FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

علامات قیامت

 

 

 

 

               ترجمہ:     مبصرالرحمن قاسمی

نظر ثانی: علاء الدین عین الحق مکی

 

 

 

 

 

 

 

حمدوسلام کے بعد!

 

یوم آخرت اور اس دن کے ثواب و عقاب پر ایمان لانا دین اسلام کا ایک رکن اور اس کی عظیم بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے، اللہ تعالیٰ نے قیامت کی علامتیں مقرر فرما دی ہے جن سے قرب قیامت کا اندازہ ہوتا ہے، آپﷺ قیامت کے احوال کو بڑے اہتمام سے بیان فرمایا کرتے تھے، جب آپﷺ قیامت کا ذکر کرتے تو آپ کے رخسار سرخ ہو جاتے، آواز بلند ہو جاتی اور غصہ بڑھ جاتا تھا، حضرت حذیفہ کہتے ہیں صحابہ ؓ قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، آپﷺ نے ہم سےپوچھا: کس چیز کا تذکرہ کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: قیامت کا مذاکرہ کر رہے ہیں، تو نبی کریمﷺ نے قیامت کے بارے میں خوب باتیں بتائی اور قرب قیامت کی بے شمار علامتیں بتائی، جس کی وجہ سے صحابہ کو ان ہی پر قیامت قائم ہونے کا خوف ہونے لگا۔

 

یقینا قیامت کی بےشمار علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں اور وہ باتیں صحیح ثابت ہو چکی جس کی نبی کریمﷺ نے اطلاع فرمائی تھی، جس پر مومنین کا ہر روز یقین بڑھتا جا رہا ہے، اسی کے ساتھ آپ کی نبوت اور آپ کی سچائی کے دلائل روز روشن کی طرح عیاں ہیں، لہٰذا اب مسلمانوں کو دین حنیف کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے تاکہ قیامت سے پہلے اپنے ایمان و عمل کی تیاری کرے، چونکہ قیامت بالکل قریب ہے، اور اس کی علامات ظاہر ہو چکی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

اقتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ القَمَرُ (سورة القمر1:)

 

ترجمہ: (قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہو گیا)

 

جب قیامت کی بڑی علامتوں کا ظہور ہونا شروع ہو جائے گا تو یہ علامتیں ایسی ظاہر ہوں گی جیسے تسبیح کی گرہ ٹوٹنے پر اس کے دانے یکے بعد دیگرے گرنے لگتے ہیں، نبی کریمﷺ ﷺ کا ارشاد ہے :

 

«وأیها كانت قبل صاحبتها فالأخری علی إثرها قریباً» [رواه مسلم].

 

(قیامت کی جو بھی علامت ظاہر ہوں گی اس کے جلد ہی بعد دوسری کا ظہور ہو گا)

 

اور مسند کی روایت میں ہے:

 

«الآیات خرزات منظومات فی سلك فإن یقطع السلك یتبع بعضها بعضاً» [صححه الألبانی].

 

(قیامت کی علامتیں ایسی ظاہر ہوں گی جیسے ایک لڑی میں دانے پرے ہوئے ہوں، اگر لڑی ٹوٹ جائے تو دانے یکے بعد دیگرے نکلنے لگے۔ )

 

پیارے مسلمانو!

 

قیامت کی علامتوں میں سے آپﷺ کی بعثت بھی ہے، آپﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

 

«بعثت أنا والساعة جمیعاً وإن كادت لتسبقنی» [رواه ابن حجر و قال إسناده حسن]

 

(مجھے اور قیامت کو ایک ساتھ بھیجا گیا، اگرچہ میری موت پہلے ہو جائے)

 

یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی وفات کی وجہ سے صحابہ ؓ کی آنکھوں میں دنیا تاریک ہو چکی تھی۔

 

قیامت کی علامتوں میں بڑے بڑے فتنوں کا ظہور بھی ہے، جس کی وجہ سے حق اور باطل کی پہچان نہیں ہوسکے گی، ایمان متزلزل ہو جائیں گے، آدمی دوسرے آدمی کی قبر سے گذرے گا تو کہے گا: ائے کاش اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا، اس کا یہ کہنا بھی آزمائش ہی ہو گی۔

 

ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں : تم پر ایک زمانہ آئے گا، جس میں اگر موت کو فروخت کیا جا رہا ہوں گا تو اسے بھی خریدا جائے گا” اور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«إن بین یدی الساعة فتنا كقطع اللیل المظلم یصبح الرجل فیها مؤمنا ویمسی كافرا ویمسی مؤمنا ویصبح كافرا» [رواه ابن ماجه وصححه الألبانی]

 

(قیامت سے پہلے تاریک رات کی طرح کئی فتنے رونما ہوں گے، جس میں آدمی حالت ایمان میں صبح کرے گا اور حالت کفر میں شام کرے گا، اور حالت ایمان میں شام کرے گا اور حالت کفر میں صبح کرے گا)

 

اس امت کے آخری لوگوں کو آزمایا جائے گا، نبی کریمﷺ فرماتے ہیں :

 

«وإن أمتكم هذه جعل عافیتها فی أولها، وسیصیب آخرها بلاء وأمور تنكرونها، وتجیء فتنة فیرقق بعضها بعضها، وتجیء الفتنة فیقول المؤمن: هذه مهلكتی، ثم تنكشف. وتجیء الفتنة فیقول المؤمن: هذه هذه. فمن أحب أن یزحزح عن النار ویدخل الجنة، فلتأته منیته وهو یؤمن بالله والیوم الآخر» [رواه مسلم].

 

(اس امت کے اولین طبقے میں عافیت رکھی گئی، اور ا س امت کا آخری طبقہ آزمائش اور ان امور کا شکار ہو گا جسے تم ناپسند کرتے ہو، اور ایک فتنہ آئے گا تو وہ ان میں ایک دوسرے کو نرم کر دے گا، اور ایک فتنہ آئے گا، جس میں مومن کہے گا: یہ میری ہلاکت ہے، پھر وہ دور ہو جائے گا، دوسرا فتنہ آئے گا مومن کہے گا: یہ یہ ہے، اور یہ یہ ہے، تو جو یہ چاہتا ہوں گا کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے تو اس کی موت آئے گی اور وہ اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا ہو گا۔ )

 

پیارے مسلمانو!

 

زلزلوں کی کثرت، مشرق و مغرب اور جزیرہ عرب میں دھنسے کے واقعات، جانوروں کا انسانوں سے بات کرنا، آدمی کا میٹھی میٹھی باتیں کرنا، لوگوں پر دابہ کا ظاہر ہونا اور لوگوں سے باتیں کرنا یہ سب قیامت کے واقع ہونے کی علامتیں ہیں۔ اسی طرح قرب قیامت سال مہینوں کی طرح، اور مہینہ جمعوں کی طرح اور جمعہ دنوں کی طرح، اور دن گھنٹوں کی طرح ہو جائیں گے۔ قرب قیامت عورتوں کی کثرت ہو گی اور مردوں کی قلت، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ بچاس عورتوں کا صرف ایک مرد ذمہ دار ہو گا۔ نیز یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی قیامت کی بڑی نشانی ہے۔ صحیحین میں زینب بنت جحش ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ ایک دن ان کے پاس گھبراہٹ کے عالم میں آئے اور آپ فرما رہے تھے:

 

لا إله إلا الله ویل للعرب من شر قد اقترب، فتح الیوم من ردم یأجوج ومأجوج مثل هذه وحلق بأصبعیه الإبهام والتی تلیها»

 

(لا الہٰ الا اللہ ایک بلا سے جو نزدیک آ پہنچی عرب کی خرابی ہونے والی ہے آج یا جوج اور ماجوج کے روک کی دیوار میں اتنا روزن ہو گیا۔ اور آپﷺ نے انگوٹھے انگلی کا حلقہ بنایا۔ (یعنی آپﷺ نے دیوار کے روزن کی جانب اشارہ فرمایا)

 

قرب قیامت علم کی قلت ہو گی، اور جہل و جہالت کا ظہور ہو گا، معاملہ یہ ہو گا کہ لوگ اسلام کے فرائض سے بھی نابلد رہیں گے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«یدرس الإسلام كما یدرس وشی الثوب، حتی لا یدری ما صیام ولا صلاة ولا نسك ولا صدقة، ویُسری علی كتاب الله فی لیلة فلا یبقی فی الأرض منه آیة، وتبقی طوائف من الناس الشیخ الكبیر والعجوز یقولون: أدركنا آباءنا علی هذه الكلمة یقولون لا إله إلا الله فنحن نقولها» [رواه الحاكم وقال صحیح علی شرط مسلم].

 

قرب قیامت اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، نہی عن المنکر میں کمی آ جائے گی، تو لوگ شراب نوشی کریں گے، زنا عام ہو جائے گا، لوگوں کے دلوں پر بخل کا غلبہ ہو گا، قتل و غارت گری عام ہو جائے گی، معاملہ یہ ہو گا کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوں گا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ اسے کیوں قتل کیا جا رہا ہے، دریافت کیا گیا، اے اللہ کے رسول یہ کیسا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا:

 

«القاتل والمقتول فی النار» [رواه مسلم]

 

(قاتل اور مقتول دونوں بھی جہنمی ہوں گے)

 

قرب قیامت لوگوں کی گردنیں دنیا کی جانب بلند ہوں گی، لوگ عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلے کریں گے، اللہ تعالیٰ کے دین سے اعراض کریں گے، اور امت میں شرک عام ہو جائے گا، اور امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ مل جائیں گے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«لا تقوم الساعة حتی تلحق قبائل من أمتی بالمشركین وحتی تعبد قبائل من أمتی الأوثان» [رواه الترمذی وقال حدیث صحیح]

 

(قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوں گی جب تک کہ میری امت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائے، یہاں تک کہ میری امت کے قبیلے مورتیوں کی پوجا کرنے لگیں گے)

 

جب یہ قبائل دین سے کلی طور پر خارج ہو جائیں گے، اپنے مذہب کو چھوڑ دیں گے اور شریعت الہٰی کا انکار کر دیں گے تو یہ قبائل ہدایت کو وحی کے علاوہ میں تلاش کریں گے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«لا تقوم الساعة حتی تأخذ أمتی بأخذ القرون قبلها شبراً بشبر وذراعاً بذراع» [رواه البخاری]

 

(آپؐ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک میری امت بھی اگلی امت کی چال پر نہ چلے گی۔ بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ۔ ) قیامت سے قریب دجل و فریب، جھوٹ اور دھوکہ دہی عام ہو جائے گی، اور قیامت سے قریب تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے اور ہر ایک اپنے نبی ہونے کا دعوی کرے گا، انسانیت میں سے اچھی عادتیں زائل ہونے لگیں گی، امانت کا پاس و لحاظ نہیں رہے گا، کہا جائے گا:

 

«إن فی بنی فلان رجلاً أمیناً، ویقال للرجل: ما أعقله وما أظرفه وما أجلده وما فی قلبه مثقال حبة خردل من إیمان» [رواه البخاری]

 

(فلاں قوم یا خاندان میں ایک شخص ایمان دار ہے(اتنی ایمانداروں کی قلت ہو گی) اور کسی شخص کی نسبت یوں کہا جائے گا کیا عقل من عمدہ بہادر آدمی ہے لیکن اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔ )

 

امارت غیر اہل کو سپرد کیا جانا بھی ضیاع امانت میں شامل ہے، اسی طرح قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ مدینہ اپنے اندر موجود شریروں اور خبیثوں کو باہر نکال پھینکے گا، جس طرح آگ لوہے کی گندگی کو نکال دیتی ہے، مدینہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

آدم علیہ السلام کی تخلیق اور قیام قیامت کے درمیان دجال سے بڑی کوئی مخلوق نہیں ہو گی، اور ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار کیا ہے، نیز آپﷺ ہر نماز میں دجال کے فتنے سے حفاظت کی دعا فرمایا کرتے تھے، اور آپﷺ نے اپنے صحابہ کو اس فتنہ کا کثرت سے ذکر کیا ہے، نواس بن سمعان کہتے ہیں : آپﷺ نے دجال کے بارے میں اتنی کثرت سے بیان کیا کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ وہ کھجور کے باغات تک پہنچ چکا ہے، جب ہم آپﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہماری حالت کو دیکھ کر اس فتنے کے خوف کو سمجھ لیا تو فرمایا: تمہیں کیا ہو؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول آپ نے دجال کے بارے میں بیان فرمایا، اور اس کے سلسلے میں اتنا کہا کہ ہم نے گمان کر لیا کہ وہ کھجور کے باغات تک پہنچ گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: مجھے تمہارے سلسلے میں دجال کے علاوہ سے خدشہ ہے، اگر دجال ظاہر ہو جائے اور میں تم میں موجود رہوں تو پھر میں تمہارے لئے حجت رہوں گا، اور اگر میری غیرموجودگی میں وہ ظاہر ہو جائے تو پھر ہر آدمی اپنی جان کا ذمہ دار ہو گا، اور اللہ تعالیٰ (کی ذات) ہر مسلمان کے لئے میری خلیفہ ہے۔

 

جب دین و علم کی کمی ہو گی، مسیح دجال کا مشرق سے ظہور ہو گا، تو لوگ اس کے خوف سے پہاڑوں کا رخ کریں گے، وہ زمین میں پھریں گا، وہ قریہ قریہ، بستی بستی اور شہر شہر کا دورہ کرے گا، لیکن مدینہ اور مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی پاک سرزمین پر اس کے دخول کو حرام کر دیا ہے، وہ جب جب بھی مکہ اور مدینہ میں داخلے کی کوشش کرے گا، ایک فرشتہ اپنے ہاتھ میں تلوار سونت کر آگے بڑھے گا اور مکہ اور مدینہ میں داخلے سے اس کو روک دے گا، مدینے اور مکے کے ہر لکڑ پر فرشتہ پہرہ دے رہے ہوں گے، اور مدینہ میں تین جھٹکے آئیں گے، تو منافق اور کافر مدینے سے نکل کر چٹانوں میں واقع گندگی میں جا کر پناہ لیں گے، جن میں کثرت سے عورتیں ہوں گی، حال یہ ہو گا کہ مرد اپنی ماں، بہن، پھوپھی اور اپنے رشتہ دار خواتین کو دجال کے فتنے میں ان کے شامل ہونے کے خوف سے رسی سے باندھے گا۔

 

یقینا دجال ایک عظیم فتنہ بن کر نمودار ہو گا، اس کے ساتھ دو بہتی ہوئی نہریں ہوں گی، جن میں سے ایک آنکھوں کو سفید پانی نظر آئیں گی اور جبکہ دوسری آنکھوں میں آگ نظر آئیں گی، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

 

«فإما أدركن أحد فلیأت النهر الذی یراه ناراً ولیغمص ثم لیطأطئ رأسه فیشرب منه فإنه ماء بارد» [رواه مسلم]

 

(اگر کوئی اس فتنے کو پائے، تو وہ اس نہر کا رخ کرے جو آگ نظر آئیں گی اور اس میں غوطہ لگائے، جب وہ پانی سے اپنے سر کو نکالے گا تو وہ اس پانی کو ٹھنڈا پانی پینے کا قابل پانی پائے گا)

 

اور دجال کے پاس موجود نہر جسے لوگ پانی خیال کریں گے تو وہ حقیقت میں آگ ہو گی جو جلا دے گی، اللہ تعالیٰ دجال کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمائش کریں گے، نیز اللہ تعالیٰ اسے احیاء میت کی بھی طاقت عطا فرمائیں گے، نیز اس کے ساتھ دنیا کی چمک دمک، سرسبروشادابی، جنت، جہنم، نہر، اور زمین کے خزانوں کا اس کی اتباع کرنا، نیز آسمان کا اس کے تابع ہونا اور برسنا، زمین کا اس کے تابع ہونا اور اگانا، یہ سب صلاحیتیں ہوں گی، جو شخص اس کے حکم کو بجا نہیں لائے گا تو وہ اس کو سزا دے گا، جس کے نتیجے میں قحط اور بحران، چوپایوں کا مرنا، نقص اموال، نقص انفس اور پھلوں کی کمی ہو گی، درحقیقت یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کو زندہ کریں گے جسے دجال نے قتل کیا تھا تو دجال دوبارہ اس کو قتل نہیں کرسکے گا۔

 

اخیر زمانے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائیں گے، تو بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت ملیں گے، شکی لوگ کفر کریں گے، اور ان لوگوں کے یقین میں اضافہ ہو جائے گا جنھوں نے ایمان لایا، دجال زمین میں چالیس دن ٹھہرے گا، لیکن ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، اور ایک دن ایک مہینے کے برابر ہو گا اور ایک دن ایک جمعہ کے برابر ہو گا پھر باقی سارے دن عام دنوں کی طرح ہوں گے، دجال زمین میں اتنی سرعت سے چکر لگائے گا جیسے چلتی ہواؤں والی بارش۔

 

دجال کا حلیہ : سرخ رنگ، سر کے بال گھنگھریالے اور آنکھ کانی اور دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا۔

 

امام سفارینیؒ فرماتے ہیں : ہر جانکار کے لئے ضروری ہے کہ وہ دجال سے متعلق قرآن و حدیث میں مذکور باتوں کو اپنی اولاد، خواتین اور مردوں میں عام کرے، خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جس میں کہ فتنے اور آزمائش اپنے عروج پر ہیں۔

 

دجال سے حفاظت :اس فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے دین اسلام کو مضبوطی سے تھامنے، ایمان سے لیس ہونے اور معرفت الہٰی مع اسماء و صفات قرآن و حدیث کی روشن میں سیکھنے کی ضرورت ہے، چونکہ دجال انسان ہے، وہ کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی، اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے، دجال کانا ہے اور ہمارا رب سبحانہ و تعالیٰ کانا نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو موت سے قبل کوئی دیکھ نہیں سکتا جبکہ دجال کو مومن و کافر دیکھیں گے۔

 

پیارے مسلمان بھائیو!

 

دجال سے حفاظت کی خوب دعا کرو، اور تم میں سے جو کوئی دجال کے زمانے کو پالے اسے چاہیے کہ وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات اس پر پڑھ لے، اور مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں :

 

«من حفظ عشر آیات من أول سورة الكهف عُصم من الدجال»

 

(جس نے سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات کو حفظ کیا وہ دجال سے بچا لیا گیا)۔

 

اگر دجال کے ظہور کی اطلاع ہو جائے تو اس سے دوری اختیار کرو، اور اس کے قریب نہ جاؤ، چونکہ اس کے پاس آدمی اس خیال سے آئے گا کہ وہ مومن ہے، پھر وہ اس کے شبہات میں پڑھ کر اس کا متبع ہو جائے گا۔

 

پیارے مسلمانو!

 

اخیر زمانے میں جب دجال کا ظہور ہو گا تو کثرت سے اس کے متبعین اور مریدین ہوں گے، اس کا فتنہ عام ہو جائے گا، اس سے صرف بہت ہی کم مومنین بچ پائیں گے، اس وقت حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام مشرقی دمشق کے سفید منارے کے پاس اتریں گے، اور وہاں اللہ کے نیک مومنین سے ملاقات کریں گے، پھر آپ مومنین کو لے کر مسیح دجال کی طرف نکلیں گے، دجال اس وقت بیت المقدس کی جانب رواں دواں ہوں گا، حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین میں باب لد کے پاس اسے پائیں گے، جب دجال آپ کو دیکھیں گا تو وہ ایسا پگھلنے لگے گا جیسا نمک پانی میں پگلتا ہے۔ حضرت عیسی اس سے کہیں گے: میری مار سے تو بچ نہیں سکتا۔

 

پھر حضرت عیسی علیہ السلام اسے اپنے نیزے سے ماریں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، اس کے ساتھ اس کے پیروگار بھی شکست خوردہ ہوں گے، مومنین ان کا پیچھا کریں گے اور انہیں بھی قتل کر دیں گے، اور دجال کے قتل پر ہی قیامت کے عظیم فتنے کا خاتمہ ہو جائے گا۔

 

دجال کے قتل کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا دور، امن وسلامتی اور خوشحالی و فراخی کا زمانہ ہو گا، اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائیں گے جس کے فوائد سے کوئی کچا پکا گھر محروم نہیں رہے گا، زمین سے کہا جائے گا: اپنے پھلوں کو اگا اور اپنی برکتوں کا نچھاور کر، اس زمانے میں ایک پوری جماعت انار کا پھل کھائیں گی، اور اس کے چھلکوں تلے سایہ حاصل کرسکیں گی، دودھ میں برکت دی جائے گی، حتی کہ اونٹ کا دودھ لوگوں کی کئی کئی جماعتوں کو کافی ہو جائے گا، اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو کافی ہو جائے گا، اور ایک بکری کا دودھ لوگوں کی ایک ٹولی کو کافی ہو جائے گا۔

 

زمین امن و امان کا گہوارہ ہو گی، سانپ، درندے، پرندے، بغیر کسی قسم کے تفریق کے ایک ساتھ چریں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے لیکن سانپ نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

 

حضرت عیسی علیہ السلام کے زمین میں سات برس قیام کے بعد اللہ تعالیٰ شام کی جانب سے ایک ہوا کو بھیجیں گا، جس کے نتیجے میں روئے زمین پر ایسا کوئی فرد نہیں باقی رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان باقی ہو، اور روئے زمین پر اللہ اللہ کہنے والا کوئی باقی نہیں رہے تو قیامت قائم ہو جائے گی، سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا، جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا تو روئے زمین پر بسنے والے انسان تمام کے تمام ایمان لائیں گے، لیکن اس وقت ان کا ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا، قیامت کی آخری عظیم علامتوں میں سے یمن سے ظاہر ہونے والی عظیم آگ ہو گی، جو لوگوں کو محشر کی جانب بھگائیں گی، لوگ جہاں بھی بھاگیں گے وہ ان کا پیچھا کرے گی۔

 

پیارے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے، اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اور دنیا نے اپنے اختتام کا اعلان کر دیا ہے، اور آنے والی یعنی قیامت قریب پہنچ چکی ہے، جو اپنے آپ کے بارے میں غافل رہا اس نے اپنے اوقات کو ضائع کر دیا، پھر افسوس اور حسرت ہو گا، امنگیں اور خواہشات لپیٹ لی جائیں گی، عمریں ختم کر دی جائیں گی، جس نے امیدیں لمبی لمبی باندھی ہے وہ عمل کو بھول بیٹھا ہے اور موت سے غافل ہے۔

 

اے بندے، ہر دن صبح میں موت کی روشنی تجھے خبر موت دیتی ہے، سعادت مند وہ ہے جس نے انتقال مکانی سے قبل تیاری کر لی۔

 

کسی حکیم نے کہا : مجھے بڑا تعجب ہے اس شخص پر جو اپنے مال کے ضائع ہونے پر رنجیدوافسردہ ہوتا ہے اور اپنی عمر کے کم ہونے پر اسے افسوس نہیں ہوتا، لہٰذا عبادت میں خوب محنت کرو، خطا پر آہ و بکا کرو، اور عاقبت وانجام سے راہ فرار اختیار کرو، بخشا بخشایا وہی ہے جس نے اپنی خواہشات اور امنگوں کو اس چیز میں صرف کیا جو باقی رہنے والی ہے۔

 

جب ابن سیرین ؒ کی وفات کا وقت آیا، خوب رویا، ان سے دریافت کیا گیا، آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا: مجھے فرصت کے اوقات کو ضائع کرنے پر اور جنت عالیہ کے لئے قلت اعمال پر رونا آ رہا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.wathakker.info

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید