FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

               اسماء کا بیان

 

 

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے ناموں کے احکام واضح ہوں گے اور یہ معلوم ہو گا کہ کس طرح کے نام رکھنے چاہییں کون سے نام اچھے ہیں اور کون سے نام برے ہیں۔

 

                    آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرو

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بازار میں تھے کہ ایک شخص نے کسی کو ابوالقاسم کہہ کر پکارا، آپ نے پلٹ کر اس شخص کی طرف دیکھا اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو نہیں پکارا بلکہ اس شخص کو آواز دی تھی اور یہ کہہ کر ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو وہاں موجود تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم میرے نام پر نام رکھ لو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو۔

 

                   نبی کی کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرو

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو کیونکہ مجھ کو قاسم قرار دیا گیا ہے اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

کنیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کی نسبت باپ یا بیٹے کی طرف کر کے اپنے کو مشہور و متعارف کرائے جیسے ابن فلاں، یا ابوفلاں، یعنی فلاں کا بیٹا فلاں کا باپ وغیرہ ، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کنیت اس نام کو کہتے ہیں جو باپ، بیٹا، یا بیٹی، ماں کے تعلق سے بولا جائے۔ اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مجھ کو جو علم اور حکمت دینی احکام ومسائل اور دنیاوی دولت جیسے مال غنیمت وغیرہ عطا کرتا ہے اس کو میں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتا ہوں بعض حضرات کے نزدیک یہ تقسیم کرتا ہوں سے مراد یہ ہے کہ میں خدا کے نیک بندوں کو جنت اور دوسری نعمتوں کی بشارت و خوش خبری دیتا ہوں اور بدکار لوگوں کو دوزخ وغیرہ سے ڈراتا ہوں لہذا یہ صفت چونکہ تمہارے اندر موجود نہیں ہے اور تم اس مقام پر فائز نہیں ہو اس لیے تم میری کنیت کو اختیار کرنے کے مجاز نہیں البتہ اپنا نام یا اپنی اولاد کا نام لفظ اور صورۃ میرے نام رکھ سکتے ہو، حاصل یہ ہے کہ میں محض اس سب سے ابوالقاسم نہیں ہوں کہ میرے بیٹے کا نام قاسم ہے بلکہ مجھ میں قاسمیت کے معنی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ، بایں اعتبار کہ مجھ کو دینی و دنیاوی امور دولت کا تقسیم کنندہ قرار دیا گیا ہے لہذا جب میں نہ تو ذات کے اعتبار سے اور نہ صفات کے اعتبار سے تم میں سے کسی بھی شخص کی مانند ہوں تو تم کو میری کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرنی چاہے۔ واضح رہے کہ اس صورت میں ابو کے معنی باپ کے نہیں ہوں گے بلکہ اس وصف کے مالک ہوں گے جیسا کہ کسی شخص کو ابوالفضل کہا جائے درآنحالیکہ اس کے بیٹے کا نام فضل نہ ہو۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر مقرر کرنے کی ممانعت کا تعلق خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے تھا تاکہ تخاطب کے وقت ذات نبوی اور دوسرے لوگوں کے درمیان اشتباہ کی صورت پیدا نہ ہو جیسا کہ ملا علی قاری نے لکھا ہے یہی قول صحیح ہے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ محمد نام رکھنا تو جائز ہے لیکن ابوالقاسم کنیت مقرر کرنا جائز نہیں خواہ یہ صورت ہو کہ جس شخص کا نام محمد ہو وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دینا چا ہے اور خواہ یہ صورت ہو کہ نام کچھ اور ہو اور محض کنیت ابوالقاسم کرنا چاہے ، حاصل یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دے خواہ اس کا نام محمد ہو یا کچھ اور ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور اصحاب ظواہر کا یہی قول ہے اور وہ انہیں حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں دوسرا قول محمد شیبانی کا ہے اور وہ یہ ہے کہ نام اور کنیت کو ایک ساتھ جمع کرنا درست نہیں ہے یعنی جس کا نام محمد ہو وہ اپنی کنیت ابوالقاسم نہ رکھے البتہ جس کا نام محمد نہ ہو اس کو صرف ابوالقاسم کہنا کہلانا جائز ہے ان کے نزدیک ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے لیے اس نام و کنیت کو ایک ساتھ اختیار نہ کرے۔تیسرا قول یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے یعنی جس شخص کا نام محمد ہو وہ بھی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھ سکتا ہے اس قول کی نسبت حضرت امام مالک کی طرف کی جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ جن احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے وہ منسوخ ہیں چنانچہ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اس ممانعت کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک سے تھا آپ کے بعد یہ جائز ہے اس جماعت کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ عرض کیا کہ اگر آپ کے بعد میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام و کنیت کی طرح رکھ لوں گا تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرمائی، چنانچہ حضرت محمد بن الحنفیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد پیدا ہوئے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی کنیت ابوالقاسم رکھی ، ایک جماعت کہ جس کا قولناقابل اعتماد ہے یہ کہتی ہے کہ کسی شخص کو نبی کا نام رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔

مذکورہ بالا تمام اقوال کی روشنی میں جو قول سب سے صحیح اور حنفی مسلک کے مطابق ہے وہ یہ ہے کہ نبی کا نام رکھنا تو جائز بلکہ مستحب ہے لیکن نبی کی کنیت پر اپنی کنیت رکھنا اگرچہ اس کا تعلق نبی کے بعد سے ہو، ممنوع ہے اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں یہ ممنوع تر تھا اسی طرح نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنا بطریق اولیٰ ممنوع ہو گا جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور بالا روایت کا تعلق ہے تو وہ ان کے ساتھ ایک مخصوص معاملہ تھا جیسا کہ حدیث کے سیاق سے واضح ہوتا ہے لہذا ان کے علاوہ کسی اور کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر اپنی کنیت رکھے اس کی تائید ابن عساکر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو جمع الجوامع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دن اسی مسئلہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے لڑکے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر محمد رکھا ہے اور اس کی کنیت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر ابوالقاسم رکھی ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی ایک شخص کے لئے ان دونوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قریشی صحابہ کو بلوایا ان سب نے حاضر ہو کر گواہی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخصوص طور پر اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اپنے ہونے والے بچے کا نام و کنیت آپ کے نام و کنیت پر رکھ لیں۔

 

                   عبداللہ اور عبدالرحمن سب سے بہتر نام ہیں

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک تمہارے ناموں میں سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی سے مراد ہے کہ یہ دونوں نام عبداللہ اور عبدالرحمن انبیاء کے ناموں کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں اس اعتبار سے کہا جائے گا یہ دونوں نام اسم محمد سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہیں بلکہ پسندیدگی میں ان دونوں کا درجہ تو اسم محمد کے درجہ سے کم ہے یا برابر ہے۔

 

                   چند ممنوع نام

 

اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح، اور افلح نہ رکھو کیوں کہ اگر کسی وقت تم نے کسی شخص سے پوچھا کہ کیا وہ (مثلاً) یسار یا رباح یہاں ہے اور فرض کرو وہ وہاں نہ ہوا تو جواب دینے والا کہے گا کہ وہ یعنی یسار یا رباح یہاں نہیں ہے۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے غلام کا نام ، رباح، یسار افلح، اور نافع نہ رکھو۔

 

تشریح

 

یسار، یسیر سے ہے کہ جس کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں ، رباح، ربح سے ہے جس کے معنی فائدہ اور نفع کے ہیں نجیح نجح سے ہے جس کے معنی فتح مندی یا مطلب یابی کے ہیں، افلح، فلاح سے ہے جس کے معنی کامیابی و نجات کے ہیں اور نافع نفع سے ہے جس کے معنی فائدہ کے ہیں۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے ممنوع ہیں کیونکہ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے یسار نام رکھا اور کسی وقت گھر والوں سے پوچھا کہ یہاں یسار ہے؟گھر والوں نے جواب دیا کہ گھر میں یسار نہیں ہے تو اگرچہ اس صورت میں متعین ذات مراد ہو گی مگر لفظ یسار کے حقیقی معنی کے اعتبار سے مفہوم یہ ہو گا کہ گھر میں فراخی و تونگری نہیں ہے اور اس طرح کہنا برائی کی بات ہے اس پر دوسرے مذکورہ بالا الفاظ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ مسلم کی روایت میں نجیح  کے بجائے نافع  کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق محض انہی ناموں سے نہیں ہے بلکہ اور دوسرے نام بھی جو ان الفاظ کے معنی میں ہوں یہی حکم رکھتے ہیں۔ امام نووی فرماتے ہیں ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے مکروہ تنزیہی ہیں نہ کہ مکروہ تحریمی۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارادہ فرمایا تھا کہ یعلی، برکت، افلح، یسار، نافع اور اس طرح کے دورے نام رکھنے سے لوگوں کو منع فرما دیں لیکن پھر میں نے دیکھا کہ اس ارادہ کے بعد آپ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور ان ناموں کے رکھنے سے منع نہیں فرمایا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا طرح کے نام رکھنے کی ممانعت نافذ نہیں ہوئی ہے جب کہ پچھلی حدیث ممانعت کے نفاذ پر واضح طور سے دلالت کرتی ہے اس تضاد کو دور کرنے کے لیے یحییٰ کہتے ہیں کہ گویا حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ممانعت کی علامتوں کو دیکھا اور وہ چیز سنی جو ممانعت کی طرف اشارہ کرتی ہے چونکہ انہوں نے ممانعت کا حکم صریح طور سے نہیں سنا تھا اس لیے اس مسئلہ کو انہوں نے مذکورہ اسلوب میں بیان کیا لیکن یہ ممانعت چونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہوئی ہے اس لیے یہی کہا جائے گا کہ ممانعت ثابت ہے علاوہ ازیں ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس تضاد دور کرنے کے لیے ایک اور تاویل ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارادہ کا تعلق دراصل اس ممانعت کو نہی تحریمی کے طور پر نافذ کرنے سے تھا کہ ناموں کا مسئلہ ایسا ہے جس کی طرف لوگ زیادہ توجہ نہیں دیں گے اور اچھے و برے ناموں میں فرق و امتیاز کرنے کے پابند نہیں ہوں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی وجہ سے امت کے لوگ دینی نقصان میں مبتلا ہوں گے لہذا کہا جائے گا کہ جس روایت سے ممانعت کا عدم نفاذ ثابت ہوتا ہے اس کا تعلق نہی تحریمی سے ہے اور حقیقت میں مسئلہ بھی یہی ہے کہ مذکورہ طرح کے نام رکھنا مکروہ تنزیہی ہے مکروہ تحریمی نہیں ہے۔

 

 

                   شہنشاہ کا نام و لقب اختیار نہ کرو

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہو گا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے۔ (بخاری)

اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین اور سب سے بدتر وہ شخص ہو گا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے یاد رکھو خدا کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی بادشاہ نہیں ہے چہ جائے کہ کسی کو شہنشاہ یعنی بادشاہوں کا بادشاہ کہا جائے اور صف شہنشاہیت ایک ایسا وصف ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے کہ اس وصف میں کسی مخلوق کے شریک ہونے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔

 

                   ایسا نام نہ رکھو جس سے نفس کی تعریف ظاہر ہو

 

اور حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرا نام برہ یعنی نیکو کار رکھا گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے نفس کی تعریف نہ کرو تم میں جو شخص نیکو کار ہے اس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اس بچی کا نام زینب رکھو۔ مسلم۔

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسا نام نہ رکھنا چاہیے جس کے لفظی مفہوم سے نفس کی تعریف ظاہر ہو کیونکہ اس کی وجہ سے نفس میں بڑائی پیدا ہو جاتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام برہ تھا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا یہ نام بدل کر جویریہ رکھ دیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی شخص یوں کہے کہ آپ برہ کے پاس سے نکلے۔ مسلم

 

تشریح

 

برہ کے معنی نیکو کار کے ہیں لہذا آپ نے اس لفظ کے اصل معنی کے اعتبار سے اس کو پسند نہیں کیا کہ جب برہ کے گھر سے نکلیں یوں کہا جائے کہ آپ برہ یعنی نیکو کار کے پاس سے نکلے کیونکہ نیکو کار کے پاس سے نکلنا کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی، وکان یکرہ کے بارے میں بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اپنی مذکورہ ناپسندیدگی کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے متعلق ان الفاظ کے ذریعہ خبر دی ہو گی۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں برہ یا اس طرح کا کوئی اور نام رکھنے کی ممانعت کا سبب مذکورہ ناپسندیدگی کو قرار دیا گیا ہے جب کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں اس ممانعت کا سبب تزکیہ نفس کی تعریف کو قرار دیا گیا ہے لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ اسباب کے درمیان کوئی مزاحمت نہیں ہوا کرتی ایک چیز کے دو مختلف سبب ہو سکتے ہیں چنانچہ جن دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ دونوں مذکورہ ممانعت کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں علاوہ ازیں ہو سکتا ہے کہ زینب رضی اللہ عنہا کے خاندان و قبیلہ کے لوگوں سے معلوم کرنے کے بعد یہ واضح ہوا ہو گا کہ انہوں نے زینب رضی اللہ عنہا کا نام برہ واقعۃً ان کے نفس کی تعریف اور مدح و ثناء کے قصد سے رکھا تھا جب کہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے حق میں اس ممانعت کا سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے برہ کے پاس سے نکلے کہے جانے کی ناپسندیدگی کو قرار دیا اور یہ بات تھی بھی کہ ازواج مطہرات کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جانے آنے کے بارے میں عام طور پر اسی طرح کہا جاتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فلاں زوجہ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فلاں زوجہ مطہرہ کے ہاں سے نکلے ہیں نیز اس احتمال کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے کہ جس طرح یسار اور نجیح وغیرہ جیسے ناموں کی ممانعت کے سلسلے میں بد فالی کا اعتبار کیا گیا ہے اس طرح برہ کے سلسلے میں بھی اس کا اعتبار ہو، اور جس طرح برہ کے سلسلے میں تزکیہ و کراہت کا اعتبار کیا گیا ہے اسی طرح یسار اور نجیح وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا اعتبار ہو۔

 

                   شعراء اسلام کو کفار قریش کی ہجو کرنے کا حکم

 

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوا سنا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف کفار و مشرکین کی ہجو کا مقابلہ کرتے رہتے ہو حضرت جبرائیل برابر تمہاری مدد اعانت کرتے رہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ حسان نے کفار کی ہجو کی تو اس ہجو سے مسلمانوں کو شفا دی اور خود بھی شفا پائی، یعنی انہوں نے کفار کی ہجو کا جواب ہجو سے دے کر مسلمانوں کے لیے بھی تسلی و تشفی کا سامان بہم پہنچایا اور خود بھی سکون و طمانیت حاصل کی۔ (مسلم)

 

 

 

 

               نیکی و صلہ رحمی کا بیان

 

                   ماں باپ کی خوشنودی کو بیوی کی محبت پر ترجیح دینی چاہیے

 

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں ایک بیوی والا ہوں اور میری والدہ چاہتی ہیں کہ میں اس بیوی کو طلاق دے دوں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کہ والد جنت کے بہترین دروازوں میں سے ہے (یعنی والد کی رضا مندی و خوشنودی کو ہر حالت میں ملحوظ رکھنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اس لیے جو شخص چاہتا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لیے وہ دروازہ اختیار کرے جو بہترین دروازوں میں سے ہے تو اس کو چاہیے کہ والد کی رضا مندی و خوشنودی کو ہر حالت میں ملحوظ رکھے) پس تم کو اختیار ہے کہ چا ہے اس دروازے کی محافظت کو اور چا ہے اس کو ضائع کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنے کے بعد اپنے قول پس تم کو اختیار ہے کے ذریعہ اس شخص پر واضح کر دیا کہ اگر تم اپنی والدہ کی خواہش کے مطابق اپنی بیوی کو طلاق دے دو گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے اس کی رضا مندی و خوشنودی حاصل کر کے جنت میں داخل ہونے کے لیے بہترین دروازہ اختیار کر لیا ہے ورنہ بصورت دیگر تم اس دروازے کو چھوڑنے والے سمجھے جاؤ گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد میں اگرچہ والد کا ذکر ہے مگر ابودرداء نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ جب باپ کے حق میں اس طرح فرمایا تو ماں بدرجہ اولیٰ اس ارشاد کا محمول قرار پائے گی یہ کہ لفظ والد سے صرف باپ مراد نہیں لیا گیا ہے بلکہ جنس یعنی پیدا کرنے والا مراد ہے اور یہ بات زیادہ موزوں و مناسب ہے کیونکہ پیدا کرنے والے کے مفہوم میں باپ اور ماں دونوں داخل ہیں۔

 

                   ماں اولاد کے نیک سلوک کی زیادہ مستحق ہے

 

اور حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن صدہ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیک سلوک کرو؟حضور نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ میں نے عرض کیا پھر کس کے ساتھ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ میں نے عرض کیا پھر کس کے ساتھ آپ نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ اور پھر اس کے ساتھ جو ماں باپ کے بعد تمہارا قریب تر عزیز ہے جیسے بہن بھائی پھر اس کے ساتھ جو ان بھائی بہن کے بعد اوروں میں زیادہ قریبی عزیز ہے جیسے چچا اور ماموں اور اسی ترتیب کے مطابق چچاؤں اور ماموں کی اولاد وغیرہ) ترمذی، ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ و برتر نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں اللہ ہوں میں رحمن ہوں یعنی صفت و رحمت کے ساتھ متصف ہوں میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور میں نے اس کے نام کے لفظ اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا ہے لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتے کے حقوق کو ادا کرے گا تو میں بھی اس کو اپنی رحمت کے ساتھ جوڑ دوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتہ ناطہ کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو اپنی رحمت سے جدا کر دوں گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

میں اللہ ہوں، یعنی میں واجب الوجود ہوں کہ میری ذات پاک اپنے وجود اور اپنے حکم و فیصلہ کے نفاذ میں کسی کی محتاج نہیں ہے یہ جملہ دراصل آگے ارشاد ہونے والے کلام کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے بطور تمہید ہے اور اس تمہید میں پہلے اسم خاص کا ذکر کیا ہے اور پھر اپنی صفت رحمن کو ذکر کیا جس کا لفظی مادہ اشتقاق وہی ہے جو رحم کا ہے۔

 

                   ناتا توڑنے والے خدا کی رحمت سے محروم رہتے ہیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس قوم پر رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں ناتا توڑنے والا ہو۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

قوم سے مراد پوری قوم نہیں بلکہ محض وہ لوگ ہیں جو ناتا توڑنے والے کی مدد و حمایت کریں یا اس کو اپنے ناتے داروں کے ساتھ بد سلوکی کے ذریعہ ناتا توڑنے سے منع نہ کریں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ رحمت سے باران رحمت مراد ہو یعنی جس قوم یا جس آبادی کے اندر ناتا توڑنے والا کوئی شخص ہوتا ہے تو ناتا توڑے جانے کی نحوست سے اس قوم یا آبادی کو بارش سے محروم رکھا جاتا ہے۔

 

                   بغاوت اور قطع رحم وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں عذاب ہوتا ہے

 

اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دیدے اور مرتکب کو آخرت میں بھی دینے کے لیے اس سزا کو اٹھا رکھے ہاں دو گناہ بیشک اس بات کے لائق ہیں کہ ایک تو امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا اور دوسرے ناتا توڑنا۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے سربراہ اور قانونی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا اور ناتا توڑنا یعنی اپنے اعزاء و اقرباء کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے اعراض کرنا بڑا سخت گناہ اور نہایت غمگین بات ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں گناہوں کے مرتکب کو محض آخرت ہی میں عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ اللہ ان کو سزا دینے میں جلدی کرے گا بایں طور کہ ان کو دنیا میں بھی اپنے ان گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا ایسے لوگ نہ دنیا میں چین پا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں یہاں بھی سزا پائیں گے خواہ اس کی صورت کچھ ہی ہو اور وہاں بھی عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے کیونکہ یہ دونوں گناہ اس طرح ہیں کہ ان کے اثرات صرف دینی زندگی کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ دنیا میں بھی برے نتائج مرتب کرتے ہیں چنانچہ حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے سے سارے ملک کا نظم ونسق درہم برہم ہو جاتا ہے پوری قوم سخت افراتفری اور مختلف مصائب و آلام میں مبتلا ہو جاتی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ قومی اور ملی توانائی ناگہانی کا شکار ہو جاتی ہے جس سے دشمن غالب آ جانے کا موقع ملتا ہے اور سی طرح ناتا توڑنے سے آپس میں نفرت و عداوت پیدا ہوتی ہے اور دلوں میں کدورت کو راہ مل جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اعزاء اور اقرباء جو باہم محبت و موانست کے ذریعہ ایک دوسرے کے دکھ دردوں میں شریک ہو کر ایک پر سکون بخش ماحول پیدا کر سکتے ہیں اور آپس کے میل جول کے سبب سے بڑی سے بڑی مصیبت اور سخت سے سخت حالات کو انگیز کرنے کی طاقت فراہم کر سکتے ہیں وہ باہمی لڑائی جھگڑے اور افتراق و انتشار کی وجہ سے سخت جسمانی و روحانی اذیت ناکیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں لہذا ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں زیادہ ڈھیل نہیں دی جاتی بلکہ خدا کی طرف سے ان کی سزا کا فیصلہ جلد صادر ہو جاتا ہے تاکہ وہ پہلے تو دنیا میں اپنے کیے کی سزا بھگت کر دوسروں کے لیے سامان عبرت بنیں اور پھر آخرت میں بھی عذاب میں مبتلا ہوں۔ یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں سزا پانا اور آخرت میں بھی عذاب کا مستوجب ہونا محض ان دو گناہوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ اور گناہ بھی انہی کی طرح کے ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں گناہ ان میں بدتر اور زیادہ ہیبت ناک ہیں۔

 

 

                   فائزین کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے کون لوگ محروم رہیں گے

 

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جنت میں نہ تو وہ شخص داخل ہو گا جو کسی کے ساتھ بھلائی کر کے اس پر احسان رکھے نہ وہ شخص جو ماں باپ کی نافرمانی کرے اور نہ وہ شخص جو شراب نوشی کرے اور بغیر توبہ کے مر جائے۔ (نسائی،دارمی)

 

تشریح

 

منان اصل میں منۃ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کو کچھ دیا جائے یا اس کے ساتھ نیکی کی جائے اور پھر اس پر اپنا احسان جتایا جائے یہ خصلت یعنی احسان کر کے اس کو جتانا نہایت بری بات ہے قرآن کریم میں ہے ، آیت (لاتبطلوا صدقتکم بالمن والاذی)۔ احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو۔ بعض حضرات نے لفظ منان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ من سے مشتق ہے جس کے معنی کاٹنا ہے لہذا منان کے معنی یہ ہوں گے وہ شخص جو ناتے کو کاٹے۔

عاق سے مراد وہ شخص جو ماں باپ اور دوسرے اقرباء کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذاء پہنچائے یا عاق کا اطلاق خاص طور پر اس شخص پر ہوتا ہے جو ماں باپ کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو ستائے۔ جنت میں داخل نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ ایسے لوگ خدا کے ان نیک اور صالح بندوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جو آخرت میں حساب کتاب کے دن فائز المرام اور نجات یافتہ قرار دیئے جائیں اور بلا کسی روک ٹوک کے شروع ہی میں جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے یا یہ مراد ہے کہ یہ لوگ عذاب کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گے یعنی پہلے ان کو اپنے گناہ کی سزا بھگتنی ہو گی اور اس کے بعد جنت میں پہنچائے جائیں گے تاہم اگر اللہ چا ہے گا تو ان کے بغیر عذاب کے بھی جنت میں داخل کر دے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ ، آیت (ویغفر مادون ذالک لمن یشاء)، اور اس کے علاوہ بھی جس کو وہ چا ہے بخش دے گا۔

 

                   اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی برکت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم اپنے نسبوں میں اس قدر سیکھو کہ جس کے ذریعہ تم اپنے ناتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کر سکو کیونکہ ناتا داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اقرباء میں باہمی محبت و انس کا سبب مال میں کثرت و برکت کا ذریعہ اور درازی عمر کا باعث بنتا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپ ، دادا ، ماؤں ،دادیوں، نانیوں، ان کی اولاد اور دیگر اعزاء و اقرباء کی پہچان رکھو ان کے ناموں سے باخبر رہو اور ان کے حالات سے واقفیت رکھو تاکہ تم ذوی الارحام کو جان لو جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور یہ جاننا تمہارے لیے ضروری اور فائدہ مند ہے۔

 

                   خالہ ماں کا درجہ رکھتی ہے

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھ سے ایک بڑا گناہ صادر ہو گیا ہے میری توبہ کے لیے کیا چیز ہے یعنی کوئی ایسا عمل بتا دیں جس کو اختیار کر کے میں خدا کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرا سکوں اور اپنا گناہ معاف کروا سکوں۔ حضور نے فرمایا کیا تمہاری ماں ہے؟اس نے کہا کہ نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو کیا تمہاری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرو یعنی اس کی خدمت و اطاعت کرو اور اس کی دیکھ بھال رکھو نیز اپنی حیثیت و اطاعت کے مطابق اس کی مالی امداد و اعانت کرتے رہو۔ (ترمذی)

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناتے داروں کے ساتھ حسن سلوک ، گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے اگرچہ وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہو کہ حسن سلوک کا کبیرہ گناہ کے کفارہ کا سبب بننا اس شخص کے ساتھ مخصوص ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرما دیا کہ تم اپنی خالہ سے حسن سلوک کرو تمہارا گناہ بخش دیا جائے گا اور یا یہ کہ اس شخص سے جو گناہ صادر ہوا تھا وہ کبیرہ گناہ نہیں تھا بلکہ حقیقت میں صغیرہ گناہ تھا البتہ اس شخص نے اپنے مضبوط جذبہ ایمانی اور احتیاط و تقویٰ کی بنا پر اس گناہ کو ایک بڑا گناہ سمجھا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ خالہ ، ماں کا درجہ رکھتی ہے۔

 

                   والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی صورتیں

 

اور حضرت ابواسید ساعدی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جو قبائل انصار میں سے ایک قبیلہ بنو سلمہ سے تعلق رکھتا تھا اس شخص نے عرض کیا رسول اللہ میرے ماں باپ کے حسن سلوک کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جس کو میں ان کی وفات کے بعد پورا کروں یعنی میں اپنے ماں باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا تھا وہ مر چکے ہیں تو کیا ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں سلوک کرنے کی کوئی صورت ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا ہاں ان کے حق میں دعا کرنا (جس میں نماز جنازہ بھی شامل ہے) ان کے لیے استغفار کرنا ان کی موت کے بعد ان کی وصیت کو پورا کرنا ان کے ناتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا محض ان (ماں باپ) کے سبب سے ہے یعنی ماں باپ کے وہ عزیز و اقارب جن کے ساتھ محض اس وجہ سے حسن سلوک کیا جاتا ہے تاکہ ماں باپ کی خوشنودی حاصل ہو نہ کہ کسی اور غرض سے ، اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرنا، یہ وہ صورتیں ہیں جن کو اختیار کر کے ماں باپ کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)۔

 

                   دایہ حلیمہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حسن

                   سلوک

 

اور حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جعرانہ میں، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ گوشت تقسیم فرما رہے ہیں کہ اچانک ایک خاتون آئیں جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچیں تو آپ نے ان کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ اس پر بیٹھ گئیں میں نے ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حسن سلوک دیکھا تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ ماں ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دودھ پلایا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث میں جن محترم خاتون کا ذکر ہے وہ دایہ حلیمہ ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رضاعی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دایہ حلیمہ کے علاوہ ایک اور خاتون نے بھی ابتداء کے کچھ دنوں تک دودھ پلایا تھا جن کا نام ثوبیہ ہے اور جو ابولہب کی باندی تھیں ان دونوں کے اسلام کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔

 

                   کسی مصیبت کے وقت اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگنا مستحب ہے

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی قوم کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ تین آدمی ایک ساتھ کہیں چلے جا رہے تھے کہ راستہ میں سخت بارش نے ان کو آ لیا وہ اس بارش سے بچنے کے لیے پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اتنے میں پہاڑ سے ایک بڑا پتھر گر کر اس غار کے منہ پر آ پڑا ان تینوں پر باہر نکلنے کا راستہ بند کر دیا وہ تینوں اس صورت حال سے سخت پریشان ہوئے اور اس غار میں سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی، تو آپس میں کہنے لگے کہ اب تم اپنے ان اعمال پر نظر ڈالو جو تم نے کسی دنیاوی فائدہ کی تمنا اور جذبہ نام و نمود کے بغیر محض اللہ کی خوشی کے لیے کیے ہوں اور ان اعمال کے وسیلہ سے خدا سے دعا مانگو شاید اللہ ہماری نجات کے راستہ کھول دے چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے کئی چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے اور میں بکریاں چرایا کرتا تھا کہ ان کے دودھ کے ذریعہ ان سب کا انتظام کر سکوں، چنانچہ جب میں شام کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹتا اور بکریوں کا دودھ نکالتا تو اپنے ماں باپ سے ابتداء کرتا اور ان کو اپنی اولاد سے پہلے دودھ پلاتا ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ چراگاہ کے درخت مجھے دور لے گئے یعنی میں بکریوں کا چراتا ہوا بہت دور نکل گیا یہاں تک کہ شام ہو گئی اور میں گھر واپس نہ آ سکا جب رات کو گھر پہنچا تو اپنے ماں باپ کو سوتے ہوئے پایا پھر میں نے اپنے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور دودھ سے بھرا ہو برتن لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا کہ میں نے یہ ناپسند کیا کہ ان کو جگاؤں اور نہ ہی یہ گوارا کیا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں جب کہ وہ بچے میرے پیروں کے پاس پڑے ہوئے مارے بھوک کے رو بلک رہے تھے اور وہ سب اپنے حال پر قائم رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی یعنی پوری رات اسی حالت میں دودھ کا برتن لیے ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا وہ دونوں سوتے رہے اور میرے بچے بھوک سے بیتاب ہو کر روتے رہے پس اے خدا اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا اور خوشنودی کی طلب میں کیا ہے تو میں اپنے اس عمل کے واسطہ دیتے ہوئے تجھ سے التجا کرتا ہو کہ تو ہمارے لیے اس پتھر کو کو اتنا کھول دے کہ اس کشادگی کے ذریعہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں، چنانچہ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اس پتھر کو اتنا سرکا دیا کہ ان کو آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے شخص نے اس طرح کہا کہ اے اللہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی میں اس کو اتنا ہی زیادہ چاہتا تھا جتنا زیادہ کوئی مرد کسی عورت کو چاہ سکتا ہے جب میں نے اس سے اپنے آپ کو میرے سپرد کر دینے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے یہ کہہ کر میری خواہش ماننے سے انکار کر دیا کہ جب تک میں سو دینار اس کو پیش نہ کروں میری جنسی خواہش پوری نہیں ہو گی پھر میں نے محنت و مشقت کر کے سو دینار فراہم کیے ان دیناروں کو لے کر اس کے پاس پہنچا وہ اپنی شرط پوری ہو جانے پر میری خواہش کے لیے راضی ہو گئی جب میں جنسی فعل کے لیے اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو وہ کہنے لگی کہ بندہ خدا اللہ سے ڈر اور میری مہر امانت کو توڑنے سے باز رہ یعنی اس نے مجھے خدا کا خوف دلاتے ہوئے التجا کی کہ میری آبرو کو نہ لوٹو اور حرام طور پر ازالہ بکارت کر کے میرے پردہ ناموس کو جو کسی کی امانت ہے یوں تار تار نہ کرو میں یہ سنتے ہی خوف خدا سے کانپنے لگا اور اپنے نفس کی گمراہی پر شرمسار ہو کر اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہو پس اے خدا اگر تو جانتا ہے کہ میرا یہ عقل یعنی قابو حاصل ہونے کے باوجود اس کو چھوڑ کر ہٹ جانا اپنے نفس کو کچل دینا محض تیری رضا و خوشنودی کی طلب میں تھا تو میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اس پتھر کر ہٹا کر ہمارے لیے راستہ کھول دے چنانچہ اللہ اس شخص کی دعا بھی قبول فرمائی اور اس پتھر کو تھوڑا سا اور سرکا دیا پھر تیسرے شخص نے اس طرح کہنا شروع کیا اے اللہ میں نے ایک مزدور کو ایک فرق چاول کے عوض مزدوری پر لگایا جب اس نے اپنا کام پورا کیا تو مطالبہ کیا کہ میری اجرت دو میں نے اس کی اجرت دی مگر وہ بے نیازی کے ساتھ اس کو چھوڑ کر چلا گیا پھر میں نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگایا اور کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ انہی چاولوں کے ذریعہ میں نے بیل اور ان بیلوں کے چرواہے جمع کر لیے پھر ایک بڑے عرصہ کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ خدا سے ڈرو مجھ پر ظلم نہ کرو اور میرا حق مجھ کو واپس کرو میں نے کہا بے شک تیرا حق مجھ پر واجب ہے ان بیلوں اور ان چرواہوں کے پاس جاؤ اور ان کو اپنے قبضہ میں لے لو اس نے میری بات سن کر بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا خدا سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو میں نے کہا کہ میں تم سے مذاق نہیں کر رہا ہوں جا کر ان بیلوں اور ان کے چرواہوں کو لے لواس کے بعد اس نے ان سب کو اپنے قبضہ میں کیا اور چلا گیا پس اے خدا تو جانتا ہے کہ میرا وہ عمل محض تیری رضا اور خوشنودی کی طلب میں تھا تو میں اپنے اس عمل کے واسطے سے التجا کرتا ہوں کہ تو یہ پتھر جتنا بھی باقی رہ گیا ہے اس کو سرکا دے ، چنانچہ اللہ نے غار کے منہ کا باقی حصہ بھی کھول دیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

جب کہ وہ بچے میرے پیروں کے پاس پڑے ہوئے ..الخ۔سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ جس قوم کے افراد کے متعلق ہے اس کی شریعت میں ماں باپ کا حق اولاد کے نفقہ و حق پر مقدم تھا جب ہی تو اس شخص نے ماں باپ کو دودھ پلانے سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلانا گوارا نہیں کیا حالانکہ بھوک کی شدت سے رات بھر روتے رہے لیکن بعض حضرات کے قول کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے اپنے بچوں کو بقدر رسد رمق تو دودھ پلا دیا تھا مگر وہ اتنی مقدار پر مطمئن نہیں ہوئے تھے اور مزید دودھ پلانے کے رو چلا رہے تھے۔ فرق مدینہ میں ایک رائج پیمانہ کا نام تھا جس میں سولہ رطل یعنی تقریباً آٹھ سیر غلہ آتا تھا یہ پیمانہ عام طور پر غلہ وغیرہ کے لین دین میں ماپ تول کے کام آتا تھا۔

بیلوں کے چروا ہے سے مراد وہ غلام ہیں جو کھیتی باڑی کے کام، چوپایوں کے دیکھ بھال اور ان کو چرانے پر مامور ہوتے تھے حدیث میں ان چاولوں کی کاشت سے حاصل ہونے والے مال کے طور پر صرف بیلوں اور چرواہوں کا ذکر اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے کہ اس شخص نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگا کر بہت کچھ حاصل کیا یہاں تک کہ میرے پاس بہت زیادہ مال و اسباب جمع ہو گیا جیسے بیل اونٹ، گوسفند اور غلام وغیرہ۔

اس حدیث سے مختلف مسائل اخذ کیے جاتے ہیں چنانچہ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کسی سخت آفت کے وقت اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا مانگنا مستحب ہے جیسا کہ اللہ نے ان تنیوں کی دعا قبول کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس واقعہ کو مدح و تعریف اور ذکر فضیلت کے طور پر صحابہ کے سامنے بیان کرنا اس امر کی دلیل ہے اور اگر یہ مستحب نہ بھی ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ان کو اپنے بال بچوں پر ترجیح دینا ان کو کسی تکلیف و مشقت میں مبتلا کرنے سے اجتناب اور بہر صورت ان کے آرام و سکون کو مد نظر رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو شخص سو رہا ہو اور خاص طور پر وہ شخص جو قابل احترام و لائق تعظیم ہو تو اس کو نیند سے اٹھانا مکروہ ہے علاوہ اس صورت کے جب کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو اور فرض نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو۔

چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ نیند کی راحت کھانا کھانے سے زیادہ لذت آمیز ہے کہ نیند کا مزہ بھوک کی حالت میں بھی غالب رہتا ہے۔

پانچویں بات یہ معلوم ہوئی کہ عفت و پارسائی اور انسانی نفس کو حرام امور سے باز رکھنا خصوصاً اس صورت میں جبکہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ بھی سامنے نہ ہو بڑی فضیلت کی بات ہے اور انسانی کردار کی پختگی و عظمت کی دلیل ہے چنانچہ نفس کی خواہش اور خاص طور پر جنسی خواہش کہ جو دوسری تمام خواہشات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ غالب اور سرکش ہے انسان کو سخت ترین حالات سے دو چار کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے تو عقل اور حرام و حلال کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت تک ختم ہو جاتی ہے لہذا جنسی خواہش کے اس قدر شدید غلبہ کی صورت میں جب کہ اس خواہش کی تکمیل کے درمیان کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو کسی مرد کا عین موقع پر نفس کو کچل دینا اور حرام کاری سے باز رہنا ایک مثالی عظمت کردار کا مظہر ہے۔

چھٹی بات یہ معلوم ہوئی کہ غیر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی اجازت حاصل ہو جائے اس کے بعد، جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے کہ فضولی کا تصرف جائز ہو جاتا ہے اور یہ جواز مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے کہ اگر مالک اجازت دے دیتا ہے تو وہ تصرف نافذ العمل قرار پایا جاتا ہے۔

ساتویں بات یہ معلوم ہوئی کہ نیک عہد و اقرار ، ادائیگی امانت اور خوش معاملگی نہ صرف بہتر چیز ہے بلکہ انسان کو قرب خداوندی سے ہمکنار کرنے اور آفات مصائب سے نجات دلانے کا باعث ہے۔

آٹھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بندہ کسی آفت و بلا میں گرفتار ہو جانے پر دعا کرنا بہتر ہے کیونکہ وہ دعا قبول ہوتی ہے اور بندہ کو اس آفت و بال سے نجات دلانے کا سبب بنتی ہے۔

اور نویں بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نیک صالح بندوں کے ذریعہ ایسی چیزوں کا ظاہر ہونا جو عام انسانی عادات کے خلاف ہوں اور جن کو کرامات کہا جاتا ہے بر حق ہے اور کرامات کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔

 

 

                   جنت ماں کے قدموں میں ہے

 

اور حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت جاہمہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور اس وقت اسی سلسلے میں آپ سے مشورہ کرنے حاضر ہوا ہوں حضور نے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟انہوں نے کہا ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم پھر انہی کی خدمت کو ضروری سمجھو کیونکہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔ (احمد، نسائی، بیہقی)

 

تشریح

 

جنت ماں کے قدموں میں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم جہاد میں جانے کے بجائے ماں کے قدموں میں پڑے رہ کر اس کی اطاعت و خدمت کرنا زیادہ ضروری سمجھو کیونکہ ماں کی اطاعت و خدمت جنت میں جانے کا ذریعہ ہے گویا اس جملہ کے ذریعہ بطور کنایہ اس تواضع و انکساری اور عاجزی و خاکساری کو بیان کرنا مقصود ہے جس کا حکم اولاد کو دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت (وخفض لھما جناح الذل من الرحمہ)۔ اور ان (والدین) کے سامنے شفقت عاجزی کے ساتھ جھکے رہو۔

 

                   باپ کی خواہش کا احترام کرو

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا لیکن میرے والد محترم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے چنانچہ انہوں نے ایک دن مجھے کہا تم اس عورت کو طلاق دے دو میں نے انکار کیا پھر جب وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور سے اس بات کا تذکرہ کیا تو رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ اس عورت کو طلاق دے دو۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

رسول اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا کہ اس عورت کو طلاق دے دو یا تو استحباب کے طور پر تھا یا اگر اس عورت کو طلاق دلوانے کا کوئی اور شرعی سبب بھی پایا جاتا تھا کہ اس بناء پر ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اس صورت سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہو گیا تھا تو پھر کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ ارشاد وجوب کے طور پر ہے۔

 

                   والدین کی اہمیت

 

اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے ماں باپ تمہارے لیے جنت بھی اور …..دوزخ بھی۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس ارشاد کے ذریعہ بڑے بلیغ انداز میں ماں باپ کی اہمیت اور ان کی عظمت شان کو ظاہر فرمایا گیا ہے کہ وہ تمہارے لیے جنت کی راہ بھی آسان کر سکتے ہیں اور تمہیں دوزخ کا مستوجب بھی بتا سکتے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق یہ ہے کہ ان کی رضا مندی اور خوش نودی کو بہر صورت ملحوظ رکھا جائے جو جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور ان کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے جو دوزخ میں جانے کا باعث۔ حاصل یہ ہے کہ اگر اطاعت و خدمت کے ذریعہ ماں باپ کو راضی و خوش رکھو گے تو جنت میں جاؤ گے اور اگر نافرمانی و لاپرواہی کے ذریعہ ماں باپ کو ناخوش رکھو گے تو دوزخ میں جاؤ گے۔

 

 

                   ماں باپ کے حق میں استغفار و ایصال ثواب کے ذریعہ ان کی ناراضگی کے وبال کو ٹالا جا سکتا ہے

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب کسی ایسے بندے کے ماں باپ مر جاتے ہیں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک مرتا ہے جو ان کی نافرمانی کیا کرتا تھا اور پھر ان کی موت کے بعد وہ ان کے لیے برابر دعا و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکوکار لکھ دیتا ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ والدین کے مرنے کے بعد اولاد کا ان کے حق میں برابر دعا و استغفار کا ایصال ثواب کرتے رہنا اس درجہ سود مند ہے کہ اگر والدین اس اولاد سے ناراضگی و ناخوشی کی حالت میں بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اللہ تعالیٰ ان کی ناراضگی و ناخوشی کو ختم کر دے اور اس اولاد کا نام ان لوگوں میں شمار کرے گا جو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور ان کی رضا و خوشنودی کے جویا رہتے ہیں۔

 

                   والدین کی اطاعت و نافرمانی حقیقت میں اللہ کی اطاعت و نافرمانی ہے

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق ادا کر کے اللہ کے حکم کی اطاعت کی ہے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے ایک کوئی زندہ ہو کہ جس کی اس نے اطاعت و فرمانبرداری کی تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور جس شخص نے اس حالت میں صبح کی وہ ماں باپ کے حق میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے والا ہے یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی اللہ کے حکم کے نافرمانی کی ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھولے ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ میں کوئی ایک زندہ ہے جس کی اس نے نافرمانی کی تو اس کے لیے ایک دروازہ کھولا جاتا ہے یہ ارشاد سن کر ایک شخص نے عرض کیا اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں۔

 

تشریح

 

حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور ان کی نافرمانی کرنے سے اجتناب کرنا چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لیے ان کی اطاعت و فرمانبرداری یا ان کی نافرمانی درحقیقت اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری یا اس کی نافرمانی کرنا ہے۔

اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں حضور کا اس جملہ کو تین بار فرمانا ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت کو ظاہر کرنے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی تاکید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنے کی بنا پر تھا تاہم واضح رہے کہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جس کا تعلق دنیاوی معاملات سے ہو نہ کہ دینی امور سے کیونکہ ماں باپ کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس سے دین کی مخالف اور شرعی احکام و مسائل کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

 

                   ماں باپ کو محبت و احترام کی نظر سے دیکھنے کی فضیلت

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا جو بھی لڑکا اپنے باپ یا ماں کو محبت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج نفلی کا ثواب لکھتا ہے ، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ دن بھر میں سو مرتبہ دیکھے حضور نے فرمایا ہاں۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑا اور پاکیزہ ہے یعنی تمہارے گمان میں جو یہ بات کہ ہر نظر کے بدلے ایک مقبول نفلی حج کا ثواب کیونکر لکھا جاتا ہے تو یہ اجر و انعام اللہ کی شان اور اس کی وسعت رحمت کی نسبت سے کچھ بعید نہیں وہ اگر چا ہے تو اس سے بھی بڑا اجر دے سکتا ہے۔

 

                   والدین کی نافرمانی کرنے والے کے بارے میں وعید

 

اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں ہی جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو شخص ماں باپ کی نافرمانی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اسے اپنے اس گناہ کی سزا اپنی موت سے پہلے اسی دنیا میں بھگتنی پڑتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا تعلق ماں باپ سے ہو یعنی جو والدین اپنی اولاد کی طرف سے نافرمانی کا دکھ سہتے ہیں وہ اپنی زندگی ہی میں اس اولاد کو اپنے گناہ کی نافرمانی کی سزا بھگتتے دیکھ لیتے ہیں تاہم دونوں صورتوں میں آخرت کا عذاب بدستور باقی رہتا ہے کہ نافرمان اولاد محض اسی دنیا میں سزا نہیں پائے گی بلکہ آخرت میں بھی عذاب کی مستوجب ہو گی۔ اس حدیث کے سلسلہ میں ایک احتمال اور بھی ہے کہ وہ یہ کہ والدین کے حقوق کے مذکورہ بالا حکم میں تمام حقوق العباد شامل ہوں یعنی جس طرح ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرنے والی اولاد اس گناہ کی سزا دنیا میں پاتی ہے اسی طرح ہر وہ شخص بھی اسی دنیا میں سزا یاب ہوتا ہے جو بندوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے چنانچہ حکومت وقت کے خلاف بلاکسی شرعی و قانونی وجہ کے بغاوت کرنے والے اور ناحق ظلم کرنے والے کے بارے میں مذکورہ بالا طرح کی منقول وعید سے یہی ثابت ہوتا ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی کے ذریعہ والدین کے حقوق کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور ان کی نافرمانی کرنے کے گناہ کی شدت و سنگینی کو بڑے سخت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

 

                   بڑا بھائی باپ کی مانند ہے

 

اور حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا چھوٹے بھائی پر بڑے بھائی کا وہی حق ہے جو بیٹے پر اس کے باپ کا ہوتا ہے یہ پانچوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔

 

 

               اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان

 

 

                    جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ کی اس پر رحمت نازل نہیں ہوتی

 

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا (یعنی اس کو اپنی خاص و کامل رحمت کا مستحق نہیں گردانتا) جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم)

 

                   بچوں کو پیار کرنے کی فضیلت

 

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور جب اس نے صحابہ کو دیکھا کہ وہ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں تو کہنے لگا کہ کیا تم لوگ بچوں کو چومتے ہو؟ہم تو بچوں کو نہیں چومتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا میں اس بات پر قادر ہو سکتا ہوں کہ اللہ نے تمہارے دل میں سے جس رحم و شفقت کو نکال دیا ہے اس کو روک دوں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب اللہ نے تمہارے دل کو رحمت و شفقت اور پیار محبت سے خالی کر دیا ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں ہے کہ تمہارے دل میں رحم و شفقت اور محبت کا جذبہ پیدا کروں، یہ معنی اس صورت میں ہیں جب کہ لفظ ان الف کے ساتھ جیسا کہ اکثر راویوں نے نقل کیا ہے کہ اور اگر الف کے زیر کے ساتھ یعنی اِنْ ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم کا جذبہ نکال دیا ہے تاہم دونوں صورتوں میں روایت کا مفہوم ایک ہی تفاوت فرق محض اعراب کی بنیاد پر ہے حدیث کا مقصد بے رحمی و بے مروتی اور سخت دلی کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا اور اس قسم کے لوگوں کو سختی کے ساتھ مشتبہ کرنا ہے نیز اس ارشاد گرامی میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ دلوں میں رحم و شفقت کے جذبات کا ہونا اللہ کا ایک بہترین عطیہ ہے اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اگر وہ کسی شخص کے دل سے رحم و شفقت اور محبت و مروت کے جذبات کو نکال دے تو یہ پھر کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اس شخص کے دل کو ان جذبات کی دولت عطا کر دے۔

 

                   لڑکی ماں باپ کے پیار و محبت اور حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے

 

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں اس نے مجھ سے سوال کیا کہ (یعنی مجھ سے کچھ مانگا) لیکن اس کو میرے پاس سے ایک کھجور کے علاوہ اور کچھ بھی نہ مل سکا۔چنانچہ میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی اس نے اس کھجور کو آدھی آدھی اپنی دونوں بچیوں کو بانٹ دیا اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھایا اور پھر وہ اٹھ کر چلی گئی اتنے میں نبی گھر میں تشریف لائے میں نے آپ سے اس عورت کا یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا جو شخص ان بچیوں میں سے کچھ یعنی ایک یا دو  یا اس سے زیادہ لڑکیوں کی وجہ سے ابتلاء و آزمائش سے کیا جائے وہ ان بچیوں کے ساتھ احسان و سلوک کرے تو وہ بچیاں اور ان کے ساتھ کی گئی نیکی اس کے لیے دوزخ کی آگ سے پردہ بنیں گی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

یعنی وہ بچیاں اور ان کے ساتھ کی گئی نیکی اس شخص اور دوزخ کی آگ کے درمیان حائل ہوں گی کہ وہ شخص اپنی ان بچیوں کی وجہ سے دوزخ کی آگے محفوظ رہے گا اور بچیوں کے ساتھ حسن سلوک کی یہ فضیلت اس بنا پر ہے کہ لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیاں یا وہ اپنے ماں باپ کے پیار محبت اور ان کے حسن سلوک کی مستحق ہوتی ہیں۔ اس بارے میں علماء کا اختلافی قول ہے کہ ابتلاء و آزمائش کا محمول محض لڑکوں کا پیدا ہونا ہے یا کسی ایسی حالت میں مبتلا ہونا ہے جو لڑکیوں کی وجہ سے کسی محنت و تکلیف اور پریشانی و عسرت کے سامنے آنے اور اس پر صبر و تحمل کرنے کی صورت میں پیش آئے چنانچہ پہلی صورت یعنی ابتلاء آزمائش کا تعلق لڑکیوں کی پیدائش سے ہونا زیادہ صحیح ہے اور اس صورت میں کہا جائے گا کہ جو لوگ اپنے ہاں لڑکیاں پیدا ہونے پر دل گرفتگی اور ناگواری میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ لڑکیاں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی رحمت ہیں اور ان کی پرورش و دیکھ بھال اور ان کے ساتھ پیار و محبت کا سلوک کرنا ایک بہت بڑی اخروی سعادت ہے اس بارے میں بھی علماء کے اختلافی قول ہیں کہ احسان و سلوک سے مراد نان نفقہ ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے یا اس واجب نان نفقہ کے علاوہ مزید حسن سلوک کرنا مراد ہے چنانچہ راجح قول یہ ہے کہ یہ دوسرے معنی زیادہ صحیح ہیں نیز واضح رہے کہ مذکورہ احسان و سلوک کی شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے موافق ہو۔علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بچیوں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کا مذکورہ اجر اس صورت میں حاصل ہوتا ہے جبکہ اس احسان و سلوک کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بچیاں اپنی شادی بیاہ کی وجہ سے یا کسی اور صورت میں ماں باپ کی کفالت اور اس کے احسان و سلوک سے بے نیاز ہو جائیں۔

 

                   بچیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص دو بیٹیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کرے یہاں تک کہ وہ بلوغ کی حد تک پہنچ جائیں یا شادی بیاہ کے بعد اپنے خاوند کے پاس چلی جائے تو وہ شخص قیامت کے روز اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہوں گے یہ کہہ کر آپ نے اپنی انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

آپ نے اپنے اور اس شخص کے درمیان کمال قرب اور اتصال کو ظاہر کرنے کے لیے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا جس طرح تم ان دونوں انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملی ہوئی دیکھ رہے ہو اسی طرح قیامت کے دن میں اور وہ شخص ایک دوسرے کے قریب ہوں گے اور محشر میں ہم دونوں ایک جگہ اور ایک جگہ اور ایک ساتھ ہوں گے یا وہ میرے ساتھ جنت میں داخل ہو گا۔

 

                   بیوہ اور مسکین کی خدمت کا ثواب

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بیوہ عورت اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا اس شخص کے مانند ہے جو خدا کی راہ میں سعی کرے یعنی وہ شخص بیوہ عورت اور مسکین کی دیکھ بھال اور خبر گیری کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو اس ثواب کے برابر ہے جو خدا کی راہ میں جہاد اور حج کرنے والے کو ملتا ہے اور میرا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ بیوہ عورت اور مسکین کی خبر گری کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو نماز و عبادت کے شب بیداری کرتا ہے اور اپنی شب بیداری میں نہ کوئی سستی کرتا ہے اور نہ کسی فتور اور نقصان کو گوارا کرتا ہے اور اس شخص کے مانند ہے جو دن کو کبھی افطار نہیں کرتا کہ جس کو صائم الدھر کہا جاتا ہے۔ (بخاری مسلم)

 

تشریح

 

فقیر و محتاج بھی مسکین کے حکم میں داخل ہے بلکہ بعض حضرات کے نزدیک اس کو مسکین پر ترجیح حاصل ہے۔

اور میرا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان ان الفاظ کی نسبت حضرت عبداللہ ابن سلمہ کی طرف کی جاتی ہے جو بخاری و مسلم کے شیخ اور اس حدیث کے راوی ہیں جس کو انہوں نے حضرت امام مالک سے روایت کیا ہے اس بات کی صراحت امام بخاری نے کی ہے بہرحال ان الفاظ کے ذریعہ عبداللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ میرا گمان ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت امام مالک نے یہ الفاظ کالقائم لایفتر۔ نقل کیے ہیں لیکن اگر بخاری کی مذکورہ صراحت کے سامنے نہ ہو تو مصابیح اور مشکوہ کے ظاہری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ اور میرا گمان ہے کہ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس جملہ کے ذریعہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ میرے گمان کے مطابق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کالقائم لا…….کے الفاظ بھی ارشاد فرمائے تھے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شک کو ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو کاالساعی فی سبیل اللہ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا کالقائم کے الفاظ چنانچہ اس کی تائید جامع صغیر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس کو احمد،شیخین ، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ سے نقل کیا گیا ہے۔ اور جس کے الفاظ یوں ہیں کہ الساعی علی الارملۃ والمساکین کالمجاھدین فی سبیل اللہ والقائم اللیل الصائم النھار۔

 

                   یتیم کی پرورش کرنے کی فضیلت

 

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا کہ وہ یتیم خواہ اس کا ہو یا کسی اور کا جنت میں اس طرح ہوں گے یہ کہہ کر آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ذریعہ اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

وہ یتیم خواہ اس کا ہو یا کسی اور کا  کے ذریعہ اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ مطلق یتیم کی کفالت و پرورش کرنے کی فضیلت ہے وہ یتیم خواہ اس کا اپنا قربتی ہو جیسے پوتا اور بھتیجا وغیرہ یا کوئی غیر قرابتی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ذریعہ اشارہ کر کے واضح کیا کہ جنت میں میرے اور یتیم کی پرورش کرنے والے کے درمیان اتنا قریبی علاقہ ہو گا کہ جتنا کہ ان دونوں انگلیوں کے درمیان ہے نیز آپ نے ان دونوں انگلیوں کے ذریعہ اس طرح بھی اشارہ کیا کہ مرتبہ نبوت جو سب سے اعلی درجہ ہے اس کے اور سخاوت و مروت کے مرتبہ کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔

 

                   تمام مسلمانوں کو ایک تن ہونا چاہیے

 

اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اے مخاطب تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کا کوئی عضو دکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری و بخار کے تعب و درد میں سارا جسم شریک رہتا ہے۔ (بخاری مسلم)

 

 

تشریح

 

اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مومن کی صفت اتحاد و یگانگت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جذبہ تعلق ایسا ہو سکتا ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو رنگ و نسل کے بھید بھاؤ زبان و کلچر کے اختلاف و تفاوت اور ذات قبائل علاقہ کی تفرقہ بازی سے نجات دلا کر ایک انسانی برداری اور اتحاد و یگانگت ایک لڑی میں پرو سکتا ہے تو وہ صرف ایمان و اسلام کا تعلق ہے چنانچہ اہل ایمان جہاں بھی ہوں جس رنگ و نسل سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے درمیان کوئی انسانی اونچ نیچ نہیں ہے کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور کسی برتری و کمتری کی نفرت و حقارت نہیں ہے وہ جس عقیدے کے حامل اور جس نظریہ حیات کو ماننے والے ہیں اس کی روشنی میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تمام انسان ایک باپ کی اولاد ہیں تمام مسلمان ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں اگر وہ کڑیاں الگ الگ ہو جائیں تو زنجیر ٹوٹ کر رہ جائے گی اسی طرح اگر مسلمان تفرقہ بازی کا شکار ہو جائیں اور رنگ و نسل زبان و کلچر اور ذات پات کے دائروں میں سمٹ جائیں تو ان کے ملی وجود اور ان کی اجتماعی طاقت کو انتشار و اضمحلال کا گھن لگ جائے گا اور جب ان کی اجتماعی حیثیت مجروح ہو کر غیر موثر ہو گی تو ان کا شخصی و انفرادی وجود بھی نہ صرف بے معنی ہو جائے گا بلکہ ہر شخص مختلف آفات کا شکار ہو گا اور چونکہ ملی وجود اور اجتماعی طاقت کا سرچشمہ افراد کا آپس میں محبت و موانست اور اشخاص کا باہمی ربط و تعلق ہے اس لیے ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے اس طرح ربط و تعلق رکھتا ہے کہ جس طرح دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں کہ آپس میں سلام و دعا کرتے ہیں باہمی میل جول اور ملاقات کرتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں باہمی معاملات و تعلقات کو محبت و موانست اور رحم دلی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں ہدایا و تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں ایک دوسرے کی مدد و اعانت کرتے ہیں اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے حالات رعایت اور اس کے طور طریقوں کی پاس داری کرتا ہے چنانچہ جب شخصی اور انفرادی سطح پر یہ ربط و تعلق ایک دوسرے کو جوڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے تو سارے مسلمان ایک مضبوط اجتماعی حیثیت اور عظیم طاقت بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو اس ارشاد گرامی میں ظاہر کیا گیا ہے کہ اور تمام مسلمانوں کو ایک بدن کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس طرح جب بدن کا کوئی ایک عضو دکھتا ہے تو سارا بدن دکھتا ہے اور محض ایک عضو میں تکلیف ہونے سے پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ایک تن بن جائیں اور پوری ملت اسلامیہ ایک جسم کی مانند ہو جائے کہ اگر کسی ایک بھی مسلمان کو کوئی گزند پہنچے یا وہ کسی آفت میں گرفتار ہو تو سارے مسلمان اس کے دکھ و رنج میں شریک ہوں اور سب مل کر اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کرنے کی تدبیر کریں اسی مفہوم کو شیخ سعدی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے !

بنی آدم اعضائے یکد یگرند کہ درآفرینش زیک گوہر اند

چوعضوے بدرد آور دروزگا دگرعضو ہا رانماند قرار

 

 

٭٭اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک خدا ایک رسول اور ایک دین کو ماننے کی وجہ سے سارے مسلمان ایک شخص کی مانند ہیں کہ اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم بے چین و مضطرب ہو جاتا ہے اور اس کا سر دکھتا ہے تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف کو سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔ (مسلم)

 

                   سارے مسلمان ایک دوسرے کی مدد و اعانت کے ذریعہ ناقابل تسخیر طاقت بن سکتے ہیں

 

اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسلمان، مسلمان کے لیے ایک مکان کے مانند ہے یعنی سارے مسلمان مضبوطی و طاقت حاصل کرنے کے اعتبار سے اس مکان کی طرح ہیں کہ جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط رکھتا ہے یہ کہہ کر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

پہلے تو آپ نے مسلمانوں کو اس مکان کے ساتھ تشبیہ دی جس کے سارے اجزاء اور تمام حصے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر پورے مکان کو مضبوط و پختہ بناتے ہیں اور پھر اس حقیقت کو آپ نے مثالی صورت میں اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر دکھلایا کہ اگر سارے مسلمان اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مربوط و متحد رہیں اور باہمی محبت و موانست اور امداد و تعاون کی زنجیر میں منسلک رہیں تو پوری ملت اسلامیہ مضبوط و توانا اور ایک ناقابل تسخیر طاقت بن جائے گی لیکن واضح رہے کہ مسلمانوں کا وہی اتحاد اور وہی یک جہتی مطلب و مستحسن ہے جس کی بنیاد حق و حلال کے معاملات پر ہو حرام و مکروہ اور گناہ کے موجب معاملات میں اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کے ساتھ مدد تعاون غیر مطلوب ہے۔

 

                   سفارش کرنا ایک مستحسن عمل ہے

 

اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی سائل یا حاجت مند آتا صحابہ سے فرماتے کہ مجھ سے اس شخص کی سفارش کرو تاکہ تمہیں سفارش کا ثواب مل جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان سے جو حکم چاہتا ہے جاری فرماتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

کسی کی سفارش کرنا گویا اس کے ساتھ ہمدردی کرنا اور اس کی مدد کرنا ہے اس لیے حضور نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ تم لوگوں کی سفارش کرتے رہا کرو خواہ تمہاری سفارش قبول کی جائے یا نہ کی جائے کیوں کہ کسی کا کام ہونا یا نہ ہونا تقدیر الٰہی اور حکم خداوندی کے مطابق ہے لہذا تم اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شاید میری سفارش قبول نہ ہو ، سفارش کرنے سے اجتناب نہ کرو اور اس کا ثواب ہاتھ سے نہ جانے دو۔ واضح رہے کہ سفارش کا حکم ان امور و معاملات سے متعلق ہے کہ جو کسی نا جائز حرام مقصد پر مبنی نہ ہو نیز اگر کوئی شخص کسی ایسے معاملے میں ماخوذ ہو جو حد یعنی شریعت کی طرف سے متعین شدہ سزا کو لازم کرتا ہے تو اس صورت میں اس وقت سفارش کرنا جائز نہیں ہو گا جب کہ وہ معاملہ امام وقت تک پہنچ چکا ہو، اگر وہ معاملہ امام تک نہ پہنچا ہو تو پھر سفارش کی جا سکتی ہے ہاں تعزیری معاملات میں بہر صورت سفارش کرنا جائز ہے نیز یہ ساری تفصیل اس صورت سے متعلق ہے جبکہ وہ شخص موذی و شریر نہ ہو،جس کی سفارش کرنا مقصود ہے موذی اور شریر کی سفارش کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔

 

 

                   ظالم کی مدد کس طرح کی جا سکتی ہے

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! جو مسلمان مظلوم ہے اس کی مدد تو مجھے کرنی چاہیے لیکن میں اس مسلمان کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں جو ظلم کر رہا ہے؟حضور نے فرمایا تم اس کو ظلم سے روکو یہی یعنی اس کو ظلم سے روکنا اس کے حق میں تمہاری مدد ہے کیوں کہ اس کو ظلم سے روکنا گویا اس کو اپنے نفس اور شیطان پر قابو پانے میں مدد دینا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

                   تمام مسلمان ایک دوسرے کے دینی بھائی ہیں

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا دینی بھائی ہے یعنی تمام مسلمان آپس میں دینی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے شریعت کو وہی مقام حاصل ہے جو ماں کو حاصل ہوتا ہے اور شارع تمام مسلمانوں کے دینی باپ ہیں لہذا اس دینی اخوت کا تقاضا ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور کسی کو ہلاکت میں مبتلا نہ کرے اور نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو اس کے دشمن کے ہاتھوں میں چھوڑے بلکہ اس دشمن کے مقابلہ پر اس کی مدد اعانت کرے اور یاد رکھو جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی سعی و کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے جو شخص کسی مسلمان بھائی کے کسی غم کو دور کرتا ہے تو اللہ اس کو قیامت کے دن غموں میں سے ایک بڑے غم سے نجات دے گا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کے بدن یا اس کے عیب کو ڈھانکتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو ڈھانکے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی کی ستر پوشی کرنے والے یا اس کے عیوب کو چھپانے والے شخص نے دنیا میں جو عیوب و گناہ کیے ہوں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے ان گناہ و عیوب کی پردہ پوشی کرے گا بایں طور کہ اہل موقف کے سامنے ظاہر نہیں کرے گا اس پر مواخذہ و محاسبہ نہیں کرے گا اور نامہ اعمال کی پیشی کے وقت ان کا ذکر پوشیدہ طور پر ہو گا۔علماء نے لکھا ہے کہ جن مسلمانوں کے عیوب کی پردہ پوشی مستحسن و مستحب ہے وہ اس درجہ کے مسلمان ہیں جن کو اہل عزت و حیا کہا جاتا ہے یعنی وہ مسلمان جن کی ظاہری زندگی پاکیزہ اور آبرو مندانہ سمجھی جاتی ہے اور جن کے عیوب پوشیدہ رہتے ہیں کہ اگر بتقاضائے بشریت ان سے کوئی گناہ و عیب سرزد ہو جائے تو وہ اس کو پردہ حیاء میں چھپاتے ہیں رہے وہ مسلمان جو حیا کا پردہ اٹھا دیتے ہیں جن کی ایذاء رسانی اور فتنہ پردازی آشکار ہوتی ہے اور علی الاعلان گناہ معصیت کا ارتکاب کرنے میں کوئی شرم اور جھجک محسوس نہیں کرتے ان کا معاملہ جداگانہ ہے کہ نہ صرف ان کو ان گناہ و عیوب پر ٹوکنا واجب، اور ان کو ارتکاب معصیت سے منع کرنا اور تنبیہ کرنا لازم ہے بلکہ اگر وہ روکنے اور تنبیہ کرنے کے باوجود اپنی برائیوں اور گناہ و ایذا رسانی سے باز نہ آئیں تو ان کے بارے میں حاکم کے یہاں اطلاع دینی چاہیے تاکہ وہ ان کو ایذاء رسانی اور فتنہ پردازی سے باز رکھے اسی طرح روایات حدیث اور مورخین پر جرح ونقد، ارباب حکومت اور گواہوں کی تحقیق اور اہل ظلم کے حالات کا اظہار بھی نہ صرف جائز بلکہ واجب لازم ہے کیوں کہ ان صورتوں میں دین و علم کی نگہبانی اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت مقصود ہوتی ہے اس لیے مذکورہ بالا لوگوں کے حالات و عیوب کو بیان کرنا اس اظہار عیب میں داخل نہیں ہے جس کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

 

                   کسی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے لہذا مسلمان ، مسلمان پر ظلم نہ کرے اس کی مدد و اعانت کو ترک نہ کرے اور اس کو ذلیل و حقیر نہ سمجھے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ فرما کر کہا کہ پرہیزگاری اس جگہ ہے نیز فرمایا کہ مسلمان کے لیے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرے یعنی کسی مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرنا بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ کوئی گناہ نہ بھی کرے تو اسی کی ایک برائی کی وجہ سے مستوجب مواخذہ ہو گا۔ (اور یاد رکھو کہ) مسلمان پر مسلمان کی ساری چیزیں حرام ہیں جیسے اس کا خون، اس کا مال، اور اس کی عزت و آبرو۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

اس کو ذلیل حقیر نہ سمجھے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کے عیب کو اچھال کر اور اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے بیان کر کے ان کو رسوا اور بدنام نہ کرے اس کے ساتھ بدزبانی اور سخت کلامی نہ کرے اور کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی غریب و محتاج ہی کیوں نہ ہو کتنا ہی ضعیف و ناتواں اور کتنا ہی نامراد و خستہ حال ہو اس کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ کسی کو کیا معلوم کہ جو مسلمان ظاہر طور پر نہایت خستہ حال ہے اور محتاج ہے وہ اللہ کے نزدیک اس کا مقام کیا ہے اور انجام و مال کے اعتبار سے وہ کس درجہ کا ہے اس حقیقت کو کسی صورت میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو بھی شخص لاالہ الااللہ پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے رسول کا امتی ہے وہ عزت والا ہے اور قابل تکریم ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا  آیت (وللہ العزۃ ولرسولہ)………الخ۔ لہذا کسی مومن کی عزت ایمانی کو کسی حال میں مجروح نہ کرنا چاہیے اور خصوصاً مومن جن کے چہرے مہرے علم دین کی علامت اور عبادت خداوندی کا نور جھلکتا ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بطریق اولیٰ ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے اکثر لوگ اور خصوصاً دنیا دار جو نفس کی ظلمت و غفلت میں مبتلا ہوتے ہیں عام طور پر فقراء و مساکین اور غریب و بے کس مسلمانوں کے وبال میں گرفتار رہتے ہیں کیونکہ وہ ان کو ذلیل و کمتر سمجھتے ہیں اور ان بے چاروں کے ساتھ انتہائی ترشی اور حقارت کا معاملہ کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر مومن کو ذلیل و حقیر کرنے کا عذاب اپنے سر لیتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ ان لوگوں کو دنیا میں بھی عزت و اقبال مندی سے نوازتا ہے اور آخرت میں بھی نجات عطا کرے گا جو اس کے غریب و مسکین اور ضعیف و بے کس بندوں کے ساتھ محبت و احترام کا برتاؤ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے مسکین و غرباء کی محبت حاصل ہونے کی دعا مانگا کرتے تھے نیز آپ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ فقراء مسکین کی ہم نشینی اختیار فرمائیں جیسا کہ سورہ کہف میں مذکور ہے۔

پرہیزگاری اس جگہ ہے  کا مطلب یہ ہے کہ متقی یعنی وہ شخص جو شرک اور گناہوں سے اجتناب و پرہیز کرتا ہے اس کو کسی بھی صورت میں حقیر و کم تر نہیں سمجھنا چاہیے یا یہ مراد ہے کہ تقویٰ کا مصدور مخزن اصل میں سینہ یعنی دل ہے اور وہ ایک ایسی صفت ہے جو باطن کی ہدایت اور نورانیت سے پیدا ہوتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ ان الفاظ کا مقصد ماقبل جملہ کی تاکید و تقویب ہے اور مطلب یہ ہو گا کہ جو چیز کسی انسان کو معزز و مکرم بناتی ہے وہ تقویٰ ہے اور جب تقویٰ کا تعلق باطن سے ہے اور اس کی جگہ دل ہے جو ایک پوشیدہ چیز ہے کہ جس کو انسان ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتا تو پھر کسی مسلمان کو کیونکہ حقیر و ذلیل کہا جا سکتا ہے درآنحالیکہ اس کی حقیقت معلوم نہیں ہے کہ ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ تقویٰ کی جگہ دل کو قرار دے کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس کے دل میں تقویٰ ہو وہ کسی مسلمان کو حقیر و ذلیل نہ کرے کیونکہ کوئی بھی متقی کسی مسلمان کو ذلیل کرنے والا نہیں ہو سکتا یہ مراد اگرچہ بعض علماء نے لکھی ہے لیکن پہلے معنی زیادہ صحیح اور زیادہ موزون ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسا کوئی کام نہ کرے اور نہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے کسی مسلمان بھائی کی خون ریزی ہو یا اس کا مال تلف و ضائع ہو اور یا اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچے۔ یہ حدیث اپنے الفاظ کے اختصار لیکن مفہوم و معنی کی وسعت کے اعتبار سے جوامع الکلم میں سے ہے اللہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خصوصی عطیہ ہے۔

 

                   جنتی اور دوزخی لوگوں کی قسمیں

 

اور حضرت عیاض ابن حمار کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جنتی لوگوں کی تین قسمیں ہیں (یعنی جو اہل ایمان اس لائق ہیں کہ سابقین اور مقربین کے ساتھ جنت میں داخل ہوں وہ تین طرح کے ہیں) ایک تو وہ حاکم جو عدل و انصاف کرتا ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرنے والا ہو اور جس کو نیکیوں اور بھلائیوں کی توفیق دی گئی ہو دوسرے وہ شخص (جو چھوٹوں اور بڑوں پر) مہربان ہو اور قرابت داروں اور مسلمانون کے لیے رقیق القلب ہو یعنی نرم دل ہو۔ اور تیسرے وہ شخص جو غیر حلال چیزوں سے بچنے والا پرہیز کرنے والا اور اہل و عیال کے بارے میں خدا پر توکل کرنے والا ہو یعنی اہل و عیال کی محبت اور ان کے رزق کا خوف اس کو خدا پر توکل کرنے سے باز نہ رکھتا ہو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے اور حرام و نا جائز مال حاصل کرنے پر مجبور نہ کرتا ہو اور نہ وہ اپنے ان اہل و عیال کی وجہ سے علم و عمل میں مشغول ہونے غافل رہتا ہو۔ اور دوزخی لوگوں کی پانچ قسمیں ہیں۔ یعنی جو لوگ اپنے افعال بد کے وبال میں پڑ کر مستوجب عذاب ہوتے ہیں وہ پانچ طرح کے ہیں گویا یہاں ان افعال بد اور بری خصلتوں کی برائی بیان کرنا اور ان کی سختی و شدت کو ظاہر کرنا مقصود ہے جو دوزخ کے عذاب کا باعث ہیں جیسا کہ پہلے ان چیزوں کی تعریف و مدح کی گئی جو جنت میں لے جانے والی ہیں۔ ایک تو کمزور عقل والا کہ اس کی عقل کی کمزوری اس کو ناشائستہ امور سے باز نہ رکھے۔ (یعنی وہ شخص اپنی عقل پر نفسانی خواہشات اور خود غرضی کے جذبات کے غالب آ جانے کی وجہ سے ثبات و استقامت ترک کر دیتا ہے اور گناہوں اور بری باتوں سے باز رہنے پر قادر نہیں رہتا ٰ) وہ لوگ کہ جو تمہارے تابع اور تمہارے خادم ہیں ان کونہ بیوی کی خواہش ہوتی ہے اور نہ مال کی پرواہ (یعنی وہ لوگ جو تمہارے مال داروں اور مقتدروں کے آگے پیچھے نظر آتے ہیں ان کی خدمت و اطاعت میں دم بھرتے ہیں ان کے مد نظر نہ تو کسی کی بھلائی دوستی ہوتی ہے اور نہ ان کو واقعتاً خدمت و اطاعت سے کوئی غرض ہوتی ہے بلکہ وہ تو محض اپنی نفسانی خواہشات اور خود غرضی کے تابع ہوتے ہیں ان کا اصل مقصد اچھے اچھے کھانوں سے اپنا پیٹ بھرنا ہے اور اچھے درجہ کے لباس اور دوسری چیزیں حاصل کرنا ہوتا ہے نہ تو انہیں بیوی کی پرواہ ہوتی ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنی جنسی خواہش جائز طور پر پوری کر سکیں اور نہ انہیں اس مال و زر کی طلب ہوتی ہے جو حلال ذرائع جائز وسائل اور محنت و مشقت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ بدکاریوں حرام خوریوں اور اجنبی عورتوں اور حرام و مشتبہ اسباب میں مگن اور خوش رہتے ہیں اور یہ چیز بھی انسانی عقل کی کم زوری ہے اور ضمیر کی مردنی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حلال و پاک چیزوں سے اعراض کرنا اور حرام و مشتبہ چیزوں کو مطلب و مقصد قرار دینا نہ تو عقل کا تقاضا ہو سکتا ہے اور نہ ضمیر کے مطابق) دوسرے وہ شخص جو خائن و بد دیانت ہو کہ اس کی طمع کسی پوشیدہ چیز کو بھی اس کے ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تاکہ وہ اس میں بد نیتی کر سکے خواہ وہ کتنی ہی کیوں نہ چھوٹی ہو اور کم تر ہو (یعنی اس کی طمع و حرض اس کو کسی حال میں چین سے نہیں بیٹھنے نہیں دیتی یہاں تک کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کو بھی تلاش وجستجو میں لگا رہتا ہے اور جب وہ چیزیں اس کے ہاتھ لگ جاتی ہیں تو ان میں بھی بد نیتی کرتا ہے اور خواہ وہ چیزیں کتنی ہی بے وقعت اور کمتر ہی کیوں نہ ہوں، نیز بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ خفا چوںکہ ظہور کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے لایخفی لہ طمع کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خائن کہ وہ اس چیز میں بھی خیانت کرتا ہے جو اس کے سامنے نہیں ہوتی، اور نہ وہ اس قابل ہوتی ہے کہ وہ اس کی طمع و حرص کر سکے) اور تیسرے وہ شخص جو صبح و شام تمہیں تمہارے اہل عیال میں دھوکہ دینے کے چکر میں رہتا ہے (یعنی جس شخص کو تم اپنے گھر والوں کی حفاظت اور اپنے مال و اسباب کی نگرانی سپرد کرتے ہو یا جو شخص از خود تمہارے ساتھ لگا رہتا ہے اور اپنی عفت پاک دامنی کو تم پر ظاہر کر کے یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ تمہارے گھر بار اور اہل خانہ کی حفاظت و نگرانی میں مصروف ہے لیکن حقیقت میں وہ ہر لمحہ تمہارے اہل خانہ اور تمہارے مال اسباب پر بری نظر رکھتا ہے (نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بخیل اور جھوٹے اور بد خلق فحش گو کا ذکر کیا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

رجل رحیم رقیق القلب میں رحیم سے مراد صفت فعلیہ اور رقیق سے مراد صفت قلبیہ ہے صفت فعلیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ صفت اپنا خارجی وجود بھی رکھے اور دوسروں پر اس کے اثرات ظاہر ہوں جبکہ صفت قلبیہ کا تعلق محض اس صفت کے باطنی وجود سے ہوتا ہے کہ خواہ وہ علمی اور خارجی طور پر اس کا اظہار ہو یا نہ ہو۔

لفظ بخل اور کذب مصدر قائم مقام فاعل ہیں۔ وذکر البخل والکذب…..الخ۔ کے ذریعہ راوی نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دوزخیوں کی جو قسمیں بیان کی ہیں ان میں بخیل اور کاذب کا بھی ذکر فرمایا اور پوری عبارت کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ نے دوزخیوں کی مذکورہ قسمیں بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ دوزخیوں کی اور قسمیں بخیل و کاذب ہیں رہی یہ بات کہ راوی نے ذکر البخیل و الکاذب کہنے کے بجائے ذکر البخل والکذب کیوں کہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ارشاد فرمایا تھا وہ بعینہ الفاظ میں راوی کو یاد نہیں رہا تھا البتہ صحیح طور پر یہ یاد تھا کہ آپ نے باقی دو قسموں کے سلسلے میں جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے ان میں بخل کذب کا ذکر ضرور تھا خواہ آپ نے والبخیل والکاذب ہی کے الفاظ فرمائے ہوں یا کچھ اور الفاظ فرمائے ہوں اکثر روایتوں میں البخل اور الکذب کے درمیان واؤ کے بجائے او ہے یعنی البخل او الکذب اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس موقع پر راوی کو شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو البخل کا لفظ ارشاد فرمایا تھا یا الکذب کا یعنی راوی گویا یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ آپ نے دوزخیوں کی تین قسمیں بیان کرنے کے بعد چوتھی قسم کے طور پر یا تو بخیل کو بیان کیا تھا کہ یا کاذب کو اور زیادہ صحیح بات بھی یہی ہے کہ یہاں حرف او ہے اور جو راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے اور جن روایتوں میں واؤ ہے ان میں بھی واؤ حرف او کے معنی میں ہے لفظ والشنظیر کو بھی مرفوع قرار دینا زیادہ صحیح ہو گا اور اس کا عطف رجل پر کیا جاتا ہے جب کہ بعض حضرات نے اس کو منصوب قرار دیا ہے۔

 

 

 

               قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق

 

                   قریش میں سے بارہ خلفاء کا ذکر

 

اور حضرت جابر ابن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا  اسلام کو بارہ خلفاء تک قوت و غلبہ حاصل رہے گا اور سب قریش میں سے ہوں گے  ایک روایت میں یوں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) لوگوں کے (دینی و مذہبی امور میں استقامت ملی و ملکی معاملات میں استحکام اور عام نظم ونسق میں عدل و انصاف اور حق وراستی پر مبنی) نظام کار کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ ان کے حاکم وہ بارہ شخص ہوں گے جن کا تعلق قریش سے ہو گا  اور ایک روایت میں یوں ہے کہ  (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آئے اور لوگوں پر ان بارہ خلیفہ کی حکومت قائم ہو گی جو قریش میں سے ہوں گے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث کے معنی و مفہوم کے تعین میں مختلف اقوال بھی ہیں اور علماء نے اشکال کا اظہار بھی کیا ہے۔ اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث سے بظاہر جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے بارہ خلفاء ہوں گے جن کے زمانہ خلافت میں دین کا نظام مستحکم و برقرار رہے گا ، ان کے وجود سے اسلام کو شان و شوکت حاصل ہو گی ، اور نہ صرف یہ کہ خود وہ تمام بارہ خلفاء دین و مذہب کے سچے پابند و تابعدار ہوں گے بلکہ انکی خلافت و عدالت سے حق و انصاف کے مطابق احکام و ہدایات کا اجراء و نفاذ ہو گا حالانکہ تاریخی اور واقعاتی طور پر جو کچھ پیش آیا ہے وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتا۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب خلافت و امارت پر فائز ہونے والوں میں بنی مروان میں کہ وہ خلفاء و امراء بھی تھے جو نہ صرف یہ کہ اپنی سیرت اور طور طریقوں کے اعتبار سے دین و مذہب سے مناسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی ظالمانہ اور مفسدانہ کاروائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصانات اور مصائب برداشت کرنا پڑے علاوہ ازیں وہ صحیح حدیث بھی ہے جس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت کا نظام قائم رہے گا اور اس کے بعد ظلم و زیادتی پر مبنی بادشاہت آ جائے گی  چنانچہ تمام علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیس برس کے عرصہ یعنی خلافت راشدہ کے بعد جو نظام حکومت ظاہر ہوا اس کو خلافت نہیں بلکہ بادشاہت و امارت کہنا چاہئے یہ ایک اہم اشکال ہے اور اسی بناء پر علماء کرام نے اس حدیث کی توجیہ و تاویل میں مختلف اقوال پیش کئے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ  بارہ خلیفوں  سے مراد وہ بارہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سریر آرائے خلافت اور حکومت وسلطنت ہوئے اور ان کے زمانہ اور اقتدار و حکومت میں مسلمانوں کے ظاہری حالات و معاملات اور رعایا کے مفاد کے اعتبار سے سلطلنت و حکومت کا نظام مستحکم و متوازن رہا اگرچہ ان میں سے بعض برسر اقتدار لوگ ظلم و بے انصافی کے راستہ پر بھی چلے ، باہمی اختلاف و نزاع اور خرابیوں کا بھیانک ظہور ولید بن یزید بن عبد الملک بن مروان کے عہد اقتدار میں ہوا جو ان میں بارہواں شخص تھا ، اس شخص کی امارت اس وقت قائم ہوئی جب اس کے چچا ہشام ابن عبد الملک کا انتقال ہوا پہلے تو لوگوں نے ولید ابن یزید کی امارت پر اتفاق کیا اور ان کا اتفاق چار برس تک قائم رہا لیکن چار برس کے بعد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو مار ڈالا ، اس دن سے صورت حال میں تغیر پیدا ہو گیا اور فتنہ وفساد پوری طرح پھیل گیا یہ قول قاضی عیاض مالکی کی طرف منسوب ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کی تحسین کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی جتنی توجیہات کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان سب میں یہی قول سب سے زیادہ مناسب اور سب سے زیادہ قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے جو اسی حدیث کے جزء کے طور پر بعض صحیح طرق میں منقول ہیں کہ کلہم یجتمع علیہ امر الناس  اور  جمع  سے مراد ان خلفاء کی بیت پر لوگوں کا اتفاق و اجتماع اور ان کی قیادت وسرداری کو قبول کرنا ہے اگرچہ کراہت کے ساتھ ہو۔ نیز اس حدیث سے ان خلفاء کی جو مدح و توصیف مفہوم ہوتی ہے وہ دین عدالت، اور حقانیت کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ سیاسی و انتظامی معاملات میں استحکام واستواری اور حکومت و امارت کے تئیں اتفاق و اتحاد کے اعتبار سے ہے رہی اس صحیح حدیث کی بات جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خلافت کو تیس سال میں منحصر بیان فرمایا ہے تو وہاں خلافت سے مراد خلافت کبریٰ ہے جو اصل میں خلافت نبوت ہے جب کہ اس حدیث میں خلافت امارت  مراد ہے چنانچہ خلفائے راشدین کے بعد جو امراء (سربراہان حکومت) گذرے ان کو بھی خلیفہ ہی کہا جاتا ہے ، اگرچہ ان کو خلیفہ کہنا مجازی معنی کے اعتبارسے ہے مذکورہ بالا پہلے قول کو اگرچہ علامہ ابن حجر نے اولیٰ و ارجح قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ لایزال الاسلام عزیزا اور لایزال الدین قائما کے ساتھ یہ قول کھلی ہوئی عدم مناسبت کا حامل ہے کیونکہ یہ الفاظ ان بارہ خلفاء کی اس مدح و تعریف کا صریح مظہر ہیں کہ ان کے زمانہ خلافت و امارت میں دین کو استحکام حاصل رہے گا حق کا بول بالا ہو گا اور ان کے عدل و انصاف کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہو گا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ  خلفاء سے مراد عادل و انصاف پرور خلفاء اور نیک طینت و پاکباز امراء ہیں جو اپنے ذاتی اوصاف حمیدہ کی بناء پر  خلافت  کا صحیح مصداق اور منصب امارت کے اہل ہوں، اس صورت میں حدیث کا لازمی مطلب یہ بیان کرنا نہیں ہو گا کہ یہ بارہ خلفاء آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے منصب خلافت و امارت پر متمکن ہوں گے جب کہ ہو سکتا ہے کہ اصل مقصد اس طرح کے خلفاء و امراء کی محض تعداد بیان کرنا ہو خواہ ان کا ظہور کسی بھی عہد و زمانہ میں ہو اور بارہ کا عدد قیامت تک کسی وقت جا کر پورا ہو  تو رپشتی کے مطابق اس حدیث اور اس بارہ میں منقول دوسری احادیث کے مفہوم و معنی کے تعین میں یہی قول زیادہ بہتر ومناسب اور قابل ترجیح ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں اس طرح کے ان بارہ خلفاء و امراء کا ذکر مراد ہے جو حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانہ کے بعد منصب خلافت و امارت پر فائز ہوں گے گویا مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش خبری فرمائی کہ آخر زمانہ میں قریش سے نسبی تعلق رکھنے والے ایسے بارہ افراد مسلمانوں کی ملی وملکی اور حکومتی قیادت کے امین بنیں گے جن کے زمانہ اقتدار و امارت میں دین و مذہب کو عروج حاصل ہو گا اور اسلام کی شان و شوکت دوبالا ہو گی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب مہدی کا انتقال ہو گا تو قیادت و اقتدار کے مالک ، یکے بعد دیگرے جو پانچ آدمی ہوں گے وہ سبط اکبر یعنی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہوں گے ، ان کے بعد قیادت و اقتدار کی باگ ڈور یکے بعد دیگرے ان پانچ آدمیوں کے ہاتھ میں آئے گئی جو سبط اصغر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان میں آخری شخص اپنا ولی عہد ایسے شخص کو بنائے گا جو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں ہو گا اور مملکت و ملت کی امامت وسربراہی کے سلسلہ کا گیارہواں فرد ہو گا پھر جب یہ گیارہواں شخص اپنا زمانہ اقتدار پورا کر کے انتقال کرے گا تو اس کا جانشین اس کا بیٹا ہو گا اور مسند اقتدار کا مالک بنے گا ، اس طرح بارہ کا عدد پورا ہو جائے گا اور ان بارہ میں کا ہر شخص امام عادل اور ہادی مہدی ہو گا جس کی عدالت انصاف پسندی ،دینداری اور رعایا سے اسلام اور مسلمانوں کوزبردست شان و شوکت اور سربلندی و ہردلعزیزی حاصل ہو گی اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر مذکورہ بالا دوسرے قول کو ایک معقول اور بہترین توجیہ قرار دیا جا سکتا ہے ویسے ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی کے اوصاف ومحاسن بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (امام مہدی) کے وجود سے ہر رنج و فکر کو دور کر دے گا اور ان کے عدل و فتنہ کا سد باب ہو جائے گا ان کے زمانہ کے بعد پھر قیادت و اقتدار کی باگ ڈور ان بارہ آدمیوں کے ہاتھ میں آ جائے گی جو یکے بعد دیگرے ڈیڑھ سوسال تک مملکت کی زمام کار سنبھالے رہیں گے۔

اور چوتھا قول یہ ہے کہ اصل مراد ایک ہی زمانہ میں بارہ خلفاء کا پایا جانا ہے جو اپنی اپنی جگہ خود مختار حیثیت کا دعوی کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کی اطاعت کرنے والے لوگوں کا الگ الگ گروہ ہو گا اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ (ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا) وہ وقت آنے والا ہے جب میرے بعد خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے  اس ارشاد گرامی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اصل مقصد یہ خبر دینا تھا کہ میرے بعد نت نئے فتنوں کا ظہور ہو گا اور طرح طرح کے اختلافی و نزاعی معاملات اٹھ کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ایک زمانہ میں بارہ خلفاء اپنی الگ الگ خلافت کا دعویٰ کریں گے اس آخری قول کے مطابق حدیث کی مراد گویا یہ ہو گی کہ بیک وقت بارہ خلفاء کے وجود کے زمانہ سے پہلے کے زمانہ تک تو مسلمانوں کی موثر اجتماعی و تنظیمی حیثیت برقرار رہے گی دین کا نظام مستحکم واستوار رہے گا اور اسلام کی عزت و شوکت بڑھتی رہے گی لیکن اس زمانہ میں (جب کہ بیک وقت بارہ خلفاء ہوں گے) اختلاف ونزاع کا فتنہ پھوٹ پڑے گا اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی منتشر ہونے لگے گی۔ لیکن پہلے اقوال کے مطابق حدیث کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بارہ خلفاء کے زمانہ تک اسلام اور مسلمانوں کا نظام ملک و ملت مستحکم واستوار رہے گا اس نظام میں جو خلل و اضطراب پیدا ہو گا وہ اس زمانہ کے بعد ہو گا۔

شیعوں نے اس حدیث میں بارہ خلفاء کے ذکر کو اس پر محمول و منطبق کیا ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہوں گے خواہ وہ منصب خلافت پر حقیقۃً فائز ہوں خواہ خلافت کا استحقاق رکھنے کے باوجود منصب خلافت پر فائز نہ ہو سکیں ان شیعوں کے مطابق سب سے پہلے خلیفہ حضرت علی ہیں ، پھر حضرت حسن ، پھر حضرت حسین، پھر حضرت زین العابدین، پھر حضرت محمد باقر، پھر حضرت جعفر صادق، پھر حضرت موسیٰ کا ظم، پھر حضرت علی رضا، پھر حضرت محمد تقی ، پھر حضرت حسین عسکری ، پھر حضرت محمد مہدی۔

 

                   چند عرب قبائل کا ذکر

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (قبیلہ) غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے (قبیلہ) اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور (قبیلہ) عصیہ (تو وہ قبیلہ) جو اللہ اور اللہ کے رسول کی معصیت میں مبتلا ہوا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

غفار  عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے ، ممتاز صحابی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ قبیلہ حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا اور اپنی اس برائی کے سبب عام قبائل میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قبیلہ کے حق میں دعا فرمائی کہ اس قبیلہ کے دامن پر جو پہلا داغ لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مٹائے اور قبیلہ والوں کو مغفرت و بخشش سے نوازے کیونکہ اب اسی قبیلہ کے لوگ خوشی خوشی اسلام میں داخل ہو گئے ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی دعائیہ جملہ کے بجائے جملہ خبریہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ کے ذریعہ خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کی جاہلی زندگی کے واقعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب اہل قبیلہ کو ان کے ایمان واسلام کی بدولت مغفرت و بخشش سے نواز دیا ہے۔

اسلم  بھی ایک قبیلہ کا نام ہے اس قبیلہ کے لوگوں نے چونکہ لڑائی کے بغیر اسلام قبول کر لیا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو سلامت رکھے اس قبیلہ کے بارے میں مذکورہ جملہ بھی جملہ خبریہ کا احتمال رکھتا ہے یعنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جملہ کے ذریعہ یہ خبر دی ہو کہ یہ وہ قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو پسند نہیں کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کے لوگوں کو قتل و تباہی سے سلامت و محفوظ رکھا۔

عصیہ  اس بدنصیب قبیلہ کا نام ہے جس نے مسلمان قاریوں کو بیر معونہ پر مکر و فریب کے ذریعہ بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر بڑا رنج ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم قنوت میں اس قبیلہ کے لوگوں پر لعنت اور بددعا فرمایا کرتے تھے۔ اس قبیلہ کے حق میں مذکورہ حدیث کے الفاظ صرف جملہ خبریہ کے طور پر ہیں ، ان میں جملہ دعائیہ کا کوئی احتمال نہیں ہے تاہم ان الفاظ میں اس قبیلہ کا ذکر جس طرح شکوہ کو ظاہر کرتا ہے وہ بجائے خود بددعا کو مستلزم ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں کہ اہل قبیلہ گناہ و معصیت میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوں بلکہ اس مفہوم میں کہ قبیلے والوں نے جس عظیم معصیت اور سرکشی کا ارتکاب کیا اس پر ان کو دنیا و آخرت میں ذلت و خواری نصیب ہو۔

 

                   چند قبائل کی فضیلت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما یا : قریش (کے مسلمان یعنی اہل مکہ وغیرہ) انصار (یعنی اہل مدینہ) قبیلہ جہینہ (کے مسلمان) قبیلہ غفار (کے مسلمان) اور قبیلہ اشجع (کے مسلمان) میرے دوست اور مددگار ہیں ان کا مدد گار اور دوست اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا کوئی نہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

لفظ موالی متکلم کی طرف مضاف ہے اور مولیٰ کی جمع ہے اور ایک روایت میں یہی لفظ (یہ متکل کے بغیر) موالٍ منقول ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ (ان قبائل کے مسلمان) آپس میں ایک دوسرے کے معین اور مدد گار اور دوست ہیں۔

 

                   دو حلیف قبیلوں کا ذکر

 

اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسلم غفار مزینہ اور جہنینہ یہ سب قبیلے بنوتمیم سے ، اور دونوں حلیف قبیلوں یعنی بنواسد اور غطفان سے بہتر ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

دونوں حلیف قبیلے بنواسد اور غطفان بھی دو قبیلوں کے نام ہیں یہ دونوں قبیلے آپس میں ایک دوسرے کے حلیف تھے اور جیسا کہ اس زمانہ میں عرب کا عام دستور تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے قسم کھا کر عہد و پیمان کر رکھا تھا کہ باہم ایک دوسرے کے مدد گار و معین رہیں گے۔ حدیث میں مذکورہ قبیلوں کو اس لئے بہتر فرمایا کہ ان قبائل کے لوگوں نے قبول اسلام میں سبقت کا شرف حاصل کی اور اپنے اچھے احوال و معاملات کا قابل تحسین مظاہرہ کیا۔

 

                   بنو تمیم کی تعریف

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بنو تمیم کو اس وقت سے ہمیشہ عزیز اور دوست رکھتا ہوں جب سے میں نے ان کی تین خاص خوبیوں کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے (چنانچہ ان کی پہلی خوبی کے بارے میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے بنو تمیم ہی وہ لوگ ہوں گے جو دجال کے مقابلے پرسخت سے زیادہ سخت اور بھاری ثابت ہوں گے  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (ان کی دوسری خوبی کے بارے میں یہ) بیان کیا کہ (ایک مرتبہ بنی تمیم کی طرف سے) صدقات (یعنی زکوٰۃ کے اموال و مویشی وغیرہ) آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی طرف سے آئے ہوئے صدقات ہیں  اور (ان کی تیسری خوبی اس طرح ظاہر ہوئی کہ) بنی تمیم سے تعلق رکھنے والی ایک لونڈی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھی، اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اس لونڈی کو آزاد کر دو کیونکہ یہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

سب سے زیادہ سخت اور بھاری ثابت ہوں گے یعنی جب دجال لعین کا ظہور ہو گا تو بنی تمیم ہی کے لوگ سب سے زیادہ اس کا مقابلہ کریں گے اس کے توڑ میں سب سے زیادہ سعی و کوشش کریں گے اور اس کی تردید و تغلیط میں سب سے آگے رہیں گے اس طرح ان الفاظ میں بنو تمیم کی خصوصیت و فضیلت کا تو ذکر ہم ہی لیکن اس کے ساتھ یہ پیشین گوئی بھی ہے کہ بنو تمیم کی نسل کے لوگ اسی کثرت کے ساتھ ظہور دجال کے زمانہ میں بھی ہوں گے۔

یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو تمیم کو اس طرح شرف و فضیلت سے نوازا کہ ان کو اپنی طرف منسوب کر کے ان کی قوم کو اپنی قوم فرمایا۔

یہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے  کا مطلب یہ تھا کہ یہ لونڈی بنو تمیم میں سے ہونے کی بناء پر عربی النسل ہے اور عرب چونکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں اس لئے یہ لونڈی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوئی اگرچہ یہ نسلی وصف تمام عرب کا مشترک وصف ہے ، صرف بنو تمیم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو تمیم کو ایک طرح سے فضل و شرف عطا فرمانے کے لئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

 

                   قریش کو ذلیل نہ کرو

 

اور حضرت سعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس شخص نے قریش کی ذلت و خواری چاہی ، اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و خوار کرے گا۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ قریش کی عزت اور ان کا احترام ہر صورت میں لازم ہے ان کی عزت کے درپے ہونا اور ان کی ذلت و رسوائی چاہنا اللہ کی ناراضگی کو مول لینا ہے ، خواہ وہ امامت کبریٰ یعنی منصب خلافت پر فائز ہوں یا فائز نہ ہوں۔ ان کے خلیفہ و امیر ہونے کی صورت میں ان کی اہانت و بے عزتی کرنے کی ممانعت اور تہدید کی وجہ تو ظاہر ہے ، رہی وہ صورت جب کہ وہ خلافت و امارت کے منصب فائز نہ ہوں تو اس صورت میں بھی ان کی اہانت و بے عزتی کرنے کی ممانعت اس اعتبار سے سمجھی جائے گی کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت حاصل ہے اور ان کا یہ خصوصی فضل وشرف اسی بات کا متقاضی ہے۔

 

                   قریش کے حق میں دعا

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی : اے اللہ ! تو نے قریش کو ابتداء میں (غزوۂ  بدر اور غزوۂ  احزاب کے موقع پر شکست و تباہی کا) عذاب چکھایا (جب کہ انہوں نے دین حق کی مخالفت اور تیرے رسول کا راستہ اختیار کر رکھا تھا) پس اب (جب کہ انہوں نے اسلام قبول کر کے اور تیرے رسول کی اطاعت اختیار کر کے دین اور مسلمانوں کو تقویت و مدد پہنچائی ہے تو) آخر میں ان کو عطاء و بخشش سے نواز دے۔ (ترمذی)

 

                   دو یمنی قبیلوں کی خوبیاں اور ان کی تعریف

 

اور حضرت ابوعامر اشعری (جو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے چچا ہیں) بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اسد اور اشعریب ہت اچھے قبیلے ہیں ، یہ دونوں نہ کفار کے مقابلہ پرجنگ سے بھاگتے ہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

اسد یمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور و متعارف ہوا ، اسی قبیلہ کو  ازد  اور  ازد شنوہ  بھی کہا جاتا ہے تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے اشعر دراصل عمرو ابن حارثہ اسدی کا لقب تھا جو اپنے زمانہ میں یمن کا ایک ممتاز اور سربر آوردہ شخص تھا یہ بھی اپنے قبیلہ کا مورث اعلی تھا اور اس کے لقب کی نسبت سے اس کا قبیلہ  اشعری  کہلاتا تھا اس قبیلہ کے لوگوں کو  اشعریون  اور اشعرون  بھی کہا جاتا ہے ، مشہور صحابی حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

وہ مجھ سے ہیں  کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری اتباع کرنے والے اور میری سنت اور میرے اسوہ پر چلنے والے لوگ ہیں ، یا یہ کہ ان قبیلوں کے لوگ میرے دوستوں اور مدد گاروں میں سے ہیں اسی طرح  میں ان کا ہوں  کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی ان کا دوست اور ان کا مدد گار ہوں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اس طرح اشارہ کیا گیا کہ ان قبیلوں کے مؤمن و مسلمان تقویٰ و پرہیز گاری کے مقام پر ہیں اور یہ بات قرآن کریم کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ

                             وان اولیاؤہ الا المتقون۔

اور ان کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے) جو بھی دوست و رفیق ہیں سب متقی و پرہیز گار ہیں۔

 

                   ازد، ازد اللہ ہیں

 

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قبیلہ ازد کے لوگ ، روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقیناً لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ان کو ازداللہ کہنا یا تو ان کو اس لقب کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون و مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ، ان کے فضل و شرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسداللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت و دلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔

کاش میرا باپ ازدی ہوتا  مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے با عزت و سربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے۔

 

 

٭٭حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقیناً لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ان کو ازداللہ کہنا یا تو ان کو لقب کے ساتھ کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی ، اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازداللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت و دلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔

کاش میرا باپ ازدی ہوتا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے با عزت و سربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ کاش ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے

 

 

                    تین قبیلوں کے بارے میں اظہار ناپسندیدگی

 

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تین قبیلوں ،ثقیف ، بنو حنیفہ ، اور بنو امیہ ، سے ناخوش اس دنیا سے تشریف لے گئے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

مذکورہ بالا تینوں قبیلوں میں ایسے افراد پیدا ہوئے جن سے اسلام کے مخالفین کو فائدہ پہنچا اور مسلمانوں کو شدید رنج و الم اور مصائب سے دوچار ہونا پڑا ، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کر دیا تھا کہ آگے چل ان قبائل سے کیسے کیسے فتنے اور کیسے کیسے ظالم لوگ پیدا ہوں گے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان تینوں قبیلوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ، چنانچہ ثقیف تو وہ قبیلہ ہے جس میں حجاج ابن یوسف جیسا مشہور شخص پیدا ہوا ، بنو حنیفہ وہ قبیلہ ہے جس میں مسیلمہ کذاب جیسے فتنہ ساز کو جنم دیا اور بنو امیہ وہ قبیلہ ہے جس میں عبیداللہ ابن زیاد پیدا ہوا ، یہ وہی عبید اللہ ابن زیاد ہے جو یزید ابن معاویہ کی طرف سے کوفہ و بصرہ کا گورنر تھا اور جس نے محض دربار امارت میں خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی ماتحت فوج سے حضرت سید الشہداء امام حسین کو شہید کرایا ،عبید ابن زیاد انتہائی بدبخت اور کمینہ شخص تھا ، منقول ہے کہ جب اس کی فوج کے لوگ میدان کربلا سے حضرت سید الشہداء حضرت حسین کا سر مبارک لے کر اس کے پاس آئے تو اس نے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھوایا اور ایک چھڑی کے ذریعہ اس پر ضربیں لگاتا جاتا اور جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخانہ کلمات بکتا جاتا ، لیکن اس بدنصیب کا انجام بھی بہت برا ہوا ، نہایت بے دردی کے ساتھ ایک جنگ میں مارا گیا ، اور ترمذی نے اپنی جامع میں عمارہ ابن عمیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ ،جب عبید اللہ ابن زیاد میدان جنگ میں مارا گیا تو (اس کی دشمن فوج نے اس کی بے سر لاش کو نذر آتش کر دیا پھر) اس کے فوجی اس کا سرلے کر شہر میں آئے اور مسجد کے چبوترے پر رکھ دیا جہاں اس کے دوسرے ساتھی اور حوالی موالی بیٹھے ہوئے تھے ،عمارہ ابن عمیر کہتے ہیں کہ اس موقع پر میں بھی وہاں پہنچ گیا ، پھر میں نے دیکھا کہ اس کے ساتھیوں نے چلانا شروع کیا وہ آیا وہ آیا (میں نے حیرت کے ساتھ دیکھا تو) اچانک ایک سانپ آتا ہوا دکھائی دیا ، اور پھر وہ سانپ (بڑی تیزی کے ساتھ عبید اللہ ابن زیاد کے سر کی طرف بڑھا اور) اس کی ناک میں گھس گیا ، تھوڑی سی دیر اندر رہا اور پھر باہر نکل کر چلتا بنا یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہو گیا (یہ ششدر کن منظر دیکھ کر ابھی لوگوں پر حیرانی و سراسیمگی طاری ہی تھی کہ) اچانک انہوں نے پھر شور کیا ، وہ آیا دیکھو وہ سانپ پھر آ رہا ہے اتنے میں وہ سانپ سر کے پاس پہنچ کر پھر نتھنے میں گھس کر اندر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد باہر نکل کر چلتا بنا اسی طرح دویا تین بار ہوا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حدیث کی وضاحت میں  بنو امیہ  کے تحت صرف عبید اللہ ابن زیاد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے حالانکہ یزید ابن معاویہ بھی بنو امیہ میں سا تھا اور اس اعتبار سے اس کا ذکر کرنا زیادہ ضروری تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد اسی کا مقرر کردہ گورنر اور اس کا ماتحت تھا ، اور عبید اللہ ابن زیاد نے جو کچھ کیا یزید کے حکم اور اس کی رضامندی سے کیا ، لیکن اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے بنو امیہ کے باقی لوگوں نے اپنی بد ذاتیوں میں کونسی کسر اٹھا رکھی تھی ،دولت و اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو کر انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی حرکت جو جو حرکتیں کیں وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں ایک یزید ابن معاویہ یا عبید اللہ ابن زیاد ہی کو کیا کہا جائے ، مقصد بنو امیہ کی برائی بیان کرنا تھا ،علامتی طور پر عبید اللہ ابن زیاد کا ذکر کر دیا گیا اب اور سب کو اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ کچھ بندر مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھیل تماشہ دکھا رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خواب کی تعبیر میں بنو امیہ کا ذکر کیا

 

                   بنو ثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی

 

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قبیلہ ثقیف میں انتہا درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہو گا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد و ہلاکو  حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے  جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدو ہلاکو سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم) ہے۔ اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک و مہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی و بزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ و معرکہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ : حجاج ابن یوسف نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کو شہید کر دیا تو حضرت اسماء نے (جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں) کہا ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا ہے کر دیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہو گا اور ایک بڑا مفسد و ہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد و ہلاکو کی بات ، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد و ہلاکو تو ہی ہم یہ پوری حدیث فصل میں آ رہی ہے۔

 

تشریح

 

حجاج  لغوی طور پر تو  حاج  کا اسم مبالغہ ہے جس کے معنی ہیں : بحث کرنے والا حجت یعنی دلیل و ثبوت لانے والا حجاج ابن یوسف تاریخ اسلام کا مشہور ظالم شخص ہے جس نے ہزار ہا ہزار اچھے اور نیک لوگوں کو جن میں صحابہ و تابعین بھی شامل ہیں ، ناحق موت کے گھاٹ اتار ،عبد اللہ ابن زبیر کو شہید کیا اور ہزاروں بے خطا انسانوں کو قید و بند میں ڈالے رکھا کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو اس نے کسی معرکہ آرائی اور جنگ و جدل کے بغیر یوں ہی پکڑ پکڑ کر جیل خانہ میں ڈالا اور پھر ان کو قتل کرا دیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے جو لوگ جنگوں اور جھگڑوں میں مارے گئے ان کی تعداد علیحدہ ہے ، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے قید خانہ سے پچاس ہزار آدمیوں کی ایک بڑی تعداد تو ایک ہی وقت میں نکلی تھی ، اور اس شخص کی سنگدلی کا اندازہ لگانے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس نے قید خانہ بنوا رکھا تھا اس میں چھت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اس کے تمام قیدی کھلے آسمان کے نیچے گرمی و سردی اور دھوپ و بارش کی صعوبتیں جھیلتے تھے ، حجاج ابن یوسف ثقفی دراصل اموی امیر عبد الملک ابن مروان کا زبردست معتمد و بہی خواہ تھا اور امارت و سلطنت کے معاملات میں بڑا اثر و رسوخ رکھتا تھا عبد الملک ابن مروان نے اس کو عراق و خراسان کا حاکم اعلی (گورنر) بنا رکھا تھا اور عبداللہ ابن زبیر کی شہادت کے بعد حجاز کا والی بھی بنا ،عبد الملک ابن مروان کے بعد ولید عبد الملک کے زمانہ امارت میں بھی عراق و خراسان پر اس کا اقتدار برقرار رہا ، اس کے ظلم و ستم کے واقعات اور وحشیانہ کاروائیوں سے تاریخ کے اور اق بھرے پڑے ہیں ، وسط شوال ٩٥ھ میں بعمر ٥٤ سال اس کا انتقال ہوا۔

مختار ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی کا بیٹا تھا مختار کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت و روایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا ، ابتدا میں یہ شخص علم و فضل اور نیکی و تقویٰ کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم و تقویٰ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر و عقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہو گیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا ، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے ، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکر و فریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کرامت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہو گئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے و خیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کر لینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہو گیا ، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور پھر ١٤ رمضان ٢٧ھ کو مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب و مبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہا درجہ کس مفسد و ہلاکو کو پیدا ہو گا) کا مصداق و محمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے۔

 

                   قبیلہ ثقیف کے حق میں بددعا کے بجائے دعاء ہدایت

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) کچھ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ ثقیف کے تیروں نے ہم کو بھون ڈالا ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بددعا کیجئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے اللہ !ثقیف کو (قبول اسلام اور اطاعت احکام کی) ہدایت و توفیق عطا فرما۔ (ترمذی)

 

                   قبیلہ حمیر کے لئے دعا

 

اور حضرت عبد الرزاق ابن ہمام (جو جلیل القدر عالم و فقیہہ اور کثیر التصانیف بزرگ ہیں) اپنے والد مکرم (حضرت ہمام ابن نخعی تابعی) سے اور وہ حضرت مینا سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی حضرت ابوہریرہ نے) بیان کیا : (ایک دن) ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس مبارک میں حاضر تھے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا ، جس کے بارے میں میرا گمان ہے کہ وہ قبیلہ قیس سے تعلق رکھتا تھا ، اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے یعنی ان کے حق میں بددعا فرمائے کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور رکھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سنا تو) اس شخص کی طرف سے منہ پھیر لیا وہ شخص پھر دوسری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ادھر سے بھی منہ پھیر لیا پھر وہ شخص دوسری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرف سے بھی منہ پھیر لیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی طرح بھی اس کی طرف متوجہ ہونے اور اس کی بات ماننے پر تیار نہیں ہوئے) اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حمیر پر اپنی رحمت نازل فرمائے ان کے منہ سلام ہیں ، ان کے ہاتھ طعام ہیں اور وہ اہل امن بھی ہیں اور اہل ایمان بھی  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم عبد الرزاق ابن ہمام کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور مینا سے نقل کی جانے والی روایتیں منکر ہیں (مطلب یہ کہ اگرچہ عبدالرزاق ابن ہمام مسلمہ فقیہہ و محدث اور قوی ثقہ راوی ہیں مگر مینا ایک ضعیف راوی ہیں)

 

تشریح

 

ان کے منہ سلام ہیں اور ان کے ہاتھ طعام ہیں  کے ذریعہ حمیر کی دو بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ کیا فرمایا ایک تو یہ کہ ان کے ہاں سلام کا بہت چرچا ہے ،جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں ان کے منہ سے سلام علیک ضرور نکلتا ہے اور دوسری خوبی یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا خوب کھلاتے اور خوب تقسیم کرتے ہیں اس اعتبار سے یہ لوگ انکساری اور سخاوت جیسی دونوں عظیم صفتوں کے جامع ہیں اور جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کو فضیلت و بزرگی کا مقام اور حقوق العباد کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہے۔

وہ اہل امن بھی ہیں اور اہل ایمان بھی  یعنی یہ لوگ کامل و پختہ ایمان کے حامل بھی ہیں اور ہر قسم کی آفات و بلیات اور مضرات سے محفوظ و مامون بھی ہیں۔

 

                   حضرت ابوہریرہ اور ان کا قبیلہ دوس

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے پوچھا تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا (یمن کے مشہور قبیلہ ازدکی ایک شاخ) دوس سے تعلق رکھتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حیرت ظاہر کرتے ہوئے) فرمایا : مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ قبیلہ دوس میں کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جس میں نیکی و بھلائی ہو (ترمذی)

 

 

تشریح

 

اس حدیث میں حضرت ابوہریرہ کی تعریف و تحسین ہے اور ان کے قبیلہ دوس کی مذمت ، کہ اگر ابوہریرہ نہ ہوتے تو اس قبیلہ میں کوئی بھی خوبی و بھلائی نہ ہوتی۔

 

                   اہل عرب سے دشمنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی رکھنا ہے

 

اور حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے فرمانے لگے ، مجھ سے دشمنی نہ رکھنا ورنہ تم اپنے دین سے جدا ہو جاؤ گے میں نے (یہ سنا تو حیرت سے) عرض کیا : بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی تو دشمنی ،دشمنی کا تصور بھی رکھوں!درانحالیکہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے حبیب ہیں اپنی پوری امت کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں (اسلام کا اور اچھے کاموں کا) سیدھا راستہ دکھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم عرب سے دشمنی رکھو گے تو گویا مجھ سے دشمنی رکھو گے  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم عام طور پر تمام اہل عرب سے بغض و عداوت اور دشمنی رکھو گے تو چونکہ میں بھی عرب میں شامل ہوں اس لئے مجھ سے بھی تمہارا دشمنی رکھنا لازم ہو گا پس ایسی سے میں نے کہا کہ تم مجھ سے دشمنی نہ رکھنا، اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب سے بغض و عداوت رکھنے سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے تاکہ اتنی بڑی خرابی میں پڑنے کی نوبت نہ آئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان چونکہ عجمی اور فارسی النسل تھے اس لئے اس پرانی اور اصل وطنی نسبت کے تحت ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جایا کرتی ہو گی یا ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جاتی ہو گی جس سے تمام عرب یا کچھ عرب کے تئیں حقارت یا بے ادبی کا اظہار ہوتا ہو گا ، ورنہ جہاں تک حقیقی بغض و عداوت رکھنے کا تعلق ہے تو حضرت سلمان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عرب کے تئیں اس طرح کے جذبات رکھتے ہوں گے تاہم ان کی اس طرح کی بات یا حرکت چونکہ صورۃ ًبغض و عداوت ہی کی مظہر ہوتی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو متنبہ فرمایا کہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور اپنی زبان یا اپنے عمل سے کسی ایسی بات کا ارتکاب نہ کریں جس سے حقیقتہً نہ سہی صورۃً ہی عرب دشمنی کا اظہار ہوتا ہو کیونکہ اگر اس کا سلسلہ حققۃ بغض و عداوت رکھنے تک پہنچ گیا تو یہ چیز مجھ سے بغض و عداوت رکھنے کے مترادف ہو جائے گی۔

 

                   اہل عرب سے فریب و دغا بازی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت خاص سے محرومی کا باعث ہے

 

اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اہل عرب سے فریب و دغا بازی کرے گا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہو گا اور نہ اس کو میری دوستی کی سعادت حاصل ہو گی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم حصین ابن عمر کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور محدثین کے نزدیک وہ (حصین ابن عمر) اس درجہ کے قوی نہیں ہیں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

غش (فریب و دغا بازی) کا مطلب ہے ،دھوکا دینا ،دل میں تو کچھ ہو مگر زبان سے کچھ اور کہنا خیرخواہی نہ کرنا ، کینہ رکھنا اور کسی کو اس بات پر ابھارنا جو اس کے مفاد و مصلحت کے خلاف ہو شفاعت  سے شفاعت صغریٰ یعنی  خصوصی شفاعت  مراد ہے نہ کہ شفاعت کبریٰ جو بہر حال ہر ایک امتی کے لئے ہو گی۔ دوستی کی سعادت حاصل نہ ہونے سے یا تو یہ مراد تھی کہ اس شخص کو کبھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہو سکتا کہ میں اس کو اپنا دوست رکھوں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ: اس شخص کو کبھی یہ سعادت حاصل نہیں ہو سکتی کہ وہ مجھے اپنا دوست و محبوب رکھے بہرحال دونوں صورتوں میں مراد نفی کمال ہے۔

اور وہ اس درجہ کے قوی نہیں ہیں  امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہوا کہ عمران ابن حصین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چونکہ روایت حدیث میں  قوی  نہیں سمجھے جاتے اس لئے ان کی روایت کردہ یہ حدیث  ضعیف  کہلائے گی ، لیکن اول تو یہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث بھی معتبر مانی جاتی ہے دوسرے یہ کہ اس روایت کی تائید ان بہت سی حدیثوں سے ہوتی ہے جو تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں ، مثلاً حاکم نے حضرت انس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ۔

حب العرب ایمان و بغضہم نفاق۔

 

                    اہل عرب کی دوستی ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے

 

طبرانی نے اوسط میں حضرت انس سے یہ روایت نقل کی ہے

حب قریش ایمان وبغضم کفر وحب العرب ایمان وبغضم کفرفمن احب العرب فقد احبنی ومن ابغض العرب فقدابغضنی۔

قریش سے دوستی رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے نیز عرب سے محبت رکھنا ایمان ہے ،عرب سے بغض رکھنا کفر ہے پس جس نے عرب سے محبت رکھی اس نے درحقیقت مجھ سے محبت رکھی اور جس نے عرب سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔۔

علامہ طبرانی نے کبیر میں حضرت سہل ابن سعد سے یہ حدیث نقل کیا ہے

احبوا قریشافانہ من احبہم احبہ اللہ۔

قریش کو دوست رکھو کیونکہ جس نے قریش کو دوست رکھا اس کو اللہ دوست رکھے گا۔

حاکم مستدرک میں حضرت ابوہریرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ

احبوالفقراء وجالسوہم واحبواالعرب من قلبک ویسرک من الناس ماتعلم من نفسک۔

فقراء و مساکین سے محبت رکھو اور ان میں بیٹھا کرو اور اہل عرب سے دلی محبت رکھو اور چاہئے کہ وہ عیوب کہ جو تم خود اپنے میں پاتے ہو تمہیں دوسروں کی گیری سے باز رکھیں۔

 

                   ایک پیشین گوئی

 

اور حضرت ام حریر رحمہا اللہ تعالیٰ علیہ (تابعیہ) جو ایک صحابی حضرت طلحہ ابن مالک کی آزاد کردہ باندی ہیں کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آقا (حضرت طلحہ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے  قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت اہل عرب کا ہلاک ہو جانا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

اہل عرب  سے مراد یا تو مسلمان عرب ہیں یا جنس عرب (یعنی تمام عرب خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) بہرحال مطلب یہ ہے کہ جب اہل عرب اس دنیا سے اٹھ جائیں تو سمجھو کہ قیامت آیا چاہتی ہے ، اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عرب کو قیادت و سیاست کا مقام حاصل ہے ، تمام غیر عرب ان کے تابع ہیں واضح رہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت صرف بدکار (برے لوگ ہی) اس دنیا میں ہوں گے کوئی بھی کلمہ گو (توحید و رسالت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والا) موجود نہیں ہو گا۔

 

                   خلافت و امارت قریش کو سزاوار ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خلافت و بادشاہی قریش میں ہے ، قضاء انصار میں اذان حبشیوں میں ہے ، امانت ازد (یعنی شنود) میں ہے (جو یمن کا ایک قبیلہ ہے یا یہ کہ) ازد سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد تمام اہل یمن تھے ایک روایت میں ہے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موقوف حدیث کے طور پر منقول ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو اس روایت کو کے عاقل ہیں کہا ہے کہ یہی بات زیادہ صحیح ہے (یعنی سند کے اعتبار سے وہ روایت زیادہ صحیح ہے جو حدیث موقوف کے طور پر نقل ہوئی ہے)۔

 

 

تشریح

 

قضا  سے مراد  نقابت  ہے نقابت کے معنی ہیں نقیب بننا، یعنی نگران حال، خبر رکھنے والا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لیلۃ العقبہ میں انصار کی ہر شاخ و قبیلہ کا ایک نقیب مقرر کر دیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے قبیلہ میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرے لوگوں کو سمجھا بجھا کر اسلام کی طرف مائل کرے اور جو لوگ مسلمان ہو جائیں ان کے حالات و معاملات کا نگران رہے چنانچہ ان نقیبوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی ہوشیاری اور پوری تندہی کے ساتھ انجام دیا اور دربار رسالت سے تعریف و تحسین کے مستحق قرار پائے۔

اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں قضاء کا لفظ اپنے معروف معنی ہی میں استعمال ہوا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ کو جو جلیل القدر صحابی ہیں ، یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا ، یہ قول زیادہ واضح اور زیادہ قرین قیاس ہے۔

اذان حبشیوں میں ہے کا مطلب یہ تھا کہ اذان دینے کی خدمت حبشی لوگ زیادہ عمدگی اور زیادہ موزونیت کے ساتھ انجام دیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سامنے رکھ فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مؤذنوں کے سردار تھے اور وہ حبشی تھے۔

امانت ازد میں ہے  میں ازد  کے لفظ سے کیا مراد ہے اس بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے یمن کا وہی مشہور قبیلہ مراد ہے جس  ازد شنوہ کہا جا تا ہے اور ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ امانت کی ذمہ داری نہایت اطمینان بخش طور پر قبیلہ ازد شنوہ کے یمنی لوگ انجام دیتے ہیں اور دوسرا قول اس راوی کا ہے کہ جنہوں نے روایت میں یعنی الیمن کے الفاظ کا اضافہ کر کے یہ بتایا ہے کہ  ازد سے یمن کا صرف ایک قبیلہ  ازد شنوہ   مراد نہیں ہے بلکہ بالعموم تمام اہل یمن مراد ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اہل یمن کے بارہ عمومی طور پر فرمایا گیا ہے کہ وہ رقیق القلب ہیں اہل امن اور اہل ایمان ہیں۔

بہرحال حدیث کا مجموعہ حاصل یہ ہے کہ ان مناصب یعنی قضایا نقابت ، مؤذنی اور امانت کے لئے افراد کا انتخاب کرتے وقت مذکورہ قبائل کے لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ان قبائل کے لوگوں میں ان مناصب کی ذمہ داری و خدمت انجام دینے کی مخصوص صلاحیت اور اس سلسلہ میں ان کو ایک خاص نسبت حاصل ہے۔

 

 

                   قریش کے بارے میں ایک پیش گوئی

 

حضرت عبداللہ ابن مطیع تابعی (جو سادات قریش میں سے ہیں) اپنے والد (حضرت مطیع صحابی) جن کا اصل نام عاصی یا عاص تھا اور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نام تبدیل کر کے مطیع رکھ دیا تھا) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فتح مکہ کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  (فتح مکہ کے دن) کے بعد سے قیامت کے دن تک کسی قرشی کو حبس و قید کر کے نہیں مارا جائے گا (یہ اور بات ہے کہ دشمن کے مقابلہ پر جنگ و جدل میں مارے جائیں)۔ (مسلم)

 

تشریح

 

حبس وقید کر کے نہیں مارا جائے گا  سے کیا مراد ہے ، اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ملا علی قاری نے طیبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں نفی سے نہی مراد ہے مطلب یہ کہ اس ارشاد گرامی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد مختلف اعتراض کر کے اس کو بگاڑ دیا ہے اور پھر حمیدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض محدثین نے اس ارشاد گرامی کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے معنی یہ ہے کہ آج فتح مکہ کے دن کے بعد سے قیامت کے دن تک ایسی نوبت کبھی نہیں آئے گی کہ کوئی قریشی شخص اسلام سے مرتد ہو جائے اور پھر اسلامی قانون کے مطابق اس کو حبس و قید میں ڈال دیا جائے اور وہ ارتداد (یعنی کفر) پر ثابت و قائم رہے یہاں تک کہ اس کو قتل کر دیا جائے اس تاویل کی بنیاد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بعد کی ایسی مثالیں تو موجود ہیں جب کسی قریشی شخص کو اس بناء پر قید و بند میں ڈال کر موت کے گھاٹ اتارا گیا کہ وہ اسلام سے کفر و  انکار اور اسلام دشمنی پر قائم تھا لیکن کوئی ایسی مثال نہیں پائی جاتی جب کوئی قریشی مسلمان مرتد ہو گیا ہو اور اس بنا پر اس کو قید و بند میں ڈال کر قتل کر دیا گیا ہو کہ وہ اپنے ارتداد سے باز نہیں آیا اور کفر پر قائم و ثابت رہا ، لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ قریش کے دلوں میں دین و ایمان اس طرح راسخ کر دے گا اور ان کو اسلام کے راستہ پر اس مضبوطی سے لگا دے گا کہ کبھی بھی ان میں کا کوئی شخص مرتد نہیں ہو گا ،جس کے سبب اس کو قید و بند میں ڈال کر قتل کر دینے کی نوبت آئے اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ : ان الشیطان قد ایس من جزیرۃ العرب (حقیقت یہ ہے کہ شیطان جزیرۃ العرب سے مایوس ہو گیا ہے)۔

 

                   حجاج کے سامنے حضرت اسماء کی حق گوئی

 

حضرت ابو نوفل معاویہ ابن مسلم تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی نعش) کو مدینہ (کے راستہ پر واقع مکہ) کی گھاٹی میں (ایک سولی پر لٹکے ہوئے) دیکھا ابونوفل کہتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے اس نعش کے پاس آنا جانا شروع کیا اور دوسرے لوگ بھی آتے جاتے رہے یہاں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں آئے اور نعش کے سامنے کھڑے ہو کر یوں گویا ہوئے السلام علیک اے ابو خبیب ! السلام علیک اے ابوخبیب السلام علیک ابوخبیب! اگاہ ہو، خدا کی قسم میں تم کو منع نہیں کرتا تھا آگاہ ہو خدا کی قسم ، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا ، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا ، (تین مرتبہ یہ الفاظ کہنے کے بعد پھر انہوں نے کہا) آگاہ ہو خدا کی قسم ، بلاشبہ تم وہ شخص تھے جس کو میں جانتا تھا کہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے بہت زیادہ شب بیدار و شب خیز اور اہل قرابت سے بہت زیادہ احسان و سلوک کرنے والے ہو ، آگاہ ہو خدا کی قسم وہ گروہ جس کی نظر میں تم برے ہو یقیناً ایک برا اور بد تر گروہ ہے اور ایک روایت میں لامۃ سوئکے بجائے لامۃ خیر کے الفاظ ہیں اس کے بعد حضرت ابن عمر وہاں سے چلے گئے ، پھر جب یہ خبر حجاج کے پاس پہنچی کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے پاس) کھڑے ہو کر ایسا ویسا کہا ہے تو اس نے (فوراً) ایک آدمی بھیجا اور نعش کو اس لکڑی (یعنی سولی) پر سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوا دیا پھر حجاج نے ابن زبیر کی والدہ حضرت اسماء (دختر حضرت ابوبکر صدیق) کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور ان کو طلب کیا) حضرت اسماء نے اس کے ہاں آنے سے انکار کر دیا ، حجاج نے دوبارہ آدمی بھیجا اور کہلایا کہ یا تو فوراً چلی جاؤ ورنہ پھر ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو تمہاری چوٹی پکڑ کر کھنچتا ہوا یہاں لائے گا ، ابونوفل کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے پھر انکار کر دیا اور حجاج کو کہلا بھیجا کہ خدا کی قسم میں تیرے پاس ہرگز نہیں آؤں گا اب تو تو کسی ایسے آدمی کو بھیج کر دیکھ لے جو میری چوٹیاں پکڑ کر مجھے کھینچتا ہوا لے جائے ، راوی کہتے ہیں کہ حجاج (نے یہ سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور بڑے غضب ناک انداز میں): لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو ، پھر اس نے اپنی جوتیاں پیروں میں ڈالیں اور اکڑتا اتراتا ہوا تیز تیز چل کر حضرت اسماء کے ہاں پہنچا اور (زہریلے لہجہ میں) ان سے بولا کہ (ذرا بتانا) تم نے اس دشمن خدا (یعنی اپنے بیٹے ابن زبیر) کے ساتھ سلوک کرنے میں مجھے کیسا پایا !حضرت اسماء بولیں میں نے تو ایسا پایا کہ تو نے اس کی دنیا تباہ کر دی اور اس نے تیری عاقبت کا ستیاناس کر دیا (یعنی اس ظالمانہ قتل نے تجھے عذاب دوزخ کا مستوجب بنا دیا ہے اور ہاں مجھے معلوم ہے کہ تو میرے بیٹے ابن زبیر کو (اس کی زندگی میں یا اس کی شہادت کے بعد) دو کمر بند والی عورت  کا بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا تھا؟ (تو سن لے) خدا کی قسم میں بلاشبہ دو کمربند والی عورت ہوں ، ایسے دو کمر بند کہ جن میں ایک کمربند تو وہ تھا جس کے ذریعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر کھانا جانوروں سے محفوظ رکھتی تھی اور دوسرا کمر بند عورت کا وہ کمربند تھا جس سے کوئی عورت بے پرواہ نہیں ہو سکتی اور یاد رکھ ہم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ قبیلہ ثقیف میں ایک نہایت درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہو گا اور ایک درجہ کا مفسد و ہلاکو، تو تیرے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ مفسد و ہلاکو، جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دی تھی تو ہی ہے ، راوی ابو نوفل کا بیان ہے کہ (یہ الفاظ سن کر) حجاج حضرت اسماء کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا (مسلم)

 

تشریح

 

مدینہ کی گھاٹی  سے مراد مکہ شہر کا بالائی سرا ہے جو مشرقی سمت واقع ہے ، مدینہ کا راستہ چونکہ اسی جگہ سے گزرتا ہے اور مدینہ سے آنے والے یہیں سے مکہ شہر میں داخل ہوتے تھے اس مناسبت سے اس کو  مدینہ کی گھاٹی  سے تعبیر کیا گیا جب ظالم حجاج ابن یوسف نے اپنے لشکر جرار کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کو مسجد حرام میں محصور کر کے نہایت بے دردی سے شہید کیا تو بعد میں اس نے نعش مبارک کو مذکورہ جگہ ایک سولی پر لٹکا دیا تھا اور پھر اسی جگہ کے قریب حجون یعنی جنت المعلاۃ میں ان کی تدفین عمل میں آئی لیکن اب تو ان کی قبر کا کوئی نشان باقی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ان کی قبر کس جگہ تھی ، اسی طرح جنت المعلی میں اور جو صحابہ کرام مدفون ہوئے ان کی قبریں بھی متعین و معلوم نہیں ہیں حضرت خدیجہ الکبری کی قبر بھی اسی جنت المعلاۃ میں ہے مگر ان کی قبر بھی اسی طرح غیر معلوم تھی ، ایک زمانہ میں کسی بزرگ نے خواب کی بنیاد پر ان کی قبر کا تعین کیا تھا اور اس قبر پر قبہ بھی بنایا گیا تھا اب وہ بھی بے نشان ہے۔

میں نے تم کو اس کام سے منع کیا تھا  میں  کام  سے مراد یزید ابن معاویہ سے خروج اور اپنی خلافت و امارت کا دعویٰ ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر نے کیا تھا اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت خلافت و امارت پر بیٹھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے ان کی اطاعت و بیعت سے انکار کر دیا اور مکہ مکرمہ کے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خلافت کا اعلان کر دیا۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر نے چونکہ جلیل القدر صحابی اور بلند و بالا نسبتوں کے اعتبار سے بہت زیادہ عزت و منزلت رکھتے تھے اس لئے جلد ہی ان کی خلافت کو قبول کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا اور مختلف علاقوں اور خطوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا بلکہ جیسا کہ مؤرخین لکھتے ہیں شام کے علاوہ تقریباً تمام ہی عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کر لئے گئے۔ یزید کے بعد پھر مروان ابن حکم اور اس کے بعد عبد الملک ابن مروان کی امارت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور بدستور اپنی خلافت کے دعوے اور اقتدار پر قائم رہے لیکن عبد الملک ابن مروان نے ان کے خلاف زبردست فوجی کاروائی کی اور حجاج ابن یوسف ثقفی کو لشکر جرار کے ساتھ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا ، حضرت عبداللہ ابن زبیر نے اپنے قلیل ترین ساتھیوں کے ساتھ حجاج کی زبردست فوج کا جس بہادری و پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ شجاعت و بہادری اور عزیمت و جرأت کی تاریخ کا نادر المثال کارنامہ ہے آخر کار جام شہادت نوش کیا ، بدبخت حجاج نے ان کا سر تن سے جدا کر کے مدینہ منورہ روانہ کیا اور باقی جسم سولی پر لٹکا دیا ، اس سے پہلے یہی لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا ، اس وقت یزید زندہ تھا (اس لشکر نے مدینہ منورہ کو جس طرح تباہ و برباد کیا اور وہاں کے لوگوں کا جس طرح قتل عام کیا وہ  واقعہ حرہ  کے نام سے اپنی لرزہ خیز تفصیل کے ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ پس حضرت عبداللہ ابن عمر نے سولی پر لٹکی ہوئی حضرت زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر انہی دلدوز واقعات اور ظالم و فاسد لوگوں کے اس گروہ کی وحشیانہ کاروائیوں پر تاسف و تحسر کا اظہار کرتے ہوئے حضرت ابن زبیر کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا کرتا تھا کہ تم ان ظالموں اور بد کرداروں کے مقابلے نہ آؤ اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے یکسو ہو جاؤ مگر تم نہ مانے حق کی حکمرانی قائم کرنے کے تمہارے اس پاک جذبے نے تمہیں خلافت کے دعوے پر مجبور رکھا اور تم نتائج سے بے پرواہ ہو کر ان دنیا دار اور مفسد حکمرانوں کے خلاف ڈٹے رہے آخر کار تمہیں اس لرزہ خیز انجام سے دوچار ہونا پڑا۔

تم بہت زیادہ روزے رکھنے والے  بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر بہت ہی زیادہ روزے رکھا کرتے تھے ایسا بھی ہوتا تھا کہ پندرہ پندرہ دن تک مسلسل روزے سے رہا کرتے تھے جس کو طے روزے کہا جاتا ہے اور پوری پوری رات نوافل ، تلاوت اور ذکر اللہ میں گزارا کرتے تھے قرابتداروں سے حسن سلوک کے معاملہ میں امتیازی شہرت رکھتے تھے حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس موقع پر حضرت ابن زبیر کے ان اوصاف کا ذکر اس لئے کیا کہ حجاج ان کو عدو اللہ (اللہ کا دشمن) اور ظالم کہا کرتا تھا اور نہ معلوم کیا کیا واہی تباہی بکا کرتا تھا لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر نے ضروری سمجھا کہ حضرت ابن زبیر کی وہ خوبیاں اور نیکیاں بیان کریں جن سے حجاج کو لغو و بے ہودہ باتوں کی تردید ہو اور عام لوگوں پر واضح ہو جائے کہ ابن زبیر کس پایہ کے عابد و زاہد اور بلند مرتبہ مسلمان تھے۔

اور ایک روایت لامۃ خیر  کے الفاظ ہیں ، یعنی اصل روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حجاج ابن یوسف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں میں واضح الفاظ کے ذریعہ اپنا یہ تاثر بیان کیا کہ جو گروہ عبداللہ ابن زبیر کو برا اور حق سے ہٹا ہوا سمجھتا ہے۔ دراصل خود وہی گروہ اپنی بد اعتقادی اور اپنے خیال فاسد کی بناء پر ایک برا اور بدتر گروہ ہے کہ تم جیسے شخص کو شریر اور فسادی لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ایک روایت میں یہاں  ایک برا اور بدتر گروہ ہے  کے بجائے یہ ہے کہ  وہ کیا ہی اچھا گروہ ہے  ان الفاظ میں بھی اسی تاثر کا اظہار مقصود ہے جو اصل روایت سے ظاہر ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دوسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر نے گویا طنز و تعریض اور استہزاء کا اسلوب اختیار کیا جیسا کہ عام طور پر کسی برے اور فسادی شخص کی شرارت اور بد طینتی  پر چوٹ کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ واہ میاں تم بھی کیا خوب ہو آپس میں تفرقہ ڈلواتے ہو ، تاہم زیادہ موزوں اور قریب الفہم وہی الفاظ ہیں جو اصل روایت میں مذکور ہیں۔

یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوا دیا  یعنی مکہ میں رہنے والے یہودی یا باہر سے آئے ہوئے اتفاقاً مکہ میں مر جانے والے یہودی جس جگہ دفن کئے جاتے ہیں وہاں حجاج نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش ڈلوا دی تھی۔ لیکن یہ بات اس کے منافی نہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کی تدفین جنت المعلاۃ میں عمل میں آئی تھی ، کیونکہ یہ صورت حال ابتداء پیش آئی تھی کہ ان کی نعش یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوا دی گئی تھی ، لیکن پھر بعد میں ان کی نعش مبارک کو وہاں سے اٹھا کر جنت المعلاۃ میں دفن کیا گیا تھا ، واضح رہے کہ اب تو بہت زمانہ سے وہ جگہ متعارف نہیں ہے جہاں یہودیوں کا قبرستان یا ان کی قبریں تھیں لیکن اس زمانہ میں ایسی کوئی جگہ ضرور تھی جو یہودیوں کی قبروں کے لئے مخصوص تھی اور اسی لئے حجاج نے حکم دیا تھا کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کو سولی سے اتار کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا جائے۔

لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو  یہ ارونی سبتی کا مطلب ترجمہ ہے۔سبتی دراصل ی متکلم کے ساتھ سبتیۃ کا تثنیہ ہے اور سبتیۃ اس پاپوش کو کہتے تھے جو دباغت دئیے ہوئے اور بال وغیرہ سے بالکل صاف نرم چمڑے کا بنا ہوتا تھا ، اس زمانہ میں امراء و سلاطین اور عیش پسند لوگ اسی طرح کے جوتے پہنا کرتے تھے۔

دو کمر بند والی عورت  ذات النطاقین کا ترجمہ ہے ، اور یہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کا لقب تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خاص واقعہ کی بناء پر مرحمت فرمایا تھا۔ہوا یہ تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ ان کے مکان سے روانہ ہو رہے تھے تو حضرت اسماء نے ان دونوں کے لئے کچھ توشہ تیار کیا تھا۔توشہ دان باندھنے کے لئے انہیں کوئی تسمہ وغیرہ نہیں ملا تو انہوں نے اپنا کمر بند پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کئے ، ایک ٹکڑے سے توشہ دان باندھا اور دوسرے ٹکڑے کو اپنی کمر پر لپیٹ لیا۔ دراصل نطاق کا ترجمہ کمربند کے بجائے کمر پٹہ کرنا زیادہ موزوں ہے ، اس زمانہ میں جب کہ عرب عورتوں میں پاجامہ و شلوار جیسی چیز کا زیادہ رواج نہیں تھا ، وہ اپنے تہ بند کے اوپر کمر پٹہ استعمال کیا کرتی تھیں تاکہ کام کاج کرتے وقت تہ بند کے کھلنے کا امکان نہ رہے ، بہرحال اس موقع پر حضرت اسماء نے جس بے ساختگی کے ساتھ اپنا کمر پٹہ کھول کر اس کے دو حصے کر کے گویا دو نطاق بنائے اس کی مناسبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ذوالنطاقین کے لقب سے نوازا۔ اس اعتبار سے یہ لقب خود ان کے لئے تو فخر کا موجب تھا کہ اپنی کوئی چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے استعمال و کام میں آ جائے اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے لیکن نادان حجاج ان کے اس لقب کو ان کی حقارت پر محمول کرتا تھا کہ ان کو ایک چیز کے ذریعہ ملقب کیا گیا جو عام طور پر گھروں کا کام کاج کرنے والی عورتوں اور باہر نکلنے والی خادماؤں کی علامت ہے۔

ہاں ، خدا کی قسم میں دو کمربند والی عورت ہوں  ذوالنطاقین کا لقب حجاج کے خیال فاسد کے برخلاف حضرت اسماء کے لئے چونکہ تفاخر دارین کا موجب تھا اس لئے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس لقب کو فخر کے ساتھ قبول و تسلیم کیا اور حجاج کے سامنے اس کا برملا اظہار و اعتراف بھی کیا بلکہ اس کے بعد وہ وجہ بیان کی جس نے ان کو اس اعزاز تک پہنچایا۔چنانچہ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے اپنے ایک کمر بند کے جو دو کمر بند کر لئے تھے ان میں ایک کے ذریعہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر کا کھانا دسترخوان میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ لٹکا دیتی تھی ، تاکہ جانوروں یعنی چوہے اور چیونٹی وغیرہ سے محفوظ رہے اور دوسرا کمر بند اس کام کے لئے تھا جس سے کوئی عورت بے پرواہ نہیں ہو سکتی ، بے پرواہ نہیں ہو سکتی  کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ کسی بھی عورت کی تعریف و تحسین اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کا کام کاج پوری لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتی ہو ، نطاق یعنی کمر بند یا کمر پٹہ کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ عورت اس اپنے تہبند پر باندھ لے تاکہ اس کو تہ بند کھل جانے کا خوف نہ ہو اور وہ اپنے گھر کا کام کاج پورے اطمینان سے کر سکے پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جو عورت اپنے گھر سے اور اپنے گھر کے کام کاج سے دلچسپی رکھتی ہو وہ نفاق سے بے نیاز نہیں ہو سکتی ،دوسرا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں نطاق کا ایک استعمال اس مقصد کے لئے بھی ہوتا تھا کہ پیٹ بڑھنے نہ پائے۔ جیسا کہ ایک زمانے میں عورتوں میں اس کا رواج تھا کہ وہ اپنے پیٹ کی ہئیت درست رکھنے کے لئے چمڑے کا کمر پٹہ استعمال کرتی تھیں بلکہ مالدار عورتیں تو سونے چاندی کے کام کا کمر پٹہ باندھتی تھیں ، پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ کیا کہ دوسرا نطاق میں اس مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی اور یہ ایک ایسا مقصد تھا جس سے کوئی عورت بے پرواہ نہیں ہو سکتی تھی۔

اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا  یہ بہادر خاتون حضرت اسماء کی جرأت و بے باکی اور حق گوئی کا اثر تھا کہ ظالم حجاج جیسا شخص ان کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا اور ان کا جواب دینے کی جرات نہ کر سکا ، منقول ہے کہ حضرت اسماء اپنے بیٹے عبداللہ ابن زبیر کے سانحہ شہادت کے بیس دن بعد انتقال کر گئیں اس وقت ان کی عمر سو سال تھی اور ان کا ایک بھی دانت نہیں ٹوٹا تھا۔

علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو جو سلام کیا اس سے معلوم ہوا کہ میت کو سلام کرنا اور ایک سے زائد مرتبہ کرنا  مستحب ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے سامنے ان خوبیوں اور اوصاف کو بیان کرنا جن کے ذریعہ وہ مشہور تھا جائز ہے۔ اس حدیث سے حضرت عبداللہ ابن عمر کی بھی زبردست فضیلت و خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ وہ حق بات کہنے سے باز نہ رہے باوجودیکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں میں جو کچھ کہوں گا اس کا ایک ایک لفظ حجاج تک پہنچے گا۔

 

                   خلافت کا دعویٰ کرنے سے حضرت عبداللہ بن عمر کا انکار

 

اور حضرت نافع (جو حضرت عبداللہ ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر سے متعلق ہنگامہ آرائی کے زمانہ میں (ان کی شہادت سے پہلے) دو شخص حضرت عبداللہ ابن عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں نے (خلافت و امارت کے بارے میں اختلاف و نزاع اور ہنگامہ آرائی کی صورت میں) جو کچھ کیا ہے وہ آپ نے دیکھ ہی لیا آپ حضرت عمر فاروق کے بیٹے ہیں (جو خلیفہ تھے) نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی بھی ہیں (اس اعتبار عبد الملک ابن مروان کے مقابلہ پر آپ کہیں زیادہ مستحق ہیں کہ خلافت کا دعویٰ کریں جس کی نااہلیت کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ اس کے امراء اور گورنروں میں حجاج ابن یوسف جیسا ظالم شخص ہے) پھر آخر کیا چیز مانع ہے کہ آپ (خلافت و امارت کے دعوے اور ظالموں سے بدلہ لینے کے اعلان کے ذریعہ) خروج نہیں کر رہے ہیں!حضرت عبداللہ ابن عمر نے (یہ سن کر) فرمایا ! جو چیز میرے لئے مانع ہے ، وہ میرا یہ علم ہے کہ مسلمان بھائی کا خون بہانا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے ، ان دونوں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وقاتلوہم حتی لاتکون فتنۃ (یعنی لڑو تم لوگوں سے یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے) !حضرت عبداللہ ابن عمر نے فرمایا : ہم (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء راشدین کے ساتھ) ان لوگوں سے یقیناً لڑے یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر و شرک کا خاتمہ ہو گیا اور صرف اللہ کا دین اسلام رہ گیا اور (اب) تم یہ چاہتے ہو کہ تم جنگ و جدال کرو یہاں تک ان (مسلمانوں) میں فتنہ پھیل جائے اور غیر اللہ کا دین قائم ہو جائے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے  اس جملہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن عمر کا مقصد اس بات کو اہمیت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ خون ریزی سے اجتناب اور مسلمانوں کے درمیان باہمی جنگ و جدل سے گریز ہیں اپنے لئے ہر حالت میں ضروری سمجھتا ہوں اور خاص طور پر اس صورت میں جب کہ مسئلہ خلافت و امارت کی طلب و خواہش کا ہو پس اس جملہ میں علی (میرے لئے) کا لفظ اس مقصد کے تحت استعمال ہوا ہے ورنہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مسلمان بھائی کا خون بہانا تو ہر شخص کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔

اور غیر اللہ کا دین قائم ہو جائے  دراصل ان دونوں شخصوں کا خیال یہ تھا کہ اول تو حضرت عبداللہ ابن عمر اپنی خلافت کا دعویٰ کریں لیکن اگر وہ اس پر تیار نہ ہوں تو پھر ان کو کم سے کم یہ چاہئے کہ ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائیں جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی خلافت تسلیم نہیں کرتے اور ان کے مقابلہ پر ظالموں اور نااہلوں کی امارت کے وفادار ہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عمر کا خیال یہ تھا کہ عام مسلمانوں کو باہمی اختلاف و نزاع اور جنگ و جدل سے بچانے کے لئے ایسا کوئی اقدام مناسب نہیں ہے کیونکہ مسلمان کا مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا اور وہ بھی اقتدار و امارت کے سلسلہ میں آخر کار باہمی افتراق و انتشار کی ایک صورت حال کے پیدا ہونے کا موجب بن سکتا ہے جو اسلام کے نظام دین و شریعت کے نزول اور مسلمانوں کی ملی زندگی کو کمزور بنا دے ، یہاں تک کہ اسلام دشمن طاقتوں کو اپنا غلبہ و تسلط جما لینے کا موقع مل جائے ، اسی احساس کے تحت حضرت عبداللہ ابن عمر ، حضرت ابن زبیر کے حق میں یہی بہتر سمجھتے تھے کہ وہ خلافت کے مسئلہ میں قتل و قتال کو ترک کر دیں اور یکسوئی اختیار کر کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

 

 

                   قبیلہ دوس کے حق میں دعا

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں طفیل ابن دوسی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) مجھے یقین ہے کہ قبیلہ دوس ہلاک ہو گیا (یعنی اس قبیلہ کے لوگوں نے قبول اسلام اور اطاعت دین سے انکار کر کے خود کو ہلاکت و تباہی کا مستوجب بنا لیا ہے) لہٰذا آپ سے قبیلہ کے لئے بددعا کیجئے (کہ اللہ تعالیٰ اس پر عذاب مسلط کرے) لوگوں نے (تو یہ سن کر) خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس قبیلہ کے لئے بددعا کریں گے لیکن (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو رحمۃ  اللعلمین ہیں اور لوگوں کو راہ راست دکھا کر فلاح و نجات سے ہمکنار کرنے کے لئے اس دنیا میں مبعوث ہوئے نہ کہ بددعا کر کے تباہ و برباد کرنے کے لئے ، اس لئے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی : الہٰی قبیلہ دوس کو راہ راست دکھا اور اس قبیلہ کے لوگوں کو (مدینہ کی جانب) لایعنی ان کو قبول اسلام کے بعد ہجرت کی بھی توفیق عطا فرمایا یہ کہ ان کو اہل اسلام کے طور طریقوں کی طرف مائل فرما اور ان کے دلوں کو قبول اسلام کی طرف پھیر دے۔(بخاری)

 

تشریح

 

حضرت طفیل ابن عمر دوسی جلیل القدر صحابی ہیں ، قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور اہل حجاز میں شمار ہوتے تھے ، مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور پھر اپنے قبیلہ میں واپس چلے گئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو بعد میں انہوں نے بھی اپنا قبیلہ اور وطن چھوڑ کر ہجرت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں موقع پر حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر میں تھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رحلت فرمانے تک مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہے ان کو ذو النور  کا لقب حاصل تھا اور یہ لقب اس بناء پر مشہور ہوا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کے قبیلہ کی طرف روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دیجئے جس کو دیکھ کر لوگ میری تصدیق کریں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی ، الہٰی اس کو نور عطا فرما! اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور جگمگا اٹھا۔ اب انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے خوف ہے کہ لوگ اس نور کو میری بد ہیئتی پر محمول کرنے لگیں گے اس کے بعد وہ نور اس جگہ سے ان کی کوڑی پر منتقل ہو گیا۔ اندھیری رات میں ان کے سینہ کا یہ حصہ اس طرح جگمگا تا جیسے ان کے سینہ پر مشعل روشن ہو حضرت طفیل اپنے قبیلہ میں پہنچ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کام میں منہمک ہو گئے ان کے باپ تو ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے لیکن ان کی ماں کو ایمان کی ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔

 

                   عربوں سے محبت کرنے کی وجوہ

 

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :  تین اسباب کی بناء پر تمہیں عرب سے محبت رکھنی چاہئے ایک تو اس وجہ سے کہ میں عرب میں سے ہوں (اور ظاہر ہے کہ جو چیز حبیب کی طرف سے منسوب ہوتی ہے اس کو محبوب ہونا چاہئے) دوسرے اس وجہ سے کہ قرآن عربی زبان میں ہے (یعنی قرآن کریم اس زبان میں اترا ہے جو عرب کی زبان ہے اور ان کی زبان و لغت ہی کے ذریعہ اس کی فصاحت و بلاغت جانی جاتی ہے) اور تیسرے اس وجہ سے کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

جنتیوں کی زبان عربی ہے  سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ دوزخیوں کی زبان عربی نہیں ہو گی ، بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عرب اور اہل عرب کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فضیلت و برتری حاصل ہے نیز اس حدیث میں محبت کرنے کے صرف وہ تین اسباب بیان کئے گئے ہیں جو اس بارے میں نہایت اعلی ہیں ورنہ ان کے علاوہ اور بھی اسباب و وجوہ ہیں جن کے بناء پر عرب اور اہل عرب سے محبت کرنا یا محبت ہونا لازمی چیز ہے مثلاً  یہ کہ اہل عرب ہی نے شارع علیہ السلام سے براہ راست دین و شریعت کا علم حاصل کیا اور پھر اس علم کو ہم تک پہنچا یا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال ، افعال ،عادات ، اور معجزات کو منضبط و محفوظ کیا اور اس سرمایہ کو ہم تک منتقل کیا ،عرب اور اہل عرب دراصل اسلام کے مدد گار اور ہماری ملی زندگی کی جوہری توانائی ہیں انہوں نے اسلام کی خاطر دنیا بھر سے لوہا لیا بڑی بڑی طاقتوں سے جنگیں کیں،جان و مال کی قربانیاں دے کر بڑے بڑے علاقے فتح کئے شہر شہر ، قریہ قریہ ، اسلام پھیلایا ، اطراف عالم میں دین کا جھنڈا بلند کیا ، اور مسلمانوں کو جو عزت ، برتری اور شان و شوکت حاصل ہوئی وہ انہی کی جدو جہد اور کوششوں کا نتیجہ ہے ہماری ملی تاریخ کی تمام تر عظمت و سربلندی انہی کی مرہون منت ہے ، اہل عرب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں ، ان کی نسلی و انسانی خصوصیات اور خوبیوں کے امین ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کی زبان اہل جنت کی زبان ہو گی ، بلکہ قبر میں منکر نکیر کا سوال بھی انہی کی زبان میں ہو گا ، اور انہی اسباب کی بناء پر کہا گیا ہے۔

من اسلم فہوعربی۔

جو بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا وہ عربی۔

 

 

               صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان

 

مناقب  اصل میں  منقبت  کی جمع ہے۔ منقبت کے معنی ہیں فضیلت اور فضیلت اس اچھی خصلت و خصوصیت (تعریف کے کام) کو کہتے ہیں جس کے سبب اللہ کے نزدیک یا مخلوق کی نظروں میں شرف و عزت اور بلند قدری حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اصل اعتبار اسی شرف و عزت اور بلند قدری جو اللہ کے نزدیک حاصل ہو ، مخلوق کی نظر میں حاصل ہونے والی عزت و شرف اور بلند قدری کا کوئی اعتبار نہیں ، ہاں اگر یہ عزت و شرف اور بلند قدری اللہ کے نزدیک بلند قدر بنانے کا وسیلہ و ذریعہ بنتی ہو تو اس صورت میں اس کا بھی اعتبار ہو گا پس جب یہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص با فضیلت اور بلند قدر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنے فکر و عقیدہ اعمال و کردار اور اخلاص و اخلاق کی بناء پر اللہ کے نزدیک بلند قدر ہے ، نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فضیلت و بلند قدری کی طرف نسبت اسی صورت میں معتبر ہے جب کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہو یعنی کسی بھی شخص کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ ذی منزلت و بلند قدر ہے کوئی معنی نہیں رکھتا ، اسی شخص کو افضل اور بلند قدر کہنا معتبر ہو گا جس کی فضیلت و بلند قدری کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی سلسلہ در سلسلہ نقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہو۔

 

                   صحابی کس کو کہتے ہیں؟

 

صحابی اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے بہ حالت بیداری اپنی آنکھوں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہا ہو اور ایمان ہی کی حالت میں یعنی دین واسلام پر اس کا خاتمہ ہوا ہو اگرچہ اس درمیان میں ارتداد بھی خلل انداز ہوا ہو جیسے اشعب یا اشعث ابن قیس کے بارے میں کہا جاتا ہے اور بعض حضرات نے صحابی ہونے کے لئے طول صحبت کو شرط قرار دیا ہے یعنی ان کے نزدیک  صحابی  اسی مسلمان کو کہا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں کافی عرصہ تک رہا ہو، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اکتساب علم کیا ہو ، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوات میں شامل ہوا ہو ان حضرات نے  طول صحبت  یا کافی عرصہ  کی کم سے کم مدت چھ مہینہ بیان کی ہے لیکن اس چھ مہینہ کے تعین کی دلیل ان کے پاس کیا ہے یہ معلوم نہیں ، تاہم اس میں کوئی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس نے زیادہ سے زیادہ عرصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت و صحبت میں گزارا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوا اس کا مرتبہ ان لوگوں بہ نسبت یقیناً سوا ہے جنہیں زیادہ عرصہ کی خدمت و صحبت کا موقع نہیں ملا ،جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک نہیں ہوئے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک دور کی نظر سے دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کلام و گفتگو کی سعادت سے بہت کم سرفراز ہوئے یا جنہوں نے صرف طفولیت کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ، اگرچہ مجرد شرف صحبت سب کو حاصل ہے۔

 

                   صحابی کو جاننے کا ذریعہ

 

جو بھی  صحابی  ہے اس کا صحابی ہونا تواتر کے ذریعہ جانا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق کا صحابی ہونا تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ یا خبر مشہور کے ذریعہ جانا جاتا ہے یا کوئی صحابی اپنے غیر کے بارے میں بیان کرے کہ وہ صحابی ہے یا خود صحابی اپنے بارے میں کہے کہ میں صحابی ہوں بشرطیکہ وہ روایت کے سلسلہ معیار پر پورا اترتا ہو اور عادل ہو ویسے یہ بات ملحوظ رہے کہ کتاب و سنت اور اجماع معتبر سے واضح طور پر ثابت ہے کہ تمام صحابہ عدول ہیں۔

 

                   افضلیت صحابہ

 

شرح السنۃ میں ابو منصور بغدادی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمارے تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین میں سب سے افضل خلفاء اربعہ ہیں اور ان میں بھی ترتیب کا اعتبار ہے یعنی سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں ، ان کے بعد حضرت عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت عثمان غنی اور ان کے بعد حضرت علی۔خلفاء اربعہ کے بعد سب سے افضل وہ تمام صحابہ ہیں جن کو  عشرہ مبشرہ  کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد سب سے افضل وہ صحابہ ہیں جو جنگ بدر میں شریک تھے ، ان کے بعد سب سے افضل وہ صحابہ ہیں جو جنگ احد میں شریک تھے ، ان کے بعد بیعت رضوان میں شریک صحابہ ، ان کے بعد وہ انصار صحابہ جنہوں نے دونوں مرتبہ بیعۃ العقۃ الاولیٰ اور بیعۃ العقۃ الثانیہ کے موقع پر مکہ میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی تھی۔ اسی طرح وہ صحابہ جن کو  سابقون اولون کہا جاتا ہے یعنی جنہوں نے قبول اسلام میں سبقت کی اور ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہو گئے تھے اور جن کو دونوں قبیلوں یعنی بیت المقدس اور کعبہ مکرمہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑہنے کا موقع ملا ان صحابہ سے افضل ہیں جو ان کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کون دوسری سے افضل ہے اسی طرح حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں واضح رہے کہ حضرت معاویہ عدول اہل فضل اور خیار صحابہ میں سے ہیں ، ان کے بارے میں کوئی بھی برا خیال رکھنا یا ان کی شان میں کوئی ایسی بات کہنا جو مرتبہ صحابیت کے منافی ہو اسی طرح ممنوع جس طرح دوسرے صحابہ کے بارے میں۔ رہی یہ بات کہ بعض صحابہ کے درمیان جو باہمی نزع ہوا ، یا باہمی جنگ و جدل کے نوبت آئی تو اس پر بحث و تمحیص کرنا اور اس کوئی نتیجہ نکال کر کسی کی تنقیص کرنا ہمارا مقام نہیں ہے ، وہ سارے معاملات ان کے اپنے اجتہاد سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحابی ایسا نہیں تھا جس نے ان معاملات میں نفسانی تقاضوں یا دنیاوی اغراض کے تحت شرکت کی ہو ، وہ سب صحابہ اپنے اپنے موقف کے درست اور جائز ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے اور اپنی باہمی لڑائیوں اور تنازعات کی بنا پر ان میں سے کوئی عدول کے زمرہ سے خارج نہیں ہو گا اور نہ اس کی حیثیت اور اس کے مرتبہ میں کوئی نقص آیا ، مختصر یہ کہ اہل سنت و جماعت کا مسلک یہ ہے کہ ان کے بارے میں زبان کھولتے وقت محتاط رہا جائے ، ان کے حق میں منہ سے وہی بات نکالی جائے جو تعریف اور بھلائی کی ہو ، اگر ان میں سے کسی کے متعلق کوئی ایسی چیز منقول ہو جو بظاہر تعریف کے کام کے خلاف نظر آتی ہو تو اس سے نظر کیا جائے۔ دین و ایمان کی سلامتی اسی میں ہے۔

 

                   صحابہ کو برا نہ کہو

 

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میرے صحابہ کو برا نہ کہو ، حقیقت یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مد یا آ دھے مد کے ثو کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

تم  کے مخاطب خود صحابہ میں کے بعض حضرات تھے ،جیسا کہ ایک روایت میں اس ارشاد گرامی کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت خالد ابن ولید اور حضرت عبد الرحمن ابن عوف کے درمیان کوئی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور حضرت خالد ابن ولید نے حضرت عبد الرحمن ابن عوف کو برا کہا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خالد ابن ولید وغیرہ کو خطاب کر کے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو پس  میرے صحابہ  سے وہ مخصوص صحابہ مراد ہیں جو ان مخاطب صحابہ یعنی حضرت خالد ابن ولید وغیرہ سے پہلے اسلام لائے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں  تم  کے ذریعہ پوری امت کو مخاطب کیا گیا ہو اور چونکہ نور نبوت نے پہلے ہی یہ دیکھ لیا تھا کہ آگے چل کر میری امت میں لوگ بھی پیدا ہوں گے ،جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہیں گے ، ان کی شان میں گستاخیاں کرے گے (جیسا کہ روافض و خوارج کی صورت میں مختلف گروہ ایک دوسرے کے ممدوح صحابہ کے حق میں سب و شتم کرتے ہیں) اس لے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں میں احترام صحابہ کے جذبات کو بیدار کرنے کے لئے حکم دیا کہ شخص میرے کسی صحابی کو برا نہ کہے۔

مد اس زمانہ کے ایک پیمانہ کا نام تھا جس میں سیر بھر کے قریب جو وغیرہ آتا تھا ، حدیث کے اس جزء کی مراد ان صحابہ کے بلند و بالا مقام و مرتبہ کا تعین کرنا ہے کہ ان لوگوں کے کمال اخلاص و للٰہیت کی بناء پر ان کا چھوٹا سا نیک عمل اپنے بعد والوں کے اسی طرح کے بڑے سے بڑے نیک عمل پر بھاری ہے مثلاً اگر ان صحابہ میں سے کوئی شخص سیر بھر یا آدھ سیر جو وغیرہ خدا کی راہ میں خرچ کرے تو اس عمل پر ان کو جنتا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب ان کے بعد والوں کو اس صورت میں بھی نہیں مل سکتا کہ اگر وہ اللہ کے راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دیں اور یہ اس وجہ ہے کہ اخلاص و صدق نیت اور جذبہ ایثار و للٰہیت کا جو کمال ان کے اندر تھا وہ بعد والوں کو نصیب نہیں ہو سکتا دوسرے یہ کہ ان کا مال خالص طیب و پاکیزہ ہوتا تھا ، اور ان کی اپنی حاجتیں و ضرورتیں اس بات کا تقاضا کرتی تھیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کریں لیکن اس کے باوجود اپنی استطاعت کے مطابق وہ اللہ کی راہ میں خوش دلی کے ساتھ خرچ کرتے اور اپنی تمام ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیتے ، یہ تو ان کے راہ خدا میں خرچ کرنے کے اجر و ثواب کا ذکر ہے۔ اسی پر قیاس کر کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انتہائی سخت حالات میں اللہ کے دین کا جھنڈا بلند کرنے اور اللہ کے رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے ریاضت و جاہدہ کے جن سخت ترین مراحل کو طے کیا۔ یہاں تک کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس کی بناء پران کو کیا اجر و ثواب ملا ہو گا اور ان کے درجات و مراتب کس قدر بلند ہوئے ہوں گے۔ حدیث کے پہلے جزء سے اگرچہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی میرے صحابہ کو برا نہ کہو مخصوص اصحاب کے حق میں ہے لیکن اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو برا کہنا بطریق اولیٰ ممنوع ہے۔ کیونکہ حدیث اصل مقصد ان لوگوں کے حق میں بد گوئی اور بد زبانی سے اجتناب کی تلقین و ہدایت کرنا ہے۔ جن کو قبول اسلام میں سبقت کی فضیلت و برتری حاصل ہے اور جو اپنی اس فضیلت و برتری کو بناء پر بعد والوں کے لئے یقیناً واجب التعظیم ہیں۔علی ابن حرب طائی اور خثیمہ ابن سلیمان نے حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ

لاتسبوا اصحاب محمد فلمقام احدہم ساعۃ خیر من عمل احدکم عمرہ۔

اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو برا نہ کہو ،درحقیقت ان کو (اپنی عبادتوں کا) یہ مقام حاصل ہے کہ ان کا ساعت بھر کانیک عمل تمہارے پوری عمر کے نیک عمل سے بہتر ہے۔

اور عقیلی نے ضعفا میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

ان اللہ اختارلی اصحابا وانصار ا واصحارا وسیاتی قوم یسبونہم ولیستنقصونہم فلاتجالیسوہم ولاتشاربوہم ولا تواکلوہم ولاتناکحوہم۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور میرے لئے میرے اصحاب میرے انصار اور میرے قرابتدار تجویز و مقرر کئے گئے۔ اور (یاد رکھو،عنقریب کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو میرے صحابہ کو برا کہیں گے اور ان میں نقص نکالیں گے ، پس تم نہ ان لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اختیار کرنا نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔

 

                   صحابہ کو برا بھلا کہنے والے کے بارے میں شرعی حکم

 

شرح مسلم میں لکھا ہے جاننا چاہئے کہ صحابہ کرام کو برا کہنا جرم ہے اور اکبر فواحش (سخت بڑے گنا ہوں) میں سے ہے ہمارا اور جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ جو کوئی صحابہ کو برا کہے اس کو سزا دی جائے اور بعض مالکیہ نے کہا ہے کہ اس کو قتل کیا جائے ، اسی طرح کی بات طیبی نے بھی لکھی ہے اور قاضی عیاض نے کہا ہے کہ صحابہ میں سے کسی کو بھی برا کہنا گناہ کبیرہ ہے اور ہمارے بعض علماء نے صراحت کی ہے کہ جو شخص شیخین (یعنی ابوبکر و عمر) کو برا کہے وہ مستوجب قتل ہے۔ مشہور کتاب الاشباہ والنظائر کی کتاب السیر میں لکھا ہے جو بھی کافر اپنے کفر سے توبہ کر لے اس کے لئے دنیا و آخرت کے لئے معافی ہے۔ لیکن جو لوگ اس بناء پر کافر قرار پائے ہوں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو برا کہا تھا ، یا شیخین کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو برا کہا تھا یا سحر کاری کے مرتکب ہوئے تھے اور یا زندقہ میں مبتلا تھے ، اور پھر توبہ کرنے سے پہلے ان کو گرفتار کر لیا گیا ہو تو اب اگر وہ توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور ان کو معافی نہیں ملے گی اسی طرح صاحب اشباہ علامہ زین ابن نجیم نے یہ بھی کہا ہے کہ ،شیخین کو برا کہنا یا ان کو لعنت کرنا کفر ہے اور جو شخص حضرت علی کو شیخین پر فضیلت دے وہ مبتدع ہے۔ اور مناقب کرداری میں لکھا ہے اگر وہ شخص (جو شیخین پر حضرت علی کی فضیلت کا قائل ہے) اور دونوں یعنی شیخین کی خلافت کا منکر بھی ہو تو اس کو کافر کہا جائے گا اسی طرح اگر وہ ان دونوں سے دلی بغض و عناد رکھے تو بھی اس کو کافر کہا جائے گا۔ بایں سبب کہ اس نے ان ہستیوں سے قلبی بغض و عناد رکھا جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو قلبی محبت تھی ، ہاں اگر (یہ صورت ہو کہ) کوئی شخص (نہ تو شیخین پر حضرت علی کی فضیلت کا قائل ہے نہ شیخین کی خلافت کا منکر ہے نہ ان دونوں بغض و عناد رکھتا ہے اور نہ ان کو برا کہتا ہے مگر (شیخین کی بہ نسبت حضرت علی کے تئیں زیادہ پسندیدگی و گرویدگی اور محبت رکھتا ہے۔تو وہ محض اس بناء پر ماخوذ نہیں ہو گا۔ اس سلسلہ میں ان دونوں یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی تخصیص کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان دونوں کی فضیلت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث جس مخصوص طور سے منقول ہیں اس طرح سے کسی اور صحابی کے بارے میں منقول نہیں ہیں جیسا کہ آگے آنے ایک علیحدہ باب میں منقول احادیث سے واضح ہو گا یا وجہ تخصیص یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی خلافت پر مسلمانوں کا مکمل اجماع تھا ان کی قیادت و سربراہی کو کسی طرف بھی چیلنج نہیں کیا گیا ان کے برخلاف حضرت عثمان ہوں یا حضرت علی اور یا حضرت معاویہ وغیرہ دوسرے خلفاء ان کی خلافت پر اس درجہ کا اجماع نہیں تھا بلکہ ان میں سے ہر ایک کے زمانے میں بغاوت و خروج کا عمل ظاہر ہوا۔

 

                   خلافت ابوبکر کا انکار کرنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں

 

حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ امامیہ کے لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے منکر ہیں اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو شخص خلافت صدیق کا انکار کرے وہ اجماع قطعی کا منکر قرار پاتا ہے اور اجماع قطعی کا منکر کافر ہو جاتا ہے چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے۔

الرافضی اذاکان یسب الشیخین ویلعنہا العیاذباللہ فہو کافر وان کان یفضل علیا کرم اللہ تعالیٰ وجہ علی ابی بکرلایکون کافر الکنہ مبتدع ولو قذف عائشۃ کفر باللہ

اور رافضی اگر شیخین کو برا کہے اور العیاذ باللہ ان کو لعنت کرے تو وہ کافر ہے۔ اور اگر حضرت ابو بکر صدیق پر حضرت علی کو فضیلت دے تو کافر نہیں ہوتا البتہ مبتدع قرار پاتا ہے ، نیز اگر وہ حضرت عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کو تہمت لگائے تو اللہ (نے حضرت عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کی جو تصدیق قرآن میں کی ہے اس) کا منکر ہو گا۔

اور فتاوی عالمگیری ہی میں یوں ہے

من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہو کافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃالاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح  شخص نے ابوبکر کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہو جائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بناء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں۔

 

 

دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے دلائل

 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ امامیہ کے لوگ (یا روافض واہل تشیع) اگر صحابہ بالخصوص شیخین کو برا کہتے ہیں یا ان کی خلافت کے منکر ہیں تو اس کی وجہ سے ان کو کس دلیل سے کافر قرار دیا جاتا ہے؟ تو جاننا چاہیے کہ ان کے کفر کی ایک نہیں متعدد مضبوط دلائل و براہین ہیں ، پہلی بات یہ کہ صحابہ کرام اور اصل حاملان وحی ، راویان قرآن اور ناقلان دین و شریعت ہیں جو شخص ان صحابہ کی حقانیت و صداقت کا منکر ہو گا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ قرآن وغیرہ ایمانیات متواترات کے ساتھ اس کا ایمانی تعلق قائم ہو اور جب قرآن وغیرہ سے اس کا ایمانی تعلق قائم نہیں ہو گا تو اس کو مؤمن کون نادان کہے گا دوسرے یہ کہ ان صحابہ کی حقانیت ، صداقت اور فضیلت کا شاہد خود قرآن کریم ہے ، نص قرآن کا منکر مؤمن ہرگز نہیں ہوتا دوسرے یہ کہ وہ احادیث جن میں حضرت علی کے علاوہ تینوں خلفاء راشد کے فضائل و مناقب بھی منقول ہیں ، ان کی تعداد ان گنت ہے نیز وہ حدیثیں تعدد طرق اور کثرت روات کے سبب متواتر بالمعنی قرار پائی ہیں پس ان احادیث و روایات کے مفہوم و معنی اور مدلول و مضمون کا انکار کفر کے زمرہ میں آتا ہے اور یہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس درجہ کی احادیث کے استناد و اعتبار ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ جو ائمہ مجتہدین میں نہایت اعلی مقام رکھتے ہیں  خبر واحد  کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ اقوال صحابہ کو بھی چہ جائیکہ متواتر بالمعنی کی حیثیت رکھنے والی احادیث۔

آئیے سب سے پہلے قرآن کریم کو دیکھے کہ اللہ کے کلام سے ہمیں صحابہ کے بارے میں اور صحابہ یا کسی صحابی رسول کو برا کہنے اور لعنت کر نے والوں کے بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہے

(١) اللہ تعالیٰ نے صحابہ سے اپنا راضی ہونا اور خوش ہونا بیان فرمایا ہے ،جیساہ اس آیت کریمہ ہے

(لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ) 48۔ الفتح:18)

بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے راضی و خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت (سمرہ) نیچے بیعت کر رہے تھے۔

ایک اور موقع پر یوں فرمایا گیا

والسابقون الاولون من المہٰجرین والانصار والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔

اور جو مہاجرین و انصار (ایمان لانے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی و خوش ہوا۔

پس اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں جن لوگوں کی تعریف کرے ،جن سے رضا مندی و خوشنودی ظاہر کرے اور جن کے بلند و بالا  مقام و مرتبہ کو واضح فرمائے ان پر یہ لوگ (روافض و شیعہ) لعنت کریں بلکہ ان کو غاصب اور کافر جانیں تو ان دونوں باتوں میں بالکل تضاد ہے لہذا یہ لوگ ان صحابہ کو برا کہہ کر اور ان کو لعنت کر کے چونکہ قرآن کی مخالفت کرتے ہیں اور قرآن کی مخالفت کرنے والا کافر ہوتا ہے اس لئے ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔

(٢) خلفاء راشدین کی خلافت قرآن کریم سے ثابت ہے ، بایں طور کہ ارشاد فرمایا گیا

َعَدَ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہمْ) 24۔ النور:55)

(اے اہل ایمان تم میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو روئے زمین پر اقتدار و حکومت عطا فرمائے گا۔ مستند و معتبر مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے۔ کہ آیت خلفاء راشدین کی خلافت کے مبنی پر صداقت و صحت ہونے کی واضح دلیل ہے کہ آیت میں مذکورہ وعدہ کے مطابق جن لوگوں کو روئے زمین پر حکومت و اقتدار نصیب ہوا اور جو اس آیت کے مطابق ایمان و عمل صالح کے حامل تھے وہ یہی خلفائے راشدین ہیں۔ پس جو لوگ ان کی خلافت کو صحیح اور برحق نہ مانیں وہ قرآن کریم کی تردید و تغلیظ کرنے کے سبب دائرہ ایمان سے خارج قرار پائیں گے۔ کیونکہ اسی آیت میں آگے چل کر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ (وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہمُ الْفٰسِقُوْنَ) 24۔ النور:55)، یعنی : جنہوں نے کفر کیا (کہ اللہ کے اس وعدہ کو یا وعدہ کے ظہور کو برحق نہ جانا) تو فاسق ہیں  اور چونکہ قرآن کی اصطلاح میں فاسق سے مراد  فاسق کامل  ہوتا ہے اور فاسق کامل کافر کو کہتے ہیں اس لئے وہ فاسق ہیں  کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہیں اس بات کی دلیل کہ قرآن کی اصطلاح میں فاسق سے مراد فاسق کامل ہوتا ہے ، یہ آیت ہے

(وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہ فَاُولٰۗىِٕكَ ہمُ الْفٰسِقُوْنَ)  5۔ المائدہ:47)

(٣) قرآن کریم نے صحابہ کو صادق یعنی سچا کہا ہے جیسا کہ آیت میں مذکور ہے

(لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہمْ وَاَمْوَالِہمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہ وَرِضْوَاناً وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰہ وَرَسُوْلَہ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہمُ الصّٰدِقُوْنَ) 59۔ الحشر:8)

اور ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراً و ظلماً) جدا کر دئے گئے ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت) اور رضامندی کے طالب ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول (کے دین) کی مدد کرتے ہیں اور یہی لوگ سچے ہیں۔

تمام صحابہ حضرت صدیق اکبر کو  یا خلیفۃ اللہ  کہہ کر مخاطب کرتے تھے لیکن شیعہ ان کا کاذب یعنی جھوٹا کہتے ہیں ظاہر ہے کہ صادق اور کاذب کے درمیان صریح فرق ہے پس جو شخص ان کو کاذب کہتا ہے وہ دراصل قرآن کریم کی تردید اور مخالفت کرتا ہے اور یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے۔

(٤) صحابہ کرام  فلاح یاب ہیں اور ان کا  فلاح یاب  ہونا نص قرآن سے ثابت ہے کہ ان کے حق میں اولئک ہم المفلحون (اور یہی لوگ فلاح یاب ہیں) فرمایا گیا ہے پس جو لوگ اس نص قرآن کے خلاف ان کو یہ کہیں کہ اولیک ہم الخاسرون (یہی لوگ بے فلاح و ناکام ہیں تو ان مخالفین قرآن کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا۔

(٥) اللہ تعالیٰ نے کثرت سے اپنے کلام شریف میں ان صحابہ کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں اور جا بجا تعریف و توصیف کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے مثلاً ایک موقع پر ارشاد ہوا

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (وَالَّذِيْنَ مَعَہٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہمْ تَرٰىہمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہ وَرِضْوَاناً ۡ سِيْمَاہمْ فِيْ وُجُوْہہمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُہمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطَْٔہ فَاٰزَرَہ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْراً عَظِيْماً) 48۔ الفتح:29)

محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز اور آپس میں مہربان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے کبھی سجدہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہیں ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہروں  پر نمایاں ہیں یہ ان کے اوصاف توریت میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو قوی کیا پھر وہ اور موٹی ہوئی پھر اپنے سے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی۔تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ سے کہ جو ایمان لائے ہیں اور نیک کام کر رہے ہیں مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔

پس ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے جو قرآن کریم کی اتنی زبردست شہادت کے باوجود صحابہ رسول کو برا کہیں اور ان کو ملعون قرار دیں۔ نیز اس آیت میں صحابہ کا جو وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں تو تیز  و سخت ہیں لیکن آپس میں نرم و مہربان ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص صحابہ کو آپس میں بے الفت و بے مہر اور ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والا جانے (جیسا کہ شیعوں کا کہنا ہے) تو قرآن کا منکر ہے اسی طرح جو صحابہ سے بغض وحسد رکھے اور ان کے تئیں غیظ و غضب میں مبتلا ہو تو خود اس پر کفر کا اطلاق مذکور ہے کیونکہ لیغیظ بہم الکفار (تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے) کا واضح مطلب یہی ہے۔ کہ صحابہ کے تئیں غیظ و غضب کا اظہار اور ان سے غصہ کرنا کافروں کا کام ہے اس آیت سے ان لوگوں کی بھی تردید و تغلیط ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں گو اچھے عقائد و اعمال کے حامل تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد بد دین ہو گئے تھے ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ انہی کے لئے ہوتا ہے جو مرتے دم تک ایمان اور عمل صالح پر قائم رہیں ، ان صحابہ کے حق میں اس وعدے کا نازل ہونا خود اس بات کی علامت تھا کہ (ان کو دم آخر تک ایمان اور عمل صالح کی توفیق حاصل رہے گی اب اگر کوئی شخص ان کے بارے میں ایسی بے تکی بات کہتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ نص قرآن کے خلاف بات کہتا ہے بلکہ العیاذ باللہ ، حق تعالیٰ کی طرف جہل اور لاعلمی کی نسبت بھی کرتا ہے۔

(٦) جس ہستی نے مخلفین اعراب (پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں) کو جہاد کے لئے بلایا وہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ہیں اس بات پر نہ صرف یہ کہ تمام اہل سنت کا اتفاق ہے بلکہ خود شیعوں کو بھی انکار و اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ مخلفین اعراب کے سلسلہ میں قرآن کریم نے جو یہ فرمایا تھا

(قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَہمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ۚ فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللّٰہ اَجْراً حَسَناً ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً اَلِيْماً)  48۔ الفتح:16)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم لوگ ایسے لوگوں (سے لڑنے) کی طرف بلائے جاؤ گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے کہ یا تو ان سے لڑتے رہو یا وہ مسلمان ہو جائیں سو اگر تم اطاعت کرو گے تو تم کو اللہ تعالیٰ نیک عوض (یعنی جنت) دے گا اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے قبل روگردانی کر چکے ہو تو درد ناک عذاب کی سزا دے گا۔

تو اس آیت میں مذکور پیشین گوئی کے مطابق ان مخلفین اعراب کو دشمنان اسلام کے مقابلہ پر لڑنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے زمانہ خلافت میں بلایا بایں اعتبار اس آیت سے نہ صرف یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ ابن ابی حاتم ، ابن قتیبہ ، شیخ ابو الحسن اور امام ابو العباس وغیرہم نے وضاحت کی ہے بلکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ جہاد کے لئے ان کے بلاوے سے روگردانی کرنے والا عذاب الیم کا مستوجب ہو گا پس جس ہستی کے بارے میں قرآن کریم سے اتنی بڑی بات ثابت ہوتی ہو اس پر لعنت کرنے والوں اور اس کو کافر کہنے والوں کو اپنے حشر سے ڈرنا چاہیے۔

(٧) ان صحابہ کا جنتی ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے جیسا کہ ایک موقع پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے

(لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلّاً وَّعَدَ اللّٰہ الْحُسْنٰى)  57۔ الحدید:10)

تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے (فی سبیل اللہ) خرچ کر چکے اور لڑ چکے برابر نہیں ، وہ لوگ درجہ میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد میں خرچ کیا اور لڑے اور (ویسے تو) اللہ تعالیٰ نے بھلائی (یعنی جنت) کا وعدہ سب سے کر رکھا ہے۔ پس ان صحابہ کے جنتی ہونے کا انکار نصوص کے انکار کو مستلزم ہے اور یہ کفر ہے

(٨) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے

(ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ ہمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہ مَعَنَا) 9۔ التوبہ:40)

(مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے موقع پر) دو آدمیوں میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم تھے جس وقت کہ دونوں (ثور) غار میں تھے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں سے فرما رہے تھے تم غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں جس ہستی کا ذکر اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی اور جاں نثار کی حیثیت سے کرے ، اس کو برا کہنے والوں کا انجام کیا ہو گا اس کا اندازہ خود لگا لینا چاہئے۔

(٩) قرآن کریم کی اس آیت

(وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ) 24۔ النور:22)

اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی والے اور (دنیاوی) وسعت والے ہیں۔

میں جس ہستی کی طرف اشارہ مقصود ہے وہ حضرت ابوبکر کی ذات ہے جیسا کہ محقق مفسرین اور علماء اسلام نے وضاحت کی ہے پس ان کے  فضل  کا انکار کرنا قرآن کریم کا صریح رد کرنا ہے۔

(١٠) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

(وَسَيُجَنَّبُہا الْاَتْقَى   17ۙ  الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَہ يَتَزَكّٰى   18ۚ  وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓى    19ۙ  اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہ رَبِّہ الْاَعْلٰى   20ۚ  وَلَسَوْفَ يَرْضٰى    21ۧ ) 92۔ الیل:17 تا 21)

اور اس (دوزخ سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے ،جو اپنا مال(محض) اس غرض سے دیتا ہے کہ (گناہوں سے) پاک ہو جائے اور بخیر اپنے عالی شان پروردگار کی رضا جوئی کے اس کے ذمہ کسی نہ تھا اس کا بدلہ اتارنا مقصود ہوتا اور یہ شخص عنقریب خوش ہو جائے گا (یعنی آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ملیں گی)۔

یہ آیتیں بھی حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں ہیں حضرت علی کی شان میں نہیں ہو سکتیں ، چنانچہ ماہرین تفسرین نے اسی حقیقت کے پیش نظر ان آیتوں کا محمول و مدلول حضرت ابوبکر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آیتوں کا شان نزول حضرت ابوبکر صدیق کا واقعہ ہے کہ انہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے بڑی مقدار میں اپنا مال خرچ کر کے حضرت بلال وغیرہ کو کافروں سے خریدا اور آزاد کر دیا پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ بڑا پرہیزگار  بتائے وہ رحمت و رضوان کا مستحق ہو گا یا لعنت وخذلان کا مستوجب؟ اب صحیح احادیث کو دیکھنا چاہیے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے ، روافض کا کفر یا ایمان؟واضح رہے کہ یہاں چند ہی احادیث پراکتفاکیا جائے گا جب کہ اس سلسلہ میں بے شمار حدیثیں منقول ہیں

عن عوبمر ابن ساعدۃ انہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ان اللہ اختارلی واختارلی اصحابا فجعل لی منہم وزراء وانصار ا واصہارا فمن سبہم فعلیہم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ولایقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا۔ (محاملی ، طبرانی ، حاکم 🙂

عویمر ابن ساعدہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے رفقاء اور ساتھی بھی منتخب فرمائے اور پھر ان رفقاء میں سے کچھ کو میرا وزیر، کچھ کو میرا مدد گار اور کچھ کو میرا رشتہ دار بنایا پس جس شخص نے ان کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں ، کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ، اللہ تعالیٰ نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گا اور نہ اس کا فدیہ یا یہ کہ نہ نفل اس کا مقبول ہو گا نہ فرض۔

عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال سیاتی من بعدی قوم یقال لہم الرفضۃ فان ادرکتہم فاقتلہم فانہم مشرکون قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ما العلامۃ فیہم قال یفرطونک بما لیس فیک ویطعنون علی السلف (دارقطنی)

حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عنقریب میرے بعد ایک گروہ پیدا ہو گا جن کو  رافضی کہا جائے گا پس اگر تم ان کو پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوں گے حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کی پہچان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  وہ لوگ تمہیں ان چیزوں کے ذریعہ نہایت اونچا دکھائیں گے جو تم میں نہیں ہوں گی اور صحابہ پر لعن طعن کریں گے ، اور دارقطنی ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ۔

وذلک یسبون ابابکر وعمر ومن سب اصحابی فعلیہ لعنت اللہ والملئکۃ والناس۔

اور ان لوگوں کو مشرک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابوبکر صدیق کو برا کہیں گے اور جس شخص نے میرے صحابہ کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور لوگوں کی لعنت۔

اسی طرح کی روایت حضرت انس ، حضرت عیاض انصاری ، حضرت جابر ، حضرت حسن ابن علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت فاطمہ زہرا ، اور حضرت ام سلمہ سے بھی منقول ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

من ابغضہم فقد ابغضنی ومن اذا ہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ۔

جس شخص نے صحابہ کو دشمن رکھا اس نے درحقیقت مجھ دشمن رکھا ، اور جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے درحقیقت مجھ کو ایذاء پہنچائی اور جس اس نے درحقیقت اللہ ایذاء پہنچائی۔

ابن عساکر نے یہ حدیث نقل کی ہے کی :۔

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال حب ابی بکر وعمر ایمان وبغضہما کفر۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابوبکر و عمر کو دوست و محبوب رکھنا ایمان ہے اور ان دونوں سے بغض و عناد رکھنا کفر ہے۔

عبد اللہ ابن احمد نے حضرت انس سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ

انی لارجولامتی فی حبہم لابی بکر وعمر ماارجولہم فی قول لاالہ الا اللہ۔

بلاشبہ میں اپنی امت کے لئے ، ان کی اس محبت کے عوض کہ جو وہ ابوبکر و عمر کے تئیں رکھیں گے ، اس چیز کی امید رکھتا ہوں جو ان کے لئے کلمہ لاالہ الا اللہ کے عوض مقرر ہے۔

نیز محبت اور بغض کے درمیان چونکہ تناقض ہے اس لئے جب ابوبکر و عمر سے محبت رکھنے کا یہ حال معلوم ہوا کہ اس کا اجر سلامتی ایمان اور دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی صورت میں ہے تو منطقی طور پریہ نتیجہ نکلا کہ ان سے بغض و نفرت رکھنا کفر اور اس کا انجام دنیا و آخرت میں ذلت و تباہی کی صورت میں ہے۔

ان احادیث کے بعد اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس بارہ میں ائمہ دین اور رہنمایان شریعت کے ارشادات و اقوال کیا ہیں پہلے اس اصول کو ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ تکفیر مؤمنین یعنی کسی مؤمن و مسلمان کو کافر کہنا بجائے خود کفر ہے کیونکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ جو شخص کسی کو کافر کہے یا عدو اللہ (اللہ کا دشمن) کہے اور حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو تو کفر لوٹ کر خود کہنے والے پر آ جاتا ہے پس صحابہ کا مومن و مسلمان ہونا چونکہ قطعی ہے اس لئے جو شخص ان کو کافر کہے گا وہ کفر خود اسی پر لوٹ جائے گا یہاں یہ بات ذکر کر دینا موزوں ہے کہ روافض نہ صرف یہ کہ تکفیر صحابہ اور غذف عائشہ صدیقہ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں چیزوں کو ، کہ جو اعظم موجبات کفر میں سے ہیں ، ترقی درجات کا سبب بھی مانتے ہیں حالانکہ یہ سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ محض استحلال معصیت ہی کفر ہے چہ جائیکہ کفر کو ترقی درجات کا موجب مانا جائے۔

امام ابوزرعہ نے جو امام مسلم کے جلیل القدر شیوخ میں سے ہیں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیض و توہین کرے تو بلاشبہ وہ زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق ہے اور رسول جو کچھ (دین و شریعت) لے کر آئے وہ حق ہے نیز ان سب (قرآن اور دین و شریعت) کو نقل اور ہدایت کے ذریعہ ہم تک پہنچانے والے ان صحابہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے پس جس شخص نے ان صحابہ میں عیب و نقص نکالا اس نے دراصل کتاب و سنت کو باطل اور لغو قرار دینے کا ارادہ کیا۔ اس اعتبار سے سب سے بڑا عیب دار اور ناقص خود وہی شخص قرار پائے گا اور اس پر زندقہ و ضلالت کا حکم راست و درست آئے گا۔

حضرت سہل ابن عبداللہ تستری کا قول ہے ، اس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والا ہرگز نہیں کہا جا سکتا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی توقیر نہ کی۔

محیط میں حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے منکر ہیں۔

خلاصہ میں لکھا ہے : من انکرخلافۃالصدیق فہو کافر یعنی جس شخص نے ابوبکر صدیق کی خلافت کا انکار کیا وہ کافر ہیں مرغینانی میں مذکور ہے اہل ہواء اور مبتدعین کے پیچھے نماز مکروہ ہے جب کہ رافضیوں کے پیچھے نا جائز ہے۔

قاضی نے شفاء میں لکھا ہے کہ حضرت ابن انس وغیرہ کا قول ہے

من ابغض الصحابۃ وسبہم فلیس لہ فی المسلمین حق۔

جس شخص نے صحابہ سے بغض رکھا اور ان کو برا کہا اس کا مسلمانوں کے مال فے میں کوئی حق نہیں۔

انہی کا یہ قول بھی ہے کہ

من غاظہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم فہو کافر قال اللہ تعالیٰ (لِيَغِيْظَ بِہمُ الْكُفَّارَ)  48۔ الفتح:29)

جس شخص نے اصحاب محمد کے تئیں بغض و غصہ رکھا ، وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد  تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے  کے بموجب کافر ہے۔

قاضی ابوبکر باقلانی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے اور بیہقی نے امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی ایسا ہی قول نقل کیا ہے بلکہ فقہائے حنفیہ نے شیعوں کو جو کافر کہا ہے اس کی بنیاد حضرت امام اعظم ہی کا قول ہے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ شیعوں اور رافضیوں کے معتقدات کو سب سے زیادہ جاننے والے حضرت امام اعظم ہی ہیں کیونکہ وہ کوفی ہے اور رفض و تشیع کا اصل منبع و مرکز کوفہ ہی رہا ہے۔ پس اگر امام اعظم نے خلافت صدیق کے منکر کی تکفیر کی ہے تو حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق یا کسی بھی صحابی کو لعنت کرنے والا ان کے نزدیک بدرجہ اولیٰ کافر ہو گا۔

حضرت امام مالک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کسی کو بھی مثلاً حضرت ابوبکر کو یا حضرت عمر کو اور یا حضرت عثمان کو برا کہنے والے کے بارہ میں حکم بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ

فان قال کانوا علی ضلال اوکفر قتل۔

اگر وہ شخص یہ کہے کہ وہ (صحابہ) گمراہ تھے یا کافر تھے تو اس شخص کو قتل کیا جائے۔

حضرت امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول و ارشادات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی روافض کے ارتداد کے قائل تھے ، بہرحال روافض کے کفر کی یہ چند دلیلیں ہیں ، اگرچہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں درازی کے خوف سے انہی چند دلائل کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ عام مسلمان بھائی شک و شبہ کا شکار نہ رہیں ان کو صحابہ کی عظمت اور ان کو برا کہنے والوں کی برائی معلوم ہو جائے۔ رافضیوں کے فریب سے ہوشیار رہیں ، اپنا عقیدہ خراب نہ کریں ، ان کے میل جول سے اجتناب کریں اور ان کے ساتھ رشتہ ناتہ جوڑنے سے بھی باز رہیں ، اور اگر صحابہ کے فضائل و مناقب سے متعلق ان آیات و احادیث کو دیکھ کر شاید کسی شیعہ کو توفیق الہٰی نصیب ہو جائے تو وہ توبہ کر کے اپنی عاقبت درست کر لے۔

 

ایک اعتراض اور اس کا جواب

 

ہو سکتا ہے کوئی رافضی یہ اعتراض کرے کہ مشہور کتاب شرح عقائد نسفی میں اس بات کو آسان نہیں بتایا گیا ہے کہ شیخین کو برا کہنے والے کو کافر قرار دے دیا جائے ، نیز صاحب جامع الاصول اور صاحب مواقف نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے ، اسی طرح ابو الحسن اشعری اور امام غزالی نے بھی اس کو مناسب نہیں سمجھا کہ اہل قبلہ کو کافر کہا جائے ، لہذا جو لوگ شیعوں کو کافر کہتے ہیں ان کا قول سلف اہل سنت کے موافق نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ ان بزرگان امت اور اساطین علم نے شیعوں کی تکفیر میں احتیاط کا دامن تھاما ہے اور اس فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں تامل کیا ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان حضرات نے شیعوں کے تمام عقائد و نظریات اور ان کے احوال و معاملات پوری طرح جاننے کے باوجود ان کی تکفیر سے اعراض کیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان بزرگوں کے ذہن میں شیعیت کا مسئلہ پوری طرح واضح نہیں تھا اور شیعوں کے بارے میں اسی خیال و نظریہ کا اظہار کیا جو ان کے اس وقت کے علم اور معلومات کے مطابق اور اس طرح کی بہت نظیریں ملتی ہیں کہ جلیل القدر صحابہ تک کو بعض مسائل میں اشتباہ ہوا اور ان کا قول یا عمل ان کے مسائل کے حقیقی پہلو سے مختلف ظاہر ہوا مثال کے طور پر حضرت عبداللہ ابن مسعود کو نماز میں اطباق یدین کے مسئلہ میں اشتباہ کا ہونا یا حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بیع امہات اولاد کے اور زندیقوں کو آگ میں جلا دینے کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا اور یا حضرت عمر فاروق کو جنبی کے تیمم کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا پس مذکورہ بالا بزرگوں کی نظر، محض اس بات پر گئی کہ شیعہ اہل قبلہ اور کلمہ گو ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے ان کی تکفیر سے احتیاط برتی ، اگر ان کے علم میں شیعوں کے وہ تمام عقائد اور حالات تفصیل کے ساتھ آ جاتے جوان کے اہل قبلہ اور کلمہ گو ہونے کے صریح منافی ہیں اور جو کسی بھی شخص کی تکفیر کے لئے واضح ثبوت اور دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں تو یقیناً وہ بزرگ بھی ان کی تکفیر کے قائل ہوتے جب خلیفۃ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق نے زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کرنے والے کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اور حضرت علی نے ان لوگوں کے کلمہ گو ہونے ہی کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کی سفارش کی اور کہا کہ ہم ان لوگوں کے خلاف جنگ و قتال کیسے کر سکتے ہیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے

امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ۔

مجھے (پروردگار کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہیں۔

حضرت ابوبکر نے پورے عزم کے ساتھ جواب دیا کہ میں ہر اس شخص کے خلاف جنگ و قتال کروں گا جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے گا (اور اس کی کلمہ گوئی میرے ارادہ میں حائل نہیں ہو گی) حضرت عمر بولے میں نے دیکھ لیا کہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شرح صدر عطا فرما دیا ہے اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حق وہی ہے جو ابوبکر کہہ رہے ہیں یہ بھی احتمال ہے کہ محولہ بالا بزرگوں نے اپنے اقوال و نظریات کا اظہار ان شیعوں کے بارہ میں فرمایا ہو جو اس زمانہ میں ایسے برے اور فاسد عقائد و احوال نہیں رکھتے تھے جیسے بعد میں شیعوں اور رافضیوں نے اختیار کر لئے۔ اس کی تائید مرقاۃ میں ملا علی قاری کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ

قلت وہذا فی حق الرافضۃ والخارجۃ فی زماننا کانہم یعتقدون کفر اکثر اکابر الصحابۃ فضلا من سائر اہل السنۃ والجماعۃ فہم کفر بالاجماع بلانزاع۔

میں کہتا ہوں کہ یہ بات ہمارے زمانہ کے رافضیوں اور خارجیوں کے حق میں صادق آتی ہے کیونکہ ان فرقوں کے لوگ اکابر صحابہ میں سے اکثر کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور تمام اہل سنت والجماعت کو بھی کافر سمجھتے ہیں ان فرقوں کے کافر ہونے پر اجماع ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 

                   صحابہ کا وجود امت کے لئے امن و سلامتی کا باعث تھا

 

اور حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت ابو موسیٰ نے بیان کیا کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر (وحی کے انتظار میں) آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور پھر فرمایا، ستارے آسمان کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں جس وقت یہ ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان کے لئے وہ چیز آ جائے گی جو موعود و مقدر ہے ، میں اپنے صحابہ کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہوں ،جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں جب میرے صحابہ (اس دنیا سے) رخصت ہو جائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آ پڑے گی جو موعود و مقدر ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

ستارے  کا لفظ سورج اور چاند کو بھی شامل ہے۔ اور ستاروں کے جاتے رہنے  سے مراد سورج ، چاند اور تمام ستاروں کا بے نور ہو جانا ٹوٹ پھوٹ کر گر پڑنا اور معدوم ہو جانا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔

اذا الشمس کورت واذا النجوم انکدرت۔

جب (قیامت کے دن) آفتاب بے نور ہو جائے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔

آسمان کے لئے جو چیز موعود و مقدر ہے سے مراد قیامت کے دن آسمانوں کا پھٹ جانا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر روئی کے گالوں کی طرح اڑنا ہے ، اس کی خبر قرآن کریم نے اذا السماء انطفرت (جب آسمان پھٹ جائے گا) اور اذا السماء انشقت (جب آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا) الفاظ میں دی ہے۔

صحابہ کے لئے موعود و مقدر چیز  سے مراد فتنہ و فساد ، اختلاف و نزاعات باہمی جنگ و جدل اور بعض اعرابی قبائل کا مرتد ہو جانا اسی طرح  امت کے لئے موعود و مقدر چیز  سے مراد بد اعتقادی و بد عملی کے فتنوں کا امنڈ پڑنا ، بدعات کا زور ہو جانا ، مسلمانوں پر دینی و ملی سانحات و حادثات کا واقع ہونا، اہل خیر و برکت کا اس دنیا سے اٹھ جانا، اہل شر کا باقی رہنا اور ان (اہل شر) پر قیامت قائم ہونا ، پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اہل خیر کا وجود شر کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، جب اہل خیر اٹھ جاتے ہیں تو شر کو در آنے کا موقع مل جاتا ہے۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے شر سے حفاظت کا مکمل ضامن تھا، کسی بھی معاشرے میں فتنہ کی ابتداء مختلف الذہن اور مختلف الخیال لوگوں کی باہمی آویزش اور ایک دوسرے کے خلاف رائے ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وہ پہلو بیان فرما دیتے جو حقیقت کے مطابق ہوتا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اسی پر جم جاتے تھے۔ اسی صورت میں کسی فتنہ کے پیدا ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا ،جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو صورت حال مختلف ہو گئی۔صحبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محروم مسلمانوں کی کثرت ہوتی گئی خود رائی کا رجحان پیدا ہونے لگا، اور چونکہ اس خود رائی کی بنیاد ذاتی اغراض اور نفسیاتی خواہشات ہوتی تھی اس لئے فتنہ و فساد جنم لینے لگے ، وہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی تعداد موجود تھی جو کسی بھی معاملہ میں اپنی ذاتی خواہش اور رجحان کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ ہر معاملہ اور ہر مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول یا فعل اور یا دلالت حال سے استناد کرتے تھے اور ذات رسالت پناہ کی صحبت و رفاقت کے انوار سے بھر پور تھے ، اس لئے ان کا وجود بہرحال اتنا باعث خیر و برکت تھا کہ فتنوں اور برائیوں کے اندھیرے زیادہ پھیلنے نہیں پائے لیکن جب ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وجود بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا تو انوار و برکات میں بہت ہی کمی آ گئی اور تاریکیوں کو بڑھنے پھیلنے کا موقع مل گیا۔ اسی حقیقت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ستاروں اور آسمان کی مثال کے ذریعہ پہلے سے بیان فرما دیا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے جسے کہ آسمان کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک چاند سورج اور ستارے اپنی ضیا پاشیوں کے ساتھ موجود ہیں جب یہ ستارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان کے وجود کے خاتمہ کا وقت آ جائے ، اور جب آسمان کا وجود ختم ہو جائے گا تو پوری کائنات اپنے عدم کی تاریکی میں گم ہو جائے گی۔ پس صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین ان ستاروں کی مانند ہیں جن کے وجود سے کائنات کو روشنی ملتی ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم۔

میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں جس کی بھی اقتدا کرو گے راہ یاب ہو گے۔

 

                   صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی برکت

 

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرنے نکلے گی ، اور پھر وہ لوگ (آپس میں) ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ وہ لوگ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان صحابی رسول موجود ہیں) پس ان لوگوں کے لئے قلعہ و شہر کے دروازے وا ہو جائیں گے (یعنی صحابہ کی برکت و شوکت سے دشمنوں کے مقابلہ پر ان کو فتح حاصل ہو گی) پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے گی اور پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہے (جس کو تابعی کہتے ہیں) وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان تابعی موجود ہیں) پس (تابعی کی برکت سے) ان کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے واہو جائیں گے پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے گی اور پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے صحبت یافتہ حضرات کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ (جس کو تبع تابعی کہتے ہیں) وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان تبع تابعی موجود ہیں) پس (تبع تابعی کی برکت سے) ان لوگوں کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے واہو جائیں گے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت لوگوں میں سے ایک لشکر (دشمنوں کے مقابلہ پر لڑنے کے لئے) بھیجا جائے گا اور پھر وہ اہل لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کوئی موجود ہے یا نہیں؟(تلاش کرنے کے بعد) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک صحابی موجود ہیں پس (ان صحابی کی برکت سے) اس لشکر کو فتح حاصل ہو گی۔ اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک دوسرا لشکر (کسی دوسرے علاقہ میں دشمنوں کے مقابلہ پر) روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ اہل لشکر کے آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو ، تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے یا نہیں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو دیکھا ہو؟(تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک ایسے شخص یعنی تابعی موجود ہیں۔ پس(ان تابعی کی برکت سے) اس لشکر کو فتح حاصل ہو گی۔ پھر اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک تیسرا لشکر روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے یا نہیں جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو دیکھا ہو؟(تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایسے شخص موجود ہیں پس (ان کی برکت سے) اس لشکر کوفتح حاصل ہو گی۔ پھر اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک چوتھا لشکر روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان کوئی ایسا لشکر موجود ہے یا نہیں جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو دیکھنے والے کسی شخص کو دیکھا ہو؟(تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک ایسے شخص موجود ہیں : پس (ان کی برکت سے) اس لشکر کو فتح حاصل ہو گی۔

 

تشریح

 

ان دونوں روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس معجزہ کا ذکر تو ہے ہی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسی حقیقت کی پیش بیانی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تین یا چار قرنوں (زمانوں) میں وقوع پزیر ہونے والی تھی اس کے ساتھ ہی ان روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ تابعین تبع تابعین اور تبع تابعین کے فضلیت اور ان کا باعث خیر و برکت ہونا بھی مذکور بھی ہے ، ان دونوں روایتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں تو تین فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین کا ذکر ہے جب کہ مسلم کی دوسری روایتوں میں چار فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، اور تبع اتباع تابعین کا ذکر ہے ، اور بخاری کی بھی ایک صحیح روایت میں جو حدیث خیرالقرون سے متعلق ہے چار قرنوں کا ذکر ہے چونکہ اس درجہ کے اہل خیر چوتھے قرن میں نادر و کمیاب تھے اور پہلے تین قرنوں میں اہل خیر و برکت اور اہل علم و دانش کی کثرت تھی ، کوتاہ بینی ، ناسمجھی اور فتنہ و فساد کی راہ مسدود تھی اس لئے اکثر روایتوں میں تین ہی قرنوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے بطریق مرفوع منقول ہے کہ

خیرالناس القرن الذی انافیہ ثم الثانی ثم الثالث۔

(آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے اور پھر تیسرے زمانہ کے لوگ۔

طبرانی نے حضرت ابن مسعود سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ

خیرالناس قرنی ثم الثانی ثم الثالث ثم تجئی قوم لاخیر فیہم۔(طبرانی)

بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے لوگ پھر تیسرے زمانے کے لوگ اور پھر جو قوم آئے گی اس سے (پہلے زمانے جیسے) بہترین لوگ نہیں ہوں گے۔

جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو دیکھا ہو  یہ مسلم کی دوسری روایت کے الفاظ ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ  تابعی  ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے صحابہ کو دیکھا جیسا کہ  صحابی  ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی ہو لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ  صحابی  ہونے کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی ہو لیکن  تابعی ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی صحبت و ملازمت بھی نصیب ہوئی ہو جیسا کہ پہلی روایت میں شرف صحبت کا ذکر ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہاں  صحابہ کو دیکھا ہو سے مراد یہ ہے کہ وہ صحابہ کی صحبت میں رہا ہو۔

 

 

٭٭حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں فرماتے ہیں کہ صلوٰۃ وسطی (یعنی درمیانی نماز) ظہر کی نماز ہے۔ اس روایت کو امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صرف حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دونوں (یعنی حضرت زید و حضرت عائشہ) سے بطریق تعلیق یعنی بلا سند روایت کیا ہے۔

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلوٰۃ وسطی سے ظہر کی نماز اس لیے مراد لیتے تھے کہ یہ نماز دن کے درمیانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے۔

 

اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز سویرے (یعنی دن ڈھلتے ہی) پڑھ لیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام پر ان تمام نمازوں میں جو وہ پڑھتے تھے ظہر کی نماز سے زیادہ سخت کوئی نماز نہ تھی چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی) 2۔ البقرۃ:238) یعنی! تم سب نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی محافظت کرو۔ اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ظہر کی نماز سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور بعد بھی دو نمازیں ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جز سے راوی کا مقصد یہ ہے کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ لہٰذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ثابت کرنا کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے ان کا اپنا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس لیے ان کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سے متعارض نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو صراحت کے ساتھ فرما دیا ہے۔ کہ  درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کہا کرتے تھے کہ درمیانی نماز (سے مراد) صبح کی نماز ہے۔ (موطا امام مالک) اور یہ روایت حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق تعلیق نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

یہ بھی ان دونوں حضرات کا اپنا اجتہاد ہے کہ ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث نہ پہنچی ہو گی اس لیے انہوں نے بطریق احتمال کہا کہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے۔

بہر حال۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہی ہے یہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے مگر حضرت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو شافعی المسلک ہیں فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث منقول ہیں کہ درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے۔

گو حضرت ماوردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو شوافع کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ تصریح کر دی ہے کہ صبح کی نماز درمیانی نماز ہے۔ تاہم ان صحیح احادیث کو دیکھتے ہوئے جن سے بصراحت ثابت ہے کہ عصر کی نماز ہی درمیانی نماز ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شافعی مسلک میں بھی یہی ہو گا کیونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ  اگر تم ایسی حدیث پاؤ جس کے برخلاف میں نے حکم دے رکھا ہو تو میرا صحیح مسلک وہی سمجھنا جو صحیح حدیث سے ثابت اور میرا پہلا حکم دیوار پر پھینک مارنا۔

 

 

٭٭اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی صبح کی نماز کے لیے جاتا ہے وہ گویا وہ ایمان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے اور جو آدمی صبح بازار جاتا ہے تو گویا وہ شیطان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے۔  (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے لشکر اور شیطان کو بیان کرنے کے لیے تمثیل ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز پڑھنے کے لیے صبح سویرے مسجد کی طرف چلتا ہے تو گویا وہ ایمان کا جھنڈا اٹھا کر شیطان سے جنگ کرنے کے لیے چلتا ہے جس طرح غازی اور مجاہدین دشمناں اسلام سے برسر پیکار ہونے کے لیے اسلامی جھنڈا لے کر چلتے ہیں لہٰذا صبح سویرے فجر کی نماز کو جانے والا آدمی اللہ تعالیٰ کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے اور جو آدمی صبح سویرے حصول دنیا کے چکر میں بازار کی طرف چلتا ہے تو وہ شیطان کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے۔ بایں طور کہ وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نماز کو جانے کی بجائے شیطان کی خواہش پر عمل کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے دین کو کمزور کر کے شیطان کی پیروی اور تابعداری کا جھنڈا اٹھا کر اس کی شان و شوکت بڑھاتا ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ یہ تمثیل اس آدمی کے حق میں ہے جو فجر کی نماز اور وظائف پڑھے بغیر بازار جاتا ہے۔

ہاں اگر کوئی آدمی نماز و تلاوت اور وظائف سے فارغ ہو کر حلال رزق طلب کرنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے سامان حیثیت کی فراہمی کی خاطر بازار جاتا ہے تو وہ اس تمثیل کی رو سے شیطان کے لشکر کا فرد نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے لشکر کا فرد ہوتا ہے۔

 

 

               اذان کا بیان

 

لغت میں اذان کے معنی  خبر دینا ہیں اور اصطلاح شریعت میں  چند مخصوص الفاظ کے ساتھ اوقات مخصوصہ میں نماز کا وقت آنے کی خبر دینے کو اذان کہتے ہیں۔ اس تعریف سے وہ اذان خارج ہے جو نماز کے علاوہ دیگر امور کے لیے ہے مسنون کی گئی ہے جیسا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان کے کلمات اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جاتے ہیں اور اسی طرح اس آدمی کے کان میں اذان کہنا مستحب ہے جو کسی رنج میں مبتلا ہو یا اسے مرگی وغیرہ کا مرض ہو یا وہ غصے کی حالت میں ہو، یا جس کی عادتیں خراب ہو گئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور۔ چنانچہ حضرت دیلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ راوی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے غمگین دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی طالب: میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں لہٰذا تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کو حکم دو کہ وہ تمہارے کان میں اذان کہے جس سے تمہارا غم ختم ہو جائے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے تھے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد کے مطابق عمل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات صحیح ثابت ہوئی نیز اس روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہ تک نقل کرنے والے ہر راوی نے کہا ہے کہ ہم نے اس طریقے کو آزمایا تو مجرب ثابت ہوا۔ ایسے ہی حضرت دیلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  جس کی عادتیں خراب ہو گئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور تو اس کے کان میں اذان کہو۔

بہر حال۔ فرائض نماز کے لیے اذان کہنا سنت موکدہ ہے تاکہ لوگ نماز کے وقت مسجد میں جمع ہوئیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔ اذان کی مشروعیت کے سلسلے میں مشہور اور صحیح یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت کی ابتداء عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خواب ہے جس کی تفصیل آئندہ احادیث میں آئے گی۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اذان کا خواب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیکھا تھا۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ دس صحابہ کرام کو خواب میں اذان کے کلمات کی تعلیم دی گئی تھی بلکہ کچھ حضرات نے تو کہا ہے کہ خواب دیکھنے والے چودہ صحابہ کرام ہیں۔

بعض علماء محققین کا قول یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجتہاد کے نتیجے میں ہوئی ہے جس کی طرف شب معراج میں ایک فرشتے نے رہنمائی کی تھی چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج میں جب عرش پر پہنچے اور سدرۃ المنتہیٰ تک جو کبریائی حق جل مجدہ کا محل خاص ہے پہنچے تو وہاں سے ایک فرشتہ نکلا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تمام مخلوق سے زیادہ قریب ترین درگاہ عزت سے میں ہوں لیکن میں نے پیدائش سے لے کر آج تک اس وقت کے علاوہ اس فرشتہ کو کبھی نہیں دیکھا ہے چنانچہ اس فرشتہ نے کہا  اللہ اکبر اللہ اکبر یعنی اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے۔ پردے کے پیچھے سے آواز آئی کہ میرے بندہ نے سچ کہا انا اکبر انا اکبر (یعنی میں بہت بڑا ہوں میں بہت بڑا ہوں) اس کے بعد اس فرشتے نے اذان کے باقی کلمات ذکر کئے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذان کے کلمات صحابہ کرام کے خواب سے بھی بہت پہلے شب معراج میں سن چکے تھے۔ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں محقق فیصلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کے کلمات شب معراج میں سن تو لیے تھے لیکن ان کلمات کو نماز کے لیے اذان میں ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں بغیر اذان کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ تشریف لائے اور یہاں صحابہ کرام سے مشورہ کیا چنانچہ بعض صحابہ کرام نے خواب میں ان کلمات کو سنا اس کے بعد وحی بھی آ گئی کہ جو کلمات آسمان پر سنے گئے تھے اب وہ زمین پر اذان کے لیے مسنون کر دیے جائیں۔ وا اللہ اعلم۔

 

 

٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (اذان کی مشروعیت سے پہلے نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے سلسلے میں) آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ بعض لوگوں نے یہود و نصاریٰ کا ذکر کیا (کہ ان کی مشابہت ہو گی) پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اذان کے کلمات جفت کہیں (یعنی اذان کے شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہیں اور باقی کلمات سوائے آخری کلمہ (لاالہ الا اللہ) کے جو ایک مرتبہ کہا جاتا ہے وہ دو مرتبہ کہیں (اور تکبیر کے کلمات (سوائے اللہ اکبر کے) ایک ایک مرتبہ کہیں) شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (جو اس حدیث کے راوی اور امام بخاری و امام مسلم کے استاذ ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ایوب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے (جو اس حدیث کے راوی ہیں اور جنہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے) کیا تو انہوں نے فرمایا کہ لفظ قدقامت الصلوٰۃ دو مرتبہ کہنا چاہئے (یعنی تکبیر کے اول و آخر میں  اللہ اکبر کے علاوہ بقیہ کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں اور لفظ قد قامت الصلوٰۃ دو مرتبہ ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہئے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقات نماز کی اطلاع ہو جایا کرے تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہو جائیں اور جماعت سے نماز ہو سکے چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دی جایا کرے تاکہ اسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں بعض نے رائے دی ناقوس بجانا چاہئے تاکہ اس کی آواز سن کر لوگ مسجد میں حاضر ہو جائیں۔

چند صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان تجویزوں کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہ کرنے چاہئیں تاکہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم نہ آئے ، لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہئے۔

بات معقول تھی اس لیے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اپنے اپنے گھر آ گئے۔ ایک مخلص صحابی حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سلسلے میں بہت فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آتا تو بہت پریشان ہوئے ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی طرح جلد از جلد طے ہو جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فکر دور ہو جائے چنانچہ یہ اسی سوچ و بچار میں گھر آ کر سو گئے خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ شکل ان کے سامنے کھڑا ہو ا اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت میں بالکل سویا ہوا نہیں تھا بلکہ غنودگی کے عالم میں تھا اور بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر بدگمانی کا خوف نہ ہوتا تو میں کہتا کہ میں اس وقت سویا ہی نہیں تھا۔ اسی بناء پر بعض علماء کرام نے اس واقعہ کو حال اور کشف پر محمول کیا ہے جو ارباب باطن کو حالت بیداری میں ہوتا ہے۔

بہر حال حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کو اٹھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خواب سچ ہے اور فرمایا کہ بلال کو اپنے ہمراہ لو، تم انہیں وہ کلمات جو تمہیں خواب میں تعلیم فرمائے گئے ہیں بتاتے رہو وہ انہیں زور سے ادا کریں گے کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔

چنانچہ جب اس طرح دونوں نے اذان دی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں میں نے بھی خواب میں ایسے ہی کلمات سنے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات کو دس گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔

ناقوس نصاریٰ کے ہاں عبادت کے وقت کی خبر دینے کے سلسلے میں استعمال ہوتا تھا اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ وہ لوگ ایک بڑی لکڑی کو کسی چھوٹی لکڑی پر مارتے تھے اس سے جو آواز پیدا ہوتی تھی وہی عبادت کے وقت کا اعلان ہوتی تھی۔

یہودیوں کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت کے وقت سینگ بجایا کرتے تھے چنانچہ آگ جلانے کا ذکر صرف حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں دو فرقے ہوں گے ایک فرقہ تو سینگ بجاتا ہو گا اور دوسرا فرقہ آگ جلاتا ہو گا۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کے کلمات (شروع میں اللہ اکبر کے علاوہ) تو جفت ہیں اور اقامت کے کلمات طاق ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام و تابعین عظام میں سے اکثر اہل علم اور امام زہری، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام اسحاق اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے متبعین کے نزدیک اذان و تکبیر دونوں کے کلمات جفت ہیں ان کی دلیل آگے آئے گی۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کا اسم گرامی سمرہ بن معبر ہے اور ابومحذورہ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپ نے ہجرت نہ کی آپ مؤذن تھے اور مکہ ہی میں انتقال کیا ١٢۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے خود (بغیر واسطے کے) اذان سکھلائی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کہو! اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر فرمایا کہ دوبارہ کہو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بڑا ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اللہ اکبر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس چیز سے بہت بلند و بالا ہے کہ کوئی آدمی اس کی کبریائی و عظمت کی حقیقت کو پہچانے۔ یا اللہ تعالیٰ اس حیثیت سے بہت بڑا ہے کہ اس کی ذات پاک کی طرف ان چیزوں کی نسبت کی جائے جو اس کی عظمت و بزرگی کے مناسب نہیں ہیں، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ رب العزت تمام چیزوں سے بہت بڑا ہے۔

اذان و تکبیر میں اللہ اکبر کی حرف را ساکن ہوتی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ کلمہ اذان میں پہلی بار چار مرتبہ کہا جاتا ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔

اس کلمہ کو چار مرتبہ کہنے میں یہ لطیف نکتہ ہے کہ گویا یہ حکم چار دانگ عالم میں جاری و حاوی ہے اور عناصر اربعہ سے مرکب نفس انسانی کی خواہشات کے تزکیہ میں بہت موثر ہے۔

حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ تم ہر مکروہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ہر مراد کے ملنے کی طرف آؤ۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ فلاح کے معنی بقا کے ہیں یعنی اس چیز کی طرف دوڑو جو عذاب سے چھٹکارے کا باعث، ثواب ملنے کا سبب اور آخرت میں بقاء کاذریعہ ہے اور وہ چیز نماز ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اذان میں ترجیع یعنی شہادتین کو دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔ ترجیع کی شکل یہ ہوتی ہے کہ پہلے شہادتیں کو دو مرتبہ پست آواز سے کہا جاتا ہے پھر دو مرتبہ بلند آواز سے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے۔

علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ یہ تکرار حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم کے لیے تھا نہ کہ تشریع کے لیے۔ یعنی پہلی مرتبہ ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شہادتین کو پست آواز سے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ ان کلمات کو پھر ادا کرو اور بلند آواز سے ادا کرو چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابو محذورہ کی جو ایک دوسری روایت منقول ہے اس میں ترجیع نہیں ہے۔

نیز حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں بھی جو اذان کے باب میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے ترجیع نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو موذنوں کے سردار ہیں، نہ ان کی اذان میں اور نہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد نبوی میں اذان کہتے تھے اور نہ ہی حضرت سعد قرط رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد قبا کے موذن تھے ترجیع منقول ہے۔ پھر یہ کہ اس سلسلے میں حضرت ابی محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ تکرار شہادتین کی تعلیم کے لیے تھا۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ علنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اذان کے کلمات دو دو دفعہ اور تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ (کہے جاتے) تھے البتہ (تکبیر میں) قد قامت الصلوٰۃ بے شک نماز تیار ہے مؤذن دو مرتبہ کہتا تھا۔  (ابوداؤد ، سنن نسائی ، دارمی)

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانے میں اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہتے تھے اور آخر میں لاالہ الا اللہ ایک مرتبہ کہتے تھے ان دونوں کلمات کے علاوہ باقی کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے۔

اقامت میں جس طرح قد قامت الصلوٰۃ کا استثناء کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر یعنی اللہ اکبر کو بھی مستثنی کرنا مناسب تھا کیونکہ تکبیر بھی بلا اختلاف اول و آخر میں مکرر ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات اور تکبیر کے سترہ کلمات سکھلائے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی ، سنن ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

حنفی مسلک میں اذان کے پندرہ کلمات ہیں مگر اس حدیث میں انیس ذکر کئے گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کلمات ترجیع سمیت ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے اور حدیث نمبر دو کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک ترجیع تعلیم پر محمول ہے وہ مشروع نہیں ہے۔

تکبیر کے سترہ کلمات بتائے گئے ہیں بایں طور کہ ترجیع کے چار کلمات الگ کر کے اور دو کلمات قد قامت الصلوٰۃ کے بڑھا کر تکبیر کے کلمات سترہ ہوئے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے لہٰذا یہ حدیث اذان کے بارہ میں تو شوافع کے مسلک کی تائید کرتی ہے کہ ان کے ہاں اذان کے کلمات انیس ہوتے ہیں۔ اور تکبیر کے بارے میں حنفیہ کے مسلک کے موافق ہے کہ ان کے یہاں تکبیر کے کلمات سترہ ہوتے ہیں چنانچہ تکبیر کے کلمات کی تعیین میں حنفیہ کی جانب سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔

اس سے پہلے والی حدیث میں جس میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق تکبیر کے کلمات کی تعداد گیارہ ثابت ہوتی ہے اگر صحیح ہے تو اس حدیث سے منسوخ ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئے ! راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور پھر فرمایا کہ کہو اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ان کے ساتھ آواز بلند کرو، اور پھر کہو، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اشھد ان محمد ارسول اللہ، اشھد ان محمد ارسول اللہ۔ انہیں آہستہ سے کہہ کر پھر بلند آواز سے شہادت کے کلمات کہو ا شھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اشھد ان محمد ارسول اللہ، اشھد ان محمدارسول اللہ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلوٰ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح۔ اگر صبح نماز کے لیے اذان کہنا چاہو تو (اس کے بعد یہ کلمات کہو الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰۃ خیر من النوم۔ (یعنی نماز نیند سے بہتر ہے ، نماز نیند سے بہتر ہے ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

فمسح مقدم راسہ  کے معنی یا تو وہی میں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا تاکہ اس کی برکت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دماغ کو پہنچے اور وہ دین کی باتوں کو یاد رکھ سکیں، چنانچہ ایک صحیح نسخہ میں یہ الفاظ اس طرح ہیں، فَمَسَحَ راسی یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا، لہٰذا یہ الفاظ اس معنی کی تائید کرتے ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اتفاقی طور پر اپنا دست مبارک خود اپنے سر اقدس پر پھیرا ہو گا۔ راوی نے پورا واقعہ نقل کرنے کی غرض سے اس کا تذکرہ بھی کر دیا۔

بہر حال اس پہلے ترجمہ کی جو توجیہ کی گئی تھی کہ جن احادیث میں اذان میں شہادتین کا تکرار ذکر کیا گیا تو یہ تو تعلیم پر محمول ہے تو وہ توجیہ بظاہر اس حدیث کے منافی ہے لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس سلسلے میں ہم نے ان کثیر روایتوں کو ترجیح دی ہے جن میں ترجیع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے نیز حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس سے ترجیع ثابت ہے وہ پہلے کی ہے اور وہ احادیث جن میں ترجیع مذکور نہیں ہے بعد کی ہیں اس لیے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ان روایتوں سے منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔

الصلوٰۃ خیر من النوم کا مطلب یہ ہے۔ ارباب ذوق شوق اور عشق خداوندی سے سرشار لوگوں کے نزدیک نماز کی لذت نیند کی لذت سے بدرجہا بہتر ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ فجر کی نماز کے علاوہ اور کسی نماز میں تثویب نہ کرو۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ،) اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (اس حدیث کے راوی) ابواسرائیل محدثین کے نزدیک قوی (یعنی قابل اعتبار) نہیں ہیں۔

 

 

تشریح

 

تثویب وہ اعلام ہوتا ہے جس سے پہلے کوئی اعلام ہو چکا ہو اور اس کی غرض اور اس سے پہلے کے اعلام کی غرض ایک ہو۔ مثلاً پہلے اعلام سے لوگوں کو نماز کے لیے بلانا مقصود ہو تو اس اعلام سے بھی یہی مقصود ہو۔ تثویب کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا، یہ تثویب اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ تو حی علی الصلوٰۃ کہہ کر لوگوں کو نماز کے لیے بلایا گیا پھر دوبارہ الصلوٰۃ خیر من النوم سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ یہ تثویب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں رائج تھی اور مسنون یہی ہے پھر اس کے بعد کوفہ کے علماء نے اذان و تکبیر کے درمیانی وقفے میں حی علی الفلاح کہنا رائج کیا، اس کے بعد ہر فرقہ و طبقہ کے لوگوں نے اپنے اپنے عرف کے مطابق کچھ نہ کچھ طریقہ تثویب کے طور پر رائج کیا مگر یہ تمام تثویبیں فجر کی نماز ہی کے لیے رائج کی گئیں، کیونکہ فجر کا وقت نیند اور غفلت کا وقت ہو تا ہے۔

پھر آخر میں متاخرین علماء نے تمام نمازوں کے لیے تثویب رائج کی اور اسے بنظر استحسان دیکھا حالانکہ متقدمین کے نزدیک یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ احداث ہے اور بدعت ہے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے بھی اس کا انکار بایں طور منقول ہے کہ ایک آدمی تثویب کہتا تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ اخر جوا ھذا المبتدع من المسجد  یعنی اس بدعتی آدمی کو مسجد سے نکال باہر کرو!۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب کہ وہ مسجد میں موجود تھے موذن کو غیر فجر میں تثویب کرتے ہوئے سنا تو مسجد سے باہر نکل آئے اور دوسروں سے بھی کہا کہ اس آدمی کے سامنے نہ رہو، باہر نکل آؤ کیونکہ یہ بدعتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہا کرو اور جب تکبیر کہو تو جلدی جلدی کہا کرو اور اذان و تکبیر کے درمیان اتنا وقفہ کیا کرو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے ، پینے والا پینے سے ، قضائے حاجت والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور اس وقت تک نماز کے لیے کھڑے نہ ہو جب تک مجھے (نماز پڑھانے کے لیے آتا ہوا) نہ دیکھ لو۔ اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حدیث کو سوائے عبدالمنعم کے اور کسی سے نہیں جانتے اور اس کی سند مجہول ہے۔

 

تشریح

 

اذان کو ٹھہر ٹھہر کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کلمات کو ایک دوسرے سے جدا جدا کر کے اور خفیف سے سکتہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں اتنی ڈھیل کرو کہ کلمات بغیر کھینچے ہوئے تاکہ حد سے تجاوز نہ ہو واضح واضح کہہ سکو۔ اسی وجہ سے مؤذنوں کے لیے تاکید ہے کہ وہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں احتیاط سے کام لیں اور قواعد کے مطابق اذان کہیں تاکہ غلطیوں کا ارتکاب نہ ہو سکے کیونکہ بعض غلطیاں ایسی ہیں کہ ان کو قصداً کرنے والا کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے جیسے اشھد کے الف کو مد کے ساتھ ادا کرنا کہ یہ استفہام ہو جاتا ہے اور جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ کیا میں گواہی دوں الخ؟ یا اللہ اکبر میں حرف با کو مد کے ساتھ کھیچ کر (اکبار) پڑھنا کہ یہ لفظ کبر کی جمع ہو جاتی ہے جس کے معنی اس طبلے کے آتے ہیں جس کا ایک منہ ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں ہوتا ہے یا اسی طرح لفظ الہ پر وقف کرنا اور اللہ سے ابتداء کرنا۔

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب موذن تکبیر کے لیے کھڑا ہو تو مجھے مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لو تو نماز کے لیے کھڑے نہ ہو، کیونکہ امام کی آمد سے پہلے ہی کھڑے ہو جانا خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھانے کے لیے اپنے حجرہ مبارک سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب کہ موذن تکبیر شروع کر دیتا ہو گا اور جب موذن تکبیر کہتا ہوا حی علی الصلوٰۃ پر پہنچتا ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت محراب میں داخل ہوتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نے کہا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کر دے اور حی علی الصلوٰۃ پر پہنچتے تو امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہو جانا چاہئے اور جب موذن قد قامت الصلوٰہ پر پہنچے تو نماز شروع کر دینی چاہئے۔

 

 

٭٭حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فجر کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے اذان کہی، پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ صدائی کے بھائی نے اذان کہی تھی اور جو اذان کہے اسی کو تکبیر بھی کہنی چاہئے۔  (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اخاء صداء یعنی صدائی کے بھائی سے مراد زیاد ابن حارث صدائی ہیں، عرب میں قاعدہ تھا جو آدمی جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسے اس قبیلہ کا بھائی کہا جاتا ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس حدیث کے مطابق غیر موذن کو تکبیر کہنا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ اکثر و بیشتر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کہتے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر کہتے تھے۔ امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر غیر موذن تکبیر کہنا چاہئے تو موذن سے اجازت لے لے۔ اگر موذن کو کسی دوسرے کی تکبیر کہنا ناگوار ہو تو پھر غیر موذن کو تکبیر کہنا مناسب نہیں ہے۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان مدینہ میں آ کر جمع ہو گئے تو نماز کے لیے وقت اور اندازہ معین کرنے لگے (کیونکہ) کوئی آدمی نماز کے لیے بلانے والا نہ تھا (ایک روز) جب اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے (یہ تمام تجاویز سن کر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کر دیا جائے جو نماز کے لیے (لوگوں کو) بلا لیا کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! کھڑے ہو کر نماز کے لیے منادی دیا کرو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منادی کرنے کا جو حکم دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر الصلوٰۃ جامعۃ کہہ دیا کرو۔ یہ آواز سن کر لوگ نماز کے لیے حاضر ہو جایا کریں گے۔ لہٰذا  منادی سے مراد نماز کے لیے محض اعلان کرنا ہے نہ کہ اس سے شرعی منادی یعنی اذان مراد ہے۔ اس توجیہ سے پہلی احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ پہلے ایک مجلس میں اس طرح اعلان کرنے کی تجویز پاس ہوئی پھر بعد میں جب دوسری مجلس میں اس پر بحث و مباحثہ ہوا تو حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کا خواب دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو وحی آ جانے کے بعد یا اپنے اجتہاد سے کام لے کر حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے مطابق اذان مشروع فرمائی۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا تاکہ نماز کی جماعت میں لوگوں کے حاضر ہونے کے لیے اسے بجایا جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے (جاتا) ہے میں نے اس آدمی سے کہا کہ بندہ خدا! کیا تم یہ ناقوس بیچو گے؟اس آدمی نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز (کی جماعت) کے لئے بلایا کریں گے۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا کہ ہاں ضرور بتاؤ! اس آدمی نے کہا کہ کہو اللہ اکبر تک اس نے اذان بتا کر پھر اسی طرح اقامت بھی بتائی، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (خواب سن کر) فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ خواب سچا ہے ، اب تم بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو کر جو کچھ خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائے جاؤ اور وہ اذان کہیں کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چنانچہ میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں سکھلاتا گیا اور وہ اذان دیتے رہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ ، حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے مکان میں اذان کی آواز سنی تو (جلدی کی بنا پر) اپنی چادر کھینچتے ہوئے مکان سے باہر نکلے اور یہ کہتے ہوئے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں) حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ الحمد اللہ (یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں) یہ حدیث ابوداؤد ، دارمی، اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے مگر ابن ماجہ نے تکبیر کا ذکر نہیں کیا اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن انہوں نے ناقوس کے قصے کی تصریح نہیں کی۔

 

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزء کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بجانے کا حکم دے دیا تھا۔ بلکہ یہاں  حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کیا اور کوئی مناسب تجویز ذہن میں نہیں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بجانے کا حکم دینے کا ارادہ فرمایا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ابن زید کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب کے ذریعے اس کی نوبت نہ آنے دی۔

یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی موید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر اور اذان کے کلمات میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح اذان کے کلمات کو سوائے شروع میں اللہ اکبر اور آخر میں لا الہ الا اللہ کے دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے اسی طرح تکبیر کے کلمات کو بھی دو مرتبہ کہا جاتا ہے البتہ تکبیر میں صرف قد قامت الصلوٰۃ کا اضافہ ہے جو اذان میں نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تصدیق فرمائی کہ یہ  خواب سچا ہے اب اس تصدیق کا تعلق یا تو وحی سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس خواب کے سچا ہونے کی خبر دے دی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسے حق کہا یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجتہاد کی بناء پر اس خواب کو سچا مانا۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا  انشاء اللہ  کہنا برکت اور اظہار طمانیت کے طور پر تھا۔ نہ کہ شک کے لیے۔ اذان کی آواز سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو یہ کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب انہیں معلوم ہو گیا ہو کہ یہ اذان حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے نتیجے میں کہی گئی ہے یا پھر انہیں اس خواب کا علم مکاشفہ کے ذریعے ہو گیا ہو گا۔ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ موذن کا بلند آواز اور خوش گلو ہونا مستحب ہے۔

آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ اذان کی مشروعیت ٢ھ میں ہوئی ہے مگر کچھ علماء کی تحقیق یہ ہے کہ اذان ہجرت کے پہلے سال مشروع ہوئی ہے۔

 

٭٭  اور حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ صبح کی نماز کے لیے نکلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس آدمی کے پاس سے گزرتے تھے نماز کے لیے یا تو اسے آواز دیتے تھے یا اس کے پاؤں کو حرکت دے دیتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی نماز کے وقت سو رہا ہو تو اس کو نماز کے لیے جگانا جائز ہے خواہ آواز دے کر جگایا جائے خواہ اس کا پاؤں وغیرہ ہلا کر۔

 

٭٭  اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ موذن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر صبح کی نماز کے لیے انہیں خبردار کر دیتا تھا چنانچہ (ایک دن) مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا پایا تو کہا (الصلوٰۃ خیر من النوم۔ نماز نیند سے بہتر ہے) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موذن کو حکم دیا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے۔ (موطا)

 

تشریح

 

بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کے کلمہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اضافہ کیا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ فجر کی اذان میں یہ کلمہ کہنا تو شروع ہی سے مسنون تھا۔ اب اس حدیث کی توجیہات کی گئی ہیں لیکن زیادہ مناسب اور بہترین توجیہ یہ ہے کہ جب مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا دیکھ کر یہ کلمہ کہا تو انہیں ناگوار ہوا اور فرمایا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے یعنی یہ کلمہ فجر کی اذان ہی میں کہنا سنت ہے اسی موقع پر تمہیں یہ کلمہ کہنا چاہئے اذان کے سوا سوتے ہوئے کو جگانے کے لیے یہ کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔

 

٭٭  اور حضرت عبدالرحمن بن سعد بن عمار بن سعد موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد سعد نے اور انہوں نے اپنے والد عمار سے اور انہوں نے سعد کے دادا سے جن کا نام بھی سعد تھا سنا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ (اذان کہتے وقت) اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں کیونکہ اس سے آواز زیادہ بلند ہو جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مسجد قبا میں موذن تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک یہ اس مسجد میں اذان کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں اذان کہنا چھوڑ کر شام چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں مسجد قبا سے بلا کر مسجد نبوی میں اذان کہنے کی خدمت پر مامور فرمایا اور یہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس با سعادت خدمت کو انجام دیتے رہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عمار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی مقبول ہیں اور ان کے بیٹے یعنی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے کا نام بھی سعد ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن مسطور ہیں اس طرح عمار کے والد حضرت سعد ان کے لڑکے سعد کے دادا ہوئے۔

چنانچہ یہ حدیث حضرت عبدالرحمن نے اپنے دادا حضرت سعد سے نقل کی ہے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمار سے نقل کی ہے جو تابعی ہیں اور انہوں نے اپنے والد مکرم حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے جو صحابیت کی سعادت سے مشرف ہیں۔ ابیہ اور جدہ دونوں کی ضمیریں لفظ ابی کی طرف راجع ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں اس لیے دی جاتی ہیں تاکہ آواز زیادہ سے زیادہ بلند ہو سکے اور اس میں شاید یہ حکمت ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھ لینے سے بلند آواز ہی موذن کے کان میں آئے گی اس لیے وہ اس کی کوشش کرے گا کہ جہاں تک ہو سکے۔ پورے زور سے چلا کر اذان کہے۔

 

 

٭٭اذان اللہ تعالیٰ کے اذکار میں ایک بہت بڑے رتبے کا ذکر ہے اس میں توحید اور رسالت کی شہادت اعلان کے ساتھ ہوتی ہے اس سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت زیادہ ہے چنانچہ اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ اذان دینا درحقیقت برکت و سعادت سے اپنا دامن بھرنا ہے۔

اب اس میں کلام ہے کہ آیا اذان کہنا زیادہ افضل ہے یا امامت کہنا؟ چنانچہ مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ یقین ہو کہ وہ امامت کے پورے حقوق بجا لائے گا تو اس کے لیے امامت کرنا افضل ہو گا ورنہ بصورت دیگر اس کے لیے اذان کہنا ہی افضل ہو گا۔

علماء کا اس معاملے میں اختلاف ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اذان کہی ہے یا نہیں؟ گو ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کہی ہے مگر بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دے کر اذان کہلائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے جیسے کہ محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ نے قلعہ بنایا ہے حالانکہ بادشاہ خود اپنے ہاتھ سے قلعہ نہیں بناتا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے حکم دے کر قلعہ بنوایا ہے۔ دار قطنی کی ایک روایت میں اس کی تصریح بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کہنے کا حکم کیا تھا (نہ کہ خود اذان دی تھی) وا اللہ اعلم۔

اذان کا جواب دینا واجب ہے اگر کئی آدمی مل کر اذان دیں تو اس شکل میں حرمت اول کے لیے ہو گی یعنی اس کا جواب دینا چاہئے اور اگر کوئی آدمی کئی طرف سے یعنی مختلف محلوں کی مساجد سے اذان سنے تو صرف اپنی مسجد کے مؤذن کا جواب دینا واجب ہو گا اور اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کے لیے اذان کا جواب واجب نہیں ہے کیونکہ اس شکل میں تو اسے اجابت فعلی حاصل ہی ہے۔ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن پڑھنے والا آدمی اذان کا جواب دے یا نہ دے !چنانچہ اس سلسلے میں مختار قول یہ ہے کہ وہ اذان کا جواب نہ دے۔

 

 

٭٭اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے روز لوگوں میں سے زیادہ اونچی گردنوں والے مؤذن ہوں گے۔

 

تشریح

 

اونچی گردن کے معنی کے تعین میں مختلف اقوال ہیں چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ دنیا میں اذان دیتے تھے وہ قیامت کے روز بہت زیادہ ثواب والے اور مرتبے والے ہوں گے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ موذن قیامت کے روز سردار ہوں گے۔ کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں قیامت کے روز موذن بہت زیادہ ثواب کے امیدوار ہوں گے کیونکہ جو آدمی کسی چیز کے حصول کی امید رکھتا ہے وہ گردن اونچی کر کے اس چیز کو دیکھتا ہے ، اسی طرح میدان حشر میں جب کہ تمام لوگ حساب و کتاب کی بناء پر رنج و فکر میں ہوں گے۔ مؤذن آرام و راحت کے ساتھ اس بات کے منتظر ہوں گے کہ اب جنت میں داخلے کا حکم کیا جائے گا۔ بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ قیامت کے روز مؤذنوں کو باری تعالیٰ رب العزت کی بارگاہ میں مقام قرب و عزت حاصل ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے ، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آتا ہے اور جس وقت تکبیر ہوتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے تاکہ انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرے چنانچہ (نمازی سے) کہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں بات یاد کرو (اس طرح نماز شروع کرنے سے پہلے مال و اولاد، حساب و کتاب اور خرید و فروخت کے سلسلے میں) جو باتیں نمازی کو یاد نہیں ہوتیں وہ یاد دلاتا ہے ، یہاں تک کہ آدمی (یعنی نمازی کو) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بعض فرماتے ہیں کہ شیطان کا گوز مارنا حقیقۃً ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی جسم رکھتا ہے اس لیے ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے چنانچہ جس طرح گدھے پر جب وزن رکھ دیا جاتا ہے تو وہ بوجھ کی زیادتی کی وجہ سے گوز مارتا ہے اسی طرح شیطان پر بھی اذان بہت بھاری ہوتی ہے اور وہ گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جب اذان شروع ہوتی ہے تو شیطان ایک آواز نکالتا ہے جو کان میں بھر جاتی ہے اور اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اذان نہ سن سکے۔ اس آواز کو اس کی برائی و خرابی بیان کرنے کے لیے یہاں گوز مارنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نمازی اور اس کے دل کے درمیان وساوس و خطرات حائل کر دیتا ہے اور اس کے دل کو دنیا کی باتوں کی طرف لگا دیتا ہے تاکہ نماز میں حضوری قلب کی دولت میسر نہ آ سکے۔

اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ شیطان قرأت قرآن اور عظمت سے تو بھاگتا نہیں مگر اذان سے بھاگتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اذان کے کلمات میں ایسی ہیبت اور عظمت رکھ دی ہے جو شیطان کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن اور یا جو بھی چیز وہ سب قیامت کے دن مؤذن (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

مدی کے معنی انتہا یعنی اخیر ہیں۔ آواز کی انتہا یہ ہے کہ اس کی بھنک میں آ جائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ آواز دینے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں اگرچہ یہی معنی کافی تھا کہ  موذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے الخ لیکن مدی بمعنی انتہاء کو ذکر کر کے اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ جن کے کان میں اذان کی محض بھنک پڑ جائے گی جب وہ موذن کے ایمان کی گواہی دیں گے تو وہ لوگ تو بطریقی اولیٰ گواہ ہوں گے جو موذن کے قریب ہوں گے اور اذان کو قریب سے سنیں گے۔

علماء لکھتے ہیں کہ درحقیقت اس حدیث سے موذن کو ترغیب دلانی مقصود ہے کہ اذان نہایت بلند آواز سے کہا کریں تاکہ ان کے ایمان کی گواہی دینے والے زیادہ سے زیادہ ہوں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم موذن کی آواز سنو تو (اس کے جواب میں) اس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے بدلے میں اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لیے (اللہ سے) وسیلے کی دعا کرو۔ وسیلہ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھ کو امید ہے کہ وہ بندہ خاص میں ہوں گا لہٰذا جو آدمی میرے لیے وسیلے کی دعا کرے گا (قیامت کے روز) اس کی سفارش کرنا مجھ پر ضروری ہو جائے گی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی مؤذن کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ البتہ چند کلمات ایسے ہیں جن کو بعینہ دہرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کے جواب میں دوسرے کلمات کہنے چاہیں جس کی تفصیل آئندہ حدیث میں آ رہی ہے چنانچہ فجر کی اذان میں جب موذن الصلوٰۃ خیر من النوم کہے تو اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ َو بِالْحَقِّ نَطَقْتَ (یعنی تم نے سچ کہا ہے اور خیر کثیر کے مالک ہوئے اور تم نے سچ بات کہی) کہنا چاہئے۔

وسیلہ اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مطلوبہ چیز کو خاص کیا جائے اور اس کے سبب سے مطلوبہ چیز کا قرب حاصل ہو چنانچہ جنت کے ایک خاص اور اعلیٰ درجے کا نام وسیلہ اسی لیے ہے کہ جو آدمی اس میں داخل ہوتا ہے اسے باری تعالیٰ عزاسمہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اس کے دیدار کی سعادت میسر آتی ہے نیز جو فضیلت اور بزرگی اس درجے والے کو ملتی ہے وہ دوسرے درجے والوں کو نہیں ملتی۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارجو (یعنی مجھ کو امید ہے) فرمانا عاجزی اور انکساری کے طور پر ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمام مخلوق سے افضل و بہتر ہیں تو یہ درجہ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے لیے ہے۔ کوئی دوسرا اس درجے کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا اس لفظ کی تاویل یہ کی جائے گی کہ یہ یقین سے کنایہ ہے یعنی مجھے یہ یقین ہے کہ یہ درجہ مجھے ہی حاصل ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اللہ اکبر اللہ اکبر کہے ، پھر جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان لا الہ الاا اللہ کہے ، پھر جب اشھد ان محمد رسول اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان محمد ارسول اللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاھول ولاقوۃ الا باللہ کہے ، پھر جب مؤذن اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے تو تم میں سے ہر آدمی کہے اللہ اکبر، اللہ اکبر پھر جب مؤذن کہے لا الہ لا اللہ تو تم بھی کہو لا الہ لا اللہ جس نے (اذان کے جواب میں یہ کلمات) صدق دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں اللہ اکبر اختصار کی وجہ سے دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ سمجھانے کے لیے دو ہی مرتبہ کہنا کافی تھا اس لیے شہادتین یعنی اشھدان لا الہ الاا اللہ اور اشھد ان محمد  ا رسول اللہ کو بھی صرف ایک ایک مرتبہ ہی ذکر کیا گیا ہے۔

لا حول ولاقوۃ الا باللہ کے معنی یہ ہیں، برائی سے بچنے اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ، جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ ، حی علی الفلاح کہتا ہے تو وہ لوگوں کو نماز کے لیے بلاتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواب میں یہ کلمہ کہنے والا گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک امر عظیم اور زبردست فرض کی ادائیگی کا معاملہ ہے میں ایک عاجز و کمزور بندہ ہوں۔ میری قوت و طاقت کی کیا مجال کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کی متحمل ہو سکوں۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہی ہوتی ہے جو ہم اس امر عظیم کو پورا کرتے ہیں اور چونکہ نماز کے لیے آنے کی طاقت اور قوت اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوتی لہٰذا اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا ہے تو ہم نماز کے لیے آتے ہیں۔

امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مؤذن جب اذان کہتا ہے تو اس کے کہے ہوئے کلمات کو اسی طرح دہرانا یعنی اس کا جواب دینا مستحب ہے البتہ حیعلتین یعنی حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول و لاقوۃ الا باللہ پڑھنا چاہئے۔ بعض مقامات پر کچھ حضرات حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں ما شاء اللہ کان ولم یشاء لم یکن فرماتے ہیں یہ غلط اور مسنون طریقے کے خلاف ہے۔

اذان کا جواب ہر سننے والے کو دینا چاہئے خواہ با وضو ہو یا بے وضو اور خواہ جنبی ہو یا حائض، بشرطیکہ جواب دینے میں کوئی چیز مانع نہ ہو مثلاً کوئی بیت الخلا میں ہو یا جماع کرتا ہوا، یا نماز پڑھ رہا ہو یا ایسے ہی کوئی دوسرا مانع ہو تو وہ اس وقت جواب نہ دے لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد اذان کے کلمات جواب میں کہے۔

صدق دل سے کہے کا تعلق یا تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ سے ہے کہ یہ کلمہ صدق دل سے کہا جائے یا پھر اس کا تعلق پوری اذان کے کلمات سے ہے کہ جواب میں تمام کلمات پورے خلوص اور صدق دل کے ساتھ کہے جائیں اور ظاہری طور پر بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پوری اذان سے ہے۔

جنت میں تو تمام مسلمان ہی داخل ہوں گے چا ہے وہ کسی عذاب کے بغیر داخل ہوں یا عذاب کے بعد داخل ہوں۔ لہٰذا یہاں جنت میں داخل ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسا آدمی جو اذان کا جواب صدق دل سے دیتا ہے یعنی زبان سے تو ان کلمات کو ادا کرتا ہے اور دل میں ان کلمات کی صداقت کا پورا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے اذان سن کر (یعنی اذان ختم ہونے اور اس کا جواب دینے کے بعد) یہ دعا پڑھی تو قیامت کے روز مجھ پر اس کی شفاعت لازم ہو گی۔ دعا یہ ہے : اَللَّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابَعَثْہُ مَقَاماً مَّحْمُوْدَ نِ الَّذِیْ وَعَدْتَہُ  اے اللہ ! مالک اس کامل دعا (اذان) کے اور پروردگار اس نماز قائمہ کے ہمارے سرادر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وسیلہ (جنت کا سب سے خاص و اعلیٰ درجہ) اور بزرگی عنایت فرما اور پہنچا ان کو مقام محمود پر جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

اس دعاء میں اذان کو  دعا  سے تعبیر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان لوگوں کو نماز اور اللہ کے ذکر کی طرف بلاتی ہے۔ نماز کو قائمہ اس لیے کہا گیا ہے کہ نماز ہمیشہ قیامت تک قائم و برقرار رہے گی۔ اس دعاء میں والفضیلۃ کے بعد والدرجۃ الرفیعۃ کے الفاظ بھی پڑھے جاتے ہیں مگر یہ کسی روایت میں مذکور نہیں ہیں۔

مقام محمود شفاعت عظمی کا مقام ہے اور یہ وہ مقام ہو گا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز عاصیوں کے لیے شفاعت کرنے کے لیے کھڑے ہوں گے۔

میدان حشر میں جب ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہو گا اللہ کی مخلوق حساب و کتاب کی پریشانیوں میں مبتلا ہو گی اور تمام لوگ وہاں کی سختیوں کی بناء پر حیران و سرگرداں ہوں گے تو یکے بعد دیگرے تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کے پاس شفاعت کے لیے جائیں گے مگر وہ سب ہیبت و دہشت کی بنا پر شفاعت کی جرات نہ کر سکیں گے اور کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں، وہی اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے حقدار ہیں۔ چنانچہ تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو کر لوگوں کی شفاعت کریں گے۔ اس وقت ہر آدمی کی زبان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف ہو گی اور حق تعالیٰ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کریں گے گویا شان محمدیت کا پورا پورا ظہور ہو گا۔ اور تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس عظمت و برتری کو رشک کی نگاہوں سے دیکھے گی۔

وعدتہ (جس کا تو نے وعدہ کیا ہے) اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔

آیت (عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً) 17۔ الاسراء:79)

امید ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا پروردگار آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔

خداوند کریم عنقریب آپ کو شافع محشر بنا کر مقام محمود پر کھڑا کرنے والا ہے۔ اور یہ وہ عزت و کرامت ہے جو بنی آدم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں اس لیے کہ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی پر عبادت اور شب کا سوز و گداز بھی فرض ہوا ہے۔

دلا بسوز کہ سوزے تو کارہا بکند

دعائے نیم شبی دفع صد بلا بکند

بیہقی کی روایت میں اس دعاء میں وَعَدْتہ کے بعد اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ (یعنی بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا) بھی مذکور ہے۔ بعض لوگ اس کے آگے یاارحم الرٰحمین بھی پڑھتے ہیں حالانکہ احادیث میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم (جب لشکر لے کر کسی جگہ جاتے تو) فجر ہو جانے پر (دشمن کے اوپر) حملہ کیا کرتے تھے اور فجر ہو جانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے (اس آبادی میں سے جس کا حملہ کر دیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دشمن پر حملہ کے لیے جا رہے تھے تو ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو اللہ اکبر، اللہ اکبر کہتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، یہ آدمی اسلام کے (طریقہ) پر ہے (کیونکہ اذان تو مسلمان ہی کہتا ہے) پھر اس آدمی نے کہ اشھدان لا الہ الا اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ تم شرک سے باز آ جانے کی وجہ سے دوزخ سے نکل گئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے (چاروں طرف دیکھ کر معلوم کرنا چاہا کہ اذان دینے والا کون ہے تو) دیکھا کہ وہ تو بکریاں چرانے والا ایک آدمی ہے)۔

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تو اس بات کا خیال رکھتے کہ صبح کا وقت ہو، تاکہ اس بات کا اچھی طرح پتہ چل جائے کہ جس آبادی پر حملہ کیا جائے گا اس میں مسلمان ہیں یا کافر ہی کافر رہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فجر ہو جانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے چنانچہ جس آبادی پر حملہ مقصود ہوتا اس میں سے اگر اذان کی آواز آ جاتی تو یہ جان کر کہ اس آبادی میں مسلمان ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم حملے سے باز رہتے تھے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آبادی پر حملہ کر دیتے تھے۔ اذان کا انتظار آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے کرتے تھے کہ مبادا اس آبادی میں مسلمان ہوں اور ان جانے میں وہ اسلامی لشکر کی زد میں آ جائیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذان کے ہونے اور نہ ہونے کو ایمان اور کفر کی علامت سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے روایت فقیہہ میں آتا ہے کہ جو لوگ اذان کو ترک کر دیں گے تو باوجودیکہ اذان سنت ہے ایسے لوگ مستحق قتال ہوں گے کیونکہ اذان اسلامی شعار میں سے ہے۔

 

 

 

٭٭  اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، جو آدمی مؤذن (کی اذان) کو سن کر یہ کہے کہ، اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ وَحْدَہُ لَا شَرَیْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ رَضِیْتُ بِاﷲ رَبّاً وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً وَ بِا لَّاسْلَامِ دِیْناً میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

اس میں اختیار ہے کہ ان کلمات کو یا تو اس وقت پڑھا جائے جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے یا اذان ختم ہو جانے کے بعد پڑھے۔ مناسب تو یہی ہے کہ اذان ختم ہونے کے بعد یہ کلمات پڑھے جائیں تاکہ اذان کے دوسرے کلمات کے جواب ترک نہ ہوں۔ اور ظاہر تو یہ ہے کہ مذکورہ ثواب اسی وقت ملے گا جبکہ اذان کے کلمات کا جواب دے کر بعد میں ان کلمات کو پڑھا گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے اور پھر تیسری دفعہ میں یہ فرمایا کہ (یہ نماز) اس آدمی کے لیے ہے جو پڑھنا چاہئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

دو اذانوں سے مراد اذان و تکبیر ہیں یعنی اذان اور تکبیر کے درمیان نماز پڑھنی فلاح و سعادت کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان و تکبیر کے درمیان نوافل پڑھنے کی رغبت دلانے کے لیے یہ جملہ مکرر سہ مکرر فرمایا کیونکہ اذان و تکبیر کے درمیان کا وقت بہت زیادہ با برکت اور فضیلت کا حامل ہوتا ہے اس لیے اس وقت نماز پڑھ کر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ بارگاہ احدیت سے رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ قبولیت کا درجہ پاتی ہے اور پھر یہ کہ بابر کت اور با فضیلت وقت میں عبادت کا ثواب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حاصل یہ کہ اذان و تکبیر کے درمیان میں نماز پڑھنی سنت ہے مگر آپ نے لمن شاء فرما کر اس طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مغرب میں اذان و تکبیر کے درمیان نفل پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت بریرہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مغرب کے علاوہ (بقیہ اوقات میں) دونوں اذانوں (یعنی اذان و تکبیر) کے درمیان دو دو رکعتیں (نماز) ہیں۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا فرمائی) اے اللہ ! اماموں کی ہدایت دے (یعنی ان کو نیک علم، صالح علم اور صلاح و تقویٰ کی توفیق دے) اور مؤذنوں (سے اگر اذان کہنے میں کمی و زیادتی ہو جائے تو ان) کو بخش دے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی) اور امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوسری روایت مصابیح کے ہم لفظ نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

ضامن کا مطلب یہ ہے کہ امام دوسروں کی نماز کا ذمہ دار ہوتا ہے بایں طور پر کہ وہ مقتدیوں کے امور نماز مثلاً قرأت کا اور اگر مقتدی رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے تو قیام وغیرہ کا متکفل ہوتا ہے اسی طرح وہ سب کی نمازوں کے افعال و ارکان نیز رکعتوں کی تعداد پر نگاہ رکھتا ہے۔ مؤذنوں کے امانت دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے سلسلے میں اذان کی آوازوں پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی (مزدوری و اجرت کے لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کے لیے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے دوزخ سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

 

٭٭اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لیے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ چنانچہ اللہ بزرگ و برتر (ملائکہ اور ارواح مقربین سے) فرماتا ہے۔ میرے اس بندے کی طرف دیکھو وہ اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے ، چنانچہ میں نے بھی اس بندے کے گناہ بخش دیے ہیں اور میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

یعنی وہ چرواہا جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اور دنیا کے علائق سے دست بردار ہو کر پہاڑ کی چوٹی پر بسیرا کئے ہوئے ہے جب نماز کا وقت آتا ہے تو اذان کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کا نام بلند کرتا ہے اور پابندی سے نماز ادا کر کے اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔

ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اذان دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی اذان کے ذریعے ملائکہ اور جنات نماز کے وقت سے مطلع ہو جاتے ہیں، نیز یہ کہ اس کی اذان مخلوقات میں سے جو چیز بھی سنتی ہے قیامت کے روز اس کے ایمان کی گواہی دے گی اور سنت کی اتباع ہوتی ہے اور جماعت کے معاملے میں اسے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔

اذان سے اعلام عام یعنی اذان و تکبیر دونوں مراد ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسا آدمی جب اذان و تکبیر کہتا ہے تو ملائکہ اس کے ہمراہ نماز میں شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے جماعت کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ وا اللہ اعلم۔

مجھ سے ڈرتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس بندے کی عبادت کا مقصد نمائش و ریا نہیں ہے بلکہ وہ میرے عذاب سے چونکہ ڈرتا ہے اس لیے اذان بھی کہتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اکیلے آدمی کو بھی اذان و تکبیر کہنا مستحب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی اداء کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن(یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لیے اذان کہتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

عبد سے مراد مملوک ہے خواہ غلام ہو یا لونڈی، امام سے لوگوں کو خوش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام سے اس وجہ سے مطمئن و راضی ہوتے ہیں کہ وہ نماز کے احکام و ارکان اور سنن و آداب کی پوری پوری رعایت کرتا ہے۔ اور قرأت اصول و قواعد کے مطابق نیز عمدہ آواز کے ساتھ کرتا ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں اعتبار اکثر لوگوں کا ہو گا جو کہ صاحب علم و فراست ہوں۔

بہر حال قیامت کے روز ان تینوں کو مشک کے ٹیلے اس لیے ملیں گے کہ یہ لوگ دنیا میں خواہشات نفسانی کی لذتوں کو اطاعت الہٰی اور فرمانبرداری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سختیوں پر قربان کر دیں گے اس لیے پروردگار عالم اس کے صلہ میں انہیں خوشبو کی صورت میں عظیم انعام عطا فرمائے گا تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی عظمت و بزرگی ظاہر ہو سکے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور نسائی نے اس روایت کو کل رطب و یابس تک نقل کیا ہے ، اور یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ وَلَہُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ صَلّٰی یعنی اور اسے نماز پڑھنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔

 

تشریح

 

آواز کی انتہا کے مطابق بخشش کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن اذان کہتے وقت جس قدر آواز بلند کرتا ہے اس کی مغفرت اسی قدر ہوتی ہے اور اگر وہ آواز کو انتہائی درجے تک پہنچا دیتا ہے یعنی اس کی جتنی طاقت ہوتی ہے اتنی ہی آواز بلند کرتا ہے تو مغفرت بھی پوری ہی پاتا ہے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اگر گناہ کا جسم فرض کیا جائے اور وہ اتنے ہوں کہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے وہاں تک سما جائیں تو اس کے وہ سب گناہ بخشش دیے جاتے ہیں۔

رطب (تر) سے مراد وہ مخلوق ہیں جن میں نمو ہوتا ہے جیسے انسان اور نباتات وغیرہ اور یا بس (خشک) سے جمادات یعنی پتھر اور مٹی وغیرہ مراد ہیں۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ لفظ وَشَاھِدُ الصَّلٰوۃَ لفظ اَلْمُؤَذِنُ پر عطف کیا گیا ہے اس طرح پورے جملہ کے معنی یہ ہوں گے  مغفرت کی جاتی ہے مؤذن کی اور ان لوگوں کی جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں۔

مگر ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس کا عطف کل رطب پر ہے اور اسے عطف خاص علیٰ عام کہا جاتا ہے یکتب لہ اور عنہ کی ضمیر یا تو شَاھِدُ کی طرف راجع ہے یا پھر مؤذن کی طرف راجع ہو گی۔

حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن نمازیوں کا سا ثواب پاتا ہے کیونکہ یہ ان کو نماز کی طرف بلاتا ہے اور حدیث میں وارد ہے کہ جو آدمی بھلی بات کا باعث ہوتا ہے اسے اس بھلائی کے کرنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم ان کے امام ہو (یعنی میں نے تمہیں تمہاری قوم کا امام مقرر کر دیا مگر یہ یاد رکھو کہ نماز پڑھانے میں) تم ان میں سے بہت زیادہ ضعیف و ناتواں کی اقتداء کرنا اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان کہنے کی مزدوری نہ لے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

ضعیفوں کی اقتداء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امامت میں ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت کی جائے یعنی قرأت اتنی لمبی نہ کی جائے اور ارکان نماز اس طرح ادا نہ کئے جائیں کہ لوگ تنگ و پریشان ہو جائیں اور جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام اور مؤذن کے لیے نماز پڑھانے اور اذان دینے کی اجرت حلال نہیں ہے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اذان اقامت اور تعلیم قرآن کے سلسلہ میں معاوضہ لینا جائز نہیں ہے۔ مگر علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر امام اور مؤذن بطور خود اپنی اجرت مقرر نہ کرائیں بلکہ لوگ ان کے پاس ان کی حاجت کے مطابق روپیہ پیسہ از خود بھیج دیا کریں تو یہ جائز و حلال ہو گا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ امام و مؤذن کی خبر گیری کریں اور ان کے پاس از خود اتنا روپیہ اور مال بھجوا دیا کریں جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ فتاوی قاضی خاں میں مرقوم ہے کہ جو مؤذن اوقات نماز وغیرہ کے سلسلہ میں علم نہیں رکھتا اسے اذان کہنے کا ثواب نہیں ملتا، اس لیے جو مؤذن اجرت لے گا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب نہیں ملے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے سکھلایا تھا کہ میں مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھ لیا کروں اَللَّھُمَّ ھَذَا اِقْبَالُ لَیْلِکَ وَاِدْبَارِ نَھَا رِکَ َواَصْوَاتُ دُعَا ئِکَ فَاغْفِرْلِیْ اے اللہ ! یہ وقت ہے تیری رات کے آنے کا اور تیرے دن کے واپس جانے کا اور تیرے پکارنے والوں (یعنی مؤذنوں) کی آوازوں کا!لہٰذا تو میری مغفرت فرما۔ (ابوداؤد، بیہقی)

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا یا تو اذان کا جواب دینے کے دوران پڑھ لی جائے یا پھر جواب سے فارغ ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کا وقت بارگاہ احدیت میں دعاء کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اس لیے ایسے وقت اپنے گناہوں کی معافی اور خیر و بھلائی کے راستہ پر چلنے کی توفیق کی زیادہ سے زیادہ دعا مانگنی چاہئے تاکہ قبولیت کے مرتبے کو پہنچ سکے۔

 

                   خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی برکت

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص زمین کے ایک حصے جنگل میں کھڑا تھا کہ اس نے ابر میں سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر پھر وہ ابر ایک طرف چلا اور ایک جگہ پتھریلی زمین پر پانی برسانے لگا۔ اور وہ تمام پانی ان نالیوں میں سے کہ جو اس زمین میں تھیں ایک نالی میں جمع ہونے لگا پھر وہ پانی اس نالی کے ذریعے ایک طرف بہنے لگا تو وہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تاکہ یہ دیکھے کہ جس شخص کے باغ میں یہ پانی جا رہا ہے وہ کون ہے؟ ناگہاں اس شخص نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے کھیت میں کھڑا بیلچہ کے ذریعے اس پانی کو باغ کے درختوں میں پھیلا رہا تھا اس شخص نے باغ والے سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے تمہارا کیا نام ہے؟؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں نام ہے اور اس نے وہی نام بتایا جو اس ابر میں سے سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے پوچھا کہ بندہ خدا تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس لیے پوچھ رہا ہوں جس ابر کا یہ پانی ہے اس ابر میں میں نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا اس ابر سے یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر اور وہ نام تمہارا ہی تھا اور اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم اس باغ میں کیا بھلائی کرتے ہو جس کی وجہ سے تم اس فضیلت اور بزرگی سے نوازے گئے ہو باغ والے نے کہا کہ چونکہ اس وقت تم پوچھ رہے ہو اس لیے میں بھی تم سے بتائے دیتا ہوں کہ اس باغ کی جو کچھ پیدا وار ہوتی ہے پہلے میں اسے دیکھتا ہوں پھر اس میں سے ایک تہائی تو خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہوں۔ ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اگرچہ ابر کی آواز نے باغ والے کا نام صراحۃً لیا تھا جیسا کہ بعد میں ذکر بھی کیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ قصہ سناتے ہوئے ابتدا میں اس کا صراحۃً نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں سے اس کے نام کو کنایۃً ذکر کیا۔

اسی طرح ابر کی آواز سننے والے شخص نے بھی ابر میں باغ والے کا نام صراحۃً سنا تھا مگر پھر اس نے باغ والے سے اس کا نام اس لیے پوچھا تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ واقعی یہ وہی شخص ہے جس کا نام ابر کی آواز نے لیا تھا۔ نیز جب باغ والے نے اس سے اپنا نام دریافت کرنے کا سبب پوچھا تو اس ابر کی آواز کی نقل کرتے ہوئے بھی اس کا نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں کہا گویا اس نے ظاہر کیا کہ اگرچہ ابر کی آواز نے تمہارا نام صراحۃً لیا تھا مگر میں اس وقت تمہارے متعین نام کی بجائے لفظ فلاں ذکر کر رہا ہوں حاصل یہ کہ ہاتف غیبی نے باغ والے کا نام صراحۃً ذکر کیا تھا مگر سامع نے اس کے نام کو لفظ فلاں سے کنایۃً تعبیر کیا اور اسے بتا دیا کہ تمہارا نام میں نے سنا تھا۔ مگر اس کو لفظ فلاں سے تعبیر کیا ہے۔

 

 

                   ادائیگی شکر کا اجر اور ناشکری کی سزا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ان میں ایک تو کوڑھی تھا دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانا چاہا کہ یہ نعمت الٰہی کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ مسکین و فقیر کی صورت میں بھیجا وہ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ کوڑھی نے کہا کہ اچھا رنگ اور جسم کی بہترین جلد نیز یہ کہ مجھے اس چیز یعنی کوڑھ سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ یہ سن کر فرشتہ نے کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرا چنانچہ اس کا کوڑھ جاتا رہا۔ اسے بہترین رنگ و روپ اور بہترین جلد عطا کر دی گئی۔ پھر فرشتہ نے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس شخص نے کہا کہ  اونٹ یا کہا  گائیں۔ (حدیث کے ایک راوی اسحٰق کو شک ہے کہ) گائے کے لیے کوڑھی نے کہا تھا یا گنجے نے کہا تھا بہرحال یہ طے ہے کہ ان میں سے ایک نے تو اونٹ کے لیے کہا تھا اور دوسرے نے گائے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اس شخص کو حاملہ اونٹنیاں عطا کر دی گئیں پھر فرشتے نے یہ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ گنجے نے کہا کہ بہترین قسم کے بال ، اور یہ کہ یہ چیز یعنی گنجے پن سے نجات پا جاؤں جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا گنج جاتا رہا نیز اسے بہترین قسم کے بال عطا کر دئیے گئے۔ پھر فرشتہ نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس شخص نے کہا کہ گائیں چنانچہ اسے حاملہ گائیں عطا کر دی گئیں اور فرشتہ نے اسے دعا بھی دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اس کے بعد پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اندھے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرشتہ نے اس اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی بینائی عطا فرما دی ، پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا بکریاں چنانچہ اسے بہت سی بچے دینے والی بکریاں عنایت فرما دی گئیں اس کے کچھ عرصے کے بعد کوڑھی اور گنجے نے اونٹنیوں اور گائیوں کے ذریعے اور اندھے نے بکریوں کے ذریعے بچے حاصل کیے گویا خدا نے تینوں کے مال میں بے انتہا برکت دی یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے ایک جنگل بھر گیا گنجے کی گایوں سے ایک جنگل بھر گیا، اور اندھے کی بکریوں سے ایک جنگل بھر گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے بعد فرشتہ پھر کوڑھی کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا۔ اور اس سے کہنے لگا کہ میں ایک مسکین شخص ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے اس لیے آج منزل مقصود تک میرا پہنچنا ممکن نہیں ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہو جائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ تو میری یہ مشکل آسان ہو جائے گی لہذا میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ، بہترین جلد اور مال عطا کیا ہے ایک اونٹ مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میرا سفر پورا ہو جائے اور میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں اس کوڑھی نے کہا کہ میرے اوپر حق بہت زیادہ ہیں (یعنی اس کوڑھی نے فرشتے کو ٹالنے کے لیے جھوٹ کہا کہ میرے اس مال کے حقدار بہت ہیں اس لیے تمہیں کوئی اونٹ نہیں مل سکتا) فرشتے نے کہا کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تم وہی کوڑھی نہیں ہو جس سے لوگوں کو گھن آتی تھی اور تم محتاج و قلاش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہترین رنگ و روپ کے ساتھ صحت عطا فرمائی اور مال سے نوازا کوڑھی نے کہا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ مال تو مجھے اپنے باپ دادا کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف پھیر دے جس میں تم پہلے مبتلا تھے یعنی تمہیں پھر کوڑھی اور مفلس بنا دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی پہلی سی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو اس نے کوڑھی سے کہا تھا چنانچہ گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو جواب کوڑھی نے دیا تھا فرشتے نے گنجے سے بھی یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو خدا تمہیں ویسا ہی کر دے جیسا کہ تم پہلے گنجے اور محتاج تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی یہی کہا کہ میں ایک مسکین انسان اور مسافر ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے۔ اس لیے آج منزل مقصود تک پہنچنا اس شکل میں ممکن ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی میرے شامل حال ہو جائے اور اس کے بعد تم اس کا ذریعہ بن جاؤ لہٰذا میں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہاری بینائی واپس کر دی تم سے ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میں اپنا سفر پورا کر سکوں اندھے نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کہا کہ بے شک پہلے میں ایک اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میری بینائی واپس کر دی ہے لہٰذا میری تمام بکریاں حاضر ہیں اس میں تم جو چاہو لے لو اور جو نہ چاہو اسے چھوڑ دو تم جو کچھ بھی لو گے میں خدا کی قسم تمہیں اس کو واپس کرنے کی تکلیف نہیں دوں گا۔ یہ سن کر فرشتے نے کہا کہ تمہیں تمہارا مال مبارک تم اپنا مال اپنے پاس رکھو مجھے تمہارے مال کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف تمہیں آزمائش میں مبتلا کیا گیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا امتحان لیا تھا کہ آیا تمہیں اپنا پرانا حال یاد بھی ہے یا نہیں؟ اور تم خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہو یا نہیں؟ سو تم آزمائش میں پورے اترے چنانچہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہوا اور تمہارے وہ دونوں بدبخت ساتھی یعنی کوڑھی اور گنجا ناشکرے ثابت ہوئے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض قرار پائے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہو جائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ علماء کہتے ہیں کہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کے موقع پر یہ اسلوب اختیار کرنا جائز ہے کیونکہ اس طرح اصل سوال تو اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ مگر بندہ کو اس کا ذریعہ اور سبب بنایا جاتا ہے ایسا اسلوب اختیار کرنا کہ جس میں خدا کے ساتھ بندہ بھی حاجت روائی کا درجہ پا جائے مثلاً یوں کہا جائے کہ میں خدا سے اور تم سے سوال کرتا ہوں ، قطعاً درست نہیں ہے۔

 

                   کسی سائل کو واپس لوٹانے سے بہتر ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے

 

حضرت ام مجید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب کوئی سائل میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتی جو اس کے ساتھ میں دے دو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ دے دو خواہ وہ جلا ہوا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (احمد، ابوداؤد ، ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ و خیرات کے بارے میں یہ حکم گویا بطور مبالغہ ارشاد فرمایا کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے خواہ وہ کتنی حقیر اور کم تر چیز کیوں نہ ہو۔

 

ایک سبق آموز واقعہ

 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پکے ہوئے گوشت کا ٹکڑا تحفہ کے طور پر آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گوشت بہت مرغوب تھا۔ اس لیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی لونڈی سے فرمایا۔ کہ اس گوشت کو گھر میں حفاظت سے رکھ دو شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے تناول فرمائیں چنانچہ لونڈی نے وہ گوشت گھر کے ایک طاق میں رکھ دیا اتفاق اسی وقت ایک سائل نے دروازے پر کھڑے ہو کر صدا بلند کی کہ اے گھر والو خدا کی راہ میں کچھ عنایت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گھر والوں نے کہا اللہ تمہیں برکت دے یعنی سائل کو جواب دیا جیسا کہ ہمارے یہاں جب کسی سائل کو کچھ دینا نہیں ہوتا تو کہہ دیتے ہیں کہ بابا معاف کرو سائل واپس چلا گیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف لے گائے تو فرمایا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا تمہارے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز بھی ہے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہاں ! پھر انہوں نے لونڈی سے کہا جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے وہ گوشت لے آؤ لونڈی گوشت لانے چلی گئی مگر طاق کے پاس پہنچ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وہاں گوشت کا کہیں نام نہیں تھا۔ بلکہ گوشت کی جگہ سفید پتھر کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ تم نے سائل کو کچھ نہ دیا اور اسے خالی ہاتھ واپس کر دیا اس لیے یہ گوشت سفید پتھر کی شکل اختیار کر گیا۔ بیہقی نے اس روایت کو دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

 

                   خدا کے نام پر سوال کرنے والے کا سوال پورا نہ کرنے والوں کی مذمت

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ بتلاؤں کہ خدا کے نزدیک بااعتبار مرتبہ کے بدترین شخص کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جس سے خدا کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ اس سوال کو پورا نہ کرے۔ (احمد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کوئی سائل کسی شخص سے خدا کے واسطے سے بایں طور سوال کرے کہ خدا کے نام پر مجھے کچھ عطا کرو اور اس کے باوجود وہ شخص سائل کو کچھ نہ دے تو وہ خدا کے نزدیک تمام لوگوں میں بااعتبار مرتبہ کے برا ہے ہاں اگر سائل مستحق نہ ہو یا سائل نے جس شخص سے سوال کیا اس کے پاس اس کی اپنی حاجت و ضرورت اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت سے زائد مال نہ ہو تو پھر اس سائل کا سوال پورا نہ کرنے کی صورت میں نہ تو وہ گنہگار ہو گا اور نہ وہ اس حدیث کے مطابق قابل مذمت اور گنہگار ہو گا جب کہ سائل اس کے مال کا مستحق ہو نیز یہ کہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی ضروریات سے زائد ہو۔

 

                   مال و زر کے بارے میں حضرت ابوذر کا مسلک اور ان کا جذبہ زہد

 

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے حاضری کی اجازت چاہی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دی جب وہ حاضر ہوئے تو اس وقت ان کے ہاتھ میں عصا تھا اسی موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے جو اس وقت وہاں موجود تھے فرمایا کہ کعب! کیا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت زیادہ مال چھوڑا ہے آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آیا ان کے مال کی بے انتہا کثرت و زیادتی ان کے کمال ایمان کے لیے مضرت تھی یا نہیں؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق یعنی زکوٰۃ صدقات وغیرہ ادا کرتے تھے تو ان کے بارے میں کسی خوف کی گنجائش نہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا عصا اٹھا کر حضرت کعب کو مارا اور کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے پاس سونے کا یہ پہاڑ احد ہو اور میں اسے خدا کی راہ میں خرچ کروں تو باوجودیکہ وہ مقبول بھی ہو جائے میں اسے پسند نہیں کروں گا کہ میں اس چھ اوقیہ یعنی دو سو چالیس درہم بھی اپنے پیچھے چھوڑ جاؤں۔ پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے یہ ارشاد گرامی نہیں سنا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ تین مرتبہ فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں میں نے بھی یہ ارشاد گرامی سنا ہے۔ (احمد)

 

تشریح

 

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ صحابہ کی ایک جماعت میں سے تھے جس کا فقر و زہد امتیازی شان رکھتا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی فقر و زہد اور استغنا کے بارے میں پوری امت میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ رجحان و نظریہ تھا کہ اپنے پاس مال و زر کا ادنیٰ ترین حصہ بھی جمع نہ کیا جائے بلکہ جو کچھ بھی اپنے قبضے و قدرت میں آئے سب خدا کی راہ میں خرچ کر دیا جائے چنانچہ اس موقع پر بھی ان کا یہ جذبہ ان پر غالب آ گیا اور جب انہوں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے اپنے مزاج اور رجحان کے خلاف بات سنی تو انہیں مار بیٹھے۔

اس بارے میں جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے وہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر مال کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے تو اس کو جمع کرنے میں مضائقہ نہیں ہے خواہ وہ مال کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی میں جملہ و یتقبل منیٰ بطور مبالغہ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا زیادہ مال و زر خدا کی راہ میں خرچ کروں اس کے باوجود بھی کاش کہ قبول ہو جائے۔

لفظ  اذر حذف ان کے ساتھ احب کا مفعول ہے گویا اس پورے جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر خدا اتنا زیادہ مال عطا فرما دے اور میں اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دو اور پھر وہ بارگاہ الوہیت میں قبول بھی ہو جائے تو جب بھی میں یہ گوارا نہیں کروں گا کہ اس مال میں سے کم از کم چھ اوقیہ ہی اپنے پیچھے چھوڑ جاؤں۔

 

                   ماسوا اللہ کی طرف التفات مقام قرب سے باز رکھتا ہے

 

حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیر چکے تو بڑی سرعت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی ازواج مطہرات کے بعض حجروں کی طرف چلے گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرے سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کو اپنی سرعت پر متعجب دیکھا تو فرمایا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کی ایک چیز موجود ہے اور میں نے اسے ناپسند کیا کہ وہ مجھے مقام قرب سے روکے لہٰذا فوراً جا کر اہل بیت کو میں نے حکم دیا کہ سونے کی وہ چیز تقسیم کر دی جائے۔ (بخاری)

اور بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں زکوٰۃ میں آیا ہوا سونے کا ایک ڈلا گھر میں چھوڑ آیا تھا جو تقسیم کرنے کے بعد بچ گیا تھا لہٰذا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ میں اسے ایک رات کے لیے بھی اپنے پاس رکھوں۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ما سو اللہ کی طرف التفات کرنا ان بندگان خدا کو بھی کہ جو مقربین بارگاہ الوہیت ہوتے ہیں مقام قرب سے باز رکھتا ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی امت کے لیے بطور تعلیم و تنبیہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کی رغبت اور خواہش نہیں ہونی چاہئے۔

 

                   نبی اپنے پیچھے مال نہیں چھوڑتا

 

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری کے دوران میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (عرب میں اس وقت رائج) چھ یا سات اشرفیاں تھیں لہٰذا آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری نے ان کو تقسیم کرنے سے باز رکھا۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری کی وجہ سے مجھے ان کو تقسیم کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی) چنانچہ مجھ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر دریافت فرمایا کہ ان چھ یا سات اشرفیوں کا کیا ہوا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (کہتی ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ میں انہیں ابھی تقسیم نہیں کیا ہے۔ خدا کی قسم آپ کی بیماری نے مجھے اسے تقسیم کرنے سے باز رکھا ہے یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان اشرفیوں کو منگوایا اور انہیں اپنے اپنے ہاتھوں پر رکھ کر فرمایا کہ کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کا نبی اللہ عز و جل سے اس حال میں ملاقات کرے کہ یہ اشرفیاں اس کے پاس ہوں۔ (احمد)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات مقام نبوت کے منافی ہے کہ خدا کا نبی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے ملے تو اس کے گھر میں موجود مال و زر موجود ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس انداز سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنبیہ فرمائی کہ ان اشرفیوں کا گھر میں پڑے رہنا مجھے قطعی پسند نہیں ہے انہیں فوراً تقسیم کر دو۔

 

                   ذخیرہ اندوزی کی بجائے توکل علی اللہ کی تعلیم

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے نزدیک کھجوروں کا ڈھیر پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ بلال! یہ کیا ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ چیز ہے جسے میں نے کل (یعنی آئندہ پیش آنے والی اپنی ضرورت) کے لیے جمع کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کل قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں تم اس کا بخار دیکھو (پھر فرمایا) بلال اس ذخیرہ کو (خدا کی راہ) میں خرچ کر دو اور صاحب عرش سے فقر و افلاس کا خوف نہ کرو۔

 

تشریح

 

ارشاد گرامی اما تخشی ان تری لہ غدا الخ میں غد (کل) سے مراد قیامت کا دن ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ اس جملے میں یوم القیامۃ کے الفاظ عند کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں بخار سے مراد اثر ہے مطلب یہ ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن اس کے سبب دوزخ کی آگ کا اثر تمہیں پہنچے ، گویا یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی دوزخ سے قریب ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر تم خدا پر توکل نہیں کرو گے اور فقر و افلاس کے خوف سے ذخیرہ اندوزی کرو گے تو اس کی وجہ سے دوزخ کے قریب ہو جاؤ گے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی نہ کرو۔ بلکہ جو جمع کیا ہے اسے خدا کے نام پر خرچ کر ڈالو، فقر و افلاس کا خوف نہ کرو بلکہ خدا پر اعتماد اور بھروسہ رکھ کیونکہ جس قادر مطلق نے عرش عظیم کو پیدا کیا ہے اور تمہاری تخلیق کی ہے وہی تمہیں روزی بھی پہنچائے گا۔

گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال کو یہ حکم بطور تعلیم دیا کہ مقام کمال حاصل کرو جو توکل اور ذات حق پر کامل اعتماد ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر ذخیرہ کرنا جائز ہے۔

 

                   سخاوت کی فضیلت

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  سخاوت بہشت میں ایک درخت ہے لہٰذا جو شخص سخی ہو گا وہ اس کی ٹہنی پکڑ لے گا چنانچہ وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے بہشت میں داخل نہ کرا دے (اگرچہ وہ آخر الامر ہو) اسی طرح  بخل دوزخ میں ایک درخت ہے لہٰذا جو شخص بخیل ہو گا وہ اس کی ٹہنی پکڑ لے گا چنانچہ وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑے گی یہاں تک اسے دوزخ میں داخل نہ کرا دے۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ سخاوت درخت کی مانند ہے گویا اس وصف کو درخت کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح درخت بڑا ہوتا ہے اور اس کی کتنی ہی شاخیں اور ٹہنیاں ہوتی ہیں اسی طرح سخاوت بھی ایک وصف عظیم ہے جس کی بہت زیادہ شاخیں اور قسمیں ہیں

وہ اس کی ٹہنی کو پکڑ لے گا  کا مطلب یہ ہے کہ سخاوت کی جو قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم کو پکڑ لے گا۔

 

 

 

 

               صدقہ کی فضیلت کا بیان

 

 

صدقہ مال کا وہ حصہ کہلاتا ہے جسے کوئی شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے نکالے خواہ واجب ہو یا نفل۔

 

                   صدقہ دافع بلاء ہے

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں جلدی کرو (یعنی موت یا بیماری سے پہلے صدقہ دو کیونکہ صدقہ دینے سے بلا نہیں بڑھتی یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ (رزین)

 

                   خدا کی راہ میں خرچ کیا جانے والا غیر حلال مال قبول نہیں ہوتا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کھجور برابر (خواہ صورت میں خواہ قیمت میں) حلال کمائی میں خرچ کرے (اور یہ جان لو کہ) اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لیے اسی طرح پالتا ہے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

کسب کے معنی ہیں جمع کرنا یہاں  کسب طیب سے مراد وہ مال ہے جسے حلال ذریعوں سے جمع کیا جائے یعنی شرعی اصولوں کے تحت ہونے والی تجارت و صنعت زراعت و ملازمت اور وراثت یا حصہ میں حاصل ہونے والا مال۔

ولا یقبل اللہ الا الطیب (اللہ تعالیٰ صرف حلال مال قبول کرتا ہے) میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بارگاہ الوہیت میں صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال کا ہو، غیر حلال مال قبول نہیں ہوتا نیز اس سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوا کہ حلال مال اچھی اور نیک جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا جانے والا حلال مال بارگاہ الوہیت میں کمال قبول کو پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ حلال مال خرچ کرنے والے سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اسی مفہوم کو یہاں  داہنے سے لینے سے اس لیے محاورۃً اور عرفا تعبیر کیا گیا ہے کہ پسندیدہ اور محبوب چیز داہنے ہاتھ ہی سے لی جاتی ہے۔

پالتا  ہے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کے ثواب کو بڑھاتا جاتا ہے تاکہ وہ قیامت کے روز میزان عمل میں گراں ثابت ہو۔

 

ایک سبق آموز حکایت

 

حدیث بالا کی روشنی میں جو یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ حلال مال اچھی جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سبق آموز حکایت سنیے

شیخ علی متقی عارف باللہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک متقی و صالح شخص کسب معاش کرتے تھے اور ان کا معمول تھا کہ جو کچھ کماتے پہلے تو اس میں ایک تہائی خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے پھر ایک تہائی اپنی ضروریات پر صرف کرتے اور ایک تہائی اپنی کسب معاش کے ذریعے میں لگا دیتے ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال خدا کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے انہوں نے کہا پہلے تو حلال مال حاصل کرو اور پھر اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرو، وہ مستحق شخص ہی کے پاس پہنچے گا۔ دنیا دار شخص نے اسے مبالغہ پر محمول کیا، شیخ نے کہا اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے تمہارے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا، چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہوا اور یہ سمجھ کر کہ صدقہ کے مال کا اس بے چارے سے زیادہ کون مستحق ہو سکتا ہے؟ اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ جب دوسرے دن وہ ضعیف و نابینا شخص کے پاس سے گزرا تو اس نے سنا کہ وہ اپنے پاس کھڑے ہوئے ایک دوسرے شخص سے کل کا واقعہ بیان کر رہا تھا کہ کل میرے پاس سے ایک مالدار شخص گزرا اس نے مجھ پر ترس کھا کر اتنا مال مجھے دیا جسے میں نے فلاں بدکار شخص کے ساتھ شراب نوشی میں لٹا دیا۔ وہ دنیا دار یہ سنتے ہی شیخ کے پاس آیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کیا، شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس پر پڑے اسے یہ درہم بطور خیرات دے دینا چنانچہ وہ شیخ کا دیا ہوا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا تو اس کی نظر سب سے پہلے ایک اچھے شخص پر پڑی جو بظاہر کھاتا پیتا معلوم ہو رہا تھا پہلے تو وہ دیتے ہوئے جھجکا مگر چونکہ شیخ کا حکم تھا اس لیے مجبوراً وہ درہم اس شخص کو دے دیا۔ اس شخص نے وہ درہم لے لیا اور اپنے پیچھے مڑ کر چل دیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ مالدار بھی چلا اس نے دیکھا وہ شخص ایک کھنڈر میں داخل ہوا ور وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر راہ پکڑی، مالدار بھی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی البتہ اس نے ایک مرا ہوا کبوتر دیکھا وہ پھر اس شخص کے پیچھے پیچھے ہو لیا، پھر اسے قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں ، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ بہت بھوکے تھے جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی اور انتہائی اضطراب و پریشانی کے عالم میں میں ان کے لیے کچھ انتظام کرنے کی خاطر گھر سے نکل کھڑا ہوا تو میں سرگرداں پھر رہا تھا کہ مجھے یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے ذریعے بھوک سے بلکتے بچوں کو کچھ تسکین دلاؤں مگر جب خدا نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت فرما دیا تو یہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا وہیں پھینک دیا۔

اب اس مالدار کی آنکھ کھلی اور اسے معلوم ہوا کہ شیخ کا وہ قول مبالغہ پر محمول نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اچھی جگہ اور حرام مال بری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

 

                   صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ صدقہ دینا مال میں کمی نہیں کرتا اور جو شخص کسی کی خطا معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے نیز جو شخص خدا کے لیے تواضع و عاجزی اختیار کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

یہاں تین باتیں بتائی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا اگرچہ ظاہری طور پر مال میں کمی و نقصان کا سبب ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں صدقہ و خیرات مال میں زیادتی کا سبب ہوتا ہے بایں طور کہ صدقہ و خیرات کرنے والے کے مال میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے وہ اور اس کا مال آفت و بلاء سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں ثواب کی زیادتی ہوتی ہے بلکہ دنیا میں بھی اسے اس طرح نعم البدل عطا فرمایا جاتا ہے کہ اس کا مال بڑھتا رہتا ہے۔

دوسری بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کا قصور لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دیتا ہے اور اس کی خطا سے درگزر کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی عزت بڑھاتا ہے چنانچہ ایک عارف کا قول منقول ہے کہ کوئی بھی انتقال عفو و درگزر کے برابر نہیں ہے۔

تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص کسی غرض و منفعت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے جذبے سے تواضع و عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔

 

                   اعمال خیر سے منسوب جنت کے دروازے

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنی چیزوں میں دوہری چیز اللہ کی راہ میں (یعنی اس کی رضاء و خوشنودی کی خاطر) خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا اور جنت کے کئی یعنی آٹھ دروازے ہیں چنانچہ جو شخص اہل نماز (یعنی بہت زیادہ نماز پڑھنے والا) ہو گا اسے جنت کے باب الصلوٰۃ سے بلایا جائے گا جو اہل نماز ہی کے لیے مخصوص ہو گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اے بندے اس دروازے کے ذریعے جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو شخص جہاد کرنے والا یعنی خدا کی راہ میں بہت زیادہ لڑنے والا ہو گا اسے باب الجہاد سے بلایا جائے گا۔ جو شخص صدقہ دینے والا ہو گا اسے باب الصدقہ سے بلایا جائے۔ ل اور جو شخص بہت زیادہ روزے رکھنے والا ہو گا اسے باب الریان (یعنی باب الصیام سے کہ جنت میں روزہ کے دروازے کا یہی نام ہے) بلایا جائے یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگرچہ جو شخص ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بھی بلایا جائے گا اس کو تمام دروازوں سے بلائے جانے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ ایک دروازے سے بلایا جانا بھی کافی ہو گا بایں طور کہ مقصد تو جنت میں داخل ہونا ہو گا اور یہ ایک ہی دروازے سے بھی حاصل ہو جائے گا۔ پھر بھی میں صرف علم کی خاطر جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی ایسا خوش نصیب و با سعادت شخص بھی ہو گا، جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں ! اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے۔ (جنہیں تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔) (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

دوہری چیز مثلاً دو درہم ، دو روپے ، دو غلام، دو گھوڑے اور یا دو کپڑے وغیرہ۔

دعی من ابواب الجنہ (تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا) کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جس نے دیان میں دوہری چیزیں خدا کی راہ میں خرچ کی تھیں جب جنت میں داخل ہونے جائے گا تو جنت کے تمام دروازوں کے داروغہ اسے بلائیں گے اور ہر ایک کی یہ خواہش ہو گی کہ یہ خوش نصیب شخص اس کے دروازے سے جنت میں داخل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک عمل ان اعمال کے برابر ہے جن کے سبب جنت کے تمام دروازوں میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔

ریان  کے معنی ہیں سیراب۔ چنانچہ منقول ہے کہ باب الریان کہ جس کے ذریعے زیادہ روزے رکھنے والے جنت میں داخل ہوں گے وہ دروازہ ہے جہاں روزہ دار کو جنت میں اپنے مستقر پر پہنچنے سے پہلے شراب طہور پلائی جاتی ہے گویا جو شخص یہاں دنیا میں خدا کی خوشنودی کی خاطر روزے رکھ کر پیاسا رہا وہ اس عظیم فعل کے بدلے میں مذکورہ دروازے سے سیراب ہونے کے بعد جنت میں داخل ہو گے۔

ایک روایت میں منقول ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جنت کا ایک دروازہ ہے جسے باب الضحی کہا جاتا ہے ، چنانچہ قیامت کے دن پکارنے والا فرشتہ پکارے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو نماز ضحی یعنی چاشت یا اشراق کی نماز پر مداومت کرتے تھے؟ سن لو یہ دروازہ تمہارے ہی لیے ہے لہٰذا تم لوگ خدا کی رحمت کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔

ایک حدیث میں منقول ہے کہ جنت کے ایک دروازے کا نام باب التوبۃ ہے کہ توبہ کرنے والے اس دروازے کے ذریعے جنت میں داخل ہوں گے ایک دروازہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو غصہ کو ضبط اور دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہوں گے ایسے لوگ اس دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے اسی طرح ایک دروازہ ایسا ہو گا جس کے ذریعے خدا کی رضا پر راضی رہنے والوں کا داخلہ ہو گا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ارشاد میں فہل یدعی سے ما قبل جملہ ما علی من دعی ان کے سوال فہل یدعی الخ کی تمہید کے طور پر ہے۔

آخر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ ان میں یہ تمام اوصاف اور خوبیان پائی جاتی تھیں اس لیے انہیں جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔

 

                   حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ عبودیت

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آج تم میں کون شخص روزہ سے ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں روزے سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج تم میں سے کون شخص جنازہ کے ساتھ نماز جنازہ کے لیے گیا ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج تم میں سے کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آج تم میں سے کس شخص نے بیمار کی عیادت کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سن لو! جس شخص میں یہ ساری باتیں جمع ہوتی ہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی دن روزہ بھی رکھے نماز جنازہ میں بھی شریک ہوا اور جنازہ کے ساتھ قبرستان جا کے کسی مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور کسی بیمار کی عیادت کرنے بھی جائے تو ایسا شخص جنت میں داخل ہو گا اس طرح جنت میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں جائے گا۔ کیونکہ ویسے تو مطلقاً دخول جنت کے لیے صرف ایمان ہی کافی ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس دروازے سے چا ہے گا جنت میں جائے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر  انا  (میں) کہنا اور حصول ثواب کی غرض نیز اپنے احوال کی خبر دینے کے طور پر اپنی فضیلت بیان کرنا منع نہیں ہے چنانچہ بعض صوفیہ اور مشائخ نے جو سالکین کو منع کیا ہے کہ اپنی زبان پر  انا  جاری نہ کیا جائے تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ بقصد تکبر اور دعویٰ ہستی و انانیت کے طور پر  انا  کہا جائے جیسا کہ ابلیس ملعون نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم کے وقت از راہ غرور و تکبر اور بطور انانیت کہا تھا کہ  انا خیر منہ

 

                   کم تر چیز کے تحفے کو حقیر نہ سمجھا جائے

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو (تحفہ بھیجنے یا صدقہ دینے کو) حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اپنی پڑوسن کے پاس وہ چیز جو تمہارے پاس موجود ہے بطور تحفہ و صدقہ بھیجنے کو حقیر نہ جانو، گویا تمہارے پاس جو بھی چیز موجود ہو اور جو کچھ بھی ہو سکے خواہ وہ کتنی کم تر کیوں نہ ہو اپنی پڑوسن کو بھیجتی رہا کرو۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں ان عورتوں کو خطاب کیا گیا ہے جن کے پاس تحفہ بھیجا جائے لہٰذا اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کے تحفے کو حقیر نہ جانے بلکہ اسے برضاء رغبت قبول کرے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو۔

بکری کا کھر ظاہر ہے کہ نہ تو تحفہ میں لینے دینے کے قابل ہوتا ہے اور نہ اس کو بطور صدقہ کسی کو دیا جا سکتا ہے لہٰذا کہا جائے گا یہ یہاں اسے مبالغہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ، جس سے مراد یہ ہے کہ تحفے میں بھیجی جانے والی یا آنے والی چیز کتنی ہی حقیر اور کمتر کیوں نہ ہو۔

یہاں بطور خاص عورتوں کو اس لیے خطاب کیا گیا ہے کہ ان کے مزاج میں غصہ اور کم تر و حقیر چیزوں کو واپس کر دینے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

 

                   ہر نیک عمل صدقہ ہے

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ و حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ہر نیکی صدقہ ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ نیکی کے جو بھی عمل ہیں خواہ ان کا تعلق زبان سے ہو یا فعل سے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوں تو ان کا ثواب ایسا ہی ہے جیسا کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ثواب ہوتا ہے۔

 

                   کسی بھی نیک کام کو کمتر نہ جانو

 

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کسی بھی نیک کام کو حقیر (کم تر) نہ جانو اگرچہ تم اپنے بھائی سے خوش روئی کے ساتھ ملو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اگر کوئی شخص کسی سے خوش خلقی اور خوش روئی کے ساتھ ملتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے لہٰذا کسی مسلمان کا دل خوش کرنا چونکہ اچھا اور پسندیدہ ہے اس لیے یہ بھی نیک کام ہے اور اگرچہ خوش روئی کے ساتھ کسی سے ملنا کوئی عظیم الشان کام نہیں ہے مگر اسے بھی کم تر درجے کی نیکی نہ سمجھنا چاہئے۔

 

                   کماؤ اور خیرات کرو

 

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نعمت الٰہی کے پیش نظر ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ ہو ہی نہ؟ تو وہ کیا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کے ذریعے مال و زر کمائے اور اس طرح اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ و خیرات بھی کرے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو کہ محنت مزدوری کر کے کما ہی سکے یا کہا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ جس طرح بھی ہو سکے غمگین و حاجت مند داد خواہ کی مدد کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ دوسروں کو نیکی و بھلائی کی ہدایت کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اسے چاہئے کہ وہ خود اپنے تئیں یا دوسروں کو برائی تکلیف پہنچانے سے روکے اس کے لیے یہی صدقہ ہے یعنی اسے صدقہ کا ثواب ملے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

برائی پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ نہ تو خود کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے تکلیف اور ایذاء پہنچائے اور اگر اس کے امکان میں ہو تو ان لوگوں کو بھی روکے جو دوسروں کو ایذاء اور تکلیف پہنچاتے ہیں اسی مضمون کو کسی شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔ ع

مرا بخیر تو امید نیست بد مرساں

 

                   اپنے جسم کے مفاصل کی طرف سے بطور شکر صدقہ دینا چاہئے

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کے بدن میں جو مفاصل (جوڑ) ہیں ان پر (یعنی ان کی طرف سے) ہر روز صدقہ دینا لازم ہے اور دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا بھی صدقہ ہے کسی انسان کی بایں طور مدد کرنی کہ اس کے جانور پر اسے سوار کرا دینا یا اس کا مال و اسباب رکھوا دینا بھی صدقہ ہے اچھی بات بھی صدقہ ہے ہر وہ قدم جو نماز کے لیے رکھا جائے وہ بھی صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں جو مفاصل(جوڑ) پیدا کیے ہیں اس میں بھی چونکہ اس کی حکمتیں اور اس کی بے شمار نعمتیں پنہاں ہیں لہٰذا ان کے شکرانے ہر روز انسان پر صدقہ لازم ہے۔

یعدل بین الثنین الخ سے یہ بات بیان فرمائی جا رہی ہے کہ صدقہ محض اسی کا نام نہیں ہے کہ کسی شخص کو راہ خدا میں مال و زر دے دیا جائے بلکہ یہ چیزیں یعنی دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا وغیرہ بھی صدقہ ہی ہے کہ جس طرح راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے اسی طرح ان چیزوں کا بہت زیادہ ثواب ملتا ہے لہٰذا جو انسان روزانہ ان میں سے کوئی بھی نیک کام کر لیتا ہے تو گویا اس نے وہ صدقہ ادا کیا جو خدا نے اس پر اس کے جوڑوں کی طرف سے شکرانہ کے طور پر لازم کیا ہے۔

اچھی بات سے مراد وہ بات اور کلام ہے جس سے ثواب حاصل ہو یا سائل وغیرہ سے نرم لہجہ میں گفتگو بھی ہو سکتی ہے۔

وکل خطوۃ سے صرف وہی قدم مراد نہیں ہیں جو نماز میں جانے کے لیے رکھے جاتے ہوں بلکہ ہر وہ قدم مراد ہے جو نیک راہ میں نیک مقصد کے لیے اٹھتے ہیں۔ مثلاً طواف کے لیے بیمار کی عیادت کے لیے جنازے میں شریک ہونے کے لیے اور علم کی طلب کے لیے۔

تکلیف دہ چیز سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے راہ گیر کو تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو جیسے کانٹے ، ہڈی، پتھر ، اینٹ اور نجاست وغیرہ۔

 

                   مفاصل جسم کی تعداد اور ان کی نار دوزخ سے حفاظت

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اولاد آدم میں سے ہر انسان تین سو ساٹھ مفاصل کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جو کوئی اللہ اکبر، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کہے اور خدا سے استغفار کرے نیز لوگوں کے راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (یعنی ہر تکلیف دہ چیز) ہٹا دے یا نیک کام کرنے کا حکم دے یا برے افعال و اقوال سے روکے اور یہ سب یا بعض اقوال و افعال جوڑوں کی تین سو ساٹھ تعداد کے مطابق کرے تو وہ اس دن اس حالت میں چلتا ہے گویا اس نے اپنے آپ کو آگ سے بچا رکھا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مذکورہ افعال کرنا اور اپنے جسم کو جوڑوں کے بقدر مذکورہ کلمات کا ورد روزانہ کرنا چاہئے تاکہ اس کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوتا رہے۔

 

                   صدقات معنوی

 

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ہر تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے ہر تحمید یعنی الحمد للہ کہنا صدقہ ہے ہر تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے ہر برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے اور اپنی بیوی یا لونڈی سے صحبت کرنا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اسے اس میں ثواب ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے بتاؤ کہ اگر کوئی شخص حرام ذریعے یعنی زنا سے اپنی شہوت پوری کرے تو آیا اسے گناہ ملے گا یا نہیں؟ نہیں (ظاہر ہے کہ یقیناً اسے گناہ ملے گا) لہٰذا اسی طرح جب وہ حلال ذریعہ (یعنی بیوی اور لونڈی) سے شہوت پوری کرے گا۔ تو اسے ثواب ملے گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

جیسے ظاہر طور پر صدقہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ثواب عطا فرماتا ہے اسی طرح مذکورہ کلمات کا ورد اور مذکورہ اعمال کو معنوی طور پر صدقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے بایں طور کہ ان کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ وہی ثواب عطا فرماتا ہے جو صدقہ کے طور پر مال دینے والوں کو ملتا ہے۔

اپنی بیوی اور اپنی لونڈی سے صحبت اگرچہ بذات خود عبادت اور صدقہ نہیں ہے اسی صحابہ کو بھی اشکال ہوا لیکن چونکہ اس طرح بیوی کے حق کی ادائیگی ہوتی ہے اور نفس کے حرام کاری کی طرف بہت زیادہ مائل ہونے اور شیطان کی ترغیب و تحریص کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے پیش نظر اپنے آپ کو حرام ذریعے سے بچا کر حلال اور جائز ذریعے کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بیوی اور اپنی لونڈی سے صحبت کرنے والا صدقہ کا ثواب پاتا ہے۔

 

 

                   بہترین صدقہ

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت دودھ والی اونٹنی کسی کو دودھ پینے کے لیے عاریۃً دینا بہترین صدقہ ہے بہت دودھ دینے والی بکری کسی کو دودھ پینے کے لے عاریۃً دینا بہترین صدقہ ہے۔ وہ صبح کو باسن بھر دودھ دیتی ہے اور شام کو باسن بھر دودھ دیتی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

عرب میں یہ معمول تھا کہ جسے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا تھا وہ اپنی دودھ دینے والی بکری یا اونٹنی کسی ضرورت مند و محتاج کو عاریۃً دے دیتا تھا۔ جس کے ذریعے وہ ضرورت مند اپنی حاجت ضرورت پوری کرنے کے بعد اسے اس کے مالک کو واپس کر دیتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرز عمل کی تعریف فرمائی ہے کہ یہ عمل بہترین صدقہ ہے۔

 

                   کھیتی کا نقصان اور اس پر ثواب

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت بوتا ہے اور پھر انسان یا پرند اور چرند مالک کی مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ کھاتے ہیں تو یہ نقصان مالک کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور اس میں سے جو کچھ چوری ہو جاتا ہے وہ مالک کے لیے صدقہ ہے۔

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے درخت کا پھل وغیرہ یا اس کی کھیتی میں سے اگر کوئی چرند پرند کسی بھی طرح یا کسی بھی سبب سے کچھ کھا لیتے ہیں تو مالک کو وہی ثواب ملتا ہے جو خدا کی راہ میں اپنا مال خیرات کرنے کا ثواب ہوتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کے ذریعے مالک کو نقصان مال پر تسلی دلائی جا رہی ہے کہ وہ ایسے موقع پر صبر کرے کیونکہ اس نقصان کے بدلے میں اسے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔

 

                   ایک اشکال اور اس کا جواب

 

اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال کا ثواب تو نیت پر موقوف ہے اور ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں مالک کی طرف سے نیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر ثواب کیسے ملتا ہے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کھیتی کا مقصود اصلی مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی حیات و بقاء ہے یعنی کاشتکار کسان جب کھیت میں بیج ڈالتا ہے۔ یا درخت کا کوئی پودا لگاتا ہے تو اس کے پیش نظر کسی فرد کی تخصیص کے بغیر مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی ضروریات زندگی کی تکمیل کی نیت ہوتی ہے۔ اب اس کھیت یا درخت سے انسان و حیوان کا جو فرد بھی فائدہ اٹھائے گا خواہ وہ نا جائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جائز طریقے سے اس کی اجمالی نیت کا تعلق اس سے ہو گا، یہ الگ بات ہے کہ جو شخص نا جائز طریقے سے فائدہ اٹھائے گا وہ اپنے جرم کی سزا پائے گا۔ مگر مالک کے حق میں اس کی اجمالی نیت کافی ہو جائے گی کیونکہ حصول ثواب کے لیے اجمالی نیت کافی ہے اس کے مالک کو نقصان کے بدلے میں صدقہ کا ثواب مل جائے گا۔

 

                   جانوروں کے ساتھ حسن سلوک ثواب کا باعث ہوتا ہے

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن فرمایا کہ ایک بدکار عورت کی بخشش کر دی گئی کیونکہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کتے پر ہوا جو کنویں کے قریب کھڑا پیاس کی وجہ سے اپنی زبان نکال رہا تھا کہ پیاس کی شدت اسے ہلاک کر دے چنانچہ اس عورت نے اپنا چری موزہ اتار کر اسے اپنی اوڑھنی سے باندھا اور اس کے ذریعے کتے کے لیے پانی نکالا اور اسے پلا دیا چنانچہ اس کے اس فعل کی بنا پر اس کی بخشش کر دی گئی۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ہمارے لیے ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ہر صاحب جگر تر یعنی ہر جاندار (یعنی ہر جاندار) کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ثواب ہے (خواہ انسان ہو یا جانور)۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حضرت مظہر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر جانور کے ساتھ حسن سلوک کرنے یعنی انہیں کھلانے پلانے کا ثواب ملتا ہے ہاں موذی جانور کہ جنہیں مار ڈالنے کا حکم ہے اس سے مستثنی ہیں جیسے سانپ اور بچھو وغیرہ۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تو کسی شخص کے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔

 

                   جانوروں کے ساتھ بے رحمی باعث گناہ ہے

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ایک عورت کو محض اس لیے عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھے رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی وہ عورت نہ تو اس بلی کو کچھ کھلاتی تھی اور نہ ہی اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے جانوروں میں سے کچھ (یعنی چوہا وغیرہ) کھاتی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی و بے رحمی کا معاملہ کرنا خدا کے عذاب میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ صغیرہ گناہ پر بھی عذاب ہو سکتا ہے اس عورت کا یہ فعل ظاہر ہے کہ صغیرہ گناہ ہی تھا چنانچہ عقائد کا یہ ایک مسئلہ ہے کہ صغیرہ گناہ پر عذاب ہونا خلاف امکان نہیں ہے۔

 

                   راستے سے تکلیف دہ چیز دور کر دینے کا اجر

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص درخت کی ایک ٹہنی کے پاس گزرا جو راستے کے اوپر تھی اور وہ راہ گیروں کو تکلیف پہنچاتی تھی اس شخص نے اپنے دل میں کہا کہ میں اس ٹہنی کو مسلمانوں کے راستے سے صاف کر دوں گا تاکہ انہیں تکلیف نہ پہنچے چنانچہ وہ شخص جنت میں داخل کیا گیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے ٹہنی کو راستہ سے صاف کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اسے صاف کر دیا چنانچہ اسے جنت میں داخل کر دیا گیا یا یہ کہ وہ شخص اپنی نیک و با خلوص نیت ہی کی بنا پر جنت کا مستحق قرار پایا۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ایک شخص کو دیکھا جو جنت میں پھرتا تھا اور چین کرتا تھا کیونکہ اس نے ایک ایسے درخت کو کاٹ ڈالا تھا جو راستے پر تھا اور لوگوں کو تکلیف پہنچاتا تھا۔ (مسلم)

 

 

٭٭حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کی وجہ سے میں آخرت میں فائدہ حاصل کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹا دیا کرو۔ (بخاری و مسلم)

اور عدی بن حاتم کی روایت اتقوا النار الخ انشاء اللہ تعالیٰ ہم باب علامات النبوۃ میں نقل کریں گے۔

 

                   رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم

 

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روئے انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ چہرہ اقدس کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد جو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ لوگو! سلام کو ظاہر کرو۔ (یعنی السلام علیکم بآواز بلند کہو تاکہ جس کو سلام کیا جا رہا ہے وہ سن لے نیز یہ کہ ہر ایک سے سلام کرو چا ہے وہ آشنا ہو یا بے گانہ) اور (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو، نیز رات میں اس وقت تہجد کی نماز پڑھو جب کہ لوگ سوتے ہو (اگر یہ کرو گے) تو جنت میں سلامتی کے ساتھ (یعنی بغیر عذاب کے) داخل ہو گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ ، دارمی)

 

                   غریبوں کو کھانا کھلانے کا حکم

 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ رب العزت کی بندگی کرو (غریبوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کو ظاہر کرو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

 

 

               مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان

 

                   پیادہ پا سعی کرنا واجب ہے

 

حضرت قدامۃ بن عبداللہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کرتے دیکھا ہے اور اس وقت نہ مارنا تھا نہ ہانکنا تھا اور نہ ہٹو بچو کی آوازیں تھیں۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی جب کہ اوپر کی حدیث اور بعض دوسری احادیث سے یہ ثابت ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیادہ پا سعی کی ہے۔ لہٰذا احادیث کے اس تضاد کو یوں ختم کیا جائے کہ کسی سعی میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیادہ پا تھے اور کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعلیم امت کی خاطر یا کسی عذر کی وجہ سے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق بشرط قدرت پیادہ پا سعی کرنا واجب ہے اگر کوئی شخص بلا عذر سواری وغیرہ پر سعی کرے گا تو اس پر دم جانور ذبح کرنا واجب ہو گا۔

حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ پر سوار ہو کر سعی کر رہے تھے تو اس وقت اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے اور اظہار شان کی خاطر نہ تو کسی کو مارتے دھکیلتے تھے اور نہ ہاتھ وغیرہ سے کسی کو ہٹاتے تھے اور نہ ہٹو بچو کی ہانک لگاتے تھے جیسا کہ امراء و سلاطین اور حکام نیز ظالم و مغرور لوگوں کی عادت ہے ، گویا اس جملہ کے ذریعہ ایسے لوگوں کو غیرت دلانا اور ان پر طعن مقصود ہے جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں۔

 

                   ۲طواف میں اضطباع

 

حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حالت میں طواف کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سبز (دھاریوں والی) چادر کے ذریعہ اضطباع کیے ہوئے تھے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

پہلے بتایا جا چکا ہے کہ چادر کو اس طرح اوڑھنا کہ اسے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے ، اضطباع کہلاتا ہے۔ طواف کے وقت اس طرح چادر اوڑھنے کی وجہ بھی پہلے بیان کی جا چکی ہے۔

 

                   طواف میں اضطباع سنت ہے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے جعرانہ سے کہ جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے عمرہ کیا، چنانچہ سب نے خانہ کعبہ کے طواف کے پہلے تین پھیروں میں رمل کیا نیز انہوں نے طواف میں اپنی چادروں کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کاندھوں پر ڈال لیا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اضطباع پورے طواف میں سنت ہے جب کہ رمل یعنی تیز اور اکڑ کر چلنا طواف کے پہلے دو تین پھیروں میں ہوتا ہے اتنی بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اضطباع صرف طواف کے وقت ہی مستحب ہے ، طواف کے علاوہ اوقات میں مستحب نہیں ہے ، نیز بعض لوگ جو ابتداء احرام ہی سے اضطباع اختیار کر لیتے ہیں اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔

 

                   استلام حجر اسود و رکن یمانی کی اہمیت

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دونوں رکن استلام کرتے دیکھا ہے ہم نے ان دونوں رکن یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام نہ کبھی بھیڑ میں چھوڑا ہے اور نہ چھیڑ میں (یعنی کسی حال میں بھی ہم نے اس سعادت کو ترک نہیں کیا ہے) (بخاری و مسلم) نیز بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو ہاتھ سے چھوتے اور پھر اس ہاتھ کو چومتے اور فرماتے کہ جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے کبھی اس کو ترک نہیں کیا۔

 

                   بسبب عذر سوار ہو کر طواف کرنا جائز ہے

 

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حج کے دنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں جس کی وجہ سے پیادہ پا طواف نہیں کر سکتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگوں سے ایک طرف ہو کر سوار پر طواف کر لو۔ چنانچہ میں نے اسی طرح طواف کیا، اور میں نے اس دوران دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کے پہلو میں یعنی خانہ کعبہ کی دیوار متصل نماز پڑھ رہے تھے اور نماز میں آیت (والطور و کتاب مسطور) کی قرأت فرما رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

سورہ طور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت میں پڑھی ہو گی اور دوسری رکعت میں کوئی اور سورہ پڑھی ہو گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی۔ یا یہ کہ سورہ طور کو دونوں ہی رکعتوں میں پڑھا ہو گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی بناء پر بیت اللہ کا طواف سوار ہو کر کرنا جائز ہے بلا عذر جائز نہیں ہے کیونکہ پیادہ پا طواف کرنا واجب ہے۔

 

                   بوسہ دیتے ہوئے حجر اسود سے حضرت عمر کا خطاب

 

حضرت عابس بن ربیعہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور اس کے سامنے یہ فرماتے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اس اعتقادی و عملی گمراہی کو روکنے کے لئے تھا کہ کہیں بعض نو مسلم اس پتھر کو پوجنے ہی نہ لگیں ، چنانچہ اس ارشاد سے آپ کی مراد یہی تھی کہ یہ پتھر بذات خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے ، اگر اس کی ذات سے کوئی نفع پہنچتا ہے تو صرف اسی حد تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں اس کو چومنے سے ثواب ملتا ہے۔

 

                   رکن یمانی پر دعا اور وہاں متعین فرشتوں کی آمین

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہاں یعنی رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں، چنانچہ جو شخص وہاں یہ دعا پڑھتا ہے ، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ، دعا یہ ہے۔ (اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرہ حسنۃ وقنا عذاب النار)۔ (ابن ماجہ) اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور دنیا و آخرت میں عافیت مانگتا ہوں ، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں اگ کے عذاب سے بچا۔

 

تشریح

 

رکن یمانی کی جب یہ فضیلت ہے تو حجر اسود کی فضیلت تو اس سے بھی زائد ہو گی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فضیلت و امتیاز صرف رکن یمانی ہی کے ساتھ مختص ہو اور حجر اسود کے لئے اس سے زائد دوسری فضیلتیں ہوں۔ اس حدیث میں اور حدیث نمبر اکیس میں کہ جس میں یہ ذکر ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان۔ ربنا آتنا الخ۔ پڑھتے تھے ، کوئی منافات و تضاد نہیں ہے بایں طور کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طواف کے دوران رکن یمانی کی طرف پہنچتے اور چلتے ہوئے یہ دعا شروع کرتے تو ظاہر ہے کہ اس دعا کا پڑھنا رکن یمانی اور حج اسود کے درمیان ہی ہوتا ہو گا کیونکہ طواف کرتے ہوئے دعا کے لئے ٹھہرنا تو درست نہیں ہے۔ چنانچہ جو لوگ طواف کے دوران ٹھہر کر دعا پڑھتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔

 

                   طواف کی حالت میں تسبیح و تہلیل وغیرہ کی فضیلت

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور طواف کے دوران۔ دعا (سبحان اللہ و الحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ)۔ کے علاوہ اور کوئی کلام نہ کرے تو اس کے دس گناہ محو کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور جو شخص طواف کرے اور اس طواف کرنے کی حالت میں کلام کرے تو وہ اپنے دونوں پاؤں کے ساتھ دریائے رحمت میں اسی طرح داخل ہوتا ہے جس طرح کوئی اپنے پاؤں کے ساتھ پانی میں داخل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزو کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص طواف کی حالت میں تسبیح و تکبیر اور تہلیل وغیرہ میں مشغول رہتا ہے اس کے گناہ دور ہوتے رہتے ہیں اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے درجات میں بلندی عطا فرمائی جاتی ہے۔

دوسرا جزو  اور جو شخص طواف کرے اور اسی حالت میں کلام کرے درحقیقت پہلے ہی جزو کی تکرار ہے اور اس حالت میں کلام کرے میں کلام سے مراد تسبیح و تکبیر وغیرہ کے مذکورہ بالا کلمات پڑھنا ہیں، دوبارہ اس بات کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے ، تاکہ طواف کی حالت میں ان کلمات کا مزید ثواب بیان کیا جائے کہ ایک ثواب تو وہ ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ایک ثواب یہ ہے لیکن علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ حدیث کے اس دوسرے جز میں کلام سے مراد تسبیح و تکبیر وغیرہ کے مذکورہ بالا کلمات کے علاوہ دوسرے قسم کے اذکار اور اولیء کرام و مشائخ عظام کے منقولات و ارشادات وغیرہ ہیں۔

 

 

               وقوف عرفات کا بیان

 

                   وقوف عرفات کا بیان

 

عرفہ ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور یہ زمان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بایں طور کہ نویں ذی الحجہ کو عرفہ کا دن کہتے ہیں۔ لیکن  عرفات جمع کے لفظ کے ساتھ صرف اس مخصوص جگہ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جمع اطراف و جوانب کے اعتبار سے ہے۔

عرفات مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے پندرہ میل (پچیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ ایک وسیع وادی یا میدان ہے جو اپنے تین طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے ، درمیان میں اس کے شمالی جانب جبل الرحمۃ ہے۔

عرفات کی وجہ تسمیہ کے متعلق بہت اقوال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا جب جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے۔ اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا ہے اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو افعال حج کی تعلیم دے رہے تھے تو وہ اس دوران ان سے پوچھتے کہ عرفت (یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے) تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراہیم جواب میں کہتے عرفت (ہاں میں جان لیا) اور آخرکار دونوں کے سوال و جواب میں اس کلمہ کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔

وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدان عرفات میں پہنچنا اس کی ادائیگی حج کے سلسلہ میں ایک سب سے بڑا رکن ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چنانچہ حج کے دو رکنوں یعنی طواف الافاضہ اور وقوف عرفات میں وقوف عرفات چونکہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے اس لئے اگر یہ ترک ہو گیا تو حج ہی نہیں ہو گا۔

 

                   عرفہ کے دن تکبیر و تلبیہ کا مسئلہ

 

حضرت محمد بن ابوبکر ثقفی (تابعی) کے بارہ میں منقول ہے انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا جب کہ وہ دونوں صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے ، کہ آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اس عرفہ کے دن کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم میں سے لبیک کہنے والا لبیک کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

علامہ طیبی کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن حاجیوں کو تکبیر کہنی جائز تو ہے جیسا کہ اور اذکار جائز ہیں لیکن سنت نہیں ہے بلکہ اس دن ان کے لئے سنت تلبیہ میں مصروف رہنا ہے جب تک کہ وہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ نہ ہو جائیں۔

یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز پڑھنے والے کے لئے خواہ حج میں ہو یا حج کے علاوہ ہو، تکبیر کہنی واجب ہے۔

 

                   منیٰ میں قربانی اور عرفات و مزدلفہ میں وقوف کی جگہ

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تو اس جگہ قربانی کی ہے ویسے منیٰ میں ہر جگہ قربان گاہ ہے لہٰذا تم اپنے ڈیروں میں قربانی کرو اور میں نے تو اس جگہ وقوف کیا ہے ویسے عرفات میں ہر جگہ موقف ہے اور میں نے تو اس جگہ وقوف کیا ہے ویسے مزدلفہ کی ہر جگہ موقف ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس جگہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ کی اس خاص جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کی، چنانچہ یہ جگہ منحر النبی (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قربانی کرنے کی جگہ) کہی جاتی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے تو یہاں قربانی کی ہے ویسے منیٰ میں کسی بھی جگہ قربانی کی جا سکتی ہے کیونکہ وہاں ہر جگہ قربانی کرنا سنت ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں اپنے وقوف کی جگہ اشارہ کر کے فرمایا کہ میں تو عرفات میں اس جگہ سوائے وادی عرفہ کے وقوف کیا جا سکتا ہے۔

مزدلفہ کو  جمع بھی کہتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہاں کے بارہ میں اپنے وقوف کے جگہ کی طرف کہ جو مشعر حرام کے قریب ہے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے تو یہاں وقوف کیا ہے ویسے مزدلفہ میں کسی بھی جگہ علاوہ وادی محسر کے وقوف کیا جا سکتا ہے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ منیٰ میں کسی بھی جگہ قربانی کی جا سکتی ہے ، عرفات اور مزدلفہ میں کسی بھی جگہ علاوہ وادی عرفہ اور وادی محسر کے وقوف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس جگہ قربانی کی ہے ، جس جگہ وقوف کیا ہے ، اسی جگہ قربانی کرنا یا وقوف کرنا بہرحال افضل ہے۔

 

                   عرفہ کے دن کی فضیلت

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آگ سے آزاد کرتا ہو (یعنی اس عرفہ کے دن عرفات میں اللہ تعالیٰ سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات اور رستگاری کا پروانہ عطا فرماتا ہے) اور بلاشبہ (اس دن) اللہ تعالیٰ (اپنی رحمت و مغفرت کے ساتھ) بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے حج کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ (یہ جو کچھ بھی چاہتے ہیں) میں انہیں وہ دوں گا۔ (مسلم)

 

                   امام کے موقف سے بعد میں کوئی مضائقہ نہیں

 

حضرت عمرو بن عبداللہ بن صفوان (تابعی) اپنے ماموں سے کہ جن کا نام یزید بن شیبان تھا، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم میدان عرفات میں اس جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے جو ہمارے لئے متعین تھی۔ اور عمرو اس جگہ کو امام کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے بہت دور بیان کرتے تھے ، چنانچہ ابن مربع الانصاری ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایلچی بن کر تمہارے پاس آیا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ تم لوگ اپنے مشار (یعنی اپنی عبادت کی جگہ) ٹھہرے رہو کیونکہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث (کی پیروی) پر قائم ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

عرب میں زمانہ اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ میدان عرفات میں ہر قبیلہ اور ہر قوم کے لئے الگ الگ ایک جگہ موقف کے لئے متعین ہوتی تھی، ہر شخص اسی جگہ وقوف کرتا جو اس کی قوم کے لئے متعین ہوتی، چنانچہ حضرت یزید بن شیبان کے قبیلہ کا موقف جس جگہ تھا وہ جگہ اس مقام سے بہت دور تھی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وقوف فرمایا تھا، لہٰذا حدیث امام کے موقف سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا موقف ہے۔

بہرکیف میدان عرفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس دوری اور بعد کی بنا پر یزید بن شیبان نے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ عرض کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں بھی اپنے قریب ہی وقوف کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ اس بات کی درخواست کرنے والے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صحابی کے ذریعے کہ جن کا نام ابن مربع تھا یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ اپنے قدیمی موقف پر ہی وقوف کرو چنانچہ حدیث  مشاعر سے مراد ان کا قدیمی موقف ہے اور تم لوگ اپنے اس موقف سے جو تمہارے دادا سے تمہارے لئے متعین چلا آ رہا ہے منتقل ہونے کی خواہش نہ کرو، کیونکہ اول تو پورا میدان عرفات موقف ہے۔ دوسرے یہ کہ میدان عرفات میں امام کے موقف کی دوری یا نزدیکی سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر یہ کہ اگر ہر شخص یہی خواہش کرنے لگے کہ میں اپنے امام اور اپنے امیر کے قریب ہی وقوف کروں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات ان کی تسلی کے لئے کہلائی تاکہ آپس میں نزاع و اختلاف کی صورت پیدا نہ ہو جائے۔

 

                   حدود حرم میں ہر جگہ قربانی کی جا سکتی ہے

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پورا میدان عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے ، سارا منیٰ قربان گاہ ہے ، سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور مکہ کا ہر راستہ (اور اس کی ہر گلی) راستہ اور قربانی کی جگہ ہے۔ (ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری کلمات کا مطلب یہ ہے کہ جس راستہ سے بھی مکہ میں جائیں درست ہے اور مکہ میں جس جگہ چاہیں قربانی کا جانور ذبح کریں جائز ہے کیونکہ قربانی کا جانور حرم میں ذبح کرنا چاہئے اور مکہ حرم میں واقع ہے ، یہ اور بات ہے کہ قربانی کا جانور منیٰ ہی میں ذبح کرنے کا دستور بن گیا ہے کیونکہ قربانی کے دن کہ وہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے حاجی منیٰ میں ہوتے ہیں اس لئے اپنی قربانی بھی وہیں کرتے ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات بیان جواز کی خاطر ارشاد فرمائی ورنہ تو وہی جگہ افضل ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وقوف فرمایا جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کا جانور ذبح کیا اور وہی راستہ افضل ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ آئے۔

 

                   آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ کس طرح ارشاد فرمایا

 

حضرت خالد بن ہوذہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفہ کے دن (میدان عرفات میں) اونٹ کے اوپر دونوں رکابوں پر کھڑے ہوئے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

بلندی پر ہونے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکابوں پر کھڑے ہوئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ دور و نزدیک کے سبھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطبہ سن سکیں۔

 

                   یوم عرفہ کی دعا

 

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ وہ میدان عرفات میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ) اور ان کلمات میں کہ جو میں نے یا مجھ سے پہلے کے نبیوں نے بطور دعا پڑھے ہیں سب سے بہتر یہ کلمات ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئی قدیر۔ اللہ کے سوa کوئی معبود نہیں جو یکتا و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے ، نیز مالک نے اس روایت کو طلحہ بن عبیداللہ سے الفاظ لا شریک لہ تک نقل کیا ہے۔

 

                   یوم عرفہ شیطان کی سب سے زیادہ ذلت و خواری کا دن ہے

 

حضرت طلحہ بن عبیداللہ بن کریز کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل و راندہ اور اتنا زیادہ حقیر پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے (یعنی یوں تو شیطان ہمیشہ ہی آدمیوں کو نیکیاں کرتا ہوا دیکھ کر پر غیظ و حقیر ہوتا ہے مگر عرفہ کے دن سب دنوں سے زیادہ پر غیظ ہوتا ہے اور ذلیل و خوار بھی) اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ (اس دن ہر خاص و عام پر) اللہ کی نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔ ہاں بدر کے دن بھی شیطان کو ایسا ہی دیکھا گیا تھا (یعنی غزوہ بدر کے دن جب مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو شوکت حاصل ہوئی تو اس دن بھی شیطان عرفہ ہی کے دن کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ذلیل و خوار اور پرغیظ تھا) چنانچہ (بدر کے دن) شیطان نے دیکھا تھا کہ حضرت جبرائیل (مشرکین سے لڑنے کے لئے) فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے۔ اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے ، نیز شرح السنہ میں یہ روایت مصابیح کے الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔

 

                   یوم عرفہ کی فضیلت

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی رحمت اور احسان و کریم کے ساتھ قریب ہوتا ہے) اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو، یہ میرے پاس پراگندہ بال، گرد آلود اور لبیک و ذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور، دور سے آئے ہیں، میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا، (یہ سن کر) فرشتے کہتے ہیں کہ پروردگار ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت بھی ہے جو گنہ گار ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انہیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کی برابر لوگوں کو آگ سے نجات و رستگاری کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔ (شرح السنہ)

 

                   عرفات میں وقوف کا حکم

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے طریقہ کے پابند تھے مزدلفہ میں قیام کرتے تھے اور قریش کو حمس یعنی بہادر و شجاع کہا جاتا تھا۔ (قریش کے علاوہ) اور تمام اہل عرب میدان عرفات میں وقوف کرتے تھے ، لیکن جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ میدان عرفات میں آئیں وہاں وقوف کریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد۔ آیت (ثم افیضوا من حیث افاض الناس)۔ پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوتے ہیں وہیں سے تم بھی واپس ہو۔ کے یہی معنیٰ ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

مزدلفہ حدود حرم میں واقع ہے ، جب کہ عرفات حرم سے باہر ہے۔ چنانچہ قریش اور ان کے حواری دوسرے لوگوں پر اپنی برتری اور فوقیت جتانے کے لئے مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم  اہل اللہ ہیں اور اللہ کے حرم کے باشندہ ہیں اس لئے ہم حرم سے باہر وقوف نہیں کر سکتے ، قریش کے علاوہ اور تمام اہل عرب قاعدہ کے مطابق میدان عرفات ہی میں قیام کرتے تھے چنانچہ جب اسلام کی روشنی نے طبقاتی اور اونچ نیچ کی تاریکیوں کو ختم کر دیا اور قبیلہ و ذات کے دنیاوی فرق و امتیاز کو مٹا ڈالا تو یہ حکم دیا گیا کہ جس طرح تمام لوگ میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں اسی طرح قریش بھی میدان عرفات ہی میں وقوف کریں اور اس طرح اپنے درمیان امتیاز و فوقیت کی کوئی دیوار کھڑی نہ کریں۔

 

                   مزدلفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا کی قبولیت اور ابلیس کا واویلا

 

حضرت عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی، جو قبول کی گئی اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو بخش دیا۔ علاوہ بندوں کے حقوق کے کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق لوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا کہ میرے پروردگار! اگر تو چا ہے تو مظلوم کو اس حق کے بدلہ میں کہ جو ظالم نے کیا ہے جنت کی نعمتیں عطا فرما دے اور ظالم کو بھی بخش دے۔ مگر عرفہ کی شام کو یہ دعا قبول نہیں کی گئی، جب مزدلفہ میں صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر وہی دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو چیز مانگی وہ عطا فرما دی گئی راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے یا راوی نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرا باپ اور میری ماں آپ پر قربان! یہ ایسا وقت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنستے نہیں تھے۔ (یعنی یہ وقت ہنسنے کا تو نہیں ہے) پھر کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دانتوں کو ہنستا رکھے (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، دشمن خدا ابلیس کو جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ بزرگ و برتر نے میری دعا قبول کر لی ہے اور میری امت کو بخش دیا تو اس نے مٹی لی اور اسے اپنے سر پر ڈالنے لگا اور واویلا کرنے اور چیخنے چلانے لگا چنانچہ اس کی بدحواسی اور اضطراب نے مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

چونکہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کو مغفرت عام سے نوازا گیا ہے کہ حقوق اللہ بھی بخش دئیے ہیں اور حقوق العباد بھی اس لئے بہتر یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم میں یہ قید لگا دی جائے کہ اس مغفرت عام کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ جو اس سال حج کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ، یا یہ بات اس شخص کے حق میں ہے جس کا حج مقبول ہو بایں طور کہ اس کے حج میں فسق و فجور کی کوئی بات نہ ہو۔

یا پھر یہ کہ مفہوم اس ظالم پر محمول ہے جس کو توبہ کی توفیق ہوئی اور اس نے صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی مگر حق کی واپسی سے عاجز و معذور رہا۔ پھر یہ کہ رحمت خداوندی جسے چا ہے اپنے دامن میں چھپا سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ آیت (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء)۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے ہاں مشرک کے علاوہ جس کو چا ہے گا بخش دے گا۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت اور مغفرت عام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت ہر مسلمان کو حاصل ہو گی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار، اور اس کی صورت یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں صالح اور نیکو کار لوگوں کے تو درجات بلند کرے گا اور اکثر گنہگاروں کو بخش کر جنت میں داخل کرے گا۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو دوزخ میں ہوں گے تو ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت کا اثر یہ ہو گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف اور مدت عذاب میں کمی کر دی جائے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بھی انشاء اللہ ہر مسلمان کو حاصل ہو گی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار۔ بایں طور کہ جنت میں صالح و نیکوکاروں کے درجات اس جزاء و انعام سے زیادہ بلند ہوں گے جس کا وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے مستحق ہو گا۔ اور فاجر و گنہگار کے حق میں اس کی مغفرت یہ ہو گی کہ یا تو انہیں اپنے فضل و کرم سے بغیر عذاب ہی کے جنت میں داخل کر دے گا یا پھر ان کے عذاب کی شدت میں کمی کر دے گا جو مغفرت ہی کی ایک نوع ہے۔

 

 

               عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان

 

                   عرفات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی واپسی

 

حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفتار کیا تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفتار تیز تھی اور جہاں کہیں کشادہ راستہ ملتا (اپنی سواری) دوڑاتے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منیٰ کی طرف) واپسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے چنانچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا) شور و شغب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات سنیں) اور فرمایا  لوگوں! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے ، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہو گا۔

 

                   رمی جمرہ عقبہ تک برابر تلبیہ میں مصروف رہنا سنت ہے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرفات سے مزدلفہ تک تو اسامہ ابن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا، اور ان دونوں کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمرہ عقبہ پر کنکری ماری (یعنی قربانی کے دن جب جمرہ عقبہ پر پہلی ہی کنکری ماری تو تلبیہ موقوف کر دیا) (بخاری و مسلم)

 

                   مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا (یعنی عشاء کے وقت دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا) اور ان میں سے ہر ایک کے لئے تکبیر کہی گئی (یعنی مغرب کے لئے علیحدہ تکبیر ہوئی اور عشاء کے لئے علیحدہ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو ان دونوں کے درمیان نفل نماز پڑھی اور نہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعد۔ (بخاری)

 

تشریح

 

ان نمازوں کے بعد نفل پڑھنے کی جو نفی کی گئی ہے تو اس سے ان دونوں کے بعد سنتیں اور وتر پڑھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔

باب قصۃ حجۃ الوداع میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث گزری ہے اس کے ان الفاظ لم یسبح بینہما شیأ کی وضاحت میں ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ جب مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ چکے تو مغرب و عشاء کی سنتیں اور نماز وتر بھی پڑھی۔ چنانچہ ایک روایت میں بھی یہ منقول ہے کہ نیز شیخ عابد سندھی نے در مختار کے حاشیہ میں اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال نقل کرنے کے بعد یہی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء کی نماز کے بعد سنتیں اور وتر پڑھی۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی نماز اپنے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں پڑھی ہو سوائے دو نمازوں کے کہ وہ مغرب و عشاء کی ہیں جو مزدلفہ میں پڑھی گئی تھیں (یعنی مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی) اور اس دن (یعنی مزدلفہ میں قربانی کے دن) فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وقت سے پہلے پڑھی تھی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

یہاں صرف مغرب و عشاء کی نمازوں کو ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت پڑھی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز بھی ایک ساتھ اسی طرح پڑھی تھی کہ عصر کی نماز مقدم کر کے ظہر کے وقت ہی پڑھ لی گئی تھی، لہٰذا یہاں ان دونوں نمازوں کو اس سبب سے ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دن کا وقت تھا، سب ہی جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی نماز کو مقدم کر کے ظہر کے وقت پڑھا ہے اس لئے اس کو بطور خاص ذکر کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

فجر کی نماز وقت سے پہلے پڑھی  کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن فجر کی نماز وقت معمول یعنی اجالا پھیلنے سے پہلے تاریکی ہی میں پڑھ لی تھی، یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کے وقت سے پہلے پڑھی تھی کیونکہ تمام ہی علماء کے نزدیک فجر کی نماز، فجر سے پہلے پڑھنی جائز نہیں ہے۔

 

                   مزدلفہ سے عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی منیٰ روانہ کر دینا جائز ہے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اہل و عیال کے کمزور ضعیف لوگوں کے جس زمرے کو مزدلفہ کی رات میں پہلے ہی بھیج دیا تھا اسی میں میں بھی شامل تھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

کمزور و ضعیف لوگوں سے مراد عورتیں اور بچے ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دسویں ذی الحجہ کو پہلے ہی سے منیٰ روانہ کر دیا تھا ان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آفتاب طلوع ہونے سے پہلے اور صبح روشن ہو جانے کے بعد منیٰ کے لئے سوار ہوئے جیسا کہ سنت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہی عیال کو پہلے اس لئے بھیج دیا تھا تاکہ ہجوم کی وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو اور ایسا کرنا جائز ہے۔

 

                   رمی جمار کا وقت

 

ایک اور روایت میں جو آگے آ رہی ہے یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو پہلے سے روانہ کر دیا اور ان سے فرمایا کہ رمی جمرہ عقبہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد ہی کرنا، چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ رمی جمرہ عقبہ کا وقت دسویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن بعض روایت میں یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں سے بس اتنا ہی فرمایا تھا کہ جاؤ اور رمی جمرہ عقبہ کرو، اس روایت میں طلوع آفتاب کی قید نہیں ہے ، چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے اسی روایت پر عمل کیا کہ ان کے ہاں رمی جمرہ عقبہ کا وقت نصف شب کے بعد ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔

 

                   رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ یا راستہ سے لے لی جائیں

 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے جو (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، بیان کیا کہ جب عرفہ کی شام کو (عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے) اور مزدلفہ کی صبح کو (مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے) لوگوں نے سواریوں کو تیزی سے ہانکنا اور مارنا شروع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اطمینان و آہستگی کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے اور اس وقت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے بڑھا رہے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی محسر میں جو منیٰ (کے قریب مزدلفہ کے آخری حصہ) میں ہے پہنچے تو فرمایا کہ تمہیں (اس میدان سے) خذف کی کنکریاں اٹھا لینی چاہئیں جو جمرہ (یعنی مناروں) پر ماری جائیں گی۔ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمی جمرہ تک برابر لبیک کہتے رہے تھے (یعنی جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری ماری تو لبیک کہنا موقوف کر دیا)۔ (مسلم)

 

تشریح

 

عرفہ کے دن شام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میدان عرفات سے مزدلفہ کو چلے تو اس وقت حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

خذف اصل میں تو چھوٹی کنکری یا کھجور کی گٹھلی دونوں شہادت کی انگلیوں میں رکھ کر پھینکنے کو کہتے ہیں۔ اور یہاں  خذف کی مانند کنکریوں سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جو چنے کے برابر ہوتی ہیں یہاں سے اٹھا لو جو رمی جمار کے کام آئیں گی۔

اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ سے روانگی کے وقت وہیں سے یا راستہ میں سے اور یا جہاں سے جی چا ہے لے لی جائیں ہاں جمرہ کے پاس سے وہ کنکریاں نہ لی جائیں جو جمرہ پر ماری جا چکی ہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے ویسے اگر کوئی شخص جمرہ کے پاس ہی سے پہلے پھینکی گئی کنکریاں اٹھا کر مارے تو یہ جائز تو ہو جائے گا مگر خلاف اولیٰ ہو گا۔ چنانچہ شمنی نے شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ ان کنکریوں سے رمی کافی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا برا ہے۔

اس بارہ میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ کنکریاں کتنی اٹھائی جائیں؟ آیا صرف اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے لئے سات کنکریاں اٹھائی جائیں یا ستر کنکریاں اٹھائی جائیں جن میں سات تو اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے کام آئیں اور تریسٹھ بعد کے تینوں دنوں میں تینوں جمرات پر پھینکی جائیں گی۔

 

                   آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے اپنے وصال کی اطلاع

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (منیٰ کے لئے) مزدلفہ سے چلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفتار میں سکون و وقار تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے لوگوں کو بھی سکون و اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ہاں میدان محسر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹنی کو تیز رفتاری کے ساتھ گزارا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ خذف کی کنکریوں جیسی (یعنی چنے کی برابر) سات کنکریوں سے رمی کریں، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) یہ بھی فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہیں دیکھوں گا۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے یہ حدیث بخاری و مسلم میں تو پائی نہیں۔ ہاں ترمذی میں یہ حدیث کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ مذکور ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال میری دنیاوی زندگی کا آخری سال ہے ، آئندہ سال میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا، اس لئے تم لوگ مجھ سے دین کے احکام اور حج کے مسائل سیکھ لو۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کہ اسی حج کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دین کے احکام پورے طور پر لوگوں تک پہنچا دئیے اور اپنے صحابہ کو رخصت و وداع کیا، پھر اگلے سال یعنی بارہ ہجری کے ماہ ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا۔

صاحب مشکوٰۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو پہلی فصل میں نقل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اس لئے صاحب مصابیح کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس روایت کو پہلی فصل کی بجائے دوسری فصل میں نقل کرتے۔ اگرچہ اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا اعتراض پھر بھی باقی رہتا۔

 

                   عرفات سے واپسی اور مزدلفہ سے روانگی کا وقت

 

حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایام جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) لوگ عرفات سے اس وقت واپس ہوتے جب آفتاب غروب ہونے سے پہلے مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا (یعنی عرفات سے غروب آفتاب سے پہلے چلتے) اور مزدلفہ سے طلوع آفتاب کے بعد اس وقت روانہ ہوتے جب آفتاب مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا ، مگر ہم عرفات سے اس وقت تک نہیں چلیں گے جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہو جائے اور مزدلفہ سے ہم سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہوں گے کیونکہ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور مشرکین سے مختلف ہے۔۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگ عرفات سے ایسے وقت چلتے تھے جب آفتاب آدھا تو غروب ہو چکا ہوتا اور اس کا آدھا حصہ باہر ہوتا آفتاب کی اسی صورت کو پگڑی سے مشابہت دی گئی ہے کہ آفتاب کا آدھا گروہ پگڑی کی شکل کا ہوتا ہے ، اسی طرح مزدلفہ سے ایسے وقت روانہ ہوتے جب آفتاب کا آدھا حصہ طلوع ہو چکا ہوتا اور آدھا حصہ اندر رہتا۔

صاحب مشکوۃ کو اس کی تحقیق نہیں ہو سکی تھی کہ یہ روایت کس نے نقل کی ہے ، چنانچہ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ چھوٹی ہوئی ہے البتہ ایک دوسرے صحیح نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ رواہ البیہقی فی شعب الایمان وقال خطبنا وساقہ نحوہ۔

 

 

                   رات میں رمی جائز نہیں ہے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں مزدلفہ کی رات (یعنی شب عیدالاضحی) میں (منیٰ کے لئے) روانہ کیا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ہم کئی بچے تھے (جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رات میں روانہ کیا تھا اور گدھے ہماری سواری تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ہماری روانگی کے وقت از راہ محبت و الفت) ہماری رانوں پر ہاتھ مارتے اور فرماتے تھے۔ میرے چھوٹے بچو! جب تک سورج نہ نکلے تم منارے (یعنی جمرہ عقبہ) پر کنکریاں نہ پھینکنا۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رات میں رمی جائز نہیں ہے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں آدھی رات کے بعد سے رمی جائز ہے ، نیز طلوع فجر کے بعد اور آفتاب نکلنے سے پہلے رمی اگرچہ تمام علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کراہت کے ساتھ جواز کے قائل ہیں، حنفی مسلک کے مطابق طلوع آفتاب کے بعد رمی مستحب ہے۔

 

                   امام شافعی کی مستدل حدیث اور اس کی تاویل

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بقر عید کی رات میں (مزدلفہ سے منیٰ) بھیج دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے (وہاں پہنچ کر) فجر سے پہلے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور پھر وہاں سے (مکہ) آئیں اور طواف افاضہ (جو فرض ہے) کیا اور یہ وہ دن تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تھے یعنی یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ میں دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو اس رات میں منیٰ کیوں بھیجا، انہوں نے رات میں رمی کیوں کی اور دن ہی میں طواف افاضہ سے فارغ کیوں ہو گئیں جب کہ دیگر ازواج مطہرات نے اگلی رات میں طواف افاضہ کیا؟

حضرت امام شافعی فجر سے پہلے رمی جمرہ کے جواز کے لئے اس حدیث کو دلیل قرار دیتے ہیں اگرچہ افضل فجر کے بعد ہے حضرت امام شافعی کے علاوہ دیگر علماء اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ سہولت و رعایت ہے جو صرف حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دی گئی تھی دوسروں کے لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت کے پیش نظر فجر سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں فجر سے مراد نماز فجر ہو کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نماز فجر سے پہلے اور طلوع فجر کے بعد رمی کی۔

 

                   عمرہ میں تلبیہ کب موقوف کیا جائے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مقیم اور عمرہ کرنے والا حجر اسود کو بوسہ دینے تک لبیک کہتا رہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو (بطریق مرفوع) نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔

 

تشریح

 

مقیم سے مراد مکہ کا رہنے والا ہے جو عمرہ کرے اور  عمرہ کرنے والا  سے غیر مکی مراد ہے جو عمرہ کے لئے مکہ آیا ہو، لہٰذا جملہ۔ یلبی المقیم اوالمعتمر۔ میں حرف ، او، تنویع کے لئے ہے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح حج میں رمی جمرہ عقبہ پر تلبیہ کو موقوف کرتے ہیں اسی طرح عمرہ میں حجر اسود کو چومتے ہی تلبیہ موقوف کر دیا جائے۔

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات و مزدلفہ کا پورا درمیانی راستہ سواری پر طے کیا

 

حضرت یعقوب بن عاصم بن عروہ (تابعی) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت شرید رضی اللہ عنہ (صحابی) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں (عرفات) واپسی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک زمین پر نہیں گئے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس روایت کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات سے مزدلفہ تک کا پورا راستہ سواری پر طے کیا پیدل نہیں چلے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورے راستہ میں زمین پر قدم ہی نہیں رکھے کیونکہ صحیح بخاری میں منقول ہے کہ عرفات سے واپسی کے موقع پر راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (سواری سے اتر کر) پہاڑ کے ایک درہ کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں پیشاب کیا اور پھر وضو کیا یہ دیکھ کر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا نماز کا وقت آ گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نماز تو آگے آ رہی ہے (یعنی مزدلفہ پہنچ کر پڑھیں گے)۔

 

                   ہدیہ و مصافحہ کی فضیلت

 

اور حضرت عطاء خراسانی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو کہ اس سے بغض و کینہ جاتا رہے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ بھیجتے رہا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے امام مالک نے اس روایت کو بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے دوپہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی اس نے گویا ان چار رکعتوں کو شب قدر میں پڑھا اور دو مسلمان جب آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کوئی گناہ باقی نہیں رہتا بلکہ جھڑ جاتا ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ گناہوں سے مراد عام گناہ ہیں لیکن طیبی نے کہا ہے کہ گناہ سے مراد بغض و کینہ اور دشمنی ہے جیسا کہ اس سے پہلے حدیث میں بیان کیا گیا۔

 

                   کھڑے ہونے کا بیان

 

کھڑے ہونے سے مراد کسی کے لیے تعظیماً کھڑے ہونا، بعض علماء نے لکھا ہے کہ مجلس میں یا اپنے پاس آنے والے شخص کی تعظیم و توقیر کے لیے کھڑے ہو جانا مسنون ہے۔ ان حضرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی سے استدلال کیا ہے کہ قومواالی سیدکم جیسا کہ آگے حدیث میں آ رہا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مکروہ و بدعت ہے اور اس کی ممانعت ثابت ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس طرح عجمی کھڑے ہو جاتے ہیں اس طرح تم نہ اٹھو اور فرمایا کہ یہ عجمیوں کا دستور ہے۔

 

                   اہل فضل کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا جائز ہے

 

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حکم و ثالث بنانے پر اتر آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی شخص کو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو بلائے اور وہ آ کر بنو قریظہ کا مطالبہ طے کریں) اس وقت حضرت ابوسعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کے قریب ہی فروکش تھے چنانچہ وہ خر پر بیٹھ کر آئے اور جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دیکھ کر یہ فرمایا اے انصار تم اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ (بخاری و مسلم) اور یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ قیدیوں کے باب میں گزر چکی ہے۔

 

تشریح

 

بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے ، سن ٥ھ میں غزوہ خندق کے دوران ان یہودیوں نے جو منافقانہ کردار کیا اور باوجودیکہ سابقہ معاہدہ کے تحت مدینہ کے اس دفاعی مورچہ پر ان یہودیوں کو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کفار عرب کی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اپنی روایتی بدعہدی اور شرارت کا مظاہرہ کیا اور مختلف قسم کی سازشوں کے ذریعہ اس دفاعی مورچہ کو توڑنے کے لیے کفار عرب کے آلہ کار بن گئے ان کی اس بدعہدی اور سازشی کاروائیوں کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ خندق کی فتح سے فارغ ہوتے ہی ان بنو قریظہ کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا اور ان سب یہودیوں کو ان کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا مسلمانوں کی طرف سے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ ٢٥ دن تک جاری رہا آخر کار انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ ہمارا معاملہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا جائے جو قبیلہ اوس کے سردار تھے اور قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف ان یہودیوں نے کہا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو پنچ اور حکم تسلیم کرتے ہیں وہ ہمارے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہم اس کو بے چون چرا مان لیں گے یہودیوں کا خیال تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ چونکہ ہمارے حلیف قبیلے سردار ہیں اور ان کے اور ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت ہے اس لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ یقیناً ہمارے حق میں فیصلہ دیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا کہ وہ آ کر اس معاملہ میں اپنا فیصلہ دیں، حضرت سعد رضی اللہ عنہ اگرچہ اس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قیام گاہ کے قریب ہی فروکش تھے لیکن چونکہ غزوہ خندق میں وہ بہت سخت مجروح ہو گئے تھے اور خاص طور پر رگ ہفت اندام پر ایک زخم پہنچا تھا جس سے خون برابر جاری تھا اس لیے خچر پر بیٹھ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اس وقت تک ان کے زخم سے خون جاری تھا لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اعجاز تھا کہ جب آپ نے ان کو بلوا بھیجا تو خون رک گیا بہر حال حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے پورے معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اور ان کے جرم بد عہدی و غداری کی بنا پر انہی کی شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیا اس کا اصل یہ تھا کہ ان کے لڑ سکنے والے مرد قتل کر دیئے جائیں، عورتیں اور بچے غلام بنا لیے جائیں اور ان کے مال و اسباب کو تقسیم کر دیا جائے اس فیصلہ پر کسی حد تک عمل بھی ہوا۔

یہاں حدیث میں اسی وقت کے واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار سے کہا کہ دیکھو تمہارے سردار آ رہے ہیں کھڑے ہو جاؤ چنانچہ اکثر علماء اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب فضل و قابل تکریم شخص آئے تو اس کے اعزاز و احترام کے لیے کھڑے ہو جانا چاہیے ، اس کے برخلاف بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قوموا الی سیدکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ مراد نہیں تھی سعد رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم کے لیے کھڑے ہو جاؤ جیسا کہ کسی بڑے آدمی کے آ جانے پر کھڑے ہونے کا رواج ہے اور جس کی ممانعت ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ چیز عجمیوں کے رائج کردہ تکلفات میں سے ہے نیز یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک آخر زمانہ حیات تک ناپسندیدہ رہا، یحییٰ کہتے ہیں کہ اگر اس ارشاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد تعظیم و تکریم کے لیے کھڑے ہو جانے کا حکم دینا ہوتا تو آپ اس موقع پر قوموا الی سیدکم، نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ قوموا السیدکم ، لہذا ان کے علماء کے مطابق اس حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ دیکھو تمہارے سردار سعد آ رہے ہیں ان کی حالت اچھی نہیں ہے جلدی سے اٹھ کر ان کے پاس جاؤ سواری سے اترنے میں ان کی مدد کرو تاکہ اترتے وقت ان کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ حرکت کی بناء پر زخم سے خون نہ بہنے لگے۔ ان علماء کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روایت ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے تھے ، یا حضرت عدی ابن حاتم کی جو یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ میرے لیے یا تو کھڑے ہو جاتے یا اپنی جگہ سے ہل جایا کرتے تھے تو ان روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ محدثین نے ان روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔

جو حضرات اہل فضل و کمال کے آنے پر کھڑے ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عکرمہ اور حضرت عدی کے بارے میں مذکورہ بالا روایتیں ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے لیے کھڑی ہو جاتی تھیں اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کے لیے کھڑے ہو جاتے اگر اس روایت کی یہ تاویل کی جائے کہ ان کا کھڑا ہونا اظہار محبت و اتقبال کے طور پر ہوتا نہ کہ تعظیم و اجلال کے طور پر تو یہ تاویل بعید از حقیقت سمجھے جانے سے خالی نہیں ہو گی علاوہ ازیں خود طیبی نے محیی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اہل فضل و کمال جیسے علماء و صلحاء اور بزرگان دین کا اعزاز و اکرام کرنا جائز ہے علاوہ ازیں محی السنۃ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ کھڑا ہونا اہل فضل کے آنے کے وقت مستحب ہے اور نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں احادیث بھی منقول ہیں بلکہ اس کی صریح ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

مطالب المومنین میں قنیہ کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنے والے کی تعظیم کے طور پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا قیام یعنی کھڑے ہو جانا مکروہ نہیں ہے اور یہ کہ قیام بنفسہ مکروہ نہیں ہے بلکہ قیام کی طلب و پسندیدگی مکروہ ہے چنانچہ وہ قیام ہرگز مکروہ نہیں ہو گا جو کسی ایسے شخص کے لیے کیا جائے جو نہ تو اپنے لیے قیام کی طلب رکھتا ہو اور نہ اس کو پسند کرتا ہو۔قاضی عیاض مالکی نے یہ لکھا ہے کہ کھڑے ہونے کی ممانعت کا تعلق اس شخص کے حق میں ہے جو بیٹھا ہوا ہو اور بیٹھے رہنے تک لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علم و فضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم و توقیر کے طور پر کھڑے ہو جانا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کا مستحق نہ ہو بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہو جانے کی طلب و خواہش رکھتا ہو ، مکروہ ہے اور اسی طرح بیجا خوشامد و چاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے ، نیز دنیا داروں کے لیے کھڑے ہونا اور ان کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے اور اس بارے میں سخت وعید منقول ہے۔

 

                   کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر وہاں بیٹھنا سخت برا ہے

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایسا نہ ہونا چاہیے کہ جو آدمی جس جگہ بیٹھ گیا ہو کوئی شخص اس کو وہاں سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے ، البتہ بیٹھنے کی جگہ کو کشادہ رکھو اور آنے والے کو جگہ دو تاکہ اٹھانے کی حاجت نہ پڑے۔ (بخاری ، مسلم)

 

تشریح

 

بعض حضرات نے یہ کہا کہ ولکن کے بعد لیقل کا لفظ مقدر ہے یعنی مفہوم کے اعتبار سے اصل عبارت یوں ہے کہ ولکن لیقل تفسحو ا وتوسعوا، اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر وہاں نہ بیٹھے) بلکہ اس سے یہ کہنا چاہیے کہ کشادگی کے ساتھ بیٹھو اور آنے والے کو جگہ دو۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ پہلے پہنچ کر بیٹھ جائے جو کسی کے لیے مخصوص نہیں ہے مثلاً جمعہ وغیرہ کے دن مسجد وغیرہ میں پہلے پہنچ جائے اور آگے کی صف میں بیٹھ جائے یا اس کے علاوہ کسی اور مجلس میں پہلے پہنچ کر کسی عام جگہ پر بیٹھ جائے تو اس جگہ بیٹھنے کا سب سے بڑا حق دار وہی ہو گا دوسرے کسی شخص کے لیے یہ حرام ہو گا کہ وہ اس شخص کو اس جگہ سے اٹھا کر وہاں خود بیٹھ جائے۔

 

                   اپنی جگہ سے کچھ دیر کے لیے اٹھ کر جانے والا اس جگہ پر اپنا حق برقرار رکھتا ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر وہاں واپس آئے تو اس جگہ کا زیادہ حق دار وہی ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ وہ شخص اپنی جگہ سے اس ارادہ نیت کے ساتھ اٹھ کر گیا ہو کہ پھر جلدی اس جگہ واپس آئے گا مثلاً وہ وضو کے لیے اٹھ کر گیا ہو یا اس کو کوئی ایسی ضرورت پیش آ گئی ہو جس کی بنا پر اس کو تھوڑی دیر کے لیے وہاں سے اٹھ کر جانا ضروری ہو گیا ہو وہ وضو کر کے یا اس کام کو پورا کر کے جلد ہی واپس آ گیا ہو تو اس جگہ کا زیادہ مستحق وہی شخص ہو گا چنانچہ اس صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص آ کر اس جگہ بیٹھ گیا تو اس کو اٹھانا درست ہو گا کیوں کہ وہ پہلا شخص اس جگہ بیٹھنے کے اپنے حق سے محروم نہیں ہوا ہے بایں طور کہ عارضی طور پر کسی ضرورت سے اٹھ کر جانے اور پھر جلدی ہی اپنی جگہ پر واپس آ جانے کی وجہ سے اس جگہ پر اس کا حق قرار رہے گا اس کی تائید آگے آنے والی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی جگہ تشریف رکھتے اور پھر وہاں سے اٹھ کر کہیں جانے کی ضرورت پیش آتی اور واپس آنے کا ارادہ ہوتا تو آپ اپنی جگہ پر اپنی جوتیاں چھوڑ جاتے۔تاہم یہ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جگہ چھوڑ کر مجلس سے اٹھا اور کسی ضرورت سے کہیں دور دراز یا طویل وقفہ کے لیے چلا گیا اور پھر واپس آیا تو اس صورت میں وہ اپنی سابقہ جگہ کا مستحق نہیں رہے گا اگرچہ اس جگہ پر وہ اپنی کوئی چیز ہی چھوڑ کر کیوں نہ گیا ہو۔

 

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے لیے کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے تھے

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ محبوب و عزیز کوئی اور شخص نہیں تھا لیکن اس محبت و تعلق کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی انکساری کے اظہار اور اہل تکبر کے طور طریقوں کی مخالفت کی بنا پر اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ جب آپ مجلس میں تشریف لائیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جائیں بلکہ آپ کھڑے ہونے ، بیٹھنے ، کھانے پینے اور چلنے پھرنے اور دیگر افعال و اخلاق میں ترک….پر قائم و عامل تھے جو اہل عرب کی عادت تھی اس لیے آپ نے فرمایا  میں اور میری امت کے متقی لوگ، تکلف سے بیزار ہیں اور طیبی کہتے ہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرنا کمال محبت، صفائی باطن، اور اتحاد قلوب کی بنا پر تھا کہ قلبی اتحاد اور تعلق کا کمال اس طرح کے …..کا متقاضی نہیں ہوتا۔ حاصل یہ ہے کہ تعظیما کھڑے ہونا اور کھڑے نہ ہونا دونوں کا تعلق وقت و حالات اور اشخاص و تعلقات کے تفاوت پر مبنی ہوتا ہے کہ بعض وقت اور بعض حالات میں آنے والے کے لیے احتراماً کھڑے ہو جانا مناسب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں کھڑے نہ ہونا ہی مناسب ہوتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ یہ معلوم ہو کہ آنے والا کھڑے ہونے کو پسند نہیں کرتا یا آپ کے تعلقات….کے محتاج نہیں ہیں، نیز کسی ایسے شخص کے لیے کھڑے ہونا جائز نہیں ہے جو کسی بھی طرح کی دینی فضیلت نہیں رکھتا بلکہ کوئی دنیاوی حیثیت رکھتا ہے۔

 

                   لوگوں کو اپنے سامنے کھڑا رکھنے والے کے بارے میں وعید

 

اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے سامنے سیدھے کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بیٹھنے کی جگہ دوزخ میں تیار کرے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

تیار کرے یہ امر خبر کے معنی میں ہے یعنی اس اسلوب بیان کے ذریعہ آپ نے گویا یہ خبر دی ہے کہ جو شخص اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے رہیں تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ میں داخل ہونے کا مستوجب بنا لیا ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو بطریق تکبر اور اپنی تعظیم کرانے کے لیے اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے رہنے کو پسند کرتا ہوں ہاں اگر کوئی شخص اس طرح کی طلب و خواہش نہ رکھتا ہو بلکہ لوگ خود اپنی خوشی سے اس کی خدمت میں طلب ثواب کی خاطر یا بطور تواضع و انکساری اس کے سامنے کھڑے رہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ مکروہ و ممنوع یہ چیز ہے کہ اپنی تعظیم و احترام کرانے کے اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے اپنے سامنے لوگوں کو کھڑے رہنے کو پسند کیا جائے اور گریہ صورت نہ ہو تو پھر مکروہ و ممنوع نہ ہو گا۔ بیہقی نے شعب الایمان میں خطابی سے یہ نقل کیا ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وعید کا تعلق اس شخص کی ذات سے ہے جو بطریق تکبر و نخوت لوگوں کو یہ حکم دے کہ وہ اس کے سامنے کھڑے رہیں یا وہ لوگوں کے لیے ضروری قرار دیدے کہ وہ جب بھی اس کے سامنے آئیں کھڑے رہیں، نیز کہا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو حدیث گزری ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ سردار و امیر، فاضل والی، اور عادل و منصف کے سامنے کسی شخص کا با ادب کھڑے رہنا جیسا کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے کھڑا رہتا ہے مستحب ہے نہ کہ مکروہ اور بیہقی نے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ لوگوں کے کھڑے رہنا دراصل بھلائی حاصل کرنے اور تکریم و توقیر کے طور پر کھڑے ہو جانے کے مترادف ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر انصار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑے ہوئے تھے یا حضرت طلحہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہما کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے تاہم یہ ملحوظ رہے کہ جو شخص اس طرح کی حیثیت و فضیلت رکھتا اس کے سامنے احتراما کھڑے ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس کے لیے بھی قطعاً مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے ہو جانے کی طلب رکھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کھڑا نہ ہو تو وہ اس سے کینہ رکھے ، یا اس کا شکوہ کرے اور یا اس سے ناراض ہو جائے۔

 

                   احتراماً کھڑے ہونے کی ممانعت

 

اور حضرت امامہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عصاء مبارک پر سہارا دیئے ہوئے باہر تشریف لائے تو ہم آپ کے احترام میں کھڑے ہو گئے آپ نے فرمایا تم لوگ اس طرح کھڑے نہ ہو جس طرح عجمی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں بعض بعض کی تعظیم کرتے ہیں۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

آنحضرت کی یہ مراد تھی کہ یہ عجمی لوگوں کا دستور ہے کہ جب ان کا کوئی سردار یا بڑا آدمی ان کی مجلس میں آتا ہے تو محض اس کو دیکھتے ہی بڑا بڑا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اور پھر اس کے سامنے با ادب دست بستہ کھڑے رہتے ہیں، چنانچہ آپ نے اس ارشاد  یعظم بعضھا بعضا  کے ذریعہ اسی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کے چھوٹے و کم تر لوگ اپنے بڑے اور اونچی حیثیت کے لوگوں کو محض دیکھ کر اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ کھڑے نہ ہوئے تو وہ بڑے لوگ ان سے ناراض ہو جائیں گے اور پھر تعظیماً ان کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اس توجیہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں حدیث میں اصل قیام کا ممنوع ہونا ثابت نہیں ہوتا جس کا جواز دیگر احادیث سے ثابت ہے بلکہ وہ قیام ممنوع ہے جو شان و شکوہ کے اظہار اور تکبر و نخوت کے طور پر ہو، زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تواضع و انکساری کی بنا پر صحابہ کو کھڑے ہونے سے منع فرمایا جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا ہے۔

 

                   دوسرے کی جگہ پر بیٹھنے کی ممانعت

 

اور حضرت سعید ابن ابوالحسن ،جو ایک جلیل القدر اور ثقہ تابعی ہیں اور حضرت حسن بصری کے بھائی ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس ایک ایسے مقدمہ میں گواہی دینے کے لیے تشریف لائے جس میں وہ گواہ تھے ایک شخص اس کے احترام میں اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا تاکہ وہ اس جگہ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے اس جگہ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے یعنی آپ نے اس جگہ پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں کوئی شخص پہلے سے بیٹھا ہوا ہو اور عارضی طور پر اس جگہ سے اٹھ گیا ہو، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایسے شخص کے کپڑے سے اپنے ہاتھ پونچھے جس کو اس نے کپڑا نہیں پہنایا۔ (ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

حدیث میں مذکور دوسری ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کھانے وغیرہ میں ہاتھ بھر گئے ہوں تو ان ہاتھوں کو کسی اجنبی کے کپڑے سے نہ پونچھے بلکہ ایسے کپڑے سے ہاتھ پونچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کو اس نے کپڑے پہنائے اور دیے ہوں جیسے اپنی اولاد، یا غلام، یا خادم، وغیرہ اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس اجنبی کے کپڑے سے پونچھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جو اس بات پر راضی ہو۔ اس پر حدیث کے پہلے جزو کے مسئلہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے بخوشی اٹھا ہے تو اس کی جگہ بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ اس آیت (تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰہ لَكُمْ) 58۔ المجادلہ:11) سے مفہوم ہوتا ہے اور جیسا کہ اس پر حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ نیز اس طرح اور بہت سے منقولات ہیں جن سے یہ وضاحت مفہوم ہوتی ہے رہی یہ بات کہ جب وہ شخص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنی مرضی سے جگہ چھوڑ کر اٹھا تھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے کیوں انکار کیا؟ تو ان کے انکار کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس شخص کی رضا مندی کے بارے میں شک ہوا ہو گا اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص از خود بطیب خاطر اپنی جگہ سے نہیں اٹھا ہے بلکہ کسی اور شخص کے کہنے سے اٹھا ہے یا شرم حضوری میں اٹھا ہے اور یا یہ کہ اس شخص کی رضا مندی جاننے کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے احتیاط و تقویٰ اسی میں دیکھا ہو گا کہ وہ اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں یا انہوں نے ممانعت کی حدیث کو اطلاق پر محمول کیا ہو گا اور رضا مندی کو بھی عدم ممانعت کا سبب نہیں سمجھتے ہوں گے۔

 

                   اپنی جگہ سے اٹھ کر جانے لگو تو وہاں کوئی چیز رکھ دو

 

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب تشریف رکھتے اور ہم آپ کے گرد بیٹھتے اور پھر آپ واپس آنے کے ارادہ سے گھر میں جانے کے لیے اٹھتے تو اپنی جگہ پر جوتیاں اتار کر رکھ جاتے اور ننگے پیر چلتے جاتے یا اپنے بدن پر کوئی چیز جیسے چادر وغیرہ اس جگہ چھوڑ جاتے اس سے آپ کے صحابہ جان لیتے کہ آپ مجلس میں پھر آئیں گے ، چنانچہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔

 

تشریح

 

آپ کے گرد سے مراد آپ کے دائیں طرف بائیں طرف اور سامنے بیٹھنا ہے یعنی کچھ صحابہ آپ کے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھتے کچھ بائیں ہاتھ کی طرف اور کچھ سامنے کی طرف، یہ معنی اس لیے بیان کیے گئے ہیں کہ اگر گرد سے مراد چاروں اطراف لی جائیں تو یہ صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حلقہ کے درمیان بیٹھنے کی ممانعت منقول ہے۔

 

                   دو آدمیوں کے درمیان گھس کر بیٹھنے کی ممانعت

 

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو بیٹھے ہوئے آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر جدائی ڈالے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر دو آدمی ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں تو کسی تیسرے شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان گھس کر بیٹھ جائے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں آدمی آپس میں محبت و تعلق رکھتے ہوں، اور راز دارانہ طور پر ایک دوسرے سے کوئی بات چیت کرنا چاہتے ہوں اگر کوئی تیسرا آدمی ان کے درمیان حائل ہو جائے گا تو اس کا وہاں بیٹھنا ان پر شاق گزرے گا، علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ دونوں بیٹھے ہوئے آدمی آپس میں محبت و تعلق رکھتے ہیں تو ان کے درمیان نہ بیٹھے اور اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں کے درمیان اتحاد و محبت کا علاقہ نہیں ہے تو اس صورت میں ان کے درمیان بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اور اگر ان دونوں کے درمیان تعلق مبہم ہو یعنی یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے درمیان محبت کا علاقہ ہے کہ نہیں یا سرے سے یہ معلوم ہی نہ ہو تو اس صورت میں احتیاط کا پہلو یہ ہو گا کہ ان کے درمیان نہ بیٹھے۔

 

 

٭٭اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پہلے سے بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان نہ بیٹھو الا یہ کہ ان کی اجازت حاصل ہو۔ (ابوداؤد)

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مجلس سے اٹھتے تو صحابہ کرام کھڑے ہو جاتے تھے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھتے اور باتیں کیا کرتے پھر جب مجلس سے آپ اٹھتے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور دیر تک کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے گھر میں تشریف لے گئے۔

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مجلس سے اٹھتے تو اس وقت صحابہ کا کھڑا ہونا احترام کھڑے ہو جانا کے طور پر نہیں تھا بلکہ مجلس کے برخاست ہو جانے کی وجہ سے ہوتا تھا اور ظاہر بھی ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی تشریف آوری کے وقت نہیں کھڑے ہوتے تھے تو جانے کے وقت کیوں کھڑے ہوتے تھے رہی یہ بات کہ اس وقت صحابہ دیر تک کیوں کھڑے رہتے تھے تو اس کی وجہ شاید یہ ہو گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مجلس سے اٹھ کر جانے لگتے تو صحابہ کرام اس انتظار میں رک جاتے کہ شاید آپ کسی کام کے لیے فرمائیں گے یا یہ امید ہوتی تھی کہ آپ دوبارہ تشریف لائیں گے اور مجلس برقرار رہے گی لیکن جب یہ امید ختم ہو جاتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی اپنی راہ پکڑتے۔

 

 

                   مجلس میں آنے والے شخص کے لیے جگہ نکالنا تہذیب کا تقاضہ ہے

 

اور حضرت واثلہ بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جب کہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو جگہ دینے کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کی اور ایک طرف کھسک گئے اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ مکان میں جگہ بیٹھنے کی کافی کشادہ ہے میں کہیں بھی بیٹھ جاؤں گا آپ نے میرے لیے اپنی جگہ سے حرکت کرنے اور کھسکنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ مسلمان کا حق ہے کہ جب اس کو اس کا مسلمان بھائی مجلس میں یا اپنے پاس آتا دیکھے تو جگہ کی فراخی و تنگی سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دے اور ایک طرف کو کھسک جائے یعنی آنے والے کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کرنا اور کھسک جانا دراصل اس کا اکرام و اعزاز ہے اور ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر اس اکرام و اعزاز کا بجا طور پر حق رکھتا ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

                   گوٹ مار کر بیٹھنا جائز ہے

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خانہ کعبہ کے صحن میں اپنے ہاتھوں کے ذریعہ گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔

 

تشریح

 

گوٹ مار کر بیٹھنا نشست کا ایک خاص طریقہ ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دونوں زانوں کھڑے کر لیے جاتے ہیں تلوے زمین پر رہتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے پنڈلیوں پر حلقہ باندھ لیتے ہیں اور کولہے خواہ زمین پر ٹکے رہتے ہیں ، خواہ اوپر اٹھے رہتے ہیں، بسا اوقات پنڈلیوں پر ہاتھوں کے ذریعہ حلقہ باندھنے کی بجائے ان پر کوئی کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا بھی منقول ہے۔ بہرحال بیٹھنے کا یہ طریقہ اہل عرب میں بہت رائج تھا اور اکثر و بیشتر وہ لوگ اسی طرح بیٹھا کرتے تھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح بیٹھنا جائز بلکہ مستحب ہے۔

 

                   پیر پر پیر رکھ کر لیٹنے کا مسئلہ

 

اور حضرت عبادہ بن تمیم تابعی اپنے چچا حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ صحابی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد میں اس طرح چت لیٹے ہوئے دیکھا کہ آپ کا ایک قدم دوسرے قدم پر رکھا ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

قدم کو قدم پر رکھ کر لیٹنے سے ستر نہیں کھلتا جب کہ اس طرح لیٹنا کہ پاؤں پر پاؤں رکھا ہوا ہو بسا اوقات ستر کھل جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس مطلب کے ذریعہ اس حدیث اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا ہو جاتی ہے جو آگے آ رہی ہے اور جن سے واضح ہوتا ہے کہ پاؤں کو پاؤں پر رکھ کر لیٹنا ممنوع ہے اس مسئلہ کی مزید تفصیل آگے بیان ہو گی۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس طرح لیٹنا کبھی کبھی ہوتا تھا اور وہ بھی یا تو بیان جواز کی خاطر یا کچھ دیر آرام کر کے تکان کو دور کرنے کے لیے ورنہ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے معمول کا تعلق ہے آپ کسی بھی ایسی جگہ جہاں کچھ لوگ موجود ہوں چار زانو، با وقار اور تواضع و انکسار کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص ایک پاؤں کھڑا کر کے دوسرا پاؤں اس پر رکھ لے درآنحالیکہ وہ چت ہوا ہو۔ مسلم

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس طرح چت نہ لیٹے کہ ایک پاؤں کھڑا کر کے اس پر دوسرا پاؤں رکھ لے۔ مسلم

 

تشریح

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا دونوں حدیثیں بظاہر عباد بن تمیم کی روایت کے منافی معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی منافات و تضاد نہیں ہے کیوں کہ پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹنا دو طرح سے ہوتا ہے کہ ایک تو یہ کہ دونوں ٹانگیں پھیلی ہوئی ہوں اور ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی ہو اس طریقہ سے لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ اس صورت میں ستر کھل جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا عباد بن تمیم کی روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آپ ایک قدم کو دوسرے قدم پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے تھے تو اس سے یہی صورت مراد ہے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چت لیٹ کر ایک ٹانگ کے گھٹنے کو کھڑا کر لیا جائے اور دوسری ٹانگ کے پیر کو اس کھڑے ہوئے گھٹنے پر رکھ لیا جائے یہ طریقہ ممنوع ہے لیکن یہ ممانعت بھی اس صورت میں ہے کہ جب ستر کھل جانے کا اندیشہ ہو مثلاً کسی شخص نے پاجامہ نہ پہن رکھا ہو بلکہ نہ بند باندھ رکھا ہو اور وہ تہہ بند یا کرتے کا دامن اتنا چھوٹا ہو کہ اس طریقہ سے لیٹنے کی وجہ سے ستر کھل سکتا ہو اور اگر ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر اس طریقہ سے لیٹنا بھی جائز ہو گا حاصل یہ نکلا کہ ممانعت اور جواز کا اصل مدار ستر کے کھلنے یا ستر کے نہ کھلنے پر ہے چنانچہ علماء نے بھی یہی بیان کیا ہے۔

 

                   تکبر کی چال کا انجام

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک شخص دو دھاری دار کپڑوں میں ملبوس اتراہٹ اور اکڑ کے ساتھ چل رہا تھا نیز وہ ان کپڑوں کو اتنا نفیس اور برتر سمجھ رہا تھا کہ اس کے نفس نے اس کو غرور میں مبتلا کر دیا تھا اس کا انجام یہ ہوا کہ زمین نے اس شخص کو نگل لیا چنانچہ وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔

 

 

تشریح

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے وہ قارون تھا جب کہ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ احتمال بھی ہے کہ وہ شخص کسی امت کا کوئی فرد ہو گا یا کسی پچھلی امت میں کوئی شخص ہو گا۔ بہر حال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ تکبر و گھمنڈ اور اتراہٹ و اکڑ کے ساتھ چلنا برا ہے اور اس کا انجام نہایت برا ہے۔ اعاذنااللہ من ذالک۔

 

                   سب سے بہتر چال

 

واضح رہے کہ انسان کی چال اس کے مزاج و احوال اور عادات و اطوار کی بڑی حد تک غماز ہوتی ہے اسی طرح اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے چلنے کا انداز ایسا نہ رکھنا چاہیے جس سے اس کی شخصیت میں کسی نقص و بے راہ روی اور اس کے طبعی احوال و کیفیات میں کسی کجی کا اظہار ہو۔عام طور چال کی دس قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر قسم کو عربی میں ایک مستقل لفظ کے ساتھ موسوم کیا گیا جن کا تفصیلی ذکر دوسری کتابوں میں موجود ہے جو قسم سب سے اچھی اور افضل سمجھی گئی ہے اس کو ھون  کا نام دیا گیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے ھون کے معنی ہیں سکون و قرار چنانچہ عربی کا یہ مشہور محاورہ ہے امش علی ھونک یعنی اپنی پرورش پر چلو جس چال کو ہون کہا جاتا ہے وہ ایسی چال ہے جس میں حرکت تو پوری ہو لیکن قدم آہستہ آہستہ قدرے سرعت کے ساتھ اٹھیں نہ تو خشک لکڑی کی مانند اسی مری ہوئی چال جیسے مردہ دل افسر لوگ چلتے ہیں اور نہ تیزی اور بھاگ دوڑ کی چال جو جلد باز اور گھبراہٹ میں مبتلا لوگ چلتے ہیں چال کی یہ دونوں صورتیں بہت ہی بری ہیں اور چلنے والے کی مردہ دلی یا بے عقلی کو ظاہر کرتی ہیں قرآن شریف میں اللہ نے ھون کی تعریف کی ہے اور اس چال کو اپنے خاص بندوں کی صفت قرار دیا ہے۔

آیت (وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا)۔ اور رحمن(اللہ) کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرمی آہستگی اور سکون وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔

 

 

                   تکیہ لگا کر بیٹھنا مستحب ہے

 

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ تکیہ آپ کے بائیں جانب رکھا ہوا تھا۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تکیہ لگا کر بیٹھنا مستحب ہے اور یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تکیہ کو پسند فرماتے تھے نیز آپ نے خوشبو کی طرح تکیہ کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تکیہ پیش کرے تو اس کو قبول کرنے سے انکار نہ کیا جائے۔

 

                   گوٹ مار کر بیٹھنے کا ذکر

 

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں بیٹھتے تو دونوں ران کھڑے کر لیتے اور پنڈلیوں پر دونوں ہاتھوں سے حلقہ باندھ لیتے۔ (رزین)

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک منکسرانہ نشست

 

اور حضرت قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد میں بہ ہیبت قرفضا بیٹھے ہوئے دیکھا قیلہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح انتہائی فروتنی وانکساری ، خشوع و خضوع اور استغراق و حضوری کے عالم میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں مارے ہیبت کے کانپ گئی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

قرفصاء قاف کے پیش ، راء کے جزم اور فاء کے پیش اور زبر کے ساتھ کے معنی ہیں اکڑوں بیٹھنا اور ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد باندھنا چنانچہ اس نشست یعنی قرفصاء کی صورت یہ ہوتی ہے دونوں زانوؤں کو کھڑا کے سرینوں (کولھوں) پر بیٹھ جاتے ہیں زانوؤں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کو پنڈلیوں پا باندھ لیتے ہیں۔قرفضاء کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں زانوؤں کو زمین پر ٹیک کر رانوں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں بغلوں میں داب لی جاتی ہیں اس طرح کہ دائیں ہتھیلی بائیں بغل میں اور بائیں ہتھیلی دائیں بغل میں رہتی ہیں بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ عام طور پر عرب کے ان غیر متمدن لوگوں میں رائج تھا جو جنگلات میں بود و باش رکھتے تھے نیز وہ مسکین غریب لوگ بھی اس طرح بیٹھتے ہیں جو تفکرات و خیالات اور غم و آلام میں مبتلا ہوتے ہیں چونکہ یہ نشست انتہائی عجز و بے چارگی اور کمال انکسار فروتنی کو ظاہر کرتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس ہیئت کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔

 

                   نماز فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نشست

 

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب فجر کی نماز پڑھ چکتے تو چار زانو بیٹھ جاتے ہیں اور سورج اچھی طرح روشن ہو جانے تک اسی طرح بیٹھے رہتے۔ (ابوداؤد)

 

                   آنحضرت کے لیٹنے کا طریقہ

 

اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر کے دوران آرام کرنے اور سونے کے لیے کسی جگہ رات میں اترتے تو دائیں کروٹ لیٹتے تھے جب صبح کے قریب اترتے تو اس طرح لیٹتے کہ اپنا ایک ہاتھ کھڑا کر کے اس کی ہتھیلی پر سر مبارک رکھ لیتے۔

 

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ جب آپ سفر میں ہوتے اور رات کا وقت کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے اور رات کا کچھ حصہ باقی رہتا تو داہنی کروٹ پر لیٹ کر آرام فرماتے جیسا کہ سفر میں داہنی کروٹ پر لیٹنے کی آپ کی عادت تھی اور اگر ایسے وقت پڑاؤ ڈالتے کہ رات کا تقریباً پورا حصہ گزر چکا ہوتا اور صبح ہونے والی ہوتی تو اس صورت میں آپ پوری طرح لیٹنے کی بجائے دست مبارک کو کھڑا کر لیتے اور اس کی ہتھیلی پر سر رکھ کر آرام فرما لیتے ایسا اس وجہ سے کیا کرتے تھے تاکہ غفلت کی نیند نہ آ جائے اور فجر کی نماز قضا نہ ہو جائے اگرچہ داہنی کروٹ پر سونے کی صورت میں بھی غفلت کی نیند طاری نہیں ہوتی کیونکہ داہنی کروٹ پر لیٹنے سے لٹکا رہتا ہے اور اس کو قرار کم ملتا ہے جب کہ بائیں کروٹ پر لیٹنے سے دل اپنے ٹھکانے پر ہوتا ہے اور آرام بھی پاتا ہے جس کی وجہ سے نیند بھی اطمینان و سکون کی آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اطباء نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی بائیں کروٹ سونے کا مشورہ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بائیں کروٹ پر سونے سے دل چونکہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اس لیے دل کے مطمئن و پر سکون ہونے کی وجہ سے نہ صرف آرام ملتا ہے اور چین کی نیند طاری ہوتی ہے بلکہ کھانا بھی خوب اچھی طرح ہضم ہوتا ہے کیوں کہ اس صورت میں جسم کے باہر کی حرارت بدن کے اندر رک جاتی ہے جو نظام ہضم کو بہتر معتدل بنانے کا سبب ہے بعض روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سفر کے دوران جب رات کے آخری حصے میں کہیں اترتے تو سر مبارک کے نیچے کوئی اینٹ رکھ لیتے اور جب صبح کے وقت کے قریب اترتے تو ہاتھ کھڑا کر کے اس کی ہتھیلی پر سر مبارک کر کچھ دیر کے لیے لیٹ رہتے۔

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب لیٹتے تو سر مبارک کو مسجد کی طرف رکھتے

 

اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک لڑکے کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا بچھونا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس کپڑے کی مانند تھا جو آپ کی قبر شریف میں رکھا گیا تھا اور مسجد آپ کے سر مبارک کے قریب رہا کرتی تھی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جس بچھونے پر استراحت فرماتے تھے اس کی لمبائی چوڑائی اس کپڑے کے تقریباً برابر تھی جو آپ کی قبر شریف میں رکھا گیا تھا اور اس کپڑے کو کچھ لوگوں نے دیکھ رکھا تھا کہ وہ ایک مختصر سا کپڑا تھا جو زیادہ لمبا چوڑا نہ تھا۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بچھونا اس کپڑے کی قسم سے تھا جو آپ کی قبر مبارک میں رکھا گیا تھا اور جو کپڑا قبر مبارک میں رکھا گیا تھا وہ دراصل ایک سرخ چادر تھی جو بیماری کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نیچے رہتی تھی آپ کا وصال ہوا تو شقران نے صحابہ کی رائے کے بغیر اس چادر کو قبر شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد مبارک کے نیچے رکھ دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کپڑا آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص پہنے یا استعمال کرے تاہم صحیح قول یہ ہے کہ صحابہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے قبر شریف بند کیے جانے سے پہلے اس چادر کو نکال لیا تھا واضح رہے کہ حدیث میں اس جگہ لفظ یوضع کے بجائے وضع ہونا چاہیے تھا لیکن راوی کا مقصد چونکہ حکایت بزمانہ حال تھا اس لیے ماضی کے صیغہ کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا۔

حدیث کے دوسرے جز اور مسجد آپ کے سر مبارک کے قریب رہا کرتی تھی کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ استراحت فرماتے تو اس زاویہ سے لیٹتے کہ سر مبارک مسجد کی طرف رہتا کیونکہ آپ کا حجرہ شریف مسجد کے بائیں جانت تھا اور چونکہ آپ رو بقبلہ لیٹا کرتے تھے اس لیے ظاہر ہے کہ اگر اس حجرہ شریف میں رو بقبلہ لیٹا جائے تو مسجد سرہانے کی طرف رہے گی۔ مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں لفظ مسجد جیم کے زبر کے ساتھ جس کے معنی مصلی کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ استراحت کے وقت آپ کے سرہانے رکھا رہتا تھا تاکہ جب نماز پڑھنی ہو تو اس کو فوراً بچھا لیا جائے۔

 

                   پیٹ کے بل لیٹنا ناپسندیدہ ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اس طرح سے لیٹنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ترمذی)

 

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ لیٹنے کی چار صورتیں ہیں ایک تو چت لیٹنا لیٹنے کا طریقہ اہل عبرت کا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازیوں اور عجائبات قدرت کو دیکھ کر ایمان باللہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ چت لیٹتے ہیں تاکہ وہ آسمان اور ستاروں کی طرف بنظر اشتہاد دیکھتے رہیں اور خدا کی قدرت و حکمت کرد گاری کی دلیل حاصل کریں دوسری صورت دائیں کروٹ پر لیٹنا ہے یہ اہل کبار رو کے لیٹنے کا طریقہ ہے جو لوگ خدا کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور شب بیداری کرنا چاہتے ہیں وہ دائیں کروٹ پر لیٹ کر سوتے ہیں تاکہ غفلت کی نیند طاری نہ ہو اور وقت پر اٹھ کر نماز وظائف اور اپنے مولی کے ذکر میں مشغول ہو سکیں۔تیسری صورت بائیں کروٹ پر لیٹنا ہے یہ آرام و راحت کے طلب گاروں کے لیٹنے کا طریقہ ہے کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کھانا اچھی طرح ہضم ہو جائے چین سکون کی نیند سو سکیں اور جسم کو پوری طرح آرام و راحت ملے وہ بائیں کروٹ پر لیٹ کر سوتے ہیں اور چوتھی صورت اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹنا ہے یہ اہل غفلت اور نادان لوگوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے کیونکہ اس طرح لیٹنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سینہ اور منہ جو برتر اعضاء ہیں اور اجزائے جسم میں سے سب سے افضل جز ہیں ان کو بلا قصد و طاعت و سجدہ خاک و ذلت پر اوندھا ڈال دیا جائے جو ان اعضاء کے عز و شرف کے منافی ہے نیز چونکہ اغلام کرانے والوں کی عادت ہے اس لیے اوندھا لیٹنا اتنی ذلیل ترین برائی کی مشابہت اختیار کرنا ہے جو خود انتہائی بری بات ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت یعیش ابن طخفہ ابن قیس عفاری اپنے والد ماجد سے جو اصحاب صفہ میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی (حضرت طخفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن میں سینہ کی درد کی وجہ سے پیٹ کے بل اوندھا لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص مجھے اپنے پاؤں سے ہلا رہا ہے اور پھر میں نے سنا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے لیٹنے کے اس طریقہ کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے اور پھر میں پلٹ کر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں حضرت طخفہ رضی اللہ عنہ کا وہ عذر نہیں ہو گا جس کی وجہ سے وہ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اس لیے آپ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کا عذر آپ کے علم میں تھا تو پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ آپ کا ارشاد احتیاط و تقویٰ کی بناء پر تھا اور یہ ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ عام حالات میں بلاکسی عذر کے پیٹ کے بل لیٹنا سخت برا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اگر سینہ کے درد کا دفاع ہی مقصود تھا تو اس صورت میں یہ بھی ممکن تھا کہ وہ پیروں کو پھیلائے بغیر ٹانگوں کی طرف جھک کر سینے کے دونوں رانوں کو دبا لیتے۔

 

                   بغیر دیوار کی چھت پر سونا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے

 

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بن شیبان کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پردہ نہ ہو اور روایت میں یوں ہے کہ جس کے گرد رکاوٹ والی کوئی چیز نہ ہو تو اس سے ذمہ جاتا رہا۔ (ابوداؤد)

اور خطابی کی کتاب معالم السنن میں لفظ حجاب کے بجائے حجی کا لفظ ہے۔

 

تشریح

 

ایک ہی مضمون کی تین روایتوں میں تین الگ الگ لفظ ہیں ایک روایت میں حجاب کا لفظ ہے جس کے معنی پردہ کے ہیں اور اس سے مراد وہ دیوار ہے جو چھت کو بے پردگی سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی وجہ سے اس چھت پر سے کسی کے گرنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا دوسری روایت میں حجار کے لفظ ہے جو حجر کی جمع ہے اور اس کے معنی اس چیز کے ہیں جو چھت کو اس طرح گھیر دے کہ کوئی گرنے نہ پائے خواہ دیوار ہو یا جنگلہ وغیرہ اور تیسری روایت میں حجی کا لفظ ہے یہ لفظ حاء کے زیر کے ساتھ بھی ہے اور اس کے زبر کے ساتھ بھی،دونں ہی صورتوں میں یہ لفظ پردہ کے مفہوم میں ہے ویسے لغت کے اعتبار سے حجی جاء کے زیر کے ساتھ کے معنی ہیں عقل وزیر کی لہذا کہا جائے گا کہ پردہ عقل کے ساتھ اس لیے مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح عقل انسان کو نشائستہ اور نقصان دہ امور سے روکتی ہے اس طرح پردہ بھی انسان کو چھت پر سے گرنے سے روکتا ہے اسی طرح حاء کے زبر کے ساتھ کے معنی کنارہ اور گوشہ کے ہیں اور ظاہر ہے کہ چھت پردہ چھت کے کناروں پر کھڑی گئی دیوار وغیرہ ہی کی صورت میں ہوتا ہے اس اعتبار سے اس کو حجی کہا گیا ہے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے ہر انسان کی نگہبانی و حفاظت کا ذمہ و عہد لیا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ملائکہ مقرر کیے ہیں اور ایسے اسباب و ذرائع پیدا فرمائے جن کو اختیار کر کے انسان اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن عام اگر کوئی شخص ایسی چھت پر سوتا ہے جس کے گرد کوئی پردہ و رکاوٹ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ سو رہا ہے جو عام طور پر ہلاکت و ضرر کا سبب بن سکتی ہے اور جب اس شخص نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا تو اب قدرت کو کیا ضرورت ہے کہ اس کی حفاظت کرے لہذا اس کی محافظت کا خدائی ذمہ و عہد ساقط ہو گیا۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کوٹھے پر سونے سے منع فرمایا ہے جس پر پردہ کی دیوار نہ ہو۔ترمذی)

 

                   حلقہ کے درمیان بیٹھنے والے پر لعنت

 

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک کے ذریعہ اس شخص کو ملعون قرار دیا گیا ہے جو حلقہ کے درمیان بیٹھے۔

 

تشریح

 

اس حدیث کے محمول کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور مختلف اقوال ہیں ایک تو یہ کہ مثلاً کسی جگہ لوگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور بجائے اس کے وہ جہاں جگہ دیکھتا وہیں بیٹھ جاتا لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا درمیان میں جا کر بیٹھ جائے چنانچہ ایسے شخص کو ملعون کہا گیا ہے دوسرے یہ کہ کوئی شخص کچھ لوگوں کے حلقہ کے درمیان اس طرح بیٹھ گیا کہ ان میں سے بعضوں کے چہرے ایک دوسرے سے چھپ گئے اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے چہرے نہ دیکھ سکنے سے اور اپنے درمیان خلل پڑ جانے کی وجہ سے اس شخص کو تکلیف و ضرر کا باعث محسوس کیا لہذا ایسا شخص مذکورہ حدیث کا محمول ہے اور تیسرے یہ کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو مسخرا پن کرنے لیے حلقہ کے بیچ میں جا کربیٹھ جائے تاکہ لوگوں کو ہنسائے۔