FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سلسلہ وار

گھر سنسار

ایک کثیر تہذیبی بین الاقوامی ناول

 

صدق و صفا

(۴)

 

حصہ دوم

 

 

ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 ورڈ فائل 

 

 ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

خود آگہی

 

پروین حیرت سے رضیہ کو دیکھ رہی تھی قاسم ان سے اجازت لے کر دوسرے مقدمے کی تیاری کیلئے کمرے سے باہر  جا چکے تھے۔ اس بیچ قاسم سمرو کی بہو شاہین اپنے بیٹے کے ساتھ چائے کی کشتی لے کر داخل ہوئی اور اس کا بچہ آ کر سیدھا رضیہ کی گود میں بیٹھ گیا۔ رضیہ ایک دم چونک پڑی ایک ننھا سا بچہ اسے اپنے وجود سے باہر پروین اور شاہین کے درمیان لے آیا۔

شاہین نے مسکرا کر سلام کیا اور رضیہ کے بغل میں بیٹھ کر بولی ابا جان ایک ساتھ کئی مقدمات کی تیاری کرتے ہیں اور وقفوں میں ان کے مؤکلوں سے ہم بھی شرف ملاقات حاصل کر لیتے ہیں۔

پروین بولی لیکن انہوں نے توکہا تھا کہ ان کا صرف ایک لڑکا ہے۔

جی ہاں صحیح کہا تھا اور ایک بہو بھی ہے جو میں ہوں ایک پوتا بھی ہے جو یہ ہے ہاشم سمرو بالکل اپنے دادا کی طرح شوخ و شنگ۔

پروین بولی در اصل مؤکلہ تو محترمہ رضیہ ہیں میں ان کی خادمہ ہوں۔ ان کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں۔

رضیہ مسکرائی اور بولی خادم اور مخدوم کا تعلق بڑا دلچسپ ہوتا ہے کب خادم مخدوم ہو جائے اور مخدوم خادم میں بدل جائے یہ کہنا مشکل ہی ہوتا ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ حبیب اور محبوب کا رشتہ ہو۔

شاہین بولی لیکن نام کے بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟

پروین نے کہا فرق یہ ہے کہ خادم اور مخدوم کی سطح مختلف ہوتی ہے اور جب یہ رشتہ بدلتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے لیکن حبیب اور محبوب دونوں ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں۔ رشتوں کی ادلا بدلی سے فرق نہیں پڑتا۔

شاہین بولی جی ہاں آپ نے صحیح کہا۔ زن و شو کے درمیان جب خادم و مخدوم کا تعلق ہوتا ہے تو شکایات پیدا ہوتی ہیں اور جب حبیب و محبوب کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو مسائل اپنے آپ حل ہونے لگتے ہیں۔

لیکن شاہین کیا محبت اور خدمت ایک دوسرے کے بغیر ممکن ہے۔

میرے خیال میں خدمت تو محبت کے بغیر ممکن ہے لیکن محبت! وہ خدمت کے بغیر نا ممکن ہے۔

رضیہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ گویا یہ دونوں اشاروں اور کنایوں میں اس کے مقدمے پر بحث کر رہی ہیں۔

شاہین بولی آپ لوگ یہ کیک کھائیں نمکین بھی ہے میں چائے بناتی ہوں۔ نہایت اعلیٰ درجہ کی نمکین کلکتہ سے بن کر آئی تھی اور امریکن بیکری کے المونیم فوائل میں بند کیک تپائی پر سجے ہوئے تھے۔ شاہین کپ میں چائے انڈیل رہی تھی۔ رضیہ نے کیک اٹھا کر پہلے ہاشم کے ہاتھ میں دیا اور پھر دوسرا خود کھول کر کھانے لگی۔ اس دوران پروین کیک کے بعد نمکین کھا رہی تھی اور شاہین چائے کی چسکیاں لے رہی تھی۔

ہاشم کیک کھانے کے بجائے اس سے کھیل رہا تھا۔ شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ کیک کھیلنے کی نہیں کھانے کی چیز ہے یاوہ جانتے بوجھتے کھانے سے قبل اس سے کھیلنا چاہتا تھا۔ وہ کیا چاہتا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ شاید وہ خود بھی نہیں جانتا تھا لیکن بہر حال وہ کیک سے کھیل رہا تھا۔ چائے کے دوران شاہین اور پروین مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے قاسم کیک سے کھیلتا رہا اور رضیہ ہاشم سے کھیلتے کھیلتے خود کو بھی ایک بچہ محسوس کرنے لگی۔

وہ اس کے ہاتھ سے کیک لے کر ادھر ادھر چھپا دیتی۔ ہاشم اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا جب اپنا کھویا ہوا کیک دوبارہ حاصل کر لیتا تو خوشی سے تالیاں بجانے لگتا لیکن دورانِ تلاش جب وہ پریشان ہوتا تو اس کی جستجو اور شوق کو دیکھ کر رضیہ خوش ہوتی اور بالآخر اس کی خوشی میں شامل ہو کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کر لیتی۔ اب وہ کیک رضیہ کے لئے بھی کھلونا بن گیا تھا ہاشم ہر مرتبہ کیک ڈھونڈ کر رضیہ کے ہاتھ میں تھما دیتا اور آنکھیں میچ لیتا تاکہ وہ اسے چھپا دے اور جب رضیہ کہتی چلو ڈھونڈو تو وہ آنکھیں کھول کر اس کی تلاش میں لگ جاتا۔

اس دوران یہ چھپا چھپی کا کھیل نہ جانے کتنی بار ہوا۔ یہاں تک کہ رضیہ بھی بھول گئی کہ اس کھلونے کو کھایا بھی جا سکتا ہے۔ ہاشم نے کیک رضیہ کے ہاتھ میں دے دیا اور اسے ایک ٹک گھورنے لگا۔ رضیہ نے کہا آنکھیں بند کرو۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔ وہ پھر بولی بیٹے آنکھیں بند کرو لیکن ہاشم نے کیک اس کے ہاتھ سے لیا اور پھر اس کے منہ کے قریب کیا۔ رضیہ سمجھ گئی وہ کھیلنا نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ میں کیک کو کھاؤں۔ لیکن وہ تو کیک اپنا کھ اچکی تھی اس لئے اس نے کیک میز پر رکھ دیا۔

ہاشم نے کیک اٹھا لیا اور پھر ایک بار رضیہ کے منہ کے پاس لے گیا۔ رضیہ نے سمجھا کہ وہ کھانے پر اصرار کر رہا ہے۔ رضیہ کیک کی المونیم فوائل کھولنے لگی اور جیسے ہی اس نے کیک باہر نکالا۔ ہاشم نے اس کے ہاتھ سے کیک لیا اور خود کھانے لگا۔ رضیہ کو محسوس ہوا بڑا بدتمیز بچہ ہے۔ کیک اسے کھانے کیلئے دیا اور پھر اس کے ہاتھ سے چھین کر خود کھانے لگا۔ اس نے غور سے ہاشم کو دیکھا ہاشم کے چہرے پر نہ کوئی شرارت تھی اور نہ ندامت وہ چپ چاپ کیک کھا رہا تھا اپنی بھوک مٹا رہا تھا۔

رضیہ کو اچانک اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ ہاشم نے اس سے کب کہا تھا کہ وہ کیک کھائے؟ اور پھر وہ کیک رضیہ کا تھا ہی کب؟ وہ تو ہاشم کا کیک تھا جو اس نے کھولنے کی خاطر رضیہ کو دیا۔ رضیہ یہ سمجھ بیٹھی کہ وہ رضیہ کو کیک کھلانا چاہتا ہے۔ جب کہ ہاشم ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا وہ تو کیک خود کھانا چاہتا تھا اس کا اپنا کیک وہ اطمینان سے کھا رہا تھا۔ رضیہ اس کیک کی مالک نہیں تھی۔ یہ کیک ہاشم کو دے کر اس نے کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ وہ کیک ہاشم ہی کا تھا جو اسے مل گیا تھا۔ رضیہ تو بس ایک ذریعہ تھی اس کا کام صرف کیک کھول کر ہاشم کو دینا تھا۔ خود کو کیک کا مالک سمجھنا رضیہ کی اپنی غلطی تھی۔ ہاشم کی بدتمیزی نہیں تھی۔

ہاشم کے رویہ پر غور کرتے کرتے نہ جانے کب وہ رضوان کے بارے میں سوچنے لگی رضوان پر کئے جانے والے احسانات کے بارے میں سوچنے لگی اور پھر اس نے جھنجھلا کر سوچنا بند کر دیا۔ وہ بھی شاہین اور پروین کی لایعنی باتوں میں شریک ہو گئی۔ ہاشم اپنا کام کر رہا تھا۔ کیک کھا بھی رہا تھا گرا بھی رہا تھا۔ فی الحال ہاشم کی تمام تر توجہ اس کی اپنی ذات پر مرکوز تھی۔ وہ رضیہ، شاہین اور پروین سے بے نیاز اپنے آپ میں مگن تھا کہ اچانک قاسم سمرو دوبارہ کمرے میں نمودار ہوئے اور سارے لوگ ان کی جانب متوجہ ہو گئے۔

قاسم نے کہا بہت اچھا ہوا جو آپ لوگوں میں دوستی ہو گئی مجھے یقین تھا کہ ایسا ہو گا۔ خیر پروین آپ شاہین کے ساتھ کچھ اور گفتگو کرو میں دوسرے کمرے میں رضیہ سے ذاتی نوعیت کے چند سوالات کروں گا۔ قاسم کمرے سے باہر نکل گئے رضیہ اور ہاشم ان کے پیچھے چل پڑے۔ قاسم نے میز کی دوسری جانب اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے ہاشم کو دیکھا تو کہا او ہو تو یہ جج صاحب بھی یہاں آ گئے۔

رضیہ مسکرائی اور بولی بڑا پیارا بچہ ہے۔

جی ہاں لیکن اسے دیکھو اپنی ماں کو چھوڑ کر آپ کے پیچھے چلا آیا۔

جی ہاں بات یہ ہے کہ ابھی وہ میرے ساتھ کھیل رہا تھا۔

وہ آپ کے ساتھ یا آپ اس کے ساتھ؟

ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

اچھا تو کھیل کھیل میں وہ اپنے ماں کی ممتا بھول گیا۔

بچہ ہے وکیل صاحب آپ اس کی حرکتوں کو اس قدر سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ مجھے حیرت ہے۔

جی ہاں آپ نے صحیح کہا غلطی تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن کسی کی غلطی پر درگذر کارویہ اختیار کیا جاتا ہے اور کسی کو سز ادینے کی ضد کی جاتی ہے۔

رضیہ نے تائید کی اور بولی ایسا اس لئے ہوتا ہے بچے کا قصور غیر شعوری ہوتا ہے۔ وہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔ جان بوجھ کر غلطی کرنے والا ہی سزا کا حقدار ہوتا ہے۔ اس کی نیت جو دوسروں کو نقصان پہونچانے کی ہوتی ہے۔

جی ہاں بی بی آپ نے بجا فرمایا لیکن ایسی سزا تو وہی دے سکتا ہے جو نیتوں کا حال جانتا ہو۔ ہم لوگ تو وہی دیکھتے ہیں جود کھائی دیتا ہے۔ نیت اور ارادے تک بھلا ہماری رسائی کیونکر ممکن ہے؟

جی ہاں وکیل صاحب۔

اس لئے میرا مشورہ ہے کہ انسان کو فیصلہ کرنے میں احتیاط کرتے ہوئے بدگمانی سے بچنا چاہئے کیونکہ بہت زیادہ گمان گناہ ہوتا ہے۔ ان کی بے بنیاد عمارت ہوا کے معمولی جھونکے سے ڈھے جاتی ہے اور اس کے نیچے گمان کرنے والا خود کچل جاتا ہے۔

آپ نے درست فرمایا۔

٭٭٭

 

 

 

 

تسلیم و رضا

 

قاسم سمرو نے کہا ہماری گزشتہ گفتگو ایک خاص سوال پر آئی اور پھر میں دوسرے مقدمے میں الجھ گیا۔ اس لئے بہتر ہے بات وہیں سے آگے بڑھائی جائے۔ آپ کہہ رہی تھیں کہ میں رضوان سے محبت نہیں کر سکتی اس لئے کہ اس کے دل میں آپ کے لئے محبت نہیں پائی جاتی۔

جی ہاں وہ مجھ سے محبت نہیں نفرت کرتے ہیں۔ رضیہ نے تائید کی۔

وہ نفرت کرتا ہے اور آپ کیا کرتی ہیں محبت یا نفرت؟

وکیل صاحب یہ کس طرح کا سوال آپ کر رہے ہیں؟ رضیہ نے پریشان ہو کر دریافت کیا۔

رضیہ بی بی سوال کے جواب میں سوال کرنے کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ رضوان سے محبت کرتی ہیں یا نفرت؟ مجھے اس سوال کا جواب ہاں یا نہیں میں چاہئے۔

( تذبذب کے عالم میں ) در اصل اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔

یہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دن اور رات ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ اندھیرا اور اجالا ایک ساتھ پائے نہیں جاتے اسی طرح یہ متضاد جذبات بھی۔۔ ۔

رضیہ نے پہلی مرتبہ جھنجھلا کر قاسم کا جملہ کاٹ دیا اور بولی ہو سکتا ہے۔ لیکن میرے پاس اس سوال کا دو ٹوک جواب نہیں ہے۔

قاسم نے کہا اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے اس لئے کہ رشتوں کے بننے اور بگڑنے کا دارومدار اسی پر ہے خیر میں آپ سے ایک اور بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ وہ آپ سے علیٰحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے یا آپ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہیں؟

وہ مجھ سے علحٰدہ ہو چکے ہیں اب میں بھی ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی؟

لیکن یہ پیش قدمی آپ کی جانب سے ہے اس نے آپ سے الگ ہونے کی خاطر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کی؟

جی ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں ہی اقدام کر رہی ہوں۔

تو گویا مجھے پہلے سوال کا جواب مل گیا جو محبت کرتا ہے وہ پاس رہنا چاہتا ہے اور نفرت کرتا ہے وہ دور جانا چاہتا ہے۔ رضوان آپ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا اور پاس رہنا چاہتا ہے اس کے برخلاف آپ اس کو دور کرنا چاہتی ہیں اور دور جانا چاہتی ہیں؟

جی ہاں میں سمجھ گئی آپ الٹا مجھے موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی محبت کے جواب میں نفرت کرتی ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئی صورتحال کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ میں بھی ان سے محبت کرتی تھی لیکن اس محبت میں نفرت کا زہر کس نے گھولا؟ میں نے یا انہوں نے؟ اگر وہ نکاح ثانی نہ کرتے تو یہ محبت نفرت میں نہ بدلتی؟

صورتحال بدل چکی تھی رضیہ سوالات کر رہی تھی اور قاسم سمرو ان کا جواب دے رہے تھے اوہ بولے اگر نکاح ثانی محبت کو نفرت میں بدلتا ہے تو یہ حرکت رضوان نے کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کی محبت نفرت میں بدل جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

جی ہاں یہ درست ہے۔ میں ان قانونی موشگافیوں کو نہیں جانتی جس میں آپ مجھے پھنسارہے ہیں میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ رضوان احسان فراموش ہے اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ مجھے فریب دیا ہے۔ میری توہین کی ہے۔ میں اس سے انتقام لینا چاہتی ہوں اس کو اس کے کئے کی قرار واقعی سزادلانا چاہتی ہوں اور اس مقصد کے لیے آپ کی قانونی مدد حاصل کرنے کی خاطر حاضر ہوئی ہوں۔

قاسم سمرو نے نہایت نرمی سے جواب دیا بی بی صاحبہ میں آپ کے جذبات کو سمجھتا ہوں لیکن انصاف کی دیوی نہ اسے دیکھ سکتی اور نہ محسوس کر سکتی ہے اس کے ہاتھ میں جو ترازو ہے اس پر جذبات و احساسات کو تولا نہیں جاتا۔ مابعد طبیعی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قانون کی نگاہ میں چونکہ رضوان نے کوئی غلطی نہیں کی اس لئے عدالت اس پر چارہ جوئی نہیں کر سکتی۔

(زچ ہو کر)گویا جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس کی تدارک کسی صورت ممکن نہیں ہے؟ عدلیہ ظالم کو اس کے کیے کی سزا دینے سے قاصر ہے؟

دیکھئے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ظلم کیا ہے؟ وہ جس کا ارتکاب رضوان نے کیا ہے یا جسے آپ کرنے جا رہی ہیں لیکن آپ کو یہ بتلا دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ کے سامنے صرف دو متبادل ہیں ایک مصالحت دوسرے بغاوت۔ آپ اگر مصالحت کر کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو آپ کو کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر آپ خلع حاصل کرنا چاہتی ہیں تو میں اس کے لئے قانونی کاروائی کر سکتا ہوں۔

جی ہاں آپ اپنا کام کیجئے میں اس عذاب سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں رضیہ سلطانہ نے تحکمانہ انداز میں کہا۔

مناسب قاسم سمرو بولے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ حتمی فیصلہ کریں میں آپ کی توجہ ایک خاص پہلو پر مبذول کرانا چاہتا ہوں؟

جی فرمائیے۔ آپ کا یہ فیصلہ اگر نافذ ہو جائے تو اس میں آپ کا اور بچوں کا جن سے آپ محبت کرتی ہیں نقصان ہے نیز رضوان اور اس کی دوسری بیوی کا جن سے آپ نفرت کرتی ہیں فائدہ ہے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ ان لوگوں کا فائدہ کیوں کرنا چاہتی ہیں جن سے آپ کو نفرت ہے؟ بقول آپ کے اگر رضوان کو بھی آپ سے نفرت ہے تو وہ اس فیصلہ سے خوش ہو جائے گا اس کی نئی بیوی بھی پھولی نہیں سمائے گی کہ راستے کا کانٹا نکل گیا۔ اس کے برعکس آپ کے بچوں کے سر سے والد یا والدہ کا سایہ اٹھ جائے گا۔

جس شخص نے مجھے دھوکہ دیا ہے میں اس کے بچوں کی فکر کیوں کروں؟

اچھا تو ان بچوں سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے؟ کیا یہ صرف رضوان کے بچے ہیں تمہارے نہیں ہیں؟

آپ کیسی بات کرتے ہیں وکیل صاحب میرا ان سے تعلق نہیں ہے؟ وہ میری ذات کا حصہ ہیں۔ ان کا کسی اور سے کیا تعلق ان کا صرف اور صرف مجھ سے تعلق ہے؟ رضیہ متضاد باتیں بول رہی مگر غصے کے عالم میں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

تو پھر کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ انہیں غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟

جی نہیں۔ میں کسی کو ان کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے نہیں دوں گی؟

وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا بچے اپنے والد کے بغیر خوش رہ سکیں گے؟

کیوں نہیں؟ نہیں نہیں! شاید نہیں؟

اور کیا تم ان بچوں کے بغیر خوش رہ سکو گی؟

نہیں! ہرگز نہیں!! ہرگز نہیں ہرگز نہیں!!! رضیہ خاموش ہو گئی اور پھر اپنے آپ سے کہنے لگی یہ کیسی گلیاں جو اچانک بند ہو جاتی ہیں۔ یہ کیسے راستہ ہیں جن پر چل انسان وہیں پہونچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا؟

قاسم سمرو پھر ایک بار کسی اور مقدمہ کی تیاری کی خاطراجازت لے کر باہر  جا چکے تھے۔ رضیہ کی گود میں ہاشم اس گرما گرم گفتگو سے بے نیاز نہایت پرسکون نیندسو رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ محبت کیا ہے؟ نفرت کیا ہے؟ مصلحت کیا ہے؟ بغاوت کیا ہے؟ فائدہ کیا ہے اور خسارہ کیا ہے؟ خوشی کیا ہے اور غم کیا ہے؟ ان تمام بکھیڑوں سے آزاد یہ ننھا فرشتہ کچھ دیر کھیلا تھوڑا سا کھایا اور پھر گہری نیند میں سو گیا۔ وہ نیند جو رضیہ کی آنکھوں کا کانٹا بن چکی تھی۔ وہ نیند جو  رضیہ کو بھیانک خواب دکھلاتی تھی۔ وہ نیند جو سکون کے بجائے عذاب بنی ہوئی تھی۔

رضیہ سوچ رہی تھی کہ وہ ہاشم کی طرح کیوں نہیں سو سکتی؟ شاید اس لئے کہ وہ سوچتی ہے اور ہاشم نہیں سوچتا۔ وہ کھیلتا ہے کھاتا پیتا ہے اور سو جاتا ہے۔ ہاشم جاگتا ہے اور جیتا ہے لیکن سوچتا نہیں ہے۔ رضیہ سوچ رہی تھی کہ وہ کیوں سوچتی ہے وہ اپنے سوچ بچار میں غرق تھی کہ شاہین کی آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی او ہو یہ تو سو گیا؟ لاؤ بہن میں اسے بستر پر سلادوں اور یہا باجی کب چلے گئے؟ آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں؟ خیر میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ شاہین ہاشم کو اٹھا کر لے گئی۔ پروین رضیہ کے پاس بیٹھ گئی اور قاسم سمرو کمرے میں پھر سے داخل ہو گئے۔

پروین نے کھڑے ہو کر باہر جانے کی اجازت طلب کی رضیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ اسے سہارے کی ضرورت محسوس ہو رہی اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ قاسم سمرو نے آتے ہی سوال کیا میں آپ سے ایک بات پوچھنا بھول گیا۔ کہ آخر اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا؟

رضیہ خاموش رہی پروین بولی بات در اصل یہ ہے رضوان ابو ظبی میں رہتے ہیں اور اپنی سالانہ چھٹی میں ایک ماہ کیلئے یہاں آتے ہیں۔ ویسے تو گیارہ ماہ بعد ہی رضیہ کو اس بات کا علم ہوتا لیکن اتفاق سے رضیہ کے ایک پڑوسی کی ملاقات ابو ظبی میں رضوان سے ہو گئی اور اسے پتہ چل گیا سو اس نے رضیہ کو فون پر اطلاع دے دی۔

او ہو ایسی بات ہے تو گو یا وہ سال میں صرف ایک ماہ ان کے ساتھ گذارتا ہے۔

جی ہاں رضوان ان سے کہتے کہتے تھک گیا کہ میرے ساتھ ابو ظبی چلو لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر رضیہ نے از خود منع کر دیا تھا۔ اس لئے یہ سال میں ایک ماہ کا نظام قائم ہو گیا۔

اب آئندہ چھٹیوں میں جب رضوان آئے گا تو کیا کرے گا؟

رضیہ نے جب ان کا فون لینا بند کر دیا تو انہوں نے نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور رضیہ کو سمجھانے کیلئے کہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا وہ چاہتے ہیں ایک سال کے گیارہ مہینے چمیلی یعنی نئی بیوی ان کے پاس ابو ظبی میں رہے دوسرے سال کے گیارہ مہینہ رضیہ وہاں رہے اسی طرح ایک سال بچوں کے ساتھ رضیہ رہے گی اور دوسرے سال چمیلی

پھر کیا ہوا؟ قاسم نے پروین سے پوچھا۔

میں نے یہ تجویز رضیہ کے سامنے ڈرتے ڈرتے رکھی اس لئے کہ مجھے یقین تھا وہ اسے ٹھکرا دے گی اور یہی ہوا رضیہ نے کہا ایک سال تو درکنا رمیں ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے بچوں پر اس چڑیل کا سایہ پڑنے نہ دوں گی۔

پھر آپ نے یہ بات اسے بتائی۔

جی ہاں جب دوبارہ فون آیا تو میں نے رضیہ کے جواب سے انہیں آگاہ کر دیا۔

اس پر رضوان کا رد عمل کیا تھا؟

رضوان پریشان تھا اس نے کہا ٹھیک ہے اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے تو میں چھٹیوں کے دوران چمیلی کو اپنے میکے روانہ کر دوں گا اور ساری تعطیلات حسب معمول رضیہ کے ساتھ گذاروں گا۔

قاسم سمرو نے کہا رضوان تجویز نہایت معقول ہے۔ رضیہ اس ساری گفتگو میں بے جان بت کی مانند بیٹھی ہوئی تھی ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اس کا اپنا مسئلہ زیرِ بحث ہے یا کسی غیر کے مسائل پر بات ہو رہی ہے؟

قاسم سمرو نے ایک اور سوال کیا؟ پروین اس نئی صورتحال کے اثرات کیا پڑیں گے؟ کیا ان کے گھر میں معاشی مسائل پیدا ہو جائیں گے؟

پروین بولی میں ایسا نہیں سمجھتی۔ اس لیے کہ رضوان اپنے بچوں سے ہر گز غافل نہیں ہوں گے اور ان کی کفالت جاری رکھیں گے۔ رضیہ خود قناعت پسند ہے؟ فضول اخراجات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تمام بچوں کو امتیازی نمبرات کے باعث تعلیمی وظائف ملتے ہیں اور ویسے بھی یہ اپنی آمدنی کا اچھا خاصہ حصہ غریب پڑوسیوں اور رضوان کے رشتہ داروں پر خرچ کر دیتی ہے۔ ایسے میں ہو سکتا ہے دوسروں پر اس کا تھوڑا بہت اثر پڑے لیکن ان کے اپنے اخراجات پر یقیناً کوئی خاص اثر نہیں ہو گا۔

قاسم سمروکا اگلا سوال رضیہ سے تھا لیکن مخاطب پروین تھی وہ بولے اگر مادی اثرات نہیں پڑتے؟ اوقات اور توجہات میں کمی واقع نہیں ہوتی تو آخر مسئلہ کیا ہے؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا؟

اس بار رضیہ نے اپنی چپی ّ توڑی وہ بولی یہ آپ نہیں سمجھ سکتے یہ بات ان کی سمجھ میں کبھی نہیں آ سکتی یہ اس کا ادراک مردوں کے بس میں نہیں ہے۔ اس کو تو صرف ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے وہ عورت جس کی زندگی کو۔ خوشیوں کو۔ محبتوں کو تقسیم کر دیا گیا ہو۔ وہ عورت جو بلا شرکت غیرے اپنی کائنات پر مکمل حکمرانی چاہتی ہو۔ وکیل صاحب کوئی ایسی صورت نکالیں کہ ان کی زندگی سے وہ نکل جائے۔

قاسم سمرو نے جواب دیا رضیہ بہن انسان صرف اپنے بارے میں فیصلے کر سکتا ہے اپنے رشتوں کو سنوار سکتا ہے اور ان کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔ لیکن دوسروں کے بارے میں ایساکچھ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ خود چاہے تو نفرت بھی کر سکتا ہے اور محبت بھی لیکن دوسروں کو محبت یا نفرت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

کیوں؟ کیوں؟ آخر کیوں؟ انسان اس قدر مجبور کیوں ہے؟ وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟

دیکھو رضیہ بی بی محبت اور نفرت میں زبر دستی کی بھی جاتی ہے اور اسے برداشت بھی کیا جاتا ہے لیکن زبردستی نہ تو محبت کو نفرت میں اور نہ نفرت کو محبت میں بدلا جا سکتا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی قانون یا کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو دو محبت کرنے والے دلوں میں نفرت ڈال دے۔

آپ اس قدر وثوق سے یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟

اس کی وجہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ مجھے اپنی بیوی سے بے حد محبت تھی۔ والدین نے اس کا بیاہ میرے ساتھ کر دیا۔ ایک سال کے اندر ہاشم کے باپ ابراہیم کی ولادت ہوئی لیکن میری اور ابراہیم کی محبت میری بیوی نازنین کو روک نہ سکی۔ وہ دوسالہ ابراہیم کو چھوڑ کر چلی گئی اور مجھ سے خلع حاصل کر لیا۔

لیکن وہ کہاں گئی؟

وہ اس شخص کے پاس چلی گئی جس سے اس کو محبت تھی اور آج بھی وہ دونوں نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی گذار رہے ہیں۔

رضیہ حیرت سے قاسم کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ رہی تھی وہ بولی وہ آپ کو چھوڑ کر چلی گئی باوجود اس کے کہ آپ اس سے محبت کرتے تھے۔

جی ہاں نازنین مجھ کو اسی طرح چھوڑ گئی جس طرح آپ رضوان کو چھوڑ دینا چاہتی ہیں جبکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔

رضیہ نے کہا وکیل صاحب محبتوں کے یہ سلسلے شاید کبھی ہماری سمجھ نہیں آ سکتے۔ شاید اسی لئے دنیا محبت کو اندھا کہتی ہے۔

لیکن رضیہ بی بی ایسا صرف وہی لوگ کہتے ہیں جو محبت میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ آپ جیسے اور مجھ جیسے لوگ۔ جو کامیاب ہوتے ہیں وہ نہیں کہتے بلکہ وہ تو اس دنیا کو اندھا کہتے ہیں جسے محبت نظر نہیں آتی۔

پروین شاکر نے بے ساختہ قاسم سمرو کی تائید کی۔

قاسم سمرو بولے دیکھو یہ محبت کے میدان میں کامیاب ہیں اس لئے اس قدر پر جوش تائید کر رہی ہیں آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کامیاب بنانے کی خاطر میری نہیں بلکہ ان کی ضرورت ہے۔

پروین نے کہا جی نہیں ڈاکٹر صاحب میں تو بس اس شعر پر عمل کرتی ہوں کہ؎

محبت کی عدالت میں شکایت کر نہیں سکتی

گلے شکوے مقابل ہوں تو چاہت ہار جاتی ہے

قاسم سمرو نے کہا یہ شعر میرے لیے اس قضیہ کا حاصل ہے۔ میں آپ سب کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے دعا گو ہوں۔ اللہ حافظ۔

رضیہ سلطانہ بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے گھر سنسار میں لوٹ رہی تھی جہاں رضوان بانہیں کھولے اس کا منتظر تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جبل نور

 

ہوائی اڈہ پہنچنے کے بعد غضنفر نے وہاں موجود ایک بنگالی حمال سے اسی کے لہجے میں پوچھا کیوں بندھو تمہارا ڈھاکہ سے آنے والا جہاز آ گیا کیا؟

وہ بولا ابھی نہیں آیا۔ دو گھونٹا لیٹ چول رہا ہے۔ حمال نے اپنے روایتی انداز میں جواب دیا۔

دو گھنٹہ! اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا جیسی سست یہ بنگالی قوم ہے ویسی ہی ان کی قومی ہوائی کمپنی بمان ہے۔

یہ سن کر حمال کی قومی حمیت بیدار ہو گئی اور وہ خونخوار نظروں سے غضنفر کر دیکھنے لگا لیکن اس بیچ ایک اعلان نشر ہونے لگا جس میں کہا جا رہا تھا کہ لاہور سے آنے والی پی آئی اے فلائیٹ اپنے وقت مقر رہ سے ۵ گھنٹے تاخیر سے متوقع ہے۔

حمال بولا سنا تم نے کیا بولتا پانچ گھونٹا جیادہ ہائے کہ دو گھونٹا۔

غضنفر کھسیا کر بولا بھائی غلطی ہو گئی معافی چاہتا ہوں نہ جانے ان ہوائی جہازوں کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ ان سے اچھی ریل گاڑی ہے۔

کیا تمارا پاکستان میں سب ریل گاڑی بوقت پہ چولتا ہے؟ ہمارا بونگلہ دیش میں تو وہ بھی دیری سے چولتا ہے۔

جی تم صحیح بولتا ہے ریل گاڑی بھی کہاں وقت پر چلتی ہے خیر۔ اب کیا کیا جائے۔ چلو انتظار کرتے ہیں یہ کہہ کر اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو سامنے ایک اخبارات کی الماری نظر آئی جہاں اخبارات کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور لوگ مفت میں اخبار اٹھا اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ غضنفر بھی وہیں پہنچ گیا لیکن اس میں تو صرف عربی اور انگریزی اخبارات و رسائل تھے۔ ان کے درمیان ایک چینی اخبار بھی تھا لیکن کوئی اردو اخبار یا جریدہ نہیں تھا۔

غضنفر سوچنے لگا اس ہوائی اڈے پر چینی زبان سمجھنے والوں کی بہ نسبت اردو پڑھنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن ان کا اپنا اخبار موجود نہیں ہے۔ دور ایک بنچ پر اس کو ایک پٹھان نظر آیا تو وہ بات چیت کی غرض سے وہاں پہنچ گیا۔ وہ نوجوان اردو اخبار پڑھ رہا تھا۔ غضنفر نے اسے سلام کیا تو اس نے جواب تو دیا مگر پھر اخبار منہمک رہا۔ غضنفر نے اس سے خیریت دریافت کی تو وہ رکھائی سے ہاں بولا پھر اخبار میں کھو گیا۔ غضنفر نے پوچھا کیا میں ۰۰۰۰؟

اس نے غضنفر کی جانب دیکھے بغیر پاس پڑا دائجسٹ غضنفر کی طرف بڑھا دیا۔ اس نوجوان کی بے اعتنائی پر غضنفر کو بہت غصہ آیا لیکن پھر بھی اس نے وقت گذاری کے لئے ڈائجسٹ لے لیا اور دبئی کی کہانی میں کھو گیا۔ جبل نور نامی داستان تھی ہی کچھ ایسی کہ اس نے غضنفر کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔

واجد علی شاہ کو اس دارِ فانی سے کوچ کئے ہوئے کئی صدیاں بیت چکی تھیں مگر ان کی تہذیب و روایات اب بھی سرزمین لکھنو پر زندہ و تابندہ تھیں۔ میر مسعود علی خان اور مرزا صفدر حسین بیگ جیسے نہ جانے کتنے خانوادے تھے جن کے اندر اب بھی وہی پرانی شان کے ساتھ لکھنو کی آن قائم و دائم تھی۔ میر صاحب اور مرزا صاحب بہت اچھے دوست تھے۔ ان کے فکرو مزاج میں بلا کی یکسانیت تھی۔ گومتی ندی کے ایک کنارے پر میر صاحب کی شاندار حویلی تھی اور دوسری جانب اتنی ہی پر وقار مرزا صاحب کی کوٹھی تھی۔ ان دونوں نے معاشی میدان میں اپنے آپ کو زمانے سے ہم آہنگ کر لیا تھا۔ اپنی رہائش کے علاوہ دیگر کوٹھیوں کو ہوٹلوں اور تجارتی مراکز میں تبدیل کر دیا تھا جس سے کافی آمدنی ہو جاتی تھی۔

مرزا صاحب حصص بازار کے بھی کھلاڑی تھے۔ شاذونادر ہی ان کے اندازے غلط ہوتے تھے۔ شاید ہی کسی کمپنی کے شیئر انہوں نے خریدے ہوں اور وہ آگے چل کر ڈوب گئی ہو۔ اس کے برعکس میر صاحب کو زمین جائیداد کی خریدو فروخت میں ملکہ حاصل تھا۔ نہ جانے ان کو کیسے اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس علاقہ میں آگے چل کر ترقی ہونے والی ہے۔ ان کا حال یہ تھا کہ کوڑیوں کے بھاؤ میں زمین خریدتے اور سونے کے مول فروخت کر دیتے لیکن معاشرتی معاملات میں وہ دونوں کسی مصالحت کے قائل نہیں تھے۔ جدید مغربی انداز میں تجارت کرنے والے یہ دونوں دوست جب گھر کے اندر داخل تو پلک جھپکتے صدیوں پیچھے لوٹ جاتے تھے۔

میر صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنی کوٹھی میں آنے کے بعد دیوان خانے کے ایک مخصوص دیوان پر بیٹھ جاتے۔ اس دوران گھر کے سارے بچے ایک ایک کر کے ان کی خدمت میں سلام بجا لاتے اور ان کے ہاتھ کا بوسہ لیتے۔ وہ بڑی شفقت کے ساتھ جواب دیتے اور ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر دعاؤں کے ساتھ روانہ کر دیتے۔ اس کے بعد حاضر نہ ہو سکنے والوں کی وجہ اور خیریت معلوم کرتے۔ ان میں سے اگر خدانخواستہ کوئی بیمار ہوتا تو اپنی آرام گاہ میں داخل ہونے سے قبل اس کی مزاج پرسی کرتے۔ ان کے لاکھ تھکے ہونے کے باوجود اس طرز عمل میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوتی۔

مرزا صاحب کو بھی اپنے بچوں، پوتوں اور نواسوں سے بے حد محبت تھی۔ ان کے اپنے اور بھائیوں کی اولاد در اولاد کی جملہ تعداد ۵۰ سے تجاوز کر گئی تھی لیکن وہ ہر ایک کو اس کے نام سے پکارتے۔ ان سب کی تعلیم، امتحانات اور دیگر مشاغل سے واقف رہتے۔ اسکول کی مختلف نشستوں میں بہ نفسِ نفیس شرکت فرماتے بلکہ کھیل کود کے مقابلوں میں بھی اگر کوئی شریک ہوتا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے پہنچ جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے پوتوں اور نواسوں میں وہ دونوں بے حد مقبول تھے۔

صدیوں سے ان دو خاندانوں کے درمیان قریبی مراسم پائے جاتے تھے جس کا سبب ایک عجیب و غریب روایت تھی جو شاید ہی کہیں اور پائی جاتی ہو۔ روایت یہ تھی کہ ہر نسل میں ایک خاندان کے لڑکے کی شادی دوسرے خاندان کی لڑکی سے کر دی جاتی عام طور پر اگر ایک بار کوئی بہو بیاہ کر لائی جاتی تو اگلی بار بیٹی بیاہ کر روانہ کر دی جاتی۔ یہ سلسلہ نہ جانے کتنے نسلوں سے جاری تھا اور اسی سلسلے کی ایک کڑی نازنین اور ناظم کی شادی بھی تھی۔

میر صاحب اور مرزا صاحب کے یہاں دولہا اور دولہن سے ان کی رائے معلوم کرنے کا رواج نہیں تھا۔ والدین اپنے بچوں کا جوڑا طے کرتے اور اولاد اطاعت و فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے قبول کر لیتے۔ اس معاملے کی نزاکت یہ تھی کہ نازنین اپنے ہی خاندان کے ایک دور کے رشتے دار سے نکاح کی خواہشمند تھی مگر اس سے سننا تو درکنار پوچھا تک نہیں گیا اور اس کی شادی ناظم سے کر دی گئی۔

اس کے برعکس ناظم کا حال یہ تھا کہ وہ فی الحال ازدواجی زندگی کے بکھیڑے میں پڑنے کے بجائے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ دینا چاہتا تھا لیکن اس کی بھی ایک نہ چلی اور اس پر نازنین کی ذمہ داری ڈال دی گئی۔ خیر ان دونوں نے علم بغاوت بلند کرنے کے بجائے چپ چاپ سرِ خم تسلیم کرنے میں عافیت سمجھی۔ وہ جانتے تھے کہ ایک بار والدین کی بات مان لینے کے بعد گھر بسا لینے پر وہ آزاد ہو جائیں گے اور اپنے مستقبل کا جو چاہیں گے فیصلہ کریں گے۔ دونوں کو یقین تھا کہ وہ بہت جلد ایک دوسرے سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ناظم نے اپنے خفیہ منصوبے پر عمل درآمد کرنے کیلئے دوبئی نکل جانے کا فیصلہ تھا۔ اس کا خیال تھا اگر نازنین اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا کام آسان ہو جائے گا۔ وہ اگر ناراض ہو کر میکے جانے کی دھمکی دیتی ہے تو دباو میں آنے بجائے از خود اس کو میر صاحب کے گھر چھوڑ کر دبئی کی راہ لے گا لیکن نازنین جانتی تھی دبئی میں جا کر ناظم سے جان چھڑانا سہل تر ہے۔ وہاں خاندان والوں کا دباو نہیں ہو گا اس لیے اپنی مرضی کا فیصلہ وہ بہ آسانی کر سکے گی۔ نازنین اپنے رشتے داروں سے ملنے کئی بار دبئی  جا چکی تھی اور اس کو پتہ تھا کہ وہاں ملازمت کا حصول یا خود اپنا کاروبار کرنا ہندوستان کے مقابلے سہل تر ہے۔ اس نے ناظم کا فیصلہ بسروچشم قبول کر لیا۔ اس طرح ناظم کا پہلا وار تو خالی گیا اس کے باوجود وہ آئندہ کے مراحل سے متعلق پر امید تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ اپنی منزل مقصود سے ایک قدم نزدیک ہو گیا ہے۔

دبئی میں پہلے تو کچھ دن وہ لوگ ایک ہوٹل میں رہے اور اس کے بعد گھر کرائے پر لے لیا۔ گھر کے انتخاب میں ناظم نے نازنین کا مکمل خیال رکھا اس لیے کہ وہ جانتا تھا یہ چند دنوں کی مہمان ہے اس لیے کیوں بلاوجہ جھک جھک کی جائے؟ نازنین بھی بڑی آسانی سے راضی ہو گئی اس لیے کہ اس کو بھی اس گھر مستقل رہنا نہیں تھا۔ وہ دن بھر اخبار میں ملازمت تلاش کرتی تھی یا مختلف کاروباری مواقع کا مطالعہ کرتی رہتی تھی۔

رشتے داروں کی دعوتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہر کوئی ان کی خوب خاطر مدارات کرتا اور خوشگوار ازدواجی زندگی کی دعاؤں سے نوازتا لیکن وہ دونوں کبھی بھی اس آمین نہیں کہتے۔ ان دونوں کی چونکہ ایک دوسرے توقعات نہیں کے برابر تھیں اس لیے شکایات بھی بالکل نہیں تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ توقع کے بغیر شکایات کا تو دفتر ہی نہیں کھلتا۔

ناظم کی کاروباری پیش رفت تیز ہونے لگی تھی۔ اپنے ایک دوست کے کپڑوں کی تجارت میں اس نے سرمایہ کاری کرنے کا من بنا لیا تھا۔ اس کے لیے وہ اپنے والد صاحب کو راضی کرنے لگا تھا۔ گھر کے اندر کسی شئے کی کمی نہیں تھی اس کے والد چاہتے تھے کہ بیٹا کچھ اور دن بے فکری کے ساتھ عیش کرے اور ناظم یہی کرتا لیکن نازنین کے ساتھ نکاح نے سارا منظر نامہ بدل دیا تھا۔

نازنین نے ایک دن باتوں باتوں میں ناظم کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ گھر میں پڑی پڑی بور ہو رہی ہے اس لیے اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لیے ملازمت کرنا چاہتی ہے۔ نازنین کو توقع تھی کہ ناظم اسے اپنے خاندان کی توہین سمجھ کر ناراض ہو جائے گا اور یہ خیال اپنے دل سے نکالنے کی دہائی دے گا۔ وہ اپنے ارادے پر اڑ جائے گی اور بالآخر بات اس قدر بڑھے گی کہ دونوں الگ ہو جائیں گے لیکن خلاف توقع بغیر تفصیل جانے ناظم نے اجازت دے دی۔ اس بار نازنین کا تیر خطا ہوا تھا۔ دونوں اندر ہی اندر اس فکر میں تھے کہ کسی طرح تعلقات بگاڑے جائیں لیکن ہنوز کامیابی سے محروم تھے۔ برف بردار آتش فشاں پہاڑوں کے سینے میں ایک لاوہ پک رہا تھا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

تو تو، میں میں

 

ناظم کا معمول تھا کہ وہ صبح فجر کی نماز کے بعد چہل قدمی کے لیے نکل جاتا اور ایک گھنٹہ بعد آتا۔ ابتداء میں نازنین صبح دیر تک سوتی تھی تو اسے اس معمول کا علم ہی نہیں ہوا۔ ملازمت کے لیے جب اس نے جلدی اٹھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ صاحب فجر کے بہانے جو جاتے ہیں تو ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی لوٹتے ہیں۔ ایک دن رات میں کھانے کی میز پر اس نے سوال کیا آپ بعد فجر خاصہ طویل وظیفہ پڑھتے ہیں؟

ناظم بولا یہ آپ سے کس نے کہہ دیا بیگم۔ سچ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے مسجد سے باہر نکلنے والوں میں سے میں ایک ہوتا ہوں۔

اچھا لیکن گھر پہنچنے والوں میں تو شاید سب سے آخری لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہو گا۔

جی ہاں ممکن ہے یہ صورتحال ہو اس لیے کہ بہت سے لوگوں کو علی الصبح کام پر جانا ہوتا ہے اور کچھ واپس آ کر سو جاتے ہیں۔ مجھے دفتر جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی اور آپ تو جانتی ہیں کہ رات کو جلدی سو جاتا ہوں اس لیے بعد فجرسونے کی حاجت نہیں ہوتی۔

میں آپ کے عادات و معمولات سے پوری طرح واقف ہوں اس لیے جواب میں نہ الجھائیں بلکہ یہ بتائیں کہ واپسی میں تاخیر کیوں ہوتی ہے؟

ناظم کا ما تھا ٹھنکا وہ بولا چلو اچھا ہوا جو نازنین نے اس پر شک تو کیا۔ اس سوال کا سیدھا جواب دینے کے بجائے اس نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا میں صبح کہاں جاتا ہوں؟ کس سے ملتا ہوں؟ اور کیا کرتا ہوں؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو میرے ساتھ چلنا پڑے گا؟

خیر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں جب مجھے جاننا ہو گا تو میں خود آپ کے ساتھ چل پڑوں گی۔

ناظم نے دیکھا کہ اس کا یہ حربہ ناکام ہو رہا تو مزید شک پیدا کرنے کے لیے بولا کہیں دیر نہ ہو جائے؟

کیا مطلب؟

یہی کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

میں نے تو سنا ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔

نماز کو جانے میں جو میں جلدی کرتا ہوں تو کیا وہ کوئی شیطانی عمل ہے؟

مجھے آپ کے جلد جانے پر نہیں بلکہ تاخیر سے لوٹنے پر تشویش ہے۔

تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس میں کوئی شیطانی فتنہ کارفرما ہے؟

یہ میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔ آپ نے بتایا نہیں اور میں نے دیکھا نہیں۔

خیر وقت کے ساتھ سب پتہ چل جائے گا۔ شب بخیر۔ یہ مرحلہ بھی بغیر کسی تلخی کے طے ہو گیا جس پر دونوں کو افسوس تھا۔

سردیوں کا زمانہ تھا۔ نماز کافی تاخیر سے ہوتی تھی اور موسم بھی نہایت خوشگوار ہوتا تھا۔ ایک روز نماز کو جاتے ہوئے ناظم نے دیکھا کہ نازنین صبح صبح ٹیلیویژن پر ورزش کی مشق دیکھ رہی ہے۔ وہ بولا کیا آپ میرے ساتھ چہل قدمی پر چلنا پسند کریں گی؟

نازنین اس سوال پر چونک پڑی اور بولی تو کیا آپ کو میں ابھی سے موٹی لگنے لگی ہوں؟

یہ تو میں نے نہیں کہا۔

تو پھر آپ نے یہ کیوں کہا؟

اس لیے کہ چہل قدمی صحت کیلئے مفید ہے اور آپ ویسے بھی ورزش دیکھ رہی ہیں۔

تو کیا ورزش دیکھنا جرم ہے؟

دیکھنا تو جرم نہیں ہے لیکن ورزش کرنے سے انسان صحت مند ہوتا ہے دیکھنے سے نہیں۔

آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ نازنین منہ بگاڑ کر بولی

یہی کہ اچھی صحت کے لیے ورزش کا نظارہ کافی نہیں ہے۔

تو کیا آپ کو میری صحت پر شبہ ہے۔ میں آپ کو بیمار تو نہیں لگتی؟

اگر آپ نہیں اٹھنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں بار بار بات کا بتنگڑ بنانے سے کیا فائدہ؟

اچھا تو آپ کا مطلب ہے کہ میں کاہل ہوں؟

ناظم پریشان ہونے لگا تھا کہ یہ آج اس کو کیا ہو گیا ہے وہ زچ ہو کر بولا جی نہیں آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں۔

ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ میں ناسمجھ ہوں اسی لیے آپ کے گلے پڑ گئی اگر سمجھدار ہوتی تو ایسی غلطی نہیں کرتی۔

دیکھو بیگم میں نے یہ نہیں کہا۔ آپ اپنے الفاظ میرے منہ میں کیوں ٹھونس رہی ہیں بلکہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔

اچھا تو میں جھوٹ بول رہی ہوں؟ نازنین روہانسی ہو کر بولی کیا اب یہی سننا رہ گیا تھا۔

آپ بلا وجہ صبح صبح بات کو طول دے کر الجھتی چلی جا رہی ہیں

اچھا تو آپ نے مجھے جھگڑالو بھی بنا دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کون کون سے الزامات سے نوازی جاؤں گی؟

یہ سن کر ناظم کا موڈ پوری طرح چوپٹ ہو گیا اور وہ بیزار ہو کر بولا اس سے تو بہتر ہے کہ میں بھی چہل قدمی کیلئے نہ جاؤں۔

نازنین اٹھلا کر بولی اب پتہ چلا آپ کو جانا نہیں تھا میرا بہانہ مل گیا۔

اچھا اچھا بابا میں تنہا چلا جاتا ہوں

وہ تو مجھے معلوم تھا آپ مجھے کہیں بھی اپنے ساتھ لے کر نہیں جانا چاہتے اکیلے عیش کرنا چاہتے ہیں؟ نہ جانے کیوں میرے والدین نے آپ کے گلے باندھ دیا؟

یہ سوال آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں؟

جی ہاں جس کی قسمت ہی پھوٹی ہو وہ کس کے آگے ہاتھ پھیلائے؟

اللہ کے آگے۔۔ ۔۔ ۔ چلو میرے ساتھ اقامت ہو چکی ہو گی۔

نماز کے لیے؟ میں مسجد میں جا کر نماز پڑھوں گی؟ آپ کا دماغ تو درست ہے؟

اس میں دماغ کی کیا بات۔ تم تو جانتی ہو کہ ہمارے گھر کے قریب کی بڑی مسجد میں خواتین کے لیے اہتمام ہے؟

مجھے پتہ ہے لیکن یہ جمعہ کا وقت تھوڑی نا ہے؟

جمعہ ہو یا فجر وہاں تو ہر نماز میں خواتین موجود ہوتی ہیں۔

اچھا تو وہ خواتین نماز کے بعد چہل قدمی بھی کرتی ہوں گی؟

کیوں نہیں جن کو اپنی صحت کا خیال ہوتا ہے وہ ٹیلیویژن پر پروگرام دیکھنے پر اکتفاء نہیں کرتے۔

اب آپ کی تاخیر کا سبب میری سمجھ میں آ گیا۔ جائیے ورنہ امام صاحب       سلام پھیر دیں گے۔

ناظم بولا جی ہاں آج میں کس مصیبت میں پھنس گیا اور لاحول ولاقوۃ الآ باللہ پڑھتا ہوا بھاگا۔

نازنین نے ہنس کر کہا میں تو سنا تھا شیطان لاحول سن بھاگتا ہے

ناظم جوتا پہنتے ہوئے بولالیکن لاحول پڑھ کر نہیں بھاگتا۔

اس روز ناظم چہل قدمی کرتے ہوئے سوچ رہا تھا آج بات بنتے بنتے بگڑ گئی یعنی اگر اور بڑھتی تو ممکن ہے طلاق تک پہنچ جاتی لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور اسی پر نازنین کو بھی افسوس تھا کہ اس کے اس قدر اکسانے کے باوجود یہ برف سلِ نہیں پگھلی۔ اس کے باوجود وہ دونوں پر امید تھے بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔

وہ دونوں اپنے تئیں یہ چاہتے تھے کہ معاملہ دبئی کے اندر ہی نمٹ جائے اور لکھنو جانے کی نوبت نہ آئے اس لیے کہ وہاں جانا خود اپنے اختیارات کو سلب کر لینے کے مترادف تھا۔

ایک دن رات کھانا کھاتے ہوئے ان وہ ٹیلی ویژن پر ایک سیریل دیکھ رہے تھے جس میں ہیرو کہتا ہے کہ میں نے سنا ہے لوگ شادی کر کے بہت خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔ ا س مکالمے کے بعد نازنین نے ٹیلی ویژن کا آواز بند کر دیا اور ناظم سے پوچھا کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

ناظم ہنس کر بولا اتفاق سے زیادہ؟

کیا مطلب؟

اتفاق پلس سمجھ لو اس لیے کہ میں نے دیکھا بھی ہے۔

او ہو اب سمجھی! اچھا کہاں دیکھا ہے آپ نے؟

آئینے میں اور کہاں؟

نازنین کو جواب سے مایوسی ہوئی۔ اچھا تو آپ شادی سے بہت خوش ہیں۔

جی ہاں کیوں نہیں؟ اس میں کیا شک ہے؟ ؟ ؟

نازنین نے حیرت سے سوال کیا۔ کیا میں اس کی وجہ جان سکتی ہوں؟

یہ تو اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ انسان کو جب کچھ مل جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔

اچھا تو آپ کو اس نکاح سے ایسا کیا مل گیا۔ آپ کے پاس تو پہلے سے ہی اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔

جی ہاں لیکن آپ کہاں تھیں۔ اب آپ کے ملنے کی خوشی ہے۔

نازنین نے سوچا کہ عجیب احمق آدمی ہے لیکن یہ کہنے بجائے سوال کر دیا تو کیا سارے ہی لوگ شادی کے بعد خوش ہوتے ہیں؟

یہ ضروری نہیں ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ غمگین بھی ہوتے ہیں؟

جی ہاں کیوں نہیں؟ اب کس کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے۔

کیا میں غمگین ہونے وجہ دریافت کر سکتی ہوں؟

سبب تو اس کا بھی وہی ہے؟

میں نہیں سمجھی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خوشی اور غم کی وجہ ایک ہی ہو؟

بھئی انسان جب کسی شئے کو پانے کے بجائے کچھ گنوا دیتا ہے تو وہ خوش نہیں افسردہ ہو جاتا ہے۔

لیکن شادی کے بعد ہر کسی کو اس کا زوج مل جاتا ہے ایسے میں افسردگی چہ معنیٰ دارد؟

دیکھو نازنین انسان بنیادی طور پر تاجر ہے اور وہ ہمیشہ کھونے اور پانے کا حساب کتاب کرتا ہے۔

میں نہیں سمجھی؟

اچھا آپ یہ تو جانتی ہی ہیں کہ انسان کو کچھ پانے کیلئے کچھ گنوانا بھی پڑتا ہے؟

اس سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے یہ تو فطرت کا آفاقی ضابطہ ہے لیکن خوشی اور غم سے اس کا کیا تعلق؟

بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کھونے اور پانے کے سودے میں پائی جانے والی شئے کی قدر و قیمت کم ہو تو وہ غمزدہ ہو جاتا ہے ورنہ خوش رہتا ہے۔

میں اب بھی نہیں سمجھی کہ قدر  و قیمت کون طے کرتا ہے؟

ہرانسان خود طے کرتا ہے؟ اسی لیے ایک چیز کی قیمت ایک فرد کے نزدیک مختلف ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے الگ۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

کیوں نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کوئی کسی کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے اور کوئی پھوٹی کوڑی تک خرچ نہیں کرتا؟

اچھا اگر ایسا ہے تو اپ کے نزدیک میری کیا وقعت ہے؟ پہلی بار نازنین نے براہ راست سوال کر دیا تھا۔

وہی پھوٹی کوڑی والی۔

ایسا کیوں ہے؟

اس لیے بناکسی محنت کے آپ کو میری جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔

کیا کسی کی حیثیت اس کی خاطر کی جانے والی محنت و مشقت ہی سے طے ہوتی ہے؟

جی نہیں محبت بھی اس کے تعین میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔

اچھا تو میری محبت کے خانے میں آپ کیا پاتے ہیں؟

میں اس کو بھی خالی پاتا ہوں۔ اس روز ناظم نے صاف گوئی کے ساتھ اس افسانے کو ایک خوبصورت موڑ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اگر ہماری ایک دوسرے کے نزدیک کوئی قدر و قیمت نہیں ہے تو پھر کیوں نہ پھر سے اجنبی بن جایا جائے؟ نازنین نے بڑی صفائی سے اپنے دل کیفیت کا اظہار کر دیا۔

میں پھر ایک بار آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ تو کیا میں یہ سمجھ لوں کہ مجھے اس بابت پیش رفت کی اجازت ہے؟

جی ہاں آپ بصد شوق کاغذات تیار کروا سکتے ہیں تاکہ آگے چل کر کوئی خلط مبحث نہ ہو اور ہماری دوستی کے شیشے میں بال نہ آئے۔

ٹھیک ہے کل میں باہر جا رہا ہوں۔ واپس آ کر قاضی صاحب سے تیار کروا لوں گا۔

اچھا لیکن آپ نے مجھے نہیں بتایا؟

جی ہاں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔

تو کیا اب بھی نہیں بتائیں گے؟

کیوں نہیں میں عمرہ کا ارادہ رکھتا ہوں۔

اچھا کوئی خاص دعا کرنی تھی کیا؟ نازنین نے ہنس کر سوال کیا

ناظم بولا دعا تو خیر یہیں قبول ہو گئی لیکن پھر چونکہ ارادہ کر لیا ہے اس لیے اس کو بدلنے کی جرأت نہیں ہے مجھ میں۔

وجہ؟ ؟ ؟

معاملہ اللہ میاں سے ہے اور تم تو جانتی ہو اللہ میاں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

کچھ بھی یعنی کیا؟

یہی کہ آپ کا من بدل سکتے ہیں۔ میں نے سنا ہے انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے بیچ ہوتا ہے وہ اس کو جیسا چاہیں بدل دیں۔

لیکن وہ قادرِ مطلق تو آپ کا بھی دل بدل سکتا ہے۔

بدل تو سکتا ہے لیکن بدلے گا نہیں۔

اس یقین کی کیا وجہ ہے؟

یہی کہ اس کا فرمان ہے۔ وہ کسی کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ انسان خود اپنی کو بدلنے کا خواہشمند نہ ہو۔

تو گویا آپ کا ارادہ مصمم ہے۔

یہی سمجھ لو

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی لیکن یہاں تنہا انتظار کرنے کے بجائے اگر اجازت ہو تو کیوں نہ میں بھی آپ کے ساتھ چلے چلوں؟

اس میں اجازت کیسی یہ تو میرے لیے سعادت ہے۔

اچھا تو کل کس وقت نکلنا ہے؟

صبح ۱۰ بجے کا جہاز ہے میں ٹور کمپنی سے کہتا ہوں کہ اگر جہاز میں کوئی نشست خالی ہو تو آپ کا بھی ٹکٹ بنا دے۔

اور اگر نہ ہو تو؟

تو میرا ٹکٹ بھی منسوخ کر دے۔

اچھا تو میرے سبب آپ کا ارادہ ڈھل مل ہو گیا۔

جی نہیں اس صورت میں ہم دونوں کی نشستیں کسی اور جہاز سے مختص ہو جائیں گی۔

نازنین خوش ہو کر بولی زہے نصیب۔

٭٭٭

 

 

 

وصال و فراق

 

اس گفت و شنید کے بعد نازنین اور ناظم بے حد خوش تھے دونوں کوا پنی منزل سامنے نظر آ رہی تھی۔ درمیان کی ساری رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں بس ایک مقدس سفر درمیان میں تھا۔ سعی اور طواف کے دوران دونوں کی زبان و دل پر ایک ہی دعا تھی کہ یہاں سے واپسی کے بعد والے منصوبے میں کوئی رخنہ نہ آئے۔

عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد معلم نے بتایا کہ اگلے دن صبح ۸ بجے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ایک بس زیارت مکہ کے لیے روانہ ہو گی۔ جن خواتین و حضرات کو دلچسپی ہو وہ اس مقدس سفر میں شامل ہو جائیں۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ساتھ چلنے کا عندیہ دے دیا۔

اس مختصر سے سفر کا آغاز غار حرا سے ہوا۔ بس نیچے ٹھہر گئی اور معلم کے نائب نے اعلان کیا جن لوگوں کو اوپر چلنے میں دلچسپی ہو میرے ساتھ چلیں اور جنہیں رکنا ہو بس میں انتظار کریں۔ ناظم نے نازنین کی جانب دیکھا۔ اس میں ہمت نہیں تھی اس لیے اکیلے اتر کر چل پڑا۔ وہ اس مقام کو دیکھنا چاہتا تھا جہاں نبی کریمؐ کو رسالت کی بشارت دی گئی تھی۔ جہاں پہلی بار ان کی ملاقات روح الامین سے ہوئی تھی اور اللہ کے نام سے نورِ ہدایت کے نزول کا آغاز ہوا تھا۔

غارِ حرا کے اندر سے جب وہ باہر آیا تو نازنین کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔ اس نے سوال کیا آپ نے تو منع کر دیا تھا؟

جی ہاں لیکن نائب معلم نے جب بس میں بتایا کہ ہماری ماں بی بی خدیجہؓ ۵۵ سال کی عمر نبی کریمؐ کے پاس ان کے لیے ستو اور پانی لے کر جایا کرتی تھیں تو یہ سن کر مجھے بہت شرم آئی اور میں بھی آ گئی۔

ناظم بولا بہت خوب چلو میرے ساتھ اس پر نور وادی میں چلو جہاں سے پھوٹنے والا ہدایت کا سرچشمہ قیامت تک خشک نہیں ہو گا۔

واپسی میں نازنین نے پوچھا لیکن زم زم تو کہیں نظر نہیں آیا۔

زم زم یہاں کہاں۔ وہ صفا اور مروہ کے درمیان ہے۔

لیکن آپ تو کہہ رہے کہ قیامت خشک نہ ہونے والا چشمہ۰۰۰۰

او ہو میں پانی کا نہیں ہدایت کے چشمے کی بات کر رہا تھا۔

اس کے بعد معلم ان لوگوں کو مکہ مکرمہ کے مختلف تاریخی مقامات دکھلاتا رہا اور آخر میں اعلان کیا کہ آج بہت تاخیر ہو گئی اس لیے ہم لوگ منیٰ، عرفات اور جبل نور نہیں جا سکیں گے۔ کل صبح ۸ بجے وہاں کے لیے روانگی ہے لیکن یاد رہے کل شام ہم سب کو لوٹ کر جدہ جانا ہے تاکہ دبئی کی فلائیٹ لے سکیں۔ نازنین اور ناظم نے پھر ایک بار ایک دوسرے کو دیکھا اور تائید کر دی۔

منیٰ کا میدان ویران و سنسان تھا۔ حاجیوں کے خیمے اپنے مکینوں کی منتظر تھیں۔ عرفات کا میدان میدانِ محشر کا منظر پیش کر رہا تھا اور وہاں سے گذر کر ان کی بس جبل نور پہنچ گئی۔ سارے مسافر اتر گئے اور خراماں خراماں جبل نور کی سیڑھیوں پر چلنے لگے۔

جبل نور کے دو بڑے پتھروں پر بیٹھ کر وہ دونوں خلاء میں دیکھ رہے تھے۔ نازنین اپنے تابناک ماضی کو دیکھ رہی تھی جہاں ہر طرف نور ہی نور تھا اور ناظم اپنے تاریک مستقبل کو دیکھ رہا تھا جہاں ہر سوتاریکی ہی تاریکی تھی۔ یہ عجب احساس تھا جو ان دونوں پر از خود طاری ہو گیا تھا۔

اس دوران معلم خود بھی اوپر پہنچ گیا اب وہ اس پہاڑ کے متعلق مصدقہ اور غیر مصدقہ روایات سنارہا تھا۔ بس کے سارے مسافراس کی بات کو غور سے سن رہے تھے۔ جب اس نے یہ کہا کہ راوی کہتا ہے جنت میں ایک دوسرے سے بچھڑنے کے بعد بابا آدمؑ اور مائی حوّا کی ملاقات دنیا میں اسی مقام پر ہوئی تھی تو ناظم چونک پڑا۔

معلم نے آگے کہا اسی لیے اس کو مقام وصل بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں جو لوگ ساتھ رہنے کی دعا کرتے ہیں وہ کبھی نہیں بچھڑتے۔ یہ کہہ کر معلم نے بہ آوازِ بلند دعا کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔

سارے لوگوں کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے اور زبان پر آمین کا ورد جاری تھی لیکن چار ہاتھ اپنی جگہ شل ہو چکے اور تھے اور دو زبانیں بے حس حرکت تھیں۔ نازنین اور ناظم نے ایک دوسرے کی اس کیفیت کو دیکھا تو انہیں یک گونہ سکون ہوا۔ وہ دونوں اپنی جگہ سے اٹھے اور کچھ دور ایک چٹان پر جا کر بیٹھ گئے۔

نازنین بولی یہ معلم غلط کہتا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ مقام فراق ہے۔

ناظم نے تائید میں کہا آپ درست کہتی ہیں۔ ہم لوگ یہاں دوسرے سے بچھڑ جائیں گے۔

لیکن یہ پہاڑ تو گواہی دیتے ہیں کہ بچھڑنے والے ایک دن ایک دوسرے سے مل بھی سکتے ہیں۔

جی ہاں لیکن انہیں ملنے کیلئے بچھڑنا بھی تو پڑتا ہے۔

نازنین نے لرزتے لبوں سے سوال کیا تو کیا ہم لوگ بھی ایک دوسرے سے کبھی مل سکیں گے؟

ہو سکتا ہے لیکن یہ نہ بھولو کہ آسمان پر بچھڑنے والوں کو ملنے کیلئے زمین پر آنا پڑا تھا۔

تو کیا ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کیلئے آسمان پر جانا پڑے گا؟

معلم کی دعا آخری مرحلے میں تھی اس نے درمیان میں رک کر اعلان کیا اس ٹیلے پر کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس باران دونوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔ وہ دونوں الگ الگ ایک ہی دعا کر رہے تھے۔ کسی اور جہان میں ایک دوسرے ملنے کی دعا۔ کوہِ وصال سے وہ قابل رشک فراق کے لعل و گہر لے کر لوٹ رہے تھے۔

دیگر زائرین کے ساتھ جب وہ بس میں واپس آ کر بیٹھ گئے تو ناظم نے کہا نازنین اس موقع پر مجھے اپنے پسندیدہ شاعر محسن نقوی کی ایک نظم یاد آتی ہے۔

نازنین بولی میں اس نظم کو سننا چاہتی ہوں

ناظم نہایت مدھم آواز گنگنانے لگا کہ جسے ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ شاید منکر نکیر بھی نہیں ؎

آؤ وعدہ کریں

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

دیدۂ دل کی بے انت شاہی میں ہم

زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم

اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو

فکر کے مو قلم سے تراشی ہوئی

اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو

اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو،

اپنی تقدیر کو

یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم

جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی

بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں

پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے

جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

پھر ارادہ کریں۔

نظم ختم ہوئی تو نازنین کی پلکیں پرنم تھیں اور پھر دونوں کرسی سے ٹیک لگا کر سوگئے۔ اس کے بعد جب معلم کے نائب نے جگایا تو بس ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا ابھی آپ لوگوں کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں اس کے بعد ہم لوگ کھانا کھا کر ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔

ناظم نے لفٹ میں کمرے کی جانب جاتے ہوئے نازنین مجھے یقین ہے کہ آپ کو یاد ہو گا کل صبح ہمیں قاضی شہر کے دفتر میں جانا ہے۔

نازنین مسکرا کر بولی جی ہاں ۱۱ بجے کا وقت میں کیسے بھول سکتی ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

خوبصورت موڑ

 

دوسرے دن قاضی شہر کے دفتر میں جاتے ہوئے نازنین بولی ان عربوں کے پاس کوئی کام تو ہوتا نہیں ہے بلاوجہ اس ذرا سے کام پر دنیا بھر کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں ہندوستان ہی اچھا ہے کہ جہاں یہ سب جھٹ پٹ ہو جاتا ہے۔

ناظم نے کہا ایسا نہیں ہے نازنین ہمارے یہاں لوگ شادی سے قبل بے شمار وقت ضائع کرتے ہیں یہاں جھٹ منگنی پٹ شادی ہو جاتی ہے۔ ہمارے یہاں جھٹ پٹ نکاح ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ لوگ اس مرحلے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں بات ایک ہی ہے کوئی پہلے تو بعد میں سنجیدہ ہوتا ہے۔

نازنین نے کہا پہلے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے ایک رشتہ قائم کرنے سے قبل سوچ سمجھ لینا چاہیے لیکن توڑنے سے پہلے یہ سوچ بچار سمجھ میں نہیں آتا۔

ان کا خیال ہے کہ رشتہ نہیں ہوتا تو کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی لیکن جب لوگ ایک رشتے میں بندھ جائیں۔ ان کے درمیان جذباتی وہ روحانی وابستگی ہو جائے تو پھر انسان کو سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔

اچھا یہ جذباتی اور روحانی وابستگی کیا ہوتی ہے؟

میں بھی نہیں جانتا لیکن سنتا ہوں زن و شو کے درمیان ہو جاتی ہے۔

مجھے تو یہ کوئی نفسیاتی مرض لگتا ہے۔

کون جانے؟ ؟ ؟ ہو سکتا ہے۔

قاضی کے شاندار دفتر نے نازنین اور ناظم پر ہیبت طاری کر دی۔ قاضی کے کئی نائب مختلف زبانیں بولتے تھے اور حسبِ ضرورت ترجمہ بھی کرتے تھے۔

قاضی صاحب نے ناظم سے تنہائی میں دریافت کیا۔ آپ کیوں طلاق دینا چاہتے ہو؟

مجھے اس میں کوئی رغبت نہیں محسوس ہوتی۔

تو کیا تم اس سے نفرت کرتے ہو۔

جی نہیں ایسا نہیں ہے

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ روز ساتھ رہتے رہتے رغبت پیدا ہو جائے۔

میرا خیال ہے کہ رغبت تو نہیں پیدا ہو گئی ہاں نفرت ضرور پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے میں اس مرحلے سے قبل ہی اپنا راستہ بدل دینا چاہتا ہوں۔

اس کے معنی ہیں کہ تم نہ اپنی زوجہ سے نفرت کرتے ہو نہ آگے چل کر نفرت کرنا چاہتے ہو؟

جی ہاں چونکہ وہ میرے والد کا انتخاب ہے، اس سے نفرت کرنا میرے نزدیک ان کی توہین ہے۔

اس کے بعد ناظم کو کمرے ساے باہر بھیج کر نازنین کو بلوایا گیا۔ قاضی صاحب اس سے مخاطب ہوئے۔ آپ ناظم سے علیٰحدہ ہونا چاہتی ہیں۔

جی ہاں

اس کی کوئی خاص وجہ؟

اس کے اندر نہ میری طلب اور نہ اس کے نزدیک میری وقعت ہے۔

تو آپ اس کے بعد کیا کریں گی؟

میں اس کا گھر بساوں گی جو میری قدر و قیمت جانتا ہو اور مجھ سے محبت کرتا ہو۔

اچھا تو آپ کسی اور سے محبت کرتی ہیں؟

جی نہیں شادی سے پہلے کرتی تھی۔

تو کیا وہ آپ سے نکاح کر لے گا؟

میں نہیں جانتی شادی کے بعد میں نے اس سے رابطہ نہیں کیا۔

ایسا کرنے کی کوئی خاص وجہ؟

آپ کیسا سوال کر رہے ہیں قاضی صاحب؟ میں ناظم کے نکاح میں ہوتے ہوئے یہ گناہ عظیم کیسے کر سکتی ہوں؟

لیکن اس نئی صورتحال میں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ انکار کر دے؟

جی ہاں اس کا امکان تو ہے لیکن یہی تو محبت کا امتحان ہے اگر وہ اس میں ناکام ہو جائے تو میری محبت کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ میں اس کو بھول جاؤں گی۔

اب جبکہ آپ نے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اس شخص سے اس بابت یقین دہانی حاصل کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھتیں؟

دیکھیے میرے اس فیصلے میں اور اُس فرد کے فیصلے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ہاں کہے یا نہ کرے مجھے تو ناظم سے الگ ہونا ہی ہے؟

میں آپ کی دلآزاری نہیں کرنا چاہتا لیکن کیا یہ پوچھ سکتا ہوں کہ اگر وہ انکار کر دے تو آپ کہاں جائیں گی؟

جہاں میرا رزق لکھا ہے وہاں چلی جاؤں گی۔

کیا آپ میکے نہیں جا سکتیں؟

جی نہیں۔ میں اپنے والدین کو غمگین کرنا نہیں چاہتی۔

قاضی صاحب نے کہا۔ میں آپ لوگوں سے اس توقع کے پیش نظر گفتگو کر رہا تھا کہ موقع نکال کرسمجھانے بجھانے کی سعی کروں گالیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہمارے ضابطے کے مطابق جو مشترکہ نشست ضروری ہوتی ہے۔ عام طور پر اس کی نوبت کئی ہفتوں کے بعد آتی ہے لیکن وہ آج ہی ہو جائے گی۔ آپ کچھ دیر انتظار کریں اور پھر میں دوبارہ زحمت دوں گا۔

نازنین شکریہ ادا کر کے باہر آ گئی اور وہاں ناظم سامانِ ضیافت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ نازنین بولی بہت خوب آپ توبہت خوش نظر آ رہے ہیں؟

ناظم بولا یہ اہتمام دار الشریعہ کی جانب سے ہے۔ پہلے تو یہ لوگ صرف ٹھنڈے مشروبات سے میزبانی کر رہے تھے مگر میں نے کہا بھائی کچھ گرم گرم لاؤ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ اس کے بعد یہ انتظام کیا گیا۔

بہت خوب۔ دعوت اڑائی جائے میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔

جی نہیں آپ کے لیے بھی ہے۔ جب میں نے پوچھا اتنا سارا کیوں لے آئے ہو تو مجھے بتایا گیا یہ دو لوگوں کے لیے ہے یعنی میرے اور آپ کے لیے۔

اچھا اگر ایسا ہے تو میرے باہر آنے کا انتظار بھی تو کر سکتے تھے؟

جی ہاں پہلے میں نے یہی سوچا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ نہ جانے آپ کو قاضی صاحب کو سمجھانے میں کتنا وقت لگے اور یہ سب بھی ہمارے ازدواجی رشتے کی مانند سرد ہو جائے اس لیے شروع کر دیا لیکن آپ تو کمال سرعت سے واپس آ گئیں۔

نازنین نے کاغذ کی طشتری میں سموسا لیتے ہوئے کہا آپ تو جانتے ہیں کہ میں ہر کام بڑی پھرتی سے کرتی ہوں؟ ویسے آپ بھی اس معاملے میں مجھ سے بھی تیز نکلے۔

اچھا خیر اب قاضی صاحب کا کیا حکم ہے؟

قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ اپنے آخری فیصلے سے قبل ہم دونوں کے ساتھ ایک مشترکہ نشست کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن فیصلہ تو ہم لوگ کر ہی چکے ہیں اب اس ناٹک کا کیا فائدہ؟

سوال فائدے کا نہیں ضابطے کا ہے۔ یہ ان کا ضابطہ ہے اس کے بغیر وہ ہم لوگوں کو ضروری کاغذات نہیں دے سکتے؟

لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ آخر ان کاغذات کی عدم موجودگی سے کیا فرق پڑتا ہے؟

میں نے بھی یہی سوچتی تھی کہ کیا زبانی جمع خرچ کافی نہیں ہے؟

اچھا تو آپ کس نتیجے پر پہنچیں؟

میرا یہ خیال ہے کہ وہ لازمی ہیں۔

کیوں؟

اس لیے کہ اب قانونی طور سے میں آپ کی کفالت میں ہوں۔ ان کاغذات کے بعد میں خود کفیل ہو جاؤں گی۔

جی ہاں ناظم قہقہہ لگا کر بولا خود ۰۰۰۰کفیل ہو جاؤ گی اور جب میں یہاں سے خروج کروں گا تو یہ لوگ مجھ سے نہیں کہیں گے اپنی بیوی کو کیوں چھوڑے جا رہے ہو ان کو بھی ساتھ لیتے جاؤ۔

نازنین اور ناظم بھاری بھرکم ناشتے سے فارغ ہو کر چائے نوش فرما رہے تھے کہ پھر سے قاضی صاحب کا بلاوہ آ گیا۔ دونوں لوگ اندر گئے تو قاضی صاحب نے کہا کہ مجھے خوشی ہے بغیر کسی شکوہ شکایت یا ناچاقی کے آپ لوگوں نے یہ جرأت مندانہ فیصلہ کر لیا۔ لیکن اگر آپ لوگ اجازت دیں تو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔

دونوں نے ناگواری کے ساتھ بیزاری سے کہا فرمائیے۔

قاضی صاحب ناظم سے مخاطب ہو کر بولے میری گزارش یہ ہے کہ آپ انہیں تین کے بجائے صرف ایک طلاق دیں۔

ایک کیوں؟ ہم لوگوں نے علیٰحدگی کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔

مجھے پتہ ہے لیکن اس ایک طلاق کے بعد بھی آپ لوگوں میں علیٰحدگی تو بہر حال ہو جائے گی۔

لیکن اس کا کیا فائدہ؟ یہ نازنین کا سوال تھا۔

فائدے کئی ہیں۔ اول تو قرآنی طریقہ ہے اس لیے آپ لوگوں کو شریعت پر عمل کرنے کا ثواب ملے گا اور۰۰۰۰۰۰۰

اور کیا قاضی صاحب۔ ناظم نے سوال کیا۔

اور یہ کہ اگر آگے چل کر آپ لوگوں کا ارادہ بدلے تو دوبارہ ساتھ ہو جانے کا موقع رہے گا ورنہ تو ہمیشہ کی جدائی ہو جائے گی۔ آپ لوگ پھر کبھی نہیں مل سکیں گے۔

ناظم کو جبل نور کی گفتگو یاد آ گئی۔ اس نے استفہامیہ انداز میں نازنین کی جانب دیکھا کہ شاید اس نے قاضی صاحب کو بتا دیا ہو۔ نازنین نے کہا لیکن ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ناظم نے پوچھا قاضی صاحب غالباً شریعت کا یہ فیصلہ دنیا کی حد تک ہے۔

جی ہاں۔ شریعت کے سارے فیصلے دنیا کی حد تک ہوتے ہیں۔ ان اجر و ثواب آخرت میں ملتا ہے۔

تب تو ٹھیک ہے۔ قاضی صاحب کی سمجھ میں یہ سوال نہیں آیا لیکن انہوں نے وضاحت چاہنا ضروری نہیں سمجھا۔ نائب قاضی نے ایک فائل اٹھائی جس میں دو کاغذات تھے۔ انہوں نے پہلے کو پھاڑ کر کوڑے دان کی نذر کیا اور دوسرے پر دونوں کے دستخط لینے کے بعد اس کی دو نقول بنوائیں۔ ایک اپنے پاس رکھی اور ایک ایک دونوں تھما دیں۔

نازنین نے قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اصلی کاغذ لے کر باہر نکل گئی۔ ناظم کے قاضی صاحب سے مصافحہ کرنے بعد اپنی نقل اٹھائی۔ اسے اپنے بیگ میں رکھا اور باہر آیا تو نازنین  جا چکی تھی۔ اطمینان کا سانس لے کر ناظم نے بھی لفٹ کا بٹن دبا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب یہ لفٹ نازنین کو الوداع کر کے ہی لوٹے گی۔ ناظم یہی چاہتا تھا اور نازنین بھی۔

غضنفر نے جریدہ بند کر کے کہا ہش تیری؟ یہ کیا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ دیکھ کر پاس بیٹھے پٹھان نے کہا آپ روتی ہے۔ پٹھان ہو کر آپ روتی ہے۔

غضنفر نے سوچا یہ نیا آیا ہے مذکر اور مونث کا فرق نہیں جانتا اس لیے اسی کے انداز میں گفتگو کرنے لگا۔ وہ بولا ہم پٹھان ہے جنگ کے میدان میں نہیں روتی مگر یہ کہانی پڑھے گی تو تم بھی روئے گی۔

ہم صرف اخبار پڑھتی ہے قصہ کہانی نہیں پڑھتی یہ تو ہم اپنے مالک کے لیے لایا جو قطر سے آ رہا ہے۔ وہ پنجابی ہے اور اس کا دیوانہ ہے۔ وہ پڑھتے ہوئے کبھی ہنستا ہے تو کبھی روتا ہے۔ ہم کو تو پاگل لگتا ہے۔

ہم کوتو تم بھی پاگل لگتا ہے لیکن یہ بتاؤ وہ بنگلہ دیش کا جہاز کا کوئی خبر بتایا کہ نہیں؟

اس نوجوان نے مذاق میں کہا۔ ارے بھائی اس کو تو آدھا گھنٹہ ہو گیا تمہارا مالک باہر تم کو گالی نکال رہا ہو گا۔

لیکن غضنفر نے اس کو سمجھ لیا اور ہمارا مالک نہیں دوست آ رہا ہے۔

پٹھان نوجوان ہنس کر بولا اچھا تب تو وہ تم کو گالی بھی دے گا اور مارے گا بھی۔ جاؤ بھاگو جلدی سے۔

غضنفر چلتے ہوئے ہنس کر بولا وہ پٹھان نہیں بنگالی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

چمیلی کی خوشبو

 

بمان کے اِکّا دُکّا مسافر باہر آنے لگے تھے۔ آمد کے باپ پر منتظر غضنفر کو خیال ہوا رضوان الحق نے اس مرتبہ بھی دو مرتبہ چھٹیاں بڑھائی تھیں۔ پہلے تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ بیوی آنے نہیں دیتی اب کی بار تو وہ ساتھ آ رہی تھی پھر تاخیر کیوں ہوئی؟ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے رضوان کوسوٹ بوٹ میں آتا دکھائی دیا اور غضنفر حیران رہ گیا۔ رضوان ایئرپورٹ کی ٹرالی ڈھکیلتا ہوا چلا آ رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے نقاب میں اس کی نئی نویلی دلہن چمیلی تھی، غضنفر آگے بڑھا رضوان سے معانقہ کیا اور الگ ہوا تو آواز آئی سلام بھائی صاحب۔

غضنفر نے جواب دیا وعلیکم السلام بھائی او ہو بھابی معاف کرنا غلطی ہو گیا، آپ کیسا ہے؟ چمیلی خاموش رہی۔

غضنفر بولا یہ آج تم کو کیا ہو گیا رضوان کوٹ پتلون کہاں سے مل گیا؟

رضوان بولا یہ تمہارا بھابی کا پسند ہے۔ اس سے پہلے ہم اپنا پسند کا کپڑا پہن کے آتا تھا ابھی اس کو ساتھ لایا تو اس کا پسند کا خیال رکھنا پڑا۔

ہاں بات در اصل یہ ہے کہ یہ ہمارا شادی کا کوٹ ہے۔ (رضوان نے اس بات کو چھپا دیا کہ یہ کوٹ چمیلی سے نہیں بلکہ رضیہ سے شادی کے وقت سلایا گیا تھا ) ہم تو اس کو بھول گیا تھا کیونکہ کبھی پہننے کا موقع نہیں ملتا تھا لیکن تمہارا بھابی نہیں بھولا سنبھال کر رکھا تھا ابھی آنے لگا تو پیٹی میں سے نکالا اور بولا یہ پہن کر ہماراساتھ چلو۔

او ہو کتنا پرانا کوٹ ہے یہ؟

کافی پرانا کوٹ ہے۔

اچھا تو اتنے سالوں میں تم بالکل نہیں بدلا اب بھی ایسا لگتا ہے جیسا تمہارے ناپ سے آج سلایا ہے۔

رضوان کو احساس ہو وہ بنگلا دیش سے امارات آ چکا ہے اپنا لہجہ بدل کر بولا۔ ہاں غضنفر جو تبدیلی انسانوں کو بدلتی ہیں وہ تبدیلیاں ہمارے آس پاس سے کٹ کر نکل جاتی ہیں اس لئے ہم پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔

غضنفر بولا پھر وہی ہماری سمجھ میں نہیں آنے والا بات! خیر چھوڑو جلدی سے گاڑی میں بیٹھو۔ سب لوگ تمہارا انتظار دیکھتا ہے۔ کرشنن سوژان سب لوگ۔

پیچھے سے آواز آئی یہ سوژان کون ہے؟

غضنفر بولا بھابھی فکر مت کرو یہ سوژان ہمارا صاحب البرٹ کا عورت ہے۔

اچھا تو وہ ان کا انتظار کیوں کرتی ہے؟

مطلب ہم لوگ سب لوگ انتظار کرتا ہے۔ ایسا ویسا کوئی بات نہیں ہے۔ غضنفر سمجھ گیا۔ اس کا نام چمیلی ہے لیکن ہے یہ گلاب کا پھول ہے جس کے چاروں طرف کانٹے ہی کانٹے ہیں جو نہ صرف اپنے قریب آنے والے کو چبھتے ہیں بلکہ اس کے قریب رہنے والے رضوان کے پاس پھٹکنے والے کو بھی لگتے ہیں۔

ایئر پوٹ سے گھر آتے ہوئے غضنفر نے پوچھا رضوان ہر بار تو دیر سے آنے کے لئے بھابی کو ذمہ دار ٹھہراتا تھا اس بار تو ان کو اپنے ساتھ لایا ہے پھر بھی لیٹ سے آیا۔ اس کے لئے کون جوابدہ ہے۔ اپنا ذکر سن کر چمیلی بیگم کے کان کھڑے ہو گئے وہ رضوان کے جواب کی جانب متوجہ ہو گئی۔

رضوان نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا اس باربھی وہی ذمہ دار ہے۔

کیا مطلب یہ آنا نہیں چاہتی تھی اور تم کو زبردستی کرنی پڑی؟

نہیں یار ایسی بات نہیں یہ آنا تو چاہتی تھی لیکن اس کا رشتے داروں سے دل ہی نہیں بھر تا۔ وہ لوگ تو اس طرح دعوتیں دے رہے تھے کہ گویا اب یہ واپس ہی نہیں آنے والی۔ چمیلی بیگم کو رضوان کی بات اچھی نہیں لگی لیکن اس نے غصہ کا کڑوا گھونٹ پی لیا۔

غضنفر بولا یار یہ بتا تیری شادی کو کتنے سال ہو گئے ہیں۔

یہی کوئی دس سال(چمیلی کا جی چاہا کہہ دے اس کی دس سال پرانی بیوی اب بھی بنگلہ دیش ہی میں ہے لیکن وہ خاموش رہی)۔

اتنے سال گذرنے کے باوجود بھابی کا میکہ ان سے نہیں چھوٹتا؟

یار کیا بتاؤں یہ عورتیں ہمیشہ اپنی ماؤں کے بارے میں اور بیٹیوں کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں اگر نہیں سوچتیں تو ہمارے بارے میں؟ یہ سنتے ہی چمیلی کا پارہ چڑھ گیا اب اس سے خاموش رہنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔

اتنے میں غضنفر بولا خیر اب یہاں تو نہ میکہ ہے اور نہ سسرال سب اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا؟

کیا ٹھیک ہو جائے گا؟ چمیلی بیچ میں بول پڑی۔ یہ تو کہہ رہے تھے کہ آپ سمجھدار آدمی ہیں لیکن آپ کی باتوں سے تو یہ نہیں لگتا ہم اگر اپنے والدین کے بارے میں سوچتی ہیں یا اپنی اولاد کے بارے میں سوچتی ہیں تو کوئی پاپ ہے کیا؟ شادی ہو گئی تو کیا سب بھول جائیں احسان فراموش بن جائیں آپ لوگوں کی طرح کٹھور بن جائیں جو اپنے والدین کے بارے میں نہیں سوچتے اور نہ اپنے بچوں کی فکر کرتے ہیں۔

غضنفر چمیلی کو جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ پارہ چنار میں تو یہ ممکن نہیں تھا کہ مردوں کے درمیان کوئی عورت زبان کھولے لیکن یہ عورت پارہ چنار سے نہیں چٹا گانگ سے آ رہی تھی اور ساری دنیا کی عورتیں بہر حال یکساں نہیں ہوتیں۔

اپنی بیوی کا جواب سن کر رضوان جھینپ سا گیا تھا۔ وہ بولا بھائی غضنفر اپنی بھابی کی بات کا برا نہیں ماننا یہ زبان کی تیز ضرور ہے لیکن دل کی بہت اچھی ہے۔

غضنفر بولا رضوان تمہاری بات صحیح ہے دل کی باتیں تو تم ہی جانتے ہو ہم تو صرف زبان کی باتیں ہی سنتے ہیں لیکن بھابی میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ اپنے والدین کی جس قدر خدمت کرتی ہیں ویسی ہی خدمت کرنے کی اجازت اپنے شوہر کو نہیں دیتیں۔ اگر وہ اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں تو ناراض ہو جاتی ہیں کیا یہ درست ہے؟

چمیلی بولی نہیں بھائی صاحب ہم اپنے والدین کی خدمت کیلئے اپنے شوہر کو زحمت نہیں دیتیں لیکن یہ ہم پر اپنے والدین کی خدمت کو لازم قرار دیتے ہیں اسی لئے جھگڑا ہو جاتا ہے۔

غضنفر سمجھ گیا یہ وہی حجت بنگال ہے جس کے آگے وہ ہمیشہ ہار جاتا ہے اس لئے اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور بولا ہاں بھابی آپ سچ کہتی ہیں اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔

نہیں بھائی تم سے کیا ناراضگی اس پردیس میں ایک تم ہی تو ہو جس کے بارے میں یہ مجھے بتاتے رہتے ہیں تم میرے بھائی بھی ہو اور دیور بھی۔ غضنفر کوا یسامحسوس ہوا اپنی چھوٹی بہن دلشاد سے بات کر رہا ہے۔ دیکھتے دیکھتے گھر آ گیا۔

کرشنن دروازے پر موجود تھا تینوں نے مل کر پلک جھپکتے سارا سامان کمرے میں پہونچا دیا۔ چمیلی کے آنے کی خوشی میں غضنفر اور کرشنن نے مل کر گھر کی خوب صفائی کی تھی اور اپنی حد تک سجاسنوار دیا تھا۔ اس کوٹھی میں چند ماہ قبل سوژان آئی تھی اور اب ملازمین کے کوارٹر میں چمیلی آ گئی۔ سب لوگ بیحد خوش تھے ایسا لگتا تھا جیسے یہ مختصر سی بے رنگ کائنات رنگین ہو گئی ہے۔ بے پرواہ لوگ بھی اچانک اپنا اور دوسروں کا خیال کرنے لگے ہیں۔ چمیلی کی آمد سے رونق آ گئی تھی۔ سامان رکھ کر جاتے ہوئے غضنفر نے رضوان سے کہا سفر تھکا دیتا ہے اس لیے نماز میں بھی سہولت اب آپ لوگ آرام کرو۔ میں شام کے وقت آپ دونوں کو کارنش لے کر جاؤں گا۔

غضنفر کے چلے جانے کے بعد چمیلی نے پوچھا یہ کہاں لے جانے کی بات کر رہا تھا؟

رضوان بولا کارنش۔

کارنش؟ یہ کارنش کیا ہوتا ہے۔؟ ایک پرا نا سوال پھر نیا ہو گیا۔

وہی ساحل، سمندر کا ساحل۔

اچھا سمندر کا ساحل وہی پانی وہی ریت جو ہمارے چٹاگانگ میں ہوتی ہے۔

رضوان بولا ہاں پانی تو وہی ہے لیکن یہاں پانی کے کنارے ریت نہیں پتھ رہوتے ہیں۔

کیا سمندر کے کنارے ریت نہیں ہوتی تو پھر کہاں ہوتی ہے؟

جہاں ہمارے یہاں پتھر ہوتے ہیں۔

کیا مطلب؟

ہمارے یہاں سمندر سے دور میدانوں میں پہاڑ ہوتے ہیں پتھر ہوتے ہیں۔ یہاں میدانوں میں ریت ہوتی ہے۔

لیکن ہمیں تو پڑھایا گیا تھا کہ سمندر چٹانوں کو پیس کر ریت بناتا ہے۔

جی ہاں صحیح پڑھایا گیا تھا لیکن کیا یہ نہیں پڑھا سمندر اپنا ساحل بدلتا ہے؟ ہو سکتا ہے آج جہاں صحرا ہو پہلے کبھی وہاں سمندر رہا ہو اور آج جہاں سمندر ہو پہلے وہاں پہاڑ رہے ہوں کون جانے؟

لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ سمندر اور ساحل ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے ہیں۔           رضوان نے تائید کی جی ہاں جیسے میں اور تم۔

ابو ظبی کے کارنش کی طرح تم میری ساحل ہوں۔

چمیلی بولی اور تم میرے سمندرہو۔

لیکن بنگلہ دیش؟ جہاں تمہارا میکہ ہے؟ رضوان نے چھیڑا۔

وہ صحرا ہے۔ چمیلی نے ہنستے ہوئے جواب دیا لق و دق صحرا۔ رضوان خوش ہو گیا۔

شام میں رضوان اور چمیلی تیار ہو کر غضنفر کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ غضنفر نے راستہ میں گاڑی رو کی تو رضوان بولا ارے بھائی یہ کیا تم بیچ میں ہی اتار دو گے ہم دونوں کو؟

غضنفر بولا نہیں ذرا صبر کرو میں آتا ہوں۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ اور کے ایف سی سے ان دونوں کے لئے تلی ہوئی مرغی اور کوکا کولا لے آیا۔

چمیلی نے کہا ارے بھائی صاحب اس کی کیا ضرورت تھی ہمیں تو ابھی بھوک بھی نہیں لگی اور سمندر کے ساحل پر تو۔۔ ۔۔

رضوان نے ٹوکا خاموش رہو یہ چٹاگانگ کا ساحل نہیں ہے یہاں سمندر کے کنارے بھیل پوری، چاٹ اور گنڈیریاں بیچنے والے نہیں پائے جاتے۔ چمیلی جھینپ گئی۔

غضنفر نے کہا۔ یار اس طرح کی ڈانٹ ڈپٹ ٹھیک نہیں ہے وہ بے چاری پہلی بار جا رہی ہے۔ نہیں جانتی کہ یہاں کیا ہے کیا نہیں ہے؟

میں جانتا ہوں کہ وہ نہیں جانتی لیکن وہ نہیں جانتی کہ وہ واقعی نہیں جانتی۔

پیچھے سے آواز آئی نہیں میں بھی جانتی ہوں کہ میں نہیں جانتی۔

اگر واقعی نہیں جانتی تو خاموش بیٹھی رہو کیا سمجھیں؟ رضوان نے رعب ڈالنے کے انداز میں کہا چمیلی خاموش ہو گئی کارنش پہونچ کر ایک سنسان مقام پر جہاں زیادہ تر خاندان مختلف گروہوں میں بیٹھے ہوئے تھے غضنفر نے انہیں اتار دیا اور کہا کہ رضوان آپ لوگوں کو جب واپس جانا ہو گا مجھے فون کر دینا میں یہیں سے واپس لے جاؤں گا۔

ارے بھائی صاحب آپ اس میں سے کچھ کھا کر تو جائیے۔

نہیں بھا بی مجھے ابھی بھوک نہیں ہے یہ کہہ کر غضنفر چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

مجازی کفیل

 

رضوان اور چمیلی باغ کے ایک طرف بیٹھ کر سمندر کی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے لگے رضوان نے کہا چلو یہ مرغی کھاتے ہیں ورنہ ٹھنڈی ہو جائے گی تو مزہ نہیں آئے گا۔ چمیلی نے کہا ہاں اور اگر یہ کوکا کولا گرم ہو جائے گا تو اس کا بھی مزہ ختم ہو جائے گا۔

رضوان بولا عجیب بات ہے ایک کا مزہ ٹھنڈا ہونے سے خراب ہوتا ہے تو دوسرے کا گرم ہو جانے سے مگر یہ دونوں ٹھنڈی اور گرم چیزیں ایک دوسرے کے مزہ دو بالا کرتی ہیں۔

قدرت کا یہ انوکھا نظام ہے متضاد صفات کی مطابقت کا یہ کیا خوب انتظام ہے۔ چمیلی نے مرغی کھاتے ہوئے پوچھا آپ نے مجھے غضنفر سے پہلی ملاقات کے بارے میں تو بتایا تھا لیکن بات ادھوری رہ گئی تھی آخر یہاں بیلجیم کے سفارتخانے میں آپ دونوں ایک ساتھ کیسے ہو گئے؟

ہوا یوں کہ جب ہمارا ہوٹل بند ہو گیا تو ہمارے ارباب نے مجھے بلا کر کہا اب میں تمہیں اپنے یہاں ملازمت پر نہیں رکھ سکتا۔ تم واپس چلے جاؤ میں تمہارا ٹکٹ بنا دیتا ہوں یہ سنتے یہ میرے پیر کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ گاؤں کی زمین اور سلطانہ کے گہنے گروی رکھ کر ویزہ خریدا گیا تھا اور ابھی یہ قرض ادا بھی نہیں ہوا تھا کہ واپس جانے کی باری آ گئی ایسی صورتحال میں حواس باختہ ہو کر میں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک بنگلہ دیشی ویٹر سے پوچھا جو میری طرح بے روزگار ہو چکا تھا کہ اب وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ بھی واپس چلا جائے گا؟ اس نے نہایت بے پرواہی سے کہا کہ وہ واپس نہیں جائے گا۔ اس ملازمت سے پہلے وہ یہاں گاڑیاں دھونے کا کام کرتا تھا اب دو بارہ وہی کرنے لگے گا۔

آمدنی کے لحاظ سے ہوٹل کی نوکری اور گاڑیوں کا دھونا یکساں ہی ہے لیکن ہوٹل میں ٹھاٹ باٹ زیادہ ہوتی ہے بے یقینی کم ہوتی ہے اس لئے وہ ہوٹل میں آیا تھا۔ اب پھر سے اپنے پرانے دھندے میں لگ جانا کیا مشکل ہے؟

میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے بھی گاڑی دھونا سکھائے گا؟

وہ بولا تم تو مذاق کرتے ہو یہ کوئی کھانا بنانے جیسا مشکل کام تھوڑے ہی ہے جو سیکھنا پڑے۔

دوسرے دن صبح وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا اور دن بھر مجھ سے گاڑیاں دھلواتا رہا۔ اس طرح میں ایک تربیت یافتہ کار دھونے والا بن گیا اس کے ساتھ میں نے لوگوں سے منہ لٹکا کر پوچھنا بھی سیکھ لیا اور خود کفیل ہو گیا۔

تو پھر کیا تمہاری اس کفیل سے ملاقات نہیں ہوئی؟

میرا بطاقہ (شناختی کارڈ) اسی کے پاس تھا ایک ہفتہ بعد میں اس سے ملنے گیا تو اس نے پھر پوچھا کہ کب جانا چاہتے ہو؟

میں نے بتایا کہ میں جانا نہیں چاہتا۔

وہ بولا کوئی دوسرا کام مل گیا؟

میں بولا کام تو نہیں ملا لیکن میں گاڑی دھو کر گذارا کر رہا ہوں اور یہ کام ٹھیک ٹھاک ہے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے آمدنی بھی مناسب ہے۔

ارباب مسکرایا اس نے کہا بہت تیز آدمی ہو لیکن کیا تم جانتے ہو کہ اس طرح کام کرنا یہاں غیر قانونی ہے۔ تم میری کفالت میں کسی اور کے لئے کام نہیں کر سکتے۔

میں کسی کے لئے کام نہیں کر رہا ہوں میں صرف اپنے لئے کام کر رہا ہوں؟

وہی تو غیر قانونی ہے تم اپنے لئے بھی کام نہیں کر سکتے۔

اپنے لئے بھی نہیں؟ یہ کیسا قانون ہے؟

قانون یہ ہے کہ تم میرے ویزے پر صرف میرے لئے کام کر سکتے ہو۔ الّا یہ کہ میں تمہیں آزاد کر دوں۔ رضوان کو محسوس ہوا گویا ایک زر خرید غلام اپنے آقا سے گلو خلاصی کا خواستگار ہے۔

رضوان بولا ارباب مجھ پر رحم کیجئے میں غریب آدمی ہوں میں واپس جانا نہیں چاہتا آپ میری مدد کریں۔

ارباب کا دل پگھل گیا وہ بولا اچھا بتاؤ کیا چاہتے ہو؟

رضوان بولا یہاں رہ کر اپنی محنت سے رو زی کمانا چاہتا ہوں۔

ارباب پھرمسکرایا اس نے کہا تمہیں اجازت ملے گی تو مجھے کیا ملے گا؟

آپ کو! آپ کو کیا چاہیے؟ آپ کے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔

میں نے تمہیں سوال کرنے کے لئے نہیں کہا بلکہ جواب طلب کیا ہے۔

میرے پاس کیا ہے؟

تمہارے پاس زبان ہے جو بہت تیز چلتی۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہے اور جو نہیں ہے یہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں ارباب ڈانٹ کر بولا۔

رضوان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس نے کہا گستاخی معاف سرکار میں غریب آدمی ہوں آپ کو کیا دے سکتا ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں آپ کی گاڑیاں دھو دیا کروں گابس یونہی۔ میں آپ سے اس کا کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔

ارباب بھڑک گیا اس نے کہا میرے پاس تم جیسے دس لوگ ہیں جو میرے ویزے پر یہاں آزاد گھومتے ہیں کماتے کھاتے ہیں اگر وہ سب میری گاڑی دھونے لگے تو اس کا رنگ اڑ جائے گا۔

آپ جو چاہیں لے لیں۔

ہاں یہ سمجھداری کی بات ہے تو دیکھو وہ جو تمہارے ساتھ دوسرا باورچی تھا وہ مجھے ہر ماہ پانچ سو درہم دیتا ہے تم بھی وہی دے کر یہاں عیش کرو۔ لیکن ایک بات یاد رکھناجس ماہ یہ رقم نہیں آئے گی تم واپس جاؤ گے ٹھیک ہے؟

رضوان نے کہا جی سرکار۔ مہربانی سرکار۔ آپ کی بڑی مہربانی۔ رضوان جب واپس لوٹ رہا تھا تو اس کے دماغ میں ارباب کے الفاظ گونج رہے تھے، ’’آزاد گھومتے ہیں ‘‘ ۰۰۰۰۰ ’’جاؤ عیش کرو‘‘ ۰۰۰۰۰ ’’واپس چلے جاؤ گے ‘‘۔

چمیلی سمجھ گئی کہ اس پرائے دیس میں آزادی پانچ سو درہم ماہانہ کرائے پر حاصل کی جاتی ہے تاکہ عیش کیا جا سکے۔ اسی کے ساتھ اس کے دماغ میں یہ سوال آیا کہ آزادی اور عیش کون کرتا ہے غلام یا اس کا ارباب؟ سوال کو اس نے ذہن سے جھٹک دیا اور پوچھا ہر ماہ پندرہ سو درہم کی آمدنی میں سے پانچ سو درہم کا سودا بر انہیں لیکن کیا وہ شخص پورے دس لوگوں سے اسی طرح آزادی کا کرایہ وصول کرتا ہے؟

رضوان نے کہا ہاں وہ بہت اچھا آدمی ہے کبھی کوئی بیمار ہو جائے یا مجبوری ہو تو چھوڑ بھی دیتا ہے۔

ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کو آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟

’’کفیل‘‘ جی ہاں اسے سب لوگ کفیل ہی کہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اسے کفیل کہتے ہیں وہ ان کی کفالت نہیں کرتا۔ وہ سب تو خود کفیل ہوتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اس کی بھی کفالت کرتے ہیں۔ اپنے خود ساختہ ارباب کے لئے محنت مزدوری کر کے اس کا اور اپنا پیٹ پالتے ہیں۔

اگر ایسی ہی بات ہے تو گویا حقیقت میں کفیل کہلانے حقدار تو آپ جیسے لوگ ہوئے؟ جو اپنی اور دوسروں کی کفالت کرتے ہیں۔

عملاً تو یہی صورتحال ہے لیکن کہنے کو کچھ اور رضوان نے تائید کی۔

کیا دنیا بھر میں آزادی اسی طرح نیلام ہوتی ہے یا کرائے پر دی جاتی ہے۔

رضوان نے کہا شاید میں نے سنا ہے امریکہ میں بھی یہی ہوتا ہے وہاں آزادی کی پیشگی قیمت ارباب انفرادی طور پر تو نہیں لیکن حکومت یک مشت وصول کر لیتی ہے اور پاسپورٹ کی پیشانی پر مختلف قسم کی مہروں میں سے حسب حیثیت مہرچسپاں کر دی جاتی ہے کسی کو سرخ کارڈ تو کسی کیلئے ہرا کارڈ فراہم کر دیا جاتا ہے اور جب کسی کی وفاداری یقین کے درجات میں داخل ہو جائے تو اسے شہریت کے تمغہ سے نواز دیا جاتا ہے لیکن یہ سب غلامی کے نت نئی شکلیں ہیں جن سے انسان اپنے آپ کو بہلاتا رہتا ہے۔

مرغی اور کوکا کولا دونوں ختم ہو چکے تھے چمیلی نے ڈبہ اور کین ایک جانب حقارت سے پھینک دیا تو رضوان بولا اری بے وقوف یہ کیا کرتی ہے؟

کیوں اسے واپس کرنا پڑتا ہے کیا؟

نہیں یہ بنگلہ دیش نہیں ہے کہ جدھر چاہا کچرا پھینک دیا۔ میں اسے کچرے کے ڈبے میں ڈال کر آتا ہوں۔

چمیلی سوچنے لگی کس قدر پابندیاں ہیں؟ یہاں کچرا تک اپنی مرضی سے پھینکنے کی آزادی نہیں ہے حالانکہ اس کا کرایہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔

رضوان واپس آیا تو چمیلی نے پوچھا۔ اچھا ایک بات بتاؤ تم نے وہ آزادی چھوڑ کر بیلجیم سفارتخانے کی غلامی کیوں اختیار کر لی؟

سچ بتاؤں رضوان نے پوچھا۔

نہیں تو کیا اب تک سب جھوٹ موٹ بول رہے تھے۔

نہیں تم یقین نہیں کرو گی؟

کروں گی اگر سچ ہو گا تو ضرور یقین کروں گی؟

تمہاری خاطر!! گاڑی دھونے کے دھندے میں آمدنی آگے چل کر بڑھ سکتی تھی کیونکہ گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا پارکنگ ملنا دشوار ہوتا جا رہا تھا لیکن اس پیشہ میں تمہیں یہاں بلا نا نا ممکن تھا۔

کیوں؟ اگر آمدنی زیادہ ہو تو بلانے میں کیا مشکل؟

یہاں گھروں کا کرایہ بہت زیادہ ہے ہم ایک کمرے میں آٹھ لوگ رہتے تھے ایسے میں تمہیں کیسے بلاتا اور کہاں رکھتا؟ اس لئے سوچا اگرچہ سفارت  خانے میں تنخواہ کم بھی ہو تب بھی گھر مل جائے گا فیملی ویزا مل جائے گا۔ دو روٹی کم کھائیں گے لیکن ساتھ ساتھ مل کر کھائیں گے۔ چمیلی کے ساتھ چمیلی کی خوشبو کے ساتھ۰۰۰۰۰ کیا خیال ہے؟

رضوان تم سے دیس چھوٹ گیا لیکن شاعری نہیں چھوٹی؟ چمیلی نے ہنستے ہوئے کہا

رضوان بولا شاعری تو کب کی چھوٹ گئی تھی لیکن اب واپس آ گئی ہے میرے ساتھ بیٹھی ہے مسکرا رہی ہے دونوں ہنسنے لگے۔

سورج ڈھل چکا تھا رضوان نے غضنفر کو فون لگایا اور اس مقام کی جانب چل پڑا جہاں غضنفر نے اسے چھوڑا تھا نہ جانے کیوں سفر کا اختتام وہیں ہوتا ہے جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔ شاید اس لئے کہ یہ دنیا گول ہے آدمی چل پھر کر وہیں پہونچ جاتا ہے جہاں سے چلتا ہے لیکن اگر اس سفر میں کوئی ہمسفر مل جائے توسب کچھ سہانا ہو جاتا ہے۔ جیسے رضوان اور چمیلی کا گھرسنسار۔

چمیلی کی خاطر کارنش کی سیر خوابوں کا سفر تھا واپس آنے کے بعد وہ کافی تھک چکی تھی اس لئے فوراً نیند کی آغوش میں کھو گئی لیکن رضوان کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ طبعی طور پر وہ چمیلی کے قریب تھا لیکن روحانی سطح پر اپنے بستر سے ہزاروں میل دور بنگلہ دیش میں رضیہ کے ساتھ تھا۔ نہ جانے رضیہ اچانک یہاں کیسے پہنچ جاتی تھی؟ اور آس پاس منڈلاتی رہتی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

نوک جھونک

 

البرٹ کی وسیع و عریض کوٹھی میں چونکہ صرف دو عورتیں تھیں اس لئے چمیلی اور سوژان کے درمیان بہت جلددوستی ہو گئی۔ سوژان فارغ اوقات میں چمیلی کو اپنے پاس بلا لیتی اور دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ایک ملی جلی زبان میں گفتگو کرتی رہتیں۔ یہ ایک ایسی زبان تھی جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ اس میں انگریزی، بنگالی، تگالو، اردو اور کبھی کبھار عربی کے الفاظ بھی استعمال ہو جاتے تھے۔ اور پھر آواز کا اتار چڑھاؤ۔ چہرے کے تاثرات۔ انداز گفتگو، لب و لہجہ، اشارے کنائے یہ سب مل جل کر اپنا کام کر جاتے۔

ان کو ترسیل سے غرض تھی جس میں وہ کامیاب تھیں۔ زباندانی کی بے شمار غلطیوں، اوٹ پٹانگ تلفظ، ناقص صرف ونحوجیسے بے شمار عیوب کی انہیں مطلق پرواہ نہیں تھی۔ ان کے تسکین و اطمینان کا راز مقصد کو وسائل پر ترجیح دینے میں پوشیدہ تھا۔

ایک روز سوژان نے چمیلی سے پوچھا یہ بتاؤ کہ بنگلہ دیش میں بیاہ کس طرح سے ہوتا ہے۔ اسی طرح کہ جیسے یہاں ابو ظبی میں ہوتا ہے۔

چمیلی بولی آپ مذاق کرتی ہیں۔ وہ ایک غریب ملک ہے۔ وہاں تو کسی کروڑ پتی کی بھی شادی اس قدر شاندار طریقے سے نہیں ہوتی ہو گی۔ میرا مطلب ہے مختلف انواع کی دعوتوں سے ہے۔ امیر کبیر لوگ ایک آد ھ بڑی دعوت ضرور کرتے ہیں جس میں سارا گاؤں شریک ہو جاتا ہے۔

سارا گاؤں؟

جی ہاں دعوت عام ہوتی ہے ہر آدمی اپنے خاندان کے ساتھ اس میں جانا باعث سعادت سمجھتا ہے اور میزبان کے لئے بھی ان سب کا آنا فخروانبساط کا سبب ہوتا ہے۔

یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔

سوژان بولی یہاں دعوتیں تو کئی ہوتی ہیں لیکن وہی چند مہمان بار بار ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔

وہ تو ہے کہیں دعوت کی کثرت اور مہمانوں کی قلت تو کہیں مہمان کثیر تعداد میں ہیں تو دعوتیں کم خیر ایک ہی بات ہے۔

سوژان نے کہا میں دعوت کے حوالے سے نہیں پوچھ رہی تھی میرا مطلب ہے کہ رشتہ کیسے طے ہوتا ہے؟ کون طے کرتا ہے؟ ہونے والے دولہا دلہن ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے بھی ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

میں سمجھ گئی۔ وہاں عام طور سے ماں باپ کی جانب سے ابتدا ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کی شادی کے لئے بچوں سے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔

سوژان نے حیرت سے کہا۔ اچھا؟

جی ہاں خاص طور پر لڑکی کے والدین۔ عام طور سے لڑکے کے والدین رشتہ بھیجتے ہیں اور لڑکی والے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں کسی مشترکہ شناسا کی مدد سے انجام پذیر ہوتی ہیں تاکہ تفصیل طلب کرنا آسان ہو اور انکار کرنا مشکل نہ ہو۔

تو وہ بے چارے جن کی شادی ہونے والی ہوتی کیا محض تماشائی بنے رہتے ہیں؟

نہیں ایسا بھی نہیں والدین فیصلہ کرنے سے قبل اپنے بچوں کی رائے معلوم کر لیتے ہیں۔ تصویر وغیرہ ایک دوسرے کو دکھلا دیتے ہیں کبھی کبھار کسی محفل میں وہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے ہیں۔

کیا مطلب؟ وہ نکاح سے قبل ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرتے ایک ساتھ گھومتے ٹہلتے نہیں؟ یہ تو عجیب بات ہے۔

جی ہاں آپ کے لئے یہ بات عجیب و غریب ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں شادی سے قبل یا اس کے بغیر اجنبی مرد و خواتین کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

تو گویا دو بالکل اجنبی لوگوں کا بیاہ رچا دیا جاتا ہے؟

ویسے اگر شادی رشتہ داری میں طے ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن رشتہ طے ہو جانے کے بعد پھر ان کا ملنا جلنا بند ہو جاتا ہے۔

سوژان بولی مجھے تو یہ سب الٹا پلٹا لگتا ہے۔

جی ہاں سوژان انسان اگر آئینہ میں اپنے آپ کو بھی دیکھے تو عکس برعکس دکھائی دیتا ہے۔ دایاں ہاتھ بائیں جانب اور بایاں ہاتھ دائیں جانب۔ یہ مایا جال نظر کا فریب ہے۔ بارہا انسان کو سیدھی چیز الٹی اور الٹی چیزسیدھی دکھائی دیتی ہے۔

سوژان مسکرائی اور بولی چمیلی تم بھی رس گلّے کی طرح گول مول باتیں کرنے لگی ہو۔

اور میٹھی بھی رس گلے کی طرح چمیلی نے جملہ پورا کیا۔

سوژان بولی چھوڑو دنیا داری یہ بتاؤ کہ شادی سے قبل تم رضوان کو جانتی تھی کہ نہیں۔

میں! میں کسی قدر ان سے واقف ہو گئی تھی۔ در اصل یہ ہم دونوں کی پہلی شادی تو تھی نہیں۔ میں بیوہ تھی اور رضوان شادی شدہ۔ اس لئے بڑے احتیاط کے ساتھ نہایت راز داری میں ہمارا نکاح ہوا۔

اچھا ایسا کیوں؟ میں نے سنا ہے اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے؟

جی ہاں درست سنا ہے لیکن دین اسلام نے ہم پر جو پابندیاں لگائی ہیں ان کو ہم نے نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دی اور جو آزادیاں عطا کی ہیں ان کو ہم نے روایات کی بیڑیوں میں جکڑ دیا۔ اس لئے ایک سے زیادہ شادی کو جنوب ایشیائی ممالک میں نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور اس پر بڑا ہنگامہ ہو جاتا ہے۔

کیسا ہنگامہ؟

چمیلی نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا فلپائن میں ایسا نہیں ہوتا؟

نہیں، بالکل نہیں!

واقعی؟ کیا ایک سے زائد بیویاں میرا مطلب سوتنیں ایک دوسرے سے نہیں لڑتیں؟

جی نہیں اس میں لڑنے کی کیا بات ہے وہ تو سہیلیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں۔

چمیلی بولی آپ مذاق کر رہی ہیں۔

میں بھلا کیوں مذاق کروں؟ میں تمہیں ابو ظبی میں کئی ایسی فلپینی خواتین سے ملوا سکتی ہوں جن کے شوہر مشترک ہیں ان کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں۔

بھئی یہ تو عجیب بات ہے۔

سوژان بولی عجیب نہیں مختلف۔

چمیلی نے تائید کی۔ جی ہاں آپ کی بات درست ہے۔

ویسے یہ ایک قسم کی مجبوری ہے یہاں فلپینی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد زیادہ ہے نیز گھروں کا کرایہ اتنا ہے کہ کئی گھر عام انسان رکھ نہیں سکتا اور تم تو جانتی ہو کہ ہمارا طرزِ زندگی تنخواہیں کم اور خرچ زیادہ ہے۔

چمیلی بولی جی ہاں جی ہاں آپ بجا فرماتی ہیں۔

اوروں کی چھوڑو اور اپنی سناو یہ بتلاؤ کہ اب تمہاری سوتن رضیہ کا کیا حال ہے؟ اس کا دماغ درست ہوا یا نہیں؟

ایسا نہیں کہتے۔ اگر اس کی جگہ میں ہوتی تو شروع میں میرا بھی وہی حال ہوتا لیکن اب رضیہ خوشحال ہے۔ ہمارے درمیان بہنوں جیسا رشتہ قائم ہو گیا ہے۔

او ہو اتنا عظیم انقلاب کیسے برپا ہو گیا؟

بس یونہی۔

لیکن کیا تم نے کبھی رضیہ سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی؟

ایک مرتبہ جب وہ اچھے موڈ میں تھی تو فون پر میں نے یہ سوال کیا تھا؟

تو وہ کیا بولی؟

رضیہ کا جواب بڑا آسان تھا وہ بولی چمیلی جب میں نے اپنے آپ کو رضوان کی جگہ رکھ کر سوچا تو میری سمجھ میں اس کا مسئلہ آ گیا اور جب تمہاری جگہ رکھ کر سوچا تو میرے دل میں تمہارے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو گئے

میں نہیں سمجھی؟ سوژان نے سوال کیا

میں بھی نہیں سمجھ پائی تھی لیکن خود اس نے بتایا چونکہ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر وہ ابو ظبی میں رضوان کا خیال کرنے سے قاصر ہے۔ تو گویا میں اس کام کو یہاں کر رہی ہوں یعنی ہاتھ بٹا رہی ہوں۔

اچھا تو اس جواب کو سن کر تمہیں کیسا لگا؟

میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کس قدر خوشی ہوئی۔ میرے دل میں ایک احساس جرم تھا جو یکلخت کافور ہو گیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے رضیہ کا احترام کرنے لگی۔ میں نے اس کی تمام سخت و سست باتوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ میں نے سوچا کہ جن حالات سے رضیہ گذری ہے اگر میں گذرتی تو کیا ہوتا؟ میرے دل نے گواہی دی کہ میں بھی وہی سب کرتی جو اس نے کیا۔ مجھے اس کا رویہ نہایت معقول نظر آیا۔

اس معمولی سی بات کو سمجھنے میں تمہیں اتنا وقت کیوں لگا؟

میری غلطی یہ تھی کہ میں اس کے مسائل کو اپنی نظرسے دیکھ رہی تھی اور سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن جب میں نے اس کی نگاہوں سے دیکھا تو ساری بات نہایت آسانی سے سمجھ میں آ گئی اور اس کے بعد جب میں نے رضیہ کی کشادہ دلی دیکھی تو اس پر فریفتہ ہو گئی۔ اب وہ میری بڑی بہن ہے میں بازار میں کوئی اچھی سی چیز دیکھتی ہوں تو رضیہ کیلئے تحفہ کے طور پر خرید لیتی ہوں۔

لیکن تمہیں اس کی پسند یا ناپسند کا علم کیسے ہوتا ہے؟

میرے ساتھ رضیہ نہیں ہے مگر رضوان تو ہے جو اس کی ہر پسند و ناپسند سے واقف ہے۔ میں رضوان سے پتہ لگا کر رضیہ کے پسندیدہ تحفے تحائف آنے جانے والے سے بھجوا دیتی ہوں اور وہ بھی میرے لئے کچھ نہ کچھ روانہ کرتی رہتی ہے۔ اس لین دین نے ہماری محبت میں اضافہ کر دیا ہے۔

درمیان میں سوژان نے جماہی لی تو چمیلی بولی آپ بور ہو رہی ہیں؟

نہیں ایسی بات نہیں وہ در اصل چار بجنے والے ہیں اور تم تو جانتی ہی ہو؟

جی ہاں باتوں باتوں میں بھول ہی گئی تھی۔ میں آپ کے لئے چائے لے کر آتی ہوں اور باورچی خانے کی جانب چل پڑی سوژان نے ٹیلی ویژن چلا دیا اور چینل گردانی کرنے لگی۔ ڈسکوری چینل پر خفجی ریفائنری کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری نشر ہو رہی تھی انٹرویو لینے والا ایک افسر سے وجہ تسمیہ دریافت کر رہا تھا۔ اس پلانٹ کا نام جوائنٹ آپریشن کیوں رکھا گیا؟

افسر نے کہا اس کی اپنی تاریخ ہے تیل کا ایک کنواں سعودی عرب اور کویت کی سرحد پر واقع ہے کسی زمانے میں اس پر دونوں ممالک نے بیک وقت اپنا دعویٰ پیش کر دیا اور بہت بڑا تنازع کھڑاہو گیا۔ بڑے بڑے سیاسی اور جنگی مبصرین طرح طرح کی پیش گوئیاں کرنے لگے۔ کچھ ماہرین نے رائے دی کہ متعلقہ ممالک اپنی سرحدوں سے ترچھے سوراخ کر کے اس کنویں سے زیادہ سے زیادہ تیل نکال سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوبھی جائے تب بھی تنازع ختم نہ ہوتا تھا۔

ایک دوست نما دشمن ملک نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ دوسرے کو دے دیا جائے تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ کسی نے افواہ اڑائی کہ ایک ملک کے لوگ کنواں گنوا دینے کی صورت میں اس میں آگ لگانے سے بھی پس و پیش نہیں کریں گے گویا جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں۔ اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے رہے ٹیلی ویژن کے ذریعہ فضائی آلودگی کا اہتمام ہوتا رہا اور مسئلہ حل ہونے بجائے دن بدن الجھتا رہا۔ اس لئے کہ کنوئیں سے تیل نکالنے کے بعد اسے قابل استعمال بنانے کے لئے اتنی بڑی ریفائنری درکار تھی لیکن تیل کے کنویں میں آگ لگانے کی خاطر صرف ایک تیلی کافی ہوتی ہے۔

یہ خبریں جس وقت گرم تھیں اچانک دونوں ملک کے سربراہان کی ایک اجلاس ہوا اور اس کے اعلامیہ نے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ اعلان یہ تھا کہ سرحد کے اس علاقے میں ایک مشترکہ ریفائنری قائم کی جائے گی اور اس سے نکلنے والے تیل کو دونوں ممالک آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ اس فیصلے کے بعد آپس کا تنازع اشتراک میں بدل گیا۔ ٹی وی کے اسکرین پر خفجی ریفائنری سے نکلنے والے تیل سے دونوں ممالک کو ہونے والے فائدے کے اعداد و شمار دکھلائے جا رہے تھے اور چمیلی چائے کی کشتی میز پر رکھ رہی تھی۔ سوژان خفجی کے بجائے رضوان نیز سعودی عرب اور کویت کی جگہ رضیہ سلطانہ اور چمیلی کو رکھ کر چائے نوش فرما رہی تھی۔

اس گفتگو میں نہ جانے کیسے مرکزی حیثیت چمیلی کے بجائے رضیہ کو حاصل ہو گئی تھی۔ اس دوران سوژان نے رضیہ سلطانہ کے بارے میں تو بہت ساری معلومات حاصل کر لی تھی مگر چمیلی کی بابت مکمل تاریکی میں تھی۔ وہ بولی رضیہ کو چھوڑو اس سے میرا کیا لینا دینا؟ اپنے بارے میں بتاؤ۔ میں اپنی سہیلی چمیلی کی بابت جاننا چاہتی ہوں۔

میرے بارے میں آپ جان کر کیا کریں گی؟ میری زندگی ایک عام لڑکی کی مانند گذر رہی تھی کہ اس میں سوژالی نام کا ایک زلزلہ آ گیا اور پھر سب کچھ بدل گیا۔ سوژالی کے بغیر میری داستانِ حیات نامکمل ہے۔

سوژالی؟ یہ کون ہے؟ اس کا ذکر تو تم نے کبھی نہیں کیا اور ویسے بھی یہ ہمارے علاقے کا نام ہے۔ مشرق بعید کے ممالک ملیشیا اور انڈونیشیا میں یہ بہت عام ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں سوژالی کے بارے میں بھی جاننا چاہتی ہوں بشرطیکہ تمہیں اعتراض نہ ہو ورنہ کوئی بات نہیں۔

چمیلی بولی نہیں سوژان اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے؟ میری زندگی کے اس باب سے خود رضوان بھی واقف نہیں ہے لیکن چونکہ اب تم میری بہن ہو اس لئے میں اس راز میں تمہیں ضرور شریک کروں گی۔

سوژان کی آنکھوں میں تارے چمکنے لگے اس نے زبان سے کچھ نہ کہا ایک ٹک چمیلی کو دیکھتی رہی۔

چمیلی عجیب و غریب تذبذب کا شکار دیر تک دور خلاؤں میں گم ہو گئی پھر اپنی جگہ سے کسی بت کی طرح اٹھی ایک بے جان مجسمہ کی مانند بھاری قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔ سوژان بھی خاموشی کے ساتھ اس کے پیچھے رواں دواں تھی۔ چمیلی نے صندوق کھول کر اس میں سے ایک ریشم کی خوبصورت سی تھیلی نکالی اور تھیلی میں ہاتھ ڈال کر ایک ڈائری برآمد کی۔ یہ تھیلی تازہ چمیلی کے پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ چمیلی نے اس ڈائری کو اپنے آنکھ کا بوسہ دیا۔ اور واپس مڑی تو سامنے سوژان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹ گئی الفاظ کے پرندے دور فضاؤں میں معدوم ہو چکے تھے زبانیں گنگ تھیں اس کے باوجود ساری کائنات میں سوژالی سوژالی کی صدائیں گونج رہی تھیں۔

چمیلی کے ہونٹ کانپ رہے تھے سوژان کی پلکیں نمناک تھیں۔ چمیلی کے پھول بکھرے ہوئے تھے سارا ماحول معطر تھا۔ یہ پھول اپنی شاخ سے جدا ہو جانے کے باوجود کس قدر تر و تازہ تھے۔ ایسے تو وہ اپنی شاخوں پر بھی نہ تھے۔ یہ حقیقت تھی یا احساس تھا۔ چمیلی کے لئے حقیقت اور سوژان کے لئے احساس نیز ساری دنیا کے لئے ایک گمان! فقط۔ وہم  و گمان۔

چمیلی نے سوژان کو جو ڈائری دی تھی وہ در اصل ڈاکٹر انتخاب عالم کی جزوی آپ بیتی تھی۔ یہ ڈاکٹر عالم کی زندگی کا وہ باب تھا جو آنند بن میں کھلا اور وہیں بند ہو گیا۔ چمیلی کی شادی کے موقع پر یہ انتخاب کا تحفہ تھا جس کا آغاز ایک دلچسپ رودادِ سفر سے ہوتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

رودادِ انتخاب

 

وزارت صحت کی خالی اسامیوں کے لئے انٹرویو کا سلسلہ جاری تھا۔ دوسو انار بیس ہزار بیمار ایک عظیم مسئلہ تھا اس لئے درخواستیں ان کلرکوں کے حوالے کر دی گئیں جو علم طب کی الفب سے بھی واقف نہیں تھے۔ ان بیچاروں کا کام مختلف تکنیکی وجوہات کی بناء پر درخواستوں کو رد کرنا تھا۔ ان لوگوں نے یہ کام بڑی بیدردی سے کیا اور کاٹ چھانٹ کر اس فہرست کو بیس گنا مختصر کر دیا لیکن ایک ہزار امیدوار اس چھلنی سے بھی نکل گئے۔

اب ان سب کو انٹرویو کیلئے بلانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ ایک امیدوار کے لئے تین منٹ کا وقفہ بھی رکھا جاتا تو تین ہزار منٹ یعنی پچاس گھنٹہ گویا دس دن، ہر ہفتہ میں دو دن چھٹیاں تواس طرح دو ہفتوں کی مصروفیت طے ہو گئی۔ لیکن ان دو ہفتوں کی محنت و مشقت کے بعد انتخاب و تعین کا مرحلہ مزید دشوار گذار تھا۔

اس مشکل کا آسان سا حل یہ نکلا کہ پہلے سفارشی امیدواروں کو نمٹایا جائے۔ سفارشات کی فائل منگوائی گئی وہ بھی اچھی خاصی طویل تھی۔ وزراء کی سفارشات کو بے چوں چرا صاد کہہ دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے اہم سرکاری ملازمین اور سیاسی رہنماؤں کی باری آئی اور ان کا بھی حسب حیثیت احترام کیا گیا اب کمیٹی کے ممبران نے اپنی اپنی فہرستیں نکالیں اور صدر نشین نے اپنی بیوی کے سالے کی بھتیجی کا نام بھی پیش کر دیا۔

دیکھتے دیکھتے خالی اسامیوں کے خانے بڑی تیزی کے ساتھ پر ہوتے چلے گئے اور جب یہ سلسلہ تمام ہوا تو کونے میں ایک اسامی ہنوز اپنی تنہائی پر مغموم کھڑی تھی۔ کمیٹی کے سارے لوگ خوش تھے کہ تمام کام نہایت خوش اسلوبی سے ہوئے۔ ایک آخری اسامی کے لئے دوبارہ فائل کی دیکھنے کے بجائے یہ طے پایا کہ قرعہ اندازی کی بنیاد پر کسی امیدوار کو منتخب کر کے دفتر بند کر دیا جائے۔ اس تجویز پر بھی اتفاق رائے ہو گیا اور اس طرح انتخاب عالم وزارت صحت میں منتخب ہو گیا۔

اس کاروائی کا دوسرا مرحلہ امیدواروں کے تقرری کا تھا۔ بڑے شہروں میں بڑے سفارشی اور پھر درجہ بدرجہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا گیا۔ سب سے آخر میں انتخاب عالم کو چٹا گانگ سے ایک سو تیس کلومیٹر دور پہاڑی پر واقع بندر بن کے ابتدائی طبی مرکز کے حوالے کر دیا گیا۔ لوگ باگ ایک دوسرے کو مبارک سلامت کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی پر نازاں اور شاداں گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔

ڈاکٹر انتخاب عالم کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ اس بار بھی ناکام ہو جائے گا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کے اندر خود اعتمادی کی کمی تھی۔ یا اس نے تیاری نہیں کی تھی۔ انتخاب کا شمار کالج کے ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔ لوگ اس کی شرافت کی قسمیں کھاتے تھے۔ لیکن جس دورِ پر فتن میں نہ تو مارکسیٹ دیکھی جاتی ہو اور نہ کردار کے بے معنی سرٹیفکیٹس پر نگاہ غلط ڈالی جاتی ہو۔ اور پھر سوالات بھی ایسے کئے جائیں کہ جس سے امیدوار کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع میسر نہ آئے تو انتخاب عالم جیسا ہونہار امیدوار کچھ کرنا چاہے بھی تو کیا کرے؟

سرکاری ملازمت میں سفارش کا خط تیر بہدف کا کام کرتا تھا۔ انتخاب عالم کے پاس اس کے علاوہ سب کچھ تھا جو سود تھا۔ انتخاب اس قدر مایوس ہو چکا تھا اس نے درخواست نہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ تو نہ جانے کیوں آخری دن اس نے بادل ناخواستہ اپنی بوڑھی ماں کے کہنے پر درخواست روانہ کر دی اور تاخیر سے ہونے والی یہ حرکت اس کی کامیابی کا ضامن بن گئی۔

اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر وہ قدر خوش تھا کہ اس نے یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ تقرر کہاں ہوا ہے؟ ویسے کوشش بھی رائے گاں ہی جاتی۔ بندربن کا نام کسی نقشہ میں موجود نہیں تھا۔ وہاں ہوائی جہاز تو درکنار ریل گاڑی بھی نہیں جاتی تھی۔ کافی محنت کے بعد پتہ چلا چٹا گانگ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کا پہاڑی فاصلہ خراماں خراماں بس کے ذریعہ پانچ چھ گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے تب جا کر بندربن نظر آتا ہے۔

انتخاب عالم کو ان سب چیزوں کی پرواہ کب تھی۔ وہ ملازمت کے لئے بے حد ترسا ہوا تھا اس لئے جلد از جلد ڈیوٹی پر پہونچ جانا چاہتا تھا۔ ڈھاکہ سے چٹا گانگ کے راستے میں اس نے ہم سفر سواریوں سے بندربن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو صرف یہ معلوم کر سکا ان پہاڑیوں کے دشوار گذار راستوں پر شام میں بس نہیں جاتی۔ وہ چونکہ شام میں چٹاگانگ پہونچنے والا تھا اس لئے ان کی بات پر یقین کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے حیرت سے سوال کیا یہاں کی بسوں میں بتی نہیں ہوتی؟ لوگوں نے بتایا گاڑی میں تو بتی ہوتی ہے لیکن سردیوں میں دھند کے باعث رات کے وقت بس چلانا ممکن نہیں ہوتا۔

انتخاب کے لئے شب گذاری ایک مسئلہ تھا وہ اسٹیشن سے سیدھا بس اڈہ پہونچا۔ اور اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بندربن کی ایک بس کھڑی تھی اور سامان سے لدے پھندے مسافر اس کے آس پاس جمع تھے۔ انتخاب نے اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور سخود سے کہا اچھا ہی ہوا ان بے وقوفوں کی بات نہیں مانی۔ لیکن خوش فہمی جلد ہی رفع ہو گئی۔ دیگر مقامات پر جانے والی بسیں تو کچھ دیر میں اِدھر اُدھر نکل گئیں مگر بندربن کی بس اپنی جگہ ساکت و جامد تھی

ایسا لگتا تھا گویا کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ دریافت کرنے پرڈرائیور نے بتایا کہ صاحب ہم بھی انسان ہیں دن میں کام کرتے ہیں رات میں آرام کرتے ہیں۔ آپ بھی جا کر آرام کیجئے اور صبح میں آئیے ہم آپ کو لے چلیں گے۔ اچانک انتخاب عالم کی انسان دوستی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا گیا تھا۔

اس نے کہا اچھا تو آپ صبح جاتے ہو اور شام کو آرام کرنے کیلئے واپس آ جاتے ہو؟

ڈرائیور مسکرایا اور بولا جناب آرام کی خاطر واپس آنا ضروری تو نہیں؟ ہمارے لئے تو یہ ساری دنیا سرائے ہے۔ یہاں کیا اور وہاں کیا؟ ایک دن یہاں سو جاتے ہیں اور دوسرے دن بندربن میں اسی طرح گذر رہی ہے اپنی زندگی۔

بہت خوب کیا میں کل صبح کے لئے اپنی نشست مختص کروا سکتا ہوں۔

ڈرائیور نے پھر حیرانی سے اس کی جانب دیکھا اور بولا صاحب کل صبح کا کیا بھروسہ کل ہو نہ ہو؟

کیا مطلب؟

مطلب یہ کہ اگر ہو بھی تو ممکن ہے ہمارے مقدر میں نہ ہو۔

کیسی عجیب باتیں کرتے ہیں آپ؟

یہ عجیب بات نہیں ہے صاحب نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہیں جو کل ہمارے ساتھ تھے آج نہیں ہیں اور نہ جانے کتنے آج ہیں جو کل نہ ہوں گے۔

ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں بس کی نشست کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ دیکھئے اس بس میں اندر باہر اور اوپر نیچے جس قدر جگہ ہے اسی قدر مسافر آتے ہیں اور کہیں نہ کہیں سما جاتے ہیں اس لئے آپ زیادہ فکر نہ کریں رات آرام سے سوئیں اور صبح سات بجے سے قبل آ جائیے گا ورنہ پھر پرسوں میرے بھائی کے ساتھ آپ کو جانا ہو گا۔

کیا مطلب؟

مطلب یہ ہے کہ ہم دو بھا ئی ہیں ایک آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا آتا ہے۔ بس اسی طرح زندگی کا سفر طے ہوتا جاتا ہے۔ اور میں بھی چلتا ہوں۔ سارے مسافر اپنے سامان لے کر  جا چکے ہیں۔

انتخاب عالم نے مایوسی کے عالم میں بس اڈے کے چاروں جانب دیکھا تو اسے دور سواگت لاج کا بورڈ دکھائی پڑا۔ اس سے پہلے اس نے نہ جانے کتنی بار مختلف اسٹیشنوں اور بس اڈوں کے باہر اسی طرح بورڈ دیکھے تھے جن پر سواگت لاج لکھا ہوتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ آخر ہر جگہ یہ سواگت لاج کیوں ہوتی ہے؟ لیکن آج اس کی سمجھ میں سواگت کے معنی اور اس کی ضرورت آ گئی تھی۔ وہ انتخاب کی اپنی ضرورت جو تھی اگر ضرورت کسی مشترک مفاد سے وابستہ ہو جائے تو بامعنی ہو جاتی ہے ورنہ بے معنی ہی رہتی ہیں۔

انتخاب امید کے اس ٹمٹماتے ہوئے دیئے کی جانب چل پڑا۔ سرائے کے راستے میں اسے کئی ہوٹلوں کی بلند بانگ عمارتیں نظر آئیں لیکن انتخاب جانتا تھا ان میں قیام فی الحال اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابھی تو اسے اپنی پہلی تنخواہ کے لئے اچھا خاصا انتظار کرنا ہے۔ اسے یقین تھا کہ خستہ حال سواگت لاج ضرور اس مفلوک الحال مسافر کو اپنے دامن میں پناہ دے گی۔ اس دنیا میں لوگ اپنوں کا یعنی اپنے جیسوں کا خیال تو رکھتے ہی ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ لوگ اپنا خیال اپنے جیسوں سے رکھواتے ہیں یہ سوچتا ہوا جب وہ سواگت لاج کے مد مقابل پہونچا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہ دروازہ بھی بند ہے۔

یہ کیسا استقبال ہے؟ ایک مدھم سے بلب کے نیچے گھنٹی کا بٹن دیکھ کر امید کی ایک اور کرن جاگی۔ اپنا سامان نیچے زمین پر رکھ کر انتخاب نے سرخ بٹن دبا دیا۔ چند لمحوں کے بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی اور دھڑ سے دروازہ کھلا۔ سامنے کیشو بنیان اور نیکر پہنے مسکرارہا تھا۔ اس سے پہلے کہ انتخاب کچھ بولتا کیشو بولا آیئے صاحب تشریف لائیے ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں۔

انتخاب نے پوچھا یہ بتاؤ کہ رات گذارنے کے لئے کوئی کمرا ہے۔

کیشو بولا صاحب اندر تو آئیے۔ کچھ نہ کچھ انتظام ہوہی جائے گا۔ کیشو نے ایک بیگ اٹھایا انتخاب دوسرا اٹھا کر اندر آ گیا۔

اب کیشو نے پوچھا فرمائیے صاحب آپ کو کیسا کمرا چاہئے؟

کیسا کیا مطلب کمرا کیسا ہوتا ہے تم نہیں جانتے؟

کیشو نے دانت نکال دیئے اور بولا صاحب کمرے کے بارے میں تو جانتا ہوں لیکن آپ کی جیب کے بابت میں میری معلومات کم ہے اس لئے پوچھ رہا تھا ہمارے پاس پانچ سو سے لے کر دوسو تک کے کمرے ہیں۔

کیا؟ پانچ سو سے دو سو۔ کیسامذاق کر تے ہو کیشو؟ یہ بات تم باہر بتلا دیتے تو ہم وہیں سے لوٹ جاتے۔ بھئی ایک رات بسر کرنے کی خاطر پانچ سو تو بہت ہوتے ہیں۔

کیشو بولا صاحب لوٹ کر کہاں جاتے؟ اس شہر میں سب سے سستا لاج یہی ہے ویسے ہم سے بھی سستے کچھ ہیں لیکن یہاں سے اس قدر دور کہ آٹو رکشا سے آنے جانے میں پچاس روپئے کا خرچ الگ اور دوسری مصیبتیں اور خطرات اضافی۔

لیکن بھئی پانچ سو روپئے ہم کہاں سے لائیں یہ تو بہت زیادہ ہے؟

دیکھئے جناب قیمت زیادہ ہوتی نہیں لگتی ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے کچھ لوگوں کو پہلے ہمارے پانچ سوزیادہ لگتے تھے بعد میں ویلکم انن کے پانچ ہزار بھی زیادہ نہیں لگتے ویسے دو سو بھی تو کہا تھا آپ پانچ میں اٹک گئے۔

انتخاب بولا بھائی سچ تو یہ ہے کہ دو سو بھی فی الحال میرے لئے زیادہ ہیں۔

اچھا تو کوئی بات نہیں میرے پاس اس کا بھی حل ہے۔ آپ میرے کمرے میں ٹھہر جائیے۔

کیا مطلب؟

مطلب یہ ہے کہ میرے کمرے میں دوبستر ہیں ایک میرا اور ایک میرے بھائی مادھو کا۔

انتخاب کو ڈرائیور کا بھائی یاد آ گیا وہ بولا جو ابھی بندربن گیا ہوا ہے؟

جی ہاں صاحب آپ تو انتریامی ہیں آپ نے بالکل صحیح پہچانا۔

اور جو کل صبح آ جائے گا۔

جی ہاں جی ہاں صاحب آپ کا اندازہ درست ہے۔

اور پھر تم چلے جاؤ گے اور پھر وہ چلا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

جی ہاں صاحب آئیے میں آپ کو مادھو کے بستر کی جانب لے چلتا ہوں۔

کیشو کے ساتھ انتخاب ایک نیم تاریک کمرے میں داخل ہوا جہاں دو بستر بچھے ہوئے تھے۔ کیشو نے کہا وہ والا۔ کھڑکی کے پاس۔ آپ جب چاہیں کھڑکی کھولیں۔ جب چاہیں بند کریں یہ کھڑکی اور کمرا دونوں آپ کے ہیں؟

لیکن اس کا کرایہ؟

آپ سوچ سمجھ کر دے دیجئے گا۔

نہیں بھائی میں صبح صبح کسی بحث و تکرار میں نہیں پڑنا چاہتا۔

ارے صاحب اگر ہم ویسے آدمی ہوتے تو دروازے سے ہی لوٹا دیتے۔

اب آپ آرام فرمائیے صبح ملیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

سواگت لاج

 

سواگت لاج کا نرم بستر بھی انتخاب عالم کی آنکھوں میں نیند در آمد نہ کر سکا۔ وہ دیر تک اپنے بستر پر کروٹ بدلتا رہا اس نے کئی بار ٹیلی ویژن کو کھولا اور پھر بند کر دیا۔ اس پر سرکاری بانگلہ ٹی وی کے بد مزہ پروگرام انتخاب کا منہ چڑھاتے رہے۔ حکومت کی بیجا تعریف و توصیف سے اسے شدید الجھن ہوتی تھی بالآخر اس نے فون اٹھایا اور استقبالیہ پر بیٹھے کیشو سے بولا یہ تمہارا ٹی وی صرف سرکاری بولی کیوں بولتا ہے؟

کیشو نے جواب دیا۔ صاحب سرکار کا پر چار مفت میں ہوتا ہے۔ دوسرے نجی چینلوں کیلئے ٹاکا (روپئے) خرچ کرنے پڑتے ہیں اور ہم اپنے گاہکوں پر بیجا اخراجات کا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے۔

یہ بیجا بوجھ ہے؟ یہ تم کس زمانے کی بات کر رہے ہو کیشو؟ آج کے دور میں ٹیلی ویژن ضروریاتِ زندگی میں شامل ہو چکا ہے۔

آپ کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن سارے لو گوں کی ضروریات تو یکساں نہیں ہوتیں۔ ہمارے کئی گاہک ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ٹی وی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میں ان کی بات کر رہا تھا۔

کیشو تمہارے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن اس سے میرا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

جناب آپ نے اپنا مسئلہ تو بتلایا ہی نہیں۔ کہیں آپ کسی کیبل والے کے ایجنٹ تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سکون سے سو جائیں ہم کیبل لگوانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

انتخاب کو غصہ آ گیا۔ وہ بولا کیا ایجنٹ؟ تم نے رجسٹر میں دیکھا نہیں میں ڈاکٹر ہوں ڈاکٹر انتخاب عالم!

صاحب رجسٹر کو ہم نہیں دیکھتے وقتِ ضرورت پولس والے دیکھتے ہیں۔ ویسے اگر آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کو نیند نہیں آ رہی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس شب خوابی کی گولیاں تو ہوں گی ہی۔ کھا کر سو جائیے۔

تمہیں کس نے کہا کہ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے؟

ہر بات کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی صاحب۔ اگر آپ کو نیند آ رہی ہوتی تو آپ میری نیند کیوں خراب کرتے؟

میں تمہاری نیند خراب کر رہا ہوں؟

جی نہیں معاف کیجئے آپ مجھے لوری سنا کر سلا رہے ہیں اور ان کا اچھا خاصہ اثر بھی ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں دوبارہ نیند کی آغوش میں پہنچ جاؤں جلدی سے فرمائیے کیا خدمت مطلوب ہے۔

انتخاب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا معاف کرنا کیشو۔ مجھے واقعی نیند نہیں آ رہی کوئی فلم وغیرہ ہے تمہارے پاس جسے دیکھ کر میں اپنا وقت گزار سکوں اور ممکن ہے سو بھی جاؤں؟

کیشو نے دماغ پر زور ڈالا اور میز کی دراز کھولی اس میں ایک ڈی وی ڈی پڑی مسکرا رہی تھی۔ جی ڈاکٹر صاحب آپ ایسا کیوں نہیں کہتے کہ آپ کو فلم دیکھنی ہے۔ میں ابھی دو منٹ میں حاضر ہوا۔ کیشو نے اوپر الماری میں سے ڈی وی ڈی پلیئر اتارا اس کی جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کیا اور انتخاب کے کمرے میں پہنچ گیا۔

آداب عرض ہے سرکار کیشو بولا

آؤ! آؤ کیشو یہ کیا لائے ہو اپنے ساتھ؟

جناب اس چراغ کے اندر ایک جن ہے جو بجلی کا پلگ لگاتے ہی نمودار ہو جائے گا اور آپ کا دل بہلائے گا۔

انتخاب کو ہنسی آ گئی وہ بولا کیشو کاش کہ تم فلم انڈسٹری میں ہوتے؟

جی ہاں سرکار لیکن اگر میں وہاں پہونچ گیا ہوتا تو بیچارے رامو میرا طلب ہے رام گوپال ورما اور کرن جوہر وغیرہ کا کیا ہوتا؟

وہ! وہ تمہاری طرح کسی سواگت لاج میں مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے۔

اب تک کیشو پلیئر کو ٹی وی اور بجلی سے منسلک کر چکا تھا۔ وہ بولا صاحب یہ لیجئے آپ کا چراغ روشن ہو گیا ہے۔ اپنے جن کو آواز لگائیے اور مجھے اجازت دیجئے۔

لیکن اس میں ہے کیا میرا مطلب ہے فلم کون سی ہے؟

یہ تو میں بھی نہیں جانتا؟

کیا مطلب؟ تم لائے ہو اور نہیں جانتے؟

جی ہاں سرکار آپ جیسا کوئی گاہک بھول گیا تھا۔ مجھے دیکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ آپ تو جانتے میرے پاس کتنا کام ہوتا ہے؟

اچھا تو تم بنا جانے بوجھے مجھے کوئی فلم پکڑا کر رفو چکر ہو رہے ہو کیوں؟ اگر یہ کوئی بور فلم نکلی تو؟

تب تو اور بھی اچھا ہے آپ کو فوراً نیند آ جائے گی۔

اور اگر دلچسپ فلم ہوئی تو؟

کوئی مشکل نہیں آپ کی تفریح ہو جائے گی اور مجھے بخشش ملے گی۔

یار کیشو وہ تو اچھا ہوا کہ تم یہاں پھنس گئے ورنہ رام اور کرن تو درکنار سلیم جاوید بھی ٹھکانے لگ جاتے۔

کیشو مسکرا کر بولا شکریہ صاحب۔ خدا حافظ۔ شب بخیر

انتخاب نے کہا لیکن جانے سے پہلے اس گاہک کے بارے میں ہی کچھ بتا جاؤ جو اسے بھول کر گیا؟

وہ ایسا ہے صاحب کہ سعودی عرب سے ہمارے یہاں دو نوجوان آئے۔ ہفتہ دس دن قیام کیا اور پھر اچانک پولس کا چھاپہ پڑ گیا۔

تو کیا پولس نے انہیں گرفتار کر لیا؟

جی نہیں اتفاق سے وہ دونوں کمرے میں نہیں تھے۔ پولس نے ان کے کمرے سے بہت سارا اسلحہ برآمد کیا۔

اسلحہ؟ وہ کیسے آ گیا؟ تب تو تمہیں بھی گرفتار ہو جانا چاہیے تھا۔

ہمیں کیوں؟

تم نے سامان کی تلاشی جو نہیں لی۔

آپ کیسی بات کرتے ہیں صاحب! ہم اپنے معزز گاہکوں کے سامان کی تلاشی لینے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں کیا پتہ کہ آپ کے سامان میں کیا کچھ ہے؟

اچھا تو کیا تم مجھے دہشت گرد سمجھتے ہو؟

جی نہیں صاحب میں نے تو انہیں بھی سیدھا سادہ امن پسند شہری سمجھا تھا۔ میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تو پولس نے بتا دیا ورنہ مجھے کچھ پتہ ہی نہ چلتا۔

اچھا پولس نے کیا بتایا؟ مجھے بھی تو معلوم ہو؟

پولس نے بتایا کہ وہ روہنگیائی مسلمان تھے۔ ان کے خاندان کو برما کے فوجیوں نے مار دیا تھا مگر وہ کسی طرح اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سعودی عرب پہنچ گئے۔ وہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی مگر اپنے رشتے داروں کو سرکاری و غیر سرکاری ظلم و جبر سے بچانے کے لیے انہوں نے اراکان صوبے میں لوٹ کر آنے کا فیصلہ کیا۔

اراکان تو برما کا صوبہ ہے انہیں رنگون سے ہو کر جانا چاہیے تھا۔

جی ہاں صاحب۔ آپ کی بات درست ہے مگر برما کی حکومت کسی مسلمان کو ویزہ ہی نہیں دیتی۔ اس پر اگر وہ اراکان کا رہنے والا روہنگیائی مسلمان ہو تو تب تو نا ممکن ہے۔

تو پھر وہ لوگ یہاں کیوں آئے؟

یہاں سے ندی پار کر کے لوگ برما آتے جاتے ہیں۔ وہ اسی ارادے سے آئے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے ہوں لیکن افسوس کہ ان کا اسلحہ یہیں چھوٹ گیا۔

تمہیں اس کا افسوس کیوں ہے؟

کیسی باتیں کرتے ہیں صاحب۔ کیا اپنے والدین کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہچانے کا مقدس کام کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانا غلط ہے؟

یہ سب تمہیں کس نے بتایا؟

پولیس نے لیکن صاحب ایک راز کی بات بتاتا ہوں کسی سے بتائیے گا نہیں۔

بولو، بولو۔

وہ لوگ آپس میں بنگلہ نہیں بلکہ ہندی بول رہے تھے۔

کون لوگ؟ وہ نوجوان جو سعودی سے آئے تھے؟

جی نہیں میں چھاپہ مارنے والی پولس کی بات کر رہا ہوں۔

انتخاب نے چونک کر دریافت کیا، ہندی؟ تو کیا وہ ہندوستان سے آئے تھے؟

دیکھیے صاحب اس طرح کے مشکل سوالات کر کے آپ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیں۔ ان کی کارگذاری میں نے آپ کے گوش گذار کر دی۔ وہ کہاں سے آئے تھے؟ یہ میں نہیں جانتا۔

تم کچھ نہیں جان کر بھی بہت کچھ جانتے ہو۔

شکریہ صاحب۔ بہت نوازش اب آپ فلم دیکھئے اور سو جائیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دستاویز

 

انتخاب نے ویڈیو چلائی تو پتہ چلا کہ یہ روہنگیائی مسلمانوں پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم ہے جس میں کمال مہارت سے ان کے تابناک ماضی اور کربناک حال کی عکاسی کی گئی ہے۔

فلم کی ابتداء برما کے سابق وزیر اعظم تھائی سین کے اس اعلان سے ہوتی ہے ’’روہنگیاں مسلمان ہمارے باشندے نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں۔ ان پر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کوئی دوسرا ملک انہیں قبول کر لے یا اقوام متحدہ ان کی دیکھ بھال کرے ‘‘۔ اس کے بعد پردے پر ایک درگاہ نمودار ہوتی ہے پس منظر سے آواز گونجتی ہے۔ مونگ ڈاو پہاڑی کی چوٹی پر واقع یہ ہمارے جد ّامجد محمد ابن الحنفیہ کی مقدس مزار ہے۔ خانوادۂ حضرتِ علیؓ کے اس چشم و چراغ نے ۶۸۰؁ میں یہاں قدم رنجا فرمایا تھا۔ ان کی آمد کے بعد جستہ جستہ مسلمان ائیر وادی ندی کی ترائی میں آباد ہوتے چلے گئے۔ یہ قوم پرست برمی جس سلطنتِ بگان پر فخر جتاتے ہیں اس کا قیام تو ۱۰۵۵؁ کے اندر عمل میں آیا جبکہ اس علاقہ میں مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں نویں صدی سے آباد ہیں۔

اس تمہید کے بعد کیمرہ ایک قدیم محل کے اندر کا منظر پیش کرتا ہے اور آواز آتی ہے یہ راجہ انوار تھا کا محل ہے جس نے اپنے شہزادے ساولو کی تعلیم و تربیت کیلئے ایک عرب استاذ کا تقرر کیا۔ اس کے بعد شہزادہ ساولو ایک بچے کے ساتھ تعلیم حاصل کرتا نظر آتا ہے جسے وہ ’اے استاد کے بیٹے رحمٰن خان‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ تعلیم کے بعد دونوں کی مشترک رضائی ماں انہیں کھانا کھلاتی ہے۔

اس کے بعد والے منظر میں تخت نشین ساؤلو، باگو کے جاگیر دار رحمٰن خان کے ساتھ شطرنج کھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ چند چالوں کے بعد رحمٰن خان بازی جیت کر تالیاں بجانے لگتا ہے اور ساؤلو غیض و غضب کے عالم میں رحمٰن کو للکارتا ہے کہ اگر بازو میں دم ہے تو اپنے صوبہ باگو سمیت اعلانِ بغاوت کر کے دو دو ہاتھ کر لے۔ رحمٰن یہ چیلنج قبول کر کے محل سے باہر نکل جاتا ہے۔

اس کے بعد میدان جنگ کے مناظر پردے پر آتے ہیں جن ایک طرف ساؤلو کا لشکرِ جرار اور اس کے مدمقابل رحمٰن خان کی فوج ہے۔ گھمسان کا رن پڑتا ہے کچھ دیر بعد ساولو اپنی فوج کے ساتھ میدانِ جنگ سے فرار ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن بہت جلد گرفتار ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ رحمٰن خان فتح کا پرچم لہراتا ہوا لوٹ رہا ہے کہ ساولو کا ایک تیر انداز اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ ساولو اور رحمٰن خان کی لاشوں کے پیچھے سے باگان سلطنت کا بادشاہ کیانزیٹا نمودار ہوتا ہے۔ اس کی فوج میں ہندوستانی فوجی شامل ہیں اور دربار میں مسلمان شاہی مشیر اور فوجی سپہ سالار اہم ذمہ داریوں پر فائز دکھائے جاتے ہیں۔

اس کے بعد مون قبیلہ کے زمانے کی منظر کشی ہوتی ہے۔ راجہ تھاٹون (۱۰۵۰ء کا زمانہ) میں مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان تلخی کے مناظر پیش ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شیش محل کی تعمیر میں مسلمانوں سے بے گار لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تھانون کی مخالفت کرنے والے۔ بیطوی کے دو بیٹوں کا بندھوا مزدور کے طور پر محل کی تعمیر سے انکار کے نتیجے میں سولی پر چڑھا نے کا دلدوز منظر بھی انتخاب عالم کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ فلم بینی کے دوران وہ فلمساز کی غیر جانبداری و مہارت کا گرویدہ ہو رہا تھا۔

آگے چل کر برمی بودھوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان۱۴۳۰؁ میں استوار ہونے والے دوستانہ تعلقات نے انتخاب کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ بنگال کے سلطان جلال الدین شاہ کا محل اور اس میں ۲۴ سالوں تک برمی بادشاہ راجہ نارامیخلا کی جلا وطنی کی زندگی اس کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ نارامیخلا کا پھر سے اقتدار سنبھالنا اور مسلمانوں کو خودمختاری دینا نیزٹکسالی سکوں ّ میں ایک جانب برمی تو دوسری طرف فارسی میں لکھا جانا بھی انتخاب کے لیے ایک حیرت انگیز انکشاف بن جاتا ہے۔

نارا میخلا کے بعد تاریخ ایک خطرناک موڑ لیتی ہے۔ اس کے وارثین احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۱۴۳۳؁ میں رامو اور چٹا گانگ پر قبضہ کر لیتے ہیں جو۱۶۶۶؁ تک جاری رہتا ہے۔ یہ دستاویزی فلم ۱۵۵۹؁ میں راجہ بائیٹناگ کے اسلام مخالف رویہ سترہویں صدی میں شاہجہاں کے منجھلے بیٹے شاہ شجاع کا راجہ سندا تھدامہ کے ذریعہ خیرمقدم اور شجاع کی بیٹی سے شادی کی پیشکش کے مسترد کیے جانے پر جنگ و قتل عام اور مظالم کی تصویر کشی بھی کرتی ہے۔

برما پر انگریزوں کا قبضہ، جنگ عظیم میں جاپانیوں کی فوج کشی اور۱۹۴۸؁ میں برما کی آزادی کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو بھی فلم میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ جنگ عظیم سے قبل جنرل اونگ سان کی قیادت میں اینٹی فاشسٹ پیوپلس فریڈم پارٹی (اے ایف پی ایف ایل)کے ذریعہ آزادی کی جد و جہد اور برما مسلم کانگریس (بی ایم سی)کی اس میں شمولیت کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ بی ایم سی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دسمبر ۱۹۴۵ میں یو رزاق کا اپنی جماعت کو اے ایف پی ایف ایل میں ضم کر دینے والے مناظر نے انتخاب عالم کو سوگوار کر دیتے ہیں مگر فوجی بغاوت کے بعد جنرل اونگ سان سمیت یو رزاق کی پھانسی کے اندوہناک مناظر دیکھ کر انتخاب کی پلکیں نم ہو جاتی ہیں۔

اس ویڈیو کے اختتامی حصے میں جنرل یو نو کے بودھ مت کو قومی مذہب قرار دینے کے بعد شروع ہونے والے مظالم نیز ۱۹۷۸؁ میں قومی رائے شماری سے قبل آپریشن ڈراگن کنگ کے نام سے روہنگیا مسلمانوں کو اس ہراساں اور ہجرت پر مجبور کیے جانے کو تفصیل سے فلمایا گیا تھا۔ فلم کا خاتمہ اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی قرار دادوں اور روہنگیائی رہنما محمد نور کے اس بیان پر ہوتا ہے کہ وہ برمی نہیں بلکہ آزاد ریاست اراکان کے باشندے ہیں۔ روہنگیا نسل کا تعلق برما سے نہیں اراکان سے ہے۔ برما کے لوگ ان کی سر زمین پر غیرملکی ہیں۔ انہوں نے اراکان پر جارحیت کے سہارے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کا حل ان کی آزادی میں ہے۔ انتخاب عالم اس بات پر شرمندہ ہو جاتا ہے کہ پڑھا لکھا ہونے باوجود وہ اپنے پڑوسی ملک میں رہنے والے ایمانی بھائیوں کے سنگین مسائل سے پوری طرح غافل رہا۔ وہ روہنگیائی مسلمانوں کے لیے خون کے آنسو بہاتے ہوئے نہ جانے کب محوِ خواب ہو گیا۔

صبح دم انتخاب نے اپنے بغل والے بستر پر کیشو کے علاوہ کسی اور کو لیٹا ہوا پایا۔ اس نے سوچا مادھو آ گیا ہو گا تو کیشو نے اسے اپنے بستر پرسلادیا۔ انتخاب کی نگاہ میں کیشو کا احترام بڑھ گیا۔ نہا دھو کر جب وہ کاونٹر پر پہنچا تو کیشو وہاں موجود بنچ پر پیر سمیٹے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ انتخاب اسے جگا کر بولا معاف کرنا میرے باعث تمہیں زحمت ہوئی میں معذرت چاہتا ہوں۔

نہیں صاحب اس کی کیا ضرورت ویسے وہ آپ کا ہم نشین میرا بھائی نہیں نارائن صاحب ہیں۔ ہمارے مستقل گاہک ہیں وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔ جب کوئی کمرہ خالی نہیں ہوتا ہے تو میں انہیں اپنے بستر پر سلادیتا ہوں۔

اپنے بستر پر اور تم رات بھر نہیں سوتے؟

صاحب ہماری تو رات میں ڈیوٹی ہوتی ہے۔ یہ تو سرائے ہے۔ یہاں پر لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔ میں وہیں کرسی پر بیٹھا بیٹھا اونگھ لیتا ہوں۔ جب تھک جاتا ہوں تو بنچ پر لیٹ جاتا ہوں۔

اس بیچ دوسرا گاہک بھی تیار ہو کر آ گیا کیشو بولا صاحب آپ دونوں کو بس اڈے جانا ہے۔ رکشا میں ساتھ جائیں مشترک کمر مشترک سواری۔ خدا حافظ۔

دونوں نے سو سو روپئے کا ایک ایک نوٹ کیشو کو تھمایا اور باہر آ گئے کیشو انہیں رکشا تک چھوڑنے کے لئے آیاسامان رکھ کر الوداع کیا۔ راستہ میں انتخاب بولا کیشو کتنا اچھا آدمی ہے؟ خود کو تکلیف میں ڈال کر ہمیں آرام پہنچایا۔

نارائن نے حیرت سے کہا تکلیف کیسی تکلیف؟

ہم لوگ اس کے اور اس کے بھائی کے بستر پر سوئے کیا یہ اس کی احسانمندی نہیں ہے؟

احسان کیسا احسان؟ ہم کوئی مفت میں تھوڑے ہی سوئے۔ سوسو روپئے دیئے ہم نے۔ دو لوگوں سے ایک کمرے کا کرایہ دو سو روپئے مل گیا اور کیا چاہئے؟

وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ ہمیں منع کر کے خود بھی تو آرام سے سو سکتا تھا؟

کیسی بات کرتے ہیں صاحب، نارائن بولا ہم سے دوسو روپئے کما کر وہ کرسی پر آرام سے سویا ہو گا۔ نیند کا کیا ہے بسترپر ہو یا کرسی پر اور ویسے بھی رات بھر کرسی پر بیٹھنا اس کی ڈیوٹی ہے۔ اور اب وہ دن بھر آرام سے سوئے گا۔

لیکن رات کی نیند تو رات کی ہوتی ہے اس کا دن سے کیا تقابل؟

آپ کی یہ بات ٹھیک ہے لیکن ہو سکتا ہے وہ نصف شب کسی اور کمرے میں جا کر سو گیا ہو۔ ہمیں کیا پتہ؟ اور پھر اسے منع کرنے والا کون ہے؟ وہی اس لاج کا چپراسی اور وہی منیجر بلکہ مالک بھی سمجھ لو۔

رکشا بس اڈے کے سامنے کھڑا تھا ساتھ والے مسافرنے میٹر سے نصف رقم انتخاب کے ہاتھ پر رکھی اور یہ جا وہ جاہو گیا۔ انتخاب نے اس میں اپنا حصہ جو ڑا اور کہا کیسا احسان فراموش انسان ہے؟ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہ تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

داستانِ سفر

 

انتخاب عالم کوبس کا ڈرائیور پہچان گیا وہ مسکرا کر بولا صاحب آپ تو بڑی جلدی آ گئے۔

تمہیں نے تو کہا تھا کہ سات بجے بس چھوٹ گئی تو اگلے دن سات بجے۔

جی ہاں کہا تو تھا لیکن یہ سب باتیں تو صرف کہنے کی ہوتی ہیں۔

اچھا تو بس کب جائے گی؟

یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا ہاں آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تک سارے مسافر آ جاتے ہیں اور پھر ہم چل پڑتے ہیں اب کسی کو چھوڑ کر جانا بھی تو اچھی بات نہیں۔ اس نے اپنے دانت نکال دیئے آپ ایسا کریں چائے وغیرہ پی کر آئیں اب آپ کا سامان محفوظ ہے اور نشست وہ بھی محفوظ سمجھیں کسی بھی سیٹ پر اپنا رو مال یہ اخبار وغیرہ رکھ دیں۔

انتخاب نے سوچا یہ اچھا ہے۔ اپنے ہاتھ کا اخبار اس نے دوسری قطار کی کھڑکی والی سیٹ پر رکھا اور چائے خانہ کی جانب چل دیا۔ اسے یقین تھا کہ ڈرائیور اسے لئے بغیر نہیں جائے گا۔ آدھے گھنٹہ کے بعد وہ ناشتے سے فارغ ہو کر واپس آیا تو بس کے آس پاس کئی مسافر ٹہل رہے تھے وہ اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گیا اور اخبار پڑھنے لگا۔ بس اپنی جگہ سے چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی اخبار کے صفحات ایک کے بعد ایک ختم ہوتے جا رہے تھے۔

اس نے اپنے بغل میں بیٹھے تلک دھاری مسافر سے پوچھا۔ یہ بس جائے گی یا نہیں؟

کیوں نہیں صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں ایشور کی کرپا سے بس ضرور جائے گی۔

لیکن کب جائے گی؟

کوئی نہیں جانتا ڈرائیور بھی نہیں۔ جب بھر جائے گی تو چل پڑے گی؟

لیکن یہ اس طرح بلاوجہ وقت کی بربادی؟

ارے صاحب ویسے بھی ہمیں جلدی جا کر کرنا کیا ہے؟ شام میں پہونچیں گے تو آرام ہی کریں گے؟

تو کیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟

کیا فرق پڑتا ہے صاحب ایک آدھ گھنٹہ کم سوئے تو کیا مر جائیں گے؟

انتخاب عالم بیزار ہو کر پھر اخبار میں گھس گیا کہ اچانک بس کا انجن غرًایا۔ بس کھچا کھچ بھر چکی تھی اور اب مزید گنجائش نہیں تھی۔ ڈرائیور نے دروازہ بند کرنے کا حکم دیا۔ تمام مسافر اپنے اپنے دل میں خالق و مالک سے دعا کر رہا ہے تھے کہ پروردگار عالم انہیں صحیح سلامت اپنی منزل تک پہونچا دے۔

شہر سے نکل کر بس پہاڑی راستے پر آسمان کی جانب اڑ رہی تھی اور انتخاب عالم اپنے ماضی کے دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ کیسا بھیانک دلدل تھا۔ امتیازی نمبر سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بے روزگاری کا کرب کس قدر بھیانک تھا۔ اس کے پاس اپنا دوا خانہ کھولنے کے لئے رقم نہیں تھی اور اسپتالوں میں اس کے لئے ملازمت نہیں تھی۔

انتخاب درخواستیں دیتے دیتے تھک گیا تھا بلکہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا اب وہ پردیس جائے گا جہاں کسی کو پتہ نہ ہو کہ وہ ڈاکٹر ہے اور وہاں جا کر جو بھی ملازمت ملے گی کر لے گا۔ کمپاؤنڈر بن جائے گا نرسنگ کرے گا۔ مزدوری کرے گا وہ سب کرے گا جو اپنے شہر میں نہیں کر سکتا اس لئے کہ یہاں لوگ اسے ڈاکٹر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ اگر اس نے کوئی ہلکی ملازمت کر لی تو اس کے والدین کی توہین اور اذیت ہو گی۔ دوست و احباب اس کا مذاق اڑائیں گے۔

ان پریشانیوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ تھا کہ اپنے جاننے والوں سے دور نکل جائے۔ تنہا ہو جائے۔ کسی ایسے مقام پر جا بسے جہاں نہ کوئی اس کے پیشے سے واقف ہو اور نہ اس کی پامالی پر رنجیدہ و شرمندہ ہو۔ انتخاب نے اپنے لئے اپنوں سے دوری منتخب کر لی تھی لیکن پھر امید کا ننھا سا دیا جلا اس نے پھر اپنا ارادہ بدلا اور ایک درخواست کر ڈالی جو اس کے اندھیرے گھر کی شمع بن گئی اور وہ مایوسی کے دلدل سے باہر نکل آیا۔ فی الحال اسی چراغ کی روشنی میں وہ زمین سے آسمان کی جانب رواں دواں تھا۔

بس ایک جھٹکے سے رکی تو انتخاب نے پوچھا بندربن؟

پڑوس کا مسافر بولا۔ ارے صاحب اتنی جلدی بندربن کہاں؟ ابھی تو آدھے سے زیادہ سفر باقی ہے۔ یہاں چائے پانی کے لئے بس آدھا گھنٹہ رکے گی۔

آدھا گھنٹہ؟ جی ہاں زیادہ بھی لگ سکتا ہے پرسکون مسافر نے بتلایا۔

انتخاب باہر نکل آیا تو دیکھا میلہ لگا ہوا ہے۔ ملک چین کا ہر سامان یہاں بک رہا ہے۔ ریڈیو سے لے کر ٹائگر بام تک کہ یہ دونوں ویسے بھی لازم و ملزوم ہیں لیکن بام کی فروخت ریڈیو سے کہیں زیادہ تھی اور یہ بات سمجھ میں آنے جیسی تھی۔ اس لیے ایک ریڈیو کی بے ہنگم موسیقی کئی لوگوں کے سر میں درد کا سبب بن سکتا تھا۔ بس اڈے کی ساری دوکانیں اس حقیقت پر گواہ تھیں۔ ہر دوکان کے باہر لگا بڑا سا اسپیکر مختلف راگ الاپ رہا تھا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا گایا جا رہا ہے۔

ویسے سمجھنے سمجھانے کی نہ کسی کو ضرورت تھی اور نہ فرصت۔ بجانے والے گاہکوں کو بلانے کے لئے بجا رہے تھے۔ اور سننے والوں کی دلچسپی خرید و فروخت میں تھی۔ ہوا کی سردی محسوس ہو رہی تھی۔ چائے کا کلہڑ ہر ہاتھ میں تھا۔ چائے کی پیالیوں سے اٹھنے والی بھاپ اپنی گرمی کی تشہیر کر رہی تھی۔ یہ دھواں گرمیوں میں نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھ کر چائے پینے سے باز نہ رہیں۔ جاندار ہویا بے جان جہاں تجارت وہاں سیاست اور فریب اپنی جگہ بنا ہی لیتے ہیں۔

پہاڑی عورتیں پانی سے بھیگی سپاری بیچ رہی تھیں یہ سپاری چھلکے کے سا تھ تھی جب سپاری بک جاتی تب اسے چھل کر گاہک کو دیا جاتا۔ انتخاب نے شہر میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ویسے وہاں کسے فرصت تھی کہ اس اہتمام سے سپاری چھلوائے اور کھائے لیکن آج اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ سپاری کو چھالیا کیوں کہتے ہیں؟

چائے کے علاوہ ٹائے گر بام بھی اکثر مسافروں کے ہاتھوں میں تھا۔ شاید اس لئے کہ اوپر پہاڑوں میں سردی زکام کا امکان زیادہ ہو لیکن ٹائے گر ہی کیوں؟ اس چینی شیر نے ساری دنیا کو اپنی برق رفتاری سے بلی بنا دیا تھا۔ ہر کوئی اس سے خوفزدہ تھا اور انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ جس سے ڈرتا ہے اسی سے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

انتخاب نے نہ سپاری لی اور نہ بام لیا۔ اس لئے کہ پان سپاری کو وہ صحت عامہ کے لیے مضر سمجھتا تھا اور دوائی تو ڈاکٹروں کو مفت میں مل جاتی تھی۔ اسے یقین تھا ڈاکٹروں کے کوارٹر میں دیگر لوازمات کیساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویزن تو موجود ہی ہو گا۔ دوسرے مسافروں نے انتخاب کے رویہ کواس کی بخیلی یا مسکینی پر محمول جانا اور اپنے کاموں میں لگے رہے۔

بس آگے بڑھی کھیت کھلیان پیچھے چھوٹ گئے۔ مسافر پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان تھے۔ نہ جانے کیوں جہاں اونچے پہاڑ ہوتے ہیں وہیں گہری کھائیاں بھی ہوتی ہیں۔ جہاں پہاڑ نہیں ہوتے کھائی بھی نہیں ہوتی۔ سپاٹ میدانوں میں نہ نشیب ہوتا ہے اور نہ فراز ہوتا ہے۔

سرد ہواؤں کے سبب بس کی ساری کھڑکیاں بند تھیں مسافروں نے اپنے سویٹر پہن لئے تھے۔ کوٹ کے بٹن بند کر لئے گئے تھے۔ ٹوپیاں اور مفلر بھی سر اور کانوں سے لپٹ چکے تھے لیکن انتخاب کے سامنے بیٹھا نوجوان اس کے برعکس حرکتیں کر رہا تھا۔ اس نے پہلے ٹوپی اتاری پھر جیکٹ اور سویٹر لیکن وہ اس پر بھی نہیں رکا بلکہ اس نے کھڑے ہو کر کھڑکی کا پٹ کھول دیا۔

سرد ہوا کا تیز جھونکا جیسے ہی بس میں داخل ہوا لوگ چلائے پاگل ہو گیا ہے؟ دماغ خراب ہے کیا؟ ؟

اس نے پلٹ کر کہا کیا کرے گا گرمی لگتی ہے، اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ انتخاب عالم نے کئی سال علم طب کے حصول میں سرف کئے تھے اس کے باوجود اس نوجوان کی حالت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

بغل میں بیٹھے پرسکون مسافر نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑ کی کو بند کرنے کے بعد نوجوان سے پوچھا۔ کیا سپاری کھا لی ہے؟

وہ بولا جی ہاں!!

مسافرنے کہا نہ جانے قدرت نے اس سپاری میں کون سی تیلی رکھ دی ہے جو جسم کے اندر جا کر آگ لگا دیتی ہے۔ ہم لوگ چونکہ عادی ہیں اس لئے اس کی ہلکی ہلکی تپش محسوس کرتے ہیں لیکن اس نے شاید پہلی مرتبہ استعمال کیا ہے۔ اس لئے اندر ہی اندر دہک رہا ہے۔ پریشان ہے بیچارہ۔

ایک سپاری سے جسم کے اندر آگ لگ سکتی ہے یہ بات انتخاب کے علم میں ایک خوشگوار اضافہ تھا اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کا مشاہدہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ انتخاب نے اپنے ہم سفر سے پوچھا یہ سپاری کہاں اگتی ہے؟

صاحب سپاری اگتی کب ہے؟ یہ زمین میں دفن ہوتی ہے اسے کھودنا پڑتا ہے۔

میرا مطلب ہے یہ یہیں ہوتی ہے۔ یا کہیں سے لایا جاتا ہے؟

ارے صاحب یہ سپاری ان پہاڑوں کے علاوہ کہیں بھی پائی نہیں جاتی۔

انتخاب نے کھڑ کی کے باہر پہاڑیوں کو دیکھا اپنے سروں پر برف کا تاج سجائے یہ اونچے پربت اور اپنے تن پر برف کی چادر سے اوڑھے یہ پردہ نشین شرمیلی پہاڑیاں۔ انتخاب نے پہاڑ تو بہت دیکھے تھے لیکن برفیلے پہاڑ دیکھنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ سفید برف نے پہاڑوں کا رنگ بدل دیا تھا۔

اس نے اپنے آپ سے کہا ان سپاریوں میں اگر اس قدر گرمی ہے کہ انسان پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور یہ سپاری ان پہاڑوں کے بطن سے آتی ہیں تو یہ پہاڑوں کو گرمی کیوں نہیں عطا کرتی؟ ان پر پڑی برف کیوں نہیں پگھلاتی؟

اس کے اندر سے آواز آئی یہ برف کی چادر ہی اس کوہ و دمن کا حسن ہے جو ساری دنیا کو اپنی جانب راغب کرتا ہے اگر یہ اپنی چادر پھینک کر عریاں ہو جائیں تو ان کی کشش کو کون محسوس کرے گا؟ کون آئے گا ان کے پاس؟

انتخاب کی سمجھ میں آ گیا کہ ان سپاریوں میں یہ تاثیر کہاں سے آئی؟ یہ پہاڑوں کی گرمی ہے جسے انہوں نے سپاری کی جڑ میں دبا دیا ہے تاکہ انسان اسے نکال کر استعمال کرے اور پہاڑ کی سردی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔

انتخاب کو ایسا لگنے لگا گویا یہ پہاڑ زندہ ہیں۔ اپنے آپ کو سرد ہواؤں سے محفوظ کرنے کے لئے انہوں نے برف کی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ برف کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ ان کے پیر اپنی جگہ ساکت و جامد ہو گئے ہیں۔ وہ صدیوں سے اس بات کے منتظر ہیں کہ کب برف پگھلے اور کب وہ چل پڑیں، پہاڑ چل پڑیں گے اس خیال نے انتخاب کو خوفزدہ کر دیا وہ سوچنے لگا کیا ہو گا جب پہاڑ چل پڑیں گے تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جو ان کے اوپر چل پھر رہے ہوں گے۔

اس کے دل نے جواب دیا اس وقت یہ چلنے پھرنے والے ساکت و جامد ہو جائیں گے۔ انتخاب عالم پہاڑوں میں کھویا ہوا تھا کہ ایک جھٹکے سے بس کا انجن بند ہو گیا عجیب انجن ہے کہ چلتا بھی جھٹکے سے ہے اور رکتا بھی اسی طرح ہے۔

بس کے رکتے ہی ایک کہرام مچ گیا۔ مسافر نیچے اترنے کے لئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسالگ رہا تھا جیسے کسی نے صور پھونک دیا ہے اور ہر کوئی اپنی قبر سے نکل کر ایک انجان منزل کی جانب لپک رہا ہے۔

ویسے اگربس کا رخ بدل دیا جائے تو اس کا آگے بڑھنا پیچھے جانے میں تبدیل ہو جاتا ہے بس منزل سے قریب ہونے کے بجائے دور جانے لگتی ہے۔ لیکن یہ نیاسفر بھی بے منزل نہیں ہوتا یہ دوری اپنے مسافر کو کسی اور منزل سے قریب لے جاتی ہے۔ مختلف مسافروں کی مختلف منزلیں اور اسی کے لحاظ سے مختلف فاصلے اور مختلف سمتیں۔ مختلف سواریاں اور مختلف راستے۔ یہ اختلافات صرف منزل کے مختلف ہونے کے سبب ہو جاتا ہے۔ منزل کے بدل جا نے سے باقی سب از خود بدل جاتا ہے۔

انتخاب بس سے اتر گیا اور سامان نکالتے ہوئے بس کی پشت پر لکھے جملے کو پڑھنے لگا ’’منزل کا یقین سفر کی مشقت اور تیاریوں سے زیادہ اہم ہے ‘‘ انتخاب کوایسا محسوس ہوا کہ کسی نے اس کے غور و فکر کا خلاصہ نہ جانے کب اور کیوں لکھ دیا؟ اس شخص کو کیسے پتہ چل گیا تھا کہ یہ ایک فقرہ آگے چل کر انتخاب کے ذہن کی گرہ کھول دے گا۔

بندربن کے ننھے سے بس اڈے پر ایک ہنگامہ برپا ہوا اور پھر تھم گیا گہمی گہمی ختم ہو گئی مسافر مختلف سواریوں پر اپنی اپنی رہائش گاہوں کی جانب روانہ ہو گئے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے انتخاب سے پوچھا۔ فرمائیے جناب کہاں چلئے گا؟

انتخاب کو اس کی زبان پر حیرت ہوئی اس نے پوچھا۔ بنگالی ہو؟

وہ بولا نہیں صاحب ہم بہاری ہیں۔ بنگلہ دیش۔ پاکستان اور ہندوستان ہر جگہ بے مکان۔

اچھا تو شاعر بھی ہو خیر مجھے سرکاری دوا خانہ لے چلو۔

ٹیکسی ڈرائیور نے سوچا کہ شاید راستے میں اس مسافرکی طبیعت خراب ہو گئی وہ بولا وہاں تو نہ آدم نہ آدم زاد۔ وہ نہ جانے کب سے بند پڑا ہے۔

کیا؟ انتخاب عالم نے حیرت سے پوچھا

جی ہاں صاحب اور نہ جانے کب تک یونہی بند پڑا رہے۔ کئی سال قبل ایک ڈاکٹر صاحب ہوا کرتے تھے انہوں نے خود کشی کر لی اور ان کے ساتھ ہی دوا خانے نے بھی دم توڑ دیا۔ بعد میں ہم لوگوں نے ڈاکٹر کے ساتھ دوا خانے کو بھی بھلا دیا۔ ویسے اگر مناسب سمجھیں تو میں آپ کو وید جی کے پاس لے چلوں وہ آپ کے لئے نسخہ لکھ دیں گے ہم لوگ بھی چھوٹی موٹی بیماری کے لئے انہیں کے پاس جاتے ہیں۔ وہ جڑی بوٹی سے علاج کر دیتے ہیں۔ معاملہ جب سنگین ہو جاتا ہے تو مریض کو نیچے چٹاگانگ لے جاتے ہیں۔

اس بس میں آپ لوگ مریض کو لے کر جاتے ہیں؟

جی نہیں صاحب۔ انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ ہم ٹیکسی والے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔

کیا مطلب مفت میں لے جاتے ہیں اور وہ واپس کیسے آتا ہے؟

ڈرائیور ہنس کر بولا اگر اچھا ہو جائے تو بس میں بیٹھ کر آ جاتا ہے۔

جی ہاں سمجھ گیا؟ انتخاب عالم بولا نازک حالت میں مریض نیچے پہونچنے سے پہلے ہی اوپر چلا جاتا ہو گا۔

نہیں صاحب وقت سے پہلے کوئی کہیں نہیں جاتا۔ آپ یہ بتائیں کہ کہاں جائیں گے؟

دیکھو میرا اس سرکاری دوا خانے میں ڈاکٹر کی حیثیت سے تقرر ہوا ہے اس لئے میں وہیں جاؤں گا۔

لیکن صاحب وہاں تو کوئی نہیں رہتا؟

انتخاب نے جھلّا کر کہا کیا بکتے ہو؟

ڈرائیور نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا دیکھئے صاحب وہاں ایک چوکیدار ہے جو اپنی کٹیا میں اپنی بٹیا کے ساتھ رہتا ہے کہئے تو اسی کے پاس لے چلوں؟

ٹھیک ہے وہیں چلو۔

ویسے اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو سرکاری گیسٹ ہاؤس یعنی ڈاک بنگلہ بھی لے کر جا سکتا ہوں۔ رات وہاں آرام کر کے صبح دوا خانے آ جانا۔

اب کیا رات بھر یہی بحث کرتے رہو گے مجھے کہاں آرام کرنا ہے؟ یا کہیں چلو گے بھی؟

ڈرائیور نے سوچا رات تو ڈاکٹر صاحب یہاں کے خستہ حال ڈاک بنگلہ میں بھی نہیں گذارسکتے خیر ہمیں کیا؟ کرائے سے مطلب! وہ بولا دیکھئے صاحب دوا خانہ ذرا دور پہاڑی کے آخری سرے پر ہے۔ اس لئے کرایہ پچاس روپئے ہو گا۔

نیا آدمی سمجھ کر لوٹ رہے ہو۔ نیچے چٹاگانگ سے بندربن تک پچاس روپئے اور یہاں سے دوا خانہ تک بھی پچاس روپئے یہ کیا مذاق ہے؟

جناب مذاق تو آپ کر رہے ہیں۔ جس بس میں آپ آئے ہیں اس میں آپ کے علاوہ کتنے مسافر تھے اور مسافروں کی تعداد کو ہر ایک کے کرایہ سے ضرب کریں تو پتہ چلے کہ چٹا گانگ سے بندربن تک کرایہ کتنا ہے؟

لیکن میرے لیے تو ۰۰۰۰۰۰۰

آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میری ٹیکسی میں بادشاہ کی طرح تنہا شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ بس میں آپ پرجا کی ساتھ بھیڑ بھاڑ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس فرق کی بھی تو قیمت ادا کرنی ہو گی۔

اس بیس پچیس سال پرانی ٹیکسی میں شاہانہ آن بان۔ انتخاب کو ہنسی آ گئی وہ بولا خیر ٹھیک ہے چلو۔

٭٭٭

 

 

 

 

دیوانگی

 

دروازے پر ہارن کا شور سن کر چوکیدار باہر آیا۔ ڈرائیور نے سوچا شاید اس دوا خانہ کی قسمت پھر سے کھل گئی ہے اسے وہ دن یاد آنے لگے جب ڈاکٹر سوژالی ہوا کرتے تھے بڑی گہما گہمی ہوتی تھی اور پھر وہ ہیبت ناک کہانی جس نے ان سے ان کی زندگی چھین لی۔ چوکیدر نے دروازہ کھول کر سلام کیا۔

انتخاب عالم نے اشارے سے جواب دیا اور کہا میرا نام ڈاکٹر انتخاب عالم ہے میرا اس دوا خانے میں تقرر ہوا ہے اس لئے کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟

کیوں نہیں صاحب کیوں نہیں یہ کہہ کر چوکیدار چلا گیا ڈرائیور نے سامان گاڑی میں سے اتارا اور اپنے پچاس روپئے لے کر رفو چکر ہو گیا۔

چوکیدار اوپر سے چابیوں کا گچھا لے کر آ رہا تھا۔ سب سے پہلے صدر دروازہ چرمراتا ہوا کھلا اور اندر سے بساند اور دوائیوں کی بدبو کا جھونکا باہر آیا۔ انتخاب عالم کے لئے یہ نہایت ناخوشگوار تجربہ تھا اسے چوکیدار پر غصہ آیا لیکن بزرگی کا لحاظ کر کے وہ غصہ پی گیا بس یہ پوچھنے پر اکتفا کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟

جی بہارالاسلام۔

بڑا اچھا نام ہے اسلام کی بہار لیکن یہاں تو ہر طرف خزاں کا عالم ہے۔

بہارالاسلام نے نہایت ادب سے جواب دیا۔ جی ہاں ڈاکٹر صاحب آپ بجا فرماتے ہیں جس طرح مالی کے بغیر باغ خزاں رسیدہ ہو جاتا ہے اسی طرح ڈاکٹر کے بغیر دوا خانہ اجڑ جاتا ہے۔ اب چونکہ آپ تشریف لاچکے ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ جلد ہی بہار لوٹ آئے گی۔

انتخاب عالم کے لئے بوڑھے چوکیدار کی زبان و بیان اور شائستگی باعث حیرت تھی وہ بولا چا چا آپ کی زبان ماشاء اللہ بہت ہی شستہ اور صاف ہے۔

شکریہ جناب بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اس وقت میں مترجم تھا اس لئے کہ مغربی پاکستان سے آنے والے احکامات کا اردو سے بنگلہ میں ترجمہ اور مشرق سے جانے والی درخواستوں کا بنگلہ سے اردو میں ترجمہ ہوا کرتا تھا۔ اب وہ محکمہ بند ہو گیا ہے۔

کیا بنگلہ دیش کے بن جانے سے درخواستوں اور احکامات کا رواج ختم ہو گیا

جی نہیں۔ ایسی بات نہیں درخواستیں اور التجائیں جوں کی توں برقرار ہیں احکامات بھی اسی طرح صادر ہوتے ہیں صرف زبان بدل گئی۔

اس تبدیلی کی وجہ؟

آقا اور ان کی زبان بدل گئی۔ درخواست آقاؤں کی زبان میں لکھی جاتی ہیں اور احکام بھی وہ اپنی زبان میں صادر فرماتے ہیں۔

تو کیا اس کے علاوہ کچھ نہیں بدلا؟

جی نہیں صاحب باقی سب کچھ وہی ہے۔ جبر واستحصال نہیں بدلا۔ ہاں اس کو کرنے والے ہاتھ یقیناً بدل گئے۔

اور اس کا شکار ہونے والے لوگ؟ انتخاب نے سوال کیا

ظلم کوسہنے والے نہ تو بدلے ہیں اور نہ بدلیں گے۔ بہارالاسلام کے لب و لہجے میں پہاڑوں کا کرب و الم سمایا ہوا تھا۔

انتخاب بولا بابا آپ نے بڑی اونچی بات کہی۔

نہیں نہیں بیٹے یہ تجربہ کی بات ہے تین نسلیں دیکھ چکا ہوں اور چوتھی دیکھنے والا ہوں اس سال مجھے سبکدوش ہونا ہے۔

اچھا!!!

جی ہاں جب انسان سٹھیا جاتا ہے تو سرکار اسے ملازمت سے ریٹائر کر دیتی ہے۔ انتخاب عالم بہارالاسلام کی گفتگو اور زبان سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بہار نے پوچھا بیٹے تم تو چہرے سے پنجابی لگتے ہو؟

جی ہاں بابا میرے والد بھی سرکاری ملازم تھے۔ ان کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ ڈھاکہ میں تبادلہ ہوا تو یہاں شادی کر لی اور یہیں کے ہو رہے۔ وہ اسی طرح بنگلہ بولتے ہیں جیسے آپ اردو بولتے ہیں۔

اور تم؟

ہم۰۰۰۰ ہم نہ تو اردو ہی صحیح بولتے ہیں اور نہ بنگلہ ٹھیک سے بول پاتے ہیں ہماری حالت آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی سی ہو گئی ہے۔

نہیں بیٹے ایسی بات نہیں بلکہ ایک تہائی تیتر اور ایک تہائی بٹیر ۰۰۰۰

لیکن باقی ایک تہائی؟ انتخاب نے پوچھا

اور ایک تہائی طوطا۔

یہ طوطا درمیان میں کہاں سے آ گیا؟

لندن سے ۰۰۰ وہ انگریزی میں اپنے آپ کو مٹھو میاں بولتا رہتا ہے۔

بہارالاسلام کی اس تمثیل پر انتخاب عالم کو ہنسی آ گئی وہ بولا بابا اس دوا خانہ کی حالت کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ شاید بہار کے آنے سے قبل ہی مجھ پر رخصت ہو جانے کی نوبت آ جائے گی۔

نہیں بیٹے ایسی بات نہیں اس سے پہلے کئی مرتبہ اس مقام پر ڈاکٹروں کی تقرری ہوئی لیکن وہ آ مد سے قبل ہی منسوخ ہو گئی۔ ہماری صاف صفائی سب اکارت چلی گئی اس لئے اعتماد ہی اٹھ گیا۔ ہم نے طے کر لیا کہ ہے جب تک ڈاکٹر صاحب انہیں جاتے ہم اس کو ٹھیک ٹھاک نہیں کریں گے لیکن اب آپ آ ہی چکے ہیں تو کل شام تک سب کچھ بدل جائے گا۔

جی بہت خوب لیکن کیا آج رات مجھے ڈاک بنگلہ میں قیام کرنا ہو گا؟

نہیں اس کی ضرورت نہیں میں نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر دیا ہے آپ مناسب سمجھیں تو وہیں ٹھہر جائیں اور اگر آپ کو پسند نہ آئے تو بے شک ڈاک بنگلہ تک سواری کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

بہت خوب چلئے کمرے میں چلتے ہیں۔ بابا کے پیچھے انتخاب عالم عمارت کے عقب کی جانب آیا زینہ سے چڑھ کر جب وہ اوپر پہونچا تو ایک نہایت خوبصورت صحن اور اس کے پیچھے ایک نفیس لکڑی کا دروازہ سب کچھ بالکل صاف ستھرا اور تر و تازہ۔

کمرے میں آنے کے بعد جب انتخاب نے کھڑکی کو کھولا تو حیران رہ گیا۔ ایک ٹیلہ پر بنی اس عمارت کا یہ کمرہ وادی کی جانب کچھ ایسے کھلتا تھا گویا انسان کھائی کی تہہ میں جھانک رہا ہو۔ کمرے کے پیچھے کی بالکنی میں انتخاب عالم ایک منٹ کیا کھڑا رہا کہ دن بھر کی تھکن دور ہو گئی پہاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں پھیپھڑوں سے نکل کر رگ و پے میں سرایت کر گئیں جسم کا ایک ایک رواں فطرت کی تازگی سے جھوم اٹھا زبان نے بے ساختہ کہا سبحان اللہ۔

الحمد للہ! جناب شاید اب آپ کو ڈاک بنگلہ کی ضرورت نہیں ہے۔

جی نہیں۔ بابا میں تو سمجھتا تھا کہ سارا بنگلہ دیش ایک چٹیل میدان ہے جس میں شمالی ہندوستان کی ہر ندی رینگتی ہوئی داخل ہوتی ہے اور سمندر سے اپنا سر ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے لیکن یہ پہاڑ یہ وادیاں بے مثال ہیں لاجواب ہیں۔

جی ہاں بیٹے یہ قدرت کا کرشمہ ہے اس نے جہاں چاہا پہاڑوں کو کھڑا کر دیا اور جسے چاہا چٹیل میدان بنا دیا۔ خالق کائنات کے سامنے یہ زمین ایک تختۂ مشق کی مانند ہے۔ وہ اس پر جو چاہتا ہے، جیسا چاہتا ہے سجادیتا ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کے صدائے ’’کن‘‘ کا منتظر ہے اور بے چوں چرا ہر حکم کی تعمیل میں لگا ہوا ہے۔

جی ہاں بابا آپ سچ کہتے ہیں اس منظر کے آگے ساری منظر نگاری ہیچ ہے۔ وہ سب اس کی بھونڈی عکاسی ہے اور یہ حقیقت ہے! زندہ اور تابندہ حقیقت۔

بیٹے تم تو ڈاکٹر سے زیادہ شاعر معلوم ہوتے ہو۔

انتخاب بولا کیا ڈاکٹر انسان نہیں ہوتا؟

ہوتا ہے ضرور ہوتا ہے

اچھا اور شاعر؟

اس کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔

بہار الاسلام کی اس ظرافت نے ماحول کو زعفران زار کر دیا۔ وہ بولا بیٹے اب آپ آرام کرو ہماری ملاقات ان شاء اللہ صبح ہو گی۔ شب بخیر خدا حافظ۔

فی امان اللہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

چمیلی

 

اگلی صبح دروازے پر ہلکی ہلکی دستک سن کر انتخاب عالم اپنے بستر سے اٹھا وہ سمجھ گیا یہ بابا بہارالاسلام ہے لیکن دروازہ کے سامنے ایک حسین و جمیل دوشیزہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا وہ خوفزدہ اور شرمندہ سی لڑکی اپنے ہاتھوں میں پھولوں کی ایک ٹوکری لئے کھڑی تھی۔

دروازہ کھلتے ہی اس نے ٹوکری آگے کر دی۔ انتخاب بولا یہ کیا ہے؟

چمیلی!

انتخاب کو اپنے سوال کے بے معنی ہونے کا احساس ہوا۔ تم کون ہو؟

چمیلی۔

کیا یہ بھی چمیلی تم بھی چمیلی؟

وہ کھی کھی کر کے ہنسنے لگی۔

اس طرح کیا ہنس رہی ہو تم پاگل ہو کیا؟

پاگل ہوں پاگل! سب لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ وہ پاگل پاگل کہہ کر چھوٹے بچوں کی طرح تالی بجانے لگی۔ جی ہاں واقعی پاگل سب لوگ مجھے یہی کہتے ہیں۔

اچھا؟ لیکن پاگل تو اپنے آپ کو پاگل نہیں کہتے؟

جی ہاں آپ صحیح کہتے ہیں۔

اچھا تو تم پاگل نہیں ہو۔

جی ہاں میں بھی اپنے آپ کو پاگل نہیں کہتی۔

کیوں؟ ؟ ؟

کیوں کہ میں پاگل ہوں اور پاگل اپنے آپ آپ کو پاگل نہیں کہتے۔

انتخاب عالم اس پاگل پن کی گفتگو میں بری طرح الجھ گیا تھا وہ بولا اچھا اگر تم پاگل نہیں ہو تو کون پاگل ہے؟

اس لڑکی نے جھٹ کہا وہ لوگ پاگل ہیں جو مجھے پاگل کہتے ہیں۔

لیکن میں تو تمہیں پاگل نہیں کہتا۔

آپ نہیں کہتے تو آپ پاگل نہیں ہیں۔ نہیں ہیں آپ پاگل۔ آپ بھی میری طرح سیانے ہیں۔ بہت سمجھدار اور دانشمند۔ وہ اپنے آخری جملہ کو بار بار دہرا رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی چمیلی۔ بیٹی چمیلی تم کہاں ہو؟

میں یہاں ہوں اوپر

او ہو یہ پاگل اوپر پہونچ گئی۔ بہارالاسلام منہ ہی منہ میں بدبدایا۔

چمیلی بولی سنا آپ نے میرے بابا بھی مجھے پاگل کہتے ہیں۔

بہارالاسلام دوڑ کر اوپر آیا اور انتخاب عالم سے معذرت طلب کی وہ بولا معاف کیجئے ڈاکٹر صاحب یہ میری بیٹی ہے اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے اس کی بات کا برا نہ مانیں یہ پاگل ہے۔

میں پاگل نہیں ہوں۔ یہ ڈاکٹر صاحب بھی پاگل نہیں ہیں اور ہمارے علاوہ سب لوگ پاگل ہیں بالکل پاگل۔ کیوں ڈاکٹر صاحب؟

جی ہاں چمیلی تم صحیح کہتی ہو۔

بہارا لاسلام نے کہا ہاں بابا ہم ہی پاگل ہیں اب چل نیچے چل۔ صبح صبح ڈاکٹر صاحب کو نیند سے بیدار کر دیا۔ تیرے پاگل پن سے پریشان ہو ک ریہ ڈاکٹر بھی بھاگ جائے گا۔

چمیلی کے پاگل پن نے انتخاب عالم کے ہوش اڑادیئے وہ سوچنے لگا۔ اس لڑکی میں طبعی حیثیت سے کیا کمی ہے؟ ہر لحاظ سے صحتمند ہے۔ بولتی ہے سنتی ہے کھاتی ہے پیتی ہے دوڑتی ہے بھاگتی ہے ہنستی ہے روتی ہے وہ کیا کام ہے جو دوسرے کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتی۔ پھر یہ پاگل کیوں کہلاتی ہے؟

شاید اس لئے کہ اس کے پاس ان سب افعال کے کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ بلاوجہ وہ ان سارے کاموں کو کرتی رہتی ہے لیکن دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو بغیر کچھ سوچے سمجھے جانوروں کی مانند زندگی گذار رہے ہیں۔ وہ پاگل تو نہیں ہیں؟ چمیلی شاید اس لئے پاگل ہے کہ وہ اس بات سے بے نیاز ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں؟

اسی کے ساتھ انتخاب کے ذہن میں سوالات کا تانتا بندھ گیا۔ اگر اسی وجہ سے یہ پاگل ہے تو کیا صرف یہی پاگل ہے؟ کیا ہم سب زیادہ تر کام بغیر جانے بوجھے نہیں کرتے؟ کیا ہم غیروں کی اندھی تقلید سے محفوظ ہیں؟ حالانکہ ہم جن لوگوں کی اتباع کرتے ہیں وہ خود بھی نہیں جانتے کہ کیا اور کیوں کر رہے ہیں؟ اس طرح ایک طویل زنجیر ہے۔ ایک اندھے نے اپنی انگلی دوسرے اندھے کو پکڑا رکھی ہے اور دوسرے نے تیسرے کو۔ اندھوں کی عظیم جمعیت ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے ایک گہری کھائی کی جانب رواں دواں ہے۔

اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر گہری کھائی پر نظر ڈالی تو اس کا دل خوف سے لرز گیا۔ اس لیے کہ وہ خود بھی گونگوں بہروں کی بھیڑ میں شامل تھا۔ تباہی کے دہانے پر پہنچ کر اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ یہ کچھ مختلف قسم کی وادی ہے کہ اس کے اندر سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں۔ لوگ اس میں گرتے ہیں جھلستے ہیں لیکن مرتے نہیں۔ اس عجیب و غریب منظر کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ سب لوگ ایک بہت بڑے مائکرو اوون میں گھوم رہے ہیں۔ تپش ان کے جسم کو جھلسا تو رہی ہے لیکن جلا نہیں رہی۔ وہ کھڑکی سے دور آ کر بیٹھ گیا اور سر پکڑ کر سوچنے لگا کہ ایک پاگل لڑکی اسے کہاں سے کہاں لے گئی؟

چمیلی کا خیال آتے ہی اس کے پاگل پن سے متعلق دوسرا سوال انتخاب کے سامنے مجسم آن کھڑا ہوا۔ وہ بے چاری نہیں جانتی کہ وہ کیا کر رہی ہے اور کیوں کر رہی ہے لیکن صرف وہی کیوں؟ کون جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ کوئی اور جانتا ہویا نہ ہو لیکن وہ خود یعنی انتخاب عالم تو کم از کم نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے؟ کیوں جی رہا ہے؟ وہ نہیں جانتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟

فکر و تدبر کا آتش فشاں سوالات کا لاوہ اگل رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا اسے پتہ ہے کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا اور اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن چمیلی نے اس کے اندر یہ احساس جگا دیا تھا کہ اسے یہ سب جاننا چاہئے۔ اگر طبیب بھی یہ نہ جانے گا کہ مرض کیا ہے تو اس کا علاج کیسے کرے گا؟

انتخاب عالم کو اپنے طبیب ہونے کا احساس تو ہو گیا تھا لیکن حکیم ہونے کا ادراک نہیں ہوا تھا در اصل طب کی حکمت سے وہ آشنا نہیں تھا۔ سلوک کی کٹھن پنگھٹ پریہ اس کا پہلا قدم تھا جس میں ہر شئے مشکوک ہو گئی تھی۔ وہ چمیلی کے آخری جملے پر غور کر رہا تھا۔ یہ سب پاگل ہیں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے علاوہ سب کے سب پاگل ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر چمیلی کو پتہ چل جائے کہ ڈاکٹر بھی دوسرے لوگوں کی طرح پاگل ہے تو اس کا کیا حشر ہو گا؟

وہ تو بے چاری پاگل ہو جائے گی۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی پاگل بھی پاگل ہو سکتا ہے۔ نہیں اگر کوئی ایک بار پاگل ہو گیا تو پھر وہ دوبارہ پاگل نہیں ہو سکتا۔ لیکن سیانہ ہو سکتا ہے۔ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی سیانہ پاگل ہو سکتا ہے تو پاگل سیانہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ چمیلی کا علاج کرے گا۔ انتخاب نے معرفت کی پہلی منزل طے کر دی اور دوسری کے حدود میں داخل ہو گیا اب وہ اپنی ذات سے باہر کسی اور کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

پاگل ایسا نہیں کرتے وہ تو بس اپنی ذات میں گم رہتے ہیں وہ دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے لیکن انتخاب عالم چمیلی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے پاگل پن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے علاج کے بارے میں سوچ رہا تھا اور چونکہ یہ سب ہو رہا تھا اس لئے وہ پاگل نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک پاگل پاگل کا علاج نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ پاگل نہیں تھا۔

لیکن کیا چمیلی واقعی پاگل تھی؟ وہ چمیلی جس نے ڈاکٹر کے پاگل پن کو چٹکی بجاتے دور کر دیا۔ اسے پاگل سے سیانہ بنا دیا تھا۔ چمیلی اگر واقعی پاگل تھی تو اس نے انتخاب عالم کا علاج کیسے کر دیا؟ اور اگر کر دیا تو اس کا مطلب پاگل بھی علاج کر سکتا ہے۔ اگر وہ پاگل ہے تب بھی اور سیانہ ہے تب بھی ہر دو صورت میں وہ علاج کر سکتا ہے۔

اس نے سوچا ممکن ہے پاگل پن کی بھی کئی قسمیں ہوں۔ کوئی کسی کے پیچھے پاگل ہے تو کوئی کسی اور کا دیوانہ۔ یقیناً دیوانوں کا علاج دیوانے کر سکتے ہیں؟ دو دیوانے ایک دوسرے کی دیوانگی کو دور کر سکتے ہیں؟ چمیلی زبانِ حال سے کہہ گئی تھی کہ یہ ممکن ہے اور بالکل ممکن ہے۔

انتخاب عالم کے دروازے پر دوسری آہٹ ہوئی اس بار چمیلی نہیں بلکہ بہار الاسلام تھے اور ان کے ہاتھوں میں ناشتہ دان تھا۔ انتخاب دوڑ کر دروازے تک گیا ہاتھوں سے برتن لئے اور کہا آپ نے زحمت کیوں کی؟ آپ مطب کے دواساز ہیں آپ کا کام نسخہ بنانا ہے ناشتہ بنانا نہیں۔

بہارالاسلام نے کہا بیٹے تمہاری بات درست ہے۔ میں نے وہ کام کیا جو میرا نہیں ہے۔ آپ میرے باس یعنی آقا ہو اور اپنے بندۂ بے دام کو من چاہی سزا دے سکتے ہو۔ لیکن آپ صرف یہاں کے معالج نہیں میرے مہمان بھی تو ہیں۔

جی ہاں لیکن آپ کو زحمت ہوئی ۰۰۰۰۰

میں نے کیا ہی کیا؟ مجھے اپنے اور چمیلی کے لئے ناشتہ بنانا ہی تھا تھوڑا سا بڑھا دیا تو تمہارا بھی بن گیا۔

انتخاب عالم نے کہا ٹھیک ہے بابا لیکن مہمان داری صرف تین دن چوتھے دن سے بند۔ اور آج کا یہ دوسرا دن ہے۔

بہارالاسلام نے سر ہلا کر تائید کی اور بولا جی سرکار جیسی آپ کی مرضی۔ گرم گرم پراٹھوں اور سبزی کی بھاپ نے انتخاب کی بھوک چمکا دی وہ ہاتھ دھو کردستر خوان پر بیٹھ گیا۔

بہارالاسلام ابھی تک کھڑا تھا۔ بابا آپ بیٹھیں کھڑے کیوں ہیں؟ بہارالاسلام بھی بیٹھ گیا۔ انتخاب نے پوچھا بہت ہی عمدہ ناشتہ ہے۔ آپ کے علاوہ کون کون ہے اس گھر میں؟

جی میں اور چمیلی۔ اس کی ماں کا انتقال بچپن میں ہو گیا۔ اسے تو شاید یاد بھی نہ ہوکہ اس کی ماں کیسی تھی؟

اچھا تو اس نے کبھی پوچھا نہیں۔

ایک بار پوچھا تھا۔

اس نے یہ سوال کب کیا تھا؟

یہ اس وقت کی بات ہے جب اس کے اوپر پہلی مرتبہ دیوانگی کا دورہ پڑا تھا اور وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی تھی۔

اچھا؟

جی ہاں ڈاکٹر صاحب ایک دن وہ اچانک زور زور سے ہنسنے لگی اور پھر بلاوجہ رونے لگی۔ اسی دوران اس نے مجھ سے پوچھا؟ میری ماں کہاں ہے؟ اسے بلاؤ میں اس سے ملنا چاہتی ہوں؟

اچھا۔ تو پھر آپ نے کیا کیا؟

میں سوچنے لگا کہ اس لڑکی نے یہ سوال بڑے غلط وقت پر کیا ہے اگر یہ پہلے کرتی تو میں اسے سمجھاتا کہ تمہاری ماں وفات پاچکی ہے۔ چکا لیکن اب اس پاگل لڑکی کو دنیا کی اس عظیم ترین مگر تلخ حقیقت سے کیسے واقف کرایا جائے۔

پھر؟

پھر وہ مچل گئی، بگڑنے لگی، اصرار کرنے لگی ابھی کے ابھی، اسی وقت میری ماں کو بلاؤ۔ مجھے اس سے ملنا ہے۔

پھر آپ نے کیا کیا؟

بہارالاسلام رک گیا۔ رکا رہا اور بولا میں نے ایک پاگلوں کی سی حرکت کر ڈالی۔

وہ کیا؟ انتخاب نے حیرت واستعجاب سے پوچھا۔

میں نے چمیلی سے کہا میں تمہیں اپنی ماں سے ضرور ملواؤں گا لیکن میری ایک شرط ہے۔ بولو منظور ہے؟ وہ بولی ہاں مجھے منظور ہے۔ میں نے کہا اچھا آنکھیں بند کرو۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں میں اس کی آنکھوں پر ایک ہاتھ رکھ دیا اور پھر اس کا دوسراہاتھ پکڑ کر اسے آئینے کے سامنے لے گیا اور اس کرسی پر اسے بٹھا دیا جس پر بیٹھ کر اس کی ماں بناؤ سنگار کرتی تھی۔ اس کے بعد آنکھوں کے سامنے سے ہاتھ ہٹا لیا۔ اور کہا دیکھو تمہاری ماں تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔

اس نے آئینہ میں اپنا عکس دیکھا اور مسکرائی۔ عکس نے مسکرا کر جواب دیا۔ وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی سامنے سے بھی وہی ہوا۔ وہ خوش ہو کر تالیاں بجانے لگی تالیوں کا جواب تالیوں سے ملا۔ اب وہ اپنی ماں سے باتیں کر رہی تھی اس کی ماں اس سے باتیں کر رہی تھی۔ دیر تک دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہیں۔ اب یہ حال ہے جب کبھی چمیلی کو اپنی ماں سے ملنا ہوتا ہے وہ آئینے کے سامنے جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ اور اپنی ماں سے باتیں کر لیتی ہے۔

اور آپ؟

میں اس کو اور اس کی ماں کو دیکھتا ہوں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں۔

آپ صرف سنتے ہیں آپ نہیں بولتے۔

بہارالاسلام بولا بیٹے سچ بات تو یہ ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی پاگل ہوتا۔ میں چمیلی کی طرح اس کی ماں سے باتیں کرتا۔ اس کے ساتھ ہنستا کھیلتا لیکن افسوس کہ میں یہ سب نہیں کر سکتا؟ نہیں کر سکتا بیٹے نہیں کر سکتا۔

بہارالاسلام برتن سمیٹ کر چلا گیا اس کی بھی عجیب حالت تھی اسے اپنی بیٹی کے پاگل ہونے پر افسوس تھا اور اپنے سیانے ہونے کا غم تھا۔ وہ دونوں کیفیات کی تبدیلی کا خواہاں تھا۔ جس بدلاؤ کو وہ اپنے لئے پسند کرتا تھا وہی بات اپنی بیٹی کیلئے بھی چاہتا تھا۔ بہارالاسلام کی شدید خواہش تھی کہ اس کی بیٹی اس کی طرح سیانی ہو جائے اور وہ اپنی بیٹی کی طرح پاگل ہو جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جھمرو

 

دوا خانے کے کھل جانے کا علم بہارالاسلام کو تو ہو گیالیکن اس کی خبر عوام الناس تک پہنچنا ضروری تھی اور اس کے لیے سب سے آسان ذریعہ جھمرو تھا اس لیے بہار کی آنکھیں بازار کے دن جھمرو کو تلاش کر رہی تھیں۔ جھمرو اس علاقے کا ایک ایسا فرد تھا کہ جسے سب جانتے تھے اور اس سے ملنا چاہتے تھے۔ اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا اور باتیں بہت کرتا ہے۔ ویسے بھی زیادہ باتیں کرنے والے لوگ کام کم ہی کرتے ہیں۔ جب بہارالاسلام کی نظر جھمرو پر پڑی تو وہ اپنے گدھوں کے درمیان کسی کے ساتھ محو گفتگو تھا اور کہہ رہا تھا اس کا کام ہی باتیں کرنا ہے۔

مخاطب نے پوچھا انسان کام کرتا ہے تو اس کے عوض اجرت ملتی ہے باتوں کی اجرت کون دیتا ہے؟

جھمرو نے بر جستہ جواب دیا یہ تو خالص تاجرانہ سوچ ہے کہ انسان وہی کرے جس کی اسے اجرت ملے۔ کوئی ایسا کام کا نہ کرے جس میں بظاہر فائدہ نہ ہو۔

ہاں تو اس میں برا کیا ہے؟

جھمرو بولا ویسے تو کچھ نہیں لیکن پھر بھی برا یہ ہے کہ اس ناپ تول کے باوجود لوگ اپنا نقصان تو کرتے ہی ہیں۔ بھئی کون ایسا تاجر ہے جس کا کبھی نہ کبھی خسارہ نہیں ہوتا۔ اس کا حساب کتاب یقینی فائدے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ تجارت خطرات کا کھیل ہے۔

اچھا تو کیا تاجروں کو حساب کتاب بند کر دینا چاہئے؟

جھمرو بولا بھئی میرا تو یہی خیال ہے کہ انسان کو سودو زیاں کے چکر سے آزاد ہو کر بلکہ اوپر اٹھ کر سوچنا چاہئے۔

بہارالاسلام اس کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک جھمرو نے اسے دیکھ لیا وہ بولا ارے بہار چاچا آپ ادھر دھوپ میں کیوں کھڑے ہیں۔ ادھر آئیے دیکھئے کتنا اچھا سایہ ہے۔ کیسی اچھی ہوا ہے۔ میرے گدھے تک اس نے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نے اونگھتے ہوئے گدھوں کی جانب اشارہ کیا۔

بہارالاسلام بولا جھمرو تم نے تو مجھے بھی دیدہ دانستہ گدھوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔

جھمرو بولا ابھی کیا نہیں ہے کوشش کر رہا ہوں۔ تینوں لوگ ہنس دیئے جھمرو نے اینٹوں کے چولھے پر رکھی کیتلی میں سے چائے پیالی میں ڈالی اور بہار الاسلام کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا آج اس خزاں رسیدہ چمن میں بہار کا جھونکا کیسے؟ بہار الاسلام کو جھمرو کی لایعنی باتوں سے الجھن ہوتی تھی اس لئے وہ ہمیشہ کنی کاٹ لیتا تھا لیکن اس روز خود چل کر آیا تھا۔ اس لئے جھمرو نے طنز کیا۔

بہارالاسلام چٹکی لیتے ہوئے بولا بس یونہی سوچا گدھوں کے ساتھ میں بھی تمہاری صحبت کا فیض حاصل کروں۔

جھمرو نے وہاں موجود دوسرے شخص کی جانب اشارہ کر کے کہا اب کی بار آپ نے میرے اس معزز مہمان کو گدھوں کی صف میں پہونچا دیا۔

بہار الاسلام جھینپ کر بولا چھوڑو فضول باتیں میں ایک کام کی بات کرنے کے لئے تمہارے پاس آیا ہوں۔

کام کی بات؟ کون سی کام کی بات؟

بات یہ ہے کہ ہمارے دوا خانے میں نئے ڈاکٹر کا تقرر ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحب کل رات تشریف لا چکے ہیں اس بات کی اطلاع آس پاس کے تمام گاؤں والوں کو ہو جانا چاہئے تاکہ وہ ان سے استفادہ کر سکیں۔

ہو جائے گی لیکن ایک بات بتاؤ؟

وہ کیا؟

یہ تمہارے ڈاکٹر صاحب صرف انسانوں کا علاج کرتے یا جانوروں کا بھی؟

جھمرو دیکھو ہر وقت مذاق کرنا ٹھیک نہیں ہے؟

تو کیا میں مذاق کر رہا ہوں؟ میں آپ سے نہایت سنجیدہ سوال کر رہا ہوں؟ میرا ایک گدھا بیمار چل رہا ہے۔ اب اگر میں تم سے پوچھے بغیر اسے لے آؤں اور وہ علاج کرنے سے انکار کر دیں تو اسے بلاوجہ بیماری کی حالت میں اسپتال تک جانے کی زحمت ہو جائے گی۔

دیکھو جھمرو ہماری انہیں حرکتوں سے ڈاکٹر یہاں سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر ہمیں بھاگ بھاگ کر مریضوں کے ساتھ نیچے میدانی علاقے میں جانا پڑتا ہے۔

جھمرو بولا دیکھئے بہار بھائی آپ چاہتے ہیں کہ میں لوگوں کو ڈاکٹر کے آنے کی اطلاع دوں۔ اب اگر کسی نے مجھ سے یہ سوال کر لیا تو میں کیا جواب دوں گا جھمرو نے معصومیت سے سوال دوہرایا۔

لیکن اس سے پہلے کہ بہار جواب دیتے جھمرو کے سامنے بیٹھا ہوا شخص بول پڑا اچھا جھمرو یہ بتاؤ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ تمہارا گدھا بیمار ہے؟

جھمرو بولا یار یہ تو گدھوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ان کا ایک ساتھی بیمار ہے۔ میں تو ماشاء اللہ انسان ہوں؟

اچھا؟ بہار الاسلام نے حیرت سے سوال کیا

اس شخص نے پھر پوچھا ویسے کیا ہو گیا ہے تمہارے گدھے کو؟

جھمرو بولا تم تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے تم ہی اس کا علاج کرنے والے ہو؟ خیر میرے گدھے کو زکام ہو گیا ہے؟

زکام بہارنے کہا۔ گدھوں کو بھی زکام ہوتا ہے وہ تو صرف انسانوں کو ہوتا ہے؟

کیوں گدھوں کو کیوں نہیں ہوتا؟

اس لئے کہ گدھے نہ ٹھنڈا برف کا پانی پیتے ہیں اور نہ ایر کنڈیشن کی مصنوعی ٹھنڈک میں رہتے ہیں۔ انہیں زکام کیسے ہو سکتا ہے؟

او ہو آپ تو گدھوں کے ماہر نکلے بہار بھائی۔

بہار الاسلام نے کہا میں گدھوں کے بارے میں نہیں انسانوں کے بارے میں بتلا رہا تھا۔

جھمرو بولا جی ہاں ایسے انسانوں کے بارے میں جن میں گدھوں سے بھی کم عقل ہوتی ہے۔

بہار الاسلام کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ یہ شخص شام تک اسے اپنی باتوں میں الجھائے رکھے گا۔ اسے تو کوئی کام ہے نہیں بس باتیں بنانا ہی اس کا کام ہے۔ وہ بولا اچھا جھمرو تو میں چلتا ہوں آس پاس کے تمام گاؤں والوں کو پتہ چل جانا چاہئے۔

جھمرو بولا ٹھیک ہے آئندہ ہفتہ اس دن تک سب کو پتہ چل جائے گا۔

جس طرح کا ہفتہ واری بازار اس روز بندربن میں لگا ہوا تھا اسی طرح کا بازار الگ الگ دنوں میں مختلف گاؤں میں لگتا تھا اور خانہ بدوش دوکاندار ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں چل پڑتے تھے اس طرح ہفتہ میں ایک دن وہ اپنے گھر بھی پہونچ جاتے تھے۔

جھمرو کا نہ گاؤں تھا اور نہ گھر اس کے تو بس اپنے گدھے تھے جن پر وہ دوکان والوں کے خیمے اور ان کا سامان لاد کر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں محوِ گردش رہتا تھا۔ دوکاندار دن بھر کاروبار کرتے جھمرو اپنے گدھوں کو چارہ ڈالتا اور ان کے ساتھ آرام کرتا۔ وقت گذاری کے لئے لوگوں سے باتیں کرتا رہتا۔ کام کی بات بے کام کی بات دن کے وقت اس کا یہی مشغلہ تھا۔ لوگ جس خبر کو پھیلانا چاہتے تھے اس تک پہونچا دیتے اور اس کے توسط سے تمام صحیح اور غلط خبریں گاؤں گاؤں پھیل جاتی تھیں۔ قدیم زمانے سے ذرائع ابلاغ کا یہ نہایت کارگر وسیلہ ہنوز رائج تھا۔

جھمرو اپنے سچ کو دلچسپ بنانے کے لئے اس میں جھوٹ ملا دیتا تھا اور اپنے جھوٹ پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی خاطر اس میں سچ کی آمیزش کر دیتا تھا گویا اعتماد اور دلچسپی کے درمیان بندھی رسی پر توازن قائم کر کے چلتے رہنے کے فن میں اسے مہارت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں میں گھرا رہتا تھا۔ ویسے جھمرو کو اگر کسی خبروں کے چینل پر موقع مل جاتا تو وہ اچھے اچھے اینکرس کے کان کاٹ لیتا۔

لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جھمرو بازار میں کوئی کام نہیں کرتا لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ بازار کا یہ خانہ بدوش نظام اسی کے دم سے قائم ہے۔ وہی اسے جماتا تھا، وہی اسے اکھاڑتا تھا اور وہی اسے اپنے گدھوں کی مدد سے گاوں گاوں منتقل کرتا تھا۔ عوام بازار میں صرف خرید و فروخت کرنے والوں کو دیکھتے تھے اور چونکہ انہیں جھمرو کچھ خریدتا ہوا دکھائی دیتا اور نہ کچھ بیچتا ہوا تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے تھے کہ یہ نکھٹو شخص کوئی کام نہیں کرتا، صرف باتیں کرتا ہے۔

بازار سے لوٹتے ہوئے بہارالاسلام نے دیکھا جھمرو چائے کی دوکان پر بیٹھا لوگوں کو محظوظ کر رہا ہے وہ بھی آ کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ جھمرو لوگوں کو بتلا رہا تھا اس گاؤں میں ایک نہایت قابل ڈاکٹر آ گیا ہے۔ اس نے فلاں فلاں مشہور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے وہ یہاں آنے سے پہلے فلاں فلاں معروف اسپتال میں کام کر چکا ہے وہ فلاں فلاں بیماریوں کا ماہر ہے وغیرہ وغیرہ بہارالاسلام نے سوچا یہ شخص تو ڈاکٹر انتخاب عالم کے بارے میں وہ سب جانتا ہے جو وہ خود نہیں جانتے۔

اپنی تقریر کے دوران اچانک جھمرو کی نظر بہارالاسلام پر پڑی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا دیکھئے صاحبو اس بیچ ہمارے درمیان دوا خانے کے منیجر بہارالاسلام بھی تشریف لا چکے ہیں میں نے خاص طور پر انہیں یہاں بلوایا ہے تاکہ وہ میری باتوں کی تصدیق کریں اور اور آپ کو مزید معلومات فراہم کریں۔

بہارالاسلام ہکا بکا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ جھمرو نے اپنی بات آگے بڑھائی بہار بھائی آپ کھڑے ہو جائیں تاکہ لوگ آپ کو پہچان سکیں اور آپ سے استفادہ، میرا مطلب سوال کر سکیں۔ بہار سمجھ گئے یہ انہیں اپنے گناہ میں شریک کر کے خود اپنا دامن جھٹک رہا ہے۔ وہ بولے فی الحال میں جلدی میں ہوں آپ تفصیلات معلوم کرنے کیلئے دوا خانے آ جائیں۔

جھمرو نے تالیوں کے ساتھ بہار کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا یہ بہت مصروف آدمی ہیں آپ لوگ ان سے دوا خانے میں ضرور ملیں مجمع چھٹنے لگا جھمرو کی بات ختم ہو گئی۔ کچھ دیر بعد تنہائی میں بہارالاسلام نے پوچھا جھمرو تم یہ سب کس کے بارے میں بتلا رہے تھے۔

جھمرو بولا تمہارے ڈاکٹر کے بارے میں۔

ان تفصیلات کا علم تمہیں کیسے ہو گیا؟

ایسے ہی ہو گیا؟

کیا مطلب؟

مطلب کہ بس یونہی۔ دیکھو تم تو یہی چاہتے ہو لوگ وہاں علاج کے لئے آئیں۔ اب اس کے لئے لوگوں کو کچھ نہ کچھ تو بتلانا ہی پڑے گا۔ ڈاکٹر کی تعلیم کے بارے میں یونیورسٹی کے بارے میں تجربے کے بارے میں؟

لیکن یہ؟ سب غلط سلط؟

کیا غلط کیا سلط؟ آج کل سب ڈاکٹر ایک ہی طرح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں سبھی دارالعلوم ایک سا نصاب پڑھاتے ہیں اور اسپتال تو سب کے سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس لیے کیا فرق پڑتا ہے۔

وہ کیسے؟ بہار نے پوچھا

در اصل چونکہ بیمار ایک سے ہوتے ہیں اس لئے اسپتال بھی ایک سے ہوتے ہیں۔

بہارالاسلام نے کہا لیکن جھمرو یہ اچھی بات نہیں ہے غلط باتیں بتلانے کے لئے بھی انسان کو اتنی ہی محنت کرنی پڑتی ہے جتنی کی صحیح بات بتلانے کے لئے پھر کیوں نہ وہ صحیح بات بتلائے۔

جھمرو نے کہا بہار بھائی آپ کی بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی بات بیک وقت درست بھی ہو اور غلط بھی؟

اظہار کی حد تک یہ بات صحیح ہے کہ محنت یکساں ہوتی ہے لیکن صحیح بات معلوم کرنے کے لئے جو محنت کرنی پڑتی ہے اس کا کیا؟

ہاں تو تھوڑی سی محنت کرنے پر کیا تم دبلے ہو جاؤ گے؟ کیوں نہیں کر لیتے وہ محنت؟

جھمرو بولا ٹھیک ہے آپ کہتے ہیں تو وہ بھی کر لیں گے۔ تو آپ کب ملائیں گے مجھے نئے ڈاکٹر صاحب سے، تاکہ میں ان سے صحیح معلومات حاصل کر سکوں؟

آج ہی آ جاؤ۔ میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور ڈاکٹر صاحب سے بھی مل لینا۔

ٹھیک ہے میں ظہر کی نماز پڑھ کر حاضر ہوتا ہوں

بہارالاسلام نے کہا ٹھیک ہے۔

بہارالاسلام نے ڈاکٹر انتخاب کو جھمرو کے بارے میں آگاہ کر دیا۔ جھمرو کے آتے ہی بہارالاسلام نے انتخاب عالم کے کمرے میں دسترخوان بچھایا کھانا لگا دیا اور خود جانے لگا۔ انتخاب بولا آپ بھی یہیں بیٹھ جائیں۔ بہار اپنی جگہ رک گیا ایسا لگتا تھا جیسے اس کے قدموں میں زنجیر پڑ گئی ہے بلکہ دو قدموں میں دو زنجیریں ایک کاسرا انتخاب کے ہاتھ میں دوسری کا چمیلی کے ہاتھ میں اب نہ وہ آگے جا سکتا تھا اور نہ پیچھے۔

جھمرو بولا ڈاکٹر صاحب یہ ہمارے ساتھ نہیں کھا سکتے۔

کیوں؟

اس لئے کہ یہ چمیلی کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔

کیوں؟

اس لئے کہ وہ ان ہی کے ساتھ کھانا کھاتی ہے۔ ورنہ نہیں کھاتی۔

انتخاب تذبذب میں پڑ گیا اور بولا اچھا بابا آپ جائیں۔ بہارالاسلام نے شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

فرزانگی

 

جھمرو نے بلاواسطہ ڈاکٹر انتخاب کی توجہ چمیلی کی طرف مبذول کر دی تو انہوں نے پوچھا چمیلی کا دماغی توازن پیدائش سے بگڑا ہوا ہے یا بعد میں ایسا ہوا؟

جھمرو بولا ڈاکٹر صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں اور اس طرح کا سوال کرتے ہیں؟ پیدائشی طور پر کیا کوئی دیوانہ ہو سکتا ہے؟ میری دانست میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ تو دنیا ہے جو اسے دیوانہ بنا دیتی ہے۔

انتخاب عالم کو جھمرو کے آگے اپنی علمی کم مائے گی کا احساس ہوا وہ بولے جھمرو تم نے تو لاکھ پتہ کی بات کہی اب یہ سوال ہے کہ اس بے چاری چمیلی کو کس نے دیوانہ بنا دیا۔

جھمرو بولا یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن آپ اسے کیوں جاننا چاہتے ہیں؟

انتخاب اس سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ بولا یونہی بس یونہی۔

بلاوجہ؟ جھمرو نے پوچھا کیا دانشمند لوگ کوئی معلومات بلاسبب حاصل کرتے ہیں؟

در اصل میں چمیلی کا علاج کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کے لئے مجھے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آخر کس سانحہ نے اس کے دماغی توازن کو متاثر کیا ہے۔

جناب ویسے تو یہ ایک طویل داستان ہے! مختصر یہ کہ ایک ڈاکٹر نے اسے پاگل کیا اور دوسرا ڈاکٹر اس کا علاج کرنا چاہتا ہے۔

میرے لیے یہ تفصیل ناگزیر ہے۔

ٹھیک ہے۔ کھانے کے بعد میں آپ کو چمیلی کی کہانی سناؤں گا۔

جھمرو نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے تحت دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی بہتری کی خاطر چلائے جانے والے ایک پروجکٹ کے تحت چندسال قبل ملیشیا کے ڈاکٹر سوژالی کا دوسال کے لیے اس مطب میں تقرر ہوا۔ اس ڈاکٹر کو چمیلی سے محبت ہو گئی لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے بہارالاسلام کو مشورہ دیا اگر وہ چاہے تو میں شادی کی بات چلا سکتا ہوں لیکن وہ اپنی بیٹی کو پردیس روانہ کرنے پر راضی نہیں ہوئے اور یہیں ایک مقامی تاجر کے بیٹے سے اس کا نکاح طے کر دیا۔ عین نکاح کے دوران سوژالی نے اس کھڑکی سے کھائی میں کود کر خودکشی کر لی۔ چمیلی اس غم کو برداشت نہ کر سکی اور پاگل ہو گئی۔

انتخاب نے پوچھا موت تو اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ کسی کے مر جانے سے کوئی پاگل تو نہیں ہو جاتا؟

جی ہاں آپ کی بات درست ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک صرف ہوشمند لوگ کر سکتے ہیں۔ چمیلی اس سے قبل ہوش گنوا بیٹھی تھی۔

آپ کے خیال میں اس شدید صدمے کی وجہ کیا ہے؟

میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ چمیلی نے ابھی تک سوژالی کے فراق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ اب بھی اس کی منتظر ہے۔ شوق وصال اس کی دیوانگی کی بنیادی وجہ ہے۔

اس کا مطلب ہے اگر چمیلی کو یقین دلا دیا جائے کہ اب سوژالی لوٹ کر نہیں آئے گا تو اس کا پاگل پن دور ہو سکتا ہے۔

جی ہاں ڈاکٹر صاحب چمیلی کا علاج تو یہی ہے لیکن یہ کیسے کیا جائے؟ میں نہیں جانتا؟ شاید کوئی نہیں جانتا؟ کوئی نہیں؟ ؟ جھمرو کے ہر لفظ سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔

انتخاب عالم نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا جھمرو چاچا سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اس کا علاج نہیں جانتا لیکن کوشش کروں گا۔

جھمرو خوش ہو کر بولا۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا توقف یاد فرمائیے۔ کواڑ کی آڑ میں بہارالاسلام اس گفتگو کو سن رہے تھے۔ ان کے دل میں اپنی بیٹی کے حوالے امید کا چراغ روشن ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انتخاب عالم نے ماہرین نفسیات کی کتابوں میں اپنے آپ کو غرق کر دیا اور چمیلی جیسے مریضوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے لگا لیکن اسے کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ایک روز یونہی سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں ایک منفرد خیال آیا اور اس نے ایک ایسا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کا ذکر کسی کتاب میں موجود نہیں تھا۔

انتخاب نے اپنے تجربے کی ابتداء اس غلط مفروضے سے کی جس میں چمیلی گرفتار تھی۔ اس نے جھمرو اور بہارالاسلام کی مدد سے ہو بہو سوژالی کا ایک پتلا بنایا اور اس کے اندر مائک اور اسپیکر نصب کر دیا تاکہ وہ چمیلی کی آواز سن سکے اور چمیلی بھی اس کی بات کو سماعت کر سکے۔ اس کے بعد بڑی حکمت سے وادی کے سامنے سوژالی کے پتلے کو چمیلی کے روبرو کر دیا گیا۔

پاگل چمیلی کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں اور وہ اپنے محبوب کے مجازی وصال کی نعمت سے مالا مال ہو گئی۔ اس کا نصف پاگل پن دور ہو گیا۔ اب اس پتلے کو چمیلی کی آنکھوں کے سامنے کھائی میں ڈھکیل کر چمیلی کو یقین دلا دیا گیا سوژالی کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے  جا چکا ہے۔ اس طرح صدمے کے اس دوسرے جھٹکے نے چمیلی کا دماغ درست کر دیا اور اس نے از خود دیوانگی سے فرزانگی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔

چمیلی کے کامیاب علاج سے بہارالاسلام کی زندگی میں بہار لوٹ آئی۔ وہ خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا لیکن اسی کے ساتھ ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ چمیلی جب تک دیوانگی کی حالت میں تھی اس کی شادی کا خیال تک بہارالاسلام یا کسی اور کے ذہن میں نہیں آتا تھا لیکن دھیرے دھیرے یہ فکر بہارالاسلام کی زندگی کو خزاں رسیدہ کرنے لگی۔ اپنے بڑھاپے اور چمیلی کی ڈھلتی جوانی کا شدید احساس ان کے لیے سوہانِ جان بن گیا۔

بہارالاسلام چاہتے تھے کہ سبکدوشی سے قبل چمیلی کے ہاتھ پیلے ہو جائیں لیکن بندربن کے توہم پرست لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہو چکے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ چمیلی آسیب زدہ ہے اس پر کسی جن کا سایہ ہے۔ اسی اندیشے کے باعث کوئی رشتہ نہ آتا تھا۔

اس دوران پردیس کی تنہا زندگی سے بیزار رضوان الحق ایک نئے ارادے اور تیاری کے ساتھ ابو ظبی سے گھر آیا۔ اس نے بڑی محنت سے البرٹ کو ویزا مہیا کرنے کیلئے تیار کر لیا تھا۔ وہ اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا لیکن اولاد کی محبت میں گرفتار رضیہ کسی صورت تیار نہ ہوئی۔ اس کے خیال میں بچے اپنی زندگی کے نازک ترین دور سے گذر رہے تھے اور اس موقع پر ان کو دوسروں کے حوالے کر کے بدیس چلے جانے سے تعلیم و تربیت متاثر ہو سکتی تھی۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کی خاطر وہ بنگلا دیش میں رہنے کو ترجیح دیتی تھی۔

رضوان الحق نے بالآخر مجبور ہو کر رضیہ کی مرضی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور دل ہی دل میں نکاح ثانی کا ارادہ کر لیا تاکہ ابو ظبیہ میں اپنی ازدواجی زندگی بحال کر سکے۔ یہ درمیان کا راستہ تھا جس پر عمل درآمد کے لیے اس نے برسوں بعد اپنے آبائی گاوں کا سفر کیا جہاں اس کی ملاقات جھمرو سے ہو گئی۔

رضوان الحق جس وقت جھمرو کے خیمہ میں پہنچا وہاں جم غفیر تھا۔ لوگ جھمرو سے طرح طرح کے اوٹ پٹانگ سوالات کر رہے تھے۔ وہ بھی چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

ایک شخص پوچھ رہا تھا جھمرو کیا بات ہے کہ تم کبھی گاوں کا نام نہیں بتاتے۔ آخر کیوں؟

تم میرے گاوں کا نام جان کر کیا کرو گے؟ تمہیں وہاں جانا تو ہے نہیں؟ اس لیے جس گلی میں جانا نہ ہو تو اس کا پتہ کیوں پوچھنا؟

پھر وہی گول مول بات۔ ٹھیک ہے ہمیں نہیں جانا لیکن تم خود کیوں نہیں جاتے؟

اس لیے کہ اول تو میں وہاں جا نہیں سکتا اور چلا بھی گیا تو لوٹ کر آ نہیں سکتا۔ تم لوگ مجھ سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہو کیا؟

یہ کیسی باتیں کر رہے ہو جھمرو؟ ہمارے بازار کی رونق تو تمہیں سے ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ تم کہیں کھو جاؤ۔

ایک اور شخص بولا تم کہیں جاؤ نہ جاؤ مگر چھپاؤ تو نہیں۔

تیسرے نے کہا دیکھو جھمرو آج تو تمہیں بتانا ہی ہو گا۔ بہت ہو گئی یہ راز داری۔

کئی آوازیں جی ہاں یہ صحیح کہہ رہا ہے آج یہ جانے بغیر ہم بازار اٹھنے نہیں دیں گے۔ ہم دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے۔

پہلی مرتبہ جھمرو کے لیے جان چھڑانا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بولا بھائی سچ تو یہ ہے کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔

ڈر؟ کس کا ڈر؟ کیسا ڈر؟ ؟

مجھے ۹۶۹ کا ڈر لگتا ہے۔

یہ ۹۶۹ کون ہے؟

تم نے جیمس بانڈ کا نام سنا ہے ۰۰۷۔ یہ اس کا دادا ہے۔

دادا ہے۔ تو ۰۰۷ کا باپ کون ہے؟

باپ ہے ۷۸۶۔ اس لیے کہ افغانستان میں ۷۸۶ کے آگے ۰۰۷ کی دال نہیں گلی اور وہ ناکام و نامراد ہو گیا لیکن یہ ۹۶۹ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

آپ ۹۶۹ سے ڈرا تو رہے ہیں لیکن اس کے بارے میں کچھ بتا نہیں رہے۔

تم لوگوں کا مسئلہ یہ کہ تم بس مجھ جیسے لوگوں کی بکواس سنتے رہتے ہوئے۔ تھوڑا بہت وقت پڑھنے لکھنے پر بھی خرچ کیا کرو۔

کیا بات کرتے ہو جھمرو ہم لوگ تو دن بھر واٹس ایپ اور ٹوئیٹر دیکھتے، پڑھتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً فیس بک دیکھ لیتے ہیں۔

ارے اس کچرے سے کیا ہو گا۔ کبھی ٹائم میگزین دیکھا ہے تم نے؟

یہ نام تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔

ویسے دیکھا تو میں نے بھی نہیں ہے لیکن بانگلہ پتریکا میں اس کے بارے میں پڑھا تھا۔

کیا پڑھا تھا؟ مختلف لوگوں نے بیک زبان سوال کیا۔

یہی کہ ۲۰ جون ۲۰۱۳؁ کے شمارے میں ٹائم کے سرِ ورق پر اس بدھ بھکشو کی بال منڈوائے، گیروے رنگ کے ان سلے کپڑے میں تصویر شائع ہوئی تھی اور انٹرویو بھی چھپا تھا۔

اچھا؟ کیا کہا تھا۔ اس بدبخت نے؟ ؟

اس نے کہا تھا ’’آپ میں محبت اور شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو پھر بھی آپ ایک پاگل کتے کے ساتھ نہیں سوسکتے۔ اگر ہم کمزور ہو گئے تو ہماری زمین تک مسلمان ہو جائے گی‘‘

آپ نے اس کا نام نہیں بتایا جھمرو۔

اس کمبخت کا نام آشن وراتھ ہے۔ یہی شخص برما کی بدھ قومی تحریک ۹۶۹ کا سربراہ ہے۔ اس تحریک کا مقصد برما میں مسلمانوں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنا ہے۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس نے اپنی تحریک کا نمبر ۹۶۹ کیوں رکھا؟ کیا آپ یہ راز فاش کریں گے؟

دیکھو دوستو یہ ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں امن کا پیغام دینے والے گوتم بدھ کے نام پر یہ دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ ۹کا ہندسہ ان نو صفات کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مہاتما بدھ سے منسوب ہیں، ۶کا ہندسہ بدھ دھرم کے چھ اصول ہیں اور پھر ۹ کا ہندسہ بدھا سنگھا یعنی بدھ بھکشوؤں کے اوصاف بیان کرتا ہے۔ ان احمقوں کے خیال میں ۹ سب سے طاقتور عدد ہے اور اس میں ۶ملا دینے سے پورا دائرہ بن جانے کے سبب زبردست قوت والا بن جاتا ہے۔

لیکن مسلمانوں نے اس کا کیا بگاڑا؟

برما کے مسلمان اتنے کمزور ہیں کہ وہ اگر چاہیں بھی تو کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہ تو برما کے فوجی حکمرانوں کے ایماء پر قائم کردہ ایک دہشت گرد گروہ ہے۔ سرکاری پشت پناہی میں یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے اور عوام کو حکومت کا ہمنوا بناتا ہے۔

اقتدار کے لیے مسلمانوں کی مخالفت سمجھ میں نہیں آئی جبکہ وہ حکومت کے دعویدار بھی نہیں ہیں؟

بھئی عوام کو ڈرانے، دھمکانے اور بہلانے کے یہ ہتھکنڈے ہیں۔ ۱۹۹۷؁ میں جب نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی کوششوں سے جمہوریت نے برما میں قدم رکھا تو بدھ دہشت گردوں نے مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ہمارے گاوں منگ ڈاو پر حملہ کر دیا اور مجھے اپنا آبائی وطن چھوڑ کر یہاں بنگلا دیش میں ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔

جھمرو کے خیمہ میں بیٹھا ایک پڑھا لکھا شخص بولا لیکن اب تو میانمار میں جمہوریت اور آنگ سانگ سوچی کی حکومت آ گئی ہے۔ اب تو آپ وطن لوٹ سکتے ہیں؟

نہیں اب آنگ سانگ سوچی بھی دہشت گردوں کی ہمنوا بن گئی ہے؟ وہ ان کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔

ضمیر کی قیدی اور امن کی دیوی کو یہ کیا ہو گیا؟

یہ در اصل جمہوریت اور اقتدار کا بخار ہے۔

کئی آوازیں ابھریں ’بات سمجھ میں نہیں آئی‘۔

اتنا بھی نہیں سمجھتے تو میری مجلس میں نہ آیا کرو۔ بھئی سوچی نے سوچا کہ اگر وہ مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے گی تو اس کے رائے دہندگان ناراض ہو جائیں گے اور جمہوریت کی دیوی اسے اقتدار سے محروم کر دے گی۔ اس لیے وہ مظلوم مسلمانوں کے بجائے ظالم بودھوں کی ہمنوا بن گئی۔

ایک اور سوال آیا یہ جمہوریت کی دیوی حق کا ساتھ کیوں نہیں دیتی؟

جھمرو بولا در اصل اس دیوی کا دیوتا یعنی معیار حق اکثریت ہے۔ وہ بلا شرط اپنے معبود کے آگے سجدہ ریز رہتی ہے۔

یہ بلا شرط کیا ہے؟

یہی کہ اکثریت ظالم ہو یا مظلوم یہ اس کی پشت پناہی کرتی ہے اور اتفاق سے میرا تعلق مظلوم اقلیت سے ہے۔

خیمہ میں موجود سارے لوگ سوگوار ہو گئے لیکن جھمرو کا قہقہہ گونجا کیا تم اب بھی چاہتے ہو کہ میں اپنے گاوں چلا جاؤں؟

سارے لوگ نہ نہ کہتے ہوئے اپنی اپنی جگہ سے اٹھے اور بازار میں منتشر ہو گئے۔ مجمع چھٹ گیا تو جھمرو کی نظر رضوان پر پڑی۔ ایک عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لیے دونوں بہت خوش ہوئے۔ رضوان نے بلا تمہید اپنے دل کی بات جھمرو کے سامنے رکھی تو اس نے بتایا کہ چمیلی سے اچھی لڑکی اسے دوسرے نکاح کے لیے نہیں ملے گا۔ جھمرو نے از خود پیشکش کر دی کہ اس کی مرضی ہو تو وہ بہار الاسلام سے بات کر سکتا ہے۔ رضوان نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی اور جھمرو نے بہارالاسلام اور چمیلی کو راضی کر لیا۔

رضوان اور چمیلی کے نکاح ثانی کی رسم ایک پر وقار خاموشی کے ساتھ ادا کی گئی اس لئے کہ رضیہ کی جانب سے ہنگامہ کا خطرہ تھا۔ اس تقریب میں وکالت کی ذمہ داری جھمرو کے سپرد کی گئی اور گواہ انتخاب عالم کو بنایا گیا۔ گنے چنے مہمانوں کی مختصر سی محفل میں نکاح پڑھایا گیا اور حاضرینِ محفل نے نو بیاہتا جوڑے کو تحفے تحائف سے نوازہ۔ اس موقع پر انتخاب عالم نے اپنی نابغہ روزگار ڈائری چمیلی کو تحفہ میں دی سوژان کو چمیلی کی داستانِ حیات میں ایک نئے ٹیلی ویژن ڈرامہ کا انوکھا اور منفرد مرکزی موضوع مل گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ضابطے اور ہی مصداق پہ رکھے ہوئے ہیں

آج کل صدق و صفا طاق پہ رکھے ہوئے ہیں

جانے کب سلسلۂ خیر و خبر کا ہو ظہور

دھیان ہم انفس و آفاق پہ رکھے ہوئے ہیں

 

(گلزار بخاری)

 

ہاتھ کی پانچ انگلیاں

مختلف ہونے کے باوجود

ایک دوسرے سے

منسلک بھی ہوتی ہیں

اس ناول گھر سنسار کے چھے حصے

منفرد تو ہیں ہی مکمل بھی ہیں

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 ورڈ فائل 

 

 ای پب فائل

 

کنڈل فائل