FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

منتخب کلام حفیظ ہوشیار پوری

 

 

مرتبہ:  ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

نگران        :                                     ڈاکٹر انعام الحق جاوید

انتخاب    :                                     ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

نیشنل بُک فاؤنڈیشن کی طرف سے ’’انقلاب بذریعہ کتاب‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیا گیا مرکزی اہمیت کی حامل علمی و ادبی کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے کافی نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔  ’’رنگِ سخن‘‘ سیریز کے تحت معروف شعراء کے منتخب کلام پر مشتمل ’’اسمارٹ بُکس‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔  ذوقؔ، مصحفیؔ اور غالبؔ کے حوالے سے این بی ایف کی کاوشوں کو قابلِ قدر پذیرائی ملی۔

زیرِ نظر کتاب میں حفیظؔ ہوشیارپوری کا منتخب کلام ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ نے ہماری درخواست پر ترتیب دیا اور خوب ترتیب دیا۔  ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے 1991-97ء میں حفیظ ہوشیارپوری پر (پنجاب یونیورسٹی) پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا جو 2008ء میں ’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے ‘‘ کے نام سے اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی سے طبع ہو چکا ہے۔

موجودہ کتاب کی اشاعت کا قصّہ بھی قارئین کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ عمدہ اشعار تک رسائی بہم پہچانا ہے تاکہ وہ سفروحضر ہر مقام پر اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔

شاعری کا انتخاب انتہائی مشکل کام ہے۔  ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ کوئی اچھا یا معروف شعر اس انتخاب میں شامل ہونے سے رہنے نہ پائے جس کے باعث اُمید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب طلبہ، اساتدہ اور عام قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو گی۔

پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید

مینیجنگ ڈائریکٹر

 

 

 

 

حفیظؔ ہی کیوں ؟

 

 

حفیظؔ کی غزل کی مختصر ترین تعریف ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے۔

ان کی شاعری محبت میں تہذیب و شائستگی کی وہ مثال ہے جو جدید اردو غزل کے لیے نئی تو نہیں لیکن کمیاب ضرور ہوتی جا رہی ہے۔

حفیظؔ غزل کی اس روایت سے منسلک ہیں، جس کے سلسلے کی پہلی کڑی میرؔ تھے۔  حفیظؔ کی غزل، غزل کے معیار پر پوری اترتی ہے کہ غزل زخمی ہرن کی آہ کا نام ہے۔  حفیظؔ کی شاعری میں اس آہ کی گونج ہے۔  غزل تیرِ نیم کش کی کسک ہے، یہ چبھن حفیظؔ کی غزل میں جا بجا نظر آتی ہے۔  غزل، محبوب سے باتیں کہنے سننے کا فن ہے، حفیظؔ کی غزل اس سے عبارت ہے۔  غزل ذاتی واردات کا بیان ہے۔  شاعر کائنات کا فرد ہے، چنانچہ کائنات بھی ذات کے حوالے سے غزل میں عیاں ہوتی ہے۔  حفیظؔ کی غزل میں ذات و کائنات کا آہنگ موجود ہے۔  یہ الگ بات ہے کہ ذات نمایاں رہتی ہے۔

حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل فلسفیانہ مسائل سے تہی نہیں لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔  فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔  فلسفیانہ فکر کی نشو و نما کے لیے تین مرحلے ناگزیر ہیں۔  پہلا مرحلہ عقلیت کا ہے، جس سے انسان اپنی ذات اور کائنات کا علم حاصل کرتا ہے۔  دوسرا مرحلہ حسّیت کا ہے کہ اب انسان معلوم کرنے کے بجائے محسوس کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔  تیسرا مرحلہ وہ ہے کہ جب انسان عالم معلوم اور عالم محسوس کو کبھی رد کرتا ہے اور کبھی قبول اور نقد و نظر سے کام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ عقل و حواس دونوں ہی علم کے حصول کے لیے لازمی ہیں۔  حفیظؔ کی غزل اسی معلوم اور محسوس کرنے کا بیان ہے لیکن ان کی غزل ثابت کرتی ہے کہ وہ عقل کی برتری کے قائل نہیں۔

تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا

سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے

حفیظؔ کی غزل کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو غزل ہی رہنے دیا، اسے کسی تجربہ گاہ کی حیثیت کبھی نہیں دی جبکہ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ساٹھ کی دہائی ہر صنف میں تجربات کا ایک طوفان لیے ہوئے ظاہر ہوئی تھی۔  چوک میں تانگہ الٹ جانے سے لے کر گاہک کا کال دیکھ کر دھندا بدل دینے تک سبھی تجربے اور مشاہدے اپنی تمام تر اسلوبی اور موضوعاتی کرختگی و درشتی کے ساتھ غزل میں در آئے تھے۔  وہ تمام موضوعات انتظار، اداسی، تنہائی، محرومی، یافت و نایافت، محبت کی طلب، ترکِ محبت کی آرزو، اپنی ذات کی تلاش وغیرہ، جو ابتدا سے غزل کا حصّہ رہے ہیں، حفیظؔ کی غزل میں بھی موجود ہیں لیکن صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان عمومی موضوعات پر ایسے اشعار مل جاتے ہیں جہاں کسی اور شاعر کے تخیّل کی پرواز نہ پہنچ پائی تھی۔  انتظار کے موضوع پر حفیظؔ کا یہ شعر دیکھیے جو آج زبانِ زدِ عام ہے اور جس میں انسانی نفسیات کے ایک گہرے اور پیچیدہ پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

حفیظؔ کی شاعری میں زمانے کے سیاسی نشیب و فراز کا گہرا شعور بھی ملتا ہے۔  قیامِ پاکستان، ہجرت اور پھر سیاسی رہنماؤں کا طرزِ سلوک سبھی رویّوں کا بیان ہے۔

خوفِ رہزن بھی ہے اندیشۂ رہبر بھی حفیظؔ

منزلیں سخت ہیں آغازِ سفر سے پہلے

حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔  انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظرنہ کیا۔  آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔  ان کی غزل کا دھیما لہجہ بڑی سے بڑی بات بالکل عام انداز میں کہہ دینے کا فن، کہ قاری پہلے سرسری گزرجاتا ہے پھر سوچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ خیال اپنے اندر کتنی گہرائی رکھتا ہے۔  ایجاز و اختصار، سادگی، روانی، نغمگی، لطیف انداز بیان، زیر لبی اور مترنم طرز ادا ان کی غزل کے خاص اوصاف ہیں۔

آغازِ محبت سے انجامِ محبت تک

محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں

مختصر یہ کہ حفیظؔ کا کلام انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک عام شعر کہنے والا شاعر زیادہ مشہور ہو جاتا ہے۔  (مشہور اور مستند میں فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) اور کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ ایک اہم اور معتبر شاعر زمانے کی ناقدری کے ہاتھوں پامال ہو کر خاک میں جا سویا اور ساتھ ہی اس کا کلام بھی۔

حفیظؔ وہ شاعر تھے، جو ایک طویل عرصے تک اہم سرکاری عہدے پر فائز رہے۔  وہ زندگی میں اپنا مختصر مجموعۂ کلام بغیر کسی دشواری کے شائع کرواسکتے تھے لیکن فطری بے نیازی اور بے داغ تکمیلیت کی عادت کے باعث وہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور جو مجموعۂ کلام ان کی وفات کے بعد منصہ شہود پر آیا وہ ان کی مکمّل نمائندگی نہیں کرتا۔  پھر ان چند خوش قسمت مرحوم شعراء، کہ جن پر ان کی وفات کے بعد مسلسل اور خاصا اہم کام ہو رہا ہے، کے برعکس حفیظؔ کی شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ متقاضی تھی۔

حفیظؔ کی غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں میرؔ کا سوز، غالبؔ کی ایمائیت، جگرؔکا ایجازو اختصار، اصغرؔ کی فلسفیانہ ژرف نگاہی، حسرتؔ کی اخلاقی اقدار کی پاس داری و مہذب و شائستہ انداز اور فراق ؔکی محبوبیت موجود ہے۔

کیا شاعر اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوتا، حفیظؔ کا انفرادی رنگ کیا تھا، کیا خوبی تھی ان کی غزل میں کہ ان کے ہم عصر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

’’اچّھے اشعار سب حفیظؔ کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں ‘‘۔

لفظ ’’مکمّل‘‘ کا استعمال بہت احتیاط کا متقاضی ہے لیکن حفیظؔ کے معاملے میں اسے برتا جا سکتا ہے۔  وہ ایک مکمل شاعر، مکمل تاریخ گو اور مکمل محقّق تھے۔

اس عصر ناپرساں اور عہد فراموشاں میں اردو ادب کے قاری کے ذہن سے اگر حفیظ محو ہوتا جا رہا ہے تو یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ حفیظ کا مختصر تعارف اور کلامِ حفیظ کا انتخاب، حفیظ کو یاد کرنے اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی خواہش ہے۔

ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

توقیت

 

۵ جنوری ۱۹۱۲ء

ولادت، بمطابق ۱۵ محرّم ۱۳۳۰ھ بروز جمعہ، دیوان پور، ضلع جھنگ

۲۰ جون ۱۹۲۱ء

والد شیخ فضل محمد کا انتقال۔

۱۹۲۸ ء

میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور۔

نومبر۱۹۳۰ء

پہلا منظوم ترجمہ شیلے کی نظم "A Widow Bird”جوطائرمہجور کے نام سے ہمایوں میں شائع ہوا۔

۱۹۳۰ء

سرپرست نانا شیخ غلام محمد سندا کا انتقال۔

۱۹۳۱ء

انٹر میڈیٹ کالج ہوشیار پور۔  پہلی طبع زاد نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ اخترشیرانی کے رسالے خیالستان میں شائع ہوئی۔

مارچ۱۹۳۲ء

پہلی غزل نیرنگ خیال میں شائع ہوئی۔

۱۹۳۳ء

بی۔  اے گورنمنٹ کالج لاہور۔

۱۹۳۶ء

ایم۔  اے فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور۔

۱۹۳۶۔ ۱۹۳۷ء

انجمن اردو پنجاب سے وابستگی، صلاح الدین مرحوم کے رسالے ادبی دنیا اور مولانا چراغ حسن حسرت کے ہفت روزہ شیرازہ کے عملہ ادارت میں شمولیت۔

۱۹۳۷ء

سردار دیوان سنگھ مفتون کی دعوت پر دہلی روانگی، اخبار ریاست کی ادارت

۱۹۳۸ء

دارالاشاعت پنجاب سے وابستگی۔

پھول و تہذیبِ نسواں کی ادارت…

۲۶ سال کی عمر میں شادی۔

۲۹ اپریل۱۹۳۹ء

حفیظؔ کی صدارت میں ’’بزم داستاں گویاں ‘‘ کا قیام۔

یکم اکتوبر۱۹۳۹ء

آپ کی صدارت میں بزم داستاں گویاں کا نام تبدیل کر کے حلقۂ اربابِ ذوق رکھا گیا۔

۳۱ اکتوبر۱۹۳۹ء

پروگرام اسسٹنٹ آل انڈیا ریڈیو، لاہور۔

۱۹۴۲۔ ۱۹۴۳ء

آل انڈیا ریڈیو بمبئی۔

۱۹۴۳ء

لاہور آمد

۱۴ اگست ۱۹۴۷ء

ریڈیو سے نشر ہونے والا قیامِ پاکستان  سے متعلق اعلان آپ ہی کا لکھا ہوا تھا۔

۱۹۴۸ء

کراچی ریڈیو سے وابستگی۔

۱۹۵۰ء

لاہور ریڈیو سے وابستگی۔

۱۹۵۱ء

نشریات کے لسانی لوازمات خصوص اً خبروں کے ترجمے کے متعلق خصوصی مقالے کی اشاعت۔

جون۱۹۵۳ء

کراچی واپسی۔

جون، جولائی۱۹۵۳ء

ثقافتی وفد کے رکن کی حیثیت سے تین ہفتے کا دورۂ ایران۔

اپریل۱۹۵۴۔ ۱۹۵۶ء اقبال اکیڈمی کونسل کے رکن۔

۱۹۵۶۔ ۱۹۵۷ء

بی۔ بی۔ سی جنرل اوورسیزکورس میں شمولیت کے لیے انگلستان کا سفر۔

۱۹۵۷ء آپ کے مرتّب کردہ مجموعہ ’’مثنویات  ہیر رانجھا‘‘ کی سندھی ادبی بورڈ سے اشاعت۔

۱۹۵۸۔ ۱۹۵۹ء

ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بحیثیت ریجنل ڈائریکٹر وابستگی۔

۱۹۶۲ء

حکومت پاکستان کی قائم کردہ کاپی رائٹ آرڈینینس کمیٹی کے رکن بنے۔

اگست ستمبر ۱۹۶۴ء

آر سی ڈی کی اطلاعاتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ترکی کا دورہ۔

۱۹۶۵ء

This is the house that Jack built کا مصورترجمہ، مکتبہ کامران کراچی سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔  واضح ہو کہ یہ کتاب حفیظؔ صاحب کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی واحدکتاب ہے۔

۴ جنوری                                              ۱۹۶۸ء

اٹھائیس برس کی ملازمت کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیوپاکستان کے عہدے سے ریٹائرمنٹ۔

فروری۱۹۷۰ء

اقبال اکیڈمی گورننگ باڈی کے رکن۔

اپریل۱۹۷۰ء

ترقّی اُردو بورڈ کراچی کے رکن۔

۱۰ جنوری۱۹۷۳ء

صبح گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر بروز بدھ انتقال۔  پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔  کتبہ، سراغِ رفتگاں۔

اکتوبر۱۹۷۳ء

’’مقام غزل‘‘ کی اشاعت۔

۲۰۱۲ء

حفیظ کے صدسالہ جشن پیدائش کے طور پر منایا گیاسال

 

حیات نامہ

 

۵ جنوری ۱۹۱۲ء بمطابق۱۵ محرّم ۱۳۳۰ھ کو جمعہ کے روز لائل پور (فیصل آباد) سے بارہ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں دیوان پور ضلع جھنگ میں شیخ فضل محمد کے گھر ایک بچّہ جنم لیتا ہے، جس کا نام عبد الحفیظ سلیم رکھا گیا۔ ہوشیار پور سے تعلق رکھنے والے شیخ فضل محمد ان دنوں بسلسلۂ روز گار جھنگ میں رہائش پذیر تھے۔

حفیظؔ صرف نو سال کے تھے کہ والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔  والد کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے نانا شیخ غلام محمد سندا نے اٹھائی۔  حفیظ کی والدہ کا نام فضل بی بی اور والد کا نام فضل محمد ہے تو پھر حفیظ پر کیوں نہ اللہ کا فضل تمام زندگی سایہ فگن ہوتا۔  شیخ غلام محمد علم و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔  عربی اور فارسی زبانوں پر کامل دسترس تھی۔  شعر و ادب سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ہر دو زبانوں کے کئی دیوان حفظ اور نثر کی بے شمار کتابیں ازبر تھیں۔  ان کی علمی و ادبی تربیت نے حفیظؔ کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔  وہ فرصت کے تمام اوقات اپنے نانا کی معیّت میں گزارتے۔

حفیظؔ تین بھائی تھے۔  راحل، حفیظؔ سے بڑے اور عبد المجید، حفیظؔ سے چھوٹے۔  راحل نے تمام عمر شادی نہیں کی۔  مجید ہوشیارپوری بھی شاعر تھے۔  ان کا مطبوعہ کلام موجود ہے۔  جوانی ہی میں انتقال کیا۔  راحل ہوشیار پوری بھی بطور ایک شاعر اور تاریخ گو کے، قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،ا ردو لسانیات میں مستند تسلیم کیے جاتے تھے۔  واضح رہے کہ راحل صاحب کی تربیت میں بھی ان کے نانا کی محنت و محبت شامل تھی۔ حفیظؔ دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔  تاریخ گوئی میں بھی اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔ پہلا اُردو شعرجو غالباً ۱۹۲۹ء کا ہے۔

پھر نہ دینا مجھے الزامِ محبت دیکھو

تم چلے جاؤ تمھیں دیکھ کے پیار آتا ہے

اسی اثنا میں آپ لاہور آ گئے اور یہاں آ کر گورنمنٹ کالج میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔  حفیظؔ کی لاہور آمد ان کے ذوقِ شعر و سخن کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔  یہاں کی علمی فضا شعر و ادب کے بڑے بڑے ناموں سے گونج رہی تھی۔ گورنمنٹ کالج کے اساتذہ، صوفی تبسّم، پطرس بخاری اور پروفیسر ڈکسن، حفیظؔ کے شعری ذوق کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں تو طالب علم ساتھیوں میں فیض اور ن۔ م۔ راشد، اردو شاعری کی ایک نئی فضا کی تشکیل میں مصروف ہیں۔  یہ حفیظؔ کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے بزرگوں، معاصرین اور متاخرین میں علّامہ اقبال، غلام قادر گرامی، شیخ عبدالقادر، سیّد نذیر نیازی، عبدالرحمن چغتائی، خضر تمیمی، عطا اللہ شاہ بخاری، سراج نظامی، عابد علی عابد، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، جگر، سید سلیمان ندوی، جوش، فراق، اخترشیرانی، تاثیر، شوکت تھانوی، منٹو، شہرت بخاری، مختار صدیقی، سراج الدین ظفر، ساحر لدھیانوی، ایوب رومانی، یوسف ظفر اور ناصر کاظمی جیسے شاعر و ادیب، تخلیق ادب میں مصروف تھے۔  اس سازگار شعری ماحول میں حفیظؔ کی سب سے پہلی نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ تھی۔  جو اختر شیرانی کے رسالے ’’خیالستان‘‘ میں ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔  سب سے پہلی غزل مارچ ۱۹۳۲ء کے ’’نیرنگ خیال‘‘ میں چھپی۔ پہلی غزل ’’کوئی ستم آشنا نہیں ہے …اب جینے کا کچھ مزا نہیں ہے۔‘‘ نے اکابرین ادب سے داد وتحسین سمیٹی۔

ملکہ پکھراج نے ان کی غزل ’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے:: رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے ‘‘ گائی اور غزل گائیکی کاحق ادا کر دیا۔  ’’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے ‘‘ پاکستان کے ہر بڑے گلوکار نے گائی، مہدی حسن، نسیم بیگم، فریدہ خانم، اقبال بانو حتیٰ کہ منّی بیگم نے بھی… اور خوب داد سمیٹی۔

مولانا چراغ حسن حسرت، حفیظؔ کے بے تکلّف دوستوں میں سے تھے۔ ان کی صحافتی سوجھ بوجھ کا آئینہ دار ’’ شیرازہ‘‘ سنجیدہ طبقے میں بھی مقبول و پسندیدہ رہا۔  لاہور ہی سے نکلنے والے اس ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کے عملہ ادارت میں حفیظؔ بھی شامل رہے۔  حفیظؔ نے اس دوران خود بھی شیرازہ کے لیے دیگر تخلیقات کے علاوہ فکاہیہ نظمیں کہیں۔  جنوری ۱۹۷۳ء کے روزنامہ جنگ میں ان کی وفات کی اطلاع گہرے دُکھ کے ساتھ دی گئی۔

’’اردو غزل کے بزرگ اور محترم شاعر جناب حفیظؔ ہوشیارپوری آج صبح دس بجے جناح ہسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔  اشکبار آنکھوں کے ساتھ رات کے دس بجے ان کو سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔  ان کی فاتحہ سوم بعد نماز جمعہ انٹیلی جنس اسکول کی مسجد میں ہو گی۔  اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہو گی کہ ملک کے ممتاز شاعر کے جنازے میں تقریباً ۵۰ افراد شریک ہوئے، جن میں کوئی شاعر اور ادیب نہ تھا۔  جناب حفیظؔ ہوشیارپوری گذشتہ پانچ ماہ سے عارضۂ تنفس میں مبتلا تھے اور ان کو نالی کے ذریعے آکسیجن پہنچائی جا رہی تھی۔  ڈیڑھ مہینے پہلے ان کی قیام گاہ واقع انٹیلی جنس اسکول منتقل کر دیا گیا تھالیکن پرسوں اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ دوبارہ جناح ہسپتال میں داخل کر دئیے گئے۔  جہاں آج صبح دس بجے ان کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘

 

 

 

 

 معاصرین کی نظر میں

 

’’حفیظؔ جیسا پختہ شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔  وہ کیا نہیں جانتا تھا۔  محقق تھا، عالم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ بحیثیت انسان واقعی عظیم تھا۔  میرا بہی خواہ تھا۔  دوست تھا اور دوست بھی وفادار۔  اللہ اس کو غریق رحمت کرے آمین‘‘(ذوالفقار علی بخاری )

’’حفیظؔ صاحب صحیح معنوں میں جامع کمالات تھے۔ ‘‘

(جمیل الدین عالی)

’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے مہربان کی شفقت سے محروم ہو گیا ہوں۔  جب تک اردو زندہ ہے حفیظؔ مرحوم کا کلام زندہ رہے گا۔  مجھے امید نہیں کہ اردو کو اب حفیظؔ ہوشیارپوری جیسا شاعر نصیب ہو گا۔ ‘‘

(تحسین سروری)

’’حضرت حفیظؔ ہوشیارپوری ایک عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔  ان جیسے باکمال بزرگ ہماری ادبی دنیا میں بہت کم ہیں۔  ان کی موت سے شاعری کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا پرُ ہونا نا ممکن ہے۔ ‘‘(سروربارہ بنکوی)

’’حفیظؔ ہوشیارپوری مرحوم، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔  ایک بلند پایہ شاعر، محقق، تاریخ گو اور صاحب علم و آگہی کی حیثیت سے ان کی رنگارنگ شخصیت نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ‘‘                                               (صہبا لکھنوی)

’’ان کی غزلیں سادگی اور پرکاری کا حسین امتزاج ہوتی ہیں۔  ان کی غزلیں مختصر بھی ہوتی ہیں اور ہموار بھی، ان کے یہاں اچھی غزلیں اور اچھے شعر بہت ہیں لیکن ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے ان کا ایک شعر کافی ہے اور وہ یہ ہے۔

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

نظیر صدیقی

’’حفیظؔ … بہترین استاد ہے۔  غالب ؔکو جب لوگوں نے بے استاد کہا تو ایک فرضی استاد ایجاد کر لیا گیا۔  مجھے قسمت سے اصلی استاد مل گیا۔  اس جیسے فی البدیہہ شعر کہنے والے کم ہی دیکھے ہیں۔  انگریزی تو اس نے بھی پڑھی ہے مگر ہیئت کے تجربے کرنے کا قائل نہیں۔ ‘‘

(ناصر کاظمی)

’’تغزل سے رغبت ہو تو حضرت فراقؔ گورکھپوری، حفیظؔ ہوشیارپوری اور ناصرؔ کاظمی کا مطالعہ کیجیے۔ ‘‘ (مظفر علی سید)

’’حفیظؔ ہوشیارپوری نے غزل کی تنگنائے کو کافی کشادہ کیا ہے اور اس میں نئے مسائل اور نئے محسوسات کو اس خوبصورتی سے جگہ دی ہے کہ ان کی غزلوں کواگرفراقؔ، فیضؔ، جذبیؔ‘قاسمی، ناصرؔ کاظمی اور عزیزؔ حامد مدنی وغیرہ کی غزلوں کے ساتھ دیکھا جائے تو افق شاعری پر ایک عجیب قسم کی دھنک بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘ (محمد علی صدیقی)

’’شاعری کا جہاں تک تعلق ہے۔  میں ان کا بہت مداح ہوں اور ۳۶۔ ۱۹۳۵ ء ہی سے جب ان کا کلام مشہور ادبی رسائل میں چھپنا شروع ہوا۔  ان کی شاعری نے میرے ذہن پر ایک نقش قائم کر لیا تھا۔  ان کا کلام اردو ادب میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔  غزل میں انھوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ ‘‘ (شان الحق حقی)

 

 

 

 

منتخب کلام حفیظ ہوشیارپوری

 

 

نعت

 

تو زندگی ایک رات تیرہ وتار

نہ کوئی رہنما نہ راہ گزار

 

چار سُو اک مہیب تاریکی

ہر طرف مطلعِ جہاں پہ غبار

 

انتظارِ سحر میں نوعِ بشر

شمع ساں اشکبار و زار و نزار

 

تیرے انفاسِ رُوح پرور سے

آ گئی گلشنِ جہاں میں بہار

 

جاگ اُٹھا بختِ خفتۂ انساں

آ گئی ہاتھ دولتِ بیدار

 

کوئی کھٹکا رہا نہ رہزن کا

مل گیا تجھ سا کارواں سالار

 

اے سبک سیر جادۂ اسریٰ

روک دی تو نے وقت کی رفتار

 

رُوحِ احساس تیرا نام کبھی

اور کبھی غازۂ رُخِ افکار

 

اس کا مقصود آستاں تیرا

زندگی تیرے آستاں پہ نثار

دسمبر ۱۹۴۹ء

 

 

 

 

نعت

 

ظہورِ نورِ ازل کو نیا بہانہ ملا

حرم کی تِیرہ شبی کو چراغِ خانہ ملا

 

تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو

دلوں کو سوزِ تب و تابِ جاودانہ ملا

 

خدا کے بعد جمال و جلال کا مظہر

اگر ملا بھی تو کوئی ترے سوا نہ ملا

 

وہ اَوجِ ہمّتِ عالی وہ شانِ فقرِ غیور

کہ سرکشوں سے بہ اندازِ خسروانہ ملا

 

وہ دُشمنوں سے مدارا وہ دوستوں پہ کرم

بقدرِ ظرف ترے در سے کس کو کیا نہ ملا

 

زمیں سے تابفلک جس کو جرأت پرواز

وہ میرِ قافلہ، وہ رہبرِ یگانہ ملا

 

بشر پہ جس کی نظر ہو بشر کو تیرے سوا

کوئی بھی محرمِ اسرارِ کبریا نہ ملا

 

خیالِ اہلِ جہاں تھا کہ انتہائے خودی

حریمِ قدس کو تجھ سا گریز پا نہ ملا

 

نیاز اُس کا جبیں اُس کی، اعتبار اُس کا

وہ خوش نصیب جسے تیرا آستانہ ملا

 

درِ حضورؐ سے کیا کیا ملا نہ تجھ کو حفیظؔ

نوائے شوق ملی، جذبِ عاشقانہ ملا

دسمبر ۱۹۵۰ء

 

 

 

 

 

 

رازِ سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے

بات بڑھ کر یہ خُدا جانے کہاں تک پہنچے

 

تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آساں تو نہ تھا

سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے

 

آہ وہ حرفِ تمنّا کہ نہ لب تک آئے

ہائے وہ بات کہ رُک رُک کے زباں تک پہنچے

 

نہ پتہ سنگِ نشاں کا ہے نہ رہبر کی خبر

جستجو میں ترے دیوانے یہاں تک پہنچے

 

نہ غبارِ رہِ منزل ہے نہ آوازِ جرس

کون مجھ رہروِ گم کردہ نشاں تک پہنچے

 

صاف توہین ہے یہ درد محبت کی حفیظؔ

حُسن کا راز ہو اور میری زباں تک پہنچے

اکتوبر ۱۹۳۳ء

 

 

 

 

 

ستارے بن کے آتے ہیں جہاں سے

محبت کو ملے آنسو وہاں سے

 

ابھی اُمید ہے اُن سے وفا کی

کوئی کہہ دے یہ مرگِ ناگہاں سے

 

صدائے گریہ پیہم آ رہی ہے

کوئی بچھڑا ہوا ہے کارواں سے

 

خدا جانے کدھر کو جا رہے ہیں

نہیں معلوم آئے تھے کہاں سے

 

کوئی منزل بھی ہے اِس رہ گزر کی

کبھی پوچھوں گا میں عُمرِ رواں سے

 

وہ آئیں تو جدائی کی کہانی

سُناؤں کچھ یہاں سے کچھ وہاں سے

مارچ ۱۹۳۸ء

 

 

 

ایسی بھی کیا جلدی پیارے، جانے ملیں پھر یا نہ ملیں ہم

کون کہے گا پھر یہ فسانہ، بیٹھ بھی جاؤ سُن لو کوئی دم

 

وصل کی شیرینی میں پنہاں ہجر کی تلخی بھی ہے کم کم

تم سے ملنے کی بھی خوشی ہے تم سے جُدا ہونے کا بھی غم

 

حُسن و عشق جُدا ہوتے ہیں جانے کیا طوفان اُٹھے گا

عشق کی آنکھیں بھی ہیں پُرنم حُسن کی آنکھیں بھی ہیں پُرنم

 

میری وفا تو نادانی تھی تم نے مگر یہ کیا ٹھانی تھی

کاش نہ کرتے مجھ سے محبت کاش نہ ہوتا دل کا یہ عالم

 

شمع کی لوہے لرزاں لرزاں، پروانے کی خاک پریشاں

محفل کی محفل ہے ویراں کون کرے اب کس کا ماتم

 

سرِ چمن کا حاصل یہ بے ربط سی کچھ تصویریں ہیں بس

خندۂ گل حیرانیِ نرگس، نغمۂ بلبل، گریۂ شبنم

ستمبر ۱۹۴۳ء

 

 

 

 

 

اربابِ وفا کو ہے اک ایسی بھی ادا یاد

جس وقت تجھے دل سے بھلایا تو کیا یاد

 

دیکھی ہیں جفائیں بھی بہت عشق میں لیکن

اب کچھ بھی نہیں دل کو بجز مہرو وفا یاد

 

فرقت ہی مقدر تھی تو اس ذکر سے حاصل

تجھ کو نہ رہا یاد کہ مجھ کو نہ رہا یاد

 

محبوب ہزاروں ہیں تو کیا یہ بھی تو دیکھو

ہر اک کا الگ ذکر ہے، ہر اک کی جدا یاد

 

یہ ترکِ محبت ہے کہ تجدیدِ محبت

پہلے سے بھی آنے لگے وہ مجھ کو سوا یاد

 

پہلی ہی ملاقات میں یہ حال تھا گویا

اک شکل تھی پہچانی ہوئی، نام نہ تھا یاد

اکتوبر۱۹۴۳ء

 

 

 

 

 

وہ نگاہِ لطف جانِ دلبری ہونے لگی

دل میں پیدا روز اک کاہش نئی ہونے لگی

 

دل کو آیا بھی تو کب ترکِ محبت کا خیال

اُن کو بھی محسوس جب میری کمی ہونے لگی

 

ضبطِ غم اب تو زباں کو رُخصت فریاد دے

میری بے چینی کسی کی بے کلی ہونے لگی

 

جب خیال آیا اک برق سی لہرا گئی

میرے غم خانے میں جیسے چاندنی ہونے لگی

 

ہر نظر ان کی طلب ہر سانس ان کی آرزو

زندگی خود اب تو شرحِ زندگی ہونے لگی

 

زندگی غم، چارہ سازِ غم نہ تھا کوئی حفیظؔ

موت آخر پردہ دارِ زندگی ہونے لگی

جنوری ۱۹۴۴ء

 

 

 

 

 

اب روح تیرے غم کی طلب گار ہو گئی

بارِ غمِ جہاں سے سُبک سار ہو گئی

 

گرچہ ترے بغیر بھی دل مطمئن نہ تھا

اب زندگی کچھ اور بھی دشوار ہو گئی

 

دل کن عقوبتوں کا سزا وار بن گیا

جاں کن مصیبتوں میں گرفتار ہو گئی

 

ایک شعبدہ ہے اُن کی نگاہِ کرشمہ ساز

اقرار بن گئی کبھی انکار ہو گئی

 

جو سانس اُس نے لی وہ ترنم کی جان تھی

جو بات کی وہ حاصلِ گفتار ہو گئی

 

جو بات دل میں رہ گئی نشتر بنی حفیظؔ

جو لب پہ آ گئی رسن و دار ہو گئی

مئی ۱۹۴۴ء

 

 

 

 

 

کوئی آیا نہ گیا دل کا یہ عالم جیسے

آج پھر اُن کی ملاقات ہوئی ہے مجھ سے

 

اب بھی نایاب نہیں جنسِ وفا دُنیا میں

آکہ تجدیدِ روایات ہوئی ہے مجھ سے

 

جب کھلی آنکھ خیال اُن کا لگی آنکھ تو خواب

بڑی مشکل سے بسر رات ہوئی ہے مجھ سے

 

میں وہ سرشارِ محبت ہُوں کہ بے جام و سبو

رونقِ بزمِ خرابات ہوئی ہے مجھ سے

 

غمِ دوراں کو غمِ دوست بنایا میں نے

عشق میں یہ بھی کرامات ہوئی ہے مجھ سے

 

دیکھنے والے مجھے پیکرِ غم کہتے ہیں

یوں بھی منسوب تری ذات ہوئی ہے مجھ سے

جنوری ۱۹۴۵ء

 

 

 

شوقِ منزل ہے مگر ہمتِ یک گام نہیں

مجھ سا رسوا کوئی تقدیر سا بدنام نہیں

 

ابھی مایوس نہ ہوں مجھ سے خدایان چمن

نغمہ و رنگ تو ہیں گر قفس و دام نہیں

 

لبِ خاموش کی لرزش یہ پتہ دیتی ہے

جو مرے لب پہ نہ آئے وہ ترا نام نہیں

 

اب کوئی اور تڑپ مجھ کو عطا کر یا رب

عشق کا غم بھی حریفِ غم ایام نہیں

 

عشق اک کیف ہے جس میں نہ مکاں ہے نہ زماں

کوئی آغاز نہیں تھا کوئی انجام نہیں

 

لب پہ آ جاتی ہے جو دل پہ گزرتی ہے حفیظؔ

کوئی بھی نغمہ پسِ پردۂ الہام نہیں

مئی ۱۹۴۵ء

 

 

 

 

 

آغازِ محبت کی باتیں ہیں عجب باتیں

تمہیدِ الم باتیں عنوانِ طرب باتیں

 

یارونقِ محفل تھی اس جان تمنا سے

یا اپنے ہی دل سے ہیں تا آخرِ شب باتیں

 

تقدیرِ محبت ہے ہر حال میں رسوائی

کچھ اس کا سبب چُپ ہے کچھ اس کا سبب باتیں

 

پھر کام پڑا ہم کو خاموش نگاہوں سے

پھر رُکنے لگیں آ کرتا حدِّ ادب باتیں

 

آغاز محبت سے انجامِ محبت تک

محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں

 

جو دل میں ہے مدّت سے وہ بات نہ رہ جائے

پھر ہوں گی حفیظؔ اُن سے کب جانیے اب باتیں

جولائی ۱۹۴۵ء

 

 

 

 

 

وہ مجھ سے، میں اُن سے ہوں گریزاں

تنہا تنہا، اداس حیراں

 

انجامِ وفا پہ ناپشیماں

اپنی اپنی خطا پہ نازاں

 

دو سینوں میں ایک داغ روشن

داغِ جورو جفائے دوراں

 

پیمانِ وفا کی اور بھی بات

تکمیلِ وفا نہ تھی کچھ آساں

 

دامان شبِ سیاہ سے ہو

اے کاش طلوعِ صبحِ خنداں

 

وہ میرے لیے ہو پھر نواسنج

میں اس کے لیے ہوں پھر غزلخواں

جنوری۱۹۴۶ء

 

 

 

 

 

کسی کی یاد نے بھی گُل کھلائے ہیں کیا کیا

ہجومِ غم میں بھی ہم مسکرائے ہیں کیا کیا

 

نظر کو ان کی طلب دل کو آرزو ان کی

فضائے دیدہ و دل پر وہ چھائے ہیں کیا کیا

 

ملا نہ محرم رازِ سکوتِ غم ورنہ

نظر کے ساز پہ نغمے سنائے ہیں کیا کیا

 

کبھی جو کوششِ پیہم پہ بھی نہ یاد آئے

وہ یاد آئے ہیں تو یاد آئے ہیں کیا کیا

 

گمان ترکِ محبت ہوا زمانے کو

رہِ وفا پہ قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

 

سکوتِ صبحِ ازل ہو کہ شورِ محشر ہو

تری نمود نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

جنوری ۱۹۴۶ء

 

 

 

 

ابھی ابھی کوئی اس رہگذر سے گزرا ہے

کہ ایک عالمِ حیرت نظر سے گزرا ہے

 

نئی ہے اس کے لیے اب بھی رہگذر تیری

جو بار بار تری رہگذر سے گزرا ہے

 

غبارِ کاہکشاں گردِ راہ ہے کس کی

یہ کون منزلِ شمس و قمر سے گزرا ہے

 

سحر ہوئی بھی تو اُس کو یقیں نہ آئے گا

جو بدنصیب امیدِ سحر سے گزرا ہے

 

یہ آہٹیں سی رگ و پے میں بے سبب تو نہیں

کو ئی ضرور دلِ بے خبر سے گزرا ہے

 

حرم ہو، دیر ہو، راہیں ہیں ایک منزل کی

کوئی اِدھر سے تو کوئی اُدھر سے گزرا ہے

اکتوبر ۱۹۴۶ء

 

 

ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی

ہر قدم پر اک نئی درپیش مشکل آ گئی

 

یا خلا پر حکمراں، یا خاک کے اندر نہاں

زندگی ڈٹ کر عناصر کے مقابل آ گئی

 

دم بدم قُربِ حقیقت کا یقیں بڑھنے لگا

ہر نفس پر یہ گماں ہوتا ہے منزل آ گئی

 

کوئی محفل ہو نظر میں ہے تری محفل کا رنگ

میں جہاں پر تھا تری بُوئے شمائل آ گئی

 

ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے جوڑتا جاتا ہوں میں

ایک مشکل کم ہوئی، ایک اور مشکل آ گئی

 

شعلہ گفتاری پہ ہم آئے تو شور اٹھا حفیظؔ

شمعِ محفل کے مقابل شمعِ محفل آ گئی

اپریل ۱۹۶۳ء

 

 

قوتِ جسم و جاں یاد آئی

دل کی تاب و تواں یاد آئی

 

کل تم حجرۂ غم سے چلے تو

مجھ کو عُمرِ رواں یاد آئی

 

بزمِ طرب میں بات خوشی کی

بن کر غم کا سماں یاد آئی

 

مجھ سے ہوا یہ کام بھی ورنہ

کس کو اپنی فغاں یاد آئی

 

اپنے جُرمِ سیہ یاد آئے

تیری خُوئے اماں یاد آئی

 

دل کے زخم ہوئے پھر تازہ

پھر وہ تیغِ زباں یاد آئی

۲۹ جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

 

روشنی سی کبھی کبھی دل میں

منزلِ بے نشاں سے آتی ہے

 

لَوٹ کر نور کی کرن جیسے

سفرِ لامکاں سے آتی ہے

 

نوعِ انساں ہے گوش برآواز

کیا خبر کس جہاں سے آتی ہے

 

اپنی فریادِ بازگشت نہ ہو

اک صدا آسماں سے آتی ہے

 

تختۂ دار ہے کہ تختہ گُل

بوئے خوں گلستاں سے آتی ہے

 

دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ

بات دل میں کہاں سے آتی ہے

۱۹۶۴ء

 

 

یاد اُن آنکھوں کی دیوانہ بناتی ہے مجھے

کوئی بھولا ہوا افسانہ سناتی ہے مجھے

 

خود فراموش بنا دیتی ہے یوں اُن کی نظر

جیسے خود مجھ سے بھی چھینے لیے جاتی ہے مجھے

 

کچھ تصور ہے مرا کچھ ہے تصرف اُن کا

آئینے میں کوئی صورت نظر آتی ہے مجھے

 

میں نہ بھولوں گا تری یاد کا احسان کبھی

بھول جانے کے جو انداز سکھاتی ہے مجھے

 

مرحلے طے ہوئے جاتے ہیں غمِ دوراں کے

عشق کی منزلِ دشوار بلاتی ہے مجھے

 

کون ہے اب جو سنبھالے گا نظامِ عالم

اک محبت ہی محبت نظر آتی ہے مجھے

جنوری ۱۹۴۷ء

 

 

 

 

کئی چراغ جلائے اُمیدِ فردا نے

اجڑ کے بس نہ سکے پھر دلوں کے کاشانے

 

وہ دن دکھائے ہیں مجھ کو تری تمنا نے

عجب نہیں ہے کہ تو بھی نہ مجھ کو پہچانے

 

سبب ضرور نہیں میری چشمِ تر کے لئے

کہ بے سبب بھی چھلکتے رہے ہیں پیمانے

 

تری نگاہ نے مجھ کو سنائے تھے جو کبھی

مری نگاہ نے دہرائے ہیں وہ افسانے

 

صدا یہ آتی ہے مانوس رہگذاروں سے

کبھی تو گذریں گے پھر اس طرف سے دیوانے

 

وہی حفیظؔ وہی اس کا حال ہے اب تک

گئے تھے آج بھی احباب اس کو سمجھانے

فروری ۱۹۴۷ء

 

 

 

 

دشوار تھے جو لمحے غمِ روزگار کے

آساں بنا لیے ترے غم میں گزار کے

 

میں ہوں گناہگار گناہوں کا ذکر کیا

کچھ جبر کے طفیل ہیں کچھ اختیار کے

 

شاید نشانِ منزل مقصود بن سکیں

یہ نقش سجدہ ہائے سر راہگذار کے

 

قائم اُسی روش پہ ہیں تیرے نیازمند

اور وہ بھی باوجود غمِ روزگار کے

 

سوئیں گے حشر تک کہ سبک دوش ہو گئے

بارِ امانتِ غمِ ہستی اُتار کے

 

گر ساتھ دے سکیں یہ پریشانیاں حفیظؔ

جائیں گے زُلفِ شاہدِ ہستی سنوار کے

جنوری ۱۹۴۸ء

 

 

 

 

تیرے جلوے تھے عیاں شمس و قمر سے پہلے

گردشِ روز و شب و شام و سحر سے پہلے

 

درو دیوار پہ اک عالمِ محبوبی تھا

ایک مدّت ترے آنے کی خبر سے پہلے

 

دل کو مایوس نہ کر راہر و راہِ طلب

کارواں گزرے ہیں اس راہگذر سے پہلے

 

دل کی دھڑکن غمِ ہجراں کا پتہ دیتی تھی

تیرے بدلے ہوئے انداز نظر سے پہلے

 

راہزن سر بگریباں ہیں تو راہیں سنسان

قافلے لٹ گئے کیا عزمِ سفر سے پہلے

 

خوفِ رہزن بھی ہے اندیشہ رہبر بھی حفیظؔ

منزلیں سخت ہیں آغازِ سفر سے پہلے

جون ۱۹۴۸ء

 

 

 

 

تصوراتِ غمِ دل بدلتے جاتے ہیں

کہ زندگی کے مسائل بدلتے جاتے ہیں

 

وہی بشر ہے، وہی اس کا خونِ ناحق ہے

یہ اور بات ہے قاتل بدلتے جاتے ہیں

 

یہ بات کون کہے جا کے ناخداؤں سے

حدودِ موجہ و ساحل بدلتے جاتے ہیں

 

گئی وہ پیروی رسم و راہِ منزل بھی

اصولِ جادہ و منزل بدلتے جاتے ہیں

 

ہر اک نظر میں نئی وسعتیں نئی راہیں

وہ فاصلے وہ مراحل بدلتے جاتے ہیں

 

مرے سفر کے مقاصد قدم قدم پہ حفیظؔ

بہ فیضِ رہبرِ کامل بدلتے جاتے ہیں

ستمبر۱۹۴۸ء

 

 

گزر رہے ہیں یہ کس موسمِ بہار سے ہم

الجھ رہے ہیں گریبانِ روزگار سے ہم

 

جبیں پہ گردِ سفر ہے نظر میں عزمِ جواں

یہ کس دیار میں پہنچے ہیں کس دیار سے ہم

 

ہر اک قدم تھا جہاں موجِ خوں سے ہم آغوش

گزر کے آئے ہیں ایک ایسی رہ گزار سے ہم

 

فضا پہ چھائیں گے طوفانِ رنگ و بُو بن کر

بہار بن کے جو نکلے ہیں شعلہ زار سے ہم

 

تمام عمر کیا ہم نے انتظارِ بہار

بہار آئی تو شرمندہ ہیں بہار سے ہم

 

افق پہ حدِّ نظر تک غبار چھایا ہے

حفیظؔ ابھریں گے آخر اسی بہار سے ہم

مارچ۱۹۴۹ء

 

 

 

 

نہ پوچھ کیوں مری آنکھوں میں آ گئے آنسو

جو تیرے دل میں ہے اس بات پر نہیں آئے

 

وفائے عہد ہے یہ پاشکستگی تو نہیں

ٹھہر گیا کہ مرے ہمسفر نہیں آئے

 

عجیب منزلِ دلکش عدم کی منزل ہے

مسافرانِ عدم لوٹ کر نہیں آئے

 

ابھی ابھی وہ گئے ہیں مگر یہ عالم ہے

بہت دنوں سے وہ جیسے نظر نہیں آئے

 

کہیں یہ ترکِ محبت کی ابتدا تو نہیں

وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے

 

حفیظؔ کب انہیں دیکھا نہیں برنگِ دگر

حفیظؔ کب وہ برنگِ دگر نہیں آئے

اپریل ۱۹۵۰ء

 

 

 

 

دشوار کس قدر ہے وفا کا مقام بھی

دنیا کا بھی خیال، ترا احترام بھی

 

اے رہروانِ تیز قدم ان کا بھی خیال

اس راہ میں ہیں مجھ سے کئی سُست گام بھی

 

رو کے رہیں گے شورِ قیامت کو تابہ کے

دُکھتے ہوئے دلوں کو ذرا آکے تھام بھی

 

تاریکیاں سی مطلعِ قلب و نظر پہ ہیں

بدلے کہیں یہ قلب و نظر کا نظام بھی

 

اڑتی ہے خاک راہ گزاروں میں شام سے

پہلی سی روشنی نہیں بالائے بام بھی

 

فکرِ سخن اب اُن کو مبارک ہو اے حفیظؔ

فرصت کے ساتھ جن کو ہے اذنِ کلام بھی

ستمبر۱۹۵۰ء

 

 

 

 

گردشِ جامِ طرب یاد آئی

گرمی صحبتِ شب یاد آئی

 

آج جی کھول کے روئے اے دوست

تیری صورت بھی نہ جب یاد آئی

 

یاد آئی تری ہر ایک ادا

اور بعنوانِ طرب یاد آئی

 

حسرتِ لذت گفتار کے ساتھ

تیری ہر جنبش لب یاد آئی

 

بارہا اُن کو بھی تنہائی میں

نگہِ جلوہ طلب یاد آئی

 

کہہ سکے بات نہ ہم اُن سے حفیظؔ

یاد آنے کو تو سب یاد آئی

اپریل ۱۹۵۲ء

 

 

 

 

کچھ دوست مل گئے ہیں یہاں اتفاق سے

ملتے ہیں ورنہ دوست کہاں اتفاق سے

 

اے دوست خوش ہو مجھ سے تری رسم و راہ ہے

ملتا ہے اہلِ دل کا نشاں اتفاق سے

 

تم آئے لب پہ حرفِ تمنا بھی آ گیا

کھلتی ہے اہلِ دل کی زباں اتفاق سے

 

کوشش کے باوجود نہ جس کو سمجھ سکے

اکثر کھلی وہ بات یہاں اتفاق سے

 

توفیقِ دردِ عشق مقدر کی بات ہے

ملتی ہے زندگی سے اماں اتفاق سے

 

اِک اتفاق اور سہی موت بھی حفیظؔ

ہم اتفاق سے ہیں جہاں اتفاق سے

جون ۱۹۵۲ء

 

 

 

 

غمِ زندگانی کے سب سلسلے

بالآخر غمِ عشق سے جاملے

 

روایاتِ وصل و فراق اب کہاں

نئی قربتیں ہیں نئے فاصلے

 

کبھی بے سبب شکوہ ہائے دراز

کبھی ایک چُپ اور ہزاروں گلے

 

تری یاد یوں دل میں آئی کبھی

کوئی جس طرح اتفاقاً ملے

 

بہاریں کئی آکے رخصت ہوئیں

پر اہلِ جنوں کے نہ دامن سلے

 

نہ یہ معتبر ہیں نہ وہ معتبر

جفا کے تقاضے، وفا کے صلے

ستمبر ۱۹۵۲ء

 

 

 

 

نہ فریبِ دانہ و دام ہے نہ وہ شرطِ قید مقام ہے

سرِ شاخسار ہیں آشیاں سرِ شاخسار قفس بھی ہیں

 

کہیں لگ نہ جائے چمن میں آگ ترے جنونِ بہار سے

وہی آتشِ گل و لالہ ہے وہی خار ہیں وہی خس بھی ہیں

 

جنہیں دے گئی ہے پیامِ مرگ صدائے کوچ کی دلکشی

پسِ کاروانِ بلاکشاں وہ ہلاکِ صوتِ جرس بھی ہیں

 

غمِ روزگار کی تلخیاں بھی نہ جن کو دل سے بھلا سکیں

مرے دورِ عشق کی یادگارِ حسیں وہ یک دو نفس بھی ہیں

 

جو ترے تبسم یک نفس کی تجلیوں کو ترس گئے

مری زندگی کے شمار میں وہ طویل وتیرہ برس بھی ہیں

 

یہ تمیز عشق و ہوس نہیں یہ حقیقتوں سے گریز ہے

جنہیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہل ہوس بھی ہیں

ستمبر ۱۹۵۲ء

 

 

 

 

کیا دل گرفتہ ہم تری محفل سے آئے ہیں

آنکھوں میں اشک بھی بڑی مشکل سے آئے ہیں

 

مجبور ہو کے پھر تری محفل میں جائیں گے

مایوس ہو کے جو تری محفل سے آئے ہیں

 

کانوں میں گونجتی ہے اک آوازِ دلنشیں

پیغام میرے دل کو ترے دل سے آئے ہیں

 

وہ بدنصیب ہیں سرِ منزل پہنچ کے ہم

مایوس ہو کے رہبرِ کامل سے آئے ہیں

 

آغوشِ موج بھی ہمیں کرتی نہیں قبول

ہم بار بار لوٹ کے ساحل سے آئے ہیں

 

اپنی نظر میں اب کوئی جچتا نہیں حفیظؔ

اٹھ کر نہ جانے کس کے مقابل سے آئے ہیں

مارچ ۱۹۵۳ء

 

 

 

 

کہیں دیکھی ہے شاید تیری صورت اس سے پہلے بھی

کہ گزری ہے مرے دل پر یہ حالت اس سے پہلے بھی

 

تری صورت سے جیسے آشنا معلوم ہوتی ہیں

یہ آنکھیں بن چکی ہیں نقشِ حیرت اس سے پہلے بھی

 

ترا نورِ جبیں تھا اور شامِ غم کی تاریکی

تجھے دیکھا ہے اے صبحِ مسرت اس سے پہلے بھی

 

نہ جانے کتنے جلوے پیشرو تھے تیرے جلووں کے

تجھی سے بارہا کی ہے محبت اس سے پہلے بھی

 

سناتی ہیں کوئی افسانہ تیری سہمگیں نظریں

ہوئی ہے مجھ سے گستاخانہ جرأت اس سے پہلے بھی

 

حفیظؔ ان کو نہ آئے گا یقیں ترکِ محبت کا

کیا ہے بارہا ترکِ محبت اس سے پہلے بھی

مارچ ۱۹۵۳ء

 

 

 

 

بارہا جو سببِ ترکِ ملاقات ہوئی

بعد مدّت کے ملے پھر تو وہی بات ہوئی

 

بدلی بدلی نظر آتی ہیں اب ان کی نظریں

دیکھتے دیکھتے کیا صورتِ حالات ہوئی

 

سر سے پاتک ہیں وہ اک میکدۂ رنگ و جمال

اُن کو جب دیکھ لیا سیرِ خرابات ہوئی

 

اُن کو تو پاس رہا وعدۂ فردا کا مگر

عشق میں ہم سے نہ پابندیِ اوقات ہوئی

 

اعتماد اپنی محبت پہ ابھی تک ہے مجھے

ختم ہر چند تری رسمِ عنایات ہوئی

 

ہم گراں جانوں سے اچھے وہی کم ظرف حفیظؔ

جنہیں پہلی ہی نظر مرگِ مفاجات ہوئی

دسمبر ۱۹۵۴ء

 

 

 

 

تری تلاش میں ہم جب کبھی نکلتے ہیں

اک اجنبی کی طرح راستے بدلتے ہیں

 

تری تلاش ہے یا تجھ سے اجتناب ہے یہ

کہ روز ایک نئے راستے پہ چلتے ہیں

 

دراز ہو غمِ ہجراں کہ حاصلِ ہجراں

وہ حوصلے ہیں جو آغوشِ غم میں پلتے ہیں

 

روا نہیں ہے غمِ عشق اس قدر بھی غرور

ترے بغیر بھی دنیا کے کام چلتے ہیں

 

شبِ فراق کچھ ایسی بھی تیرگی تو نہیں

کبھی کبھی سرِ مژگاں چراغ جلتے ہیں

 

اب اُن کے غم سے بھی محروم ہو نہ جائیں کبھی

وہ جانتے ہیں کہ اس غم سے دل بہلتے ہیں

فروری ۱۹۵۵ء

 

 

 

 

گرچہ ہر ہر گام پہ ماہ و سال گزرتے جاتے ہیں

راہِ طلب سے تیرے پریشاں حال گزرتے جاتے ہیں

 

جن سے ملاقاتوں کی راتیں بھُولے بسرے خواب ہوئیں

اُن کی جدائی کے دن بھی ہر حال گزرتے جاتے ہیں

 

دھندلی سی کچھ تصویریں ہیں دل کے آئینہ خانے میں

نظروں سے موہوم سے خدوخال گزرتے جاتے ہیں

 

کون کسی کا پرساں ہے اس گُوں گی بہری دنیا میں

دل میں لئے سب حسرتِ عرضِ حال گزرتے جاتے ہیں

 

عشق ہے ایسی راہ کہ جس میں کوئی کسی کا ساتھ نہ دے

ہم بھی دیکھ کے ہمسفروں کی چال گزرتے جاتے ہیں

 

اپنے نقشِ پا سے حفیظؔ اپنی اک راہ نکالیں گے

چھوڑ کے پیچھے ہر راہِ پامال گزرتے جاتے ہیں

مئی۱۹۵۵ء

 

 

 

 

ابھی ٹوٹی نہیں دیوارِ زنداں آؤ دیوانو

کوئی مشکل نہیں جو ہو نہ آساں آؤ دیوانو

 

کہاں تک احترامِ جیب و داماں آؤ دیوانو

کریں اندازۂ جوشِ بہاراں آؤ دیوانو

 

کوئی ہنگامۂ دیوانگی کو پھر ترستا ہے

بلاتی ہے فضائے کوئے جاناں آؤ دیوانو

 

خرد کی گتھیاں سلجھائیں فرزانوں کے کام آئیں

جنوں کب تک رہے گا ہم پہ بُہتاں آؤ دیوانو

 

یہ فرزانوں کی بستی میں صدائے آشنا کیسی

کوئی دیوانہ ہے شاید غزل خواں آؤ دیوانو

 

بھری محفل، وہی اپنا حفیظؔ اور اس کی تنہائی

کہیں سے ڈھونڈ لائیں کوئی انساں آؤ دیوانو

فروری ۱۹۵۷ء

 

 

 

 

دل کی بستی سُونی سُونی نگر نگر آباد

اُجڑے گھر آباد ہوں یارب اُجڑے گھر آباد

 

منزل پر اک سناٹا ہے راہِ سفر آباد

راہِ سفر بھی راہبروں سے سرتا سر آباد

 

آہ یہ انسانوں کی بستی آہ کہاں انسان

چلتے پھرتے سایوں سے ہیں بام و در آباد

 

میرے شام و سحر کی رونق زلف و رُخ کے ساتھ

سایۂ زلف و رُخ سے میرے شام و سحر آباد

 

دل تو اجڑتے بستے ہی ہیں یہ تھا کسے معلوم

ایک نظر ویران کرے گی ایک نظر آباد

 

خواب میں اُن کو دیکھ رہے تھے کھُل گئی آنکھ حفیظؔ

خاک میں موتی رول رہی ہے چشمِ گُہر آباد

دسمبر ۱۹۵۷ء

 

 

 

 

زندگی نوحہ کناں ہو جیسے

ہر نفس ایک فغاں ہو جیسے

 

جانبِ منزلِ بے نام و نشاں

خواب میں کوئی رواں ہو جیسے

 

گُنگ ہیں ترکِ محبت کر کے

عشق اندازِ بیاں ہو جیسے

 

پرسشِ غم کا قرینہ مت پوچھ

اُن کی آنکھوں میں زباں ہو جیسے

 

زندگی دردِ مسلسل نکلی

درد پر جاں کا گماں ہو جیسے

 

فاصلے قیدِ تعیّن نے بڑھائے

سنگِ رہ سنگِ نشاں ہو جیسے

۱۹۶۲ء

 

 

 

 

دوری و قرب و ہجر و وصل، پست و بلند و پیش و پس

جب نہ سمجھ میں آ سکے، بن گئے اپنا خود قفس

 

دل کے دھڑکنے میں سُنی میں نے صدائے آشنا

وسعتِ کائنات میں کوئی تو ہو گا ہم نفس

 

ظرفِ نظر سے بے خبر اور ہو کیا تری سزا

عینِ حضور میں بھی اب جلوۂ دوست کو ترس

 

درد کے ایک لمحے پر عُمرِ گزشتہ کا گماں

جیسے پلک جھپکنے میں مجھ پہ گزر گئے برس

 

تلخیِ زیست کا اگر یہ بھی نہ ساتھ دے سکی

مُونس و غمگسار ہے ایک تمہاری یاد بس

 

اہلِ نیاز و عجز ہیں ذوقِ دعا سے مطمئن

دامنِ صبح تک نہیں گرچہ دعا کی دسترس

اپریل ۱۹۶۱ء

 

 

 

 

خوفِ تقلیدِ راہبری رہا

اک قدم اُس سے پیشتر ہی رہا

 

یوں ستارے شریکِ درد رہے

دل کو اندیشۂ سحر ہی رہا

 

کام آیا نہ خونِ صد منصور

دار کا نخل بے ثمر ہی رہا

 

دل میں اک شور سا اٹھا تھا کبھی

پھر یہ ہنگامہ عمر بھر ہی رہا

 

جلوہ در جلوہ حُسن تھا مستور

ماتمِ خفتِ نظر ہی رہا

 

غمِ آفاق کا بیاں تھا حفیظؔ

گرچہ روئے سخن اُدھر ہی رہا

اپریل ۱۹۶۱ء

 

 

 

 

 

قصۂ غم تری محفل میں گزر ہو تو کہوں

رُخ تری چشمِ توجہ کا ادھر ہو تو کہوں

 

میری حالت پہ نہ جا یوں بھی ہوا کرتا ہے

پوچھنے والے کوئی بات اگر ہو تو کہوں

 

راز کی بات جو آئی نہ لبِ موسیٰ تک

طور پر جلوہ ترا بارِ دگر ہو تو کہوں

 

ہائے وہ بات کہ ہے منتظرِ پیکِ اجل

منزلِ زیست سے اب میرا سفر ہو تو کہوں

 

کس طرح میں نے گزاری ہے شبِ ہجر حفیظؔ

کہیں میری شبِ ہجراں کی سحر ہو تو کہوں

 

 

 

 

 

تغافل کا کروں اُن سے گلہ کیا

وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا!

 

محبت میں تمیزِ دُشمن و دوست

یہاں نا آشنا کیا آشنا کیا

 

زمانے بھر سے میں کھویا گیا ہوں

تمہیں پا کر مجھے آخر ملا کیا

 

پھریں مجھ سے زمانے کی نگاہیں

پھری مجھ سے نگاہِ آشنا کیا

 

نہ مانی ہے نہ مانیں گے تری بات

حفیظؔ اُن سے تقاضائے وفا کیا

اکتوبر ۱۹۳۴ء

 

 

 

 

 

بے زبانی زباں نہ ہو جائے

رازِ اُلفت عیاں نہ ہو جائے

 

لطف آنے لگا جفاؤں میں

اب کہیں مہرباں نہ ہو جائے

 

لب پہ آتو گیا ہے نام ترا

یہ بھی اک داستاں نہ ہو جائے

 

اِس قدر پیار سے نہ دیکھ مجھے

پھر تمنا جواں نہ ہو جائے

 

خامشی ہے زبانِ عشق حفیظؔ

حسن اگر بدگماں نہ ہو جائے

اپریل ۱۹۳۵ء

 

 

 

 

 

جہانِ رنگ و بو میں کوئی تجھ سا پھر بھی دیکھوں گا

جو عالم میں نے دیکھا ہے وہی کیا پھر بھی دیکھوں گا

 

جو دو رُوحوں سے آباد ایک دنیا میں نے دیکھی تھی

وہ دو رُوحوں سے آباد ایک دنیا پھر بھی دیکھوں گا

 

تری قربت بھی اب جس کو شکیبا کر نہیں سکتی

ہجومِ شوق میں اُس دل کو تنہا پھر بھی دیکھوں گا

 

بظاہر جیسے اک بھولا ہوا خوابِ پریشاں ہو

وہ اَن دیکھی سی اک موہُوم دنیا پھر بھی دیکھوں گا

 

سوادِ شامِ غربت ہے اگر میرے مقدر میں

تجھے اک بار اے صبحِ تمنّا پھر بھی دیکھوں گا

دسمبر ۱۹۴۳ء

 

 

 

 

اب اُن کو جب کبھی دیکھا سنبھل کے دیکھیں گے

ہم اپنے دل سے بھی اک چال چل کے دیکھیں گے

 

جہاں میں کوئی ہمارے سوا بھی ہو شاید

ہم اپنے آپ سے باہر نکل کے دیکھیں گے

 

قدم قدم پہ جو رہبر بدل کے دیکھ چُکے

انہیں یہ ضد ہے کہ راہبر بدل کے دیکھیں گے

 

سحر ہمارا مقدر ہے یا نصیب ترا

ہم آج شمع ترے ساتھ جل کے دیکھیں گے

 

حفیظؔ ظرفِ غزل سے جنہیں شکایت ہے

ابھی وہ طور ہماری غزل کے دیکھیں گے

جولائی ۱۹۵۷ء

 

 

 

 

 

عشق کا درد علاجِ غمِ دوراں تو نہیں

زیست مشکل ہی سہی عشق بھی آساں تو نہیں

 

اپنی محدود نگاہی سے شکایت ہے مجھے

غمِ جاناں ہی سہی، پر غمِ انساں تو نہیں

 

ابھی آئی نہیں تکمیلِ جنوں کی منزل

مرے ہاتھوں میں ابھی اُن کا گریباں تو نہیں

 

تیری افسردہ نگا ہی کا یہ عالم تو نہ تھا

تو مرے حال پہ اے دوست پریشاں تو نہیں

 

ہم نے اوروں سے سُنا ہے جو ترا حال حفیظؔ

تیرے اندازِ سخن سے وہ نمایاں تو نہیں

۳ نومبر ۱۹۵۷ء

 

 

 

 

 

آدمی کائنات میں تنہا

وسعتِ شش جہات میں تنہا

 

دہرِ ناپائدار میں مہجور

عالمِ بے ثبات میں تنہا

 

آب و تابِ حیات کا باعث

کارزارِ حیات میں تنہا

 

بے شریکِ سفر روان و دواں

عرصۂ ممکنات میں تنہا

 

آپ ہی اپنی ذات میں محفل

آپ ہی اپنی ذات میں تنہا

اپریل ۱۹۶۱ء

 

 

 

 

 

تیری ہوائے لطف و کرم کو میں کیا کہوں

جس نے مرا چراغِ تمنا بجھا دیا

 

مل کر مری نگاہ نے تیری نگاہ سے

اک حرفِ زیرِلب کو فسانہ بنا دیا

 

تکمیلِ ذوقِ عشق کو اک عمر چاہیے

برسوں تری نگاہ نے درسِ وفا دیا

 

پڑتی ہے مجھ پہ سارے زمانے کی اب نظر

مجھ کو تری نگاہ نے تجھ سا بنا دیا

 

یہ حُسنِ اتفاق غنیمت ہے عشق میں

کچھ یاد آ گیا تو کوئی مسکرا دیا

 

 

 

 

 

 

پھر موج ہوا ہے پا بہ زنجیر

پھر سانس رُکی رُکی ہو جیسے

 

اپنے دل کو ٹٹولتا ہوں

مجھ میں کوئی کمی ہو جیسے

 

جو لمحہ بسر کیا ترے ساتھ

اک لمحہ دائمی ہو جیسے

 

ہر جنبشِ لب یہ کہہ رہی ہے

تم نے بھی غزل کہی ہو جیسے

 

میں دُور کہیں نکل گیا تھا

تم نے کوئی بات کی ہو جیسے

 

غفلت کی یہ ناگزیر ساعت

اسلوبِ خود آگہی ہو جیسے

 

تکیے پہ نشاں ہیں انگلیوں کے

وہ آکے چلی گئی ہو جیسے

 

 

 

وہ اک نظر کہ تغافل بھی التفات بھی ہے

پیامِ مرگ بھی ہے مژدۂ حیات بھی ہے

 

مرا وجود سہی ایک نقطہ موہوم

مری نگاہ میں انجامِ کائنات بھی ہے

 

نمودِ زیست سے پہلے نمودِ حُسن ہوئی

ترے ہی غم کا کرشمہ غمِ حیات بھی ہے

 

 

 

 

 

جب بھی کوئی معرکہ تھا درپیش

اپنا ہی مقابلہ تھا درپیش

 

جس سمت سے آئی کوئی آفت

ہر سو مرا حوصلہ تھا درپیش

 

جس راہ میں بھی قدم اٹھایا

لُٹتا ہوا قافلہ تھا درپیش

 

دیکھا کئی زاویوں سے تجھ کو

اشکوں کا وہ سلسلہ تھا درپیش

 

کل شب تری یاد سے فزوں تر

اک درد کا مرحلہ تھا درپیش

 

میں نے تجھے بارہا پکارا

کچھ ایسا معاملہ تھا درپیش

 

کوتاہ ہوا یہ قافلہ بھی

اک سانس کا فاصلہ تھا درپیش

جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

کام آیا نہ کچھ غزل کہنا

وہی اُن کے حضور چُپ رہنا

 

آنسوؤں پر نہ جاؤ آنسو ہیں

آنسوؤں کا تو کام ہے بہنا

 

ہمیں اس دور میں بھی یہ جرأت

رات کو رات، دن کو دن کہنا

۱۷ مارچ ۱۹۶۳ء

 

 

 

 

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

 

میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک

شریکِ گریۂ شبنم نہ ہوں گے

 

ذرا دیر آشنا چشمِ کرم ہے

ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے

 

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

 

زمانے بھر کے غم یا اِک ترا غم

یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے

 

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

 

حفیظؔ اُن سے میں جتنا بدگماں ہوں

وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے

جون ۱۹۵۲ء

 

 

بہت دوستوں کو ملایا اُسی نے

جدا تم سے جس بات پر ہو گئے ہم

 

مقدر میں تھا تم سے محروم رہنا

تو مانوس کیوں اِس قدر ہو گئے ہم

 

 

 

دل کی حالت دمِ رخصت مت پوچھ

ہائے وہ شکل وہ صورت مت پوچھ

 

عجزِ گفتار نہ رسوا ہو جائے

اس کی باتوں کی حلاوت مت پوچھ

 

متصل گوش برآواز ہے دل

وہ کہانی وہ حکایت مت پوچھ

 

گُنگ ہے اہلِ محبت کی زباں

حرفِ ناگفتہ کی حسرت مت پوچھ

 

زندگی بھر کی جدائی کے لیے

چند لمحوں کی رفاقت مت پوچھ

 

مجھ کو احبابِ وطن یاد آئے

اجنبی لوگوں کی چاہت مت پوچھ

 

میں نے پہلے بھی محبت کی ہے

وجہِ انکارِ محبت مت پوچھ

 

پھر کہاں مجمعِ احباب حفیظؔ

چار دن جینے کی فرصت مت پوچھ                                                                                             مارچ ۱۹۵۷ء

 

 

خزاں کے دَور میں جب بھی چھڑا ہے ذکرِ بہار

فریب خوردگیِ رنگ و بُو کی بات چلی

 

فراقِ دوست کا آیا بھی ذکر لب پہ اگر

غمِ فراق تری آبرو کی بات چلی

 

کھلا یہ راز کہ مقصود تھا سراغ اپنا

جہاں کہیں بھی تری جستجو کی بات چلی

۳ جنوری ۱۹۶۰ء

 

 

 

 

میرے رگ و پے میں جوشِ خوں سے

اک دھوم سی مچ رہی ہو جیسے

 

برفاب کے گھونٹ میں وہ لذت

اِک ساغرِ سرخوشی ہو جیسے

 

اکثر سرِ شام ہی یہ احساس

کچھ رات گزر گئی ہو جیسے

 

یوں بھی سرِ راہ مل گئے لوگ

اک عمر کی دوستی ہو جیسے

 

تم سے کچھ مانگنے میں تھی شرم

یہ شرم بھی اُٹھ گئی ہو جیسے

 

ہر سجدے کو طول دے رہا ہوں

یہ سجدۂ آخری ہو جیسے

 

اک سانس کا فرق رہ گیا ہے

یہ فرق بھی عارضی ہو جیسے

 

صدیوں سے لبِ بشر تک آ کر

اک بات رُکی ہوئی ہو جیسے

۳۰ جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

 

کسی صورت تو حق دردِ محبت کا ادا کرتے

وفا اُس نے نہ کی تو کیا ہوا ہم ہی وفا کرتے

اپریل ۱۹۴۷ء

 

 

 

 

 

چارۂ دردِ جگر ہونے لگا

دشمنِ جاں چارہ گر ہونے لگا

 

رہزنِ سرمایۂ صبر و قرار

موسمِ دیوانہ گر ہونے لگا

 

پھر مری آنکھوں کی قسمت جاگ اُٹھی

پھر طوافِ بام و در ہونے لگا

 

جان کر میرا تغافل آشنا

حالِ دل سے بے خبر ہونے لگا

 

بند کر آنکھوں کو اے عشقِ غیور

حُسن وقفِ رہگذر ہونے لگا

 

جس کے جلووں کو ترستی تھی نظر

خود وہ محتاجِ نظر ہونے لگا

 

منزلِ مقصود آپہنچی حفیظؔ

قصّۂ غم مختصر ہونے لگا

فروری ۱۹۳۷ء

 

 

پوچھا کسی نے حال تو رُک رُک کے تیرا نام

لب پر مثالِ کوششِ ناکام آ گیا

 

میرے لیے تو سجدۂ پیہم تھی زندگی

اِک آستانِ ناز بہرگام آ گیا

 

ہم بھی کہاں کے اہلِ وفا تھے مگر حفیظؔ

اِک باوفا پہ مفت کا الزام آ گیا

۱۵ مئی ۱۹۴۵ء

 

 

 

 

جنوں میں شیخ و برہمن ہیں کس قدر کامل

ہزار قافلہ بے نشان و بے منزل

 

کچھ اس طرح سے بہار آئی ہے کہ بجھنے لگے

ہوائے لالہ و گل سے چراغِ دیدہ و دل

 

رواں ہے قافلہ بے درا و بے مقصود

جو دل گرفتہ ہیں راہی تو رہنما غافل

 

یہ بات کہہ کے ہوا ناخدا الگ مجھ سے

یہ ہے سفینہ یہ گرداب ہے وہ ہے ساحل

 

حدیثِ درد بجز ’قتل محض‘ کچھ بھی نہیں

نہ چھیڑ قصہِ و مقتول، و مقتل و قاتل

 

میں اپنے حال کو ماضی سے کیوں کہوں بہتر

اگر وہ حاصلِ غم تھا، تو یہ غمِ حاصل

 

میانِ عشق و ہوس ہے مقامِ قلب و نظر

نہ عشق عین حقیقت نہ ہے ہوس باطل

 

سنا رہا ہوں برنگِ غزل زمانے کو

حکایتِ غمِ دوراں، فسانۂ غمِ دل

 

تڑپ رہا ہے کہیں پھر مری نظر کے لیے

جو حُسن تھا مرے ذوقِ نگاہ کا حاصل

 

یہ کہہ رہی ہے مرے بام و در کی تاریکی

وہ جلوے آج بھی ہیں میری بزم کے قابل

 

چلے گئے جو حریفانِ دلنواز حفیظؔ

اب اُن کا ذکر ہے اور یادِ گرمیِ محفل

ستمبر ۱۹۴۷ء

 

 

 

رواں دواں بھی رہے قافلے تو کیا ہو گا

یوں ہی بدلے رہے راستے تو کیا ہو گا

 

تلاشِ راہبر و جستجوئے منزل میں

تمام عمر بھٹکتے رہے تو کیا ہو گا

 

بقدرِ تیز روی ہے بعید تر منزل

کچھ اور بڑھتے گئے فاصلے تو کیا ہو گا

 

نکل تو آئے ہیں بچ کر نگاہِ رہزن سے

پہنچتے ہی سرِ منزل لُٹے تو کیا ہو گا

 

یہ باوجودِ محبت ہجومِ تیرہ شبی

چراغ ہائے محبت بجھے تو کیا ہو گا

 

فضائے جنتِ انسان میں ملے تو ملے

نجومِ شمس و قمر سے پرے تو کیا ہو گا

 

بس ایک جُرمِ وفا کے لئے جُرم نہیں

یونہی گزرتے رہے حادثے تو کیا ہو گا

 

معاملاتِ غمِ دل میں پیش آئے کہیں

غمِ زمانہ ترے معرکے تو کیا ہو گا

 

یہ بے کسی ہے کوئی گوشِ منتظر ہی نہیں

جو زیرِلب ہی رہے زمزے تو کیا ہو گا

 

کوئی تلافی یک لمحۂ فراق نہیں

ترے بغیر بھی برسوں جیے تو کیا ہو گا

 

ہم اُن سے بچھڑے ہیں جیسے اسی طرح سے حفیظؔ

تمام دوست بچھڑتے رہے تو کیا ہو گا

ستمبر ۱۹۵۵ء

 

 

 

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اِس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

 

تلاش دوست کو اِک عمر چاہیے اے دوست

کہ ایک عمر ترا انتظار ہم نے کیا

 

ترے خیال میں دل شادماں رہا برسوں

ترے حضور اسے سوگوار ہم نے کیا

 

فراق و وصل کے جھگڑوں سے مل گئی فرصت

کچھ اس طرح سے ترا اعتبار ہم نے کیا

 

یہ رسم عشق یہ ایذا پسندیاں دل کی

کہ تجھ کو اہل جفا میں شمار ہم نے کیا

 

بفرطِ شوق تجھے جانِ روزگار کہا

یہ احترامِ غم روزگار ہم نے کیا

 

ہنوز ترکِ محبت کی لذتیں ہیں وہی

کہ روز عہدِ وفا استوار ہم نے کیا

 

تو میرے دل میں مرے دل کو جستجو تیری

کہ دل کو بھی نہ ترا راز دار ہم نے کیا

 

بیانِ غم ہے بہ طولِ شب فراق کبھی

بقدرِ آہ کبھی اختصار ہم نے کیا

 

یہ تشنگی ہے کہ اُن سے قریب رہ کر بھی

حفیظؔ یاد انہیں بار بار ہم نے کیا

اپریل ۱۹۵۴ء

 

 

 

 

 

ایک رستے کی بے انتہا منزلیں

ایک منزل کے بے انتہا راستے

 

اتنے بے نقشِ پادشت حائل ہُوئے

ہو گئے منزلوں سے جُدا راستے

 

ہم بدلتے رہے رہنما رات دن

اور بدلتے رہے رہنما راستے

 

جس میں رہزن سے رہبر کی ہے دوستی

اب نکالیں گے اُن کے سوا راستے

 

موج کے زور پر ناؤ بہتی رہی

ڈھونڈتا ہی رہا نا خدا راستے

 

اپنی آواز کی طرح لَوٹ آؤں گا

مجھ کو دیتے رہیں گے صدا راستے

 

یہ لہو کی لکیریں کہاں تک گئیں

میری اِس جستجو کی سزا راستے

 

کب سے ہیں میری یلغار کے منتظر

کہکشاں کے خلا در خلا راستے

 

میں مسافر، سفر میری قسمت حفیظؔ

میری تقدیر میں نارسا راستے

جون ۱۹۶۴ء

 

 

 

 

 

کوئی دیوانوں کی سنتا ہے نہ فرزانوں کی

جیسے دُنیا کو ضرورت نہیں انسانوں کی

 

اُٹھ گئے بزمِ محبت سے وہ اربابِ نظر

کون اب لائے خبر دل کے نہاں خانوں کی

 

جب بھی یاد آئے وہ یاد آئے بعنوانِ دگر

ہم بدلتے ہی رہے سرخیاں افسانوں کی

 

اب تو خلوت سے نکل انجمن آرائے خیال

آئینہ بن گئیں شکلیں ترے حیرانوں کی

 

حکم جینے کا ہے اور جینے کی صورت معلوم

زندگانی ہے کہ تعمیل ہے فرمانوں کی

 

ڈوبنے والے پہنچ کر لبِ ساحل ڈوبے

شکر ہے سر سے بلا ٹل گئی طوفانوں کی

 

اُٹھ سکے جب نہ قدم حدِّ گماں سے آگے

بات سننی ہی پڑی عقل کو دیوانوں کی

 

اُس ستم گار سے اُتنی ہی شکایت ہے مجھے

جتنی آباد ہے دنیا مرے ارمانوں کی

 

موت بھی زندگیِ تازہ کا وعدہ نکلی

مشکلیں حل نہ ہوئیں تیرے گراں جانوں کی

 

گردشیں آج بھی ہیں پاؤں میں دیوانوں کے

وسعتیں آج بھی آباد ہیں ویرانوں کی

 

جل اُٹھی شمع سی اک تیرگی دل میں حفیظؔ

یاد جب آئی سلگتے ہوئے کاشانوں کی

اکتوبر ۱۹۵۱ء

 

 

 

کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے

حدودِ شام و سحر سے نکل کے دیکھ آئے

 

نہیں پیام، رہِ نامہ و پیام تو ہے

ابھی صبا سے کہو، اُن کے دل کو بہلائے

 

خدا دراز کرے عمرِ نالہائے فراق

جو بارہا درِ زنداں سے جا کے ٹکرائے

 

غرورِ جادہ شناسی بجا سہی لیکن

سراغِ منزلِ مقصود بھی کوئی پائے

 

خدا وہ دن نہ دکھائے کہ راہبر یہ کہے

چلے تھے جانے کہاں سے کہاں نکل آئے

 

گزر گیا کوئی درماندہ راہ یہ کہتا

اب اِس فضا میں کوئی قافلہ نہ ٹھہرائے

 

نہ جانے اُن کے مقدر میں کیوں ہے تیرہ شبی

وہ ہمنوا جو سحر کو قریب تر لائے

 

کوئی فریبِ نظر ہے کہ تابناک فضا

کسے خبر کہ یہاں کتنے چاند گہنائے

 

غمِ زمانہ تری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں

کہ بڑھ چلے ہیں اب اُن گیسوؤں کے بھی سائے

 

بہت بلند ہے اس سے مرا مقام غزل

اگرچہ میں نے محبت کے گیت بھی گائے

 

حفیظؔ اپنا مقدر، حفیظؔ اپنا نصیب

گرے تھے پھول مگر ہم نے زخم ہی کھائے

دسمبر ۱۹۵۱ء

 

 

 

جانِ ہنگامۂ شب یاد آیا

حاصلِ بزمِ طرب یاد آیا

 

جو مجھے یاد نہ آیا برسوں

یاد آیا تو عجب یاد آیا

 

رو چکے جب تو بڑی دیر کے بعد

ہمیں رونے کا سبب یاد آیا

 

بڑی مشکل سے بھلایا ہے اُسے

کیا کروں گا جو وہ اب یاد آیا

 

حالِ دل یاد نہ آیا پہلے

جا چکے آپ تو سب یاد آیا

 

اُن سے پیمانِ وفا باندھا تھا

زندہ رہنے کا سبب یاد آیا

 

عصمتِ غم کی گواہی بن کر

کوئی معصوم لقب یاد آیا

 

شمعِ خلوت کدہ دل بن کر

کوئی تا آخرِ شب یاد آیا

 

ترک الفت اُنہیں پیمانِ وفا

یاد آیا بھی تو کب یاد آیا

 

آج انہیں دیکھ کے مجبورِ حیا

اوّلیں ترکِ ادب یاد آیا

 

میں نے اُس بھولنے والے کو حفیظؔ

کب بھلایا تھا کہ اب یاد آیا

اپریل ۱۹۵۲ء

 

 

 

 بے خودی کا یہ فسوں تنہا ہوں میں تنہا ہے تو

ذوقِ تنہائی فزوں اک دوسرے کے رُوبرو

 

کچھ دنوں سے دمبدم ہم آپ ہیں اپنے حضور

آپ اپنی آگہی ہے آپ اپنی آرزو

 

ہم نے دیکھا اپنا موضوعِ سخن ہیں آپ ہم

اپنے ہی دل سے رہی اکثر ہماری گفتگو

 

آپ اپنے آشنا ہیں آپ ہیں اپنا سراغ

آپ اپنی گمرہی ہیں آپ اپنی جستجو

 

تم پہ جب ڈالی نظر ہم خود نظر آنے لگے

آئنہ دیکھا تو جیسے تم ہی تم تھے ہُوبہو

 

خشک ندّی کے کنارے آپ ہیں اس پر گواہ

سبز پوشانِ چمن کا آئینہ تھا آبِ جو

 

صحنِ گلشن کیا، درو دیوار تک ہیں ناپدید

کوئی رو کے سبزۂ بیگانہ کا جوشِ نمو

 

کیف کا عالم ہے بے ہنگامۂ فصلِ بہار

رقص کرتا گنگناتا ہے رگ و پے میں لہو

 

عطر برساتا گیا دشت و در و کہسار پر

حجلۂ گل سے جو نکلا کاروانِ رنگ و بُو

 

میرا آئینِ غزل ہے مجھ پہ جو گزری حفیظؔ

آبرو میری غزل سے، میں غزل کی آبرو

۲۸ جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

 

 

وفا کی داستاں چھیڑی کبھی تم نے کبھی ہم نے

بطرزِ دلبری تم نے برنگِ عاشقی ہم نے

 

نگاہِ شوق سے بخشی جنہیں تابندگی ہم نے

تصور میں انہی جلووں سے مانگی روشنی ہم نے

 

وہی جلوے وہی آنکھیں مگر کیا ہو گیا دل کو

نجانے کیوں بدل ڈالا مذاقِ زندگی ہم نے

 

یہی ویران آنکھیں ہیں، یہی سنسان راہیں ہیں

یہیں اکثر جلائے ہیں چراغِ دلبری ہم نے

 

جدائی کا سماں ہے آج تک اپنی نگاہوں میں

نہ کوئی بات کی تم نے نہ کوئی بات کی ہم نے

 

یہی اک عالمِ وارفتگی تھا اُن سے مل کر بھی

جُدا رہ کر بھی اُن سے اپنی حالت دیکھ لی ہم نے

 

زمانہ ہو گیا لیکن یہی محسوس ہوتا ہے

تمہیں پہلے پہل جس طرح دیکھا ہو ابھی ہم نے

 

ملے جب بھی نئے جلوے نظر آئے نگاہوں کو

دیارِ حُسن میں دیکھا نہ تم سا اجنبی ہم نے

 

ہمیں معلوم ہے مجبوریوں کی انتہا کیا ہے

کہ دیکھی ہے نگاہِ حُسن کی بیچارگی ہم نے

 

وفا تم بھی کرو ہم بھی کریں انجام جو بھی ہو

کسی کے سامنے رکھ دی یہ شرطِ آخری ہم نے

 

کوئی دیکھے ہمارے احترامِ عہدِ رفتہ کو

وفا پر اب بھی قائم ہیں محبت چھوڑ دی ہم نے

 

بس اک ذوقِ نظر پر ناز تھا وہ بھی نہیں باقی

حفیظؔ اُن کے تغافل کو یہ دولت سونپ دی ہم نے

اپریل ۱۹۴۴ء

 

 

 

 

آدمی کو زندگی بخشی گئی

خاک کو یوں آگہی بخشی گئی

 

نوعِ انساں کو ملا اعزازِ غم

ایک قدرِ دائمی بخشی گئی

 

جب یہ دیکھا بڑھ چلا غم کا غرور

اہلِ غم کو بھی خوشی بخشی گئی

 

دل پہ جب چھانے لگی افسردگی

اک خلش دل کو نئی بخشی گئی

 

جب کبھی مرجھا گئی دل کی کلی

آبِ غم سے تازگی بخشی گئی

 

دم بدم بڑھتا رہا سوز و گداز

اہلِ دل کوبے دلی بخشی گئی

 

میرے غم کی پردہ داری کے لئے

میرے ہونٹوں کو ہنسی بخشی گئی

 

ایک لمحے کی اطاعت کے عوض

عمر بھر کی گمرہی بخشی گئی

 

پہلے توفیقِ خطا بخشی مجھے

اور پھر شرمندگی بخشی گئی

 

اک گناہِ بے گناہی کے سوا

جو بھی تھی مجھ میں کمی، بخشی گئی

 

عقل والے حشر میں رسوا ہوئے

اور مری دیوانگی بخشی گئی

 

رہنماؤں کی خطائیں سب معاف!

رہزنوں کی رہزنی بخشی گئی

 

گمرہانِ منزلِ مقصود کو

روز اک منزل نئی بخشی گئی

 

نعمتوں سے بھر گیا دامن حفیظؔ

مجھ کو وہ طبعِ غنی بخشی گئی

۲۹ جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

 

ہمیں جہاں میں ہیں راز آشنا قیامت کے

کہ فاصلے ہیں قیامت رہ محبت کے

 

اس ایک بات کا غم ہے کہ رائے گاں کھوئے

ترے فراق میں اوقات اپنی فرصت کے

 

نہ کوئی رسم، وفا کے سوا محبت میں

نہ کوئی شرط، سوا شرطِ آدمیّت کے

ستمبر ۱۹۵۸ء

 

 

 

 

زندگی درد و اذیت کے بغیر

جیسے انساں آدمیت کے بغیر

 

دیکھ لی اے غائبِ حاضر نما

تیری صورت تیری صورت کے بغیر

 

زندگی تیرے تضادوں کے نثار

غم کی شدت غم کی شدت کے بغیر

 

کوئی دنیا برتر از کرب و نشاط

کوئی عالم رنج و راحت کے بغیر!

 

کوئی جلوہ تیرے جلووں کے سوا

کوئی صورت تیری صورت کے بغیر

 

اس زیاں خانے میں لے آئے مجھے

جانے کیوں میری ضرورت کے بغیر

 

اک ندامت آپ اپنی ذات سے

اور پھر وجہِ ندامت کے بغیر

 

بات کرنے کو ترستی ہے زباں

بات کرنے کی اجازت کے بغیر

 

اپنے دل سے بھی بہت باتیں رہیں

منتِ گوشِ سماعت کے بغیر

 

راہ کوئی واصلِ منزل نہیں

راہِ صبر و استقامت کے بغیر

 

یہ ہمارا شغلِ مجبوری حفیظؔ

روتے ہیں رونے کی فرصت کے بغیر

جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

 لفظ ابھی ایجاد ہوں گے ہر ضرورت کے لیے

شرحِ راحت کے لیے، غم کی صراحت کے لیے

 

اب مرا چُپ چاپ رہنا امرِ مجبوری سہی

میں نے کھولی ہی زباں کب تھی شکایت کے لیے

 

میرے چشم و گوش و لب سے پوچھ لو سب کچھ یہیں

مجھ کو میرے سامنے لاؤ شہادت کے لیے

 

سخت کوشی سخت جانی کی طرف لائی مجھے

مجھ کو یہ فرصت غنیمت ہے علالت کے لیے

 

آکسیجن سے شبستانِ عناصر تابناک

مضطرب ہر ذی نفس اس کی رفاقت کے لیے

 

مر گئے کچھ لوگ جینے کا مداوا سوچ کر

اور کچھ جیتے رہے جینے کی عادت کے لیے

 

آہ مرگِ آدمی پر آدمی روئے بہت

کوئی بھی رویا نہ مرگِ آدمیّت کے لیے

 

کوئی موقع زندگی کا آخری موقع نہیں

اس قدر تعجیل کیوں رفع کدورت کے لیے

 

استقامت! اے مرے دیر آشنا ماتم گُسار!

ایک آنسو ہے بہت حُسنِ ندامت کے لیے

 

کوئی ناصرؔ کی غزل کوئی ظفرؔ کی ’’لے ترنگ‘‘

چاہیے کچھ تو مری شامِ عیادت کے لیے

 

گلشن آبادِ جہاں میں صورتِ شبنم حفیظؔ

ہم اگر روئے بھی تو رونے کی فرصت کے لیے

جون ۱۹۷۲ء

 

 

 

مجھ میں کوئی دلکشی ہو جیسے

اور مجھ سے چھپی ہوئی ہو جیسے

 

اک عالمِ بے خودی ہو جیسے

ہر چیز نئی نئی ہو جیسے

 

دُکھ خصلتِ آدمی ہو جیسے

سارا ہی جہاں دُکھی ہو جیسے

 

یہ جبر کی زندگی ہو جیسے

جینا مجھے لازمی ہو جیسے

 

ہر چیز میں روشنی ہو جیسے

صبحِ شبِ زندگی ہو جیسے

 

نظروں میں وہ بس رہا ہے منظر

رنگوں کی کماں گری ہو جیسے

 

میں تم کو نئی غزل سُناؤں

جو میں نے ابھی کہی ہو جیسے

 

کچھ اس کے سوا تمہیں سنانا

بے وقت کی راگنی ہو جیسے

 

خلوت میں بھی یہ خیال پیہم

دنیا مجھے دیکھتی ہو جیسے

 

یوں اپنے سے ہمکلام ہوں میں

فطرت مجھے سُن رہی ہو جیسے

 

پہلے سے بھی کہیں فزوں تر

توفیقِ خود آگہی ہو جیسے

 

تاریکیِ شب میں بام و در پر

بکھری ہوئی ہوئی چاندنی ہو جیسے

 

حیرت کدۂ نشاطِ جاں میں

اک بزم سجی ہوئی ہو جیسے

 

خلوت گہہِ انبساطِ دل میں

جلوت کی ہما ہمی ہو جیسے

 

پھر رونے میں رات کٹ گئی کیا

آواز دبی دبی ہو جیسے

 

مثرگاں پہ وہ اک ستارۂ صبح

شرحِ غمِ زندگی ہو جیسے

 

ہر نالۂ نیم شب کا حاصل

اک نغمۂ سرمدی ہو جیسے

 

ہر گونج ہے اُس کے نام کی گونج

ذکر اُس کا گلی گلی ہو جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ساقی نامے سے

 

بنامِ خدا دَورِ ساغر چلے

بآوازِ اللہ اکبر چلے

 

چلے ساقیا پھر چلے دورِ جام

چلے دورِ جام اور برابر چلے

 

ترے در پہ اُن کو سکوں مل گیا

مری طرح ہو کے جو بے گھر چلے

 

کوئی جامِ مے سا نہیں گرم رو

یہاں چلنے والے تو اکثر چلے

 

کہاں سوئے تھے اور جاگے کہاں

کہاں چھوڑ کر ہم کو رہبر چلے

 

عجب چال تم نے چلی رہبرو!

کہ پہروں ہی ٹھہرے جو دم بھر چلے

 

مرے اہلِ گلشن ہیں اب مطمئن

بہار آئے یا بادِ صرصر چلے

 

تری پیشوائی کو اے جانِ جاں

مصوّر بڑھے اور سخنور چلے

 

تری راہ تھی ہر طرف سامنے

تری راہ سے لاکھ بچ کر چلے

 

یہ آوازِ دل تھی کہ تیری صدا

کہ ہم دفعتہ جانبِ در چلے

 

اگر سر میں سودا سمایا کوئی

بہ اندازِ رفتار محشر چلے

 

پئے خاطرِ نازکِ دوستاں

کبھی بُوئے گل سے سبک تر چلے

 

اٹھے تیری محفل سے اور سرگراں

چلے اور بادیدۂ تر چلے

 

تری بزم ساقی سلامت رہے

کہ ہم دامنِ شوق کو بھر چلے

 

کہیں سے کوئی اور لاجاں فروش

بس اب اے محبت کہ ہم مر چلے

 

جہاں سے گئے اہلِ دل کا مگار

کہ تجدیدِ رسمِ وفا کر چلے

 

حفیظؔ آ گیا دور دارو رسن

چلے اہلِ محراب و منبر چلے

ستمبر ۱۹۵۴ء

 

 

 

تقدیرِ اِنساں

 

تاریخ کا حرفِ خوں چکا ہوں

تدبیر کی سعیِ رائگاں ہوں

 

کیا ہے مری کوئی اور منزل

یا آپ ہی منزلِ رواں ہوں

 

کوئی ہے مری کشش کا مرکز

یا اپنی طرف رواں دواں ہوں

 

اک عالم ہجر ہوں مسلسل

ہر لمحہ فراقِ جسم و جاں ہوں

 

خود اپنے ہی قُرب سے ہوں محروم

اپنے سے جدا زماں زماں ہوں

 

 

مجھ پر نہ کھلی مری حقیقت

فطرت کا ارادۂ نہاں ہوں

 

میں اپنے یقیں کی حدِّ آخر

میں اپنے وجود کا گماں ہوں

 

اے وسعتِ کائنات فرما

میں کون ہوں کب سے ہوں کہاں ہوں ؟

 

میں عرضِ بیاں کے مرحلے پر

آسودگیِ لبِ فغاں ہوں

 

الفاظ گریز کر رہے ہیں

معنی کو گِلہ کہ میں کہاں ہوں

 

اظہار کی ناتمام کوشش

لفظ و معنی کے درمیاں ہوں

 

اسلوبِ بیاں کی سرحدوں تک

بے صوت و صدا رواں دواں ہوں

 

میں اپنی نظر کی آپ تقصیر

میں اپنی زباں کا خود زیاں ہوں

 

میں تیغِ زباں کے زخم کھا کر

پُرسانِ مزاجِ دوستاں ہوں

 

اے فکرِ محال تو کہاں ہے

اے حُسنِ خیال میں کہاں ہوں

 

مجھ کو دھوکے دیے گئے ہیں

میں اصلِ فریب خوردگاں ہوں

 

مجھ سے وعدے کیے گئے ہیں

ان وعدوں کا وقتِ امتحاں ہوں

 

اب وہ مری جاں سے دُور کیوں ہے

جس نے یہ کہا قریبِ جاں ہوں

 

میں مژدۂ عمرِ جاوداں تھا

میں حسرتِ مرگِ ناگہاں ہوں

 

اے وعدۂ سلسبیل و کوثر!

میں تشنگیِ زلالِ جاں ہوں

 

کوتاہیِ خوابِ درد منداں

بیداریِ چشمِ پاسباں ہوں

 

ہر مُردہ بدستِ زندگاں ہے

میں زندہ بدستِ مُردگاں ہوں

 

آغاز، اذانِ بے نمازے

انجام، نمازِ بے اذاں ہوں

 

میں فرصتِ یک نماز گویا

ہستی و عدم کے درمیاں ہوں

 

مَردُودِ عقوبتِ جہنم!

محرومِ بہشت جاوداں ہوں

 

میں کشتیِ نوح کے برابر

دریائے سراب میں رواں ہوں

 

میں چشمۂ خضر کے مقابل

خود خضر کی عمرِ رائے گاں ہوں

 

آوارۂ جستجوئے ہارُون

ہر چند کلیمِ نکتہ داں ہوں

 

فرعون کا ناقبول ایماں !

تاخیر کا عذرِ جاں ستاں ہوں

 

منصور کی ناپذیر جرأت

تزویر کا نخل ہوں جہاں ہوں

 

شیطاں مرا اوّلیں خریدار

وہ مکر و فریب کی دکاں ہوں

 

جس میں ہے مسیح بھی شناور

وہ خون کا بحرِ بے کراں ہوں

 

ایوبؑ کے صبر کی اہانت

یعقوب کی چشمِ خوں فشاں ہوں

 

سقراط کو زہر کا پیالہ!

اس زہر سے آپ تلخ جاں ہوں

 

منصور کے قتل کا بہانہ!

اس قتل پہ آپ نوحہ خواں ہوں

 

اے ارض میں تیرے آستاں پر

اک سجدۂ سہو کا نشاں ہوں

 

سُن اے شبِ ہجرِ زندگی سُن!

’’صبحِ شبِ ہجر کی اذاں ‘‘ ۱؎ ہوں

 

اب میرا سُراغ کیا ملے گا

میں آپ سُراغِ رفتگاں ہوں

 

ہر رہزن و رہنما سے پنہاں

اُفتادہ متاع کار رواں ہوں

 

آفاق کے ذہن سے فراموش

مانندِ حساب دوستاں ہوں

 

ہر چند ہوں مثلِ ذرّۂ ناچیز

میں آپ ہی اپنا اک جہاں ہوں

 

بانی کسی دور کا نہیں میں

ہر دورِ عظیم کا نشاں ہوں

 

رستوں کے فراز مجھ سے روشن

اک پر توِ نور ہوں جہاں ہوں

 

راہوں کے نشیب میں درخشاں

گویا میں چراغِ کارواں ہوں

 

بیتے ہوئے دن کی آخری ضو

بجھتی ہوئی شمع کا دھواں ہوں

 

ہنگامہ گفتگو کا مَد فَن

کوتاہ نفس تنک بیاں ہوں

 

ہر شخص فسانہ گو کا محتاج

میں آپ ہی اپنی داستاں ہوں

 

اپنی ہستی کی نوحہ خوانی

تاریخِ وفاتِ دیگراں ہوں

 

بے منتِ قصہ خوان و راوی

میں آج بھی اپنا ترجماں ہوں

جون ۱۹۷۲ء

_______

۱؎:  ۱۳۹۲ھ

 

 

 

فردیات

 

جی بھر کے دیکھنے کی تمنا کے باوجود

رُک رُک کے دیکھنا دمِ رخصت نظر میں ہے

 

شامِ فراق جو مرے لب تک نہ آ سکی

اب تک وہ ان کہی سی حکایت نظر میں ہے

 

یہ اور بات ہے اب یاد تک نہیں آتا

کسی کے نام سے آرائشِ بیاں تھی کبھی

 

محبت کو دعائیں دے رہا ہوں

کہاں میں اور کہاں یہ دولتِ غم

 

محبت کی حقیقت اے حفیظؔ اس کے سوا کیا ہے

بہت مشکل تھا جینا اس کو آساں کر رہا ہوں میں

 

کوئی محروم ہے کوئی مجبور

پارسائی ہے، نارسائی ہے

 

نہیں ایک منزل بھی رہبر کے پاس

مری گمرہی کے ہزاروں مقام

 

کچھ غمِ عشق کے سوا بھی ہے

غمِ ہستی ترے خزینے میں

 

تیری صورت سے عیاں ہو کر رہا

ہم چھپاتے ہی رہے دل کا ملال

 

غمِ فراق بھی ہے اور سکونِ قلب بھی ہے

جُدا ہوا ہے کوئی جیسے عمر بھر کے لیے

 

یہ جان کر کہ محبت نہیں مروّت ہے

ہم التفاتِ دلِ دوستاں سے دور رہے

 

ہم ہُوئے آئینہ بردار اُن کے

اپنی نظروں سے نہاں تھا کوئی

 

اُسے دیکھے مری آنکھوں سے کوئی

اُسے چاہے کوئی میرے دل سے

 

من وتو کا حجاب اُٹھنے نہ دے اے جانِ یکتائی

کہیں ایسا نہ ہو بن جاؤں خود اپنا تمنائی

 

سزائے حرفِ تمنا زیانِ جاں ہی سہی

کوئی تو حرفِ تمنا زبان پر لائے

 

میرا مقدر میرے ساتھ

پائے طلب یا دستِ دعا

 

 

 

 

 انتخاب فارسی کلام

 

بہ امید یک نگاہی دل مبتلا نشستہ

ببرت چناں نشتہ کہ زتوجدانشستہ

 

بجہانِ ما بیا ید تب و تاب ما ببینید

سر عرش کبریائیز ازل خدانشستہ

 

زغمِ توجاناں ببردن بغمد گرفتادن

کہ سپاہِ غمز ہرسو بکمین ما نشستہ

 

بہوائی تو ببز مت کہ بیا فتیم راہی

بخدا ترا نشاید کہ رویم ’’نانشستہ‘‘

 

پئی او بگوشۂ غم بنشستہ ایم گاہی

گہی او بہ کنج محبت بخیال مانشستہ

 

نہ حفیظؔ زار تنہا برخش فتادہ از پا

کہ ہجومِ درد منداں ہمہ جا بجا نشستہ

 

برمن ہر آنچہ دور ازاں مہرباں گذشت

ازدردہجر بر دلِ یارم ہما گذشت

 

یک روز بودہ در بزم آں ’’یاردل نواز‘‘

روز دگر بسوئے وطن نا گہاں گذشت

 

رفت آنچناں کہ سیر ندیدیم روئے او

چوں ماہ نو کہ زود تراز آسماں گذشت

 

عزم سفر نمود، نآسودہ از سفر

چوں بوئے گل رسیدد چو ابر رواں گذشت

 

در رہ دو چار حادثہ گشت و مراز تن

گوئی نہ دردو رنج و غم و کرب جاں گذشت

 

پرس از دل خودت کہ انیس دل من است

با از ندیم من کہ شب من چساں گذشت

 

در سینہ دل تپیدز چشم برفت خواب

دز صد خلوص حرف دعا برزباں گذشت

 

بنشست بسکہ تیر دعا راست بر ہدف

شکرِ خدا کہ یار من از بیم جاں گذشت

 

چوں من کسے کہ خاک رہ دوستاں شدہ است

دامن کشاںز بارگہ این و آں گذشت

 

باور نشدوفائے من از دل گزاشتم

کزدوستی حفیظؔ بباید زجاں گذشت

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل