FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

نقار خانہ کی آواز

(2014 کی دوسری ششماہی میں لکھے گئے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا مجموعہ)

 

 

 

غوث سیوانی

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

نقار خانہ کی آواز

 

سنا ہے شور سے حل ہوں گے سارے مسئلے اِک دن

سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں

حالانکہ وہ دن اب تک نہیں آیا، جب مسائل حل ہوں، جب مظلوموں کو انصاف ملے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب تک بلند ہونے والی تمام آوازیں صحرا کی آواز ہی ثابت ہوئی ہیں لہٰذا ہم نے اس مجموعۂ مضامین کو ’’ صدا بہ صحرا‘ کا نام دیا ہے۔

یہ ان مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا مجموعہ ہے جو 2014 کی دوسری ششماہی میں لکھے گئے تھے اور ملک و بیرون ملک کے تقریباً ساڑھے سات سواخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر شائع ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر ایک اردو ویکلی اخبار میں چھپے ہیں اور بعض صحافتی وجوہات کی بنیاد پر فرضی ناموں سے بھی شائع ہوئے ہیں۔ 2014 کی دوسری ششماہی میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی تھی اور نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ مودی حکومت کو بعض بے اعتدالیوں کے لئے بھی جانا گیا مگر اس بیچ اپوزیشن پارٹیاں بھی خاموش رہیں اور میڈیا نے حکومت کی کمیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے، اس کی شاباشی میں لگا رہا۔ مودی بھکتی، دیش بھکتی کے ہم معنی ہو گئی اور بھاجپا کے مخالفین کو ملک کا غدار قرار دیا جانے لگا۔ منموہن سنگھ حکومت سے بہت زیادہ شکایتیں تھیں لہٰذا آنے والی حکومت سے امیدیں بھی کچھ زیادہ بندھ گئی تھیں جو کبھی پوری نہ ہو سکیں مگر اس بہانے ایک طبقے کو اقتدار سے لطف اندوز ہونے کا موقع ضرور مل گیا۔

’’نقار خانہ کی آواز‘‘ میں جو مضامین ہیں وہ حالات، واقعات و حادثات یا سیاسی کشمکش سے متعلق ہیں۔ ان میں کہیں آپ ماضی کا مرثیہ تو کہیں مستقبل کی امید دیکھیں گے۔ کہیں بھاجپا کے عروج کی کہانی تو کانگریس کے زوال کی داستان آپ کو نظر آئے گی۔ اس بیچ بھارت کی علاقائی پارٹیوں جیسے سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے اتار اور چڑھاؤ پر بھی فکر انگیزی نظر آئے گی۔ سیاسی حالات و واقعات سے متعلق بعض پیشین گوئیاں بھی اس مجموعے میں نظر آئیں گی جن میں تمام تو درست ثابت نہیں ہوئیں مگر سطر سطر میں قارئین کو 2014 کی دوسری ششماہی کے احوال دکھائی دیں گے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ تمام مضامین کو بغیر ایڈٹ اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔

غوث سیوانی، نئی دہلی

14مئی 2019

رابطہ کے لئے

ghaussiwani@gmail.com

 

 

 

 

کانگریس کی مسلم دشمنی کی پول کھولتی ایک رپورٹ

 

یو پی اے دور حکومت میں مسلمان پولس میں کم ہوئے

گجرات پولس میں مسلمانوں کا تناسب، آبادی سے زیادہ

 

کانگریس مسلمانوں کی بڑی دشمن ہے یا بی جے پی؟ اس سوال کا جواب آپ کے ذہن میں کچھ بھی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ کانگریس مسلمانوں کے لئے دوست نما دشمن ثابت ہوتی رہی ہے، اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ دس سال کے اس کے دور حکومت میں پولس میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ دعوے کرتی رہی کہ سچر کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ کیا جا رہا ہے اور مسلمان خوشحال ہو رہے ہیں، ان کی پر سطح پر ترقی ہو رہی ہے تو دوسری طرف وہ مسلمانوں کی جڑیں کھودنے کا کام کرتی رہی ہے۔ اس نے مسلمانوں کو ہر سطح پر پسماندہ بنانے کی کوشش کی اور انھیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی۔ ایک طرف وہ مہاراشٹر میں انھیں ریزرویشن دینے کا ڈرامہ کر رہی ہے تو دوسری طرف اس نے مہاراشٹر کی جیلوں کو مسلمان قیدیوں سے بھر کر رکھ دیا ہے۔ یونہی یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں جہاں اس نے مسلمانوں کو او بی سی ریزرویشن کے اندر ریزرویشن دینے کا ناٹک کیا وہیں دوسری طرف اس نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنے کا کام بھی کیا۔ اس کی ایک تازی مثال اب سامنے آئی ہے۔ ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ اس دوران پولس فورس میں مسلمانون کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کا مسلمانوں کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے۔

اعداد کیا کہتے ہیں؟

حال ہی میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یو پی اے دور حکومت میں مسلمانوں کی تعداد پولس فورس میں بہت زیادہ کم ہوئی ہے لیکن اس بیچ سرکار بار بار یہ کہتی رہی کہ مسلمانوں کو مساوی مواقع دیئے جا رہے ہیں اور ان کے حالات کو بہتر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تب کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے تو یہاں تک کہا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے مگر سچ تو یہ ہے ان کی سرکار آخری حق بھی دینے کو تیار نہ تھی۔ یہ سب باتیں مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کی گئی تھیں جس پر بی جے پی کو سیاست کرنے کا موقع ملا اور اس نے ملک کے اکثریتی طبقے کو یہ بتانے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑا کہ کانگریس مسلمانوں کی چاپلوسی کر رہی ہے۔ حال ہی میں سامنے آئے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۳ء میں پولس فورس میں مسلمانوں کی تعداد 6.2 ہو گئی تھی، جب کہ ۲۰۰۱ء میں یہ 8.3 فی صد ہوا کرتی تھی۔ یعنی جو کانگریس دس سال تک اقتدار میں رہی اس بیچ مسلمانوں کی تعداد میں زبردست کمی آئی اور حکومت نے اس کمی کو روکنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ الٹے وہ مسلمانوں کو یہ تاثر دینے میں لگی رہی کہ ان کی بھلائی کے لئے سرکار بہت کچھ کر رہی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۰۱۳ء میں ملکی سطح پر پولس میں مسلمان 1,08,602 تھے جب کہ ۲۰۱۲ء میں 1,08,975 تھے۔ جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ان میں 41,089 مسلمان پولس والوں کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے۔ گویا باقی ملک کے اعداد اگر دیکھے جائیں تو وہاں کی مقامی مسلم آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال میں مسلمان 25 فی صد ہیں مگر پولس میں ان کا تناسب محض 8.5 فی صد ہے۔ یونہی آندھرا پردیش کی پولس میں وہ 9 فی صد، کیرل پولس میں وہ 8.6 فی صد ہیں تو اتر پردیش جہاں مسلمانوں کی آبادی 18 فی صد سے زیادہ ہے، وہاں مسلمانوں کی پولس میں تعداد 5.1 فی صد ہے اور بہار پولس میں وہ 4 فی صد سے بھی کم ہیں جب کہ یہاں ان کی آبادی 16 فی صد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح راجستھان اور دہلی پولس میں وہ ایک فی صد سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔

کانگریس، دوست نما دشمن

کانگریس کے دور حکومت میں پولس فورس کے اندر مسلمانوں کی تعداد کم ہوئی ہے مگر ایسا نہیں کہ دوسری سرکاری ملازمتوں میں وہ بڑھے ہیں کمی ہر جگہ آئی ہے کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ ہو سکتا ہے کانگریس یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ سب ریاستی حکومت کا کام ہے اور مرکز کے اختیار میں نہیں آتا ہے۔ حالانکہ یہ عذر انتہائی بکواس عذر کہا جائے گا۔ یہ جو کمی آئی ہے وہ ان ریاستوں میں بھی آئی ہے جہاں کانگریس کی ہی سرکار ہے۔ آندھرا پردیش میں وہ ایک مدت سے حکومت میں رہی ہے اور اس کی انھیں حرکتوں کے سبب یہاں سے اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور ایک حصے میں این ڈی اے تو دوسرے میں ٹی آر ایس کی سرکار ہے۔ یہاں سے کانگریس کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جن پارٹیوں نے اس کا دامن تھاما وہ بھی ختم ہو چکی ہیں۔ یونہی راجدھانی دہلی اور راجستھان میں اسے ہمیشہ مسلمانوں کو ساتھ ملتا رہا ہے مگر اس نے دوست بن کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کام کیا ہے۔ پولس اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کے معاملے میں سب سے پیچھے یہی ریاستیں ہیں جہاں اب تک کانگریس کی ہی سرکار تھی اور دلی میں پندرہ سال تک اس نے حکومت کی ہے مگر اب عوام کی ناراضگی کے سبب اس کی وزیر اعلیٰ تک ہار گئیں اور لوک سبھا میں یہاں کی تمام سات کی سات سیٹیں بی جے پی کو مل گئیں۔ جو مسلم ووٹ کانگریس کو جاتا تھا وہ عام آدمی پارٹی کو چلا گیا۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں جو کانگریس کو بدترین شکست ہوئی اس کے لئے کانگریس کی یہی پالیسیاں ذمہ دار تھیں۔

نام نہاد سیکولرپارٹیوں کا کھیل

جس رپورٹ نے کانگریس کے دور حکومت کی پول کھولی ہے اسی نے بھی بتایا ہے کہ یوپی اور بہار میں بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور پولس فورس میں ان کی تعداد گھٹی ہے۔ یونہی مغربی بنگال میں بھی ان کی تعداد پولس میں بہت کم ہے۔ یہ تینوں وہ ریاستیں ہیں جہاں کانگریس نے ہی بلکہ دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیاں اقتدار میں ہیں۔ سب سے پہلے یوپی کی بات کریں تو یہاں ایک زمانے سے بی جے پی اور کانگریس دونوں میں سے کوئی پارٹی اقتدار میں نہیں آئی بلکہ بہو جن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی باری باری اقتدار میں رہی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے مسلم دوستی کے بڑے بڑے نعرے بلند کئے جاتے ہیں مگر مسلمانوں سے ان کا حق چھیننے میں یہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہاں نہ تو مایاوتی کو مسلمانوں کی حالت پر ترس آیا اور نہ ہی ملائم سنگھ نے مسلمانوں کی خبر لی۔ حالانکہ مسلم ووٹ کے لئے ان دونوں پارٹیوں میں ہوڑ لگی رہتی ہے اور دونوں ہی کی کوشش رہتی ہے کہ کیسے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کر سکیں۔ ملائم سنگھ کبھی اپنی برادری کے یادووں کو فراموش نہیں کرتے مگر مسلمان انھیں یاد نہیں آتے جو اپنے کندھے پر ان کے اقتدار کی پالکی اٹھاتے ہیں۔

بہار میں ایک پندرہ سال تک لالو پرساد یادو اقتدار میں تھے اور اس کے بعد اب نتیش کمار کی سرکار ہے۔ ان دونوں نیتاؤں کو مسلم ووٹ کے سبب ہی اقتدار ملتا رہا ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کی خبرگیری نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جس ریاست میں ان کا ووٹ حکومت بنواتا ہے وہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ گویا مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کے معاملے میں کانگریس ہی نہیں لالو اور نتیش بھی پیچھے نہیں ہیں۔

مغربی بنگال وہ ریاست ہے جہاں جموں و کشمیر اور آسام کے بعد سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہے مگر یہاں بھی وہ سرکاری نوکریوں اور پولس فورس میں ملازمت کے معاملے میں نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں۔ یہاں تین دہائیوں سے زیادہ کمیونسٹوں کی حکومت رہی اور اسے مسلمانوں کی زبردست حمایت ملتی رہی ہے مگر اس سرکار نے سب سے زیادہ مسلمانوں کا نقصان کیا۔ حالانکہ اب ترنمول کانگریس کی سرکار ہے اور ممتا بنرجی وزیر اعلیٰ ہیں جن سے مسلمانوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور انتظار ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کریں اور جو نا انصافی اب تک ان کے ساتھ ہوتی رہی ہے اس کا خاتمہ کریں۔ وہ کہاں تک ان کی امیدیں پوری کریں گی اس سوال کا جواب مستقبل کے ہاتھ میں ہے۔

گجرات پولس میں مسلمانوں کی بہتر نمائندگی

پولس کی سطح پر ایک عجیب و غریب بات یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ گجرات تنہا ایسی ریاست ہے جہاں مسلمان اپنی آبادی سے کچھ زیادہ پولس میں ہیں۔ حالانکہ ۲۰۰۱ء کے فسادات کے وقت ان کی تعداد یہاں بھی کم تھی مگر تب کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے محسوس کیا کہ اگر پولس میں مسلمان کم رہے تو فسادات میں ان کی جانیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ کانگریس مودی کے منفی پہلوؤں کو خوب خوب اجاگر کرتی ہے مگر کبھی بھول کر بھی یہ نہیں بتاتی کہ کانگریس کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمان پولس میں کم ہیں اور گجرات میں زیادہ ہیں۔ یہ ایک مثال ہے جس سے کانگریس کے ساتھ ساتھ سماج وادی پارٹی، بہو جن سماج پارٹی، جنتا دل (یو) راشٹریہ جنتا دل اور ترنمول کانگریس کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے جنھوں نے مسلمانوں سے وعدے تو کوب کئے مگر کبھی انھیں پورا نہیں کیا۔

پسماندہ طبقات آگے آئے

مذکورہ رپورٹ سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس ملک میں او بی سی بھی بڑی تعداد میں ہیں اور بھی اپنی آبادی کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں نہیں ہیں مگر انھیں ریزرویشن سے فائدہ مل رہا ہے اور وہ دوسرے محکموں کی طرح پولس میں بھی بڑھ رہے ہیں۔ پسماندہ طبقات کے افراد ۲۰۱۰ء میں 13.37 فی صد تھے مگر ۲۰۱۳ء میں وہ 14.7 فی صد ہو گئے ہیں۔ گویا جہاں ایک طرف پسماندہ طبقات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں مسلمانوں کا تناسب گر رہا ہے اور یہ سب ان سیاسی پارٹیوں کی مہربانی سے ہو رہا ہے جو مسلمانوں کے ہی ووٹ سے اس ملک میں حکومت کرتی ہیں اور ان میں سب سے پیش پیش کانگریس ہے۔

 

 

 

 

زندگی اور موت کے بیچ معلق بغداد کے سننی

 

بغداد میں شیعہ، سنی تناؤ بڑھ رہا ہے

 

جیسے جیسے عراق کے شہروں پر آئی ایس آئی ایس کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ہی ویسے بغداد میں بھی ٹنشن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں ایک عجیب و غریب خوف کا ماحول ہے جو سنیوں اور شیعوں کے بیچ کی کشیدگی کو بڑھاتا جا رہا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے خوف کھا رہے ہیں۔ باہر نکلنے والوں کو ہمیشہ لگتا ہے کہ پتہ نہیں وہ گھر کو واپس آئیں گے یا نہیں؟ یہاں سنیوں کو شیعہ ملیشیا سے خوف محسوس ہوتا ہے جس کے بہت سے لوگ اب فوج میں بھی بھرتی ہو چکے ہیں، اسی کے ساتھ شیعوں کو ایک طرف تو اس بات کا ڈر ہے کہ عنقریب آئی ایس آئی ایس کا بغداد پر قبضہ ہو جائے گا تو دوسری طرف انھیں ان نامعلوم افراد سے ڈر لگتا ہے جو پوشیدہ طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور کسی کی بھی جان لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ شہر میں بم دھماکے اور دہشت گردانہ حملے عام ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب ان کی زد میں آ جائے گا اور اس کی جان مفت میں چلی جائے گی۔ آج شہر کے باشندے صدام حسین کے دور حکومت کو یاد کر رہے ہیں جب بغداد ہی نہیں پورے ملک میں امن و امان تھا اور شیعہ۔ سنی جیسے جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ یہاں شیعہ اور سنی ہمیشہ میل محبت سے رہتے آئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ داری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی مسجدوں میں بھی نمازیں ادا کرنے جاتے رہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں شیعہ۔ سنی تنازعہ نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر رکھی ہے اور برادر کشی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ تناؤ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب شہر میں کچھ لاشیں برآمد ہوتی ہیں اور قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ پہلے جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے اب ان کے علاقے تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب شیعوں کے محلے الگ ہو گئے ہیں اور سنیوں کے الگ ہیں جب کہ یہ صورت حال پہلے کبھی نہیں تھی۔

بغداد کے سنیوں کا کیا ہو گا؟

بغداد یوں تو ملی جلی آبادی والا شہر ہے مگر نامعلوم بندوق برداروں کے ذریعے جو موتیں ہو رہی ہیں ان میں اکثریت سنیوں کی ہے لہٰذا ان کے اندر زیادہ دہشت ہے۔ انھیں یہ بھی خوف ہے کہ انھیں بندھک بنایا جا سکتا ہے تاکہ آئی ایس آئی ایس کے سنی جنگ جووں سے سودے بازی کی جا سکے۔ عراق میں اس تنظیم کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں اور جہاں سنی اسے اپنا نجات دہندہ مان رہے نہیں وہیں شیعوں کو خوف ہے کہ اگر پورے ملک پر ان کا قبضہ ہو گیا تو یہاں ایک خالص سنی حکومت کا قیام ہو جائے گا۔ ہشام الخلیق بغداد میں رہتے ہیں اور ایک سنی ہیں۔ ان کی ایک سنی اکثریتی علاقے میں نان کی دکان ہے، بتاتے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر آئی ایس آئی ایس مزید آگے بڑھتی ہے اور بغداد کی طرف پیش قدمی کرتی ہے تو یہاں کے سنیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ ہشام کو خوف ہے کہ یہاں سنیوں کو بندھک بنایا جا سکتا ہے تاکہ آئی ایس آئی ایس کے جنگ جووں سے بعض سرکاری فوج کے افسران کو ان کے بدلے میں چھڑایا جا سکے۔ یہاں شیعوں کو امریکہ اور مغربی ممالک سے بھی امید تھی کہ وہ مداخلت کریں گے اور اس سنی تنظیم کی پیش قدمی روکیں گے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر لئے ہیں اور اس دلدل میں عراق کو ڈھکیلنے والے آج کنارے پر کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کو لگتا ہے کہ اس آگ میں کودنا عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی اپنی قوت کو داؤ پر لگا کر بہت کچھ گنوا چکا ہے اور مزید گنوانا نہیں چاہتا۔ اس کی معیشت اسی چکر میں برباد ہو گئی جسے اس نے مشکل سے بچایا ہے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کو اس بھنور سے نکالیں گے اور اب اس معاملے میں دوبارہ ٹانگ اڑانا نیز فوج یا ہتھیار سے مدد کرنا اس کے لئے ایک نقصان کا سودہ ہے۔ تو دوسری طرف روس نے عراق حکومت کی ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان سے مدد کرنے کا اعلان کیا ہے، حالانکہ عراق کے باشندوں کو نہیں لگتا کہ اس سے یہاں کچھ خاص اثر پڑنے والا ہے۔ الامامی بغداد کے شیعہ صحافی ہیں جو اس نمائندے سے کہتے ہیں کہ روس تو خود ہی اپنے آپ کو آج تک نہیں سمیٹ پایا اب اگر وہ عراق سرکار کی مدد کرتا ہے تو اسے تنکے کا سہارا ہی کہا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا اب اس ملک کا بس اللہ کی محافظ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو شیعہ۔ سنی جنگ میں ڈھکیلنے کا کام بھی تو امریکہ نے ہی کیا ہے۔ اس ملک میں عالمی مداخلت سے قبل اس طرح کے حالات نہیں تھے۔

خوف کے سائے

الامیریہ مشرقی بغداد کا ایک سنی علاقہ ہے۔ یہاں اب صرف سنی رہتے ہیں اور یہ علاقہ اس خوف کو طاہر کرتا ہے جو کہ اس شہر پر چھایا ہوا ہے۔ یہاں گھر کی ضروریات کے سامان فروخت کرنے والے ایک دکاندار اسلم العینی کا کہنا ہے کہ ہم بے حد خوف کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں کب کی ہو جائے اور کب کسے سرکاری پولس گرفتار کر لے جائے کہہ پانا مشکل ہے۔ اگر مجھے وہ گرفتار کر لیں تو پھر کیا ہو گا؟ میرے بچے اور بیوی کیا کر سکتے ہیں؟ وہ مجھے قتل کر دیں یا جیل میں دال دیں تو کوئی مجھے چھڑانے والا بھی نہیں ہو گا۔ العینی کی کی طرح ہی دوسروں کے اندر بھی خوف ہے اور اسی خوف کے تحت لوگ ہتھیار جمع کر رہے ہیں تاکہ وقت ضرورت اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کر سکیں۔ اس خوف کی وجہ سے ہی بغداد میں بعض سنی محلوں کے گرد حفاظتی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ کوئی اسرائیلیوں کا علاقہ نہیں ہے اور نہ ہی غزہ پٹی ہے مگر یہاں شیعوں اور سنیوں کے محلوں کے بیچ دیواروں کی تعمیر اس خوف کو ظاہر کرتی ہے جو ان کے اندر موجود ہے۔ حالانکہ اس دیوار کی تعمیر امریکہ کی فوج نے کرائی تھی جس کا بظاہر مقصد سنیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا مگر اس کی آڑ میں سنیوں اور شیعوں کے بیچ نفرت اور شک و شبہے کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

بچے بھی لڑائی کا ایندھن

بغداد کا ایک مسئلہ اب بچوں کی حفاظت بھی بن گیا ہے۔ یہاں بچوں کو بھی لڑائی کا ایندھن بنایا جا رہا ہے اور نابالغوں کو جنگ کی تربیت دے کر لڑنے کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ العینی کا کہنا تھا کہ میرے پڑوس والے مکان میں آدھی رات کو کچھ لوگوں نے دستک دی جو کہ فوجی یونیفارم میں تھے۔ ان لوگوں نے اس مکان کے دو لڑکوں کو اٹھایا اور لے کر چلے گئے۔ اس کی ماں روتی بلکتی رہی مگر انھیں ترس نہیں آیا۔ اب وہ لڑکے کہاں ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ ان فوجیوں سے پوچھا گیا کہ وہ ان کے بارے میں کچھ جانکاری دیں تو انھوں نے صرف یہ بتایا کہ انھیں وہ اپنے اعلیٰ افسران کے حوالے کر چکے ہیں اور ان کی ہمت نہیں کہ اپنے اعلیٰ افسران سے وہ کوئی سوال پوچھ سکیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی وارداتیں بہت عام ہیں اور اس کا مقصد ہے بچوں کو تربیت دے کر لڑائی کے لئے تیار کرنا۔ حالانکہ یہ سب بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف ہے۔

بم دھماکوں کا خوف

یہاں خوف و دہشت کا ایک سبب آئے دن ہونے والے بم دھماکے بھی ہیں۔ پہلے تو یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ یہ سب کام القاعدہ والے انجام دے رہے ہیں مگر اب اب یہ دھماکے سنی علاقوں میں بھی ہو رہے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ القاعدہ والے سنی علاقوں میں ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ خود سنی ہیں۔ حال ہی میں عزمیہ کے سنی اکثریتی علاقے میں مسجد ابو حنیفہ کے قریب دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں نے نہ صرف سنیوں کے سامنے کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں بلکہ خود حکومت کے سامنے بھی بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس سے حکو مت کی کمزوری طاہر ہوتی ہے اور اس کے لئے حالات پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ وہ ایک طرف تو آئی ایس آئی ایس سے لڑنے میں پریشان ہے تو دوری طرف اس قسم کے مسائل بھی اس کے سامنے کھڑے ہیں۔ اصل میں یہاں جس قدر خطرہ ہے اس سے زیادہ خطرے کو خوف ہے اور یہ خوف سنی اور شیعہ دونوں طبقوں میں ہے۔

لاشیں کیا کہتی ہیں؟

یہاں خوف میں اضافہ کا ایک سبب لاشوں کی دستیابی بھی ہے۔ شہر بغداد میں آئے دن ایسی لاشیں مل رہی ہیں جن کے قاتلوں کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ گویا یہاں ایسے گروہ بھی سرگرم ہیں جن کا کام ہی ہے قتل کرنا اور اس کے پیچھے ان کا مقصد کیا ہے کوئی بھی نہیں جانتا۔ جون کے تیسرے ہفتے میں ایسی اکیس لاشیں ملی ہیں جن کے سروں پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ ان لوگوں کو کیوں مارا گیا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کے افسران بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ سب کیوں کیا گیا اور اس کے پیچھے قاتلوں کا مقصد کیا تھا؟ بغداد کے سنیوں کا کہنا ہے کہ یہ کام شیعہ میلیشیا کر رہی ہے جو بغداد میں ابھر رہی ہے۔ یہاں جن علاقوں میں سنیوں اور شیعوں کی ملی جلی آبادی ہے وہاں حالات زیادہ خراب ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بعض سنیوں کا کہنا تھا کہ جب سے آئی ایس آئی ایس کے ذریعے موصل اور تکریت پر قبضے کی خبر آئی ہے تب سے مقامی شیعوں کا ہمارے تئیں انداز بدل گیا ہے حالانکہ پہلے ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل محبت سے رہتے تھے۔

 

 

 

 

مودی کا ’’منموہن‘‘ بجٹ

 

کیا یہ بجٹ ملک میں اقتصادی انقلاب لا سکتا ہے؟

 

کیا وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ بجٹ واقعی ملک میں اقتصادی بدلاؤ لانے میں کامیاب ہو گا؟ کیا یہ بجٹ یو پی اے سرکار کے بجٹوں سے مختلف ہے؟ کیا اس پر منموہن سنگھ کی چھاپ نہیں ہے؟ کیا یہ وہی بجٹ ہے جس کا مودی نے ملک سے وعدہ کیا تھا؟ آج یہ سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کیونکہ ملک کئی قسم کے مسائل سے دوچار ہے اور نریندر مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کو اس مسائل سے نجات دلائیں گے۔ ان میں اقتصادی بدحالی، مہنگائی سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ملک کے عوام جو مہنگائی سے پریشان تھے انھوں نے کانگریس کے خلاف متحد ہو کر ووٹ کیا تھا اور چاہتے تھے کہ مہنگائی کم ہو مگر مودی کے اقتدار میں آتے ہی اس میں اضافہ نے ان کی امیدوں پر اوس ڈال دیا تھا۔ اب عوام کو نئی سرکار سے آس بندھی ہے کہ وہ ملک کے اندر ایسی اقتصادی تبدیلی لائے گی جو مہنگائی کو کم کرے گی اور ملک کی ترقی میں بھی معاون ہو گی لیکن سب کو حیرت ہوئی کہ نئے بجٹ میں کچھ بھی نیا نہیں تھا اور بالکل ویسا ہی تھ اجیسا کہ منموہن سنگھ اپنے دور حکومت میں بار بار پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ کہیں سے بھی یوپی اے سرکار کے بجٹ سے الگ نہیں لگتا اور یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ نریندر مودی اپنی ۴۵ دن کی سرکار میں اس سے الگ کوئی راستہ اختیار کر سکیں۔ یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بجا طور پر اسے منموہن سرکار کا بجٹ بتایا ہے۔ اصل میں ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے بجٹ کی نقالی کی گئی ہے لیکن اگر نئی سرکار کچھ الگ کرنا چاہتی ہے تو وہ آئندہ غور و فکر کر سکتی ہے اور اگلے عام بجٹ میں جو کہ مارچ ۲۰۱۵ء میں پیش کیا جائے گا تب تک تیاری کر سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی سرکار کے لئے یہ آسان نہیں ہوتا کہ وہ سابقہ سرکار کی پالیسیوں کو یک بیک درکنار کر دے اور اس میں کوئی انقلابی تبدیلی لائے۔ ایسا کرنے سے ملک کی معیشت بیٹھ سکتی ہے۔ اسے دھیرے دھیرے ہی بدلاؤ لانا ہو گا۔ ویسے لگتا نہیں ہے کہ ملک کی خارجہ اور اقتصادی پالیسی میں نئی سرکار کوئی بڑا بدلاؤ لائے گی۔ ان پالیسیوں کا انحصار عالمی حالات پر بھی ہوتا ہے اور یہ حالات جب تک نہیں بدلتے تب تک کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن پرچار میں بڑی بڑی باتیں کرنا اور واقعی کوئی قدم اٹھانا دو باتیں ہیں۔

شیئر مارکیٹ میں مایوسی

عوام کی طرح ہی ملک کے صنعت کاروں کو بھی نئی سرکار سے بہت زیادہ امیدیں تھی اور انھیں لگتا تھا کہ سرکار کچھ ایسے تاریخی قدم اٹھانے والی ہے جو صنعت و تجارت کے میدان میں انقلابی تبدیلی لائے گا مگر ان کی امیدوں بھی بکھرتی ہوئی نظر آئیں۔ اس کا اثر شیئر بازار میں دیکھنے کو ملا جہاں عام بجٹ سے پہلے ریل بجٹ دیکھ کر ہی شیئر مارکیٹ گرا اور بہت سے شیئر جن کی قیمت ہمیشہ اوپر رہتی ہے نیچے آنے لگے۔ ریل بجٹ نے ہی بازار کو نیچے گرا دیا اور عام بجٹ بھی اس مایوسی کو سنبھالا نہ دے سکا مگر عوام کے لئے یہی اچھی بات تھی کہ سرکار بننے کے بعد جس کڑوی گولی کی بات وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور وزیر اعظم کی طرف سے کی جا رہی تھی وہ کڑوی گولی انھیں نگلنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ یہ بجٹ کڑوی گولی کی طرح تھا اور نہ ہی میٹھی گولی کی طرح بلکہ بہت پھیکا تھا اور اس میں کوئی ذائقہ ہی نہیں تھا۔ اس سے نہ عوام خوش ہوئے اور نہ ہی کاروباری دنیا۔ ریل کرایہ تو پہلے ہی اچھا خاصا بڑھ چکا تھا لہٰذا بجٹ میں نہیں بڑھا مگر جن نئی ٹرینوں کا اعلان کیا گیا ان میں ان روٹس کا بالکل خیال نہیں کیا گیا جدھر بھیڑ زیادہ ہوتی ہے اور جنوب کی طرف سرکار کی زیادہ توجہ رہی۔

گنگا کی صفائی کا بجٹ

عام بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے گنگا کی صفائی اور اس کے مناسب استعمال پر۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی موجودہ سرکار کو تھی کیونکہ وہ ہندتو کی علمبردار ہے اور وزیر اعظم خود بنارس سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ انھوں نے بنارس والوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہاں کے لئے سڑکوں کو بھی اعلان کیا گیا ہے۔ یعنی اب بنارس کو وہی حیثیت حاصل ہو گی جو پہلے امیٹھی و رائے بریلی کو حاصل تھی۔ گنگا ملک کو کئی اعتبار سے مستفیض کرتی ہے اور تقریباً تمام بڑے بڑے شہروں کو پینے کے لئے اسی کا پانی مہیا کرایا جاتا ہے۔ راجدھانی دلی اور راجستھان تک گنگا کا پانی پہنچایا جاتا ہے جس سے ان شہروں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ایسے میں گنگا کی صفائی لازمی تھی لیکن یہ کام تب ہی ہو سکتا ہے جب دیگر ندیاں بھی صاف ستھری ہوں کیونکہ ملک بھر کی درجنوں ندیاں اسی میں آ کر گرتی ہیں۔

اقلیتوں کے لئے مایوس کن بجٹ

نریندر مودی نے الیکشن پرچار کے دوران بار بار کہا تھا کہ وہ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کے لئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ’’نئی دنیا‘‘ کو دیئے اپنے انٹرویو میں بھی کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر بڑی عجیب بات ہے کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اپنا وعدہ بھول گئے یا انھوں نے جو کچھ کہا تھا وہ بس ایک انتخابی وعدہ تھا جسے کبھی پورا نہیں کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو زبان کی فروغ کے لئے بھی کام کرنے کی بات کہی تھی اور مسلمانوں کو روزگار کے مساوی مواقع دینے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر تمام وعدے صرف مدرسوں کی جدید کاری کے لئے سو کروڑ روپئے دینے تک ہی سمٹ گئے۔ حالانکہ یہ اسکیم یوپی اے سرکار کی ہے اور خود اسے مدرسوں کے منتظمین بھی پسند نہیں کرتے انھیں لگتا ہے کہ یہ دینی مدرسوں میں مداخلت کی کوشش ہے۔ اسی لئے دار العلوم دیوبند کے ایک ذمہ دار نے حال ہی میں کہا تھا کہ مدرسے جیسے چل رہے ہیں ٹھیک چل رہے ہیں اس میں کسی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مدرسوں میں تو صرف تین فی صد مسلمان بچے ہی جاتے ہیں جن کے پیچھے سرکار پڑی ہوئی ہے اور ۹۷ فی صد مسلم طلباء کی تعلیم کے لئے کیا کیا جا رہا ہے۔ انھیں تو ریزرویشن کے سبب داخلہ تک نہیں مل پاتا ہے، ان کے داخلے کے لئیے سرکار کو کچھ کرنا چاہئے تھا جس سلسلے میں اب تک کسی قدم کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بجٹ مسلمانوں کے لئے انتہائی مایوس کن ہے۔

 

 

 

میڈیا کا بے تاج بادشاہ، مکیش امبانی

 

ہندوستانی میڈیا سرمایہ داروں کا غلام

 

میڈیا اب سچ بولنا چھوڑ دے گا؟ اب اس کا مقصد صرف سرکار کی چاپلوسی ہو گی یا اپنے مخالفین کی بلیک میلنگ؟ کیا میڈیا اب پوری طرح سرمایہ داروں کا غلام ہو گیا ہے اور وہ صرف چند دولت مند افراد کا غلام بن گیا ہے؟ اب بھارت میں سچ کی آواز دبانا آسان ہو گیا ہے؟ میڈیا پر یوں تو پہلے بھی سرمایہ داروں اور دولت مند افراد کا قبضہ رہا ہے مگر اسی کے ساتھ کچھ ایسے جرنلسٹ بھی تھے جو عوام کی آواز اٹھاتے تھے مگر اب صورت حال ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ نہ میڈیا سچ بولے گا اور نہ صحافی حق گوئی کے راستے پر چلیں گے کیونکہ تمام اہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات پر ریلائنس گروپ کا قبضہ ہو چکا ہے اور مکیش امبانی اس کے بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں۔ باقی بچے دیگر چینلوں میں انھوں نے سرمایہ کاری کر دی ہے جس کے سبب وہ ریلائنس گروپ اور اس کے مفادات کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتے۔ کچھ ایسے بھی ٹی وی چینل اور اخبارات ہیں جن پر ریلائنس نہیں بلکہ دوسرے سرمایہ داروں کا قبضہ ہے جیسے فوکس گروپ کو جندل نے خرید لیا ہے تو سہارا میڈیا گروپ کی ملکیت سبرتو رائے سہارا کے پاس ہے۔ یونہی دیگر میڈیا گروپس پر کچھ دوسرے سرمایہ داروں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ میڈیا جس پر عوام بھروسہ کرتے ہیں اور اسے دبے کچلے طبقے کی آواز سمجھا جاتا ہے اب اس کا کام ملک کو سرمایہ داروں کا غلام بنانا ہو گیا ہے۔ سرمایہ داروں نے پہلے ہی سے نیتاؤں اور سیاسی افراد کو خرید رکھا تھا جو ان کے مفاد کے خلاف جانے کو تیار نہ تھے مگر اب میڈیا بھی ان کے شکنجے میں کستا جا رہا ہے اور صحافیوں کے قلم و آواز کو منہ مانگی قیمت دی جا رہی ہے تاکہ وہ کسی سرمایہ دار کے مفاد کے خلاف نہ کچھ بولیں اور نہ لکھیں۔ ان حالات کے پیش نظر ملک کا مستقبل اب صنعت کاروں اور دولت مند افراد کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ کون ان سرمایہ داروں کی اندھیر گردی کے خلاف آواز اٹھائے؟ جو نیتا ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے ان کا حشر اروند کجریوال جیسا ہو جائے گا اور جو ان کے مفاد کے حفاظت کریں گے وہ اس ملک پر راج کریں گے۔ ریلائنس کے قربت کا فائدہ نریندر مودی کو ملا جو آج اس ملک کے حکمراں ہیں اور ان کے مخالفین چاروں خانے چت ہو چکے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مودی کا نام وزیر اعظم کے طور پر سب سے پہلے مکیش مبانی نے نے لیا تھا اس کے بعد پورا میڈیا ان کی حمایت میں آ گیا اور ایسا طوفان کھڑا کیا کہ آج وہ پوری اکثریت سے اقتدار میں ہیں۔ اب ایسے میں اگر کسی کے مفادات محفوظ ہیں تو وہ مکیش امبانی ہیں اور عوام تو پہلے بھی بیوقوف بنتے رہے تھے اور آج بھی بن رہے ہیں۔

ریلائنس کے ٹی وی چینل

ریلائنس گروپ نے تمام بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کو خرید لیا ہے یا ان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس میں مختلف زبانوں کے نیوز چینل، تفریحی اور معلوماتی چینلس سے لے کر بچوں کے چینل بھی شامل ہیں۔ اس نے ای ٹی وی گروپ کے تمام چینلوں کو ای ناڈو گروپ سے خرید لیا ہے تو اسی کے ساتھ ٹی وی 18 نیٹ ورک کو بھی اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ اس طرح وہ کئی درجن چینلوں کا مالک بن چکا ہے۔ ان چینلوں میں CNN-IBN,IBN7, اور IBN لوک مت (مراٹھی نیوز چینل) شامل ہیں۔ اسی گروپ نے ایک ایک گجراتی زبان کا چینل کیا ہے IBNگجراتی۔ علاوہ ازیں اس کے بزنس چینل ہیں CNBC-TV18, CNBC AWAAZ, CNBC BAJAR ان میں آخر الذکر گجراتی بزنس چینل ہے۔ قارئین کو یاد رہے کہ CNBC TV18 وہ بزنس چینل ہے جو کل ویور شپ کا 56 فی صد حصہ رکھتا ہے۔ یونہی انگریزی نیوز چینل CNN-IBN کل انگریزی ناظرین کا 27.5 حصہ رکھتا ہے اور باقی میں ملک کے تمام ٹی وی چینل ہیں اس طرح سے اس گروپ میں بزنس اور انگلش ناظرین کا سب سے بڑا طبقہ پکڑ لیا ہے۔ یونہی ہندی نیوز چینل IBN7 بھی ایک بڑا ٹی وی چینل ہے جس کی ٹی آر پی کل ہندی ٹی آر پی کا 14 فی صد ہے۔ اس نے علاقائی زبانوں کو ناظرین کو متاثر کرنے کے لئے ETV گروپ کے تمام علاقائی زبان کے چینلوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ان میں کچھ تو ہندی کے ریجنل چینل ہیں جیسے یوپی، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان کے چینل تو دوسری طرف اس کے علاقائی زبانوں میں کنڑ، تیلگو، تمل، بنگالی کے کئی چینل ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک اردو کا چینل بھی ہے۔ ان میں بعض چینل اپنی ٹی آر پی کے لحاظ سے ایک نمبر پر ہیں تو بعض دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تفریحی چینلوں میں COLORS, COLORS HD, MTV , Comedy Central, VH1 ہیں تو بچوں کے لئے چلنے والے چینلوں کو بھی ریلائنس نے نہیں چھوڑا ہے۔ ان میں Nick, Sonic, Nick jr, Teen Nick شامل ہیں۔ اسی طرح عام معلومات والے چینلوں میں ایک انٹر نیشنل چینل History Tv18بھی ہیں جو ایک ساتھ انگریزی، ہندی، بنگلہ، تمل اور بنگالی میں آتا ہے۔ ان چینلوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے چینل بھی ہیں جو صرف انٹرنیٹ پر آتے ہیں یا ہوم شاپنگ کے چینل ہیں۔ یونہی معروف forbes India میگزین ہے تو درجنوں ویب سائٹس بھی شامل ہیں جن کا ستعمال خبروں اور دوسرے مقاصد کے لئے کیا جاتا ہے۔ ان ویب سائٹس پر ہر مہینے کروڑوں افراد جاتے ہیں۔

درجنوں ٹی وی چینلوں کے مالک مکیش امبانی کی میڈیا پر قبضہ کی بھوک یہیں پر نہیں مٹتی ہے، انھوں نے کچھ دیگر چینلوں میں سرمایہ کاری بھی کی ہے اور ان کی پالیسی کو متاثر کر رہے ہیں۔ خبر ہے کہ NDTV اور NDTV India کو انھوں نے ایک خطیر رقم قرض کے طور پر دی تھی مگر یہ گروپ ان کا قرض نہ اتار سکا اور اب اس میں بھی ان کی بڑی حصہ داری ہو گئی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دو نئے ٹی وی چینلوں Nation News اور اسی کے ایک دوسرے علاقائی چینل میں بھی ریلائنس نے سرمایہ لگایا ہے، اس طرح اب اس کی پالیسی پر بھی اس کا اثر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹار کروپ کے چینلوں میں بھی اس نے پیسے لگا رکھے ہیں۔

میڈیا میں سرمایہ کاری

میڈیا میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی دلچسپی کوئی نئی نہیں ہے اور یہ مکیش امبانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے دولت مند لوگ بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں مشہور صنعت کار اور کانگریس کے لیڈر نوین جندل نے فوکس کروپ کو خریدا ہے۔ اس گروپ کے چھ ٹی وی چینلوں کے مالک پہلے متنگ سنگھ تھے جو مرکز میں منتری بھی رہ چکے ہیں اور ان میں ان کی دوسری بیوی منورنجنا سنگھ کا بھی شیئر تھا جسے نوین جندل نے خرید لیا۔ اس کے تحت فوکس، ہمار (بھوجپوری) این ای ٹی وی، این ای ہائی فائی، این ای بنگلہ اور ایچ وائی ٹی وی آتے تھے جن کا اب نام تبدیل کر کے فوکس کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ ابھی بھی ان کی فروخت کے سلسلے میں متنگ سنگھ کی بیوی کو اعتراض ہے جن کے ساتھ طلاق کا معاملہ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جندل نے ٹی وی چینلس کی خریداری کا فیصلہ تب کیا جب ان کے خلاف کچھ خبریں میڈیا میں آئی تھیں اور ایک بڑے میڈیا گروپ نے انھیں بلیک میلنگ کی کوشش کی تھی۔

جندل کی طرح ہی سہارا گروپ کے بہت سے ٹی وی چینل اور اخبارات ہیں۔ سہارا سمے، سہارا نیوز، سہارا یوپی، عالمی سہارا وغیرہ اس کے مشہور چینل ہیں اور ہندی، انگلش کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی مختلف شہروں سے اس کا اردو اخبار روزنامہ راشٹریہ سہارا اور ہفت روزہ عالمی سہارا شائع ہوتا ہے۔

سب سے طاقتور شخص

صنعت کار پہلے تو سیاستدانوں کو خریدتے تھے مگر اب نیتاؤں اور منتریوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی خرید رہے ہیں۔ انھیں مختلف گھرانوں سے پیسے ملتے ہیں اور انھیں کے مفاد میں وہ لکھتے ہیں۔ ریلائنس نے ٹی وی 18 خریدنے کے بعد سب سے پہلے ان صحافیوں کو ٹھکانے لگایا جو آزادانہ سوچ رکھتے تھے اور ان سے غلامی کرانا مشکل تھا۔ مکیش امبانی کے والد دھیرو بھائی امبانی نے سیاست دانوں کو خرید رکھا تھا جن کے بارے میں ایک مرتبہ انھوں نے شاہد صدیقی کے سامنے بات کی اور کہا کہ فلاں معاملے میں فلاں شخص سے بات کرو، انھوں نے کہا کہ وہ دھیرو بھائی کی داہنی جیب میں ہے۔ پھر دوسرا نام لے کر کہا کہ اس سے بات کرو انھوں نے کہا کہ وہ دوسری جیب میں ہے۔ پھر تیسرے شخص کا نام لیا تو کہا وہ اوپر کی جیب میں ہے۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ دھیرو بھائی نے کن کن لوگوں کو خرید رکھا تھا مگر آج ان کے بیٹے کی حیثیت اس بھی آگے کی ہے۔ ماضی میں یہ بات عام رہی ہے کہ مکیش امبانی نے یوپی اے سرکار سے منتریوں تک کو بدلوایا تھا مگر اب بی جے پی کی سرکار ہے اور یہاں ان کی مرضی زیادہ چل سکتی ہے۔ ویسے بھی کانگریس ہو یا بی جے پی، سماج وادی پارٹی ہو یا بہو جن سماج پارٹی، بہار کی کوئی پارٹی ہو یا بنگال کی، شمالی ہند کی کوئی پارٹی ہو یا جنوبی ہند کی، سب پارٹیوں کو ریلائنس گروپ سے چندہ ملتا ہے اور سب کی سب مکیش امبانی کی جیب میں ہیں۔ اس وقت اس ملک میں کوئی طاقت ور شخص ہے تو وہ مکیش امبانی ہے جو کسی بھی نیتا اور منتری کو خریدنے کی قوت رکھتا ہے۔ عوام کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ اپنا پیسہ کسی بھی بہانے سے ریلائنس جیسی کمپنیوں کو دیتے رہیں۔ وہ کونسا ایسا دھندہ ہے جن میں یہ کمپنیاں سرمایہ کاری نہیں کرتیں اور آپ جہاں بھی خرچ کریں گے جائے ان کی جیب میں ہی۔

 

 

 

خطرہ بھاجپا کو یا آر ایس ایس کو

 

اگلا آر ایس ایس چیف، مودی کی مرضی کا

 

نریندر مودی آر ایس ایس کا مہرہ ہیں یا مودی نے آر ایس ایس پر قبضے کی شروعات کر دی ہے؟ کیا دونوں کے بیچ شہہ اور مات کا کھیل شروع ہو چکا ہے؟ اب آر ایس ایس سرکار چلائے گا یا مودی آر ایس ایس کو چلائیں گے؟ دونوں طرف سے یہ کوشش شروع ہو چکی ہے کہ کون کسے اپنے مقاصد میں استعمال کرتا ہے ا ور اس کھیل میں مودی بھاری پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جس طرح سے انھوں نے گجرات میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی درکنار کر کے خود اپنے آپ کو ہی مرکز بنا لیا تھا اسی طرح اب وہ مرکز میں بھی کرنے جا رہے ہیں۔ انھوں نے مرکز میں حکومت بنا کر اپنا دبدبہ ثابت کر دیا ہے اور اس کے بعد ان کا پلان تھا پارٹی کے اوپر قبضہ کرنا جس کی شروعات انھوں نے کر دی ہے۔ اس وقت ان کے قریبی امت شاہ کے ہاتھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی باگ ڈور آ چکی ہے۔ انھیں پارٹی کا صدر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے سابق صدر راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ انھوں نے جس حکمت عملی کے ساتھ پارٹی کو یوپی سمیت پورے ملک میں جیت دلائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور وہ اس بات کے حقدار ہیں کہ پارٹی صدر بنیں۔ راجناتھ سنگھ کی باتیں اپنی جگہ مگر اس کے پیچھے کی بھی سیاست کا کھیل ہے۔ راجناتھ سنگھ چاہتے تھے کہ وہ پارٹی صدر کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ بھی ہوں مگر نریندر مودی اس کے لئے تیار نہ تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ایک آدمی ایک عہدے پر ہی رہے۔ وہ پارٹی صدر کا عہدہ راجناتھ سنگھ سے لے کر اپنے قریبی امت شاہ کو دینا چاہتے تھے تاکہ ان کا پارٹی کے اوپر بھی قبضہ ہو جائے اور انھوں نے ایسا کر دکھایا۔

پارٹی پر کس کا قبضہ؟

بی جے پی تو آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد تھا کہ وہ ملک کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کر سکے۔ پارٹی کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر لانے کا کام لال کرشن اڈوانی نے کیا جنھوں نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک چھیڑی اور اسے سیاسی ایشو بنا کر ملک کے ہندوؤں کو مذہبی اشتعال میں مبتلا کیا اور پھر اسے ووٹ میں تبدیل کرایا۔ اسے جائز کام کہا جائے یا ناجائز مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سے پارٹی کو پہچان ملی اور وہ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب مودی کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے پارٹی کو اکثریت دلائی اور پوری قوت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ آر ایس ایس کو لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا موقع ہے اپنے ایجنڈوں کو لاگو کرنے کا مگر اسی کے ساتھ مودی کو بھی احساس ہے کہ اس وقت ان کی طوطی بول رہی ہے اور ان کی مقبولیت عروج پر ہے، یہی موقع ہے جب وہ پارٹی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس پر بھی قابض ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے پارٹی پر قبضہ کرنے کے ارادے سے ہی امت شاہ کو صدر بنوایا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی آر ایس ایس سے ڈیل ہوئی ہے اور پارٹی کے اندر کئی اہم عہدوں پر آر ایس ایس کے لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ خاص طور پر سنگھ سے رام مادھو کا پارٹی میں بھیجا گیا ہے جو یہاں کے معاملات کی نگرانی کریں گے۔ پارٹی کی دیگر شاخوں میں بھی آر ایس ایس کے لوگوں کو اہم عہدوں پر لایا گیا ہے مگر یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ سنگھ کو کے لوگوں کو ادھر پھنسا کر اس پر بھی قبضہ کیا جا سکے۔ یہاں مودی کی سیاسی چالبازیاں کام آ رہی ہیں اور اتفاق سے ان کا مقدر بھی ساتھ دے رہا ہے کہ وہ اگر کوئلے پر ہاتھ رکھ رہے ہیں تو وہ بھی سونا ہوتا جا رہا ہے۔ مودی نے پارٹی کا سب سے اعلیٰ عہدہ اپنے سب سے قریبی اور قابل بھروسہ شخص کو دلوا دیا ہے۔ اب ان کا کھیل یہ ہے کہ آر ایس ایس کے اندر ان کے پسند کے لوگوں کو جگہ ملے اور اگلا سنگھ کا چیف ان کی مرضی کا ہو۔

آر ایس ایس کی خوشی

مرکز میں جب نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار بنی اور ایک ایسی سرکار جو لنگڑی لولی نہیں ہے بلکہ مکمل اکثریت رکھتی ہے تو بی جے پی سے زیادہ آر ایس ایس کے حلقے میں خوشیاں منائی گئیں۔ یہاں بی جے پی کے لوگوں کا آنا جانا تیز ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ نوکر شاہ بھی بڑی تعداد میں سنگھ دفتر آنے لگے تھے اور ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ نئی سرکار میں اسے کوئی اہم ذمہ داری مل جائے۔ آر ایس ایس بار بار کہتا ہے کہ اس کا کام سرکار میں مداخلت کرنا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں کوئی دخل اندازی کرتا ہے مگر سچ تو ہے کہ اس کے حلقے سے سفارشیں بھی ہوتی ہیں اور ایسے نوکر شاہوں کو اہم کام سونپنے کی سفارشیں کی جاتی ہیں جو سنگھ سے قربت رکھتے ہوں۔ اس وقت سنگھ میں بھیاجی جوشی، دتاتریہ ہس بولے، کرشن گوپال، سریش سونی اور منموہن ویدھ جیسے لوگ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سبھی لوگوں کی خواہش ہے کہ سرکار ان کاموں کی طرف توجہ دے جن کو دوسرے لوگ متنازعہ کہتے ہیں، جیسے اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر، دفعہ ۳۷۰ کا خاتمہ، یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ وغیرہ۔ البتہ نریندر مودی نہیں چاہتے کہ ان ایشوز کو چھیرا جائے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عوام کو ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ انھیں روزی روٹی کی ضرورت ہے، انھیں مہنگائی، کرپشن اور بیروزگاری کا خاتمہ چاہئے، اب آر ایس ایس انھیں تھوڑی مہلت تو دینے کو تیار ہے مگر وہ اپنے ایجنڈے کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ وہ سرکار بننے کے بعد منتریوں کو یاد لا چکی ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو نہ بھولیں اور اپنی آئیڈیا لوجی کو فراموش نہ کریں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے دباؤ مودی کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح انھوں نے بی جے پی پر قبضے کی شروعات کر دی ہے اسی طرح دھیرے دھیرے آر ایس ایس پر بھی قابض ہو جائیں۔ اس کے لئے وہ ابھی اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ لوگوں کی تقرری چاہتے ہیں اور ان کا اگلا نشانہ آر ایس ایس چیف کا عہدہ ہے۔

مودی کا کھیل

نریندر مودی انتہائی گھاگ قسم کے سیاست داں ہیں اور وہ گجرات میں تمام لیڈروں کو ختم کر چکے ہیں وہی کھیل اب وہ مرکز میں بھی کھیل رہے ہیں۔ سنجے جوشی گجرات میں آرایس ایس کے اہم لیڈر تھے اور یہاں بی جے پی کو کھڑا کرنے میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا مگر ان کے کریئر کو ختم کرنے کا کام نریندر مودی نے کیا۔ جوشی کی کئی ایسی تصویریں انھوں نے عام کرائیں جو بہت ہی خفیہ قسم کی تھیں اور انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پارٹی میں وہ تھے اور انھیں دہلی میں کسی میٹنگ کے لے بلایا گیا تو مودی نے اس میٹنگ میں آنے سے انکار کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی اور سنگھ کے ایک پرانے وفادار کو بی جے پی نے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اسی طرح گجرات میں وشو ہندو پریشد کا خاتمہ بھی مودی نے کرا دیا۔ پروین توگڑیا جیسے لوگ جو پورے ملک میں پھیل کر نفرت کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں گجرات میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ورنہ انھیں فوراً جیل کی ہوا کھانی پڑے۔ یہاں وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں کو مودی نے ان کے آفسوں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی کھیل وہ دلی میں کھیلنا چاہتے ہیں اور ایک ایک کر کے تمام بڑے لیڈروں کو ختم کر کے تنہا لیڈر رہنا چاہتے ہیں۔ مودی کو بہت سے لوگ ہٹلر جیسا لیڈر مانتے ہیں اور یہ بات کچھ حد تک درست بھی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کر سکتے اور ایک ایک کر کے ان کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گجرات کے ہی ایک دوسرے بی جے پی لیڈر ہرین پانڈیا کا قتل ہو گیا تھا، جنھیں مودی کا حریف مانا جاتا تھا۔ ان کا مارننگ واک کے دوران قتل ہو گیا تھا اور ان کے والد نے اس کے لئے سیدھے طور پر نریندر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا مگر کوئی مودی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ہرین پانڈیا کے قتل کے سلسلے میں ان کے والد کا الزام کس حد تک درست تھا مگر ایک بات کہہ سکتے ہیں کہ مودی کے مخالفین کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ان کی جان گئی ہے یا ان کا کریئر ختم ہوا ہے۔

آر ایس ایس مودی کے شکنجے میں

آج ایک بار پھر مودی اپنے پرانے رنگ میں نظر آ رہے ہیں مگر اس بار نہ تو سرکار پر قبضہ کی جنگ ہے اور نہ ہی پارٹی پر کیونکہ یہاں وہ پہلے ہی اپنا قبضہ جما چکے ہیں۔ اس بار تو وہ آر ایس ایس پر ہی قبضہ جما لینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آر ایس ایس کو لگتا ہے کہ وہ مودی کو کٹھ پتلی بنانے میں کامیاب ہو جائے گا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گا مگر یہ مشکل لگتا ہے کیونکہ اب تک مودی نے جو چاہا ہے سو کیا ہے۔ نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں مگر انھیں لگتا ہے کہ ان کا اقتدار تب ہی مضبوط ہو گا جب پارٹی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس پر بھی قبضہ پکا ہو جائے۔ مستقبل میں اگر آر ایس ایس چیف کا عہدہ بھی مودی کے کسی پسندیدہ شخص کو ملے تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے لئے وہ پوری کوشش میں جٹے ہوئے ہیں اور ان کے لوگ آر ایس میں سرگرم ہو گئے ہیں۔

 

 

 

 

کامن سول کوڈ بنایا تو ظلم مسلمان پر نہیں، ہندوستان پر

 

یہ قانون آدیباسیوں کو نکسلائٹ بنا دے گا

 

نریندر مودی سرکار کامن سول کوڈ نافذ کرنے کا پلان بنا رہی ہے؟ کیا اب ایک ملک میں ایک ہی قانون نافذ ہو گا؟ کیا اب تمام پرسنل قوانین ختم کر دیئے جائیں گے؟ کیا اب ہر شخص کو اس کی مرضی، اس کے مذہبی، سماجی اور روایتی قانون کے ساتھ جینے کا حق نہیں دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ، عیسائی، پارسی، جینی، بدھسٹ بلکہ خود ہندو بھی اس کی زد میں آ جائیں گے۔ کیا سرکار چاہے گی کہ کیرل کے ہندوؤں کو یوپی کے ہندوؤں کے طریقے سے جینے پر مجبور کیا جائے؟ کیا یہ درست ہو گا کہ جنوب کے لوگوں کو شمال یا شمال کے عوام کو جنوب کے لوگوں کو طریقے پر رکھا جائے اور انھیں اپنے ان تمام سماجی اور روایتی اصول و ضوابط کو چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جن پر وہ صدیوں سے عمل کرتے آ رہے ہیں؟ کیا ہندوستان کے آدیباسیوں کو سرکار ڈنڈے کے زور پر مجبور کرے گی کہ وہ اپنے طریقے کو چھوڑ کر اس کے بنائے ہوئے ضابطے پر عمل کریں؟ کیا اسے نہیں لگتا کہ یہ پورے ملک پر ظلم ہو گا اور اس سے ہمارے ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا؟ اگر آر ایس ایس مرکزی سرکار کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کامن سول کوڈ کا نفاذ کرے تو یہ اس کی وطن دوستی نہیں ہو گی جس کا وہ دعویٰ کرتا آیا ہے، یہ تو اس ملک پر ظلم ہو گا۔ کامن سول کوڈ کا نفاذ سرکار کی ذمہ داری ہے، یہ بات ہمارے دستور میں کہی گئی ہے مگر اس کا کوئی وقت متعین نہیں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کب تک اس نفاذ کرے گی۔ بی جے پی کے الیکشن منشور میں بھی یہ بات ہمیشہ سے شامل رہی ہے کہ وہ ملک میں تمام شہریوں کے لئے ایک ہی قانون لائے گی مگر اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ملک کے عوام اس کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں، پھر اس کی جانب پیش قدمی کیسے ہو سکتی ہے؟

کامن سول کوڈ کیا ہے؟

بھارت مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ملک ہے۔ یہاں بہت سے مذاہب کے ماننے والے رہتے سہتے ہیں۔ سبھی کے اپنے روایتی اصول اور ضابطے ہیں۔ یہاں اگر ایک طرف مسلم پرسنل لاء ہے تو دوسری طرف ہندو کوڈ بل بھی ہے۔ یہاں اگر عیسائیوں کے اپنے مذہبی دستور ہیں تو سکھوں اور بدھسٹوں کے بھی اپنے کچھ طریقے ہیں۔ یہاں کے آدیباسی پرانے زمانے سے کچھ ضابطوں کی پیروی کرتے آئے ہیں تو پارسیوں کے بھی کچھ الگ طریقے آج کے ماڈرن دور میں جاری ہیں۔ یہیں تک محدود نہیں بلکہ خود ہندوؤں میں بہت سے ضابطے الگ الگ ہیں۔ ملک کے بعض علاقے کے ہندوؤں میں یہ دستور ہے کہ نہ صرف مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے بلکہ عورتیں بھی ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتی ہیں۔ یہ تمام حقائق اپنی جگہ پر مگر ملک کے دستور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ سرکار پورے ملک کے لئے ایسا قانون لائے گی جو تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے ایک ہی قانون نافذ کرے گی اور اسی کو کامن سول کوڈ کا نام دیا گیا ہے۔

کامن سول کوڈ، کانگریس کا شوشہ

ملک کا جو دستور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں بنایا گیا تھا اسی میں یہ بات رکھی گئی تھی۔ تب کانگریس کی مرکز میں سرکار تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ملک کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ سرکار کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ مناسب وقت پر تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے سب کے لئے ایک ہی دستور نافذ کیا جائے گا مگر آج تک یہ ممکن نہیں ہوا۔ چند سال قابل سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا بھی تھا کہ جب ہمارے دستور میں کامن سول کوڈ کا وعدہ کیا گیا ہے تو اب تک اس کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا؟ کورٹ کا سوال اپنی جگہ پر مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں مختلف مذاہب اور طریقے کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں تو اس قسم کی دفعہ ہی کیوں آئین کے اندر رکھی گئی؟ آج اگر بی جے پی اسے بہانہ بنا کر عوام کے ایک بڑے طبقے کو ذہنی طور پر دہشت زدہ کر رہی ہے تو کیا اس کے لئے خود کانگریس ذمہ دار نہیں ہے؟ کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں اور منتریوں کی طرف سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ ہندو کوڈ بل کو ہی وسیع کر کے اسے پورے ملک کے عوام پر لاگو کیا جائے گا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک کے اقلیتی طبقات سرکار کی نظر میں کس طرح کھٹکتے رہے ہیں کہ انھیں اپنی مذہبی حقوق سے محروم کر کے ہندو کوڈ بل نافذ کرنے کی بات کہی جاتی رہی ہے۔

ہندو کوڈ بل کی بات کیوں نہیں؟

بھارت میں جس طرح سے مسلم پرسنل لاء ہے، اسی طرح یہاں ہندو کوڈ بل بھی ہے مگر کچھ لوگوں کی آنکھ میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی کھٹکتا ہے ہندو کوڈ بل نہیں کھٹکتا۔ کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ ہندو کوڈ بل کو ختم کیا جائے گا، ہر بار حملہ مسلم پرسنل لاء پر ہی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بات صرف مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کیوں کی جاتی ہے؟ ہندوؤں کو ان کے حق سے محروم کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اس کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرنا ہے یا ہندوؤں کو یہ بتانا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں اسپیشل حیثیت حاصل ہے؟ حالانکہ بھارت میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی نہیں ہے جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق دینے کی بات کرتا ہے، اس ملک میں دوسرے طبقوں کے بھی پرسنل قوانین ہیں بلکہ ہمارے آئین کی روح ہی ہے ’’کثرت میں وحدت‘‘ اور اسی لئے ملک کا آئین سب کو اپنے مذہب اور دستور کے مطابق جینے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ بات دستور میں بار بار دہرائی گئی ہے۔

مسلم پرسنل لاء کیا ہے؟

ملک میں جب بھی کامن سول کوڈ کی بات آتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اس بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سادہ لوح مسلمان اسے ہمدردی سمجھتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ وہ مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کر کے وہ انھوں نے اسلام کی حفاظت کر لی ہے، حالانکہ سچ پوچھا جائے تو آئین ہند میں مسلم پرسنل لاء کی بات انگریزوں کو بنائے قانون میں رکھی گئی تھی جس میں اسلامی قوانین کے جانکار امیر علی کا مشورہ شامل کیا گیا تھا۔ اصل میں اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی رہنمائی کے لئے دستور بنا دیئے ہیں مگر ان تمام دستوروں سے محروم کر کے صرف نکاح، طلاق، وراثت، ہبہ اور وقف جیسے چند قوانین پر ہی مسلمانوں کو عمل کرنے کی چھوٹ مسلم پرسنل لاء میں دی گئی ہے اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ تمہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی ہے۔ ضرورت توا س بات کی تھی کہ جب آئین کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہے تو مسلمانوں کو ہر معاملے میں اسلام پر عمل کرنے کی چھوٹ ملتی مگر ایسا ہوا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ بار بار کورٹ کی جانب سے اس میں مداخلت کی بات سامنے آتی ہے۔

مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ

بھارت کے مسلمانوں کے لئے بھی کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر انھیں غور کرنا چاہئے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے جب کامن سول کوڈ کی بات ہو تو انھیں شدید رد عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے مخالفین کو انھیں پریشان کرنے کا بہانہ مل جائے گا اور انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی کوشش ہو گی۔ سول کوڈ سے سکھوں، بدھسٹوں، پارسیوں، جینیوں اور خود ہندوؤں کے بڑے طبقے کو پریشانی ہو گی لہٰذا اسے لاگو کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر اس سے صرف مسلمانوں کو پریشانی ہوتی تو اب تک یہ نافذ ہو چکا ہوتا۔ آدیباسی جو ہمیشہ سے اپنے طریقے سے جیتے رہے ہیں اور انھیں اس کی دستوری آزادی حاصل ہے وہ بھیا سکے خلاف جائیں گے اور آج اگر آدھے ملک میں نکسل ازم ہے تو اس کے بعد پورے ملک میں یہ پھیل جائے گا اور اس بات کا احساس سرکار میں بیٹھے لوگوں کو بھی ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود بھی کچھ مسائل پر غور کرنا چاہئے اور دوسرے مسلم ملکوں اور دوسرے ملکوں کو علماء سے سبق لینا چاہئے۔ ہمارے کئی مسائل صرف اس لئے ہمیں مشکلوں میں مبتلا کرتے ہیں کیوں کہ ہم نہ تو پوری طرح سے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون کو لاگو کرتے ہیں۔ ایک ہمارے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اکثر مشکلات پیدا کرتا ہے، ایسا اسلام پر عمل نہ کرنے کے سبب ہوتا ہے یعنی غیر شرعی طریقے طلاق دینے کی سبب ہوتا ہے۔ پہلے تو غلط طریقے سے طلاق دیا اور اسے حنفی علماء نے تین مان لیا، اس کے بعد پورے خاندان اور بچوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ مطلقہ کو پوری زندگی کا نفقہ کون اٹھائے؟ یہ سوال بھی اہم ہو جاتا ہے۔ اس کا باپ رہا نہیں، بھائی اس کے لئے تیار نہیں، سابق شوہر سے لینا اس کا حق نہیں، ایسے میں اس کے سامنے سوائے اس کے راستہ نہیں رہ جاتا کہ خود کشی کر لے یا بھیک مانگتی پھرے۔ کیا ہمارے علماء یہ نہیں کر سکتے کہ جس طرح بہت سے مسائل میں مسلک امام ابو حنیفہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے عالم کے فتوے پر عمل کرتے ہیں اسی طرح اس معاملے میں بھی کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل جب کورٹ کے سامنے جاتے ہیں تب ہی وہ شاہ بانو کیس جیسے فیصلے صادر کرتا ہے۔ مسلم مطلقہ کے سامنے جو بے سمتی بھارت میں ہے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے۔ یونہی ایک سے زیادہ شادی کا مسئلہ بھی ہے۔ بھارت میں مسلمان ایک سے زیادہ شادی، جب چاہے، جیسے چاہے کر سکتا ہے، مگر ایسا وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے اسے کورٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اسلام نے بھی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت شرطوں کے ساتھ دی ہے مگر جو مسلمان ایسا کرتے ہیں انھیں شرطیں یاد نہیں رہتیں صرف اسلام کی اجازت یاد رہتی ہے۔ اب ایسے میں کورٹ یا سرکار کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو مسلمان کو کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ یہ ہمارے مذہب میں مداخلت ہے؟

 

 

 

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

 

مسلم نوجوان بگڑے تو ہندوستان بگڑ جائے گا

 

بھارت کے مسلم نوجوان عراق جنگ میں حصہ لینے جانا چاہتے ہیں؟ کیا یہ بھی دہشت گردی کی ایک علامت ہے؟ کیا اب شیعہ۔ سنی جنگ کا مرکز عراق بن گیا ہے اس لئے یہاں کے شدت پسند مسلمان وہاں جانے لگے ہیں؟ یہ شوق اگر اسی طرح بڑھا تو کیا یہ بھارت کے مسلمانوں کے لئے ہلاکت خیز ہو سکتا ہے؟ اس جنگ کی آنچ کہاں تک جائے گی اور اس کے ہمارے ملک پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے با شعور مسلمانوں، قائدین ملت اور علماء کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کو اس راستے پر جانے سے روکیں؟ کیا جسے جہاد کہا جا رہا ہے اور واقعی جہاد ہے یا برادر کشی ہے؟ کیا اسلام کی نظر میں اپنے بھائی کو قتل کرنا جہاد ہے؟ کیا اس قسم کی جنگ نے جہاد کے نام کو بدنام نہیں کیا ہے؟ کیا یہی وہ اسلام ہے جس کی تعلیم ہے کہ ’’ایک جاندار کا قتل تمام جانداروں کے قتل کی طرح ہے‘‘ ؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو امت مسلمہ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ عراق جنگ یا عراق کی خانہ جنگی کے اثرات اب بھارت کے مسلمانوں پر بھی پڑنے لگے ہیں اور اطلاع ہے کہ ممبئی کے کچھ مسلم نوجوان اس میں حصہ لینے گئے ہیں۔

یہ شوق جہاد ہے یا کچھ اور؟

بھارت کے لوگ اپنے روزگار کے سلسلے میں اکثر عراق جاتے رہتے ہیں مگر ممبئی کے چار مسلم نوجوانوں کے عراق جانے کی خبر سے ہر طرف کھلبلی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ نوجوان عراق میں جاری جنگ میں حصہ لینے گئے ہیں۔ یہ چاروں تعلیم یافتہ ہیں اور ان کا ماضی کبھی بھی دہشت گردی یا غیر سماجی سرگرمیوں سے آلودہ نہیں رہا ہے۔ تھانے علاقے میں رہنے والے فہد تنویر شیخ، عارف فیاض مجید، شاہین فاروقی اور امان نعیم ٹنڈیل چند مہینوں سے غائب ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ باقی ملک کو بھی اس سے تشویش ہے۔ فہد کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ انگلش میڈیم سے تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس نے انجینرینگ میں ڈپلومہ کیا ہوا ہے۔ اس نے کسی کمپنی میں گزشتہ مئی مہینے میں نوکری پکڑی تھی مگر اس کے دو دن بعد ہی وہ اچانک غائب ہو گیا۔ وہ گھر سے کہہ کر نکلا تھا کہ وہ جاب پر جا رہا ہے۔ گھر والوں نے اسے بہتیرا ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملا تو مقامی پولس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرادی۔ اسی طرح کی تین رپورٹیں درج ہوئیں جو تین الگ الگ نوجوانوں کے بارے میں تھیں۔ عارف فیاض مجید کے والد ڈاکٹر اعجاز مجید نے کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا عارف عراق میں ہے اور اس نے اطلاع دی ہے کہ وہ عراق میں جنگ کے خاتمے کے بعد واپس آئے گا۔ ان تمام گمشدہ مسلم نوجوانوں کے گھر والے فکر مند ہیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں تشویش میں مبتلا ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کے بچے عراق کی جنگ کا حصہ بن کر اپنی زندگی گنوا سکتے ہیں۔ پولس اس پورے معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور ان لڑکوں کے موبائل فون نمبروں کی جانچ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیپ ٹاپ وغیرہ کی بھی چھان بین کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکے آئی ایس آئی ایس کی طرف سے لڑنے کے لئے نکلے ہیں جن کی جنگ عراق کی امریکہ نواز حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں کی شیعہ آبادی سے بھی ہے۔

ویزا کے لئے شیعوں کی درخواستیں

عراق میں لڑنے کے لئے صرف بھارت کے سنی نوجوان ہی تیار نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ایک انگریزی اخبار کی اطلاع کے مطابق ہزاروں شیعوں نے بھی ویزا کے لئے اپلائی کیا ہے جو عراق میں آئی ایس آئی ایس سے لڑ کر کربلا اور نجف اشرف کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہ دونوں مقامات مسلمانوں کی نظر میں مقدس ہیں اور شیعہ حضرات کے لئے ان کی اور بھی زیادہ اہمیت ہے۔ کربلا میں نواسۂ رسول امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی اور نجف میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی قبر بتائی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں مولانا کلب جواد اور قانون داں محمود پراچہ سمیت متعدد مسلمانوں پر مشتمل ایک وفد عراق کے سفارت خانے گیا تھا جس نے ایک وفد کی شکل میں عراق جانے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سفارت خانے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق تقریباً چھ ہزار شیعہ مسلمانوں نے عراق کے ویزا کے لئے درخواست کی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں میں جس طرح سے عراق اور مشرق وسطیٰ کے حالات سے دلچسپی پائی جاتی ہے اس سے خود بھارت سرکار کو بھی تشویش ہے اور حال ہی میں آئی بی کے کچھ افسران نے عراق کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کو کوشش کی تھی گویا یہاں کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی مشرق وسطیٰ کے حالات کی فکر ہے اسی لئے سرکار اس کا قریب سے جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ برادر کشی ہے یا جہاد؟

اسلام محبت کا پیغام ہے اور اسی لئے یہاں نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی نظر میں تمام مخلوق اللہ کی عیال کی طرح ہے لہٰذا کسی کے ساتھ تشدد کا رویہ اپنانان جائز نہیں ہے۔ تصور ’’جہاد‘‘ خاص اسلام کی دین ہے اور اسے ایک دفاعی مقصد سے اسلام میں رکھا گیا ہے نہ کہ کسی کو تباہ و برباد کرنے کے لئے مگر آج کل جہاں مسلمان اپنے عمل و کردار سے اس مقدس فریضے کو بدنام کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف میڈیا بھی اسلام کو بدنام کرنے کا اسے بہانہ بنا رہا ہے۔ آج نہ تو مسلمانوں کو یہ سمجھ ہے کہ دہشت گردی اور جہاد میں کیا فرق ہے اور نہ ہی میڈیا یہ بات جانتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی اور تشدد نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسی بردار کشی کا نام جہاد ہے۔ افغانستان، عراق، شام، اور مصرمیں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کیا نام دیا جائے؟ یہ جہاد ہے یا برادر کشی؟ مسلمان کہتے ہیں کہ یہ دشمنان اسلام کی سازش ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے مگر سوال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے مسلمان خود کیوں لڑتے ہیں؟ ایک طرف جہاں ان ملکوں میں مسلمان آپس میں برسرِ پیکار ہیں وہیں دوسری طرف خبر ہے کہ دولت مند عرب شیخ اپنے بال بچوں کے ساتھ لندن میں عید کی خریداری کرنے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ دبئی میں عید بازار لگا ہوا ہے اور جو عرب شیوخ لندن کسی وجہ سے نہیں جا سکتے وہ یہیں خریداری کر رہے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ ہر سال کی طرح امسال بھی ماہ رمضان میں، عرب ملکوں میں روازانہ ہزاروں افراد کے کھانے برباد ہو رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک دوسری تصویر یہ ہے کہ فلسطین میں ہر روز معصوم بچے اسرائیلی درندوں کے مظالم کی تاب نہ لا کر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ سعودی عرب اپنے دوست امریکہ اور یوروپ ممالک کو ایک لفظ نہیں کہتا کہ وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں؟ کوئی مسلم ملک اس بات کی ہمت نہیں رکھتا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لے مگر عراق کے محاذ پر آپس میں لڑنے کا انھیں پورا موقع ہے۔

اسلام تو امن کا پیغام ہے

عرب ملکوں میں تشدد اور خانہ جنگی کی تاریخ رہی ہے مگر بھارت کے مسلمان ہمیشہ امن پسند رہے ہیں۔ وہ خواجہ معین الدین چشتی، نظام الدین اولیاء، حاجی وارث علی شاہ، شاہ بندہ نواز گیسو دراز جیسے بزرگوں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ہیں اور امن کے علم بردار رہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں جس طرح ان کے اندر بھی تشدد کی لہر آئی ہے وہ تشویش ناک بات ہے۔ ہم اپنے دشمنوں کو بھی پھول پیش کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں ایسے میں ہمارے بچوں کا تشدد کی طرف مائل ہونا کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ شاید اس کا ایک سبب مذہب کے نام پر تشدد کی تعلیم بھی ہے۔ دنیا کے جن ملکوں میں مسلمان تشدد کی طرف میلان رکھتے ہیں وہ عام طور پر سعودی عرب سرکار کے پروموٹیڈ اسلام سے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب خود اپنے ہاں بد امنی نہیں پھیلنے دیتا مگر اس کے نظریات ساری دنیا میں بد امنی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ جمہوریت کی مخالفت کرتا ہے اور اسی کو اسلام کا نام دیتا ہے۔ وہ عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرتا ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیتا ہے اور اس قسم کی تعلیمات سے ایک دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ بھارت میں بھی نوجوانوں کا ایک طبقہ اس قسم کی باتوں سے اثر لیتا ہے اور جو عراق کی جنگ میں یہاں کے نوجوانوں کے کودنے کی خبر آ رہی ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو اس اسلام کی تعلیم دی جائے جو امن و امان کی تعلیم دیتا ہے۔ جو بھائی چارہ سکھاتا ہے۔ جو انسان کو انسان کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے نام پر شرپسندی کو بڑھاوا دینے کی مخالفت کریں اور اصل اسلام سے نئی نسل کو روشناس کرائیں۔ آج جن نوجوانوں کے بارے میں خبر آئی ہے کہ وہ عراق کی جنگ میں حصہ لینے گئے ہیں وہ یقیناً غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں۔ اگر انھیں اسلام کی صحیح تعلیمات سے آراستہ کیا گیا ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ یہ وہ لڑکے ہیں جنھوں نے کسی مدرسے میں نہیں پڑھا اور نہ ہی دینیات کی تعلیم پائی ہے۔ وہ اردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے ہیں مگر انٹرنیٹ پر کچھ اشتعال انگیز لٹریچر پڑھ کر اور ویڈیوز دیکھ کر متاثر ہوئے ہیں۔ اب مہاراشٹر پولس کہہ رہی ہے کہ انٹرنیٹ پر اس قسم کے لٹریچر اور ویڈیوز کو جام کیا جائے گا اور ان کی حصولیابی کو دشوار بنایا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ وہ راستے سے نہ بھٹکیں اور کوئی انھیں گمراہ نہ کر سکے۔

 

 

 

 

یہ صحافت ہے یا چھچھورا پن؟

 

وید پرتاپ ویدک اگر وحید الدین ہوتا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا

 

ایک معمولی صحافی کے بڑبولے پن سے پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں سوالات اٹھے اور سڑکوں پر پتلے جلائے گئے اور کئی شہروں میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئے۔ جی ہاں یہ ہیں وید پرتاپ ویدک جی جو لمبی لبی چھوڑنے کے لئے میڈیا حلقے میں جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے موسٹ وانٹیڈ انتہاپسند لیڈر اور ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کے ملزم حافظ سعید سے ملاقات کی اور پھر اس ملاقات کی خبر اور تصویر انھوں نے میڈیا میں بھی لیک کر دی۔ خود کو بہت بڑا صحافی بتانے والے ویدک جب اس انٹرویو کے لئے گئے تو نہ تو ویڈیو کیمرہ لے گئے اور نہ ہی ٹیپ رکارڈر جس میں اس خصوصی گفتگو کو رکارڈ کر سکیں۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ وہ نریندر مودی سرکار کے نمائندے کے طور پر حافظ سعید سے ملے تھے۔ ویدک کا دعویٰ ہے کہ حافظ سعید ان سے اس قدر متاثر ہوا کہ انھیں کار تک چھوڑ نے آیا اور ان کے لئے کار کا دروازہ کھولا۔ ویدک جتنے پاکستان میں رہے شان سے رہے اور نہ جانے کن کن لوگوں سے انھوں نے ملاقاتیں کیں مگر ہندوستانی قونصلیٹ نے ان کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے کئی اہم صحافیوں کو مدعو کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی حافظ سعید سے ملاقات کس نوعیت کی تھی؟ انھوں نے یہ ملاقات کر کے کوئی جرم کیا؟ کیا وہ ایک صحافی کے طور پر کسی سے بھی مل سکتے ہیں؟ یا یہ ملاقات انھوں نے مرکزی سرکار کے شارے پر کی تھی اور اسے مودی سرکار کی سرپرستی حاصل تھی؟ سوال تو اب سرکار کے اس دعوے پر بھی اٹھر ہا ہے کہ ایک طرف وہ حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ مانتی ہے اور دوسری طرف وہ اس سے ملاقات کے لئے اپنا نمائندہ بھیجتی ہے۔

تھالی کے بینگن ویدک

وید پرتاپ ویدک کا مضامین کبھی کبھی ہندی اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں مگر اب تک عوام ان کے نام سے واقف نہیں تھے اور لوگ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ویدک کون ہیں؟ ہم آپ کو بتادیں کہ ویدک خود کو صحافی کہتے ہیں مگر وہ کسی اخبار یا ٹی وی سے باقاعدہ وابستہ نہیں ہیں۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے ہیں اور انھیں سیاست داں و صحافی دونوں لمبی لمبی چھوڑنے کے لئے جانتے ہیں۔ وہ جسے پکڑ لیتے ہیں اس کا دماغ چاٹ جاتے ہیں لہٰذا انھیں دیکھتے ہی لوگ بھاگنے لگتے ہیں۔ وہ خود ستائی کے ماہر ہیں اور جو بھی ملتا ہے اس کے سامنے اپنی ہی تعریفوں کے پل باندھنے لگتے ہیں۔ انھیں کوئی کانگریس کا آدمی کہتا ہے تو کوئی بی جے پی کا۔ کسی کو وہ آر ایس ایس کے آدمی لگتے ہیں تو کسی کو سوشلسٹ لگتے ہیں۔ جب جس پارٹی کی سرکار ہوتی ہے اس کے قریب جانے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے والد ہندو مہاسبھا میں ہوا کرتے تھے لہٰذا ان کی تربیت اسی طریقے پر ہوئی۔ ایک زمانے میں وہ سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہو کر سماجوادی بننے کی کوشش کر رہے تھے اور ایک سوشلسٹ ایم پی منی رام باگڑی کے بہت قریب تھے۔ جب کانگریس کے اچھے دن آئے تو وہ کانگریس میں شامل ہو گئے اور یہاں ملائی کاٹنے میں لگ گئے۔ وہ ہندی اخبار نوبھارت ٹائمز میں بھی رہے اور وہاں بھی اپنی حرکتیں جاری رکھیں مگر جب ان کے خلاف شکایتیں آنے لگیں تو استعفیٰ دے کر ’’بھاشا‘‘ جوائن کر لیا۔ جب نرسمہا راؤ کی سرکار بنی تو وہ انھوں نے دعوے کئے کہ وہ وزیر اعظم سے بہت قریب ہیں اور کسی کا بھی کچھ کرا سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ نرسمہا راؤ دوپہر کے وقت لنچ کے بعد ان کے ساتھ تاش کھیلتے ہیں۔ وہ آج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس وقت ڈپٹی پی ایم جانے جاتے تھے۔ ویدک کی حرکتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مایاوتی یوپی کی ویزر اعلیٰ ہوئیں تو انھوں نے ایسے صحافیوں کی فہرست جاری کی جو ملائم سنگھ کی سرکار سے پیسے پاتے تھے، اس میں ویدک کا نام بھی شامل تھا۔ ملائم سنگھ کی سرکار نے ان کی تنظیم کو بیس لاکھ روپئے دیئے تھے۔ وہ کتنی جلد رنگ بدل دیتے ہیںا س کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیر اعظم ہوئے تو وہ ان کے قریب ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔ انھوں نے اس بات کی کوشش بھی شروع کر دی کہ وہ وزیر اعظم کے مشیروں میں شامل ہو جائیں مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ وہ خود کو سیاست کا بڑا جانکار اور خارجہ پالیسی کا ماہر بھی بتاتے ہیں۔ ان کے مضامین میں بھی ان کی سیاست جھلکتی ہے اور وہ جس اخبار کے لئے بھی لکھتے ہیں اس کی پالیسی کے مطابق اپنی تحریر کی پالیسی بھی بدلتے رہتے ہیں۔ وہ مختلف سماجی جماعتوں کی مٹینگوں اور ریلیوں میں بھی شریک ہوتے رہتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنی زبان بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ وہ بابا رام دیو کے قریبی ہیں اور ان کے پروگراموں میں ان کی لائن پر بولتے ہیں جب کہ مسلمانوں کے پروگرام میں جاتے ہیں تو ان جیسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ان کا اب تک کار ویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک جگاڑ باز قسم کے نیم صحافی ہیں جو صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔

ویدک کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

اس وقت وید پرتاب ویدک کے حوالے سے یہ سوال بھی اہم ہو گیا ہے کہ کیا ایک صحافی کسی سے بھی ملاقات کر سکتا ہے یا اس کے لئے کوئی حد مقرر ہے؟ یہاں ہم اپنے قارئین کو یاد دلادیں کہ خالصتان کے لیڈر جگجیت سنگھ چوہان سے کسی زمانے میں مدیر نئی دنیا شاہد صدیقی نے لندن میں ملاقات کی تھی اور ایک انٹرویو کیا تھا۔ یہ انٹرویو ’’نئی دنیا‘‘ میں شائع بھی ہوا تھا مگر اسے جرم مانتے ہوئے مرکزی سرکار نے ان پر ٹاڈا لگا دیا تھا ور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا۔ کسی صھافی کا اگر کسی انتہاپسند سے ملنا جرم ہے تو ویدک کو بھی گرفتار کیا جانا چاہئے اور انھیں جیل میں ڈالنا چاہئے۔ حالانکہ ان کی حافظ سعید سے ملاقات زیادہ معنیٰ خیز ہے۔ ان کی ملاقات ایک صحافی کے طور پر نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ جس حیثیت سے ملے وہ ایک سرکاری نمائندہ کی حیثیت تھی۔ بی جے پی اور مرکزی سرکار کی طرف سے بار بار اس بات کی تردید کی جا رہی ہے کہ وہ سرکاری نمائندہ کے طور پر حافظ سعید سے ملے تھے، البتہ خود ویدک نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ نمائندہ کے طور پر ملے تھے، مگر جب ہنگامہ بڑھتے دیکھا تو کہہ دیا کہ وہ ایک صحافی کے طور پر ملے تھے۔ سوال اسی کے ساتھ یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ ایک جرنلسٹ کی حییثت سے ملنے گئے تھے تو انھوں نے اس انٹرویو کو کیمرہ بند کرنے کا انتظام کیوں نہیں کیا تھا؟ انھوں نے اسے ٹیپ میں بھی رکارڈ نہیں کیا اور نہ ہی کسی چینل یا اخبار میں یہ انٹریو چھپا تھا، تو وہ کس کے لئے انٹرویو کر رہے تھے؟ اس معاملے کو لے کر مودی سرکار کھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ اس کی طرف سے اس بات کی تردید تو کر دی گئی کہ اس نے ویدک کو بھیجا تھا مگر اب تک ان کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کی گئی، آخر کیوں؟ کیا وید پرتاب ویدک اگر وحیدالدین ہوتے تو ایسا ہی کیا جاتا؟ سرکار تو سرکار خود پولس کی طرف سے بھی ایسے مسلمانوں کے خلاف سخت کار روائی ہوتی ہے اور تفتیش کی جاتی ہے جن کے نمبر پر پاکستان سے کوئی فون آ جائے مگر ویدک کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کی ا جاتی کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اب جب کہ میڈیا نے اس معاملے کو خوب اچھالا ہے اور سرکار سنسد سے سڑک تک گھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے تو خانہ پری کی کوشش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان سے مرکز کے تحت چلنے والی جانچ ایجنسی این آئی اے پوچھ تاچھ کرے گی۔ خرابیٗ بسیار کے بعد اس قدم کو خانہ پری کی کار روائی سمجھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مرکزی سرکار کے اشارے پر ملنے نہیں گئے تھے تو ان کے خلاف کار روائی میں پس و پیش کیوں؟

جانچ کب ہو گی؟

وید پرتاپ ویدک کے معاملے پر سرکار اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ ان سے قریب ہیں۔ کانگریس کے حلقے سے کہا گیا کہ وہ آر ایس ایس کے آدمی ہیں تو دوسری طرف ویدک نے خود کہا کہ وہ بی جے پی کے مقابلے کانگریس سے زیادہ قریب رہے ہیں۔ ادھر وزیر خارجہ سشما سوارج نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ویدک کے پاکستان دورے کی خبر وہاں کے سفارت خانے کو نہیں تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ پندرہ دن پہلے ایک خیر سگالی وفد کے ساتھ پاکستان گئے تھے جس کی قیادت سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایئر کر رہے تھے۔ اس وفد میں سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی تھے۔ وفد کے باقی ارکان تو واپس آ گئے تھے مگر ویدک وہیں رہ گئے اور وہاں کی اہم شخصیات سے ملاقات کر رہے تھے۔ ویدک خود کہتے ہیں کہ انھوں نے حافظ سعید سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ نریندر ودی اچھے آدمی ہیں اور وہ مسلم مخالف بالکل نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ایک لفظ بھی مسلمانوں کے خلاف نہیں بولا۔ ویدک نے ایک طرف مودی کی تعریف کی تو دوسری طرف حافظ سعید کو ’’مجاہد اول‘‘ کا لقب بھی دے کر آئے۔ ان کی اسی قسم کی باتوں نے شک و شبہ پیدا کیا ہے اور ہر طرف سے الگ الگ طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں کہی جا رہی ہیں مگر سچائی تب ہی سامنے آئے گی جب کسی آزاد طریقے سے اس کی جانچ کی جائے۔ مرکزی سرکار اگر اس پورے معاملے کی جانچ کرائے تو عوام کو بھی اطمینان ہو گا۔

 

 

 

 

یہ بھاجپا کی نہیں ہندوؤں کی جیت ہے،

 

سنگھل کے فرمان پر کیوں سانپ سونگھ گیا بھاجپا کو؟

کیا مودی میں ہمت ہے سنگھل سے ٹکرانے کی؟

 

ہندتو کے ناگ نے پھر پھن پھیلایا۔ بوڑھے ازدہے نے پھر زہر اگل کر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو مسموم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وشو ہند وپریشد کے بین الاقوامی کنوینر اشوک سنگھل نے ایک بار پھر منہ کھولا ہے اور اگر وہ منہ کھولیں تو کوئی محبت کی بات تو نکلنے سے رہی۔ ظاہر ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف زہر ہی اگلیں گے سو انھوں نے کیا۔ سنگھل نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو کاشی، متھرا اور ایودھیا کی مسجدوں سے اپنا دعویٰ چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ اس ملک میں اب مسلم سیاست ناکام ہو چکی ہے اور ہندوؤں نے جیت حاصل کر لی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر وہ ان مسجدوں سے اپنا دعویٰ ختم کر لیں گے تو ہم انھیں پیار دیں گے اور دوسری مسجدوں پر دعوے نہیں کریں گے ورنہ ان سبھی مسجدوں کو مندر بنانے کا مطالبہ کریں گے جو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ انھوں نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کو ہندوؤں کی کامیابی سے تعبیر کیا اور مسلمانوں کو دھمکی دے ڈالی کہ وہ ہندوؤں کے جذبات کا حترام کرنا سیکھ لیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو زیادہ دن تک اپنے وجود کو بچا نہیں پائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اب مسلمانوں کو یونیفارم سول کوڈ قبول کرنا ہو گا اور دفعہ ۳۷۰ میں ترمیم کی بات قبول کرنی ہو گی۔ سنگھل نے مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ملک کا سیاسی ماحول تبدیل کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کے بغیر بھی جیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ اسے ہندوؤں کے اتحاد سے تعبیر کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ نریندر مودی وہ کام کریں گے جو اب تک این ڈی اے کی سرکار نہیں کر پائی ہے۔ ان کا اشارہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ، اجودھیا میں بابریمسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر اور دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کی طرف تھا۔ سنگھل کے اس بیان کی جہاں تمام سیاسی پارٹیوں نے مذمت کی ہے وہیں بی جے پی نے اس کا دفاع کیا ہے۔

کیا سنگھل کے بیان سے متفق ہیں مودی؟

اشوک سنگھل کے بیان کے بعد کئی طرح کے سولات اٹھ رہے ہیں۔ اب پوچھا جا رہا ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں؟ بی جے پی کا اصل نظریہ کونسا ہے جو جو مودی کہہ رہے ہیں وہ یا جو سنگھل کے بہیان سے سامنے آ رہا ہے وہ؟ کیا مودی جو الیکشن کے دوران مسلمانوں کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کہتے تھے وہ سب محض فریب تھا اور جو کچھ انھوں نے پارلیمنٹ کے اندر کہا کہ وہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کام کریں گے اور انھیں مساوی مواقع دیں گے، یہ سب بہلاوا تھا؟ وی ایچ پی لیڈر کے بیان کو ہم ایک ۸۰ سالہ بڈھے کی سٹھیائی ہوئی عقل کا فطور سمجھ کر نظر انداز کر سکتے تھے اگر اس بیان کی حمایت اور دفاع میں خود بی جے پی اور شیو سینا کے لوگ نہ آتے مگر ان لوگوں نے اس کی حمایت کر کے ظاہر کر دیا کہ کچھ نہ کچھ پردہ زنگاری میں ضرور ہے۔ بی جے پی کے ایک اہم لیڈر ونے کٹیار نے کہا ہے کہ سنگھل نے کچھ بھی غلط نہیں کہا ہے۔ وہیں اس کے ممبر پارلیمنٹ مختار عباس نقوی نے بھی اس بیان کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اشوک سنگھل نے نام نہاد سیکولر رہنماؤں کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے جو سیکولرازم کو اپنی سیاسی بیساکھی بناتے ہیں۔ اس بیان پر شیو سینا نے بھی مثبت رتد عمل ظاہر کیا ہے جو این ڈی اے میں شریک جماعت ہے۔ اس کے ترجمان سنجے راوت کا کہنا تھا کہ ان کا بیان قومی احساس کو ظاہر کرتا ہے۔

سنگھل کی خواہش پوری کریں گے مودی؟

اشوک سنگھل وشو ہندو پریشد کے پرانے لیڈروں میں سے ہیں۔ وہ رام مندر تحریک سے جڑے رہے ہیں اور جب یہ تحریک زوروں پر تھی تو وہ اپنے اشتعال انگیز بیانات کے لئے جانے جاتے تھے۔ تب بابری مسجد کے انہدام اور پورے ملک میں اشتعال انگیزی کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں سنگھل کا بھی یوگ دان تھا۔ اسی کے نیتجے میں پورء ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جن میں ہزاروں افراد کی جانیں گئی تھیں۔ تب میڈیا بھی ان کے بیانات کو اہمیت دیتا تھا اور اور سرکار بھی انھیں اشتعال انگیزی کی چھوٹ دیتی تھی۔ وہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر زہر اگلتے تھے اور ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو مسموم کرنے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد اجھودیھیا ایشو کی ہو انکل گئی ارو اس قسم کے لیڈروں کے بیانات کو میڈیا نے بھی جگہ دینا بند کر دیا۔ اب اچانک میڈیا کا ان کی جانب توجہ کرنا اور ان کے اشتعال انگیز بیان کو قومی سطح پر لانا اپنے آپ میں کئی سوال کھڑے کرتا ہے مگر سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ سنگھ پریوار کا ایک سپہ سالار جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے پیچھے وزیر اعظم نریندر مودی کی مرضی کس قدر شامل ہے؟ کیا مودی واقعی ملک کے اندر کامن سول کوڈ لائیں گے؟ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کرائیں گے اور دفعہ ۳۷۰ کا خاتمہ کرائیں گے؟ حالانکہ یہ تمام کام اتنے آسان بھی نہیں ہوں گے مگر اس وقت جو ملک کے حالات ہیں ان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ مودی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اہل ملک کی ان خواہشات کو پوری کریں اور ان کے سپنوں کو تعبیر بخشیں جو انھوں نے الیکشن کے دوران دکھائے تھے۔ ایسے میں ملک کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس قسم کے مسائل کا سہارالیا جائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ ویسے اشوک اسنگھل کی نظر میں یہ متنازعہ مسائل ہی ملک کے سب سے بڑے اور اہم مسائل ہو سکتے ہیں مگر عوام نے جو مودی کو ووٹ دیا تھا وہ کانگریس کی دس سال کی ناقص حکمرانی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ انھوں نے مہنگائی، کرپشن اور غربت کے خاتمے کے لئے ووٹ دیا تھا۔ اب ایسے میں وہ ان مسائل کی طرف توجہ دینے کے بجائے رام مندر اور کامن سول کوڈ کی طرف توجہ دیں گے تو وہی ووٹر انھیں سرکار سے باہر بھی اٹھا کر پھینک دیں گے۔ عوام کو پیٹ بھرنے کے لئے چاول اور روٹی چاہئے نہ کہ رام مندر اور کامن سول کوڈ۔ سنگھل کے بیان پر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر راجیو شکلا کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ اشوک سنگھل کے بیان سے نریندر مودی متفق ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ سنگھلا سقسم کی سیاست شروع سے کرتے رہے ہیں اور ان کی سیاسی بنیاد بھی یہی ہے۔ اسی طرح این سی پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر طارق انور کا کہنا تھا کہ بھارت منفرد ملک ہے یہاں اکثریت کو اقلیتی طبقے سے ڈرانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت سے ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں۔

اشوک سنگھل کے بیان کی میڈیا میں مذمت کی گئی اور ملک کے اہل حل و عقد نے اس کی حمایت سے گریز کیا مگر بی جے پی کی طرٖف سے اس کا بچاؤ کیا گیا۔ مشہور انگریزی ٹی وی چینل ’ٹائمز ناؤ ‘ نے ارنب گوسوامی کی میزبانی میں ایک مباحثے کا پروگرام رکھا جس میں بی جے پی کے ترجمان نرسمہاراؤ نے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے سنگھل کا دفاع بھی کیا مگر مدیر ’’نئی دنیا‘‘ شاہد صدیقی نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے خلاف بھی ہے۔ ان کے مطابق یہ ملک صوفی سنتوں کا ہے جو ساری دنیا کو محبت، اخوت اور بھائی چارہ کا پیغام دیتے رہے ہیں اور یہاں اس قسم کی نفرت انگیز باتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

سنگھل کا منہ بند کراؤ

نریندر مودی جب وزیر اعظم ہوئے تو ان کے بارے میں ملک کے عوام کو یقین تھا کہ وہ وشو یندو پریشد، بجرنگ دل اور اس قسم کی فرقہ پرست جماعتوں کو کنٹرول کریں گے کیونکہ انھوں نے گجرات میں یہی سب کچھ کیا تھا۔ وہ جب گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوئے تھے تو ان تنظیموں کے رضاروں کو ایک پنجرے میں بند کرنے کا کام کیا تھا۔ یہ لوگ ملک کے دوسرے حصوں میں اشتعال انگیزی کر سکتے تھے مگر گجرات میں نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں تک کہ پروین توگڑیا جو کہ خود گجرات کا رہنے والا ہے وہ بھی گجرات میں منہ کھولنے کی ہمت نہیں کر سکتا ایسے میں اشوک سنگھل جیسے لوگوں کا منہ کھولنا مودی کے لئے کوئی نیک فال نہیں ہے۔ اگر انھوں نے اس قسم کے لوگوں کی زبان بند نہ کرائی تو یہ لوگ دوسروں سے زیادہ ان کے لئے بھی مسائل کھڑے کریں گے۔ اب یہ سوال بھی اہم ہے کہ جو ہندتو وادی لیڈر آج اشتعال انگیزی کرتے پھر رہے ہیں وہ مودی کو فائدہ پہنچارہے ہیں یا نقصان پہچانے کا کام کر رہے ہیں؟ مودی کہتے ہیں کہ وہ آئین کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے اور ان کی نظر میں بھارت کے تمام شہری برابر ہیں خواہ وہ کسی بھی مذۃب کے ماننے والے ہوں مگر دوسری طرف اشوک سنگھل جیسے لوگ اقلتیوں کو دھمکیاں دیتے پھر رہے ہیں جوا سملک کے لئے اچھی علامت نہیں کہی جا سکتی ہے اور نہ ہی مودی کی حکمرانی کے لئے۔ مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انھوں نے سرکاری زمینوں اور سڑکوں پر بنے ہوئے ہزاروں غیر قانونی مندروں کو زمیں بوس کرادیا تھا تب وشو ہندو پریشد اور آر آیس ایس کے کسی لیڈر کی ہمت نہیں پڑی تھی کہ ان کے خلاف کوئی ہنگامہ کر سکے یا آواز بھی بلند کر سکے مگر آج اشوک سنگھل جیسے لیڈروں کی آواز بلند ہونے لگی ہے جو خود مودی کے حق میں بھی مفید نہیں ہے۔

 

 

 

 

ہندوستانی پولس ’’مسلم مخالف‘‘

 

آخر یہ سچ پہلی بار پولس نے بھی قبول کیا جو دنیا جانتی ہے

 

جی ہاں! اب ہندوستانی پولس نے بھی قبول کر لیا ہے کہ وہ مسلم مخالف ہے اور ہر موقع پر اس کا رویہ مسلم مخالف ہوتا ہے۔ خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات کی حالت میں وہ پوری طرح ہندو بن جاتی ہے اور مسلمانوں کا نہ صرف قتل عام کرتی ہے بلکہ انھیں گرفتار کرنے اور مظالم ڈھانے کا بھی کام کرتی ہے۔ پولس نے یہ بھی قبول کر لیا ہے کہ پولس کوئی سیکولر فورس نہیں ہے بلکہ اس کے جوان پوری طرح ہندو ہیں اور وہ اپنے ساتھ دیوی دیوتاؤں کی تصویریں، مورتیاں وغیرہ لے کر چلتے ہیں اور پوس اسٹیشنوں میں بھی مندر بنائے جاتے ہیں۔ پولس نے یہ بھی مانا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی کمی ہے اور اس کمی کے سبب بھی مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا جس کے سبب وہ پولس فورس پر یقین نہیں کرتے۔ ان باتوں کو خود پولس نے ایک رپورٹ میں تسلیم کیا ہے جو اس کے حالات پر نظر ڈالنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ ایک طویل سروے اور غور و فکر کے بعد خود پولس افسران نے ہی تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے کی ذمہ داری تین پولس سربرا ہوں کو دی گئی تھی جن میں ایک مہاراشٹر کے ڈی جی پی سنجیو دیال، دوسرے اتر پردیش کے ڈی جی پی دیوراج ناگر اور تیسرے تمل ناڈو کے ڈی جی پی، رامانج ہیں۔ ان تینوں اعلیٰ پولس افسران نے طویل تحقیق اور سروے کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں ایمانداری سے قبول کیا گیا ہے پولس مسلم مخالف ہیں جس کا احساس مسلمانوں کو بخوبی ہے اور یہی سبب ہے وہ اس پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ یوں تو اس جائزے کا مقصد تمام اقلیتوں کا پولس کے تئیں نظریہ معلوم کرنا تھا مگر اس میں زور دیا گیا ہے مسلمانوں کے بارے میں ہی، کیونکہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ اس کمیٹی نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ پولس کے اندر تبدیلی کی ضرورت ہے اور اسے انصاف پسند بنایا جانا چاہئے۔ پولس میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی۔

فسادات کی تاریخ اور پولس کا رویہ

بھارت میں مسلم کش فسادات کی ایک تاریخ رہی ہے۔ اس کی ابتدا تو آزادی سے قبل ہی ہو گئی تھی مگر تب انگریز حکمراں تھے اور ان فسادات پر جلد ہی کنٹرول پا لیا جاتا تھا مگر آزادی کے بعد اس میں اضافہ ہوا اور اب تک ایسے فسادات کی تعدادا کیاون ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جن میں عموماً مسلمان ہی قتل کئے گئے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے ساتھ ہی خوفناک فسادات شروع ہو گئے تھے اور ہر طرف افراتفری تھی۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے اس قسم کے فسادات کا سلسلہ چلتا رہا مگر پولس نے ہر بار غیر ذمہ دار اور مسلم مخالف ہونے کا ثبوت دیا جس کے سبب مسلمانوں کا اس کے اوپر سے اعتماد ختم ہو گیا۔ مذکورہ رپورٹ میں خود پولس نے قبول کیا ہے کہ جب رام مندر تحریک چلی اور بابری مسجد کے بہانے مسلمانوں کے خلاف فسادات شروع ہوئے تو پولس نے خود کو ہندتو وادی بنا لیا تھا۔ اس نے انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے بجائے ہندوؤں کا ساتھ دیا۔ یہ پولس ہی تھی جس نے فسادات میں مسلمانوں کی شکایتوں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ کئی بار وہ خود قاتلوں کے کردار میں نظر آئی۔ قارئین کے حافظے میں تازہ کرتے چلیں کہ میرٹھ کے مسلم مخالف فسادات ہوں یا بھاگلپور کا قتل عام ہر جگہ پولس کا رویہ ایک جیسا ہی دیکھنے کو ملا۔ میرٹھ میں تو پی اے سی کے جوانوں نے مسلم نوجوانوں کو گھر سے اٹھا لیا تھا اور ٹرک میں بھر کر گنگ نہر کے قریب لے گئے اور گولیاں مار دیں۔ آسام میں مسلمانوں کے قتل عام کا ایک دور چلتا رہا ہے اور یہاں بھی ہر بار ہولس نے مسلمانوں کے قاتلوں کے تحفظ کا کام کیا ہے۔ ملک میں کہیں کوئی چھوٹا فساد ہو یا بڑا مگر پولس کا رول یکساں رہا ہے۔ وہ انصاف کے بجائے قاتلوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے اور ان باتوں کا اعتراف اس رپورٹ کے اندر کیا گیا ہے جو پولس کے ہی اعلیٰ افسران نے تیار کی ہے۔ اس میں گجرات فسادات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور دوسرے کئی واقعات کا ذکر ہے جو پولس کے مسلم مخالف رویہ کو ظاہر کرتے ہیں۔

پولس اسٹیشنوں میں مندر

بھارت کی پولس فورس اصل میں ہندو پولس فورس ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے افراد پوری طرح خود کو ہندو بنائے رکھتے ہیں۔ بھارت کے کسی بھی پولس اسٹیشن میں آپ پہنچ جائیں آپ کو مندر ضرور مل جائے گا اور یہاں مورتیاں بھی مل جائیں گی جو تھانے کے کمروں میں لگی ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال آپ راجدھانی دہلی کے خالص مسلم علاقے جامعہ نگر پولس اسٹیشن میں آ کر دیکھ سکتے ہیں۔ تھانے کے احاطے میں ایک مندر قائم ہے، جو یقیناً پولس جوانوں نے ہی تعمیر کی ہے۔ آپ نے کسی پولس استیشن میں مسجد نہیں دیکھا ہو گا بلکہ اگر کوئی پرانی مسجد موجود بھی ہو گی تو اسے منہدم کر دیا جائے گا مگر مندر آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔ انتہا یہ ہے مغربی بنگال میں جن کمیونسٹ سرکار تھی تب بھی ان مندروں کو یونیہی قائم رکھا گیا اور آج تک قائم ہیں۔ حالانکہ کمیونسٹ مذہب کے معاملے میں اس قدر سخت تھے کہ وہ ویران مسجدوں کو آباد کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے اور مدرسوں کو ملک کے سیکولر سسٹم کے خلاف مانتے تھے لہٰذا انھیں منظوری نہیں دیتے تھے۔ باوجود اس کے انھیں ان مندروں پر کوئی اعتراض نہ تھا جو پولس اسٹیشنوں میں قائم تھے اور ان مورتیوں سے بھی کوئی بیر نہ تھا جو تمام تھانوں کے کمروں میں رکھی ہوئی تھیں۔ اس قسم کی باتوں کا بھی اعتراف اس رپورٹ میں کیا گیا ہے اور اسے علامتی طور پر پولس کے فرقہ پرست ہونے کی دلیل مانی گئی ہے۔

عید الاضحی کے بہانے

عید الاضحی کے موقع پر مسلمان جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں اور اس کے لئے دور دور سے جانور لائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں جانوروں کی آمد ہوتی ہے اور عام طور پر یہ فرقہ پرست تنظیموں کے لئے اشتعال انگیزی کا وقت بھی ہوتا ہے۔ جانوروں کی قربانی کو بہانہ بنا کر وہ طرح طرح سے ماحول بگاڑنے کا کام کرتی ہیں۔ حالانکہ قانونی طور پر مسلمان اپنے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے آزاد ہیں اور کوئی قانون انھیں قربانی سے نہیں روکتا ہے۔ البتہ بعض ریاستوں میں گؤ کشی پر پابندی ہے مگر کہیں بھی جانوروں کے لانے اور لے جانے پر پابندی نہیں ہے مگر ہندتو وادی جماعتیں مسلمانوں کو پریشان کرتی ہیں اور اس کام میں پولس بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔ حالانکہ ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں گائے گوشت کے تمام بڑے اکسپورٹر ہندو ہیں اور مسلمان ان کی کمپنیوں میں صرف نچلے عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف خود وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن سے قبل کیا تھا۔ ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کی جاتی۔ نہ فرقہ پرست جماعتیں کچھ کہتی ہیں اور نہ ہی پولس کچھ کوئی کار روائی کرتی ہے مگر مسلمانوں کے تہوار کو نشانہ ضرور بنای جاتا ہے۔ یہ کام ہرسال کیا جاتا ہے اور اس بات کا ذکر اس رپورٹ کے اندر بھی ملتا ہے۔

مشورے اور سفارشیں

اعلیٰ پولس افسران کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں پولس کو سیکولر اور انصاف پسند بنانے کے لئے کئی مشورے دیئے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر پولس کو درست کیا گیاتب ہی اس پر تمام طبقات بھروسہ کر پائیں گے۔ اس میں سب سے اہم مشورہ یہ ہے کہ پولس میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے لہٰذا ان کی تعداد بڑھائی جائے۔ ایسا کیا گیا تو مسلمانوں کا اعتماد قائم ہو سکتا ہے۔ پولس کی تربیت کا مشورہ بھی دیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر تبدیلی کی سفارش کی گئی ہے۔ ان تمام مشوروں اور سفارشوں کے پیش نظر ہم قارئین کو بتانا چاہیں گے کی اس قسم کے مشورے اور سفارشات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ گجرات میں جب کانگریس کی سرکار تھی اور چمن بھائی پٹیل وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے تو فسادات کا ایک دور چلا تھا۔ اس دوارن مرکز میں چندر شیکھر کی سرکار تھی۔ تب کانگریس کے لیڈر کی حیثیت سے راجیو گاندھی نے مدیر ’’نئی دنیا‘‘ شاہد صدیقی کو گجرات بھیجا تھا تاکہ جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔ شاہد صدیقی نے فسادات کا جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ دی تھی جس میں پہلی بار ریپیڈ ایکشن فورس کا آئیڈیا دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ راجیو گاندھی نے اس وقت کے وزیر اعظم چندر شیکھر کو پیش کر دی تھی مگر یہ سرکار زیادہ دن نہیں چلی اور راجیو گاندھی کی موت کے بعد کانگریس کی سرکار آئی جس کے سربراہ پی وی نرسمہا راؤ تھے۔ انھوں نے ریپیڈ ایکشن فورس قائم تو کیا مگر اس کے لئے جو مشورے دیئے گئے تھے ان کا دھیان نہیں رکھا۔ مشورہ یہ بھی تھا کہ اس میں سبھی فرقوں کو نمائندگی دی جائے اور اس کی تربیت سیکولر خطوط پر کی جائے اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ یہ فساد شکن فورس اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہوئی ہے۔ اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت سے قبل اسے بھیجا گیا تھا مگر تب کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے اسے اجودھیا میں تب تک داخل نہ ہونے دیا جب تک کہ مسجد شہد نہ ہو گئی۔ ظاہر ہے مسئلہ صرف پولس فورس کا نہیں بلکہ حکومتوں کی نیت کا بھی ہے۔ جب مسئلہ ہر سطح پر ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی نیت بھی نہیں ہے تو وہ ٹھیک کیسے ہو گا۔ آج یہ رپورٹ آئی ہے اسے بھی سرد بستے میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ سرکار کی نیت بھی کچھ کرنے کی نہیں ہے۔

 

 

 

 

 

دینی مدرسوں کے پیچھے تجدید کاری کا بھوت

 

مدارس کے ذمہ دار ہی کیوں نہیں کرتے نصابِ تعلیم میں اصلاح؟

 

دینی مدرسوں کے نصاب تعلیم میں کیا واقعی اصلاح کی ضرورت ہے؟ یہ مدرسے جدید دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ہیں؟ مدرسوں کے تعلیم یافتہ لوگ کیا دور جدید کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں؟ کیا مدرسوں کا نصاب تعلیم پانچ سو سال پرانا ہے اور اس کے اندر یہ صلاحیت نہیں کہ عہد حاضر کی ضرورتوں کو پورا کر سکے؟ کیا ان مدرسوں کے فارغین اس لائق نہیں ہوتے کہ وہ دینی مسائل کو عہد حاضرکے تقاضوں کے مطابق سمجھ سکیں، لہٰذا وہ مفتی کا کام بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتے؟ وہ صرف مسجدوں میں امامت کرنے اور قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کے لائق ہی رہتے ہیں؟ یہ سوالات اپنی جگہ پر مگر اس سے پہلے ضرورت ہے مدرسوں کے نصاب تعلیم اور ان کے مقاصد کو سمجھنے کی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مدرسوں کے بارے میں عوام میں غلط فہمیاں ہیں اور خود مسلمان بھی ان غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں؟ حکومت بھی غلط فہمی کی شکار ہے، لہذا وہ بھی مسلسل تجدید کاری کی بات کرتی رہتی ہے، جبکہ مدرسوں کے ذمہ داران سرکاری مداخلت کے نام سے ہی خوفزدہ رہتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو مدرسوں کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا اور ان کی حالت بھی سرکاری اسکولوں جیسی ہو جائے گی جہاں تعلیم کے بجائے وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس لئے مدرسوں کے سسٹم اور مقصد کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

کہاں سے پورے ہوتے ہیں مدرسوں کے اخراجات؟

بھارت میں آج اگر اسلامی تعلیم باقی ہے اور مسجدوں کا وجو دق ائم ہے تو اس کا سہرا دینی مدرسوں کو جاتا ہے جو بے حد خلوص سے دین کے پاسبان پیدا کر رہے ہیں۔ ان مدرسوں کے ذمہ داران بڑی محنت اور مشقت سے مدرسوں کے خراجات پورے کرتے ہیں جو عام طور پر غریب اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کے چندے سے جمع ہوتے ہیں۔ شہری مسلمان اگر رقم دیتے ہیں تو آج بھی دیہی علاقوں کے مسلمان اناج دیتے ہیں اور زمین وغیرہ کے ٹکڑے مدرسوں میں وقف کرتے ہیں تاکہ اس کی آمدنی سے طلباء کی کفالت ہو سکے۔ سبھی مدرسے کسی نہ کسی مسلک یا مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنی آمدنی کا ذریعہ بھی اسی کے مطابق ڈھونڈ لیا ہے۔ مثلاً اہلِ سنت والجماعت(بریلوی) کے مدارس چندے کے لئے عام طور زکوٰۃ و خیرات پر انحصار کرتے ہیں تو اہل حدیث مدارس سعودی عربیہ سے آنے والے پیسے پر چلتے ہیں۔ دیوبندی مکتب فکر کے مدرسوں کا ذریعہ آمدنی عام طور پر چندہ ہوتا ہے مگر بعض مدارس کی پہنچ سعودی عرب تک ہو گئی ہے اور وہاں سے رقم مل جاتی ہے۔ شیعہ مدرسوں کا خرچ شیعوں کے بیچ چندے سے چلتا ہے اور بعض اہل مدارس ایران سے بھی پیسے لاتے ہیں۔

بہار اور اتر پردیش سمیت ملک کے کئی حصوں میں ایسے مدرسے ہیں جنھیں سرکاری منظوری ملی ہوئی ہے اور مدرسین کی تنخواہیں سرکار کی طرف سے آ جاتی ہے۔ ان مدرسوں کو ایک بڑی سہولت حاصل ہے۔ ان مدرسوں میں سرکار کی طرف سے چلنے والی ’’مڈڈے میل اسکیم‘‘ بھی لاگو ہوتی ہے لہٰذا دوپہر کے کھانے کا انتظام سرکار کی طرف سے ہو جاتا ہے۔ انھیں چندے کی ضرورت صرف اپنی عمارت کی تعمیر کے لئے پڑتی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ایسے مدارس بھی ہیں جو سرکار سے مدد لینا پسند نہیں کرتے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو سرکار کی پالیسی اور دباؤ کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ ان میں وہ مدرسے سب سے پیش پیش ہیں جن کے ذمہ داران جماعت اسلامی ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔

دینی مدارس کا نصاب تعلیم

جس طرح ملک میں چلنے والے مدرسوں کا مسلک الگ الگ ہے اور آمدنی کے ذرائع بھی کچھ الگ ہیں اسی طرح ان مدرسوں کا نصاب تعلیم بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ دیوبندی اور بریلوی مدرسوں کے نصاب تعلیم میں بہت زیادہ مناسبت ہے کیونکہ دونوں درس نظامیہ کی تعلیم دیتے ہیں اوردونوں کی فقہی کتابیں بھی ایک ہیں کیونکہ دونوں ہی خودکو حنفی قرار دیتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہ نصاب تعلیم تقریباً تین سو سال قبل ملا نظام الدین نامی ایک ماہر تعلیم نے اس وقت کی ضرورتوں کے مطابق ترتیب دیا تھا۔ اس میں دونوں نے بہت معمولی بدلاؤ کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ۱۸۸۶ء میں اس نصاب کو لاگو کیا تھا اور اس کے بعد سے تمام دیوبندی مدرسوں میں یہ رائج ہو گیا۔ بریلوی مدرسوں میں یونانی فقہ اور منطق پر آج بھی زور دیا جاتا ہے جس کی ضرورت نہ دنیا میں کسی کو پڑتی ہے اورنہ آخرت میں مگر پڑھانے والوں نے یہی پڑھا ہے، اس کے علاوہ کچھ اور پڑھانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ جس علم کو خود یونان نے ہزاروں سال پہلے چھوڑ دیا تھا اسے یہ ڈھو رہے ہیں۔ اہل حدیث مدرسوں میں حدیث کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ فن اسماء الرجال کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ یہاں کسی خاص مسلک کی فقہ کی کتابیں پڑھانے کے بجائے سیدھے طور پر احادیث سے استفادہ کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان سبھی مدرسوں میں جو بات یکسانیت رکھتی ہے وہ یہ کہ تفسیر قرآن اور حدیث کی چھ سب سے معتبر کتابیں جنھیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے پڑھائی جاتی ہیں، البتہ سبھی مدرسین قرآن و احادیث کی تشریح اپنے مسلک کے مطابق کرتے ہیں۔ شیعہ مدارس میں جو نصاب چلتا ہے وہ سنی مدرسوں سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ یہاں فقہ جعفریہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور فارسی زبان پر خاص طور پر توجہ دی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کتابوں پر زور دیا جاتا ہے جو اہل بیت اطہار کی محبت کو دل میں راسخ کرتی ہوں۔ سنی مدرسوں کی طرح یہاں بھی قرآن کی تعلیم سب سے بنیادی ہوتی ہے۔

مدرسوں کا مقصد اور کارنامے

دینی مدرسوں میں آج کل انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم لازمی ہے اور ایسا مدرسہ نہیں مل سکتا جہاں ان کی تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ خاص طور پر جماعت اسلامی ہند سے تعلق رکھنے والے مدرسوں نے اپنے نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلی کی ہے اور ان سبھی موضوعات کو اپنے نصاب میں شامل کیا ہے جن کی عہد حاضر میں ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ وہ فقہ حنفی پر بہت زور نہیں دیتے، لہٰذا اہل حدیث طلباء بھی یہاں داخلہ لینے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ندوۃ العلماء (لکھنو)بھی ایسا مدرسہ ہے جہاں سبھی مسلک کے طلباء داخلہ لیتے ہیں۔ حکومت ہند بھی ان مدرسوں کی سند کو تسلیم کرتی ہے اور فراغت کے بعد یہ طلباء کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ ان مدرسوں کے فارغین میں سے بعض ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، بزنس میں اور اعلیٰ سرکاری افسر بھی ہوئے ہیں۔ وہ کئی یونیور سیٹیوں اور کالجوں میں لکچرر بھی ہیں۔ مگر اس کا انحصار ہوتا ہے مدرسوں سے فراغت کے بعد ان کی محنت اور صلاحیت پر۔ مدرسوں کے نصاب تعلیم میں زور دیا جاتا ہے دینی تعلیم پر، تاکہ طالبعلم ایک اچھا انسان بنے اور اسلامی تعلیم و ثقافت کا محافظ ہو۔ اس نصاب کا مقصد کہیں بھی مادی دولت کا حصول اور اعلیٰ دنیاوی عہدوں کی طلب نہیں ہوتی ہے۔ اسی لئے عام طور پر فارغین مدارس اعلیٰ دنیاوی عہدوں پر نہیں پہنچتے مگر اچھے انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کے اندر وہ اخلاقی خرابیاں نہیں دیکھی جاتیں جو دوسرے لوگوں میں عموماً پائی جاتی ہیں۔ شراب، جوا، سود جیسی خرابیوں سے وہ پاک ہوتے ہیں۔ انسانیت کے احترام کا جذبہ ان کے اندر ہوتا ہے۔ مدرسوں کے طلباء اور کالجوں کے طلباء میں بہت بڑا فرق اخلاقیات کا ہی ہوتا ہے۔ کالجوں میں آئے دن ہنگامے ہوتے ہیں اور سڑکیں جام کی جاتی ہیں اور توڑ پھوڑ جیسی خبریں آتی رہتی ہیں مگر مدرسوں کے طلباء کی جانب سے ایسی خبریں نہیں آتیں کیونکہ انھیں نظم و ضبط کی بہتر تعلیم دی جاتی ہے۔

مدرسوں کی تجدید کاری کا مسئلہ

سرکار کی طرف سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مدرسوں کی تجدید کاری کی ضرورت ہے۔ مدرسوں کو ماڈرن ہونا چاہئے اور وہاں سے بھی داکٹر، انجینئر نکلنے چاہیئیں۔ حالانکہ یہ بات ویسی ہے جیسے کوئی کالجوں اور یونیورسیٹیوں سے یہ مطالبہ کرے کہ وہاں سے عالم دین نکلنے چاہئیں۔ مدرسوں کا مقصد دینی تعلیم اور اسلامی ثقافت کی حفاظت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ البتہ اس میں کچھ اصلاح کی ضرورت ضرور ہے جس پر خود اہل مدارس کو ہی دھیان دینا چاہئے، سرکار کی جانب سے مداخلت شکوک و شبہات پیدا کرے گی۔ مدرسوں کو کالج اور اسکول بنانے کی کوشش کو مسلمان کبھی قبول نہیں کریں گے اور یہ مدرسوں کے مقصد وجود کے خلاف بھی ہے۔ ویسے اس سلسلے میں سرکار بھی کچھ خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔ سابقہ یو پی اے سرکار نے مدرسوں کی تجدید کاری کے لئے ۵۵۰ کروڑ روپئے اپنے بجٹ میں رکھے تھے جو کہیں خرچ نہیں کیا جاتا تھا، صرف دکھاوے کے لئے ہوتا تھا۔ موجودہ این ڈی اے سرکار نے اسے گھٹا کر صرف سو کروڑ کر دیا ہے۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سرکار اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پوری ریاست میں انگلش میڈیم مدرسے کھولیں گی اور انھوں نے اس کی ابتدا ضلع ندیا کے ایک گاؤں پانی نالہ سے کربھی دیا ہے۔ یہاں ایک انگلش میڈیم ہائی مدرسہ کھولا گیا ہے جہاں سی بی ایس سی نصاب تعلیم ہے اور الگ سے عربی کوایک زبان کے طور پر رکھا گیا ہے۔ یہاں نام کے سوا کچھ بھی مدرسہ والی بات نہیں ہے۔ بچے ہاف پینٹ اور بچیاں اسکرٹ میں مدرسہ آتی ہیں۔ طلباء وا ساتذہ میں بھی بڑی تعداد ہندوؤں کی ہے۔ اس سلسلے میں یہ بتا دینا مناسب ہو گا کہ اس قسم کے مدرسے مغربی بنگال میں پہلے سے ہی ہیں جہاں دینی تعلیم برائے نام ہوتی ہے اور تمام نصاب اسکولوں کا ہے۔ ان مدرسوں میں ایک آدھ ٹیچر ہی مسلمان ہوتے ہیں اور بیشتر طلبہ بھی غیر مسلم ہوتے ہیں۔ حالانکہ سابقہ کمیونسٹ سرکار کو یہ مدرسے بھی ہضم نہیں ہوئے اور اس نے ان میں سے بیشتر کے نام بھی مدرسہ سے بدل کر اسکول کر دیا۔

مدرسے اسلامی تعلیم و ثقافت کے داعی ہیں جب کہ حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ یہ تب ہی تک ٹھیک چلیں گے جب تک مخلص مسلمان اسے چلاتے رہیں گے۔ سرکاری مداخلت یقینی طور پر انھیں برباد کر دے گی اورا س بات کو مسلمان بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ حکومت کو اگر مسلمانوں کی تعلیم سے تھوڑی سی بھی دلچسپی ہے تو اسے سرکاری اسکولوں کی طرف توجہ دینا چاہئے جہاں ۹۷ فی صد مسلمان جاتے ہیں۔ مدرسوں میں تو صرف تین فی صد ہی مسلم بچے جاتے ہیں۔ ویسے مدرسوں میں اگر بدلاؤ کی ضرورت ہے تو خود اہل مدارس کو ہی عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق بدلاؤ کرنا چاہئے۔ ویسے عام مسلمان بھی مدرسوں کے تعلق سے غلط فہمی کا شکار ہیں انھیں بھی اپنی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے۔

 

 

 

 

 

کانگریس کے پٹے ہوئے مہروں کی راہل کے خلاف مورچہ بندی

 

ڈوبتی پارٹی کو پرینکا کا سہارا

 

لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد اب کانگریس میں بغاوت کی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ مہاراشٹر مین ارئن رانے کے ہاتھ میں بغاوت کا پرچم ہے تو آسام میں ہیمنت وشو سرما نے وزیر تعلیم کا عہدہ چھوڑ کر باغیوں کی قیادت شروع کر دی ہے۔ اِدھر ہریانہ میں ایک مضبوط جاٹ لیڈر چودھری ویریندر سنگھ نے پارلیمنٹ کے احاطے میں ہی میڈیا والوں سے ملاقات کر کے کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ پھوپیندر سنگھ ہڈا کی قیادت میں چناؤ نہیں لڑیں گے۔ انھیں خبروں کے بیچ مگربی بنگال سے خبر آئی کہ کانگریس کے تین ممبران اسمبلی نے ممتا بنرجی کی ایک ریلی میں شرکت کی اور ترنمول کانگریس میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ ابھی ان خبروں میں میڈیا لگا ہی ہوا تھا کہ جموں وکشمیر سے یہاں کے علاقائی لیڈر لال سنگھ کے بغاوت کی اطلاع بھی میڈیا میں آئی۔ یہ تمام خبریں کانگریس کی لئے اچھی نہیں تھیں کیونکہ بظاہر یہ علاقائی لیڈر شپ کے خلاف بغاوت کی خبریں تھیں مگر حقیقت میں ان کا تعلق راہل گاندھی کی قیادت میں پارٹی کی لوک سبھا انتخابات میں ہار سے تھا۔ جیسے جیسے پارٹی کے اوپر راہل کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے اس میں بغاوت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور راہل و سونیا کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا کریں؟ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی اب تو کانگریس کو اس کی اتحادی پارٹیوں نے بھی آنکھ دکھانا شروع کر دیا ہے اور جموں و کشمیر کی اتحادی جماعت نیشنل کانفرنس نے اعلان کر دیا ہے کہ اب اس کا کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں رہا۔ آئندہ ودھان سبھا الیکشن میں وہ تنہا میدان میں اترے گی، دوسری طرف مہاراشٹر کی نیشنلسٹ کانگریس نے بھی اکنگریس کا الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اگر اسے ودھان سبھا چناؤ میں زیادہ سیٹیں نہیں دی گئیں تو وہ تنہا چناؤ لر سکتی ہے۔ گویا کانگریس پر ہر چہار جانب سے دباؤ پڑ رہا ہے اور اس کا بنیادی سبب لوک سبھا الیکشن میں اس کی ہار ہے۔ پارٹی کے اندر بھی ما تھا پچی شروع ہو گئی کہ اس وقت کانگریس جس بھنور میں پھنسی ہوئی ہے وہاں سے اسے کیسے نکالا جائے؟

مہاراشٹر کا سنکٹ

مہاراشٹر کا سنکٹ کانگریس کے لئے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہاں اکتوبر میں چناؤ ہونے والے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کی شکست سے ابھی وہ باہر آنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور الیکشن سے قبل کوئی خوفزدہ سرکار جو ریوڑیاں بانٹ سکتی ہے، وہ بھی بانٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف مراٹھا ریزرویشن کا اعلان کیا گیا تو دوسری طرف مسلمانوں کو بھی ریزرویشن کی ریوڑی دی گئی ہے، حالانکہ شاید چند مہینے کے اندر ہی کورٹ اس پر روک لگادے مگر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ ضروری بھی تھا۔ یہ وہی کانگریس سرکار ہے جس کے تحت مسلمانوں کو کبھی بھی پکڑ کر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا تھا۔ لوک سبھا الیکشن میں مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی دونوں نے ہی زبردست شکست کھائی ہے اور اس شکست کے لئے صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ این سی پی بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ یہ شردو پوار ہی تھے جو جب بھی منہ کھولتے تو کبھی پیاز کی قیمت بڑھادیتے اور کبھی چینی کی۔ ظاہر ہے کہ ذات، مذہب اور علاقائیت کے نام پڑنے والے ووٹ کب تک ان کا سہارا بنتے؟ عوام نے اپنا غصہ ظاہر کر دیا، مگر وہ اس شکست کے لئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور اب یہاں مہاراشٹر ودھان سبھا کی ۲۸۸ سیٹوں میں سے نصف کا مطالبہ این سی پی کر رہی ہے۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر کانگریس اس پر راضی نہیں ہوئی تو وہ تنہا بھی چناؤ لڑ سکتی ہے۔ حالانکہ این سی پی لیدر اور قانون داں ماجد میمن کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بیٹھ کر بات چیت سے اس مسئلے کا حل نکال لیں گے۔ این سی پی نے تب آنکھیں دکھانا شروع کیا ہے جب نارائن رانے نے مصیبت کھڑی کر رکھی ہے۔ موصوف کاکہنا ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ کی جگہ پرا نھیں وزیر اعلیٰ بنایا جائے اور وہ پرتھوی راج چوان کی قیادت میں الیکشن لڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ غور طلب ہے کہ نارائن رانے پہلے شیو سینا میں تھے اور نو سال قبل انھوں نے کانگریس کا دامن تھاما تھا۔ اس بیچ وزیر کے طور پر انھوں نے خوب اقتدار کے مزے لوٹے مگر اب جب کانگریس ایک ڈوبتا جہاز ہے تو وہ بھاگنے والوں میں سب سے آگے نظر آ رہے ہیں۔ وہ پارٹی کی مرکزی قیادت پر بھی طیش میں ہیں کہہ رہے ہیں کہ جن انھوں نے کانگریس جوائن کی تھی تو کہا گیا تھا کہ انھیں وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے گا مگر پارٹی نے اب تک اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔

آسام میں بغاوت کی آواز

مہاراشٹر کے بعد آسام کانگریس کے لئے ایک بڑ اچیلنج ہے۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی کی ہار پکی ہے اور صرف دو مہینے کی بات ہے مگر آسام میں الیکشن ابھی دور ہے۔ یہاں وزیر تعلیم ہیمنت وشو سرما نے وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ہے۔ انھوں نے راج بھون جا کر اپنا ستعفیٰ گورنر کو پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ کو استعفیٰ نہیں بھیجا کیونکہ وہ سمجھانے کی کوشش کر سکتے تھے گویا ان کا دل نہیں تھا کہ وہ اب بھی کابینہ میں بنے رہیں۔ ان کا دعوی ٰ ہے کہ جب وہ گورنر کو استعفیٰ سونپنے جا رہے تھے تو ان کے ساتھ ۳۸ ایم ایل تھے جو ترون گگوئی کی قیادت سے خفا ہیں اور انھیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی صاف کیا کہ وہ پارٹی وہپ کے خلاف ووٹ نہیں ڈالیں گے گویا وہ گگوئی سرکار کو گرائیں گے نہیں صرف ہلاتے رہیں گے۔ آسام کا سنکٹ گہراتا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت یہ سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔ یہاں کے ایم ایل اے لوک سبھا انتخابات میں ہار کے لئے گگوئی کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور ان کی کواہش ہے کہ انھیں وزر اعلیٰ کے عہدے سے ہتایا جائے۔ اس سلسلے میں وہ اعلیٰ کمان سے بھی رابطے میں ہیں۔

یہ بغاوت کیا گل کھلائے گی؟

راجدھانی دہلی میں لوک سبھا کی تمام سیٹیں بی جے پی جیت چکی ہے اور ودھان سبھا میں بھی کانگریس کا صفایا ہو چکا ہے۔ اب باری ہریانہ کی ہے جہاں اسمبلی الیکشن میں زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ یہاں بھی لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو زبردست شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور اب ودھان سبھا میں بھی ایسے ہی آثار نظر آ رہے ہیں۔ یہاں کانگریس میں بغاوت کی آواز چودھری وریندر سنگھ نے بلند کی ہے جو ہریانہ کے ایک مضبوط جاٹ لیڈر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھوپیندر سنگھ ہڈا کی قیادت میں وہ الیکشن لڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے اس بات کا اعلان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ اس بغاوتی تیور نے کانگریس کے سامنے ایک مشکل ضرور کھڑی کر دی ہے۔ ادھر ایسی ہی آواز جموں و کشمیر سے لال سنگھ نے بلند کی ہے جو کانگریس اہم علاقائی لیڈر مانے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں غلام نبی آزاد نے پارٹی کا بیڑا غرق کیا ہے اور ان کا ٹکٹ کاٹنے کا کام بھی انھوں نے ہی کیا تھا ایسے میں ان کے ہاتھ سے پارٹی کی کمان واپس لینا ضروری ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال مغربی بنگال کی بھی ہے جہاں پارٹی کے لیڈر اور ور کر دونوں ہی حوصلہ ہار رہے ہیں۔ انھیں لگ رہا ہے کہ کانگریس ختم ہو رہی ہے۔ ممبران اسمبلی اپنی سیٹیں گنوانے کے وہم میں مبتلا ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں کانگریس کے ٹکٹ پر وہ چناؤ نہیں جیت سکتے ہیں لہٰذا وہ ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ایم ایل اے اسیت کمار سمیت تین ممبران اسمبلی نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کچھ اور بھی خفیہ طور پر سودے بازی کر رہے ہیں۔ ان میں بیشتر صرف یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں انھیں ٹکٹ دیا جائے۔ اس طرح سے بنگال میں بھی پارٹی ایک مشکل مسئلے سے دوچار ہے۔

کانگریس کو پرینکا کا سہارا

کانگریس کے اندر بغاوت کے سر بہ ظاہر ریاستی قیادت کے خلاف نظر آ رہے ہیں مگر حقیقت میں یہ مرکزی قیادت کے خلاف ہیں۔ یہ آوازیں اس لئے بلند ہو رہی ہیں کیونکہ پارٹی نے اپنی تاریخ کی سب سے بری شکست کا منہ دیکھا ہے۔ حالانکہ ایک شکست خوردہ جماعت میں اس سے بڑے پیمانے پر بغاوت ہونی چاہئے جو کانگریس میں نہیں ہوئی ہے۔ سچ پوچھا جائے تو یہ بغاوت راہل گاندھی کی لیڈٖر شپ کے خلاف بغاوت ہے۔ کانگریسی چاہتے ہیں کہ وہ کچھ کریں یا نہ کریں مگر راہل اور سونیا انھیں الیکشن جتا دیں۔ وہ ان کا دل سے احترام نہیں کرتے بلکہ صرف ووٹ پانے کے لئے چاپلوسی کرتے ہیں۔ لکھنو میں ایسے بینر بھی دیکھے گئے جن میں پارٹی کی قیادت پرینکا گاندھی کے ہاتھ میں سونپنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کانگریس کے اندر ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو چاہتا ہے کہ پرینکا گاندھی سامنے آئیں اور پارٹی کی کمان سنبھالیں۔ اسے لگتا ہے کہ اس خاندان کے بغیر پارٹی کا وجود ممکن نہیں ہے اور راہل فیل ہو چکے ہیں تو اب پرینکا کو سامنے لایا جائے مگر سونیا گاندھی ابھی اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اس وقت سونیا گاندھی کے سامنے سب سے اہم مسئلہ پارٹی کو بچانے کا ہے۔ راہل گاندھی کبھی بھی قیادت کے لئے نامناسب ہی رہے ہیں اور ابھی بھی انھیں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کانگریس نے کیا کھویا ہے۔ وہ بیرون ملک گھوم گھوم کر چھٹیاں منا رہے ہیں۔ کبھی کہیں ہل اسٹیشن پر انھیں دیکھا جاتا ہے تو کبھی کسی ساحل سمندر پر انھیں مزے لیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ سونیا گاندھی کی مجبوری ہے کہ ان کی صحت اچھی نہیں رہتی۔ ادھر کانگریس ختم ہوتی جا رہی ہے جس کا پوری طرح خاتمہ بھی ملک کے حق میں نہیں ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر اپنا کردار ادا کرے اور نریندر مودی کے بے لگام ہونے سے روکے۔ اگر کانگریس اپنی پرانی غلطیوں کا احساس کرتی ہے اور خود کو بدلتی ہے تو ایک بار پھر وہ متبادل کے طور پر سامنے آ سکتی ہے مگر فی الحال تو اس کے سامنے اپنے وجود کو بچانے کا مسئلہ ہے۔ حالات راہل کے کنڑول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں جو کچھ کہنا ہے پارٹی کے اندر کہہ دیں گے، انھیں جو پیغام دینا تھا سو دے دیا۔

 

 

 

سوشل میڈیا کے منہ پر مودی کا تالا

 

خبردار!نریندر مودی کے خلاف کوئی تبصرہ آپ کو جیل پہنچا سکتا ہے

 

فیس بک، ٹویٹر اور دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس، آپ کے لئے خطرناک ہو سکتی ہیں اور آپ کو جیل بھی جانا پڑسکتا ہے، اس لئے کچھ لکھتے وقت ہوشیار رہیں۔ آپ کا کوئی تبصرہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ہوا تو پھر آپ مشکل میں پھنس سکتے ہیں اور جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔ جی ہاں یہ منموہن سنگھ کی نہیں نریندر مودی کی سرکار ہے۔ اب آپ کو کوئی تبصرہ کرنا، کارٹون بنانا اور یا کوئی ایسی تصویر اپ لوڈ کرنا مہنگا پڑسکتا ہے جس کا تعلق وزیر اعظم سے ہو۔ اب ریاستی سرکاروں اور پولس کی نظر نیٹ ورکنگ سائٹس اور انٹر نیٹ پر ہے۔ اب یہ آسان نہیں ہے کہ آپ جمہوری حقوق کا حوالہ دے کر کچھ بھی لکھ ڈالیں اور کچھ بھی شئیر کر لیں۔ کئی ریاستوں میں اب تک ایسا واقعات ہو چکے ہیں جہاں نریندر مودی کے خلاف فیس بک پر منفی کنٹ کرنے والوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے بڑے سے بڑے جرائم کے لئے تھانے سے ہی ضمانت مل جاتی ہے مگر مودی کے خلاف کمنٹ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے لئے کوئی ضمانت نہیں ملتی اور مجرم کو سیدھے طور پر جیل جانا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ہریانہ، کیرل، کرناٹک اور گوا میں سامنے آ چکے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف گوا میں بی جی پی کی سرکار ہے باقی ہریانہ، کیرل اور کرناٹک میں کانگریس کی سرکار ہے ارو مودی کے خلاف کمنٹ کرنے والوں کے خلاف کار روائی کرنے میں بی جے پی سے زیادہ کانگریس کی سرکاریں جلد بازی دکھا رہی ہیں۔ اصل میں سوشل میڈیا کا استعمال آزادیِ گفتار کے لئے ہوتا رہا ہے اور جو عام لوگ نہ تو ٹی وی چینلوں پر بول سکتے ہیں اور نہ ہی اخباروں میں کچھ لکھ سکتے ہیں وہ یہیں لکھ کر یا فوٹو شیئر کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں مگر اب یہ کرنا بھی آسان نہیں رہا۔

گو اکے پاناجی میں ایک انجینئر دیوو چود انکر کو کیا پتہ تھا کہ نریندر مودی کے خلاف فیس بک پر تبصرہ اتنا مہنگا پڑ جائے گا۔ اس نے فیس بک پر کچھ کچھ پوسٹ کئے تھے جو مودی کے خلاف تھے۔ پھر کیا تھا اس کے پاس عدالت کا نوٹس پہنچ گیا اور جب وہ کورٹ میں پیش ہوا تو کورٹ نے اسے ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ مقامی پولس کے سائبر کرائم سیل نے کورٹ میں کہا کہ اس تبصرہ کے ذریعے چودانکر بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کا پلان رکھتا تھا لہٰذا اسے جیل جانا ہی چاہئے اور اسے ضمانت ہرگز نہیں ملنی چاہئے۔ پولس نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جس میں دفعہ۱۵۳ اے، ۲۹۵ اے، آئی پی سی کی دفعہ ۱۲۵اور انرامیشن ٹیکنالوجی کے لئے خاص قانون ۶۶ اے لگایا جن میں کچھ ناقابلِ ضمانت ہیں۔ پولس افسر راجیش جاب نے عدالت کو کہا کہ اس شخص نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کو سازش کی تھی لہٰذا پوچھ تاچھ کے لئے پولس کسٹڈی لازمی ہے۔

ایسا ہی ایک معاملہ کرناٹک کے بنگلور میں ہوا۔ یہاں ایک ایم بی اے کے طالب علم سید وقاص کو پولس نے گرفتار کر لیا اور اس کا جرم یہ بتایا گیا کہ اس نے ,whatsApps پر کچھ مواد پوست کیا تھا جو نریندر مودی کے خلاف تھا۔ وقاص کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا جرم کر رہا ہے جو اسے جیل پہنچا سکتا ہے۔ وہ تو بس یہ سمجھ رہا ہے تھا کہ اس اکا جمہوری حق ہے کسی سرکار یا حکمراں کے خلاف اظہار خیال کرنا لیکن جب اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تو احساس ہوا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرگیا ہے۔

بات صرف گوا اور کرناٹک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ راجدھانی سے متصل گڑ گاؤں (ہریانہ) میں بھی ایسے ہی حالات دیکھنے کو ملے جہاں کانگریس کی ہی سرکار ہے۔ یہاں ایک ایسے شخص کو اس کی سزا بھگتنی پڑی جو کہ فلم رائٹر ہے اور سیف علی خان کی حالیہ ریلیز فلم ’’بلیٹ راجہ‘‘ کا اسکرپٹ رائٹر ہے۔ جی ہاں امریش مشرا کو گڑگاؤں سے گرفتار کیا گیا اور جرم یہ تھا کہ انھوں نے نریندر مودی کے خلاف کچھ کمنٹس اپنے ٹویٹر اکاوئنٹ پر لکھے تھے۔ اسے یوپی پولس نے قابل اعتراض مان کر بند کر دیا تھا اور پھر ہریانہ سے ان کی گرفتاری ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مودی کو جیت مل گئی تھی مگر وہ وزیر اعظم نہیں ہوئے تھے۔ یہ سب کام ملائم سنگھ کی سرکار نے کیا اور کانگریس کی حکومت والی ریاست میں ہوا۔ امریش مشرا کی گرفتاری یوپی پولس کے ذریعے ۱۵، مئی کو ہوئی تھی۔

نریندر مودی کے خلاف صرف نیٹ ورکنگ سائٹس پر لکھنا ہی جرم نہیں ہے بلکہ کیرل میں کانگریس کی سرکار نے تو اس سے بھی بڑا کارنامہ کر دکھایا۔ پولس نے ایک کالج کے اٹھارہ طلبہ اور ٹیچرس کے خلاف صرف اس لئے مقدمے بنائے کہ انھوں نے اپنی کیمپس میگزین میں نریندر مودی کے خلاف کچھ اظہار خیال کیا تھا۔ ان لوگوں نے مودی کو ہٹلر، اسامہ اور اجمل قصاب کے مثل قرار دیا تھا۔

یہ چند مثالیں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے ملک میں اظہار خیال کا کیا پیمانہ ہے۔ ابھی چند مہینے قبل کی بات ہے کہ مغربی بنگال میں یہاں کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے خلاف کسی شخص نے ایک کارٹون بنا کر فیس بک پر ڈال دیا تھا تو اس پر پولس نے اسے جیل بھیج دیا تھا۔ اس کے اس قدم کے خلاف زبردست آواز بلند ہوئی تھی اور ٹی وی چینلوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا، نیز اخبارات نے بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ آج مودی کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے پر کوئی اخبار یا ٹی وی چینل کچھ نہیں کہہ رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں حکمراں اور حکومت کے خلاف تبصرہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے مگر بھارت کس جانب جا رہا ہے یہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا تو صدام حسین کے زمانے میں عراق میں ہوتا تھا اور موجودہ مصر و سعودی عرب میں ہوتا ہے جہاں جبری قوانین نافذ ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر بڑی مقدار میں اسلام مخالف مواد موجود ہے اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کا استعمال مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے کیا جا رہا ہے اور تمام سرکاریں خاموش ہیں۔ اب اسے کے سوا کیا کہا جائے:

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

 

 

 

 

نتیش اور لالو کا منڈل، کیا توڑ سکے گا بھاجپا کا کمنڈل؟

 

بہار میں مودی کا پہلا امتحان

 

بہار میں لالو اور نتیش کا اتحاد کیا گل کھلائے گا؟ کیا یہ نریندر مودی کے راستے کی رکاوٹ بن جائے گایا بھاجپا اس رکاوٹ کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ لوک سبھا انتخابات میں جو کامیابی اسے ملی ہے وہ اسے ضمنی انتخابات میں دہرا پائے گی یا بہار میں نیا سیاسی گٹھ بندھن پورے ملک میں بی جے پی مخالف سیاست کے لئے ایک نئی بنیاد فراہم کرے گا؟ سیاسی پنڈتوں کی نظریں ان دنوں بہار کی سیاست پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ لوک سبھا انتخابات کے بعد پہلا ضمنی الیکشن یہاں ہونے جا رہا ہے اور اس میں جیت ہار ملک کی سیاست کا مستقبل طے کر سکتی ہے۔ یوں تو یہاں صرف دس سیٹوں پر چناؤ ہونے ہیں مگر اس کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر یہ اتحاد کامیاب ہو گیا تو پورے ملک میں بی جے پی کے خلاف اتحاد تیار ہو سکتا ہے اور جو کامیابی اس نے لوک سبھا الیکشن میں حاصل کی ہے، اس کے خلاف ماحول تیار ہو سکتا ہے۔ بہار کے دوسابق وزراء اعلیٰ نتیش کمار اور لالو پرساد یادو یوں تو سیاست میں ایک ہی گرو کے چیلے ہیں اور دونوں ہی جے پرکاش نارائن کی تحریک کی پیداوار ہیں مگر حالات نے دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ ان کی سیاست ایک دوسرے کے خلاف تھی مگر اب مودی لہر نے جتا دیا ہے کہ اگر وہ یونہی الگ الگ رہے تو دونوں کا سیاسی کریئر ختم ہو جائے گا، یہی سبب ہے کہ انھوں نے رقابت چھوڑ کر رفاقت کا فیصلہ کیا ہے۔ لالو پرساد یادو نے راجیہ سبھا الیکشن میں جنتا دل (یو)کی حمایت کی تھی اور اب ضمنی انتخاب میں انھوں نے ایک دوسرے کی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔ گویا لوک سبھا الیکشن میں جو دونوں لیڈر ایک دوسرے کے خلاف پرچار کرتے رہے ہیں، اب وہ ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آئیں گے۔

لالو اور نتیش کا اتحاد کیا گل کھلائے گا؟

جب سیلاب آتا ہے اور زمین پانی سے بھر جاتی ہے تو کئی ایسے جاندار ایک ہی شاخ پر پناہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والے ہوتے ہیں۔ سانپ، نیولا، انسان اور چڑیا سب کی پناہ گاہ ایک ہی شاخ بن جاتی ہے کیونکہ سب کو اپنی جان بچانی رہتی ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی غیر معمولی جیت کے طوفان نے بھی یہی کام کیا ہے کہ سیاسی سانپ اور نیولے کا ایک شاخ پر پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے اور انھیں احساس ہو گیا ہے کہ اگر رقابت نہ چھوڑی تو انجام اچھا نہیں ہو گا اور اس طوفان کی نذر دونوں ہی ہو جائیں گے۔ ابھی چند دن قبل تک جو ایک دوسرے کے خلاف پرچار کر رہے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کر رہے تھے وہ ایک دوسرے کے حلیف و مدد گار بن چکے ہیں۔ یہ کام اس لئے نہیں ہوا کہ وہ سیکولرزم کے سچے خیر خواہ ہیں اور ملک کا مفاد چاہتے ہیں بلکہ اس لئے ہوا کہ دونوں کا سیاسی کریئر داؤ پر لگا ہوا تھا۔ بی جے پی جو کام ہندتو کے نعرے سے نہیں کر پائی تھی وہ اس نے اب نعرے کے بغیر ہندوؤں کو متحد کر کے کر دکھایا ہے۔ لالو اور نتیش دونوں کی سیاسی بنیاد پسماندہ طبقات کی سیاست ہے۔ انھیں وی پی سنگھ کی اس سیاست سے اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا جس نے او بی سی طبقے کو ان کا حق دینے کی بات کی تھی۔ انھوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اسے نبھایا بھی۔ مگر پھر لالو اور نتیش ایک ساتھ نہیں رہ پائے اور الگ الگ راستوں پر چل پڑے۔ نتیش کمار کو اپنا فائدہ بی جے پی کے ساتھ جانے میں نظر آیا تو وہ اس کے ساتھ چل پرے اور لالو کو اپنا فائدہ بی جے پی سے دور رہنے میں دکھائی دیا تو انھوں نے بی جے پی سے دوری بنا لی۔ لالو بھی پسماندہ طبقات کے ووٹ لیتے رہے اور نتیش بھی اسی طبقے کے ووٹ لیتے رہے۔ نتیش نے اس ووٹ سے بی جے پی کو بھی فائدہ پہنچایا اور اسے مرکز میں اقتدار تک پہنچایا۔ بی جے پی نے بہار میں کبھی سرکار نہیں بنائی تھی مگر نتیش کمار کی وجہ سے اسے یہاں سرکار میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ آج بہار میں اگر بی جے پی ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھری ہے تو اس میں سب سے بڑا یوگدان نتیش کمار کا ہی ہے۔ لیکن اب حالات نے انھیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ بی جے پی کا راستہ روکیں کیونکہ وہ اب انھیں کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ ناگ کو دودھ پلانے کا انجام کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے، یہ بات اب نتیش کمار کو سمجھ میں آنے لگی ہے۔ لالوپرساد یادو بھی ایک ناعاقبت اندیش انسان ہیں اور انھوں نے بھی اپنے اقتدار کا بہت بے جا استعمال کیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ بہار میں نتیش کمار اور بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تھا۔ لالو نے ہی بہار کو پچاس سال پیچھے ڈھکیل دیا تھا۔ بہر حال بہار میں فی الحال صرف دو متبادل ہیں۔ ایک بی جے پی اور دوسرے لالو و نتیش کا اتحاد۔ اس اتحاد سے عوام کے ایک بڑے طبقے کو امیدیں ہیں۔ جو لوگ بی جے پی کو اس کے ہندوتو وادی نظریے کے سبب ناپسند کرتے ہیں وہ اس اتحاد کی جانب جانا پسند کریں گے۔ فی الحال ضمنی الیکشن ہے مگر سال بھر بعد ہی بہار اسمبلی کا چناؤ ہونے والا ہے۔ اگر یہ اتحاد ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوا تو اگلے سال بھی جاری رہے گا۔ یہ اتحاد صرف دو پارٹیوں کا اتحاد نہیں ہے بلکہ اس میں کانگریس بھی شامل ہے جو بہار میں اپنا وجود کھو چکی ہے اور این سی پی بھی ہے جو یوپی اے کا حصہ ہے۔ اسی کے ساتھ وہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی ہیں جو بعض سیٹون پر اپنے امیدوار اتار دیتی ہیں اور ان میں سے اکا دکا پر کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔ اس وقت بی جے پی نے سب کی ہوا بگاڑ رکھی ہے لہٰذا سب متحد ہو گئی ہیں۔ بہار کا اتحاد اگر کچھ بہتر رزلٹ کر پایا تو اس کا اثر بھی بڑا ہو گا۔ لالو اور نتیش کمار کا کھیل یہ ہے کہ ایک بار پھر وہ پسماندہ برادریوں کو اونچی برادریوں کے مقابلے میں لا کھڑا کریں اگر ایسا ہوا تو اس سے بی جے پی کا نقصان ہو گا اور ان کا فائدہ ہو گا۔

بی جے پی کا امتحان

بہار کے ضمنی انتخابات خود نریندر مودی اور بی جے پی کے لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ جنس سیٹوں پر چناؤ ہو رہے ہیں ان میں سے بیشتر بی جے پی کی ہیں۔ اس کے جو ایم پی چن کر آئے ہیں ان میں سے کچھ ایم ایل اے تھے مگر ان کے لوک سبھا کے لئے منتخب ہونے کے سبب یہ سیٹیں خالی ہوئی ہیں۔ اب ان سیٹوں کو بچانا اس کے لئے ایک چیلنج ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے یہ بھی دکھانا ہے کہ مودی کا جاود ابھی نہیں ٹوٹا ہے اور وزیر اعظم بن کر بھی انھوں نے اپنی مقبولیت نہیں کھوئی ہے۔ اگر اس الیکشن میں وہ جیت گئی تو آئندہ سال ہونے والے اسمبلی الیکشن میں وہ حکومت بنانے کی دعویدار ہو سکتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو عوام میں کچھ اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ ابھی سے اس کی ہوا نکلتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ الیکشن ہی یہ طے کرے گا کہ بہار میں منڈل کی سیاست چلے گی یا کمنڈل کی راجنیتی چلے گی۔

مودی کا سحر ٹوٹنے لگا ہے؟

بھارت میں اصل مسائل کے بجائے ذات اور مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑا جاتا رہا ہے۔ ووٹرس کو مہنگائی اور کرپشن پانچ سال تک دکھائی دیتے ہیں مگر جب وہ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو انھیں صرف ذات برادری نظر آتی ہے۔ حال ہی میں تکمیل کو پہنچے لوک سبھا الیکشن میں اروند کجریوال نے اس سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی اور کرپشن و مہنگائی کو اصل موضوع بنایا مگر اس کا فائدہ انھیں نہ مل کر نریندر مودی کو مل گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑی جیت میں منموہن سرکار کی ناکامیوں کا بڑا دخل تھا۔ میڈیا نے بھی بنیادی مسائل کو اٹھایا مگر ایسا ماحول تیار کیا کہ مودی گویا سپر میں ہیں اور ان کے پاس ان مسائل کا حل موجود ہے۔ میڈیا کے مالک صنعت کاروں کو مودی میں ہی اپنا فائدہ نظر آیا اور انھوں نے میڈیا کو مودی کے پرچار کے لئے وقف کر دیا۔ خیر اب مودی آ گئے اور آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ بجٹ سے پہلے ہی ریلوے کا کرایہ بڑھا دیا۔ مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا اور بنیادی ضرورت کی چیزیں مہنگی ہوئیں تب عوام کو سمجھ میں آیا مودی کے آنے کا مطلب۔ خیر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت؟ مودی کا جادو اب ٹوٹنے لگا ہے اور عوام کے سامنے بھی زمینی حقیقت کھل کر آنے لگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بہار میں دس اسمبلی سیٹون پر ہونے والے الیکشن میں کیا مودی کا جاود دیکھنے کو ملے گا؟ کیا میڈیا نے نریندر مودی کے حق میں جو ماحول لوک سبھا الیکشن میں تیار کیا تھا وہ اب ختم ہونے والا ہے؟ ظاہر ہے کہ بہار کا یہ چناؤ ہمیں ان سوالوں کا جواب فراہم کرے گا۔

بہار الیکشن کے دور رس اثرات

بہار میں ضمنی الیکشن کے بعد ہی اسمبلی الیکشن کی تیاری بھی شروع ہو جائے گی۔ لالو اور نتیش کی پارٹیوں کو جو ووٹ لوک سبھا الیکشن میں ملے ہیں وہ بی جے پی کو ملے ووٹ سے زیادہ ہیں۔ اگر ان کے ووٹ فی صد میں اضافہ نہیں ہوا تو بھی وہ اس ووٹ کی بدولت جیت سکتے ہیں۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ ان دونوں کے اختلاف سے ہوا ہے۔ اب جب اتحاد ہوا ہے توا س سے بی جے پی کے خیمے میں بھی خوف کا ماحول ہے۔ اسے لگ رہا ہے کہ وہ اپنی ہی سیٹیں بچانے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی۔ بہار کا تجربہ اگر کامیاب ہوا تو اس کا اثر دوسری ریاستوں پر بھی پڑ سکتا ہے اور کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں کانگریس کے ساتھ مل کر تحاد قائم کر سکتی ہیں۔ اس طرح بی جے پی کو جو پھوٹ کا فائدہ ملا ہے اس سے وہ محروم ہو جائے گی۔ سب سے پہلے یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی کا بڑا نقصان ہوا ہے جہاں اچھے خاصے ووٹ کے باوجود بی ایس پی کھاتا کھولنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی ہے۔ یونہی ایس پی بھی اپنی بیشتر سیٹیں گنوا چکی ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کو بی جے پی سے ڈر ہے اور اگر لالو نتیش کی طرح مستقبل میں ملائم و مایاوتی بھی ایک ساتھ مل جائیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اسی قسم کا اتحاد ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی قائم ہو سکتا ہے۔

 

 

 

 

 

حج کے نام پر کروڑوں کی ناجائز کمائی

 

کیا مرکزی حج کمیٹی اور سرکار کے پاس سپریم کورٹ کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے؟

حج کمیٹی میں صرف دیندار مسلمانوں کو ہی جگہ ملے

 

مقدر مجھے لے تو جائے مدینہ، کفِ پائے اہلِ حرم چوم لوں گا

میں جھاڑوں گا پلکوں سے گلیاں وہاں کی نگاہوں سے بابِ حرم چوم لوں گا

جی ہاں! حج کا پر نور موسم آنے والا ہے اور ان خوش قسمت زائرین کے قافلے دنیا بھر سے عزم سفر کر رہے ہیں جنھیں حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ نبویﷺ کے لئے اللہ نے بلایا ہے۔ وہ کونسا مسلمان ہو گا جس کا دل اس مبارک سفر کے لئے بے چین نہ ہو گا۔ وہ کیسا مسلمان ہو گا جو اس سفر کی حسرت اپنے دل میں نہ رکھتا ہو گا مگر قسمت کچھ ہی لوگوں کی کھلتی ہے اور یہ موقع چند ہی افراد کے ہاتھ لگتا ہے:

جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے

سفر حج میں جو مشکلیں درپیش ہوں انھیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہئے کیونکہ اس راستے میں اٹھنے والا ہر قدم نیکی میں شمار کیا جاتا ہے مگر ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا حاجیوں کو دانستہ طور پر تکلیف پہنچایا جائے؟ ہرگز نہیں مگر ہو رہا ہے کچھ ایسا ہی۔ بھارت سے تقریباً دو لاکھ مسلمان حج بیت اللہ کے لئے جاتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کے سفر اور رہائش کا انتظام حج کمیٹی کرتی ہے مگر بار بار یہ شکایت ملتی ہے کہ حج کمیٹی حاجیوں کے آرام کا خیال نہیں رکھتی اور اس کی لاپرواہی کے سبب حاجیوں کو طرح طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ اس سفر پر جانے والوں میں کمزور، بزرگ، مریض، معذور اور خواتین بھی ہوتی ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسی ہی دقتوں کا اندیشہ ہے اور اسی لئے مسلمانوں کی طرف سے بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جس قسم کے مسائل ماضی میں رہے ہیں اس بار ان کا حل نکالا جائے۔ کیونکہ جہاں ایک طرف حج کا خرچ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف آرام و آسائش کے نام پر ان سے پیسے لئے جا رہے ہیں مگر ان کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ الزام بار بار لگایا جاتا ہے کہ حاجیوں سے جو پیسے حج کمیٹی وصول کرتی ہے اس میں بدعنوانی عام بات ہے لہٰذا اس کا حساب کتاب رہنا چاہئے۔ CAG جس طرح سے دیگر سرکاری حساب کتاب کی جانچ کرتا ہے اسی طرح اسے اس معاملے کی بھی جانچ کرنی چاہئے۔ یہاں ایک زمانے سے بدعنوانی کی بات اٹھتی رہتی ہے مگر یہ ہنگامہ صرف موسم حج تک ہی رہتا ہے اور اس کے بعد اسے لوگ بھول جاتے ہیں اور سرکاری بھی اس جانب توجہ نہیں دیتی ہے۔

مرکزی حج کمیٹی کے پاس کوئی جواب ہے؟

سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی زیر غور ہے جس کے تحت یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرکزی حج کمیٹی ہر سال سفر حج کے نام پر ۶۰۰ کروڑ روپئے کا گھوٹالہ کرتی ہے۔ اس پر کورٹ نے نوٹس بھی ایشو کیا ہے مگر اب تک کسی نے بھی اس کا جواب نہیں دیا ہے۔ حالانکہ امید ہے کہ اگر تفتیش ٹھیک طریقے سے ہوئی تو یہاں بھی بڑے بڑے گھوٹالے سامنے آ سکتے ہیں اور بہت کچھ نیا اسکینڈل کھل سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ فروری کے مہینے میں مرکزی حج کمیٹی اور وزارتِ خارجہ کو نوٹس ایشو کیا تھا۔ اس کے بعد دو سماعتیں ہو چکی ہیں مگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی کورٹ کو اب تک جواب نہیں دیا ہے۔ یعنی یوپی اے سرکار میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا اور وہ اس پر غور کرنے سے بچتی رہی، جواب دینے میں ٹال مٹول کرتی رہی اور اب مرکز میں سرکار بدل چکی ہے مگر اب تک کچھ بھی بدلاؤ دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ حاجیوں کی طرف سے یہ سوال بجا ہے کہ ان کے اچھے دن کب آئیں گے اور حج کے نام پر ہونے والی بدعنوانی کا خاتمہ کب ہو گا؟ کلکتہ کے سماجی کارکن اور قانون داں حاجی انوار عالم خاں کا کہنا ہے کہ نہ تو حج کمیٹی کے پاس کوئی جواب ہے اور نہ ہی مرکزی سرکار کے پاس۔ اسی لئے اب تک انھوں نے سپریم کورٹ کے نوٹس کا کائی جواب نہیں دیا ہے۔ اب تک اس بات کی انکوائری بھی شروع نہیں کی گئی ہے جو کروڑوں روپئے ہر سال خرد برد کئے جا رہے ہیں مگر ہم نئی سرکار سے امید کرتے ہیں کہ وہ سابقہ سرکار میں ہوئی بدعنوانی سے صرف نظر نہیں کرے گی۔

حج کے نام پر ناجائز کمائی

حج کمیٹی حاجیوں سے ہر بار پیشگی روپئے جمع کروا لیتی ہے اور پھر اس پر وہ سود حاصل کرتی رہتی ہے۔ اس سے وہ کافی کمائی کرتی ہے اور اسی لئے اس طریقے سے وہ زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں حاجیوں سے دس ہزار سات سو روپئے پیشگی وصول کئے جاتے تھے مگر جب مرکزی حج کمیٹی نے دیکھا کہ اس میں اسے سود کی رقم حاصل ہو رہی ہے تواس کے منہ میں پانی آنے لگا اور اس نے ۲۰۱۳ء میں اسے بڑھا کر ۰۰۰، ۷۶ کر دیا۔ جو رقم اس ناجائز طریقے سے جمع کی گئی ہے وہ ۲۰۱۳ء میں ۳۲ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ حاجی جو عبادت کے لئے سفر کر رہے ہیں ان کے پیسے سے ناجائز کمائی کیوں کی جا رہی ہے اس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ کانگریس کی سرکار میں یہ سب شروع ہوا اور اب جب نئی سرکار بن چکی ہے تو اس سلسلے میں اس نے بھی کوئی نیا فیصلہ نہیں لیا ہے جو حاجیوں کو راحت پہچانے والا ہو۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ مانتا ہے کہ یہ سود کی رقم حج جیسے مقدس فریضے کے بہانے جمع کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی ہے۔ یہ رقم ایک عبادت کا حصہ ہے اور حج بیت اللہ کا سفر ہی پورا عبادت ہے۔ ایسے میں اس کے ذریعے ناجائز کمائی کرنا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ حج کمیٹی میں ایسے نام نہاد مسلمانوں کو بھر دیا گیا ہے جن کا اسلام سے بہت دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے ایسے میں یہ لوگ حج کی حرمت کو پامال کرتے ہیں اور اسے اپنی ناجائز کمائی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کمیٹی میں صرف دیندار اور پارسا مسلمانوں کو رکھنا چاہئے جو خلوص اور للٰہیت کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے جانے والوں کی خدمت کریں۔

قدم قدم پر حاجیوں کو لوٹنے کی کوشش

حج کمیٹی میں عام طور پر سرکار کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں اسلام اور اس کی عبادات سے کم ہی مطلب ہوتا ہے گویا یہاں بھی اقرباء پروری کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حج کمیٹی کو تحلیل کیا جائے اور نئی کمیٹی بنائی جائے کیونکہ اس پر کئی قسم کے الزام ہیں اور کام میں غفلت برتنے کے بھی الزامات اس پر لگتے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مکہ معظمہ میں حاجیوں کے قیام کے لئے جو عمارتیں کرایے پر حاصل کی جاتی ہیں ان میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوتی ہے اور صرف انھیں مکانوں یا ہوٹلوں کو لیا جاتا ہے جن سے رشوت ملتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے ملکوں کے حاجیوں کی رہائش گاہیں حرم شریف سے قریب ہوتی ہیں اور ہندوستانی حاجیوں کی دور ہوتی ہیں۔ پٹنہ (بہار) کے حاجی محمد صابر بتاتے ہیں کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ حج کے لئے گئے تھے اور ان کے والدین کو دوری کے سبب بہت پریشانی ہوئی۔ وہ لوگ حرم شریف میں پنج وقتہ نماز کے لئے جانے سے قاصر تھے جب کہ دوسرے ممالک کے حاجی حرم میں جا سکتے تھے۔

انڈین ایئر لائنس کو حاجیوں سے چڑ کیوں ہے؟

سفر حج سے صرف حج کمیٹی ہی کمائی نہیں کرتی ہے بلکہ انڈین ایئر لائنس بھی خوب کمائی کرتی ہے اور اس مطالبے پر اب تک غور نہیں کیا گیا ہے کہ حاجیوں کے سفر کے لئے گلوبل ٹنڈر نکلنا چاہئے اور جو ایئر لائنس اس کے لئے کم سے کم کرایہ پر راضی ہو اسی کو موقع دینا چاہئے۔ اب تک حاجیوں کو صرف انڈین ایئر لائنس کے بھروسے پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ منمانے طریقے سے کرایہ وصول کرتی ہے۔ اس کا کرایہ سعودی ایئر لائنس سے بھی زیادہ مہنگا پڑتا ہے دوسری طرف اس کی بار بار شکایتوں کے باوجود اس کی غفلت میں کمی نہیں آئی ہے اور اکثر یہ سنا جاتا ہے کہ کبھی اس نے حاجیوں کا سامان جدہ می چھوڑ دیا تو کبھی آبِ زم زم کے کین نہیں آ سکے۔ انڈین ایئر لائنس کی منمانی کا یہ عالم ہے کہ اس نے سری نگر سے پرواز کرنے والے ہر حاجی سے ایک لاکھ چون ہزار روپئے کرایہ مانگا ہے جب کہ دلی سے سفر کرنے والے ۶۲ ہزار ۸۰۰ روپئے کرایہ دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈین ایئر لائنس نے حاجیوں کو پریشان کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور کوئی سرکار اسے سدھارنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ یو پی اے سرکار میں اس کا جو رویہ تھا وہ اب بھی تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس بات کا احساس خود وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی ہے۔ انھوں نے گزشتہ جون میں ہوئی حج کانفرنس میں اس بات کا برملا اظہار بھی کیا۔ سری نگر سے سفر حج پر جانے کا ارادہ رکھنے والے اشرف غنی کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ یہ برتاؤ کیوں روا رکھا گیا ہے۔ ملک کے دوسرے حصے کے حاجیوں سے اس قدر رقم نہیں وصولی جاتی ہے جس قدر کہ ہم سے وصول کی جا رہی ہے۔ کیا بھارت ہمیں غیر ملکی تصور کرتا ہے؟

 

 

 

آخر کب تک لو گے مسلمانوں کے صبر کا امتحان؟

 

بھارت کا جھنڈا اٹھانے والی ثانیہ بھی بن گئی پاکستانی

 

سارے جہاں سے اچھے ہندوستان میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا اسے ساری دنیا کا بدترین ملک بنانے کی سازش رچی جا رہی ہے؟ آخر ہندتو وادیوں کے حوصلے اس قدر بلند کیوں ہیں؟ کیا وہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش رچ رہے ہیں؟ ساری دنیا میں بھارت کا سر فخر سے بلند کرنے والی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو پاکستانی بہو ہونے کا طعنہ کیوں دیا جا رہا ہے؟ اس کے تلنگانہ کے برانڈ امبیسیڈر بنانے پر سوال کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟ کیا اس لئے کہ وہ ہندوستانی مسلمان ہے؟ کیا کل دلیپ کمار، نوشاد، مینا کماری، شکیل بدایونی کو بھی پاکستانی کہا جائے گا کیونکہ وہ بھی مسلمان ہیں؟ اظہر الدین، عرفان پٹھان اور یوسف پٹھان کو بھی پاکستانی کہا جائے گا؟ کیا استاد بسم اللہ خان کو بھی پاکستانی کہا جائے گا کیونکہ یہ سب مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے؟ کوئی اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے نعرے بلند کر رہا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ نریندر مودی کی جیت ہندوؤں کی جیت ہے اور مسلمانوں کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ تو کسی کو مسلمانوں کو گالی گلوج کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور کچھ بھی کہنے کی آزادی ہے۔ جہاں ایک طرف سنگھلوں اور توگڑیوں کو لگتا ہے کہ ملک کو سیکولرزم سے آزادی ملنے والی ہے وہیں دوسری طرف آج مسلمان کا روزہ رکھنا بھی گناہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کے منہ میں زبردستی روٹی ٹھونسی جا رہی ہے اور اس کے مذہب ہی نہیں عزت نفس پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ آخر کیا بات ہے کہ جب سے بی جے پی کی جیت ہوئی ہے اور نریندر مودی کو تخت و تاج ملا ہے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں؟ تمام بیہودہ اور منہ پھٹ لوگ ننگے ناچ رہے ہیں اور مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان یہ سب کب تک برداشت کرتے رہیں گے اور اگر مسلمان برداشت کر بھی لیں تو کیا اس ملک کے دوسرے طبقات اس قسم کی بیہودگی کو برداشت کریں گے؟ اگر اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش کی جا رہی ہے اور اس کا نمونہ اشوک سنگھل، پروین توگڑیا، شیو سینا اور بی جے پی کے لیڈران پہلے ہی پیش کرنے لگے ہیں تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اس ملک کو توڑنے کی سازش ہو رہی ہے۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور اس لئے نہیں ہے کہ یہاں سکھ، عیسائی اور مسلمان بھی رہتے ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہاں بسنے والے ہندو سیکولر ہیں، اس ملک کے خمیر میں سیکولرزم شامل ہے اور اس ملک کی ضرورت ہے سیکولرزم۔ اس کے سیکولرزم پر حملہ کا مطلب ہے ملک کے اتحاد اور یکجہتی پر حملہ۔ اس ملک پر یہاں بسنے والے تمام شہریوں کا برابر حق ہے اور سب کو اپنے طریقے سے جینے کی آزادی ہے۔ کسی سے اس کے مذہب، زبان، تہذیب کی آزادی چھیننے کا مطلب ہے ملک کی یکجہتی پر حملہ کرنا۔

ثانیہ مرزا اس ملک کی جانباز بیٹی ہے

امیتابھ بچن جس طرح گجرات سرکار کے برانڈ امبیسیڈر ہیں اسی طرح تلنگانہ سر کار نے ثانیہ مرزا کو اپنا برانڈ امبیسیڈر بنایا ہے۔ امیتابھ کے برانڈ امیبیسڈر بنانے پر کسی نے کو ئی سوال نہیں اٹھایا کیونکہ انھیں مودی سرکار نے بنایا تھا اور وہ ایک ہندو ہیں مگر ثانیہ مرزا کے تعلق سے بی جے پی کی طرف سے غیر ضروری تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ کہا گیا کہ ثانیہ پاکستان کی بہو ہے اور مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اسے برانڈ امبیسیڈر بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امیتابھ بچن کو ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا تھا؟ اور اگر ثانیہ مرزا پاکستان کی بہو ہے تو لعل کرشن اڈوانی بھی تو پاکستان کے بیٹے ہیں۔ جب پاکستان کی بہو کسی ریاست کی برانڈ امبیسڈر نہیں بن سکتی تو پاکستان کو بیٹا کیسے بی جے پی کا صدر بنا، منسٹر بنا اور اب بھی پارلیمنٹ کا ممبر ہے؟ اصل معاملہ صرف یہ ہے کہ ثانیہ مرزا کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنانا مقصود ہے اور یہ کام کرنا بی جے پی خوب جانتی ہے۔ وہ اگر نجمہ ہبت اللہ کو وزیر بناتی ہے اور مختار عباس نقوی کو ایم پی بناتی ہے تو اس میں مسلمانوں کی خوشامد بالکل نہیں ہے مگر کوئی اور پارٹی یا سرکار کسی مسلمان کو کوئی عہدہ دیتی ہے جو کہ ان کا حق ہے تو بی جے پی اسے کئی نام دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ کیا ان کا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق نہیں ہے، جتنا کہ ہندوؤں کا ہے؟ پھر اس قسم کی باتیں کر کے عوام میں نفرت پھیلانے کا کام کیوں کیا جاتا ہے؟ ثانیہ مرزا نے اس ملک کے کئے جتنا کچھ کیا ہے وہ قابل فخر ہے اور بی جے پی کے بہت سے لیڈروں نے اتنا نہیں کیا ہو گا پھر بھی اس کی وطن دوستی پر سوال اٹھانا نہ صرف ثانیہ کی توہین ہے بلکہ ہر اس محب وطن کی توہین ہے جو اس ملک کے لئے قربانی دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ حالانکہ بی جے پی لیڈر اور وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاؤڈیکر اسے بھارت کی بیٹی کہتے ہیں مگر سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ بی جے پی کی اصل سوچ کیا ہے؟ جو پرکاش جاوڈیکر کہہ رہے ہیں وہ یا جو ان کے دوسرے لیڈران کہہ رہے ہیں وہ؟

بھارت بنے گا ہندو راشٹر؟

سنگھ پریوار کے لوگوں کی زبان ہی نہیں ان دنوں کا دل بھی دیوانہ ہو کر بلیوں اچھل رہا ہے۔ انھیں مودی کی جیت کو ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے اور یسا محسوس کر رہے ہیں گویا دنیا میں پہلی بار انھیں کو حکومت ملی ہے اور یہ بھی ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی ہے۔ اب ان کی سرکار قیامت تک باقی رہے گی۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑے بڑے نمرودوں، فرعونوں اور راونوں کا ایک دن ناش ہوتا ہے۔ گوا کے ایک منتری پانڈو رنگ دیپک دھاوالیکر کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کریں گے اور یہ ملک ان کی لیڈر شپ میں دنیا کا اکلوتا ہندو ملک بن جائے گا۔ ان کے بھائی بھی گوا کے پی ڈبلیو ڈی منتری ہیں اور پچھلے دنوں عورتوں پر قدغن لگانے کے بیان کے سبب سرخیوں میں تھے۔ ظاہر ہے کہ دونوں بھائی اس برہمنی سوچ کی پیداوار ہیں جو اس ملک میں پانچ ہزار سال سے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کو غصب کرنے کے لئے ذمہ دار ہے۔ حالانکہ دھاوالیکر یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ اس ملک کے ہندو بھی نہیں چاہتے ہیں کہ ایہ ملک اپنا سیکولر کردار کھوئے۔ انھوں نے اگر بی جے پی کو ووٹ دیا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ اس ملک کے آئین کو تبدیل کریں بلکہ مہنگائی اور کرپشن کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ انھیں کانگریس کی سرکار سے ناراضگی تھی اور جو عوامی مسائل کے سامنے بے بس ہو گئی تھی لہٰذا انھوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر ایک موقع دیا ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرے۔ اب اگر سرکار نے عوام کا کام کرنے کے بجائے انھیں فضول کے مسائل میں الجھانے کی کوشش کی تو جو حال انھوں نے کانگریس کا کیا ہے وہی حال بی جے پی کا بھی کریں گے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ ابھی چند دن قبل ہی وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی کنوینر اشوک سنگھل نے بھی کہا تھا کہ نریندر مودی کی جیت اس ملک کے ہندوؤں کی جیت ہے اور اسی کے بعد وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے بھی مسلمانوں کے خلاف بکواس کی تھی۔ بی جے پی کی سرکار ایک طرف تو سرکار کی لائن لیتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں کام کرے گی تو دوسری طرف سنگھ پریوار کے لوگ اور پارٹی کے افراد اپنے طور پر ہندو راشٹر کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ روزہ نہیں ملک توڑنے کی سازش

ہندو راشٹر کا ہی ایک نمونہ ہم نے شیو سینا ممبر پارلیمنٹ کی حرکت میں بھی دیکھا جو اس نے مہاراشٹر سدن کے ایک مسلمان ملازم کے ساتھ کی۔ ارشد نامی ایک شخص کو روزے کی حالت میں زبردستی منہ کے اندر روٹی ٹھونس کر اس کا روزہ خراب کرنے کی حرکت شیو سینا ایم پی راجن وچارے کی وہ ذلیل حرکت ہے جس کی مذمت کے لئے الفاظ بھی کم پڑ جائیں۔ اس کا ویڈیو میڈیا میں آیا تو پورے ملک کے لوگوں نے تکلیف محسوس کی مگر شیو سینا نے اس کے جواز کے لئے جو باتیں کہیں مزید گھناؤنی تھیں اور اس کی ذہنیت کا پتہ دینے والی تھیں۔ اس کے ترجمان اخبار میں لکھا گیا کہ رمضان کے مہینے میں روٹی ٹھونسنا کوئی جرم نہیں جب کہ مسلمان تو اس مہینے میں ریپ تک کر تے ہیں۔ بی جے پی اور شیو سینا دونوں اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے دعویدار ہیں اور اس کا نمونہ انھوں نے قدم قدم پر اس ملک کے سامنے رکھا ہے۔ روزے دار کے منہ میں روٹی ڈالنا اور پھر اپنی اس ذلیل حرکت پر شرمسار ہونے کے بجائے اپنی ذلالت پر فخر کرنا صرف ایسے ہی ہندتو وادیوں کی حرکت ہو سکتی ہے۔ بھارت کی تاریخ میں جو ذلیل حرکتیں یہ لوگ کر رہے ہیں ویسی تو انگریزوں نے بھی نہیں کی تھی۔

یہ نفرت کے سوداگر

بات صرف ان چند واقعات کی نہیں ہے جو حال ہی میں سامنے آئے ہیں اور ان بیانات کی بھی نہیں ہے جو سنگھ کے لیڈروں کی طرف سے آتے رہے ہیں، اصل سوال تو اس ملک کے وجود کا ہے۔ یہ ملک اس لئے متحد ہے کہ یہاں عید اور دیوالی کی خوشیاں مل جل کر منائی جاتی ہیں۔ یہ ملک اس لئے ایکتا اور اکھنڈتا کا پاٹھ دنیا کو پڑھاتا ہے کیونکہ اس کی مٹی میں ہی پیار محبت اور بھائی چارہ کی خوشبو شامل ہے، اب ایسے میں تھوڑے سے سیاسی فائدے کے لئے لوگوں کے دلوں کو بانٹنے کی کوشش اس ملک کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے، جو اس ملک کے سوا کروڑ لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت ایسے لوگوں کو لگام دے گی، یہ تو مشکل ہی لگتا ہے مگر دنیا بھی دیکھ رہی ہے کہ یہ سب بی جے پی کے اس انتخابی منشور کے خلاف ہے جسے ابھی چند مہینے قبل جاری کر کے اس نے ایک انصاف پسند سرکار دینے کا ملک سے وعدہ کیا تھا۔ اب تو سرکار کی نیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے جو ایسے لوگوں کو چھوٹ دے رہی ہے جو اس ملک کے اتحاد کے ہی خلاف ہیں۔ یہاں ثانیہ مرزا اور سچن تندولکر میں فرق کرنے کی سازش کا عوام ہی جواب دیں گے، کیونکہ جس طرح سے سچن نے اس ملک کا سر ساری دنیا میں بلند کیا ہے اسی طرح ثانیہ نے بھی کیا ہے۔

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

 

 

 

 

شروع ہو گیا تعلیم کا بھگوا کرن

 

لیجئے شروع ہو گئی تعلیم کے بھگوا کرن کی کوشش۔ اب اسکولوں میں آر ایس ایس والی تاریخ پڑھائی جائے گی، سنگھ کا جغرافیہ پڑھایا جائے اور بچوں کو گائے کی سیوا کرنے کی تعلیم دی جائے گی۔ طلبہ کی اخلاقیات کو بہتر بنانے کے لئے وید کی اخلاقیات کا درس دیا جائے گا اور زندہ انسانوں و حقیقی کرداروں کے بجائے دیوتاؤں، سنتوں، دیووں اور بھوتوں کی کہانیوں کا درس دیا جائے گا۔ ہندوؤں کی دیومالائی کہانیاں جو بچوں کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں، اب نصاب میں داخل کی جا رہی ہیں۔ بھارت کا جو نقشہ اقوام متحدہ نے بین الاقوامی ضابطوں کے تحت بنایا ہے اب آر ایس ایس اس سے الگ ایک نقشہ پیش کر رہا ہے اور یہ بھی بچوں کے سامنے آ رہا ہے۔ صرف تاریخ ہی نہیں بلکہ تہذیب، سماجیات اور اخلاقیات سب کا بھگوا کرن شروع ہو چکا ہے اور اس کی تجربہ گاہ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات بن رہی ہے۔ آر ایس ایس کے پروردہ اور اس کے نظریات کے ماہر اور ۸۵ سالہ متنازعہ مصنف دینا ناتھ بترا کی تحریر کردہ ایک درجن کتابیں اس بار گجرات کے نصاب تعلیم میں شامل کی گئی ہیں اور ان کی ہزاروں کاپیاں یہاں سرکاری اسکولوں میں بچوں کے بیچ تقسیم کی گئی ہیں۔ ان کتابوں کا گجراتی میں ترجمہ خود آر ایس ایس کے ’’ماہرین تعلیم‘‘ نے کیا ہے۔ اس پر پورے ملک کے ماہرین تعلیم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ بی جے پی اگر ملک میں بھگوا نصاب تعلیم لاگو کرتی ہے تو یہ اس ملک کے تعلیمی سسٹم کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ماہرین اسے تعلیمی نصاب کے بجائے عجائب کا مجموعہ مان رہے ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر تعلیم کا بھگوا کرن کیا گیا تو یہ ملک کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ہماری ملی جلی تہذیب کے بھی خلاف ہو گا۔

مودی کو پسند ہیں بترا کی کتابیں؟

آر ایس ایس کے ماتحت تعلیم پانے والے دینا ناتھ بترا سنگھ پریوار سے اپنے رشتے کو سر عام قبول کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایک ٹی وی چینل پر ایک بحث میں حصہ لیا اور جب میزبان نے ان کا تعارف آر ایس ایس کے حوالے سے پیش کیا تو انھوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ان کا ماضی آر ایس ایس سے جڑا رہا ہے اور وہ جو نصاب تعلیم ترتیب دینے میں لگے رہے ہیں وہ سنگھ کے ہی نظریات کا غماز ہے۔ وہ اسے تعلیم کا بھارتیہ کرن کہتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بھگوا کرن ہے۔ بترا کا کہنا ہے کہ ان کا نریندر مودی سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر ان کی تمام گجراتی نصابی کتابوں کی ابتدا میں نریندر مودی کا گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پیش لفظ موجود ہے۔ مودی اپنے پیش لفظ میں ان کی تحریروں کو علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ قرار دیتے ہیں اور اس کی افادیت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ابھی گجرات میں ان نصابی کتابوں کو تجربے کے طور پر لاگو کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد دھیرے دھیرے بی جے پی کی حکومت والی تمام ریاستوں میں ان کتابوں کو داخل نصاب کیا جائے گا۔ مرکز میں چونکہ بی جے پی کی سرکار ہے لہٰذا مرکز کے تحت چلنے والے اسکولوں میں بھی وہی تاریخ پڑھانے کا پروگرام ہے جس کی اب تک آر ایس ایس وکالت کرتا رہا ہے۔ دینا ناتھ بترا اس وقت لوگوں کی نظر میں آئے تھے جب انھوں نے کئی مصنفوں کی کتابوں پر بھارت میں پابندی عائد کرائی تھی۔ ان کتابوں میں پینگوئن سے شائع ہونے والی "HINDUISM” بھی شامل ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۱ء میں این سی آر ٹی کی ایک کتاب پر کورٹ سے پابندی لگوائی جس میں بھگت سنگھ کو دہشت کرد لکھا گیا تھا۔ انھوں نے ۲۰۰۸ء میں دہلی یونیورسیٹی کی ایک کتاب سے رامائن کا ایک صفحہ نکلوایا تھا جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھا۔

آر ایس ایس کا نظریاتی نصاب

دینا ناتھ بترا ایسے نصاب پر ایک مدت سے کام کرتے رہے ہیں جو آر ایس ایس کے نظریات کو بچوں کے ذہن میں راسخ کر سکے اور اس کے لئے انھوں نے ایک ایسا تعلیمی بورڈ بنایا ہے جس میں ۳۱ ماہرین تعلیم شامل ہیں۔ یہ بورڈ مغربی دہلی میں اپنے چھوٹے سے دفتر سے کام کر رہا ہے اور بترا اس کے کنوینر ہیں۔ غور طلب ہے کہ وہ سنگھ کے ’’شکشا بچاؤ آندولن سمیتی‘‘ کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بھی اس میں آر ایس ایس کے کئی سینئر ممبران موجود ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی کے سابق پرووائس چانسلرکپل کپور، کمایوں یونیورسیٹی کے سابق وائس چانسلربی ایس راجپوت، نیشنل اوپن اسکولس کے سابق چیئر میں ایم۔ سی پنت جیسے اہم لوگ اس کے ممبر ہیں یا رہ چکے ہیں۔

یہ سبھی لوگ ایک مدت سے تعلیم کو آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق ڈھالنے میں لگے ہوئے تھے اور اب جب کہ بی جے پی اقتدار میں آ چکی ہے اور نریندر مودی پوری اکثریت کے ساتھ سرکار میں ہیں تو اس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کی ابتدا اگرچہ اسکولوں سے کی جا رہی ہے مگر آگے کا منصوبہ ہے کہ سبھی تعلیم اداروں میں اسکول سے لے کر یونیورسیٹی تک اس کا نفاذ کیا جائے۔

کیا ہے بترا کی کتابوں میں؟

دینا ناتھ بترا کی کتابوں میں تاریخ، سائنس، جغرافیہ اور معلوماتِ عامہ سب کی ایسی کی تیسی کی گئی ہے اور یہ سب آر ایس ایس کے نظریات کے مطابق کیا گیا ہے۔ پہلے جو باتیں آر ایس ایس کے ماتحت چلنے والے اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں اب انھیں باتوں کو تمام تعلیمی اداروں میں شامل نصاب کیا جا رہا ہے۔ بھارت کا جو نقشہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے اس کے برخلاف آر ایس ایس کے نقشے میں پاکستان، افغانستان، بھوٹان، نیپال اور برما کو بھی اس کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس کی تعبیر میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھارتی تہذیبی اثرات کا نقشہ ہے۔ یعنی ان ملکوں میں بھارت کی تہذیب پھیلی ہے۔ یہی نقشہ دینا ناتھ بترا کی کتاب میں بھی شامل ہے۔ ذرا سوچیں کہ جب چین نے اپنے ایک نقشے میں اروناچل پردیش کو چین کا حصہ دکھایا تھا تو اس پر ہنگامہ مچ گیا تھا اور بترا کی کتاب جو گجرات میں نصاب کا حصہ ہو گی اس میں پڑھایا جائے گا تو طلبہ کے ذہن پر کیا اثر ہو گا؟

مہابھارت اور رامائن کو آج تک محض قصہ مانا جاتا تھا اور مورخین نے ان کی کہانیوں کی تصدیق نہیں کی تھی مگر اب جو کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں ان میں ان کتابوں کی باتوں کو تاریخ سے بھی پڑھ کر حقیقت مان لیا گیا ہے اور کئی جگہ تو سائنس کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیلی ویزن کی ایجاد ۱۹۲۶ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک عیسائی پادری نے کی تھی، یہ ایک حقیقت ہے اور ساری دنیا میں طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے مگر گجرات میں طلبہ کو یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ عہد قدیم میں بھارت کے رشیوں اور منیوں کے پاس وہ روحانی طاقت تھی جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے رابطہ کیا کرتے تھے۔ اسے دنیا کا پہلا دور درشن قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح کار کے سلسلے میں لکھا ہے کہ مہابھارت کے عہد میں اس کی ایجاد ہو چکی تھی اور جہاں کچھ بگھیاں گھوڑوں سے چلتی تھیں وہیں کچھ بغیر گھوڑوں کے بھی چلتی تھیں اور یہ اصل میں کاریں تھیں جو ہزاروں سال قبل بھارت ایجاد کر چکا تھا۔ اس قسمک اور بھی حماقتیں ان کتابوں میں موجود ہیں جو ہمارے تعلیمی سسٹم کا ستیاناس کر دیں گی مگر ہندتو اور ہندوستانی ثقافت کے نام پر انھیں بچوں کے ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے۔ گجرات کے وزیر تعلیم بھوپیندر سنگھ چوداسما اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کا کائی جواب نہیں ہے۔ وہ پہلے بغلیں جھانکتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ بچوں کے لئے ریفرنس بک ہیں جو ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جانکاریاں فراہم کرتی ہیں۔ یہ نصاب کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ضمنی مطالعاتی کتابیں ہیں۔ قارئین کی یاد میں ہم یہ بھی تازہ کر دیں کہ یہاں پڑھائی جانے والی کتابوں میں لکھا ہے کہ جاپان نے امریکہ پر ایٹم بم برسایا تھا۔ یونہی بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یوم شہادت بھی غلط درج ہے، مگر تمام کتابیں اسی طرح پڑھائی جا رہی ہیں۔

ہمارے ملک میں کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جن میں سے سات کا ذکر دینا ناتھ جی نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ رہا ہے مگر انھوں نے ان بم دھماکوں کا ذکر بالکل نہیں کیا جن کے پیچھے آر ایس ایس سے جڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ تھے۔ مکہ مسجد بم دھماکہ، سمجھوتہ اکسپریس بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکہ اور اجمیر شریف درگاہ کے بم دھماکے کا انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے جن میں سوامی اسیمانند، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت جیسے لوگ آج بھی جیلوں میں بند ہیں اور ان سے ملنے کے لئے سنگھ پریوار کے لوگ جیلوں میں جاتے رہے ہیں۔

دینا ناتھ بترا کی ان کتابوں میں صلیبی جنگوں کا ذکر ہے، جن کی ہلاکت خیزی کو بھی پیش کیا گیا ہے اور اس بہانے سے عیسائیوں کو ظالم بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ صلیبی جنگیں ایک حقیقت ہیں اور تاریخ کا اہم حصہ ہیں مگر ان کے بارے میں ساتویں کلاس کے بچوں کا پڑھانا کوئی اچھے اثرات نہیں چھوڑتا ہے۔ یہ تو یونیورسیٹیوں کا موضوع ہے اور اس پر اسکالرس کو ریسرچ کی ضرورت ہے نہ کہ ننھے اور معصوم ذہنوں کے اس بہانے سے عیسائیوں سے متنفر کرنے کی ضرورت۔ اسی طرح مسلمانوں کے حملوں کا بھی ان کتابوں میں ذکر کیا گیا جس سے بچوں میں یہ پیغام جاتا ہے کہ گویا مسلمان بیرونی حملہ آور کی اولاد ہیں۔ دینا ناتھ بترا کی کتابوں میں بیان تاریخ و ثقافت کو معروف تاریخ داں رومیلا تھاپر اور مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ کے پروفیسر عرفان حبیب نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے علم تاریخ کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے مگر دینا ناتھ جی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر تنقید ہوتی ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ آر ایس ایس کے رام مادھو بھی ان کے کام کی تحسین کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کام بہت پہلے ہونا چاہئے تھا وہ کام انھوں نے کیا ہے۔ یہ بچوں میں قومیت کا جذبہ پیدا کرنے والا کام ہے۔

آر ایس ایس کے اسکولوں میں جو باتیں پڑھائی جاتی ہیں ان کی تصدیق نہ تو اہل علم کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے ماہرین کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کے تعلیم بافتہ افراد کا ذریعہ علم ہی مختلف ہوتا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ابھی چند مہینے قبل نریندر مودی جب الیکشن مہم پر نکلے ہوئے تھے تو کیسی کسی تاریخ اور جغرافیہ کی جانکاریاں اپنی تقریروں میں دے رہے تھے۔ وہ اس دوران اپنے علم جغرافیہ اور تاریخ کے لئے بھی چرچے میں تھے۔ اصل میں یہ سب آر ایس ایس کے اسکولوں کا فیض تھا جہاں سے انھوں نے تعلیم پائی ہے اور اب پورے ملک کو یہی تعلیم دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔

 

 

 

گاندھی خاندان کے لئے نٹور سنگھ بنے نٹور لال

 

سابق وزیر خارجہ کی کتاب One Life Is Not Enough میں نہرو۔ گاندھی خاندان کے بارے میں کئی انکشافات

 

لیجئے، اب سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بھی گاندھی خاندان کی پول کھول دی۔ گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی کئی گھر کے بھیدیوں نے یہ کام کیا ہے مگر اس بار اس خاندان کے بہت ہی قریب رہنے والے فرد نے یہ کام کیا ہے۔ نٹور سنگھکانگریس کے اندر ایک بارسوخ حیثیت کے حامل رہے ہیں اور اس لحاظ سے راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کے قریب رہے ہیں جس کے سبب انھیں کانگریس کی ہر سرکار میں اہم وزارت ملتی رہی ہے۔ اب وہ پارٹی میں نہیں ہیں اور عمر کی جس دہلیز پر ہیں وہاں اس بات کی امید بھی نہیں کی جا سکتی کہ پھر انھیں کبھی منتری بننے کا موقع ملے گا لہٰذا اب کتاب لکھ کر وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ زندگی بھر کانگریس اور گاندھی خاندان کی وفاداری نبھانے والے اب اس کی پول کھولنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب One Life Is Not Enough میں کئی اہم راز کھولے ہیں اور اپنی سابقہ پارٹی کے ساتھ ساتھ اس خاندان کو بھی کٹھ گھڑے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اہم عہدوں پر فائز ہوتے رہے۔ حالانکہ سونیا گاندھی اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کرتی رہیں اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ بھی کتاب لکھ کر تمام حقائق بیان کریں گی۔ کانگریس کے دوسرے لیڈران مانتے ہیں کہ انھوں نے اپنی خودنوشت سوانح عمری کی تشہیر کے لئے جھوٹی باتیں تحریر کی ہیں اور انھیں باتوں کو وہ میڈیا میں انٹرویو کے دوران کہہ رہے ہیں۔ بہر حال اب جب کہ کانگریس کی سرکار نہیں ہے اور وہ اپنی قوت و شوکت بھی کھو چکی ہے ایسے میں کچھ اور بھی انکشافات مستقبل قریب میں سامنے آئیں تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے ابھی اُس واقعے کو زیادہ دن نہیں گزرے ہیں کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا صلاح کار سنجے بارو نے بھی ایک کتاب لکھ کر کانگریس اور اس کی سابقہ سرکار کے بارے میں بہت کچھ انکشافات کئے تھے، جس پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا اور کانگریس کو بیک فٹ پر آنا پڑا تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب عین لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران ہی لانچ کی تھی۔

راہل نے روکا سونیا کا راستہ؟

۲۰۰۴ء میں کانگریس کی جیت کے بعد سونیا گاندھی کے لئے وزیر اعظم بننے کا راستہ صاف ہو چکا تھا۔ ان پر پارٹی ور کروں کی طرف سے دباؤ بھی تھا کہ وہ عہدہ قبول کر لیں مگر ایک وقفے تک غور و فکر کے بعد اور کچھ ڈرامائی موڑ سے گزرنے کے بعد انھوں نے خود وزیر اعظم نہ بن کر منموہن سنگھ کو بنانے کا اعلان کیا۔ اسے کانگریس نے ان کا تیاگ قرار دیا اور لالو پرساد یادو جیسے خوشامدیوں نے بھی ان کے اس ’’تیاگ‘‘ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیئے۔ اس تجرد اور تیاگ کے پیچھے کی اصل کہانی کیا تھی؟ اس کا انکشاف نٹور سنگھ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل میں راہل گاندھی ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئے تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ ماں وزیر اعظم بنیں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ جس طرح ان کے والد راجیو گاندھی اور ان کی دادی اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا اسی طرح ان کی ماں کا بھی قتل ہو سکتا ہے۔ راہل نے اسی اندیشے کے سبب ماں کو وزیر اعظم بننے سے روکا اور آخر کار انھیں رک جانا پڑا۔ گویا وہ تیاگ جس کا ذکرکانگریس کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے، اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ راجیو اور اندرا گاندھی کے قتل کا اثر راہل گاندھی نے بہت زبردست لیا ہے اور اس کا اندازہ ان کی ان تقریروں سے بھی ہوتا ہے جو وہ لوک سبھا انتخابات مہم کے دوران کرتے رہے ہیں۔ وہ جب بھی اب باتوں کا ذکر کرتے ہیں تو جذباتی ہو جاتے ہیں۔ یہی خوف تھا کہ انھوں نے اپنی ماں کو وزیر اعظم نہیں بننے دیا۔ ویسے بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی، خود راہل گاندھی سے بھی بار بار یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ریموٹ سے سرکار چلانے کے بجائے وزیر اعظم کیوں نہیں بن جاتے تاکہ خود اپنی مرضی سے سرکار چلا سکیں۔ منموہن سنگھ بھی متعدد مواقع پر ان سے کہہ چکے ہیں کہ وہ سامنے آئیں اور راج پاٹ سنبھالیں مگر راہل نے کبھی بھی آگے قدم بڑھانے کی ہمت نہیں دکھائی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کے پیچھے ان کا وہی خوف ہے جس کا ذکر نٹور سنگھ نے اپنی کتاب میں کیا ہے؟ کیا راہل گاندھی نے جس طرح اپنی ماں کو وزیر اعظم نہیں بننے دیا اسی طرح وہ خود بھی کبھی وزیر اعظم بننے کی ہمت نہیں کر سکیں گے؟ نٹور سنگھ کے مطابق راہل گاندھی ایک مضبوط انسان ہیں مگر انھیں اس کے باوجود یہ خوف تھا کہ ان کی ماں بھی اپنی زندگی گنوا سکتی ہیں جس طرح سے ان کی دادی اور والد نے اپنی زندگیاں گنوائیں۔ سابق وزیر خارجہ کے مطابق سونیا گاندھی کے تیاگ کا صرف اور صرف ایک سبب تھا اور وہ تھا راہل کی مخالفت۔

۱۰ جن پتھ کی اہمیت

قارئین کو یاد ہو گا کہ سنجے بارو نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ وزیر اعظم کے دفتر کی فائلیں سونیا گاندھی کی رہائش گاہ ۱۰ جن پتھ بھیجی جاتی تھیں اور جب وہاں سے فیصلہ لیا جاتا تو اس کا اعلان وزیر اعظم کے دفتر سے ہو جاتا تھا۔ اس بات کو الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ نٹور سنگھ نے بھی قبول کیا ہے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو منموہن سنگھ کو ریموٹ کنٹرول سے چلنے والا وزیر اعظم کہا جاتا تھا اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ نٹور سنگھ کے مطابق سونیا گاندھی تو دفاعی ہتھیاروں کی خرید و فروخت میں بھی دخل اندازی کرتی تھیں اور جب ان کی طرف سے کوئی معاملہ اوکے کیا جاتا تب ہی وہ آگے بڑھتا تھا۔ انھوں نے ایک دفاعی معاملے کا ذکر کیا ہے جس کا وزیر خارجہ کے طور پر ان کی وزارت سے تعلق تھا مگر پرنب مکھرجی وزیر دفاع تھے، اس لحاظ سے وہ بھی اس معاملے میں شامل رہے۔ باوجود اس کے سونیا گاندھی نے پوری فائل دیکھی اور جب ہری جھنڈی دکھائی تو یہ معاملہ آگے بڑھا۔ انھوں نے مزید انکشاف کیا ہے کہ تمام انتہائی راز داری کے معاملات سونیا گاندھی تک پہنچائے جاتے تھے۔

راجیو کے دور کے راز

نٹور سنگھ کانگریس میں ایک طویل مدت تک رہے اور سونیا گاندھی و من موہن سنگھ کے علاوہ راجیو گاندھی کے ساتھ بھی انھیں کام کرنے کا موقع ملا لہٰذا وہ بہت سی ایسی باتوں سے بھی باخبر تھے جو راجیو گاندھی سے متعلق ہیں۔ انھوں نے چندر شیکھر کے دور حکومت کے بھی کچھ راز منکشف کئے ہیں۔ یہ سرکار کچھ مہینے میں ہی گر گئی تھی، حالانکہ اسے کانگریس نے ہی حمایت دے کر بنوایا تھا۔ اس بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ راجیو گاندھی اور چندر شیکھر کے بیچ کچھ سنجیدہ اختلافات ہو گئے تھے جس کی وجہ سے سرکار گر گئی تھی۔ اس بارے میں ایک بڑا اختلاف تو یہ تھا کہ ۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ کے دوران امریکی جنگی جہاز بھارت میں ایندھن بھرنے کے لئے رکا کرتے تھے۔ اس بات کی اجازت خود اس وقت کے وزیر اعظم چندر شیکھر نے دی تھی مگر راجیو گاندھی اس کے خلاف تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بھارت کسی حملہ آور ملک کے ساتھ کھڑا نظر آئے۔ چندر شیکھر سرکار کی اس بارے میں کچھ مجبوریاں تھیں لہٰذا راجیو گاندھی نے سرکار سے حمایت واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ نٹور سنگھ نے لکھا ہے کہ راجیو گاندھی نے پہلے عالمی صورتحال پر امریکی صدر جارج بش سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں ملا تھا، جس کے بعد انھوں نے چندر شیکھر کی سرکار گرائی۔

خارجہ پالیسی کا فقدان؟

منموہن سنگھ کے دور حکومت میں کیا کوئی خارجہ پالیسی نہیں تھی؟ یہ سوال اب اس لئے اٹھ رہا ہے کہ ۸۳ سالہ سابق وزیر خارجہ نٹورسنگھ نے یہ بات کہی ہے۔ انھوں نے اس بات پر سخت تنقید بھی کی ہے اور اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ SAARCممالک وزیر اعظم سے ملنے میں کترانے لگے تھے۔ ان کا صاف طور پر کہنا ہے کہ منموہن سنگھ سرکار کی کوئی خارجہ پالیسی تھی ہی نہیں۔ یہ بات چونکہ نٹور سنگھ کہ رہے ہیں لہٰذا قابل توجہ بھی ہے اور سوالات بھی کھڑے کرتی ہے۔ کیا دس سال تک ہمارا ملک بغیر کسی خارجہ پالیسی کے چلتا رہا؟ خاص طور پر پروسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی کوئی بنیاد تھی کہ نہیں؟ اپنے پڑوسی ممالک سے جو ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہتے ہیں اس کے لئے کیا ہماری یہی بے سمتی ذمہ دار ہے؟ سابق وزیر خارجہ نے انڈو۔ امریکہ ڈیل پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کے مطابق شروع میں سونیا گاندھی امریکہ کے ساتھ ڈیل کے لئے تیار نہیں تھیں مگر پھر انھوں نے اچانک اپنا رخ بدل دیا تھا۔ قارئین کی یادداشت کو تازہ کرتے چلیں کہ یوپی اے اول کے دوران بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو نئی سمت ملی تھی اور اس کا ایک بڑا سبب یہی تھا کہ بھارت نے ایٹمی ڈیل کی تھی، حالانکہ اس ڈیل کی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی کی گئی تھی۔

کانگریس میں بوکھلاہٹ

One Life Is Not Enoughکے کچھ اقتباسات جب سے میڈیا میں آئے ہیں ان پر بحث شروع ہو چکی ہے اور بڑے پیمانے پر ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی لازمات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ ایک بار پھر سوالات کے گھیرے میں آ گئے ہیں۔ حالانکہ ان کے قریبی لوگ ان الزامات کی تردید کر رہے ہیں جو اس کتاب میں لگائے گئے ہیں۔ سونیا گاندھی نے خود کوئی جواب دینے سے گریز کیا اور یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی کہ وہ خود بھی کتاب لکھیں گی اور تمام حقائق واضح کریں گی۔ منیش تیواری، اجے ماکن، ابھیشیک منوسنگھوی اور امبیکا سونی سے لے کر پارٹی کے تیسرے اور چوتھے درجے کے لیڈران تک سامنے آ، آ کر ان باتوں کو جھٹلا رہے ہیں جو نٹور سنگھ نے لکھی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ گھر کا بھیدی نہرو۔ گاندھی خاندان کے لئے لنکا ڈھانے والا ثابت ہو رہا ہے۔ نٹور سنگھ اصل میں اس خاندان کے لئے نٹور لال ثابت ہو رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک نٹور لال آنکھ میں دھول جھونک کر مال چراتا تھا تو دوسرا راز چرانے میں کامیاب ہو گیا۔

 

 

 

 

انصاف کے انتظار میں ہیں مظفر نگر اور شاملی کی مظلوم خواتین

 

کیا ریپ کا بھی مذہب ہے؟

 

مظفر نگر فسادات کو سال پورے ہونے والے ہیں۔ یہاں کی زندگی اب معمول کی جانب لوٹ رہی ہے اور پرانے زخم مندمل ہونے لگے ہیں مگر کچھ ایسی خواتین بھی یہاں ہیں جن کے زخم کبھی نہیں بھرسکتے ہیں۔ انھیں انصاف کا انتظار ہے مگر انصاف ان سے کوسون دور ہے۔ آج بھی ان کی آہیں لمبے لمبے گھونگھٹ کی اوٹ میں گھٹ رہی ہیں۔ انھیں جو زخم لگے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں مگر وہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہچانا چاہتی ہیں۔ یہ وہ مظلوم عورتیں ہیں جن کے ساتھ زن بالجبر کیا گیا اور بیشتر مجرم اب تک پولس کی گرفت سے باہر ہیں۔ کچھ زانی پکڑے بھی گئے ہیں مگر ریپ کی شکار مظلوم عورتوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مقدمات واپس لے لیں۔ ان عورتوں پر ایک ظلم تو یہ ہوا کہ ان کی عصمتیں لوٹی گئیں اور دوسرا ظلم یہ ہوا کہ یہ انصاف کو ترس رہی ہیں۔ مظفر نگر اور شاملی میں فسادات کے دوران ریپ کی شکار ہونے والی صرف سات خواتین سامنے آئی ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ۱۰۰ مسلمان عورتیں اس ظلم کا شکار ہوئی ہیں مگر وہ سماجی بدنامی کے سبب پردے سے باہر نہیں آئی ہیں۔ واضح ہو کہ گزشتہ سال اس علاقے میں ہوئے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۷۲ افراد کی جانیں گئی تھیں مگر غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حال ہی میں انگریزی کے میگزین ’’آؤٹ لک‘‘ نے عصمت دری کی شکار عورتوں پر ایک اسٹوری شائع کی ہے۔ میگزین کی نمائندہ نیہا دکشت نے ان عورتوں کے درد کو جاننے کی کوشش کی جن کی عصمت تباہ کی گئی اور آج بھی ان کی سسکیاں بلند ہو کر انصاف کو آواز دے رہی ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ جب ایک لڑکے نے کسی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو اس کی اِس حرکت کو پوری قوم کی حرکت کیوں مان لیا گیا اور اس کے جواب میں ان بے گناہ عورتوں کی عصمت دری کیوں کی گئی؟ نربھیا کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اسے تو زانیوں کی برادری اور مذہب کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا گیا تھا، پھر مظفر نگر اور شاملی میں ایسا کیوں کیا گیا؟ یہاں فرقہ وارانہ فساد کا سبب یہ بتایا گیا کہ کوال میں کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی اور اسے پوری مسلم قوم کی حرکت مان لیا گیا۔ ہندوؤں کی مہاپنچائت ہوئی، جس میں بی جے پی کے کئی لیڈر شریک ہوئے اور مہاپنچائت سے واپسی کے وقت مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے گئے۔ انھوں نے ’’بیٹی بچاؤ اور بہو بناؤ‘‘ کا نعرہ دیا تھا جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہندوؤں کی بیٹی کو مسلمان لڑکے سے شادی سے روکو اور مسلمان کی بیٹی کو اپنی بہو بناؤ۔ ظاہر ہے یہ ایک اشتعال انگیز بات تھی اور اسے بہانہ بنا کر بہت سے معصوم لوگوں کی جانیں لی گئیں اور خواتین کی عزت سے کھلواڑ کیا گیا۔ زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب دلی میں نربھیا کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس پر پورا ملک چیخ پڑا مگر مظفر نگر اور شاملی میں جن عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ان کی حمایت میں کوئی سامنے آنے کو تیار نہیں۔ وہ آج بھی تنہا لڑائی لڑ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عصمت کا بھی مذہب ہے؟

وہ عادی زانی تھے

فغانہ (ضلع مظفرنگر) کی چالیس سالہ ثمینہ(بدلا ہوا نام) اب پہلے سے زیادہ مضبوط حوصلوں کی مالک ہو گئی ہے اور اسے امید ہے کہ وہ انصاف کی لڑائی جیت جائے گی۔ اس کا شوہر راجستھان میں سیلس میں کا کام کرتا ہے اور ابھی اسے واپس گئے صرف پندرہ دن بیتے تھے کہ ثمینہ پر قیامت گذر گئی۔ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں لوگوں کے کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی۔ ۷ستمبر۲۰۱۳ء کو اس کے ساتھ ریپ ہوا اور پھر پاراملیٹری فورسیز کے جوانوں نے اسے پناہ گزیں کیمپ میں لا کر پہنچا دیا۔ اس کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ایک بیٹی ہے۔ اس کا کہنا ہے مجھ پر جو قیامت ٹوٹی ہے میں اس کا ذکر کبھی اپنے بچوں کے سامنے نہیں کر پاؤں گی۔ میرے ساتھ زیادتی کرنے والے وہی لوگ تھے جن کے کھیتوں میں کام کیا کرتی تھی۔ وہ مجھے کام کرنے کے بعد پیسے نہیں دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ تو موٹی ہے اور کام نہیں کر پاتی ہے پھر تجھے پیسے کیسے دیں۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والی چمار عورتوں کو پیسے دینے سے پہلے وہ لوگ ریپ کیا کرتے تھے اور یہ ان کا معمول تھا مگر میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا فساد کے دوران میرے ساتھ یہ سب کیا گیا۔ اسے کیس واپس لینے کے لئے دھمکیاں بھی ملیں مگر وہ لڑتی رہی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اب چار مجرموں کے خلاف فرد جرم داخل ہو چکی ہے۔

وہ اب بھی خوفزدہ ہے

۴۸سالہ خالدہ بھی فغانہ گاؤں کی رہنے والی ہے۔ اس نے ریلیف کیمپ میں ہی اپنی ایک بیٹی کی شادی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتی تھی کہ اپنی بیٹی کی عزت و عصمت کی حفاظت کر سکون گی لہٰذا اس کی شادی کر دینا ہی مناسب سمجھا۔ خالدہ بھی خود گینگ ریپ کی شکار ہو چکی ہے اور اس کے بعد وہ پناہ گزیں کیمپ تک پہنچی تھی۔ اس کے ساتھ ریپ کی واردات انجام دینے والوں کے نام ہیں دیویندر جو کہ ایک دکان چلاتا تھا، سنیل جو کہ درزی ہے، اور رام کمار و دھرمیندر۔ خالدہ نے اپنا کیس اس وقت اٹھا لیا تھا جب اس کے اکلوتے بیٹے پر ایک جاٹ نے اپنی بندوق تان دی تھی۔ اسے خوف تھا کہ اس کا بیٹا مارا جائے گا مگر جب اس نے دیکھا کہ دوسری متاثرین سامنے آ رہی ہیں اور انصاف کے لئے جد و جہد کر رہی ہیں تو اس نے دوبارہ اپنا کیس کھلوایا۔ اب تک مجرموں کے خلاف چارج شیٹ داخل ہو چکی ہے مگر اسے سرکار کی طرف سے معاوضہ نہیں ملا ہے۔ خالدہ کے مطابق اس کے شوہر کے پاس اب بھی جاٹ آ کر دھمکیاں دیتے ہیں۔ مرکز میں بی جے پی کی سرکار بننے کے بعد ایک جاٹ نے اس کے شوہر سے آ کر کہا، اب تو اپنی سرکار آ گئی۔

وہ مجرموں کو سزا دلانا چاہتی ہے

شازیہ کی عمر تیس سال ہے۔ وہ شاملی کے لانکھ گاؤن کی رہنے والی ہے۔ گزشتہ سال ۸ ستمبر کو اس کے ساتھ بھی گینگ ریپ کیا گیا۔ وہ خود ایک درزی ہے اور اس کا شوہر بھی یہی کام کرتا ہے۔ وہ لوگ اپنی دکان کے پیچھے کے مکان میں رہتے تھے۔ ان کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک بیمار تھا جسے لے کر اس کا شوہر ہسپتال میں تھا اور دوسرا بچہ اس کے ساتھ گھر میں تھا۔ اسی دوران فساد شروع ہوا اور جب ہنگامہ بڑھا تو وہ کسی طرح جان بچا کر پیچھے کے دروازے سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے رات کے وقت ایک گنے کے کھیت میں پناہ لیا اور پھر کسی طرح وہاں سے نکلی مگر شاملی۔ مظفر نگر روڈ پر برائٹ زون اسکول کے پیچھے اسے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا اور اس کی عصمت دری کی۔ بعد میں وہ کسی طرح لونی پناہ گزیں کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ سکندر، مہیندر اور کلدیپ کے خلاف عصمت دری کا کیس درج ہے جنھیں سزا دلانے کے لئے وہ جد و جہد میں لگی ہوئی ہے۔

فاطمہ کی عمر باون سال ہے مگر وہ بھی جنسی بھیڑیوں سے محفوظ نہیں رہ پائی۔ فغانہ (مظفرنگر) کی رہنے والی فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس کی عصمت دری کرنے والے اس کے بچوں کی عمر کے لوگ تھے۔ وہ دہائیاں دیتی رہی کہ اسے مار ڈالیں مگر عصمت دری نہ کریں مگر ظالم کہاں سننے والے تھے۔ پانچ نوجوان لڑکوں اجیت سنگھ، سینی، وید پال، یوگیش اور سچن نے کمرے میں اسے قید کر دیا اور پھر اس کی عصمت ریزی کی۔ وہ دہائیاں دیتی رہی کہ اس کے اپنے بچے ان کی عمر کے ہیں مگر ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ حالانکہ بعد میں انھوں نے اس کے سامنے چار لوگوں کا قتل بھی کیا جس کی وہ چشم دید گواہ ہے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اور شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس کے کیس کی تفتیش کے لئے سرکار کی طرف سے مالا یادو نامی ایک خاتون پولس انسپکٹر کو مقرر کیا گیا ہے جو بیان درج کرنے کے لئے پناہ گزیں کیمپ میں آئی تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی اس کیس کا گواہ ہے؟ کیا کسی نے اس کی چیخ سنی تھی یا اس واردات کو ہوتے دیکھا تھا؟ فاطمہ کو مالا یادو کی حرکت بہت ناگوار گذری۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں کوئی کیسے اسے دیکھ سکتا ہے یا چیخ سن سکتا ہے؟ اور میں تو ایک عورت ہوں اپنی عصمت کے تعلق سے کوئی جھوٹی کیسے بول سکتی ہوں؟ فاطمہ کے کیس میں پانچ لوگ ملزم ہیں جن کے خلاف فرد جرم داخل ہو چکی ہے۔

ننھی بیٹیوں کے سامنے ریپ کیا گیا

فغانہ کی طاہرہ اس وقت آٹھ مہینے کی حاملہ تھی جب اس کی عصمت ریزی کی گئی۔ اس کی عمر بیس سال ہے اور چار افراد نے اس کی عصمت کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔ وہ تفتیش کرنے والے افسران سے خفا ہے جنھوں نے اس کی مظلومیت کا مذاق اڑایا تھا۔ ان افسروں نے اس سے سوال کیا کہ اس کے پیٹ میں کس کا بچہ ہے؟ اور اتنی جلدی کیا تھی؟ اس نے بتایا کہ اس کی پہلے ہی سے تین بیٹیاں تھیں اور وہ چاہتی تھی کہ تیسرا بیٹا ہو۔ اس نے بتایا کہ ۸ ستمبر کی صبح جب وہ کچن میں کھانا پکا رہی تھی تب ہی رنبیر، سنجیو، پشپیندر اور روپیش اس کے گھر کے دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہو گئے اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس دوران اس کی ننھی بیٹیاں یہ منظر دیکھتی رہیں اور چیختی رہیں۔ طاہرہ کے شوہر نے گاؤں کے لوگوں سے مدد چاہی مگر کسی نے اس کی مدد نہیں کی یہاں تک کہ گاؤں کے سابق پردھان ہرپال سنگھ نے بھی کوئی مدد دینے سے انکار کر دیا۔ واضح ہو کہ ہرپال سنگھ بھی فساد اور قتل کے مقدمے میں ماخوذ ہے۔ ہرپال سنگھ نے ایک موقع پر پولس کے سامنے اسے دھمکی دی تھی کہ اسے جھوٹے مقدموں میں پھنسادیا جائے گا اور ان لوگوں کا جینا محال کر دیا جائے گا۔ اسی کے کچھ دن بعد اس کے کزن کو دہشت گرد اور لشکر طیبہ کا ممبر بتا کر پولس نے گرفتار کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک خاص بات قابل توجہ یہ ہے کہ اس کیس کے ایک ملزم سنجیو کے باپ اور ایک رشتہ دار نے بھی ماضی میں ایک لڑکی کا ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔

انھوں نے چہرے چھپا رکھے تھے

بیس سالہ فہمیدہ بھی فغانہ گاؤن کی ہی رہنے والی ہے جو اب ایک چھوٹی سی بچی کی ماں ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جب اس کا ریپ ہوا تو وہ تین مہینے کی حاملہ تھی۔ اس نے بتایا کہ ریپ کرنے والے اپنے چہروں پر کپڑے باندھے ہوئے تھے لہٰذا اس نے ان لوگوں کا چہرہ نہیں دیکھا البتہ ان کی آواز سنی جو ایک دوسرے کو بدلو، نیلو اور امردین کے نام سے پکار رہے تھے۔ دو لوگوں نے اس کے پیر اور ہاتھ کو پکڑ لیا جب کہ باقی دو افراد نے اس کی عصمت ریزی کی۔ انھوں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں جس کے سبب وہ خاموش ہو گئی کیونکہ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کا شوہر چھت پر تھا اور جب اس نے گھر میں فسادیوں کو داخل ہوتے دیکھا تو دھیرے سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ گیا۔ فہمیدہ کا ایک پانچ سالہ بچہ بھی ہے جو پہلی جماعت میں پڑھتا ہے۔ وہ کسی طرح پارا میلیٹری فورسیز کی مدد سے ایک کیمپ میں پہنچی جہاں اس کی جیسے بہت سے مسلمان خاندان پناہ گزیں تھے۔ اس کے کیس میں چار افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل ہو چکی ہے۔

جب اس کی روح تک زخمی ہو گئی

کوثر جہاں بھی فغانہ گاؤں کی ہی رہنے والی ہے جس کی عمر پچاس سال ہے۔ اس کے ساتھ بھی ریپ ہوا اور یہ اس کے لئے دلدوز لمحہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک جاٹ اس کے پاس آیا اور ہنس کر کہنے لگا تم اب بھی پرکشش ہو۔ اصل میں کوثر جہاں کو کوئی بچہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کے لئے ناقابل فراموش ہے۔ اس کے ساتھ چار افراد نے بلاتکار کیا۔ یہ ۸ ستمبر کا واقعہ ہے۔ اس نے جب اس زیادتی کی شکایت کی تو پولس نے بھی اس پر دباؤ دینا شروع کیا کہ وہ کیس واپس لے لے۔ کیونکہ جو لوگ مجرم تھے وہ بارسوخ لوگ ہیں۔ کوثر جہاں کا کہنا ہے کہ کسان لیڈر نریش ٹکیت نے کہا تھا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے وہ تو بس ایک جھانکی ہے اصل فلم تو ابھی باقی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ مالا یادو نامی تفتیشی افسر نے جب کیمپ میں اس کا بیان رکارڈ کیا تو لوگوں سے پوچھا کہ کسی نے اس کے داغدار کپڑے کو دیکھا ہے؟ سرکار اور پولس کی طرف سے اس قسم کی حرکتوں نے اس کی روح کو اندر تک زخمی کر دیا ہے۔ وہ آج تک اس کیس کو لڑ رہی ہے مگر بارسوخ مجرمین اس پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ کیس واپس لے لے۔ (اس مضمون میں تمام نام بدلے ہوئے ہیں)

 

 

 

کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمانوں کا خونِ ناحق کس کے اشارے پر؟

 

جو سوال، مہاراشٹر ہائی کورٹ پوچھ رہا ہے مسلمان خود کیوں نہیں پوچھتے؟

 

کشمیر میں پولس کی حراست میں کون مرتا ہے؟ مہاراشٹر میں سلاخوں کی پیچھے کس کی موت ہوتی ہے؟ اتر پردیش میں کس کا خون ناحق ہوتا ہے اور گجرات میں فرضی انکاؤنٹر میں کون مارا جاتا ہے؟ ان تمام سوالوں کا ایک جواب ہے مسلمان۔ جی ہاں آسام ہو یا بنگال، بہار ہو یا کرناٹک کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں مسلمان کا خون ارزاں نہ ہو۔ پولس اسٹیشن کے لاک اپ میں مرنے والا مسلمان ہوتا ہے اور جیلوں میں مرنے والا بھی مسلمان ہی ہوتا ہے۔ اگر کہیں پولس مڈبھیڑ ہوتی ہے تو اس میں بھی مسلمان ہی مارے جاتے ہیں اور بغیر قصور کے گرفتاریاں بھی انھیں کی ہوتی ہیں، مگر کوئی اس بات کی خبر لینے والا نہیں اور نہ ہی کوئی انصاف کے لئے یہاں کے عدالتی نظام کی مشکلات کو جھیلنا چاہتا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ اس اہم سوال کو اب مہاراشٹر ہائی کورٹ نے وہاں کی حکومت سے پوچھا ہے کہ پولس حراست میں مرنے والوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی کیوں ہیں؟ حالانکہ ایک دوسرا سوال بھی اس سے پوچھا جانا چاہئے کہ جیلوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی کیوں قید ہیں؟ کیا جرائم پیشہ صرف مسلمان ہوتے ہیں؟ گناہ صرف مسلمان کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے زیادہ چونکانے والی سچائی یہ ہے کہ جن ریاستوں میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حکومتیں ہیں وہاں مسلمانوں کا عرصۂ حیات زیادہ تنگ ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان مہاراشٹر اور اتر پردیش کی جیلوں میں قید ہیں اور سب سے زیادہ پولس کی حراست میں موتیں بھی انھیں ریاستوں میں ہوئی ہیں۔ اس کے مقابلے بی جے پی کی حکومت والی گجرات اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں کم مسلمان جیلوں میں ہیں۔ آخر اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟ کیا اسی کا نام ہے مسلمانوں کی چاپلوسی اور خوشامد جس کا طعنہ اکثر بی جے پی اور سنگھ پریوار کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے؟ کیا یہی وہ مہربانیاں ہیں جو مسلمانوں پر ہوتی ہیں؟

کورٹ کا سوال

ممبئی ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے مہاراشٹر پولس سے سوال کیا ہے کہ ریاست میں جو بھی موتیں پولس حراست میں ہوئی ہیں ان میں سب سے زیادہ تعداد میں اقلیتی طبقہ کے ہی لوگ کیوں ہیں؟ یہ سوال اپنے آپ میں ہی بہت سے سوال لئے ہوئے ہے جسے سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے؟ گجرات میں ماضی میں کئی فرضی انکاؤنٹر ہوئے جن میں پولس افسران کے ملوث ہونے کی خبر تھی اور اب ان معاملات کی انکوائری کی بھی چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی اعلیٰ افسران جیل میں ہیں اور بی جے پی کے صدر امت شاہ بھی دو مہینے جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر باہر نکلے ہوئے ہیں۔ یہاں صرف سترہ فرضی انکاؤنٹر نے عدالت اور میڈیا سب کو اس جانب متوجہ کر دیا تھا مگر مہاراشٹر میں تو مسلمانوں کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے اور انھیں لگاتار جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر پکڑا جا رہا ہے مگر کوئی بھی اس پر آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ کیا اس لئے گجرات کی وارداتوں کی انکوائری ہو رہی ہے کہ وہاں ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے جو خود کو ہندتو وادی کہتی ہے اور مہاراشٹر کے معاملات کی انکوائری نہیں ہو رہی ہے کہ یہاں ایک نام نہاد سیکولر پارٹی اقتدار میں ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مسلمان کا خونِ ناحق بہانے کا حق صرف سیکولر پارٹیوں کو ہے اور بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی اگر یہ کام کرتی ہے تو اسے اس کا بالکل حق نہیں؟ کیا مسلمانوں کی گردن پر چلنے والا خنجر اگر سیکولر ہو تو یہ خون حلال ہو جاتا ہے؟ اور بات صرف مہاراشٹر کی ہی نہیں ہے اتر پردیش بھی اسی صف میں کھڑا ہے۔

ممبئی ہائی کورٹ کا سوال بجا ہے جس نے اس جانب توجہ دی ہے جس طرف خود مسلمانوں کو توجہ دینا چاہئے تھا۔ کورٹ نے ایک ایسی مسلمان عورت کی عرضی پر یہ سوال پوچھا ہے جس کا بیٹا تاج محمد ایک پولس اسٹیشن میں پولس کسٹڈی میں مارا گیا تھا۔ اس کا بیٹا موبائل کی دکان کرتا تھا اور ریپیرینگ کا کام کرتا تھا۔ ایک دن اچانک پولس نے اسے موبائل چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا اور پولس اسٹیشن لے گئی جہاں اس کی موت ہو گئی۔ اس کے گھر والوں کا الزام تھا کہ پولس نے اسے مار ڈالا ہے اور اس پر جسمانی و دماغی زیادتی کی گئی ہے مگر پولس خود اس الزام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ویسے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ مہاراشٹر میں اس قسم کے واقعات عام ہیں اور بیشتر معاملات میں مرنے والا مسلمان ہی تھا۔ یونہی جیلوں میں قید افراد میں بھی یہاں سب سے زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہی ہے اور جیلوں میں ہونے والی موتوں کے معاملے میں بھی مسلمان سب سے زیادہ ہیں۔ قومی جرائم رکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں مہاراشٹر میں ۳۴ حراستی اموات ہوئی ہیں، جب کہ ۲۰۱۲ء میں یہ تعداد ۲۲ تھی۔ ممبئی ہائی کورٹ میں داخل عرضی کے مطابق یہاں جن لوگوں کی بھی موتیں ہوئی ہیں ان میں بیشتر مسلمان ہیں اور بعض دلت ہیں۔ اس سلسلے میں ایک چونکا دینے والی سچائی یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۳ء کے بیچ پورے ملک میں کل ۱۴۱۸ موتیں پولس حراست میں ہوئی ہیں اور ان میں سے ۲۳ فی صد مہاراشٹر میں ہوئی ہیں۔ حالانکہ یہاں کے ہائی کورٹ میں جو سوال اٹھے ہیں ان کے مطابق ان میں مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

مہاراشٹر کے مسلمانوں کی سیاسی مجبوری

مہاراشٹر وہ صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ ارزاں ہے۔ یہاں ایک زمانے تک مسلمانوں کے قتل عام کے لئے فسادات کرائے جاتے رہے جن کی سرپرستی خود کانگریس کی سرکاریں کیا کرتی تھیں۔ یہاں کانگریس کو لگتا تھا کہ مسلمانوں کو شیو سینا سے خوفزدہ رکھو تو وہ کانگریس کو ووٹ دیتے رہیں گے۔ بدقسمتی سے یہاں کوئی تیسرا سیاسی متبادل بھی نہیں ابھرا جو مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہو۔ مسلمان بار بار ان فسادات کی نذر ہوتے رہے اور پھر بھی کانگریس کو ووٹ دیتے رہے۔ ۱۹۹۳ء کے سیریل بم دھماکوں کے بعد یہاں فسادات تو بند ہو گئے مسلمانوں کو ستانے کا ایک نیا طریقہ نکالا گیا اور وہ تھا انھیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانا۔ ہزاروں مسلمانوں کو اب تک جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے اور ان میں سے بعض تو پولس اور حکومت کی سازشوں کے جال توڑ کر اب با عزت بری بھی ہو چکے ہیں۔ انھیں کورٹ کی طرف سے بری کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بے گناہ تھے اور کانگریس کی سرکار نے انھیں جھوٹے مقدموں میں پھنسایا تھا۔ شاید اب کانگریس سرکار کا یومِ حساب آ چکا ہے اسی لئے جہاں ایک طرف وہ ابھی سے اسمبلی الیکشن ہارتی ہوئی دکھ رہی ہے وہیں دوسری طرف کورٹ بھی اس کے سامنے ایسے سوال کھڑے کر رہا ہے جس کا جواب اس کے پاس نہیں ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی ۱۲ فی صد کے آس پاس بتائی جاتی ہے مگر تھانہ، پولس، جیل اور حراستی اموات میں وہ سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ یہ سوال کسی بھی طرح قابل توجہ ہے۔

یہ ہیں ہمارے ہمدرد

اتر پردیش بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ بے قصورمسلمانوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے اور حراستی اموات یہاں بھی سب سے زیادہ ہوتی ہیں، جن میں مرنے والے بیشتر مسلمان ہوتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے گزشتہ اسمبلی الیکشن کے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی سرکار بنی تو وہ ان بے قصور مسلمانوں کو جیلوں سے آزاد کرائے گی، جنھیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر قید رکھا گیا ہے مگر اس نے تو انھیں زندگی سے ہی آزاد کرنا شروع کر دیا۔ مولانا خالد مجاہد جنھیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا وہ اسی حکومت کی گرفت میں موت سے ہمکنار ہوئے۔ گویا سماج وادی پارٹی بھی مسلمانوں کے لئے کانگریس جیسی ہی ہمدرد ثابت ہوئی۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ حالت صرف یوپی تک ہی محدود ہے بلکہ یہی صورتحال بہار میں بھی ہے۔ قارئین کی یاد داشت کو ہم تازہ کر دیں کہ بہار کے فاربس گنج میں پولس فائرنگ میں نتیش کمار کی پولس نے ایک طرفہ طور پر مسلمانوں کو قتل کیا تھا جس کا قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے بی جے پی کے ایک لیڈر کو اپنی زمین دینے سے انکار کیا تھا۔ یہ واقعہ لگ بھگ دوسال قبل کا ہے اور نتیش کمار کو آج تک اس کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ وہ یہاں کے مظلوم مسلمانوں کی خبر لینے آج تک نہیں گئے اور ان پولس والوں کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کی جنھوں نے بے گناہوں کے سینوں پر گولیاں برسائی تھیں۔

قومی سطح پر جانچ کیوں نہیں؟

اس ملک میں سب سے زیادہ گھنی مسلم آبادی والا صوبہ جموں و کشمیر ہے۔ یہاں ۶۵ فی صد مسلم آبادی کا تناسب بتایا جاتا ہے مگر جیلوں میں جو لوگ قید ہوتے ہیں اور جنھیں پولس یا فوج کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے ان میں غیر مسلم ایک آدھ ہی ہوتے ہیں جو بعض اوقات غلطی سے ان کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔ یونہی آسام میں مسلم آبادی ۳۱ فی صد سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر پولس اور قانون کی زد میں آنے والوں میں اس سے بہت زیادہ مسلمان ہوتے ہیں۔ ملک کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جہاں جیلوں میں بند ہونے والے، پولس حراست میں مرنے والے اور فرضی انکاؤنٹر میں مرنے والوں میں سب سے زیادہ مسلمان نہ ہوں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سازش ہے؟ اس بات کی انکوائری ہونی چاہئے اور سچائی سامنے آنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ جو حکومتیں اس جرم کے لئے ذمہ دار ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ ان کی پول کھلے مگر مسلمان اگر اس معاملے کو مضبوط دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں کورٹ کے سامنے لے جائیں تو ہو سکتا ہے بہت سی سچائیاں سامنے آئیں اور ان کے بہت سے نام نہاد ہمدردوں کے کرتوت بھی دنیا کی نظر میں آئے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ملک کی کوئی بڑی حقوقِ انسانی کی تنظیم یا قانون کے جانکار اس معاملے کو کورٹ کے سامنے لائیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ جس طرح ممبئی ہائی کورٹ نے اس معاملے اہمیت دی ہے ویسے ہی اسے قومی سطح پر دیکھا جائے۔ عام مسلمان خود اپنے حقوق کے تعلق سے بہت بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر انھیں عشرت جہاں کی ماں، احسان جعفری کی بیوہ اور اب تاج محمد کی ماں عالیہ بیگم سے سبق لینا چاہئے جو انصاف کی ڈگر پر انتہائی حوصلے کے ساتھ چل رہی ہیں۔

 

 

 

 

 کشمیری پنڈت کیوں نہیں واپس جانا چاہتے وادیِ کشمیر؟

 

’’میں وادی کشمیر واپس نہیں جانا چاہتا کیونکہ اب دلی ہی میرے لئے سب کچھ ہے۔ وادی کی خوبصورت یادیں میرے دل میں ہیں جن کے سہارے میں یہاں رہتا ہوں مگر میں اب یہیں رہنا چاہتا ہوں اور یہیں جینا مرنا چاہتا ہوں‘‘ یہ کہنا ہے سنجیو کا جو کہ لگ بھگ پچیس سال قبل سری نگر سے دلی چلے آئے تھے۔ ان کے آنے کا سبب وادی میں امن و امان کے بگڑتے حالات تھے۔ وہ آج یہاں پوری طرح سے مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کاروبار چل رہا ہے اور ان کے بچے تعلیم مکمل کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ ان کا داخلہ مہاجر کشمیری پنڈتوں کے لئے ریزرو کیٹگری میں ہوا ہے اور انھیں پورا یقین ہے کہ اب اسی کیٹگری میں انھیں ملازمت بھی مل جائے گی۔ یہ سوچ صرف سنجیو کی نہیں ہے بلکہ ان جیسے بیشتر مہاجر کشمیری پنڈت ایسا ہی سوچتے ہیں۔ نریندر مودی سرکار کی اولیت میں شامل ہے، کشمیر پنڈتوں کو ان کی مرضی کے مطابق وادی میں واپس آباد کرنا اور اس کے لئے سرکار کس قدر سنجیدہ ہے اس بات کا اندازہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے پارلیمنٹ میں دئیے خطبے سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے خصوصی اہمیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھی اپنے اولین بجٹ میں اس مقصد کے لئے ۵۰۰ کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا ہے۔ یو پی اے سرکار نے بھی اس مد میں اچھی خاصی رقم رکھی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں اس نے ۴۰۔ ۶۱۸، ۱ کروڑ روپئے مخصوص کئے تھے۔ سرکار کی طرف سے یہ صلائے عام ہے کہ جو بھی کشمیری پنڈت خاندان واپس وادی میں جانا چاہے اسے اپنے مکان کو بنوانے یا مرمت کرانے کے لئے بیس لاکھ روپئے دیئے جائیں گے مگر آج تک صرف ایک خاندان نے ہی یہ رقم لی اور واپسی کا ارادہ دکھایا۔ حالانکہ پورے ملک میں ایسے ۴۵۲، ۶۰ خاندان ہیں۔ ان میں بیشتر جموں یا راجدھانی دلی میں آباد ہیں۔

کیا کبھی پنڈتوں کی واپسی ممکن ہے؟

کشمیری پنڈتوں کی کبھی وادی کشمیر میں واپسی ہو سکے گی؟ یہ سوال آج اس لئے بھی اہم ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ سرکار نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیری پنڈتوں کے مسئلے کو حل کرے گی اور انھیں دوبارہ وادی میں بسانے میں تعاون کرے گی۔ غور طلب ہے کہ کشمیری پنڈت بیس، پچیس سال قبل وادی چھوڑ کر آ گئے تھے جب یہاں علاحدگی پسندی کی تحریک زوروں پر تھی اور ان کا یہاں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ جموں و کشمیر ملک کا واحد مسلم اکثریتی صوبہ ہے اور یہاں یہ لوگ اقلیت میں ہیں۔ حالانکہ یہ صدیوں سے تعلیم یافتہ رہے ہیں اور جہاں بھی رہے ہیں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ اپنے حقوق کے تئیں ہمیشہ بیدار رہے ہیں اور وقت و حالات کی نبض کی انھیں گہری سمجھ رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عام کشمیری اگرچہ غریب اور مفلوک الحال رہا ہے مگر پنڈت مالدار اور اچھی سماجی حیثیت کے مالک رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور متمول ہونے کے باوجود وادی کشمیر کے حالات انھیں انھیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا اور یہ بادل ناخواستہ ملک کئے دوسرے حصوں میں چلے آئے۔ یہ آج جہاں بھی ہیں اچھی زندگی جی رہے ہیں اور خوشحال ہیں۔ ان کے لئے سرکار نے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹے مقرر کر رکھے ہیں نیز انھیں سرکار کی طرف سے رہنے کے لئے فلیٹ بھی دیئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر خاندان کو سرکار کی طرف سے راشن و وظیفہ دیا جاتا ہے۔ یہ سہولیات انھیں کشمیر میں نہیں مل سکتی ہیں لہٰذا وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔ حالانکہ سرکار ان کے لئے کئی قسم کے پروگرام رکھتی ہے اور ان کے لئے علاحدہ بستیاں بسانے کا بھی پلان اس میں شامل ہے۔ دلی میں کل ۳۳۸، ۱۹ خاندان رہتے ہیں جنھیں دلی سرکار نے دوارکا علاقے میں فلیٹ بھی دے رکھے ہیں۔ ویسے یہ صرف اسی علاقے تک محدود نہیں ہیں بلکہ پورے شہر میں پھیل گئے ہیں اور بہتر طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کشمیری خاندان ہر اتوار کو سریتا وہار کے سوامی لکشمن جو آشرم میں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

مرکزی سرکار کے پلان میں شامل ہے کہ اگر کشمیری پنڈت اپنے گھروں میں نہیں رہنا چاہتے تو ان کے لئے الگ سے مکان بنوائے جائیں اور الگ بستیاں بسائی جائیں مگر اس پر وہاں کے علاحدگی پسندوں کو بھی اعتراض ہے۔ وہ پنڈتوں کی واپسی چاہتے ہیں مگر اس قسم کی کسی بستی کے خلاف ہیں۔ ویسے سلامتی کے لحاظ سے بھی یہ ایک درست قدم نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے علاقے ہمیشہ جنگ جووں کے نشانے پر ہوں گے۔

مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟

کشمیر، تاریخ میں ایک خالص ہندو اور بدھسٹ آبادی والا علاقہ تھا۔ تقریباً آٹھ سو سال قبل وادیِ کشمیر میں صوفیہ کے ذریعے اسلام پہنچا۔ انھوں نے یہاں بڑے پیمانے پر کام اسلام کی تبلیغ کی یہاں تک کہ یہاں کے ہندو حکمراں بھی مسلمان ہو گئے۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی چلتا رہا اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں اسلام کے ماننے والے ہی اکثریت میں آ گئے۔ حالانکہ باوجود اسے کے کشمیری پنڈتوں کے اثرات باقی رہے اور سبھی حکومتوں میں انھیں کی طوطی بولتی تھی۔ وہ کشمیر سے لے کر آگرہ اور دلی کے مغل درباروں تک میں چھائے رہے۔ یہاں بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کا ماحول رہا کیونکہ صوفیہ کی تعلیمات میں کسی بھی انسان کے ساتھ بھید بھاؤ کی گنجائش نہیں تھی۔ مذہبی منافرت کو تب بڑھاوا ملا جب پاکستان کی شہہ پر یہاں علاحدگی پسندی کی تحریک تیز ہوئی اور ۱۹۹۰ء تک اس میں شدت آ چکی تھی۔ یہاں شدت پسندی کی آندھی میں مرنے والے ہزاروں افراد میں ۲۱۹ پنڈت بھی تھے۔ ان حالات نے انھیں مجبور کیا کہ وہ وادی چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ حالانکہ علاحدگی پسند لیڈران بار بار کہتے رہے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر ادھورا ہے انھیں واپس آنا چاہئے مگر پنڈتوں کو یہاں اپنی جان کبھی محفوظ نہیں محسوس ہوئی۔ بد امنی نے ان کے کاروبار کو بھی تباہ برباد کر دیا۔ حالانکہ مرکزی سرکار پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ مہاجرت کو بڑھاوا دے رہی ہے اور دنیا کو دکھانے کے لئے وہ بھی ان لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔ پاکستان نے اس قسم کی باتوں کو بین الاقوامی پلیٹ فارمس پر بھی اٹھایا۔ واضح ہو کہ جس دن امریکی صدر بل کلینٹن بھارت کے دورے پر آئے اسی دن بڑی تعداد میں سکھوں کا قتل کیا گیا اور اس کے لئے جہاں ایک طرف بھارت نے پاکستان کے حمایت یافتہ جنگ جووں کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں پاکستان نے بھی بھارت کو مورد الزام قرار دیا۔

بے روزگاری سب سے بڑی رکاوٹ

آج کشمیر میں حالات پہلے سے بہتر ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ یہاں بے کاری، بیروزگاری اور معیشت کی خراب صورتحال کا ہے۔ جو لوگ آج وادی میں واپس نہیں جانا چاہتے ان کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔ ویسے اب ایک ایسی نسل سامنے آ چکی ہے جس نے کشمیر کے باہر ہی آنکھ کھولا ہے۔ اسے کشمیر سیر و تفریح کے لئے جانا پسند ہے مگر وہ یہاں رہائش اختیار کرنا نہیں چاہتی۔ اسے اپنا کرئر عزیز ہے اور وہ اس سے کسی بھی طرح ہاتھ دھونا نہیں چاہتی ہے۔ منموہن کھیر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ٹاٹا نہیں ہے۔ انڈسٹریز نہیں ہیں پھر ہم وہاں جا کر کیا کریں گے؟ میں دلی میں ۳۵ لاکھ روپئے سالانہ کماتا ہوں، کیا کشمیر میں میں یہ ممکن ہے؟ ان کا مزید کہنا ہے کہ جب وہاں کے مقامی لوگ جاب کے لئے بیرون کشمیر جا رہے ہیں ایسے میں ہم وہاں جا کر کیا کریں گے؟ حالانکہ منموہن کھیر کے والد اب بھی جذباتی اعتبار سے وادی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی پرورش وادی میں ہوئی اور وہ وہاں جانا چاہتے ہیں مگر وہ بھی چاہتے ہیں کہ سرکار ان کے تحفظ کی گارنٹی دے۔ حالانکہ اس قسم کے خیالات صرف ان چند لوگوں کے ہیں جو اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور اپنی آخری سانسیں اس سرزمین پر لینا چاہتے ہیں جہاں انھوں نے جنم لیا تھا۔ البتہ ان کی مجبوری یہ ہے کہ اپنے بچوں اور اہل خاندان کو چھوڑ کر تنہا وہاں نہیں رہ سکتے۔

دیوندر منشی کی ۱۸ سالہ بیٹی اننتا بتاتی ہے کہ میں پچھلے سال لداخ گئی تھی، پھر وادی کے گلمرگ، پہلگام اور دوسرے خوبصورت علاقوں کی سیر کرتی رہی جو بہت اچھے لگے، مگر میں وہاں مستقل طور پر رہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہوں کیونکہ وہاں جاب نہیں ہیں، روزگار نہیں ہیں۔ یونہی ۱۶ سالہ شرو سادھو نے بتایا کہ وہ گزشتہ سال لداخ گیا تھا جہاں اس کے فوج سے ریٹائرڈ انکل رہتے ہیں۔ ان کے گھر پر قیام رہا اور خوب مزے کئے مگر کشمیر میں رہنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔

دلیپ بھٹ ان لوگوں میں شامل ہیں جو ۱۹۸۹ء میں وادی سے دلی آئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سری نگر میں وہ بار چلاتے تھے اور ایک خوشحال زندگی جیتے تھے۔ ایک روز وہ معمول کے مطابق اپنے بار میں تھے کہ کوئی شخص اندر داخل ہوا اور ایک خط دے کر چلا گیا۔ یہ اردو میں تھا اور وہ اردو پڑھنا نہیں جانتے تھے لہٰذا اپنے پڑوسی سے پڑھوایا۔ اس نے پڑھ کر بتایا کہ علاحدگی پسندوں کی طرف سے خط ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ اپنا بار بند کر دیں ورنہ برے انجام کے لئے تیار ہو جائیں۔ اس کے بعد وہ دلی چلے آئے اور یہیں اپنے بچوں کی پرورش کی جو اب روزگار سے لگ چکے ہیں۔

یاترا میں رکاوٹ کیوں؟

کشمیری پنڈتوں سے ہی جڑا ہوا مسئلہ ہے تیرتھ یاترا کا۔ چونکہ یہاں ان کی تعداد بالکل نہیں بچی ہے لہٰذا کئی مسائل اٹھتے رہتے ہیں جن میں سے ایک اہم مسئلہ کوثر ناگ یاترا کا بھی ہے۔ وادی میں ہندوؤں کی کئی زیارت گاہیں ہیں جہاں وہ پابندی سے جاتے رہتے ہیں اور عام طور پر ان میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں آتی ہے مگر کوثر ناگ کا مسئلہ اس سے الگ ہے۔ علاحدگی پسند تنظیمیں اس کی مخالفت کرتی ہیں اور اس کی مخالفت میں اکثر ہڑتال کی پکار دیتی رہتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے کوشش ہوتی ہے کہ اس سے یاترا میں کوئی رکاوٹ نہ آئے مگر کچھ نہ کچھ مسئلہ ضرور کھڑا ہو جاتا ہے، جو تشویش کی بات ہے۔ اصل میں یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے اور اس لحاظ سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات کی رکاوٹوں کو دور کریں۔

 

 

 

ایک بار پھر شروع ہوئی دلی پر قبضہ کی جنگ

 

دلی میں دوبارہ الیکشن ہونا طے

 

دلی میں کسی کی سرکار بنے گی یا الیکشن ہو گا؟ کون بنائے گا سرکار بھاجپا یا عام آدمی پارٹی؟ کیا کانگریس ٹوٹ جائے گی یا عام آدمی پارٹی کے ساتھ اس کا سمجھوتہ ہو جائے گا؟ اگر کسی پارٹی کی سرکار نہیں بنی تو کیا اسی طرح سب کچھ چلتا رہے گا یا اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی؟ دلی والوں کو کیا اس بات کا حق نہیں کہ وہ اپنی چنی ہوئی سرکار پائیں؟ اگر سرکار نہیں تو پھر ممبران اسمبلی کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں؟ یہ تمام سوالات اس لئے بھی اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں کیونکہ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور ملک کی سب سے اونچی عدالت نے اس پر مرکزی حکومت سے بھی سوال پوچھ لئے ہیں۔ اب بی جے پی کی قیادت والی مرکزی سرکار کے سامنے دھرم سنکٹ کھڑا ہو چکا ہے کہ وہ کس جانب قدم بڑھائے؟ اب تک تو وہ نہ اسمبلی تحلیل کر رہی تھی اور نہ ہی بی جے پی کو اس کے لئے پوری طرح تیار پا رہی تھی مگر کورٹ کے سوال کے بعد اسے ایک فیصلہ لینا پڑے گا اور بہت ممکن ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کر کے چناؤ میں جانے کو ہی ترجیح دے۔

کورٹ کا حکم، دور رس نتائج کا حامل

اروند کجریوال نے دلی کے گزشتہ اسمبلی الیکشن کے بعد بہت ہی ڈرامائی انداز میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا تھا اور فلمی انداز میں ہی انھوں نے استعفیٰ بھی دے دیا تھا۔ استعفیٰ کے وقت انھوں نے لیفٹننٹ گورنر سے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش بھی کی تھی جسے انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے کورٹ کا راستہ اپنایا اور گزارش کی کہ گورنر کو وزیر علیٰ کی سفارش ماننے پر مجبور کیا جائے۔ اب تک یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے اور اب کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا ہے کہ جب اسمبلی نہیں چل رہی ہے، ممبران اسمبلی ہاؤس میں نہیں بیٹھ رہے ہیں اور عوام کا کام نہیں کر رہے ہیں وہ انھیں تنخواہ کس بات کی دی جا رہی ہے؟ کورٹ نے مرکزی سرکار کو ایک طرف نوٹس ایشو کیا ہے تو دوسری طرف یہ بھی کہا ہے کہ پانچ ہفتوں کے اندر دلی میں سرکار بنے یا پھر اسمبلی تحلیل کر دی جائے۔ کورٹ کے اس حکم کے بعد یہاں کے سیاسی حلقوں میں سرگرمی تیز ہو گئی ہے۔ ایک مدت سے معلق ودھان سبھا کے پیش نظر اب امید بندھ چلی ہے کہ راجدھانی میں کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ یہ فیصلہ جسٹس ایچ ایل دتہ، جسٹس ایچ چیلامیشور، جسٹس اے کے سکری، جسٹس آر کے اگروال اور جسٹس ارون مشرا کی ایک پانچ رکنی بنچ نے دیا۔ کورٹ کے اس فیصلے کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے اور اسے مستقبل میں ایک مثال کے طور پر لیا جائے گا۔ کورٹ نے یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ جب عوامی نمائندے عوام کا کام نہیں کر رہے ہیں تو انھیں عوام کے پیسے سے تنخواہ کس بات کی دی جا رہی ہے؟

دلی میں سیاسی ہلچل

دلی ایک شہر ہے اور اسی کے ساتھ ایک ریاست بھی ہے مگر اسے مکمل ریاست کا درجہ نہیں ملا ہوا ہے، لہٰذا یہاں اکثر قانونی سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر لفٹننٹ گورنر اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات کو لے کر بعض اوقات ٹکراؤ کی نوبت آ جاتی ہے۔ جب اروند کجریوال یہاں کے وزیر اعلیٰ بنے تو ایسے حالات زیادہ پیدا ہوئے کیونکہ وزیر علیٰ عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے اور لفٹننٹ گورنر مرکز کی طرف سے نگراں ہوتا ہے۔ تب مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی لہٰذا ٹکراؤ کی صورتحال اکثر سامنے آتی رہی اور کونگریس و بی جے پی اسے ایشو بہانے کی کوشش کرتی رہیں کہ کجریوال کو قانون کی جانکاری نہیں ہے۔ کجریوال نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ دلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے مگر اب تک یہ ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ اب خبر ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی سرکار دلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا ایک بڑا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دلی ودھان سبھا تحلیل کر کے دوبارہ چناؤ کرانا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کی مجبوری بھی ہے۔

بی جے پی کی کشمکش

دلی میں پانچ مہینے سے اسمبلی معلق ہے اور کوئی منتخب سرکار نہیں ہے۔ صدر راج نافذ ہے اور سرکار کے تعلق سے تمام اہم فیصلے گورنر لے رہے ہیں۔ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی چنی ہوئی سرکار پائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں کوئی منتخب سرکار نہیں ہے لیکن گورنر نجیب جنگ مناسب فیصلے لے رہے ہیں اور اس شہر کے حالات اچھے ہیں۔ وہ اسپتالوں کے دورے کرتے ہیں اور انتظامیہ کو چست و درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت یہاں بی جے پی اور آپ کے پاس 28/28 اسمبلی سیٹین ہیں جب کہ کانگریس کے پاس 8سیٹیں ہیں۔ بی جے پی نے یہاں ۳۲سیٹیں جیتی تھیں اور اس لحاظ سے وہ سب سے بڑی پارٹی تھی مگر اب اس کے کچھ ایم ایل اے لوک سبھا کے لئے منتخب ہو چکے ہیں لہٰذا یہ سیٹیں خالی ہو چکی ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی کانگریس کے ایم ایل ایز کو توڑنے کی کوشش میں ہے تاکہ وہ یہاں ممبران کی کمی پوری کر سکے اور اپنی سرکار بنا سکے مگر اسی کے ساتھ ایک اور بھی خبر تھی کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کے ممبران کی مدد سے سرکار بنانا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران کی میٹنگ بھی ہوئی اور اکثر نے اسے پسند نہ کیا کہ کانگریس کے ممبران کو خرید کر یا توڑ کر دلی میں سرکار بنائی جائے۔ بھارت میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جب کسی پارٹی کے ممبران کو توڑ کر سرکار بنائی گئی بلکہ بعض اوقات تو پوری پوری پارٹی کا ہی انضمام دوسری پارٹی میں ہو گیا اور کانگریس یا بی جے پی نے سرکار بنا لی۔ ایسا دلی میں پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ کانگریس کے ممبران ٹوٹنے کو تیار بیٹھے تھے مگر بی جے پی کو اس میں جھجک تھی۔ اس کے لیڈٖران بار بار کتے رہے کہ ان کے لئے تمام متبادل کھلے ہیں۔ وہ سرکار بنا سکتے ہیں اور الیکشن میں بھی جا سکتے ہیں مگر اب لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کا دباؤ ان پر اتنا زیادہ ہے کہ وہ کانگریس کو توڑنے کے بجائے نئے الیکشن کے ہی حق میں ہیں۔ ریاستی بی جے پی کے صدر ستیش اپادھیائے کا کہنا ہے کہ دلی کے لوگوں کو اپنی چنی ہوئی سرکار ملنی چاہئے۔ گورنر یہاں سرکار بنوائیں وہ اکثریت کی ہویا اقلیت کی یا پھر نئے سرے سے الیکشن ہو۔ اپادھیائے کا بیان اس کشمکش کو ظاہر کرتا ہے جو بی جے پی کے اندر ہے۔ اصل میں اس کے اندر ایک خوف ہے کہ وہ الیکشن میں جائے یا نہ جائے؟ اگر وہ الیکشن میں جاتی ہے تو ہار اور جیت دونوں کے امکانات ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ الیکشن میں نہ جا کر کانگریس کے ممبران کو توڑ کر اپنی سرکار بناتی ہے تو اس کی بدنامی ہو گی۔ عام آدمی پارٹی اسے ایک ایشو بنائے گی جو سیاست کو اخلاقی طور پر بہتر کرنے کی بات کرتی رہتی ہے۔ گویا دونوں صورتوں میں اس کے سامنے مشکل ہے۔ خود اس کے اندر بھی دو رائے ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ کانگریس کو توڑ کر سرکار بنا لے اور کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت کی سیاست میں اخلاقیات جیسی کو ئی بات باقی نہیں بچی ہے اور نیتاؤں کا مقصد صرف کاروبار کرنا ہے۔

’’آپ‘‘ چناؤ چاہتی ہے مگر۔۔ ۔

الیکشن کو لے کر عام آدمی پارٹی میں بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے ممبران کی اکثریت بھی چناؤ میں جانے سے گریز کر رہی ہے۔ جو لوگ اسمبلی الیکشن میں چن کر آئے ہیں انھیں لگتا ہے کہ قسمت سے جیت گئے ہیں۔ دوبارہ چناؤ کی صورت میں پتہ نہیں جیتیں یا ہاریں۔ ویسے ایک مسئلہ انھیں ٹکٹ ملنے کا بھی ہو گا۔ کئی طرح کے اندیشوں کے باوجود عام آدمی پارٹی کی اعلیٰ قیادت الیکشن کے حق میں ہے اور اسے لگتا ہے کہ دو بار چناؤ کی صورت میں اس کی جیت پکی ہے، کیونکہ جس مودی لہر کی بات کہی جا رہی تھی اب وہ دم توڑ رہی ہے اور نریندر مودی کا جادو دم توڑ رہا ہے۔ اروند کجریوال نے ابھی سے پلان تیار کر لیا ہے کہ وہ پوری توجہ دلی پر صرف کریں گے اور کسی دوسری جانب توجہ نہیں دیں گے۔ وہ پنجاب کے علاوہ کسی بھی صوبے میں الیکشن لڑنے کے خلاف ہیں۔ گویا وہ لوک سبھا چناؤ کے نتیجوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کانگریس کا کیا ہو گا؟

کانگریس نہیں چاہتی کہ ابھی دلی اسمبلی کے چناؤ ہوں مگر اس کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس نے ابھی لوک سبھا الیکشن میں شرمناک شکست کا سامنا کیا ہے اور اس سے پہلے اسے اسمبلی چناؤوں میں ہار ہوئی ہے۔ اب وہ پوری طرح سے حوصلہ ہار چکی ہے اور اسے معلوم ہے کہ دلی میں انتخاب اب بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے بیچ ہی ہو گا۔ کانگریس کی حیثیت بس ایک ووٹ کاٹنے والی پارٹی کی ہو گی۔ اگر اس نے عام آدمی پارٹی کے ووٹ زیادہ کاٹے تو بی جے پی کو فائدہ ہو جائے گا اور نہیں کاٹ پائی تو عاپ بی جے پی کو ٹکر دی گی۔ ممکن ہے کانگریس اپنی وہ آٹھ سیٹیں بھی بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے جو اس نے موجودہ اسمبلی میں پائی ہیں۔ اس لئے اس کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے مگر جس قدر وہ اب تک گنوا چکی ہے اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔

دوبارہ الیکشن ہوں گے؟

ضمنی ودھان سبھا انتخابات کے امکانات اب سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد بڑھ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی سرکار اسی موڈ میں ہے۔ اس نے جو بجٹ پارلیمنٹ میں پاس کرایا ہے وہ اس بات کی طرف پہلے ہی سے اشارہ کر رہا تھا۔ اس بیچ کورٹ کا حکم بھی آ گیا۔ اب مرکزی سرکار دلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے پر بھی غور کر رہی ہے، جسے چناوی حکمت عملی کا حصہ سمجھنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ ۲۰۱۵ء کی شروعات میں دلی میں اسمبلی الیکشن ہو جائے۔ اصل میں یہ وقت مرکز کو اس کام کے لئے مناسب لگتا ہے۔ یہ سردی کا موسم ہو گا۔ بازار میں طرح طرح کی سبزیاں آ چکی ہوں گی لہٰذا سبزیوں کی قیمت کم ہو گی۔ اس موسم میں بجلی کی ڈیمانڈ بھی کم ہوتی ہے لہٰذا جو حالات گرمی میں ہوتے ہیں اور جس قدر بجلی کی کٹوتی ہوتی ہے سردی میں نہیں ہو گی۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر بی جے پی سردیوں میں چناؤ چاہتی ہے۔

نتیجہ کیا ہو گا؟

یہ سوال بہت اہم ہوتا جا رہا ہے کہ اگر دلی میں چناؤ ہوئے تو کس کا فائدہ ہو گا؟ بی جے پی کی جیت ہو گی یا عام آدمی پارٹی کامیاب ہو گی؟ اس سوال کا جواب پیشگی طور پر نہیں دیا جا سکتا مگر ایسا لگتا ہے کہ آپ کی جیت کا انحصار کانگریس کے سیاسی رول پر ہے۔ اگر کانگریس اور آپ کے بیچ ووٹوں کی تقسیم ہوئی تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔ پچھلے اسمبلی الیکشن میں مسلم ووٹرس نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا مگر لوک سبھا میں انھوں نے کانگریس کے بجائے عام آدمی پارٹی کی حمایت کی تھی۔ اب ان کا رجحان ایک بار پھر دھیرے دھیرے کانگریس کی طرف ہو رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ الیکشن تک مسلمان دو گروہ میں تقسیم ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا توا سکا فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔

 

 

 

 

اب ہو گا مودی۔ شاہ کا اصل امتحان

 

بی جے پی لوک سبھا الیکشن کی کامیابی دہرا پائے گی؟

 

بی جے پی اور سنگھ پریوار کی عزت ایک بار پھر داؤ پر ہے؟ کیا وہ اپنی لوک سبھا کی کامیابی دہرا پائے گی؟ کیا چند مہینے قبل اسے جو کامیابی ملی ہے، یہ سلسلہ آگے قائم رہے گا؟ نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے بی جے پی پر قبضہ تو کر لیا مگر کیا ضمنی الیکشن میں وہ اسمبلی سیٹوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بہار میں ان دونوں کی عزت بچ پائے گی اور اپنی ہی سیٹوں کو بچانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اتر پردیش میں ان کا فرقہ پرستی کا داؤ کامیاب ہو گا؟ کرناٹک میں وہ ضمنی چناؤ جیت سکیں گے اور مدھیہ پردیش میں ان کی سیٹیں بچ پائیں گی؟ آج بی جے پی کے سامنے ضمنی چناؤ جیتنا ایک چیلنج ہے مگر مودی اور امت شاہ کیسامنے زیادہ بڑا چیلنج ہے کیونکہ جس مودی لہر کے سہارے انھوں نے لوک سبھا الیکشن جیتا ہے اب اس کا بھی امتحان ہونا ہے۔ یہ لہر اتر رہی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ مودی کا جادو ٹوٹ رہا ہے۔ جس قسم کے حالات میڈیا اور پرچار مشنری کے سہارے مودی نے پیدا کئے تھے اب ان کا اثر رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ اس کا خوف بی جے پی کے اندر بھی ہے اور اس کے لیڈران محسوس کر رہے ہیں کہ انھیں ضمنی الیکشن جیتنے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان چناؤوں کے نتائج کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس کے اثرات آئندہ انتخابات پر پڑ سکتے ہیں۔ دلی، مہاراشٹر، ہریانہ اور جموں و کشمیر میں اسمبلی کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ آج ضمنی انتخابات بی جے پی کے لئے ناک کا مسئلہ ہیں تو دیگر پارٹیوں کے لئے وجود کی لڑائی۔ بہار میں آئندہ سال اسمبلی الیکشن ہے تو اتر پردیش میں بھی زیادہ دن باقی نہیں ہیں۔ بہار کی تقریباً تمام لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی نے قبضہ جما لیا تھا اور سوائے چند سیٹوں کے کسی بھی پارٹی کے کچھ ہاتھ نہیں لگا تھا۔ اب تمام پارٹیوں نے بی جے پی کے خلاف مورچہ بنا لیا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح بی جے پی کا راستہ روک دیں۔ یہ اس کے لئے مشکل گھڑی ہے اور اپنی عزت بچانے کا وقت بھی ہے۔

بہار میں ناک کی لڑائی

بہار میں دس سیٹوں پر چناؤ ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر سیٹیں وہ ہیں جو بی جے پی کی ہیں اور اس کے ممبران اسمبلی کے لوک سبھا الیکشن جیتنے کے سبب خالی ہوئی ہیں۔ لوک سبھا الیکشن میں اس نے بہار سے بڑی کامیابی پائی ہے اور یہاں سے وزیر بھی بنائے گئے ہیں۔ رام ولاس پاسوان، اپیندر کشواہا اور رادھے موہن سنگھ کو منتری بنا کر بی جے پی نے بہار کو اسمبلی الیکشن کے لئے پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں جیت کے بعد اس کے حوصلے بلند ہیں اور اسے لگتا تھا کہ بہت جلد اس کا بہار پر قبضہ ہونے والا ہے مگر یہاں کی سیاست کا رخ بدل چکا ہے اور تمام شکست خوردہ نیتا متحد ہو کر بی جے پی کے مقابلے پر آ چکے ہیں جس کا کبھی اس نے اندازہ بھی نہیں کیا تھا۔ بہار میں لالو اور نتیش کمار کا ساتھ آنا کسی چمتکار جیسا ہے مگر یہ چمتکار ہو گیا۔ کانگریس جو لوک سبھا انتخابات تک کشمکش میں تھی کہ نتیش کے ساتھ جائے یا لول کے وہ بھی اب اس اتحاد کا اہم حصہ ہے۔ جنتا دل(یو) اگر چار سیٹوں پر چناؤ لڑ رہا ہے تو راشٹریہ جنتا دل بھی اتنی ہی سیٹوں پر مقابلہ کر رہا ہے۔ کانگریس جس کا بہار میں کچھ بھی نہیں ہے اسے بھی دوسیٹں مل گئی ہیں اور وہ یہاں اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹنے میں لگا ہوا ہے۔ بہار کے اندر لوک سبھا چناؤ میں جو ذات پات کا بندھن ٹوٹ گیا تھا اب ایک بار پھر وہ بن رہا ہے اور بی جے پی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ یہاں الیکشن والی بیشتر سیٹین بی جے پی کی ہیں جنھیں بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ دوسری طرف اس کا مخالف گروپ اپنا سب کچھ گزشتہ الیکشن میں گنوا چکا ہے اور اس کے پاس گنوانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ بہار کو بی جے پی سے بچانے کے لئے اور وجود محفوظ کرنے کے لئے متحد پارٹیاں کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ نتیش کمار نے وزیر اعلیٰ کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور ایک دلت کو وزیر اعلیٰ بنا کر انھوں نے دلتوں کے ووٹ بھی اپنے ساتھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لالو یادو جن کا دماغ کبھی زمین پر نہیں رہتا تھا اب وہ بھی زمین پر آ گئے ہیں۔ مسلم ووٹ ان دونوں کی پارٹیوں کے بیچ منقسم ہو جاتا تھا جسے بچانے میں یہ مورچہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر دس سیٹون پر اس مورچے نے کامیابی حاصل کر لی تو پھر اسی اتحاد کے ساتھ یہ آئندہ سال ہونے والے اسمبلی الیکشن میں بھی جائے گا اور بی جے پی کو دھول چٹانے کی کوشش کرے گا۔ یہاں بی جے پی کو ابھی سے حالات مشکل نظر آ رہے ہیں اور چونکہ سرکار و انتظامیہ سخت ہے لہٰذا اتر پردیش کی طرح یہاں فرقہ پرستی کا کھیل کھیلنے کا موقع بھی نہیں مل پارہا ہے۔

یوپی میں فرقہ پرستی کا کھیل

اتر پردیش میں بھی ضمنی چناؤ ہونے والے ہیں اور یہاں بھی اسمبلی الکشن میں زیادہ وقت نہیں ہے، ۲۰۱۶ء کے شروع میں ہی یہاں چناؤ ہوں گے لہٰذا یہ ریاست بی جے پی کے لئے اہم ہے۔ مرکز میں سرکار بنانے میں یوپی کا بڑا یوگدان رہا ہے لہٰذا اس کی نظر اب یہاں کی سیاست پر بھی ہے۔ یہاں بھی ذات پات کا بندھن ٹوٹا تھا اور ہندو ووٹروں نے بی جے پی کو متحد ہو کر ووٹ دیا تھا۔ کسی زمانے میں یہاں بی جے پی کی سرکار ہوا کرتی تھی مگر ایک مدت سے یہاں سماجو ادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی یکے بعد دیگرے اقتدار میں آتی رہی ہیں۔ اب بی جے پی نظر یہاں کی سیاست پر ہے اور وہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے ابھی سے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ مغربی اتر پردیش میں مسلسل دنگے ہو رہے ہیں اور اس کے پیچھے سنگھ پریوار کا ہاتھ ہے۔ سب سے زیادہ ضمنی الیکشن مغربی یوپی میں ہونے ہیں اور دنائیوں کے نشانے پر یہی علاقہ سب سے زیادہ ہے۔ یہاں کسی بھی چنگاری کو شعلہ بنانے کی کوشش ہوتی رہتی ہے اور عوام میں تناؤ پھیلانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ مظفر نگر فسادات سے بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوا ہے لہٰذا اب وہ ایسے ہی حالات پوری ریاست میں بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ اب تک ۶۰۰ چھوٹے بڑے فسادات ہو چکے ہیں جن میں ۶۰ فی صد ان علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں الیکشن ہونے ہیں۔

ملائم اور مایا کو کب عقل آئے گی؟

اتر پردیش میں بہار جیسا کوئی اتحاد اب تک سامنے نہیں ہے حالانکہ بہار کی طرح یہاں بھی خطرہ ان سبھی پارٹیوں کے سامنے ہے جو بی جے پی کے مد مقابل ہیں۔ سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی یہاں ایک دوسرے سے لڑتی رہی ہیں بالکل اسی طرح جیسے بہار میں نتیش اور لالو کی پارٹیاں مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ بہار میں تو حالات کو دیکھتے ہوئے لالو اور نتیش متحد ہو گئے ہیں اور کانگریس کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے مگر یوپی میں ملائم اور مایاوتی اب تک ساتھ آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہاں کی سیاست میں ایسی کوئی خبر بھی نہیں ہے کہ اندرونِ خانہ اتحاد کی کوشش جاری ہو۔ یہاں یادو ووٹرس روایتی طور پر ملائم کے ساتھ رہے ہیں جب کہ دلتوں کا ووٹ مایاوتی کی پارٹی کو جاتا رہا ہے۔ مسلمان کی کوئی پارٹی نہیں ہے لہٰذا وہ کہیں سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو کہیں بی ایس پی کو۔ بعض سیٹوں پر آر ایل ڈی تو بعض پر کانگریس کی بھی وہ حمایت کرتے رہے ہیں اور اسی بکھراؤ کے سبب یہاں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ یوپی نے اتحاد کا بڑا سبق دیا ہے مگر ملائم اور مایاوتی اب تک اس سے کچھ سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے اس سے بی جے پی کو فائدہ ملے اور وہ ضمنی الیکشن میں بہار جیتے نہ جیتے مگر یوپی جیت لے۔

جب برا وقت آتا ہے تو مت ماری جاتی ہے اور ایسا ہی ملائم سنگھ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ان دنوں وہ اپنے پرانے ساتھ امر سنگھ کو گلے لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ امر سنگھ کا ووٹروں پر کوئی اثر نہیں ہے۔ اس دوستی کی تجدید نے اعظم خاں کو ناراض کر دیا ہے اور وہ کسی بھی طرح اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اعظم خان کا ایک طبقہ چاہنے والا ہے اور تھوڑے سے ہی سہی مگر ووٹروں پر ان کے اثرات ہیں۔ امر سنگھ کو قریب کر کے ملائم سنگھ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے مگر اعظم خاں کو دور کر کے اپنا رہا سہا ووٹ بھی گنوا دیں گے اور اس سے بی جے پی کو مزید فائدہ ملے گا۔

ایم پی اور کرناٹک میں جنگ

جن ریاستوں میں ضمنی چناؤ ہیں ان میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش بھی شامل ہیں۔ کرناٹک جنوب میں ہے تو مدھیہ پردیش شمال میں۔ کرناٹک میں کانگریس کی سرکار ہے تو مدھیہ پردیش میں بی جے پی برسراقتدار ہے اور دونوں صوبوں کے حالات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ممکن ہے کہ ایم پی میں بی جے پی کو کامیابی مل جائے مگر کرناٹک میں جیت حاصل کر پانا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی ماضی قریب تک برسراقتدار رہی ہے مگر کرپشن اور آپسی ٹکراؤ نے اس کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کے لئے یہاں کی کامیابی اہم ہو سکتی ہے مگر ابھی اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔

اگر پورے ملک کے حالات پر سرسری نظر دالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ چند مہینے قبل تک بی جے پی کے لئے جس طرح حالات سازگار تھے اور مودی لہر کی بات کی جاتی تھی اب ویسے نہیں رہے۔ عوام اب اس لہر سے باہر آنے لگے ہیں جسے میڈیا نے مودی کی حمایت میں پیدا کیا تھا۔ اب زمینی حقائق سامنے آنے لگے ہیں اور ان کے سامنے ایک بار پھر وہی مہنگائی، کرپشن اور خراب انتظامیہ جیسے حالات ہیں۔ ایسے میں مودی اور امت شاہ کے ساتھ ساتھ سنگھ پریوار کے سامنے بھی الیکشن جیتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

 

 

 

 

اتر پردیش بارود کے ڈھیر پر

 

کوئی بھی چنگاری بڑی تباہی لا سکتی ہے

 

مسلمان خوف و دہشت کے سائے میں جینے پر مجبور

 

اتر پردیش میں فرقہ پرستی کا لاوا پک رہا ہے۔ کبھی بھی یہ ابل سکتا ہے اور پوری ریاست کے امن و امان کو جلا کر خاک کر سکتا ہے۔ کہیں بھی کسی معمولی واقعے کو بہانہ بنا کر فرقہ پرست اپنا کام کر سکتے ہیں اور حالات کو خراب کر سکتے ہیں۔ ریاست میں فرقہ پرستی کی آگ لگانے کی تیاریاں مکمل ہیں اور حکومت و انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ سرکار انتظامی لحاظ سے فیل ہو چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج چل رہا ہے۔ ملائم سنگھ یادو اپنے گھر اور خاندان کی لڑائیاں سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے وزیر اعلیٰ بیٹے اکھیلیش یادو کے ہاتھ میں یوپی کی حکومت ایک ایسے ناریل کی طرح ہو گئی ہے جس کی اہمیت سے وہ واقف نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی اسے ضائع کر سکتے ہیں۔ ریاست کے دن بہ دن خراب ہوتے حالات نے یہاں کے عوام کو فکر مند کر دیا ہے اور ان کے اندر خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ کب، کہاں، کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ وقت فرقہ پرست طاقتوں کے لئے سب سے موزوں ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بار بار کوشش ہو رہی ہے کہ کسی بھی معمولی واقعے کو بہانہ بنا کر پوری ریاست میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جائے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے مگر اب تک وہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر مظفر نگر کی طرح کے دنگے یوپی میں کچھ اور ہو جائیں تو اس کا فائدہ نہ صرف ضمنی چناؤوں میں ملے گا بلکہ آئندہ اسمبلی انتخابات تک حالات کو نارمل نہیں کیا جا سکتا۔ ’’نئی دنیا‘‘ بار بار اس حقیقت کو ان صفحات میں دہراتا رہا ہے مگر اب اس بات کو دوسرے اخبارات بھی محسوس کر رہے ہیں اور یہ معاملات پارلیمنٹ میں بھی موضوع بحث بن رہے ہیں۔ انگریزی اخبار انڈین اکسپریس (5/8/2014) کی ایک رپورٹ کے مطابق یوپی لوک سبھا الیکشن کے بعد سے اب تک ۶۰۰ سے زیادہ فرقہ وارانہ وارداتیں رونما ہو چکی ہیں، جن کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ ٹکراؤ کے بیشتر واقعات ان علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں ضمنی الیکشن ہونے ہیں۔

اتر پردیش بنا دنگا پردیش

اتر پردیش آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور اس کے سامنے چیلنج بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ اسی ریاست کو سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا سب سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کی نظر اسی ریاست پر ہوتی ہے اور نتیجہ کے طور پر یہاں فرقہ وارانہ فسادات بھی سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ عوام تو سیدھے اور بھولے ہوتے ہیں مگر یوپی کے عوام میں ناخواندگی زیادہ ہے اور کئی قسم کی پسماندگی ہے جس کے سبب انھیں بیوقوف بنانا زیادہ آسان ہے۔ اسی لئے سیاسی پارٹیاں یہاں آسانی سے اپنے کھیل کھیلنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل جان بوجھ کر مظفر نگر اور شاملی وغیرہ کے فسادات کرائے گئے جس کی فصل بی جے پی نے کاٹ لی مگر اب ضمنی چناؤ ہونے ہیں اور سب سے زیادہ سیٹیں اسی مغربی یوپی میں ہیں لہٰذا یہاں کے حالات کو خراب کرنے کی سازشیں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔ انڈین اکسپریس کی رپورٹ کے مطابق جو ۶۰۰ فرقہ وارانہ واقعات ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر اسی مغربی یوپی میں ہوئے ہیں۔ مظفر نگر کے فسادات اب پرانے ہو چکے ہیں مگر حالیہ دور میں یہاں اب تک ۴۷ واقعات کی خبر ہے، جب کہ اسی سے متصل شاملی میں ۳۰ واقعات کی خبر ہے۔ یاد رہے کہ جب مظفر نگر میں فسادات ہوئے تھے تو اسی دوران شاملی میں بی ہوئے تھے اور ہزاروں پناہ گزیں یہاں کے کیمپوں میں بھی آئے تھے، جن میں سے بعض اب تک اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹے ہیں۔ مغربی یوپی کے دوسرے اضلاع بھی فرقہ پرستوں کی نظر میں ہیں اور کشیدگی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے ہیں۔ مرادآباد میں رمضان کے دوران ایک مندر کے اوپر سے مائک ہٹانے کو لے کر اختلاف ہوا تھا جسے پولس نے بیچ بچاؤ کے ذریعے سلجھا لیا تھا مگر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لوگ گئے اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ خیر یہاں پولس مستعد رہی اور معاملہ زیادہ نہیں بگڑا مگر حالات کشیدہ ہو گئے اور علاقے میں افراتفری کا ماحول بن گیا۔ یہاں ضمنی چناؤ ہونے ہیں لہٰذا اب کوشش ہے کہ الیکشن تک حالات نارمل نہ ہوں۔ مرادآباد اور سنبھل میں فرقہ وارانہ اختلاف کے 30/30 واقعات پولس کی رپورٹ میں آ چکے ہیں جب کہ اسی سے متصل امروہہ میں ایسے 29 واقعات ہوئے ہیں۔ بلند شہر میں 15، سہارنپور میں 15، غازی آباد و نوئیڈا میں 13، باغپت اور رام پور میں 10/10 فرقہ وارانہ وارداتیں پولس کی رپورٹ میں آئی ہیں۔ مجموعی طور پر صرف مغربی اتر پردیش میں 269 واقعات پولس نے درج کی ہیں۔

اودھ کا علاقہ بھی فرقہ پرستوں کے لئے کم اہم نہیں جہاں ریاست کی راجدھانی ہے اور اس بہانے سے باقی صوبے کو ایک پیغام دینے کا کام ہو سکتا ہے۔ عام انتخاب کے بعد سے یہاں 53 فرقہ وارانہ وارداتیں ہوئی ہیں جنھیں اگر پولس نے کامیابی کے ساتھ نہیں روکا ہوتا تو ان کا دائرہ بڑھ سکتا تھا۔ راجدھانی لکھنو سے ایسے دس واقعات کی خبر ہے جب کہ اناؤ میں 22، کانپور میں 16 اور بارہ بنکی میں ایسے 5 واقعات کی رپورٹ پولس میں درج ہوئی ہے۔ لیکن اس قسم کی وارداتیں صرف اسی خطے میں نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ان کا دائرہ زیادہ بڑا ہے اور بہرائچ میں 10، بلرام پور میں 8، کھیری میں 7 اور سراوستی میں ایسے 4واقعات ہوئے ہیں۔ بندیل کھنڈ کے ہمیر پور میں 3 اور مہوبہ میں بھی 3واقعات ہوئے ہیں۔ جب کہ مشرقی اتر پردیش کے وارانسی میں 5، پرتاپ گڑھ میں 5، فتح پور، کوشامبی اور مرزا پور میں دو، دو واقعات رونما ہوئے ہیں۔

سیاست کا گندا کھیل

یوپی میں ہونے والے چھوٹے بڑے دنگوں کے پیچھے سیاست کا کھیل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جو بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں ان میں سب سے 60 فی صد ان علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں ضمنی چناؤ ہونے ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہاں کل 12 اسمبلی سیٹوں پر الیکشن ہیں اور ان میں سے بیشتر مغربی یوپی میں ہیں۔ یہ ہیں سہارنپورشہر، بجنور، کیرانہ، ٹھاکر واڑا اور گوتم بدھ نگر، جبکہ مشرقی یوپی میں سیراتو، روہانیا میں چناؤ ہیں۔ لکھنو ایسٹ بھی انھیں سیٹوں میں شامل ہے اور بندیل کھنڈ کی چرکھری و ہمیر پور سیٹ پر الیکشن ہونا ہے۔ یہ تمام علاقے اس الیکشن کے سبب بھی سیاست دانوں کے نشانے پر ہیں جو عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر صرف فرقہ پرستی کی بنیاد پر ووٹ چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی کی ذات پات کی سیاست کو درکنار کرنے کا اچھا طریقہ ہے فرقہ پرستی کا کارڈ۔ یہ بات عام انتخابات میں ثابت بھی ہو چکی ہے اور اسی بنیاد پر بی جے پی نے تقریباً پورے یوپی میں دوسری پارٹیوں کا صفایا کر دیا ہے۔ گویا جب بھی ہندو ووٹ مذہب کے نام پر متحد ہو گا یا ذات پات سے اوپر اٹھے گا تو بی جے پی کا فائدہ ہو گا۔

یوپی کے حالات پر پارلیمنٹ کو بھی تشویش

پارلیمنٹ میں بھی اتر پردیش کا موضوع ان دنوں خاصی اہمیت کا حامل نظر آیا۔ اپوزیشن پارٹیاں اس بارے میں بحث پر مصر نظر آئیں اور یہاں کے حالات کو بگاڑنے کے لئے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ حالانکہ اس سے بی جے پی پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ وہ اپنے کام میں لگی رہی اور جس وقت پارلیمنٹ میں یہ معاملہ گرم تھا ٹھیک اسی وقت میرٹھ میں ایک لڑکی کے اغوا اور تبدیلی مذہب کو بہانہ بنا کر بی جے پی کے لوگ ماحول بگاڑنے میں مصروف تھے۔ مرکزی سرکار نے یوپی حکومت سے رپورٹ مانگی ہے جب کہ حالات کو خراب کرنے کا کام سب سے زیادہ سنگھ پریوار کے لوگ ہی کر رہے ہیں۔

دہشت میں مسلمان

یوپی کے حالات کے خراب ہونے کا سب سے زیادہ اثر یہاں کے مسلمانوں پر دکھائی دیتا ہے جو انتہائی خوف کے ماحول میں جینے پر مجبور ہیں۔ مظفر نگر کے فسادات کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں اور یہاں کے مسلمان ابھی سنبھل بھی نہیں پائے ہیں کہ اب پوری ریاست میں حالات خراب کرنے کی سازشیں شروع ہو چکی ہیں اور مسلمان فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں۔ کسی بھی معمولی واقعے کو بہانہ بنا کر یہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی تیاری ہونے لگتی ہے جس میں نشانے پر ہوتا ہے مسلمانوں کا کاروبار، جان اور مال و جائداد۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں میں سراسیمگی ہے اور وہ دہشت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ فرقہ پرستوں کی نظر سب سے زیادہ مغربی یوپی پر ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اور یہاں مسلمانوں کے تعاون کے بغیر کسی بھی امیدوار کے لئے جیتنا مشکل ہوتا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں یہ دیکھا گیا تھا کہ مظفر نگر کے بہانے ہندو متحد ہو گئے تھے اور انھوں نے بی جے پی کو یک مشت ووٹ کیا تھا۔ یہاں تک کہ یادوں نے ملائم سنگھ یادو کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیئے اور دلتوں نے مایاوتی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب یہی داؤ دوبارہ آزمایا جا رہا ہے اور چکی کے دو پاٹ میں پس رہے ہیں مسلمان۔ انھوں نے سماج وادی پارٹی کو ووٹ اس لئے دیا تھا کہ ان کی جان محفوظ ہو گی اور ریاست کو فرقہ وارانہ فسادات سے پاک رکھا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور اب مسلمانوں کی ہی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ برے حالات تب ہو سکتے ہیں جب فرقہ پرست کوئی بڑی واردات انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس سے مسلمان کا زیادہ نقصان ہو گا مگر اسی کے ساتھ ریاست کا بھی نقصان ہو گا اور جو صوبہ پہلے ہی سے پچھڑا ہوا ہے وہ مزید پسماندگی کا شکار ہو جائے گا۔

 

 

 

ریپ کی سچائی یا سچائی کا ریپ؟

 

میرٹھ کو کیوں آگ لگانا چاہتا تھا سنگھ پریوار؟

 

اگر سنگھ پریوار کی سازش کامیاب ہو جاتی تو آج میرٹھ دوسرا مظفر نگر بن چکا ہوتا اور خون کی ندیاں بہہ رہی ہوتیں۔ بے گناہوں کی لاشیں خاک و خون میں تڑپ رہی ہوتیں اور پناہ گزیں کیمپوں میں پناہ لینے والوں کی قطاریں لگی ہوتیں۔ ہندتو وادی تنظیموں نے میرٹھ میں یہ افواہ پھیلانے کی کوشش کی کہ ایک ہندو لڑکی کا اغوا کیا گیا، گینگ ریپ کیا گیا اور اس کا مذہب تبدیل کرایا گیا۔ یہ افواہ اتنی تیزی سے پھیلائی گئی کہ اس پورے خطے میں ماحول بگڑتا نظر آیا، وشو ہندو پریشد، بی جے پی اور ارایس ایس کے لوگ پوری طرح مستعد ہو گئے۔ جلسوں، جلوسوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، نیتا اپنے اپنے کام پر لگ گئے۔ آگ اگلنے والے بیانات آنے لگے اور جس نے بھی سنا یقین کر لیا خود مسلمان بھی دفاعی پوزیشن میں ہو گئے مگر پولس نے بروقت کار روائی کی اور سبھی ملزمین کو گرفتار کر لیا، حالانکہ جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ معصوم لوگ ہیں اور لڑکی کا الزام غلط ہے۔ لڑکی کا کہنا تھا:

’’میرا اغوا کیا گیا اس کے بعد گینگ ریپ ہوا، پھر مجھے زبردستی تبدیلیِ مذہب پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب مدرسے میں ہوا اور مولویوں کے ذریعے ہوا۔ اس کے بعد مجھے اسپتال میں لے جا کر آپریشن کر کے کڈنی نکال لی گئی‘‘ یہ بیان دیا تھا میرٹھ کے سراوا گاؤں کی بیس سالہ نندنی (بدلا ہوا نام) نے، جو کہ کالج کی طالبہ ہے اور ایک سال قبل تک لڑکیوں کے ایک مدرسے میں پارٹ ٹائم ٹیچر تھی۔ اس نے مدرسے کے سابق اساتذہ اور مدرسے کے ہی کچھ ذمہ داروں پر سازش رچنے کا الزام عائد کیا تھا جن میں سے بیشتر کو پولس نے جلد بازی میں گرفتار کر لیا۔ کسی مدرسے اور اس کے ذمہ داروں کے تعلق سے اس قسم کا الزام انتہائی تشویش ناک ہے اور بجا طور پر عام مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرنے والا ہے۔ کیا دینی مدرسوں میں یہی کچھ ہوتا ہے؟ کیا یہاں کسی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی ممکن ہے؟ کیا یہاں لڑکیوں کی عصمت محفوظ نہیں ہے؟ کیا دینی مدرسے فحاشی کے اڈے ہیں اور یہاں دینی تعلیم و تدریس کے نام پر جنسی کھیل کھیلا جاتا ہے؟ اس قسم کے سوالات میڈیا میں بھی خوب اچھلے کیونکہ سنگھ پریوار نے اسے اتر پردیش میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ میڈیا کے ذریعے مدرسوں کے خلاف خوب پرچار کیا گیا اور ایسا احساس کرانے کی کوشش ہوئی کہ گویا مدرسے وہ مقامات ہیں جہاں خفیہ طور پر کچھ ایسا ہوتا ہے جس کی خبر کسی کو نہیں ہے۔ مذکورہ لڑکی نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسے کئی مدرسوں میں باری باری لے جایا گیا اور ہر جگہ اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوا۔ نندنی کا الزام تھا کہ وہ جن مدرسوں میں گئی اسے بہت سی ہندو لڑکیاں ملیں جن کا مذہب تبدیل کرایا گیا تھا اور بہت سی مسلمان لڑکیاں بھی ملیں جو سعودی عرب اور دبئی جانے کے انتظار میں تھیں۔ نندنی کے مطابق اسے کلیم نامی کسی مولوی نے مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دی اور کہا کہ اگر وہ مذہب بدل لیتی ہے تو اسے دبئی میں اچھی نوکری دی جائے گی۔ غور طلب ہے کہ مذکورہ لڑکی کے والد نے پہلے مقامی تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کرائی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ اس کی بیٹی کا اغوا کر لیا گیا ہے۔ بعد میں لڑکی خود ہی گھر واپس آ گئی اور اس نے بھی یہی کہا کہ اس کا اغوا کیا گیا تھا۔ اس نے ان لوگوں کے نام بھی لئے جنھوں نے اس کا اغوا کیا تھا اور ان جگہوں کی نشاندہی بھی کی جہاں اسے رکھا گیا تھا مگر اس معاملے میں جلد ہی ایک نئی کہانی سامنے آنے لگی جو اس کے دعووں پر سوالات کھڑے کرتی ہے۔ اس نئی کہانی کے سامنے آنے کے بعد ان نیتاؤں کی نیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے جنھوں نے اس واردات کے نام پر میرٹھ میں فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور خواہ مخواہ کا دینی مدرسوں اور مسلمانوں کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا۔ پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق لڑکی کے تمام الزامات سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہیں۔ اس کے ساتھ نہ تو ریپ ہوا اور نہ ہی تبدیلیِ مذہب کرایا گیا۔ وہ اپنی مرضی سے کلیم نامی شخص کے ساتھ اسپتال گئی تھی جس کے ساتھ وہ عشق کرتی تھی اور یہاں اس نے اسقاط حمل کرایا تھا۔

سچائی کیا ہے؟

نندنی کالج کی طالبہ ہے اور وہ ایک مدرسے میں انگریزی و ہندی پڑھاتی رہی ہے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلا اور اس کے بعد اس نے مدرسے میں پڑھانا بند کر دیا۔ اس دوران اس کی شناسائی یہاں کے دوسرے ٹیچرس اور ذمہ داروں کے ساتھ ہو گئی۔ اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سپورٹ کے لئے پارٹ ٹائم مدرسے میں پڑھایا کرتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ گھر سے گئی اور پھر خودواپس آ گئی مگر اس بار وہ گھر نہ لوٹی تو اس کی گمشدگی کی رپورٹ اس کے والد نے درج کرا دی۔ جب وہ گھر لوٹ کر آئی تو اس نے گینگ ریپ والا بیان پولس کو دیا اور اسی بنیاد پر کئی افراد کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اب پولس نے جانچ شروع کی تو ایک نئی کہانی سامنے آ رہی ہے۔ اس کہانی کے مطابق نندنی ایک کلیم نامی شخص کے ساتھ محبت کرتی تھی، جس سے وہ حاملہ ہو گئی تھی۔ الٹرا ساؤنڈ کے دوران پتہ چلا کہ اس کا حمل بچہ دانی کے بجائے فیلوپین ٹیوب میں تھا جو اس کی زندگی کے لئے خطرناک تھا لہٰذا اسقاط کرانا ضروری تھی۔ لڑکی اپنے عاشق کلیم کے ساتھ ۲۳جولائی کو میرٹھ میڈیکل اسپتال میں گئی اور آپریشن کرایا۔ ان دونوں نے خود کو میاں بیوی کے طور پر یہاں درج کرایا اور آپریشن کے بعد ۲۷ جولائی کو اس کی چھٹی ہو گئی۔ نندنی سے لیڈی ڈاکٹر نے حقیقت جاننے کی کوشش کی مگر لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ خوفزدہ تھی۔ اس بارے میں پولس کی تفتیش کے بعد جو بات سامنے آئی ہے اس کے مطابق لڑکی نے مظفرنگر کے جس اسپتال میں آپریشن کی بات کہی تھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ لڑکی نے جو آپریشن کر کے کڈنی نکالنے کی بات کہی ہے وہ اس معاملے کو چھپانے کے لئے ہے جو کہ اس کے اسقاط حمل کے لئے کیا گیا ہے۔ اس پورے معاملے میں پولس نے جو تازہ دعویٰ کیا ہے، اس کے مطابق لڑکی کے تبدیلیِ مذہب کا ثبوت نہیں پایا گیا ہے۔ حالانکہ اس نے پولس اور میڈیا کے سامنے جو بیان دیا تھا اس میں کہا تھا کہ اس کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔ ایس ایس پی اونکار سنگھ کا دعویٰ ہے کہ وہ کلیم کے ساتھ مظفر نگر کے کسی مدرسے میں ٹھہرنے گئی تھی مگر جب مدرسے کے ذمہ داروں کو پتہ چلا کہ لڑکی مسلمان نہیں تو انھوں نے یہاں قیام کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر تبدیلیِ مذہب کا جعلی پیپر تیار کیا گیا اور کسی اور کے دستخط کے ساتھ اسے جمع کر دیا گیا تاکہ اسے یہاں ٹھہرنے کی اجازت مل جائے۔ اس کاغذ پر لڑکی کا دستخط نہیں ہے۔

یہ ہے سنگھ کا کلچر

آر ایس ایس خود کوایک ثقافتی جماعت قرار دیتا ہے اور وہ ہندو اخلاقیات کی بات کرتا ہے، مگر اس کے کلچر اور اخلاقیات کا بھرم بار بار ٹوٹتا رہا ہے۔ اصل میں جھوٹی افواہیں پھیلا کر دنگے کرانا ہی ان کا کلچر ہے۔ ملک میں جہاں بھی فسادات ہوتے ہیں سنگھ سے جڑی ہوئی تنظیموں کے نام آتے ہیں۔ میرٹھ میں بھی یہی روایت دہرانے کی کوشش کی گئی مگر یہ چال کامیاب نہ ہو سکی۔ یہاں ایک جھوٹے واقعے کو بہانہ بنا کر عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش ہوئی اور جلد بازی میں بہو بیٹی بچاؤ آندولن کے نام سے ایک تنظیم بنا لی گئی، جس کا مقصد تھا رکھشا بندھن کے تیوہار پر ہندو۔ مسلم منافرت پیدا کرنا اور اسی بہانے سے سیاسی ماحول کو بی جے پی کے حق میں بنانا۔

سپریم کورٹ کی پھٹکار

اس پورے معاملے میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسے ایک قومی مسئلہ بنانے کے لئے سپریم کورٹ تک میں مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ مقصد تھا کہ اس مقدمے کے بہانے سے یہ ثابت کیا جائے کہ اس ملک میں مسلمان ہندو لڑکیوں کی عصمت سے کھلواڑ کر رہے ہیں اور ان کا مذہب تبدیل کرا کر ان سے شادیاں کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ ’’لو جہاد‘‘ کے نام سے پہلے بھی سرخیوں میں آ چکا ہے اور کیرل و کرناٹک میں تو اسمبلی سے لے کر کورٹ تک میں یہ بحث اور تفتیش کا موضوع رہا ہے مگر سچ وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے ہر بار سنگھ پریوار اور اس کے ہمدرد اسے ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی کھیل سپریم کورٹ میں بھی کھیلے جانے کی سازش تھی مگر چیف جسٹس، آر۔ ایم لوڈھا سمیت تین ججوں کی ایک بنچ نے عرضی داخل کرنے والی این جی او اور وکیل کو پھٹکار لگائی۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کا معاملہ اٹھا کر آپ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد سنگھ پریوار بغلیں جھانک رہا ہے مگر اسے کسی اور موقع کی تلاش ہے جب وہ مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرے اور اسے ووٹ میں تبدیل کرے۔

مدرسوں کو بدنام کرنے کی سازش؟

نندنی کا پورا کیس کیا ہے اوراس کے پیچھے کی سچائی کیا ہے سو اپنی جگہ پر مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس پورے معاملے کو بنیاد بنا کر دینی مدرسوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ نیز عام مسلمانوں کو بھی اس کے لئے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ایک ہندتو وادی تنظیم کے ممبرکو تو ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ مسلم سماج کے بارسوخ افراد اس طرح کے معاملوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں لہٰذا وہ سب اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ حالانکہ میرٹھ کے ہی حاجی عبداللہ کا کہنا تھا کہ اسے بہانہ بنا کر عام مسلمانوں اور دینی مدرسوں کو بدنام کرنے کی کوشش غلط ہے۔ ان کے مطابق مدرسوں کے متعلق کچھ رائے قائم کرنے سے پہلے ابھی انتظار کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ فی الحال پولس کی تفتیش جاری ہے اور جلد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ مدرسوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے اور اس کہانی کے پیچھے کوئی اور کہانی ضرور ہے۔

یہاں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے

بھارت میں دینی مدرسے ہزاروں کی تعداد میں ہیں جہاں مخلوط تعلیم نہیں ہوتی ہے۔ بیشتر مدرسوں میں صرف لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کچھ مدرسے ایسے ہیں جو خاص لڑکیوں کے لئے ہیں۔ چند مدرسے ایسے بھی ہیں جہاں الگ الگ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے انتظامات ہیں اور دونوں کی درسگاہیں اور ہاسٹل ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ اسلام کی نظر میں مخلوط تعلیم ناپسندیدہ ہے۔ ایسا اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ اگر دونوں بے تکلفی کے ساتھ ملیں گے تو کئی اخلاقی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس معاملے میں اس قدر احتیاط برتا جاتا ہے کہ کوئی بھی اجنبی کسی لڑکی سے ملاقات نہیں کر سکتا۔ صرف قریبی رشتہ دار مرد ہی اس سے مل سکتے ہیں اور ان میں بھی باپ، بھائی، چچا، ماموں جیسے محرم ہوتے ہیں۔

کیا لڑکیوں کو دبئی بھیجا جاتا ہے؟

مدرسوں کو انسانی ٹرافیکنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے ذریعے بھارت سے لڑکیوں کو دبئی پہنچایا جا رہا ہے یا سعودی عرب لے جایا جاتا ہے، یہ الزام بھی کم تشویشناک نہیں ہے۔ مظفر نگر ضلع میں ایک مدرسہ کے مدرس اور عالم دین مولانا رحمت اللہ اس سوال پر چونک اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میری تعلیم مدرسے میں ہوئی ہے اور میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے یا تعلیم دیتے ہوئے بتایا ہے مگر آج تک میری نظر میں ایک بھی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا۔ اصل میں یہ پورا معاملہ سازش کے تحت اٹھایا گیا ہے اور اس کا مقصد دینی مدرسوں کو بدنام کرنا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بھارت میں مذہب اسلام اگر زندہ ہے تو دینی مدرسوں کے سبب زندہ ہے اور جب تک یہ ادارے ہیں تب تک اسلام کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ آج دشمنان اسلام کی آنکھوں میں یہ ادارے اسی لئے کھٹک رہے ہیں۔ سازش کے تحت انھیں بدنام کیا جا رہا ہے اور ان کا رشتہ کبھی دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے تو کبھی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ وہ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ یہاں صرف بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے اخلاق کو اسلامی شریعت سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ جہاں تک لڑکیوں کو دبئی اور سعودی عرب بھیجنے کا الزام ہے تو اس کی جانچ ہو جائے، سچائی سامنے آ جائے گی۔ اس الزام میں ذرہ برابر سچائی نہیں ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے جس کا مقصد اسلام اور اسلامی اداروں کو بدنام کرنا ہے۔

میرٹھ میں نندنی کے معاملے کو لے کر جو فرقہ پرستی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس بارے میں یہاں کے شہر قاضی مولانا زین الراشدین کا کہنا ہے کہ یہ تشویش کی بات کہ اسے بہانہ بنا کر سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وہ اس کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ پولس تو تفتیش کر رہی ہے اسے مدرسے میں وہ لڑکیاں کیوں نہیں ملیں جن کے ہونے کے دعوے کئے جا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ انھیں سعودی عرب بھیجنے کے لئے تیار رکھا گیا ہے؟

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل