FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی سنہری تحریریں

حصہ دوم

 

                مرتبہ: ساجد اسید ندوی

 

 

 

 

اسلام اور عدم تشدد

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم

اما بعد!  میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے گاندھی جی کے ایک اصول کے تعلق سے ہنسا اور اہنسا یا تشدد اور عدم تشدد کا لفظ بار بار سنا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ ڈکشنری میں اس لفظ کا جو معنی آتا ہے گاندھی جی اس معنی میں اہنسا کو مانتے تھے یا ان کے یہاں اس کے کچھ اصول، ضابطے، شرطیں اور حدیں بھی تھیں لیکن آج کی مجلس میں مجھے اس کی تلاش بھی نہیں۔ بلکہ مجھے ہنسا اور اہنسا کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے گفتگو کرنی ہے۔

البتہ اصل معاملے پر کچھ کہنے سے پہلے ایک بات واضح کر دینا ضروری سمجھتاہوں اور وہ یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے دین فطرت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر جو تقاضے رکھے گئے ہیں اسلام نے ان سب کی رعایت کی ہے، یعنی انھیں کچل کر ختم نہیں کیا ہے بلکہ ان کے لئے ایسا صحیح راستہ بتایا ہے کہ انسان کی فطرت کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں اور انسانی سماج میں اس سے کوئی برائی بھی جنم نہ لے، بلکہ انسانی سماج کو فائدہ ہی پہنچے۔

اس بات کو سامنے رکھ کر پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ تشدد اور عدم تشدد کے بارے میں انسان کی فطرت کیا ہے ؟ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اس کی جان ماری جائے، اس کے ہاتھ پاؤں توڑے جائیں، اسے مارا پیٹا جائے، یا اس کا دھن دولت چھین لیا جائے یا اسے بے عزت کیا جائے، مثلاً اسے گالی دی جائے، اس پر کوئی برا الزام لگایا جائے اور انسانی سوسائٹی میں اسے رسواکیا جائے۔ یعنی ہر انسان اپنی تین چیزوں کا بچاؤ چاہتا ہے ایک یہ کہ اس کا جسم اور جان محفوظ رہے دوسرے یہ کہ اس کا مال محفوظ رہے اور تیسرے یہ کہ اس کی عزت محفوظ رہے یہ انسان کی فطرت (نیچر )ہے۔

مگر یہ انسان کی فطرت کا صرف ایک پہلو ہے اس کے علاوہ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کسی انسان کو جان سے مار ڈالا جائے تواس کے باپ بیٹے اور گھرانے کے لوگ یہی چاہیں گے کہ مارنے والے سے اس کا بدلہ لیں۔ یہ لوگ چاہے جتنے بھی کمزور ہوں اور مارنے والے جتنے بھی طاقتور ہوں مگر جہاں تک ہو سکے گا بدلہ لینے کی کوشش اور جتن کریں گے اور اگر حالات سے مجبور ہو کر چپ سادھ بھی لیں تو ان کے دل میں اس کی حسرت اور کسک برابر باقی رہے گی اور انھیں ذرا بھی چھیڑ دیجئے تو اپنا دکھڑاسنانا شروع کر دیں گے اور دل کی آہ زبان پر آ جائے گی لیکن اگر بدلہ مل جائے تو ان کے دل میں حسرت نہیں رہ جائے گی۔ بلکہ انھیں اطمینان ہو جائے گا کہ انصاف مل گیا۔

یہ صورت اس وقت بھی ہوتی ہے جب کسی کا ہاتھ پاؤں توڑ دیا جائے یا اسے مارا پیٹا جائے یا اس کا مال چھین لیا جائے۔ مظلوم جب تک ظالم سے بدلہ نہ لے لے اسے چین نہیں ملتا اور اس کی آہ نہیں جاتی، اسی طرح کوئی کسی کو گالی دے دے یا مثلاً اس کی ماں پر تہمت لگا دے یا اور کسی ذریعہ سے بے عزت کر دے تو وہ اسے آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا، بلکہ جوابی کارروائی کرے گا اور اگر نہ کر سکا تو کڑھ کڑھ کر رہے گا اور من ہی من میں گالیاں دے گا، یہ ایسی حقیقتیں ہیں جنھیں جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جہاں انسان کی فطرت یہ ہے کہ اس کا جسم و جان، مال و دولت اور عزت و آبرو محفوظ رہے، وہیں انسان کی فطرت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص ان تینوں میں سے کسی ایک چیز پر حملہ کر دے تو اس سے بدلہ لیا جائے اور اگر وہ خود بدلہ نہ لے سکے تواس کو بدلہ دلایا جائے اس لئے اگر انسانی سماج کو کوئی ایسا نظام دیا جائے جس میں انسانی فطرت کے ان دونوں پہلوؤں کی رعایت کی گئی ہو تو وہ نظام تو کامیابی سے چل سکتا ہے لیکن اگر کوئی ایسانظام بنایا جائے جس میں ان دونوں میں سے کسی ایک بھی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہو تو وہ نظام فیل ہو جائے گا، اور کسی قیمت پر نہیں چل سکے گا۔

اس وضاحت کے بعد اب میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے ؟ جیساکہ میں نے عرض کیا اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے انسانی فطرت کے ان دونوں پہلوؤں کی پوری پوری رعایت کی ہے۔ یعنی آپ پہلے پہلو کو لیجئے تواسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی شخص کسی کی جان یا مال یا آبرو پر حملہ کرے۔ بلکہ اسلام نے نہایت سختی سے اس کی ممانعت کی ہے اور اسے بہت ہی برا اور گھناؤنا جرم قرار دیا ہے۔ میں اس بارے میں اسلام کی اصل کتاب قرآن مجید اور حدیث سے دو تین حوالے پیش کر دینا چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اسلام کے نزدیک ان جرائم کی حیثیت کیا ہے۔ قرآن مجید میں پچھلے زمانے کی ایک قوم کا ذکر کرتے ہوئے ایک اصول بیان کیا گیا ہے۔

انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا۔ (سورہ مائدہ)

یعنی جس نے کسی ایک جان کو بھی قتل کر دیا اور ایسانہ توکسی جان کے بدلہ لینے کے لیے کیا اور نہ زمین میں پھیلے ہوئے فساد سے نمٹنے کے لئے کیا تواس نے گویاسارے انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور جس نے ایک جان کو زندہ بچا لیا تواس نے گویا سارے انسانوں کو زندہ بچا لیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی شروعات کے طور پرکسی ایک بھی آدمی کو قتل کر دے تووہ اتنا بڑا مجرم ہے کہ گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے انسان کے قتل کا دروازہ کھولا۔ یہ ہے اسلام میں انسانی جان کا احترام۔ ۔

اسی طرح اسلام میں دوسرے کا مال کھانا بھی سخت حرام ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک بار محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک جائداد کا مقدمہ آیا۔ آپ نے سمجھایاکہ دیکھو میں بھی انسان ہوں ہو سکتا ہے کہ کسی کے زور بیان کی وجہ سے اس کو ڈگری دے دوں اور حقیقت میں مال اس کا نہ ہو تو پھر سن لو کہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کورٹ سے ڈگری بھی مل جائے تب بھی دوسرے کا مال کھانا اسلام کی نظر میں حرام اور نہایت ہی خطرناک جرم ہے۔ ایساآدمی اس دنیا میں اگر بچ بھی جائے تواس دنیا میں نہیں بچ سکتا۔

اب آدمی کی عزت و آبرو کا معاملہ لیجئے۔ اسلام میں اس کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک بار محمد صلی اللہ علیہ و سلم چند آدمیوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ پیچھے دو آدمیوں نے آپس میں باتیں کرتے کرتے ایک آدمی کو جو ایک سزامیں مارا گیا تھا، کتا کہہ دیا۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے کان میں یہ آواز پڑ گئی، آپ تھوڑی دور گئے تو دیکھا کہ ایک گدھا مرا پڑا ہے اور اتنا پھول گیا ہے کہ ٹانگیں تن گئی ہیں، آپ رک گئے اور ان دونوں سے کہا جاؤ اس گدھے کا گوشت کھاؤ۔ وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے کہ آخر ہم سے کیا جرم ہو گیا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ابھی تم دونوں نے ایک آدمی کو جو کتا کہا تووہ اس سڑے ہوئے گدھے کی لاش کھانے سے بھی زیادہ برا تھا، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کسی کی عزت پر بٹہ لگانا اسلام میں کتنا بڑا جرم ہے۔

اب تک کی گفتگو اس پہلو سے تھی کہ اسلام میں کسی کی جان یا مال یا آبرو پر حملہ کرنے کی قطعاً اجازت اور گنجائش نہیں لیکن اگر کوئی آدمی اس ممانعت کے باوجود کسی کی جان یا مال یا آبرو پر حملہ کر بیٹھے تو اسلامی حکم یہ ہے کہ حملہ آور کو ایسی سزادی جائے کہ مظلوم کو پورا پورا بدلہ مل جائے لیکن حملہ کرنے والے پر ظلم بھی نہ ہو۔ یعنی اس نے جتنا بڑا جرم کیا ہے اس سے بڑی سزانہ دی جائے اس بارے میں یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ عدالت اور کورٹ کو یا ملک کے سر براہ کو مثلاً صدر، راشٹرپتی، راجا، بادشاہ، گورنرجنرل وغیرہ کو اس بات کا کوئی اختیار نہ ہو گا کہ ایسے مجرم کی سزا معاف کر دیں یا کم کر دیں بلکہ یہ اختیار صرف ان لوگوں کوہو گا جن پر حملہ اور ظلم کیا گیا ہو۔

بیجا نہ ہو گا کہ اس موقع پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان جرائم کی اسلامی سزاکیا ہے ؟ سزایہ ہے کہ قاتل نے اگر جان بوجھ کر قتل کیا ہے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے اور اگر غلطی سے قتل کیا ہے تو اس پر بھاری مالی تاوان لگایا جائے اور تاوان مقتول کے گھر والوں کو دیا جائے۔ اگر کسی نے کسی پر حملہ کیا ہے تو حملہ آور نے جیسی چوٹ لگائی ہے اسے بھی ویسی ہی چوٹ لگائی جائے یا چوٹ کی نوعیت کے لحاظ سے کڑا مالی تاوان لگایا جائے، کسی نے کسی کا مال چوری کیا ہے تو کچھ خاص شرطیں پوری ہونے کی صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ لیا جائے ورنہ جج اپنی صوابدید سے مناسب سزادے، اور مال بر آمد ہو جائے تو اسے اصل مالک کے حوالے کر دیا جائے اسی طرح کسی نے کسی کی عزت پر بٹہ لگایا ہے تو ملزم کی حالت کا اندازہ کر کے جج کوئی ایسی سزا دے کہ ملزم آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔

ہاں اگر کوئی شخص کسی بدمعاش یا ڈکیت سے اپنی جان یا مال یا آبرو کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے تووہ مظلوم ہے لیکن اگر وہ خود حملہ آور کو مار ڈالے تو ظالم نہیں ہے، لہٰذا اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا دونوں کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک ایک ارشاد سناتاہوں۔ ایک بار آپ نے فرمایا جو اپنی جان بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنی آبرو بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے۔    (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ ص۳۔ ۵)

اور ایک بار ایک آدمی نے آ کر سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی آ کر میرا مال چھیننے لگے تو …؟آپ نے فرمایا : اسے اپنا مال نہ دو، اس نے کہا اگر وہ مجھ سے لڑائی کر بیٹھے تو …؟ آپ نے فرمایا تم بھی اس سے لڑ جاؤ، اس نے کہا اگر وہ مجھے قتل کر دے تو ؟ آپ نے فرمایا تم شہید ہو گئے۔ اس نے کہا اگر میں اسے قتل کر دوں تو؟ آپ نے فرمایا وہ جہنم میں جائے گا۔            (صحیح مسلم مشکوٰۃ ص ۳۔ ۵)

ان دونوں کا حاصل یہ ہے کہ اپنا بچاؤ کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ اگر بچاؤ کرنے والا خود مارا گیا تو مظلوم ہے اور حملہ آور سے اس کا بدلہ لیا جائے گا لیکن اگر حملہ آور مارا گیا وہ ظالم تھا اس لئے اس کا خون رائیگاں جائے گا اور بدلہ نہیں لیا جائے گا۔

یہاں اسلامی قانون کے ایک ایک ٹکڑے کی تفصیل بتانے کی گنجائش نہیں، مختصر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں کوئی بھی آدمی مظلوم مارا جائے تو اس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اگرکسی بھی طرح قاتل کا پتہ نہ چل کسا تو مقررہ مالی تاوان حکومت کے خزانے سے دیا جائے گا۔

اب تک کی گزارشات کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام تشدد شروع کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن جو تشدد کرے اسے آزاد بھی نہیں چھوڑتا اور نہ معمولی سزائیں دے کر اس کی ہمت کو بڑھا وا ملنے کا موقع دیتا ہے بلکہ جیساجرم ہے ٹھیک اسی کے مطابق سزادیتا ہے اور اس طرح تشدد کی جڑ کاٹتا رہتا ہے۔ در اصل پوری انسانی تاریخ کا تجربہ ہے کہ انسانی سماج سے اس طرح کے جرائم کبھی بھی ایک دم ختم نہیں ہو جاتے۔ مجرم انسان ہمیشہ پائے گئے ہیں اور ہمیشہ پائے جائیں گے اس لئے اس کا علاج صرف یہی ہے کہ سزا اتنی کڑی دی جائے کہ ایسے جرائم کم سے کم ہو کر نہیں کے برابر رہ جائیں۔

کڑی سزا کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور نرم سزاکانتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اس کا پتہ مختلف ملکوں میں ہونے والے جرائم کے اعداد وشمارسے لگایا جا سکتا ہے، امریکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار وپاسبان اور تہذیب و تمدن کا لیڈر شمار کہتا ہے مگر وہاں کے جرائم کے متعلق سات سال پہلے کی رپورٹ یہ ہے کہ :…

امریکہ میں ہر ۴۳/منٹ میں ایک قتل، ہر ۱۹/منٹ میں ایک عورت کا جبری اغوا، ہر دو منٹ میں ایک چوری، ہر بیس سکنڈمیں گھر پر حملہ، ہر ۴۸/ سکنڈمیں بس یا کار پر حملہ اور ہر بیس سکنڈ میں ایک ڈاکہ کا کیس پیش آتا ہے۔

یہ سات سال پہلے کی رپورٹ ہے اب ان جرائم میں کچھ اضافہ ہوا ہے اس کے برعکس سعودی عرب کو دیکھئے جہاں اسلامی سزائیں نافذ ہیں جنھیں موجودہ علمبردار ان تہذیب کڑی ہی نہیں وحشیانہ بھی کہتے ہیں۔ ان سزاؤں کے نفاذ کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں سال کے سال گزر جاتے ہیں اور قتل اور چوری، ڈاکے وغیرہ کی شاید باید ہی کوئی واردات ہوتی ہے اور وہ بھی عموماً باہری لوگوں کے ہاتھوں۔

آئیے ذرا اس معاملے کا جائزہ اس پہلو سے بھی لیں کہ امریکہ کے دور اندیش شہری اپنے یہاں کی مذکورہ صورتحال کے بارے میں کیاسوچ رہے ہیں اور ان کے نقطۂ نظر سے اس کا علاج کیا ہے ؟ چند سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان میں کچھ اخلاقی مجرموں کو مجمع عام میں کوڑوں کی سزادی گئی اس پر نیویارک ٹائمز نے استہزاء اور تمسخر کا انداز اختیار کیا اور اس موضوع پر اپنے یہاں مراسلات کا ایک کالم کھول دیا۔ اس کالم میں شکاگو کی رہنے والی ایک امریکن خاتون ایلا شرائر کا بھی خط چھپا، وہ لکھتی ہیں :

’’اسلام کے عدل و انصاف کے نام پر یہی میرا خیال ہے کہ ہمیں بھی اس قسم کی سزاکو رائج کرنا چاہئے جو فوری اور سنگین طور پر مجرموں کی گوشمالی کر سکے۔ اگر ہمارے یہاں اس قسم کا نظام رائج ہو تو ہم بھی آبروریزی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے خو ف سے بے نیاز ہو کر کوچہ و بازار میں چل پھر سکیں اور ممکن ہے ہمارے جیل خانے مجرموں سے اتنا نہ بھر یں جتنا آجکل بھرے ہوتے ہیں۔ ‘‘    (سیاست جدید کانپور ۱۲/دسمبر ۱۹۷۹ء )

اسی سے ملتاجلتا ایک اور واقعہ آج کل کا ہے کویت کی ایک خاتون جن کا نام ام المثنی ہے کچھ دنوں امریکہ میں رہیں۔ ان کا ایک تازہ بیان کویت کے ایک مشہور ہفت روزہ رسالہ المجتمع نے ۱۷/جولائی ۱۹۸۴ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں :

’’امریکہ میں اپنے قیام کے دوران کچھ دنوں کے لئے میں ایک ہسپتال میں بھرتی ہوئی وہاں ایک امریکن نرس سے میرا میل جول بڑھ گیا، چونکہ میں پابندی سے اسلامی چادر اوڑھتی تھی اس لئے وہ مجھ سے بار بار میرے ملک اور میرے مذہب کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی ایک دن ا س نے مجھ سے اسلامی سزاؤں کے بارے میں پوچھا کہ یہ سزائیں کیا ہیں ؟ میں نے کہا قاتل کو قتل کر دیا جائے، چور کا ہاتھ کاٹ لیا جائے۔ حرام کاری کرنے والے کو پتھر مار کر ختم کر دیا جائے یا کوڑے مارے جائیں …اور …بھی…

اور یہ سن کراس نے بڑی حیرت اور خوشی ظاہر کی کہنے لگی میری آرزو ہے کہ میرے ملک میں بھی اسلامی شریعت لاگو کی جائے پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کے ملک میں یہ سزائیں دی جاتی ہیں ؟میں نے کہا نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ بعض لوگ انھیں موجودہ زمانہ کے لائق نہیں سمجھتے اور خلاف تہذیب مانتے ہیں۔

پھر میں نے اس سے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ تم اسلامی شریعت کو لاگو کرنے کے بارے میں اتنی گرم جوش کیوں ہو؟ جب کہ خود میرے ملک کے بعض لوگ اس پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ جو شخص اتنی بہترین سزاؤں کو نشانہ بناتا ہے وہ غلطی کرتا ہے ہم لوگ اپنے ملک میں قتل، چوری، ڈکیتی، اغوا وغیرہ کے روزمرہ بے انتہا جرائم کی وجہ سے امن و امان کی بربادی اور لاقانونیت کی کڑی سزاجھیل رہے ہیں اور ان جرائم کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ کافی ثبوت مہیا ہو جانے کے بعد بھی مجرموں کو کوئی ایسی کڑی سزا نہیں دی جاتی کہ وہ آئندہ جرم کرنے کی ہمت نہ کریں۔

اس کے بعد اس نرس نے بتایا کہ اس کا شوہر پولیس میں ہے اور اس معاملے کی وجہ سے سخت مشکل سے دوچار رہتا ہے کیونکہ مجرم کو پکڑنے کے لئے پولیس یونٹ جس قدر محنت و مشقت کرتی ہے ان سب پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب جج ا س کو بے گناہ قرار دے دیتا ہے۔ یا معمولی سزادے کر چھوڑ دیتا ہے اس سے مجرموں کی ہمت اور بڑھ جاتی ہے اور وہ نئے سرے سے جرم کر کے شہریوں کا امن و امان تہ و بالا کرتے رہتے ہیں۔

یہ باتیں کہتے کہتے وہ نرس اداس ہو گئی اور رخصت ہونے سے پہلے بولی: تمھارے ملک کے جو لوگ ان سزاؤں کو لاگو کرنے کی مخالفت کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں انھیں چاہئے کہ ہمارے ملک کی جو درگت بن چکی ہے اس سے سبق سیکھیں اور اپنے ملک میں اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی ان سزاؤں کو لاگو کروا دیں۔ ‘‘

دور کیوں جائیے اپنے ملک میں باغپت (ضلع میرٹھ)میں جو حادثہ پیش آیا تھا کہ پولیس نے ایک عورت کو ننگا کر کے گھمایا تھا اور اس پر سخت ہیجان پھیل گیا تھا اس کے بعد اچھے اچھے ماہرین قانون نے جو رائے دی تھی کہ عورتوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے والوں کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اس طرح کے کیس بند کمرے میں سنے جائیں اور عورتوں سے بیان لینے والی جج عورتیں ہوں۔

سسوا بازار ضلع گورکھپور، اسی طرح دیوریا اور بستی ضلع کے بعض بعض دیہاتوں میں پولیس نے جس بے دردی سے عورتوں کی آبرو لوٹی، بیلچھی اور دوسری جگہوں پر جس سنگدلی کے ساتھ ہریجنوں کو اور جبل پور بھیونڈی وغیرہ میں مسلمانوں کو آگ کے اندر زندہ جلایا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے ملک میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مجرموں کو کڑی سزائیں دی جاتیں تو بڑے سے بڑا سورما بھی مجبوروں اور نہتوں پر اس طرح کا ظلم کرنے کی ہمت نہ کرتا، کڑی سزاؤں سے صرف بڑے بڑے جرائم ہی بند نہیں ہوتے بلک چھوٹے چھوٹے جرائم بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں جس کا ذکر پیچھے آ چکا ہے میں نے خود دیکھا کہ دکان کے نمونہ کا سامان رات بھر سڑک کے کنارے دکان کے باہر لٹکتا رہتا ہے، مگر کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ دوکان کھلی چھوڑ کر لوگ نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں، مگر ایک معمولی ساسامان بھی غائب نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کی کرنسیاں بدلنے والوں کی دکان کے پھاٹکوں پر ہر طرف نوٹوں کی گڈیاں اس طرح لگی رہتی ہیں کہ ہمارے یہاں پان کی دوکان والے بھی اس سے زیادہ احتیاط سے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود ایک نوٹ بھی غائب نہیں ہوتا، لوگ بینکوں سے لاکھوں لاکھ کے نوٹوں کی گڈیاں اس طرح مٹھی میں لے کر چلتے ہیں جیسے مولی ترکاری لے جا رہے ہوں۔ مگر مجال نہیں کہ کوئی بری نیت سے تاک دے۔ عورتیں دن یا رات میں کسی بھی وقت کہیں بھی جا رہی ہوں انھیں کوئی خطرہ نہیں۔

ہمارے سامنے پڑوس کے ملک پاکستان کی تازہ مثالیں موجود ہیں، جنرل ضیاء الحق نے جب پہلی بار اعلان کیا کہ اب پاکستان میں اسلامی سزالاگو ہو گی اور چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو اس کے ایک مہینے کے بعد قومی آواز لکھنؤ میں میں نے ایک چھوٹی سی خبر پڑھی کہ پہلے شہر کراچی میں ہر رات ۲۷/ چوریاں ہوتی تھیں جن میں سے اکثر چوریاں بہت بڑی ہوا کرتی تھیں مگر جنرل ضیاء کے مذکورہ اعلان کے بعد ۲۷/ روز میں صرف ۷/ چوریاں ہوئیں اور وہ بھی بہت معمولی قسم کی۔

اسی طرح جنرل ضیاء کی فوجی حکومت کے شروع دنوں کی بات ہے۔ تین بد معاشوں نے مل کر سات آٹھ سال کے ایک بچے کو اغوا کیا اور اس کے باپ کو فون پر نوٹس دی کہ فلاں دن فلاں جگہ غالباً چالیس ہزار روپئے پہونچا دو ورنہ بچے کو قتل کر دیا جائے گا، بیٹا بیٹا ہی ہوتا ہے اس کے سامنے روپئے پیسے دھن دولت کی کیا حیثیت؟ باپ نے روپئے بھجوا دیئے مگر کوئی لینے نہ آیا اور پھر بچے کی لاش پائی گئی۔ خفیہ پولیس مجرموں کی تلاش میں تھی ہی آخر تینوں پکڑے گئے، عدالت سے پھانسی کا فیصلہ ہوا۔ اور تینوں کو لاہور کے ایک چورا ہے پر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اور لوگوں کے دیکھنے کے لئے دیر تک لٹکتا چھوڑ دیا گیا، اس کے بعد یہ حال ہوا کہ جیسے دوسرے بدمعاشوں کی ہمت ہی جواب دے گئی ہو۔

اس طرح کی مثالیں تو بہت سی ہیں، مگر ہم مثالوں کے بجائے نتائج کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں نتائج یہ ہیں کہ کڑی سزادیجئے تو جرائم گھٹ کر نہیں کے برابر ہو جاتے ہیں اور سزانرم کر دیجئے تو لاکھوں اور کروڑوں تک جا پہونچتے ہیں۔ امریکہ میں جرائم کے جو اعداد و شمار بتائے گئے ذرا ان کاسالانہ حساب جوڑئیے تو معلوم ہو گا کہ وہاں سال بھر میں ۲۲۳، ۱۲ / آدمی مارے جاتے ہیں ؎۱۔ ۳۹۸، ۲۷/ عورتیں زبردستی اٹھا لے جائی جاتی ہیں، … ۸۔ ۔ ، ۶۷۶۲/ چوریاں ہوتی ہیں۔ ۸۸۔ ، ۷۶، ۱۵/ ڈاکے پڑتے ہیں اور گھروں، کاروں، بسوں پر ۲۔ ۔ ، ۶۵، ۲۳ حملے ہوتے ہیں، یعنی مجموعی طور پر سال بھر میں ۴۲۱، ۴۴، ۴۶/حادثے ہوتے ہیں۔ اور یہ کھلی بات ہے کہ اسی حساب سے خونی، ڈاکو، چور اور مجرم بھی تیار ہوتے ہیں۔

اب سوچئے کہ تشدد کو روکنے اور پبلک کو سکھ چین پہونچانے کے لئے یہ نظام اچھا ہے یا سعودی عرب جیسا وہ نظام جس کے نتیجے میں قاتل مقتول دونوں ملا کر مشکل سے دوچار جانیں جاتی ہیں اور مشکل سے چوری وغیرہ کے دس پانچ حادثے ہوتے ہیں اور خونی، ڈکیت چور وغیرہ تیار ہی نہیں ہونے پاتے، بلکہ فوراً ہی ان کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

اگر دنیا کو تشدد سے بچنا ہے تواس پہلو پر کھلے دل سے سوچنا پڑے گا۔

٭٭٭

 

 

 

اسلام اور عدم تشدد ۔۔ تشدد کے مذہبی اسباب

 

(گاندھین انسٹی ٹیوٹ بنارس میں کی گئی تقریر کی دوسری قسط)

 

اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس میں تشدد کے اسباب پر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ چونکہ انسان پر مذہب اور عقیدے کی گرفت سب سے مضبوط ہوتی ہے۔ اس لئے بیجا نہ ہو گا کہ ہم تشدد کے چند موٹے موٹے اسباب کی نشاندہی کر کے ان کے بارے میں اسلام کے موقف کی تعیین و توضیح کر دیں۔

انسانی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہو گا کہ تشدد کے اسباب مذہبی بھی ہیں، سماجی بھی اور اقتصادی بھی۔ مذہبی اسباب میں تشدد یاہنسا کی ایک خاص وجہ مورتی پوجا ہے۔ ہندوستان، یونان، مصر اور عراق جو مورتی پوجا کے خاص خاص گڑھ رہ چکے ہیں اور ہمارا ملک اب بھی ہے ان کے بارے میں تاریخ نے دو باتیں خاص طور سے نوٹ کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر جگہ کوئی نہ کوئی ایسی دیوی مانی گئی ہے جس کے متعلق عقیدہ تھا کہ اس کی مورتی پر انسان کا بلدان کیا جائے تووہ بہت خوش ہوتی ہے اس کے نتیجے میں ہر جگہ انسانوں کو مورتیوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا، ہمارے ملک میں جب اس طرح کی بھینٹ چڑھانے کا رواج حد سے بڑھ گیا تو مہاویر دردمان اور گوتم بدھ نے اپنے اپنے وقت میں اس کے خلاف آواز اٹھائی، اور چونکہ یہ مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں تشدد کے شکار عوام کے دل کی آواز تھی اس لئے کامیاب رہی، ہندوستان میں نہایت تیزی سے بدھ مذہب کے پھیلنے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ بھینٹ چڑھانے کی ان مسلسل کارروائیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ اب بھی کبھی کبھی اخباروں میں خبر آتی ہے کہ کسی نے فلاں دیوی کو خوش کر کے دھن دولت حاصل کرنے کے لئے کسی لڑکے کو پکڑ کر بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مجرم آدمی جب یہ سوچتا ہے کہ دیوی دیوتا ہم سے خوش ہو کر ہماراسب کام بنا دیں گے تووہ کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ اور مجرم ہو جاتا ہے۔

مورتی پوجا والے ملکوں کے بارے میں تاریخ نے دوسری بات یہ نوٹ کی ہے کہ وہاں کے مندر اور پوجا خانوں میں پجاریوں کے علاوہ دیوداسیاں بھی رہتی تھیں۔ عام طور پر ان دیوداسیوں سے پجاریوں کا ناجائز تعلق ہوتا تھا جس کے نتیجے میں ناجائز بچے پیدا ہوتے تھے اور سماجی عار سے بچنے کے لئے ان بچوں کا گلا گھونٹ کر مار دیا جاتا تھا۔ بلکہ بہت سے حالات میں خود بچہ جننے والی دیوداسیوں کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا، پھر اس طرح کی ہوس رانی اور حرام کاری کے عادی پجاریوں کا جذبۂ ہوس کچھ اور ترقی کرتا تو وہ زیارت اور عبادت کی غرض سے آنے والی عورتوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے اور اگر عورت کسی ایسے خاندان سے ہوتی جس سے انتقام کا اندیشہ ہوتاتواسے حرام کاری کے بعد قتل بھی کر دیتے تھے اور اس مقصد کے لئے خفیہ قتل گاہیں بھی بنی ہوتی تھیں، ہمارے شہر بنارس کی گیان واپی سے متصل مندر کے سلسلے میں اس طرح کے واقعات تاریخ بنارس کا ایک مشہور باب ہیں، اور اسی طرح کے المیے کے نتیجے میں اس مسجد کو ان قتل گاہوں کے کھنڈر پر خود ایک ماتحت ہندو حکمراں نے تعمیر کرایا تھا۔ یورپ میں عیسائی گرجوں کے اندر ننوں کے رکھنے کا رواج نکلا تو اس کا بھی یہی حشر ہوا جو مندروں میں دیوداسیوں کے رکھنے کا ہوا تھا۔

اسلام نے ا س طرح کے اسباب کی سرے سے جڑ ہی کاٹ دی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ پوجا صرف اللہ کی کی جائے کیونکہ اللہ کے سوا جو کچھ ہے محض نام ہے۔ کسی کے پاس کچھ طاقت اور اختیار نہیں۔ ان کے پوجنے سے مرنے کے بعد والی دنیا تو برباد ہوتی ہی ہے اس دنیا میں بھی جو کچھ ان کے لئے خرچ کیا جاتا ہے سب برباد جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں یہ تصور ہی نہیں کہ کوئی آدمی سادھوؤں کی طرح پجاری بن کر مستقل طور پر عبادت خانوں میں رہے اور وہاں عبادت کے لئے جانے والے اسی کے واسطے سے عبادت کر سکیں۔ نیز عورتوں کو صرف نماز باج ماعت میں شرکت کی اجازت ہے اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب کوئی خطرہ اور اندیشہ نہیں۔

ہنسا(تشدد) کی ایک اور بڑی وجہ مذہبی عصبیت اور جوش و جنون ہے جب ایک مذہب کا ماننے والا دوسرے مذہب کے لوگوں کوزبردستی اپنے مذہب میں لانا چاہتا ہے تو ہنسا اور تشدد کی واردات ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جب آرین قوم آئی تواس نے مذہبی اور نسلی اونچ کے غرور میں یہاں کے اصلی باشندوں کو اتنی بڑی تعداد میں قتل کیا، لوٹا، مارا اور زندہ جلایا کہ انھیں دکھنی ہندوستان کے جنگلوں میں پناہ لینی پڑی اور وہ ادھر ہی کے ہو کر رہ گئے۔ گوتم بدھ کی کوششوں سے جب بدھ مت نے عروج پکڑا تو ویدک دھرم کے آریوں کی مجنونانہ کارروائیاں رک گئیں۔ مگر جب بدھسٹوں کی حکومت کمزور ہوئی تو ویدک دھرم نے کھتری قوم کی جگہ تھوڑا سا روپ بدل کر راجپوت قوم تیار کی، اور بدھوں کے خلاف قتل، غارت گری اور لوٹ پھونک کا ایسا بازار گرم کیا کہ انھیں ہمالیہ کے اس پار بھاگنا پڑا، آج چین، جاپان، برما وغیرہ ملکوں میں بدھ مت کی اکثریت ہے لیکن یہ ہندوستان میں صرف نام کے لئے رہ گیا ہے ان لڑائیوں میں مارے جانے والوں کا اندازہ کروڑوں تک گیا ہے۔ یہ مذہبی جنون تھا اور اس کے پیچھے مذہبی تعلیم کام کر رہی تھی۔ سیتا رتھ پرکاش سمولاس ص ۵۹ میں لکھا ہے :

جو شخص وید اور وید کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے اس وید کی برائی کرنے والے منکر کو ذات، جماعت اور ملک سے باہر نکال دینا چاہئے۔

اور خود یجروید(ج۱ ص ۲۸) میں لکھا ہے ’’اے جاہ و جلال والے راج پرش !آپ دھرم کے مخالفوں کو آگ میں جلا ڈالیں وہ ہمارے دشمنوں کو حوصلہ دیتا ہے آپ اسے الٹا لٹکا کر خشک لکڑی کی طرح جلا ڈالیں۔ ‘‘

اس طرح کی تعلیم سے جو مذہبی جنون پیدا ہو گا وہ ظاہر ہے اور اس کا جو نتیجہ ہو اس کی طرف ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں۔

اسی طرح کا جنون دور وسطیٰ کے عیسائیوں میں بھی پایا جاتا تھا، لبنان اور فلسطین پر ان کا قبضہ ہوا تو انھوں نے نہتے مسلمان، مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو اتنی بڑی تعداد میں قتل کیا کہ سڑکوں اور گلیوں میں گھٹنوں سے اوپر تک خون بہ رہا تھا، اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو وہاں کے کروڑوں مسلمانون کو مارا اور زندہ جلایا گیا۔ مسلمان تو خیر عیسائیوں سے الگ ایک دوسرے دین و مذہب کے لوگ تھے۔ مگر عیسائی عدالت نے خود اپنے ملک کے عیسائیوں کو معمولی سے مذہبی اختلاف کی بنا پر ایک کروڑ بیس لاکھ کی تعداد میں ہلاک کیا۔ اکیلے اسپین میں تین لاکھ چالیس ہزار عیسائیوں کو قتل کیا گیا جن میں سے ۳۲/ ہزار زندہ جلائے گئے تھے۔

یہ مذہبی جنون کے نتیجے میں ہونے والے ہنسا اور تشدد کی چند مثالیں ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کے اندرسے اس کی بھی جڑ کاٹ دی ہے۔ اسلام کا اعلان ہے کہ لا اکراہ فی الدین۔ دین میں زبردستی نہیں۔ یعنی جو شخص اپنی مرضی سے جس دین اور مذہب میں چاہے رہے اسے زبر دستی دین اسلام میں داخل نہ کیا جائے گا بلکہ اسلام نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر کوئی شخص زبردستی محض اسلام کا کلمہ پڑھ لے اور دل سے مسلمان نہ ہو تو وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں۔ اس لئے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا سرے سے بیکار ہے۔ ظاہر ہے اس وسعت قلبی اور رواداری کے بعد مذہبی عصبیت اور جبر و دباؤ کا نہ کوئی وجود رہے گا نہ اس کی وجہ سے انفرادی یا اجتماعی تشدد پھوٹے گا، بشرطیکہ دوسرے دین دھرم کے ماننے والے بھی یہی اصول اپنا لیں۔

مذہبی عصبیت کی اسی راہ سے (ہنسا) تشدد کی ایک اور وجہ بھی جنم لیتی ہے یعنی دوسرے مذہب کی توہین اور بے عزتی۔ اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔ قرآن مجید میں حکم ہے : ولا تسبوا الذین یدعون دون اللہ فیسبواللہ عدوابغیرعلم۔ اللہ کو چھوڑ کر دوسری جن چیزوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ان چیزوں کو برا بھلا مت کہو۔ ورنہ وہ لوگ نادانی سے اللہ ہی کو برا بھلا کہیں گے۔

اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نہ دوسروں کے مذہب کی توہین کرتے ہیں نہ ان کے پیشواؤں اور پرکھوں کی۔ اور نہ ان کے مندروں اور عبادت خانوں کی۔ آپ ہندوستان پر مسلمانوں کی گیارہ سوسالہ تاریخ دیکھ ڈالئے انھیں اتنی قوت حاصل تھی کہ وہ یہاں جو کچھ چاہتے کر ڈالتے مگر نہ انھوں نے مندر توڑے نہ بت توڑے، نہ دوسرے دھرم کے پرکھوں کو برا بھلا کہا نہ ان کے ماننے والوں کو زبردستی مسلمان بنایا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف گیارہ، بارہ فیصد ہے۔ پنجاب محمود غزنوی کے زمانہ میں فتح ہوا تھا۔ اور بنگال مغلوں سے پہلے، لیکن ان دونوں علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کے بجائے بنگال پر انگریزوں اور پنجاب پر سکھوں اور پھر انگریزوں کی حکومت تھی۔ آپ یہ بھی دیکھ لیجئے کہ تین ساڑھے تین سوبرس تک سکھ اور مسلمان ایک دوسرے سے اکثر لڑتے رہے مگر مسلمانوں نے نہ کبھی گرنتھ صاحب کو جلایا نہ گرو نانک کی مورتی توڑی نہ ان کے کسی گرودوارے میں قدم رکھا۔ گولڈن ٹیمپل کی بات تو بہت دور کی رہی اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمان اگرچہ اپنے مذہب سے بہت کچھ دور جا پڑے تھے تاہم ان پر ان کے دین کی اس تعلیم کا کچھ نہ کچھ اثر باقی تھا کہ دوسرے مذہب کی مقدس کتابوں، عبادت خانوں اور بزرگوں کی توہین کر کے اس مذہب والوں کی دلآزاری نہیں کرنی چاہئے۔

مگر آپ ۴۷/ کے بعد کا حال دیکھئے ابھی ۳۷/برس بھی پورے نہیں ہو سکے کہ گولڈن ٹیمپل ڈھا دیا گیا۔ حالانکہ اس کی سپلائی کاٹ کر سارے لڑنے والوں کو زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ سیکڑوں گرودوارے روند دئے گئے اور مسلمانوں کے ساتھ جو اندھیر نگری مچی ہے اس کا تو کہنا ہی کیا ہے ملک آزاد ہوتے ہی مسلمانوں پر جو حملہ ہوا اس کے نامکمل اعداد و شمار یہ تھے کہ ہندوستانی علاقے میں دس لاکھ ساٹھ ہزار مسلمان مارے گئے اور اس کے بعد سے آج تک خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے اسے کہاں تک گنائیں۔ تنہا نیلی میں سرکاری اعداد و شمار تین ہزار اور غیر سرکاری دس سے تیرہ ہزار ہے، جبلپور، راؤرکیلا، تھانہ، احمدآباد، جمشیدپور، بھیونڈی، بمبئی وغیرہ وغیرہ ہزاروں فسادات کے اعداد و شمار الگ ہیں۔ پھر بربریت کا عالم یہ کہ سرکاری فورس تک کے بار ے میں سنا گیا کہ انھوں نے زندہ انسانوں کی آنکھ نکال لی اور ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لٹکا دیا۔ کسی کا بھاری پتھرسے گھٹنا اور کہنی توڑ کر زندہ چھوڑ دیا گیا۔ عورتوں کی بے حرمتی کر کے ان کی شرمگاہ پر تیزاب ڈال دیا گیا۔ قرآن کی الگ بے حرمتی کی گئی۔ مسجدوں کا حال یہ ہوا کہ ۴۷/ میں ساڑھے تین سوسے اوپر مسجد یں صرف دہلی میں ڈھائی گئیں یا انھیں رہائشی مکان میں تبدیل کر لیا گیا۔ دہلی کی ۹۔ / سے اوپر مسجدوں میں آج تک تالا پڑا ہوا ہے، جن میں سے شاید دوچار مسجدیں آج کل امام عبداللہ بخاری کے سخت پروٹسٹ کے بعد کھول دی گئی ہیں۔

مرادآباد کی عیدگاہ میں جو طوفان قیامت اٹھا اور چھوٹے بچوں تک کو جس طرح بھون دیا گیا وہ سب کو معلوم ہے، ہمارے مورخین(اتہاس لیکھکوں )نے مسلمانوں کے گیارہ سوسالہ دور حکومت کے متعلق جتنے افسانے گھڑ ڈالے ہیں اگر ان سب کو اکٹھا کر لو اور صحیح مان لو تب بھی وہ کل کے کل مل کر اس چتھیس، سینتیس برس میں ہونے والے ظلم اور اتیاچار کا سواں کیا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو سکتے۔

جہاں تک دوسرے مذہب کے بڑوں اور پرکھوں کی عزت اور قدرکاسوال ہے تو ذرا بازار میں نکلو، دکانوں پر بکنے والی کتابوں کو دیکھو، بلکہ اتہاس کے نام پر سرکاری کورس کے اندر جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اور ابھی تازہ بتازہ چھپ کر آیا ہے اسی کو دیکھ لو، وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جنھوں نے انسانیت کو ظلم و قہر اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت اور انسانیت کی روشنی میں پہنچایا اور جن کے متعلق دیکھو کہ یہاں کے لکھنے والے کیا لکھتے ہیں۔ کتنی بری زبان ہے، کیسا دلآزار بیان ہے اور کیسی جھوٹ کی بھرمار ہے۔ میں مسلمان ہوں لیکن سچ کہتا ہوں کہ میرے نہیں بلکہ دوسرے دھرم کے پیشوا کے بارے میں ایسی باتیں لکھی جائیں تومیں انھیں اپنی زبان پر لانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ گاندھی جی کی روح یقیناً کھڑی فریاد کر رہی ہو گی۔ اگر وہ کھڑی ہو سکتی ہو گی۔ کہ یہ کیا اندھیر نگری ہے جو گاندھی بھگتوں کے ہاتھوں ان کے دیش میں ہو رہی ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ مذہبی عصبیت و جنون اور دیوانگی کا اثر ہے اور کسی کی روح فریاد کر کے اس کو ختم نہیں کر سکتی۔ جب تک کہ اس کا صحیح علاج نہ ہو۔ جب تک ہنسا کرنے والوں کے ہاتھ نہ پکڑے جائیں اور نہتے مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں پر گولیاں چلانے والے سورماؤں کو تمغے دینے کے بجائے ان کا احتساب نہ کیا جائے، موٹی سی مثال سامنے ہے یہاں ہر سال آدھے ہزار کے قریب چھوٹے بڑے فساد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس کا کہیں نام و نشان نہیں۔ آخر کیوں ؟ اس کی وجہ کھوج کر اس کو اپنائیے۔ اگر گاندھی بھگتی سے علاج نہیں ہوتا تو جناح بھگتی سے کیجئے۔ بیمار کو دوا چاہئے۔ ڈاکٹر کون ہے اسے اس سے کیا مطلب؟

ہو سکتا ہے کہ اس مرحلہ پر ہمارے کچھ بھائی سومنات اور کچھ مندروں کا حوالہ دیں۔ اس بارے میں صحیح تاریخی حقیقت سمجھنے کے لئے ایک سوال پر غور کرنا ضروری ہے۔ محمود غزنوی کی فوجیں بنارس کے قریب تک آئیں۔ دریائے سندھ سے یہاں تک سیکڑوں مندر اور ہزاروں بت رہے ہوں گے، خود سومناتھ مندر کا حال یہ تھا کہ دو ہزار برہمن اس مندر کے پجاری تھے اور بڑے بڑے ہندو سرداروں کی پانچ سو جوان بیٹیاں اس مندر میں رہتی تھیں، لہٰذا لازماً اس مندر میں بھی بڑے بت کے علاوہ سکیڑوں اور بت تھے پھر کیا وجہ ہے کہ محمود غزنوی کی فوجوں نے تھانیسر، متھرا اور سومنات کو چھوڑ کر باقی پورے ہندوستان میں کہیں بھی نہ کسی مندر کو ہاتھ لگایا نہ کسی بت کو توڑا، یہاں تک کہ ان تینوں جگہ بھی کوئی بڑی توڑ پھوڑ نہیں مچائی بلکہ صرف ایک دو بت کو توڑا۔ پھر سومنات میں تو لاکھوں کروڑوں کا دھن دولت بھی بت بچانے کیلئے پیش کیا گیا۔ لیکن غزنوی نے ان سب کو ٹھکرا کر بت کو توڑا۔ کھلی بات ہے کہ اگر محمود غزنوی کو بت توڑنے سے دلچسپی ہوتی تو وہ ہر جگہ کے سارے بت توڑتا جاتا اور اگر دھن دولت سے دلچسپی ہوتی تو اسے اتنی دولت دی جا رہی تھی کہ بت توڑنے میں اس کا پاسنگ بھی ملنے کی امید نہ تھی بس اتنی سی بات پر آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ بت نہ دولت کے لالچ میں توڑا گیا تھا نہ مذہب دشمنی کی بنا پر بلکہ اس کی تہہ میں گولڈن ٹیمپل کی طرح کا کوئی اور معاملہ کار فرما تھا۔

اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ محمود غزنوی کے جو بارہ یا سترہ حملے مشہور ہیں ان میں سے ابتدائی کئی لڑائیاں ہندوستان کی اس وقت کی سرحد کے اس پار سیکڑوں میل دور غزنی اور ملغان کے علاقوں میں ہوئیں، یعنی یہ حملے غزنوی حکمرانوں نے نہیں کئے بلکہ ہندوستان نے کئے اور وہ بھی اس طرح کہ غزنوی حکمرانوں کو ترکستان اور خراسان میں الجھا ہوا پا کر سارے ہندوستان کی بے شمار فوجوں نے مہاراجہ پنجاب کی متحدہ کمان میں بے روک ٹوک پیش قدمی کر کے راجدھانی غزنی تک کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کے ہر حملے میں ہندوستان کا ٹڈی دل لشکر غزنی کی مٹھی بھر فوج کے مقابل بری طرح شکست کھا گیا۔ چونکہ ہر حملہ راجہ پنجاب کی قیادت میں ہوتا تھا اس لئے راجہ پنجاب نے ہر بار شکست کے بعد غزنوی حکمرانوں سے معافی مانگی، اور اسے ہر بار معاف کر دیا گیا۔ مگر ا نے ہر بار غداری اور بد عہدی کی اس طرح جب سلطنت غزنی پر چار حملے ہو چکے اور چار بار معافی مانگ مانگ کر غداری و بد عہدی کی جاچکی تب محمود غزنوی نے پنجاب پر جوابی حملہ کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔

اس عرصے میں باوجودیکہ محمود غزنوی نے راجہ پنجاب کو بے حد رعایتیں دئیے رکھیں اور اس کی نہایت خوفناک سازشوں اور بدترین غداریوں اور بد عہدیوں کو معاف کرتا رہا مگر اس شریفانہ برتاؤ کا جواب ہندوستانی راجاؤں کے پاس یہ تھا کہ ان ’’ملچھوں (مسلمانوں ) کو نیست و نابود کر ڈالو۔ یہ مذہبی جنون تھا جسے اسلام دشمنی نے دو آتشہ کر دیا تھا۔ اسی جوش جنون میں بدھ مت اور ویدک دھرم کی حیثیت سے ویشنو دھرم کی ایجاد عمل میں آئی اور اسی اسلام دشمنی کے جنون میں ہندوستانی راجاؤں اور برہمن پیشواؤں نے مسلمانوں کے بدترین دشمن قرامطہ سے سازباز کی اور حضرت علی کو دسواں اوتار مان کر قرمطہ کو بھی ہندو جاتی میں شامل کر لیا اور ان کے ذریعہ محمود غزنوی کے خاتمے کی سازش میں بحرین کے قرامطہ اور مصر کے عبیدیوں تک سے سانٹھ گانٹھ کی اس سازش کاسب سے پہلا گڑھ تھانیسر تھا، پھر متھرا مہابن اور سومنات۔ اور چونکہ اس کی لگام برہمن پیشواؤں کے ہاتھ میں تھی اس لئے یہ کام مذہبی دربار یعنی مندر میں انجام پاتا تھا۔ ان مندروں کے بڑے بتوں کے متعلق عوام کو یہ بھی یقین دلا رکھا گیا تھا کہ یہ محمود غزنوی کو نشٹ کر ڈالیں گے اور یہی یقین دہائی عوامی جوش و خروش کا سبب تھی اور یہ جوش و خروش اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ مالدار تو مالدار غریب اور بیوہ عورتیں تک چرخے کات کات کر اور اپنے زیور بیچ بیچ کر فوجوں کی تیاری میں مدد دے رہی تھیں۔

بار بار کے تجربے کے بعد محمود غزنوی اس کا انتظار نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی سلطنت پر پھر حملہ ہو۔ چنانچہ مجبوراً اس نے پیش قدمی کر کے پہلے تھا نیسر کا سازشی گڑھ ختم کیا پھر متھرا اور مہابن کا، یہاں کے بتوں کو توڑنا اس لئے ضروری تھا کہ جب تک وہ باقی رہتے ہندوؤں کا یہ یقین برقرار رہتا کہ محمود غزنوی نشٹ ہو جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ اور بے پناہ قتل و خونریزی کا سلسلہ جاری رہتا۔ اس کے برعکس بت توڑ دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان علاقوں سے جنگ کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

تھانیسر اور یوپی کے ان دو تین بتوں کے ٹوٹنے کے بعد عام ہندوؤں کا جنگی جنون توسرد ہو چلا تھا لیکن ابھی سازشی گروہ کے دم خم باقی تھے چنانچہ ایک مرتبہ پھر جنگی جوش و خروش پیدا کرنے اور غزنی کی سلطنت کے خلاف قتل و غارت گری کی متحدہ آگ بھڑکانے کے لئے برہمنوں نے تمام ملک میں اس بات کو شہرت دی کی سومنات کا بت تھانیسر اور متھرا کے بتوں سے ناراض تھا، لہٰذا اس نے موقع دیا کہ محمود ان بتوں کو تور دے اور اسی لئے سومنات نے محمود کی مخالفت میں کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن اب سومنات ایک چشم زدن میں محمود کا کام تمام کر دے گا کیونکہ وہ تمام بتوں کا بادشاہ ہے اور سمندر اس کی عبادت کے لئے مقرر ہ اوقات میں حاضر ہوتا ہے چونکہ جوار بھاٹا کی وجہ سے سمندر کا پانی کبھی مندر سے میلوں پرے ہوتا اور کبھی مندر تک آ جاتا۔ اس لئے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنایا جاتا کہ دیکھو یہ سمندر بت کی عبادت کرنے آیا ہے۔

بہر حال یہ کوشش اتنی بڑے پیمانے پر ہوئی کہ ایک بار پھر غزنی کے خلاف جنگ کا جوش بھڑک اٹھا، جس کا عالم یہ تھا کہ ہر رو ز ہردوار سے گنگا کا پانی سومنات پہنچتا تھا، اور اس کے ساتھ ہی سومنات میں ایک زبردست فوجی طاقت بھی جمع ہو گئی تھی بالآخر محمود غزنوی کو اس نئے خطرے کی طرف متوجہ ہونا پڑا، اس نے سومنات فتح کر کے خاص اس بت کو توڑدیاجس کے ہاتھوں محمود غزنوی کے نسٹ ہونے کی امید میں لاکھوں جانیں داؤں پر لگی ہوئی تھیں۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت سمجھی جا سکتی ہے کہ ہزاروں بتوں اور مندروں کے ہجوم میں سے محمود غزنوی نے جو دو تین بت توڑے تو اس کی یہ کارروائی مذہبی نہیں تھی۔ بلکہ گولڈن ٹیمپل کے واقعہ سے بھی زیادہ سیاسی قسم کی تھی۔

محمود غزنوی کے متعلق یہ تفصیل محض بر سبیل تذکرہ آ گئی ہے۔ مقصود صر ف یہ بتلانا ہے کہ اسلام مذہبی رواداری کا قائل ہے، نہ و ہ دوسرے مذہب کے بڑوں کی توہین کرتا ہے نہ ان کے مذہبی کاموں میں رخنے ڈالتا ہے، نہ ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرتا ہے، نہ کسی کو جبراًمسلمان بنانے کی اجازت دیتا ہے اور وہ دوسروں سے بھی یہی رواداری چاہتا ہے اسی لئے اسے یہ گوارا نہیں کہ کوئی طاقت اپنی طاقت کے زعم میں مسلمانوں کواسلام کی تبلیغ سے روکے یا انھیں زبردستی غیرمسلم بنائے یا جو اپنی آزاد مرضی سے مسلمان ہونا چاہے اسے مسلمان نہ ہونے دے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اپنے اندر اتنی سی رواداری پیدا کر لیں تو مذہب کی وجہ سے کسی طرح کی ہنسا اور تشدد نہیں ہو سکے گا۔

(اکتوبر ۱۹۸۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

اسلام اور عدم تشدد

 

( گاندھی انسٹی ٹیوٹ بنارس میں کئی گئی تقریر کی تیسری قسط)

 

اب تک ہم نے ہنسا کے چند بڑے بڑے مذہبی اسباب بیان کئے تھے۔ آئیے ! اب ایک دوسماجی وجہیں بھی سنتے چلیں جس سے خاص ہمارے ملک کو سامنا ہے۔ اہنسا کی ایک خاص وجہ ذات پات کا بھید بھاؤ اور اونچ نیچ ہے چنانچہ ہمارے ملک کا سماج جو چھوٹی بڑی اور اونچی نیچی ذات برادریوں میں بٹا ہوا ہے، اس کی وجہ سے یہاں آئے دن چھوٹی ذات والوں کے مارے پیٹے جانے، قتل کئے جانے اور زندہ جلائے جانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور غالباً اسی سے متأثر ہو کر چند سال پہلے الہ آباد کی انٹر نیشنل ہندو کانفرنس میں اپیل کی گئی تھی کہ ذات برادریوں کی اونچ نیچ اور باہمی چھوت چھات ختم کر دی جائے مگر چونکہ سماجی طبقات کی یہ تقسیم مذہبی (دھارمک)ہے اس لئے اس کا مٹانا سخت مشکل ہے اس کے لئے یا تو آدمی اپنا مذہب چھوڑ دے یا پھر مذہبی رہنما اپنے مذہب میں تبدیلی لانے کا اعلان کریں مگر یہ اعلان درحقیقت اس بات کا اعلان ہو گا کہ یہ خدائی مذہب نہ تھا بلکہ انسانوں کے اپنے تیار کردہ کچھ اصول و ضابطے تھے جنھیں مذہب کا تقدس دے کر نافذ کر دیا گیا تھا۔

اسلامی تعلیمات کو دیکھئے تو وہاں اس اونچ نیچ کا نام و نشان تک نہیں بلکہ مختلف سماجوں نے جو نیچ اونچ پیدا کر دی تھی، اسلام نے اسے برائی قرار دیتے ہوئے مٹایا اور مٹانے کی ترغیب دی۔ اس باب میں اسلام کی تعلیم قرآن کے الفاظ میں یہ ہے۔

یا ایھا الناس اناخلقناکم من ذکروانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔ (سورہ حجرات)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبیلے اور گروہ بنایا تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ ( ورنہ) تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے نیک ہو۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا۔

یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد۔ الا لافضل لعربی علیٰ عجمی۔ ولالعجمی علی عربی ولالاحمر علیٰ اسود ولاسود علی احمرا لا بالتقویٰ۔ (مسند احمد ۵/۴۱۱)

لوگو یاد رکھو! تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارے باپ بھی ایک ہی ہیں۔ یاد رکھو کہ نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر، مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔

اس طرح کی ہدایات بہت ہیں اور مختلف پیرائے میں ہیں مگر سب کو نقل کرنا مقصود نہیں، کہنا یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم اونچ نیچ کے خلاف ہے اور اس تعلیم کا اثر ہے کہ آج اتری ہندوستان اور اکا دکا جگہوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں مسلمانوں کے اندر اونچ نیچ کا کوئی تصور نہیں اور یہاں بھی اس کا جو تصور ہے وہ محض اونچ نیچ ماننے والوں کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے ہے اور وہ بھی صرف اتنا ہی ہے کہ لوگ شادی بیاہ میں تھوری سی کنی کترا جاتے ہیں۔ ورنہ ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے، کھیلنے کودنے، کاروبار کرنے، پڑھنے پڑھانے اور عبادت کرنے وغیرہ وغیرہ میں نہ کوئی تکلف ہے نہ ان معاملات میں اونچ نیچ یا چھوت چھات کا کوئی تصور ہے۔ اور اسی لئے مسلمانوں میں آپ کو اونچ نیچ کی لڑائی بھی نظر نہیں آئے گی جب کہ اسی ملک میں دوسرے لوگوں کی ذات برادریوں کا جھگڑا اتنا سخت ہے کہ اس کی وجہ سے پورے پورے گاؤں پھونک ڈالے گئے ہیں اور زندہ انسانوں اور جانوروں تک کو جلا دیا گیا ہے۔

٭٭

 

ہمارے یہاں تشدد(ہنسا) کا ایک اور سماجی سبب تلک یعنی جہیز کا لین دین ہے اس کی وجہ سے ایک طرف غریب گھرانے کی لڑکیوں کی شادی میں جو غیر معمولی دیر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آوارگی اور اخلاقی بے راہ روی ہے تو دوسری طرف سے اس تلک کی وجہ سے تشدد کے واقعات بھی بکثرت ہوتے ہیں۔ جب داماد کو اس کی منشا کے مطابق جہیز نہیں ملتا تو وہ اور اس کے کنبے کے لوگ لڑکی کوستانے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جس سے تنگ آ کر لڑکی کبھی تو خود ہی خود کشی کر لیتی ہے اور کبھی سسرال والے اسے جان سے مار ڈالتے ہیں اور حد یہ ہے کہ اس معاملے میں زندہ جلنے یا جلانے کی وارداتیں بھی بڑی کثرت سے ہوتی ہیں۔ اخباروں میں آئے دن اس طرح کی خبریں دیکھنے میں آتی ہیں، تنہا دہلی میں تلک کے معاملہ پر روز انہ ایک عورت کی ہلاکت کا واقعہ پیش آتا ہے، حکومت نے ہر چند اس کے لئے قوانین بنائے اور کوششیں کیں مگر یہ مصیبت ٹلتی نظر نہیں آتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سماجی تنظیمیں مسلمان عورتوں کی فرضی مظلومیت پر مگر مچھ کے آنسو بہا بہا کراسلام کو بدنام کرنے کی جان توڑ کوشش کرتی ہیں مگر دوسروں کی آنکھوں میں تنکے تلاش کرنے والی ان تنظیموں کو اپنی آنکھ کی موٹی سی لکڑی نظر نہیں آتی۔

قتل اور خود کشی کی بہت ساری وارداتیں اس وجہ سے بھی ہوتی ہیں کہ ہندوسماج میں شادی ہو جانے کے بعد مرد اور عورت میں جدائی اور طلاق کا تصور نہیں ہے اس لئے جب مرد عورت سے دامن چھڑانا چاہتا ہے تو اسے مار ڈالتا ہے اور جب عورت اپنے شوہر سے زچ ہو جاتی ہے تو خود کشی کر لیتی ہے اور کبھی کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ شوہر ہی کو مار ڈالتی ہے۔

اسلام نے مسلمانوں کو ان دونوں معاملات میں جو تعلیمات دی ہیں وہ بڑی صاف اور سادہ ہیں، مرد اور عورت گواہوں یا مجمع کے سامنے صرف زبانی اقرار کے بعد شوہر اور بیوی ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے دونوں میں سے کسی پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں رکھی ہے۔ صرف شوہر پر مہر کے بارے میں بھی یہ گنجائش رکھی ہے کہ وہ حسب استطاعت چاہے تو فوراً ادا کر دے چاہے تو زندگی میں کبھی بھی ادا کر دے، پھر شادی کے بعد شوہر کی طرف سے کھانے کی جو دعوت کی جاتی ہے۔ اس کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے دوچار دوستوں کو کوئی چیز چند لقمے کھلا دے۔ بس یہ ہے اسلام کا حکم۔ اس کے بعد آدمی کی اپنی مرضی ہے اس کے پاس مال و دولت ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا یا زیادہ کتنا خرچ کرے۔

اسی طرح اگر چہ اسلام نے اس بات کو بہت برا مانا ہے بلکہ اجازت والی چیزوں میں سب سے زیادہ برا مانا ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق دے۔ لیکن بہر حال اس کی گنجائش رکھی ہے کہ اگر مرد و عورت میں نباہ کی کوئی صورت نہ ہو تو ہر طرح سمجھنے سمجھانے اور دونوں خاندان کے لوگوں کی طرف سے روز ور دباؤ ڈالنے کے بعد آخری چارہ کار کے طور پر شوہر طلاق دے دے، یا عورت خلع کرالے۔ یہ بات چاہے جتنی بری ہو لیکن قتل اور خودکشی سے تو بہر حال کم بری ہے اس لئے طلاق کا قانون درحقیقت انسانیت پر اسلام کا احسان عظیم ہے اور دنیا کی وہ ساری قومیں جو طلاق کی قائل نہیں تھیں اب قائل ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے اس بات کا اقرار ہے کہ آج ان دونوں معاملات میں یعنی نیچ اونچ اور طلاق کے معاملات میں مسلمانوں کا عمل ٹھیک ٹھیک اسلامی ہدایات و تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اس لئے اس کا پورا فائدہ بھی انھیں نہیں مل پا رہا ہے، پھر دوسروں کے مقابل ان کا سماج بہت محفوظ ہے اور ان میں آپ ان معاملات کی وجہ سے قتل اور خود کشی کی واردات ڈھونڈھے سے بھی بمشکل ہی پا سکیں گے۔

٭٭

 

ہنسا(تشدد) کے اب تک جو اسباب ذکر کئے گئے ہیں انکے علاوہ تشدد کے معاشی اور نفسیاتی اسباب بھی ہیں۔ نفسیاتی اسباب میں حسد، کینہ، عداوت، ظلم، تعدی اور طاقت کی نمائش کا ذوق وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اور ان معاشی اور نفسیاتی اسباب کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات ہی سب سے زیادہ صحیح و معتدل اور ساری بیماریوں کا علاج ہیں مگر ان سب پر گفتگو کی گنجائش نہیں۔ البتہ ہنسا اور تشدد کے تعلق کے مزید ایک بات کہہ کر گفتگو ختم کرنا چاہتا ہوں، اور یہ بات ہے انفرادی تشدد کے بجائے اجتماعی تشدد کی۔ یعنی ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ و جدل کی۔

انسانی تاریخ کو کھنگالئے تو اندازہ ہو گا کہ جس طرح کے اسباب انفرادی تشدد کو جنم دیتے ہیں اسی طرح کے اسباب سے جنگوں اور لڑائیوں کے بھی دروازے کھلتے ہیں، کوئی قوم کسی قوم سے بڑی بن کر رہنا چاہتی ہو اس کی خوبیوں پر حسدسے جلتی ہو اور اس کی خوشحالی اور بہترین پیداوار پر للچائی ہوئی نظر رکھتی ہو تو موقع تلاش کر کے اور بہانے پیدا کر کے اس پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اور اسے مار کاٹ کر اور لوٹ کھسوٹ کر تباہ و برباد کر ڈالتی ہے۔ یہ بات اس وقت سے ہوتی آ رہی ہے جب سے انسان کی تاریخ معلوم ہے اور اب تک ہو رہی ہے اور ہر طرح کے بین الاقوامی معاہدوں اور کوششوں کے باوجود اس کے کچھ آثار نظر نہیں آتے کہ اسے روکا جا سکے گا۔

۷۱ء کے اخیرمیں بنگلہ دیش کی جنگ ہوئی تو اقوام متحدہ کے ۱۔ ۴/ممالک نے ہندوستان کے اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے اس سرزمین کو خالی کر دینے کی قرار داد پاس کی۔ صرف چار ووٹ اس قرار کے خلاف گئے جس میں ایک ہندوستان کا تھا۔ ایک روس کا اور دوروس کے حاشیہ برداروں کا پھر ہیگ کی عالمی عدالت نے بھی ہندوستانی اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بنگلہ دیش کی تشکیل خلاف قانون ہے۔ مگر ہندوستان نے ساری دنیا کے فیصلے کو ٹھکرا کر وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔

اسی طرح روس نے افغانستان پر دھاندلی سے قبضہ کر لیا۔ وہاں کے باشندے اپنی آزادی کے لئے موت و زندگی کی لڑائی لڑرہے ہیں اور ساری دنیا ہرسال قراردادپاس کرتی ہے کہ روس افغانستان سے نکل جائے مگر وہ سب کے فیصلوں کو روند کر افغانستان میں جما ہوا ہے۔ عربوں کی سرزمین پر طاقت کے زور سے اسرائیل کوبسایا گیا ہے پھروہ مدتوں سے اقوام متحدہ کی قرار دادیں رد کر کے عربوں کی مزید زمینیں ہڑپ کئے ہوئے ہے اور انھیں خالی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

یہ تین مثالیں میں نے صرف اس مقصد کے لئے پیش کی ہیں کہ آج بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل ہو رہا ہے اور آپ یہ یقین رکھئے کہ آئندہ بھی اسی پر عمل ہو گا۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی قوم پیدا نہیں ہوئی جس نے طاقتور ہو کر کمزوروں کو لوٹنے کھسوٹنے اور قتل و غارت کرنے کے بجائے عدل و انصاف دیا ہو۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو بین الاقوامی اسٹیج پر کھڑے ہو کر دنیا کی اور ساری قوموں کو مخاطب کر کے کہہ سکتے ہیں کہ ؎

ہم نے جب ہوش سنبھالا توسنبھالا تم کو

تم نے جب ہوش سنبھالا تو سنبھلنے نہ دیا

اس حقیقت کے پیش نظر اسلام نے مسلمانوں کو کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رکھا کہ دنیاسے جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ اس لئے اسلام نے اس مفروضے کے چکر میں ڈالنے کے بجائے مسلمانوں کو جنگ کے ایسے اصول اور ضابطے دئیے کہ تباہی و بربادی کی یہ سب سے بری اور بڑی لعنت بھی انسانیت کی خدمت کا ذریعہ بن گئی یعنی جتنے اسباب کے تحت دنیا میں جنگ ہوا کرتی تھی اسلام نے مسلمانوں کو ان سب سے روک کر صرف دوایسی منصفانہ وجہوں کے تحت جنگ کی اجازت دی کہ اگر دنیا کی دوسری قومیں بھی طے کر لیں کہ صرف ان ہی دو وجہوں کی بنا پر جنگ کریں گی تو سرے سے جنگ ہی نہ ہو گی۔ اسلام کے نزدیک جنگ کی ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی ملک یا قوم ان پر حملہ کر دے اور مسلمانوں کو اپنے بچاؤ کے لئے جنگ پر مجبور ہونا پڑے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ سے روکا جائے یعنی مسلمانوں کو اسلام پر عمل نہ کرنے دیا جائے ان کے مبلغین کو اسلام کی تبلیغ سے روک دیا جائے اور جو لوگ مسلمان ہونا چاہیں یامسلمان ہو جائیں انھیں قتل و قید کر کے یا مار پیٹ کر اسلام سے دور رکھنے یاغیرمسلم بنانے کی کوشش کی جائے۔ ان دو وجہوں یعنی مسلمانوں پر حملہ یا اللہ کی راہ سے روکنے کے علاوہ اور کسی وجہ سے اسلام لڑائی کی اجازت نہیں دیتا پھر ان دو صورتوں میں بھی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے دوسرے فریق سے گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے اور ہتھیار کا سہارا صرف اس وقت لیا جائے جب کوئی چارۂ کار اس کے سوانہ رہ جائے پھر اگر جنگ چھڑ جائے تو دوران جنگ اور بعد از جنگ مسلمانوں کو ایسے ضابطوں کا پابند بنایا گیا ہے کہ جنگ کے معاملے میں اس سے بہتر ضابطہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا یعنی مسلمانوں کو صرف لڑنے والوں سے لڑنے اور انھیں کو مارنے کی اجازت ہے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، سادھوؤں، راہبوں اور غیر متعلق لوگوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں، مویشیوں، کھیتیوں، مکانات اور باغات وغیرہ کو جلانے، اجاڑنے اور تاخت و تاراج کرنے کی بھی قطعی ممانعت ہے۔ قیدیوں میں سے صرف ان لوگوں کو سزائے موت دیے جانے کا ثبوت ہے جو صرف سپاہی نہ تھے بلکہ فساد کی جڑ اور جنگی مجرم تھے۔

پھر ان ساری پابندیوں اور احتیاط کے ساتھ بھی جنگ کی اجازت صرف اسی وقت تک کیلئے ہے جب تک کہ دوسرافریق صلح کی طرف نہیں جھکتا اور جنگ ہی پر اڑا ہوا ہے ورنہ جوں ہی دوسرا فریق صلح پر آمادہ ہو اسلام جنگ بند کر دینے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے :

وان جنحوا للسم فاجنح لھا وتوکل علی اللہ ۔ (التوبہ: ۶۱)

اگر وہ (یعنی مخالفین) صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کیلئے جھک جاؤ اور اللہ پربھروسہ کرو۔

اس حکم کا نتیجہ یہ ہے مسلمانوں نے پوری طرح چنگل میں آئے ہوئے دشمنوں بلکہ غداروں تک کی بھی درخواست صلح فوراً منظور کر لی۔ اور ہمیشہ نہایت فیاضی، رعایت اور کشادہ دلی سے کام لیا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق سے صلح حدیبیہ کا واقعہ اور ہندوستان کے تعلق سے جے پال و آنند پال کے لئے سبکتگین اور محمود غزنوی کی معافیاں اور رعایتیں اس کی واضح مثال ہیں۔

اسلامی قوانینِ جنگ کے متعلق ان مختصر اشارات سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اسلام کے نزدیک جنگ کا معاملہ مذہب کے پھیلاؤ یا جارحیت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ خالصۃً بین الاقوامی امن و امان اور مذہبی خودمختاری و آزادیِ فکر کے قیام سے تعلق رکھتا ہے۔ واقعات کی حتمی شہادت بھی یہی ہے، اسلام سے پہلے کا عرب لڑائیوں اور قتل و غارت کے لئے بہت مشہور ہے۔ میں اس سلسلے کا ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔ اسلام کی آمد سے کچھ پہلے دو چچا زاد قبیلوں بکر اور تغلب کے درمیان صرف اتنی سی بات پر جنگ چھڑ گئی کہ ایک قبیلہ کے ایک آدمی کا اونٹ دوسرے قبیلے کے ایک آدمی کی چراگاہ میں چلا گیا تھا، پھر اس جنگ نے اس قدر طول پکڑا کہ رہ رہ کر چالیس برس تک جنگ ہوتی رہی اور مجموعی طور پر فریقین کے کوئی ستر ہزار آدمی یعنی اوسطا ہر قبیلے کے ۳۵/ ہزار آدمی مارے گئے لیکن پھر بھی کوئی قبیلہ دوسرے کے سامنے جھکنے اور اس سے صلح کرنے پر آمادہ نہ ہوا حالانکہ دونوں اصلاً ایک ہی قبیلے کی دو شاخ تھے۔

اب آپ ایک طرف عربوں کی یہ اکڑ اور ان کا یہ جنگجویانہ مزاج کو رکھئے اور دوسری طرف اسلامی جنگوں اور اسلام کے پھیلاؤ کو دیکھئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں جنگ کے جتنے واقعات پیش آئے ان سب میں مسلمان اور ان کے مخالفین دونوں کو ملا کر مجموعی طور پر جو لوگ قتل کئے گئے ا نکی تعداد صرف ۱۔ ۱۸/ہے، ۲۵۹ مسلمان، ۵۹ ۷غیر مسلم( غیر مسلم مقتولین کی تعداد غالباً اس لئے زیادہ تھی کہ وہ زیادہ تعداد میں شریک جنگ ہوتے تھے، چنانچہ جنگ بدر میں ۳۱۳ /مسلمان تھے اور ایک ہزار غیرمسلم، جنگ احد میں ۷۔ ۔ /مسلم، ۲۔ ۔ ۔ / غیر مسلم۔ ۔ جنگ خندق میں تین ہزار مسلمان، دس ہزار غیرمسلم۔ ۔ جنگ موتہ میں تین ہزار مسلمان، دو لاکھ غیرمسلم۔ جنگ ہوازن میں بارہ ہزار مسلمان اور چالیس ہزار غیر مسلم تھے۔ )لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے دور میں پورے عرب کے اندر اسلام پھیل گیا یعنی شمال مغرب اور شمال مشرق میں شام و عراق کی سرحدوں سے لے کر بحر ہند خلیج اور بحر قلزم کے سواحل تک ہر جگہ اسلام پھیل گیا اور اس پورے علاقے پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ جس عرب کے صرف دو قبیلے اپنے ۳۵، ۳۵ / ہزار جان گنوا کر بھی اپنے مخالف کے سامنے سرجھکانے پر تیار نہ ہو سکے کیا اس پورے عرب کے سیکڑوں قبائل کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر ان سب کے صرف ۷۵۹/آدمیوں کو قتل کر کے انھیں ان کی مرضی کے خلاف ایک دوسرا دین و مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا، ہرگز نہیں، اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام اپنے پھیلاؤ کی بنیاد اپنے سادہ اور سچے اصولوں، خداپرستی کی بہترین تعلیمات اور ہر طرح کے سماجی و معاشی اور معاشرتی عدل و انصاف اور اپنے مبلغین کی سچی تبلیغی خدمات پر رکھتا ہے مگر اس مقصد کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کرتا، بلکہ طاقت کا استعمال صرف اس وقت کرتا ہے جب کسی کی جارحیت ختم کرنی ہو۔ یا مذہب کے بارے میں لوگوں کی خود مختاری کے اندر کسی طاقت کی مداخلت بند کرانی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی شخص جو حق و انصاف کا مطلب جانتا ہے وہ اسے نہ تو ظلم کہہ سکتا ہے نہ ہنسا(تشدد) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تشدد کی اس خوفناک صورت یعنی جنگ کو کم سے کم کرنا ہو یا مٹانا ہو تو یہ کام ان اصولوں کاسہارالئے بغیر ممکن نہیں، جنھیں اسلام نے اب سے چودہ سو برس پہلے طے کر کے جنگ کی بھٹی میں سلگتی ہوئی دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنا دیا تھا۔

٭٭

اسلام اور اہنسا کے تعلق سے یہ چند گزارشات ہیں جنھیں وقت مقررہ کا لحاظ کرتے ہوئے میں اختصار سے پیش کیا تھا۔ اس کے بعد چائے نوشی کے لئے مجلس برخاست ہو گئی، پھر چند منٹ بعد سوال و جواب کے لئے دوبارہ مجلس منعقد ہوئی۔ سوال و جواب کی تفصیلات ان شاء اللہ اگلی قسط میں پیش کی جائے گی۔

(نومبر ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

اسلام اور عدم تشدد۔۔ سوال و جواب

 

گاندھی انسٹی ٹیوٹ بنارس میں مذکورہ موضوع پر جو تقریر کی گئی تھی پچھلی تین قسطوں میں وہ پوری تقریر بعض اضافی توضیحات سمیت پیش کی جاچکی ہے، تقریر کے خاتمے پر چائے نوشی کی خاطر چند منٹ کے لئے مجلس برخاست ہوئی اور پھر دوبارہ منعقد ہو گئی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا کاشی ودیاپیٹھ(کاشی یونیورسٹی) کے وائس چانسلر جناب راجہ رام شاستری صدر مجلس تھے۔ سب سے پہلے انھیں نے سوال کیا۔ ان کاسوال یہ تھا۔

 

سوال:… آپ کی تقریر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی پر ظلم و تشدد ہویا اسے قتل کر دیا جائے تو اسلام اس کو یا اس کے اولیاء کو پورا پورا بدلہ دلانے کا ذمہ دار ہے۔ البتہ اگر وہ خود چاہیں تو اپنی آزاد مرضی سے مجرم کو معاف کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مجرم کو معاف کر دینا بہتر ہے یا بدلہ لینا بہتر ہے یا دونوں برابر ہے ؟ اور اسی ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ جو شخص بدلہ لیتا ہے اور جو شخص معاف کر دیتا ہے وہ دونوں برابر ہیں یاکسی کا درجہ دوسرے سے بلند ہے ؟ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔

 

جواب:…مجرم کو معاف کر دینا بہتر ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے : وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصٰبرین۔ (سورہ نحل: ۱۲۶) اگر تم بدلہ لو توویساہی بدلہ لو جیساتشدد تم پر کیا گیا ہے اور اگر تم صبر کر لو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کیلئے بہتر ہے۔ البتہ اس موقع پر حکومت اور سماج کو یہ لحاظ رکھنا ہو گا کہ معافی کے نتیجے میں مجرم کے اندر جرم اور ظلم کی جرأت وجسارت اور نہ بڑھ جائے۔ اگر اس کا اندیشہ اور ایسی علامات پائی جائیں تو اگر چہ مجرم سے انتقام نہیں لیا جائے گا لیکن کوئی ایسی سزا(مثلاً قید) دی جائے گی یاکسی ایسی پابندی کا انتظام کیا جائے گا کہ دوبارہ جرم کا امکان کم سے کم رہ جائے۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ معاف کر دینے والے کا درجہ بدلہ لینے والے سے بہتر ہے۔ یہ دنیا میں بھی ا س کے معزز اور شریف النفس ہونے کی علامت ہے اور آخرت میں بھی بلندیِ درجات کا ذریعہ ہے۔

صدر مجلس کے ان دوسوالوں کے بعد مجلس کے ایک مسلمان ممبر نے سوال پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے تاریخ کی بھول بھلیوں سے نکل کر معروضی اندازسے گفتگو کی بات کئی بار دہرائی اور اسلام کے ابتدائی دور کے بعض حادثات کی طرف بھی اشارے کئے مگر انھوں نے کوئی متعین سوال نہیں کیا، اس لئے میں نے ان سے عرض کیا کہ وہ اپنے سوالات یا اعتراضات متعین فرما دیں تومیں ان کا جواب دوں مگر اتنے میں ایک تیسرے صاحب نے جن کا اسم گرامی متل تھا اپنے سوالات پیش کر دئیے۔ یہ سوالات جہاں تک اندازہ ہوا۔ مسلمان ممبر کی پیش کی ہوئی باتوں پر مبنی تھے۔ البتہ اس میں متل صاحب کے اپنے تبصرے بھی شامل تھے ا س لئے اب انھیں کے سوالات پیش کئے جا رہے ہیں۔

متل صاحب کا ارشاد تھا کہ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ عرب ابتدا ہی سے خونخوار تھے، اور اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعہ ان کی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں ان میں تو خیر ان کا مقابلہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے تھا لیکن ان کے بعد جب پورا عرب مسلمان تھا تب بھی ان میں باہم لڑائیاں ہوتی رہیں۔ دوسرے اور تیسرے خلیفہ کو شہید کیا گیا۔ حضرت علی اور معاویہ میں جنگ رہی اور خود پیغمبر صاحب کے نواسے حضرت حسین کو کربلا میں قتل کر دیا گیا۔

جواب:… اسلامی دور میں جو کچھ پیش آیا وہ عربوں کی خونخواری نہیں بلکہ فطری، سادگی، انسانیت نوازی اور اصول پسندی کی دلیل ہے۔ دوسرے خلیفہ کسی مسلمان یا عرب کے ہاتھ سے نہیں بلکہ ایک غیر مسلم ایرانی کے ہاتھ سے مارے گئے تھے اگر ان میں فطری سادگی کے بجائے بادشاہوں جیسی ٹیپ ٹاپ ہوتی اور باڈی گارڈ کا انتظام و اہتمام ہوتا تو شاید اس کی نوبت ہی نہ آتی، پھر یہ واقعہ انفرادی اور شخصی تھا اس میں زیادہ سے زیادہ جو شبہ کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اس میں مدینہ کے اندر موجود ایرانیوں کی پس پردہ سازش رہی ہو۔ مگر بہرحال یہ خونخواری کسی مسلمان نے نہیں بلکہ غیر مسلم نے کی تھی۔

تیسرے خلیفہ کی شہادت کا بھی کئی پہلو قابل غور ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ واقعے کی اصل صورت آپ کے سامنے رکھ دوں، ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے زمیندارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے ظلم و جبر کا یہ حال تھا کہ کسان اور کاشتکار تو نان شبینہ کو ترستے تھے مگر معمولی معمولی زمیندار لاکھوں روپئے کے ہیرے جواہرات کا تاج پہنے بغیر گھرسے باہر نہ نکلتے تھے۔ اس لوٹ کھسوٹ کی فضا میں جب اسلامی فوجوں نے ایران فتح کیا تواسلامی تعلیمات کی سادگی، انصاف، مساوات اور مسلمانوں کا شریفانہ برتاؤ دیکھ کر ایرانی عوام فوج در فوج مسلمان ہو گئے۔ اس لہر کو دیکھ کر زمینداروں اور جاگیرداروں نے محسوس کیا کہ اگر ہم حلقہ بگوش اسلام نہ ہوئے تو ہماری آبرو عوام تو درکنار شاید غلاموں کے برابر بھی نہ رہ جائے گی۔ کیونکہ ایرانی عوام ہمارے قبضے سے آزاد ہو کر اور انصاف کے سائے میں آ کر ہم سے سخت نفرت کریں گے۔ لہٰذا انھوں نے بھی بظاہر اسلام قبول کر لیا۔ مگر ان بڑے لوگوں کی ایک خاصی تعداد ایسی تھی جواسلام کو اپنے لئے باعث رسوائی سمجھ رہی تھی اور دو بدو جنگ میں ناکام ہونے کے سبب کوئی پس پردہ تحریک چلانے اور اسلامی نظام کو پلٹ دینے کی تدبیر سوچ رہی تھی۔ اور یہی انداز فکر یہودیوں کا بھی تھا ان دونوں گروہ کے چالباز لوگوں نے مل کر مجرموں اور حکومت کے سزا یافتہ بدمعاشوں کو اندر ہی اندر تیار کرنا شروع کیا۔ پھر خاندان رسالت کی محبت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دام میں پھانسا، اس کے بعد خلیفۃ المسلمین کے خلاف جھوٹے اور غلط الزامات کی تشہیر شروع کی، جس سے بہت سے اچھے دیندار و تقوی شعار اور سوجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان بھی متاثر ہو گئے۔ ان سب نے دارالحکومت مدینہ کی طرف احتجاجی مارچ کیا اور خلیفۃ المسلمین کے خلاف اپنے الزامات کی فہرست پیش کی۔ خلیفہ نے ان الزامات کا جواب دیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کوئی اصل نہیں، اس کے بعد سارے مجمع نے مطمئن ہو کر واپسی کی راہ لی، مگر سازشیوں نے کچھ دور جا کر اپنے خاص خاص آدمیوں کے قتل کے حکم کی جھوٹی دستاویز پیش کر کے مجمع کو پھر بھڑکا دیا اور اس نے واپس آ کر خلیفہ کا مکان گھیر لیا۔ گفتگو کے بعد ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ الزام جھوٹا اور بناوٹی ہے لیکن سازشیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر خلیفۃ المسلمین کو شہید کر دیا۔

اس مختصر توضیح سے سمجھاجا سکتا ہے کہ تیسرے خلیفہ کی شہادت بھی عربوں یا مسلمانوں کی خونخواری کی علامت نہیں، کیونکہ یہ یہودیوں اور ایرانیوں کی سازش کا نتیجہ تھی، دور جاہلیت میں عرب جس طرح کے خونخوار تھے اگر اسلام کے بعد بھی ان کی وہی کیفیت رہی ہوتی تو مدینہ میں سرے سے کوئی شخص ایسی نیت سے قدم رکھنے کی جرأت ہی نہ کر سکتا تھا، اور خدانخواستہ وہاں پہونچ جاتا تو اتنا بڑا جرم کرنے کے بعد زندہ بچ کر جا نہ سکتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود مدینہ کی فوج حرکت میں نہیں آئی کیونکہ جب تک تیسرے خلیفہ زندہ تھے انھوں نے کارروائی کی اجازت نہ دی تھی۔ اور جب شہید کر دئیے گئے تو نئے خلیفہ کے بر سراقتدار آنے اور ان کا فیصلہ صادر ہونے کی منتظر رہی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں نے اسلام لانے کے بعد دور جاہلیت کے جذبۂ خونخواری کو ایک دم اتار پھینکا تھا(اب اندرا گاندھی کے قتل پر ہندوستان میں بھڑکنے والے ہنگامہ سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے )۔

پھر حضرت علیؓ اور ان کے مخالفین کا جھگڑا بھی اسی بنیاد پر تھا۔ تیسرے خلیفہ کے قاتل ان کے لشکر میں شامل تھے۔ مخالفین کا مطالبہ تھا کہ ان سے قصاص لیں اور حضرت علیؓ کا خیال تھا کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں اس پر مخالفین نے ان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور حضرت علیؓ نے انھیں باغی قرار دے کر فوج کشی کا فیصلہ کر لیا اس فیصلے میں اور اس کے بعد ہونے والی جنگ میں بھی سازشیوں کا پورا پورا ہاتھ تھا۔

اس توضیح سے بھی سمجھاجا سکتا ہے کہ یہ خونخواری یالوٹ کھسوٹ کی جنگ نہ تھی بلکہ اصولوں اور آدرشوں کی جنگ تھی پھر اس جنگ کی بھی کیفیت یہ تھی کہ نہ کسی فریق نے دوسرے کا ساز وسامان لوٹا نہ کسی زخمی پر تلوار اٹھائی، نہ کسی واپس جانے والے کا پیچھا کیا۔ بلکہ حالت یہ تھی کہ اگر دونوں فریق کے بیچ میں عین لڑائی کے دوران کوئی غیر متعلق یا نہتا آدمی کھڑا ہوا تو اس پر کسی بھی فریق نے ہاتھ نہ اٹھایا۔

اب آپ ایک طرف دور جاہلیت کا نقشہ ملاحظہ فرمائیے کہ انھوں نے مذہبی طور پر چار مہینے حرام کے مانے تھے (جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا) ان مہینوں میں وہ ادھر ادھر آمدورفت اور تجارت وغیرہ کر کے اپنی سال بھرکی ضروریات جمع کر لیتے تھے، باقی آٹھ مہینے کیفیت یہ رہتی تھی کہ ہر قبیلے کا ایک علاقہ ہوتا تھا وہ اپنی آبادی کے اس علاقے سے باہر نہیں نکل سکتے تھے باہر قدم رکھتے ہی دوسرے قبیلے کے لوگ اسے لوٹ لیتے اور قتل کر ڈالتے بلکہ اپنی آبادی کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی کوئی قبیلہ محفوظ نہ رہتا تھا۔ دوسرا قبیلہ جوں ہی یہ محسو س کرتا کہ ہم اسے ہرا سکتے ہیں اس پر حملہ کر دیتا اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں، جوانوں میں تمیز کئے بغیر جس کو پاتا قتل کر ڈالتا اور جو کچھ پاتا لوٹ لیتا۔

ایک طرف جاہلیت کی یہ لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت دیکھئے اور دوسری طرف اسلامی جنگوں کا حال دیکھئے کہ وہاں میدان جنگ سے باہر جنگ کا کوئی اثر نہیں۔ ایک عورت تن تنہا اونٹ پر بیٹھ کر عراق سے مکہ آتی اور جاتی مگر اس پر کوئی چوں کرنے والا نہ تھا۔ پوری دنیائے اسلام میں کہیں کسی کو جان یا مال کا خطرہ نہ تھا اور خود میدان جنگ میں بھی صرف فوجیں ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں۔ غیر متعلق آدمی اگر دونوں فوجوں کے بیچ سے گزر جائے تو بھی اسے کوئی کچھ کہنے والا نہ تھا۔ آپ سوچئے کہ اسلامی دور کی ان لڑائیوں کو جاہلی دور کی لوٹ کھسوٹ سے کیا تعلق؟یہ خالص اصولوں کی جنگ تھی اور وہ خالص غارت گری۔

۱۳۹۹ھ / ۱۹۷۹ء کے حج کے بعد محرم ۱۴۔ ۔ ھ میں سعودی حکومت سے بغاوت کر کے جن لوگوں نے خانۂ کعبہ پر قبضہ کیا تھا، ان کے ساتھ ہونے والی جنگ کا بھی ٹھیک یہی نقشہ تھا۔ باغیوں اور سعودی فوج کے مورچوں کے درمیان جو میدان تھا اس میں غیر فوجی لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ عام لوگ اس میدان سے گزر کر مسجد حرام کی باہری دیوار میں لگی ہوئی بڑی بڑی جالیوں کے راستے مسجد حرام میں گھس جاتے تھے اور اپنے آدمیوں کو ڈھونڈ کر اسی راستے سے واپس بھی آ جاتے تھے، مگر ان پر نہ سعودی فوج گولی چلاتی تھی نہ باغی، کئی افراد اس وقت بھی آئے گئے جب باغی مسلسل گولیاں چلا رہے تھے۔ مگر انہوں نے کسی بے وردی انسان کو نشانہ نہیں بنایا( یہ ٹکڑا اسلامی جنگ کی نوعیت سمجھنے کے لئے بعد میں بڑھا دیا گیا)۔

حضرت حسینؓ کی شہادت بھی اسی طرح کے سیاسی طالع آزماؤں کی سازش کا نتیجہ ہے جنھوں نے محض مکر و فریب کے لئے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور چالباز اتنے تھے کہ خود حضرت حسینؓ کو شہید کر کے یزید کو بدنام کر دیاجس سے عام مسلمان آج تک متاثر ہیں ان حقائق پر نظر رکھنے کے بعد یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان حکمراں پس پردہ سازشوں کو بروقت پکڑ نہ سکے جن سے بہت سے خطرناک حادثوں نے جنم لیا، مگر اس کا دوش اسلام کو نہیں دیا جا سکتا۔ نہ ان خونریزیوں کو اسلامی تعلیم کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ ہاں ان اندوہناک واقعات کے دوران انسانیت و شرافت جو کچھ پائی گئی وہ البتہ اسلامی تعلیم کا نتیجہ تھی۔

٭٭

میری ان گزارشات کا تعلق متل صاحب کے اصل سوال اور گفتگو کے مرکزی نقطے سے تھا۔ متل صاحب نے ضمناً اور بھی کئی باتیں ایسی کہی تھیں جو غلط فہمی پر مبنی تھیں، میرا ارادہ تھا کہ اس اصل سوال کا جواب مکمل ہو چکنے کے بعد باقی ضمنی باتوں کے متعلق بھی اصل حقائق پیش کروں گا مگر چونکہ وقت ختم ہو چلا تھا اس لئے جناب راجہ رام شاستری صاحب نے آخری کلمات کہے۔ انھوں نے بہت صفائی کے ساتھ کہا کہ اب تک ہمیں صرف ایک بات بتائی جاتی تھی اور ہمارے سامنے تصویر کا ایک رخ آتا تھا اور ظاہر ہے کہ جب ایک ہی بات بتائی جائے تودوسری بات ذہن میں آئے گی کیسے ؟ مگر آج مولانا نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کر دیا ہے اور بڑی صفائی اور وضاحت سے پیش کر دیا ہے اس لئے اس پہلو پر واقعۃً غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(دسمبر ۱۹۸۴ء )

٭٭٭

 

 

 

فلاح کا راستہ

 

حدیث اور سیرت کی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مکی دور کا ایک واقعہ مذکور ہے جو ہمارے لئے اپنے دامن میں عبرت و بصیرت کا سامان لئے ہوئے ہے، واقعہ کا حاصل یہ ہے کہ جس زمانہ میں مسلمانوں پر اہل مکہ کی طرف سے تشدد کا سلسلہ جاری تھا اس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا کام اگر چہ مشرکین کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر فرماتے تھے مگر اپنے ذاتی اعمال کے سلسلے میں آپ اس کا اہتمام نہیں فرماتے تھے، بلکہ آپ کھلے بندوں نماز پڑھتے اور دیگر اعمال بجا لاتے تھے ایک بار خانۂ کعبہ کے شمالی حصہ میں جو حطیم کے نام سے مشہور ہے رؤساء قریش کی محفل جمی ہوئی تھی اور آپ ہی کا ذکر ہو رہا تھا، کہنے والا کہہ رہا تھا کہ ہم نے اس شخص کے سلسلے میں جتنے جبر سے کام لیا ہے اس کی مثال نہیں، درحقیقت ہم نے اس کے معاملے میں ایک بڑی بات پر صبر کیا ہے، اتنے میں آپ ایک جانب سے تشریف لاتے ہوئے دکھائی پڑے، آپ نے آ کر حجر اسود کو بوسہ دیا اور خانۂ کعبہ کا طواف شروع کر دیا، اثنائے طواف میں مشرکین کے پاس سے گزرے تو انھوں نے طعنہ زنی کی آپ کے چہرۂ مبارک پر ناگواری کے اثرات ابھرے مگر آپ نے قدم آگے بڑھا دیا، دوبارہ پھر مشرکین کے پاس سے گزر ہوا تو آپ پر پھر طعنہ زنی کی گئی آپ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ابھرے مگر آپ آگے بڑھ گئے، تیسری بار آپ کا گزر ہوا تو آپ پر پھر طعنہ زنی کی گئی۔ اب کی بار آپ ٹھہر گئے اور فرمایا: قریش سن رہے ہو! اس ذات واحد کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تمھارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں، آپ کے ارشاد کا سننا تھا کہ مشرکین پر سکتہ طاری ہو گیا۔ گویا ان کے سروں پر چڑیا بیٹھی ہوئی ہے اس کے بعد حالت یہ ہوئی کہ جو سخت سے سخت تر آدمی تھا وہ بھی نرم سے نرم الفاظ ڈھونڈ کر طلبگار رحمت ہو رہا تھا۔ کہتا تھا ابولقاسم ! آپ کبھی نادان نہیں رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ آپ کے شدید تر مخالفین کو بھی یقین تھا کہ آپ اپنی زبان سے کوئی بیجا بات نہیں بولتے۔

دوسرے دن قریش پھر وہیں جمع تھے اور آپ کا ذکر چل رہا تھا کہ آپ نمودار ہو گئے، آپؐ کو دیکھتے ہی سب کے سب آپؐ پر یکبارگی پل پڑے۔ آپ کو گھیر لیا اور بدبخت عقبہ بن ابی معیط جس نے ایک بار آپ کی پیٹھ پر سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ڈال دی تھی اور ایک اور بار حالت سجدہ میں آپ کی گردن پر اس زورسے پاؤں رکھ دیا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ آنکھیں باہر آ جائیں گی، یہی بد بخت آپ کی گردن میں رسی ڈال کر بل دینے لگا تاکہ گلا گھونٹ کر آپ کا کام تمام کر دے، اتنے میں کسی نے چیخ کر ابوبکرؓ کو پکارا وہ جھپٹ کر پہونچے۔ اس بدبخت کو دھکے دے کر ہٹایا اور روتے ہوئے فرمایا: ’’ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ ۔ ‘‘ کیا تم لوگ اس لئے ایک آدمی کو قتل کئے دے رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں مشرکین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ پر پل پڑے اور انھیں بے تحاشہ زد و کوب کیا۔

البدایہ والنہایہ کا بیان ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے دو ٹوٹے ہوئے جوتوں سے حضرت ابوبکرؓ کے چہرے پر بے تحاشہ ضرب لگائی۔ اس کے بعد پیٹ پر چڑھ گیا، کیفیت یہ تھی کہ چہرے اور ناک کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ان کے قبیلہ بنوتیم کے لوگ ایک کپڑے میں لپیٹ کر انھیں گھر لے گئے انھیں کوئی شک نہیں تھا کہ اب یہ زندہ نہیں بچ سکتے لیکن دن ختم ہوتے ہوتے ان کی زبان کھل گئی پہلی بات جو انھوں نے کہی یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا ہوا۔ ؟اس پر بنوتیم نے انھیں سخت سست کہا، ملامت کی اور ان کی ماں ام الخیر سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ انھیں کچھ کھلا پلا دینا، سب جا چکے تو ماں نے سخت اصرار کیا کہ کچھ کھا پی لیں، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک ہی رٹ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا ہوا، ماں نے کہا۔ واللہ مجھے تیرے صاحب کا کچھ علم نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ خطاب کی صاحبزادی ام جمیل کے پاس جاؤ اور آپ کے متعلق دریافت کرو۔ ام الخیر ام جمیل کے پاس گئیں اور کہا: ابوبکر تم سے محمد بن عبداللہ کے متعلق پوچھ رہے ہیں، ام جمیل نے کہا میں نہ ابوبکر کو جانتی ہوں اور نہ محمد بن عبداللہ کو۔ ہاں اگر تم چاہو تومیں تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے کے پاس چل سکتی ہوں۔ ام خیر نے کہا، ہاں۔ اس کے بعد ام جمیل ان کے ہمراہ تشریف لے گئیں اور حضرت ابوبکرؓ کی خستہ حالی دیکھ کر چیخ پڑیں کہنے لگیں۔ واللہ جن لوگوں نے آپ کی یہ درگت بنائی ہے وہ یقیناً فاسق اور کافر ہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ ان سے آپ کا بدلہ لے گا، حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ اچھا یہ بتاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا ہوا۔ ؟ انھوں نے کہا: یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا ان سے کوئی خدشہ نہیں، ام جمیل نے کہا آپ صحیح سالم ہیں۔ دریافت کیا کہاں ہیں ؟ بتلایا، ابن ارقم کے گھر میں ہیں۔ فرمایا تو اللہ کے لئے مجھ پر یہ عہد ہے کہ میں نہ کھاؤں گا نہ پانی پیوں گا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ام خیر اور ام جمیل ٹھہری رہیں جب آمدورفت بند ہو گئی اور سناٹا پڑ گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سہارا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچا دیا۔

جیساکہ میں نے عرض کیا، سیرت نبوی سے تعلق رکھنے والا یہ واقعہ اپنے اندر عبرت و بصیرت کے بڑے پہلو رکھتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ہی ہمارے لئے فلاح وسعادت کی ضامن ہے اس لئے ہمیں اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے مذہب اپنے عقیدے، اپنے مقصد حیات اور اپنے نصب العین کے سلسلے میں حد درجہ یقینِ محکم اور پامردی و ثبات قدمی سے متصف ہونا چاہئے۔ حالات کتنے ہی سنگین ہوں، طوفانِ حوادث کے کیسے ہی تھپیڑے پڑیں، مگر نہ تو ہمیں اپنے نصب العین سے دست کش ہونا چاہئے اور نہ ہمارے پائے ثبات میں لغزش آنی چاہئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جنھیں افضل البشر بعد الانبیاء کا مقام حاصل ہوا۔ ان کا اقدام بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر (یعنی آج آپؐ کی ہدایات و تعلیمات)پر فدا کاری و جاں نثاری اور اس کی حفاظت کی راہ میں پروانہ وار جاں سپاری ہی ہمارا اصل جوہر ہے۔ ہمیں اس راہ میں جس قدر تنگ اور تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی قدر ہم عزت وسربلندی سے بہرہ ور ہوں گے، یہی حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے : یا ایھا الذین آمنوا اصبرواوصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ (آل عمران ۳۔ ۔ ) اے ایمان والو! صبرسے کام لو، پامردی دکھاؤ، کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح یاب ہو جاؤ۔

(جنوری ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

کنزالایمان غیر مقلد کی نظر میں ۔۔ یہ کتا بچہ جعلی ہے

 

بر صغیر ہندوستان وپاکستان میں بریلوی علماء، سیدھے سادھے مسلم عوام کو اپنے جال میں پھنسائے رکھنے کے لئے جیسی جیسی حرکات کرتے رہتے ہیں ان کی حقیقت اب بہت کچھ واضح ہو چکی ہے، نجد میں جب شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی تحریک تجدید و احیائے دین کامیابی سے ہمکنار ہوئی، منکرات و بدعات کا ازالہ ہوا اور ادھر ہندوستان میں شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء اور جانشینوں نے شرک و بدعت پرکاری ضرب لگائی تو ان علمائے بدعت نے ان ہر دو تحریکوں کو بدنام کرنے کے لئے جہاں اور بہت سی الٹی سیدھی چالیں چلیں، وہیں ایک کام یہ بھی کیا کہ عربی زبان میں ایک فرضی اور جعلی کتاب التوحید لکھی، جس میں نہایت غلط اور ضلالت و گمراہی اور شان رسالت میں گستاخی سے بھری ہوئی باتیں لکھی گئیں پھر اس کو اردو ترجمہ سمیت شائع کر کے شور مچایا گیا کہ دیکھو یہ ہے محمد بن عبدالوہاب کی کتاب التوحید اور یہ ہے اس کی گمراہیاں اور گستاخیاں۔

واضح رہے کہ شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات میں کتاب التوحید کو وہی شہرت و اہمیت حاصل ہے جو ہندوستان میں شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ کی تقویۃ الایمان کو حاصل ہے، اس لئے اہل بدعت کے اس پروپیگنڈے کی کاٹ کے لئے اصل کتاب التوحید حاصل کی گئی، اور اس کا ترجمہ حضرت میاں صاحب مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ کے شاگرد رشید اور مشہور اہلحدیث عالم مولانا عبدالحلیم شررؔ نے سلیس اردو زبان میں کیا، پھر اصل عربی کتاب التوحید اور اس کا ترجمہ دونوں کو بڑے پیمانے پر شائع کیا گیا۔

آج کل بریلوی علماء نے پھراسی طرح کی ایک چال چلی ہے۔ جس کو ہم اس تحریر کے ذریعہ واضح کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ احمد رضا خاں صاحب نے قرآن مجید کا ایک ترجمہ کیا ہے جس کا نام ہے ’’کنز الایمان‘‘۔ اس ترجمے پر مولوی محمد نعیم مرادآبادی نے تفسیری حاشیہ لگایا ہے جس کا نام ہے ’’خزائن العرفان‘‘ ترجمہ اور حاشیہ دونوں میں طرح طرح کی تلبیس اور گڑ بڑی کر کے بہت سی بدعتوں، بلکہ مشرکانہ عقیدوں کو بر حق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی تفصیلات جب عرب ممالک کے چوٹی کے علماء کے علم میں آئیں تو ان کے مشورے سے سعودی عرب اور متعدد خلیجی ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں اس رضا خانی ترجمے اور حواشی کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ اس پر بریلوی طبقے نے اپنی بڑی ذلت ورسوائی محسوس کی اور جگہ جگہ شور و ہنگامہ مچایا بعض چالاک بریلوی علماء نے اس ترجمے اور تفسیر کے ناقص اور ادھورے اقتباسات پیش کر کے یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے مگر اہلحدیث علماء نے اصل حقیقت واضح کر کے ان کی فریب کاری کا پردہ چاک کیا۔

اب اسی سلسلہ میں بریلوی حضرات نے ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کا نام ہے ’’کنزالایمان غیر مقلد کی نظر میں ‘‘ اس کتابچہ کے لکھنے والے کا نام یوں ظاہر کیا گیا ہے۔ بقلم الاستاذ سعید بن عزیز یوسف زئی۔ امیر جمیعت برادران اہلحدیث پاکستان۔ ۔ یہ کتابچہ ہمارے پاس بہار کے دیوبندی مکتب فکر کے چند بھائیوں نے اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے بھیجا۔ اور اس کے مندرجات کے سلسلے میں اپنی سخت تشویش اور دلی صدمے کا اظہار کیا کہ ایک اہلحدیث عالم کے قلم سے اس طرح کی باتیں کیسے لکھی گئیں، ہم نے کتابچہ پڑھتے ہی یقین کر لیا کہ یہ جعلی ہے۔ پھر کتابچہ کے اندر موجود مختلف قرائن کی روشنی میں انھیں لکھ بھیجا کہ یہ کتابچہ جعلی معلوم ہوتا ہے، نیز فوراً ہی ادراہ الاعتصام لاہور کو خط لکھا کہ پوری چھان بین کر کے اس کی حقیقت واضح فرمائیں کیونکہ یہ ادارہ پاکستان کے علمائے اہلحدیث اور ان کی تحریکی سرگرمیوں کو اچھی طرح جانتا ہے اس ادارے نے ہم کو جو جواب دیا وہ یہ ہے :

’’آپ نے جس کتابچے (یعنی کنزالایمان غیر مقلد کی نظر میں ) کی بابت استفسار فرمایا ہے وہ سراسر جعلی ہے۔ سعید بن عزیز نام کا کوئی شخص یہاں جماعت اہلحدیث میں معروف نہیں ہے اور نہ جمعیت برادران اہلحدیث نامی اہلحدیث کی کوئی تنظیم ہے۔ کوئی اہلحدیث کنزالایمان کی تعریف نہیں کر سکتا۔ جس میں ترجمۂ قرآن کے نام پر یہودیانہ دجل و تحریف کا ارتکاب کیا گیا ہے ‘‘۔       (مکتوب:حافظ صلاح الدین یوسف مورخہ ۲۹/۱۔ /۱۹۸۴ء )

اس خط سے جہاں یہ معلوم ہو گیا کہ یہ کتابچہ جعلی ہے وہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ احمد رضا خان کے ترجمے کی حیثیت غیر مقلدین کی نظر میں کیا ہے پھر جیساکہ ہم نے بتایا کہ اس کتابچہ کے جعلی ہونے کی علامتیں اور شہادتیں خود اس کتابچہ کے اندر بھی موجود ہیں۔ بطور مثال:

(۱)…کتابچہ ۱۶/صفحات کا ہے جس میں سے ٹائٹل اور چھاپنے والوں کے اپنے اشتہاری تعارف کو الگ کر دیجئے تو اصل مضمون جو موٹے حروف میں لکھا ہے صرف ۱۱/ صفحات پر پھیلا ہے۔ اس میں سے شروع کے چار صفحات دیوبندی طبقے کو برا بھلا کہنے اور اہلحدیث اور بریلوی میں قربت ثابت کرنے پر صرف کئے گئے ہیں اور باقی ساڑھے چھ صفحات میں کنزالایمان کی تعریف کی گئی ہے، کیفیت یہ ہے کہ مصنف جسے اہلحدیث بتایا گیا ہے اس کی زبان سے دیوبندی طبقہ کے متعلق صفحہ ۳ پر کہلوایا گیا ہے کہ ان سے بڑا مشرک اور بدعتی روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ’’ہمارے اور ان کے عقائد میں زمین وآسمان کا فرق ہے ‘‘۔ ۔ جب کہ بریلوی حضرات کو ہر جگہ اہلسنت لکھا گیا ہے۔ پھر صفحہ ۴ پر اہلحدیث اور بریلوی کا موقف ایک ثابت کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ اہل حدیث اور اہل سنت کے عقیدے میں بظاہر بڑا فرق نظر آتا ہے ‘‘مگر… ہمیں اہلحدیث اور اہلسنت کے ہاں ایک مقام پر خصوصاً قدر مشترک ملتی ہے۔ ‘‘ اور وہ مقام ہے جناب محمد مصطفیٰ محبوب خدا صلی اللہ علیہ و سلم کا کہ یہاں اطاعت و تابعداری کرنے کے لئے ان کے سواکسی اور کی اطاعت دلوں کو نہیں بھاتی ہے اور وہاں عشق و محبت کے سلسلے میں جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم، سے بڑھ کر نگاہوں میں کوئی اور نہیں سماتا ہے اور یہی ایک بات ایسی ہے کہ باوجود اختلافات کثیر ہ کے حضرات اہلسنت سے محبت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ‘‘

اس کے فوراً ٍ بعد دیوبندی طبقے پر حملہ کرتے ہوئے صفحہ ۵ پر احمد رضا خان کے ان فتووں سے اتفاق اور ان کی درستگی کا اعلان کیا گیا ہے جس میں احمد رضا خان نے اپنے مخالفین کو کافر کہا ہے اسی طرح صفحہ ۲ پر رضا خانی ترجمے پر پابندی لگانے کے مطالبہ کو بیہودہ اور جاہلانہ مطالبہ کہتے ہوئے مطالبہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ جب کہ صفحہ ۷ پر ایک ترجمہ کے سلسلہ میں احمد رضا خان کے علاوہ باقی تمام مترجمین کو کافر قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔

بتائیے ! ایسی تحریریں کسی اہلحدیث عالم کی ہو سکتی ہیں، جو کنزالایمان پر تبصرہ کرنے بیٹھا ہویاکسی ایسے مفسدبریلوی کی ہو سکتی ہے جو دیوبندی حضرات سے ادھار کھائے بیٹھا ہو اور اہلحدیث اور دیوبندی طبقوں کو باہم لڑانے کی کوشش کر رہا ہو، اگرخدانخواستہ کوئی اہلحدیث اتنا متشدد ہو کہ وہ دیوبندی حضرات کو بدعتی یا مشرک سمجھتاہو تووہ بریلوی حضرات کو کیسے بخش دے گا جب کہ بعض ڈھیلے ڈھالے دیوبندی اپنے بزرگوں کی قبروں کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں، عام بریلوی اس سے کئی گز آگے ہیں۔ پھر بریلویوں کے بجائے وہ دیوبندیوں کو روئے زمین کاسب سے بڑا مشرک کیسے کہہ سکتا ہے، اسی طرح حدیث میں بدعت کی سخت مذمت اور اہل بدعت پر لعنت و پھٹکار کی گئی ہے اور ان کی تعظیم و توقیر کو اسلام پر کلہاڑی چلانے کے ہم معنی بتایا گیا ہے اور انھیں پناہ دینے پر لعنت کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو رضا خانی حضرات سرسے پیر تک بدعت میں غرق ہیں ان کا جھوٹا یاسچا محبت نبوی کا دعویٰ کسی اہلحدیث عالم کو اتنا متاثر کر دے کہ وہ ان کی ساری بدعتوں سے آنکھ بند کر کے ان سے محبت کرنے پر مجبور ہو جائے یہ تو محض کسی بریلوی کی فریب کاری ہو سکتی ہے۔

(۲)… احمد رضا خان کا ترجمہ اور مولوی نعیم الدین مرادآبادی کی تفسیر دونوں مل کر ایک مجموعہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور عرب ممالک میں اس پورے مجموعے پر پابندی لگی ہے، اس لئے تعریف یا تنقید کے لئے بھی مجموعہ سامنے رکھنا ہو گا یہ بات ذہن میں رکھ کرسنئے، کتابچہ کے صفحہ ۵ پر لکھا ہے کہ ’’الم سے لے کر والناس تک ہم نے کنزالایمان میں نہ تو کوئی تحریف پائی ہے اور نہ ہی ترجمہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کو پایا ہے، نہ ہی کسی بدعت اور شرک کے کرنے کا جواز پایا ہے۔ ‘‘

حالانکہ اس ترجمۂ قرآن کے بالکل ابتدائی صفحہ پر سورۂ فاتحہ ہی کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ … یہ سمجھناکہ اولیاء و انبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے، عقیدۂ باطلہ ہے۔ ‘‘اور الم کے پہلے ہی صفحہ پر ومما رزقناھم ینفقون۔ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’گیارہویں، فاتحہ، تیجہ، چالیسواں وغیرہ بھی اس میں داخل ہیں کہ وہ سب کچھ صدقات نافلہ ہیں۔ ‘‘ یعنی اس ترجمے اور تفسیر کے پہلے ہی صفحہ سے شرک و بدعت کی تعلیم شروع ہو گئی ہے۔ پھر یہ سلسلہ ترجمے اور تفسیر کے اخیر تک چلا گیا ہے پیغمبروں کی بشریت، علم غیب وغیرہ کی آیات کے ترجمے اور تفاسیر میں کیا کیا گل کھلائے گئے ہیں ان کی تفصیل میں بہت طول ہے۔ اس لئے ہم آپ کو اخیر میں دی ہوئی فہرست کے چند عنوانات کی سیر کرا دیتے ہیں جس سے اندر کا حال معلوم ہو جائے گا۔ فہرست کے چند عنوانات یہ ہیں۔

حضور انور نور ہیں (قرآن کے پانچ مقامات کے حوالے ) حضور انور حاضر و ناظر ہیں (دس مقامات کے حوالے ) حضور انور کو علم غیب دیا گیا ہے (۹ حوالے ) بزرگوں کے تبرکات دافع بلا ہیں (پانچ حوالے ) مردے سنتے ہیں (تین حوالے ) محبوبین بعد وفات مدد کرتے ہیں (چار حوالے ) محبوبان خدا دورسے سنتے، دیکھتے اور مدد کرتے ہیں (نو حوالے ) اولیاء اللہ مشکل کشا اور صاحب عطا ہیں (نو حوالے ) بزرگوں کے قرب میں دعا مقبول ہوتی ہے (تین حوالے ) تقلید ائمہ ضروری ہے (۸حوالے ) مردوں کو پکارنا (تین حوالے ) حضور انور مومنوں کے گھروں میں جلوہ گر ہیں (ایک حوالہ) یغوث یعوق وغیرہ گمراہ بت گر تھے نہ کہ اولیاء (۲حوالے۔ یہ دعویٰ حدیث کے صریح خلاف ہے ) رب کے بتائے بغیرکسی کو علم غیب نہیں (پانچ مقامات پر آیات غیب کی تحریفانہ تاویل) ذکر میلاد شریف سنت الٰہیہ ہے (نو حوالے ) انبیاء کرام کو بشر کہنا طریقہ کفر ہے (پانچ حوالے ) وسیلۂ اولیاء کرام ضروری ہے (بارہ حوالے )

غور فرمائیے کہ جس ترجمہ وتفسیر کے اندر قرآن کی آیتوں کو اس کثرت سے توڑ مروڑ کر اس قسم کی خرافات، بد عقیدگی، بدعات اور گمراہیوں کو عین شریعت ثابت کیا گیا ہو اس کے متعلق بھلا کوئی اہلحدیث عالم یہ کہہ سکتا ہے کہ اس میں نہ کوئی تحریف ہے نہ کسی قسم کی غلط بیانی ہے اور نہ کسی بدعت اور شرک کے کرنے کا جواز ہے جب کہ مذکورہ بالا باتیں اہلحدیث کے نزدیک بلا ادنی تردد کے شرک و بدعت و گمراہی کی باتیں ہیں۔ اسی لئے ہم یہ یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ کتابچہ کسی اہلحدیث کانہیں بلکہ خود بریلوی حضرات کا لکھا ہے۔

(۳)…یہاں پر یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ ترجمہ بہر حال ترجمہ ہوتا ہے اس میں لمبی چوڑی بحث کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی تحریف اتنی مختصر اور اشارتی ہوتی ہے کہ عام آدمی اسے نہیں سمجھ سکتا جب کہ تفسیر میں وہی بات تفصیلاً کہی جاتی ہے اور ہر آدمی کھلے طور پر اس تحریف کو پکڑ اور سمجھ لیتا ہے۔ غالباً اسی لئے مصنف نے ہر جگہ صرف ترجمہ کا نام لیا ہے، تفسیر کا نام گول کر دیا ہے تاکہ آسانی سے شرک و بدعت اور تحریف ثابت نہ کی جا سکے۔ حالانکہ صفحہ ۱۔ ، ۱۱ پر ایک لمبی چوڑی تعریف ترجمہ نہیں بلکہ تفسیر کی بنیاد پر ہوئی ہے اور ان صفحوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ تفسیر احمد رضا خان کی نہیں ہے، بہر حال پابندی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، فرمائیے کہ اگر اس کتابچہ کا مصنف کوئی اہلحدیث ہوتاتواسے احمد رضا خان کا وکیل صفائی بن کر اس طرح کی ہیرا پھیری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ وہ تو کھرا کھوٹا سامنے رکھ دیتا۔

(۴)… احمد رضا خان نے ’’واستغفر لذنبک‘‘ کے ترجمہ میں تحریف کی ہے۔ مگر اس کتابچے کے صفحہ ۶، ۷ پر صرف یہی نہیں کہ اس کی خوب بڑھ چڑھ کر تائید کی گئی ہے بلکہ جن لوگوں نے صحیح ترجمے کئے ہیں انھیں گستاخ رسول بتاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو کافر قرار دیا جائے اور احمد رضا خان کی اس تکفیر کی بھی تائید کی جائے جو کہ انھوں نے ایسے ہی دل برداشتہ اور کافرانہ وگستاخانہ کلمات کے اخراج و صدور پر کی تھی۔ ‘‘

فرمائیے ! یہ مطالبہ کسی اہلحدیث کا ہو سکتا ہے جو غیر جانبداری کے ساتھ احمد رضا خان کے ترجمہ کا جائزہ لے رہا ہے، یا خان صاحب کے کسی ایسے گہرے معتقد کا جوان کی حمایت کے جوش میں دوسروں کو کافر قرار دینے کے لئے بے قرار ہو؟

(۵)… کتابچے میں احمد رضا خان کے ترجمہ کو دوسروں سے عمدہ اور صحیح ثابت کرنے کے لئے چند مقامات کے نمونے بھی دئیے گئے ہیں یہ وہی مقامات ہیں جنھیں بریلوی علماء ہمیشہ پیش کرتے رہتے ہیں اور جا و بیجا فاختہ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر ایک غیر جانبدار اہلحدیث محقق ان چبائے ہوئے نوالوں کو چبانے کی کوشش کیوں کرے گا۔ ؟

(۶)…اس ضمن میں ایک کتابچے کے اندر خان صاحب کی تائید کے لئے ایک واقعے میں تحریف بھی کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق تاریخ کا یہ ایک حتمی واقعہ ہے کہ آپ نبوت سے پہلے دوسروں کا مال نفع میں شراکت کی بنیاد پر تجارت کے لئے لے جاتے تھے اسی سلسلہ میں آپ حضرت خدیجہؓ کا بھی مال کے گئے اور پھر انھوں نے آپ کی دیانتداری سے متأثر ہو کر آپ سے شادی کر لی۔ دوسروں کا مال تجارت کے لئے لے جانا ہی اس بات کی علامت ہے کہ آپ مالدار نہ تھے مگر ووجدک عائلا فاغنیٰ میں مفسرین کی بتائی ہوئی دوتفسیروں میں سے ایک تفسیر پر مولوی نعیم الدین نے جو اکتفاء کی ہے۔ اس کی تعریف میں دوسری تفسیر کو غلط ثابت کرنے کیلئے اس کتابچہ میں لکھا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہنا کہ پہلے آپ مفلس تھے، حضرت خدیجہ آپ کے نکاح میں آئیں تو اللہ نے آپ کو غنی کر دیا۔ یہ جھوٹ، بکواس، حضور پر دروغ و افترا اور آپ کی توہین ہے۔ دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر آپ مفلس ہوتے تو تجارت کیسے کرتے، ہمیں آج اس دور میں کوئی بھی تاجر مفلس نظر نہیں آتا۔ اور اگر آپ اپنی بیوی کا مال اپنے اوپر خرچ کرتے تو مشرکین مکہ آسمان سرپر اٹھا لیتے اور آپ کو بدنام کرتے۔ حالانکہ خود اسی تفسیر میں اسی صفحہ میں چند سطر پہلے آپ کے مفلس ہونے کا دردناک نقشہ کھینچا گیا ہے۔

غور کیجئے کیسافریب دیا جا رہا ہے اور کس طرح آنکھ میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ آخر کس مفسر نے یہ کہا ہے کہ آپ اپنی بیوی کا مال کھاتے تھے ؟۔ مفسرین نے تو یہ کہا ہے کہ آپ نفع میں شرکت کی بنیاد پر حضرت خدیجہ اور دوسروں کا مال تجارت کے لئے لے جاتے تھے اور اس نفع کی وجہ سے آپ غنی ہو گئے، یہ نفع پہلے بھی اور آج بھی غیرمسلموں کے نزدیک بھی اور اسلام میں بھی حلال، طیب اور پاکیزہ رہا ہے اور ہے۔ اس کے کھانے پر کوئی آپ کو کیوں بدنام کرتا؟ اور اس کے ذریعہ غنی ہونے میں آپ کی کیارسوائی ہے۔ اور اگر آپ شروع ہی سے غنی تھے تودوسروں کا مال تجارت کے لئے کیوں لے جاتے تھے اپنا کیوں نہیں لے جاتے تھے۔ ؟

پھر ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ تاریخی جھوٹ اور فریب کاری احمد رضا خان صاحب کے ترجمہ کی فضیلت ثابت کرنے کیلئے کی گئی ہے، اب ذرا غور فرمائیے کہ اگر اس کتابچہ کا لکھنے والاکسی گرمجوش بریلوی کے بجائے کوئی غیر جانبدار اہلحدیث ہوتاتواسے کیا پڑی تھی کہ وہ احمد رضا خان کی حمایت و تعریف میں اس طرح کی فریب کاری سے کام لیتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام قرائن کی بنیاد پر اور خاص اس بنیاد پر کہ نہ توپاکستان میں الاستاذ سعید بن عزیز یوسف زئی نام کا کوئی اہلحدیث عالم ہے اور نہ وہاں ’’جمعیۃ برادران اہلحدیث‘‘ نام کی کوئی تنظیم ہے، ہم اعلان کرتے ہیں کہ کنزالایمان غیر مقلد کی نظر میں، نامی کتابچہ بالکل جعلی ہے، اس میں کنزالایمان کے متعلق اہلحدیث کا جو موقف بتایا گیا ہے، بالکل غلط ہے اور جماعت اہلحدیث کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔

(فروری ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

تبصرۃ وذکریٰ لکل عبدمنیب

 

(بصیرت افروز اور سبق آموز ہر اطاعت شعار بندے کیلئے )

 

محدث ماہ مئی ۱۹۸۴ء کے اداریہ صفحہ ۵، ۶، میں جدیدسائنسی اکتشافات کے مطالعہ کی ضرورت و افادیت بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا:

’’موجودہ سائنسی تحقیقات و اکتشافات نے قرآن و حدیث کے بہت سے بیانات کی جس طرح تصدیق کی ہے، بلکہ اس کے خدائی اور الہامی احکامات اور فقروں کے اندر پوشیدہ دنیائے اسرار و رموز کو سائنس نے جس طرح واشگاف کیا ہے وہ ہمارے مطالعہ کی خاص مستحق ہے، اس سے صرف یہی نہیں کہ ایمان و یقین کی دنیا میں تازگی و بالیدگی اور بہار آتی ہے، اور عزائم کو غذا ملتی ہے بلکہ اسے غیرمسلم اہل فکر و تحقیق کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کیلئے ایک اہم بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ ‘‘

یہ بات انسانی نفسیات، تاریخی واقعات اور خود قرآن مجید کے ارشادات کی روشنی میں اتنی درست تھی کہ اسے دیکھتے ہوئے ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اس کی صحت اور افادیت کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھا جائے گا، مگر فکر ونظرکے پیمانے بہر حال الگ الگ ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں جو زبانی اور تحریری رائیں اور تبصرے موصول ہوئے ان میں سے بعض بعض کے اندر غیر ضروری اضطراب اور اندیشہ ہائے دور از کاذکر کیا گیا تھا۔

شبہات کاخلاصہ یہ تھا کہ ’’مذکورہ قسم کی سائنسی تحقیقات واکتشافات سے محض کمزور عقیدہ و ایمان کے لوگوں کو خوشی اور تقویت پہونچتی ہے، اس لئے یہ چنداں لائق توجہ نہیں، نیز آج سائنس کی ماری ہوئی دنیاسادہ صداقتوں کی جویا ہے۔ اسے سائنسی تجربات واکتشافات کی دلیل سے اسلام کاقائل کرنے کی کوشش صرف یہی نہیں کہ ایک غیر موثر اقدام ہے بلکہ یہ انداز فکر مرعوبیت کی دلیل ہے۔ پھر اس طرح کی کوششوں کے نتیجے میں جو ایمان حاصل ہوتا ہے اس میں عموماً وہ جوش اور گرمی نہیں ہوتی جو آج کی انسانی دنیاکو مطلوب ہے۔ ‘‘

ممکن ہے کسی مخصوص ذہنی اور نفسیاتی پس منظر میں یہ شبہات بڑے وزنی اور معقول نظر آ رہے ہوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ خوشنما تعبیر کے سوا ان میں کوئی معقولیت نہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ منطقیانہ بحث وجدل کے بجائے قرآن کی ابدی حقیقتوں کی روشنی میں ان کا جائزہ لینا مناسب ہے کہ یہی خدائی کتاب کی دعوت ہے۔ اب میری گزارشات ملاحظہ فرمائیں۔

اہل ایمان کے سر گروہ انبیاء کرام ہیں۔ ان کے ایمان و یقین کی پختگی و بلندی کا کیا پوچھنا۔ انبیاء کے بعد ان کے امتیوں میں درجہ بدرجہ صدیقین، پھر شہداء پھر صالحین اور ان کے بعد عام مومنین ہیں۔ ان سب ایمانی مراتب کو نظر میں رکھئے اور اس کے بعد قرآن مجید کے ارشادات سنیے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے۔ :

وکذٰلک نری ابراہیم ملکوت السمٰوٰت والارض ولیکون من الموقنین۔ ( الانعام: ۷۵)

اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔

پھراس سے آگے کی آیات میں قدرے تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاند سورج اور ستاروں کے نظام پر غور کر کے اپنے پروردگار کی عظمت و وحدانیت کی راہ پائی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکوت السمٰوٰت والارض کا مشاہدہ اور اس پر غور و فکر انبیاء تک کے لیے ایمان و یقین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔

تیسرے پارے کے شروع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا کہ ذرا مجھے دکھلا دے، تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اولم تؤمن؟ کیا اس پر تیرا ایمان نہیں، انھوں نے کہا: بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی۔ کیوں نہیں (اس پر ایمان توہے ) لیکن (میں چاہتا ہوں کہ )میرا دل مطمئن ہو جائے۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ صورت بتائی کہ چار چڑیوں کو کاٹ کر ان کے اجزاء مختلف پہاڑوں پر بکھیر دیں، پھر انھیں پکاریں۔ سب دوڑ کر آئیں گی۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے مناظر کا مشاہدہ انبیاء تک کے ایمان میں ایک مزید درجۂ اطمینان کے اضافے کا ذریعہ ہے۔ (اور وہ بھی اس ایمان میں جو پہلے سے موجود تھا۔ )

نوٹ:  اس واقعہ کا تعلق اگر چہ ایک خرق عادت معاملہ سے ہے لیکن خدائی قدرت کی کرشمہ سازیوں کے لحاظ سے اس میں اور سلسلۂ اسباب کے تحت طبعی طور پر پیش آنے والے واقعات میں کوئی فرق نہیں کہ یہ بھی اس کی قدرت کا ملہ کے مظاہر ہیں اور وہ بھی۔ فرق جو کچھ ہے وہ انسان کے لیے مالوف اور غیر مالوف ہونے کا ہے اور جو منظر یاکسی منظر کا جو حصہ جتنا زیادہ غیر مالوف ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ موثر ہوتا ہے اور اسی سے روز مرہ کے مناظر میں کار فرما مخفی حکمتوں اور انتظامات کی نئی نئی دریافت کی اثر انگیزیوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

انبیاء کے بعد اونچے درجے کے اہل ایمان کو لیجئے۔ اللہ تعالیٰ سورہق میں حق کی تکذیب کرنے والوں پر نکیر کرتے ہوئے فرماتا ہے :

افلم ینظروالی السماء فوقھم کیف بنیناھا وزیناھا ومالھا من فروج۔ والارض مددناھا والقینا فیھا رواسی وانبتنا فیھا من کل زوج بھیج۔ تبصرۃ وذکریٰ لکل عبدمنیب۔

کیا انھوں نے اپنے اوپرآسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اسے بنایا اور مزین کیا اور اس میں کوئی رخنہ نہیں۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں اٹل پہاڑ جمائے اور اس پر ہر طرح کے پر رونق پودے اگائے، یہ سب چیزیں آنکھیں کھول دینے والی اور سبق آموز ہیں، ہر جھکنے والے بندے کے لئے۔

غور کیجئے ! کس طرح آسمان و زمین کے مذکورہ نظام کے مشاہدہ اور اس پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے اور اسے ایرے غیرے نہیں بلکہ ہر صاحب انابت بندے کے لیے بصیرت افروز سبق آموز قرار دیا گیا ہے۔ انابت، بندگی کا وہ بلند اور خصوصی مقام ہے جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کو مقام مدح میں متصف قرار دیا گیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاصان خدا کی نگاہیں آسمان و زمین کے بیکراں کارخانے کی طرف بار بار اٹھتی رہتی ہیں اور یہ ان کے لیے بصیرت و نصیحت آموزی کا ذریعہ بنتے ہیں، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں اس طرح بیان فرمایا ہے :

ان فی خلق السمٰوٰت والارض واختلاف اللیل والنھار لآیات لاولی الالباب۔ الذین یذکرون اللہ قیاماوقعوداً وعلیٰ جنوبھم ویتفکرون فی خلق السمٰوٰت والارض ربنا ماخلقت ھٰذا باطلا۔ (آل عمران:۱۹۔ ، ۱۹۱)

یقیناآسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کی آمد و رفت میں سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں جو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور پہلو کے بل (لیٹے ) یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ ) اے ہمارے پروردگار ! تو نے اسے ناحق پیدا نہیں کیا۔

غور کیجئے ! ان آیات میں نظام کائنات پر غور و فکر کرنے کا وصف کس درجہ بلند پایہ اہل ایمان اور اصحاب تقویٰ کے لئے مذکور ہے کہ جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں۔ آپ قرآن مجید اٹھائیے اور باب دل وا کر کے تلاوت فرمائیے آپ دیکھیں گے کہ اس مضمون کی صدہا آیات جلوۂ بے حجاب کی طرح جگمگا رہی رہیں۔ ان آیات میں آسمان و زمین کی پیدائش اور ساخت کو، رات دن کی آمدورفت کو، پانی پر تیرتی ہوئی کشتیوں اور جہازوں کو، بادل اور بارش کو اور اس سے اگنے والے پودے اور نباتات کو، زمین کی پشت پر بکھرے ہوئے حیوانات کو، فضا میں اڑتی ہوئی چڑیوں کو، روشنی اور تاریکی کو اور سیاروں کو، سورج اور چاند کو، انسان کی ابتدائی پیدائش کو، پھر رحم مادر کے اندر اس کی نشو و نما کے مختلف مراحل کو، کھجور، انگور، انار وغیرہ کے باغات کو، موت و حیات کو، بیداری اور خواب کو، سایے اور دھوپ کو، بیوی اور بچوں کو، چوپایوں اور سواریوں کو، غرض ان ساری چیزوں کو جو سائنس کی تلاش وجستجو، یافت و دریافت، تحقیق و تفتیش، تحلیل و تجزیہ اور تنقیب و تنقیح کا خاص محور و موضوع ہیں، اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے اور مختلف پیرایوں سے ان پر غور و فکر کی بار بار دعوت دی گئی ہے۔

پھر مختلف مقامات پر اپنے اپنے مواقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ چیزیں کن لوگوں کے لئے نشانی اور عبرت ہیں۔ چنانچہ کہیں فرمایا لقوم یعقلون(عقل رکھنے والوں کے لیے ) کہیں لاولی الالباب(سوجھ بوجھ والوں کے لیے ) کہیں لقوم یعلمون(علم رکھنے والوں کے لیے ) کہیں لقوم یفقھون(گہرائی اور درد رکھنے والوں کے لیے )کہیں لقوم یشکرون(شکر گزار اور قدردانوں کے لیے )کہیں لقوم یتقون(متقیوں اور راستبازوں کے لیے ) کہیں لقوم یسمعون(بات سننے اور ماننے والوں کے لیے ) کہیں لکل صبار شکور(صبر کرنے والے اور شکر گزار کے لیے )اور کہیں ان فی ذالک لعبرۃ لاولی الابصار(جو اہل نظر ہیں ان کے لیے اس میں عبرت ہے )۔

ان ارشاد ات میں ایمان اور ایمان کے مختلف اوصاف و خصائص سے متصف لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس طرح اہل ایمان کے جملہ طبقات کو سمیٹ لیا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ ایمان و یقین کے بلند اور خصوصی درجات پر فائز ہیں ان کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ اوپر کے پیراگراف پر ایک نظر ڈال لینے سے ہی سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دشواری نہیں محسوس ہونی چاہئے کہ سائنس کی نئی نئی دریافتوں سے قدرت خداوندی کے جن عجائبات کا ظہور ہوتا ہے وہ اہل ایمان کے تمام ہی طبقات کے مطالعہ کے مستحق اور ان کے لیے مفید ہیں۔ صرف ضعیف العقیدہ مسلمانوں کے لیے باعث تقویت سمجھناصحیح نہیں۔

عالم واقعات میں کوئی چیز مذہب کے غیبی معتقدات کے مطابق پیش آ جائے تواس سے ایمان و یقین کی دنیا میں خوشی اور بہار کا آنا بالکل فطری ہے۔ اور ایمان کے وجود کا تقاضا بھی یہی ہے یہ تاثر اور خوشی صرف ضعیف العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ انبیاء اور خاصان خداسب کو حاصل ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرامؓ کو عروج دجال کی بار بار خبر دیا کرتے تھے اس کے باوجود جب حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے ایک بحری سفرکے دوران بھٹک کر ایک جزیرہ میں پہونچے اور وہاں دجال کو دیکھنے کا واقعہ بیان کیا، تو واقعاتی شہادت کا خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ اثر ہوا کہ آپ نے اس کے لیے ایک باقاعدہ خطبہ کا اہتمام فرمایا اور صحابہ کرام کے مجمع میں حضرت تمیم داری کا واقعہ خود اپنی زبان مبارک سے بیان فرمایا۔ جنگ خیبر میں ایک شخص یہود کی زبردست پٹائی کر رہا تھا، صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور اس کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔ ایک صحابی اس کے پیچھے لگ گئے وہ لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہو گیا تو تلوار کے سرے پر سینے کا بوجھ ڈال کر خودکشی کر لی۔ وہ صحابی دوڑ کر خدمت اقدس میں پہونچے اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کی آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے دریافت فرمایا، بات کیا ہے ؟ انھوں نے کہاجس کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اس کا یہ حشر ہوا۔

ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ جو بات غیبی طور پر پہلے سے معلوم تھی، امر واقعہ جب اس کے مطابق پیش آ گیا تو تاثر کی ایک خاص لہر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابی تک میں دوڑ گئی اس لئے اس قسم کے تاثر کو ضعیف العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص سمجھنا انسانی نفسیات اور ایمانی خصوصیت دونوں سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اس طرح کی بات کے پیچھے اپنی ایمانی قوت و برتری کا خیال تو کار فرما ہو سکتا ہے جوکسی مومن کا شیوہ نہیں ہے۔ لیکن معقولیت کار فرما نہیں سکتی، درحقیقت یہ انداز فکر ہی صحیح نہیں کہ جو چیز ضعیف العقیدہ مسلمانوں کی تقویت کا باعث ہو اسے لائق توجہ نہ سمجھاجائے، کیونکہ کسی امت کے کمزور افراد تو کچھ زیادہ ہی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ باپ اپنے سب سے چھوٹے بچے کو انگلی تھما کر چلاتا ہے، جبکہ دوسرے بچوں کو زبانی ہدایت دیتا ہے بلکہ ایک خاص مرحلے کے بعد دستگیری کا کام ان کو بھی سونپ دیتا ہے۔

(مارچ ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

زکوٰۃ کے چند مسئلے

 

زکوٰۃ اسلام کا ایک نہایت اہم فریضہ اور بنیادی رکن ہے۔ نماز ہی کی طرح قرآن مجید میں اس کی بھی بار بار تاکید کی گئی ہے اور اس کے ادانہ کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ مسلمان غالباً رمضان شریف کی زائد برکتوں اور فضیلتوں کے حصول کی غرض سے زکوٰۃ عام طور پر رمضان میں ادا کرتے ہیں، حالانکہ رمضان شریف اس کی ادائیگی کا کوئی عین اور مخصوص زمانہ نہیں ہے بلکہ جس کوجس تاریخ میں بقدر نصاب مال حاصل ہوا ہے اگر اگلے سال اس تاریخ تک بقدر نصاب مال باقی رہ گیا تو چوں کہ ایک سال پورا ہو گیا، اس لئے اس پر زکوٰۃ فرض ہو گئی، اس طرح مجموعی طور پر مسلمانوں میں سال بھر تک زکوٰۃ کی ادائیگی کاسلسلہ جاری رہنے کا حساب بنتا ہے۔

بہر حال چونکہ عملاً زکوٰۃ کی ادائیگی زیادہ تر رمضان میں کی جاتی ہے اس لئے اس سے متعلق استفسارات بھی عموماً رمضان ہی کے ایام میں آتے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ موجودہ شمارے میں چند ضروری مسئلوں کی وضاحت کر دی جائے۔

 

                سونے اور چاندی کا نصاب موجو دہ پیمانے سے

 

احادیث میں سونے اور چاندی کے نصاب کی نشاندہی ان پیمانوں سے کی گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں رائج تھے یعنی چاندی دوسو درہم یا اس سے ہم وزن ہو تواس پر سال بھر گزرنے کے بعد زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، اور سونا سات مثقال ہو توسال بھر گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے چونکہ ہمارے ملک میں تولہ اور ماشہ کا حساب رائج تھا اس لئے علماء نے درہم اور مثقال کی تعیین تولہ اور ماشہ سے کی۔ اس کاحساب یہ ہے کہ دوسو درہم ساڑھے باون تولہ کے مساوی ہے اور ۲۔ مثقال ساڑھے سات تولہ کے مساوی ہے۔ اب چونکہ ہمارے ملک میں گرام اور کلوگرام کا پیمانہ رائج ہوا ہے لہٰذا آسانی اسی میں ہے کہ اس حساب سے وزن بتایا جائے۔ یہ بڑی معمولی بات تھی مگر بعض لوگوں نے غلط فہمی یا غلط اصطلاحات کی بنا پر سخت پیچیدگی پیدا کر دی اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ تولہ سے مراد سرکاری تولہ ہے کسی جگہ مقامی طور پررائج تولہ مراد نہیں ہے۔ سرکاری تولے کا وزن ۱۲/ماشہ ہے جو موجودہ پیمانے سے ۱۴/گرام ہوتا ہے لہٰذا سونے کا نصاب ۱۔ ۵/ گرام ہوا، یعنی کسی کے پاس ۱۔ ۵/گرام سونا سال بھر تک ہو تواس پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے اسی طرح چاندی کا نصاب ۷۳۵/گرام ہوا۔ یعنی کسی کے پاس ۷۳۵/ گرام چاندی ہو اور سال بھر گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہو گی۔

 

                روپئے کا نصاب

 

روپئے کے نصاب کے سلسلے میں بھی بعض لوگوں نے سخت پیچیدگی پیدا کی ہے اور محض اس بنا پر کہ روپئے کی ضمانت سونے سے دی گئی، یہ فتویٰ صادر کر دیا ہے کہ جب ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے برابر روپئے ہو جائیں تبھی زکوٰۃ فرض ہو گی۔ اس سے پہلے نہیں، لیکن واضح رہے کہ یہ فتویٰ یقینی طور پر غلط ہے۔ اس لئے کہ روپئے کے نوٹ سونے کے روپئے کے بدلے نہیں چاندی کے روپئے کے بدلے رائج ہوئے ہیں ہمارے ملک میں کبھی سونے کا کوئی ایساسکہ رائج نہیں ہواجس کا نام روپیہ رہا ہو، بلکہ روپیہ نام کاجوسکہ رائج تھا وہ چاندی کا ہوتا تھا۔ اب اسی کے بدلے کاغذ کا نوٹ جاری ہوئے ہیں تو ظاہر ہے کہ نوٹ چاندی کا بدل ہیں، سونے کا نہیں۔اس لئے جب کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ یعنی ۷۳۵/ گرام چاندی کی قیمت کے برابر روپئے ہوں تواس پر زکوٰۃ کی ادائیگی ایک سال گزرنے کے بعد فرض ہو جائے گی۔

باقی رہا یہ سوال کہ گارنٹی سونے کے ذریعہ دی گئی ہے تو واضح رہے کہ گارنٹی والی چیز کو بدل یا قائم مقام کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی سے کچھ روپئے قرض لیتا ہے اور اس کے بدلے زیوریاسلائی مشین یا کھیت گروی رکھ دیتا ہے تو یہ گروی رکھاہواسامان اس قرض کی گارنٹی ہے، لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ قرض دینے والے کو وہ زیور یاسلائی مشین یا کھیت مطلوب ہے اور یہ اس قرض والے روپئے کا قائم مقام اور بدل ہے، نہیں بلکہ قرض دینے والے کے نزدیک اپنے روپئے کے بدلے روپیہ مطلوب ہے اور جب قرض لینے والا روپیہ ادا کرے گا تو یہ روپیہ سابقہ روپئے کا بدل ہو گا۔ باقی رہا گارنٹی والا سامان تووہ صرف اس اطمینان و یقین کے لئے ہے کہ اس نے جو رقم دی ہے وہ ضائع نہیں ہو گی بلکہ اسے واپس ملے گی، پس روپئے کے لئے سونے کی گارنٹی کے یہ معنی نہیں کہ روپیہ سونے کا بدل ہے اور اس کے نصاب کاحساب سونے سے کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں روپیہ ثمنیات (قیمت) میں سے ہے لیکن سونے اور چاندی کی طرح بذات خود ثمن (قیمت) بننے کی صلاحیت نہیں ہے، بلکہ ثمنیات کا عوض اور بدل ہونے کی وجہ سے ثمن بن گیا ہے اور عرفاً در اصل دوہی چیزیں ثمن ہیں ایک چاندی اور دوسرے سونا، پس ان دونوں میں سے کسی بھی ایک کے حساب سے وہ نصاب کو پہنچ جائے تو آدمی کے پاس نصاب موجود ہو گیا، لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض ہو گئی، لہٰذا کم از کم جتنا روپیہ دونوں ثمنیات (سونے اور چاندی) میں سے کسی ایک کے مساوی ہو گا وہی نصاب ہو گا۔

 

                زیور کی زکوٰۃ

 

اس مسئلہ میں بھی بڑے مختلف خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور بعض آثار کے پیش نظر بعض علماء نے اسے زکوٰۃ سے مستثنا قرار دیا ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو کچھ منقول ہے وہ اس کے برعکس ہے، عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سندجو محققین کے نزدیک حسن کے درجے کی ہے، اور حسن حدیث مسائل شریعت میں حجت ہے۔ اس سند سے ایک روایت ملاحظہ ہو: (جسے امام حاکم نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا اور صحیح کہا ہے۔ )

ان امرأۃ اتت النبی صلی اللہ علیہ و سلم ومعھا ابنۃ لھا، وفی یدابنتھا مسکتان من ذھب فقال لھا اتعطین زکوٰۃ ھذا؟ قالت: لاقال ایسرک ان یسورک اللہ بسوارین من نار فالقتھما۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی)

یعنی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اس کے ساتھ اس کی لڑکی بھی تھی، لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے گنگن تھے۔ آپ نے دریافت کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کیا تمھیں یہ پسند آتا ہے کہ اللہ تمھیں آگ کے گنگن پہنائے ؟یہ سن کر اس عورت نے دونوں گنگن اتار پھینکے۔

ایک حدیث میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ وہ خود سونے کے پازیب پہنتی تھیں اس لئے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا یہ کنز (خزانہ) ہے ؟ (یعنی اللہ تعالیٰ نے ذیل کی آیات میں جو وعیدیں سنائی ہے اس میں یہ بھی شامل ہے۔ ؟)

والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولاینفقون فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم۔ یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم وجنوبھم وظھورھم ھذاماکنزتم لانفسکم فذوقوا ماکنتم تکنزون (۹:۳۴:۳۵)

یعنی جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو جس دن کہ اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر انکی پیشانی اور پہلو اور پیٹھ داغ دی جائے گی ( کہا جائے گا) یہ وہ کنز(خزانہ) ہے جسے تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا اس کا مزہ اڑاؤ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اس سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ دار قطنی اور حاکم کے الفاظ میں یہ تھا۔

اذا ادیت زکوٰتہ فلیس بکنز وفی ابی داؤد: مابلغ ان تودی زکوتہ فزکی بکنز۔

اگر زیور فرضیت زکوٰۃ کی مقدار یعنی نصاب کو پہنچ گیا اور اس کی زکوٰۃ دے دی گئی تو کنز نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی مذکورہ وعید میں داخل نہیں۔

(اس روایت کو حاکم نے صحیح کہا ہے )

ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زیور بقدر نصاب ہو تواس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے علامہ امیر یمانی فرماتے ہیں :

والحدیث صریح فی وجوب الزکوٰہ فی الحلی وقد قیل بعدم الوجوب لآثار وردت عن السلف قاضیۃ بعدم وجوبھا، لٰکن بعد صحۃ الحدیث لا اثر للآثار۔ (سبل السلام)

حدیث زیور میں زکوٰۃ کی فرضیت کے متعلق صریح ہے لیکن سلف سے بعض آثار وارد ہیں جن کاتقاضا ہے کہ زیور میں زکوٰۃ فرض نہ ہو، اس بنا پر بعض حضرات کی طرف سے کہا گیا ہے، زیور میں زکوٰۃ فرض نہیں لیکن جب حدیث صحیح ہے تو ان آثار کا کوئی اثر نہیں۔

ان دلائل کی روشنی میں امید ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے گا اور چند روپیوں کے لئے آخرت برباد کرنے اور سخت عذاب مول لینے کا خطرہ گوارا نہیں کیا جائے گا۔

واللہ الموفق وھو الہادی الی سواء السبیل۔

(مئی وجون ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

بنگلور کانفرنس

 

                ماحول وپس منظر

 

۱۔ ، ۱۱، ۱۲/ مئی کو بنگلور کی سرزمین پر منعقد ہونے والا اجلاس آزادیِ ملک کے بعد جماعت اہلحدیث کی تاریخ میں کل ہند پیمانے کادوسرا اجلاس عام تھا۔ اس سے قبل ۱۶/تا ۱۹/ نومبر ۱۹۶۱ء کو نوگڈھ میں ایک اجلاس عام منعقد ہوا تھا، مگر دونوں کے ماحول اور انداز میں بڑا فرق تھا، اجلاس نوگڈھ کا فیصلہ وقت مقررہ سے خاصا پہلے ہوا تھا، اس کے بعد شاعروں، خطیبوں، ادیبوں، قلم کاروں، مضمون نگاروں، صحافیوں اور رزم و بزم کے شہسواروں نے اس زور و شور سے اس کی تشہیر کی اور احساس زیاں دلا دلا کر اس میں شرکت کے لئے ایسی ہماہمی پیدا کر دی کہ دور و نزدیک سے نوگڑھ کی سرزمین پر افراد جماعت کاسیلاب امنڈ پڑا، خود یہ علاقہ اور اس کے گرد و پیش کے علاقے اتنے مردم خیز تھے کہ یہیں کی آبادیوں سے آنے والے لوگ اجلاس کے میدان کوانسانوں کے سمندر میں تبدیل کر دینے کو کوفی تھے۔

اس کے بر خلاف بنگلور کا اجلاس عام ان تمام امتیازات سے محروم تھا اس کی کل حقیقت اتنی تھی کہ بنگلور کے اہل جماعت اپنے صوبۂ کرناٹک کا ایک صوبائی اجلاس بلانا چاہتے تھے چونکہ انھیں علم تھا کہ مرکزی جمعیۃ کی مجلس شوریٰ کا انتخابی اجلاس بھی ان کی مجوزہ تاریخوں کی لپیٹ میں ہونے والا ہے، لہٰذا ان کی یہ خواہش ہوئی کہ وہ مرکزی مجلس شوریٰ کی ضیافت بھی کر لیں اور ایک بار مرکزی جمعیۃ کے انتخاب کا تاریخی عمل ان کی سرزمین سے ہو جائے اس لئے انھوں نے شوریٰ کا اجلاس بنگلور میں منعقد کرنے کی دعوت دی۔ مگر اس کے بعد جماعت کے عالی ہمت بزرگوں میں ایک جوش پیدا ہوا اور ان کے مشوروں اور خواہشات کی روشنی میں کل ہند پیمانے کے اجلاس عام کے انعقاد کا فیصلہ ہو گیا۔ مگر اس فیصلے اور اجلاس کی تاریخوں کے درمیان وقت کا فاصلہ اتنا کم تھا کہ نہ خطیبوں اور شاعروں کو اپنے جوش بیان اور زور کلام کے اظہار کا موقع ملا، نہ ادیبوں اور قلمکاروں کو جوش و ولولے ابھارنے کی فرصت ملی، نہ صحافیوں اور مضمون نگاروں کو ترغیب و تشہیر کے مواقع ہاتھ آئے، نہ رزم و بزم میں کوئی ہماہمی پیدا ہوئی۔ پھر علاقہ بھی جماعتی آبادی کے لحاظ سے کچھ زیادہ مردم خیز نہ تھا اس لئے یہ اندازہ پہلے ہی سے تھا کہ اس ’’اچانک‘‘ منعقد ہونے والے اجلاس میں وہ بے کرانی پیدا نہیں ہو سکتی جو اجلاس نوگڑھ کا طرۂ امتیاز تھی۔ تاہم آنے والے بنگلور کے اس اجلاس میں بھی ملک کے گوشے گوشے سے کھنچ کر آئے۔ مدراس اور جنوبی ہند تو خود علاقہ بنگلور کی وسعت کا ایک حصہ ہیں اس لئے یہاں سے شرکت کرنے والوں کی کثرت ایک فطری بات ہے لیکن ان کے علاوہ کشمیر سے لے کرآسام تک کے افراد جماعت نے شرکت کی۔ تخمیناً چھ ہزار سے دس ہزار افراد تک یہاں باہرسے تشریف لائے تھے۔

بنارس سے بنگلور تک:

بنارس اور اطراف بنارس سے بھی ایک قافلۂ شوق نے بنگلور کا سفرکیا۔ جس میں خاکسار ایڈیٹر محدث بھی تھا۔ خیال ہے کہ اس سفر کی روداد و واردات قلم بند کر دی جائیں تو ان شاء اللہ یہی چیز کافی ہو گی۔

ہمارا قافلہ ۷/ مئی کو بنارس سے بذریعہ گنگا کاویری صبح سات بجے روانہ ہوا۔ ریاستی جمعیۃ کے نمائندگان برائے مرکزی مجلس شوریٰ کے علاوہ جمعیۃ الشبان المسلمین کے نوجوان اور کچھ دوسرے بزرگان جماعت بھی اس قافلے کے رکن تھے۔ ریاستی جمعیۃ کی طرف سے جبل پور، ناگپور، وجے واڑہ اور مدراس کے اخوان جماعت کو سفرکے پروگرام سے مطلع کر دیا گیا تھاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جبل پور میں بابو گوہر علی صاحب جو اچانک اپنے وطن چلے گئے تھے۔ ان کے صاحبزادے نے قافلے کا استقبال کیا۔ ناگپور میں محترم وکیل پرویز صاحب بیسیوں افراد کا مجمع لے کر قافلے سے ملنے آئے، حالانکہ وہاں گاڑی آدھی رات کو پہنچتی ہے، پھر چونکہ گاڑی تین گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ لیٹ تھی اس لئے کچھ افراد توواپس چلے گئے لیکن بقیہ افراد نے پوری رات جاگ کر فجر کے وقت قافلے کا استقبال کیا۔ وجے واڑہ میں بھی جماعت کے ذمہ داروں نے بڑی گرم جوشی دکھلائی۔ ان کے استقبال نے جھلستی ہوئی دھوپ اور گرمی کی شدت میں باد بہاری کا مزہ دے دیا، ۸/ مئی کی رات کو مدراس پہنچے تو جناب مولانا سید رفیع اللہ صاحب اپنی تنظیم حزب الانصار کے نوجوانوں کولے کر اور جناب عبداللہ پاشا صاحب باؤٹا بیڑی اپنے رفقاء و معاونین کو لے کر پلیٹ فارم پر منتظر تھے۔ ان کے علاوہ مولوی سراج الحق صاحب سلفی مدرس مدرسہ رحمانیہ مدراس اور بنارس کے بعض پرانے باشندے بھی تشریف لائے تھے۔ قافلہ کے افراد ان چاروں مقامات پر تقسیم ہو گئے جمعیۃ الشبان کے جوانوں کا قیام ہمارے جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ جناب مولانا عبدالوحید صاحب سلفی کے مکان (واقع انڈرسن مدراس) پر رہا۔ اہل مدراس کی اس توجہ نے بیحد سہولت پیدا کر دی، اور مسافرت کا ذرا بھی احساس نہ ہوا، اس کے لئے وہ یقیناً بے حد شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔ آمین

۹/ مئی کو عصر بعد آلندور کی جامع مسجداہلحدیث کا افتتاح تھا۔ اور سید رفیع اللہ صاحب نے خاکسار سے اس میں تقریر کرنے کی فرمائش کر رکھی تھی۔ یہ مسجد ادارۂ اصلاح المساجد بمبئی کی توجہ سے تعمیر ہوئی ہے، اور خاصی وسیع و عریض ہے، مسجد کے ساتھ مکتب بھی ہے۔ افتتاحی تقریب عصر بعد تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی۔ استقبالیہ کلمات، تامل اور اردو میں کہے گئے، پھر ایک دو تقریریں ہوئی، خاکسارنے مسجد کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور اس کی بنیادی اور ذیلی مقاصد کی نشاندہی کی۔ مولانا عبدالمبین صاحب منظر اور مولانا عبدالسلام صاحب رحمانی نے تقریریں کیں۔ اس کے بعد اجلاس برخاست ہو گیا کوئی دس بجے رات کو ہمارا قافلہ مدراس سے روانہ ہو کر صبح منزل مقصود یعنی بنگلور پہنچا۔

جلسے اور اجتماعات:

آج ۱۔ /مئی تھی اور اجلاس عام کا پہلا دن، مولانا مختار احمد ندوی صاحب مدظلہ نے جمعہ میں جماعت کے اصول ومبادیات اور راہ عمل پر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا، پھر عصر کے بعد اجلاس عام کی پہلی نشست ہوئی۔ مولانا حافظ عبدالمتین صاحب جونا گڑھی نے اہالیان بنگلور کی طرف سے استقبالیہ کلمات ارشاد فرمائے، موصوف کی پوری گفتگو جذب و اخلاص کا مرقع تھی۔ پھر مولانا عبدالوحید صاحب امیر مرکزی جمعیۃ اہلحدیث ہند نے اپنا مطبوعہ تاریخی خطبۂ صدارت پیش فرمایا۔ (جو محدث کے اسی شمارے میں ہدیۂ ناظرین کیا جا رہا ہے ) اس خطبۂ صدارت کوسن کر ایک نیا ولولہ اور جوش عمل پیدا ہوا۔ پھر رات عام معمول کے مطابق نماز عشار کے بعد جلسۂ عام ہوا۔ پھر روزانہ فجر کے بعد درس قرآن و حدیث، ناشتہ کے بعد اجلاس عام اور عشاء کے بعد اجلاس عام ہوتے رہے اور ہندوستان کے منجھے ہوئے مقررین نے انھیں خطاب فرمایا، آخری اجلاس بارش کی وجہ سے چھوٹا میدان کے پنڈال کے بجائے نیو مارکیٹ روڈ کی جامع مسجد اہلحدیث میں ہوا۔ ۱۲/مئی کو بنگلور کی تفریح گاہ لال باغ کے گلاس ہاؤس میں ایک شاندار عصرانہ بھی دیا گیا، جس میں کرناٹک کے ایک غیر مسلم وزیر اور دومسلم ممبران اسمبلی نے شرکت کی، اور جماعت کو مبارکباد اور دعائیں دیں۔

اجلاس میں شرکت کے لئے بیرون ملک، مدینہ منور سے جناب فضیلۃ الشیخ عمر محمد فلاتہ سابق جنرل سکریٹری اور موجودہ صدر امور دینیہ مدینہ یونیور سٹی، ریاض سے جناب فضیلۃ الشیخ محمد لقمان صاحب سلفی پرسنل سکریٹری فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبدا للہ ابن باز صد ردار الافتاء ریاض، جدہ سے جناب فضیلۃ الشیخ محمود باحاذق صاحب( سعودی ایئر لائنس جدہ)اور مکہ سے جناب جاوید اعظم صاحب سلفی دراسات علیا جامعہ ام القری مکہ مکرمہ تشریف لائے تھے، فضیلۃ الشیخ محمد عمر فلاتہ مدظلہ نے اکثر اجلاسوں کو خطاب فرمایا اور دل کھول کر رکھ دیا، ان کی تقریر عربی فصاحت و بلاغت، زور بیان، طلاقت لسانی، جذب و کشش، محبت و اخلاص اور عالمانہ وقار کا نمونہ ہوا کرتی تھی، محمود باحاذق صاحب نے پہلے روز عشاء بعد خطاب فرمایا اور اردو میں خطاب فرمایا، مسلمانوں کی زبوں حالی پر روشنی ڈالی، پوری تقریر غیرت اور جذبۂ اسلامی کی آئینہ دار تھی، فضیلۃ الشیخ محمد لقمان مدظلہ نے دوسرے دن خطاب فرمایا اور اہل حدیث کے اصول و مبادی پر کتاب وسنت کی روشنی میں نہایت پر مغز اور عالمانہ تقریر کی۔ انھوں نے ہر ہر اصول کے لئے کتاب وسنت کا جس فراوانی سے حوالہ دیا اس نے تقریر کی قوت میں بڑا زبردست اضافہ کر دیا۔

مجلس شوریٰ کا انتخابی اجلاس اور امیر و عہدیداران کا انتخاب:

اجلاس عام کے علاوہ اس موقع پر دو اور پروگراموں کو بڑی اہمیت حاصل تھی، ایک مرکزی مجلس شوریٰ کے انتخابی اجلاس کو اور دوسرے نوجوانوں کے نمائندہ اجتماع کو۔ اشتہارات میں یہ اطلاع آ چکی تھی کہ ۱۱/ مئی کو مرکزی جمعیۃ کے نئے عہدیداران کا انتخاب ہو گا، بعض موقع پرست، بعض انقلاب پسند اور بعض طالع آزما حضرات اس وقت کے لئے کچھ مخصوص قسم کی تیاریاں بھی کر کے آئے تھے۔ اور ایک صاحب تو انقلاب جدید کا اس قدر یقین کئے بیٹھے تھے کہ انھوں نے مہینوں پہلے سے بے نیازی اور خود سری کا مظاہرہ شروع کر دیا تھا، کچھ انقلاب پسندوں نے ۱۔ / مئی ۱۔ /بجے دن سے ۱۱/مئی کے کوئی ۱۔ /بجے دن تک اپنی انقلابی مہم جاری رکھی۔ اس پس منظر میں ۱۱/مئی کو اہل حدیث منزل جامع مسجد اہل حدیث نیو مارکیٹ روڈ بنگلور میں مجلس شوریٰ کا اجلاس شروع ہوا، تلاوت کلام پاک اور پچھلی کارروائی کی خواندگی کے بعد دستورکی بھی کچھ ’’ بر محل‘‘ دفعات کی تلاوت کی گئی، چونکہ عاملہ اور شوریٰ کی منظوری کے بغیراس کی ایک دفعہ میں تحریف کر دی گئی تھی، اس لئے راقم الحروف نے اس دفعہ کی تبدیلی پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد خاصی رد و قدح ہوئی۔ بالآخر شیخ عطاء الرحمٰن صاحب نے اعتراف کیا کہ دستورکی رجسٹری کے وقت رجسٹریشن آفس سے اعتراض کے سبب وہ دفعہ ترمیم کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد ایک انتخابی بورڈ تشکیل دیا گیا، جس کے ممبران راقم کے علاوہ جناب مولانا عبدالسلام صاحب رحمانی سابق و موجودہ جنرل سکریٹری مرکزی جمعیۃ اہلحدیث ہند اور جناب ضمیر الحق صاحب منڈل ایڈوکیٹ، جناب ڈاکٹر سعید صاحب فیضی اور جناب صابر صاحب غوری تھے۔ ہم نے علیحدہ ہو کر انتخاب کے طریقۂ کار پر غور کیا اور اتنے میں فضیلۃ الشیخ جناب عمر محمد صاحب فلاتہ حفظہ اللہ تعالیٰ نے ایک تقریر شروع کر دی جو نہایت مختصر ہونے کے باوجود بڑی در انگیز تھی، شیخ نے چند لفظوں میں جماعت کی ماضی کی خدمات کا نقشہ پیش کرتے ہوئے جماعت سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار فرماتے ہوئے یوں کہا کہ خدا کی قسم! اگر مجھے اس اجلاس میں شرکت کے لئے سر کے بل چل کر آنا پڑتا اور مجھے یقین ہوتا کہ میں یہاں تک پہونچ سکوں گا تو مدینہ سے یہاں تک سرکے بل چل کر آتا، اور اس میں شرکت کو اپنی سعادت سمجھتا۔ ان کلمات کو ارشاد فرماتے ہوئے شیخ کی آنکھوں سے آنسورواں تھا اور اس کے اثر سے پوری مجلس اشکبار تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان کی جماعت اہل حدیث اور علماء اہل حدیث کی نیکیوں اور دینی خدمات کے اثرات عرب سے عجم تک ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ آج عرب کا کوئی بڑا عالم ایسانہیں ہے جس کے سرپر ہندوستان کی اس جماعت کے احسان کا بار نہ ہو۔ وہاں کا ہر بڑا عالم یا تو براہ راست یہاں کے کسی اہل حدیث عالم کا شاگرد ہے یا ان کے شاگردوں کا شاگرد ہے، شیخ نے فرمایا کہ میں بھی اسی جماعت کی نیکیوں کا ثمرہ ہوں اس لئے آج اس جماعت میں اختلاف و انتشار کی کیفیت دیکھ کر مجھے بے حد دکھ ہو رہا ہے، موصوف کے خطاب کا ترجمہ ڈاکٹر محمد لقمان صاحب سلفی نے کیا، پھر مولانا مختار احمد ندوی صاحب مدظلہ نے سمع و طاعت کی اہمیت پر ایک مختصر خطاب کیا۔

ہم ان انتخابات کے طریقۂ کار کا فیصلہ کر کے خطابات سن رہے تھے۔ ووٹ دینے کے لئے انتخابی کارڈ چھپے ہوئے تھے جو ہمارے حوالے کر دیے گئے تھے۔ خطابت ختم ہوتے ہی ہم نے اپنے مجوزہ طریق کار کے مطابق اعلان کیا کہ پہلے ہر ہر عہدہ و منصب کے لئے مجلس شوریٰ کے ارکان جن جن حضرات کے نام بحیثیت امیدوار پیش کرنا چاہتے ہیں، پیش کر دیں۔ اس کے بعد انتخابی کارڈ تقسیم کئے جائیں گے اور جو رکن جس کے حق میں ووٹ دینا چاہے گا، دے دے گا، مگر اس طریقۂ کار پر بعض ارکان کی طرف سے اعتراض ہوا۔ اور ایک دستوری بحث پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ لیکن بحث و تمحیص کے بعد طے پایا، کہ پہلے امیدواروں کے نام پیش کئے جائیں پھر ووٹنگ ہو گی اس کے بعد امارت کے لیے راقم نے مولانا عبدالوحید صاحب سلفی کا نام پیش کیا، پھر ایک صاحب نے حافظ نور الٰہی صاحب کا نام پیش کیا، پھر مولانا محمد امین صاحب ریاضی ناظم اعلیٰ جمعیۃ اہل حدیث بمبئی عظمیٰ نے جناب ٹی کے محی الدین عمری کا نام پیش کیا۔ اس کے بعد آوازیں خاموش ہو گئیں اور ہم کارڈ تقسیم کرنے کے لئے اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ حکیم اجمل خاں صاحب نے شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار صاحب شکراوی حفظہ اللہ سے کچھ سرگوشی کی وہ مولانا پر زور دے رہے تھے کہ آپ مولانا مختار احمد ندوی کا نام پیش کریں۔ چنانچہ مولانا شکراوی حفظہ اللہ نے کھڑے ہو کر بعد حمدو صلوٰۃ کے مولانا مختار احمد ندوی کا نام پیش کیا، پھر خاموشی ہو گئی۔ اب ہم پھر کارڈ تقسیم کرنے کے لیے اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ اتنے میں مولانا ندوی مدظلہ نے کھڑے ہو کر اپنا نام واپس لینے کا اعلان فرما دیا، ان کے بعد حافظ نور الٰہی اور پھر مولانا محی الدین نے یکے بعد دیگرے اپنے اپنے نام واپس لے لئے اتنے میں مجلس شوریٰ کے بہت سارے ممبران نے بیک زبان مولانا عبدالوحید صاحب سلفی حفظہ اللہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اب آپ بلا مقابلہ امیر منتخب ہوئے اور آپ اپنا نام واپس نہیں لے سکتے، حافظ عبدالمتین صاحب جوناگڑھی جو دور ایک گوشے میں تھے دوڑ کر تشریف لائے اور بیعت اطاعت کی اس کے بعد مولانا عبدالوحید صاحب سلفی نے نائب امیر کے لئے مولانا مختار احمد ندوی مدظلہ کا نام پیش کیا اور مجلس نے بالاتفاق منظور کر لیا۔ ناظم اعلیٰ کے لئے مولانا عبدالسلام صاحب رحمانی کا نام پیش کیا گیا، اور اسے بھی مجلس شوریٰ نے بڑی گرمجوشی سے قبول کیا۔ مولانا نے بھی اپنی شدید مصروفیات کے باوجود بزرگوں کے حکم کاپاس و لحاظ کرتے ہوئے قبول فرما لیا۔ مگر اس کے بعد مولانا احسان اللہ صاحب نے یہ اشکال پیش کیا کہ موصوف معہد سراج العلوم بونڈیہا کے وکیل مقرر کئے گئے ہیں اور انھیں اس عہدے کے ساتھ نظامت کا کام دیکھنے کا موقع نہیں مل سکتا، اور ہماری طرف سے انھیں اس کی اجازت بھی نہیں ہے اس پر مولانا رحمانی نے مجبوراً اپنا نام واپس لے لیا۔ اس کے بعد ایک صاحب نے حکیم اجمل صاحب کا نام نظامت کے لئے پیش کیا مگر مولانا مختار ندوی مدظلہ نے یہ کہہ کر مستردکر دیا کہ نظامت کے لیے کوئی متشرع آدمی ہونا چاہئے۔ پھر انھوں نے مولانا عبدالوہاب خلجی کا نام پیش کیا۔ مگر انھیں نائب ناظم کی حیثیت سے زیادہ موزوں سمجھا گیا، اس پیچیدہ مرحلہ پر ڈاکٹر محمد لقمان صاحب سلفی نے مجلس سے اجازت لے کر مداخلت کی اور یہ تجویز پیش کی کہ مولانا رحمانی ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے ماہ ڈیڑھ ماہ میں مرکزی دفتر دہلی جا کر تمام کاموں کی نگرانی فرما لیا کریں، اور مولانا عبدالوہاب خلجی بحیثیت نائب مستقلاً دفتر کی نگرانی کریں۔ یہ تجویز معمولی رد و قدح کے بعد قبول کر لی گئی۔ اس کے بعد مولانا محی الدین صاحب عمری کو نائب امیر ثانی اور حافظ نور الٰہی صاحب کو خازن منتخب کیا گیا۔ اور مجلس نصیحتوں اور دعاؤں پر اختتام پذیر ہوئی۔

نوجوانوں کا نمائندہ اجتماع:

دوسرے دن ۱۲/ مئی کو ٹھیک اسی جگہ نوجوانوں کا پروگرام شروع ہوا۔ طے یہ تھا کہ ہر علاقے کے نوجوانوں میں سے دو دو تین تین ذمہ دار نوجوان اکٹھا ہوں گے۔ ان سے ان کی سرگرمیوں یاسرد مہریوں کی داستان مختصر لفظوں میں سنی جائے گی اور پھر ہندوستان گیر پیمانے پر نوجوانوں کو متحرک کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کیا جائے گا اور مناسب ہوا تو آل انڈیا پیمانے پر نوجوانوں کی ایک تحریک کی داغ بیل ڈالی جائے گی، جو پوری قوت کے ساتھ عمل بالکتاب والسنۃ کو فروغ دینے کی منظم کوشش کرے گی، مگر جب پروگرام کا وقت آیا تو نوجوان اتنی اچھی خاصی تعداد میں جمع ہو گئے کہ اہل حدیث منزل میں جگہ نکالنی مشکل ہو گئی اور ابھی اپنے اپنے علاقوں کی سرگرمیوں کا تعارف ہوہی رہا تھا کہ اس اجتماع کو مسجد میں منتقل کرنا پڑا۔ اس اجتماع سے پہلی بار علم ہوا کہ بحمد للہ نوجوانوں میں ہر جگہ حرکت موجود ہے اور وہ جلسوں، تقریروں، خطبوں، ہفت روزہ یا ماہانہ اجتماعات، درس حدیث ودرس قرآن وغیرہ کی شکلوں میں اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ سرگرم، منظم، فعال اور وسیع الحرکت کیرالا کے نوجوان نظر آئے، جو اتحاد الشباب المجاہدین کے نام سے اپنی تحریک چلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بنارس کی جمعیۃ الشبان المسلمین بھی زیادہ متحرک اور فعال نظر آئی۔ امید ہے کہ تمام مقامات کی سرگرمیوں کو مربوط کر دیا جائے تو ایک مضبوط تحریک ابھر آئے گی۔

اخیر میں شیخ عمر احمد ملیباری نے اس اجتماع کو خطاب کیا اور اس کے بعد راقم نے ایک تقریر کی۔ پھر ذمہ داران مشورے کے لیے بیٹھ گئے اور حسب ذیل دو باتیں طے ہوئیں۔

(۱)…پہلے اس اجتماع میں شریک تمام نوجوان اپنے اپنے علاقوں میں دعوت و تبلیغ کا کام منظم کریں اوراس میں تیزی لائیں۔ پھر ایک ہندوستان گیر اجتماع بلا کر ایک کل ہند پیمانے کی تنظیم قائم کی جائے۔

(۲)… طریق کار یہ اختیار کیا جائے کہ مساجد میں درس قرآن ودرس حدیث کا اہتمام کیا جائے، دعوت و تبلیغ کے لئے ہفت روزہ، پندرہ روزہ یا ماہانہ اجتماعات کئے جائیں، اور انفرادی ملاقاتیں بھی کی جائیں۔ مختلف مجالس میں حسب موقع دینی بات چھیڑی جائے اور لوگوں کو حتی المقدور ارکان اسلام کا پابند بنانے اور حلال و حرام کی عملی تمیز پیدا کرنے کی تلقین اور کوشش کی جائے ممکن ہو تو لائبریری کھولی جائے اور ان کے ذریعہ دینی کتابیں اور رسائل و جرائد فراہم کر کے لوگوں کو مستفیدکیا جائے، اس کے علاوہ وقتی اور مقامی ماحول کے لحاظ سے جو صورت مناسب نظر آئے اسے زیر عمل لایا جائے۔

ان دو فیصلوں کے بعد دعا اور شکریہ پر اس مجلس کا اختتام ہوا۔

بنارس واپسی:

۱۳/ مئی کی صبح ہمارے قافلے کا ایک بڑا حصہ مدراس روانہ ہوا۔ سید رفیع اللہ صاحب رکن حزب الانصار مدراس نے دو بوگیاں مدراس، بنگلور آمدورفت کے لئے ریزرو کرا رکھی تھیں۔ اس وجہ سے ہم بڑی سہولت کے ساتھ اپنے لوگوں کے درمیان سفرکرتے ہوئے مدراس واپس آئے۔ کا کا محمد عمر اور کا کامحمدسعید صاحبان نے عمر آباد جامعہ دارالسلام دیکھنے کی دعوت دی تھی، اور ہماری خواہش بھی تھی مگر افسوس قلت وقت کے سبب یہ دیرینہ آرزو پوری نہ ہو سکی، واپسی میں بھی مدراس اسٹیشن پر جناب عبداللہ پاشا صاحب باوٹا بیٹری اور دوسرے حضرات استقبال کے لئے موجود تھے۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ خیرالجزاء۔

۱۴/مئی کی صبح مدراس سے بذریعہ گنگا کاویری بنارس کے لئے روانگی ہوئی اور ۱۵/ مئی کورات گئے ہم بنارس آ پہونچے۔

بعض واقعات سفر:

سفر مختلف تجربات کا بھی حامل ہوتا ہے اور اس میں لوگوں کے مزاج و کردار اور خلوص و تصنع کا بھی امتحان ہو جاتا ہے۔ بہت سی پس پردہ کمزوریاں بھی منظر عام پر آ جاتی ہیں۔ اور بہت سی دبی ہوئی خرابیاں بھی اجاگر ہو جاتی ہیں۔ ہمارے اس سفرمیں محترم حاجی وکیل احمد صاحب بھدوہی بھی شریک قافلہ تھے، ان کے جذبۂ خدمت و ایثار سے ہم عرصۂ دراز سے واقف ہیں۔ اس سفر میں بھی انھوں نے بے حد مستعدی کا ثبوت دیا، اللہ انھیں دنیا و آخرت میں اس کی بہترین جزا دے۔ آمین

اس سفر کے دو تجربے قابل ذکر ہیں۔ بنارس سے جاتے ہوئے ہماری ٹرین کوئی ایک بجے رات کواٹارسی پہنچی، اس وقت رفقاء سفرمیں سے ایک صاحب بیرونی کھڑکی پر ہاتھ رکھے کنارے کی برتھ پر تشریف فرما تھے، جوں ہی گاڑی نے حرکت کی پلیٹ فارم سے کسی نے ان کی کلائی گھڑی جھپٹ لی۔ گھڑی اس چور اچکے کے ہاتھ لگی اور سیاہ پٹہ موصوف کی کلائی میں رہ گیا، مدراس سے واپسی پر محترم مولانا انور صاحب نے اپنا تہ بند کھڑ کی پر سوکھنے کے لئے ڈال رکھا تھا اس پر انھیں ٹوکا بھی گیا اور بعض ظریفانہ فقرے بھی چست کئے گئے مگر انھوں نے تہ بند اپنی جگہ سے نہ ہٹایا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اسٹیشن پر گاڑی رک کر روانہ ہوئی تو تہ بندکسی نے باہر کھینچ لیا اور باوجودیکہ مولانا اسے دبائے ہوئے تھے، اس اچکے کے ہاتھ جا لگا، بعد میں ایک دوسری بوگی میں موجود ہمارے بعض رفقاء نے بتایا کہ ان کے ڈبے میں ایک صاحب نے تولیہ بھگو کر کھڑکی پر لٹکا رکھا تھا اسے باہرسے کسی نے کاٹ لیا۔

سفر کے یہ تجربات ہر اس شخص کو دعوت غور و فکر دیتے ہیں جو اپنی جان و مال کا تحفظ چاہتا ہے یاجسے عورت کی حکمرانی سے قوم کے تباہ ہونے میں شک و شبہ ہے۔

فاعتبروایا اولی الابصار۔

(جولائی ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

 

قربانی کا درس

 

قربانی کا موقع اپنے دامن میں حکمت و موعظت کے بہت سے درس لئے آتا اور گزر جاتا ہے۔ مگر رسالوں اور اخبارات میں پر زور مضامین اور منبروں پر پر شور خطبات کے باوجود ہماری روزہ مرہ کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جواس بات کی علامت ہے کہ حکمت و موعظت کا یہ سارا شور اوپر ہی اوپر رہ جاتا ہے، ہماری حلق کے نیچے نہیں اترتا اور یہی وہ مزمن بیماری ہے جو ہمارے وجود کی بنیاد کو کھوکھلا اور نا پائیدار کرتی چلی جا رہی ہے۔

قربانی اس واقعے کی یادگار ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پروردگار کے ایک ہلکے سے اشارے پر جو خواب میں کیا گیا تھا اپنی جان سے بھی زیادہ گراں بہا اور عزیز تر متاع یعنی بڑھاپے میں ملنے والے اپنے اکلوتے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اس کٹھن آزمائش کے ہر اس مرحلے کو عملاً برت گئے، جس کے بعد امتحان و آزمائش کا کوئی اور مرحلہ باقی نہیں رہ جاتا، پس اس واقعے کی یادگار کے طور پر قربانی کی سنت کو زیر عمل لانا درحقیقت اس عہد و اقرار کا اعلان کرنا ہے کہ ہم بھی اللہ کی رضا کے لئے اپنی جان سے زیادہ عزیز تر متاع کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس عہد و اقرار کو ملحوظ رکھ کر اور اس طرح کے جذبات و عزائم لے کر قربانی کرتے ہیں ؟مگر ہمارے عمل کی روشنی میں دیکھا جائے تواس کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا اور جواب نفی میں ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہماری ذات صرف ایک عملی ڈھانچے کی حیثیت سے باقی رہ گئی ہے اس کی روح پرواز کر چکی ہے، کاش ہم اتنی اہم اہم یادگاروں سے کچھ بھی فائدہ اٹھاتے اور اپنے آپ میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے۔ اگرایسا ہو جائے تواس کی برکتیں اور اس کے فوائد کا ظہور بھی ان شاء اللہ شروع ہو جائے گا۔ جس طرح آج ہماری بے عملی کے نقصانات کا ظہور ہو رہا ہے۔ ربنا لاتزغ قلوبنا بعداذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب۔

عشرۂ ذی الحجہ میں بال اور ناخن:

سوال :… ہم احادیث کے حوالہ سے شریعت کا یہ حکم سنتے آ رہے ہیں کہ ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہونے کے بعد دسویں تاریخ کو قربانی سے پہلے تک بال اور ناخن نہیں کاٹنا چاہئے۔ مگر پچھلے سال ایک مولوی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ۹ھ میں آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو حج کا امیر بنا کر بھیجتے ہوئے ان کے ہمراہ اپنی طرف سے قربانی کے جانور بھی بھیجے۔ اور اسی سلسلہ میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ آپ پروہ چیز حرام نہ ہوئی جو محرم پر حرام ہوتی ہے۔ مولوی صاحب نے بتلایا کہ چونکہ محرم پربال اور ناخن کاٹنا حرام ہے،اس لئے حضرت عائشہ کے بیان سے معلوم ہوا کہ آپ پر بال اور ناخن کاٹنا حرام نہ ہوا تھا۔ لہٰذا عشرہ ذی الحجہ میں بال اور ناخن کاٹنے کے حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی مولوی صاحب نے اس دلیل کو پیش کر کے اپنی علمیت کی بڑی ہوا باندھی اور دوسروں کی جہالت کا ماتم بھی کیا، لہٰذا گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں۔                    (سائل یکے از بنارس)

جواب:… عشرۂ ذی الحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اور ابوبکرؓ کے ساتھ جانور بھیجنے کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں اور اس حکم میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بال نہ کاٹنے کا حکم پہلی ذی الحجہ سے شروع ہوتا ہے اور ابوبکرؓ ذی قعدہ میں سفرحج پر روانہ ہوئے تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جانور بھیجنے کے بعد پہلی ذی الحجہ سے پہلے بال ناخن کٹوا لیا تو یہ بات بھی صحیح ہو گی کہ جانور بھیجنے کی وجہ سے آپ پر احرام کی پابندیاں عائد نہیں ہوئیں، اور اس حکم پر بھی عمل ہو گا کہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹے جائیں۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سوال میں حضرت عائشہؓ کی جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں انھوں نے درحقیقت ان لوگوں کی تردید فرمائی ہے جن کا خیال تھا کہ کوئی شخص گھر رہتے ہوئے قربانی کے جانور منیٰ بھیج دے تو جب تک اس جانور کی قربانی نہ ہو جائے بھیجنے والے کو احرام کی پابندی برتنی پڑیں گی۔ چونکہ احرام کی ایک بہت اہم پابندی یہ ہے کہ آدمی حالت احرام میں بیوی کے پاس نہ جائے۔ اس لئے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ عرصہ میں بال ناخن تو نہ کٹوائے ہوں لیکن مجامعت کی ہو تو یہی اس بات کو جاننے کے لئے کافی ہے کہ آپ پر احرام کی پابندی عائد نہیں ہوئی تھی، لہٰذا اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ حضرت ابوبکرؓ ذی قعدہ نہیں بلکہ ذی الحجہ میں سفر حج پر روانہ ہوئے تھے تب بھی حضرت عائشہ کے بیان میں اور بال و ناخن نہ کاٹنے کی پابندی میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو گا۔ بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہوں گی۔ واضح رہے کہ یہ محض کوئی عقلی احتمال نہیں ہے، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کا منشا بھی یہ ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری جلد دوم ص ۸۳۵ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں خود اس کی صراحت موجود ہے۔ روایت یہ ہے کہ مشہور تابعی حضرت مسروقؒ نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ اے ام المومنین! ایک آدمی خانہ کعبہ کے پاس قربانی کا جانور بھیجتا ہے اور اپنے شہر میں بیٹھ جاتا ہے وہ یہ وصیت کرتا ہے کہ اس کے جانور کو ہدی ہونے کی علامت کے طور پر قلادے پہنا دئے جائیں، اس کے بعد وہ اسی دن سے اس وقت تک حالت احرام میں رہتا ہے جب تک کہ لوگ حلال نہیں ہو جاتے، مسروق کہتے ہیں کہ اس سوال کے بعد میں نے پردے کے پیچھے سے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ پیٹنے کی آواز سنی اور انھوں نے فرمایا:

لقدکنت افتل قلائد ھدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فیبعث ھدیہ الی الکعبۃ فمایحرم علیہ مماحل للرجال من اھلہ حتی یرجع الناس۔ یعنی میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہدی کے قلادے بنتی تھی پھر آپ انھیں خانۂ کعبہ کے لئے بھیج دیتے تھے۔ پھر آپ پروہ چیزیں حرام نہیں ہوتی تھیں جو مرد کے لئے اس کی بیوی سے حلال ہے یہاں تک کہ لوگ واپس آ جاتے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہؓ نے آپ پر احرام کی پابندی عائد نہ ہونے کی بنیاد یہ قرار دی تھی کہ آپ کے لیے بیوی حرام نہیں ہوئی تھی، یہ نہیں کہ آپ نے بال اور ناخن کاٹے تھے۔ اور عشرۂ ذی الحجہ میں بال و ناخن کاٹنے کی ممانعت توہے مگر بیوی کے پاس جانے کی ممانعت نہیں ہے لہٰذا حضرت عائشہ کی روایت سے بال و ناخن نہ کاٹنے کے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔

اخیر میں یہ وضاحت بھی بیجانہ ہو گی کہ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم واجب و لازم نہیں بلکہ مستحب ہے۔ مگر اس کے مستحب ہونے کی وجہ وہ روایت نہیں ہے جسے سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ نہ اس روایت سے استدلال کی وہ تکنیک صحیح ہے جوسوال میں مذکور ہے۔

(اگست ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

 

تنگ نظر تنگ دل

 

اگر آپ انسانوں کے خود ساختہ قوانین و ضوابط کا تقابل خدائی قوانین سے کیجئے اور ذرا زیادہ وقت پسندی کے ساتھ دونوں کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہو گا کہ انسانی قوانین عموماً بے اعتدالی اور عدم توازن کا شکار ہیں ان میں افراط وتفریط کی خاصی گرم بازاری ہے۔ قانون سازی میں کوئی ایک یا چند پہلو مد نظر رکھے گئے ہیں تودوسرے بہت سے پہلو نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں اور بہت بڑی بڑی اور وسیع الاطراف حقیقتوں کے بہت ہی محدود اجزاء کو دیکھ کر قوانین بنا ڈالے گئے ہیں، اس کے برعکس خدائی قوانین انتہائی مکمل اور جامع ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس معاملے سے متعلق جو قانون دیا ہے وہ اس قدر معتدل اور جامع ہے کہ اس معاملے کے اطراف و جوانب، اسباب و علل اور اثرات و نتائج کا جس قدر وسعت اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیجئے اس قانون کی معجزانہ معقولیت اسی قدر قوت و شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ علیم و خبیر ہے وہ انسان کی ضروریات، اس کے مزاج، اس کے ظاہری و باطنی احساسات و جذبات، طبعی رجحانات، وجدان و شعور، تحت الشعور و لا شعور، اعصابی عمل ورد عمل، فطرت کے شعوری و غیر شعوری تقاضے، غرض ہر ہر گوشے کے ہر ہر ذرے کی خبر رکھتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کے لئے ان کی ضروریات کے جواب میں کیا کچھ مفید ہے، اور کیا مضر؟ کون کون سی چیزیں اور کیا کیا طریقۂ عمل اس کی نوع بہ نوع صلاحیتوں اور اجتماعی و انفرادی سعادتوں سے ہم آہنگ اور ان کی تعمیر و ترقی میں معاون ہیں، اور کن کن باتوں اور کن کن طرز ہائے عمل سے اس کی صلاحیتیں اور سعادتیں انتشار و بد نظمی اور تباہی و بربادی کا شکار ہوتی ہیں اور بظاہر ایک چھوٹی سی بے اعتدالی کی زد اس کی اجتماعی و انفرادی زندگی کے کن کن دائروں پر پڑتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کے کتنے دور رس اور دردناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

لیکن اس کے برعکس انسان کی معلومات کا دائرہ محدود ہے، وہ انسانی مزاج کے چند حقائق اور خصوصیات جاننے اور سمجھنے کے لئے وسیع تجربات کا محتاج ہے، پھر ان باتوں سے واقفیت کے بعد ان کا جو حل وہ اپنی ذہنی اور فکری کاوش کی بنیاد پر دریافت کرتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ صحیح بھی ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ شخصی افتاد طبع، گرد و پیش کے ماحول اور ناہموار موروثی رسم و رواج نے اسے غلط رخ دے دیا ہو۔ یا کم از کم فکر و نظر کی محدودیت کی وجہ سے اس میں جامعیت اور ہمہ گیری نہ آ سکی ہو۔ چنانچہ بہت سے ایسے قوانین ہیں جنھیں انسان نے اپنی دریافت کے آغاز میں نہایت اعلیٰ، جامع اور ناقابل چیلنج تصور کیا لیکن صدیوں کے تجربات نے اسے ناکارہ اور غیر مفید ثابت کر دیا۔

نکاح و طلاق کے قوانین و ضوابط بھی کچھ اسی قسم کے ہیں بہت سے ممالک میں جہاں خدائی قانون کو رہ نما تسلیم نہیں کیا گیا ہے، نکاح و طلاق کے مختلف قوانین کا ڈھائی تین صدیوں سے تجربہ کیا جا رہا ہے، مگر حالت یہ ہے کہ مشکلات اور بیماریاں تو سامنے ہیں لیکن ان کا جو قانونی حل اور علاج تجویز کیا جاتا ہے وہ علاج کے بجائے مزید بیماری کاسبب بن جاتا ہے، اس حل اور علاج کے ذریعہ انتشار و تباہی کا ایک سوراخ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تودوسرے کئی سوراخ پھوٹ پڑتے ہیں اور کسی طرح الجھی ہوئی رسی کا سراہاتھ نہیں آتا۔

ہمارے ملک میں اکثریتی طبقہ کی عورتوں کی مظلومیت و محرومی اور ان کے انسانی بلکہ حیوانی حقوق تک کی پامالی کی جو روایت پندرہ بیس صدیوں سے چلی آ رہی تھی، موجودہ دور میں اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ کیونکہ اب دنیاسمٹ سمٹا کر ایک چھوٹا سا جزیرہ بن گئی ہے، اور کوئی چیز درون خانہ نہیں رہ گئی ہے، پھر ہر طرف حقوق انسانی اور حقوق نسوانی کا شور و غلبہ برپا ہے اس لئے شرما حضوری میں کچھ نہ کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ لہذا قدیم روایت کے برخلاف سرکاری قانون میں شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کو جائز تسلیم کر لیا گیا ہے، اور اس کے نتیجہ میں ابھر نے والے نوع بہ نوع مسائل و معاملات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر خبط کا عالم یہ ہے کہ نہ مقصد کا کوئی واضح تصور ہے، نہ طریقۂ کار میں اعتدال و توازن، نہ انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور گرہوں کا کوئی لحاظ ہے نہ نتائج و عواقب پر کوئی نظر، نہ حالات کا کوئی جامع مطالعہ ہے نہ عدل و انصاف کے تقاضوں کی کوئی رعایت، بس بعض انفرادی، جزوی اور اتفاقی واقعات پر نظر پڑی، کچھ جھوٹے اور غلط پروپیگنڈے نے کچھ پشتینی عصبیت کے جذبات نے انگڑائی لی اور جھٹ ایک بے ڈھنگا اور الجھا ہوا قانون صادر فرما دیا گیا۔ اور یہ نہ دیکھا گیا کہ یہ معاملہ کتنا مہتم بالشان، وسیع الاطراف اور دقت نظر کا طالب ہے، بلکہ یہ ستم ظریفی بھی روا رکھی گئی کہ اپنا الجھاؤ دور کرنے کے بجائے مسلمانوں کو بھی انھی کانٹوں پر گھسیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اپنی آنکھوں کا شہتیر دیکھنے کے بجائے خدائی قانون میں کیڑے نکالے جا رہے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ملک کی ’’سب سے اونچی اور تنقید سے بالاتر‘‘ عدالت نے مشہور مقدمہ شاہ بانو بنام محمد احمد خان میں طلاق یافتہ عورت کو تا عقد ثانی ورنہ تا حیات نفقہ دلانے کا جو فیصلہ صادر کیا ہے وہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، حالانکہ اس قانون کی نامعقولیت اتنی واضح رہے کہ معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اسے بآسانی محسوس کر سکتا ہے۔ میں اس سلسلے کی تمام جزئیات کا دقت پسندانہ تجزیہ پیش کرنے کے بجائے دو ایک موٹی اور عام فہم خرابیوں کی نشاندہی کر دینا کافی سمجھتاہوں۔ معلوم ہے کہ مرد کو عورت سے ایک مخصوص تمتع حاصل ہے۔ اور جب سے تمتع حاصل کرنے کا حق اسے ملتا ہے تبھی سے اس پر عورت کے خرچ کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ادھر عورت اور مرد کے تعلقات بعض اوقات اتنے زیادہ ناہموار ہو جاتے ہیں کہ دونوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں زیادتی کبھی مرد کی طرف سے ہوتی ہے کبھی عورت کی طرف سے اور کبھی دونوں کی طرف سے اور اس کے نتیجے میں طلاق اور علیحدگی کی نوبت آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر طلاق کے بعد دوبارہ دونوں کے یکجا ہونے کی گنجائش نہ رہ جائے تو آخر کس منطق کی بنا پر شوہر کو اس کی سابقہ بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ جب کہ عورت سے حاصل ہونے والے جس فائدے کے بدلے شوہر اس کو خرچ دے رہا تھا، اس فائدے کی جڑ ہی کٹ چکی ہے۔ لہٰذا یہ صراحۃً غیر معقول بات ہے کہ علیٰحدگی کی تکمیل اور تمتع کے کٹ جانے کے بعد بھی شوہر پر عورت کے خرچ کا بوجھ لادا جائے۔

اس غیر معقولیت کے علاوہ اس میں ایک کھلی ہوئی خرابی یہ بھی ہے کہ اگر عورت سے ہر طرح زچ اور تنگ آ جانے کے باوجود طلاق دینے کی صورت میں شوہر کے سامنے یہ دشواری ہو کہ اسے زندگی بھر اپنی بے وفا عورت کے خرچ کا بوجھ اٹھانا ہو گاتواس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شوہر طلاق دینے کے بجائے ایک بوتل مٹی کا تیل اور ماچس کی ایک تیلی کے ذریعہ یاکسی چوہا مار زہر کے ذریعہ اس عورت کا چراغ حیات ہی گل کر دے گا۔ اور عورت کے ساتھ ساتھ اس کے اس غیر ضروری بوجھ سے بھی چھٹکارا حاصل کر لے گا۔ یاد رہے کہ یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ ہمارے ملک کی اکثریت جواب تک طلاق نہ دینے کے اصول پر کار بند ہے۔ اس کے سماج میں عورتوں کو زندہ جلانے کے جو واقعات روزمرہ پیش آ رہے ہیں وہ اس کا کھلا ہوا عملی ثبوت ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور بھیانک صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے اور آئے گی۔ اس طرح کی خبریں تو روزانہ ہی اخباروں کی زینت بن رہی ہیں کہ کسی عورت نے اپنے آشناؤں کے ذریعہ اپنے شوہر کو قتل کرا دیا، یا پٹوا دیا، یا اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی، فرض کیجئے کہ کسی شوہر کو اپنی عورت کی بد چلنی کا پتہ چلے تو آخر وہ کیا کرے ؟ اگر عورت کو قتل کر دے تو یہ جرم عظیم ہے، صبر کرنا چاہے تو ممکن نہیں، اور طلاق دے دے تو سپریم کورٹ سے فیصلہ صادر ہو گا کہ اس عورت کو زندگی بھر خرچہ دو تاکہ یہ عورت فکر معاش سے بے نیاز ہو کر اپنے یاروں اور دوستوں کے ساتھ گلچھرے اڑاتی پھرے، فرمائیے اس طرح کسی سماج کا ڈھانچہ قائم رہ سکتا ہے ؟ افسوس ہے کہ اونچے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی نگاہیں اس قدر پست اور محدود ہیں۔ ع

نگہ کی تنگ دامانی سے فریاد

پھر مسلمانوں کے لحاظ سے یہ مسئلہ ایک اور پہلو سے قابل غور ہے۔ ملک کا آئین سیکولر ہے جس میں ہر مذہب والے کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ پھر سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اگر اکثریت یا اکثریت کا ایک طبقہ اپنے لئے کوئی ضابطہ و قانون پسند کرتا ہے تو دل کھول کر اس پر عمل کرے، اور اس کے اچھے اور برے نتائج کو وہ خود بھگتے، لیکن جب اقلیت نے اپنے مذہب کی بنیاد پر اپنی ایک دوسری راہ مقرر کر لی ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ۔ ۔ بقول ایک ممبر پارلیمنٹ، دستور اور قرآن کے احکام میں جوڑ توڑ کر کے …اس پر اکثریت کی بلکہ چند نامعقول دانشوروں کی مرضی تھوپنے کی کوشش کی جائے، یہ تو حد درجہ تنگ دلی کی علامت ہے کہ اقلیت کا مذہب خود اقلیت کے حق میں بھی برداشت نہ کیا جائے، اس تنگ دلی کا مظاہرہ اگست کے اوائل میں اس وقت بھی کھل کر ہوا جب پارلیمنٹ کے اندر یہ مسئلہ زیر بحث آیا، چنانچہ پارلیمنٹ کے تمام مسلم ممبران نے خواہ وہ کانگریسی رہے ہوں یا غیر کانگریسی، مرد رہے ہوں یا عورت، متفقہ طور پر بیک آواز یہ کہا کہ ہمارے لئے وہی فیصلہ اور قانون لائق عمل اور قابل قبول ہے جو قرآن اور اسلامی شریعت نے ہمیں دیا ہے، ہم اس کے بدلے کوئی دوسرافیصلہ اور قانون ماننے کے لئے تیار نہیں، مگر غیر مسلم ممبران کو (جنھیں ہماری شریعت کے اس قانون سے نہ کوئی مطلب ہے اور نہ ان کو اس پر عمل کرنا ہے۔ ) اس پر طرح طرح کے اعتراضات تھے، فرمائیے اس تنگ دلی اور ستم ظریفی کی بھی کوئی نظیر ہو سکتی ہے۔

آئیے ذرا ان عقلمندوں کے عقل و ہوش کا بھی ایک تماشہ دیکھ لیا جائے۔ مباحثے کے دوران ایک غیرمسلم خاتون ممبر پارلیمنٹ نے ایک دلچسپ بات کہی۔ انھوں نے نفقۂ مطلقہ کے اسلامی قانون پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قانون عورتوں پر مردوں کے غلبے کی یادگار یا علامت ہے۔ یعنی موصوفہ کے نقطۂ نظر سے اب مرد کو عورت پر غلبہ حاصل نہیں رہنا چاہئے، بلکہ دونوں کی حیثیت مساوی رہنی چاہئے یا شاید عورت کو مرد پر غلبہ حاصل ہونا چاہئے ارشاد تو بہت خوب ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں برابر ہیں تو محترمہ کس منطق کی بنیاد پر اس بات کی وکالت کر رہی ہیں کہ مرد سے عورت کا خرچہ دلایا جائے۔ محترمہ کو تو یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ چونکہ مرد اور عورت دونوں برابر ہیں اس لئے کیا طلاق سے پہلے اور کیا طلاق کے بعد ہر حالت میں مرد اپنے خرچ کا ذمہ دار ہے اور عورت اپنے خرچ کی ذمہ دار ہے۔ اور اگر محترمہ یہ چاہتی ہیں کہ عورتوں کو مردوں پر غلبہ حاصل رہے تو پھر انھیں یہ قانون پاس کروانا چاہئے کہ عورت ہی مرد کا خرچہ دے۔ ان محترمہ کا ارشاد سن کر ایمان لانا پڑتا ہے کہ عورتیں خواہ کتنے ہی بلند و بالا ایوان میں پہنچ جائیں وہ بہر حال ناقص العقل ہی رہتی ہیں۔ بلکہ جن مردوں پر ان کی ہمنوائی کا بھوت سوارہو جاتا ہے ان کی عقلیں بھی نقص کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کاش ہمارے ملک کے نظم سیاست کے ذمہ دار اس قسم کے تماشوں میں اپنی صلاحیت برباد کرنے کے بجائے ملک کی تعمیر و ترقی کے میدان میں اپنا فرض سمجھنے اور بجا لانے کی کوشش کرتے۔ اللہ ان کو ہدایت دے اور ہمیں اسلام پر استقامت کی توفیق بخشے۔

(ستمبر ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

اقلیتی کمیشن نئی دہلی کا مسلم پر سنل لا ء پر سوالنامہ اور ہمارا ’’جو اب نامہ ‘‘

 

 

شاہ با نو کیس کے پر دے میں اسلامی شریعت اور مسلم پر سنل لا ء کو قدم بہ قدم ختم کر نے کا جو اقدام کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمانو ں کے اندر اضطراب کی جو لہر اٹھی ہے، غالباًاسی سے متاثر ہو کر حکو مت کے ایک ادارے اقلیتی کمیشن نئی دہلی نے مختلف مقامات پر مسلم پر سنل لا ء سے متعلق ایک سو ال نا مہ ارسال کیا ہے اور ایک ماہ کے اندر اس کا جواب مانگا ہے۔ اس سو ال نا مہ کا مقصد ابھی واضح نہیں ہے۔ تا ہم ہما ری طرف سے جو جواب بھیجا گیا ہے۔ اسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں، تا کہ قارئین محدث کے سا منے بھی اس معاملے کے بعض خصوصی پہلو آ جائیں۔

سوال نمبر(۱):کیا آپ مسلم پر سنل لا ء پر عمل در آمد میں دشواریاں محسوس کرتے ہیں ؟

جواب : جی نہیں ! ہمیں عمل در آمد میں نہیں بلکہ خلاف ورزی میں دشواریاں محسوس ہو تی ہیں ؟

سوال نمبر(۲):اگر یہ ہیں تو کون کون سی دشواریاں ہیں اور انھیں کس طور پر دور کیا جا سکتا ہے۔ ؟

جواب : خلاف ورزی کی صورت محسوس ہو نے وا لی بعض دشواریاں بطورِ مثال یہ ہیں :

(۱)بعض مسلم خاندان عورتوں کو ان کی مقررہ میراث نہیں دیتے، جس سے بسا اوقات سخت جھگڑے اور اختلافات رو نما ہو تے ہیں۔

(ب) اسلا می قانونِ طلاق کے بالکل بر خلاف عام طور پر لوگ بیک وقت بیوی کو تین طلاقیں دے دیتے ہیں چونکہ طلاق کے بیشتر واقعات کسی وقتی جھگڑے، رنجش اور ضد کا نتیجہ ہو تے ہیں، اس لیے طلاق کا جھٹکا لگنے کے بعد میاں بیوی دونو ں کو عمو ماً بے حد شر مند گی، افسوس اور غم ہو تا ہے۔ وہ آئندہ با ہمی محبت اور خیر سگا لی کے سا تھ مل کر رہنے کے بے حد خواہش مند ہو تے ہیں۔ مگر اب علما ء کی بڑی اکثریت فتوی دیتی ہے کہ تینوں طلاق پڑ گئی اور رجعت یا نکاحِ ثانی کی گنجائش ختم ہو گئی۔ لہٰذا اب دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اور اگر رہنا ہی چا ہتے ہیں تو عورت کا حلالہ کرانا ہو گا، یعنی رات دو رات کے لئے عورت کو کسی کے نکاح میں دے دیا جائے، پھر اس سے طلاق لے کر پہلے شو ہر سے بیاہ دیا جائے۔ مگر چوں کہ یہ طرز عمل کسی غیرت مند انسان (چہ جائے کہ مسلمان )کو گوا را نہیں ہو سکتا، اس لئے بیک وقت تین طلاق دینے کی غلط صورت سخت پیچیدگی اور الجھن کا سبب بنتی ہے۔

(ج) سپر یم کو رٹ کے شاہ با نو کیس کے فیصلہ نے بھی دشواریوں کا ایک طومار کھڑا کر دیا ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ ان دشواریوں کا حل کیا ہے ؟ تو جوا باً عرض ہے کہ حکومت یا اقلیتی کمیشن کو اس دردسر میں مبتلا ہو نے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ مسلما ن، حکو مت اور اس کے اداروں کو نہ تو مذہبی رہنما ئی کا اہل سمجھتے اور تسلیم کر تے ہیں۔ نہ ان سے اپنے مذہبی معاملات میں واقعیت پسندی کی توقع رکھتے ہیں، اس لئے مسلمان ان کی رہنما ئی قبول کر نے پر قطعاً تیار نہیں۔ لہذا حکو مت اور اس کے اداروں کا سب سے بڑا کرم یہی ہو گا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی امور اور پر سنل لا ء میں کسی طرح کی مدا خلت یا ’’اصلا ح‘‘ کر نے کے بجائے مسلمانوں کو ان کے حال پر چھو ڑ دیں۔

ہاں اگر کو ئی مسلمان ان کے پاس کوئی کیس لے جائے تو بس اتنا کرم کریں کہ اس کا فیصلہ اسلا می قانون کے مطابق کر دیں۔ واضح رہے کہ مسلمانو ں نے اپنی مشکلات کا حل اپنی پنچائتوں اور اپنے حق پسند علما ء کے فتووں میں ڈھونڈ لیا ہے، ور اس پروہ پو ری طرح مطمئن ہیں۔

سوال نمبر ۳:آپ کے خیال میں مسلمانو ں کے لئے علیحدہ مسلم لا ء کی ضرورت کیوں ہے ؟ اور اگر ہے تو یہ ضرورت کیسے پو ری کی جا سکتی ہے ؟

جواب : علیحدہ پر سنل لا ء کی ضرورت اس لئے ہے کہ پر سنل لا ء بھی مسلمانوں کا دین ہے جو خدائی احکام و ہدایات پر مبنی ہے اور مسلمان اپنے دین سے دستبر دار نہیں ہو سکتے۔ یہ سو ال در حقیقت غیر مسلموں سے کر نا چاہیے کہ انہیں مسلمانو ں کے اس معقول پر سنل لا ء کو چھوڑ کر بد حواس یورپ کی طرح اپنی قوم کو علیحدہ پر سنل لا ء کے تجربات کی بھٹی میں جھونکنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ یورپ کے قانون داں کئی صد یوں کے تجربات کے تھپیڑے کھا نے کے با و جود اپنے سماج کا رُخ تباہی کے را ستے سے نہ مو ڑسکے۔

باقی رہا سوال کہ مسلمانو ں کے لئے علیحدہ پر سنل لا ء کی ضرورت کیسے پو ری کی جا سکتی ہے ؟تواس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ پر سنل لا ء چودہ صد یوں سے جا مع اور مکمل شکل میں موجود ہے اور پو ری اسلامی دنیا کی ضرورت پوری کر تا چلا آ رہا ہے۔ اب یہ کسی کی مشاطگی کا محتاج نہیں اور نہ یہ بنیا دی طور پر اپنے نفاذ میں کسی حکو مت کے تسلیم کر نے اور نافذ کرنے کا محتاج ہے۔ لہذا حکومت اور اس کے کمیشنوں اور بورڈوں کو اس فکر سے بے نیاز رہنا چاہئے کہ یہ ہماری بزم ہے ہم اس کو خود سجائیں گے۔ …………………………

سوال نمبر(۴): یہ بتائیے کہ کیا آپ مسلم شریعت کو اس طرح مد وّن و مر تب کر نے کے حق میں ہیں جو مختلف فقہی مسا لک کے در میان اختلافات سے پاک نیز غیر یقینی صورتوں سے مبرا ہو ؟

جواب :مسلم شریعت بذاتِ خود اختلافات سے پاک اور غیر یقینی صور توں سے مبرا ہے، فقہی اختلافات جو کچھ ہیں وہ در حقیقت فہم و تعبیر یا اجتہاد و استنباط کے اختلافات ہیں۔ اور ان کے ازالہ کے لئے مذکورہ تجویز عملاً غیر مفید رہے گی۔

سوال نمبر(۵): مسلم پر سنل لا ء کے استحکام اور اس کی حفاظت کے کون کون سے ذرا ئع آپ کو نظر آتے ہیں ؟

جواب :…(الف) حکو مت کی طرف سے اس میں تبدیلی کی تمام کوششوں اور امکانات کا مستقلاًسد باب کیا جائے۔

(ب) ملک کے جو قوانین اور دستو ری دفعات اس سے ٹکراتے ہوں، ان قوانین و دفعات کو یا تو کالعدم کر دیا جائے یا مسلمانو ں کو ان سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔

(ج) اگر مسلم پر سنل لا ء کے کسی مسئلہ کے متعلق کو ئی عدالت شک و اشتباہ میں پڑ جائے تو خود ’’اجتہاد ‘‘نہ کرے بلکہ کسی مستند اور مسلمۂ فر یقین مسلمان عالم سے فتویٰ لے کر اسی کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔

(د) زیادہ بہتر ہو گا کہ مسلمان تنظیمیں اپنے پر سنل لا ء سے تعلق رکھنے والے مقدمات و معاملات کے لئے اپنے قاضی خود مقرر کر لیں اور سر کا ری عدالتیں ان کے فیصلوں کو تسلیم کر یں۔

 

شاہ با نو کا کیس (مقدمہ )

 

سوال نمبر(۴): کیا آپ شاہ با نو کیس میں سپر یم کو رٹ کے فیصلہ کے کسی حصہ میں کسی بنا پر کو ئی غلطی یا غیر منا سب بات محسوس کر تے ہیں ؟ اگر ہے تو کس لحاظ سے ؟

جواب : جی ہا ! اس فیصلہ میں بہت سی علمی، دستو ری، قانونی، تہذیبی، اخلاقی اور انسانی حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اور یہ اپنے سیا سی، سما جی، نفسیا تی، اخلاقی اور اقتصادی اثر ات و نتائج کے اعتبار سے بالکل غیر مو زوں فیصلہ ہے، جس کی تو ضیح حسب ذیل ہے۔

(الف) ہما رے ملک کے سکو لر دستو ری نظام کی روح یہ ہے کہ حکو مت اور اس کے ادارے کسی فر قہ کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیں گے اور ہر مذہب وا لا اپنے مذہب پر عمل کر نے کے لئے آزاد ہو گا۔ مگر اس فیصلہ کے ذریعہ ایک مسلمان کو اس کے مذہب پر عمل کر نے سے روک کر اس کی خلاف ورزی پر مجبور کر دیا گیا ہے، لہذا یہ فیصلہ ملک کے سکولر دستو رکی روح کے منافی ہے۔

(ب)اس کیس میں کئے گئے فیصلہ اور دعویٰ کے بر خلاف اسلا می شریعت نے مطلقہ عورت کا نان نفقہ صرف خاتمہ عدت تک شو ہر کے ذمہ رکھا ہے۔ اس کے بعد شوہر کو اس کے نان نفقہ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے۔ بلکہ پوری صراحت کے سا تھ اس ذمہ داری کی نفی کر دی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مطلقہ عورت کے کیس کا فیصلہ کر تے ہوئے یہ قانونی نکتہ دو ٹوک لفظوں میں واضح فر ما دیا ہے کہ نان نفقہ اسی عورت کے لئے ہے، جس کا شو ہر اس سے رجعت کر سکتا ہو اور صرف اتنی ہی مدت کے لئے ہے جتنی مدت تک رجعت کر سکتا ہو۔ بصورتِ دیگر اس کے لئے نان نفقہ نہیں ہے۔ ہاں عورت اگر حا ملہ ہو تو اسے بہر صورت وضعِ حمل تک نان نفقہ ملے گا۔

(دیکھئے !کتب احادیث: صحیح مسلم، سنن نسا ئی، سنن دار قطنی، مسند احمد، نیز زاد ا لمعاد ۲/۳۱۳مطبع نظامی کا نپور)

(ج) شاہ با نو کیس کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے چو دہ سو سالہ متفقہ اور مستقل عملی دستور کے بھی خلاف ہے۔ سا رے مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مطلقہ عورت عدت گزر نے کے بعد نان نفقہ نہیں پا سکتی۔ چنانچہ مسلمانوں کی چو دہ سو برس کی پو ری تاریخ میں، بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل تک پھیلے ہوئے عالم اسلام میں ایک کیس بھی ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا، جس میں مطلقہ عورت کو عدت کے بعد بھی نان نفقہ دلا نے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ لہذا سپر یم کورٹ کا یہ فیصلہ پر سنل لا ء میں صریح مدا خلت اور اسلا می شریعت کے صریح خلاف ہو نے کے ساتھ سا تھ مسلمانوں کے چو دہ سو سالہ کلچر اور ان کی تہذیبی رو ایت کے خلاف ہے۔

(د) سپرکو رٹ کے جج صاحب نے قرآن مجید میں ’’اجتہاد ‘‘کر کے مسلمہ علمی اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ اصول سا ری دنیا تسلیم کر تی ہے کہ کسی بھی فن میں اسی شخص کی بات قابلِ قبول ہو سکتی ہے جو اس فن کا ما ہر ہو۔ جج صاحب قرآن کے ما ہر تو در کنار عربی زبان سے بھی واقف نہیں، بلکہ اس با رے میں ان کی حیثیت محض اناڑی کی ہے، پھر ان کے لئے یہ حق کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضروری اہلیت اور قابلیت حا صل کئے بغیر نہ صرف یہ کہ قرآن مجید کی تشریح کر نے بیٹھ جائیں، بلکہ اپنے عہدے کا پا ور استعمال کر تے ہوئے اپنی اس من مانی تشریح کو اسلامی قانون کہہ کر کروڑ ہا مسلمانوں پر تھوپ بھی دیں۔ یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کسی سڑک پر روری پیٹنے وا لے اناڑی مزدور کے ہا تھ میں سر جری کا نشتر تھما دیا جائے کہ وہ گر دے کے مریض کا آپریشن کر دے۔ سوچ لیجئے کہ یہ شخص اس مریض کی کیسی درگت بنا دے گا۔ بس ایسا ہی کرم جج صاحب نے بھی قرآن کے ساتھ کیا ہے۔

(ہ)جج صاحب کی اس کرم فر ما ئی کے اظہار کے لئے اشارۃً عرض ہے کہ عربی زبان میں اور قرآن کی تعبیر میں متاع الگ چیز ہے اور نفقہ الگ چیز۔ نفقہ گز ارے کے خرچ کو کہتے ہیں اور متاع اس سا مان کو کہا جا تا ہے جو مسلسل نہیں بلکہ وقتی طور پر مطلقہ کو دے دیا جائے۔ مگر جج صاحب نے پوری حقیقت کو الٹ پلٹ کر اس متاع کو گز ارے کا خرچ یعنی نفقہ بنا دیا۔ پھر قرآن میں اس متاع کے لفظ سے بالکل ہٹ کر بالمعر وف کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ متاع جانے پہچا نے طریقے پر دیا جائے۔ مگر جج صاحب اسے بالکل ہی ہضم کر گئے۔ نہ انھوں نے نزولِ قرآن کے وقت کے جا نے پہچا نے ہوئے طریقہ کا لحاظ کیا نہ اس کے بعد سے چو دہ سو برس تک کی پو ری مدت کے اندر پوری اسلا می دنیا کے جا نے پہچا نے ہوئے طریقہ کا لحاظ کیا۔ بلکہ ایک ایسا انجان طریقہ اختیار کیا، جس کو آج تک اسلامی دنیا نے جا نا ہی نہیں ہے، اس کے علا وہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۶ میں اور سو رہ احزاب کی آیت ۴۹ میں اس کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ یہ متاع ان عور توں کا حق ہے جنھیں نکاح کے بعد اور ازدواجی تعلق قائم ہو نے سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو اور ان کی مہر بھی مقرر نہ ہو ئی ہو۔ مگر جج صاحب نے قرآنی دستور کی ان دونوں متعلقہ دفعات کو بھی ’’اجتہاد ‘‘ کے نشتر سے کاٹ کر پھینک دیا۔ شا یداسی لئے ایک ممبر پا رلیمنٹ نے ان کے اس فیصلے کو جوڑ توڑ سے تعبیر کیا تھا۔ جج صاحب نے قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تصنیف بتا کر اپنی معلو مات کی پہنا ئی یا اپنی نیت کی کیفیت بھی عیاں کر دی۔

(د) آئیے اب ایک اور حقیقت کی بھی نشاندہی کریں۔ انسانوں میں جو نسبی اور خو نی قرابت ہو تی ہے۔ وہ پیدائشی اور نا قا بلِ تنسیخ ہو تی ہے۔ مثلاًایک انسان نے ایک مرد کے نطفے اور ایک عورت کی کو کھ سے جنم لیا تو وہ ان دونوں کا بیٹا ہے۔ اور وہ دونوں اس کے ماں باپ ہیں۔ یہ تعلق اور قرا بت ایک ایسی قدرتی فطری اور پید ائشی حقیقت ہے کہ سا ری دنیا زور لگائے تب بھی اس حقیقت کو بد لا نہیں جا سکتا۔ لڑ کا، لڑکا ہی رہے گا، اور ماں باپ ماں باپ ہی رہیں گے۔

اس کے بر خلاف بیوی اور شو ہر کے درمیان جو تعلق اور رشتہ ہے وہ کو ئی پید ائشی نہیں ہے۔ یعنی پیدا ئشی طور پر کو ئی عورت کسی کی بیوی نہیں اور کو ئی مرد کسی کا شو ہر نہیں۔ بلکہ یہ رشتہ ایک اجنبی مر داور ایک اجنبی عورت کو نکاح کی گرہ یعنی شا دی کے بند ھن میں با ندھنے سے وجود میں آتا ہے۔ اس گرہ اور بند ھن کے ذیعہ یہ دونو ں ٹھیک اسی طرح آپس میں جڑ اور بند ھ جا تے ہیں۔ جیسے دو الگ الگ دھاگوں کوآپس میں باندھ دیا جائے تووہ دونوں ایک دوسرے سے جڑ جانے اور بندھ جاتے ہیں۔ اسی لئے نکاح کو عَقد یا عُقد کہا جا تا ہے۔ خود قرآن نے بھی اسے عقدۃ انکاح کہا ہے (عقد اور عقدہ، گرہ، گانٹھ اور بندھن کو کہتے ہیں )۔ پس چوں کہ زوجیت کا رشتہ ایک اجنبی مرد اور ایک اجنبی عورت کو ایک سا تھ با ندھنے سے و جود میں آتا ہے۔ اس لئے جب یہ بندھن کھول دیا جائے تورشتۂ زوجیت بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ یعنی بندھن کھول دئیے جا نے پر بیوی، بیوی نہیں رہ جائے گی اور شو ہر، شو ہر نہیں رہ جائے گا۔ بلکہ دونوں پھر حسب سابق ایک دوسرے سے الگ الگ اور اجنبی ہو جائیں گے۔ اور معلوم ہے کہ زوجیت کا یہ بندھن طلاق کے ذریعہ کھل جا تا ہے۔ اس لئے طلاق کے بعد عورت کو طلاق دینے وا لے کی بیوی تسلیم نہیں کیا جا سکتا مگر افسوس ہے کہ جج صاحب نے انسانی رشتہ و تعلق کی اتنی واضح اور دو ٹوک حقیقت کو نہ جا نا، یا پھر نظر انداز کر دیا۔ اور مطلقہ عورت کو حسب دستور طلاق دینے والے کی بیوی بتا دیا اور پھر اس خلافِ حقیقت مفروضے پر اپنے اس فیصلہ کی بنیاد رکھ دی کہ طلاق دینے والا اپنی مطلقہ کو تا حیات یا تا نکاحِ ثانی نان نفقہ دے۔ ظاہر ہے جب اس فیصلے کی بنیاد ہی غلط اور خلافِ حقیقت ہے تو یہ فیصلہ کیوں کر صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

(ز) اسلام چوں کہ دین فطرت ہے۔ اس لئے صرف نان نفقہ ہی نہیں بلکہ اس دائرے کے دوسرے اسلامی قوانین بھی ہماری اس ذکر کر دہ نا قا بلِ انکار فطری حقیقت پر مبنی ہیں۔ اسی لئے جب طلاق کے ذریعہ عورت جدا ہو جائے تو طلاق دینے والے مرد کا اس عورت پر کوئی شو ہری حق باقی نہیں رہ جا تا۔ یعنی شو ہر اس کے سا تھ نہ با ہمی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے، نہ جبراً قائم کر سکتا ہے بلکہ وہ دونوں صور توں میں گنہ گار اور سزا کا مستحق ہو گا۔ اور رضا مندی کی صورت میں عورت بھی سزا کی مستحق ہو گی۔ جنسی تعلق تو خیر بہت دور کی بات ہے، اب طلاق دینے و الا اس مطلقہ عورت کو چھو بھی نہیں سکتا بلکہ اس کی شکل و صورت بھی نہیں دیکھ سکتا اور اس سے بات بھی نہیں کر سکتا۔ اور اگر عورت مر جائے تواس کے مال سے وراثت بھی نہیں پا سکتا۔ ان مسلمہ حقائق کے باوجوداس مطلقہ کو حسب دستور طلاق دینے وا لے کی بیوی کہنا حد درجہا انوکھی اور حیرتناک بات ہے، اور اس سے اسلا می اصول و ضوابط اور مسلم تہذیب و ثقافت اور کلچر پر جن جن پہلوؤں سے مار پڑتی ہے وہ ہر گز قا بل بر داشت نہیں ہے۔

(ح) ان حقائق کے مد نظر یہ سوال بھی سر اٹھائے کھڑا ہے کہ جب مطلقہ عورت اصلاً ایک اجنبی عورت ہے اور مرد کا اس پر کو ئی حق باقی نہیں رہ گیا ہے تو وہ آخر کس چیز کے عوض نان نفقے کی حقد ار ہے ؟

(ط) اور دوسرا سوال یہ سر اٹھائے کھڑا ہے کہ عورت طلاق پانے کے بعد بھی اپنے طلاق دینے والے کی بیوی ہے تو آخر طلاق کیا چیز ہے ؟

آئیے اب اس فیصلہ کے بعض اثر ات و نتائج کی طرف بھی اشارہ کر دیں :

(ی) یہ فیصلہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سےد انستہ یا نا دانستہ چھیڑ خو انی ہے اور ایسی چھیڑ خوانی ہمیشہ مشکلات پیدا کر تے ہیں۔ پنجاب کے حالیہ واقعات سے عبرت پکڑنی چاہیئے۔ جس میں مذہبی جذبات کی کار فر مائی کا اندازہ دستور کی دفعہ۲۵ کے ساتھ ہو نے وا لے سلوک سے لگا یا جا سکتا ہے۔

(ک) اس فیصلہ کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ جب شو ہر اور بیوی میں نباہ کی کو ئی صورت نہ رہ جائے گی۔ اور علیحدگی نا گزیر ہو جا نے کے با و جود شو ہراس بنا پر عورت کو طلاق نہ دے سکے گا کہ اس میں ایک لاتعلق عورت کو زندگی بھر خرچ دینے کی سکت نہیں یا اسے گوارا نہیں تووہ طلاق دینے کے بجائے عورت کو قتل کر دے گا اور چوں کہ عورت گھر میں رہتی ہے، اس لئے قتل کے ہزاروں کیس ایسے ہیں ہو سکتے ہیں جن کا کسی کو پتہ نہ چل سکے۔ مثلاً شام کو زہر کھلا یا اور صبح عورت مر دہ پا ئی جائے، کون جان سکے گا کہ اس کی موت کا سبب کیا ہے۔ بلکہ کہنے دیجئے کہ کھلم کھلا مٹی کے تیل میں جلا نے کی وارداتیں بھی اسی طرح شروع ہو جائیں گی جس طرح اس وقت ہما رے ملک کے ہند و سماج میں بر پا ہیں۔ کیونکہ پبلک روز دیکھتی ہے کہ حکو مت ان وارداتوں کی روک تھام میں قطعی ناکام ہے۔ افسوس ہے کہ جج صاحب کو اکا دکا عور توں پر ایک خیالی اور فرضی ظلم تو نظر آ گیا مگر ان کے فیصلے کے نتیجے میں عورت پر مظالم کا جو ہولناک دروازہ کھل سکتا ہے اور جس کی نظیر مو جود ہے اسے وہ نہ دیکھ سکے۔

(ل) ایک اور نتیجہ اس فیصلہ کا یہ بھی ہو گا کہ نباہ ممکن نہ ہو نے کی صورت میں شو ہر طلاق دینے کے بجائے عورت کو مسلسل ذہنی- اور بسا اوقات جسمانی- اذیتیں پہنچا تا رہے گا، جس کے نتیجہ میں عورت کی زند گی عذاب بن جائے گی اور وہ تنگ آ کر اسی طرح خود کشی کر لے گی۔ جس طرح ہما رے ملک کے ہند و سماج میں آئے دن خود کشی کی وارداتیں پیش آتی رہتی ہیں۔

(م) اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ خود سر عورتیں، سیدھے شوہروں کا ناک میں دم کر کے ان کی زندگی اجیرن بنائے رکھیں گی۔

(ن) اور جہاں تک بد کار عورتوں کا معاملہ ہے تو یہ فیصلہ ان کے لیے گو یا بد کا ری کے لا ئسنس کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ طلاق کے خطرے سے بے نیاز ہو کر اپنا شغل جا ری رکھ سکتی ہیں۔ بلکہ ایسابھی ہو گا کہ ایک بد کار عورت کسی شخص کو اپنے مصنوعی پیار و محبت کا نخچیر بنا کر اس سے شا دی رچائے گی، پھر تھوڑے عرصے بعد اسے تنگ کر کے طلاق دینے پر مجبور کر دے گی اور جب وہ طلاق دے دے گا تو ڈگری حا صل کر کے اس سے زندگی بھر خرچ لیتی رہے گی اور اپنے یاروں اور دوستوں کے سا تھ گل چھرے اڑا تی پھرے گی۔

(س) بلکہ وہ با ری با ری دور دراز علاقوں میں الگ الگ شاد یاں کر کے اور طلاق لے کر بیک وقت کئی آدمیوں سے خرچ کی رقم اینٹھ سکتی ہے۔

(ع) اور ایک مرد کو خدا نخواستہ با ری با ری دو تین غلط عورتوں سے سابقہ پڑ گیا اور وہ ہر ایک کو طلاق دینے پر مجبور ہو توہر ایک کو زند گی بھر خر چہ دیتے دیتے تو اس مرد کا دیو الیہ نکل جائے گا۔

(ف) طلاق کے واقعات عمو ماًجواں عمری میں پیش آتے ہیں۔ ہزاروں واقعات میں شا ید ہی ایک دو واقعے عمر رسیدہ جوڑوں کے، پیش آتے ہوں گے۔ لہٰذا طلاق کے بعد عورت دوسرے نکاح کی ضرورت مند ہو تی ہے، مگر جو عورت اپنے شو ہر سے مستقل نان نفقہ پائے گی اس کے سا تھ ایک معاملہ تو یہ ہو گا کہ اس کے ماں باپ اور بھا ئی بنداس کے خرچ کے دبا ؤ سے آزاد ہوں گے، اس لئے وہ اس کی شا دی کی فکر نہ کریں گے، بلکہ وہ اطمینان سے اس عورت کو گھر پر روکے رکھیں گے تا کہ وہ اپنے سابق شو ہر سے خرچ لیتی رہے، اور ان لو گوں کی خد مت کر تی رہے۔ اور دوسرا معاملہ یہ ہو گا کہ ایسی عورت سے کو ئی دو سرا آدمی شا دی کر نے پر آمادہ نہ ہو گا کیونکہ وہ سوچے گا کہ اگر خدا نخواستہ ہم سے بھی نہ پٹی تو ہمیں بھی اس کو طلاق دے کر زند گی بھر اس کا خرچ دینا پڑے گا۔ لہذا اس نو جوان عورت کو کسی شو ہر کے سہا رے کے بغیر تنہا ئی اور بے کسی کے صحرا میں، جھلستے ہوئے زندگی گز ارنی پڑے گی۔ پھر اس طرح کی عورت جس طرح کی اخلاقی تباہیاں لا سکتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔

سوال نمبر (۲):کیا آپ کو مسلم پر سنل لا ء میں کو ئی ایسا جز و نظر آتا ہے۔ خواہ قرآن مجید میں ہو یا اس کے علاوہ جو مطلقہ عورت کو اس کے سابق شوہر سے گزارہ کے لئے کسی رقم کی ادائے گی سے رو کتا ہو ؟اگر آپ کو علم ہو تو بر اہ کرم ایسے اصول یا جز و کو اور اس کی بنیاد کو بتائیں۔

جواب :۔ پیچھے ہم اسلا می شریعت کے اس قانون کا ذکر مع حوالہ کر چکے ہیں کہ عورت صرف اسی وقت تک خرچ پا نے کی حق دار ہے جب شو ہر اس سے رجعت کر سکتا ہو، یا وہ حا ملہ ہو۔ بصورت دیگر یعنی خاتمۂ عدت کے بعد وہ شوہر سے نان نفقہ پا نے کی حق دار نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ شخص اپنی آزاد و خود مختار مرضی سے کسی دبا ؤ اور جبر کے بغیر محض فضل وا حسان کے طور پر اس عورت کو کچھ دینا چا ہے، جیسا کہ وہ کسی بھی غریب و محتاج آدمی کو صد قہ اور خیرات کے طور پر دیتا ہے۔ تو شریعت اسے منع نہیں کرتی بلکہ وہ اس کی قدر کر تی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے :ولا تنسوا لفضل بینکم (ا لبقرہ :۲۳۷) ( تم لوگ آپس میں حسن سلوک کو نہ بھو لو۔ )

لیکن اگر مر دسے اس کی مطلقہ عورت کو کسی سما جی رواج یا قانونی دباؤ یا عدالتی فیصلہ کے تحت عدت کے بعد بھی نفقہ و گذارہ کی کو ئی رقم دلائی جائے تو یہ جائز نہیں۔ بلکہ با طل، گناہ اور حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’لا یحل مال امریِ مسلم الآبطیب نفس منہ‘‘ (مسنداحمددارقطنی، بیہقی، مشکو ٰۃ)کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں۔ اور۔ قرآن کا ارشاد ہے :لا تا کلو اموا لکم بینکم با لبا طلِ و تد لوا بھا الیا لحکام لتا کلوا فر یقاًمن اموا لا لناس با لا ثم و انتم تعلمو ن۔ (البقرہ :۱۸۸) یعنی تم لوگ اپنے مال آپس میں باطل کے سا تھ نہ کھا ؤ۔ اور اسے حکام (ججوں ) کے پاس بھی نہ لے جاؤ کہ (ان سے فیصلہ کرا کر )لو گوں کے مال کا ایک حصہ تم جانتے بوجھتے گناہ کے سا تھ کھا جا ؤ۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص حقدار نہ ہو اس کے لیے کسی کا مال اس کی مرضی کے بغیر نہ تو اپنے طور پر لینا حلال ہے اور نہ عدالت سے فیصلہ کرا کر لینا حلال ہے بلکہ یہ با طل اور حرام ہے اور حرام بھی ایساسخت ہے کہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ’’ تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمے لا تے ہو اور ہو سکتا ہے تم میں سے ایک شخص اپنی دلیل بیان کر نے میں دو سرے سے زیادہ زبان آور ہو اور میں جیسا سنوں اسی کے لحاظ سے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو (یا در کھو !کہ )میں جس کے لئے اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ مال کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے ہر گز نہ لے، کیوں کہ میں اسے آگ کا یعنی جہنم کا ایک ٹکڑا دے رہا ہو ں۔ ‘‘ (بخاری و مسلم وغیرہ )

خلاصہ یہ ہے کہ سابق شو ہر کسی جبر و دباؤ کے بغیر محض اپنی آزاد اور خود مختار مرضی سے اپنی مطلقہ عورت کو خاتمۂ عدت کے بعد بھی کچھ دینا چا ہے تو اس میں شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن اگر ایسا سما جی رواج یا ملکی قانون بنا دیا جائے جس کے د با ؤسے سا ق شو ہر کچھ دے یا عدالتی فیصلہ کے ذریعہ کچھ دلوا یا جائے تو یہ باطِل اور حر ام ہے اور عورت ایسا کو ئی مال نہیں لے سکتی۔

سوال نمبر (۳):مسلمانوں میں طلاق کے ان واقعات کو جو آپ کے ذاتی علم میں ہوں بر اہ مہربانی ان کو مع ان کی وجوہات کے بتائیں۔

جو اب :۔ ہما رے پاس طلاق کے متعلق سوالات آتے رہتے ہیں، جن میں واقعات کی تفصیل بھی درج ہو تی ہے ان واقعات سے جن اسباب کی نشاندہی ہو تی ہے وہ کچھ یوں ہیں کہ عموماً مرد و عورت میں مزاجی نا موافقت سے اختلافات شروع ہو تے ہیں، جس پر وقتاً فوقتاً نوک جھوک ہو تی رہتی ہے، پھر کسی موقع پر عمو ماً کوئی معمولی سی بات دونوں میں ضد کا سبب بن جا تی ہے۔ دونوں اپنی اپنی بات پر اڑ کر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں، جو کبھی تو گھنٹے دو گھنٹے اور کبھی کبھی دن بھر اور کبھی کبھی کئی دن تک جا ری رہتا ہے، اور ٹھنڈا اس وقت ہوتا ہے جب مرد طلاق دیتا ہے، منشیات کے عادی عموماً نشے کی ترنگ میں طلاق دیتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ عورت بد کار ہو تی ہے، راز کھلنے پر شو ہر اسے طلاق دے دیتا ہے۔ بعض عورتیں ایسی بد سلیقہ اور بد مزاج ہو تی ہیں کہ شو ہر کے گھر کو ویر ان اور دو لت کو تباہ کر ڈالتی ہیں۔ اور بعض عورتیں شو ہر کے خون پسینے کی کما ئی چپکے سے اپنے میکے والوں کو دے آتی ہیں۔ ان حا لات میں شو ہر سمجھا نے اور را ہِر است پر لا نے کی طویل کوششوں کے بعد ما یوس ہو کر بدرجۂ مجبوری طلاق دیتا ہے۔ بعض شو ہر تنگ مزاج ہو تے ہیں اور کسی اچانک معاملے پر بھڑک کر جھٹ طلاق دے دیتے ہیں۔

سو ال نمبر (۴): کیا مسلمانوں میں طلاق کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، یا کم ہو رہا ہے ؟اس کی و جو ہات بھی بتائیں !

جوا ب:۔ ہما رے سا منے بیس پچیس سال کے عرصے میں جو واقعات آئے ہیں اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ طلاق کا رجحان اس پو رے عرصے میں گھٹنے بڑھنے کے بجائے تقریباً یکساں رہا ہے۔

سو ال نمبر (۵): سنی سنا ئی باتوں پر بھرو سہ نہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی علم کی روشنی میں یہ بتائیں کہ مسلم کنبوں میں طلاق کی وجہ سے ان کنبوں کی بہبود پر کیا اثر پڑا ہے۔

جواب : طلاق کے جو واقعات ہما رے علم میں ہیں، ان کے پیش نظر ہما را تجزیہ یہ ہے : طلاق کے تقریباً پچانوے فیصد واقعات ایسے ہیں جن میں شوہر عدت کے اندر ہی عورت سے رجوع کر لیتا ہے، اور پھر دونوں حسب سابق میاں بیوی بن کر رہتے ہیں۔ مگر طلاق کے ایک دھچکے کے بعد دونوں محتاط ہو جا تے ہیں۔ عورت ہر اس حرکت سے پرہیز کر نے لگتی ہے جس سے دو با رہ اس برے دن کے آنے کا اندیشہ ہو، اور شو ہر بھی ایسے تمام اقدامات سے گریز کر تا ہے، جس سے عورت کے سا تھ جھگڑ اور کشمکش شروع ہو اس طرح خاندان کا ما حول طلاق سے پہلے کے مقابل زیادہ خوشگوار ہو جا تا ہے اور زند گی کی گاڑی زیادہ لگن اور یکجہتی کے سا تھ کھینچی جا نے لگتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ طلاق کے حاد ثے کے بعد رجعت کا موقع پند و نصیحت کے سا تھ دیا گیا تو شرابیوں اور بدکاروں نے شر اب اور بد کا ری سے کنا رہ کشی اختیار کر لی۔ بہت سے بگڑے ہوئے لوگ سدھر گئے، اور عورتوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کر نے لگے۔ ایسے ہی اثرات بد سلیقہ، جھگڑا لو اور لا اُ با لی عور توں پر بھی پڑے ہیں۔

جن صور توں میں شو ہر زچ ہو کر طلاق دیتا ہے اور رجعت نہیں کر تا، ان صور توں میں دیکھا گیا ہے کہ عدت کے بعد مطلقہ عورت کسی اور جگہ شا دی کر لیتی ہے اور اس طرح سنبھل کر رہتی ہے کہ دو سری جگہ سے طلاق کی نو بت نہیں آتی۔ مرد بھی کو ئی دوسری شا دی کر لیتا ہے، اور اس تعلق کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔ میں اپنے کو ئی پچیس تیس سالہ تجربات میں ایک عورت کے سوا کسی کو نہیں جانتا جسے دوسرے شو ہر نے بھی طلاق دے دی ہو، گو یا نفاذِ طلاق کی صورت میں دونوں کو ایک جھٹکا تو ضر ور لگتا ہے، مگر وہ ہمیشہ کے لئے سنبھا لا دے دیتا ہے، اور اس طرح خاندان کی بہبود پر کو ئی ناخوشگوار اثر نہیں پڑ تا۔ بلکہ طلاق کے بعد کا سنبھا لا پہلے کے مقابلہ میں ہمیشہ پائدار اور خوشگوار رہا ہے۔ البتہ بعض حا لات میں پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہو نے والا بچہ مشکلات کا شکار ہو تا ہے۔

سوال نمبر (۶) یہ بتائیے کہ وہ کون سی دشواریاں ہیں جو طلاق کے سلسلے میں سا منے آتی ہیں اور آپ کی رائے میں ان دشواریوں پر مسلم پر سنل لا ء کی حدود میں یا ان کے با ہر کس طرح قا بو پا یا جا سکتا ہے۔

جو اب : دیکھئے سوال نمبر ۲ :(ابتدائی ) کا جو اب شقب اور شقج کے بعد کا پیر اگر ف۔

سوال نمبر (۷): کیا آپ کے خیال میں شریعت اسلا می میں شوہروں کو بغیر کسی وجہ کے طلاق دینے کا مکمل حق حاصل ہے ؟اگر ہے تو کیا آپ اس حق پر کو ئی پا بندی عائد کر نا چا ہیں گے اور یہ کیسے عائد کر نا چاہیں گے اور یہ کیسے عائد کریں گے ؟اگر یہ درست ہے کہ ایک مسلم شو ہر کو طلاق دینے کا مکمل حق حا صل ہے تو اس مسئلہ کے حق میں یا خلاف اپنی رائے سے آگاہ کر یں اور اپنی رائے کی موافقت میں معتبر حوا لے بھی پیش کر یں۔

جو اب :۔ سوال کا ابتدائی ا اور آخری فقرہ ایک سنگین معاشرتی معاملے کے نہایت متوازن، جا مع اور معقول حل کے خلاف ایک بھونڈی اور مکروہ جذباتی جارحیت کا مظاہرہ معلوم ہوتا ہے، تا ہم اس کا مختصر جواب حاضِر ہے۔

اسلامی شریعت کا بانی وہی ہے جو انسان اور اس کے فطری احسا سات کا خالق ہے اور اس کی ایک ایک شعوری دھڑکنوں سے واقف ہے۔ وہ تمام قانونی اور نفسیا تی ما ہر ین سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے کہ شا دی کے لئے انسانی انتخاب ہمیشہ کا میا بی سے ہمکنار نہ ہو گا اور نا کا می کی آخری منزل اگر طلاق نہ ٹھہرا ئی گئی تو قتل یا خودکشی آخری منزل بن جائے گی۔ اس لئے اس رحیم نے خو دساختہ بڑوں کی تمام کبر یا ئیوں کو جھٹک کر جو کرم فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :

طلاق کے کچھ اخلاقی ضابطے ہیں اور کچھ قانونی نکات۔ دونوں کو ایک دو سرے کے ساتھ مخلوط کر نا درست نہیں ہے۔ اسلا می اصول و احکام یہ ہیں :جب مر داور عورت کے در میان نباہ مشکل نظر آ رہا ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کے حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو اولاً انھیں خود با ہم افہام و تفہیم کی کو شش کر نے کا حکم دیا گیا ہے، اس سے بھی کام نہ چلے تو حکم ہے کہ دونوں کے گھرانوں سے ایک ایک ثالث مقرر کئے جائیں جو معاملہ کو سلجھا نے کی کو شش کر یں، (اگر یہ بھی نا کام رہیں تو طلاق یا خلع کے ذریعہ علیحدگی کی اجازت ہے۔ مگر یہ سب سے زیادہ نا پسندیدہ اجازت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :ابغض الحلال الی اللّٰہ الطلا ق۔ ؎ ۱ (سنن ابی دا ؤد) حلال چیزوں میں سب سے زیادہ قا بل نفرت اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔ اس لئے طلاق کو بالکل آخری چارۂ کار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (اِس آخری چارۂ کار کو حق کہہ لیجئے یا اجازت یا گنجائش اس سے اصل حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑ تا )۔

پھر طلاق کے سلسلے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ طلاق اس وقت دی جائے، جب عورت حیض کے بجائے پاکی کی حا لت میں ہو اور اس پا کی میں شو ہر نے اس سے جماع نہ کی ہو۔ پھر طلاق بھی ایک وقت میں صرف ایک ہی دی جائے، جس کے بعد خاتمۂ عدت تک شو ہر کو رجعت کا اختیار رہتا ہے، اور خاتمۂ عدت کے بعد اگر دونوں با ہم راضی ہو جائیں تو نکاح کر کے ایک سا تھ رہ سکتے ہیں اور نہ راضی ہوں تو جس کا جہاں جی چا ہے شادی کر لے۔

یہ طلاق کے شرعی اصول و ضوابط ہیں۔ مگر قانون یہ ہے کہ اگر کو ئی شخص ان ضوابط کی خلاف ورزی کر تے ہوئے طلاق دے دے تو وہ اگر چہ سخت گنہ گار اور اللہ کے نزدیک قا بل گرفت ہو گا مگر طلاق بہر حال پڑ جائے گی اور اس کو اس کے نتائج بر داشت کر نے ہوں گے۔ حضرت ابنِ عمر نے اپنی بیوی کو حا لت حیض میں طلاق دے دی تو ان کی یہ طلاق شما رکی گئی۔ ( صحیح بخاری وغیرہ ) ایک صحابی حضرت رکا نہ نے یکجا تین طلاقیں دیں تو تینوں تو نہیں مگر ایک طلاق شما رکی گئی۔    (مسنداحمدوغیرہ )

باقی رہا طلاق پر پابندی عائد کر نے کا معاملہ تو واضح رہے کہ اس راہ میں قانونی پا بندیاں کھڑی کر نے سے دشواریاں ہی جنم لیں گی۔ البتہ معاشرے کی اخلاقی حیات کو بیدار کرنا بہتر ہو گا۔ و یسے بھی اگر کو ئی شخص طلاق دے دے تو کو ئی پابندی اسے نافِذ ہونے سے روک نہیں سکتی۔ نیز طلاق کے جو واقعات رجعت کے بجائے مستقل علیحدگی پر ختم ہو تے ہیں وہ اتنے کم ہیں اور نباہ کی گنجائش نہ رہنے کے ایسے حا لات میں پیش آتے ہیں کہ ان پر پا بندی کی تجو یز ایک فضول اور غیر مفید درد سری ہے۔

سو ال نمبر (۸): مسلم پر سنل لا ء کے تحت نکاح، طلاق اور مہر کے بارے میں اگر کسی مشکلات سے دو چار ہو نا پڑے تو انھیں کس طرح سے حل کیا جا سکتا ہے ؟براہِ کرم یہ بھی بتائیں، آپ کی رائے میں شریعت اسلامی کی روشنی میں نکاح، طلاق اور مہر کے کیا صحیح تصو رات ہیں اور ان کی و جو ہات کیا ہیں ؟۔

جو اب : شق اول کا جواب گزر چکا ہے۔ در حقیقت نکاح، طلاق اور مہر کے مسائل سما جی طور پراس طرح حل ہو جا تے ہیں کہ حکو مت کو اس دردسری میں پڑ نے کی ضرورت قطعاً نہیں۔

شریعت کا اصول نکاح بالکل سا دہ ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت با ہم شا دی پر رضا مند ہو جائیں تو عورت سے اجازت لے کر اس کے ولی کے زیر سر پر ستی گواہان اور حتی الا مکان لو گوں کے مجمع میں خطبۂ نکاح پڑ ھ کر مرد سے اس عقد کو قبول کرا لیا جائے۔

اس کے بعد عورت شو ہر کے یہاں رخصت کر دی جائے۔ مہر خو اہ نکاح کے وقت مقرر کی جائے یا اس کے بعد، دونو ں درست ہے۔ فر یقین با ہمی رضا مندی سے جو مہر طے کر لیں وہ شوہر کے ذمہ لا زمی ہے۔ اگر فوری ادائیگی طے کریں تو فوراً ادا کرنی ہو گی۔ ورنہ عورت رہنے سہنے لگے تو اس کے بعد جب طلب کرے دینی ہو گی۔ اور اگر و یسے بغیر شو ہر مر جائے تو اس کے تر کہ سے قبل از تقسیم دلا ئی جائے گی اور اگر عورت مہر پائے بغیر مر گئی تو شو ہر سے مہر کی رقم لے کر عورت کے ورثہ پر تقسیم کر دی جائے گی۔ عورت چا ہے تو اپنی آزاد مرضی سے مہر معاف بھی کر سکتی ہے۔

بس یہ ہے مختصر اور سا دہ اصول۔ جس کی معقولیت محتاج بیان نہیں کہ ہم ان کی و جو ہات کا ذکر کریں۔ طلاق کے اصول اوپر ذکر کئے جا چکے ہیں۔ لہٰذا دہرانے کی ضرورت نہیں۔

(نومبر ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

یہ انسا نیت کے اجارہ دار !

 

مسلم پر سنل لا کے سلسلے میں ہما رے ملک کے ’’ کشا دہ ظرف‘‘ اور ’’روشن دماغ ‘‘ حضرات نے عقل و فہم کی جس ’’ پختگی ‘‘اور ’’ فراوانی‘‘ کا ثبوت دیا ہے اور عدالت عالیہ کی کرسی پر بیٹھنے والے ’’ مصلح ‘‘کا روپ دھار کر جس قسم کی پیغمبری کر رہے ہیں اس کے کچھ نمو نے محدث کے پچھلے شماروں میں گزر چکے ہیں۔ آج ہم چند اور نمو نے پیش کر رہے ہیں ایک مسلم خاتون کے ذریعہ عدالتِ عالیہ میں ایک در خواست گزاری گئی ہے کہ اسلا می شریعت کے قوانین ظالمانہ ہیں۔ مثلاً مرد کے مقابل عورت کو آدھی میراث ملتی ہے، اسی طرح اسلام میں پر دے کا جو حکم ہے وہ مضر صحت ہے۔ اس لئے مسلم پر سنل لا کو معطل کر دیا جائے۔ اور عدالتِ عالیہ نے اس در خو است کو سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے۔ ظاہر ہے اس لئے کہ یہ بز عم عدالت معقولیت پر مبنی ہے۔

لیکن آئیے ذرا عقل کے دریچوں کو کھول کر دیکھئے کہ اس میں کہیں معقولیت کا کو ئی حبہ موجود ہے ؟ اسے سمجھنے کے لئے مرد اور عورت کی ما لی ذمہ داریوں پر صرف ایک طائرانہ نظر ڈال لینی کا فی ہو گی۔ اسلام عورت پر کسی کی کفالت اور نان نفقہ کی ذمہ داری نہیں ڈالی بلکہ اسے خود اپنی رو زی روٹی کی فکر سے بھی سبکدوش کر دیا ہے جبکہ مردپرخوداس کی اپنی ہی روزی کمانے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ بیوی بچے، بوڑھے والدین اور کنبے قبیلے کے دوسرے متعدد نوع کے افراد کا نان نفقہ بھی اسی کے ذمہ ہے۔ اس ذمہ داری کی نوعیت ہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دونوں کے استحقاق میں نمایاں فرق ہو۔

مثال کے طور پر ایک شخص کا ایک لڑکا ہے اور ایک لڑکی۔ دنیا جانتی ہے کہ باپ ۱۷، ۱۸ برس تک ان دونوں کے پالنے پوسنے کا بوجھ بر داشت کرے گا۔ مگر اس کے بعد باپ کے سا تھ ان دونوں کی نوعیت یکسر بدل جائے گی۔ لڑکی کو اس کا باپ ہزار ہا ہزار خرچ کر کے کسی کے عقد میں دے دے گا اور وہ اپنے شو ہر کے پاس رخصت ہو کر جائے گی تو اسی کی ہو رہے گی۔ وہ اپنے ماں باپ اور بھا ئی کا خرچ بر داشت کر نا تو در کنا ر، ان کی معمولی خدمت بھی نہ کر سکے گی۔ البتہ وقتاً فوقتاً والدین اور بھا ئی سے ملنے آئے گی اور اپنا اور اپنے بچوں کا کچھ نہ کچھ بوجھ ان پر ڈال جائے گی۔

اس کے بر خلاف لڑکا کام کے لائق ہو نے کے بعد ماں باپ کو اپنے اخراجات کے بوجھ سے آزاد کر دے گا۔ اپنی شادی کا بڑا بوجھ بھی خود ہی اٹھائے گا، بلکہ اپنی زندگی کے ایک طویل حصے میں ماں باپ کی پر ورش اور ان کے نان نفقہ کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن کا کو ئی انکا ر نہیں کر سکتا۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے اور اسی پرسماج کی گاڑی اعتدال و توازن کے ساتھ چل بھی سکتی۔

اب سو ال یہ ہے کہ وہ لڑکی جو اپنے ماں باپ پر نہ کچھ خرچ کر تی ہے نہ خرچ کر نے کی ذمہ دار ہی ہے۔ اور وہ لڑکا جو اپنے ماں باپ کے خرچ کا ذمہ دار ہے اور تیس، تیس اور چالیس، چالیس برس تک ان کا پو را پو را خرچ مسلسل برداشت بھی کر تا ہے۔ آخر ان دونوں کو ماں باپ کے ترکے سے بر ابر حصہ دینا کہاں کا انصاف ہے ؟اسے انصاف قرار دینا یقیناً عقل کے دیوالیہ پن کی علا مت ہے۔ مگر کمال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے د انشوروں کو اسی میں ساری معقولیت اور انصاف نظر آ رہا ہے اور جو کچھ انصاف ہے وہ ان کی عینک سے ظلم دکھا ئی پڑتا ہے۔

ایک اور مثال لیجئے !معلوم ہے کہ شو ہر پر بیوی کے نان نفقہ کی مکمل ذمہ داری ہے۔ اس کے علا وہ وہ اپنے بچو ں، والدین اور بعض اوقات خاندان کے دوسرے افراد کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ اس کے بر عکس بیوی خود اپنے خرچ کی بھی ذمہ دار نہیں۔ چہ جائے کہ بچو ں، والدین یا کسی اور شخص کی کفالت کی ذمہ دار ہو۔ ایسی صورت میں یہ بات کیوں کر قرینِ انصاف ہو سکتی ہے کہ وہ مرد جو چا لیس چالیس اور پچاس پچاس برس تک بیوی (اور دوسروں کا بھی )خرچ بر داشت کر تا ہے، اور وہ عورت جو شو ہر پر (یا کسی اور پر )ایک پیسہ بھی خرچ کر نے کی ذمہ دار نہیں، بلکہ چا لیس چالیس اور پچاس پچاس برس تک شو ہر سے خرچ لیتی رہتی ہے وہ ایک دوسرے کی میراث سے بالکل برا بر برابر حصہ پائیں، اور مرد کو عورت سے زیادہ نہ دیا جائے۔

یہاں اس پہلو پر بھی نظر رہنی چاہیے کہ شو ہر بیوی کے علا وہ کم از کم بچوں اور والدین کے نان اور نفقہ کا بھی ذمہ دار ہے، جبکہ عورت کسی کے خر چہ کی ذمہ دار نہیں، حتیٰ کہ اس پر اپنے بچوں کی پر ورش کا بھی بار نہیں۔ پس اگر عورت کو بھی شو ہر کے تر کے سے اتنا ہی دیا جائے، جتنا عورت کے ترکے سے شوہر کو ملتا ہے تو اس صورت میں یقیناًاس شخص کے زیر کفالت دوسرے افراد کی حق تلفی ہو گی۔ جبکہ عورت کے مال سے شو ہر کو زیادہ دیا جائے تو کسی کی حق تلفی نہیں ہو تی۔

ہما رے اس تجزیہ سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اسلا می قانون میراث کس قدر معقول، متوازن اور مبنی بر انصاف ہے، اور اس میں ہر معاملے کے تمام گو شوں کو کس قدر وسعت، جا معیت اور ہمہ گیری کے ساتھ ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے بر عکس جو قانون میراث ہما رے ملک میں سر کا ری طور پر نافذ ہے اور جس کو مسلمان پر بھی نافذ کر کے مسلمان عورتوں کو ظلم سے بچا نے اور انصاف دلانے کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے۔ اس کی معقولیت، اور مبنی بر انصاف ہونے کا حال یہ ہے کہ اس میں عورت کو سرے سے زرعی زمین کی وراثت کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ یعنی بطور مثال کسی شخص کے پاس ہزار دو ہزار ایکڑ زمین ہو اور اس کے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہو تو وا لد کی وفات کے بعد لڑکے کو سا ری زمین مل جائے گی اور لڑکی کو ایک بالشت بھی نہ ملے گی۔ یہ حال تو سر کا ری قانونِ میراث کا ہے۔ باقی رہی ہما رے ملک کی اکثریت تو عملاًاس میں ہزار ہا برس سے رائج دینی قانونِ میراث یہ ہے کہ لڑ کی کو کسی بھی قسم کے مال سے ایک پیسے کی وراثت نہیں مل سکتی۔ پس یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ جو لوگ اپنے دامن قانون پر ظلم و نا انصافی کے ایسے ایسے مکر وہ داغ سجائے بیٹھے ہیں، انھیں اپنے بجائے ا سلا می شریعت میں ’’ظلم ‘‘نظر آ رہا ہے اور وہ اس ’’ظلم‘‘ سے مسلمان عورتوں کو بچانے کے لیے اسلامی شریعت کے خلاف مقدمے دائر کرانے اور اس کی سماعت کرنے اور پر پا بندی لگا نے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کیا کہنے ہیں اس جذبۂ خیر خواہی و ہمدردی اور حوصلۂ کشتنی و صیادی کے۔

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑے زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیا نے میں

جہاں تک پر دہ کے مضر صحت ہو نے کا معاملہ ہے تو اس کے لئے ادار ۂ صحت کی رپورٹیں کا فی ہوں گی۔ ایک طرف یو رپ کی بے پردہ عورتیں ہیں جنھیں ما لیخولیا اور جنسی امراض خبیثہ کی بیماریوں نے اپنی یلغار میں اس طرح لے رکھا ہے کہ آج یو رپ کے بد عملی کے اڈے اس کے خوف سے تھرا اور لرز رہے ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کی با پر دہ اور نیم پردہ خواتین ہیں جن کی بیماریوں کا سا را دائرہ نزلہ و زکام وغیرہ جیسی معمولی بیماریوں تک محدود ہے اور وہ بھی بہت چھوٹے پیما نے پر۔

دور کیوں جائیے۔ اپنے ہی ملک کے کسی ایسے مقام کے ڈاکٹر سے رجوع کر لیجئے، جہاں مسلم اور غیر مسلم آبا دی یکساں ہے، اس کی فہرست دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ بیمار یاں کس طبقے میں زیادہ ہیں، اور پھر خبیثہ امراض کا تنا سب کس طبقے میں کتنا ہے۔

آخر میں ہمیں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو تی کہ ادھر کچھ عرصہ سے ہما رے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ در حقیقت اسلا می شریعت کو قدم بہ قدم ملیامیٹ کر نے کی سازش کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اسلام دشمنوں نے شاہ با نو مقدمہ کو سازش کے پہلے قدم کے طور پر طے کر لینے کے بعد اب دوسرا قدم اٹھا یا ہے، اور خود سامنے آنے کے بجائے مسلمانو ں جیسے نام رکھنے والی اور مسلمان کہلا نے والی خواتین کے کاندھے پر بندوق رکھی ہے۔ حالانکہ اس قسم کے لو گوں کے اسلام کی جو حقیقت ہے وہ اللہ کے اسی ارشاد سے واضح ہے۔ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولٰئک ھما لکا فرون۔ جو اللہ کے نا زل کر دہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ کا فر ہیں۔ اور۔

الم ترا لی ا لذین یزعمونا نھم اٰمنوابما انز لا لیک وما انزل من قبلک یریدون ان یحکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ، و یر ید الشیطان ان یضلھم ضلا لا بعیدا۔

ذرا انھیں دیکھو جو سمجھتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا، اس پر ایمان لائے ہیں، چا ہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلے کرائیں، حالانکہ انھیں طاغوت کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں بہت دور تک گمراہ کر دے۔

اور اس کے آگے صاف صاف ارشاد فرمایا گیا۔

فلاور بک لا یو منون حتی یحکموک فیماشجر بینھم ثم لا یجد و افی انفشھم حر جاًمماقضیت و یُسلموا تسلیما۔ (انساء:۶۵)

پس نہیں، تیرے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ آپ کو اپنے اختلافات میں حکم اور جج مان لیں، پھر آپ جو فیصلہ کر دیں، اس کے متعلق وہ اپنے جی میں بھی تنگی محسوس نہ کریں، اور بے چوں چرا تسلیم کر لیں۔

ان آیات سے ان خواتین اور ان کے ہمنوا مدعیانِ اسلام کے ایمان واسلام کی حقیقت بالکل واضح اور عیاں ہے اس لئے اگر انھیں اسلامی شریعت میں، تنگی محسوس ہو رہی ہے تو ان پر کو ئی زبردستی نہیں کہ وہ اس تنگی، میں محبوس رہیں وہ کھل کر اس رستہ پر چلی جائیں جس پر وہ چلنا چاہتی ہیں۔ انھیں کو ئی روکنے والا نہیں۔ لیکن انھیں اس کا حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ سا رے مسلمانو ں کی ٹھیکہ دار بن جائیں۔ اور اپنے اس کج اور تباہ کن راہ پر سب کو گھسیٹیں۔ یہ تو محض تنگ دلی شرارت اور فساد نفس ہے۔

واللہ یہدی من یشا ء الاصاط مستقیم۔

(دسمبر ۱۹۸۵ء )

٭٭٭

 

 

 

 

پاک سرزمین پر

 

عرصہ سے خیال ہو رہا تھا کہ پاکستان کا سفر کروں، دوستوں، عزیزوں اور واقف کاروں کا بھی یہی مشورہ تھا۔ بالآخر خیال نے ارادے اور عزم کا جامہ پہنا، اور عید الاضحی سے ذرا پہلے دہلی جانا پڑا توپاکستانی سفارت خانے کو ویزا کی درخواست دے دی۔ یہ درخواست کئی پر پیچ مراحل سے گزر کر بقر عید بعد منظور ہوئی اور اس کی اطلاع مجھے اس وقت ملی جب جامعہ میں تعطیل عید الاضحی کے بعد تعلیم کاسلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ تعلیم کوسفر کی نذر کرنا گوارا نہ ہوا۔ لہٰذا ششماہی امتحان کی آمد کا منتظر رہا، امتحان کی تیاری کے لئے طلبہ کے اسباق بند ہوئے تو مؤناتھ بھنجن کی ’’ائمۂ مسجد کانفرنس‘‘منعقد ہو رہی تھی، اس سے فارغ ہوتے ہی روانگی کا ارادہ تھا۔ مگر ’’محدث‘‘ کے عملہ کی نوازشوں سے دامن چھڑاتے چھڑاتے ششماہی امتحان بھی خاتمے کو جا پہونچا۔ صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا کہ ۲۷/نومبر کو رخت سفر باندھا۔ ۲۸/ نومبر کی صبح دہلی پہونچتے ہی ضابطہ کی کارروائیوں اور ضروری ملاقاتوں میں مصروف ہو گیا۔ اور شام تک ان سے سے فارغ ہو کر سوا آٹھ بجے رات کی ٹرین سے امرتسر روانہ ہوا۔ میرے کیبن میں تین مسافر اور تھے انھیں باتوں باتوں میں معلوم ہو گیا کہ میری آخری منزل پاکستان ہے۔ ایک صاحب نے جو چہرے بشرے سے آفیسر معلوم ہو رہے تھے از راہ افرازش فرمایا کہ اگر کوئی مشکل درپیش ہو تو مجھے بتائیں۔ میں نے ضابطہ کی بعض پیچیدگیوں کا ذکر کیا تو انھوں نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا اگر سرحد پر کوئی پیچیدگی پیش آئے تو سپرنٹنڈنٹ آفیسر کو میرا حوالہ دے دیں، چند منٹ میں سارا کام ہو جائے گا۔ یا پھر آپ میرا انتظار کریں میں بھی کوئی گیارہ بجے سر حد آ رہا ہوں، مزید گفتگو سے معلوم ہوا کہ موصوف سرحدی امورسے متعلق کسی اہم منصب پر فائز ہیں۔ میں نے موقع غنیمت جان کر ان سے تعارفی کارڈ مانگ لیا اور انھوں نے علی الصباح عنایت کر دیا۔

ساڑھے چھ بجے امرتسر اتر کر کچھ دیر بعد ایک مخدوش بس کے ذریعہ سرحد کی طرف روانگی ہوئی۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد ہم اٹاری میں ہندوستان کی آخری حدود پر نازل ہوئے۔ جہاں سے پاکستان کا پرچم ’’ستارۂ و ہلال‘‘ دکھائی پڑ رہا تھا۔ ابھی امیگریشن حکام تشریف نہیں لائے تھے۔ صرف چند مسافرتھے۔ اور ہسٹنڈے مسٹنڈے قلیوں کا غول دھما چوکڑی مچاتا ہوا پھر رہا تھا، پھر لمحہ بہ لمحہ عازمین پاکستان آتے چلے گئے۔ سڑک کے دائیں کنارے زمین پر ایک بنچ بچھی تھی۔ اور اس کے سامنے کاؤنٹر پر لکھا تھا ’’یہاں پاکستانی روپئے تبدیل کئے جاتے ہیں ‘‘اس سرکاری ’’ایکسیچنج پر ‘‘چند خوش پوش نمودار ہوئے جو براجمان ہونے کے بجائے بائیں کنارے پرموجودمسافروں کے درمیان آ کر تحکمانہ لہجے میں گویا ہوئے۔ پاسپورٹ دکھاؤ، روپئے بدلو عام مسافروں نے اسے سرکاری کاروائی کا پہلا مرحلہ سمجھ کر، جھٹ پاسپورٹ اور روپئے نکال دئیے۔ اور انھوں نے ایک سو ہندوستانی روپئے کے بدلے صرف ایک سو روپئے پاکستانی دئیے۔ سرکاری ’’سیہ کاروں ‘‘کا یہ گروپ میرے پاس پہنچا تو میں نے بے نیازی کے ساتھ انھیں بے نیل و مرام رخصت کر دیا۔

امیگریشن کا باب وا ہونے سے پہلے ڈاک خانہ مکمل کھل چکا تھا، جہاں سے دو فولیو لفافے حاصل کر کے میں اپنی خیریت تحریر کر رہا تھا کہ امیگریشن کا دروازہ بھی کھل گیا۔ چند با وردی ملازمین یا حکام اندر جانے والوں کے پاسپورٹ چیک کر رہے تھے۔ اور ایک پرچی دے کر دس روپئے بھی وصول کر رہے تھے۔ مجھے یہاں بھی ’’سیہ کاروں ‘‘کا شک گزرا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذرا غور کیا تو پتہ لگا کہ واقعی یہ ’’سیاہ کاری ‘‘ہے۔ چند منٹ بعد میں بھی داخل ہوا، مگر خرامے بے نیازی کے ساتھ۔ اب کی بار پاسپورٹ چیک کرنے والے نے میرا پاسپورٹ لے کر ذرا غور سے دیکھا، اور اپنے ساتھی سے سرگوشی کے انداز میں کہا، یار!سروس کرتا ہے، جانے دو، میں دو قدم آگے کھڑاسرگوشی سن رہا تھا۔ پاسپورٹ لے کر آگے بڑھا تو پہلے کاؤنٹر کے قریب ایک وردی پوش ملا۔ میں نے اس سے کہا ’’سپرنٹنڈنٹ صاحب سے ملنا ہے۔ ‘‘اس نے مجھے قدر افزائی کے ساتھ ملانے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک نمایاں جگہ بٹھا دیا۔ اور میرا پاسپورٹ اندراج کے لئے کاؤنٹر پر دے دیا۔ ایک بار میں نے کاؤنٹر کے قریب جانا چاہا تو اس نے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’آپ بیٹھیں ‘‘ہم خود ہی پاسپورٹ لادیں گے۔ میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرے ایک اور عزیز آ پہنچے، اور میری سہولیات میں وہ بھی شامل ہو گئے۔ اسی دوران امیگریشن کے دوسرے شیڈ میں چند وردی پوش نمودار ہوئے۔ جو شخص میراپاسپورٹ درج کرانے کے لئے لے گیا تھا، اس نے بتایا کہ یہ لوگ آپ کو سپرنٹنڈنٹ صاحب سے ملائیں گے۔ میں نے ان کے پاس پہنچ کر عرض مدعا کیا تو ان کے چہروں پر فکر مندی کے آثار نمایاں ہوئے تاہم انھوں نے وعدہ کیا کہ موصوف کے آتے ہی ہم آپ کو ان سے ملا دیں گے۔ میں پھر اپنی سابقہ جگہ آ بیٹھا۔

یہاں میرے پاس ایک نوجوان آیا جو امیکریشن کے شیڈسے باہر بھی ایک بار مل چکا تھا، باہر اس نے بڑے اضطراب کے ساتھ بتایا تھا کہ قلی اس سے سواسوروپئے مانگ رہے ہیں۔ میں نے اس سے بتاکید کہا تھا کہ ایک قلی کی اجرت دس روپئے سرکا ری طور پر مقرر ہے۔ اس سے زیادہ نہ دینا۔ جب وہ اندر ملا تو اس کا اضطراب اتنا افزوں تھا کہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل پھوٹ پڑنا چاہتا تھا کہنے لگا میں تو لوٹ لیا گیا۔ سواسو روپئے قلی نے لے لئے اور ڈیڑھ سو روپئے پاسپورٹ پر اندراج کرنے والے نے۔ میں سخت بیچ و تاب کھانے کے باوجود کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کیوں کہ یہ بیچارہ رقم پہلے ہی دے چکا تھا، تاہم میں نے اس کی ہمت بندھائی، اور سنبھلے رہنے کی تاکید کی۔ مگر معلوم نہیں آگے اس غریب پر کیا بیتی۔ کیوں کہ ابھی کسٹم کا اصل مرحلہ تو باقی ہی تھا۔ کچھ اور حضرات کو بھی دیکھا کہ وہ کاؤنٹر پر خوشامدانہ گفتگو کر رہے ہیں اور صاحب کو منانے کی کوشش میں ہیں۔ جس سے لوٹ کھسوٹ کی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔

پاسپورٹ کا اندراج ہو گیا تو ہم گیٹ پاس لینے گئے۔ یہاں بھی کسی جواز کے بغیر پانچ روپئے فی پاسپورٹ وصول کئے جا رہے تھے۔ ہم سے بھی مطالبہ ہوا۔ میں نے ٹرین والے صاحب کا تعارفی کارڈ دکھایا تو یہ رقم نہیں لی گئی۔ اتنے میں اطلاع دی گئی کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب آ چکے ہیں۔ ہم نے تعارفی کارڈ بھیجا تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ آداب وتسلیم کے بعد مختصر تعارفی گفتگو ہوئی۔ اور اتنے میں کسٹم شیڈ کا ایک بوڑھا سفید ریش سکھ آفیسر ہمارا پاسپورٹ لے کر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا، اور پھر ان کے اشارے پر کسٹم شیڈ میں واپس لے گیا۔ ہم صاحب کے پاس سے واپس ہوئے تو دروازے پر وہی شخص ملاجس نے ملاقات کے لئے بلایا تھا، اس کی آواز اور چہرے پر لرزش تھی۔ بڑے احترام سے تعارف حاصل کیا، اور یگانگت آمیز باتیں کیں۔ کسٹم آفیسر کے پاس آئے تو اس نے جھٹ ساری کاروائی انجام دے دی۔ اب ہم شیڈسے نکل کر پاکستان کی طرف بڑھے۔ ذرا آگے سڑک کے دائیں کنارے ایک وردی پوش سکھ میز لگائے کرسی پر براجمان تھا۔ اس نے ہمیں بلا کر پاسپورٹ اور ویزا فارم چیک کیا، اور ایک جگہ انگلی رکھ کر کہا۔ یہاں تاریخ کیوں نہیں ہے ؟۔ بیس روپئے لاؤ۔ میں نے روپئے کے بجائے وہی تعارفی کارڈ دکھلایا۔ فوراً ہی وہ شخص لہجہ بدل کر بولا۔ ’’اچھا صاحب !لیجئے ہم خود ہی بنائے دیتے ہیں۔ جائیے !‘‘ہم مزید چند قدم آگے بڑھے تو سڑک پر موٹے حرفوں میں اسٹاپ، stop۔ لکھا ہوا تھا۔ اور وہیں سڑک کے کنارے ترنگا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ آگے تیر کا ایک نشان تھا، پھر لکیر تھی اور پھر ادھر کے رخ پر تیر کا دوسرانشان تھا۔ اور اس کے آگے بھی اسٹاپ لکھا تھا، اور وہیں سڑک کے کنارے پرچم ستارہ و ہلال لہرا رہا تھا۔ تیروں اور لکیروں کہ شکل یہ تھی۔ …<۱>… یہی درمیانی لکیر دونوں ملکوں کی سرحد ہے اور اسے پار کرتے ہی محسوس ہوا کہ ہم ہندوستان سے مختلف ایک جداگانہ ماحول میں ہیں۔ گھٹنوں تک بلکہ اس سے بھی نیچی قمیص اور شلوار میں ملبوس متعدد افراد سڑک کے بائیں کنارے بے نیازی سے کھڑے تھے۔ جن کے قد لانبے تھے اور چہرے کسی قدر ستواں۔ بورڈ بھی سب کے سب اردو میں تھے، یا پھر انگریزی میں۔ کوئی نصف فرلانگ پر ہمیں بائیں جانب مڑنے کا اشارہ کیا گیا۔ ادھر پاکستان امیگریشن کی باقاعدہ عمارت ہے۔ ایک کھڑکی پر پاسپورٹ اندراج کے لئے دے دیا گیا۔ ضابطہ ہے کہ ۴۵/ڈالر ساتھ لئے بغیر پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اور میں ڈالر لئے بغیر ہی چلا گیا تھا۔ اس لئے پیچیدگی پیدا ہو جانا چاہتی تھی۔ مگر پاس ہی ٹہلتے ہوئے آفیسر نے ضابطہ سمجھا کر آگے جانے کی اجازت دے دی۔ سامان کی پرچی جو گیٹ پاس کا کام دیتی ہے، حاصل کر کے ہم نے سامان دکھا دیا۔ جسے برائے نام دیکھا گیا۔ پرچی لکھنے والے ایک باریش نوجوان تھے، وہ کرسی سے کھڑے ہو گئے، اور مجھ سے اسلام، عالم اسلام اور امت مسلمہ کے احوال پر دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ میں لاہو رمیں جمعہ پڑھنے کے لئے عجلت میں تھا، اور وہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ مگر جب مزید مسافر آ گئے تو میں نے اجازت چاہ لی۔ اور ہم عمارت کے پیچھے سے اس کے مغربی کنارے پہنچے، وہاں سے راستہ دائیں جانب مڑ جاتا ہے اور عمارت کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا لاہور جانے والی سڑک پر جا پہنچتا ہے۔ سڑک سے متصل ایک گیٹ ہے، جس پر لکھا ہے ’’داخلہ ممنوع ہے ‘‘اس گیٹ پر دو پہرے دار بیٹھے تھے ایک نے پاسپورٹ اور گیٹ پاس چیک کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کتنے سامان ہیں ؟ ‘‘ میں نے کہا ’’تین‘‘اس نے کہا تیس روپئے دیجئے !میں نے کہا ’’اس کی رسید دو گے ؟‘‘اس نے گیٹ پاس کی طرف اشارہ کیا کہ ’’یہ رسید ہے ‘‘میں نے کہا ’’اس پر تیس روپئے کہاں لکھے ہیں، اس پر تو صرف سامان کی تعداد لکھی ہے۔ اور اگر یہ رسید ہی ہے تو جس نے رسید دی ہے، اس کو روپئے ملنے چاہئیں آپ کو کیوں دوں ؟‘‘اس پر وہ کچھ مبہوت سا ہو گیا۔ مگر پاکستان میں ہمارے داخلہ کا فارم دیکھا تو اس کے تاریخ کے خانے میں مہینہ ۱۱/کی جگہ ۱۲لکھ کر پھر دو کو ایک بنایا گیا تھا۔ اس نے کہا یہ تاریخ کیوں کاٹی گئی ہے ؟ ’’تیس روپئے لاؤ۔ ‘‘میں نے کہا آپ میرے بجائے اپنے آفیسر یا کلرک سے پوچھئے کہ انھوں نے اسے کیوں کاٹا ہے، ؟کیوں کہ انھوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کے جوابدہ وہی ہیں، میں نہیں ہوں، اس پر اسے مزید پریشانی ہوئی۔ اس نے پوچھا ’’آپ کیا کرتے ہیں ؟ ‘‘ میں نے بتایا کہ ’’میں ایک جامعہ میں استادہوں ‘‘اس پر اس کے ساتھی نے سرگوشی کی ’’ابے معزز لوگ ہیں، جانے دے۔ ‘‘اور اس نے بے بسی کے ساتھ پاسپورٹ اور کاغذ ہمارے ہاتھ میں تھما دئیے۔

سڑک پر ایک کالا اور موٹا شخص بیٹھا نعرہ لگا رہا تھا : ’’لاہور ساڑھے تین روپئے میں ‘‘ گیٹ سے باہر آتے ہی اس نے سامان جھپٹ لیا، اور ایک خوبصورت ٹیکسی پرلے گیا۔ مگر وہاں پہنچ اس نے کرایہ ساڑھے تین سوروپئے کہا۔ ہم نے بیٹھنے سے انکار کر دیا اتنے میں ایک گورا اور دبلا شخص دومسافروں کولے کر اپنی ٹیکسی پر پہنچ گیا۔ مگر اس پر دونوں ٹیکسی والوں میں جھگڑے کا ٹورنامنٹ شروع ہو گیا۔ ہم نے ہر چند کوشش کی کہ سامان لے کر کسی بس سے نکل جائیں، مگر اس نے کامیاب نہ ہونے دیا، اور کرایہ فی کس بیس روپئے تک اتر آیا۔ بالآخر وہی چاروں مسافروں کو لے کر اپنی خوبیوں کے گن گا تا لاہور چلا، اور ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کرتیس تیس روپئے وصول کئے، توجہ دلانے پر بولا، ’’کرایہ واقعی تیس تیس روپئے ہے، لیکن جھگڑے کے سبب اگر وہ پانچ روپئے کہتا تومیں دوہی روپیہ کہتا۔ ‘‘بہرحال اب ہم نے آٹو رکشا کیا، اور شیش محل روڈ کو چلے۔ نووارد تھے لہذا آٹو والے کو تاکید کر دی تھی کہ شیش محل روڈ شروع ہوتے ہی ہمیں اطلاع کر دے، تاہم ہماری نظریں کنارے کے بورڈوں پر تھیں۔ ایک جگہ فٹ پاتھ پر ایک شخص دو طوطے اور کارڈ لئے بیٹھا تھا چھوٹاسابورڈ بھی کھڑا تھا، جس پر دو طوطوں کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا ’’اسلامی فالنامہ‘‘ میں جھٹ اپنے عزیز کو متوجہ کیا کہ وہ دیکھو ’’اسلامی فالنامہ‘‘ اتنے میں رکشا آگے بڑھ چکا تھا، مگر ہمارے عزیز نے بتایا کہ بورڈ پر نیچے اس فالنامے کی مشروعیت اور فوائد کے متعلق کسی بڑے مفتی صاحب کا فتویٰ اور ارشاد بھی درج تھا۔ ‘‘یاللعجب !

شیش محل روڈ شروع ہوتے ہی ڈرائیور نے اطلاع دی، ذرا آگے دائیں کنارے مکتبہ سلفیہ کا بورڈ دکھائی پڑا۔ ہم نے بائیں کنارے اتر کر ایک دوکان والے سے کہا، ہم حافظ احمد شاکر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘اس نے ایک بچے کو بلا کر کچھ کہا۔ اور چند لمحہ بعد جوانی کی حدود کو چھوتے ہوئے ایک دوسرے بچے نے آ کر ہمارا سامان تھامتے ہوئے کہا۔ ‘‘آپ فلاں صاحب ہیں، آپ نے بہت انتظار کرایا۔ تشریف لائیے ! اور وہیں سے اندر مڑ کر دو تین مکان کے بعد ایک مکان کی دوسری منزل کے ایک متواضع کمرے میں پہنچایا۔ جہاں ایک اٹھتے ہوئے قامت کے نحیف الجثہ بزرگ تشریف فرما تھے۔ یہ تھے مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف بھوحیانی حفظہ اللہ جن کی علمی عظمت و جلالت کا اعتراف عجم ہی کو نہیں بلکہ عرب کو بھی ہے۔ اور جن کے ذوق تحقیق و تصنیف نے اہل علم کو نہایت گرانقدر سرمایہ فراہم کیا ہے۔ ساتھ لے جانے والا بچہ مولانا ہی کا پوتا عبادسلمہ تھا۔ جس کے اطوار و گفتار سے سلیقہ مندی اور حسن ادب نمایاں تھا۔ چند لمحہ بعد ایک سنجیدہ، قدرے پستہ قد اور با وقار عالم تشریف لائے۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ آپ حافظ صلاح الدین یوسف ہیں۔ موصوف ایک بلند پایہ عالم، اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے ایڈیٹر ہیں اور آپ کی عالمانہ تحقیقات سے قارئین محدث بھی واقف ہیں۔ اگر چہ مسلسل سفر کے بعد میں غسل کر لینا چاہتا تھا۔ مگر وقت کی تنگی کے سبب وضو ہی پر اکتفا کرنے کی ٹھہری۔ مولانا کے صاحبزادے حافظ احمد شاکر صاحب بھی تشریف لا چکے تھے۔ موصوف سے ۱۹۸۰ ء میں حرم کے اندر ملاقات ہو چکی تھی بڑے تپاک سے ملے۔ اور چند ہی لمحوں بعد جمعہ کے لئے روانگی ہو گئی۔

آج کا دن لاہور کے لئے ایک خاص اہمیت کا دن تھا۔ امام حرم فضیلۃ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل حفظہ اللہ کی آمد آمد تھی۔ وہ چوتھی سیرت کانفرس منعقدہ اسلام آباد سے فارغ ہو کر واپس تشریف لا رہے تھے، اور شاہی مسجد پہنچے تو مہمانان گرامی کے تعارف اور استقبالیہ تقریر کا پر جوش سلسلہ جاری تھا۔ تقریر کے دوران جب بھی پاکستان کے تحفظ و بقا کی دعا کی جاتی، مسجد آمین کی آوازسے گونج جاتی، اور اندازہ ہوتا کہ باشندگان پاکستان، ملک کی سالمیت اور تحفظ کے سلسلے میں کتنے حساس ہیں استقبالیہ تقریر کے بعد مہمانان گرامی نے یکے بعد دیگرے تقریر یں کیں۔ ان کا خلاصہ اردو زبان میں بیان کر دیا جاتا تھا۔ پھر اذان ہوئی لوگوں نے نظمیں پڑھیں۔ اور اس کے بعد امام حرم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ جامع بغداد کے موذن نے بڑے پرسوزوپرکشش لہجے میں اذان جمعہ کہی۔ پھر حرم کا نغمۂ لاہوتی سنائی پڑا۔ امام حرم اپنے معروف وقار میں دریا کی روانی لئے، توحید اور تمسک بالکتاب والسنۃ پر نہایت پر مغز اور جامع تقریر فرما رہے تھے۔ آپ نے پاکستان اور عالم اسلام کے لئے دعائیں کیں۔ پھر نماز پڑھا کر قبلہ ہی کی جانب سے اپنی قیام گاہ تشریف لے گئے۔ کثرت ازدحام کے سبب ان تک رسائی ممکن نہ تھی۔ اس لئے آرزوئے ملاقات کے باوجودواپسی کی راہ لی گئی۔ مشرقی دروازے پر کافی انتظار کے بعد باہر آنے کی گنجائش مل سکی۔

شاہی مسجد ہندوستان میں مغل دور حکمرانی کی ایک ممتاز اور نادر ۂ روزگار یادگار ہے اسے مشہور مسلم حکمراں عالمگیر نے تعمیر کرایا تھا۔ شکل و شباہت میں دہلی جامع مسجد سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ اسی کی طرح فرش اور بیرونی دیواروں کے پتھر سرخ، اور اندرونی سفید ہیں، در و بام اور قبہ و محراب سے تعمیری عظمت و جلال نمایاں ہے۔ ۱۹۷۲ ء میں عالم اسلام کی دوسری چوٹی کا نفرنس، اسی مسجد میں منعقد ہوئی تھی۔ اسی کے محراب امامت کے نیچے مصلی پر بیٹھ کر شاہ فیصل مرحوم نے عالم اسلام کی سلامتی و بہبودی اور خودمختاری و ترقی کے لئے رو رو کر دعائیں کی تھیں۔ یہیں سے ان کا تاریخی خطاب صادر ہوا تھا، اور اسی مسجد میں انھوں نے عالم اسلام کے سربراہوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ اب فرش مسجد کے کناروں کی دیواروں کے پتھر کہنگی کا شکار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ مگر حکومت پاکستان نے اس کے بدل کے طور پر پتھر چھیل کر مزائک لگوانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے دیواروں کا تحفظ بھی ہو جائے گا اور رونق بھی دوچند ہو جائے گی۔ مسجد کے باہر چہار جانب کھلا ہوا وسیع رقبۂ زمین ہے، اور مشرق میں اسے پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے مسجد کے حسن میں مزید نکھار آ گیا ہے اگر بقیہ اطراف میں بھی پارک بنا دیئے جائیں تو یہ حسن اور دو بالا ہو جائے گا۔ احاطۂ مسجد سے متصل شمال میں کشادہ سڑک ہے، جس کے کنارے ایک نہایت لمبا اور خاصا اونچا بورڈ ہے۔ رنگ سیاہی مائل ہرا ہے، اور اس پر نہایت جلی اور خوبصورت حرفوں میں تحریر ہے : ’’پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ، محمدرسول اللہ۔ ‘‘ پہلے سوالیہ جملے کا رسم الخط اردو ہے اور کلمہ کا رسم الخط عربی۔ سڑک کے دوسرے کنارے یادگار پاکستان ہے جو بالکل سفید رنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ اصل منارہ تو نیچے سے اوپر تک یکساں گولائی لئے ہوئے ہے، لیکن اس کے گردا گرد منارہ کے جزوی طور پر نیچے سے مخروطی بلکہ نیم کمان کی شکل میں پائے اٹھائے گئے ہیں جو کچھ اوپر جا کر اوسط گولائی کے ساتھ آخری مرحلے کے قریب تک چلے گئے ہیں مگر خاتمے کے قریب انھیں پھر نیم کمان کی شکل میں سمیٹ کر ختم کر دیا گیا ہے۔ درمیان میں خاص تناسب کے ساتھ تقاطع بھی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ منارہ ایک ممتاز اور منفرد شکل اختیار کر گیا ہے نیچے منارے کی اصل گول دیوار اور کھمبوں کی کمان کے درمیان خاصی جگہ بن گئی ہے۔ جسے برآمدہ کہنا بیجا نہ ہو گا۔ گول دیوار پر نہایت نفیس اردو خط میں ایک جگہ قراردادپاکستان نقش ہے۔ ایک جگہ ترانہ نیز یکے بعد دیگرے پاکستان کے سلسلے میں تاریخی بیانات کے اقتباسات درج ہیں۔ ایک جگہ بنگلہ زبان میں اور ایک جگہ انگریزی زبان میں قراردادپاکستان اور قرارداد دہلی کا اندراج ہے۔ سب کچھ نہایت نفیس اور پرکشش ہے۔ اس پارک میں انسانوں کی بڑی چہل پہل اور رونق رہتی ہے۔

ہم جمعہ سے فارغ ہو کر ٹہلتے ہوئے دارالدعوۃ السلفیۃ پہنچے تو عصر کا وقت قریب تھا۔ آج لاہور میں ایک اور تاریخی کام انجام پا رہا تھا صوبہ پنجاب کی جماعت اہلحدیث حرمین شریفین کا نفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ حافظ احمد شاکر بھی اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ انتظامات میں منہمک تھے اسی لئے وہ ہمارے ساتھ نہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب کے بڑے صاحبزادے حمادسلمہ نے (جو ایک ہوشیار، چاک و چوبند اور زیرک نوجواں ہیں اور المکتبہ السلفیہ لاہور کوبڑی ہنر مندی سے چلا رہے ہیں ہمیں بھی وہیں بھیج دیا۔ تانگہ والے نے ہمیں ایک چوک پر اتار دیا، جہاں خاصی بھیڑ تھی، اور ا ندر کہیں سے ہونے والی تقریر کی آوازسنائی دے رہی تھی۔ یہ لاہور کا مشہور اور مصروف ترین مقام، چوک دالگراں تھا۔ چند لمحوں بعد گجر انوالہ سے محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب دکھائی پڑ ے۔ بڑی گرمجوشی سے مصافحہ و معانقہ ہوا، موصوف ۱۹۸۳ ء میں بنارس تشریف لا چکے ہیں۔ کتابوں کے مطالعہ جمع اور طباعت کا بڑا پاکیزہ اور لطیف ذوق رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر قیمت پر تاریخی نوادرات سمیٹنے کے قائل ہیں۔ اپنے خرچ پر نہایت عمدہ اور گرانمایہ کتابیں چھپوا کر مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اس مقصد سے آپ نے ندوۃ المحدثین کے نام سے گجرانوالہ میں ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ موصوف سے مل کر روحانی مسرت حاصل ہوئی۔ پھر مزید چند رفقاء بھی آ گئے کھانے کے لئے ایک ہوٹل کا رخ کیا گیا۔ اس وقت ٹی وی پر پاکستان اور غالباً نیوزی لینڈ کے درمیان کرکٹ میچ دکھا یا جا رہا تھا۔ کچھ دیر میں پاکستان کی فتح کے ساتھ کھیل ختم ہو گیا۔ اور پرکشش نسوانی ترنم ابھرا کہ ’’ چلو چلو چلو منزل بلا رہی ہے ‘‘اتفاقاً نظر اٹھی تو دیکھا کہ اسلامی حسن بے حجاب مصروف سرودہے۔

ہوٹل سے چوک دالگراں واپس آئے تو اچانک تین چار افرادسے ملاقات ہو گئی، جن کی پوشاکیں پاکستانی پوشاک سے قدرے مختلف تھیں۔ چہرے پر نور، ایک صاحب کی داڑھی کھچڑی بقیہ دو صاحبان کی بالکل سیاہ، ایک کے ہاتھ میں مشین گن تھی، وہ بالکل نوجوان تھا۔ گرمجوش مصافحے اور معانقے کے بعد تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ صاحبان نورستان سے تشریف لائے ہیں، جہاں دولت اسلامی انقلابی افغانستان کے نام سے اہلحدیثوں کی حکومت قائم ہے، اور یہ اس حکومت کے نمائندے ہیں۔ جن کی داڑھی کھچڑی تھی، وہ محترم مولانا عبداللہ ابن الفضل تھے جو اس حکومت کے قاضی القضاۃ اور وسطی نورستان کے امیر ہیں، دوسرے بزرگ جن کی داڑھی سیاہ مگر عمر قدرے متجاوز تھی، وہ مولانا محمد ابراہیم تھے، جواس حکومت کے وزیر خارجہ ہیں، اور آخرالذکر رائفل بردار نوجوان ان کا نام عبدالعزیز ہے، اور وہ سعودی عرب میں اس حکومت کی وزارت خارجہ کے نمائندے ہیں۔ اس دنیائے خواب و خیال کے مقتدر نمائندوں کو اچانک اپنے سامنے پا کر جو بے پایاں مسرت ہوئی، اس کا اندازہ ہرحساس آدمی لگا سکتا ہے۔ آرزو مچلی کہ ان کے ساتھ ایک مجلس گفتگو منعقد کی جائے مگر مجھ سے پہلے خود محترم وزیر خارجہ نے اسی آرزو کا اظہار فرمایا۔ اور دوسرے دن پہلے پہر ملاقات طے ہوئی۔

ان حضرات سے رخصت ہو کر ہم سامنے ہی ایک چوڑی گلی کے اندر گھسے۔ کچھ آگے جا کر کتابوں کے اسٹال نظر آئے انہی میں ایک اسٹال المکتبہ السلفیہ کا بھی تھا۔ مزید آگے جا کر ایک احاطے کے دروازے میں گھسے، اسے عبور کر چکے تو ایک وسیع و عریض اسٹیج نظر آیا یہ مسجد مبارک کا احاطہ تھا۔ غالباً اسٹیج کے جنوب میں مسجد تھی، جسے بھیڑ کے سبب دیکھا نہ جا سکا۔ مغرب بعد میری خواہش ہوئی کہ ذرا کمر ٹیک لوں کیوں کہ سفر مسلسل اور تگ و تاز پیہم میں آج تیسرا دن گزر چکا تھا، اور ابھی رات میں تقریر بھی کرنے کا نوٹس مل چکا تھا۔ کمر ٹیکنے کے لئے دارالدعوۃ السلفیہ آنا پڑا پھر کوئی ساڑھے دس بجے ہم دوبارہ چوک دالگراں پہنچے، اور قدرے توقف کے بعد مسجد مبارک کا رخ کیا، گلی کھچا کھچ بھری تھی۔ احاطے کے دروازے میں قدم رکھا تو آگے بڑھنا دشوار نظر آیا۔ مگر ہمارے میزبان ہمیں کسی قدر آسانی سے پہلا مرحلہ پار کرالے گئے۔ البتہ دوسرامرحلہ جس کے وسط میں اسٹیج تھا، مجھے پار کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ مگر ہمارے میزبان لوگوں کو ہٹاتے کھسکاتے اسٹیج تک اور کئی منٹ بعد اسٹیج پر پہنچانے میں کامیاب ہوہی گئے۔ اسٹیج پر گوشے گوشے سے آئے ہوئے علماء اور اعیان جماعت کا ہجوم تھا۔ ہمارا راستہ اسٹیج کے دائیں سے تھا، سامنے کتنا اور کہاں تک ہجوم تھا، اس کا پتہ لگانا مشکل تھا۔

اسٹیج والے احاطے میں قدم رکھتے ہی دیکھا کہ ایک شخص شلوار اور قمیص پہنے، آستین چڑھائے، انگلی ڈیڑھ انگل چوڑی خشخشی ڈاڑھی کی پٹی سجائے، ننگے سر لاؤڈاسپیکر پر گرج رہا ہے بریلویوں سے اپنا اور اپنی جماعت کا تقابل کرتے ہوئے انھیں للکار رہا ہے، تڑپ رہا ہے اور دھاڑ رہا ہے۔ اچانک اس کی گرج اور تڑپ نے آندھی اور طوفان کا خروش پکڑا اور اس نے ایک فقرے کے آخری اجزاء ذرا کھینچ کر ادا کیے۔ اتنے میں اسٹیج کے بائیں کونے سے ایک شخص نے گولا پھینکنے کے انداز میں ہاتھ جھٹکا، اور نعرہ لگایا۔ ’’مسلک اہلحدیث‘‘ جواب میں شور بلند ہوا زندہ باد پھر نعروں پہ نعرے لگتے گئے۔ مسلک اہلحدیث !زندہ باد ’’کتاب وسنت !زندہ باد‘‘ ’’علامہ احسان الہی ظہیر !زندہ باد‘‘اس وقفے میں مقرر نے اچھی طرح دم لے لیا تو پھر لاؤڈاسپیکر کا رخ کیا اور پھر وہی گرج تڑپ، للکار، چیلنج اور نعرے۔ ہمارے پہنچنے کے کوئی نصف گھنٹہ بعد تقریر ختم ہو گئی۔ مقرر نے ٹوپی لگائی، صدری پہنی، اور بیٹھ گیا۔ مگر اس سے پہلے کہ کسی کواسٹیج پر مدعو کیا جاتا، پھر اٹھ گیا، اور بولا۔ ’’اگر جماعتی اتحاد کے لئے میری قربانی کی ضرورت ہے تو میں اپنے تمام جماعتی عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس اعلان سے اسٹیج اور سامعین میں تھوڑی جنبش ہوئی۔ میاں فضل حق صاحب کو آوازیں دی گئیں …انھوں نے بڑھ کر کچھ کہا۔ اس دوران جنبش، ہلچل میں بدل چکی تھی۔ سامعین سے استعفاء اور قیام اتحاد کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسٹیج سے جو کچھ کہا جاتا تھا اس پر نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ میاں صاحب کے بعد مولانا معین الدین لکھنوی، مولانا عبداللہ، مولانا عبدالقادر روپڑی مولانا عطاء اللہ ثاقب غرض متعدد افراد تشریف لائے، مگر ’’شورش‘‘ نہ رکی، ایک صاحب نے آ کر کچھ مخصوص انداز میں خطبہ اور سورۂ فیل کی تلاوت کی، مگر انھیں تقریر کئے بغیر ہی بیٹھ جانا پڑا۔ بالآخر ایک صاحب نے بڑی سنجیدگی سے قانونی پیچیدگیوں کا سہارالے کر سمجھایا کہ ہم درحقیقت دل سے استعفاء دے چکے ہیں۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ ہم نے ایک دوسرے سے سلام اور مصافحہ کیا، گلے ملے، اور ایک ساتھ ہی ایک لائن میں بیٹھے ہیں آپ اطمینان رکھیں کہ ایک متحدہ جمعیۃ کا ڈھانچہ تیار کر کے بقیہ جمعیتیں تحلیل کر دی جائیں گی، یہ ہمارا قطعی فیصلہ ہے اور ہم آپ سے اس کا پورا عہد کرتے ہیں۔ اس پر عوام نے مطالبہ کیا کہ اس کام کے لئے مدت کی تعیین کر دی جائے چنانچہ بڑی رد و قدح کے بعد ایک ماہ یا پندرہ دن کی مدت طے ہوئی، اور اس پر شورش فرد ہوئی۔

اب پھر وہی صاحب تشریف لائے، جنھوں نے سورۂ فیل کی تلاوت کی تھی۔ اب بھی انداز وہی تھا۔ خطبہ کے بعد پنجابی زبان میں تقریر شروع ہوئی۔ رنگ و آہنگ، للکار و پھٹکار اور چیلنج کا وہی عالم تھا، جو پچھلی تقریر کا تھا۔ احمد رضا خاں کی تحریروں کے حوالے سے ثابت کیا جا رہا تھا کہ اس مذہب کی بنیاد، خدا کی توہین، رسول کے ساتھ گستاخی، قرآن کے انکار، صحابہ کی بے ادبی اور مسلمانوں کی تکفیر پر ہے۔ یعنی بریلوی مذہب کے یہی پانچ ارکان ہیں۔ تقریر مدلل تھی۔ ہر بات حوالے کے ساتھ کہی گئی تھی، مگر کھال کھینچنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی تھی۔ اچانک میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے سراونچا کیا اور باڑھ ماری : ’’مولانا حبیب الرحمن یزدانی ‘‘! اور جواب میں شور بلند ہوا ’’زندہ باد‘‘ پھر اسی ردیف اور قافیہ پر کئی نعرے بلند ہوتے چلے گئے۔ شور ختم ہوا تومیں نے پاس والے صاحب سے عرض کی کہ ابھی دو خصوصی قافیے باقی رہ گئے ہیں۔ ’’ایک جوش ایمانی اور دوسرا نعرۂ طوفانی ‘‘وہ کچھ سٹپٹاسے گئے۔

مولانا کی تقریر میں عجیب لطیفے تھے، بلکہ خود ان کا سر اپا بھی لطیفہ ہی تھا۔ وہ کبھی سمٹ کر دونوں مونڈھے یوں اچکا لیتے جیسے اڑتا ہوا کبوتر پر سمیٹ کر اتر رہا ہو۔ عبدالستار نیازی صاحب کا ذکر خیر آیا تو نام لینے کے بجائے یوں تعارف کرایا کہ صاحب جن کا طرہ منارہ پاکستان بنا رہتا ہے اور ساتھ ہی چھڑی کا دستہ اپنی گردن سے چپکا کر اس کا سرا اوپر کی طرف کھڑا کر دیا۔ اس دلچسپ منظر کشی پر کوئی شخص اپنی ہنسی کیوں ضبط کر سکتا تھا ؟موصوف کی شاید ایسی ہی کچھ جارحیت تھی کہ جس کے نتیجے میں ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، اور وہ بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ کیوں کہ ’’جارحیت ‘‘ تو خالص بریلوی حضرات کا ’’حق‘‘ ہے۔ وہی ایمان و یقین کے اجارہ دار، جنت و جہنم کے ٹھیکیدار اور روئے زمین پر اللہ اور اس کے رسول کے واحد فوجدار ہیں، پھر یہ بات کیوں کر برداشت کی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص ان کے اس حق جارحیت میں جواباً ہی سہی حصہ دار بننے کی جرأت کرے، مگر مولانا اپنی اس آپ بیتی سے عبرت پکڑنے کے بجائے لمبے علاج کے بعد شفا یاب ہو کر پھر میدان میں اتر پڑے ہیں۔ خدا محفوظ رکھے۔

اس تقریر سے مجھے علم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل بریلوی حضرات نے ’’حجازکانفرنس ‘‘کے نام سے یادگار پاکستان کے میدان میں ایک بڑی زبردست اور اہلحدیثوں کے خلاف حد درجہ جارحانہ کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر اس مید ان میں منعقد نہ کر سکے، بلکہ اس سے بہت دور اپنی کسی مسجد میں منعقد کیا، اور وہاں بھی خدا جانے کیا گڑبڑی ہوئی کہ نا کام وخستہ حال واپس ہوئے، ان کی اسی کیفیت پر یزدانی صاحب نے سورۂ فیل تلاوت کر کے اصحاب فیل کا یہ واقعہ منطبق کیا کہ ابرہہ خانۂ کعبہ تک نہ پہونچ سکا، بلکہ وادی محشر میں چڑیوں کی کنکر باری کا شکار ہو کر واپس بھاگا۔ اور تباہ ہوا۔

اخیر میں شیخ الحدیث مولانا محمدحسین صاحب شیخوپوری مدعو کئے گئے، دراز قامت، توانا تن و توش، گورے چٹے، پر وقار اور بڑھاپے کی دہلیز پر قدم جمائے ہوئے۔ آپ کی تقریر اتنی ٹھیٹھ پنجابی میں تھی کہ میں بہت سی باتیں نہ سمجھ سکا۔ بیان میں زور بھی تھا اور وقار بھی، لطائف بھی تھے اور حقائق بھی۔ تلاوت کا انداز ایسا تھا کہ خاتمۂ آیات پر پہنچتے تو سامعین کی زبان سے بے ساختہ اللہ اللہ اور سبحان اللہ کے الفاظ نکل جاتے۔

اسٹیج پر خاموشی کے ساتھ اعیان جماعت اور اکابر علماء سے میری ملاقات کا اور تعارف کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ میاں فضل حق، مولانا عبدالرحمن مدنی، مولانا عبید اللہ عفیف، مولانا محمدسلیمان انصاری، چودھری محمد یعقوب اور یاد نہیں کن کن بزرگان اور اکابر سے نیاز حاصل ہوا۔ خاتمۂ اجلاس کے بعد ہم کوئی ڈھائی بجے اپنی قیام گاہ واپس آئے۔

دوسرے دن (۳۔ /نومبر ۱۹۸۵ ء سنیچر )صبح کوئی نو بجے عبادسلمہ تشریف لائے کہ ناشتے کے لئے تشریف لے چلیں۔ ہم دارالدعوۃ السلفیہ سے نکل کر موصوف کے مکان کی طرف جا رہے تھے کہ سامنے سے آتی ہوئی ایک خوبصورت ماڈل کی سرخ کار ہمارے سامنے رکی۔ دیکھا تو نورستانی وفد جلوہ افروز تھا۔ ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ لوگ دارالدعوۃ السلفیہ میں ہمارا انتظار کریں اور ہم ناشتے سے فارغ ہولیں۔ وفد نے بھی اس پر صاد کیا۔ مگر مجھے گوارا نہ ہوا کہ ایک سلفی حکومت کے وزیر خارجہ اور قاضی القضاۃ کے اوقات کو اپنے ناشتے پر قربان کروں۔ اس لئے چند ہی قدم بعد میں پلٹ آیا، اور پھر سبھی لوگ پلٹ آئے۔ غزنوی خاندان کا قائم کردہ مدرسہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام یہیں ہے۔ طے ہوا کہ اسی کے ہال میں بیٹھ کر گفتگو ہو کہ یہی پرسکون جگہ ہے۔ تھوڑی دیر گفتگو ہوئی تھی کہ ایک طالب علم نے آ کر کہا کہ مولانا اسحاق صاحب آپ سب حضرات کو اپنے پاس بلا رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ یہیں آ کر گفتگو کریں۔ موصوف ضعیف العمر ہیں۔ علوم و فنون خصوصاً حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس مدرسہ کے شیخ الحدیث ہیں۔ موصوف نے بڑی خاطر و تواضع کی، ناشتے کا بدل بلکہ نعم البدل بھی پورا کر دیا ان کے پاس کھلی فضا اور نرم گرم دھوپ میں بیٹھ کر گفتگو کا بھر پور لطف آیا۔ تفصیل اسی شمارے کے عالم اسلام میں ملاحظہ فرمائیں۔

(فروری ۱۹۸۶ء )

٭٭٭

 

 

 

(اگلا مضمون اس گفتگو کی تفصیل پر مشتمل ہے، یہ مولانا کے اداریوں کا حصہ تو نہیں لیکن چوں کہ مولانا کے سفرپاکستان کی روئداد کا جز ء ہے اور مولانا نے اپنے اداریہ میں اس کی طرف اشارہ بھی فرمایا ہے اس لئے راقم نے اسے سفر پاکستان سے متعلق اداریوں کے بیچ درج کر دیا ہے، آئندہ دو ماہ کے اداریے بھی سفر پاکستان سے متعلق ہیں۔ محمد ساجد اسید ندویؔ)

 

نورستان کی آزاد سلفی حکومت

 

دولت اسلامی انقلابی افغانستان کے وزیر خارجہ اور چیف جسٹس سے ملاقات

 

چھ سال قبل روسی استبدادنے افغانستان پر گہرائی کے ساتھ پنجے گاڑ کر عالم اسلام کو جس درد مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے اس کی ٹیس ہمارے ملک کے مسلمان بھی برابر محسوس کر رہے ہیں۔ قتل و غارت، تباہی و بربادی، وحشت و بربریت، ظلم و درندگی، سفاکی و خون آشامی کا وہ کون سا نادر فن ہے جو اس سرزمین پر آزمایا نہ گیا ہو لیکن اللہ کے ان شیروں نے جس بے جگری و بے باکی سے اس ناپاک حملے کا مقابلہ کیا ہے اور اب تک کر رہے ہیں اور جس مؤمنانہ جرأت و پامردی سے پہاڑوں اور وادیوں، بیابانوں اور آبادیوں، جنگلوں اور دریاؤں اور میدانوں اور سرنگوں میں انہیں زک پہنچا رہے ہیں وہ بھی تاریخ انسانی کا ایک عجوبہ اور تاریخ اسلام کا ایک تابناک باب ہے۔

ان شیران خدا کے ان ہی کمالات ایمانی کی وجہ سے میری آرزو تھی کہ مجھے بھی کبھی ان کا روئے زیبا دیکھنا نصیب ہو، اور میں بھی کبھی ان وادیوں اور بیابانوں کی سیر کروں۔ ممکن ہے اللہ کی راہ میں کچھ کرنے کی سعادت سے بہرور ہو جاؤں۔ اگر چہ یہ آخر الذکر تمنا پوری نہ ہو سکی مگر پچھلے دنوں جب میں نے پاکستان کا سفر کیا تو بے شان و گمان اس قافلے کے چند مخلص ترین قافلہ ساروں سے میری ملاقات ہو گئی یہ تھے وادیِ نورستان میں قائم سلفی حکومت۔ ’’دولت اسلامی انقلابی افغانستان ‘‘کے مقتدر وزیر خارجہ مولانا محمد ابراہیم صاحب، وسطی نورستان کے امیر اور پوری حکومت کے رئیس القضاۃ (چیف جسٹس)مولانا عبداللہ بن الفضل صاحب اور سعودی عرب میں اس حکومت کی وزارت خارجہ کے نمائندوں کے جواں عزم و جواں سال صدر الحاج عبد العزیز صاحب حفظہم اللہ تعالیٰ وادامہم فی کنفہ ورعایتہہٖ۔

دین و عقیدہ کے رشتے اعلاء کلمۃ اللہ کے مشترک جذبے اور اخوت اسلامی کی تپش نے بالکل ابتدائی ملاقات میں بھی اجنبیت کا احساس ابھرنے نہ دیا۔ ایسامحسوس ہوا کہ ہم مدتوں کے ساتھی ہیں۔ ۳۔ /نومبر روزسنیچر کی صبح اسی احساس اخوت کے ساتھ مدرسہ تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں ہماری مجلس منعقد ہوئی۔ اور مولانا محمد ابراہیم صاحب نے داستان نورستان کے اوراق الٹنے شروع کئے۔ خاموش طبع مولانا عبداللہ بن الفضل پاس ہی بیٹھے تھے جن کے لبوں پر رہ رہ کر ابھرنے والی ہلکی ہلکی مسکراہٹ خوش آمدید کا پیام کہہ رہی تھی۔ انھیں کے متصل مجاہدین کی وردی میں ملبوس الحاج عبدالعزیز بھی تھے جن کے ہاتھ میں تیس گولیوں سے بھری ہوئی مشین گن ان کے مجاہدانہ عزائم کا پتہ دے رہی تھی۔ وہ رہ رہ کر پیٹی الگ کرتے اور گولیوں سے کھیلنے لگتے۔ جواس بات کی علامت تھی کہ دشمن سے محاذ آرائی اس قوم کے لئے بازیچۂ اطفال کی حیثیت رکھتی ہے۔

میری آنکھیں اللہ کے ان شیروں کو دیکھ رہی تھیں جنہیں دیکھنا یقیناً ایمانی سعادت کا ایک حصہ تھا کیونکہ انہوں نے اس روئے زمین پر سب سے بڑی فوجی طاقت کو پسپا کر کے اللہ کے بندوں پر خاص اللہ کا قانون جاری وساری کر رکھا ہے۔

کان مولانا ابراہیم کے ارشادات پر لگے ہوئے مولانا موصوف نے بتایا کہ دسمبر ۱۹۷۹ ء میں روسی افواج کی یلغار کے بعد سب سے پہلے جس خطہ سے ان کے خلاف جد و جہد کا آغاز ہوا وہ ہمارا خطہ نورستان ہے ہم نے سب سے پہلے ہتھیار اٹھایا۔ اور زبردست معرکے آرائیوں کے بعد اپنے علاقہ کو روسی افواج سے پاک کر دیا اور ایک بار یہاں سے حملہ آوروں نے ڈیرہ ڈنڈا اٹھا لیا تو دوبارہ ادھر کا رخ کرنے کی جرأت نہیں کی نورستان صوبہ کز اور نعمان کے مختلف اجزاء پر مشتمل ہے اور قدرتی طور پر تین حصوں پر بٹا ہوا ہے۔ (۱)شرقی(۲)وسطی(۳)اور غربی ہر ایک حصہ کو دوسرے حصہ سے پہاڑوں کا قدرتی سلسلہ جدا کرتا ہے۔ اس کے مشرق میں چترال اور دیر کے پاکستانی علاقے ہیں شمال میں بدخشان کا صوبہ ہے مغرب میں پنجشیر کی وادی اور جنوب میں کز اور نعمان کے کچھ خطے ہیں۔

موصوف نے بتایا کہ اس وقت افغانستان میں تین طرح کے علاقے ہیں۔

(۱)۔ ایک وہ جو مکمل طور پر مجاہدین کے قبضے میں ہیں۔ اور مجاہدین کی مختلف جماعتوں نے مختلف جگہ ان کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔

(۲)۔ دوسرے وہ جو مکمل طور پر روسیوں کے قبضے میں ہیں۔ اور وہاں مجاہدین اپنی کاروائیوں کے لئے چھپ چھپا کر اور بچ بچا کر جاتے ہیں۔ یہ علاقے زیادہ تر بڑے شہروں، ہوائی اڈوں، فوجی پارکوں، چھاؤنیوں اور چوکیوں سے عبارت ہیں۔

(۳)۔ تیسرے وہ علاقے جو عموماً میدان کارزار بنتے ہیں۔ وہ میدانی علاقے اور دیہات وغیرہ ہیں جہاں کسی کا مکمل کنٹرول نہیں۔ جب روسی فوجیں مجاہدین کے زیر اہتمام مقامات کی طرف بڑھتی ہیں تو مجاہدین آگے بڑھ کر انہیں علاقوں میں ان کا ’’استقبال‘‘کرتے ہیں اسی طرح روسی فوجیوں کے قافلے بھی جب اپنے کسی ایک ’’محفوظ‘‘ اڈے سے نکل دوسرے ’’محفوظ‘‘ اڈے کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو عموماً انہیں علاقوں میں ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ مولانا نے بتایا کہ نورستان تک تو روسیوں کی رسائی نہیں ہوپا تی۔ البتہ جب وادی پنجشیر پر حملہ ہوتا ہے تو ہمارے مجاہدین آگے بڑھ کر جنگ میں حصہ لیتے ہیں۔

مولانا محمد ابراہیم صاحب نے بتایا کہ نورستان کی حکومت خالص اہلحدیث حکومت ہے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی مکمل پابندی کرتی ہے۔ یہاں کسی شخص کو اسلام کے خلاف کچھ کرنے کی نہ اجازت ہے نہ جرأت، اس حکومت کی انتظامی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پورے دائرہ حکومت میں ایک شخص بھی ایسانہیں جو نماز نہ پڑھتا ہو۔ یاجس کے چہرے پر بھرپور ڈاڑھی کا مسلمہ اسلامی شعار نہ ہو، انہوں نے بتایا کہ ہمارے دائرۂ حکومت میں ڈاڑھی ترشوانا ہی نہیں بلکہ چھوٹی کرانا بھی جرم ہے۔ اسی طرح صرف نشہ آور چیز ہی کا نہیں بلکہ سگریٹ اور بیڑی کا استعمال بھی جرم ہے۔ اور ہر ایک کی باقاعدہ سزامقررہے، جو پوری پابندی کے ساتھ نافذ کی جاتی ہے۔

اس موقع پر محترم رئیس القضاۃ مولانا عبداللہ بن الفضل نے بھی گفتگو میں شرکت کی آپ نے بتایا کہ نسوار کے استعمال پر چالیس کوڑے حد جاری کی جاتی ہے۔ یہ نشہ آور اشیاء استعمال کرنے کی کم از کم حد ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی مقدارسزاکا ثبوت ہے، سگریٹ کے استعمال پر بطور تعزیردس کوڑے لگائے جاتے ہیں، زنا اور تہمت زنا کی شرعی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ چنانچہ اب تک مختلف اوقات میں زنا کے جرم میں ایک مرد اور دو عورتوں کو رجم کیا جا چکا ہے اور خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے از خود عدالت میں آ کر اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اور یہ خواہش ظاہر کی کہ اس بدکاری کی سزادنیا ہی میں بھگت لیں۔ تاکہ پاک صاف ہو کر اپنے رب کے حضور پہنچیں۔ آہ کس قدر پاکیزہ تھا یہ ایمان کہ خدا کے حضور پاک صاف ہو کر جانے کے لئے اپنی خوشی سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ اور ماعزاسلمی صحابی کی سنت زندہ کر دی جنہوں نے بشری تقاضے کے سبب اس لغزش سے دوچار ہونے پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اہل ایمان کے لئے کردار و عمل کی مشعل روشن کر دی۔

قاضی صاحب نے مزید بتایا کہ زنا کی تہمت لگانے کے جرم میں اب تک چالیس آدمیوں پر حد قذف جاری کی جاچکی ہے۔ حد قذف اسی کوڑے ہے، جو اس صورت میں زنا کی تہمت لگانے والے پر جاری کی جاتی ہے جبکہ وہ اس تہمت کا شرعی ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ قتل کی سزا یعنی دیت اور قصاص بھی نافذ ہے۔

مولانا محمد ابراہیم صاحب نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم اپنے دوسرے تمام افغانی بھائیوں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارا عزم مصمم ہے کہ ہم اللہ کی مدد اور توفیق سے انشاء اللہ روسی فوجوں کو افغانستان سے نکال کر رہیں گے۔ البتہ ہمیں اس کام کے لئے ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے۔ خصوصاً طیارہ شکن توپوں، میزائلوں اور ٹینک شکن راکٹ لانچروں کی سخت کمی ہے بھاری اسلحے ہمارے پاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاوہ ازیں ہم اقتصادی طور پر بھی تباہ حال ہیں۔ اس لئے ہمیں مختلف اشیاء کے کارخانے قائم کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کے لئے بھی آلات اور وسائل کی ضرورت ہے اور خاص نورستان کا یہ المیہ ہے کہ افغان مہاجرین اور مجاہدین کوجو امداد دی جاتی ہے۔ نورستانی اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔

گفتگو کے اخیر میں مولانا ابراہیم نے مجھے تین کتابچے اور چند مطبوعہ اوراق عطا فرمائے دو کتابچے اردو میں تھے (۱)آئینہ نورستان(۲)اور دولت اسلامی انقلابی افغانستان۔ تیسرا کتابچہ آئینۂ نورستان کا عربی ترجمہ تھا۔ مذکورہ دونوں اردو کتابچے محدث ماہ جون جولائی ۱۹۸۴ ء کے مشترکہ شمارے میں شائع کئے جا چکے ہیں صرف بعض مختصر اجزاء کو ساقط کیا گیا ہے۔ لہذا قارئین اس شمارے میں اس کی تفصیلات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

مطبوعہ اوراق میں حکومت نورستان سے متعلق جریدہ فریدہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے دو مضامین کی فوٹو کاپیاں تھیں ان کے علاوہ ’’دولت اسلامی انقلابی افغانستان‘‘کے لیٹر پیڈ پر ٹائپ شدہ دو خطوط بلکہ اعلام نامے تھے۔ ایک سربراہ حکومت مولانا محمد افضل کا جاری کردہ، اور دوسرا مولانا محمد ابراہیم کا جاری کردہ …آخر الذکر اعلام نامہ دو ورقہ ہے۔ مگر افسوس کہ پہلا ورق معلوم نہیں کس کے تسامح سے میرے پاس نہیں ہے۔ ذیل میں یہ چاروں تحریریں ترتیب وار ہدیہ قارئین ہیں۔ ؎۱

 

 

پاک سرزمین پر ! (۲)

 

 

شنبہ ۳۔ /نومبر ۱۹۸۵ ء کو نمائندگان نورستان سے گفتگو ختم ہو چکی تو ایک صاحب نے فیصل آباد چلنے کی دعوت دی۔ یہاں کا ارادہ تو پہلے ہی سے تھا، مگر میری مشکل یہ تھی کہ ابھی لاہور میں میری آمد درج نہیں کرائی گئی تھی۔ اور ان کی مشکل یہ تھی کہ وہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں جاری امتحان کی دوپہر کی نشست میں نگرانی کے لئے فی الفور جانا چاہتے تھے۔ بالآخر طے ہوا کہ دوپہر بعد روانگی عمل میں آئے اس کے بعد میں محترم حافظ احمد شاکر صاحب کی رہنمائی میں سول لائن گیا موصوف اندر اندراج کر رہے تھے اور میں باہر کی دنیا دیکھ رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس جرائم کش ’’مرکز‘‘ کے عین سامنے سڑک کے اس پار اسلامیہ کالج کے گیٹ کی پیشانی پر ایک سیاہ بینر کی پٹی لگی ہوئی ہے، اور اس پر لکھا ہوا ہے کہ ’’اسلامی جمعیۃ الطلبہ کے کارکن شاہنواز کے قاتل کو پھانسی دو ‘‘ جرائم کی روک تھام میں ناکامی اور حصول انصاف میں دشواری و نامرادی کا یہ ’’سیاہ اعلان‘‘ کتنا واضح ثبوت ہے اس کا کہ انسانوں کے لئے ایک روزحساب اور یوم جزا کی شدید ضرورت ہے جہاں عدل و انصاف کے تقاضے ٹھیک ٹھیک طور سے پورے کئے جا سکیں۔ لتجزی کل نفس بماتسعی۔ ؎۱

کوئی چار بجے ہم نے رخت سفر باندھا۔ لاہور میں نوع بہ نوع سواریاں بہت نظر آتی ہیں۔ تانگوں کی تو گویا وہاں فصل بہار ہے۔ مگر رکشے کا کہیں وجود نہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پورے پاکستان میں کہیں رکشا نہیں چلایا جاتا۔ پاکستان نے اپنے شہریوں کی گردن اس ذلت سے آزاد کر دی ہے۔ کاروں، بسوں اور نیم بسوں کا ہجوم رہتا ہے۔ دور دراز کے لئے فلائنگ کوچ کا بڑا معقول انتظام ہے۔ اس کا ہیولیٰ قدرے سبک ہوتا ہے۔ ماڈل خوبصورت، رفتار انتہائی تیز، اندرسردوگرم رکھنے کا سسٹم، سیٹیں ہوائی جہازجیسی۔ ایک اور بس بڑی دلچسپ ہوتی ہے، دائیں بائیں سے اس کی بڑی قدرے پھیلی ہوئی کمان کی شکل میں اس طرح (نیم گولائی لئے ہوئے ہوتی ہے۔ کھڑکی کا شیشہ بھی اس طرح گول ہوتا ہے۔ )کونوں پر ٹین یا کسی سفید دھات کی چادر چڑھی ہوتی ہے، اور اس پر دہلی کے المونیم کے برتنوں پر بنے ہوئے نقش و نگار کی طرح بیل بوٹے منقش ہوتے ہیں۔ بعض بعض بسوں پر مینا کاری اور پچی کاری بھی کی ہوتی ہے، جسے دیکھ کر نوابوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پیچھے کے شیشے پر عموماً مالک یا کمپنی کے نام کے ساتھ اس بس کو طیارہ بھی لکھا جاتا ہے، مثلاً ’’ باجوہ طیارہ ‘‘ ’’بلوچ طیارہ‘‘ دیکھنے میں تو یہ بس کھلونا معلوم ہوتی ہے، مگر رفتار بے حد تیز، سنا ہے اب یہ ماڈل رخصت ہو رہا ہے۔ ہمارا سفر ایسی ہی ایک بس سے ہوا۔

فیصل آباد میں ہم محلہ ساجی آباد اتر کر جامعہ سلفیہ پہنچے تو وہاں عشاء کی نماز ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ضیافت کا انتظام ہو گیا، اور پھر ہم خواب گاہ پہنچے۔ مگر وہاں سونے کے بجائے لاہور سے ساتھ آنے والے میزبان کے ساتھ ڈھائی بجے رات تک گفتگو ہوتی رہی۔ موصوف کا اسم گرامی مولانا اشرف جاوید ہے۔ نئے اہلحدیث ہیں، سرگرم جوان ہیں۔ اپنے خاندان اور گاؤں میں مسلک کی کامیاب نشر و اشاعت بھی کر رہے ہیں۔ جامعہ سلفیہ کے مدرس اور لائبریرین ہیں۔ تاریخ اہلحدیث، خصوصاً تاریخ مجاہدین سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اس تحریک کے بعض بقیۃ السلف سے مل کر بہت کچھ معلومات بھی جمع کر چکے ہیں، اور اسی سلسلے میں ہندوستان آ کر بنگال کے مراکز تحریک دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔

فجر بعد( یکم دسمبر ۱۹۸۵ ء یوم یکشنبہ )مولانا عبدالحمید نشاطی کو اپنی آمد سے مطلع کیا گیا موصوف مدینہ یونیورسٹی کے فضلاء میں سے ہیں اور کتابوں کی نشر و اشاعت کا بڑا پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں۔ دور طالب علمی میں ایک بار بنارس بھی تشریف لا چکے ہیں۔ مدینہ میں ان سے بار بار کی ملاقات رہی ہے۔ وہ اطلاع ملتے ہی جامعہ سلفیہ تشریف لائے، اور ہم سب کو اپنے گھر لے گئے۔ جو محلہ نشاط آباد میں واقع ہے۔ یہاں نشاط مل کی بلند و بالا چمنی ہر آنے والے کے استقبال کے لئے ہمہ وقت مستعدرہتی ہے اور نشان راہ کا کام بھی دیتی ہے۔ یہ کپڑے کی بہت بڑی مل ہے اور فیصل آباد میں اس طرح کی بہت سی ملیں ہیں۔ یہ شہر درحقیقت ایک بہت اہم صنعتی مرکز ہے، جس نے پاکستان کو مختلف مصنوعات کے اندر خود کفیل بنانے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ یہاں بنے ہوئے کمبل اور نوع بہ نوع کپڑے دنیا کے اچھے اچھے صنعتی ممالک کی مصنوعات کے ہم پلہ ہیں، اور پاکستان کے اندر نہایت ارزاں ہیں۔ اس لئے باشندگان پاکستان اس شہر پر ناز کرتے ہیں اور اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم نشاط آباد کی ایک گلی میں مڑے تو بالکل مؤ ناتھ بھنجن کا سماں تھا۔ ہر طرف سے پاور لوم کی آوازیں آ رہی تھیں۔

مولانا عبدالحمید صاحب کے مکان پہنچے تو ان کے برادر عزیز مولانا عبید اللہ بھی آ گئے، جو حسن اتفاق سے ان دنوں سعودیہ سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ میری ان سے اس وقت اچانک ملاقات ہوئی تھی جب میں رابطہ کے تقسیم انعامات سیرت کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہلی بارسعودی عرب گیا تھا، پھر مکہ میں وہ مسلسل ساتھ رہے۔ اب پاکستان میں اچانک ان سے مل کر بے حد خوشی ہوئی، پر تکلف ناشتے کے بعد قدیم شہر کا رخ کیا گیا۔ اس شہرکا اصل نام اپنے آباد کار کے نام کی مناسبت سے لائل پور تھا۔ اور اس کی عیسائیت پرستی کا حال یہ تھا کہ بیچ شہر میں گھنٹہ گھر قائم کر کے مختلف زاویوں سے اس طرح سڑکیں نکالیں کہ یونین جیک کا نقشہ بن گیا۔ مگر شاہ فیصلؒ کے سانحۂ شہادت کے بعد اس کا نام فیصل آباد رکھ دیا گیا۔ میں نے لاہور میں پہلے دن اپنے عزیزسے پوچھا تھا کہ شہر لاہور کی کوئی خصوصیت ہندوستان کے بڑے شہروں سے مختلف نظر آتی ہے ؟تواس نے فوراً کہا تھا کہ یہاں کی سڑکیں بہت کشادہ ہیں، اور واقعی سڑکیں اتنی کشادہ تھیں کہ میدان معلوم ہوتی تھیں۔ مگر میں نے دوسری خصوصیت پوچھی تو وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے۔ بالآخر میں نے ہی کہا کہ یہاں کی عمارتیں کشادہ جگہ لے کر بنائی گئی ہیں اور بلند ہونے کے بجائے عموماً ایک منزلہ اور دو منزلہ ہیں، جس سے شہر چپٹا معلوم ہوتا ہے۔ یہ دونوں خصوصیتیں فیصل آباد میں بھی نظر آئیں۔

ہم نشاط آباد سے روانہ ہو کر گھنٹہ گھر کے قریب اترے، اور بائیں ہاتھ ایک گلی میں چل پڑے، جو اتنی کشادہ تھی کہ اسے سڑک کہنا چاہئے۔ دائیں بائیں گاڑیوں پر مختلف مصنوعات کے ڈھیر لد رہے تھے۔ ہمارے یہاں شہروں میں غلہ لادنے کے لئے ایک بیل گاڑی ہوتی ہے۔ جس میں پہیوں کے اوپر ترتیب سے پیڑے جمائے رہتے ہیں اور وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف سے بالکل کھلی رہتی ہے۔ یہاں بالکل ایسی ہی گاڑیاں تھیں، مگر سائزاور اونچائی کچھ کم اور ان میں بیل کی جگہ گدھے جتے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس گاڑی کو یہاں کی زبان میں ریڑا کہتے ہیں۔ ان میں جتے ہوئے گدھے اتنے بلند قامت تھے کہ پوچھنا ہی پڑا کہ یہ گدھے ہی ہیں یا کسی خاص قسم کے خچر اور گھوڑے ؟بتایا گیا کہ یہ گدھے ہی ہیں۔ اور یہاں ان کا قد و قامت یہی ہوتا ہے لاہور کے دراز قامت گھوڑوں کے مشاہدہ کے بعد اس جدید مشاہدہ پر کتنا تعجب کرتا۔

چند گلیوں (یعنی سڑکوں )سے گزر کر ہمارے میزبان ایک گھرکی سیڑھی پر بلا اجازت چڑھنے لگے۔ ہم نے بھی اقتدا کی۔ ایک ہی مرحلہ کے بعد ایک متوسط حجرے میں ایک جواں عمر عالم تشریف فرما تھے۔ تابناک چہرے پر سیاہ ڈاڑھی نور ٹپک رہا تھا۔ بڑے تپاک سے ملے، معلوم ہوا، مولانا ارشاد الحق اثری ہیں، اور یہ ادارہ علوم اثریہ کا ایک گوشہ ہے، جہاں موصوف حدیث اور علوم حدیث کی کتابوں کی تحقیق کا نہایت گرانمایہ کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ چہرے کی نورانیت غالباً اسی پر خلوص خدمت کا نتیجہ ہے۔ کثراللہ فینا امثالہ۔ موصوف سے غائبانہ واقفیت تھی، مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ ہم دیر تک یہیں بیٹھے رہے، اور مختلف موضوعات کا گویا صحیفہ کھلا رہا۔ دوران گفتگو مولانا اثری نے مسندحمیدی کی ایک حدیث میں ’’مولانا ابو المآثر حبیب الرحمن الاعظمی ‘‘کی خیانت دکھلائی۔ اس کا علم راقم کو کئی سال پہلے ہو چکا تھا۔ لیکن مولانا اثری نے ثبوت کے لئے مجھے مکتبۂ ظاہریہ کے اس مخطوطے کا فوٹو بھی دکھلایا جس سے مولانا حبیب الرحمن نے مسند حمیدی کا متن لیا ہے اس سے تقابل کیجئے تو حضرت ’’علامہ‘‘ کی خیانت بالکل آشکارا ہو جاتی ہے۔ میری خواہش پر مولانا اثری نے اس کی ایک فوٹوکاپی مجھے عنایت فرما دی۔ تفصیلات اسی شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

اثنائے گفتگو ایک اور بزرگ تشریف لائے۔ چہرہ عمر کے ساتھ ساتھ کردار و عمل کی پختگی اور تجربات کی وسعت کا پتہ دے رہا تھا معلوم ہوا مولانا محمداسحاق صاحب چیمہ ہیں جو کبھی جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے نظم ونسق کے ذمہ دار رہ چکے ہیں۔ مولانا بھی شریک محفل ہو گئے مجھ سے مقاصد سفر دریافت فرمایا تو میں نے عرض کی کہ بس یہی جماعتی اداروں کا عموماً اور رزم گاہ بالاکوٹ کا خصوصاً مشاہدہ کرنا، جماعتی شخصیات سے ملنا ملانا، فرمایا، قریب ہی ماموں کانجن میں ایک ادارہ جامعہ تعلیم الاسلام ہے، اسے دیکھ لیں۔ یہ بھی بالاکوٹ ہی کی ایک کڑی ہے اسے دیکھے بغیر بالاکوٹ کا سفر ادھورا رہے گا۔ اس اطلاع نے سمندشوق کے لئے مہمیز کا کام دیا، اور وقت کی تنگ دامانی کے باوجود اگلے دن وہاں چلنے کا پروگرام میں نے قبول کر لیا۔

نیچے سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی، اور ہم ظہر کی نماز کے لئے تیار ہو گئے۔ فرض کے بعد مجھے کچھ اپنے دیار کے احوال سنانے کا حکم دیا گیا۔ تعمیل میں میں نے چند جملے عرض کئے۔ اور اس کے بعد ہم نے شہر کے بعض دوسرے مقامات سے گزر کر واپسی کی راہ لی۔ نشاط آباد پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ نماز پڑھ کر پر تکلف کھانا تناول کیا گیا۔ اور اس کے بعد ہم اگلے پروگرام کے لئے تیار ہو گئے۔ میری خواہش تھی کہ مولانا عبدالغفار حسن صاحب رحمانی مدظلہ اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب سے ملوں۔ اور جامعہ تعلیمات اسلامیہ کا مشاہدہ کر لوں۔ میزبان فیصل آباد زرعی کالج یا یونیورسٹی بھی دکھلانا چاہتے تھے۔ مگر ہماری روانگی میں قدرے تاخیر ہو گئی۔ مغرب کی نماز جامعہ سلفیہ ہی میں پڑھی گئی۔ اس کے بعد ہماری پہلی منزل مولانا عبدالغفار حسن صاحب رحمانی مدظلہ کا دولت کدہ تھا، مگر وہی آخری منزل بھی ثابت ہوا۔ مولانا بڑے تپاک سے ملے اور احوال پاکستان اور یاد ماضی کا دفتر کھول دیا۔

مولانا نے پاکستان میں قوانین کے ’’اسلامیزیشن ‘‘کے عمل کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے بڑے نپے تلے الفاظ میں مسلم جماعتوں کے خیالات اور کردار و عمل کا نقشہ کھینچا :فرمایا کہ اس وقت ہمارے یہاں تین طرح کی باتیں پائی جا رہی ہیں (۱)غالیانہ شدت (۲)ملحدانہ جدت(۳)مجرمانہ غفلت، پھر ہر ایک کی تشریح کی۔ فرمایا کہ غالیانہ شدت دیوبندی اور بریلوی حضرات میں پائی جا رہی ہے۔ ان کا نہایت شدت سے اصرار ہے کہ پاکستان میں خالص فقہ حنفی نافذ کی جائے اور حرف بہ حرف نافذ کی جائے۔ اس ضمن میں مولانا نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں قسامت کے قانون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ (قسامت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان کسی جگہ مقتول پایا جائے، لیکن قاتل کا پتہ نہ ہو۔ تاہم مختلف ذرائع سے بعض افراد کا ملوث ہونا بالکل ظاہر ہو۔ ایسی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر مقتول کے اولیا ء اور متعلقین میں سے پچاس آدمی ایسے شخص کے متعلق قاتل ہونے کی قسم کھالیں تواس سے مقتول کا خونبہا لینے کے حقدار ہو جائیں گے، لیکن اگر وہ قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوں تو جس شخص پر قاتل ہونے کی تہمت ہے، اس کے پچاس آدمی قسم کھائیں گے کہ نہ ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا علم ہے، اور وہ قتل کے الزام سے بری ہو جائیں گے۔ اور بری ہونے کے معنی ظاہر ہیں کہ ان سے خون بہا نہیں لیا جا سکتا۔ ) لیکن معلوم نہیں کس بنیاد پر علماء احناف کا اصرار تھا کہ اس کیس میں اگر قتل کے ملزم کے پچاس آدمی قسم کھالیں تب بھی ان سے خون بہا لیا جائے گا، مولانا نے بتلایا کہ اس معاملہ پر ان لوگوں نے فضا کو سخت جذباتی بنا دیا تھا، اور اس تجویز کو قبول نہ کرنے کے معنی وہ یہ قرار دے رہے تھے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سمیت تمام فقہاء احناف کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود قانون دانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس تجویز کو اپنی حلق سے اتار نہیں پا رہا تھا، اور فضا جذباتی ہوتی جا رہی تھی۔

مولانا نے بتلایا کہ عام کتب احادیث کو لئے لئے تو سفرکیا نہیں جا سکتا، اس لئے میں بلوغ المرام رکھ لیا کرتا ہوں کہ اختصار کے باوجود وہ بہت جامع کتاب ہے۔ میں نے اس کتاب کے حوالہ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ پیش کیا، جس کا الزام یہود پر تھا، مگر ان کے قربتدار قسم کھانے پر آمادہ نہ تھے (کیوں کہ انھوں نے کسی یہودی کو قتل کرتے دیکھا نہیں تھا)اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکومت کی طرف سے اس کی دیت ادا کر دی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں نے اس حدیث کو پیش کر کے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ یہی ہے، اور آپﷺ کا فیصلہ قبول کرنے میں کسی کی توہین نہیں۔ قانون داں طبقے نے اس بات کو بڑے انشراح صدر کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ یہ بات جواس حدیث سے ثابت ہوتی ہے یہ البتہ قانونی ضابطوں اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ نظریاتی کونسل کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوا۔

ملحدانہ جدت کی توضیح کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ اسلامی قانون سازی کے عمل میں ایک ایسا طبقہ پوری قوت کے ساتھ دخیل ہونے کے لئے کوشاں ہے جو مغرب کے تمام الحادات کو اسلامی جامہ پہنا کر اسلامی قانون کا نام دے رہا ہے۔ یہ طبقہ قرآن و حدیث میں حیرت انگیزقسم کی تراش خراش سے کام لے رہا ہے۔ اس نے اپنے گھڑے گھڑائے ضابطوں سے حدیث کا بڑا حصہ تویوں ہی ناقابل حجت قرار دے رکھا ہے۔ تھوڑا سا حصہ جواس کے نقطۂ نظر سے احتجاج واستدلال کے دائرے میں آ سکا ہے، اس کی ساری حیثیت پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق چودہ برس پہلے کے عرب کے خالص صحرائی ماحول سے تھا، یہ وقتی حکم تھا اور زمانہ کے تغیر اور تمدن کے ارتقاء کے ساتھ اس کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی۔ مولانا نے بتلایا کہ اس اصول کی بنیاد پر صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن کے صریح اور منصوص احکام و قوانین تک کو بدلنے کی بات کہی جا رہی ہے۔

مولانا نے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ اس انداز فکر کی ساخت پرداخت میں مولانا امین احسن اصلاحی کے غیر متوازن فکری رجحانات کا بڑا دخل ہے۔ اور آجکل ان ہی کا ایک نہایت تیز، طرار، ذہین، ہوشیار اور چالاک شاگرد اس کج فکری کی قیادت کر رہا ہے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے بعض افراد کا بھی یہی رجحان ہے۔ کراچی کے بعض اکابر دیوبند کے صاحبزادگان بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ اور ڈاکٹر اسراراحمدکی دعوت بھی فکری،ا تھل پتھل کا شکار ہے۔ اندیشہ ہے کہ وہ بھی غلط ڈگر پرنہ چل پڑے۔

مولانا نے کہا کہ یہ لوگ غیر مقلد تو ہو گئے مگر اہلحدیث نہ ہو سکے۔ غیر مقلدیت اور اہلحدیث میں عموم خصوص مطلق ہے۔ غیر مقلد عام ہے۔ یعنی غیر مقلد تو ہر وہ شخص ہو جاتا ہے جو تقلید ترک کر دے، مگر اہلحدیث اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ محدثین کے مکتب فکر کو اپنا لے۔ اور عقیدہ و عمل سے لے کر قوانین و ضوابط تک ہر چیز کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھے۔ اسی لئے مولانا امین احسن اصلاحی …کسی حد تک مولانا مودودی …ڈاکٹر اسراراحمد، مولانا حنیف ندوی وغیرہ یہ لوگ غیر مقلد تو ہیں مگر اہلحدیث نہیں۔

مولانا نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں اس طبقہ کی طرف سے جو فکری انارکی یا ملحدانہ جدت ابھر رہی ہے، اور علماء احناف کی طرف سے جس غالیانہ شدت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس کا جواب صرف اور صرف جماعت اہلحدیث کے پاس ہے۔ اسی کے پاس ایسا مضبوط، ٹھوس اور پائدار اصول ہے کہ ایک طرف وہ اس الحاد کا بھی قلع قمع کر سکتی ہے اور دوسری طرف اس شدت اور جمود کو بھی توڑسکتی ہے۔ ادھر جو طبقہ اسلام کو نافذ کرنے اٹھا ہے،اس نے اہلحدیث کے اصول کو یعنی کتاب وسنت کو ماخذ قانون بنایا ہے، اور وہ کسی جانبداری اور عصبیت میں مبتلا ہونے کے بجائے خالی الذہن ہو کرسنجیدگی کے ساتھ کتاب وسنت کی باتیں سننے اور ماننے کو تیار ہے۔ بلکہ ان کی فکری ساخت اسی کا تقاضا کر رہی ہے، جیسا کہ قسامت اور دیگر قوانین کے تعلق سے واضح ہو چکا ہے۔ مگر یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس وقت جماعت اہلحدیث اس فیصلہ کن رول کو ادا کرنے کے بجائے مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ اور اس جماعت کے علماء حکمراں، قانون ساز اور قانون داں طبقے کی اس فکری ہمواری سے فائدہ اٹھا کران کے اندر اس صحیح مکتب فکر کو فروغ دینے اور اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے بجائے قصے کہانیوں پر مشتمل وعظ گوئی اور غیر معقول کشمکش اور کشاکش میں مبتلا ہیں، اور اصل میدان کار سے الگ تھلگ ایک بالکل ہی دوسرے کام میں اپنی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں۔

اس کے بعد مولانا نے بنارس کا تذکرہ کیا۔ موصوف عرصہ ہوا، جامعہ رحمانیہ میں چھ سال تک درس وتدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے دور کے ایک ایک شخص کی خیریت دریافت کی۔ اپنی رہائش کی جگہوں اور گلی کوچوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔ یا دداشتوں کی گویا بیاض کھول دی۔ اور ماضی کے اوراق پارینہ الٹتے رہے۔ خاصی دیر بعد ہم واپس ہونے لگے تو گاڑی نے چلنے سے انکار کر دیا، ہر چند کوشش کی گئی مگر بے سود۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مولانا نے ہماری شام کی ضیافت کر دی، جس کے لئے وہ دیر سے مصر تھے۔ اس دوران نشاط آباد سے گاڑی کے اصل ڈرائیور بلائے گئے گاڑی کو تیار ہونے میں وقت نہ لگا۔ رات ڈھل رہی تھی اور ہم حکیم اشرف صاحب سے ملے بغیر اور جامعہ تعلیمات اسلامیہ نیز زرعی یونیورسٹی دیکھے بغیر ہی واپس ہو گئے جسے اس سفر میں دیکھنا نصیب نہ ہو سکا۔

(مارچ ۱۹۸۶ء )

٭٭٭

 

 

 

 

پاک سرزمین پر (۳)

 

(۲دسمبر دو شنبہ )طلوع آفتاب کے ذرا دیر بعد مولانا محمداسحاق صاحب چیمہ ایک خوبصورت کار لے کر محلہ نشاط آباد پہنچ گئے ناشتہ کیا گیا اور ماموں کا نجن کی راہ لی گئی۔ چوں کہ اب ہمارا سفر دن کی روشنی میں ہو رہا تھا اس لئے نگاہیں گرد و پیش کا جائزہ لے رہی تھیں۔ دیکھا گیا کہ دیہاتوں میں بھی بیشتر مکانات پختہ ہیں۔ کچے اور سفالہ پوش مکانات اکا دکا ہی ہیں۔ مولانا اسحاق مدظلہ نے راستے کے متعدد مقامات کے متعلق بتایا کہ آزادی کے وقت تک وہاں خاصے گھنے جنگلات تھے، بعد میں انھیں آباد اور قابل کاشت بنایا گیا۔ اسی ضمن میں انھوں نے ماموں کانجن کے ادارے کی بھی تفصیلات بتائیں، انھوں نے بتایا کہ اس ادارے کو صوفی محمد عبداللہ صاحب نے قائم کیا ہے۔ ان کے تقویٰ، بزرگی، خداترسی، اخلاص اور للہیت کا اثر یہ تھا کہ لوگوں کو جب علم ہوا کہ موصوف ایک مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو متعدد جگہوں سے پیش کش کی گئی، مگر انھوں نے ہر پیش کش مسترد کر کے ایک ویران، سنسان، الگ تھلگ جنگلی علاقے کو اس کے لئے منتخب کیا۔ کیوں کہ وہی ان کے لئے موزوں ترین جگہ تھی۔

مولانا نے صوفی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری جماعت کے مجاہدین کی جو تنظیم سرحد میں انگریزوں کے خلاف سرگرم جہاد تھی۔ صوفی صاحب اسی کے ایک رکن رکین تھے، ان کی تربیت مولانا فضل الہی وزیر آبادی نے فرمائی تھی مدرسہ قائم کرنے سے ان کا اصل مقصود یہ تھا کہ اس علاقہ میں مجاہدین کی تیاری اور ان کے لئے رقم کی فراہمی کا ایک محفوظ مرکز وجود میں آ جائے اور اسی لئے انھیں زیادہ سے زیادہ گمنام اور دورافتادہ جگہ کی تلاش تھی بعد میں مولانا نے مزید بتایا کہ صوفی صاحب نے خواب میں مدرسہ کا محل وقوع بھی دیکھا تھا کہ اس کے ایک طرف ریلوے اسٹیشن ہے اور دوسری طرف سڑک اور آج واقعۃ ً مدرسہ ٹھیک اسی پوزیشن میں ہے آپ نے یہ بھی بتایا کہ صوفی صاحب شاہ اسماعیل شہیدؒ کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے تھے۔ عموماً یہ فقرہ کہتے کہ دہلی میں ایک مولوی تھا نام تھا اس کا اسماعیل، اور اس کے بعد زار و قطار روتے، صوفی صاحب کا تعارف اسی شمارے میں دوسری جگہ ملاحظہ فرمائیے !

ہم جامعہ تعلیم الاسلام پہنچے تو کوئی چاشت کا وقت تھا، در و بام پر بہار بکھری ہوئی تھی، سلیقہ سے بنی ہوئی صاف ستھری عمارتیں موزوں مقامات پرمتوسط سائزکے درخت، مختلف حصوں میں تقسیم شدہ صحن، اور ان میں سبزے کی رعنائی، دلکشی اور جاذبیت کے ان اسباب کے علاوہ فضا میں دلبستگی اور جذب و کشش کی ایک ایسی ان دیکھی پر تاثیر قوت بھی تھی، جسے قلب و نظر کی دنیا تو محسوس کر رہی تھی مگر اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا نے ہمیں جامعہ کے مختلف تعلیمی اور رہائشی شعبے دکھلائے۔ دوسری منزل پر ایک وسیع ہال دکھلایا، جس میں افغان طلبہ رہائش پذیر تھے۔ بتایا کہ ان کی ایک معقول تعداد یہاں زیر تعلیم ہے۔ اور ان کے رہائشی طور طریق چوں کہ پاکستانی طلبہ سے مختلف ہیں، اس لئے ان کا انتظام انہی کے مزاج کے مطابق، اور پاکستانی طلبہ سے الگ کیا گیا ہے۔ وہاں سے گزر کر کتب خانہ کی طرف چلے تو مولانا نے عمارت کے انداز تعمیر پر توجہ دلائی، اور فرمایا کہ اسے اوپر سے دیکھئے ! عمارت کا مجموعہ لفظ ’’اللہ ‘‘کی شکل میں نظر آئے گا …جامعہ کے ہال کے اوپر کتب خانہ کی وسیع عمارت ہے، اور کتابوں کا وافر ذخیرہ بڑے قرینے سے سجایا ہوا ہے۔ یہاں کی ’’سیر‘‘کے بعد نیچے آئے تو ہال میں خطاب کا انتظام ہو رہا تھا۔ ہم لان کی کھلی اور خوشگوار فضا میں بیٹھ گئے۔ سری لنکا کے بعض طلبہ نے یہاں پر زیر تعلیم اپنے ملک کے طلبہ کی طرف سے شائع کردہ ایک رسالہ اور بعض کتابچے پیش کئے۔ اساتذہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔

باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ مجاہدین میں سے ایک صاحب یہاں موجود ہیں اور وہ یہیں جامعہ کا حساب و کتاب لکھنے کا کام کرتے ہیں۔ میری خواہش پر انھیں بلایا گیا، وہ چھریرے بدن، ستواں چہرے، اٹھتے ہوئے قد و قامت اور ادھیڑ عمر کے تھے۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف کا نام عبد الرب ہے۔ اور ضلع مظفر پور بہار ان کا اصل وطن ہے۔ انھوں نے اپنے گاؤں کا کوئی عجیب غریب سا نام بتایا، جہاں بیراگنیاں اسٹیشن سے اتر کر پہنچا جا سکتا ہے۔ ان کے خاندان کے بقیہ افراد یہیں ہیں۔ مگر اب ان سے کوئی ربط نہیں۔ غالباً ایک بار وہ وطن آئے تھے، اور ایک بار انھوں نے اپنی خیریت کا خط لکھ دیاتو ان کے اعزہ مصیبت میں پھنس گئے۔

میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ …غالباً…۱۹۳۴ ء میں جب وہ جوان عزم وج واں سال تھے۔ صوبہ سرحد تشریف لائے، اور مجاہدین چمر قند میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ اسمست کا مرکز خاندان سمیت رہنے والوں کے لئے تھا اور چمرقند میں مجاہدین کی تربیت ہوتی تھی۔ موصوف نے افغانستان کے تعلق سے مجاہدین کے مختلف کارناموں اور افغان حکمرانوں کی نظر میں مجاہدین کی قدر و عزت کی مختلف تفصیلات بتائیں۔ انگریزوں کے حملہ کے وقت قلعۂ غزنی میں تین سو مجاہدین کی شہادت پھر مختلف محاذ پر انگریزوں کے خلاف افغان مزاحمت میں مجاہدین کی شرکت، انگریزوں کی تباہی کی داستان، مجاہدین کے ساتھ نادر شاہ درانی کے تعلقات، نادر شاہ کے قتل، ظاہر شاہ کی تخت نشینی اور اس زمانہ میں مجاہدین کی کوششیں، یہ سب موصوف کو زبانی ازبر ہیں۔

میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے بھی کسی جنگ میں شرکت کی ؟اور تقسیم کے بعد کشمیر کی جنگ میں مجاہدین کا رول کیا رہا ؟تو انھوں نے بتایا کہ مجاہدین اپنے ساتھ پٹھانوں کو شامل کر کے تین محاذوں پر جنگ لڑی۔ ایک بارہمولہ اور سری نگر کا محاذ اس محاذ پر ہمارے امیر بہ نفس نفیس شریک جنگ تھے، اور ہم نے اتنی پیش قدمی کر لی تھی کہ سری نگر ہم سے چند میل کے فاصلے پر رہ گیا تھا، مگر اسی دوران یہ افواہ اڑی کہ ہندوستانی فوج ٹینک اور ہوائی جہاز لے کر آ پہنچی ہے، اس کے نتیجہ میں پٹھانوں نے واپسی کی راہ لی۔ انھیں روکنے کی ہرچند کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی، کیوں کہ ان کا مستقل وطیرہ یہی ہے وہ جدھر کا رخ کر لیتے ہیں۔ خواہ پیش قدمی کا، خواہ بھاگنے کا روکے نہیں رکتے۔ اس کے نتیجہ میں ہمارے بہت سے مفتوحہ علاقے ہاتھ سے نکل گئے۔

دوسرا محاذ پونچھ کا تھا۔ موصوف نے بتایا کہ اس میں میں بہ نفس نفیس شریک تھا۔ ایک لڑائی میں ہم نے حکمت عملی سے کام لے کر ایک بھی گولی چلائے بغیر سات سو ڈوگرہ فوجیوں کو قید کر لیا تھا۔

تیسرامحاذ میر پور کا تھا۔ یہاں بھی متعدد معرکے ہوئے تھے۔ اس وقت کا عالم یہ تھا کہ نہ کشمیر یوں کے پاس قاعدے کے اسلحہ تھے، نہ پاکستانی رضاکاروں اور فوج کے پاس۔ اس معاملے میں سب سے اچھی پوزیشن مجاہدین کی تھی۔ اور انھوں نے باقی لوگوں کو اسلحے فراہم کیے تھے۔

ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ خطاب کے انتظامات مکمل ہو گئے، اور ہمیں وہاں بلا لیا گیا طلبہ اور مدرسین جمع ہو چکے تھے۔ تلاوت کے بعد خیر مقدمی تقریر ہوئی، اور ’’مہمانوں ‘‘کا تعارف کرایا گیا۔ پھر میزبانوں کی خواہش پر اس ’’مہمان‘‘ نے کچھ عرض کیا۔ جس میں مسلمانوں کے مقصد وجود پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی کیفیت کا جائزہ پیش کیا گیا، اور اس کے تئیں علماء کی عظیم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نیز جماعت اہلحدیث ہند اور جامعہ سلفیہ بنارس کے موجو دہ حالات و کوائف بتائے گئے۔ پھر ظہر کی نماز کے بعد اسی لان پر پر تکلف کھانوں کا دسترخوان چنا گیا اور ناؤ نوش کے بعد واپسی کی راہ لی گئی۔ اساتذہ کرام میں سے مولانا عبدالقادر ندوی اور مولانا قاضی اسلم سیف صاحب نے خصوصاً دوبارہ آمد کی دعوت دیتے ہوئے اس کی تعمیل پر اصرا ر فرمایا دیکھئے اللہ نے کیا مقدر فرمایا ہے۔

فیصل آباد اور اس کے نواح میں جماعت کے اعیان وسربراہان سے ملتے ہوئے جامعہ سلفیہ پہنچے تو مولانا اشرف جاوید منتظر تھے عصر بعد کا وقت تھا، اور جامعہ سلفیہ کی مجلس منتظمہ کی میٹنگ اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ سارے ذمہ داران سے یکجا ئی ملاقات ہو گئی۔ اور طرفین کو بڑی مسرت ہوئی وہیں میاں فضل حق صاحب اور مولانا حبیب الرحمن شاہ صاحب (راولپنڈی )کے ساتھ طے ہوا کہ ہم جمعرات کو صبح دس بجے روالپنڈی پہنچ جائیں اور وہاں سے میاں صاحب کی معیت میں بالاکوٹ کا اس طرح سفر ہو گا کہ بالاکوٹ ہی میں جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔

آج کی رات پھر جامعہ سلفیہ میں گزاری، رات ہی میں میں نے جامعہ کی لائبریری دیکھی۔ صبح سویرے (۳دسمبر/منگل )لاہور واپسی کا پروگرام تھا۔ مگر مولانا عبدالحمید نشاطی کے یہاں کوئی مہمان آ گئے تھے۔ اس لئے ہم ان کے انتظار میں کوئی دس بجے تک رکے رہے۔ اس دوران میں نے جامعہ میں ہر طرف گھوم گھوم کر اس کے در و بام دیکھے۔ جامعہ کے ایک استاد مولانا عبداللہ سے ملاقات ہوئی، جو مالدیپ کے رہنے والے ہیں اور ٹھیٹھ عربی لب و لہجہ میں نماز پڑھاتے ہیں۔ عربی میں گفتگو ہوتی رہی، میں سمجھتا تھا وہ اردو نہیں جانتے مگر انھوں نے اچانک اردو میں گفتگو شروع کر دی۔ معلوم ہوا موصوف جامعہ دارالسلام عمرآباد کے فارغ ہیں، اور اردو وہیں سیکھی ہے۔

جامعہ کے ہال کے کمرے کے سامنے ایک برآمدہ نماسائبان بنا ہے۔ جس کی چھت کے عین بیچ کا اور دونوں کناروں کا حصہ اونچا ہے بیچ اور دونوں کناروں کے درمیان میں سفالہ پوش چھت کی طرح نیچا ہے۔ شکل یوں ہے YYمیں نے سمجھا یہ محض ڈیزائن ہے مگر مولانا اشرف جاوید نے بتایا کہ یہ نشان جامعہ ہے چھت کی بناوٹ ایسی ہے کہ گویا کھمبوں پر دو کتابیں کھول کر رکھی ہیں داہنی کتاب کی جلد کا بایاں کنارہ بائیں کتاب کی جلد کے دائیں کنارہ پر چڑھا ہوا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ ہم دوہی کتابوں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے قائل ہیں اور کتاب اللہ کا مرتبہ بلند ہے۔ میں نے غور کیا تو واقعی یہ چھت دو کھلی ہوئی کتابیں تھیں۔ نیچے جلد کا رنگ ہر بنایا گیا تھا، اور کونوں اور پشت پر چرمی جلد والا چاکلیٹی رنگ لگا ہوا تھا۔

کوئی دس بجے تک انتظار کے بعد نشاطی صاحب سے ملے بغیر ہی ہم نے لاہور کی راہ لی، ہمارے ساتھ کتابوں کا ایک بڑا بنڈل تھا، جسے ساتھ رکھنا ہماری ذمہ داری تھی، مگر کنڈکٹر نے باہر ہی سے تھام کر اپنے پاس رکھ لیا، اور راستے بھر سنبھالتارہا۔ اور جب سنبھالنے میں خلل پڑتا نظر آیا تو اسے ایک نوجوان کے حوالہ کر دیا اور وہ اپنے اوپر رکھ کر لے آیا، اور لاہور پہنچ کر ہمارے حوالہ کیا راستے میں جب کسی بس اڈے پر بس رکتی تو سامان خورد و نوش بیچنے والے بچے اور نوجوان کھڑکیوں کے پاس سامان لئے شور مچاتے پھرتے مگر ان کے پاس گرم چنوں اور مونگ پھلیوں کے بجائے چھیلے ہوئے گنوں کی چھوٹی چھوٹی تراشی ہوئی خوشنما گنڈیریاں اور خشک میووں کی چھوٹی چھوٹی پیکٹیں ہوتیں، یا پھلوں کے خوانچے ہوتے۔

ظہر کے وقت ہم لاہور دارالدعوۃ السلفیہ پہنچے تو شیخ الحدیث مولانا محمدحسین صاحب شیخوپوری حفظہ اللہ کے صاحبزادے فاضل نوجوان، مولانا عطاء الرحمن صاحب حفظہ اللہ تشریف فرما تھے۔ وہ ہمیں اپنے ادارہ میں مدعو کرنے آئے تھے۔ اگلا دن طے ہوا۔ اہل لاہور اور خصوصاً اپنے میزبانوں سے گفتگو کے مواقع شکوہ کی حد تک کم مل سکے تھے۔ لہذا آج دفتر الاعتصام میں کچھ اوقات صرف کئے گئے، اور سرشام تفریح کا پروگرام بن گیا۔ مکتبہ سلفیہ میں مولانا عطاء اللہ ثاقب تشریف فرما تھے، اور انھیں کی اقتداء میں ریس کورس پارک دیکھا گیا، جو بڑے خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا۔ گیٹ سے داخل ہونے کے بعد بائیں جانب فواروں کی ایک لمبی قطار استقبال کرتی ہے، جس میں فواروں کی ہیئت اور رنگت ہر ایک منٹ میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کبھی وہ سروکادرخت بن جاتے ہیں تو کبھی کمانوں کی جالی اور کبھی کچھ اور آگے دور پہاڑی نما اونچائی دکھائی دے رہی تھی، اور اس کے کنارے سے نیلی بتیاں قریب پہنچے تو مصنوعی جھیل تھی۔ میزبانوں کی خواہش پراسٹیمرسے جھیل کا بھی تین چار طواف کیا گیا۔ واپسی پر مزید تفریح کی گنجائش نہ تھی البتہ رات دیر تک مولانا عطاء اللہ حنیف مدظلہ کی خدمت میں بیٹھ کر جماعت کی علمی تاریخ کتابوں کی تالیف و اشاعت اور مختلف علمی موضوعات پر معلوماتی داستانیں سنتارہا۔

۴/دسمبر ۱۹۸۵ ء بدھ کی صبح عزیزم حماد سلمہ کے ہمراہ ٹہلنے کے ارادے سے نکلا تو فیصلہ ہوا کہ علی ہجویری کی قبر عرف ’’مزار حضرت داتا گنج بخش ‘‘دیکھ لیں جو شیش محل روڈ کے بازو ہی میں واقع ہے چند گلیوں سے گزرکرسنگ مرمرسے بنے ہوئے ‘ احاطہ کے ایک فرش پر پہنچے تو دیکھا کہ بیچ میں کھمبوں پرسنگ مرمر کا ایک مختصر ساسائبان ہے اور کھمبوں کی نصف اونچائی تک ہر چہار جانب سے جالیاں لگی ہوئی ہیں، پختہ قبر صاف دکھائی دیتی ہے۔ گرداگرد بیٹھے ہوئے لوگ تسبیح و تلاوت اور دعا و مناجات میں مصروف ہیں، اور کئی ایک جالی سے چمٹے ہوئے مدہوش و بے قرار ہیں۔ بعض قدرے دور بیٹھے ہیں۔ قبر اور اس کا ہر چہار جانب کا صحن خالص سنگ مرمر ہے۔ آگے مسجد ہے جو بالکل جدید ڈیزائن پر نہایت خوبصورت اور چمکتی ہوئی سفید ہے، اور ہنوز زیر تعمیر ہے۔ مسجد کی پچھلی یعنی پوربی دیوار کے صحن مزار اور مسجد کے درمیان حد فاصل ہے۔ محل وقوع ایسا ہے کہ مسجد میں جہاں بھی کھڑے ہوں قبر اور اس کا صحن مکمل طور پر مصلی کے پیچھے اور مسجد سے باہر پڑے گا۔ بتایا گیا کہ منتظمین مزارمسجد کو اس طرح بنوانا چاہتے تھے کہ مزار بیچ مسجد میں پڑے اور آنے جانے والے شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کا طواف کر ڈالیں۔ مگر محکمۂ اوقاف نے وہ صورت اختیار کی جو اوپر مذکور ہوئی۔

قبرپرستی کا مکروہ منظر دیکھ کر ہم دکھنی دروازے سے سڑک پر اترے تو اس کے دوہی قدم بعد احاطہ مزار کا ایک اور دروازہ ملا، جو مقفل تھا، مگرسلاخوں سے اندرونی منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اندر سیڑھی تھی جس کے خاتمے پر پھر دروازہ تھا۔ یہ خوبصورت لکڑی کا تھا، اور اس پر پہلے پتر چڑھے ہوئے تھے اس پر مینا کاری کی ہوئی تھی بتایا گیا کہ یہ پتر سونے کے ہیں اور اسے پاکستان کے مصلوب حکمراں ذوالفقار علی بھٹو نے بنوایا تھا۔ میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ حماد سلمہ نے کہا ’’نیچے دیکھئے ‘‘ادھر نظر کی تو دیکھا کہ اس قدر روپئے پڑے ہوئے ہیں گویا موسم خزاں میں جھڑے ہوئے پتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ شام تک یہ حصہ نوٹوں سے بھر جاتا ہے، واپسی کے لیے بڑھے تو گلی کوچوں میں پھول اور ریوڑی بتاشے وغیرہ اس کثرت سے بکتے نظر آئے کہ ہمارے شہر بنارس کی سب سے بڑی مندر کے گرداگرد گلی کوچوں میں بکنے والے پھول وغیرہ اس کے سانے ہیچ ہیں۔ بتایا گیا کہ جمعرات کو یہاں عورتوں کا بیحد ہجوم رہتا ہے اور پہلے یہ حرام کاری اور عصمت دری کا بہت بڑا اڈہ بھی تھا مگر اب ضیاء حکومت کی پیہم کوششوں سے اس پر کنٹرول ہو رہا ہے۔

ہم مزار کا تماشہ دیکھ کر واپس ہوئے تو میں مولانا عطاء اللہ حنیف مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں حکیم نسیم سوہدروی تشریف فرما تھے، بڑے تپاک سے ملے، سیرت کی تالیف و ترجمہ پر بار بار مبارکباد دیتے رہے چونکہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں اور مدتوں یوپی میں رہ چکے ہیں، اس لئے اپنی زندگی کے اور اق پارینہ بڑی دلبستگی و دلآویزی کے ساتھ الٹتے رہے موصوف نے مولانا ظفر علی خاں مرحوم پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے۔ جس میں ان کے پر آشوب عہد، تقریباً تمام اہم تاریخی واقعات مع پس منظر و پیش منظر آ گئے ہیں، اس لئے مجھے ان سے مل کر بڑی مسرت ہوئی میں نے انھیں ان کے اس کارنامہ پر صمیم قلب سے خراج تحسین پیش کیا۔ موصوف عجلت میں تھے اس لئے جمعہ کے دن ملنے کا وعدہ کر کے تشریف لے گئے۔

دوپہرسے کچھ پہلے حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا محمدسلیمان انصاری حفظہما اللہ کی معیت میں میزبان کی قیادت میں شیخوپورہ کے لئے روانگی عمل میں آئی۔ مدرسہ پہنچے تو ظہر کی نماز ختم ہو رہی تھی نماز پڑھ کر پر تکلف کھانا کھایا گیا، کچھ اعیان جماعت بھی تشریف فرما تھے، جن میں ایک چودھری صاحب جن کا نام یاد نہیں رہ گیا وزارت میں بھی رہ چکے ہیں جماعتی اور غیر جماعتی موضوعات پر عصر تک گفتگو ہوتی رہی، عصر بعد مجھے طلبہ سے خطاب کا حکم ملا اور میں نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے میزبانوں کے تئیں اپنے احساسات، جماعتی فرائض اور ہندوستان میں جامعہ سلفیہ، جمعیۃ اہلحدیث اور دیگر نمایاں جماعتی اداروں کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ بہت سی معلومات صرف طلبہ ہی بلکہ اکابرین جماعت تک کے لیے نئی تھیں جن پر انھوں نے بے اختیار صدائے تحسین بلند کی، اس کے بعد ہمارے میزبان خاص شیخ الحدیث مولانامحمدحسین صاحب شیخوپوری کسی اجلاس کے لیے تشریف لے گئے اور ہم نے لاہور کی راہ لی۔

آج شام نماز مغرب کے بعد مکتبہ سلفیہ میں بیٹھے تھے کہ سیاہ شیروانی زیب تن کئے ہوئے چھریرے بدن اور قدرے لانبے قد کے ایک بے ریش جواں عمر صاحب تشریف لائے اور ایک زبان زد روایت تخلقوا باخلاق اللہ۔ کا حوالہ پوچھا۔ میں نے یہ سمجھ کر کہ غالباً کسی حجت بازی کا شوق پورا کرنے لئے یہ حوالہ مطلوب ہے۔ یہ بتلایا کہ یہ حدیث صوفیوں کی کسی کتاب میں موجود ہو گی اور اتنے ہی پر ٹالنا چاہا۔ مگر انھوں نے یہ کہہ کر میری توجہ کتاب سے اپنی طرف کھینچ لی کہ میں مشکوٰۃ اور صحاح ستہ کو دیکھ چکا ہوں اور اس میں یہ حدیث نہیں ہے، پھر انھوں نے کہا کہ مجھے اس شکل میں دیکھ کر لوگ یونہی ٹال دیتے ہیں کہ کوئی لغو آدمی ہو گا، حالانکہ میں نے اس سے پہلے ایک حدیث کی تلاش میں چھ مہینے گذار دئیے اور کئی سوکتابیں کھنگال کر بالآخر وہ حدیث ڈھونڈ نکالی۔ میری کوشش ایسی ہی ہوتی ہے پھر موصوف کے تعارفی کلمات سے معلوم ہوا کہ آپ کا نام محمد منیر مغل ہے اور آپ لاہور عدالت میں جج ہیں اور انصاف حق، پسندی اور علم دوستی کے لئے معروف کہنے لگے ایک کیس میں ایک بزرگ نے سفارش کی۔ کہا بچے ہیں بچکانہ حرکت کر گئے ہیں اور ساتھ ہی راز داری برتنے کو بھی کہا، میں نے کہا ایک میں ہوا ایک آپ، دو میرے کراماً کاتبین، اور دو آپ کے، تین مجرمین ہیں، اور ایک اوپر والا(اللہ تعالیٰ) کل دس جاننے والے ہوئے پھر راز داری کیسی؟اور جنھیں آپ بچہ کہتے ہیں وہ توسیانوں سے بھی بڑھ کر نکلے اس پر وہ مایوس واپس ہو گئے، موصوف نے ایک قادیانی کا کیس سنایاجس میں وہ اپنے آپ کو بحیثیت مسلمان پیش کر رہا تھا، اور اس پر اعتراض ہوا تو کہنے لگا کہ ہم بھی اسلام کے ماننے والے ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ میں نے کہا اگر تم اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ قرار دو گے تومیں خود تمھیں مرتد کی سزا کے طور پر چھری سے ذبح کر دوں گا۔

اس اثنا میں ہم نے مکتبہ سلفیہ کی بہت سی کتابیں دیکھ ڈالیں۔ مگر حدیث نہ ملی تومیں نے حماد سلمہ سے کہا کہ دادا جان(مولانا عطاء اللہ حنیف) سے حوالہ پوچھ آؤ، جسٹس صاحب کہنے لگے نہیں نہیں، ہم خود چلتے ہیں اور اس کے بعد ہم مولانا کے مکان پر منتقل ہو گئے۔ سلام و مصافحہ اور صحت پرسی کے بعدجسٹس صاحب نے حرف مدعا پوچھنے کے بجائے بچوں کی طرح مولانا کا جسم دبانا شروع کر دیا اور دیر تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ ساتھ ساتھ مزاج پوچھتے اور دعائیں بھی دیتے جاتے تھے ایک جدید تعلیم یافتہ جسٹس سے علم اور علماء کا یہ احترام دیکھ کر نہایت خوشگوار حیرت ہوئی، اخیر میں موصوف نے مطلوبہ حوالہ دریافت کیا۔ مولانا کا جواب بھی وہی تھا کہ تصوف کی کسی کتاب میں یہ روایت ملے گی۔

صبح (۵/دسمبر ۱۹۸۵ء بروز جمعرات)کو مولانا کی خدمت میں آمدورفت ہوئی۔ لاہور کو انگریزی دور ہی سے ایشیا کا لندن کہا جاتا ہے مجھے معلوم نہیں کہ شہر کے اور حصوں میں عورتوں کی بے پردگی اور آمدورفت کا کیا حال لیکن اپنی قیامت گاہ کے علاقہ میں اب تک میں نے دیکھا کہ بے پردہ اور باپردہ دونوں طرح کی خواتین کی آمدورفت بہت ہی کم ہے۔ مگر آج جمعرات کو دیکھا کہ بے پر دہ اور باپردہ مسلم خواتین، بچوں سمیت اور بغیر بچوں کے بھی ہجوم در ہجوم شیش محل روڈ عبور کر کر کے ’’داتا دربار‘‘ کی طرف چلی جا رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ واعاذکل المسلمین من براثن ھٰولآء المضلین۔ وھداھم الی صراط المستقیم۔

کوئی نودس بجے مولانا عبدالرحمٰن صاحب مدنی دارالدعوۃ السلفیہ تشریف لائے اور اپنے ہمراہ ماڈل ٹاؤن لے گئے، یہ جدید لاہور کا ماڈرن ایریا ہے۔ یہاں پہنچنے سے قبل ہم راستے میں متعدد قابل ذکر مقامات سے گزرے۔ خصوصاً مال روڈ جس کا نام اب شاہراہ قائد اعظم ہے۔ اور جس کے داہنے کنارے پر لاہور جمخانہ ہے جواب قومی لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ پورا علاقہ نہایت شاداب خوبصورت اور قابل دید ہے۔ سڑکوں کی عمدگی، کشادگی، صفائی اور درختوں کی پر کیف روش، قابل رشک ہے ماڈل ٹاؤن اور گارڈن ٹاؤن، ایک دوسرے سے لگے ہوئے ہیں اور ابھی زیر تعمیر ہیں۔ ہماری گاڑی جس عمارت کے سامنے رکی اس پر ’’المعھد العالی للشریعۃ والقضاء‘‘کا بورڈ آویزاں تھا۔ یہ لاہور کے ایک اہم ادارہ کا ایک حصہ ہے، اسی عمارت میں مجلس التحقیق الا سلامی کا دفتر بھی ہے جس کی نگرانی میں عرصہ سے ماہنامہ محدث لاہور شائع ہوتا آ رہا ہے۔

مولانا مدنی نے تفصیلات ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے ہمارے یہاں مکتب کی ابتدائی تعلیم اور حفظ اور عربی کی تعلیم ہوتی تھی ادھر جب سے پاکستانی میں اسلامی دستور کے نفاذ کا مرحلہ پیش آیا ہے، تجددپسند طبقہ کمیونزم کے اصولوں یا مغرب کے افکار و نظریات کو اسلام کے نام پر پیش کرنے اور اسے اسلامی قانون بنوانے پر تلا ہوا ہے، یہ طبقہ خاص خاص اسلامی قوانین و احکام میں طرح طرح کی تشکیک بھی پیدا کرتا ہے اور غیر اسلامی افکار و قوانین کو اسلامی ثابت کرنے کے لیے اسلامی قوانین کے مآخذ و مصادر میں طرح طرح کی تحریف و تاویل بھی کرتا ہے، اور انھیں مشکوک نیز معتبر اور وقتی بھی بتاتا ہے، لیکن حنفی علماء ان سب سے آنکھ بند کر کے فقہ حنفی کی تنقید کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، (یعنی جو کچھ مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے فرمایا الفاظ اور جملوں کے فرق کے ساتھ مولانا مدنی مدظلہ نے بھی وہی بات دہرائی اور فرمایا) ان حالات کے پیش نظر ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں عربی مدارس کے فضلاء اور کالج اور یونیور سیٹیوں کے تعلیم یافتہ غرض دونوں طبقوں کو اسلامی قوانین کی تعلیم دی جائے …بین الاقوامی قوانین سے تقابل کر کے اسلامی قوانین کی برتری بھی ثابت کی جائے، اس کے بغیر اس طوفان بلا خیز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اسی مقصد کے لئے ہم نے المعہد العالی للشریعۃ والقضاء قائم کیا، اور فیصلہ کیا کہ دونوں طبقے سے برابر برابر طلبہ کو داخل کیا جائے گا۔ الحمدللہ یہ بروقت اقدام اس قدر مقبول اور قابل توجہ ثابت ہوا کہ ہم نے داخلہ کا اعلان کیا تو ہمارے اندازے اور بساط سے کوئی سات آٹھ گنا زیادہ درخواستیں آ گئیں، اور ہر چند چھٹائی کی گئی پھر بھی اپنے مقررہ اندازے سے کوئی تین گنا زیادہ طلبہ کو داخل کرنا پڑا۔

مولانا نے مکتبہ اور عمارت کے دوسرے حصص کو دکھلاتے ہوئے بتایا کہ ہر طالب علم کو اسلامی قوانین سے متعلق کسی خاص موضوع پر ایک اہم مقالہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ جس کے بغیر اسے کامیاب نہیں قرار دیا جا سکتا، پھر آپ نے مجھے ایک الماری دکھلائی جو طلبہ کی طرف سے اس قسم کے پیش کئے گئے، مقالات سے بھری ہوئی تھی، آپ نے کئی اہم مقالات بھی دکھائے جو اسلامی قوانین کے تعلق سے نہایت اہم تھے اور واقعی محنت و جانفشانی، نکتہ رسی، تحقیق، اور بحث کا حق ادا کر دیا گیا تھا، ان میں سے بعض بعض تو پاکستان کے موجودہ مرحلہ کے لئے نہایت اہم اور فیصلہ کن تھے۔ چنانچہ مولانا مدنی مدظلہ نے بتایا کہ ان خاص مقالات کو حکومت پاکستان نے خود شائع کرنے کے لئے ہم سے طلب کیا ہے، بہرحال یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ کتب حدیث و فقہ کے وہ ابواب جو ہمارے ہندوستانی مدارس میں عام طور پر متروک ہوتے جا رہے ہیں، مثلاً بیوع، قضا، امارت، خراج، معاملات، وغیرہ وغیرہ۔ اب پاکستان میں ان پر پورا زور صرف کیا جا رہا ہے اور خوب خوب داد تحقیق دی جا رہی ہے اور مولانا مدنی مدظلہ خصوصاً قابل مبارکباد اور لائق تحسین و آفرین ہیں کہ اس فکری الحاد کے سامنے بندہ باندھنے کے لئے موصوف نے ایک ٹھوس اور پائدار قدم اٹھایا ہے جس کے اثرات ان شاء اللہ دوررس اور مفید ہوں گے۔

یہاں سے مولانا مدنی ہمیں مدرسہ رحمانیہ لے گئے، جو تھوڑے ہی فاصلہ پر ہےس کی عمارت ایک احاطہ کے اندر نہایت خوشنما انداز سے بنائی گئی۔ اور اسی میں ایک مسجد بھی ہے۔ عمارت اور مسجد دونوں ہی فنی خوبیوں کے لحاظ سے جدید انجینئرنگ کی حسن کاری کا نمونہ ہیں وہیں ظہر کی نماز پڑھی گئی اور پوری عمارت کا مشاہدہ کیا گیا۔ ایک گوشے میں مطبخ بھی تھا، جہاں معروف طرز کے عمارتی گیس چولھے تو تھے ہی، ایک جگہ ایک بڑے تنور میں الاؤ جل رہا تھا۔ مولانا نے بتایا کہ یہ الاؤ گیس کے ذریعہ جل رہا ہے، پھر ایک پائپ لائن دکھلائی جو بالکل ہمارے یہاں کی پانی کی پائپ لائن کی طرح تھی، بتایا کہ اس پائپ سے براہ راست چولہے اور تنور میں گیس پہونچتی ہے، ایک گوشے میں اس کے میٹر اور بٹن وغیرہ دکھلائے۔ واقعی قدرت کے اس عطیہ نے پاکستان میں ایندھن کا مسئلہ خاصا حل کر دیا ہے، مکانوں، ہوٹلوں اور چائے خانوں وغیرہ میں اس کا استعمال اس قدر عام ہے، اور ہر جگہ پائپ لائن کے ذریعہ مسلسل چوبیس گھنٹے اس طرح اس کی سپلائی ہوتی ہے کہ آدمی اس کے انتظام کی فکر سے بے نیاز ہو چکا ہے۔

مولانا مدنی نے بتایا کہ اس وقت ہم تین ادارے چلا رہے ہیں (۱) مدرسہ محمدیہ نیچے کی تعلیم اور حفظ قرآن کے لیے (۲) رحمانیہ دینی تعلیم کے لیے (۳)المعہد العالی للشریعہ والقضاء علوم شرعیہ اور قوانین اسلامیہ کے ماہرین کی تیاری کے لیے۔ اس کے علاوہ مجلس التحقیق العلمی کے تحت بحث و تحقیق کا کام ہوتا ہے اور ماہنامہ محدث نکلتا ہے۔ ان سب کے مجموعہ کو ہم نے جامعۃ لاہور الاسلامیہ کے نام سے موسوم کیا ہے، موصوف نے بتایا کہ اس پورے ادارے کا سالانہ خرچ دس لاکھ روپئے ہے اور یہ پورا خرچ ہمارا خاندان برداشت کرتا ہے۔ ہم کسی سے چندہ نہیں لیتے رحمانیہ کی عمارت کوئی ۳۷/لاکھ روپئے میں تیار ہوئی ہے اور اس میں امارات کے حاکم کی ایک جزوی امداد کے سوا کسی سے کوئی رقم نہیں لی گئی۔

حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ، مولانا عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ان کے بھتیجے ہیں۔ کل چار بھائی ہیں تین بھائی صنعت اور تجارت کو سنبھالے ہوئے ہیں اور مولانا مدنی حفظہ اللہ کو مذکورہ اداروں کا انتظام سونپ دیا ہے، ان لوگوں کا اصل کام پائپ سازی کی صنعت ہے اور اس سلسلے میں اتنی پیش رفت کر چکے ہیں کہ اب بے جوڑ کا پائپ بنانے کا اقدام کرنے جا رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے بتایا کہ یہ پورے عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا پہلا کارخانہ ہو گا۔ اس کے لئے فرانس سمیت یورپ کے متعدد ممالک سے گفتگو کی گئی۔ یہ لوگ مشینیں اور ماہرین دینے پر تو آمادہ ہو جاتے تھے مگر ٹیکنالوجی فراہم کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ چین ٹیکنالوجی بھی دینے پر تیار ہو گیا ہے، اس لئے اس سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ مولانا اسی سلسلہ میں پاکستانی بینک سے تیس پینتیس کروڑ روپئے قرض لینے کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ غیر سودی قرض کی جو صورتیں بینک نے پیش کیں شرعی نقطۂ نظر سے ان میں سے کسی بھی صورت سے ہم مطمئن نہیں تھے، اس لئے ہم نے قرض نہ لیا۔

مولانا نے تمام صورتوں کی تفصیلات بتائیں تو ان میں سے بعض صورتوں میں مجھے کوئی قباحت نہ محسوس ہوئی تاہم میں ان حضرات کے کمال احتیاط اور تقویٰ سے بے حد متاثر ہوا کہ ان کی اتنی بڑی صنعتی فرم ہے جس کا تجارتی اور غیر تجارتی لین دین بین الاقوامی پیمانے کا ہے، اس کے باوجود انھوں نے سودی معاملات سے دوری اور دامن کشی کے لئے جس احتیاطی روش کو اپنایا ہے وہ یقیناً اس دور میں اسوہ و نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے، اللہ برکت دے اور اس قسم کے اصحابِ عزیمت مسلمانوں کی کثرت کرے۔

دوپہر کا کھانا مولانا مدنی مدظلہ کے یہاں کھایا گیا، اور عصر کے بعد موصوف کی رہنمائی میں بین الاقوامی شہرت کی حامل مغل یادگار شالامار باغ کی تفریح کی گئی، اس کے در و دیوار سے کہنگی کے آثار نمایاں ہو چکے ہیں ایک تختے پراس کی تعمیر، ابتداء ً لگائے گئے درختوں کی نوعیت اور تعداد اور بہت سی دیگر تفصیلات درج ہیں۔ ایسا ہی اندراج شاہی مسجد کے گیٹ والے حجرے میں رکھے ہوئے تبرکات کے سلسلے میں بھی دیکھا گیا تھا۔ آج ہمارے رفقاء میں مولانا عزیز زبیدی حفظہ اللہ بھی تھے، بڑھاپے میں قدم رکھتی ہوئی عمر، چہرے مہرے سے سلامت طبع کا نمونہ اور وضع قطع ایسی سادہ کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کا گوہر بار قلم نوع بہ نوع مسائل کے نوک پلک سنوارنے میں اس قدر پختہ ہے کہ موصوف کے مضامین رسالوں کی بلندی معیار کی ضمانت ہیں افسوس! مولانا کے ساتھ بہت مختصر ملاقات رہی اور ایسی مشغول کہ تفصیلی تبادلۂ خیال نہ ہو سکا، مولانا نے صحیح بخاری کا ایک حاشیہ بھی مولانا عطاء اللہ حنیف حفظہ اللہ کی حسب فرمائش رقم فرمایا ہے جو مکمل ہو چکا ہے۔

شالامار باغ سے واپس آ کر مغرب کی نماز لاہور زرعی کالج کی مسجد میں پڑھی گئی یہ مسجد بھی جدید انجینئرنگ کی سادگی اور پرکاری کا نمونہ ہے۔ یہاں سے پروفیسر سعید صاحب بہ اصرار اپنے دولت کدہ پر لے گئے جو زرعی کالج ہی کے گراؤنڈ میں واقع ہے۔ موصوف اس کالج میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں اور آپ ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ اس کالج میں اسلامیات کے جتنے استاذ ہیں سب کے سب اہلحدیث ہیں، پروفیسر سعید صاحب سے میری ملاقات پہلے پہل مدینہ میں ہوئی تھی جہاں وہ زیر تعلیم تھے۔ آپ ہی کا یہ کارنامہ تھا کہ پاکستان کی جماعت اہلحدیث کے مخالف گروپوں کی دن رات کی جہد پیہم کے بعد حرمین شریفین کا نفرنس میں ایک اسٹیج اور ایک دوسرے سے مصالحت اور تعاون پر آمادہ کیا تھا۔ اللہ اس جوان صالح کی عمر میں برکت دے اور مزید اعمال خیر کی توفیق سے نوازے۔ آمین

پروفیسر صاحب نے سردوگرم سے بڑی خاطر مدارات کی۔ پھر ہم عشاء کے وقت دھرم پورہ آ گئے، آج برادر محترم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ یہاں ہمارے علاوہ اور بھی متعدد حضرات تشریف لائے جس سے اچھی خاصی محفل علم تیار ہو گئی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے علاوہ بڑے بڑے علمی لطائف کا بھی انکشاف ہوا۔ مولانا محمداسحاق بھٹی جنھوں نے فقہاء ہند پر کئی جلدیں سپرد قلم کی ہیں، لاہور کے ایک مشہور دیوبندی ادارے کے مفتی صاحب کے متعلق فرمانے لگے کہ ایک اخبار میں موصوف دینی سوالات کے جوابات لکھتے ہیں، میں انھیں سنبھال کر رکھتا ہوں اور جب طبیعت ناہموار ہوتی ہے تو ان کا مطالعہ کرتا ہوں، ایسی چیزیں مل جاتی ہیں کہ ناہمواری رفع ہو جاتی ہے، مثلاً ایک بار ایک صاحب نے سوال کیا تھا کہ میں مقروض ہوں، قرض کی ادائیگی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، کوئی دعا یا طریقہ بتلائیں، اس کے جواب میں موصوف نے حضرت علیؓ کے پاس ایک مکاتب کے آنے اور معاوضۂ مکاتبت کی ادائیگی کے لئے ایک دعا کے سیکھنے کا ذکر کیا۔ مکاتب کی تشریح یوں کہ اس نے کسی آدمی سے کوئی تحریر کتابت کرائی تھی اور کتابت کی اجرت دینے کے لئے اس کے پاس رقم نہ تھی بھلا اس پر لوگ ہنسے بغیر کیسے رہ سکتے تھے، (واضح رہے کہ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے مالک سے یہ طے کر لیا ہو کہ میں آپ کو فلاں مقدار میں رقم ادا کر دوں گا تو آزاد ہو جاؤں گا اور مالک نے اسے منظور کر لیا ہو)۔

مولانا بھٹی نے ان ہی مفتی صاحب کا ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک بار میں لاہور ریڈیو اسٹیشن پر نشریہ کے لئے کچھ ٹیپ کرانے گیا تو معلوم ہواپروڈیوسرصاحب اندر مفتی صاحب سے دینی سوالات کے جوابات ٹیپ کر رہے ہیں، میں بھی موصوف کے جوابات سننے لگا۔ ملتان سے ایک عورت نے سوال کیا تھا کہ میری حالت رہ رہ کر غیر ہو جایا کرتی ہے کسی کا خیال ہے کہ جادو کیا گیا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ جن کا اثر ہے، بتائیے میں کیا کروں ؟۔ مفتی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ ہمارے پاس آیات تھرمامیٹر ہیں، تم لاہور ہمارے فلاں ادارے میں آ جاؤ، ہم ان آیات تھرمامیٹر سے معلوم کر لیں گے کہ تمھیں کیا ہوا ہے ؟اور علاج کریں گے۔ اور جب تک آ نہیں سکتی ہو فلاں وظیفہ پڑھتی رہو۔ مولانا بھٹی کہنے لگے میں منتظر تھا کہ حضرت باہر تشریف لائیں تو دریافت کروں کہ یہ آیات تھرمامیٹر کیا ہوتی ہیں، مگر تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ پروڈیوسرصاحب تنہا تشریف لا رہے ہیں۔ پوچھا مولانا کہاں ہے ؟بتایا کہ وہ تودوسری جانب سے نکل گئے۔ میں دوڑا کہ انھیں جالوں مگر وہ غائب ہو چکے تھے۔ اب پروڈیوسر صاحب سے پوچھا کہ یہ کیاسوالات و جوابات آپ نے ٹیپ کئے ہیں ؟کیا اب ریڈیو لاہور سے ایسی چیزیں بھی نشر ہوں گی؟ نیز انھوں نے ضمناً اپنے ادارہ اور دوکانداری کی پبلسٹی بھی کی ہے۔ کیا اگر میں اپنی تالیفات کے تعلق سے ایساہی جواب دوں تو آپ نشر کریں گے کہنے لگے بھئی کیا کریں، جواب دینا میرا نہیں بلکہ ان صاحب کا کام تھا اتنا کر سکتاہوں کہ ٹیپ کا یہ حصہ کاٹ دوں۔

آخر میں میزبان کی پر تکلف دعوت سے فارغ ہو کر فاذاطعمتم فانتشروا۔ پر عمل کرتے ہوئے دلچسپ مجلس برخاست ہو گئی۔

(اپریل ۱۹۸۶ء )

٭٭٭

 

 

 

 

جامعہ میں مذاکرۂ علمیہ اجلاس عام اور جلسۂ تقسیم اسناد کا انعقاد

 

 

کچھ عرصہ سے جامعہ میں ایک علمی مذاکرے کے انعقاد کی بات چل رہی تھی ملکی اور شہری حالات میں اتار چڑھاؤ نے کئی مرتبہ غیر یقینی کیفیت پیدا کی، مگر بحمد للہ یہ دو گونہ بلکہ سہ گونہ پروگرام ۴/۵/۶/اپریل ۱۹۸۶ء کو روایتی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوا۔

تیاریاں مہینوں پہلے سے شروع ہوئیں۔ کوئی ہفتہ بھر پہلے جامعہ کی مسجد اپنی صفائی اور زیبائش کے تمام ضروری مراحل سے گزر کر رعنائی و دلکشی کا مرقع بن چکی تھی۔ ۳/ اپریل تک جامعہ کے بقیہ در و بام پر بھی نکھار آ چکا تھا، اور اسی روز شام کو جب اضافی برقی بلب روشن کئے گئے تو پورا جامعہ روشنی میں نہا گیا، سمینار کے کنوینر جناب محمد صالح صاحب انصاری، رئیس مدنپورہ بنارس تھے، اور نظم و ترتیب کے مختلف زاویوں سے ان کے ذوق کی لطافت نمایاں تھی۔

۴/ اپریل کو ہمارے ملک کے مرکزی وزیر مالیات و جنگلات عزت مآب جناب ضیاء الرحمان صاحب انصاری کی تشریف اور خطاب سے اور ۶/ اپریل کو جامعہ الامام محمد بن سعود (ریاض سعودی عرب) کے مدیر فضیلت مآب ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی اور ان کے رفقاء وفد کی تشریف آوری اور تقسیم اسناد و خطاب سے اور ان پروگراموں میں حلقۂ بنارس کے مشہور ممبر پارلیمنٹ جناب شیام لال یادو کی موجود گی، شرکت اور خطاب سے سمینار میں بڑا اضافہ ہوا۔ اور منتظمین کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ ان کا معتدل خطاب ملک کے موجودہ حالات میں عام مسلمانوں کے لئے بھی بڑا حوصلہ افزا رہا۔

متعدد یونیورسیٹیوں اور عصری اداروں سے آئے ہوئے پرفیسران و دانشوران اور مختلف مدارس سے آئے ہوئے علماء و فضلاء کی ملی جلی مجلس مقالات نے بڑا پر کیف اور وجد آفریں منظر پیش کیا۔ نماز فجر کے بعد درس قرآن اور نماز عشاء کے بعد عام خطابات نے ان لوگوں کی تشنگی کاسامان فراہم کیا جن کی سیری مقالات کے عالمانہ اور محققانہ انداز سے نہیں ہو سکتی تھی۔ اس طرح اس سہ روزہ پروگرام نے ہر طبقۂ فکر کو استفادے کا موقع دیا، پروگراموں کی تفصیلی رپورٹ اسی شمارہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

سمینار آج کے علمی ماحول میں کسی موضوع کی فاضلانہ تحقیق کا ایک قابل ذکر ذریعہ بنتے جا رہے ہیں پہلے کوئی ایک بڑا موضوع منتخب کیا جاتا ہے پھر اس کے مختلف ذیلی عنوانات پر بنائے جاتے ہیں اور جن اہل ذکر کو دعوت دی جاتی ہے، وہ ان ذیلی عنوانات پر یا ان ہی جیسے کسی ذیلی عنوان پر معلومات کا ذخیرہ جمع کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بہت بڑے موضوع کے بہت سارے پہلوؤں پر مختصر سے وقفے میں اچھی خاصی تحقیقات کا ایک بڑا مجموعہ جمع ہو جاتا ہے جسے اگر کوئی ایک انسان جمع کرنا چاہے تو طویل جد و جہد اور کاوش کے بعد بھی شاید اس نہج پر اور اتنی جامعیت کے ساتھ جمع نہ کر سکے، مزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں جہاں معلومات ناقص یا غلط ہوتی ہیں، یا انداز فکر میں جھول یا انحراف ہوتا ہے، عموماً بعض شرکاء مجلس اس پر توجہ دلا دیتے ہیں اس سے بہت سی ایسی خامیوں کی اصلاح ہو جاتی ہے، جن کی اصلاح انفرادی حالت میں نہایت دشوار اور درد سر ہے۔

٭٭

 

ہمارے سمینار کا موضوع تھا ’’علوم اسلامیہ میں ہندوستانی مسلمانوں کا حصہ‘‘ اور یہ واضح ہے کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا لفظ بولا جاتا ہے تواس سے مراد پورا بر صغیر ہوا کرتا ہے، یہ موضوع جس قدر وسیع الاطراف ہے محتاج بیان نہیں، جب سے ہندوستان کی سرزمین پر خورشید اسلام کی شعاعیں پہونچی ہیں کتنے اہل علم اس روئے گیتی پر ہویدا ہوئے، سرے سے یہی معلوم کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، پھر یہ پتہ لگانا کہ ان میں سے ہر صاحب علم نے کس کس پہلو سے کون کون سی علمی خدمات انجام دیں، مزید دشوار ہے، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی طرف سے فقہائے ہند دسیوں ضخیم ضخیم جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ لیکن موضوع ہنوز تشنہ ہے، علماء دیوبند کے حالات اور تذکروں پر صدہا چھوٹی بڑی کتابیں لکھی جاچکی ہیں بلکہ بعض بعض اصحاب علم پر پوری پوری کتابیں قلمبند کی گئی ہیں، لیکن ان کے قد و قامت کے لحاظ سے پوری کتاب بھی ناکافی سمجھی جا رہی ہے ان چند اشارات سے اس موضوع کی وسعت و آفاقیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

چوں کہ موضوع نہایت وسیع تھا، اس لئے مقالات میں خوب تنوع رہا، خدمت علم و دین کے تعلق سے ہر شخص نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق کسی ایک گوشے کو منتخب کیا۔ اور اس پر دل کھول کر روشنی ڈالی، اور اس طرح ایک ہی گلدستے میں رنگا رنگ پھولوں کا اجتماع ہو گیا، جو منظر عام پر آ جانے کے بعد جویان علم و تحقیق کو دستاویزی مواد فراہم کر سکے گا۔

٭٭

 

دعوت و تبلیغ کا میدان بھی اسلام کی ترویج و اشاعت اور قیام و بقا کے ذرائع ووسائل میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، اسلام کا پھیلاؤ اسی ذریعہ سے ہوا، اور پوری اسلامی تاریخ میں اس کی حیثیت یکساں طور پر بر قرار رہی، جامعہ سلفیہ جو اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کا مرکزی ادارہ ہے، ناممکن تھا کہ اس ذریعہ سے صرف نظر کرتا چنانچہ اس کے اہتمام میں تقریباً پورے تسلسل کے ساتھ مختلف سطح پر یہ عمل جاری ہے، پس ناگزیر تھا کہ اس زریں موقع پر جب کہ عوام و خواص کا اچھا خاصا اجتماع ہو رہا تھا، دعوت و تبلیغ کا بھی معروف طریقہ زیر عمل لایا جائے۔

عام حالات کے لحاظ سے اس موقع کا یہ تقاضا تو تھا ہی، لیکن ادھر ملکی حالات نے جس قسم کی کروٹ لی ہے اور پے درپے واقعات نے مسلمانوں میں اضطراب کی جو لہر دوڑا رکھی ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف حلقوں میں جو متوازن اور غیر متوازن انداز فکر ابھرا ہے، ان سب کا مزید تقاضا تھا کہ اس اہم موقع پر خطاب عام کا انتظام کیا جائے، اور اپنی استعداد، اپنی کمزوریوں، اپنی مشکلات، اپنی کوتاہیوں اور اپنے مذہب اور اپنے دین کے تقاضوں کی روشنی میں توازن کی راہ بتلائی جائے اور جن راستوں پر چل کر مسلمان دنیا اور آخرت کی سعادتیں سمیٹ سکتا ہے ان کی جانب رہنمائی کی جائے۔

وقت کی اس اہم ترین ضرورت کی تکمیل کے لئے سیمینار کے تینوں ایام میں عشاء کی نماز کے بعد اجلاس عام کا پروگرام نہایت حسن و خوبی سے چلا۔ مقررین نے مختلف النوع موضوعات پر اسلامی تعلیمات کو بڑے مناسب انداز میں پیش کیا۔

اللہ شرف قبول سے نوازے اور تمام کوششوں کو مفید اور ثمر آور بنائے۔ آمین

(مئی، جون ۱۹۸۶ء )

٭٭٭

 

 

 

 

بلا عنوان

 

 

شاہ بانو کیس اور اس کے معاً بعد بابری مسجد کے قضیہ سے پیدا ہونے والے حالات نے ہمارے ملک کے ’’قومی دھارے ‘‘ میں جو اتھل پتھل پیدا کی ہے وہ کسی توضیح و تشریح کی محتاج نہیں اس کا جہاں ایک نہایت مضرت رساں پہلو یہ سامنے آیا کہ ملک کی سابقہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور کشت و خون کی فضا میں اس نئے عنصر کے اضافہ سے حد درجہ معتدل مزاج اور غیر جانبدار افراد کا دل و دماغ بھی زہر آلود ہو گیا۔ وہیں ایک مفید پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ اس طوفان نے ہمارے بحر کی موجوں کو اضطراب سے آشنا کر دیا۔ تحفظ شریعت اور تحفظ مقدسات اسلامیہ کے احساس نے مسلمانوں میں ایک ایسا ملی شعور، اجتماعی احساس اور جوش و خروش پیدا کر دیا جس کی مثال کم از کم میرے جیسے بے تجربہ انسان کے سامنے اب تک نہیں آئی تھی۔ اسی احساس و شعور کا نتیجہ تھا کہ ایک مختصر سی پکار پر کسی وقت مسلم مکانات پر سیاہ جھنڈیوں کا بادل امنڈ آیا اور بازوئے مسلم پر بندھی ہوئی سیاہ پٹیو نے سیہ کاریوں پر احتجاج کیا، توکسی وقت وہ تن بہ تقدیر سڑکوں پر نکل آئے اور گولیاں کھانے کے بعد بھی اپنا جوش جنون قائم رکھا، اس طرح قوم کو اجتماعی شعور کی جس قوت کا مظاہرہ کرنا تھا اس نے بڑی حد تک اس کا مظاہر کر دیا۔

البتہ اس نازک مرحلے میں قیادت کا خلاء بہت زیادہ ابھرکرسامنے آیا، مسلمانوں کو کوئی ایک متفقہ اور مسلمہ قیادت نہ مل سکی، ایک ہی مسئلہ کے لئے فقہی بلکہ رواجی اختلافات کے نتیجہ میں الگ الگ محاذوں سے الگ الگ اقدامات کئے گئے بلکہ ایک ہی یایکساں قسم کے اقدامات کے لئے الگ الگ محاذ بنائے گئے، اور ایک محاذ نے دوسرے کو گرانے اور خود ابھر کر مقبولیت وسربراہی کا علم سنبھالنے کی بھی خفیہ اور ظاہری کوششیں کیں، چھوٹے چھوٹے طبقوں، گروہوں اور جماعتوں کی قیادتیں اور ان قیادتوں کے دم چھلے جو کبھی کبھی نازک مزاجی کی انتہا کو پہونچتے دکھائی دیتے ہیں اس طوفان میں خس و خاشاک کی طرح بہ گئے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ ان کے ابھرنے اور ڈوبنے اور ڈوب ڈوب کر ابھرنے کا منظر انتہائی عبرت انگیز تھا۔

اس وقت طوفان قدرے تھما ہوا ہے، مگر جو لوگ اس طوفان کو اپنے خلاف تصور کرتے تھے ان کے دل و دماغ اپنے خطوط اور اپنی پالیسی کی تعیین میں مصروف اور رواں دواں ہیں، انھوں نے ہمارے تئیں اپنے مقاصد اور نصب العین کی تعیین کر رکھی ہے، اور وہ بہر صورت اس کو بروئے کار لانے کی ٹھانے ہوئے ہیں ہمارے اقدامات اور رد عمل کو دیکھ کر وہ اپنے اسباب ووسائل اور حکمت عملی میں تو تبدیلی کر سکتے ہیں لیکن اپنے مقاصد تبدیل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں ایک دو جزوی اور فروعی مسائل کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق حل کر کے مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمیں اپنے مقاصد اور ان کے ذرائع حصول کے متعلق بڑی سنجیدگی اور دوراندیشی سے غور کرنا چاہئے، ہم نے یہ تو طے ہی کر رکھا ہے کہ ہمیں ہندوستان میں رہنا ہے اور اسی سرزمین پر جینا اور مرنا ہے، بلکہ مرنے کے بعد بھی دوگز زمین لینی ہے، پھر ہم نے یہ بھی طے کر رکھا ہے کہ ہمیں اپنے پورے انسانی اور اسلامی حقوق کے ساتھ زندہ رہنا ہے، کسی اجتماعی یا انفرادی حق سے دستبردار نہیں ہونا ہے، پس ہمیں یہ بھی طے کرنا چاہئے کہ ہم اپنے ان مقاصد کوکس طرح بروئے کار لا سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں جو مختلف رکاوٹیں آئے دن ابھرتی ہیں اور پیش آتی جا رہی ہیں ان سے کس طرح عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں، اسے طے کرنے کے لئے جہاں گیری دور اندیشی کی ضرورت ہے وہیں عزم و حوصلے، لگن، خلوص، استقامت اور صبر و تحمل کی بھی بے حد ضرورت ہے۔ اور یہ کام عوام کا نہیں قیادت کا ہے اس لئے ہماری قیادت کو بڑی وسعت ظرفی، بالغ نظری اور خلوص سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بڑا نازک تاریخی مرحلہ ہے اس مرحلے کی لغزشیں ہمیں بہت پیچھے ڈھکیل سکتی ہیں اور اس مرحلے کے صحیح اقدامات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب بن سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

سوز وساز زندگی

 

یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے کہ گیارہ ماہ کے طویل اور صبر آزما وقفے کے بعد ماہنامہ ’’محدث‘‘ اپنی راہ کی تمام دشواریوں اور آئینی مشکلات کی دیواریں پھلانگ کر دوبارہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ ذالک تقدیر العزیز العلیم۔

ہمیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ اب یہ اپنی سابقہ روایت کے مطابق پورے استقلال اور تسلسل سے شائع ہوتا رہے گا، اور کوئی نئی افتاد کا نٹا بن کر اس کے دامن نشر و اشاعت سے نہ الجھے گی۔ وللہالامر من قبل ومن بعد۔

توقف کے اس عرصہ میں قارئین سے ہمارا ربط کبھی نہ ٹوٹ سکا۔ محدث کے ساتھ ان کے قلبی لگاؤ نے انھیں مسلسل بے چین و مضطرب رکھا اور ان کا یہ اضطراب نوع بہ نوع سوالات اور تبصروں کی شکل میں ہمارے سامنے برابر آتا رہا جن سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں بڑی سہولت ہوئی کہ ہماری کوششیں اور خدمات بحمد اللہ یار آور ہوتی رہی ہیں۔ اور ’’محدث‘‘ اپنے اثر اور اپنی فعالیت کے لحاظ سے دینی صحافت کے میدان میں ایک مفید کام انجام دیتارہا ہے۔

اب جب کہ ہم دوبارہ اس رسالہ کی اشاعت کا کام شروع کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ امید ہے کہ وہ ہمیں پچھلی روایت کو برقرار رکھنے بلکہ اسے ترقی دینے اور نوع بہ نوع مفید عناصر کا اضافہ کرنے کی توفیق دے گا، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوت عمل اور ٹوٹی پھوٹی صلاحیتوں کو اپنے دین متین کی خدمت صحیحہ میں لگا دے اور ہم بندگان ضعیف و ناتواں سے جو کچھ ہو سکے اسے اثر و قبولیت کے فیضان سے نوازے، ہمیں غرور نفس و شرور ظاہر و باطن سے محفوظ رکھے اور ہماری لغزشوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں سے درگزر فرمائے۔ آمین

ہمارا ملک انارکی، لاقانونیت، انسان اور انسانیت کی بے حرمتی اور خصوصاً مسلمانوں کی نسل کشی کے جس بھیانک دور سے گزررہا ہے وہ حد درجہ المناک اور اضطراب انگیز ہے۔ نیلی(آسام)اور بھیونڈی(مہاراشٹر) کے اندر بپا ہونے والے انسانیت سوز مسلم کش حادثات کا دھواں ابھی فضا میں پوری طرح تحلیل بھی نہ ہوا تھا کہ میرٹھ(یوپی) مین ان سے کہیں زیادہ بربریت آسا اور خون آشام چنگیزیت کا الاؤ بھڑک اٹھا اور دو پاؤں پر چلنے والے درندوں نے ظلم و جور کے وہ وہ فن دکھلائے کہ تخیل و تصور کی قوتوں نے بھی عاجزی اور درماندگی کا اعتراف کیا۔

ہمارے ساتھ ہونے والی یہ چنگیزیت ہمارے ملک کا ایک مستقل معمول ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ ہم پوری دقت اور گہرائی اور ہوش مندی سے پوری صورتحال کا جائزہ لیتے اور اس کا جامع حل تلاش کرتے۔ مگر افسوس کہ ہمارے جن افراد کو اللہ تعالیٰ نے فہم و بصیرت اور غور و فکر کی صلاحیتوں سے نوازا ہے انھوں نے اور تو بہت کچھ کیا مگر یہی بنیادی کام نہیں کیاجوسب سے پہلے کرنے کا تھا۔

یہ کام ظاہر ہے کہ تنہا کرنے کا نہیں۔ اس کے لئے ارباب فہم و اصحاب رائے کے جمع ہونے کی ضرورت ہے تاہم چند نکات جو غور و فکر کے متقاضی اور حل طلب ہیں ان کی طرف ایک سرسری اشارہ کر دینا بے جا نہ ہو گا، تاکہ ممکن ہو تو انھیں اساس بنا کر قوت جہد و عمل کو مہمیز دی جا سکے۔

ہمیں سب سے پہلے اس بات پر نظر ڈالنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارا ربط و تعلق کیسا ہے ؟ یعنی ہم نے اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں اپنے دین اسلام کو کتنی جگہ دے رکھی ہے، توحید، نماز و روزہ، زکوٰۃ و حج میں ہمارے کردار و عمل کی نوعیت کیا ہے ؟ ہم اپنی کمائی میں اپنے اخلاق و اعمال میں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام کی کتنی تمیز کرتے ہیں ؟ اسلامی اور انسانی بھائی چارے اور ذاتی اور خاندانی مفادات کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں ہمارا طرز عمل کیا ہوا کرتا ہے۔ ؟ اور ہم اپنے دائرۂ کار اور دائرۂ عمل میں انصاف کے تقاضے کس حد تک پورے کرتے ہیں۔ ؟ کیا زندگی کے ان میدانوں اور ان جیسے دوسرے میدانوں میں ہماری حالت مجموعی طور پر اطمینان بخش ہے ؟ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک مسلم معاشرہ میں خیر کا پہلو کم از کم جس حد تک غالب رہنا چاہئے اس حد تک غالب ہے ؟ اور ہمیں جس حد تک جہد و کاوش کرنی چاہئے، ہم کر رہے ہیں ؟

یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے نظر انداز کر کے اگر ہم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی توہم منزل مراد تک پہونچنے کے بجائے مسائل کے صحرا میں گم ہو کر رہ جائیں گے۔ اور جس ڈور کوسلجھانا مطلوب ہے اس کا سرانہ پا سکیں گے۔

افسوس ہے کہ جب اس بنیادی نکتے پر انگلی رکھی جاتی ہے توا چھے خاصے ذی ہوش وذی فہم مسلمان بھی تلملا اٹھتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ دنیا اللہ کی ہے، بندے اللہ کے ہیں اور بالخصوص مسلمان اس کی مرضیات کے نمائندے ہیں، لہٰذا ان کے لئے اللہ کے دامن رضا و ر حمت سے علاحدہ ہو کر محض اسباب ظاہری کی بنیاد پر کامیابی و کامرانی کا تصور محض ایک طفل تسلی ہے۔ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس بنیادی شرط کے بغیر کوئی پائیدار کامیابی حاصل کر سکیں گے۔ اگر کبھی کوئی ظاہری ابھار آیا بھی تووہ جھاگ کے وقتی ابھارسے قطعاً مختلف نہ ہو گا، اللہ نے ہمیں خود صاف لفظوں میں بتا دیا ہے کہ ان ینصرکم اللہ فلاغالب لکم وان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ۔ اگر اللہ نے تمہاری مدد کر دی تو کوئی نہیں جو تم پر غالب آ سکے اور اگر تمھیں بے سہارا چھوڑ دیا تو اس کے بعد پھر کون ہے جو تمہاری مدد کر سکے۔ اور اللہ نے اپنی مدد کے لیے یہ شرط بیان کی ہے ان تنصر اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم۔ اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا۔

اس ایک بنیاد کو صحیح رخ پر لانے کے عزم اور جہد و کاوش کے ساتھ ہی ہمیں مزید نکات اور دائروں پر نظر ڈالنی چاہئے۔

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ملک میں برپا ہونے والے ان ہنگاموں کے چھپے تہذیبی کشاکش اور تہذیبی غلبے کے شعوری یا لا شعوری جذبات اور دو الگ الگ مذہبی اور تہذیبی قوم ہونے کے احساسات کے پہلو بہ پہلو یہ خصوصی احساس بھی شدت سے کار فرما ہے کہ ہم کمزور و کم تعداد بھی ہیں اور اندرونی و بیرونی سہارا سے محروم بھی جب کہ ہمیں مٹانے کا عزم رکھنے والے شہ زور و کثیرالتعداد بھی ہیں اور ملکی اور بین الاقوامی سہاروں اور پشتیبانوں کے مدد یافتہ بھی۔

پھر ان ظالمانہ جذبات واحساسات کو مزید قوت اور تپش اس ماحول، ان کتابوں اور ان رسالوں سے ملتی ہے جو ملکی تاریخ کے نام پر ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں پڑھائے سنائے اور دکھائے جاتے ہیں۔

پھر کتنے ہی لیڈر اور کتنی ہی سیاسی پارٹیاں ہیں جو دو قومی کشاکش کی اس فضا سے استفادہ کے لئے اس قسم کے خفیہ جذبات کوکسی ’’مناسب‘‘ وقت پر بیدار کر دیتے ہیں، اور اجتماعی ماحول کی راکھ میں دبی ہوئی تہذیبی کشاکش کی چنگاریوں کو کرید کر ہنگامۂ کشت و خون کا الاؤ بھڑکا دیتے ہیں بلکہ اب تو کئی کئی ایسی تنظیمیں وجود میں آ گئی ہیں جن کے لیڈروں اور قائدین کی مہم ہی یہ ہے کہ وہ چنگاریوں کو کریدیں اور الاؤ بھڑکانے کے لئے افراد اور فضا دونوں کو تیار رکھیں۔

خود ہمارے اندر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جن کی ناروا حرکتیں اس بارود بداماں فضا میں ماچس کی تیلی رگڑنے کا کام دیتی ہیں، کتنے ہی فسادات ہیں جن کا آغاز شراب خانوں کے جھگڑے چھیڑخانی کے واقعات، ناجائز تعلقات کے افشاء، لین دین کی خیانت، غیر سنجیدہ تہوار اور اس طرح کے دوسرے معاملات سے ہوا ہے۔

جہاں تک تہذیبی کشاکش اور تہذیبی غلبے کے جذبات کا تعلق ہے تواسے ختم تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے اعتدال اور توازن کے دائرے میں ضرور لایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے جو حکمت عملی بھی اختیار کی جائے، اس میں یہ عنصر لازماً شامل کرنا ہو گا کہ ہماری کمزوری، ہماری قلت تعداد اور ہمارے بے سہارا ہونے کا احساس ان لوگوں کے دلوں سے ختم ہو جائے، جو ہمیں مٹانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں اپنی کمزوری کے ایک ایک نقطہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کرنا ہو گا۔ پھر اس ظالمانہ ماحول کو مٹانے کی کوشش کرنی ہو گی جو ہمارے ماضی کو تاریخ کا ایک خونخوار باب باور کراتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں ان لیڈروں، تنظیمی سربراہوں اور اعیان و افراد سے نمٹنے کے لئے مناسب ترین حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی جو ہماری تباہی کے درپے ہیں ہمیں اپنے معاشرے کے بگڑے ہوئے افراد کی ان کمزوریوں پربھی کنٹرول کرنا ہو گا جو ہماری تباہی کاسبب بن جایا کرتی ہیں، پھر ہمیں اس کی بھی خاصی کوشش کرنی ہو گی کہ کوئی غیر اہم یاسنگین واقعہ عوامی پیمانے پرفساد کاسبب نہ بننے پائے، بلکہ جن چند افراد کا اس واقعہ سے تعلق ہوساراعمل اور رد عمل انھیں تک محدود رہے۔

ظاہر ہے کہ یہ سب بڑے کٹھن کام ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ عزم و ہمت سے کام لیا جائے تو یہ سارے کام کئے جا سکتے ہیں اور آئین کے دائرے میں رہ کر کئے جا سکتے ہیں۔

اس لئے ہماری گزارش ہے کہ ہمارے ارباب فہم و بصیرت ان نکات پر اور ان ہی جیسے مزید دوسرے نکات پر غور کریں اور اپنے جہد و عمل سے تباہی کے اس راستے کو بند کرنے کی کوشش کریں، اگر ملک گیر پیمانے پر یہ کام نہ ہو سکے تو اپنے اپنے دائروں میں ہی سہی، مگر ہماری جہد و کاوش کا ہوشمندانہ آغاز ہو جانا چاہئے۔

واللہ الموفق و المعین وھوحسبنا جمیعاً ونعم الوکیل۔

(اگست ۱۹۸۷ء )

٭٭٭

 

 

 

 

مکہ معظمہ میں ایرانی سفاکی اور اس کے مضمرات

 

محدث کے صفحات میں ایک سے زائد بار ہم اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایران کا موجودہ انقلاب کوئی اسلامی انقلاب نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خالص اور ہمہ جہتی شیعی انقلاب ہے اور شیعہ مذہب یہود ومجوس کی مشترکہ سازش کی پیداوار ہے، جس کا مقصد وجود ہی یہ ہے کہ اسلام کے نام پر اسلام اور امت اسلامیہ کو جہاں تک ممکن ہو تباہ و برباد کیا جائے۔ چنانچہ اسلام کی بربادی کے لئے اس مذہب کی بنیاد ایسے عقائد پر رکھی گئی جو صرف یہی نہیں کہ اسلام سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے بلکہ جو صریح طور پر اسلام کے منافی ہیں اور اسلامی نقطۂ نظر سے شرک و کفر کی حدوں کو جا پہنچتے ہیں۔ اس مذہب میں ائمۂ اہل بیت کو انبیاء کے مقام سے بلند اور خدائی تصرفات کا مالک بنا دیا گیا قرآن و احادیث نبویہ کو ناقابل اعتبار قرار دیا گیا، جھوٹ اور فریب دہی کو اخلاقیات کا بنیادی پتھر ٹھہرایا گیا۔ اور اسلامی کیریکٹر کی بربادی کے لیے متعہ جیسی حیاسوز بدکاری کو صرف یہی نہیں کہ رواج عام دیا گیا بلکہس کی فضیلت اور خوبیوں کے سلسلے میں احادیث و آثار گڑھے گئے، اس طرح لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جس نے دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہا اور وہ اس مذہب کے نمائندوں کے ہتھے چڑھ گئی، اس کا دین و ایمان برباد ہو کر رہ گیا۔ آج ہندوستان وپاکستان اور ایران و لبنان وغیرہ میں انکے اخلاف کی ایک بہت بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے۔

دوسری طرف امت مسلمہ کی بربادی کے لئے اس مذہب نے وحی الٰہی کے اولین مخاطب اور اسلام کے اصلی حاملین یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام اور خاصان خاص کو کافر و مرتد قرار دے کر ان کی اور ان کے صحیح پیروکاروں یعنی اہل سنت کی عداوت و دشمنی اور ان کی ایذارسانی و بربادی کو اپنا اصل الاصول قرار دیا، اور اس مقصد کے لئے رذالت کی آخری حدوں تک چلے جانے کو بھی باعث ثواب ٹھہرایا۔ امت کی تاریخ میں تباہی و بربادی کے جتنے بڑے بڑے حادثات پیش آئے ہیں ان کے پیچھے شیعہ حضرات کا ہاتھ ضرور رہا ہے۔ ابتدائی صدیوں میں ان کے خفیہ چھاپہ ماروں کے ہاتھوں کئی لاکھ مسلمان قتل کئے گئے، حرم پاک میں عظیم خونریزی ہوئی بار بار بغاوت کے لاوے پھوٹے اور کشت و خون کی ندیاں بہیں اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی انھیں کی بدولت ہوئی جس میں تنہا بغداد و نواح بغداد میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مارے گئے، اس تباہی پر شیعہ آج بھی اس قدر خوش ہیں کہ اسے خمینی صاحب نے اسلام کی خدمت جلیلہ قرار دیا ہے۔ دور کیوں جائیے، خود ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑی بڑی تباہیاں انہی کے طفیل ہوئیں، میر جعفر، میر صادق، میرقاسم، قاسم علی لنگڑا وغیرہ جن کی وجہ سے بنگال میں سراج الدولہ اور میسور میں شیر میسور سلطان ٹیپو کی مسلم سلطنتیں انگریزوں کے ہاتھوں تاراج ہوئیں اور معلوم نہیں کتنی صدیوں کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کے گلے میں ذلت ورسوائی کا طوق پڑ گیا۔ یہ سارے کے سارے غداران ملک و ملت اور ننگہائے دین و وطن شیعہ ہی تھے، جن کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے۔

جعفر از بنگال، صادق از دکن …÷ … ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن

بلکہ علامہ اقبال نے تو ان کے نام کو غداری و بدعہدی کا رمز ہی بنا ڈالا۔ ’’الامان ازجعفران ایں زماں ‘‘

غرض شیعہ مذہب اور شیعہ امت کا مقصد وجود ہی یہ ہے کہ حقیقی اسلام اور حقیقی مسلمانوں کو روئے زمین سے ختم کر دیا جائے اور یہودی شریعت اور مجوسی قوم پرستی کے معجون مرکب کو اسلام کے نام پر اقتدار وسربلندی عطا کی جائے مگر جب جب انھوں نے زمین میں فساد بپا کیا اور خلق خدا کو اپنی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنایا، اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو بھی یہود کی طرح اپنے کچھ خاص بندوں کے ذریعہ کچلوا دیا۔ اور جو داروگیر سے بچ رہے انھوں نے اپنے مسلمہ اصول تقیہ کے مطابق بظاہر شائستگی وسلامت روی اختیار کر لی اور خونخواری کے جذبات کوکسی مناسب وقت کے لئے دبا لیا۔

اس طرح کے مسلسل تجربات کی روشنی میں شیعہ رہنماؤں نے اسلام کی مکمل تباہی کا منصوبہ تہ خانہ سامراء کی افسانوی شخصیت محمد بن حسن عسکری (امام غائب اور مہدی مزعوم) کی آمدورفت پر موقوف کر دیا۔ اور خود اندھیرے اجالے لعنت و ملامت کے الفاظ اور جملوں اور دعاؤں سے لذت کام و دہن لینے پر اکتفا کیا، چونکہ ان کے عقیدے کے مطابق اسلام اور اہل اسلام کی اس ہمہ گیر تباہی کے لئے جو جنگی کارروائی ہو گی اسی کا نام جہاد ہے، اس لئے انھوں نے جہاد کو بھی امام غائب کی آمد تک کے لئے موقوف کر دیا اور محض محلاتی سازشوں کے ذریعہ اہل سنت کی بربادی کے سامان مہیا کرنے پر اکتفا کرتے رہے، مگر خمینی صاحب نے آ کر اجرائے جہاد (یعنی اہل سنت کے خلاف شیعوں کی مذہبی فوج کشی) کا فتویٰ دے دیا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شیعی روایات کے مطابق مشرق سے ایک فوج کالی جھنڈیاں لے کر آئے گی اور مہدی کے لئے راستہ ہموار کرے گی۔ مہدی مکہ میں ظاہر ہوں گے۔ خانۂ کعبہ کے دروازے اور حجر اسود کے درمیان ملتزم کے پاس ان سے بیعت لی جائے گی پھر وہ مدینہ جائیں گے، مسجد نبوی کو ڈھائیں گے اور ابوبکر و عمر نیز دوسرے صحابہ کرام، ازواج مطہرات (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو پھر ان کے طریق پر کاربند حکام اور ان کے مقربین کو زندہ کر کے سزائیں دیں گے۔ پھر نجف اشرف پر آئیں گے اور وہاں سے ہر چہار جانب کے شیعوں کو پکاریں گے جس کے جواب میں ابتداء سے اس وقت تک مرنے والے سارے شیعہ قبروں سے نکل نکل کر ان کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور پھر ان کے ذریعہ مہدی روئے زمین سے ان تمام افراد کا صفایا کریں گے جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کے برحق ہونے کا کچھ بھی یقین رکھتے تھے، یہی مراد ہے اس روایت سے جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیساکہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔

خمینی صاحب کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ کالی جھنڈیوں والی فوج مہدی کا راستہ ہموار کرنے آئے گی، اگر ظہور مہدی سے پہلے پہلے اس کے ہاتھوں مکہ مدینہ (حجاز) سے لے کر نجف اشرف(عراق) تک فتح نہ ہو جائے تو مکہ میں مہدی کی بیعت، مدینہ میں ان کی انتقامی کارروائی اور نجف اشرف میں ان کے جھنڈے تلے شیعہ فوجوں کا قبروں سے نکل نکل کر اجتماع کیسے ہو سکے گا۔ ؟ اس لئے ضروری ہے کہ طہور مہدی سے پہلے جہاد شروع کیا جائے، اور ان علاقوں کو بزور شمشیر یا بذریعہ حیلہ و بہانہ اپنے تصرف و اقتدار میں لایا جائے۔ چوں کہ خمینی صاحب اور ان کے پیروکار موجودہ ایرانی انقلابی حکومت کو دولۃ الموطئین(یعنی مہدی کے لئے راستہ ہموار کرنے والی حکومت) کہتے اور لکھتے ہیں اس لئے ایک طرف تو انھوں نے ساری دنیا کو چھوڑ کر عراق کو اپنے جہاد کا نشانہ بنایا کہ یہی ان کے راستہ کی پہلی منزل ہے اور اسی لئے وہ لاکھ ہا لاکھ ایرانیوں کی پے درپے ہلاکت کے باوجود پورے جذبۂ خونخواری کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ان پیشین گوئیوں کے مطابق فتح کی امید میں جنگ بندی کی ہر کوشش کو ٹھکراتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف حجاز پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور وہاں سے آل سعود کو بے دخل کرنے کی سازشیں رچتے پھر رہے ہیں۔ کبھی لندن میں کبھی پاکستان میں اور کبھی کسی اور جگہ کانفرنسیں کی جا رہی ہیں۔ کہ حجاز پر سارے اسلامی ممالک کی مشترکہ حکومت قائم کی جائے اور اس کے لئے تائید حاصل کی جاتی ہے، لیبیا کے قذافی جیسے کمیونسٹ اور شام کے حافظ الاسد جیسے شیعہ اور ملحد حکمرانوں سے یا منکرین حدیث اور بریلوی جماعت کے بعض ناواقف سربراہوں سے جو وہابیت دشمنی کے دیرینہ جذبہ سے مغلوب ہو کر حقائق اور انجام سے بالکل بے خبر ہیں۔ ان کوششوں سے ایران کا منشا یہ ہے کہ ایک بار حجاز پر اسلامی ممالک کا مشترکہ اقتدار قائم ہو جائے تو پھر وہاں ایرانی فوج اتنی بڑی تعداد میں اتار دی جائے کہ وہ خاص ایرانی مقبوضہ بن جائے اور کسی کے لئے دم مارنے کی گنجائش نہ رہے۔

اس مقصد کے لئے کانفرنسوں کے علاوہ فوجی اور نیم فوجی کارروائیاں بھی ایران کے پروگرام میں مستقلاً شامل ہیں اور اس کے لئے موسم حج کا استحصال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چنانچہ کئی برس سے ایران زمانۂ حج میں گڑ بڑ مچاتا چلا آ رہا ہے۔ دو بار مدینہ میں ہنگامہ ہو چکا، کئی بار مکہ میں مظاہرہ ہوا، تین چار سال پہلے حکومت ایران نے شدت سے اصرار کیا کہ حرم سے متصل ہر چہار جانب کے مکانات ایرانی حجاج کو دیئے جائیں اور ان کے بعد دور دراز جو مکانات باقی بچیں وہ دیگر ممالک کے حاجیوں کو دئے جائیں، نیزکسٹم پر ایران سے جانے والے عازمین حج کے سامنے چیک نہ کئے جائیں۔ مقصد ظاہر ہے یہ تھا کہ اس طرح ایرانی حضرات اسلحہ سمیت مکہ میں داخل ہو جائیں اور حرم اور اس کے اطراف پر اس طرح قبضہ کر لیں کہ سعودی فوج کے لئے کارروائی کرنی ناممکن یاسخت مشکل ہو جائے۔ پھر ان قابضین کی امداد کے لیے ایران کے فوجی طیارے اور بحری جنگی جہاز حرکت میں آ جائیں اور مکہ اور پھر حجاز پر شیعہ حکومت قائم ہو جائے۔ مگر سخت اصرار کے باوجود سعودی حکومت ان کے دام فریب میں نہ آ سکی تو پچھلے سال متعدد ایرانی حجاج کو گولہ بارود کے ساتھ بھیجا گیا کہ کم از کم وہ تخریب کاری ہی کریں۔ لیکن یہ گولہ بارود کسٹم ہی میں پکڑ لیا گیا۔ تو اس سال ایک نئی اسکیم بنائی گئی۔ حجاج کے بھیس میں خاصی تعداد میں تربیت یافتہ فوجی حج کے بہانہ مکہ آئے اور چھریوں اور چاقوؤں سے مسلح ہو کر مظاہرہ شروع کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ سڑکوں پر کھڑی کاروں اور دیگر اشیاء کو آگ لگانی شروع کر دی اور رانوں کے اندر چھپائے ہوئے چھروں اور چاقوؤں سے سعودیوں اور غیر ایرانی حاجیوں پر حملے شروع کر دیے۔

غالباً ایرانیوں نے سمجھ رکھا تھا کہ مکہ میں چند مسلح پہریداروں اور بے ہتھیار نگراں پولس کے سواکوئی مسلح سعودی فورس نہیں اور جب تک جدہ یا طائف سے مسلح فوج آئے گی تب تک وہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی مچا کر خانۂ کعبہ پر قبضہ کر چکے رہیں گے اور کم از کم اس سال حج نہ ہونے دیں گے۔ مگر کشت و خون اور آتش زنی کا یہ سلسلہ جاری ہوتے ہی سعودی فورس نے مظاہرہ کی پیش قدمی روک دی جس سے گھبرا کر پیچھے کے بے خبر ایرانی سورماؤں میں بھگدڑ مچ گئی اور اس کے نتیجہ میں خود ان کے کئی سو افراد پیروں تلے کچل کر لقمۂ اجل بن گئے۔

ایرانی رہنماؤں کو معلوم تھا کہ اس طرح کی تخریبی کارروائیوں سے وہ مکہ معظمہ پر اپنا اقتدار قائم نہ کر سکیں گے۔ لیکن انھیں توقع تھی کہ یہ پروگرام اس حد تک ضرور کامیاب ہو جائے گا کہ حج کا سارانظام درہم برہم ہو جائے گا اور قتل و خونریزی، آتش زنی اور فساد اور گڑبڑی اتنے بڑے پیمانے پر پھیلے گی کہ طویل وقفے تک سعودی فورس کنٹرول نہ کر سکے گی۔ مختلف ممالک کے حجاج بڑے پیمانے پر قتل اور زخمی ہوں گے، پھر گڑ بڑ کا الزام سعودی باشندوں اور سعودی فورس کے سر رکھ کر پورے عالم اسلام میں اس کی غفلت، شرارت اور بدنظمی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے گا۔ (جیسے کہ اب بھی کیا جا رہا ہے ) لہٰذاسعودی دنیا میں منھ دکھانے کے لائق نہ رہیں گے، اور اس طرح پورے عالم اسلام کو سعودی عرب کے خلاف متحد کر کے یہ متفقہ مہم چلائی جائے گی کہ حجاز کو سعودی عرب کے اقتدار سے نکال کر وہاں کا انتظام پورے عالم اسلام کے نمائندوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ ایران کو یقین تھا کہ یہ مہم کامیاب ہو گی اور یوں اس کا دیرینہ منصوبہ عالم وجود میں آ جائے گا۔ مگر الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل۔ والے پروردگار نے پورا معاملہ ہی الٹ دیا اور ایرانی پروگرام صرف یہی نہیں کہ پہلے قدم پر فیل ہو گیا۔ بلکہ ان کی تخریبی کارروائی کی پوری ویڈیو فلم بھی لے لی گئی جس کے بعد ایرانیوں کی کوئی بات بنائے نہ بن سکی اور ساری دنیانے سعودی عرب کی تائید اور اس کے چست نظام اور بروقت کارروائی کی تعریف کی اور ایران پر لعنت و ملامت کے ڈونگرے برسائے وربک یخلق مایشاء ویختار۔ ماکان لھم الخیرۃ۔

یہ ہیں وہ مضمرات و مقاصد جن کے لئے ایرانی کارندے کئی برس سے حرمین شریفین جیسے مقدس مقامات کو اپنی ہلڑ بازی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور جس کے لیے انھوں نے اس سال حرمین کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین کام انجام دیا ور نہ آپ غور کریں کیجئے کہ آخر اس کا کیا تک ہے کہ حرمین شریفین میں تو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے منظم کر کے مردہ باد کے نعرے لگائے جائیں اور ان کے سربراہوں کے پتلے جلائے جائیں مگر بندر خمینی اور تہران ہوئی اڈے پر امریکی اور اسرائیلی جہازوں کا استقبال کیا جائے اور دولت کا انبار ان دونوں ملکوں کے حوالے کر کے مسلمانوں کے قتل کے لئے ان سے اسلحہ خریدے جائیں اور پھر اعمال حج کے دوران لبیک اللھم لبیک کی جگہ لبیک یاخمینی پکارا جائے۔ طواف کے دوران پر سوز دعاؤں کی جگہ ’’اللہ واحد، خمینی قائد‘‘ اور ’’اللہ اکبر۔ خمینی رہبر‘‘ کی صدائیں بلند کی جائیں اور قربانی کے جانوروں کی جگہ انسانوں کو ذبح کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیا اسی دو رخی پالیسی کا نام اسلام دوستی ہے اور کیا انھیں ہلڑ بازیوں کا نام حج ہے ؟بہر حال اب کی بار تو قدرت نے ضرب لگائی ہے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ حرم میں مفسدہ پردازی کرنے والوں کو ناکامی ہی ہاتھ آئے گی۔

وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔

(ستمبر ۱۹۸۷ء )

٭٭

 

 

 

 

برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

 

ماہنامہ ’’صراط مستقیم‘‘ برمنگھم(برطانیہ) مرکزی جمعیۃ اہلحدیث برطانیہ کا ترجمان ہے، جو صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہونے والے ماہناموں کے اعتبار سے بھی ایک وقیع اور معیاری رسالہ ہے، اس میں مفید اسلامی، تاریخی اور اصلاحی مقالات، دینی مسائل، جماعتی سرگرمیوں وغیرہ نوع بہ نوع مضامین کے پہلو بہ پہلو اہل اسلام اور دشمنان اسلام سے تعلق رکھنے والی خصوصی معلومات اور ان پر قیمتی تبصرے بھی ہوا کرتے ہیں، اس کا جون ۸۷ء کا شمارہ حال ہی میں موصول ہواتواس کے ایک ادارتی نوٹ پر ہماری نگاہ اٹک کر رہ گئی۔ اس ذیلی نوٹ کا عنوان ہے ’’گورباچوف، اسد اور اسلام‘‘اور اس کے تحت حسب ذیل شذرہ رقم ہے۔

لندن سے شائع ہونے والے ایران کے ایک جامی عربی اخبار ’’المسار‘‘نے ۱۸/ جون کی اشاعت میں صفحہ اول پر یہ خبر شائع کی ہے کہ گزشتہ دنوں شام کے صدر جنرل اسد نے جب ماسکو کا دورہ کیا اور روسی سربراہ گورباچوف سے مذاکرات کئے تو دونوں سربراہوں کے درمیان دوسرے امور کے علاوہ ’’اسلام‘‘ کا موضوع زیر بحث آیا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق گورباچوف نے حافظ اسد سے پوچھا کہ یہ سلفی اسلامی تحریکیں کیا ہیں ؟اور ان کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے جس پر حافظ اسد نے اپنی رائے اور سوچ کے مطابق مختلف اسلامی تحریکوں، ان کے مقاصد اور پس منظر پر روشنی ڈالی۔

اس خبر سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دشمنان اسلام کس قدر باخبر ہیں اور ان کی اعلیٰ قیادتیں مسلم ملکوں کی اندرونی صورتحال اور اسلامی جماعتوں کے بارے میں کس قدر فکر مند ہیں اور مسلم ملکوں کے لیڈروں سے وہ ان موضوعات پر بھی گفتگو کرتی ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہے کہ اسلام کتنی بڑی قوت ہے اور اسلامی تحریکیں ان کے لادینی نظاموں کے لئے کس قدر خطرناک ہیں۔ دوسری طرف مسلمان ہیں جو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ مسلم ملکوں کی سیاست اور قیادت میں اسلام اور ان کے دین کا کیا کردار ہونا چاہئے۔ وہ سارا زور اس پر لگا رہے ہیں کہ اسلام کو نظام حکومت سے باہر رکھا جائے اور ان کی ساری قوتیں ان تحریکوں کو کچلنے کے لئے صرف ہو رہی ہیں جو اسلام کو اس کا صحیح مقام دینا چاہتی ہیں۔ ‘‘

(ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم برطانیہ شمارہ جون ۸۷ءص ۷)

یہ غیر مسلم طاقتیں صحیح اسلامی تحریکوں، بلفظ دیگر اسلام کو کچلنے کے لئے کیا کیا تدبیریں اختیار کرتی ہیں، اس کا ایک اشارہ خود اوپر کی تحریر میں موجود ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمراں طبقہ کے ذریعہ ان تحریکوں کو مختلف اسباب، بہانے اور حالات پیدا کر کے کچلوایا جاتا ہے، جس کے نمونے آج عالم اسلام میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں، اس مقصد کے لئے دشمنان اسلام کے پاس ایک اور بڑی طاقت ہے جسے عموماً حکمرانی کی سطح تک پہونچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ اسلام کو کچلنے والی قوت دو آتشہ ہو جائے، اور ان کا یہ جذبۂ درندگی حد کمال کو پہنچ جائے، حسن اتفاق سے اس طاقت کی نشاندہی بھی خودا سی رسالے کے اسی شمارہ کے ایک نوٹ میں ہے، گواس کا ذکر ایک دوسری بنیاد پر ہوا ہے، چنانچہ رسالہ مذکورہ ص۹ پر ایک ادارتی نوٹ میں رقمطراز ہے :

’’دشمنان اسلام نے صحیح اسلامی عقائد کی شکل مسخ کرنے اور امت مسلمہ کے وجود کو کمزور کرنے کے لئے اب تک جتنے حربے استعمال کئے ہیں، ان میں وہ باطل فرقے ان کاسب سے کامیاب حربہ ثابت ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے اندر پیدا کئے گئے ان فرقوں کے راہ نما شروع میں اسلام کے لبادے میں سامنے آتے اور جب پیروکاروں اور عقیدتمندوں کا ایک گروہ انھیں میسر آ جاتا تو پھر وہ اپنے چہرے سے نقاب اتار کر اپنے آقاؤں کی خواہشات باطلہ کی تکمیل کے لئے کھل کر کام شروع کر دیتے اور اسلام دشمن منظم بین الاقوامی ادارے ان کی پوری سرپرستی کرتے، اور آج تک کر رہے ہیں، امت کے وجود کو کھوکھلا کرنے میں جن فرقوں نے اہم کردار ادا کیا، ان میں قادیانی، بہائی، دروزی، نصیری، علوی اور اسماعیلی وغیرہ شامل ہیں۔ بد قسمتی سے مسلمان ان کے اسلامی ناموں اور بعض ظاہری اسلامی رسومات کی وجہ سے ان سے دھوکا کھا رہے ہیں اور ہماری بڑی اکثریت سرے سے ان کے عقائد ہی سے واقف نہیں۔ ‘‘……الخ

اس صف میں ایک نمایاں فرقہ شیعوں کا ہے۔ انھوں نے صرف یہی نہیں کہ اسلام کے پورے عقیدۂ و شریعت کو تلپٹ کر کے ایک بہت بڑے طبقہ کو دین اسلام کی صحیح تعلیمات سے محروم کیا بلکہ اسلامی تاریخی کے بیشتر ادوار میں امت مسلمہ کو سخت خونریزی اور تباہی سے دوچار کیا۔ دشمنان اسلام سے مل کر بڑی بڑی مسلم سلطنتوں کو تاخت تاراج کیا، اور مسلمانوں کے قتل عام کی ہر ممکن تدبیریں کیں۔ حتی کہ انھیں کی حکمت عملی سے خلافت عباسی کی تباہی اور اسی کے ساتھ بغداد و نواح بغداد میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ اور اپنے اس کارنامے پر انھیں آج تک اس قدر خوشی ہے کہ خمینی صاحب نے اس کام کو اس غداری و خونریزی کے ہیرو نصیرالدین طوسی کی جلیل القدر خدمت اسلام کہا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں انگریزو کے ہاتھوں بنگال سے سراج الدولہ، میسور سے ٹیپو سلطان، روہیل کھنڈسے روہیلوں اور پورے ملک سے مغلوں کی سلطنت ختم کرانے اور بے مثال تباہی و بربادی لانے میں قدم قدم پر شیعوں کی غداری اور سازش شامل رہی، جن میں میر جعفر، میر صادق، میر قاسم اور قاسم علی لنگڑاجیسے شیعوں کا نام تاریخ کے اس دور کی شدبد رکھنے والوں کو بھی معلوم ہے۔

بہرحال اس وقت ہم اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ کس کس فرقے نے کس کس طرح اسلام کی تباہی کی کوششیں کیں بلکہ یہ اشارات یوں ہی برسبیل تذکرہ آ گئے، ہم اصلاً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ گورباچوف اور حافظ اسد کی گفتگو پڑھ کر ہمارے ذہن میں بے ساختہ خیال آیا کہ قارئین کواسی سلسلہ کی ایک اور تگ ودوسے آگاہ کیا جائے۔

ایک روز میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے، شکل و صورت سے واضح تھا کہ یورپین ہیں، تعارف سے معلوم ہوا کہ بیلجیم کے رہنے والے ہیں اور قدرے اردو بھی بول لیتے ہیں۔ وہ اسلام کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے، میں نے بخوشی منظور کر لیا، پھر وہ ایک وقت مقررہ پر کئی روز تک آتے اور معلومات جمع کرتے رہے انھوں نے سب سے پہلے جو ’’اسلامی معلومات ‘‘حاصل کرنا چاہیں۔ وہ یہ تھیں کہ اسلام میں سید، مغل، پٹھان وغیرہ کیا ہوتے ہیں اور دیوبندی، بریلی، اہلحدیث وغیرہ کیا ہوتے ہیں۔ یہ بات میرے لئے تعجب خیز تھی کہ اتنی دور اور ایسی اجنبی جگہ کا آدمی ہمارے اس قدر باریک تفرقوں پر نظر رکھتا ہے۔ اور ہمارے دین کے مطالعہ کے نام پروہ انھیں تفرقوں کو جاننا چاہتا ہے۔ تاہم یہ سوچ کر کہ شاید اسی بہانے اللہ اسے ہدایت دے دے۔ میں نے اس سے کہا پہلے اسلام سمجھ لیں پھر اسلام میں ان چیزوں کی ٹھیک ٹھیک حیثیت آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔ اس نے آمادگی ظاہر کی اور میں نے نہایت اختصار سے اسلام کی بنیادی تعلیمات اسے نوٹ کرانی شروع کر دیں۔ مگر ابھی چند روز ہی گزرے تھے اور ابھی نہایت اہم اور ضروری باتیں اسے نوٹ کرانی باقی تھیں کہ اس کی آمد بند ہو گئی، اس نے چلتے چلاتے اور آخری بار جاتے وقت تک یہ بات کہی تھی کہ ابھی وہ چند دن اور آئے گا پھر چند ماہ کے ایک سفر پر جائے گا اور واپس آ کر دوبارہ آئے گا اور مزید کچھ عرصہ تک استفادہ کرے گا۔ مگر وہ آج تک واپس نہیں آیا۔ اور نہ اس نے اپنے اصل سوالات کا جواب حاصل کیا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ایک روز دو امریکن آئے۔ ایک تو اپنی شکل و صورت اور لب و لہجہ سے بھی امریکن ہی لگ رہا تھا۔ مگر دوسرے کو ان دونوں میں سے کسی بنیاد پر پہچاننا مشکل تھا۔ دونوں انگریزی کے علاوہ عربی اور اردو بھی بولتے تھے اور ثانی الذکر دونوں زبانیں اتنی صاف اور روانی سے بولتا تھا کہ وہ اس کی اصل مادری زبانیں معلوم ہوتی تھیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے عربی تو امریکا ہی میں ایک لبنانی سے سیکھی ہے۔ مگر اردو پاکستان کے مشہور مقام مری میں چند برس رہ کرسیکھی ہے۔ یہ شخص محض پہلے کے ساتھی کی حیثیت سے آیا تھا اور پہلا شخص مجھ سے قرآن کے کچھ مقامات سمجھنا چاہتا تھا۔ اور کچھ ’’اسلامی معلومات‘‘ حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ معلومات کیا تھیں بعینہ وہی جنھیں بیلجیم کا مذکورہ باشندہ جاننا چاہتا تھا اور جب میں نے اس کو بھی پہلے اسلام کی بنیادی تعلیمات بتلانی شروع کیں تو چند دن بعد یکایک اس کی آمد بند ہو گئی۔

یہ واقعات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں بڑی سنجیدگی اور باریک بینی سے نہایت منظم پروگرام کے تحت ہمارے ایک ایک کمزور پہلو کی تلاش وجستجو میں رہتی ہیں، اور ہمارے دینی و معاشرتی معاملات کا اتنی گہرائی سے مطالعہ کر رہی اور جائزہ لے رہی ہیں کہ اگر ہم طاقت پکڑنے اور سرفراز ہونے کی کوشش کریں تووہ ہماری دکھتی ہوئی دینی اور معاشرتی رگوں کو چھیڑ کر نہایت آسانی سے ہمیں کچل سکتی اور پستی میں ڈھکیل سکتی ہیں۔

افسوس کہ ہمارے دین و ایمان اور ہماری ترقی و خوشحالی کے دشمن جنھیں ہم سے کوئی خطرہ نہیں وہ تواس قدر چوکنا ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ ہماری تباہی و بربادی کے وسائل و ذرائع کیا ہیں۔ مگر ہم بین الاقوامی داروگیر اور دہشت گردی و بربریت کا مسلسل شکار رہنے کے باوجود نہ اپنی بربادی کے اسباب یعنی ذات برادری کے امتیازات اور دیوبندی، بریلوی وغیرہ جیسی فرقہ وارانہ تفریق کی مضرتوں اور تباہ کاریوں کو سمجھنے اور جاننے کے لئے تیار ہیں اور نہ ان سے دست بردار ہو کر حقیقی اسلام سے وابستہ ہونے کے خواہش مند، اہل باطل کی یہ پختگی دور اندیشی اور اہل حق کی یہ بے حسی و بے بصیرتی واقعی بڑی عبرت انگیز ہے۔

(دسمبر ۱۹۸۷ء )

٭٭٭

 

 

 

حرمت حرمین شریفین

 

گزشتہ حج میں ایرانیوں کے ہاتھوں مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کا جو واقعہ پیش آیا، اس پر مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی کی ایک ایسی لہر اٹھ پڑی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہر جگہ اس کی مذمت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اہل حدیث جن کا مشن ہی دین کو اس کے تمام عقائد و شعائر، واجبات و فرائض اور آداب و علامات کے ساتھ زندہ و پائندہ رکھنا ہے ان کی ملکی اور عالمی تنظیمیں، ادارے، شخصیات، رسالے اور جریدے اجتماعی اور انفرادی ہر طور پر اپنے کرب کا اظہار کر رہے ہیں اسی سلسلے میں ۲۹/ نومبر ۱۹۸۷ء کو مرکزی جمعیۃ اہلحدیث ہند کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں ’’حرمت حرمین شریفین کنونشن‘‘ کے نام سے ایک نہایت کامیاب اور نمائندہ اجتماع منعقد کیا گیا جسمیں اس واقعے کے دور رس اثرات پر روشنی بھی ڈالی گئی اور آئندہ سد باب کے لئے مناسب اقدامات کی نشاندہی بھی کی گئی۔ اس واقعے کے اثرات اور جماعت کے موقف کا مجمل اندازہ اس پیغام سے کیا جا سکتا ہے، جسے جماعت کے سب سے بزرگ اور جلیل القدر عالم و محدث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمانی حفظہ اللہ کی جانب سے ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالرحمان صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے پڑھ کر سنایا تھا۔ پیغام یہ تھا۔

’’مجھے یہ سن کر رنج اور صدمہ پہونچا کہ گزشتہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ جیسے مقدس شہر کے تقدس اور حرمت کو پامال کیا گیا اور ایسی وحشیانہ حرکتوں کا ارتکاب کیا گیاجس کا تصور بھی کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ اس کا سب سے پہلا اثر یہ ہو گا کہ رحمت الٰہی ہم سے دور ہو جائے گی اور ہم اس کے غضب اور عتاب کے مستحق ٹھہریں گے اور اس صورت میں ہمارے لئے دنیاوی فلاح اور اخروی نجات کے دروازے بند ہو جائیں گے۔

دوسرا اثر یہ ہو گا کہ ہماری طرف سے اسلام کی انتہائی غلط تصور دنیا کے سامنے آئے گی اور ہمارا یہ فعل اسلام سے غیر مسلموں کے تمسخر کا سبب بن جائے گا اور خود عام مسلمان جو یوں ہی دین سے بیزار ہیں مزید بیزار اور برگشتہ ہو جائیں گے۔

اس لئے اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مقدس شہر کی حرمت پامال کرنے والوں کو اس دنیا میں بھی رسوا کرے گا اور اگر وہ بلا توبہ گزر گئے تو ان کی آخرت بھی برباد ہے۔

اس واقعہ کی مذمت کے لئے مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کے زیر اہتمام جو کنونشن بلایا گیا ہے، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر طرح کامیاب و کامران بنائے اور ایسی سبیل پیدا کر دے کہ آئندہ حرمین شریفین میں ایسی شر انگیزیاں نہ ہو سکیں۔ میری طرف سے خادم حرمین شریفین ملک فہد بن عبدالعزیز حفظہ اللہ اور ان کی حکومت کے ذمہ داروں تک یہ پیغام پہونچا دیا جائے کہ وہ حرمین شریفین کی خدمت اور تحفظ کے سلسلے میں اب تک جس طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے اور پورا کرتے رہے ہیں ان پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اور انھیں ہماری پوری تائید حاصل ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ حالیہ واقعات کی روشنی میں آئندہ حرمین شریفین کے تحفظ کی ہرممکن اور مناسب تدبیر کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو دنیا کے تمام فتنوں سے محفوظ رکھے اور اپنے دین مبین پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اور غالباً جماعت کی سچی لگن اور درد اور تڑپ ہی کا نتیجہ تھا کہ یہ کنونشن نہایت مفید، موثر اور کامیاب رہا، چنانچہ ہمارے ایک اور قابل قدر بزرگ مولانا عبد المجید صاحب اصلاحی حفظہ اللہ اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔

’’ماہ رواں سے پیشتر حرمت شریفین کنونشن کی جملہ کارروائیاں جس تہذیب، شائستگی، نظم و ضبط اور اہتمام کے ساتھ انجام پائیں وہ جمعیۃ کے پیمانہ پر ماضی قریب کے اجتماعات کے اندر بے نظیر مثال کی حامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری اعتبار سے بھی اور معنوی پہلوسے بھی پیشتر کسی بھی اجتماع کے اندر اس کنونشن کا ہمیں ثانی نظر نہ آیا۔ کنونشن کی یہ خوبی غالباً اس شورائیت کا نتیجہ ہے جو ذمہ داران جمعیہ نے انعقاد سے پہلے اختیار کی تھی۔

ذمہ داران جمعیت کو میں ارمغان تبریک اور ہدیۂ پر خلوص پیش کرتا ہوں کہ وہ دین خالص کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کی قابل قدر مثالیں پیش کر رہے ہیں اور اپنے فکر و عمل کی روشنی سے تنظیمی شعور کے اس ظلمت کدے کو منور کر رہے ہیں جس کی تاریکیاں نہ جانے کب سے اہلحدیث اخوان کی ہیئت اجتماعی پر مسلط ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حرمت حرمین شریفین کنونشن کو جس خوبی اور شعور کے ساتھ ذمہ داران جمعیۃ نے منعقد کیا اس کی مثال وہ ہر اجتماع کے موقع پر پیش کرتے رہیں اور آنے والوں کے لیے ایک ایسی طرح ڈال دیں جس کی خلاف ورزی ماضی اور سلف سے روگردانی کا مفہوم رکھتی ہو۔

وماذالک علی اللہ بعزیز

( جریدہ ترجمان دہلی اشاعت خاص یکم، ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۷ء )

۲۲/۲۳/۲۴/ نومبر ۱۹۸۷ء کو جامعہ سلفیہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ پر جو سیمینار منعقد کیا گیا، اس میں بھی پہلے ہی روز سے اس واقعہ کی گونج سنائی پڑتی رہی۔ اور اخیر میں اس واقعہ پر ایک مفصل بیان جاری ہوا اور باقاعدہ قرار دار پاس کی گئی، اور غالباً جامعہ اور جماعت کے اسی اہتمام کا نتیجہ تھا کہ لکھنؤ کے تقدس حج، سیمینار میں جامعہ کے مقتدر اساتذہ کے ایک بڑے وفد کو بنیادی حیثیت سے مدعو کیا گیا، اور انھوں نے اس کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

محدث چوں کہ ایرانی مفسدہ پردازیوں کا پردہ اسی وقت سے چاک کر رہا ہے جب پورے عالم اسلام پر خوش فہمیوں کے بادل محیط تھے، اس لئے ممکن نہ تھا کہ وہ اس واقعہ کے حقائق منظر عام پر نہ لاتا، الحمدللہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور اب اسی تعلق سے یہ خاص علمی اور معلوماتی خبر ہدیۂ قارئین کر رہا ہے۔ تقبل اللہ منا۔

(فروری ۱۹۸۸ء )

٭٭٭

 

 

 

 

افغانستان کا درس

 

افغانستان سے روسی حملہ آوروں کی واپسی کے آثار نمایاں ہیں، اور ساری دنیا توقع کر رہی ہے کہ روسی اب اس سرزمین کو جلد ہی خیر باد کہنے والا ہے۔ روس کی یہ واپسی اس کی اپنی آزاد مرضی سے عمل میں نہیں آ رہی ہے بلکہ اسے مجاہدین کی ان تابڑ توڑ ضربوں نے اس پر مجبور کیا ہے جس کے اکا دکا واقعات محدث کے صفحات میں ہدیۂ ناظرین کئے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چلتے چلاتے بھی… روس کا کردار ’’چور چوری سے جائے ‘‘ ہیرا پھیری سے نہ جائے ‘‘ کا مصداق ہے، اور اس ہیرا پھیری میں امریکا سمیت تمام مغربی طاقتیں بھی اس کی ہمنوا ہیں۔ کیوں کہ اسلام دشمنی مشرق و مغرب کے درمیان ایک قدر مشترک ہے، اور اس ہیرا پھیری کا تعلق اسی اسلام دشمنی سے ہے، مگر سردست ہم اس سیاسی پاکھنڈ کی تشریح کرنے کے بجائے مسلمانوں کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مادی اعتبار سے روس دنیا کی سب سے طاقتور اور جابر فوجی قوت ہے اور جس وقت اس نے سرزمین افغانستان پر قدم رکھا ہے، افغان باشندے وسائل جنگ سے اس حد تک محروم تھے کہ انھیں ابتدائی لڑائیوں میں چند پرانی رائفلوں کو چھوڑ کر، لاٹھی، بلم، برچھے، بھالے، اینٹ، پتھر اور تیغ و تیر کے سواکچھ بھی میسر نہ تھا۔ مگر انھوں نے جوش جہاد سے سرشار ہو کر اللہ کے بھروسہ زمینی اور آسمانی ہتھیاروں سے لیس روسی فوجوں کا پوری مومنانہ پامردی سے مقابلہ شروع کر دیا، اور خود روسی فوجوں سے ہتھیار چھین چھین کر اپنے آپ کو اس حد تک مسلح کر لیا کہ آج وہ اس سرخ فوج کے سامنے ایک آہنی دیوار بن گئے ہیں اور اس پر ایسی ضرب لگا رہے ہیں کہ پورے روس میں کہرام بپا ہے اور دنیا کا یہ سرخ ریچھ اپنی سارھے تین سوبرس پرانی روایت ترک کر کے پہلی بار اپنے قبضہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوا ہے، اس جہاد کو جاری رکھنے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مسلمانوں کو جان و مال کی بہت بڑی قربانی بھی دینی پڑی ہے۔ مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں، مجاہدوں اور نہتوں سب کو ملا کر ۱۳/ لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں، ہزارہا ہزار گاؤں روسی جہازوں کی بمباری سے پیوند زمین ہو چکے ہیں اور پچاس لاکھ سے زیادہ افراد کو وطن چھوڑ کر پڑوس کے ملکوں میں افلاس و بے کسی کے دن گزارنے پڑ رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسی جذبۂ قربانی، اسی قوت برداشت، اسی جذبۂ جہاد اور اسی شوق شہادت نے سرزمین افغانستان پر اس بیسویں صدی کے معجزے کوجنم دیا ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مشکلات کا حل جنیوا اور لندن اور واشنگٹن کے سیاسی بازی گروں کے بجائے خود ان کے اپنے جذبۂ جہاد اور ولولۂ قربانی میں مضمر ہے۔ ؎

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

آج مسلمان جگہ جگہ طاغوتوں کے پنجۂ استبداد میں جکڑے ہوئے ذلت و مقہوریت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور ان کی بے کسی و لاچاری پر کوئی دو قطرۂ اشک بھی بہانے والا نہیں۔ کاش افغانستان کا واقعہ جو درس دیتا ہے، وہ ہماری سمجھ میں آ جاتا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت پاک – جہاد -پھر زندہ کر دی جاتی کہ اسی میں سارے دکھوں کا علاج اور ساری مشکلات کا حل ہے۔

قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزیھم وینصرکم علیھم ویشف صدورقوم مؤمنین٭ ویذھب غیظ قلوبھم ویتوب اللہ علیٰ من یشاء۔ واللہ علیم حکیم٭ (۹: ۱۴، ۱۵)

ان سے لڑو! اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں عذاب دے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا، اور اہل ایمان کے سینوں کو شفا دے گا اور ان کے دلوں کی برہمی ختم کر کے (ان کے کلیجے کو ٹھنڈک بخشے گا) اور اللہ دانا اور حکمت والا ہے۔

آج ہم نے جس جان و مال کی حفاظت کے چکر میں جہاد سے دست کشی اختیار کر رکھی ہے، وہی جان و مال ہماری اس بزدلی کے سبب اتنے بڑے پیمانے پر برباد اور رائے گاں جا رہی ہے کہ اگر با مقصد طور پر ہم اس کا ایک چوتھائی بھی قربان کرنے پر تیار ہو جائیں تو ان شاء اللہ اتنے شاندار نتائج بر آمد ہوں گے جن کا تصور بھی موجودہ حالات میں معجزہ معلوم ہو رہا ہے۔

(مارچ ۱۹۸۸ء )

٭٭٭

 

 

 

 

پیغام صیام

 

 

لیجئے ! رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کا مہینہ ایک بار پھر آ گیا۔ وہ مقدس مہینہ جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں، سرکش شیاطین بیڑیوں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جس کے دن کا فرض روزہ اور جس کی رات کی مسنون قیامت ہر ایک اپنے دامن میں رب جلیل کی اتنی بڑی رضاسمیٹے ہوئے ہوتا ہے کہ ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے اسے بجا لانے والوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل اور ایک ایک لمحہ ہزار ساعتوں سے بالا تر ہے، جس کی عبادت کا ثواب اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ اس کے حدود غایات کا علم اللہ کے سواکسی کو نہیں۔ جو ہمدردی اور احسان و مروت کاسبق سکھاتا ہے، غریبوں، مجبوروں، بیکسوں، مصیبت زدوں اور مشکلات و حوادث کے شکار لوگوں کے غم و الم اور دکھ درد کا عملی تجربہ کراتا ہے اور جو دوسخا اور صدقہ و خیرات کے جذبات خفتہ کو بیدار کرتا ہے، وہ مہینہ کہ جس کی عبادت کے نتیجے میں منھ سے نکلنے والی ناگوار بو بھی پروردگار کے نزدیک مشک و عنبر سے کہیں بڑھ کر ہے، وہ مہینہ کہ جس کے افطار کی لذت و فرحت پر ہزار خوان نعمت قربان، پھر پروردگار کی ملاقات اور جزا پر ملنے والی فرحت کا کیا کہنا، وہ مہینہ کہ جس کے نوافل بھی فرائض کے ہم پلہ ہیں پھر فرائض کے اجر و ثواب کا کیا کہنا۔ وہ مہینہ کہ جس میں پانی کے چند گھونٹ یا کھجوروں کے چند ٹکرے پر افطار کرا دینا پورے روزے کے ثواب کے برابر ہے، پھر سیری وآسودگی تک کھلانے پلانے کی جزا کاکیا کہنا، وہ مہینہ جو مومن کو صبر و ثبات کا سبق دیتا اور مومنانہ پامردی واستقامت سکھاتا ہے اور مالک کائنات کی طرف سے روزی کے اضافے کی بشارت لے کر آتا ہے، وہ مہینہ جس میں غزوۂ بدر اور فتح مکہ جیسے فیصلہ کن معرکے سرکئے گئے اور جہاد زندگانی کے پہلو بہ پہلو فتح و کامرانی اور کار جہاں بینی و جہاں بانی کے دروازے کھولے گئے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ اسی میں پروردگار عالم کی طرف ہدایت و رہنمائی کا ابدی پیغام قرآن مجید نازل کیا گیا، جس کی بدولت ظلمتوں اور تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کی تقدیر بدل دی گئی، اس کی منزل مقصود اور نشان راہ کی تعیین کی گئی، اسے اسفل سافلین سے نکال کر ملأ اعلیٰ تک پہونچایا گیا اور تحت الثریٰ میں رہنے والوں کو ہمدوش ثریا کر دیا گیا، حیوانوں اور درندوں کی زندگی بسرکرنے والوں کو رشک ملائک بنا دیا گیا، اور وساوس و اغوائے شیطانی کی آماجگاہ کو فرودگاہ ملائک و ارواح بنا دیا گیا، شیطانی زمزموں اور غمغموں کی جگہ حمد وتسبیح و تہلیل و تکبیر کے پاکیزہ کلمات نے لے لی۔ غرض اس چمنستان عالم رنگ و بو کا گوشہ گوشہ تقدس و تنزہ جمال عبدیت کمال طاعت، جلال حق اور عظمت رب کی تابانیوں کا شاہکار بن گیا۔ واشرقت الارض بنورربھا۔ اور روئے زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھی۔

جی ہاں ! یہ مہینہ ایک بار پھر آ گیا تاکہ ہمارے پاس احساس و شعور کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو تو ہم اپنی سال بھر کی بے حسی، لاشعوری اور خود فریبی پر اشک ندامت کے قطرے بہائیں، ہمارے پاس محاسبۂ نفس کی صلاحیت کا کوئی ذرہ باقی رہ گیا ہو تو ہم اپنی کج روی، غلط کاری اور شر نوازی کو توبہ و انابت سے دھلنے کی کوشش کریں۔ ہمارے پاس خیر و شر کا کوئی امتیاز باقی رہ گیا ہے تو داعی خیر کی ندائے غیبی پر لبیک وسعد یک کہتے ہوئے پیش رفت کریں، ہمارے اندر انسانیت کا کوئی گوشہ باقی رہ گیا ہے تو دنیا پرستی اور باہمی زندگی کی دلال سے نکل کر اخوت و ہمدردی اور جود وسخا کا دروازہ کھولیں۔ ہمارے اندر عبدیت کا کوئی حصہ باقی رہ گیا ہے تو عصیاں و طغیاں اور بغاوت وسرکشی کی راہ چھوڑ کر طاعت و عبادت کا جوا اپنے گلے میں ڈالیں۔ اور ہمارے اندر اپنے انجام پر نظر ڈالنے کے لئے کچھ بھی بصیرت و پیش بینی باقی رہ گئی ہے تو آگ میں جلنے کے بجائے رحمت الٰہی اور فلاح آخرت کا دامن تھامنے کی کوشش کریں کہ اس ماہ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا مژدہ لے کر آیا ہے۔

یاد رکھیے ! وقت کا یہ پیمانہ ہمارے فیصلے کے انتظار میں رک نہیں سکتا، یہ رواں دواں پیمانہ ہے اس کا ایک ایک لمحہ ہماری قسمت پر فیصلہ کی مہر لگاتا نہایت تیز رفتاری سے گزرتا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلت کے نتیجہ میں یہ فیصلہ ہماری ناکامی و نامرادی پر آخری مہر ثابت ہو، پس اٹھئے اور زندگی کے بگڑے ہوئے نقشے کو بدل کر رکھ دیجئے۔

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے

مسلماں سے حدیث سوز وساز زندگی کہہ دے

٭٭٭

 

 

فلسطین ۔ جہاں اسلامی عزائم بیدار ہو رہے ہیں

 

 

ایک بار پھر سرزمین فلسطین کے مظلوموں محکوموں کا لہو گرم ہو گیا ہے اور ان کے احتجاج کی شدت سے قبضہ گیر یہودیوں ہی نہیں بلکہ حقوق انسانی کے مکار مغربی علمبرداروں کے ایوانوں پر بھی زلزلہ طاری ہے، اور مسلسل چیرہ دستیوں کے منطقی نتائج کے تصور سے لرزہ بر اندام ہو کر اب اس حلقہ سے بھی ہلکے ہلکے سروں میں اعتراف جرم کی اکا دکا آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مگر ان کے پیچھے کوئی جذبۂ انصاف کار فرما نہیں، بلکہ محض اس دہکتے الاؤ کی شدت کم کرنے کا یہ ایک فنکارانہ حیلہ ہے جو کامیابی سے ہمکنار ہوتا نظر نہیں آتا، دنیا نصف سال سے بھی زیادہ مدت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک عجیب و غریب مقابلے کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ قبضہ و محکومی کی فضا میں آنکھیں کھولنے اور پرورش پانے والے کے غلیلوں اور رسی کے پھندوں کے ذریعہ، ڈھیلے اور پتھروں سے، شیشے کے ٹکڑوں سے، جلتے ہوئے ٹائروں اور ڈنڈوں سے ایک ایسی ناقابل تسخیر ’’مسلح فوج ‘‘ پر یورشیں کر رہے ہیں جو جدید سے جدید تر اسلحہ سے لیس ہے اور انھیں پوری بے دردی کے ساتھ استعمال بھی کر رہی ہے، مگر یورش ہے کہ رکتی نہیں، احتجاج ہے کہ ٹھہرتا نہیں، طوفان ہے کہ تھمتا نہیں اس لئے یہودی سراسیمہ اور ان کے مغربی آقا متفکر ہیں۔ مگر احتجاج کی اس شدت و نوعیت سے کہیں زیادہ اس کی بنیاد اور اس کے پیچھے کار فرما جذبات سے یہودی قبضہ گیروں اور مغربی استعمار پسندوں کی نیند حرام کر رکھی ہے، کیونکہ دونوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ احتجاج کی موجودہ لہر کے پیچھے قومی اور وطنی جذبات کے بجائے دین اور اسلامی جذبات کارفرما ہیں چونکہ اسلام دشمنی ان دونوں قوموں کے خمیر میں مشترک طور پر شامل ہے اور اسلام کی ہیبت سے ان کے کوہسار و جوئبار و مرغزار کانپتے اور تھراتے ہیں، اس لئے جب سے ان کی قوت شامہ نے احتجاج کی موجودہ لہر کے پیچھے اسلامی جذبات کی بو محسوس کی ہے ان کے اعصاب گہرے قلق و اضطراب اور سخت ہیجانی اتھل پتھل کا شکار ہیں۔ چچا سام(امریکہ) کی بھاگ دوڑ بھی اسی کا نتیجہ ہے، اور عرب حکمراں بھی اسی وجہ سے مہر بلب ہیں کہ اس احتجاج کی کامیابی ان کے ایوانوں پربھی اپنے اثرات چھوڑ سکتی ہے، مگر احتجاج ہے کہ ان سارے اگر مگر سے بے نیاز اپنی رو پر چلا جا رہا ہے۔ ؎

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

فلسطینی قضیے سے کچھ عرصہ پہلے تک اس لئے مایوسی ہو رہی تھی کہ آزادیِ فلسطین کی تقریباً تمام ہی تنظیمیں، سوشلزم، کمیونزم اور وطنیت کی بنیادوں پر قائم تھیں جس کا اثر یہ تھا کہ ان کے بیشتر افراد ملحدانہ افکار و خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے، لینن، اسٹالن اور ہوچی منھ وغیرہ کے ناموں پر ان کے فوجی دستے موسوم تھے اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے اللہ کو برملا گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے تھے۔

مگر اب جو تحریک اٹھی ہے اس پر اسلامیت کی چھاپ غالب ہے اور ان کے اندر وطنی اور قو می جنگ کے بجائے اسلامی جہاد کے جذبات کروٹیں لے رہے ہیں، نئی پود میں اس خوش آئند تبدیلی بلکہ انقلاب کے اسباب یقیناً بہت وسیع ہیں مگر اس میں شام کے محدث دوراں علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ کی تالیفات کے نتیجہ میں خالص اسلام کی طرف بے لوث واپسی کی جو عالمی تحریک ابھر پڑی ہے اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس تحریک میں بڑی بڑی داڑھیوں اور ٹخنے سے اوپر کپڑا پہننے والے نوجوان اور برقع پوش خواتین پیش پیش ہیں اور قائدانہ رول ادا کر رہے ہیں ان کے اقدامات سیاسی بازیگری کے مخلصانہ جہاد کا ایک حصہ ہیں، اور ان کی تنظیموں کے جو نام منظر عام پر آئے ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں، تحریک مجاہدین اسلام، اسلامی دستہ تنظیم جہاد اسلامی، سرایائے جہاد اسلامی وغیرہ۔

ان تنظیمات بالخصوص سرایائے جہاد اسلامی نے بعض مواقع پر اپنے بیانات بھی نشر کئے ہیں جن سے ان کا نقطۂ نظر دائرہ کار اور طریق کار واضح ہوتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

٭… اسلامی جہاد کی تنظیم فلسطین سے باہرکسی بین الاقوامی تنظیم کا کوئی حصہ نہیں، بیروت میں ہونے والی دہشت گردی اور بعض مغربی افراد کے اغواء کے ذمہ داروں نے اپنے آپ کو اس تنظیم کی طرف جو منسوب کیا ہے، وہ قطعی غلط اور فریب کاری ہے، یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں صرف فلسطین پر مرکوز کئے ہوئے ہے اور اس کا بنیادی مقصد سرزمین فلسطین کی آزادی ہے باہر کی دنیاسے اسے کوئی سروکار نہیں۔

٭… اس تنظیم کی کارروائیوں کا نشانہ براہ راست اسرائیلی فوج اور اس کی فوجی تنصیبات ہیں، اسرائیلی شہری اور ان کے کاروباری یا غیر کاروباری ادارے اور شہری ٹھکانے اس کے حملوں سے قطعی طور پر محفوظ رہیں گے۔

(جون ۱۹۸۸ء )

٭٭٭

 

 

 

آزمائش اور اس کا نتیجہ

 

قربانی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے مشہور واقعے کی یادگار ہے۔ عزیمت کے باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مخصوص پیغمبرانہ مقام رکھتے تھے اور قربانی کا واقعہ اسی مقام کا ایک مظہر ہے، مگر یہی تنہا ایک مظہر نہیں ہے، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عملی زندگی مختلف مظاہر عزیمت واستقامت کی جامع رہی ہے، اور اسی جامعیت کی وجہ سے انھیں امامت کا مخصوص مقام عطا کیا گیا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

واذا بتلیٰ ابرا ھیم ربہ بکلمات فاتمھن۔ قال انی جاعلک للناس اماما۔

اور جب ابراہیم کواس کے پروردگار نے چند باتوں کے ذریعہ آزمایا تواس نے ان کی تکمیل کی، اس پر اس کے پروردگار نے کہا: میں تجھے امام بنانے والا ہوں۔

آزمائش کی وہ باتیں کیا تھیں، اس میں مفسرین نے یقیناً اختلاف کیا ہے اور کسی مستند ذریعہ سے کسی خاص مفسر کی رائے کو ترجیح دینے کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی، تاہم ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے کئی واقعات سراپا آزمائش اور ان کی عزیمت واستقامت اور ثبات قدمی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ انھوں نے اپنی قوم کو پوری مومنانہ اور پیغمبرانہ جرأت کے ساتھ توحید کی دعوت دی، پھر مرکزی بت خانہ کے بتوں کو کلہاڑیوں کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجہ میں انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے اندر ڈالا گیا، گو حشر و انجام سے واقف نہ تھے اور بظاہر جل کر رکھ ہو جانے کے سواکوئی دوسری صورت نہ تھی، مگر استقامت کا حال یہ تھا کہ ذرہ برابر بھی اضطراب سے دوچار نہ ہوئے، پھر قوم و وطن سے دور و مہجور کئے گئے۔ مگراحساس حسرت کے بجائے جذبۂ برأت کے ساتھ گھر بار چھوڑا، پھر بڑھاپے کی آخری منزل میں زندگی بھر کی دعاؤں کے بعد حاصل ہونے والے صاحبزادۂ حلیم کو خود ’’أواہ منیب‘‘ ہونے کے باوجود اپنے ہاتھوں ذبح کرنے کے عمل سے گزرے۔ گو اللہ کے کرم سے صاحبزادے ذبح نہ ہوئے لیکن عمل ذبح کی شدید ترین آزمائش سے تو باپ بیٹے کو گزرنا ہی پڑا، اور یہی مطلوب بھی تھا جان مطلوب نہ تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کی یہ وہ آزمائشیں ہیں جو پورے مستند ذرائع سے ثابت اور معلوم و معروف ہیں۔ اب آیت مذکورہ بالا میں کلمات آزمائش سے خواہ ان ہی واقعات کی طرف اشارہ ہو، خواہ کچھ دوسرے واقعات و معاملات کی طرف، بہر حال آیت کا اگلا جزو یہ فائدہ دیتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کاجو مخصوص پیغمبرانہ مقام دیا گیا تھا وہ آزمائشوں میں ان کی ثبات قدمی کے بعد اور گویا اسی کے ثمرہ و نتیجہ کے طور پر دیا گیا تھا۔

پیغمبر دنیا میں آتے ہی اس لئے ہیں تاکہ ان کا کردار آنے والی امتوں کے لیے نمونہ ہو۔ اور وہ اسی طرز پر اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تعمیر کریں، اس لئے نہیں کہ ان کے کردار کو کسی فوق الفطری قوت واستعداد کا نتیجہ سمجھ کر امت اس کی پیروی سے اپنے آپ کو عاجز و ناکارہ سمجھ لے۔ اور اس راہ پر چلنے کی کوشش کے بجائے پہلے ہی ہمت ہار کربیٹھ جائے۔

آج جب ہم عید اضحی کے استقبال کی تیاریاں اس حالت میں کر رہے ہیں کہ ہمیں نوع بہ نوع مشکلات نے گھیر رکھا ہے تو ہمیں اس موقع خاص کا یہ پیغام بھی یاد رکھنا چاہئے۔ امامت و قیادت اور عزت وسربلندی کی منزل تک پہونچنے کے لیے آزمائشوں کی راہ سے عزیمت و ثبات قدمی کے ساتھ گزرنے کی ضرورت ہے۔ حالات کے تیور دیکھ کر اگر ہم اپنے صحیح موقف سے پیچھے ہٹ گئے اور بے رحمیِ روزگار سے گھبرا کر کسی دامن عافیت میں پناہ لینے کی کوشش کی تو منزل تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آزمائشوں میں ثبات قدمی پر امامت کی بشارت سنائی گئی تو انھوں نے اللہ سے عرض کی کہ ومن ذریتی۔ یعنی میری ذریت میں سے بھی کچھ لوگوں کو یہ منصب و مقام عطافرمایا جائے۔ اس کے جواب میں اللہ نے اپنا فیصلہ صادر فرمایا: لاینال عھد الظالمین۔ میرا عہد ظالموں کو شامل نہیں۔ پس اس عہد کے دائرہ میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی استعداد و صلاحیت کو صحیح مقام میں استعمال کریں، اور اس سے وہ کام لیں جو رب العالمین کی رضا کا ہے تاکہ ہم ظالمین کے دائرہ میں داخل ہونے کے بجائے عہد مذکور سے سرفراز ہونے والے زمرہ کا حصہ بن سکیں۔ اللہ ہمارے لئے اپنی راہ آسان فرمائے۔        آمین

(جولائی ۱۹۸۸ء )

٭٭٭

 

 

 

 

بعد از خرابی بسیار

 

تاریخ کے صفحات پر بڑے بڑے جلاد، خوں آشام اور سفاک حکمرانوں اور قوموں کی خونچکاں داستانیں رقم ہیں کبھی انھیں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کرتا تھا کہ یہ اس دور کی باتیں ہیں جب انسان جاہلیت میں غرق وحشی درندہ تھا لیکن اب جب کہ انسان خود شناس اور خود نگر ہو چکا ہے حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں اور ادارے اور حکمرانوں اور قوموں کے اپنے اصول و ضوابط، انسانیت نوازی کے ضامن بن چکے ہیں۔ یہ داستانیں دہرائی نہ جائیں گی۔ مگر جب ہوش کی آنکھیں کھلیں اور گرد و پیش کے واقعات اور ان کی پشت پرکار فرما جذبات واحساسات اور عوامل واسباب کو سمجھنے کی شُدبُد حاصل ہوئی تو معلوم ہوا کہ انسان نما درندوں کی سفاکی و خوں آشامی صرف یہی نہیں کہ بدستور قائم ہے، بلکہ پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر خیال و گمان کی ساری سرحدیں پار کر چکی ہے۔ انسانیت، انسانیت نوازی اور انسانی حقوق محض کھوکھلے الفاظ ہیں جو درندوں نے اپنی حفاظت کے لئے وضع کئے ہیں اس کے بعد دنیا پر ایک اور نظر ڈالی تو کچھ عرصہ تک یہ تومحسوس ہوتا رہا کہ اس دور میں دنیا کے سب سے بڑے خوں آشام انسانی درندے ہمارے اپنے ملک ہندوستان اور اسرائیل میں بستے ہیں۔ مگر اچانک سائبیریا کے دامن میں سوئے ہوئے یا کمین گاہ میں چھپے ہوئے سرخ ریچھوں نے افغانستان پر پنجے اور دانت مارے، اور جبال البرز کی بہار گاہوں کی اوٹ سے خمینی کی قیادت میں پاسداران تشیع نمودار ہو کر عراق میں انقلاب کے تبرکات بر آمد کرنے اٹھے تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہی دور میں اب تک انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جلادوں اور قاتلوں نے جنم لیا ہے۔ فرعون و نمرود و شداد چنگیز و ہلاکو، حجاج وسفاح جنھیں ظلم و بربریت کا رمز قرار دیا جاتا ہے۔ برژنیف و خمینی کے سامنے بونے ہی نہیں بے شعور بچے نظر آتے ہیں۔ برژنیف کے سرخ ریچھوں نے کسی ادنیٰ ترین وجہ جواز کے بغیر افغانستان پر دھاوا بول کر جدید سے جدید تر آلات ہلاکت و تباہی و بربادی کے ذریعہ جس بے دردی اور دھوم دھام کے ساتھ بستیوں پہ بستیاں الٹنی شروع کیں، انسانوں، حیوانوں، درختوں اور کھیتوں پر ہولناک آگ برسانی شروع کی، عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں کو بلا امتیاز اور بے دریغ موت کے گھاٹ اتار نا شروع کیا، اس سے ساری دنیا بلبلا اٹھی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے ہمارے ملک ہندوستان جیسے امن و آشتی کے اکا دکا علمبرداروں اور انسانی حقوق کے آدرشوں کے پاسدار کو چھوڑ کو باقی ساری دنیا نے بار بار نہایت پر زور لفظوں میں اس درندگی کی مذمت کی اور شدت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کو خالی کر دیا جائے۔ مگر طاقت کے نشہ میں بدمست ریچھوں نے اس کے جواب میں حقارت آمیز قہقہے لگائے اور اپنی کارروائی جاری رکھی۔

عراق میں ملا خمینی کے ایجنٹ حزب الدعوۃ کے انقلابی مفسدین خون ناحق کے بدلہ تختۂ دار پر چڑھائے گئے تو ملا جی اکڑ گئے کہ عراقی حکمرانوں کواس کی سزادیے بغیر اس خطہ میں وہ امن قائم نہیں ہونے دے سکتے، پھر فوجوں پر فوجیں کٹتی رہیں، کشتوں کے پشتے لگتے رہے، ایران نوجوانوں سے خالی ہوتا گیا، دنیاسمجھاتی رہی کہ ملا جی جنگ بند کر دیجئے، نقصانات کا معاوضہ لے لیجئے۔ انصاف کے لئے ایک غیر جانبدارانہ تحقیقاتی ٹیم مقرر کر دی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ پورا انصاف کرا دیا جاتا ہے اسے قبول کر لیجئے۔ مگر خون آشامی کا جذبہ تھا کہ آسودہ نہیں ہو رہا تھا۔ کبر و نخوت کی تمکنت تھی کہ سنجیدگی کی راہ نہیں پکڑ رہی تھی۔ تاآنکہ نوبت عورتوں اور بچوں کوہ تھیار تھمانے تک جا پہونچی۔

سفاکی و خوں آشامی کی یہ جلادانہ کارروائیاں جاری تھیں۔ شیعہ اور کمیونسٹ باہم قریبی روابط بھی رکھے ہوئے تھے اور تشابھت قلوبھم کے مکمل آئینہ دار بھی تھے۔ بالآخر ایک ہی زمانہ میں دونوں پر قدرت کی تعزیر آ پڑی۔ ۱۹۸۸ء دونوں کے لیے شرمناک اور ذلت آمیز ہزیمت کاسال ثابت ہوا۔ روس نے کسی معاہدے سے پہلے اپنی فوجوں کی واپسی کی تاریخ مقرر کر دی۔ جنیوا معاہدہ میں اڑچن دیکھ کر ایک بار تو اکڑا کہ فلاں تاریخ تک معاملہ طے نہ ہوا توہم بھی تاخیر کریں گے، یا نہیں جائیں گے مگر جب وہ تاریخ بھی گزر گئی تو کمر سہلاتے ہوئے اعلان کرنا پڑا کہ جنیوا معاہدہ ہو یا نہ ہو ہمارا بوریابستر بہر حال گول ہو جائے گا، پھراس معاہدہ میں کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور واپسی شروع کر دی۔ اور اب وہی اقوام متحدہ جس کی قراردادوں پر سفاکانہ قہقہے لگاتا تھا۔ اسی اقوام متحدہ سے مار کھائے ہوئے مجبوروں کی طرح شکایت کر رہا ہے کہ پاکستان اور افغان مجاہدین معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں نہ ہونا!

افغانستان سے ان سرخ ریچھوں کی پسپائی کا ابھی ابتدائی ہی دور ہے کہ ملا خمینی صاحب نے بھی جنگ بندی کی اس سال بھر پرانی قرار داد کو بلا چوں و چرا تسلیم کرنے کا اعلان کر دیاجس کے خلاف مختلف زاویوں سے اب تک بار بار ناک بھوں چڑھاتے رہے اور جس کی نا منظوری کے آڑے ترچھے خطوط اب تک مختلف زاویوں سے دکھلاچکے تھے۔

افسوس اس کا ہے کہ ان جلادوں نے سلامتی و صلح کی بات اس وقت مانی جب دنیاسے چالس پچاس لاکھ انسانوں کاخون ناحق بہ چکا اور تین کروڑ انسان براہ راست کشت و خون کے اس المیہ کے صدمے اور اثرات کا نشانہ بن چکے۔ یعنی

ہر چہ دانا کند، کند ناداں … لیک بعد از خرابی بسیار

مزید افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک کے حکمراں اور مذہبی و تہذیبی جارحیت کے علمبرداروں کو ان واقعات سے کوئی سبق نہیں ملا ہے۔ وہ ان ہی ظالموں کے ہمنوا ہیں، انھیں کے سر میں سر ملا رہے ہیں اور غالباً انھیں کے نقش قدم پر چلنے کے عزائم بھی رکھتے ہیں۔ کاش انھیں آفت برپا کرنے سے پہلے اتنی سی بات سمجھ میں آ جاتی کہ اس اقدام کے نتائج بھی ان ہی جیسے ذلت آمیز اور رسواکن ہوں گے۔

حذر اے چیرہ دستاں !    سخت ہیں فطرت کی تعزیر یں !

٭٭٭

 

 

 

رخصت اے بزم چمن

 

قارئین محدث کے لئے غالباً یہ اطلاع نئی نہ ہو گی کہ میں جامعہ سلفیہ سے رخصت ہو کر مدینہ منورہ جا رہا ہوں اور میرے ہاتھوں ترتیب پانے والا محدث کا یہ آخری شمارہ ہے۔ اسے ترتیب دیتے ہوئے لازماً نگاہ پیچھے کی طرف لوٹ کر جاتی ہے۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری طالبعلمی کے اواخر کا زمانہ تھا جب جماعت کے بلند ایوانوں سے یہ بشارت سنائی پڑی کہ ایک عرصۂ دراز سے جماعت کو جس مرکزی درس گاہ کا انتظار تھا۔ اب وہ منصۂ شہود پر جلوہ گر ہونے کو ہے۔ ہم طلبہ کے لئے ایسی کسی درس گاہ کی خوشخبری کوچۂ جاناں کے تصور سے کم نہ تھی۔ چنانچہ ہم سراپا شوق بن کر اس گھڑی کا انتظار کرنے لگے جب یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے والا تھا، ہمارے وجود کا ایک ایک ذرہ پکار رہا تھا کہ ؎

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی

بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

لیکن اس وقت کے آنے سے پہلے ہی ہماری طالب علمی کی بساط لپٹ گئی۔ اور ہم زندگی کے تلخ حقائق کاسامنا کرنے کے لیے ذمہ داریوں کے ایسے لق و دق صحرا میں پھینک دیے گئے جہاں سے پلٹ کر دوبارہ یہ بساط بچھانی ممکن نہ تھی۔ تاہم احساس و شعور کے دائرہ میں ایسی کسی درس گاہ کے ساتھ عقیدت و محبت کے جو شرارے روشن تھے ان کی تپش بڑھتی گئی، یہی وجہ تھی کہ تاسیس و افتتاح کی ہر دو تقریبات میں نہایت ذوق و شوق حصہ لیا گیا اور پروگراموں کے ایک ایک حصہ پر متجسسانہ اور عقیدت مندانہ نظر ڈالی گئی، تاسیس کے موقع پر سے مولانا عبدالمتین صاحب مرحوم (نوراللہ مرقدہ واسکنہ فسیح جنانہ) نے جو تاریخی تقریر فرمائی تھی، اس کے عالمانہ اور گرانقدر مشمولات پر جلال انداز بیان اور پر شکوہ لب و لہجہ آج تک یاد ہے۔ افتتاحی تقریب میں درس بخاری کی جو مجلس سجی وہ بھی نظروں کے سامنے ہے۔ ؎

ہر چند ہوا ترک تعلق کو زمانہ

یادوں کا مگر آج بھی ہر زخم ہرا ہے

اپنے مرکز سے عقیدت کی اس تپش نے پورے وجود کو جذبۂ خدمت سے سرشار رکھا تھا، مگر ایسے مرکز کی فلک پیما بلندی کے تصور اور اپنی علمی بے مائے گی کے احساس کے درمیان فاصلہ اتنا طویل نظر آتا تھا کہ امید نہ تھی کہ کبھی اس جذبۂ خدمت کو جامۂ عمل پہنانے کی سعادت نصیب ہو سکے گی۔ لیکن ایک دن ایساآیا جب اس سعادت نے خود بڑھ کر ہاتھ تھام لیا۔ یہ شوال ۱۳۹۴ھ (اواخر اکتوبر ۱۹۷۴ء ) کا زمانہ تھا۔ پر ہجوم زندگی سے نکل کر یہاں قدم رکھا تو ’’فراغتے وکتابے وگوشہ چمنے ‘‘ کاسماں تھا۔ مگر فراغت کے یہ لمحات تیزی سے پر ہوتے گئے اور گوشۂ چمن سے جلد ہی نکل کر موجوں کے بیچ میں آنا پڑا۔ پھر کیا تھا قدم قدم پر نشیب و فراز سے سابقہ پیش آیا۔ سرد و گرم فضاؤں سے دوچار ہونا پڑا، بہار و خزاں کی رنگینیوں اور ویرانیوں کے تماشے دیکھے۔ طوفان کے جھونکوں سے سابقہ پیش آیا، جنھوں نے قدم ڈگمگانے اور اکھاڑنے کی کوشش کی مگر تعمیر و چمن بندی کے جن جذبات واحساسات نے دل و دماغ کو معمور رکھا تھا، ان کی تازگی اور بالیدگی میں اللہ کی توفیق سے کوئی فرق نہ آیا، اور وہ دوسرے تمام احساسات پر غالب رہے، نہ پاؤں صراط مستقیم سے ڈگمگایا نہ رخ منزل کی جہت سے کسی اور طرف مڑا۔ ادائیگیِ فرض کی جیسی تیسی کوشش ممکن ہو سکی کرتا رہا۔ پھر ۱۹۸۳ء کے آغاز سے محدث کی ایڈیٹر شپ اور ترتیب بھی ذمہ داریوں میں شامل ہو گئی اور اس طرح قوم و جماعت کے ذہن و مزاج کی گہرائیوں تک تاکنے اور جھانکنے کا بھی موقع ملا۔ اور اسلام، امت اسلامیہ اور عالم اسلام کے سلسلے میں دوسروں کے احساسات سننے اور اپنے احساسات سنانے اور بتانے کے بھی مواقع نصیب ہوئے۔ ان مصروفیات میں وقت اس تیز رفتاری سے گزرا کہ مدت کے طول و عرض کا احساس ہی نہ ہو سکا تاآنکہ قسمت کے ساربان نے بانگ رحیل دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ چودہ بہاریں گزر چکی ہیں اور قافلۂ وقت کہیں سے کہیں جا نکلا۔ اور نوع بہ نوع روابط کی ایک دنیا آباد ہو چکی ہے آج جب کہ اس دنیاسے نکل کر ایک دوسری دنیا میں قدم رکھنے کی تیاری ہو رہی ہے، خفتہ جذبات کا طوفان پھر امنڈ پڑا ہے اور در و بام ہیں کہ عہد رفتہ یاد دلا رہے ہیں اور دل عہد شناس ہے کہ جواب میں کہہ رہا ہے۔

اب تو جاتے ہیں میکدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

و للہ الامر من قبل و من بعد۔

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید