FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

موذی اور دوسرے مضامین

 

چراغ تلے سے انتخاب

 

 

مشتاق احمد یوسفی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

پہلا پتھر

 

پہلا پتھر مقدمہ نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پڑھا لکھا ہو۔ اسی لیے بڑے بڑے مصنف بھاری رقمیں دے کر اپنی کتابوں پر پروفیسروں اور پولیس سے مقدمے لکھواتے اور چلواتے ہیں۔ اورحسب منشا بد نامی کے ساتھ بری ہوتے ہیں۔ فاضل مقدمہ نگار کا ایک پیغمبرانہ فرض یہ بھی ہے کہ وہ دلائل و نظائرسے ثابت کر دے کہ اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل، ادب کا نقشہ مسدس حالی کے عرب جیسا تھا:

"ادب” جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا

جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا

اس میں شک نہیں کہ کوئی کتاب بغیر مقدمہ کے شہرت عام اور بقائے دوام حاصل نہیں کر سکتی۔ بلکہ بعض معرکۃ الآرا کتابیں تو سراسر مقدمے ہی کی چاٹ میں لکھی گئی ہیں۔ برنارڈ شا کے ڈرامے (جو در حقیقت اس کے مقدموں کے ضمیمے ہیں) اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اور دور کیوں جائیں۔ خود ہمارے ہاں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جو محض آخر میں دعا مانگنے کے لالچ میں نہ صرف یہ کہ پوری نماز پڑھ لیتے ہیں بلکہ عبادت میں خشوع و خضوع اور گلے میں رندھی رندھی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اپنی مالی مشکلات کو حاضر و ناظر جانتے ہیں۔ لیکن چند کتابیں ایسی بھی ہیں جو مقدمہ کو جنم دے کر خود دم توڑ دیتی ہیں۔  مثلاً ڈاکٹر جانسن کی ڈکشنری، جس کا مقدمہ باقی رہ گیا ہے۔ اور کچھ ایسے مصنف بھی گزرے ہیں جو مقدمہ لکھ کر قلم توڑ دیتے ہیں۔ اور اصل کتاب کی ہوا تک نہیں دیتے جیسے شعر و شاعری پر مولانا حالی کا بھرپور مقدمہ جس کے بعد کسی کو شعر و شاعری کی تاب و تمنا ہی نہ رہی۔ بقول مرزا عبد الودود بیگ، اس کتاب میں مقدمہ نکال دیا جائے تو صرف سرورق باقی رہ جاتا ہے۔

تاہم اپنا مقدمہ بقلم خود لکھنا کار ثواب ہے کہ اس طرح دوسرے جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں۔ دوسرافائدہ یہ کہ آدمی کتاب پڑھ کر قلم اٹھاتا ہے۔ ورنہ ہمارے نقاد عام طور پرکسی تحریر کو اس وقت تک غور سے نہیں پڑھتے جب تک انھیں اس پرسرقہ کا شبہ نہ ہو۔

پھر اس بہانے اپنے متعلق چند ایسے نجی سوالات کا دنداں شکن جواب دیا جا سکتا ہے جو ہمارے ہاں صرف چالان اور چہلم کے موقع پر پوچھے جاتے ہیں مثلاً: کیا تاریخ پیدائش وہی ہے جو میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں درج ہے؟ حلیہ کیا ہے؟ مرحوم نے اپنے "بینک بیلنس ” کے لیے کتنی بیویاں چھوڑی ہیں؟ بزرگ افغانستان کے راستے سے شجرہ نسب میں کب داخل ہوئے؟ نیز موصوف اپنے خاندان سے شرماتے ہیں یا خاندان ان سے شرماتا ہے؟ راوی نے کہیں آزاد کی طرح جوش عقیدت میں ممدوح کے جد امجد کے کانپتے ہوئے ہاتھ سے استرا چھین کر تلوار تو نہیں تھما دی؟

چنانچہ اس موقع سے جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مختصر سا خاکہ پیش کرتا ہوں: ”

نام:  سرورق پر ملاحظہ فرمائیے۔

خاندان:  سو پشت سے پیشہ آباء سپہ گری کے علاوہ سب کچھ رہا ہے۔

تاریخ پیدائش:  عمر کی اس منزل پر آ پہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔

اور یہ منزل بھی عجیب ہے۔ بقول صاحب "کشکول” ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں۔ فلاں کے بھانجے ہیں۔ اور اب یہ زمانہ آ گیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں! اور ابھی کیا گیا ہے۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔

پیشہ:  گو کہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اول آیا، لیکن اسکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ اورحساب میں فیل ہونے کو ایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی کی آسمانی دلیل سمجھتارہا۔

اب وہی ذریعہ معاش ہے! حساب کتاب میں اصولاً دو اور دو چار کا قائل ہوں، مگر تاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے دو اور دو کو پانچ کر لیتے ہیں۔

پہچان:  قد:  پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)

وزن:  اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں۔ عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔

جسامت:  یوں سانس روک لوں تو ۳۸ انچ کا بنیان بھی پہن سکتا ہوں۔ بڑے بڑے لڑکے کے جوتے کا نمبر ۷ ہے جو میرے بھی فٹ آتا ہے۔

حلیہ:  اپنے آپ پر پڑا ہوں۔

پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذاتہ قطعی نقص نہیں ہے۔ مگر بعض دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔

پسند:  غالب، ہاکس بے، بھنڈی۔

پھولوں میں، رنگ کے لحاظ سے، سفید گلاب اور خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرغوب ہے۔ میرا خیال ہے کہ سبر سبز تازہ تازہ اور کرارے کرنسی نوٹوں کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو مہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایا جائے تو گرہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے۔

پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب محض بربنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔  بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلا وجہ چڑتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ اور وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔

گانے سے بھی عشق ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو نہیں سنتا۔

چڑ:  جذباتی مرد، غیر جذباتی عورتیں، مٹھاس، شطرنج۔

مشاغل:  فوٹو گرافی، لکھنا پڑھنا۔

تصانیف:  چند تصویر بتاں، چند مضامین و خطوط۔

کیوں لکھتا ہوں:  ڈزریلی نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ جب میراجی عمدہ تحریر پڑھنے کو چاہتا ہے تو ایک کتاب لکھ ڈالتا ہوں۔ رہا یہ سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یا مزاحیہ یا اس سے بھی ایک قدم آگے۔  یعنی صرف مضامین، تو یہاں اتنا عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ وار ذرا اوچھا پڑے، یابس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنزسے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح۔

ہاتھ آئے تو بت، ہاتھ نہ آئے تو خدا ہے

اور یہاں یہ صورت ہو تو خام فن کار کے لیے طنز ایک مقدس جھنجلاہٹ کا اظہار بن کر رہ جاتا ہے اور چنانچہ ہر وہ لکھنے والا جو سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو دیکھتے ہی دماغی باوٹے میں مبتلا  اور کہلانے کا سزا وار سمجھتا ہے۔ لیکن سادہ و پرکار طنز ہے بڑی جان جوکھوں کا کام۔ بڑے بڑوں کے جی چھوٹ جاتے ہیں۔ اچھے طنز نگار تنے ہوئے رسے پر اترا اترا کر کرتب نہیں دکھاتے بلکہ

رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر

اور اگر ژاں پال سارترکی مانند”دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بیباک” ہو تو جنم جنم کی یہ جھنجلاہٹ آخر کار ہر بڑی چیز کو چھوٹی کر کے دکھانے کا ہنر بن جاتی ہے۔ لیکن یہی زہر غم جب رگ و پے میں سرایت کر کے لہو کو کچھ اور تیز و تند و توانا کر دے تو نس نس سے مزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں۔ عمل مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے۔ اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا، ہیرا بن جاتا ہے۔

مجھے احساس ہے کہ ننھے سے چراغ سے کوئی الاو بھڑک سکا اور نہ کوئی چتا دہکی۔

میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اپنی چاک دامنی پر جب اور جہاں ہنسنے کو جی چاہا ہنس دیا۔ اور اب اگر آپ کو بھی اس ہنسی میں شامل کر لیا تو اس کو اپنی خوش قسمتی تصور کروں گا۔ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ ہنسنے سے سفید بال کالے ہو جاتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ پھر اتنے برے نہیں معلوم ہوتے۔ بالفعل، اس سے بھی غرض نہیں کہ اس خندہ مکرّر سے میرے سوا کسی اور کی اصلاح بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ ہنسنے کی آزادی فی نفسہ تقریر کی آزادی سے کہیں زیادہ مقدم و مقدس ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو قوم اپنے آپ پر جی کھول کر ہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔

یقین کیجئے، اس سے اپنے علاوہ کسی اور کی اصلاح و فہمائش مقصود ہو تو رو سیاہ۔ کارلائل نے دوسروں کی اصلاح سے غلو رکھنے والوں کو بہت اچھی نصیحت کی تھی کہ "بڑا کام یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی اصلاح کر لے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیاسے کم از کم ایک بدمعاش تو کم ہوا۔” میری رائے میں (جو ضروری نہیں کہ ناقص ہی ہو) جس شخص کو پہلا پتھر پھینکتے وقت اپنا سر یاد نہیں رہتا، اسے دوسروں پر پتھر پھینکنے کا حق نہیں۔

مخدومی مکرمی جناب شاہد احمد دہلوی کا تہہ دل سے سپاس گزار ہوں کہ انھوں نے یہ مضامین، جو اس سے پہلے مختلف رسائل میں شائع ہو چکے تھے، پڑھوا کر بکمال توجہ سنے۔ اور نہ صرف اپنی گمبھیر چپ سے کمزور حصوں کی نشاندہی کی، بلکہ جو لطیفے بطور خاص پسند آئے ان پر گھر جا کر بہ نظر حوصلہ افزائی ہنسے بھی۔  اگراس کے باوجود وہ زبان و بیان کی لغزشوں سے پاک نہیں ہوئے (اشارہ مضامین کی طرف ہے) تو اس میں ان کا قصور نہیں۔ یوں بھی میں قبلہ شاہد احمد صاحب کی با وقارسنجیدگی کا اس درجہ احترام کرتا ہوں کہ جب وہ اپنا لطیفہ سنا چکتے ہیں تو احتراماً نہیں ہنستا۔ لیکن ایک دن یہ دیکھ کر میرا ایک مضمون پڑھ کے "الٹی ہنسی” (جس میں، بقول ان کے، آواز حلق سے باہر نکلنے کی بجائے الٹی اندر جاتی ہے) ہنس رہے ہیں، میں خوشی سے پھولا نہ سمایا۔

پوچھا: "دلچسپ ہے؟”

فرمایا: "جی! تذکیر و تانیث پرہنس رہا ہوں!”

پھر کہنے لگے: "حضرت! آپ پنگ پانگ کو مونث اور فٹ بال کو مذکر لکھتے ہیں!”

میں نے کھسیانے ہو کر جھٹ اپنی پنسل سے فٹ بال کو مونث اور پنگ پانگ کو مذکر بنا دیا تو منہ پھیر پھیر کر "سیدھی” ہنسی ہنسنے لگے۔

دوستوں کا حساب گو دل میں ہوتا ہے، لیکن رسماً بھی اپنی اہلیہ ادریس فاطمہ کا شکریہ ضروری ہے کہ

"خطا” شناس من است و منم زباں و دانش

ان مضامین میں جو غلطیاں آپ کو نظر آئیں، اور وہ جواب بھی نظر آ رہی ہیں، ان کا سہرا بالترتیب ان کے اور میرے سر ہے۔  اس سے پہلے وہ میرے مطبوعہ مضامین میں کتابت کی غلطیاں کچھ اس انداز سے نکالتی تھیں گویا لیتھو میں نے ہی ایجاد کیا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کتاب کو آفسیٹ پر چھپوانے میں مکتبہ جدید کی ترغیب و تحریص سے زیادہ ان کے طعن و تعریض کو دخل ہے۔  رخصت ہونے قبل مرزا عبد الودود بیگ کا تعارف کراتا جاؤں۔ یہ میرا ہمزاد ہے۔ دعا ہے خدا اس کی عمر و اقبال میں ترقی دے۔

کراچی

۵ فروری ۱۹۶۱ء مشتاق احمدیوسفی

پس لفظ:  ان مضامین اور خاکوں کو پڑھ کر اگر کوئی صاحب نہ مسکرائیں تو ان کے حق میں یہ فال نیک ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ خود مزاح نگار ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

موذی

 

مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے۔ لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگرٹ ہی کو لیجئے۔ ہمیں کسی کسی کے سگرٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگرٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔

مہینوں وہ یہ ذہین نشین کراتے رہے کہ سگرٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگرٹ شروع کر دی اوراس کے عادی ہو گئے تو انھوں نے چھوڑ دی۔ کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگرٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ در اصل پیدا ہی کثرت سگرٹ نوشی سے ہوئے تھے۔

ہمیں غور و فکر کی لت لگانے کے بعد انھوں نے آنا جانا موقوف کر دیا جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ واقعی تائب ہو گئے ہیں اور کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے بالخصوص سگرٹ پینے والوں سے۔ (انہی کا قول ہے کہ بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہر شخص کو معاف کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو) میں گیا بھی تو کھنچے کھنچے رہے اور چند دن بعد ایک مشترک دوست کے ذریعہ کہلوایا کہ "اگر میں نے بر بنائے مجبوری سگرٹ پینے کی قسم کھا لی تھی تو آپ سے اتنا بھی نہ ہوا کہ زبردستی پلا دیتے۔ میں ہوں مجبور مگر آپ تو مجبور نہیں”

سات مہینے تک سگرٹ اور سوسائٹی سے اجتناب کیا۔ لیکن خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ آخر ایک دن جب وہ وعظ سن کر خوش خوش گھر لوٹ رہے تھے تو انھیں بس میں ایک سگرٹ لائٹر پڑا مل گیا۔ چنانچہ پہلے ہی بس اسٹاپ پر اتر پڑے اور لپک کر گولڈ فلیک سگرٹ کا ڈبہ خریدا (ہمیں واقعہ پر قطعاً تعجب نہیں ہوا۔ اس لیے کہ گزشتہ کرسمس پر انھیں کہیں سے نائلون کے موزے چار آنے رعایت سے مل گئے تھے، جن کو "میچ” کرنے کے لیے انھیں ایک دوست سے قرض لے کر پورا سوٹ سلوانا پڑا) سگرٹ اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں میں دبا کر لائٹر جلانا چاہا تو معلوم ہوا کہ اندر کے تمام پرزے غائب ہیں۔ اب ماچس خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔

ہم نے اکثر یہی دیکھا کہ مرزا پیمبری لینے کو گئے اور آگ لے کر لوٹے!

اور دوسرے دن اچانک غریب خانے پر گاڑھے گاڑھے دھوئیں کے بادل چھا گئے، جن میں سے مرزا کا مسکراتا ہوا چہرہ رفتہ رفتہ طلوع ہوا۔ گلے شکوے تمام ہوئے تو نتھنوں سے دھواں خارج کرتے ہوئے بشارت دی کہ سگرٹ میرے لیے موجب نشاط نہیں، ذریعہ نجات ہے۔

اتنا کہہ کر انھوں نے چٹکی بجا کر اپنے نجات دہندہ کی راکھ جھاڑی اور قدرے تفصیل سے بتانے لگے کہ سگرٹ نہ پینے سے حافظے کا یہ حال ہو گیا کہ ایک رات پولیس نے بغیر بتی کے سائیکل چلاتے ہوئے پکڑ لیا تو اپنا صحیح نام اور ولدیت تک نہ بتا سکا، اور بفضلہ اب یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں آدھی ٹیلیفون ڈائرکٹری حفظ ہو گئی۔

مجھے لا جواب ہوتا دیکھ کر انھوں نے فاتحانہ اندازسے دوسری سگرٹ سلگائی۔ ماچس احتیاط سے بجھا کر ہونٹوں میں دبا لی اور سگرٹ ایس ٹرے میں پھینک دی۔

کبھی وہ اس خوشی میں سگرٹ پیتے ملیں گے آج رمی میں جیت کر اٹھے ہیں۔ اور کبھی (بلکہ اکثر و بیشتر) اس تقریب میں آج تو بالکل کھک ہو گئے۔ ان کادوسرا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے کہ سگرٹ سے غم غلط ہوتا ہے تو ان کے غموں کے مجموعی تعداد بہ شرح پچاس غم یومیہ، اٹھارہ ہزار سالانہ کے لگ بھگ ہو گی اور بعض غم تو اتنے ضدی ہوتے جا رہے ہیں کہ جب تک تین چار سگرٹوں کی دھونی نہ دی جائے تو ٹلنے کا نام نہیں لیتے۔ انھیں عبرت دلانے کے ارادے سے میں نے بادشاہ مطریدلطیس ششم کا قصہ سنایا۔ جو یوں ہے کہ جب اس کو ہمہ وقت یہ اندیشہ لاحق رہنے لگا کہ موقع پا کر کوئی بد خواہ اسے زہر کھلا دے گا تو اس نے خود ہی روزانہ تھوڑا تھوڑا زہر کھانا شروع کر دیا تاکہ خون اور قویٰ عادی ہو جائیں۔ اور وہ اس حفظ ما تقدم میں اس حد تک کامیاب ہوا کہ جب حالات سے مجبور ہو کراس نے واقعی خود کشی کرنے کی کوشش کی تو زہر بالکل بے اثر ثابت ہوا اوراس نے بمشکل تمام اپنے ایک غلام کو خنجر گھونپنے پر رضامند کیا۔

بولے "ناحق بچارے غلام کو گنہ گار کیا۔ اگر خود کشی ہی کرنا تھی تو زہر کھانا بند کر دیتا۔ چند ہی گھنٹوں میں تڑپ تڑپ کر مر جاتا۔”

لیکن جو احباب ان کی طبیعت کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے یہ غم ابدی اور آفاقی ہوتے ہیں جن کا سگرٹ تو درکنار حقے سے بھی علاج نہیں ہو سکتا۔ میں نے اکثر انھیں اس غم میں سگرٹ کے کش پر کش لگاتے دیکھا ہے کہ سوئی گیس کا ذخیرہ سو سال میں ختم ہو گیا تو ان کی اپنی ملازمت کا کیا ہو گا؟ یا ایک لاکھ سال بعد انسان کے سر پر بال نہ ہوں گے تو حجاموں اورسکھوں کا کیا حشر ہو گا؟ اور جب سورج پچاس ارب سال بعد بالکل ٹھنڈا پڑ جائے گا تو ہم گھپ اندھیرے میں صبح کا اخبار کیسے پڑھیں گے؟

ایک دفعہ تو سب کو یقین ہو گیا کہ مرزا نے واقعی سگرٹ چھوڑ دی۔ اس لیے کے مفت کی بھی نہیں پیتے تھے اور ایک ایک سے کہتے پھرتے تھے کہ اب بھولے سے بھی سگرٹ کا خیال نہیں آتا۔ بلکہ روزانہ خواب میں بھی سگرٹ بجھی ہوئی ہی نظر آتی ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ اب کی دفعہ کیوں چھوڑی؟

ہوا میں پھونک سے فرضی دھوئیں کے مرغولے بناتے ہوئے بولے "یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ جو روپیہ سگرٹ میں پھونک رہا ہوں، اس سے اپنی زندگی کا بیمہ کرایا جا سکتا ہے۔ کسی بیوہ کی مدد ہو سکتی ہے۔”

"مرزا! بیمے میں چنداں مضائقہ نہیں۔ لیکن جب تک نام پتہ معلوم نہ ہو، یہ بیوہ والی بات میری سمجھ نہیں آئے گی۔”

"پھریوں سمجھ لو کہ بیمے سے اپنی ہی بیوہ کی امداد ہو سکتی ہے۔ لیکن مذاق برطرف، سگرٹ چھوڑنے میں ہے بڑی بچت! جو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جب بھی پینے کی خواہش ہو، یہ فرض کر لو کہ پی لی۔ اس طرح ہر بار تمھارا ڈیڑھ آنہ بچ جائے گا۔”

میں نے دیکھا کہ اس فارمولے سے مرزا نے بارہا ایک دن میں دس دس پندرہ پندرہ روپے بچائے۔ ایک روز دس روپے کی بچت دکھا کہ انھوں نے مجھ سے پانچ روپے ادھار مانگے تو میں نے کہا "غضب ہے! دن میں دس روپے بچانے کے باوجود مجھ سے پانچ روپے قرض مانگ رہے ہو؟ ”

کہنے لگے "اگر یہ نہ بچاتا تو اس وقت تمھیں پندرہ دینے پڑتے۔”

مجھے اس صورت حال میں سرا سر اپنا ہی فائدہ نظر آیا۔ لہٰذا جب بھی پانچ روپے قرض دئیے، یہ سمجھ کر دیئے کہ الٹا مجھے دس روپے کا نقد منافع ہو رہا ہے۔ مرزا کے متواتر تعاون کی بدولت میں نے اس طرح دو سال کی قلیل مدت میں ان سے چھ سو روپے کما لیے۔

پھر ایک سہانی صبح کو دیکھا کہ مرزا دائیں بائیں دھوئیں کی کلیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں نے کہا "ہائیں مرزا! یہ کیا بد پرہیزی ہے؟ ” جواب دیا "جن دنوں سگرٹ پیتا تھا کسی اللہ کے بندے نے الٹ کر نہ پوچھا کہ میاں کیوں پیتے ہو؟ لیکن جس دن سے چھوڑی، جسے دیکھو یہی پوچھتا ہے کہ خیر تو ہے کیوں چھوڑ دی؟ بالآخر زچ ہو کر میں نے پھر شروع کر دی! بھلا یہ بھی کوئی منطق ہے کہ قتل عمد کے محرکات سمجھنے کے لیے آپ مجرموں سے ذرا نہیں پوچھتے کہ تم لوگ قتل کیوں کرتے ہو؟ اور ہر راہ گیر کو روک روک کر پوچھتے ہیں کہ سچ بتاؤ تم قتل کیوں نہیں کرتے؟ ”

میں نے سمجھایا "مرزا! اب پیمانے بدل گئے۔ مثال کے طور پر ڈاڑھی کوہی لو۔”

الجھ پڑے "ڈاڑھی کا قتل سے کیا تعلق؟ ”

"بندۂ خدا! پوری بات تو سنی ہوتی۔ میں کہہ رہا تھا کہ اگلے زمانے میں کوئی شخص ڈاڑھی نہیں رکھتا تھا تو لوگ پوچھتے تھے کیوں نہیں رکھتے؟ لیکن اب کوئی ڈاڑھی رکھتا ہے تو سب پوچھتے ہیں کیوں رکھتے ہو؟ ”

ان کا دعویٰ کہ نکوٹین ان کے خون میں اس حد تک حل ہو گئی ہے کہ ہر صبح پلنگ کی چادر جھاڑتے ہیں تو سینکڑوں کھٹمل گرتے ہیں۔ یقیناً یہ نکوٹین ہی کے اثرسے کیفر کردار کو پہنچتے ہوں گے۔ ورنہ اول تو یہ ناسمجھ جنس اتنی کثیر تعداد میں متحد ہو کر خود کشی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دوم، آج تک سوائے انسان کے کسی ذی روح نے اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر خود کشی نہیں کی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ مرزا اپنے خون کو خراب ثابت کرنے میں کچھ مبالغہ کرتے ہوں۔ لیکن اتنا تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ سگرٹ کے دھوئیں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ صاف ہواسے کھانسی اٹھنے لگتی ہے۔ اور اگر دو تین دن تک سگرٹ نہ ملے تو گلے میں خراش ہو جاتی ہے۔

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا (اور ہم نے مرزا سے بہت پہلے ہوش سنبھالا)مرزا کے منہ میں سگرٹ ہی دیکھی۔ ایک مرتبہ ہم نے سوال کیا کہ تمھیں یہ شوق کس نے لگایا تو انھوں نے لطیفے داغنے شروع کر دیے۔

"اللہ بخشے والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ بچوں کو سگرٹ نہیں پینا چاہیے۔ اس سے آگ لگنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم پیتے رہے۔ عرصے تک گھر والوں کو یہی غلط فہمی رہی کہ ہم محض بزرگوں کو چڑانے کے لیے سگرٹ پیتے ہیں۔ ”

"مگر میں نے پوچھا تھا کہ یہ چسکاکس نے لگایا؟ ”

"میں نے سگرٹ پینا اپنے بڑے بھائی سے سیکھا جب کہ ان کی عمر چار سال تھی۔ ”

"اس رفتارسے انھیں اب تک قبر میں ہونا چاہیے۔”

"وہ وہیں ہیں! ”

اس کے باوجود مرزا کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وہ عادتاً سگرٹ پیتے ہیں۔ یہ مسئلہ جب بھی زیر بحث آیا، انھوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ سگرٹ کسی گمبھیر فلسفے کے احترام میں یا محض خلق خدا کے فائدے کے لیے پی رہے ہیں۔

طوعاً و کرہاً کوئی تین برس ادھر کی بات ہے کہ شدہ شدہ مجھ تک یہ خبر پہنچی کہ مرزا پھر تائب ہو گئے اور کامل چھتیس گھنٹے سے ایک سگرٹ نہیں پی۔ بھاگم بھاگ مبارک باد دینے پہنچا تو نقشہ ہی اور پایا۔ دیکھا کہ تہنیت گزاروں کا ایک غول رات سے ان کے ہاں فروکش ہے۔ خاطر مدارات ہو رہی ہے۔ مرزا انھیں سگرٹ پلا رہے ہیں اور وہ مرزا کو۔ مرزا ماچس کی ڈبیا پر ہر ایک فقرے کے بعد دو انگلیوں سے تال دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:

"بحمد للہ! (تال) میں جوا نہیں کھیلتا (تال) شراب نہیں پیتا (تال) تماش بینی نہیں کرتا (تال) اب سگرٹ بھی نہ پیوں تو بڑا کفران نعمت ہو گا” (تین تال)

میں نے کہا "لاحول و لاقوۃ! پھر یہ علت لگا لی؟ ”

مجمع کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر فرمایا "یارو! تم گواہ رہنا کہ اب کی بار فقط اپنی اصلاح کی خاطر توبہ توڑی ہے۔ بات یہ ہے کہ آدمی کوئی چھوٹی موٹی علت پال لے تو بہت سی بڑی علتوں سے بچا رہتا ہے۔ یہ کمزوریاں (MINOR VICES) انسان کو گناہ کبیرہ سے باز رکھتی ہیں۔ اور یاد رکھو کہ دانا وہی ہے جو ذرا محنت کر کے اپنے ذات میں کوئی ایسا نمایاں عیب پیدا کر لے جو اس کے اصل عیبوں کو ڈھانپ لے۔”

"اپنے پلے کچھ نہیں پڑ رہا۔”

اپنے ستارعیوب کا پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے "یہ پیو گے توخودبخودسمجھ میں آ جائے گا۔ اس فلسفے میں قطعی کوئی ایچ پیچ نہیں۔ تم نے دیکھا ہو گا۔ اگر کوئی شخص خوش قسمتی سے گنجا، لنگڑا یا کانا ہے تواس کا یہ سطحی عیب لوگوں کواس قدر متوجہ کر لیتا ہے کہ اس کے عیبوں کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ مثال میں جولیس سیزر، تیمور لنگ اور رنجیت سنگھ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ویسے کسی سو فیصدی پارسا آدمی سے مل کر کسی کا جی خوش نہیں ہوتا تم جانتے ہو کہ میں آوارہ و اوباش نہیں، فاسق و فاجر نہیں، ہرجائی اور چرچگ نہیں۔ لیکن آج بھی (یہاں مرزا نے بہت سا لذیذ دھواں چھوڑا)۔ لیکن آج بھی کسی خوب صورت عورت کے متعلق یہ سنتا ہوں کہ کہ وہ پارسابھی ہے تو نہ جانے کیوں دل بیٹھ سا جاتا ہے۔”

"مرزا! سگرٹ سبھی پیتے ہیں مگر تم اس انداز سے پیتے ہو گویا بد چلنی کر رہے ہو! ”

"کسی اچھے بھلے کام کو عیب سمجھ کر کیا جائے تواس میں لذت پیدا ہو جاتی ہے۔ یورپ اس گر کو ابھی نہیں سمجھ پایا۔ وہاں شراب نوشی عیب نہیں۔ اسی لیے اس میں وہ لطف نہیں آتا۔”

"مگر شراب تو واقعی بری چیز ہے! البتہ سگرٹ پینا بری بات نہیں۔”

"صاحب! چار سگرٹ پہلے یہی بات میں نے ان لوگوں سے کہی تھی۔ بہر کیف میں یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ سگرٹ پینا گناہ صغیرہ ہے۔ مگر غصہ مجھے ان سادہ لوح حضرات پر آتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سگرٹ نہ پینا ثواب کا کام ہے۔ مانا کہ جھوٹ بولنا اور چوری کرنا بری بات ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ان کو ہر بار سچ بولنے اور چوری نہ کرنے پر طلائی تمغہ دے گی۔”

پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ مرزا تمام دن لگا تار سگرٹ پیتے مگر ماچس صرف صبح جلاتے تھے۔ شمار یاد نہیں۔ لیکن ان کا اپنا بیان ہے آج کل ایک دن میں بیس فٹ سگرٹ پی جاتا ہوں اور وہ بھی اس شکل میں کہ سگرٹ عموماً اًس وقت تک نہیں پھینکتے، جب تک انسانی کھال جلنے کی چراند نہ آنے لگے۔ آخر ایک دن مجھے سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا مرزا! آخر کیا ٹھانی ہے؟

میری آنکھوں میں دھواں چھوڑتے ہوئے بولے "کیا کروں۔ یہ موذی نہیں مانتا۔”

مرزا اپنے نفس امارہ کو (جس کا محل وقوع ان کے نزدیک گردن کے جنوب مغربی علاقے میں ہے) اکثر اسی نام سے یاد کرتے، چمکارتے اور للکارتے ہیں۔

میں نے کہا "فرائڈ کے نظریہ کے مطابق سگرٹ پینا ایک رجعتی اور بچکانہ حرکت ہے۔ جنسی لحاظ سے نا آسودہ افراد سگرٹ کے سرے کو غیر شعوری طور پر NIPPLEکا نعم البدل سمجھتے ہیں۔”

"مگر فرائڈ تو انسانی دماغ کو ناف کا ہی کا ضمیمہ سمجھتا ہے! ”

"گولی مارو فرائڈ کو! بندہ خدا! اپنے آپ پر رحم نہیں آتا تو کم از کم اس چھوٹی سی بیمہ کمپنی پرترس کھاؤ جس کی پالیسی تم نے لی ہے۔ نئی نئی کمپنی ہے۔ تمھاری موت کی تاب نہیں لا سکتی۔ فوراً دیوالے میں چلی جائے گی۔”

"آدمی اگر قبل از وقت نہ مرسکے تو بیمے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔”

"مرزا! بات کو مذاق میں نہ اڑاؤ۔ اپنی صحت کا دیکھو۔ پڑھے لکھے آدمی ہو۔ اخبار اور رسالے کی برائی میں رنگے پڑے ہیں۔”

"میں خود سگرٹ اورسرطان کے بارے میں اتنا کچھ پڑھ چکا ہوں کہ اب مطالعہ سے نفرت ہو گئی! "انھوں نے چٹکلہ دہرایا۔

اس مد میں بچت کی جو مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرزا سارے دن مانگ تانگ کر سگرٹ پیتے ہیں۔ (ماچس وہ اصولاً اپنی ہی استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماچس مانگنا بڑی بے عزتی کی بات ہے۔ آڑے وقت میں رسید لکھ کرکسی سے سو دو سو روپے لینے میں سبکی نہیں ہوتی۔ لیکن رسید کا ٹکٹ بھی اسی سے مانگنا شان قراض داری کے خلاف ہے) دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے مارکہ کہ سگرٹوں پر اتر آتے ہیں جن کو وہ پیکٹ کی بجائے سگرٹ کیس میں رکھنا اور الٹی طرف سے جلانا ضروری خیال کرتے ہیں۔

لیکن نو دس ماہ پیشتر جب موذی اس طرح بھی باز نہ آیا تو مرزا نے تیسرا اور آخری حربہ استعمال کیا۔ یعنی سگار پینا شروع کر دیا جو ان کے ہاتھ میں چھڑی اور منہ میں نفیری معلوم ہوتا تھا۔ پینے، بلکہ نہ پینے، کا انداز یہ تھا کہ ڈرتے ڈرتے دو تین اوپری کش لے کر احتیاط سے بجھا دیتے اور ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد اوسان درست ہونے پر پھر جلا لیتے تھے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس طریقہ استعمال سے طلب بھی مٹ جاتی ہے اور سگار کی عمر بڑھ جاتی ہے سو الگ۔ (یہاں اتنا اور عرض کر دوں تو نا مناسب نہ ہو گا کہ انھوں نے اپنی جوانی کو بھی اسی طرح سینت سینت کر رکھنا چاہا، اس لیے قبل از وقت بوڑھے ہو گئے)۔ چنانچہ ایک ہی سگار کو دن بھر”آف” اور "آن” کرتے رہتے۔ پھر چراغ جلے اسی کو ٹیکتے ہوئے کافی ہاوس پہنچ جاتے۔ خلق خدا ان کو غائبانہ کیا کہتی ہے، اس پر انھوں نے کبھی غور نہیں کیا۔ لیکن ایک دن دھواں منہ کا منہ میں رہ گیا، جب انھیں اچانک یہ پتہ چلا کہ ان کا جلتا بجھتا سگار اب ایک طبقاتی علامت (سمبل) بن چکا ہے۔ ہوا یہ کہ کافی ہاؤس کے ایک نیم تاریک گوشے میں آغا عبد العلیم جام منہ لٹکائے بیٹھے تھے۔ مرزا کہیں پوچھ بیٹھے کہ آغا آج بجھے بجھے سے کیوں ہو؟ آغا نے اپنی خیریت اور دیگر احوال سے یوں آگاہی بخشی:

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے سگار مفلس کا

ایک ایسی ہی اداس شام کی بات ہے۔ مرزا کافی ہاوس میں موذی سے بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے اور سگار کے یوں کش لگا رہے تھے گویا کسی راکشس کا دم نکال رہے ہیں۔ میں نے دل بڑھانے کو کہا "تم نے بہت اچھا کیا کہ سگرٹ کا خرچ کم دیا۔ روپے کی قوت خرید دن بدن گھٹ رہی ہے۔ دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ خرچ کم کرو اور بچاؤ زیادہ۔”

سگار کو سپیرے کی پونگی کی مانند دھونکتے ہوئے بولے "میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ آج کل ایک آنے میں ایک سالم سگرٹ مل جاتی ہے۔ دس سال بعد آدھی ملے گی! ”

میں نے بات آگے بڑھائی۔ لیکن ہم یہی ایک آنہ آج پس انداز کر لیں تو دس سال بعد معہ سود دو آنے ہو جائیں گے۔”

"اور اس دونی سے ہم ایک سالم سگرٹ خرید سکیں گے جو آج صرف ایک آنے میں مل جاتی ہے! ”

جملہ مکمل کرتے ہی مرزا نے اپنا جلتا ہوا عصا زمین پر دے مارا۔ چند لمحوں بعد جب دھوئیں کے بادل چھٹے تو مرزا کے اشارے پر ایک بیرا پلیٹ میں سگرٹ لیے نمودار ہوا اور مرزا ایک آنے میں دو آنے کا مزہ لوٹنے لگے۔

پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ کسی نے مرزا کو پٹی پڑھا دی کہ سگرٹ ترک کرنا چاہتے ہو تو حقہ شروع کر دو۔ ان کے لیے یہ ہومیوپیتھک مشورہ کچھ ایسا نیا بھی نہ تھا۔ کیوں کہ ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ چھوٹا مرض دور کرنے کے لیے کوئی بڑا مرض کھڑا کر دو۔ چنانچہ مریض نزلے کی شکایت کرے تو دوا اسے نمونیہ کے اسباب پیدا کر دو۔ پھر مریض نزلے کی شکایت نہیں کرے گا۔ ہومیوپیتھی کی کرے گا!

بہرحال، مرزا نے حقہ شروع کر دیا۔ اور وہ بھی اس اہتمام سے کہ گھنٹوں پہلے پیتل سے منڈھی ہوئی چلم اور نقشین فرشی، لیمو اور کپڑے سے اتنی رگڑی جاتی کہ جگر جگر کرنے لگتی۔ نیچہ عرق گلاب سے تر کیا جاتا۔ نے پر موتیا کے ہار لپیٹے جاتے۔ مہنال کیوڑے میں بسائی جاتی۔ ایک حقہ بھی قضا ہو جاتا تو ہفتوں اس کا افسوس کرتے رہتے۔ بندھا ہوا معمول تھا کہ پینے سے پہلے چار پانچ منٹ تک قوام کی تعریف کرتے اور پینے کے بعد گھنٹوں "ڈیٹول” سے کلیاں کرتے۔ اکثر دیکھا کہ حقہ پیتے جاتے اور کھانستے جاتے اور کھانسی کے مختصر وقفے میں سگرٹ کی برائی کرتے جاتے۔ فرماتے تھے کہ "کسی دانا نے سگرٹ کی کیا خوب تعریف کی ہے۔ ایک ایسا سلگنے والا بدبو دار مادہ جس کے ایک سرے پر آگ اور دوسرے پر احمق ہوتا ہے۔ لیکن مشرقی پیچوان میں اس امر کا خاص لحاظ رکھا جاتا ہے کہ کم سے کم جگہ گھیر کر تمباکو کو زیادہ سے زیادہ فاصلے پر کر دیا جائے۔”

میں نے کہا "یہ سب درست! مگر اس کا پینا اور پلانا درد سر یہ بھی تو ہے اس سے بہتر تو پائپ رہے گا۔ تند بھی ہے اور سستا کا سستا۔”

چلم کے انگاروں کو دہکاتے ہوئے بولے "بھائی! اس کو بھی آزما چکا ہوں تمھیں شاید معلوم نہیں کہ پائپ میں تمباکو سے زیادہ ماچس کا خرچ بیٹھتا ہے ورنہ یہ بات ہر گز نہ کہتے۔ دو ماہ قبل ایک انگلش پائپ خرید لایا تھا۔ پہلے ہی روز نہار منہ ایک گھونٹ لیا تو پیٹ میں ایک غیبی گھونسا سا لگا۔ آنکھ میچ کے دو چار گھونٹ اور لیے تو باقاعدہ باکسنگ ہونے لگی۔ اب اس پائپ سے بچیاں اپنی گڑیوں کی شادی میں شہنائی بجاتی ہیں۔”

٭٭٭

 

 

 

 

جنون لطیفہ

 

بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن، جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخی کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں، اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر، صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے:

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بد ذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے۔ لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سوبرس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔ ایک دن ہم نے اپنے دوست مرزا عبد الودود بیگ سے شکایتاً کہا کہ اب وہ خانساماں جو ستر قسم کے پلاؤ پکا سکتے تھے، من حیث الجماعت رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ جواب میں انھوں نے بالکل الٹی بات کہی۔

کہنے لگے "خانساماں وانساماں غائب نہیں ہو رہے، بلکہ غائب ہو رہا ہے، وہ ستر قسم کے پلاؤ کھانے والا طبقہ جو بٹلر اور خانساماں رکھتا تھا اور اڑد کی دال بھی ڈنر جیکٹ پہن کر کھاتا تھا۔ اب اس وضعدار طبقے کے افراد باورچی نوکر رکھنے کے بجائے نکاح ثانی کر لیتے ہیں۔ اس لیے کہ گیا گزرا باورچی بھی روٹی کپڑا اور تنخواہ مانگتا ہے۔ جبکہ منکوحہ فقط روٹی کپڑے پرہی راضی ہو جاتی ہے۔ بلکہ اکثر و بیشتر کھانے اور پکانے کے برتن بھی ساتھ لاتی ہے۔”

مرزا اکثر کہتے ہیں کہ خود کام کرنا بہت آسان ہے مگر دوسروں سے کام لینا نہایت دشوار۔ بالکل اسی طرح جیسے خود مرنے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن دوسروں کو مرنے پر آمادہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ معمولی سپاہی اور جرنیل میں یہی فرق ہے۔ اب اسے ہماری سخت گیری کہیے یا نا اہلی یا کچھ اور کوئی خانساماں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ٹکتا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہنڈیا اگر شبراتی نے چڑھائی تو بگھار رمضانی نے دیا اور دال بلاقی خاں نے بانٹی۔ ممکن ہے مذکور الصدر حضرات اپنی صفائی میں یہ کہیں کہ:

ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں!

لہٰذا ہم تفصیلات سے احتراز کریں گے۔ حالانکہ دل ضرور چاہتا ہے کہ ذرا تفصیل کے ساتھ من جملہ دیگر مشکلات کے اس سراسیمگی کو بیان کریں جو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہم سے از روئے حساب یہ دریافت کرنے کو کہا جائے کہ اگر نوکر کی ۱۳ دن کی تنخواہ ۳۰روپے اور کھانا ہے تو ۹ گھنٹے کی تنخواہ بغیر کھانے کے کیا ہو گی؟ ایسے نازک مواقع پر ہم نے سوال کو آسان کرنے کی نیت سے اکثر یہ معقول تجویز پیش کی کہ اس کو پہلے کھانا کھلا دیا جائے۔ لیکن اول تو وہ اس پرکسی طرح رضا مند نہیں ہوتا۔ دوم کھانا تیار ہونے میں ابھی پورا سوا گھنٹہ باقی ہے اوراس سے آپ کو اصولاً اتفاق ہو گا کہ ۹ گھنٹے کی اجرت کاحساب سوا دس گھنٹے کے مقابلے میں پھر بھی آسان ہے۔

ہم داد کے خواہاں ہیں نہ انصاف کے طالب۔ کچھ تو اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جن سے خستگی کو داد پانے کی توقع ہے وہ ہم سے زیادہ خستہ تیغ ستم نکلیں۔ اور کچھ اس ڈرسے کہ:

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

مقصد سر دست ان خانساماؤں کا تعارف کرانا ہے جن کی دامے درمے خدمت کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہو چکا ہے۔ اگر ہمارے لہجے میں کہیں تلخی کی جھلک آئے تو اسی تلخی کام و دہن پر محمول کرتے ہوئے، خانساماؤں کو معاف فرمائیں۔

خانساماں سے عہد وفا استوار کرنے اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنانے کا ڈھنگ کوئی مرزا عبد الودود بیگ سے سیکھے۔ یوں تو ان کی صورت ہی ایسی ہے کہ ہرکس و ناکس کا بے اختیار نصیحت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن ایک دن ہم نے دیکھا کہ ان کا دیرینہ باورچی بھی ان سے ابے تبے کر کے باتیں کر رہا ہے۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، کیوں کہ شرفا میں انداز گفتگو محض مخلص دوستوں کی ساتھ روا ہے۔ جہلا سے ہمیشہ سنجیدہ گفتگو کی جاتی ہے۔ ہم نے مرزا کی توجہ اس امر کی طرف دلائی تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے جان بوجھ کر اس کو اتنا منہ زور اور بدتمیز کر دیا ہے کہ اب میرے گھر کے سوا اس کی کہیں اور گزر نہیں ہو سکتی۔

کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک” پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کاسوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے "صاحب! ان کی بات چھوڑئیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں! ” ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔

ہم نے گھبرا کر پوچھا "پھر کیا کرو گے؟ ”

"یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔”

جب سب باتیں حسب منشاء ضرورت (ضرورت ہماری، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا سلف لانے کے لیے فی الحال کوئی علیٰحدہ نوکر نہیں ہے۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔

فرمایا "جناب! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔ ”

"پھر بھی؟ ”

کہنے لگے "پچھتر روپے ماہوار ہو گی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہو گی! ”

ان کے بعد ایک ڈھنگ کاخانساماں آیا مگر بے حد دماغ دار معلوم ہوتا تھا۔ ہم نے اس کا پانی اتارنے کی غرض سے پوچھا "مغلئی اور انگریزی کھانے آتے ہیں؟ ”

"ہرقسم کا کھانا پکا سکتا ہوں۔ حضور کا کس علاقے سے تعلق تھا؟ ”

ہم نے صحیح صحیح بتا دیا۔ جھوم ہی تو گئے۔ کہنے لگے "میں بھی ایک سال ادھر کاٹ چکا ہوں۔ وہاں کے باجرے کی کھچڑی کی تو دور دور دھوم ہے۔”

مزید جرح کی ہم میں تاب نہ تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنے آپ کو ہمارے ہاں ملازم رکھ لیا۔ دوسرے دن پڈنگ بناتے ہوئے انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ میں نے بارہ سال انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کی ہیں، اس لیے بیٹھ کر چولہا نہیں جھونکوں گا۔ مجبوراً کھڑے ہو کر پکانے کا چولہا بنوایا۔

ان کے بعد جو خانساماں آیا، اس نے کہا کہ میں چپاتیاں بیٹھ کر پکاؤں گا۔ مگر برادے کی انگیٹھی پر۔ چنانچہ لوہے کی انگیٹھی بنوائی۔ تیسرے کے لیے چکنی مٹی کا چولھا بنوانا پڑا۔ چوتھے کے مطالبے پر مٹی کے تیل سے جلنے والا چولھا خریدا۔ اور پانچواں خانساماں اتنے سارے چولھے دیکھ کر ہی بھاگ گیا۔

اس ظالم کا نام یاد نہیں آ رہا۔ البتہ صورت اور خد و خال اب تک یاد ہیں۔ ابتدائے ملازمت سے ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتا، بلکہ پابندی سے ملباری ہوٹل میں اکڑوں بیٹھ کر دو پیسے کی چٹ پٹی دال اور ایک آنے کی تنوری روٹی کھاتا ہے۔ آخر ایک دن ہم سے نہ رہا گیا اور ہم نے ذرا سختی سے ٹوکا کہ "گھر کا کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ ”

تنک کر بولا "صاحب! ہاتھ بیچا ہے، زبان نہیں بیچی! ”

ان نے نہایت مختصر مگر غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کر دیا کہ اگر اسے اپنے ہاتھ کا پکا کھانا کھانے پر مجبور کیا گیا تو وہ فوراً استعفیٰ دے دے گا۔ اس کے رویے سے ہمیں بھی شبہ ہونے لگا کہ وہ واقعی خراب کھانا پکاتا ہے۔ نیز ہم اس منطقی نتیجے پر پہنچے کہ دوزخ میں گنہگار عورتوں کو ان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے۔ اسی طرح ریڈیو والوں کو فرشتے آتشیں گرز مار مار ان ہی کے نشر کیے ہوئے پروگراموں کے ریکارڈ سنائیں گے۔

ہم کھانے کے شوقین ہیں، خوشامد کے بھوکے نہیں (گو کہ اس سے انکار نہیں کہ اپنی تعریف سن کر ہم کو اپنا بنیان تنگ معلوم ہونے لگتا ہے)۔ ہم نے کبھی یہ توقع نہیں کی کہ باورچی کھانا پکانے کے بجائے ہمارے گن گاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے مرحوم اور سابق آقاؤں کا کلمہ پڑھتا رہے۔ جب کہ اس توصیف کا اصل مقصد ہمیں جلانا اور خوبیوں کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہیں۔ اکثر اوقات بے تحاشا جی چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی مرحوم ہوتے تاکہ ہمارا ذکر بھی اتنے ہی پیار سے ہوتا۔ بعض نہایت قابل خانساماؤں کو محض اس دور اندیشی کی بنا پر علیٰحدہ کرنا پڑا کہ آئندہ وہ کسی اور کا نمک کھا کر ہمارے حق میں پروپیگنڈہ کرتے رہیں۔ جو شخص بھی آتا ہے یہی دعوی کرتا ہے کہ اس کے سابق آقا نے اسے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا تھا (یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہو گا کہ اصولی طور پر ہم خود بھی ہمیشہ دوسروں پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن ریزگاری ضرور گن لیتے ہیں)۔ ایک خانساماں نے ہمیں مطلع کیا کہ اس کا پچھلا "صاب” اس قدر شریف آدمی تھا کہ ٹھیک سے گالی تک نہیں دے سکتا تھا۔

ہم نے جل کر کہا "پھر تم نے نوکری کیوں چھوڑی؟ ”

تڑپ کر بولے "کون کہتا ہے کہ خدا بخش نے نوکری چھوڑی؟ قصہ در اصل یہ ہے کہ میری پانچ مہینے کی تنخواہ چڑھ گئی تھی۔ اور اب آپ سے کیا پردہ؟ سچ تو یہ کہ ان کے گھر کا خرچ بھی میں ردی اخبار اور بیئر کی خالی بوتلیں بیچ کر چلا رہا تھا۔ انھوں نے کبھی حساب نہیں مانگا۔ پھر انھوں نے ایک دن میری صورت دیکھ کر کہا کہ خدا بخش! تم بہت تھک گئے ہو۔ دو دن کی چھٹی کرو اور اپنی صحت بناؤ۔ دو دن بعد جب میں صحت بنا کر لوٹا تو گھر خالی پایا۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ تمھارا صاب تو پرسوں ہی سارا سامان باندھ کر کہیں اور چلا گیا۔ "یہ قصہ سنانے کے بعد اس نمک حلال نے ہم سے پیشگی تنخواہ مانگی تاکہ اپنے سابق آقا کے مکان کا کرایہ ادا کر سکے۔

گزشتہ سال ہمارے حال پر رحم کھا کر ایک کرم فرما نے ایک تجربہ کار خانساماں بھیجا۔ جو ہر علاقے کے کھانے پکانا جانتا تھا۔ ہم نے "بھئی اور تو سب ٹھیک ہے مگر تم سات مہینے میں دس ملازمتیں چھوڑ چکے ہو۔ یہ کیا بات ہے؟ ”

کہنے لگے "صاب! آج کل وفا دار مالک کہاں ملتا ہے؟ ”

اس ستم ایجاد کی بدولت بر صغیر کے ہر خطے بلکہ ہر تحصیل کے کھانے کی خوبیاں اس ہیچمداں پنبہ دہاں کے دسترخوان پرسمٹ کر آ گئیں۔ مثلاً دوپہر کے کھانے پر دیکھا کہ شوربے میں مسلم کیری ہچکولے لے رہی ہے اورسالن اس قدر ترش ہے کہ آنکھیں بند ہو جائیں اور اگر بند ہوں تو پٹ سے کھل جائیں۔ پوچھا تو انھوں نے آگاہی بخشی کہ دکن میں رؤسا کھٹا سالن کھاتے ہیں۔ اور ہم یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ اللہ جانے بقیہ لوگ کیا کھاتے ہوں گے۔

اسی دن شام کو ہم نے گھبرا کر پوچھا کہ دال میں پرانے جوتوں کی بو کیوں آ رہی ہے؟

جواب میں انھوں نے ایک دھواں دھار تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ مارواڑی سیٹھوں کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا راز ہینگ میں مضمر ہے۔

اور دوسرے دن جب ہم نے دریافت کیا کہ بندہ خدا یہ چپاتی ہے یادسترخوان؟

تو ہنس کر بولے کہ وطن مالوف میں روٹی کے حدود اربعہ یہی ہوتے ہیں۔

آخر کئی فاقوں کے بعد ایک دن ہم نے بہ نظر حوصلہ افزائی کہا:

"آج تم نے چاولوں کا اچار بہت اچھا بنایا ہے۔”

دہکتے ہوئے توے سے بیڑی سلگاتے ہوئے بولے "بندہ پروری ہے! کاٹھیاواڑی پلاؤ میں قورمے کے مسالے پڑتے ہیں! ”

"خوب! مگر یہ قورمے کا مزہ تو نہیں! ”

"وہاں قورمے میں اچار کا مسالہ ڈالتے ہیں! ”

پھر ایک دن شام کے کھانے پر مرزا نے ناک سکیڑ کر کہا "میاں! کیا کھیر میں کھٹملوں کا بگھار دیا ہے؟ ”

سفید دیوار پر کوئلے سے سودے کا حساب لکھتے ہوئے حقارت سے بولے "آپ کو معلوم نہیں؟ شاہان اودھ لگی ہوئی فیرنی کھاتے تھے؟ ”

"مگر تم نے دیکھا کیا انجام ہوا اودھ کی سلطنت کا؟ ”

مختصر یہ کہ ڈیڑھ مہینے تک وہ صبح و شام ہمارے نا پخت ذوق و ذائقہ کو سنوارتا اور مشروبات و ماکولات سے وسیع المشربی کا درس دیتا رہا۔ آخر آخر میں مرزا کو شبہ ہو چلا تھا کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ ہے جو سالن کے ذریعے صوبائی غلط فہمیاں پھیلا رہا ہے۔

اگر آپ کو کوئی کھانا مرغوب ہے جو چھڑائے نہیں چھوٹتا تو تازہ داردان بساط مطبخ اس مشکل کو فوراً آسان کر دیں گے۔ اشیائے خوردنی اور انسان معدے کے ساتھ بھرپور تجربے کرنے کی جو آزادی باورچیوں کو حاصل ہے وہ نت نئی کیمیاوی ایجادات کی ضامن ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں بھنڈی بہت پسند ہے لیکن دس گھنٹے قبل یہ منکشف ہوا کہ اس نبات تازہ کو ایک خاص درجہ حرارت پر پانی کی مقر رہ مقدار میں (جس کا علم صرف ہمارے خانساماں کو ہے) میٹھی آنچ پر پکایا جائے تو اس مرکب سے دفتروں میں لفافے اور بد لگام افسروں کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں۔

انہی حضرت نے گزشتہ جمعرات کو سارا گھر سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ہم نے بچی کو بھیجا کہ اس سے کہو کہ مہمان بیٹھے ہیں۔ اس وقت سل کھوٹنے کی ضرورت نہیں۔ اس نے کہلا بھیجا کہ ہم ان ہی مہمانوں کی تواضع کے لیے سل پر کبابوں کا قیمہ پیس رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے کباب منہ میں رکھا تو محسوس ہوا گویا چٹ پٹا ریگ مال کھا رہے ہیں اور ہمیں رہ رہ کر میر صاحب پر رشک آنے لگا کہ وہ مصنوعی بتیسی لگائے بے خبر بیٹھے کھا رہے تھے اور ہماری طرح کرکرا محسوس کر کے لال پیلے نہیں ہوئے۔ صبح تک سب کو پیچش ہو گئی۔ صرف ہمیں نہیں ہوئی۔ اور ہمیں اس لیے نہیں ہوئی ہم پہلے ہی اس میں مبتلا تھے۔

یہ بات نہیں کہ خدا نخواستہ ہم بیماری اور موت سے ڈرتے ہیں۔ ہم تو پرانی چال کے آدمی ہیں۔ اس لیے نئی زندگی سے زیادہ خوف کھاتے ہیں۔ موت بر حق ہے اور ایک نہ ایک دن ضرور آئے گی۔ بات صرف اتنی ہے کہ بلانے کے لیے ہم اپنی نیک کمائی میں سے پچاس ساٹھ روپے ماہوار خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں کسی مرض ناشناس حکیم کے ہاتھوں مرنے پربھی چنداں اعتراض نہ ہو گا۔ لیکن ہم کسی صورت خانساماں کو بالاقساط روح قبض کرنے کا اختیار نہیں دینے چاہتے کہ یہ صرف حکیم ڈاکٹروں کا حق ہے۔

بیماری کا ذکر چل نکلا تو اس قوی ہیکل خانساماں کا قصہ بھی سن لیجئے جس کو ہم سب آغا کہا کرتے تھے (آغا اس لیے کہا کرتے تھے کہ وہ سچ مچ آغا تھے)۔ ان کا خیال آتے ہی معدے میں مہتابیاں سی جل اٹھتی ہیں۔ تا دم وداع ان کے کھانا پکانے، اور کھلانے کا انداز وہی رہا جو ملازمت سے پہلے ہینگ بیچنے کا ہوتا تھا۔ یعنی ڈرا دھمکا کر اس کی خوبیاں منوا لیتے تھے۔ بالعموم صبح ناشتے کے بعد سو کر اٹھتے تھے۔ کچھ دن ہم نے صبح تڑکے جگانے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے نیند کی آڑ میں ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کی تو ہم نے بھی ان کی اصلاح کا خیال ترک کر دیا۔ اس سے قطع نظر، وہ کافی تابعدار تھے۔ تابعدار سے ہماری مراد یہ ہے کہ کبھی وہ پوچھتے کہ ’چائے لاؤں؟ ، اور ہم تکلفاً کہتے کہ ’جی چاہے تولے آؤ ورنہ نہیں۔‘ تو کبھی واقعی لے آتے اور کبھی نہیں بھی لاتے تھے۔ جس دن سے انھوں نے باورچی خانہ سنبھالا گھر میں حکیم ڈاکٹروں کی ریل پیل ہونے لگی۔ یوں بھی ان کا پکایا ہوا کھانا دیکھ کر سر (اپنا) پیٹنے کو جی چاہتا تھا۔ "اپنا” اس لیے کہ حالانکہ ہم سب ہی ان کے کھانوں سے عاجز تھے، لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کو کیوں کر پرامن طریق سے رخصت کیا جائے۔ ان کو نوکر رکھنا ایسے ہی ثابت ہوا جیسے کہ شیر ببر پر سوار ہو تو جائے لیکن اترنے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔

ایک دن ہم اسی ادھیڑ بن میں لیٹے ہوئے گرم پانی کی بوتل سے پیٹ سینک رہے تھے اور دوا پی پی کر ان کو کوس رہے تھے کہ سر جھکائے آئے اور خلاف معمول ہاتھ جوڑ کر بولے "خو! صاب! تم روز روز بیمار اوتا اے۔ اس سے امارہ قبیلہ میں بڑا رسوائی، خو، خانہ خراب اوتا اے "(صاحب! تم بار بار بیمار ہوتے ہو۔ اس سے ہمارے قبیلے میں ہماری رسوائی ہوتی ہے اور ہمارا خانہ خراب ہوتا ہے) اس کے بعد انھوں نے کہا سنا معاف کرایا، اور بغیر تنخواہ لیے چل دیئے۔

ایسی ہی ایک اور دعوت کا ذکر ہے جس میں چند احباب اور افسران بالا دست مدعو تھے۔ نئے خانساماں نے جو قورمہ پکایا، اس میں شوربے کا یہ عالم تھا کہ ناک پکڑ کے غوطے لگائیں تو شاید کوئی بوٹی ہاتھ آ جائے۔ اکا دکا کہیں نظر آ بھی جاتی تو کچھ اس طرح کہ:

صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں

اور بسا غنیمت تھا کیوں کہ مہمان کے منہ میں پہنچنے کے بعد، غالب کے الفاظ میں، یہ کیفیت تھی کہ:

کھینچتا ہے جس قدر اتنی ہی کھنچتی جائے ہے!

دوران ضیافت احباب نے بکمال سنجیدگی مشورہ دیا کہ "ریفریجریٹر خرید لو۔ روز روز کی جھک جھک سے نجات مل جائے گی۔ بس ایک دن لذیذ کھانا پکوا لو۔ اور ہفتے بھر ٹھاٹ سے کھاؤ اور کھلاؤ۔”

قسطوں پر ریفریجریٹر خریدنے کے بعد ہمیں واقعی بڑا فرق محسوس ہوا۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پہلے جو بد مزہ کھانا صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے، اب اسے ہفتے بھر کھانا پڑتا ہے۔

ہم نے اس عذاب مسلسل کی شکایت کی تو وہی احباب تلقین فرمانے لگے کہ

"جب خرچ کیا ہے صبر بھی کر، اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے۔”

کل پھر مرزا سے اپنی گوناگوں مشکلات کا ذکر کیا تو کہنے لگے:

"یہ الجھنیں آپ نے اپنے چٹور پن سے خواہ مخواہ پیدا کر رکھی ہیں۔ ورنہ سادہ غذا اور اعلیٰ خیالات سے یہ مسئلہ کبھی کا خود بخود حل ہو گیا ہوتا۔ یہی آئین قدرت ہے اور یہی آزاد تہذیب کی اساس بھی! آپ نے مولوی اسماعیل میرٹھی کا وہ پاکیزہ شعر نہیں پڑھا؟

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

عرض کیا "مجھے کسی کے آزاد رہنے پر، خواہ وہ شاعر ہی کیوں نہ ہو، کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اس شعر پر مجھے عرصہ سے یہ اعتراض ہے کہ اس میں آزادی سے زیادہ خشک روٹی کی تعریف کی گئی ہے۔ ممکن ہے عمدہ غذا اعلیٰ تہذیب کو جنم نہ دے سکے، لیکن اعلیٰ تہذیب کبھی خراب غذا برداشت نہیں کر سکتی”

فرمایا "برداشت کی ایک ہی رہی! خراب کھانا کھا کر بد مزہ نہ ہونا، یہی شرافت کی دلیل ہے۔”

گزارش کی "مردانگی تو یہ کہ آدمی عرصہ تک عمدہ غذا کھائے اور شرافت کے جامے سے باہر نہ ہو! ”

مشتعل ہو گئے "بجا! لیکن یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی اٹھتے بیٹھتے کھانے کا ذکر کرتا رہے۔ برا نہ مانئے گا۔ آپ کے بعض مضامین کسی بگڑے ہوئے شاہی رکابدار کی خاندانی بیاض معلوم ہوتے ہیں۔ جبھی تو کم پڑھی لکھی عورتیں بڑے شوق سے پڑھتی ہیں۔”

ہم نے ٹوکا "آپ بھول رہے ہیں کہ فرانس میں کھانا کھانے اور پکانے کا شمار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے۔”

وہ بگڑ گئے "مگر آپ نے اس جنون لطیفہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ اگر آپ واقعی اپنی بے قصور قوم کی اصلاح کے درپے ہیں تو کوئی کام کی بات کیجئے اور ترقی کی راہیں سجھائیے۔”

مزہ لینے کی خاطر چھیڑا "ایک دفعہ قوم کو اچھا پہننے اور کھانے کا چسکا لگ تو ترقی کی راہیں خود بخود سوجھ جائیں گی۔ گاندھی جی کا قول ہے کہ جس دیس میں لاکھوں آدمیوں کو دو وقت کا کھانا نصیب نہ ہوتا ہو، وہاں بھگوان کی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ان داتا کے سوا کسی اور روپ میں سامنے آ سکے۔ بھوکے کے لیے بھوجن ہی بھگوان کا اوتار ہے اور۰۰۰۰۰۰”

قطع کلامی کی معافی مانگے بغیر بولے "مگر وہ تو بکری کا دودھ اور کھجور کھاتے تھے۔ اور آپ فن غذا شناسی کو فلسفہ خدا شناسی سمجھ بیٹھے ہیں۔ خود آپ کے محبوب یونانی فلسفی جو بھرپور زندگی کے قائل تھے، دماغ سے محسوس کرتے اور دل سے سوچتے تھے۔ مگر آپ تو معدے سے سوچتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو آپ آج بھی وہی مشورہ دے رہے ہیں جو ملکہ میری انطونیت نے دیا تھا۔ ایک درباری نے جب اس کے گوش گزار کیا کہ روٹی نہ ملنے کے سبب ہزاروں انسان پیرس کی گلیوں میں دم توڑ رہے ہیں تواس نے حیرت سے پوچھا کہ یہ احمق کیک کیوں نہیں کھاتے؟”

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

ٹائپنگ: رضوان نور، منصور قیصرانی۔ شمشاد خان، محب علوی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل