FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

لمحۂ موجود کی تین کہانیاں

 

 

               اقبال خورشید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

    آنند کی بپتا

 

 

 

’’میں تیرے سب عجیب کاموں کو بیان کروں گا!‘‘

(زبور، 9/1)

٭٭

 

 

پربت شانت تھے۔ اور ندی چُپ۔

فضائیں لافانی ٹھہراؤ سے ٹھٹھرتی تھیں ۔

اور سمے پر سناٹے کا کُہرا چھایا تھا۔

جھاگ چھوڑتے پَل ساکن تھے کہ تتھا گت پیڑ تلے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں پھول لیے۔ خاموش۔ چوکس۔

میری نظر اپنے ادھیاپک پر ٹکی تھی۔ اور میں دیکھ سکتا تھا، خواہش کی جنبش سے آزاد اُس کا شریر۔ عدم وابستگی کی طمانیت سے لشکتا چہرہ۔

میں دیکھ سکتا تھا کہ میں وہیں تھا۔ اس کے پہلو میں ۔ ہمیشہ کی طرح، ایک سایے سا۔

تو وہاں سکوت تھا، جس میں اطمینان سانس لیتا۔خاموشی اُس کی بھاشا تھی۔

پر وہ، جو اُس کے درشن کو آئے تھے — ارغوانی لبادوں میں ملبوس، اُسے اپنا کُل ماننے والے، اس کے سیوک….اُن کے من میں اضطراب جوش مارتا کہ وہ خواہشات سے آزاد نہیں تھے، بلکہ نتھی تھے۔ اُس سے جو ہاتھ میں ایک پھول ….معمولی پھول ….لیے چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ اور شاخیں اُسے آغوش میں بھرنے کو جھکتی تھیں ۔

بھکشو یقین کیے بیٹھے تھے کہ گیان کے ساگر میں کچھ رونما ہونے کو ہے۔ وہ بدھی مان کچھ اَن کہا، کہنے کو ہے کہ اتیت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ سروشکتی مان یوں ہاتھ میں پھول لیے اُن کے سامنے آن بیٹھا ہو۔

تو وہ مضطرب تھے۔ کسی انکشاف کے منتظر۔ اور میں بھی اُن میں شامل تھا، مگر وہ ….اس صورت حال کا محرک، جسے شاخیں آغوش میں لینے کو لپکتیں ….چپ تھا۔

پل بیتتا تھا۔ اور چپ کی چاپ سنائی دیتی ، جو بھکشوؤں کے من میں جوار بھاٹے لاتی۔

اور تب جب سننے والوں کی آتما میں کچھ انوکھا سننے کی خواہش دہکتی تھی، قہقہہ بُلند ہوا۔ جو وحشی تو نہیں تھا، پر وحشت میں بڑھوتی کرتا ۔

سکوت ٹوٹ گیا۔

وہ مہاکیشپ تھا۔ اُس کے مرکز سے ہنسی پھوٹتی تھی۔

بھکشوؤں میں ، مجھے سمیت، ناپسندگی کے جرثومے نے حرکت کی۔ اور یہ متوقع تھا، ایک عظیم انکشاف کے موقعے پر جب سمے پر سناٹے کا کُہرا تیرتا ہو، جسے اُس کی شانت چپ دبیز کرتی، یوں قہقہہ لگانا ماسوائے کٹھورتا کے اور کیا ہے؟

مگر تب ایک احساس کا جنم ہوا۔

وہ — اپنے پورے وجود کے ساتھ، اُس پھول کے ساتھ جو ہاتھ میں تھا — مسکرایا۔

مہاکیشپ اُس کی اُور بڑھا۔ میرے پہلو سے گزرا۔ اور اُس نے — اپنے ہر نرنے کی طرح، جو سادہ ہونے کے باوجود پُراسرار ہوتے، ہمیشہ — پھول مہاکیشپ کے حوالے کر دیا۔

اب، جیوت پل میں مہاکیشپ، پھول اور وہ ایک تھے۔ اور ندی چُپ تھی۔ اور ٹہنیاں اُنھیں گود میں بھرنے کی للک میں جھکتی تھیں ۔

اور میرے شریر میں ایک بے بُو بھاؤنا پنپتی ہُوک سی اٹھتی تھی۔ کیا تھی وہ؟ اسپھل رہنے کا دکھ۔ نراشا۔ یا پھر ایرشا؟

میں آنند گوتم کے رشتے کا بھائی بڑا بھائی، جس نے اُس کی شرن میں آنے سے پہلے وچن لیا تھا کہ وہ کبھی مجھے خود سے پرے نہیں کرے گا، اور مجھے ستیہ کا پاٹ پڑھائے گا۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا تومیں اُس کا سیوک، اِس انکشاف کے بعد جس کا جنم ہو چکا تھا، اُس جیوت پل میں جو لازوال تھا، ٹھیک اُسی احساس سے گزرا، جس سے میں برسوں سے گزر رہا تھا۔

اور میں ہر اُس موڑ پر اِس بھاؤنا سے گزرتا، جب تتھاگت کے چھُوتے ہی چرنوں میں بیٹھے بھکشو الوہی رقص کرنے لگتے ۔ اور میں اُنھیں تکتا، اچنبھے کے ساتھ کہ اُس کا لمس — آہ اُس کا لمس— اپنے جادوئی اثر کے باوجود میرے خمیر میں گندھے دیوتا کو رقص پر نہیں اُکسا سکا۔ کبھی نہیں ۔

اور اُس موڑ پر بھی اسپھل رہنے کا درد میرے بھیتر چبھتا، جب بھکشو سر جوڑے باتیں کرتے کہ سبھوتی پر پھولوں کی بارش ہوئی ہے کہ میں اِس سے محروم تھا۔

اور تب بھی میری آتما میں بھوکمپ آتے، جب کوئی کہتا کہ پیڑوں پر پھول کھلتے ہیں ، جب کبھی بَن کی دھرتی اُس مہان منش کے چرنوں کا بوسہ لیتی۔ پر میں ، جو اُس کی چھایا تھا، اُس کے کٹیا میں سوتا تھا، جسے پکار کر وہ ہر بات کہتا: ’’اے آنند سن آنند تو آنند‘‘ کبھی ایسے انوبھو سے نہیں گزرا۔ نہیں ۔ ایک بار بھی نہیں ۔

تو پھول مہاکیشپ کے پاس تھا۔ اور میرے شریر میں محرومی کا دھواں پھیلتا تھا، جو معدے سے اٹھ کرسیدھا جبڑے تک آتا، اور پھر رک جاتا، مگر کب تک؟

آخرکار، ایک صبح، جس کی نرمی میرے ادھیاپک کے چہرے پر اترتی، اور وہاں تھرکتے ازلی تبسم سے ہم آہنگ ہوتی، میں نے دھواں اگل دیا: ’’کب؟ میں کب نواز جاؤں گا؟‘‘

اُس نے میری طرف نظر کی۔

اور اُن آنکھوں میں روشنی تھی۔

اس کے لب وا ہوئے، اور الہامی آواز کی جادوئی چٹخ میری سماعتوں میں اتری۔

’’ابھی نہیں ۔‘‘ اُس نے ایسا کہا تھا۔ ’’کم از کم میرے جیون میں تو نہیں ۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘ میرا سوال۔ متوقع، بڑی حد تک۔

جواب میں اس کی چپ۔ سو فی صد متوقع۔

وقت گزرتا رہا۔ پر ٹھہرا رہا۔ اور پھر وہ پل آن پہنچا، جس کی آمد کا ہم نے اپنے جیون میں کبھی وشواس نہیں کرنا چاہا تھا۔ پر وشواس کیا تھا۔

عہد کا نجات دہندہ ابدیت میں داخل ہونے والا تھا۔

ہاں ، وہ رخصت ہونے کو تھا۔

آہ، اندھکار تھا،

ہم نراشاسے زمین پر اوندھے گر پڑے،

اور اس دھرتی کا ذائقہ چکھا، جس پر پل بھر پہلے ایستادہ تھے،

جو ہماری ماں تھی، پر جسے ہم بھُلا بیٹھے تھے۔

اور تب، آنسو ہمارے گلے میں بہتے تھے،

اور دل کو بھگوتے،

اُس نے نقاہت کو پرے دھکیلا۔ کہا۔ ’’نہ تو میں پہلا ہو، نہ ہی آخری!‘‘

اور باقی بھکشوؤں کو میری، اپنے سائے کی، تعظیم کی ہدایت کی۔ اور پھر، جب ٹھہرتا ہوا سمے، ٹھٹھرتا تھا، اُس نے آنکھیں بند کر لیں ۔

وہ جا چکا تھا۔ اور اضطراب تھا۔ کرب تھا۔ محرومی تھی۔

اور تب، جب آخری رسومات انجام پانی تھیں ، مہاکیشپ، جو اُس کا سندیسا لیے اَن جانی دھرتی کی اُور نکل گیا تھا، پلٹ آیا۔

کیا یہ بھی متوقع تھا؟

وہ چلا گیا، اور میں — آنند — باقی رہا۔

اور تب، جب غم سے میں اوندھا پڑا تھا، پہلی بار میں نے ایک اچانک اتر آنے والے گیان کی قوت سے جو لشکتا تھا، اُن فضاؤں میں پھول کھلتے دیکھے، جن میں اس کا سانس ہنوز مہکتا تھا۔

اور اس مٹی کو دمکتے دیکھا، جو اس کا راستہ بنی۔ اور میری نظر افق میں چھید کرتی ہوئی شعور کے پرلے کنارے تک گئی، اور لوٹ آئی۔

سب روشن تھا۔ مہکتا تھا۔ دہکتا تھا۔

’’تو اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔‘‘ میری آواز، میرے آنسوؤں سے بھیگتی تھی۔ ’’اس کے جیون میں نہیں ‘‘

اور تب، ٹھیک تب، ایک سوال نے — اُسی سوال نے جس کا جواب اس نے اس پل نہیں دیا تھا، جب وہ موجود تھا — مجھے گھیر لیا۔

’’کیوں ؟ اُس کی مرتیو ہی کے بعد کیوں ؟ اُس کے جیون میں کیوں نہیں ؟‘‘

ہرسلگتالہکتامنظر ماند پڑ گیا۔

کیول اندھیرا تھا۔

اور تب اس پرشن نے میرے وچاروں کا رتھ سنبھالا۔

جو آکاش کی اور لپکا،

میں نے چندرما میں پرویش کیا،

اور سورج کی دہک نے میرے اشنان کا سامان کیا،

میں ندی میں اترا، اور مہا ساگر تک جا پہنچا،

جہاں میں نے پانی پر آسن جمایا،

اور گم شدہ ٹاپو کھوج لیے،

اُن پربتوں کو ڈھونڈ نکالا، جو اتھاہ گہرائیوں میں تھے۔

اور جب رتھ نے اڑان بھری، تو میں نے اُن پنچھیوں کے ساتھ پرواز کی، جن کے پنکھ سانس لیتے،

پر مجھے اس پرشن کا جواب نہیں ملا۔ اور نہیں سمجھا سکا کہ اس کے جیون میں مجھے جیون سے کیوں نہیں نوازا گیا۔

اور یوں میں اس تحفے سے، جو اس کے جیون کے وسیلے جگ میں پہنچ تھا — نروان— محروم رہا۔ کوسوں دور۔ باوجود اس کے کہ میں پانی میں سانس لیتا تھا، بن پروں کے پرواز کرتا تھا۔

آنند کو ابھی اور جینا تھا کہ خواہش باقی تھی، جس سے وابستگی جنم لیتی تھی، اور وابستگی سے دکھ کا ظہور ہوتا۔

آنند کو باقی رہنا تھا۔

تو میں باقی رہا۔ ایک سوال کے سہارا، ایک سوال کے سبب، جو میرا سانس تھا۔

تو میں باقی رہا، ہر یُگ میں ،

میں اتیت میں اترا،

تیرے جنم سے تین ہزار برس پہلے کی مٹی سونگھی،

جب سمیری لکھت کے بھیدوں پر وچار کرتے تھے،

اور میں نے حمورابی کو ضابطۂ اخلاق مرتب کرتے دیکھا،

اور مصر کی مہا پرواس کا گواہ بنا،

جب کسی تجھ سے نے دریا کو دو پاٹوں میں بانٹ ڈالا،

اور قریبی زمینوں پر میں اُس کے روبرو ہوا، جو آگ کو نیکی کی علامت مانتا تھا،

اور پھر چین کی دھرتی پر ایک خانہ بدوش استاد کو صحرا نوردی کرتے پایا۔

تو میں نے اشوک کو، تیرے پریم کا رس پینے پہلے، دھرتی کو منش کے خون سے سرخ کرتے پایا،

اور دیکھا کہ اُس نے ٹکڑیاں روانہ کیں ، جو اہراموں کی سرزمین تک جا پہنچیں ، جہاں وہ سانس لیتا تھا، جو چند برسوں بعد پہاڑ پر کھڑ ا ہو کر وعظ کرنے والا تھا،

زمانے کو منقسم کرنا والا تھا۔

پر اس سے قبل میں نے اسپارٹکس کی بغاوت کی کہانی سنی،

اور نئے یگ میں مانی کو اپنے وچار کا پرچار کرتے پایا،

اور عرب کے ریگستانوں میں گیان کا الاؤ روشن ہوا،

اور جگت گرو کا جنم ہوا، جس کی دمک مصر، ایران، عراق تک پہنچی، اوراسپین سے ہوتی ہوئی پورے یگ پر چھا گئی۔

سمے میرا سہارا تھا۔ اور جیون میرا جیون۔

تیرا آنند صلیبی جنگوں میں گھوڑے کے سموں تلے کچلا گیا،

تیرا سیوک منگولوں کا لقمہ بنا،

اور جب سیاہ موت یورپ کے بخیے ادھیڑتی تھی، میں خوابوں کی تلچھٹ سے گاڑھا بناتا تھا،

اور جب جون آف آیرک کو شعلوں میں اتری تھی، میری سماعتوں میں مقدس پروں کی پھڑپھڑاہٹ گونجی۔

ہاں ، میں تھا، اس بحری جہاز میں ، جو ایک ایسی زمین کی اُور جاتا ، جو بھوشیہ میں دنیا پر حکم رانی کرنے والی تھی،اور اُس جہاز میں بھی، جو سمندر کو چیرتے ہوئے تیرا دیس کھوجنے آتا تھا،

میں الزبتھ اول کے دربار سے منسلک ہوا، اور آتشیں اسلحے کے استعمال کا آغاز دیکھا،

اور میں نے اس انگریز کی کویتا سنی، جس کا وجود ہمیشہ معما رہا،

اور تیرے سیوک نے اس زمین پر، جہاں تیری چاپ کل کی طرح آج بھی سنائی دیتی، سنگ مرمر کی ایک عظیم عمارت تعمیر ہوتے دیکھی،

جو فقط ایک مقبرہ تھا،

اور پھر نیوٹن کا ظہور ہوا،

اور تاریکی میں پنہاں فطرت کے قوانین روشن ہو گئے،

اور میں نے والٹیر کو قلم تھمایا، اور فرانس میں کرانتی کی زمین تیار کی،

اور مغرب میں صنعتی دور کا آغاز ہوا،

اور ایک جرمن نے معاشی نظام پر قلم اٹھایا،

جس کے وچار نے کئی ریاستوں کو سرخ لبادہ اوڑھا دیا،

پہلی وشو یُدھ کا آغاز ہوا،

اور پھر دوسری وشو یُدھ ہوئی،

جس کے انت پر کھمبی نما دھول کے بادل نے جنم لیا، جس نے مجھے چوس لیا۔

اور پھر یُد سرد ہوئی، اور پھر برف پگھل گئی،

اور پھر میں نے اس ریاست میں ، جسے کولمبس کے جہازوں نے کھوج نکالا تھا، دو عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا،

اور یوں ایک نیا یُگ ابھرا، ایک اور عہد کا آغاز ہوا،

جو مرگ کا عہد کہلایا،

جہاں بارود کی بو میں چیخیں منجمد ہو گئیں ،

اور میں نے— تیرے سیوک، تیرے آنند نے— تیرے جیون کو پُستک میں سموتے ہر لیکھک کی سماعتوں میں سرگوشیاں کیں ،

اور حفیظ کے کانوں میں الفاظ انڈیلے، جس نے لکھا تھا:

ہوائیں تیرا راستہ صاف کرتے ہوئے چلتیں راہ میں پھول بکھیر دیتیں آسمان سے پانی کے قطرے خاک بٹھانے کو گرتے ابر سر پر سایہ فگن ہوتا پرندے اپنی نرم اور شیریں آوازوں میں تیرا خیرمقدم کرتے آسمانی نغمہ فضا میں گونجنے لگتا اور انسانوں کے جسم پر موجود گہنے بجنے لگتے۔

اور ہرمین ہیسے کے قلم کی سرسراہٹ سے اپنی دھڑکن کا تال میل بٹھایا، جس نے سدھارتھ کی آنکھ سے تجھے دیکھا، اور تجھے بیان کیا:

اس کے پور پور میں علم بھرا ہوا ہے ایسی سچائی ہے جو کلام کرتی ہے سچائی جو سانس لیتی ہے اور سچائی جو پور پور سے پھوٹتی ہے یہ شخص، بدھ سرسے پیر تک مقدس ہے۔

تو سمجھ، میں — آنند، بدھ کا سایہ — ہر یُگ میں تھا کہ میں جیوت تھا، اُس پرشن کے سہارے جو خواہش کی انتہائی صورت تھا۔ ایک کشٹ تھا۔ جو مجھے چنتت رکھتا تھا، اور تب کچھ ایسا رونما ہوا، جس کے رونما ہونے کی امید میں کھو بیٹھا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا، جب میں ایک تاریک، ساحلی شہر میں سانس لیتا تھا، جو کرنوں کا شہر کہلاتا تھا۔ جہاں پہچان چھپائے رکھنا بدھی مان ہونا ثابت کرتا، اور اپنا آپ ظاہر کرنا اگیانی ہونا۔

تومیں نے اپنی پہچان چھپا لی، ایک پیشے کے پردے میں ۔

اب میں ایک موٹر مکینک تھا۔ انجن کی، جو کبھی کبھار مجھے زندہ معلوم ہوتا — جسے اگر میری یُگ کا منش دیکھ لیتا تیرا کوئی بھکشو دیکھ لیتا تو حیرت سے خود کو ہلاک کر ڈالتا— تو اب میں گاڑیوں کے انجن کی الجھنیں سلجھاتا تھا۔

اور ایک روز، میں چار پہیوں کو قوت فراہم کرتے ایک انجمن کے دہانے پر کھڑا تھا، میری سماعتوں سے اس موٹر کے مالک کے الفاظ ٹکرائے۔

بلکہ یہ کہنا غلط ہو گا، کیوں کہ میں ہر آواز سے اُوب گیا تھا، یہ تو ایک شبد تھا، جس نے مجھے تھکن کی اکتاہٹ سے کھینچ کر باہر نکلا۔اور تو ہی نے تو کہا تھا:’’آنند، کیول شبد باقی رہ جائے گا!‘‘

تو ایک شبد۔

اس کے ہاتھ میں پنّا تھا، جس کا ابھر اس کی آواز میں لرزتا تھا۔ اور اسی لرزے میں ایک شبد —نروان — میرے پیاسے حلق میں اترا۔

’’نروان!‘‘ اور میرے خشک بدن نے اس کا لیس محسوس کیا۔

اور میں نے جھک کر اپنے کان اس کے بولوں پر لگا دیے۔وہ کوئی کویتا تھی، جو اس نے تیرے تحفے، نروان پر بُنی تھی۔

کتنا انتر تھا۔ اس نے نروان کو شبدوں سے ڈھانپا، اور میں نے عملاً اسے لباس بنایا۔

’’نروان‘‘ وہ اپنی کویتا سنتا تھا، سنانے والے کو، جو اس کے ساتھ تھا، اس کے مانند بوڑھا۔ الجھا ہوا۔ ناراض۔ اکتایا ہوا۔

میں نے کویتا سنی۔ اور پھر وہ چرچا کرنے لگے راج نیتی پر۔ زمانوں پر۔

آہ، میں نے ہر یگ جیا تھا۔

برسوں قبل، پنڈی کے باغ میں گونجے والی گولی کی آواز میرے کانوں میں منجمد تھی۔ جہاں برسوں بعداِس عمل کو دہرایا گیا۔ اور دونوں ہی مواقع پر میں موجود تھا، قاتل سے فقط سو قدم دور، بائیں جانب۔

اور تیرا آنند ایک قیدی تھا، جب تخت سے اتارے ہوئے ایک شخص کو سولی پر چڑھایا گیا۔

اور میرا رتھ آکاش میں تھا، جب ایک جہاز تباہ ہوا۔

تو میں نے، تیرے بھکشو نے ہر پل جیا تھا۔

تو وہ راج نیتی پر چرچا کرتے ۔ اور میں سنتا تھا۔ اور ان کے ساتھ ساتھ، دور بہ دور آگے بڑھتا تھا۔ اور تب نیتاؤں کو موضوع بنایا گیا۔

تو اس نے جو پتر کار تھا، یا شاید کوی تھا، کہا: ’’موروثی سیاست ایک لعنت ہے۔ باپ کے بعد بیٹا، پھر اس کا بیٹا۔ جاگیر دار کی اولاد جاگیر دار۔ پیر کا پسر پیر۔ تف ہے۔‘‘

مشرق سے آتی ہوا میں پراسرار روشنی تھی۔ اور روشنی میں بھیگی ٹھنڈ ۔ اور بادلوں میں بھید کے قطرے تھے۔ اور زمین سے اگتی بارش میں خشکی کا حسین احساس پیوست تھا۔

’’موروثی سیاست، خاندان کی حکم رانی، ایک منتخب شدہ کا غلبہ لعنت ہے۔‘‘

وہ شبدوں سے کھیلتے ، پر میں اُس موٹر سے، جس کے دہانے پر میں موجود تھا، اس کوی سے، اور اس کے سامع سے بے پروا ہو گیا۔ اور وہاں نکل گیا، جہاں سے نکل کر آیا تھا۔

اور اب میں نے — بدھ تیرے آنند نے، ترسے ہوئے نے — ہر سانس دوبارہ جیا۔ ہر یُگ میں پرویش کیا۔ اور جانا کہ کیوں ، مجھے اُس کے جیون میں نہیں نوازا گیا۔

کیوں ، میں — آنند، اس کے رشتے کا بھائی، اس کا سایہ — اس کے ہوتے پیاسا رہا۔

’’جدی پشتی حکم رانی۔ ہاں ، وہ — میرا ادھیاپک، تتھاگت بدھ — اس کے خلاف تھا۔ ٹھیک ایسا ہی تھا۔ جب ہی تو راہل، اس کا اپنا سپوت، اس کا وارث نہیں ٹھہرا۔ جب اسے نہیں نوازا گیا، تو آنند کو بھلا کیسے نوازا جا سکتا تھا؟

میں نے ہر یگ میں پرویش کیا، اور ہر یگ کو نئے عدسے دیکھا۔ اور مجھے اس کی یوجنا، لمحے کے ہر ٹکڑے میں سمپورن نظر آئی۔

اور تب، سمے کی چٹخ میں ، احساس کے بہاؤ میں ، پھٹ پڑنے کا عمل ہوا تنسیخ کا وقت آن پہنچا تھا آہ وہ نروان کا دن تھا۔

آنند کے نروان کا دن۔

تو اب میں ایک عظیم قوت میں — جو قدیم ہے، اور اپنی قوت سے سانس لیتی ہے— ضم ہونے جارہا ہوں ۔ پر پلٹنے سے قبل میں اِس دنیا کو وہ سندیسا دینا چاہتا ہوں ، جو اس کے شبدوں میں تھا، پر عجیب ڈھنگ سے، ایک انکشاف کی صورت، سموچے کا سموچا مجھ پر اتر آیا۔

سندیسا کہ ’’موروثی سیاست فقط دُکھ ہے، صدیوں کا دکھ۔ ایک شراپ!‘‘

تو یہ میری بپتا ہے۔ جو میں تمھیں یوں سنانے پر راضی ہوا متر کہ میں دنیا سے جا رہا ہوں ، اور ایک سندیسا چھوڑے جا رہا ہوں ، وشال بدھ کا سندیسا۔ تو میں یہ تمھارے چہرے ے ے کو کیا ااا ت ت ت تم

٭٭

 

لمحۂ حال، کراچی:

بوڑھے کی آنکھوں میں حیرت ٹھہری ہوئی تھی۔

وہ ایک خاموش پارک تھا۔ قومی الجثہ سفیدے تلے ایک بینچ تھی، جس پر وہ آ کر بیٹھا تھا، اُس سمے جب سورج نے مغرب کی سمت سفر شروع نہیں کیا تھا۔ اور تب ایک نوجوان نے خود کو اس کے پہلو میں موجود کیا، جو اُس کی بپتا سننے کا متمنی تھا۔ جسے سنانے پر وہ راضی تھا، اور جسے سناتے سمے سورج مغرب پر اترنے لگا تھا، اور لگ بھگ اتر چکا تھا کہ ایک ’’اچانک‘‘ کا ظہور ہوا۔ نوجوان الوپ ہو گیا، اور

’’ت ت ت تم؟‘‘ بوڑھا ہکلا رہا تھا کہ وہ نوجوان — جو کچھ دیر قبل، یا کچھ زمانوں قبل — اس کے پہلو میں آ کر بیٹھا تھا، اب وہ وہاں نہیں تھا۔ بلکہ وہ تھا، جو صدیوں پیچھے ایک قوی الجثہ پیڑ تلے، ہاتھ میں پھول لیے، موجودہ تھا۔

بدھ!

’’ت ت ت تو تم آ گئے‘‘ بالآخر اچانک رونما ہونے والے کسی لطیف واقعے کے مانند، بوڑھا مسکرایا۔ شاید برسوں بعد۔ اور اگلے ہی پل، غیر متوقع سہولت کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے۔

چند پل دونوں بھائیوں کے درمیان خاموش چھائی رہی۔ صدیوں کی خاموشی۔

پھر آنسوؤں کی دیوار گراتے ہوئے بوڑھے نے اُسے دیکھا، جس کے چہرے پر سورج کی آخری کرنیں پڑتی تھیں ۔ اُس کی آنکھوں میں سبک روی سے بہتا سکون تھا۔ اور ایک تبسم تھا، جو اُس کا تھا۔

تبسم، جو کائنات کا راز تھا۔

’’اے آنند۔‘‘ اُس نے ٹھیک ویسے کہا، جیسے وہ صدیوں قبل کہا کرتا تھا۔ ’’وقت آن پہنچا ہے۔‘‘

’’ہاں ۔‘‘ بوڑھا مطمئن تھا۔ مسرور تھا۔ ’’بس، تمھارا آخری پیغام یہاں ثبت کر دوں ۔‘‘ اس نے ایک بوسیدہ کاغذ پر قلم چلاتے ہوئے کہا۔ ’’دنیا کو اُس کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ لمحۂ حال کی کائنات تھی، جس کا مرکز سفیدے کا درخت تھا، جس کے نیچے بینچ تھی، جس پر دو بوڑھے بیٹھے تھے۔

سورج مغرب میں ڈوبتا تھا۔اور وہ الوپ ہونے کو تھے۔

٭٭

 

لمحۂ موجود، کراچی:

پارک میں اندھیرا تھا۔اور دو سائے سفیدے کی اُور بڑھتے تھے۔

’’Brother, something mysterious is going on here.۔ میں تو کہتا ہوں ؛ We are not needed. let’s get out of here.۔‘‘ ایک سایے سے آواز ابھری، جس میں لرزا تھا۔

’’Don’t be so sissy.۔ چلتے رہو۔‘‘ دوسرا، جو آواز سے پراعتماد معلوم ہوتا تھا، کہتا سنائی دیا۔

وہ بینچ تک پہنچ کر رکے، جس پر عین اوپر نصب اسٹریٹ لائٹ پر پتنگے رقصاں تھے۔

وہ دو نوجوان تھے۔ ایک ڈرا ہوا، مگر پُرتجسس ۔ اور دوسرا ڈر اور تجسس دونوں ہی احساسات سے بے پروا۔

ڈرے ہوئے نے دھیرے سے کہا۔ ’’Sounds spooky.۔ ابھی تو وہ دونوں Old men یہیں تھے۔ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔‘‘

دوسرے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس خاموش، بینچ کے کونے پر پڑے اس کاغذ کو تکتا رہا، جو تاریکی میں دمکتا تھا۔

پہلے کی نظر اس پر پڑی۔ وہ جھکا۔ ٹکڑا اٹھا لیا۔

’’بھکشو موروثی سیاست لعنت ہے: بدھا‘‘ ڈرے ہوئے نے بہ مشکل، ہجے کرۂلمحہا پہنچے تشکیل: اعجاز عبیدم کی

ے اصل کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔کے پڑھا۔ ’’بڈھا؟ I am not getting it.، کون بڈھا۔ Very strange.۔‘‘

’’Not really.۔‘‘ دوسرے نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ اور اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر ایک غی٭

ر متوقع سہولت کے ساتھ پرزوں میں تقسیم کرنے لگا۔

’’یہ ک ک ک کیا کر رہے ہو It must be important.‘‘ پہلے نے، شاید تجسس، یا شاید خوف کے زیر اثر کہا۔

’’Maybe, and maybe not.۔‘‘ دوسرے نے کاندھے اچکائے۔ ’’اب کیا ہر بات کوئی بڈھا ہی سمجھائے گا۔ Our generation need nobody.‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مڑا۔ ’’ Let’s go.‘‘

اُس کے ساتھی نے تقلید کی، مگر مقلد نہ بنا۔ نہ جانے کیسے، نہ جانے کیوں اس سے کئی قدم آگے نکل گیا۔ شاید وہ ڈرا ہوا تھا، یا شاید، جو پیچھے رہ گیا تھا، اس کے قدموں کی رفتار توقع سے زیادہ سست تھی۔

اور وہ، جو پیچھے رہ گئے تھا، اس نے، دیوتاؤں سی بے نیازی سے ہاتھ جھٹکا۔ پرزے ہوا میں بلند ہوئے۔ اور اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں تاریکی میں گرنے لگے۔

پرزے دھیرے دھیرے زمین کی سمت آتے تھے۔ دھیرے دھیرے۔ پر زمین کے قریب پہنچ کر، انتہائی نزدیک پہنچ کروہ ہوا میں معلق ہو گئے۔

وہ، جس نے انھیں فضاؤں میں آزاد کیا تھا، رکا۔ مڑا۔

اور اس کی آنکھیں چمکیں ۔ اور ہوا میں معلق پرزے پل میں خاکستر ہوئے۔

اور راکھ کی صورت اَن جانی دنیاؤں کی سمت روانہ ہو گئے۔

وہ جس کی آنکھیں سے روشنی پھوٹی تھی، دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔

اور ٹھنڈی ہواؤں نے راستہ صاف کیا وہاں پھول بکھیرے اور آسمان سے پانی کے قطرے خاک بٹھانے کو گرے ابر اس پر سایہ فگن ہوا اور آسمانی نغمہ فضا میں گونجنے لگا

 

پس نوشت:اور اگر ہیسے ہوتا، تو یوں لکھتا: ’’اس کے شانت چہرے پر نہ تو دکھ تھا، نہ ہی سکھ وہ من ہی من میں دھیرے دھیرے مسکرا رہا تھا اور بچے سی مسکراہٹ چھپائے خاموشی اور سکون کے ساتھ چلتا جاتا تھا‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

    ادراک میں پیوست لمحۂ مرگ

 

 

نہیں ۔ مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ میرے قتل کی وجہ نہیں تھا۔ قطعی نہیں ۔ گو لمحۂ مرگ مجھے اِس کا کامل یقین تھا۔

میرے قتل کا سبب تو وہ قدیم ترین جذبہ تھا، جو انسان کو گوندھتے سمے اُس کی سرشت میں داخل کیا گیا۔ جس سے ہابیل اور قابیل کی لازوال اساطیر نے — فطرت کو مکمل کرنے کی غرض سے، ایک متوقع سانحے کے مانند — جنم لیا۔

جذبۂ رقابت، بے شک۔ میری حسین محبوبہ، بلا شبہہ۔

ہاں ، اِسی جذبے نے 24 مارچ 1947 کو دہلی پر اترنے والی دھند میں لپٹی ایک صبح، جب میرے قدم مندر کی سمت اٹھتے تھے، پیچھے سے وار کیا۔ اور میرا سر دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا مجھے ختم کر دیا!

 

کائنات کے مرکز میں دھڑکتا میرا دل شاید ابد تک اِس انکشاف سے کوسوں دور جہل کے صحرا میں بھٹکتا رہتا کہ یہ مجھ پر، بڑے ہی غیر متوقع انداز میں ، اور ایک حد تک خاموشی سے اتر آیا۔

یہ اُس وقت کی بات ہے، جب میں تیس کے پیٹے میں تھا۔ اور ایک ضعیف العمر شخص — ایسی صبح جب حادثات غیر امکانی معلوم ہوتے تھے — گرجے چلا آیا۔ یسوع کے کاندھوں کا بوجھ بڑھانے کے لیے۔ میرے روبرو اِس شریفانہ اعتراف کے لیے کہ اُس نے برسوں قبل، بٹوارے کے سمے، اپنی خوب رو بیوی پر تسلط قائم رکھنے کے لیے اُس شخص کو قتل کر دیا تھا، جو اُس کی عزت میں نقب لگانے کو تھا۔

اِس اعتراف نے، جسے اُس نے ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا، مجھے اتیت کے اُن پنوں تک رسائی کا موقع فراہم کیا، جن کا تعلق میری موجودہ زندگی سے نہیں تھا، بلکہ گذشتہ زندگی سے تھا۔ بیت چکی زندگی سے۔ ختم ہو چکی زندگی سے۔

میں نے اُن پنوں تک رسائی حاصل کی، جو میرے خوابوں میں گم ہو گئے تھے۔ اور یوں میں دھند میں لپٹی ایک ایسی صبح میں داخل ہوا، جو اِس شہر پر تین دہائیوں قبل اتری تھی۔ اس وقت، جب میں زندہ تھا، اور مرنے والا تھا۔

مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ میرے قتل کا موجب نہیں تھا۔ اور اب میں یہ جانتا تھا۔

میرے ہاتھ میں سریا تھا۔ اور میں اپنے قاتل کی جانب — جس نے گزرے زمانوں میں مجھے قتل کیا تھا — بڑھ رہا تھا۔ وہ یسوع کی شبیہ کے سامنے سرجھکائے بیٹھا تھا۔ اِس بات سے لاعلم کہ ٹھیک ویسے ہی، جیسے اُس نے تین عشروں قبل مجھ پر ایک گھاتک حملہ کیا تھا، میں بھی اُس پر حملہ کرنے والا ہوں ۔

حملہ جو اس کے سر کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گا۔

٭٭٭

بمبئی پر شام اتر چکی تھی۔ حبس نے شہر کو جکڑ رکھا تھا۔

میں اسٹول پر کھڑا تھا۔ گلے میں پھندا تھا۔ ہوا دان سے گرجے کا مینار دکھائی دیتا تھا، جہاں ایک لاش پڑی تھا۔

میں نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ میں اپنی موت کی وجہ بیان نہیں کرسکتا تھا کہ یہ انتہائی گنجلک تھی کہ میری خودکشی کا سبب سمے کی ندی میں بہتا قدیم، مگر بساند سے پاک جذبۂ انتقام تھا۔

اس روز — جب میں اتیت کی جان کاری سے لیس تھا — خود کو قتل کرنے والے کو قتل کرنے کے بعد مجھ پر لازم ٹھہرا کہ خود کو مرگ کے الاؤ میں جھونک دوں کہ ایک مذہبی پیشوا کا سفاک قاتل کے روپ میں سماج کے سامنے آنا — خصوصاً اس باعث کہ خداوند نے اپنے دشمن کو معاف کرنے کی نصیحت کی ہے، اور اس باعث بھی کہ مقتول ایک بوڑھا شخص تھا — کسی طور مناسب نہیں ۔

سو 24 مارچ 1979کو بمبئی پر نازل ہونے والی اُس حبس زدہ شام میں نے، بڑی سہولت کے ساتھ ، خود کو موت کے حوالے کر دیا۔

میں نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی کہ میں خودکشی کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتا تھا۔ اور اگر پیش کرتا بھی تو بھلا کون یقین کرتا؟

اساطیر حقیقت نہیں ہوتیں۔

٭٭٭

 

24 مارچ 2013 کو لاہور پر حملہ کرنے والی وہ دوپہر، ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی۔

اور ایسے میں اگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی صحافی کے قتل کی خبر جنم لے، تو جھلسے ہوئے ذہنوں میں جنبش کرنے والا پہلا خیال ماسوائے اِس کے اور کیا ہو گا کہ اُسے بے باکی اور بے احتیاطی کی سزا سنائی گئی۔ بس!

مگر اِس بار بھی، گذشتہ بار کی طرح، یہ میری موت کا حقیقی یا پھر اکلوتا سبب نہیں ہو گا۔ قطعی نہیں ۔

اِس واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی — جو ہونے کو ہے — ایک وجہ تو وہ درجنوں مشتعل افراد ہیں ، جو مذہبی منتروں کا جاپ کرتے ہیں ۔ اور ہشاش بشاش ہےں ۔ جو اُس مکان کی سمیت، جس میں مَیں خود کو موجود پاتا ہوں،  بستی کے کئی مکانات کو نذر آتش کر چکے ہیں ۔ وہ میری بے ضرر تحریروں کو اپنے اشتعال کی، جو اُن کے نزدیک ایک نیک جذبہ ہے، وجہ بتاتے ہیں ۔ البتہ یہ نہیں بتاتے کہ اُنھیں بھیجنے والے اِس اقلیتی بستی کی زمین پر قبضے کے متمنی ہیں کہ یہ شہر کے بیچوں بیچ ہے۔ اور قیمتی ہے۔

وہ یہ وجہ چھُپا جاتے ہیں ۔

جب جلتی ہوئی دیواروں میں سرکتی حدت پہلی بار میرے بدن تک پہنچی، اور موت کے امکان نے انگڑائی لی۔ تب، ٹھیک تب — ٹھیک ویسے ہی جیسے برسوں قبل گرجا گھر میں کچھ وقوع پذیر ہوا تھا — کچھ وقوع پذیر ہوا۔

ایک انکشاف مجھے پر اترا۔

مجھے اپنا پچھلا جنم یاد آگیا۔ اور پھر، یقینی طور پر، اُس سے پچھلا۔

اور میں نے کرم کے قانون کو سجدہ کیا۔ اور پھر اِس ماجرے کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے’’ لیپ ٹاپ‘‘ کے سامنے آن بیٹھا۔ حدت سے جوجھتے ہوئے یا اُسے برداشت کرتے ہوئے، سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی۔ یہ سوچ کر کہ کاغذ پر لکھے شبد تو جل کرخاکستر ہو جائیں گے، مگر سائبر اسپیس کی لامتناہی دنیا اِس کی حفاظت کرے گی۔

تو میں قتل ہونے کو ہوں ۔ اپنی بے باکی اور بے احتیاطی کے باعث نہیں ، بلکہ اُن شعلوں کی وجہ سے، جنھیں مذہبی تعصب کے پنکھ ہوا دیتے ہیں ۔ یا پھریا پھر اُس عفریت کی وجہ سے، جس نے پل بھر پہلے زمین کی اتھاہ گہرائی میں کروٹ لی ہے کہ جس نے میرے پیروں تلے لرزا طاری کر دیا ہے۔ اور مجھے یہ ادراک عطا کیا ہے کہ برسوں بعد زلزلے کے شکار اِس بیتتے لمحے کا ادراک اپنے انوکھے پن کے ساتھ ایک بار پھر مجھ پر اترے گا۔

ہاں ، اگلے جیون میں ۔ ٹھیک اُس لمحے، جب پچھلے جیون کے کرم تعاقب کرتے مجھ تک آن پہنچیں گے۔

اور مرگ کا عظیم لمحہ خود کو موجود کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

    مکّو دادا کی اساطیر

 

 

 

وہ تاریخی اہمیت کا حامل ایک عام دن تھا۔

صبح کا آغاز موبائل چھن جانے جیسے عمومی اور ’’بے ضرر‘‘ واقعے سے ہوا۔

دفتر پہنچ کر میں نے تیز پتی والی چائے پی، اور سانحے پر خداوند خدا کا شکر ادا کیا۔

شام ڈھلے، گھر لوٹتے سمے پُراسرارسرگوشیوں کی ہدایت پر نالے والی گلی لے لی۔ کچرا کنڈی کے پاس ایک نشئی بیٹھا تھا۔

’’لمحہ¿ موجود زندہ باد!‘‘اس نے نعرہ لگایا۔ میں نے اسے نظرانداز کر دیا۔

میں ایک لاابالی شخص کی طرح ہنستا کھیلتا، گیت گاتا گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک قدیم آواز نے دبوچ لیا۔

’’سالو، جانتے ہو میں کون ہوں ؟ مکّو دادا ہوں میں ۔ مکّو دادا!‘‘

کیسی دھار تھی۔ اس آواز نے میری بے ساختگی کو قتل کر ڈالا۔ میں پلٹا۔

وہ ایک ہجوم تھا۔ چند لڑکے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ پر وہ آواز کے ماخذ نہیں تھے۔ اُس کا ماخذ تو وہ دھان پان شخص تھا، جس کی بڑی اور بوڑھی آنکھوں میں وحشت تھی۔ اور خشک بالوں میں گنگا بہتی تھی۔ اور منہ سے کف اڑاتا تھا۔

وہ غصیل اور خستہ حال شخص مکّو تھا مکّو دادا۔ جس نے مارشل لا کے آخری دنوں میں پانچ افراد کو چھرا گھونپ کر علاقے میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ چندے کے ڈبے سے پیسے چرائے تھے۔ تین پولیس اہلکاروں کے سر پر مٹکے پھوڑ دیے تھے۔ کئی نوجوانوں کی رگوں میں ہیروئن کا نشہ گھولا۔ ایک بچے کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کا الزام بھی اُس پر عاید کیا جاتا تھا۔

تو وہ مکّو بدمعاش تھا۔ اور اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ۔ ’’ سالو، تمھیں کہا بھی تھا کہ یہاں دوبارہ قدم مت رکھنا۔ ماؤں بہنوں کو تاڑتے ہو۔ حرامیو!‘‘

لڑکے سراسمیہ اور ناراض دکھائی دیتے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ۔

وہ تاریخی اور لازوال دن تھا،

وہ سرگوشیوں بھری دنیا تھی،

میرے قدم جھنڈ کی سمت بڑھتے تھے،

اور ماضی ذہن کے پردے پر منعکس ہوتا تھا۔

٭٭

ابھی مارشل لا نہیں لگا تھا۔ نو گیارہ کا سانحہ کچھ دور تھا۔

یہ اُن دنوں کی کھٹکھٹاہٹ ہے، جب سردی، گرمی، دونوں بھاتے۔ موسم خزاں ، موسم بہار ایک سا لطف دیتے۔ ایک روپے میں سموسا مل جاتا، دو روپے میں چاٹ۔

ہم ابھی بچے تھے۔ ایک چھوٹی سی، تاریک اور سیلن زدہ عمارت میں زیر تعلیم تھے۔ اور اپنی استانیوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

اُسی زندہ اور شوخ زمانے میں پہلی بار میرا مکّو دادا سے سامنا ہوا۔ گو میں منٹو کے افسانے اور معتزلہ کی تاریخ پڑھ چکا تھا، مگر نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص ایک Living Legend ہے۔ ’’ذاتی اساطیر‘‘ رکھتا ہے۔

ہم میٹرک کا نصاب چاٹتے تھے۔ اور انٹرویل کا گھنٹا بجنے کے بعد ظہور میں آنے والی دنیا، ہماری دنیا تھی۔

اسکول کے باہر ایک تنگ گلی تھی۔ وہ ہماری ریاست تھی۔ ٹھیلوں پتھاروں کے باعث وہ سکڑ جاتی، پر ہم جگہ نکال لیتے۔

اس روز ہم کرکٹ سے دل بہلا رہے تھے۔

سرما تھا۔ بلا میرے ہاتھ میں تھا۔ گیند باز المعروف ناصر کالیا نہ جانے کس بات پر خفا تھا۔اس نے باﺅنسر سے حملہ کیا۔ میں نے ہُک کھیلا۔ گیند ساتھ والے مکان کی چھت پر غائب ہو گئی۔

مجھے مغلظات بکنے کے بعد مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ چند لحظے بعد ایک پٹ کھلا۔ غلیظ پردہ لہرایا۔ ایک نچلے متوسط طبقے کی عورت برآمد ہوئی۔

مذاکرات کے لیے اصولی طور پر مجھے آگے آنا تھا کہ میں ڈیل کارنیگی کو پڑھ چکا تھا، مگر غفور المعروف غفی چلبلا بازی لے گیا۔

’’خالہ۔ تمھاری چھت پر گیند آئی ہے۔‘‘

مجھے اُس کا اندازِ گفتگو ایک آنکھ نہیں بھایا، میں ہوتا، تو کہتا: ’’محترمہ، زحمت نہ تو ہو ذرا دیکھیں ، ہماری گیند غلطی سے آپ کی چھت پر چلی گئی۔‘‘

عورت چلبلے کے لہجے سے آشنا تھی کہ وہ بے ساختہ اور خوش بیاں معلوم ہوتا تھا کہ اُس کے بچے اُسے ایسے ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔

اُس نے ہمیں چھت پر چڑھنے کی اجازت دے دی۔

میں اور کالیا کوئی عذر پیش کرنے کی بابت سوچ ہی رہے تھے کہ چلبلا گیس کے میٹر، دیوار میں بنے مشکوک گڑھوں اور اِسی طرح کی کچھ اور سہولیات کے سہارے، مانند لنگور، دیوار پر چڑھ گیا۔ اور زرّافے جیسی گردن استعمال میں لاتے ہوئے ٹین کی چھت پر گیند تلاش کرنے لگا۔

تو اب چلبلا دیوار پر لٹکا تھا۔ میں اور کالیا اُسے دیکھ کر بغلیں بجا رہے تھے، مسعود المعروف ابو اور فیصل المعروف سنیل شیٹھی بھی ہمارے رقص مسرت میں شامل ہو گئے۔

اور تب اُس جادوئی لمحے کا جنم ہوا، جو تا حیات میرے ذہن پر چسپاں رہنے والا تھا۔

دھڑ سے دروازہ کھلا روشنی ہوئی پردہ سلوموشن میں لہرایا ڈرامائی موسیقی سنائی دی۔

وہ ایک آدمی تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں غضب کا جلال۔ بکھرے بالوں میں لاتعلقی۔ رنگ سیاہ مائل سنہری۔

’’ابے سالے۔‘‘ یہ وہ تاریخی جملہ تھا، جس نے اُس طلسماتی لمحے کو سبوتاژ کر کے مزید جادوئی کر دیا۔

وہ کسی عظیم سورما کے مانند، بھیم کے مانند، ڈنڈا لیے مکان سے باہر آیا اور اس نے مگدر لہرایا اور اردگرد خندقیں پیدا ہو گئیں ۔

میں اور کالیا دم دبا کر بھاگ نکلے۔ مڑ کر دیکھا، چلبلا عین ہمارے پیچھے تھا۔ انتہائی مطمئن اور مسرور۔

اور مکان کے دروازے پر وہ کھڑا تھا۔ ہاتھ میں ڈنڈا لیے۔ ڈنڈا، جو مثل مگدر تھا۔ جو اس کا ہتھیار تھا۔ اُس دیوتاؤں سے جلال والے کی پشت پر ایک پردہ لہرا رہا تھا۔ وہ عورت کھڑی تھی، جسے چلبلے نے خالہ کہہ کر پکارا تھا۔

اُسی سہ پہر کالیے نے مجھے مکّو دادا کے لازوال کارناموں سے آگاہ کیا۔ البتہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی والا قصہ گول کر گیا۔ اُس کا خیال تھا، اِن باتوں کے لیے ابھی میں بہت چھوٹا ہوں ۔

مجھے یاد ہے، مکّو کی دل دہلانے دینے والی کہانیاں سناتے سمے وہ بے طرح ہنس رہا تھا، جس سے مجھے گمان گزرا کہ وہ بدمعاش کا مذاق اڑا رہا ہے۔

وقت حسین وقت، برق رفتار وقت، الکس سے گزرتا رہا۔ سموسے کی قیمت ایک روپے ہی رہی۔ چاٹ چٹ پٹی تھی۔ ہمارا اور استانیوں کا پریم سمبندھ اب اٹوٹ تھا۔

اُن ہی دنوں ایک پکی پکائی، گندمی رنگت والی، انتہائی گھریلو عورت نے ’’نئی مس‘‘ کے طور پر انٹری ماری۔ اور ہمیں اسلامیات اور مطالعۂ پاکستان جیسے اہم ترین مضامین پڑھانے کا قومی و مذہبی فریضہ سنبھالا۔

وہ اس حد تک عام اور اپنی اپنی تھی کہ چند لڑکیاں از راہ مذاق اُسے امّی کہنے لگیں ، جس پر وہ شرما جاتی۔ مسعود ابو کے مطابق مسکراتے سمے وہ اپنا پیٹ ایک خاص ادا سے چھوتی۔

ایک دن امّی نے انٹرویل میں — وہ مقدس وقفہ جب ہم روٹی شُکر کر کے توڑتے، اور بانٹ کر کھاتے— ہمیں اپنے گھر سے کھانا لانے کی شریفانہ ہدایت کی۔

ہم نے شُکر کیا۔

جب اُس نے پتا بتایا، تو ہم انکشاف کے حصار میں آ گئے۔ انکشاف کہ وہ ہر صبح اُسی گھر سے برآمد ہوتی تھی، جس سے مکّو درآمد ہوتا تھا۔ شاید وہ اس کی ہم شیرہ تھی۔

توہم گذشتہ واقعے کی چٹختی یادوں سے لدے، کھلکھلاتے، ہنہناتے اس مکان کی سمت بڑھنے لگے، جس کی دیوار پر آج بھی چلبلے کے جوتوں کے نشان ثبت تھے۔

دروازہ بجایا گیا۔ وہ کھلا۔ ایک بچی۔ معصوم بچی۔

’’مس کا کھانا۔ ہی ہی ہی!‘‘ کالیے کا بھونڈا پن عروج پر تھا۔

بچی غائب ہو گئی۔ہم منتظر رہے۔ اور پھر ہواؤں کا رخ تبدیل ہوا۔ خشک پتے— سرخ، چنار کے پتے— مشرق سے ظاہر ہوئے۔ بادل امنڈ کر آئے۔ پرندوں کے جھنڈ دیکھے گئے۔ اور دروازہ کھلا۔

’’ابے کیا ہے؟‘‘ ایک مکروہ اور زندہ آواز۔

وہ ہی، یقینی طور پر۔

’’جی کھانا ہی ہی ہی۔‘‘ کالیا، یقینی طور پر۔

’’چلو بھاگو سالو۔‘‘ اس نے اپنے ٹریڈ مارک انداز میں ہمیں مخاطب کیا۔ ہمیں خوشی ہوئی۔ شاید ہم اس کی توقع کر رہے تھے۔

’’ماؤں بہنوں کو چھیڑتے ہو۔ نکل لو۔‘‘

ہم نکل لیے۔ واپس آ کر پورا واقعہ امّی کو گوش گزار کیا۔ امّی مایوس نظر آئیں ۔

دوسری استانی نے، جو قطعی امّی جیسی نہیں تھی، بلکہ ماڈرن اور شوخ اور قابل محبت تھی، مجھے دس روپے کا نوٹ تھمایا۔ ’’سنو لڑکے، سموسے لے آؤ۔‘‘

’’یس مس۔‘‘ میں نے نوٹ لیتے ہوئے فوجیوں کے سے انداز میں کہا۔

وہ پری وش مسکرائی۔ ’’دس سموسے۔ اور دس روپے واپس۔ سمجھے؟‘‘

کنوارے قہقہوں سے اسٹاف روم بھر گیا۔ میں نے بھونچکا رہ جانے کا بھونڈا تجربہ کیا۔

 

امیرالمومنین بننے کا سپنا ابھی ٹوٹا نہیں ہے، البتہ جلد ٹوٹنے کو ہے۔ پڑوس میں خلیفہ چنا جا چکا ہے۔ ایٹمی دھماکے ہو چکے ہیں ۔

ہمارا دڑبے نما اسکول، ایک چھوٹا سا دڑبے نما اسکول ہے۔ وہاں گھٹن اور تاریکی اور سیلن ہے، جو ہمیں بھاتی ہے۔

وہ ایک گنجان، غریب اور سیاست زدہ بستی کی تنگ سی گلی میں واقع ہے۔ گلی جو پتھاروں اور ٹھیلوں سے بھری رہتی۔ کھانے کے وقفے میں وہاں کنوارے لڑکوں اور باکرہ لڑکیوں کا ظہور ہوتا۔ وہ خود کو روئے زمین کی عقل مند ترین مخلوق خیال کرتے۔ اور وہ گلی، خود کو روئے زمین کی خوش قسمت ترین گلی۔

انٹرویل کے دوران اسکول کے مرکزی دروازے سے پندرہ قدم بائیں ، اور پندرہ قدم دائیں گن کر، چند تگڑے لڑکوں کو کھڑا کر دیا جاتا، جو ہوتے تو چوکی دار، مگر خود کو Custodian کہہ کر متعارف کرواتے۔

اُس تنگ سی گلی میں ہمارے لیے خاصی کشادگی تھی۔ ہم مرکزی دروازے کی بائیں جانب پندرہ قدم گنتے، پھر اُن میں پانچ قدم مزید جوڑ دیتے۔ اور یوں اپنی بیٹھک تک پہنچ جاتے۔

یہ مکّو دادا کا علاقہ تھا۔

اُس کے خستہ حال مکان کے باہر ادھڑا ہوا چبوترا تھا، جس پر بیٹھنا یار دوستوں کو تو گوارا تھا، مگر مجھے نہیں کہ یہ سراسر بد تہذیبی کے زمرے میں آتا۔ البتہ اس چبوترے کے کونے میں ایک بڑا سا پتھر، جو کبھی کبھی پوری ایک چٹان کا التباس پیدا کرتا، دھرا تھا۔ پتھر حیران کن حد تک ہموار تھا۔ وہ چبوترے کا سب سے اونچا مقام تھا۔ اس تخت کے مانند، جس پر کبھی شہزادے بیٹھا کرتے تھے۔ اور وہیں بیٹھے بیٹھے رفع حاجت کیا کرتے۔

تو وہ ہمارا تخت تھا۔ وہ ہماری دنیا تھی۔

بیٹھنے سے قبل پھونک مار کر کہ قوی الجثہ پتھر سے مٹی اڑانا باقاعدہ ایک رسم تھی۔ کبھی کبھار وہاں ہمیں پانی گرنے کی، جھرنوں کی آواز سے مشابہ، مشکوک آوازیں سنائی دیتیں ۔ پُراسرار طور پر تعفن پھیل جاتا۔

پھر عقدہ کھلا کہ یہ دراصل گٹر ہے، جو مکّو کے مکان کی سیوریج لائن سے جڑا ہے۔ اندر ہونے والی کارروائیاں ہی پانی گرنے کا شور اور تعفن پیدا کرتی ہیں ۔

تو ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ہم دوست وہاں ، اسی تخت پر، شہزادوں کے مانند براجمان تھے۔ اور اس واقعے کو بیتے، جب مکّو نے چلبلے پر مگدر سے حملہ کیا تھا، خاصا وقت بیت گیا تھا۔ اور بہت سی بارشیں ہو چکی تھیں ۔ اور ہم اکھڑ اور پُر اعتماد ہو گئے تھے۔

تو ہم تخت پر بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔ میرا معصومانہ قہقہہ سب سے بُلند اور پُر قوت تھا۔ ناصر کالیا، مسعود ابو اور غفور چلبلا میرے پھیپھڑوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد اوچھی حرکتوں پر اتر آئے۔

چلبلا ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا، اور بھیک مانگنے لگا۔ کالیے نے جنسی اشارے کیے۔ ابو چار ٹانگوں پر چلتے ہوئے فحش آوازیں نکالنے لگا۔

اچھا خاصا تماشا لگ گیا۔ گلی کی باکراہیں اور کنوارے ہماری سمت متوجہ ہوئے، اور پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

وہ تالیاں بجا کر، نعرے لگا کر سورماﺅں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ اس حوصلہ افزائی نے سورماﺅں کو مزید اوچھا کر دیا۔

عجیب، پراسرار طوفان بدتمیزی برپا تھا۔

اور تب مجھے یاد ہے، اچھی طرح ٹھیک تب وہ علامات ظاہر ہوئیں ، جو میں اپنی ننگی آنکھ سے پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ ہواؤں کا رخ بدلنا، سیاہ گھٹائیں ، خشک پتے، زرد تتلیاں ، پروں کی پھڑپھڑاہٹ

وہ ہی دروازہ، جس کے پیچھے ایک بوسیدہ غلیظ پردہ تھا، دھڑ سے کھلا۔ مکّو چھلانگ مار کر باہر آگیا۔

اُسے دیکھ کر ہمارے مسخرے پن کو بریک لگ گئے۔

اور وہ دہاڑا۔ ’’سالو، کتنی بار منع کیا ہے۔ یہاں مائیں بہنیں رہتی ہیں ۔ حرامیو‘‘

وہ آگے بڑھا۔ ہم پیچھے ہٹے، مگر چلبلا وہیں کھڑا رہا کہ اب وہ بھاگنے کو تیار نہیں تھا کہ اب وہ بڑا ہو گیا تھا، اور مہینے میں ایک بار زیر ناف بال صاف کیا کرتا تھا۔

’’سالو‘‘ اور اس نے اپنا مگدر گھمایا۔

وہ منظر سلو موشن میں تھا۔ مکّو نے چُلبلے کو گریبان سے پکڑ لیا۔

’’تجھے تو میں وہاں پہنچا دوں ‘‘ کف اڑاتے ہوئے اس عقوبت خانے تذکرہ کیا، جو ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے طور پر مشہور تھا۔

چلبلا متاثر نہیں ہوا کہ اُس کے چاچے، مامے، پھپھے، خالو، بھائی، بہن؛ سب اسی سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔

اس نے مکّو کو زور سے دھکا دیا۔ بدمعاش کا خستہ حال بدن دھکے کی شدت برداشت نہیں کرسکا۔ اور ہم نے ایک Living Legend کو زمین پر پڑا دیکھا۔

وہ افسوس ناک منظر تھا۔

قہقہے بلند ہوئے۔

Living Legend چھلانگ مار کر کھڑا ہو گیا۔ اوراس لمحے میرے کانوں نے وہ طلسماتی آواز سنی، جس نے ہنوز مجھے حصار میں لے رکھا ہے۔

وہ چاقو کھلنے کی آواز تھی۔

پورب، پچھم، اتر، دکن؛ ہر سو سراسیمگی اور ہیبت پھیل گئی۔ بندر جفتی کے عمل سے باز آئے۔ ہاتھی گوشت کھانے لگے۔

’’کیا کر رہے ہیں بھائی۔‘‘ ایک عورت ہجوم کو چیرتی آئی۔ اب وہ مکّو اور چلبلے کے درمیان کھڑی تھی۔

میں نے دیکھا۔ یہ وہی عورت تھی، جسے سب امّی کہا کرتے۔

کالیا اور ابو نے آگے بڑھ کر چلبلے کو پکڑ لیا۔ اسے گھسیٹنے لگے۔ ان کی ناکامی نے مجھے تحریک دی۔ ہماری بھرپور کوششوں کے طفیل چلبلا محفوظ علاقے میں پہنچ گیا۔ مکّو بوسیدہ پردے کے پیچھے غائب ہو گیا۔

واقعہ گزر گیا۔

اس دوپہر چلبلا غصے سے پھنکارتا رہا۔ استانیاں اس پر اپنی اجلی محبت اچھالتی رہیں ۔

جاتے سمے اس نے انکشاف کیا کہ کل کا دن، مکّو کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔

ہم ڈر گئے۔ خطرے کے پیش نظر چھٹی کے بعد ابو، ایک بڑے بھائی کی طرح، اُسے گھر چھوڑنے گیا۔

اگلے روز چلبلا نہیں آیا۔ دوسرے یا شاید تیسرے پیریڈ میں ابو نے، جو ہیڈ بوائے تھا، انکشاف کیا کہ وہ (چلبلا) شلوار قمیص میں ملبوس اپنے چاچے، مامے، پھپھے، خالو اور بھائیوں کے جھرمٹ میں ، پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں دیکھا گیا ہے۔

مجھے خطرہ محسوس ہوا، مگر پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ پرنسپل صاحبہ اپنی دراز میں ریوالور رکھا کرتی ہیں ۔

ابو نے یہ بھی بتایا کہ High profile میٹنگ خاصی دیر جاری رہی، جس کے بعد چاچے، مامے چلبلے کو لیے گھر لوٹ گئے۔

’’اور جاتے سمے ان کے سر بلند تھے چال میں گستاخی تھی سینے پھولے ہوئے وہ فاتح معلوم ہوتے تھے۔‘‘ ابو نے کہا۔

انٹرویل سے کچھ لمحات قبل اسکول میں پُراسرار واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

بتیاں خود بہ خود جلنے بجھنے لگیں ۔ سلفر کی بُو پھیل گئی۔ لنچ بکس سے سسکیاں سنائی دینے لگیں ۔ تختہ¿ سیاہ پر بے ربط لکیریں ظاہر ہوئیں ۔ اور لڑکیوں کو ماہ واری شروع ہو گئی۔

پیچیدگی پھیلی، تو اسٹاف روم، جو ہماری کلاس سے چسپاں تھا، دھیرے دھیرے خالی ہونے لگا۔ ہیڈ بوائے اور ہیڈ گرل نے بھی ایک دوسرے کو چند ناقابل فہم اشارے کیے، اور اٹھ گئے۔

میں ان دونوں کا تعاقب کرتے ہوئے اسکول سے باہر آگیا۔

مکّو کے گھر کے پاس رش لگا تھا۔ وہاں سے گڑگڑانے، کسمسانے اور منمنانے کی آواز آ رہی تھی۔

میں آگے بڑھا۔ کہنیاں مار کر ہجوم میں جگہ بنائی۔

وہ پرنسپل صاحبہ تھیں ۔ سخت غصے میں ۔ منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ آنکھیں سرخ۔ اُنھوں نے بچوں کی طرح انگلیوں کو ریوالور کی شکل دے رکھی تھی۔

اور اُن کے عین سامنے مکّو مکو دادا ایک اساطیری کردار؛ بھیگی بلی بنا کھڑا تھا۔ وہ مسکین اور پھٹے حال معلوم ہوتا تھا۔

’’باجی نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں میں تو میں ‘‘

’’تم نے میرے اسٹوڈنٹ پر چاقو سے حملہ کیا۔‘‘ پرنسپل صاحبہ المعروف بوڑھی شیرنی دہاڑی۔ ’’تمھاری ہمت کیسے ہوئی۔ وہ بچہ یہاں پڑھنے آتا ہے۔‘‘

مجھے دُکھ ہوا۔ وہ غلط بیانی سے کام لے رہی تھیں ۔ چلبلا کبھی پڑھنے نہیں آیا، وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا۔ ’’میں تو یہاں ٹائم پاس کرنے آتا ہوں ۔‘‘

’’نہیں باجی میں تو‘‘

’’اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی، تو میں پولیس بلوا لوں گی۔‘‘

’’ارے نہیں ہم تو شریف لوگ ہیں بال بچے دار۔ باجی آپ تو جانتی ہیں ۔‘‘ گڑگڑاہٹ۔ منمناہٹ۔

’’میں نے تمھیں بچا لیا، ورنہ وہ تمھیں گھسٹیتے ہوئے ندی والے اسکول لے جاتے۔‘‘

ندی والا اسکول وہی عقوبت خانہ، جس کی بابت خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کا دفتر ہے وہ ہی عقوبت خانہ، جہاں کل دوپہر مکّو چلبلے کو لے جانے کی دھمکی دے رہا تھا۔ اور آج

کیسی بلندی کیسی پستی!

’’نہیں باجی میں تو یہ تو میرے بچے ہیں میرے بچے۔‘‘

مکو آگے بڑھ کر کالیے سے لپٹ گیا۔ اس کا ماتھا چوما۔ گال چاٹا۔

کالیے نے اسے خود سے پرے دھکیل دیا۔

’’آیندہ مجھے کوئی شکایت ملی تو‘‘ پرنسپل صاحبہ۔

’’نہیں باجی آپ تو میری ماں ہو کوئی شکایت نہیں ملے گی۔ ہم شریف لوگ ہیں ‘‘

اُس دن کے بعد میں نے پھر کبھی مکّو کو گلی میں جھاڑو لگاتے نہیں دیکھا۔ خود سے جُڑی اساطیر کم زور پڑتے ہی غائب ہو گیا۔ اس کی بہن کو اسکول سے فارغ کر دیا گیا۔ ہم یہ قصّہ بھول کر پھر اسی چبوترے پر شہزادوں کے طرح بیٹھنے لگے۔

میٹرک کا مرحلہ طے ہوا۔ اس گلی سے جُڑا رومانس اختتام کو پہنچا۔ وہاں کے قصّے، وہیں دفن ہو گئے۔ ہم آگے بڑھ گئے۔ دوست بھی اب کم کم ملنے لگے۔

سب اپنی اپنی جنسی اور پیشہ ورانہ زندگی میں گم تھے ، اور دکھی تھے کہ تاریخی اہمیت کے حامل ایک عام سے دن کا ظہور ہوا۔ اور میرا ماضی میرے سامنے ناچنے لگا۔

’’سالو، جانتے ہو میں کون ہوں ؟ مکّو دادا ہوں میں ۔ مکو دادا!‘‘

آواز مجھے برسوں پیچھے لے گئی۔

میں پلٹا۔

وہ چند لڑکے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ۔ اور ان کے سامنے ایک دھان پان شخص، جس کی آنکھیں بڑی اور بوڑھی تھیں ، اور بال خشک، کھڑا کف اڑا رہا تھا۔

وہ ایک اساطیری کردار تھا۔

اور میں اس مختصر سے ہجوم کی سمت بڑھا۔ ایک جانب دھان پان، خستہ حال مکّو۔ اور دوسری طرف چار نوجوان؛ باغی اور ڈرے ہوئے ۔

اور میں ہجوم کا حصہ بن گیا۔

مکّو دادا نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ شاید پہچان لیا۔ یا شاید نہیں پہچانا۔ شاید مجھے وہ بچہ سمجھ بیٹھا، جس کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام اُس کی اساطیر کا حصہ تھا۔

وہ جھٹپٹے کا وقت تھا۔ مخمصے کا وقت تھا۔ میں مکّو کے سامنے تھا۔ میں چار نوجوانوں کے سامنے تھا۔ اور آج صبح ہی میرا موبائل چھینا گیا تھا۔

میں لڑکوں کی طرف جھکا۔ چلایا۔ ’’بھاگ جاؤ یہاں سے گدھو۔ جانتے ہو کون ہے؟ مکّو دادا ہے۔ سالو، ایک ہاتھ رکھ دیا، تو تمھاری ماں بہن ہو جائے گی۔‘‘

چاروں لڑکوں نے میری بات بے یقینی، بے زاری اور ناپسندیدگی سے سنی۔

میں نے مزید کہا۔ ’’چھے آدمیوں کو چھرا گھونپا تھا دادا نے۔ اب بھی چاقو پاس رکھتا ہے۔ دیکھنا ہے؟ دکھائے تمھیں اپنا چاقو؟‘‘

میرے لہجے میں رعب، غصہ اور التجا تھی۔ لڑکوں نے تینوں ہی پر ہم دردانہ غور کیا، اور دھیرے دھیرے کھسکنے لگے۔

جب وہ گلی کے نکڑ پر پہنچے، تو میں نے آواز لگائی۔ ’’سالو، آیندہ یہاں قدم مت رکھنا۔ یہ مکّو دادا کا علاقہ ہے۔‘‘

وہ چلے گئے۔

میں اور مکّو جھٹپٹے اور مخمصے کے درمیان ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے رہ گئے۔

وہ جادو بھرا لمحہ تھا۔

میں اس کی سمت مڑا۔ اور میرے چہرے پر ایک دوستانہ مسکراہٹ تھی کہ میں اس سے محبت کرتا تھا کہ وہ میرے بچپن کا انوکھا پن تھا۔

وہ ایک یاد تھا۔

ہواؤں نے رخ بدلا۔ ایک زرد تتلی منظر میں ظاہر ہوئی۔ ایک پرندہ ہمارے سروں پر پھڑپھڑا رہا تھا۔

مکّو دھیرے سے مسکرایا۔ آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔

وہ چند ساعتیں صدیوں سی طویل اور پَلوں سی مختصر اور کائنات سی بے انت تھیں ۔

اچانک مکّو دادا نے پلکیں جھپکیں ۔

لمحۂ موجود لوٹ آیا۔ سردی یک دم بڑھ گئی۔ کہرا چھا گیا۔ اور کہرے کے درمیان اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ۔ وہ شیر کے مانند دہاڑا۔

’’ابے، یہاں کھڑا کھڑا کیا کر رہا۔ چل نکل یہاں سے۔ آیندہ دیکھا، تو تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘ آخری جملہ کہتے کہتے اُس کی آواز رندھ گئی۔

میں ڈر گیا۔ اور فوراً وہاں سے کھسک لیا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://ijrakarachi.wordpress.com/category/%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A8-%D9%88-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1/%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84-%D8%AE%D9%88%D8%B1%D8%B4%DB%8C%D8%AF/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید