FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عرض کیا ہے

 

(شگفتہ افسانوں کا مجموعہ)

 

حصہ اول

 

                عابد معز

 

 

 

دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے

 

انتساب

 

 

ہندوستانی بزم اردو، ریاض اور

سعودی عرب میں مقیم دوستوں

کے نام

 

عابد معز

 

 

 

عرضِ ناشر

 

لیجیے ! ڈاکٹر عابد معز کی ایک اور کتاب آپ کے ہاتھوں کی زینت بننے کے لیے تیار ہے لیکن یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی حال میں شایع ہوئیں دو کتابوں سے بالکل مختلف ہے۔ ’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘ اور ’چکنائی اور ہماری صحت‘ کی اشاعت کے بعد ہمیں یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب کی کوئی بھی کتاب شایع کریں قارئین بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ یہ دو کتابیں طبی سائنس سے متعلق تھیں لیکن موضوع کے اعتبار سے موجودہ دور میں ہر شخص کی لازمی ضرورت ثابت ہوئیں۔ زیر نظر کتاب ڈاکٹر صاحب کے پیشہ کا نہیں بلکہ ان کے مزاج کا تعارف پیش کرتی ہے۔

طنز و مزاح کے میدان میں ڈاکٹر صاحب کا قلم جانا مانا ہے۔ کتاب ’عرض کیا ہے ‘ ڈاکٹر عابد معز کے شگفتہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان افسانوں میں ادیب نے جہاں سماج کے حساس مسائل پر قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے وہیں طنز و مزاح کی چاشنی سے تحریر کو اس قدر لطف انگیز بنا دیا ہے کہ کسی بھی افسانے کا مطالعہ شروع کرنے کے بعد اس کے ختم ہونے تک کتاب ہاتھ سے رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔ ’شکر بیتی، لو لیٹر، شریک زندگی، عجیب و غریب آوازیں اور میں صرف پتی ہوں ‘ جیسے افسانے قارئین کو بے اختیار مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری یقیناً ان افسانوں میں کہیں نہ کہیں اپنی زندگی کی جھلک بھی محسوس کرے گا۔ زندگی کے بوجھل لمحوں کے لیے شگفتہ افسانوں کا یہ مجموعہ ’ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس‘ اس امید کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ صاحبانِ ذوقِ ادب کو پسند آئے گا اور ڈاکٹر صاحب کے مداحوں کی فہرست میں اضافہ ہو گا۔

سید عبدالباسط شکیل

حیدرآباد

 

 

 

 

پیش لفظ (طبع دوم)

 

’عرض کیا ہے ‘ یعنی یہ کتاب پہلی مرتبہ اگسٹ 2011ء میں شایع ہوئی تھی۔ اکثر و بیشتر اردو کتابیں پہلی اور آخری مرتبہ ہی چھپتی ہیں۔ اس کتاب سے بھی یہی توقع تھی۔ لیکن مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ کتاب کے تمام نسخے تین سال کے اندر ختم ہو گئے اور قارئین کی طلب اب بھی جاری ہے۔ ہم نے کتاب کا دوسرا ایڈیشن شایع کرنے کا فیصلہ کیا۔

طب، صحت اور تغذیہ پر میری کتابوں کے دو (چکنائی اور ہماری صحت، حج و عمرہ اور ہماری صحت) اور تین (ذیابیطس کے ساتھ ساتھ) ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ ان کتابوں کے نئے ایڈیشن کے لیے میں مواد پر نظر ثانی کر کے نئی معلومات کا اضافہ کرتا ہوں۔ لیکن ادب کا معاملہ الگ ہے۔ اس لیے کتاب میں وہی 19 شگفتہ افسانے موجود ہیں۔ کتاب کے آخری مضمون ’پسِ لفظ لفظ‘ پر میں نے نظر ثانی کی ہے اور اس میں ذیلی سرخیوں کا اضافہ کیا ہے تاکہ پڑھنے میں سہولت حاصل ہو سکے۔

دوسرے ایڈیشن کی تیاری میں برادرم واحد نظام آبادی نے مدد کی جس کے لیے میں ممنون ہوں۔ یہ نیا ایڈیشن بھی ہدیٰ پبلی کیشنز شایع کر رہا ہے۔ اس استقامت کے لیے میں جناب سید عبدالباسط شکیل کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

قارئین! آپ نے میری تحریروں کو اپنی پسندسے جو سند عطا کی ہے وہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ کو کتاب کا نیا ایڈیشن بھی پسند آئے گا۔

عابد معز

28جون2014ء حیدرآباد

 

 

 

 

پیش لفظ (طبع اول)

 

طنز و مزاح کی یہ میری تیسری کتاب ہے۔ اس کتاب میں شامل تخلیقات مختلف رسالوں شگوفہ، رابطہ، افکار، چہارسو، کتاب نما، آج کل، اردو ڈائجسٹ، اردو پنچ وغیرہ میں انشائیہ، فکاہیہ، مزاحیہ مضمون یا افسانے کے عنوان سے شایع اور ڈائجسٹ ہوئے ہیں۔ گو کہ مختلف مدیروں نے ان تخلیقات کا شمار مختلف زمروں میں کیا ہے، میں انہیں افسانے سمجھتا ہوں۔ چونکہ اسلوب طنز و مزاح ہے میں نے ان افسانوں کو مزاحیہ یا شگفتہ افسانے کا نام دیا ہے۔ اس لحاظ سے میری یہ کتاب شگفتہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔

سبھی مزاحیہ افسانے پچھلے بیس پچیس برسوں کے دوران شایع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ چند ایک افسانوں کا ہندی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ ان افسانوں کی اشاعت کے لیے میں رسالوں کے مدیران کا ممنون ہوں۔

اس مجموعے میں شامل افسانوں کو میں نے سعودی عرب میں قیام کے دوران لکھا ہے یا ان پر نظر ثانی کی ہے۔ اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو ہندوستانی بزم اردو، ریاض اور سعودی عرب کے دوستوں کے نام معنون کروں۔

میرا یہ خیال ہے کہ دنیا میں ہم صرف تماشائی نہیں ہیں بلکہ تماشا بھی بنتے ہیں، اس لیے میرے افسانوں میں، میں خود تماشا ہوں اور تماشائی بھی۔ زندگی کا صحیح لطف اٹھانے کے لیے دونوں رول نبھانا ضروری ہے۔

میں کسی مضمون کے عنوان کو ہی کتاب کا نام دینے کے حق میں ہوں۔ کتاب کے لیے الگ سے نام رکھنے کی محنت حقیقی اولاد کا نام رکھنے سے کم نہیں ہے۔ اس مشقت سے نہ صرف میں بچنا چاہتا ہوں بلکہ قاری کو بھی کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ دریافت کرنے کی محنت سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ یوں اس کتاب کا نام ’عرض کیا ہے ‘ اس میں شامل ایک افسانے کا عنوان بھی ہے۔

شگفتہ افسانوں کا مجموعہ شایع کرنے کے ارادے کا اظہار میں نے نواب سکندر علی خان اور مزاحیہ شاعر اقبال شانہ سے کیا تو دونوں نے اس کام کو جلد انجام دینے کا مشورہ دیا۔ نامور افسانہ نگار، شاعر اور فلمی ادیب جناب رفیق جعفر نے میری خواہش پر مسودہ پڑھ کر مختصر مگر جامع تاثرات کا اظہار فرمایا۔ اسمعیل خان اور سید عبدالماجد بگدل ریسرچ اسکالرز نے کتاب کی تیاری میں مدد کی اور کتاب کی اشاعت میں جناب محمد یوسف مڑکی کے مشورے کام آئے۔ میں ان تمام احباب کا ممنون و مشکور ہوں۔

کتاب کو ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس نے شایع کیا ہے۔ اس سال کے آغاز پر جناب عبدالباسط شکیل اور جناب محمد اظہر الدین نے طب کے موضوع پر میری دو کتابیں، ’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘ اور ’چکنائی اور ہماری صحت‘ شایع کی ہیں، اب وہ ادب کے موضوع پر میری یہ کتاب اپنے ادارے سے شایع کر رہے ہیں۔ میں ان حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

قارئین نے میرے شگفتہ افسانوں کو مختلف رسالوں میں پڑھ کر سراہا اور پسند کیا تھا جس سے انہیں کتابی شکل میں پیش کرنے کا حوصلہ ملا۔ مجھے امید ہے کہ قارئین اس کتاب کو بھی پسند کریں گے۔ قارئین اگر ای میل یا فون کے ذریعہ اپنی رائے سے نوازیں گے تو مجھے بے انتہا خوشی ہو گی۔

 

ع۔ م۔

27جولائی2011ء حیدرآباد۔

 

 

 

 

                رفیق جعفر

 

زندگی کے شگفتہ رنگوں کا افسانوی چتر کار عابد معز

 

عصر حاضر کے طنز و مزاح لکھنے والوں میں عابد معز کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ ملک اور بیرون ملک کے ادبی رسائل اور اخبارات کے ادبی صفحات پر ان کی تخلیقات روشن رہی ہیں۔ کچھ اخبارات کے کالم بھی ان کی تحریروں سے مہکتے ہیں۔ ماہنامہ شگوفہ کا ’عابد معز نمبر‘ قابل دید اور قابل مطالعہ رہا ہے۔ اس میں قلم کار کا شخصی اور فنی جائزہ مشاہیر ادب نے لیا۔ اس کی پذیرائی اردو دنیا میں ہوئی ہے۔ عابد معز پیشے سے تو ڈاکٹر ہیں لیکن ادب کی انھوں نے دامے درمے سخنے جو خدمت کی ہے وہ قابل داد ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔ وطن سے دور سعودی عرب میں یہ برسوں رہے۔ مختلف انجمنوں کی سربراہی ان کے حصّے میں آئی، اردو زبان اور ادب کے فروغ میں اور وہاں ادبی ماحول بنائے رکھنے میں ان کی خدمات کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ یہ اپنے وطن آ گئے اور یہاں انھوں نے ازسرنو ادبی کاموں کی شروعات کی ہے۔ زندہ دلان حیدرآباد کے جنرل سکریٹری ہیں۔ وہ ماہنامہ شگوفہ کے معاون ایڈیٹر بھی ہیں۔ طبی موضوعات پر ان کی کتابیں یہاں سے شایع ہو کر مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ اب انھوں نے اپنی نگارشات کو شایع کروانے کا پروگرام بنایا ہے جس کی پہلی کڑی یہ کتاب ہے۔

یہ کتاب عابد معز کے شگفتہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ ان افسانوں میں طنز بھی ہے، مزاح بھی ہے، شوخی بھی ہے، شرارت بھی ہے، دلچسپی بھی ہے اور تجسّس بھی ہے۔ افسانوی فن میں جو نکات اور اصول ہوتے ہیں وہ ان افسانوں میں ملتے ہیں۔ کم کرداروں سے افسانوں کے تانے بانے بنے گئے ہیں۔ زبان شگفتہ اور دل پذیر ہے۔ اختتام پر قاری خوشگوار احساس کا لطف لیتا ہے۔ کتاب میں شامل افسانے مختلف رسائل و اخبارات میں ’طنز و مزاح‘ کے زمرے میں شایع ہو چکے ہیں۔ افسانوں کے انتخاب میں وہی تحریریں لی گئی ہیں جو کہانی کی چاشنی رکھتی ہیں۔ اصل میں شروع سے ہی عابد معز کرداروں اور ان کی کرداریت، نفسیات اور اندرونی و بیرونی جذبات کو مدّ نظر رکھ کر طنز و مزاح لکھتے رہے ہیں۔ یہ ان کی انفرادیت ہے کہ ہر تحریر میں ان کی شخصیت بھی ایک کردار ادا کرتی ہے۔ یہ تحریر کی اچھائی اور قلم کار کی سچائی کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عابد معز کے افسانوں کے کردار خیالی نہیں حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ افسانوں کا جو ماحول تخلیق کیا گیا ہے، وہ مانوس، جانا پہچانا یا اپنا ماحول ہے اور اس میں جو کردار ہیں وہ بھی اجنبی نہیں اپنے ہی ماحول کے ہیں۔ عابد معز کا ذہن گھر اور سماج سے افسانوں کا مواد حاصل کرتا ہے۔ اس میں ہمہ رنگیت ہوتی ہے جو اپنی پسند، اپنے مزاج کے رنگوں کا انتخاب کر کے دل کو گرماتا اور دماغی نسوں کو اکساتا ہے۔ تب فن کار عابد معز کی انگلیوں میں جنبش ہوتی ہے۔ وہ چتر کار تو نہیں ہیں لیکن چتر بنانا ضروری ہو جاتا ہے۔ برش اور ایزل تو ان کے پاس ہیں۔ وہ قلم اور قرطاس کی مدد لیتے ہیں اور لفظوں سے تصویر بناتے ہیں۔ اس طرح عابد معز کا ہر افسانہ شگفتہ رنگوں کی پینٹنگ بن جاتا ہے۔

اس کتاب میں جملہ 19شگفتہ افسانے ہیں۔ سب کا تجزیہ کرنا یا ان پر اظہار خیال کرنا ممکن نہیں۔ یہ افسانے پڑھنے میں لطف دیتے ہیں۔ ان کے کردار پڑھنے والے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، اسے بہلاتے ہیں اور اس کی توجہ اپنی طرف سے ہٹنے نہیں دیتے۔ کوئی کردار دوست بن جاتا ہے، کوئی کردار آئینہ دکھاتا ہے، کوئی کردار منہ بناتا ہے تو کوئی کردار منہ چڑاتا ہے۔ اور کوئی کردار قاری کو جھنجھوڑتا بھی ہے یہاں تک کہ غیرت بھی دلاتا ہے۔ ان کرداروں میں عورتیں بھی ہیں، بچے بھی ہیں، اپنے بھی ہیں پرائے بھی ہیں۔ سب کے اپنے اپنے دکھ بھی ہیں، سکھ بھی ہیں۔

موضوعات کے لحاظ سے ہر شگفتہ افسانہ الگ الگ لطف دیتا ہے۔ جیسے ’شریک حیات‘ میں گھریلو ماحول اور بیوی سے نوک جھونک، ’لو لیٹر‘ میں محبوبانہ انداز، ’ہم صاحب کتاب ہوئے ‘ میں ادبی بدحالی کی دلچسپ داستان، ’شکر بیتی‘ میں نیا ذائقہ، ’سرنہ ملا‘ میں مسرور کرداروں کی محویت، ’ہم نے مکان بنایا‘ میں مکان بنانے کا نیا نیا تجربہ اور مکان جن سے بنائے جاتے ہیں ان سے سابقہ، تکلیفیں اور اس دکھ میں بھی مرکزی کردار سکھ کے لمحات نہ صرف اپنے لیے ڈھونڈ لیتا ہے بلکہ بیوی کے لیے بھی وہ لمحات فراہم کرتا ہے۔ ’فرنٹ وہیل ڈرائیو‘ میں ڈرائیونگ کے رموز و نکات، عملی دشواریاں اور ان دشواریوں میں لطف کی گھڑیاں، ’قصّہ تیمار داری کا‘ میں بیماری جیسی مہلک چیز میں تفریحی خیالات اور ہمدردانہ جذبات، ’مام ما‘ میں معصومانہ ظرافت کے نکات، ’میں صرف پتی ہوں، داستانِ معرکۃ الزوجہ، عجیب و غریب آوازیں، گاؤں کی سیر اور سگ گزیدہ کی ہمہ رنگی دلچسپیاں قاری کو گد گدا کر اکثر مسکرانے پر تو کبھی کبھی باچھیں کھلانے پر اور کبھی کبھی با آوازِ بلند قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

بات مختصر کہ عابد معز کے یہ شگفتہ افسانے اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب میں نیا ذائقہ اور افسانوی دنیا میں خوش گوار اضافہ ہیں۔ ان افسانوں سے نئے لکھنے والوں کو تحریک بھی مل سکتی ہے اور یہ بھی کہ اردو ادب کے نئے باب ایسی تحریروں سے کھل سکتے ہیں جس سے نئے قاری بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ آخر میں یہ بھی کہنا چا ہوں گا کہ ایسی تحریروں کو کسی نقاد کی ضرورت نہیں مبصر کی ضرورت ہے جو یہ بتاس کے کہ اس کتاب میں کیا ہے۔ بس ان لفظوں کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ عابد معز اسی طرز کے شگفتہ افسانے لکھتے رہیں تاکہ یہ اپنے میدان کے میر ثابت ہوں۔ میدان خالی تو ہے لیکن پُر خطر بھی ہے، راستے دشوار بھی ہیں۔ میری دعا ہے کہ عابد معز ہر راہ سے گزرتے ہوئے منزلیں سر کر لیں۔

رفیق جعفر

25جولائی 2011ء پونا، مہاراشٹرا۔

 

 

 

 

 

پی سی

 

شام کے وقت جب میں دفتر سے گھر پہنچا تو بیگم منہ پھلائے بیٹھی تھیں۔ میں نے دل میں ’اللہ خیر کرے !‘کہا اورسوچا کہ خاموش رہوں۔ لیکن خیال آیا کہ میرے کچھ نہ پوچھنے پر بیگم مزید ناراض ہو سکتی ہیں۔ وہ سمجھیں گی کہ مجھے ان کی ’پرواہ‘ نہیں ہے۔ اسی لیے جی کڑا کر کے دریافت کیا۔ ’خیریت تو ہے، آپ کی طبیعت کچھ ناساز معلوم ہوتی ہے۔ ‘

بیگم نے جو جواب دیا، اس سے فوراً پتا چل گیا کہ ’ناسازیِ طبیعت‘ کی وجہ کیا ہے۔ ’آج مہارانی ہمارے گھر تشریف لائی تھیں۔ ‘

محلہ کی نکڑ کی کوٹھی میں رہنے والی خاتون میری بیگم کو سخت ناپسند ہیں۔ بیگم کے خیال میں وہ مغرور اور نک چڑھی ہیں۔ اپنے آپ کو ’بہت کچھ‘ سمجھتی ہیں جبکہ وہ ’کچھ بھی‘ نہیں ہیں۔ وہ دوسروں بشمول اپنے مجازی خدا کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ سسرال والوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور ملازمین کو ناکوں چنے چبواتی ہیں۔ کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتیں۔ اپنوں پر حکم چلاتی ہیں اور غیروں پر مختلف طریقوں سے رعب ڈالنے کی فکر میں اپنے وزن کو قابو میں رکھا ہے۔ یہ خفیہ اطلاعات کوٹھی میں کام کرنے والوں نے بیگم کو فراہم کی تھیں۔ ان خوبیوں کے سبب بیگم نے انھیں ’مہارانی‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔

میں نے بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’آپ ان سے خواہ مخواہ ہی بدگمان رہتی ہیں۔ دیکھیے کس سادگی سے وہ یہاں چلی آئیں۔ ‘

جواب ملا۔ ’سادگی کے ساتھ نہیں آئی تھیں۔ اپنے ساتھ سی ڈِی لائی تھیں۔ پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہمارے پاس پی سی ہے ؟ پی سی یعنی پرسنل کمپیوٹر۔ ۔ ۔ ‘

بیگم نے استفہامیہ نظروں سے مجھے دیکھا تو میں نے کہا۔ ’جی میں جانتا ہوں۔ ‘

بیگم نے اپنا بیان جاری رکھا۔ ’وہ بتا رہی تھیں کہ ان کا سسٹم ڈاؤن ہے۔ صبح سے ان کے گھر میں زندگی جام ہے۔ فریج، ٹی وی، فون، انٹر کام، اے سی، کُکر، مکسر، مائیکرواُوون، گھڑی، الارم، غرض گھر کی ہر شے پی سی سے مربوط ہے۔ سی ڈی لے کر آئی تھیں کہ ہمارے پی سی میں ڈال کر maintenance والوں کو آن لائن اطلاع کر سکیں۔ ‘

’پھر کیا آپ نے ان کی مدد کی۔ ‘

اتنا پوچھنا تھا کہ بیگم پھٹ پڑیں۔ ’مدد کہاں سے کرتی؟ پی سی ہے کہاں ؟ شرمندہ ہونا پڑا۔ شادی کے وقت نگوڑا پی سی عام نہ تھا، ورنہ جہیز میں لے آتی۔ کتنی مرتبہ کہا ہے کہ پی سی خریدیں گے لیکن جناب کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مہارانی تعجب کا اظہار کر رہی تھیں کہ ہم لوگ پی سی کے بغیر کیسے جی رہے ہیں۔ ‘

’اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ آفریقہ میں کئی لوگ آج بھی بجلی کے بغیر رہتے ہیں۔ کیا بجلی کے بغیر ان کا دل دھڑکنا بند کر دیتا ہے ؟‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔

’تو پھر گھر گرہستی چھوڑ کر دو ایک کپڑوں سے جنگل کی راہ کیوں نہیں لیتے۔ ہر بات میں آپ کے سوچنے کا انداز نرالا ہے۔ ‘ بیگم نے چڑ کر کہا اور پھر اپنا فیصلہ سنایا۔ ’ہم آج ہی پی سی خریدیں گے۔ ‘

’میرا خیال ہے کہ پڑوسیوں کی شہ پر ہمیں ایک مہنگی شے خریدنے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ‘ میں نے مشورہ دیا۔

بیگم نے میری بات رد کرتے ہوئے کہا۔ ’پی سی کو آئے پندرہ بیس برس کا عرصہ ہو چکا ہے اور پی سی کی اولاد لیپ ٹاپ کو لوگ گلے میں لٹکائے پھر رہے ہیں۔ ہم اب خرید رہے ہیں تو یہ جلد بازی ہے ؟‘

میں نے بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’دیکھیے پی سی کوئی کھلونا نہیں ہے کہ بغیر سوچے سمجھے خرید لیں۔ یہ بتایئے کہ پی سی ہمارے کیا کام آئے گا؟‘

’پی سی بہت کام کی چیز ہے۔ مہارانی کے گھر کا حال دیکھیے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بجائے پی سی سانس لیتا ہے۔ پی سی کا ہی دل دھڑکتا ہے اور وہ پی سی کی طرح سوچتی ہیں۔ ۔ ۔ ‘

میں نے بیگم کی بات کاٹی۔ ’پی سی خرید کر گویا آپ بھی مہارانی بننا چاہتی ہیں۔ ‘

’جی نہیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اگر آپ چاہیں گے بھی تو میں مہارانی نہیں بن سکتی۔ آپ کے فائدے کے لیے میں پی سی کی خوبیاں گنا رہی تھی۔ پی سی سے مجھے روزمرہ کے کاموں میں مدد ملے گی۔ گھر کا بجٹ پی سی کے مشوروں سے تیار ہو گا۔ مینو تیار کرنے اور دسترخوان سجانے میں پی سی معاون ہو گا۔ پی سی میں پکوان کی ترکیبیں اور کام کی باتیں جمع کروں گی۔ پی سی کے ذریعہ میں گوشت اور ترکاری کے بھاؤ معلوم کروں گی۔ ۔ ۔ ‘

میں نے پھر بیگم کی بات کاٹی۔ ’گویا پی سی کا استعمال کچن میں ہوتا ہے۔ ‘

وہ جواباً پی سی کے دوسرے فوائد گنوانے لگیں۔ جلئیے مت پی سی آپ اور بچوں کے بھی بہت کام آئے گا۔ آپ اپنی سروس اور آمدنی کا حساب کتاب پی سی میں رکھیے۔ دوستوں کے پتے اور فون نمبر پی سی میں اکٹھا کیجیے۔ انہیں خطوط لکھیے۔ پی سی کی مدد سے مضامین لکھیے اور شاعری بھی کیجیے۔ جب آپ اپنی تخلیقات پی سی پر لکھ کر رسالوں کو بھیجیں گے تو مدیر آپ سے کبھی یہ نہ کہیں گے کہ براہ کرم مضامین خوش خط لکھا کیجیے۔ استاد بن کر پی سی آپ کی تخلیقات کی تصحیح بھی کر دے گا۔ کتابیں چھپوانے میں پی سی کام آئے گا۔ کاتب کی ناز برداری نہیں کرنی پڑے گی۔ پی سی پر آپ اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ خبریں سن اور دیکھ سکتے ہیں۔ موسمی پیش قیاسی حاصل کر سکتے ہیں۔ کرکٹ کا اسکور دریافت کر سکتے ہیں۔ مختلف مسائل پرا س سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ پی سی آپ کا دل بھی بہلائے گا۔ اس کی مدد سے آپ موسیقی سیکھ سکتے ہیں۔ فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ پی سی کے ذریعہ نئے دوست بناسکتے ہیں اور ان سے گھر بیٹھے بات کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘

بیگم سانس لینے کے لیے رکیں تو میں نے موقع غنیمت جان کر کہا۔ ’آپ مارکیٹنگ بہت اچھی کر لیتی ہیں۔ چلیے ہم پی سی خرید لیتے ہیں۔ ‘

بیگم بولنے کے موڈ میں جب آتی ہیں تو بڑی مشکل سے خاموش ہوتی ہیں۔ خوش ہو کر کہنے لگیں۔ ’آپ نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ بچوں کے لیے پی سی معلومات کا خزانہ ہے۔ بچوں کی تربیت میں پی سی اہم رول ادا کرتا ہے۔ پی سی بچوں کو ٹیوشن دے گا۔ پی سی کے رہتے ہوئے ہمیں بچوں کو پڑھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ وہ ہوم ورک کرنے میں بچوں کی مدد کرے گا اور ان کا امتحان بھی لے گا۔ پی سی میں بچوں کے لیے کئی کھیل ہیں۔ بچے گھر میں کھیلتے بیٹھے رہیں گے۔ ان کے باہر گھومنے پھرنے پر پی سی روک لگا دے گا۔ ۔ ۔ ‘

میں نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔ ’اب بس بھی کیجیے۔ ہم اس ماڈرن الہ دین کے چراغ کو خرید ہی رہے ہیں۔ دیکھ لیں گے وہ اپنے آقاؤں کی کتنی خدمت کرتا ہے۔ فی الحال زور کی بھوک لگی ہے۔ کچھ کیجیے۔ ‘

بیگم کچن کا رخ کرتے ہوئے بولیں۔ ’مجھے قوی امید ہے کہ پی سی آپ کو مایوس نہیں کرے گا، وہ آپ کو خوش رکھے گا۔ ‘

پی سی موجودہ دور کا الیکٹرانک ہر فن مولا، خریدنے مارکٹ گئے تو پتا چلا کہ پی سی اکیلا خود سے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کنبہ پرور ہے اور اس کا ایک مکمل خاندان ہے۔ پی سی کا خاندان کی بورڈ، مانیٹر، پرنٹر، اسپیکر، موڈیم، جوئے اسٹک، ساونڈ کارڈ، ویڈیو کارڈ اور چند دوسری اشیا پر مشتمل ہے۔ صدرِ خاندان پراسیسر ہے۔ دن بہ دن پی سی فیملی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ خاندان اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ پرانے لوگوں کو اس فیملی کے نئے ممبروں سے شناسائی مشکل معلوم ہوتی ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ پی سی ایک پالتو چوہا (ماؤس ) بھی رکھتا ہے۔ یہ چوہا پی سی کی اردلی میں رہتا ہے اور لوگوں کے بہت کام آتا ہے۔ پی سی کے ساتھ چوہے کا ہونا نہ صرف ضروری ہے بلکہ وہ چوہے کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ پی سی کے ساتھ دریچے (ونڈوز) بھی خریدنا پڑا۔ ان دریچوں کی مدد سے پی سی باہر کی دنیا سے رابطہ قائم کرتا ہے۔ قصّہ مختصر زرِ کثیر صرف کر کے ہم پی سی اور اس کے لوازمات اپنے گھر لے آئے۔ بیگم بہت خوش ہوئیں جیسے کوئی میکے سے ان کا اپنا آیا ہے۔

دکاندار نے ہدایت دی کہ پی سی بڑا نازک مزاج واقع ہوا ہے اور اس کا خاص خیال رکھا جائے۔ گرمی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ کھلی اور ہوادار جگہ میں اس کو رکھنا چاہیے۔ اگر خاطرخواہ خیال نہ رکھا گیا تو وہ بیمار پڑسکتا ہے۔ اس پر وائرس حملہ آور ہوتے ہیں اور اس میں کیڑے (بگس) پیدا ہو سکتے ہیں۔ پی سی کے ساتھ نباہ کی ہدایتوں کے مطابق ہم نے گھر کے ایک وسیع اور کشادہ ہال میں پی سی اور اس کے خاندان کی رہائش کا انتظام کیا۔ پی سی فیملی کے اراکین کو ان کی مناسب جگہ رکھنے اور ان کے لیے درکار فرنیچر بھی خریدا۔ ساتھ میں خود اپنے لیے ایک مخصوص کرسی بھی لینی پڑی جس پر بیٹھ کر ہم پی سی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے کام لے سکیں۔ پی سی کے پالتو چوہے کا بھی ہمیں خیال کرنا پڑا اور اس کے لیے ایک آرام دہ پیڈ کا اہتمام ہوا۔ نرم گدی پر چوہا خوب تھرکنے لگا۔

بیگم اور بچے پی سی اور اس کے خاندان کی ناز برداری کرنے میں بہت خوش تھے اور میں اس تجسس میں تھا کہ دیکھیں وہ ہماری کیا خدمت کرتا ہے۔ پتا چلا کہ پی سی سے بات کرنے اور اس پر حکم چلانے کے لیے پی سی کی زبان سے واقفیت ضروری ہے۔ ہم اس جناتی زبان کو سیکھنے اور سمجھنے کے قابل نہ تھے۔ پی سی کی زبان کے ماہرین نے ہمارا یہ مسئلہ یوں حل کر دیا ہے کہ پی سی کے خاندان میں مترجم کو بھی شامل کر دیا جو ہماری باتیں اور احکامات پی سی تک پہنچاتا ہے اور پی سی کے معروضات اور گذارشات کو ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ ماہرین اس مترجم کو اپنی مجبوریوں کے تحت سافٹ ویر کہتے ہیں۔ ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہمیں تو بس پی سی پر حکم چلانا ہے۔

حکم چلانے میں ہم غلطی کریں تو پی سی فوراً ٹوکتا ہے ’غلط حکم‘(بیڈ کمانڈ) اور صحیح حکم کا منتظر رہتا ہے۔ جب ہم اسے مستقل غلط حکم دیتے ہیں تو وہ ناراض ہو کر انتباہ دیتا ہے۔ ’آپ مستقل غلط احکامات جاری کر رہے ہیں۔ میں کبھی بھی بند ہو سکتا ہوں۔ ‘ اور پھر خاموشی سے اپنے خول میں بند ہو جاتا ہے۔ کبھی یہ مشورہ بھی دیتا ہے۔ ’آپ اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کیجیے۔ سوچ سمجھ کر مجھ پر حکم چلائیے۔ اگر میں آپ کی سمجھ سے باہر ہوں تو براہ کرم مدد طلب کریں یا ماہرین سے رجوع ہوں۔ ‘اور اسکرین پر ماہرین کے نام، پتے اور فون نمبر درج ہو جاتے جن سے مشورہ کر کے ہم پی سی کو ٹھیک طرح سے چلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

ہم نے پی سی کو ہر دم کام کے لیے تیار پایا۔ انسانوں کے برخلاف اس نے کبھی آج کے کام کو کل پر نہیں ٹالا۔ وہ ہر کام چند سکنڈس میں کر دیتا ہے۔ پی سی اس قدر معاون و مددگار ہے کہ وہ خود بتاتا جائے گا کہ اس سے کس طرح کام لیا جائے۔ پی سی کی یہ ادا مجھے بے حد پسند آئی لیکن بعض مرتبہ محسوس ہوا جیسے پی سی ہمارا محکوم نہیں ہے بلکہ بہت شاطر اور چالاک آقا ہے اور ہم اس کے غلام ہیں۔ ہم اس کے سامنے گاؤدی اور بے وقوف بنے بیٹھے ہیں اور وہ حسبِ منشا ہم سے کام کروا رہا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے کے لیے حکم دیا جائے تو پی سی صاف مکر جائے گا۔ ’ایسا ممکن نہیں ہے۔ ‘تب آپ چوہے کی مدد سے پی سی کے ہر دریچے میں جھانک کر اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے رہیں لیکن مجال ہے کہ پی سی خود کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر دے !

کتابیں پڑھ کر، لوگوں سے پوچھتے ہوئے اور خود پی سی کی ہیلپ اور ہدایات سے میں، بیگم اور بچے پی سی استعمال کرنے کے قابل ہو گئے۔ خوب وقت گزرنے لگا۔ میں نے جب اس نئی تفریح کا ذکر اپنے ایک دوست سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا۔ ’میاں تم اپنے پی سی کو مختلف دوسرے پی سیوں سے جوڑ دو۔ بہت لطف آئے گا۔ تمھارے قبضے میں ایک نہیں کئی الہ دین کے چراغ ہوں گے۔ ‘

ہم نے دوست کا مشورہ مان کر اپنے پی سی کو دنیا جہاں کے ’پی سیوں ‘سے مربوط کیا۔ ماہرین نے اس عمل کو انٹرنیٹ کا نام دے رکھا ہے۔ مختلف مقامات کے پی سیوں سے جڑتے ہی ہمارا پی سی بہت تیز اور ہوشیار ہو گیا۔ اس کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا۔ ہم نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنے پی سی کو حکم دیا کہ امریکہ کی تاریخ بتاؤ۔ وہ دوسرے کئی کمپیوٹرس کی مدد سے ریڈ انڈین کے زمانے سے امریکہ کی تاریخ بتانے لگا۔ کبھی پوچھا کہ اطالوی کاپوچینی کافی کے بارے میں معلومات بہم پہنچاؤ اور پھر اسے تیار کرنے کی ترکیب بتاؤ۔ اس مرتبہ بھی ہمارے پی سی کی مدد کے لیے دوسرے کمپیوٹرس آگے آ گئے۔ ہم نے کبھی غالب کے کلام کے ساتھ شیکسپیر کی رومیو جولیٹ کی فرمائش کی تو کبھی کرکٹ میں سب سے زیادہ رن بنانے والے کھلاڑی کا نام پوچھا، کبھی ڈالر کی قیمت پوچھی تو کبھی پونڈ کا مزاج دریافت کیا، کبھی سونے کا بھاؤ معلوم کیا تو کبھی تیل کی قیمت پوچھی، کبھی جرمن سکھانے کے لیے کہا تو کبھی فرنچ میں ترجمہ کی درخواست کی، کبھی انگولہ کے صدر کا نام بتانے کے لیے کہا تو کبھی تھائی لینڈ کے کسی صوبے کے گورنر کی عمر دریافت کی۔ غرض ہر کام کے لیے پی سی تیار ہے اور چند منٹوں بلکہ سکنڈوں میں جواب حاضر ہے۔

علم و آگہی کی اس وسعت کے باوجود انکسا ری اور فرمانبرداری کی انتہا ہے کہ بٹن دبایا اور پی سی خدمت کے لیے حاضر ہے ! ہم پی سی جیسے خادم کو پا کر فخر سے پھولے نہ سمائے۔ موقع ملتے ہی اس کی سنگت میں وقت گزارنا ہمیں اچھا محسوس ہونے لگا۔ بیگم نے کہیں آنا جانا بند کر دیا کہ انہیں پی سی پر کام کرنا ہے۔ سہیلیوں کو فون کر کے رعب جماتیں۔ ’ابھی پی سی نے بتایا کہ دنیا کے اسّی فی صد ذرائع صرف بیس فی صد ترقی یافتہ ملکوں کے پاس ہیں، جبکہ بقیہ اسّی فی صد لوگوں کا گزارہ صرف بیس فی صد ذرائع پر ہوتا ہے۔ کبھی تم نے سوچا، ایسا کیوں ہے ؟‘

پی سی کی آمد سے سب سے زیادہ بچے خوش ہوئے۔ باہر کھیلنے کودنے کے لیے جانے کے بجائے گھر میں پی سی کے اطراف منڈلانے لگے۔ مشکل سے انھیں پی سی سے الگ کر کے باہر بھیجنا پڑتا۔ اس کے ساتھ رہتے ہوئے بچے انجینیر اور ڈاکٹر بننے کے بجائے پی سی کے ماہر بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ پی سی کے تئیں ہماری محبت اور جنون کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ترقی کے زینے بہت تیزی سے طے کر کے پی سی کے دست نگر ہو جائیں گے۔

پی سی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ہر صبح اس سے مشاورت کر کے سارے دن کا پروگرام بنانے لگا۔ ایک صبح میں نے وقت پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس وقت صبح کے نو بج رہے ہیں۔ گرینچ کا معیاری وقت ساڑھے تین صبح ہے۔ ریاض شہر میں چھ بج کر تیس منٹ ہو رہے ہیں۔ جرمنی میں گھڑی صبح کے ساڑھے چار بجا رہی ہے۔ قاہرہ میں صبح کے ساڑھے پانچ، کراچی میں ساڑھے آٹھ اور ڈھاکہ میں ساڑھے نو بج رہے ہیں۔ جاپان، چین اور فلپائن میں اس وقت دوپہر ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سہ پہر ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں رات ہے۔

اس خیال سے کہ مختلف مقامات کا وقت بتاتے ہوئے کہیں پی سی میری ’اوقات‘ بتانے پر نہ اتر آئے، میں نے آج کی تاریخ پوچھی۔ پی سی تاریخ اور دن بتانے کے بعد پچھلے دو سو سال کی اس دن سے وابستہ تاریخ بھی پیش کرنے لگا۔ آج کے دن ۱۷۰۲ء میں برطانیہ اور روم نے فرانس پر حملہ کیا تھا۔ آج ہی کے دن ۱۷۹۹ء میں ریاست میسور کے فرماں روا ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے موسمی پیشن گوئی کے لیے کہا تو پی سی بتانے لگا۔ ’ مطلع صاف رہے گا اور دھوپ تیز رہے گی۔ درجۂ حرارت ۳۹ ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ ایر کنڈیشنر کی ضرورت محسوس ہو گی۔ ‘ اور پھر پی سی نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ محکمہ موسمیات کا بھروسہ نہیں، چھتری ساتھ رکھنا مفید ہو گا۔

پی سی نے ستاروں کی مناسبت سے آج کے دن کے لیے قسمت کا حال بھی سنایا۔ ’رومانس کے لیے آج کا دن مناسب نہیں ہے۔ سرراہ پٹ جانے کا احتمال ہے۔ بیگم بھی آپ کی ٹوہ میں رہ سکتی ہیں۔ بزنس کے لیے آج کا دن اچھا ہے۔ شیرز مارکٹ میں پیسہ ڈالنا خوش قسمتی کے دروازے کھول سکتا ہے۔ لیکن احتیاط ضروری ہے۔ خوش بختی کے لیے آج کا رنگ نیلا ہے۔ نیلا شرٹ پہننا قسمت کو چمکاسکتا ہے۔ بیگم سے ملے بغیر گھر سے نکلنا اچھا شگون ثابت ہو سکتا ہے لیکن یاد رہے لوٹنے پر آپ کی خیریت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ ۔ ۔ ‘

اور پھر ستاروں کا حال سنانا چھوڑ کر پی سی وارننگ دینے لگا۔ ’جنابِ والا، کافی وقت ضائع کر لیا۔ رات کے بچے ہوئے کھانے کا ٹفن اٹھائیے اور دفتر کے لیے چل پڑئیے۔ نو تیس کی بس، بس اب آتی ہی ہو گی۔ اس ماہ آپ چھ بار دیر سے دفتر جا چکے ہیں۔ باس کی ڈانٹ سن چکے ہیں۔ اب کیا میمو لینے اور تنخواہ کٹوانے کا ارادہ ہے ؟‘

پی سی کی وارننگ سن کر مجھے پسینہ چھوٹنے لگا اور میں اس الیکٹرانک جن سے پیچھا چھڑانے کے لیے ’کوٹ(quit) کا بٹن دبا کر بس اسٹاپ کی جانب دوڑ پڑا۔

اب ہمارے گھر میں مینو پی سی کے مشوروں پر تیار ہونے لگا۔ یہی نہیں بیگم نے بتایا کہ پکوان کی نگرانی بھی وہ خود کر رہا ہے۔ میں نے دوستوں پر رعب ڈالنے کی خاطر انہیں پی سی کے مشوروں پر بنا کھانا تناول کرنے کی دعوت دی۔ ایک دن جب سب جمع ہوئے تو میں نے احباب کے درمیان بیگم کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ ’بیگم پی سی چلانے میں ماہر ہو گئی ہیں۔ وہ اس کی اعانت سے گھرکی عنانِ حکومت بہتر انداز میں سنبھالی ہوئی ہیں۔ ‘

میری بات سن کر ایک دوست نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ ’بیویاں کیسے کیسے اڑیل شوہروں کے ساتھ زندگی کی گاڑی چلا لیتی ہیں۔ پھر پی سی کیا چیز ہے۔ اسے تو وہ انگلیوں پرنچاسکتی ہیں۔ ‘

پی سی کے تیار کردہ پکوان کے خیال سے بھوک کچھ زیادہ ہی چہک اٹھی تھی۔ کھانے کی میز کو دیکھا تو اس پر ترکاریوں اور میووں کا قبضہ تھا۔ مرغ و ماہی کا کوسوں دور تک پتا نہ تھا۔ رحم طلب نظروں سے ہم سب نے بیگم کی جانب دیکھا۔ وہ فرمانے لگیں۔ ’پی سی کہتا ہے کہ مرغن غذا سے ترکاری اور میوے بہتر ہیں۔ بہت فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں وٹامنز کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ا س نے بتایا کہ ہر دن ہمیں کم از کم پانچ قسم کی ترکاریاں اور میوے کھانا چاہیے۔ ‘

پی سی کی شہ پر بنے روکھے سوکھے کھانوں کو حلق سے اتارنے کے لیے پانی مانگا تو میرے برابر بیٹھے دوست نے پانی کو پرے ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’پی سی کا حکم ہے کہ کھانے کے دوران پانی نہیں پینا چاہیے۔ خاموشی سے پی سی کا تیار کردہ کھانا کھالو۔ ‘

پی سی کو دعائیں دیتے ہوئے ترکاری اور پھل کو زہر مار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔

مہینے کی پہلی تاریخ پر بیگم نے اخراجات کا تخمینہ اور میں نے تنخواہ اور تمام الاونس کو پی سی کے سامنے رکھا۔ حساب کرنے کے کے بعد پی سی نے بتایا کہ آمدنی اور اخراجات میں فرق تقریباً میری ایک تنخواہ کے برابر ہے۔ یعنی ہمیں گھر چلانے کے لیے مزید ایک تنخواہ چاہیے۔ پی سی سے اس مسئلہ کا حل پوچھا گیا۔ا س نے مختلف تجاویز پیش کیں۔

پہلا حل تھا کہ خرچ کم کیا جائے۔ ہم نے پی سی کو بتایا کہ گرانی کے دور میں خرچ کم ہونا ناممکن ہے۔ کمی کے برخلاف اضافے کی قوی امید ہے۔ دوسرا حل تھا کہ پارٹ ٹائم جاب کیا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ موجودہ نوکری کرتے ہوئے بچوں کو پڑھانے اور ان سے بات کرنے کے لیے مشکل سے وقت ملتا ہے، پارٹ ٹائم نوکری کے لیے وقت کہاں سے لاؤں۔ میں نے پی سی سے کچھ وقت مستعار مانگا تو پی سی نے بتایا کہ اس کے پاس بھی وقت کی بے انتہا کمی ہے۔ تیسرا مشورہ تھا کہ اس مسئلہ کے مستقل حل کے لیے کوئی بڑا ہاتھ مارا جائے۔ ہم نے قیاس کیا کہ وہ لاٹری کا ٹکٹ خرید کر قسمت آزمانے کی صلاح دے گا لیکن پی سی نے بنک میں ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ پیش کیا اور بتایا کہ منصوبہ بہت شاندار اور فول پروف ہے۔ اسے ماہرین نے تیار کیا ہے۔ مشورہ سن کر بیگم کی حالت غیر ہونے لگی۔ بگڑی حالت بہتر کرنے کے لیے ہم نے بنک میں ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ رد کر دیا۔

بیگم نے پی سی سے رشوت کے تعلق سے پوچھا۔ اس نے رائے دی۔ ’سکۂ رائج الوقت ہے۔ چھوٹے موٹے ملازم سے لے کر سربراہان حکومت تک اسے قبول کرتے ہیں۔ آمدنی بڑھانے کا یہ ایک معقول طریقہ ہے۔ ‘

میں نے اپنی ایک آنکھ دباتے ہوئے پی سی سے کہا۔ ’میں کرتا یہی ہوں۔ ‘

پی سی نے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسا پروگرام بھی ہے جو شادی کے امیدواروں کو جیون ساتھی چننے کے لیے مشورہ دیتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی کے درمیان نباہ کے امکانات کا جائزہ لیتا ہے اور متوقع امیدواروں کو ان کی پسلی کا جوڑ بھی فراہم کرتا ہے۔ ہم نے اس پروگرام کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ میں اور بیگم نے سوال نامہ پر کر کے پی سی کے حوالے کیا اور پوچھا۔ ’کیا ہم میں نباہ ہو سکے گا؟‘

کچھ دیر گمبھیر خاموشی کے ساتھ پی سی سوچتا رہا اور پھر جواب دیا۔ ’امیدواروں کی عادات و اطوار اور خیالات قطب شمالی اور قطب جنوبی کی طرح ہیں۔ نباہ ممکن نہیں ہے۔ دونوں آپس میں شادی سے سخت پرہیز کریں۔ اگر بدقسمتی سے شادی ہو بھی جائے تو چند ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔ ‘

پی سی کا فیصلہ سن کر میں نے بیگم سے کہا۔ ’داد دیجیے بیگم، پچھلے پندرہ برس سے نباہ کیے جا رہا ہوں۔ ‘

بیگم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ’اور میں جو صبر کیے جا رہی ہوں۔ اس کا بھی حساب کیجیے گا۔ ‘

بچے گھنٹوں پی سی کے ساتھ کھیلتے رہنے لگے۔ مختلف سوالات کر کے ہمیں تنگ کرنے کے بجائے اسی سے ہر بات دریافت کر لیتے تھے۔ پی سی نے ہماری پول کھول دی تھی۔ مشکل الفاظ کے معنی معلوم کرنا، الفاظ کا جملوں میں استعمال، مختلف موضوعات پر مضامین لکھنا اور حساب کے سوالات حل کرنے سے لے کر وقت گزاری کے لیے تک بچے پی سی کا استعمال کرنے لگے۔

چند دنوں میں پی سی سب کی ضرورت بن گیا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی اس کو مصروف رکھتا۔ گھر میں ہر فرد اپنے لیے ایک الگ پی سی کی حاجت محسوس کرنے لگا۔ لیکن ہم ایک سے زیادہ پی سی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ اسی اکلوتے پی سی پر سب کا گزارہ ہونے لگا۔

ایک صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی سب ہی نے پی سی پر یلغار کر دی۔ بیگم پی سی کی مدد سے ناشتہ تیار کرنا چاہتی تھیں۔ میں الیکشن کے تازہ نتائج جاننا چاہتا تھا۔ بڑا لڑکا گذشتہ رات پی سی کو لکھوائے مضمون کے پرنٹ کا طلب گار تھا۔ لڑکی کو انگلش گرامر کے جوابات مطلوب تھے اور چھوٹے لڑکے کو پی سی پر بنائی گئی ڈرائنگ حاصل کرنی تھی۔ ہم آپس میں لڑتے جھگڑتے پی سی کو مختلف مقامات سے دبانے لگے۔

تنگ آ کر اور کسی کی نہ سنتے ہوئے پی سی نے احتجاجی پیغام دیا۔ ’آپ لوگوں کو مزدوروں سے کام لینے کا سلیقہ نہ پہلے آتا تھا اور نہ اب آتا ہے۔ ظلم سہتے سہتے آخر مزدور جاں بحق ہو جاتا ہے۔ ‘ اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔

ہم مختلف بٹن دباتے ایک دوسرے کے چہرے تکتے رہے لیکن پی سی کے چہرے پر اندھیرا ہی رہا۔ میں نے بیگم سے کہا۔ ’اب آپ سی ڈی لے جا کر مہارانی صاحبہ کے پی سی کی مدد لیجیے۔ ہمارا کام بن جائے گا اور انہیں معلوم بھی ہو جائے گا کہ آپ بھی پی سی رکھتی ہیں۔ ‘

بیگم نے کچھ نہیں کہا لیکن غصّہ اور بے بسی سے مجھے اور پی سی کو گھورنے لگیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، سالنامہ، دسمبر 1998ء

 

 

 

 

شریکِ زندگی

 

آخرِ کار بیگم نے دھمکی دے ہی دی۔ ’اگر آپ نے ایک ہفتہ کے اندر کار نہیں خریدی تو میں میکے چلی جاؤں گی۔ ‘

عرصہ سے بیگم کا اصرار تھا کہ ہمیں ’بے کار‘ سے ’با کار‘ ہونا چاہیے۔ مختلف بہانے کر کے میں ٹالتا رہا۔ کبھی انھیں سمجھایا۔ ’ہمیں کار کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بچوں کا اسکول قریب ہے۔ وہ کھیلتے کودتے اسکول جاتے اور آتے ہیں۔ میں دفتر بس میں جاتا ہوں۔ کہیں باہر جانے کے لیے ٹیکسی مل جاتی ہے اور پھر صاحبِ کار دوست احباب ہماری مدد کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ خدا انھیں حادثوں سے محفوظ رکھے۔ ‘

بیگم نے تلخ لہجہ میں جواب دیا۔ ’آمین۔ مگر آپ کو کیا پتا! آپ کی مدد کرنے والے دوستوں کی بیویاں، کار نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بے کار اور بے وقعت سمجھتی ہیں۔ کل ہی آپ کے ڈاکٹر دوست کی بیوی کار کے سفر کا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ انھیں، بغیر کار زندگی گذارنے والے لوگ قرونِ وسطیٰ کے باشندے لگتے ہیں، جنھیں آج کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ‘

’انھوں نے مذاق میں کہا ہو گا۔ ‘ میں نے اپنے دوست کی بیگم کی صفائی میں کہا۔

’جی نہیں۔ وہ سنجیدہ تھیں اور میں بھی سنجیدہ ہوں۔ ہم کار ضرور خریدیں گے۔ ‘ بیگم نے اپنا مطالبہ دہرایا۔

حادثوں سے ڈرا کر میں نے بیگم کو کار خریدنے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ’کار رکھنے سے حادثے کا خدشہ رہتا ہے۔ معلوم نہیں کب حادثہ ہو جائے۔ جان سے ہاتھ دھونے اور معذور ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ ‘

بیگم نے میرا مضحکہ اڑایا۔ ’صرف آپ ہی کی کار کو نشانہ بنایا جائے گا! لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ کب آپ کار لے کر سڑک پر آئیں تو اسے ٹکر ماریں۔ یوں ہی آپ کے اندیشوں سے حادثہ نہیں ہو گا اور ہو گا بھی تو جب ہو گا تب دیکھا جائے گا۔ پہلے کار خرید کر حادثہ ہونے کا امکان تو پیدا کیجیے۔ ‘

میں نے آخری حربہ استعمال کیا۔ ’اب آپ سے کیا چھپانا بیگم۔ بات در اصل یوں ہے کہ کار چلانے سے مجھے ڈر ہوتا ہے۔ ‘

’ڈرنے کی کیا بات ہے۔ کار چلاتے وقت میں آپ کے ساتھ رہوں گی۔ آپ کے برابر بیٹھ کر کار چلانے میں آپ کی مدد کروں گی۔ ‘ بیگم نے اپنی دانست میں میری ہمت بندھائی۔

’آپ کا اصرار ہے تو پھر سوچتے ہیں۔ ‘ میں نے ٹالنے کے لیے کہا۔

میں خاموش ہوا تو بیگم کہنے لگیں۔ ’کار رکھنے سے ہماری حیثیت میں اضافہ ہو گا۔ کار والوں کی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ شاندار اور نئی کار کو لوگ مرعوب ہو کر دیکھتے ہیں۔ بعض تو سلام بھی کرتے ہیں۔ بچے کار کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ کار میں بیٹھنے والے کی عزت کی جاتی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کار میں کون بیٹھا ہے۔ اگر یہی کار نشین پیدل چلے تو اسے کوئی پوچھتا نہیں۔ ۔ ۔ ‘

’یہ اس وقت ہوتا تھا جب کار نشینوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ‘ میں نے بیگم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’ اب تو ہر ایرے غیرے کے پاس کار ہے۔ آج کار نہ رکھنا فیشن ہے۔ ‘

پھر بھی بیگم خاموش نہیں ہوئیں، کار رکھنے کے فائدے گنانے لگیں۔ ’کار رکھنے سے ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے بلکہ یوں کہیے کہ ہم پہیوں پر ہوں گے۔ جہاں جی چاہے آ اور جا سکیں گے۔ لوگوں کا احسان اٹھانے سے ہم بچ جائیں گے۔ انھیں ہمیں لفٹ نہیں دینا پڑے گا بلکہ ہم دوسروں کو اپنی کار میں بٹھائیں گے۔

کار نشین ہونے سے وقت اور پیسہ بچے گا۔ ٹیکسی والوں کے ناز نخرے نہیں اٹھانے پڑیں گے۔ وقت پر ٹیکسی نہ ملنے کی کوفت سے بھی بچ رہیں گے اور ٹیکسی والوں کی ہڑتال کا ہم پر اثر نہ ہو گا۔

آپ کار میں بیٹھیں گے تو دانشور نظر آئیں گے اور جب آپ کار چلائیں گے تو مزید اسمارٹ دکھائی دیں گے۔ ‘ڈھیر سارے فائدے گنانے کے باوجود جب میں نے کار نہیں خریدی تو بیگم نے میکے جانے کی دھمکی دی اور اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوٹ کیس میں کپڑے جمانے لگیں۔

میں نے ایک جہاندیدہ دوست سے کار خریدنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ موصوف نے خبردار کیا۔ ’میاں ایسی غلطی کبھی نہ کرنا۔ بیوی اور گاڑی کو بیک وقت سنبھالنا، تم جیسے ڈرپوک شوہر کے بس میں نہیں ہے۔ ایک وقت میں تم کسی ایک ہی سے نمٹ سکتے ہو۔ دونوں کے ساتھ نباہ کرو گے تو پریشان ہو جاؤ گے لیکن۔ ۔ ۔ ‘

’لیکن کیا؟‘ میں نے بے چینی سے دریافت کیا۔

کچھ دیر گہری سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد انھوں نے کہا۔ ’لیکن بیگم کی دھمکی کے بعد اب کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ بیوی اور بچوں کے بغیر تم پریشان تو ہو گے ہی لیکن ساتھ ہی تمھارے پاگل ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ بہتر ہے کہ کار خریدنے کی غلطی کر ہی ڈالو۔ ‘

موصوف کا مشورہ سن کر میں نے کار خریدنے کا ارادہ کرتے ہوئے کہا۔ ’انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور پھر مرد سے تو بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ شادی کرنا بھی ایک بہت بڑی بھول ہے۔ میں نے یہ غلطی کی ہے۔ اب بیگم کے اصرار پر دوسری بڑی غلطی بھی کر لیتا ہوں۔ اب ان دو غلطیوں کے درمیان میرا جو حشر ہوسوہو۔ ‘

’خدا تمھارا حامی و نگہبان رہے اور تم کو حوصلہ دے۔ ‘ موصوف نے مجھے دعا دی۔

کار خریدنے کے بعد ایک اور ’صنفِ نازک‘ میری شریک زندگی بن گئی۔ کار کی ذمہ داری بھی اب میرے سر پر آن پڑی۔ اس کی دیکھ بھال کرنا اور اس کی صحت کا خیال رکھنا، میرے روزمرّہ میں شامل ہو گئے۔ کار کے ظاہری حسن کی برقراری کے لیے صابن، شیمپو، لوشن اور نہ جانے کیا کچھ خریدنا پڑا۔ صبح اٹھ کر میں کار کو صابن اور شیمپو لگا کر غسل دیتا اور لوشن اور پیسٹ لگا کر مالش کرتا۔ پھر دیکھتا کہ کہیں تیل پانی کم تو نہیں ہوا ہے۔ پہیوں کی ہوا چیک کرتا۔ اگر کم ہوتی تو ان میں ہوا ڈالتا اور اگر زیادہ ہوتی تو ہوا نکالتا۔ کار اسٹارٹ کر کے آواز سنتا اور جب کبھی کار کی آواز یا چال میں ذرا بھی اونچ نیچ محسوس کرتا تو فوراً اسے ’کار کلینک‘ لے جاتا۔ وہاں تفصیلی معائنہ کرواتا اور اس کے علاج میں کوئی کسر باقی نہ رکھتا۔ میں کار کو سجا اور سنوارکر رکھنے میں بھی خاصی دلچسپی لیتا۔ میری کوشش ہوتی کہ کار، دلہن کی طرح نظر آئے۔ غرض میں اپنی نئی ذمہ داری پوری دل جمعی سے نبھانے لگا۔

کار کی خاطر مدارت میں صبح اور شام مصروف رہنے لگا تو بیگم کو مجھ سے شکایتیں ہونے لگیں۔ جب میں کار صاف کر رہا ہوتا تو وہ مجھے کھینچ کر اندر لے جاتیں۔ ’اپنا وقت یوں نہ برباد کیجیے، چل کر کچن میں میرا ہاتھ بٹائیے۔ ‘

کبھی مرمت کے لیے کار لے جانے نکلتا تو بیگم مجھے روک دیتیں۔ ’ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ کار چل تو رہی ہے۔ جب ٹھہر جائے گی، تب دیکھا جائے گا۔ ‘

کار کی تعریف کرنا بھی بیگم کو ناگوار گزرتا۔ جب میں کار کو خوب صورت، اس کی چال کو مستانی اور اس کی آواز کو سریلی کہتا تو بیگم سے بالکل بھی برداشت نہیں ہوتا۔ مجھے سمجھانے لگتیں۔ ’بے جان چیزوں کا اتنا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور ان سے دل بھی نہیں لگایا جاتا۔ پرانی یا خراب ہو جائیں تو اسے تبدیل کر کے دوسری لے آتے ہیں۔ ‘

جب میں کار کی خدمت کر کے تھک جاتا اور چاہتا کہ چند لمحے آرام کر لوں، اسی وقت بیگم تیار ہو کر آن کھڑی ہوتیں۔ ’چلیے۔ بازار سے خریداری کرنی ہے۔ ‘

کار کی سنگت میں میری کچھ اچھی عادتیں ختم ہونے لگیں اور ان کی جگہ خراب عادتیں پڑنے لگیں۔ کہیں جانا ہوتا، چاہے وہ دس قدم ہی کیوں نہ ہو، میں کار کی چابیاں اٹھا لیتا۔ چلنا پھرنا ختم ہوا۔ موقع ملتے ہی تفریح کے نام پر میں کار کے سنگ لانگ ڈرائیو پر نکل جاتا۔ بیگم کو یوں میرا تنہا کار کے ساتھ آنا اور جانا پسند نہیں آتا۔ وہ کار کی چابیاں مجھ سے چھین لیتیں اور مجھے سمجھاتیں۔ ’ہر وقت کار کا استعمال ٹھیک نہیں ہے۔ کار آپ کی جوتی نہیں ہے کہ اس کے بغیر باہر نہیں جا سکتے اور پھر کار کی گود میں زیادہ بیٹھنا صحت کے لیے مضر ہے۔ پیدل چلا کیجیے، ڈاکٹروں کا مشورہ بھی ہے۔ ‘

کار آنے کے بعد سے بیگم کا رویّہ میرے لیے ناقابلِ فہم تھا۔ سوچا کہ بیگم کو ان کے بدلے ہوئے رویے پر توجہ دلاؤں لیکن پھر خیال آیا کہ یہ تبدیلی وقتی ہے۔ جب کار پرانی ہو جائے گی تو بیگم بھی نارمل ہو جائیں گی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کار بیگم کے دل سے اترتی گئی۔ انھیں کار میں بیسوں نقص نظر آنے لگے اور انھیں اپنی کار سے زیادہ دوسروں کی کاریں اچھی دکھائی دینے لگیں۔ وہ کار کو برا بھلا کہنے سے نہیں چوکتی تھیں۔

ادھر میرا حال ان سے بہت مختلف تھا۔ جیسے جیسے کار کے ساتھ دن گزر رہے تھے وہ مجھے پسند آنے لگی تھی !

تجربے سے مجھے عرفان حاصل ہوا کہ شوہر، بیوی اور گاڑی کا ایک مثلث بنتا ہے اور اس مثلث کے ہر کونے پر ایک دوسرے سے عجیب و غریب تعلق ہوتا ہے۔ بیوی اور کار میں رشتہ سوتن جیسا ہوتا ہے جبکہ شوہر ان دونوں کے درمیان رہتا ہے۔ اس کے لیے یہ امتحانی مرحلہ ہوتا ہے جب وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کسے ترجیح دی جائے۔ شوہر کے لیے اکثر بیوی تو کبھی کار بھی مقدم ہو جاتی ہے۔ اسی لیے جہاندیدہ لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ اگر شوہر بیوی کے لیے کار کا دروازہ کھولتا ہے تو سمجھیے کہ کار نئی ہے یا بیوی!بعض پرانی بیویاں شوہر سے مستقل کار کا دروازہ کھلوانے کے لیے بار بار نئی کار کا مطالبہ کرتی ہیں۔

کہنے کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ شوہر کار اور بیوی دونوں کا حاکم ہوتا ہے لیکن اکثر و بیشتر وہ دونوں کے آگے ’بے بس و لاچار‘ بلکہ وقتِ واحد میں دونوں کا تابع ہوتا ہے۔ بیوی کے اشاروں پر کار چلانی پڑتی ہے۔ اکثر مجھے محسوس ہوا کہ میں شوہر کے بجائے مادام کا شوفر ہوں۔ بیگم کو شاپنگ کے لیے بازار اور ملاقات کے لیے ان کی سہیلیوں کے گھر لے جانا پڑتا۔ بیوٹی پارلر کے آگے انتظار بھی کرنا پڑتا۔

بیگم کا انتظار، میں کار کے اندر نیم دراز ہو کر کرتا۔ مجھے کار میں لیٹنا اچھا لگتا۔ کار کی گود میں کبھی نیند بھی آ جاتی اور اسی وقت بیگم نمودار ہو جاتیں اور مجھے ڈانٹنے لگتیں۔ ’آپ کو تو موقع ملنا چاہیے۔ موقع اور محل کا بھی خیال نہیں رہتا۔ ایسی ڈھٹائی سے لیٹتے ہیں کہ میری توبہ، مجھے شرم آتی ہے۔ ‘

جب کار حکم چلاتی ہے تو دھکے لگواتی، پیدل دوڑاتی اور خود سواری ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کسی دوسری سواری پر سوار کرواتی ہے۔

میں نے چند باتیں بیوی اور گاڑی میں مشترک بھی پائیں۔ دونوں گرم ہو سکتی ہیں۔ دونوں بے قابو ہو سکتی ہیں۔ موڈ بگڑا تو بیوی خاموش اور کار آف ہو جاتی ہے۔ اچھی طرح رہتے رہتے کبھی بیوی یکدم سے ناراض ہو جاتی ہے تو کار چلتے چلتے یکدم سے بند ہو جاتی ہے۔ دونوں کے بگڑنے کا نہ وقت معیّن ہوتا ہے اور نہ ہی آسانی سے بگڑنے کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ دونوں ہی شوہر کی ناک میں دم کر سکتی ہیں اور دونوں ہی اس کی جیب پر بھاری پڑسکتی ہیں۔

جب میں نے بیگم کو اپنے برابر بٹھا کر کار چلانی شروع کی تو مجھے بے انتہا مصائب اور آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ اندازہ ہوا کہ بیگم کے مشورے پر کار خریدنے سے بڑی غلطی بیگم کو برابر بٹھا کر کار چلانا ہے۔ سجھائی نہیں دیتا کہ اپنی سمجھ اور تجربے کے مطابق کار چلاؤں یا بیگم کی ہدایات پر عمل کروں۔ اس بات کا فیصلہ کرنا بھی میرے لیے مشکل ہوتا کہ بیگم کی باتیں سنوں، انھیں جواب دوں یا ان سے بے تعلق رہوں۔ بعض مرتبہ بیگم سے نظریں ہٹا کر سڑک پر جمانا مشکل ہوتا۔ قصّہ مختصر بیگم کو برابر بٹھا کر کار چلانا جوئے شیر لانے سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ ایک تجربے کار فوجی ڈرائیور نے بتایا کہ تیس سال کی نوکری کے دوران اس نے سائیکل اور کار سے لے کر ٹرک اور ٹینک تک، ہر قسم کی گاڑی بغیر کوئی حادثہ کئے چلائی تھی۔ ایسا صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ نوکری پر اس کی بیوی اس کے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔

کار میں بیگم کے قدم رکھتے ہی مسائل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی میں کار میں پہلے بیٹھ گیا تو بیگم نے شکایت کی۔ ’آپ خواتین کا لحاظ نہیں کرتے۔ آپ سلیقہ مند بھی نہیں ہیں۔ دوسرے شوہروں کو دیکھیے، کس طرح وہ اپنی بیویوں کو کار میں سوار کرواتے ہیں۔ ‘

بیگم کی تنقید سن کر جب میں کار میں سوار ہونے کے لیے انھیں آگے کر کے خود پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا رہا تو بیگم نے دریافت کیا۔ ’آپ نے میرے لیے کار کا دروازہ کیوں نہیں کھولا؟‘

جب میں نے کار کا دروازہ کھول کر بیگم کو ادب و احترام کے ساتھ کار میں سوار کر کے سیلیوٹ کیا تو ارشاد ہو۔ ’اس کی کیا ضرورت تھی۔ آپ تماشہ خوب کرتے ہیں۔ ‘

اور جب بیگم کار میں بیٹھنے کے بعد خود بھی کار میں بیٹھ کر دروازہ بند کیا تو بیگم نے تنقید کی۔ ’اف۔ آپ کتنی زور سے دروازہ بند کرتے ہیں۔ پوری گاڑی ہل گئی۔ محسوس ہوا جیسے زلزلہ آیا ہے۔ اس طرح کار بہت جلد خراب ہو جائے گی۔ ‘

میں نے کچھ کہنے کے لیے بیگم کی جانب دیکھا تو انھوں نے ہدایت کی۔ ’دیکھ لیجیے۔ دروازہ لاک ہے یا نہیں۔ ‘ پھر جواب کا انتظار کئے بغیر پوچھا۔ ’آئینے ٹھیک سے سیٹ ہیں ؟ چلنے سے پہلے ہوا، پانی اور تیل چیک کر لیا ہے نا ؟‘

میں نے زچ ہوتے ہوئے جواب دیا۔ ’یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے سب پتہ ہے۔ ‘

بیگم نے میری خفگی دور کرنے کی کوشش کی۔ ’خفا کیوں ہوتے ہیں۔ یاد دہانی کروانے میں کیا قباحت ہے۔ دیکھیے ! آپ کی باتوں میں، میں سفر کی دعا پڑھنا بھول گئی۔ کیا آپ نے دعا کر لی؟‘

میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے ڈرتے ڈرتے آگے بڑھانے لگا۔ اس دوران بیگم نے دعا پڑھ کر اپنے آپ پر، مجھ پر اور کار میں پھونک ماری اور مجھ سے مخاطب ہوئیں۔ ’کار آہستہ چلائیے۔ کوئی آپ کا پیچھا یا آپ کسی کا تعاقب نہیں کر رہے ہیں۔ تیز مت بھگائیے، کہیں حادثہ نہ ہو جائے۔ آپ کو تو پتا ہے حادثات کا سب سے اہم سبب تیز چلانا ہے۔ ۔ ۔ ‘ بیگم باقاعدہ لیکچر دینے لگیں۔

کار چلتے رہنے کے ساتھ بیگم کی زبانی اور عملی ہدایات بھی جاری رہتی ہیں۔ ایک مرتبہ میں کار چلانے میں محو تھا کہ بیگم نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’اُدھر دیکھیے۔ وہ شخص سڑک پار کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ رک جائیے، کہیں وہ سامنے نہ آ جائے۔ ‘

’آپ فکر نہ کریں۔ وہ نہیں آئے گا۔ ہر کسی کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے۔ اور اگر وہ سڑک پار کرنے لگے تو بھی اس کے بیچ میں آنے تک ہم گذر جائیں گے۔ آپ خاموشی سے سفر کا لطف اٹھائیے اور مجھے سکون سے کار چلانے دیجیے۔ ‘ میں نے بیگم کو خاموش کرنے کے لیے کہا۔

جواب ملا۔ ’جی نہیں، یہ آپ کا قیاس ہے۔ مفت میں بیچارے کی جان جائے گی۔ قاتل نہ بنیے۔ خدا کے واسطے رک جایئے۔ ‘

مجبوراً سڑک کے بیچ رک کر میں نے راہ گیر کو سڑک پار کرنے کی دعوت دی۔ اس نے اشارے سے بتایا کہ وہ یوں ہی سڑک پر کھڑا ہے۔ فی الحال، سڑک پار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

بیگم کھسیانی ہو کر اس شخص کو ڈانٹنے لگیں۔ ’عجیب آدمی ہے۔ ہمارا وقت برباد کر دیا۔ جاہل، گنوار، ان پڑھ کہیں کا!‘ بیگم کی ڈانٹ پھٹکار کار کے باہر نہیں گئی۔ کھڑکیوں اور دروازوں سے ٹکرا کر مجھ پر آن پڑی۔

میں نے بیگم کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا تو وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے کہنے لگیں۔ ’گرمی زیادہ ہے۔ اے سی بڑھائیے پلیز۔ ‘

کچھ دیر خاموشی رہی۔ میں اطمینان سے کار چلاتا رہا۔ اچانک بیگم میری جانب جھک کر خوف زدہ لہجے میں کہا۔ ’خدا کی پناہ سامنے سے کتنا بڑا ٹرک آ رہا ہے !‘

میں نے گھبرا کر گاڑی ایک طرف کر لی۔ ہمیں اس طرح اچانک سڑک چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہماری کار اور ٹرک کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ وہ تو خیریت رہی کہ ہماری کار کے پہلو میں کوئی دوسری گاڑی نہیں تھی ورنہ نتیجہ بھیانک نکلتا۔ ٹرک ڈرائیور میری بوکھلاہٹ پر ہنسنے لگا اور کچھ اشارہ کرتے ہوئے گزر گیا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’اناڑی ڈرائیور ہے۔ ‘

بیگم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ’مالک کا کرم ہوا کہ ہم بچ گئے۔ میں تو سمجھی کہ آپ نے اپنی کار کو ٹرک سے بھڑا دیا۔ ‘

’جی، مجھے خودکشی کا شوق نہیں ہے اور آپ کے ساتھ تو بالکل ہی نہیں۔ ‘ میں نے جل کر جواب دیا۔

’ناراض کیوں ہوتے ہیں۔ میں نے اس خیال سے آگاہ کیا کہ آپ کی دور کی نظر کمزور ہے اور آپ کو ٹرک نظر نہ آیا ہو گا۔ ‘ بیگم نے اپنے ڈر کی وجہ بتائی۔

’مجھے پتا ہے کہ میری بینائی کمزور ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ آپ بار بار مجھے یاد دلاتی رہیں۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ میں ہر وقت چشمہ استعمال کرتا ہوں۔ شاید آپ کو میرے چہرے پر موٹے عدسوں کا چشمہ دکھائی نہیں دیا۔ ‘ میں نے درشت لہجے میں کہا۔

’اچھا بابا، اب میں کچھ نہیں کہوں گی۔ ‘ بیگم خاموش ہو گئیں۔

جب کبھی ٹریفک اشارہ آتا، بیگم مجھے یاد دلاتیں۔ ’دیکھیے وہ سگنل ہے، آپ کو رکنا ہے۔ ‘

اکثر اوقات میں صرف ’جی‘ کہہ کر اپنا جی جلا لیتا تو کبھی بیگم سے الجھ بھی پڑتا۔ ایک مرتبہ میں نے جواب دیا۔ ’میں رنگوں کا اندھا نہیں ہوں، اشارہ سبز ہے۔ ‘

’ہمارے وہاں پہنچنے تک لال ہو جائے گا۔ آپ گاڑی کی رفتار کم کریں۔ ‘ بیگم نے مشورہ دیا۔

’میں اسے سرخ نہیں ہونے دوں گا۔ ‘ کہہ کر میں نے رفتار بڑھائی اور کار کو زرد بتی پر نکال لے گیا۔ میری اس حرکت پر بیگم اور سگنل دونوں ہی لال ہو گئے۔

سفر ختم ہونے اور کار پارک کرنے کے بعد بھی میری تکالیف کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ بیگم گاڑی سے اترنے سے پہلے احکامات جاری کرتی ہیں۔ ’آئینے چڑھا کر کار اچھی طرح سے بند کیجیے۔ چابیاں کار میں نہ بھولیے گا بلکہ آپ چابیاں مجھے دیجیے۔ ‘ پھر کئی بار دہرائے گئے ایک پرانے واقعہ کی یاد دلاتیں۔ ’آپ کو یاد ہے ؟ ایک مرتبہ آپ نے چابیاں اندر چھوڑ کر کار بند کر دی تھی۔ کھڑکی کا شیشہ توڑنا پڑا تھا۔ ‘

کار سے اترنے کے بعد مقامِ پارکنگ کا معائنہ کر کے بیگم چند سوالات کرتی ہیں۔ ’کیا یہاں گاڑی کھڑی کی جا سکتی ہے ؟ کہیں آس پاس نو پارکنگ کا بورڈ تو لگا ہوا نہیں ہے ؟‘ پھر کار پارکنگ پر اظہارِ خیال فرماتی ہیں۔ ’آپ نے کار ٹیڑھی کھڑی کی ہے۔ کار کا پچھلا حصّہ آگے ہے۔ ‘ وغیرہ۔

میں صرف چند ہفتوں تک کار اور بیگم کے ساتھ نباہ کر پایا۔ دونوں کے ساتھ نباہ کرنے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ میری طبیعت خراب رہنے لگی۔ جلد تھک جاتا۔ بھوک نہیں لگتی۔ کمر میں درد رہتا۔ نیند نہیں آتی۔ وزن کم ہوا اور بلڈ پریشر میں اضافہ بھی ہوا۔ جسم میں شکر بڑھ کرذیابیطس کا خدشہ بھی لاحق ہونے لگا۔

میں ڈاکٹر سے رجوع ہوا۔ ڈاکٹر نے میری حالت کا بغور معائنہ اور مطالعہ کر کے مشورہ دیا۔ ’آپ کا مسئلہ دو شریکِ زندگیوں کے ساتھ نباہ کرنا ہے۔ علاج کے لیے کسی ایک کو چھوڑنا ضروری ہے۔ ‘

ڈاکٹر کے مشورے کے پیش نظر بہت سوچ سمجھ کر میں نے کسی ایک کو چھوڑ نے کا فیصلہ کیا۔ کار کی چابیاں بیگم کے حوالے کرتے ہوئے میں نے کہا۔ ’آپ کی ضد پر میں نے کار کو قبول کیا تھا۔ یہ فتنہ مجھ سے سنبھل نہیں پاتا۔ اب آپ اسے اپنے تصرف میں رکھیں، بیچ دیں یا پھر اس کی نکیل کسی مشاق ڈرائیور کے ہاتھ میں دے دیں۔ آپ کی مرضی، جو چاہیں کریں۔ ۔ ۔

میں دو کے ساتھ نباہ نہیں کر سکتا۔ میں صرف ایک شریکِ زندگی کے ساتھ گزارہ کر لوں گا۔ میرے لیے آپ ہی بہت ہیں۔ ‘

آخری جملہ میں نے دل ہی دل میں کہا تھا۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی،ا گسٹ 2000ء

 

 

 

 

لو لیٹر

 

ایک سہانی صبح میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ اخبار پڑھتے ہوئے آرام کرسی پر نیم دراز تھا۔ بیگم سامنے تپائی پر بیٹھی ترکاری بنا رہی تھیں۔ موسمَ گرما ختم ہوا چاہتا تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے ملگجے بادلوں نے سایہ کر رکھا تھا۔ ٹھنڈی اور خوشگوار مون سونی ہوائیں پودوں کو جھومنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ماحول کا اثر تھا یا موقع ہاتھ آ گیا تھا، اچانک بیگم نے شکایت کی۔ ’آپ نے مجھے کبھی لو لیٹر نہیں لکھا۔ ‘

مجھے بیگم سے اس قسم کی شکایت کی توقع نہ تھی۔ بیگم کو مجھ سے ہزارہا گلے شکوے ہیں۔ میرے خیال میں یہ قدرتی بات ہے۔ بیوی کی ہزاروں خواہشیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہر خواہش پر شوہر کا دم نکلتا ہے۔ خواہشوں کے ساتھ بیوی کو شوہر نامدار کی جان بھی عزیز ہوتی ہے۔ نتیجتاً وقت کے ساتھ بیوی کی خواہشیں اور ارمان شکایتوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ بیگم کی خلافِ توقع شکایت پر یقین نہ آیا۔ میں نے استفسار کیا۔ ’کون سا لیٹر؟‘

’لو لیٹر ‘ بیگم نے لو پر زور دیتے ہوئے تفسیر کی۔ ’لو لیٹر یعنی محبت نامہ، عشقیہ خط، پریم پتر۔ ‘

عجیب و غریب بات پھر بھی پلے نہ پڑی تو میں ہکلا یا۔ ’یعنی میں۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ لو لیٹر۔ ۔ ۔ ‘

بیگم نے تیوری چڑھائی، آنکھیں نکالیں اور ہاتھ میں موجود چاقو کو لہراتے ہوئے آواز اونچی کر کے بولیں۔ ’اور کون لکھے گا۔ شادی ہوئے دس سال گذر چکے ہیں۔ اس عرصہ میں کیا آپ نے مجھے کوئی لو لیٹر لکھا ہے ؟‘

میں بیگم کو سمجھانے لگا۔ ’کبھی موقع نہ ملا کہ میں آپ کو لو لیٹر لکھتا۔ لو لیٹر کے لیے محبت کرنا اور عشق کی طوفانی اور وجدانی کیفیت سے گزر کر زمانے کی رسموں اور ریتوں سے بغاوت کرنا ضروری ہے۔ ہم اس نعمت بلکہ زحمت سے محروم رہے۔ میں اور آپ نیک سیرت، صالح اور فرمانبردار نوجوان تھے۔ والدین نے ہمیں ایک دوسرے کے لیے پسند کیا اور شادی کر دی۔ لو لیٹر لکھنے کا موقع ہی ہاتھ نہ آیا۔ ‘

بیگم نے لو لیٹر نہ تحریر کرنے کے سبب کا الٹا نتیجہ اخذ کیا۔ ’صاف لفظوں میں کہیے نا۔ مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔ بزرگوں نے شادی کی، سو نباہ رہا ہوں۔ ‘

میں اپنا سر پیٹ لینا چاہا لیکن باز رہا۔ کہیں بیگم اس فعل کا کوئی اور مطلب نہ نکالیں۔ میں نے صفائی پیش کی۔ ’بیگم دس سال کے دوران ہزار مرتبہ اپنی اٹوٹ اور بے پناہ محبت کا یقین دلا چکا ہوں۔ کئی مرتبہ ’پتی پرکشا‘ سے گذر چکا ہوں۔ ۔ ۔ ‘

’لیکن کبھی لکھا نہیں ہے۔ دوچار پیار بھرے کلمات لکھ دیتے تو میں خوش ہو جاتی!‘

’چلیے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کر دیتا ہوں۔ ‘ میں نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔ ’کاغذ اور قلم لائیے، حلفیہ لکھ دیتا ہوں یا وکیل بلائیے، وصیت لکھوا دیتا ہوں۔ ‘

’آپ خواہ مخواہ ناراض ہونے لگے۔ لوگ محبت میں صحرا کی خاک چھانتے ہیں۔ پہاڑ کھود کر نہر نکالتے ہیں۔ شاندار عمارتیں اور مقبرے بنواتے ہیں۔ میں نے ایسی کوئی بے جا خواہش کا اظہار تو نہیں کیا ہے۔ صرف لو لیٹر کی فرمایش کی ہے۔ ‘

’ٹھیک ہے۔ میں آپ کو لو لیٹر لکھوں گا۔ ‘ میں نے ہتھیار ڈال دئیے۔

’کب ؟‘ بیگم فوری پوچھ بیٹھیں۔

’موقع میسر آتے ہی۔ ‘میں نے جواب دیا۔

’یعنی دفتر میں۔ ‘بیگم نے اندازہ لگایا۔

’جی نہیں۔ دفتر میں کام رہتا ہے۔ ‘ میں نے بتایا۔

’مجھے معلوم ہے دفتر میں کتنا کام ہوتا ہے ! اگر دفتر میں نہیں تو شام میں گھر پر۔ ‘بیگم نے تجویز رکھی۔

’نہیں، آپ سامنے ہوں گی تو کیا خاک لو لیٹر لکھا جائے گا۔ ‘ میں نے بہانہ بنایا۔

’ٹھیک ہے میں بچوں کے ساتھ باہر گھومنے جاتی ہوں۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔

’پہلی مرتبہ میں لو لیٹر لکھنے والا ہوں۔ دو چار گھنٹوں میں یہ نیک کام نہیں ہو پائے گا۔ مجھے زیادہ وقت چاہیے۔ ‘ میں نے دوسرا بہانہ بنایا۔

’آخر کب آپ مجھے لو لیٹر لکھیں گے۔ ؟‘ بیگم زچ ہوتے ہوئے بولیں۔

’جب جدائی کے سبب خط لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ کہتے ہیں فاصلہ محبت کی آگ کو ہوا دیتا ہے۔ ‘ میں نے بتایا۔

بیگم آنکھیں چراتے ہوئے بولیں۔ ’میں اس دن کا بے چینی سے انتظار کروں گی۔ ‘

بات آئی گئی ہو گئی۔ گرما کے بعد بارش کا موسم آیا۔ پھر وہ بھی ختم ہوا۔ سردی کا موسم آیا تو بچوں کے اسکول میں چھٹیاں ہوئیں۔ بیگم نے میکے جانے کا پروگرام بنایا۔ مجھے دفتر سے رخصت لینے سے منع کر دیا کہ بار بار چھٹی لینے سے سروس ریکارڈ خراب ہو گا۔ بیگم اور بچے خوشی خوشی سفر کی تیاری کرنے لگے۔ بیگم مجھے ہدایات دینے لگیں کہ ان کی غیر موجودگی میں کیسے رہوں۔ چائے اور سینڈوچ بنانے کا طریقہ بتایا۔ گھر کی چابیاں حوالے کرتے ہوئے بیگم نے کہا۔ ’اپنا خیال رکھیے اور خیر خیریت کی اطلاع پابندی سے دیتے رہیے گا۔ ‘

’جی میں فون کر لیا کروں گا۔ ‘ میں نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔

’فون کرنے سے پیسے ضائع ہوں گے۔ خط لکھتے رہیے گا۔ ‘بیگم نے تاکید کی۔

خط لکھنے کی بات پر میں چونک کر بیگم کی جانب دیکھا تو انہوں نے آنکھوں آنکھوں میں کہہ دیا۔ ’حضور اپنا وعدہ پورا کیجیے۔ آپ کو لو لیٹر لکھنا ہے۔ ‘

میں نے گردن ہلا کر اور پلکیں جھکا کر وعدہ پورا کرنے کا اقرار کیا۔ بیگم اور بچے چلے گئے۔ تب مجھے لو لیٹر کی خاطر بیگم کی پلاننگ کا اندازہ ہوا۔

بیگم اور بچوں کے جانے کے بعد دوچار دن تو میں نے تنہائی کے مزے لوٹے۔ رات گئے تک مٹر گشتی کرتا رہا اور گھر آ کر چادر تان کر سو گیا۔ جلد ہی دل بھر گیا۔ خالی گھر عجیب سا لگنے لگا اور در و دیوار ڈرانے لگے۔ گھر والی سے گھر بنتا ہے اور گھر ہوتا بھی اسی کا ہے۔ مرد کے لیے سارا جہاں پڑا ہے۔ نیلی چھت کے نیچے محنت، مشقت اور دوڑ دھوپ کرتا اور سستانے کے لیے کسی مسافر کی طرح گھر کا رخ کرتا ہے۔ اب گھر والی کی مرضی، چاہے آرام کرنے دے یا آرام حرام کر دے۔ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ لیکن یہ بات متفقہ طور پر شوہروں نے مان لی ہے کہ گھر والی کے بغیر گھر بے معنی ہے۔

تنہائی پریشان کرنے لگی اور اس پر لو لیٹر کا مطالبہ غضب ڈھانے لگا۔ میں نے کاغذ اور قلم لے کر لو لیٹر لکھنے کا ارادہ کیا۔ سوچتا رہا کہ خط کیوں کر شروع کروں۔ القاب کیا ہوں۔ کیا انھیں ہمدم، ہمراز، جانِ من لکھوں یا مختصراً ’سویٹ ہارٹ‘ کہہ کر مخاطب کروں۔ انھیں ڈارلنگ لکھوں یا ’جان سے عزیز‘ لکھ کر اپنی جان چھڑاؤں۔ دیر تک سر کھپاتا رہا۔ کچھ نہ سوجھا تو خط لکھنا ملتوی ٹھہرا۔

دوسری اور تیسری کوشش بھی ناکام رہی۔ سوائے تاریخ، دن اور وقت کے، ضبط تحریر میں کچھ نہ آیا۔ جب سوچ سوچ کر لکھنے میں ناکام رہا تو جھنجھلا کر قلم کو خیالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔ لو لیٹر مکمل ہوا جو اس طرح تھا۔

زبیدہ۔ امید ہے کہ آپ لوگ خیریت سے گھر پہنچ گئے ہوں گے۔ امی ابا کو دیکھ کر سفر کی تکلیف زائل ہو گئی ہو گی۔ اب دونوں کی صحت کیسی ہے ؟ امی کی شکر اور ابا کا بلڈ پریشر قابو میں ہو گا۔ انہیں میرا سلام کہیے۔

بچے کیسے ہیں ؟ انھیں سفر میں لطف آیا ہو گا۔ آپ کو تنگ تو نہیں کر رہے ہیں۔ ان سے کہیے کہ اپنی شرارتیں کم کریں ورنہ ابو ناراض ہوں گے۔

اپنے بارے میں کیا لکھوں۔ گزر بسر ہو رہی ہے۔ آپ کے بنائے کھانوں سے فریج خالی ہو چکا ہے۔ کل سے نکڑ والے ہوٹل سے دانہ پانی مقرر کر لیا ہے۔ دعا کیجیے کہ صحت قائم رہے۔

برتن دھونے کی کوشش میں چند برتن پھوڑ ڈالے۔ گھر کی صفائی کرنی شروع کی تو گل دان اور ٹیبل لیمپ توڑ ڈالے۔ اب برتن صاف کرتا ہوں اور نہ گھر میں جھاڑو پونچھا لگاتا ہوں۔ جھوٹے برتنوں کا انبار لگ چکا ہے اور گھر کباڑ خانہ لگنے لگا ہے۔ کپڑے میلے ہوئے تو لانڈری سے دھلوا لیے ہیں۔

بچوں کے اسکول کی فیس ادا کر دی گئی ہے۔ بجلی اور پانی کا بل بھی بھر دیا گیا ہے۔ دودھ والا اور ترکاری والی دو تین دن میں آ کر پوچھ جاتے ہیں کہ آپ کب آ رہی ہیں۔

ارادہ ہے کہ کسی ویک اینڈ پر آپ لوگوں کو واپس لینے آؤں۔ آپ کا کیا پروگرام ہے۔ کب آنے کا ارادہ ہے مطلع کریں تاکہ دفتر میں رخصت کی درخواست دے سکوں۔ حسب مراتب سلام، دعا اور پیار مرسل ہے۔ والسلام۔ ۔ ۔ فقط۔ ۔ ۔ ‘

خط پوسٹ کر کے اطمینان اور چین کا سانس لینے بھی نہ پایا تھا کہ بیگم کا جواب موصول ہوا۔ ’آپ کے خط نے مایوس کیا۔ افسوس کہ وعدہ ایفا نہ ہوا۔ آپ نے جو کارنامے انجام دئیے، وہ خلافِ توقع نہیں ہیں۔ میری واپسی کے پروگرام کا انحصار آپ پر ہے۔ اپنا وعدہ پورا کیجیے تب ہی ہمیں لینے آئیے گا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ امی، ابا اور بچے خیریت سے ہیں۔ ۔ ۔ خدا حافظ۔ ‘

مختصر تحریر سے بیگم کی برہمی اور ناراضگی کا اندازہ ہوا۔ وہ سامنے ہوتیں تو میں انھیں کسی طرح سمجھا اور منا لیتا کہ شادی کے بعد لو لیٹر کی جگہ شوہر روزنامچہ لکھتا ہے۔ بیوی آٹے دال کا بھاؤ اور گرانی کا رونا روتی ہے۔ اشاروں اور کنایوں میں کچھ باتیں بین السطور کہہ دینا الگ بات ہے لیکن علی الاعلان ’آئی لو یو‘ کہنا ممکن نہیں ہے۔ مشکل یہ تھی کہ بیگم سامنے نہیں تھیں اور لو لیٹر کے بغیر واپس آنے کے لیے تیار بھی نہیں تھیں۔ بیگم کو راضی کرنے اور انھیں واپس بلانے کے لیے لو لیٹر لکھنا اب ضروری ہو گیا تھا۔

پہلی کوشش ناکام ہونے کے بعد میں سنجیدگی سے لو لیٹر اور اس کی ہیئت ترکیبی پر غور کرنے لگا کہ لو لیٹر کیا ہوتا ہے ؟ کیسے اور کیوں کر لکھا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ لو لیٹر محبت کا تحریری اظہار ہے۔ دل میں خیال آیا کہ اگر مجھ جیسے عاشق کو جسے عام خط لکھنے کا بھی سلیقہ نہ آتا ہو تو وہ کیا کرے۔ ظاہر ہے کہ دوسروں کی مدد لینی چاہیے۔

میں نے اپنے دوست راشد سے مشورہ کیا۔ اس نے شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ’کیوں میاں کس سے عشق لڑا رہے ہو؟‘

’تمہاری بھابی سے !‘ میں نے جواب دیا۔

’میں نہیں مانتا۔ بیوی کو کون لو لیٹر لکھتا ہے۔ سچ بتاؤ۔ ‘راشد نے جرح کی۔

میں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’میری ایسی قسمت کہاں۔ تمہاری بھابی نے لو لیٹر کی فرمائش کی ہے۔ کبھی لو لیٹر لکھا نہیں ہے، شاید تمہیں تجربہ ہو۔ ‘

راشد کو یقین نہ آیا۔ ’شادی کے بعد لو لیٹر کی ضرورت رہتی ہے اور نہ اہمیت، مجھے نہ بناؤ۔ تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں ’انجمن حقوقِ زوجگاں ‘ کا صدر ہوں۔ بھابی پر ظلم نہیں ہونے دوں گا۔ چاہے تمہارے ساتھ زیادتی کیوں نہ ہو جائے۔ ‘

’تم مجھے اپنی انجمن کا نائب صدر سمجھو اور خاطر جمع رکھو۔ مجھے اپنی بیوی کو لو لیٹر لکھنا ہے۔ ‘ میں نے صفائی میں کہا۔

’سردست میں یقین کر لیتا ہوں۔ اس لیے کہ بعض اوقات بیگمات عجیب و غریب فرمائشیں کرتی ہیں۔ پچھلے ہفتہ، میں اور تمہاری بھابی چہل قدمی کرنے پارک میں گئے تھے جہاں اور بھی لوگ تھے۔ ایسے ماحول میں انھوں نے مجھ سے ایک گیت گانے کی فرمائش کی، وہ بھی اونچی آواز میں !‘ راشد نے بتایا۔

’پھر؟‘ میں نے راشد کے خاموش ہونے پر پوچھا۔

’پھر کیا۔ مجھے گانا پڑا۔ ‘ راشد نے جھینپتے ہوئے بتایا۔

’اب بے تکی فرمائش کرنے کی باری میری بیگم کی ہے۔ چلو میری مدد کرو۔ ‘ میں نے راشد سے کہا۔

ہم نے سر جوڑ کر لو لیٹر پلان کیا۔ محبوبہ کے حسن، نزاکت اور اداؤں کی تعریف کے بعد محبت کا بار بار اقرار ہو گا۔ محبت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے مردانہ وار مقابلے کا اعلان اور آخر میں وصل کی خواہش کا اظہار ہو گا۔ خط لکھنے کے لیے اشعار کی مدد لی جائے گی، سو ہم نے چند دیوان کھنگالے۔ ایسے ایسے اشعار ہاتھ لگے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ بہت لطف آیا۔ بعض اشعار پر ہمیں لطیفوں کا گمان گزرا۔ مجموعۂ کلام کھنگالنے اور چند اشعار نوٹ کرنے کے بعد ہم نے نثر نگاری کے لیے افسانوی ادب کا رخ کیا۔ یہاں بھی ہمیں مایوسی نہیں ہوئی۔ دو ایک مرتبہ معشوق کی لفظی خوب صورتی پر راشد دل و جان سے فدا بھی ہوئے۔ رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے ہم نے فلمیں دیکھیں۔ دورِ حاضر کی فلموں میں محبت کا یوں عملی اظہار ہونے لگا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند کر لینے پر مجبور ہوئے۔ پرانی فلمیں پسند آئیں۔ ’آپ کے خوب صورت پاؤں دیکھے۔ انھیں زمین پر نہ رکھیے ‘ جیسا اظہار محبت کا انوکھا طریقہ دریافت ہوا۔

قصّہ مختصر، عرق ریزی اور دماغ پاشی کے بعد ہم نے لو لیٹر کا مسودہ تیار کیا۔ لیٹر پیڈ کے لیے بازار کا رخ کیا اور ایک معطر اور رومان پرور پیڈ خریدا، جس کے ایک کونے پر دل میں تیر پیوست تھا تو دوسرے پر ’پریم پرندے ‘ (Love Birds) چونچ ملا رہے تھے۔ احتیاط اور سنبھل سنبھل کر راشد کی مدد سے میں نے لو لیٹر سپرد قلم کیا:

میں آرزوئے جاں لکھوں یا جانِ آرزو

تو ہی بتا دے ناز سے ایمانِ آرزو

سلامِ محبت!

تم سے بچھڑے کچھ ہی عرصہ گزرا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا۔ ایک ایک لمحہ ایک ایک صدی پر بھاری لگتا ہے۔

تم سے بچھڑے تو سمجھ میں آیا

لوگ مر کر بھی جیا کرتے ہیں

نہ دن کو چین ہے اور نہ ہی رات کو آرام۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ آفس برائے نام جاتا ہوں۔ نہ کھانے میں لطف آتا ہے اور نہ بھوک محسوس ہوتی ہے۔ جب تمھاری یاد کی شدت بڑھ جاتی ہے اور جدائی کا احساس تڑپانے لگتا ہے تو میں بے مقصد سڑکوں پر گھومتا پھرتا ہوں۔ تھک ہار کر گھر لوٹ آتا ہوں تو تنہائی ڈسنے لگتی ہے۔ فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھا آسمان کو تکتا رہتا ہوں۔ چاند میں، تاروں اور ستاروں میں، ثریا اور کہکشاں میں، جدھر نظر جاتی ہے، تمھارا چہرہ نظر آتا ہے۔

آنکھیں بند کرتا ہوں تو تمھاری تصویر ابھر آتی ہے اور تمھارے ہاتھوں کا لمس اپنے شانوں پر محسوس کرتا ہوں۔ چونک کر آنکھیں کھولتا ہوں تو تمھیں اپنے سامنے پاتا ہوں۔ غضب ڈھاتی گیسوؤں کی گھٹائیں۔ نرگسی آنکھیں جن کی جھیل سی گہرائیوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔ چودھویں کے چاند سا روشن چہرہ، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے نرم و نازک لبوں کی اوٹ سے چمکتے اور دمکتے موتیوں جیسے دانت، ستواں ناک، صراحی دار گردن، مخروطی انگلیاں، صندلی بانہیں، سروقد، سبک و خراماں چال، مجسم شوخی و شباب اور جب تم مسکراتی ہو تو تمھارے داہنے گال میں جو خفیف سا گڑھا پیدا ہوتا ہے وہ تمھارے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

آسماں کے چاند تارے خوب صورت ہیں مگر

دلکشی تیری مگر اے روئے جاناں اور ہے

میں بات کرنے اور چھونے تمھاری جانب بڑھتا ہوں تو دیوار سے ٹکرا کر جدائی کے کرب میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔

تمھارے چہرے پر مایوسی اور نا امیدی چھائی ہے۔ بال پریشاں حال، اڑی رنگت، آنکھیں بھر آئی ہوئیں اور تھرتھراتے لب۔ تم سے جدائی کا بوجھ اٹھائے نہیں اٹھتا۔ میری جان اداس نہ رہنا، پریشان ہو کر ہلکان نہ ہونا، انتظار کرنا۔ صرف چند دن انتظار۔ میں راہ میں بچھے کانٹوں کو چن لوں گا، ہر مشکل کو دور کر دوں گا۔ ہماری راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں تو کیا ہوا۔ ہم محبت کرنے والے کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ انتظار شرط ہے۔ تمھیں نے ایک مرتبہ صنوبر کے درخت کی چھاؤں میں میرے ہاتھوں پر اپنے قیمتی آنسو ٹپکا کر کہا تھا کہ انتظار محبت ہے اور محبت انتظار ہے۔

ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

میں تمھیں یقین دلاتا ہوں، میری جانِ عزیز کہ میں تمھیں بے حد چاہتا ہوں۔ دل و جاں سے تم پر مرتا ہوں۔ کائنات میں اگر کوئی شے مجھے محبوب ہے تو وہ تم اور صرف تم ہو۔ بس میرا انتظار کرنا۔ ۔ ۔

تمھارا اور صرف تمھارا دیوانہ۔

لکھنے کے بعد میں نے لو لیٹر پڑھا تو خود مجھے ہنسی آئی اور خط پوسٹ کرنے میں تکلف ہونے لگا۔ شرم بھی آئی کہ ہم نے کیا اوٹ پٹانگ بکواس کی ہے۔ بیگم کو بلانے کے لیے لو لیٹر پوسٹ کرنا تھا لیکن خط پڑھ کر میں الجھن میں مبتلا ہو گیا۔ آخر میں نے لو لیٹر کو اٹھا کر الماری میں محفوظ کر دیا کہ دو دن بعد سوچ سمجھ کر ڈاک کے حوالے کروں گا۔

شام میں اچانک بیگم، بچوں سمیت واپس آ گئیں۔ میں حیران اور خوش ہوا۔ ’آپ اچانک کیسے !‘

’کیا میں اپنے گھر نہیں آ سکتی؟‘ بیگم نے الٹا سوال کیا۔

’گھر آپ کا، گھر میں جو ہے سو آپ کا، بلکہ میں بھی مکمل آپ ہی کا لیکن آپ لو لیٹر کے بغیر کیسے آ گئیں ؟‘

بیگم نے بات کاٹی۔ ’چند دن گھر سے دور رہی تو اپنی نادانی کا احساس ہوا۔ میں نے بے جا آپ سے لو لیٹر کی فرمائش کی ہے۔ ندامت بھی ہوئی۔ ‘

’لیکن میں نے لو لیٹر۔ ۔ ۔ ‘میں اپنی کارکردگی بتانا چاہا لیکن بیگم نے میرا جملہ مکمل ہونے نہ دیا۔

’خدارا۔ اس موئے لو لیٹر کا نام نہ لیجیے۔ اپنی بے وقوفی کے ذکر پر تکلیف ہوتی ہے۔ ‘ بیگم نے وضاحت پیش کی۔

’میں خوشی سے اچھل پڑا۔ ’کچے دھاگے میں بندھی چلی آئیں سرکار۔ یہی میری محبت ہے۔ ‘اور پھر میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’آئی لو یو، پپو کی ممی!‘

بیگم نے شرما کر نظریں نیچی کر لیں۔

دوچار دن آرام سے گزرے۔ بیگم نے ضرورت سے زیادہ میرا خیال رکھا، خوب کھلایا پلایا کہ ان کی غیر موجودگی میں میری صحت متاثر ہوئی ہے۔ بغیر لو لیٹر انھیں میری چاہت کا یقین ہو چلا تھا۔

لیکن ایک شام جب میں دفتر سے گھر آیا تو بیگم کو غصّے میں ٹہلتا ہوا پایا۔ مجھے دیکھتے ہی برس پڑیں۔ ’مل آئے اپنی جانِ آرزو سے ! پڑ گئی کلیجے میں چودھویں چاند کی ٹھنڈک؟‘

میں حیران ہوا۔ ’یہ کیا کہہ رہی ہو۔ میں کس سے مل آیا۔ ‘

’اسی جل ککڑی سے جو میرا گھر برباد کرنے پر تلی ہے۔ جس کی وجہ سے جناب کو دن میں چین ہے اور نہ رات کو آرام ملتا ہے۔ کھانے میں لطف آتا ہے نہ بھوک لگتی ہے۔ جس کی دلکشی کے آگے چاند تارے بھی ماند پڑتے ہیں اور جس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں جناب کا ڈوب جانے کو دل چاہتا ہے۔ ارے میں تو کہتی ہوں، ڈوب مرو کسی اصلی جھیل یا تالاب میں یا پھر مجھے ہی جھونک آؤ۔ ‘

میں ہکلایا۔ ’میں سمجھا نہیں۔ ‘

’ناسمجھ تو میں ہوں۔ کیسے بھولے بنتے ہیں۔ میرے لیے چار حرف لکھے نہیں گئے۔ کبھی بھولے سے ایک مصرع بھی نہ کہا۔ اس کے لیے صفحوں کے صفحے کالے ہو رہے ہیں۔ شاعری ہو رہی ہے۔ اس کی صورت چاند ستاروں اور کہکشاں میں نظر آ رہی ہے۔ جدائی پریشان کرتی ہے۔ وہ آپ کا اور آپ اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیوں کہ انتظار محبت ہے۔ مزید انتظار نہ کیجیے۔ دبا دیجیے میرا گلا اور بچوں کو زہر پلا دیجیے۔ ہم سب سے چھٹکارا مل جائے گا۔ محبت کے راستے کی رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ پھر لے آئیے اس حرافہ کو۔ ‘ بیگم باقاعدہ رونے لگیں۔

میں کچھ دیر ہنستا رہا اور پھر معاملہ کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’بیگم وہ لو لیٹر میں نے تمھارے لیے اور تمھارے ہی کہنے پر لکھا تھا۔ میری قسم۔ ۔ ۔ تمھاری قسم۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کی قسم۔ ۔ ۔ ‘

یقین نہ کرتے ہوئے بیگم نے سوال کیا۔ ’بتلائیے ! کیا میرا قد ’سرو‘ جیسا ہے ؟ ‘(بیگم کا قد درمیانے سے کچھ کم ہے )’کیا میرے بال گھٹاؤں کی طرح ہیں ؟‘ (بیگم پابندی سے گیسو ترشواتی ہیں ) ’اور میری طرف غور سے دیکھ کر بتائیے کہ مسکرانے پر کون سے گال میں گڑھا پڑتا ہے ؟ کس پیڑ کے نیچے، کب اور کہاں میں نے آپ کے ہاتھوں پر آنسو ٹپکائے ہیں ؟ ہائے میری قسمت پھوٹ گئی۔ ‘ بیگم کا رونا جاری رہا۔

مشترکہ کوششوں سے ہم لو لیٹر لکھ تو گئے، اب اندازہ ہوا کہ ہم نے کیا کیا آئیں بائیں شائیں اور جھوٹ موٹ لکھ ڈالا۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں میں سر لیے سوچنے لگا کہ اس غلطی کا علاج کیوں کر ہو۔

ابھی میں نے راشد کو فون کیا ہے کہ وہ فوراً آئے اور گواہی دے کہ میں نے یہ لو لیٹر اپنی بیگم کو لکھا ہے، صرف اپنی منکوحہ بیگم ہی کو اور اپنی بیگم کے علاوہ کسی اور کو نہیں !اور یہ لو لیٹر لکھنے میں اس نے میری مدد کی ہے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، جولائی 1995ء

 

 

 

 

شکر بیتی

 

جی ہاں۔ ہم صاحبِ شکر ہو گئے !

ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ یوں تو بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔ زلزلے آتے ہیں، طوفان تباہی مچا جاتے ہیں، جنگ چھڑ جاتی ہے، حادثے ہوتے ہیں، لوگ بیمار ہوتے ہیں، اکثر اچھے ہو جاتے ہیں تو چند لقمۂ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ ہر دن اور ہر لمحے ایسے ہی کئی واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے ہم بے نیاز رہتے ہیں۔ چونکہ یہ واقعہ ہماری ذات سے تعلق رکھتا ہے ہم بوکھلا اٹھے، خود بے چین اور پریشان ہوئے اور اپنوں کو بھی پریشان کیا۔

ہماری بیشتر کم زوریوں کا احساس نصف بہتر دلاتی ہیں۔ ہر دم ساتھ رہنے کا یہ ایک فائدہ ہے یا نقصان یا پھر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ وہ ہماری کوتاہیوں اور کم زوریوں کی تلاش میں رہتی ہیں تاکہ ہمیں اپنی انگلیوں پر نچاس کیں۔ ہمیں تھکن اور ناتوانی کا احساس بھی بیوی نے دلایا تھا۔ ’آپ کا چہرہ بجھا بجھا سا دکھائی دیتا ہے۔ رنگ ماند پڑ گیا ہے۔ کچھ جھریاں بھی نمودار ہونے لگی ہیں۔ نحیف و ناتواں لگتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتے ہیں۔ جلد سونے اور صبح دیر سے اٹھنے لگے ہیں۔ میری بات مانئیے، ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔ ‘

ہمیں معلوم نہ تھا کہ تھکن کیا چیز ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح گھر، دفتر اور بازار کا چکر کاٹتے اور موسمی حالات کی پرواہ کیے بغیر گھنٹوں مختلف قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔ غمِ روزگار سے اتنی فرصت نہیں ملتی تھی کہ کم از کم آٹھ دن میں ایک مرتبہ ہی آئینہ دیکھتے ! نوجوان تو خیر نہ تھے لیکن جوان کہلانے کے خواہشمند ضرور تھے۔ دبلے پتلے بھی نہ تھے کہ ہمارا جسم مختلف بیماریوں کا مسکن ہوتا۔ معاشی طور پر خوش حال نہیں تھے لیکن ہمارا موٹاپاجسمانی خوش حالی کا ثبوت تھا۔ ہر دن ہم مرغ و ماہی تو کھا نہیں سکتے تھے لیکن تین چار وقت جو بھی ملا جی بھرکر کھا لیتے تھے۔

کم زوری کا احساس دلانے کے بعد سے ہم واقعی کم زور، نحیف اور لاغر سے بن گئے۔ پیدل چلنے پر جھونکے آنے لگے۔ کچھ دیر کھڑے رہنے سے لڑکھڑا کر گرنے کا اندیشہ ہونے لگا۔ پڑھنے بیٹھتے تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگتا۔ بچوں کی آوازوں سے سر میں درد ہونے لگا۔ مختلف خدشات اور اندیشے ہمیں پریشان کرنے لگے کہ معلوم نہیں ہمیں کیا ہوا ہو گا؟ ہم ان خدشات اور اندیشوں سے بچنے کے لیے زیادہ سونے لگے۔

کمر توڑ مہنگائی کے زمانے میں ہم نے یہ اصول بنایا تھا کہ شادی اس وقت تک نہ کرو جب تک اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو جاؤ اور ڈاکٹر کے پاس اس وقت تک نہ جاؤ جب تک اپنے کھڑے پیروں سے گر نہ پڑو۔ ہر دو یعنی شادی اور علاج کے لیے صبر کرو، دعا کرو اور اپنے تئیں تدبیریں کرتے رہو۔ ہم نے کم زوری دور کرنے کے لیے اپنے مطالعے اور معلومات اور دوستوں کے مشوروں کو داؤ پر لگایا۔ وٹامن کی بڑی اور ہومیوپیتھی کی چھوٹی گولیاں کھانے لگے۔ ایک گولی سے فائدہ نہ ہوا تو ہم نے دو گولیاں کھائیں۔ دو سے بھی افاقہ نہ ہوا تو تین گولیاں کھائیں۔ ہماری بیوی نے مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ہمارا خاص خیال رکھنا شروع کیا۔ بادام کا حریرہ اور ہڈیوں کا شوربہ پلانے لگیں۔ روز نت نئے پکوان کر کے اپنے سامنے ہمیں بٹھا کر بصد اصرار ہماری بھوک بلکہ ہماری حیثیت سے زیادہ کھلانے لگیں۔ نتیجتاً ہمارے وزن میں مزید چند کلو کا اضافہ ہوا، لیکن کم زوری اور تھکن جوں کی توں برقرار رہی۔

آج کے راہنما کی طرح اپنے بنائے اصول کو خود ہی توڑ کر ڈاکٹر کے پاس مشورے کے لیے جانا پڑا۔ ڈاکٹر نے ’حالِ کم زوری‘ سنا، ہمیں ٹھوک بجا کر دیکھا اور اپنی پیشانی پر بل اور دماغ پر بار ڈال کر مشورہ دیا۔ ’قارورے کا معائنہ کروائیے اور رپورٹ کے ساتھ مجھ سے ملیے۔ ‘

قارورہ کے معائنے کی رپورٹ لے کر ہم ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر نے رپورٹ پڑھی، ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ پھر رپورٹ دیکھی اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے فاتحانہ انداز میں فرمایا۔ ’میں نے جو سمجھا تھا، وہی ہوا۔ آپ کو شکر آ رہی ہے۔ ‘

ہم حیران اور پریشان ہوئے اور ہمارے منہ سے صرف ’جی‘ نکل سکا۔

ڈاکٹر سوالات کرنے لگے۔ ’پہلے آپ کو کبھی شکر آئی تھی؟ ‘

ہم نے جواب دیا۔ ’نہیں۔ یہ آپ کی دریافت ہے۔ ‘

’آپ کا وزن کب سے بڑھ رہا ہے ؟ پہلے بھی کیا آپ موٹے تھے ؟‘

’جی نہیں، پہلے ہم بچے تھے۔ شادی کے بعد سے ہمارا وزن بڑھنے لگا ہے۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

’ہوں۔ ‘ کہہ کر ڈاکٹر نے اپنا شغل جاری رکھا۔ ’کیا آپ شکر اور چکنائی زیادہ کھاتے ہیں ؟‘

’پتا نہیں، کبھی ناپ تول کر نہیں کھایا۔ ‘ہم نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

’آپ کی والد کی صحت کیسی ہے ؟‘ ڈاکٹر کو حاصل آزادی ہمیں پسند آتی ہے کہ وہ مریضوں سے ہر قسم کا سوال پوچھ سکتے ہیں۔

’والد صاحب بالکل ٹھیک ہیں۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

ڈاکٹر نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’ ٹھیک ہے ! کیا انھیں شکر نہیں آتی؟‘

’نہیں۔ ‘ہمارا جواب تھا۔

’کیا انھیں بلڈ پریشر۔ ۔ ۔ ‘

ہم نے سوال ختم ہونے سے پہلے جواب دیا۔ ’نہیں۔ ‘

مزید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر نے پوچھا۔ ’کیا انہیں گھٹیا، کینسر، السر وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘

ہم نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’الحمد للہ، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ‘

ڈاکٹر نے پھر تعجب سے پوچھا۔ ’کیا وہ بوڑھے نہیں ہیں۔ کیا انھیں کسی ڈاکٹر کو دکھایا ہے ؟‘

اب ہم اس سوال کا کیا جواب دیتے ! کیا بوڑھا شخص صحت مند نہیں رہ سکتا۔ کیا بڑھاپا بغیر کسی مرض کے نہیں آ سکتا۔ اگر بیٹے کو شکر آ رہی ہے تو کیا باپ کو بھی لازماً کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر کو نہیں دکھایا ہے اسی لیے شاید وہ کسی مرض میں مبتلا نہیں ہیں۔ جواب میں ہم خاموش رہے۔

والد کی صحت کا حال سن کر ڈاکٹر نے اندازہ لگایا۔ ’آپ کی والدہ بھی صحت مند ہوں گی۔ ‘

ہم نے جواب دیا۔ ’جی نہیں ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ‘

’کیسے ؟‘

ہمارا جواب تھا۔ ’اللہ کی مرضی۔ ‘

ڈاکٹر نے وضاحت چاہی۔ ’ہر کام اسی کی مرضی سے ہوتا ہے، میں وجہ جاننا چاہتا ہوں۔ ‘

’ڈاکٹر‘ کہہ کر ہم نے گلا صاف کر کے پھر گویا ہوئے۔ ’ڈاکٹر نے کسی مرض کا نام بتایا تھا جو اب ہمیں یاد نہیں رہا۔ لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ انھیں شکر کا مرض نہیں تھا۔ ‘

ڈاکٹر کا اگلا سوال تھا۔ ’کیا آپ کے خاندان میں، بھائی، بہن، ددھیال اور ننھیال میں کسی کو شکر آتی ہے ؟‘

ہم نے جواب دینے کے بجائے ڈاکٹر سے سوال کیا۔ ’ان سوالات کا مقصد؟‘

جواب ملا۔ ’آپ کے مرض کی وجہ دریافت کر رہا ہوں۔ ‘

اس جواب نے ’ڈاکٹری تفتیش ‘کو جاری رہنے دیا۔ ڈاکٹر سوالات کر کے تھک گئے تو ہم نے پوچھا۔ ’کیا وجہ دریافت ہو چکی۔ ‘

ڈاکٹر نے عالمانہ انداز میں جواب دیا۔ ’جی نہیں۔ تحقیق جاری ہے۔ ابھی تک مرض ذیابیطس کی کئی وجوہات بتائی گئی ہیں لیکن اصل سبب ابھی ایک معمہ ہے۔ آپ کو اس سے کیا کرنا ہے۔ آپ کو شکر آ رہی ہے۔ غذا میں احتیاط کیجیے۔ شکر نہ کھایئے۔ اپنا وزن مت بڑھایئے۔ ترکاری زیادہ کھایئے۔ علاج شروع کرنے سے پہلے میں چا ہوں گا کہ آپ اپنے خون کی جانچ کروا لیں۔ ‘ یہ مشورہ دے کر ڈاکٹر نے ہمارے ہاتھ میں ایک پرچی تھما دی۔

ڈاکٹر کے مطب سے سیدھے ہم اپنے ایک دوست سے مشورہ کرنے اس کے گھر گئے۔ موصوف دفتر میں کام کم کرتے اور مختلف اخبارات اور رسائل زیادہ پڑھتے ہیں۔ ہر موضوع پر گھنٹوں بے تکان اپنی قابلیت جھاڑے جاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ سن کر پوچھا۔ ’آپ مرض شکر کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟‘

ہم نے جواب دیا۔ ’بس یہی کہ چند منٹ قبل ہم اس کا شکار ہوئے ہیں۔ ‘

موصوف نے مشورہ دیا۔ ’آپ ریلوے یا بس اسٹیشن جائیے اور وہاں سے مرض ذیابیطس پر کتابیں خرید لایئے۔ علاج شروع کرنے سے پہلے اس مرض کے بارے میں مکمل معلومات ضروری ہیں۔ انگریزی زبان میں ایسی ڈھیرساری کتابیں ملتی ہیں، شاید ڈھونڈنے پر اردو میں ایک آدھ کتاب مل جائے۔ ‘

ہم نے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ مرض ذیابیطس پر باوجود کوشش کوئی کتاب نہ ملی لیکن Diabetes mellitus پر کئی کتابیں تھیں۔ انہیں میں سے دو ایک اٹھا لائے۔ ایک کتاب کھولی۔ پہلے صفحہ پر لکھا تھا۔ ’آپ کو مرض شکر ہے، ہمیں آپ سے ہمدردی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ یہ کتاب خریدی ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے اگر کوئی حرف بہ حرف یہ کتاب پڑھ لے تو اسے ڈاکٹر کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ مریض اپنا علاج خود کر لے گا بلکہ دوسروں کا علاج کرنے کے بھی قابل ہو جائے گا۔ ‘

دوسری کتاب میں لکھا تھا کہ ذیابیطس بہت وفادار مرض ہے۔ ایک مرتبہ ہو جائے تو زندگی بھر بلکہ جنم جنم ساتھ نبھاتا ہے۔ آپ کے بعدذیابیطس آپ کے بچوں کو ہو سکتا ہے۔ ذیابیطس جتنا وفادار مرض ہے اتنی تو شریک حیات بھی نہیں ہوتی! شریک حیات ساتھ چھوڑ دیتی ہے لیکن ذیابیطس آپ کو ساتھ لے جاتا ہے۔ اسی لیے اس مرض کی قدر کریں، اس کی عزت اور تعظیم کریں۔ ‘

کتابیں پڑھنے کے بعد مرض ذیابیطس سمجھ میں آنے کے بجائے ہمارے لیے پیچیدہ ہو گیا۔ ویسے ماہرین کی رائے بھی یہی ہے کہ ذیابیطس بڑا ہی پیچیدہ مرض ہے۔ بھلا ہم کس کھیت کی مولی ہیں ! اس مرض کی اتنی وجوہات بتائی گئی تھیں کہ ہمارے خیال میں ساری دنیا کو مریضِ شکر ہونا چاہیے تھا۔ شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس میں ایک یا دو وجوہات نہ پائی جاتی ہوں !

مرض کی علامات کے بارے میں پڑھا تو ہر شکایت اور علامت کو اپنے میں موجود پایا۔ کتاب کی ہر سطر پڑھنے کے بعد ہمیں پیاس لگی۔ ہر صفحے کے بعد ضرورت کے لیے ہم اٹھے۔ بھوک تو پہلے سے بڑھی ہوئی تھی۔ مرض کی پیچیدگیوں کے بارے تحریر تھا کہ شکر کا مرض ’اُم الامراض‘ اور ’باب الامراض‘ ہے۔ کئی دوسرے خطرناک امراض کو جنم دیتا ہے۔ ان بیماریوں کے نام پڑھ کر ہی ہمیں پسینہ آنے لگا۔

ذیابیطس کے جتنے اسباب گنائے گئے تھے، اتنے ہی طریقہ ہائے علاج درج تھے۔ ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، ایورویدا، یونانی، نیچروپیتھی، اکوپنکچر، غذائی، جڑی بوٹی، عطائی، یوگا، روحانی علاج وغیرہ۔ تعجب ہوا کہ اتنے طریقہ ہائے علاج کے باوجود بھی لوگ اس مرض میں سدا مبتلا رہتے ہیں لیکن انھیں یہ سہولت حاصل رہتی ہے کہ ایک طریقہ علاج سے اوب جائیں تو دوسرا طریقہ اپناسکتے ہیں۔

شکر کے مرض پر کتابیں پڑھ کر ہم بہت پریشان ہوئے۔ خداوند کریم کی بارگاہ میں گڑگڑانے لگے کہ تو نے کس خطا کی سزا میں ہمیں ایسا جلالی مرض عطا کیا ہے۔ تشخیص اور معائنوں کے لیے ہر دم خون چاہیے۔ علاج کے لیے دن میں تین چار انجکشن چاہیے۔ ساتھ سخت پرہیز۔ شکر نہ کھاؤ۔ شربت نہ پیو۔ پھیکی چائے نوش جان کرو۔ میٹھا زہر ہے۔ کم کھاؤ، وزن نہ بڑھاؤ۔ ہاتھ پاؤں صاف رکھو۔ زخموں کو نہ کریدو۔ ان کا علاج جلد کراؤ اور مرے پر سو درّے یہ کہ مرض شکر دوسرے امراض کے لیے راہ ہموار کرتا ہے !

اس دن ہم نے ہاتھ اٹھا کر خدا سے کہا۔ ’خدایا ہمیں کوئی مرض دینا ہی تھا تو کئی دوسرے مسکین امراض بھی ہیں، ان میں سے کسی کو بخش دیتا۔ ‘

یرقان کی مثال لیجیے۔ آنکھیں پیلی ہوئی اور اس سے پہلے کہ دنیا پیلی دکھائی دینے لگے، چند دن آرام اور معمولی پرہیز کیا تو ٹھیک ہو گئے۔ قبض کو لیجیے۔ وقت زائد لگتا ہے۔ دیر تک اکڑوں بیٹھنا ہی تو تکلیف دہ ہے۔ غور و فکر کرتے بیٹھیے رہیے۔ غیب سے مضامین بھی آنے لگتے ہیں۔ یہ بیماری ہمارے لیے موزوں بھی تھی۔ کھانسی بخار تو خیر سے مرض شکر کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ چند دن گولیاں اور شربت استعمال کیا تو شفا یاب ہو گئے۔ دل کی بیماری کو بھی دیکھیے۔ کتنی شریف بیماری ہے۔ اسے شور شرابہ پسند نہیں ہے۔ سینہ پر ہاتھ رکھے گولیاں کھایئے اور آرام کیجیے۔ دل کی بیماری عشّاق اور شعرا کو راس بھی آتی ہے۔ لیکن جناب اللہ کی مرضی وہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کون سا مرض مناسب رہے گا۔

کتابیں پڑھنے کے باوجود ذیابیطس پلے نہ پڑا تو ہم پھر اپنے دوست کے پاس گئے۔ انہوں نے فرمایا۔ ’کتابوں سے علم حاصل کرنے کے بجائے پریشان اور خوف زدہ ہوئے تو پھر ڈاکٹر سے ملیے اور سوچے سمجھے بغیر اس کی ہدایات پر عمل کیجیے۔ ‘

گھر میں بیوی نے دریافت کیا۔ ’ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ؟‘

ہم نے اپنا مرض بیوی سے چھپانا چاہا کہ وہ پریشانی سے محفوظ رہے۔ ہم نے کہا۔ ’ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ معمولی کم زوری ہے اور کم زوری دور کرنے کے لیے نسخہ لکھ دیا ہے اور خون کا معائنہ کروانے کے لیے کہا ہے۔ ‘

ہماری پریشانی اور بے چینی کو بھانپتے ہوئے بیوی نے سچ اگلوانے کے لیے کہا۔ ’آپ کو میری قسم۔ کہیں ڈاکٹر نے ایسی ویسی امریکہ والی بیماری تو نہیں بتائی ؟ ٹیلی ویژن پر بتایا گیا تھا کہ یہ موئی بھی کم زوری سے شروع ہوتی ہے۔ ‘

ہم نے فوراً ہی سچ اگل دیا۔ ’توبہ کرو بیگم۔ ڈاکٹر نے عزت دار اور بڑی قدیم بیماری بتائی ہے جو رئیس اور امیر کبیر لوگوں کو ہوتی ہے۔ اب ہمارا شمار بھی سماج کے معزز اور اونچے لوگوں میں ہو گا۔ ‘

بیوی زچ ہوتی ہوئی بولیں۔ ’ پہیلیاں نہ بجھوایئے۔ جلد بتایئے ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔ ہمیں اختلاج ہونے لگا ہے۔ ‘

ہمیں بتانا پڑا کہ ہم شکر کی بیماری میں مبتلا کر دیئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ہمارے جسم میں شکر سازی ہونے لگی ہے یعنی ہمیں شکر کی بیماری ہو گئی ہے۔

بیماری کا نام سن کر حسبِ عادت بیوی سوالات کرنے لگیں۔ ’یہ بیماری کیسی ہوتی ہے ؟ مہلک تو نہیں ہوتی؟ علامات کیا ہیں ؟ پرہیز کیا ہے ؟ یہ بیماری آپ ہی کو کیوں ہوئی ہے ؟ کیا یہ بیماری مجھے بھی ہو گی؟‘

سوالوں کے جوابات سننے کے بعد بیوی نے حکم جاری کیا کہ اب گھر میں کوئی میٹھی چیز نہیں بنے گی۔ چائے پھیکی پینی پڑے گی۔ گھر میں جو شکر ہے وہ غریبوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ بیوی کی اس فیاضی پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک راہ گیر نے کسی صاحب سے ایک سگریٹ مانگا۔ صاحب نے سگریٹ کی پوری ڈبیا اور ماچس حوالے کر دی اور راہ گیر سے اصرار کیا وہ رکھ لے۔ راہ گیر متاثر ہوا۔ ’خدا نے آپ کو دولت کے ساتھ بڑا دل بھی دیا ہے۔ ‘

صاحب نے وضاحت فرمائی۔ ’خدا کی دین کا تو مجھے علم نہیں ہے لیکن ابھی ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ مجھے پھیپھڑوں کا کینسر ہوا ہے۔ ‘

ایک شام چند اجنبی اصحاب پھول لیے ہمارے گھر آئے۔ ہم سوچنے لگے کہ یہ اصحاب کون ہیں۔ ہم نے انھیں کہاں دیکھا ہے اور یہ یہاں کیوں آئے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب گویا ہوئے۔ ’ہم ڈیابیٹکس ایسوسی ایشن کے عہدیدار ہیں۔ میں معتمد، یہ صدر اور یہ تین حضرات نائب صدور ہیں۔ ‘

ہم حیرت زدہ ہوئے اور پوچھا۔ ’کیا مریضوں کی بھی انجمن ہوتی ہے ؟‘

ایک نائب صدر نے کہا۔ ’کیوں نہیں، جب ہر قسم کی ایسوسی ایشن ہو سکتی ہے تو بیماروں کے اتحاد پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ذیابیطس سے اتنے زیادہ لوگ متاثر ہیں کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہیں۔ ‘

صدر نے ہمیں پھول پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ ’ہمیں افسوس ہے کہ آپ کو شکر کا مرض لاحق ہوا ہے۔ آپ گھبرائیے مت، دنیا میں اس میٹھے مرض سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ سب سے زیادہ ذیابیطسی لوگ ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ اگر تمام میٹھے لوگ مل جائیں تو ہماری حکمرانی ہو گی۔ ہم کھلے عام مٹھائی کھانے اور تمام میٹھی چیزوں پر پابندی عائد کر دیں گے۔ کسی مریض کے سامنے میٹھی اشیاء کھانا قابلِ دست اندازی جرم ہو گا۔ آج جسے دیکھیے شکر کے مریضوں کو اصرار کر کے میٹھا کھلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کھایئے، میٹھے سے کیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یوں ہی پرہیز کروا کر مریض کو پریشان کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کریں گے۔ اگر ممکن ہوا تو ہم شکر سازی پر ہی پابندی عائد کریں گے۔ ہمارے اور بھی پروگرام ہیں جو آہستہ آہستہ آپ پر عیاں کئے جائیں گے۔ آپ کو سن کر خوشی ہو گی کہ ہر ملک میں بڑے سیاسی اور انتظامی عہدوں پر ذیابیطسی لوگ فائز ہیں۔ ہم آپ کو اپنی انجمن کا ممبر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ ہمیں خدمت کا موقع دیں گے۔ ‘

اس مختصر لیکن جامع تقریر کے بعد ان لوگوں نے کوشش کی کہ فیس وصول کر کے ہمیں ممبر بنایا جائے۔ ہم نے سوچنے کی مہلت مانگی، انھیں بغیر شکر چائے پلائی اور روانہ کیا۔

کچھ دیر بعد ایک دوسری ڈیابیٹکس سوسائٹی کے کارندے ہمارے گھر آئے اور کہا۔ ’ہماری سوسائٹی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم مریض ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری بزم میں اپنی بیماری کا رونا رویئے، دوسروں کی مشکلوں کا حال سنیے اور ایک دوسرے کو دلاسہ دیجیے۔ ہمارے پرانے مریض ہر طرح سے نئے مریضوں کی ہمت افزائی، دلجوئی اور راہنمائی کرتے ہیں۔ ‘ڈیا بیٹکس سوسائٹی کا ممبر بننے سے بھی ہم اپنے آپ کو بمشکل بچا پائے۔

ایک صاحب بہترین کپڑے پہنے، خوشبو اور کریم پاؤڈر لگائے، بالوں کو فلمی انداز میں جمائے، گلے میں ٹائی لٹکائے اور ہاتھ میں مخصوص بیگ لیے ہمارے گھر آئے تو ہم نے سمجھا شاید وہ غلط فہمی میں ڈاکٹر کے مطب کے بجائے مریض کے گھر آ گئے ہیں۔ ہم انھیں اپنی گلی کے ڈاکٹر کا پتا بتانا چاہتے تھے کہ انھوں  نےبیگ کھولا اور شروع ہو گئے۔ مرض ذیابیطس کے تعلق سے خوب صورت اور رنگین لٹریچر دیا۔ گلا صاف کیا اور شکر کے مرض کے بارے میں بولنے لگے۔ ہم نے ڈاکٹر کی ایکٹنگ کرتے ہوئے گردن ہلائی اور کبھی ہوں تو کبھی ہاں کہا۔ چونکہ مریض تھے، بے زاری کا اظہار کر سکے اور نہ ہی ان کی بکواس کو روک سکے۔ انہیں چلتا کرنے کے لیے ہم نے بغیر شکر چائے پیش کی۔ موصوف خوش ہوئے اور اپنے بیگ سے مصنوعی مٹھاس کی گولیوں کی شیشی نکالی، ایک ایک گولی پیالی میں ڈالی اور شیشی ہمیں تحفتاً پیش کی۔ اب ہمیں ان کی آمد کے مقصد کا اندازہ ہوا۔ وہ مصنوعی مٹھاس خریدنے کے لیے اصرار کرنے لگے۔ ہم نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ ’پہلے ہم پھیکی زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ناکام رہے تو آپ کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ‘

ایک دوسری کمپنی کے نمائندے صاحب بھی خوب بن ٹھن کر ہمارے گھر وارد ہوئے لیکن اب ہمیں تجربہ ہو چکا تھا۔ سلام دعا کے بعد ہم نے بلا تکلف ان کی آمد کا مقصد دریافت کیا۔ وہ گویا ہوئے۔ ’ہم انسولین جسم میں داغنے کے لیے انجکشن پین اور دوسری چیزیں بناتے ہیں جن کے استعمال سے آپ کو انسولین لینے میں کوئی۔ ۔ ۔‘

ہم نے انہیں بیچ میں روک کر کہا۔ ’جناب آپ ہمارے یہاں بہت جلد آ گئے ہیں۔ ابھی تو صرف تشخیص ہوئی ہے، علاج شروع نہیں ہوا ہے۔ ‘

’نہیں سر، میں آپ کے پاس وقت پر ہی آیا ہوں۔ ‘ وہ خوش ہوتے ہوئے بولے۔ ’ہماری کمپنی پیشاب اور خون میں شکر کی مقدار جانچنے کے آلات بھی تیار کرتی ہے۔ ۔ ۔ ‘اور موصوف ان کی مارکیٹنگ کرنے لگے۔ اور ہم شکر کے مرض کے بارے میں سوچنے لگے کہ یہ کتنا وسیع اور پھیلا ہوا مرض ہے بلکہ یہ تو ایک بڑی انڈسٹری کے مانند ہے۔ مریض کے اندر زیادہ شکر تیار ہونے لگتی ہے کہ ہزاروں لوگوں، ڈاکٹر سے لے کر سیلز مین تک کو روزگار مہیا ہونے لگتا ہے۔

ہم خون میں شکر ناپنے کا آلہ خریدنا چاہتے تھے لیکن خود کو سوئی چبھا نے سے خوف محسوس ہوا۔ خیال آیا کہ پہلے لیبارٹری میں سوئیاں چبھوا لینے کی عادت پڑ جائے تو پھر آلہ بھی خرید لیں گے۔ نام اور فون نمبر لے کر انھیں ٹالا۔

بغیر شکر دوچار دن گذرے ہوں گے کہ گھر میں افراتفری مچ گئی۔ بچوں نے بغیر شکر دودھ پینے سے انکار کر دیا۔ مٹھائیوں کا مطالبہ کرنے لگے کہ جنھیں شکر آتی وہ نہ کھائیں۔ مہمان پھیکی چائے پی کر شکایت کرنے لگے۔ شکر کو واپس گھر لے آنا پڑا۔ گھر کے سبھی افراد سوائے ہمارے مزے کرنے لگے۔

ہم نے دو ایک دن اپنے آپ پر جبر کر کے شکر کو زہر سمجھا۔ اب اس کو کیا کیجیے کہ ابنِ آدم کو ہمیشہ سے ممنوعہ چیزیں کھانے کا شوق رہا ہے۔ ہمارا دل میٹھی چیزیں اور شکر کھانے کو للچانے لگا۔ بیوی کو بہلا پھسلا اور ڈرا دھمکا کر دن میں آدھا چمچہ شکر کا کوٹہ الاٹ کروا لیا۔ احتیاط سے چیونٹی کی طرح ایک ایک دانے کا مزا لینے لگے۔ حرص بڑھی تو ہم نے چمچے کو بھی بڑا کیا۔ چھوٹے چمچوں پر الزام لگایا کہ انہیں زنگ لگ چکا ہے۔ شاید ہماری صحت خراب ہونے میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ چھوٹے چمچے پھینک دیئے گئے اور ان کی جگہ بڑے چمچوں نے لی۔ چمچے بڑے ہونے کے باوجود بھی ہماری حرص ختم نہ ہوئی تو ہم ناپ تول میں گڑبڑ کرنے لگے۔ آدھے چمچے کے نام پر کبھی پورا چمچہ شکر کھانے لگے۔ کبھی کبھار میٹھا بھی چکھنے لگے۔ چکھنے کے لیے میٹھے کی مقدار پر جھگڑا ہوتا۔ ہمارے لیے پاؤ بھر میٹھا درکار ہوتا جبکہ بیوی کا اصرار ہوتا کہ چٹکی بھر میٹھا چکھنے کے لیے کافی ہے۔

یہ مرض کا اصرار تھا یا انسانی فطرت کا تقاضہ، پتا نہیں کیا بات تھی کہ جب سے ہم شکر کے مرض میں مبتلا ہوئے، میٹھی اشیا کچھ زیادہ ہی بھانے لگیں۔ ہر دن آدھا چمچہ اور کبھی کبھار میٹھا چکھنے سے طبیعت سیر نہ ہوئی تو ہم ناجائز طریقوں سے میٹھا کھانے لگے۔ بچوں کی جیبیں ٹٹولتے کہ چاکلیٹ یا ٹافی ہاتھ لگ جائے۔ موقع کی تلاش میں رہتے کہ کب بلی کچن میں جاتی ہے، تب ہم بھی میٹھے کی بھوک مٹانے کچن کا رخ کرتے۔ پکڑے جانے پر بلی کو بھگانے کا بہانہ کرتے۔ کچھ دن بلی کا ڈرامہ چلتا رہا۔ گھر والوں نے کچن کو بلی اور ہم سے محفوظ کرنے کے اقدامات کئے تو ہم اپنی میٹھی بھوک مٹانے ہوٹل میں میٹھا کھانے لگے۔ اب ہمیں پتا چلا کہ ’چوری کا گڑ میٹھا ‘کیوں ہوتا ہے۔ یہ محاورہ خالص شکر کے مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے، گڑ تو میٹھا ہوتا ہی ہے، چاہے وہ چوری کیا گیا ہو یا بھیک کا گڑ ہو!

ایک دن ہم ہوٹل میں بیٹھے میٹھے پر میٹھا اڑا رہے تھے کہ اسی ہوٹل میں ہمارے خسر صاحب کی آمد ہوئی۔ ان سے کیا پردہ، وہ بھی شکر کے مریض تھے اور سن رکھا تھا کہ وہ بھی چوری سے میٹھا کھاتے ہیں۔ خسر صاحب ہمارے پاس آئے اور میٹھے کی پلیٹ کو اپنی جانب کھسکاتے ہوئے فرمایا۔ ’کم بخت شکر کا مرض سیدھے پیٹ پر لات مارتا ہے۔ یہ نہ کھاؤ، وہ نہ کھاؤ، تو پھر کا ہے کو زندہ رہو۔ میرا کیا ہے، تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکا ہوں۔ تمھیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ بیوی اور بچوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔ آئندہ سے تمہارے حصّہ کی مٹھائی میں کھا لیا کروں گا۔ ‘

اس کے بعد سے ہم جہاں بھی میٹھا کھانے جاتے، ہمارے خسر وہاں پہلے سے ہمارے حصّہ کی مٹھائی کھانے موجود رہتے تھے۔

بالآخر خون کے معائنے کا دن آ پہنچا۔ ہمیں گلوکوز پلا کر تین چار مرتبہ وقفے وقفے سے خون لیا گیا۔ خون کے معائنے کی رپورٹ نقشے کی صورت میں دی گئی۔ رپورٹ لے کر ہم علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر نے حیرت سے کہا۔ ’خون کی رپورٹ نارمل ہے !‘

خون کا معائنہ مکرر کیا گیا۔ اس معائنہ میں بھی ہمارے خون میں شکر نارمل نکلی۔ رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے اعلان کیا۔ ’آپ کو شکر کا مرض نہیں ہے۔ قارورے کے معائنے کی رپورٹ غلط تھی۔ ‘

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا اور خوشی سے خون کے معائنے کی رپورٹ کو چوم لیا۔ اب یہ سوال اٹھا کہ قارورے میں شکر کہاں سے آئی تھی؟ تحقیق پر پتا چلا کہ معائنہ کے لیے ہم نے قارورہ شربت کی ایک خالی شیشی میں حاصل کیا تھا۔ اور یہ سارا ڈرامہ بوتل میں بچی کھچی شکر نے کیا تھا۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، مئی 1990ء

 

 

 

 

انکل اور آنٹی

 

دو دن شہر سے باہر رہ کر میں گھر لوٹا تو بچوں نے میری غیر حاضری کے دوران انجام پانے والے کارناموں کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ احباب کے فون اور ان کی آمد کی رپورٹ دینے لگے۔

’ڈیڈی۔ پڑوسی انکل آپ کو پوچھ رہے تھے۔ ‘

’پنکی نے آنٹی کا میک اپ باکس توڑ دیا۔ ‘

’ہم انکل کے ساتھ آئس کریم کھانے گئے تھے۔ خوب مزا آیا۔ ‘

میں نے استفسار کیا۔ ’کون سے انکل کے ساتھ؟‘

جواب ملا۔ ’اپنے انکل!‘ بچوں کا اشارہ میرے چھوٹے بھائی کی طرف تھا۔

’چار انکل نے فون کیا تھا۔ ڈاکٹر انکل، مجھے گڑیا بیٹی کہنے والے انکل، حامد انکل اور ایک انکل جن کے پاس ماروتی زین ہے۔ ‘

’کون حسین!‘ میں نے دریافت کیا۔

نہیں ڈیڈی۔ eighty eight ماڈل والے نہیں، ان کے پاس two thousand کا ماڈل ہے۔ ‘

’آنٹی نے میرے لیے برتھ ڈے گفٹ بھیجا ہے۔ ‘ چھوٹی بیٹی نے بتایا۔

’بھئی تمھاری بہت ساری آنٹیاں ہیں۔ کس آنٹی نے تمھیں تحفہ بھیجا ہے ؟‘ میں نے سوال کیا۔

’جمی کی ممی نے۔ ‘ جواب میں آنٹی کی نشاندہی کی گئی۔

چھوٹے بیٹے نے ایک کتاب ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ ’انکل آئے تھے اور یہ کتاب دے گئے ہیں۔ ‘

میں نے پھر سوال دہرایا۔ ’کون سے انکل؟‘

لڑکا کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر کاندھے اچکا کر ’نہیں معلوم۔ ‘ کہہ دیا۔

’پپو کے ممی دو آنٹی کو ساتھ لائی تھیں۔ ایک آنٹی کے لڑکے نے آپ کا چشمہ توڑ دیا اور دوسرے آنٹی کی بیٹی نے میری سائیکل کی ہوا نکال دی۔ ‘

’ممبئی سے شاہد انکل کا فون آیا تھا۔ آپ کو کال ریٹرن کرنے کے لیے کہا ہے۔ ‘

بچے باتیں کئے جا رہے تھے لیکن میرا ذہن انکل اور آنٹی کی بہتات میں الجھا رہا۔ بچوں کے اتنے سارے بلکہ بہت سارے انکل اور آنٹی ہیں کہ انھیں پہچاننے کے لیے باضابطہ تفتیش کرنی پڑتی ہے۔ کون سے انکل؟ انکل کا کیا نام ہے ؟ان کا ناک نقشہ کیسا ہے ؟ آنٹی کہاں رہتی ہیں ؟ انکل کیا کام کرتے ہیں ؟

بچوں کو تفصیلات کا علم ہوتا نہیں ہے۔ مبہم اشارے ملتے ہیں۔ وہ انکل جن کے سر پر بال نہیں ہیں۔ شاعر انکل۔ چائے نہیں پینے والے انکل۔ چاکلیٹ آنٹی۔ لپ اسٹک کھانے والی آنٹی۔ وہ آنٹی جو ایک وقت روتے ہوئے آئیں تھیں۔ یا پھر انکل یا آنٹی کی نقل اتاری جاتی ہے کہ وہ یوں چلتے ہیں، وہ ایسے کھاتی ہیں یا انکل کے ٹیڑھے منہ کی طرح اپنا بھی منہ ٹیڑھا کیا جاتا ہے۔

مغرب کی اندھی تقلید نے ماں، باپ، بھائی اور بہن کے بعد ساری رشتہ داری بلکہ برادری کو انکل، آنٹی اور کزن میں سمیٹ لیا ہے۔ تایا، چچا، پھوپھا، ماموں، خالو اڑوس پڑوس اور بڑوں کے دوست احباب کو بلا تفریق و امتیاز انکل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تائی، چچی، پھوپھی، ممانی، خالہ کے ساتھ ملنے جلنے والی خواتین پر آنٹی کا لیبل چسپاں ہو گیا ہے۔ انکل اور آنٹی کی بہ نسبت کزن میں بلا کی وسعت ہے۔ تایا زاد، چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بھائی بہن اور ہم عمر رشتہ دار سے لے کر محبوب و محبوبہ تک کزن کی چھایا تلے جمع ہو جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے اپنی محبوبہ کو ایک عرصہ تک کزن بنائے رکھا۔ ان کا نام جب ’کزن عاشق‘ پڑ گیا تو وہ اپنی محبوبہ کا تعارف گرل فرینڈ کے طور پر کروانے لگے۔ ہم مشرقیوں نے انکل، آنٹی اور کزن کو خوشی خوشی اپنا لیا لیکن معلوم نہیں کیوں گرل اور بوائے فرینڈ کو چھوڑ دیا۔ شاید اس لیے کہ ابھی ہم ’dating‘ نہیں کرتے ہیں، محبت کرتے اور عشق بگھارتے ہیں۔

بات زیادہ پرانی نہیں ہے۔ تیس چالیس برس پہلے رشتہ داروں کو مخاطب کرنے کے لیے ڈھیر سارے القاب تھے۔ خاندان وسیع ہوا کرتا تھا اور اسی حساب سے مخاطب کرنے کے کئی انداز تھے۔ آج خاندان چھوٹا ہونے کے باوجود تنگ دامنی کا یہ حال ہے کہ والدین جیسے چار چھ بزرگ بھی انکل اور آنٹی پکارے جاتے ہیں۔ والد کے بڑے بھائی تایا ہوتے ہیں۔ تایا حضرت، تایا ابا یا تایا حضور کہہ کر ان کی عزت اور توقیر میں اضافہ کیا جاتا تھا۔ چچا سے بھتیجے گھل مل گئے ہوتے ہیں۔ چچا میاں، چچا پاشا، چچا جان، چاچا اور چاچو جیسے القاب سے والد کے چھوٹے بھائی نوازے جاتے تھے۔ اسی طرح تائی، چچی، ممانی، پھوپھی، پھوپھا، ماموں اور خالو بھی محبت، عزت اور احترام سے یاد کئے جاتے تھے۔

تہذیبِ نو پرانی قدریں مٹانے لگی۔ سوٹ بوٹ کے دلدادہ چچا حضرت اپنے آپ کو چچا کہلوانے سے شرمانے اور ہچکچانے لگے۔ بھتیجوں سے کہا کہ انھیں انکل پکاریں۔ بھتیجے جب انھیں انکل کہتے تو ان کی گردن جو ٹائی سے اکڑی ہوتی تھی مزید اکڑ جاتی! میرے ایک دوست کو جب ان کے بھتیجے نے چچا میاں کہا تو انھوں نے سمجھایا۔ ’جب تم مجھے چچا میاں کہتے ہو تو محسوس ہوتا ہے کہ میں پرانے خیالات اور پرانی وضع کا کوئی خرانٹ بوڑھا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم ماڈرن نہیں ہیں۔ زمانے سے دس سال پیچھے چل رہے ہیں۔ ابھی گاؤں سے شہر آئے ہیں اور ہمیں انگریزی نہیں آتی! تم مجھے انکل کہا کرو اور میں تمھیں بیٹا کے بجائے سَن کہوں گا۔ ‘

اب ان کا بھتیجہ انھیں ’آداب چچا میاں ‘ کہنا چھوڑ کر ’ہیلو انکل‘ کہنے لگا۔ جواب میں چچا میاں ’ہائے سن‘ کہتے ہیں۔

وقت کے ساتھ تایا، پھوپھا اور خالو سبھی انکل کے سانچے میں ڈھلتے گئے۔ آج بچوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ حضرات کون ہیں۔ ایک صاحب نے ایک بچے سے کہا کہ میں تمھارا انکل نہیں پھوپھا ہوں تو بچے نے حیرت سے دریافت کیا۔ ’پھوپھا! وہاٹ پوپا (pupa)؟‘

ایک پھوپھا پر ہی کیا موقوف ہے اب تو ہر رشتہ داری کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ انکل کے متبادل کا بہت برا حشر ہوا ہے۔ اگر آپ کو آج کے دور میں ’چچا‘ کا مفہوم نہیں معلوم ہے تو کسی ادھیڑ عمر شخص کو چچا کہہ کر مخاطب کیجیے۔ دورِ حاضر کے چچا کو پہچان جائیں گے۔

چچا نے چولا بدلہ تو خالہ بی کیوں کر پیچھے رہتیں۔ خالہ، پھوپھی، تائی اور چچی آنٹی بن کر لیٹسٹ فیشن کے ساتھ قدم ملانے لگیں۔ آنٹی کہلانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ حقیقی رشتہ ظاہر نہ ہونے سے عمر چھپی رہتی ہے۔ آنٹی کم عمر ہوتی ہے اور ’اینی‘ یا ’آنی‘ تو آنٹی سے بھی کم عمر ہوتی ہے جبکہ خالہ عمر رسیدہ اور بھاری بھر کم شخصیت کی مالک ہوتی ہے۔ آنٹی کے دور میں کسی خاتون کو خالہ اماں یا خالہ جان کہنا کسی مرد کو چچا کہنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایک خاتون کو بی خالہ کہہ کر مخاطب کیا گیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد جب وہ نارمل ہوئیں تو ان سے غصّہ کا سبب دریافت کیا گیا۔ انھوں نے عجیب بات بتائی۔ ’خالہ کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ ہوتی ہے اور میری عمر تو خالہ کی آدھی عمر سے بھی کم ہے۔ اس لیے مجھے خالہ کہنے پر غصّہ آیا تھا۔ ‘

انکل اور آنٹی میں منتقلی کی وبا کا مقابلہ کچھ حد تک ماموں نے کیا۔ آج ہمارے درمیان چچا، تایا، خالو اور پھوپھا نہیں ملتے لیکن ڈھونڈنے سے چند ماموں مل جاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ماموں بھانجوں کے تقریباً ہم عمر ہوتے ہیں۔ لیکن انکل اور آنٹی کے دور میں ماموں پہلے جیسے خالص ماموں نہیں رہے۔ بے چاروں کو ’ماما‘ بن کر اپنی شناخت اور رشتہ کو قائم رکھنا پڑا۔ ماموں بدل کر ماما ہوئے تو چند ممانیاں ’ ممی‘ ہوئیں لیکن ممانیوں کی اکثریت آنٹی میں تبدیل ہوئی۔

ماضی میں بچوں کو اپنے بزرگوں کے نام بڑے ہونے تک معلوم نہ ہوتے تھے لیکن انھیں رشتہ داریوں کا بخوبی علم تھا۔ ایک زمانے تک مجھے اپنے چچا کا نام معلوم نہ تھا۔ تب اور اب بھی میں انھیں چچا جان ہی کہتا ہوں۔ انکل اور آنٹی کی بہتات نے بچوں کو اپنے بزرگوں کے نام بتلا دیئے اور رشتوں کو بھلا دیا۔ آج بچوں کو اپنے چچا، ماموں، خالو اور پھوپھا کے ناموں کا علم ہے لیکن ان کے درمیان موجود رشتہ سے وہ واقف نہیں ہیں۔ نام کے ساتھ انکل اور آنٹی کا دم چھلہ لگا کر سبھی کو مخاطب کر لیتے ہیں۔

بعض چھوٹی عمر کے انکل اور آنٹی، انکل اور آنٹی بھی کہلوانا نہیں چاہتے، صرف نام سے مخاطب کرنے یا پکارے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ انکل اور آنٹی نے نسلوں کے فرق کو کم کر دیا ہے اور اب انکل اور نے فیو (nephew) ایک ساتھ بیٹھے سگریٹ پھونکتے ہیں اور آنٹی اور نیس (niece) مل کر فلم دیکھنے اور تفریح کے لیے باہر جاتے ہیں۔

انکل اور آنٹی کی بہتات سے بے زار ہو کر میں بچوں کو رشتہ داریاں اور ان کا ادب اور لحاظ سمجھانے کے لیے انھیں بتانے لگا کہ چچا اور تایا باپ جیسے ہوتے ہیں۔ پھوپھا اور خالو کون ہیں۔ ماموں کسے کہتے ہیں۔ خالہ، چچی اور پھوپھی میں کیا انتر ہے۔ انگریزی میڈیم میں زیر تعلیم بچے کچھ دیر اردو میں رشتہ داریاں سمجھنے اور انھیں یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جلد تھک گئے۔ انھیں مختلف رشتوں کی بہ نسبت انکل اور آنٹی میں تن آسانی نظر آئی تو میری چھوٹی بیٹی نے سوال کیا۔ ’لیکن ڈیڈی۔ ہم چچا اور ماموں کو انکل کیوں نہیں کہہ سکتے ؟‘

’اس لیے کہ چچا کی ذمہ داری الگ ہے اور ماموں کے فرائض دوسرے ہیں۔ ‘ بچوں کو اپنی اور مستعارشدہ تہذیب کے فرق کو واضح کرنے کے بجائے میں نے سادہ تشریح مناسب سمجھی۔

اسی دوران میرے ایک دوست ملنے آئے۔ بچوں اور ان کے ڈیڈی کو گمبھیر مسئلہ میں الجھا پایا تو ماجرا دریافت کیا۔ میں نے انھیں تفصیل بتائی تو انھوں نے مجھے ڈانٹا۔ ’کیوں اپنا اور بچوں کا وقت ضائع کر رہے ہو۔ انکل کہنے میں کیا قباحت ہے۔ ساری دنیا میں انکل اور آنٹی کہا جاتا ہے۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ تم میں کوئی سو برس پرانی روح بستی ہے۔ آج کی نسل باپ کو ابا یا ابو نہیں کہتی، وہ باپ کو ڈیڈی یا پاپا بلاتی ہے۔ بھلا وہ چچا کو چچا کیا کہے گی۔ شکر کرو کہ بزرگوں کو انکل کہتی ہے۔ ابھی بزرگوں کو نام سے مخاطب کرنے کا وقت نہیں آیا!‘

’لیکن اس کا ذمہ دار۔ ۔ ۔ ‘ میں نے ان سے الجھنا چاہا۔

انھوں نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’تم سے خدا ہی سمجھے ! بابا ہمیں بخش دو۔ ‘پھر بچوں سے مخاطب ہوئے۔ ’بچو ڈیڈی پریشان ہیں، انھیں تنہا چھوڑ دو۔ آپ لوگ میرے ساتھ آؤ۔ ہم کارٹون دیکھتے ہیں۔ ‘

اور بچے انکل کے پیچھے کارٹون دیکھنے چل دیئے اور میں پریشان کھڑا انھیں اپنے سے دور جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔

٭ ٭ ٭

روزنامہ اردو نیوز، جدہ

 

 

 

 

نام میں کیا رکھا ہے

 

میں اپنے ایک دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ مختلف موضوعات پر خوش گوار گفتگو ہو رہی تھی۔ ایسے میں شوہر اور بیوی کی عمر پر بات چھڑ گئی۔ میں نے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ بیوی، شوہر سے کم عمر ہونی چاہیے۔ میری رائے سن کر موصوف کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ پھر کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن جلد ہی سختی سے بند بھی کر لیا۔ میں ان کی جانب متوقع نظروں سے دیکھنے لگا تو انھوں نے اپنی الجھن کا اظہار کیا۔ ’میں آپ سے ایک ذاتی سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے یہ سوال کرنا بھی چاہیے یا نہیں ؟‘

’آپ بلا جھجھک سوال کیجیے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ‘ میں نے بظاہر موصوف کی ہمت تو بندھائی لیکن اندر سے ڈر رہا تھا کہ معلوم نہیں، وہ کیا سوال کر بیٹھیں۔

’آپ ہمت بندھاتے ہیں تو پوچھ لیتا ہوں۔ ‘ وہ کہنے لگے۔ ’بھابی صاحبہ، یعنی آپ کی بیگم، عمر میں کیا آپ سے بڑی ہیں ؟‘

ان کے اس عجیب سوال پر مجھے ہنسی آئی لیکن میں نے سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے حساب کر کے جواب دیا۔ ’نہیں بالکل نہیں۔ وہ مجھ سے پورے چھ برس، پانچ ماہ اور دس دن چھوٹی ہیں۔ ‘

گہری ’ہوں ‘ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔

ان کے سوال اور ایک گہری ہوں نے اس مرتبہ مجھے الجھن میں مبتلا کر دیا کہ موصوف کو اس قسم کا خیال کیوں کر آیا۔ میں نے وجہ پوچھی۔ ’آپ کو یہ گمان کیوں ہوا کہ میری بیگم مجھ سے بڑی ہیں ؟‘

موصوف نے کھسیانے انداز میں جواب دیا۔ ’میں نے بھابی کو آپ کا نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے سنا ہے۔ عابد، ادھر آیئے۔ عابد، آپ کا فون ہے۔ عابد، دروازہ بند کر دیجیے۔ عابد، کار آہستہ چلایئے۔ عابد، چائے لے جایئے۔ عابد، ذرا بچے کو بہلایئے۔ عابد، برتن مانجھ دیجیے، پلیز۔ عابد، کافی پلایئے نا، آپ کافی اچھی بناتے ہیں۔ وغیرہ۔ اس پر مجھے گمان ہوا کہ وہ آپ سے بڑی ہیں۔ ‘

’نام لے کر مخاطب کرنا عمر میں بڑا ہونے کا ثبوت تو نہیں ہے !‘ میں نے بیگم کے کم عمر ہونے کی مدافعت کرتے ہوئے کہا۔

انھوں نے وضاحت کی۔ ’ہمارے یہاں نام لے کر شوہر کو مخاطب نہیں کیا جاتا۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ بڑی عمر کی بیوی چھوٹے شوہر کا نام لے کر مخاطب کرتی ہے۔ ‘

’ آپ کے یہاں رائج یہ طریقہ مجھے پسند آیا۔ ‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا اور معلومات عامہ کی خاطر ان سے پوچھا۔ ’پھر آپ کے یہاں کم عمر بیوی شوہر کو کیسے مخاطب کرتی ہے ؟‘

’مختلف طریقے ہیں۔ کوئی ایک ہو تو بتاؤں، بلکہ اکثر بیویوں کے پاس شوہر کو مخاطب کرنے کا کوئی مخصوص انداز ہی نہیں ہوتا۔ پس شوہر کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بیوی اس کی توجہ چاہتی ہے۔ ‘موصوف نے فلسفیانہ بات کہی۔

’الہام ہوتا ہو گا۔ ‘ میں نے قیاس کیا۔ ’لیکن اس سے دوسروں کو ابہام بھی تو ہو سکتا ہے۔ ‘

’الہام ہوتا ہے اور نہ ہی ابہام۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ ‘ موصوف نے جواب دیا۔

اس دلچسپ گفتگو کے بعد ہماری محفل برخاست ہوئی۔ بیگم کو مجھ سے بڑی گرداننے کی وجہ سے میں دیر تک محظوظ ہوتا رہا۔

اس واقعہ کے چند دنوں بعد میں نے بیگم کو چھیڑنے کی خاطر کہا۔ ’لوگ کہتے ہیں کہ آپ مجھ سے بڑی ہیں۔‘

بیگم پریشان ہوئیں اور مجھ سے پوچھنے لگیں۔ ’کیا میرا وزن بڑھ گیا ہے۔ کیا میں موٹی اور بھدی دکھائی دے رہی ہوں ؟‘

’آپ کا وزن نہیں بڑھا ہے، الٹا کم ہوا ہے۔ مہنگی ڈائٹنگ جو کر رہی ہیں۔ وہ وزن میں بڑی ہونے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آپ عمر میں مجھ سے بڑی ہیں۔ ‘میں نے وضاحت کی۔

زمانۂ قدیم ہی سے عمر کا موضوع خواتین کے نزدیک ایک بڑا نازک مسئلہ رہا ہے اور کوئی بیوی نہیں چاہتی کہ اس کی عمر شوہر کے عمر سے زیادہ ہو۔ بیوی شوہر سے کم عمر ہی ہوتی ہے، چاہے حقیقت میں اس کی عمر زیادہ ہی کیوں نہ ہو! بیگم نے تیوریوں پر بل ڈال کر کہا۔ ’پوری تسلی کے بعد آپ کے بزرگوں نے مجھے پسند کیا تھا۔ آپ کی دادی ماں نے عقل داڑھ نکلنے کی بابت دریافت کیا تھا تو آپ کی خالہ بی نے میرے برتھ سرٹیفکٹ کا بغور معائنہ کیا تھا۔ اور پاسپورٹ بنتے وقت آپ نے بھی اسے بہت دیر تک گھورا تھا۔ اب آپ مجھ سے کم عمر کیسے ہو گئے ؟‘

’یہ میرا نہیں، احباب کا خیال ہے۔ ‘میں نے بیگم کو بتایا۔ کہا تو ایک ہی دوست نے تھا لیکن میں نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے احباب کہا۔

’احباب کو میری عمر کا کیا پتا۔ دوسرے کیا جانیں، میں کتنی بوڑھی ہوں۔ آپ نے فرمایا ہو گا۔ ‘ بیگم قیاس کے گھوڑے دوڑانے لگیں۔ ’میں سب سمجھتی ہوں۔ دس سال آپ نے مجھ سے نباہ کر لیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب آپ کا جی بھر گیا ہے۔ اب میں آپ کو پسند نہیں آتی۔ کوئی اور دل کو بھا گئی ہو گی۔ آپ ہی نے لوگوں کے سامنے میری برائی کی ہو گی۔ کہا ہو گا کہ میری بیوی بد شکل ہے، بد دماغ ہے اور عمر میں مجھ سے بڑی ہے۔ اس طرح آپ کو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوں گی اور پھر موقع ملتے ہی آپ دوسری شادی کر لیں گے، جو آپ کی دیرینہ خواہش ہے۔ شادی کے بعد لوگ یہی کہیں گے کہ بے جوڑ شادی تھی۔ بیوی بڑی ہونے کا رعب ڈالا کرتی تھی۔ بے چارہ اپنی پسند سے دوسری کو بیاہ نہ لاتا تو کیا کرتا۔ ‘

یہ بھی تقریباً ہر بیوی کی ایک کمزوری ہے۔ معمولی بات پر دوسری شادی تک جا پہنچتی ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ بات بات پر شوہر کی دوسری شادی کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ بات اگر صرف سوچنے کی حد تک رہتی تو ٹھیک بھی تھی۔ وہ اس موضوع پر شوہر سے نہ صرف بحث کرتی ہیں بلکہ اسے قائل کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس کے دل میں دوسری عورت کا ارمان کروٹیں لے رہا ہے۔ بعض مرتبہ بیوی کی یہ کمزوری شوہر کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بیوی کے بار بار کہنے پر شوہر کو دوسری شادی کی ترغیب اور تحریک ہوتی ہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے دوسری مرتبہ بیوقوفی کر بیٹھتا ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست سے دوسری مرتبہ سہرا باندھنے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا۔ ’پہلی بیوی کے ہر دم دوسری شادی کے طعنے سن کر خیال آیا کہ مجھے دوسری شادی کا تجربہ کرنا چاہیے، سو میں نے دوسری شادی رچا لی۔ ‘

’وجہ معقول ہے۔ آپ کا یہ تجربہ کیسا رہا؟‘ میں نے دوسرا سوال کیا۔

’پہلے جیسا ہی ہے۔ کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ مجھے امید تھی کہ دوسری شادی کے بعد پھر کسی شادی کے متعلق بات نہیں ہو گی۔ لیکن صد افسوس، اب دونوں بیویاں تیسری شادی کا طعنہ دیتی ہیں۔ ‘ موصوف نے بتایا۔

اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ میں نے ان سے یہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لیے کہ مجھے ان کی دونوں بیویوں سے ہمدردی تھی اور اب بھی ہے جبکہ موصوف سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ جو شخص بیوی کے بہکاوے میں آ جائے بھلا اس سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے۔

میں نے بیگم کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے حقیقت بیان کی۔ ’میں آپ کی طرح خاتون ہوں نہیں کہ اپنی عمر چھپاؤں گا یا غلط بتاؤں گا۔ میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا ہے۔ یہ آپ جو نام لے کر مجھے مخاطب کرتی رہتی ہیں اور ہر دم میرا نام لے کر ناک میں دم کرتی رہتی ہیں۔ احباب نے اس سے اندازہ لگایا ہے کہ آپ عمر میں مجھ سے بڑی ہیں۔ ‘

’احباب نے اندازہ نہیں لگایا ہے۔ انھیں کیا پڑی ہے کہ میں آپ کو کیسے مخاطب کرتی ہوں۔ یہ کہانی آپ نے گھڑی ہے۔ اب میرا مخاطب کرنا بھی آپ کو ناگوار گذرنے لگا ہے۔ آپ یہی چاہتے ہیں ناں کہ میں آپ کا نام نہ لوں۔ آپ کی خوشی کی خاطر میں آپ کا نام نہیں لوں گی اور نہ ہی آپ کے نام میں آؤں گی۔ ‘ بیگم نے غصّہ میں غلط فیصلہ کر ڈالا۔ بیگم ہی کیا، غصّہ میں ہر کوئی غلط فیصلہ ہی کرتا ہے۔

میں خاموش ہو کر سوچنے لگا کہ ایک دلچسپ بات کا انجام کس قدر غیر دلچسپ اور سنجیدہ ہو سکتا ہے۔ کاش میں تنہا ہی دوست کی باتوں کا لطف اٹھا لیا ہوتا اور بیگم سے اس واقعہ کا ذکر نہ کیا ہوتا۔ لیکن اب کیا کیا جائے، تیر نکل چکا تھا۔ بیگم روٹھ گئی تھیں۔ انھیں منانا تھا۔ میں نے کچھ دیر سستانے بعد بیگم کو منانے کی ریاضت کا ارادہ کیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دوران بیگم کو اندازہ ہو جائے کہ وہ خواہ مخواہ ہی ناراض اور پریشان ہو رہی ہیں اور خود ہی مان جائیں۔

مجھے اس بات کی امید کم لیکن توقع زیادہ تھی اور ہوا بالکل توقع کے مطابق ! خاموشی کے چند لمحے گزرے ہوں گے کہ بیگم نے کہا۔ ’سنیے۔ ‘

’جی۔ ۔ ۔ ‘ میں نے مصنوعی حیرت سے استفسار کیا۔ ’ آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟‘

’جی ہاں عابد۔ ۔ ۔ ‘ میرا نام لیتے ہی بیگم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ توبہ کرتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’مجھے آپ کا نام نہیں لینا چاہیے، آئندہ خیال رکھوں گی۔ ویسے آپ پریشان نہ ہوں۔ یہاں کوئی تیسرا نہیں ہے۔ سوچتی ہوں کہ میں آپ کو نام سے نہ پکاروں۔ ‘

میں سوچنے لگا کہ کسی خاتون کو زیادہ عمر والی کہنا یا سمجھنا کیا گل کھلاتا ہے۔ وہ پرانی اور پختہ عادت تک چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ یہ نکتہ جانتے ہیں، وہ خواتین کی اس کمزوری کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک محفل میں خواتین بہت زیادہ باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے شور و غل میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ انھیں خاموش کرنے کی تمام تدبیریں ناکام ہو چکی تھیں۔ ایسے میں کمپیِر کو صنف نازک کی یہ کمزوری یاد آئی۔ اس نے کہا۔ ’براہ کرم۔ صرف وہی خواتین باتیں جاری رکھ سکتی ہیں جن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے۔ ۔ ۔ شکریہ۔ ‘

اس اعلان کے ساتھ ہی محفل میں یکلخت خاموشی چھا گئی۔ کوئی بھی خاتون منہ کھولنے کے لیے تیار نہ تھی۔

میں بیگم کی عمر کے حوالے سے مزید بات کر کے بات کو آگے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے میں نے بیگم کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’جی بہتر ہے۔ جو آپ کے مزاج میں آئے کیجیے۔ ویسے آپ مجھے کیا کہہ کر مخاطب کرنا پسند فرمائیں گی؟‘

’سوچتی ہوں، کیوں نہ آپ کو سنیے، دیکھیے، ادھر آیئے، پلٹیے، رکیئے، ٹھہریئے، جیسے القاب سے مخاطب کروں۔ ‘ بیگم نے اپنا خیال ظاہر کیا۔

’میری ناقص رائے میں یہ القاب نہیں ہیں۔ یہ تو افعال اور احکام ہیں۔ جب آپ اس طرح مجھے مخاطب کریں گی تو لوگوں کا شک یقین میں بدل جائے گا کہ آپ مجھ سے بڑی ہیں۔ اسی لیے آپ مجھ پر حکم چلاتی ہیں اور میں آپ سے ڈرتا ہوں۔ ڈرنے کی بات صحیح ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو سچ بتانے لگیں۔ اس طرح مخاطب کرنے سے دوسرے بھی متوجہ ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ آپ کو لیڈی ٹریفک کانسٹبل سمجھ بیٹھیں !‘ میں امکانی غلط فہمیوں سے بیگم کو آگاہ کیا۔

’کیا آپ کو منو کے ابا، منی کے باوا، پپو کے پپا یا پھڈی کے ڈیڈی جیسا کوئی لقب پسند ہے ؟ بیگم نے دوسری تجویز پیش کی۔

’جی نہیں۔ اولاد ہونا کوئی انفرادی اعزاز نہیں ہے۔ ہر کسی کے بچے ہوتے ہیں اور پھر۔ ۔ ۔ ‘

بیگم نے مجھے بیچ ہی میں روک کر کہا۔ ’آپ کی جی نہیں سے یاد آیا۔ کیا آپ کو اجی کہنا ٹھیک رہے گا۔ اگر اجی گوارا نہیں ہے تو صرف جی، اوجی، اے جی، ہاں جی، کیوں جی، جی جی میں سے کوئی ایک کا انتخاب کیجیے۔ میں اس جی سے آپ کو مخاطب کروں گی۔ ‘

’کیوں آپ جی کے پیچھے پڑ کر میرے جی کو جلاتی ہیں۔ جی کے علاوہ انگریزی زبان میں دوسرے حروف بھی ہیں۔ ‘میں نے جواب دیا۔

آئی میں خود ہوں، اس لیے آپ کو آئی کہہ نہیں سکتی۔ وی ہم دونوں ہیں۔ یو تو ہر کوئی ہے۔ اس لیے ایکس، وائی، زیڈ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟‘

’تو کیا میں ایکس وائی زیڈ ہوں ؟‘

’نہیں، آپ اے ایم یعنی عابد معز ہیں۔ کیا میں آپ کو اے ایم کہوں۔ ‘ بیگم نے پوچھا۔

’اس لحاظ سے مجھے آپ کو پی ایم کہنا پڑے گا۔ ‘ پھر میں نے کہا۔ ’کیا ناموں کا قحط ہے۔ ’آپ کو کوئی بہتر نام کیوں نہیں سوجھتا!‘

’کیوں نہیں سوجھتا۔ مجھے بہت سارے اچھے اچھے نام یاد ہیں۔ مغل اعظم، جہاں پناہ، عالم پناہ، بے پناہ، ظل الٰہی، سرتاج، صاحب بہادر، کمپنی بہادر، راج بہادر۔ ۔ ۔ ‘

’بس بس۔ میں نے بیگم کو روکنا چاہا۔ لیکن وہ رکنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ ’شہنشاہ، راجا، مہاراجا۔ آپ بتائیں، ان میں سے کون سا نام پسند ہے۔ کنیز اس نام سے آپ کو مخاطب کرے گی۔ ‘ بیگم نے مسکراتے ہوئے زبردست اور شاندار القاب کی فہرست مکمل کی۔

بیگم کا موڈ ٹھیک ہوتا دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا اور میں نے مصنوعی غصّہ سے کہا۔ ’ کوئی ایک نام بھی پسند نہیں آیا۔ میں کہیں کا راجا یا بادشاہ نہیں ہوں۔ ‘

کیوں نہیں۔ آپ اس گھر کے راجا ہیں اور میں آپ کی رعایا ہوں مہابلی۔ ‘ بیگم نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طنز کیا۔

’جی نہیں۔ میں تو ایک حقیر فقیر بندۂ بے دام ہوں بیگم صاحبہ۔ ‘ میں بیگم کو رانی یا عالم آرا کہنا چاہتا تھا لیکن ان کے پھر سے روٹھنے کے خوف سے صرف بیگم صاحبہ کہنے پر اکتفا کیا۔

’تو پھر حضرت، قبلہ، شاہ صاحب، مرشد، پیر جی کیسے رہیں گے ؟‘ بیگم ہنسنے لگیں۔

’یوں اگر آپ مخاطب کریں گی تو مجھے آپ پر وارد چڑیل کو جھاڑ پھونک کر کے اتارنا پڑے گا۔ ‘ میں نے جواب دیا۔

’ارے آپ تو ناراض ہونے لگے۔ غصّہ تھوک دیجیے۔ میں آپ کو حضرت، قبلہ یا مرشد کہہ کر بزرگ نہیں بناؤں گی۔ ابھی آپ کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ میں آپ کو صرف آپ کہہ کر مخاطب کروں گی۔ ‘ بیگم نے ایک نئی تجویز رکھی۔

’وہ تو آپ اب بھی کہتی ہیں۔ تم اور تو آپ نے کبھی کہا نہیں ہے اور ہم میں اب تک توتو میں میں نہیں ہوئی ہے۔ ‘ میں نے بیگم کی آپ والی تجویز رد کر دی۔

’اف بہت مشکل ہے۔ ‘ بیگم ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’سمجھ میں نہیں آتا شوہر کو کیا کہا جائے۔ میاں چلے گا؟‘

’جب میاں چلے گا تو کیا بیوی بھی ساتھ ہو گی۔ میاں اکیلے چلنے سے تو رہا۔ ‘ میں نے جواباً پوچھا۔

’نہیں۔ بیوی ساتھ نہیں ہو گی۔ آپ مجھے نام لے کر ہی پکاریئے۔ مجھے اور نہ ہی میری سہیلیوں کو اعتراض ہے اور پھر میں آپ سے عمر میں چھوٹی ہوں۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔

’اس میں کوئی شک نہیں ہے، آپ مجھ سے چھوٹی ہیں۔ اسی لیے اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اپنے بڑوں کا صرف نام نہیں لینا چاہیے۔ ساتھ میں کوئی لقب لگانا چاہیے جیسے جناب، صاحب، سر وغیرہ۔ ‘ میں نے بیگم کو سمجھایا۔

’ ٹھیک ہے، میں آپ کو عابد صاحب یا عابد سر کہوں گی۔ ‘ بیگم نے پھر ایک نئی تجویز رکھی۔

’اس طرح لوگوں کو احساس ہو گا کہ آپ میری اسٹوڈنٹ ہیں یا رہ چکی ہیں اور میں ایک بے بھروسہ استاد ہوں اور پھر۔ ۔ ۔ ‘

مجھے بیچ ہی میں روک کر بیگم نے ایک دوسری تجویز رکھی۔ ’ استاد سے خیال آیا، کیوں نہ میں آپ کو آپ کے دفتری عہدے سے پکاروں۔ ‘

’ دفتر کے معاملات کو دفتر ہی میں رہنے دیجیے۔ آپ ہی کہتی ہیں کہ دفتر کا کام اور دفتر کی پریشانی گھر پر نہ لاؤں۔ اب آپ گھر کو دفتر کیوں بنانا چاہتی ہیں۔ ‘ میں نے بیگم کو یاد دلایا۔ ’آپ میری بیوی ہیں، میرے عہدے کی بیوی نہیں !‘

’اگر یہ بات ہے تو میں آپ کو ڈارلنگ، ڈیئر، جانی، مائی لو جیسے القاب سے کیوں نہ پکاروں ؟‘ بیگم نے سوال کیا۔

’یہ القاب شادی سے پہلے اچھے لگتے ہیں۔ شادی کے بعد انھیں نکاح نامے کے ساتھ کہیں محفوظ جگہ پر چھپا دینا چاہیے۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ اپنا نہیں تو ان کا خیال کیجیے۔ ‘ میں نے جواب دیا۔

’ میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا ہے۔ آپ کو مخاطب کرنا ہے۔ آپ ہی بتایئے۔ آپ جیسے چاہیں گے، میں آپ کو بلاؤں گی۔ ‘ بیگم نے فیصلہ مجھ پر چھوڑا۔

لمحہ بھر کے لیے خیال آیا کہ بیگم سے کہہ دوں، آپ مجھے بلایا ہی نہ کریں۔ مسئلہ حل ہو جائے گا اور ساتھ میں مجھے سکون بھی میسّر آئے گا۔ لیکن ایسی روایت شکن بات کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا۔ مختلف القاب اور خطابات ذہن میں آئے لیکن پسند کوئی نہ آیا۔ کوئی نام پرانا دکھائی دیتا تو کوئی بہت زیادہ ماڈرن۔ کسی نام پر ہنسی آئی تو کسی نام سے غیر ضروری سنجیدگی طاری ہو گئی۔ کوئی نام رومان پرور تھا تو کوئی اجنبیت کا احساس دلاتا تھا۔ آخر تھک ہار کر میں نے فیصلہ کیا کہ جو میرا ایک نام بزرگوں نے رکھ چھوڑا ہے، وہی ٹھیک اور مناسب بھی ہے۔ میں نے بیگم سے کہا۔ ’آپ مجھے ویسے ہی مخاطب کیجیے جیسے اب تک کرتی آ رہی ہیں۔ ‘

’یعنی میں آپ کو آپ کے نام سے مخاطب کروں ؟‘

’جی۔ ‘ میں نے مختصر جواب دیا۔

’اس طرح سے آپ کے احباب مجھے آپ سے بڑی سمجھیں گے۔ ‘بیگم نے یاد دلایا۔

’ آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں انھیں سمجھادوں گا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ نام لے کر مخاطب کرنے سے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا۔ بڑا تو ہر حال میں شوہر ہی ہوتا ہے۔ ‘میں نے بیگم کو تسلی دی۔

’شاید۔ ‘ کہہ کر کچھ دیر سوچنے کے بعد بیگم گویا ہوئیں۔ ’پھر ٹھیک ہے عابد۔ میں آپ کو آپ کے نام ہی سے مخاطب کروں گی۔ ‘

بیگم کے راضی ہونے اور اس پیچیدہ مسئلہ کے حل ہونے پر میں خدا کا شکر ادا کرنے لگا۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، ستمبر2001ء

 

 

 

وہ

 

صبح آنکھ کھلنے پر ہر شریف شوہر کی آنکھ بیوی کی آنکھ سے ملتی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیوی سے آنکھ لڑتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں ہر صبح کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ درپیش رہتا ہے جس پر شوہر اور بیوی کی آنکھیں ’لڑ پڑتی‘ ہیں اور ان کے درمیان ایک نئی صبح کا آغاز اس قدیم لڑائی سے ہوتا ہے جو آدم اور حوا کے جانشینوں کے درمیان روزِ اول سے چلی آ رہی ہے۔

شرٹ کا بٹن نہ ٹانکنے پر بہتان۔ ’کتنے دن سے ٹوٹے بٹن والا شرٹ پہن کر دفتر جا رہا ہوں۔ لوگ سوچتے ہوں گے کہ میں نے کس پھوہڑ سے شادی کی ہے۔ ‘

راشن ختم ہونے پر سوال۔ ’چاول ختم ہو چکے ہیں، اب کیا میں خود چولہے پر چڑھ جاؤں ؟‘

’ہمارا تعلق آدم خور خاندان سے نہیں ہے۔ اس لیے آپ کی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘جواباً لڑائی کا آغاز ہوا۔

اسکول کی فیس نہ دینے پر شکایت۔ ’آج اگر منے کے اسکول کی فیس نہیں دی گئی تو اسے ادھم مچانے کے لیے گھر بھیج دیا جائے گا، پھر گھر کا کام کاج کیسے ہو گا؟‘

ٹفن ساتھ نہ لے جانے پر طنز۔ ’گھر کا کھانا پسند نہیں آ رہا ہے۔ ہوٹل میں مزے ہو رہے ہوں گے۔ ‘

’جی نہیں، بات یہ نہیں ہے۔ وقت پر ٹفن دیا ہوتا تو یوں فضول پیسے خرچ نہ ہوتے !‘جوابی وار ہوا۔

کل رات آپ میری بات سنتے ہوئے سوگئے تھے۔ میں سنئیے۔ ۔ ۔ سنئیے۔ ۔ ۔ کرتی رہ گئی۔ کیا دفتر میں سونے کا موقع نہیں ملا؟‘

آج صبح بھی ہماری آنکھیں کھلتے ہی بیوی کی آنکھوں سے لڑ پڑیں۔ انھوں نے ہر دن کی طرح غمِ روزگار کا رونا رونے کے بجائے ایک عجیب و غریب شکایت کی۔ ’پچھلے چند دنوں سے میں محسوس کر رہی ہوں کہ گھر میں آپ کی پہلے جیسی دلچسپی نہیں رہی۔ شام میں دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر تھکے تھکائے گھر آتے ہیں۔ دوچار نوالے زہر مار کرتے ہیں۔ کچھ دیر منہ پھلائے بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ آتی ہے اور آپ اس کے پیچھے ہولیے۔ گھر والوں سے کچھ پوچھا اور نہ ہی ان سے کچھ سنا۔ پپو کا ہوم ورک دھرا کا دھرا رہ گیا۔ منی کی رپورٹ بھی نہیں دیکھی۔ صرف ایک مضمون میں پاس ہوئی ہے۔ ہم ہیں کہ آپ کو صبح دفتر روانہ کرنے کے بعد سے ارمان لیے بیٹھے ہیں کہ کب صاحب بہادر آئیں گے۔ انھیں پیٹ بھر کھلا کر جی بھر کر باتیں کریں گے۔ دن تمام کی تھکن اتاریں گے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ماتم کریں گے۔ لیکن وہ آئی کہ آپ غائب! ہمارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ میں ایک بات کہنے کے لیے پندرہ دن سے سوچ رہی ہوں لیکن وہ موقع دے تب ناں۔ ۔ ۔ ‘

بیوی کی شکایتی داستان جاری رہتی اگر ہم نے ٹوکا نہ ہوتا۔ ’ اچھا بابا کہو۔ پندرہ دن سے نہ کہی ہوئی بات پندرہ مرتبہ کہو۔ ‘

بیوی ہمیں زیر کرنے کے بعد قریب کھسکتے ہوئے خوشامدی لہجے میں بولیں۔ ’پچھلی جمعرات کو میں اور چھوٹی بھابی ان کی بڑی بھابی کے چچازاد بھائی کے سالے کی لڑکی کی شادی میں گئے تھے۔ آپ کو یاد ہے نا۔ ‘

ہم نے ناگواری سے جواب دیا۔ ’ہاں اکثر بیگانوں کی شادی میں آپ لوگ فیشن کی روش دیکھنے جاتی ہیں۔ کس نے کیسی ساڑی پہنی ہے۔ کس کا زیور کیسا ہے۔ کس نے کیسا میک اپ کیا ہے۔ پچھلی ملاقات کے بعد سے کس نے کتنے نئے زیور خریدے اور کپڑے بنوائے ہیں اور پھر گھر آ کر شوہر سے مطالبہ کرنا کہ مجھے ایسی ساڑی چاہیے، ویسا زیور چاہیے۔ ‘

ہمارا تیر نشانے پر لگا۔ بیوی ناراض ہو کر کہنے لگیں۔ ’ہم بے چارے شوہروں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ہمارا منہ تو صرف فرمائشوں کے لیے کھلتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے۔ ہم ہوٹلنگ نہیں کرتے، سہیلیوں کے ساتھ فلمیں نہیں دیکھتے، بلا مقصد ادھر ادھر نہیں گھومتے !کبھی کبھار کپڑے اور زیور کی فرمائش کرتے ہیں سو وہ بھی ناگوار گزرتا ہے۔ شاید اسی لیے آپ ہم سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس کے آتے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ ‘

ہم نے بیوی کو منانے کے لیے کہا۔ ’ہم کب کہتے ہیں کہ بیویاں بے جا فرمائشیں کرتی ہیں۔ آپ کی فرمائشیں حق بجانب ہوتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ آپ کے اکثر مطالبات ہم شوہروں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ شوہر بے چارہ کیا کرے ؟ دن تمام کولھو کے بیل کی طرح کام کر کے شام گھر آیا نہیں کہ بیوی کے مطالبات کی فہرست پیش ہوئی۔ خوش کرنے کے لیے دو ایک پیار بھری باتیں کیں، چائے پلائی اور اپنا مدعا پیش کیا کہ عید کے لیے کپڑے چاہیے، آپا کے لڑکے کی شادی میں شرکت کے لیے نیا زیور چاہیے، وغیرہ۔

اس کے برخلاف وہ آتی ہے تو راحت ملتی ہے۔ پچھلے ہفتہ کی بات ہے۔ ہم گرمی سے پریشان، پسینہ میں شرابور تھے۔ ہمارے ہونٹ اور منہ خشک تھے۔ ہم نڈھال پڑ گئے تھے کہ وہ آئی اور ہمیں کشمیر کی وادیوں کی سیر کو لے گئی۔ برف سے ڈھکے پہاڑ، نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بادل کے تکڑے۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہم گرم کوٹ پہنے ایک ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ اور دوسرے ہاتھ میں روسٹیڈ تمباکو کا سگریٹ اور سر پر کن ٹوپ، اس کیٹنگ کے لیے تیار۔ ۔ ۔ ‘

بیوی نے ہمیں کشمیر کی وادیوں کا لطف اٹھانے نہ دیا اور ہمیں بیچ میں روک کر سوال کیا۔ ’میں کہاں تھی؟‘

ہم نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ ’پتہ نہیں ! لیکن قیاس اغلب ہے کہ آپ اپنے گھر میں تھیں۔ پڑوس کی عورتیں جمع تھیں۔ پھٹے کپڑے سیتے، بٹن ٹانکتے اور ترکاری چنتے ہوئے ایک دوسرے کی شکایتوں میں مگن تھیں۔ ‘

بیوی کو یوں ہمارا موج مستی کرا پسند نہ آیا، روٹھتے ہوئے کہا۔ ’اسی لیے مجھے وہ سوت لگتی ہے۔ جی جلانے روز آتی ہے۔ کبھی آپ کو وہ کلب اور ناچ گانے کی محفل میں بھی ساتھ لے گئی ہو گی!‘

ہم نے کان پکڑ کر گال پیٹتے ہوئے کہا۔ ’نہیں بیگم، وہ ہمیں ایسی جگہوں پر مطلق نہیں لے جاتی۔ ‘

ہم نے سفید جھوٹ بولا، حالانکہ وہ ہمیں کم سن اور خوب صورت حسیناؤں کے پاس تقریباً روز ہی لے جاتی ہے۔ ان سے مل ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ کل ہی کا واقعہ ہے۔ دفتر سے ہم مثل پروانہ سیدھے شمع کے گھر پہنچے۔ سن سولہ کے قریب، کھلتا ہوا رنگ، کتابی چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں جن میں ہمارا انتظار تھا۔ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ جو مسکرانے کے لیے بے چین تھے۔ ہمارے استقبال کے لیے شمع دروازے میں موجود تھی۔ جوش ملیح آبادی کے ادائے سلام کی تفسیر بن کر اس نے ہمیں سلام کیا۔

آنکھوں میں غنچہ ہائے نوازش نچوڑ کر

میرے دلِ شکستہ کو نرمی سے جوڑ کر

ہونٹوں پہ نیم موج تبسم کو توڑ کر

میری طرف خفیف سا گردن کو موڑ کر

کل صبح راستے میں سہانی حیا کے ساتھ

اس نے مجھے سلام کیا کس ادا کے ساتھ

شاعرانہ سلام کے بعد اس نے ہمارے ہاتھ سے بستہ لیا اور ہمیں باتھ روم میں دھکیلا۔ نہا دھوکر گلفام بنے باہر آئے۔ شمع چائے کی میز پر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ مخروطی انگلیوں سے چائے بنا کر پیش کی۔ ہم نے چائے پی اور شمع کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈال کر چہل قدمی کے لیے چل دیئے۔

اس رنگین منظر کے بر خلاف ہماری بیوی کا رویہ ملاحظہ فرمایئے۔ ہم دفتر سے تھکے ماندے گھر لوٹتے ہیں۔ تھک اس لیے جاتے ہیں کہ ہمیں گھر میں آرام نہیں ملتا اور دفتر میں باس سونے نہیں دیتا۔ گھر لوٹنے پر دروازہ کھلا ملتا ہے۔ متوسط طبقہ کے گھروں میں چرانے کے لیے عزت کے علاوہ کوئی اور قیمتی چیز نہیں ہوتی۔ قدموں کی آہٹ سن کر کہیں سے بیوی کی آواز آتی ہے۔ ’آ گئے !‘

ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے آنے کی امید نہ تھی۔ ابھی ہم سوچتے ہی رہتے ہیں کہ خوش آمدید کہنے کا یہ کیسا انداز ہے، بیوی کچن سے برآمد ہو کر بچے کو اپنی گود سے ہماری گود میں منتقل کر کے ’سنبھالیے اپنی اولاد کو‘ طنز کا تیر چلا کر یہ جا، وہ جا۔ ابھی ہم سنبھلنے بھی نہیں پاتے کہ مزید چند بچے اِدھر اُدھر سے نمودار ہو کر ہمیں نرغے میں لے لیتے ہیں۔ کوئی میووں کا طالب ہے تو کوئی بسکٹ اور چاکلیٹ کے لیے رو رہا ہے۔ ڈرا دھمکا کر بچوں کو بھگایا اور گود کے بچے کو واپس کرنے بیوی کی تلاش میں نکلے۔ بیوی کو پانی کے نل کے پاس کپڑوں کے ڈھیر میں غرق پایا۔ بیوی کے منع کرنے کے باوجود گود میں سے بچے کو اتارا اور انہیں سونپا۔

بیوی بھلا کہاں نچلی بیٹھنے والی تھیں۔ سانسیں درست ہی کی تھیں اور دو گھونٹ پانی پیا ہی تھا کہ بیوی نے اشیائے صرف کی فہرست تھما کر باہر کا راستہ دکھا دیا۔ بھلا یہ بھی کوئی شریکِ زندگی کا طرزِ حیات ہے ! کیا ہم شوہر اور بیوی صرف اس لیے ہیں کہ راشن لائیں، کپڑے دھوئیں، بچے پیدا کریں اور ان کی پرورش کریں۔

ہم اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرنے کے لیے دو منٹ خاموش رہے۔ بیوی نے خاموشی توڑی۔ ’جب آپ اس کے پاس ہوتے ہیں تو کیا میں بھی کبھی آپ کے ساتھ ہوتی ہوں ؟‘

ہم نے سچ کہا۔ ’کیوں نہیں بیگم۔ آپ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ آپ اور ہم شاپنگ کرتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ آپ شاپنگ کرتی ہیں اور ہم آپ کی خدمت کرتے ہیں۔ صبح بازار کھلنے سے رات بند ہونے تک آپ شاپنگ کرتی ہیں۔ آپ کی ہر خواہش پر ہمارا دم نکلنے کے بجائے اسے پوری کرنے کے لیے ہماری جیب میں ڈھیر سارے پیسے اور چند بلینک چیک ہوتے ہیں۔ کپڑوں کی خریداری پر ہم نے ہزاروں روپے ادا کر دیئے، اف تک نہ کی۔ آپ نے ہمہ اقسام کے زیور خریدے اور ہم نے خوشی خوشی بل ادا کر دیا۔ بھاؤ تاؤ کرنے میں آپ نے وقت گنوایا۔ ہم نے ٹوکا تو آپ نے اسراف پر لیکچر دیا۔ کئی دکانیں گھوم پھر کر آپ نے وہی پہلی جگہ سے خریداری کی۔ ہم نے شکایت کی تو آپ نے اسے ٹھوک بجا کر خریدنے کا گر کہا۔ ہم خاموش رہے۔ غرض شام میں دوکان، دوکان پھر کر اور پیکٹ اور تھیلیوں بلکہ تھیلوں کا بوجھ ڈھو کر تھکے ماندے گھر پہنچے۔ گھر پہنچنے کے بعد سستانے کے بجائے آپ نے پیکٹ کھول کر دیکھنا شروع کیا۔ زیور پہن کر خوش ہوئیں۔ ایک پیکٹ سے پتہ چلا کہ ساڑی کا میچنگ بلوز دوکان میں چھوٹ گیا ہے۔ آپ نے ہمیں الٹے پیر بازار دوڑایا۔ ‘

’آپ نے بہت اچھا خواب دیکھا۔ ایسی میری قسمت صرف خواب ہی میں ہو سکتی ہے۔ ‘بیوی نے اپنی رائے دے کر کہا۔ ’آپ کے اس خواب کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کیا آپ سیدھے گھر سے دوکان گئے ؟‘

’سچ کہنے پر آپ خفا تو نہ ہوں گی۔ ‘ ہم نے استفسار کیا۔

بیوی نے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا۔ ’ہر کوئی سچ کہنے کے لیے کہتا ہے لیکن سچ سننا کوئی گوارا نہیں کرتا۔ لیکن آپ صرف سچ کہیے۔ مجھے سچ کہنا اور سننا دونوں پسند ہے۔ ‘

’تو پھر سنیے۔ ‘ ہم نے سچ کہا۔ ’آپ کا پیکٹ اٹھائے ہم اپنے دوست کے پاس پہنچے۔ انھیں ساتھ لے کر رسٹورنٹ گئے۔ وہاں تھکن اتاری۔ پیٹ بھرا۔ گپ شپ کی اور گھر واپس آ کر آپ کو بتایا کہ دوکان بند ہو چکی ہے۔ ‘

سچ بات سن کر بیوی کو غصّہ آیا، کہنے لگیں۔ ’آپ کو بس دوست احباب اور وہ چاہیے۔ جب بھی موقع ملے آپ ان کے ساتھ ہوا ہو جاتے ہیں۔ ‘

’آپ صحیح فرماتی ہیں۔ ‘ بیوی کا الزام ہم نے بخوشی قبول کیا۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ دوستوں اور اس کے یہاں ہمارے مسائل کا حل تو نہیں ہے لیکن ان مسائل سے فرار ہے۔ دوستوں کے ساتھ ہم اپنی مشکلات اور مصائب کو بالائے طاق رکھ کر ادب، آرٹ اور سیاست جیسے موضوعات پر گھنٹوں بحث اور مباحث میں الجھ جاتے ہیں۔ لیکن دوستوں سے زیادہ وہ ہماری ہمدرد، غم گسار اور بہی خواہ ہے۔ جب بھی ہم پریشان ہوتے ہیں وہ ہمارا سر سہلاتے ہوئے آتی ہے۔ آنکھیں خود بخود بند ہونے لگتی ہیں۔ پھر کوئی مسئلہ درپیش رہتا ہے اور نہ ہی کوئی سوال۔ ہماری حالت کی ترجمانی حضرت میر کے اس شعر سے ہوتی ہے کہ

وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

وہ بہت پیاری، معصوم اور میٹھی ہے۔ اس کی آغوش میں پہنچ کر ہم دنیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور ہم اپنی ایک خیالی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔ بستر سے اٹھنے کے بعد سے اس کا انتظار رہتا ہے۔ بعض وقت وہ جلد آتی تو بعض مرتبہ بہت انتظار کرواتی ہے۔ کبھی بے وفائی بھی کرتی ہے۔ نہیں آتی تو اس کی جدائی بے چین کر دیتی ہے۔ طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ گھنٹوں تڑپانے کے بعد جب وہ آتی ہے تو پھر ایک نشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔

ہماری کئی خواہشات اور ارمانوں کو اس نے پورا کیا ہے۔ دن تمام سرکاری بس میں پسینہ بہاتے پھرتے ہیں لیکن اس کی آغوش میں پہنچ کر ایر کنڈیشنڈ امپالا کار میں گھومنے کا ارمان پورا کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک دفتر میں کئی صفحات کالے کرتے ہیں لیکن اس کی سنگت میں ہم صرف چیک پر دستخط کرتے ہیں۔ کئی افسروں کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ ان کا ہر حکم بجا لاتے ہیں لیکن اس کے بل بوتے نوکروں کی فوج پر حکم چلاتے ہیں۔ بھوکے پیٹ اس سے ملنے کے بعد عالی شان ہوٹل میں مرغ و ماہی تناول کرتے ہیں۔

کیا آپ نے اندازہ لگایا، ہماری ’وہ‘ کون ہے اور بقول ہماری بیوی کے وہ آتے ہی ہم گول بلکہ گل ہو جاتے ہیں۔

ہماری ’وہ‘ نیند ہے۔ غمِ روزگار کا مداوا۔ ہمارے اور آپ کے مسائل سے فرار بلکہ بیشتر مسائل کا حل نیند ہی تو ہے۔

بیوی کی شکایت سننے اور ان سے بحث میں الجھنے کے بعد ہم نے ان سے سوال کیا۔ ’بیگم کیوں ہم پر اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کا الزام رکھتی ہیں۔ جب وہ آپ کے پاس آتی ہے، کیا آپ بھی اس کے پیچھے نہیں ہو جاتیں ؟‘

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد، نومبر 1986ء

 

 

 

ہم صاحبِ کتاب ہوئے

 

پچھلے چند برسوں سے ہماری تحریریں مختلف اخباروں اور رسالوں میں چھپتی رہی ہیں۔ مدیرانِ رسائل نے ہماری کاوشوں کو سراہا اور ہم سے تعاون کی درخواست کی۔ قارئین کرام کے دوچار تعریفی خطوط ہمیں وصول ہوئے۔ دو ایک محفلوں میں ہم نے مضامین بھی سنائے۔ مستند ادیب ہونے کا احساس جاگا تو صاحبِ کتاب بننے کی خواہش دل میں یوں کروٹیں لینے لگی جیسے کوئی بڑی عمر والی دلھن گود ہری ہونے کی تمنا کرتی ہے۔

ایک رات ہم نے خواب دیکھا کہ مسودہ پڑھ کر کتاب شایع کرنے کے لیے ناشرین میں مقابلہ ہو رہا ہے۔ ہر پبلشر کی خواہش بلکہ مطالبہ ہے کہ وہ ہماری کتاب چھاپے، لیکن ہماری مرضی۔ ہم نے پبلشرز کی کارکردگی اور مارکٹ میں ان کی ساکھ کا اندازہ کر کے ایک پبلشر کا انتخاب کیا اور اسے اپنی کتاب کے حقوق فروخت کیے۔ خوب صورت ٹائٹل اور گٹ اپ کے ساتھ ہماری کتاب شایع ہوئی۔ آخری صفحہ پر ہم سے بہتر ہماری ایک مسکراتی ہوئی تصویر تھی۔ دکانوں پر ہماری کتاب ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے۔ ایک شاندار تقریب میں کتاب کی رسم اجرا وزیر کے ہاتھوں ہوئی۔ ادبی دنیا میں ایک نیا باب کھلا۔ کتاب پر بے لاگ تبصرے ہوئے۔ ہمارا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہونے لگا۔ ہمیں ایوارڈس اور انعامات ملنے لگے۔ شہرت ہمارے قدم چومنے لگی۔ ہمیں خوب رائلٹی ملی اور ہمارے حالات سدھر نے لگے۔ قارئین اور ناشرین ہماری دوسری کتاب کے لیے اصرار اور مطالبہ کرنے لگے۔ ۔ ۔

ہم نے دبے الفاظ میں دو ایک ایڈیٹروں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ایڈیٹر صاحبان پرچوں کے مالی مسائل کا رونا لے کر بیٹھ گئے اور کھلے الفاظ میں ہم سے تخلیق کے ساتھ مالی اعانت کی درخواست کی۔ ایک ماہنامہ کے مدیر نے سالانہ چندہ طلب کیا تو ایک دوسرے رسالے نے حد کر دی۔ ہماری تازہ تخلیق شایع کرنے کے لیے ایک اشتہار اور چار سالانہ خریدار مہیا کرنے کی شرط عائد کی۔ ہم حیران ہوئے کہ معاملہ کیا ہے۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ کتاب چھپوانے کی خواہش سے وہ ہمیں صاحبِ ثروت گرداننے لگے ہیں۔

مشورے کے لیے ہم مرزا سے رجوع ہوئے۔ اردو زبان اور ادب پر مرزا کی گہری نظر ہے اور نامور اور صاحبِ کتاب ادیبوں اور شاعروں سے مرزا کی دوستی بھی ہے۔ ماضی میں ہم نے مرزا کو اپنی تخلیقات سنائیں اور ان سے مفت مشورے بھی حاصل کئے تھے۔ مرزا نے ہماری خواہش سن کر حیرت سے ہمارا جائزہ لیا اور پوچھا۔ ’خیریت تو ہے۔ کتاب کا خیال کیوں کر آیا؟‘

ہم نے گردن اونچی کر کے جواب دیا۔ ’ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں۔ بہت چھپا ہے۔ ہماری زنبیل میں بیس اک مضامین جمع ہو چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب کتاب شایع ہونے کا وقت آ گیا ہے تاکہ قارئین ہماری تخلیقات کو یکجا پڑھ سکیں اور نقاد ادب میں ہمارے مقام کا تعین کر سکیں۔ ‘

’اچھا۔ ‘ مرزا نے اچھا کو یوں کھینچ کر ادا کیا جیسے ہماری ٹانگ کھینچنے کا قصد کر رہے ہوں۔ ’تم نے کیا لکھا، کہاں چھپا اور کتنے لوگوں نے پڑھا۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اردو رسالے اور اخبار چھپتے ہی کتنی تعداد میں ہیں، رسالے دوچار سو اور اخبار چند ایک ہزار، بس۔ اور میاں تمہارا لکھا، تمہاری اپنی اولاد پڑھنے سے قاصر ہے۔ دوسروں سے کیا گلہ شکوہ۔ صفحے کالے کر کے وقت برباد کیا۔ اڑتے اور بکھرتے صفحات پر کچھ چھپ گیا۔ چند لوگوں نے شاید پڑھ بھی لیا ہو گا۔ یہی کافی ہے۔ اب روپے پیسے برباد کرنے پر کیوں تلے ہو۔ ‘ مرزا نے ہماری اٹھی گردن کو نیچے کیا۔

’روپے برباد کرنا ! کیا مطلب۔ ‘ ہم نے حیرت کا اظہار کیا۔

’تمہاری کتاب کون چھاپے گا؟‘ مرزا نے سوال کیا۔

’ناشر ہماری کتاب شایع کرے گا اور ہمیں رائلٹی ملے گی۔ ہمیں نقصان کیوں ہو گا۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

مرزا ہنسنے لگے۔ ’واہ میرے بھولے مصنف۔ نامور ادیب ہونے کا دعوی کرتے ہو۔ کتاب چھاپنے جا رہے ہو۔ لیکن اپنے قاری کا مزاج نہیں جانتے۔ اس کی عادات و اطوار کا پتا نہیں ہے۔ میری جان! اردو والوں کی ایک کثیر تعداد اردو لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتی، وہ اردو بول اور سمجھ لیتی ہے۔ جو اردو پڑھ سکتے ہیں، ان میں سے اکثریت کو مطالعہ کا شوق نہیں ہے اور جنھیں مطالعہ کا شوق ہے انھیں کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ تمھاری کتاب کون خریدے گا؟ جب کتاب فروخت نہیں ہو گی تو اسے شایع کون کرے گا؟ خود تمھیں اپنی کتاب شایع کرنی پڑے گی۔ میری مانو کتاب چھپوانے کا ارادہ ترک کر دو۔ خود کے لیے اور اپنی اولاد کے لیے نئے کپڑے بنوا لو۔ یوں بھی اب لکھنے پڑھنے کے دن ختم ہوئے، سننے اور دیکھنے کا زمانہ ہے۔ ‘

’لیکن مرزا ہم چاہتے ہیں کہ کتاب چھپے اور ہمارا شمار ’صاحبِ کتاب‘ ادیبوں میں ہو۔ ‘ ہم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

مرزا نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا۔ ’گویا جب سے میں بین بجاتا رہا۔ ‘ کچھ دیر آنکھیں بند کئے سوچا، پھر کہا۔ ’تم سگریٹ نہیں پھونکتے، پان نہیں چباتے، جوا نہیں کھیلتے، پیتے پلاتے بھی نہیں، اِدھر اُدھر منہ بھی نہیں مارتے۔ فضول خرچی کے باب میں تمھارا کوئی مشغلہ نہیں ہے۔ کتاب شایع کرنے کا شوق اتنا برا بھی نہیں ہے۔ ردّی فروش کو فائدہ ضرور ہو گا۔ جب پیسے جمع ہو جائیں یا کسی صورت پیسوں کا بندوبست ہو جائے تو کتاب چھاپ لینا۔ ‘

خدا بھلا کرے مرزا کا جس نے دن کے اجالے میں ہمارے خواب کی بھیانک تعبیر دکھائی۔ مرزا نے ہمیں مایوس اور نا امید کیا۔ ہمیں احساس دلایا کہ ہم اردو کے ادیب ہیں جسے کتاب شایع کروانے کے لیے پبلشر نہیں ملتا۔ کتاب چھپوانے کے لیے خود اسے تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ شاید مرزا سچ ہی کہتے ہیں۔ آج اردو ہی کا مقام متزلزل ہے۔ ان حالات میں اردو ادیب کی وقعت کیا ہو سکتی ہے !

مرزا کی تلخ نوائی کے سبب ہم کتاب شایع کرنے کا ارادہ تقریباً ترک کئے مایوس اور ناکام بیٹھے تھے کہ ایک دن اخبار میں اردو اکیڈیمی کا اشتہار دیکھا۔ کتابیں شایع کروانے کا ارادہ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں سے جزوی مالی مدد کے لیے مسودے طلب کئے گئے تھے۔ جی خوش ہوا کہ ابھی ہمارے قدردان، ادب نواز اور ادب دوست سیاست دان موجود ہیں۔ خوش ہو کر ہم نے مسودہ داخل کیا۔ کئی قلم کاروں کے ساتھ ہمیں بھی جزوی تعاون منظور ہوا۔ ہم خوش اور مطمئن ہوئے کہ ہماری تحریر معیاری ہے اور ’کتابی شکل‘ میں شایع ہونے کے لائق ہے۔ لیکن با وثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ اکیڈیمی میں داخل کئے گئے سبھی مسودوں پر جزوی مدد منظور کی گئی۔ فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ اس لیے ہوا کہ داخل شدہ مسودوں کی تعداد جزوی مدد کے مد میں رکھی گئی گنجائش سے بہت کم تھی۔

مرزا کی باتیں سچ ثابت ہو رہی تھیں۔ اردو مصنفین کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔ خود مصنف کو اپنی کتاب شایع کرنے کے لیے تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ ہم نے دو چھاپہ خانوں سے اخراجات کا تخمینہ طلب کیا تو اندازہ ہوا کہ اکیڈیمی کی جزوی مدد سے کتاب شایع کرنے کی صرف نیت کی جا سکتی ہے۔ کتاب چھاپنے کے مکمل پراجکٹ پر عمل کرنے کے لیے ایک خطیر رقم اور تجربہ درکار ہے۔ ہم نے پھر مایوس اور نا امید ہو کر کتاب شایع کرنے کا خیال ترک کرنا چاہا لیکن اب ایسا کرنا مشکل تھا۔ اخباروں میں ہمارے نام کا اعلان ہو چکا تھا اور جزوی مدد کے بل بوتے ہم نے کتاب چھاپنے کی نیت کر لی تھی جسے توڑنا مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

اس دوران ہماری ملاقات ایک اردو رسالے کے مدیر سے ہوئی۔ موصوف پچھلے تیس پینتیس برسوں سے نہایت پابندی کے ساتھ ہر ماہ وقت اور پیسے کا نقصان اٹھاتے ہوئے رسالہ نکال رہے ہیں۔ ہم نے انھیں غور سے دیکھا۔ سر پر سینگ نہیں تھے اور نہ ہی پیچھے دم لٹکی ہوئی تھی۔ دو بازو ہی تھے، چار ہاتھ نہیں تھے کہ مشکل کام انجام دینے میں سہولت ہوتی۔ ہر زاویے سے وہ ہماری طرح نارمل انسان نظر آئے۔ موصوف کی اردو خدمات پر ہم نے ان کی تعریف اور توصیف کی۔ انھیں شال اوڑھائی اور عشائیہ پر ان سے بات کی۔ اردو زبان اور ادب پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ہماری ہمت بندھائی اور کہا۔ ’نامساعد حالات ہیں تو کیا غم ہے۔ ادب بہرحال تخلیق ہو گا اور ادب کو چھُپانا نہیں چھَپانا چاہیے۔ آپ اتنے عرصہ سے لکھ رہے ہیں، آپ کی کتاب ضرور شایع ہونی چاہیے۔ ‘

با ہمت مدیر کے آخری دو جملوں کو سن کر ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارا شمار، صاحب نصاب کی طرح ’صاحبِ کتاب‘ زمرے میں ہوتا ہے۔ اس زمرے میں وہ ادیب شامل ہوتے ہیں جو اس قدر ادب تخلیق کر لیتے ہیں کہ ان کی کتاب شایع ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ہم نے موصوف سے کہا۔ ’ہماری بھی عین خواہش ہے کہ کتاب چھپے، لیکن کیسے ؟‘

ہمارے اس سوال کے جواب میں مدیر نے تجویز رکھی۔ ’آپ کچھ خرچہ اٹھائیے اور کچھ خرچے کا اِدھر اُدھر سے انتظام ہو جائے گا۔ ‘

ہم نے اپنی جمع پونجی موصوف کے آگے رکھی تو انھوں نے کہا۔ ’اس رقم سے کاغذ کا انتظام ہوا۔ ‘

اب کتابت، چھپائی اور جلد سازی کے لیے پیسے درکار تھے۔ سو ہم نے اپنے خرچے میں کٹوتی کا ارادہ کیا۔ بس میں سفر کرنے کے بجائے سیکل استعمال کرنے لگے۔ دفتر میں اوور ٹائم کیا۔ اس طرح کتاب چھاپنے کی ریاضت سے ہماری صحت بہتر ہوئی، دائمی کھانسی سے چھٹکارا ملا اور بلڈ پریشر میں بھی کمی ہوئی۔ کتاب چھپانے کا ہمیں بس یہی فائدہ ہوا۔

مدیر صاحب نے مالیہ اکٹھا کرنے کے دوسرے طریقے بتائے۔ انھوں نے کہا کہ اردو اکیڈیمیاں کتابوں پر انعام بھی دیتی ہیں۔ انعام کی رقم سے قرض اور بقایا جات کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ موصوف نے چند دوسرے اداروں کے نام اور پتے بھی دئیے جہاں سے اردو کتابوں کی اشاعت کے لیے مدد اور انعام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ان اصحاب کی نشاندہی بھی کی جو اردو کی ترویج اور اشاعت کو کارِ خیر سمجھ کر مدد فرماتے ہیں۔ اس تفصیل کے بعد انھوں نے کہا۔ ’اس طرح کتاب کی لاگت، مختلف اکیڈیمیوں اور اداروں سے امداد اور انعامات کی شکل میں ملنے والی رقم سے نکل آئے گی۔ مصنف بھاگ دوڑ اگر کر لے تو اردو کتاب مفت میں شایع کر ہی سکتا ہے اور قسمت اچھی ہوئی تو مصنف کے لیے نئے کپڑے بننے کے علاوہ کتاب کی رسم اجرا کی محفل کا خرچہ بھی اٹھ سکتا ہے۔ ‘

کتاب کی تعداد اشاعت کے بارے میں مدیر موصوف نے فرمایا۔ ’ضرورت سے زیادہ کتابیں شایع کر کے وسائل ضائع کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔ مدد اور انعام کی غرض سے اردو اکیڈیمیوں اور دیگر اداروں میں داخل کرنے کے لیے پچاس کتابیں، کتب خانوں میں جمع کروانے کے لیے پچیس کتابیں، تبصرے کے لیے چونکہ دو جلد منگوائی جاتی ہیں پچاس کتابیں اور ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کو دینے کے لیے پچھیتر کتابیں۔ ادیبوں کو کتابیں پیش کرتے وقت اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے کا خاص خیال رکھنا چاہیے یعنی اس ادیب کو کتاب دیں جس نے اپنی کتاب آپ کو دی ہے۔ اس حساب سے دو سو جلدیں درکار ہوئیں۔ مزید سو کتابیں دوست احباب میں مفت تقسیم کر کے خوش ہونے کے لیے اضافہ کر لیں۔ اگر آپ کا حلقہ احباب وسیع ہے تو ایک سو جلدوں کا اور اضافہ کر لیں۔ یوں کتاب تین چار سو سے زیادہ شایع نہیں ہونی چاہیے۔ ‘

ہم نے ایڈیٹر کی باتیں غور سے سنیں۔ موصوف کی گفتگو میں قاری کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ ہمیں حیرت ہوئی۔ قاری کے لیے ہم نے خون جگر کیا اور یہ جھمیلا اسی کے لیے ہے۔ ہم نے قاری کے بارے میں سوال کیا تو جواب ملا۔ ’اردو ادب میں یہ جنس ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ چند جلدیں کتب فروش کے یہاں رکھ چھوڑنا۔ عجب نہیں کہ دوچار کتابیں فروخت ہو جائیں لیکن یہ بات ذہن نشیں رہے کہ کتب فروش کے پاس سے پیسے وصول نہیں ہوں گے۔ ‘

ایڈیٹر کی ہدایات سے لیس ہم نے اپنے مضامین کو اکٹھا کیا اور انہیں کتابی شکل میں زیور طبع سے آراستہ کرنے کے مختلف مراحل سے گزرنے لگے۔ سب سے پہلے ہم کاتب کے پاس پہنچے۔ کاتب نے مسودے کو ہاتھ میں لے کر وزن کا اندازہ کیا۔ سرسری ورق گردانی کی۔ ہماری تحریر کو دیکھ کر ناک اور بھنویں چڑھائیں اور کہا۔ ’بچوں سے لکھوایا ہے۔ پڑھنے کے لیے دِقت ہو گی اور وقت بھی زیادہ لگے گا۔ ‘

اور خود اپنی خوش خطی کے متعلق فرمایا۔ ’خط کا انحصار مضامین پر ہے۔ معیاری مضامین ہوئے تو خوب صورت کتابت ہو گی۔ پھسپھسے مضامین کی کتابت خراب ہو گی۔ ‘ہم نے کاتب سے اتفاق کرتے ہوئے دل میں اپنے آپ سے کہا کہ سارا قصور ہمارا ہے جو کتاب چھاپنے چلے ہیں۔

چند مہینوں میں کئی مرتبہ وعدہ خلافی کرنے کے بعد کاتب نے کتابت شدہ صفحات حوالے کئے۔ کاتب نے جلی حروف میں بڑا بڑا اور بہت واضح لکھا جس پر ہمیں اردو کے ابتدائی قاعدہ کا گمان ہوا۔ ہم نے شکایت کی تو کاتب نے موٹے عدسوں والی عینک کے اوپر سے آنکھیں نکال کر کہا۔ ’اردو پڑھنے والی نسل بوڑھی ہو چکی ہے۔ قریب کی نظر کمزور ہے۔ باریک لکھتا تو کتاب کے ساتھ محدب عدسہ بھی دینا پڑتا۔ یوں بھی نوجوان نسل کی آنکھیں کون سی ٹھیک ہیں۔ ٹیلی وژن بینی کے سبب کم سن بچے تک چشمہ لگانے لگے ہیں۔ ‘

عذر لنگ سن کے ہمیں خاموش ہونا پڑا۔

دیدہ ریزی، عرق ریزی اور سر پھوڑی کر کے تصحیح کی۔ ہر صفحہ پر سطروں سے زیادہ کتابت کی غلطیاں دریافت ہوئیں۔ کاتب نے ہماری تصحیح کا برا مانا۔ ’آپ نے غیر ضروری غلطیاں نکالی ہیں۔ صحیح املا کو آپ نے غلط قرار دیا ہے۔ آپ نے ایسی اردو کہاں سے سیکھی! آپ کا استاد کون ہے ؟‘

کاتب علمی بحث کرنے لگے۔ لغت اور اساتذہ کے کلام سے جب ہم نے کاتب کی غلطیاں ثابت کی تو ڈھٹائی سے کہا۔ ’میاں تجربے کی بات بتا رہا ہوں۔ کتابت کی چند غلطیوں کو دانستہ چھوڑ دینا چاہیے تاکہ مصنف اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار کاتب کو ٹھہراس کے !‘

کاتب کو بھگت کر طباعت کے لیے چھاپہ خانہ پہنچے۔ پریس والے نے سوال کیا۔ ’آپ کتاب کیسی چھپوانا چاہتے ہیں ؟‘

ہمیں کیا پتا تھا کہ کتاب کیسے چھاپی جاتی ہے۔ پہلے کبھی ہم نے چھپائی کا کام کیا اور نہ ہی کسی سے لیا تھا۔ ہماری شادی کے کارڈ چھپے تھے جس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ بزرگوں نے چھپوایا تھا۔ ہم نے سوال کے جواب میں اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ’اس طریقے سے کہ لوگ پڑھنے کے لیے مائل ہوں۔ ‘

جواب ملا۔ ’اب تک ایسا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ میرے سوال کا مطلب یہ ہے کہ آپ لیتھو، آفسیٹ یا ڈیجیٹل، کس طریقے سے کتاب چھپوانا پسند کریں گے ؟‘

’جو سب سے سستا ہے، آپ اس طریقے سے ہماری کتاب چھاپئیے۔ ‘ ہم یہی جواب دے سکتے تھے، سو دیا۔

تعداد اشاعت تین سو سن کر پریس والے نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’صرف تین سو!‘

موصوف کی حیرت کم کرنے کے لیے ہم نے فراخدلی سے تعداد اشاعت چار سو کر دی۔ اس سے بھی ان کی تشفی نہ ہوئی، فرمایا۔ ’چھٹی چلہ کی رسم کے لیے پانچ سو سے زیادہ کارڈز چھپائے جاتے ہیں۔ کتاب تو آپ کی کئی دنوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ‘

ہمیں پھر ایک مرتبہ کتاب شایع کرنے کی غلطی کا احساس ہونے چلا تھا کہ تیس برس سے گھاٹے کا سودا کرنے والے ایڈیٹر یاد آ گئے۔ ہم نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا۔ ’صحیح ارشاد ہوا۔ ہماری شادی پر چھ سو رقعے چھپے تھے۔ دعوت بلا تفریق سبھی کو دی جاتی ہے لیکن کتاب کا معاملہ مختلف ہے۔ اب ہر کسی کو ادب سے دلچسپی کہاں ہے اور اگر ادب سے دلچسپی ہے تو اسے اردو پڑھنا آنا چاہیے۔ اس لیے ہماری کتاب کے چارسو نسخے کافی ہیں۔ ‘

پریس والے نے ہماری مجبوری سن کر بزنس کی بات کی۔ ’مرضی جناب کی، چار سو چھپائیے یا چھ سو، ہم ایک ہزار کا معاوضہ لیتے ہیں۔ ‘

طباعت کے مرحلے سے گذرنے کے بعد ہم جلد ساز کے پاس پہنچے۔ ہم اپنی کتاب کے لیے عام سی، ہلکی، پیپر بانڈ جلد چاہتے تھے لیکن جلد ساز نے پر خلوص مشورہ دیا۔ ’اردو کی کتاب ہے۔ مضبوط جلد سازی ہونی چاہیے۔ چمڑے کی جلد نہ سہی گھتے کی جلد ضرور بنوائیے۔ ‘

جلد ساز نے وجہ بتائی۔ ’ اردو کی کتاب ایک ہی مرتبہ چھپتی ہے۔ دوسری اشاعت کی نوبت نہیں آتی۔ عرصہ تک محفوظ رکھنے کے لیے مضبوط جلد ضروری ہے۔ ‘

صبر و تحمل سے تمام معرکے سر کرنے کے بعد ہمارے ہاتھوں میں ہماری پہلی کتاب آئی۔ ہم اسے خوش خوش گھر لے آئے۔ کتاب کو کبھی الماری میں سجاتے، کبھی ہاتھ میں تھامے پھرتے تو کبھی فخر سے دوست احباب کو دکھاتے کہ ہماری کتاب چھپی ہے۔ احباب نے ہمیں مبارک باد دی اور مٹھائی کھلانے یا دعوت کرنے کے لیے کہا۔ لیکن وائے حسرت کسی نے خریدنے کی بات نہیں کی۔

چند دن بعد کتاب چھپنے بلکہ چھپوانے کی خوشی ماند پڑنے لگی تو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی کمزور اور معذور لڑکا مقابلہ میں سب سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے بازار سے کپ اور شیلڈ خریدتا ہے۔ ان پر اپنا نام کندہ کرواتا اور الماری میں سجاتا ہے۔

ہماری کتابیں بھی ڈرائنگ روم کی الماری میں ایسے ہی سجی پڑی ہیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد،ا گسٹ1994ء

 

 

 

 

سُر نہ ملا

 

فاضل وقت کا بہتر استعمال ایک اہم مسئلہ ہے۔ اکثر و بیشتر فاضل وقت لاپرواہی سے کچھ کئے بغیر گزار دیا جاتا ہے۔ اتوار کے دن کچھ کم چار گھنٹے خالی اور چپ چاپ بیٹھ کر گزار دینے کے بعد ہم فاضل وقت کے بہتر استعمال کے لیے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنے لگے۔ خیال آیا کہ باغبانی کی جائے۔ صحن میں اور گھرکے اندر مختلف پودے لگائے جائیں اور ان کی نگہداشت اور پرورش کی جائے۔ حسبِ ضرورت اور خواہش سبزی اور ترکاری اگائی جا سکتی ہے۔ بیگم کے بالوں میں اور اپنے شرٹ پر ٹانکنے کے لیے پھولوں کی کاشت بھی ہو سکتی ہے۔ زیادہ پیداوار ہونے پر پھولوں اور ترکاریوں کو بازار میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح شوق پورا ہونے کے ساتھ فائدہ بھی ہو گا۔

جب نفع کی بات ہے تو مرغبانی بھی اچھا شغل ہے۔ مرغیاں پالئے۔ انڈے کھائیے اور انڈوں پر مرغی بٹھائیے اور پھر پہلے انڈا یا مرغی والی سوچ سے بے نیاز ہو کر جو دل چاہے، مرغی یا انڈا ہڑپ کر جائیے۔ گھر کی بات ہے۔

باغبانی اور مرغبانی اختیار کرنے سے ہمیں اس خیال نے باز رکھا کہ یہ مشغلوں سے زیادہ پیشے معلوم ہوتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے توجہ کے طالب، بے وقت کہیں آ اور جا نہیں سکتے کہ مرغیوں کو دانہ ڈالنا ہے یا پودوں کو پانی دینا ہے۔

باغبانی اور مرغبانی کا ارادہ ترک کرنے کے بعد وقت گزاری کے لیے ہم دیگر مشغلوں پر غور کرنے لگے۔ مختلف ممالک کے ڈاک ٹکٹ اور سکے جمع کیے جائیں۔ ہمیں یہ شوق کچھ بچکانہ لگے اور پھر یہ کہ دنیا بھر کے کچھ کم دو سو ممالک میں سے صرف چار چھ ملکوں ہی میں ہمارے شناسا موجود ہیں۔ دوسرے ممالک کے ڈاک ٹکٹوں اور سکوں کے لیے وہاں کے لوگوں سے دوستی کرو۔ انھیں بے معنی اور بے ربط خطوط لکھو اور ان کے جواب کا انتظار کرو۔

اس بیکار اور تھکا دینے والے شوق سے بہتر ہے کہ مچھلیاں پکڑیں، لیکن مچھلیاں پکڑیں کہاں ؟ شہر کے جھیل اور تالاب سوکھتے جا رہے ہیں یا ان میں مچھلیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ شہر میں سوئمنگ پول کی طرح مچھلی پول بھی بنانا چاہیے جہاں لوگ مچھلی پکڑنے کا شوق پورا کر سکیں۔ مچھلی پکڑنے کے مقابلے بھی منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ ارباب اقتدار سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے مشورے پر غور کریں !

ہمارے اس قیمتی مشورے پر عمل ہونے تک ہمیں کوئی دوسرا مشغلہ ڈھونڈنا تھا۔ بہت سوچا لیکن کچھ سجھائی نہ دیا۔ جھنجھلا کر ہم اس بارے میں مشورہ کرنے اپنے ایک دوست کے پاس پہنچے۔ امید تھی کہ کچھ وقت بھی کٹ جائے گا۔ ہم اپنے دوست کو کیسٹ پلیئر کے سامنے آنکھیں بند کیے پیروں کو ہلاتے، ہاتھوں کو نچاتے اور گنگناتے ہوئے نیم دراز پایا۔ ہماری آمد سے بے خبر وہ موسیقی میں گم تھے۔ کیسٹ پلیئر پر ایک غزل بج رہی تھی۔

ہم پاس پڑی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے اور موسیقی سے لطف اندوز ہونے لگے۔ کہتے ہیں موسیقی دل کے تاروں کو چھوکر روح کی گہرائیوں میں سفر کرتی ہے۔ ہم بے انتہا محظوظ ہوئے اور غزل کی دھن پر چٹکی بجانے اور پیروں سے تھاپ دینے لگے، بلکہ یوں کہیے کہ ہم بھی سنگت کرنے لگے اور پھر ہولے ہولے گلوکار کے ساتھ سر میں سر ملانے لگے۔

یکایک ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم بھی گا سکتے ہیں اور ہمیں گانا چاہیے۔ ہم نے اونچے سر میں گلوکار کا ساتھ دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ہمارے دوست ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور سوال پوچھا۔ ’کیا ہوا؟‘

ہم نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’کچھ نہیں ! کیا کوئی برا خواب دیکھا ہے۔ ‘

’میں سویا نہیں تھا۔ غزل سن رہا تھا کہ ایک عجیب آواز پر چونک پڑا۔ شاید تم نے کرسی کھینچی تھی۔ تم کب آئے ؟‘ میرے دوست نے کہا۔

’ابھی کچھ لمحے قبل۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

ہمارے دوست ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے لیکن ہمارا ذہن گلوکاری میں الجھا رہا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم گلوکاری کریں گے۔ وقت اچھا کٹے گا۔ اپنے آپ میں مست گنگناتے اور گاتے رہیں گے۔ گانے سے بہتر فاضل وقت گزارنے کا کوئی دوسرا مشغلہ نہیں ہو سکتا۔ جب جی چاہا گلا صاف کیا اور الاپنے لگے۔ ہاتھ پیر مصروف ہوں تب بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ شوق تو گلے سے پورا ہو رہا ہے۔ حسبِ احتیاط اپنے آپ میں گنگنائیے، دھیمی آواز میں گائیے یا اونچی لے میں لہرائیے۔ جی نہ چاہے تو منہ بند رکھیے۔ ہر قسم کے موڈ اور وقت کے لیے کلام موجود ہے۔ اچھے وقت میں گیت اور المیہ موڈ کے لیے ہجر اور فراق کی غزلیں گائیے۔

عین ممکن ہے کہ گنگناتے اور گاتے ہوئے ہم خود بھی کلام موزوں کرنے لگیں اور شاعر بن جائیں۔ ترنم سے گا کر کلام سنائیں گے اور مشاعرہ لوٹ کھسوٹ لیں گے۔ تب ہمارا یہ مشغلہ دو آتشہ ہو گا۔ یوں بھی ہمارے خیال میں گنگناتا تو ہر کوئی ہے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسان پیدا ہوتے ہی رونے اور پھر ہنسنے لگتا ہے۔ لیکن گنگنانا تھوڑی بہت سوجھ بوجھ آنے کے بعد ہی شروع کرتا ہے۔

گنگنانا تو ہم جانتے ہی تھے، اب صرف گانے کا مرحلہ باقی تھا۔ گانا ویسے مشکل بھی نہیں ہے۔ تھوڑی سی مشق کر کے بہ آسانی گایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی مشق کے لیے باتھ روم سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ گلوکاری کی ابتدا باتھ روم سے ہوتی ہے۔ ہم میں سے اکثر باتھ روم سنگر ہوتے ہیں۔ ریاض کر کے باتھ روم سنگر ڈرائنگ روم سنگر بنتا ہے۔ ڈرائنگ روم سنگرچھوٹے بڑے کمروں میں گا کر جب خاصا نام کما لیتا ہے تو وہ چار دیواری سے باہر نکلتا اور عوامی سنگر بنتا ہے۔ عوام میں مقبول ہوتے ہی بس پوچھیے نہیں شہرت اور دولت قدم چومنے لگتی ہے۔ آڈیو کیسٹ، ویڈیو کیسٹ اور البم نکلتے ہیں۔ رات دیر گئے تک محفلیں سجتی ہیں اور پھر گلوکار عام لوگوں کے برخلاف دن میں سوتا اور رات میں جاگنے لگتا ہے۔

چند لمحوں میں ہم اپنے آپ کو شہرت کے اعلی مقام پر سمجھنے لگے تھے کہ ہمیں یاد آیا ابھی تو ہم پہلی پادان پر یعنی باتھ روم میں ہیں۔ کالج کے دوران ہم مشہور باتھ روم سنگر رہے ہیں۔ اس دور میں فلمی نغموں کو ہم خوب گایا کرتے تھے۔ ہمارے کالج کے کسی باتھ روم کا دروازہ نہ تھا بلکہ یوں کہیے کہ ہم طالب علموں کو دروازے والے باتھ روم پسند نہ تھے۔ سال میں تین چار مرتبہ دروازے لگتے تھے جنھیں ہم دوسرے دن نکال کر ہڑتال یا الیکشن مہم میں استعمال کر لیتے تھے۔ جو بھی بغیر دروازے والا باتھ روم جاتا، چاہے گانا آئے یا نہ آئے اسے لازمی طور پر گانا پڑتا تھا۔ باتھ روم سے سر نکلتے تو باہر انتظار میں لوٹے اور بالٹی پر سنگت بھی ہوتی تھی۔ اس وقت ہمارا گایا ہوا کلاسیکل گیت ’آیو نہ بالم کیا کروں سجنی۔ ۔ ۔ ‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ دو ایک مرتبہ ہم نے اس گیت کو ریکارڈ وقت کے لیے بھی گایا تھا۔

ہم نے اپنے گھر کے باتھ روم کا جائزہ لیا۔ اندازہ ہوا کہ موجودہ باتھ روم گنگنانے اور گانے کی مشق کے لیے ناموزوں ہے۔ پرانے طرز کے مکانوں کے باتھ روم ایسے ہی ہوتے ہیں۔ گھر اور گھر والوں سے دس پندرہ قدم دور، مختصر سی جگہ میں باتھ روم تھا۔ ہم نے مکان تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور نیا مکان بلکہ نیا باتھ روم تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی ہمیں جدید طرز پر بنا ایک شاندار فلیٹ مل گیا۔ اس فلیٹ کی خوبی یہ تھی کہ اس میں ایک کشادہ باتھ روم تھا جس میں نہانے کے لیے ٹب، واشن بیسن اور ان سے ذرا ہٹ کر وارڈروب اور خاصی کھلی جگہ بھی تھی۔

ہماری مراد بر آئی اور ہم نے گانے کی مشق شروع کی۔ فلمی اور غیر فلمی ہلکے پھلکے نغموں کی کامیاب نقالی ہم کر چکے تھے، اس لیے سوچا کہ کلاسیکی یا کم از کم نیم کلاسیکی گائیکی کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم ’سا رے گا ما پا دھا نی سا‘ کو مختلف راگوں میں ڈھالنے کی کوشش کرنے لگے۔ چند منٹوں کی ریاضت نے سانس پھلا دیا۔ ہوتا یوں کہ چند ہی لمحوں میں ہماری سانس اکھڑ جاتی تھی۔ ہم نے صرف ’آ۔ ۔ آ۔ ۔ آ۔ ۔ ‘ کی آواز نکال کر سانس بنائی اور پھر راگ راگنیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ معلوم نہیں ’سارے گا ما پا دھا نی سا۔ ۔ ۔ سانی دھا پا ما گا رے سا۔ ۔ ۔ ‘ کرنے میں کیا ہوا کہ زبان جو بتیس دانتوں کے درمیان گھری ہوئی تھی، دانتوں کے بیچ آ کر کتری گئی۔ جبڑے الگ درد کرنے لگے۔

بیگم کو پریشانی لاحق ہوئی کہ ہم نئے گھر کے باتھ روم میں بند ہو کر کیا کاروائی کرتے ہیں ؟ آخر بیگم نے ایک دن وجہ پوچھ ہی لی۔ ہم ٹالتے رہے لیکن بیگم ڈاکٹر اور پولس کی طرح سوالات کرنے لگیں۔ ’کیا قبض کی شکایت ہے ؟کیا پیٹ میں درد ہے ؟ کیا آپ مجھ سے چھپ کوئی ایسا ویسا کام تو نہیں کر رہے ہیں ؟ ‘

ہمیں سچ اگلنا پڑا کہ ہمیں گائیکی کا شوق چرایا ہے۔ بیگم نے اطمینان کا سانس لیا۔ ’شکر ہے۔ میں پریشان تھی کہ کہیں آپ کے دشمنوں کو کوئی بیماری تو نہیں ہوئی ہے۔ ‘ پھر سوال کیا۔ ’آپ تو اچھے بھلے تھے، یہ گانے بجانے کا شوق کیوں کر ہوا؟‘

ہم نے ڈینگ ماری۔ ’ ہم ایک پیدائشی فنکار ہیں۔ اسکول اور کالج کے در و دیوار ہمارے نغموں سے آج بھی گونجتے ہیں۔ گلوکاری کے مقابلوں میں ہمیں انعامات بھی مل چکے ہیں۔ شادی کے بعد اس شوق پر جمود طاری ہو گیا تھا۔ ایک تو دال روٹی کی مصروفیت اور دوسرا یہ اندیشہ کہ شریک حیات کو ہمارا گانا بجانا پسند نہ ہو۔ ‘

’یہ بات نہیں ہے کہ میں موسیقی سے کتراتی ہوں۔ ‘ بیگم نے وضاحت کی۔ ’موسیقی کے نام پر جو شور شرابہ ہوتا ہے، اس سے طبیعت گھبرا جاتی ہے۔ میں غزل اور گیت شوق سے سنتی ہوں۔ آپ شوق سے گائیے، لیکن باتھ روم میں نہیں، ڈرائینگ روم میں !‘

بیگم کو آمادہ دیکھ کر ہم نے فرمائش کی۔ ’ہم ایک شرط پر اپنے شوق کو جلا بخشیں گے۔ آپ بھی ہمارے ساتھ گانے کی مشق کریں گی اور ہمارے ساتھ گائیں گی۔ ‘

’میں۔ ۔ ۔ ؟‘ بیگم نے حیرت کا اظہار کیا۔

’جی، آپ بھی ہمارے ساتھ سر میں سر ملائیں گی۔ آج کتنے گلوکار جوڑے مشہور ہیں۔ آپ اور ہم ایک خوب صورت اضافہ ہوں گے۔ ‘

’میں نے آج تک گایا نہیں ہے اور پھر میری آواز۔ ۔ ۔ میں نہیں گاسکتی!‘ بیگم نے گانے سے انکار کیا۔

’ہر آواز گاسکتی ہے۔ گائیکی میں خوب صورت آواز کا ہونا اتنا ضروری نہیں، جتنا یہ جاننا کہ کب، کیسے اور کیوں سانس لی جائے اور آواز کو کس انداز سے اٹھایا، بٹھایا، دبایا اور پھیلایا جائے۔ ۔ ۔ ‘ ہم سمجھاتے رہے اور وہ انکار کرتی رہیں۔ ہم نے دوسری تجویز رکھی کہ وہ شاعری کریں اور ہم ان کا کلام گائیں۔ اس تجویز پر بھی وہ راضی نہ ہوئیں۔ فنون لطیفہ سے ہر کسی کو دلچسپی ہونا ضروری تو نہیں !

ہم نے تنہا اپنا شوق پورا کرنے کی تدبیریں شروع کیں۔ صوفے اٹھا کر ڈرئنگ روم کو سفید فرش سے آراستہ کیا۔ سہارے کے لیے گول اور گاؤ تکیے فراہم کیے۔ بیگم کی خواہش کے پیش نظر ہم نے صرف غزل گائیکی پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ گھر میں سازگار ماحول بنا رہے۔ فلمی گیت ہمارے لیے ممنوع قرار دئیے گئے۔ فلمی نغموں سے بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ غزل گائیکی کی سنگت کے لیے ہارمونیم اور طبلہ ضروری ہے۔ سو ہم نے ہارمونیم اور طبلہ خریدا۔ بیگم نے، جن کی دانست میں ہم فضول خرچی کے مرتکب ہوئے تھے، اپنا موڈ خراب کر لیا اور شاید جی بھی جلالیا۔ انھوں نے کہا کچھ نہیں۔ اگر وہ کچھ کہتیں تو ہم انھیں سناتے بھی!

کہتے ہیں کہ ہر فنکار کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے اور جب تک فنکار کا اپنا کوئی انداز نہ ہو اس وقت تک وہ بڑا فنکار نہیں بن سکتا۔ ہم نے اپنا ایک انداز وضع کیا۔ پتلون اور شرٹ چھوڑ کر سلک کا جھلملاتا کرتا اور چوڑی دار پاجامہ پہننے لگے۔ برخلاف اس کے کہ لوگ ہمارے فن کے اعتراف میں ہمیں شال اڑھائیں، ہم نے اس تکلف کو بالائے طاق رکھ کر خود ہی شال خریدی اور اسے اوڑھ کر اور اپنے اطراف لپیٹ کر مختلف زاویوں سے دیکھا۔ دیگر فنکاروں کے شال اوڑھنے کے انداز کا مطالعہ کیا۔ آخر داہنی بغل سے بائیں شانے پر شال اوڑھنے کا انداز اختیار کیا۔

بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنیں۔ مونچھ منڈوانا اور بال بڑھانا چاہتے تھے لیکن بیگم نے ہمیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ ڈرائینگ روم میں قد آدم آئینہ نصب کروایا اور آئینہ کے سامنے ہارمونیم کے ساتھ مختلف طریقوں سے بیٹھ کر دیکھا کہ کس انداز میں ہم ہارمونیم کے ساتھ اسمارٹ دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں یہ انداز پسند آیا کہ ہم آلتی پالتی مار کر بیٹھیں گے اور ہارمونیم ہماری دائیں جانب ہو گا۔ سیدھے ہاتھ سے ہم ہارمونیم بجائیں گے تو بائیں ہاتھ اور اس کی انگلیوں اور انگوٹھیوں کو ہوا میں لہرائیں گے۔

چہرے کے تاثرات ظاہر ہے کہ گیت اور غزل کے بول اور معنی پر منحصر ہوں گے۔ پھر بھی ہم نے مختلف انداز میں منہ بنا کر دیکھا۔ منہ پھلا کر، منہ ٹیڑھا کر کے، جبڑے پھیلا کر، جبڑے آگے پیچھے کر کے، ہونٹ سکوڑ کر، آنکھیں میچ کر، دیدے پھرا کر، بھنویں چڑھا کر اور بھنوؤں میں گرہیں ڈال کر، آس پاس سے بے نیاز اور بے خبر آئینہ تکنے لگے کہ گائیکی کے دوران ہم کیسے نظر آئیں گے۔ ہمیں یہ احساس ہی نہ رہا کہ بیگم اور بچے ہمارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بیگم نے کہا۔ ’مجھ سے آپ کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ خدارا اپنے شوق سے باز آئیے۔ ‘

’بیگم تمھارا مخالفانہ رویہ ہمیں اپنے فن کو اونچی بلندیوں پر لے جانے میں معاون ہو گا۔ میاں تان سین کی بیوی اگر ان کے سر پر گھڑے نہ توڑتی تو وہ تان سین نہ بنتے !‘ ہم نے جواب دیا تو ہماری بیگم دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر رہ گئیں۔

تیاریاں مکمل ہونے کے بعد ہم نے ریاض شروع کیا۔ بیگم اور بچوں کے سونے کے بعد ہم نے ہارمونیم سنبھالا۔ ہارمونیم کو فرشی سلام کیا کہ ہمارا حد ادب اسی کی اجازت دیتا ہے۔ ہارمونیم کو دیکھا اور بجتے سنا تھا، لیکن کبھی بجایا نہ تھا۔ جدھر ہاتھ مارتے ادھر آواز نکلتی تھی۔ کبھی باریک تو کبھی موٹی۔ دو گھنٹوں سے زیادہ ہم ہارمونیم سے لڑتے رہے لیکن آواز سر میں شاید ایک آدھ مرتبہ ہی نکلی ہو گی۔ اکثر اوقات بے سری آوازیں نکلتی رہیں جن پر کبھی چیخ کا گمان ہوتا تو کبھی ریل کی سیٹی سنائی دیتی۔ بعض مرتبہ ہارمونیم میں سے نکلنے والی آواز پر ہم خود سہم بھی گئے۔

ہماری ریاضت سے بیگم کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ آئیں اور ناگواری سے پوچھا۔ ’کیا ہو رہا ہے ؟‘

ہم نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔ ’سر ملا رہا تھا۔ ‘ اور مزید سوالوں سے بچنے کے لیے بہانہ بنایا۔ ’نیند آ رہی ہے۔ شب بخیر۔ ‘اور سونے چل دئیے کہ اس وقت کسی مصیبت سے بچنے کا یہی مناسب طریقہ تھا۔

صبح ہوئی تو پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹا کر استفسار کیا۔ ’رات دیر گئے تک آپ کے فلیٹ سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں۔ خیریت تو ہے !‘

ہم نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’ہمارے پاس سے۔ ۔ ۔ ؟ ہم خود رات ان آوازوں سے پریشان رہے ہیں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ آوازیں آپ کے یہاں سے آ رہی ہیں۔ اچھا ہوا ہم نے رات میں آپ کو دستک نہیں دی۔ فلیٹس کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ آوازیں بلڈنگ کے کس فلیٹ سے آ رہی ہے۔ ‘

پڑوسی سے نمٹ کر پلٹے تو بیگم کو قہر آلود نگاہوں سے گھورتا پایا۔ خفت مٹاتے ہوئے ہم نے وضاحت کی۔ ’عجیب زمانہ آیا ہے۔ لوگوں کو موسیقی سے دلچسپی ہی نہیں رہی اور پھر بازو کے فلیٹ میں کیا ہوتا ہے، اس سے انھیں کیا مطلب؟ ان کے فلیٹ میں چوبیس گھنٹے وی سی آر پر اونچی آواز میں فلمیں چلتی رہتی ہیں، ہم نے کبھی اعتراض کیا؟ پندرہ نمبر فلیٹ سے میاں بیوی کی لڑائی سنائی دیتی ہے، ہم نے کبھی پوچھا کہ بھائی آپ کیوں لڑتے ہیں ؟‘

اب ہم بند کمرے میں ریاض کرنے لگے۔ کھڑکیوں اور دروازوں کو مضبوطی سے بند کیا کہ آواز باہر نہ جانے پائے۔ چار دن میں ہارمونیم سے جی بھر گیا تو ہم نے طبلہ کو آزمانا چاہا۔ طبلہ پر دوچار مرتبہ ہاتھ مارا تو انگلیوں میں درد شروع ہونے لگا۔ معلوم ہوا کہ طبلہ بجانے کے ساتھ گانا مشکل ہے۔ انگلیوں میں ہونے والے درد کی کراہ گانے میں شامل ہو جاتی ہے۔ اسی لیے گلوکار گانے کے ساتھ ہارمونیم بجاتے ہیں۔ ہم نے کسی غزل گائیک کو گانے کے ساتھ طبلہ بجاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ ہم ہارمونیم بجاتے ہوئے گائیں گے اور سنگت کے لیے کسی مشاق اور استاد طبلچی کو شرف بخشیں گے۔

ہم نے گانے کے لیے چھوٹی بحر کی غزلوں کا انتخاب کیا اور ایک خوب صورت اور معطر نوٹ بک خرید کر ان غزلوں کو لکھ لیا۔ ہم نے بڑی بحر کی غزلوں کو دانستہ چھوڑ دیا کہ بڑی بحر میں ہماری چھوٹی سانس کے ڈوب جانے کا خدشہ لاحق تھا۔

ہم نے سر اور سنگیت کا باقاعدہ ریاض شروع کیا۔ حضرت غالب کی غزل جس کا پہلا مصرعہ ’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ‘ کو تختہ مشق بنایا۔ ہارمونیم پر نوٹ بک رکھ کر بجانے اور گانے لگے۔ ہم ہاتھوں سے ہارمونیم بجا رہے تھے اور گلے سے گا رہے تھے۔ بس ہمارے گانے اور بجانے یعنی سر اور سنگیت میں یہی ہم آہنگی تھی۔ لیکن حقیقت میں سر ایک طرف تھا تو ہارمونیم کی لے دوسری طرف۔ کچھ عجیب سی کیفیت تھی۔ سر اور تال مل ہی نہیں رہے تھے۔ ہم اپنے گانے سے خود ہی بے زار اور بے بس ہو کر سوچنے لگے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟کیا کسی استاد کی شاگردی قبول کرنی چاہیے ؟

مہینوں استاد کی جوتیاں سیدھی کرنی ہوں گی۔ استاد کے گھر پانی بھرنا ہو گا۔ دن رات استاد کی خدمت کرنی ہو گی۔ بدلے میں استاد مہربان ہو کر سال دوسال میں ایک دو چیزیں سکھائیں گے۔ اس طرح تو ہم بوڑھے ہو جائیں گے۔ خیال آیا کہ آج سیلف میڈ اور سیلف ٹیچنگ کا زمانہ ہے۔ وہ دن لد گئے جب فن استاد کی جوتیوں کے طفیل حاصل کیا جاتا تھا۔ اب تو سیکھنے اور سکھانے کے لیے ہزاروں کتابیں بازار میں ملتی ہیں جن کی مدد سے آپ جو چاہے بن سکتے ہیں۔ پس ہم نے موسیقی پر لکھی کتابوں کی مدد سے گلوکار بننے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہماری بیگم اپنا کچھ اور ہی فیصلہ لے کر آن دھمکیں۔ ’آپ کو گانا نہیں آتا!‘

’یہ خبر آپ نے کہاں پڑھی ہے ؟‘ ہم نے سوال کیا۔

’ پڑھی کہیں نہیں ہے۔ پچھلے تین چار ہفتوں سے رات دن سنتی آ رہی ہوں۔ خاصا وقت اور پیسہ برباد ہو چکا ہے۔ اب آپ کو گلوکاری بند کرنی پڑے گی۔ ‘بیگم نے میرے سوال کا جواب دیا۔

’آپ نے جو سنا، وہ گائیکی نہیں صرف مشق تھی۔ ابھی آپ نے ہمیں گاتے ہوئے سنا کہاں ہے۔ ‘

چلیے آپ اپنا یہ شوق بھی پورا کر لیجیے۔ آئندہ اتوار کو عشائیہ کے بعد ہم آپ کے ساتھ ایک شام منائیں گے۔ اس میں آپ جی بھر کر گائیکی کا مظاہرہ کیجیے گا۔ اگر کامیاب رہے تو آپ کا شوق جاری رہے گا ورنہ گلوکاری سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرنی پڑے گی۔ ‘

’شوق کا کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ ہماری مرضی۔ ہم چاہیں تو گائیں گے نہیں تو چپ رہیں گے۔ ‘ ہم نے بیگم کی تجویز پر کہا۔

’آپ کی مرضی، گائیں یا نہ گائیں۔ لیکن اتوار کو فیصلہ ہو گا۔ اگر آپ گانے میں ناکام رہے اور گائیکی سے باز نہیں آئے تو پھر آپ کو اپنی گائیکی کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ میں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتی!‘ بیگم نے اپنا فیصلہ سنایا اور ہمیں سوچتا چھوڑ کر پارٹی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئیں۔

بیگم نے اپنی سہیلیوں اور ہمارے دوستوں کو کھانے اور گانے پر مدعو کیا۔ صرف دو دن باقی تھے۔ ہم صبح اور شام ریاضت کرنے لگے۔ لیکن سر اور تال ملتے ہی نہ تھے۔ خود ہم اپنے گانے سے مطمئن نہ تھے۔ ہم گانے میں ناکام رہے تو اپنے ساتھ منائی جانے والی اس مبینہ شام سے فرار کے راستے ڈھونڈنے لگے۔

ہم نے بیگم کو مشورہ دیا۔ ’آپ خواہ مخواہ پیسہ کیوں ضائع کرتی ہیں، تقریب منسوخ کر دیجیے اور بچنے والی رقم سے زیور خرید لیجیے۔ ’

بیگم نے بتایا کہ اب ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کو اطلاع ہو چکی ہے اور احباب بیگم کے ہاتھ کے بنے کھانے اور ہمارے گانے کے منتظر ہیں۔ بعض دوستوں نے ہمیں دینے کے لیے چلر پیسے بھی جمع کر لیے ہیں۔

ہم نے دوسرا بہانہ بنایا کہ ہماری آواز بیمار ہے، لہذا تقریب کو اگلے دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دیجیے۔ بیگم نے ہماری درخواست یہ کہہ کر رد کر دی کہ انھیں ہماری آواز میں کوئی خرابی سنائی نہیں دیتی۔

آخر تقریب کا دن آ پہنچا۔ احباب جمع ہوئے اور حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ’یار تم تو چھپے رستم نکلے، کبھی بتایا نہیں کہ گلے میں سر کا جادو ہے۔ ‘ایک دوسرے دوست نے کہا۔ ’بھئی معاف کرنا ہمیں معلوم نہ تھا ورنہ اب تک ہماری محفلیں سونی نہ ہوتیں۔ ‘ تیسرے دوست نے دعوت دی۔ ’آئندہ ہفتے میرے بیٹے کا برتھ ڈے ہے۔ اس میں آپ کو گانا پڑے گا۔ ‘

احباب کے تعریفی جملوں کے جواب میں ہم انکساری سے ’شکریہ۔ بس یوں ہی کبھی کبھار الاپ لیا کرتا ہوں۔ ‘ کہتے رہے۔

ہم بظاہر مطمئن اور پر سکوں تھے لیکن حقیقت میں بہت پریشان تھے کہ آئی بلا کو کیسے ٹالیں۔ کھانے کے بعد لوگ محفل جمانے لگے۔ ہارمونیم اور طبلہ کو صاف کر کے رکھا گیا۔ ہم بے بسی سے تماشا دیکھتے اور اپنی جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔

یکایک ہم نے اپنے اوپر کھانسی کا شدید دورہ لاد لیا۔ ہم کھانسنے لگے۔ احباب ہمارا گانا سننے کے بجائے ہماری کھانسی کو برداشت کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد کھانسنا کم ہوا تو ہم نے گلا صاف کرنے کے لیے باتھ روم کا رخ کیا۔ ہم نے اپنے آپ کو باتھ روم میں خاصی دیر کے لیے بند کر لیا تو بیگم دروازے پر دستک دینے لگیں۔ ہم مجبوراً باہر نکل آئے۔ بیگم نے نیم گرم پانی سے غرارے کروائے۔ لیکن ہم نے اچھی بھلی آواز کو بٹھا کر احباب سے معذرت چاہی کہ لیمو کی کھٹاس سے ہماری آواز اچانک بیٹھ گئی ہے۔

احباب نے حیرت کا اظہار کیا تو ہم نے کھنکھار کر گلا صاف کرنے کی کوشش میں اپنی آواز کو مزید بٹھا لیا۔ لوگوں کو یقین دلانے کے لیے دو ایک مرتبہ ہم نے ہاتھ جوڑ کر اشاروں سے معافی مانگی۔ احباب شک و شبہات لیے مایوس لوٹ گئے اور ہم اپنی بے بسی کو لیے رات بھر جاگتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔

دوسرے دن بیگم نے ہارمونیم اور طبلہ باندھ کر ہراج خانہ بھیج دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے گی بانسری! اور ہم سے کہا۔ ’آپ گلوکاری کے امتحان میں ناکام ہو چکے ہیں۔ آپ کو سُر نہیں ملا۔ اب وقت گزاری کے لیے کوئی دوسرا مشغلہ ڈھونڈئیے۔ ‘

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، فروری 1994ء

 

 

 

 

 

عرض کیا ہے

 

دیارِ غیر یا اردو کی نئی بستیوں میں بسنے والے اردو داں خواتین و حضرات لائق تحسین ہیں۔ یہ لوگ دل و جان سے اپنی زبان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ ویک اینڈ پر اردو داں حضرات اردو کی ترقی و ترویج کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔ ان ’اردو محفلوں ‘ میں اردو زبان کے گن گائے جاتے ہیں۔ اردو میں گپ ہانکی جاتی ہے۔ مشاعرہ منعقد ہوتا ہے اور ’محفل سماع ‘ میں غزلیں اور گیت سنائے جاتے ہیں۔ ان محفلوں کی صدا بندی اور عکس بندی ہوتی ہے اور آخر میں پر تکلف عشائیہ ’اردو محافل‘ کا اہم اور اختتامی ایٹم ہوتا ہے۔ اس طرح دیارِ غیر میں اردو کی ترقی کو ایک ویک اینڈ سے دوسرے ویک اینڈ تک پہنچایا جاتا ہے۔ ان محفلوں میں ہم پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ اردو زبان کی ترقی کے لیے ان محفلوں کا برپا کرنا اور ان میں شریک ہونا بقول ہمارے ایک دوست، کارِ خیر کا درجہ رکھتا ہے۔

جب سے ہم نے ’ اردو محفلوں ‘میں شریک ہونا شروع کیا، اس وقت سے خود کو با ذوق اور اردو کا سچا عاشق ثابت کرنے کے لیے ہم ڈائس کے پاس بیٹھنے لگے تھے۔ اسٹیج کے قریب ہونے کے سبب ہم کیمرے کے فوکس اور سب کی نگاہوں میں رہتے تھے۔ شاعر ہمیں دیکھتے ہوئے اپنا کلام پیش کرتے اور داد کی امید بھی زیادہ تر ہمیں سے رکھتے تھے۔ ہم انھیں مایوس بھی نہیں کرتے تھے۔ شاعر کی زبان سے شعر مکمل ہونے سے پہلے ہی ہم شعر اچک لیتے تھے اور شعر اور سامعین کے مجروح ہونے کی پروا کئے بغیر اسے احباب میں اچھال کر سر دھننا شروع کر دیتے تھے۔ واہ واہ، کیا کہنے اور سبحان اللہ کی ہانک لگاتے اور ہاتھ لہراتے ہوئے داد دیتے تھے۔ جواب میں شاعر ہمیں مسلسل آداب عرض کئے جاتے تھے۔ بہت زیادہ آداب عرض کا جواب ہم مکرر۔ مکرر کا نعرہ بلند کر کے دیتے تھے۔ کبھی کوئی فقرہ بھی جڑ دیتے ’ایسا شعر کسی نے کہا ہی نہیں !‘ یا پھر یہ کہ ’کیا ترکیب بنائی ہے۔ واہ بھئی واہ۔ ‘اپنی دانست میں واہ۔ واہ، سبحان اللہ۔ سبحان اللہ اور مکرر۔ مکرر الاپ کر ہم اردو زبان کی خدمت اور ترقی کئے جا رہے تھے۔

اردو کی خدمت کا صلہ ہمیں جلد مل بھی گیا۔ ہمارے شعری ذوق کی دھاک جم گئی۔ ہمیں صاحبِ علم و فن گردانا گیا۔ شعرا حضرات بھری محفل میں اپنا کوئی شعر یا پوری غزل ہماری نذر کرنے لگے۔ شعرا ہماری توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہتے۔ ’آپ ہی اس شعر کو سمجھ سکتے ہیں ‘ یا پھر یہ کہ ’یہ شعر آپ کو ضرور پسند آئے گا۔ ‘ شعرا نے ہم سے دوستی بڑھائی۔ تازہ کلام موزوں ہونے پر سب سے پہلے ہمیں فون پر سناتے اور ہماری رائے پوچھنے لگے۔

اردو زبان کی ترقی کی خاطر ہم خوش کلامی سے کام لیتے۔ یوں بھی بقول شخصے، دیارِ غیر میں مشاعرہ مل بیٹھنے کا بہانہ ہے۔ کوئی ادبی اکھاڑہ نہیں کہ ہم سچ بات کہیں اور پھر ہم ہیں کون؟ نقاد ہیں اور نہ ہی اردو ادب کے ماہر کہ کھری کھری سنائیں۔ میٹرک تک اردو پڑھی ہے اور بس! یہی ہماری اردو کی قابلیت ہے۔ آج کی نسل کو یہ موقع تک نصیب نہیں ہے۔ اب یہی کیا کم ہے کہ لوگ اردو بول اور سن لیتے ہیں۔ انھیں کیا پتا شاعری کیا ہے۔ بحر کس چڑیا کا نام ہے۔ وزن سے مراد اپنا جسمانی وزن نہیں ہے بلکہ یہ حروف اور الفاظ کی پیمائش ہے اور قافیہ اور ردیف جڑواں بہنوں کا نام نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی شعر کہتا اور سناتا ہے اور احباب واہ، واہ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ہمیں تعریف ہی کرنی چاہیے۔

شعرا اور سامعین کی مدح سرائی کہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں مشاعروں کا صدر بنایا جانے لگا۔ تھوڑے سے رسمی انکار کے بعد ہم مشاعروں کی صدارت کرنے لگے۔ ہماری آمد پر مشاعرہ کا آغاز ہوتا اور شعرا ہماری اجازت سے ’تازہ کلام‘ پیش کرتے۔ ہمہ تن گوش ہو کر ہمیں شاعروں کو سننا پڑتا۔ مسند صدارت سے اٹھ کر جانے یا احباب سے بات کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اِدھر اُدھر دیکھنا یا پہلو بدلنا بھی مشکل ہوتا۔ شعرا ہماری توجہ مستقل اپنی جانب مبذول کروائے رکھتے۔ ہر دم ہمیں واہ، واہ کہتے رہنا پڑتا۔ واہ واہ کہنے کی ہمیں اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ عام حالات میں بھی ہم ہوں، ہاں یا اچھا کے بجائے واہ واہ کہنے لگے تھے۔

ہم نے بعض گھاگ اور تجربہ کار ’مشاعرہ باز‘ دوستوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے مشاعرے کی صدارت جیسے اکتا دینے والے کٹھن کام کو آسان بنانے کے چند گر بتائے۔ ان نسخہ ہائے دوستاں پر عمل کرنے سے ہماری تکلیف میں افاقہ ہوا اور ہم مشاعروں کی صدارت سے لطف اندوز ہونے لگے۔ اب ہم گردن اکڑا کر ہر شاعر کے کلام پر کان کھڑے کئے بیٹھے رہنے کے بجائے گاؤ تکیے کے سہارے نیم دراز ہونے اور سونے بھی لگے۔ شاعر کے ہاتھ میں طویل نظم کا نسخہ دیکھتے ہی ہم اطمینان سے اونگھنا شروع کر دیتے تھے۔ ذرا سی مشق سے ہم نے آنکھیں نیم وا رکھ کر سونے کی عادت ڈال لی تھی۔ لوگ سمجھتے کہ ہم شاعری میں غوطہ زن ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے ایک مشاعرے کے بعد بتایا کہ تمھارے خراٹوں کو مشاعرے کے شور میں واہ واہ سمجھا گیا اور شاعر اس حوصلہ افزائی پر’سوتے صدر مشاعرہ‘ کو آداب بجاتا رہا۔

صدر مشاعرہ کی حیثیت سے گھنٹوں شب بیداری اور ریاضت کا پھل آخر میں شکریہ سے پہلے چند منٹ تقریر کی شکل میں ملتا۔ وہ بھی اس وقت جب آدھے سامعین جا چکے ہوتے ہیں اور آدھے لوگ جمائیاں لیتے پہلو بدل رہے ہوتے ہیں۔ خطبہ صدارت کے لیے جب ہم ڈائس پر پہنچتے تو بعض دل جلے اور منچلے حضرات ہم سے کلام کی فرمائش کر بیٹھتے۔ ہم بہانہ بناتے کہ حضرات دیکھیے، اب پو پھٹ رہی ہے، کوئی دم میں اذانِ فجر ہونے والی ہے۔ یہ کلام اللہ پڑھنے کا وقت ہے، ہمارے کلام کا نہیں ! اسی لیے آپ سے مختصر دو چار باتیں کر کے رخصت چاہتا ہوں۔

صدارتی کلام نہ سہی صدارتی کلمات بہر حال عرض کرنا پڑتا۔ صدارتی تقریر کے لیے ہمیں خوب تیاری کرنی پڑتی۔ ہم نے اردو ادب کا مطالعہ کیا۔ رموز شاعری سے آشنا ہوئے۔ اساتذہ کے کلام کو پڑھا، سمجھا اور پھر یاد کیا۔ ادبی محنت اور مشقت کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوا کہ ہم شاعری سے واقعتاً محظوظ ہونے لگے۔

ادب کا باقاعدہ مطالعہ کر کے دوچار مرتبہ صدارتی کلمات عرض کرنے کے بعد ہمیں اپنے رویّے میں تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ واہ واہ کہنے کی رفتار میں خاصی کمی ہوئی۔ گاہے ما ہے واہ واہ کی ہانک لگاتے یا اونگھنے سے چونک کر یا گردن اٹھا کر داد دینے پر اکتفا کرتے۔ بعض مرتبہ گردن پھیر بھی لیتے۔ اکثر اوقات آنکھیں بند رکھتے یا دوسری جانب دیکھا کرتے کہ شعرا کی تعریف اور توصیف طلب نظریں ہم سے چار نہ ہوں۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب ہماری اجازت سے ادب اور شاعری پر ظلم ہوتا دیکھ کر ہمیں کھلنے لگا۔ جی چاہتا کہ شاعر کو ٹوک دیں۔ چند کو کلام سنانے کی اجازت ہی نہ دیں اور دو ایک کو شاعری کرنے سے ہمیشہ کے لیے منع کر دیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ دیارِ غیر میں اردو کی ترقی متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ بہت ضبط کیا اور بہت سوچا۔ کوئی حل ہاتھ نہ آیا۔ یکایک ہمارے ذہن میں یہ خیال بجلی کی طرح کوندا کہ ہمیں شاعری کرنی چاہیے۔ انھیں بتانا چاہیے کہ اچھی اور معیاری شاعری کیا ہوتی ہے اور ہم سے کلام کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے یہ ایک جواب بھی ہو گا۔ ہمیں یہ بھی خیال آیا کہ ہمارے شعر کہنے سے اردو کی مزید ترقی ہو گی۔

ہم نے شعر کہنے اور شاعر بننے کا قصد کیا۔ امید تھی کہ غیب سے مضامین آئیں گے اور اشعار میں ڈھلتے جائیں گے۔ ہم چچا غالب کی پیروی کرتے ہوئے ہاتھ میں ریشمی ازاربند تھامے، شعر کو گرہ میں باندھنے کے لیے تیار بیٹھے رہے۔ چند دن انتظار میں بیت گئے۔ نہ کوئی مضمون وارد ہوا اور نہ ہی کسی شعر کی ولادت ہوئی۔ اپنے اندر پیدائشی شاعر کو جگانے میں ناکام ہوئے تو ہم نے ریشمی ازاربند کو واپس داخلِ نیفہ کیا اور شعر کہنے کے لیے ادبی ریاضت کا ارادہ کیا۔

حسن، عشق، شمع، پروانہ، گل، بلبل، چاند، سورج، ہجر، وصال، رقیب، نامہ بر، قاصد، صنم، بت کدہ، شراب، مے خانہ، ساقی، واعظ، زاہد، دل، دماغ، عقل، دیوانگی، جگر، خونِ جگر، آنسو، قید، دار، آزادی، رہائی، قفس، غربت، افلاس، بھوک، ظلم، جبر، صبر جیسے موضوعات پر عجیب و غریب خیالات کو اکٹھا کیا۔ خیالات اور احساسات کو ایک استاد شاعر کی آسان زمین میں بویا تاکہ غزل کی فصل تیار ہو سکے۔ ہم قافیہ الفاظ سے آبیاری کی اور آخر غزل تیار ہو گئی۔

غزل کو غور سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ اشعار بے بحر ہیں۔ مصرعوں کو ناپ تول کر وزن برابر کرنے کے لیے بندر بانٹ کی کوشش کی تو اشعار نہ صرف مزید بے وزن ہو گئے بلکہ بے وقعت بھی دکھائی دینے لگے۔ ہم سوچنے لگے کہ اشعار کی مرمت کے لیے کیا کریں۔ ایک شاعر کی بات یاد آئی کہ وزن میں شاعری کرنے کے لیے گنگنانا ضروری ہے۔ بحر کا دوسرا نام ترنم ہے۔ ہم نے گنگنانا شروع کیا اور ہر دم مترنم رہنے لگے۔

ہمیں کاغذ قلم اور لغت کے ساتھ گم صم رہتے اور پھر گنگناتے اور گاتے ہوئے دیکھا تو بیگم کو تشویس لاحق ہوئی۔ ہماری ٹوہ میں رہنے لگیں۔ وجہ دریافت نہ کر سکیں تو پوچھا۔ ’کیا بات ہے۔ آپ کبھی کھوئے کھوئے سے اداس رہتے ہیں اور کبھی خوش گاتے اور بجاتے نظر آتے ہیں۔ ‘

’ہم شاعری کرنے لگے ہیں۔ ‘ ہم نے ترنم میں جواب دیا۔

بیگم سنجیدہ ہوتے ہوئے بولیں۔ ’کسے دیکھ کر؟‘

کچھ سمجھ نہ آیا تو ہم نے پوچھا۔ ’کیا مطلب؟‘

جواب میں بیگم ایک گیت کا مکھڑا گنگنانے لگیں۔

میں شاعر تو نہیں مگر اے حسیں

جب سے دیکھا تجھ کو، مجھ کو شاعری آ گئی

پھر سوال کیا۔ ’کون ہے وہ حسینہ جس نے آپ کو دیوانہ بنایا ہے اور جس کے فراق میں شاعری ہو رہی ہے۔ ‘

ہم نے سوچا، کاش یہ سچ ہوتا۔ ہم کسی سے ناکام محبت کرتے اور بلند پایہ شاعر بن جاتے۔ ہم نے بیگم کو خوش کرنے اور گھر میں سکون قائم رکھنے کے لیے کہا۔ ’وہ کوئی اور نہیں، آپ ہیں۔ ‘

بیگم خوش ہونے کے بجائے ناراض ہو گئیں۔ ’پندرہ سال سے سیدھے منہ بات نہیں کی ہے۔ اب مجھے دیکھ کر شاعری کرنے چلے ہیں۔ بغیر شاعری اچھی بھلی زندگی گزر رہی ہے۔ یکایک آپ کو یہ کیا ہوا؟‘

ہم نے بیگم کو سمجھایا۔ ’آپ یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ہم کسی سے عشق کرنے لگے ہیں۔ اتنی ہمت ہم میں کہاں۔ آج بھی ہم پہلے کی طرح آپ کے وفادار ہیں۔ ہمارا منشا شاعری کے ذریعہ اردو کی خدمت کرنا ہے جس سے اردو کی ترقی ہو گی اور اردو کا مستقبل درخشاں ہو گا۔ ‘

جواب ملا۔ ’اردو کی خدمت کرنے کا ارادہ ہے تو اپنی اولاد کو اردو سکھایئے۔ آپ کے بچے اردو یوں بولتے ہیں جیسے انگریزوں کی نقل اتار رہے ہوں۔ اپنے بچوں کو اپنی طرح اردو بولنا سکھایئے۔ مجھے اردو پڑھایئے لیکن خدارا شاعری نہ کیجیے، میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ ‘

شاعری کے بارے میں نصف بہتر کے خیالات جان کر ہمیں بہت حیرت ہوئی۔ ہم نے تجسس سے دریافت کیا۔ ’شاعری میں کیا برائی ہے ؟‘

’شاعری میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اردو شاعری مجھے پسند ہے۔ جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی غزلیں میں شوق سے سنتی ہوں۔ مہدی حسن کا جواب نہیں ہے۔ طلعت عزیز اور پنکج ادھاس کے اشعار بھی اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، مجھے شاعر اچھے نہیں لگتے۔ میں آپ کو شاعر کے روپ میں نہیں دیکھ سکتی!‘

بیگم کا جواب سن کر ہم نے سوال کیا۔ ’کیا شاعر جن یا بھوت ہوتا ہے ؟‘

’بہتر ہوتا اگر شاعر جن ہوتا۔ جن دکھائی نہیں دیتا جبکہ شاعر کو دیکھنا، سننا اور بھگتنا پڑتا ہے۔ ‘

ہم نے پھر ایک سوال کیا۔ ’آخر شاعر ہوتا کیسا ہے ؟‘

’عجیب و غریب۔ ! چہرے اور سر کے بال بڑھے ہوئے۔ گال پچکے ہوئے، خستہ حال، نحیف و ناتواں، ہر دم نشہ میں چور، ایک ہاتھ میں بوتل تو دوسرے میں نوٹ بک، منہ میں پان اور ہونٹوں میں سگریٹ، ماحول اور حالات سے بے خبر، اپنی دھن میں مگن، موقع اور نہ محل ہر وقت عرض کیا ہے کی رٹ لگائے ہوئے۔ کچھ ڈراؤنی سی شکل و صورت ہوتی ہے۔ ‘ بیگم نے شاعر کی تفصیلی منظر کشی کی اور ہمیں یاد دلایا۔ ’پچھلے ہفتہ آپ کے ایک شاعر دوست گھر آئے تھے تو منی ڈر کر بیڈ روم میں چھپ گئی تھی۔ ‘

ہم نے بیگم کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی۔ ’آپ نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ شاعر کا نہیں ہے۔ یہ بگڑے ہوئے شاعر کی تصویر ہے، وہ بھی آج سے کوئی سو سال پہلے والے شاعر کی۔ ہمارے دور کے شعرا ماشاء اللہ بے حد اسمارٹ ہوتے ہیں، آپ کے شوہر کی طرح سوٹ بوٹ پہنتے ہیں۔ گلے میں ٹائی لٹکاتے ہیں۔ پان کے بجائے چیونگم سے شغل فرماتے ہیں۔ پائپ پیتے ہیں۔ اپنے آپ کو شاعر کہنے سے ہچکچاتے ہیں اور اپنی تخلیقات ایسے پیش کرتے ہیں جیسے اردو زبان پر احسان فرما رہے ہوں۔ یوں بھی آج کوئی ہمہ وقتی شاعر ہو نہیں سکتا۔ وہ دن لد گئے جب اردو شاعری ذریعہ معاش اور باعث عزت ہوا کرتی تھی۔ آج کا شاعر صرف شاعر نہیں ہوتا، وہ ڈاکٹر، انجینیر، تاجر، بینکر، کلرک، اکاؤ نٹینٹ یا پروفیسر بھی ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات وہ شاعر کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ آپ خاطر جمع رکھیے، ہم برباد نہیں ہوں گے۔ ‘

’کچھ بھی ہو آپ شاعری نہیں کریں گے۔ ‘ بیگم نے فیصلہ سنایا۔

ہمارے درمیان دھواں دھار بحث چھڑ گئی۔ ہم نے بیگم کو شخصی آزادی میں مخل ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بیگم نے ہم پر دوسروں کے احساسات اور جذبات کی پروا نہ کرنے کا الزام لگایا۔ دو گھنٹوں کی مغزماری کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بیگم نے مشروط آمادگی کا اظہار کیا۔

ان شرائط کے ساتھ اجازت عطا کی گئی کہ ہم شاعری کریں گے لیکن اپنا حلیہ نہیں بدلیں گے اور نہ ہی شاعر کے عادات و اطوار اپنائیں گے۔ سگریٹ اور شراب پینا نہیں شروع کریں گے۔ خواتین کی جانب نظریں نہیں اٹھیں گی۔ شب بیداری نہیں ہو گی۔ اپنے آپ کو مافوق البشر نہیں سمجھا کریں گے۔ شعر سناتے وقت اچھل کود نہیں کریں گے اور نہ ہی گلا پھاڑ کر دیوانوں کی طرح چیخیں گے۔ گانا بھی نہیں گائیں گے۔ ادب اور شائستگی کے ساتھ اپنا کلام پیش کریں گے۔ کسی صورت داد کی بھیک نہیں مانگی جائے گی۔ شاعروں سے دوستی اور شاعرات سے بات نہیں ہو گی۔ گھر پر مشاعرہ اور کام پر شاعری نہیں ہو گی۔ کم از کم چار احباب کے اصرار پر ہم ’عرض کیا ہے ‘ کریں گے۔ داد ملنے پر جھک جھک کر یا دونوں ہاتھوں سے سلام نہیں کریں گے۔

ہم نے پابند شاعری پر سخت احتجاج کیا لیکن بیگم کسی صورت آزاد شاعری کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ بیویاں کب شوہروں کو آزاد رکھنا چاہتی ہیں۔ تھک ہار کر ہم نے پابندیوں میں نرمی کے لیے گزارش کی۔ ترنم کے لیے اصرار کیا کہ عروض کی غلطیوں کو سر میں ڈھال لینے کی سہولت حاصل ہو جائے اور سر کو خفیف سا جھکا کر آداب کرنے کی اجازت چاہی کہ واہ، واہ اور آداب کے بغیر شاعری میں لطف نہیں آتا۔

مشروط اجازت ملنے کے بعد ہم نے اپنا کلام کسی ویک اینڈ مشاعرے میں سنانے سے پہلے مناسب سمجھا کہ کسی کہنہ مشق شاعر کو دکھا لیا جائے۔ سو ہم نے ایک خاندانی شاعر کا انتخاب کیا جن کے نانا اردو زبان کے ایک نامور شاعر گزرے ہیں۔ اپنے بارے میں مشہور کروا رکھا تھا کہ انھوں نے پہلا شعر چھ سال کی عمر میں نانا ابا کی گود میں بیٹھ کر کہا تھا۔

خاندانی شاعر سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے موصوف کی تحسین کی اور ان کے ادبی قد کو تعریفی اینٹیں رکھ کر اونچا کیا۔ وہ خوش ہوئے اور اپنی ڈھیر ساری غزلیں سنائیں۔ ہم نے خوب دل کھول کر داد دی۔ اور پھر ہم نے نظرِ عنایت کی گذارش کرتے ہوئے اپنا کلام انھیں دکھایا۔ چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں ہوئے۔ ایک عینک اتاری اور دوسری چڑھائی۔ ہماری غزلیں اور نظمیں واپس کرتے ہوئے فرمایا۔ ’شاعری ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ فن خدا کی طرف سے مخصوص بندوں کو ودیعت کیا جاتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ شاعر پیدا ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ شاعر بننے کی کوشش نہ کریں۔ ‘

ہم نے سوچا کہ خاندانی شاعر کو ہماری شاعری سے خطرہ ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے مدّمقابل آئے۔ ہم ان کے کہنے سے شاعری چھوڑنے والے نہ تھے۔ ہم اپنی غزل لیے ایک شاعر دوست کے پاس پہنچے۔ موصوف غیر پیدائشی شاعر اور مشہور معالج ہیں۔ صرف دو سال پہلے دیارِ غیر میں شاعری شروع کی۔ ایک عدد مجموعہ کلام بھی چھاپ چکے ہیں۔ دوسرا تیار ہے۔ انھوں نے ہماری خواہش کا احترام کیا اور اردو کی خدمت کے جذبے کو سراہا اور کہا۔ ’آپ کو میں وطن میں اپنے استاد سے رجوع کرتا ہوں۔ قادر الکلام شاعر ہیں۔ میں اپنا تازہ کلام اور نذرانہ انھیں بھیجتا ہوں اور وہ اصلاح کر کے واپس کر دیتے ہیں۔ بعض مرتبہ ہوا یوں کہ مصروفیت کے سبب کلام موزوں نہیں ہو پایا۔ میں نے استادِ محترم کی خدمت میں صرف ’ہدیۂ تہنیت ‘ پیش کیا اور انھوں نے جواب میں غزلیں اور نظمیں ارسال کیں۔ اب یہ حال ہے کہ میں پابندی سے انھیں ہدیۂ خلوص و احترام پیش کرتا ہوں اور وہ منظومات سے مجھے نوازتے ہیں۔ ‘

شاعری کرنے کا یہ انداز ہمیں اچھا لگا۔ بحر، قافیہ اور ردیف کا جھگڑا اور نہ ہی تراکیب کی الجھن۔ ڈاک کے ذریعہ ہمیں ’تازہ کلام‘ ملنے لگا۔ ہنگامی حالات میں ہمیں کلام فیکس کے ذریعہ بھی وصول ہوا۔ اشعار پڑھنے کے سلیقے سے واقفیت درکار تھی۔ مشاعروں میں شرکت کے وسیع تجربے نے اس مرحلے کو بھی آسان بنا دیا۔ ویک اینڈ مشاعروں میں کرتا اور پاجامے میں ملبوس ہم لہک لہک کر غزلیں سنانے لگے۔ احباب جی کھول کر واہ واہ کرتے۔ یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہمیں وہ تمام داد واپس لوٹائی جا رہی ہے جو اب تک مشاعروں میں ہم دیتے آئے تھے۔ بیگم کی نظریں بچا کر داد کے جواب میں کبھی ہم آداب بھی بجا لیتے۔

ہماری شاعری کے چرچے وطن پہنچنے لگے۔ رسائل کے مدیران ہم سے مالی اور قلمی تعاون کے طلب گار ہوئے، مالی زیادہ اور قلمی کم۔ ہم نے زرِ کثیر سے چند رسالوں کی خریداری اور بعض جرائد کی سرپرستی قبول کی۔ تمام ادبی رسالوں (ہیں ہی کتنے، انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے )میں نوجوانی کی تصویر کے ساتھ ’ہمارا کلام‘ چھپنے لگا۔ اپنے خرچے پر مشاعروں کی دعوتیں بھی آنے لگیں۔ مشاعرہ کا کل خرچہ برداشت کرنے کی صورت میں مسند صدارت کی پیش کش بھی ہوئی۔ ہم نے جلد بازی مناسب نہیں سمجھی اور اسی طرح مشقِ سخن جاری رکھا۔

قصّہ مختصر ہم اردو کی ترقی کے کارِ خیر میں حسبِ مقدور حصّہ لینے لگے۔ ہم خوش اور ہماری بیگم بھی مطمئن کہ ہم شاعر بنے بغیر شاعری کر رہے ہیں۔ لیکن ہماری خوشی زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رہ سکی۔

ایک مشاعرے میں پر زور الفاظ میں ہمارے تعارف کے بعد تالیوں کی گونج میں ہم اپنا تازہ کلام پیش کر کے لیے اٹھے۔ منتظمین اور احباب کا شکریہ ادا کیا۔ صدرِ مشاعرہ سے اجازت لی اور ایک تازہ غزل پڑھنے لگے۔ دو اشعار سنا چکے تھے اور تیسرا صدرِ مشاعرہ کی نذر کر رہے تھے کہ ایک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور گلا پھاڑتے ہوئے دعوی کیا۔ ’یہ غزل میری ہے۔ ‘

ہم سٹپٹا گئے۔ ہمارا پریشان ہونا فطری بات تھی۔ غزل ہماری یقیناً نہیں تھی۔ دو دن پہلے ہی فیکس کے ذریعہ ہمیں ملی تھی۔ لیکن یہ غزل ان صاحب کی بھی نہیں تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ غزل کس کی ہے۔ اسی لیے ہم نے غصّہ سے کہا۔ ’جنابِ والا، آپ ہوش میں تو ہیں۔ مجھے اس قسم کا مذاق بالکل پسند نہیں !‘

’مجھے بھی۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے سامنے میری غزل کو اپنی کہہ کر سنائے اور داد بھی پائے۔ میں نے یہ غزل صرف دو ہفتے پہلے ایک مشاعرے میں پڑھی ہے۔ ‘ موصوف بھی غصّہ سے لال پیلے ہوتے ہوئے بولے اور دوڑ کر سامعین میں سے دو گوا ہوں کو پکڑ لائے۔ گوا ہوں نے اقرار کیا کہ انھوں نے موصوف کو ہو بہو یہی غزل پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

ہمارا موقف بہت نازک ہو چلا تھا۔ کیا اعتراف کر لیں کہ ہم شاعر نہیں ہیں۔ اگر شاعر ہیں تو ہمیں ثابت کرنا تھا کہ غزل ہماری اپنی ہے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھاجسے ان دو گوا ہوں کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا تھا۔

ہم نے ایک جھوٹ کو نبھانے کے لیے دوسرا بڑا جھوٹ تراشا۔ ’وہ ہاں اب ہمیں یاد آیا۔ اس غزل کو خود ہم نے لکھ کر ایک شاگرد کے نام معنون کر دیا تھا۔ ہمیں چاہیے تھا کہ اس غزل کو اپنی بیاض سے علیحدہ کر لیتے۔ مصروفیت کے سبب ہم ایسا نہ کر سکے۔ ایک چھوٹی سی بھول سے یہ کھڑاگ پیدا ہوا ہے۔ ‘

’کیا کہا۔ ۔ ۔ ‘ کہہ کر مخالف شاعر تھوک اڑاتے اور آستین چڑھاتے ہمارے مدّمقابل آ گئے۔ ’ میں تمھارا شاگرد۔ ۔ ۔ تم ہوش میں تو ہو!‘

محسوس ہوتا تھا کہ وہ فری اسٹائل کشتی لڑ کر غزل کی ملکیت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تو خیریت رہی کہ احباب بیچ بچاؤ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ کچھ ہمارے ہمنوا اور چند ان کے طرف دار۔ غزل کی ملکیت کا فیصلہ تو نہ ہوا لیکن اس ہنگامہ کے سبب مشاعرہ برخاست کرنا پڑا۔

مشاعرہ کے بعد وطن میں استادِ محترم سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ غزل کے دوسرے دعویدار بھی ان ہی کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے بھی ہماری طرح چند دن پہلے شاعری شروع کی ہے۔ استاد کی بیماری اور کسمپرسی کے سبب ایک ہی غزل دو سپوتوں کے پاس بھیج دی گئی تھی۔ قاعدے سے انھیں خاموش ہو جانا چاہیے تھا۔ مشاعرے کے بعد ہم سے ملتے اور ہم دونوں اس مسئلہ کا پر امن حل ڈھونڈ نکالتے لیکن، انھوں نے چوری اور سینہ زوری والا طریقہ اختیار کیا۔ اب جو ہونا تھا سو ہو چکا۔

اس واقعہ نے ہماری ساکھ کو شدید متاثر کیا۔ شاعری جاری رکھنے سے مزید رسوا ہونے کے وسیع امکانات تھے۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں شاعری ترک کر دینی چاہیے۔ بیگم کا اصرار بلکہ حکم بھی یہی تھا۔ اس طرح حقیقی معنوں میں اردو زبان کی خدمت ہو گی۔ بالآخر ایک ویک اینڈ مشاعرے میں ہم نے اب کبھی ’عرض کیا ہے ‘ نہ کہنے کا اعلان کر دیا اور شہ نشین سے اٹھ کر سامعین میں آ بیٹھے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، مئی1996ء

٭٭٭

دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید