FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نظمآند

 

دنیائے نظم کے مہاتما

ستیہ پال آنند کی چند منتخب نظمیں

(آئینہ در آئینہ کتاب کا تیسرا حصہ)

 

                علّامہ ضیاء حسین ضیاء

 

 

 

 

جنم سے چتا تک

 

’’میں نے پہلی بار یہ منظر تبھی دیکھا تھا

جب رتھ بان نے مجھ کو بتایا تھا کہ مُردہ جسم کے

۰ انتم چرَن کی یاترا میں                  ۰آخری قدم

اُس کو اگنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔

تب اک بار پھر

اس جسم کے تینوں عناصر، مٹّی، پانی اور ہوا

چوتھے سے، یعنی آگ سے مل کر

حقیقی اور ازلی جزو میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ میں انجان تھا اس بات سے تب!‘‘

 

بات کا آغاز کرنے کے لیے آنند نے تو

بر سبیل تذکرہ اتنا ہی پوچھا تھا ’’۔ ۔ ۔ تتھاگت

یہ بتائیں

راکھ ہی کیا سارے جیووں، جنتوؤں کی

آخری منزل ہے ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

 

’’۔ ۔ ۔ بے شک!‘‘ بُدھّ بولے تھے، ’’مگر سوچو تو آنند

جسم کے یہ مرحلے۔ ۔ ۔

پہلے تو بچپن

پھر لڑکپن

پھر جوانی

پھر بڑھاپا

اور پھر ان سب کا حاصل۔ ۔ ۔ موت!

اس کے بعد اگنی

بھسم ہو جانا چتا کی راکھ میں !

ترتیب سیدھی ہے

اگر کروٹ بدل کر

یہ الٹ جائے تو پھر

کیسا لگے گا تم کو بھکشو؟‘‘

’’میں نہیں سمجھا، تتھا گت!‘‘

سیدھی سادی بات ہی تو ہے، سُنو آنند، لیکن غور سے

ترتیب کے اُلٹے مساوی رُخ کو اب دیکھو ذرا

۔ ۔ ۔ ہم آگ میں پہلے جلیں

پھر اپنے مردہ جسم میں داخل ہوں۔ ۔ ۔

پھر ارتھی سے واپس

جانکنی کی سب اذیت جھیل کر لوٹیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ جہاں ’’سر کانپتے، پگ ڈگمگاتے ‘‘ وہ بُڑھاپا ہے، جسے

برداشت کرنا موت سے بد تر ہے۔ ۔ ۔

پھر الہڑ جوانی، پھر لڑکپن

لوٹ کر چلتے ہوئے پھر آغوش ماں کی

شیر خواری کے دنوں تک

اور پھر تولید کا آزار۔ ۔ ۔

کیسا سلسلہ ہے یہ؟ بتاؤ!‘‘

 

اپنے سر کو نیوڑھائے

گو مگو کی کیفیت میں

گم رہا آنند کافی دیر تک،

پھر سر اٹھایا

اور کچھ کہنے کو لب کھولے مگر تب تک تتھا گت

لمبے لمبے ڈگ اُٹھاتے جا چکے تھے !

٭٭٭

 

 

 

 

جسم کے یہ آٹھ روزن

 

تو کبھی بدلے گا بھی اس جسم سے باہر نکل کر؟

ایک پنجرے میں مقید

جسم کے ان آٹھ کشکولوں میں

اپنی کم بقا محرومیوں کی دکھشنا بھرتا ہوا

تُو آج بھی یہ چاہتا ہے

سارے کشکولوں کو بھر کر

گیروا چولا پہن کر کان پھڑوائے

کہ یہ آدیش تھا سب جو گیوں کو!

 

آٹھ سوراخوں کی ساری تشنگی مٹ جائے تو پھر

اک نئے تشنہ بدن میں

سابقون و اوّلون و التمش سے آگے بڑھ کر

دخل در امکان کی صورت میں تو پھر مرتسم ہو !

 

ہو چکا کافی! بہت کچھ ہو چکا !

ان گنت جسموں کے ایمائی تشخص در تشخص

کی تجھے اب کیا ضرورت ہے، بتا!

کیا ضرورت ہے تجھے

آوا گون کے چکّروں کے پھیر میں

پڑنے کی اب پھر؟

کیا ضرورت ہے کسی آبی کنوئیں کے

تشنہ لوٹے کی طرح جنموں کے چرخے کی طرح سے

قرنہا سے رَہٹ پر گرداں قدم کوشی کی تجھ کو؟

جبکہ تُو یہ جانتا ہے

’تشنگی‘، ’سیری ‘۔ ۔ ۔ فقط دو نام ہی ہیں

واپسی، ارجاع، نصفا نصف چکّر کے

فقط آدھے، ادھورے !

 

اس سے کیا اچھا نہیں ہے

بھول جا خود زائی اپنی!

اپنے ’دانے ‘ کو مٹا دے !

خاک میں دانہ ملے گا، تو یقیناً

تُو نئے گلزار کی صورت اُپج کر فاش ہو گا!

٭٭٭

 

 

 

 

 ماریشیس کے ساحل پر

 

Absurd Poetry یعنی لایعنیت کی شاعری کا ایک نمونہ

 

                 (۱)

 

ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑا ہے

نرم گیلی ریت پر

جیسے اسے آکاش کی اونچائی میں پانی

سمندر کیا تھاہ گہرائی میں آکاش

ساحل پر جمے لوگوں کے جمگھٹ، سب کو الٹا دیکھنا ہے

آتے جاتے لوگ اس کے سامنے چادر پہ سِّکے پھینکتے ہیں

تو وہ ہلتا بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہاں، اگر اک نوٹ کوئی پھینک دے، تو

یک بیک سرعت سے اس پر کنکری رکھتا ہے تا کہ نوٹ چادر پر رہے

اٹھکھیلیاں کرتی ہوا میں اڑ نہ جائے

صرف میں ہی دیکھتا ہوں

نوٹ تک آنے میں اس کو وقت لگتا ہے کہ اس کے

دونوں پاؤں ہی نہیں ہیں !

 

                 (۲)

 

ایک چوزہ، سر کٹا، جو

نزع کے عالم میں گیلی ریت پر

اپنے تڑپنے کا فقط خود ہی تماشائی بنا ہے

(وقت ضائع کر رہا ہے )

پاس انگیٹھی میں جلتی آگ پر کالی سلاخوں میں پروئے

’’سیخ مرغابے ‘‘ ہیں، جن کو دیکھ کر میرا تو جی متلا گیا ہے۔

گوشت کے قتلوں کا بیوپاری

کٹے سر کا گلابی پھول ہاتھوں میں لیے

اب بے حس و بے جان چوزہ بھی اٹھا لیتا ہے

۔ ۔ ۔ بگھّی کے ادھر آنے سے پہلے۔

 

                 (۳)

 

(الف)۔ ۔ کالی بگھّی، ان سیاحوں کی سواری

ریت پر چلنا جنہیں دشوار لگتا ہے، کہ وہ تو

ہوٹلوں میں قیمتی قالین پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

 

(ب)۔ ۔ ناریل آدھا

شکستہ، راستے میں

ریت پر لیٹا ہوا بے جان سورج

گہن کا کھایا ہوا سا

مجھ کو ایسے دیکھتا ہے، جیسے میں ہی

۰راہُو ہوں یا کیتُو ہوں جو اس کا نصف حصہ کھا گئے ہیں

 

(ج)۔ ۔ شام اب ڈھلنے کو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جاؤں کہاں ؟

سب لوگ تو اب ہوٹلوں، اپنے گھروں کو چل چکے ہیں

اور میرے پاس؟ اب شاید یہی اک راستہ ہے

لوٹ جاؤں۔

 

                 (۴)

 

میں اکیلا چل رہا ہوں

’’بیوٹی فل ہے اور ’’ ینگ‘‘ بھی ہے، بہت ہی ’’کھوب سورت‘‘

دل کو بہلائیں گے، صاحب؟صرف دس ڈالر میں !‘‘

دو قدم آگے کو چل چکتا ہوں

تو مجھ پر یہ کھلتا ہے کہ وہ تو ’’پِمپ‘‘ ہے، جسموں کا بیوپاری

مجھے گاہک سمجھتا تھا، حرامی!

 

                (۴)

 

لوٹ چلتا ہوں

کنارے پر بنے اک پھوس کے چھپر میں شاید

چائے خانہ یا کوئی ڈھابہ ہے

اک کپ چائے پی لوں ؟

پھوس کے چھپّر کے باہر ایک بڑھیا

ادھ مری کتیا سی، اپنی ٹانگ کھجلاتی ہوئی بیٹھی ہے

اس کی آنکھ چھپّر میں لٹکتے

ایک کیلینڈر کے کاغذ میں مقید

اس جواں عورت کے پستانوں پہ ہے جو ہنس رہی ہے۔

پھوس کے چھپّر کے اندر اک قدم رکھتا ہوں

پچھواڑے کے حصے سے کوئی کہتا ہے

’’آ جاؤ!‘‘

دھندلکے میں مجھے لگتا ہے، دنیا سو نہیں سکتی

کہ آنکھیں تو کھلی ہیں

اور ڈھیلی چارپائی پر سجی سنوری وہی عورت ہے

جو کیلینڈر کے کاغذ میں مقید ہنس رہی تھی!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۰را ہو، کیتو ۔ ۔ ۔ ہندو جوتش ودیا میں دو منحوس ستارے

٭٭٭

 

 

 

 

کیسا پیراہن یوسُف ہے یہ؟

 

کیسی چادر یہ چڑھائی ہے مری قبر پہ آج؟

میری آنکھوں کے لیے کون سا سرپوش ہے یہ؟

کیسا پیراہن یوسُف ہے جو تم لائے ہو؟

میں تو تابوت کے اندر سے بھی

دیکھ سکتا ہوں کہ میرا ذہن ہے بیدار ابھی !

 

تم جو صدیوں سے بزرجمہروں، داناؤں کے ساتھ

کرتے آئے ہو، وہ میرے علم میں ہے

عارفوں اور حکیموں سے تمہیں بَیر ہے، میں جانتا ہوں

ان کی تقدیس سے، تہذیب نفس سے تم کو

کچھ علاقہ ہی نہیں، کوئی تعلق ہی نہیں

ان کی قبروں کو مزاروں میں بدل کر تم نے

روضہ و تربت و اہرام سجا ڈالے ہیں

مسخرہ پن کی کوئی حد بھی تو ہوتی ہو گی!

تم نے ان روضوں کو جاگیر سمجھ کر ان کو

محفلوں، میلوں کے منڈووں میں بدل ڈالا ہے

میں تو بینا ہوں، مرا ذہن ہے زندہ اب تک

جانتا ہوں کہ یہ با زندگی، یہ دھوکا دھڑی

مجھ سے بھی ہو گی۔ ۔ ۔ مجھے پیر بنا کر تم خود

ایک سجادہ نشیں، ایک مجاور کا لباس

تاج، کفتان، اک پا پاغ کلاہ زر بفت

زیب و زینت سے پہن کر، بہمہ عزت سے

اک نئی پھولوں کی چادر مجھے اوڑھاؤ گے

 

اور میں، لحد کے اندر ہی پڑا تڑپوں گا

استخواں ہوں، مگر یہ ذہن ہے بیدار ابھی

اندھے یعقوب سے لائی گئی اس چادر کو

پیرہن یوسف کنعان سمجھ کر، اپنے

ذہن کو بھی سلا دوں گا دم محشر تک!

٭٭٭

 

 

 

 

اے خطا طراز بدن

 

اے خطا طر از بدن

تو کبھی بدلے گا بھی اس جسم سے باہر نکل کر؟

ایک پنجرے میں مقید

جسم کے سب آٹھ سوراخواں کے کشکولوں میں

اپنی کم بقا محرومیوں کی دکھشنا بھرتا ہوا

تو آج بھی یہ چاہتا ہے

سارے کشکولوں کو بھر لے

گیروا چولا پہن کر، کان پھڑوائے

(کہ یہ آدیش تھا سب جو گیوں کو !)

آٹھ سوراخوں کی ساری تشنگی مٹ جائے، تو پھر

اک نئے تشنہ بدن میں

سابقون و اوّلون و التمش سے آگے بڑھ کر

دخل در امکاں کی صورت مرتسم ہو!

 

اے خطا طر از بدن

ہو چکا کافی

بہت کچھ ہو چکا!

ان گنت جنموں کے ایمائی تشخص در تشخص کی تجھے

اب کیا ضرورت ہے، بتا !

کیا ضرورت ہے تجھے

آوا گون کے چکروں کے پھیر میں پڑنے کی اب؟

کیا ضرورت ہے کسی آبی کنوئیں کے تشنہ لوٹے کی طرح

قرنہا سے رہٹ پر گرداں قدم کوشی؟

مگر ہر بار پھر(کنوئیں کے لوٹے کی طرح ہی)

واپسی، ارجاع، نصفا نصف چکّر!

 

اس سے کیا اچھا نہیں ہے

بھول جاؤ اپنی خود زائی

مٹا دو اپنے ’دانے ‘ کو

کہ دانہ خاک میں جب بھی ملے گا

تم نئے گلزار کی صورت اپج کر فاش ہو گے !

اے بدن، توسن رہا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

دَمُ الاخوَین

 

(1965ء کی جنگ کا ایک شعری تاثر)

 

لہو کا رنگ کتنا سُرخ ہے، آؤ ذرا دیکھو

کہیں کالا نہیں، پیلا نہیں، بس لال ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں، سرخ، گہرا لال تھا پہلے تو، لیکن اب

کہیں گدلا بھی ہوتا جا رہا ہے آؤ، دیکھو تو!

مگر کس کا لہو ہے، کچھ ذرا پیچھے مڑو، دیکھو

لہو یہ کب سے بہتا آ رہا ہے حالیہ تاریخ کی رگ میں

جو اک بد رو ہے، بدبو دار کھائی ہے !

 

محقّق ہوں، مورّخ ہوں، محرر ہوں

یہ سارے شیخی خورے جنگ کے رسیا

سبھی مقعر، محدب، جھوٹے شیشوں سے

اسے جب دیکھتے ہیں، ان کو لگتا ہے

لہو یہ دشمنوں کا ہے !

 

غلط اظہار ہے، یہ جھوٹ ہے، شاعر یہ کہتا ہے

کہ ناحق خون جو آدھی صدی سے اس جگہ بہتا چلا آیا ہے

ہمارے بھائیوں کا ہے

جو ہم خویشی میں اک دوجے کے اخوان و اقارب ہیں

اگر آدھی صدی پہلے۔ ۔ ۔ قرابت دار بھائیوں کا

لہو ہم نے گرایا تھا، تو یہ تسلیم کر لینے میں آخر ہرج ہی کیا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

انا للہ و انّا علیہ راجعون

(اپنی ہی غزل کے ایک مصرعے کے مضمون پر لکھی گئی نظم)

 

’’ماضی تو مرتا رہتا ہے، کون اٹھائے روزانہ اس کی میت کو !‘‘

ایک مردہ تھا جسے میَں خود اکیلا

اپنے کندھوں پر اٹھا کر

آج آخر دفن کر کے آ گیا ہوں

بوجھ بھاری تھا، مگر اپنی رہائی کے لیے یہ

اہم تھا، مُردے کو میں خود ہی اٹھاؤں !

 

یہ حقیقت تھی کہ کوئی واہمہ تھا

پر یہ بدبو دار لاشہ

صرف مجھ کو ہی نظر آتا تھا، جیسے

ایک نادیدہ چھلاوہ ہو، مرے پیچھے لگا ہو

میرے کنبے کے سبھی افراد اس کی

ہر جگہ موجودگی سے بے خبر تھے

صرف میں ہی تھا جسے یہ

ٹکٹکی باندھے ہوئے

بے نور آنکھوں سے ہمیشہ گھورتا تھا!

 

آج جب میں

اپنے ماضی کا یہ مردہ دفن کر کے آ گیا ہوں

کیوں یہ لگتا ہے کہ میرا

’حال‘‘ بھی جیسے تڑپتا مر رہا ہو؟

اور ماضی کا نیا مردہ بھی مجھ کو

کچھ دنوں میں

دفن کرنے کے لیے جانا پڑے گا

٭٭٭

 

 

 

 

آسماں کی چھت کہاں ہے ؟

 

 وَجَعَلنَا اُلسََمَاء سَقَّفَا مَحفوظا (سورۃ النبا:۲۳)

 

اپنے گھر کے صحن میں یوں ششدر و حیراں کھڑا ہوں

جیسے رستہ کھو گیا ہو

دھیرے دھیرے پاؤں میرے

صحن کے کیچڑ میں دھنستے جا رہے ہیں

جسم کے کیچڑ میں دھنسنے کا تصور روح فرسا توہے، لیکن

اس سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں ہے

سر کھجاتا، نیچے اوپر، دائیں بائیں دیکھتا ہوں

دائیں بائیں کچھ نہیں ہے

نیچے کیچڑ ہے، زمیں ہے

اور اوپر؟

ایک لمحے کے لیے یہ یاد آتا ہے کہ شاید میرے اوپر

انت سے بے انت، یعنی اِس افق سے اُس افق تک

آسماں پر

چارپائیاں سلسلہ در سلسلہ رکھی ہوئی ہیں

جن پہ میرے

پچھلے جنموں کی تکانیں سو رہی ہیں۔

 

بد حواسی میں زمیں سے پوچھتا ہوں

آسماں کی چھت کبھی گرتی نہیں ہے

پر مجھے اتنا بتاؤ

آسماں کی چھت کہاں ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

 

کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا

سر نکالے کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی جس سے رستہ پوچھتا

ایک قوس آسماں حدِّ نظر تک لا تعلق سی کہیں قطبین تک پھیلی ہوئی تھی

دھند تھی چاروں یُگوں ۰ کے تا بقائے دہر تک۔ ۔ ۔ (۰ یُگ : قرن)

اور میں تھا!

 

اور میں تھا

لاکھ جنموں کی مسافت سے ہراساں بھاگ کر

اعراف کے لا سمت صحرا میں بھٹکتا

کوئی روزن، کوئی در، کوئی دریچہ ڈھونڈتا، پر

یہ بھٹکنا خود میں ہی بے انت، ابد الدہر تھا

ایسی سناتن ۰، قائم و دائم حقیقت (۰سناتن : قدیم ترین)

جس سے چھٹکارہ فقط اک اور قالب میں دخول عارضی تھا

اس جنم میں جو نئی زنجیر میں پہلی کڑی تھی

ان گنت کڑیوں کی صف بستہ قطاروں سے مرتب!

 

اور میں خود سے ہراساں

یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا

جس زنجیر سے میں، تسمہ پا، اک لاکھ جنموں کی مسافت سے صیانت پا چکا ہوں

اس میں پھر اک بار بستہ بند ہو کر چل پڑوں

بے انت جنموں کے نئے پیدل سفر پر؟

 

ہاں مجھے تسلیم ہے یہ

خانۂ مجنونِ صحرا گرد کی بے در مسافت!

میرے ’ہونے ‘اور ’بننے ‘کے گزرتے وقت کا دورانیہ

برزخ کے باب و در سے عاری دشت میں ہی

تا بقائے دہر تک

جنموں کے دوزخ سے رہائی کے لیے !

٭٭٭

 

 

 

 

 ترکال کی بیلا

 

(اپنی چوراسویں سالگرہ پر تحریر کردہ ایک نظم)

 

نیم جھُٹپٹا، نرم اندھیرا

کہیں کہیں چانن کی گم ہوتیں گدلی، میلی سی لہریں

پچھم میں سُرخاب دھندلکے کی گھٹتی بڑھتی پرچھائیاں

 

ہوا میں پھڑ پھڑ، پھڑ پھڑ کرتے شام کے پنچھی

تھکے پروں سے

اپنے اپنے پھوس گھروندوں کے رستوں پر

اُڑتے، شور مچاتے، قیں قیں کرتے !

 

پاؤں مضمحل، گھُٹنے ناکارہ، ہاتھوں میں رعشہ

آنکھوں کے پیمانے دید کی مے سے خالی

نیچے اوپر سانسوں کا بے ہنگم سرگم

نصف کھُلی سوڈے کی بوتل کا قیدی مشروب

نکلنے کو باہر، بے چین، تڑپتا!

 

جب ترکال کی بیلا سر پر آ ہی گئی ہے

تو پھر، اے ہم عمر دوستو

دن کو اب رخصت کرنے میں ہرج ہی کیا ہے ؟

 

چوتھے پہر سے پہلے، آؤ

اپنے آپ سے مل کر خود کے درشن کر لیں !

اس جینے سے بہتر ہے چپکے سے مر لیں !!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ’’نیچرل‘‘ نظم

 

 (یہ نظم خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے ایما پر لکھی گئی)

 

سہانی نیند کی آغوش میں مچلتی ہے

نشے کے آبگیں محور پہ جسم گھومتا ہے

ہر ایک عضو میں رقصاں ہے رات بھر کا خمار

جو گھنگھروؤں سے بدن کا خمیر گوندھتا ہے !

 

ذرا سی کہنی کے بل اٹھتی ہے تو چاروں طرف

پرندے راگ للت کے سُروں میں بولتے ہیں

شبِ گزشتہ کے خوابوں کے محرمانہ راز

چہکتے، گاتے، فجر کی زباں میں کھولتے ہیں

 

سڈول بازو اٹھاتی ہے تو سرکتے ہوئے

اندھیرے دھند کی چادر میں چھُپنے لگتے ہیں

بڑے ہی ناز سے لیتی ہے ایک انگڑائی

تو جیسے بلبلے رگ رگ سے پھوٹ پڑتے ہیں

 

کمر کے بل میں کھنچاؤ ہے اک کماں جیسا

کھنچے تو جسم میں قوسیں مچلنے لگتی ہیں

بھنور سی ناف کو جب گدگدی سی ہوتی ہے

ہنسی کی گھنٹیاں پانی میں بجنے لگتی ہیں

 

ابھار سینے کے، اٹھتے، مچلتے، کھلتے ہوئے

کہ جیسے جام میں کچھ دائرے سے رقصاں ہوں

کنول کے پھول کھلیں سطح آب پر جیسے

کٹورے سیمگوں جھیلوں میں جیسے افتاں ہوں

 

سپید و سرخ بدن کی وہ نرم پشت دو تا

کہ جیسے ریشمی چٹّان خود میں بٹ جائے

دراز ٹانگیں اٹھی ہیں بہاؤ میں ایسے

غزل کا شعر اٹھے اور بزم الٹ جائے !

 

جو سوئی سوئی سی بہتی رہی ہے پچھلی رات

ندی، وہ چلبلی دوشیزہ جاگ اٹھی ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

اے حَسن کوزہ گر

 

Reductio ad absurdumکے طریق کار سے ن۔م راشد کی چار نظموں کے سلسلے کو سمجھنے کی ایک شعری کوشش۔ ۔ راشد کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ)

 

اے ’’ حَسن کوزہ گر‘‘

کون ہے تُو؟ بتا

اور ’’ تُو ‘‘ میں بھی شامل ہے، ۔ ۔ ’’ہاں ‘‘، اور ’’نہیں ‘‘

تو جو خود کوزہ گر بھی ہے، کوزہ بھی ہے

اور شہر حلب کے گڑھوں سے نکالے ہوئے

آب وگل کا ہی گوندھا ہوا ایک تودہ بھی ہے

جو کبھی چاک پر تو چڑھایا گیا تھا، مگر

خشک کیچڑ سا اب سوکھتے سوکھتے

اپنی صورت گری کی توقع بھی از یاد رفتہ کیے

چاہ نیساں کی گہرائی میں

خواب آلودہ ہے

 

(2)

 

اے حسن کوزہ گر

کیا جہاں زاد بھی (جو کہ ’’نادان‘‘ تھی )

باکرہ تھی جسے تو نے نو سال پہلے

’’گل و رنگ و روغن کی مخلوق‘‘ سمجھا؟

چڑھایا نہیں چاک پر ( جس کمی کا تجھے آج بھی ہے قلق!)

تیری لگتی تھی کچھ؟

کیا جہاں زاد عطّار یوسف کا مال تجارت تھی، اسباب تھی؟

یا کہ بیٹی تھی، بیوی تھی؟یا داشتہ۔ ۔ ۔

یا طوائف کی اولاد تھی، جو ابھی

سیکھ پائی نہ تھی سودا بازی کا فن؟

 

پیش کرتی تھی ہر آتے جاتے کو اپنی ہنسی

نفع و سودے بازی کا فن سیکھتی تھی ابھی

آج نو سال کے بعد وہ نا شگفتہ کلی

پھول ہے، کیف و مستی میں ڈوبا ہوا

آج نو سال کے بعد وہ باکرہ

انشراحی بشاشت کے اطوار سب سیکھ کر

مال و اسباب، سودا گری کا ہنر جانتی ہے کسی بیسوا کی طرح!

 

اے حسن، علم ہے تجھ کو کیا؟

ایک عطّار یوسف کی دکّاں نہیں

اغلباً ہر گلی اس کے قدموں کی آہٹ سے واقف تھی، جو

خود ’’جہاں زاد‘‘ تھی یا کہ ’’زادی‘‘ تھی۔ ۔ ۔ ۔

کس اجنبی کی؟ اسے خود بھی کیا علم ہے !

پوچھتے تو ذرا

سب پڑوسی تمہیں یک زباں یہ بتاتے، ’’ جہاں زاد‘‘ اور

’’دخت زر‘‘ ایک ہی نام ہوتا ہے کسبی کی اولاد کا!

 

اب مری بات سن

میں کہ اک جسم میں تین روحیں لیے لکھ رہا ہوں یہ قصّہ جہاں زاد کا!

میں جہاں زاد بھی ہوں، حسن کوزہ گر بھی مرا نام ہے

اور قصہ بھی میرا قلم لکھتا جاتا ہے جیسے کوئی

عالم غیب سے اس کے نوک قلم پر ہے بیٹھا ہوا

اے حسنؔ یہ بتا

تو نے پہلی کنواری بلوغت کے سالوں سے بھی پیش تر

میرے ’’ نوخاستہ ‘‘ کورے، کچّے، کنوارے بدن کو

’’ خزاں اور کہولت ‘‘سے کیوں آشنا کر دیا؟

جسم میرا تو شیشہ نہیں تھا جو پھونکوں سے بھرتی ہوا

کے سہارے کسی کوزہ گر کے تخیل کے شیشے کے کوزے میں تبدیل ہو کر

جہاںؔ زاد بنتا!

 

اے حسنؔ کوزہ گر

شہر کوزہ گروں کا، حلب کی سرائے، سفر کی امیں

جس میں سب کوزہ گر، شیشہ گر شب بسر ہیں تمہاری طرح

یہ بھٹکتے ہوئے کاروانوں کی مٹی میں ڈوبی ہوئی

اک سرائے کہ جس میں نہانے کا اک حوض ہے تو سہی

پر نہانے کا یہ ’’حوض‘‘ اک ’’بستر وصل ‘‘ ہے

اور بستر سرائے کے اس بند کمرے میں ہے

جس میں ہم ’’ دائرے میں بندھے حلقہ زن‘‘

رات بھر

(یعنی اک رات بھر، صرف اک رات بھر)

گرم، مرطوب، ’’آبی ‘‘، ’’عرق ریز جسموں ‘‘ میں داخل رہے

اور پھر ’’ہم کنار و نفس‘‘، تیرتے تیرتے جیسے گُم ہو گئے !

ہاں، حلب کی سرائے کے اس حوض میں

اپنے نو عمر، کچے، کنوارے بدن کو ڈبوتے ہوئے

’’خشک و تر مرحلوں ‘‘سے تجرد کی چادر بھگوتے ہوئے

خوف یہ تھا مجھے اس تر و تازہ غوطہ زنی میں

کہ نکلوں گا باہر تو اپنی یہ مریل سی ’’انگشت جاں ‘‘

اپنی مٹھی میں پکڑے ہوئے جاؤں گا میں کہاں ؟

 

اے حَسنؔ کوزہ گر

بات کر مجھ سے، یعنی خود اپنے ہی ہمزاد سے

اور ڈر مت حقیقت سے اپنے بدن کی

کہ ڈر ہی ترے جسم و جاں کو ہے جکڑے ہوئے !

’’تشنگی جاں ‘‘کی، یعنی خود اپنی ہی مٹھی میں پکڑی ہوئی

ادھ مری خشک جاں

العطش العطش ہی پکارے گی اب آخری سانس تک

کیوں کہ تو جسم اپنا تو اس ’حوض بستر‘ میں ہی چھوڑ آیا تھا

جس میں جہاںؔ زاد کے جسم کی

گرم، مرطوب دلداریوں کی تمازت

ابھی تک تڑپتی ہے لیٹی ہوئی

اور جنّت کے موذی سی بل کھاتی چادر کے بد رنگ دھبوں میں

لپٹی ہوئی!

 

ایک شب ہی حسنؔ صرف کافی تھی تیرے

ہنر کی نمائش کی یا امتحاں کی، مگر

تیری پسپائی تیرا مقدر بنی

اور کرتا بھی کیا؟

سب بنے، ادھ بنے

’’سارے مینا و جام و سبو اور فانوس و گلدان‘‘ تُو

بس وہیں چاک پر ’’ان جنی ‘‘ اپنی مخلوق کو ترک کر کے

حلب چھوڑ کر

سوئے بغداد کیوں گامزن ہو گیا؟

پیچھے مُڑ کر اگر دیکھتا توُ حسنؔ

تجھ کو احساس ہوتا کہ یہ آل تو کوکھ میں ہے تری

تیرے کوزے، سبو، جام و ساغرسبھی

’’ ادھ جنے ‘‘ تھے ابھی

اور تو اس ’’ ولادت‘‘ کے فرض کفالت سے آزاد بھی کیا ہوا

جیسے ہر فرض سے دست کش ہو گیا

ہاں، ترا اس سفر پر نکلنا ضروری تھا

بغداد تھی جس کی منزل، (سکونت فقط نو برس کے لیے !)

(ہندسہ ’نو‘ کا گنتی میں اک رکن ہے، اک مفرد عدد!)

اے حَسن کوزہ گر

تو بھی ’’الجھن‘‘ ہے ان عورتوں کی طرح

جن کو سلجھا کے کہنا کہ ہم نے انہیں پا لیا

واہمہ ہے فقط

کیوں کہ میرا بدن (جو کہ تیرا بھی تھا اور کوزوں کا بھی)

تو وہیں حوض میں ڈوب کر رہ گیا تھا اسی رات

جب ہم بچھڑنے سے پہلے ملے اور گم ہو گئے !

تجھ کو اتنا تو شاید پتہ ہے کہ شب جوترے ذہن میں

ڈائنوں سی کھڑی (ایک عشرے سے اک سال کم)

تجھ کو کیوں، اے حسنؔ، پورے نو سال دھوکے میں رکھ کر

بلاتی رہی ہے حلب کی طرف!

وہ تو اب ایک ’’لب خند‘‘ عورت ہے، لڑکی نہیں

تم نے تو، اے حسن (اپنے نا تجربہ کار، کم فہم ادراک میں )

جس کو ’’نادان‘‘ سمجھا تھا تب

اب وہ دریا کا ساحل ہے بھیگا ہوا

وہ کنارہ جسے بوسہ دینے کو آ کر

پلٹتی ہوئی ساری موجیں ہمیشہ وہیں لوٹتی ہیں

جہاں اک برس، دو برس، نو برس قبل ٹھہریں تھیں بس ایک پل

عین ممکن ہے تم نے یہ سوچابھی ہو

( ’’تم‘‘ بھی تو اے حسنؔ، ’’میں ‘‘ کا ہی روپ ہو!)

 

اب ذرا ’’میں‘‘ کو بھی بولنے دو، حسنؔ

ہر طرف نا صبوری کے کانٹے اُگے تھے مرے حلق میں

میں یہ کہہ بھی نہ پایا تھا تجھ کو ’’جہاں کی جنی‘‘

ہاں، یہی نام اب زیب دیتا ہے سب کسبیوں کے لیے

بھولتا ہوں کہ شاید پکارا بھی ہو

میں نے پہلے کبھی تجھ کو اس نام سے

میرے کوزے جو نو سال پہلے تلک

تھے ہر اک ’’شہر و قریہ‘‘، ہر اک ’’کاخ و کو‘‘ کا تکبر یہاں

آج آواز دے کر بلاتے ہیں، ’’آ، اے حسنؔ

اور ہم بد نما پیکروں کو کوئی شکل دے !‘‘

 

اور میں، اے ’’جہاں کی جنی‘‘، لوٹ آیا تو ہوں

صرف تیری ’’تمنا کی وسعت‘‘ کو پھر ماپنا چاہتا ہوں

پھر اک بار ’’آنکھوں کی تابندہ شوخی‘‘ کے پیغام کو

جاننا چاہتا ہوں۔ ۔ اگر

میری خفت، خجالت کا رد عمل

تیرا فدیہ ہے، تو میں یقیناً رکوں گا یہاں

تا کہ پھر ’’رنگ و روغن سے ایسے شرارے نکالوں ‘‘

جنھیں دیکھ کر ’’تیری آنکھوں کی تابندہ شوخی‘‘

مرے واسطے (ہاں، فقط میرے ہی واسطے )

چاندنی سی چمکتی رہے عمر بھر!

اور، تو اے حسنؔ، یہ سمجھ (بولتا ہے ترا قصہ گو)

اپنی تنہائی میں

جھونپڑے کی تعفن سے بوجھل فضا کی

عفونت، جسے تم ’’ بغل گندھ‘‘ کا عطر سمجھے ہوئے ہو

فقط ایک حیلہ ہے

یادوں کے جوہڑ میں

ڈبکی لگا نے کی خو ہے حسنؔ!

عشق بالکل نہیں !

عشق بالکل نہیں !!

 

اے حسنؔ کوزہ گر!

یہ مثلث ہے کیا؟

ایک تم

ایک وہ جو جہاںؔ زاد ہے

اور وہ تیسرا؟

کون ہے وہ لبیبؔ، اس کا عاشق (کہ گاہک؟)

ہوس کار جو اس کے ’’ لب نوچ کر‘‘

زلف کو اپنی انگشت سے باندھ کر

اس کے نازک بدن سے فقط ایک شب کھیل کر چل دیا

اور وہ نائکہ

جس کی ریشم سی، مخمل سی، صیقل شدہ جلد پر

اس کے ہاتھوں کی، ہونٹوں کی ایذا دہی کے نشاں

اب بھی باقی ہیں، وہ یہ کہانی تمہیں

یوں سناتی رہی

مسکراتی رہی

جیسے شہوانیت بے حیائی نہ ہو

بلکہ لذت، حلاوت سے بھرپور

خوش ذائقہ ہو کوئی دعوت ما حضر !

 

اور تم، اے حسنؔ

صرف اس ’’عشق‘‘ کی بات کرتے رہے

جو فقط ایک ہی بار صدق و وفا سے کسی کوزہ گر کے

تصنع سے عاری، کھرے دل میں ڈھلتا ہے تو

چاک پر اس کے جام وسبو، ساغر و طشت میں

ایک ہی گلبدن کی نزاکت، لطافت، نفاست کے ہی رنگ کھلتے ہیں

تخلیق کی ساحری سے !

 

آ، حسن کوزہ گر

آ، کہیں پھر حکایت اسی رات کی

پی رہے تھے مئے ارغواں شام سے

اور میرا نشہ اس قدر بڑھ گیا

ریزہ ریزہ ہوا جام گر کر مرے کانپتے ہاتھ سے

کچھ اچنبھا نہ تھا یہ ترے واسطے

پر سکوں سی کھڑی دیکھتی ہی رہی

کیونکہ عادی تھی تُو

(ایسے بیکار سے حادثے محفلوں کی بلا نوشیوں کا ہی معمول ہیں )

گھر کے شیشوں کی درزیں سناتی رہیں

گنگ آواز میں

داستانیں کئی حادثوں کی یہاں

رنگ رلیوں کے قصے، خرابات کے تذکرے !

قصہ گو کی زباں کو کوئی کیا کہے

(اور اس کو یہ حق ہے کہ کچھ بھی کہے !)

’’مالزادی‘‘ کہے یا ’’جہاں زاد‘‘ کو ہی مونث کرے

قصّہ گو رال ٹپکاتی اپنی زباں سے بہت کچھ سنانے کو تیار ہے !

 

داستانوں کی سچائی کے اس مورخ کا اعلان ہے

میں، کہ اک قصّہ گو

ایک ثالث بھی ہوں اور منصف بھی ہوں

فیصلہ میری نوک قلم پر سیاہی کے قطرے سا ٹھہرا ہوا

منتظر ہے کہ کب اس کو لکھ کر سناؤں حسنؔ کو، جہاںؔ زاد کو

یا کسی تیسرے کو جو سچائی کی کھوج میں غرق ہو!

اے حسن کوزہ گر

نو برس بعد بغداد سے لوٹ کر

گر تجھے دل کے عدسے میں اپنی ہی صورت

نظر آتی ہو

اور دہشت زدہ خود سے، تنہائی میں

لکھ رہے ہو اگر آنسوؤں سے وہ خط

جس میں اشکوں کے قطروں کے الفاظ یوں جُڑ گئے ہیں

کہ گریہ کناں چشم بس ایک صورت کو ہی دیکھتی ہے

تو تقصیر کس کی ہے، مجرم کا کیا نام ہے ؟

 

آؤ، آنندؔ، راشدؔ سے ہی پوچھ لیں کہ حقیقت ہے کیا

ؔ ’’عشق ہو، کام ہو، وقت ہو، رنگ ہو‘‘۔ ہے تو مجرم کوئی

اب خطا کار کس کو کہیں اے حسن؟

معصیت کار، مجھ کو یہ کہنا ہے، تم خود نہیں ہو حسنؔ

بد چلن تم نہیں، اے حسن کوزہ گر

ہاں، تجھے ایک عورت کے ’’ عشق ہوس ناک‘‘ نے

(صرف اک رات کی لغزش بے ریا کے لیے

باندھ کر رکھ دیا ہے سدا کے لیے !)

اور عورت بھی کیا؟

بد چلن، فاحشہ، کنچنی، رال ٹپکاتی چھنّال، اک بیسوا!

 

(دیکھ گالی نہ بک، اے مورخ، یہ قصہ سناتے ہوئے

زیب دیتی نہیں تجھ کو ایسی زباں !)

 

خیر، چھوڑو نصیحت کی یہ گفتگو

آؤ، لوٹیں حلب کی طرف

اس سرائے کو دیکھیں جہاں حوض تھا

بند کمرے تھے اور ان میں آرام کے واسطے

ایسے بستر لگے تھے کہ ان پر بچھی چادریں

پسینے کی بو سے شرابور تھیں !

 

آؤ ڈھونڈیں، کہاں تھا یہ شہر حلب؟

اور حسنؔ نام کا کوزہ گر تھا کوئی

اور جہاںؔزاد تھی کیف و رنگ و دلآرائی کی مورتی

جس کی رعنائی کی سحر کاری کا نقش ہنر

اس کے کو زوں سے ایسے چھلکتا تھا جیسے مئے ارغواں

 

اے مورخ، بتا کب کی ہے داستاں

آج سے سینکڑوں یا ہزاروں برس پیشتر کی کہانی کہیں اور سنیں

آؤ ڈھونڈیں انہیں

سالہا سال کی چکنی مٹی کے نیچے جو دب تو گئے

’’پا شکستہ‘‘ بھی تھے ’’سر بریدہ‘‘ بھی تھے

لوک قصّوں میں لیکن وہ ’’با دست و سر‘‘

قصّہ گویوں کے مرغوب کردار ہیں

آؤ دیکھیں کہیں خاکنائے برآورد میں ایک تھل

جس میں ٹیلے بھی ہوں اور مٹّی کے انبار بھی

اور کوزہ گروں کی بنائی ہوئی

بھٹّیوں کے کچھ آثار شاید نظر آ رہے ہوں کہیں

’’یہ تاریخ ہے ازدحام رواں ‘‘

در گذراس کو کرنا ہمیں زیب دیتا نہیں

’’یہ دبے ہیں ‘‘ اگر، تو انہیں کھود کر

’’رہزن وقت‘‘ سے ہے بچانا ہمیں

کوئی کوزہ، کوئی جام ہوسالم و  معتبہ

تو اسے کاوش و اعتنا سے نکالیں کہ شاید

کسی ’’رنگ کی کوئی جھنکار‘‘، ’’خوابوں کی خوشبو‘‘

’’لب کاسۂ جاں ‘‘ میں خوابیدہ ہو!

 

عین ممکن ہے یہ چاک، بھٹّی، طباخ اور تسلہ

یہ بوتل، یہ لوٹا، یہ ساغر، سبو

آبگینہ، صراحی، یہ بط، سب اسی ہاتھ کے ہی کرشمے تھے تب

جس کے فن کے لیے بس جہاں زاد کا حسن موجود تھا

اس لیے کہنہ تاریخ کی جستجو میں لگے دوستو

غور و پرداخت سے کام لو

اور سوچو کہ ان ٹھیکروں میں نہاں ہے وہ فن

جس میں مخفی ہے قصّہ حسنؔ اور جہاں زادؔکا

اور میں کیا کہوں

میں تو شاعر ہوں، اک قصّہ خواں ہوں جسے

’’تتلیوں کے پروں ‘‘ اور جہاں زاد کے اس ’’ دھنک رنگ‘‘ چہرے

کے سب خال و خد کا(بغیر اس کو دیکھے ہوئے ) علم ہے

کوزہ گرؔ نے ’’جو کوزوں کے چہرے اتارے ‘‘

ا نہیں بھی یہی قصّہ خواں

ستیہ پال آنند ہی جانتا ہے

کہ خود بھی وہ شاید اسی قافلے کا جہاں گرد ہے !

فن تو وہ آنکھ ہے جو کھلی ہے زماں کے تواتر میں اے راشدِ کوزہ گر!

تو ’’ ہمہ عشق ہے، تو ہمہ کوزہ گر، تو ہمہ تن خبر‘‘

لیکن اک بات کہنے کو جی چاہتا ہے کہ میں

خود تمہاری طرح ہوں حسن کوزہ گر

آب و گل بھی نہیں، رنگ و روغن نہیں

کوئی بھٹّی نہیں

لفظ ہی لفظ ہیں

اور انہی سے میں کوزے بنانے کے فن میں ہنر مند ہوں

ہاں، جہاں زاد سے میری بھی رسم و رہ ایک مدّت سے ہے

اور فن کے تجاذب کی تحریک بھی مجھ کو دی ہے کسی ایک ’’نادان‘‘ نے

اپنی کچی جوانی کی نا پختہ پہلی بلوغت کے دن

جب وہ ’’نادان‘‘ تھی

میں بھی نادان تھا

نا رسا آس تھی

بے طلب پیاس تھی

چار سو یاس تھی

اس زمانے میں تو

بس ’’گماں ‘‘ ہی ’’گماں ‘‘ تھی مری زندگی

کچھ بھی ’’ممکن‘‘ نہ تھا

 

ما سوا اک گزرتی ہوئی رات کے

صبح آئی تو پھر یوں لگا

جیسے خورشید اپنے افق سے فقط ایک لمحہ اٹھا

اور سارے ’’طلوعوں ‘‘ کی دیرینہ تاریخ کو بھول کر

پھر افق میں وہیں غوطہ زن ہو گیا

ہاں اگر نونؔ میمؔ آج یک جا کریں

اور راشدؔ کو اس میں ملائیں، تو پھر

ہم اکیلے نہیں

ان میں شامل ہے یہ شاعر بے بدل

جو کہ بیٹھا ہوا آج لکھتا چلا جا رہا ہے

یہ قصہ جو راشدؔ کا بھی ہے اور حسنؔ کا بھی ہے

اور شاید خود اپنا بھی ہے اس مورخ کا!

 

راکھ میں اب بھی کچھ کچھ سلگتی، دھواں دیتی چنگاریاں

اک صراحی کی گردن کے ریزے، تراشے لب جام کے

خول بط کا، کسی آبگینے کا ٹوٹا ہوا

ایک خردہ، ’’گل و خاک کے رنگ روغن‘‘ ہیں سوکھے ہوئے

سب تبرکات جو ’’ اک جواں کوزہ گر‘‘

’’اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا‘‘

’’اپنے ماضی کے تاروں میں ‘‘ راشدؔ سے بھی اور مورخ سے بھی

عشق اور فن کے بندھن میں باندھا گیا!

 

الٹو پلٹو، مورخ، کہ یہ ’’رنگ و روغن کی مخلوق‘‘ شاید تمہارے لیے

کوزہ گر اور جہاں زاد کے عشق کی

ما  بقیٰ داستاں میں اضافہ کرے

اور تاریخ داں، تو اگر داستاں یہ سمجھ جائے، تو

کوزہ گر کے خیالوں کی، خوابوں کی مورت بنا

’’عشق کے معبدوں پر ‘‘ عقیدت سے جا کر چڑھا

وہ ’’پسینے کے قطرے ‘‘، وہ ’’ فن کی تجلّی‘‘

رسالت کا وہ درد، جو کاروانوں کی مٹّی سا جیسے

’’ رواں ہے زماں سے زماں تک‘‘

جسے ہفت خواں شاعروں نے

محبت کے قصوں میں گھڑ کر امر کر دیا

کیا یہی ایک مقصد تھا راشدؔ تمہارا

کہ کوزے پکانے کی

یخ بستہ سوئی ہوئی راکھ میں کچھ سلگتے ہوئے کوئلے

گر ملیں

تو کہانی گھڑیں

اور ثابت کریں، عشق ’’ سریاب‘‘ بھی ہے تو ’’ پایاب ‘‘بھی!

 

اور حسن کوزہ گر، قیس و فرہاد سب

اپنی اپنی جگہ

کامراں بھی ہوئے اور ناکام بھی

اور ہم داستانیں جو لکھتے رہے

اپنے اپنے دلوں میں کہیں

برگ گل کی طرح

ایک چہرہ سجا کر اسی کی پرستش میں غلطاں رہے !

اپنے اپنے دلوں میں سجائے ہوئے

ایک چہرے میں لیلیٰ بھی مستور ہے

اور شیریں بھی ہے

ہاں، حسنؔ کوزہ گر کی جہاں زادؔ کو

وہ رسائی نہ مل پائی جس کی وہ حقدار تھی

اور راشدؔ کا فن

لوک قصّوں، اساطیر یا عشق کی

داستانوں کے فن سے بہت دور تھا

یہ بھی سچ ہے کہ راشد کی یہ چار نظمیں بہت خوب ہیں

پر مورخ کی یا قصّہ گو کی نہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

بیاض عمر

 

(یہ نثر نُما نظم باقاعدگی سے بحر ہزج مثمن سالم یعنی ’مفاعیلن، مفاعیلن‘ کی تکرار میں تقطیع کی جا سکتی ہے )

 

بیاض عمر کھولی ہے !

عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے، دھنک کے سارے رنگوں میں، مرے موئے قلم نے گل فشانی سے کئی چہرے بنائے ہیں۔ کئی گُلکاریاں کی ہیں۔ لڑکپن کے، شروع نوجوانی کے، بیاض عمر کے پہلے ورق سب خوش نمائی کے نمونے ہیں۔ گلابی، ارغوانی، سوسنی، مہندی کی رنگت کے یہ صفحے، سات رنگوں کی دھنک کے جھلملا تے وہ مرقعے ہیں کہ جن میں ہمّت وجرأت، تہّور، منچلا پن، ہر چہ بادا باد ہر صفحے پہ لکھا ہے۔ انہی صفحوں پہ وہ گل ریزیاں بھی ہیں، حنا مالیدہ دو ہاتھوں نے جن کی پیار سے تشکیل کی تھی اور وہ رقعے بھی جن میں پیار کا اظہار شعروں میں رقم تھا، میری پہلی عمر کی کچّی بلوغت میں۔ ۔ ۔ ۔

 

بیاض عمر کھولی ہے !

عجب منظر دکھاتے ہیں وہ صفحے بعد کے (ان چند برسوں کے ) کہ جن پہ میری خود آموزی و ذوق حصولِ علم نے مجھ کو پڑھائی میں مگن رکھ کر، ادب کے عالمی معیار کا حامل بنا یا تھا۔ افادی، نفسیاتی، سائنسی تحقیق کی آنکھیں عطا کی تھیں۔ مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ غلط آموز ہونے سے بچایا تھا۔ قواعد، بحث، خطبہ، ناظرہ کی تربیت دی تھی۔ یہ کار آموزیِ علم و ادب تِمرین و مشق شعر میں ایسے ڈھلی تھی، مبتدی سے ماہر و مشّاق کہلانے میں بس چھ سات برسوں کا فروعی وقت حائل تھا۔ ۔ ۔ ۔

 

بیاض عمر کھولی ہے !

بدلتا وقت، آندھی سا، ورق ایسے پلٹتا جا رہا ہے، مجھ کو لگتا ہے، کوئی اک سال تو بس اک مہینے میں گذر جاتا ہے چپکے سے۔ کئی دن ایسے آتے ہیں کہ اپنی طول عمری میں ہزاروں سال جیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

 

مرا سویا ہوا ذوق تجسس جاگ اٹھا ہے۔ ورق پلٹو تو دیکھو، (مجھ سے کہتا ہے )کسی صفحے کے مخفی حاشیے میں بھی تو کچھ تحریر ہو گا یا کوئی پُرزہ سٹیپل سے جُڑا ہو گا۔ کوئی بُک مارک شاید ہو کہ جس پر گنجلک الفاظ یا واوین میں، بین السطور، امکانیہ معنی رقم ہوں گے۔ مرا ذوق تجسس چاہتا ہے اب، بڑھاپے میں یہ پوتھی کھول ہی لی ہے اگر میں نے، تو کچھ بھی رہ نہ جائے میری یادوں کی گرفت نا رسا سے !۔ ۔ ۔ ۔

 

بیاض عمر کھولی ہے !

یہ مخفی حاشیے، یہ خط کشیدہ لائنیں، واوین میں پابند فقرے میرے جملہ قرض کے بارے میں لکھے ہیں۔ ادائی ہندسوں کی فربہ پرتوں میں رقم ہوتی ہوئی میزان تک ایسے پہنچتی ہے کہ ہر ’فردا‘ سے ’حاضر‘ تک، ہر اک ’حاضر‘ سے ’ آئندہ‘ کے دن تک سود ہی در سود ہے جو بڑھتا جاتا ہے۔

یہ قرضے وہ ہیں جو میں اپنے کندھوں پر لیے وارد ہوا تھا، ایک بچہ، بالغوں کی بے ریا دنیا کی جھولی میں۔ کہیں املاک میں، پُرکھوں کے چھوڑے قرض ہیں، جن کی ادائی مجھ پہ واجب تھی۔ یہ سب قرضے ادا کرنا ضروری تھا، مگر۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ کچھ قرض کی رقمیں، بزعم خود مری شوریدہ سر طبع رسا نے اپنے کھاتے میں لکھی تھیں اپنی مرضی سے۔ یہ راس المال جس کو پیشگی میں نے ادا کرنا تھا، حرف و صوت کا تھا۔ لفظ کی پرتوں کا تھا۔ نظموں کے بحر علم میں اک غوطہ زن، غوّاص کا سا تھا۔ یہ قرضہ عالمی انشاء کے اس سلک بیاں کا تھا جسے اردو میں ڈھلنا تھا مری نظموں کی صورت میں !۔ ۔ ۔ ۔

 

بیاض عمر کھولی ہے۔ ۔ ۔ ۔

وہی محنت، مشقت، کاوش و کاہش، عرق ریزی۔ اٹھانا زیست کی بھاری صلیبیں نوجوانی سے بڑھاپے تک۔ تھکے ماندے، دریدہ پاؤں من من کے، تھکن سے چور گر جانا تو پھر اٹھنا، مسلسل ماندگی سے مضمحل، سانسوں کے سرگم پر پھٹے تلووں سے چلنا، چلتے جانا، قریہ در قریہ۔ وطن سے دور مغرب کی زمیں تک گردش پیہم، مسلسل ہجرتیں، خانہ بدوشی، لا زمینی، بحر و بر سیر و سیاحت۔ ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھومنا، شب بھر کہیں رکنا تو اگلی صبح چل پڑنا نئے ملکوں کو شہروں کو۔ عناں برداشتہ پا در رکاب آوارگی، عزلت۔

 

یہ آتش زیر پا، حرکت پذیری آخرش لائی ہے مجھ کو اپنی جیتی جاگتی قبروں کی سرحد تک۔ ۔ ۔ یہ جیتی، جاگتی قبریں مری لا مختتم، عمر دراز و مرتفع کے میل پتّھر پر دہانے کھول کر بیٹھی ہوئی مجھ کو بلاتی ہیں۔

 

کپِل وستو کا شہزادہ، میں گوتم بُدّھ اپنا یہ جنم تو جی چکا ہوں اور شاید اس جنم کے بعد پھر اک اور ہے، اک اور ہے، اک اور ہے، ۔ نروان، تو میں جانتا ہوں، مجھ سے کوسوں دور ہے اب بھی۔ ۔ ۔ ۔

بیاض عمر کو اب تہہ کروں اور طاق پر رکھ دوں !

٭٭٭

 

 

 

 

دائرہ در دائرہ

 

؎عاقبت منزل ما وادی ء خاموشاں است

حالیہ غلغلہ در گنبد افلاک انداز

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

لکیروں کے چکر میں محبوس اک دائرہ ہے

لکیریں بہت تیز رفتار سے گھومتی ہیں

مدار اپنا لیکن نہیں بھولتیں اس سفر میں

کہاں سے ہوا تھا شروع سفر دائرے کا؟

کوئی ایک cell تھا، جو آغاز تھا، ابتدا تھی؟

کوئی مدعا تھا کہ ساری لکیریں

بہت تیز رفتار سے گھوم کر دائرہ اک بنا لیں ؟

نہیں ! کچھ نہیں ! کوئی معنی و مقصد نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔

فقط دائرہ بن گیا تھا

جو اپنی ہی دھن میں

لگاتار اک اندھی رفتار سے

سالہا سال سے گھومتا جا رہا ہے !

 

مگر قرۃالعین سا دائرے کے کہیں وسط میں ایک باریک سا cell

تواتر سے تحریک لیتا ہوا

کچھ دنوں سے مدار اپنا طے کر کے خود گھومنے لگ گیا ہے

نیا دائرہ اک ہویدا ہوا ہے

بڑے دائرے کی حدوں میں مقید

نیا دائرہ گول آکار میں گھومتے گھومتے

تیز آندھی کی رفتار سے اپنا رقبہ بڑھاتے بڑھاتے

بڑے دائرے کی لکیروں کو چھونے لگا ہے

کبھی اس کی رفتار میں جذب ہوتا

کبھی اس سے ٹکرا کے حد بندیاں پار کرتا۔ پلٹتا، مگر

اک بگولے کے مانند باہر نکلنے کو اب چھٹپٹانے لگا ہے

بہت شور و غوغا ہے دو دائروں کے تصادم کا۔ ۔ ۔ ۔

چنگاریاں اٹھ رہی ہیں !

کہو، میرے ’’ میں ‘‘  کے بگولے

مرے سر کے گنبد سے آزاد ہونے میں اب دیر کیا ہے ؟

(یہ نظم شدید ڈیپریشن کے ایک حملے کے دوران اسپتال میں لکھی گئی)

٭٭٭

 

 

 

پہلی اخلاقی نظم،

 

(مولانا اسمعیلؔ میرٹھی کے ایما پر لکھی گئی)

 

جسم کا وجدان جب پورا ہوا۔ تو

استغفر اللہ کہہ کر تیرا گاہک

زہد کا پکّا، مگر اخلاق کا مارا ہوا اک ’’نیک‘‘ انساں

احتیاطاً دائیں بائیں جھانک کر

یوں تیرے بالا خانے کی وہ سیڑھیاں

(جن کو سدا سے اس کے پاؤں جانتے ہیں )

چوکسی سے، دھیان سے اترا ہے

جیسے انخلا، انزال ہو آلودگی کا

اور پھر سرعت سے اپنے گھر کی جانب چل دیا ہے۔

پاؤں اک کیچڑ میں دھنس جاتا ہے تو

لاحول پڑھتا ہے کہ شیطاں کو بھگائے

اک قدم آگے بڑھا کر لمحہ بھر رکتا ہے

پھر واپس تری کھڑکی کی جانب دیکھتا ہے

(جانتا ہے تُو اسے جاتے ہوئے بھی دیکھتی ہے )

 

تُو جو کھڑکی میں کھڑی

گاہک کو اپنے دیکھتی ہے، جانتی ہے

اب یقیناً روز کے معمول کے مانند

وہ نالی پہ بیٹھے گا

فراغت پا چکے گا تو جھٹک کر، پھر کھڑا ہو کر

کہیں سے ڈھونڈھ لے گا

کوئی ڈھیلا، گول پتھر، نرم کنکر

خشک استنجا کرے گا

اور پتھر کو گھما کر ایسے پھینکے گا کہ جیسے

زانیوں، اغلامیوں کی سنگساری کر رہا ہو

یا عزازیلوں کی پوری فوج کو

جمرہ میں اپنی ضرب کاری سے شکست فاش دے کر

سُرخرو مسجد کی جانب جا رہا ہو!

 

تُو جو کھڑکی میں کھڑی ہے

نیک ہے، اخلاق کا نادر نمونہ!

تیرے سینے میں نجانے کتنے مردے دفن ہیں۔ ۔ ۔ ۔

جو صرف تجھ سے بولتے ہیں

داور محشر تجھے عفو و معافی کی جزا دے، نیک بی بی!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک اور اخلاقی نظم

 

( ’’منو سمرتی‘‘ کے خالق اور ذات پات کے موجد منُوؔ کے ایما پر لکھی گئی)

 

جسم کی ترِشنا ۰مٹی تو                                    ۰پیاس

’’رام، جے بھگوان‘‘ کہہ کر، تیرا گاہک

(نیچ جاتی کو فقط چھونے سے ہی ناپاک ہو جو، ذات کا ایسا برہمن)

اے ہری جن۰، نیچ عورت                                      ۰اچھوت

جھونپڑی تیری سے، آدھی رات کو یوں جھینپتا نکلا ہے، جیسے

کوئی دیکھے گا تو پرلے ۰ کا سماں آ جائے گا                     ۰قیامت

 

کون سی پستک میں لکھا ہے، اسے یہ یاد تو بالکل نہیں ہے

پر وہ اتنا جانتا ہے

نیچ جاتی کی کسی عورت سے گر سمبھوگ ۰           جنسی فعل

کرنا ہو تو اس کو

پان کے پتّے کو گنگا جل سے دھو کر

ساتھ لے جانا پڑے گا

اور شودر جات کی عورت کی نابھی۰پر یہ پتہ          ۰ناف

رکھ کے ہی سمبھوگ کے اس پاپ سے بچنا پڑے گا۱

 

تُو جو شُودر جات کی نادار، بے بس

اور جواں عورت ہے، سب کچھ جانتی ہے

باپ بھی، بھائی بھی اس اونچے پجاری خانداں کے

پان کے پتّوں کو گنگا جل سے دھو کر

تیری ’’ناپاکی‘‘ سے بچنے کا طریقہ جانتے ہیں

تیری کٹیا سے نکل کر ’’رام، جے بھگوان‘‘ کہتے

گھر پہنچتے ہی سبھی نِشچِنت۰ ہو کر                   ۰بے فکر

نیند کی وادی میں کھو جاتے ہیں مندر کے پجاری

پو پھٹے مندر میں پوجا کے لیے جانا ہے ان کو!

 

اے ہریجن جات کی ’’ناپاک‘‘ عورت

پاکبازی میں ترا ثانی نہیں ہے

جانے کتنے پان کے پتّوں میں تیرے پُن۰ چھپے ہیں          ۰ثواب

دیوتا تیرے تجھے وردان ۰ دیں، نردوش عورت!                     ۰جزا

(یہ نظم پہلے ہندی میں لکھی گئی)

٭٭٭

 

 

 

 

میں دو جنما

 

آج کا دن اور کل جو گذر گیا۔ یہ دونوں

میرے شانوں پر بیٹھے ہیں

کل کا دن بائیں کندھے پر جم کر بیٹھا

میرے بائیں کان کی نازک لو کو پکڑے

چیخ چیخ کر یہ اعلان کیے جاتا ہے

’’میں زندہ ہوں !

بائیں جانب کندھا موڑ کے دیکھو مجھ کو!‘‘

آج کا دن جو

دائیں کندھے پر آرام سے پاؤں پھیلا کر بیٹھا ہے

بار بار دھیمے لہجے میں ایک ہی بات کو دہراتا ہے

’’مت دیکھو اس اجل رسیدہ کل کو

جو اب کسی بھی دم اٹھنے والا ہے !

مجھ کو دیکھو، بات کرو، میں چلتا پھرتا آج کا دن ہوں

سانس کی ڈوری مجھ سے بندھی ہے

کیا لینا دینا ہے اک آسودۂ خاک سے ہم جیسے زندوں کو؟‘‘

دائیں بائیں گردن موڑ کے دونوں کی باتیں سنتا ہوں

گردن میں بل پڑ جاتا ہے

کچھ سستا کر پھرسننے لگتا ہوں ان کی رام کہانی!

 

شاید سچ کہتے ہیں دونوں !

ماضی بھلا کہاں مرتا ہے ؟

زندوں سے بھی بدتر، یہ مردہ تو ذہن میں گڑا ہوا ہے

جیسے کالے مرمر کی سل کا کتبہ ہو

اور پھر آج کا زندہ پیکر؟

آنے والے کل کے دن تک اس کو میں کیسے جھٹلاؤں ؟

 

کوئی بتائے

میں دو جنما

اپنے دو شانوں پر بیٹھے آج اور کل سے کیسے نپٹوں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

دُہائی ہے علیؑ مشکل کشا

 

(اپنی اہلیہ کی طویل علالت کے دوران لکھی گئی)

 

علیؑ مشکل کشا، اس ستیہ پال آنند کو دیکھو

تمہارے در پہ جو ایسے کھڑا ہے جیسے اک بُت ہو

مگر اس بُت کی آنکھوں میں کئی نا گفتہ شکوے ہیں

یہ شکوہ بھی ہے جو اشکوں میں ڈھل کر تم سے کہتا ہے

کہ تم نے عرض سننے میں بہت تاخیر کر دی ہے

علیؑ، تم نے تو اپنے در پہ آئے ہر سوالی کو

ہزاروں بار اپنی بخششوں سے یوں نوازا ہے

کہ ان کی مشکلیں آسانیاں بن کر ابھرتی ہیں

تو پھر یہ ستیہ پال آنند جو اک ٹک نظر گاڑے

کسی بُت سا تمہارے در پر ٹھہرا ہے مہینوں سے

اگر شکوہ کرے تم سے تو کیا جائز نہیں ہو گا؟

تمہارے در کا بھک منگا دُہائی دے رہا ہے کیوں ؟

علیؑ مشکل کشا، اس بے نوا شاعر کی بیوی کو

کرم کی بھیک سے اپنی نوازو، پھر سے صحت دو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 مجھ پہ نظر کرم ہو شاہِ امم

 

مجھ پہ نظر کرم ہو شاہِ امم

شاہ عالم، یہ شاعری کا سفر

اور اس کی تمام تر روداد

آپ کے سامنے ہے، میں نے تو

نور احمدؐ سے مانگ کر کرنیں

اپنی را ہوں میں روشنی کی ہے۔

 

مجھ پر نظر کرم ہو، شاہ امم

اس لیے بھی کہ غیر مسلم ہوں

(دل سے لیکن ہوں آپؐ کا بندہ)

اس لیے بھی کہ میرا خامۂ فکر

آپؐ کے ذکر سے رسول پاک

نعت گوئی کا فن بھی سیکھ گیا

اس لیے بھی کہ ہر دعا میں اثر

ہے فقط آپؐ کی شفاعت سے

 

اے شہ مرسلین، آپؐ مجھے

اسطاعت عطا کریں کہ میں

کامرانی سے شاعری کا سفر

طے کروں اور اپنی منزل تک

عزت و احترام سے پہنچوں !

( ’’دست برگ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۱ء کی پہلی نظم)

٭٭٭

 

 

 

 

پیغام رساں

 

وہؐ اکیلے تھے

حبیبؐ کبریا، انوارؐ کل، شاہؐ امم، حضرت محمدؐ

رات تھی اور ان کا بستر

ایک بے حد کھردرا سا بوریا تھا

فرش نا ہموار تھا غار حرا کا

غار تیرہ تھا مگر روئے مبارک روشنی کا قمقمہ تھا

بند تھیں آنکھیں، مگر گہرائی میں اترے ہوئے وہ سن رہے تھے

جانی پہچانی سی اک آواز

جو لمحہ بہ لمحہ

پاس آتی جا رہی تھی!

 

روشنی کے نرم گالے

برف سے اُجلے، گرے روئے مبارک

مطلع نور ہدیٰ پر

اور شہنشاہؐ امم تو خود سراپا روشنی تھے

نا ملائم کالی کملی، بوریے کی نور بافی

اور ان کی بیخ و بُن میں

نور عالم تاب کی کرنیں یکا یک یوں سمائیں

غار کے منہ سے ہویدا

روشنی ہی روشنی چاروں طرف پھیلی جہاں میں

 

اور جب آوازپاس آئی، تو پوچھا

’’آ، فرشتے

بول کیا پیغام لایا ہے مرے مالک سے امشب؟‘‘

 

حاضری

حضورؐ اکرم

فقیر اک پائے لنگ لے کر

سعادت حاضری کی خاطر ہزاروں کوسوں سے آپؐ کے در پہ آ گیا ہے

نبیؐ بر حق

یہ حاضری گرچہ نا مکمل ہے

پھر بھی اس کو قبول کیجے

حضورؐ، آقائے محترم

یہ فقیر اتنا تو جانتا ہے

کہ قبلۂ دید صرف اک فاصلے سے اس کو روا ہے

اس کے نصیب میں مصطفیٰؐ کے در کی تجلیاں دور سے لکھی ہیں

نبیؐ ٔاکرم

وہ سایۂ رحمت پیمبرؐ

جو صف بہ صف سب نمازیوں کے سروں پہ ہے

اس کا ایک پرتو

ذرا سی بخشش

ذرا سا فیضان عفو و رحمت

اُسے بھی مل جائے

جو شہِؐ مرسلین

دست دعا اٹھائے کھڑا ہے اک فاصلے پہ، لیکن

نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے، آقاؐ!

٭٭٭

تشکر: ستیہ پال آنند جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید