری نماز پڑھی جائے گی۔

 

تراویح کا بیان

 

{120}حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِی خِلاَفَۃِ أَبِی بَکْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَۃِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَاوَعَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِیِّ، أَنَّہُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، لَیْلَۃً فِی رَمَضَانَ إِلَی المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، یُصَلِّی الرَّجُلُ لِنَفْسِہِ، وَیُصَلِّی الرَّجُلُ فَیُصَلِّی بِصَلاَتِہِ الرَّہْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّی أَرَی لَوْ جَمَعْتُ ہَؤُلاَء عَلَی قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَکَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَہُمْ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَہُ لَیْلَۃً أُخْرَی، وَالنَّاسُ یُصَلُّونَ بِصَلاَۃِ قَارِئِہِمْ، قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ البِدْعَۃُ ہَذِہِ، وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یَقُومُونَ یُرِیدُ آخِرَ اللَّیْلِ وَکَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ أَوَّلَہُ٭

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص ایمان و یقین کے ساتھ رمضان (کی را توں )میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ ابن شہابؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے تو وہی حالت تھی۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی یہی حال تھا۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ فرماتے ہیں میں رمضان کی ایک رات میں حضرت عمر ؓ کے ساتھ مسجد میں گیا تو لوگوں کو الگ الگ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک ہی قاری پر متفق کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ ان سب کو ایک امام، حضرت ابی بن کعبؓ کی اقتداء پر جمع کر دیا گیا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات گیا تو وہ ایک قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ اچھی بدعت ہے اور فرمایا:رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اِس سے بہتر ہے جس میں کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ ابتدائی حصے میں کھڑے ہوتے تھے۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الصوم، باب:فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، ص715، حدیث:1875)

تراویح بیس(20) رکعت ہے

{121}                                 حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ اَنَّہٗ قَالَ کَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْ رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِیْنَ رَکْعَتٍ٭

حضرت یزید بن رومان ؓ نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں رمضان میں لوگ تیئس (23)رکعتیں نماز پڑھا کرتے تھے۔

(موطا امام مالک، کِتَابُ الصَّلوٰۃ فِیْ رَمَضَان، باب: مَاجَائَ فِیْ قَیَامِ رَمَضَان، ص122، حدیث:5)

{122}                                 حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:کَانَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ یُصَلِّی بِنَا فِی رَمَضَانَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَیَقْرَأُ:بِحَمْدِ الْمَلَائِکَۃِ فِی رَکْعَۃٍ٭

حضرت نافع بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں ابن ابی ملیکہؓ بیس(20)رکعتیں پڑھاتے تھے۔

(مُصَنّف اِبْن اَبِی شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ التَّطَوُّعِ وَاْلِامَامَۃ، باب:کُمْ یُصَلِّی فِیْ رَمَضَانَ مِنْ رَکْعَۃٍ، حدیث:7683)

حافظ عبد الرزاق چشتی نے اپنی کتاب ’’نماز حبیب کبریا‘‘ صفحہ 350پر اس حدیث کے متعلق بحوالہ نقل کیا ’’اسنادہ صحیح‘‘ یعنی اس کی سند صحیح ہیں۔

{123}حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ، عَنْ عَطَاء ٍ، قَالَ: أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ٭

حضرت عطاؓ فرماتے ہیں میں نے لوگوں کو وتر کے ساتھ تیئس (23)رکعتیں پڑھتے ہوئے پایا۔

(مُصَنّف اِبْن اَبِی شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ التَّطَوُّعِ وَاْلِامَامَۃ، باب:کُمْ یُصَلِّی فِیْ رَمَضَانَ مِنْ رَکْعَۃٍ، حدیث:7688)

{124}حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ٭

حضرت عبد اللہ بن عباسث روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہﷺ رمضان میں بیس(20) رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔

(مُصَنّف اِبْن اَبِی شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ التَّطَوُّعِ وَاْلِامَامَۃ، باب:کُمْ یُصَلِّی فِیْ رَمَضَانَ مِنْ رَکْعَۃٍ، حدیث:7692)

امام ترمذی ؓ فرماتے ہیں

{125}وَاخْتَلَفَ أَہْلُ العِلْمِ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَی بَعْضُہُمْ: أَنْ یُصَلِّیَ إِحْدَی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَۃً مَعَ الوِتْرِ، وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ المَدِینَۃِ، وَالعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَہُمْ بِالمَدِینَۃِ، وَأَکْثَرُ أَہْلِ العِلْمِ عَلَی مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِیٍّ، وَغَیْرِہِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ، وَابْنِ المُبَارَکِ، وَالشَّافِعِیِّ ” وقَالَ الشَّافِعِیُّ: وَہَکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً وقَالَ أَحْمَدُ: رُوِیَ فِی ہَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ یُقْضَ فِیہِ بِشَیْء ٍ وقَالَ إِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَۃً عَلَی مَا رُوِیَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ٭

علماء کا قیام رمضان(تراویح) میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک وتر کے ساتھ اکیس (21) رکعتیں ہیں۔ یہ اہل مدینہ کا قول و عمل ہے۔ اور اکثر علماء کے نزدیک بیس(20) رکعتیں ہیں جیسا کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ اور کئی صحابہ کرامؓ سے مروی ہے۔ امام سفیان ثوری، ابن مبارک اور امام شافعی (امام ابو حنیفہ)اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں میں نے اسی طرح مکہ والوں کو بیس رکعتیں پڑھتے ہوئے پایا۔ امام احمد فرماتے ہیں اس بارے میں مختلف روایات ہیں انہوں نے اس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ امام اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم اکتالیس (41) رکعتیں پسند کرتے ہیں جس طرح حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے۔

(جامع ترمذی، ابو اب الصوم، باب:مَاجَائَ فِیْ قَیَامِ شَہْرِ رَمَضَان، ص432، حدیث:785)

مذکورہ بالا احادیث اور امام ترمذی کے قول سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بیس(20) رکعت تراویح سنتِ صحابہ و تابعین ہے۔ اختلاف اگر تھا تو وہ بیس (20) اور اکتالیس (41) رکعتوں میں تھا۔ آٹھ (8) رکعت تراویح تو کسی بھی محدث یا فقیہ کے نزدیک ہے ہی نہیں ورنہ امام ترمذی اس کا ذکر ضرور کرتے۔

حضرت حافظ عبد الرزاق چشتی اپنی کتاب ’’نماز حبیب کبریا‘‘ صفحہ354پر حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمۃ کے حوالے سے بیس (20) رکعت تراویح پر صحابۂ کرام کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :

اجمع الصحابۃ علیٰ ان التراویح عشرون رکعۃ

یعنی صحابۂ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح بیس(20) رکعت ہے۔

(مرقات شرح مشکوٰۃ، ج3، ص194)

اب آخر میں غیر مقلد، نام نہاد اہل حدیث کے متفق علیہ امام، علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :

’’قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی رمضان و یوتر بثلث فرأی کثیر من العلماء ان ذٰلک ہو السنۃ لانہ قام بین المہاجرین و الانصار و لم ینکرہ منکر‘‘

’’یہ بات متحقق ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ لوگوں کو رمضان میں بیس(20) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے اسی لئے بے شمار علماء نے اسی کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ حضرت ابن کعب ؓ نے انصار و مہاجرین کی موجودگی میں پڑھائی تھی اور کسی نے انکار نہیں کیا۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج23، ص112)

 

 تہجد اور تراویح الگ الگ ہے

 

یہاں پر حدیث کا صرف وہ حصہ درج کی جا رہی ہے جس سے تہجد اور تراویح الگ الگ ثابت ہوتے ہیں پوری حدیث، حدیث نمبر {120}میں ملاحظہ فرمائیں۔

{126}قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ البِدْعَۃُ ہَذِہِ، وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یَقُومُونَ یُرِیدُ آخِرَ اللَّیْلِ وَکَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ أَوَّلَہُ٭

حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ(تراویح کی جماعت) اچھی بدعت ہے اور فرمایا:رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اِس سے بہتر ہے جس میں کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ ابتدائی حصے میں کھڑے ہوتے تھے۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الصوم، باب:فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، ص715، حدیث:1875)

حضرت عمرؓ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم تراویح کی نماز تو بہت ذوق و شوق سے ادا کر رہے ہو لیکن تہجد بھی ادا کرو کیونکہ آخر رات کی نماز(تہجد)اس نماز(تراویح ) سے افضل ہے۔

معلوم ہوا کہ تراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہے۔ ایسا نہیں کہ تہجد کو رمضان میں تراویح کہہ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ کے اس قول کے ہوتے ہوئے کوئی تہجد کو تراویح کہے تو ممکن ہے کہ وہ تصویر کو اصل کہہ دے۔

 

عیدین کی تکبیر تین ہے

 

{127}وَرُوِی عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ قَالَ فِی التَّکْبِیرِ فِی العِیدَیْنِ: ” تِسْعَ تَکْبِیرَاتٍ فِی الرَّکْعَۃِ الأُولَی: خَمْسًا قَبْلَ القِرَاء ۃِ، وَفِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ یَبْدَأُ بِالقِرَاء ۃِ ثُمَّ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا مَعَ تَکْبِیرَۃِ الرُّکُوعِ ” وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوُ ہَذَا، وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الکُوفَۃِ، وَبِہِ یَقُولُ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ٭

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ عیدین کی نو تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت ہے پھر چار تکبیریں ہیں۔ان میں رکوع کی تکبیر شامل ہے۔ اکثر صحابہ کرام سے اسی طرح مروی ہے، اہل کوفہ (امام اعظم ص)اورامام سفیان ثوریؓ کا یہی قول ہے۔

(جامع ترمذی، ج1، ابو اب العیدین، باب:فِی التَّکْبِیرِ فِی العِیدَیْنِ، ص318، حدیث:521)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلی رکعت میں پہلے تکبیریں بعد میں قرأت ہے اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت بعد میں تکبیریں ہیں۔

{128}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاء، وَابْنُ أَبِی زِیَادٍ، الْمَعْنَی قَرِیبٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَیْدٌ یَعْنِی ابْنَ حُبَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو عَائِشَۃَ، جَلِیسٌ لِأَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ، سَأَلَ أَبَا مُوسَی الْأَشْعَرِیَّ، وَحُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ، کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ فِی الْأَضْحَی وَالْفِطْرِ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَی: کَانَ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا تَکْبِیرَہُ عَلَی الْجَنَائِزِ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: صَدَقَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی: کَذَلِکَ کُنْتُ أُکَبِّرُ فِی الْبَصْرَۃِ، حَیْثُ کُنْتُ عَلَیْہِمْ، وَقَالَ أَبُو عائِشَۃَ: وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ٭

ابو عائشہؓ روایت کرتے ہیں کہ سعید بن عاص ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے دریافت فرمایا کہ رسول اللہﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں تکبیر کس طرح کہتے تھے ؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ آپﷺ چار(4) تکبیریں کہتے تھے جیسے جنازے میں چار کہی جاتی ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا بے شک تم نے سچ کہا۔ پھر ابو موسیٰؓ نے فرمایا :میں بصرہ میں اسی طرح تکبیر کہتا رہا جب میں ان پر حاکم تھا۔حضرت ابو عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں (اس وقت) سید بن عاصؓ کے پاس حاضر تھا۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ، ص428-29، حدیث:1140)

{129}حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، عَنْ عُقَیْلٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْفِطْرِ وَالْأَضْحَی، فِی الْأُولَی سَبْعَ تَکْبِیرَاتٍ، وَفِی الثَّانِیَۃِ خَمْسًا٭

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات(7)اور دوسری رکعت میں پانچ(5) تکبیریں کہتے تھے۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ، ص428، حدیث:1136)

مذکورہ بالا تمام احادیث بظاہر ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیں لیکن جب ان پر غور کیا جائے تو ان احادیث میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔ ملاحظہ فرمائیں

جس روایت میں پہلی اور دوسری رکعتوں میں چار(4) تکبیروں کا ذکر ہے  اس میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ رکوع کی تکبیر بھی شامل ہے۔

جس حدیث میں پہلی رکعت میں پانچ (5)اور دوسری رکعت میں (4) تکبیروں کا ذکر ہے اس کی پہلی رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے  علاوہ تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع بھی شامل ہے۔ جب کہ دوسری رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر رکوع شامل ہے۔

جس روایت میں پہلی رکعت میں سات(7) اور دوسری رکعت میں پانچ(5) تکبیروں کا ذکر ہے اس کی پہلی رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ، تکبیر رکوع، سجدے کی تکبیر اور سجدے سے سر اٹھانے کی تکبیروں کا بھی ذکر ہے اور دوسری رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع بھی شامل ہیں۔

اس تطبیق سے مسئلہ واضح ہو گیا کہ سب کے کہنے کا مطلب و مقصد ایک ہی ہے مگر انداز بیان الگ الگ ہے اور ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔لہٰذا تکبیرات عیدین ہر رکعت میں تین تین ہیں۔

 

رفع یدین منسوخ ہے

 

{130}                                   حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ:أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ، قَالَ:حَدَّثَنَا سَعِیدٌ المَقْبُرِیُّ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّی، ثُمَّ جَاء، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صلّی اللہ علیہ و سلم فَرَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ السَّلاَمَ، فَقَالَ:ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ، فَصَلَّی، ثُمَّ جَاء، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ثَلاَثًا، فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالحَقِّ، فَمَا أُحْسِنُ غَیْرَہُ، فَعَلِّمْنِی، قَالَ: إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلاَۃِ، فَکَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْکَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِکَ فِی صَلاَتِکَ کُلِّہَا٭

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ مسجد میں تشریف لے گئے ایک شخص آیا اور نماز پڑھی اس کے بعد نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کی۔ آپﷺ نے جواب دیا اور فرمایا:جاؤ نماز پڑھو۔ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے پھر نماز پڑھی اور آپﷺ کی بارگاہ میں سلام عرض کی۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تین بار ایسا ہی فرمایا تو اس نے عرض کی اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا!میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا مجھے سکھا دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا:جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، جس قدر قرآن یاد ہو پڑھو پھر اطمینان سے رکوع کرو اور جب رکوع کر چکو تو سر اٹھاؤ اور اطمینان سے سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد سجدہ کرو جب اطمینان سے سجدہ کر چکو تو سر اٹھاؤ اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ تب دوسرا سجدہ پورے اطمینان سے کرو اور اس طرح اپنی نماز پوری کرو۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:أَمْرِ النَّبِیِّﷺ الَّذِی لاَ یُتِمُّ رُکُوعَہُ، ص345حدیث:754)

(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب: وُجوُوبِ الْقِرْأتِ الْفَاتِحَۃ، ص330-331، حدیث:789)

مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین نماز کے لئے اتنا ضروری نہیں جتنا کہ نام نہاد اہل حدیث غیر مقلد باور کرانا چاہتے ہیں۔ اب ذیل میں رفع یدین کے متعلق حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔

{131}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا یُونُسُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، أَخْبَرَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ: ” رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، وَکَانَ یَفْعَلُ ذَلِکَ حِینَ یُکَبِّرُ لِلرُّکُوعِ، وَیَفْعَلُ ذَلِکَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ، وَیَقُولُ: سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، وَلاَ یَفْعَلُ ذَلِکَ فِی السُّجُودِ”٭

حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں اپنے کندھے کے برابر لے جاتے جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی رفع یدین کرتے۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:رَفْعِ الیَدَیْنِ إِذَا کَبَّرَ وَإِذَا رَکَعَ وَإِذَا رَفَعَ، ص328-29حدیث:697)

مذکورہ حدیث پاک سے یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ کے پیارے رسولﷺ جب رکوع جاتے اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ لیکن آگے جو احادیث پیش کی جا رہی ہیں ان سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ رفع الیدین ایسا عمل ہے جو حضورﷺ کے ابتدائی زمانے میں رائج تھا مگر بعد میں منسوخ کر دیا گیا۔

{132}حَدَّثَنَا ابْنُ اَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا اَحْمَدْ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ ثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفُ ابْنِ عُمَرَؓ فَلَمْ یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِلَّا فِیْ التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلیٰ مِنَ الصَّلوٰۃِ٭

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے نماز میں پہلی تکبیر کے سوا کہیں بھی رفع یدین نہیں کیا۔

(طحاوی شریف، ج1کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ لِلرُّکُوْعِ وَالتَّکْبِیْرِ لِلسُّجُوْد، ص462، حدیث:1265)

حدیث نمبر{131} کے راوی حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ ہیں۔ جو رفع یدین والی تمام احادیث میں سب سے مضبوط ہے اور یہی دلیل غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کا ہے۔ لیکن حدیث نمبر {132} میں انہیں (حضرت عبد اللہ بن عمرؓ) کا عمل پیش کیا گیا ہے جس میں وہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا یہ اصول متحقق ہے کہ :

’’ جب راوی کا عمل اپنی روایت (کردہ حدیث)کے خلاف ہو تو یہ حدیث(جو اس نے روایت کی ہے ) خود اس راوی کے نزدیک منسوخ ہوتی ہے۔‘‘

( ’’جاء الحق‘‘ حصہ دوم، باب:رفع یدین کرنا منع ہے، ص522)

{133}حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّی، فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ إِلَّا فِی أَوَّلِ مَرَّۃٍ .٭

وَفِی البَابِ عَنْ البَرَاء بْنِ عَازِبٍ حَدِیثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ، وَبِہِ یَقُولُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِینَ.

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کیا تمہیں رسول اللہﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں ؟ پھر آپ نے نماز پڑھی اور صرف تکبیر اولیٰ میں رفع یدین کیا۔

امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس باب میں حضرت براء بن عازب ؓ سے بھی حدیث مروی ہے۔ حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہے اور اس حدیث پر اہل علم اصحاب رسولﷺ اور تابعین کا عمل ہے۔

(جامع ترمذی، ابو اب الصلوٰۃ، باب:رَفْعِ الیَدَیْنِ عِنْدَ الرُّکُوعِ، ص191-92، حدیث:244)

اس حدیث کو غیر مقلدوں کے امام علامہ نصیر الدین البانی نے صحیح کہا ہے۔

{134}أَخْبَرَنَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ٭

حضرت علقمہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ؓ نے فرمایا کیا رسول اللہﷺ کی نماز نہ بتاؤں ؟ پھر آپؓ کھڑے ہوئے اور پہلی دفعہ (نماز کے شروع میں ) رفع یدین کیا پھر نہیں کیا۔

(سنن نسائی، ج1، کِتَابُ الْاِفْتِتَاحِ الصَّلوٰۃ، باب:رَفَعِ الْیَدَیْنِ لِلرُّکُوْع، ص318)

(جامع ترمذی، ابو اب الصلوٰۃ، باب:مَنْ لَمْ یَذْکُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّکُوْع، ص191، حدیث:243)

اس حدیث کو غیر مقلدوں کے امام علامہ نصیر الدین البانی نے بھی صحیح کہا ہے۔

{135}حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، عَنِ الْبَرَاء، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَی قَرِیبٍ مِنْ أُذُنَیْہِ، ثُمَّ لَا یَعُودُ ٭

حضرت عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ ؓنے حضرت براء بن عازبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے اور دوبارہ ایسا نہ کرتے۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَنْ لَمْ یَذْکُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّکُوعِ، ص304، حدیث:745)

{136}حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا مُاؤَمَّلٌ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ قَالَ قُلْتُ لِاِبْرَاہِیْمَ حَدِیْچُ وَائِلٍ اَنَّہٗ رَایَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلوٰۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ فَقَالَ: اِنْ کَانَ وَآئِلٌ رَاٰہٗ مَرَّۃً یَفْعَلُ ذٰلِکَ فَقَدْ رَاٰہٗ عَبْدُ اللّٰہِ خَمْسِیْنَ مَرَّۃً لَا یَّفْعَلُ ذَالِکَ٭

حضرت مغیرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم نخعی ؓ سے حضرت وائلؓ  کی حدیث(جو رفع یدین کے اثبات میں ہے )کا ذکر کیا کہ حضرت وائل ؓ نے نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم نخعیؓ نے فرمایا : اگر حضرت وائل ؓ نے رسول اللہﷺ کو ایک مرتبہ ایسا(رفع یدین )کرتے دیکھا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے پچاسوں مرتبہ ایسا (رفع یدین)کرتے نہیں دیکھا۔

(طحاوی شریف، ج1کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ لِلرُّکُوْعِ وَالتَّکْبِیْرِ لِلسُّجُوْد، ص460، حدیث:1260)

{137}حَدَّثَنَا ابْنُ اَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ ثَنَا یَحْییٰ بْنُ اٰدَمُ عَنِ الْحَسَنِ ابْنِ عَیَّاشٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ اَبْحَرٍ عَنِ الزُّبَیْرِ ابْنِ عَدِیِّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنِ الْاَسْوَدِ قَالَ رَاَیْتُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِث یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ اَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ ثُمَّ لَا یَعُوْدُ قَالَ وَرَاَیْتُ اِبْرَاہِیْمَ وَالشَّعْبِیَّ یَفْعَلَانِ ذٰلِکَ٭

حضرت ابراہیم، حضرت اسود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ آپؓ پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے۔اور فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم اور شعبی ایسا کرتے تھے۔

(طحاوی شریف، ج1کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ لِلرُّکُوْعِ وَالتَّکْبِیْرِ لِلسُّجُوْد، ص465، حدیث:1271)

امام ابو جعفر طحاویؒ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : وھَوَ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔

{138}حَدَّثَنَا اَبُوْ اَحْمَدَ قَالَ ثَنَا اَبُوْ بَکْرِ النّھَْشَلِیُّ قَالَ ثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ اَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ مِنَ الصَّلوٰۃِ ثُمَّ لَا یَرْفَعُ بَعْدُ٭

حضرت عاصم بن کُلیبؓ اپنے والدؓ سے (جو حضرت علیؓ کے ساتھیوں میں سے تھے ) روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی صصرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے پھر نہیں کرتے۔

(طحاوی شریف، ج1کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ لِلرُّکُوْعِ وَالتَّکْبِیْرِ لِلسُّجُوْد، ص461، حدیث:1262)

اس حدیث کے تعلق سے ’’آثار سنن‘‘میں فرمایا گیا: ’’اَسنادہ صَحِیْحٌ‘‘ یعنی اس کے سندات صحیح ہیں۔                      ( ’’نماز حبیب کبریا‘‘ از:حافظ عبد الرزاق چشتی، ص132)

حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی معرکۃ الآرٰ تصنیف ’’جاء الحق‘‘ حصہ دوم، صفحہ511 پر حضرت علامہ بدر الدین متوفّیٰ 855ھ کے حوالے سے نقل کیا ہے :

{139}عَنْ عَبْدُ اللّٰہ ابْن زُبَیْر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ اَنَّہٗ قَالَ رَایٰ رَجُلاً یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ الصَّلوٰۃِ عِنْدَ الرُّکُوْعِ عِنْدَ رَفْعِ رَاْسِہٖ مِنَ الرُّکُوْعِ فَقَالَ لَہٗ لَا تَفْعَلْ فَاِنَّہٗ شَیْء فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ تَرَکَہٗ٭

حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ایک شخص کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا:ایسا نہ کرو کیونکہ یہ وہ کام ہے جس کو رسول اللہﷺ نے پہلے کیا تھا لیکن بعد میں چھوڑ دیا۔( ’’عمدۃ القاری شرح بخاری‘‘جلد :2، ص:7)

( ’’نماز حبیب کبریا‘‘از:حافظ عبد الرزاق چشتی، ص134)

{140}حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، وَأَبُو کُرَیْبٍ، قَالَا:حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ، قَالَ:خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:مَا لِی أَرَاکُمْ رَافِعِی أَیْدِیکُمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ؟ اسْکُنُوا فِی الصَّلَاۃِ٭

حضرت جابر بن سمرہ صبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہو(رفع یدین کرتے ہو)۔ سکون کے ساتھ نماز ادا کرو۔

(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الْأَمْرِ بِالسُّکُونِ فِی الصَّلَاۃِ، ص359-60، حدیث:871)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں جو رفع یدین کرنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد سلام کے وقت رفع یدین ہے نہ کہ رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث ہمیں رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنے سے منع کرتی ہے کیونکہ سلام کے وقت رفع یدین کا کوئی معنی نہیں۔ حافظ عبد الرزاق چشتی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’نماز حبیب کبریا‘‘ میں مکمل تفصیل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کے رفع یدین کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے کتاب ’’نماز حبیب کبریا‘‘ صفحہ نمبر126 سے 131کا مطالعہ فرمائیں۔

{141}حَدَّثَنَا أَبُو الیَمَانِ، قَالَ:حَدَّثَنَا شُعَیْبٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ، وَأَبُوسَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، کَانَ یُکَبِّرُ فِی کُلِّ صَلاَۃٍ مِنَ المَکْتُوبَۃِ، وَغَیْرِہَا فِی رَمَضَانَ وَغَیْرِہِ، فَیُکَبِّرُ حِینَ یَقُومُ، ثُمَّ یُکَبِّرُ حِینَ یَرْکَعُ، ثُمَّ یَقُولُ:سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، ثُمَّ یَقُولُ:رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّہُ أَکْبَرُ حِینَ یَہْوِی سَاجِدًا، ثُمَّ یُکَبِّرُ حِینَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ یُکَبِّرُ حِینَ یَسْجُدُ، ثُمَّ یُکَبِّرُ حِینَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ یُکَبِّرُ حِینَ یَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِی الِاثْنَتَیْنِ، وَیَفْعَلُ ذَلِکَ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ حَتَّی یَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَۃِ، ثُمَّ یَقُولُ حِینَ یَنْصَرِفُ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، إِنِّی لَأَقْرَبُکُمْ شَبَہًا بِصَلاَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنْ کَانَتْ ہَذِہِ لَصَلاَتَہُ حَتّیٰ فَارَقَ الدُّنْیَا٭

ابو سلمہ بن عبد الرحمٰنؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہؓ ہر نماز خواہ فرض ہو یا اور کوئی، رمضان ہو یا غیر رمضان جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھر سجدہ کرنے سے پہلے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہتے۔ اس کے بعد جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے پھر سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے پھر دوسرا سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے۔ پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ ہر رکعت اسی طرح ادا کر کے فارغ ہوتے۔ پھر (حضرت ابو ہریرہ ص)نماز ختم کر چکتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! بلا شبہ میں تم سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کی نماز کے مشابہ ہوں۔ آپﷺ کی نماز بالکل اسی طرح تھی یہاں تک کہ آپﷺ نے اس دنیا کو خیر آباد کہا۔

(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:یَہْوِی بِالتَّکْبِیرِ حِینَ یَسْجُدُ، ص348حدیث:764)

(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:إِثْبَاتِ التَّکْبِیرِ فِی کُلِّ خَفْضٍ، ص326، حدیث:772)

 

مغرب کی اذان کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے

 

{142}حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِی شُعَیْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ، عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَقَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیہِمَا٭

حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے زمانے میں کسی کو پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الصَّلَاۃِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، ص478، حدیث: 127)

٭٭٭

 

 

 

ماخذ و مراجع

 

نام                                                                                                                                                                          مصنف                                                                                                                                                                                                  مطبوعہ

القرآن الحکیم

ترجمۂ کنز الایمان                                                                                              اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان

تفسیر ابن کثیر مترجم                                                                        حافظ عماد الدین ابن کثیر                                                                                                 ادبی دنیا، دہلی، الہند

صحیح بخاری مترجم                                                                                       ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری                                           فرید بک ڈپو، دہلی، الہند

صحیح مسلم مترجم                                                                                              ابو الحسین مسلم بن حجاج القشیری                                          اسلامک پبلشر، دہلی، الہند

جامع ترمذی مترجم                                                                                    ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی                                                                                     ارشد برادرس، دہلی، الہند

سنن ابو داؤد مترجم                                                                                ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی                                          ارشد برادرس، دہلی، الہند

سنن نسائی مترجم                                                                                           ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب نسائی                                       ارشد برادرس، دہلی، الہند

سنن ابن ماجہ مترجم                                                                          ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ                   اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی

موطا امام مالک مترجم                                                              امام مالک بن انس بن مالک                        اسلامک پبلشر، دہلی، الہند

موطا امام محمد مترجم                                                                                امام محمد بن حسن شیبانی                                                            اسلامک پبلشر، دہلی، الہند

مصنف ابن ابی شیبہ                                                                           امام ابن ابی شیبہ                                                                                                                                              الموسوعۃالحدیث، سافٹوئر

شرح معانی الاثار مترجم                                               امام ابو جعفر طحاوی                                                                                                                             ادبی دنیا، دہلی، الہند

نماز حبیب کبریا                                                                                                    حافظ عبد الرزاق چشتی                                                                     فاروقیہ بک ڈپو، دہلی، الہند

جاء الحق                                                                                                                                               مفتی احمد یار خان نعیمی                                                                محمدی بک ڈپو، دہلی، الہند

٭٭٭

تشکر:مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید