FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

قمر صدیقی کے کچھ تنقیدی مضامین

 

 

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

اقبال کا تصورِ موت

 

 

موت ایک ایسا عام فہم لفظ ہے جس کے تصور سے ہر انسان واقفیت رکھتا ہے۔ دن رات کے مشاہدات موت کے بے شمار مناظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے اعزاء و اقربا کے وداعِ دائمی کے وقت موجود نہ رہا ہو۔ حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اس قدر ہمہ گیر اور دن رات کے  معمولات میں شامل ہے اس کے تصور سے انسان گھبراہٹ اور پریشانی محسوس کرتا ہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے اور حیاتِ ابدی ممکن نہیں لیکن ہمارا دل و دماغ موت کے تصور سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو زوالِ زندگی یا اختتامِ زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے ذہن و تصور پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ موت کے بعد ہم لذائذِ دنیا و کوائفِ زندگی سے یک لخت محروم ہو جائیں گے اور موت ہمارے سارے ولولوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا خاتمہ کر دے گی۔ ہم زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں دائمی جمود اور ابدی تعطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہو گا۔

 

موت کے تعلق سے مذکورہ بالا خیالات ایک عالمگیر تصور کی صورت انسانی نفسیات میں رچ بس گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس تصور کے علی الرغم موت کے اسلامی تصور کو اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موت کے یہ معنی نہیں کہ یہ ہمیں ابدی نیند سلادیتی ہے بلکہ اقبال موت کو دوسری بہتر اور لازوال زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں:

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

 

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

 

اقبال کے نزدیک موت سے وہی لوگ ہراساں و پریشان ہوتے ہیں جن کا ایمان آخرت کے یقین سے محروم و تہی دامن ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آئندہ زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ موت کے خوف کو علامہ اقبال دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ تسلیم کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ انسان ذاتی منفعت جیسی ادنیٰ ترین چیز کے لیے توہزار ذلت و رسوائی برداشت کر لیتا ہے جبکہ موت جو کہ محض ہوش و حواس کا کچھ عرصہ موقوف ہونے کا نام ہے اس سے ہمہ وقت خائف رہتا ہے۔

ہمچو کافر از اجل ترَسِندہ ئی

سینہ اش فارغز قلب زندہ ئی

(کافر کی طرح موت سے ڈرتا ہے۔ اس کے سینے میں زندہ رہنے کا والا دل نہیں ہے۔ )

 

ایک بار سرورکائنات حضورؐ نے فرمایا کہ:

’’ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ مسلمان نہایت ذلیل و خوار ہوں گے۔ ان کی زندگی باعثِ ننگ و عار ہو جائے گی۔ ‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اُس وقت تو ان کی تعداد اب سے بہت زیادہ ہو گی۔ اصحاب نے پھر دریافت کیا یا رسول اللہؐ کیا اُس وقت مسلمانوں میں افلاس آ جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا نہیں وہ اُس وقت کافی خوش حال و دولت مند ہوں گے۔ اصحاب نے استفسار کیا یا اللہ کے رسولؐ پھر ناتوانی و بے چارگی کی کیا وجہ ہو گی۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی لعنت جو ان پر مسلط ہو چکی ہو گی وہ موت کا غیر معمولی خوف اور دنیا سے انتہائی محبت ہو گی۔ ‘‘

مذکورہ بالا حدیث کی کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہو جائے گا کہ موت کا خوف ارفع و اعلیٰ مقاصد میں کس طرح سد راہ ہوتا ہے۔ اقبال کی نظر میں موت سے خوف کھانا ایک سطحی جذبہ ہے کیوں کہ اُس چیز سے خوف کھانا جو اٹل اور ہمہ گیر ہو بزدلی کی علامت اور سراسر حماقت ہے۔ انسان اپنی ہزاروں کوششیں، لاکھوں تدابیر، فنِ طب کے مسلسل و لا محدود تراکیب سے بھی موت کو زیر نہیں کر سکا ہے۔ موت کے اٹل ہونے کو اقبال نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:

 

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اُڑ گیا

 

آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم، کیا گئے

زندگی کی شاخ سے پھوٹے، کھلے مرجھا گئے

 

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے، دم کے سوا کچھ بھی نہیں

 

موت کی اس ہمہ گیر اور عالم گیر حقیقت کو سمجھانے کے بعد اقبال یہ بتاتے ہیں کہ موت کیوں ضروری و لازمی ہے۔ فلسفہ کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ کسی چیز کا صحیح تعارف اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ضد موجود نہ ہو۔ روشنی کے لیے تاریکی، بیداری کے لیے خواب، خوشی کے لیے غم اور زندگی کے لیے موت۔ اقبال اس نکتہ کو نظم ’’فلسفۂ غم ‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

 

گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی

اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی

 

موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی

ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

 

ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں

جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں

 

اقبال کے تصورِ موت میں موت کتابِ زندگی میں ایک نئے باب کے اضافے سے عبارت ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ یہ نیا باب پہلے سے زیادہ حسین، زیادہ رنگین و دلفریب ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ ہر موت یا فنا کے بعد انسان ارتقا کا ایک درجہ طے کرتا ہے اقبال نے نظم میں بے شمار خوشنما تشبیہوں و استعاروں سے کام لیا ہے۔ غروب و طلوع آفتاب دن رات کا قصہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پھولوں کی شاخ میں پہلے کی پھوٹتی ہے جو بڑھ کر پھول کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جانتے تو سب ہیں دیکھتا بھی ہر شخص ہے مگر اقبال کی دور رس و حقیقت شناس نظر اسی چیز کو اور ہی زاویے سے دیکھتی ہے۔ وہ نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اس سے وہ سبق حاصل کرتی ہے جس سے موت کی حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس نظم کے آخری بند میں   اقبال کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں:

 

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

 

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

 

اقبال کا تصورِ موت فکر اسلامی کے عین مطابق ہے۔ اُن کے نزدیک خواب و بیداری اور موت و حیات کا تعلق یکساں ہے۔ جس طرح سوتے وقت انسان دنیا و مافیہا سے کچھ دیر کے لیے بے خبر ہو جاتا ہے اسی طرح موت گو ظاہر بین نظروں کے لیے کتابِ زندگی کو تہ کر دیتی ہے۔ لیکن باطن بیں نگاہیں حیاتِ مابعد کے مناظر سے آشنا ہو جاتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تہذیبی تبدیلیوں کے دور میں ادب کا کردار

 

 

اگر یہ کہا جائے کہ کرۂ ارض ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور یہ چھوٹی سی جگہ بھی اب مسلسل سمٹ رہی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ گلوبل ولیج کی سوچ تو سٹیلائیٹ دور کے شروعات کی بات تھی۔ اب انسان 3Gاور4Gکے اس دور میں سائبر اسپیس کا سند باد بن چکا ہے۔ بہت پہلے بل گیٹس نے کہا تھا کہ:

’’انٹر نیٹ ایک تلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے، اس میں ڈوب جائیں گے۔ ‘‘

بل گیٹس کی بات خواہ غلط ہو یا صحیح حقیقت یہ ہے کہ آج ہر جگہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی حکمرانی ہے۔ گھر ہو یا دفتر، علم ہو یا علاج، معیشت ہو یا ثقافت اور فن ہو یا تفریح ………ہر شعبۂ حیات میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل صاف نظر آتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مختلف ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے مزید نئی نئی ٹیکنالوجیزسامنے آ رہی ہیں، بلکہ دیوندر اِسّر کے لفظوں میں تو ساری دنیا گھر کے آنگن میں سمٹ آئی ہے اور آنگن پھیل کر ساری دنیا کی وسعت سے ہم کنار ہو رہا ہے۔ الیکٹرانک مشینوں کو کہیں سے بھی ہدایتیں دی جا سکتی ہیں اور انھیں حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔ جب ہم گھر پہونچیں گے تو سب کچھ ہماری ضرورت اور ہدایت کے مطابق تیار ہو چکا ہو گا۔ پہلے زمانے کا شاعر دیواروں سے باتیں کرتا تھا، اب دیواریں شاعروں سے باتیں کریں گی۔ شاید ہمارے غم و انبساط میں بھی شریک ہوں گی!۔ ذہین، مکین ہی نہیں ذہین، مکان بھی ہوں گے۔ حساس دل بے حس تجربہ گاہوں میں تیار کئے جائیں گے اور منجمد سڑکیں متحرک ہو جائیں گی۔ انسان حادثات سے بچ جائے گا۔ کاریں آپ کو ڈرائیو کریں گی اور الیکٹرانک آلات آنے والے خطرات سے آپ کو آگاہ۔ دل کا دورہ ہو یا سڑک حادثہ، اس پیش خبری کے باعث ٹل جائے گا۔ کلوننگ سے پیدا ڈولی کو بھول جائیے، اب بھیڑیں فیکٹریوں میں تیار ہوں گی۔ جینیٹک انجینئرنگ کی مدد سے صرف چار بھیڑوں سے اتنی مقدار میں انسولین تیار کی جا سکے گی جو دنیا بھر کے ذیابطیس کے مریضوں کے لیے کافی ہو گی۔ کمپیوٹر انسانی ذہن کے حامل ہوں گے اور انسان کمپیوٹر کی مانند کام کریں گے۔ انسان اور حیوان کے اعضا ایک دوسرے کے جسم میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔ ذی روح اور غیر ذی روح میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا ایک ریلا ہمارے شب و روز کو اپنے زور میں بہائے لیے جا رہا ہے اور اس بہاؤ میں عا لمیت، قومیت، مقامیت، رنگ، نسل، ذات، طبقہ، فرقہ، مذہب اور جنس کے علاوہ مغرب اور مشرق کے تفاوت کے ساتھ ساتھ نہ جانے کن کن علوم، بشریات، سماجیات، تاریخ، فلسفہ، سیاست اور جانے کیا کچھ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگا ہے۔ تہذیبی اور تکنیکی سوچ ایک نئی حسیت کی پرورش کر رہی ہے۔ میڈیا یعنی ٹی وی، کمپیوٹر وغیرہ اس سوچ کو پھیلانے کے ہتھیار ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اطلاعات کی برق رفتار ترسیل نے بڑی سہولیات پیدا کر دی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ اطلاعات کی اس ترسیل کے ساتھ محض خبروں یا خبروں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ہی کی ترسیل نہیں ہوتی بلکہ یہ الفاظ اپنے ساتھ اپنا خیال اور اپنی فکر بھی لاتے ہیں۔ اس خیال اوراس فکر کے رد و قبول کے اختیار کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ذریعے اتنے تواتر اور شدت کے ساتھ مختلف طرح کے اقدار و خیالات ہم تک پہنچ رہے ہیں کہ ایک طرح کی ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ہماری اقدار سے مختلف اقدار ٹکرا رہی ہیں۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے یہ انتشار اور بحران تہذیب کے باطن میں اتر گیا ہے۔

برصغیر ہندو پاک میں یہ مواصلاتی انقلاب، سماجی اور مذہبی اقدار کی پامالی، خاندانی اور انفرادی سطح پر رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور بکھراؤ کے ساتھ داخل ہوا۔ آج اخبارات و رسائل، ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور فلموں سے ہوتے ہواتے یہ انقلاب کمپیوٹر، انٹرنیٹ بلکہ سائبر اسپیس کے ذریعے اطلاعاتی شاہراہ کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ 1945ءمیں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین، یوروپ، جاپان اور امریکہ میں شروع ہوئی ترقی کی بے نتیجہ دوڑ سے برصغیر ہند و پاک محفوظ تھے مگر اب یہاں بھی الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے باعث اندھی اور بے لگام صارفیت کی ڈھلان پر ہونے والی یہ "چوہا دوڑ”شروع ہو گئی ہے۔ لہٰذا اب ہمارے معاشرے میں بھی انسانی رشتے ہوں یا ٹوتھ پیسٹ، سب بازار کا مال بنتے جا رہے ہیں۔ در اصل گلوبلائزیشن کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ دنیا کی ہر شئے یک مرکزی (بلکہ بازار مرکزی) ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے پل پل خرچ ہوتے وقت کا سارا گوشوارہ بازار یا سرمایہ دار کنٹرول کرتا ہے۔ تفریحی پارک، شیطان کی آنت کی طرح مسلسل قسط در قسط پھیلتے ٹی وی سیریلس، شاپنگ مال، فیس بُک، ٹی – 20کرکٹ یہ سب سرمایہ داروں کے وہ حربے (Tools)ہیں جس کے ذریعے وہ ہمارے وقت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان زندگی کی چمچماتی سڑک پر نہ صرف مشین کی طرح دوڑنے پر مجبور ہے بلکہ وہ ایک ہی دن میں کئی ایام جینے کی اذیت میں بھی مبتلا ہے۔

آج گلوبلائزیشن نے بشمول ہند و پاک تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک بار پھر سے نوآبادیاتی صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ سیاست کے بجائے سامراجیت نے معاشی اور تہذیبی، فکری اور نظریاتی سطح پر اپنی جڑیں پھیلائیں ہیں۔ غور کیجئے ہندوستانی بازاروں میں کس کا مال سب سے اچھا تسلیم کیا جاتا ہے ؟ کس کے فیشن کو رائج الوقت تسلیم کر کے اس کی تقلید کی جاتی ہے ؟ کس کے افکار و خیالات کو اعتبار و سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ؟ظاہر ہے ہندوستانی بازاروں کو امریکہ اور اس کے حلیف کنٹرول کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں فیشن کو وہ میڈیا رائج کرواتا ہے جو امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ ہمارا بڑے سے بڑا دانشور جب تک کسی انگریز مفکر کا حوالہ نہ دے لے اپنی تحریر سے مطمئن نہیں ہو پاتا۔ در اصل ہم نفسیاتی طور پر ایک ایسے بے آب و گیاہ صحرا میں آپھنسے ہیں جسے خود استعماریت یا Self Colonization کہتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں جس کا ادب کی تخلیق و ترویج سے بھی گہرا تعلق ہے یہ تو محسوس کیا گیا کہ استعماری دور کے نظام تعلیم میں آزادی کے بعد تبدیلی لانی چاہئے مگر زیادہ تر جو تبدیلیاں روا رکھی گئیں وہ یا تو بے ضرورت تھیں یا پھر مغرب کی بے جا تقلید اور یہ سلسلہ کبھی سیمسٹر سسٹم تو کبھی گریڈنگ نظام کی صورت آج بھی جاری ہے۔ لہٰذا تعلیم کے روز مرہ وظائف یعنی درس و تدریس، تربیت اساتذہ، نصابی کتب کی تیاری اور اہلیتوں کی ارزیابی کا معیار متاثر ہونا لازم تھا اور پھر نئی نئی سائنسی دریافتوں کے چلتے بشری علوم اور زبانوں کی تعلیم سے معاشرے کی توجہ بالکل ہٹ گئی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہند و پاک میں بھی آزادی کے بعد غیر ملکی زبانوں میں تحصیل کا معیار قائم رہ سکا نہ ملکی اور قومی زبانوں کی طرف کوئی توجہ دی جا سکی۔ لہٰذا نئی نسل کے طلبہ میں بھی اپنے تہذیبی سرمائے کی طرف رغبت یا دلچسپی نہ پیدا کی جا سکی۔

رسمی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں تہذیبی سرمائے کی طرف رغبت پیدا کرنے میں غیر رسمی تعلیمی ادارے بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہر زندہ معاشرہ اپنے جلو میں کچھ ایسے تہذیبی اداروں کی پرورش کرتا ہے جو اگر بالواسطہ نہیں تو بلاواسطہ ادب کی غیر رسمی تعلیم کا انتظام و انصرام کرتے رہتے ہیں۔ ادب کی غیر رسمی تعلیم کے یہ ذرائع نہ صرف تہذیبی سطح پر کارآمد ہوتے ہیں بلکہ زبان و ادب کے ارتقا میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً جب استادی شاگردی کا ادارہ اٹھارویں صدی کی دہلی میں شروع ہوا تو بہت جلد اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی اور آگے چل کر اس ادارے کی اہمیت اس حد تک بڑھی کہ کسی شاعر کی خوبی کا ایک معیار یہ بھی بن گیا کہ وہ کس شاعر کا شاگرد ہے۔ مگر آج ادب کی تعلیم کے یہ غیر رسمی ذرائع محدود ہو گئے ہیں یا غیر موثر بنا دیے گئے ہیں۔ محفلیں، اجتماعی سرگرمیاں، ادیبوں اور فنکاروں کا عام لوگوں سے میل جول اور آپسی ربط و ضبط کے مواقع، نوواردان ادب کا بزرگان ادب سے مکالمہ اور سب سے بڑھ کر ہند و پاک کی تہذیب کا منفرد ادارہ یعنی مشاعرے، آج ہماری زندگی سے پوری طرح رخصت نہیں ہوئے تو نظروں سے اوجھل ضرور ہو گئے ہیں۔ مشاعروں کا اہتمام البتہ بہت ہو رہا ہے، لیکن شاید ہی کسی کو اس بات کا احساس ہو کہ فی زمانہ مشاعروں کا معیار کیا ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھانڈ اور شاعروں میں تفریق کرنے والے لوگ اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ رہا سوال نوجوانوں میں اپنے تہذیبی سرمائے کی طرف رغبت پیدا کرنے کے تعلق سے رسمی تعلیمی اداروں (مثلاً اسکول اور کالج وغیرہ)کے رول کا تو ان کا خدا ہی حافظ و ناصر ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ان کی طرف سے کسی پہل کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ بلکہ ہمارے اساتذہ کا حال تو یہ ہے کہ شاید ہی کوئی استاد میر و غالب یا اقبال جیسے مشہور شعرا کے کلام کی کسی تغیر و تبدل کے بغیر صحیح قرأت کر کے شعر کو شعر کی طرح پڑھ سکے۔ لہٰذا ایسے حالات میں نوجوانوں کی فنی نا پختگی کا الزام کس کے سر آئے گا؟

چونکہ معاشرے میں تبدیلیاں بڑی سرعت کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں لہٰذا ان تبدیلیوں کے اثرو نفوذ کے تعلق سے کوئی حتمی پیشن گوئی ممکن نہیں لیکن یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ یہ تہذیبی اتھل پتھل گلوبلائزیشن کی یک رخی تہذیب اور تیسری دنیا کی تہذیبی رنگا رنگی کے مابین جاری ثقافتی سرد جنگ کا نتیجہ ہے۔ برٹش ماہرِ سماجیات اسٹورٹ ہال نے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’ گلوبلائز ثقافت کی سب سے اہم خصوصیت اس کے یک رخے پن کی صلاحیت ہے۔ یہ تہذیبوں کی تکثیریت کو ایک بڑے ڈھانچے میں سمولیتی ہے۔ ایسی ثقافت خود کو ہمیشہ مرکز میں رکھتی ہے اور باقی سب کو حاشیے پر رکھتی ہے یا غیر Otherکی شکل میں پیش کرتی ہے۔ ‘‘

گلوبلائز ثقافت کے اس دور میں ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ مغرب سے طرز زندگی درآمد کرنے کا مسئلہ ایک خطرے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس تہذیبی درآمدات کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی تہذیب سے منقطع ہو گئے ہیں۔ مشرقی تہذیبوں کے لیے مغرب کی یہ ثقافتی یلغار یک سطحی نہیں ہے بلکہ ایشیائی تہذیب کو ایک ایسی چو مکھی تہذیبی جنگ کا سامنا ہے جس کی داغ بیل انگریزی سامراج کے زمانے میں ہی پڑ چکی تھی۔ ہم میں سے بہتوں کو حیرت ہو گی کہ کارل مارکس بھی ہندوستانی تہذیب پر انگریزی تہذیب کے غلبے کا کھلا حمایتی تھا۔ 25؍ جون 1952ء کے ’’نیویارک ڈیلی ٹریبون ‘‘ میں ’’ہندوستان میں برٹش حکومت‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ اُس کی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ ہندوستانی معاشرے کی بالکل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ کم از کم کوئی معلوم تاریخ نہیں ……  انگلستان کو ہندوستان میں دوہرا فریضہ انجام دینا ہے۔ ایک تخریبی اور دوسرا نو اصلاحی۔ قدیم ایشیائی معاشرے کو فنا کرنے اور مغربی سماج کی بنیاد رکھنے کا…….انگلستان کی مداخلت نے ہندوستان کے ان چھوٹے چھوٹے نیم وحشی، نیم مہذب گروہوں کی معاشی بنیادوں کو تہس نہس کر کے ایسے سب سے بڑے سماجی انقلاب کو رونما کیا اور سچ تو یہ ہے کہ ایشیا میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ‘‘

کارل مارکس کے اس بیان کو ہم آج کے افغانستان، عراق اور لیبیا پر بھی منطبق کر سکتے ہیں۔ وہاں جمہوریت اور آزادی کے نام پر ظلم کا جو ننگا ناچ کھیلا گیا۔ اس نے سائنس و ٹیکنالوجی کی اس برتری والی دنیا کو عہد قدیم کی وحشی دنیا کے مقابل لا کھڑا کر دیا ہے۔

در اصل تہذیبی آدان پردان کے قدیم اور روایتی سلسلے کو مغربی اقوام کی طاقت پرستی اور تعصب نے پوری دنیا کے لیے ایک تہذیبی بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو معروضیت، تعقل پسندی اور ترقی کا جواز پیش کیا ہے انسانی فکر و احساس اس سے بے نیازی نہیں برت سکتا۔ ظاہر ہے کہ کمپیوٹر، انٹر نیٹ، میڈیا اور انسانیت کو فیض پہچانے والی دوسری ٹیکنالوجیز سے کوئی انسان آنکھ موڑنا پسند نہیں کرے گا، لیکن ٹیکنالوجی کوکسی مخصوص تہذیب کو وسعت دینے کے لیے استعمال کرنا شاید ہی کسی کو قابلِ قبول ہو۔ لہٰذا ایک طرف تو ساری دنیا میں ایک مخصوص تہذیب کو رواج دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف امریکی مفسر سیموئیل ہٹینگ ٹن ’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔

ایسی صورتِ حال میں ادب کو کون سا رول ادا کرنا ہے ؟ اور تبدیلی کے اس عمل میں ادیب کا کردار کیا ہونا چاہئے یہ طے کرنا تو خیر مشکل ہے۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ تبدیلی کے اس عمل میں ادب اور ادیب دونوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور اگر ادیب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جائے تو وہ یقیناً اپنے دور کا امیر خسرو، میر و غالب، آتش و مصحفی، نظیر و انیس، حالی و داغ، اقبال و فیض بن جاتا ہے۔ ان تمام نابغۂ روزگار شخصیات کی تخلیقی جودت یہ تھی کہ انھوں نے روحِ عصر کو اپنے اندر سمویا اور تخلیقی تجربہ کشید کیا۔ ادب خارجی واقعات کا محرر نہیں، سو وہ واقعات کی تہہ میں خوابیدہ اسرار و تجربات کو اظہار کے سانچوں میں لازوال کرتا ہے۔ گویا اس کا منصب وقت اور عارضی کو ابدی اور لافانی میں ڈھالنا ہے۔ اس طرح وہ معاشرے کا واحد رکن ہے جو ہر طرح کے موسم اور حالات میں اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری پر متمکن ہے کیونکہ ادیب جغرافیائی حدود میں زندہ رہتے ہوئے بھی عالمی اور آفاقی وجود رکھتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اردو کے ابتدائی افسانہ نگار

 

اردو افسانے کے آغاز اور اولیت کو لے کر خاصے اختلافات رہے ہیں۔ حالانکہ اردو افسانے کا سفر کچھ ایسا طویل بھی نہیں ہے کہ یہ تحقیق کے لیے کوئی بہت بڑا چیلنج ہو۔ لیکن اردو افسانے کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ ہمارے زیادہ تر محققین کولسانی کھکھیڑیں سلجھانے اور قدیم ترین متون کی تدوین و ترتیب نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ وہ اس سمت بھی توجہ کرتے یا شاید افسانہ (یا تخلیقی ادب) ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔ خیر اس صورتِ حال کے مد نظر اردو افسانے کی روداد لکھنے کی ذمہ داری محققین کے بجائے ناقدین نے اپنے سرلی اور اس ضمن میں پہلا قدم ہی غلط پڑا۔

1955کے ’’نقوش‘‘ کے افسانہ نمبر میں شائع ایک بحث میں پروفیسر وقار عظیم نے پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار قرار دیا۔ پروفیسر احتشام حسین نے بھی اسی طرح ’’کتاب‘‘ (لکھنؤ) میں شائع ایک بحث میں سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند دونوں کو اردو کا اولین افسانہ نگار تسلیم کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم کو جو ابتدائی افسانہ نگار ملتے ہیں، ان میں دو نام نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ایک سجاد حیدر یلدرم کا اور دوسرا پریم چند کا۔ ‘‘ سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کرنے والوں میں پروفیسر احتشام حسین اکیلے نہیں ہیں۔ پطرس بخاری اور ڈاکٹر معین الرحمن بھی ان کے ہمنوا ہیں۔ ابو الفضل صدیقی نے ( ’’سیپ‘‘، کراچی 1980) سلطان حیدر جوش کو اردو کا پہلا افسانہ نگار قرار دیا ہے تو ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے خواجہ حسن نظامی کو۔

اردو افسانے کے محض گیارہ دہائیوں کے قلیل مدت کے سفر کی تاریخ کے تعلق سے اس طرح کا تضاد افسوس ناک بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ در اصل یہ پورا معاملہ غیر سائنسی طریقۂ تحقیق اور ذاتی ترجیحات اور تعصبات کا غماز ہے۔ وگرنہ اردو کے وہ ابتدائی ادبی مجلے جنھوں نے اول اول افسانے شائع کیے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور آج بھی وہ ہندوستان کی چیدہ چیدہ لائبریریوں میں دستیاب ہیں۔ مثلاً ’زمانہ ‘ (کانپور)، ’معارف‘ (علی گڑھ)، ’ مخزن‘ (لاہور اور دہلی)، ’اردوئے معلی‘ (علی گڑھ) وغیرہ۔

ڈاکٹر مسعود رضا خاکی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے 1965میں ’’ اردو افسانے کا ارتقا‘‘ کے موضوع پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں راشد الخیری کے افسانے ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ (مطبوعہ مخزن 1903) کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیا۔ پھر پروفیسر مرزا حامد بیگ نے ’مخزن‘ (لاہور، شمارہ 3، جلد 6، بابت دسمبر 1903 صفحہ نمبر 27تا 31) سے راشد الخیری کا یہ افسانہ حاصل کر کے 1991میں ’’فنون‘‘ (لاہور) میں شائع کروا دیا اور اس کے بعد سے راشد الخیری کے افسانے ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ کو اردو کا پہلا افسانہ تسلیم کر لیا گیا۔ 1997میں مظہر امام نے معروف پاکستانی رسالہ ’’آئندہ‘‘ (کراچی) میں بہار کے دو افسانہ نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ علی محمود ( پہلا طبع زاد افسانہ ’’چھاؤں ‘‘، ’مخزن‘۔ لاہور۔ بابت اپریل 1904) اور وزارت حسین اورینی( پہلا طبع زاد افسانہ ’’افسانۂ حرماں یعنی مرگِ محبوب‘‘، ’ اردوئے معلی‘۔ علی گڑھ۔ بابت جون 1905)بھی اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔

اردو کے قدیم ادبی مجلّوں مثلاً مخزن، اردوئے معلی، زمانہ اور عصمت وغیرہ کی فائلیں دیکھنے کے بعد اردو کے اولین افسانہ نگاروں کی فہرست اس طرح مرتب ہوتی ہے۔

۱۔ راشد الخیری، افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور ) دسمبر 1903

۲۔ علی محمود، افسانہ ’’چھاؤں ‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور ) جنوری 1904

۳۔ علی محمود، افسانہ ’’ایک پرانی دیوار‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور) اپریل 1904

۴۔ وزارت حسین اورینی، افسانہ ’’ افسانۂ حرماں یعنی مرگِ محبوب‘‘، مطبوعہ ’’اردوئے معلی‘‘ (علی گڑھ) جون 1905

۵۔ راشد الخیری، افسانہ ’’بدنصیب کا لال‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور) اگست 1905

۶۔ سجاد حیدر یلدرم، افسانہ ’’ دوست کا خط‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور ) اکتوبر 1906

۷۔ سجاد حیدر یلدرم، افسانہ ’’غربت و وطن‘‘، مطبوعہ ’’اردوئے معلی‘‘ (علی گڑھ) اکتوبر 1906

۸۔ راشد الخیری، افسانہ ’’عصمت و حسن‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (دہلی) اپریل تا مئی1907(دو قسطوں میں )

۹۔ راشد الخیری، افسانہ ’’ رویائے مقصود‘‘، مطبوعہ ’’مخزن ‘‘(دہلی) اکتوبر 1907

۱۰۔ سلطان حیدر جوش، افسانہ ’’نابینا کی بیوی‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (دہلی) دسمبر 1907

۱۱۔ پریم چند، افسانہ ’’ عشق دنیا اور حب وطن ‘‘، مطبوعہ ’’زمانہ ‘‘ (کانپور) اپریل 1908

۱۲۔ راشد الخیری، افسانہ ’’ نند کا خط بھاوج کے نام‘‘، مطبوعہ ’’عصمت‘‘ (دہلی) جون 1908

۱۳۔ راشد الخیری، افسانہ ’’شاہین و درّاج‘‘، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (دہلی) جون 1908

۱۴۔ پریم چند، افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ مشمولہ ’’سوزِ وطن‘‘ جون 1908(طبع اول۔ دہلی)

اس طرح اردو کے پہلے افسانہ نگار راشد الخیری قرار پاتے ہیں۔ دوسرے علی محمود، تیسرے وزارت حسین اورینی، چوتھے سجاد حیدر یلدرم، پانچویں سلطان حیدر جوش اور چھٹے پریم چند۔ مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں پریم چند کا افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ جسے اردو کا پہلا افسانہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے، تاریخی اعتبار سے اردو کے طبع زاد افسانوں میں اس کا نمبر چودھواں ہے۔

دیگر حضرات جن کے سر اولیت کا تاج رکھا جاتا رہا ہے ان میں سدرشن کا اولین افسانہ ’’ سدا بہار پھول‘‘ 1912کی تخلیق ہے۔ جبکہ خواجہ حسن نظامی کا اولین افسانہ ’’ بہرا شہزادہ‘‘، ’’ہمایوں ‘‘ کے جنوری 1913کے شمارے میں شائع ہوا۔ نیاز فتح پوری کا افسانہ ’’ایک پارسی دوشیزہ کو دیکھ کر ‘‘، ’’تمدن‘‘( دہلی) اور ’’نقاد‘‘ (آگرہ) دونوں رسالوں میں جنوری 1913میں شائع ہوا۔ اس طرح سدرشن، خواجہ حسن نظامی اور نیاز فتح پوری اردو کے افسانوی منظر نامے پر اس وقت نمودار ہوئے جب اردو افسانے کا سورج طلوع ہو کر کسی قدر روشنی بکھیرنے لگا تھا۔ البتہ چودھری محمد علی ردولوی کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ معلوم حقائق کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز یلدرم اور پریم چند کے ساتھ کیا لیکن چونکہ وہ اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھے لہٰذا کچھ اپنی سماجی حیثیت اور کچھ اپنے مزاج کی بنا پر انھوں نے رسائل کے مدیران کو افسانہ اشاعت کے لیے بھجوانے میں تامل برتا لیکن ان کی اس تساہلی کے باوجود انھیں اردو افسانے کے اولین معماروں میں شمار نہ کرنا بہت بڑی نا انصافی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اردو زبان کی روایت اور کبیر

 

کبیر کی تعلیمات کا بنیادی مقصد زندگی کی سچائیوں کا ادراک حاصل کرنا تھا۔ وہ بنیادی طور شاعر نہیں

تھے بلکہ انھیں ایک سماجی مصلح یا زیادہ سے زیادہ صوفی یا سنت کہا جا سکتا ہے۔ البتہ اپنے افکار و خیالات کی ترویج کے لیے انھوں نے شاعری کو ذریعہ بنایا۔ چونکہ وہ بھگتی اور صوفیانہ افکار سے متاثر تھے لہٰذا ان کا کلام بھی بھگتی اور صوفیانہ رنگ سے مملو ہے۔ اسی بھگتی اور تصوف کے رنگ کی وجہ سے کبیر کی تعلیمات زندگی کی فہم اور ادراک کا حوالہ بن گئیں۔ زندگی کے سارے روشن و تاریک پہلو ان

کی شاعری میں یوں منکشف ہوتے ہیں گویا ساجد و مسجود ایک دوسرے کے روبرو معلوم ہوں:

لالی تیرے لال کی، جِت دیکھو تِت لال

لالی دیکھن میں گئی، میں بھی ہو گئی لال

کبیر اپنی بھگتی میں اس مقام پر ہیں جو فکر و تردد اور غم سے آزاد ہے۔ فکر و تردد جیسے محسوسات دل میں اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل بھید بھاؤ کی آلائش میں لتھڑا ہوا ہو۔ در اصل بھگت اور بھگوان کے درمیان دوری ہی اس بھید بھاؤ کی جڑ ہے۔ جبکہ کبیر کا تو یہ حال ہے کہ "پھوٹا کنبھ جل، جل ہی

سمانا”۔ گویا کبیر کے نزدیک عبد و معبود کا رشتہ بہتے ہوئے جل کی مانند نہیں ہے بلکہ اس رشتے کی معراج لہروں میں سماجانا ہے:

کہنا تھا سو کہہ دیا، اب کچھ کہا نہ جائے

ایک رہا دوجا گیا، دریا لہر سمائے

ڈاکٹر تارا چند نے اپنی کتاب Infulances of Islam on Indian Culture میں تحریر کیا ہے کہ "کبیر نے مسلم صوفیا کی صحبت میں کافی وقت صرف کیا” اور "کبیر کے خیالات و جذبات پر صوفی درویشوں اور فارسی شعرا کی پوری چھاپ پائی جاتی ہے "۔ ڈاکٹر تارا چند نے پند نامہ، فرید الدین عطار، جلال الدین رومی، شیخ سعدی کی مثالیں دے کر کبیر سے ان کا موازنہ بھی پیش کیا اور ساتھ ہی ابنِ سینا، منصور حلاج اور بعض دوسرے صوفیا کے کبیر پر اثرات کا ذکر بھی کیا ہے۔

خود کبیر کی شاعری بھی اس کی غماز ہے۔ ان کی شاعری میں فارسی کے بعض مشہور شعرا کے جذبات و خیالات اس طرح جاگزیں ہیں کہ اکثر جگہوں پر ترجمہ کا گمان ہوتا ہے۔ مثلاً عمر خیام کی رباعی ہے کہ:

ایں کوزہ گراں کہ دست بر گل دارند

عقل و خرد و ہوش براں بگمارند

مشت و لکدد طمانچہ تاچندزنند

خاکِ بدہاں شاں چہ می پندا رند

[وہ کوزے بنانے والے کمہار( جن کے ہاتھ مٹی، گارے سے سنے ہوئے ہیں اور اس پر اپنی عقل، ذہن اور ہوش کو لگائے ہوئے ہیں ) کب تک اس پر مکّے، لات اور چپت مارتے رہیں گے۔ ان کے منہ میں خاک، وہ اس مٹی کو کیا سمجھتے ہیں۔ یہ مٹی عظیم تر باصلاحیت شخصیات کی خاک ہے۔ انھیں اس کی ایسی درگت نہیں کرنی چاہئے۔ ]

اب کبیر کا یہ دوہا دیکھئے:

ماٹی کہے کمہار سے تو کا روندے موہے

ایک دن ایسا ہوئے گا میں روندوں گی توہے

حافظ کا ایک مصرعہ "ہر کسے پنچ روزہ نوبت اوست”]ہر شخص کی نوبت پانچ دن کی ہے [ ضرب المثل کی طرح مشہور ہے۔ کبیر نے حافظ کے اس مصرعہ سے جگہ جگہ استفادہ کیا ہے۔ دو مثالیں پیش ہیں:

۱) کبیرا نوبت آپنی دس دن لیہو بجائے

۲) چار دن اپنی نوبت چلی بجائے

اسی طرح فردوسی کا شعر ہے:

چہ بندی تو دل بر سرائے فسوں

کہ ہر دم ہمیں آید آواز کوس

[تو اس رنج و الم سے بھری دنیا سے کیوں دل لگاتا ہے۔ یہاں تو ہر وقت چل چلاؤ اور کوچ کے نقارے کی آواز آتی ہے۔]

کبیر کے یہاں یہی مضمون اس رنگ میں نظر آتا ہے۔

کبیرا سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین

سُو انس نگارہ کوچ کا باجت ہے دن رین

اسی طرح مولانا روم اور شیخ سعدی کے مندرجہ ذیل اشعار سے کبیر نے جس طرح استفادہ کیا ہے وہ بھی قابلِ ذکر ہے۔

چشم بند و لب ببند و گوش بند

گر نہ بینی سر حق برمن بہ خند

[آنکھ، ہونٹ، کان بند یعنی دَم کو روکے رکھ، تجھے اُس کا دیدار ہو جائے گا اور اگر نہ ہو تو مجھ پر ہنس۔]

دیکھ ری دیکھ تجھ سہی تیرا دھانی، دم کو روک دیدار پاوے

دم کو روک ار، مول کو بند کر چاند سورج دھر ایک آوے

 

دل بدست آور کہ حج اکبر ست

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست

[کسی کا دل جیت لینا حج اکبر کے مانند ہے اور ہزاروں کعبوں سے ایک دل کی اہمیت زیادہ ہے۔]

 

ستّر کعبے یک دل بھیتر جو کر جانیں کوئی

شیخ سعدی ہی کا ایک شعر ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ جب تک انسان منہ سے کچھ بولتا نہیں ہے تب تک اس کی شخصیت کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا:

تا مرد سخن نہ گفتہ باشد

عیب و ہنرش نہفتہ باشد

اب کبیر کے یہاں دیکھئے کیسی یکسانیت ہے۔

بولیاں پیچھے جانیئے جو جاکو بیوہار

کبیر کے یہاں فارسی کی صوفیانہ شاعری کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ زبان و بیان بلکہ خیالات میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں کے علاوہ بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جس میں کبیر کی شاعری میں صوفیانہ افکار و خیالات کی گونج بہت واضح ہے۔ مثلاً مشہور صوفیانہ خیال ہے کہ موت کے انتظار میں غفلت نہیں برتنی چاہئے کیونکہ اس سے پردہ دور ہو جاتا ہے اور قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے۔ مشہور فارسی شاعر ابو سعید کے مندرجہ ذیل کلام میں اسی خیال کا اظہار ملتا ہے۔

دل خستہ و سینہ چاک می بایدشد

وزہستی خویش پاک می بایدشد

آں بہ کہ بخود پاک شویم اول کار

چوں آخر کار خاک می بایدشد

کبیر نے اس خیال کو کچھ اس طرح دہرایا ہے:

جیون تے مر بھلو مر جانے کوئے

مرنے پہلے جے مرے کل اجر اور ہوئے

حالانکہ قدیم ہندوستانی عقائد کے ساتھ ادب و ریاضت میں بھی موت کو نظر انداز کرنے کا رجحان ملتا ہے لیکن اس کے برعکس کبیر نے مسلم صوفیوں کا طرز اختیار کرتے ہوئے موت کو سود مند کہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیالات و افکار پر مسلم صوفیا کا اثر کس درجہ تھا۔ کبیر کے یہاں مسلم صوفیا کے افکار مثلاً کسی کی دل آزاری کی ممانعت اور دکھے دلوں کی آہ کے نتیجہ میں عذاب کی بشارت وغیرہ کا عموماً ذکر ملتا ہے۔ شیخ سعدی کے ایک شعر

چراغے کہ بیوآں زنے بر فروخت

بسے دیدہ باشی کہ شہرے بسوخت

کو کبیر نے کچھ اس ڈھنگ سے کہا ہے:

دربل کو نہ ستائیے جاکی موٹی ہائے

بنا جیوں کی سانس سوں، اوہ بھسم ہوئے جائے

ایک اور ہندی شعر میں بھی اسی طرح کا خیال پیش کیا ہے:

دکھیا کو تم جن کلپاؤ کہ دکھیا دیہہ روئے

دکھیا کے جو مکھیا سنہہ جڑے دیہی کھوئے

اوپر کبیر کی شاعری پر فارسی شعرا کے افکار و خیالات کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے اثرات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ خود اردو زبان اور اردو شاعری کے آغاز و ارتقا میں بھی کبیر کی شاعری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں کبیر سے منسوب مندرجہ ذیل ریختہ کو جس میں ردیف اور قافیہ کی پابندی بھی روا رکھی گئی بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔

سنتا نہیں دہن کی خبر ان حد باجا باجتا

رسمند مندر گاجتا باہر سنے تو کیا ہوا

گانجا افیم و پوستا بھنگ اور شرابیں پیوتا

اک پریم رس چاکھا نہیں علمی ہوا تو کیا ہوا

کاسی گیا اور دوارکا تیرتھ شکل بھرمت پھرے

گانٹھی نہ کھولی کپٹ کی تیرتھ گیا تو کیا ہوا

پوتھی کتابیں باچتا اوروں کو نت سمجھاوتا

نرکوٹی محل کھوجے نہیں بک بک مرا تو کیا ہوا

قاضی کتابیں کھوجتا کرتا نصیحت اور کو

محرم نہیں اس حال سے قاضی ہوا تو کیا ہوا

شطرنج، چوپڑ، گنجفہ اک مزد ہے بد رنگ کی

بازی نہ لائی پریم کی کھیلا جوا تو کیا ہوا

جو گی و گنبر سے بڑا کپڑا رنگے رنگ لال سے

واقف نہیں اس رنگ سے کپڑا رنگا تو کیا ہوا

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ریختہ موسیقی کی ایک اصطلاح ہے اور موسیقی میں اب بھی اس کا رواج تھوڑا بہت باقی ہے۔ مخدوم علاؤالدین اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں: "ریختہ کا اطلاق ایسے سرود پر ہوتا تھا جس میں ہندی اور فارسی کے اشعار یا مصرعے یا فقرے جو مضمون و تال اور راگ کے اعتبار سے متحد ہوتے تھے اور ترتیب دیئے جاتے تھے۔ ” اس کی مثال میں امیر خسرو کی وہ غزل پیش کی جاتی ہے جس کا مطلع ہے:

زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں

چوں تاب ہجراں ندرام اے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

کبیر کے یہاں زبان اور خیال دونوں سطحوں پر ہند +اسلامی روایت کا ابتدائی نقش جھلکتا نظر آتا ہے جس نے آگے چل کر اردو زبان کی صورت برصغیر ہندو پاک کی تہذیبی زندگی کو ثروت مند کیا۔ گذشتہ سطور میں فارسی شعرا اور کبیر کے خیالات میں مماثلت پر بحث آ چکی ہے اسی طرح زبان کے ارتقا کے سلسلے میں عرب علما مثلاً جاحظ، ابن قتیبہ، ابن رشیق، جرجانی اور خلدون وغیرہ نے بڑی دیدہ ریزی دکھائی ہے۔ خلدون اور جاحظ نے خیال کے مقابلے لفظ کو اولیت دی ہے۔ مثلاً: خلدون (۲۳۷ تا ۸۰۸ء)نے اپنے مشہور زمانہ مقدمہ میں نقل کیا ہے:

"یاد رکھئے ! شاعری یا مضمون نگاری کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے، معانی سے نہیں۔ اس سلسلے میں معنی الفاظ کے تابع ہوتے ہیں اور الفاظ ہی اصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا شاعر یا مضمون نگار جو اپنے اندر ملکہ پیدا کرنا چاہتا ہے وہ اپنی پوری پوری توجہ الفاظ پر رکھتا ہے۔ زبان پر گفتگو میں صرف الفاظ ہوتے ہیں اور معنی دلوں میں ہوتے ہیں۔ اس لیے شاعری وغیرہ کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے معنی سے نہیں۔ اس کے علاوہ معنی تو ہر شخص کے پاس ہوتے ہیں اور حسب منشا ہر فکر کے مسخر ہوتے ہیں۔ ان کے سلسلے میں کسی فن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ البتہ موزوں عبارت لانے کے لیے اور مناسب الفاظ استعمال کرنے کے لیے فن کی لاحق ہوتی ہے۔ الفاظ گویا معنی کے سانچے ہیں، جیسے برتن جن سے دریا سے پانی نکالا جاتا ہے۔ سونے، چاندی، سیپ، شیشے اور مٹی کے ہوتے ہیں اور پانی ایک ہی ہوتا ہے۔ معنی بھی ایک ہی ہوتا ہے، مگر زبان میں عمدگی اور بلاغت مختلف کلاموں میں اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ کون سا کلام مقاصد کے زیادہ مطابق ہے اور کون سا کم۔ جو تراکیب و اسالیبِ کلام سے نا آشنا ہوتے ہیں اور انھیں زبان کے ملکہ کے تقاضوں کے مطابق پیش نہیں کر سکتے اور کلام پھسپھسا لاتے ہیں، وہ بمنزلہ ایک اپاہج کے ہیں جو کھڑے ہونے کا تو قصد کرتا ہے مگر اپاہج ہونے کی وجہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ”

(مقدمہ ابنِ خلدون۔ ص: ۵۱۴۔ مترجم: مولانا راغب رحمانی۔ ناشر: نفیس اکیڈمی، کراچی۔ ۲۰۰۱ء)

ابنِ خلدون ہی طرح جاحظ بھی کلام میں لفظ کی فوقیت کا حامی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ:

"معنی تو پیش پا افتادہ ہوا کرتے ہیں، اسے تو عربی، عجمی، دیہاتی، شہری سب جانتے ہیں۔ در اصل اہمیت اوزان کی، اچھے الفاظ کے استعمال کی اور زبان کے سہل المخرج ہونے (وغیرہ وغیرہ) کی ہے۔ بیشک شعر ایک صنعت ہے اور تصویر کشی کا ذریعہ ہے۔ ”

(مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت۔ ص: ۴۶)

یہاں غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ کبیر کے یہاں بھی لفظ کی حرمت و احترام کا وہی احساس نظر آتا ہے جو مذکورہ عرب علما کا ہے۔ کبیر زبان کے تعلق سے  اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

"کبیر نے سادھوؤں سے کہا کہ شبدوں کی سادھنا کیجئے یعنی الفاظ پر عبور حاصل کرنے کے لیے ریاض ضروری ہے۔ لفظوں کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ممکنہ سعی کیجئے۔ الفاظ کو موتیوں کی طرح لڑی میں پرونا، ان سے ہار یا مالا تیار کرنا ہنر مندی کی دلیل ہے۔ کبیر کے نزدیک الفاظ کا درست استعمال ایک طرح کی روشنی اور انبساط کی حصولیابی کا وسیلہ ہے۔ ”

(اردو چینل، جلد ۹، شمارہ۱۔ مئی ۶۰۰۲ء۔ ص: ۹۲۱)

محمود شیرانی نے اپنی کتاب "پنجاب میں اردو” میں رقم کیا ہے: ” ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ریختہ نے موسیقی سے نکل کر عمومیت حاصل کر لی اور اس کا اطلاق ایسے کلام منظوم پر ہونے لگا جس میں دو زبانوں کا اتحاد ہو اور دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ریختہ ایسی نظم ہوتی تھی جس میں ہندی، فارسی کے اشعار یا فقرے متحد ہوتے تھے۔ ” یہی ریختہ آگے چل کر اردو کہلایا۔ شیرانی صاحب اپنی اسی کتاب میں تحریر کرتے ہیں: ” ریختہ سے مراد اگرچہ ولی اور سراج کے ہاں نظم اردو ہے لیکن دہلویوں نے بالآخر اس کو زبان اردو کے معنی دے دیئے اور یہ معنی قدرتاً پیدا ہو گئے اس لیے کہ ان ایام میں اردو زبان کا تمام تر سرمایہ نظم ہی میں تھا۔ جب نثر پیدا ہو گئی تو یہی اصطلاح اس پر ناطق آ گئی اس طرح ریختہ قدرتاً اردو زبان کا نام ہو گیا۔ ”

کبیر کا تعلق اودھی عل سے تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ ” شیخ عبد القدوس گنگوہی (1455ءتا 1538 ء) اور سنت کبیر (وفات1518 ء)کے پہلے کسی صوفی نے "ہندی /ہندوی” کو شمال میں ادبی اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا لیکن شیخ گنگوہی اور نہ کبیر نے اس خالص کھڑی میں لکھا جو ترقی کر کے آج کی اردو بنی۔ شیخ گنگوہی کی زبان پر برج حاوی ہے اور کبیر کی زبان میں اودھی اور بھوجپوری کے عناصر نمایاں ہیں۔ ” لیکن ان باتوں کے باوجود بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کبیر کی شاعری میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ اس زمانے کی عوامی زبان تھی اور ظاہر ہے کیا شمال، کیا جنوب اس دور کے ہندوستان میں جو لسانیاتی جگل بندی کا رواج شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں پورے ملک میں اردو کا جادو سر چڑھنے لگا تھا۔ اس زبان نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا تھا اور عوام میں یہ زبان تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔ گو کہ اس وقت اردو کے خد و خال بہت واضح نہیں ہوئے تھے۔ کبیر نے بھی اپنی شاعری کے لیے اسی عام فہم اور عوام فہم زبان و سہارا لیا تھا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کبیر کی شاعری اردو سے کتنی قریب ہے اوراسے سمجھنا آج بھی اتنا دشوار نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سنتھالی زبان کا لسانی و تہذیبی جائزہ

 

سنتھالی زبان کا تعلق Austro Asiaticلسانی خانوادے کی شاخ Mundaکی ذیلی شاخ Hoاور Mundariسے ہے۔ یہ ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ جھارکھنڈ، آسام، بہار، اڑیسہ، تری پورہ، میزورم اور مغربی بنگال کے مخصوص علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 2011کی مردم شماری کے مطابق 63لاکھ ہے۔ اس کا رسم الخط Ol Chikiکہلاتا ہے اور اس کی ایک ذیلی اسلوب یا بولی Mahaliبھی ہے جو خاصی تعداد میں بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں Gregory David Shelton Andersonاس بابت تحریر کرتے ہیں کہ:

"سنتھالی زبان کا تعلق لسانی خانوادے Mundaسے ہے۔ یہ زبان ہندوستان کے وسط مشرق اور شمال مشرق کے جھارکھنڈ، آسام، بہار، اڑیسہ اور تریپورہ وغیرہ میں بولی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں پچاس لاکھ، بنگلہ دیش میں دس لاکھ اور نیپال میں تقریباً پچاس ہزار تھی۔ "(1)

انیسویں صدی تک سنتھالی زبان صرف ایک بولی کی حیثیت رکھتی تھی۔ تاریخ، کہانیاں، گیت وغیرہ سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری تک منتقل ہوتے رہے۔ یورپی نو آبادیات کاروں نے اپنی انتظامی ضرورتوں کے تحت جب ہندوستانی زبانوں میں دلچسپی لینی شروع کی تو اسی دلچسپی کے نتیجے میں سنتھالی زبان کو تحریر کرنے کے لیے دیوناگری اور رومن رسم الخط کا استعمال کیا جانے لگا۔ 1860کے بعد یورپی بیور کریٹس اور مشنری نے سنتھالی زبان کی ڈکشنری، تراجم، لوک کہانیاں، صرف و نحواور سنتھالی حروف تہجی پر خاصا کام کیا۔ 1970میں پنڈت رگھوناتھ مورمونے سنتھالی زبان کو Ol Chikiرسم الخط میں لکھنے کا آغاز کیا۔ یہ رسم الخط سنتھالی بولنے والے اڑیہ اورسنگھ بھوم علاقے میں پہلے سے رائج تھا۔ البتہ مذکورہ رسم الخط کو تمام سنتھالی بولنے والی آبادی نے قبول نہیں کیا۔ مثال کے طور پر جھارکھنڈ میں درس و تدریس کے لیے دیوناگری رسم الخط اور بنگال میں بنگالی رسم الخط مستعمل ہے۔ علاوہ ازیں اس زبان کے بیشتر مخطوطات رومن رسم الخط میں ہیں لہٰذا تحقیق کے شعبے میں رومن رسم الخط کی اہمیت آج مسلم ہے۔

ہندوستان میں آنے والے آسٹری قبائل اپنے آغاز سے باہم اتحاد و اختلاط کی مثالیں پیش کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں سُونتی کمار چٹر جی تحریر کرتے ہیں کہ:

"ہندوستان آنے والے اور اپنی زبان کو محفوظ رکھنے والے آسٹری قبائل —-بے شک وہ دوسری نسلوں، منگولوں، دراوڑین اور شاید حبشیوں کے ساتھ مخلوط ہو گئے تھے —– کول (یا منڈا) اقوام میں (جیسے سنتھال، منڈا، ہوا(hos)، کوروا، بھومجی(Bhumijee) کرکو (Karku) سورا (soras)یا سوا را (Savaras)، گدابا(Gudabas) وغیرہ۔ "(2)

ہندوستان میں آسٹرو ایشیائی زبانوں کی قدامت اور پھیلاؤ سے متعلق کے۔ اے نیل کنٹھ شاستری نے تحریر کیا ہے کہ:

"آسٹرو ایشیائی زبانوں میں منڈا زبانیں ہیں جن میں دکن کے شمالی مشرقی علاقوں میں کھریا، جوانگ، سُوار اور گُڈا نیز مدھیہ پردیش کے شمالی مغربی اضلاع کی کرُو کی زبانیں شامل ہیں۔ اگرچہ ہند آریائی خزانۂ الفاظ پر مُنڈا زبان کا اثر نمایاں ہے لیکن دراوڑ زبان سے جو الفاظ لیے گئے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے کہ دراوڑ گروپ کی زبانوں کی ابتدا آسٹرو ایشیائی زبانوں سے نسبتاً زیادہ جدید ہے۔ چنانچہ آسٹرو ایشیائی زبانوں کے لیے عام طور سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ دراوڑ زبان سے پہلے کی زبانیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی زمانے میں مُنڈا زبانیں پورے شمال ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ کیونکہ ہمالیہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یعنی پنجاب سے بنگال تک کے علاقے میں جو متعدد مخلوط زبانیں بولی جاتی ہیں ان سب کی بنیاد یہی زبانیں ہیں۔ ” (3)

ہندوستان میں سنتھالی بولنے والوں کی آمد سے متعلق مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ البتہ زمانۂ قدیم سے ہندوستان میں ان کی موجودگی ثابت ہے۔ اس تعلق ممتاز مورخ رومیلا تھاپر نے تحریر کیا ہے کہ:

"ہڑپا اور موہن جوداڑو، وادیِ سندھ کی باقیات کا ایسا ثبوت ہے جس کے ذریعے ہندوستان میں آریوں کی آمد اور ان کی تہذیب کے پھیلاؤ سے پہلے کی زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ آریوں سے قبل ہندوستانی تہذیب میں اپنی موجودگی درج کرانے والے مختلف نسلی گروہوں کی شناخت مشکل ہے تاہم ماہرین ایسے چھ گروہوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

۱۔ Negritos

۲۔ Proto – Australoids

۳۔ Mongoloid

۴۔ دراوڑی (جس نے بعد میں آرین تہذیب سے مطابقت پیدا کی)

۵۔ Western Brachy Cephals

۶۔ Nordics

کھدائی میں ملی انسانی ہڈیوں کی تحقیق سے یہاں Proto Australoids، دراوڑی، Alpineاور Mongoloidتہذیبوں کے آثار ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ تسلیم کیا جاتا ہے مذکورہ بالا انسانی نسلیں ہندوستان میں پوری طرح آباد تھیں اور Proto-Australoid گروہ ہندوستان کی آبادی کی بنیاد میں شامل تھا۔ ان کی زبان Austric linguisticخواندے سے تعلق رکھتی تھی جس کی ایک شاخ Mundaہے جس سے مختلف قبائلی زبانیں نکلی ہیں۔ "(4)

اسی طرح L.O. Skrefsudکے مطابق سنتھالی ایران، منگولیا، افغانستان فتح کرتے ہوئے ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں داخل ہوئے اور پنجاب کو اپنا مسکن بنایا۔ آریوں کی آمد کے بعد وہ مسلسل پیچھے ہٹتے گئے حتیٰ کہ چھوٹا ناگپور کی سطح مرتفع میں آباد ہو گئے۔ اس کے برعکس Colonel Daltonکے مطابق سنتھالی شمال مشرق سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور چھوٹا ناگپور کی سطح مرتفع سے ہوتے ہوئے دریائے دامودر کے کنارے پھیل گئے۔ Colonel Daltonنے اپنے اس نظریے کی تائید میں سنتھالی زبان، رسم و رواج اور تہذیب اور شمال مشرق کے دیگر قدیم قبائل کی رسم و رواج اور تہذیب میں پائی جانے والی مطابقت کو پیش کیا ہے۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ بر صغیر ہند  و پاک کے دیگر قبائل کے علی الرغم سنتھالیوں نے اپنی تہذیبی شناخت کو حتیٰ المقدور برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ متعدد مرتبہ ہجرت، مغلوں اور یورپی اقوام کے حملوں کے باوصف سنتھالیوں کی سماجی زندگی مقامی زبان و تہذیب کے تحفظ سے عبارت ہے۔ اُن کی تہذیب کی عکاسی گھروں کی دیواروں پر مزین مصوری کے نمونوں اور لوک کہانیوں میں اپنے آباء و اجداد کو دیو مالائی شخصیت کے طور پر پیش کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان قصوں کے دو دیومالائی کردار ’پلچو ہرم‘ اور پلچو بھودی‘ معروف ہیں۔ سنتھالی موسیقی اور رقص کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی دیگر تہذیبوں کی طرح سنتھالی تہذیب مقامی اور مغربی تہذیب سے بہت زیادہ تو متاثر نہیں ہوئی لیکن یہاں عیسائی میشنری کی وجہ سے تعلیم عام ہوئی لہٰذا عیسائیت کے اثرات مرتب ہونے لازمی تھے۔ البتہ ان کے روایتی موسیقی اور رقص میں ابھی تک پرانی خو بو باقی ہے۔ یہ موسیقی ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی سے کئی سطحوں پر مختلف ہے۔ اپنا رقص پیش کرنے کے لیے عموماًسنتھالی دو طرح کی ڈھول استعمال کرتے ہیں۔ جنھیں مقامی زبان میں Tamakاور Tumdahکہا جاتا ہے۔ بانسری سنتھالیوں کا پسندیدہ ساز ہے۔ یہ سب سےا ہم روایتی ساز تسلیم کیا جاتا ہے جو سنتھالیوں کے نوسٹلجیائی جذبات بر انگیخت کرنے کا کام کرتا ہے۔ یہاں کی موسیقی اور رقص کا گہرا تعلق مذہبی رسومیات سے ہے۔ خاطر نشان رہے کہ سنتھالیوں کے مذہبی عقائد پر ہندو مت اور عیسائی مشنریوں کے اثرات واضح ہیں۔ بہرکیف سنتھالی موسیقی اور رقص ہر دو کا مذہبی عقائد، رسوم اور تہواروں سے گہرا تعلق ہے۔ حتیٰ کہ گیت اور موسیقی کے سُر، تال کے نام بھی مذہبی تہواروں سے ماخوذ ہیں۔ مثال کے طور پر Sohariکا گیت ہے جسے Sohariتہوار کے موقع پر گایا جاتا ہے۔

سنتھالی سماج ذات پات کے نظام سے مبرّا ہے اور یہاں پیدائش کے اعتبار سے کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگ عموماً مافوق الفطرت عناصر اور اجداد کی روحوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اپنی دعاؤں اور قربانیوں میں اپنے اجداد کی روحوں کو بطور خاص یاد کرتے ہیں۔ سنتھالی اسے Bongaکہہ کر پکارتے ہیں۔ اس تعلق سے کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ لفظ Bongaدر اصل Bhagaیا Bhagvanسے مشتق ہے۔ سنتھالیوں میں سماجی نظم و ضبط اور پنچایتی طریقہ Manjhi-Paragana کہلاتا ہے۔ یہ مقامی لوگوں کے ذریعہ چلایا جاتا ہے اور اس کا مقصد علاقے کی سماجی اور معاشی اصلاح کے لیے فیصلے کرنا ہوتا ہے۔

ہندوستان کے لسانی منظر نامے میں اردو زبان کی حیثیت کلید بردار کی ہے۔ گجرات سے میزورم اور کنیا کماری سے کشمیر تک اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ لگ بھگ سبھی ہندوستانی زبانیں کسی نہ کسی طور اردو سے متاثر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ایسی زبانوں میں بھی اردو کے الفاظ نظر آ جاتے ہیں جس کا اردو سے دور دور تک کوئی لسانی یا تہذیبی ربط نہیں ملتا ہے۔ سنتھالی بھی ایسی ہی زبان ہے اور اس کے لغت پر سرسری نگاہ ڈالنے پر ہی ایسے متعدد الفاظ مل جاتے ہیں جو خالص اردو کے ہیں۔ مثال کے طور پر لگ بھگ تمام پھلوں کے نام یہاں وہی مروج ہیں جو اردو میں۔ امرود، انار، اخروٹ، انجیر وغیرہ۔ علاوہ ازیں بچہ اور بابا(بمعنی والد) بھی یہاں رائج ہے۔ مذکورہ الفاظ کے علاوہ سنتھالی لغت کے صرف حصۂ ’الف‘ کے سرسری مطالعے سے مندرجہ ذیل الفاظ پیش کیے گئے ہیں۔

سنتھالی / اردو

اَجار آزار (بمعنی تکلیف)

اَرسی آرسی

اَخر اَخر

الم گلم الم غلم

اَکل عقل

اَرج عرض

اَملہ عملہ

اندھا اندھا

اول اوّل

بچھرا بچھڑا

اَواج آواز

بابر بابر(بمعنی رسّی)

ایسا نہیں ہے سنتھالی زبان پر صرف اردو، ہندی یا دیگر ہندوستانی زبانوں نے اپنے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ سنتھالی کے الفاظ بھی بشمول اردو ہندوستان کی دیگر زبانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ صرف ایک مثال لفظ "ٹھاکر” کی پیش کی جاتی ہے۔ یہ لفظ سنتھالی زبان سے ہندوستان کی دیگر زبانوں میں آیا اور مستعمل ہو گیا۔ اس تعلق سے احمد جاوید کی تحریر ملاحظہ ہو:

"عموماً اردو لغات میں ’ٹھاکر‘ کو ہندی کا لفظ قرار دیا گیا ہے لیکن یہ درست نہیں، بنیادی طور پر ’ٹھاکر‘ اسٹرک(کول) خاندان کا لفظ ہے۔ یہ غیر آریائی لفظ سنتالی یا سنتھالی زبان سے دیگر ہندوستانی زبانوں میں آیا ہے۔ ”

ہندوستان کی لسانی تکثیریت میں Austro Asiaticخاندان سے متعلق دوسری کئی زبانیں اپنی بقا کی جد و جہد میں مصروف ہیں لیکن سنتھالی زبان اپنی داخلی قوت اور اپنے بولنے والوں بے پناہ محبت کے سہارے آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے۔ اس تعلق سے قیصر شمیم نے تحریر کیا ہے کہ:

” اسٹرو ایشیاٹک خاندان، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کا قدیم ترین لسانی خاندان ہے۔ اس خاندان کی چار زبانوں یعنی Khemr، ویت نامی، کھاسی اور سنتھالی کو چھوڑ کر بقیہ دو سو سے زائد زبانیں خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ حتیٰ کہ مون( Mon)زبان جس میں تحریر کی روایت ساتویں صدی میں موجود تھی اس خطرہ کا شکار ہے۔ نکوبار جزائر میں اسی خاندان کی زبانیں پو، (Pu، Powahat، Taihlong، Tatet، Ong، Lo’ong، Tehnu، Laful، Nancowry) وغیرہ کے بولنے والوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے علاوہ وہاں ایک انوکھی زبان Shompen بھی ہے جس کے بولنے والے 1981 میں 223افراد تھے۔

اس لسانی گروہ کی تقریباً18زبانیں جن کے بولنے والے کئی لاکھ افراد جھارکھنڈ، مدھیہ پردیس، اڑیسہ، بہار، آسام اور مغربی بنگال میں پائے جاتے ہیں جو ہر طرف سے ہند آریائی زبانوں کا دباؤ جھیل رہے ہیں۔ ان میں سنتھالی کو چھوڑ کر سب زوال پذیر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سنتھالی میں مزاحمت کی بڑی صلاحیت ہے بلکہ اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو گئی ہے۔ مگر بقیہ منڈا زبانوں کا کیا حشر ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ”

سنتھالی ادب، خاص طور سے شاعری میں رقص کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ سنتھالی رقص کے حوالے سے اردو میں منیب الرحمن کی نظم "سنتھالی ناچ” ایک زمانے میں کافی مشہور ہوئی تھی۔ بہرکیف سنتھالی زبان میں ادب اور شاعری کی روایت کافی پختہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بیشتر ادبی تخلیقات رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ نہ ہو سکیں اور باہر کی دنیا سنتھالی کی تخلیقی جودت سے نہ آشنا رہی۔ 1970کے بعد جب سنتھالی کو Ol Chikiرسم الخط میں لکھا جانے لگا تو اس زبان کا ادب بھی شائع ہونے لگا۔ سنتھالی کے ممتاز لکھنے والوں میں Majhi Ramdas Tudu Rouska کا شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھنے کا آغاز بیسیوں صدی کے بالکل ابتدائی برسوں سے کیا تھا۔ کلکتہ یونیورسٹی نے 1951 میں سنتھالی زبان و تہذیب کے لیے ان کی خدمات کے مد نظر ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی۔ سنتھالی زبان و تہذیب سے متعلق ان کی کتاب کو اپنے تعارف و تبصرے کے ساتھ معروف ماہر لسانیات سُونیتی کمار چٹرجی نے شائع کیا تھا۔

سنتھالی زبان میں سادھو رام چند مرمو (Sadhu Ram Chand Murmu ) کو مہاکوی یا ملک الشعرا کا درجہ حاصل ہے۔ انکی شاعری سنتھالی بولنے والے تمام علاقے میں یکساں طور سے مقبول ہے۔ جبکہ سادھو رام کا آبائی تعلق ضلع مدنا پور، مغربی بنگال سے ہے۔ ان کا شاعری بنیادی طور پر اصلاحی اور باغیانہ شاعری ہے۔ شاعری کے علاوہ انھوں نے ڈرامے اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی شعری اور نثری تخلیقات انتقال کے بعد شائع ہوئیں۔

سنتھالی زبان کے ایک اور مشہور شاعر ساردا پرساد کسکو ( Sarada Prasad Kisku ) ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے اسکول ٹیچر ساردا پرساد کا تعلق بھی مغربی بنگال سے ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی سنتھالی زبان کی ترویج و اشاعت میں لگا دی۔ ان کے علاوہ جو شعرا ادبا سنتھالی زبان و ادب میں اہم مقام کے حامل ہیں ان میں شیام سندر ہمبھروم، ٹھاکر پرساد مُرمو، گماستا پرساد سورین، ربی لال ماجھی، بابو لال مُرمی آدی باسی اور بھگوان مُرمو وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ سنتھالی زبان صحافت کے میدان میں بھی اپنی شناخت درج کرا رہی ہے۔ تین ماہنامے، دو ماہی اور ایک پندرہ روزہ رسائل کے علاوہ تقریباً آدھا درجن روزنامے بھی اس زبان میں شائع ہو رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سنتھالی ایک ترقی پذیر زبان ہے اوراس کے بولنے والے اس کی ترویج و اشاعت میں اسی طرح تعاون کرتے رہے تو یہ زبان ہندوستان کی لسانی تکثیریت کو مزید منور و مجلا کرے گی۔

 

حواشی

۱۔ https: //www.britannica.com/topic/Santali-language

۲۔ ہند آرائی اور ہندی۔ مصنف، سُنیتی کمار چٹرجی۔ صفحہ نمبر 38

۳۔ جنوبی ہند کی تاریخ۔ مصنف کے۔ اے۔ نیل کنٹھ شاستری۔ صفحہ نمبر۔ 77,78

۴۔ History of India Vol.1, Page.26, Rumila Thapar

٭٭٭

 

 

 

 

نیّر مسعود کے افسانے ’طاؤس چمن کی مینا‘ کی تکنیک

 

نیّر مسعود اردو افسانے میں کئی حیثیت سے ممتاز مرتبے کے حامل ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے میں علامتی بیانے کا ایک نیا در کھولا۔ بیان کے ہنر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انھوں نے زبان کے تفاعل اور جملوں یا فقروں کی نثری ساخت کو بھی اہمیت دی۔ بیانیہ میں شعری برتاؤ سے شعوری انحراف کرتے ہوئے نیر مسعود نے افسانوی بیانیہ کو نثری خصوصیات سے متصف کیا۔ ان کے افسانوں میں خواب، سرّیت، خواہش اور احساس کو واضح ترجیح حاصل ہے۔ جبکہ کئی افسانوں میں میجک رئیلزم کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ نیّر مسعود کے فن کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی میجک رئیلزم کی بنیاد سرّیت پر استوار ہے جس کی وجہ سے افسانوں میں قاری کو پیچیدگی نظر آتی ہے۔ "شیشہ گھاٹ”، ” عطرِ کافور”، "نصرت” اور "مراسلہ” جیسے افسانے اس کی مثال ہیں۔ اِن افسانوں میں بلا کی Readability ہے اور ان کی فنی کی وقعت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم یہ افسانے تفہیم کی سطح پر ذرا مشکل ہی سے کھلتے ہیں۔ اس کے برعکس "طاؤس چمن کی مینا” کی ترسیل عام قاری تک ہو جاتی ہے۔

افسانے کے فن کی توضیح کرتے ہوئے پروفیسر قاضی افضال حسین نے لکھا ہے کہ:

” اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن ہے۔ اس لیے نہیں اس میں بیان کردہ واقعات "سچے ” نہیں ہوتے /ہو سکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے، جس کا تعلق ماضیِ بعید سے ہو تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یقین دلا دے کہ وہ "فرضی” کہانی نہیں سنا رہا، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کر رہا ہے۔

(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۳۵۲۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۹۰۰۲ء)

اس طرح کے تاریخی افسانے کے لیے ایک ترکیب یہ ہے کہ ماضی کے کسی زمانے کا تعین کر کے جگہ، اس عہد کے مخصوص افراد، تعمیرات، اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کو بطور حوالہ شامل کر دیا جائے۔ مذکورہ اسما یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت کی پردہ پوشی کرتا ہے اور قاری افسانے کو ایک مکمل سچا واقعہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔ اس نوع کی سب سے روشن مثال ڈراما انار کلی ہے۔ جس کی افسانویت کو اکثر کم پڑھے لکھے لوگ آج بھی سچ سمجھتے ہیں۔ عہد حاضر میں نیر مسعود اور شمس الرحمن فاروقی نے اس طرز کے افسانے لکھے ہیں۔ نیّر مسعود کا افسانہ "طاؤس چمن کی مینا ” اس نوع کا ایک منفرد اور متنوع افسانہ ہے۔ یہ افسانہ اپنی فنی خوبیوں کے سبب پچھلی ایک دہائی سے اردو میں بہت زیادہ موضوع بحث رہنے والے افسانوں میں سے ایک ہے۔

افسانہ "طاؤس چمن کی مینا” تاریخ اور تہذیب کے پس منظر میں اپنے قصے کو پیش کرتا ہے۔ افسانے کا راوی کالے خان جو کہانی کا مرکزی کردار بھی ہے، صیغۂ واحد حاضر میں پوری کہانی بیان کرتا ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کالے خان کی بیوی انتقال کے وقت ایک چھوٹی سی بچی چھوڑ جاتی ہے جس کا نام فلک آرا ہے۔ بیوی کی ناگہانی موت سے کالے خان ذہنی طور پر پریشان ہو جاتا ہے۔ اسی پریشانی کے عالم میں اسے گھومتا دیکھ کر شاہی جانوروں کے داروغہ نبی بخش نے اس پر رحم کھا کر اسے قیصر باغ کے طاؤس چمن میں ملازمت دلا دی۔ ملازمت ملنے کے بعد وہ اپنی بچی کی طرف ملتفت ہوتا ہے۔ بچی کالے خان سے ایک پہاڑی مینا لانے کی ضد کرتی ہے۔ لیکن کالے خان کے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ بچی کی اس خواہش کو پوری کر سکے۔ کیونکہ بیوی کی وفات کے بعد سے وہ بے روزگار تھا لہٰذا تنخواہ کا پیش تر حصہ قرض کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا تھا۔ اس درمیان اسے اطلاع ملتی ہے کہ سلطان عالم طاؤس چمن کے لیے ایک ایجادی قفس بنوا رہے ہیں جس میں پرندے رکھے جائیں گے۔ ایجادی قفس تیار ہو جاتا ہے۔ اس میں چالیس پہاڑی مینائیں رکھی جاتی ہیں۔ اُدھر کالے خان کی بچی کی ضد روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ قفس میں کل چالیس مینائیں ہیں لیکن ان کا شمار کرنا مشکل ہے کہ پوری چالیس ہیں یا ان میں سے ایک کم ہے۔ لہٰذا بچی کی معصومانہ خواہش کی خاطر کالے خان ایجادی قفس کی ایک مینا جس کا نام سلطان عالم نے فلک آرا رکھا ہے چُرا لاتا ہے۔ چونکہ یہ مینا کالے خان کی بچی کی ہم نام تھی اس لیے اِس مینا سے اسے پہلے ہی سے کچھ کچھ انسیت تھی۔ ایک روز سلطان عالم ایجادی قفس کی طرف چلے آتے ہیں اور میناؤں کو دیکھ کر محسوس کر لیتے ہیں ان میں فلک آرا نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ داروغہ نبی بخش سے سوال کرتے ہیں۔ داروغہ انھیں بتاتے ہیں کہ وہ انھیں میناؤں میں کہیں چھپی ہو گی اور سلطان عالم مطمئن ہو کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن کالے خان کا اطمینان رخصت ہو جاتا ہے۔ وہ مینا فلک آرا کو اپنے گھر سے واپس لا کر ایجادی قفس میں ڈال دیتا ہے۔ ایک روز سلطان عالم پورے اہتمام سے کچھ انگریزوں کو اپنا ایجادی قفس اور اس کی میناؤں کے کرشمے دکھانے لاتے ہیں۔ ان کے ساتھ پرندوں کو پڑھانے والے میر داؤد بھی ہیں جنھوں نے ان میناؤں کو گانا سکھایا ہے۔ مینائیں میر داؤد کے پڑھائے اشعار گاتی ہیں لیکن دیگر میناؤں کے برخلاف فلک آرا مینا کالے خان کی بیٹی کے پڑھائے جملے بولتی ہے۔ سلطان عالم ناراض ہو جاتے ہیں اور یہ راز کھل جاتا ہے کہ یہ مینا ایجادی قفس سے باہر لے جائی گئی تھی۔ کالے خان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے۔ اُس کی نوکری چھن جاتی ہے اور مقدمہ چلانے کی تیاری ہوتی ہے۔ داروغہ نبی بخش کی رہنمائی کے سبب کالے خان سلطان عالم تک اپنا مکمل احوال پہنچاتا ہے۔ سلطان عالم اس کا قصہ سن کر اسے معافی دے دیتے ہیں اور وہ پہاڑی مینا بھی اس کی بیٹی فلک آرا کو نواز دیتے ہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یہاں سے ایک پیچیدگی اور شروع ہوتی ہے کہ مذکورہ مینا کے بول ایک انگریز عہدیدار کو بھا جاتے ہیں اور وزیر اعظم اُس انگریز سے اس مینا کے لیے وعدہ کر لیتے ہیں۔ ہرچند کہ وزیر اعظم سلطان عالم سے آگے جانے کی سکت نہیں رکھتے تاہم کسی حیلے بہانے سے وہ مینا کالے خان سے حاصل کر کے انگریز کو نذر کرنے کا ذہن بنا لیتے ہیں۔ داروغہ نبی بخش اور کالے خان نہیں چاہتے کہ اس طرح کا کوئی معاملہ ہو اور سلطان عالم کو اس سے رنج پہنچے۔ لہٰذا نبی بخش کی حکمت عملی کے مطابق مینا اور فلک آرا کو نبی بخش کہیں اور لے کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دیکھ کر وزیر اعظم کالے خان کو جیل بھیج دیتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد لکھنؤ پر انگریزوں کا تسلط ہو جاتا ہے اور بہت سے قیدی رہا کر دیئے جاتے ہیں۔ ان رہا کیے گئے قیدیوں میں کالے خان بھی ہے۔ وہ جیل سے باہر آتا ہے تو لکھنؤ کا نقشہ بدلا ہوا ہے۔ سلطان عالم قید کر کے جلا وطن کر دیئے گئے ہیں۔ وہ اپنی بیٹی فلک آرا کے پاس جاتا ہے۔ جو اُس کی گود میں بیٹھ کر اُس پہاڑی مینا کے قصے بیان کرنے لگتی ہے۔ یہاں پر افسانہ اختتام پذیر ہوتا ہے۔

نیّر مسعود نے اس افسانے کا آخری پیراگراف اس چابکدستی سے لکھا ہے کہ گویا یہ افسانہ ختم ہو کر بھی قاری کے ذہن میں جاری رہتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

” لکھنؤ میں میرا دل نہ لگنا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آ رہنا، شاون کی لڑائی، سلطان عالم کا کلکتے میں قید ہونا، چھوٹے میاں کا انگریز سے ٹکرانا، لکھنؤ کا تباہ ہونا، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کر کے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آ کر داروغہ نبی بخش کو گولی مارنا، یہ سب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں۔ لیکن طاؤس چمن کی مینا کا قصہ وہیں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں ننھی فلک آرا میری گود میں بیٹھ کر اس کے نئے نئے قصے سنانا شروع کرتی ہے۔ ”

(طاؤس چمن کی مینا۔ از: نیّر مسعود۔ ص: ۵۰۲۔ عرشیہ پبلی کیشن۔ نئی دہلی۔ ۳۱۰۲ء)

اس افسانے میں قصے کے ساتھ تاریخی و تہذیبی عناصر بالکل چپک کر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افسانے کا راوی یعنی کالے خان تاریخ کی کتابوں میں کہیں موجود نہیں ہے لیکن سلطان عالم یعنی واجد علی شاہ ایک تاریخی فرد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی افسانے میں تہذیبی طور پر بہت سے عناصر سلطان عالم کی تاریخیت کو مستحکم کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حسین آباد کا امام باڑہ، لکھنؤ کی معاشرت میں اس کی اہمیت، نواب نصیر الدین حیدر کا انگریزی دوا خانہ، لکھّی دروازہ، قیصر باغ، درشن سنگھ باؤلی وغیرہ تو بالکل سامنے کے وسائل ہیں۔

یہ افسانہ نیّر مسعود نے اپنے عام ڈکشن سے ہٹ کر لکھا ہے۔ البتہ زبان و بیان کی وہی خوبی اس افسانے میں بھی ہے جو نیّر مسعود کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ جزئیات نگاری کا کمال اس افسانے میں بھی صاف جھلکتا ہے۔ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتیں، اہم اور غیر اہم واقعات، آدھے ادھورے خواب، یاداشتیں الغرض کہ اس افسانے میں اتنی ہما ہمی اور اتنا رنگ ہے کہ پورا افسانہ مختلف رنگوں کا ایک کولاژ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اِس کولاژ میں اصل کہانی کا رنگ دیگر رنگوں کی بہ نسبت زیادہ روشن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی قاری کے ذہن میں اترتی چلی جاتی ہے۔ عصری افسانے میں اس افسانے کا اختصاص یہ ہے کہ اس کی تقلید یا تتبع تو نہیں لیکن اس طرز میں چار افسانے شمس الرحمن فاروقی نے لکھے ہیں۔ اور یہی اس افسانے کے رجحان ساز ہونے کی دلیل بھی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فراق کی تنقید نگاری

 

 

فراق گورکھپوری نے تنقید کے دو مجموعے "اندازے ” اور "حاشیے ” اور اردو کی عشقیہ شاعری پر ایک کتابچہ یادگار چھوڑے ہیں۔ ان میں ’اندازے ‘ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے میں کل دس مضامین ہیں جس میں پانچ غزل یا غزل گو شعرا سے متعلق ہے۔ در اصل فراق کی تنقید اکثر و بیشتر اردو غزل کے آس پاس ہی رہی ہے۔ انھوں نے دہلی اور لکھنؤ اسکول، داخلیت اور خارجیت، زمینوں کے انتخاب اور مطلعوں کی موزونیت کے علاوہ ریاض، مصحفی، ذوق اور حالی وغیرہ کی شاعری کا فنی و تشریحی جائزہ پیش کیا ہے۔

’اندازے ‘ کے دیباچے میں فراق گورکھپوری نے جس طرح روایت سے وابستگی اور ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے ترقی پسند ادب کی تحسین کی ہے وہ ان کے تنقیدی مسلک کی غمازی کرتا ہے۔ دیباچے میں انھوں نے بالکل تاثراتی انداز اپناتے ہوئے ادب اور تنقید میں میانہ روی کو مقدم گردانا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:

” خوش نصیب ہیں نئی نسل والوں میں اور نئے ادب کے قدر شناسوں میں وہ لوگ جو پرانی غزلوں کے سمندر میں ڈوب کر ایسے ایسے موتی نکال لائے ہیں جن کی آب و تاب کو وقت دھندلا نہیں سکا۔ اقبال، اکبر، جوش، مجاز، زیدی اور جذبی اور ہماری نئی شاعری کے کئی اور نمائندے ہماری قدیم شاعری سے کم مستفید نہیں ہیں۔ لیکن نثر نگاروں، شاعروں اور پڑھنے والوں کی نئی نسل عجلت اور سہل پسندی کی غالباً شکار ہوئی ہے اور قدیم ادب سے منہ موڑ چکی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پرانی شاعری میں بھی بہت نئی چیزیں ہیں۔ تسلسل تاریخِ انسانی اور تاریخِ ادب کا اٹل قانون ہے۔ ماضی سے بے خبری ترقی پسندی نہیں ہے، نہ ماضی کی قدر شناسی رجعت پسندی اور قدامت پسندی ہے۔ ”

فراق کی تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات بہت واضح ہیں۔ حالانکہ انھوں نے جس زمانے میں تنقید نگاری کا آغاز کیا اس وقت ناقدین کی اکثریت کا مغربی ادب کا مطالعہ زیادہ گہرا نہ تھا۔ فراق کے بیشتر معاصرین فکری طور پر آزاد، حالی اور شبلی کا تتبع کر رہے تھے اور ان کی تحریروں میں اِنھیں قد آور شخصیات کا پرتو نظر آتا ہے۔ فراق نے اپنے معاصرین کے برخلاف مغربی افکار و نظریات سے استفادے پر زور دیا۔ اس ضمن میں خود فراق گورکھپوری نے تحریر کیا ہے کہ:

” میرے مذاقِ تنقید پر دو چیزوں کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔ ایک تو خود میرے وجدانِ شعری کا، دوسرے یورپین ادب اور تنقید کے مطالعے کا۔ مجھے اردو شعرا کو اس طرح سمجھنے سمجھانے میں بڑا لطف آتا ہے، جس طرح یورپین نقاد یورپین شعرا کو سمجھاتے ہیں۔ ”

مغربی تنقید سے استفادے کے اس اعتراف میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ فراق نے مغربی تنقید کے کس دبستان کا تتبع کیا ہے۔ فراق کی تنقیدی تحریروں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کا رجحان تاثراتی تنقید کی طرف ہے۔ محولہ بالا پیراگراف میں "وجدانِ شعری” کی ترکیب بھی اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے۔ "وجدان” ایک خوبصورت مگر پر اسرار لفظ ہے اور معنی سے گریز پائی اس لفظ کا خاصہ ہے۔ کیونکہ شاعر کا وجدان اور نقاد کا وجدان دو الگ الگ ذہنی وقوعے ہیں البتہ اس کے استعمال میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ نقاد مختلف نوع موشگافیوں کی مشقت سے بچ جاتا ہے۔ چنانچہ اردو میں وجدان تاثراتی نقادوں کا مخصوص Toolہے اور مہدی افادی سے لے کر عبد الرحمن بجنوری اور فراق گورکھپوری تک لگ بھگ تمام تاثراتی نقاد وجدان کے میزان سے شعر کو تولتے نظر آتے ہیں۔ فراق کے مجموعے ’اندازے ‘ سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

” مصحفی کی انفرادیت وجدانی سطح پر اپنا کام کرتی ہے۔ ”

” غم آمیز وجدان میں تنوع کے اتنے امکانات نہیں ہوتے جتنے نشاط آمیز وجدان میں ہوتے ہیں۔”

کتاب میں اس نوع کے تاثراتی جملے جگہ جگہ نظر آ جاتے ہیں۔ تاثراتی تنقید اپنی اسی محدودیت کی وجہ سے بیشتر محاسنِ شعری کے بیان تک محدود رہتی ہے یا اپنی ارفع صورت میں بھی یہ تشریح و توضیح سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔

تاثراتی تنقید کے مغربی اصولوں کے مطابق مواد اور ہیئت پر توجہ دیئے بغیر صرف ادیب کی شخصیت کی بنیاد پر فن پارے کے حسن و قبح کا فیصلہ کرنا تاثراتی تنقید کہلاتا ہے۔ اس ضمن میں تاثراتی تنقید کے نظریہ ساز والٹر پیٹر کی رائے بھی ملاحظہ فرما لیں ؛ "تنقید نگار کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ فن پارے کو اس کے اصلی روپ میں دیکھے اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کر دے۔ ” علاوہ ازیں یورپ میں تاثراتی نقادوں کا خیال تھا کہ کسی ادبی تخلیق کے مطالعے سے نقاد کے دل و دماغ اور اس کے شعور پر جو تاثرات مرتب ہوتے ہیں، انھیں لفظوں میں سمودیا جائے اور یہی حقیقی تنقید ہے۔ مغرب میں تاثراتی تنقید کی یہ تحریک جے۔ ای اسپنگر کے خیالات سے متاثر رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ داخلیت اور جذباتی و تاثراتی سطح ہی تنقید کا صحیح معیار ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ:

” کسی فن پارے کو دیکھ کر جو جذبات و احساسات دل پر طاری ہوتے ہوں ان کو ہو بہو بیان کر دینا تاثراتی دبستان سے تعلق رکھنے والے نقاد کے نزدیک تنقید نگاری کا سب سے بڑا منصب ہے۔ ”

فراق کی تنقیدی تحریریں بھی مذکورہ بالا خصوصیات سے مبرا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے فراق کی تنقید اور تنقیدی فیصلے بیشتر صورتوں میں ایسے تاثرات پر مبنی ہوتے ہیں جن کی جڑیں بچپن کی یادوں میں پیوست ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی یہ تحریریں ملاحظہ ہوں:

” ایک زمانہ ہوا جب میں نے مولوی اسمعیل میرٹھی کی مرتب کردہ کتاب ” تزکِ اردو” میں جو میرے نصاب میں تھی غالباً پہلے پہل مصحفی کا نام دیکھا اور سنا۔ اب میرے جذبات کا حال سنیے، سب سے قابلِ توجہ بات تو یہ تھی کہ مصحفی کا تخلص وہ لفظ تھا جس کی صورت و صوت نے فوراً مجھ پر اپنی دلکش انفرادیت کا اثر ڈالا۔ ”

” مجھے بچپن سے نہ جانے کیوں ذوق کا کلام نا پسند تھا۔ ”

” میں نے بھی اور شاید آپ نے بھی سات آٹھ برس کی عمر میں پہلے پہل حالی کا نام سنا ہو گا۔ ”

کچی عمر کے نا پختہ تاثرات سے اس طرح Conditionedہو کر کوئی تنقیدی نکتہ پیدا کرنا ظاہر ہے تقریباً نا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراق گورکھپوری کی تنقیدی تحریریں ہمیں کوئی راہ نہیں سجھاتیں، کسی منزل کا پتہ نہیں دیتیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اندھیری رات میں یہاں وہاں چمکتے ہوئے جگنوؤں کی مانند ان کی تحریروں میں بصیرت سے پُر جملے ایک ایسا جمالیاتی تاثر قائم کرتے ہیں جس کا سحر ہمارے ذہنوں پر تا دیر قائم رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

معنی کے طرزِ وجود کا فکشن نگار: نجیب محفوظ

 

 

نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز معروف عربی جریدے ’المجلہ الجدید‘، مصر سے شروع کیا تھا۔ اس میں شائع ہونے والی تحریریں ترقی پسند نظریات سے نجیب کی وابستگی کا اعلان نامہ تھیں۔ اگرچہ ابتدائی دورمیں شائع ہونے والی ان کی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں تحریر کی گئی تھیں تاہم اُن کہانیوں میں بھی مارکسی اثرات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نجیب محفوظ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سائنس، سوشلزم اور برداشت میں یقین کرنا سیکھ رہے ہیں۔ بعد ازاں نجیب سر رئیلسٹ فکشن نگاری کی طرف ملتفت ہو گئے۔ بعض ناقدین نے سر ریئلزم سے نجیب کے اس التفات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ حتیٰ کہ انھیں قنوطیت پسند فکشن نگار کے لقب سے بھی نوازا گیا:

’’نجیب محفوظ نے اپنی سوشلسٹ آیڈیالوجی سے ہٹ کر گہری قنوطیت کی راہ اختیار کر لی اور اپنے ارد گرد برے شکون کا دائرہ کھینچ لیا۔ ‘‘

( ایڈرورڈ بون۔ ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ۔ ص: ۹دسمبر۔ ۱۹۹۰ء)

لیکن نجیب اپنے اِس اسلوب پر کاربند رہے۔ بطور ایک سر رئیلسٹ فکشن نگار انھوں نے اپنی کہانیوں میں تصوف اور مابعدالطبعیاتی تجربات کو کامیابی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی گویائی وہاں سے شروع کی جہاں سائنس خاموش ہو جاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے ایسی کہانیاں تحریر کہیں جن میں سائنسی سماجیات اور روحانیت کسی حد تک آپس میں ہم آغوش ہیں۔ 1945ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا ناول ’خان الخلیلی‘ اسی کشمکش کی عکاس ہے۔ اِس ناول کی اشاعت کے بعد نجیب محفوظ کو عرب دنیا میں ایک ناول نگار کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ البتہ اُن کے ملک مصر میں انھیں ایک ممتاز فکشن نگار کی حیثیت اُس وقت حاصل ہوئی جب ۱۹۵۷ء میں تین ہزار صفحات پر مشتمل اُن کی مشہور رزمیہ تصنیف ’’قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار ڈرامے ‘‘کی اشاعت ہوئی۔ یہ رزمیہ در اصل تین سلسلے وار ناول ہیں۔ پہلے ناول کا نام ہے ’ محل کی سیر Walk Palace The، دوسرے ناول کا نام ہے ’ خواہشات کا محل‘ Palace of Desir اور تیسرے ناول کا نام ہے ’چینی کی گلی ‘ Sugar Street۔ تین ہزار صفحات کا احاطہ کرنے والے اس رزمیے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ رزمیے کی اشاعت کے بعد نجیب کو مصر میں نوجوان نسل کا ایک بڑا ناول نگار قرار دیا جانے لگا۔ البتہ عرب دنیا سے باہر نجیب کی شناخت ۱۹۶۰ء کے بعد قائم ہونی شروع ہوئی جب ان کی تصنیفات کے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اردو اور روسی زبانوں میں تراجم ہونے شروع ہوئے۔ نجیب کی اِس شہرت کو ۱۹۸۸ء میں ادب کا نوبل پرائز ملنے کے بعد گویا پَر لگ گئے اور وہ پوری دنیا میں عظیم ناول نگار تسلیم کیے جانے لگے۔

نجیب محفوظ روایتی فکشن نگار نہیں ہے اور روایتی ذہن کے ساتھ نجیب کی تحریروں کی قرأت عموماً ترسیل کی ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔ در اصل نجیب معنی کی ترسیل کا نہیں بلکہ معنی کے طرزِ وجود (یعنی Ontology) کا فکشن نگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحریریں مثلاً شوگر اسٹریٹ وغیرہ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں باب در باب معنی کی تعمیر نہیں بلکہ معنی کے انہدام کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ در اصل اس ناول میں معنی خیزی کا منبع اِس کے قصے سے ماورا، اِس کے اجزا کے باہمی ارتباط کا مرہون منت ہے۔ نجیب نے جن جگہوں، عمارات اور اشخاص کا ذکر اِس ناول میں کیا ہے غور کریں تووہ اِس ناول کی بافت یا فریم سے باہر اپنی اُس معنویت سے محروم ہو جاتے ہیں، جو انھیں مذکورہ ناول میں حاصل ہے۔ یعنی ناول سیاق سے باہر قاہرہ وہ قاہرہ نہیں رہتا جو کہ ناول میں ہے۔ یا پھر کردار اور معاشرہ کے تعلق سے گفتگو کریں تو اس ناول میں جو ایک بھرا پُرا خاندان ہے اُس کی معنویت کا تعین ناول کے فریم اور اُس کے متن سے باہر شاید ہی ممکن ہو سکے۔ لہٰذا ناول شوگر اسٹریٹ کو اس کے متن سے باہر نکل کر سمجھ پانا قدرے مشکل ہے۔

اسی طرح نجیب کا ایک پیچیدہ افسانہ ’’وقت اور مقام‘‘ ہے۔ اس افسانے میں پیچیدگی شاید اس لیے در آئی ہے کیوں کہ افسانے میں ایک ہی سطح پر دو زمانوں کو پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔ جس میں مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی ہیں۔ افسانہ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ راوی، اس کا ایک بھائی اور ایک بہن مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنے آبائی مکان کو فروخت کر کے وہ ایک آرام دہ فلیٹ میں منتقل ہو جائیں۔ اس بیچ راوی اپنے آبائی مکان میں ایک میٹا فیزکل تجربے سے گزرتا ہے۔ اسے ایک ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو اس کا ہم شکل ہے۔ ایک بوڑھا شخص راوی کے اُس ہم شکل کو ایک صندوقچی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ چونکہ اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے اس لیے وہ اِس صندوقچی کو کسی مناسب مقام پر دفن کر دے اور وقت آنے پر اسے نکال کر اس میں لکھی ہدایات پر عمل کرے۔ راوی کو یہ سب خواب جیسا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم تلاش کے بعد راوی وہ جگہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جہاں واقعی صندوقچی دفن ہوتی ہے۔ اُس کے تحیر کا ٹھکانہ نہیں رہتا اور وہ اپنے بھائی اور بہن کے مکان فروخت کرنے کے فیصلے سے خود کو الگ کر لیتا ہے۔ وہ صندوقچی کھول کر اُس میں پڑے کاغذ کے پرزے کی ہدایت پر عمل کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ ‘‘ خط میں پیر عارف البلقانی کے گھر کا پتہ بھی درج ہے۔ راوی خط پڑھ کر عارف البلقانی کے مکان کو تلاش کرتا ہوا پتے تک پہنچتا ہے۔ وہ مکان پولیس کی نگرانی میں ہے۔ راوی کے وہاں پہنچنے پر اُسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مکان میں پہلے سے ہی ایک شخص قید ہے۔ پولیس راوی کواُس کا گرگا تسلیم کر کے جیل میں ٹھونس دیتی ہے۔

اس طرح کے افسانوں کے لیے جس نوع کی فن کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے تعلق سے پروفیسر قاضی افضال حسین نے تحریر کیا ہے کہ:

’’اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن ہے، اس لیے نہیں کہ اس میں بیان کردہ واقعات ’’سچے ‘‘ نہیں ہوتے ؍ ہو سکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص زمانی یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے، جس کا تعلق ماضی بعید سے ہو تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یہ یقین دلا دے کہ وہ ’’فرضی‘‘ کہانی نہیں سنا رہا، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کر رہا ہے۔ اس نوع کے تاریخی افسانے کی سب سے آسان ترکیب یہ ہوتی ہے کہ بیان میں ماضی کے ایک زمانے میں ایک مخصوص جگہ، موجود افراد ؍ تعمیرات کے اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ شامل کر دیا جائے۔ اِن اسماء یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت، یعنی اُس کی لسانی تشکیل ہونے پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے۔ قاری پر افسانہ نگار کے اس فریب کا راز نہیں کھلتا اور ہم ایک صاف ’’جھوٹ‘‘ کو بے ملاوٹ ’’صداقت ‘‘ سمجھ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ‘‘

(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۲۵۳۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۲۰۰۹ء)

افسانے کی بُنت میں نجیب نے مذکورہ بالا فنی چالاکیوں سے کام لیتے ہوئے ایک ایسا بیانیہ خلق کیا ہے جس میں جگہ جگہ سر ریئلزم کے رنگوں کی چھاپ بھی نظر آ جاتی ہے۔ ایک نامانوس اور تحیر خیز کیفیت سے شروع ہونے والے اس افسانے کا اختتام مانوس مگر ناپسندیدہ ماحول پر ہوتا ہے۔ مثلاًافسانے کا ابتدائی حصہ ہے کہ:

’’ ہماری بیٹھک نجانے کہاں کھو گئی اور اس کی جگہ ایک لمبے چوڑے دالان نے لے لی۔ جس کا دوسرا سرا چوک کی موٹی سفید دیوار تک جا پہنچا تھا۔ دالان میں کہیں گول گول اور کہیں دوج کے شکل میں گھاس اُگی ہوئی تھی اور درمیان میں ایک کنواں تھا۔ کنویں سے کچھ فاصلے پر کھجور کا ایک اونچا درخت تھا۔ میں دو احساسات کے بیچ جھولنے لگا۔ کبھی لگتا کہ کچھ ایسا دیکھ رہا ہوں جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کبھی لگتا کہ ان میں کچھ بھی میرے لیے ان دیکھا نہیں ہے۔ مدھم ہوتی ہوئی روشنی سورج کے غروب ہونے کا اشارہ کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی کنویں اور کھجور کے درخت کے بیچ ایک ادھیڑ آدمی بھی آن کھڑا ہوا جو قطعی میری پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اُس ادھیڑ شخص کو ایک چھوٹی سی صندوقچی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ: ’’اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسے زمین میں گہرا گاڑ کر چھپا دے۔ صحیح وقت آنے پر نکالنا۔ ‘‘

(وقت اور مقام۔ از: نجیب محفوظ۔ ص: ۹۸۔ رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء)

خواب اور واہمے کے درمیان کی کیفیت کے اِس ابتدائی بیانیے کے بعد اس افسانے کا اختتام بھی ملاحظہ فرمانے کی زحمت کریں:

’’خاموشی کی دبیز چادر ہم پر چھا گئی۔ میں نے نئے مکان میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائی، بہن کا تصور کیا اور پرانے مکان میں بنے ہوئے گڑھے، کنویں اور کھجور کا بھی۔ ساری چیزیں میرے سامنے اس طرح پیش ہوئیں جیسے میں اس کے اندر ہوتے ہوئے بھی ان کو باہر سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ مگر کوئی میری اور نہیں گھوما۔ کسی نے خاموشی نہیں توڑی۔ ‘‘

(وقت اور مقام۔ از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۲۔ رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )

افسانے کے ابتدائی اور اختتامی حصوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کسی قدر واضح ہوتی ہے کہ افسانے کی تفہیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اُسے پہلے سے رائج تصورات کی مدد سے ہی سمجھا جا سکے۔ ہر بڑا فن پارہ اکثر اپنے پیش رو طریقۂ تفہیم کی نفی بھی کرتا ہے اور اپنی ترسیل کی نئی روایت کی بافت بھی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ متن ہمیشہ ایک شفاف میڈیم کے طور پر سامنے آئے جیسا کہ حقیقت پسند افسانے میں پہلے سے موجود سچائی کو دوبارہ پیش کرتے ہوئے سامنے آتا ہے۔ اِس افسانے کا متن بھی سبب اور نتیجے والی افسانے کی روایتی منطق سے انکار کرتے ہوئے اپنی پیچیدگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ البتہ سبب اور نتیجے کے عمل اور فیصلے کے لیے قاری کو راوی کے جبر سے آزاد کر دیتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا دونوں پیراگراف کی مدد سے افسانے کی تعبیر اور تشریح کی تمام تر کوششوں کے لیے قاری آزاد ہے۔ مثال کے طور پر افسانے کو ایک ایسی ناصحانہ تحریر کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے محض تخیل کی مدد سے کیے گئے عمل کا نتیجہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ یا اگر پورے متن کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس مطالعہ میں مصر کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھا جائے تو یہ افسانہ ایک ایسی انڈر گراؤنڈ تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اُس وقت کی مصری حکومت کے طرز عمل سے نالاں ہے۔ راوی کے لاشعور میں اُس تحریک کے تئیں ہمدردی کے جذبات موجود ہیں لہٰذا اسے اس طرح کا خواب دکھائی دیتا ہے۔ خود افسانے کے متن میں بھی اِس کے شواہد موجود ہیں۔ مثلاً خط میں تحریر کیے جملے کی نوعیت ملاحظہ ہو:

’’ اپنا مکان مت چھوڑ، کیوں کہ یہ قاہرہ میں سب سے خوبصورت ہے اور پھر اہلِ ایمان کے لیے تو بس یہی ایک مکان ہے۔ یہی ایک محفوظ مقام ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ تو اُن کے مکان میں جا۔ ‘‘

(وقت اور مقام۔ از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۰۔ رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )

مصر کے سماجی اور خاص طور سے سیاسی حالات کو نگاہ میں رکھیں تو حکومت سے اختلاف، ایسی ہی علامتی کہانی کے ذریعے ممکن تھا۔ لہٰذا اس افسانے کی ایک یہ بھی تفہیم ممکن ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urduchannel.in

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭‎٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل