فہرست مضامین
- طلسم حرف
- ۱۹۶۸ء — ۱۹۷۱ء
- مظفرؔ حنفی
- غزلیں
- تقویٰ کے راستے پر نیت پھسل رہی تھی
- اب کیا بتائیں کیسے تھما کیوں رکا لہو
- حیراں نہ ہو فضول کہ کیا ہے پسِ غبار
- ہر اک طرف در و دیوار پر در و دیوار
- کھنچا ہوا دائرہ نگاہ کے حصار کا
- راہ مسدود ہے اُڑ کے جاؤں کہاں
- ہر نفس ہر آہ کی ہم راز و ہمدم ہے ہوا
- تیز رو ہم ہی ہر اک آبلہ پا سے نکلے
- اے شدتِ احساس یہ تیرا ہی کرم ہے
- کل ملا کر برا نہیں ہے وہ
- جب مرے ہاتھ میں ظالم کا گریباں ہو گا
- کہاں تو پائے سفر کو راہِ حیات کم تھی
- اس کے ہاتھوں سے ندی خون کی جاری ہو گی
- ہر مجرم کو، جو اپنی کالی کرتوتیں ڈھانک رہا ہو
- دامن پہ اپنے رقصِ شرر کون دیکھتا
- اوپر جاتے وقت سراپا اپنا عالی شان لگا
- کھا نہ لے وحشت کہیں اندر ہی اندر کاٹ کر
- نہ خار و گل ہیں نہ غنچے بہار سے روشن
- تارے بغیر ٹوٹے ہی پلکوں سے مڑ گئے
- خلا میں خاک نہیں گردِ کارواں کے لیے
- ہر ایک شخص کسی ریشمی نقاب میں ہے
- اندر جب آئے اُکتا کر باہر کے اندھیارے سے
- گھما پھرا کے بھنْور انکشاف کرتا ہے
- کالا پیلا کچھ تو کر
- خون میں جب اژدہے پھنکارتے ہیں
- بس ایک رات مرے گھر قیام کرتی جا
- چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے
- جہاں سکون کا لمحہ کوئی گزارا ہے
- لوگ دھوکے میں ہیں جاں بہ لب کون ہے
- صاف کہتا ہوں مجھے ڈر کیا ہے
- تھما ہے قافلہ مجھ ایک نقش پا کے سوا
- شہر بھر میں کہیں رونق تھی نہ تابانی تھی
- زمینیں سخت ہیں مجھ پر خفا ہے آسماں مجھ سے
- چکا چوندھ نے لوٹ لی روشنی
- سنیے تو سر سے پاؤں تلک ہوں زباں تمام
- بھڑکیلی تتلی کو چھو کے دیکھا تم نے
- تلخ باتوں کو ٹالنے والے
- اس طرح جو بنیاد سے انجان رہے گی
- جسم میں محسوس ہوتا ہے خلا سا
- ڈوبتا ہوں، نکالنا بابا
- ان سے تعلقات نہیں ہیں کھلے ہوئے
- کھلا سچ، پاک دل، گفتار ننگی
- اچھال خون کہ بند حیات کٹ جائے
- نہ شیروں کا ڈر تھا نہ چیتوں کا ڈر
- ’’چل مرے خامہ بسم اللہ‘‘
- گمراہی میں فرد بھی نہیں ہے
- بات مری زہریلی ہو گی
- تمھیں بتاؤ بہ ایں قیل و قال کیا ہو گا
- اک نظر اس نے ڈال دی مجھ پر
- مجھے تو گردن کا قرض اک دن اتارنا تھا
- آئنہ چمکا رہا ہے دور سے
- کیا خواب تھا کہ سرد ہوئے شعلہ ہائے رنگ
- سرد و تاریک خلا تھی اوپر
طلسم حرف
۱۹۶۸ء — ۱۹۷۱ء
مظفرؔ حنفی
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
غزلیں
تقویٰ کے راستے پر نیت پھسل رہی تھی
تالاب سے نہا کر مچھلی نکل رہی تھی
کوئی مجھے عقب سے آواز دے رہا تھا
سائے کی جستجو میں دیوار چل رہی تھی
کھونٹی بتا رہی ہے، آئنہ بولتا ہے
تصویر تیری مجھ سے چہرہ بدل رہی تھی
احساس کی نہ پوچھو، اکثر فریب دے گا
ٹھنڈی ہوا کے مارے ہر چیز جل رہی تھی
گھنٹہ ہلا رہا تھا اک پیٹ کا پجاری
مندر سے دور دیوی پکوان تل رہی تھی
فاقوں سے نیم جاں سا، شہرت کے آسماں پر
سورج تو چڑھ رہا تھا اور دھوپ ڈھل رہی تھی
باغ سخن میں اکثر، دیکھا ہے اے مظفرؔ
کاٹا گیا اسی کو شاخ پھل رہی تھی
٭٭٭
اب کیا بتائیں کیسے تھما کیوں رکا لہو
چھالوں سے راستے میں سبھی بہہ گیا لہو
وہ فرطِ احتیاط کہ ہر لفظ پر گرفت
حتّیٰ کہ انگلیوں سے ٹپکنے لگا لہو
اس اجنبی کا خون ہے مردار کی طرح
کل کے شکار کا تو بہت گرم تھا لہو
شہ رگ کا لمس پاتے ہی خنجر تڑپ گیا
خنجر کی دھار چوم کے لو دے اُٹھا لہو
تاروں کی موت گریۂ شبنم پہ ٹل گئی
سورج کے قتل پر تو برستا رہا لہو
محصور کر چکا ہے ہر اک سمت سے اسے
زخمی ہرن کا سرخ چمکتا ہوا لہو
یادش بخیر سب کے لیے رو چکے ہیں ہم
اب تو کہیں بھی جوش نہیں مارتا لہو
ہر بوند لعل جیسی چمکتی ہے نہر میں
دھارے نے وقت کے جو چرایا مرا لہو
تیشے بغیر کاٹ لیا رات کا پہاڑ
میری غزل ہے دیدۂ بے خواب کا لہو
سیراب ہو چکی ہے مظفرؔ زمین شور
شاداب وادیوں میں کچھ اتنا بہا لہو
٭٭٭
حیراں نہ ہو فضول کہ کیا ہے پسِ غبار
کچھ بھی نہیں، غبار کھڑا ہے پسِ غبار
پتوں نے اپنے کان کھڑے کر لیے ادھر
وحشی بگولہ ناچ رہا ہے پسِ غبار
آثار کہہ رہے ہیں کنارا قریب ہے
آندھی کا زور ٹوٹ چکا ہے پسِ غبار
شہ رگ اُچھل رہی ہے چھٹی حس کے ساتھ ساتھ
دشمن کوئی ضرور چھپا ہے پسِ غبار
مطلع تمام پھول گیا بادبان سا
دیکھو تو کتنی تیز ہوا ہے پسِ غبار
ہر موڑ پر خلیج فنا اس طرف پڑی
ہر سنگ میل کوہِ ندا ہے پسِ غبار
لازم ہے اپنے پاؤں مظفرؔ تراش لے
جو جس جگہ ہے آبلہ پا ہے پسِ غبار
٭٭٭
ہر اک طرف در و دیوار پر در و دیوار
بنے ہوئے ہیں فصیلِ نظر در و دیوار
ہمارے گھر میں تو مینار بن گئی ہر اینٹ
چھتوں کی حد میں اٹھاتے ہیں سر در و دیوار
خلاؤں میں بھی مرے ساتھ ساتھ اُڑتے ہیں
اُڑان لاکھ بھروں میں مگر در و دیوار
تمہارے راز میں شامل رہے پڑوسی بھی
اسی لیے تو ہیں دیوار و در، در و دیوار
گھٹا کا کیا ہے برس کر نکل گئی آگے
یہاں سسکتے رہے رات بھر در و دیوار
یہ جانتے ہیں کہ میں پاشکستہ بیٹھا ہوں
سنا رہے ہیں نوید سفر در و دیوار
خبر نہ پھیلنے پائے کہ جا رہا ہے کوئی
نہیں تو سر پہ اٹھا لیں گے گھر در و دیوار
مجھے بھی دربدری میں ہی لطف آتا ہے
مری بلا سے فراہم نہ کر در و دیوار
ترا بدن تو سلامت ہے اے مظفر، پھر
یہ کس کے خون میں ہیں تر بہ تر در و دیوار
٭٭٭
کھنچا ہوا دائرہ نگاہ کے حصار کا
پھر اس کے بعد سلسلہ ہے دور تک غبار کا
ہر اک درخت اختلاف میں ہلا رہا ہے سر
لکھا ہے تختیوں پہ نام موسمِ بہار کا
وہ بے کراں سی کیفیت سمائے کیسے شعر میں
صدی کا نام پوچھتا ہے لمحہ انتظار کا
خلوص جرم کی سزا خلوص قلب سے ملے
کہ اور حوصلہ بڑھے ترے گناہ گار کا
حیات بے مہار کو تو ارتکاز چاہیے
بلا سے رنگ اُڑ چکا ہے نقش اعتبار کا
بساطِ زیست پر انھیں کی چال کامیاب ہے
جنھیں کہ امتیاز ہے پیادہ و سوار کا
مظفرؔ اپنی راہ خود نکالنے کی دھن میں ہے
اگرچہ خوب علم ہے اسے ندی کی دھار کا
٭٭٭
راہ مسدود ہے اُڑ کے جاؤں کہاں
ہر طرف آسماں، آسماں، آسماں
راستے میں پڑا ایک اندھا کنواں
لڑکھڑانے لگی بادلوں کی زباں
میں یہاں ہوں، یہاں لاکھ چیخے کوئی
اس طرف سے وہی پی کہاں، پی کہاں
ایک ننھا ستارہ لرزتا رہا
رات پھیلی رہی بیکراں، بیکراں
مجھ کو ہر سانس پر قتل ہونا پڑا
جب لہو نے چڑھائی رگوں کی کماں
اپنی آواز بھی اجنبی سی لگے
آخر اس موڑ پر آلگی داستاں
سنگ باری وتیرہ کرو اور پھر
زندگی کو کہو کارِ شیشہ گراں
٭٭٭
ہر نفس ہر آہ کی ہم راز و ہمدم ہے ہوا
فکر میری باد گرد اور اس کی محرم ہے ہوا
میں کہ برگِ خشک تھا، مسند نشیں ہوں گھاس پر
دھوپ میری مملکت ہے میرا پرچم ہے ہوا
آؤ تم سے دوستی کر لوں، مصیبت میں ہو تم
آئنے پر زنگ لگنا چاہیے، نم ہے ہوا
کیوں کنارے پر کھڑے تالی بجاتے ہیں درخت
بادبانوں کی مدد کو آئیں، مدھم ہے ہوا
آکسیجن کی نلی سے سانس کیوں لیتا ہے وہ
اس کے محلوں میں تو خوشبوئے مجسم ہے ہوا
جل بجھے خرمن ہزاروں رنگ کی افراط سے
ایک تتلی کے لیے مصروف ماتم ہے ہوا
کس جگہ رہیے، کہاں دن کاٹیے، کیا کیجیے
گاؤں میں کیچڑ بہت ہے شہر میں کم ہے ہوا
٭٭٭
تیز رو ہم ہی ہر اک آبلہ پا سے نکلے
آگ چھالوں سے نکلتی ہے، بلا سے نکلے
پھر خلاؤں میں بکھر جائیں گے خوشبو کی طرح
ہم خلا گرد اگر قید ہوا سے نکلے
درد وہ قطرۂ شبنم ہے جو دریا دل ہو
اور خواہش کے سمندر ہیں کہ پیاسے نکلے
پھول کی جامہ تلاشی کا جو موقع آیا
سیکڑوں خنجر مسموم قبا سے نکلے
کس طرف جائیں صداؤں کو ترستے ہوئے لوگ
کوئی آواز کسی کوہِ ندا سے نکلے
شوق سے جاؤ مگر یاد ہمیں بھی رکھنا
راستہ جب نہ کوئی راہ نما سے نکلے
اے مظفر مرے نقاد نہ مانیں لیکن
سیکڑوں رنگ مری طرزِ ادا سے نکلے
٭٭٭
حالانکہ دھول آنکھوں میں وہم و گماں کی ہے
محسوس ہو رہا ہے لڑی کہکشاں کی ہے
اس کا بدن تو لمس کی فردوس بن گیا
اب میری انگلیوں کو ضرورت زباں کی ہے
ہر بلبلے کے پاس ہے اک اور بلبلہ
دم سادھ لیجیے کہ گھڑی امتحاں کی ہے
اس کو بھی توڑ دے نہ کہیں قامتِ نگاہ
سر پر جو ایک شکستہ سی چھت آسماں کی ہے
بکھری ہوئی ہے دھول خلاؤں میں ہر طرف
یہ بازگشت کس جرسِ کارواں کی ہے
اے جسم کے طلسم ابھی ٹوٹنا نہیں
اے روحِ نیم کش تری نیت کہاں کی ہے
کھنچ کر کچھ اور پاس مرے آ گیا ہے وہ
نا مہربانیوں میں ادا مہرباں کی ہے
تم ہی بتاؤ، لوگ یقیں کس طرح کریں
اتنی تو خواب ناک فضا داستاں کی ہے
محسوس ہو رہی ہے صدی سوچتی ہوئی
آواز تو مظفرؔ نازک بیاں کی ہے
٭٭٭
اے شدتِ احساس یہ تیرا ہی کرم ہے
ہر سمت مری موت کا سامان بہم ہے
اک رنگ نئے دور کی تصویر میں کم ہے
شہ رگ مری بے تاب ہے گردن مری خم ہے
منظور نہیں مجھ کو لکیروں کی فقیری
صحرا یہ نہ جانے کوئی لغزیدہ قدم ہے
میں سینۂ باطل پہ قلم تیز کروں گا
دنیا مرے درپے ہے تو مجھ کو بھی قسم ہے
ٹوٹے ہوئے تاروں کا پتہ مجھ سے نہ پوچھو
کچھ دیر سے بے وجہ مری آنکھ بھی نم ہے
شہکار کی تخلیق پہ اصرار بہت تھا
تکمیل پہ دیکھا تو مرا ہاتھ قلم ہے
ہر شعر ہے اس عہد کی منھ بولتی تصویر
اس باب میں دیوان مرا ساغرِ جم ہے
لکھتا ہے مظفر روشِ عام سے ہٹ کر
شہرت اسے درکار نہ رسوائی کا غم ہے
٭٭٭
کل ملا کر برا نہیں ہے وہ
دوست ہے، دیوتا نہیں ہے وہ
جو مرا حوصلہ بڑھاتا ہے
آپ کا نقش پا نہیں ہے وہ
چلنے والے ہی لڑکھڑاتے ہیں
آدمی ہے، ہوا نہیں ہے وہ
ہم کہ بیگانۂ مسرت ہیں
درد سے آشنا نہیں ہے وہ
جو ہواؤں کا رخ بدلتا ہے
مرغِ قبلہ نما نہیں ہے وہ
وار کرتا ہے چوٹ کھانے پر
گنبدِ بے صدا نہیں ہے وہ
آئنہ اور پشت آئنہ
غور سے دیکھ کیا نہیں ہے وہ
ہونٹ جس کے لیے ترستے ہیں
آج تک تو کہا نہیں ہے وہ
چشمِ تنقید پستہ قامت ہے
ورنہ اتنا بڑا نہیں ہے وہ
٭٭٭
جب مرے ہاتھ میں ظالم کا گریباں ہو گا
اس کے چہرے سے مرا درد نمایاں ہو گا
باغ منھ موڑے ہوئے، شاخ ہمیں چھوڑے ہوئے
زرد پتوں کا بگولہ ہی نگہباں ہو گا
پائے وحشت ہی مرا سست قدم ہے شاید
میرے گھر تک تو نہ محدود بیاباں ہو گا
اتنی تاثیر کسی بربطِ بے جاں میں کہاں
زیرِ مضراب کوئی تارِ رگِ جاں ہو گا
ورقِ زیست پہ اک نقشِ پریشانی ہوں
دیکھ کر مجھ کو مصور مرا حیراں ہو گا
آئنہ خانے میں محصور ہوا ہے جو شخص
کوئی تنہائی کا مارا ہوا انساں ہو گا
٭٭٭
کہاں تو پائے سفر کو راہِ حیات کم تھی
قدم بڑھایا تو سیر کو کائنات کم تھی
سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا
چراغ کی لو بلند تھی اور رات کم تھی
خیال صحرائے ذات میں اس مقام پر تھا
جہاں کہ گنجائشِ فرار و نجات کم تھی
وہ فردِ بخشش کہ جس کی تکمیل کی ہے میں نے
نگاہ ڈالی تو اس میں اپنی ہی ذات کم تھی
بہت ہنسے، خوب روئے، جی کھول کر جیے ہم
اگرچہ میعادِ ہستیِ بے ثبات کم تھی
ترے کرم سے بڑا تھا کچھ اعتقاد میرا
اسی لیے مجھ کو فکرِ صوم و صلوات کم تھی
بہاؤ پانی کی بوند پر خون کا سمندر
نہیں تو اک قطرۂ لہو سے فرات کم تھی
غزل مظفرؔ کی خوب تھی اس میں شک نہیں ہے
مگر تغزل کے نام پر ایک بات کم تھی
٭٭٭
اس کے ہاتھوں سے ندی خون کی جاری ہو گی
جس مصور نے مری نقل اُتاری ہو گی
ہاں تو کر وار اک ایسا کہ مزا آ جائے
آج موقع ہے تجھے، کل مری باری ہو گی
زرد پتوں کو گماں تھا کہ بگولا ہو گا
پھول نے ہنس کے کہا، بادِ بہاری ہو گی
ان گنت سنگ تراشوں نے بنامِ گوتم
اپنے احساس کی تصویر اُبھاری ہو گی
تو سمجھتا ہے کہ تشہیر کا باعث میں ہوں
مجھ کو شک تھا کہ تری عربدہ کاری ہو گی
جھوٹ کہتا ہوں تو دکھلائیں شگوفے اُڑ کر
ایک تتلی بھی سوا لاکھ پہ بھاری ہو گی
اے مظفر ہمیں تنقید کے معیار سے کیا
بھیڑ سے ہٹ کے غزل ہے تو ہماری ہو گی
٭٭٭
ہر مجرم کو، جو اپنی کالی کرتوتیں ڈھانک رہا ہو
یوں لگتا ہے جیسے کوئی اس کے اندر جھانک رہا ہو
میرا منّا پپّی لے کر اتنا آسودہ لگتا ہے
جیسے میری پیشانی پر چاند ستارے ٹانک رہا ہو
میں تو اس کی ذہنی قامت باتوں ہی سے بھانپ چکا ہوں
شاید وہ میری باتوں سے میری قیمت آنک رہا ہو
کچھ کا مکھن چھن جانے سے ملکی خوش حالی کو نسبت
ہو سکتا ہے جَو کھانے والا بھی مٹی پھانک رہا ہو
سچائی کی کھوج مظفرؔ وہ شاعر کیا کر سکتا ہے
جو ٹھرّے کے گھونٹ لگا کر اُلٹی سیدھی ہانک رہا ہو
٭٭٭
دامن پہ اپنے رقصِ شرر کون دیکھتا
خطرہ تھا دیکھنے میں ادھر کون دیکھتا
حالاں کہ زندگی نے تعاقب کیا بہت
لیکن پلٹ کے گردِ سفر کون دیکھتا
میں اوس ہوں تو مجھ پہ بھی پڑتی کوئی شعاع
اتنا سا التفاتِ نظر کون دیکھتا
ہر شخص کا بدن ہے جہاں خود سناں بدست
نیزوں پہ گھومتے ہوئے سر کون دیکھتا
ہو گا اگر مصورِ نقشِ سحر ہے وہ
بے نور تھا چراغِ سحر، کون دیکھتا
فرصت کسے جنابِ جگر کی طرح وہاں
نقش و نگارِ پردۂ در کون دیکھتا
سرکس دکھا رہے ہیں مظفرؔ جب اہلِ فن
بازار میں کمالِ ہنر کون دیکھتا
٭٭٭
اوپر جاتے وقت سراپا اپنا عالی شان لگا
جھولا جب نیچے کو پلٹا، منھ کو کلیجہ آن لگا
پیلی فصلیں کاٹ رہا ہوں کالے تلخ عقیدوں کی
جرم بزرگوں نے فرمایا، میرے سر بہتان لگا
لوہے کے اندھیر نگر میں ایکسانی سرگرداں ہے
اپنے دروازے پر کوئی چمکیلی پہچان لگا
آنگن میں یہ رات کی رانی سانپوں کا گھر، کاٹ اسے
کمرہ البتہ سونا ہے، کونوں میں گل دان لگا
کوئی منظر کوئی آہٹ، سناٹا دم گھونٹ نہ دے
شیشوں سے آنکھیں چپکا دے، دیواروں سے کان لگا
جس کو اپنا خون پلا کر میں نے پالا برسوں تک
لفظوں کا ملبوس پہن کر وہ جذبہ ان جان لگا
آج پڑھا ہے رومن شاعر کو پیغمبر کہتے تھے
آج مظفرؔ اپنا شاعر ہونا بھی اپمان لگا
٭٭٭
کھا نہ لے وحشت کہیں اندر ہی اندر کاٹ کر
ٹانگ لو دیوار پر صحرا کا منظر کاٹ کر
یاد کا کہرا نہ ٹوٹا سرد و جامد رات بھی
سوگئی جلتے ہوئے لمحوں کے چکر کاٹ کر
خون تیشہ باز کے سر سے ٹپکنا شرط ہے
دودھ خود ہی سامنے آئے گا پتھر کاٹ کر
اب کہاں روکے سے رکتے ہیں بدن کے زلزلے
روح زخمی ہو گئی ہے سوچ کے پر کاٹ کر
دوسرا گھر دیکھیے وہ بت پگھلنے سے رہا
خواہ اس کے سامنے رکھ دیجیے سر کاٹ کر
اب جو بٹوارہ ہوا تو مورتی بھگوان کی
بانٹ لی جائے گی دو ٹکڑے برابر کاٹ کر
چل رہی ہے ریگ کی آندھی سمندر کی جگہ
ہم جو ریگستان میں لائے سمندر کاٹ کر
لے لیا اعراب میں تجھ کو زمانے نے تو کیا
سوچ کوئی چال، تو بھی اے مظفرؔ کاٹ کر
٭٭٭
نہ خار و گل ہیں نہ غنچے بہار سے روشن
سبھی چراغ ہیں برق و شرار سے روشن
قدم قدم پہ ہے اک سنگِ میل ناکامی
یہ راستے ہیں ہمارے غبار سے روشن
ہماری آنکھ ستاروں پہ کس طرح ٹھہرے
حباب آسا ہے اپنے خمار سے روشن
پہاڑ جیسی سیہ رات ہم نے کر دی ہے
لہولہان بدن کے چنار سے روشن
ہوا کے آہنی پر ہیں، صدا کی نیلی آنکھ
ہر آشیانہ ہے بجلی کے تار سے روشن
ہر ایک سانس تری یاد سے معطر ہے
ہر ایک لمحہ ترے انتظار سے روشن
عجیب شے ہے مظفرؔ چراغِ فکر و نظر
کہ ہے سکون میں گل، انتشار سے روشن
٭٭٭
تارے بغیر ٹوٹے ہی پلکوں سے مڑ گئے
ہنسنے چلا جو میں تو مرے ہونٹ جڑ گئے
جب پارکی نگاہ نے فولاد کی سرنگ
شرما کے میری آنکھ سے منظر سکڑ گئے
بیساکھیاں ہٹاتے ہی تحریر گر پڑی
پر جھاڑ کر کتاب سے الفاظ اُڑ گئے
زخمی پرند جیسا پھڑکتا رہا خیال
قطرے مرے لہو کے قلم سے نچڑ گئے
ہم نے پلٹ دیا ہے مظفرؔ ہوا کا رُخ
کچھ مرغ ہائے قبلہ نما تھے کہ مڑ گئے
وہ ضبط و احتیاط کا منظر تھا سامنے
دلدل عقب میں اور سمندر تھا سامنے
دریائے خوں سے اٹھتے تھے سر، بلبلے نہیں
پل کی جگہ تنا ہوا خنجر تھا سامنے
بستی کو پھونکنے کے لیے آ رہے تھے لوگ
پٹری بدل گئے کہ مرا گھر تھا سامنے
کن کن رکاوٹوں سے نمٹنا پڑا مجھے
پردے میں سنگ میل کے، پتھر تھا سامنے
جھنجھلا کے اپنے عکس کو دو لخت جب کیا
راون کا ایک اور نیا سر تھا سامنے
ظلمت کی وادیوں میں جہاں تک نظر گئی
دھندلا سا ایک چاند برابر تھا سامنے
اُکتا گیا بصارتِ محدود کی قسم
دیکھا ہے جس طرف بھی، مظفرؔ تھا سامنے
٭٭٭
خلا میں خاک نہیں گردِ کارواں کے لیے
تو کیا جواز ہے بوسیدہ آسماں کے لیے
کتاب ختم ہوئی، حادثات جاری ہیں
ملا نہ صفحہ کوئی زیبِ داستاں کے لیے
ہر اک خیال میں احساس کے لیے نشتر
ہر ایک لفظ میں کانٹے مری زباں کے لیے
کہاں کہاں سے کیا کسبِ نور، مت پوچھو
کسی کی مانگ میں چھوٹی سی کہکشاں کے لیے
اساسِ زاویۂ خاص پر نگاہ جما
نہ دیکھ غور سے فوٹو کہاں کہاں کے لیے
تو چلتی پھرتی ہوئی لاش کی طرح جی لو
جو خودکشی کی اجازت نہیں اماں کے لیے
نہ قید کی کوئی میعاد ہی مقرر کی
نہ فرد جرم لگی قید جسم و جاں کے لیے
نہ بال و پر پہ ہے قابو نہ سمت کی پہچان
نکل تو آئے مکانوں سے لامکاں کے لیے
٭٭٭
ہر ایک شخص کسی ریشمی نقاب میں ہے
یہاں بچاؤ کی صورت ہی اجتناب میں ہے
نہ بحر میں نہ زمینوں کے انتخاب میں ہے
غزل کا زور کسی اور ہی حساب میں ہے
ہوا ہے نیم غنودہ گرے ہوئے پتو!
نکل چلو کہ ابھی گردباد خواب میں ہے
میں اپنا نامۂ اعمال خود ہی لکھتا ہوں
چنانچہ نیک عمل بھی مرا عذاب میں ہے
تو کیا جیوں کہ مرا نام ہی لغت میں نہیں
نہ آسمان سے اتری ہوئی کتاب میں ہے
ہر ایک موج ٹپکتی ہے سر وہیں آ کر
پناہ گیر ہوا جس جگہ حباب میں ہے
جو اس طرف سے گزر ہو تو پوچھتے آنا
کوئی کرن مرے حصے کی آفتاب میں ہے
کئی دنوں سے مظفرؔ ہے قیدِ برزخ میں
وہ حال ہے کہ سکوں میں نہ اضطراب میں ہے
٭٭٭
اندر جب آئے اُکتا کر باہر کے اندھیارے سے
سم سم کھلتے ہی کرنوں کے پھوٹ پڑے فوارے سے
موروثی اقدار کو تج کر ہم نے وہ تکلیف سہی
جیسے زندہ پاؤں کسی کے کاٹے جائیں آرے سے
پاس پھدکتی روشنیوں سے دامن تو بھر سکتے ہو
آنگن کا جگنو اچھا ہے دور چمکتے تارے سے
رقصاں ہے رگ رگ میں لیکن پہلا سا وہ رنگ کہاں
لوگ بہت پچھتائے اپنا خون بدل کر پارے سے
دھرتی کا یہ نٹ کھٹ بالک، گھر سے نا آسودہ سا
کھیل رہا ہے نیل گگن کے زہریلے غبارے سے
ٹہنی اپنی شاخ سے کٹ کر بانجھ بنجھوٹی سوکھی چیز
دریا نالا بن جاتا ہے کٹ کر اپنے دھارے سے
آگے دیکھ اور بھاگ مسلسل ورنہ مظفرؔ خیر نہیں
سر پر ننگی تلواریں ہیں پانْوں تلے انگارے سے
٭٭٭
گھما پھرا کے بھنْور انکشاف کرتا ہے
کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے
مزا تو جب ہے کہ ہم اس کو ناخدا کر لیں
ہوا کا رخ جو ہمارے خلاف کرتا ہے
یہ کائنات بھی ہے پرِّ کاہ اس کے تئیں
جو اپنی ذات سے خود انحراف کرتا ہے
لہو کی مار سے بچیے کہ جوش میں آئے
تو قطرہ قطرہ بدن میں شگاف کرتا ہے
جسے گناہ کی توفیق ہی نہ ہو تاعمر
اسے خدا نہ زمانہ معاف کرتا ہے
عجیب بھول بھلیاں ہے جستجو خود کی
ہر ایک نقشِ قدم اختلاف کرتا ہے
بلا سے گردِ تغزل مری غزل میں نہیں
جدید لہجہ گھٹن کو تو صاف کرتا ہے
٭٭٭
کالا پیلا کچھ تو کر
کاغذ گیلا کچھ تو کر
سمتیں پیسے دیتی ہیں
بندھن ڈھیلا کچھ تو کر
برف لگی رادھاؤں سے
تانڈو لیلا کچھ تو کر
ہر اولے پر چھن چھن چھن
سر پتھریلا کچھ تو کر
تھوک بھی چپ کی گھنگھنی یار
حیلہ ویلہ کچھ تو کر
باندھ بنا کر بیٹھ رہی
ماتا ٹیلا کچھ تو کر
ہر نیلاہٹ پست ہوئی
آگے نیلا کچھ تو کر
اینڈے بینڈے شعروں پر
جی شرمیلا کچھ تو کر
قاضی، ظوئے پیاسے ہیں
ٹھرّا ہی لا کچھ تو کر
٭٭٭
خون میں جب اژدہے پھنکارتے ہیں
تتلیوں کو پھول آنکھیں مارتے ہیں
رات بھر لگتے ہیں خود کو اجنبی سے
ہم کچھ اتنے روپ دن میں دھارتے ہیں
حادثوں سے ہے روانی زندگی میں
جیسے اڑیل بیل کو ٹٹخارتے ہیں
سر لگا کر داؤں پر اے بے دماغی
ہم ترے حق میں یہ بازی ہارتے ہیں
کیسے کیسے کھیل کرتی ہے ہوا بھی
بلبلے طوفان کو للکارتے ہیں
خود ہمارا جسم چھن چھن بولتا ہے
پھر بھی آئینوں پہ پتھر مارتے ہیں
ہوشیاری ہو کہ نادانی مظفرؔ
کھردرے پن پر تغزل وارتے ہیں
٭٭٭
بس ایک رات مرے گھر قیام کرتی جا
نہیں تو موجِ بلا تجھ سے میری کٹّی – جا
میں انتظار میں لیٹا ہوں کب سے ساحل پر
تِرانا بس میں نہیں ہے تو پھر ڈبو ہی جا
چڑھا ہے زہرِ خودی شیو کی پیروی کر کے
اب آنسوؤں کو بھی ایوبؑ کی طرح پی جا
وہ سوکھتی ہوئی شبنم پکارتی ہے اُٹھ
ہوا نے تیرے لیے گرد بھی اُڑا دی جا
کمان داروں سے سازش کہ تیر ترچھے ہوں
نگاہ کو یہ ہدایت ملی کہ سیدھی جا
کہاں ہے روٹھی ہوئی نیند، آخری شب ہے
میں سر سے پاؤں تلک آنکھ ہوں اب آ بھی جا
مٹا کے ہستیِ بے کار مجھ کو آگے بڑھ
ترے لحاظ سے تہمت بہت اٹھا لی، جا
٭٭٭
چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے
خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے
بے طرح کف در دہن ہے آج دریا ریت کا
آبلوں کی بھینٹ دے کر دیکھ شاید مان جائے
عہدِ نو میں سمتِ ممنوعہ نہیں ہے کوئی کھونٹ
شاہ زادہ جس طرح چاہے علی الاعلان جائے
قرمزی ساری پہن کر اس طرح جچتی ہے وہ
پھول اپنے سر کٹا دیں چاندنی قربان جائے
موَن سادھے، سانس روکے، دم بخود بیٹھے ہیں لوگ
ہر طرف تاریکیاں ہیں جس طرف بھی دھیان جائے
بے گناہی اور سیہ کاری کا چکر توڑ دو
جس کے سر بیٹھے کبوتر اس کے سربہتان جائے
شعر پر عائد ہوئے جغرافیائی دائرے
کوئی پرچہ اس طرف آئے نہ پاکستان جائے
٭٭٭
جہاں سکون کا لمحہ کوئی گزارا ہے
وہیں سے کوہِ ندا نے مجھے پکارا ہے
ڈبوئے گی مجھے بے تاب خواہشوں کی ندی
بدن ابھی سے کوئی ٹوٹتا کنارا ہے
مرے وسیلے سے تجھ تک نظر نہ پہنچے تو
مرا وجود بھی ناکام استعارا ہے
تمام زور مرا آئنے نے چھین لیا
کہاں سے رام نے بالی پہ تیر مارا ہے
تمام عمر گزاری ہے خارزاروں میں
خدا نے مجھ پہ صحیفہ نہیں اُتارا ہے
گہر کے ساتھ گیا آبرو کا موتی بھی
اگر صدف نے کہیں تہہ سے سر اُبھارا ہے
بجا کہ پھول گئے بادبان کی صورت
مگر ہوا کا سہارا کوئی سہارا ہے
٭٭٭
لوگ دھوکے میں ہیں جاں بہ لب کون ہے
رات کے تین بجتے ہیں، اب کون ہے
لیٹ کر حوض میں منھ چڑاتا ہے جو
غور سے دیکھ یہ بوالعجب کون ہے
سوچتے سوچتے اوس مرجھا گئی
پھول کی تازگی کا سبب کون ہے
میں نے بیمارِ شب کا جو قصہ کہا
صبح چیخی کہ یہ بے ادب کون ہے
اپنے کمرے میں روزن بناتا ہوں میں
دوپہر میں لگاتا نقب کون ہے
ہاتھ پھیلائے سورج کھڑا ہے وہاں
ورنہ پھر زیرِ دیوارِ شب کون ہے
سربلندی مری جان کو آ گئی
میرا رب کون ہے میرا رب کون ہے
٭٭٭
صاف کہتا ہوں مجھے ڈر کیا ہے
آپ کیا آپ کا خنجر کیا ہے
زندگی عالمِ برزخ تو نہیں
کوئی بتلائے یہ چکر کیا ہے
سر پہ جھیلو تو پتہ چل جائے
پھول کیا چیز ہیں، پتھر کیا ہے
میری تعریف؟ اگر میں پوچھوں
آپ کی آنکھ کا نمبر کیا ہے
در و دیوار پہ شعر اُگتے ہیں
اک تماشہ ہے مرا گھر کیا ہے
طیش میں بھینچ رکھی ہے مٹھی
ورنہ قطرے کو سمندر کیا ہے
زلزلہ اور کسے کہتے ہیں
کیا پتہ جسم کے اندر کیا ہے
کوئی چکنی سی غزل کہنی تھی
یہ خرافات مظفرؔ کیا ہے
٭٭٭
تھما ہے قافلہ مجھ ایک نقش پا کے سوا
کوئی نہیں ہے مرا ہم سفر ہوا کے سوا
وہ ایک چیز دھڑکتی ہوئی گئی جب سے
ہمارے سینے میں کچھ بھی نہیں خلا کے سوا
تو میں نے قفلِ قناعت لگا لیا منھ پر
کھلا ہے باب سخاوت مگر قضا کے سوا
ہر آئنے میں کمی ایک آنچ کی پائی
جہاں نما تھے سبھی، عکسِ آشنا کے سوا
مرے بیان پہ ایمان لائی ہے بستی
سبھی ہے یاد مجھے حرفِ مدّعا کے سوا
کسی کو مجھ سے عداوت نہیں زمانے میں
تمام لوگ مرے دوست ہیں خدا کے سوا
پتہ چلا یہ سمندر کھنگالنے کے بعد
صدف میں خاک نہیں ہے قطب نما کے سوا
در قبول پہ پھیلے ہوئے نظر آئے
تمام ہاتھ، مرے دست نارسا کے سوا
قدم بڑھاؤ مظفرؔ سنبھال کر نیزے
کہ راستہ ہی نہیں راہِ کربلا کے سوا
٭٭٭
شہر بھر میں کہیں رونق تھی نہ تابانی تھی
ہر طرف چھائی ہوئی گرد پریشانی تھی
جب سرابوں پہ قناعت کا سلیقہ آیا
ریت کو ہاتھ لگایا تو وہیں پانی تھی
سادہ لوحی مری رکھتی تھی توقع تجھ سے
مجھ سے اُمید لگائے تری نادانی تھی
کیا بتاؤں کہ اسے دیکھ کے حیراں کیوں ہوں
ایک آئنہ تھا، آئنے میں حیرانی تھی
اب ندامت کے سمندر میں لگائیں غوطے
آرزوؤں نے کہاں بات مری مانی تھی
مختصر اس کو کیا ہے متبسم ہو کر
ورنہ روداد مرے درد کی طولانی تھی
اے مظفرؔ مجھے تا عمر رہی فکرِ سخن
جب کہ فرصت تھی میسّر نہ تن آسانی تھی
٭٭٭
زمینیں سخت ہیں مجھ پر خفا ہے آسماں مجھ سے
مری بے دست و پائی ہٹ کے جائے کہاں بھی مجھ سے
ہر اک قطرے کی پیشانی پہ یہ تحریر کندہ ہے
کہ بحرِ بے کراں سے میں ہوں، بحرِ بے کراں مجھ سے
مثالِ نقشِ پا بیٹھا ہوں، اٹھتا ہوں نہ مٹتا ہوں
مجھے دیکھو، ہوئی تھی ابتدائے کارواں مجھ سے
کوئی آئے نہ آئے انجمن آباد ہے میری
خدا کے واسطے چھینو نہ یہ تنہائیاں مجھ سے
میں خود اپنا ہی افسانہ زباں پر لا نہیں سکتا
سنی جائے گی پھر کس طرح تیری داستاں مجھ سے
تماشہ دیکھنے در آئی ہیں موجیں سفینے میں
مجھے غرقاب کرتا ہے لپٹ کر بادباں مجھ سے
مظفرؔ پر شکستہ ہوں مگر وہ پرشکستہ ہوں
کہ سہمی جا رہی ہے وسعتِ کون و مکاں مجھ سے
٭٭٭
چکا چوندھ نے لوٹ لی روشنی
سنبھالو مجھے روشنی روشنی
اُبھر آئے سائے کے نقش و نگار
اچانک جو مجھ پر پڑی روشنی
اندھیری گپھا میں لٹا دیجیے
مجھے ڈس گئی ہے مری روشنی
کھٹکتی رہی آنکھ میں رات بھر
خلاؤں میں بکھری ہوئی روشنی
بھٹکتی ہیں آوارہ پرچھائیاں
نہ جانے کہاں چھپ گئی روشنی
چراغوں کی بستی میں ڈھونڈھا بہت
کہیں بھی ذرا سی نہ تھی روشنی
مظفرؔ کی دنیا میں اندھیر تھا
قلم سے ٹپکتی رہی روشنی
٭٭٭
اس ایک بات میں ہے مری داستاں میری
سنیے تو سر سے پاؤں تلک ہوں زباں تمام
در آئے چور، چاند کا دروازہ کھول کر
دن بھر دھواں دھواں سا رہا آسماں تمام
ہونٹوں پہ پھول، ہاتھوں میں خنجر لیے ہوئے
گھیرے مجھے کھڑے ہیں مرے مہرباں تمام
٭٭٭
بھڑکیلی تتلی کو چھو کے دیکھا تم نے
ہم تو پہلے ہی کہتے تھے دیکھا تم نے
اچھی خاصی دو آنکھیں لے کر پھرتے ہو
پھر بھی مانگے کی عینک سے دیکھا تم نے
آنے والے شہزادوں کی ٹھوکر کھانا
باز نہ آئے مڑ کر پیچھے دیکھا تم نے
دل کا چور وہیں آ کر پکڑا جاتا ہے
اپنا دامن سب سے پہلے دیکھا تم نے
تم پر اپنے گھر کی باتیں کیسے کھلتیں
جب دیکھا، مریخ سے آگے دیکھا تم نے
خوش فہمی اور دہشت مل کر سوچ رہے ہیں
میری جانب ہنس کر کیسے دیکھا تم نے
یار مظفر، اتنا کھل کر کہنے پر بھی
ناقد میری بات نہ سمجھے دیکھا تم نے
٭٭٭
تلخ باتوں کو ٹالنے والے
ہم نہیں شعر ڈھالنے والے
تو نے ساحل بھی ہاتھ سے کھویا
اے سمندر کھنگالنے والے
ایک اندھا کنواں تھا بستی میں
سیکڑوں ڈول ڈالنے والے
دلدلوں میں قیام فرما ہیں
مجھ پہ کیچڑ اچھالنے والے
راہ میں خار بھی تھے پتھر بھی
یعنی لاکھوں سنبھالنے والے
اک رمق جان مجھ میں اب تک ہے
ساری دنیا کو پالنے والے
میرا مقصد ہے تہہ میں رہ جانا
آپ موتی نکالنے والے
ہیں مظفر حریف آئنہ
آئینوں کو اجالنے والے
٭٭٭
اس طرح جو بنیاد سے انجان رہے گی
قدموں پہ ستونوں کے یہ چھت آن رہے گی
راتیں ہی غنیمت ہیں جھگڑتے تو ہیں کچھ لوگ
دن میں یہ گلی اور بھی سنسان رہے گی
سوچا تھا یہ کس نے کہ نئے دور کی بستی
افراد کی بہتات سے ویران رہے گی
دروازہ ہی ہو گا نہ کوئی نام کی تختی
آئندہ مرے گھر کی یہ پہچان رہے گی
خم ہونے سے بڑھ کر نہیں سر کی کوئی توہین
ہاں کج کلہی میں تو ذرا شان رہے گی
ہمسائے کے گھر آئی ہوئی ہے جو قیامت
کچھ دن کے لیے میری بھی مہمان رہے گی
تہذیب کی ناخن پہ نظر ہے تو مظفر
اندر سے جبلت مری حیوان رہے گی
٭٭٭
جسم میں محسوس ہوتا ہے خلا سا
روح میں آیا ہوا ہے زلزلہ سا
دھڑ ہمارا خواہشوں کی آگ میں ہے
سر ہے نیزے پر شہید کربلا سا
کہنہ عمری میں بھی یاد آتی ہے اکثر
ایک لڑکی، نام تھا اس کا بھلا سا
میں شہادت کے لیے پھر مضطرب ہوں
خون کی ہر بوند میں ہے ولولہ سا
آگہی نے مار ڈالا، ورنہ میں تھا
فطرتاً کچھ شوخ سا کچھ منچلا سا
میں خود اپنی ذات پر ٹوٹی قیامت
پھر مرا ماحول، گردابِ بلا سا
میرا ہر اک شعر ہو گا اے مظفر
بے محابا، با تاثر، برملا سا
٭٭٭
ڈوبتا ہوں، نکالنا بابا
کوئی ہو تو سنبھالنا بابا
آنکھ والو ہماری جھولی میں
کھوٹے سکے نہ ڈالنا بابا
خیر ہو، ایک رس بھری مسکان
اس طرف بھی اچھالنا بابا
مجھ میں امرت کہاں کہ صحرا ہوں
جا سمندر کھنگال نا بابا
سو مصیبت کی اک مصیبت ہے
شعر میں غم کو ڈھالنا بابا
جوش کھا کر تو دودھ بہتا ہے
خون کو کیا ابالنا بابا
ہم نے جرمِ خلوص بخشا، جاؤ
اب نہ یہ روگ پالنا بابا
اے مظفر، گھنے ہیں سناٹے
تو ہی کچھ بول چال نا بابا
٭٭٭
ان سے تعلقات نہیں ہیں کھلے ہوئے
اور قطرہ ہائے خوں ہیں کہ ضد پر تلے ہوئے
اے جوئے شیر، تیشۂ فرہاد کی قسم
دیکھے ہیں میں نے دودھ میں پتھر دھلے ہوئے
اک وار بھی سہا نہ گیا مخلصین کا
ہم لوگ آدمی نہ ہوئے بلبلے ہوئے
یوں بھیڑ میں چھپی ہے مری انفرادیت
جس طرح ریگ زار میں موتی رلے ہوئے
دورانِ فکرِ شعر یہ فرصت کہاں کہ ہم
الفاظ لائیں شہد و شکر میں گھلے ہوئے
٭٭٭
کھلا سچ، پاک دل، گفتار ننگی
مری گردن پہ ہے تلوار ننگی
گھنی شب کے بھروسے، صبح صادق
کھڑی ہے جھیل کے اس پار ننگی
بدن ایسا کہ نازک پھول جیسے
زباں ایسی کہ نوکِ خار ننگی
تو پھر مچھلی کی عریانی بجا ہے
ندی ننگی، ندی کی دھار ننگی
تری تصویر کمرے سے ہٹا دوں
مگر ہو جائے گی دیوار ننگی
وہ ایسے زاویے سے اوٹ میں ہے
نظر آتی ہے مجھ کو جھار ننگی
بدن تو دوستوں نے بانٹ کھایا
چلی چل ہستیِ غدار ننگی
وہی لفظوں کی چادر اے مظفرؔ
غزل کہنی تھی میرے یار، ننگی
٭٭٭
اچھال خون کہ بند حیات کٹ جائے
بلا سے سلسلۂ کائنات کٹ جائے
ہمیں غبار اڑانا ہے راستے بھر میں
ہماری راہ سے ہر با صفات کٹ جائے
ہزار مل کے صداؤں پہ آسمان اٹھائیں
کسی کی جنبش ابرو سے بات کٹ جائے
کہا گیا کہ اگر بے گناہ سر نہ کٹیں
تو کربلا کی حدوں سے فرات کٹ جائے
اس آرزو کا ثمر ہے یہ آگ اگلتا دن
کہ تلخ و سرد و خطرناک رات کٹ جائے
خبر ملی کہ اسی بات میں ہے لطف غزل
وہ ایک بات کہ لکھیے تو بات کٹ جائے
٭٭٭
نہ شیروں کا ڈر تھا نہ چیتوں کا ڈر
مجھے کھا گیا لال فیتوں کا ڈر
پڑوسی کی آنکھ اور کنبے کی ناک
رواجوں کا اندیشہ، ریتوں کا ڈر
وہ سر تا قدم برف ہے، کیوں ڈرے
کہ بارود ہو تو فلیتوں کا ڈر
ملے ہونٹ دو چوڑیوں کی طرح
نہ دشنام کا ڈر نہ گیتوں کا ڈر
مظفرؔ خدا سے بڑا کون ہے
یقیناً خدا کے چہیتوں کا ڈر
٭٭٭
’’چل مرے خامہ بسم اللہ‘‘
اپنی آڑی ترچھی راہ
خود کی الجھن کیا کم ہے
کس کی کون کرے پرواہ
سب منہ پھاڑے بیٹھے ہیں
بڑھنے والی ہے تنخواہ
بازاروں میں چیزیں کم
سر ہی سر تا حدِ نگاہ
دشمن باون گز کے ہیں
اونچی رکھیو شہر پناہ
جو پلٹے سو پتھر کا
چلتے جا با حالِ تباہ
مٹھس محفل، جدتِ فن
شعر پہ کوئی آہ نہ واہ
٭٭٭
گمراہی میں فرد بھی نہیں ہے
وہ صحرا نورد بھی نہیں ہے
کب تک وہ ہوا سے لڑ سکے گا
میدانِ نبرد بھی نہیں ہے
کس منہ سے کسی کے پاس جائیں
سینے میں تو درد بھی نہیں ہے
دھندلا سی گئی ہے اس کی صورت
تصویر پہ گرد بھی نہیں ہے
بے صحن کا گھر، یہ صنعتی شہر
اور رات کہ سرد بھی نہیں ہے
پت جھڑ ہے کہ آ لگی ہے سر پر
پتہ کوئی زرد بھی نہیں ہے
کہنے کو بہت ہے اور مصرع
اتنا پامرد بھی نہیں ہے
٭٭٭
بات مری زہریلی ہو گی
لیکن مٹی گیلی ہو گی
وہ تو نکلی آگ بگولہ
میں سمجھا شرمیلی ہو گی
ہم گردن تبدیل کریں گے
جس دن رسی ڈھیلی ہو گی
سگرٹ سے پہلے پوچھا تھا
ماچس کی اک تیلی ہو گی
آخر آخر یہ ہریالی
دھانی ہو گی، پیلی ہو گی
بستر نے اعلان کیا ہے
رات بڑی برفیلی ہو گی
جو بھی سچ کے گھونٹ بھرے گا
اس کی رنگت نیلی ہو گی
میرا فن تجرید مظفرؔ
اور غزل تمثیلی ہو گی
٭٭٭
تمھیں بتاؤ بہ ایں قیل و قال کیا ہو گا
قدم بڑھا کے نہ سوچو مآل کیا ہو گا
وہ آگہی کہ بلندی نظر سے گر جائے
اب اس زوال سے بڑھ کر زوال کیا ہو گا
مجھے تو خیر سے عادت ہے صاف گوئی کی
مگر نتیجۂ اظہارِ حال کیا ہو گا
جو ہو سکے تو مجھے خوں بہا عنایت ہو
جنابِ من! عرقِ انفعال کیا ہو گا
بڑھو کہ دشت طلب سے غبار اٹھتا ہے
سوال جاں سے زیادہ سوال کیا ہو گا
مری نگاہ میں وقعت نہیں زمانے کی
تو میرے باب میں اس کا خیال کیا ہو گا
سسک رہی ہے پر اسرار چاندنی میں رات
جمال یہ ہے تو اس کا جلال کیا ہو گا
وہ دو گھڑی کے غموں کا عوض عطا کر دے
حسابِ سلسلۂ ماہ و سال کیا ہو گا
شکستہ حال مظفرؔ پہ طنز مت کیجے
جو دو قدم نہ چلے گا نڈھال کیا ہو گا
٭٭٭
اک نظر اس نے ڈال دی مجھ پر
نرم چادر سی آ پڑی مجھ پر
برف بن کر پڑا ہوا تھا میں
دھوپ بن کر وہ بچھ گئی مجھ پر
شاہ راہوں پہ نام تھا میرا
بند ہے آج ہر گلی مجھ پر
بیکسی پر جو مسکراتا ہوں
کھلکھلاتی ہے بیکسی مجھ پر
میں ہی خوش فہمیوں کی زد پر تھا
ایک بھی آنکھ تو نہ تھی مجھ پر
دن کی حسرت حصار ظلمت میں
روشنی پھینکتی رہی مجھ پر
جب کسی کی بھی عیب پوشی کی
انگلیاں اٹھ گئیں کئی مجھ پر
جانے کیا چیز گرتی رہتی ہے
خون کے آبشار سی، مجھ پر
میں مظفر کو کیوں کروں تسلیم
اس نے کوئی غزل کہی مجھ پر
٭٭٭
مجھے تو گردن کا قرض اک دن اتارنا تھا
لہو کو کچھ کام ہی نہ تھا، جوش مارنا تھا
مری نظر میں تو شاہِ شطرنج تھا مقابل
کسی طرح گھوم پھر کے بازی کو ہارنا تھا
بلا لیا ایک اور موجِ بلا کو میں نے
کہ غرق ہوتے ہوئے کسی کو پکارنا تھا
نہیں رہا سر تو کیا، کہ گھٹتی تھی سانس میری
مجھے بہ ہر حال خود کو تہہ سے ابھارنا تھا
چراغ کیوں بجھ گیا پتنگوں پہ رحم کھا کر
انھیں تو جل جل کے رنگ اپنا نکھارنا تھا
زمین کی بات سوچنا پستی نظر تھی
خلاؤں کی زلفِ پرشکن کو سنوارنا تھا
برا کیا یک قلم مظفر کو قتل کر کے
اسے کسی سرد و کند خنجر سے مارنا تھا
٭٭٭
آئنہ چمکا رہا ہے دور سے
میں نہا جاتا ہوں اس کے نور سے
اب اتر آؤ فرازِ طور سے
کون پہچانے گا اتنی دور سے
جان کو آ جائے گی میری انا
مجھ کو ہمدردی نہیں منصور سے
بیڑیوں کے داغ سے کیسی مفر
عمر بھر چپکے رہے مفرور سے
اختیاری شے نہیں ہے صبر بھی
پوچھئے جا کر کسی مجبور سے
استعارے تجھ سے جو منسوب ہیں
نامکمل ہیں مگر بھرپور سے
اے مظفر رو میں ہے طبعِ رواں
رس ٹپکنے ہی کو ہے انگور سے
٭٭٭
کیا خواب تھا کہ سرد ہوئے شعلہ ہائے رنگ
بکھرے ہوئے تھے قوسِ قزح کے تمام رنگ
میرے مقابلے پہ ہیں کیا تیغ اور تفنگ
وہ چوب ہوں کہ جس سے بجاتے ہیں طبل جنگ
اس بار میں نے گردِ تعلق بھی جھاڑ دی
ڈر تھا کہ آ نہ جائے کہیں آئنے پہ زنگ
احساس ہو تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
سوچو تو لاکھ خون بہانے کے عذرِ لنگ
اس حادثے کو ایک زمانہ گزر گیا
یادش بخیر مجھ میں بھی جینے کی تھی امنگ
وہ کارگاہِ شیشہ گری تھی بقول میرؔ
جس نے کہ چور چور کیا میرا انگ انگ
کیسا طلسم معرکۂ کارزار ہے
کانوں میں گونجتی ہے صدائے رباب و چنگ
پچھتا رہا ہے ڈور عداوت کی توڑ کر
اب اس کا حال یہ ہے کہ جیسے کٹی پتنگ
افسردہ شعر کہہ کے مظفر گزر گیا
فطرت سے یہ زمین تھی خوش رنگ و شوخ و شنگ
٭٭٭
سرد و تاریک خلا تھی اوپر
جو رسائی سے سوا تھی اوپر
بیچ میں عالم برزخ سا میں
آب نیچے تھا، صبا تھی اوپر
چادر شب میں لرزتا تھا سکوت
اور یلغارِ صدا تھی اوپر
وہ تہہ آب یہیں بیٹھی تھی
میں سمجھتا تھا قضا تھی اوپر
زیر دیوار سسکتا تھا کوئی
خامشی نغمہ سرا تھی اوپر
راز مٹھی میں دبے تھے سارے
صرف تحریرِ حنا تھی اوپر
خوف ہمراہ مرے خندق میں
سر پہ اک موجِ بلا تھی اوپر
سیکڑوں دیکھنے والے خوش تھے
ایک ہی ماہ لقا تھی اوپر
کتنا آرام ہے تہہ خانے میں
کس قدر گرم ہوا تھی اوپر
میں تو زینہ ہوں مظفر ان کا
جا رہے ہیں مرے ساتھی اوپر
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں