FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فرار

 

 

ہندی ناولٹ

 روی رنجن گوسوامی/عامر صدیقی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

سریش کے گھر میں داخل ہوتے ہی ماں کی بڑبڑاہٹ شروع ہو گئی تھی، ’’دنیا جہان کے لڑکے دھندے سے لگ گئے۔  ان نواب زادے کو کام کرنے کا من ہی نہیں ہے۔  بیٹھے بیٹھے کھانے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔  نہ بہن کے بیاہ کی فکر، نہ گھر بار کا دھیان۔  ارے میں تو کہتی ہوں پلّے داری کر لے۔  چار پیسے کما کر تو لائے۔ ‘‘

سریش کو بی اے پاس کئے دو سال ہو گئے تھے۔  نوکری کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن کوئی نوکری نہیں ملی۔  آج کے دور میں جب ایم بی اے اور انجینئرز پریشان ہیں، تو بی اے پاس کو کون پوچھتا۔

اسے ماں کی کھری کھوٹی سننے کی عادت پڑ چکی تھی۔  وہ جانتا تھا کہ ماں کی بڑبڑاہٹ کے پیچھے ان کے ہائی بلڈ پریشر، گھریلو پریشانیوں اور شوہر کے اغماض کا ہاتھ تھا۔  لیکن اس دن وہ کچھ اکھڑا ہوا تھا۔  رات کو ماں نے آنگن میں کھانا لگا دیا۔  اس نے ابھی پہلا نوالہ ہی توڑا ہی تھا کہ ماں نے سوال داغ دیا، ’’کوئی کام ملا؟‘‘

سریش کے دانت کٹکٹائے، مٹھیاں کس گئیں اور غصے اور مایوسی سے ایک چیخ نکل گئی۔  گھر کے سب لوگ چونک کر ادھر آ گئے۔ وہ پلیٹ ایک طرف سرکا کر اٹھ گیا۔

ماں بڑبڑائی، ’’گھر کا کھانا اب اچھا نہیں لگتا۔  باہر کھا کے آیا ہو گا۔  ارے کچھ کما کر لائے، گھر میں کچھ دے تو میں بھی تر مال کھلاؤں۔ ‘‘

سریش نے کوئی جواب نہیں دیا۔  اوپر چھت پر جا کر چارپائی بچھا کر لیٹ گیا۔

سریش، ہری لال اور اُوما دیوی کی اولادوں میں سب سے بڑا تھا۔  بس اس سے بڑی ایک بہن ریکھا تھی، جس کی عمر چوبیس سال تھی۔  ایک سترہ سال کی چھوٹی بہن رشمی اور ایک بارہ سال کا چھوٹا بھائی امیت تھا۔

ہری لال، اترپردیش کے ایک چھوٹے سے شہر اُورائی کے سرکاری اسکول میں استاد تھے۔  ریکھا چار سال سے بی اے کر کے گھر میں فارغ بیٹھی تھی۔  ریکھا کی شادی کی کوششیں جاری تھیں، لیکن کہیں معاملہ فٹ نہیں ہو پا رہا تھا۔  رشمی گیارویں میں اور امیت چھٹی کلاس میں پڑھ رہے تھے۔  گھر کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور شادی کی دہلیز پار کرتی عمر کی نوجوان بیٹی گھر میں بیٹھی تھی۔  اُوما دیوی کی صحت اور مزاج خراب ہونے کی یہی بنیادی وجوہات تھیں۔  اُوما دیوی، ہری لال سے اس بات پر بھی ناراض رہتیں کہ وہ ٹیوشن نہیں پڑھاتے تھے۔  اُوما دیوی کو معلوم تھا کہ ہری لال جی کے دوسرے ساتھی، اسکول میں کم اور گھر میں زیادہ توجہ دیتے تھے اور تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ٹیوشن سے کماتے تھے۔  کچھ استاد تو طلباء کو ہراساں کر کے یا ڈرا دھمکا کر بھی، اپنے یہاں ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے تھے۔  ہری لال اسکول میں خلوص سے پڑھاتے اور کسی طالب علم کو ٹیوشن پڑھنے کا مشورہ نہیں دیتے۔  کچھ طالب علم رضاکارانہ طور پر ٹیوشن پڑھنا چاہتے تو پڑھا دیتے۔  خالی وقت میں اخبار پڑھتے رہتے اور اُوما دیوی کبھی کچھ کہتیں تو ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے۔

ریکھا میں کوئی کمی نہیں تھی، پھر بھی شادی میں تاخیر ہو رہی تھی۔  کہیں جنم کنڈلی میل نہیں کھاتی۔  کبھی لڑکے والے آ کر لڑکی کو دیکھ جاتے پھر کوئی جواب نہیں دیتے۔  کچھ لوگ جہیز کا سیدھے یا اشارے کنایوں میں، ایسا مطالبہ یا ایسی شرط رکھ دیتے جو پورا کرنا ہری لال کے بس سے باہر ہوتا اور انہیں خود ہی پیچھے ہٹنا پڑتا۔  ماں باپ کو اپنی شادی کے لیے پریشان اور لڑکے والوں کے نخرے دیکھ کر ریکھا بھی اداس تھی اور اس کے مزاج میں بھی تھوڑی چڑچڑاہٹ آ گئی تھی۔  کبھی کبھار بات بے بات ماں سے الجھ پڑتی تھی۔

سریش بہت سی ملازمتوں کے امتحانات دے چکا تھا۔  کچھ میں پاس بھی ہوا، لیکن پھرانٹرویو میں فیل ہو گیا۔  پتہ چلا کچھ پوسٹنگ سفارش یا لے دے کر ہو گئیں۔  اُوما دیوی چاہتی تھیں کہ ہری لال کو بھی لڑکے کی نوکری کے لیے کچھ کوشش کرنا چاہیے لیکن ہری لال کوئی بڑی سفارش نہیں جٹا پائے اور رشوت کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔  ایک تو پیسہ تھا نہیں اور ہو بھی توکسے جا کر دیں، ان کی سمجھ سے باہر تھا۔  وہ ڈرتے تھے کہیں ایسا نہ ہو کام بھی نہ ہو اور پیسہ بھی ڈوب جائے۔

بیوی کے بہت اصرار پر انہوں نے اپنے ایک دوست کی مدد سے، سریش کو بازار میں ایک میڈیکل اسٹور پر سیلز مین کی نوکری پر رکھوا دیا۔

جس قسم کے سماجی ماحول میں ہری لال کا خاندان رہ رہا تھا، اس میں اب بھی زیادہ تر ارینجڈ میرج ہی ہوتی تھیں۔

سریش کی نوکری لگتے ہی، اس کی شادی کے لیے رشتے آنے لگے۔

اُومادیوی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ پیسے کی کمی کی وجہ سے ریکھا کی شادی طے نہیں ہو پار ہی ہے۔

ایک دن انہوں نے ہری لال سے کہا، ’’سنو جی، کیوں نہ سریش کی شادی ریکھا سے پہلے کر دیں ؟‘‘

’’ ریکھا کیا سوچے گی؟ پھر برادری والے کیا کہیں گے ؟‘‘ ہری لال نے خدشہ ظاہر کیا۔

’’ ریکھا کے بارے میں سوچ کر ہی بول رہی ہوں۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ ریکھا کے کچھ اچھے رشتے پیسوں کی کمی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گئے۔ ‘‘

’’تو کیا؟‘‘

’’میں سوچ رہی تھی کہ اگر سریش کی شادی پہلے کر دیں، تو لڑکی والے جو جہیز ہمیں دیں گے، اسے ہم ریکھا کی شادی میں کام میں لا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’میں تو سوچتا تھا کہ میں سریش کی شادی بغیر جہیز کے کروں گا۔  میں لڑکی کے خاندان والوں سے کچھ نہیں مانگوں گا۔ ‘‘

’’زیادہ آدرشوں والا بننے کی ضرورت نہیں۔  پھر میں تم سے کچھ مانگنے کو نہیں کہہ رہی اور مجھے بھی جہیز کا کوئی لالچ نہیں ہے۔  ‘‘

’’تو پھر؟‘‘

’’پھر کیا؟ چار سال سے کوشش کر رہے ہو۔  ریکھا پچیسویں میں چل رہی اب۔  بغیر مطالبے کا کوئی لڑکے والا سامنے آیا؟‘‘

’’ایک دو لوگ تو آئے تھے۔ ‘‘ ہری لال نے کہا۔

’’کیا ان کے لڑکے کسی لائق تھے ؟‘‘اُوما دیوی نے سوال کیا۔

ہری لال خاموش ہو گئے۔

………

 

چندا اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔  اس سے چھوٹی دو بہنیں تھیں کرن اور روپا اور ایک چھوٹا بھائی ویویک تھا۔  والد منوہر اُورائی کے چھوٹے بازار میں چاٹ کا ٹھیلا لگاتے تھے۔  ماں کملا گھر میں سموسے، کچوری، پانی پوری وغیرہ بنا کر ٹھیلے پر فروخت کرنے کیلئے دیتی تھیں۔  کملا کا ہاتھ اس کام میں خوب سدھا ہوا تھا اور اسی وجہ سے منوہر کی چاٹ بازار میں خوب بکتی تھی۔  آمدنی ٹھیک ٹھاک تھی۔

چندا نے بارہویں پاس کر لی تھی۔  وہ گوری، دبلی اور تیکھے نین نقش والی خوبصورت لڑکی تھی۔  زیادہ تر وہ شلو ار سوٹ پہنتی تھی، لیکن جب کبھی کبھی شوق میں ماں کی ساڑی پہن لیتی، تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے۔  کملا اسے ساڑی میں دیکھتی تو اس کی بلائیں لیتی، لیکن ساتھ ہی اس کی شادی کی فکر بھی ستانے لگتی۔

منوہر کا مکان اُورائی کی ایک تنگ گلی میں تھا۔

گلی تنگ تھی، لیکن اس میں بڑے، اونچے، چھوٹے ہر طرح کے مکان تھے۔  منوہر کے برابر میں ورما جی کا مکان تھا۔ جن کا نئے بازار میں ایک لیڈیز اسٹور تھا۔ جس میں چوڑیاں، بندیاں اور سنگھار کی دیگر اشیاء بکتی تھیں۔  ورما جی کے دو بچے تھے، ایک لڑکی شیلی جس کی ایک سال پہلے کانپور میں شادی کر دی تھی اور دوسرا ایک لڑکا تھا سومیش عرف ّ سمّو جو چندا کا ہم عمر تھا۔  سمّو تعلیم کے ساتھ ساتھ دکان پر بھی اپنے والد کے ساتھ بیٹھتا تھا۔

منوہر اور ورما کے بچے کے ساتھ ساتھ کھیلتے کودتے بڑے ہوئے تھے۔  دونوں خاندانوں میں اچھا گھلنا ملنا تھا۔  ان کی چھتیں بھی ایک دوسرے سے اتنی ملی ہوئیں تھی کہ منڈیر کود کر ایک دوسرے کی چھت پر آ جا سکتے تھے۔  گرمیوں میں شام کو، ہوا کھانے کے لیے، دونوں گھروں کے افراد اپنی اپنی چھتوں پر آ جاتے اور وہیں گپیں لگاتے۔

ایسی ہی ایک شام کملا اور بچے چھت پر وقت گزار کر نیچے چلے گئے سوائے چندا کے۔  تھوڑی دیر بعد کسی کام سے کملا چھت پر گئی تو اس نے دیکھا چندا اور سمّو چھتوں کی درمیانی منڈیر پر جھکے، ایک دوسرے سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔  کملا کو دیکھ کر چندا بولی، ’’ماں کچھ کام تھا کیا؟‘‘

’’کچھ کام سوچ کر ہی آئی تھی پر بھول گئی۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے چلی گئی اس کے پیچھے چندا بھی چلی آئی۔

کملا کو سمّو اور چندا دونوں پر اعتماد تھا، لیکن ان کی نوجوان عمر کا بھی اسے خیال تھا۔  ڈرتی تھی کوئی چکر نہ ہو۔  اس کا بس چلتا تو سمّو ہی سے چندا کا بیاہ کر دیتی۔  لیکن ورماجی کی برادری الگ تھی۔  وہ برادری اور سماج سے بہت ڈرتی تھی۔

رات کو جب بازار سے لوٹ کر منوہر کھانے کے لئے بیٹھا، تو اُس نے کھانا پروسا اور برابر میں بیٹھ گئی۔

’’تم بھی کھا لو۔ ‘‘ منوہر نے کملا سے کہا۔

’’تم کھاؤ، میں بعد میں کھاؤں گی۔  ‘‘کملا بولی۔

کملا کے اس انداز سے منوہر سمجھ گیا کہ وہ کسی سوچ میں ہے۔

’’سب ٹھیک تو ہے ؟‘‘

’’سب ٹھیک ہے۔  میں سوچ رہی تھی کہ چندا بڑی ہو گئی ہے۔ ہمیں اس کی شادی کے لیے لڑکے کی تلاش شروع کر دینا چاہیے۔  ‘‘کملا بولی۔

’’آج اچانک یہ خیال کس طرح آیا؟‘‘منوہر نے پوچھا۔

’’ایسے ہی۔  کبھی کبھی رشتہ طے ہوتے ہوتے وقت لگتا ہے، اس لئے ابھی سے شروعات کریں گے، تو سال چھ ماہ میں بات کچھ آگے بڑھے گی۔ ‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن میں سوچ رہا تھا کہ چندا پہلے بی اے تک کم سے کم پڑھ لے۔ ‘‘

’’اب اتنی جلدی کون سی شادی ہوئی جاتی ہے، وہ پڑھتی رہے گی۔  ہمیں کوشش شروع کر دینی چاہیے، جس سے وقت رہتے لڑکی کا بیاہ ہو جائے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے میں خاندان والوں اور جان پہچان والوں سے کہہ دوں گا، ان کی نظر میں کوئی شادی کے قابل لڑکا ہو تو بتائیں۔  تم چندا کی کچھ اچھی سی فوٹو کھنچوا کر رکھ لو۔  ‘‘

منوہر نے کھانا ختم کیا اور منہ ہاتھ دھو کر چھت پر سونے چلا گیا۔  کملا، منوہر کے جواب سے مطمئن تھی۔  وہ سونے سے پہلے باورچی خانے کے بچے کچے کام نمٹانے میں لگ گئی۔

………

 

اگلے دن اتوار تھا۔  اس دن چھوٹا بازار بند رہتا تھا۔  منوہر کے پاس تین چوائس ہوتیں یا تو وہ چھٹی منائیں یا ٹھیلے پر کم سامان بنوا کر لے جائیں اور ایک مختصر وقت کے لئے بازار جا کر آ جائیں، تیسری چوائس یہ تھی کہ سنیما ہال یا پارک کے پاس جا کر چاٹ بیچیں۔  لیکن وہاں کبھی کبھی دوسرے ٹھیلے والے برا مانتے، کیونکہ انہیں خوف رہتا کہ ان کی کمائی پر منفی اثر پڑے گا، لہذا وہ بھی کہیں نہیں جاتا۔  اپنے بازار کا ہی چکر لگا کر جلدی لوٹ آتا۔  اس دن وہ کملا کے ساتھ بڑے بازار سے ضروری خریداری کرتا یا بچوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتا اور ٹی وی دیکھتا۔  کبھی وہ لوگ سنیما ہال میں جا کر فلم بھی دیکھ آتے۔  لیکن اس دن منوہر کو اپنے ایک چچیرے بھائی سوہن کی لڑکی کی شادی میں بمع اہل و عیال جانا تھا۔  شادی رات کو تھی اور وہاں رات گئے تک پروگرام چلنے والا تھا، لہذا اس نے دن میں گھر میں رہ کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوہن کا گھر، منوہر کے گھر سے تقریباً ًایک کلومیٹر کے فاصلے پر پرانی بستی میں واقع تھا۔  منوہر، کملا اور بچے شام تقریباً سات بجے تیار ہو کر پیدل ہی سوہن کے گھر کی طرف چل دیئے۔  منوہر نے ایک ڈنڈا اور فلیش لائٹ بھی لے لیا۔ در اصل سوہن کے گھر تک پہنچنے میں کئی گلیوں سے ہو کر گزرنا تھا، پھر انہی گلیوں سے رات گئے لوٹنا بھی تھا۔  آدھی رات میں ان گلیوں میں آوارہ کتوں کا ڈیرہ ہوتا تھا، جو ہر انجان شخص پر بھونکتے تھے اور کبھی ان کے کاٹ کھانے کا بھی خوف ہوتا تھا۔  کبھی کسی گلی میں بجلی نہیں ہوتی، تو گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوتا تھا۔  منوہر اُورائی سے پوری طرح واقف تھا، سو وہ تیاری کے ساتھ چلا۔

غنیمت تھا کہ سوہن کی گلی تھوڑی چوڑی تھی اور اس میں شامیانہ اور کرائے کی پلاسٹک کی کرسیاں لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کا ٹھیک ٹھاک انتظام کیا گیا تھا۔  کملا، کرن اور روپا کے ساتھ سوہن کے گھر کے اندر چلی گئیں۔  منوہر اور ویویک باہر ہی مہمانوں کے درمیان بیٹھ گئے۔

تھوڑی دیر میں بارات آ گئی۔  دولہا شان سے ایک راجکمار کی طرح ایک سجی ہوئی گھوڑی پر سوار تھا۔  دلہن کے گھر کے دروازے پر دولہا کو کھڑا کر کے کچھ رسومات کرائی گئیں۔  پھر دولہے کوگھوڑی سے اتار کر شامیانے میں ہی، ایک چھوٹے سے اسٹیج پر ور مالا کی رسم کے لئے بٹھایا گیا۔  تھوڑی دیر میں دلہن کی کچھ سہیلیاں دلہن کو لے کر اس اسٹیج تک آئیں۔  منوہر نے دیکھا کہ دلہن کے ساتھ آئی ہوئی لڑکیوں میں ایک ان کی بیٹی چندا بھی تھی، جو ساڑی پہنے ہوئے اور کچھ خاص قسم کے بنائے گئے بالوں میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔  تبھی انہیں لگا کملا ٹھیک کہہ رہی تھی کہ بیٹی بڑی ہو گئی ہے۔

ورمالا کے بعد جوڑے کو گھر کے اندر لے گئے۔  شادی کی رسومات تو رات بھر چلنے والی تھیں۔  سوہن نے پڑوسی کے مکان کی چھت پر مہمانوں کے کھانے پینے کا اہتمام کیا تھا۔  چھت بڑی تھی۔  قریب ڈیڑھ سو مہمان ہوں گے۔  تین چار بار کی شفٹ میں سارے مہمانوں نے کھانا کھا لیا۔  خاص رشتے داروں کو چھوڑ کر سارے مقامی مہمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔  باراتی بھی آرام کے لیے چلے گئے۔

منوہر اور اس کے گھر والوں کو گھر پہنچتے پہنچتے رات کے ساڑھے بارہ بج گئے تھے۔  راستے میں ڈنڈا اور فلیش لائٹ کتوں اور اندھیرے سے بچنے میں کام آئے۔  گھر پہنچ کر سب لوگ جلد ہی سو گئے۔

………

 

کملا نے جب سے چندا اور سومیش کو چھت پر تنہائی میں منڈیر پر جھکے ہوئے کچھ بات چیت کرتے ہوئے دیکھا تھا، اسے چین نہیں آ رہا تھا۔  وہ جاننا چاہتی تھی کہیں ان کے بیچ پیار ویار تو نہیں ہے۔  کملا جانتی تھی کہ ویسے چندا اپنی زیادہ تر باتیں اسے بتاتی تھی، لیکن سوچتی تھی کہیں شرم یا خوف کی وجہ سے اس کے بارے میں نہ بتائے۔  اس نے چندا سے خود اس بارے میں پوچھنے کا فیصلہ کیا۔

گرمی کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔  چندا چھٹیوں میں گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھی۔  ایک روز جب کملا اور چندا باورچی خانے میں تھے کملا نے بات چھیڑی۔

’’اب بارہویں کلاس کے بعد کیا کرو گی؟‘‘

’’بی اے کروں گی، ماں، کیوں ؟‘‘

’’ڈگری کالج تو بڑا دور ہے۔ ‘‘

’’اتنا بھی دور نہیں ہے۔  شیلی دیدی تو پیدل چلی جاتی تھیں۔  میں تو سائیکل سے بھی جا سکتی ہوں۔ ‘‘

’’اچھا یہ ورماجی کا لڑکا سومیش کیسا لڑکا ہے ؟‘‘

’’ماں، تم تو ایسے پوچھ رہی ہو، جیسے تم اسے جانتی نہیں۔  سمّو بھیا ایک دم بدھو ہیں۔  ‘‘چندا نے ہنستے ہوئے کہا۔

کملا نے چین کی سانس لی۔  اسے چندا اور اس کے بھولپن پر پیارامڈ آیا۔  پھر بھی اس نے کریدا، ’’اس دن چھت پر تم دونوں کیا باتیں کر رہے تھے ؟‘‘

’’میں اسے ڈگری کالج سے داخلہ فارم لانے کو بول رہی تھی۔  فارم ملنا شروع ہونے والے ہیں۔  وہ اپنی موٹر سائیکل پہ جا کر لے کر آئے گا۔ ‘‘

’’تو وہ لے کر آیا؟‘‘

’’کل سے ملنا شروع ہوں گے۔  وہ لے آئے گا۔  ورنہ مجھے یا پاپا کو جانا پڑتا۔  ‘‘

’’اچھا اب تو کام چھوڑ باقی میں کر لوں گی۔ ‘‘کملا نے چندا سے کہا۔

’’ٹھیک ہے ماں، جب میری ضرورت ہو بلا لینا۔ ‘‘ یہ کہہ کر چندا باورچی خانے سے باہر چلی گئی۔

………

 

جون کا مہینہ تھا، دوپہر کی کڑک دھوپ میں بازار مندا تھا۔  چھوٹے بازارکے دکان داروں نے مل کر بازار میں لوگوں کو سورج سے بچانے کے لیے ترپال لگوا دیا تھا، لیکن لوگ گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کریں تو وہاں آئیں۔  اکا دکا گاہک ہی یہاں وہاں نظر آ رہے تھے۔  منوہر نے سوہن کی پرچون کی دکان کے پاس ٹھیلا کھڑا کیا اور سوہن کی دکان میں چلا آیا۔  سوہن بھی گدی پر سستا ہی رہا تھا۔  دکان میں بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔  ایک  سٹول تھا جو دکان کے شیلفوں میں اونچائی پر رکھا سامان اتارنے کے کام آتا تھا۔  منوہر اسی پر جا کر بیٹھ گیا۔

’’بے انتہا گرمی پڑ رہی ہے اس بار۔ ‘‘

’’بے انتہا۔ ‘‘ سوہن نے حمایت کی۔

’’سنیتا کیسی ہے ؟‘‘منوہر نے سوہن کی بیٹی کے بارے میں پوچھا، جس کی کچھ دنوں پہلے شادی ہوئی تھی اور جس میں سوہن مع بیوی بچوں کے شامل ہوا تھا۔

’’اچھی ہے۔  ایشور کی کرپا اور بزرگوں کا آشیرواد ہے، سنیتا کو گھر اور ور دونوں اچھے ملے۔  ‘‘

کملا نے دوبارہ چندا کی شادی کا ذکر نہیں چھیڑا تھا، پھر بھی منوہر کو اس کی بات یاد رہی۔

’’بھیا چندا کے لیے بھی کوئی گھر ور بتا۔ ‘‘

’’ چندا کی عمر ابھی کتنی ہے ؟‘‘

’’اٹھارہ کی ہو گی۔ ‘‘

’’جلدی کیا ہے اسے اور پڑھاؤ لکھاؤ ابھی۔ ‘‘

’’وہ تو پڑھے گی اگر چاہے گی۔  کوشش تو شروع کریں ؟‘‘

’’میری نظر میں ویسے اس اُورائی میں ہی ایک لڑکا ہے۔ ‘‘ سوہن نے کہا۔

’’کہاں ہے ؟‘‘ منوہر نے بے چینی سے پوچھا۔

’’سرکاری اسکول میں اپنی برادری کے ایک ماسٹر ہری لال ہیں۔  ان کالڑکا ہے۔  چاہو تو مل لینا۔  اسکول میں ہی رہتے ہیں۔ ‘‘سوہن بولا۔

تبھی منوہر کے ٹھیلے پر کچھ گاہک آ کھڑے ہوئے۔  منوہر فوری طور پر اپنے ٹھیلے پر پہنچ گیا اور گاہکوں کی ڈیمانڈ کے مطابق پتے کے دونوں میں انہیں میٹھی تیکھی چٹنی کے ساتھ سونٹھ کے پانی کی مٹکی میں ڈبوکر پانی پوری کھلانے لگا۔

جیسے جیسے شام ہوئی بازار میں چہل پہل بڑھتی گئی۔  رات آٹھ بجے تک منوہر کے ٹھیلے کا سارا سامان بک چکا تھا۔  وہ گھر کی طرف چل دیا۔

رات کو گھر پہنچنے کے بعد منوہر کو خیال آیا کہ سوہن سے اس نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ ماسٹر ہری لال کا لڑکا کرتا کیا ہے۔  اس نے اپنے موبائل فون سے سوہن سے رابطہ کیا اور ساری معلومات لے لیں تاکہ کملا کو بتا سکے۔

گرمی زیادہ تھی، لہذا منوہر رات کو بھی نہا کر کھانے کے لئے بیٹھا۔  کملا نے کھانا پروسا اور پاس ہی بیٹھ گئی۔

’’سوہن بھائی نے چندا کے لئے ایک لڑکے کابتایا ہے۔ ‘‘ کھانا کھانے کے درمیان منوہر نے کملا سے کہا۔

’’اچھا، کہاں کا ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟‘‘

’’یہیں اُورائی کے سرکاری اسکول میں ایک استاد ہیں، ان کا لڑکا ہے۔  بی اے پاس ہے اور ایک میڈیکل اسٹور میں کام کرتا ہے۔ ‘‘

’’یہ تو بہت اچھا ہے اگر بات بن جائے، اپنی چندا پاس میں ہی رہے گی۔ ‘‘

’’کسی اتوار کو ان کے گھر جاؤں گا۔ ‘‘

کھانا ختم کر کے منوہر آرام کرنے چھت پر چلا گیا۔

………

 

بازار میں خریداری کے دوران ہی ماسٹر ہری لال کا تعارف سوہن سے ہوا تھا۔  ماسٹر صاحب اس کی ہی برادری کے نکلے، تو ان سے دعا سلام رہنے لگی۔  کبھی ماسٹرصاحب کچھ خریدنے اس کی دکان پر آتے تو سوہن ادب سے انہیں بیٹھا لیتا۔  منوہر نے اس سے جب ماسٹر صاحب کے گھر ساتھ چلنے کے لئے کہا تو وہ مان گیا اور اتوار کی صبح دونوں ماسٹر صاحب کے گھر پہنچ گئے۔

ماسٹرصاحب نے احترام سے انہیں بٹھایا۔  سوہن نے منوہر کا تعارف کرایا اور اپنے یہاں آنے کا مقصد بتایا۔  ماسٹرصاحب نے انہیں ناشتا کرایا۔  منوہر اور ہری لال جی نے ایک دوسرے کے گھر خاندان، رشتہ داروں کے بارے میں معلومات شیئرکیں۔  منوہر، چندا کی تصویر اور جنم کنڈلی ساتھ لے گیا تھا۔  اس نے دونوں چیزیں ماسٹر صاحب کو سونپ دیں۔  ماسٹر صاحب نے سریش کو بلا کر ان لوگوں سے ملوایا۔  اس کے بعد منوہر اور سوہن نے ماسٹر صاحب سے اپنی تجویز پر غور کا پوچھا۔  ماسٹر صاحب نے گھر میں سب سے مشورہ کرنے کے بعد، بات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔  وہ دونوں ان سے رخصت لے کر واپس ہو لئے۔

چندا کی تصویر ماسٹر ہری لال کے گھر میں سب کو پسند آئی، لیکن سریش ابھی شادی کے لئے تیار نہیں تھا اور اُوما دیوی کو اس بات کا شک تھا کہ منوہر کے مالی حالات کیسے ہوں گے۔  انہیں ڈر تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ سریش کی دلہن تو گھر آ جائے اور بیٹی کی ڈولی پھر بھی نہ اٹھے۔  منوہر کچھ دان جہیز دے پائے گا؟ انہوں نے سوچا ہری لال تو اس بارے میں لاتعلق ہیں، لہذا انہیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔

………

 

گھر پہنچ کر منوہر نے کملا کو ماسٹر جی سے ہوئی بات چیت کے بارے میں بتایا۔  کملا کو ابھی اتنی جلدی نہیں تھی، لیکن اس بات سے خوش تھی کہ منوہر نے کوشش کرنا شروع کر دی تھی۔

’’ لڑکا دیکھا؟ کیسا ہے ؟‘‘کملا نے بے چینی کا اظہار کیا۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’اس کی تصویر لے آتے۔ ‘‘

’’یاد نہیں رہا۔  اگلی بار جب جائیں گے، تو لے آئیں گے۔  ویسے بھی یہیں بازار میں تو ہے، آتے جاتے تمہیں دکھادوں گا۔ ‘‘

’’آج ٹھیلے کے لئے کچھ بنانا ہے ؟‘‘

’’تھوڑا بہت بنا دینا۔  شام کو ایک آدھ گھنٹے کیلئے بازار ہو آؤں گا۔ ‘‘

کملا اپنے کام پر لگ گئی۔  منوہر بیٹھک میں ٹی وی کھول کے بیٹھ گیا۔  بچے دوسرے کمرے میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی، کھولا تو ورما کا لڑکا سومیش ہاتھ میں کچھ کاغذ لئے کھڑا تھا۔

منوہر کو دیکھ کر وہ بولا، ’’ نمستے چاچا جی، یہ فارم چندا نے منگایا تھا، اسے دے دینا۔ ‘‘

سومیش نے ایک فارم منوہر کو دیا اور واپس چلا گیا۔  منوہر نے دیکھا وہ کالج میں بی اے میں داخلے کا فارم تھا۔

منوہر صرف بارہویں پاس تھا۔  لیکن اسے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ تھا۔  وہ سوچنے لگا، ’’اگر ماسٹرصاحب نے شادی کے لیے ہاں کی، تو کیا اسے فوری طور پر چندا کا بیاہ کر دینا چاہیے، جبکہ چندا ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہے ؟‘‘

اس نے چندا کو آواز دے کر بلایا اور فارم دے دیا۔

فارم دیکھ کر چندا بولی، ’’پاپا میں بی اے میں داخلہ کے لئے فارم بھر دوں ؟‘‘

منوہر نے جواب دیا، ’’تم چاہتی ہو بھر تو دو۔ ‘‘

چندا کے چہرے پر جوش تھا۔  وہ خوش ہو کر اندر چلی گئی۔

………

 

شام کو ٹھیلے پر گاہکوں کو چاٹ بنا کر دیتے ہوئے بھی، اس کے دل میں خیال چل رہا تھا، کیا چندا کی شادی ابھی کر دینی چاہئے ؟

رات کو کھانے پر بھی گم صم بیٹھا، وہ یہی سوچ رہا تھا۔  کملا نے اسے سوچ میں پڑے دیکھا تو پوچھ لیا، ’’آج بڑے چپ ہو، کیا سوچ رہے ہو۔ ‘‘

’’یہی سوچ رہا ہوں کہ چندا کی شادی میں کہیں ہم جلدبازی تو نہیں کر رہے ؟‘‘

’’کہاں کل ہی شادی ہوئی جا رہی ہے۔ ‘‘

’’ چندا پڑھنے میں اچھی ہے اور آگے پڑھنا چاہتی ہے۔  ہمیں اسے پڑھنے دینا چاہیے۔ ‘‘

’’پڑھنے سے کون روک رہا ہے۔  اگر گھر، لڑکا اچھے ہیں اور وہ راضی ہوتے ہیں، تو رشتہ پکا کر دیں گے۔  شادی بعد میں کریں گے۔ ‘‘کملا نے کہا۔

’’کیا کوئی اتنا انتظار کرے گا؟‘‘منوہر نے پوچھا۔

کملا بولی، ’’اگر بہت اچھا رشتہ ہے تو شادی کر دیں گے۔  بی اے چندا شادی کے بعد کر لے گی۔  میں نے بھی تو بارہویں کا امتحان شادی کے بعد دیا تھا۔ ‘‘

’’اچھا ٹھیک ہے۔  دیکھا جائے گا۔ ‘‘یہ کہہ کر منوہر اٹھ گیا۔

………

 

ماسٹر صاحب کے گھر میں، سریش شادی سے انکار کر رہا تھا۔  ماسٹر ہری لال نے تھوڑا بہت سمجھایا اور چھوڑ دیا۔  سریش کو قائل کرنے کی ذمہ داری اُوما دیوی پر زیادہ تھی۔

اُومادیوی نے ایک روز سریش سے بات چھیڑی، ’’سریش بیٹا تو شادی کے لئے کیوں انکار کر رہا ہے ؟‘‘

سریش بولا، ’’پہلے ریکھا دیدی کی شادی تو ہو جائے۔ ‘‘

’’تم دیکھ تو رہے ہو، تمہارے پاپا گزشتہ کئی سال سے اس سلسلے میں کہاں کہاں نہیں بھٹکے۔  کتنی جگہوں پر بات چلائی لیکن کہیں بات نہیں بنی۔ ‘‘

’’لیکن ابھی میری آمدنی بھی بہت کم ہے۔ ‘‘

’’ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں تمہیں نوکری کئے ہوئے۔  وقت کے ساتھ آمدنی بھی بڑھ جائے گی۔ ‘‘

’’لیکن اچھا نہیں لگے گا کہ شادی کے لائق بڑی بہن کنواری رہے اور بھائی شادی کر لے۔ ‘‘

اُومادیوی نے تھوڑا چڑ کر کہا، ’’اگر ریکھا کی تقدیر میں شادی کی لکیر نہ ہو، تو تم سب بھی کیاکنوارے رہو گے ؟‘‘

’’پر میری شادی کی اتنی جلدی کیوں ؟‘‘سریش نے سوال کیا۔

اُومادیوی نے اب اسے بغیر لگی لپٹی کے بتایا کہ وہ سریش کی شادی ریکھا سے پہلے کیوں کروانا چاہتی ہے۔  بات کرتے ہوئے ریکھا کے بارے میں سوچ کر اُوما دیوی روہانسی ہو گئی۔  سریش بھی سوچ میں پڑ گیا۔

………

 

کئی دنوں سے سریش کا روز رات کو بہت دیر سے سونے اور صبح دیر سے جاگنے کا سلسلہ جاری تھا۔  پھر اچانک کسی روز آنکھ بہت جلد کھل جاتی تھی، لیکن کبھی تازہ دم محسوس نہیں ہوتا تھا۔  سر بھاری اور بدن کا پور پور ٹوٹتا ہوا سامحسوس ہوتا۔  ایک بار ایک مقامی ڈاکٹر نے کچھ دنوں کے لیے اسے نیند کی گولیاں لکھی تھیں۔  وہ دوا کی دکان سے کبھی کبھی وہی گولیاں لے آتا اور رات کو کھا کر سو جاتا۔  کچھ آرام مل جاتا تھا۔  جوں جوں شادی کی تاریخ قریب آ رہی تھی، سریش کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔  کبھی کبھی وہ سوچتا کہ اسے تو خوش ہونا چاہیے، لیکن ایسا ہوتا نہیں تھا۔  ایک تو وہ اپنی بڑی بہن ریکھا سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا، دوسرے چندا کی خوبصورتی کے آگے آئینہ اسے منہ چڑاتا دکھائی دیتا تھا۔  کچھ دوست اس سے شادی کو لے کر مذاق کرتے، تو وہ صرف ہلکا سا مسکرا بھر دیتا۔  کبھی اسے لگتا شادی نہ کرے لیکن وہ ماں سے ہاں کہہ چکا تھا اور چندا کے گھر والوں کو منظوری دی جا چکی تھی۔  دونوں پارٹیوں کی طرف سے شادی کی تیاریاں شروع کی جا چکی تھیں۔

ہر روز کی طرح وہ صبح نو بجے سوکر اٹھا اور فوری طور پر نہادھوکر اور ناشتہ کر کے دکان جانے لگا، تو ماں نے اسے روک کر کہا، ’’ایک منٹ ٹھہر۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اندر جا کر ایک بیگ لے کر آئیں اور اسے تھماتے ہوئے بولیں، ’’اس میں بازار والوں کیلئے شادی کے کارڈ ہیں، بانٹ دینا اور تیرے لئے شیروانی کا کپڑا ہے، اسے آج ہی سلنے کے لیے دے دینا۔ ‘‘

اس نے بیگ لیا اور تیز قدموں سے بازار کی طرف چل دیا۔

………

 

دو ہفتے پہلے۔۔ ۔

چندا ویسے تو کبھی کبھی اپنی شادی کا سوچا کرتی تھی کیونکہ ایک دن اس کی بھی شادی ہو گی ہی۔  لیکن اتنی جلدی ہو گی اس نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔  جب کملا نے اسے بتایا تھا کہ لڑکے والے اسے دیکھنے آنے والے ہیں، تو وہ بھونچکی سی ماں کو دیکھتی رہ گئی تھی۔  اس کے منہ سے نکلا تھا، ’’کیا؟‘‘اسے بالکل یقین نہیں ہوا تھا۔  اس کی شادی کی کہیں بات چل رہی تھی، اور اس کی اسے جانکاری بھی نہیں تھی۔

کملا نے دہرایا، ’’شام کو تمہیں دیکھنے والے آ رہے ہیں، ساڑی پہن کر اچھی طرح سے تیار ہو جانا۔ ‘‘

’’مجھے بتایا بھی نہیں اور اتنی جلدی شادی؟‘‘ چندا نے پریشان ہو کر کہا۔

’’آج ہی لڑکے والوں نے اطلاع بھیجی ہے۔  تو پریشان نہ ہو۔  اُورائی کا ہی لڑکا ہے، گھر بھی اچھا ہے تو خوش رہے گی اور ہمارے نزدیک ہی رہے گی۔  فکر نہ کر تیری پڑھائی بھی نہیں رکے گی۔ ‘‘کملا نے اسے یقین دلایا۔  چندا فرمانبردار بیٹی تھی، جلدی مان گئی۔

شام کو لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ آیا۔  جیسا کہ چلن تھا چندا کو ان کے درمیان بٹھایا گیا۔  لڑکے کے باپ نے لڑکے سے کہا، ’’سریش، چندا سے کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لو۔ ‘‘

سریش نے ایک نظر چندا کو دیکھا اور ہلکے سے مسکرایا۔  مگرپوچھا کچھ نہیں۔  سریش کی ماں نے ہی چندا سے بات چیت کی۔  تھوڑی دیر میں منوہر نے چندا کو بہانے سے اندر بھیج دیا۔  جاتے جاتے چندا نے ایک نظر سریش کو دیکھا اور اندر کمرے میں چلی گئی۔

اُومادیوی اب مدعے پر آئیں اور سیدھا منوہر سے بولی، ’’بھائی صاحب، جب سے سریش کی نوکری لگی ہے، ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گیا جب کوئی لڑکی والا گھر نہ آیا ہو۔ ‘‘

منوہر چپ رہا۔

اُومادیوی نے آگے مزید کہا، ’’کچھ لوگ تو شادی میں بہت کچھ دینے کی بات کر کے گئے، لیکن ہم اپنے جیسے لوگوں ہی رشتہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ لڑکی میں ایسے سنسکار ہوں کہ ہمارے ساتھ اچھی طرح ہم آہنگی بیٹھا سکے۔ ‘‘

اس کا جواب کملا نے دیا، ’’بہن جی، ہماری چندا بہت نیک اورسگھڑ ہے۔ ‘‘

ماسٹر صاحب اور سریش خاموش تھے۔

اُومادیوی نے منوہر سے پوچھا، ’’آپ شادی کیسی کریں گے ؟‘‘

’’ اپنی حیثیت کے مطابق اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

’’میں اس لئے پوچھ رہی تھی کہ آپ نے ذہن میں کچھ سوچ کر ضرور رکھا ہو گا۔  کچھ بجٹ بھی بنایا ہو گا۔  شادی بیاہ میں دونوں گھروں کا کچھ خرچہ تو ہوتا ہی ہے۔‘‘

منوہر نے اشارہ سمجھ کر کہا، ’’ دیدی جی میرا بجٹ آٹھ لاکھ کا ہے۔ ‘‘

اُومادیوی کھل کر اور کچھ بھی بولنا چاہ رہی تھیں، تبھی ماسٹر جی نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’اب چلا جائے۔ ‘‘

ماسٹر جی نے منوہر سے ہاتھ ملایا اور کہا، ’’ہم ایک دو دن میں آپ سے رابطہ کریں گے۔ ‘‘

ماسٹر جی، اُوما دیوی اور سریش، منوہر اور کملا سے رخصت لے کر گھر واپس آ گئے

………

 

اُومادیوی کو چندا پسند آئی۔  ساتھ ہی وہ سمجھتی تھیں کہ سریش کیلئے اس سے بہتر رشتہ نہیں ملے گا۔  دو دن بعد ماسٹر صاحب نے فون پر منوہر کو شادی کی منظوری کی اطلاع دے دی۔  منوہر نے دل کو سمجھالیا کہ اُورائی میں ہی برادری کا اچھا گھر اور لڑکا مل رہا ہے اور ایک ذمہ داری نمٹ جائے گی۔  چندا کو کملا نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا۔  باقی بچے بڑی بہن کی شادی کو لے کر خوش ہی تھے۔  منوہر نے ماسٹر صاحب سے مل کر شادی کی تاریخ اوردیگر جزئیات طے کیں۔  تین ہفتے کے اندر دھوم دھام سے سریش اور چندا سارے رسوم و رواج کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے یا باندھ دیئے گئے۔

گرمی کی شادی تھی، جس کے بارے میں سریش کے کچھ دوست مذاق میں کہتے تھے، ’’بڑا پسینہ بہانے کے بعد سریش بھائی کو دلہن اور ہمیں بھابھی ملی ہیں۔ ‘‘

سریش اور چندا کی قسمت سے سہاگ رات کو بادلوں کی گرج چمک کے ساتھ تیز بارش ہوئی اور موسم تھوڑا سہانا ہو گیا۔  رات اچھی طرح کٹی۔

اگلے ایک ہفتے تک سریش اور چندا اُورائی میں موجود رشتے داروں کی دعوتوں پر جاتے رہے۔

تھوڑے دن بعد چندا نے رسم کے مطابق سسرال میں پہلی بار کھانا بنایا۔  ساس سسر نے اسے نیگ میں تحائف دیئے اور سب نے کھانے کی خوب تعریف کی۔

اس کے بعد سریش نے دکان جانا شروع کر دیا اور چندا نے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔  چندا اپنی شادی سے خوش تھی، کیونکہ سریش اسے سادہ مزاج کے لگے اور وہ اس کا دھیان رکھتے تھے۔  جب اس نے انہیں اپنے آگے پڑھنے کی خواہش بتائی، تو انہوں نے اسے ماسٹر صاحب اور اُوما دیوی سے مشورہ کر لینے کا مشورہ دیا۔

تھوڑے دنوں بعد کالج کھلنے والے تھے۔  ایک دن گھر کے سارے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے اور چندا کھانا پروس رہی تھی۔  اسی درمیان چندا نے اپنی ساس سے پوچھا، ’’ماں جی میں بی اے کرنا چاہتی ہوں۔  کالج کھلنے والے ہیں۔  کیا میں ایڈمشن لے لوں ؟‘‘

یہ سن کر ماسٹر صاحب کے چہرے پر خوشی کے رنگ ابھرے، لیکن اُوما دیوی تھوڑا سوچ میں پڑ گئیں۔  وہ دل میں سوچنے لگیں، ’’ادھر اپنے بچوں کو مناسب طریقے سے پڑھانا مشکل ہے، اب بہو کو بھی پڑھانا پڑے گا کیا؟ اور وہ پہلے کی طرح ہی گھر گرہستی کے کام میں لگی رہیں گی؟‘‘

اُومادیوی نے چندا سے کہا، ’’تمہارے ماں باپ اگر تمہیں پڑھانا چاہتے ہیں، تو پڑھ سکتی ہو۔ ‘‘

ماسٹر صاحب نے اپنی بیوی کی بات کی ؎گہرائی کو سمجھ کر ٹوکا، ’’ چندا اب ہماری بہو ہے اور وہ ہماری رائے پوچھ رہی ہے۔ ‘‘

اُومادیوی نے کہا، ’’اگر آپ اور سریش جی ہاں کہتے ہیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ‘‘

ماسٹر صاحب بولے، ’’تمہارا دل ہے تو ضرور پڑھو بیٹی۔ ‘‘

دوسرے ہی دن چندا نے داخلہ فارم بھر کر سریش کے ہاتھوں کالج میں جمع کروا دیا۔

………

 

ماسٹر صاحب کے دانتوں میں ایک ہفتے سے درد تھا۔  کچھ کھانے پینے پر بے انتہا ٹیسیں ہوتی تھیں۔  کچھ دنوں سے پتلی کھچڑی اور دودھ وہ بھی گنگنا، پی کر کام چلا رہے تھے۔  کچھ آلسی پن اور کچھ کنجوسی کی وجہ سے ابھی تک ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے تھے۔  آج رات تکلیف برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔  بائیں جانب کی سب سے اندرونی داڑھ میں شدید درد تھا، جس کا اثر بائیں آنکھ کی بغل میں کنپٹی تک محسوس ہو رہا تھا۔  وہ بائیں گال پر بائیں ہتھیلی لگائے درد میں کچھ آرام پانے کی کوشش کر رہے تھے۔  تبھی چندا ادھر آئی۔  اس نے ماسٹر صاحب کو اس طرح بیٹھا دیکھ کر پوچھ لیا، ’’پاپاجی دانت میں درد ہے ؟‘‘

’’ہاں بیٹی تھوڑا درد تو ہے۔ ‘‘ ہری لال بولے۔

چندا اپنے کمرے میں گئی اور لونگ کا تیل اور روئی لے کر واپس آئی۔  دونوں چیزیں ماسٹر صاحب کو دیتے ہوئے بولی، ’’پاپاجی لونگ کا تیل دانت میں لگا لیجیے۔  اس سے کچھ آرام مل جائے گا۔ ‘‘یہ کہہ کر چندا اندر چلی گئی۔  ماسٹر صاحب نے دل سے چندا کو دعا دی۔

چندا کا کالج شروع ہو گیا تھا، پھر بھی صبح اٹھ کر وہ کام میں ہاتھ بٹاتی۔  رات میں کچن میں بھی ساس کا ہاتھ بٹاتی۔  سب کو کھانا کھلا کر پھر خود کھاتی، تب اپنے کمرے میں جا پاتی۔  سریش کبھی اس کا انتظار کرتا اور کبھی سو جاتا تھا۔  وہ تھوڑی دیر تک پڑھائی کرتی پھر سو جاتی۔

دوسرے دن ماسٹر صاحب ڈینٹسٹ کے کلینک پہنچے۔  ڈاکٹر نے معائنہ کر کے بتا دیا کہ دو دانتوں میں روٹ کینال کرنا پڑے گا۔  پانچ ہزار کا خرچہ آئے گا۔  فی الحال کچھ درد کی گولیاں دے کر دو دن بعد آنے کو کہا۔

ماسٹر صاحب دل ہی دل بڑبڑائے، ’’غریبی میں آٹا گیلا۔ ‘‘ ریکھا کی شادی کے بعد ہاتھ تھوڑا تنگ تھا۔

ماسٹر ہری لال بیڑی، سگریٹ، پان، تمباکو جیسی کسی چیز کا شوق نہیں رکھتے تھے۔  ہاں میٹھے کا شوق ضرور تھا۔  کھانے کے بعد ان کو کچھ میٹھا ضرور چاہئے تھا۔  کچھ نہیں ہوتا تو گڑ یا چینی سے کام چلا لیتے تھے۔

ڈاکٹر کے یہاں سے واپسی پر بیوی نے پوچھا، ’’کیا کہا ڈاکٹر نے ؟‘‘

’’کچھ نہیں، دوا دی ہے۔ ‘‘انہوں نے مختصر جواب دیا۔

ماسٹر صاحب نے اس دن چھٹی لے رکھی تھی۔  ان کا دھیان چندا کی طرف چلا گیا۔

’’بہو تو کالج چلی گئی ہو گی!‘‘انہوں نے یوں ہی کہا۔

’’ ہاں گئی ہے۔  میری قسمت میں بہو کا سکھ کہاں !‘‘ اُومادیوی ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بولیں۔

ماسٹر صاحب چپ رہے۔

………

 

چندا کالج اور گھر کے کاموں کے بیچ اتنی مصروف رہتی تھی کہ سریش کو وقت کم دے پا رہی تھی۔  سریش کبھی کبھی اس کمی کو محسوس کرتا تھا۔  اس نے دیکھا کہ چندا کے آنے کے بعد سے اس کی بہن رشمی نے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا تقریباً بند کر دیا تھا۔  امیت تو ابھی چھوٹا تھا اور کھیل کود میں مست رہتا تھا۔  رشمی اور امیت کی گھر میں جو فرمائیشیں پہلے ماں سے ہوتی تھیں، اب وہ اپنی بھابھی سے کرتے۔  چندا سب کا خیال رکھتی تھی۔  اس نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔

ایک دن گھر کے سب لوگ رات کا کھانا کھا کر ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہے تھے۔  رشمی کو پیاس لگی تو وہ چندا سے بولی، ’’بھابھی پیاس لگی ہے۔ ‘‘

چندا اٹھ کر پانی لینے چلی گئی۔

سریش نے رشمی کو ٹوکا، ’’تم خود اٹھ کر پانی لے سکتی تھیں۔  ہر کام بھابھی سے کرانا کیا ضروری ہے ؟‘‘

رشمی نے کوئی جواب نہیں دیا اور ٹی وی دیکھتی رہی، البتہ سریش کی ماں نے ضرور ترچھی نظروں سے سریش کی طرف دیکھا۔  سریش نے تھوڑا عجیب محسوس کیا تو وہ وہاں سے ہٹ کر اپنے بیڈروم میں جا کر لیٹ گیا۔  تقریباً گیارہ بجے چندا کمرے میں آئی۔

چندا کا ہاتھ پکڑ کر سریش نے کہا، ’’اتنا کام کیوں کرتی ہو؟‘‘

’’گھر کا کام سب کرتے ہیں۔ ‘‘ چندا نے مسکراتے ہوئے کہا اور سریش کے مزید قریب آ گئی۔

’’تم بہت اچھی ہو۔ ‘‘ کہتے ہوئے سریش نے اسے آغوش میں لے لیا۔

………

 

سریش کی شادی ہوئے چھ ماہ گزر چکے تھے۔  ماسٹر صاحب اس بات سے خوش تھے کہ ساس بہو کی ابھی تک کوئی تکرار نہیں ہوئی تھی۔  اُوما دیوی کواپنی ماں سے ان کے مرتے دم تک جھگڑتے وہ دیکھ چکے تھے۔ پر ان کی خوشی زیادہ دنوں تک نہیں ٹکی۔

اس دن سب لوگوں کو ایک شادی کی تقریب میں جانا تھا۔  سب لوگ تیار ہو رہے تھے۔  چندا اپنی ماں کی دی ہوئی سبز بنارسی ساڑی اور کندن کا ہار پہن کے شادی میں جانا چاہتی تھی۔  شادی میں ملی تقریباً ساری چیزیں اُوما دیوی نے اپنی الماری میں رکھی ہوئی تھیں۔

چندا نے اُوما دیوی سے کہا، ’’ماں جی، میری ماں نے جو سبز بنارسی ساڑی اور کندن کا ہار دیا تھا، وہ دے دیجیے۔ ‘‘ اُوما دیوی چونک گئیں اور ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔  انہوں نے چندا کی طرف دیکھے بغیر پوچھا، ’’کیوں ؟‘‘

’’میں آج شادی میں پہن کے جانا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’اتنی بھاری ساڑی سنبھال لو گی؟ اور رات برات زیادہ زیور پہن کے جانے کی ضرورت کیا ہے ؟‘‘

اُومادیوی نے ٹالنا چاہا۔  چندا کو معلوم تھا کہ اس کی شادی میں تحائف کے روپ میں ملے روپے پیسے اور دیگر چیزیں، ریکھا کی شادی میں جہیز کی شکل میں دے دی گئی ہیں۔  لیکن سب کچھ دے دیا گیا تھا، اسے معلوم نہیں تھا، نہ اس نے اس کا تصور کیا تھا۔

’’ماں جی وہاں میری کچھ پرانی سہیلیاں بھی آئیں گی، جن سے میں اپنی شادی کے بعد پہلی بار ملوں گی۔ ‘‘ چندا نے وجہ بتائی۔

’’بہو ضد نہ کرو، وہ میں رکھ کر بھول گئی۔  ڈھونڈنے میں فالتو ٹائم خراب ہو گا۔ ‘‘

’’ماں جی آ پکی الماری یا صندوق میں ہی ہوں گی۔  آپ تیار ہوں۔  لائیں چابیاں مجھے دے دیجئے، میں تلاش کر لوں گی۔ ‘‘

اُومادیوی فطرتاً بہت تیز تھیں، لیکن جھوٹ بولنے میں ماہر نہیں۔  نہ انہیں کوئی چال بازی پسند تھی۔  پھر بھی انہوں نے تھوڑے سے جھوٹ کا سہارا لیا۔

’’ارے بہو میں تو بھول ہی گئی تھی، وہ دونوں چیزیں تو ریکھا کی شادی میں کام میں آ گئیں۔  تمہارے لئے نئی لا دیں گے۔ ‘‘

یہ سن کر چندا دھک سے رہ گئی۔  یہ دونوں چیزیں اس کی ماں کی نشانیاں تھیں۔

’’آپ نے مجھے بغیر بتائے کس طرح۔۔ ۔ ؟‘‘اس کے آگے وہ نہ بول سکی۔  اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔

تھوڑی دیر بعد اس کا رونا تھما، تو اس کا غصیلا روپ ظاہر ہوا۔  رونے اور غصے سے ہوئی سرخ آنکھوں سے ساس کو ایک نظر گھورا اور اپنی پہنی چیزیں کو اتار پھینکا۔

’’آپ لوگ جائیں شادی میں، میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘

اُومادیوی نے پہلے منانے کی کوشش کی۔  سریش سے کہلوایا۔  لیکن چندا نہیں مانی۔  چندا کا یہ روپ انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

اُومادیوی نے اب ساس ہونے کے حق کا استعمال کرتے ہوئے سختی دکھائی اور ڈانٹتے ہوئے تیز آواز میں بولیں، ’’اتنی ضد ٹھیک نہیں بہو، وہاں سب پوچھیں گے بہو کیوں نہیں آئی؟جلدی تیار ہو جاؤ۔  جانے کا وقت ہو رہا ہے۔ ‘‘

’’کہہ تو دیا آپ لوگ جائیے۔ میرا من نہیں ہے۔ ‘‘ چندا نے لاتعلقی سے جواب دیا۔

یہ ایک لازمی بات ظہور میں آئی ہے کہ ساس جب بہو سے زیادہ ناراض ہو جاتی ہے، تو اس کے میکے کو کوسنا شروع کرتی ہے اور یہ آگ میں گھی کا کام کرتا ہے، کیونکہ کسی بہو کو اس کے میکے کی برائی برداشت نہیں ہوتی۔  اس کے نتیجے میں جھگڑا اور بڑھ جاتا ہے۔  وہی یہاں بھی ہوا۔

اُومادیوی نے غصے میں کہا، ’’نہ جانے ماں باپ نے کیا سکھایا ہے۔  ایسی ضد۔‘‘

’’آپ اچھاسکھائیں اپنی رشمی کو کہ کسی کی چیز بھی بنا بتائے لے کر جس کو چاہو دے دو۔ ‘‘

رشمی ان لوگوں کی تیز آوازیں سن کر ادھر آ گئی تھی۔  وہ بھی بول پڑی، ’’مجھے کیوں درمیان میں لا رہی ہو بھابھی۔ ‘‘

اُومادیوی کو لگا اب ان کا پلڑا بھاری ہے۔

’’جس کسی کو نہیں ریکھا کو دیا ہے، بڑی نند لگتی ہے تیری۔ ‘‘

’’ماں کم سے کم پوچھ کے تو دیتی۔  وہ ساڑی اور ہار میری ماں نے بہت پہلے سے، مجھے شادی کے وقت دینے کے لیے سنبھال کر رکھے تھے۔ ‘‘

کڑواہٹ میں چندا نے آگے بول دیا، ’’اتنی ہی کمی تھی تو کہتیں، میں میکے سے ایک ویسی ہی ساڑی اور ہار منگوا دیتی۔ ‘‘

چندا کی اس بات سے ساس کے دل کو سیدھی چوٹ لگی۔  وہ تلملا گئیں اور انہوں نے بھی لفظوں کا ایک زہر بجھا تیر چھوڑ ہی دیا، ’’باپ چاٹ کا ٹھیلا لگاتا ہے، بیٹی بہت بڑی سیٹھانی بن رہی ہے۔ ‘‘

اب تو چندا مکمل طور پر بپھر گئی، ’’میرے پاپا کو کچھ مت کہیں۔  چاٹ کا ٹھیلا لگانا کیا برا ہے ؟وہ بھی تو ایک کاروبار ہے۔  اور انہوں نے ہم بچوں کو راجکمار اور راجکماریوں کی طرح ہی پالا ہے۔  آپ کے یہاں سے اچھا ہی ہم لوگ کھاتے اور پہنتے ہیں۔ ‘‘

جھگڑا اور بڑھ جاتا، اگر ماسٹر جی درمیان میں دخل نہ دیتے۔  ماجرا تو وہ سمجھ ہی گئے تھے۔  آوازیں ان تک بیٹھک میں بھی پہنچ رہی تھیں۔

انہوں نے چندا کو وہیں سے آواز دی، ’’ چندا بیٹی، سب کو تیار کرا کے باہر لاؤ۔  چلنے میں دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘

چندا نے پاپا جی کی بات کا مان رکھ لیا۔  فوری طور پر تیار ہو گئی۔  باقی لوگ پہلے ہی تیار تھے۔  سب لوگ شادی کی تقریب میں شامل ہونے، چل پڑے۔

………

 

ایک بار ساس اور بہو کے درمیان اختلاف شروع ہوا، تو کئی موسم بدلے، لیکن یہ کسی نہ کسی بہانے جاری رہا۔  گھر میں اور محلے میں بھی دھڑے بن گئے تھے۔  کچھ لوگ اُوما دیوی کے دھڑے میں ہو گئے اور کچھ چندا کے۔  ماسٹر صاحب زیادہ تر نیوٹرل رہنے کی کوشش کرتے تھے۔  لیکن کبھی کبھار چندا کے حق میں کچھ بول دیتے اور بیوی کے غصے کا شکار بنتے۔  رشمی اپنی ماں کے ساتھ تھی۔  چندا کا چھوٹا دیور کسی دھڑے میں شمار نہیں کیا جاتا۔

محلے کی زیادہ تر ادھیڑ عمر خواتین اُوما دیوی سے ہمدردی رکھتی تھیں اور نوجوان عورتیں چندا کے ساتھ تھیں۔  اس ساس بہو کے جھگڑے میں دو پاٹوں کے درمیان کوئی پس رہا تھا، تووہ تھا سریش۔  محلے کے لوگوں خاص کر خواتین کے لئے ایک اور تفریح کا ذریعہ، ملنے کا بہانہ اور ساتھ ہی اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کو بجھانے کا راستہ دستیاب ہو گیا تھا۔  پڑوسیوں سے جتنا میل جول پہلے نہیں تھا، اب ہو گیا تھا۔  کچھ واقعی اندرونی اختلاف کو ختم کرانا چاہتی تھیں۔  باقی سب تماش بین اور مشورہ دینے والی تھیں۔  جو یہ بتایا کرتیں کہ کسی نے کچھ کہا، تو اس کا کرارا جواب کیا ہونا چاہئے۔

سریش کبھی غلطی سے ماں کے حق میں بولتا، تو چندا خفا ہو کربول چال بند کر دیتی۔  اگر کسی دن غلطی سے چندا کے حق میں ذرا سا بھی کچھ اس کے منہ سے نکل جاتا، تو اُوما دیوی کے تیکھے طعنے اور کوسنے سننے کو ملتے اور جورو کے غلام کا خطاب دیا جاتا۔  آمدنی اتنی تھی نہیں کہ الگ مکان لے کر رہ سکے۔

سریش کو بے خوابی کی شکایت دوبارہ شروع ہو گئی۔  بیڈ روم میں چندا کے سو جانے کے بعد بھی، وہ رات دو ڈھائی بجے تک کروٹیں بدلتا رہتا یا کبھی ٹی وی والے کمرے میں جا کر ٹی وی کی آواز بند کر کے کچھ بھی دیکھتا رہتا۔  اس کے نتیجے میں صبح دیر سے بیدار ہوتا اور دن بھراکتایا رہتا۔  دکان کے کاموں میں بھی غلطیاں ہونے لگیں۔  دکان کے مالک نے کچھ دن تو برداشت کیا، پھر سریش کا حساب صاف کر دیا۔  ایک بار پھر سریش بے روزگار ہو گیا۔

اس دن گھر واپس آ کر، جب اس نے کام چھوٹنے کی خبر دی، تو کہرام مچ گیا۔  اُوما دیوی نے گھر سر پر اٹھا لیا اور جو کچھ ہوا، اس کے لیے چندا کو مجرم ٹھہرا دیا۔

دوپہر کو کھانے سے فارغ کر چندا اپنے کمرے میں لیٹی تھی۔  ساس کی تیز آواز سن کر وہ باہر نکلی، تو دیکھا سریش دالان میں موڑھے پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔

اُومادیوی طیش میں بولے جا رہی تھیں، ’’یہ تو ہونا ہی تھا۔  میری تو قسمت ہی پھوٹی ہے، جو ایسی بہو گھر میں آئی۔  ارے آدمی کی مناسب طریقے سے دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، تب آدمی باہر جا کر محنت کر کے چار پیسے کما کر لاتا ہے۔  انہیں اپنے آرام اور شوقوں سے ہی فرصت نہیں۔ ‘‘

چندا نے پوچھا، ’’کیا ہوا ماں جی، کیوں اور کس پر بگڑ رہی ہیں ؟‘‘

پھر سریش سے بولی، ’’آج چھٹی لے لی کیا؟طبیعت گڑبڑ ہے کیا؟‘‘

سریش چپ رہا، اس کی جگہ اُوما دیوی بولیں، ’’چھٹی نہیں لی۔  چھٹی ہو گئی۔  مالک نے نوکری سے نکال دیا۔  اب آرام سے اپنی غلامی کراتی رہنا۔ ‘‘

اُومادیوی کے آخری جملے میں موجود طعنے نے چندا کو غصہ چڑھا دیا۔

بدلے میں ساس کو مجروح کرنے کے لیے وہ بولی، ’’یہ بھی خوب ہے۔  بیٹا خود غلطی کرے تو بھی الزام بہو کو ہی دو۔ ‘‘

ساس کو چوٹ دینے کے چکر میں اس نے شوہر کو بھی مجروح کر دیا تھا۔  وہ اس بات کو فوری طور پر سمجھ بھی گئی تھی، لیکن زبان سے تیر چھوٹ چکا تھا۔  سریش خاموشی سے کھڑا ہوا اور پھر تیز قدموں سے گھر سے باہر نکل گیا۔

………

 

ڈاکٹر رام گپتا، جنہوں نے اپنی ماں دمینتی دیوی کے نام پر دمینتی پبلک اسکول، مختصراً ڈی پی ایس کھولا تھا، بہت اولوالعزم شخص تھے۔  انہوں نے اسکول کے لئے نئی عمارت کھڑی کی تھی اور سارے جدید ساز و سامان اور خصوصیات سے اسے لیس کیا تھا۔  اساتذہ کی بھرتی، انہوں میرٹ اور شخصیت کی بنیاد پر کی تھی۔ اسکول کی فیس زیادہ تھی، تو اساتذہ کی تنخواہ بھی اچھی رکھی تھی۔  کچھ اساتذہ تو شہر کے اور اعلی تعلیم یافتہ مل گئے تھے۔  شہر کے سرکاری انٹرمیڈیٹ کالج کے پرنسپل کو اچھی سیلری دے کر اسکول کا پرنسپل بننے کو راضی کر لیا تھا۔  اسکول کا افتتاح ریاست کے وزیرِ تعلیم نے کیا اور دھوم دھام سے اسکول کی شروعات ہوئی۔  اسکول ابھی آٹھویں کلاس تک ہی رکھا تھا۔  بعد میں اس میں توسیع کا پلان تھا۔

اسکول شروع کرنے کے سے پہلے، شہر کے کچھ ممتاز اور تجربہ کار اساتذہ کو بلا کر، نئے ٹیچروں کو پندرہ دن کی ٹریننگ بھی دی گئی تھی۔ تمام مقامی اسکولوں سے تال میل ملاتے ہوئے، یکم جولائی سے اسکول کا سیشن اسٹارٹ کیا گیا۔  ایڈمشن کا عمل پہلے ہی مکمل کر لیا گیا تھا۔  شروعات کے لئے اسٹوڈنٹس کی تعداد کافی تھی۔

اسکول کے پہلے دن، صبح چندا نے نئی ساڑی پہنی اور تیار ہو کر ماسٹر صاحب اور اُوما دیوی کے پاؤں چھو کر آشیرواد لیا۔  ان دونوں نے اس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھ کر دعا دی۔  سریش بھی وہیں تھا۔  چندا نے تھوڑا لجا کر اس کے بھی پاؤں چھوئے اور ’’ اسکول جا رہی ہوں۔ ‘‘کہتے ہوئے باہر چلی گئی۔  سریش خاموش رہا۔

اُومادیوی بڑبڑائیں، ’’آج کل گھر میں کس کا من لگتا ہے ؟باہر نکلنے کا بہانہ چاہیے۔ ‘‘

ماسٹر صاحب کچھ نہیں بولے۔  اُوما دیوی اٹھکر روزمرہ کے کام کاج میں لگ گئیں۔

………

 

چندا تربیت یافتہ ٹیچر نہیں تھی۔  اسے پانچویں کلاس کو سوشل سائنس اور انگلش پڑھانے کی ذمہ داری ملی۔  شروع کے دنوں میں کلاس میں جانے کے وقت اسے تھوڑی گھبراہٹ ہوتی تھی۔  لیکن جلد ہی پر اعتماد ہو گئی۔  بچے بھی اسے پسند کرنے لگے اوردیگر اسٹاف بھی۔

ارون پانچ فٹ سات انچ کے قد، گوری رنگتا اورپر کشش شخصیت کا حامل ایک نوجوان تھا۔  وہ کانپور کا رہنے والا تھا اور اس نے بی ایس سی اور بی ایڈ کی ڈگریاں لی ہوئی تھیں۔  وہ غیر شادی شدہ تھا اور اُورائی کے رام نگر محلے میں ایک چھوٹا ساکرائے کا مکان لے کر رہ رہا تھا۔  ارون آٹھویں کلاس کو سائنس پڑھاتا تھا۔  وہ کانپورکے ایک کونوونٹ اسکول میں پڑھا تھا، لہذا فراٹے دار انگلش بولتا تھا۔  اسکول انتظامیہ بھی چاہتی تھی کہ اسکول میں طالب علم اور اساتذہ زیادہ تر آپس میں انگلش میں بات چیت کریں۔  چندا اور کچھ دیگر مقامی ٹیچرز انگلش جانتی تو تھیں، مگر لیکن بولنے کی مشق نہیں تھی۔  خالی وقت میں اسٹاف روم میں ارون کبھی کبھی چندا، مالتی اور اشوک جی کو انگریزی بولنا سکھاتا۔  اس کے لیے وہ ہلکے ہلکے انگلش کے سادہ اور آسان جملوں کا استعمال کرتے ہوئے ان سے بات چیت کرتا اور انہیں انگلش میں ہی بات کرنے کے لئے حوصلہ دیتا تھا۔  اس تعاون سے ان لوگوں کی انگلش بولنے میں ہچکچاہٹ دور ہوئی اور انگلش میں بات کرنا تھوڑا آسان ہو گیا تھا۔

چندا اور مالتی دونوں ارون سے امپریسڈ تھیں۔

………

 

گزشتہ چند سالوں میں اُورائی کے ماحول میں کافی تیزی سے تبدیلی آئی۔  موبائل فون اور انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ لوگوں کی معلومات، خواہشوں اور امیدوں، سب میں اضافہ ہوا تھا۔

رشمی اسکول کے نظم و ضبط سے باہر نکل کر، کالج کے نسبتًا کھلے ماحول میں خوش تھی۔  وہ کسی پنچھی کی طرح آسمان میں اڑ رہی تھی۔  کہنے کو تو اس کا کالج اُورائی کا ڈگری کالج تھا، لیکن اس کا ماحول کسی بڑے شہر کے کالج سے کم نہ تھا۔

کالج میں کوایجو کیشن تھی۔  طلبہ اور طالبات جدید لباس میں گھومتے، آپس میں کھل کر ملتے جلتے اور ہنسی مذاق کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔  تعلیم سے الگ، کھیل کود کے علاوہ دیگر جلسے اور تقریبیں بھی بڑھ گئی تھیں۔  مہنگے موبائل فون، موٹر سائیکل، فیشن ایبل ملبوسات کے علاوہ لڑکیوں کے لئے بوائے فرینڈ اور لڑکوں کے لئے گرل فرینڈ رکھنا اسٹیٹس سمبل تھا۔  ایسا سب کے لئے نہیں تھا، لیکن بہت سے طلبہ وطالبات کی ایسی ہی سوچ تھی۔

پہلی بار رشمی نے وکرم کو کالج کے یوم تاسیس پر منعقدہ کلچرل پروگرام والی شام دیکھا اور سنا تھا۔  وہ لمبا، چوڑے سینے والا، ہلکی بے ترتیب سی بڑھی ہوئی داڑھی مونچھیں والا اورمسکراتے چہرے والا لڑکا، اس پر جیسے جادو کر گیا تھا۔  اس نے گلوکار ابھی جیت کا گایا ہوا ایک رومینٹک گانا گایا تھا۔  وہ پروگرام میں اگلی قطار میں بیٹھی تھی۔  گاتے ہوئے اس کی نظریں رشمی سے ملیں۔  اس کے بعد رشمی کو کو لگا کہ وہ گانا جیسے، اسی کے لیے گا رہا تھا۔  وہ اسٹیج پر اس کے اوپر پڑنے والی رنگین روشنی میں چمکیلی سرخ شرٹ اور سرخ چمڑے کی پتلون میں کسی ہیرو سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

بعد میں رشمی کو معلوم ہوا کہ وہ مقامی ممبر اسمبلی جتندر سنگھ کا بیٹا ہے اور بی اے سال دوم کا طالب علم ہے۔  ممبر اسمبلی کا نام سن کر رشمی نے وکرم کی ایک مختلف شبیہ اپنے دل میں بنا لی۔  جو اچھی نہیں تھی۔  لیکن جلد ہی وہ شبیہ غلط ثابت ہوئی۔  تھوڑے دن بعد کالج کرکٹ ٹیم اور دوسرے کھیلوں کی ٹیموں کے لئے انتخاب کا عمل شروع ہوا۔  تو پتہ چلا وہ کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی تھا اور اس کا ٹیم میں انتخاب ہو گیا۔

رشمی باسکٹ بال اچھا کھیلتی تھی۔  اس کا انتخاب کالج باسکٹ بال ٹیم میں ہو گیا۔  منتخب کھلاڑیوں کی لسٹ نوٹس بورڈ پر لگی تھی۔  وہیں فہرست دیکھتے ہوئے رشمی اور وکرم کا آمنا سامنا ہو گیا۔  ان دونوں نے گراؤنڈ میں ایک دوسرے کو کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔

وکرم نے پہل کی، ’’کونگریٹس فار دی سیلیکشن، میرا نام وکرم ہے۔  آپ واقعی بہت اچھا کھیلتی ہیں۔ ‘‘

’’تھینکس، میرا نام رشمی ہے اور میں آپ کو جانتی ہوں۔  آپ تو گانا بھی اچھا گاتے ہے اور کرکٹ بھی اچھا کھیلتے ہیں۔  حیرت انگیز۔ ‘‘ رشمی نے کھلے دل سے وکرم کی تعریف کی۔

تبھی گھنٹی بجی اور وہ ایک دوسرے کو بائی کہہ کر اپنی اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئے۔

………

 

رشمی کا کالج، چندر شیکھر آزاد ڈگری کالج، بندیل کھنڈ یونیورسٹی کے تحت آتا تھا۔  کچھ دنوں بعد یونیورسٹی کے تمام کالجوں کے مشترکہ سرمائی کھیل جھانسی میں ہونے والے تھے۔  کالج گراؤنڈ میں کھیلوں کی پریکٹس چل رہی تھی۔  کچھ کھلاڑی صبح آ کر پریکٹس کرتے اور کچھ کالج کے وقت کے بعد۔

رشمی نے والدین سے جھانسی جانے کی اجازت مانگی، تو ماسٹر صاحب نے فوراً ہاں کر دی۔  ماں اُوما دیوی کو کچھ ترددضرور تھا۔  انہیں تھوڑا منانا پڑا۔  اس میں چندا نے رشمی کا ساتھ دیا اور آخر کار ماں بھی مان گئیں۔  چندا نے رشمی کو نئے اسپورٹ شوز بھی دلوائے۔  رشمی اور چندا اب کافی قریب آ گئی تھیں۔

جس دن کھلاڑیوں کو جھانسی جانا تھا، اس دن سب کو صبح چھ بجے کالج میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا تھا۔  وہیں سے ایک خصوصی بس سے انہیں جھانسی جانا تھا۔

اس دن اُوما دیوی نے امیت کو رشمی کو کالج چھوڑنے بھیجا۔  امیت اور رشمی رکشے سے کالج گئے۔  امیت کھلاڑیوں کی بس روانہ ہونے کے بعد گھر لوٹ آیا۔

سریش اپنے آپ میں کھویا ہوا تھا۔  جیسے اسے دین و دنیا کی کوئی خبر نہ تھی۔  چندا اس کو بھی رشمی کے پروگرام کے بارے میں بتا چکی تھی، لیکن شاید وہ بھول چکا تھا۔  شام کو اس نے ماں سے سوال کیا، ’’ رشمی کالج سے ابھی نہیں آئی کیا؟‘‘

اُومادیوی نے جھڑکتے ہوئے کہا، ’’ تُو کوئی نشہ کرنے لگا ہے کیا؟گھر میں سب کو معلوم ہے کہ رشمی جھانسی گئی ہے اور دو تین دن بعد لوٹے گی۔ ‘‘

’’کس لیے گئی ہے ؟‘‘سریش کا اگلا سوال تھا۔

’’تمہارا سر، چندا سے پوچھو اور میرا سر مت کھاؤ۔ ‘‘ اُومادیوی نے چڑ کر کہا۔

سریش خاموشی سے چندا کے پاس چلا گیا۔

………

 

یونیورسٹی کے کھیلوں میں چندر شیکھر آزاد کالج کو چمپئن شپ ملی۔  رشمی اور وکرم کو اپنے اپنے کھیل میں خصوصی شرکت کے لئے خصوصی تعریفی اسناد اور انعامات حاصل ہوئے۔  واپسی پر کالج کے پرنسپل نے سبھی کھلاڑیوں کا خاص سمان کیا۔

رشمی اور وکرم کا کھیلوں کے دوران ہوا تعارف، دوستی میں تبدیل ہو گیا۔  اب دونوں اکثر کالج کے گراؤنڈ میں ادھر ادھر ہنستے مسکراتے، بات چیت کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔

رشمی کی سہیلیاں چہل کرنے لگیں کہ اسے آخرکار ایک بوائے فرینڈ مل ہی گیا۔  وکرم کے دوست بھی وکرم کو رشمی کا نام لے کر چھیڑتے تو وہ مسکرا دیتا اور پوچھتا، ’’اس میں کوئی عجوبہ ہے کیا؟‘‘

رشمی کی ایک سہیلی دیپا نے ضرور ہدایت دی، ’’وکرم ایم ایل اے کا بیٹا ہے۔  سوچ سمجھ کر دوستی کرنا۔ ‘‘

رشمی چڑ گئی، ’’میری چھوڑ، تو اپنا بوائے فرینڈسنبھال۔ ‘‘

دیپا جھینپ کے بولی، ’’میں نے تو یوں ہی کہا تھا۔  دیکھ وہ آ رہا ہے۔  میں چلتی ہوں۔ ‘‘

سامنے سے سنیل، نیلی ہیرو ہونڈا موٹر سائیکل پر آ رہا تھا۔  دیپا آگے بڑھی، وہ اس کے قریب رکا اور پھردونوں موٹر سائیکل پر سوار، کالج سے باہر نکل گئے۔  یہ دیکھ کر رشمی کو ایک رومانٹک سا احساس ہوا۔

اسے معلوم تھا وکرم بُلٹ سے کالج آتا ہے۔

رشمی زیادہ تر بس سے کالج آتی جاتی تھی، لیکن اس دن بسوں کی ہڑتال تھی۔  کلاسس ختم ہونے کے بعد رشمی گیٹ کے باہر کسی سائیکل رکشہ یا آٹو رکشہ ملنے کا انتظار کر رہی تھی، تبھی وکرم اپنی بلٹ موٹر سائیکل پر اس کے پاس آیا اور بولا، ’’کیا میں کہیں چھوڑ دوں ؟‘‘

رشمی کو ہچکچاہٹ ہو رہی تھی اور دل ہاں کہنے کو تیار تھا۔

’’رہنے دیجیے، آپ کوالٹا پڑے گا۔ ‘‘

’’اچھا آئیے، آپ کو آدھے راستے تک چھوڑ دیتے ہیں، وہاں سے آپ رکشا کر لیجیے گا۔  بسوں کی ہڑتال کی وجہ سے رکشے بھی کم ہیں۔ ‘‘

رشمی کچھ سوچ میں پڑ گئی۔

’’کیا سوچ رہی ہیں آپ ؟، میں ایک شریف آدمی ہوں۔ ‘‘ کہتے ہوئے وکرم پر کشش انداز سے مسکرایا۔

رشمی کو اس کی اس بات پر ہنسی آ گئی۔  وہ موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھ گئی اور بولی، ’’ٹھیک ہے آئیے۔ ‘‘

بلٹ نے دھڑ دھڑ کرتے ہوئے رفتار پکڑی، تو رشمی کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی اور ڈر کے مارے اس نے وکرم کا کندھا پکڑ لیا اور بولی، ’’آہستہ چلائیے پلیز۔ ‘‘

وکرم نے موٹر سائیکل کی رفتار کم کر دی۔

کالج سے تھوڑا دور جا کر ٹریفک بڑھ گیا۔  کچھ جگہوں پر وکرم کو اچانک بریک لگانا پڑے۔  اس طرح بریک لگانے پر رشمی، وکرم کی طرف جھک جاتی پھرجلدی سے خود کوسنبھال لیتی۔

رشمی کے گھر سے تھوڑا پہلے وکرم نے موٹر سائیکل سڑک کے کنارے روک دی۔  اور رشمی سے پوچھا، ’’کیا گھر تک چھوڑ دوں ؟‘‘

’’نہیں۔  یہاں سے بہت قریب ہے۔  میں پیدل چلی جاؤں گی۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ موٹر سائیکل سے اتر کر پیدل اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔  اور وکرم اپنے گھر کی طرف نکل گیا۔

رشمی کا اس بات پر دھیان نہیں گیا تھا۔  جس موڑ پر وہ موٹر سائیکل سے اتری تھی، وہاں ایک طرف سریش کھڑا تھا۔  جو بعد میں اس کے پیچھے گھر پہنچا۔

ویسے سریش کو کسی سے کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا تھا، کیونکہ بے روزگاری اور ماں کے روز کے طعنے سنتے سنتے اس کو لگتا تھا کہ گھر میں اس کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ عزت۔  چندا اس کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔  پھر بھی کبھی کبھی اس سے بھی بات بے بات جھگڑا کر بیٹھتا۔

اچانک سریش کو اس دن اس کے بڑے بھائی ہونے کا فرض یاد آ گیا۔  گھر پہنچتے ہی اس نے سب کے سامنے رشمی سے پوچھا، ’’وہ آدمی کون تھا؟‘‘

’’کون آدمی بھیا؟‘‘ رشمی نے چونک کر سوال کیا۔  حالانکہ وہ سمجھ گئی تھی۔

’’جس کے ساتھ تم موٹر سائیکل پر بیٹھی تھیں۔ ‘‘ سریش نے کہا۔

اب ماسٹر صاحب اور اُوما دیوی نے چونک کر سوالیہ نظروں سے رشمی کو دیکھا۔

’’وہ وکرم تھا، آج بس کی ہڑتال تھی، سو اس نے تھوڑی دور تک اپنی موٹر سائیکل پر لفٹ دے دی۔ ‘‘

اُومادیوی نے اس وقت رشمی سے توکچھ نہیں کہا۔  الٹی سریش کو کوسنا شروع کر دیا، ’’چھوٹے بھائی بہن کے لئے کرنا ڈھیلا نہیں۔  بیٹھ کر دو بول بولنا نہیں۔  شکایت لے کے آ گئے۔  ارے ضرورت پڑنے پر کسی بھلے کلاس فیلو کی مدد لے لی، تو کیا ہو گیا۔  تو اپنی بی بی کوسنبھال۔  میرے بچوں کو بخش دے۔ ‘‘

چندا اپنے کمرے میں تھی۔  اسے سب سنائی دے رہا تھا۔  کبھی کبھی وہ سوچتی کوئی ماں اپنے بیٹے سے اتنا سوتیلا رویہ کس طرح کر سکتی ہے۔  وہ کمرے سے باہر آ کر بولی، ’’ماں جی اگر انہوں نے بڑے بھائی ہونے کے ناطے پوچھ لیا تو کیا برا کیا۔ ‘‘

اُومادیوی نے تیوریاں چڑھا کر کہا، ’’اب تم میرے بیٹے کو میرے خلاف بھڑکاؤ۔  میں بھی تو کچھ ہونے کے ناطے ہی بول رہیں ہوں۔ ‘‘

چندا بحث کے موڈ میں نہیں تھی، اس لئے وہاں نہیں رکی اور واپس کمرے میں چلی گئی۔  اس کے پیچھے سریش بھی ہو لیا۔

………

 

چندا کو نوکری کرتے ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔  اس نے اپنی گرہستی مناسب طریقے سے جمالی تھی۔  گھرکو بھی اس سے مدد ملتی تھی۔  اُوما دیوی کے مزاج میں چندا کے تئیں تھوڑی نرمی آئی تھی، لیکن ساس کے عہدے کے حقوق خوب یاد رہتے اور موقع ملتے ہی جتا دیتیں۔  چندا بڑوں کی عزت کرتی تھی لیکن کسی کے دباؤ میں نہیں رہ سکتی تھی۔  سریش کے لئے اُوما دیوی کا رویہ بد سے بدتر ہو چکا تھا۔  سریش خود میں کچھ اور سمٹ گیا تھا۔

پہلے اُوما دیوی کبھی کبھی چندا سے بچے کے لئے کہتی تھیں، لیکن اب چندا خود اس بارے میں فکر مند تھی۔  گزشتہ ایک سال سے چاہنے کے باوجود وہ حاملہ نہیں ہو پائی تھی۔  چندا کی ماں نے اسے ڈاکٹر ودیا سے ملنے کو کہا۔

ڈاکٹر ودیا، اُورائی کی سب سے قابل لیڈیز ڈاکٹر مانی جاتی تھیں۔  ایک دن وقت نکال کر وہ ڈاکٹر ودیا سے ملی۔  انہوں اس کا چیک اپ کیا، کچھ ٹیسٹ لکھے اور شوہر کو بھی ساتھ لانے کو کہا۔  بہت سے مردوں کے لئے مردانہ بانجھ پن کو سمجھنا اور قبول بہت مشکل ہوتا ہے۔  معاشرے میں بھی بہت سے لوگ اولاد نہ ہونے پر عورت کو بانجھ کا نام دے دیتے ہیں۔  وہ یہ نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے کہ کوئی کمی مرد میں بھی ہو سکتی ہے۔

چندا نے جب سریش سے ڈاکٹر کے پاس چلنے کو کہا، تو اس کا بھی پہلا سوال تھا، ’’میں تو ٹھیک ہوں، مجھے کس لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ؟‘‘

لیکن چندا نے بڑی مشکل سے کسی طرح سریش کو ڈاکٹر ودیا کے کلینک پر ساتھ چلنے کو راضی کر ہی کیا۔

ڈاکٹر ودیا نے ان دونوں سے کچھ سوال پوچھے اور دونوں کے لئے کچھ ٹیسٹ لکھ دیے اور رپورٹ ملنے پر دکھانے کو کہا۔

ٹیسٹ کی رپورٹ ملنے پر وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔  رپورٹس سے معلوم ہوا کہ چندا نارمل تھی اور سریش میں جزوی کمی تھی، جسے علاج کی ضرورت تھی۔  بات عام ہی تھی۔  لیکن سریش کیلئے پریشان کرنے والی تھی۔  چندا نے اپنی معلومات سے مسئلے کا حل سریش کو سمجھایا۔  لیکن سریش اپنی جزوی کمی کو اپنی مردانگی کی وجہ سے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔  کچھ دن اس نے ڈاکٹر ودیا کی لکھی ہوئی دوائیں لیں، پھر ٹال مٹول کرنے لگا۔  اس کی پھر یہی رٹ تھی کہ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو دوا کیوں لے ؟

………

 

بے روزگاری، ماں کی بے اعتنائی اور طعنے اور اس پر یہ اس کی مردانگی پر لگا نیا سوالیہ نشان، ان سبھی نے سریش کو پیس ڈالا تھا۔  ایک دن صبح وہ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلا۔  تھوڑی دور ہی گیا ہو گا کہ اسے لگا کہ راستے میں ملنے والا ہر شخص اسے ہی گھور رہا ہے۔  اس کے پیٹ میں اچانک درد اٹھا اور سر چکرایا تو وہ سڑک کنارے ایک مکان کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔

کچھ وقفے کے بعد تھوڑا سا آرام محسوس ہونے پر، وہ گھرواپس آ کر اپنے کمرے میں لیٹ گیا۔  چندا اسکول جا چکی تھی۔  وہ دوپہر تک یوں ہی لیٹا رہا۔  دوپہر کو ماں نے کھانے کے لیے آواز دی، تو کسی طرح اٹھ کر کھانے کی میز تک آیا۔  ماسٹر صاحب بھی ساتھ میں کھانے بیٹھے۔  بیٹے کی اتری ہوئی شکل دیکھ کر پوچھا، ’’کیا بات ہے ؟طبیعت ٹھیک نہیں کیا؟‘‘

’’صبح سے پیٹ میں درد ہے، کچھ تھکاوٹ اور کمزوری سی بھی محسوس ہو رہی ہے۔ ‘‘

’’بازار میں کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہو گا اور ایسا کون سا پہاڑ توڑا ہے، جو کمزوری لگ رہی ہے۔ ‘‘ اُومادیوی نے عادتاً طعنہ کسا۔

لیکن انہوں دیکھا کہ سریش واقعی بیمار نظر آ رہا تھا۔  ان میں تھوڑی ممتا بیدار ہوئی، بولیں، ’’کھانے بعد ایک گلاس ہلدی ڈال کے گرم دودھ دیتی ہوں، پی لینا۔ ‘‘

اُومادیوی نے باپ بیٹے کو کھانا پروس دیا اور کچن میں چلی گئیں۔  تھوڑی دیر بعد وہ دودھ کا گلاس لے کر آئیں اور سریش کے پاس رکھ کر چلی گئیں۔  ماسٹر صاحب کھا پی کر ڈرائنگ روم میں چلے گئے اور سریش اپنے کمرے میں۔

شام کو اسکول سے لوٹ کر چندا آئی تو سریش کمرے میں سویا ہوا تھا۔

………

 

ایک دو دن بعد سریش ٹھیک محسوس کرنے لگا اور اس کا دن بھر بیکار بازار، گلیوں میں بھٹکنا شروع ہو گیا۔  پہلے وہ کام کی تلاش میں گھومتا تھا، اب تو جیسے اس کی خود اعتمادی ختم سی ہو گئی تھی۔  چندا کی طرف بھی وہ لاتعلق رہنے لگا۔  پہلے اس کو بیوی سے پیسے مانگنے میں ہچکچاہٹ محسوس تھی۔  اب اسے جب ضرورت ہوتی پیسے مانگ لیتا۔

چندا اس کا برا نہیں مانتی تھی۔  وہ اس کی بے حسی سے فکر مند تھی۔  وہ اس سے کام دھندا کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہتی، لیکن کبھی کبھی ایک صحت مند معمول اپنانے کو ضرور کہتی اور اس کی اپنے لئے پیدا ہوئی بے حسی دور کرنے کی کوشش کرتی۔  ایک آدھ بار دبے الفاظ میں اس نے اسے کسی نفسیاتی ڈاکٹرسے ملنے کا مشورہ دیا، تو وہ بھڑک گیا۔  چندا نے کسی طرح اسے پرسکون کیا۔  اس نے اُوما دیوی سے بات کی تو وہ بھی بھڑک گئیں۔  ماسٹر صاحب نے بے بسی ظاہر کی۔  بولے، ’’جانا چاہے تو نہ، اب میں اس گھسیٹ کے تو لے جا نہیں سکتا۔ ‘‘

چندا بولی، ’’آپ ان سے کہئے تو سہی شاید بات مان لیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے میں بولوں گا۔ ‘‘ ہری لال جی نے کہا۔

انہوں نے بولا بھی، لیکن سریش نے چپ چاپ بات سن لی اور بغیر کوئی جواب دیئے چلتا بنا۔

………

 

ڈی پی ایس اسکول کو دسویں کلاس تک کی منظوری مل گئی تھی۔  اس خوشی میں اسکول طلباء کو ہاف ٹائم میں ہی چھٹی دے کر، مینجمنٹ نے لنچ ٹائم میں عملے کے لئے اسکول میں ہی ایک پارٹی منعقد کی تھی۔  ہال میں بوفے لگایا گیا تھا اور بیٹھنے کا اہتمام کیا گیا تھا تھا۔  ڈاکٹر گپتا اورمینجمنٹ کے دیگر رکن اور اسکول کا سارا اسٹاف پارٹی میں تھا۔

شروعات میں ڈاکٹر گپتا نے خطاب کیا، جس میں انہوں نے سب کا خیر مقدم کیا اور اسکول کو ملی منظوری کیلئے مبارک باد دی۔  پھر سب کو پارٹی سے لطف اندوزہونے کو کہا۔  پارٹی میں تقریباً ًچالیس لوگ تھے۔  سب لوگ ایک قطار میں بوفے سے پلیٹ میں کھانا لے کر کھانے لگے۔  کچھ لوگ کھڑے کھڑے ہی باتیں کرتے ہوئے کھا رہے تھے۔  کچھ لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

چندا اور مالتی پاس پاس رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔

چندا کا دھیان ارون کی طرف گیا۔  اس نے نیلی پینٹ اور نیلی سفید پتلی دھاریوں والی آدھے بازو کی شرٹ پہنی تھی۔  وہ ڈاکٹر گپتا کے پاس بیٹھ کر کچھ بات کرتے ہوئے کھانا کھا رہا تھا۔

ارون اچھا لگ رہا تھا اور جس اعتماد کے ساتھ وہ ڈاکٹر گپتا سے گفتگو کر رہا تھا، اس سے بھی چندا متاثر ہوئی۔  اچانک سے ایک شرارتی خیال اس کے دل میں آیا کہ اس کی اگر ارون سے شادی ہوئی ہوتی۔  سوچ کر وہ دل ہی دل مسکرائی، پھر سنجیدہ ہو گئی۔  وہ سوچنے لگی کہ کاش سریش میں ارون کی طرح کچھ خصوصیات ہوتیں۔  اسے ان خیالوں سے تھوڑا گلٹ محسوس ہوا، تو اس نے سر جھٹک کر اپنی توجہ ارون سے ہٹا دی اور مالتی سے باتیں چھیڑ دیں۔

ڈاکٹر گپتا سے تھوڑی دیر بات کر کے ارون اٹھ گیا اور دیگر لوگوں سے ہیلو ہائے کرتا ہوا چندا اور مالتی کے پاس آ گیا اورمسکراتے ہوئے بولا، ’’آؤ آر یو چندا اینڈ مالتی؟ آپ دونوں کا نام تو چندا اورچکوری ہونا چاہیے۔ ‘‘

مالتی بولی، ’’وی آر فائن تھینک یو، پر میرا نام کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ؟‘‘

’’آپ لوگ ہر وقت ساتھ جو نظر آتی ہیں۔  آپ لوگوں کے کلوز گروپ میں میرے لئے کوئی جگہ ہے ؟ آئی مین کین آئی سٹ ہئیر فار سم ٹائم ؟‘‘ارون نے پاس رکھی ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔

اب چندا بولی، ’’ہاں ہاں بیٹھیے۔ ‘‘

ارون کرسی تھوڑا قریب کھینچ کر بیٹھ گیا۔

’’آپ گپتا سر سے کیا باتیں کر رہے تھے ؟‘‘ چندا اپنی بیتابی دبا نہیں پائی۔

ارون ان کی طرف جھک کر دھیمی آواز میں پراسرار انداز میں بولا، ’’وہ میری پسند، نہ پسند اور فیملی بیک گراؤنڈکے بارے میں پوچھ رہے تھے۔  شاید وہ اپنی بیٹی سے میری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ‘‘کہنے کے بعد وہ ہنس پڑا۔  ہنستے ہوئے وہ اور بھی پر کشش لگتا تھا۔

یہ سن کر مالتی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔  اس کا رد عمل دیکھ کر چندا ہنس پڑی۔  ارون نے محسوس کیا کہ ہنستے ہوئے چندا کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔  وہ چندا کے چہرے کو قریب سے دیکھتا رہا۔

چندا مالتی سے بولی، ’’تو کتنی بھولی ہے۔  ارون مذاق کر رہا ہے۔  ہم سب کو پتہ ہے کہ ڈاکٹر گپتا کی ایک ہی بیٹی ہے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ میں رہتی ہے۔ ‘‘

ارون بھی ہنسا اور بولا، ’’سوری، میں مذاق کر رہا تھا۔  وہ اسکول کی ترقی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ کہہ رہے تھے اس موضوع میں کسی کے پاس کوئی تجویز ہو تو ان سے شئیر کر سکتا ہے۔ ‘‘

تھوڑی دیر باتیں کر کے وہ اٹھا اور اپنے دوسرے کولیگس کے پاس چلا گیا۔

پارٹی کے بعد چندا اور مالتی جب اسکول کے گیٹ سے باہر نکلیں، تو ایک پیلے رنگ کا نئی چمچماتی نینو کار ان کے قریب آ کر رکی۔  دونوں ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئیں۔  ڈرائیونگ سیٹ پر موجود ارون نے ہاتھ ہلایا اور آواز دی، ’’آئیں آج میں آپ لوگوں کو ڈراپ کر دیتا ہوں۔ ‘‘

پہلے وہ دونوں جھجھکیں لیکن اس نے دوبارہ زور دے کر کہا تو دونوں گاڑی میں پیچھے بیٹھ گئیں۔  ارون نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا، ’’چلیں ؟‘‘

چندا نے کار کا دروازہ لاک کر کے کہا، ’’او کے۔ ‘‘ ارون نے کار آگے بڑھا دی۔

پہلے مالتی کا گھر پڑتا تھا۔  لہذا ارون نے پہلے مالتی کو اس کے گھر چھوڑا، پھر چندا کو اس کے گھر۔  چندا نے اسے گھر اندر آنے اور چائے پی کر جانے کو کہا لیکن وہ ’’پھر کبھی ’’ کہہ کر چلا گیا۔

چندا نے گھر کی بیل بجائی، رشمی نے دروازہ کھولا۔  چندا، رشمی کو دیکھ کر مسکرائی۔

’’بھابھی آج جلدی آ گئیں کیا؟‘‘ رشمی نے پوچھا۔

’’آج جلدی چھٹی ہو گئی۔ ‘‘کہہ کر چندا اپنے کمرے میں چلی گئی۔

………

 

رات کو بستر پر کروٹیں بدلتے سریش اور چندا ایک دوسرے سے انجان، ایک ہی شخص کے بارے میں سوچ رہے تھے اور وہ تھا ارون۔

چندا سوچ رہی تھی، ’’وہ لڑکی کتنی خوش قسمت ہو گی، جس سے ارون شادی کرے گا۔ ‘‘

سریش یہ سوچ کر پریشان تھا کہ وہ چندا سے پوچھے یا نہ پوچھے یا کس طرح پوچھے کہ اس دن کون اسے کار سے گھر چھوڑنے آیا تھا۔ اتفاقاً سریش نے راستے میں اسے کار سے آتے دیکھ لیا تھا۔  وہ طرح طرح کی باتیں سوچ کر، دل ہی دل میں جلتا رہا، مگر چندا سے کچھ پوچھنے کی اس کی ہمت نہیں ہوئی۔  چندا سو بھی گئی، لیکن سریش جاگتا رہا۔

رات گئے چندا کی اچانک نیند ٹوٹی۔  اس کا گلا پیاس سے خشک رہا تھا۔  اس نے دیکھا سریش جاگ رہا تھا۔

’’کیا ہوا؟ ابھی تک سوئے نہیں ؟‘‘ چندا نے سوال کیا۔

سریش نے کہا، ’’ایسے ہی، نیند نہیں آئی۔  چندا نے سرہانے موجود تپائی پر رکھا پانی کا جگ اور گلاس اٹھایا۔ ‘‘پانی چاہیئے ؟‘‘ اس نے سریش سے پوچھا۔  سریش کے منع کرنے پر اس نے خود پانی پیا اور لیٹ گئی۔  چندا نے سریش کی جانب کروٹ بدل کر پوچھا، ‘کوئی پریشانی ہے ؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ سریش کا جواب مختصر تھا۔

چندا نے اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا، ’’طبیعت ٹھیک ہے نہ؟‘‘

چندا کی نرم ہتھیلی کا لمس اسے اچھا لگا۔  اس نے چندا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور بولا، ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

چندا اس کے تھوڑا اور قریب کھسک آئی اور بولی، ’’کئی دنوں سے تم مجھ سے دور کیوں رہتے ہو؟‘‘

سریش نے چندا کی جانب کروٹ بدل کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا، ’’نہیں تو، تم مصروف جو رہتی ہو۔ ‘‘

’’ چندا، سریش کے سینے میں سر چھپاتے ہوئے پھسپھسائی۔ ‘‘ اتنی بھی مصروف نہیں ہوں۔ ‘‘

صبح سریش جب بیدار ہوا چندا اسکول جا چکی تھی۔  وہ نڈھال سا اٹھا اور تھوڑی دیر پلنگ پر ہی بیٹھا رہا۔  بہت دنوں بعد وہ وہ اتنے گھنٹے مسلسل سویا تھا، لیکن سر پھر بھی بھاری تھا۔  اس کے سامنے پہاڑ سا دن ایک مشکل سوال سا منہ دبائے کھڑا تھا۔  گھر میں رہنے کا مطلب، ماں کی گالیاں اور طعنے سننا۔  ماسٹر صاحب بھی کبھی ٹوک دیتے، ’’خالی بیٹھے تمہارا دل کس طرح لگتا ہے ؟‘‘

سریش روز کی طرح تیار ہو کر سب کی نظر بچا کر باہر جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کچن سے ماں کی آواز آئی، ’’چائے ناشتہ کر کے جا۔  معلوم ہے بہت ضروری کام سے جا رہا ہے۔ ‘‘

رشمی اور امیت اپنے کالج جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے، ہنس پڑے۔

سریش نے چڑ کر پوچھا، ’’کس بات پر ہنس رہے ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں بھیا ایسے ہی۔ ‘‘

جلدی سے چائے ناشتہ کر کے سریش گھر سے ایسے بھاگا، جیسے جیل سے چھوٹا قیدی۔  پڑوس سے بھی ہو سر جھکائے، تیزی سے نکل جاتا کہ کہیں کوئی پوچھ نہ لے، ’’آج کل کیا کر رہے ہو؟‘‘

آج وہ ٹہلتا ہوا، اس دکان پر پہنچ گیا جس پر وہ کام کرتا تھا۔  دل ہی دل وہ چاہ رہا تھا کہ سیٹھ اسے کام پر رکھ لے، لیکن خود سے اس بارے میں بات کرنے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔  اس کے ساتھ کام کرنے والا رمیش اور ایک انجان نوجوان دکان پر گاہکوں کو نمٹا رہے تھے۔  سیٹھ بل بنا کر پیسے لے رہا تھا۔  سریش ایک طرف کھڑا ہو گیا۔  جب گاہک چلے گئے تو رمیش نے سریش کو بلایا۔  سیٹھ کا دھیان بھی اس کی طرف گیا۔

’’کیسے ہو سریش؟ کہاں کام کر رہے ہو آج کل؟‘‘سیٹھ نے پوچھا۔

’’فارغ ہوں۔ ‘‘

’’میں نے غصے میں تمہیں ہٹا دیا تھا۔  پھر تم دوبارہ لوٹ کر آئے ہی نہیں۔  میں نے تھوڑے دن بعد تمہاری جگہ برجو کو رکھ لیا۔  ان دونوں کو بھی کئی بار ڈانٹ دیتا ہوں، چلے جانے کو کہتا ہوں، لیکن یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑتے۔  نوکری ایسے ہی کی جاتی ہے۔ ‘‘سیٹھ نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔

سریش چپ رہا۔

وہ آگے بولا، ’’تم ٹھہرے پرانے آدمی۔  اب تو سنا ہے تمہاری بی بی انگریزی اسکول میں پڑھاتی ہے۔  اچھے پیسے ملتے ہوں گے۔  لیکن ٹاٹا اور امبانی جن کے پاس بے شمار جائیدادیں ہیں، وہ بھی کام کرتے ہیں۔  بیکار آدمی کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔  اور تو اور گھر کے لوگ یہاں تک بیوی بھی عزت نہیں دیتی۔  ماسٹر صاحب تو سیدھے سادے آدمی ہے، شایدتم کو کچھ نہ کہیں، پر بیوی کتنے دن برداشت کرتی ہے، سو یہ دیکھنے والی بات ہے۔ ‘‘

رمیش نے سیٹھ سے دس منٹ کی رخصت مانگی اور سریش کو پاس میں ہی ایک چائے کی دکان پر لے گیا۔  رمیش نے دو خصوصی چائے بنوائیں اور دونوں چائے پیتے پیتے باتیں کرنے لگے۔

سریش نے تہذیب نبھاتے ہوئے، رمیش کے گھروالوں کے حال چال پوچھے۔

رمیش کچھ جھجکتے ہوئے بولا، ’’میں تو تم سے کم پڑھا لکھا ہوں، لیکن شاید سیٹھ جی ٹھیک کہہ رہے تھے۔  بھابھی جی کو اسکول سے کار لینے چھوڑنے آتی ہے کیا؟‘‘

سریش نے پوچھا۔ ‘‘کیوں۔ ‘‘

’’بھابھی جی کو ایک دو بار گاڑی میں آتے جاتے دیکھا تو مجھے لگا۔  بڑے شہروں میں جیسے کمپنی والے عملے کے لئے گاڑی دیتے ہیں، شاید نئے اسکول والوں نے کچھ سہولت دی ہو۔ ‘‘

سریش سمجھ گیا تھا کہ رمیش کس کار کی بات کر رہا تھا، پھر اس نے لاعلمی ظاہر کی، بولا، ’’مجھے معلوم نہیں، ہو سکتا حال ہی میں کچھ انتظام کیا ہو۔ ‘‘

چائے پی کر دونوں نے ایک دوسرے سے رخصت لی۔  رمیش واپس دکان پر چلا گیا۔  سریش شہر کے باہر بنے بھولے ناتھ کے مندر کی طرف چل دیا۔

………

اسی دن اسکول میں چندا کی اونچی ایڑی کی سینڈل کسی طرح مڑ گئی اور اس کے پاؤں میں ہلکی سی موچ آ گئی۔  اسکول کی چھٹی کے وقت ارون نے اسے تھوڑا لنگڑا کر چلتے دیکھا، تو گاڑی میں لفٹ دینے کو کہا۔  وہ انکار نہیں کر پائی۔  وہ اس کے ساتھ اکیلی تھی، سو اس نے آگے بیٹھنا ٹھیک سمجھا۔

’’راستے میں کسی ڈاکٹر کو تو نہیں دکھانا ہے ؟‘‘ارون نے پوچھا۔

’’نہیں۔  معمولی سی موچ ہے آئیوڈیکس لگالوں گی۔  آرام کرنے سے کل تک ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ایز یو وش میڈم۔ ‘‘

ارون نے چندا کو سیدھا گھر پر چھوڑ دیا۔  چندا نے گھنٹی بجائی۔  دروازہ کھلا تو وہ چونک گئی۔  سامنے اس کی دونوں بہنیں روپا اور کرن کھڑی تھیں۔  دونوں چندا سے لپٹ گئیں۔

’’ارے تم دونوں ایسے آج اچانک یہاں کیسے ؟‘‘ چندا نے پوچھا۔

’’آپ کی یاد آئی تو آ گئے۔ ‘‘

چندا انہیں اپنے کمرے میں لے گئی۔  اُوما دیوی نے رشمی کے ہاتھوں ناشتا کمرے میں بھجوا دیا۔  تینوں بہنیں کافی دیر تک گپ شپ کرتی رہیں۔  شام کا وقت تھا، اندھیرا گھر آیا تھا۔  چندا نے کمرے کی لائٹ جلادی۔  روپا اور کرن گھر واپس جانے کو آمادہ تھیں۔  چندا نے یہ کہہ کر تھوڑی دیر اور رکنے کو کہا کہ امیت یا سریش میں سے کوئی آ جائے گا تو انہیں چھوڑ آئے گا۔

تبھی سریش کمرے میں آیا۔  وہ غصے میں کس قدر سلگ رہا تھا، کسی کو انداز نہیں تھا۔  روپا اورکرن دونوں ایک ساتھ ہاتھ جوڑ کر بولیں، ’’ نمستے جی جو۔ ‘‘

سریش نے ایک نظر ان پر ڈالی اور خشک لہجے میں جواب دیا، ’’نمستے۔ ‘‘اور پھروہ واپس جانے کے لئے مڑا، تو چندا نے روکا، ’’ ارے کہاں جا رہے ہو؟ اپنی سالیوں سے بات نہیں کرو گے ؟ کتنے دن بعد آئی ہیں۔ ‘‘

’’بات مجھے تم سے کرنا ہے، لیکن تمہاری بہنوں کے سامنے نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘ سریش نے مڑ کر چندا کو گھورتے ہوئے بولا۔

تینوں بہنیں حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئیں۔  سریش کے اندر جلتی شک، حسد اور غصے کی آگ کا اندازہ ان میں سے کسی کو نہیں ہو پایا تھا۔

’’ہم سے کوئی بھول ہوئی جو ناراض ہو جی جو؟‘‘روپا نے پوچھا۔

’’تم لوگوں سے ناراض نہیں ہوں۔ ‘‘

چندا بولی، ’’تو پھر یہاں میں ہی بچی۔  صاف صاف کہئے کیا بات ہے۔ ‘‘

’’آج کل تم کس کے ساتھ گاڑی میں گھومتی ہو؟‘‘سریش نے چندا سے سیدھا سوال کیا۔  اس کی آواز میں تلخی تھی۔

چندا نے بہنوں کے سامنے ذلت محسوس کی۔  اسے بھی غصہ آ گیا۔

’’گھومتی نہیں ہوں، ارون کی گاڑی میں ایک دو بار اسکول سے گھر تک لفٹ لی ہے۔  آج میرے پاؤں میں موچ آ گئی تھی، تو اس نے اپنی گاڑی میں گھر تک چھوڑ دیا۔  ہم لوگ ایک ساتھ کام کرتے ہیں، وقت ضرورت آپس میں مدد لے لی جاتی ہے۔ ‘‘

سریش غصے سے پاگل ہو گیا تھا۔  یہ سب اس کے اندر کئی دنوں سے پک رہا تھا، آج لاوا پھوٹا تھا۔

’’مجھے سب معلوم ہے، کس طرح اس کے پاس بیٹھ کر ہنس ہنس کر باتیں ہوتی ہے۔ ‘‘

روپا اورکرن سے اب برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔  کرن بول پڑی، ’’اس طرح ہماری دیدی کی بے عزتی کرنا، وہ بھی ہمارے سامنے ٹھیک نہیں۔ ‘‘

’’ خود سے تو کچھ ہوتا نہیں۔  سماج کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔  آپ نے ایک سائیکل تک خریدی نہیں۔  آپ تو بیکار رہتے ہیں، زیادہ پرواہ ہے تو دیدی کو پاپا کے اسکوٹر سے چھوڑنے لینے جائیں۔  دیدی ایک تو محنت کریں، آپ اور آپ کے گھر والوں کی خواہشات پوری کرے اور اوپر سے الٹی سیدھی باتیں بھی سنیں، واہ۔ ‘‘

چندا نے اسے روکا، تو وہ خاموش ہوئی۔

لیکن روپا اورکرن پھر وہاں رکی نہیں، وہ اٹھ کر چلی گئیں۔  اس وقت گھر میں کوئی تھا نہیں۔  ماسٹر صاحب شام کی سیر کو گئے تھے۔  اُوما دیوی پاس کے دیوی مندر درشن کے لئے گئی تھی۔  رشمی اور امیت بھی کہیں گئے ہوئے تھے۔

بہنوں کے اس طرح چلے جانے کے بعد چندا کا غصہ بھڑک گیا۔  غصے سے اس کا چہرہ مسخ ہو گیا، جس پر سریش کے لئے حقارت کا احساس واضح تھا۔  اتنا غصہ اسے سریش پر پہلے کبھی نہیں آیا تھا، ’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہنوں کے سامنے ایسی بات کرنے کی، تم کیا سمجھتے ہو شادی کر کے تم کو مجھے ہراساں کرنے کا حق مل گیا، میں تمہاری غلام ہو گئی؟ شوہر کا کوئی بھی فرض آج تک مناسب طریقے سے نبھایا ہے تم نے ؟ میری اپنی سمجھ، پسند نہ پسند نہیں ہو سکتی؟ کس سے بات کرنی ہے کس سے نہیں، اب یہ بھی تم سے پوچھ کے کرنا پڑے گا کیا؟‘‘

چندا بہت دیر تک بڑبڑاتی رہی۔  سریش پلنگ پر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گیا۔  اسے کچھ جواب نہ سوجھا۔

………

 

اس جھگڑے کے ایک دو دن بعد چنداتو پرسکون ہو گئی، لیکن سریش کے ذہن میں پڑی گانٹھ نہ کھل سکی تھی۔  سریش کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنے لگا تھا اور چھوٹے سے چھوٹا کام بھی مشکل لگتا تھا۔  کسی سے نہ کچھ کہتا نہ سنتا۔  صحت بھی ڈھل گئی تھی۔  وہ خود سے بہت ناراض تھا۔  آئینے میں دیکھتا تو اپنی خامیاں ہی دکھائی دیتیں۔  چھوٹا قد، سانولا رنگ، جو سورج میں مسلسل رہنے کی وجہ سے سیاہ نظر آتا، دبلا پتلا جسم اور عام سے نین نقش۔  اس کا دل کہیں بھاگ جانے کو کرتا۔

تقریباً ًدو ماہ گزر گئے تھے۔  ایک دن اسکول میں چندا کی طبیعت کچھ بگڑ گئی۔  اسے متلی اور چکرسے آ رہے تھے۔  اسکول سے چھٹی لے کر مالتی، چندا کو آٹو رکشہ میں بیٹھا کر ڈاکٹر ودیا کے پاس لے گئی۔

ڈاکٹر ودیا نے چندا کا چیک اپ کیا اور خوش خبری سنائی کہ چندا حاملہ ہے۔

مالتی، چندا کو گھر تک چھوڑنے آئی اور اس نے اُوما دیوی کو اس خوشی کی خبر کے بارے میں بتایا۔  گھر میں خوشی کا ماحول چھا گیا۔

شام کو سریش جب گھر لوٹا، تو اُوما دیوی نے اسے پاس بلا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’اب فالتو گھومنا چھوڑ دے اور بہو کی دیکھ بھال کر۔  تو باپ بننے والا ہے۔ ‘‘

سریش کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گئے۔

رات کو اُوما دیوی نے سریش اور چندا کے لیے کھانے کی تھالی کمرے میں ہی بھجوا دی۔  چندا نے شرماتے ہوئے سریش کو مبارک باد دی۔  سریش ہلکا سا مسکرایا۔  دونوں نے بہت دنوں بعد ایک تھالی میں کھانا کھایا۔  کھانا کھا کر دونوں لیٹے، تو چندا جلد ہی گہری نیند میں سو گئی۔

چندا جب صبح سو کر اٹھی تو دیکھا کہ سریش وہاں نہیں تھا۔  اسے حیرت ہوئی، کیونکہ سریش اکثر دیر تک سوتا تھا۔  تبھی اس کا دھیان ڈریسنگ ٹیبل پر گیا۔  شیشے پر ایک کاغذ چسپاں تھا۔  پاس جا کر دیکھا تو اس نے رونا شروع کر دیا۔  اس کاغذ پر بغیر کسی کو مخاطب کئے لکھا تھا، ’’سب لوگ مجھے معاف کریں، میں خود سے، پریشان ہو کر، گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔  مجھے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ کریں۔  گھر میں آنے والے بچے کو پیار۔ ‘‘

چندا کا رو رو کر برا حال تھا۔  ماسٹر صاحب پولیس میں رپورٹ لکھوانے دوڑ گئے۔  تمام رشتہ داروں کو خبر کر دی گئی۔  چندا کے ماں باپ بھاگے ہوئے آئے۔  چندا ان سے لپٹ کر خوب روئی۔  سب نے اس ڈھارس بندھائی کہ سریش جلد لوٹ آئے گا۔

دوسرے دن اخبارات میں سریش کی گمشدگی کا اشتہار چھپا۔  ماسٹر صاحب نے ٹی وی میں بھی اشتہارات دیا۔  اطلاع دینے والے کو مناسب انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔  تمام ممکنہ مقامات پر ماسٹر صاحب اور امیت جا کر آئے۔  یہاں تک کہ ہسپتالوں اور مردہ گھروں میں بھی تلاش کیا۔  لیکن کہیں سے بھی سریش کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

تقریباً سات ماہ بعد چندا نے ایک پیاری سی بیٹی کو جنم دیا، جس کی شکل ہوبہو چندا پر گئی تھی۔  لڑکی کو دیکھ کر اُوما دیوی، چندا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں، ’’اب اس نالائق کا خیال چھوڑ کر اور بیٹی میں من لگا۔  اچھا ہے بیٹی باپ پر نہیں پڑی۔  میں اس کی پرچھائیں بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔  ‘‘

چندا نے کہا، ’’لیکن یہ جب اپنے والد کے بارے پوچھے گی تب؟‘‘

اس سوال کا جواب آسان نہیں تھا۔

اُومادیوی بولیں، ’’بیٹی کی قسمت سے شاید لوٹ ہی آئے۔ ‘‘ اور وہ ننھی گڑیا کو گود میں لے کر دلارکرنے لگی۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل