FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

طرزِ بیاں

 

 

 

شبیر باقدؔ

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

ISBN: 978 969 7578 60 3

 

 

 

 

انتساب

 

رندانِ مینائے غزل کے نام

 

 

 

 

تمنائے نزولِ طرب

 

شبیر ناقدؔ کا شمار اساتذۂِ فن میں ہوتا ہے۔ وہ ایک قادر الکلام اور پُر گو شاعر ہیں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے پہلے ماشاء اللہ تیس عمدہ شعری و نثری کتابوں کے مصنف بن چکے ہیں۔

شبیر ناقدؔ کی تیسویں کتاب، شعری مجموعہ کی شکل میں ’’طرزِ بیاں‘‘ کے نام سے میرے ہاتھوں میں ہے۔ اچھی اور عمدہ شاعری کے لیے طرزِ بیاں کا سادہ اور آسان فہم ہونا وصفِ خاص مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ سے لے کر ضلعی حکومتوں تک اور تحصیل کونسلوں سے ٹاؤن کمیٹیوں تک ساری حکومتیں عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے لگاتار مصروف ہیں۔ ان سب کے درمیان ایک ہی کارِ مشترک ہے کہ عام انسان کے معیارِ زندگی کے گراف کو کیسے بلند اور بہتر بنایا جائے۔ ہماری مقدس کتاب قرآن عظیم الشان کے مرکزی مضمون کا خلاصہ اگر ایک ہی لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ہے ’’انسان‘‘۔

اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہی اصول ادب اور ادیب پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ادبی موشگافیاں اور فنی چابکدستیاں جہاں ایک عام آدمی کو بالواسطہ طور پر متاثر کرتی ہیں وہاں ایک سہل اور آسان فہم اسلوب سے عوام بلا واسطہ مستفید ہوتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ نے اپنے مجموعۂ کلام ’’طرزِ بیاں‘‘ میں خواص کی روش سے ہٹ کر عوام کے قریب تر ہونے کی کوشش کی ہے۔ وہ کبھی ایسے شعر نہیں کہتے جنہیں اہلِ دنیا سمجھ نہ پائیں۔ چونکہ ان کے قریب ترین معاشرے کے عوام مفلوک الحال، مجبور، پسماندہ اور ناخواندہ ہیں، لہٰذا ان کی شاعری بھی نغمۂِ عشرت نہیں بلکہ اس میں  آہ و فغاں کی آمیزش ہے۔ شبیر ناقدؔ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے وہاں بھی محبت کے گیت گائے ہیں جہاں آج تک کوئی مغنی غزل سرا نہ ہوا۔

شبیر ناقدؔ کے مجموعۂ کلام ’’طرزِ بیاں‘‘ میں مجھے سوانحی رنگ نمایاں نظر آتا ہے اور یہ رنگ ذاتی تجربات، مشاہدات، احساسات اور تحرکات سے عبارت ہے۔ یہ جگ بیتی بھی ہے اور آپ بیتی بھی جو اپنے اندر جہان کے تمام میلانات، مصائب و آلام کو یوں سموئے ہوئے ہے کہ مختصر عرصہ کے لیے ست رنگی پینگھ یعنی قوسِ قزح کا منظر نامہ بنا دیتی ہے۔ جب اس قوسِ قزح کے رنگ آپس میں جذب و تحلیل ہونے لگتے ہیں تو دلکشی کا وہ سامان فراہم کرتے ہیں کہ انسان تحیر کے بحرِ بیکراں میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ پھر یہ رنگ رفتہ رفتہ ایک نئی صورت اور نئے روپ میں نمودار ہوتے ہیں جس سے نہ آنکھیں چندھیاتی ہیں اور نہ دل بھرتے ہیں۔ یہ کیفیت کسی نئی دنیا کا پتہ دیتی ہے اور کسی اور صبح کی نوید لے کر آتی ہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ شبیر ناقد کی شاعری میں حزن و یاس کا عالمِ پیر مر رہا ہے اور امید و شادمانی اور سرخوشی کا جہانِ نو اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔ بطور استشہاد شبیر ناقدؔ کے چند اشعار:

دنیا کے اس باغ میں ہم نے

کانٹے صرف چنے ہیں یارو

 

ہیں صدیوں سے پیاسے مرے ہونٹ ساقی

ملی تشنگی مجھ کو ہر آب جُو سے

 

طبیعت شرارت سے عاری ہے میری

کسی مہ جبیں کو بھی چھیڑا نہیں ہے

 

ہر حالت میں  راضی ہوں

چاہے جتنے بھی غم ہوں

 

ایک دنیا نئی بساؤں گا

تیری محفل سے روٹھ جاؤں گا

جو بھی آئے گا چین پائے گا

بزمِ یاراں کو یوں سجاؤں گا

شبیر ناقدؔ کو اس مجموعۂ کلام کے حوالے سے اگر جانچا اور پرکھا جائے تو وہ کوئی اناڑی کھلاڑی نظر نہیں آتے بلکہ اس قدر ماہر و مشاق ہیں کہ معاشقے بھی کرتے ہیں اور ان کے ثبوت بھی نہیں چھوڑتے۔ قسم خدا کی اگر اُن کی جگہ پر میں ہوتا تو پہلے ہی قدم پر پکڑا جاتا۔ شبیر ناقدؔ اپنی شاعری میں اپنے معاشقے کا راز افشا کر ہی رہے تھے تو دو چار میں  ان کی تعداد بھی بیان کر دیتے:

ثبوت ہرگز نہ مل سکے گا کبھی بھی میرے معاشقے کا

یقین کر لو یہ سچ ہے لیکن کمال ہے میرے تجربے کا

شبیر ناقدؔ کی پہچان جہاں اس مجموعہ میں سچی اور سُچی شاعری ہے، وہاں یہ شاعری ان کے کھرے اور پر خلوص جذبات کی عکاس بھی ہے۔ وہ بے لوث محبت کرنے والے انسان ہیں۔ عبادت کرتے ہیں تو اس میں بھی خوف اور طمع کو داخل نہیں ہونے دیتے۔ وہ ایک طرف ایسی پارسائی کے خلاف ہیں جہاں سجدے خدا کے حضور کیے جا رہے ہوں اور دل حوروں کی جانب مائل ہوں۔ دوسری جانب یہ بھی انہی کے الفاظ ہیں کہ اے مالک! اگر اس دنیا میں تو عورت کو دل کش نہ بناتا تو دنیا کو کیسے سجاتا؟

شبیر ناقدؔ کا اضطراب اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب انہیں وقت کی کمی کا شدید احساس ہوتا ہے اور وہ سفینۂِ حیات کو ساحل کنارے سمجھتے ہوئے اپنے نیون کے سارے کام مکمل کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمرِ خضر عطا کرے، انہیں صحت و سلامتیِ ایمان کے ساتھ رکھے اور ہر اس محفل میں جہاں وہ موجود ہوں، خوشیوں کا نزول فرمائے۔ جہاں یہ شبیر ناقدؔ کی تمنا ہے، وہاں مجھ فقیر کی دعا بھی۔

نازل ہوں  خوشیاں اُس پر

جس محفل میں  بھی ہم ہوں

شکیل احمد

تونسہ شریف ( 8اکتوبر 2018ء)

 

 

 

 

 

حمدِ باری تعالیٰ

 

زمیں آسماں تیری مدحت کناں ہے

ترے دم سے قائم یہ سارا جہاں ہے

کیے تو نے روشن ہیں شمس و قمر بھی

ہیں  تیری بدولت سبھی بحر و بر بھی

ہے تو پورے عالم کا روزی رساں بھی

تو دیتا ہے روزی میں جاؤں جہاں  بھی

تو منعم ہے جگ پر ہیں احسان تیرے

ضمانت ہیں رفعت کی فرمان تیرے

ترا ذکر ٹھہرا ہے میری عبادت

کرے گا یہی روزِ محشر شفاعت

 

 

 

 

 

 

دعاؤں میں مولا اثر مانگتا ہوں

میں خود دشت میں ہوں نگر مانگتا ہوں

 

رہوں جس کے سائے میں شاداں و فرحاں

وہ سر سبز تجھ سے شجر مانگتا ہوں

 

سدا مجھ پہ خوشیاں نچھاور کرے جو

میں وہ مہرباں چارہ گر مانگتا ہوں

 

ہمیشہ شریکِ غم و رنج ہو جو

میں ایسا کوئی ہم سفر مانگتا ہوں

 

مجھے اور ناقِدؔ نہیں کچھ ضرورت

بصد عجز نورِ نظر مانگتا ہوں

 

 

 

 

 

 

سدا ہے مجھے روزِ محشر کا غم

اسی واسطے چین پاتا ہوں کم

 

بہت مضطرب ہوں کہ عاصی ہوں میں

ترا کاش ہو جائے مجھ پہ کرم

 

کدورت نہ ہو کیوں جہاں سے مجھے

زمانے نے مجھ پہ کیے ہیں ستم

 

مسلسل بڑھی ہے مری بے کلی

گیا روٹھ جس دن سے میرا صنم

 

ملے کیسے ناقِدؔ مسرت مجھے؟

ازل سے ہے میرا مقدر الم

 

 

 

 

غموں نے کئی روپ جیون میں دھارے

بدن سوختہ ہے جگر کے ہیں پارے

 

ہمیشہ رہا ہے بھنور میں سفینہ

نہیں دیکھے اس نے کبھی بھی کنارے

 

یہاں لوگ سارے پریشاں پریشاں

کسی کی کوئی کیسے قسمت سنوارے؟

 

مری جان لگتے ہو کچھ مضطرب سے

ہیں بدلے ہوئے آج تیور تمہارے

 

نہ گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ ہے ان کا

مرے مولا جائیں کہاں غم کے مارے؟

 

سدا کرب میں زیست ناقِدؔ گزاری

نہ دے پائے راحت مقدر ہمارے

 

 

 

نظر نظر میں ملال سا ہے

محبتوں کو زوال سا ہے

 

نہیں مجھے اور کچھ تمنا

مجھے تیرا ہی خیال سا ہے

 

ہے دور دورہ سا بے حسی کا

خلوص و الفت کا کال سا ہے

 

تری جدائی کا ایک دن بھی

مری نگاہوں میں سال سا ہے

 

خبر بھی ہے تجھ کو اس کی ناقِدؔ

جو تیرے دکھ میں نڈھال سا ہے

 

 

 

 

 

بوجھ زمیں کا ہم ہیں یارو

پاس ہمارے غم ہیں یارو

 

ہر دم سوز گداز میں غلطاں

دکھ اپنے کب کم ہیں یارو؟

 

برسوں کی مہمان ہے غربت

آنکھیں بھی پرنم ہیں یارو

 

کیوں اعراض کرے نہ دنیا؟

اپنے ساتھ الم ہیں یارو

 

ناقِدؔ کے دل کی محفل میں

سارے درد بہم ہیں یارو

 

 

 

 

 

 

تیری الفت کی یہ ایک سوغات ہے

میری آنکھوں میں اشکوں کی برسات ہے

 

ایسا بے کل کیا ہے ترے پیار نے

یہ خبر بھی نہیں دن ہے یا رات ہے

 

دہر کی کچھ سمجھ مجھ کو آتی نہیں

مجھ کو درکار کشف و کرامات ہے

 

ہے مری زندگی کرب کی زندگی

مجھ پہ طاری سدا ایک سکرات ہے

 

کارگر جس کی کوئی بھی کاوش نہیں

اس کے ہونٹوں پہ حرفِ مناجات ہے

 

ناقِدِؔ بے نوا کیسا ذوقِ سکوں

تو کہ مرہونِ امواجِ ظلمات ہے

 

 

 

 

 

رہا تیرگی میں کوئی عمر بھر

پسِ مرگ پہنچی نویدِ سحر

 

مرے ساتھ ہر دم رہی بے کسی

نہ مونس بنا کوئی بھی چارہ گر

 

مصائب سے بوجھل مری زندگی

نہ ہو کیوں پریشاں مرا ہم سفر

 

بڑے مجھ پہ احساں ہی اس ذات کے

وہ آقا وہ مولا وہ نورِ نظر

 

ہمیشہ دکھوں سے تعلق رہا

مرا دل تھا ناقِدؔ غموں کا نگر

 

 

 

 

 

رہوں کرب میں ہے اسی کی مشیت

مرا زندہ رہنا بھی ہے اک اذیت

 

اجاگر کرے کوئی کیسے حقیقت؟

ہے کم ہی دلوں کو یہ جذبہ ودیعت

 

سکوں کیسے بھٹکے بھلا پاس میرے؟

زمانے نے کر دی مکدر طبیعت

 

سیہ کار لگتی ہے خلقت عموماً

کسی کو کرے کوئی کیسے نصیحت؟

 

کریں گے ستم یاد اپنے وہ ناقِدؔ

اٹھائیں گے کاندھے پہ جب میری میت

 

 

 

 

 

کرب میں ہر دم جیون اپنا

پیہم حال اجیرن اپنا

 

آگ لگی ہے میرے من میں

ہر پل سوزاں ہے تن اپنا

 

بربادی نے ڈیرے ڈالے

کب سے ویراں گلشن اپنا

 

برسوں کی مہمان ہزیمت

آگ کا بھاگ نشیمن اپنا

 

اپنی ہستی کیا ہے ناقِدؔ؟

روگ کا مسکن ہے من اپنا

 

 

 

 

 

غزل اس پری رو پہ میں اک لکھوں گا

رقم جس میں رودادِ الفت کروں گا

 

مجھے لے چلو کوئے جاناں کی جانب

جہاں سے یہ چلتے ہوئے میں کہوں گا

 

مرے لب پہ رقصاں سدا ذکر تیرا

میں مرتے ہوئے بھی ترا نام لوں گا

 

مسرت مجھے بیکراں ہو گی حاصل

خبر تیری آمد کی جب بھی سنوں گا

 

یہی بات میری سمجھ حرفِ آخر

ترے سنگ ناقِدؔ جیوں گا مروں گا

 

 

 

 

 

 

 

 

مجھے پاس اپنے بلا اے پری رو!

گلے سے مجھے تو لگا اے پری رو!

 

ترے پیار نے اب کہیں کا نہ چھوڑا

کہ رسوا ہوئے بارہا اے پری رو!

 

ترے ہجر سے جان سوزاں ہے میری

سکوں کا کوئی جام لا اے پری رو!

 

بہت مضطرب اور بے چین ہوں میں

محبت کا نغمہ سنا اے پری رو!

 

ملی ہے مجھے پیار میں استقامت

اگر چاہے تو آزما اے پری رو!

 

مقدر مرا بے کلی بے قراری

یہ ہے کرب کی انتہا اے پری رو!

 

ہوا ہے گراں بار ناقِدؔ پہ جیون

ترے عشق کی ہے عطا اے پری رو!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

٭

دل سہما سہما رہتا ہے

نہ سنتا ہے نہ کہتا ہے

کوئی اور نہیں ہے کام اس کا

بس پیار کی رو میں  بہتا ہے

 

 

 

 

 

مجھے بوجھ سمجھے ہوئے ہے زمانہ

پریشان و مضطر ہے میرا فسانہ

 

اسے کیسے اب چارہ گر میں بناؤں؟

بنایا ہے جس نے ستم کا نشانہ

 

مرے طور سے ہم نشیں کیوں ہو نالاں

ازل سے ہے میری ادا عاشقانہ

 

حقیقی سبب بے رخی کا بتاؤ

عبث ہے مری جاں تمہارا بہانہ

 

سخن ور تو ناقِدؔ جہاں میں بہت ہیں

مگر تیرا انداز ہے کچھ یگانہ

 

 

 

 

 

چین سکون سے دور ہیں یارو

ہم بے حد مجبور ہیں یارو

 

کیسا کرم ہے اس کا ہم پر؟

برسوں سے مقہور ہیں یارو

 

بھاگ میں اپنے دار لکھی ہے

وقت کے ہم منصور ہیں یارو

 

پیہم حال اجیرن اپنا

ہر غم میں مذکور ہیں یارو

 

جن کی ہے پر درد کہانی

ناقِدؔ جی مشہور ہیں یارو

 

 

 

 

 

مشکلوں میں رہی زندگانی مری

کام آئی نہ کچھ رمز دانی مری

 

جب سنو گے پریشان ہو جاؤ گے

اس قدر دکھ بھری ہے کہانی مری

 

بے اثر کر دیا ہے ترے جبر نے

با زبانی بھی ہے بے زبانی مری

 

پیار سے میں نے تجھ کو نوازا سدا

گم نہ کرنا کہیں یہ نشانی مری

 

وہ اگر بخش دے پیار ناقِدؔ مجھے

پھر ہمیشہ رہے گی جوانی مری

 

 

 

 

 

دعاؤں میں اب وہ اثر بھی نہیں ہے

وہ پہلا سا تو چارہ گر بھی نہیں ہے

 

دیا چھوڑ جس نے سرِ راہ مجھ کو

وہ ظالم مرا ہم سفر بھی نہیں ہے

 

ملے جس میں خوشیوں کی سوغات ہر دم

کوئی ایسا دل کش نگر بھی نہیں ہے

 

جو واقف نہیں خوئے مہر و وفا سے

سنو وہ حبیب نظر بھی نہیں ہے

 

کڑی دھوپ میں ہی جلا ہوں میں ناقِدؔ

مقدر میں میرے شجر بھی نہیں ہے

 

 

 

 

 

خونِ دل سے لکھ رہا ہوں زندگی کی داستاں

جانے کس دن ہو مکمل بے کلی کی داستاں؟

 

میرا فن ہے اک سراپا نور کی منظر کشی

شعر کیا ہے فکر و فن سے آگہی کی داستاں

 

رازِ الفت منکشف کیسے نہ ہوتا جانِ جاں؟

تو نے لکھی میں نے لکھی دوستی کی داستاں

 

مختصر سے مختصر ہے میری چاہت کی حیات

چند لفظوں میں بیاں ہے عاشقی کی داستاں

 

رہ گیا قصہ ادھورا مجھ سے ناقِدؔ پیار کا

تشنۂ تکمیل سی ہے بے خودی کی داستاں

 

 

 

 

مری ہم سفر میری آوارگی ہے

مصائب سے بوجھل مری زندگی ہے

 

ہیں سب کی زبانوں پہ الفت کے دعوے

مگر سب کے دل میں کدورت بھری ہے

 

میں حیران ہوں کیسے جیون گزاروں؟

مری راہ روکے مری بے خودی ہے

 

نوازا نہیں اپنی قربت سے مجھ کو

مرے ساتھ کیسی تری دوستی ہے

 

نہیں کوئی دولت مرے پاس ناقِدؔ

فقط پاس میرے مری بے کلی ہے

 

 

 

 

 

سدا گیت میں نے محبت میں لکھے

ترے وصل میں تیری فرقت میں لکھے

 

کٹی ہے مری زندگی پیار میں ہی

شب و روز اشعار الفت میں لکھے

 

مرا فن ہے پرچار صدق و صفا کا

اسے لکھنے والا ریاضت میں لکھے

 

مرے ساتھ اس نے جو کی ہیں جفائیں

قلم کیسے ان کو مروت میں لکھے

 

محبت کا اظہار میرا سخن ہے

اسے میرا ناقِدؔ مودّت میں لکھے

 

 

 

 

 

مجھ کو ہر دم یاد ہو جاناں

من میں تم آباد ہو جاناں

 

میں جو ہوں دکھ سکھ کا ساتھی

کیوں اتنے ناشاد ہو جاناں؟

 

کیوں خاموش کھڑے ہو ایسے؟

کچھ تو اب ارشاد ہو جاناں

 

ہم اک دوجے میں پیوستہ

ہم سے کب آزاد ہو جاناں؟

 

ہر دم صبر کرے گا ناقِدؔ

ظلم نیا ایجاد ہو جاناں

 

 

 

 

میں کرتا ہوں گو کام دن رات یارو

نہیں اچھے پر میرے حالات یارو

 

نہیں میری قسمت میں خوش کام رہنا

ملے ہیں مقدر سے صدمات یارو

 

کہے برملا کیسے حق بات کوئی؟

بھلا کس کی اتنی ہے اوقات یارو؟

 

مرے ناخدا نے ڈبویا سفینہ

ہوئیں اس طرح کچھ عنایات یارو

بھلا کیسے افشا ہوں کچھ راز ہم پر؟

ہیں درکار کشف و کرامات یارو

 

وہ ظالم اگرچہ زباں کاٹ ڈالیں

میں پھر بھی کروں گا کھری بات یارو

 

شب و روز ہیں کرب میں میرے گزرے

نہ دن ہے سکوں کا نہ ہے رات یارو

 

یہ دنیا تو در اصل غفلت کا گھر ہے

بھلا کیسے کرتے عبادات یارو؟

 

کبھی اس کی فرقت میں رویا جو ناقِدؔ

زمانے نے سمجھی ہے برسات یارو

 

 

 

 

 

٭

چلی گئیں زندگی کی خوشیاں

مچا ہے کہرام شش جہت میں

 

 

 

 

جمال پر شباب ہے

شباب لاجواب ہے

 

زمانہ کیا سمجھ سکے؟

کہ وہ عجب کتاب ہے

 

غضب کا سوز دل میں ہے

عذاب ہی عذاب ہے

 

ہمیں نظر وہ آئے کیا؟

حجاب در حجاب ہے

 

پیار سے گریز کیوں؟

پیار تو ثواب ہے

 

ہے شاد ناقِدِؔ حزیں

کہ تیرا ہم رکاب ہے

 

 

 

مرا فن مودت کا پرچار ٹھہرا

یہ پیہم محبت کا اظہار ٹھہرا

 

زباں پر ہے انکار آنکھوں میں ہاں ہے

یہ انکار ٹھہرا کہ اقرار ٹھہرا

 

مٹا ڈالی ہر یاد ہر بات دل سے

مگر سب سے راسخ ترا پیار ٹھہرا

 

بھلا کیسے الفت ہو جیون سے اس کو؟

سدا زندگی سے جو بیزار ٹھہرا

 

جو گم کر دیا تم نے ناقِدؔ کا تحفہ

صنم یہ محبت کا انکار ٹھہرا

 

 

 

 

 

بسر دن ہوا سوچتے سوچتے

کہ میں کھو گیا سوچتے سوچتے

 

بصد آرزو ہم نے چاہا جسے

ہوا ہم نوا سوچتے سوچتے

 

ڈبونے کا جس سے مجھے خوف تھا

بنا ناخدا سوچتے سوچتے

 

غموں سے ہے پُر زندگانی مری

یہ جیون کٹا سوچتے سوچتے

 

وفا جس سے بے سوچے ناقِدؔ نے کی

ہوا دل ربا سوچتے سوچتے

 

 

 

 

 

لٹے نہ کسی کا نگر آرزو کا

کہ قائم رہے یہ بھرم آبرو کا

 

یہ ممکن ہے سب کچھ مجھے بھول جائے

نہ بھولے گا انداز اس خوبرو کا

 

تصور کوئی ذہن میں اب نہیں ہے

فقط ہوش مجھ کو ہے جام و سبو کا

 

مٹا ڈالی ہر چیز کی دل سے الفت

مگر پیار باقی ہے اس چارہ جو کا

 

کسی نے نہ کی میں نے تیری شکایت

رہا پاس ناقِدؔ تری آبرو کا

 

 

 

 

 

پیار کوئی بھگوان نہیں ہے

مومن کا یزدان نہیں ہے

 

کیسے تیرا کہنا مانوں؟

تو اچھا انسان نہیں ہے

 

جیسے چاہو کر گزرو تم

میرا کوئی ارمان نہیں ہے

 

میں دنیا سے جانا چاہوں

جینا اب آسان نہیں ہے

 

ناقِدؔ اک دن تو چلنا ہے

کیا تیرا ایمان نہیں ہے؟

 

 

 

 

 

یہ جیون مرا یوں اجیرن ہوا ہے

کہ چہرہ بھی میرا غزل بن گیا ہے

 

کروں میں ترے ساتھ کیسے وفائیں؟

یہ میں نے سنا ہے کہ تو بے وفا ہے

 

ہے چھائی ہوئی چار سو بے حسی یوں

کہ کہنا نہ کہنا برابر لگا ہے

 

لہو بہہ رہا ہے غریبوں کا ہر سو

جو زردار ہے خود کو سمجھا خدا ہے

 

سفینہ مرا ڈوبتا دیکھ، خوش ہو

وہ بے درد ناقِدؔ مرا ناخدا ہے

 

 

 

 

 

مجھے مار ڈالا مری مفلسی نے

کیے ہیں ستم اس قدر زندگی نے

 

حقائق پہ ڈالے گئے لاکھ پردے

کیے راز افشا مری آگہی نے

 

ادا شکر ہر وقت کرتا رہا میں

وہ احساس بخشا مجھے بے کسی نے

 

سناؤں میں آلام کے کیا فسانے؟

ستم مجھ پہ ڈھائے مری بے خودی نے

 

کٹھن زندگی کی مسافت تھی ناقِدؔ

نکما مجھے کر دیا شاعری نے

 

 

 

 

 

ہوا اجنبی ہم سے سارا زمانہ

سنے کوئی کیسے ہمارا فسانہ؟

 

تصور سکوں کا نہیں پاس میرے

بنا جب سے تیرے ستم کا نشانہ

 

تمہارا تقرب ہے میری ضرورت

بناؤ نا آنے کا کوئی بہانہ

 

بہت خوب لکھتے ہیں یوں تو سخن ور

مگر اپنا انداز ہے کچھ یگانہ

 

لیا گھیر ناقِدؔ مصائب نے جب

ہوئے بے خودی کی طرف ہم روانہ

 

 

 

 

 

زندگی کٹ رہی ہے بیابان میں

بے حسی ہے بہت آج انسان میں

 

مر گیا وقت آنے سے پہلے ہی میں

روح اب کے نہیں میرے ارمان میں

 

اہلِ دنیا نے ڈھائے ہیں لاکھوں ستم

کس قدر ہے شکیبائی یزدان میں

 

میں ہوں کیا چیز اوقات کیا ہے مری

یہ تو فطرت ہے در اصل وجدان میں

سوز کتنا ہے کتنا بڑا کرب ہے

ہاں مرے من کے مندر کے بھگوان میں

 

جیتے جی مار ڈالا ہے تو نے مجھے

یہ بھی ہے اک کرم تیرے احسان میں

 

ہیں جو کمزور ترسیں خوشی کے لیے

کیا یہی کچھ لکھا اس نے قرآن میں؟

 

میرا دل گو ہے غفلت میں کھویا ہوا

فرق پھر بھی نہیں میرے ایمان میں

 

خود مجھے اس پہ حیرت ہے بے انتہا

جان باقی ہے ناقِدؔ مری جان میں

 

 

 

 

ہائیکو

 

پلکوں پہ کچھ خواب لیے ہم

نینوں کے دو پھول سجا کر

تیرا رستہ دیکھ رہے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

کسی دل میں جنسِ مودت نہیں ہے

کسی کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے

 

کوئی مر گیا موت آنے سے پہلے

ہے کیا مرحلہ گر قیامت نہیں ہے؟

 

وہ اپنے تھے کی ہیں جنہوں نے جفائیں

کسی غیر سے اب شکایت نہیں ہے

 

مرے چار سو اب مصائب کھڑے ہیں

کسی کی بھی حاصل حمایت نہیں ہے

 

ستم کا چلن چار سو اب ہے ناقِدؔ

کسی میں بھی خوئے مروت نہیں ہے

 

 

 

 

جو بلبل گیت گاتا ہے

مرے من کو جلاتا ہے

 

نزاکت اس کی کیا کہنے

وہ آنکھوں میں سماتا ہے

 

مری آنکھوں میں آنسو ہیں

مگر وہ مسکراتا ہے

 

سمجھتا ہوں زمانے کو

مجھے پاگل بناتا ہے

 

اسے کیا ڈر ہو عقبیٰ کا؟

یہاں  جو ڈوب جاتا ہے

 

وہ ناقِدؔ خود تو روتا ہے

مگر مجھ کو ہنساتا ہے

 

 

 

کہی بات میری بھی اب ان کہی ہے

مرے چار سو بے حسی بڑھ رہی ہے

 

میں حیراں ہوں کیسے گزاروں گا جیون؟

عجب بے خودی ہے غضب بے کلی ہے

 

پتنگے کی صورت رہا ہوں میں سوزاں

فقط کرب میرا مری آگہی ہے

 

بھلا حزن کی بات کیسے نہ ہو گی؟

مری شاعری تو زباں درد کی ہے

 

مری آتما کی جو قاتل ہے ناقِدؔ

مری بے بسی ہے مری مفلسی ہے

 

 

 

 

 

گیت میرے تو ترے ہی نام ہیں

بے کلی میں میرے سب ایام ہیں

 

میری سوچیں سب ہوئی ہیں منتشر

میرے سب افکار بے آرام ہیں

 

کب یہاں حاصل کسی کو ہے سکوں؟

آگ میں جلتے ہوئے اجسام ہیں

 

کیا رہیں زندہ ضرورت کے لیے؟

اور بھی مقصود ہیں کچھ کام ہیں

 

تو نے بخشا اضطرابِ لازوال

ایسے ہی ناقِدؔ ترے اکرام ہیں

 

 

 

 

 

میں ہوں محوِ عذاب یارو

درد و غم کی کتاب یارو

 

ہر کسی نے ہیں پھینکے پتھر

تم تو مارو گلاب یارو

 

حرفِ الفت ہو عام ہر سو

بدلو سارے نصاب یارو

 

ظالموں کا نگر ہے دنیا

ظلم ہو بے نقاب یارو

 

تیرگی ہو تمام ناقِدؔ

نور ہو بے حجاب یارو

 

 

 

 

 

سوہنی سوہنی رنگت تیری

مجھ کو بھائے صورت تیری

 

ہر دم نینوں میں رہتی ہے

سبز پری سی مورت تیری

 

کیسے میں بھولوں گا تجھ کو؟

میری دولت چاہت تیری

 

آنکھیں مانگیں درشن تیرا

بانہیں چاہیں قربت تیری

 

ناقِدؔ عشق میں قتل ہوا ہوں

مار گئی ہے فرقت تیری

 

 

 

 

 

میں خود سے اتنا جدا ہوا ہوں

کہ گویا حرفِ فنا ہوا ہوں

مجھے تو اپنی خبر نہیں ہے

میں خود سے اتنا کٹا ہوا ہوں

مری صداقت ہے جرم ٹھہری

اسی لیے میں سزا ہوا ہوں

نہ توڑ پائے گا جبرِ دنیا

میں ایسا پختہ بنا ہوا ہوں

کرے گی کیا میرا سنگ باری

میں سنگ سے خود ڈھلا ہوا ہوں

ہے میرا دل بے کلی کا مسکن

میں آفتوں میں  گھرا ہوا ہوں

کرو پریشاں نہ مجھ کو ناقِدؔ

میں عشرتوں میں پلا ہوا ہوں

 

 

 

 

 

سرِ شام وہ ہم سفر سو گیا ہے

سفر زندگی کا کٹھن ہو گیا ہے

 

اکیلا مجھے چھوڑ کر سوئے غربت

وہ نامہرباں تھا چلا جو گیا ہے

 

یہ سچ ہے کہ پائی ہے خود اس نے منزل

رہِ زندگی میں مجھے کھو گیا ہے

 

مری روح کھیتی ہے مہر و وفا کی

وہ تخمِ محبت یہاں بو گیا ہے

 

ملے کاش ناقِدؔ کو عقبیٰ میں  راحت

زمانے سے لے کر وہ دکھ تو گیا ہے

 

 

 

 

 

غم کا ساغر پینا سیکھا

مشکل سے ہی جینا سیکھا

 

اس دنیا نے زخم دیے تو

چاکِ گریباں سینا سیکھا

 

کیا ہے زندہ رہنے کا گُر؟

ہاتھ میں لے کر مینا سیکھا

 

اس کا جیون اصل میں  جیون

جس نے مر مر جینا سیکھا

 

ناقِدؔ اب ہر غم آساں ہے

جامِ صبوری پینا سیکھا

 

 

 

 

 

مرے ساتھ تم بھی چلو ہم سفر

ذرا دیر میرے بنو ہم سفر

 

نہ اپناؤ غربت کی راہیں کبھی

مرے ساتھ ہر دم رہو ہم سفر

 

نہیں معتبر بات اغیار کی

خفا مجھ سے ناحق نہ ہو ہم سفر

 

ہے شکوہ عبث کیوں مری ذات سے؟

کوئی بات تم بھی کہو ہم سفر

 

گریزاں ہو کیوں اپنے ناقِدؔ سے تم؟

فسانۂِ الفت سنو ہم سفر

 

 

 

 

فریبِ عشق میں دانش گنوائی ہے

کہ ہستی ہی نہیں اپنی، پرائی ہے

 

جنوں میں اب ترے خود کو بھلایا ہے

مری نس نس میں چاہت ہی سمائی ہے

 

ملا ہے درد و غم تیری محبت میں

مقدر سے ہزیمت ہی اُٹھائی ہے

 

مجھے رزقِ دیارِ غیر ہی جانو

یہ سمجھو اب نصیبوں میں جدائی ہے

 

سدا ناقِدؔ پریشان و حزیں رہنا

یہ کس منزل پہ قسمت لے کے آئی ہے

 

 

 

 

 

کوئی اپنا نہیں لگتا جو اپنے تھے پرائے ہیں

خوشی کی آس کیا رکھنا بہت صدمے اٹھائے ہیں

 

کسی سے کیا کریں شکوہ کسی سے ناخوشی کیسی

مجھے تو یہ ستم سارے مقدر نے دکھائے ہیں

 

نصیبوں میں یہ لکھا ہے پریشاں میں رہوں ہر دم

مجھے اس منزلِ غم پر مرے حالات لائے ہیں

 

کوئی پل بھی مسرت کا نہیں ہے اب مجھے حاصل

رہا محوِ فغاں ہر دم سدا آنسو بہائے ہیں

 

مجھے کیسے توقع ہو کسی آرام و راحت کی؟

کہ ناقِدؔ میں نے پھولوں کی بجائے خار پائے ہیں

 

 

 

 

 

ہم تو ہیں تصویر وفا کی

لٹتی ہے جاگیر وفا کی

 

مل جائے گا رانجھن کوئی

بن جاؤ تم ہیر وفا کی

 

ہم سے کیسا بیر ہے یارو؟

ہم تو ہیں تفسیر وفا کی

 

کون مٹا پائے گا ہم کو؟

ہم تو ہیں تحریر وفا کی

 

ناقِدؔ یاد رہے جو برسوں

ہم ہیں وہ تقریر وفا کی

 

 

 

متاعِ ہستی لٹا رہا ہوں

میں خود کو یونہی گنوا رہا ہوں

 

زمانہ جس کو نہ سن سکے گا

میں داستاں وہ سنا رہا ہوں

 

کیا نہ جس کو کسی نے افشا

میں راز ایسا بتا رہا ہوں

 

مجھے سمجھتے ہیں لوگ پاگل

میں ان کو پاگل بنا رہا ہوں

 

نہ پوچھ مجھ سے خرد کی بابت

جنوں کے نغمات گا رہا ہوں

 

کسی کی ناقِدؔ نہیں ضرورت

میں اپنی دنیا بنا رہا ہوں

 

 

 

 

 

دیا ہے رتبہ بہت بلم کو

سنگھار بخشا ہے یوں قلم کو

 

فزوں ہوا شوق جب دلوں میں

خلوصِ دل سے گئے حرم کو

 

مری طبیعت ہے یوں ہی شاکی

نہ پایا عنقا ترے کرم کو

 

بہت وہ رویا ہے مجھ سے مل کر

گلے لگایا ہے جب الم کو

 

ترے خیالوں میں کھو گیا ہوں

بھلا کے ناقِدؔ میں ہر ستم کو

 

 

 

 

اگرچہ بندہ فقیر ہوں میں

محبتوں کا سفیر ہوں میں

 

ہے میرا من چاہتوں کی منزل

کہ الفتوں کا اسیر ہوں میں

 

بچھڑ گیا جس سے اس کا رانجھن

ستم کی ماری وہ ہیر ہوں میں

 

خلوص والو کرو مسخر

عدو کی خاطر تو تیر ہوں میں

 

جہاں میں میری مثال مشکل

کہ آپ اپنی نظیر ہوں میں

 

رہو نہ ناقِدؔ سدا پریشاں

کہا ہے اس نے نصیر ہوں میں

 

 

مشکل وقت گزر جاتا ہے

پھر دل چین سکوں پاتا ہے

 

جب سے آس رکھی ہے اس سے

تحفے میں پتھر لاتا ہے

 

کیا ہے من کی رام کہانی؟

سکھ کم رنج فزوں پاتا ہے

 

در در پھر کیوں جا کر مانگوں؟

میرا ایک وہی داتا ہے

 

اپنی دھن میں رہ کر ناقِدؔ

ہر پل گیت نئے گاتا ہے

 

 

 

 

 

گرانی سی ہے اک طبیعت میں یارو

ہے جیون اجیرن اذیت میں یارو

 

نہ مانے جسے راہ سیدھی دکھائیں

لگے زہر سب کو حقیقت میں یارو

 

نہیں اور کوئی خطا اپنے اندر

سدا مار کھائی مروت میں یارو

 

نہ پوچھو محبت کی لذت کی بابت

بڑا لطف ہے ذوقِ الفت میں یارو

 

رفیقوں سے ناقِدؔ یہ پوچھے عموماً

تمہیں کیا ملا ہے عداوت میں یارو؟

 

 

 

 

 

سرِ مے کدہ اب چلیں دوستو

منازل کی جانب بڑھیں دوستو

 

دلوں میں جو اخلاص پیدا کرے

غزل کوئی ایسی کہیں دوستو

 

جہاں میں جو الفت فراواں کریں

کچھ ایسے فسانے بُنیں دوستو

 

زمانے میں ہے بے حسی کا چلن

کوئی بات کیسے کہیں دوستو؟

 

ہے ناقِدؔ کا جیون جہنم بنا

سکوں سے بھلا کیا رہیں دوستو

 

 

 

 

 

کتابِ اعمال پڑھ رہا ہوں

میں اپنے جرموں کی خود سزا ہوں

 

غرور کیوں ہے بشر میں اتنا؟

کہے یہ نافہم میں خدا ہوں

 

بغیر اس کے نہیں سہارا

دلوں میں طوفان جب بپا ہوں

 

جفائیں کیں جس نے زندگی بھر

وہ مجھ سے کہتا ہے بے وفا ہوں

 

نہیں مجھے کوئی ہوش ناقِدؔ

میں سوزِ ہستی میں جل بجھا ہوں

 

 

 

 

 

مری فکر میرے لیے اک سزا ہے

مرے ذہن میں ایک طوفاں بپا ہے

 

بھلا کیسے تجھ سے محبت نبھاؤں؟

سنا ہے مری جان تو بے وفا ہے

 

مری جس نے ہر موڑ پر یاوری کی

وہ آقا، وہ مولا، وہ میرا خدا ہے

 

بہت پر خطر ہے محبت کی بازی

زمانے سے اکثر یہ میں نے سنا ہے

 

عطا جس نے ناقِدؔ کو کی استقامت

وہ تیرا ستم ہے، وہ تیری جفا ہے

 

 

 

 

 

مجھے دلربا یاد آنے لگے ہیں

مرا چین دل کا چرانے لگے ہیں

 

محبت کی راہوں پہ جب سے چلے ہیں

مسلسل مصائب اٹھانے لگے ہیں

 

یہی کج ادائی سے ثابت ہے جاناں

ہمیں اپ بھی اب بھلانے لگے ہیں

 

ستم اہلِ دنیا نے ڈھائے ہیں کیا کم؟

مجھے آپ بھی اب ستانے لگے ہیں

 

مجھے ان سے ناقِدؔ شکایت یہی ہے

کہ وہ بزمِ اعداء سجانے لگے ہیں

 

 

 

 

 

دیا ہے بہت کچھ مجھے میرے غم نے

ستایا بہت مفلسی کے ستم نے

 

عطا کی ہے قدرت نے اس کو وہ ندرت

بہت روپ دھارے ہیں میرے قلم نے

 

غموں سے عبارت رہا اپنا جیون

سدا دکھ ہی پائے مقدر سے ہم نے

 

مرا قرب تیرا مقدر نہیں ہے

کہا ہے یہی مجھ کو میرے بلم نے

 

کیا ہے سدا روحِ ناقِدؔ کو گھائل

مری جاں تری فرقتوں کے الم نے

 

 

 

 

 

بشر کو بشر سے لڑاتے ہو تم کیوں؟

مجھے یہ تماشا دکھاتے ہو تم کیوں؟

 

ہمیشہ میں بیزار جن سے رہا ہوں

مجھے وہ فسانے سناتے ہو تم کیوں؟

 

نہیں دیکھی میں نے کرن روشنی کی

اندھیروں سے مجھ کو ڈراتے ہو تم کیوں؟

 

بمشکل ملا ایک ہنسنے کا موقع

مری جاں مجھے پھر رلاتے ہو تم کیوں؟

 

کٹی زندگی کرب میں اپنی ناقِدؔ

ہمیں بے سبب اب ستاتے ہو تم کیوں؟

 

 

 

 

 

مری زندگی انتہا صبر کی

مجھے مل رہی ہے سزا صبر کی

 

مری جاں نہ آنسو بہا اس قدر

مری تجھ سے ہے التجا صبر کی

 

مرے صبر کو استقامت ملے

کوئی بات ایسی سنا صبر کی

 

مجھے اب کے اندیشہ لاحق ہے یہ

نہ ہو چاک میری قبا صبر کی

 

مرے دل میں امید قائم ہے یہ

کہ ناقِدؔ ملے گی جزا صبر کی

 

 

 

 

 

عبث یہ مقدر کا رونا ہے یارو

وہ ہو جائے گا جو بھی ہونا ہے یارو

 

مٹا ڈالے خود کو جو اوروں کی خاطر

وہ انمول ہیرا ہے سونا ہے یارو

 

ضروری نہیں کوئی بخشے محبت

ہمیں تخمِ الفت تو بونا ہے یارو

 

وہ اشکوں سے بھیگے کہ تر ہو لہو سے

ہمیں پیرہن ہی بھگونا ہے یارو

 

نہیں کارِ ناقِدؔ یہاں کوئی باقی

گناہوں سے دامن کو دھونا ہے یارو

 

 

 

 

 

حسیں وادیاں اور یہ منظر سہانے

سناتے ہیں فطرت کے رنگیں ترانے

 

وہ بلبل کے نغمے وہ کوئل کی کو کو

رہے یاد آوارگی کے فسانے

 

توقع تھی جن سے مسیحائیوں کی

لگے ہیں مجھے بے طرح وہ ستانے

 

ترے ہجر کی بے کلی میں جو گزرے

مجھے یاد آئے ہیں دن وہ پرانے

 

اگر دل نہیں ہے محبت پہ مائل

نہ ناقِدؔ بناؤ عبث یہ بہانے

 

 

 

 

 

ہمارے خوں سے بنا ہے مقتل

ہمارے دم سے سجا ہے مقتل

 

ہمارا کوئی بھی گھر نہیں ہے

ہماری خاطر کھلا ہے مقتل

 

لہو سے ہم نے کیا چراغاں

نصیب میں ہی لکھا ہے مقتل

 

علاج کوئی نہیں ہے ممکن

ہمارے دکھ کی دوا ہے مقتل

 

ہمیں نہ کیوں ہو عزیز ناقِدؔ؟

کہ دان اس نے کیا ہے مقتل

 

 

 

 

 

 

الم سوزِ نہاں ٹھہرا

یہ غم تو جاوداں ٹھہرا

تعلق حزن کا پیہم

رہے چاہے جہاں ٹھہرا

چلا تو تھا میں جنت کو

سرِ کوئے بتاں ٹھہرا

ٹھہرنا تھا کہاں میں نے؟

مگر جا کر کہاں  ٹھہرا؟

محبت نے بھی غم بخشے

یہی اپنا گماں ٹھہرا

جو الفت تھی وہ نفرت ہے

سکوں آتش فشاں  ٹھہرا

دعا سمجھا تھا میں جس کو

وہی حرفِ فغاں ٹھہرا

ٹھہر پایا نہیں گو میں

مگر میرا بیاں ٹھہرا

چمن آباد کیا رہتا؟

مقدر جب خزاں ٹھہرا

مرا گھر کیا بسا رہتا؟

کہ دشمن آسماں ٹھہرا

سخن ہے پُر اثر میرا

کہ نالہ خوں چکاں ٹھہرا

چھپاتا حالِ دل کیسے؟

کہ دکھ میرا عیاں  ٹھہرا

جو ناقِدؔ ہم پہ ہنستا تھا

وہی نوحہ کناں  ٹھہرا

 

 

 

 

٭

نذر امتحانوں کی جیون مرا ہے

سدا حال اپنا اجیرن ہوا ہے

جفائیں ترے ساتھ ہر دم رہی ہیں

مرے ساتھ ہر آن میری وفا ہے

 

 

 

ایک تارہ سا جھلملاتا ہے

سامنے آ کے ڈوب جاتا ہے

 

زندگی نفرتوں کی زد میں ہے

گیت الفت کے پھر بھی گاتا ہے

 

زندہ لاشہ ہے اک وجود مرا

پھینکتا ہے کوئی اٹھاتا ہے

 

صبر کی بھی ہے انتہا یارو

کیوں مجھے اتنا آزماتا ہے؟

 

ایک عشرت کدہ ہے دل غم کا

ایک آتا ہے ایک جاتا ہے

 

میں تو ناقِدؔ خزاں رسیدہ ہوں

اب یہ موسم ہی مجھ کو بھاتا ہے

 

 

 

 

وفاؤں کا بدلہ ستم کیوں ہے جاناں؟

مقدر میں میرے یہ غم کیوں ہے جاناں؟

 

خوشی کے تحائف سدا بانٹتا ہوں

ملا ہر کسی سے الم کیوں ہے جاناں؟

 

ہمیشہ رقم کی حقیقت قلم سے

ہوا ہاتھ میرا قلم کیوں ہے جاناں؟

 

اگر مجھ سے رہنا ہے یوں لاتعلق

محبت کی کھائی قسم کیوں ہے جاناں؟

 

ہوئیں تیرے ناقِدؔ پہ کیا کیا جفائیں

یہ زندہ ہے کیوں دم میں دم کیوں ہے جاناں؟

 

 

 

مٹا ڈالا خود کو محبت میں یارو

ملی بے خودی مجھ کو الفت میں یارو

 

میں کیسے سناؤں الم کے فسانے؟

ملے درد و غم مجھ کو غربت میں یارو

 

مجھے عشق نے ہجر سے ہے نوازا

بڑا کرب پایا ہے فرقت میں یارو

 

ہے بے چین رہنا ہی معمول اپنا

عجب لطف پایا اذیت میں یارو

 

بنی بے بسی میرے غم کا فسانہ

مجھے کیا ملا ہے مودت میں  یارو

 

غم و درد اپنا مقدر ہے ناقِدؔ

یہی کچھ ملا مجھ کو قسمت میں یارو

 

 

 

تو پیار کے قابل نہیں

چاہت پہ تو مائل نہیں

 

جو نہ سمجھے پیار کو

میری نظر میں دل نہیں

 

سب کچھ لٹایا عشق میں

راحت مگر حاصل نہیں

 

پایا نہیں جس نے الم

در اصل وہ بسمل نہیں

 

تیرا بھروسہ کیا کہ تو

اخلاص کا قائل نہیں

 

ناقِدؔ بھنور میں ناؤ ہے

قسمت میں اب ساحل نہیں

 

 

 

اونچا ہو گا تیرا نام

کرنا ہو گا ہر دم کام

 

میں نے جس کو چاہا ہے

مت سمجھو تم اس کو عام

 

مانا اس میں غصہ ہے

کر لوں گا میں اس کو رام

 

قائد نے فرمایا ہے

کام کرو بس کام کام

 

پیار نہیں کرنا اس سے

کر دے گا مجھ کو بدنام

 

میرا وہ کیسے ہو ناقِدؔ؟

میرے پاس نہیں ہیں دام

 

 

 

 

 

نہ لی خبر تم نے اپنے یار کی

قسم بجا نہ تھی تمہارے پیار کی

 

نہ آرزو تھی اور کوئی بھی مری

تمنا بس تھی مجھ کو دیدِ یار کی

 

مجھے قریب آنے دو کرم کرو

ہے نزدِ اختتام رُت بہار کی

 

یہ ٹھیک ہے کہ تنگ چاہتوں سے ہوں

طلب نہیں ہے قول کی قرار کی

 

نہ ایسے مسترد کرو اسے پڑھو

کہانی ہے یہ ناقِدِؔ فگار کی

 

 

 

بے حد بات پرانی ہے یہ

بے ترتیب کہانی ہے یہ

 

شوق سے اس کو پڑھنا یارو

میری پیت کی بانی ہے یہ

 

تیری فرقت خوب رلائے

کیسی پریم نشانی ہے یہ

 

میں ٹھہرا ہوں اس سے واقف

کب مجھ سے انجانی ہے یہ

 

رہتا ہے کب حسن ہمیشہ؟

کہ مایا آنی جانی ہے یہ

 

بات کہی جو ناقِدؔ نے

عقل میں آخر آنی ہے یہ

 

 

 

 

 

 

جو پاس تیرے وفا نہیں ہے

مرض کی میرے دوا نہیں ہے

 

مرا مقدر اذیتیں ہیں

سو میری قسمت شِفا نہیں ہے

 

کسی کا ہم کو ہو پاس کیسا؟

کسی میں  شرم و حیا نہیں ہے

 

جو موسموں سے بچائے رکھے

وہ میرے تن پر ردا نہیں ہے

 

وہ جس کے باعث ہو پردہ پوشی

قبا پہ بندِ قبا نہیں ہے

 

خوشی سے گزریں جو روز و شب یہ

تو زندگی پھر سزا نہیں ہے

 

میں اس سے ناقِدؔ خفا نہیں  ہوں

وہ مجھ سے ہرگز خفا نہیں ہے

 

 

 

 

 

٭

کون واقف نہیں میرے کردار سے

آشنا ہیں سبھی میرے افکار سے

اس سے پہلے ترا قرب حاصل رہا

میں نے کھویا تجھے اپنے اظہار سے

 

 

 

 

 

تیرا عکس نرالا ہے

تو چاہت کی مالا ہے

 

نفرت نہ کر مجھ سے تو

تجھ کو پیار سے پالا ہے

 

تو ہے اک قندیل مری

تیرے دم سے اجالا ہے

 

شکل ہے تیری گوری سی

تو اندر کا کالا ہے

 

ان کی دھن میں ناقِدؔ نے

خود کو پیار میں ڈھالا ہے

 

 

 

 

 

نہ بھولیں گے ہم کو فسانے ترے

یہ رنگین و دلکش بہانے ترے

 

گزاری ہے اس رنگ میں زندگی

سدا گائے ہیں گیت گانے ترے

 

مری جان ٹھہرا ہے تو جاوداں

یہ سچ ہے کہ ہیں سب زمانے ترے

 

لگا تیر تیرا مرے حلق پر

ہیں کس درجہ پکے نشانے ترے

 

عجب ہے کہ اس عہدِ نفرت میں بھی

کہ گائے ہیں ناقِدؔ ترانے ترے

 

 

 

قدح تو نے کچھ ایسی مجھ کو پلائی

مری جان جس سے لبوں پہ ہے آئی

 

محبت کو میں نے جانا ہے سب کچھ

اسی کے لیے اپنی ہر شئے لٹائی

 

خدا کی خدائی کا شہکار ہے تو

عجب اس نے ہر چیز تیری بنائی

 

وہی تم سے الجھے گا اک روز جاناں

کرو گے زمانے میں جس سے بھلائی

 

جدائی تمہاری ہے کربِ مسلسل

قضا مجھ کو کس حال میں لے آئی؟

 

شب و روز یونہی لکھے جاؤ ناقِدؔ

کہ ہے شاعری سوزِ جاں کی کمائی

 

 

 

 

 

 

 

دوست پرانے یاد آتے ہیں

ان کے گیت سدا گاتے ہیں

 

برسوں جن کے ساتھ رہے ہیں

کیسے دل سے وہ جاتے ہیں؟

 

قدم قدم پر سوغاتیں ہیں

پل پل مجھ کو غم کھاتے ہیں

 

عدل یہاں ناپید ہوا ہے

بے کس ہی مقتل جاتے ہیں

روح کی دھرتی ہے ویراں سی

سب کو ہم بے حس پاتے ہیں

 

سب اپنی اغراض کے بندے

سب اپنا دل بہلاتے ہیں

 

قسمت سے مانگی ہیں خوشیاں

ناقِدؔ غم پر غم پاتے ہیں

 

 

 

٭

سرنگوں ہو کے نہ آؤں گا تری چوکھٹ پر

اک ہی دہلیز پہ سجدے کو روا رکھا ہے

اور کیا چیز گنواؤں تجھے پانے کے لیے

میں نے تن من کو تو پہلے ہی گنوا رکھا ہے

 

 

 

 

 

شعر میں  اکثر بات کہی ہے

اپنا تو انداز یہی ہے

 

ہر کوئی ہے اپنے غم میں

کس نے کس کی بات سنی ہے؟

 

میں ہر دم ناکام رہا ہوں

میری کس دن بات بنی ہے؟

 

ہر کوئی اب اپنی بولے

سب کی گردن خوب تنی ہے

 

اک پل ناقِدؔ چین نہیں ہے

اب کے غم کی دھوپ گھنی ہے

 

 

 

 

 

مرے گھر کی ویران دھرتی رہی ہے

نہایت پریشان دھرتی رہی ہے

 

میں یوسف تھا پھر بھی نکالا گیا ہوں

مری مثل کنعان دھرتی رہی ہے

 

ہوا ظلم کیا کیا نہ کشمیریوں پر

مصائب کا سامان دھرتی رہی ہے

 

ستم ڈھائے ہیں اہلِ دنیا نے کیا کیا

بہت اس پہ حیران دھرتی رہی ہے

 

کسی کو کہیں چین آیا نہ ناقِدؔ

قیامت کا میدان دھرتی رہی ہے

 

 

 

مجھ کو اک پل چین کہاں ہے؟

چین بھی اب بے چین کہاں ہے؟

 

تیرے پیار میں کیا نہ پایا؟

اس میں  ہر اک سوز نہاں ہے

 

تیرے نغمے بھی دلکش ہیں

ان میں تیرا رنگ عیاں ہے

 

پھول سے تیرے ہونٹ ہیں جاناں

قدرت کا کیا خوب سماں ہے؟

 

میں ہوں ایک آوارہ پنچھی

کوئی گھر نہ کوئی مکاں ہے

 

اس دلبر دلدار کی چاہت

ناقِدؔ اپنے دل میں جواں ہے

 

 

 

 

 

 

 

میں ہوں ایک بندۂِ بے نشاں

یہ جہاں نہیں میرا ترجماں

 

مجھے ڈھونڈ سکتے ہو تم کہاں؟

میں ہوں سوئے مرگ رواں دواں

 

کوئی درد و غم نہیں کم یہاں

یہ ہے ایک قلزمِ بے کراں

 

نہ ملا مجھے کوئی پاسباں

نہ شنیدنی مری داستاں

مری درد و غم کی زمین ہے

مرا رنج و کرب کا آسماں

 

یہ مرا قصورِ خلوص ہے

مرے دوست بھی ہوئے بدگماں

 

میں ہوں ایک ناقِدِؔ بے نوا

ہوں تری امنگ میں  شادماں

 

 

 

 

٭

میرا علاج میرے مسیحا کے پاس ہے

جب پاس وہ نہیں تو طبیعت اداس ہے

اے کاش کچھ تو کم ہوں مصائب کے سلسلے

ان کے حضور اپنی یہی التماس ہے

 

 

 

 

ہر وقت میں سہما رہتا ہوں

حق بات میں پھر بھی کہتا ہوں

 

غم پیار میں پائے جو میں نے

اب ان کی رو میں بہتا ہوں

 

تو پھر بھی مجھ سے ناخوش ہے

ہر جور میں  تیرا سہتا ہوں

 

ہر وقت کہا ہے سچ ناقِدؔ

اس طور میں  زندہ رہتا ہوں

 

 

 

 

 

 

یاد میں تیری دیپ جلاؤں

سُر سنگیت میں نغمے گاؤں

یاد ہیں تیری شوخ ادائیں

دم بھر اُن کو بھول نہ پاؤں

کون سنے گا پیار کی باتیں؟

کس کو پریم کے گیت سناؤں؟

تیری چاہت کے شعلوں کو

میرے مسیحا کیسے بجھاؤں؟

تو کہلائے میرا ساجن

میں ہر دم تیرا کہلاؤں

کوئی نہ بولی پیار کی بولے

کیسے دل کو میں سمجھاؤں

تیرا پیار حیات ہے میری

تیری زلف کی ٹھنڈی چھاؤں

آ جا میرے پاس مری جاں

پھر جیون کی سیج سجاؤں

تیری رفاقت عالمِ عشرت

یہ سوغات کہاں سے لاؤں؟

تیرا پیار ہے میری ہستی

اس کو ناقِدؔ کیسے بھلاؤں؟

 

 

 

 

 

٭

کہیں مجھ کو بدنام کر دیں نہ آنسو

اسی خوف سے اب کے روتا نہیں ہوں

مجھے درد و غم اس قدر مل گیا ہے

کہ راتوں کو اکثر میں سوتا نہیں ہوں

 

 

 

 

کوئی زخم نہ کوئی مرہم

آنکھ ہے اپنی پھر بھی پرنم

 

مجھ کو کچھ بھی سمجھ نہ آئے

دنیا کا انداز ہے مبہم

 

دشمنِ جاں تو تھے بہتیرے

دوست ملے ہیں لیکن کم کم

 

گزری ہے اس طور سے ہستی

اکثر پایا ہے غم پہ غم

 

جوشِ جنوں کو مات ملی ہے

جذبے ہو گئے مدھم مدھم

 

ناقِدؔ ہم نے یہ جانا ہے

ہے یہ بیم و رجا کا عالم

 

 

 

 

 

 

صنم وہ کون سا ایسا تھا جو خدا نہ ہوا

تھا ترکِ شوق بھی اک جرم جو روا نہ ہوا

ترے سہارے گزارے ہیں زیست کے لمحے

مگر یہ رنج کہ فائز بہ انتہا نہ ہوا

گراں ہے مجھ پہ شبِ ہجر کا یہ سناٹا

یہی ہے خوف کہ میں کامل وفا نہ ہوا

حسین ابن علی کا تھا ایک ہی قاتل

مگر وہ اہلِ جہاں سے کبھی سزا نہ ہوا

بہت حقوق تھے اہلِ زمانہ کے مجھ پر

مگر یہ رنج کہ حق ایک کا بھی ادا نہ ہوا

بہت سے تیر چلائے ہیں جانِ من تو نے

نشانہ ایسا تھا اک تیر بھی قضا نہ ہوا

وہاں بھی گیت محبت کے گائے ہیں میں نے

جہاں کوئی بھی مغنی غزل سرا نہ ہوا

بہت سے روپ زمانے میں دھارے ناقِدؔ نے

کبھی تمہاری طرح دشمن وفا نہ ہوا

 

 

 

 

 

 

 

ہنسی تو نے میرے لبوں سے چرائی

جفا کی ہے ماتھے پہ بندیا سجائی

 

مرا من ہے تیری محبت کا دیپک

مغنی یہ کیا آگ دل میں لگائی؟

 

حقیقت میں ہے تیری چاہت میں عشرت

زمانے کی ہر شئے ہے اس میں سجائی

 

اسی میں ہے جینا اسی میں ہے مرنا

یہی بات وجدان نے ہے سنائی

کہاں کا ہے اعراض کیسی شکایت؟

مہک تیری جب سانس میں ہے بسائی

 

عطا کی ہے تو نے یہ سوغات کیسی؟

وفا میں نے کی تو نے کی بے وفائی

 

وہ شاہکارِ تخیل ہے میرا ناقِدؔ

خدا نے عجب اس کی صورت بنائی

 

 

 

 

 

٭

حیات پیہم عذاب ٹھہری

یہ درد و غم کی کتاب ٹھہری

ہوا ہے الفت کا جرم مجھ سے

یہ میری لغزش جناب ٹھہری

 

 

 

 

 

ہے ہر شئے آنی جانی

یہ دنیا بالکل فانی

 

جو لوگوں سے سنتے ہو

ہے میری پریم کہانی

 

میرا حال عیاں ہے سب پر

کب حالت ہے انجانی

 

جو بات کہی ہے میں نے

نہیں عقل میں تیری آنی

 

کبھی ناقِدؔ کی بھی مانو

کیوں کرتے ہو من مانی؟

 

 

 

 

 

 

مرے دل میں اک شخص رہنے لگا ہے

اسی کے لیے اشک بہنے لگا ہے

 

مرے من میں رہتا ہے یوں بن کے شاعر

غزل پہ غزل اب وہ کہنے لگا ہے

 

ہمیشہ رہے میرے دل میں وہ رقصاں

مرا دل ستم اس کے سہنے لگا ہے

 

ہو جیسے نجومی مرا یار ناقِدؔ

مرے دل کی ہر بات کہنے لگا ہے

 

 

 

 

عجب ہے زمانے میں اپنا فسانہ

سمجھنے سے جس کو ہے قاصر زمانہ

 

دیے نام دنیا نے چن چن کے مجھ کو

کہا مجھ کو مستانہ گاہے دیوانہ

 

اگرچہ رہی ہیں چمن میں بہاریں

نہ بدلا مگر میرا ویران خانہ

 

تھی کربِ مسلسل مری زندگانی

دیا تو نے جینے کا اچھا بہانہ

 

جہاں میں بہت میں نے اطوار دیکھے

مگر پایا انداز تیرا یگانہ

 

ترے دم قدم سے ملا مجھ کو ناقِدؔ

قرار و سرور و سکوں کا خزانہ

 

 

 

 

مجھ کو تیری یاد دلائیں

فرقت کی گھنگھور گھٹائیں

دنیا سب انجان بنی ہے

کس کو پیار کے گیت سنائیں؟

من میں تیرا شوق ہے رقصاں

لوں میں تیری لاکھ بلائیں

وجد میں آ جائے من میرا

جب بھی تیری یادیں آئیں

تو ہے اپنی پریم کہانی

سب کو تیرا حال سنائیں

دنیا کے اس نفرت گڑھ میں

بیج خلوص کے بوتے جائیں

ترے ہجر کی دان ہے یہ بھی

دل کرتا ہے سائیں سائیں

ایک تمنا ہے بس اپنی

تیرے دیوانے کہلائیں

ویرانی کی اس دنیا میں

سب مل کر ہی خوشیاں لائیں

یہ تو بتا اے رشکِ مسیحا!

تجھ بن کیسے من پرچائیں؟

دنیا ہم کو رو گی جانے

کیسے اپنا حال بتائیں؟

ناقِدؔ مستی آ جاتی ہے

جس دم تیرے نغمے گائیں

 

 

 

 

 

٭

ستم بھی تیرے سب ہمیں ہیں گوارا

محبت تو پھر بھی محبت ہے جاناں

کبھی بھول پائے گا ناقِدؔ نہ تجھ کو

کہ تو اس کی چاہت ہے راحت ہے جاناں

 

 

 

 

 

دولتِ راحت سے ہوں عاری

ہر دم غم سے ہے دلداری

 

پل پل مجھ کو یاد آتی ہیں

تیری باتیں پیاری پیاری

 

پیہم اس کو یاد کروں میں

جس نے ہے تقدیر سنواری

 

دم بھر تجھ کو بھول نہ پاؤں

زخم لگائے تو نے کاری

 

جاگ رہی ہے دنیا ناقِدؔ

نیند ابھی ہے ہم پہ طاری

 

 

 

 

 

طبیعت میں آئی ہے غم سے روانی

اسی نے عطا کی قلم کو جوانی

 

کیا تذکرہ تو نے جانے کا جس دم

ہوئی ذہن پر میرے طاری گرانی

 

قلم نے بہائے ہیں خوں رنگ آنسو

رقم کی جو کاغذ پہ اپنی کہانی

 

لگا کر وہ رکھی ہے سینے سے میں نے

عطا کی ہے تو نے جو مجھ کو نشانی

 

وہ مجھ سے ملا اور بچھڑا ہے ناقِدؔ

محبت کی ہے مختصر زندگانی

 

 

 

 

کسی سے نہیں ہے مری آشنائی

بھلا کون چاہے گا میری بھلائی؟

اسے اپنی ہستی سے جانا ہے بہتر

اگرچہ کسی میں تھی جتنی برائی

بھروسہ کیا اس پہ میں نے عموماً

نظر آئی جس میں  بھی مجھ کو صفائی

زمانے سے کی میں نے جتنی محبت

صلے میں ہمیشہ کدورت ہی پائی

عبث ہے کسی سے محبت کی بازی

ہے اکثر یہی بات دل نے بتائی

اکیلا مجھے چھوڑ کر تم نہ جاؤ

ستائے گی بے حد تمہاری جدائی

معزز اسے میں نے مانا ہے دل سے

جسے مانتی ہے معزز خدائی

خدا کا ہو سجدہ تصور میں حوریں

بھلی ایسی ناقِدؔ نہیں پارسائی

 

 

ہاں مجھے پیار میں بے خودی بخش دے

یہ کرم کر مجھے دل لگی بخش دے

 

وہ جو ہر وقت من میں فروزاں رہے

ایسی اک دائمی روشنی بخش دے

 

وہ جو ہر ایک کے دل کی آواز ہو

ایک ایسی مجھے شاعری بخش دے

 

اور کچھ تجھ سے میرا تقاضا نہیں

میں وفا کیش ہوں دوستی بخش دے

 

جس میں ہو شرطِ اول خلوص و وفا

ایسی ناقِدؔ کو تو آگہی بخش دے

 

 

 

 

دکھیاروں کا مرہم ہوں

چاہے جتنا پرنم ہوں

ہر حالت میں راضی ہوں

چاہے جتنے بھی غم ہوں

غمگیں ہو جاتا ہوں میں

پاس مرے غم جب کم ہوں

دنیا جو سمجھے مجھ کو

میں سلطان ہوں میں جم ہوں

جان لبوں پر آ جائے

پاس نہ ساجن جس دم ہوں

نازل ہوں خوشیاں اس پر

جس محفل میں بھی ہم ہوں

پیاس بجھائے جو سب کی

میں ایسا شیریں یم ہوں

کیوں مجھ سے ناخوش ہو یار؟

ناقِدؔ سب کا ہم دم ہوں

 

 

 

مجھے زندگی پر بھروسا نہیں ہے

مجھے اس سے کوئی تمنا نہیں ہے

 

اگر بے وفا ہے مری زندگانی

مرا اس سے کوئی تقاضا نہیں ہے

 

رہا ہوں یہاں اجنبی کی طرح میں

کوئی جیسے میرا شناسا نہیں ہے

 

بھلا کون جانے یہاں اجنبی کو

کسی ذہن پر نقشہ میرا نہیں ہے

 

ہیں تیری طرح اور بھی لوگ غمگیں

تو ناقِدؔ جہاں میں اکیلا نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

 

جو میں مضطرب ہوں سماں مضطرب ہے

مجھے لگتا سارا جہاں مضطرب ہے

 

میں ہر وقت تیری محبت کو ترسوں

مرے پیار کی داستاں مضطرب ہے

 

ہے جب سے زباں پہ ترا نام آیا

اسی دن سے میری زباں مضطرب ہے

 

نہیں آئیں گلشن میں جب سے بہاریں

چمن ہے حزیں، باغباں مضطرب ہے

چمن پر خزاں یوں مسلط ہوئی ہے

پرندہ سرِ آشیاں مضطرب ہے

 

نہیں بادہ خواروں میں  جب سے محبت

اسی دن سے پیرِ مغاں  مضطرب ہے

 

قیامت ہے ناقِدؔ تری خامشی بھی

زمیں مضطرب، آسماں مضطرب ہے

 

 

 

 

 

٭

سزائیں مجھے ناخدا دے رہا ہے

میں کیا مانگتا ہوں، وہ کیا دے رہا ہے

روا ہر ستم اس کا ہے میرے اوپر

سزاؤں کی صورت جزا دے رہا ہے

 

 

 

 

 

 

مرا دل ہوا پیار کرنے سے قاصر

کہ لگتا ہے یہ آہیں بھرنے سے قاصر

 

مجھے زندگی نے نہیں  چین بخشا

ہوا ہوں میں اب جینے مرنے سے قاصر

 

یہاں چار سو بے حسی چھا رہی ہے

خدا سے ہے انسان ڈرنے سے قاصر

 

ستم گر نے دل پر ستم یوں کیا ہے

وہ ناقِدؔ نہیں پاؤں دھرنے سے قاصر

 

 

 

 

دل میں بسی ہے آرزو

ہے مجھ کو تیری جستجو

 

تجھ کو سدا حاصل بقا

قریہ بہ قریہ، کو بہ کو

 

تجھ سے حسیں کوئی نہیں

تو ہی فقط ہے خوب رُو

 

تیرا شرف یہ فیض ہے

تو نے عطا کی آبرو

 

کچھ بھی نہیں تیرے سوا

دنیا میں بس ہے تو ہی تُو

 

تجھ سے تکلم ہے مرا

ناقِدؔ ہے تو ہی گفتگو

 

 

ہے سامنا پھر حماقتوں کا

نئی پرانی کدورتوں کا

خیال کیسے ہو نفرتوں کا

ہوں میں پیامی محبتوں کا

مجھے ہو اوروں سے کیا شکایت؟

گلہ تو لب پر ہے دوستوں کا

کی بے وفائیوں کی گوشمالی

ہے دوش مجھ پر بغاوتوں کا

نہیں امیروں سے کوئی نسبت

کہ نالہ میرا ہے بے کسوں کا

ہے غم نصیبوں سے پیار مجھ کو

حمایتی ہوں میں بے بسوں کا

مجھے سمجھتے ہیں لوگ پاگل

کہ روگ مجھ کو ہے چاہتوں کا

الم تو کوئی نہیں ہے ناقِدؔ

مجھے ہے دکھ تیری فرقتوں کا

 

 

اگر تو نہ عورت کو دل کش بناتا

بتا کیسے دنیا کو مالک سجاتا؟

 

اگر تیرا لطف و کرم بھی نہ ہوتا

بھلا کیسے کوئی ترے گیت گاتا؟

 

اگر تجھ سے اظہارِ الفت نہ کرتا

جدائی میں تیری نہ آنسو بہاتا

 

جہاں میں اگر غم کی دولت نہ ہوتی

کسی کو بھلا کیسے تو یاد ہوتا؟

 

نہ دیتا اگر دل تمہیں میں بھی ناقِدؔ

نہ آنے کے کیسے بہانے بناتا

 

 

 

 

 

ہیں سانسیں مری کرب سے ہی عبارت

قیامت سے پہلے ہے میری قیامت

 

سدا سوز سے ہی میں سوزاں رہا ہوں

مسرت سے ہے ماورا میری قسمت

 

کرم یہ کرو دان مجھ کو کرو تم

شب وصل کی ایک دلکش ضیافت

 

مرن سے فزوں تر ہے جیون کی تلخی

یہ نعمت تھی ہستی بنی ہے اذیت

 

اسی کی بدولت مری ہو گی بخشش

ریاضِ سخن ہی ہے ناقِدؔ عبادت

 

 

 

سنا جس نے بھی ہے مقالہ مرا

لگا معتبر ہے حوالہ مرا

 

گئے چھوٹ دشمن کے چھکے وہاں

جو میداں میں پہنچا رسالہ مرا

 

میں ہرگز تمہیں بھول سکتا نہیں

تو ساتھی ہے دیرینہ سالہ مرا

 

تو باہر نہ اس سے نکل پائے گا

ترے گرد ہے دل کا ہالہ مرا

 

مجھے زندگی نے دیا کچھ نہیں

یہ نقصاں ہوا لامحالہ مرا

 

پڑھا اہلِ دانش نے ہے شوق سے

چھپا ہے جو ناقِدؔ رسالہ مرا

 

 

 

 

مجھے عشق نے کرب سے ہے نوازا

زمانے کا ہر دکھ مجھے اس نے بخشا

 

نہیں ہے کوئی اور بھی کام میرا

ہے دھرتی کی میں نے سدا کی سورکھشا

 

دیا مجھ کو ہر موڑ پر جس نے دھوکا

وہ ہے میرا ہم دم وہ ہے میرا متوا

 

کسی نے نہ کچھ میری خاطر کیا ہے

کیا میرا اپنا مرے کام آیا

 

مرا تجربہ تلخ ہے زندگی کا

یہاں سب کو ناقِدؔ ستم گر ہی پایا

 

 

 

 

گلستانِ الفت ہے سینچا لہو سے

یہ گلشن ہے پیارا مجھے آبرو سے

بہت بے وفا میں نے پایا ہے ان کو

نظر آئے یوں تو مجھے خوبرو سے

مری کوششیں بار آور نہیں ہیں

میں تنگ آ گیا ہوں تری جستجو سے

ہیں صدیوں سے پیاسے مرے ہونٹ ساقی

ملی تشنگی مجھ کو ہر آبجو سے

مری جام سے پیاس بجھتی نہیں ہے

ذرا پیاس بجھتی ہے میری سبو سے

انا کو نہ میری کبھی ٹھیس پہنچے

مخاطب کرو نہ کبھی مجھ کو تُو سے

میں مزدور کا قدر داں ہی رہا ہوں

مجھے پیار اس کے پسینے کی بو سے

تو آداب و اخلاق سے بھی ہے عاری

مجھے سخت وحشت ہوئی تیری خو سے

مرے کرب کا تم بھی عالم نہ پوچھو

مرا جسم جھلسا فقط گرم لُو سے

مقدر میں ناقِدؔ نہیں تیری قربت

ملی ہیں مجھے فرقتیں آرزو سے

 

 

 

٭

گو مگو میں بسر زندگانی ہوئی

مجھ کو یہ جان کر سرگرانی ہوئی

پئے بہ پئے دہر میں ہم کو صدمے ملے

یوں مکمل ہماری کہانی ہوئی

 

 

 

 

 

 

 

من کا نگر ہے روشن

غم سے ہوئی ہے ان بن

 

مجھ سے ہو کیوں گریزاں؟

وارا ہے تجھ پہ تن من

 

چھٹی پہ خوش ہیں بچے

گھنٹی کی سن کے ٹن ٹن

 

کھائے ہیں تیر اتنے

زخمی ہوا ہے سب تن

 

ناقِدؔ اٹوٹ جانا

یاروں سے اپنا بندھن

 

 

 

 

 

 

 

بھلا دہر میں اب کے الفت کہاں ہے؟

یہاں چار  سو نفرتوں کا سماں ہے

یہاں ہر طرف راج ہے ظلمتوں کا

سو اب بے حسی ہر کسی کی جواں ہے

یہاں کیا ہو پاسِ مروت کسی کو

کہ نفسا نفسی کا عالم یہاں  ہے

جسے بہو پیاری ہے بیٹی کی صورت

وہی خیر اندیش بیٹے کی ماں ہے

کیے جس سے احساں سدا زندگی میں

وہی میرا دلدار شکوہ کناں ہے

سماعت کے دوران رونا پڑے گا

مری ایسی حسرت بھری داستاں ہے

تخیل سے نسبت نہیں میرے غم کو

حقیقت میں یہ میرا سوزِ نہاں ہے

مری زندگی کیسے گزرے سکوں سے

مرے ہر طرف اک خروشِ سگاں ہے

کسی نے نہ مجھ کو محبت سے دیکھا

مری زندگی بے کسی کا نشاں ہے

جہاں مہر و الفت کی ہے پاسداری

نگر میں ترے کوئی ایسا مکاں ہے؟

ہے توفیق اعمال جن کو میسر

حقیقی مسرت کی دولت وہاں ہے

ہیں چھائی یہاں اس قدر وحشتیں اب

کہ ماحول میں اب دھواں ہی دھواں ہے

نہیں شاعری اس کی عشرت کا نغمہ

فقط اس میں ناقِدؔ کی آہ و فغاں ہے

 

 

 

٭

تری یاد میں غم کے آنسو مسلسل پیے جا رہا ہوں

تعجب ہے جاناں کہ میں پھر بھی کیسے جیے جا رہا ہو

 

 

 

 

 

 

 

رقم کر رہا ہوں میں تیرہ شبی کا فسانہ

دکھائی تمہیں دے گا جس میں یہ سارا زمانہ

 

شب و روز مجھ کو مصائب ملے ہیں جہاں سے

ہوا اس لیے اپنی ہستی سے ازخود بیگانہ

 

مرا جسم زخموں کی آماجگاہ اس لیے ہے

بنا ہوں یہاں ہر کسی کے ستم کا نشانہ

 

مصائب کی مہریں ہیں چہرے پہ شکنوں کی صورت

مشقت سے حاصل کیا میں نے ہے آب و دانہ

 

نہ مخلص نہ مونس نہ ہے مہرباں کوئی ناقِدؔ

بنایا ہے صحرا کی خلوت میں اک آشیانہ

 

 

 

 

ذرا دنیا سمجھے مرے فکر و فن کو

سنوارا ہے میں نے ادب کے چمن کو

کبھی قربتیں اپنی بخشو ہمیں تم

کہ آرام پہنچے ہمارے بدن کو

رفو کرنا اب میرے بس میں نہیں ہے

کیا تار تار اس نے یوں پیرہن کو

چمن پر خزاں کیوں مسلط ہوئی ہے؟

اجاڑا ہے یوں کس نے سرو سمن کو؟

یہ دنیا تو نفرت کی ہے راج دھانی

سو میں بھول بیٹھا زمین و ذمن کو

مرے پاس ہیں حزن کی داستانیں

کوئی کیسے سمجھے گا رنج و محن کو؟

یہ ہے اک مرے پاس یادوں کی دولت

میں بھولوں ترے کیسے چاہِ ذقن کو

مرے دل کا امن و سکوں ہے وہ ناقِدؔ

مرے پاس لائے کوئی گل بدن کو

 

 

کوئی پرمسرت کہانی نہیں ہے

نہیں کچھ مزہ گر جوانی نہیں ہے

 

مرے نین اشکوں سے عاری ہوئے ہیں

رہا جیسے اب ان میں پانی نہیں ہے

 

شب و روز میرے پریشاں ہوئے ہیں

یہ کیا ہے اگر سرگرانی نہیں ہے

 

کیے راز افشا مرے تم نے سارے

کوئی بات اب کے سنانی نہیں ہے

 

سخن میرا ہے آگہی سے عبارت

مری بات کوئی بھلانی نہیں ہے

 

مرے شعر موجوں کی صورت ہیں ناقِدؔ

سو کیا یہ قلم کی روانی نہیں ہے؟

 

 

کمر توڑ دی میری حالات نے

بہت غم دیے مجھ کو دن رات نے

 

مرا غم فزوں سے فزوں تر ہوا

پریشاں کیا مجھ کو صدمات نے

 

ترے ہجر نے مجھ کو پاگل کیا

کرم یہ کیا تیری سوغات نے

 

صنائع بدائع ہیں زیبِ سخن

دیا ساتھ میرا علامات نے

 

تھا ناقِدؔ مرا کام مشکل بہت

کیا مسئلہ حل کرامات نے

 

 

 

ہے نیا عمریا کی ساحل کنارے

سو کر بیٹھا ہوں کام جیون کے سارے

 

حقیقت ہے جاناں یہ مانو نہ مانو

نہ ہم ہیں تمہارے نہ تم ہو ہمارے

 

یہ غمازی کرتے ہیں الجھے سے گیسو

ہیں بدلے ہوئے آج تیور تمہارے

 

نظر میں نہیں ہیں سماں دیدنی سے

مگر نین مانگیں سہانے نظارے

 

ہے جیون بھی اس کا مرن سا جہاں میں

فقط غم جسے دوسروں کا ہی مارے

 

ہیں ناقِدؔ یہاں عارضی سلسلے سب

مجھے چاہئیں مستقل کچھ سہارے

 

 

 

 

 

 

ابھی تک ترا نامہ پہنچا نہیں ہے

مجھے اس لیے چین آیا نہیں ہے

وہ جس سے تجھے پیار بے حد ہوا ہے

وہ تیری محبت میں رسوا نہیں ہے

علالت مری اب فزوں ہو گئی ہے

کہ اس نے مرا حال پوچھا نہیں ہے

فقط دلربا اپنا سمجھا ہے تم کو

کسی اور کو میں نے چاہا نہیں ہے

مرے دکھ پہ اب قہقہے مت لگاؤ

مرا حزن کوئی تماشا نہیں ہے

ہے محروم رونق سے ہر ایسی محفل

کہ جس میں ترا کوئی چرچا نہیں ہے

مری تجھ سے الفت کا باعث یہی ہے

کہ تجھ جیسا دنیا میں پایا نہیں ہے

سو ہم بھی نہ ہو پائیں گے اس کے ہرگز

اگر بے وفا وہ ہمارا نہیں ہے

جسے اہلِ دنیا سمجھنے نہ پائیں

کبھی میں نے وہ شعر لکھا نہیں ہے

طبیعت شرارت سے عاری ہے میری

کسی مہ جبیں کو بھی چھیڑا نہیں ہے

صباحت کے نشے میں کی جو جفائیں

کوئی دوش اس میں  تمہارا نہیں ہے

امر جانتا ہے مجھے دہر ناقِدؔ

مجھے صرف تو نے ہی مانا نہیں ہے

 

 

 

 

 

٭

ہمارا من بھی پیاسا ہے

سکوں سے ناشناسا ہے

میں دوں گا ساتھ تیرا ہی

یہی اس کا دلاسا ہے

 

 

 

 

 

تو نادر نمونہ صباحت کا ہے

کچھ اس بات میں رنگ چاہت کا ہے

 

کسی پل مجھے چین حاصل نہیں

کرم یہ سدا مجھ پہ قسمت کا ہے

 

کسی چیز سے مجھ کو مطلب نہیں

مجھے پاس بس تیری الفت کا ہے

 

کبھی دھوپ میں تم نہ نکلا کرو

کہ خطرہ تمہاری نزاکت کا ہے

 

کوئی اور بھی جرم ناقِدؔ نہیں

مرا دوش تو بس مودت کا ہے

 

 

 

 

 

اگرچہ مسلسل سفر میں رواں ہوں

کہاں پہنچنا تھا کھڑا میں کہاں ہوں؟

 

تصور ہزیمت کا بالکل نہ ہو گا

بصالت کے حامل اگر نوجواں ہوں

 

بنیں جو کبھی اپنی یادوں کی زینت

سو اپنی نظر میں بھی کچھ وہ سماں ہوں

 

امر رہنا چاہا ہے میں نے ابد تک

پس مرگ ہستی کے بھی کچھ نشاں ہوں

 

دمِ نزع ناقِدؔ ہو حاصل سعادت

تری باتیں ہی صرف وردِ زباں ہوں

 

 

 

 

 

ثبوت ہرگز نہ مل سکے گا کبھی بھی میرے معاشقے کا

یقین کر لو یہ سچ ہے لیکن کمال ہے میرے تجربے کا

 

اے جان میری اگر کہیں بھی ملے نہیں ہیں تو کچھ نہیں ہے

ملال اس کا نہیں ہے ہرگز یہ مسئلہ تو ہے رابطے کا

 

ہے جس نے مجھ کو ملال بخشا اذیتیں دیں ستم کیا ہے

اسے میں کیا نام دوں حقیقت میں ایک پتھر ہے راستے کا

 

کبھی جو آئے تو پاس میرے تو وقت مجھ کو سمجھ نہ آئے

محبتوں میں نہیں مسافت نیا بہانہ ہے فاصلے کا

 

ملے ستارے تو تم ملے ہو اگر نہ ملتے تو کیسے ملتے؟

کمال تیرا نہیں یہ ناقِدؔ، کمال ہے سارا زائچے کا

 

 

 

 

تو نے مجھ پر کیے ہیں ستم

ہوں سدا اس لیے محوِ غم

 

ہر جفا ہر سزا ہے عطا

سب کرم ہیں ترے دلبرم

 

چین بھی اب میسر نہیں

سوز بڑھتا گیا دم بہ دم

 

جو پڑھے تو پڑھے شوق سے

ہو گئی ہے کہانی رقم

 

لب پہ توحید و تہلیل ہے

آستیں میں نہیں ہیں صنم

 

ہم ہیں ناقِدؔ ذرا پرسکوں

جسم و جاں ہو گئے ہیں بہم

 

 

 

 

اک یاد کے سہارے

میں نے ہیں دن گزارے

مجھ کو خوشی ملی ہے

وارے ہوئے نیارے

مجھ کو دکھائے اس نے

دن کو گگن کے تارے

ہم کو ہے یہ شکایت

کب وہ ہوئے ہمارے؟

سانسوں میں ذکر تیرا

دھڑکن تجھے پکارے

سمجھو اسے غنیمت

زندہ ہیں غم کے مارے

رہنا اداس ناقِدؔ

بھاگوں میں ہے تمہارے

 

 

 

 

 

پڑھنا لکھنا کام ہمارا

کام یہ صبح و شام ہمارا

 

فکر ہماری بھی روشن ہے

سو زندہ ہے نام ہمارا

 

سچ لکھنا ہے ہر دم ہم نے

ہے برحق پیغام ہمارا

 

ہم نے عشق کی لاج رکھی ہے

ذکر ہوا ہے عام ہمارا

 

پیار کی ناقِدؔ پوجا کی ہے

یہ ٹھہرا الزام ہمارا

 

 

 

 

 

ہمیشہ جفاؤں پہ مائل وہی ہے

وہی میرا دلبر ہے قاتل وہی ہے

 

میسر ہوا جو مجھے لمس تیرا

مری زندگانی کا حاصل وہی ہے

 

اسی نے دیا مجھ کو ہر وقت دھوکا

اگرچہ وفاؤں کا قاتل وہی ہے

 

ہے جس شخص کی کرب سے آشنائی

ہوا راہِ الفت میں بسمل وہی ہے

 

کیے تو نے ناقِدؔ سے الفت کے پیماں

ستم سے ترے اب کے گھائل وہی ہے

 

 

 

 

 

ایک دنیا نئی بساؤں گا

تیری محفل سے روٹھ جاؤں گا

 

جو کہوں گا وہ سچ کہوں گا

بے سرو پا نہیں اڑاؤں گا

 

کچھ تو کم ہوں مصائب و آلام

دکھ تمہارے بھی میں اُٹھاؤں گا

 

جو بھی آئے گا چین پائے گا

بزمِ یاراں کو یوں سجاؤں گا

 

ظلم دم توڑ دیں گے اب ناقِدؔ

یوں چراغِ وفا جلاؤں گا

 

 

 

 

 

ہم نے جیون خوب گزارا

بے چینی ہے چین ہمارا

 

قریہ قریہ پھرتا ہے اب

دل بر تیرے ہجر کا مارا

 

ہے میری بے چین تمنا

حاصل ہو اب قرب تمہارا

 

اس دن سے بے چین ہوں میں تو

جب سے ہوا ہے تیرا نظارا

 

کرب میں گزری ہستی ناقِدؔ

ہر دم اپنا دل دکھیارا

 

 

 

 

 

صدمے سخت سہے ہیں یارو

بوجھ مثال بنے ہیں یارو

 

ہر دم ساتھ جیے ہیں یارو

آخر ساتھ مرے ہیں یارو

 

دنیا کے اس باغ میں ہم نے

کانٹے صرف چنے ہیں یارو

 

بن کر ہم سانسوں کی ڈوری

جیون سنگ رہے ہیں یارو

 

ناقِدؔ یاد رہیں گے ہر دم

وہ اشعار کہے ہیں یارو

 

 

 

 

 

 

شیشہ دل کا چور ہوا ہے

من مندر بے نور ہوا ہے

دنیا سے بیگانہ سمجھو

ہجر میں جو مخمور ہوا ہے

ہر غم کی روداد ملے گی

ہر قصہ مذکور ہوا ہے

کیا دل کش تھی اس کی قربت

وہ مجھ سے کیوں دور ہوا ہے؟

جس نے نین رلائے میرے

نظروں کو منظور ہوا ہے

جور جفا کا جبر ہے مجھ پہ

وہ کتنا مغرور ہوا ہے؟

ظلم کرو مظلوم پہ ہردم

کیسا یہ دستور ہوا ہے؟

ہجر میں ہر دم جل کر ناقِدؔ

اپنا دل بھی طور ہوا ہے

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل