FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

فرحت نواز۔۔ ایک تعارف

 

مدیر: ارشد خالد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد شمارہ ۲۲

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

مختصر کوائف

مرتب: ارشد خالد

 

تاریخ پیدائش: ۱۷جون ۱۹۵۷ء۔ سرکاری کاغذات میں: ۱۲ اگست ۱۹۵۷ء

مقام پیدائش: ڈیرہ نواب صاحب

تعلیم:

میٹرک: گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول۔ رحیم یار خان۔

ایف ایس سی، بی اے: گورنمنٹ کالج فار ویمن، رحیم یار خان

ایم اے اکنامکس (ریگولر)اور ایم اے انگلش (پرائیویٹ): اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور

ملازمت:

انگریزی کی لیکچر ر: گورنمنٹ گرلز کالج علی پور۔ ضلع مظفر گڑھ۔ ۸دسمبر ۱۹۸۴ء سے۔

انگریزی کی لیکچر ر: گورنمنٹ کالج فار ویمن رحیم یار خان۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۸۷ء سے۔

موجودہ پوزیشن: ہیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ اور وائس پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج رحیم یار خان

مطبوعہ کتب: استعارہ مِری ذات کا (شعری مجموعہ۔ مطبوعہ ۲۰۱۵ء)

منزلاں تے پندھیڑے (اردو افسانوں کے سرائیکی تراجم کا مجموعہ۔ ۱۹۸۰ء)

چونڑویاں نظماں (وزیر آغا کی نظموں کے سرائیکی تراجم۔ ۱۹۸۰ء)

۱۹۸۰ء کے منتخب افسانے (انتخاب۔ ۱۹۸۱ء)

The Day Shall Dawn (اکبر حمیدی کی غزلوں کا انگریزی ترجمہ

بہ اشتراک: جمیل آذر، حامد برگی)

جدید ادب خانپور کی شریک مدیر۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۶ء تک

کالج میگزین ’’ لمعہ ‘ ‘ کے انگریزی سیکشن کی نگران

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا ‘ ‘ میں شامل تاثرات

 

ڈاکٹر رشید امجد

 

فرحت نواز جذبوں کی کو ملتا اور نرول پن کی شاعرہ ہے۔ اس کے یہاں پُر پیچ فلسفوں اور بڑے بڑے آدرشوں کی جگہ خواب زدگی کی ایک ایسی کیفیت ہے جو اپنے اندر خلوص و محبت کا ایک سمندر چھپائے ہوئے ہے۔۔ ۔۔ میرا خیال ہے کہ کسی شعر میں بڑا فلسفہ یا آدرش ہو نہ ہو، خلوص کی کو ملتا اور جذبے کا نرول پن ہونا ضروری ہے۔ اس حوالے سے مجھے فرحت نواز کے یہاں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

فرحت نواز نے اپنی بہت سی ہم عصر شاعرات کی طرح جنس کے کچے پن کے اظہار کو ذریعہ بنا کر شہرت کی سیڑھی چڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے یہاں جذبہ روح کی ایک بنیادی طلب ہے اور رومان محض جسمانی محبت نہیں بلکہ وجدانی کیفیات کا عکاس ہے۔ محبوب پہلی نظر میں جیتا جاگتا انسان ہے مگر پوری نظم کے تخلیقی عمل میں گوشت کی لذتیں منہا ہو کر روح کی رنگینیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی نظمیں سادہ سی محسوس ہوتی ہیں، لیکن ایک مصرعہ یا لفظ کو وہ اس طرح تخلیقی حرکت دیتی ہے کہ نظم کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ فرحت کی شاعری میں خوف، شک اور متزلزل کیفیت کی تکون بنتی ہے۔ وہ زلزلوں کی زمین پر کھڑی وہ عورت ہے جس کے اندر کی عورت جاگ بھی رہی ہے مگر زلزلوں کی دھمک اور اردگرد کی صورتحال سے خوفزدہ بھی ہے۔ وہ نہ تو اس عورت کو سلانا چاہتی ہے اور نہ ہی جگائے رکھنے پر آمادہ ہے۔ یہیں پر اس کی شاعری کا بنیادی تنازعہ جنم لیتا ہے۔ سوال ابھرتے ہیں اور ان سوالوں کا کشکول لیے وہ کبھی تو جذبوں کی وادیوں میں اترتی ہے اور کبھی فکر کی گھاٹیاں طے کرتی نظر آتی ہے۔ سوال اس کی ہر نظم میں ہے مگر وہ پرانے شاعروں کی طرح اس کا دو ٹوک منطقی جواب نہیں دیتی بلکہ اشاروں اور کنایوں کی صورتحال میں لا کر چھوڑ دیتی ہے۔۔ ۔۔

ایک بات جو اسے بہت سے دوسرے شاعروں سے منفرد کرتی ہے یہ کہ اس کے سارے تجربے اس کے اپنے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں، ننھے ننھے دکھ اور ایک مختصر سا ماحول بظاہر اس کی شاعری کے دائرے کو خاصا مختصر کر دیتا ہے مگر اس محدود دائرے میں ایک سچائی ہے اور وہ ہے اس کا اپنا آپ۔ کہ وہ نہ تو دوسرے کے تجربوں اور جذبوں کو دہراتی ہے اور نہ اپنے آپ کو دوسروں کے ذہن میں رکھ کر سوچتی ہے۔ اس کی دنیا مختصرسہی مگر اپنی ہے اور یہی اپنا پن اس کے جذبوں کو کو ملتا اور نرول پن عطا کرتا ہے، اس حوالہ سے مجھے اس کی نظموں میں ایک سوندھا پن اور اپنی مٹی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پروفیسرمظہر مہدی

 

فرحت نواز کی شاعری کا دائرہ وسیع ہے، لا محدود نہیں۔ لیکن اُس دائرے کے مرکز میں جو نقطہ ہے وہ لا محدود ہے۔ یہ وہی انسانی جذبہ اور وہی آرزو ہے جو اس کے اندر ازل سے موجود ہے اور اُس کے رنج و الم کا سبب ہے۔ ان کی شاعری اس ازلی آرزو کی تکمیل کی جستجواور اُس سے حاصل شدہ پرانے انسانی تجربوں کے نئے ذاتی احساس کا اظہار ہے کہیں تصنع سے عاری اور کہیں انوکھا۔ (آبلے ہو گئی ہیں آنکھیں

کیا انگارہ تھا وہ شخص)لیکن ان کی شاعری وہاں ہمیں خوش کن حیرت میں ڈال دیتی ہے جہاں اس ازلی انسانی جذبے کیا تھاہ گہرائی اور گیرائی شجر کے روپ میں نمودار ہوتی ہے اور شجر سے ہوا کے رشتے کا علامتی لیکن بامعنی اظہار ہوتا ہے۔ فرحت نواز نے ان علامتوں کو خلق کر کے انسانی تجربے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے اور میرے خیال میں کسی بھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی اسی کو سمجھنا چاہئے۔

ان کی شاعری میں خوابوں کا ایک جہاں آباد ہے اور آنکھوں نے ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے۔ ان کو یوں توکلاسیکی اور جدید دونوں قسم کے شعراء نے برتا ہے لیکن فرحت نواز کے یہاں اُن کی اتنی جہتیں ملتی ہیں کہ ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

(خواب جو اپنے لیے اب ہیں سرابوں کی طرح اپنی آنکھوں میں انہیں بھر بھر کے پانی سوچنا)

فرحت نواز کی شاعری کا ایک اہم جزو گھریلو زندگی کا سرد گرم ہے لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس میں انہوں نے ماں کو مرکزی اہمیت دی ہے۔ دیگر امور کے علاوہ ماہرین نفسیات کے نظریے، ادبیاتِ عالم، ہندوستانی فلمیں اور ساحر لدھیانوی جیسے افراد کی زندگیوں نے یہ درس دیا کہ ماں اور بیٹے کے درمیان محبت ایک فطری شے ہے۔۔ ۔۔ اس کے برعکس فرحت نواز نے اپنی شاعری میں اس مستحکم خیال کوsubvert کر کے نسائی حسیت کا ثبوت فراہم کیا۔ ان کی شاعری کا اچھا خاصا حصہ ماں اور بیٹی کے رشتے کو محیط ہے۔ (تضاد، آئینے سے ایک سوال، دعا، بابل، بابل تیری یاد آئے، کاش)۔ یہ حقیقت پسندانہ رویہ نسائی شاعری میں ایک نیا در وا کرتا ہے۔ اس مقام پر اس امکان کو نشان زد کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فرحت نواز کی رقصِ وحشت کروں، بَن باس میں ایک دعا، مَنّت کے دھاگے، نا انصافی، جہاں پناہ، تیز چلتی ہوا نے تماشا کیا جیسی نسائی حسیت سے لبریز نظمیں کل اُن کا شناس نامہ بننے والی ہیں۔

فرحت نواز کی شاعری کا دیگر قابلِ توجہ پہلو ان کا سماجی اور سیاسی سروکار ہے۔ اعلان فرما دو، انوکھی تاجپوشی، فرعون کی کرسی، اب نیا دور ہے اور امن کی فاختہ کے نام سیریز کی نظمیں اس کا اشاریہ ہیں کہ فرحت نواز انسان کی ازلی آرزوؤں اور تمناؤں کی شکست و ریخت کی دنیا سے باہر قدم رکھ رہی ہیں اور اپنے معاشرے کے گرد و پیش کی بدصورتی کے سیاسی اور سماجی اسباب کی جستجو میں ہیں۔ ایسا امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ان اسباب کی جستجوان کی شاعری کا غالب موضوع بن سکتے ہیں۔

انہوں نے زبان کو روایت سے الگ ہو کر بھی برتا ہے لیکن ان کا یہ عمل دانستہ کے بجائے فطری معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے اس عمل میں کئی نئی تراکیب بھی وضع کی ہیں اور اردو لغت کو متموّل کیا ہے۔

خوش آمدید فرحت نواز!آپ ہی کی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عبداللہ جاوید

 

چھوٹے بڑے حصاروں میں گھری ہو ئی زندگی گزارتے ہوئے اور خود کو ٹوٹتے پھوٹتے اور ٹکڑوں میں بٹتے ہوئے دیکھتے اور بر داشت کر تے ہوئے فرحت نواز نے کو ئی بیس برس نمٹا دیئے۔ ان بیس برسوں کی شعر و ادب سے لا تعلقی کے دوران اس کے اندر کی شخصیت جس کو ’’ذ ات ‘ ‘  سے منسوب کیا جا سکتا ہے، چھوٹے بڑے سب حصاروں سے آزاد اور شخصیت کی قطع برید سے محفوظ، لا شعور اور تحت الشعور کے نہاں خانوں میں مستور رہی بقول اس کے:

’’لگ بھگ دو دہائی پہلے ملک ادب سے خود اختیاری جلا وطنی کا فیصلہ کر تے وقت مجھے بالکلیہ خیال نہ آ یا تھا کہ جن لفظوں سے میں آنکھ چرائے جا رہی ہوں وہ پیچھے سے مجھے بلاتے رہیں گے۔ ان کی آواز پر میں کئی بار پتھر ہو ئی اور ان کی محبت کے جا دو نے مجھے کئی بار زندہ کیا۔ اس جلا وطنی کے دوران اس آواز سے میں اپنا تعلق نہیں توڑ سکی۔ ‘ ‘  چند باتیں کے زیرِ عنوان فرحت نواز نے یہ اعتراف کیا ہے لیکن ان ہی باتوں میں وہ یہ لکھ رہی ہیں ’’ شادی کے بعد گھر، شوہر، اور بچوں کی ذمہ داریوں کو بھی شعری لطافتوں کا ایک روپ سمجھا۔ زندگی کے روایتی رویوں میں انہی لطافتوں نے مجھے شعر و ادب سے یکسر دور نہیں جانے دیا۔ ‘ ‘

فرحت نواز کی غزلیہ شاعری ہو کہ نظمیہ شاعری یا پھر اس کے ماہئے، موضوع اور اسلوب بیان کے تنوع سے معمور اور یکسا نیت سے محفوظ و ما مون ملتے ہیں۔۔ اس نے کسی ایک مکتب یا تحریک تک اپنی شاعری کو محدود نہیں ہونے دیا۔ کہیں کہیں اس کی شاعری نسائیت کی تحریک سے مملو محسوس ہو تی بھی ہے تو اس کو اس حد تک ذاتی بنا دیا ہے کہ قاری کو تحریک کا نہ تو کو ئی جھنڈا نظر آ تا ہے اور نہ کو ئی پو سٹر یا بینر۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے اپنی چند ایک نظموں میں ’’ عورت ‘ ‘  کا مقدمہ لڑا ہے۔ لیکن ایسی نظموں کی موضوع عورت، خاتون خانہ ہے، حقوقِ نسواں کی علمبردار خواتین نہیں۔ اس کا مقدمہ تو صرف یہ ہے کہ اگر شوہر گھر کا بادشاہ ہے تو عورت گھر کی ملکہ کیوں نہیں ہے۔

فرحت نواز کا زیرِ نظر شعری مجموعہ سچی اور اچھی شاعری پڑھنے کی چا ہت رکھنے اور کرنے والوں کو ما یوس نہیں کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘  میں شامل ’’پیش لفظ‘ ‘ سے اقتباس ۔۔۔ حیدر قریشی

 

فرحت نواز کو شعر و ادب کی دنیا میں پھر سے متحرک کرنے کے لیے میں نے جب اپنا مضمون ’’فرحت نواز کی نظمیں ‘ ‘ لکھا تھا تب ایسا کرنا میری صدق دلانہ کاوش تو ضرور تھی لیکن مجھے خود اندازہ نہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں فرحت نواز اتنے مختصر سے عرصہ میں اپنا شعری مجموعہ شائع کر لیں گی۔ سو اب جو یہ مجموعہ شائع ہو رہا ہے تو مجھے اس کی اشاعت کی خبر سے دلی خوشی ہو رہی ہے۔

لگ بھگ ربع صدی کے عرصہ پر محیط فرحت نواز کی شاعری میں محبت کی مختلف النوع کیفیات کو عمومی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اِدھر ہمارے بعض دانشوروں نے شاعری میں محبت کے موضوع کو بہت کمتر درجہ کی چیز قرار دے رکھا ہے۔ محبت کا موضوع اتنا ہی پرانا ہے جتنا پرانا آدم و حوا کا قصہ، اور اتنا ہی نیا ہے جتنا ہم سب کی زندگیوں میں چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ موجود ہے۔ فرحت نواز کی محبت کی شاعری ان کے ذاتی تجربوں کی زائیدہ ہے، اس وجہ سے یہ روایتی محبت کی شاعری نہیں رہتی۔ اس میں ایک اوریجنل سی خوشبو موجود ہے۔ تاہم محبت سے ہٹ کر بھی ان کی شاعری میں موضوعاتی تنوع ملتا ہے۔ ماں، باپ، شوہر، بچے، بھائی، بہن، ان کی شاعری میں اپنے اپنے حقیقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ویمن ڈے پر لکھی گئی ان کی دو نظمیں اور امن کی فاختہ کے نام تین نثری نظمیں عالمی حوالے سے ان موضوعات کو نبھا رہی ہیں۔ وطنِ عزیز میں دہشت گردی کی شدید لہر کو فرحت نواز نے گہرے دکھ کے ساتھ اپنا موضوع بنایا ہے۔ جبکہ معاشرے میں کسی اختیار اور طاقت کے بَل پر فرعونیت کا مظاہرہ کرنے والی قوتوں کو بھی فرحت نواز نے مختلف انداز سے اپنا موضوع بنایا ہے۔ اتنے موضوعاتی تنوع کے باوجود ان کی شاعری میں محبت کا موضوع سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ قومی اور عالمی دونوں سطح پر انسانی معاشرے میں امن اور محبت کے فروغ کی متمنی ہیں۔

عام طور پر جب کسی شاعر یا ادیب کا کوئی تخلیقی مجموعہ شائع ہوتا ہے تو اس کے معاً بعد اس کے ہاں ایک ٹھہراؤ یا عارضی خاموشی آ جاتی ہے۔ جیسے تخلیق کار کچھ سستا رہا ہے، کچھ دیر کے لیے دَم لے رہا ہے۔ تاہم فرحت نواز کے ہاں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ استعارہ مِری ذات کاکی اشاعت کے معاً بعد ان کے شعری اظہار میں ایک دَم پھوٹ بہنے والے چشمے جیسی کیفیت نمایاں ہو گی۔ اسی مجموعہ میں شامل ان کی نئی شاعری سے اندازہ کر رہا ہوں کہ ان کے تخلیقی اظہار میں مزید بہاؤ آئے گا۔ ان کی تازہ نظموں، غزلوں میں بیس سال کے سکوت کا ٹوٹنا جلترنگ کی جھنکار اور چہکارجیسا لگ رہا ہے۔ اور ان میں مجھے فرحت نواز کے اگلے شعری مجموعے کی شاعری کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل

 

فرحت نواز کا پہلا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ اپنی تمام تر شعری نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ میرے سامنے ہے اور میں سوچ رہی ہوں کہ خواب دیکھنے والی آنکھ نے اپنی بات کہنے میں اتنی دیر کیوں کی؟آنکھ کی گود تو کبھی خوابوں سے ویران نہیں ہوتی۔ خواب ٹوٹ سکتے ہیں، بکھر سکتے ہیں، ان کی تعبیریں بدل سکتی ہیں مگر خواب کبھی نہیں مرتے۔ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ریزہ ریزہ خواب، کرچی کرچی خواب، بکھرتے خواب، ادھورے خواب، کسی بھی نام سے پکاریں خواب تو خواب ہی رہتے ہیں۔ پھر فرحت تو خواب گر ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ لگتا ہے فرحت نے ایک طویل عرصہ یادوں کے تپتے ہوئے صحرا میں آبلہ پائی کی ہے۔ مگر یہ یادیں آکاس بیل کی طرح جسم و جاں سے لپٹی ہی رہتی ہیں۔ یادیں بے وفائی نہیں کرتیں۔ ان کے زخم ہر موسم میں پھول بن کر خوشبوؤں کا ہالہ کئے رکھتے ہیں۔ اور فرحت نے ان یادوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانے کی بجائے ان کے لمس اپنے اندر سموئے ہیں۔ وہ ان خوشبوؤں اور رنگوں سے خوب واقف ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’عورت محبت کی وہ کہانی ہے کہ جب اختتام کو پہنچتی ہے تو ایک نیا آغاز پاتی ہے۔ ‘ ‘ فرحت نواز کا یہ شعری مجموعہ اسی آغاز اور اختتام۔۔ ۔ اور پھر آغاز کی کہانی سنا رہا ہے۔ فرحت اس شعری مجموعہ میں محبتوں کے کئی اختتام اور کئی آغاز کرتی نظر آ رہی ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ’’اپنی ذات سے باہر بیٹھنا ‘ ‘ بہت بڑی بات ہے مگر اب میرا فرحت کو مشورہ ہے کہ اپنی بات کہہ کر عرفانِ ذات کے جس مرحلے سے آپ گزری ہیں، اب ذرا اندر کے موسموں کی بھی خبر لیں۔ یقیناً وہ بھی بدل چکے ہوں گے اور آپ سے گفتگو کرنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ اپنی بات کہتی رہیے، ہم سنتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

شیما سیال

 

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ از فرحت نواز پوری وارفتگی، پوری وابستگی، پوری سپردگی اور پوری بندگی کے ساتھ میرے سامنے ہے۔ کئی سال پہلے سکول لائف کے دوران ادبی دنیا میں قدم رکھنے والی لڑکی آج اس منتر کی نہ سمجھ میں آنے والی رمز کو سمجھ گئی ہے، جس سے سوکھے پتوں کے ڈھیر کو گھر میں آنے سے کوئی نہ روک سکا۔

بندگی، وارفتگی، وابستگی، سپردگی وہ جذبے، وہ رشتے ہیں، رشتوں کی وہ کڑیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد کے لوگوں، معاشرتی، مذہبی، قومی، سماجی، آفاقی، زمینی رویوں اور محبتوں کی اساس ہیں۔ یہ دودھ، میدے اور مٹی اور پانی کا وہ ملن ہے، جس سے گندھ کر انسان کے اندر شاعری جنم لیتی ہے۔ سجل، نرمل، کومل احساسات فطرت کے وہ سر چشمے ہیں جن کے بطن میں اتر کر تخیل آفاقیت کی منزل کو چھوتا ہے۔ پھر بقول شاعر ؎

آسماں

تیرا احسان ہے

اپنے سائے میں رکھا ہے تو نے مجھے

میری اوقات کیا

تیری رُتبے میں کیا شان ہے

تجھ پہ معراج کی شب

محمدؐ نے رکھے تھے

اپنے مبارک قدم!

(نعتیہ۳)

یا پھر ؎

میں ہوں منزل کڑی مسافت کی

اُس کے چہرے پہ ہے تھکن شاید

کڑی مسافت رکھنے والے کیلئے ایک تھکے چہرے سے کیا مسکان کی امید ہو سکتی ہے۔ ایک پُر امید مسکراہٹ، یہ وہ خواب ہے جس کی تعبیر ایک شاعر ہی جان سکتا ہے۔

ہمارے شہر کا موسم پرانا ہے جدائی کا

ہمارے شہر آؤ نا کبھی موسم نیا لے کر

خدا اور انسان یہ دو وسیلے ہیں جن سے محرومی، مجذوبی، یا پھر غنائیت اور بھرپائی والی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے تو یوں وارد ہوتا ہے۔

تو محبت کا خدا ہے تو دیارِ دل پر

کچھ صحیفے ہی وفاؤں کے اتارے ہوتے

اور یہ بھی کہ

تیرے صدقے جاؤں میں

تیرا بلاوا ہو

سر کے بَل آؤں میں

بابل، ماہیے، امن کی فاختہ، ٹائم آؤٹ اور وہ بہت کچھ، حقیقت، خواب، نیم خوابی، خواہش، کہانی، افسانہ،

ذات کے استعارے میں موجود۔ چھوٹے شہر کی بڑی شاعرہ۔ جس کا شعر جتنی بار پڑھا جائے، پہلے سے زیادہ لطف دے۔ میٹھی چٹکی بھرے۔

مٹی گارا تھا وہ شخص

پھر بھی پیارا تھا وہ شخص

پھر دیا تو نے کسی دور کی منزل کا پتہ

پھر سفر پاؤں کے چھالوں میں اتر جائے گا

دور کی منزل کے سفر کا پاؤں کے چھالوں میں اتر جانا کمال بندش ہے۔ فرحت نواز کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ایک بار نہیں خود کو کئی بار پڑھوانے کی طاقت رکھتا ہے۔ جگہ جگہ آگے جا کر واپس آنا پڑتا ہے۔ ٹھہرنا پڑتا ہے۔ اور جہاں بندہ ٹھہر گیا، وہیں پڑاؤ ہو گیا۔

اگلے سفر سے پہلے کا پڑاؤ!

٭٭

اتنا ہوائے سرد کا لہجہ کرخت ہے

دہشت سے کانپ کانپ اُٹھا ہر درخت ہے

(فرحت نواز)

٭٭٭

 

 

 

پروین عزیز

 

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ فرحت نواز کا شعری سفر نامہ ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے کوئی شاعرہ لمبی مسافت طے کرنے کے بعد آپ کو بیرونی اور اندرونی (External & External )طور پر گزرنے والی ہر واردات کا حال احوال پوری دل جمعی، ایمانداری اور خلوص سے دے رہی ہے۔ فرحت نواز کی یہ شعری سرگزشت پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے وہ کانٹوں میں رہتے ہوئے پھولوں جیسی باتیں سوچتی ہے۔ اندھیروں میں روشنی سوچتی ہے۔ بے گھری میں دیوار و در کی صورت بناتی ہے۔ نفرت کے گھنے جنگل میں بھی خوشبو کے پیچھے بھاگتی ہے۔ دشت میں بھی محبتوں کی سرشت کاسراغ لگا لیتی ہے۔ اُسے اپنے ’’بخت‘ ‘  کا علم ہے لیکن پھر بھی محبتوں کے گھروندے بناتی رہتی ہے اور بناتی رہے گی۔ کوششِ ناتمام کے عمل سے گزرنا اُس کا کام ہے۔ کوشش کے رنگ لانے کا انتظار نہیں کرتی۔

محبت اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اگر وہ اس کتاب کا نام ’’استعارہ مِری محبت کا‘ ‘ رکھتی تو شاید زیادہ حسبِ حال ہو جاتا۔ اُس کی ذات کا استعارہ ’’محبت‘ ‘ ہی ہے۔ شاید اس بات کا علم کم لوگوں کو ہے۔ حمد و نعت سے لے کر کتاب کے آخری لفظ تک وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑتی۔ خود تنہا رہ کراُس نے ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ہمارے ہاتھوں میں تھما کر ہمیں تنہائی کے دکھ سے بچا لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ کی اشاعت پر  چند موصولہ  مطبوعہ تاثرات

 

ڈاکٹر انور سدید

 

مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے ۲۰ برس کے بن باس کو خیرباد کہہ دیا اور پھر تخلیقی دنیا کی طرف لوٹ آئیں۔ آپ

فطری شاعرہ ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار پوری روانی اور تازگی سے کرتی ہیں۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ میری درخواست ہے کہ اب ادب کی طرف آ گئی ہیں تواس سلسلے کو جاری رکھیں۔

مکتوب بنام فرحت نواز۔ جنوری ۲۰۱۶ء کی کسی تاریخ کو بھیجا گیا۔ تاریخ درج نہیں ہے۔

٭٭

 

ایوب خاور

 

چلو اچھا ہوا فرحت اپنے زمانے میں واپس لوٹ آئی۔ نظمیں اور غزلیں پڑھتے ہوئے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ اگر یہ پرانی شاعری ہے جو انہوں نے پرانی کاپیوں اور الماریوں میں سے لفظ لفظ ڈھونڈ کر نکالی ہیں اور اسے اپنی ذات کا استعارہ بنایا ہے تو یقیناً یہ ایک ایسا تخلیقی استعارہ ہے جو شاعری کے مستقبل میں ہمیشہ دمکتا رہے گا۔ اس کتاب میں ایک ایسی عورت کیcreative sensibilityمنظوم ہوتی نظر آتی ہے جس نے زندگی کو 360 کے تمام زاویوں سے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ اپنے تخلیقی شعور میں جذب کر کے اظہار کے ایک ایسے سانچے میں ڈھالا ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر نظر آنے والی خواتین کے شعری شعور کے نصیب میں نہیں ہے۔ وقت ملا تو اس کتاب پر ایک باقاعدہ مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔ مکتوب بنام حیدر قریشی۔ ۱۷ مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭

 

ڈاکٹر عابد سیال

 

آپ کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ موصول ہوا۔ بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے یاد رکھا۔

کتاب بہت خوبصورتی اور سلیقے سے شائع ہوئی ہے اور معتبر لکھنے والوں کی آراء سے آپ کی شاعری کے وقار کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب ابھی موصول ہوئی ہے سوتفصیل سے نہیں دیکھ پایا۔ جستہ جستہ جن اشعار پر نظر پڑی ہے، آپ کی ہنر مندی کا قائل ہوا ہوں۔ انشاء اللہ تفصیل سے دیکھوں گا۔ آپ کو بہت مبارکباد!

مکتوب بنام فرحت نواز۔ ۱۹مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭

 

س۔ ن انچارج ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت ملتان

 

فرحت نواز کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ منظرِ عام پر آیا ہے۔ آج سے بیس سال قبل ان کی شاعری کا طوطی بولتا تھا۔ پھر وہ گھریلو زندگی میں مصروف ہو گئیں۔ حیدر قریشی کی تحریک پر انہوں نے اپنے کلام کو کتابی شکل دی ہے۔ بقول ڈاکٹر رشید امجد ان کی نظموں میں ایک سوندھا پن اور اپنی مٹی کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر مظہر مہدی کی رائے میں فرحت کی شاعری کا دائرہ وسیع ہے، لامحدود نہیں۔ حیدر قریشی کی رائے میں ان دو نظمیں اور امن کی فاختہ کی تین نثری نظمیں عالمی حوالے سے اپنے موضوعات کو نبھا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل، شہناز خانم عابدی، شیما سیال اور پروین عزیز کی آراء بھی شامل ہیں۔ ۲۱۰ صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت ملتان۔ ۲۵ مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭

 

ناصر علی سید مدیر ادبی صفحہ روزنامہ آج پشاور

 

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ایک ایسی شاعرہ کا مجموعہ ہے جو دو دہائیوں تک شعر سے روٹھی رہی اور پھر ہمہ وقت کارِ ادب سے جڑے ہوئے جرمنی کے حیدر قریشی نے ایسی صلح کرائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا عمدہ مجموعہ ترتیب دیا کہ بقول حیدر قریشی انہیں بھی اندازہ نہ تھا کہ اتنے مختصر وقت میں یہ سب ممکن ہوا۔

عبداللہ جاوید نے اس کتاب کے بہت اچھے مقدمہ میں صحیح لکھا ہے کہ فرحت نواز نے شعروں میں مختصر افسانے لکھے ہیں۔ برف بھی ہوں، موم بھی سورجوں نے آ لیا

’’فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے ‘ ‘ میں ذکر کیا گیا۔ مطبوعہ ’’ادب سرائے ‘ ‘ روزنامہ آج پشاور۔ ۱۰دسمبر۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

استعارہ مِری ذات کا ۔۔۔ ڈاکٹرانورسدید

 

تارکِ وطن دانشور عبداللہ جاوید نے جب فرحت نواز کی شاعری کی پہلی کتاب ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘

پڑھی تو انہوں نے برملا کہا کہ ’’اس کی شاعری میں سادگی، معصوم خیالی اور ایک عجیب سی تازہ کاری پڑھنے والے کے باطن کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ‘ ‘ میں نے عبداللہ جاوید کے اس فیصلہ کن جملے کا تجزیہ کیا تو بنیادی بات یہ نظر آئی کہ فرحت نو ازکی پرورش جنوبی پنجاب کے خطے کے دو شہروں خان پور اور رحیم یار خان میں ہوئی ہے۔ یونیورسٹی تعلیم کے مراحل بھاولپور میں طے ہوئے جو اول الذکر شہروں کا ہم مزاج ہے۔ ان شہروں کے باشندوں کوسادگی، صداقت اور خلوص کی دولت سے مبدائے فیاض نے بڑی فراوانی سے نوازا ہے۔ چنانچہ شعراء شاعری کریں، افسانہ نگار افسانے لکھیں اور دانشور اپنے داخلی خیالات کو لفظوں کا جامہ پہنائیں تو ان کی صادق معصوم خیالی اور محبت ان کے باطن کا آئینہ بن جاتی ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کی شاعری شمالی پنجاب کی شاعری سے مزاج کے اعتبار سے مختلف ہے۔ فرحت نواز کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے تخلیقی عمل میں اس فضا سے اپنے اظہار کا زاویہ خود تراشا ہے اور اس کی شہادت جرمنی سے حیدر قریشی مدیر ’’جدید ادب‘ ‘ نے دی ہے کہ ’’فرحت نواز کی محبت کی شاعری ان کے ذاتی تجربوں کی زائیدہ ہے، اس وجہ سے یہ روایتی محبت کی شاعری نہیں رہتی، اس میں ایک اوریجنل سی خوشبو موجود ہے ‘ ‘ ۔

جناب حیدر قریشی کا ذکر آیا ہے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ بہت عرصہ پہلے انہوں نے خان پور جیسے دور افتادہ

مقام سے نئے ادب کا ایک معیاری رسالہ جاری کیا تواس میں جن مقامی ذہانتوں کو اہمیت دی ان میں فرحت نواز بھی شامل تھیں۔ حیدر قریشی نے ہی ان کے باطن سے ایک معصوم فکر اور تازہ کار شاعرہ بازیافت کی، جس نے شاعری میں اپنی انفرادیت بہت جلد تسلیم کروانی۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے اسلام آباد میں اہلِ قلم کانفرنس منعقد کی تو جنوبی پنجاب کی نمائندگی کے لیے فرحت نواز کو مدعو کیا۔ لیکن پھریوں ہوا کہ حیدر قریشی ’’جدید ادب‘ ‘ کی اشاعت معطل کر کے سیاحتِ جہاں پر نکل کھڑے ہوئے اور فرحت نواز نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔ اور پھر والدین نے ان کی شادی کر دی اور وہ اپنی نئی ذمہ داریاں نبھانے لگیں تو شاعری قصۂ پارینہ بن گئی۔ حیدر قریشی صاحب نے جرمنی سے ’’جدید ادب‘ ‘ کی اشاعت کی تجدید کی تو فرحت نواز کو بھی دوبارہ ادب میں لے آئے۔ لیکن ادب سے بیس برس کی غیر حاضری نے ان کو زندگی کے نئے تجربات اور انوکھے مشاہدات سے متعارف کرا دیا تھا۔ اور ان کے فکری دامن کو موضوعات کے تنوع سے ثروت مند بنا دیا۔ چنانچہ ربع صدی پہلے کی تخلیق کاری ایک نئے روپ میں سامنے آئی تو اس میں فرحت نواز کی تخلیقی انفرادیت

میں آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی کے عناصر بھی موجود تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں پڑھنے کے بعد تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ فطری شاعرہ ہیں اور وہ معمولی بات کو غیر معمولی بنانے کا فن جانتی ہیں۔ ان کی کتاب بلاشبہ ان کی ذات کا استعارہ ہے لیکن ان کی نظموں، غزلوں اور ماہیوں میں زمانے کی آواز بھی شامل ہے۔ ان کی نظموں میں سے ’’ہمیشہ دل کی مانی ہے ‘ ‘ ، ’’فراق رُت میں اچانک ملاقات‘ ‘ ، ’’بن باس میں ایک دعا‘ ‘ ، ’’ایک روشن دیا‘ ‘  میں فرحت نواز مجھے ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن اور شاہدہ حسن وغیرہ سے مختلف شاعرہ محسوس ہوئی ہے، جو روایت کی عدم دریدگی میں بھی اپنی نسائیت کے اظہار کا قرینہ تلاش کر لیتی ہے۔ اور دیکھئے کہ وہ غزل کی دو سطروں میں سنجوگ کس منفرد انداز میں باندھتی ہیں۔

مری محبت کی کھیتیاں تو ہری رہیں گی تم اپنی چاہت کے موسموں کا خیال رکھنا

پھر دیا تو نے کسی دور کی منزل کا پتہ پھر سفر پاؤں کے چھالوں میں اتر جائے گا

شاعری کی یہ خوبصورت کتاب ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ سفید کاغذ پر کتابت اجلی ہے۔ سرورق سادہ لیکن با معنی اور فکر انگیز ہے۔ ملنے کا پتہ: مکان نمبر 1164، گلی نمبر 2، بلاک سی۔ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سیکٹر O-9۔ لوہی بھیر، اسلام آباد۔

مطبوعہ سنڈے میگزین۔ روزنامہ نوائے وقت، لاہور۔ ۱۲

جولائی ۲۰۱۵ء

ماہنامہ ’’ الحمراء‘ ‘ لاہور۔ شمارہ اگست ۲۰۱۵ء

٭٭

 

 

 

 

 ’’نسائی زندگی کی جبریت کی عکاس شاعرہ: فرحت نواز‘ ‘  ۔۔۔ شہناز خانم عابدی

 مضمون سے اقتباس

 

’’ استعارہ مری ذات کا ‘ ‘  فرحت نواز کا شعری مجموعہ میرے سامنے ہے۔

’’استعارہ کے معنی ہیں کسی لفظ کو اصل معنی کے بجائے کسی اور معنی میں استعمال کرنا جب کہ ان دونوں معنوں میں مشابہت کا تعلق ہو۔ ‘ ‘

فرحت نواز نے اپنے جذبات، احسا سات اور اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو پوری سچائی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔ یوں ان کی شاعری کی یہ اوّلین کتاب ان کی ذات کا استعا رہ بن کر پڑھنے والوں کے سامنے آ ئی ہے۔

فرحت نواز اردو شعر و ادب کے آ سمان پر چمکنے والا ایسا ستارہ ہے، جو طلوع ہو ا، دیکھنے والوں کو اپنی نئی نویلی، نو وارد، چمک دمک سے متوجہ ہی نہیں متاثر بھی کیا اور ٹوٹے بغیر بیس برسوں پر محیط عزلت کے دھندلکوں میں رو پوش رہ کر ایک مر تبہ پھر نمو دار ہو ا، اپنے وجود کی پوری درخشانی کے ساتھ۔ دو دہائیوں کی پر دہ پوشی کا خیال کیا جائے اور فرحت نواز کی اس کتاب کو پڑھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سچی شاعری کے سوتے کو وقت اور حالات کے سنگلاخ سے سنگلاخ پتھر بھی لا محدود مدت تک بند نہیں کر سکتے۔ سچا اور توا نا تخلیقی تموج پتھروں کو تو کیا پہاڑوں کو بھی تسخیر کر لیتا ہے۔

فرحت نواز عصرِ جدید کی شاعرہ ہیں لیکن ان کے خیال میں روایات سے مکمل انحراف جدت پسندی کے لوازمات میں نہیں آتا چنانچہ ان کا یہ شعری مجموعہ ہما ری تہذیبی روایت کے مطابق حمدیہ اور نعتیہ کلام سے شروع ہوتا ہے۔ ہو نا بھی چاہئیے۔ عقیدت کے اس کلام کو پڑھتے وقت میں نے بھی یہ محسوس کیا ہے کہ فرحت نوازنے اس اصول کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ’’ با خدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار۔ ‘ ‘  ان کی نعتوں میں سر شا ری کی کیفیت ہے۔:

استعا رہ میری ذات کا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں فرحت نواز نے نسا ئی زندگی کے سچے سیدھے روپ کچھ اس طرح نظمائے ہیں کہ مر حلہ وار بچپن، کچی عمر، جوانی، ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے اور خوابوں کے شہزادوں کی آ مد کا انتظار کرتے اور ان خوابوں سے قطع نظر کر کے خانہ داری کے بندھن میں بندھنے اور سسرال کے فریم ورک میں اپنی جگہ بنانے بیٹی سے بہو، بہوسے ماں کے مرتبے تک پہنچنے کی روئداد کو ایک مونتاج کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اگر خواتین شاعرات کی شاعری کو پیشِ نظر رکھ کر بات کی جائے تو ہم یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ فرحت نواز ہم عصر شاعرات سے قطعی مختلف لہجے اور اسلوب کی شاعرہ ہے اور ایک علیحدہ مقام کی حقدار بھی۔

 

شہناز خانم عابدی کے مضمون ’’نسائی زندگی کی جبریت کی عکاس شاعرہ: فرحت نواز‘ ‘ سے اقتباس

مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔ شمارہ ۲۱۔ ستمبر ۲۰۱۵ء

اس مضمون کا ایک حصہ تاثرات کے طور پر ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ میں بھی شامل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘  ۔۔۔ نسیم انجم

 

عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنزاسلام آباد کے زیر اہتمام ایک کتاب ’’استعارہ میری ذات کا‘ ‘  BPH پرنٹر لاہور سے شائع ہوئی ہے اور اس کی مصنفہ فرحت نواز صاحبہ ہیں جو کہ رحیم یار خان میں رہائش پذیر ہیں اور ایک مقامی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں تقریباً بیس سال بعد انھوں نے گلستان شاعری میں دوبارہ قدم رکھا ہے اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ وہ اب تخلیق سے رشتہ جوڑے رکھیں گی۔

اور یہ اعتماد اس لیے پیدا ہوا کہ حیدر قریشی نے انٹرنیٹ پر انھیں دوبارہ دریافت کر لیا تو یقیناً فرحت کی حوصلہ افزائی ہوئی، امید کی شمع روشن ہوئی اور تخلیقی صلاحیتیں کاغذ پر اپنا رنگ جمانے کے لیے بے چین ہو گئیں، میں نے فرحت نواز کی نظمیہ و غزلیہ شاعری کے علاوہ ’’ماہیئے ‘ ‘  بھی پڑھے ان کی شاعری نے مجھے اس لیے متاثر کیا کہ انھوں نے معاشرتی سچائیوں کو شاعری کا پیکر عطا کیا ہے، فرحت کی شاعری ان کی ذات کے گرد بھی گھومتی ہے اور زمانے کے چلن رسم و رواج کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ ان کی شاعری میں اتنا دم ہے کہ قاری کو پڑھنے پر مجبور کر دے، جناب عبداللہ جاوید نے ان کی شاعری کے بارے میں کہا ہے کہ:

’’اس نے کسی مکتب یا تحریک تک اپنی شاعری کو محدود نہیں ہونے دیا، کہیں کہیں اس کی شاعری نسائیت کی تحریک سے مملو محسوس ہوتی بھی ہے تو اس کو اس حد تک ذاتی بنا دیا ہے کہ قاری کو تحریک کا نہ تو کوئی جھنڈا نظر آتا ہے اور نہ کوئی پوسٹر یا بینر۔ فرحت نواز کی منظومات میں ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جن پر آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے تو چند ایک ایسی نظمیں بھی ہیں جن پر جگ بیتی کا، ان نظموں سے قاری کا واسطہ پڑتا ہے جو فکر آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہیں‘‘

فرحت نواز کی شاعری کی ابتدا حمد ’’ میرے پیارے خدا‘ ‘  سے ہوئی ہے۔ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز التجا کی صورت اختیار کر گئی ہے، رب سے مانگنے کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔

خدا،

سن میری التجا

بخش دینا گنہ

میرا نامۂ اعمال

روشن نہیں ہے ذرا

میں نے نیکی نہیں کی

میری نیت میں اخلاص آیا نہیں

ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہوا

جس میں مری طلب صرف تو ہی رہا۔

نعت کا مطلع ملاحظہ فرمایئے۔

الٰہی دے مجھے توفیق شان مصطفیؐ لکھوں

قلم زم زم سے دھولوں پھر محمدؐ مجتبیٰ لکھوں

سبحان اللہ۔ فرحت نواز کی شاعری میں کہیں ندرت نظر آتی ہے تو کسی شعر میں سطوت نمایاں ہے، یہی ان کی شاعری کا انداز فکر ہے۔ ’’انوکھی تاجپوشی‘ ‘  ’’فرعون کی کرسی‘ ‘  ’’اب نیا دور ہے ‘ ‘  یہ وہ نظمیں ہیں جن میں سماج کی تلخ حقیقتیں، اقتدار کی ہوس اور حکم حاکم مرگ مفاجات کے معاملات کو شاعری کی زبان خو صورتی اور درد مندی کے احساس کے ساتھ عطا کر دی ہے، فرحت نواز کی شاعری میں دل کا درد، روح کا کرب اور زمانے کی نا انصافیاں اور نا ہموار معاشرے کی وہ راہیں نظر آتی ہیں جن پر چلنے والوں کے پاؤں لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن منزل کی طلب آگے بڑھنے اور مزید چلنے کا درس دیتی ہے یہ معاملہ فرحت نواز کے ساتھ نہیں تمام اہل قلم کے ساتھ ہے کہ حساس ہونے کے ناطے دل چھلنی ہو چکا ہے۔

مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس۔ کراچی۔ ۲۶

اپریل ۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

حرفِ ناتمام: کچی عمر سے پکی عمر کا سفر ۔۔۔ زاہد نوید

 

کچی عمر سے پکی عمر کا شعری سفر کتاب ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ کی صورت میں اس وقت میرے سامنے ہے۔ اس شعری مجموعے میں فرحت نواز نے اپنی زندگی کے سارے تجربات یکجا کر کے انہیں بہت دلنشیں انداز میں وہ پیرایۂ اظہار دیا ہے جس کی وجہ سے فرحت نواز بجا طور پرپاکستانی شعری ادب میں اور خاص طور پر ہماری سنجیدہ اور معقول شاعرات کی صف میں اپنی حیثیت منوا سکتی ہیں۔ شاعرات میں ادا جعفری، فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر نے جو طرح ڈالی اور جیسا پکا کام کیا اس کو سامنے رکھیں تو کسی اور پاکستانی شاعرہ کے کلام کی تفہیم اور معیار کا تعین کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ اس کسوٹی پر بھی فرحت نواز کا کلام ابتدائی دور کے علاوہ نک سک سے نہایت عمدہ دکھائی پڑتا ہے۔ فرحت کی شاعری دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، چنانچہ کتاب میں اس کے ابتدائی کلام کی شمولیت سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ناپختگی سے پختگی کے تخلیقی سفر میں فکری ارتقا کی منزلوں کی خبر ضرور ملتی ہے۔

کتاب اپنے مواد کے حوالے سے تو بہرحال ترتیب پاہی جاتی ہے اصل مسٔلہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کا نام کیا رکھا جائے۔ شیکسپئر نے تو کہہ دیا کہ نام میں کیا رکھا ہے، پھول کو چاہے جس بھی نام سے پکارو، اس کی خوشبو تو وہی رہے گی۔ اب اتنے بڑے رائٹر نے ایسا کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا لیکن شاعری کی کتاب اچھے عنوان اور ٹائٹل کے بغیر ہر دل کی عزیز نہیں ہو سکتی۔ یہ میری رائے ہے، ہو سکتا ہے غلط ہو لیکن میرا ایسا ماننا ہے۔ اس تناظر میں زیرِ نظر کتاب کا نام مجھے خیال و فکر کی ایک ایسی دنیا میں لے گیا جو اتفاق سے میری اپنی دنیا بھی ہے۔ اسی لئے اللہ بخشے، محمد منشا یاد نے کبھی مجھے کہا تھا کہ زاہد نوید، تمہاری شاعری میں ’میں ‘  اس قدر زیادہ ہے کہ بہتر ہے تم اپنی ہونے والی کتاب کا نام ’میں ‘  رکھ لو۔

خیر، فرحت نواز نے اپنی کتاب کا نام رکھا ہے ’’ استعارہ مری ذات کا‘ ‘ ۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شاعری اس کی ذات کا استعارہ ہے۔ اپنی شاعری کے مواد کے لئے اس نے بہت کچھ اپنی ذات سے مستعار لیا ہے۔ سماج کی بنیادی اکائی گھر ہے، اور گھر کا مرکز ہے وہ ذات جسے خاتون خانہ کہتے ہیں۔ یہ زندگی کا جبر ہے کہ کروڑوں خواتین گھر گرہستی کی تنہائیوں اور پنہائیوں میں گم گشتہ ہو جاتی ہیں اور اپنی تخلیقی توانائی بھی گھر کی نذر کر دیتی ہیں لیکن فرحت نواز ایک فنکار بھی ہے اس لئے بقول اس کے ملکِ ادب سے بیس سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے با وجود گم ہونے سے صاف بچ گئی۔ اور اس میں فعال کردار برادرم حیدر قریشی کا ہے جنہوں نے گھر گرہستی کے مرچ مصالحے، غیر شاعرانہ ماحول سے ایک شاعرہ کو ڈھونڈ نکالا۔ تو بات ہو رہی تھی سطرِ عنواں کی۔ اس کتاب کے تمام فلیپ نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ محبت اس کی شاعری کا مرکزی استعارہ ہے اور وہ لوگ جن کے درمیان پاکستانی عورت کی دنیا آباد ہے، اس کی شاعری کے کردار ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس نے ان کرداروں کے حوالے سے اپنی تخلیقی اور فکری توانائی کو کیا رخ دیا ہے۔ کیا یہ محض سیدھی سادی سپاٹ شاعری ہے یا اس میں جذب و فکر کی لو بھی موجود ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ دوسری بات درست ہے البتہ اندازِ بیان، دھیما، دلنشیں، سلیس اور نسوانی ہے۔ حالانکہ میں ادب و شاعری کو نسائی اور مردانہ ادب میں تقسیم کرنے کی غلطی نہیں کرتا پھر بھی کہتا ہوں کہ پاکستانی سماج میں بسنے والی شاعرات کو ایسا ادب ہی تخلیق کرنا ہے جس میں نسوانی لہجہ خوشبو کی طرح مہک رہا ہو۔ ایک بات جو میں نے اس کتاب کے مطالعے کے بعد محسوس کی وہ یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں بسنے والی عورت شاعرہ ہو یا نہ ہو مذہبی ضرور ہوتی ہے۔ نہیں یقین تو ’’استعارہ میری ذات کا‘ ‘  کی ابتدائی نظمیں پڑھ لیجئے۔ میری بات پر آپ کو یقین آ جائے گا۔ شعری اعتبار سے ان کی نظموں کا پلہ بھاری ہے۔ نظمیں میں نے زیادہ شوق سے پڑھی ہیں۔ ایک نظم ملاحظہ ہو:

میں نصف اپنا کب کا

اسے دے چکی ہوں

مرے پاس ہے نصف باقی مرا

جسے اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے مجھے

مگر بات یہ بھی نہیں مانتا وہ

مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت۔ راولپنڈی۔ ۲۹مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

استعارہ مری ذات کا  ۔۔۔ جان عالم

 

فرحت نواز کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ منظرِ عام پر آیا۔ شروع کے صفحات سے معلوم ہوا کہ شاعرہ نے عرصہ بیس سال تک شاعری سے کنارہ کشی کی اور اُنہیں معروف شاعر جناب حیدر قریشی نے تحریک دے کر دوبارہ شعری فضا میں لایا۔ شاعرہ نے اس کا اعتراف کتاب کے آغاز میں کیا ہے اور کسی بڑے دعوے کی بجائے انکساری سے سچ بولتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ؛

’’!!۔۔ ۔ اپنی کچی عمر سے شروع کی گئی شاعری سے لے کر اس پختگی کی عمر تک کا لکھا ہوا جو کچھ مجھے مل سکا، وہ سب ملا جلا اور کچا پکا اس کتاب میں شامل ہے۔ ‘ ‘ (چند باتیں۔ صفحہ۱۲)

کتاب کے مطالعے سے شاعرہ کا اعتراف سچ دکھائی دیتا ہے۔ کہیں کچی عمر کا بے ساختہ پن نظر آتا ہے تو کہیں پختہ عمر کا گہرا رنگ۔ آغاز کا دعائیہ دیکھئے: نظم کا عنوان ہے ’’میرے پیارے خدا‘ ‘ عنوان کچی عمر کی بے ساختگی کا اظہار ہے۔ اب نظم دیکھیں۔ یہاں پختہ کاری کی جھلک دکھائی دیتی ہے:

خدا۔۔ ۔۔ !

سُن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ مری التجا

بخش دینا گنہ

میرا نامۂ اعمال

روشن نہیں ہے ذرا

میری نیت میں اخلاص آیا نہیں

ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہوا

جس میں میری طلب

صرف تُو ہی رہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

خدا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ !!

سن مری التجا

مجھ کو اپنا بنا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ایک اور نظم ملاحظہ کیجئے جس کا عنوان ’’ نعتیہ ‘ ‘ ہے۔ اگر چہ یہ خوبصورت حمدیہ ہے۔ دیکھئے:

بتاؤ کوئی ایک ایسا محب

جو یہ کہہ دے کہ تم سب

محبت کرو میرے محبوب سے

اور انعام میں

سب کو جنت بھی دے !!

فرحت نواز کی نظموں میں شعریت کم اور statements زیادہ ہیں۔ نظم پڑھتے ہوئے نثر کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ نظم ’کاش‘ یا نظم’ بابل تیری یاد آئے ‘  کی بیشتر لائنیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسی نظموں میں جذبہ تو پایا جاتا ہے مگر اس کا شاعرانہ اور فنکارانہ اظہار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر اچھے خیال بُرے پیرایۂ اظہار کی بھینٹ چڑھ کر محض خبر بن جاتے ہیں۔ نظم ’’ دعا ‘ ‘ کی لائنیں ملاحظہ ہوں:

ماں کے دودھ کو پینے والے

چھوٹے بچوں کے چہروں سے

کتنی معصومی اور کتنا نور چھلکتا رہتا ہے

ایسے نور کی مجھ میں کوئی لہر نہیں ہے

ماں کے دودھ کا ذائقہ تو میں بھول گئی ہوں

سوہنے ربّا!

میری ماں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا

میں اُس کو اتنا خوش کر دوں

جس سے میرا

جنت میں جانا

غیر یقینی نہ رہ جائے

مجھے یقیں ہے

جنت کی نہروں میں ہر دم بہنے والا دودھ

یقیناً ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!

ایک خوبصورت نظم ’’انوکھی تاج پوشی‘ ‘  ملاحظہ کیجئے۔ اس میں شاعرہ نے گویا خوبصورتی سے پاکستان کی ستر سالہ سیاسی تاریخ پر بلیغ تبصرہ کر دیا ہے:

ایک مسند بہت معتبر

جس پہ مسند نشیں

سر کٹا شخص ہے

وہ مصر ہے میری تاج پوشی کرو

حکمِ حاکم بھی مرگِ مفاجات ہے

کوئی ہیبت زدہ، کوئی حیرت زدہ

کوئی کالر میں منہ دے کے ہنستا ہوا

جا کے رکھ دیتا ہے

تاج کو

سر کٹے شخص کے ہاتھ پر !

فرحت نواز کی غزلوں سے چند اشعار قارئین کے مطالعہ کے لئے:

تیری سوچوں میں گر نیند بھی آ جائے

جاگتے رہتے ہیں آنکھوں میں تیرے خواب

ہمارے خواب بھی اپنے کہاں ہیں

کسی کی یاد نے آ کر بنے ہیں

آج سوچوں تو سانس رکتی ہے

صبر کتنا کیا تجھے کھو کر

جب سے وہ زندگی بنا میری

تب سے جینا بھی ہو گیا مشکل

کتاب میں غزلیات، نظمیات کے علاوہ اُردو ماہیے بھی شامل ہیں۔ چند خوبصورت ماہیے بھی ملاحظہ کیجئے:

گھر شام کو آؤں گا

ہنستی ہوئی ملنا

گجرے بھی لاؤں گا

 

خوشیوں کا گھیرا ہے

ساجن کا بازو

اب تکیہ میرا ہے

 

وہی خوشبو ڈھونڈتی ہوں

ساجن کا کُرتا

کبھی تکیہ چومتی ہوں

کتاب ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ فرحت نواز کی گوشہ نشینی سے پہلے اور بعد کا کل سرمایہ ہے۔ حیدر قریشی صاحب تحسین کے سزاوار ہیں کہ انہوں نے کنجِ عزلت سے فرحت نواز کو ادبی دُنیا میں لا کھڑا کیا۔

کتاب عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد کے زیرِ اہتمام چھپی۔ 208 صفحات کی اس کتاب کی قیمت250روپے ہے۔

مطبوعہ سہ ماہی شعر و سخن مانسہرہ۔ شمارہ نمبر ۶۴۔ اکتوبر تا دسمبر۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

فرحت نواز کی شعری کائنات  ۔۔۔۔ ڈاکٹرسکندر حیات میکن

 

فرحت نواز انگریزی ادب کی استاد ہیں اور اردو کی بہترین شاعرہ ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک شعری مجموعہ ’’ استعارہ مری ذات کا ‘ ‘ ، 2015 ء میں عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔ یہ شعری مجموعہ در اصل فرحت نواز کی کل شعری کائنات ہے جس میں انہوں نے اپنی کل کائناتِ سخن کو یکجا کر دیا ہے۔ اس لئے اس مجموعۂ کلام میں حمد و نعت سے لے کر غزلیں نظمیں اور دیگر اصناف بھی شامل ہیں۔

فرحت نواز کی شاعری کو پڑھ کر سب سے پہلا تاثر جو ابھرتا ہے وہ ان کی محبت کی شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں محبت کے رنگ گھول دیئے ہیں اور اس امرت کو انھوں نے خود گھول کر پیا ہے۔ فرحت نواز کی چاہتوں اور محبتوں کی کھیتیاں ہر سو شاداب اور لہلہاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت اور نسوانیت کا ایک حسین امتزاج بھی سامنے آتا ہے۔ بلکہ اس مجموعہ کلام میں یہ دو زاویے محبت اور نسوانیت نمایاں ہیں۔ وہ اپنے جذبوں اور تخیلاتی اڑانوں سے اپنا ایک تاج محل تعمیر کرتی ہیں اور اس تاج محل میں محبت اور پیار کے جذبات کا روغن کر کے خود کو اور قارئین کو مسحور کر دیتی ہیں۔ لیکن وہ خود کو ایک کچا گھر کہتی ہیں مگر اس کی چاہتوں کی گھٹا اس گھر کو رعنائی عطا کرتی ہے۔

کچا سا ایک گھر ہوں فقط جسم و جان کا تو اپنی چاہتوں کی گھٹا کو سمیٹ لے

‘ ‘  یاد ‘ ‘  فرحت نواز کی شاعری کا ایک روشن استعارہ ہے۔ یہ یاد ان کی شاعری میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یاد کا یہ مرکز و محور خود اس کا دل ہے جو کبھی سلگتا ہے اور کبھی شام و سحر کی سوچوں میں اس کو محو کر دیتا ہے۔ مٹی گارے کے بنے ہوئے ایک شخص کی یاد اس کی شعری کائنات کا اثاثہ ہے جس کے پیار اور یاد سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ یادوں کے سیپ ان کے ہاں نمایاں ہیں۔

آنکھ کھلی تو تنہا بیٹھ کے رویا ہو گا

میری خوشبو اوڑھ کے کب تک سویا ہو گا

آج ہے دل افسردہ کیوں معمول سے زیادہ

آج وہ شاید میری یاد میں کھویا ہو گا

ان کے کلام میں یاد کی یہ میٹھی میٹھی چبھن دکھائی دیتی ہے اور محسوس ہوتی ہے۔ وقت کی گرد اس یاد کو دھندلا تو دیتی ہے مگر ختم نہیں کر سکتی۔

نہ وہ زمانے رہے یاد، نہ کوئی صورت

مگر وہ یاد ہے دھندلے سے اک نشاں کی طرح

عورت کے باطنی جذبات کا اظہار متنوع انداز میں ان کی شاعری میں ملتا ہے مثلاً وہ کبھی ایک ماں کے روپ میں، کبھی بیٹی کے روپ میں اور کبھی بیوی کے روپ میں مختلف کرداروں کو فرداً فرداً زندگی کی آنکھ سے دیکھتی ہیں۔ فرحت نواز ان تمام رشتوں میں ایک حقیقی روپ میں سامنے آتی ہیں اور ہر روپ اور کردار کو انہوں نے اچھوتے انداز میں نبھایا ہے۔ یہ ان کا جینؤئن طرز انداز ہے۔ وہ دعا کی مالا میں اپنی معصومیت کو پرو کر اپنی ماں کو لفظوں کا خراج بھی دیتی ہیں۔ اور با بل کی یاد میں چپ کی چادر بھی تان لیتی ہیں۔ یہ خالص جذبے ہیں جن کا اظہار بڑی معصومیت سے فرحت نواز نے کیا ہے۔ وہ لفظوں کے خواب بھی بُنتی ہیں مگر رستہ تکتی ان کی اداس آنکھوں کا روگ بچھڑے لمحوں میں ایک شکایت کرتا ہے۔

غم نہ میرا سمجھ سکیں دونوں

اک سہیلی تھی، ایک ماں جائی

وہ شکایت اسی سے تھی فرحتؔ

جو زمانے کو میں نے سنوائی

فرحت کے دل میں امیدوں کے دیئے کبھی کبھی بجھنے لگتے ہیں اور رقصِ وحشت میں ایک سوال کرتی ہیں جو وصیت کا روپ دھار لیتا ہے۔ ہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مَنت کے دھاکوں کو بھی باندھتی ہیں مگر ان کے سانسوں سے محبت کی خوشبو نہیں جاتی ہے۔

’’ امن کی فاختہ کے نام ‘ ‘  فرحت نواز کی شعری کائنات کا انوکھا حوالہ ہے۔ اسی طرح ویمن ڈے پر لکھی گئی نظمیں بھی گہری معنویت کی حامل ہیں۔ ماہیے لکھنے کا گُر بھی فرحت کے ہاں نمایاں ہے۔ فطرت کے ساتھ ان کی ہم جولیاں بھی نمایاں ہیں۔ چاند کا نکلنا، بارشوں کا موسم اور تیز ہوائیں ان کو اچھی لگتی ہیں۔ اس شعری کائنات میں سبھی موسم اور ہر موسم میں محبتوں کا موسم اپنے عروج پر ہے۔ سماجی، تہذیبی اور دیگر متنوع رنگوں کے باوجود محبت کے اس شوخ رنگ نے فرحت نواز کے شعری گھروندے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان کے سارے راستے اور خوشبوؤں کے سارے موسم محبتوں کے دیس میں جا کر گم ہو جاتے ہیں اور وہ اس محبت نگر میں جگنوؤں کی مانند ٹمٹماتی نظر آتی ہیں۔ فرحت نواز نے وفاؤں کے صحیفوں کو اپنے لیے ہر دم مقدم جانا ہے۔

گر محبت کا ہنر پاس نہ میرے ہوتا

میں نے کیسے یہ شب و روز گزارے ہوتے

مفلسی ہجر زدہ رات کی کیسے کٹتی

تیری یادوں کے جو سکے نہ ادھارے ہوتے

اس کے افسانوں میں اپنی شاعری کو دیکھنا

اپنے شعروں میں کبھی اس کی کہانی سوچنا

فرحت نواز کی شعری کتھا اس کی ساری زندگی کا حاصل ہے جس میں محبت کا رنگ چڑھا ہے اور فطرت کی مہک اس میں رچی ہے۔ نسائی لب و لہجہ کی کھنک بھی سنائی دیتی ہے مگر فرحت نواز نے اپنے خوابوں کے گھروندے روشن انداز میں سجا اور بسا رکھے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک تاثر ۔۔۔ رضینہ خان

 

 

عورت، جو خود تخلیق کا استعارہ ہے۔ وہ شعر و ادب کا موضوع بننے کے ساتھ ہی تخلیق کار کے روپ میں بھی سامنے آتی رہی ہے۔ عالمی ادب میں خواتین نے شاعری کے شعبہ میں بھی اپنی حاضری درج کرائی ہے۔ اور اپنے خیالات و افکار کی ضیا پاشیوں سے اسے منور کیا ہے۔ فرحت نواز کا تعلق ان خواتین شعراء میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے شعر و سخن کی دنیا میں پورے اعتماد کے ساتھ قدم رکھا ہے۔

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘  فرحت نواز کا شعری مجموعہ ہے جو عکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز، اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی نظموں، غزلوں اور ماہئے پر مشتمل ہے۔ فرحت نے شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی مجلّہ ’’جدید ادب ‘ ‘  کی ادارت بھی سنبھا لی۔ شاعری جسے انہوں نے برسوں جلا وطن کر رکھا تھا، ذہن پر اس کی بارہا دستک نے انہیں پگھلا دیا۔ یہ مجموعہ ان کی ذات کے لئے شاعری کی گھر واپسی ہے۔ جو ان کے ذہنی خالی پن کو دور کرتی ہے۔ شعر و ادب سے ان کا رشتہ کوئی نیا نہیں ہے اس سلسلے میں وہ راقم ہیں:

’’لگ بھگ دو دہائی پہلے ملکِ ادب سے خود اختیاری جلاوطنی کا فیصلہ کرتے وقت مجھے بالکل یہ خیال نہ آیا تھا کہ جن لفظوں سے میں آنکھ چرا کے جا رہی ہوں وہ پیچھے سے مجھے بلاتے رہیں گے۔ ان کی آواز پر میں کئی بار پتھر ہوئی اور ان کی محبت کے جادو نے مجھے کئی بار زندہ کیا۔ اس خود اختیاری جلا وطنی کے دوران اس آواز سے میں اپنا تعلق نہیں توڑ سکی۔ شادی کے بعد گھر، شوہر اور بچوں کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ان ذمہ داریوں کو بھی شعری لطافتوں کا ایک روپ سمجھا۔ زندگی کے روایتی رویوں میں انہیں لطافتوں نے مجھے شعر و ادب سے یکسر دور نہیں جانے دیا۔ ان لطافتوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے، تب کا جب شوخ عمر میں دھڑکن کی تال پر جذبوں کی دھمال شروع ہوئی۔

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی عورت کی داستان ہے جو اپنی حیثیت کے باعث دو لخت ہے۔ اور باطنی طور پر اپنے آپ سے مصروفِ جنگ رہتی ہے۔ فرحت کی شاعری میں ان کی ذات (عورت ) ایک مستقل استعارہ بن جاتی ہے۔ وہ ایک ایسے روایتی معاشرے میں زندہ ہے جہاں عورت کی کامیابی کی انتہا ایک آسودہ زندگی کو سمجھا جاتا ہے۔ مشرقی عورت کی تمام تر تعلیم و تربیت بھی اسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے کہ وہ ایک اچھی بیوی اور بہترین ماں ثابت ہو سکے۔ اس کی اصل شخصیت، اس کی خواہشیں، فکری بالیدگی، معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں کی نشو و نما اور نسائی شعور کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں بحیثیت ایک خودمختار فرد’ عورت‘  اپنی ہستی کھو نے لگتی ہے۔ فرحت کی شاعری میں نسائی کردار ہر اس عورت کی داستان معلوم ہوتا ہے ؛جو آج اس معاشرے میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے۔ شاعری ذات سے کائنات کا سفر طے کرتی ہے۔ فرحت کی شاعری ان کی شخصیت اور ذاتی زندگی کی آئینہ دار ہے۔ اپنی شاعری میں وہ تمام تجربات و کیفیات کو سمو دیتی ہیں جس سے ان کو زندگی کے مختلف مراحل میں گذرنا پڑا۔ یہی ان کے کلام کی سب سے نمایاں خوبی ہے کہ انہوں نے ذات کے حوالہ سے کائنات کی تفہیم کی ہے۔ وہ اپنی ذات کو شاعری کے کینوس پر یوں بکھیرتی ہیں کہ مشرقی عورت کی ایک واضح تصویر نظروں میں پھر جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں عورت کا دھڑکتا ہو ادل صاف محسوس ہوتا ہے۔ بچپن کی یادوں کی جھلکیاں، گھریلو زندگی کی رعنائیاں، محبت و عشق کے جذبات، زمانے کی سختیاں اور انسانی و اخلاقی عنصر ان کی شاعری کا خاصہ ہیں۔

فرحت کی شاعری میں عشق کی ایک دبی دبی سی کیفیت کا اظہار ملتا ہے۔ ان کے شعری کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں عشق کی وارفتگیوں کے ساتھ ساتھ ہجر و وصال کی رنگینیاں بھی ہیں۔ وہ عشق کرتی ہیں مگر تہذیب و شائستگی کے دائرہ میں رہ کر۔ ان کے ہاں عشق آرزوؤں اور حسرتوں کے سنگم سے بار پاتا ہے۔

ان کی شاعری میں ایک ایسی عورت کا تصور ابھرتا ہے جو زندگی کی تمام تر آسائشوں کے باوجود غیر مطمئن سی ہے۔ زندگی کو بھرپور طور پر گزارنے کی خواہش بعض اوقات ادھوری سی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے کلام میں یہ کسک عورت کی تڑپ کا اظہاریہ ہے۔ وہ عورت کی نام نہاد آزادی سے زیادہ اس کی خودمختاری کی قائل ہیں۔ وہ تانیثیت کی تحریک کی نمائندہ کے طور پر سامنے نہیں آئیں۔ فرحت نے ایک خاتون کی حیثیت سے نسائیت کے بعض ایسے نفسیاتی کوائف اور جذبوں کی ترجمانی بھی کی ہے جو کسی مرد شاعر سے ممکن نہ ہوتا، لیکن وہ اس دائرہ میں سمٹ کر نہیں رہ جاتیں بلکہ نسائی فضا سے آگے بڑھ کر اور حصار ذات سے باہر نکل کر عام انسانی حیات اور مسائل کائنات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتی ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں موضوعات کے علاوہ تمام فنی لوازمات کا بھی بخوبی استعمال کیا ہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

کوئی ملنے دبے پاؤں آیا نہیں

چھت پہ پہروں، رہی منتظر چاندنی

(فرحت نواز)

٭٭٭

 

 

 

 

فرحت نواز کی ادبی دنیا میں واپسی ۔۔۔ سعید شباب

 

وہ جدید ادب خان پور کا ابتدائی دور تھا۔ تب ہی عکاس کا بھی اجراء ہو رہا تھا۔ خانپور اور رحیم یار خان کے محدود ادبی دائرے میں فرحت نواز کا نام بار بار سننے میں آ رہا تھا۔ فرحت نواز جدید ادب کی ادارت میں شامل تھیں تو عکاس کی ادبی بحثوں میں بھی شریک تھیں۔ بلکہ لگ بھگ انہیں برسوں میں وہ اوراق کے صفحات پر بھی کافی کھل کر لکھتی دکھائی دیتی تھیں۔ ان کی تحریروں اور ان کی ادبی شخصیت میں ہم جیسے نئے لکھنے والوں کے لیے ایک کشش تھی۔ ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی گفتگو اور رکھ رکھاؤ سے ان کی ادبی اہمیت کا مزید اندازہ ہوا۔ جدید ادب کی ادارت کا کام تو معمول کی بات تھی۔ شعر کہنا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ انہوں نے بھاولپور کی ادبی تقریبات میں حصہ لیا۔ اکیڈمی آف لیٹرز کی سالانہ کانفرنسوں میں اپنے علاقہ کی نمائندگی کی۔ ریڈیو بھاولپور کے ادبی پروگراموں میں حصہ لیا۔ ٹیلی ویژن کے ایک دو ادبی پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ ادب کو سمجھنے کے انداز میں انہوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ یہ مضامین اوراق، جدید ادب، عکاس کے ساتھ بعض اخبارات میں بھی شائع ہوئے۔ روزنامہ امروز اور روزنامہ نوائے وقت ملتان میں تب فرحت نواز کا ذکرِ خیر یا ان کی تخلیقات پڑھنے کو ملا کرتی تھیں۔

جدید ادب اردو کا ادبی رسالہ تھا۔ ارشد خالد نے عکاس میں اردو کے ساتھ سرائیکی زبان و ادب کے لیے بھی صفحات مخصوص کر رکھے تھے۔ اس مجموعی فضا کا اثر تھا کہ فرحت نواز کی سرائیکی میں دو کتابیں شائع ہو گئیں۔

ایک کتاب ’’منزلاں تے پندھیڑے ‘ ‘ (منزلیں اور مسافتیں )اردو افسانوں کے سرائیکی ترجمہ پر مشتمل ہے۔ مقصد یہ تھا کہ سرائیکی میں لکھنے والوں کو احساس دلایا جائے کہ اردو افسانہ کہاں تک پہنچ چکا ہے اور پھر سرائیکی افسانے کے سفر کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس کتاب میں کرشن چندر سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس، میرزا ادیب، غلام الثقلین نقوی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، جوگندر پال، انورسجاد، انتظار حسین، اسد محمد خاں، رشید امجد، ذکاء الرحمن، پروین عاطف، مرزا حامد بیگ، عذرا اصغر، محمد منشا یاد، احمد داؤد، حیدر قریشی اور روشن آراء نزہت کے افسانے شامل ہیں۔ ستمبر۱۹۸۰ء میں اس کتاب کو جدید ادب پبلی کیشنز خانپور نے ممتاز اکیڈمی بھٹہ واہن کے تعاون سے شائع کیا۔ اس کا پیش لفظ ’’گالھ مہاڑ‘ ‘ (بات چیت)کے عنوان سے فرحت نے تحریر کیا ہے،

اس پیش لفظ کے ایک بڑے حصے کا اردو ترجمہ یہاں پیش کر دیتا ہوں۔

’’سوچ اور خیال کی الفاظ کے ساتھ آنکھ مچولی اور لفظوں کو گرفت میں لینے کا کھیل میرے لیے ایک ایسا تخلیقی تجربہ ہے جس میں ایک عجیب سی لذت ہے۔ ایسی لذت جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ہاں آنکھ مچولی کے کھیل میں کسی بچے کا دوسرے بچے کو ڈھونڈنے کا عمل شاید اس کی تھوڑی سی ترجمانی کر سکے۔ چھپے ہوئے ساتھیوں کو ڈھونڈنے کے لیے بھاگ دوڑ اور سرگردانی اور پھر کسی کو ڈھونڈ لینے پر بے پناہ خوشی کی کیفیت۔ اس سارے عمل میں بچے کی خوشی کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ میرے تخلیقی عمل کی لذت اور بچے کی خوشی ایک جیسی کیفیت کے حامل ہیں، لیکن میرا تخلیقی عمل اس لحاظ سے بچوں کی آنکھ مچولی کے کھیل سے مختلف ہو جاتا ہے کہ بچے تو اپنے معلوم ساتھیوں کو ڈھونڈتے ہیں جبکہ میری سوچیں اور میرے خیال خود نہیں جانتے کہ انہوں نے کن الفاظ کو تلاش کرنا ہے۔

تخلیقی عمل سے ہٹ کر ’’منزلاں تے پندھیڑے ‘ ‘ میرے لیے ایک اور طرح کا تجربہ ہے۔ یہاں لفظوں کو لفظوں کی تلاش تھی۔ معلوم کی تلاش تھی۔ یہاں بچوں کی بھاگ دوڑ اور سرگردانی سے پوری طرح واسطہ پڑا۔ اپنا بچپن پوری طرح یاد آیا۔ لیکن ترجمے کی تکمیل پر بچوں جیسی وہ خوشی مفقود تھی، جو تخلیقی عمل کے آخر میں بھی خود بخود مل جاتی تھی۔ در اصل تخلیقی سطح سے ہٹ کر ترجمہ کا کام میرے لیے نرا پرا تیکنیکی کام تھا۔ اس دوران مجھے اپنی کم علمی کا بھی بھرپور احساس ہوا۔ اسی احساس نے وہ خوشی چھین لی جو ترجمے کے اختتام پر ہونی چاہیے تھی۔ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے اور ٹیڑھے میڑھے ترجمے کی یہ کتاب بڑی انکساری کے ساتھ سرائیکی کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ میری غلطیوں کی نشان دہی تربیت کے انداز میں کریں گے اور میری حوصلہ افزائی بھی کریں گے۔۔ ۔ بہر حال کتاب اپنی کچھ خوبیوں اور بہت ساری خامیوں کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔ ‘ ‘

دوسری کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں ‘ ‘ (ڈاکٹر وزیر آغا کی منتخب نظمیں )ہے۔ اس میں وزیر آغا کی تیس نظموں کا سرائیکی ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ ’’منزلاں تے پندھیڑے ‘ ‘ کا سارا ترجمہ فرحت کا اپنا کیا ہوا ہے جبکہ ’’چونڑویاں نظماں ‘ ‘ کی مرتب فرحت نواز ہیں اور وزیر آغا کی چار نظموں کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا ہے،

لیکن باقی ۲۶ نظموں کا ترجمہ ان ادیبوں نے کیا ہے۔ نقوی احمد پوری، مظہر مسعود، حیدر قریشی، اظہر ادیب، رفیق احمدپوری اور پروین عزیز تین تین نظمیں، صدیق طاہر، قیس فریدی، ایوب ندیم دو دو نظمیں، ارشد خالد اور صفدر صدیق رضی ایک ایک نظم۔ آخر میں سارے ترجمہ نگاروں کا مختصر تعارف دیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی ستمبر ۱۹۸۰ء میں شائع ہوئی۔ اسے بھی ممتاز اکیڈمی بھٹہ واہن کے تعاون سے جدید ادب پبلی کیشنز خانپور نے شائع کیا۔

اس کتاب کا پیش لفظ بھی فرحت نواز نے ’’گالھ مہاڑ‘ ‘ کے نام سے لکھا ہے۔ اس کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ بھی یہاں پیش ہے۔

’’ نم راشد اور میرا جی کے مطالعہ کے دوران میں ہمیشہ ابلاغ کے مسئلہ سے دوچار رہی ہوں۔ اسے میں اپنی کم علمی کے طور تسلیم کرتی ہوں۔ تاہم وزیر آغا کی نظموں نے ہمیشہ مجھے ایک نئی لذت نئے ذائقہ کا احساس دلایا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اردو شاعری میں نئی نظم کہنے کا سلیقہ وزیر آغا کی نظموں کے مطالعہ سے سیکھا ہے۔۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ نظموں کے انتخاب کے سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کچھ پرانی اور کچھ بالکل تازہ نظمیں لی گئی ہیں۔ (جو انہوں نے نئے مجموعہ ’’نردبان‘ ‘ کے بعد کہی ہیں )تاہم زیادہ نظمیں ان کے تازہ مجموعے ’’نردبان‘ ‘ سے ہی لی گئی ہیں۔ ’’نردبان‘ ‘ سے پہلے اور ’’ نردبان ‘ ‘ کے بعد کی نظموں سے وزیر آغا کے حیران کر دینے والے شعری سفر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا سفر جس میں ان کا قاری خود کو اس سفر کا شریک محسوس کرتا ہے اور حیرت و مسرت کے اَسرار بھرے کئی رستے طے کرتا ہے۔ ‘ ‘

’’چونڑویاں نظماں ‘ ‘ کے آخر میں فرحت نواز نے تمام ترجمہ نگاروں کا مختصر تعارف لکھا ہے۔ یہاں میں ان کے اپنے بارے میں لکھے ہوئے تعارفیے بہ عنوان ’’میں ‘ ‘ کا اردو ترجمہ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

’’اس دنیا میں ہر شخص اپنی جگہ پر ایک ’’میں ‘ ‘ ہے۔ لیکن ’’میں۔ میں ‘ ‘ کے اس شور سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جیسے یہ دنیا بھیڑوں بکریوں کا ایک ریوڑ ہے، جہاں کسی کی کوئی پہچان اور شناخت نہیں ہے۔ یوں یہ ’’میں۔ میں ‘ ‘ در اصل اپنے ہونے کا اعلان کم اور اپنی پہچان کے گم ہو جانے کا اعلان زیادہ ہے۔ ہمارا فنکار ایک ایسی ہستی ہے جو ’’میں۔ میں ‘ ‘ کے شور سے ہٹ کر اپنی پہچان کی تلاش کرتا ہے اور یوں بھیڑوں، بکریوں کے ریوڑ سے الگ پہچانا جاتا ہے۔

میری شاعری، میرا فن میرے لیے اپنی پہچان کا ایک عمل ہے۔ خود کو پہچاننے کا یہ عمل مستقل طور پر جاری رہتا ہے کیوں کہ انسانی ذات کی اتنی پرتیں ہیں کہ ساری زندگی خود کو ڈھونڈتا رہے پھر بھی پوری طرح نہیں ڈھونڈ پاتا۔ اپنی پہچان کا یہ عمل مجھے ایک انفرادیت بھی عطا کرتا ہے اور ایک ایسی لذت بھی جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتالیکن جسے ایک فنکار یا فن کی پہچان رکھنے والا محسوس ضرور کر سکتا ہے۔ حیدر قریشی کا یہ شعر مجھے اپنی ذات کے بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔

میں منزلوں کی کھوج میں خود سے بچھڑ گیا

پھر عمر بھر تلاش ہی اپنی رہی مجھے ‘ ‘

’’ ۱۹۸۰ء کے بہترین افسانے ‘ ‘ فرحت نواز کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ افسانوں کے انتخاب میں انہوں نے اپنی ذاتی پسند سے کام لیا ہے۔ اس انتخاب میں صرف پاکستانی افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ مندرجہ ذیل افسانہ نگاروں کے ۱۹۸۰ء میں شائع ہونے والے افسانے اس میں شامل کیے گئے ہیں۔ احمد جاوید، احمد داؤد، اعجاز راہی، افسر آذر، انوار احمد، انورسجاد، حیدر قریشی، خالدہ حسین، رحمن شریف، رشید امجد، رضیہ فصیح احمد، روشن آرا نزہت، زاہدہ حنا، سمیع آہوجہ، طاہر نقوی، عذرا اصغر، علی حیدر ملک، غلام الثقلین نقوی، محمد منشا یاد، محمود احمد قاضی، مرزا حامد بیگ، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، مشتاق قمر، مظہرالاسلام، ممتاز مفتی، میرزا ادیب، نیلوفر اقبال۔

اس انتخاب کے پیش لفظ میں فرحت نواز لکھتی ہیں:

’’جدیدافسانے کے بارے میں مباحث جاری ہیں۔ اس میں کہانی نہیں ہوتی ہے، خیال یا کیفیت ہوتی ہے،

کہانی بھی ہونی چاہئے، فلاں کچھ بھی ہونا چاہیے۔ قارئین افسانے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے ؟وغیرہ وغیرہ۔

مجھے اس وقت ان سوالوں کے جواب نہیں دینا ہیں۔ مرے نزدیک یہ مباحث جدید افسانے کی زندگی کا ثبوت ہیں۔ مری جدید افسانے سے دلچسپی گزشتہ برس تب ہوئی جب میں نے اردو کے بعض اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں کے (سرائیکی)تراجم کئے۔ ترجمے کے دوران مجھے ان افسانوں کے لفظوں کی بالائی سطح سے اتر کر ان کے داخل تک (اپنی ذہنی اپروچ کی حد تک)رسائی کا موقعہ ملا اور تب میں نے پہلی دفعہ جدید افسانے میں ایک عجیب سی لذت محسوس کی۔ یہ کیفیت میرے لیے ذہنی طور پر سرورانگیز تھی۔ تب میں نے گزشتہ برس کے تقریباً تمام افسانے پڑھ ڈالے اور ان سے اپنی ذاتی پسند کا انتخاب ترتیب دیا۔ یہ انتخاب اب آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ‘ ‘

The Shall Dawn اکبر حمیدی کی غزلوں کے انگریزی ترجمہ کی کتاب ہے۔ یہ تین ادیبوں جمیل آذر، حامد برگی اور فرحت نواز کے تراجم پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب میری دسترس میں نہیں ہے تاہم فرحت کے ترجمہ کے کام میں اس کا ذکر بھی ضروری تھا۔

’’جدید ادب ‘ ‘ کی ادارت سے لے کر اپنے کالج میگزین ’’ لمعہ‘ ‘  کے انگریزی حصہ کی نگران ہونے تک فرحت نواز کو ادارتی تجربہ میں خاصی مہارت حاصل ہوئی۔ ایک رنگ میں یہ کام بھی مرتب کے کام سے ملتا جلتا ہی ہے۔

فرحت نواز کا بنیادی کام تخلیقی لحاظ سے شاعری میں ظاہر ہوا ہے۔ ادب کی دنیا سے خود اختیاری جلا وطنی کے بعد اب ادبی دنیا میں ان کی واپسی ہوئی ہے تو انہوں نے اپنی پرانی اور نئی شاعری یک جا کر کے اپنا شعری مجموعہ ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ پیش کر دیا ہے۔ اس مجموعہ پر ادبی طور پر بات ہونے لگی ہے۔ امید ہے اس پر مزید بات ہو گی اور فرحت نواز نئے تخلیقی جوش کے ساتھ اپنی نئی شعری تخلیقات سے اردو دنیا کو نوازیں گی۔

اس وقت ادب میں ان کی واپسی پر پروفیسر مظہر مہدی کے الفاظ میں ہی ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

’’خوش آمدید فرحت نواز!آپ ہی کی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے !‘ ‘

٭٭٭

 

 

 

نظمیں ۔۔۔ فرحت نواز

 

استعارہ مِری ذات کا

 

جتنے بھی رنگ ہیں

سب پہ انگلی نہ رکھو پکڑ کے مِری

مجھ کو معلوم ہے

استعارہ مِری ذات کا

کون سا رنگ ہے

تم نے جو رنگ اوڑھے ہیں

ان میں تو وہ رنگ ہے ہی نہیں !

٭٭

 

 

کیوں بضد ہو!

کیوں بضد ہو

تمہاری نظر سے

میں منظر کو دیکھوں

ضروری نہیں  جس کو تم نے ہرا کہہ دیا

میں بھی اس کو ہرا ہی کہوں

میری آنکھیں ہیں نعمت مجھے

کیوں میں کفرانِ نعمت کروں !

٭٭

 

لفظ اور خواب

 

لفظ کتابوں میں اور

خواب

دل میں سجائے رکھو

دونوں ہی  عملی زندگی میں

اتنے ہی بے کشش ہیں

جتنے جگنو  دن کی روشنی میں !

٭٭

 

 

رات پھر

 

رات پھر  دبے پاؤں آ کر

میرے بستر میں سو گئی ہے

اور میں تنہا بیٹھی جاگ رہی ہوں

سوچ رہی ہوں

آج کی شب میں

ساتھ تمہارے گزرے دنوں کو یاد کروں

یا صرف تمہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ؟.

٭٭٭

 

 

 

زمیں زاد

 

میں زمیں زاد ہوں

میں زمیں پہ ہی چلتی رہی

آسماں زاد وہ،

چاند وہ،

کیوں تعاقب میں میرے ہمیشہ رہا

چاندنی رات میں !

٭٭٭

 

 

 

بارشوں کے موسم میں

 

بارشوں کے موسم میں

بارشیں جو برسیں تو

بھیگتے ہوئے میں نے

سرخوشی کے لمحوں میں یہ ذرا نہیں سوچا

بارشوں کا موسم تو

مختصر ہی ہوتا ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

دیواریں

 

جن سے کھلتے ہیں ساتوں دروازے

اسم وہ اب بھی یاد ہیں لیکن

میرے حصے میں آئی دیواریں

٭٭٭

 

 

 

 

چاند

 

ندیا کی آغوش میں سویا چاند

نہ جانے کیسے سپنے دیکھ رہا ہے

دھیرے دھیرے کانپ رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے اک نظم لکھنی ہے

 

مجھے ہر پل جو اک آواز پیچھے سے بلاتی ہے

مِرے آنچل سے جو سرگوشیاں

لپٹی سی رہتی ہیں

مِرے ہاتھوں میں جو اک لمس ہے

وعدے کا

وعدے کو نبھانے کا

بہت میٹھی سی یادوں کی گھنی چھاؤں میں

سویا ہے جو وہ رستہ

سِحر آنکھوں کا، دل کی دلبری

سب قرض ہے مجھ پر

یہی وہ قرض ہے جس کو چکانے کے لیے

اک نظم لکھنی ہے

مِرے دل کی تجوری اب

مگر لفظوں سے خالی ہے

اثاثہ میرے لفظوں کا

اثاثہ میرے جذبوں کا

بہت عرصہ ہوا سیلِ جدائی

ساتھ اپنے ہی بہا کر لے گیا تھا

اور اب کچھ سوجھتا بھی تو نہیں

میں کیا لکھوں

مگر پھر بھی بہر حالت

مجھے اک نظم لکھنی ہے !

٭٭

 

کیسی بستی ہے یہ

 

کیسی بستی ہے یہ

ہر طرف ہے اندھیرا

اندھیرے کا حصہ بنے ؍ چل رہے ہیں سبھی

ہم قدم، ہم قدم

اجنبی، اجنبی

کون ہے پاس

کتنا کوئی دور ہے

کس نے کس سے ملائی نظر کیا اشارہ ہوا

کس کی آنکھوں میں تاثر ہے کیا

کس کے چہرے پہ کیا نقش ہے

جاننے کی تمنا نہیں

جگنوؤں، تتلیوں کو پکڑنے کی خواہش نہیں

پہلی بارش میں مٹی کی خوشبو

یا پھولوں کے کھلنے کا موسم

کسی سے نہ کوئی سروکار ہے

ایک معمول میں سانس لینے کی عادت میں ہیں مبتلا

اور اندھیرے کا حصہ بنے

چل رہے ہیں سبھی

آئینہ دیکھنے کی ہے ان کو طلب

نہ ہی پہچان اپنی کے کھونے کا ڈر

کیا عجب لوگ ہیں

کیسی بستی ہے یہ!

٭٭

 

میں اب بونس پہ زندہ ہوں

 

 

میں اب بونس پہ زندہ ہوں

تو کیوں نہ وائنڈ اپ کر لوں

ضروری کام سب اپنے

وصیت سب سے پہلے لکھ کے رکھتی ہوں

اُسی لاکر میں

جس میں میرے زیور ہیں

ڈریسز، شوز، شولڈر بیگ، میچنگ پرس،

ساری کاسمیٹکس

اب میں اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتی ہوں !

سٹوڈنٹ لائف کی

اور ابتدائے جاب کی فوٹو سبھی

اچھی، بُری یادیں

ابھی ڈسکارڈ کرتی ہوں

ادب کی سب کتابوں کو

(مری ساتھی کتابوں کو)

میں ڈیڈیکیٹ کرتی ہوں

کسی اچھی سی پبلک لائبریری کو

اثاثہ تو ابھی کچھ اور بھی محفوظ رکھا ہے

بہت سی قیمتی چیزیں

جو تم نے تحفتاً دی تھیں

بہت ہی خوبصورت

کانچ کا نازک سا ماڈل

آگرہ کے قصرِ مرمر کا

کئی وش کارڈ، لیٹرز،

ڈائری ہر سالِ نَو کی

کتابیں شاعری کی

اور افسانوں کے مجموعے

کئی کیسٹس گیتوں اور غزلوں کے

مِری تصویریں جو تم نے بنائی تھیں

یہ سب کچھ اب جلا دوں گی

تمہارے ساتھ جو گزرے

وہ لمحے سب بھلا دوں گی

مگر اک مرحلہ درپیش ہے پھر بھی

تمہارا لمس جو اس جان و دل پر

آج بھی ایگزسٹ کرتا ہے

اُسے کیسے کروں ڈسپوز آف۔۔ ۔ !.

٭٭

 

 

بچھڑتے لمحوں میں

 

مجھے خبر ہے

ہمارے جیون کی ایک دوجے کے سنگ

سانسیں کشید کرتی

تمام گھڑیوں کا وقتِ آخر قریب تر ہے

بچھڑتے لمحے دعائیں کیا دوں !

کہ اب تلک کی دعاؤں نے جو اثر کیا

اس کا زہر اب تک رگوں میں رقصاں ہے

سوچتی ہوں

تمہارے ماتھے پہ اپنے ہونٹوں سے کیا میں لکھوں

کہ جو بھی مالک نے لکھ دیا ہے وہی امر ہے

بچھڑتے لمحے

ملن کے سب موسموں کے جذبے میں تم کو دے دوں

تو کیا انہیں تم بہار آمیز رکھ سکو گے ؟

میں اپنی ساری محبتیں تم کو دوں تو بولو

انہیں بھلانے میں

عمرِ فانی میں کتنی صدیوں تلک جیو گے

دعائیں۔۔ جذبے۔۔ محبتیں

یہ تمام دکھ ہیں

بچھڑتے لمحوں میں دکھ نہ مانگو!

٭٭

 

 

بن باس میں ایک دعا

 

اب کے لچھمن میرے گرد

حفاظت ریکھا کھینچ کے جانا

بھول گیا ہے

لیکن ریکھا نہ بھی ہو تو کیا خدشہ ہے

ہر آفت میں مجھ کو میرے بن باسی

کے سچے پیار کی ڈھال بہت ہے

یوں بھی میرا اس کی خاطر

دنیا کی ہر ایک بلا سے

اپنا آپ بچا رکھنے کا اپنے آپ سے وعدہ ہے

مجھ کوتو بس تنہائی سے ڈر لگتا ہے

اور خدا سے ایک دعا ہے

میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہو کہ

جسم کے اندر خواہش کا لوبان سلگ کر بجھ جائے

اور پیاس چمک کر مٹ جائے

میرے مالک!

میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہو کہ دنیا مجھ کو

پھر دوبارہ شک سے دیکھے

پھر ویسا بہتان لگے !

٭٭

 

دعا

 

ماں کے دودھ کو پینے والے

چھوٹے بچوں کے چہروں سے

کتنی معصومی اور کتنا نور چھلکتا رہتا ہے

ایسے نور کی مجھ میں کوئی لہر نہیں ہے

ماں کے دودھ کا ذائقہ تو میں بھول گئی ہوں

سوہنے ربا!

میری ماں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا

میں اس کو اتنا خوش کر دوں

جس سے میرا

جنت میں جانا

غیر یقینی نہ رہ جائے

مجھے یقیں ہے

جنت کی نہروں میں ہر دَم بہنے والا دودھ

یقیناً ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!

٭٭

 

 

بابل

 

لمبی نیندیں سو گیا بابل

ماں نے اوڑھا بے رنگ آنچل

وقت کی گردش ٹھہر گئی ہے

آنکھ میں منظر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ایک ہی منظر تیر رہا ہے

میں نے جتنے لفظ پڑھے تھے

ان کے جو معنی سمجھے تھے

آج وہ سارے بدل گئے ہیں

ماضی، حال اور مستقبل کے سارے لمحو!

مجھ کو کچھ بھی نہیں سمجھاؤ

میری طرح بس سوگ مناؤ۔۔ ۔ چُپ ہو جاؤ!

٭٭

 

 

بابل تیری یاد آئے

 

بھائیوں کی چُپ،

بہنوں کی خالی خالی نظریں

ماں کا بہت سفید دوپٹہ

اپنے سر کے اوپر سے

جب آسمان سرکتا دیکھوں

بابل تیری یاد آئے اور دل کٹتا ہی جائے !

٭٭

 

ویمن ڈے پر لکھی گئی پہلی نظم

 

میری تو قسمت چمکی ہے

گال گلاب اور آنکھیں نیلم

ہونٹ یاقوت اور دل سونا ہے

جسم ہے گویا سچا موتی

تم تو ہو انمول خزانہ

اس انمول خزانے پر وہ

پہلی رات سے لے کر اب تک

پھن پھیلائے بیٹھا ہے !

٭٭

 

ویمن ڈے پر لکھی گئی دوسری نظم

 

وہ جس کے لیے زندگی وقف کی

سانس جو میں نے لی

جس کی مرضی سے لی

جس کے ہر حکم پہ سر جھکایا

ذہانت، فطانت کے لب سی دئیے

حسن و تعلیم کا زعم بھی نہ کیا

نہ ہی بھائیوں کے عہدوں پہ اترائی میں

جس کے سب پیاروں کی میں نے خدمت بھی کی

دل سے عزت بھی کی اور محبت بھی کی

جس کی نسلی بقا کے لیے میں نے وارث بھی پیدا کیے

جس کے گھر میں روزانہ مشقت کی اجرت ملی

رات کو اس طرح

مجھ کو خوش نہ کیا تو عبادت تمہاری عبادت نہیں

رب بھی راضی نہیں

وہ جس کے لیے سچے رب کی بھی میں نے عبادت نہ کی

سوچتی ہی رہی

وہ مجازی خدا

مجھ سے راضی جو ہو گا

تو رب سچا بھی مجھ سے راضی رہے گاسدا

میں نے سب کچھ کیا

پر نہ راضی ہوا وہ مجازی خدا!

٭٭

 

 

ابریزؔ کے لیے ایک نظم

 

جو نکلو گھر سے تم

خوشبو بلائیں لے

ہوا صدقہ اُتارے

روشنی تیری نگہباں ہو

جہاں سے گزرو

سارا راستا مغرور ہو جائے

امیدیں دف بجائیں

منزلیں مسرور ہو جائیں

جو فضلِ خاص تم پہ ہے

اسی طرح رہے قائم

یہ جو راہِ ہدایت ہے

کشادہ تر رہے یونہی

تمہارے چہرے پرجیسے

خدا کی رحمتوں کا نور ہے

کہ پل بھر بھی نظر میری

ٹھہرتی ہی نہیں چہرے تمہارے پر

دعا ہے میری روز و شب

کہ سچی نیکیوں کے آسماں پر

چاند بن کر تم چمکتے ہی رہو

اے چودھویں کے چاند

میرے لال!

(یہ نظم ابریز ؔ کے حفظِ قرآن کے موقعہ پر لکھی گئی۔ ف۔ ن)

٭٭

 

 

غزنہؔ کے لیے ایک نظم

 

تشکر میں ہی رہتی ہوں

تمہارا ساتھ پایا ہے

تمہاری ہر ادا میری محبت کو بڑھاتی ہے

مجھے تم جب بھی ہنستی کھلکھلاتی

آ کے ملتی ہو

گلے مجھ کو لگاتی ہو

مجھے جب چوم لیتی ہو

میں سرتاپا

دعا میں بھیگ جاتی ہوں

وہ سارے سُکھ

جو میں نے خواب میں دیکھے

مِری بیٹی تمہارا بخت بن جائیں

جو میں نے غلطیاں کی ہیں

کبھی وہ تم نہ دہراؤ

کوئی نیکی جو میں نے کی

صلہ اس کا بھی تم پاؤ

تمہاری زندگی میں ہر گھڑی

خوشیاں ہی خوشیاں ہوں

ہمیشہ کامیابی ہو

مری ممتا کبھی غافل دعا سے ہو نہیں سکتی

یہاں سے جب میں جاؤں گی

وہاں پر بھی دعا گو ہی رہوں گی میں

ہمیشہ مطمئن رہنا

مِری بیٹی

مِری غزنہؔ!

٭٭

 

 

غزلیں ۔۔۔ فرحت نواز

 

کاش آنکھوں میں خوشی ہوتی وہ بچپن جیسی

کاش ہاتھوں میں وہ خوش رنگ غبارے ہوتے

جب سمندر میں کہیں ڈوب رہا تھا سورج

ہم نے بھی دیکھے تھے، تبدیل نظارے ہوتے

رات، تنہائی، گھٹن، آہ گزیدہ سانسیں

قرض میرے یہ کبھی تم نے اتارے ہوتے

گر محبت کا ہنر پاس نہ میرے ہوتا

میں نے کیسے یہ شب و روز گزارے ہوتے

مفلسی ہجر زدہ رات کی کیسے کٹتی

تیری یادوں کے جو سکے نہ ادھارے ہوتے

تو محبت کا خدا ہے تو دیارِ دل پر

کچھ صحیفے ہی وفاؤں کے اتارے ہوتے

یوں چمکتے کہ کوئی تاب نہیں لا سکتا

ہم اگر اُن کے مقدر کے ستارے ہوتے

اب تو محفل نہ سجانا ہی ہماری ضد ہے

کیوں کسی اور کو دیکھے وہ ہمارے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مِرا جذبہ مجھے رُسوا کرے گا

اسے ہر شکل میں ڈھونڈا کرے گا

ہتھیلی پر نہیں اُگتی ہے سرسوں

وہ اگلوں کا کہا جھوٹا کرے گا

گریں گے دل پہ آنسو قطرہ قطرہ

وہ پانی آگ میں بویا کرے گا

میری باتوں، میری آنکھوں کو، مجھ کو

وہ پہروں بیٹھ کر سوچا کرے گا

بڑھائے گا مِری تشنہ لبی کو

سرابوں کی طرح چمکا کرے گا

ذرا سی بات نہ مانوں گی اُس کی

ذرا سی بات پر جھگڑا کرے گا

خدا نے مجھ کو وہ بادل بنایا

بیابانوں میں جو برسا کرے گا

ہوا سے چھت اُڑے اس کی بلا سے

شجر تو صحن میں جھوما کرے گا

چھپاتا ہے جو سب سے نام میرا

مِری تصویر کا پھر کیا کرے گا

پہاڑ ایسا تری فرقت کا لمحہ

مِری پلکوں تلے پگھلا کرے گا

وہ جھوٹا آج پھر آئے گا فرحتؔ

مجھے وہ آج پھر جھوٹا کرے گا

٭٭٭

 

 

 

پیچھے دریا ہے، آگے ہے کھائی

آ کے کس موڑ پر میں پچھتائی

رات آنگن میں برسا تھا ساون

اور کمرے میں مجھ پہ تنہائی

جانے کھوئی تھی کن خیالوں میں

بات اس کی نہ میں سمجھ پائی

غم نہ میرا سمجھ سکیں دونوں

اک سہیلی تھی، ایک ماں جائی

وہ شکایت اسی سے تھی فرحتؔ

جو زمانے کو میں نے سنوائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

وفا بستی سے اب تک کون لوٹا ہے صلہ لے کر

مجھے مت اس طرح دیکھو نگاہوں میں گلہ لے کر

ہمارے شہر کا موسم پرانا ہے جدائی کا

ہمارے شہر آؤ نا کبھی موسم نیا لے کر

کوئی دیوار ایسی ہے جو اَب ملنے نہیں دیتی

یقیناً ہم بھی بچھڑے تھے کوئی جھوٹی انا لے کر

مجھے بھی ہیرؔ سے سوہنیؔ سے نسبت ہے  اسی خاطر

جلایا میں نے ان کے نام پہ دل کا دیا لے کر

بچھڑنا ہی مقدر ہے تو پھر امید کیا رکھیں

نبھائیں کس لیے قسمیں، کریں گے کیا وفا لے کر

گئے وہ دن سبھی رنگوں کو تم سے پیار تھا فرحتؔ

بہاریں مسکراتی تھیں تمہاری ہی ادا لے کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

لگا تھا یوں کسی اونچی اُڑان سے اترے

تصورات کے جب لا مکان سے اُترے

چمک کے خوشیوں کا سورج بھی تھک گیا

آخر اداسیوں کے نہ سائے مکان سے اُترے

شجر کی بانہوں میں سوئی ہوا کو مت چھیڑو

تھکن کا بوجھ تو کچھ جسم و جان سے اُترے

میں دیکھ تو لوں زمانے کے تیوروں کا رنگ

وہ اتنی دیر کو ہی میرے دھیان سے اُترے

یہ ایک آس بھی دَم توڑنے لگی اب تو

کہ معجزہ ہی کوئی آسمان سے اُترے

سنہرا چاند نگر ان کا منتہیٰ ٹھہرا

جو خواب اندھی شبوں کے جہان سے اُترے

انا یوں گھات میں بیٹھی رہے گی کتنی دیر

کبھی تو میرے بدن کی مچان سے اُترے

بلندیوں کی مسافت کا دَم نہیں مجھ میں
مِرے لیے کوئی چشمہ چٹان سے اُترے

تھی میٹھے زہر کی مانند گفتگو اب کے

عجیب ذائقے اس کی زبان سے اُترے

گلاب رُت میں بھی اتنی اُداسیاں فرحتؔ

تِرے لیے تو ارم آسمان سے اُترے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہنسنے لگے ہیں لان کے منظر

خالی کرسی میرے برابر

دیکھیں جذبوں کا پھیلاؤ

جھیل میں آؤ پھینکیں پتھر

خوش فہمی کے سارے جگنو

بجھنے لگے ہیں دل کے اندر

پھولوں نے جانے کیا لکھا

تتلی کے گھبرائے تن پر

یادوں کی سنسان گلی ہے

جھانکو مت کھڑکی سے باہر

میری آس کا لمحہ فرحتؔ

پھیل گیا برسوں میں کیوں کر

٭٭٭

 

 

 

 

ماہیے: فرحت نواز

 

دل دنیا کا لوبھی ہے

بخش دے تُو مولا!

میری غلطی جو بھی ہے

 

 

محشر میں کھڑے ہوں گے

پَیر گناہوں کی

دلدل میں گڑے ہوں گے

 

 

جی بھر کے رونا ہے

دل کی سیاہی کو

’’زم زم‘ ‘  سے دھونا ہے

٭٭٭

ماخذ: ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد شمارہ ۲۲

مرتّب: ارشد خالد

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل