FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مانجھی

 

 

 

غضنفر

 

’بھائی صاحب! الہ آباد تک آیا ہوں تو سوچتا ہوں کہ سنگم بھی ہو آؤں۔ ‘‘

’’سنگم جاؤ گے ‘‘؟ دھرم ناتھ رائے وی۔ ان۔ رائے کو گھورنے لگے :

ان کی آنکھوں میں ایسا شخص ابھر آیا جو ان کے خاندان کا ہوتے ہوئے بھی خاندان سے الگ تھا۔ جس کی سوچ مختلف تھی۔ جس کی باتیں الٹی ہوتی تھیں۔

جس کے خیالات سے

دھرم ناتھ رائے اور ان کے خاندان کی چولیں ہل جاتی تھیں

مروجہ افکار و نظریات پر ضرب پڑتی تھی

آستھاؤں کو چوٹ پہنچتی تھی

پرم پرائیں ٹوٹتی تھیں

سنسکار گھائل ہوتے تھے

جو زمانے کو برہم اور برگشتہ کرتے تھے

اپنوں کو دشمن بنا دیتے تھے

’’آپ مجھے اس طرح نہ گھوریے۔ میں کسی آستھا یا پونیہ کمانے کی غرض سے نہیں جانا چاہتا ہوں ‘‘۔

’’تو پھر؟‘‘

’’بھائی صاحب! سنگم ایک تیرتھ استھان ہی نہیں ہے، وہ اور بھی بہت کچھ ہے ‘‘؟

’’جیسے ؟‘‘

’’جیسے وہ ایک مِتھ ہے۔ ایک مسٹری ہے۔ وہاں کے واتاورن میں رہسیہ ہے۔ سسپینس ہے۔ تھرل ہے اور کچھ وہ بھی ہے جسے میں بتا دوں تو شاید آپ کو اچھا نہ لگے ‘‘۔

’’تو یہ بات ہے ! میں بھی تو سوچوں کہ مسٹر وی۔ این۔ رائے، وشوناتھ رائے کب سے ہو گئے ؟ ’’کب جانا چاہتے ہو؟

’’جب آپ انتظام کر دیں۔ ‘‘

’’ابھی چلے جاؤ۔ اس وقت گاڑی خالی ہے۔ میں ڈرائیور کو بول دیتا ہوں۔ ‘‘

’’شکریہ‘‘۔

’’اس میں شکریے کی کون سی بات ہے بھائی! تم میرے بھائی ہو۔ اس وقت ہمارے مہمان بھی ہو، تمھاری خاطر کرنا تو ہمارا فرض بنتا ہے ‘‘۔

’’ٹھیک ہے تو میں اپنا شکریہ واپس لیتا ہوں ‘‘۔

’’ہاں، لینا ہی پڑے گا‘‘۔

’’لے لیا‘‘

’’تو اب جاؤ تیاری کرو۔ کہو تو تمھارے ساتھ کسی کو کر دوں ؟‘‘

’’نہیں، اس کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ میں اس استھان کو بہت اطمینان سے دیکھنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا ہے۔ جس سے طرح طرح کے قصے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں بیٹھ کر بہت سی کہانیاں بنی اور بنائی گئی ہیں۔ جہاں سنتے ہیں کہ سچ کے پہلو میں پاکھنڈ بھی ہوتا ہے۔ جہاں پاپ پنیہ دکھائی دیتا ہے اور پنیہ پاپ۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ . اس لیے میرا اکیلا جانا ہی ٹھیک رہے گا۔ ‘‘

’’جیسی تمھاری مرضی۔ اپنی بھابی سے کہہ کر دوپہر کا بھوجن بھی رکھوا لینا۔ پتا نہیں تھرل ڈھونڈنے اور رہسیہ کا پتا لگانے میں کتنا وقت لگ جائے۔ اور سنو! جاتے وقت ایک جوڑا نہانے کا کپڑا بھی رکھ لینا۔ وہاں جانے کے بعد اگر تمھاری انترآتما نے جوش مارا تو دقّت نہیں ہو گی‘‘۔

’’اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ پھر بھی رکھ لوں گا۔ بڑے بھائی کا حکم جو ٹھہرا اور وہ بھی آپ جیسے بھائی کا۔ ۔ .‘‘۔

’’آپ جیسا کیا؟ کیا میں کوئی اسپیشل ہوں ؟‘‘

’’ہاں، اسپیشل ہیں۔ ‘‘

’’بھلا وہ کیسے ‘‘؟ ذرا میں بھی تو اپنے بارے میں جانوں ؟‘‘

’’بھائی صاحب! میرے اور آپ کے وچار نہیں ملتے۔ آپ پورب ہیں تو میں پچھم۔ آپ زمین کی بات کرتے ہیں تو میں آسمان کی۔ آپ کی ہاں، میری نا ہوتی ہے۔ پھر بھی مجھ سے آپ محبت کرتے ہیں اور میری قدر بھی۔ اس لیے آپ میرے لیے اسپیشل ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ ‘‘

’’بس! بس! بہت ہو گیا۔ ‘‘ ’’اب جاؤ! کچھ چاہیے تو بتا دینا۔ سنکوچ مت کرنا۔ ‘‘

’’جی، ضرور‘‘۔

دھرم ناتھ رائے کی شکاری جیپ ان کے مہمان اور رشتے کے بھائی وشوناتھ رائے کو لے کر سنگم کی طرف روانہ ہو گئی۔

جیپ سے اتر کر سنگم کی طرف جاتے ہوئے رتیلے راستے پر وشوناتھ رائے آگے بڑھے تو دونوں طرف کی دوکانوں نے انھیں اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔

رنگ برنگ کے پھولوں کے پہاڑ جیسے ڈھیر پر آنکھیں ٹکیں تو ڈھیر کے ارد گرد کئی باغ ابھر آئے :

باغ کے پودوں کی شاخیں پھولوں سے خالی تھیں۔ خالی شاخوں کو دیکھ کر وشوناتھ رائے کے ذہن نے سوچا:

اگر شاخیں پھولوں سے بھری ہوتیں تو باغ ہرا بھرا نظر آتا۔ چاروں طرف رنگ بکھرے ہوتے۔ دور دور تک خوشبو پھیلی ہوتی۔ رنگ آنکھوں میں سماتے اور خوشبو سا نسوں میں بستی تو کتنوں کے دل کھل جاتے۔ دماغ تر و تازہ ہو جاتے۔ کتنے ہی چہرے چمک اٹھتے۔

یاتری اپنی اپنی ٹوکریوں میں پھول اور پھولوں سے بنی مالائیں بھرکر سنگم کی طرف بڑھ رہے تھے۔

وی۔ ان۔ رائے راستے میں کھڑے سوچ رہے تھے :

کچھ دیر میں پھولوں کا یہ پہاڑ پانی کے گربھ میں چلا جائے گا۔ بچے کھچے رنگ بھی اڑ جائیں گے۔ پتیاں کیچڑ میں بدل جائیں گی۔

ایک، دو اور پانچ، روپیے کے سِکّوں کی چمچماتی ہوئی ڈھیریوں پر نگاہیں رکیں جہاں نوٹوں سے سکّے بدلے جا رہے تھے اور تھیلیوں میں سکّے بھر کر لوگ گنگا گھاٹ کی طرف بڑھے جا رہے تھے تو آنکھوں کے سامنے دوٗر دوٗر تک مدقوق چہرے ابھرتے چلے گئے۔ ڈھیریوں سے کچھ سکّے اچھل کر کھردری ہتھیلیوں پر جا پڑے، زرد پیشانی چمک اٹھی۔ ویران آنکھیں روشن ہو گئیں۔ چہروں کی سیاہیاں اور جھائیاں ماند پڑ گئیں۔

زعفرانی رنگ کی لہراتی ہوئی گوٹے دار چنریوں پر نظریں جمیں تو دیدوں میں ایسی بہت ساری عورتیں آ کر کھڑی ہو گئیں جو اپنی ننگی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔

تھالوں میں اوپر تک سجی مٹھائیوں پر نگاہ گئی تو مٹھائی کی مانگ اور اپنی ضد کے چلتے خالی جیبوں والے باپوں کے ہاتھوں پِٹے بلکتے اور سسکتے ہوئے بے شمار بچّے نظر آنے لگے۔

دکانوں کا سلسلہ ختم ہوا تو راستہ ریت کے میدان میں تبدیل ہو گیا۔ وشوناتھ رائے کی نگاہیں میدان کے محاصرے میں مصروف ہو گئیں :

جگہ جگہ شردھالوؤں کی بھیڑ

کہیں کہیں پر سادھو سنتوں کا جمگھٹ

کہیں کسی مداری کا مجمع

کسی خیمے سے لاؤڈ اسپیکر پر کوئی اعلان

کسی منچ سے بھجن کرتن کی بلند ہوتی ہوئی فلک شگاف صدائیں

وشوناتھ رائے کے پاؤں سادھوؤں کی ایک منڈلی کے پاس جا کر ٹھٹھک گئے۔

ان میں کچھ سادھو ایسے بھی تھے جن کے ایک ہاتھ میں ترشول، دوسرے میں ڈمرو، سر پر جٹائیں، جٹاؤں میں مصنوعی چاند، چوٹیوں سے نکلتی ہوئی بناوٹی ندیاں، گلے میں لپٹے اصلی ناگ، ننگا جسم، کمر میں صرف ایک موٹی سی رسّی، ننگے جسم پر اوپر سے نیچے تک بھبھوت۔ ٹانڈو رقص۔ بیچ بیچ میں بم بم بھولے کے دہلا دینے والے نعرے۔

ایسا لگتا تھا جیسے پربت سے دھرتی پر ایک نہیں کئی کئی مہادیو اتر آئے ہوں۔ وی۔ ان۔ رائے کی نگاہیں ان مہادیوں کے سراپے کو گھورتے گھورتے ان کے گلے کے پاس جا کر رک گئیں۔ شاید ان کی نظروں کو گلے کی رگوں میں کسی نیلے رنگ کی تلاش تھی۔

وی۔ ان۔ رائے سادھوؤں کی اس منڈلی کے پاس سے ہٹے تو ایک طرف سے ملّاحوں کی ایک ٹولی ان کے پاس آ دھمکی:

’’ایک سواری کے پچاس، پوری ناؤ کے پانچ سو۔ ‘‘

’’ایک کے چالیس، پوری کے ساڑھے چار سو۔ ‘‘

’’پوری ناؤ کے کیول چار سو۔ ‘‘

ملّاح اپنی اپنی کشتی کے ریٹ بتانے لگے۔

’’ایک چاہے دس، ایک ہزار‘‘۔

اس انوکھے ریٹ کی گونج نے ساری آوازوں کا گلا دبا دیا۔ وی۔ ان۔ رائے کی گردن اُس آواز کی جانب مڑ گئی۔

دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر کا ملّاح جس کے ماتھے پر سکون کی لکیریں تھیں اور آنکھوں میں اطمینان کی روشنی لہرا رہی تھی، ایک طرف، بے فکری سے کھڑا نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں اپنی کشتی کے انوکھے ریٹ کا گردان کر رہا تھا۔

اسے دیکھ کر وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں اجمیر والے خواجہ کے مزار کا ایک عجیب و غریب حلیے والا بھکاری سما گیا جو ایک ہزار ایک روپے مانگ رہا تھا اور اس مخصوص رقم سے ایک روپیہ بھی کم لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ اس مطلوبہ رقم سے کم کی رقموں کو وہ لوٹا چکا تھا اور آخرکار ایک ہزار ایک روپے کی رقم اسے مل بھی گئی تھی۔ وی۔ ان۔ رائے اُس ملّاح کی طرف آگے بڑھ گئے اور قریب پہنچ کر اسے گھورتے ہوئے بولے۔

’’ایک ہزار! اتنا فرق! تمھاری ناؤ کیا سونے کی بنی ہوئی ہے ؟‘‘

بے میل ریٹ کی گونج نے انھیں حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ان کی نگاہیں ملّاح کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

’’بنی تو ہے لکڑی کی ہی صاحب! اور دوسروں سے الگ بھی نہیں ہے، پر میں ذرا ا الگ ہوں ‘‘۔

’’مطلب؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’مطلب یہ کہ میں کیول ملّاح نہیں ہوں ‘‘۔ ملّاح کا چہرہ اور سنجیدہ ہو گیا۔

’’ملّاح نہیں ہو تو اور کیا ہو بھائی‘‘؟ وی۔ ان۔ رائے کی دلچسپی اس ملّاح میں بڑھنے لگی۔

’’میں کچھ اور بھی ہوں صاحب! آپ جب میری ناؤ میں بیٹھیں گے تو خود جان جائیں گے ‘‘۔

ملّاح کا یہ اعتماد وی۔ ان۔ رائے کو اس کے لہجے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کے ہاؤ بھاؤ سے بھی محسوس ہوا۔

کم ریٹ والے ملّاح پُر اُمید تھے کہ یہ نیا یاتری ان میں سے ہی کسی کی ناؤ پر سوار ہو گا مگر وی۔ ان۔ رائے کی نگاہیں تو اس ملّاح کی جانب پوری طرح مرکوز ہو چکی تھیں جس کا ریٹ سب سے زیادہ تھا۔

وہ مہنگا ملّاح بھی وی۔ ان۔ رائے کو حیرت سے تک رہا تھا۔

’’لگتا ہے مجھے تمھاری ہی ناؤ میں بیٹھنا پڑے گا‘‘۔ وی۔ ان۔ رائے نے اس مہنگے ملّاح کو مخاطب کیا۔

’’آپ کا انداز تو یہی بتا رہا ہے صاحب!‘‘ ملّاح نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔

’’تمھیں اپنے اوپر بڑا Confidence۔ ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’Confidence کا ارتھ میں سمجھتا ہوں صاحب! آپ جیسے یاتریوں کو ڈھوتے ڈھوتے تھوڑی بہت انگریزی تو آ ہی گئی ہے اور سنگم کے اس گھاٹ پر ہونے والی پوجا پاٹ، یہاں آنے والے بھانت بھانت کے یاتریوں کے ہاؤ بھاؤ،ا چار وچار، ان کے ویوہار اور باپ دادا کی ٹریننگ نے اتنا کچھ سکھا دیا ہے کہ آدمی کو دیکھ کر ہی اس کے ارادے کا پتا چل جاتا ہے۔ ‘‘

’’تم واقعی الگ معلوم ہو رہے ہو۔ میرا ارادہ تمھاری ہی ناؤ پر بیٹھنے کا ہے مگر میں یہ ضرور جاننا چاہوں گا کہ تمھارا ریٹ اتنا ہائی کیوں ہے ‘‘؟

’’میں نے بتایا نا صاحب کہ جب آپ میری ناؤ میں بیٹھیں گے تو آپ کو خودبخود پتا چل جائے گا۔ پھر بھی آپ چاہتے ہیں کہ سوار ہونے سے پہلے ہی بتا دوں تو میں ضرور بتاؤں گا پرنتو اس سے پہلے ایک سوال میں بھی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’پوچھو‘‘۔

’’کیا آپ کہیں باہر سے آئے ہیں ‘‘۔ میرا مطلب ہے انڈیا کے باہر سے ؟‘‘

’’تم نے یہ سوال کیوں کیا؟ کیا میں باہری لگتا ہوں ‘‘؟

لگتے تو نہیں ہیں پرنتو آپ رہتے باہر ضرور ہوں گے ‘‘۔

’’تم نے کیسے جانا؟‘‘

’’کوئی یہاں کا ہوتا، میرا مطلب ہے یہاں رہ رہا ہوتا تو میرا ریٹ سن کر میری اور دھیان نہیں دیتا بلکہ ترنت اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیتا اور اگر دھیان دیتا بھی تو حیلہ حجّت اور بھاؤ تاؤ ضرور کرتا‘‘۔

’’تم سچ مچ دوسروں سے الگ ہو مگر ایک بات تمھیں بتا دوں کہ اب باہر والے بھی یہاں آ کر خوب بارگینِگ کرنے لگے ہیں ‘‘۔

’’بارگینِگ مطلب؟‘‘

’’مول تول، بھاؤ تاؤ‘‘۔

’’مطلب کہ وہ بھی ہماری طرح۔ ۔ .؟‘‘

’’ہاں، وہ بھی، اور کہیں کہیں اور کسی کسی معاملے میں تو وہ ہم سے دو قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نہایت معمولی رقم کے لیے دیر تک بحث کرتے ہیں بلکہ دکان دار سے جھگڑتے بھی ہیں۔ ‘‘

’’اچھا! مجھے تو یہاں ابھی تک ایسا کوئی نہیں ملا‘‘۔

اتّفاق ہے کہ وہ یہاں آ کر مول تول نہیں کرتے۔ ممکن ہے یہاں کا واتاورن انھیں یہ سب کرنے سے روک دیتا ہو یا انھیں بھی پونیہ کی طرف مائل کر دیتا ہو۔ خیر، چھوڑو۔ بتاؤ کدھر ہے تیری ناؤ؟‘‘

’’صاحب! میرا ریٹ زیادہ کیوں ہے، یہ نہیں جانیں گے ؟‘‘

’’نہیں، اب اس کی ضرورت نہیں ہے، کدھر چلنا ہے ؟‘‘

’’پھر بھی میں ایک بات تو بتا ہی دوں کہ میں کیول سنگم کا چھور چھوا کر ناؤ کو واپس گھاٹ پر نہیں لگا دیتا بلکہ میں اس وقت تک ناؤ کو پانی میں تیراتا رہتا ہوں جب تک یاتری تیرنا چاہتے ہیں، چاہے شام ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چلیے اس طرف ہے میری ناؤ۔ ‘‘ اس نے ایک ناؤ کی طرف اشارہ کیا۔

کچھ دیر پہلے اس ملّاح کا دوگنا ریٹ سن کر وی۔ ان۔ رائے نے اس کے بارے میں جو رائے بنائی تھی اور ایک ہزار روپیوں کی رٹ سے ان کی آنکھوں میں خواجہ غریب نواز کے دربار کے ایک بھکاری کی جو شبیہ ابھر آئی تھی، ملّاح کی اس بات نے اسے مٹا دی تھی۔

ملّاح چاہتا تو یہ بات نہیں بھی بتا سکتا تھا اور دوسرے ملّاحوں کی طرح وہ بھی سنگم کا ایک چکر لگا کر اپنی ناؤ کو کنارے لگا سکتا تھا یا زیادہ سے زیادہ دگنی رقم کے بدلے یا خود کو مختلف ثابت کرنے کے واسطے ایک آدھ چکر اور لگا سکتا تھا اور باقی وقتوں میں ہزار ہزار کی دوسری رقمیں دوسرے یاتریوں سے بھی حاصل کر سکتا تھا مگر بنا کسی سوال اور استفسار کے اپنی جانب سے اس کا یہ بات بتانا لیک سے ہٹا ہوا اس کا ایک ایسا رویّہ تھا جس نے وی۔ ان۔ رائے کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ وہ اس رویّے پر سوچتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے کشتی تک پہنچ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی کشتی کی رسّی کھل گئی۔

ملّاح نے اپنا پتوار سنبھال لیا۔

’’صاحب! اس سمے ہم جمنا میں ہیں۔ اس پانی کو دھیان سے دیکھیے۔ اس کا رنگ ہرا ہے۔ یہ رنگ پہلے اور بھی زیادہ ہرا تھا۔ اتنا ہرا کہ دور دور تک ہریالی بچھا دیتا تھا۔ دھرتی تو دھرتی آدمیوں کے تن من میں بھی سبزہ اگا دیتا تھا۔ مکھ پر تازگی اور آنکھوں میں چمک بھر دیتا تھا۔ دھیرے دھیرے اس میں سیاہی گھلتی گئی اور اس کا ہرا پن ہلکا ہوتا گیا۔ اس کے ہرے پن کے بارے میں بہت سی کہانیاں کہی جاتی ہیں ‘‘:

’’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمنا جی کسی پہاڑ سے ہرے رنگ کا پتھر اس پتھر کو شاید زمرد کہتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں زمرد ہی کہتے ہیں ‘‘۔ وی۔ ان۔ رائے نے تصدیق کی۔

’’ہاں تو وہ اس زمرد کو اپنے ساتھ بہا کر لاتی تھیں اور وہ زمرد جمنا کے پانی کو ہرا بھرا رکھتا تھا۔ بعد میں زمرد کا وہ پہاڑ کہیں غائب ہو گیا۔ کسی جوالا مکّھی میں پھٹ کر بکھر گیا اور اس کے ٹکڑے جھلس کر کالے پڑ گئے یا شاید کسی بھوکمپ میں پتال کے اندر دھنس گیا اور اس کے جو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جمنا جی کے گربھ میں پڑے تھے ان پر بھی دھول اور کائی جم گئی۔ تھوڑے بہت کنٹر (ذرے ) جو دھول اور کائی سے بچے رہ گئے ہیں، یہ ہرا پن انھیں کا اثر ہے۔

اس سندربھ میں ہمارے تاؤ ایک دوسری کہانی سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح یہ دھرتی گائے کے سینگوں پر ٹکی ہے اسی طرح جمنا جی بھی ایک پہاڑی توتے کے پروں پر بیٹھی ہیں۔ یہ اسی توتے کے ہرے پروں کا کمال تھا کہ جمنا جی کا پانی پہلے کافی ہرا دکھائی دیتا تھا اور اب جو ہرا پن کم ہوا ہے اس کا کارن یہ ہے کہ پانی میں کچھ راکشس گھس آئے ہیں اور انھوں نے اس توتے کے پروں کو نوچنا شروع کر دیا ہے۔ صاحب ! جمنا جی کا پانی تو اتنا میلا نہیں ہوا ہے جتنا کہ آگے آنے والی ندی کا ہوا ہے ‘‘۔

’’ایسا کیوں ہے ‘‘؟

’’اس لیے کہ جمنا میں آستھا کم ہے۔ ‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’لوگ جمنا جی میں اسنان کم کرتے ہیں ‘‘۔

گنگا ترا پانی امرت

گنگا کی سوگندھ

گنگا میّا تو ہے پیری چڑھیبو

رام تری گنگا میلی ہو گئی

ہر ہر گنگے

چھورا گنگا کنارے والا

یکایک ہندی سنیما جگت سے جڑے کچھ فلموں کے نام اور کچھ گیتوں کے بول وی۔ ان رائے کے کانوں میں گونج پڑے۔ ان کے ذہن میں ایک بھی ایسا نام نہیں ابھر جس میں جمنا ہو۔ جمنا والی ایک فلم کا نام ابھرا بھی تو اس میں گنگا کا لفظ جڑا ہوا تھا، وہ بھی جمنا سے پہلے۔

گنگا جمنا دونوں ندیاں ہیں۔ دونوں پانی کا منبع ہیں۔ دونوں اس شہر میں ایک جگہ پر موجود ہیں۔ سنگم کو بنانے میں جمنا کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ گنگا کا۔ پھر بھی ایک میں لوگ زیادہ اسنان کرتے ہیں اور دوسری میں کم۔ ایک میں ڈبکی لگانے کے لیے لوگ بیاکل رہتے ہیں اور ایک میں بے من سے اترتے ہیں۔ ایک میں اترنے کے لیے لوگوں کا بس چلے تو وہ دوسروں کو پانی سے باہر نکال پھینکیں مگر دوسری میں اترنے کے لیے کسی کو کوئی جلدی نہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا اس کی وجہ وہی ہے جسے ملّاح نے بیان کیا یا کوئی اور وجہ بھی ہے ؟ ملّاح کے جملے کا مفہوم وی۔ ان۔ رائے پر کھل کر بھی نہیں کھلا۔

اچانک ان کے سروں پر پرندوں کا ایک غول منڈرانے لگا۔

’’یہ اتنے سارے پرندے کہاں سے آ گئے ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے ان پرندوں پر اپنی نگاہیں جماتے ہوئے ملّاح سے پوچھا۔

’’صاحب! یہ باہر سے آئے ہیں۔ ایسے ان کے سینکڑوں جھنڈ ہیں جو رات دن ندی کے اوپر منڈراتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی ناؤ پانی میں اترتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، یہ ادھر جھپٹ پڑتے ہیں۔ دیکھیے، یہ کتنے سندر ہیں ! ان کے کالے اور سفید پر کتنے آ کر شک لگ رہے ہیں اور ان کی یہ لمبی چوڑی گلابی چونچ جیسے کسی ننھے منے بچے کے جوتے پہن لیے ہوں اور جب کبھی یہ جوش میں آتے ہیں تو ان کی اڑانیں دیکھنے یوگ ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو یہ گھِرنی بنا دیتے ہیں۔ جب یہ بہت سارے ایک ساتھ چاروں طرف چکر کاٹتے ہوئے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتے ہیں تو ۲۶؍جنوری کی جھانکیاں یاد آ جاتی ہیں جن میں ہمارے لڑاکو و مانوں کی ٹولیاں آسمان پر اپنی قلابازیاں دکھاتی ہیں۔ صاحب! سچ مچ یہ بہت سندر اور من بھاؤن ہیں ‘‘۔

’’ہاں، واقعی یہ بہت خوبصورت ہیں ‘‘۔

’’پرنتو بے چارے بہت بھوکے ہیں۔ ذرا سا دانہ ان کی اور پھینکیے تو ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ لیجیے پیکٹ اور اس میں سے دانہ پھینک کر دیکھیے کہ کیسے جھپٹتے ہیں ‘‘؟

وی۔ ان۔ رائے نے ملّاح کے ہاتھ سے پیکٹ لے کر ان میں سے ایک مٹھی دانہ پانی میں دور تک بکھیر دیا۔

پرندوں کا غول ترقی یافتہ ملکوں کے جنگجو طیاروں کی مانند دانوں پر جھپٹ پڑا۔ کچھ پرندے تو پانی کے اندر سے بھی دانوں کو اپنی چونچ میں پکڑ لائے۔ جیسے وہ پرندے نہیں، جدید طرز کی بنی پنڈوبیاں ہوں۔

’’صاحب! اس بار دانوں کو ہوا میں اچھالیے ‘‘۔

’’ایسا کیوں ؟‘‘

’’اچھالیے تو سہی‘‘۔

’’اچھا!‘‘ وی۔ ان۔ آر نے اس بار دانے خلا میں اچھال دیے۔

پرندوں نے ان دانوں کو ہوا میں ہی روک لیا۔ ایک دانے کو بھی نیچے نہیں گرنے دیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پرندے کسی ذوٗ یا سرکس سے آئے ہوں جہاں اس فن میں انھیں برسوں تربیت دی گئی ہو اور انھوں نے خوب ریاضت کی ہو۔

’’کیسا لگا صاحب؟‘‘

’’بہت اچھا‘‘۔ وی ان آر نے بڑے اسٹائل سے ایک مٹھی دانہ خلا میں پھر اچھال دیا۔

پرندوں کی قلابازیاں پھر شروع ہو گئیں۔ دانوں کو پکڑنے کی کوشش میں پرندوں کے جسم اوپر نیچے ہونے لگے۔ ان کے پھڑپھڑاتے ہوئے پر ایک دوسرے کے پروں سے ٹکرانے لگے۔ کچھ ایک پر ٹوٹ کر پانی پر آگرے۔ بعض پرندے پانی کے اندر گرے دانوں کو پکڑنے کے لیے پانی میں ڈبکیاں لگانے لگے۔ اس عمل میں ان کے پر بھیگ کر ان کی پرواز میں رکاوٹ ڈالنے لگے۔

خلا میں اچھلے اور پانی میں گرے دانوں کے ختم ہوتے ہی وی۔ ان۔ رائے نے کچھ اور دانے اچھال دیے۔ قلابازیوں کا رکا ہوا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا۔

’’دانوں پر جھپٹتے ہوئے اِنھیں دیکھ کر بڑا اطمینان ملتا ہے صاحب!‘‘

’’اطمینان کیوں ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے ملّاح کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا:

’’اس لیے کہ اس دھرتی پر کچھ ایسے بھی دیس ہیں جن کے بھوکے پنچھی اپنا پیٹ بھرنے ہمارے یہاں آتے ہیں۔ ‘‘

لفظ ’’ہمارے یہاں ‘‘ کو ملّاح نے کچھ اس انداز سے ادا کیا اور اس پر اتنا زور دیا کہ وی۔ ان۔ رائے کا چہکتا ہوا چہرہ اچانک مرجھا سا گیا۔ پیکٹ کے اندر دانوں کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ ٹھٹھک گیا۔

ان کی آنکھوں سے دریا دور چلا گیا۔ پلکوں کی شاخ پر ایک چڑیا آبیٹھی:

گم سم، اداس، سہمی، سمٹی، ڈری ہوئی چڑیا۔ جگہ جگہ سے نچے ہوئے پر۔ بدہیئت، اڑی ہوئی رنگت، بے نور آنکھیں، بوجھل پلکیں، بند چونچ۔

یہ وہی چڑیا تھی جس کے بارے میں وی۔ ان۔ رائے نے بہتوں سے سنا تھا کہ اس کے سنہرے پر ہر وقت ہوا میں لہراتے رہتے تھے۔ اس کے پورے جسم سے روشنی پھوٹا کرتی تھی۔ ایسی روشنی جس سے اندھیری وادیوں میں بھی جگنو بھر جاتے تھے۔ اس کی منقار صبح و شام لعل اگلا کرتی تھی۔ یہ اپنوں کے لیے تو لعل اگلتی ہی تھی، دوسروں کے دامن کو بھی گوہروں سے بھر دیتی تھی۔ اس کے جسم سے سنہری شعاعوں کے پھوٹنے اور منقار سے لعل اگلنے کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں تھا۔ لگتا تھا اس کی آنکھوں نے گولر کا پھول دیکھ لیا ہو یا شاید چونچ نے اس پھول کو نگل لیا ہو۔ اسی لیے تو اس کے اندر کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو لوگوں کو محسوس ہوتا تھا جیسے قارون نے اپنا خزانہ اسی چڑیا کے پیٹ میں چھپا رکھا ہو۔

مگر اب وہی گوہر افشانی کرنے والی سنہری چڑیا سنولائی کجلائی، اپنی چونچ بند کیے گم سم اداس بیٹھی تھی۔ لگتا تھا جیسے کسی نے اس کے حلق میں انگلی ڈال کر اس کے اندر سے گولر کا پھول نکال لیا ہو یا کوئی پیٹ پھاڑ کر قارون کا خزانہ لے بھاگا ہو۔

چڑیا کو تکتے تکتے وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں صحرا سمٹ آیا۔

نگاہوں کے آگے دور دور تک ریت بچھ گئی۔

گرم ریت پر جگہ جگہ دانے بکھیر دیے گئے۔ دانوں کی سمت سادہ اور سفید کپڑوں میں ملبوس سانولی صورت والی بھولی بھالی مخلوق دوڑ پڑی۔

گرم ریت اسے جھلسانے لگی۔ا س کی سانولی صورت کو سنولانے لگی۔ لوکی لپٹیں اسے اپنی لپیٹ میں لینے لگیں۔ دانوں کو حاصل کرنے کے لیے بے سر و سامانی والی مخلوق ریگستانی ریت کی اذیت برداشت کرنے لگی۔ اپنے دل و دماغ پر گردبادی جھکڑوں کی چوٹ کھانے لگی۔ صحرائی تھپڑوں کی مار جھیلنے لگی۔ آتش آمیز ہوا اس کے نتھنوں کے ساتھ ساتھ اس کے دل، دماغ، رگ و ریشے سب میں سمانے لگی۔ ایک ایک کو جلانے لگی۔

’’الہندی‘‘

یکایک یہ لفظ وی۔ ان۔ رائے کے کانوں میں گونج اٹھا۔ صحرائی زمین کے خشک دہانے سے تحقیری لب و لہجے میں ادا ہوئے اس لفظ کا جو مفہوم وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں ابھرا اس نے ان کی آنکھوں میں ایک گھناؤنا چوپایا ابھار دیا۔

اِس معنی و مفہوم میں یہ لفظ اس سرزمین کے باشندگان کے لیے ادا ہوا تھا جس نے ان صحرائی بدوؤں اور خانہ بدوشوں کو اپنے دامن میں نہ صرف یہ کہ مستقل خیمے عطا کیے بلکہ اپنی محبتوں سے انھیں مہذب بھی بنایا اور انھیں ایسے گلے لگایا کہ صحرا اور گلستاں کا امتیاز مٹ گیا، میں اور تو کا بھید جاتا رہا۔

یہ لفظ پگھلے ہوئے سیسے کی صورت وی۔ ان۔ رائے کے ذہن و دل میں سرایت کرتا چلا گیا۔

گرم ریت پر دانہ چننے والی سانولی سنولائی وہ مخلوق وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں کے اور نزدیک آ گئی جس کے کانوں میں یہ سیٖسہنہ جانے ایک دن میں کتنی بار پڑتا ہو گا اور اس کے رگ و ریشے کو کس کس طرح سے چیرتا ہو گا؟

صحرا اپنا شرر بار اور دل فگار منظر دکھا ہی رہا تھا کہ برفیلی وادیوں کا بھی ایک سلسلہ ابھرنا شروع ہو گیا۔

ان وادیوں میں بھی جگہ جگہ دانے بکھیرے جانے لگے۔

یہاں بھی سانولی صورت اور سفید سادہ لباس والی بھولی بھالی مخلوق ادھر ادھر سے جوق در جوق پہنچنے لگی۔

دانوں پر جھپٹّے پڑنے لگے۔ یخ بستہ زمین پر پاؤں دوڑنے لگے اور برفیلی زمین سے دانہ اٹھانے کی سعی میں دماغ چکرانے، جسم لڑکھڑانے اور پاؤں پھسلنے لگے۔ اس چکر اور لڑکھڑاہٹ کے باوجود اس مخلوق کی تگ و دو طے شدہ سیدھے رستے پر ہوتی رہی کہ ایک ایک آنکھ کو بندوقوں کی وہ نالیاں نظر آ رہی تھیں جو چاروں طرف جھاڑیوں کی اوٹ میں تنی ہوئی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس ساودھانی اور ایسی مستعدی سے تنی ہوئی تھیں جیسے کہ وہ خود ڈری ہوئی ہوں۔

وی۔ ان۔ رائے کو ایک واقعہ یاد آنے لگا۔ اس واقعے کا تعلق ان کے پڑوسی اصغر علی کے بڑے بیٹے توقیر علی کے ایک ادھورے سفر کی روداد سے جڑا ہوا تھا۔

ایک دن وی۔ ان۔ رائے نے توقیر علی کو راستے میں روک کر پوچھا تھا:

’’توقیر! تم واپس کیوں آ گئے ؟ تمھارے ابا بہت پریشان ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ اتنا سارا خرچ کر کے توقیر کو بھیجا تھا اور وہ کچھ مہینوں میں ہی واپس آ گیا۔ پوچھنے پر بتاتا ہے کہ اس کا جی نہیں لگا۔ بھلا اس لیے بھی کوئی ملازمت چھوڑ کر واپس آتا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں جب کہ اپنی زمین تنگ ہو چکی ہو۔ ‘‘

’’بھائی صاحب! ابّا کو یہ بات کس طرح سمجھاؤں کہ اپنی زمین تو بعض وجوہات کی بنا پر صرف تنگ ہوئی ہے۔ ہمیں اپنا دشمن تو نہیں سمجھتی اور ہر وقت بندوق لے کر ہمارے پیچھے تو نہیں پڑی رہتی۔ وہاں تو ہمیں اپنا دشمن سمجھا جاتا تھا اور سوتے جاگتے، کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہم پر نظر رکھی جاتی تھی جیسے ہم مجرم ہوں یا کوئی دہشت گرد ہوں۔ ابّا کو اس بات کا یقین نہیں آتا۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ وہاں کام کرنے والے عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ مجھے وہاں بھیجنے میں اور وہاں سے چلے آنے میں ابّا کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان صرف پیسوں کا نہیں بلکہ ان کے خوابوں، خیالوں اور منصوبوں کا بھی ہوا ہے مگر میں وہاں رکتا تو شاید ابّا کا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہو جاتا اور وہ نقصان ایسا ہوتا کہ جس کی تلافی کبھی اور کسی طرح بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں بھائی صاحب!‘‘

توقیر کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔

توقیر علی کا آخری جملہ ختم ہوتے ہی وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں انٹرنیشنل شوٹر اور دولت مشترکہ کھیلوں (Common wealth games) میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے کھلاڑی عمران حسن خان کا واقعہ ابھر آیا تھا جنھیں ورلڈ کپ شوٹنگ مقابلے میں اس لیے نہیں جانے دیا گیا تھا کہ ان کے پاسپورٹ پر عمران کے ساتھ حسن اور خان بھی درج تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ اردو کے مشہور و معروف کہانی کار سید محمد اشرف سے متعلق یہ خبر بھی کانوں میں گونج پڑی تھی کہ ان کو اس لیے وزا نہیں ملا کہ ان کے نام میں لفظ محمد شامل تھا حالاں کہ وہ ایک ادبی محفل میں کہانی سنانے جا رہے تھے۔

’’کہاں کھو گئے صاحب؟‘‘ ملّاح نے وی۔ ان۔ رائے کو مخاطب کیا۔

وی۔ ان۔ رائے خاموش رہے۔

صاحب! کیا بات ہے ؟ ایک دم سے چپ ہو گئے ؟‘‘

’’نہیں تو، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ‘‘۔ وی۔ ان۔ رائے نے خود کو چھپانے کی کوشش کی۔

’’دانہ ختم ہو گیا ہو تو ایک پیکٹ اور دے دوں صاحب؟‘‘

’’نہیں، ابھی ہے۔ ‘‘

’’تو ہاتھ کیوں روک دیا؟ ڈالیے نا؟‘‘

’’من نہیں کر رہا ہے ‘‘۔

’’صاحب! ایک بات پوچھوں ؟‘‘

’’پوچھو۔ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے کی آواز دھیمی ہو گئی۔

’’پنچھیوں کو دانہ ڈالتے سمے ان کا ہماری طرف آنا اور ان کا دانوں کی اور جھپٹنا آپ کو کیا اچھا نہیں لگا تھا؟ سچ بتائیے گا؟‘‘

’’اچھا لگا تھا۔ ‘‘

’’کیا آپ کے بھیتر یہ اِچّھا نہیں جاگی تھی کہ کچھ دیر تک اور دانہ ڈالا جائے اور اس منظر کا مزہ لیا جائے ؟‘‘

’’ہاں، یہ خواہش بھی جاگی تھی اور اگر میرے سامنے کچھ اور منظر نہ آ گئے ہوتے تو تم سے دوسرا پیکٹ بھی مانگتا اور شاید اس کے بعد تیسرا بھی۔ ‘‘

’’صاحب! دو تین نہیں، لوگ درجنوں پیکٹ ڈالتے ہیں اور جب تک ناؤ پر سوار رہتے ہیں، ان کے ہاتھ نہیں رکتے۔ چلتے وقت لوگ تھیلا بھر بھر کر دانوں کا پیکٹ لاتے ہیں۔ ختم ہو جاتا ہے تو ملّاحوں سے خریدتے ہیں۔ ملّاح اس وقت ان سے دگنا تگنا پیسہ وصول کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے بھی لالچ آتا ہے کہ میں بھی یاتریوں کے جوش اور اتساہ کا لابھ اٹھاؤں اور دانوں کے پیکٹ کا منہ مانگے دام وصول کروں پرنتو میری آتما گوارا نہیں کرتی۔ اس لیے واجبی منافع لیتا ہوں اور آپ سے تو پیسہ بھی نہیں مانگا اور آپ نہیں دیں گے تو مجھے پچھتاوا بھی نہیں ہو گا‘‘۔

’’کیوں ‘‘؟

’’اس لیے کہ کسی کسی سے پیسہ مانگنے کو جی نہیں کرتا‘‘۔

’’تو کیا میں۔ ۔ .۔ ۔ ‘‘

ہاں صاحب! آپ ایسے ہی لوگوں میں سے مجھے ایک لگے۔ ‘‘

’’شکریہ‘‘۔ وی۔ ان۔ رائے کی نظریں ملّاح کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

اس لیے نہیں کہ وہ ملّاح کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہو گئے تھے بلکہ اس لیے کہ ملّاح کے مٹ میلے چہرے میں بھی انھیں ایسی چمک محسوس ہوئی جو اجلے چہروں میں بھی نظر نہیں آتی۔

’’بہتے دریا میں تو سبھی ہاتھ دھوتے ہیں۔ پھر تم کیوں نہیں ؟ اور یاتری تو دانوں کے دام اپنی مرضی سے دیتے ہوں گے، ان کے ساتھ کوئی زور زبردستی تھوڑے کی جاتی ہو گی۔ ‘‘

زور زبردستی کیول وہی نہیں ہوتی جو اوپر اوپر دکھائی دیتی ہے۔ کچھ زور بھیتر بھیتر بھی چلتا ہے صاحب! اور مرضی سے کوئی کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اگر ہم اپنی ناؤ کا ریٹ نہ بتائیں اور یاتریوں سے کرایہ نہ مانگیں تو دھنّا سے دھنّا سیٹھ بھی چپ چاپ ناؤ سے اتر کر چل دے اور رہی بہتے دریا میں ہاتھ دھونے کی بات تو من نہیں کرتا صاحب!‘‘

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں ملّاح کے چہرے کی چمک اور تاب دار ہو گئی۔ ان کو اُس کی پیشانی پر چِنتنی چمک بھی نظر آنے لگی۔

’’صاحب! آپ پھر کہیں کھو گئے ؟‘‘

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’نکاریے نہیں صاحب! مجھے آپ کا اس طرح اچانک کہیں کھو جانا اچھا لگتا ہے۔ آپ کے چہرے پر جو بھاؤ آتے ہیں، مجھے بہت پربھاوت کرتے ہیں۔ میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ بھاؤ اپنے بھیتر کیا کیا ارتھ رکھتے ہیں اور ان میں کیسا بھید بھرا ہوتا ہے پرنتو اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت گہرے اور بھید سے بھرے ہوتے ہیں اور مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔

وی۔ ان۔ رائے کی نظریں ملّاح کے اندر تک اترنے لگیں اور ساتھ ہی دیر سے چپّی سادھے ان کے ہونٹ یکایک بول پڑے۔

’’تمھارا نام کیا ہے ؟‘‘

’’یہ اچانک میرا نام جاننے کی اچھا کیسے پیدا ہو گئی صاحب؟‘‘

’’اس وقت تم میرے ہم سفر ہو۔ ہمیں اپنے ہمسفر کا نام تو معلوم ہونا ہی چاہیے۔ یہ کام مجھے پہلے کرنا چاہیے تھا مگر مجھ سے چوک ہو گئی۔ چھما کرنا‘‘۔

’’آپ نے اس معمولی ملّاح کو اپنا ہمسفر مانا اس کے لیے دھنیہ واد۔ آپ سے کوئی چوک نہیں ہوئی صاحب! آپ کو چھما مانگنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں ایک کام گار ہوں جسے کچھ دیر کے لیے آپ نے مزدوری پہ رکھا ہے۔ ایسے میں کام گار کا نام جاننا ضروری نہیں ہوتا۔ مالک کو تو کام گار کے کام سے کام ہوتا ہے۔ اس کے نام سے نہیں۔ ‘‘

’’تو تم اپنا نام نہیں بتانا چاہتے ؟‘‘

’’یہ بات نہیں ہے صاحب‘‘۔

’’تو پھر کیا بات ہے ؟‘‘

کوئی بات نہیں صاحب۔ ‘‘

’’تو پھر؟‘‘

’’میرا نام ویاس ہے، ویاس مانجھی‘‘۔

’’ویاس!‘‘ وی۔ ان۔ اے چونک پڑے۔

’’جی ویاس مانجھی۔ ‘‘

’’تم جانتے ہو یہ نام کس کا تھا؟‘‘

’’جی جانتا ہوں، اس منی کا، جس نے مہاکاویہ مہابھارت رچا تھا‘‘۔

’’تم نے مہابھارت پڑھی ہے ؟‘‘

’’پڑھی ہے ‘‘۔

’’کہاں، کیسے ؟ کب؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کے منہ سے یک لخت تین سوال اچھل پڑے۔

’’صاحب! میں ناؤ کھیتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں بالکل ان پڑھ گنوار ہوں ‘‘۔

’’میرا یہ مطلب نہ تھا۔ معاف کرنا، مجھ سے پھر بھول ہو گئی‘‘۔

’’صاحب! بھول آپ سے نہیں ہوئی بلکہ بھول اس سے ہوئی ہے جس نے مجھے پتوار پکڑا دیا ہے ‘‘۔

اس نے پانی پر چپّو کو اس طرح مارا کہ لہریں اوپر تک اٹھ گئیں اور ناؤ ڈگمگانے لگی‘‘۔

پانی میں ہوئی ہلچل کی طرح وی۔ ان۔ رائے کے ذہن و دل میں بھی ہلچل مچ گئی مگر کچھ دیر بعد پانی کی موجوں کی مانند وی۔ ان۔ رائے کے کے اندر کی لہریں بھی آہستہ آہستہ بیٹھ گئیں۔

’’سچ مچ میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کر دو اور اپنا غصہ تھوک کر یہ بتاؤ کہ تم نے کہاں تک پڑھائی کی ہے ؟

ہائی اسکول میں تھا کہ پڑھائی چھوٹ گئی۔ ملّاح نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

’’کیوں چھوٹ گئی؟‘‘

’’گھر کی حالت اچھی نہیں تھی۔ باپو کی ملّاح گیری سے گھر کا خرچ نہیں چل پاتا تھا، کمانے والا دوسرا کوئی اور تھا نہیں۔ اس لیے مجھے بھی انھوں نے ایک ناؤ کا پتوار تھما دیا اور قلم میرے ہاتھ سے نکل گئی۔

’’اوہ!‘‘

’’پرنتو میرے پڑھنے کا شوق ختم نہیں ہوا صاحب! میں اِدھر اُدھر سے کتابیں حاصل کر کے جب کبھی موقع ملا، پڑھتا رہا۔ ‘‘

کس طرح کی کتابیں پڑھتے تھے ؟‘‘

’’ہر طرح کی‘‘۔

’’جیسے ؟‘‘

’’جیسے، اتہاس، بھگول، ساہتیہ، درشن، سماج شاستر جس وشے پر بھی کتاب ہاتھ لگ جاتی تھی، اسے پڑھ لیتا تھا۔

ان کتابوں کی جو باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اپنے باپو سے پوچھتا، میرا باپو زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا پرنتو انوبھوی بہت تھا۔ بہت سے مشکل سوالوں کے جواب وہ دے دیتا تھا۔ جن کا جواب اس سے نہیں مل پاتا تھا، میں یاتریوں سے پوچھ لیا کرتا تھا۔ کچھ کے جواب مل جاتے تھے اور کچھ کے نہیں مل پاتے تھے۔ جن کے نہیں مل پاتے تھے، وہ سوال مجھے کچھ دنوں تک تو بہت بے چین رکھتے تھے، پھر خود ہی تھک ہار کر چپ ہو جاتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی کسی کسی موقع پر ان میں سے کوئی کوئی اچانک انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور اس کا جواب بھی بنا کسی کے بتائے اپنے آپ مجھے مل جاتا تھا۔ شاید وقت یا حالات مجھے سمجھا دیتے تھے۔ ویسے تو میں سبھی کچھ پڑھتا تھا پرنتو کہانیاں مجھے زیادہ اچھی لگتی تھیں۔ جب کبھی کہانی کی کوئی اچھی کتاب مل جاتی تھی تومیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسے پڑھنے بیٹھ جاتا تھا۔ آج بھی جب کوئی کہانی ہاتھ آ جاتی ہے تو پانی میں اترنے کو من نہیں کرتا۔ ‘‘

’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کہانیاں تمھیں کیوں زیادہ اچھی لگتی ہیں ؟ ‘‘

’’اس لیے صاحب کہ کہانیاں دکھ میں بھی سکھ کا انوبھو کراتی ہیں۔ اُن سچّائیوں کو بھی بنا پٖیڑا پہنچائے دکھا دیتی ہیں جن کو یوں دیکھیں تو آنکھیں جلنے لگتی ہیں۔ اور ایک بات اور بھی ہے صاحب: کہانیاں وہ بھی دکھا دیتی ہیں جو دکھائی نہیں دیتا۔ ‘‘

’’تب تو تمھیں بہت سی کہانیاں یاد ہوں گی ؟‘‘

’’ہاں، مجھے بہت ساری کہانیاں یاد ہیں۔ ان میں کچھ پڑھی ہوئی ہیں، کچھ سنی ہوئی اور کچھ آنکھوں دیکھی ہوئی۔ ان میں کچھ فرضی بھی ہیں اور کچھ سچّی بھی۔ فرضی کہانیاں بھی ایسی ہیں کہ لگتا ہے ان کی گھٹنائیں کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی گھٹی ضرور ہوں گی۔

’’Interesting‘‘

’جی ان میں سے بہت سی کہانیاں سچ مچ بڑی Interesting ہیں۔ ‘‘

’’کیا ان میں سے کوئی کہانی سنانا پسند کرو گے ؟‘‘

’’ضرور‘‘

’’تو سناؤ۔ ‘‘

’’ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک راج کمار کسی گاؤں سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کے کانوں میں یہ آواز سنائی پڑی :

’’دھتکار ہے اس عورت پر جو مرد کے ہاتھوں مار کھا جائے۔ ‘‘

اس آواز نے راج کمار پر ایسا اثر کیا کہ دوڑتی ہوئی شاہی بگّی کو لگام لگ گیا۔ پلٹ کر راج کمار نے دیکھا تو ایک پنگھٹ پر گاؤں کی کچھ عورتیں جمع تھیں۔ یہ آواز انھیں میں سے کسی کے منہ سے نکلی تھی۔

پتا کرنے پر پتا چلا کہ ایک عورت اپنے مرد سے مار کھا کر آئی تھی اور اپنا دکھڑا اپنے سنگی ساتھی پنہارنیوں کو رو رو کرسنا رہی تھی۔ اس کی بپتا سن کر ایک کنواری لڑکی جو کہ اس گاؤں کے ایک گھسیارے کی بیٹی تھی، بڑی بے باکی سے بول پڑی تھی۔ یہ بڑا بول اسی کی باتوں کا ایک انش تھا۔

لڑکی کے اس بول نے راج کمار کی مردانگی کو ایک طرح سے للکار دیا تھا۔ وہ اپنی آگے کی یاترا سماپت کر کے پیچھے پلٹ گیا اور سیدھے اپنے پتا شری کے پاس پہنچ کر بولا:

’’میں چندن پو رکے گھسیارے گھسیٹے رام کی بیٹی سے وِواہ کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

راج کمار کے منہ سے شادی کا یہ پرستاؤ سن کر راجا ہکا بکا ہو کر رہ گیا۔ کچھ دیر تک تو وہ بت بنا رہا پھر ذرا ہوش میں آیا تو بولا:

’’ایک راج کمار کا وِواہ ایک گھسیارن کے ساتھ! یہ کیوں کر سمبھو ہو سکتا ہے ؟‘‘

راج کمار اپنے جی میں ٹھان چکا تھا کہ وہ ہر حالت میں اس لڑکی سے وِواہ کر کے رہے گا۔ باپ جب سیدھے طریقے سے تیار نہیں ہوا تو بیٹے نے اپنے اکلوتے ہونے کا لابھ اٹھاتے ہوئے کہا کہ میرا وِواہ اگر اس لڑکی سے نہیں ہوا تو میں زہر کھا کر اپنی جان دے دوں گا۔

اکلوتے بیٹے کی ضد کے آگے باپ کو جھکنا پڑا۔ راجا نے گھسیارے کو بلا کر اس کی بیٹی سے راج کمار کا وِواہ طے کر دیا۔ خوب دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ پھیروں کے پورے ہوتے ہی گھسیارے کی بیٹی جھونپڑے سے نکل کر راج محل میں آ گئی۔

عورت کی چنوتی سے تَپا ہوا راج کمار سہاگ رات کے کمرے میں پہنچتے ہی بولا :

’’دھتکار ہے اس عورت پر جو مرد کے ہاتھوں مار کھا جائے ‘‘۔ یہ بات کیا تم نے ہی کہی تھی۔ ‘‘

پھولوں کے سیج پر دل میں ارمان سجائے سمٹی سمٹائی گٹھری بنی بیٹھی دلہن نے اقرار میں سر ہلا دیا۔

’’عورت ذات ہو کر تمھاری یہ مجال کہ تم مرد کو چنوتی دو۔ ‘‘ مرد راج کمار کا اہنکار پھنکارنے لگا۔

’’میں نے کوئی چنوتی نہیں دی۔ میں نے تو صرف ایک بات کہی تھی۔ ‘‘ لڑکی نے صفائی دی۔

لڑکی کا جواب سن کر راجکمار بولا،

’’یہ کیول بات نہیں ہے، للکار ہے، کھلی ہوئی للکار۔ مرد کی مہانتا کو للکارنے والی چنوتی بھری للکار! تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ عورت مرد کے ہاتھ سے مار نہیں کھا سکتی۔ مرد عورت کا سوامی ہوتا ہے۔ سوامی اپنے ادھین عورت کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تم اس وقت میرے ادھین ہو۔ میں جو چاہوں تمھارے ساتھ کر سکتا ہوں۔ میں چاہوں تو تمھیں مار بھی سکتا ہوں ‘‘۔ راج کمار کے اہنکار کی پھنکار سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ لڑکی راج کمار کے کرودھ کو شانت کرنے کے لیے بڑے ہی نرم لہجے میں بولی

’’بے شک آپ میرے سوامی ہیں۔ میرے پتی پرمیشور ہیں۔ مجھے مار بھی سکتے ہیں پرنتو میرا کوئی قصور بھی تو ہونا چاہیے۔ آپ کیول ایک مرد اور میرے سوامی ہی نہیں ایک راج کمار بھی ہیں اور راج کمار ہونے کے ناطے دوش اور نیائے کے ودھان کو بھلی بھانتی سمجھتے ہوں گے اور کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جو ودھان کے وِرُدھ ہو، جس سے نیائے کی اوہیلنا ہوتی ہو۔ ‘‘ لڑکی کے اس جواب پر راج کمار اور تلملاتا ہوا بولا۔

’’تم مجھے ودھی ودھان نہ سکھاؤ، میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں ودھان سے باہر جا کر کچھ نہیں کروں گا۔ ودھان کے انوسار ہی تمھیں ماروں گا۔ پہلے تمھارا دوش ثابت کروں گا پھر تمھیں ماروں گا۔ آج میں تمھیں چھوڑے دے رہا ہوں لیکن ایک نہ ایک دن میں تمھیں ماروں گا ضرور۔ سوامی ہونے کے ناطے میں تمھیں تین کام سونپتا ہوں :

پہلا کام یہ کہ ہمارے خزانے سے ایک پیسہ خرچ ہوئے بنا میرے لیے ایک محل بنوانا ہو گا۔ ‘‘

’’بن جائے گا‘‘۔ لڑکی نے وشواس کے ساتھ جواب دیا۔ جیسے اس کے پاس کبیر کا خزانہ موجود ہو۔ راجکمار دوسرا کام سونپتے ہوئے بولا :

’’تم سے میرا کام نہیں چلے گا، میرے لیے ایک راج کماری کا پر بندھ کرنا ہو گا۔ ‘‘

’’ہو جائے گا۔ ‘ ‘ لڑکی نے اس مشکل کام کا بھی بھروسہ دلایا۔ ‘‘ اور آخر میں راج کمار نے تیسرا کام یہ بتایا:

کہ میں تم سے دور رہوں گا مگر میرا بچہ تمھارے پاس ہونا چاہیے۔

’’جی، یہ کام بھی ہو جائے گا۔ ‘‘ لڑکی نے تیسرے انوکھے کام کے لیے بھی حامی بھر دی۔

راج کمار یہ تینوں کام سونپ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ ارمان نکالنے والی رات امتحان میں بدل گئی۔ دماغ سمسیا کے سمادھان میں لین ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی وقت بیتا ہو گا کہ راج کمار پھر سے کمرے میں آ دھمکا۔ لڑکی اسے دیکھ کر حیران ہو اٹھی اور اپنی حیرانی مٹانے کے لیے اس نے کچھ پوچھنا چاہا کہ راج کمار خود بول اٹھا۔

’’اس بات کا کیا ثبوت ہو گا کہ تمھاری گود میں جو بچہ ہو گا، وہ میرا ہی ہو گا۔ ‘‘

یہ سن کر لڑکی سیج سے اٹھی۔ اپنے گھر سے لائی ہوئی ایک صندوق کے پاس پہنچی۔ صندوق کھول کر اس میں سے ایک ڈبیا نکالی۔ ڈبیا کو تھوڑی دیر تک غور سے دیکھا اور اسے راج کمار کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی:

’’اس ڈبیا میں ایک پھول ہے۔ یہ پھول جب تک تازہ ہے، سمجھیے آپ کی عزت بچی ہوئی ہے اگر مرجھائے تو سمجھیے کہ آپ کی عزت بھی لٹ گئی۔

ڈبیا لے کر راج کمار اپنے دیس سے کسی اور دیس میں چلا گیا۔ وہاں جا کر اس نے اس دیس کے راجا کے دربار میں سائس کی نوکری کر لی۔

راج کمار کنویں پر نہانے کے بعد روزانہ اس ڈبے کو کھولتا تھا اور اس کے اندر کے پھول کو نہارتا تھا۔ پھول اسے ہر روز ترو تازہ ملتا تھا۔

اس دیس کے گپت چروں نے راجا کے سائس کی اس رہسیہ میہ حرکت کو راجا تک پہنچا دیا۔ راجا اس بھید کو جاننے کے لیے ویاکل ہو اٹھا۔ ایک دن اس نے اپنے سائس ارتھات راج کمار کو اپنے پاس بلا کر پوچھا:

’’روزانہ نہانے کے بعد تم ڈبیا میں کیا دیکھتے ہو؟‘‘

جواب میں سائس نے پورا قصہ سنا دیا۔ قصہ سن کر راجا کے سر پر سنک سوار ہو گئی کہ وہ ترو تازہ رہنے والے اس پھول کو ایک نہ ایک دن ضرور باسی کر کے چھوڑے گا اور اس نے اپنے گپت چروں کو حکم دے دیا کہ وہ سائس کے گھر کا پتا لگائیں اور اس کے گھر اور پتنی کے بارے میں ایک ایک بات کی جان کاری دیں۔

بنا دیر کیے جاسوسوں نے اپنا کام پورا کر دیا۔

راجا بہانے سے اپنے سائس کے راج محل تک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے سائس کی پتنی کو یہ سندیسہ بھجوایا کہ وہ ہتھوا اسٹیٹ کا راجا کنور پرتاپ سنگھ رانا ہیں اور انھیں ان کے پتی راج کمار ادھیراج سنگھ نے بھیجا ہے اور وہ ان سے مل کر کچھ ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔

سندیسہ بھیجنے والا سچ مچ کوئی راجا ہے یا کوئی اور یہ جاننے کے لیے ہشیار اور سمجھ دار لڑکی نے سندیسے کے جواب میں اپنا سندیسہ یہ بھیجا کہ وہ بھی ملنے کی اِچھّوک ہے پرنتو وہ ایک نئے راجا سے ایک نئے راج محل میں ملنا چاہتی ہے۔

اپنے سائیس کے پھول کو مسلنے اور اسے باسی کرنے کی سنک میں راجا کنور پرتاپ سنگھ رانا نے ترنت سائیس کی پتنی کی بات مان کر محل بنانے کا حکم جاری کر دیا۔

بہت جلد محل بن کر تیار بھی ہو گیا۔ جس دن ملن کی شبھ گھڑی کی مہورت نکلی اس دن چالاک لڑکی نے اپنی سب سے سندر داسی کو راج کماری بنا کر چھے سات دوسری داسیوں کے ساتھ نئے محل میں یہ سمجھا بجھا کر بھیج دیا کہ راجا جو کچھ بھی اس کے ساتھ کرنا چاہیں، وہ کرنے دے بلکہ ان کا من بہلانے کا جتن بھی کرے۔ آ گیاکاری داسی نے نہ کیول راج کماری کے آ گیا کا پالن کیا بلکہ راج محل میں ایک راجا کے ساتھ ایک رانی کی طرح سکھ بھوگنے کے اوسر کا پورا پورا لابھ بھی اٹھایا۔

دوسرے دن راجا رانا نے اپنے سائس کو بلا کر پوچھا:

’’بتا آج ترے پھول کا کیا رنگ ڈھنگ ہے ؟ تازہ ہے یا مرجھا گیا ہے ؟‘‘

’’جیسا روز رہتا ہے، آج بھی ویسا ہی ہے۔ ‘‘ سائیس نے بڑے گھمنڈ کے ساتھ جواب دیا۔

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں کل رات ترے پھول کو خوب اچھی طرح مسل کر آیا ہوں۔ ‘‘ راجا نے جگ جیتنے والے انداز میں کہا

راجا کی یہ بات سن کر سائیس بولا:

’’ملنے کی بات تو دور ہے آپ کو میری پتنی کا ناخن بھی دیکھنے کو نہیں مل سکتا۔ ‘‘

سائیس کی پرتی کریا پر راجا کو تاؤ آ گیا۔ اس نے آناً فاناً میں معاملے کی تہہ تک پہنچے کے لیے اپنے گپت چر بھیج دیے۔ گپت چروں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سائیس سچ کہتا ہے۔ا سکی پتنی نے راجا کے ساتھ دھوکا کیا۔

’’تو اس طرح اس سمجھ دار لڑکی نے اپنے ظالم مر دکا ایک کام پورا کر دیا۔ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے اپنا کمینٹ پیش کیا۔

’’جی صاحب !‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے اپنا تجسّس ظاہر کیا۔

ملاح کہانی کو آگے بڑھائے ہوئے بولا، جب دو سال گزر گئے اور راج کمار واپس نہیں آیا تو اس کی پتنی اپنے سسر سے بولی کہ آپ انھیں بلوا دیجیے یا مجھے آ گیا دیجیے کہ میں جا کر بلا لاؤں۔ سسر نے بہو کو آ گیا دے دیا کہ وہ جا کر خود بلا لائے۔ اس کے لیے اس ہشیار لڑکی نے راج کوش سے ایک راج کمار کی پوشاک اور چھے سپاہیوں کی وردی اور سات اچھے گھوڑوں کی مانگ کی۔ راجا کے حکم سے اس کی ساری مانگیں پوری کر دی گئیں۔ ایک بات جسے مجھے پہلے بیان کر دینا چاہیے تھا وہ یہ ہے کہ اس دو سال کے عرصے میں گھسیارے کی اس لڑکی نے اپنے کو سچ مچ کی رانی میں بدل لیا تھا۔ فوجی ٹریننگ لینے کے ساتھ ساتھ پڑھنا لکھنا اور راج کا وِدھی وِدھان بھی سیکھ لیا تھا۔

اپنی چھے داسیوں کو مردانہ سپاہی کی وردی پہنا کر اور خود راج کمار کا لباس دھارن کر کے ہشیار اور سمجھ دار لڑکی اپنے راج سے نکل کر راجا رانا کے راج میں جا پہنچی۔ شام ہو جانے کے کارن محل کا پھاٹک بند ہو چکا تھا۔ شام ہوتے ہی محل کا پھاٹک اس لیے بند ہو جاتا تھا کہ ایک خطرناک شیر نے وہاں کے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ آئے دن کوئی نہ کوئی اس کے خونیں پنجوں کا شکار ہوتا رہتا تھا۔ اس کو مارنے کے لیے راجا یہ تک اعلان کر چکا تھا کہ مارنے والے کے ساتھ وہ اپنی بیٹی بیاہ دے گا۔ راج کماری سے شادی کرنے کی چاہ میں راج کے بہت سے سورما ہر وقت تاک میں لگے رہتے تھے مگر اب تک کوئی بھی اس میدان میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔

گھسیارے کی ہشیار اور بہادر بیٹی پھاٹک بند ہو جانے کے بعد جب محل کے اندر نہ جا سکی تو اس نے محل کے باہر اپنا ڈیرا ڈال دیا اور اپنی بہادر سپاہیوں کا باری باری سے پہرہ بٹھا دیا۔ رات کے آخری پہر کی پہرے داری اس نے اپنے ذمّے لے لی۔ سنجوگ سے اسی کی باری کے سمے وہ خطرناک شیر دہاڑتا ہوا اُدھر آ نکلا جدھر ان کا ڈیرا ڈلا ہوا تھا۔

گاؤں کی کھلی آب و ہوا میں پلی بڑھی کسرتی بدن والی گھوڑے پر بیٹھی بہادر لڑکی نے شیر کو دیکھتے ہی بندوق سنبھال لی۔ گھوڑے پر بیٹھے بندوق دھاری سوار کو دیکھتے ہی شیر بپھر اٹھا۔ اور دہاڑتا ہوا اس نے حملہ شروع کر دیا۔ لڑکی شیر کے حملے سے پہلے بچتی رہی، الگ الگ دشاؤں میں اپنے پھرتیلے گھوڑے کی باگ ڈور موڑتی رہی۔ بار بار حملہ کرتے رہنے سے جب شیر بری طرح نڈھال ہو گیا اور اس کی دہاڑ اور چھلانگ میں کمی آ گئی تو اس لڑکی نے بڑی ہشیاری سے شیر کے سینے میں دھڑا دھڑ کئی گولیاں اتار دیں۔

شیر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ لڑکی گھوڑے سے اتری۔ شیر کے پاس پہنچی۔ بندوق کی نال پھنسا کر شیر کا منہ کھولا اور کمر پر بندھے میان سے تلوار کھینچ کر اس نے شیر کی زبان کاٹ لی۔ کچھ دیر بعد تلوار کو میان میں واپس رکھا اور گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے خیمے کی طرف روانہ ہو گئی۔

صبح جب محل کا پھاٹک کھلا اور پھاٹک کے باہر مردہ پڑے شیر کو دربان نے دیکھا تو شور مچادیا۔

’’میں نے شیر کو مار دیا۔ میں نے شیر کو مار دیا۔ ‘‘

شور سن کر ایک سپاہی دوڑا اور شیر کو دیکھتے ہی چلانا شروع کیا

’’شیر کو میں نے مارا، شیر کو میں نے مارا۔ ‘‘

کچھ اور سپاہی، داروغہ اور دوسرے ادھیکاری بھی شیر مارنے کا دعوی پیش کرنے لگے۔

راجا پرتاپ سنگھ رانا کی یہ چنتا تو دور ہو گئی کہ اس کے راج میں آتنک مچانے والا شیر مارا گیا پرنتو ایک دوسری پریشانی کھڑی ہو گئی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کس سے کریں کہ شیر کو مارنے کا دعوی پیش کرنے والے کئی کئی یودھا میدان میں اتر آئے تھے۔ صحیح معنوں میں شیر کوکس نے مارا اس بات کا پتا لگانے کے لیے راجا کا دربار لگا۔ دربار میں منتریوں اور راج کے بدھی مان ویکتیوں کے ساتھ ساتھ وہ سارے لوگ بھی جمع ہوئے جو شیر کو مارنے کا دعوی کر رہے تھے۔ دس سے بارہ بج گئے مگر دربار کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ اتنے میں وہ لڑکی راج کمار کے بھیس میں اپنی داسی سپاہیوں کے ساتھ دربار میں آ پہنچی۔ ایک اجنبی کو دیکھ کر درباریوں کی نظریں حیران و پریشان ہو اٹھیں۔

اپنا پری چے کراتے ہوئے وہ لڑکی بولی کہ یہ دربار اگر یہ جاننے کے لیے لگا ہے کہ اس شیر کو کس نے مارا جس نے اس راج میں آتنک مچا رکھا تھا تو اس سلسلے میں میں دربار کی مدد کر سکتا ہوں۔

’’آپ میری کیا مدد کر سکتے ہیں ؟ پریشان راجا پرتاپ سنگھ رانا خود بول پڑے۔

’’یہی کہ میں آپ کو اس آدمی تک پہنچا سکتا ہوں جس نے اس خون خوار درندے کا بدھ کیا۔ ‘‘ بڑے دھیرج کے ساتھ اس لڑکی نے جواب دیا۔

’’یہ کام آپ کس طرح کریں گے ؟‘‘ کسی منتری نے سوال کیا۔

’’یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ یہ کہہ کر اس نے دربار کو سمبودھِت کیا کہ جو دعوے دار ہیں وہ دربار سے نکل کر میری طرف آ جائیں۔

مختلف کونوں سے پانچ آدمی اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر اس چالاک اور بدّھی مان لڑکی کے پاس آ گئے۔

اس لڑکی نے باری باری سے سب سے کچھ سوال کیے اور ان سے ثبوت مانگا۔ سوالوں کا صحیح جواب اور ثبوت نہ دینے پر اس نے راجا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’یہ سب جھوٹے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی شیر کو نہیں مارا۔ شیر کوئی گیڈر یا لومڑی نہیں کہ اتنی آسانی سے اسے مار گرایا جائے۔ شیر کو مارنے کے لیے سینے میں شیر کا دل ہونا چاہیے۔ سچّی بات یہ ہے مہاراج! کہ شیر کو میں نے مارا ہے۔ یہ سنتے ہی درباریوں کی حیرت اور بڑھ گئی۔ ان کے درمیان کانا پھوسی ہونے لگی۔ دربار میں لوگوں کو چپ ہو جانے کا اشارہ کیا گیا۔ جب دربار پر سناٹا طاری ہو گیا تو اس لڑکی نے پھر سے بولنا شروع کیا۔

’’میں یہ بات یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں۔ اس کا میرے پاس پکّا ثبوت بھی ہے۔ آپ اس شیر کا منہ کھول کر دیکھیے اس کی زبان کٹی ہوئی ہے۔

شیر کا منہ کھول کر دیکھا گیا تو سچ مچ شیر کی زبان کٹی ہوئی تھی۔ دربار نے جب دیکھ لیا کہ شیر کی زبان کٹی ہوئی ہے تو لڑکی نے اپنی جیب سے زبان کا دوسرا ٹکڑا نکال کر سب کو دکھاتے ہوئے کہا۔

یہ دیکھیے اس زبان کا دوسرا ٹکڑا اور ملا کر دیکھ لیجیے کہ اسی شیر کا ہے یا نہیں۔ اتنا کہہ کر اس ٹکڑے کو اس نے راجا کی طرف بڑھا دیا۔

راجا کا ایک منتری کھڑا ہوا اور اس نے اس ٹکڑے کو شیر کی زبان کے ساتھ ملا کر دیکھا تو وہ ٹکڑا آسانی کے ساتھ اس کٹی ہوئی زبان کے ساتھ جڑ گیا۔

اس منظر کے ساتھ ہی دربار میں پھر سے کانا پھوسی ہونے لگی۔ معاملے کی سچائی جان کر راجا کے ماتھے سے لکیریں مٹ گئیں۔ اس نے چین کا سانس لیا اور اپنی بیٹی کا وِواہ اس اجنبی راجکمار یعنی اس چالاک لڑکی کے ساتھ کرنے کا اعلان کر دیا۔

لڑکی نے ایک شرط رکھی۔ شادی ہوتے ہی اس کی دلہن کو اس کے اپنے دیس میں ترنت پہنچایا جائے۔ اس کی یہ شرط مان لی گئی۔ پھر اس نے ایک اور شرط رکھی۔ اس کے رہنے کا انتظام کہیں محل سے باہر کیا جائے ‘‘۔

اس کی یہ شرط بھی مان لی گئی۔

شادی ہوتے ہی چار داسیوں کے ساتھ دلہن اس کے دیس پہنچ گئی اور وہ خود محل سے باہر ایک خوب صورت سے خیمے میں اپنی باقی دو داسیوں کے ساتھ رہنے لگی۔

’’واہ، اس لڑکی نے اپنی عقل اور بہادری سے اپنے پتی کا دوسرا ٹاسک بھی پورا کر دیا۔ اب دیکھنا ہے کہ پتی کے دیے گئے تیسرے کام کو وہ کس طرح کرتی ہے ؟ اس سلسلے میں اس کی عقل کیا گل کھلاتی ہے ؟ کس طرح اپنا رنگ جماتی ہے ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کے منہ سے تعریف کے لفظ نکلنے لگے۔

’’آگے سناؤں ؟‘‘ملّاح نے آ گیا چاہی۔

’’ہاں، سناؤ۔ ‘‘ آ گیا ملتے ہی ملّاح پھر شروع ہو گیا۔

وِواہ کے دوسرے دن ہی اس لڑکی نے راجا کے پاس ایک سندیسہ بھجوا دیا کہ اس کاسائیس کسی کام سے باہر چلا گیا ہے اس لیے اسے ایک سائیس کی ضرورت ہے۔ راجا نے اس سندیسے پر عمل کیا اور ترنت اپنے سائیس کو اس کے پاس بھیج دیا۔ سائیس کے روپ میں اس لڑکی کا پتی اس کے پاس پہنچ گیا پرنتو کیسے اس کے ساتھ سمپرک بڑھایا جائے یہ ایک بڑی سمسیا تھی۔ لڑکی اس سمسیا کے سمادھان کے بارے میں دن رات سوچنے لگی۔ سائیس اپنی پتنی کو پہچان نہیں سکا کہ پتنی ایک مرد کے حلیے میں وہ بھی راج کمار کے بھیس میں تھی۔ وہ مردانہ لباس میں نہ بھی ہوتی تب بھی اس کے لیے پہچاننا مشکل تھا کہ وہ سہاگ رات کے دن بھی اسے ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا تھا۔ لڑکی اپنے بند خیمے میں بستر پر لیٹی اس ادھیڑ بن میں تھی کہ کیا کرے کیا نہ کرے کہ اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ تمبو کی کسی جھری سے شاید کوئی کرن اس کے دماغ تک آ پہنچی تھی۔ وہ بستر سے اٹھی۔ کپڑوں کی الماری کے پاس گئی۔ اپنے اوپر سے راج کماری کے جگمگاتے ہوئے وستر اتارے اور داسی کا روپ دھارن کر کے تمبو سے باہر نکل گئی۔

باہر اس کے گھوڑے کے پاس اس کا سائیس کھڑا گھوڑے کی مالش میں جٹا ہوا تھا۔

چھم چھم پائل بجاتی ہوئی وہ اس کے پاس پہنچ گئی اور اٹھلاتی ہوئی بولی:

’’آپ بہت اچھے ہیں۔ ہر وقت اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور خوب جی لگا کر کام کرتے ہیں۔ ہماری راج کماری آپ سے بہت خوش ہیں ‘‘۔ لڑکی کی لگاوٹ والی مدھر آواز سن کر سائیس کے ہاتھ رک گئے۔ آنکھیں اس کی اور دیکھنے لگیں۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی نے نینوں کے بان چلا دیے۔ بان چلتے ہی وہ گھوڑے سے گر کر چاروں خانے چت ہو گیا۔

اس کام سے نمٹ کر لڑکی اپنی داسیوں کے ساتھ اپنے دیس لوٹ گئی۔

ایک سال گزرنے کے بعد اس نے راج کمار کو یہ سندیسہ بھیجا کہ آپ کے سونپے ہوئے تینوں کام پورے ہو چکے ہیں۔ اپنے خزانے سے ایک پیسہ بھی خرچ کیے بنا ایک محل تیار ہے۔ آپ کے لیے ایک راج کماری کا بھی بندوبست ہو گیا ہے اور آپ کا بچہ بھی میری گود میں آ گیا ہے۔ اس لیے اب آپ کا مجھ سے دور رہنے کا کوئی اوچتیہ نہیں ہے۔ پرسوں ساون کی دوسری تاریخ ہے، آپ کو تو شاید یہ تاریخ یاد نہیں ہو گی مگر میں اس تاریخ کو کیسے بھول سکتی ہوں ؟ یہی تو وہ تاریخ ہے جس نے مجھے جھونپڑے سے نکال کر محل میں پہنچا دی تھی۔ اسی تاریخ کو میں دلہن بنی تھی۔ اسی تاریخ کو ہماری سہاگ رات سجی تھی۔ اسی تاریخ نے آپ کو مجھ سے جدا کر دیا تھا۔ ہمارا سارا کام پورا ہو چکا ہے۔ اب آ جائیے کہ جدائی برداشت نہیں ہوتی۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا۔

سندیسہ بھیج کر وہ راج کمار کے سواگت کی تیاریوں میں جٹ گئی۔ ساون کی دوسری تاریخ آ گئی۔ لڑکی کا دن بڑی مشکل سے کٹا جیسے اس پر صدیاں گزر گئی ہوں۔ شام ڈھلتے ہی وہ اپنی تیاری میں لگ گئی۔ا س نے وہی جوڑا نکالا جس میں دلہن بنا کر اسے اس راج محل میں لایا گیا تھا۔ کمرے کو پھولوں سے سجا کر سولہ سنگار کر کے وہ سیج پر جا بیٹھی۔ راج کمار کے محل میں آنے کی خبر اسے مل گئی تھی۔ بس اسے اس کے کمرے میں آنے کی دیر تھی۔ ایک ایک آہٹ اس کے دل کی دھڑکن بڑھا رہی تھی۔ آنے والے لمحوں کی کلپنا کر کے کبھی وہ مسکرا رہی تھی تو کبھی شرما رہی تھی۔ اسے اس شاباشی کا بھی انتظار تھا جو اسمبھو کاموں کو سمبھو بنا دینے کے بدلے میں اسے ملنے والی تھی۔ اس کے چہرے پر وہ رنگ بھی جھلملانے لگا تھا جو ایسے کاموں پر ملنے والے انعاموں کو سوچ کر جھلملا اٹھتا ہے۔

دروازے پر آہٹ ہوئی۔ لڑکی کے دل کی دھڑکن اور بڑھ گئی۔ جسم اور سمٹ گیا۔

راج کمار حیرت اور غصے کے جذبوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور پلنگ کے پاس پہنچتے ہی لڑکی سے پوچھا کہ بتا ماجرا کیا ہے ؟ لڑکی نے پورا ماجرا کہہ سنایا۔ محل اور راج کماری کی بات پر تو اسے آسانی سے یقین آ گیا۔ا س لیے بھی کہ محل کو تو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ دیکھ تو اس نے بچے کو بھی لیا تھا کہ ماں کے سیج کے پاس ہی بچہ پالنے میں سو رہا تھا مگر اس پر اسے وشواس نہیں ہو رہا تھا۔ لڑکی نے جب یہ یاد دلایا کہ یاد کیجیے اس شام کو جب ایک داسی ایک خیمے کے باہر گھوڑے کے پاس آپ سے ملی تھی اور اس نے آپ سے لگاوٹ کی باتیں کی تھیں۔ آپ دونوں نے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا تھا اور پھر آپ دونوں ایک خالی خیمے میں چلے گئے تھے اور یاد کیجیے اس رات کو جب آپ نے اس کو اپنے پیار کا نشانہ بنایا تھا اور برسوں کے بھوکے شیر کی طرح اسے نوچ کھسوٹ ڈالا تھا۔ یہاں تک کہ اس داسی کی چھاتی پر آپ نے اپنے دانت بھی گڑو دیے تھے۔ وہ داسی کوئی اور نہیں بلکہ میں تھی اور آپ کے دانتوں کے نشان آج بھی میری چھاتی پر موجود ہیں۔ یہ دیکھیے : لڑکی نے اپنی چھاتی کے اس حصے سے کپڑا ہٹا دیا جس پر دانت کے نشان موجود تھے۔

لڑکی کا بیان کیا ہوا آخری واقعہ سن کر اوراس کی چھاتی پر نشان کو دیکھ کر راج کمار کو یقین آ گیا کہ اس عورت کے پاس پالنے میں جو بچہ سو رہا ہے، وہ اسی کا بچّہ ہے۔ اور یقین آتے ہی آگے بڑھ کر اس نے اپنے بچے کے ماتھے کو چوم لیا۔ لڑکی نے اس چمبن کو اپنے گال پر محسوس کیا اور اپنی پلکیں بند کیے کیے یہ بھی محسوس کیا کہ راج کمار کے ہونٹ دوبارہ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس انوبھو کا، آنند پوری طرح وہ لے بھی نہ پائی تھی کہ اس کے کانوں میں راج کمار کی آواز گونج پڑی۔

’’بتاؤ ! راج کماری کہاں ہے ؟ مجھے اس کے پاس جانا ہے۔ ‘‘

’’نئے محل میں۔ ‘‘ سوال کا جواب دے کر لڑکی راج کمار کی طرف ہکّا بکّا ہو کر دیکھنے لگی اور راج کماری کا پتا ملتے ہی راج کمار آناً فاناً میں کمرے سے باہر نکل گیا۔ اور لڑکی اسے جاتے ہوئے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔

’’کیا ہوا ؟ یہ ناؤ کیوں ڈگمگانے لگی؟‘‘ ناؤ کو ہچکولے کھاتے دیکھ کر وی۔ ان۔ رائے نے پوچھا:

صاحب ! ناؤ کے آگے کوئی لاش آ گئی تھی۔ وہ دیکھیے ! اب ادھر بہہ رہی ہے۔ ‘‘

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں لڑکی کے کمرے سے نکل کر لاش کی طرف مبذول ہو گئیں۔

سرخ جوڑے میں پانی پر ایک لاش موجوں کے ہلکورے کھاتے ہوئے بہتی چلی جا رہی تھی۔ نگاہیں لاش میں ایسی الجھیں کہ وی۔ ان۔ رائے کے لب بند ہو گئے۔

’’صاحب! اس بار آپ نے واہ وا نہیں کی ؟ آپ کا چہرہ بھی گمبھیر ہو گیا ! کیا کہانی کا انجام پسند نہیں آیا؟ ‘‘ ملّاح نے وی۔ ان۔ رائے کی خاموشی کو دور کرنے کی کوشش کی مگر وی۔ ان رائے کی خاموشی برقرار رہی۔

لڑکی کی طرح انھیں بھی اس بات کا یقین تھا کہ اس سمجھ دار اور بہادر لڑکی کو شاباشی دی جائے گی۔ اس کے کارناموں کا اسے اچھا صلہ ملے گا۔ اس کی تعریف ہو گی۔ اسے داد ملے گی، اس کی عقل اور سمجھ بوجھ کا گن گان ہو گا مگر مرد کے احساسِ برتری نے عورت کی سمجھ داری کو تسلیم کرنے نہیں دیا۔

مرد عورت کے اس وصف کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟

کیوں کہ وہ عورت کے اندر صرف جسم کو دیکھتا ہے ؟

عورت میں جسم کے علاوہ اسے کوئی اور چیز کیوں نہیں دکھائی دیتی؟

ذہن میں ان سوالوں کے اٹھتے ہی وی۔ ان۔ رائے کے سامنے ایک کے بعد ایک کئی منظر ابھر آئے :

ٹیلی وژن کے ایک اشتہار میں لفٹ کے باہر ایک نوجوان اپنے ہاتھ میں ایک خاص قسم کی پرفیوم کی کھلی ہوئی شیشی لیے کھڑا تھا۔ اس کے جسم سے اس پرفیوم کی گاڑھی خوشبو نکل رہی تھی۔

تیزی سے لفٹ کا دروازہ کھلا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی اپنی شرٹ کے بٹن کھولے باہر نکلی تھی اور دروازے پر کھڑے نوجوان کو اس کی ٹائی پکڑ کر لفٹ کے اندر کھینچ لے گئی تھی۔ دوبارہ لفٹ سے لڑکی جب باہر آئی تھی تو وہ اپنے جسم کے نچلے حصّے کے کپڑے سنبھالتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک دوسرے اشتہار میں ایک جوان لیڈی ڈاکٹر اور ایک نوجوان مریض ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ نوجوان مریض نے اپنے جسم پر کوئی پرفیوم مل رکھی تھی۔ لیڈی ڈاکٹر نے نوجوان مریض کا معائنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ زور زور سے سانس لے۔ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق مریض جب اچھی طرح سانس نہیں لے پایا تھا تو لیڈی ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ سانس کس طرح لی جاتی ہے اور نوجوان مریض کے ٹھیک سامنے تھوڑا آگے جھک کر زور زور سے سانس لینے لگی تھی۔ اتنے زور سے کہ اس جوان لیڈی ڈاکٹر کے شرٹ کے سارے بٹن کھل گئے تھے اور اس کا پھولا ہوا سینہ کپڑے سے باہر آ گیا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک اور ٹی وی اشتہار میں چھت کا پنکھا اتنی تیز رفتار سے چل رہا تھا کہ جب دروازے سے ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی تو اس کا اسکرٹ ہوا کے زور سے اوپر اٹھ گیا تھا۔

اشتہاروں میں عورت کے جسم کو ہی کیوں دکھایا جاتا ہے ؟ کہیں کسی اشتہار میں عورت کا دماغ کیوں نہیں نظر آتا؟

اس سوال نے وی۔ ان۔ رائے کے ذہن کو ماضی میں دور تک پہنچا دیا۔ آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا ان کا ذہن وہاں تک پہنچ گیا جہاں دنیا کے پہلے آدمی کی تنہائی کو دور کرنے اور اس کا دل بہلانے کے لیے ایک عورت کو پیدا کیا گیا تھا۔

تو کیا عورت صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنے تشکیلی دور میں ہے ؟ کیا آگے بھی یہ اسی روپ میں رہے گی؟ یا اس میں کوئی تبدیلی بھی آئے گی؟

کیا مرد کبھی اس عورت کو تبدیل کرنا چاہے گا؟

کیا یہ خود کبھی اتنی طاقت ور بن سکے گی کہ یہ اپنے آپ کو بدل سکے ؟ کیا۔ ۔ .

ہے میّا کلکتے والی ! توہے کتنی شکتی شالی

تو ہے درگا تو ہے کالی

تیرا وار نہ جائے خالی

تیری مہیما عجب نرالی

دکھیوں کا دکھ ہرنے والی

سب کی کرتی تو رکھوالی

ہے میا کلکتے والی

ایک ناؤ ٹیپ رکارڈر پر یہ گیت بجاتی ہوئی گزر گئی، شاید اس پر بنگالی یاتری سوار تھے۔

گیت کے بول گونجتے ہی وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں دیوی درگا کی تصویر ابھر گئی۔ طاقت کی دیوی، راکشسوں کو بدھ کرنے والی دیوی، لوگوں کی رکشا کرنے والی دیوی۔

ماں درگا بھی تو عورت ہیں، سروشکتی مان ہیں تو عورت پر یہ اپنا کرپا کیوں نہیں کرتیں ؟ اسے طاقت ور کیوں نہیں بناتیں ؟ اسے کمزور کیوں رکھتی ہیں ؟ جب کہ فطرت اور نفسیات کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی ذات برادری سے تعلق رکھنے والا زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے۔ اور جو زیادہ قریب ہوتا ہے اس کا خیال بھی زیادہ رکھا جاتا ہے۔ اس کی چنتا بھی زیادہ کی جاتی ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے۔ درگا کی اپنی ذات ہی سب سے زیادہ دربل ہے۔

عورت صرف دربل ہی نہیں ہے۔ اس کی معاشی حالت بھی بدتر ہے۔ اس کے پاس دھن دولت کی بھی کمی ہے جب کہ دولت کی دیوی لکشمی بھی اسی کے گوتر سے ہیں۔ درگا کی طرح وہ بھی عورت ہیں۔

کسی نے ان کی درگا والی سوچ میں لکشمی کا بھی اضافہ کر دیا۔

آخر یہ دونوں دیویاں اپنی ذات کے ساتھ ایسا کیوں کرتی ہیں ؟

کیوں انھوں نے عورت کو طاقت اور دولت دونوں سے محروم کر رکھا ہے ؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دونوں جانب داری کے الزام سے بچنا چاہتی ہیں ؟

تو کیا یہ اتنی سی بات کے لیے اتنا بڑا ظلم عورت پر صدیوں سے کرتی چلی آ  رہی ہیں ؟ یا کوئی اور وجہ ہے ؟ کوئی اور نفسیات ہے ؟

اگر جانب داری کا اتنا ہی ڈر ہے تو ٹھیک ہے یہ عورت پہ مہربانی نہ کریں مگر انصاف تو کر سکتی ہیں لیکن یہ تو انصاف بھی نہیں کرتیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اس شکتی سے ڈرتی ہیں جس نے ان دونوں کو جنم دیا ہے اور وہ جنم دینے والا مرد ذات سے تعلق رکھتا ہے ؟

یا کہیں یہ بات تو نہیں کہ عورت خود نہیں چاہتی کہ اس میں کوئی تبدیلی واقع ہو۔

اگر یہ تبدیلی چاہتی ہے تو جتن کیوں نہیں کرتی؟

اگر جتن نہیں کر سکتی تو احتجاج تو کر ہی سکتی ہے۔ ان کاموں سے یہ منع تو کر ہی سکتی ہے جن پر اسے اس کی مرضی کے خلاف مامور کر دیا جاتا ہے۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ اسے سونپے گئے کاموں میں یہ اس قدر منہمک دکھائی دیتی ہے کہ جیسے ان کاموں میں اس کی مرضی شامل ہو، بلکہ اس کی پسند اور خواہش کا بھی دخل ہو۔ کہیں یہ بات تو نہیں کہ عورت کی سرشت میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اسے ویسا ہی کرنا ہے جیسا کہ مر دکا عندیہ چاہتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو مرد۔ ۔ .

اچانک وی۔ ان۔ رائے کے کانوں میں کچھ ٹکرانے کی آواز سنائی پڑی اور ان کی گردن پیچھے کی طرف مڑ گئی۔

ایک اور کشتی تیرتی ہوئی ان کے پاس آ پہنچی تھی۔ اس کشتی میں کافی لوگ سوار تھے اور ایک ساتھ بہت سارے دانے اس کشتی سے چاروں طرف پھینکے جا رہے تھے اور پرندوں کا ایک بہت بڑا غول تیزی سے ان دانوں پر جھپٹ رہا تھا۔ یہ آواز انھیں میں سے کچھ پرندوں کے آپس میں ٹکرانے کی آواز تھی۔ یہ آواز اتنی زور دار تھی کہ جیسے پرندوں کے پر نہیں بلکہ دو جہازوں کے ڈینے ٹکرائے ہوں اور اسی لیے ایک بہت ہی گمبھیر مسئلے میں الجھے ہونے کے باوجود وی۔ ان۔ رائے کا ذہن اِدھر سے اُدھر چلا گیا تھا۔

’’ اس چھینا جھپٹی میں تو پرندے گھائل بھی ہو جاتے ہوں گے ؟ پرندوں کی تگ و دو کی جانب دیکھتے ہوئے وی۔ ان۔ رائے نے ملّاح سے سوال کیا جس کا دھیان بھی انھیں کی طرح پرندوں کے ٹکرانے کی آواز کی طرف مبذول ہو گیا تھا۔

’’کیول گھائل ہی نہیں ہوتے صاحب۔ کچھ پنچھی تو مر بھی جاتے ہیں۔ ان کی لاشیں آئے دن پانی پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ‘‘ ملّاح کی نظریں پرندوں کی طرف سے ہٹ کر وی۔ ان۔ رائے کی جانب مرکوز ہو گئیں۔

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں یکایک صحرائی اور برفیلی دونوں زمینیں ایک ساتھ ابھر آئیں۔ گرم رتیلی اور یخ بستہ دونوں زمینوں پر دانہ چننے والے سادہ سفید جاموں میں ملبوس سانولی صورت والی مخلوق کی ٹولیاں اچانک بموں سے اڑنے لگیں۔ کہیں پر وہ بندوقوں کا نشانہ بننے لگیں تو کہیں پر ان کی دھڑ پکڑ ہونے لگی۔ کہیں کہیں پر ٹولی کی ٹولی جیل کی کال کوٹھریوں میں ٹھونسی جانے لگی۔

وی۔ ان۔ رائے کے چہرے پر چنتا کی ایک اور پرت چڑھ گئی۔

’’صاحب! آپ اوروں کی طرح نہیں ہیں۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ وی۔ ان۔ ائے نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’مطلب تو میں نہیں سمجھا سکتا صاحب مگر میں محسوس ضرور کرتا ہوں۔ ‘‘

’’کیا محسوس کرتے ہو؟‘‘

’’بہت کچھ‘‘

’’کچھ تو بتاؤ‘‘

’’یہی کہ آپ بہت سوچتے ہیں اور آپ جب سوچنے کی مدرا میں ہوتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں اچھا لگتا ہے ؟‘‘

’’ٹھیک سے تو نہیں بتا سکتا پرنتو اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ جب جب کوئی مجھے اس مدرا میں نظر آتا ہے تو لگتا ہے وہ سنسار کے ان سنکٹوں کو دیکھ رہا ہے جن کے گھیرے میں گھر کر مانوتا سسک رہی ہے اور ان سمادھانوں کو ڈھونڈ رہا ہے جن سے سنکٹوں کا ندان ہوتا ہے۔ مجھے اسی لیے رشی منیوں اور مہاپرشوں کے وہ چتر بہت بھاتے ہیں جو اس مدرا میں بیٹھے کسی چنتن منن میں لیٖن دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے بہت سے چتر میری کٹیا میں دیواروں پر ٹنگے ہوئے ہیں۔

’’اور کیا محسوس کرتے ہو؟‘‘

’’پنچھیوں کے ٹکرانے کی چوٹ سے پیدا ہوئی آپ کے اندر کی چھٹپٹاہٹ بھی میں نے محسوس کی تھی۔ یہ چھٹپٹاہٹ مجھ میں بھی ہوتی تھی پرنتو پتا نہیں اب کیوں نہیں ہوتی؟صاحب! ایک اور بات بولوں ؟‘‘

’’بولو۔ ‘‘

’’یہ جو اتنے دانے لٹائے جاتے ہیں یہ ان بھوکے پنچھیوں کی بھوک مٹانے یا دان پونیہ کی غرض سے نہیں لٹائے جاتے۔ ‘‘

’’تو پھر کس لیے لٹائے جاتے ہیں ؟ وی۔ ان۔ رائے کا تجسس بڑھ گیا۔

’’جو لوگ پنچھیوں کے اور دانہ اچھالتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو تو یہ پتا بھی نہیں ہوتا کہ یہ پنچھی بھوکے ہیں اور دور دراز کے دیسوں اور اپنے اپنے گھونسلوں جن کو یہ تنکا تنکا جوڑ کر بناتے ہیں، سے نکل کر صرف یہاں بھوک مٹانے اور اپنی جان بچانے آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کی نیت دان پونیہ کی بھی ہوتی ہو، پرنتو زیادہ تر لوگ ان کی طرف دانہ اس لیے پھینکتے ہیں کہ انھیں ایسا کرنے میں مزا ملتا ہے۔ در اصل وہ اسے کھیل سمجھتے ہیں اور اس کھیل میں انھیں خوب آنند آتا ہے۔ یہ دانہ پھینکنا ویسا ہی ہے جیسا کہ دریا میں شکاری کا جال پھینکنا۔ انتر کیول اتنا ہے کہ شکاری مچھلیوں کو جال میں پھنسا کر ان سے پیسہ بناتے ہیں اور یہاں پیسہ نہیں بنایا جاتا۔ صاحب! پیسہ تو نہیں بنایا جاتا پرنتو پیسے سے زیادہ قیمتی منورنجن کا سامان حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی بہانے کچھ لوگوں کا کاروبار بھی چل رہا ہے۔ ‘‘

’’کاروبار ! کیسا کاروبار ؟ ملّاح کے اس جملے نے وی۔ ان۔ رائے کے تجسس کو اور بڑھا دیا۔

’’ان دانوں کی یہاں آس پاس میں کئی کئی فیکٹریاں کھل گئی ہیں صاحب!‘‘

’’کیا؟‘‘ تجسس بڑھتا گیا۔

’’ہاں صاحب ! اور اس کاروبار سے کیول کاروباریوں کو ہی لابھ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے بچولیے اور پرشاسن کے لوگ بھی خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں ‘‘۔

وی۔ ان۔ رائے کی نگاہیں اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبے دانوں کے پیکٹ پر مرکوز ہو گئیں جس میں اب بھی کچھ دانے بچے ہوئے تھے۔

یہ وہ دانے تھے جو سنگم پر آنے والے یاتریوں کی تفریح کے سامان فراہم کرانے کے لیے تیار کیے گئے تھے اور جنھیں بھوکے پرندوں کے آگے پھینک کر دریاؤں کے دامن میں منظر بنائے جاتے تھے جو اپنے اندر گنگا اشنان سے بھی زیادہ کشش رکھتے تھے اور بقول ملّاح جن کی سنگم کے کنارے کئی کئی فیکٹریاں کھل گئی تھیں۔

دفعتاً شفّاف پلاسٹک کا پیکٹ غبّارے کی طرح پھول کر کافی بڑا ہو گیا اور اس میں اِدھر اُدھر سے کچھ فیکٹریاں آ کر کھڑی ہو گئیں مگر یہ فیکٹریاں وہ نہیں تھیں جن کے مالک منافع خور تھے اور جن میں دور دیشوں سے آ کر سنگم کے دریاؤں پر منڈرانے والے پرندوں کے آگے پھینکے جانے والے دانے تیار کیے جا رہے تھے بلکہ یہ وہ فیکٹریاں تھیں جو مختلف اوقات اور مختلف صورت حال میں دیس کے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیائے خوردنی اور ان کے امدادی سامان تیار کرنے کے لیے کھولی گئی تھیں اور جن کی دیکھ بھال منافع خور تاجر نہیں بلکہ ملک کی انتظامیہ کرتی تھی اور انتظامیہ اپنی کارکردگی کی خبر عوام تک پہچانے اور اپنے کارناموں کو مشتہر کرنے کے لیے وقت وقت پر اخباروں کے پورے پورے صفحے پر اشتہار چھپواتی تھی اور ٹی وی کے مختلف چینلوں پر نہایت پر اثر اور پر فریب ڈھنگ سے پرچار و پرسار کرتی تھی۔

’’صاحب! اس کاروبار کے لیے پنچھی دان کے نام پر لوگوں کو سرکار کی اور سے سستے داموں پر زمینیں بھی الاٹ کی گئی ہیں۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں کے سامنے پھیلے ہوئے پیکٹ میں کچھ اور فیکٹریاں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں :

یہ پہلے سے موجود فیکٹریوں کے مقابلے میں بڑی اور اونچی تھیں۔ شاندار بھی بہت تھیں۔ ان کی دیواروں کے رنگ و روغن کافی روشن اور پرکشش تھے اور ان کی بناوٹ اور ڈیزائن بھی مختلف تھی۔ اندرونی دیواروں کی چھتوں پر بہترین لکڑی اور عمدہ فائبر گلاسوں سے باریک کاری گری کی گئی تھی۔ ایک سے ایک نئی اور جدید ٹیکنالوجی سے بنی مشینیں برق رفتاری کے ساتھ اپنے کاموں میں مصروف تھیں البتہ دونوں کی زمین ایک تھی۔ لگتا تھا یہ عالی شان فیکٹریاں بھی انھیں فیکٹریوں کی زمین کے کچھ حصوں پر کھڑی تھیں جو پہلے سے موجود تھیں۔

’’صاحب! ایک طرف ان پنچھیوں کو دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ دنیا میں ہم سے بھی گئے گزرے دیس موجود ہیں اور دوسری طرف ان کی حالت پر دکھ ہوتا ہے کہ یہ بے چارے تو مصیبت کے مارے یہاں آئے ہیں اور ہم ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انھیں اپنی تفریح کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان سے ہوا میں قلابازیاں کھلوا رہے ہیں۔ ان کے خوب صورت پروں کو ان کے شریر سے جدا کروا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں موت کے منہ میں ڈھکیل رہے ہیں۔ ‘‘

پیکٹ کے منظروں سے ہٹ کر وی۔ ان۔ رائے کی توجہ ملّاح کے بیان کی جانب مرکوز ہو گئی۔

ملّاح کا بیان وی۔ ان۔ رائے کے کانوں میں داخل ہو کر ان کی آنکھوں میں بیک وقت دو دو منظر ابھار رہا تھا۔ دونوں منظروں میں پانی اپنی لیلا رچا رہا تھا۔ اپنا الگ الگ رنگ دکھا رہا تھا۔ ان دونوں رنگوں میں پانی کا وہ رنگ نہیں تھا جو عام طور پر نظر آتا ہے اور جس سے دھرتی کے سینے پر سبز مخملی چاد ر بچھتی ہے۔ سر پر دھانی چنری لہراتی ہے۔ جس سے دھرتی کی گود میں بسنے والی مخلوقات کے چہروں پر آب چڑھتا ہے۔ آنکھوں میں نور بھرتا ہے۔ رگ و ریشے میں رس گھلتا ہے۔ دماغ تر و تازہ ہوتا ہے۔ سر سے پا تک شادابی رقص کرتی ہے۔ جس رنگ میں پانی ایک شفیق باپ، ایک پتی ورتا پتنی، ایک فرماں بردار بیٹا، ایکا گیا کاری بھائی، ایک وفادار غلام اور ایک سخی بادشاہ کی طرح لگتا ہے۔ اس رنگ میں پانی واقعی دشرتھ، سوٗمیترا، سیتا، رام، لکشمن، ہنومان اور ہریش چند رکی طرح نظر آتا ہے مگر ان منظروں میں پانی اپنے اس رنگ کے بجائے اور ہی رنگوں میں دکھائی دے رہا تھا۔

ان منظروں میں پانی کے جو رنگ تھے وہ اس کی غضب ناکی کے رنگ تھے۔ ان دونوں میں پانی سر سے پا تک غیض و غضب کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔

ایک منظر میں پانی سیلاب کا روپ دھارن کیے کسی دیو ہیکل کی مانند ٹانڈو کر رہا تھا۔ زمین جس کی ضرب اور زور سے زیر و زبر ہو رہی تھی۔ بستیاں جس کی زد میں آ کر اجڑ رہی تھیں۔ جس کے حملوں سے چاروں طرف ہلچلیں مچی ہوئی تھیں۔ جس کی طغیانیوں نے گھر گھر میں طوفان اٹھا رکھا تھا۔ ایک ایک شخص اس کے تھپیڑوں کی مار کھا رہا تھا۔ غصّے میں بھپرا ہوا پانی آگ بن گیا تھا۔ ایک ایک پیٹ میں انگارے بھر رہا تھا۔ انٹڑیوں کو جلا رہا تھا۔ چاروں طرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ خالی پیٹ بھوک کی آگ سے دھدھک رہا تھا۔ آنتیں جل رہی تھیں، بھوک پیاس سے جسم نڈھال ہو رہے تھے۔ جانوں میں جان کنی کا عالم کا جاری و ساری تھا۔

دوسرے منظر میں پانی ناراض ہو کر پاتال میں جا بیٹھا تھا۔ اس کے اِس غصّے کی تاب نہ لا کر زمینیں تڑخ گئی تھیں۔ سبزے جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ فضائیں آگ میں جل رہی تھیں۔ جسم سوکھ کر کنکال بنتے جا رہے تھے۔ آنکھیں گڈھوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ ہونٹ پیڑیاں بن رہے تھے۔ گلے میں کانٹے اُگ رہے تھے۔ شدّتِ تپش سے جانیں لبوں تک آ گئی تھیں۔

دونوں منظروں کی اس دل سوز و جاں گسل صورت اور نفسا نفسی کے عالم میں بھی تجارت کا بازار گرم تھا۔ صارفیت اپنی گرم بازاری میں جٹی ہوئی تھی۔ بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے ماؤں کی آنکھوں کے تارے اور باپوں کے جگر کے ٹکڑے بیچے اور خریدے جا رہے تھے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بہو بیٹیوں کے تن کا سودا کیا جا رہا تھا۔ آب کے واسطے آبرو نیلام ہو رہی تھی۔ مٹھی بھر دانے کے لیے جاں سے بھی زیادہ عزیز شے جاں سے الگ کی جا رہی تھی۔ آدمی آدمی کو بیچ رہا تھا۔ آدمی آدمی کو خرید رہا تھا۔

ایک گھر میں ایک ماں اپنے لاڈلے کو بھوک کی شدّت اور پیاس کی حدّت کے باوجود خود سے الگ نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ کسی بھی طرح بچے کو بیچنے کے لیے راضی نہیں ہو رہی تھی۔ ماں باپ کے درمیان رسّا کشی جاری تھی۔ دل و دماغ کشمکش میں مبتلا تھے۔ تصادم بڑھتا جا رہا تھا کہ باپ کو یکایک ایک قصہ یاد آ گیا۔ اس نے بچے کی ماں کے سامنے قصہ سنانا شروع کیا:

ایک دن کسی درویش سے کسی مرید نے پوچھا؟

’’حضرت! دین کے کتنے فرائض ہیں ؟‘‘

’’چھ‘‘ درویش نے جواب دیا۔

’’چھٹا کون؟ ‘‘ مرید نے دوسرا سوال کیا۔

’’کھانا ‘‘ درویش نے جواب دیا۔

اس محفل میں ایک عالمِ دین بھی موجود تھے۔ انھوں نے چھٹے فرض کو ماننے سے ان کار کر دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ شریعت کی رو سے کل پانچ فرائض ہیں اور ان میں ’کھانا‘ نہیں ہے۔ درویش نے بحث نہیں کی۔ صرف اتنا کہا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں مگر ایک فرض ’کھانا‘ بھی ہے۔ عالم دین اس محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔

ایک دن اس عالم دین کا ایک بحری سفر ہوا۔ اس سفر میں ان کی کشتی طوفان میں پھنس گئی۔ کسی طرح ان کی جان بَچ گئی۔ گرتے پڑتے وہ سمندر کے کنارے پہنچے۔ انھیں بھوک محسوس ہوئی مگر دور دور تک کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیں تھا۔ بھوک بڑھتی جا رہی تھی اور بھوک کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اتنے میں ایک آواز سنائی پڑی:

’’روٹی لے لو روٹی !‘‘

عالمِ دین اس آدمی کی طرف لپکے جو آوازیں لگا رہا تھا اور پاس پہنچ کو بولے :

’’مجھے دو، میں بہت بھوکا ہوں۔ ‘‘

’’ایک روٹی کی قیمت ایک نیکی ہے۔ ‘‘ بیچنے والے نے روٹی کا بھاؤ بتایا۔

یہ سن کر عالم دین بولے :

’’نہیں، نہیں، میں نیکی سے روٹی نہیں خریدوں گا۔ بڑی محنت اور ریاضت سے میں نے نیکیاں کمائی ہیں ‘‘

ان کا جواب سن کر روٹی بیچنے و الا چلا گیا۔ عالم دین کی بھوک بڑھتی گئی۔ شام کو پھر وہ آواز سنائی پڑی۔

’’روٹی لے لو روٹی ‘‘

عالم دین نے آواز لگانے والے کو بلایا اور کہا :

’’ٹھیک ہے نیکی کے بدلے ہی سہی روٹی دے دو۔ ‘‘

بیچنے والا بولا:

’’اب روٹی کی قیمت وہ نہیں جو پہلے تھی۔ اب ایک روٹی تمام نیکیوں کے بدلے میں ملے گی۔ ‘‘

ایک روٹی کی اتنی بڑی قیمت سن کر عالم دین کی بھوک ایک لمحے کے لیے غائب ہو گئی۔ ان کا مذہبی جذبہ جوش میں آ گیا۔ وہ نہایت جوشیلے آواز میں بولے :

’’نہیں نہیں، بالکل نہیں، اپنی تمام نیکیوں سے میں روٹی نہیں خرید سکتا، تم جاؤ!‘‘

انھوں نے روٹی خریدنے سے منع کر دیا۔ روٹی بیچنے والا چلا گیا۔

کسی طرح رات گزری۔ صبح آتے آتے بھوک ناقابل برداشت ہو گئی۔ وہی آواز پھر سنائی پڑی۔

’’روٹی لے لو روٹی!‘‘

عالمِ دین نے روٹی بیچنے والے کو پکارا۔ قریب آ کر اس نے عالم دین کی بے تابی کو غور سے دیکھا اور نہایت لاپرواہی سے بولا:

’’آج قیمت اور بڑھ گئی ہے۔ ‘‘

’’اب کیا قیمت ہو گئی ہے بھائی ‘‘؟ عالم دین نے بے چین ہو کر پوچھا:

’’اب ایک روٹی کے بدلے موجودہ تمام نیکیوں کے علاوہ آئندہ کمانے والی نیکیاں بھی دینی پڑیں گی۔ ‘‘

عالمِ دین بھوک کی شدت سے اس حد تک مجبور ہو گئے تھے کہ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے اور بنا دیر کیے بول پڑے۔

’’ٹھیک ہے آنے والی نیکیاں بھی لے لو مگر روٹی فوراً دے دو۔ ‘‘

عالم دین نے اپنی اگلی پچھلی تمام نیکیاں ایک روٹی کے عوض فروخت کر دیں۔ کہانی کی منطق اور بھوک کی شدت نے ماں کی باہوں کی گرفت ڈھیلی کر دی۔ بچہ ماں کی آغوش سے نکل کرتا جر کے مال گاڑی میں پہنچ گیا۔

مال گاڑی ماں کے آغوش سے جدا ہوئے ایسے بے شمار بچّوں کو لیے منڈی میں پہنچ گئی۔ وہاں سے اچھی شکل و صورت والے بچے اور بچیاں بستروں پر پہنچا دیے گئے اور باقی بچوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کر بھیک مانگنے کے لیے انھیں نکڑوں پر بٹھا دیا گیا۔ ۔ ۔ .

’’صاحب ! گنگا جی آنے والی ہیں، تیار ہو جائیے۔ ‘‘

’’کیا؟ کچھ اور دیر ہم جمنا میں نہیں رہ سکتے ‘‘؟

’’کیوں نہیں رہ سکتے ؟ ضرور رہ سکتے ہیں۔ کچھ دیر کیا، آپ جمنا جی میں جب تک رہنا چاہیں، رہ سکتے ہیں۔ ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ‘‘

’’اور اگر شام ہو گئی اور تمھارا وقت ختم ہو گیا تو۔ ۔ ۔ ۔

’’صاحب! ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یاتری جب تک خود نہیں کہہ دیتا، ہم پانی سے باہر نہیں نکلتے۔ آپ میرے وقت کی چنتا نہ کیجیے۔ جب تک آپ کا من چاہے اور آپ جمنا جی یا گنگا جی جس ندی میں رہنا چاہیں رہیے۔ ‘ ملّاح نے اپنے اصول دہرائے۔

’’شکریہ ! کیا تم مجھے اُدھر لے چلو گے ؟ ذرا دیکھا جائے اُدھر کا نظارہ کیسا لگتا ہے ؟ اور جمنا جی سنگم کے آس پاس سے ہٹ کر اور دور جا کر کیسی لگتی ہیں ؟ اس بیچ تم سے کوئی اور کہانی بھی سن لیں گے۔ کیا خیال ہے ؟ ‘‘وی۔ ان۔ رائے نے ایک طرف اشارہ کیا۔

’’جیسی آپ کی اچّھا! تو موڑ لوں ؟ ‘‘ ملّاح نے پتوار کو سنبھالتے ہوئے پوچھا :

’’ہاں موڑ لو‘‘۔ وی۔ ان۔ رائے۔ جمنا کے اس کنارے کی طرف غور سے دیکھنے لگے جدھر جمنا ایک اونچی دیوار سے لگ کر بہہ رہی تھی۔

ملّاح نے کشتی گنگا جی کی طرف سے ہٹا کر پیچھے کی جانب موڑ لی۔ پتوار کی رفتار میں قدرے تیزی آ گئی۔ ناؤ قلعے کے کنارے کنارے آگے بڑھنے لگی۔

’’یہ دیوار تو قلعے کی ہے نا؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے پانی کو چھوتی ہوئی دور تک چلی گئی دیوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

’’جی صاحب! یہ قلعے کی ہی دیوار ہے۔ ‘‘

’’اس دیوار میں جگہ جگہ یہ کوٹھری نما جیسی کیا چیز بنی ہوئی ہے ؟‘‘

’’صاحب اسے ’وشرام گھر‘ کہا جاتا ہے۔ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ جب راج پاٹ سلامت تھا تو قلعے والے ندی میں تیرنے کے لیے نکلتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو نزدیک کے ’وشرام گھر‘ میں سستانے کے لیے چلے جاتے تھے۔ پرنتو بعد میں یہ وشرام گھر اور کاموں کے لیے بھی پریوگ ہونے لگے۔ ‘‘

’’اور کن کاموں کے لیے ؟ وی۔ ان۔ ارئے کا تجسس بڑھ گیا۔

’’کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ ان کوٹھریوں میں لوگ چوری چھپے بھوگ ولاس بھی کرنے لگے تھے اور کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے دشمنوں کو کسی نہ کسی بہانے سے لا کر یہاں ان سے دشمنی بھی نکالی جاتی تھی۔ ‘‘

’’اس طرح کے کام تو اب بھی ہوتے ہوں گے ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے اپنے شبہے کی ملّاح سے تصدیق چاہی۔

’’کبھی دیکھا تو نہیں ہے اور نہ ہی کبھی سنا ہے۔ ‘‘

’’لیکن اس طرح کے کام یہاں آسانی اور زیادہ سیف طریقے سے ہو سکتا ہے۔

’’ایسے کاموں کے لیے اب کسی سرکشِت جگہ کی ضرورت نہیں پڑتی صاحب! اب تو اس کے کام کو کہیں بھی بڑی آسانی اور بنا کسی ڈر بھے کے کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جا رہا ہے کہنا چاہیے۔ دشمن کو بیچ سڑک پر مار دیجیے۔ یہاں تک کہ پولیس تھانے کے پاس لے جا کر مار دیجیے۔ آپ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بس آپ کی جیب میں نوٹ اور قبضے میں ووٹ ہونا چاہیے۔ ‘‘

ملّاح کی یہ باتیں سن کر وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں دور دور تک پھیل گئیں۔ تمام صوبے ایک مرکز پرسمٹ آئے۔ قتل، فساد، زنا، دہشت گردی، ان کاؤنٹر، چوری چماری، ڈاکہ زنی، رہ زنی، دھوکا دھڑی، دغا فریب، لوٹ مار وغیرہ وغیرہ کے بے شمار واقعات ابھر تے چلے گئے اور پیچھے سے ان سب پر مٹی بھی پڑتی چلی آئی۔

’’تم نے ٹھیک کہا، آج کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ سب کچھ ممکن ہے، سب کچھ‘‘۔

وی۔ ان۔ رائے نے اپنا سر ہلاتے ہوئے اقرار کیا۔

وی۔ ان۔ رائے کچھ دیر تک خاموش رہے۔ ملّاح بھی خاموشی سے ناؤ کھیتا رہا۔ کچھ دور جانے کے بعد وی۔ ان۔ رائے کو کسی چیز کی طلب محسوس ہوئی۔ ان کی نظریں گھر سے لائے ہوئے تھیلے کی جانب مبذول ہو گئیں۔

’’ویاس! کناروں سے دور، دیر سے چکر کاٹتی ہوئی بیچ دریا میں پڑی ناؤ میں بیٹھے لوگوں کو جب بھوک لگتی ہے تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘

’’اپنی پوٹلی اور ڈبّا کھولتے ہیں جو وہ اپنے گھر یا بازار سے اپنے ساتھ لائے ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’وقت آ گیا ہے کہ میں بھی اپنا ڈبّا کھول لوں۔ کھول لوں ؟ اجازت ہے ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے ملّاح سے اجازت چاہی۔

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے صاحب!‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا رخ وی۔ ان۔ رائے کی طرف سے ہٹا کر دوسری جانب موڑ لیا۔

وی۔ ان۔ رائے نے ڈبّا کھول کر بریڈ پکوڑے کی ایک پیس ملّاح کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’لو تم بھی کھاؤ‘‘

’’نہیں صاحب! آپ کھائیے، میں تو کیول دو وقت کھاتا ہوں، صبح اور رات میں۔ ملّاح نے تکلف کا اظہار کیا۔

’’یہ کوئی کھانا تھوڑے ہی ہے۔ یہ تو ناشتہ ہے۔ وہ بھی بہت ہلکا پھلکا۔ لے لو، ورنہ مجھ سے بھی کھایا نہیں جائے گا۔ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے زور دیا۔

وی۔ ان۔ رائے کا آخری جملہ سنتے ہی ملّاح نے ان کے ہاتھ سے بریڈ پکوڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

دونوں بریڈ پکوڑا کھانے میں مصروف ہو گئے۔ پکوڑے جب پیٹ میں چلے گئے تو وی۔ ان۔ رائے نے ملّاح کو پھر مخاطب کیا۔

’’ویاس! جب کبھی پینے کی خواہش ستاتی ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں ؟‘‘

’’زیادہ تر لوگ تو جمنا جی یا گنگا جی کا پانی پیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے ساتھ بوتل بھی لاتے ہیں۔ ‘‘

’’میں پانی کی پیاس کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ چائے کی طلب کی بات کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’چائے ! چائے تو میں نے یہاں کبھی کسی کو پیتے دیکھا نہیں۔ سمبھو ہے اس طلب کو لوگ روکے رکھتے ہوں گے اور واپسی میں کنارے جا کر مٹاتے ہوں گے۔ ویسے یہ کوئی ایسی پیاس نہیں کہ بے چین کر دے۔ ‘‘

’’بے چین تو یہ بھی کرتی ہے ویاس! جیسا کہ اس وقت اِس نے مجھے کر رکھا ہے مگر میں اسے کنارے جا کر نہیں بجھاؤں گا بلکہ اسے بھی یہیں دور کروں گا‘‘

’’اس بیچ منجدھار میں چائے کہاں ملے گی صاحب؟‘‘

’’ملے گی، ضرور ملے گی۔ ‘‘

’’کیا آپ کوئی جادو جانتے ہیں ؟‘‘

’’جادو میں نہیں جانتا بلکہ جادو میری الہ آباد والی بھابھی جانتی ہیں۔ ان کے جادو کے جِن نے انھیں یہ بتا دیا کہ سنگم کے بیچ میں چائے نہیں ملتی اور ان کے دیور کو چائے کی طلب پریشان کر سکتی ہے۔ اس لیے انھوں نے ناشتے کے ڈبے کے ساتھ تھیلے میں چائے کا تھرمس بھی رکھ دیا ہے۔ یہ دیکھو‘‘:

انھوں نے ملّاح کو تھرمس دکھا کر اس کا ڈھکن کھول دیا۔ اور پلاسٹک کے کپ میں چائے انڈیل کر ایک کپ ملّاح کی طرف بڑھا دیا اور دوسرا کپ اپنے منہ سے لگا لیا۔

’’کیسی لگ رہی ہے ایسے میں چائے۔ ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے ملّاح سے پوچھا:

’’اچھی لگ رہی ہے صاحب؟‘‘

’’مزا آ رہا ہے ؟‘‘

’’ہاں خوب مزا آ رہا۔ ‘‘

’’یہ چائے بھی خوب ایجاد ہوئی ہے۔ اندر پہنچتے ہی جادو جگا دیتی ہے سستی پر یوں چوٹ مارتی ہے کہ اس میں سے چُستی کے نغمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ ہے تو یہ سوکھی ہوئی کالی سی پتی مگر اس میں ایسی ہریالی چھپی ہوئی ہے کہ پیلے چہروں کو بھی ہرا بھرا کر دیتی ہے۔ السائے اور باسی پڑے انگوں کو بھی تر و تازہ کر دیتی ہے۔ کیوں ہے کہ نہیں ؟ سچ بولنا۔ تم اس وقت چستی پھرتی محسوس کر رہے ہو کہ نہیں ؟‘‘

’’جی کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’تو اسی خوشی میں کوئی کہانی سنا دو۔ ‘‘

’’کیسی کہانی سنیں گے صاحب؟‘‘

’’جب یہاں کا رج پاٹ سلامت تھا اور راجاؤں کا راج کاج اپنے رنگ ڈھنگ میں ہوتا تھا اس وقت کا کوئی رنگین قصہ تمھیں یاد ہو تو سناؤ!‘‘

’’ایک قصہ سناتا ہوں۔ رنگین تو شاید نہ ہو پرنتو آپ کو دلچسپ ضرور لگے گا۔ ‘‘

کہتے ہیں کہ اس قلعے کے ایک راجا کا بڑا بیٹا جو کہ اترادھیکاری ہوتا ہے اور جس سے راجا کی بنس آگے بڑھتی ہے، نپنسک تھا۔ یہ بھید اس وقت کھلا جب اس کی شادی کے تین سال بعد بھی اس کی پنتی گربھوتی نہ ہو سکی۔ پرنتو اس بھید کو سوائے راج کمار، اس کی پتنی اور راجا کے کوئی اور نہیں جانتا تھا۔ راجا کو بھی اس وقت پتا چلا جب اس نے طے کیا کہ راج کمار کو چوں کہ اس کی پتنی سے سنتان نہیں ہو رہی ہے اس لیے اس کی دوسری شادی کی جائے گی۔ راج کمار تو کچھ نہیں بولا پرنتو اس کی پنتی سے چُپ نہیں رہا گیا۔ وہ سیدھے اپنے سسر یعنی بڑے راجا کے پاس پہنچی اور لاج شرم کا پردہ نوچ کر دور پھینکتی ہوئی بولی کہ دوش مجھ میں نہیں بلکہ آپ کے پُتر میں ہے اور یہ دوش کسی دوا دارو سے جانے والا بھی نہیں ہے۔ یدی گھر میں سوتن لائی گئی تو میں سب کے سامنے بھانڈا پھوڑ دوں گی۔

راجا بہو کے اس تیور کو دیکھ کر تلملا اٹھا۔ اس کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ بہو کو راستے سے ہٹا دے اور تب گھر میں دوسری بہو لائے۔ یہ راستہ راجا کو اس لیے سوجھ رہا تھا کہ راجا کا دماغ کسی بھی طرح یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اس کے خون میں کوئی خرابی ہو سکتی ہے۔ اسے پورا وشواس تھا کہ دوش بہو میں ہی ہے۔ اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ کسی طرح بہو کو سمجھا بجھا کر اس بات کے لیے راضی کر لیا جائے کہ مالکن وہی رہے گی، دوسری تو بس آیا گیری کام کیا کرے گی پرنتو بہو کو راضی کرنا آسان نہ تھا۔

بہو کو جب راجا کی نیت کا پتا چلا تو اس نے اپنے پتی راج کمار کو سمجھانے کی کوشش کی اور بڑے ہی وی نرم شبدوں میں کہا کہ آپ بھلی بھانتی جانتے ہیں کہ میں یدی اپنی سوتن لانے کے لیے راضی بھی ہو جاتی ہوں تب بھی اس راج گھرانے کی ونش آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ اس لیے کوئی اور اوپائے سوچنا چاہیے اور اوپائے ایسا ہونا چاہیے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تب راج کمار نے اپنی سوچی ہوئی یوجنا بیان کی کہ ہم کسی لمبی یاترا پر علاج کے بہانے باہر جائیں۔ کسی پہاڑ پر یا کسی ایسے استھان پر جا سکتے ہیں جس کی جل بایو اچھی ہو، وہاں جا کر ہم کسی دامپتی کو دھن دولت کا لالچ دے کر اس بات کے لیے راضی کریں کہ وہ ہمارے لیے ایک بچہ جن دیں اور اس بھید کو وہ کسی سے نہ بتائیں۔ اس کے لیے وہ جتنا دھن مانگیں گے ہم انھیں دے دیں گے۔ جس دن اس دامپتی کی مہیلا سدیسہ کے گربھ میں بچہ ٹھہرے، اسی دن ہم بھی یہ خبر پھیلا دیں کہ اس استھان کا واتا ورن ہمیں راس آ گیا ہے اور بھگوان نے ہم پر بھی کرپا کر دیا ہے۔ اس عورت کے ساتھ ساتھ تم بھی ماں بننے کا ناٹک کرتی جاؤ گی۔ تمھارے ہاؤ بھاؤ، چال ڈھال، جسم کا پھیلاؤ، پیٹ کا ابھار سب کچھ ایک گربھوتی مہیلا کی طرح ہو گا۔ آخری دن تم بھی پوری اوستھا میں دکھائی دو گی۔ جیسے ہی بچہ اس عورت کے گربھ سے باہر آئے گا، اسے اٹھا کر تمھاری گود میں ڈال دیا جائے گا۔

اپنی یوجنا بیان کر کے راج کمار نے پتنی کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا۔ پتنی نے اس کی اس پلاننگ کی داد تو دی پرنتو اس یوجنا سے سنتُشٹنہ ہو سکی۔ اس لیے کہ اتنے لمبے سمے تک راج کمار کا راج دربار سے باہر رہنا آسان نہیں تھا اور خود پتنی کے لیے بھی اتنا بڑا ناٹک کھیلنا اور اتنے دنوں تک جھوٹ موٹ کی ماں بننے کا ابھینے کرنا کٹھن کام تھا۔ پھر یہ بھی کہ یہ ضروری نہیں تھا کہ یہ بھید، بھید رہ جائے۔ اس کے کھل جانے کی بھی اشنکا تھی اور پتنی کو ایک اور بات کا بھی ڈر تھا۔ وہ ڈر یہ تھا کہ دوسرے کے بچے کے رنگ روپ اور ناک نقشہ کبھی بھی چغلی کھاسکتے تھے۔ اور یہ بھید اِس پرکار بھی کھل سکتا تھا۔

پتنی کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔ اس سمسیا کا سمادھان وہ کسی اور اوپائے سے کرنا چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا بچہ کم سے کم اس کے پیٹ سے ضرور پیدا ہو مگر اس کے اپنے پیٹ سے بچہ پیدا ہونے کے لیے ضروری تھا کہ وہ کسی پرایا مرد کے ساتھ سوئے۔ یہ بڑی صبر آزما اور دکھ دائی اوپائے تھا۔ اس پر بھی عمل کرنا آسان نہیں تھا۔ پرنتو مشکل بھی نہیں تھا۔ اس اوپائے سے پیدا ہونے والے دکھ کو جھیلنے کے لیے اس نے اپنے آپ کو تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس نے اس وشیہ پر اس طرح سوچنا شروع کر دیا تھا کہ یہ دکھ اُس دکھ کی تولنا میں چھوٹا تھا جو سوتن کے اس کے سر پر سوار ہو جانے کے بعد اسے ملتا اور ہمیشہ کے لیے بانجھ نہ ہونے کے بعد بھی بانجھ پن کے احساس سے اسے گزرنا پڑتا اور طعنوں کے تیر الگ کھانے پڑتے۔ پر اس اوپائے کے راستے میں رکاوٹ یہ تھی کہ کیا راج کمار اس کام کے لیے تیار ہو سکے گا؟ کیا وہ یہ گوارا کر سکے گا کہ اس کی پتنی ایک رات کسی اور کی گود میں سو جائے۔ ؟

یہ رکاوٹ بہت بڑی رکاوٹ تھی؟ پتنی کو اس رکاوٹ کو دور کرنا تھا اور یہ بھی سوچنا تھا کہ وہ اپنے بچے کا باپ کسے بنائے ؟ کس سے وہ گربھ دھارن کرے کہ یہ بھید سدا بھید بنا رہے۔ کبھی کھلنے نہ پائے ؟ بہت کچھ سوچنے اور وچار کرنے کے بعد پتنی اس نتیجے پر پہنچی کہ راج میں صرف ایک ہی ایسا آدمی ہے جس کے ساتھ سمپرک کرنے سے بھید، بھید بنا رہے گا، کبھی کھلے گا نہیں اور اس راج پر یوار کو اس کا ا صلی وارث بھی مل جائے گا لیکن اڑچن یہ تھی کہ اس کام کے لیے ایک طرف اس آدمی کو تیار کرنا تھا اور دوسری طرف اپنے پتی کو بھی راضی کرنا تھا۔

لوک لاج کو تو وہ پہلے ہی تیاگ چکی تھی۔ اب بس اسے اپنی جھجھک کو اتار پھینکنا تھا اور اپنے اندر ذرا سا ساہس پیدا کر کے اس آدمی تک پہنچنا تھا۔

ساہس جٹانے کے لیے اس نے کسی بڑھیا شراب کا ایک بڑا سا جام بنایا اور اس جام کو آہستہ آہستہ اپنے اندر اتار لیا۔ بدبو مٹانے کے لیے الائچی والے پان کا ایک بیڑا منہ میں دبایا اور جب شراب کے سرور نے رنگ دکھانا شروع کیا تو اس نے اس ویکتی کی اور اپنا پاؤں بڑھا دیا جسے اپنے ساتھ سونے کے لیے تیار کرنا تھا اور اپنی ونش کو آگے بڑھانا تھا۔

رات کے اندھیرے میں بہو کو اپنے سامنے دیکھ کر راجا کچھ پریشان سا ہوا۔ پھر ہمت جٹا کر بولا:

’’کیا بات ہے ؟ اس سمے تم یہاں ! کچھ ضروری کام ہے کیا؟‘‘

’’جی ہاں، ایک بہت ضروری کام ہے ‘‘ بہو نے اپنی اس ضرورت کو اپنے ہاؤ بھاؤ سے بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

’’ایسا کون سا ضر ری کام آ گیا کہ اتنی رات گئے تمھیں یوں اکے لیے میرے کمرے میں آنا پڑا؟ یوراج ٹھیک تو ہیں ؟ انھیں تو نہیں کچھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ راجا کچھ پریشان سا ہو گیا۔

’’نہیں، نہیں، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ آرام سے سو رہے ہیں۔ ‘‘

تو پھر؟‘‘ راجا کی پریشانی تو دور ہو گئی پرنتو حیرانی بڑھ گئی۔ ‘‘

’’ہے ایک ایسا کام جس کے لیے مجھے یوں بے وقت آپ کے پاس آنا پڑا۔ اس کے لیے میں چھما چاہتی ہوں۔ ‘‘ بہو نے ہاتھ جوڑ دیے۔

’’ کام بتاؤ گی بھی یا میری حیرانی بڑھاتی رہو گی؟‘‘ راجا بہو کے آنے کا کارن جاننے کے لیے ویاکل ہو گیا۔

’’مہاراج ! وہ کام ایسا ضروری کام ہے کہ یدی اسے نہیں کیا گیا تو اس راج گھرانے کا ونش آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ آپ کے بعد آپ کی پیڑھی رک جائے گی۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کو اپنے خون پر بہت بھروسہ ہے۔ اور یہ بات آپ ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہیں کہ دوش مجھ میں نہیں بلکہ آپ کے بیٹے میں ہے۔ پرنتو آپ کے بیٹے کو آپ سے ادھیک میں جانتی ہوں۔ اس لیے کہ میں انھیں بھوگتی بھی ہوں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سچ کیا ہے ؟ اور سچ یہی ہے مہاراج کہ آپ کا وہ خون جو میرے حصہ میں آیا ہے پانی ہو چکا ہے۔ وہ دوشِت ہے۔ اس میں کداپی وہ دم نہیں کہ وہ آپ کو اس راج کا وارث دے سکے۔ یدی اب بھی آپ کو وشواس نہیں تو لائیے مجھے وش دے دیجیے۔ میں وش کھا کر اپنی جیون لیلا سماپت کر دیتی ہوں۔ اور آپ شوق سے ان کی دوسری شادی رچا دیجیے۔ پرتنو ایک بات میری یاد رکھیے کہ ایک کیا، آپ اپنے بیٹے کی سو شادیاں کر دیجیے۔ ان کے بستر پر سوراج کماریوں کو لا کر سلا دیجیے۔ پھر بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آنا ہے۔ ‘‘

بہونے اس حقیقت کو کچھ اس ڈھنگ اور اس اعتماد کے ساتھ رکھا کہ راجا سر سے پیر تک ہل اٹھا۔ اپنے خون کے سمبندھ میں اس کے دماغ میں جو وشواس کا برگد اگا تھا، وہ جڑ سے اکھڑ گیا۔ راجا پریشان اور دکھی ہوتے ہوئے بولا:

’’پھر تو تمھیں بتاؤ کہ کیا کرنا چاہیے۔ ونش کو تو ہر حالت میں آگے بڑھنا ہے۔ اس راج پر وار کو کسی بھی قیمت پر اس کا وارث ملنا چاہیے۔ ‘‘ راجا کے چہرے سے ونش پانے کی بے چینی ظاہر ہونے لگی۔

’’ایک قیمت پر اس پریوار کو اس کا وارث مل سکتا ہے۔ اور میں تو یہ قیمت چکانے کے لیے تیار ہوں۔ پرنتو کیول میرے اکے لیے کی قیمت چکانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس کے لیے آپ دونوں کو بھی قیمت چکانی ہو گی۔

’’وہ کیا قیمت ہو گی، بتاؤ میں چکانے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘ راجا نے جوش کے ساتھ کہا۔

’’بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ ‘‘ بہو نے راجا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا:

’’میں بڑی سے بڑی قیمت چکانے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘ راجا نے اپنے پختہ ارادے کو مضبوط لہجے میں ظاہر کیا۔

’’خوب سوچ لیجیے۔ ‘‘ بہو راجا کو تیار کرنے لگی۔

’’سوچ لیا۔ ‘‘ راجا تیار ہونے لگا۔

’’وچن دیجیے۔ ‘‘ بہو پکا وعدہ لینے لگی۔

’’دیا۔ ‘‘ راجا نے پکا وعدہ کر لیا

’’مکر تو نہیں جائیں گے ؟‘‘ بہو نے راجا کے ارادے کو جانچنا چاہا۔

’’راج پوت کا وچن ہے۔ پران چاہے چلی جائے وچن نہیں جائے گا۔ ‘‘ راجا کی راجپوتی شان زبان پر آ گئی۔

’’مہاراج! بات یہ ہے کہ وارث کو پانے کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’شرم نے آگے بڑھنے سے بہو کو روک دیا۔ ‘‘

’’وارث کو پانے کے لیے کیا؟ آگے تو بتاؤ۔ ‘‘ راجا نے اپنا جگیاسا پرکٹ کیا۔

’بتانا مشکل ہو رہا ہے مہاراج ‘‘ بہو کے اندر کی عورت باہر آنے لگی۔

’’بتانا تو پڑے گا۔ ‘‘ راجا بہو کے دل کی بات جاننے کے لیے بے چین ہونے لگا۔

’’وارث کو پانے کے لیے ایک ہی اوپائے ہے مہاراج اور وہ اوپائے یہ ہے کہ آپ کو میرے ساتھ سمپرک استھاپت کرنا ہو گا۔ ‘‘ بہو نے ایک سانس میں پوری بات کہہ دی۔

’’کیا؟‘‘ راجا سر سے پاؤں تک لرز اٹھا۔

’’ہاں مہاراج ! اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ میں نے تو اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے۔ اب آپ بھی اپنے کو تیار کر لیجیے۔ ‘‘ بہو کی آنکھیں بھی بولنے لگیں۔

’’پرنتو‘‘

’’پرنتو ورنتو کو دور پھینکنا پڑے گا مہاراج !‘‘ بہو بہو کی سیما سے باہر نکل آئی۔

’’چلو اس پرنتو کو میں نے پھینک دیا پھر بھی راج کمار؟‘‘ راجا نے ایک دوسری اشنکا ظاہر کی۔

’’ہاں راج کمار شاید اس کے لیے تیار نہ ہوں، پرنتو اگر اس راج گھرانے کو اپنا وارث چاہیے تو انھیں بھی قیمت چکانی پڑے گی۔ ‘‘ بہو کا لہجہ کافی مضبوط ہو گیا۔

’’پرنتو کیسے ؟‘‘ راجا کو یہ اشنکا پریشان کرنے لگی۔

’’ہم انھیں منائیں گے۔ ‘‘ بہو نے ڈھارس بندھائی۔

’’میں تو اس سمبندھ میں کچھ نہیں بول پاؤں گا۔ ‘‘ راجا نے پلّا جھاڑ لیا۔

’’ٹھیک ہے، میں بولوں گی۔ میں انھیں تیار کرنے کی کوشش کروں گی۔ ‘‘ بہو نے درڑھتا دکھائی۔

پھر بھی وہ نہیں تیار ہوئے تو ؟‘‘ راجا نے سوال کیا۔

’’تو راج تنتر کا شڈینتر کام کرے گا۔ ‘‘ بہو نے مہارانی کی طرح جواب دیا۔

’’میں کچھ سمجھا نہیں، راجا بہو کی طرف تجسس اور حیرانی سے دیکھنے لگا۔

’’کسی شڈینتر کے دوارا انھیں یہ وشاس دلایا جائے گا کہ کوئی چمتکار ہو گیا۔ ایسی استھیتی پیدا کر دی جائے گی کہ راج کمار کو لگے گا کہ ان کی کمزوری دور ہو گئی ہے اور وہ اس کام کو کرنے کے یو گیہ ہو گئے ہیں جو کسی کارن وش وہ نہیں کر پا رہے تھے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہم اور آپ مل لیں گے۔ ‘‘ بہو نے مہاراج کو اپنا پورا پلان سمجھا دیا۔

’’اس بات میں دم تو ہے پرنتو راج کمار کو یہ احساس دلانا کہ وہ ٹھیک۔

اس سے پہلے کہ راجا اپنی پوری بات کہتے، بہو بول پڑی۔

’’یہ کام آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے بہو، جیسی تمھاری مرضی۔ میں تو تمھیں وچن دے چکا ہوں۔ ‘‘ راجا نے سب کچھ بہو پر چھوڑ دیا۔

راجا کو تیار کرنے کے بعد بہو راج کمار کو رام کرنے کی فکر میں جٹ گئی۔

بہت جلد اسے ایک اوپائے سوجھ گیا۔ ایک دن اس نے راج کمار کو بتایا کہ اس نے ایک عجیب پرتنو سکھد سپنا دیکھا ہے۔

اس کے سپنے میں بھگوان لنگ راج نے درشن دیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد تمھارے دن پھرنے والے ہیں۔ تمھیں چنتاؤں سے مکتی ملنے والی ہے۔ تم اپنے پتی سے کہو کہ لنگوٹ باندھ کر سات دن تک لگاتار لنگ راج کے مندر میں شیو لنگ کے آگے سو بار ڈنڈوٹ کرے۔ پھر اپنی آنکھیں بند کر کے شیو لنگ کا دھیان کرے۔ شیو لنگ پر چڑھائے گئے تیل میں سے تھوڑا سا تیل گھر لے جا کر اپنی لنگ پر مالش کرے۔ مالش کے بعد دودھ میں بھانگ اور شیو لنگ کے پاس پڑے دیپک کی ایک چٹکی راکھ گھونٹ کر صبح شام پیے۔ اس دودھ میں تھوڑا سا سلاجیت اور سونے چاندی کا بھشم بھی ملا لیا کرے۔ پربھو نے چاہا تو اوشیہ اس کی منو کامنا پوری ہو گی۔

یہ سننا تھا کہ راج کمار اچھل پڑا اور لنگوٹ کس کر سیدھے لنگ راج کے مندر میں جا پہنچا۔

ساتویں رات میں پتنی نے راج کمار کو دودھ میں ایک ایسا نشہ گھول کر پلایا کہ راج کمار کا انگ انگ پھڑک اٹھا۔ا سکے جسم میں اینٹھن سی ہونے لگی۔ رگیں تننے لگیں۔ جوش میں آ کر وہ پتنی سے لپٹ گیا۔ لپٹ کر دیر تک پتنی کے شریر کے ساتھ کشتی کرتا رہا پھر اچانک بستر پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔ رات کے اندھیرے میں یوجنا کے مطابق راج کماری کے کمرے میں ایک سایہ داخل ہوا اور اس سائے نے جلتی تپتی اور جھلستی ہوئی عورت کے اوپر اپنی چھاؤں کا کمبل اوڑھا دیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

کیسی لگی کہانی ؟‘‘ کہانی سنا کر ملّاح داد طلب نظروں سے وی۔ ان۔ رائے کی طرف دیکھنے لگا۔

’’اچھی ہے اور کافی meaningfulبھی۔ اس سے زندگی کے کئی اہم نکتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ کچھ نفسیاتی گرہیں بھی کھلتی ہیں۔ ‘‘

’’جیسے ؟‘‘ ملّاح نے جاننا چاہا۔

’’جیسے یہ کہ اقتدار یعنی ستّا کی بھوک آچار وچار، رشتہ ناطہ، عزت آبرو کچھ نہیں دیکھتی۔ کسی کی پرواہ نہیں کرتی۔ یہ بھوک چاہے جس طرح سے، جس چیز سے جس قیمت پر مٹے، مٹ کر رہتی ہے۔ چاہے اس بھوک کے مٹنے میں ساری دنیا مٹی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ دلچسپ بات اس کہانی میں یہ ہے کہ یہ بھوک صرف راجا کو ہی پریشان نہیں کرتی تھی بلکہ اس بھوک سے بہو بھی بے چین تھی۔ ‘‘

’’بہو کس طرح بھلا؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کے اس تبصرے میں دلچسپی لیتے ہوئے ملّاح نے پوچھا:

’’وہ اس طرح کہ اسے بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کے اوپر کوئی اور آ جائے۔ اس کے اختیارات یعنی پاور اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ اسے سوتاپا کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی کہ اپنے ہاتھ سے راج محل کی چابیاں چھن جانے کی چنتا تھی۔ اس کا اصل دکھ اپنی حیثیت، طاقت اور ستّا کے مٹ جانے کا تھا۔ راج محل میں رہتے ہوئے بھی راج پاٹ سے بے دخل اور بے وقعت ہو جانے کا تھا۔ یہ دکھ یہ چنتا، ستّا اور شکتی کی بھوک ہی تو ہے۔ ‘‘

’’ستّا‘‘ یہ لفظ وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں پنجہ مار کر بیٹھ گیا۔ اس کی ایک ایک انگلی اپنی طاقت دکھانے لگی۔ اپنے معنی مطلب سمجھانے لگی۔ سب کی سب اپنے دائروں کو بتانے لگیں۔ اپنے پور پور میں چھپی شکتی کو دکھانے لگیں۔

اس لفظ کا مفہوم کھلنے لگا:

سب سے طاقت ور ہونے کا احساس

سب پر حاوی ہو جانے کا جذبہ

ایک ایک چیز پر اجارہ داری

ہر طرح کی سُپر میسی ( برتری)

سب کو اپنے قبضے میں کرنے کی خواہش

سب پر حکومت چلانے کا نشہ

اور سب پر چھا جانے کی ہوس

یہ لفظ اپنے ان تمام تر معنے و مفہوم کے ساتھ پہلے صرف درباروں تک محدود تھا۔ محلوں کے باہر دکھائی نہیں دیتا تھا مگر وقت کی کروٹ کے ساتھ یہ محلوں سے باہر نکل آیا۔ مرکز سے مختلف ریاستوں اور ریاستوں سے ہوتا ہوا ضلعوں، پرگنوں اور پنچایتوں تک پہنچ گیا اور ہر جگہ اپنا پنجہ گاڑتا گیا۔

یہ پنجہ جو کبھی صرف ایک جگہ پر ہوتا تھا، اب اس کی شاخیں اس سے پھوٹ کر جگہ جگہ گڑ گئی ہیں۔ کہنے کو تو یہ ایک پنجے کی شاخیں ہیں مگر طاقت اور زور میں اس پنجے سے ذرا بھی کم نہیں ہیں۔ ان کے خواب اور خواہشیں بھی وہی ہیں جو مرکز میں گڑے پنجے کی ہوتی ہیں۔ یہ شاخیں بھی چاہتی ہیں کہ سب کچھ ان کی مٹھی میں آ جائے۔ مٹھی سے باہر کچھ بھی نہ رہے۔ اور جو بھی اس مٹھی میں آنے سے آنا کانی کرے تو اس پر ایسے بھاری مکے پڑیں کہ جبڑے ایک دوسرے سے چپک جائیں اور پھر کبھی منع کرنے کی ہمت نہ ہو سکے۔

ستّا کا پنجہ جب کسی ایک مقام پر گڑا ہوتا تھا تو کچھ لوگ اس کی زد سے بچ بھی جاتے تھے مگر اب اس کی زد سے کوئی نہیں بچتا۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ لفظ اور کھلتا گیا۔ اس میں سے گنجینۂ معانی نکلتا گیا۔

اس کی جانب دربار اور سرکار کے ساتھ اب بازار بھی سرک آیا۔ ستّا کا رنگ بازار میں بھی نظر آنے لگا۔ بازار بھی پنجہ گاڑنے لگا۔ بازار کی مٹھیاں بھی دنیا کو بند کرنے کی خاطر بار بار کھلنے لگیں۔

ستّا کے پنجے کے ناخنوں کا گاڑھا رنگ ایسا جھمکا کہ مندر مٹھ اور منبر و محراب بھی اس کی جانب جھک آئے۔ مٹھوں کے مہنت، آشرموں کے سوامی، مدرسوں کے ملّا اور درگاہوں کے پیر فقیر بھی اس کے حلقے میں آ کر چلّہ کھینچنے لگے۔

پاؤر کے کچھ اور ٹاور کھڑے ہو گئے۔

اپنے اقتداری محوروں پر جمے رہنے اور دور تک دکھائی دینے کے لیے تمام مرکزوں نے اپنی زمینوں کو اتنا مضبوط اور اپنے کو اتنا اونچا کرنا شروع کر دیا اور اپنے چہروں کو ایسا ہیبت ناک بنا لیا اور اپنے پیٹ اور چھاتی پر جِم خانوں میں جا جا کر ایسے ایسے نشیب و فراز ڈال لیے تاکہ انھیں دیکھ کر کوئی ان کے مقابل میں کھڑے ہونے کی ہمت نہ کر سکے۔

ان اقتداری محوروں نے اپنا اپنا ایسا زور دکھایا کہ دور دور تک کی زمینیں دہلنے لگیں۔ پہاڑ گرنے لگے۔ اونچی اونچی فلک بوس عمارتیں زمیں دوز ہو گئیں۔

یہ سب کیوں ہوا؟

وی۔ ان۔ رائے کے ذہن نے جاننا چاہا تو آنکھوں میں وقوعوں کی جگہیں سمٹ آئیں اور وہ ٹاور ابھر آئے جن کے آہنی دروازوں سے فولادی ٹارزن نکلتے تھے اور مختلف سمتوں میں جا کر دیواروں سے ٹکرا جاتے تھے اور اپنے ساتھ دوسروں کے پر؂خچے بھی اڑا دیتے تھے۔

وی۔ ان۔ رائے کی دور بیں نگاہوں نے ان ٹاوروں کے اندرون میں جھانک کر دیکھا تو ان کی دیواروں پر تین فوٹو فریم ٹنگے تھے ‘‘

دو فریموں میں تصویریں تھیں۔ ایک فریم خالی تھا۔

داہنی طرف کی دیوار کے فریم میں جو تصویر آویزاں تھی اس تصویر کے کئی ہاتھ تھے۔ کسی ہاتھ میں پیالا تھا تو کسی ہاتھ میں گنڈاسا۔ کسی میں تلوار تھی تو کسی میں برچھی، کسی میں بندوق تھی تو کسی میں بم۔ اس تصویر کا چہرہ سیاہ تھا۔ سیاہ چہرے سے سرخ زبان خون آلو دو دھاری تلوار کی طرح باہر نکلی ہوئی تھی۔ آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جیسے سامنے کوئی دشمن کھڑا ہو۔

بائیں طرف کی دیوار کی فریم میں جو تصویر جڑی تھی وہ سر سے پا تک سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے زیورات سے لدی ہوئی تھی۔ اس تصویر کے دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں میں ہیرے کی انگوٹھیاں تھیں جن سے روشنی کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی جیسے ان کے آگے کسی خزانے کا در کھل گیا ہو۔

تیسرا فریم خالی کیوں تھا؟

خالی فریم نے وی۔ ان۔ رائے کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔

ہو سکتا ہے اس کی تصویر نکل گئی ہو؟

یا نکال لی گئی ہو۔

یا لگائی ہی نہیں گئی ہو۔

’’یا شاید اس فریم کے لیے تصویر بنی ہی نہ ہو؟

’’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا؟ فریم بنا ہے تو تصویر بھی ضروری بنی ہو گی۔ ‘‘

’’پھر وہ تصویر کیسی رہی ہو گی؟ اس کے رنگ روپ، ناک نقش خط و خال کیسے رہے ہوں گے ؟‘‘

ذہن اس تصویر کے تصور میں کھو گیا۔

ٹاور کی دیواروں پر ٹنگی ان تصویروں کو دیکھنے اور انھیں پہچاننے کی کوشش کے دوران وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں ایک اور سوال ابھر آیا۔ ’’ان ٹاؤروں کے اصل مالک کون ہیں ؟‘‘

اس سوال کے ابھرتے ہوئے ان کے سامنے اخبار کے اوراق اور ٹیلی وژن کے پردے بھی ابھر آئے۔ ‘‘

اخبار اور ٹیلی وژن پر ایک ساتھ دو تصویریں دکھائی دے رہی تھیں۔

ایک تصویر کی پیشانی پر امن کی تختی آویزاں تھی اور دوسری تصویر کے ماتھے پر دہشت گردی کی چپّی چپکی ہوئی تھی۔ ان تصویروں کے چہروں پر جو رنگ تھا، ان کی آنکھوں کا رنگ اس سے مختلف تھا۔ امن کی تختی والی تصویر کی پتلیوں کے بھیتر کوئی اور ہی شے ڈول رہی تھی اور دہشت گردی والی تصویر کے دیدوں میں کچھ اور چیز لہرا رہی تھی۔

ایک پردے پر کمپیوٹر نے ان دونوں تصویروں کو اس طرح ملا دیا تھا کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کون سی تصویر کس کی ہے ؟ یہ آپس میں گڈمڈ ہوئی تصویر ویسی تھی جیسی کہ بعض ٹی وی چینلوں پر مہا مقابلہ کمپٹیشن کے تحت ایک ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں دو آدمیوں کے چہرے اس طرح ملا دیے جاتے ہیں کہ ان کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی طرف سے کوئی چہرہ دکھائی دیتا ہے تو کسی طرف سے کوئی۔ ایک طرف سے دیکھیے تو کوئی اور نظر آتا ہے اور دوسری طرف سے نگاہ ڈالیے تو کوئی اور دکھائی دیتا ہے۔ اصل تصویر کو پہچاننے اور انعام جیتنے کے چکّر میں لوگ ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ پہچان پھر بھی نہیں ہو پاتی۔

کچھ چینل والے تو اس طرح کے کھیلوں میں کسی منجھے ہوئے کارٹونسٹ کی مدد سے تصویروں کے نام بھی اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ایک طرف سے پڑھیے تو ایک نام اور دوسری جانب سے پڑھیے تو دوسرا نام اور آڈیو Audio میں تو ناموں کی آوازوں کو اس طرح ملا دیتے ہیں کہ سننے میں دونوں نام ایک جیسے سنائی دینے لگتے ہیں۔ ایک کو سنیے تو دوسرا سنائی دینے لگتا ہے اور دوسرے کو سینے تو پہلا سماعت میں آ جاتا ہے۔

’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں صاحب! یہ ستّا کی ہی بھوک تھی جس نے بہو کو اتنا بڑا شڈینتر رچنے پر مجبور کر دیا۔ ورنہ وہ چپ چاپ پڑی رہتی جیسا کہ بہت سی ایسی عورتیں بنا کچھ کہے اور کیے اپنی ساری زندگی گزار دیتی ہیں۔ ‘‘

’’ویسے راجا کی اس بہو کو ایک اور بھوک بھی پریشان کیے رہتی تھی۔ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے ٹاور سے باہر نکل آئے۔

’’دوسری کون سی بھوک صاحب؟‘‘ ملّاح کی دلچسپی بڑھتی گئی۔

’’وہ بھوک جو دل، دماغ اور جسم تینوں کو پریشان کرتی ہے۔ تینوں کو بے چین رکھتی ہے۔ یہ بھوک جسم سے جسم کو ملانے کی بھوک ہے۔ یہ بھوک تن کی آگ کو تن سے بجھانے کی بھوک ہے۔ یہ بھوک بھی اندھی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں دیکھتی۔ وہ اس بھوک سے بھی پریشان تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی یہ بھوک بھی مٹ جائے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ راج کماری تھی۔ راج محل میں رہتی تھی اور راج محل کے سنسکاروں کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی۔ا س لیے وہ اپنی اس بھوک کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔

جسم کی بھوک کے سلسلے میں ایک حیران کر دینے والا بِندو یہ بھی ہے کہ یہ بھوک طرح طرح کا بھوجن چاہتی ہے۔ الگ الگ سواد والے بھوجن کی اچھّا رکھتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ اچھّا آسانی سے پوری نہیں ہوتی اور بعض بندھنوں اور کچھ دباؤ کے کارن اسے صرف ایک ہی طرح کے کھانے پر قناعت کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘

اس نکتے پر آتے ہی وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں کچھ عورتیں ابھر آئیں جن کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ جن کے شوہر بھی اچھے اور صحت مند تھے۔ جن کے گھروں کے سنسکار بھی کافی مضبوط تھے۔ وہ سنسکاری بھی تھیں اور جن میں سے زیادہ تر مذہبی تھیں اور اپنے دھرم اور مذہب کے مطابق پوجا پاٹ بھی خوب کیا کرتی تھیں مگر یہ ساری عورتیں اپنا سواد بدلنا چاہتی تھیں اور بدلتی بھی رہتی تھیں۔ ایسی عورتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔

وی۔ ان۔ رائے نے اس پہلو پر بہت غور کیا تھا۔ پہلے تو انھیں لگتا تھا کہ یہ تمام عورتیں وہ ہیں جو کسی نہ کسی دباؤ میں رہتی ہیں۔ خصوصاً سماج کے دباؤ میں۔ ان کی شادیاں زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ہوئی ہیں۔ ان کے شوہر اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی جنسی بھوک پیاس مٹا سکیں اور اپنے شوہروں سے وہ اس معاملے میں مطمئن نہیں ہیں لیکن دھیرے دھیرے بہت سے حقائق سامنے آتے گئے اور کچھ ایسے ثبوت بھی ملتے گئے جن سے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ خوش ہیں۔ ان سے ان کے بچے بھی ہیں۔ ان کے شوہروں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود ان کے رشتے غیر مردوں سے بھی تھے۔ جب بھی انھیں موقع ملتا، اپنے پرائے مرد دوستوں سے مل لیتی تھیں۔ ان کے ساتھ خوب موج مستی کر لیتی تھیں۔ نیا سواد چکھ لیتی تھیں۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی مادّی لالچ میں آ کر کسی غیر مرد سے رشتہ قائم کرتی تھیں۔ انھیں ان سے ایک الگ طرح کے ذائقے کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا اور نہ ہی وہ اس کے علاوہ کچھ اور چاہتی تھیں۔

اور وی۔ ان۔ رائے آخر میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جنس ایک ایسی بھوک ہے جسے بھوجن ہی نہیں سواد بھی چاہیے اور سواد میں بھی بدلاؤ چاہیے اور یہ کسی ایک عورت، کسی ایک سماج یا کسی ایک زمانے کی عورت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سب پر اور سب جگہ لاگو ہوتا ہے مگر وہ کافی حیران بھی ہوتے تھے کہ سنسکار اس سلسلے میں اپنا کام کیوں نہیں کرتے ؟ کیوں وہ عورت کو اپنی ڈور میں باندھ کر نہیں رکھتے ؟ دھرم اپنا انکش کیوں نہیں لگاتا؟ اخلاق کی دیواریں کیوں نہیں روک پاتیں ؟

مگر ان کی حیرانی اس وقت دور بھی ہو جاتی جب کچھ ایسے واقعات ان کے سامنے آن کھڑے ہوتے جن میں غیر مرد کے تصور سے بھی عورتیں کانپ اٹھی تھیں۔ عورتوں نے اپنی جان دے دی تھیں مگر کسی پرائے مرد کو ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا۔ غریب، نادار، لاچار، محتاج عورتوں نے بھی اپنی آبرو بچانے کے لیے بڑے بڑے تحفے تحائف اور مال و زر پر لات مار دی تھی۔ کمزور اور ناتواں عورتیں بھی اپنی عزت کے تحفظ کے لیے بڑے بڑے جابروں سے جا ٹکرائی تھیں۔

کوئی تو بات ہو گی کہ جس کے چلتے اس طرح کے واقعات بھی رونما ہوتے ہوں گے ؟ مگر وہ بات کیا ہو گی وی۔ ان۔ رائے اس پر پہلے بھی غور کرتے رہے تھے اور آج بھی سوچ رہے تھے۔

شاید وہ بات یہ ہو سکتی ہے کہ ان عورتوں کو لکشمن ریکھا کی مہانتا کا احساس ہو گیا ہو یا انہیں احساس کرا دیا گیا ہو یا

’’صاحب! ایک بات مجھے کافی دیر سے پریشان کر رہی ہے۔ ‘‘

’’کون سی بات؟ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے چنتن سے باہر نکل آئے۔

’’راج پاٹ چلانے کے لیے کیا سچ مچ یہ ضروری ہے کہ بڑے بیٹے کی سنتان کو ہی گدی پر بٹھایا جائے ؟‘‘

’’تمھاری اور ہماری نظر میں یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لیے کہ راج پاٹ کوئی بھی قابل آدمی چلا سکتا ہے اور قابل آدمی راجا کے چھوٹے بیٹوں کے بچے بھی بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے ابھاؤ میں راجا اپنے کسی وزیر کو یا وزیر کے کسی بچے کو بھی راج کی باگ ڈور سونپ سکتا ہے اور اپنے راج کے کسی عام آدمی کو بھی اگر وہ اس لائق ہو مگر اس زمانے کے سمبیدھان کے مطابق یہ ضروری تھا کہ بڑے بیٹے اور اس کے بعد اس کی سنتان کوہی گدی ملے۔ ‘‘

اس طرح سے کیا راجا کے دوسرے بیٹوں کے ساتھ نا انصافی ہیں ہوتی؟ اس پرمپرا کے چلتے بڑے بیٹے یا اس کی سنتان سے ادھیک قابل ہونے کے بعد بھی راجا کے چھوٹے بیٹے یا ان کی سنتان گدی سے ونچت نہیں رکھے جاتے ہیں ؟

ملّاح کی اس دلیل کے ساتھ ہی وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں لکھنؤ کے قیصر باغ میں کچہری کے پاس واقع راجا محمود آباد کا محل ابھر آیا۔

اس محل کی پشت والے حصے میں ایک بار وی۔ ان۔ رائے کو ان کے ایک دوست عسکری اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ پشت والے حصے میں محل کے سامنے والے حصے سے گزر کر جانا ہوا تھا۔

محل بہت ہی شاندار تھا۔ دیواروں کے رنگ و روغن بالکل تازہ تھے۔ اونچی اونچی برجیاں چمک رہی تھیں۔ دور تک ایک لان تھا جس میں مخملی گھاس کی قالین بچھی ہوئی تھی۔ قالین کے چاروں طرف رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ لان کے وسط میں ایک بڑا اور خوبصورت فوّارہ تھا جو مختلف انداز سے پانی کو اوپر اچھال رہا تھا۔ موسیقی کی ہلکی ہلکی دھن بھی بج رہی تھی اوراس دھن پر پانی کبھی کبھی رقص بھی کرنے لگتا تھا۔

محل کا حسن وی۔ ان۔ رائے کو روک رہا تھا مگر ان کے دوست عسکری کو شاید جلدی تھی یا وہ نہیں چاہتے تھے کہ وی۔ ان۔ رائے وہاں دیر تک رکیں۔ اس لیے اس محل کے حسن کا پورا لطف اٹھائے بنا ہی وہ عسکری کے ساتھ محل کے پیچھے والے حصے میں چلے گئے تھے۔

وہ حصہ بھی محل ہی کا حصہ تھا مگر بالکل برعکس۔ بوسیدہ دیواریں، جھلسے ہوئے رنگ و روغن، ادھڑا ہوا فرش، ویران، اجاڑ، بے رونق۔ نیچے کے حصے میں کچھ کوٹھریاں جن کے سامنے کچھ میلے کچیلے بچے کھیل رہے تھے اور کچھ مریل اور بد رونق عورتیں بیٹھی اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھیں۔

وی۔ ان۔ رائے کے چہرے پر محل کی پشت والے حصے کی ویرانی کے اثرات اور ان کی آنکھوں میں حیرانی کی پرچھائیوں پر عسکری کی جب نگاہیں پڑیں تو عسکری کے لب یک لخت بول پڑے۔

’’اُدھر جو دیکھا وہ راجا محمود آباد کے بڑے بیٹے کی اولادوں کی جائداد ہے جنھیں محمود آباد اسٹیٹ کی باگ ڈور سونپی گئی تھی اور اِدھر جو دیکھ رہے ہیں یہ راجا جی کے چھوٹے بیٹے کی ملکیت ہے جو انھیں بھیک میں رہنے کے لیے ان پر ترس کھا کر دے دی گئی تھی اور ہم اسی چھوٹے بیٹے کی اولاد ہیں۔ ‘‘ عسکری کے اس چھوٹے سے جملے میں ان کا سارا درد سمٹ آیا تھا۔

’’تمھارا سوچنا بالکل صحیح ہے۔ نا انصافی تو ہوتی ہے مگر یہ ان کا قانون تھا اور یہ قانون اس طرح کے انصاف کو نہیں دیکھتا۔ پرمپرا، جس کی بنیادیں ویکتی گت اچھّا اور ہوس کے پتّھر پر رکھی گئی ہیں ان سے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتے۔ ‘‘

جواب دے کر وی۔ ان۔ رائے اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگے جیسے ان کی آنکھیں شکایت کے لیے اٹھ گئی ہوں۔

’’صاحب! ایک بات اور پوچھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’پوچھو۔ ‘‘

’’راجا کی بہو کے پاس کیا کوئی اور راستہ نہیں ہو سکتا تھا؟‘‘

’’میرے خیال سے تو نہیں۔ ‘‘

’’پرنتو یہ کام جو اس نے اپنے پتا سمان سسر کے ساتھ کیا اور ایک پوتر رشتے کو برباد کیا کسی اور سے بھی تو کرواسکتی تھی۔ جب اسے ناٹک ہی کرنا تھا اور جھوٹ ہی بولنا تھا تو وہ یہ کام اپنے کسی نوکر چاکر یا کسی اور مرد کو پٹا کر کرواسکتی تھی اور روپیوں سے اس کا منہ بند کر سکتی تھی؟‘‘

’’نہیں، اس میں سمجھداری نہیں ہوتی۔ اس میں خطرہ تھا۔ روپیے کیا نوکر چاکر کا منہ اگر وہ سونے کی گّلّی سے بھی بھر دیتی تب بھی اندیشہ لگا رہتا کہ کہیں وہ بھید کبھی کھول نہ دے اور اس بات کا بھی ڈر تھا کہ وہ آدمی اسے کبھی بھی بلیک میل کر سکتا تھا۔ پھر ایک اور بات بھی تھی۔ بچے کے رنگ روپ اور ناک نقش بھی چغلی کھا سکتے تھے۔ لیکن راجا سے کام کرانے میں ان میں سے کسی بات کا بھی خطرہ نہیں تھا۔ راجا بلیک کرنے کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بچے کے رنگ و روپ اور ناک نقش میں انتر آنے کی بھی سمبھاونا بہت کم تھی کہ وہ بچہ بھی اسی کا عکس ہوتا جس کا عکس راج کمار یعنی اس کا پتی تھا۔ میرے خیال میں تو یہ ایک نہایت مناسب اور اہم قدم تھا جسے بہو نے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا تھا۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں صاحب! میرا دھیان تو اس اور گیا ہی نہیں تھا۔ اس پوری یوجنا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ راجا کی بہو سچ مچ بہت بدّھی مان تھی۔ صاحب! عورت کیا اتنی بدّھی مان ہوتی ہے ؟

’’ہاں، مرد کی طرح عورت بھی کم بدّھی مان نہیں ہوتی۔ تم نے اس سے پہلے والی کہانی میں نہیں دیکھا کہ ایک گاؤں دیہات کی رہنے والی معمولی گھسیارے کی بیٹی نے اپنی بدھی اور سمجھ داری کا کتنا بڑا ثبوت دیا تھا۔ کیسے کیسے مشکل کام اس نے اپنی عقل کے سہارے آسانی سے نمٹا دیے تھے۔

’’ہاں صاحب! اس نے بھی بڑی سمجھ داری دکھا ئی تھی۔ ‘‘

’’لیکن افسوس کہ عورت کے اس پہلو پر ہمارا سماج بہت کم دھیان دیتا ہے۔ لوگوں کو تو عورت میں سر کے نیچے والا حصہ ہی زیادہ کھائی دیتا ہے۔ ‘‘

’’اس کا کیا کارن ہے صاحب؟‘‘

کوئی ایک کارن ہو تو بتاؤں ‘‘

’’ایک آدھ تو بتا ہی دیجیے صاحب!‘‘

’’ایک تو یہی ہے کہ مرد یہ نہیں چاہتا کہ عورت اس کے برابر میں بیٹھے۔ یہ کتنی بڑی وِڈمبنا ہے کہ مرد عورت کو اپنے برابر میں لٹانا تو چاہتا ہے مگر بٹھانا نہیں چاہتا۔ ‘‘

’’ایسا وہ کیوں کرتا ہے صاحب؟‘‘

’’اس لیے کہ بیٹھنے میں عورت دکھائی دیتی ہے، لیٹنے میں دکھائی نہیں دیتی۔ بستر پر وہ مرد کی باہوں میں کَسی، جانگھوں میں دبی اور اس کے چوڑے چکلے سینے کے نیچے بھنچی رہتی ہے۔ مرد کے مردانہ جسم کی آڑ میں وہ چھپ جاتی ہے لیکن کرسی پر یہ آڑ آڑے نہیں آتی۔ جتنا مرد دکھائی دیتا ہے اتنا ہی عورت بھی نظر آتی ہے۔ ‘‘

’’پرنتو آج تو کبھی کبھی کرسی پر وہ بھی۔ ۔

’’بس کبھی کبھی۔ وہ بھی کسی نہ کسی کارن بس۔ مرد کی اِچھّا سے نہیں۔ اچھّا ہوتی تو برسوں سے اس کا بل پارلیامنٹ کی دیواروں پر لٹکا نہیں رہتا۔ ‘‘

’’ایک آدھ کارن اور بتا دیجیے صاحب؟‘‘

’’ایک کارن یہ بھی ہے کہ عورت دماغ سے زیادہ اپنے جسم کو دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ لکیروں سے بھری پیشانی کے بجائے اس کی وہ پیشانی دکھائی دے جس پر ایک بھی لکیر نہ ہو۔ جو سپاٹ اور چوڑی ہو، سکڑی ہوئی نہ ہو۔ جس پر پونم کا چاند نظر آئے، دوج کا نہیں۔ وہ اپنی آنکھوں کو پُر فکر دیکھنے کے بجائے پرکشش دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ بھلے ہی اس کا بڑا دماغ نظر نہ آئے مگر اس کے جسم کا ایک ایک انگ اور اس کا چھوٹا سے چھوٹا حصہ بھی ضرور نظر آئے کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں ٹھہری رہ جائیں۔ اس کا یہ جتن ہوتا ہے کہ اس کی جلد ہمیشہ نرم و نازک اور ترو تازہ بنی رہے۔ اس کی رنگت، اس کی چمک دمک کبھی ماند نہ پڑنے پائے۔ اپنے دماغ کے بارے میں کبھی وہ اتنا نہیں سوچتی۔ کبھی چنتِت نہیں ہوتی اور کبھی چِنتت ہوتی بھی ہے تو دکھی نہیں ہوتی۔

یہ کہہ کر وی۔ ان۔ رائے خود بھی فکر مند نظر آنے لگے۔

’’صاحب! اور آگے چلیں ؟‘‘

’’ہاں، چلو‘‘

ملّاح نے ناؤ کی رفتار بڑھا دی۔

اکّی دکّی جو کشتیاں نظر آ رہی تھیں، وہ بھی اوجھل ہو گئیں۔ شاید وہ لوٹ گئی تھیں یا کسی اور سمت میں بڑھ گئی تھیں۔

’’یہ علاقہ تو بڑا سنسان ہے، اِدھر کوئی آتا جاتا نہیں ہے کیا؟ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے اپنے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا:

’’صاحب! اِدھر بہت کم لوگ آتے ہیں۔ جمنا جی میں یوں بھی کوئی زیادہ لوگوں کی دلچسپی نہیں ہوتی اور ادھر کچھ دیکھنے کو ہے بھی نہیں۔ ادھر تو کیول وہی لوگ آتے ہیں جو آپ جیسے ہوتے ہیں یا پھر وہ لوگ جو اکانت چاہتے ہیں۔ اکانت چاہنے والے اکثر کسی نہ کسی سہہ پاٹھی کو ساتھ لاتے ہیں۔ انھیں ان ندیوں کے سنگم سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ انھیں تو بس اپنے سنگم سے کام ہوتا ہے پرنتو سبھی بھوگ ولاس کے لیے نہیں آتے۔ کچھ تو اپنی ضروری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آتے ہیں اور کچھ بے چارے تو ستم کے مارے ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’مطلب ؟ ‘‘ ملّاح کا اشارہ وی۔ ان۔ رائے کی سمجھ میں نہ آ سکا۔

’’صاحب ! مطلب کے جواب میں آپ ایک قصّہ سن لیجیے۔ یہ کوئی سنی سنائی یا کسی کتاب میں پڑھی ہوئی کہانی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہانی ہے۔ ‘‘

یہ کہانی ان دنوں کی ہے جب میں نے نیا نیا نوکا چلانا شروع کیا تھا۔ ایک دن جھٹپٹے کے وقت میری ناؤ پر ایک جوڑا سوار ہوا۔

’’اس وقت بھی کیا تم دوسروں سے زیادہ بھاڑا لیتے تھے ؟‘‘

’’نہیں، اس وقت میرا بھی ریٹ وہی تھا جو دوسروں کا تھا اور دوسروں کی طرح میں بھی خوب مول بھاؤ کیا کرتا تھا۔ موقع لگ گیا تو کبھی زیادہ مل گیا اور موقع نہیں لگا تو کبھی کافی کم پر بھی تیار ہو گیا۔ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ تو بھرنا ہی تھا نا صاحب!‘‘

’’تمھارا یہ ریٹ اتنا ہائی کب ہوا؟‘‘

برسوں بعد صاحب! اس ریٹ کے بڑھنے میں برسوں لگ گئے۔ ‘‘

’’ذرا وِستار سے بتاؤ کہ تم نے اپنا ریٹ بڑھانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور کب کیا؟‘‘

’’دن تاریخ تو یاد نہیں ہیں صاحب! ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ ان دنوں سنگم پہ ایک یو گی آئے تھے۔ صبح سویرے لوگوں کو یوگ سادھنا سکھاتے تھے۔ اور بیچ بیچ میں کچھ باتیں بھی بتاتے تھے۔ ان کی باتیں بڑی اچھی ہوتی تھیں۔ وہ دل کو چھوتی تھیں۔ ان کی ایک بات مجھے اتنی بھائی کہ وہ میرے دل میں بیٹھ گئی۔ وہ بات یہ تھی کہ بھاگنے سے بہتر ہے آہستہ چلو۔ بے شک منزل دیر سے آئے گی پرنتو راہ میں ٹھوکر نہیں لگے گی۔ آہستہ چلنے پر دنیا تمھیں ٹھیک سے کھائی دے گی اور وہ سب کچھ بھی آنکھوں میں آ جائے گا جو بھاگ دوڑ میں اوجھل رہ جاتا ہے۔ ‘‘

’’تو اس یو گی کی اس بات نے تمھیں یہ سبق دے دیا کہ تم دس بار دریا میں اترنے کے بجائے صرف ایک بار اترو اور اپنے یاتریوں کو اطمینان سے سیر کراؤ۔ ‘‘

’’جی صاحب‘‘

’’لیکن یو گی کی اس بات میں ناؤ کا ریٹ بڑھانے کا اپدیش تو نہیں ہے۔ ‘ پھر تم نے ریٹ کیسے بڑھا دیا؟‘‘

’’اپدیش دکھائی تو نہیں دیتا پرنتو یو گی کی اس بات میں اس کی اور بھی اشارہ ضرور ہے صاحب!‘‘

’’وہ کیسے ؟‘‘

’’میں نے جب آہستہ چلنا شروع کیا تو سچ مچ دنیا مجھے پاس سے دکھائی دینے لگی۔ بہت سے روپ جو پہلے سامنے نہیں آئے تھے، میری آنکھوں میں آ گئے۔ یاتریوں کو قریب سے اور دیر تک دیکھنے سے پتا چلا کہ دنیا میں کس کس طرح کے لوگ ہیں ؟ کون کس طرح سوچتا ہے ؟ کون کیا چاہتا ہے ؟ میں سمجھ گیا کہ جس چیز کو پانے کے لیے دس جگہوں پر جانا پڑتا ہے وہ چیز ایک جگہ سے بھی پراپت کی جا سکتی ہے۔ دینے والوں کی کمی نہیں ہے بس لینے والے کو لینا آنا چاہیے اور یہ بات سمجھ میں آتے ہی میں نے اپنا ریٹ بڑھا دیا۔ ‘‘

’’تو اس یو گی نے تمھیں دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا راستہ سُجھادیا۔ ‘‘

’’جی صاحب! اس یو گی کی ایک اور بات بھی مجھے بہت اچھی لگی صاحب!‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’وہ بات بڑی لمبی ہے پر اس کا ایک ایک شبد مجھے آج بھی یاد ہے۔ ‘‘

’مجھے بھی تو بتاؤ۔ ‘‘

’’بات اس نے کویتا میں بتائی تھی۔ ‘‘

’سناؤ تو۔ ‘‘

’’جی۔ ‘‘ سناتا ہوں۔ اس نے کہا تھا :

جب گھاؤ کاری ہو

سمے بھاری ہو

اور چاروں اور بے حسی طاری ہو

تو اندریوں کو جگاؤ

انھیں اکساؤ

گرماؤ

کہ وہی ہوش کی دوا جانتی ہیں

وہی سنجیونی کو پہچانتی ہیں

روپ (آنکھوں ) کو کسی پھول پر ٹکا دو

پھول اپنا رنگ

اپنا نور

اپنی خوشبو

اپنا لمس

تمھیں سونپ دے گا

چہرے سے پیلا پن

آنکھوں سے دھندلا پن

سانسوں سے گھٹن

اور تن اور من سے کٹھور پن مٹ جائے گا

شبد (کانوں ) کو سنگیت سے لگا دو

سُرتال کا چشمہ

سرابوں کو سیراب کر دے گا

تناؤ اور طنابوں کو توڑ ڈالے گا

پیڑا کی سرنگوں میں سنگیت

کی قندیلیں جلا دے گا

گندھ (ناک کے نتھنوں ) کو

مٹی کی مہک

ہواؤں کی باس

اور فضاؤں کی بو

تک پہنچا دو

سانسوں کی گھٹن

نسوں کی اینٹھن

اور سینے سے چبھن

دور ہو جائے گی

رس (سواد) کو ویریچن کی پرکریا سے گزار دو

کھٹا میٹھا

برا اچّھا

اور زہر امرت

بن جائے گا

اسپرش کو سمویدن شیل کر دو

سخت سے نرم

سرد سے گرم

اور سنگ سے موم

تک کا سفر آسان ہو جائے گا

کسی آنکھ سے

زرد گال پر ڈھلکے ہوئے

مٹ میلے آنسوکو

اپنی انگلی کے پور پر

اٹھا کر دیکھو

ویران آنکھوں میں جگنو چمک اٹھیں گے

پیلے گالوں پہ گلاب کھل جائیں گے

تمھارے نیتر سے بھی لال ڈورے مٹ جائیں

’’ہاں۔ یہ بات تو واقعی بڑی اچھی ہے۔ وی۔ ان۔ رائے نے تائید کی۔

’’صاحب! ایک دن میں نے ایک بچے کے گال سے آنسو کی ایک بوند کو اٹھا کر دیکھا تو ‘‘

’’کیسا لگا؟ وی۔ ان۔ رائے جملہ پوار ہونے سے پہلے ہی بول پڑے۔ ‘‘

ایسا لگا جیسے کہ مجھے کوئی بہومولیہ وستو مل گئی ہو، جیسے کہ میں نے کوئی بہت بڑی بازی جیت لی ہو۔ صاحب اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس اُچت شبد نہیں ہیں۔

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں ملّاح کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔ کشتی کے ملّاح میں کوئی اور دکھائی دینے لگا۔

دونوں کے درمیان خاموشی طاری رہی پھر وی۔ ان۔ رائے نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا۔

’’پھر اس جوڑے کا کیا ہوا؟‘‘

’’وہ جوڑا بڑا آ کرشک تھا۔ لڑکا لڑکی دونوں سندر تھے۔ دونوں جوان تھے۔ ویسے تو ہماری نگاہیں لڑکیوں پر زیادہ ٹھہرتی ہیں پرنتو اس جوڑے کے لڑکے میں نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ میری نظریں بار بار اس کے چہرے پر ٹک جاتی تھیں۔ پہلے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے دوری بنائے ہوئے بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے ایک دوسرے کے پاس آ گئے۔ شروع شروع میں دونوں چپ چاپ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے جیسے ان کے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ پھر ان کے ہونٹوں پر بُدبداہٹ ہونے لگی۔ کچھ دور آگے جانے کے بعد بدابدہٹیں شبدوں میں بدل گئیں۔ ان کی باتوں کے کچھ انش میرے کانوں میں بھی پڑنے لگے۔ حالاں کہ میں ناٹک کرتا رہا کہ میری نظر کیول پتوار پر ہے۔

ان کی بات چیت، پہناوا اور ہاؤ بھاؤ سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں پتی پتنی ہیں۔ کچھ اور دور جانے کے بعد لڑکا بولا:

’’بھیا! کیا تم ہمیں اور دوٗر لے جا سکتے ہو؟‘‘

میرے جواب میں ذار دیر ہوئی تو وہ پھر بول پڑا:

’’پیسے کی فکر نہ کرو۔ تم جتنا مانگو گے، ہم دیں گے۔ ‘‘

’’ہاں، لے جا سکتا ہوں پر‘‘

میرے ’پر‘ سے دونوں کی گھبراہٹ بڑھ گئی۔

’’پر کیا؟‘‘ لڑکا جلدی سے بول پڑا۔

’’سو روپے اور دینے پڑیں گے۔ ‘‘ میں نے سمے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا :

’’ہمیں منظور ہے۔ ‘‘ اس بار لڑکے سے پہلے لڑکی بول پڑی۔

’’تو ٹھیک ہے، میں لے چلتا ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر میں نے ناؤ کی گتی بڑھا دی۔

ہماری ناؤ سنگم سے کافی دور نکل گئی۔

’’اِدھر لائے ہو گے ؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے یوں ہی پوچھ لیا۔

’’جی، اِدھر ہی، پرنتو یہاں سے کافی آگے۔ وہ علاقہ شام کے وقت بالکل سنسان ہو جاتا ہے۔ اُدھر کچھ یاتریوں کا ڈر بھَے بڑھ جاتا ہے اور کچھ یاتریوں کا ڈر دل اور دماغ سے نکل جاتا ہے۔

صاحب! سنگم سے دوری، شام کی گاڑھی ہوتی ہوئی سیاہی اور میرے سوروپے کی مانگ نے ان دونوں کی جھجھک مٹا دی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے دل و دماغ سے یہ احساس بھی مٹ گیا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی تیسرا بھی ہے۔ دونوں بے جھجھک اور نڈر ہو کر ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے میں مصروف ہو گئے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ برسوں کے بھوکے پیاسے ہوں۔ ان کا بس چلتا تو شاید وہ، وہ بھی کر گزرتے جو میری موجودگی میں سمبھو نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد لڑکا مجھے سمبودھت کرتے ہوئے بولا:

’’بھیا! تم سمجھتے ہو گے کہ میں اس لڑکی کو بہلا پھسلا کر موج مستی کے لیے لایا ہوں لیکن ایسی بات نہیں ہے۔ یہ لڑکی میری اپنی پتنی ہے۔ یقین نہ ہو تو پوچھ لو اس سے۔ ‘‘

’’بھیا! یہ سچ بول رہے ہیں۔ میں ان کی دھرم پتنی ہوں۔ یہ ہے میرا منگل سوتر جسے انھوں نے میرے گلے میں ڈالا ہے۔ گنگا میا کی سوگندھ، میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں ‘‘۔

ان کے اس حلفیہ بیان سے پہلے تک میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ دونوں پریمی اور پریمیکا ہیں۔ سنگم پر پریم کا سنگم منانے آئے ہیں جیسا کہ آئے دن دوسرے پریمی جوڑے آتے رہتے ہیں۔

ان کے اس بیان کو سننے کے بعد میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا :

’’جب آپ دونوں پتی پتنی ہیں اور اگنی کے سامنے سات پھیرے لیے ہیں تو پھر یہاں چھپ کر اتنی دور ناؤ میں۔ ۔ .ایسا کیوں ؟‘‘

جواب میں انھوں نے جو بات بتائی، پہلے تو مجھے اس پر یقین نہیں آیا پرنتو دھیرے دھیرے اس کی سچائی میرے رگ و ریشے میں اترتی چلی گئی۔ انھوں نے بتایا :

’’گھر والوں نے ہماری شادی تو کر دی مگر ہماری سہاگ رات کا پربندھ نہ کر سکے۔ ایک تو چھوٹا گھر اوپر سے مہمانوں کی بھیڑ۔ رات بھر گانا بجانا، ہنسی مذاق، چھیڑ چھاڑ الگ۔ ہمیں اپنے گھر میں کوئی ایسا کونا نصیب نہ ہو سکا جہاں ہم اپنی سہاگ رات مناتے۔ ہماری کئی راتیں تو مہمانوں کی بھیڑ اور سم و رواج کی نذر ہو گئیں۔

تقریباً ہفتہ دس دن بعد مہمان تو چلے گئے مگر ہم ان کے جانے کے بعد بھی کھل کر نہ مل سکے۔

’’ایسا کیوں ؟ ‘‘ میرے پوچھنے پر لڑکا بولا:

’اس لیے کہ ہمارے پاس صرف ایک ہی کمرہ تھا۔ اسی ایک کمرے میں ہمارا پورا پریوار رہتا تھا۔ ماں، بابوجی، میری ایک جوان بہن اور دو چھوٹے بھائی اور ایک کونے میں ہم دونوں۔ ویسے تو میری ماں نے ہمارے لیے ایک بڑی سی پلنگ بچھا دی تھی اور اس پر مسہری بھی لگا دی تھی مگر ہم چاہ کر بھی ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے نہ سوسکے۔

’’کسی ہوٹل میں چلے جاتے۔ ‘‘ میرا یہ مشورہ سن کر لڑکا بولا:

’’گئے تھے، ہوٹل میں بھی گئے تھے مگر ہوٹل والوں نے ہمیں کمرہ دینے سے ان کار کر دیا تھا‘‘۔

’’کیوں ؟‘‘ میرے اس کیوں کے جواب میں وہ بولا:

’’ہم کچھ گھبرا سے گئے تھے۔ جیسے ہم پتی پنتی نہ ہو کر کچھ اور ہوں۔ ہماری گھبراہٹ اور سیدھے پن نے ہوٹل والوں کو ہمیں کچھ اور سمجھنے پر مجبور کر دیا۔ ہم نے انھیں بہت سمجھایا۔ ہر طرح سے یقین دلایا کہ ہماری ایک دوسرے کے ساتھ شادی ہوئی ہے۔ ہم پتی پتنی ہیں لیکن ان کا شک دور نہیں ہوا۔ ہم نے جب ذرا زیادہ زور دیا تو انھوں نے دھمکی دے ڈالی کہ ہم یہاں سے نہیں گئے تو وہ پولیس کو بلا لیں گے۔ ہم ڈر کر گھر واپس آ گئے۔ اس کے بعد پھر کسی اور ہوٹل میں جانے کی ہمت نہ ہو سکی۔ ‘‘

ان کی دکھ بھری کہانی سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے گمچھے سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور ان کی طرف دیکھتا ہوا بولا:

’’تم لوگ ملنا چاہتے ہو؟‘‘

’چاہتے تو ہیں پر۔ ‘‘ لڑکے نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور لڑکی نے شرما کر اپنی گردن جھکا لی۔

’’میں جانتا ہوں کہ کسی تیسرے کے سامنے دو لوگوں کا ملنا کتنا کٹھن ہوتا ہے پرنتو تم لوگوں کے پاس کوئی اور راستہ بھی تو نہیں ہے۔ا س لیے بہتر یہی ہے کہ میں اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لوں اور تم لوگ اپنا ارمان نکال لو۔ شرماؤ نہیں۔ ورنہ یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پیار سے سمجھا کر میں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی اور ناؤ کی گتی دھیمی کر دی۔ کچھ سوچ کر گمچھے کے دونوں سروں کو اپنے دونوں کانوں میں ٹھوس لیا‘‘۔

صاحب! ان دنوں ہمارا بھی جوانی کا زمانہ تھا۔ اس طرح کے جوڑوں کے رومانس کا ہم بھی خوب آنند لیا کرتے تھے۔ اپنی ناؤ کے ایک کنارے پر ہونے والے ایک ایک تماشے کا مزا لیا کرتے تھے۔ ویسے تو ان جوڑوں کو لگتا تھا کہ ہم ناؤ کھینے میں ویوست ہیں، ہماری نظریں پتوار، ناؤ اور سامنے کے راستے پر ٹکی ہوئی ہیں پرنتو ہم اپنی نظروں کو آگے کیے کیے ہی پیچھے کے ایک ایک نظارے کو دیکھ لیتے تھے اور اپنے کانوں کو تو رکھتے ہی تھے ان جوڑوں کے پاس۔ پرنتو میرا یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنے کان بھی بند کر لیے تھے۔ اپنے گمچھے کے دونوں سروں کو اپنے دونوں کانوں میں خوب اچھے طرح سے ٹھوس لیے تھے تاکہ ان کی کوئی آواز میرے کانوں میں نہ پڑے اور وہ جوڑا بغیر کسی ڈر بھے، سنکوچ اور جھجھک کے اپنے ہنی مون کا پورا پورا آنند اٹھا سکے۔

وی۔ ان۔ رائے کے کان تو ملّاح کی طرف مرکوز تھے ہی، اب ان کی آنکھیں بھی اس کے چہرے پر جا ٹکی تھیں۔

صاحب! میں نے اپنی آنکھیں تو بند کر لی تھیں مگر ان میں میری اپنی سہاگ رات ابھر آئی تھی۔

رات کی رسمیں پوری ہوتے ہی بھابی نے ہمیں ایک کمرے میں ڈھکیل دیا تھا۔ ویسے تو وہ میرا ہی کمرہ تھا مگر آج پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر تازہ تازہ پوتائی کی گئی تھی۔ سفیدی چم چم کر رہی تھی۔ میری چارپائی کی جگہ ایک چوڑی سی پلنگ بچھ گئی تھی۔ پلنگ کے چاروں طرف چھت کی ہک کے سہارے رنگ برنگ کے پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔ پلنگ پر ایک پھول دار چادر بچھی ہوئی تھی جس کے اوپر چمپا اور چمیلی کے اصلی پھول بھی بکھرے ہوئے تھے۔ ان پھولوں کی سگندھ سے پورا کمرہ مہک اٹھا تھا۔

گوٹا کناری اور ستاروں سے بنی بھاری پوشاک سے لدی اور گہنوں سے سجی میری دلھن اس پھولوں کی سیج پر جا کر گٹھری کی طرح بندھی بندھائی اور سمٹی سمٹائی بیٹھ گئی۔

کچھ دیر تک تو میں اپنی آنکھیں پھاڑے اپنے سجے سجائے اور چم چم کرتے ہوئے کمرے کو دیکھتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ پلنگ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ پلنگ پر پڑی اس گول مٹول خوبصورت سی گٹھری کو کھولنے کے لیے اس کی طرف میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازے پر کھٹ کھٹ ہونے لگی۔

کواڑ کھول کر دیکھا تو ماں گلاس میں دودھ لیے کھڑی تھی۔ میری طرف پیار سے دیکھتی ہوئی بولی۔

’’لے اسے رکھ لے، اور دروازہ ٹھیک سے بند کر لینا نہیں تو بلی گھس کر دودھ پی جائے گی۔ ‘‘

ماں کے جانے کے بعد دروازہ بند کر کے میں دوبارہ اپنی دلھن کے پاس پہنچ گیا۔

کچھ دیر تک اس نئی نویلی بنی ٹھنی دلھن کو میں اوپر سے نیچے تک نہارتا رہا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر آہستہ آہستہ چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا۔ اس کے جھکے ہوئے سر کو اس کی ٹھڈی پکڑ کر اوپر کیا اور بڑے ہی رومانٹک انداز میں آنکھیں کھولنے کا اس سے آگرہ کیا۔ اس نے جب آنکھیں کھول دیں تو میں دیر تک اس کی آنکھوں کی جھیل میں جھانکتا رہا۔ پھر میرا داہنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھا۔ پاس پہنچ کر انگلیوں نے مانگ کا ٹیکہ ہٹایا۔ سر سے نیچے سرک کر گلے سے ہار کو الگ کیا۔ تھوڑا اوپر اٹھ کر کانوں سے باری باری بندے نکالے۔ بندوں کو بستر کے ایک کنارے پر رکھ کر میری انگلیاں اس کی انگلیوں کی طرف بڑھیں اور ان سے کھیلنے لگیں۔ کچھ دیر بعد میری دلھن کی انگلیاں بھی اس کھیل میں شریک ہو گئیں۔ رات بھر ہم بنا کسی جھجھک اور ڈر خوف کے اطمینان کے ساتھ پیار محبت کے کھیل کھیلتے رہے۔

کچھ دیر بعد میرے کانوں میں ایک لجائی لجائی سی آواز گونجی ’’بھیا، اپنی آنکھیں کھول لیجیے۔ ‘‘

اس آواز پر میں نے اپنی آنکھوں سے گمچھا ہٹا دیا۔ میری بند آنکھیں کھل گئیں مگر میری ہمّت ان کی طرف دیکھنے کی نہ ہو سکی۔ خاص طور پر لڑکی کی طرف۔ ۔ .

’’بھیا! آپ کا یہ اپکار ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ ‘‘

یہ لڑکی کی آواز تھی، اس طرح کی آواز میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ یہ ایسی آواز تھی کہ جس نے میرے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کس طرح کی کیفیت تھی اور اس میں کیا کیا گھلا ہوا تھا؟

لڑکی کی آواز کے جواب میں میں صرف اتنا کہہ سکا۔

’’اس میں اپکار کی کون سی بات ہے ؟ یہ کام کوئی مفت میں تو میں نے کیا نہیں ہے ! اور پھر تم نے جب مجھے بھائی کہا ہے تو بھائی کا کچھ تو دھرم ہونا چاہیے ‘‘۔

ناؤ سے اترتے وقت انھوں نے میری طرف سو روپے کے بجائے سو سو کے دو نوٹ بڑھا دیے۔ خلوص کے ساتھ بڑھائے ہوئے ایک کی جگہ دو نوٹوں کو دیکھ کر مجھے اچھا لگا مگر اس سے زیادہ اچھا مجھے ان دونوں نوٹوں کو لوٹا کر لگا۔ ‘‘

ملّاح کہانی سنا رہا تھا اور کہانی وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں منظر پہ منظر بنا رہی تھی۔

سمندر کے کنارے بسے جگمگاتے ہوئے شہر کی گود میں دور دور تک پھیلی ہوئی کالی کالی کھولیاں۔ تنگ و تاریک ان کھولیوں میں آٹھ بائی آٹھ کے فرش پر آٹھ آٹھ دس دس آدمی۔ ان آدمیوں میں ماں باپ، بہو بیٹے، بیٹی داماد کے جوڑے اور کچھ کنواری جوان لڑکیاں اور کچھ چھوٹے چھوٹے بچے۔

غیرت مند جوڑے رات میں تو کینچل چڑھے سانپ کی مانند من اور کنڈلی دونوں مارکر سو جاتے ہیں مگر جب کبھی نفس اپنا پھن پھیلاتا ہے اور پھنکار مارتا ہے تو چوروں کی طرح اٹھ کر کسی سروجَنِک شوچالیہ میں چلے جاتے ہیں مگر وہاں بھی لمحہ لمحہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی دوسرا جوڑا نہ آگھسے۔ یا کچھ زیادہ ہمت جٹاتے ہیں تو کسی سنسان سڑک کے کنارے کسی الیکٹرک یا ٹیلی فون پول کے نیچے جا لیٹتے ہیں۔ یا دن میں کسی پارک کے کسی جھاڑی یا کونے کھدرے میں جا کر نفس کے ناگ کو چھوڑ یا چھپا آتے ہیں۔

اور جو غیرت مند نہیں ہیں وہ اپنے تن اور من دونوں سے شرم و حیا کو اتار پھینکتے ہیں اور آدمی سے جانور بن جاتے ہیں۔

غیرت مند بھی دھیرے دھیرے اندھے اور بہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سمندری مہانگروں کے ڈانڈے دریائی نگروں سے آملے ہیں۔ سمندر اپنا کھارا پانی تیزی سے ندیوں میں چھوڑ رہا ہے۔ ندی کے پانی کی لہروں پہ لہرانے، بل کھانے اور اٹھلانے والی چھوٹی مچھلیاں کچھ سست پڑنے لگی ہیں اور کچھ مرنے لگی ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’صاحب! اب ہم گنگا جی میں آ گئے ہیں۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں کہانی سے بنے منظروں سے نکل کر گنگا کے پانی کی طرف مبذول ہو گئیں۔

’’ہاں، صاحب! ہماری ناؤ اس وقت گنگا جی میں تیر رہی ہے ‘‘۔

’’یہ گنگا ہے ؟‘‘ پانی کو دیکھتے ہی وی۔ ان۔ رائے چونک پڑے۔

’’جی ہاں، یہی گنگا جی ہیں ‘‘۔

وی۔ ان۔ رائے کو یقین نہیں ہوا۔ انھیں لگا کہ وہ کسی اور ندی میں آ گئے ہیں یا ان کی آنکھوں میں گرد بیٹھ گئی ہے۔ آنکھیں مل کر انھوں نے دوبارہ اپنی نظریں پانی پر جما دیں۔ پانی ویسا کا ویسا ہی تھا۔ انھیں اپنی آنکھوں میں چبھن سی محسوس ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ چبھن ان کے دل تک پہنچ گئی۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے پانی سے کوئی تیر نکل کر ان کی آنکھوں سے ہوتا ہوا ان کے دل میں جا گڑا ہو۔

نگاہیں پانی سے نکل کر آسمان کی جانب اٹھ گئیں :

شاید وہ پرم پتا پرمیشور سے سوال کرنے لگیں جس نے گنگا کو گنگوتری سے نکالا ہے۔ ہمالہ کی اس اونچی چوٹی سے اتارا ہے جو سدا برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ جہاں گرد و غبار کا گزر نہیں۔ جہاں سے ہوا گزرتی ہے تو وہ بھی دھل کر صاف شفاف اور اجلی ہو جاتی ہے۔ شاید وہ اس سنسار کے جننی، انتریامی جگت گرو سے یہ پوچھنے لگیں کہ کیا یہ وہی گنگا ہے جو اپنی سفیدی سے سیاہی کو دھو ڈالتی ہے ؟ ہر طرح کے داغ دھبوں کو مٹا دیتی ہے۔ جس کے جل سے دُشت آتما تک کی شدّھی ہو جاتی ہے۔ جس کو پیے بنا شریر اپنی آتما کو نہیں تیاگتا۔ جسے مرنے والے کے منہ میں ٹپکاتے ہی مرنے والے کو بیکنٹھ نظر آنے لگتا ہے اور اس کے آس پاس کے سوگوار چہروں پر بھی اطمینان کے پھول کھل اٹھتے ہیں کہ ان کو جدائی کا غم دینے والا اب سیدھے سو رگ سدھارے گا اور جس جل کو پانے کے لیے لوگ ہزاروں میل کا صعوبتوں بھرا سفر ہنستے ہنستے طے کرتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی کو بھی پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔

’’صاحب! میں جانتا ہوں کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں اور آپ کی حیرانی کی وجہ کیا ہے ؟ آپ یہی سوچ کر دکھی ہو رہے ہیں نا کہ لوگوں کے دل اور دماغ میں بگولوں کے پروں کی طرح چم چم کرتی اور پریوں کی بھانتی اپنے اجلے اجلے پنکھ لہراتی موج مستی کی ترنگوں کے ساتھ بہنے والی اور سب کی ماں کہلانے والی گنگا میا اتنی میلی کیوں ہو گئیں ؟ صاحب! جب سارا سنسار اپنے تن اور من کے ساتھ ساتھ اپنے گھر آنگن، کھیت کھلیان اور کل کارخانوں کا میل بھی گنگا جی میں ڈالے گا تو کیا ہو گا؟ یہ دیکھیے سوکھے اور مرجھائے ہوئے پھولوں کے گچھّے ! روزانہ منوں ٹنوں پھول گنگا جی کو ارپت کیے جاتے ہیں۔ لوگ تو ان پھولوں کو سمّان اور شردھا سے گنگا کے چرنوں پہ چڑھاتے ہیں پرنتو یہ پھول پانی میں آ کر کچرا بن جاتے ہیں اور یہ کچرا گنگا جی کو میلا تو کرتا ہی ہے یہاں کے واتاورن میں درگندھ بھی پھیلا دیتا ہے۔ اور وہ دیکھیے ! ادھر!‘‘

ملّاح نے آدمیوں سے کھچاکھچ بھرے ایک ناؤ کی طرف اشارہ کیا۔ اشارے کی طرف وی۔ ان۔ رائے کی نظریں اٹھیں تو ایک ننگ دھڑنگ جسم سے گنگا میں گرنے والی رقیق شے کو دیکھ کر شرم سے پلکیں جھک گئیں۔

’’یہ تو نمبر ایک کا نظارہ ہے صاحب! ہماری آنکھیں تو اکثر نمبر دو کا نظارہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ آئے دن گلی سڑی لاشیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ملّاح کے ہونٹ یکایک بند ہو گئے۔ آنکھیں اس نظّارے کی طرف دوڑ گئیں جو پانی سے نکل کر فضا میں بجلی کی طرح لہرایا تھا اور اپنا رنگ و نور بکھیر کر پانی میں واپس چلا گیا تھا۔

ملّاح کے ساتھ ساتھ وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں بھی اس نظارے تک پہنچ گئی تھیں جو صرف چند لمحوں کے لیے ابھرا تھا اور اس نے محض اپنی ایک جھلک دکھائی تھی مگر وہ جھلک ایسی تھی کہ دونوں کی آنکھیں اب تک چکا چوندھ ہوئی پڑی تھیں۔

’’یہ کون سی مچھلی تھی؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کے لبوں میں جنبش ہوئی۔

’’نام تو ہم بھی نہیں جانتے صاحب! ویسے یہاں کے لوگ اسے ’جل رانی‘ کہتے ہیں۔ یہ بالکل رانی کی طرح رہتی ہے۔ رانی کی بھانتی یہ بھی کبھی کبھی ہی اپنا درشن دیتی ہے۔ مہینے دو مہینے میں ایک آدھ بار ہی اس کی جھلک دیکھنے کو مل پاتی ہے۔ صاحب! اس کی جھلک ہوتی تو ہے پل دو پل کے لیے پرنتو وہ پل دو پل کی جھلک بھی جھماکا کر دیتی ہے۔ آنکھوں میں ایسا رنگ اور ایسی روشنی گھول دیتی ہے کہ دیر تک اس سے آنند ملتا رہتا ہے۔ ‘‘

’’ایسی کتنی مچھلیاں ہوں گی؟‘‘

’’بہت کم۔ اس پورے علاقے میں مشکل سے چار پانچ ہوں گی‘‘۔

’’ایسا کیوں ؟ کیا یہ بچّے نہیں دیتیں ؟‘‘

’’بچّے دیتی ہیں صاحب‘‘! پرنتو ان کے بچے اس پانی میں زندہ نہیں رہ پاتے۔ ’’بہت چھوٹے پن میں ہی مر جاتے ہیں ‘‘۔

’’یہ کیوں نہیں مرتیں ؟‘‘

’’اس لیے کہ ان کے پھیپھڑے تیرتے تیرتے کافی مضبوط ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان پر اس پانی کا پربھاؤ نہیں پڑتا اور پڑتا بھی ہے تو یہ اس پربھاؤ کو جھیل لیتی ہیں ‘‘۔

’’تھوڑی دیر پہلے تم کچھ گلی سڑی لاشوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہ رہے تھے جو شاید جل رانی کے اوپر آ جانے کی وجہ سے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔

’’ہاں، ہاں، یاد آیا۔ میں کہہ رہا تھا کہ اس پانی میں آئے دن گلی سڑی لاشیں بھی دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ صاحب! گنگا جی میں جو لاشیں بہتی رہتی ہیں، ان میں کئی طرح کی لاشیں ہوتی ہیں :

ایک وہ جو لا وارث ہوتی ہیں۔ انھیں داہ سنسکار اور کریا کرم سے بچنے کے لیے گنگا جی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

دوسری ان لوگوں کی لاشیں ہوتی ہیں جو آپسی رنجش، دشمنی، نفرت اور زمین، زر اور زن کو ہتھیانے کے کارن مار دیے جاتے ہیں۔

اور تیسری طرح کی لاشیں ان دکھی اور دکھیاروں کی ہوتی ہیں جو اپنے دکھوں سے تنگ آ کر گنگا جی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ گنگا جی میں کود کر جان دینے کے پیچھے شاید یہ سوچ کام کرتی ہو گی کہ جیتے جی تو سکھ ملا نہیں، سمبھو ہے گنگا جی کے گربھ میں جا کر انھیں سکھ مل جائے گا اور ان کی آتما، ہتیا کے بوجھ سے بھی بچ جائے گی۔

گنگا جی کے دُشت ہونے کا ایک کارن وہ رسہیہ میہ شڈینتر بھی ہیں جو وی بھن اوسروں پر یہاں تانے گئے تمبوؤں میں کچھ لوگوں کے خلاف خاموشی سے رچے جاتے ہیں اور ان شڈینتروں سے کسی کو مٹانے اور کسی کو سبق سکھانے کی یوجنائیں بنائی جاتی ہیں۔ تمبو تان کر آنکھوں آنکھوں میں بات کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے من کی بات کسی اور تک نہیں پہنچے گی۔ پرنتو شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی میلی اور وشیلی باتیں کسی نہ کسی طرح گنگا جی کے گربھ میں پہنچ جاتی ہیں۔

ایک کارن کل کارخانوں سے نکلنے والی وہ چمک بھی ہے جس کی چکا چوند ان آنکھوں کو چوندھیا دیتی ہے جنھیں گنگا کی دیکھ ریکھ کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ یہ چمک ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دیتی ہے کہ انھیں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔

’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ پرشاسن کی باگ ڈور سنبھالنے والے دھرت راشٹر کی طرح اندھے ہو گئے ہیں ؟ ‘‘

وی۔ ان۔ رائے نے ملاح کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔

’’جی ہاں، پرنتو دھرت راشٹر سے ان کی تولنا نہیں کی جا سکتی صاحب! دھرت راشٹر نیتر ہین ضرور تھا مگر وہ کروک شیتر کو دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور پل پل کی خبر جاننے کے لیے ویاکل رہتا تھا۔ اسی لیے دویہ درشٹی رکھنے والے سنجے کو اس نے اپنے پاس بٹھا لیا تھا اور اس سے کروک شیتر میں گھٹنے والی ایک گھٹنا کو وستار سے سنا کرتا تھا۔ دھرت راشٹر اپنے پتروں کی موت پر آنسو بہاتا تھا اور پانڈوؤں کی تباہی پر بھی وہ پیڑا محسوس کرتا تھا۔ اسے دریودھن کے ساتھ ارجن کی بھی چنتا تھی۔ وہ بھیشم پتاما، اچاریہ کرپلانی اور دروناچاریہ کے لیے بھی چنتت رہتا تھا۔ تیروں کی شیا پر پڑے بھیشم پتاما کی دشا اسے بھی سونے نہیں دیتی تھی۔

’’ویاس تم نے تو مہابھارت پڑھی ہے، یہ بتاؤ کہ بھیشم پتاما، درونا چاریہ، کرپاچاریہ اسوتھاما یہ سب جانتے تھے کہ دریودھن کا مارگ صحیح نہیں ہے اور پانڈو ستیہ کے راستے پر ہیں، پھر بھی انھوں نے دریودھن کا ساتھ دیا۔ ایسا کیوں ؟ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے سوال کیا۔

’’اس لیے صاحب کہ وہ سب کے سب راج تنتر کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے۔ ان کا یہ کرتویہ تھا کہ وہ لڑائی میں اس سمے کے راجا کا ساتھ دیں۔ دریودھن اس سمے کے راجا کا اترا ادھیکاری تھا۔ اس کا فیصلہ راج کا فیصلہ تھا، اور راجیہ کا فیصلہ چاہے صحیح ہو یا غلط، راج کے نواسیوں کا یہ کرتویہ بن جاتا ہے کہ وہ اس فیصلے کا آدر کریں۔ اس کے انوسار کاریہ کریں سو انھوں نے راج کے پرتی اپنا کرتویہ اور دائتیہ نبھایا۔ اور بے شک دھرت راشٹر کا ہردیہ پانڈوؤں کے پکش میں تھا پرنتو وہ اپنے دماغ اور شریر دونوں سے کروکشیتر کے یودھ میں کورؤں کے ساتھ تھے اور ان کا یہ ساتھ ماتر اوپچاریکتا نبھانے کے لیے نہیں تھا بلکہ ستیہ اور نشٹھا کے ساتھ انھوں نے پانڈوؤں کے وروٗدھ یودھ کیا۔ پانڈوؤں پر اس طرح آ کرمن کیا جس طرح کہ اپنے شترو پر وار کیا جاتا ہے۔ پانڈوؤں کی اور تیر چلانے میں ان کے ہاتھ ذرا بھی نہیں کانپے۔ کمان کھینچنے میں انھوں نے کبھی بھی کوئی کمی نہیں کیا۔ ان کا نشانہ کبھی نہیں چوکا۔ ان کے تیر، تلوار اور بھالوں سے پانڈوؤں کے سپاہی نہ کیول گھائل ہوئے بلکہ مارے بھی گئے۔ بھیشم پتاما تو تیروں سے گندھ گئے۔ شترو کے تیر ان کا بستر بن گئے۔ وہ تیر کھا کر میدان میں پڑے رہے، پرنتو اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔

ویاس مہابھارت کے ان یودھاؤں کا بیان کر رہا تھا جو دل سے دریودھن کی طرف نہیں تھے۔ ان کا جھکاؤ پانڈوؤں کی طرف تھا۔ وہ دریودھن کے مارگ کو غلط سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود ایمانداری کے ساتھ دریودھن کی صف میں کھڑے تھے اور اپنے تیروں سے اپنے ان پیاروں کا سینہ چھلنی کر رہے تھے جن کو وہ نردوش مان رہے تھے۔ یہ سب سن کر وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں کے سامنے آج کے راج تنتر کا نقشہ ابھر آیا تھا:

راجا کے وزیر راجا کے ساتھ تھے۔ راجا کے فیصلے کو صحیح سمجھتے تھے۔ اس سے پوری طرح متفق تھے مگر جب بھی موقع ملتا راجا پیٹھ میں چھرا بھونک دیتے تھے۔ راج کا تختہ الٹد یتے تھے۔ تنخواہ راج دربار سے لیتے تھے اور کام راج دربار سے باہر کے لوگوں کا کرتے تھے۔ سپاہی شاہی خرچے سے فوجی تربیت پاتے تھے مگر موقع ملتے ہی دشمن کا ساتھ دیتے تھے۔ فوج تو فوج یہ سب تماشا تو کھیل کود اور راج کے دوسرے محکموں میں بھی دیکھنے کو ملتا تھا۔

آخر کل اور آج میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ وی۔ ان۔ رائے نے خود سے جاننا چاہا۔

اس سوال کا جواب وی۔ ان۔ رائے کے ذہن نے یہ دیا کہ کل اس لفظ کا معنی زندہ تھا مگر آج اس کا معنی مر چکا ہے، کل فرد کو آزادی نہیں تھی۔ اس لیے اس کے دائرے محدود تھے۔ وہ اپنے دائروں سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ آج فرد کو آزادی دے کر دائروں سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ جمہوریت نے اسے پوری آزادی دے رکھی ہے۔ اپنی آزادی کے استعمال میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ دوسروں کو بھی آزادی حاصل ہے اور اس کی آزادی دوسروں کی آزادی کو سلب کر سکتی ہے۔

انسان کو جب مکمل آزادی ملتی ہے تو وہ اپنے بارے میں زیادہ سوچتا ہے اور جب اپنے بارے میں زیادہ سوچتا ہے تو وہی سب کچھ سامنے آتا ہے جو دکھائی دے رہا ہے۔

آزادی حاصل ہوتے ہی یہ علم ہاتھ سے جاتا رہتا ہے کہ اس کا بے جا عمل دوسروں کو زد پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کو اس کے عمل سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہاتھ سے علم کا سرا چھوٹتے ہی جہالت کی ضلالت ابھر نے لگتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ گہری ہوتی چلی جاتی ہے اور ایک دن اتنی گاڑھی اور گہری ہو جاتی ہے کہ اس میں سب کچھ ڈوب جاتا ہے۔

صاحب آج کے دھرت راشٹر تو کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ابھی حال ہی کی ایک گھٹنا ہے۔ ایک سادھو جو گنگا جی کی اس دشا پر بہت دکھی تھا اور تن و من سے گنگا جی کی اس دشا کو دور کرنے کے ابھیان میں جٹا ہوا تھا۔ جب کسی طرح بات نہیں بنی تو وہ آمرن ان شن پر بیٹھ گیا۔ انہتر دنوں تک وہ بھوک ہڑتال پر بیٹھا رہا۔ اسپتال میں جانے کی نوبت آ گئی اور آخر میں اسے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا مگر ذمے دار آنکھوں نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ ان آنکھوں پر تو خیر کل کارخانوں سے نکلنے والی چمک کی پٹی بندھی ہوئی تھی مگر ان لوگوں نے بھی اس سادھو اور اس کے ابھیان کی کوئی خیر خبر نہیں لی جو گنگا کی شودھتا کی بات کرتے رہتے ہیں جب کہ وہیں ایک دوسرے بابا کی بھوک ہڑتال پر آناً فاناً میں لاکھوں لوگ دور دور سے دوڑ پڑے تھے اور پرشاسن بھی ڈول پڑا تھا۔

’’اس کا کارن کیا تھا؟ وی۔ ان۔ رائے نے دلچسپی دکھاتے ہوئے پوچھا:

’’اس کا رن تو میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ بابا اس سادھو کی طرح سادھارن نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے یوگ اور وی بھن پرکار کے آسنوں جن میں سر، آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں یہاں تک کہ پیٹ کے آسن بھی شامل تھے، سے پربھاوت کر کے لاکھوں لوگوں کو اپنا انوائی بنا لیا تھا اور اپنے اسی یوگ اور آسنوں کے بل پر لکشمی جی کی لڑائی میں اس نے درگا جی کو بھی شامل کر لیا تھا۔

وی۔ ان۔ رائے اپنے بڑے بھائی دھرم ناتھ رائے کے کہنے پر چلتے وقت نہانے کے کپڑوں کا ایک جوڑا بھی اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لائے تھے یہ سوچ کر کہ جب سنگم پر جا ہی رہے ہیں تو گنگا میں ایک ڈبکی بھی لگا لیں گے مگر سامنے کے منظر اور پانی کے رنگت کو دیکھ کر ڈبکی لگانے کا ان کا ارادہ سرد پڑ گیا تھا۔

’’صاحب! اب ہم اس استھان پر پہنچ گئے ہیں جسے دیکھنے دینا دیوانوں کی طرح آتی ہے۔ دور دراز کے شہر، گاؤں، جنگل، پہاڑ، گھاٹی، کپھا، گلی ایک ایک جگہ سے لوگ اپنا گھربار، کام دھام، بال بچے سب کو چھوڑ چھاڑ کر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر کے راستے کا کشٹ جھیلتے ہوئے آتے ہیں اور جس کا درشن کر کے مرن اپرانت کی چنتاؤں سے مکت ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا پوتر اور پاون استھان ہے صاحب کہ جس کا درشن کرنا ہمارے دھرم کے ایک ایک آدمی کا سپنا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ تو اپنے اس سپنے کو ساکار کیے بنا ہی اس سنسار سے سدھار جاتے ہیں۔

یہ استھان ان کو بھی اپنی طرف آ کرشت کرتا ہے جو اس میں آستھا نہیں رکھتے۔ کالے تو کالے ہزاروں کی تعداد میں گورے بھی یہاں آتے ہیں اور اپنے رنگ و روپ کو بھلا کر یہاں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ یہاں کی مٹی میں سن جاتے ہیں۔ کچھ تو طرح طرح کی لیلائیں بھی رچاتے ہیں ‘‘۔

لیلا کا نام سنتے ہی وی۔ ان۔ رائے کی آنکھوں میں ایک تصویر ابھر آئی۔ یہ تصویر الہ آباد سے نکلنے والی ایک ہندی میگزین میں چھپی تھی۔ یہ تصویر ایک بدیسی گوری جوان چھریرے بدن اور تیکھے ناک نقش والی خوبصورت لڑکی کی تصویر تھی۔ لڑکی سر سے پا تک مادر زاد ننگی تھی۔ لباس کی جگہ اس نے اپنے پورے جسم پر مٹی کا لیپ چڑھا رکھا تھا۔ بظاہر اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ ننگی نہیں ہے بلکہ اس نے ایک نئے انداز کا لباس پہن رکھا ہے اور اس کے ایک ایک انگ پر مٹی کا بستر چڑھا ہوا ہے اور وہ کہیں سے بھی ننگی نہیں ہے لیکن مٹی کے لیپ نے خشک ہو کر اس کے جسم کو اتنا کس دیا تھا کہ ایک ایک انگ کمان کی طرح تن گیا تھا اور ہر ایک کمان سے تیر چھوٹ رہا تھا۔

تصویر کو دیکھنے کے لیے اس کی جانب لوگوں کا ہجوم امنڈ پڑا تھا۔ سادھو سنتوں کی نگاہیں بھی اسے تاک رہی تھیں۔ گنگا کی طرف جاتے ہوئے لوگ بھی اسے مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔

تصویر کے ساتھ ساتھ یہ سب مناظر بھی کیمرے کے فوکس میں آ گئے تھے۔ تصویر کے ساتھ اس میگزین میں اڈیٹر کا ایک نوٹ بھی چھپا تھا جس میں لکھا تھا:

سنگم کے کنارے گڑے کسی خیمے سے نکل کر یہ لڑکی کھلے آسمان کے نیچے ریت کے میدان میں یکایک یوں آ کھڑی ہوئی جیسے دھرتی کے اندر سے کوئی دیوی پرکٹ ہو گئی ہو یا آسمان سے کوئی اپسرا اتر آئی ہو۔ اس انوکھے لباس والی لڑکی پر نظر پڑتے ہی میڈیا اور پریس والے کمبھ کے اوسر پر ہونے والے پروچنوں اور دوسرے پروگراموں کا کوریج چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ پڑے تھے بلکہ جھپٹ پڑے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آسمان سے اتری یہ انوکھی مخلوق ان کے پہنچنے سے پہلے ہی اڑ جائے۔ یا پھر سے پتال میں چلی جائے۔ بھکتوں اور شردھالوؤں سے بھرے سادھو سنتوں اور رشی مینوں کے خیمے ایک دم سے اجڑ گئے تھے جیسے سنگم کی دھرتی پر بھوکمپ آ گیا ہو۔ بھجن کرتن سنانے والے لاؤڈ اسپیکر گلا پھاڑ کر چلا رہے تھے مگر سننے والا کوئی موجود نہ تھا۔ سب سرک کر لڑکی کے پاس چلے آئے تھے۔

سادھو سنت اور دھرم کرم والے بھی اسے کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ آنکھیں اس کے شریر میں اس طرح گڑی ہوئی تھیں جیسے وہ اسے نوچ کھائیں گی۔ البتہ یہاں کی زیادہ تر عورتوں کی نگاہیں اسے دیکھتے ہی جھک جاتی تھیں۔ ۔ .

اڈیٹر کے اس نوٹ میں اور بھی بہت کچھ لکھا تھا مگر وی۔ ان۔ رائے کی نگاہیں یہ ڈھونڈنے میں لگی ہوئی تھیں کہ اس لڑکی کے اس ننگے پن کے خلاف کس سنگھ نے احتجاج کیا؟ کس منڈلی نے اپنا ورودھ پرکٹ کیا؟ کس جتھے نے جلوس نکالا؟ کس سنت نے بھاشن دیا ؟ کس کس نے برا مانا؟ کس کس نے برا بھلا کہا؟ کس رپورٹر نے اُس سے یہ سوال کیا کہ وہ بستر ہین کیوں ہے ؟ کیوں وہ سرعام، وہ بھی اس پوتر استھل پر اپنے ننگے جسم کی نمائش کر رہی ہے ؟ اس انگ پر درشنی کا منشا کیا ہے ؟ اس نے اپنا لوک لاج کیوں تیاگ رکھا ہے ؟

مگر اس پورے نوٹ میں کہیں بھی یہ باتیں وی۔ ان۔ رائے کو نہیں ملیں۔ لڑکی کا عریاں بدن وی۔ ان۔ رائے کے ذہن سے بھی چپک گیا تھا مگر وہ اسے نوچنا نہیں کریدنا چاہ رہے تھے۔ وہ جاننا چاہ رہے تھے کہ اس عریانیت کے پیچھے کیا ہے ؟ اس انگ پر درشنی کا سبب کیا ہے ؟ جسم کو کپڑے کے بجائے مٹی کے لیپ سے کیوں ڈھانپا گیا؟ مٹی کی اس باریک پرت کی کیا ضرورت پڑی؟ جسم کو ننگا ہی کرنا تھا تو اسے یوں ہی کیوں نہیں چھوڑ دیا گیا؟

کیا وہ لڑکی یہ دکھانا چاہتی تھی کہ وہ آزاد خیال ہے ؟ وہ ایک ایسی تہذیب کی پروردہ ہے جہاں فرد پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ کوئی بندھن نہیں ہے۔ اسے ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنے اوپر شرم و حیا کی چادر پسند نہیں کرتی؟ اسے مردوں سے ڈر نہیں لگتا؟

یا کیا وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ

جسم قدرت کا ایک عطیہ ہے۔ یہ عطیہ چھپانے کے لیے نہیں بلکہ دکھانے کے لیے ہوتا ہے اور لوگ جسم کو جو کہ حسن کا خزانہ ہے، دیکھنا بھی خوب چاہتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں کہ قدرت کے اس انمول خزانے پر کوئی سانپ بٹھا دے تاکہ اس تک کوئی پہنچے نہیں، اسے دیکھے نہیں، اسے چھوئے نہیں، اسے بھو گے نہیں۔

یا کہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ

وہ ایک ترقی یافتہ تہذیب اور زیادہ مہذب معاشرے کی فرد ہے جہاں پردے کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ جسم پر کمبل لپیٹ دیا جائے۔ پردہ مٹی کی ایک لیئر کا بھی ہو سکتا ہے۔ پردہ صرف یہ احساس دلانے کے لیے ہوتا ہے کہ کچھ چھپانا ہے۔ اس لیے نہیں ہوتا کہ بہت کچھ مٹا دینا ہے۔

یا کیا وہ یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ اس کی ترقی یافتہ تہذیب انسانی جبلت کو سب سے زیادہ سمجھتی ہے۔

اسی لیے وہ کسی بھی خواہش پر انکش نہیں لگاتی۔ اس کے انعکاس اور اظہار میں روڑا نہیں اٹکاتی۔

اس لیے وہ ہر ایک خواہش کا احترام کرتی ہے۔ اسے تکمیل کا موقع دیتی ہے۔

اور اس باریک نکتے کو ہم جیسے ترقی یافتہ تہذیب والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کیا واقعی یہ لڑکی کسی ترقی یافتہ تہذیب کی پروردہ ہے ؟

کیا ترقی یافتہ تہذیب یہ ہے کہ جسم سے کپڑے اتارنے میں شرم نہ آئے ؟

کیا ترقی یافتہ تہذیب یہ ہے کہ شان اور فخر سے اپنے ننگے بدن کی نمائش کی جائے ؟

کیا ترقی یافتہ تہذیب یہ ہے کہ عورت کے گپتانگ پر مرد کی نظر پڑے تو عورت کے جسم میں کوئی ہلچل نہ ہو؟ کہیں کوئی اینٹھن نہ ہو؟ اس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی لکیر نہ ابھرے ؟ آنکھوں میں کوئی رنگ نہ آئے ؟

کیا مہذّب عورت وہ ہے جسے دیکھ کر اس کی ہم ذات کی آنکھیں شرم سے جھک جائیں ؟

کیا مہذب عورت وہ ہے جسے دیکھتے ہی مرد چیل، گدھ اور کتّا بن جائے ؟

کیا ترقی یافتہ تہذیب وہ تہذیب ہے جو یہ بھول بیٹھی ہے کہ خواہشوں کا کوئی انت نہیں ہوتا۔

خواہش تو یہ بھی ہوتی ہے کہ

آگ سے جو سرخ شعلے بلند ہوتے ہیں انھیں ہاتھ میں پکڑ لیا جائے۔

دریا میں لہریں لیتے ہوئے جو گرداب اٹھتے ہیں ان میں کود جایا جائے

سمندر میں جو مد و جزر اٹھتے ہیں ان کے ساتھ جھولا جھولا جائے۔

چمکیلی جلد اور پرکشش رنگوں والے سانپ کو گلے میں لپیٹ لیا جائے۔

ایسی خواہش رکھنے والوں کو ان سے باز رکھنے کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ

سرخ شعلے ہاتھ جلا دیتے ہیں

گرداب دبوچ کر اپنے اندر رکھ لیتے ہیں /

مد و جزر جھولا جھلا جھلا کر بے دم کر دیتے ہیں

پرکشش رنگوں والے سانپ ڈس لیتے ہیں

کیا یہ علم کا عروج ہے جس نے اِس تہذیب کو جنم دیا ہے ؟

اگر عورت کا یہ روپ ترقی یافتہ تہذیب، مہذب معاشرہ اور عروجِ علم کی دین ہے تو چھتیس گڑھ، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے ان علاقوں جہاں علم کی روشنی نہیں پہنچ پائی ہے، کی آدی واسی عورتیں جو مردوں کے ساتھ گندے نالوں کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک ساتھ ننگی نہاتی ہیں اور ان کے کھلے ہوئے انگوں کا کسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کس تہذیب کی دین کہلائیں گی؟

’’صاحب! یہ دیکھیے دو ندیوں کا ملن:

ایک طرف سے گنگا جی آ رہی ہیں۔ ۔ .

اور دوسری اور سے جمنا جی۔ ۔ .

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں میگزین کی تصویر سے ہٹ کر سنگم کی طرف مرکوز ہو گئیں۔

’’دونوں کا رنگ الگ الگ دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مل بھی رہی ہیں اور مل کر ایک دوسرے میں مل جانے کے بجائے ایک دوسرے سے الگ بھی رہ رہی ہیں۔ اسی ادبھوت ملن کو سنگم کہتے ہیں۔ ‘‘

وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں اس ملن کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ واقعی کمال کا ملن تھا! دونوں ندیاں ایک دوسرے میں پیوست تھیں مگر دونوں صاف صاف، واضح طور پر ایک دوسرے سے جدا اور منفرد دکھائی دے رہی تھیں۔

کوئی کسی کے دائرے میں گھسنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔ دونوں کا پانی اتنا نمایاں طور پر الگ الگ دکھائی دے رہا تھا جیسے دونوں کے درمیان کوئی باریک سی دیوار کھنچ دی گئی ہو مگر حقیقت تو یہ تھی کہ دونوں کے درمیان کوئی دیوار نہ تھی۔ بغیر کسی دیوار یا خطِ فاصل کے دو چیزوں کا یوں ایک ساتھ رہنا، دور تک چلنا اور صدیوں سے چلتے چلے آنا بڑا ہی مشکل کام ہے بلکہ یہ ناممکن سا لگتا ہے مگر یہ ناممکن کام ہو رہا ہے۔ قدرت نے یہ کرشمہ کر دکھایا ہے۔ یہ کوئی معمولی ملن نہیں ہے ! واقعی یہ ایک ادبھوت، نادر اور حیرت انگیز ملن ہے۔

’’آخر ایسا ممکن کیوں کر ہوا ہے ؟ وی۔ ان۔ رائے کے اندر سے سوال اچھلا۔

اس سوال نے وی۔ ان۔ رائے کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

شاید یہ ان دونوں پانیوں کے اپنے اپنے وزن اور اپنے اپنے وصف کا کمال ہے۔ ان کے وجود کو ان کے وزن اور ان کے رنگ نے قائم کر رکھا ہے۔ اگر ان کا اپنا جداگانہ وزن نہیں ہوتا، اگر ان کا رنگ ان کا اپنا نہیں ہوتا تو ممکن ہے یہ کہیں نہ کہیں جا کر ایک دوسرے میں مد غم ہو جاتیں۔ اس طرح دونوں کے وجود خطرے میں پڑ جاتے اور یہ انوکھا وصال کبھی دیکھنے کو نہیں ملتا جو نہ جانے کہاں کہاں سے لوگوں کو کھینچ کر اپنے پاس لاتا ہے اور حیرت میں ڈالنے والا ایک خوبصورت سا منظر آنکھوں میں بھر دیتا ہے۔

یہ ملاپ، دیکھنے والے کو اس کے اپنے وزن کا بھی احساس دلاتا ہے اور یہ سبق بھی دیتا ہے کہ الگ رہ کر بھی کیسے ایک دوسرے کو چھیڑے اور ڈسٹرب کیے بغیر مل جل کر رہا جاتا ہے۔

مگر اس سوچ کے ساتھ ہی وی۔ ان۔ رائے کے سامنے بہت سی سرحدیں کھنچ گئیں :

سرحدوں کے ادھر اور ادھر دونوں طرف کی زمینیں گنگا جمنا کی طرح ساتھ ساتھ چلنا نہیں چاہتیں۔ وہ تو یہ چاہتی ہیں کہ اپنی حد سے آگے بڑھ کر اپنا دائرہ بڑھا لیں۔ ان کی خواہش تو یہ بھی ہوتی ہے کہ دوسرے کو پورا کا پورا ہڑپ لیں۔ اس کے وجود کا نام و نشان مٹا دیں۔ وہ صرف چاہتی ہی نہیں ایسا کرتی بھی ہیں۔ ایسا کرنے سے شاید انھیں اپنے پھیلنے کا احساس ہوتا ہے مگر وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ جدھر گھُس پیٹھ کرتی ہیں، ادھر بھی ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔ کچھ چھن جانے کا احساس۔ اور یہ اعتماد شکن اور جاں گسل احساس اس نے ابھارا ہے جو برسوں ساتھ رہا ہے۔ ساتھ ساتھ چلا ہے۔ اپنا کچھ چھن جانے کا یہ احساس چھیننے والے کو غاصب بنا کر پیش کرتا ہے اور اس کے تئیں چھینے جانے والے کے دل میں نفرت پیدا کرتا ہے اور یہ نفرت، نفرت کی حد تک نہیں رہتی۔ آگے بڑھتی ہے۔ پھیلتی ہے اور پھیل کر پہلے عداوت بنتی ہے، پھر جنگ و جدال اور غارت گری کا روپ لے لیتی ہے۔

کاش یہ سنگم ہماری سرحدوں پر بھی پہنچ جاتا اور ہر ایک سرحد سے ہو کر یہ دونوں ندیاں گزرتیں اور اپنے وزن اور رنگ کا ایک ایک کو احساس دلاتیں :

وی۔ ان۔ رائے ! یہ سنگم سرحدوں پر پہنچ جاتا تو بھی کیا ہوتا؟ یہاں یہ ہے تو کیا ہو رہا ہے ؟ کتنے لوگ اس سے سبق لے رہے ہیں ؟ کتنوں کو یہ ان کے وزن اور رنگ کا احساس دلا رہا ہے ؟ کتنوں کے ساتھ ساتھ چلنے پر اکسا رہا ہے ؟ کتنوں کو میل ملاپ اور ہم آہنگی کے معنی سمجھا رہا ہے ؟

جناب! صرف سنگم کا ہونا کافی نہیں ہے۔ سنگم کو دیکھنے والی آنکھ اور اس کو محسوس کرنے والے دل کی بھی ضرورت ہے مگر ایسی آنکھیں اور ایسے دل کہاں سے آئیں گے ؟ انھیں کون خلق کرے گا؟ کون بنائے گا؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کے اندر بیٹھا کوئی اور وی۔ ان۔ رائے ان سے سوال کرنے لگا۔

اپنے اندر بیٹھے ایک اور وی۔ ان۔ رائے کے سوالوں پر وی۔ ان۔ رائے نے جب غور کرنا شروع کیا تو ان کی آنکھوں کے سامنے ایک بہت بڑی عمارت کے گیٹ کے اوپر نسب، ایک بہت بڑا بورڈ ابھر آیا۔ اتنا بڑا بورڈ جتنا کہ نئی ریلیز ہوئی فلموں کے پوسٹر چپکانے کے لیے سنیما گھروں کے آگے یا شہر کے چوراہوں پر اسٹیل کے کھمبوں کے سہارے لگا ہوتا ہے۔

بورڈ پر بڑے بڑے اکشروں میں لکھا تھا۔

سرسوتی نیکیتن

اور اس کے نیچے طرح طرح کے رنگوں میں درج تھا:

* کم سمے میں بڑی کامیابی

* پاس ہوتے ہی پلیس مینٹ

* چنتاؤں سے مکتی

* جٹل سمسیاؤں کا سمادھان

* سکھ، شانتی اور سمردھی سے بھرا سکھد جیون

* ان ہونی کا ہونی روپ

اور

* سرخ روئی والا رنگ

پانے کے لیے

بی۔ بی۔ اے، ایم۔ بی۔ اے، ایم۔ سی۔ اے، بی۔ سی۔ اے،

ایچ۔ ایم۔ سی، ایف۔ ڈی۔ سی۔ آئی۔ ڈی۔ سی، جے۔ ڈی۔ سی،

ایم۔ آئی۔ بی۔

بی ٹیک، ایم ٹیک

اور ایسے ہی بہت سے کورسیز

اڈمیشن اوپین

سیٹیں لمیٹڈ

سمے کم

ہری اپ

تفصیلات ویب سائٹ www.sarsawatiniketanorg  پر

بورڈ کی تحریر کو پڑھتے ہی آنکھوں پر ایک اشتہار چپک گیا:

* ہر بیماری کا شرطیہ علاج

* ایک گولی میں مسّہ غائب

* کوئی بھی درد گولی کھاتے ہی اڑن چھوٗ

* گئی ہوئی مردانگی واپس

* چھاتی کے بھاری پن سے نجات

* پیٹ کا مروڑ، آنتوں کی اینٹھن، سینے کی جلن، آنکھوں کی چبھن،

کان کا بہرہ پن، جسم کا سونا پن، آنکھ کا اندھا پن

سب کے سب دور

آج ہی رجوع کیجیے :

حکیم اکمل خان

حکیم کا سرائے

حکمت پور

لقمان گڑھ

ہندوستان

صرف یہی نہیں بلکہ وی۔ ان۔ رائے کہ شہر میں ایسے کئی سارے بورڈ بڑی بڑی عمارتوں کے سامنے اونچے اونچے کھمبوں کے سہارے نسب تھے مگر شہر میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں تھا جس کے بورڈ پر لکھا ہو:

آنسو کو موتی، زخم کو پھول، آتش کو آب بنانے

دھوپ میں چھاؤں لانے

اپنی تکلیف میں ہنسنے اور دوسرے کے درد میں رونے

بوریا پہ گہری نیند سونے

آگ پہ چلنے

اور نہ جلنے کی ترکیب جاننے کے لیے

او ریہ بھی جاننے کے لیے

کہ سانپ، سانپ بھی ہے اور مچھلی بھی

دوست، دوست بھی ہے اور دشمن بھی

زمین، زمین بھی ہے اور آسمان بھی

دکھ، دکھ بھی ہے اور سکھ بھی

سفر صعوبتوں کا سلسلہ بھی ہے

اور کامیابیوں کا وسیلہ بھی

اور اس کے لیے بھی

کہ صبر کا پھل میٹھا کیسے ہوتا ہے ؟

ماں کے قدموں میں جنّت کیسے ملتی ہے ؟

دشمن دوست کیسے بنتا ہے ؟

معاف کر دینے کا مزا کیا ہے ؟

کسی کے کام آنے سے کیا ملتا ہے ؟

روتے ہوئے بچّے کو ہنسانا کیسا لگتا ہے ؟

تشریف لائیے

داخلہ جاری

سیٹیں محدود

وقت کم

تفصیلات ویب سائٹ www.darsghedonoamal.rog پر

ہاں، ایک کونے میں ایک مدرسہ تھا بھی، تو اس کی جدید کاری کی بات چل رہی تھی اور اس کے اس Modernization کے عمل میں سرکار کے ساتھ اس مدرسے کے مدرسین اور انتظامیہ میں موجود علمائے دین اور شہر کے معززین بھی مستعدی سے جٹے ہوئے تھے۔

مدرسے کا خیال آتے ہی وی۔ ان۔ رائے کو ہارون رشید یاد آ گیا۔ ہارون رشید ان کے محلے کے ایک بزرگ حافظ مامون رشید کا بیٹا تھا۔ ایک مدرسے سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی قصبے کی مسجد میں امامت کرنے لگا تھا۔

کسی نے مشورہ دیا کہ وہ پرائیوٹ سے بی۔ اے کر لے اور ساتھ میں ٹائپنگ بھی سیکھ لے۔ چنانچہ اس نے بی۔ اے کی تیاری شروع کرد ی۔ ساتھ میں ٹائپنگ بھی سیکھتا رہا۔

بی۔ اے کا امتحان پاس کرتے ہی اسے ایک آفس میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ کلرکی کے دوران اس نے وہ کام بھی سیکھ لیا جو دفتر کا ماحول سکھاتا ہے اور پھر وہ، وہ سب کچھ کرنے لگا جو عام طور پر دفتروں میں بابو لوگ کرتے ہیں۔ اپنے اس کام اور اپنے مذہبی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے ہارون رشید کافی چرچے میں بھی رہا۔

ایک دن وہ وی۔ ان۔ رائے کو راستے میں مل گیا۔ وی۔ ان۔ رائے نے اسے روک کر پوچھا:

’’تم نے اتنا بڑا اور اہم کام چھوڑ کر کلرکی کر لی؟ اور وہ بھی ایسی کلرکی؟ یہ اچھا نہیں کیا! تم نے ایسا کیوں کیا؟

وی۔ ان۔ رائے کا سوال سن کر اس نے جواب دیا:

’’آپ جس بڑے اور اہم کام کی بات کر رہے ہیں اس سے مجھے تنگ دستی اور ذلّت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘

’’کیوں ؟ کیا تنخواہ نہیں ملتی تھی؟‘‘

تنخواہ کے نام پہ دو وقت کا کھانا ملتا تھا۔ وہ بھی گھر گھر جا کر کھانا پڑتا تھا۔ جیسے بھیک مانگ کر کھا رہے ہوں۔

’’اور پیسے ؟‘‘

’’تھوڑے بہت پیسے بھی ملتے تھے۔ وہ بھی وقت پر نہیں۔ اس کے لیے محلے میں چندہ ہوتا تھا۔ وہ چندہ بھی مجھے ہی وصولنا پڑتا تھا اور اس کے لیے دروازے دروازے جانا پڑتا تھا۔ جیسے امام نہ ہوں، بھکاری ہوں۔ کچھ لوگ دیتے تھے کچھ لوگ دوسرے مہینے پر ٹال دیتے تھے۔ اور وہ رقم اتنی کم تھی کہ اس سے خود میری ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو پاتی تھیں۔ پیسے کی قلّت کی وجہ سے میری شادی بھی رکی ہوئی تھی۔

بھائی جان! آپ جسے بڑا کام سمجھ رہے ہیں اگر یہ اتنا ہی بڑا کام ہوتا تو متولی صاحب مجھ سے اپنے گھر کے لیے روز ڈیری فارم سے دودھ نہیں منگواتے۔ مسجد کے صحن میں مجھ سے جھاڑو نہیں لگواتے۔ محلے کے لوگ میرے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتے جس طرح عام طور پر میرے ساتھ پیش آتے تھے۔

’’پیسے کم ملتے تھے تو ٹیوشن کر لیتے۔ ‘‘

’’کرتا تھا، ٹیوشن بھی کرتا تھا۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کے بچوں کو قرآن پڑھاتا تھا مگر اس سے بھی کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا تھا۔

’’کیوں ؟‘‘

’’بھائی جان! قرآن کوئی سائنس یا حساب تو ہے نہیں کہ اس کے لیے لوگ اپنی تجوری کے منہ کھول دیں گے۔ لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ کلامِ الٰہی انھیں مفت میں مل جائے۔ قرآن پڑھانے والوں کو بہت کم فیس دیتے ہیں اور ٹیوشن فیس کے نام پر جو کچھ دیتے ہیں اسے بھی اپنا احسان سمجھتے ہیں۔ ‘‘

’’اب تو پیسوں کی تنگی نہیں رہتی ؟‘‘

’’نہیں، خدا کا شکر ہے، اب تو گرہستی کی گاڑی کافی مزے میں چل رہی ہے۔ کسی بات کا ٹینشن نہیں ہے۔ ‘‘

’’شادی ہو گئی یا نہیں ؟‘‘

آپ کی دعا اور خدا کے فضل سے ہو گئی۔ ‘‘

’’قرآن یاد ہے یا بھول گئے۔ ‘‘

’’بھولا تو نہیں ہوں البتہ دوہرانے کا وقت نہیں ملتا۔ اس لیے کہیں کہیں پر دقّت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’دفتری کام انگریزی میں کرتے ہو یا ہندی میں ؟

’’دونوں میں ‘‘

’’انگریزی تو آ گئی ہو گی؟‘‘

’’جی، کام چلانے بھر‘‘

’’اور اردو کا کیا حال ہے ؟‘‘

’’اس کے استعمال کا اب موقع ہی نہیں ملتا ‘‘

حافظ ہارون رشید سے گفتگو کے دوران وی۔ ان۔ رائے کو ایک بادشاہ بھی یاد آ گیا تھا جس کا نام بھی اتّفاق سے ہارون الرشید تھا۔ بادشاہ ہارون الرشید اپنے خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا تھا۔ اپنی گزر بسر کے لیے اپنے ہاتھوں سے ٹوپیاں بنا کر بازار میں بیچا کرتا تھا اور نہایت قلیل آمدنی میں بھی خوش رہا کرتا تھا۔

حافظ ہارون رشید سے بات کرتے وقت وی۔ ان۔ رائے کو قرآن کی ایک آیت کا مفہوم بھی بار بار یاد آ جاتا تھا جسے انھیں علی گڑھ کے ایک مسلم دوست نے کسی موقع پر بتایا تھا اور وہ مفہوم یہ تھا کہ

’’نماز تمام برائیوں کو روک دیتی ہے ‘‘

اس مفہوم کے یاد آنے پر وی۔ ان۔ رائے نے حافظ مامون کے صاحب زادے حافظ ہارون رشید سے پوچھا تھا۔

’’ہارون رشید! تم بچوں کو قرآن کا مفہوم سمجھاتے تھے ؟‘‘

ہارون رشید نے ان کے اس سوال کا یہ جواب دیا تھا۔

’’نہیں، میں انھیں ناظرہ پڑھاتا تھا۔

مدرسہ اور اردو کے خیال سے ان کے ذہن میں ایک اور واقعہ بھی ابھر آیا۔

جب وہ اے۔ ایم۔ یو میں پڑھتے تھے اور شعبۂ فلسفہ کے ایم۔ اے سال اول میں تھے تو ایک دن ایک پمفلٹ ان کی نظر سے گزرا۔ وہ پمفلٹ یونی ورسٹی کے ایک ڈپارٹمنٹ اور ہاسٹل کے ایک ایک روم میں پہنچا تھا۔ اس میں لکھا تھا:

مسلمانوں سے اپیل!

برادرانِ ملت! آپ مانیں یا مانیں مگر سچ یہی ہے کہ آپ کی پسماندگی کا سبب آپ کی زبان ہے جسے آپ اپنے سینے سے لگائے رہتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی پسماندگی دور ہو، آپ افلاس کی دلدل سے باہر نکلیں، آپ کو معاشرتی ذلتوں سے نجات ملے، آپ آگے بڑھیں، ترقی کی منزلیں طے کریں، دوسری قوموں کی صف میں نظر آئیں تو آپ کو اپنی زبان سے پیچھا چڑھانا ہو گا۔ اُردو کے سحر سے نکلنا ہو گا جس نے کسی جادوگرنی کی طرح آپ پر جادو کر کے آپ کو ایک چہار دیواری میں قید کر دیا ہے اور اس تنگ و تاریک تعفن سے پُر چہار دیواری میں آپ کے دل اور دماغ دونوں بیمار اور بے جان ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس نے دوسروں کو بھی آپ کا دشمن بنا دیا ہے۔

میں اردو کا دشمن نہیں ہوں، مگر میں آپ کا غم خوار زیادہ ہوں۔ آپ کے دکھوں کو دور کرنا چاہتا ہوں۔ دوسری قوموں کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی آگے بڑھتے دیکھنا چاہتا ہوں اور آپ کا دکھ اسی وقت دور ہو گا اور آپ اسی وقت آگے بڑھ سکیں گے جب آپ اپنے راستے کے اس روڑے کو ہٹا دیں گے۔

امید ہے میری اس اپیل پر آپ سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔

غمخوار

پروفیسر زیدی

اس پمفلٹ پر کچھ لوگوں نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ اس کے خلاف ایک جلسہ بھی ہوا تھا۔ اس جلسے میں اردو کے ایک پروفیسر قاضی افضال حسین نے اپنی برہمی اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا:

ہمارے محترم زیدی صاحب کیسے پروفیسر ہیں کہ یہ تک نہیں جانتے کہ زبانیں دل و دماغ کی بیڑی نہیں بنتیں بلکہ انھیں آزادی دلاتی ہیں اور اردو زبان تو اس کام میں سب سے آگے رہی ہے۔ اس نے تو اس ملک کے پیروں سے غلامی کی بیڑیاں تک کاٹنے میں اپنا اہم کردار نبھایا ہے۔ پروفیسر صاحب کو اگر یہ بات نہیں معلوم تو انھیں پرائمری درجے کی کوئی کتاب پڑھ لینی چاہیے، اس سے بھی یہ بات معلوم ہو جائے گی۔ پروفیسر صاحب کو یہ بھی پڑھنا چاہیے کہ زبان میں ادب ہوتا ہے۔ ادب جس سے دل کھلتا ہے۔ دماغ روشن ہوتا ہے۔ روح تر و تازہ ہوتی ہے۔ احساس شدّت پکڑتا ہے اور جذبے متحرّک ہوتے ہیں اور یہ اوصاف اردو کے شعر و ادب میں کچھ زیادہ ہی ہیں۔ کاش پروفیسر صاحب کی نظر سے بندہ گیسو دراز، بابا نانک، امیر خسرو، میر، نظیر، غالب، اقبال، انیس وغیرہ کی تحریریں گزری ہوتیں اور غالب اور اقبال کے یہ شعر ؂

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم

ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز

جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

 

ان کی سماعت میں پڑے ہوتے یا اردو کا یہ ادنی سا شعر ؂

پیٹ کی بھوک مٹ گئے پر بھی روح کی تازگی ضروری ہے

صرف گیہوں رہے گلاب نہ ہو تو بھی یہ زندگی ادھوری ہے

ہی ان کے کانوں میں گونجا ہوتا

قاضی افضال حسین نے اور بہت سے حوالے دیے جن کا لب لباب یہ تھا کہ اردو پڑھنے سے منع کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس زبان اور اس کے ادب میں وہ وہ گوہرِ نایاب پنہاں ہیں کہ جنھیں پا لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ مادی ترقی کی دوڑ میں آگے نکلا جا سکتا ہے بلکہ روحانی منزلوں کو بھی آسانی سے طے کیا جا سکتا ہے۔ جسے طے کرنا موجودہ حالات میں شاید سب سے زیادہ ضروری ہے۔

پروفیسر قاضی افضال حسین کے اس رد عمل پر تالیاں تو خوب بجیں۔ بعض لوگوں نے ان کی ہمنوائی بھی کی مگر دیکھا یہ گیا کہ عمل پروفیسر زیدی کی اپیل پر ہوا۔ اردو پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ کچھ اسکولوں سے یہ سبجکٹ بھی غائب ہو گیا اور پروفیسر زیدی کی اس مہم میں کچھ لوگ اندر سے اور کچھ باہر سے شامل بھی ہوتے گئے۔

مگر قاضی افضال حسین کے دل و دماغ میں اردو ہمیشہ بسی رہی۔ اردو کا نور ان کی آنکھوں سے جھانکتا رہا۔ اردو کا رنگ ان کے چہرے پر کھلتا رہا ہے اور اردو کا آہنگ ان کے لبوں سے پھوٹتا رہا۔

’’صاحب! ہے نا یہ ادبھوت ملن؟‘‘

’’ہاں، ہے ‘‘۔ خیالوں میں دور تک گئے وی۔ ان۔ رائے، واپس آ گئے۔ نگاہیں پھر سے سنگم پر مرکوز ہو گئیں۔

گنگا اور جمنا دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئی تھیں۔ دونوں کے درمیان کوئی دوری نہیں تھی۔ بال برابر بھی فرق نہیں تھا مگر دونوں کے پانی کا اپنا اپنا رنگ اپنا جلوہ دکھا رہا تھا۔

دونوں پانیوں کی منفرد رنگت اور دونوں کی قربت نے وی۔ ان۔ رائے کو ایک بار پھر دور بھیج دیا:

وی۔ ان۔ رائے اپنے پتا جسونت رائے کے ہمراہ عید ملنے اپنے پڑوسی تنویر علی کے گھر پہنچے ہوئے تھے۔ تنویر علی نماز پڑھ کر عیدگاہ سے ابھی ابھی لوٹے تھے۔ وہ سفید لکھنوی کرتا اور چار خانے کی لنگی پہنے ہوئے تھے۔ ان کے سر پر سفید رنگ کی گول ٹوپی تھی۔ انھیں دیکھتے ہی جسونت رائے کھڑے ہو گئے تھے۔ جسونت رائے دھوتی کرتے میں ملبوس تھے۔ ان کا سر خالی تھا۔

دونوں آگے بڑھے تھے اور ایک دوسرے سے لپٹ گئے تھے۔ دونوں کی بانہوں نے ایک دوسرے کو اپنی آغوش میں بھر لیا تھا۔ دونوں کی چھاتی ایک دوسرے سے مل گئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے تھے کہ دونوں کے درمیان ہوا کا گزر بھی ناممکن ہو گیا تھا۔

وی۔ ان۔ رائے اپنے پتا کے ساتھ شہد و شکر سے بنی سوئیاں کھا کر آگے بڑھ گئے تھے۔ کچھ فاصلہ طے کرنے پر ایک اور گھر آ گیا تھا۔

اس گھر میں چار خانے کی لنگی، سفید لکھنوی کرتا اور گول ٹوپی والے تنویر علی تشریف فرما تھے۔ ان کی پیشانی پر پڑے سیاہ گٹھے کے پاس لال گلال آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سامنے بیٹھے جسونت رائے کی آنکھیں اس پیشانی کو دیکھ کر گلنار ہو رہی تھیں۔ اور ان کے چہرے سے سرخ شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔

دونوں گھروں کا یہ نقشہ اس زمانے کا تھا جب وہ عمارت گری نہیں تھی جس کے گرتے ہی آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے قہقہے پھوٹ پڑے تھے اور ان آنسو اور قہقہوں نے دو چھاتیوں کے درمیان کانٹے دار باڑ کھڑی کر دی تھی۔

’’صاحب! یہ ملن مجھے اتنا اچھا لگتا ہے کہ کبھی کبھی تو میں بنا کسی یاتری کے ہی آ جاتا ہوں۔ یہ نہیں سوچتا کہ میرا سیکڑوں کا نقصان ہو رہا ہے مگر میں یہاں اس لیے نہیں آتا جس کے لیے ان یاتریوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ لوگ تو بس ڈبکی لگانے اور اپنا پاپ دھونے کے لیے آتے ہیں۔ یا پھر تفریح اور سیر سپاٹے کے لیے آتے ہیں اور کچھ لوگ موج مستی اور مزا لوٹنے کی غرض سے آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سنکھیا ادھیک ہوتی ہے جن کی نظریں بھیگے بستر والے بدنوں سے چپکی رہتی ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی آنکھیں گنگا جی اور جمنا جی کے بیچ ہونے والے سنگم پر دیر تک ٹکی رہتی ہیں۔ میری آنکھیں تو وہ درشیہ دیکھنے آتی ہیں جن سے میری درشٹی بڑھتی ہے۔ آتما اجول ہوتی ہے۔ یہ دونوں ندیاں اپنی جگہ پر بنا کسی آدھار کے مضبوطی سے جمی ہوئی ہیں۔ ایسے تو پہاڑ بھی نہیں جم پاتے۔ پہاڑ تو ٹوٹ پھوٹ بھی جاتے ہیں اور ادھر ادھر کھسک بھی جاتے ہیں پرنتو یہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ کچھ لوگ ان کو الگ کرنے کی کوشش میں بار بار ان کے ملن استھان پر کودتے ہیں اور کبھی کبھی ان پر لاٹھی بھی برساتے ہیں مگر یہ اپنی جگہ سے ذرا بھی نہیں ہٹتیں، نہ ان کی جگہ بدلتی ہے، نہ ہی ان کا روپ رنگ بدلتا ہے۔

ان کو کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ نہ ہی ان کو کوئی ڈر بھے ہے۔ یہ اپنی دھن میں نرنتر بہتی چلی جاتی ہیں۔ نہ جانے کب سے یہ ایک ساتھ بہتی آ رہی ہیں اور کب تک یوں ہی بہتی رہیں گی۔ ایک ہم لوگ ہیں کہ کوئی ہم سے ذرا سا بھی الگ دکھائی دیتا ہے تو اسے اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے یا خود ہی اس سے اپنے کو الگ کر لیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو ہمیں دوسرے سے اتنی گھن آتی ہے کہ صرف اس سے چھو جانے پر اپنے شریر کے اوپر گنگا جل چھڑکنا ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ بھید بھاؤ تو اس سنگم پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے صاحب! ایک دن کی بات ہے میری ناؤ پر الگ الگ کچھ لوگ سوار ہوئے۔ سواریاں پوری ہو گئیں تو میں نے ناؤ کی رسّی کھول دی۔ ناؤ کنارے سے کچھ دور نکل آئی۔

اچانک کچھ لوگ اپنی جگہ سے اٹھ کر ہڑبڑاتے ہوئے میرے پاس آئے اور میرے کان سے اپنا منہ سٹا کر ایک آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ اسے چھوت کی بیماری ہے۔ میں اسے ناؤ سے اتار دوں۔

میں نے انھیں سمجھایا کہ یہ اچت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس آدمی نے بھی کرایہ دیا ہے اور وہ ناؤ پر پہلے سے سوار ہے۔ جب میں اس یاتری کو ناؤ سے اتارنے کے لیے راضی نہیں ہوا تو وہ طیش میں آ گئے اور اپنا غصّہ دکھاتے ہوئے بولے کہ اگر میں اس آدمی کو نہیں اتار سکتا تو انھیں اتار دوں اور بے شک ان کا دیا ہوا کرایہ بھی رکھ لوں۔

میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے بیچ ہونے والی بات اس آدمی تک پہنچے مگر بات میں کرودھ سما گیا تو آواز تیز ہو گئی اور اس تک بھی جا پہنچی۔ وہ اپنی جگہ پر اطمینان سے بیٹھے ہوئے بولا:

’’میں تو نہیں اتروں گا۔ انھیں اترنا ہے تو اتر جائیں ‘‘۔ اس کے لہجے میں بھی نفرت اور کڑواہٹ تھی مگر آواز پھر بھی کنٹرول میں تھی۔ ان کی طرح آپے سے باہر نہیں ہوئی تھی۔ شاید اس کی بیماری اور سامنے والوں کی تعداد کے احساس نے اس کی پرتی کریا کو اندر ہی اندر روک دیا تھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ملّاح کی ذرا دیر کے لیے سانس رکی تو وی۔ ان۔ رائے کے تجسس نے سوال اچھال دیا۔

’’میں ناؤ کنارے واپس لے گیا۔ اس آدمی سے پرہیز کرنے والے سارے یاتری اتر گئے۔ میں نے ان کے پیسے لوٹا دیے اور اس بیمار آدمی کو لے کر پھر سے ندی میں آ گیا۔ ‘‘

’’پیسے لوٹا دیے ! کیوں ؟ وہ تو اس بات کے لیے راضی ہو گئے تھے کہ ان کو پیسہ نہیں چاہیے۔ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے حیرت سے ملّاح کو دیکھتے ہوئے کہا:

’’ہاں، وہ تو راضی ہو گئے تھے پرنتو میری آتما اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ ‘‘

’’اس دن تو تمھیں بہت گھاٹا ہوا ہو گا؟‘‘ تم اس آدمی کے ساتھ کچھ دوسرے یاتریوں کو بٹھا لیتے۔ ‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے ہمدردی کا اظہا ر کیا۔

’’اور دوسرے بھی یہی کرتے جو پہلے والوں نے کیا تھا تو کیا ہوتا ؟ میرے من میں بھی یہ بات آئی تھی پرنتو یہی سوچ کر کہ یہ ضروری نہیں کہ دوسرے یاتری جو آتے وہ اس روگ گرست آدمی کو گوارا کر لیتے۔ صاحب! گھاٹا تو اس دن ہوا تھا پرنتو اس گھاٹے سے کہیں زیادہ اس آدمی کو سنگم اسنان کرا کر سکھ پراپت ہوا تھا۔ اس دن مجھے یہ آبھاس بھی ہوا تھا کہ کسی اَسہائے لاچار اور بیمار آدمی کا کام کر کے من کو کتنا سکھ ملتا ہے ؟ صاحب! کسی رو گی کا دھیان رکھنا اور اس کی سیوا کرنا تو یوں بھی ہمارے شاستروں کے انوسار دھرم اور پونیہ کا کام ہے، پر اس دن ان یاتریوں کے ویوہار سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میری ناؤ میں کوئی آتم گھاتک بم والا ویکتی چڑھ آیا ہو جس سے پیچھا نہیں چھڑایا گیا تو سب کے سب مارے جائیں گے ‘:

’’کاش ! اس دھرتی پر سبھی تمھاری طرح۔ ۔ .‘‘

وی۔ ان۔ رائے نے یہ جملہ بدبداہٹ کے انداز میں ادا کیا اور جملے کو ادھورا چھوڑ دیا۔

’’آپ نے کچھ کہا صاحب؟ ملّاح نے پوری بات سننی چاہی۔

’’کچھ خاص نہیں۔ ۔ ۔ اس کو تروینی بھی تو کہا جاتا ہے۔ وی۔ ان۔ رائے نے اس بات کو ٹال کر دوسری بات شروع کر دی۔

’’جی صاحب! اسے تروینی بھی کہتے ہیں۔ ارتھات تین ندیوں ؛ گنگا، جمنا اور سرسوتی کا سنگم، پرنتو سرسوتی جی لُپتہیں۔ ‘‘

’’سرسوتی جی واستو میں ہیں بھی یا ان کا وجود محض ایک مِتھ، مطلب کہانی بھر ہے ؟‘‘

’’ہیں صاحب! سرسوتی جی ہیں۔ وہ دکھائی بھی دیتی ہیں پرنتو کسی کسی کو، سب کو نہیں۔ ‘‘

’’تمھیں دکھائی دیتی ہیں ؟‘‘

’’ہاں، صاحب! مجھے دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘ وی۔ ان۔ رائے کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں صاحب! مجھے سرسوتی جی دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘

’’کدھر دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘

’’یہیں پر صاحب! ان دونوں ندیوں کے سنگم کے نیچے۔ ‘‘

’’کتنا نیچے ؟‘‘

’’بہت نیچے۔ ‘‘

پانی کے اندر تمھاری نظریں ان تک پہنچ جاتی ہیں۔ ‘‘

’’ہاں، صاحب! پہنچ جاتی ہیں۔ ‘‘

’اچھا!‘‘ وی۔ این۔ رائے کی حیرت انتہا تک پنچ گئی۔

’’آپ کو اچنبھا ہو رہا ہے نا؟ یہ سن کر دوسروں کو بھی اچنبھا ہوتا ہے پرنتو یہ سچ ہے کہ کچھ نظریں پانی کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں۔ ‘‘

ان میں سے ایک تمھاری بھی؟‘‘

’’ہاں، میری بھی، آپ کو میری بات چھوٹا منہ اور بڑی بات لگ رہی ہو گی پرنتو سچ یہی ہے صاحب!‘‘

’’میری حیرانی اس لیے نہیں ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو یا یہ کہ شیخی بگھار رہے ہو اور اس لیے بھی نہیں ہے کہ یہ بات کسی رشی منی، پیر فقیر یا مہاپرش کے بجائے کوئی ملّاح کہہ رہا ہے بلکہ میری حیرانی اس لیے ہے کہ یہ ایک انوکھی بات ہے۔ حیران کر دینے والا سچ ہے۔ یقین نہ آنے والا سچ ہے اور جس طرح کے تم آدمی ہو اور اب تک جتنا تم کو میں نے جانا ہے، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ‘‘

’’صاحب! جب مجھ پر آپ کو اتنا وشواس ہے تو اس انوکھی بات پر بھی وشواس کر لیجیے کہ آپ کے اس سیوک نے سرسوتی جی کو دیکھا ہے۔

’’کرنا ہی پڑے گا‘‘

’’دھنیہ باد بہت بہت دھنیہ واد صاحب!‘‘

’’جب تم نے سرسوتی جی کو دیکھا ہے تو ان کے بارے میں مجھے اور بھی کچھ بتاؤ۔ ‘‘

’’بولیے نا، کیا جاننا چاہتے ہیں ؟‘‘

’’سب سے پہلے تو یہی کہ ان کا پانی کیسا ہے ؟‘‘

’’بہت صاف! بالکل آئینے کے موافق۔ ایک دم اُجّول۔ ‘‘

ان کا رنگ ان میں سے کس کی طرح ہے ؟ گنگا کی طرح یا جمنا کی طرح؟‘‘

’’ان دونوں سے الگ ہے صاحب!‘‘

’’کوئی روپ تو ہو گا ان کا ؟ میرا مطلب ہے جس طرح جمنا کا رنگ ہلکا ہرا اور گنگا کا مٹ میلا دکھائی دے رہا ہے، اسی طرح سرسوتی کا بھی تو کوئی اپنا رنگ ہو گا؟‘‘

’’ہاں، ہے مگر وہ ہرا، اجلا، نیلا پیلا جیسا رنگ نہیں ہے۔ ‘‘

’تو پھر کیسا ہے ؟‘‘

’’وہ وِچتر رنگ ہے۔ اس میں جمنا جی کا رنگ بھی شامل ہے اور گنگا جی کا رنگ بھی پرنتو گنگا جی کا یہ رنگ نہیں، ان کا وہ رنگ۔ یعنی پہلے والا رنگ اور جمنا جی کا بھی پہلے والا رنگ۔ اس میں چاند، سورج اور ستاروں کا رنگ بھی گھلا ہوا ہے اور آسمان کا رنگ بھی۔ شاید زمین کا رنگ بھی اس میں موجود ہے۔ صاحب! میں بتا نہیں سکتا کہ واستو میں وہ رنگ کیسا ہے ؟ پرنتو ہے بہت ہی اچھا رنگ! بہت ہی آ کرشک ! بہت ہی پیارا!‘‘

وی۔ ان۔ رائے کی نگاہیں ملّاح کے چہرے میں کھوتی جا رہی تھیں۔

’’وہ کدھر سے آتی ہیں اور کدھر جاتی ہیں۔ ‘‘

’’صاحب! اس کا پتا تو نہیں چل پاتا۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ کافی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے دھارے چاروں اور بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ‘‘

’’بہاؤ کیسا ہے ؟‘‘

’’نہ زیادہ، نہ کم، بہت ہی سنتولت گتی ہے ان کی۔ ‘‘

’’موجیں اٹھتی ہیں ؟‘‘

’’خوب! پرنتو بپھری ہوئی نہیں۔ اپنی سیما میں رہ کر چلنے والی۔ انھیں دیکھ کر رگوں میں ترنگیں دوڑ جاتی ہیں۔ ‘‘

’’سرسوتی جی کو دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے ؟‘‘

’’ایسا لگتا ہے کہ جیسے پگھلی ہوئی چاندی میں گھلے ہوئے ہیرے موتی دیکھ رہے ہوں۔ ‘‘ دیکھنے سے آنکھوں میں پرکاش بھر جاتا ہے۔ کانوں میں جل ترنگ بج اٹھتا ہے۔ من دھل جاتا ہے۔ دماغ روشن ہو جاتا ہے۔ پورا شریر شانت ہو جاتا ہے۔ تمام گرہیں کھل جاتی ہیں۔ کہیں کوئی گانٹھ نہیں بچتی۔ کوئی الجھن نہیں رہتی۔ جی چاہتا ہے ان میں کود جاؤں۔ ان کی گود میں پڑا رہوں۔ کبھی باہر نہ نکلوں۔ ‘‘

ملّاح کی باتیں سن کر وی۔ ان۔ رائے کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی دیوک (مساوی) مخلوق کا ذکر کر رہا ہو۔ ایسی مخلوق کا جس کے ماتھے پر تیج ہو۔ ایسا تیج کہ جس سے مٹی بھی چمک جائے۔ جس کے مکھ پر ایسی شادابی ہو کہ جسے دیکھ کر کمھلایا ہوا چہرہ بھی کھل جائے۔ ایسا سکون ہو کہ جو مضطرب من کو بھی مطمئن کر دے۔ جس کی آنکھوں میں ایسی جوت ہو کہ جس سے اندھیرے بھی روشن ہو اٹھیں۔ ویرانے بھی جگمگا جائیں۔ جس کی آواز میں ایسا سُر ہو کہ جس کے کان میں پڑتے ہی دل و دماغ میں علم و آگہی کے خزانوں کے در کھل جائیں۔ جسم و جان میں مٹھاس گھل جائے۔ رگ و پے میں کیف و سرور بھر جائے۔ جو ساز چھیڑے تو کائنات جھوم اٹھے۔ دریاؤں میں ترنگیں پیدا ہو جائیں۔ صحراؤں کے بگولے ٹھہر جائیں۔ خزاں گزیدہ درختوں پر کونپلیں نکل آئیں۔ آگ کے شعلوں میں بھی پھول کھِل اٹھیں۔

اچانک وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں ٹاور کی دیوار کا خالی فریم ابھر آیا۔ اس فریم میں شاید ایسی ہی تصویر رہی ہو۔

مگر اسے کن لوگوں نے نکال لی؟

ممکن ہے گنڈاسے اور زیورات والی تصویروں کو شیدائیوں نے نکال لی ہو۔

پرنتو کیوں ؟

شاید اس لیے کہ اس تصویر کی وجہ سے گنڈاسا اور زیورات پکڑتے وقت ان کے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہو۔

’’سرسوتی جی کے بارے میں کچھ اور بتاؤ۔ مثلاً ان کے اندر اور کیا کیا دیکھا؟ ان کے بارے میں اور کیا کیا محسوس کیا؟‘‘

’’صاحب! جب بھی ان کا درشن ہوا کچھ نہ کچھ نیا ضرور دکھائی دیا، وہ مجھ سپنے میں بھی تو اپنا درشن دیتی رہتی ہیں۔ ایک بار جب وہ میرے سپنے میں آئیں تو مجھے ان کے اندر سے باہر نکلے ہوئے دو ہاتھ نظر آئے۔ ان دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے پانی کے دو جنتو لٹک رہے تھے۔

دونوں جنتو کافی لمبے تھے۔ دونوں کا شریر گول، چھریرا اور چکنا تھا۔ دونوں کی لمبائی برابر تھی۔ دونوں کا رنگ ایک جیسا تھا۔ دونوں کے منہ ایک جیسے تھے۔ ان کی پونچھ بھی ایک جیسی تھیں۔

میری نگاہیں دونوں ہاتھوں کے جنتوؤں کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں کہ میرے کانوں میں آواز سنائی پڑی:

آنکھیں جیسا دیکھ رہی ہیں، واستو کتا ویسی نہیں ہے۔ یہ دونوں جنتو ایک نہیں ہیں۔ دونوں دو ہیں اور دونوں میں ایک بڑا بھاری انتر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دونوں کی بناوٹ ایک ہے۔ دونوں کا روپ ایک ہے۔ دونوں کا رنگ ایک ہے۔ دونوں کی لمبائی برابر ہے۔ دونوں کے منہ اور دُم ایک سمان ہیں پرنتو یہ دونوں دو ہیں۔ ایک میں وش بھرا ہے اور دوسرا وش سے خالی ہے۔ ارتھات ایک سانپ ہے اور دوسرا مچھلی۔

پہچان کٹھن تو ہے۔ کہ سانپ کون ہے اور مچھلی کون پرنتو اسمبھو نہیں ہے۔ ان کی پہچان گیان سے ہو سکتی ہے اور گیان پراپتی کے لیے آوشیک ہے کہ اندریاں کھلیں اور اندریاں یوں نہیں کھلتیں۔ انھیں کھولنے کے لیے اس پانی میں اترنا ہو گا۔ تیر کر نیچے تک جانا ہو گا جیسے جیسے اس پانی کے اندر اترتے جاؤ گے اندریاں کھلتی جائیں گی اور پھر اپنے آپ پتا چل جائے گا کہ کس ہاتھ میں سانپ ہے اور کس ہاتھ میں مچھلی۔

’’صاحب! سرسوتی جی بھلے ہی لوگوں کو دکھائی نہیں دیتیں پرنتو وہ اپنا کام اندر ہی اندر کرتی رہتی ہیں۔ اپنا رنگ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اپنا اثر دکھاتی رہتی ہیں۔ یہ انھیں کی کرپا ہے کہ یاتریوں کو پانے کے لیے میں اتاؤلا نہیں رہتا اور بنا مول تول کیے مجھے آپ جیسے یاتری مل جاتے ہیں اور جب نہیں ملتے تب بھی بے چینی نہیں ہوتی۔ یہ انھیں کی کرپا ہے صاحب کہ ان بھوکے پرندوں کو دیکھ کر اس بھیڑ میں کچھ آنکھیں نم بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ انھیں کا چمتکار ہے کہ جل رانی آج بھی زندہ ہے۔ یہ انھیں کی مہیما ہے کہ آج بھی کہیں کہیں پر ہریالی اور کسی کسی دل میں صفائی باقی ہے۔ یہ انھیں کا کرشمہ ہے کہ جمنا میں اب بھی تھوڑا بہت ہرا پن اور گنگنا میں اجلا پن دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘

وی۔ ان۔ رائے کے ذہن میں ایک ساتھ کئی منظر ابھر آئے۔ ‘

ایک منظر میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک معصوم بچے کو اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔

ایک جانب سے ترشول کی نوکیں بچے کی چھاتی کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ سہما ہوا بچہ ہکا بکا ہو کر ترشول والے شخص کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں حیران تھیں کہ وہ اس شخص کو پہچانتی تھیں۔ وہ شخص اس کے ڈیڈی کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ کئی بار اس بچے نے اسے چائے بھی لا کر دی تھی۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ بے چارہ تو معصوم ہے۔ اس کا کیا دوش؟ اسے چھوڑ دو۔ ‘‘ ایک بوڑھا آدمی بھیڑ سے نکل کر بچے کے پاس آ گیا تھا۔

’’نہیں، ہم اپنے شترو کی سنتان کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ انھیں کی سنتان ہے جنھوں نے ہمارے لوگوں کے گلے سے ہماری مالا اتار کر اس کی جگہ اپنی مالا ڈال دی تھی۔ ‘‘ ترشول دھاری اپنے عمل کی منطق بتا رہا تھا۔

’’مانا کہ اس کے لوگ ہمارے لوگوں کے من کو طرح طرح کا لالچ دے کر بدل رہے ہیں پرنتو اس بالک کا اس سے کیا لینا دینا؟ یہ بے چارہ تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں جانتا ہو گا کہ یہ کون ہے ؟ اسے چھوڑ دو، اسے مارنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ ‘‘ بوڑھا آدمی بچے کو بچانے کے لیے بے چین تھا۔

’’نہیں ہم نہیں چھوڑیں گے۔ آگے چل کر یہ بھی وہی کرے گا جو اس کے داداؤں نے کیا اور آج اس کے باپ چاچا کر رہے ہیں۔ آپ ہٹ جائیے۔ ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔ ‘‘ ترشول کے آب کی طرح ترشول بردار کا چہرہ بھی دھار دار ہو گیا تھا۔

’’نہیں میرے رہتے ہوئے آپ اسے نہیں مار سکتے۔ ‘‘ وہ بڈھا بھی اپنی ضد پہ اڑ گیا تھا۔

’’ہٹ جائیے نہیں تو۔ ۔ .‘‘ دھار دار چہرے سے چنگاریاں چھوٹنے لگی تھیں۔

’’نہیں، میں اپنے جیتے جی یہ ادھرم نہیں ہونے دوں گا۔ ‘‘ بچانے والا خود مرنے کے لیے تیا رہو گیا تھا۔ ‘‘

’’ہٹ جائیے ورنہ یہ ترشول آپ کے سینے میں بھی اتر جائے گا۔ ‘‘

’’اتر جائے، پرواہ نہیں ! مگر میں ہر حال میں اس بچے کی رکشا کروں گا۔ اسے بچاؤں گا۔ ‘‘ بوڑھا بچے کے آگے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔

’’تو ٹھیک ہے، مریے ‘‘ ترشول ہوا میں لہرایا تھا اور پلک جھپکتے ہی بڈّھے کے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ ‘‘

دوسرے منظر میں ایک دھوتی والا گوالا زمین پر ایک مشتعل بھیڑ کے نرغے میں تھر تھر کانپ رہا تھا۔ شعلہ فشاں آنکھوں والی بھیڑ اس غریب پر ٹوٹنے ہی والی تھی کہ ایک پاجامے والا شخص بھیڑ کو چیرتا ہوا اندر پہنچا اور اس سہمے ہوئے آدمی کے اوپر لیٹ گیا۔ ‘‘

لاٹھیاں دھوتی والے گوالے پر پڑنے کے بجائے پاجامے والے شخص پر پڑنے لگیں۔

تیسرے منظر میں ایک ہندو عورت دو مسلمان بچیوں کو فسادیوں سے بچانے کے لیے اپنے گھر کے ایک گوشے میں بنے مندر کے اندر چھپا رہی تھی۔

’’صاحب! میں تو بھگوان سے یہی پرارتھنا کرتا ہوں کہ سرسوتی جی کبھی اوپر نہ آئیں اور لوگوں کو دکھائی نہ دیں۔ ملّاح نے بالکل پرارتھنا کے لہجے میں کہا:

’’کیوں ؟ ایسی پرارتھنا کیوں کرتے ہو؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے کی حیرت میں اور اضافہ ہو گیا۔

’’ڈرتا ہوں صاحب!‘‘

’’کیوں ڈرتے ہو؟ ‘‘

’’کہیں ان کا بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ د یا۔ اس کی نظریں پانی کی طرف جھک گئیں۔

’’ان کا بھی کیا؟‘‘ وی۔ ان۔ رائے نے پوار جملہ سننا چاہا۔

کیا یہ بات آپ کو بھی بتانی پڑے گی صاحب! ملّاح کی نگاہیں پھر سے وی۔ ان۔ رائے کی طرف مرکوز ہو گئیں۔

وی۔ ان۔ رائے خاموش رہے نہ جواب دیا اور نہ ہی کوئی اور سوال کیا۔ بس جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ کھول کے نہانے کا کپڑا نکال لیا۔

ان کی نگاہیں نہانے کے اس کپڑے پر مرکوز ہو گئیں جو نہ جانے کب ہینڈ بیگ سے نکل کر ان کے ہاتھوں میں آ گیا تھا۔

’’آپ اسنان کرنا چاہتے ہیں تو چلیے ناؤ کو سنگم سے سٹا کر لگا دیتا ہوں۔

’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

تو کیا یہیں نہائیں گے ؟‘‘

’’نہیں ‘‘

’’تو پھر یہ کپڑے ؟‘‘

’’انھیں بھائی صاحب کے کہنے پر رکھ لیا تھا کہ موقع ملا تو ایک آدھ ڈبکی میں بھی لگا لوں گا۔ ‘‘

’’تو لگائی کیوں نہیں ؟‘

ڈبکی تو لگا لی مگر اس پانی میں نہیں جس میں بھائی صاحب نے نہانے کے لیے کہا تھا:

ڈبکی لگا لی ؟ کب ؟ کہاں اور کس پانی میں ؟‘‘ ملّاح کے ہونٹوں سے ایک ساتھ کئی سوال باہر آ گئے اور آنکھیں پھیل کر وی۔ ان۔ رائے کو تکنے لگیں۔

’’سرسوتی جی میں ‘‘

’’سرسوتی جی میں ! وہاں آپ کب پہنچے ؟ ‘‘ آنکھوں کا پھیلا ؤ اور بڑھ گیا۔ ‘‘

’’جب تم ان کا بکھان کر رہے تھے۔ ‘‘

’’تو آپ کو بھی وہ دِکھ گئیں ؟‘‘

’’ہاں، سرسوتی جی مجھے بھی دکھائی دے گئیں۔ وی۔ ان رائے نے اپنی نگاہیں ملّاح کے چہرے سے سرکا کر، اس کی آنکھوں کی طرف پہنچا دیں۔

’’صاحب! میرا من کہتا تھا کہ سرسوتی جی آپ کو ضرور دکھائی دیں گی اور من ہی من میں میں نے آپ کے لیے پرارتھنا بھی کی تھی۔ میّا نے میری سن لی۔ جے ہو سرسوتی میا!‘‘

اس نے پتوار کو پانی میں اس انداز سے گھمایا کہ ناؤ پانی پر ناچ گئی۔

ناؤ کے رقص سے دیر تک پانی میں موجیں اٹھتی رہیں۔ ان موجوں کے ساتھ وی۔ این۔ رائے کی آنکھوں میں ایک بار پھر سے جل رانی اچھل آئی۔ اس بوڑھے شخص کا چہرہ بھی جھلملا اٹھا جس کی مضبوط چھاتی کے آگے آ جانے سے معصوم بچے کا سینہ چھلنی ہونے سے بچ گیا تھا۔ پاجامے والے اس شخص کا چہرہ بھی چمک اٹھا جس نے دھوتی والے آدمی پر پڑنے والی لاٹھیاں اپنی پیٹھ پر روک لی تھیں۔ اس بابا کی لاش بھی ابھر آئی جنھوں نے گنگا جی کی پوترتا کے لیے اپنی جان کی آہوتی دے دی تھی۔ خود ملاح کے چہرے کا عکس ان موجوں میں دیر تک ابھرا رہا اور اپنی مختلف صورتوں سے موجوں میں طرح طرح کے منظر بناتا رہا۔

شام گھر آئی تھی۔ فضا سرمئی ہو گئی تھی۔ دھندلی فضا میں گنگا کا مٹ میلا رنگ اور بھی گہرا گیا تھا۔ جمنا کے ہلکے ہرے رنگ میں بھی سیاہی گھل گئی تھی مگر اس دھندلی فضا میں بھی ایک روشنی لہرا رہی تھی۔ شاید وہ شام کی شفق کی روشنی تھی یا شاید گنگا اور جمنا کے نیچے بیٹھی سرسوتی جی کے پانی کے رنگ کا عکس تھا۔

کچھ دیر تک اس فضا کو دیکھتے رہنے کے بعد وی۔ ان رائے نے ملّاح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

’’ویاس! اب چلیں ؟‘‘

’’چلیے ‘‘ ویاس نے ناؤ موڑ لی۔

ناؤ سنگم سے پلٹ کر گھاٹ کی طرف جانے لگی۔

پرندوں کا ایک غول پھر سے ان کے سروں پر منڈرانے لگا۔

’’دانوں کا پیکٹ دوں صاحب؟ ‘‘ ملّاح نے وی۔ ان رائے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں، ابھی کچھ دانے بچے ہیں۔ ‘‘ اور ناؤ سے پیکٹ اٹھا کر بچے ہوئے دانے کو آہستہ سے گنگا میں الٹ دیا۔

پرندوں کی طرف دانہ ڈالنے کا انداز اس بار ویسا نہیں تھا جیسا کہ جمنا میں اترتے وقت دکھائی دیا تھا۔

٭٭٭

تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے فائل فراہم کی اور مصنف جنہوں نے لائبریری میں شامل کرنے کی اجازت دی

ان پیج سے تبدیلی تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید