FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

قصہ نظم کا اور قضیہ غزل کا

 

 

 

                   ستیہ پال آنند

 

 

 

 

 

غزل بطور صنف شعر اردو پر شروع سے ہی قابض رہی ہے۔ یعنی غزل اور اردو شاعری بہم دگر ایک ہی تسلیم کی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات شاید ولی دکنی اور امیر خسرو کے وقت میں درست نہ ہو لیکن جب ہم گذشتہ تین چار صدیوں کا لیکھا جوکھا کرتے ہیں تو اس حقیقت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے کہ غزل نے پیر تسمہ پا کی طرح اردو کو ایک ہی جگہ ٹھہرنے یا ایک ہی ڈگر پر چلنے کے لیے مجبور و معذور کر دیا ہے۔

میں نے منشی تلوک چند محروم صاحب کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ ان کی رائے کے مطابق میرا مزاج صرف نظم کے لیے موزوں ہے اور مجھے غزل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ پھر جوش ملسیانی صاحب کے حوالے سے بھی اس بات کی تائید و تصدیق کی گئی تھی کہ خود غزل گو (اور وہ بھی قافیہ پیمائی پر انحصار رکھنے والے غزل گو) ہونے کے باوجود وہ میری نظموں کی قدر کرتے تھے۔ اس کے بعد کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کے ارشادات بھی میں قلمبند کر چکا ہوں کہ وہ فرماتے تھے، ’’اس نوجوان کو غزل کہنے پر مجبور نہ کریں۔ کیا پتہ جس طرح کی نظمیں یہ لکھ رہا ہے، آنے والے برسوں میں ان کے بل بوتے پر اسے اردو کا شیلےؔ یا کیٹسؔ قرار دیا جائے۔

 

عالمی شاعری سے کچھ نمونہ جات

 

پنجابیونیورسٹی چنڈی گڑھ میں دو اڑھائی دہائیوں کے قیام کے دوران مجھے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بیرون ملک کییونیورسٹیوں میں قیام، مطالعے، مشاہدے اور درس و تدریس کے جو مواقع میسر ہوئے، ان سے میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ اگر اردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے دوش بدوش کہیں بھی کھڑا ہونا ہے تو اسے اس صنف کو ایسے ہی تلانجلی دینا ہو گی، جیسے انگریزی شاعری نے سانیٹ، اوڈ، ہیرائک کپلٹ , Sonnet, Ode, Heroic Couplet, Stanza format وغیرہ اصناف سخن یا شعری اسالیب کو دی ہے۔ سانیٹ اور اوڈ کے موضوعات بھی اسی طرح سکہ بند تھے، جیسے غزل کی کلاسیکی تعریف و تفسیر ہے۔ ’’بازی کردن محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبّت و عشق زنان‘‘۔

سانیٹ میں صرف دو اقسام تھیں، ’’پیٹر آرکن‘‘ اور ’’ شیکسپیرین‘‘۔ دونوں کی سطور کی تعداد بھی مخصوص تھی۔ قوافی کا چلن بھی ایسا تھا جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ موضوعات بھی سانیٹ اور اوڈ دونوں کے لیے مخصوص تھے۔ انہیں تعریف، توصیف، القاب نوازی، ممنونیت، عرضداشت، دعا یا پھر آفاقی قدروں کے اظہار و اشتہار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد اور بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی کے آنے تک یہ اصناف سخن نا پید ہو گئیں۔ اب ان کو درسی کورسوں میں تو شامل کیا جاتا ہے، لیکن شاعری کے ان جریدوں میں جو سینکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور شعری مجموعوں میں جو ہر برس ہزاروں کی تعداد میں منظر عام پر آتے ہیں، یہ اصناف سخن نظر نہیں آتیں۔

 

’’غزل سیناریو‘‘ میں پابند نظم اور بلینک ورس

 

میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ بلینک ورس کو اردو میں متعارف کروانے والے دیو قد شعرا راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر الایمان کے علاوہ دوسرے کئی ترقی پسند شعرا کی کاوشوں کے باوجود بہت سے شعرا نے بھی اپنی نظموں میں غزل کی ذہنی عادت کو ترک کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا اور غزل کے ہی پیش پا افتادہ مضامین، استعارات، تلمیحات اور لگے بندھے امیجز کو اپنی نظموں میں بھی استعمال کرتے رہے۔ ان میں خصوصی طور پر فیض احمد فیض یا ان کے زیر اثر دوسرے نصف درجن یا اس سے بھی زیادہ شاعر شامل تھے۔ مشاعروں میں حالت اس سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ غزلیہ شاعری اور وہ بھی ترنم سے، لہرا لہرا کر پڑھنا (گانا)، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو ایک ماہر گلوکار کی طرح تین بار اٹھاتے ہوئے مصرع ثانی پر تان کو دھم سے ’ لٹکا‘ یا ’جھمکا‘ دے کر ختم کرنا ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔ اس کی انتہا یہاں تک ہوتی دکھائی دی کہ شعرا یا شاعرات کسی پروفیشنل گلو کار سے اپنی غزل کو باقاعدگی سے ’’سنگیت بدھ‘‘ کروا کر، کئی بار گھر میں آئینے کے سامنے اس کی پریکٹس کر کے مشاعروں کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔

میں نے چنڈی گڑھ کے ریڈیو سٹیشن سے جو جالندھر کے پروگرام ہی براڈ کاسٹ کرتا تھا، کچھ اعداد و شمار اکٹھے کیے تو پتہ چلا کہ ریڈیو کے مشاعروں میں صرف غزلیں ہی پڑھی جاتی ہیں اور اگر کوئی شاعر اپنی نظم پڑھنے کے لیے پر تولتا ہوا نظر آئے تو اسے اشارے سے منع کر دیا جاتا ہے۔

’’غزل ہماری شاعری کی جان ہے، روح ہے، آبرو ہے، ناموس ہے۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ الفاظ تو ہم بہت سن چکے ہیں (میں نے بار بار یہ محسوس کیا) لیکن اس جان، روح، آبرو، ناموس نے تو اردو شاعری کی لٹیا ڈبو دی۔ کچھ آوازیں ضرور اٹھیں، الطاف حسین حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم الدین احمد، اختر الایمان، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ! میں نے ان بیس پچیس برسوں میں پندرہ سے بیس تک مضامین لکھے جو ان نیم ادبی رسائل میں شائع ہوئے جنہیں غزل گو شعرا کے علاوہ عوام الناس پڑھتے ہیں۔ ان میں بمبئی کا ماہنامہ ’’شاعر‘‘ بھی شامل تھا، جس کے محترم مدیر افتخار امام صدیقی مجھ سے متفق تھے کہ غزل کو اگر سر دست چھوڑا نہ بھی جا سکے تو ایک آوارہ گشتی کی سی عادات سے اسے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ان مضامین میں میرا لہجہ نرم بھی تھا اور درشت بھی۔ میں نے بار بار مثالیں پیش کر کے، گراف بنا کر، فلو چارٹ ترتیب دے کر یا ثابت کیا کہ صنف عصری آگہی سے مملو نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی، اس کے گونا گوں تقاضوں اور بدلتی ہوئی قدروں کے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی تنگ دامانی مسلمہ ہے۔ یہی اعتراضات اوڈ اور سانیٹ پر بھی کیے گئے تھے اور آہستہ آہستہ شعرا خود ہی ان اصناف سے متنفر اور بد ظن ہو کر کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف (اور صرف!) بلینک ورس شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ مجھ سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہو سکتا تھا کہ میں نے تین براعظموں کی درسگا ہوں میں پڑھا یا ہے کہ آج جامعات کے کورسوں میں اوڈ Odeیا سانیٹ ایکHistorical Curio تاریخی عجیب الخلقت شے کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے ربع دور میں قریب قریب اور وسط تک پہنچتے پہنچتے ایک پوری پود پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سانیٹ اور اوڈ کا زمانہ لد چکا، اب بلینک ورس کا دور دورہ ہے۔ بلینک ورس سے فری ورس (نثری نظم) تک پہنچتے پہنچتے کچھ برس انگریزی میں ضرور لگے ( ہندی میں بھی یہی چلن رہا) لیکن ایک بار یہ بات طے ہو گئی کہ شاعری ان جکڑ بندیوں میں نہیں پنپ سکتی جو ان اصناف کی بنیادی قدریں ہیں، تو ہو گئی۔

میں نے اپنے مضامین میں اس بات کو خود بھی سمجھا اوردوسروں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ غزل سخت جان ضرور ہے اور ہم لوگ طبعاً روایت پسند بھی ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ غزل کے طریق کار کو مضمون آفرینی کے سائینسی صوتی اور لسانی پیمانوں کے علاوہ بین المتونیاتInter-textuality کے زاویوں سے دیکھا جائے۔ مائیکل رِفاترے Michael Riffaterre نے اپنی تنقیدی نظریہ سازی میں شاعری میں خصوصاً اور ادب عالیہ کے علاوہ اساطیر میں عموماً submerged matrix کا ذکر بار بار کیا ہے، زیر آب پڑی چمکیلی چیزوں کی طرح (استعارہ مائیکل رِفاترے کا ہے ) انسانی ذہن اپنی تخلیقی کار کردگی کے وقت ان کے ہیولے سطح پر لے آتا ہے اور یہ مجموعی نسلی لا شعور کی وہ ’’جواہرات سے جڑی ہوئی پرت‘‘ ہے (استعارہ پھر ایک بار مائیکل رِفاترے سے ہے ) جسے ہم صوتی اور لسانی سطحوں پر اپنے پرکھوں سے بطور میراث لیتے ہیں او بغیر سوچے سمجھے ایسے استعمال کرتے ہیں کہ یہ تمیز کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ جواہرات سے جڑی ہوئی پرت صرف ایک ہیولے ہے یا در اصل ایکobject ہے۔

 

بین المتونیت اور صنف غزل

 

کرسٹیواؔ کے تصور بین المتونیتInter-textuality کو رِفاترےؔ کے تصور submerged matrix کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو کلاسیکی غزل کے طریق کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بین المتونیت کی مثال اردو غزل سے سوا (یعنی سو فیصد حد تک)دنیا کے ادب میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ ہر غزل اپنے طریق کار میں گذشتہ متون کو اسیcontext میں لا شعوری طور پر جذب کرتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ’’کیا کہا گیا‘‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’کیسے کہا گیا‘‘۔ اس ’’کیسے‘‘ میں مضمون آفرینی کے علاوہ روز مرہ اور محاورے کا استعمال، صوتیاتی مد و جذر، غنائیت اور تغزل کے علاوہ وہ چابکدستی بھی شامل ہے، جس میں استعارے سے صرف نظر ’’شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا‘‘ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔

میرے ایک مضمون کے جواب میں کراچی سے محمد علی صدیقی صاحب اور گوہاٹی (آسام) سے تارا چرن رستو گی صاحب (اب دونوں مرحوم) نے اپنے مضامین میں غزل کے دفاع میں تحریر کردہ اپنے مضامین میں وہی بات دہرائی جو دہلی میں انجمن ترقی اردو کے سربراہ اپنے تضحیک آمیز لہجے میں پہلے کہہ چکے تھے کہ مغربی تھیوریوں سے آراستہ پیراستہ یہ اردو کا ’’دوسرے سے بھی کم درجے کا شاعر‘‘ کیا غزل کو ایک عیسائی میم بنانے پر تلا ہوا ہے ؟ رستو گی صاحب کے ساتھ یہ جواب در جواب مضامین جب کراچی کے ایک رسالے سے جگہ بدل کر ’’انشا‘‘ کلکتہ کی زینت بننے لگے تو میں نے پھر ایک مضمون میں حوالہ جاتی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے اس سانپ کے سر کو کچلنے کی سعی کی، جس نے تین چار صدیوں سے غزل کے زنگ آلود پارینہ خزانے کو اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ میں نے لکھا،

’’ہم سب جانتے ہیں کہ مضمون کی بنیاد استعارہ ہے، لیکن اردو غزل کے طریق کار میں استعارہ صرف ایکParadigmatic base ہی نہیں، بلکہ یہ اس بنیاد پر Syntagmatic بھی ہے۔ مغرب میں شعری طریق کار کا چلن یہ ہے کہ وہ استعارے کو صرف Object نہ فرض کرتا ہوا، اس کے بجائے اس کیSubstitution فرض کر کے استعمال کرتا ہے، لیکن غزل میں یہ قائم مقام بدل Contiguityکا سلسلہ در سلسلہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک چارٹ بنا رہا ہوں۔

 

مضمون ::::::::::   محبت کرنا

Paradigmaticاستعارہ :::::: محبت میں گرفتار ہونا (گرفتاری، مجبوری، آزادی کا فقدان وغیرہ)

Syntagmaticاستعارے ::::        چمن، قفس، صیاد، طائر، دام، بال و پر، شکستگی، آشیاں، پر پرواز کا کاٹ دینا۔ برق تپاں، آتش زدگی،  طوفان باد و باراں، آسمان، تیر کمان وغیرہ۔۔

Sub-sntagmaticاستعارے :::     قفس، روداد چمن، ہمدم، اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے

اگر بری سفر کا استعارہ ہو گا، تو دشت، طوفان، تشنگی، کانٹے، پاؤں کے چھالے، کارواں، میر کارواں، محمل، گرد و غبار، ’’بو علی‘‘، قزاق، وغیرہsyntagmatic یاsub-syntagmatic ذیلی استعارے پیادوں کی طرح ہمراہ چلیں گے۔ اسی طرح اگر بحری سفر کا استعارہ ہو گا تو طوفان، کشتی، سفینہ، جہاز، لنگر، بادبان، نا خدا، تلاطم، کنارہ، ساحل اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے ڈگمگاتے ہوئے ساتھ چلتے جائیں گے۔

ترقی پسند تحریک کے وقت پہلے تو ان استعاروں سے اجتناب برتا گیا اور شعرا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان سے دور ہیں۔ جگر مراد آبادی جیسے تغزل اور ترنم کے شاعر نے بھی یہ مصرع کہنے پر خود کر راضی کر لیا، ع: شاعر نہیں ہے وہ جو غزلخواں ہے آج کل۔ لیکن جب فیض نے اپنی نظموں اور غزلوں میں یہی استعارے ایک نئے سیاق میں، یعنی اشتراکیت کے حوالے سے برتنے شروع کئے تو جیسے غزل گو شعرا سے بھی یہ پابندی اٹھ گئی۔ مجروحؔ کا یہ مصرع اس بات کا بعینہ ثبوت ہے۔ ع اٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے۔ فیض ہوں یا ساحر لدھیانوی یا کوئی اور، محبوبہ کے ذکر کے بغیر ان کی ترقی پسند تحریک کے زمانے کی معروف العام نظمیں بھی انہیں ادھوری دکھائی دیتی تھیں، ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘۔۔۔ یا تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم دار کی خشک ٹہنی پر وارے گئے‘‘، یا ساحر کی ’’تاج محل‘‘ یا ’’پرچھائیاں ‘‘ اور ان سے کمتر شعرا کی سینکڑوں نظمیں غزل کی گھسی پٹی امیجری کو اپنائے بغیر نہیں لکھی گئیں۔

بلراج کومل صاحب یکتائے روزگار شاعر ہیں۔ ان سے جتنی بار دہلی میں بات چیت ہوئی یا جب وہ ایک بار چنڈی گڑھ تشریف لائے (جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ) انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ تین یا اس سے بھی زیادہ صدیوں تک یہ استعارات جو عجمی غزل سے مستعار لیے گئے تھے، اردو غزل پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ ان دوران میں ان استعارات کا substitution کی سطح پر، یاOne to one equation کے تناظر میں تصویری پہلو عنقا ہو گیا۔ یعنی محفل یا مشاعرے میں بّری یا بحری سفر (دشت، قافلہ، قافلہ سالار، محمل، ناقہ، گرد پس کاروان، قزاق، رہبر، گم کردہ منزل، یا کشتی، طوفان، ناخدا، ساحل، منجدھار، لنگر، بادبان وغیرہ) پر مبنیsyntagmatic & sub-syntagmatic استعارات کو سن کر سامعین کے ذہن میں کوئی تصویر اجاگر نہیں ہوتی۔ یہ حالت یہاں تک دگر گوں ہو گئی کہ غزل گو شعراء ان ذیلی استعاروں کے فاضل پرزوں spare parts کو اپنے ذہن کے کارخانوں کے شیلفوں پر رکھے ہوئے با آسانی اٹھا کر کسی بھی شعر میں جڑ دیتے۔ آج تک اردو میں جو لاکھوں کروڑوں غزلیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے نناوے فیصد اشعار اسی قماش و قبیل کے ہیں اور اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔

کومل صاحب کے علاوہ جن احباب نے میرے ان خیالات سے اتفاق کیا ان میں گیا (بہار) کے کلام حیدری بھی تھے، اور سری نگر کے پروفیسر حامدی کاشمیری تھے جو ابھی شعبہ اردو کے سر براہ تھے اور اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں ہوئے تھے۔ اُن سے دو تین خطوط کے تبادلے میں ہی یہ صورتحال زیادہ واضح ہو گئی۔ اب یہ خطوط تو میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن اس امر کے باوجود کہ وہ خود غزل کہتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ سب یورپی زبانوں میں ہر نیا دور اپنے استعارے اپنے ساتھ لاتا رہا ہے لیکن بوجوہ اردو میں یہ نہیں ہوا اور ہم لکیر کے فقیر کی طرح چلتے ہوئے دائروں میں گھومتے رہے ہیں، یہاں تک فیض احمد فیض اور ان کے پیروکار ان استعاروں کے سوکھے چھلکوں سے بائیں بازو کی سیاست کا نیا رس نچوڑنے کا جتن کرتے رہے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہر استعارے کے تصویری پہلو کو صرف عصری زندگی کے تناظر میں ہی رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وجوہ کیا تھیں ان میں ایک بار پھر جانا مناسب نہیں ہے، لیکن صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اردو غزلیہ شاعری میں ہمیشہ خود کو دوسرے نمبر کا شہری سمجھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اگر غالب جیسا زمانہ ساز شاعر بھی اپنے فارسی دواوین کو اردو دیوان پر فوقیت دے سکتا ہے (اور یہ انیسویں صدی کے نصف آخر کی بات ہے ) تو دیگر شعرا کا ذکر ہی کیا؟

 

انگریزی میں ہیرایِک کپلٹ اور غزل کے اشعار

 

میں نے اپنے نصف درجن کے مضامین میں اس حقیقت کا ذکر کیا کہ آج تک ہم اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی شاعر الیکذانڈر پوپؔ کو ہیرائک کپلٹ Heroic coupletیعنی قافیہ بند اشعار کا کامیاب ترین شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی کچھ نظموں میں، جو سینکڑوں اشعار کا مرقع ہیں، پچاس یا اس سے بھی زیادہ قسم کے قوافی کا استعمال کیا گیا ہے۔ حروف ابجد کی تعداد کے حساب سے ان قوافی میں ہر بار صرف آخری دو حروف یعنی ایک حرف صحیح اور ایک حرفِ علّتconsonant & vowel کے انسلاک سے قافیے کی تشکیل کی گئی ہے۔ میں نے اپنے برٹش اوپن یونیورسٹی کے دنوں میں جب انگلستان میں مقیم ہندوستانی یا پاکستانی طلبہ کے لیے ایکESL (English as a Second Language کورس کی تشکیل کرتے ہوئے غزل میں قوافی کے طریق کار اور انگریزی میں ہیرائک کپلٹ کی روایت پر غور کیا تو مجھے اچنبھا ہوا کہ پوپؔ یا اٹھارھویں صدی عیسوی میں ہیانگریزی کے دیگر شعرا کے ہاں صرف ایک ہی چلن ہے، یعنی آخری لفظ جو صرف دو یا تینsyllables سے متشکل ہو، اسے ہی قافیہ بند کیا جائے، جیسے

last / fast: ruse/fuse : for/nor : leave / weave : bold / sold

وغیرہ، جب کہ ہمارے ہاں غزل میں یہاں تک آزادی ہے کہ صرف ایک آخری حرف علّت، الف (ممدودہ اور مقصورہ )، ’’ہ‘‘ (ہائے مختفییا ہائے ہوز)، ’’ی؍ے‘‘ (یائے معروف اور یائے مجہول کا قافیہ بھی ممکن ہے، اور چار یا پانچ یا اس بھی زیادہ حروف سے متشکل الفاظ بھی قافیہ پیمائی میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے جہاں غزل میں ایک صوت کے سبھی قافیے لانے کی پابندی ہے، (جو کہheroic couplet ہیرائک کپلٹ میں نہیں ہے ) وہاں یہ آسانی بھی ہے، کہ اگر آپ کسی ’’ مصرع طرح‘‘ پر غزل موزوں نہیں کر رہے ہیں، تو آپ کسی بھی ایسی زمین کا انتخاب کر سکتے ہیں، جس میں قوافی کو صرف ایک آخری حرف علت کی صوت کو ہر مصرع ثانی میں یکساں رکھ کر، صوتی ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے اشعار گڑھے جا سکتے ہیں۔

 

استعارہ سازی: ایک میکانکی عمل؟

 

مضمون آفرینی کے بارے میں بلراج کومل صاحب کے الفاظ میری ڈائری میں درج ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر دس بارہ برسوں کے بعد شعراء کی ایک تازہ پود کچھ استعارے Permutation & combinationسے ترتیب دے لیتے ہیں جو دیکھنے یا سننے میں کانوں کو تازہ دم اور تازہ کار محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی روح اصل وہی اسی پرانی جڑ سے شاخ در شاخ پھوٹتی ہے۔ ان کے ساتھ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ مضمون آفرینی چونکہ غزل کی بنیادی صفت ہے، یہ جاننا ضروری ہو گا کہ غزل کے کسی شعر کو بھی مضمون کے چوکھٹے میں رکھ کر دیکھا جائے۔ لیکن ’’شعر‘‘ اپنے آپ میں ’’مضمون‘‘ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی ’’معنی‘‘ اور ’’مضمون‘‘ دو الگ الگ اجناس ہیں۔ مغربی شاعری کے طریق کار میں یہ تفریق نہیں ملتی ہے۔ اسے انگریزی میں کہا جائے تو کچھ یوں کہا جائے گا۔

 

مضمون :::: What the poem or couplet is about

معنی :::::::What the poem or couplet means

 

غزل کا ایک خاص مضمون اس مجموعی قسم All-inclusive categoryسے تعلق رکھتا ہے جسے خود ترحمیSelf pityکہا جا سکتا ہے، (اور جس کے تحت غزل کے بیشتر اشعاررکھے جا سکتے ہیں ) یہ ہے، ’’تنہائی‘‘، جس کے تحت اس طرح کی ضمنییا ذیلییا تحت التحریر مقاطعی اصطلاحات رکھی جا سکتی ہیں۔ عزلت، بیگانگی، اعتکاف، بیراگ، تیاگ، دست کشی، اجنبیت، سُونا پن، اداسی، جوگ وغیرہ۔ باتوں باتوں میں تین اشعار سامنے آئے۔ دو کلاسیکی شعراء کی تخلیق اور ایک ہمعصر شاعر کی اپج۔

 

وحشت دل سے شب تنہائی میں

صورت دودرہا سایہ گریزاں مجھ سے (غالبؔ )

کوئی جہت یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میرؔ

یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں (میر تقی میرؔ )

 

اب تیسرا شعر جو ایک ہمعصر شاعر کا ہے، غور طلب ہے۔

 

وہی شب و روز ہیں زندگی کے، ہنسی بھی اشکوں کے سلسلے بھی

مگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اندر سے مر گیا ہوں (سلیم احمد)

 

چہ آنکہ غالب اور میر کے اشعار سلیم احمد کے شعر سے بہتر ہیں، تو بھی سلیم احمد کا شعر صرف ’’اندر سے مر گیا ہوں میں ‘‘ استعاراتی سطح پر ایک نئی جہت کی تشکیل کرتا ہے اور سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔ اس شعر میں بھی البتہ شاعر اپنا دامن ’’شب و روز زندگی کے اور ’’اشکوں کے سلسلے‘‘ ‘ جیسے پارینہ، چبے چبائے ہوئے اور پیش پا افتادہ کلیشے کی قسم کی اصطلاحات سے اپنا دامن بچا نہیں پایا۔

 

رن آن لائنز اور بلینک ورس

 

ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔ فری ورس نہیں، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے) میں رن، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا۔ طوالت یا اختصار کی بنا پر سطور کی قطع برید بہت پرانی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تصدق حسین خالدؔ سے چل کر میراؔ جی اور ن۔ م۔ راشدؔ تک پہنچ چکنے کے بعد تک، (بلکہ مجید امجدؔ اور اخترؔ الایمان تک) شیوہ یہ رہا کہ اگر ایک سطر بہت طویل ہو گئی ہے اور صفحے کی چوڑائی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ شاعر اس کو قطع کیے بغیر لکھ سکے، تو ـرن۔ آنلائنزکےقاعدےکواسشرطپربروئےکارلایا جائے کہ باقی کا متن پیوستہ سطر کے وسط سے شروع کیا جائے۔ ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرتا ہوں۔

اے سمندر! پیکر شب، جسم، آوازیں

رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو

پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر

اذاں دیتے گئے۔

(ن۔ م۔ راشد: ’’اے سمندر‘‘ )

 

یہ بحر رمل (فاعلاتن) کی تکرار ہے۔ غور فرمایئے : اے سمندر (فاعلاتن)، پیکر شب (فاعلاتن)، جسم آوا (فاعلاتن)۔۔۔۔ [ یہاں اب ’’زیں ‘‘ کو رن۔ آن کر کے پیوستہ سطر کے ’’رگوں میں ‘‘ سے ملا دیا گیا ہے ]یعنی۔۔ زیں رگوں میں (فاعلاتن)، دوڑتا پھر (فاعلاتن)، تا لہو (فاعلن)۔۔ گویا سطر کی برید اس لیے کی گئی کہ چھ (۶) فاعلاتن کے بعد ’فاعلن‘ کا اختتامیہ آیا ہے، ( جو کہ غزل کا وزن عام طور پر نہیں ہے )۔ لیکن راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگر رن۔ آن لاین کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیا جائے۔ اسی طرح : پتھروں پر (فاعلاتن)، سے گذرتے (فاعلاتن) رقص کی خا (فاعلاتن)۔۔۔ اب یہاں ’’طر‘‘، جو ’’خاطر‘‘ کا اختتامیہ ہے، پیوسطہ سطر کے پہلے لفظ سے منسلک ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے دوسرا ٹکڑا سطر کے عین درمیان میں سے شروع کیا گیا۔ تر اذاں دے (فاعلاتن)، تے گئے (فاعلن)۔

ان شعرا نے رمل کے علاوہ ہزج (مفاعلین کی تکرار)، رجز (مستفعلن کی تکرار)، متدارک (فاعلن کی تکرار)، متدارک سالم (فعلن کی تکرار)، متقارب سالم (فعولن کی تکرار)، متقارب مقبوض (فعول فعلن) اور کامل (فاعلن کی تکرار)۔۔۔ یعنی لگ بھگ سبھی مروج بحور میں یہ چلن اختیار کیا۔

 

راقم الحروف نے 1960ء کے لگ بھگ اس سے انحراف کیا تھا اور حیدر آباد میں قیام کے دوران تک لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی منطقی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے (سبھی متعلقات فعل کو ان کی صحیح جگہ پر مستعدی سے کھڑا رکھتے ہوئے )، رن آن لاینز کو اس طور سے برید کیا تھا کہ نفس مضمون گذشتہ سطر سے تجاوز کرتا ہوا، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک، اور بسا اوقات، ما بعد سطر سے بھی منسلک ہونے والی اگلی سطر تک flux and flow کے ناتے سے بہتا چلا جائے۔ اب یاد آتا ہے کہ حیدر آباد کا دقیانوسی ماحول اول تو آزاد نظم کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تھا، اس پر رن آن لاین کی ’زیادتی‘ ؟ ظاہر ہے کہ محفلوں میں تو کم کم، مگر مشاعروں میں مجھے ہوُٹ بھی کیا گیا اور کوسا بھی گیا۔

 

دست برگ کی اشاعت

 

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدر آباد کے قیام کے بیس برسوں کے بعد جب ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ ’’دست برگ‘‘ چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضاؔ نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دئے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ’رن آن لاینز‘ کی یہ سہولیت، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پر آپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب کے ’’اختتامیہ ‘‘ میں بھی یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحن قرار پائے گا۔‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا نے پنے ایک مکتوب میں ایک نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صرف کیا کہ 1970 ء سے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر آٹھویں یا نویں دہائی یا اس کے بعد میں لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر) اپنی نئی نظموں میں رن آن لاینز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی اب میں خود سے پوچھ رہا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے یا نہیں ؟‘‘ میرے دیگر نظم گو دوستوں میں احمد ندیمؔ قاسمی، (مرحوم) ضیاؔ جالندھری(مرحوم)، بلراج کوملؔ، نصیر احمد ناؔ صر، علی محمد فرشیؔ اور کئی دیگر احباب نے بھی اس رویے پر مجھ سے اتفاق کیا اور اپنی نظموں میں اس چلن پر صاد کیا۔

ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی میں شامل ہوئے میرے ایک مضمون پر رد عمل کے طور پر ایک صاحب نے (نام بھول گیا ہوں، کیونکہ میں اپنی اس برس کی ڈائِری سے یہاں نقل کر رہا ہوں ) ماہنامہ ’’ صریر‘‘ کے ہی فروری 2004 کے شمارے میں ان نکتوں کی شیرازہ بندی ا ان الفاظ میں کی۔ ’’ان تفصیلات پر بحث کے لیے کچھ اہم نکات کو دہرا دینا مناسب ہے [۱] مروج عام بحور جو سالم ارکان پر مشتمل ہوں آزاد موشح (ان کا مطلب تھا ’’آزاد نظم‘‘ )کی تخلیق کے لیے موزوں ہیں یا ایسی مزاحف بحریں جن کے دو ارکان کے درمیان تین متحرک حروف مل کی ایکیونٹ بنا دیں، بھی جائز و موزوں ہیں۔ [۲] آزاد نظم کے مصرع کو سطر کہنا چاہیے [۳] آزاد نظم کا کوئی مصرع خود کفیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور [۴] صوتی اعتبار سے ما قبل مصرع کا اگلے مصرع میں انضمام ضروری ہے۔‘‘

اس زمانے میں بھی اور آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گذرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لاینز کے چلن کو روا رکھ سکے۔ اور نظم کی ’ سطر‘ کو سطر ہی سمجھے، ’ مصرع‘ نہیں۔ ان دو باتوں کو الگ الگ پلڑوں میں رکھ کر بھی تولنے کا اہلیت مجھ میں ہے۔

(الف) کیا مقفیٰ اور مسجع نظموں کی غنائیت اور نغمگی، حسن قافیہ کی سحر کاری اور بندش الفاظ نگینوں میں جڑی ہوئی شوکت و رعنائی اس صنف کو ’’آزاد نظم‘‘ یا ’’نظم معرا‘‘ سے ممتاز بناتی ہے ؟

(ب) کیا غزل کے روایتی ’’فارمیٹ‘‘ سے مستعار اردو شاعروں کی یہ عادت ثانیہ کہ وہ نظم کی ’سطر‘ کو بھی ’مصرع‘ سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ نظم کی آزادی، یعنی اس کے مضمون اور اس کے شعری اظہار کی لسّانی اور اسلوبیاتی تازہ کاری کی قربانی نہیں دیتے ؟ اور۔۔۔

(ج) کیا مقفیٰ اور یکساں طوالت کی سطروں پر مشتمل پابند نظموں میں یا ان آزاد اور معرا نظموں میں جن میں ’سطر‘ مصرع کی صورت میں وارد ہوتی ہے، اور رن آن لاینز کا التزام اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ’سطر‘ کے بیچ میں ایک جملے کے مکمل ہونے سے حسن شاعری کو ضرب پہنچتی ہے، ان امیجزimages کی قربانی نہیں دینی پڑتی، جو رمز و ایمائیت کی جمالیات سے عبارت ہوتے ہیں اور علامت و استعارہ کے حسین جھالروں والے پردے کے پیچھے سے نیمے دروں نیمے بروں حالت میں پوشیدہ یا آشکارہ ہوتے ہیں۔

آخری بات فارسی عروض کے بارے میں ہے جو اردو کے گلے میں ایک مردہ قادوس Albatross کی شکل میں لٹک رہا ہے۔ ( استعارے کو سمجھنے کے لیے کالریج کی نظم Ancient Mariner دیکھنی پڑے گی)۔۔۔ مجھ جیسے کم فہم اردو دان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ صوتی محاکات کے حوالے سے یہ عروض اردو کی جملہ سازی کے لیے ناقص ترین ہے۔ کیونکہ عربی اور فارسی کی نسبت اردو کی جملہ سازی واحد و یگانہ ہے۔ غالب کے صرف ایک مصرعے کی تقطیع سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے

 

۔ ؎ سب کہاں ؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں۔۔۔ (فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن۔ بحر رمل)

 

پہلے صوتی محاکات دیکھیں اور پھر تقطیع کا جوکھم اٹھائیں۔ ’’سب کہاں ‘‘ (انحرافی استہفامیہ ) یعنی ’’سب نہیں ‘‘۔ ’’سب کہاں ؟‘‘ (بشمولیت سوالیہ نشان )کے بعد اردو قواعد کی رو سے سکون، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسّلم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا ؍کہاں = علا؍کچھ = تن) اگرنثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں ہوتا، سب کہاں ؟ کچھ۔۔۔ ’کچھ‘ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ’چند‘ کے معنی میں آتا ہے۔ ’’سب کہاں کچھ‘‘ کو ’فاعلاتن‘ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سےا ایک پیہ م، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، ’’سب کہاں کچھ؟‘‘ بن گیا، ’ اور ’ یعنی‘‘ سے ’’لا یعنی‘‘ ہو گیا۔ جملے کا باقی حصہ یہ ہے۔ ’’لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں ‘‘۔ اس جملے میں ’’لالہ و گل‘‘ کے بعد کا لفظ یعنی ’’میں ‘‘ گرائمر کی زبان میں، ہمیشہ (ظرف مکان ہو، یا ظرف زمان)، مفعول فیہ کے بعد آتا ہے۔ یعنی ’’میں ‘‘ کا تعلق مابعد کے لفظ سے نہیں، بلکہ ما قبل کے لفظ سے ہے۔ گویا ’’لالہ و گل میں ‘‘ ایک قابل فہم جزو ہے، نہ کہ ’’میں نمایاں ‘‘ جو کہ لا یعنی ہے۔ لیکن، اب پھر ایک بار تقطیع کریں۔ لالہ و گل (فاعلاتن) میں نمایاں (فاعلاتن) ہو گئیں (فاعلن)۔۔۔ گویا جس بدعت کا ڈر تھا، وہی ہوئی۔ عروض کے اعتبار سے ہم نے مفعول فیہ کے بعد آنے والے اور اس سے منسلک لفظ ’’میں ‘‘ کو اس سے اگلے لفظ کے گلے میں باندھ دیا۔ عروض کی ضرورت تو پوری ہو گئی لیکن جملے کا خون ناحق ہو گیا اور اس قتل عمد کی ذمہ داری ان سب پر ہے جنہوں نے ہندوی چھند اور پِنگل سے منہ موڑ کر فارسی عروض کو اپنایا۔

ایک سچا واقعہ یاد آتا ہے جو فیض احمد فیضؔ سے سنا، (اور شاید مرحوم فیضؔ نے کہیں لکھا بھی ہے ) کہ ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں جب فیضؔ ترکی کے شہرہ آفاق شاعر ناظم حکمت سے ملے تو باتوں باتوں میں (ترکی زبان پر فارسی کا اثر دیکھتے ہوئے )، بزعم خود فیضؔ نے کہا کہ اردو شاعری فارسی عروض کے مطابق لکھی جاتی ہے تو ناظم حکمت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، ’’تو کیا ہندوستان کی اتنی قدیم تہذیب اور لٹریچر میں شاعری کا اپنا کوئی عروض نہیں ہے جو آپ اردو والوں کو ایک بدیسی زبان کے عروض پر انحصار کرنا پڑا ہے ؟‘‘ یہ سوال سن کر فیضؔ کی جو حالت ہوئی ہو گی وہ مجھ پر عیاں ہے۔ وہ اردو عروض کی بڑائی کرتے ہوئے دو باتیں بھول گئے، ایک تو یہ کہ وسط مشرق اور خلیج کے ممالک کے بارے میں ترک لوگ بے حد منفی اثرات رکھتے ہیں، اور دوئم یہ کہ ایران اور عراق کے کلچر اور ثقافت سے ترک اشرافیہ اور عوام کو خدا واسطے کا بیر ہے۔

 

نثری نظم (نثم؟)

 

نثری نظم ہے کیا؟ 1955 ء کے لگ بھگ ہندوستان کے صوبہ بہار سے احمد ہمیشؔ (اب مرحوم) نے مجھے کچھ نظمیں بھیجیں کہ وہ مالی طور پر تنگ ہیں اور اگر میں انہیں ہندی حروف میں لکھ کر اور مشکل الفاظ کے معانی حاشیہ میں لکھ کر کسی ایسے ہندی رسالے میں چھپوا دوں جہاں سے کچھ معاوضہ بھی مل سکتا ہو تو وہ ممنون ہوں گے۔ یہ سب نظمیں اُس زمانے میں ہندی میں لکھی ہوئی کویتاؤں کی طرح نثر لطیف میں تھیں یعنی کہ یہ کسی بھی بحر میں ساقط الوزن قرار پاتیں۔۔۔ لیکن نثر سے قطع نظر، نظم کے دیگر عناصر، یعنی اسلوب میں سادگی، آہنگ میں شیرینی، تمثال، استعارہ، تشبیہ ہ، امیجری اور خیال بندی میں نظم کے سب عناصر سے مملو یہ ’’نثری نظمیں ‘‘ تھیں، بالکل ویسے ہی جیسے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ٹیگور کی ’’گیتانجلی‘‘ کو نوبل پرائز ملنے کے بعد اس کے متعدد اچھے اور برے اردو ترجمے لاہور اور دہلی سے چھپے تھے (اور یہ سب نثر لطیف میں تھے !)۔۔۔ اور ان کے تتبع میں مرزا ادیب اور کچھ دیگر اہل قلم نے درجنوں کی تعداد میں ایسی ہی نظمیں لکھی تھیں اور رسائل کا ایک حصہ ایسی نگارشات پر مشتمل ہوتا تھا، جسے  ’’ادب لطیف‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔۔ احمد ہمیش کی نظموں میں صرف اردو عروض، قافیہ، ردیف اور سطور کی طوالت میں یک پیمانہ نہ ہونے کی خصوصیت۔۔۔ نہیں تھے، یعنی وہ سب تکنیکی عناصر جو نظم کو نثر سے جدا کرتے ہیں، بالکل عنقا تھے۔ لیکن اپنی ’’روح‘‘ اور ’’جوع‘‘ میں یہ نثر پارے نظمیں تھیں۔۔۔ میں نے ان کا کام کر دیا اور ان نظموں کے یکے بعد دیگرے انگریزی ماہنامہ ’’سریتا‘‘ میں چھپنے کے بعد اور انہیں معقول معاوضہ ملنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے میرا ان سے تعلق قطع ہو گیا۔

اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ اردو میں ’’نثری نظم‘‘ کی شروعات احمد ہمیش سے ہوئی۔ بعد میں موصوف (اب مرحوم) بہار سے پاکستان ہجرت کر گئے اور کچھ ماہ لاہور میں احمد ندیم قاسمی (مرحوم) کے مہمان رہنے کے بعد کراچی جا کر بس گئے۔ مجھ سے ان کی تجدید ملاقات 1985ء کے لگ بھگ ہوئی جب میں امریکا آ کر بس چکا تھا۔ کراچی سے وہ ایک سہ ماہی رسالہ شائع کرتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش بھی تھا۔ لیکن ان کا نثری نظم کا مجاہدہ آخر رنگ لایا اور کچھ دیگر شعرا نے بھی دیکھا دیکھی نثری نظمیں لکھنا شروع کر دیا۔

اس کا ایک محرک ن م راشد کی مطبوعہ ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی اشاعت بھی تھی اس میں راشد نے فارسی شعرا کی جو نظمیں اردو میں پیش کی تھیں، وہ سب نثر میں تھیں اور یوں بھی اگر ہندوستان کی سب صوبائی زبانوں (مراٹھی، گجراتی، اُڑیا، پنجابی۔۔۔ اور وندھیا چل پربت کے پار کی پانچ زبانوں ) میں نثر لطیف ہی نظم کا ملبوس بن چکا ہو، تو اردو کب تک اس سے لا تعلق رہ سکتی تھی؟

میں نے خود آج تک چھ سو سے سات سو تک نظمیں لکھی ہیں، اور ان میں سے ایک بھی نثری نظم نہیں ہے، پھر بھی میں احباب کی تحریر کردہ نثری نظموں کی طرف بارہا متوجہ ہوا ہوں، ان میں اسلام آباد کے میرے دو عزیز دوست، نصیر احمد ناصرؔ اور علی محمد فرشیؔ بھی ہیں، جن کی نثری نظمیں مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک دو بار خود بھی کوشش کی ہے میں نے کہ کم از کم چار پانچ ہی نثری نظمیں لکھ لوں، لیکن ہر بار جب شروع کرتا ہوں تو نظم خود بہ خود کسی بحر میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔

ایک بار پھر یہ سوال پوچھیں، آخر نثری نظم ہے کیا؟میں نے گذشتہ کچھ برسوں میں چار یا پانچ نثری نظموں کے مجموعوں کے پیش لفظ لکھے ہیں۔ ان میں مجھے ایک بہن کی طرح عزیز شاہدہ کاظمی بھی ہیں جو اردو ڈرامہ اور PTV کے ماضی قریب کا ایک معتبر نام ہیں۔ کینیڈا میں مقیم عروج عروجؔ بھی ہیں اور ناروے میں مقیم سونیاؔ خان بھی ہیں۔ (پاکستان اور ہندوستان کے کچھ دیگر شعرا کی کتابوں کے فلیپ اس سے سوا ہیں ) ان سب میں ہمیشہ میں نے نثری نظم کے جواز میں وہ دلائل پیش کیے ہیں جو شاید معروضی ہیں۔ بہر حال کوشش کرتا ہوں کہ دیکھوں میں نے کیا لکھا ہے اور کیا ان کترنوں سے نثری نظم کا ناک نقشہ کسی بھی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔

کینیڈا میں مقیم عروج عروجؔ کی کتاب ’’اپنے سورج پر نظر رکھنا‘‘ میں یہ پیراگراف تھا: ’’کچھ ہیرے کئی بار کنکروں کے ڈھیر میں بھی پڑے ہوئے مل جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے مجھے ایک انگریزی اخبار کے ادبی صفحے پر ایک بلاگ میں ایسے ہی کچھ جواہر نظر آئے جو میں نے فوراً ہی اپنی نوٹ بک کی جھولی میں ڈال لیے۔ ٹی ایس ایلیٹ کے اس حلفیہ بیان کا اقتباس دینے کے بعد کہ ’’مجھے عروض کے ارکان اور اوزان Iambic Pentameter ٰٓ آج تک ازبر نہیں ہوئے، اس لیے ہی میں ان پر کاربند نہیں رہا ہوں۔۔۔ جہاں تہاں جی چاہا، اس سے کھل کھیلتا رہا ہوں۔‘‘ بلاگر blogger نے اس بحث کو شروع کیا کہ خارجی آہنگ اور داخلی آہنگ دو الگ الگ اشیاء کے نام ہیں اور عروض کی جکڑ بندیوں میں رہ کر جہاں ہم خارجی آہنگ کی مدد سے  الیکزانڈر پوپؔ کی طرح  یا اردو میں پاکستان کے ظفر اقبال کی طرح بے رس اشعار خلق کر سکتے ہیں اور(پوپؔ انہیں ’’ہیرائک+ کپلٹ‘‘ Heroic Couplet کہہ کر اپنا سابقہ یونانی اور رومائے قدیم کی شاعری سے منسلک کر سکتا ہے اور ظفر اقبال صاحب خود کو میر تقی میرؔ اور غالبؔ سے بہتر شاعر ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں )، وہاں عروض سے آزادی پا کر اور نثر لطیف لکھ کر داخلی آہنگ کی مدد سے ہم ایسی شاعری کی تخلیق بھی کر سکتے ہیں جو پوپؔ یا  خود بین محترم ظفر اقبال کے لگے بندھے پابند اشعار سے بہتر ہو بلکہ اس میں خیال، جذبہ اور زبان اس مہارت سے بہم دگر پیوست ہوں کہ تخلیق واقعتاً ایکaesthetic whole نظر آئے۔

اردو میں نثری نظم کا چلن یورپ کی زبانوں یا بر صغیر کی دوسری بڑی زبان ہندی کے علاوہ کچھ دیگرصوبائی زبانوں کی نسبت کم از یم تینیا چار دہائیوں کے بعد شروع ہوا۔ اب تک اسے وہ ’’پدوی‘‘ نہیں بخشی گئی جسے سنسکرت کی ’’رس‘‘ تھیوری میں لحن داؤدییا نغمگی، غنایئتاور کیف آوری کا سنگم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ذوق یا وجدان کی کمی ہے۔ میں بہت سی باتوں میں محترم شمس الرحمن فاروقی کے ارشادات سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن ان کا یہ فرمان کہ ’’ہماری تنقید بہت سے خود ساختہ فریبوں میں مبتلا رہی ہے۔ ان میں سے ایک شعر کی نغمگی یا غنائیت بھی ہے۔۔۔‘‘ مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں شعر کی نام نہاد نغمگی یا غنائیت کا ذکر ہے، اس لیے بھی ہے کہ ’خود ساختہ فریب‘ کے طور پر اسے مہر بند کر کے موصوف نے درجنوں ’ پیش لفظ نویس‘ یا ’فلیپ نگار‘ نقادان ِ شعر کا بھی فالنامہ درج کر دیا ہے۔

بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں آج سے بیس پچیس برس پہلے اردو  کے ادبی جرائد نثری نظم کو شامل اشاعت کرنے کے قطعاً حامی نہیں تھے، اب آہستہ آہستہ نثری نظم پر مائل بہ کرم ہو رہے ہیں اور اس صنف کو یا تو اپنے جریدے کی ایک الگ فصل میں شامل کر رہے ہیں یا دیگر منظومات کے ساتھ ہی جگہ دے رہے ہیں۔ گویا دیگر اصناف ِ شعر کی طرح اب وہ اس صنف کے احیا میں بھی برابر کے شریک ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید