FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ملا نصر الدین

تین ڈرامے

میرزا ادیب

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

ملا نصر الدین

تین ڈرامے

میرزا ادیب

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

مُلا نصر الدین کا عجیب جانور

(ملا نصر الدین کا گھر۔ ملا جی کی بیگم باورچی خانے میں بیٹھی برتن مانجھ رہی ہیں۔ ملا جی کندھے پر ایک تھیلا رکھے اندر آتے ہیں۔ خوشی سے ان کا چہرہ سرخ ہے۔ آتے ہی بیگم سے مخاطب ہوتے ہیں)

مُلا: بیگم! بیگم!!

بیگم: کیا ہوا؟ آتے ہی شور مچانا شروع کر دیا ہے۔

مُلا: بیگم، ایک خوش خبری سنو۔ واللہ تڑپ جاؤ گی۔ تمہارے سارے دلدَّر دور ہو جائیں گے سن رہی ہو؟ سارے دلدَّر دور ہو جائیں گے۔

بیگم: خاک دور ہوں گے۔ برتن مانجھ مانجھ کر میرے ہاتھ سیاہ پڑ چکے ہیں۔ کمر میں درد رہتا ہے۔ (کمر سیدھی کرتے ہوئے) ہائے! سر چکراتا رہتا ہے۔

مُلا: اوہو! بہت بڑی خبریں ہیں۔

بیگم: آپ کو خدا ا نے اتنی توفیق بھی نہیں دی کہ گھر میں ایک ملازمہ ہی کا انتظام کر دیتے۔

مُلا: بیگم! اب گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

بیگم: کیا آسمان سے اشرفیاں برسنے والی ہیں یا من و سلوی اترنے والا ہے؟

مُلا: بیگم! ابھی ابھی کم از کم ایک ہزار دینار تمہارے سامنے ڈھیر ہو جائیں گے۔

بیگم: ایک ہزار دینار!

مُلا: ہو سکتا ہے کہ دو ہزار ہو جائیں اور ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہو جائیں۔

بیگم: کیا جنگل میں کسی درخت کے نیچے کوئی خزانہ مل گیا ہے جسے آپ تھیلے میں بھر کر لے آئے ہیں؟

مُلا: سچ مچ خزانہ، بیگم! سچ مچ خزانہ۔

بیگم: (برتن پرے ہٹاتے ہوئے) ایک مرتبہ پھر کہیے۔

مُلا: خزانہ۔ خ۔ ز۔ الف۔ ن۔ ہ خزانہ۔

بیگم: ہائے اللہ! دکھائیے!

(بیگم اٹھ بیٹھتی ہیں)

زندگی میں کبھی پانچ سو دینار نہیں دیکھے۔

مُلا: خزانہ تو ہے، مگر ابھی ایک جانور کے روپ میں ہے۔

بیگم: کیا کہا؟ خزانہ ایک جانور کے روپ میں ہے؟ کیا مطلب؟

مُلا: ہاں بیگم! یاد ہے کچھ دن ہوئے میں نے تمہیں بتایا تھا کہ آج جھاڑی میں ایک ایسا عجیب جانور دیکھا ہے جو بے حد عجیب و غریب ہے۔ ایسا عجیب و غریب کہ اس جیسا شاید ساری دنیا میں نہیں ہو گا۔

بیگم: بتایا ہو گا۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔

مُلا: اور میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر یہ جانور پکڑ لیا جائے تو یہ ہزار دو ہزار میں بک سکتا ہے۔

بیگم: کہا ہو گا۔ مجھے ہر بات یاد نہیں رہتی۔

مُلا: میں اس دن سے اس عجیب و غریب جانور کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شکر ہے خدا کا کہ آج اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔

بیگم: تو پھر کیا ہو گا؟

مُلا: کیا کہہ رہی ہو بیگم! پھر کیا ہو گا۔ سنو! تمہارے شوہر نام دار ملا نصر الدین دنیا کا سب سے عجیب و غریب جانور پکڑ کر لائے ہیں۔ انہیں مبارک باد دو۔

بیگم: دکھائیے پہلے!

مُلا: میں نے بے شمار جانور دیکھیے ہیں۔ مگر ایسا جانور آج تک میری آنکھوں کے سامنے نہیں آیا۔ بالکل سفید ہے اس کا رنگ۔ سنگ مرمر کی طرح۔ بال روئی جیسے نرم۔ اور کان دیکھو گی تو بس حیران رہ جاؤ گی۔ یہ بڑے بڑے ہیں، ماشاء اللہ۔

بیگم: ہم اس جانور کا کریں گے کیا؟

مُلا: فروخت کریں گے۔ کوئی امیر آدمی ہزار دو ہزار دینا میں خرید لے گا۔

بیگم: کون خریدے گا؟

مُلا: کہہ تو رہا ہوں کوئی دولت مند آدمی۔ اس شہر میں بے شمار دولت مند موجود ہیں۔

بیگم: کیا یہ جانور انڈے دیتا ہے اور۔۔

مُلا: (غصے سے) ہائے ہائے! بیگم! ہوش کے ناخن لو۔ اپنے عقل مند شوہر کے سامنے بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔

بیگم: میں پوچھتی ہوں عقل مند شوہر صاحب، اگر جانور ایسا ہی عجیب و غریب ہے تو گھر میں کیوں اٹھا لائے ہو؟ کسی امیر کے ہاتھ بیچ کر دیناروں سے تھیلا بھر کر لے آتے۔

مُلا: تمہیں خوش خبری سنانے کے لیے لے آیا تھا۔

بیگم: تو لے جایئے اسے کسی کے پاس۔

مُلا: کسی کے پاس لے جاؤں؟ وہ جو نکڑ پر رہتا ہے شرف الدین انصاری۔۔ جانور پالنے کا اسے بڑا شوق ہے۔ کئی بار کہہ چکا ہے کہ ملا جی! عام جانور پالنے میں مزا نہیں آتا۔ کوئی ایسا جانور ملے جو چڑیا گھر میں بھی نہ ہو تو لطف آ جائے۔ میں یہ جانور اسے دکھاؤں گا۔ دیکھتے ہی پھڑک جائے گا اور دو ہزار کی تھیلی میرے سامنے پھینک دے گا۔

بیگم: فوراً جائیے۔ فوراً۔

مُلا: مگر اسے یہاں لانے میں ایک فائدہ ہے میں اس سے کہوں گا، جناب! میں خود اسے پالنا چاہتا ہوں۔ کسی کو دینا نہیں چاہتا۔ انصاری اصرار کرے گا، نہیں ملا جی! مجھے دے دو۔ میں انکار کروں گا اور وہ اصرار کرے گا اور یوں اس کی قیمت کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوں؟ میں نے ٹھیک سوچا ہے نا بیگم؟

بیگم: سوچا تو کچھ ٹھیک ہی ہے۔

مُلا: نصر الدین کبھی غلط نہیں سوچتا۔

بیگم: میں کہتی ہوں جائیے نا اب۔

مُلا: وہ سامنے ہی تو رہتا ہے انصاری۔ مگر بیگم۔

بیگم: کہیے!

مُلا: ایک بڑی اچھی تجویز آئی ہے میری ذہن میں۔

بیگم: کیا تجویز ہے؟

مُلا: بجائے اس کے کہ میں خود اس کے پاس جاؤں کیوں نہ کسی سے کہوں کہ اسے بلا لائے۔ لیکن جائے گا کون؟ نہیں میں خود جاؤں گا۔

بیگم: ٹھیک ہے۔ تمہیں خود ہی جانا چاہیے۔

مُلا: کہوں گا دینا کا سب سے عجیب جانور میرے پاس گھر میں ہے۔ وہ فوراً کہے گا دکھاؤ مجھے۔

بیگم: ضرور کہے گا۔

مُلا: میں کہوں گا آئیے میرے ساتھ۔

بیگم: ذرا ہمیں دکھا تو دیتے۔

مُلا: ابھی نہیں۔ انصاری کے سامنے جب تھیلا کھولوں گا، اس وقت تم بھی دیکھ لینا۔

بیگم: اچھا۔

مُلا: (تھیلا کندھے سے اتارتے ہوئے) میں نے اسے بڑی اچھی طرح بند کر رکھا ہے۔ ایک طرف رکھ دو۔

بیگم: خود کارنس کے اوپر رکھ دو۔

(ملا جی تھیلا کارنس کے اوپر رکھ دیتے ہیں)

مُلا: ہم جاتے ہیں۔

بیگم: جلدی آ جائیے۔

مُلا: ابھی پانچ منٹ کے اندر واپس آتا ہوں۔

بیگم: میں ہاتھ دھو لوں۔

(بیگم ہاتھ دھونے لگتی ہے۔ ملا جی چلے جاتے ہیں۔ ہمسائی آتی ہے)

ہمسائی: اے بہن! کیا ہو رہا ہے؟

بیگم: برتن مانجھ رہی ہوں۔

ہمسائی: نے کہا جب میں گھر سے نکل کر ادھر آ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ ملا جی بڑی تیزی سے کہیں جا رہے ہیں۔

بیگم: وہ جو دولت مند آدمی رہتا ہے نکڑ پر۔۔

ہمسائی: انصاری صاحب!

بیگم: انہیں بلانے گئے ہیں۔

ہمسائی: دس بیس تو ہم بھی دے سکتے ہیں۔

بیگم: قرض لینے نہیں گئے۔

ہمسائی: پھر کیا کام ہے؟

بیگم: کیا دولت مندوں کے پاس صرف قرض لینے کے لیے ہی لوگ جاتے ہیں؟

ہمسائی: اور بھی کئی کام ہو سکتے ہیں۔ بہن! تم خواہ مخواہ برا مان گئیں۔

بیگم: برا نہیں مانا میں نے، انصاری صاحب ابھی ابھی آ جاتے ہیں پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔

ہمسائی: کچھ بتاؤ گی بھی یا یوں ہی معما بازی کرتی رہو گی؟

بیگم: ملا جی جنگل سے ایک نہایت عجیب و غریب جانور پکڑ کر لائے ہیں۔ انصاری صاحب جانوروں کے بڑے شوقین ہیں۔

ہمسائی: جانور تو میں نے ملا جی کے پاس نہیں دیکھا۔

بیگم: دیکھ کیسے سکتی تھیں۔ وہ تو یہاں ہے۔ میں نے بتایا نہیں کہ ملا جی انصاری صاحب کو اپنے ہمراہ لائیں گے۔ وہ آئیں گے تو جانور دیکھیں گے اور ہزار دو ہزار پر سودا ہو جائے گا۔

ہمسائی: (سخت حیرت سے) اچھا!

بیگم: اور کیا!

ہمسائی: آج تو قسمت جاگ اٹھی ہے تم لوگوں کی۔

بیگم: اللہ کا فضل ہونے والا ہے۔

ہمسائی: بڑی اچھی بات ہے۔ سچ! اللہ کا فضل ہونے والا ہے۔

بیگم: بلکہ ہو چکا ہے۔ ملا جی کہتے ہیں اس جانور کا ساری دنیا میں ثانی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے انصاری صاحب دو ہزار دینار سے بھی زیادہ رقم دے دیں۔ تمہیں خبر نہیں۔ ایسے نایاب جانوروں کو لوگ چڑیا گھر میں لے جاتے ہیں اور منھ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ ہم تو انصاری صاحب کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ہے اور پھر ہمیں قرض بھی دیتا رہتا ہے۔

ہمسائی: نیک آدمی ہے۔ قرض دے کر وصول نہیں کرتا۔

بیگم: کیوں؟ ہم تو جو کچھ لیتے ہیں، فوراً ادا کر دیتے ہیں۔

ہمسائی: کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ میں نے کہا، بہن! وہ جانور ہے کہاں؟

بیگم: یہیں ہے۔

ہمسائی: ذرا ایک جھلک دکھا دو نا!

بیگم: نہ نہ بہن! آئیں گے تو خفا ہوں گے۔

ہمسائی: انہیں کیسے پتا چلے گا کہ ہم نے جانور کی ایک جھلک دیکھی ہے۔

بیگم: اس تھیلے میں ہے۔

(بیگم کارنس کی طرف اشارہ کرتی ہے)

ہمسائی: (تھیلے کی طرف دیکھتے ہوئے) اس تھیلے میں؟

بیگم: ہاں!

ہمسائی: اٹھو ذرا!

بیگم: ابھی انصاری صاحب آ جائیں گے تو ہم بھی دیکھ لیں گے۔

ہمسائی: واہ بہن! انصاری صاحب کے سامنے میں کیوں کر دیکھ سکوں گی۔ تم ان کے سامنے چلی جاتی ہو۔ میں تو نہیں جاتی۔

بیگم: میں بھی کب جاتی ہوں۔ چھپ کر دیکھیں گے۔

ہمسائی: چھپ کر کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ ایک لمحے کی ہی تو بات ہے۔ تھیلے کا منھ کھولیں گے اور فوراً سے پیش تر بند کر دیں گے۔ وہیں کا وہیں رہے گا۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ ہم اسے دیکھ چکے ہیں۔

بیگم: جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔

ہمسائی: پھر نیکی اور پوچھ پوچھ۔

بیگم: کہتے ہیں یہ جانور سنگ مرمر کی طرح سفید ہے۔

ہمسائی: سنگ مرمر کی طرح سفید؟

بیگم: اور بال روئی کی طرح نرم اور کان۔۔۔

ہمسائی: سنانے میں کیا لطف آتا ہے تمہیں۔ دیکھیں گے تو مزہ آئے گا۔

بیگم: اور احتیاط سے تھیلے کا منھ کھولیں گے۔

(بیگم اور ہمسائی اس کارنس کی طرف جاتی ہیں۔ جس پر تھیلا پڑا ہے)

ہمسائی: پتا نہیں کیا چیز ہے۔

بیگم: بے حد عجیب و غریب چیز ہے۔

(بیگم آہستہ آہستہ تھیلے کا منھ کھولتی ہیں)

ہمسائی: اندر ہاتھ ڈالو!

بیگم: کیا خبر کاٹ کھائے۔

ہمسائی: ہٹو۔ میں ہاتھ ڈالتی ہوں۔

بیگم: بہت احتیاط کے ساتھ بہن!

ہمسائی: بڑی احتیاط کے ساتھ ہاتھ ڈالوں گی۔

(ہمسائی تھیلے کے اندر ہاتھ ڈالتی ہے۔ تھیلے میں سے خرگوش نکل کر بھاگ جاتا ہے)

بیگم: ہائے اللہ!

ہمسائی: بہن! بھاگو پیچھے۔

(خرگوش آناً فاناً دروازے میں سے نکل جاتا ہے)

بیگم: بیڑا غرق کر دیا تم نے۔

ہمسائی: میں ڈھونڈ کر لاتی ہوں۔

(ہمسائی تیزی سے نکل جاتی ہے۔ بیگم گھبراہٹ میں تھیلے کا پورا منھ کھول کر اس کے اندر ہاتھ ڈالتی ہے۔ مُلا جی کی دروازے کے باہر سے آواز آتی ہے ’’جناب، ایک منٹ ٹھہر جائیے! ابھی اندر جاتے ہیں۔‘‘

(ملا جی اندر آتے ہیں)

مُلا: بیگم، انصاری صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ اندر سے دوسری کرسی لے آؤ! یہ کیا کر رہی ہو؟ تھیلے کے اندر ہاتھ کیوں ڈال رکھا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا کر رہی ہوں؟

بیگم: کرنا کیا ہے۔ وہ عارفہ کی بچی، تباہ کر دیا اس نے ہمیں۔

مُلا: کیا ہوا؟

بیگم: میں نے لاکھ منع کیا کہ جانور مت دیکھو ابھی کہنے لگی، صرف ایک جھلک دیکھوں گی۔

مُلا: تو ہوا کیا؟

بیگم: وہ نہ جانے کہاں بھاگ گیا ہے۔ ہم برباد ہو گئے ہیں۔

مُلا: اوہ بیگم! تم نے تو ہمارا بیڑا غرق کر دیا۔ اب دو ہزار کی تھیلی نہیں ملے گی۔ میں بڑی مشکل سے پکڑ کر لایا تھا۔ بجلی کی طرح تیزی سے بھاگنے والا جانور ہے۔ بیگم تم نے غضب کر دیا ہے۔

(بیگم زور زور سے رونے لگتی ہے۔ مُلا جی بڑبڑاتے ہیں اور پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

مُلا نصر الدین کا مہمان

مُلا جی کا گھر۔ مُلا جی گھر میں آتے ہیں۔ بیگم اس وقت باورچی خانے میں ہیں۔ مُلا جی ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔ جب بیگم نظر نہ آئیں تو۔۔ ۔)

مُلا: بیگم بیگم! کہاں ہو تم؟

بیگم: (باورچی خانے سے) شور کیوں مچا رہے ہیں آپ؟ باورچی خانے میں ہوں۔

مُلا: فوراً سے پیشتر بتاؤ کہ روٹیاں اور سالن تیار ہے؟

بیگم: نہیں۔

(بیگم دروازے پر آتی ہیں)

مُلا: تم نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ روٹیاں تیار نہیں ہیں۔ سالن تیار نہیں ہے۔

بیگم: کر رہی ہوں۔ میرے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے۔

مُلا: بیگم! مار ہی ڈالا تم نے۔ اس قدر بھوک لگی ہے کہ معلوم ہوتا ہے پچھلے آٹھ دن سے کچھ بھی نہیں کھایا۔

بیگم: تو ہوا پھانکیے۔

مُلّا: بیگم! مذاق مت کرو۔ واللہ بے ہوش ہو جانے کے قریب ہوں۔ ابھی گرا کہ گرا۔

بیگم: نہیں گرو گے اور اگر گرنے لگو تو مجھے آواز دے دینا۔

مُلا: بیگم! یہ بتاؤ کہ ابھی کتنا وقت لگے گا کھانا تیار کرنے میں؟

بیگم: سالن پک چکا ہے۔ اب اسے انگیٹھی سے اتار کر روٹیاں پکاؤں گی۔

مُلا: کب تک روٹیاں پک جائیں گی؟

بیگم: شام تک پک ہی جائیں گی۔

مُلا: ارے! (جھوٹ موٹ گرتے ہوئے) میں گرنے لگا ہوں۔

بیگم: نہیں گرو گے۔

مُلا: بیگم! تم میری بات کو صحیح نہیں سمجھتیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، غلط نہیں ہے۔

بیگم: اگر تم کو اتنی ہی بھوک ہے تو گر کیوں پڑے ابھی تک؟

مُلا: وہ تو میں نے خود کو سنبھال رکھا ہے ورنہ کب کا بے ہوش ہو چکا ہوتا اور تم چیخ چیخ کر سارے محلے کو سر پر اٹھا چکی ہوتیں۔

بیگم: اچھا! مجھے کام کرنے دو۔ تمہاری باتیں تو کبھی ختم ہی نہیں ہوں گی۔

(بیگم جانے لگتی ہیں)

مُلا: بیگم سنو! ہانڈی انگیٹھی سے اتار دو۔ تو میرے لیے فوراً برتن میں سالن ڈال دینا، تاکہ کچھ ٹھنڈا ہو جائے۔ گرم سالن کھانے سے میری زبان جل جائے گی۔

بیگم: دیکھا جائے گا۔

مُلا: دیکھو بیگم!

(بیگم چلی جاتی ہیں۔ ان کے جانے کے فوراً بعد دوسرے دروازے پر دستک ہوتی ہے)

مُلا: کون صاحب ہیں؟

جبار: (باہر سے) میں ہوں بھائی نصر الدین!

مُلا: میں کون؟

جبار: جی، میں ہوں جبار۔

مُلا: جبار (آہستہ سے) کون جبار؟

(دروازہ کھولتے ہیں، ایک بھاری بھرکم صاحب دروازے پر نظر آتے ہیں)

جبار: السلام علیکم نصر الدین! آواز نہیں پہچان سکے تو کیا شکل بھی نہیں پہچانتے؟

مُلا: میں شرمندہ ہوں۔ واقعی سخت شرمندگی ہے۔ اپنے کم زور حافظے کی وجہ سے مجھے بعض اوقات سخت نادم ہونا پڑتا ہے۔

جبار: میں جبار ہوں، عبد الجبار۔

مُلا: اپنا نام تو آپ پہلے بھی بتا چکے ہیں۔

جبار: تو کیا جبار کو بھول گئے۔ واہ صاحب! کمال کر رہے ہیں آپ۔ ارے بھائی۔ میں وہی تو ہوں جس کے ساتھ آپ بچپن میں کھیلا کرتے تھے۔ اسی مکان کے آنگن میں۔

مُلا: اسی مکان کے آنگن میں! اچھا۔ حیرت ہے مجھے یہاں رہتے ہوئے صرف نو برس ہوئے ہیں۔ میرا بچپن تو یہاں سے دور ایک چھوٹی بستی میں گزرا تھا۔

جبار: یار! میں جگہ بھول گیا تھا۔ میں بچپن کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں کون ہوں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم کھیلتے کھیلتے لڑ پڑے تھے اور میں نے ایک پتھر اٹھا کر تمہارے سر پر دے مارا تھا۔

مُلا: پتھر میں نے مارا تھا۔

جبار: صرف یہ بات آپ بھول گئے۔

مُلا: صاحب! پتھر میں نے مارا تھا۔

جبار: چلیے مُلّا جی! میں مان لیتا ہوں۔ پتھر آپ نے مارا تھا اور میرا سر پھٹ گیا تھا اور پھر آپ نے مجھے حلوا کھلایا تھا۔

مُلا: خوب خوب! چلیے صاحب ادھر تشریف لائیے دروازے پر کیوں کھڑے ہیں۔

جبار: تو اندر تشریف لے آتا ہوں۔

(جبار اندر آ کر ایک چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے)

مُلا: کیسے آئے؟

جبار: (آہ بھر کر) یہ بڑی درد ناک کہانی ہے میرے بھائی! بڑا دکھی ہوں۔

مُلا: خیر تو ہے۔

جبار: کیا عرض کروں۔ سنیں گے تو آپ کو تکلیف ہو گی۔ ایک عجیب بیماری میں مبتلا ہوں۔ ہائے موت بھی نہیں آتی مجھے بدبخت کو۔ دعائیں کرتا ہوں موت کی، مگر اللہ میاں نہیں مانتے جیے جا رہا ہوں اور مرنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ یوں سمجھیے کہ زندہ تو ہوں، مگر مردوں سے بد تر۔ زندگی مجبوری بن کر رہ گئی ہے۔

مُلا: بیماری کیا ہے آپ کو؟

جبار: بیماری؟ سخت خطرناک۔۔ ۔ بے حد خطرناک ہے۔

مُلا: کیا خدا نخواستہ دل، جگر یا پھیپھڑا وغیرہ خراب ہے؟

جبار: میرا معدہ سخت خراب ہے۔ بھوک تو نہیں لگتی نہیں۔ شہر شہر، بستی بستی، قریہ قریہ گھوما ہوں ہر خطے کی سیر کی ہے مگر صحت بدستور ویسی کی ویسی ہے۔

مُلا: اوہو!

جبار: بھوک بے حد کم لگتی ہے۔ چنانچہ بہت کم کھاتا ہوں۔

مُلا: کھانے کا وقت تو ہو گیا ہے۔ کچھ کھائیے گا؟

جبار: کیا کھاؤں گا۔

مُلا: پھر بھی چند لقمے۔

جبار: اچھا! آپ چاہتے ہیں کہ اپنی آنکھوں سے میری بدنصیبی کا منظر دیکھیں تو میں کیا اعتراض کر سکتا ہوں۔ خبر نہیں اس شہر کی روٹیاں کیسی ہیں۔ سالن کیسا ہے۔

مُلا: ابھی دیکھ لیں گے۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں۔

(مُلا جی پہلے دروازے میں سے نکل جاتے ہیں اور چند لمحوں میں سالن کی پلیٹ لے کر آتے ہیں)

جبار: جناب، معاف کیجئے۔ روٹیاں ابھی تیار نہیں ہوئیں۔ سالن لے آیا ہوں کہ ذرا ٹھنڈا ہو جائے۔ سخت گرم ہے۔

جبار: ٹھیک ہے۔

(مُلا جی سالن کی پلیٹ چارپائی پر رکھ دیتے ہیں)

مُلا: ابھی واپس آیا۔

(مُلا جی چلے جاتے ہیں۔ ان کے جاتے ہی جبار سالن کی پلیٹ ہاتھ میں لیتا ہے اور انگلیوں سے چٹ کر جاتا ہے)

جبار: مزے دار ہے۔ لطف آ گیا۔

(مُلا جی چنگیر میں روٹیاں لے کر آتے ہیں۔ جیسے ہی ان کی نظر سالن کی پلیٹ پر پڑتی ہے۔ حیران ہو جاتے ہیں)

مُلا: سالن کہاں گیا؟

جبار: وہ میں نے اس خیال سے کہ ذرا دیکھوں کہ کیسا ہے، کھا لیا ہے۔

مُلا: واہ! (ہنستے ہیں)

جبار: جی! (ہنستا ہے)

مُلا: میں روٹیاں رکھے جاتا ہوں۔ سالن لے کر آتا ہوں۔

(مُلا جی روٹیوں کی چنگیر رکھ دیتے ہیں اور پلیٹ اٹھا لیتے ہیں)

ابھی حاضر ہوتا ہوں۔

جبار: بہتر!

(مُلا جی چلے جاتے ہیں۔ جبار چنگیر اپنے قریب لاتا ہے اور جلدی جلدی روٹیاں توڑ کر نگل جاتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد مُلا جی سالن کی پلیٹ لے کر واپس آتے ہیں)

مُلا: روٹیاں!

جبار: میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ روٹیاں کچی ہیں یا پکی، انہیں بغیر سالن ہی کھا لیا ہے۔

مُلّا: (حیرت سے) سچ!

جبار: مُلا جی آپ سے کیا جھوٹ بولوں گا؟

مُلا: چنگیر دیجئے مجھے۔

(جبار مُلّا جی کو چنگیر دیتا ہے اور ان کے جاتے ہی سالن کھا جاتا ہے۔ جب مُلا جی واپس آتے ہیں تو پلیٹ خالی ہوتی ہے۔ وہ چنگیر میں روٹیاں لے کر آتے ہیں)

مُلا: سالن!

جبار: میں نے سوچا، ذرا دیکھوں سالن زیادہ گرم تو نہیں ہے۔ زیادہ گرم نہیں تھا۔ آسانی سے پی لیا ہے۔

مُلا: کھانے میں تکلیف تو نہیں ہوئی؟

جبار: جی نہیں۔

مُلا: کمال ہے!

(مُلا جی پلیٹ لے کر جاتے ہیں۔ جبار روٹیاں کھا جاتا ہے۔ مُلا جی پلیٹ لے کر واپس آتے ہیں)

جبار: ہماری بھابھی بڑے سلیقے سے روٹیاں پکاتی ہیں۔ میری طرف سے ان کا بہت بہت شکریہ۔ لائیے کیا لائے ہیں آپ؟

(جبار پلیٹ لے لیتا ہے اور خالی چنگیر ان کو دے دیتا ہے۔ مُلا جی حیران پریشان چلے جاتے ہیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی جبار سالن کھا جاتا ہے۔ مُلا جی واپس آتے ہیں مگر خالی ہاتھ ہیں)

جبار: آپ لائے نہیں؟

مُلا: لے آیا ہوں۔

جبار: کیا لائے ہیں؟

مُلا: (چابیاں پھینکتے ہوئے) یہ لیجئے، سارے ٹرنکوں الماریوں کی چابیاں ہیں۔ ابھی باہر کے دروازے کا تالا بھی حاضر کیے دیتا ہوں۔

جبار: ارے! وہ کیوں؟

مُلا: وہ اس لیے کہ اب آپ اس گھر میں رہیں گے۔ میں اور میری بیوی یہاں سے ہمیشہ کے لیے جا رہے ہیں۔

جبار: آپ لوگ چلے گئے تو مجھے کھانا کون دے گا؟

مُلا: اور یہی سوال ہمارے لیے بھی ہے کہ ہمیں کھانا کون دے گا؟ سب کچھ تو آپ چٹ کر گئے ہیں۔

جبار: نہیں صاحب! آپ کو اپنا گھر مبارک۔ میں پھر کبھی آ جاؤں گا۔ کسی اور دوست کے گھر جاتا ہوں۔ آج کچھ بھوک لگی ہے۔

(جبار اٹھ کر دروازے کی طرف جانے لگتا ہے

(پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

مُلا نصر الدین اور پلاؤ

(مُلا نصر الدین کا گھر۔ بیگم چارپائی پر بیٹھی ہیں۔ مُلا جی اندر آتے ہیں اور کچھ سونگھتے ہیں)

مُلا: معلوم ہوتا ہے بیگم! آج گھر میں کوئی خاص چیز پکی ہے۔

بیگم: کیسے اندازہ لگا لیا؟

بیگم: میری سونگھنے کی قوت ماشاء اللہ بہت تیز ہے۔

بیگم: ماشاء اللہ! ماشاء اللہ۔ ذرا یہ کہو وہ خاص چیز ہے کیا؟

مُلا: سنو! وہ خاص چیز ہے۔ کوئی بہت ہی خاص چیز کیوں کہ خاص چیز ہے۔ اس لیے واقعی خاص چیز ہے۔

بیگم: میں نے پوچھا ہے اس کا نام کیا ہے؟

مُلا: پلیٹ میں ڈال کر کھائی جاتی ہے؟

بیگم: نام؟

مُلا: بیگم! مجھے پلاؤ سے بڑی محبت ہے اور چوں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ اس لیے تمہیں بھی پلاؤ سے محبت ہو سکتی ہے۔ لہذا۔۔۔۔

بیگم: ابھی کھاؤ گے یا ذرا ٹھہر کر؟

مُلا: ابھی کھاؤں گا۔ اسی وقت کھاؤں گا۔ اسی لمحے کھاؤں گا، اٹھو! جاؤ باورچی خانے میں اور۔۔ ۔ مگر بیگم! ذرا احتیاط سے پلیٹ اٹھانا۔

بیگم: بے صبری اچھی چیز نہیں ہے۔ تم تو خود کو عالم فاضل سمجھتے ہو۔ تمہیں بے صبری زیب نہیں دیتی۔

مُلا: بیگم! جب انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہوں تو ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔

بیگم: اطمینان سے بیٹھ تو جاؤ۔

(بیگم چارپائی سے اٹھ بیٹھتی ہیں۔ مُلّا جی بیٹھ جاتے ہیں)

بیگم: ہاتھ منھ دھوئیں گے؟

مُلا: ہاتھ منھ صاف ہیں بیگم! تم پلیٹ لاؤ۔

بیگم: دعا مانگ کر کھانا کھایا جاتا ہے۔

مُلا: بیگم! یہ ساری باتیں تمہیں آج ہی سوجھیں گی؟ بندہ خدا بھوک سے برا حال ہے ڈرو اس وقت سے جب میں بے ہوش ہو جاؤں اور تم پریشان ہو کر حکیم کی طرف بھاگو۔

بیگم: ایسا منحوس وقت نہیں آئے گا۔

مُلا: تم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ یہی ہو گا۔ اچھا! کھانا لاؤ۔ تمہیں ایک مزے کی بات سنائیں گے۔

بیگم: مزے کی بات؟ سناؤ!

مُلا: جب میں بازار سے گزر رہا تھا تو ایک شخص کو دیکھا کہ بڑا پریشان ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے مرغ نے دو دن سے بانگ نہیں دی اور وہ سمجھتا ہے کہ اب اس کا مرغ مرغ نہیں رہا۔

مُلا: تو کیا ہو گیا ہے؟

مُلا: مرغی بن گیا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بھئی بانگ نہیں دی تو کیا ہوا۔ مرغا مرغا ہی رہتا ہے۔ وہ نہ مانا۔ میں نے ایک عجیب کام کیا۔

بیگم: کیا عجیب کام کیا؟

مُلا: ایسا کام کیا کہ سارا بازار میری عقل مندی کی داد دینے لگا۔ بیگم! مُلّا نصر الدین کو اللہ نے بڑی عقل دی ہے۔ واہ وا! شکر ہے اللہ پاک کا۔

بیگم: کیا کیا تم نے؟

مُلا: ذرا مرغ سے دور جا کر مرغ کی طرح بانگ دی۔ پھر کیا تھا۔ مرغ بھی بانگ دینے لگا۔

بیگم: سبحان اللہ!

مُلا: سبحان اللہ! بیگم! یہ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ یونہی پریشان ہو جاتا ہے۔ بھلا اگر مرغ نے بانگ نہیں دی تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟

(اشرف آتا ہے)

اشرف: السلام علیکم مُلّا جی!

مُلا: آؤ بیٹا اشرف!

اشرف: مُلا جی میرے ساتھ گھر چلیے۔ جلدی چلیے۔

مُلا: کیوں کیا بات ہے؟

اشرف: امی نے کہا ہے مُلا جی کو فوراً بلا لاؤ۔

مُلا: معاملہ کیا ہے بھئی؟

اشرف: امی سخت پریشان ہیں۔ رو رہی ہیں۔

بیگم: رو رہی ہیں؟ کوئی مصیبت پڑی ہے بے چاری پر۔ جاؤ نا۔

مُلا: بیگم بھوک سے۔۔ ۔

بیگم: پتا نہیں وہاں کیا حادثہ ہوا ہے۔ کس مصیبت میں گرفتار ہو گئی ہے وہ بے چاری۔

اشرف: جی ہاں! کوئی مصیبت پڑی ہے۔

مُلا: مصیبت ہے کیا؟

اشرف: وہ کہتی ہیں مُلّا جی کو جلدی سے بلا لاؤ۔

مُلا: کیا مصیبت ہے۔ بیگم! تم کھانا لاؤ۔ چارپائی پر رکھ دو۔ ڈھانپ کر رکھنا (اشرف سے) چلو بھائی! کچھ دیر اور فاقہ سہی۔

(مُلا جی اشرف سے ساتھ کمرے سے باہر نکلتے ہیں کہ ہمسائی عائشہ آ جاتی ہے۔ سخت پریشان حالت میں ہے۔ مُلا جی رک جاتے ہیں اور پھر واپس چارپائی پر آ جاتے ہیں)

عائشہ: مُلّا جی!

مُلا: کیا ہوا بہن!

عائشہ: مُلا جی!

مُلا: کچھ منھ سے بھی کہو تو۔

عائشہ: عجیب معاملہ ہے۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے میری سمجھ میں خاک نہیں آتا۔ ایسا آج تک ہوا نہ کبھی ہو گا۔ ہائے اللہ! میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہ گئی۔

(عائشہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں)

مُلا: یہ مصیبت ہے کیا؟

عائشہ: کیا بتاؤں۔

مُلا: کیا اللہ میاں گھر کے کسی آدمی کو اپنے ہاں بلا رہے ہیں؟

عائشہ: نہیں۔

مُلا: بچے تو گھر ہیں نا؟

عائشہ: سب ہیں۔

مُلا: مکان تو نہیں گر پڑا؟

عائشہ: توبہ کیجئے مُلّا جی! کیا منحوس لفظ منھ سے نکالتے ہیں۔

مُلا: چوری تو نہیں ہو گی؟

عائشہ: نہیں نہیں نہیں!

مُلا: پھر ہوا کیا ہے؟

عائشہ: میری بکری نے بچہ دیا ہے۔

مُلا: تمہاری بکری نے بچہ دیا ہے۔ تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔

عائشہ: یہی تو مصیبت ہے۔

مُلا: بکری بچہ دے تو کیا گھر پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔

عائشہ: مُلا جی! کیا کہوں آپ سے۔

مُلا: بی بی! جو بات ہے کہو۔

عائشہ: بکری نے جو بچہ دیا ہے نا، اس کی دم نہیں ہے۔

(مُلا جی اور بیگم بے اختیار ہنس پڑتے ہیں)

ہائے ہائے! تم لوگ ہنس رہے ہو۔

مُلا: ارے بے وقوف! بکری نے جو بچہ دیا ہے اگر اس کے دم نہیں ہے تو کیا ہوا؟

عائشہ: کوئی خاص بات نہیں ہے؟

مُلا: بالکل نہیں۔ دم والے بچوں اور اس بچے میں کچھ فرق نہیں ہو گا۔

عائشہ: میں تو گھبرا گئی تھی۔

مُلا: اللہ میاں نے عجیب مخلوق پیدا کی ہے۔ کوئی اس وجہ سے پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کے مرغ نے دو دن سے بانگ نہیں دی اور کسی کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بکری نے جو بچہ دیا ہے اس کے دم نہیں ہے۔ لا حول ولا۔۔ جاؤ بہن! اطمینان سے جاؤ۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔

عائشہ: اچھا مُلا جی!

مُلا: ہاں ہاں! جاؤ۔

عائشہ: تم ٹھیک کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔

مُلا: بھئی ٹھیک ہے، ٹھیک ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔

(عائشہ اشرف کے ساتھ جانے لگتی ہے)

مُلا: بیگم! خدا کے لیے اب تو پلیٹ لے آؤ۔

بیگم: لاتی ہوں۔

(بیگم جانے لگتی ہیں۔ عائشہ دروازے کے پاس جا کر رک جاتی ہے)

عائشہ: (دروازے پر کھڑے ہو کر) مُلّا جی! میں نے کہا فکر کی کوئی بات۔۔۔۔

مُلا: کہہ جو دیا نہیں۔ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو اور کر رہی ہو۔

(عائشہ دروازے سے نکل جاتی ہے۔ بیگم آتی ہیں۔ ہاتھ خالی چہرہ ایسا جیسے ابھی رو پڑیں گی)

مُلا: کیوں؟ اب تمہاری باری ہے؟ کیا تمہاری بلی نے چھیچھڑے کھانے چھوڑ دیئے ہیں؟

بیگم: نہیں۔

مُلا: پلیٹ نہیں لائیں۔

بیگم: وہ۔۔ ۔ ہائے میں مر جاؤں۔

مُلا: خدا کے لیے بتاؤ کیا ہوا؟

بیگم: وہ جو بلی ہے نا۔

مُلا: ہاں! اپنی بلی ہے۔

بیگم: وہ۔۔ (ہاتھ زور سے پیشانی پر مارتے ہوئے) میری بدبختی!

مُلا: بلی کو کیا ہوا؟

بیگم: بلی کو تو کچھ نہیں ہوا۔

مُلا: تو کس کو ہوا؟

بیگم: پلاؤ کو ہوا۔۔ بلی پلاؤ پر منہ مار گئی ہے۔ بوٹیاں کھا گئی ہے۔

مُلا: بیگم۔۔۔۔ ۔۔!

(مُلا دھم سے چارپائی پر گرتے ہیں)

(پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل (کتاب: ’وہ لڑکی کون تھی؟‘  ٹائپنگ: عائشہ عزیز)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل