FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

میرے حرف سفیر

 

(تقاریظ)

احباب کی منتخب کتابوں کا مطالعہ

حرف سفیر، ۲۰۱۴ء کے تسلسل میں

 

 

 

محمد یعقوب آسیؔ

 

مکمل کتاب (۲۰۱۴ء، ۲۰۱۹ء اڈیشنز)  ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

(نوٹ، اس میں ایک پنجابی مضمون شامل نہیں ہے جسے مصنف نے یہاں اپلوڈ کر رکھا ہے)

 

 

 

اپنے سب سے پیارے دوستوں

یعنی

کتابوں کے نام

 

 

 

 

 

 

 

 

حرف سفیر

 

’حرف سفیر‘ کہہ لیجئے کہ میرے افکارِ پریشاں کا عکس ہے، اس میں دوستوں کی کتابوں پر اظہارِ خیال ہے۔ یہ بھی تو رسمِ دنیا کا حصہ ہے اور اِس دنیا میں رہتے ہوئے اس کو نبھانے کی کوشش کی ہے، کچھ شخصی حوالے سے بھی۔ اس کو تنقید نہیں جانئے گا، تقریظ بھی شاید نہیں بن پائی تاہم جو کچھ جس طور میں نے اپنے احباب کے افکار کو دیکھا، کچھ اس انداز میں کہہ دینے کی کوشش کی ہے کہ دوستوں کی دل شکنی نہ ہو۔ اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ کتابیں آپ کی ہیں، میں ایک عام سا قاری، آپ کے لکھے کو جس حد تک سمجھ پایا، جیسا سمجھ پایا، عرض کر دیا۔

محبتوں کا بہت سارا ایسا قرض بھی واجب الادا ہے کہ مجھ میں نہ اس کی سکت ہے نہ جرأت۔ میں اپنے آپ کو یہ بتانے میں لگا ہوا ہوں کہ ’میاں! یہ قرض تو اترنے سے رہے ‘، یہاں تو اظہارِ تشکر کا بھی سلیقہ نہیں۔

کم مائیگیِ حرفِ تشکر مجھے بتلا

یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟

یا ہو پر ایک گروپ بنایا تھا ’’القرطاس‘‘، اور اپنی اردو اور پنجابی ادب کی کچھ کاوشیں وہاں رکھی تھیں، اب بھی رکھی ہیں۔ اب تو یہ بات بھی پرانی محسوس ہونے لگی ہے۔ تاہم ایسا لگا کہ آپ کی امانت آپ تک پہنچ نہیں پا رہی۔ سو اپنے سارے خام اور پختہ افکار اٹھائے سرِ راہ آن بیٹھا ہوں۔ اتنا اعتماد البتہ ضرور ہے کہ میں نے اپنی ذات کو اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کھرا کھوٹا جو بھی ہے، سامنے رکھا ہے۔ جو کچھ آپ کو بھا جائے اٹھا لیجئے اور جو اچھا نہ لگے چھوڑ دیجئے۔

کتابیں بھی آپ کی قلم بھی آپ کا، ایک خوش گمان قاری کی حیثیت سے جو محسوس کیا بے کم و کاست بیان کر دیا۔ اب تو یہی ہے کہ آپ کی امانت جیتے جی آپ کے حوالے کرتا چلوں، کہ صاحبانِ فکر و فن، اس بار کو خود ہی سنبھالئے! مجھے اپنا بوجھ ہلکا کرنا ہے۔ اپنی سانسیں پوری ہو گئیں تو کہاں ڈھونڈتے پھریں گے آپ! کسی نہ کسی کے پاس رکھی ہوں گی، شاید کبھی کسی کو یاد آ جائیں! کون جانے کب بلاوا آ جائے کہ:

میاں، بس اٹھو اور یاں سے چلو اب!

بہت جی لئے اس جہاں سے چلو اب!

تکمیل کا دعویٰ تو مجھے نہ پہلے کبھی تھا، نہ اب ہے۔ ہاں، ’’اپنی سی کرو بنے جہاں تک‘‘ کے مصداق میری یہ کوشش رہی ہے کہ میرا اندازِ اظہار میرے پڑھنے والوں کو برا نہ لگے۔ اس میں کس قدر کامیاب ٹھہرتا ہوں، یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ دعاؤں کی ضرورت اور طلب کسے نہیں ہوتی! میں بھی آپ کی دعاؤں کا طالب ہوں، اس ایک تخصیص کے ساتھ کہ میرے لئے بھی ویسے دعا کیجئے گا جیسے اپنے لئے کرتے ہیں!

محمد یعقوب آسیؔ

۱۵فروری ۲۰۱۹ء

 

 

 

 

 

۲۹؍ اگست ۱۹۸۸ء

ایک وہ حرفِ مدعا

 

محمد ابن الحسن سید کی کتاب ’’جوئے تشنہ‘‘ پر ایک نظر

 

رشتوں کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ملت و مذہب، ملک و قوم، رنگ و نسل، زبان و بیان وغیرہ۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر میں جس رشتے کا ذکر کرنے والا ہوں وہ حرف و معنی اور قرطاس و قلم کا رشتہ ہے، یہی رشتہ ہے مجھ سے جناب ابن الحسن سید کا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ذاتی حوالے سے محترم ابن الحسن سید سے شناسا نہیں تھا۔ اس کتاب میں مجھے جو سید ابن الحسن ملے ان کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔

کتاب کا نام جوئے تشنہ ایک سوال ہے۔ وہ ندی جو خود پیاسی ہے، کیا ہے؟ وہ شخص جو عطا کرنا جانتا ہے، کون ہے؟ وہ زمین جو سب کچھ مہیا کرتی ہے، کیا وہ خود محرومِ دُوُل ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں؟ اس سوال کا جواب سید صاحب کی زبانی:

حوالہ ہے مرا سنت نبی کی

مجھے اک بوریا بھی شہ نشیں ہے

سید صاحب نے اپنے احساسات کی تمام دولت بانٹ دی اور اپنے پاس صرف ایک چیز رکھی ہے، اس میں بھی اپنے قارئین کو شامل کر لیا ہے۔ وہ ہے ایک نامکمل سی آسودگی۔ کتاب کا انتساب اپنی شریکِ حیات کے نام ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جو سب سے پہلے انسانوں کے درمیان قائم ہوا۔ یٰآدمُ اسْکنْ انتَ و زوجُک الجنَّہ۔ حصہ نظم کی ابتدا ایک اور اہم رشتے سے ہوتی ہے۔ اس رشتے کا نام ہے ’’میرا پاکستان‘‘۔ اس پاک سرزمین کے حوالے سے ہمارا رشتہ صرف ہم وطنی کا رشتہ نہیں، اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ یہ وطن رنگ، نسل اور وطنیت کے محدود تصور سے بالاتر ایک مقدس تحریک کا حاصل ہے۔ وہ تحریک جو اللہ کا دین ہے، جو سب کے لئے ہے، سب رشتوں سے بالاتر اسلامی مواخات کا رشتہ، یہ میرا رشتہ اور وطن عزیز کا رشتہ ہے، جو میرے لئے سب کچھ ہے۔

سید صاحب نے شاعری کو شکر کا مقام قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’شاعری اصل میں ایک خود کلامی ہے، زبان و بیان کا ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے فرد کو اپنی اور اپنے اطراف و جوانب کی پہچان حاصل ہوتی ہے، ایک حسی اور معنوی پہچان۔ دوسرے لفظوں میں شاعری اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے فرد محسوسات سے معنویت کی طرف سفر کرتا ہے اور منزل پر دونوں کو یک جان پاتا ہے۔‘‘ سید صاحب کے اس فن کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ:

اپنا چہرہ ہو ہر اک تصویر میں

فن یہی ہے اور یہی معراجِ فن

فن، فن کار کی ذات کا حصہ ہوتا ہے۔ فن کار، بطورِ خاص قرطاس و قلم کا وارث اگر خلوص اور سلیقہ رکھتا ہے تو وہ اپنی بات، اپنے فن اور اپنی ذات کو منوا لیتا ہے:

ڈھنگ کی بات لوگ سن لیں گے

شور و غوغا کے باوجود حسنؔ

شاعر کا ادراک عامۃ الناس کے ادراک سے آگے ہوتا ہے، وہ احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنا سکتا ہے اور معنی پیدا کر سکتا ہے جب کہ عام آدمی ایسا نہیں کر سکتا۔ شاعر اپنی ذات سے ماورائے ذات کی آگہی حاصل کرتا ہے:

….. مری شاعری کوئی لفظوں کی آوارہ گردی نہیں ہے

….. مری شاعری دل دہی، ہم کلامی، دعا ہے

….. مری شاعری آپ اپنی جزا ہے

….. یہ دیروز و امروز و فردا سے باہر کا اک راستہ ہے

….. یہ اک نامکمل سی آسودگی ہے

اور یہی وہ دولت ہے جو سید صاحب اپنے قارئین میں بانٹ رہے ہیں۔ یہ نامکمل سی آسودگی زندگی ہے جس میں امیدیں، ارادے، خدشات، واہمات، اسباب، علل، ابتلاء، مسرت، خوف، تأسف سب کچھ ہے۔ یہی زندگی ہے۔

اٹھا لیں راہ سے افتادگاں کو

یہاں ایسے بہت کم دیکھتا ہوں

جتنی آنکھیں ہیں اتنے نظارے

جتنے نظارے اتنی حیرانی

آنکھ رکھتے ہو دیکھنا ہو گا

وقت جو کچھ بھی تم کو دکھائے

یہ وہ حقیقت پسندانہ رویہ ہے جو بہت کم لوگوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس خاص احساس کا آئینہ دار ہے جو زندگی کی علامت اور دلیل ہے:

زندگی نام اسی کا ہو گا

یہ جو احساسِ زیاں ہوتا ہے

جو بھی آیا خدا ہی بن بیٹھا

اس سفینے کو ناخدا نہ ملا

احساسِ زیاں نعمت ہے اگر وہ مہمیز کا کام کرے اور ابتلاء ہے اگر وہ یاسیت کی طرف لے جائے۔ سید صاحب ان دونوں صورتوں سے آشنا ہیں، وہ احساسِ زیاں کی مہمیز سے انسانی کی قوتِ تعمیر کو ہانکتے ہیں اور ایک نئی دنیا کی تخلیق کی رغبت دلاتے ہیں:

ایک اپنی کائنات سی تعمیر کیجئے

سارے جہاں سے دور یہیں سب کے درمیاں

بہائے جو لئے جاتی ہیں تجھ کو تند خو موجیں

یہی موجیں سفینہ ہیں انہی موجوں کو ساحل کر

امید اور آرزوؤں کے سہارے آگے بڑھتے انسان کو خطرات سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی خوشی سے سرشار ہوتا ہے تو کبھی غم سے دو چار ہوتا ہے، کبھی خدشات و واہمات کی زد پر ہوتا ہے تو کبھی یقین و ایمان کی حفاظت میں ہوتا ہے کہ انسان کا زندگی سے رشتہ ہی ایسا ہے:

….. تو اب تو یہی ہے

….. یہ بے اختیاری کھٹکتی بہت ہے، مزا بھی بڑا ہے

اپنے ارد گرد پھیلی اور پھیلتی کائنات کے اندر انسان کا سفر جاری ہے۔ وہ جا رہا ہے، دنیا کو دیکھ رہا ہے، زندگی کو پرکھ رہا ہے اور ایک مسلسل جستجو میں ہے:

ایک یہ شام و سحر کا سلسلہ

ایک تیری جستجو کرتے ہیں ہم

….. ایک ذرے میں ہیں ساتوں آسماں

….. ایک قطرہ اشک کا

….. بحرِ نا پیدا کنار

اس جستجو کا حاصل چاند پر انسان کے قدموں کے نشان ہیں اور اب وہ مریخ و مشتری کو بھی سر کرنے نکلا ہے۔ سید صاحب پرواز کے اس عمل کو سراہتے ہیں، تاہم وہ قدرے متامل بھی ہیں کہ انسان مریخ و مشتری پر پہنچ تو جائے گا … مگر!

….. کس کو معلوم وہاں

….. دردِ ہستی کی دوا ہے کہ نہیں

….. اور اکسیرِ بقا ہے کہ نہیں

….. پھر بھی اک جرأتِ پرواز تو ہے!

وہ تمناؤں کو ابھارتے ہیں اور تمنائی کو اس منزل کی طرف کھینچے لئے جاتے ہیں جہاں بقا ہی بقا ہے:

یہ کارواں نمود کا

یہ سلسلہ وجود کا

جو کچھ بھی نزد و دور ہے

شجر حجر

یہ بحر و بر

خبر، نظر، ہر ایک شے

ہر ایک شے میں ایک ہی وجود کی نمود ہے

بس ایک ہی وجود ہے

نہ ابتدا نہ انتہا

فقط بقا! !

۔۔ ۔

تری کبیدہ خاطری ہے بے محل

یہ بے بسی یہ عاجزی ہے بے محل

کہ زندگی ہے جاوداں

مثالِ آبجو رواں

یہاں وہاں جو پھولتے ہیں بلبلے

تو اِن کے واسطے نہیں یہ امتیازِ ما و تو

کہ امتیازِ ما و تو میں قید و بند ذات ہے

کہ ذات بے ثبات ہے

اسیرِ حادثات ہے

ہمارے درد کی دوا

سپردگیء و بے خودی

سپردگیء و بے خودی ثبات ہے نجات ہے

خدا کا اس پہ ہاتھ ہے

وہ انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو احسنِ تقویم اور اسفل سافلین کی حقیقت سے شناسا ہوتے ہیں:

اس میں بلندیاں تمام، اس میں تمام پستیاں

یعنی یہ آدمی جو ہے، اس میں کوئی کمی نہیں

سید صاحب کی اسلام اور عالمِ اسلام سے محبت ان کے اشعار اور نظموں میں جا بجا عیاں ہے اور ایسا لگتا ہے یہ کسی ارادی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ دل سے اٹھتی ہوئی آواز اور رشتوں کی پکار ہے۔ یہ وارفتگی کا وہ عالم ہے جہاں سید صاحب کی شاعرانہ حسیات پوری طرح بیدار ہوتی ہیں اور وہ ایسے خوب صورت اشعار تخلیق کرتے ہیں:

لے کے آیا ہوں تری دہلیز پر

جان و تن، عرضِ ہنر، نقد سخن

سر انتہائے کمال پر مری ابتدائے زوال ہے

مجھے احتیاط محال ہے مجھے خود ہی آ کے سنبھالئے

کوئی آہٹ تھی رگِ جان کے قریب

تیرے ہونے کا گماں ہوتا ہے

اچھا ہے تعلق میں کشاکش کا تاثر

مردہ کبھی جذبات ہمارے نہیں ہوتے

حسنؔ بربادیِ دل کی کہانی

پرانی بھی، نئی بھی، عام بھی ہے

کار و بارِ روز و شب کے ساتھ ساتھ

راستہ دیکھیں گے تیرا عمر بھر

زہے نصیب طبیعت میں بے نیازی ہے

تمہاری دل کو طلب تو ہے بے حساب نہیں

دیکھئے چٹکی ہوئی ہے چاندنی

آئیے جادو جگانے بام پر

ان کی نظمیں: ’’کیا یہ ممکن نہیں؟‘‘، ’’تکاثر‘‘، ’’مری کی ایک صبح‘‘، ’’ڈھاکہ کی ایک دوپہر‘‘، ’’شام‘‘؛ ایسی خوبصورت نظمیں ہیں، جن کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ان پر کچھ کہنا ان کا مقام کم کرنا ہے۔ عمرِ رواں کو روکنا کسی طور بھی ممکن نہیں تاہم یاد وہ تعلق ہے جو حال کے رواں دواں لمحوں کو ماضی کے تھمے ہوئے لمحات سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود محمد ابن الحسن سید کبھی اپنے فن سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ایک عمر کارزارِ حرف و معنی میں گزار کر بھی انہیں یہ احساس متواتر رہتا ہے کہ جو کہنا تھا وہ کہہ نہیں پائے۔

یاد سی اک رہ گئی ہے دل کے پاس

ہم بھی ہیں باقی کہ جب تک یاد ہے

تھکن ہے حوصلے ہیں پا شکستہ

مسافر پر ورودِ شام بھی ہے

یہ احساس ایک تحریک بھی ہے، مزید کہنے پر اکساتا ہے۔ شاید! کہ حرفِ مدعا اپنے مکمل معانی کے ساتھ نوکِ زبان اور نوکِ قلم پر آ سکے:

عمر بھر جوڑتے رہے الفاظ

ایک وہ حرفِ مدعا نہ ملا

٭٭٭

 

اتوار 25 مئی 2014ء

 

بہت رستہ پڑا ہے

 

زاہدہ رئیس راجیؔ کا اولین شعری مجموعہ ’’خواب گھروندا‘‘ … ایک مطالعہ

 

 

ذات کے ادراک میں راجیؔ کہاں تک آ گئی

ورنہ شاید زاہدہؔ سے شاعری ممکن نہ تھی

شعر کوئی کی طرف اولین احساس شاید یہی ذات کا ادراک ہے، جو متنوع مراحل سے گزرتا ہوا اظہار تک پہنچتا ہے۔ یہ اظہار قاری اور شاعر کے مابین ایک رشتہ قائم کرتا ہے، حرف کا رشتہ۔ ادراک سے اظہار تک کا سفر اپنی ہی نوعیت کا سفر ہے کہ مسافر کا پہلا قدم مکمل بے سر و سامانی کے عالم میں اٹھتا ہے اور وہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس سفر کی دھول، تھکن، آبلے، ولولے، شوق، حوصلے، اس کے لئے زادِ راہ بنتے چلے جاتے ہیں۔

میں زاہدہ رئیس راجیؔ کو اُس کے اسی زادِ راہ کے حوالے سے جانتا ہوں۔ مناسب تر الفاظ میں میرے پاس اس کے تعارف کا ثانوی ذریعہ وہ بہت مختصر تعارف ہے جو اس نے میرے استفسار پر پیش کیا، تاہم اساسی ذریعہ اس کا یہ ’’خواب گھروندا‘‘ ہے جس کی طرف اس کا سفر جاری ہے۔ وہ اسی زادِ راہ کی بات کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’ادب کی کون سی صنف میں کب لکھنا ہے اور کیا لکھنا ہے اس کا فیصلہ خود بہ خود ہوتا چلا گیا‘‘۔ ایک تخلیقی ذہن کے پروان چڑھنے میں یہ رویہ بہت ممد ثابت ہوتا ہے کہ صنفی یا موضوعاتی حوالے سے خود پر کوئی پابندی نہ لگائی جائے، ادب کی اَقدار کا پاس بہر حال کرنا ہوتا ہے اور انہیں اقدار کے منسلک رہ کر اپنی شناخت حاصل کرنا حرف کے سفر میں اہم کامیابی ہوتی ہے۔ یہ کہنا تو خیر مشکل ہے کہ زاہدہ نے اردو شعر میں اپنی شناخت بنا لی ہے۔ اس کا یہ اولین شعری مجموعہ دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ شناخت کی منزل اس سے بہت دور نہیں ہے، تاہم اس کو ابھی بہت محنت کرنی ہو گی۔ میں ادریس آزاد سے متفق ہوں کہ: ’’اس کے اندر محنت کا عنصر کم ہے، البتہ یہ ضرور جانتی ہے کہ پامال ہوئے بغیر کوئی راستہ منزل تک نہیں جا سکتا‘‘۔ فاضل مضمون نگار میرے منہ کی بات مجھ سے بہتر انداز میں کہہ گئے کہ: ’’زاہدہ کو بھی ہر شاعر بلکہ ہر انسان کی طرح ہمیشہ پہلے سے بہتر ہونے کی نہ صرف طلب ہے بلکہ ضرورت بھی ہے‘‘۔ قلم اور خاص طور پر شعر میرے نزدیک اکتسابی چیز نہیں، کوئی شخص یا تو شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ ہم کسی غیر شاعر کو شاعر نہیں بنا سکتے، ایک کمزور شاعر محنت کر کے اچھا شاعر بن سکتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں معدودے چند فروگزاشتیں ہیں جو غالباً بلوچی اور اردو تلفظ اور تذکیر و تانیث کے فرق کا شاخسانہ ہیں یا پھر کتابت کی اغلاط رہی ہوں گی۔ بہ این ہمہ زاہدہ کا شمار کمزور شاعروں میں نہیں ہوتا، بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہا کرتی ہے۔ بالفاظِ دیگر شعر کا سفر جاری رہتا ہے اور اس میں ہر اگلا قدم نیا زادِ راہ فراہم کرتا ہے۔

شعر کہنا کسی مفرد احساس یا عمل سے تکمیل پذیر نہیں ہوا کرتا۔ اس میں شاعر کی شخصیت کے جملہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں؛ اس اضافے کے ساتھ کہ حرف کی آبیاری خونِ جگر سے کرنی ہوتی ہے۔ پروفیسر انور مسعود نے ایک طویل گفتگو کے دوران بہت پتے کی بات بتائی کہ انسان ایسی سادہ چیز بھی نہیں کہ ہم اس کا سالٹ انالیسس کر کے بتا سکیں کہ اس میں غصہ اتنا ہے، حساسیت اتنی ہے، شعور اتنا ہے، محبت اتنی ہے، نفرت اتنی ہے، ہم دردی اتنی ہے، خلوص اتنا ہے؛ وغیرہ۔ لہٰذا ہم شعر کا تجزیہ بھی ان خطوط پر نہیں کر سکتے، ہمیں اس سے بالاتر اور زیادہ فطری پیمانے درکار ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے معتبر پیمانہ شعری روایت ہے، جس میں یہ سارے عناصر اور مذہب، نظریات، عقائد، معاشرتی پس منظر اور پیش منظر، اندازِ فکر، ترجیحات، تمنائیں، مقاصد، ولولے، خدشات اور انسانی مابعد الطبیعیات شامل ہوتی ہیں۔

زاہدہ رئیس راجیؔ کی شخصیت کا مجھے بہت تھوڑا اندازہ ہے۔ اس کا معروضی خاکہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے آباء و اجداد ایک شاندار بلوچی تہذیب کے مقتدر قبیلے سے ہیں، جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں اس سفید پوش طبقے میں ڈھل گئے ہیں جو اپنی شاندار تہذیبی روایات کو بہر طور عزیز رکھتا ہے۔ زاہدہ کے گھر میں بلوچی بولی جاتی ہے۔ طرزِ معاشرت وہی رئیسی بلوچوں کا ہے، تاہم نصف صدی کے لگ بھگ کراچی شہر میں بود و باش کے اثرات سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس کا اثر زاہدہ کی لفظیات پر بھی پڑا ہے۔ اس کی مادری زبان کا رجحان اردو کی نسبت فارسی کی طرف زیادہ ہے، اور اس کی رسمی تعلیم بھی سائنسی علوم کی ہے، جہاں انگریزی سکہ چلتا ہے۔

اس تناظر میں زاہدہ کے یہ الفاظ بہت قیمتی ہو جاتے ہیں: ’’نثر سے ابتدائی سفر طے کرتے کرتے جب چودہ سال کی عمر میں اچانک اردو شعر گوئی کی دنیا میں پہلا قدم رکھا تو پیچھے ماسوائے ایک چیلنج کو قبول کرنے کے کوئی خاص وجہ تو نہیں تھی، لیکن پہلی شعری تخلیق کے پہلے مصرع ’’کتابِ شاعری میں درد کی دنیا بسی ہے کیوں‘‘ نے اندر کی شاعرہ کے بارے میں روزِ اول سے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ اس کے آگے کی منزلیں آسان نہیں ہیں‘‘۔ اس کے بعد زاہدہ نے کچھ مرحلے گِنوائے ہیں اور ناقدین کے اختیار کردہ متنوع بلکہ بسا اوقات متصادم معیارات کا شکوہ بھی کیا ہے۔ یہ امر اس کے ادبی سفر کی تفہیم میں اچھی خاصی مدد دیتا ہے۔

ہمیں جو کچھ اپنے بزرگوں سے حاصل ہوتا ہے وہ صرف مال و منال نہیں ہوتا، بلکہ حقیقی وراثت اقدار ہوتی ہیں، جو غیر محسوس طریقے پر ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ زاہدہ کا دامن ان اقدارِ پر وقار سے بھرا ہوا ہے۔

اس کے شعروں میں جہاں متانت غالب عنصر کے طور پر جھلکتی ہے، وہیں اعتماد اور شخصی وقار بھی رچا بسا ہے۔ اس نے عورت کی نمائندگی شاید اس انداز میں نہیں کی جیسی ہمیں دیگر بعض شاعرات کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نسائیت اپنی پوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہے تاہم ایک فرق کے ساتھ، جس کی مثال یوں سمجھئے کہ وہ بڑی ساری چادر میں لپٹی ہونے کے باوجود اپنی چال ڈھال سے ایسی خاتون دکھائی دیتی ہے، جو بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھا رہی ہو۔ بہ این ہمہ اس کی ذات میں چھپا ہوا کوئی بہت ہی گہرا اور بہت ہی ذاتی دکھ اپنے ہونے کا پتہ دے جاتا ہے، جسے وہ اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور شاید کسی کو ہمراز بھی نہیں بنانا چاہتی۔ اس کوشش میں اس کے اشعار میں کرب اور تلخی کی کیفیت شامل ہو جاتی ہے۔ اس نے زندگی کی پہلی سانس اب سے کوئی پینتیس برس پہلے یہیں کراچی میں لی۔ تب کراچی یقیناً ویسا نہیں تھا جیسا اب ہے۔ یہ اس کا دوسرا کرب ہے۔ اگرچہ اس نے کراچی کی فضا کے بارے میں براہِ راست بہت کم شعر کہے ہیں تاہم اس کی شاعری میں یہ کرب بھی اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے۔ معاشرتی معاشی اخلاقی اور ثقافتی شکست و ریخت سے اٹے اس راستے پر زاہدہ اپنی خود اعتمادی، برداشت اور تنہائی کو ساتھ لئے زندگی کے سفر پر رواں ہے۔

ہواؤں کا سفر ہلکا نہیں تھا

مگر آنچل کبھی ڈھلکا نہیں تھا

دیکھ لو راجیؔ خدا کے نور سے

شب کی آنکھوں میں ضیا کا راستہ

جب دل سے دعائیں اٹھتی ہیں

ملتی ہیں دوا کی تاثیریں

فطرت نے اسے لفظ کے ساتھ تعلق کی نعمتِ بیش بہا عطا کی، جس کا مختصر احوال ہم کتاب میں شامل اس کی خود نوشت میں دیکھ چکے ہیں۔ لفظ کی یہ متاع ساتھ لئے اس نے اپنے خارج سے داخل کی طرف سفر کی پہلی منزل سر کر لی ہے۔ ابھی اس کو اپنے داخل کی بھول بھلیوں میں بھی ایک طویل تر سفر درپیش ہے، جس کی تکمیل کے بعد اپنے داخل کو ساتھ لئے، اپنے خارج کی طرف آ کر اسے اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہونا ہے۔

کہاں منزل؟ ابھی تو

بہت رستہ پڑا ہے

جہاں رستہ بہت ہے وہیں اس کے پاس قابلِ قدر زادِ راہ بھی ہے جس میں سب سے قیمتی شے راستوں کے پیچ و خم کا ادراک ہے۔ اس کے پاس اعتماد اور عزم کی سواریاں بھی ہیں اور دعاؤں کا توشہ بھی ہے۔ تلخ تجربوں کے کانٹے بھی اسے درپیش ہیں اور خدشات کی دھول بھی اس کے سر پر اڑ رہی ہے۔ گزرے ہوئے سفر نے اسے دکھوں کی ٹیس بھی دی ہے، اور تھکن بھی۔ بہ این ہمہ اس کی جاگتی آنکھوں کے خواب ہیں جو اس کو روایات کے تپتے صحرا کے اس پار دکھائی دیتے ایک ننھے سے گھروندے کی طرف کشاں کشاں لئے جاتے ہیں۔

ان دِکھے خواب کی تعبیر لیے پھرتی ہے

جانے کس راہ پہ تقدیر لیے پھرتی ہے

روٹھ کر کیا گئی خوشی ہم سے

پھر ملاقات عمر بھر نہ ہوئی

زاہدہ کے اشعار میں مجھے اس کا ایک ایسا دکھ جھلکتا دکھائی دیا، جسے اس نے شاید کسی کے ساتھ بھی سانجھا نہیں کیا۔ ایک ایسا کرب جو اس کے اپنے نام کی معنویت سے متصادم ہوتا ہے تو اس کی سوچوں کو ایک تعمیری تخلیقی رخ دے جاتا ہے۔

نہ کوئی خواب ہے باقی نہ ہی خیال کوئی

بکھر گیا ہے مرا خواب زار آنکھوں میں

وہ بھی ماتم کناں ہوا راجیؔ

جس نے کاٹے تھے میرے سارے پر

اپنے مابین کوئی تیسرا آیا ہی نہ تھا

فاصلہ بیچ کا پھر حد سے بڑھایا کس نے؟

اس غزل کا ایک مصرع ’’میں کہ پتھر تھی مجھے شیشہ بنایا کس نے‘‘ بہت سے ان دیکھے خوابوں کی کہانی سنا جاتا ہے۔ خود سے لڑتے لڑتے جب وہ بکھرنے لگتی ہے تو پکار اٹھتی ہے۔

تم نہ مانو گے کبھی اپنی خطائیں لیکن

کبھی فرصت میں مری بات پہ سوچا کرنا

تم چلے جاؤ، پلٹ کر نہیں دیکھیں تم کو

شرط یہ ہے کہ خیالوں سے نہ گزرا کرنا

زاہدہ کی شاعری اس کے مضبوط امکانات کی نقیب ہے۔ میری بات یہاں مکمل ہوتی ہے۔ آپ اس کی یہ دو مختصر نظمیں پڑھئے۔

آڑ

جسے تم چاہ کہتے ہو

انا سے ماورا شے ہے

مگر اتنا سمجھنے میں

انا ہی آڑ ہے ہم دم

استفسار

مرے اندر ٹٹولو گے

پلندہ دل کا کھولو گے

تو اِن آنکھوں کے رستے سے

خموشی چیخ اٹھے گی

فقط اک بات پوچھے گی

لبوں سے لفظ چھینو گے

تو آخر کون بولے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سوموار: ۷؍ جولائی ۲۰۱۴ء

 

قبائے گل

 

منیر انور کے اولین شعری مجموعے ’’روپ کا کندن‘‘ کا سادہ سا مطالعہ

 

منیر انور بلاشبہ ایک اچھا شاعر ہے اور اس سے بھی اچھی بات، کہ وہ ایک اچھا آدمی بھی ہے۔ اس کی ذات میں بھی اور شاعری میں بھی ایک دل آویز شگفتگی اور سلیقہ مندی پائی جاتی ہے۔ وہ محسوسات بھی بہت تیز رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ان کا اظہار کس طور کرنا ہے۔ اور میرے لئے مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ میں کسی حد تک منیر انور کو ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں۔ ’’کسی حد تک‘‘ اس لئے کہا کہ پورے طور پر تو میں خود کو بھی نہیں جانتا، منیر انور کے بارے میں یہ دعویٰ کیسے کر سکتا ہوں! اور ’’مسئلہ‘‘ اس لئے کہ جب ہم ایک شاعر کو جان لیں تو اس کی شاعری پر بات کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہم شاعر کے کہے کو اس کی شخصیت میں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس سے شناسائی نہ ہوتی تو میں بہت سہولت سے یہ تو کہہ سکتا تتھا کہ جیسا میں نے اس کو اس کی شاعری میں پایا۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ جتنی بھی شناسائی ہے، جیسی بھی ہے اس کو دل و دماغ سے کھرچا بھی نہیں جا سکتا۔ چلئے، ملی جلی بات کرتے ہیں، کچھ شاعری کی کچھ منیر انور کی اور کچھ اپنی بھی! اسی غرض سے میں منیر انور کے شعری مجموعے ’’روپ کا کندن‘‘ سے اشعار نقل کر رہا تھا کہ اس شعر نے مجھے گویا جکڑ لیا:

بڑا بلیغ اشارہ تھا اس کی باتوں میں

ہمارا ذکر تھا اور راہ کے غبار کی بات

یہاں منیر انور کتنی سہولت سے ہلکے پھلکے انداز میں کتنے بڑے دکھ کا اظہار کر گیا ہے! یہ دکھ صرف منیر انور کا دکھ نہیں ہے، محسوسات رکھنے والا ہر شخص کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ایسی کیفیت سے ضرور گزرتا ہے۔ اس اکیلے شعر میں کیفیات، حقائق، معاشرتی اور شخص رویے اور کتنے ہی موضوعات سموئے ہوئے ہیں۔ اس ایک شعر پر ایک مبسوط مضمون لکھا جا سکتا ہے مگر یہاں میرے لئے ایسا کرنا دشوار ہے کہ مجھے روپ کے کندن میں جھلکتی تپش کو بھی بھگتنا ہے، اور منیر انور کی کچھ سوچتی ہوئی مسکراہٹ کو بھی۔ بڑا عجیب آدمی ہے یہ شخص بھی! کچھ نہ کچھ کہنے پر اکساتا رہتا ہے؛ فون پر بات ہو تب، آن لائن ہو تب، اور نہ ہو تب بھی۔ ایسے شخص کے ساتھ گپ شپ تو بہت کی جا سکتی ہے، مگر بات لکھنے پہ آ جائے تو سوچنا بھی بہت پڑتا ہے۔ وہ ہے بھی بہت حساس اور اتنا مجبور ہے کہ اپنے احساست کا ذرا سا بھی پردہ نہیں رکھ سکتا۔ اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں بلکہ اس کی آواز بھی سب کھچ احساس بن جاتا ہے۔ ایسی کیفیت کا تو مشاہدہ ہی دل کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے اور میرے جیسا شخص سوچتا رہ جاتا ہے کہ کچھ کہوں؟ نہ کہوں؟ کیا کہوں؟ کیا کروں؟ اتنے سارے سوال اور اس پر یہ کہنا کہ:

دیکھ کتنا ترا خیال کیا

تجھ سے کوئی نہیں سوال کیا

مجھ پہ الزام کم نوائی ہے

کوئی سنتا تو بولتا یارو

اس کی باتیں کوئی سنے بھی کیا، اتنی نفاست سے سچ بول جاتا ہے کہ یار لوگ اتنی نفاست سے جھوٹ نہیں بولتے۔ وہ اپنے مخاطب کو حسابِ سود و زیاں کے سیلِ بے اماں میں دھکیل کر خود بھی سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ پھر، وہ پتہ نہیں کیا کچھ سوچنے لگتا ہے! اپنے جیسے لوگوں کے بارے میں، اور اپنے جیسوں پر سوار لوگوں کے بارے میں، اپنے معاشرے کی بے سمتی کے بارے میں، اجتماعی حالت اور حالات کے بارے میں؛ سوچنے والوں کو کمی کس بات کی ہے! بات بہت دور چلی جاتی ہے، اسے یوں لگتا ہے کہ ہماری مٹی کو کچھ ہو گیا ہے۔

یہ کیسی بے مروت سرزمیں ہے

یہاں سب کے رویے اجنبی ہیں

یہاں انساں ہیں کم منصب زیادہ

کوئی مخدوم کوئی خان زادہ

کوئی رفیق، نہ منزل نہ کوئی رختِ سفر

یہ کس خمار میں کس سمت کو چلے ہو تم

بہلاوے بھی تو بہت ہیں، اور حالات کی یا اپنی فکری بے سروسامانی کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم ایک ہی سوراخ سے بیسیوں بار ڈسے  جا چکے ہیں پھر بھی ایڑی وہیں رکھی ہے۔ آگہی نام کی سپنی کے زہر میں بھی کیا نشہ ہے کہ جس کو یہ ایک بار ڈس لے وہ عذاب بھی سہتا ہے اور اسی سپنی سے بار بار ڈسوانا بھی چاہتا ہے۔ منیر انور کی اذیت کے نشے میں سرشار کچھ سسکاریاں نقل کر رہا ہوں۔

کہاں پہ کس نے ہمیں کس قدر تباہ کیا

سوال کتنے ہیں لیکن جواب کوئی نہیں

محبت، امن، احساں، بھائی چارا

انہی لفظوں سے پھر بہلا رہے ہیں

خود ساختہ خیر خواہوں کا وعدے پر وعدہ، جسے پورا کرنے کا ارادہ کسی کا بھی نہیں ہوتا، انسان بے زاری اور بے یقینی میں مبتلا ہے اور شام و سحر کے نسل در نسل پروان چڑھتے اندیشے انسانیت کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے ہیں۔ منیر انور کے کچھ شعر نقل کرتا چلوں جن میں اس کا دکھ کسی سحرِ بے درماں کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

یہی انسان کو کھائے چلا جاتا ہے اندر سے

یہی اندیشۂ شام و سحر آہستہ آہستہ

میرے لوگوں کو نئے خواب دکھائے اس نے

میرے صحراؤں کو بے فیض گھٹائیں دے کر

ایسے میں کوئی کیا امیدیں پالے گا، بھلا؟ کہ مسئلہ صرف خیرخواہوں کا نہیں، مسئلہ ہماری طرزِ فکر کا بھی ہے۔ برگ و بار کی آرزو کے مارے ہوئے یہ بھول رہے ہیں کہ پھل محض آرزوؤں سے نہیں ملتا، کچھ کر گزرنے سے ملتا ہے۔

یہاں شجر کا شجر داؤ پر ہے نادانو!

تمہارے لب پہ وہی شاخ و برگ و بار کی بات

میں نے کہا ہے نا، منیر انور بہت جذباتی آدمی ہے۔ ایسے شخص کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دم جیسے مایوس ہو گیا اور سب سے اچھی بات بھی یہی جذباتیت ہوتی ہے کہ امید کا ایک تنک منک سا جگنو اس کی فکر میں کئی سورج اگا دیتا ہے، منیر انور کے یہ شعر دیکھئے۔

جگنوؤں کی ضیا چھن گئی دوستو

تتلیوں کا زمانہ ہوا ہو چکا

ایک سادہ سی مسکراہٹ نے

زندگی بخش دی نہال کیا

تیرے لہجے سے حوصلہ پا کر

گنگنانے لگی حیات مری

منیر انور خود تو الجھتا ہی ہے اپنے قاری کو بھی الجھا دیتا ہے۔ اس سے ملنے جلنے والا کوئی بھی شخص اس کو جیسے جیسے جانتا جاتا ہے، مشکل میں پڑتا جاتا ہے، کہ اس کی سادگی تک رسائی کیوں کر ہو گی! کمال کا آدمی ہے!

ہم نے ہر حال میں گزاری ہے

ہم نے ہر حال میں کمال کیا

کتنے برسوں کا سفر خاک ہوا

اس نے جب پوچھا کہ کیسے آئے

تاہم وہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے کہ جس کا بقول انور مسعود کوئی حسابی تجزیہ کیا جا سکے کہ اس میں اتنے فی صد محبت ہے، اتنے فی صد غصہ ہے، اتنے فی صد نازک خیالی ہے۔ منیر انور پر ہی کیا موقوف، ہم کسی بھی انسان کو اس انداز میں نہیں پرکھ سکتے۔ اثرات جیسے بھی ہوں، حاصل کوئی بھی ہو، جذبات ہوتے بہت لطیف ہیں اور اس رعایت سے جذبات نگاری بہت نازک کام ٹھہرتا ہے۔ بات ملنے کی ہو، شرمانے لجانے کی ہو، مل کر بچھڑنے کی ہو، لہجے کی ہو، بھول جانے اور یاد رکھنے کی ہو، تاثرات کی ہو، نگاہوں کی ہو؛  ہر بات کے ہزار پہلو ہوتے ہیں۔ منیر انور ان ہزار پہلو کیفیات کا اظہار بھی ویسے ہی کرتا ہے کہ اس کے شعر میں ہزار نہ سہی بہت سارے پہلو اس حد تک ضرور کھل جاتے ہیں کہ اس کا قاری ان کو محسوس بھی کرتا ہے اور لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔

اس کا انکار ٹھیک تھا لیکن

اس کا لہجہ سنا تھا؟ کیسا تھا؟

عجب اک اضطراری کیفیت ہے

اسے بھی بھول جانا چاہتے ہیں

ہوا ہے اس پہ چاہت کا اثر آہستہ آہستہ

شفق اتری تو ہے رخسار پر آہستہ آہستہ

میں نے پھر بات ہی بدل ڈالی

اس کی آنکھوں میں اک سوال تو تھا

یہاں انسان بہت عجیب و غریب صورتِ حال سے دوچار ہوتا ہے۔ تعلقِ خاطر اور اس کی اہمیت بجا، محبوبیاں اور محجوبیاں اپنی ہی ایک اہمیت رکھتی ہیں، تاہم ان کے ساتھ ساتھ ایک انانیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے بھی ہزار روپ ہیں، کہیں وہ خود داری ہے تو کہیں خود پرستی، کہیں خود شناسی ہے تو کہیں خود فریبی۔ ذات کے شعور کے سارے کرشمے انسان کے اندر ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں، اور جوں ہی اظہار کا ایک معتبر ذریعہ میسر ہو، یہ شعور سب پر آشکار ہونے لگتا ہے۔ منیر انور کی خود شناسی کے اظہار میں اس کا مخاطب کہیں محبوب ہے تو کہیں اقتدار، کہیں اس کے ہم جنس ہیں تو نہیں اس کے افرادِ خانہ، جن میں اس کی راحتِ جاں بھی شامل ہے اور جیتے جاگتے پھول اور کھلونے بھی۔ جہاں وہ کسی اور کو اس مکالمے میں شریک نہیں پاتا وہاں اس کی خود شناسی ایک ایسی خود کلامی کا روپ دھار لیتی ہے کہ ایک عالم ہم کلام محسوس ہوتا ہے۔ میں یہاں اپنے قاری کو بھی اس مکالمے میں شریک کرنا چاہوں گا۔

ترے در پر صدا دیتے دُبارہ

ہم اس انداز کے سائل نہیں تھے

گئے تھے ہم بھی فقط رسم ہی نبھانے کو

اور اس کا طرزِ عمل بھی منافقانہ تھا

بس وہی لہجہ، تحکم، خود نمائی، خود سری

کچھ نیا ہرگز نہیں تھا آپ کے پیغام میں

تم تو بس یوں ہی پریشاں ہو گئے ہو دوستو

عمر گزری ہے ہماری قریۂ دُشنام میں

یہ کم نظر نہیں سمجھیں گے داستانِ الم

کسی پہ حالِ دلِ زار آشکار نہ کر

چند لوگوں کی خوش خیالی سے

قبر تھی اک جو آستانہ بنی

راہ میں ہے جو سمندر حائل

یہ مری ذات بھی ہو سکتی ہے

یار لوگوں نے بہت دیر تک یہ بحث چھیڑے رکھی کہ شاعری میں مقصدیت کا کتنا حصہ ہونا چاہئے۔ ہر ایک اپنی اپنی راگنی گایا کرتا اور اس میں مست رہتا۔ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں، پر یہ ضرور ہوا کہ اپنا ایک خیال یا پیش نظریہ سا بن گیا۔ میں شعر کہتا ہوں، منیر انور شعر کہتا ہے تو کیا ایسے ہی کہہ دیتا ہے بس؟ بات حلق سے اترنے والی نہیں ہے۔ یہ جو ہولناک پہنائیوں کی حامل کائنات ہے، اس میں ہزاروں لاکھوں دنیائیں ہیں، یہ سب کچھ ’’بس یوں ہی‘‘ تو ہو نہیں سکتا۔ میں بات کرتا ہوں تو مجھے کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا ہے! مقصد ہی تو ہوتا ہے کہ ایک بات، ایک خیال، ایک احساس، ایک نظریہ، ایک سوچ، ایک کیفیت کسی نہ کسی کو بتانی ہے، اب اس کو کوئی جتنا نکھار سنوار لے۔ اس کی بنیاد میں جتنی سچائی زیادہ ہو گی اتنی تاثیر بھی زیادہ ہو گی اور جتنی سادگی زیادہ ہو گی اتنی سہولت بھی زیادہ ہو گی۔ کوئی جھوٹ بولے بھی تو اپنے آپ سے کیا جھوٹ بولے گا؟ اور بولے گا بھی تو کب تک؟ منیر انور نے عقل مندی کی کہ جھوٹ کے اس چکر میں پڑا ہی نہیں۔ بات پھر پھرا کر وہیں پہنچ جاتی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا۔ ان شعروں میں بھی دیکھ لیجئے، وہی ایک سادہ سا، بلکہ سیدھا سادہ، راست گو منیر انور بولتا سنائی دیتا ہے جو لچھے دار باتیں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر کرتا نہیں۔ اسے تو اپنے مقصد سے غرض ہے اور اس بات سے کہ قاری اس کو کتنی سہولت سے پا لیتا ہے۔

ذرا سا اپنے گریباں میں جھانکئے انور

گلہ درست نہیں آسمان والے سے

جل رہا ہے مرے ہمسائے کا گھر اور میں بس

اپنی دیوار کو شعلوں سے بچانا چاہوں

چور کے ہاتھ کاٹنے سے قبل

غور کر لیجئے عوامل پر

کہا اس نے کہ منزل اور کتنی دور ہے انور

کہا میں نے ہمیں اِس دھند کے اُس پار جانا ہے

دائرے سے نکال دے کوئی

ہم کو رستے پہ ڈال دے کوئی

جو میں نہ ہوتا سرِ دار دوسرا ہوتا

کسی کو خلقِ خدا کی زباں تو ہونا تھا

آدمی مانے نہ مانے ورنہ پہلے روز سے

اس میں انور اک عیارِ خیر و شر رکھا گیا

جو بات آج سرِ بزم کہنے والا ہوں

وہ جان جائے تو شاید کبھی نہ کہنے دے

ابھی ابہام غالب ہے مگر کھل جائے گا انورؔ

کمالِ خوبیِ دستِ ہنر آہستہ آہستہ

یہاں بھی منیر انور سیدھی سچی بات کر گیا کہ ابھی بہت کچھ ایسا ہے جو کھلے گا، تاہم وقت لے گا۔ کوئی بڑا بول بولے بغیر وہ بڑی بات کہہ گیا ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے، کبھی نکالا بھی کرتے ہیں؛ فن جو ٹھہرا! بات سے بات نکالنے کے اس عمل کو تخلیقیت کہہ لیجئے یا مضمون آفرینی، قریب قریب ایک ہی بات ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی عار نہیں رہا کہ مضمون بندی اور مضمون نگاری اور چیز ہے مضمون آفرینی اور چیز ہے۔ اس نکتے پر تفصیلی گفتگو کسی اور موقع پر اٹھائے رکھتے ہیں، یہاں منیر انور کے ہاں مضمون آفرینی کے کچھ نمونے دیکھ لئے جائیں۔

میں اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا زمانہ تھا

وہ میری کھوج میں نکلا بکھر گیا آخر

حوصلے سے سہارنا غم کو

درد کو بے وقار مت کرنا

بچھڑ کے مجھ سے اسے ماننا پڑا یہ بھی

وہ معتبر تھا اگر تھا مرے حوالے سے

جل بجھا ہے چمن کا ہر بوٹا

راکھ باقی ہے سو، ہوا لے جائے

پھول کب کا بکھر چکا انورؔ

پتیاں بھی کوئی اٹھا لے جائے

وہ بہت زود رنج ہے لیکن

لب پہ آئی ہنسی کا کیا کیجے

منیر انور سے بڑی سادگی سے اپنی خاموشی اور کم گوئی کی بات بھی کر دی اور اس کا جواز بھی لے آیا، مگر وہ کم گو ہے نہیں! یہ الگ بات کہ وہ معدودے چند الفاظ میں طویل واردات کو بیان کر جائے اور یہی الگ بات کسی شاعر کی الگ شناخت بھی بن سکتی ہے۔ چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ جانا مضمون آفرینی اور انشا پردازی کا ایسا برتاؤ ہے جو ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتا۔ منیر انور ایک انشائیہ نگار کے انداز میں ایک بات میں کئی باتیں چھیڑ کر چل دیتا ہے اور قاری کا ذہن پلٹ پلٹ کر اس کے لفظوں کی طرف آتا ہے۔ میرے ساتھ تو یہی ہوا ہے، دیگر قارئین کے بارے میں کیا عرض کروں شعر پیش کر دیتا ہوں۔

شام ڈھلے مل بیٹھیں گے

تیری یادیں، ہم، تارے

ہمیں کچھ حوصلہ سا ہو گیا ہے

ہوئی ہے صاف جب ان کی جبیں کچھ

ہزار بحرِ حوادث کو مات دی لیکن

کسی کی آنکھ کا آنسو ڈبو گیا ہم کو

میرے بچے اداس رہتے ہیں

کام سے وقت ہی نہیں ملتا

یہ فقط اشک تو نہیں انور

خواب آنکھوں میں جھلملاتے ہیں

اتنے وہ مختار نہیں

جتنے ہم ہیں بے چارے

شعری فنیات کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اس حوالے سے قارئین کو منیر انور کی کتاب ’’روپ کا کندن‘‘ میں شامل مندرجہ ذیل غزلوں کا خصوصی مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

مناظر شہر قصبے اجنبی ہیں

تخاطب لفظ لہجے اجنبی ہیں

ہاں، موسمِ بہار بھی باقی نہیں رہا

ہاں، تیرا انتظار بھی باقی نہیں رہا

اب مری راہ سے ہٹا سپنے

اب کسی اور کو دکھا سپنے

تھوڑی سی مٹی کی اور دو بوند پانی کی کتاب

ہو اگر بس میں تو لکھیں زندگانی کی کتاب

یوں نہیں ہے کہ یہیں کوئی نہیں

سوچنے والا کہیں کوئی نہیں

ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر

ہمارے حصے میں تنہا سفر رہا آخر

خول سے اپنے نکل آئیں جناب

اس جہاں پر غور فرمائیں جناب

تیرے بام و در پتھر

پھینک بے خطر پتھر

منیر انور نے پنجابی میں بھی غزل اور نظم کہی ہے۔ اگرچہ کم کہی ہے مگر جتنی کہی ہے عمدہ کہی ہے، اور کتاب میں شامل کر دی ہے۔ ابھی ان کی اردو نظموں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ ’’دائمی روشنی‘‘، ’’کرب کا موسم‘‘، ’’تذبذب‘‘، ’’کم مائے گی‘‘، ’’حادثہ‘‘، ’’کہا تو تھا‘‘، ’’مشورہ‘‘، ’’گم گشتہ‘‘، اور ’’ فہمائش‘‘؛ کل نو نظمیں ہیں سب میں مشترک خوبی اختصار ہے۔ عنوانات کا تسلسل، اس سے قطع نظر کہ یہ اتفاقی ہے یا ارادی، قابلِ توجہ ہے۔ ’’تذب‘‘ انتظار کے دنوں کا صلہ ہے۔ ’’کم مائیگی‘‘ کچھ نہ کہہ سکنے پر دکھ کا اظہار ہے؛ ’’حادثہ‘‘ تین سطروں میں کل چودہ الفاظ (درد کی کسی رو میں: اس نے کہہ دیا آخر: کاش ہم نہیں ملتے)، جو حساس قاری کے ایک ایک طبق پر دمک اٹھتے ہیں۔ ’’کہا تو تھا‘‘ نارسائی کا ایسا دکھ ہے جس میں اپنی ذات سے زیادہ کسی دوسرے کا احساس اجاگر ہے۔ ’’مشورہ‘‘ دائمی فراق کے اولین لمحات پر ایک ایسے کرب کا اظہار ہے، جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے، حیطۂ الفاظ میں نہیں لایا جا سکتا۔ ’’دائمی روشنی‘‘ چھ ابیات پر مشتمل مثنوی مادرِ وطن کے حوالے سے ندامت اور عزمِ نو پر مشتمل عمدہ اظہاریہ ہے۔ ’’کرب کا موسم‘‘ دورِ حاضر کے سدا بہار المیوں پر ایک مختصر اور پر تاثیر معرّیٰ نظم ہے۔ ’’فہمائش‘‘ دوہری معنوی سطح کی حامل نظمِ معرّیٰ ہے جس میں ماں کی جدائی کا درد بہت نمایاں ہے۔

منیر انور کی اردو اور پنجابی نظموں اور غزلوں کی بہت خاص بات ان کی سادہ لفظیات ہے۔ اور وہ ہے کہ انہی سادہ سادہ لفظوں سے بڑے بڑے مفاہیم و مطالب پیدا کر جاتا ہے۔ اس کے سادہ سے اسلوب میں کچھ نہ کچھ ایسا ہے ضرور جو مجھے خواجہ حیدر علی آتشؔ کا یہ شعر یاد دلا گیا۔

تکلف سے بری ہے حسنِ ذاتی

قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بدھ: ۴؍ فروری ۲۰۱۵ء

 

اَمبوا لاگا بُور

 

جناب مشتاق عاجزؔ کی کتاب ’’سمپورن‘‘ کا طالب علمانہ مطالعہ

 

من کا بالک بھی عجب ضدی بنا ہے۔ کسی نہ کسی بات پہ اکساتا ہی رہتا ہے اور پھر اَڑ جاتا ہے کہ میرا کہا ہو کے رہے! نہیں تو میں رُوٹھا، کہ رُوٹھا۔ ایک گھڑی کہنے لگا: ’سمپورن‘ پر کچھ کہو، کچھ لکھو، کچھ بولو!‘‘۔ لاکھ سمجھایا، کہ: بالکے! یہ بندہ جو خود کو عاجزؔ کہتا ہے، اور دِکھتا بھی ویسا ہے، باتیں بھی ویسی کرتا ہے؛ اس کی بات پہ بات کرنا بہت کٹھن ہے، حرف عاجز ٹھہرتے ہیں۔ سب شبد، سب اکھر، سب پورنے بیچ چورا ہے کے چھوڑ کے چل دیں گے اور تو مجھ سے پوچھتا رہ جائے گا کہ اب کدھر کی راہ لینی ہے، اور اِن ادھورے پورنوں کا کرنا کیا ہے! ! لیکن یہ اڑیل بالکا نت کی طرح اپنی کہی پہ اَڑ گیا: ’’تم عاجز آؤ، کچھ بھی کرو، ’سمپورن‘ پر بات کئے بنا نہیں بننے کی!‘‘۔ سو، ایک جتن کئے لیتے ہیں، کچھ سپھلتا ہو گئی تو واہ وا، نہ بھی ہوئی تو اتنا تو ہو گا نا، کہ ایک تو اِس بالک سے کہنے جو گے ہو جائیں گے کہ ہم نے تیرا کہا کر دیا۔ دوجا، ’سمپورن‘ کے عاجزؔ کو یہ گلہ تو نہیں ہو گا کہ کچھ کہا نہیں۔ تو، صاحبو! اپنی سی کرتا ہوں؛ بھلی لگے تو اِس فقیر کو سیس دیجو، اور بھلی نہ لگے تو بھی سیس ہی دیجو، اَسیس مت دیجو کہ مجھے اسیس سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جھڑک لیجو، میرے کہے کو ان کہا کہہ لیجو، پر اَسیس نہ دیجو! ! کہ میرے لفظ بھلے کوئی اور بات پہچانے سے عاجز رہے ہوں پر اس بات کا پتہ ضرور دیں گے کہ من کا یہ بالک بھلے کتنا اڑیل ہے پر اِس میں کھوٹ نہیں ہے۔

یہ فقیر تو رہا اپنی جگہ، خود مشتاق عاجز بھی اپنی اس گیان پوتھی ’سمپورن‘ میں اسی بالک من کی بال ہٹ کے آگے عاجز دِکھتا ہے۔ پوتھی کا ہر دوہا پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ کوی نے اپنے جی کی باتیں پورے سچ سے لکھی ہیں۔ اُس کی گیان کتھا ’’میں ناہیں سب توں‘‘ دیکھ لیجئے، کسی سچی اور سُچی باتیں کر گیا ہے! لکھتا ہے:

’’یہ جو میں چھیالیس برسوں سے ٹوٹا پھوٹا شعر کہہ رہا ہوں، بچپن سے اب تک آڑی ترچھی لکیروں سے نقش ابھارتا اور رنگوں سے سنوارتا چلا آ راہا ہوں اور لڑکپن سے بڑھاپے تک سنے سنائے گیت گنگناتا اور چھوٹے موٹے ساز سے سر برآمد کرتا ہوں مگر تخلیق کار کہلانے کی جسارت نہیں کی تو اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے سے موجود لفظوں، لکیروں اور سروں کو دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر نیچے کر کے ان کو کسی نئے اور خوبصورت انداز میں مرتب کر لینے والا شخص جمال پسند، ہنر مند، اور سلیقہ شعار فن کار تو کہلا سکتا ہے مگر تخلیق کار کہلانے کا مجاز نہیں۔ بھلا شعر گوئی، تصویر کشی اور صدا کاری میں میرا کیا کمال ہے کہ میں تخلیق کار ہونے کا دعویٰ کر سکوں۔ یہ سارا کمال تو اس اکمل و کامل ذات کا ہے جس نے کائنات کی بساط بچھائی، مُٹھی بھر ماٹی سے انسان کا پتلا تراشا اور اُسے پران بخشے۔ یہ اعجاز تو اس حسنِ کرشمہ ساز کا ہے جسے ربِّ جمیل نے خلق کیا اور کائنات بھر میں نسلِ انسانی کے گرد و پیش بکھیر دیا، جس نے اشیاء بنائیں اور آدم کو اُن کے نام سکھائے جو الفاظ اور آواز کا خالق ہے جس نے رنگ و آہنگ کی دنیائیں آباد کیں، جس نے گولائیاں اور گہرائیاں پیدا کیں، بلندی اور پستی بنائی، افقی، عمودی متوازی اور آڑے ترچھے خطوط سے نقوشِ کائنات ابھارے، دائروں، قوسوں زاویوں اور ہندی اشکال اے ایک جہانِ حیرت ترتیب دیا، جو رنگوں کی بوقلمونی کا مالک و خالق ہے، جس نے ہر ذی روح کو حواس بخشے مگر انسان کو حواس سے سوا احساس سے نوازا، جس نے اولادِ آدم کو سوچنے سمجھنے کا شعرو اور جذبات کے اظہار کا سلیقہ بخشا اور جس نے اپنے انعام و اکرام سے کچھ انسانوں کو ذوقِ نظر اور ذوقِ سلیم کی دولت سے مالا مال کر کے اپنی تسبیح کے لیے لفظوں، آوازوں، لہجوں، لکیروں اور رنگوں کے چناؤ اور برتاؤ کا ہنر سکھایا‘‘۔

’’میں بھی ان لاکھوں، کروڑوں ادنیٰ بندوں میں سے ایک ہوں جنہیں قادرِ مطلق نے عقل و شعور کی روشنی عطا کی، نورِ بصارت کے ساتھ نورِ بصیرت دیا، جن پر رب کریم نے علم و آگہی کے در وا کئے، جن کو متاعِ عشق، دولتِ دردِ دل اور سوز و گداز کی نعمتوں کے لئے چنا گیا اور جن کو بے حد و بے کنار سوادِ ہنر سے دستِ ہنر کی خیرات نصیب ہوئی۔ جو الفاظ کو مرتب، منظم اور متوازن کر کے شعر کہتے ہیں۔ ایک تناسب سے لکیریں کھینچ کر نقش ابھارتے اور موزوں رنگوں کو آمیخت کر کے تصویر بناتے ہیں اور اپنے لحنِ اثر انگیز میں حسین اتار چڑھاؤ پیدا کر کے گیت گنگناتے اور سُر الاپتے ہیں‘‘۔

’’ہاں۔ میں جذبات و محسوسات کے لیے ربِّ جمیل کے جہانِ حسن و جمال سے استفادہ کرتا ہوں۔ میں نقال ہوں، فنکار ہوں، جدت طراز ہوں مگر تخلیق کار نہیں کہ تخلیق تو صرف اور صرف خالقِ کائنات کو زیبا ہے، میں تو بس لفظوں، لکیروں اور لہجوں سے حسن کا تأثر ابھار کر خالقِ حسن و جمال کی تسبیح کرتا ہوں۔ بے شک وہی واحد تخلیق کار اور سب سے بڑا فن کار ہے سو میں اپنے سب فن پارے اسی کے نام کرتا ہوں۔ ’سمپورن‘ کے اشعار، ان کے مضامین، ان میں سموئے جذبات و خیالات اور تصاویر اسی کی دین ہیں‘‘۔

ع: ’’اتنا سچ بول گیا ہے، ارے پگلے! پاگل!‘‘ کنویں کا مینڈک! مشتاق عاجزؔ نہیں، یہ فقیر ہے! سیلاب میں بہتی اُس مچھلی تو کو سبھی جانتے ہیں جو ساگر سے جا ایک کنویں میں گری تھی۔ کنویں کے قدیمی باسی مینڈک سے ہوئی اس کی بات چیت بھی سب کو ازبر ہے۔ اپنی بدھی کا حال بھی اُس مینڈک کی چھلانگ جیسا ہی تو ہے۔ دوہے کی شبدالی، چال، سُر کے بارے جو تھوڑا بہت جانا کچھ تو علامہ غلام یعقوب انور کی پُستکوں سے اور کچھ ڈاکٹر سید ہارون اور امین خیال کے لکھے لیکھوں سے جانا۔ کنویں کا مینڈک کیا جانے کہ ساگر کتنا کھلا ہوتا ہے! اِس کے مصداق یہ فقیر تو یہ بھی نہیں جانتا کہ کہ اپنے کو نِرسُدھ پکارے، کہ نِرسُوجھ کہے! ماترا، لگھو، گورو، چرن، چھند کے اس گورکھ دھندے میں وسرام ہی بھلی! بات وہیں آن اڑی جہاں سے چلی تھی: بول کو مانگے بالکا، چپ کو مانے ناہیں۔ من کی گپھا سے اچھلے ان چم چم چم چم دوہوں پر نظر بھی من کی اکھیوں کی ڈالوں اور کتھا بھی من سے پھوٹے شبدوں میں کہوں تب بات بنے۔

مشتاق عاجز نے کتاب کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

پہلا حصہ: کھرج۔۔ ۔ دھرم اشلوک: وحدانیت کا تصور، کن اور نظامِ کائنات، سات کی اہمیت، نیکی کا تصور، دھیان اورگیان، نعت و منقبت، اخلاقِ نبوی، تن اور من۔

دوسرا حصہ: رکھب۔۔ ۔ ماٹی مان: تخلیقِ آدم، روحِ اخلاق، روح اور بت، سانس کا تار، موت و حیات، عقل و دل۔

تیسرا حصہ: گندھار۔۔ ۔ مایا موہ: متاعِ غرور، حبِ دنیا، دنیا اور اخلاقیات۔

چوتھا حصہ: مدھم۔۔ ۔ دھیان دھارا: تفکر، ذات پات اور تقسیمِ آدم، اخلاق و اقدار، عمل اور تقدیر۔

پانچواں حصہ: پنچم۔۔ ۔ گیان گیتا: سلامتِ طبع، عقلِ سلیم اور فکرِ سلیم، پن گن تن من دھن، درونِ ذات، روحِ عبادت۔

چھٹا حصہ: دھیوت۔۔ ۔ روپ سروپ: حسن، رومان، جمالیات۔

ساتواں حصہ: نکھار۔۔ ۔ برہن بین: کیفیاتِ ہجر، شکوے، تمنائے وصال۔

آٹھواں حصہ: الاپ۔۔ ۔ پریم پنتھ: عشق، تپش، تن اور من، لگن۔

نواں حصہ: استھائی۔۔ ۔ بجوگ روگ: قوتِ عشق، عقل اور دل، یادیں اور آرزویں۔

دسواں حصہ: انترہ۔۔ ۔ سنجوگ: وصال اور لذاتِ وصال، فنا فی المحبوب۔

’’کھوج‘‘ سے ’’انترہ‘‘ تک مشتاق عاجز ایک کثیر الجہات فلسفہ بیان کرتا ہے اور اپنے مضامین کو ایک منطقی تسلسل میں یوں بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ لذتِ فکر و نظر ایک سہ آتشہ سے متعارف ہوتے ہیں۔

اکتارا اک تار کا باجا، جو باجے من بھائے

دوجا تار لگے جو اس میں باج اَسَت ہو جائے

یہ دوہا پڑھتے مجھے اللہ کریم کا فرمان یاد آ گیا کہ اگر کائنات میں دو خدا ہوتے تو فساد برپا ہو جاتا۔ سو انسان پر لازم ہے کہ وہ بھی اس واحد و لاشریک خدا پر یقین و ایمان کے اکتارے میں کوئی دوجا تار نہ ٹانکے نہیں تو ست جاتا رہے گا۔ دوہے کی روایت اور لفظیات میں پوربی لفظیات، ہندو تہذیب اور الٰہیات کا ہونا تو ظاہر ہے فطری سی بات ہے اور یہ بھی کہ زبان اپنی تہذیب کی مظہر ہوا کرتی ہے۔ رام، شیام، آتما، پرماتما، پرمیشور، اوتار کی اصطلاحات ہندو دھرم کی نمائندہ ہیں؛ گانا، سر، سنگیت بھی ہندو دھرم کی مبادیات و لوازمات میں شامل ہے۔ سو، یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ زبان اور لفظیات پر جتنا اثر دین دھرم کا ہوتا ہے شاید ہی کسی اور تہذیبی عنصر کا ہوتا ہو گا۔ دوہے میں لامحالہ ان لفظیات کو بھی ساتھ ہی وارد ہونا تھا۔ مشتاق عاجز نے انہیں ناموں اور علامات کو معنوی طور پر اسلامی الٰہیات کی طرف منسوب کیا ہے۔ سو، ہم بھی ان کو اسی حوالے سے دیکھیں گے۔ یہاں میں اپنے من بالک کے اس سوال کا جواب شاید میں نہ دے پاؤں کہ مشتاق عاجز میں اللہ جل جلالہٗ اور محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسمائے مبارکہ براہِ راست ادا کرنے کی سعادت کیوں حاصل نہیں کی۔

بہت عام سی بات ہے کہ پرماتما، بھگوان، ایشور، اور اللہ سب کے مطالب ایک لئے جاتے ہیں، یا نبی اور اوتار کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ یہ صرف زبان اور لفظوں کا فرق ہے۔ میرے من کا بالک تو کہتا ہے کہ: اس مقام پر پہنچ کر جہاں ایک کی جگہ دوسرا اسم آتا ہے، اور اس اسم کی صفات آتی ہیں، لغاتوں سے قطع نظر، وہاں اس سے منسلک تصورات بھی ساتھ آتے ہیں اور عقائد بھی؛ اور مجھے اسی کی ماننی پڑتی ہے۔ یہ تو خیر، میرا اور بالکے کا جھگڑا ہے، اور چلے گا، بات ’’سمپورن‘‘ کی ہو رہی ہے، ادھر چلتے ہیں۔

پہلے باب میں الل                                                                                                                                                                                                                         ہ تعالیٰ کی وحدانیت اور امر کن، کائنات کی تخلیق و تکوین اور تقویم اور نظام، کائنات، اللہ کریم کی قدرتِ کاملہ اور قوانینِ فطرت، کا بیان ہے۔ سہ آتشہ یوں کہ ایک تو موضوع کے ساتھ رچاؤ، دوسرے دھرتی کے ساتھ جڑت، اور تیسرے اس کا معجز نما اختصارِ لفظی اور عماقتِ معنوی۔ دوہے میں اظہار پر متعدد پابندیاں لاگو ہوتی ہیں: ایک مخصوص لے، جسے بحر کہہ لیجئے، اس کی ایک خاص نہج کی لفظیات اور تیسری بات غزل کے شعر والی کہ دو مصرعوں میں بات پوری کرنی ہے۔ موضوع کی سانجھ اور تسلسل کے باوجود دوہا اپنی جگہ ایک مضبوط اکائی رکھتا ہے۔

کُن آہاتا، کُن انہاتا، کن اَنہَد کی تان

اس نادا پر ناچ رہے ہیں کیا آتم کیا پران

ہر وینا، ہر باجے میں ہے سات سروں کی باج

ہر آروہی امروہی پر اکتارے کا راج

یہاں اکتارا علامتی سطح پر ایک واحد رب کے حکم اور فیصلے اور قدرت کا مذکور ہے۔ سات کے ہند سے کی اہمیت کو شاعر اپنے انداز سے دیکھتا ہے ہم اپنے انداز سے دیکھتے ہیں: سات آسمان، ہفتے کے ساتھ دِن، تخلیق و ترتیبِ ارض و سما کے سات ادوار اللہ کی قدرت کا اقرار ہیں جس کا حکم اور اختیار ہر ہر معلوم، معدوم اور موہوم پر حاوی ہے۔ کوئی چیز قدرت کے بنائے ہوئے قوانین سے باہر نہیں جا سکتی۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا مقام عنایت فرمایا تو اس کے لئے ضابطۂ حیات بھی متعین کر دیا اور اختیار بھی دے دیا کہ چاہو تو مان لو، چاہو تو انکار کر دو، مگر یاد رہے کہ تم اللہ کی پہنچ سے باہر نہیں جا سکتے۔ یہ بھی بتا دیا کہ تمہیں لوٹنا ہماری طرف ہے اور پھر حساب لینا ہمارا کام ہے۔ سو، انسان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ مان لے اور غیر مشروط طور پر اس کے آگے سرنگوں ہو جائے، اور اس کو ہر وقت ہر حال میں یاد رکھے، کہ دینِ فطرت کی روح یہی ہے۔

جب تک تن کا تونبا باجے پی کا راگ الاپ

جس نے من کا تار بجایا نام اسی کا جاپ

انسان کو اللہ نے اپنا نائب مقرر فرمایا اور جو کچھ زمین و آسمان کے اندر ہے سب کچھ اس کے لئے تسخیر کر دیا اور ایک بہترین انسان کے آنے کی خوش خبری بھی دے دی۔ یہی وہ انسان ہے جو خیر البشر ہے اور فخر آدمیت ہے، وہ جس کی ہر جنبشِ لب اور جنبشِ دست و بازو اللہ کی رضا اور منشا ء کا عملی نمونہ ہے۔ حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات کا ایک ایک پل، ایک ایک سانس، ایک ایک مسکان دستورِ حیات ہے۔ آپ خیر الوریٰ ہیں، عقل و شعور، فہم و فراست، اخلاق و کردار کا ایسا نمونہ کہ ویسا نہ پہلے ہوا نہ بعد میں اور نہ ہو گا۔ اللہ کا وہ بندہ جو اللہ کے ہاں بندوں کا اور بندوں کے ہاں اللہ کا سفیر ہے اور جن و انس کو جس کی اطاعت اور اتباع کا مکلف بنایا گیا ہے۔ اور جس کی سادگی ایسی سادگی ہے جس میں سب سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔

ایسا گیانی جس کے من میں پرماتم کا نور

بھاشن بھاشن ایسی شکشا بدلے جگ دستور

قول وچن کا سچا پکا بول امَر انمول

متر، امتر کی پیاس بجھائیں امرت جیسے بول

آپﷺ سرورِ کونین ہیں اور ساری خدائی کو آپ کی سیادت و قیادت میں جمع ہونا ہے۔ عرب و عجم کے شاہان کا کر و فر آپ کی سادہ زندگی کے حضور باج گزار ہے۔ مشتاق عاجز کی معجز بیانی ملاحظہ ہو:

بان چٹائی راج سنگھاسن اور دو جگ پہ راج

میں بھی توری پرجا راجا، رکھیو موری لاج

اپنی گزارشات کی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں مشتاق عاجز کے ایک ایک دوہے میں اسلوب اور اظہار کی پرتیں کھولنے کی سعی کرتا۔ اس کے کلام کی ایک بہت بڑی خوبی اپنے کہے کے معانی کے ساتھ پر خلوص تلوث ہے۔ تلازمہ سازی کا حسن ہر نظر کو اسیر کر لینے کی خاصیت رکھتا ہے، شرط بس یہ ہے کہ مشتاق عاجز کا قاری اس کے ساتھ رہ کر اُس کے عجز کی کرامات کا مشاہدہ کرے۔

اللہ کریم نے انسانوں کے نام اپنے آخری پیغام میں جہاں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل اور مدارج یا بیان فرما دیا ہے وہیں انسان کو تکریم بھی عطا کی اور ذریعۂ تکریم یعنی قلم بھی۔ ارشاد ہوتا ہے: پڑھئے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے سب کچھ پیدا کیا، اس رب کے نام کے ساتھ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا۔ پڑھئے اور آپ کا رب بہت اکرام والا ہے جس نے قلم سے علم عطا فرمایا؛ انسان کو وہ کچھ سکھا دیا جسے وہ جانتا بھی نہیں تھا۔ انسان کی تخلیق کے اول اول مراحل میں کھنکھناتی ہوئی ٹھیکری جیسی مٹی کا حوالہ بھی ہے اور گیلی مٹی کا بھی جس کو اللہ کریم نے جیسا چاہا ایک صورت دی اور پھر اپنے امر (روح) کو داخل کر کے اسے نہ صرف یہ کہ جیتا جاگتا دیکھتا بھالتا انسان بنا دیا بلکہ اپنا نائب بھی مقرر فرما دیا کہ خاک کا یہ پُتلا زمین میں اللہ کا نظام نافذ کرے گا۔ اسے اس کا جوڑا اسی سے عطا کیا اور دونوں کو جب تک چاہا، اپنے خاص باغات میں رہنے دیا۔ واپس تو اسے زمین پر ہی آنا تھا کہ اس کے عمل کا میدان سجنا ہی زمین پر تھا، اس کی انسانیت کو جلا بھی اسی زمین کی تلخ و شیریں فضا، گرم و سرد اور خشک و تر میں سعی پیہم سے ملنی تھی۔ اور اسے اسی مٹی میں کندن بننا تھا۔

مٹی کے حوالے سے مشتاق عاجز کی معانی آفرینی جہاں اس کے علم کی گہرائی کی آئینہ دار ہے وہیں اس کی چابک دستی کا ثبوت بھی ہے۔ مٹی، تخلیق کا جوہر، اللہ کی نعمتوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ، زندگی کا منبع، کم مایہ بھی اور گراں مایہ بھی، جس سے وہ سب کچھ نکلتا ہے جسے اللہ کا حکم نکال لاتا ہے اور وہ سب کچھ اس میں سما جاتا ہے جسے سمونے کا اسے حکم دیا جاتا ہے۔ یہی مٹی انسان کی اوقات بھی ہے، اس کے لئے ماں کی سی گود بھی، مرنے کے بعد اس کا ٹھکانا بھی اور اس کی مساعی کا ریکارڈ بھی۔ ہمارا شاعر کچھ یوں رقم طراز ہوتا ہے۔

تو ماٹی کی مورت مورکھ، ماٹی کا کیا مان

مان اسی کو ساجے جس نے بخشے تجھ کو پران

دانا ہے تو ماٹی ہو کر اپنا روپ نکھار

دانے سے پھلواری پھوٹے مہکے سب سنسار

ماٹی کو گلزار بنا لے، بیج لگن کا بو

آنکھوں سے برسا وہ برکھا ماٹی جل تھل ہو

یہاں انتخاب بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مشتاق عاجز کا ہر دوہا نقل کرنے کے قابل ہے، معانی آفرینی، لفظوں کا چناؤ اور بہاؤ، اظہار کی روانی اور بے ساختہ پن، مٹی سے رشتہ اور عظمت آدم؛ ان کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہر ہر دوہے پر بات کی جائے۔ مگر نہ تو یہ مضمون اتنی طوالت کا متحمل ہو سکے گا اور نہ اس فقیر کی بوڑھی ہڈیاں اتنی طویل نویسی کر پائیں گی۔ اس دوہے کو دیکھئے اور ان کو بھی جو پہلے نقل کر چکا ہوں، اور مشتاق عاجز کی دقتِ نظر کا اندازہ خود لگا لیجئے، اور یہ بھی کہ وہ انسان کو کہاں دیکھنا چاہ رہا ہے۔

پاک پوتر ہے ماٹی تیری بنے جو تو انسان

ماٹی کی اس بھومی پر ہے تو ماٹی کا مان

یہاں مجھے وہ اپنے اسلوب میں مفسر دکھائی دیتا ہے اللہ کریم کے ان ارشادات کا: ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا اور پھر اس کو اسفل السافلین کی طرف دھکیل دیا، ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے دل و جان سے تسلیم کیا اور نیکی کما گئے۔ سو، اُن کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ ماٹی کی اس مورت کی کتھا سناتے سناتے وہ ماٹی اور ٓتم کے بچھڑ جانے جانے تک پہنچتا ہے تو اس کے ہاں فکر، احساس اور اظہار یک جان ہو جاتے ہیں۔ یوں کہ الفاظ کی تپش اور تڑپ کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان کرنے میں احساس کے یہ آبگینے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔

تن ماٹی کا پنجرا جس میں پنچھی رہے اداس

دانْو لگے تو توڑ کے پنجرا اُڑ جائے آکاس

تنن تنن تن تونبا باجے جب تک باجے تار

ٹوٹا دم کا تار تو تن کا تونبا ہے بے کار

من ماتی کا کچا کوٹھا روح کنْواری نار

چل ری گوری دیس پیا کے، لینے آئے کہار

کہاروں کے آنے تک کا سمے انسان کو اسی ماٹی کی دنیا میں بِتانا ہے، وہ وہ اس دنیا کی طرف مائل تو ہو گا، کہ یہ ایک بدیہی عمل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں یہ میلان اس کے من پر ماٹی بن کر لِپ گیا، وہ اسی کے بوجھ میں دب کر اپنے الوہی مقام اور منصبِ نیابت سے محروم ہو گیا۔ آسمان سے اتری وعید بھی سنتے چلئے: تباہی ہے ہر شیخی خورے پر جو مال جمع کرتا ہے، اسے سینت سینت کر گن گن کر رکھتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ اس مال کے زور پر وہ امر ہو جائے گا۔ نہیں! ایسا نہیں ہو گا، بلکہ اسے بھٹی میں جھونک دیا جائے گا۔ مشتاق عاجز کی فکرِ رسا کا کرشمہ دیکھئے۔

سونا روپا مال سمیٹا ریشم لیا لپیٹ

ہیرے کھائے موتی چابے بھرا نہ پاپی پیٹ

تکڑی تولی لالچ کی اور جھوٹ کے رکھے باٹ

لالہ جی پرلوک سدھارے تالا لاگا گھاٹ

اوسط حجم کے مشکیزے جتنا یہ پاپی پیٹ نہیں بھرتا تو جہنم کا پیٹ بھرنے کا سامان کرنے لگتا ہے۔ یہی ہوسِ زر ہے جو انسان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر قارون فکر اپنی عمر، اپنی صلاحیتیں، اپنا ذہنی اور قلبی سکون سے اسی مال کی حفاظت اور مزید کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے اور خود بھی اسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سکون اور تعیش کے سارے مادی لوازمات رکھتے ہوئے بھی اس کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔

مایا لوبھ ہے گڑ کا شیرہ، ماکھی کے من بھائے

چکھنے بیٹھے پنکھ پھنسائے، اڑے تو اڑ نہ پائے

دنیا چنچل پچھل پیری، لگے سجیلی نار

سجی سجائی اس ڈائن کی شوبھا ہے دن چار

نرم ملائم پھندے اس کے اور سنہرے جال

نقلی مال کے دام بٹورے اور کرے کنگال

دنیا من کو بھا جائے تو جائے من کا چین

من کا چین گنوا کر لوبھی بین کرے دن رین

دستِ قدرت نے جنت کا نقشہ پہاڑ کی چوٹی پر بنایا اور جہنم کا وادی میں، بیچ میں دنیا کا۔ باقی سب سپاٹ چھوڑ دیا کہ جنت کے باغات اور جہنم کی لپٹیں سب کچھ صاف دکھائی دے۔ کہنے والے کہنے لگے کہ یوں ہے تو کوئی ایک شخص بھی ڈھلان کو نہیں جائے گا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ کمرِ کوہ سے چوٹی کی طرف نوکیلے پتھر، خاردار جھاڑیاں اور کھائیاں نمودار ہو گئیں اور باغات چھپ گئے۔ ادھر وادی کی طرف خیابان و گلستان، برگ و بر اور کہنی ان کہنی عیاشیوں کا سامان یوں بہم ہوا کہ لپٹوں تک کسی کی نظر جائے نہ کان۔ کہنے والے کہنے لگے یوں ہے تو کوئی ایک شخص بھی چوٹی کو نہیں جائے گا۔ صدا آئی کہ جسے اوپر کو جانے کا جذبہ ہو گا، وہ ان نوکیلے پتھروں، جھاڑیوں کھائیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا اور چاہے ہانپتے کانپتے پائے، کلۂ کوہ کو پا لے گا؛ وہ نیچے جانے والا جس پھل کو چکھے گا پھوک پائے گا اور رسیلے کی تلاش میں نیچے لڑھکتا چلا جائے گا، اور آخر کو اوندھے منہ شعلوں میں گر پڑے گا۔ اب یہ دوہا پڑھئے۔

دنیا بوڑھی وِدھوا اوڑھے سر پر چنری لال

عقل کے اندھے اس پر ریجھیں منہ سے ٹپکے رال

کتاب کے اگلے دو باب ’’دھیان دھارا‘‘ اور ’’گیان گیتا‘‘ باہم متصل ہیں، ان میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ انسان جن حقائق کا مطالعہ کرتا ہے وہ دھیان ہے اور جو نتائج اخذ کرتا ہے وہ گیان ہے۔ مشتاق عاجز کا مطالعہ اور تفکر اسے بتاتا ہے کہ:

گہر ساگر دھیان کا جس کی تھاہ کا موتی گیان

جو پاتال سے موتی لائے اس کو مان مہان

دینِ فطرت ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کا وہ جتن کرے۔ اپنی منزل پانے کو اس کی طرف سفر کرنا ہو گا۔ قدرت نے ساری نعمتیں انسان کے لئے بنائی ہیں اور انسان کو اپنے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس کی زندگی لکھ دی گئی، موت لکھ دی گئی رزق لکھ دیا گیا، علم لکھ دیا گیا اور یہ بھی لکھ دیا گیا کہ اس سب کچھ کو حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے۔

وقت پہ جس نے کھیتی بیجی وہ اصلی دہقان

لمبی تان کے سو جائے تو گھاس اگے کھلیان

اجیارے میں راہ سفر کی جلدی سے کٹ جائے

شام ڈھلے جو چلے مسافر پگ پگ ٹھوکر کھائے

ریکھاؤں میں کیا رکھا ہے مڑ مڑ ریکھ نہ دیکھ

ریکھا تیری مٹھی میں ہے لکھ لے اپنے لیکھ

حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے کہا ہے:

پابندیِ تقدیر کہ پابندیِ احکام

یہ مسئلہ مشکل نہیں ہے مردِ خرد مند

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

یہی دعوتِ عمل مشتاق عاجز کے ہاں پائی جاتی ہے۔ انسان کی مساعی کا قوام بنانا ہے اور اس کو اعلیٰ اور مفید مقصد کے لئے کام میں لانا ہے۔ نیک و بد کا امتیاز اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ اچھی اقدار کو معروف اور بری اقدار کو منکر کہا گیا۔ اور بتا دیا گیا کہ معروف کو اپنانا ہے منکر سے بچنا ہے کہ تقویٰ اور اعلیٰ انسانی اقدار کا پاس ہی روئے زمین پر بسنے والوں کے لئے امن و آشتی کا ضامن ہے۔

لوبھ کرودھ ہیں سانپ سپولے اگلیں منہ سے آگ

اتم بیر وہی جو کیلے ایسے زہری ناگ

ساگر سے بھر لائے گاگر بدرا جل برسائے

جل ندیا میں ندیا آخر ساگر میں مل جائے

دھیان اور گیان کے اس مرکب عمل کا کچھ نہ کچھ حاصل بھی تو رہا ہو گا۔ تیل جلتا ہے تو روشنی ہوتی ہے؛ ایک کا لوبھ دوجے سے ٹکراتا ہے تو نفرتیں اور عداوتیں جنم لیتی ہیں؛ پن گن ہے اور گن پن ہے؛ دھیان اور گیان ایک دوجے کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ مشتاق عاجز نے ایسے کتنے ہی موتی پاتال سے ڈھونڈ لا کر اپنے قاری کے سامنے ڈھیر لگا دیا۔ اس باب میں پند و نصائح بھی ہیں تاہم ان کا انداز خشک اور بیزار کن نہیں بلکہ دل پذیر ہے۔ بعض دوہے تو ایسے ہیں کہ کچھ بعید نہیں کل وہ کہاوت کا درجہ پا لیں۔ فکری اور اخلاقی قدر و قیمت، بیان کی چاشنی اور انسانی مزاج سے ہم آہنگی، زبان کا چٹخارہ، لفظیات، کا موضوعات کے ساتھ وہ قوام بنایا ہے کہ شیرینی سمجھ لینے کو جی چاہتا ہے۔

مندر مسجد ما تھا گھس کے گیا نہ من کا میل

تیرتھ کے سو چکر کاٹے رہے بیل کے بیل

لوبھ جگت کی پھرے اڑائے جانے کت کت اور

جت جائے چت چنتا رکھنا راہ تکت ہے گور

گور گپھا میں گھور اندھیرا دیپ جلے نہ کوئے

من میں پُن کی جوت جگا لے دور اندھیرا ہوئے

پُن اور گن کی مایا جتنی بانٹو بڑھتی جائے

ہُن کی مایا ڈھلتی چھایا، ہُن پر کیا اترائے

مشتاق عاجز کے دوہوں میں جو ایک وصفِ خاص وصفِ عام بن گیا ہے وہ سلاست اور سہولت ہے۔ الفاظ جھرنے سے اترتے پانی کی صورت نرمی اور روانی سے ایک دوسرے کے پیچھے یوں آتے ہیں کہ ثقالت کو راہ نہیں ملتی، نہ ادا کرنے میں اور نہ معانی و مطالب میں۔ حسنِ تکرار اور صوتی رعایت میں مشتاق عاجز کے دقیق فلسفیانہ مضامین راگنیاں بن جاتے ہیں۔ عالمِ فانی کی بے ثباتی، موت اور اس کے بعد پھر زندگی، قبر، قبر کی تاریکی میں اعمالِ صالحہ کی روشنی، پن، گن اور ہن کی مثلث؛ یہ مضامین کسی واعظ کی زبانی سننے کا عمل جتنا بوجھل ہو سکتا تھا، مشتاق عاجز کے ہاں اتنا ہی لطیف ہو جاتا ہے۔ دو بہت ہی خوب صورت دوہے نقل کرتا ہوں، ان ہشت پہلو تراشیدہ ہیروں کو ہر زاویے سے دیکھئے گا، اور دیکھئے گا کہ کس پہلو کیا کیا رنگ جھلکتے ہیں۔ کچھ باتیں، جیسے میں نے پہلے عرض کیا، محسوس کی جا سکتی ہیں، بیان کرنے میں ان کی نزاکت مانع ہوتی ہے۔

بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا

سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ

من میں پی کی پیت بسا لے، من سندر ہو جائے

پیتم کے من بھائے سندرتا من میں آن سمائے

میں نے کہیں کہا تھا کہ ’’بوٹے تے بولیاں، دونہاںنوں مٹی چاہی دی اے‘‘۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ زبان تہذیب کا اعلیٰ ترین مظہر ہوتی ہے۔ جب اس میں سلیقہ اور جمالیات شامل ہو تو اسے ادب کہتے ہیں۔ لوک ادب کا نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ اس میں دھیان بھی اور گیان بھی دھرتی سے پھوٹتے ہیں اور ان میں پایا جانے والا دھرتی کا رس محسوسات اور سماعتوں کو نہال کر جاتا ہے۔ رومان اور جمالیات لازم و ملزوم ہیں ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال ہے۔ ’’روپ سروپ‘‘ میں یہی رومانی جمالیات کارفرما ہے۔ اس باب میں مشتاق عاجز کی پیکر تراشی کی صلاحیتیں عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا عمیق مطالعہ، دقیق مشاہدہ، ملکۂ اظہار اور شاعرانہ اندازِ نظر، رومان پسند طبع اور فن کارانہ قوتِ تجزیہ اس کے طبع زاد دوہوں کو لوک شاعری بنا دیتے ہیں۔ یہاں اس کے دوہوں کی خاص بات نرمی، حسن، زبان و اسلوب اور مرقع نگاری کی دھنک ہے۔ سارے دوہے یہاں نقل کرنا ممکن نہیں کچھ بے شست نمونے دیکھئے۔

ہونٹ گلابی، نین شرابی اور نشیلی چال

امبر ڈول نہ جائے گوری اپنا آپ سنبھال

نرم کومل چنچل گوری جیوں پارا بے چین

چین چرائے چنچل چتون، نیند اڑائیں نین

مدھ کا بھر کٹورا جوبن چھلک چھلک ترسائے

ترس ترس مر جائیں پیاسے ہائے رے یہ اَنیائے

سر پر دھر کر گاگر گوری مٹک مٹک لہرائے

لچک لچک بل کھائے کمریا بھومی گھومی جائے

حسن اور عشق کا رشتہ بھی کیا عجیب رشتہ ہے۔ شعری روایت میں حسن کو بے پروا اور عشق کو سراپا لگن کہا جاتا ہے۔ بے داد کے سارے الزامات بھی حسن کو دے دئے جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ عشق کا مرجع و مقصود اگر حسن ہے تو حسن کا مرجع و مقصود کیا ہے؟ حسن ایسا بے پروا بھی نہیں ہو سکتا، نہیں تو وہ حسن ہوتا ہی نہیں۔ اس کا حسن ہونا بھی تو آخر کسی کے لئے ہے نا! کہ کوئی اس کو چاہے، اس کے لئے تڑپے، اس تک پہنچنے کے جتن کرے۔ یعنی حسن کو مطلوب ہونے کی طلب ہے تو اس کا تقاضا کس سے ہے؟ عشق سے، نا! گویا حسن خود بھی تو عشق کا طالب ہے؛ گویا حسن طالب بھی ہے اور مطلوب بھی جب کہ عشق طلب ہی طلب ہے؟ اس سوال کا جواب اگلے باب میں تلاش کریں گے، یہاں حسن کے کچھ اور زاویے دیکھتے چلئے۔

روپ نگر کی راج کماری کرے دلوں پر راج

راجے راج کُنْور سب بھولے راج سبھا کے کاج

سینے سے جب آنچل ڈھلکے غنچے آنکھ چرائیں

کھلتا جوبن دیکھ کے کلیاں گھونگھٹ میں شرمائیں

مہکی مہکی آنچ بدن کی دہکی دہکی آگ

بہکی بہکی بانی کا سر چھیڑے دیپک راگ

رومانی روایت میں محبوبی عام طور پر تانیث کے حصے میں آئی ہے۔ اور محبوب کو کبھی ہیر کا سراپا دیا جاتا ہے تو کبھی سوہنی کا، کبھی شیریں کا تو کبھی سسی کا، اور کبھی درخانئے کا۔ ان کے لئے جہاں کوئی رانجھا بے چینیوں کے سر بکھراتا ہے تو کہیں کوئی مہینوال اپنے ماس سے بنی سوغات لاتا ہے۔ کہیں فرہاد پتھروں کا سینہ چیرتا ہے تو کہیں پنوں اسیری کاٹتا ہے اور کہیں آدم خان پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ برصغیر میں تانیث عاشقی سے بھی سرفراز ہے۔ جو گی جنگل جنگل پھرتا ہے اور جوگن اس کے لئے ترس تڑپ رہی ہوتی ہے۔ صوفیا نے بھی رومانی روایت میں تانیثی لہجہ اختیار کیا اور محبوب کو تذکیر میں رکھا ہے۔ فراق کی کیفیات اور نازک احساسات کے اظہار کو جو رنگ جہاں بھا جائے اور محبوب کی توجہ چاہے۔ برہا کی تپش دونوں طرف کارفرما ہوتی ہے۔ محبوبِ حقیقی کا بھی تو کہا جاتا ہے کہ جب اس نے چاہا کہ مجھے کوئی اپنے طور پر پہچاننے کی کوشش کرے تو اس نے کائنات تخلیق کی اور انسان کو بنایا۔ صمد تو وہ ایک ذات ہے، سارے تو صمد نہیں ہو سکتے؛ عاشق بھی تڑپتا ہے اور معشوق بھی۔ ’’برہن بین‘‘ کے باب میں ایسی کیفیات اور تپش کا اظہار کرنے میں مشتاق عاجز کے الفاظ بھی تپنے اور تڑپنے لگتے ہیں، اور ان کی کاٹ قاری کے محسوسات پر حاوی ہو جاتی ہے۔

بن میں کویل شور مچائے من میں ناچے مور

تن میں ساون آگ لگائے، آن ملو چت چور

چوڑی کی چھنکار سجے نہ پایل کی جھنکار

چھن چھن چھُن چھُن سن کر لاگے تن من تیز کٹار

نسائیت کی وہ ساری رنگینیاں جو روپ سروپ میں قاری کو گدگداتی ہیں، برہن بین میں نسائی جذبات کا مہجور مہجور اور شرمایا سا اظہار اور حیا کی رنگینیاں اس کو اور بھی نکھار دیتی ہیں۔ آم پر بور لگنے کی رومانویت کے رنگ ہی سارے اپنے ہیں! شوخ و شنگ بھی، نرم و نازک بھی، گدگدی کرتے ہوئے بھی اور کچھ نئے نئے احساسات سے رو شناس کراتے ہوئے بھی۔ توجہ فرمائیے گا کہ اس سے زیادہ کھل کر بات کرنے میں بات کا حسن زائل ہوتا ہے۔

ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور

جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور

نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ

چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ

سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید

چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید

بچھڑی ہوئی روحوں کی سی یہ کر لاٹ اور ملن کی منہ زور آشا خوش ذوق قارئین پر محسوسات کے ان دیکھے آفاق کے در وا کر رہی ہے۔ مشتاق عاجز کے دھڑکتے ہوئے الفاظ ان بچھڑی ہوئی روحوں کی ساری بے چینیاں نہ صرف اپنے اندر سمو لیتے ہیں، بلکہ اپنے قاری کو بھی انہی بے ترتیب دھڑکنوں سے شناسا کر جاتے ہیں۔

اس عالمگیر موضوع کے تسلسل میں قاری پریم پنتھ کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور اُن تمام کیفیات سے دوچار ہوتا ہے جن میں تپش بھی ہے اور لگن بھی۔ مشتاق عاجز کا فن یہاں بلندی اور گہرائی ہر دو کو احاطہ کرتا ہے۔ ’’صوفلسفی‘‘ مزاج کا حامل شاعر یہاں جدائی کی ٹیس خود بھی محسوس کرتا ہے اور اپنے قاری کو بھی محسوس کراتا ہے۔ پروفیسر انور مسعود کا یہ قول میں پتہ نہیں کتنے مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے اور آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ مشتاق عاجز کے دوہوں کے تناظر میں پروفیسر صاحب کی اس تتلی کے اڑتے کھلتے سمٹتے رنگوں کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس پر مستزاد اس کی منحنی اڑان ہے جو وارداتِ قلبی کی طرح کسی بھی لمحے کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ چند دوہے نقل کر رہا ہوں ان میں اس تتلی کی کیفیات بھی مترشح ہیں اور ان کا نفسیاتی تجزیہ بھی از خود شاملِ کلام ہے۔

جن اکھین سے نیر نہ ٹپکے وہ اکھین ویران

منوا دکھ سے خالی ہے تو جیون ہے شمشان

جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ

من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ

برہا کی آگ کا تاپ دو طرفہ ہوتا ہے اور اس کا اثر ایک سا بھی ہو سکتا ہے، مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ پر ہو جیسا بھی سکھ چین کو جلا ڈالتا ہے۔ آگہی کی اس منزل پر جذبہ صادق ہو تو ملن ہو نہ ہو وہ کندن بن جاتا ہے، نہیں تو راکھ رہ جاتی ہے اور اس کا ہونا نہ ہونا برابر۔

آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے

کوئی کندن کوئی غبار ہوا

مشتاق عاجز کا بیان اور اس کی چاشنی ملاحظہ کیجئے۔

پریم اگن میں جل کر کندن ہو جائے جو نار

اس کے تن سے چھو جائے تو نار بنے گلزار

اس کے ہاں جو جل ساگر سے اٹھتا ہے، میگھا اور برکھا کا روپ دھار کے بھومی پر آن پڑتا ہے اور ماٹی میں مل جاتا ہے۔ تب کہیں وہ پھر اسی ساگر سے جا ملتا ہے، وہ کتنی کٹھنائیوں سے لڑتا بھڑتا ہے تب کہیں اس پر سنجوگ کا سمے آتا ہے۔ اس کٹھنائی کا ایک روپ یہ بھی ہے۔

ساغر سب کی پیاس بجھائے خود پیاسا رہ جائے

دھرتی پر جو بادل برسے اپنا آپ مٹائے

بجوگ کے سارے روگ تو کوئی کیا گِنوائے گا! کوئی ایک دو چار دس تو ہوتے نہیں۔ محب کی ہستی اپنے جگہ گویا روگ بن جاتی ہے۔ اور وہ اندر ہی اندر ایسی آگ میں جلتا رہتا ہے جس کا دھواں بھی باہر نہیں نکلتا، نکلے بھی تو وہی جل، کبھی بادل، کبھی ٹھنڈی آہیں اور کبھی آنسو، کبھی جگنو تو کبھی تارے۔

ساون کی من بھاون بیلا بدرا گھر گھر آئے

شیتل شیتل پون جھکورا من کا چین چرائے

ساون بھادوں برسے برکھا نت برسیں میرے نین

جب سے پی پردیس سدھارے آٹھ پہر کی رین

آٹھ پہر کی رات میں بیان کیا گیا کرب اور خود فراموشی برہا کی ایسی نادیدہ کیفیت ہے جسے بیان کرنے کی کوشش میں بات تارے گننے سے بھی آگے نکل جاتی ہے کہ تارے آنکھوں سے گرنے لگتے ہیں۔

تارے آنکھ مچولی کھیلیں یاد تہاری آئے

پورن ماشی چندا چمکے من میں آگ لگائے

ایسی گھور تاریکی میں اس منہ اور آرزو کو اور کیوں کر بیان کیجئے گا کہ۔

دیکھ تو موری اور منوہر میں بھی تو منہار

چھلک رہا مورا جوبن چھیلا، دہک رہا انگار

طلب صادق ہو تو رائے گاں نہیں جاتی۔ چاہے لاکھوں قیامتوں، کروڑوں عمروں کے بعد آئے وصل کا مرحلہ آ ہی جاتا ہے۔ سنجوگ مشتاق عاجز کے ہاں ایک بہت وسیع علامت ہے جس کا پھیلاؤ انسان سے انسان تک اور پھر انسان سے بھگوان تک ہے۔ یہاں آ کر لفظ پی کے معانی یکسر بدل بھی سکتے ہیں۔ بات توفیق کی ہے، اور نصیب کی جسے جو مل جائے۔ جس نے محبوب کو پا لیا وہ فنا فی المحبوب ٹھہرا اور جو نہیں پا سکا وہ سرے سے معدوم ہو گیا۔ ہجر کے سارے آتشیں سفر اور مرحلے وصال کی لذت سے شناسا ہوتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور پھر چاروں اور بھی من کے اندر بھی بہار ہی بہار ہوتی ہے، پھول ہی پھول ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ پچھلا سارا سفر پھولوں کے سنگ ہوا ہے۔ محبوب اور محب یک جان ہو جاتے ہیں اور من و تو کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔

اَن آدی بے انت پیا کا تھاما میں نے ہاتھ

جگ جگ کا سنجوگ ہمارا جنم جنم کا ساتھ

میں پیتم میں، پیتم مجھ میں پیتم میری جان

میں ماٹی کی مورت لیکن مجھ میں بسے بھگوان

یہاں آ کر ہم مشتاق عاجز کے لہجے اور لفظیات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھتے ہیں۔ وہ جتنی شدتِ درد کے ساتھ بجوگ اور برہا کا حال کہتا ہے اس سے کہیں زیادہ مسرت کے ساتھ سنجوگ کے اندرونی اور بیرونی مناظر کی تخییل کرتا ہے۔ وہی بارش جو کبھی چھم چھم برستے نین کی تصویر ہوتی تھی، اس کی رم جھم میں پی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ راستے پھولوں سے لد جاتے ہیں، اور صدیوں کی کٹھنائیاں کہیں دور دھول میں کھو جاتی ہیں۔

پھولوں میں مہکار پیا کی اور اسی کے رنگ

گلشن گلشن گھوم رہی میں اپنے پیا کے سنگ

جب سے پی کی اور چلی میں کھلے ڈگر میں پھول

پھولوں میں من اٹکا جائے راہ نہ جاؤں بھول

خود سپردگی اور خود دہی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اپنی کوئی مرضی منشا بھی باقی نہیں رہتی، زندگی کا نام پیار ہو جاتا ہے اور پیار کا نام زندگی۔

پیتم کا جب نام جپوں تو منوا ہو آنند

پیت پیا کی جیون دھارا پیتم کی سوگند

منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو

جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو

کٹھ پتلی اور ڈوری کا ہے جنم جنم کا ساتھ

جیسا چاہے ناچ نچائے ڈوری والا ہاتھ

مطالعے کا پہلا دور تکمیل پذیر ہوا، ابھی سیکھنے کی اور بہت باتیں باقی ہیں۔ مشتاق عاجز کے طبع زاد دوہوں کے اس مجموعے کا نام بجائے خود بہت اہم ہے۔ ’’سمپورن‘‘ سات کے سات راگوں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔ یہ فقیر راگ رنگ سے ویسا شناسا ہوتا تو اور بات تھی، راگ سے اپنا علمی تعلق رہا ہی نہیں رنگ سے البتہ کچھ کچھ علاقہ رہا ہے۔ دھنک کے سات رنگ، زندگی کی رنگا رنگی کی علامت ہیں۔ سائنس والے کہتے ہیں کہ یہ سات رنگ ایک دوجے میں جذب ہو رہے ہوں تو چاندنی بن جاتی ہے۔ سفید دودھیا چاندنی، زندگی کی پہنائیوں کا استعارہ، نور اور پاکیزگی کی علامت اور اسی میں سارے رنگ پنہاں ہوتے ہیں؛ وہ بنیادی سات رنگ بھی اور ان کے جزوی ملاپ سے بننے والے ہزاروں لاکھوں رنگ اور جن کا شاید کوئی نام نہیں۔ سمپورن میں پنہاں اور عیاں چابک دستی کا کچھ مختصر بیان ہو جائے۔

مشتاق عاجز نے دھرتی سے، دھرتی کی رِیت سے جڑ کر شاعری کی ہے اور بھومی کی باس اور رس اس کے قاری کے ذہن و دل کو شانت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مٹی، لوبان، خوشبو، مہمان، سیوا، پنجرا، پنچھی، بالک، ریت، درد، تن، کٹیا، کچا کوٹھا، کنواری نار، پراتی، سندیس، پن، پاپ، گن، دھن، کانٹے، ساگر، بادل، دھاگا، نوکر چاکر، ناؤ، ریشم، مسجد، مندر، کتاب، بیل، پھل جھڑی، سدھ بدھ مدھ، ساون بھادوں، منگل، سچی بات، جھوٹی قسم، وچن، کلپنا، دیوالی، پنگھٹ، گاگر، جوبن، جھولا، انبوا، بور، سیندور، مانگ، چھن چھن، چھُن چھُن، آنگن؛ زندگی سے اتنا گہرا اور تفصیلی رابطہ شاعری میں ہو اور قاری نہال نہ ہو، مشکل بات ہے۔

مشتاق عاجز نے لفظوں کی بصری اور صوتی ساخت سے بھی فن آفرینی کا کام لیا ہے، اور تکرار کو ایسے حسین پیرائے میں لائے ہیں کہ شعر قاری کے اندر لہرئیے لیتا محسوس ہوتا ہے۔

جب سے ڈالا کان میں بالا، بالا من بے چین

تم بن مورا جیون سونا جیوں کاجل بن نین

رعایاتِ لفظی و معنوی کی بات اس لئے نہیں کروں گا کہ مجھے ایک بھی ایسا شعر دکھائی نہیں دیا جس میں اس حوالے سے کوئی جھول ہو۔ اس کی رعایات، علامتیں اور استعارے اپنی پوری معنوی اور حسیاتی قوت کے ساتھ اجاگر ہوتے ہیں۔ چند شعر پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، کتاب کا مطالعہ خود کر لیجئے گا۔

گھور اندھیرا دور سویرا جانا ہے اس پار

ناؤ پرانی گہرا پانی چھوٹ گئے پتوار

پھول کھلے ہرجائی بھنورا رس چوسے اڑ جائے

دیپ جلے تو پریم پتنگا اپنے پنکھ جلائے

سب کے سر پر چھاتا تانے دھوپ جلے چھتنار

سکھ بانٹے اور کشٹ اٹھائے پریمی اور اوتار

بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا

پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا

ترکیب سازی بہت احتیاط طلب امر ہوتا ہے۔ اس میں جہاں لفظی بازی گری کو اپنے کام میں لانا ہے وہاں یہ اہتمام بھی کرنا ہوتا ہے کہ لفظ خالی کٹورے ہی نہ رہ جائیں۔ مشتاق عاجز کی پختہ کاری کا ثمر ہمیں بہت بھرپور اور تازہ کار تراکیب کی صورت میں ملتا ہے: مایا موہ، سمپورن راگ، گھور گپھا، انتم پریتم، گن ونتی، کچی کٹیا، کچا کوٹھا، پن کی دمڑی، نِردھن دھنوان، بوڑھی وِدھوا، پرانی پاپن، دھیان دھارا، پن کی جوت جگانا، دیپ شکھا، باٹ نہارنا، لاگ لگن کی آگ، آٹھ پہر کی رین، بالا من، آشا دیپ، چڑیا جتنا پیٹ، گیان گیتا، گن دھارا؛ وغیرہ۔

ع: ’’ اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں‘‘ کے مصداق ایک دو جگہ پر میں ٹھٹکا ضرور ہوں۔ مجھے مشتاق عاجز کے لکھے پر اعتماد بھی ہے تاہم دل میں آئی بات فاضل شاعر کے قارئین و ناقدین کے حضور پیش کر دینے میں کوئی قباحت بھی نہیں پاتا۔

۔ 1۔ فٹ نوٹس میں کہیں ’’لالہ گولک رام‘‘ کی وضاحت بھی کر دیتے

۔ 2۔۔ یہ ایک دوہا مجھے چال میں کچھ الگ سا لگا:

اس بالی کے دانے سونا، دھوپ جلے جو بالی

اس بالی کی کیا ہریالی جو دانوں سے خالی

۔ 3۔ تکرارِ لفظی حسنِ فن بھی ہے اور ایک آنچ کی کمی رہ جائے تو ماٹی اکسیر نہیں بن پاتی۔

ماٹی کو اکسیر بنانا ہے پارکھ کا کام

پارکھ کے جب ہاتھ لگے تو ماٹی جم کا جام

تن ماٹی کا پنجرا جس میں پنچھی رہے اداس

دونْوں لگے تو توڑ کے پنجرا اُڑ جائے آکاس

تیرے من کے اندر مندر مسجد اور کنشت

اپنے من کا نرک جہنم کر لے سورگ بہشت

نیند بھری سب اکھیاں دیکھیں سپنوں کا سنسار

جو جاگیں پی درشن پائیں اور کریں دیدار

۔ 4۔ تکرار کی بہت خوب صورت مثالیں مطالعے میں پیش کر چکا ہوں، یہاں کچھ بہت بڑھیا مثالیں پیش کر دوں۔

ساگر سے بھر لائے گاگر بادل جل برسائے

جل ندیا میں ندیا آخر ساگر میں مل جائے

سر پر دھر کر گاگر گوری مٹک مٹک لہرائے

لچک لچک بل کھائے کمریا بھومی گھومی جائے

اور! اختتامِ کلام مشتاق عاجز کے اس دوہے پر جو نازکی کی بہت اعلیٰ مثال ہے۔

ماتھے بندیا آن سجاؤ مانگ بھرو سیندور

جھولا آن جھلاؤ متوا، امبوا لاگا بور

٭٭٭

 

 

 

 

 

۱۱؍ جون ۲۰۱۵ء

 

ہوا لے گئی مجھے

 

طارق اقبال بٹ کی ’’صدائے موسمِ گل‘‘ کے تعاقب میں

 

ہندوستان میں انگریز راج کا رسمی ہی سہی خاتمہ ہوتا ہے۔ کروڑوں اسلامیانِ ہند کے دلوں کی دھڑکنیں روح و بدن میں سنسنا اٹھتی ہیں، قافلوں کے قافلے آرزوؤں اور امنگوں کا زادِ سفر لئے اپنے کھیتوں، حویلیوں، کارخانوں کو تج کر سرزمینِ پاکستان کی طرف نکل پڑتے ہیں، یہ جانے سوچے بغیر کہ وہاں پہنچ کر جانے کیسے حالات پیش ہوں، کن لوگوں سے پالا پڑے۔ پاکستان کا مطلب کیا؛ لا الٰہ الا اللہ! یہی حدی ہے یہی بانگِ رحیلِ کارواں ہے اور نگاہوں میں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی روشنیاں ہزار رنگ دکھا رہی ہیں۔ یک بہ یک حدی آہ و بکا میں بدل جاتی ہے۔ عورتوں، بچوں، گائیوں، بھینسوں، بھیڑ بکریوں اور ان کے میمنوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ایک اور رنگ غالب آ جاتا ہے؛ لہو کا رنگ جو ان معصوموں کی کٹی پھٹی میتوں کو ہیبت ناک بنا دیتا ہے۔ آزادی کی لکیر لہو کی لکیر بن جاتی ہے۔ جہاں ننھے منے بچوں کی جانیں اور امت کی جوان بیٹیوں کی عصمتوں کے لاکھوں پھول وحشت و بربریت کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں؛ کلیوں کے رنگ اور نمایاں ہو جاتے ہیں اور خوشبوئیں حواس پر چھانے لگتی ہیں۔ لیل و نہار کے بنائے ہوئے اس خاروں بھرے چمن کا نظارہ کرنے اور کانٹوں کی چبھن روح تک محسوس کرنے والوں میں ایک شخص حاجی گلزار محمد بھی ہے۔ حاجی صاحب جموں سے چلے تو ایک بھرا پرا خاندان ان کے ہمراہ تھا۔ خونیں لکیر کو پاٹ کر سیالکوٹ پہنچے تو ان میں سے آدھے راہِ گلستان کی خاک کو رنگین کر گئے تھے۔ بارہ تیرہ برس کے زرد رُو لڑکے یعقوب کا دکھ اُس دکھ کے مقابلے میں شاید کچھ بھی نہیں جو حاجی گلزار محمد اپنے ساتھ لے کر سرزمینِ پاک پر اترے تھے۔ اس دھرتی پر اترنے کے بعد پہلا بڑا سانحہ حاجی صاحب کی ماں کا دھرتی ماں کی گود میں چھپ جانا تھا۔ بزرگ خاتون ایک ہجرت کا دکھ نہ سہہ پائیں اور ہمیشہ کے لئے ہجرت کر گئیں! دوسری ہجرت ان کی پہلوٹی کی ننھی سی معصوم بیٹی کی عالمِ بالا کی طرف ہجرت تھی۔

وقت کا تیز پہیہ کبھی رکا ہے بھلا! حاجی صاحب کو تلاشِ رزق کے لئے یکے بعد دیگرے کئی ہجرتیں کرنی پڑیں۔ وہ اپنے پیاروں کی یادوں کے سدا بہار لہو رنگ گلاب اور دھیرے دھیرے پگھلتی مومی شمعیں اٹھائے، پھرتے پھراتے روشنیوں کے شہر میں جا آباد ہوئے۔ یہ ۱۹۵۰ء میں جاتی سردیوں کے دن تھے جب حاجی گلزار محمد کے چمن میں بہاروں کا پہلا پھول کھلا۔ طارق اقبال بٹ کی آمد بجائے خود بادِ بہاری کا پیغام تھی جو پھولوں کے ڈھیر لئے ان کے تعاقب میں چلی آئی تھی۔ یہاں مجھے علامہ اقبال کی نظم ’’گل نخستیں‘‘ بے اختیار یاد آ گئی۔

ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم

بہار می رسد و من گل نخستینم

بہ آبجوی نگرم خویش را نظارہ کنم

باین بہانہ مگر روی دیگری بینم

بخامہ ای کہ خطِ زندگی رقم زدہ است

نوشتہ اند پیامی یہ برگِ رنگینم

دلم بہ دوش و نگاہم بہ عبرتِ امروز

شہیدِ جلوہِ فردا و تازہ آئینم

ز تیرہ خاک دمیدم قبای گل بستم

وگرنہ اخترِ وا ماندہ ایز پروینم

جیسا کہ طارق اقبال بٹ اپنے والد گرامی کے بارے میں خود بتاتے ہیں: ’’کتابیں پڑھنے کا انہیں بھی شوق تھا گو اس کے لئے انہیں بہت کم وقت میسر آتا۔ صبح سے شام تک اور اکثر رات میں بھی روزگار کے مسائل سے نبرد آزما رہتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان کے سرہانے کی میز پر دیوانِ غالب اکثر و بیشتر رکھا رہتا تھا‘‘۔ لفظ سے رشتہ بھی عجیب رشتہ ہے اور اس کا سفر عجیب تر! بہت سارے معلوم اور نامعلوم ٹیڑھے میڑھے راستوں کا یہ مسافر نہ جانے کہاں جا کر کس کے لہو میں شامل ہو جاتا ہے! یہ قلم تخلیق کرنے والے کی عطا ہے، جسے نواز دے۔

ایک سوال جس کے جواب میں طارق بٹ کی ساری جد و جہد کا مطمع کھل کر سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ آپ شعر کیوں کہتے ہیں؟ ہمارے دوست کا جواب بہت سیدھا ہے: ’’ہر وہ لفظ جو مجھ پر معانی کے نئے اسرار کھولتا ہے میرے لئے اسی طرح ہے جیسے ایک بچے کے لئے نیا کھلونا، جس سے کھیل کھیل کر جب اس کا جی بھر جاتا ہے تو اس کا تجسس اس کو اسے توڑ کر دیکھنے پر اکساتا ہے۔ اور جب توڑ کر دوبارہ نہ جوڑ پائے تو کسی شے کے کھو جانے کا مغموم احساس اور بڑوں کی ڈانٹ کا خوف دل میں لے کر اداس ہو جاتا ہے اور اگر توڑ کر دوبارہ جوڑ لے تو ایک فاتحانہ غرور سے سر اٹھا کر دیکھتا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا؟‘‘ اور یہ کہ ’’شعر میرے لئے تکمیلِ احساس و جذبات کا نام ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں: ’’کتاب اور خواب ہمیشہ میری تنہائیوں کے رفیق رہے ہیں۔ بچپن میں جنوں، پریوں، ڈاکو لٹیروں، شہزادوں اور شہزادیوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہوتیں اور ان جیسے چھوٹے چھوٹے کبھی خوش کن اور کبھی ڈراؤنے خواب۔ خواب میں آج بھی دیکھتا ہوں؛ امن و دوستی، صلح و آشتی، سماجی نا انصافی کے خاتمے اور انسانی برادری کی یک جہتی و خوش حالی کے، محبتوں اور پر خلوص رفاقتوں کے اور وطنِ عزیز پاکستان کی ترقی، امن، خوش حالی اور پائندگی کے۔ کتابیں آج بھی میری دوست اور دل دار ہیں‘‘۔

طارق اقبال بٹ کے لہو میں بسے لفظ کے اس رچاؤ کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ ’’ یادوں اور خوابوں کے درمیان‘‘ میں انہوں نے مختصر طور پر اپنے شعری سفر کا احوال لکھا ہے۔ میٹرک کے دوران لفظ جوڑا کرتے تھے جو اہتماماً ایک سے دوسری ڈائری میں منتقل ہوتے رہے۔ کالج میں ’’چند ایک مشاعروں‘‘ اور شبنم رومانی کے ’’حلقۂ اربابِ قلم‘‘ کی ’’چند نشستوں‘‘ کا ذکر انہوں نے کیا ہے۔ سعودی عرب کے قیام کے دوران ۱۹۹۱ء میں پہلی بار پاکستانی رائٹرز فورم (الخبر) سعودی عرب کے مشاعرے میں شریک ہوئے اور ’’پھر یہ سلسلہ چل نکلا‘‘۔ یہاں انہیں پروفیسر ذکاء صدیقی جیسا استاد میسر آ گیا، جن کے ذکر میں بٹ صاحب کا ایک ایک لفظ سراپا عجز و نیاز بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں: ’’رائٹرز فورم کی بدولت مجھے استاذیپروفیسر ذکاء صدیقی صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا جن کی ادب نوازی، علمی تبحر اور خلوص و محبت مجھ جیسے بے مایہ اور خارج از وزن شعر گو کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج میں اپنے پریشان خواب و خیال کے موتی سلکِ غزل میں کسی ڈھب سے پرونے کے قابل ہو سکا ہوں۔‘‘

یہاں ایک عجیب اتفاق سامنے آتا ہے۔ چالیس برس کی عمر تک انہوں نے جو کچھ بھی لکھا واضح طور پر کہیں منقول نہیں۔ شاید یہ وہی چلہ ہے جس کی جھلکیاں انسانی فطرت میں ہزار مقامات پر نظر آتی ہیں اور قدرت کے انعامات کے لئے بھی شاید چالیس برس کی عمر ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔

پروفیسر ذکاء صدیقی کا طویل اور تجزیاتی مضمون ’’آشنا صدا‘‘ (تحریر: سہ شنبہ ۲۷؍ مئی ۱۹۹۷ء) بھی کتاب میں شامل ہے۔ یہ ایک پیراگراف نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں، پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: ’’میری ان سے پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی تھی جہاں وہ سامع کی حیثیت سے آئے تھے۔ مشاعرے کے کچھ عرصے بعد ان کا ایک فیکس مجھے ملا۔ لکھا تھا: شعر گوئی کا مجھے بھی شوق ہے۔ چند شعر شعر ملاحظہ کیجئے اور بلا رو رعایت بتائیے کہ کیا اس مشغلے کو جاری رکھوں؟ وہ پہلی غزل (جو اس مجموعے میں شامل نہیں ہے) آج سے پانچ سال پہلے کی تھی۔‘‘ ازاں بعد پروفیسر صاحب نے طارق بٹ اور ان کے شعر کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اپنے شاگردِ رشید کی محنت، لگن، جاں فشانی، ذوق و شوق اور دل جمعی سے شعر کہنے کے اوصاف کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔

صنفِ غزل کے بارے میں پروفیسر صاحب کے الفاظ یاد رکھنے کے قابل ہیں: ’’غزل کی جان ایمائیت اور علامت ہے۔ نازک احساسات اور لطیف جذبات کی ترجمانی کے لئے الفاظ کی صناعی ہو یا رمز و علامت کی پرکاری، اس وقت تک بے قیمت ہیں جب تک شاعر مرصع سازی کا ہنر نہ جانتا ہو۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مرصع سازی کا تعلق زور زبردستی اور توڑ پھوڑ سے نہیں ہے۔ اگر علامات اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام ہیں تو خواہ وہ جدید ہوں (سایہ، لاش، دھوپ، زرد پتا) یا قدیم (بادہ و ساغر، شمع و پروانہ وغیرہ)، حشو و زوائد سے زیادہ اہم نہیں۔‘‘

زیرِ نظر مجموعۂ غزل ’’صدائے موسمِ گل‘‘ ستمبر ۱۹۹۷ء میں اشاعت پذیر ہوا، اور مجھے کوئی چودہ برس بعد ملا۔ چودہ برس اس لئے کہ میری ان سے شناسائی بہت بعد میں ہوئی تھی اور بالمشافہ ملاقات اور شرف اس کے بھی بہت بعد حاصل ہوا۔ اس بات کو بھی چار برس سے زیادہ بیت گئے۔ بارہا سوچا کہ اپنے مطالعے میں دوستوں کو شریک کروں مگر خود کو اس قابل نہ پا کر خاموش ہو رہا۔ آخرش میں نے ہمت کر ہی ڈالی او طارق بٹ صاحب سے کہا کہ ان دنوں کچھ جسارت آمادہ ہوں، اجازت مرحمت فرمائیے۔ اپنے مخصوص مربیانہ انداز میں بولے: ’’تم اس گھاس پھوس میں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’مجھے اس میں زعفران کی شاخوں کا سراغ ملا ہے، تلاش تو کروں گا ہی‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح بہت جان دار قہقہہ لگایا۔ گویا جسارت کی اجازت مل گئی!

میرے سامنے مشکل یہ بھی آن کھڑی ہوئی کہ کتاب کو شائع ہوئے اٹھارہ برس ہو گئے۔ اس پر کہاں کہاں کس کس نے کن کن پہلوؤں سے گفتگو کی ہو گی، مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ پروفیسر ذکاء صدیقی نے نہ صرف یہ کہ شعر، اس کی فنیات اور فکر کے عناصر اور طارق بٹ کی چابک دستی کا تفصیلی ذکر کر دیا ہے۔ بلکہ متداول تنقیدی رویوں کے حوالے سے بھی طارق بٹ کے شعر کو دیکھا ہے اور گراں قدر مشورے بھی دیے ہیں۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: ’’طارق کی آواز آج کے جدید تر شاعروں میں اپنی پہچان بنا کر رہے گی کیوں کہ یہ آواز نہ تو ایک چیخ ہے کہ سمع خراشی کرے، نہ اتنی مدھم ہو کہ سنائی ہی نہ دے۔ ان کا شعر جمالیاتی ہو یا فسلفیانہ، رومانی ہوں یا حقیقت پسندانہ، تجرباتی ہو یا عاشقانہ، اپنے قائم سر میں الگ سنائی دیتا ہے۔ مندر سپتک کی گہری اور رچی ہوئی، خود میں ڈوبی ہوئی، شائستہ اور کڑھی ہوئی یہ آواز سارے رسوں کے تمام امرت اور تمام زہر پی کر سچے سر میں ہماری سماعت تک پہنچا رہی ہے۔ یہ وہ صدا ہے جس سے ہمارے کان آشنا ہیں، جس نے تین سو سال پرانی ہوتے ہوئے بھی نئی حسیت اور نئے تجربے کے امکانات کو جمالیاتی اور کلاسیکی انداز میں بیان کرنے کی توفیق پائی ہے‘‘۔ انہوں نے طارق بٹ کو مشورہ دینے کے لئے نظیری کا کیسا بے نظیر شعر منتخب کیا ہے:

شکر لِلہّٰ در سَرَت از عشق است اندیشہ اے

اندک اندک مشقِ ایں سودا کن و دیوانہ باش

ظاہر ہے جو کچھ اتنے اچھے انداز میں بیان ہو چکا، اس پر میرا لکھا میرا اپنا قد کوئی ایک آدھ انچ بڑھا دے تو بڑھا دے، طارق بٹ کے قاری کو مکرر مطالعہ سے زیادہ شاید کچھ نہ دے سکے۔ بالکل حق بجانب ہو گا اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میاں! یہ چونسٹھ غزلوں اور دیگر مندرجات پر مشتمل یہ کتاب طارق بٹ کی پانچ یا چھ برس (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۷ء) کے دوران کی گئی شاعری کا انتخاب ہے اور تم ساڑھے تین دہائیاں گلا کر کل دو کم اسی غزلیں لا سکے ہو، اگر انتخاب کرتے تو کیا نکلتا! کتاب کو چھپے اٹھارہ برس بیت گئے اور تم تک پہنچے چار برس سے اوپر ہو چکے۔ کہنے والے تو اور بھی بہت کچھ کہہ چکے ہوں گے جو تمہارے علم میں نہیں۔ تو، تمہارے دماغ میں وہ کون سا کیڑا آن سمایا ہے جو تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا؟ در اصل مجھے اکسانے والی وہ غزل ہے جو ’’صدائے موسمِ گل‘‘ میں غزلوں کی فہرست کے آخر میں ہے۔

جس قدر دیوانے سے پتھر کھلے

اتنے ہی سربستہ راز اس پر کھلے

اعتبارِ ہستی نا اعتبار

یاں کسے ہے، ہاں مگر جس پر کھلے

واپسی کے سارے رستے بند ہیں

اے رفیقو! تم کہاں آ کر کھلے

یہ غزل مجھے ایک بار پھر جموں سے ہجرت کرتے قافلے میں لے گئی جو اپنے افراد کی جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دیتا اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف رواں تھا۔ مجھے یوں لگا کہ وہ سفر تو کسی طور تمام ہوا، مگر مجھ جیسے اور طارق بٹ جیسے عشق اندیش سروں کو جہاں ایک عجیب دکھ سے دو چار کر گیا؛ اپنی گمشدگی اور بے چہرگی کا دکھ، وہیں ایک لامتناہی سفر کی راہ بھی دکھا گیا؛ اپنی ذات کی تلاش، اپنے آپ کی تلاش۔ میں کون ہوں؟ مجھے جانا کہاں ہے؟ اور کیوں جانا ہے؟ میرے ساتھی کون ہیں؟ اور کیا وہ میرے ہم سفر بھی ہیں؟ ہماری کوئی منزل بھی ہے؟ یا ہمارا سفر بے سمت راستوں کا سفر ہے جس پر میں گھسٹتا جا رہا ہوں؟ وہ منزل کیا ہوئی جس کی طرف ہزاروں حاجی گلزار محمد رواں تھے؟

یہ پیش و پس ہے غبار کیسا، یہ دھُند کا ہے حصار کیسا

یہ کس طرف جا رہی ہیں راہیں، یہ منزلیں بے نشان کیوں ہیں

میں نے ان سوالوں کی تلاش میں اپنے اور طارق بٹ کے بیچ اشتراک کی تلاش میں موسمِ گل کی صدا کا تعاقب کیا ہے۔ قدم اٹھ گئے ہیں اب یہ صدا جدھر لے جائے! میرے ساتھ رہئے گا، ممکن ہے ہم اسی بہانے ایک دوسرے کو بھی شناخت کر لیں۔

یہیں لٹا تھا کبھی قافلہ بہاروں کا

یہیں سے ہو تو ہو پھر ابتدائے موسمِ گل

کرب اور امید کے امتزاج سے شروع ہونے والے سفر کی ابتدا جو اُس خونیں لکیر سے ہوئی تھی، وہ طارق بٹ کی ذات میں ایسی بے چینی اور بے قراری بھر گئی جس کا اظہار نہ ہو تو انسان کو اندر ہی اندر کھا جائے۔ فطرت جہاں غم و آلام کے تحفے عطا کرتی ہے وہاں ان سے نبرد آزما ہونے کے وسیلوں سے بھی نوازتی ہے۔ اظہار کی قوت انہیں وسائل میں سے ایک ہے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر امنگوں کی عمر ہوتی ہے، پختگی آنے سے پہلے کے اس دور کی بے تابیاں ہزاروں رنگ اختیار کرتی ہیں۔ تاہم جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی فطری ضرورت امنگوں پر غالب آ جاتی ہے اور جوں جوں انسان حالات کا ادراک کرتا جاتا ہے، عمل اور اظہار کے انداز بدلتے جاتے ہیں۔

وقت نے طارق بٹ کے لئے ایک بہت لمبا سفر تیار کر رکھا تھا۔ تیس برس کے عرصے پر محیط اس سفر کے متعدد پہلو ہیں۔ غمِ نانِ جویں تو سب کے ساتھ لگا ہے، طارق بٹ کے سامنے ایک اور سفر بھی تھا؛ اپنی ذات کی طرف سفر۔ قدرت نے ہمارے دوست کو اظہار کی جس قوت سے نوازا ہے اس کے نکھار اور تربیت کا سامان بھی کر دیا۔ یوں میرا اور بٹ صاحب کا سفر فاصلوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور میں بخوبی محسوس کر سکتا ہوں کہ قلبی اور فکری سطح پر نہ ہماری سمتوں میں کوئی نمایاں فرق ہے نہ زادِ راہ کے حوالے سے۔

چلو آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں

قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے

یادوں اور خوابوں کے درمیان جاری تلاش کے سلسلوں میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنا دکھ پوری انسانیت کا دکھ لگتا ہے اور کسی بھی دوسرے کا دکھ اپنے اوپر گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں شاعر ایک فرد نہیں رہ جاتا، اس کی اپنی حیثیت علامت اور استعارے کی ہو جاتی ہے۔ اس کے مشاہدات اور محسوسات اس پر ہر آن ایک نئی کیفیت آشکار کرتے ہیں اور بدلتی رتوں کی یہ حیرت اسے تماشائی ہی نہیں، کبھی کبھی تماشا بھی بنا دیتی ہے۔

گھر سے چلے تو ہم بھی بڑے کج کلاہ تھے

راہوں کے پیچ و تاب نے ہموار کر دیا

فسونِ آگہی طارق تمہیں پتھر بنا دے گا

تم اس کے توڑ کا بھی کوئی منتر سوچتے رہنا

ہم نے آواز دی بہت دل کو

جانے وہ کس سے تھا خطاب میں گم

دل میں کھلا تھا پیار کسی پھول کی طرح

مہکا جو میں تو ایک ہوا لے گئی مجھے

درونِ ذات کا سفر ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ خود اپنی یہ کیفیت رہی کہ رشتۂ جسم و جاں قائم رکھنے کی سعی میں فکر جامد ہو کر رہ گئی؛ اور یہ سوچنے کی ہمت ہی نہیں کہ آدمی ہے کیا۔ اس سفر کی منزلیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی خود فراموشی کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے اور کبھی کوئی ایسا خوف آن لیتا ہے جس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ اور کچھ واہمے بھی کہ ذرا رکے تو پھر جانئے پتھر کے ہو گئے۔ بہ این ہمہ کچھ نہ کچھ قوتیں ایسی ہوتی ضرور ہیں جو طارق بٹ جیسے پختہ پا مسافر کے قدموں کو رواں رکھتی ہیں۔ کچھ اظہاریے دیکھتے ہیں۔

تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں آؤ آؤ

اے بے کسی بتا، کہیں ان سے مفر بھی ہے؟

ہمیشہ اک نیا چہرہ لگائے ملتی ہے دنیا

اسے پہچاننا اور پھر نیا ڈر سوچتے رہنا

کچھ دور تک تو اس کی صدا لے گئی مجھے

پھر میرے من کی موج اڑا لے گئی مجھے

عجب جادو اثر آواز تھی وہ

کہ سنتے ہی وہیں پتھرا گیا میں

زادِ سفر کی ایک صورت تو وہ ہے کہ جتنی منازل سر کر لیں، وہ زادِ راہ بن گئیں۔ بٹ صاحب نے زندگی کی تین دہائیاں تپتے صحراؤں میں گزاری ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ نور اور نار کا مادہ ایک ہی ہوتا ہے۔ فرق اتنا سا ہے کہ اپنے اندر کے وحشی انسان کی تہذیب کرنی پڑتی ہے، اسے ’’عملوا الصٰلحات‘‘ سے شناسائی کرانی ہوتی ہے نہیں تو وہ ’’اسفل سافلین‘‘ کی کھائی میں جا گرے۔

اپنے اندر خود اک جنگل ہے ہر آدم زاد

کیسے کیسے وحشی جذبے پھرتے ہیں آزاد

راہ کی ایک اک ٹھوکر کھولے منزل کے اسرار

رستے کا ہر پتھر گویا ہوتا ہے استاد

جنوں بھی چالاک ہو جائے تو جانئے حدی کا کام کر گیا۔ دل کے قریں رہنے والوں کا ساتھ ایک اعلیٰ سرمایہ ہے، وہ دور بھی ہوں تو ان کا تصور جہاں جان افزائی کا کام کرتا ہے وہیں بے شجر صحرا کی ریگِ تپاں میں روح پرور ہوا کا جھونکا بھی بنتا ہے۔ تاہم ایک ہوک سی ضرور اٹھتی ہے کہ:

ترس نہ جائے سماعت کسی کے لہجے کو

جواب دیتے رہو آشنا صداؤں کا

خود میں ہی نہ کیوں پاؤں کی زنجیر ہلا دوں

تنہائی کے زنداں میں صدا کوئی نہیں ہے

یہ جو آوازیں ہیں پتھر کا بنا دیتی ہیں

گھر سے نکلے ہو تو پیچھے نہ پلٹ کر دیکھو

وہ تعلق جسے سید علی مطہر اشعر نے ’’تعلق خاطر‘‘ کا نام دیا ہے، انسان کا زندگی کی رعنائیوں کے ساتھ تعلق ہے۔ دلِ زندہ جہاں بھی ہو، اس کے رومان کے رشتے اس کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور جینے کا حوصلہ بخشتے ہیں۔ کسی کے خیال ہی سے تنہائی لو دے اٹھتی ہے، خمارِ زندہ دار کی کیفیات مختلف ہوا کرتی ہیں تاہم ایک دیدہ وران سے نکل کر بھی اپنے اندر نیا ولولہ پاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیات کا تذکرہ بٹ صاحب کے الفاظ میں ہو جائے۔

ہر خار زلیخائی پہ اترا ہے چمن کا

یاں تار بھی دامن میں بچا کوئی نہیں ہے

وہ میری ذات کی تنہائیوں سے واقف ہے

مرے خطوں سے وہ کیسے بہل گیا ہو گا

یاد اس کی مرے تعاقب میں

دیر تک آئی، دور تک آئی

یہی رشتے تو ہوتے ہیں جو ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، ہمیں اپنی اہمیت کا شعور بخشتے ہیں اور چشمِ بینا کو نئے مناظر اور نئی جہتوں میں جھانکنے پر اکساتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہی تعلقِ خاطر انسان کو زندہ رکھتا ہے، یہ نہ رہے تو ہم زندگی ہی سے بیزار ہو جائیں؛ تلاش وَلاش کی تو بات ہی زندگی سے مشروط ہے۔ حوادث صرف بیرونی ہی نہیں ہوتے اندرونی بھی ہوتے ہیں۔ وقت عظیم مرہم ہے تاہم کچھ محرومیوں کے زخم کبھی نہیں بھرتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گہرے گھاؤ بن جاتے ہیں۔ طارق بٹ کو ذکاء صدیقی جیسے شجرِ سایہ دار کی چھاؤں اور ’’اپنے اقبال احمد قمر‘‘ کی ہم قدمی بھی میسر رہی، اور بہت سارے حوادث بھی پیش آئے ہیں۔

کراچی کا دکھ اکیلے طارق بٹ کا دکھ نہیں ہے یا یوں کہئے کہ یہاں اقبال طارق کی ذات ایک فرد سے ایک شہر، شہر سے وطنِ عزیز اور وطن سے ملت تک پھیل جاتی ہے۔ یہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا اب بھی روشنیوں کا شہر ہے، مگر روشنی کی نوعیت بدل گئی ہے۔ انسان کے اندر بسے وحشی درندے نے نور کو نار میں بدل دیا ہے۔ ہمارا فاضل شاعر بھی اس پر ملول ہے بلکہ مجھ سے شاید کئی گنا زیادہ ملول ہے کہ اس کا رشتہ میرے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور صدمے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ ایسی کیفیت میں وہ چیخ اٹھتا ہے:

یا رب، ہو عطا اب تو کوئی اسم مجھے بھی

مقبول مرا حرفِ دعا کوئی نہیں ہے

ہم مقامِ آگہی کی جستجو میں تھے مگن

یہ نہ سوچا تھا کہ یوں تنہا کھڑے رہ جائیں گے

تاہم اس کا عزم اسے یہاں بھی مایوس نہیں ہونے دیتا، اس کی نگاہِ پر امید کی روشنی سمندر کی نسبت سے جوار بھاٹے کی طرح سکڑتی سمٹتی ہے مگر بجھتی نہیں؛ اور اسے بجا طور پر ادراک ہوتا ہے کہ:

تمام راہیں گلستاں کی بند ہوں جن پر

وہ خاک ہو کے جلو میں صبا کے چلتے ہیں

بتا رہی ہے جھجکتے پروں کی بست و کشاد

کہ اب شعورِ فضا بال و پر میں جاگا ہے

شعور اور اظہار؛ میرے نزدیک یہ دو الگ الگ مظاہر نہیں بلکہ یک جان ہیں۔ شعور پیدا ہوتا ہے تو پھر مقید نہیں رہ سکتا۔ نہاں خانۂ ذات میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل اور اپنے آپ سے معرکہ آرائی خود ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

اک اپنی ذات سے بس معرکہ نہ ہو درپیش

تو زندگی میں کوئی معرکہ نہیں دشوار

مرا سینہ ہی مجھ کو آئنہ ہو

مرا مقصود جامِ جم نہیں ہے

یادوں اور خوابوں کے درمیان سے شروع ہونے والا سفر جب ذات کی تلاش کا سفر بن جائے تو کبھی تکمیل پذیر نہیں ہوتا۔ یہ ہم ہیں کہ کسی ایک پڑاؤ کو منزل سمجھ بیٹھتے ہیں۔ تاہم نظر میں شعور بسا ہو تو یہ واہمہ جلد ہی رفع ہو جاتا ہے اور صاحبِ شعور راہرو اپنے خوابوں، ان کی پختہ اور نیم پختہ تعبیروں پر رنج و غم یا سرور و انبساط کا اظہار اس سلیقے سے کر جاتا ہے کہ اس کے محسوسات اس کے قاری کو اپنے محسوسات لگتے ہیں؛ تقریر کی یہ لذت کوئی معمولی بات بھی نہیں ہے۔ وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس کا قاری اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کی اپنی ذات کی طرح اس پر کھل رہا ہے۔

آنسوؤں میں دل کی بستی بہہ گئی

اک کھنڈر سی یاد باقی رہ گئی

کون آئے گا کسے فرصتِ غم خواری ہے

آج خود اپنی ہی بانہوں میں سمٹ کر دیکھو

جس قدر دیوانے سے پتھر کھلے

اتنے ہی سربستہ راز اس پر کھلے

واپسی کے سارے رستے بند ہیں

اے رفیقو! تم کہاں آ کر کھلے

عرفانِ ذات اتنی بڑی نعمت ہے کہ جسے خود اپنا پتہ چل گیا وہ کائنات کے اسرار پا گیا۔ یہ پتہ بھی تو ایک دم نہیں چل جاتا، ایسا لگتا ضرور ہے کہ میں خود کو جان گیا، لو اَب جان گیا! مگر جلد ہی یہ کھل جاتا ہے کہ وہ تو ایک پرتو ہے، بلکہ ایک نہیں کئی پرتو ہیں جیسے بہت سے مناظر ایک دوجے میں گڈمڈ ہو رہے ہوں۔ نظر ایک لمحے میں تین سو ساٹھ درجے کا چکر پورا کر لیتی ہے؛ ماضی، حال اور مستقبل کی لکیریں بھی جیسے مدھم پڑ جاتی ہیں۔ صاحبِ نظر خود کو زمانے سے آزاد بھی پاتا ہے اور لمحوں کی قید میں بھی دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر:

بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا

اب لوٹ کے جائیں گے تو گھر کیسا لگے گا

اک بار اس کو دیکھ کے اٹھی نہ پھر نگاہ

وہ حسن تھا کہ آپ ہی اپنا حجاب تھا

حاصل ایک ایسی لازوال کسک ہوتی ہے جو آنے والی مسافتوں میں زادِ راہ ہو گی۔ مسافر اپنے احوال کا حاصل اپنے سفرنامے میں رقم کر دیتا ہے کہ دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہو۔

دشتِ دل میں ڈھونڈتے ہو کیا سراغِ رفتگاں

جانے والے اپنے قدموں کے نشاں تک لے گئے

کچھ اداسی ہی سے مزاج ملا

اپنے جیسا کوئی ملا بھی نہیں

جب نہ کوئی مدعا باقی رہا

ایک کے بعد ایک، کتنے در کھلے

تب وہ ایک پکار جو سینے کے غار اور گلے کے تار سے اٹھتی ہے، لب بہ لب، حرف بہ حرف، ورق بہ ورق، نقطہ بہ نقطہ پھیلتی چلی جاتی ہے:

دار فریادی ہے اے اہلِ قلم سنتے ہو؟

ہاتھ کٹوا دیے شانوں پہ سروں کے ہوتے

یہاں کتنی ہی تازہ حیرتیں انتظار میں ہوتی ہیں۔ سفر جاری رہتا ہے اور بدلتی رتوں کا تسلسل ان نو بہ نو تحیرات کی آبیاری میں مصروف رہتا ہے۔ طارق بٹ کے دوسرے شعری مجموعے ’’بدلتی رتوں کی حیرت‘‘ (اشاعت: ۲۰۰۸ء) سے یہ دو شعر دیکھئے، اور مجھے اجازت دیجئے:

سفر ہی ختم ہوا اور نہ راستہ ٹھہرا

کہاں پہ تھی مری منزل کہاں میں آ ٹھہرا

عجیب وہم سا رہتا ہے ہر سفر میں مجھے

رواں ہوں جس پہ، مرا راستہ نہیں ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء

 

ماٹی میں رُوپا

 

جناب مشتاق عاجزؔ کے اردو گیتوں پر مشتمل "زندگی گیت ہے” کا مختصر مطالعہ

 

اپنا حال اُس گنجی والا ہے جس کے پاس نچوڑنے کو بھی کچھ نہیں۔ گیت کیا ہے، اور اس کو کیسا ہونا چاہئے؛ مجھے اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں تھا۔ ’’زندگی گیت ہے‘‘ کے مطالعے سے شہ پا کر لڑکپن کی یادیں پتہ نہیں کن کونوں کھدروں سے نکل کر ذہن کے پردے پر نقشے سے بنانے لگیں۔ زیادہ تر نقوش تو بہت دھندلے ہیں، تاہم کہیں کہیں کوئی صاف اور واضح نقش بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ اور مجھے گمان ہونے لگتا ہے کہ میں گیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہوں کہ گیت ہوتا کیا ہے۔

اس تفہیم میں بھی مشتاق عاجزؔ کا حصہ زیادہ ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو پڑھ کر، اور ان کے رنگ روپ، چال ڈھال، بول چال کے سارے نقشوں کو اپنی حد تک ترتیب دے کر گیت کے خدوخال کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو اس پورٹریٹ میں شریک کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ آپ عملی طور پر گیت کے تینوں بڑے شعبوں سے منسلک ہیں۔ اور مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں کہ گیت کا رُوپ ماٹی میں گھلی رُوپا سے نکھرتا ہے۔ میرا مطالعہ تو خیر کیا ہوتا، لڑکپن میں سنے لوک گیتوں اور طبع زاد گیتوں تک محدود رہا ہوں جو کبھی ریڈیو پر بجا کرتے تھے، یا کبھی گاؤں آ جانے والے گویوں سے سنے تھے۔ مثال کے طور پر: ۔

* اماں مورے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا

* شیام توری بنسی پکارے رادھا رام

* جھوٹ بولے کوا کاٹے، کالے کوے سے ڈریو

* آوو گے جب تم ساجنا، انگنا پھول کھلیں گے

* رینا بیتی جائے، سجنوا نہ آئے، ہائے رے منوا ہائے

* کہاں سے آیا رے بدرا، سجنی کی جُلفاں سے

* مہندی ہے رچنے والی

* لگن لاگی تو سے سجن، لاگی رے لاگی

* اگنیا سَونیا کی، برہن کے چت کو جلاوے

* مری پیاری بہنا، بنے گی دلہنیا

* راجا کی آئے گی بارات رے

* کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس

* چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نیناں ملائی کے

* بگیا میں آئی رے بہار، منوا کو سوگ لگا

* برسو ری، برسو ری، میگھا ری میگھا، برسو ری

اسے کیا نام دیجئے گا؟ ہلدی کی گنڈھی پر طبابت تو ہونے سے رہی، نیم حکیم والی بات ہے کہ وہ کسی اور کے لئے خطرۂ جان ہو نہ ہو، اپنے لئے ضرور ہے۔ بہ این ہمہ، گیت کے لئے جو بنیادی اوصاف سمجھ میں آ سکے، عرض کئے دیتا ہوں۔

۔ ۱۔ گیت سن کر یا پڑھ کر طبیعت کو کھُلنا اور کھِلنا چاہئے اور رواں ہونا چاہئے؛ چاہے ہونٹوں پر، چاہے آنکھوں سے؛ کہ گیت کا ناطہ سینے اور دل سے ہے۔ مزا جب ہے کہ دل کنپٹیوں میں دھڑکے، اشک سانسوں کو بھٹکا دیں اور لہو بجلی بن کر ہر رگِ جاں میں سنسنی دوڑا دے۔ گیت پڑھنے سے کہیں زیادہ گانے کی چیز ہے؛ اس کی لے، سر، تان، تال، چال، چھند، ماتروں کو ہر گیت کے انفرادی منظر نامے اور مزاج سے موافق اور اُس پر محیط ہونا چاہئے۔

۔ ۲۔ گیت کو اپنی دھرتی سے ایسے جڑا ہوا ہونا چاہئے کہ اس میں مٹی کی مہک بلکہ ذائقہ محسوس ہو سکے۔ گیت کی زبان میں مکھن کی سی ملائمت ہونی چاہئے؛ ثقالت نہیں۔ زبان عام لوگوں کی ہو، پر، عامیانہ نہ ہو۔ گیت کا موضوع کچھ بھی ہو، اس میں اسلوب رومانی ہو۔ بات دل سے نکل کر سیدھی دل میں اترے۔ گیت کے سنگھار میں ادب کی چاشنی غازے کی حیثیت رکھتی ہے۔

۔ ۳۔ گیت میں جذباتیت کا ہونا بہت لازم ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ گیت نام ہی جذبے کی ترسیل کا ہے، وہ نہ ہو تو گیت گیت نہیں رہتا، چاہے کتنی بڑی نظم بن جائے۔ گیت میں ادق فلسفے کی گنجائش نہیں۔ بات جتنی سامنے کی ہو اور سادگی سے بیان ہو، چاشنی بھی اسی قدر ہو گی۔ گیت میں اعلیٰ افکار کا ہونا اس کی قدر و قیمت کو بڑھاتا ضرور ہے؛ تاہم اس کی تاثیر مترتب افکار سے کہیں زیادہ بے ترتیب دھڑکنوں اور سنسناتی سانسوں سے وابستہ ہے۔

۔ ۴۔ گیت کے مضامین کہیں سے ڈھونڈھ کر نہیں لانے پڑتے۔ بلکہ روزمرہ سے لے کر خاص خاص اور بڑے مواقع تک ہر جگہ ہم پر گزرتے ہیں۔ مثلاً: سگائی، بیاہ شادی، ڈولی، بارات، رخصتی، عید شب برات، ہولی دیوالی کی رسمیں، بنسی، بین، ڈھولک؛ تاہم گیت اِن گنی چنی چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ اس میں بہادری، بزدلی، پہلوانی، شہ زوری، مردانگی، وجاہت اور سورمائی؛ نسوانیت، ناز و ادا، لوازماتِ حسن، جھانجھن، چوڑی، موسموں کی رعایت، سرسوں، ساون، جاڑے، گرمی، بادل، چندا، سورج، دھرتی، گرج چمک، پروا، جھکڑ، کے ساتھ ساتھ وراگ روگ، بجوگ، سنجوگ کی کیفیات اور ان کی منظر نگاری، مکالمہ، خود کلامی غرضے کہ سماج اور تہذیب سے جڑی ہر چیز (بڑی لمبی بلکہ کبھی مکمل نہ ہونے والی فہرست) شامل ہے۔ گیت کو معاشرتی روایات و اَقدار، اور ان سے جڑے محسوسات کی گہرائی اور گیرائی کا امین ہونا چاہئے۔

۔ ۵۔ عروض کے قواعد گیت پر لاگو نہیں ہوتے، چاہے اردو کا ہو چاہے پنجابی کا۔ چلئے اپنی سہولت کے لئے ایک گیت کی پوری عروضی ہیئت کو آہنگ کا نام دئے لیتے ہیں۔ طبع زاد اور لوک ورثہ دونوں طرح کے گیتوں کے آہنگ میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے، اتنا زیادہ کہ عروض کے قواعد اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی گیت کا آہنگ انفرادی بھی ہو سکتا ہے، نیا بھی اور پہلے سے موجود کسی گیت کے آہنگ پر بھی؛ تاہم جو بھی ہو گیت کو اپنی جگہ پر ایک اکائی اوراس کے ہر حصے (بند) کو آپس میں ہم آہنگ ہونا چاہئے۔

مزید کچھ اس لئے بھی نہیں کہہ سکوں گا کہ گائیکی اور موسیقی سننے اور لطف اٹھانے سے آگے کا مجھ میں دم نہیں ہے۔ مشتاق عاجزؔ کے ہاں اتنی توانائی ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ گیت کے منقولہ بالا تقاضوں کو نہ صرف یہ کہ بخوبی پورا کرتا ہے، بلکہ ان کو اپنے دام ہم رنگِ زمین اسلوب میں ڈھال لیتا ہے۔ تاثیر اتنی ہے کہ قاری تو قاری، خود مشتاق عاجزؔ اس کے سحر میں آ جاتا ہے۔

مجھے یہاں ’’سمپورن‘‘ کی بو، باس اور چاشنی تازہ محسوس ہو رہی ہے۔ دوہے لکھنے کا عمل اور دورانیہ جتنا بھی طویل یا مختصر رہا ہو، فاضل شاعر ایک عرصے تک خود اپنے رومانی اور محسوساتی تجربے اور تہذیبی رومان کے مطالعے میں مصروف رہا ہے۔ زیرِ نظر گیت مجھے اس طویل اور جان گسل مطالعے کا حاصل محسوس ہوتے ہیں۔ فاضل شاعر نے اپنے متعدد گیتوں کے اندر دوہے شامل کئے ہیں۔ اپنے ہی لکھے سے تحریک پانا اور اپنے تجربے کو ایک مختلف اظہار دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے نزدیک ہما شما کے بس کی بات نہیں، اس عمل کے لئے کوئی مشتاق عاجزؔ ہی درکار ہے، جسے اپنے لکھے کی سچائی، گہرائی اور گیرائی پر مکمل اعتماد ہو۔ ہوا غالباً یہ ہے کہ دوہے لکھنے کے طویل اور مسلسل عمل میں فاضل شاعر نے جہاں کہیں یہ محسوس کیا کہ ایک صورتِ حال کو دوہے کی دو سطروں میں لانا اظہار میں رکاوٹ بن سکتا ہے، یا یہاں گیت کا ایک متبادل آہنگ موزوں تر ہے؛ اس نے وہ آہنگ اختیار کر لیا۔ اس کے دو فائدے ہوئے: اول: اظہار میں رکاوٹ نے شاعر کی ذات میں گھٹن پیدا نہیں کی، بلکہ ایک خوبصورت اظہار سے نواز دیا۔ ع: رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور (غالب)۔ دوم: گیتکا چکنے چکنے پات والا ہونہار بروا زمین کو چیر کر اُس کے چہرے کا غازہ بن گیا۔ ع: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر (بھرتری ہری)۔ بہ الفاظِ دیگر: گیت کی اس سدا بہار کھیتی کی جڑوں سے کونپلوں تک دوہے کی سبز کھاد لہو بن کر رواں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۹؍ فروری ۲۰۱۸ء

 

دمِ زندگی رمِ زندگی

 

شہزاد عادلؔ کے ساتھ ایک منزل کا سفر

 

گزشتہ نصف صدی میں بہت اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے۔ ۱۹۷۱ء کے بعد سے تو زندگی کے ہر شعبے میں ایسی ہل چل بپا رہی ہے جو اس سے پہلے کہاں رہی ہو گی۔ اقتدار کے ایوانوں میں رد کا عنصر زیادہ رہا اور قبول کا کم؛ ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت والی بات بھی پوری نہیں ہوئی۔ پہلے سے بنی ہوئی عمارت کو مسمار کر کے اس کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر شروع ضرور ہوتی، مگر تکمیل پذیر کبھی نہ ہوئی۔ جمہوریت کی نیلم پری نے نئی طرز کی طوائف الملوکی کو جنم دیا۔ سیاست اور معیشت میں مستقل غیریقینی کیفیت نے خود غرضی اور مفاد پرستی کو ہوا دی۔

بیچ آئے تھے بازارِ الم میں مجھے پہلے

اور آج بنے میرے خریدار مرے یار

مری اولاد تشنہ مر رہی ہے

کسی کے پاس کیا پانی نہیں ہے

کل مصلحت کے بیج بوئے تھے مرے اجداد نے

اب کاٹنا ہیں مجھ کو عادلؔ عمر بھر مجبوریاں

ضروری ہے، فقیہِ شہر! ترکِ جامۂ خواہش

امیرِ شہر کو الحاد سے باہر نکلنا ہے

اخلاقی اقدار کی بے قدری میں تیزی آ گئی، خاندان کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ تعلیم میں علم کی جگہ معلومات نے لے لی۔ کردار سازی کا کام تو عرصہ قبل ترک ہو چکا تھا، ستم بالائے ستم کردار کُشی کی منہ زور آندھیاں چلنے لگیں۔ مشرق کی روشن روایات سے بے اعتنائی عجیب خوفناک صورت اختیار کر گئی۔ ایسے پر آشوب ادوار میں جب ایمانیات کی بنیادیں دھماکوں کی زد پر ہوں، فکری بے راہ روی کو روکنے کے لئے انہی بنیادوں کو مضبوط کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ احیاء کے کڑے کوس دانشِ مستعار کے بل پر نہیں پاٹے جا سکتے۔

ایک انسان کی ضرورت ہے

اک مسلمان کی ضرورت ہے

تجھ کو پانے کے لیے ربِّ جلیل!

تجھ پہ ایمان کی ضرورت ہے

یقین جن کا اندھیرا گمان کالی رات

وہی ہیں جن پہ ہوئی مہربان کالی رات

اُس طرف شہرِ وفا ہے تو اِدھر دشتِ انا

میں کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کدھر جانا تھا

شہزاد عادلؔ کا تعلق بھی اہلِ قلم کی اسی جماعت سے ہے جس کے شعور کی اولین تجسیم بیسویں صدی کے ربع آخر میں ہوتی ہے۔ دادا حضور امرت سر سے ہجرت کر کے جھنگ میں آباد ہوئے، والد گرامی لاہور میں ایک ذمہ دارانہ سرکاری ملازمت سے ۱۹۹۶ء میں ریٹائر ہوئے۔ شہزاد عادلؔ کی پیدائش (ستمبر ۱۹۶۱ء) ملتان میں ہوئی اور بچپن ہی میں شاہدرہ (لاہور) میں چلے آئے۔ عنفوانِ شباب میں روٹی کے تیز گرد پہیے نے ان کو حدید و حجر کی وادی (ٹیکسلا) میں لا ڈالا۔

میرے چہرے کی ان لکیروں میں

گردِ ایّام کے سوا کیا ہے

بسنے والوں کی مرضی ہے جس پر اپنا در کھولیں

میرے جیسے لوگ تو لاکھوں شہرِ ہنر تک آتے ہیں

شعر شہزاد عادل کے مزاج میں لڑکپن سے رچا بسا تھا ادبی اجلاسوں باضابطہ شرکت کا آغاز ۱۹۸۷ء میں دیارِ ادب ٹیکسلا سے ہوا تاہم اپنے کالج کے دنوں میں وہ شعر کہا کرتے تھے۔ شہرِ سنگ و آہن میں راقم کا اور شہزاد عادل کا ساتھ تین دہائیوں سے زیادہ پر محیط ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی نوشاد منصف بھی شاعر تھے، اور دمِ آخرین یہیں ٹیکسلا میں مقیم تھے۔ ادب زار کے سارے سفر کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، تاہم صدیق ثانیؔ اور طارق بصیر کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ ان سارے دوستوں کا رزق ایچ آئی ٹی سے جڑا تھا۔ حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا اور دیارِ ادب ٹیکسلا میں شہزاد عادلؔ اور طارق بصیرؔ کی ادبی اور انتظامی خدمات اور جد و جہد سے چشم پوشی کسی طور ممکن نہیں۔

کانٹوں کی سیج پر میٹھی نیند سونے کی صلاحیت یوں ہی حاصل نہیں ہو جاتی، انسان کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے اور ہر وار کو اپنے سینے پر سہنا پڑتا ہے۔ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے اپنی انا کا درست شعور و ادراک اور تحفظ ناگزیر ہوتا ہے۔ انسانوں کی معاشرتی نفسیات کا مطالعہ غیرنصابی اور اطلاقی سطح پر جا کر کرنا پڑتا ہے۔ اور مشکل ترین حالات میں اپنے لئے ایک با وقار لائحۂ عمل مرتب کر کے اس پر ثابت قدمی سے کاربند رہنا پڑتا ہے۔ رہگزارِ حیات میں میں تیز آندھیوں کے مخالف چلنا پڑتا ہے اور وہ بھی یوں کہ پارچے نہ کھلنے پائیں۔ مفادات اور تعلق داریوں کو اصولوں پر قربان کرنا پڑتا ہے۔

حصارِ جبر و استبداد سے باہر نکلنا ہے

ہمیں ہر حال میں افتاد سے باہر نکلنا ہے

تمہیں گر حلقۂ صیّاد سے باہر نکلنا ہے

فغان و نالہ و فریاد سے باہر نکلنا ہے

اگر کوئے ستم ایجاد سے باہر نکلنا ہے

تو ظلِّ مسندِ ارشاد سے باہر نکلنا ہے

اس سطح کا انسان کہیں بکھر جائے تو اپنے ساتھ کتنوں کو لے ڈوبے گا، کوئی نہیں کہہ سکتا، اس کا تو علاج بھی کوئی نہیں۔ اور اگر کامران و سرخ رو ہوتا ہے تو کتنے لوگوں کے لئے چراغِ راہ بنتا ہے اس کا بھی کوئی مول نہیں۔ شہزاد عادلؔ کا تعلق اس ’’خود تعمیری‘‘ طبقے سے ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا سفر صفر سے شروع کیا اور ایک طویل جد و جہد کے بعد معاشرے میں اعتبار کا مقام پایا۔

رہِ امکاں پہ چلتا جا رہا ہوں

ابھی تک میری منزل زندگی ہے

مٹائے گا ہمیں کیسے زمانہ

ہمارے خوں میں شامل زندگی ہے

میرے اس مشاہدے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ چلتا پھرتا کھاتا پیتا ہنستا بولتا شہزاد حمید ہے جو ایک اہم ادارے میں دوسرے درجے کے ملازم کی حیثیت سے شامل ہوا اور خالصتاً اپنی صلاحیتوں کے بل پر اس وقت ایک پورے شعبے کا ذمہ دار افسر ہے۔ وہ شہزاد حمید ہے جس کا ایک بھرا پرا کنبہ ہے جس کی محض کفالت نہیں درست سمت میں راہنمائی بھی اس کے کندھوں پر ہے۔ وہ اپنے اہل و عیال کا اتالیق بھی ہے اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے اس کے خاندان کے معاملات میں اس کا کردار ہے، جس میں اس کو بڑا بن کر رہنے کے لئے بڑے دل کی ضرورت ہے۔ ایک دیرینہ ساتھی کی حیثیت سے میں نے اس شہزاد حمید میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو مجھے اس سے بدگمان کر سکے۔

مری نس نس میں دھڑکن گونجتی ہے

پکارو اب مجھے عادلؔ نہیں، دل

دوسرا وہ شہزاد عادلؔ ہے جو شعر کہتا ہے، اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک شاعر ہونے کے ناطے اُسے کس کس کا کون کون سا حق ادا کرنا ہے، کون کون سا قرض چکانا ہے، اور اپنا ما فی ضمیر اپنے مخاطب، سامع اور قاری پر کیسے کھولنا ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور افتادِ طبع کے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیتا، اور اپنے قاری کو کسی ابہام سے بھی دو چار نہیں کرتا۔ یہاں ہمیں شہزاد حمید اور شہزاد عادلؔ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی فکر کی سچائی اس کے شب و روزِ حیات میں بھی ویسی ہی تب و تاب رکھتی ہے جیسی اس کے اشعار میں پائی جاتی ہے۔

مری میت بھی گھر کے صحن میں رکھی ہوئی تھی

مرے گھر پر ہجومِ دوستاں یونہی نہیں تھا

دلوں کی آگ باہر آ گئی تھی رفتہ رفتہ

ہمارا شہر عادلؔ بے اماں یونہی نہیں تھا

ایک دوست نے شاعر، شعر اور قاری کی مثلث کے حوالے سے ایک بہت عمدہ بات کہی؛ کہ ہر قاری کا اپنا ایک نکوٹین لیول ہوتا ہے، وہ اس سے کم پر سرور نہیں پاتا۔ اس پر یہ اضافہ کر لیجئے کہ ہر قاری کے ذوق اور شعور کی ایک سطح ہوتی ہے؛ وہ اس سطح سے بلند تر شعر کا کماحقہٗ ساتھ نہیں دے پاتا اور اس سے کم تر سطح پر اس کی تشفی نہیں ہوتی۔ شہزاد عادلؔ کے ہاں ہمیں بہ ہر دو لحاظ متنوع اشعار ملتے ہیں۔

فریبِ رنگ سے ختمِ خزاں نہیں ممکن

چمن تمام نہ مہکے اگر بہار آئے

ہم ایسے لوگ طلب کے قمار خانے میں

حیات بیچ کے جو کچھ ملا وہ ہار آئے

صفوں میں حدِ نگاہ تک مقتدی کھڑے ہیں

مگر ابھی تک امام ہے بے وضو ہمارا

یہ دعویٰ قبل از وقت ہو گا کہ شہزاد عادلؔ شعر پر استادانہ گرفت رکھتا ہے۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ وہ اپنا اسلوب تقریباً وضع کر چکا ہے۔ وہ شعر کے جملہ پہلوؤں کو اہمیت دیتا ہے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ زیرِ غور لاتا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں موجود، اس کے اولین شعری مجموعے ’’زندگی زندگی‘‘ میں اس کے آج کے شعر بھی شامل ہیں اور آج سے تیس برس پہلے کے بھی؛ اور اس نے انہیں کسی زمانی ترتیب میں نہیں بلکہ بے شست جمع کیا ہے۔ اس کو بھی ہر قاری اپنی اپنی نگاہ سے دیکھے گا؛ عین ممکن ہے کہ ایک قاری اسے اسلوبیاتی تنوع کا نام دے اور دوسرا اسے اتار چڑھاؤ سے تعبیر کرے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اس کا قاری اس کے ساتھ چلنے میں سہولت محسوس کرے گا۔

اے ہم سفرو! راہ میں یوں تھک کے نہ ٹھہرو

ہم لوگ ابھی شہرِ اماں تک نہیں پہنچے

لکھتا ہوں سانس سانس بڑی احتیاط سے

کب تک چلے نہ جانے یونہی امتحانِ زیست

فکری اور محسوساتی حوالے سے بھی اور زبان و بیان میں بھی اس کے ہاں ایک خاص انداز کی تازگی پائی جاتی ہے۔ زندگی کے تلخ و شیریں حقائق اور دورِ حاضر کے کثیر الجہات خلفشار کو بیان کرتے ہوئے بھی اس کے شعروں میں مسکان کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جسے سیدھے سبھاؤ بیان کرنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔

دفعتاً دل میں اجالا پھیلا

جل اٹھے خون کے ذرّوں کے چراغ

دل کی دیوارِ انا خوردہ پر

جگمگاتے رہے زخموں کے چراغ

انڈیل دے تُو مرے جام میں اِسے اک دن

ترا بدن بھی تو ساقی! سبو سے ملتا ہے

ہمارے چاروں طرف پھیلی دنیائے حقائق میں تلخیاں، مایوسیاں، خدشات، واہمے، امیدیں، حوصلے، جذبے، سانجھیں اور اکلاپے موجود ہیں؛ جنہیں خود تعمیری شخصیت کا حامل شخص بڑی وضاحت سے محسوس کرتا ہے۔ شہزاد عادلؔ نے ان کیفیات میں کسی طرح کی ملمع کاری کئے بغیر قاری کو شامل کیا ہے۔ اور لطف کی بات ہے کہ خیال اور مضمون کھردرا ہونے کے باوجود شہزاد عادلؔ کا شعر کھردرے پن کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں جمالیات اور ملائمت کم و بیش ہر سطح پر موجود ہے۔ وہ علامتوں، تشبیہوں، اشاروں، کنایوں، استعاروں کی اثر آفرینی سے بھی واقف ہے، اور شعر کو شعر بنانا جانتا ہے۔

شہر میں آنکھوں کے سوداگر کہاں سے آ گئے

بیچتے ہیں جو اندھیرے روشنی کے نام پر

ایک آئینہ ہے جس میں زندگی کا عکس ہے

لکھ دیا جو تُو نے عادل شاعری کے نام پر

شہزاد عادل بھاگتی، دوڑتی، سانس لیتی، دھڑکتی، سنسناتی زندگی کا شاعر ہے، جو کسی کو دم لینے کی مہلت نہیں دیتی۔ اس کے لہجے میں تلخی بھی ہے، شیرینی بھی ہے، شوخی بھی ہے، اداسی بھی ہے بالکل جیسے غزل میں ریزہ خیالی ہوتی ہے اور جیسے ایک جیتے جاگتے انسان کی طبیعت بہ یک وقت متفرق کیفیات سے دو چار ہوتی ہے مگر زندگی کی تیز رفتاری اسے کسی کیفیت میں جامد ہو جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کا یہ تحرک اس کے الفاظ کو قوتِ ناطقہ سے شناسا کر جاتا ہے۔

یہ رقابت کی کوئی تازہ روایت ہی نہ بن جائے

حسن تھا بام پہ جب چاند بھی پورا نکل آیا

پھر یوں ہوا کہ اُن کے دلوں سے نکل پڑا

جو یہ سمجھ رہے تھے درِ وا سے آؤں گا

کچھ لفظ تو ایسے مل جائیں جن لفظوں کا مفہوم نہ ہو

کچھ لفظوں کے مفہوم تلے اتنی گہرائی ٹھیک نہیں

شہزاد عادلؔ کو اپنی اقدار عزیز ہیں اور ان کی شکست و ریخت پر وہ رنجیدہ خاطر بھی ہوتا ہے۔ اسے روایت معاشرتی اور شعری دونوں سطحوں پر عزیز ہے اور وہ ان پر کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ ایک حساس لکھاری ہونے کے ناطے، اس کے لہجے میں احتجاج ہو یا سرخوشی کی جاذبیت، اس کے لفظوں کا وقار قائم رہتا ہے۔

ہم تو وابستہ ہو گئے اِن سے

اب ستاروں کی آزمائش ہے

ضبطِ گریہ کا حکم ہے اِن کو

بے قراروں کی آزمائش ہے

موسمِ زرد پھر طویل ہوا

پھر بہاروں کی آزمائش ہے

وہ گل و بلبل، لب و عارض، وصال و ہجر کے روایتی مضامین سے بھی بیزار نہیں ہے؛ تاہم یہ اہتمام ضرور کرتا ہے کہ لہو روتی آنکھوں کی سرخی کو تارکول کی کالی سڑک سے ہم کنار کر جائے۔ یوں وہ بہت سارے مقامات پر داخل اور خارج کو یک جان کرنے میں بھی کامیاب ٹھہرتا ہے۔ اس مجموعے میں اس کے کتنے ہی ایسے اشعار بلکہ پوری کی پوری غزلیں شامل ہیں جہاں ایسی ذو معنویت کارفرما ہے کہ قاری خود کو داخل اور خارج دونوں سطحوں پر پاتا ہے۔ اس کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں اس کا فن خاص انداز میں دمکتا دکھائی دیتا ہے؛ اور اس کا شعر چست لگتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہی چھوٹی بحروں میں کہنا اس کے اسلوب کا جوہر قرار پائے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی بحر میں شعر موزوں کرنا بہت ریاضت طلب کام ہے؛ اور یہ ریاضت اس کے شعر کو دو آتشہ بنا جاتی ہے۔

روشنی کے نگر چلے جائیں

وہ جنہیں تیرگی نہیں منظور

ایک ہی بار آزماتا ہوں

جا تری دوستی نہیں منظور

اُس نے دیکھا ہے کیسے مجھے

گم ہوں میں چشمِ حیران میں

وہ بتانے کی باتیں نہیں

جو صبا کہہ گئی کان میں

شہرِ امید کر چلے خالی

اب کے سب کارواں گئے خالی

۔۔ ساری غزل۔۔

کھنکتی چوڑیوں کو کیا ہوا ہے

چھنکتی جھانجنوں کو کیا ہوا ہے

یہ چڑیاں چہچہاتی کیوں نہیں ہیں

اور ان کے گھونسلوں کو کیا ہوا ہے

۔۔ ساری غزل۔۔

شہزاد عادلؔ کے ہاں دو علامتیں خاص طور پر بہت نمایاں ہیں: ساقی اور جنون، اور ان کے متعلقات؛ جو اپنے رسمی معانی کی بجائے زندگی کی محرک قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مشتے از خروارے کے طور پر یہ چند شعر ملاحظہ ہوں۔

بڑے دنوں سے دکھائی نہیں دیا ساقی!

وہ اک نشہ جو کبھی تیری چشمِ مست میں تھا

ذرا ساقی سے پیمانہ تو لانا

ہمیں کرنی ہے پیمائش غموں کی

دشت میں آ پڑے ہو عادل جی!

کیا ہوا بحرِ بے کنارِ خیال

کب ساتھ مرے شہر میں ہوتی نہیں وحشت

اتنا ہے کہ اب چاک گریباں نہیں ہوتا

کسی کو سونپ نہ دینا یہ خاک دیوانو!

چمن کبھی نہ ملیں گے گنوا کے ویرانے

حصارِ ذات سے نکلے تو یہ خبر نہ ہوئی

کہاں پہ ختم ہوئے تھے انا کے ویرانے

ہم ایسے اہلِ جنوں کا کمال ہے عادلؔ

کہ لائے شہر تلک ہم بڑھا کے ویرانے

ساقیا پھر بنامِ غزل

دے مجھے ایک جامِ غزل

مقتدی ہیں مرے فکر و فن

اور جنوں ہے امامِ غزل

شہزاد عادلؔ کا سب سے بڑا موضوع زندگی ہے۔ ’’زندگی زندگی‘‘ عنوان کی اس پوری کتاب میں زندگی معناً ہی نہیں لفظاً بھی بہت مذکور ہے اور کتنے ہی زاویوں سے مذکور ہے۔ اس کے جیتے جاگتے الفاظ رمِ زندگی کو رمِ آہو بنا دیتے ہیں، ان کی حدت اور بے چینی کی دھڑکن کنپٹیوں میں سنائی اور گالوں پر دکھائی دیتی ہے۔

تپش می کند زندہ تر زندگی را

تپش می دہد بال و پر زندگی را

خطر تاب و تواں را امتحان است

عیارِ ممکناتِ جسم و جان است

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب (۲۰۱۴ء، ۲۰۱۹ء اڈیشنز)  ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل