FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شہید ملت سید کفایت علی کافی مرادآبادی

 

 

نا معلوم
 
تاریخِ ہند سے دل چسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ جنگ آزادی 1857ء میں علمائے اہلِ سنت اور مشائخِ طریقت کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہو گا کہ شمالی ہند میں انگریزوں کے خلاف مسلم رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا کرنے کا بنیادی کام انھیں کی قیادت و سربراہی میں ہوا۔ ان مجاہدین میں علامہ فضلِ حق خیر آبادی(م1278ھ)، مفتی صدر الدین خاں آزردہ دہلوی (م1285ء)، مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی (م1274ھ 1858ء)، مفتی عنایت احمد کاکوروی (م1279ھ)، مولانا رحمت اللہ کیرانوی (1308ھ)، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی (م1289ھ 1873ء)، مولانا وہاج الدین مراد آبادی (م1274ھ 1858ء)، مولانا رضا علی خاں بریلوی (م1286ھ 1869ء)، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی (م1273ھ 1857ء)، مفتی مظہر کریم دریابادی، حکیم سعید اللہ قادری (1325ھ)وغیرہ کے انقلابی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں اور شہیدِ جنگ آزادی حضرت مولانا مفتی سید کفایت علی کافی مراد آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کا نام اس فہرست میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔

مختصر احوالِ زندگی

آپ کا نسبی تعلق نگینہ، ضلع بجنور (یو پی )کے ایک معزز خانوادہ سادات سے تھا۔ آپ نے مراد آباد کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔ علمائے بدایوں و بریلی سے علم حاصل کیا۔ بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ غلام علی نقش بندی دہلوی کے خلیفہ اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی(متوفی 1239ھ 1824ء)کے شاگرد رشید حضرت شاہ ابو سعید مجددی رام پوری (م1250ھ)سے علمِ حدیث کی تکمیل کی۔ (1) علمِ طب مولانا رحمن علی مصنف تذکرہ علمائے ہند کے والد مولانا حکیم شیر علی قادری سے حاصل کیا۔ مولانا کافی پر اپنے استاذ و مربی حضرت شاہ ابو سعدر مجددی کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔ اسی وجہ سے آپ کو علمِ حدیث اور تصوف سے بے حد شغف تھا، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔

شعر و شاعری

آپ قادر الکلام، پُر گو اور صاحبِ دل شاعر تھے۔ شیخ امام بخش ناسخ لکھنوی کے شاگرد شیخ مہدی علی خاں ذکی مراد آبادی (م1281ھ 1864ء)سے شعر و شاعری میں اصلاح لیتے تھے۔ (2)
عشقِ رسول ان کی غذائے روح اور قلب کا سامانِ تسکین تھا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ عشقِ رسول کے جذبات سے جب آپ کا دل مضطرب ہوتا اور فراقِ حبیب ان کی روح کا سکون و قرار چھین لیتا تو ان کے جذباتِ دروں نعتیہ اشعار کا روپ دھار لیتے، اور ان کے نازک احساسات کے سرچشموں سے عشقِ نبوی سے لب ریز منظوم آبشار جاری ہو جاتے۔ ان کی نظر میں نعتِ رسول سننا اور سنانا دونوں جہان کی سعادت مندی اور فیروز بختی کا سامان ہے، اور نعتِ مصطفی میں اپنی زندگی کے گراں قدر اوقات صرف کرنے والا ’’سعیدِ دو جہاں ‘‘ ہے۔ آپ خود فرماتے ہیں
ہے سعیدِ دوجہاں وہ جو کوئی لیل و نہار
نعتِ اوصافِ رسول اللہ کا شاغل ہوا

بس آرزو یہی دلِ حسرت زدہ کی ہے
سنتا رہے شمائل و اوصافِ مصطفی
اسی جذبہ دروں اور سودائے عشق کی کرشمہ سازی تھی کہ آپ کا دل زیارتِ حرمین طیبین کے لیے تڑپتا تھا۔ آپ کے دیوان ’’دیوانِ کافی‘‘ میں جا بہ جا زیارتِ دیارِ حبیب کا شوق اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتا نظر آتا ہے اور ان کا طائر تخیل حجازِ مقدس کی پاکیزہ اور عطر بیز فضاؤں میں مسلسل پرواز کے ساتھ اس تمنا کا برملا اظہار کرتا نظر آتا ہے کہ کاش ان کے جسدِ خاکی کے بھی دن پھریں اور اسے بھی اس رشکِ جنت، سرزمین کی آبلہ پائی نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ تمنائے شوق بھی پوری فرمائی اور 1841ء میں زیارتِ حرمین شریفین کا موقع عنایت فرمایا۔ آپ نے اس سفر کے متعلق ایک مثنوی بھی تحریر فرمائی جو ’’تجملِ دربارِ رحمت بار‘‘ کے عنوان سے منشی عبد الرحمن شاکر، مالک مطبع نظامی، کان پور کی کوشش اور اہتمام سے چھپ کر شائع ہوئی۔
سرکار کے سچے جا نشین خلفائے راشدین کی شان میں بھی آپ کے اشعار ملتے ہیں۔ بطورِ نمونہ درجِ ذیل اشعار نذرِ قارئین ہے:

السلام اے چار یارانِ صفا، ارکانِ دیں
مجمعِ جود و حیا، صدق و عدالت، السلام

ثنا خوانِ نبی ہوں اور اصحابِ نبی، کافی
ابو بکر و عمر، عثماں علی سے مجھ کو الفت ہے

مجھے الفت ہے یارانِ نبی سے
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے

محبت ان کی ہے ایمان میرا
میں ان کا مدح خواں ہوں جان و جی سے

نعت نبوی کے کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں
¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬
بہارِ خلد ہے روئے محمد
شمیمِ جاں فزا بوئے محمد

دلِ وحشی ہے زنجیریں تُڑاتا
بشوقِ یادِ گیسوے محمد

یا الٰہی حشر میں خیر الوریٰ کا ساتھ ہو
رحمتِ عالم، محمد مصطفی کا ساتھ ہو

یا الٰہی، ہے یہی دن رات میری التجا
روزِ محشر، شافعِ روزِ جزا کا ساتھ ہو

بعد مرنے کے بھی، کافی کی ہے یا رب یہ دعا
دفترِ اشعارِ نعتِ مصطفی کا ساتھ ہو(4)

آپ کی شاعری میں شرعی احکام کی بھر پور پاس داری نظر آتی ہے، اس لیے عاشقِ رسول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان آپ کی شاعری کو پسند فرماتے تھے، اور اسے شوق سے سماعت فرماتے تھے۔ جب کہ آپ عام شعرا کے اشعار قصداً سماعت نہیں کرتے تھے، کیوں کہ وہ عموماً شرعی نزاکتوں کی رعایت سے خالی ہوتے ہیں۔ الملفوظ میں ہے :
’’سوا دو کے کلام کے کسی کا کلام میں قصداً نہیں سنتا، مولانا کافی (مراد آبادی)اور حسن میاں مرحوم(یعنی استاذِ زمن مولانا حسن رضا بریلوی)۔ (ان دونوں کا)کلام اول سے آخر تک شریعت کے دائرے میں ہے۔ البتہ مولانا کافی کے یہاں لفظ ’’راعنا‘‘ کا اطلاق جا بہ جا ہے، اور یہ شرعاً محض ناروا و بے جا ہے۔ مولانا کو اس پر اطلاع نہ ہوئی، ورنہ ضرور احتراز فرماتے۔ غرض ہندی نعت گویوں میں ان دو کا کلام ایسا ہے، باقی اکثر دیکھا گیا کہ قدم ڈگمگا جاتا ہے، اور حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے، جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں، اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچا جاتا ہے، اور اگر کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں ایک جانب اصلاً(بالکل)حد نہیں، اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔ ‘‘ (5)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ شہیدِ حریت حضرت مولانا کافی علیہ الرحمہ کی نعتیہ شاعری سے اس قدر متاثر تھے کہ انھیں سلطانِ نعت گویاں اور اپنے آپ کو ان کا وزیر اعظم قرار دیتے ہوئے تحدیثِ نعمت کے طور پر لکھتے ہیں
مہکا ہے مری بوئے دہن سے عالم
یاں نغمہ شیریں نہیں تلخی سے بہم

کافی سلطانِ نعت گویاں ہے رضا
ان شاء اللہ میں وزیرِ اعظم(6)
کذب و تلبیس کا ایک بد ترین نمونہ:مذکورہ بالا رباعی میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان، حضرت مولانا کافی علیہ الرحمۃ والرضوان کی میدانِ نعت گوئی میں برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اور ان کی بارگاہ میں عقیدتوں کا خراج پیش کرتے ہوئے تحدیثِ نعمت کے طور پر کہتے ہیں :
’’میری نعت گوئی کے چرچے چار دانگ عالم میں ہو رہے ہیں اور پوری دنیا میں اسے شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس طرح میرے دہن کی خوشبو سے ایک عالم مہکا ہوا ہے اور نعت کے نغمہ شیریں میں ذرا بھی تلخی کی آمیزش نہیں ہے۔ اے رضا حضرت کافی سلطانِ نعت گویاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے نعت گوئی میں میں آپ کا وزیر اعظم ہوں۔ ‘‘
کس قدر صاف اور واضح انداز میں حضرت کافی مراد آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کی میدانِ نعت گوئی میں عظمتوں کا اعتراف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ حضرت کو نعت گوئی میں جو کمال اور مہارت عطا کی ہے اس کا اظہار کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے : ’’وَاَمَّا بِنِع مَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث ‘‘(الضحی:11)اور اپنے پروردگار کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ اعلیٰ حضرت کے پیشِ نظر یہی آیتِ کریمہ ہے۔
لیکن دجل و فریب اور کذب و افترا کی مجسم تصویر دیکھنی ہو تو معروف دیوبندی عالم مولانا خالد محمود(مانچسٹر، برطانیہ)کی کتاب ’’مطالعہ بریلویت‘‘ کا مطالعہ کر لو اور دیکھ لو کہ معلم الملائکہ کی وفادار ذریت نے کس طرح اس پاکیزہ رباعی کا مفہوم مسخ کیا ہے اور اللہ کے ولی، علامہ اجل، امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے اپنی اندھی دشمنی کا کس طرح مظاہرہ کیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں :
’’مولانا احمد رضا خاں ان دنوں کن امیدوں سے تھے، اسے انھیں کی زبان میں سنیے۔ شاعر تھے، بات اگل دی
کافی سلطانِ نعت گویاں ہے رضا
ان شاء اللہ میں وزیرِ اعظم
(سلیس): اے رضا ہم نعت خوانوں (بریلویوں )کو حکومت کی سرپرستی کافی ہے۔ ان شاء اللہ کسی نہ کسی وقت ضرور وزیرِ اعظم بنوں گا۔
ہم نے تاویل کرنے کی کوشش کی، ہو سکتا ہے شاعری کی وزارتِ عظمیٰ مراد ہو، مگر معلوم ہوا کہ شاعری میں تو آپ اپنے آپ کو وزیر نہیں، بادشاہ سمجھتے تھے۔ جو شخص اپنے آپ کو بالفعل بادشاہ سمجھتا ہو وہ وزارت کی تمنا کیسے کرے گا؟ پس ان شاء اللہ کے ساتھ جس وزارت کی امید تھی وہ شریف(مکہ)کی حمایت اور انگریزوں کی خدمت کے صلے میں ملکی وزارت تھی۔ ‘‘(7)
کیا اس سے بڑھ کر اہل اللہ سے بغض و عداوت، کذب و افترا، دریدہ دہنی اور دروغ بافی کی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے۔ لیکن جس کا خدا جھوٹ بول سکتا ہو اگر وہ خود جھوٹ بولے تو اس سے اس کی کیا شکایت؟ مگر یہ سننے کے بعد ایک مومن کی زبان سے ’’لعنۃ اللہ علی الکاذبین و المفترین‘‘ نکلنا ایک فطری بات ہے۔

تصنیفات

آپ صاحبِ تصنیف بزرگ ہیں۔ آپ کی تصانیف کا موضوع عموماً ذاتِ رسول، سیرتِ رسول، شمائلِ رسول اور ذکرِ رسول ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کی کتابوں سے واضح ہے۔ درج ذیل کتابیں آپ کی یادگار ہیں :
(1)بہارِ خلد: یہ شمائل ترمذی شریف کا منظوم ترجمہ ہے
(2)نسیمِ جنت
(3)مجموعہ چہل حدیث مع تشریحِ منظوم
(4)خیابانِ فردوس: یہ کتاب شیخِ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان (متوفی1052ھ)کی کتاب ’’ترغیبِ اہلِ سعادت‘‘کا منظوم ترجمہ ہے، کتاب کا موضوع فضائلِ درود شریف ہے
(5)تجملِ دربارِ رحمت بار: یہ مثنوی سفرِ حرمین طیبین کے متعلق ہے
(6)مولودِ بہاریہ
(7)جذبہ عشق: اس میں ستونِ حنانہ کا واقعہ بڑے والہانہ انداز میں نظم کیا ہے۔
(8)حلیہ شریف
(9)وفات نامہ، یہ دونوں رسالے علاحدہ مستقل تصنیف نہیں ہیں، بلکہ آپ کی مذکورہ بالا تصنیف بہارِ خلد سے ماخوذ ہیں۔
(10)اوقات نحو و صرف۔
(11)دیوانِ کافی۔ (8)
اس فہرست سے صاف واضح ہے کہ آپ کی تقریباً سبھی تصنیفات منظوم ہیں، جس سے اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا طبعی میلان نظم اور شعر و شاعری کی جانب زیادہ تھا۔
مولانا کافی شہید علیہ الرحمہ کی علمی قابلیت کے سلسلہ میں مولانا عبد الغفور نساخ مو لف ’’سخن شعرا‘‘ فرماتے ہیں کہ مولانا کافی اپنے دور کے نعت گو شعرا میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ وہ مستند عالمِ دین تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں گزرتا تھا۔ (9)

مولانا کافی اور تحریکِ آزادی 1857ء

مولانا کافی علیہ الرحمہ نے تحریکِ آزادی 1857ء میں بڑی سر گرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ آپ انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور ہندستان پر ان کے ظالمانہ تسلط سے حد درجہ بے زار، اور انھیں یہاں سے باہر کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش مں تھے۔ اسی لیے جب 1857ء میں انگریزوں کے خلاف تحریکِ حریت نمودار ہوئی تو آپ ان کے خلاف میدانِ عمل میں اتر آئے اور اس انگریز مخالف جہاد میں پیش پیش رہے۔ اسی لیے آپ کا شمار تحریکِ آزادی 1857ء کے صفِ اول کے مجاہدین میں ہوتا ہے۔
جب مراد آباد میں انگریزوں کی حکومت ختم ہوئی اور نواب مجد الدین عرف نواب مجو خاں کی زیر سرکردگی آزاد حکومت قائم ہوئی تو آپ کو ’’صدر شریعت‘‘ بنایا گیا۔ آپ کی عدالت میں مقدمات کے فیصلے شرعی احکام کے مطابق ہوتے تھے۔ جناب امداد صابری صاحب کا بیان ہے :
’’انگریز مراد آباد سے بھاگ کر نینی تال اور میرٹھ چلے گئے۔ نواب مجو خاں حاکمِ مراد آباد مقر ر ہو گئے۔ عباس علی خاں بن اسعد علی خاں، ہندی توپ خانہ کے افسر معین ہوئے اور مولوی کفایت علی صاحب ’’صدر شریعت‘‘ بنائے گئے۔ انھوں نے عوام میں جہادی روح پھونکی، شہر میں ہر جمعہ کو بعدِ نماز انگریزوں کے خلاف وعظ فرماتے، جس کا بے حد اثر ہوتا تھا۔ ‘‘
ڈسٹرکٹ گزیٹر مراد آباد میں ہے :
’’مسلمانوں نے من حیث القوم ضلع بھر میں برٹش گورنمنٹ سے اپنی مخالفت کو نہایت صاف اور صریح طور پر ظاہر کیا ہے۔ روہیل کھنڈ کے اضلاع کی طرح مراد آباد کے ضلع میں غیرت مذہبی اور انگریزوں کی ہر بات سے نفرت کے جذبات نے مسلمانوں کو عام بغاوت پر مشتعل کیا تھا۔‘‘(10)
نوابِ رام پور یوسف علی خاں انگریزوں کے دوست اور حامی تھے۔ جب مراد آباد میں نواب رام پور کو بالا دستی حاصل ہوئی تو مولانا کافی نے انگریزوں کے خلاف فتوی جہاد مرتب کیا۔ اس فتوے کی نقلیں مختلف مقامات پر بھجوا کر اس کی خوب نشر و اشاعت کی، بلکہ کچھ مقامات پر آپ خود تشریف لے گئے۔ آنولہ ضلع بریلی میں خاص اسی مقصد کے لیے ایک ہفتہ سے زیادہ قیام رہا۔
حکیم سعید اللہ قادری بن حکیم عظیم اللہ (متوفی1325ھ 1907ء)آنولہ ضلع بریلی میں تحریکِ آزادی کے خاص رکن اور حاکمِ آنولہ نواب کلن خاں نبیرہ بخشی سردار خاں کے معاون اور حامی تھے اور انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔ حکیم صاحب حضرت شاہ آل برکات مارہروی علیہ الرحمہ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے اور حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں علیہ الرحمہ (متوفی1362ھ)کے خلیفہ شاہ میرن میاں بریلوی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ مولانا کافی علیہ الرحمہ اور حکیم سعید اللہ صاحب ہم سبق ساتھی تھے۔ مولانا کافی جب انگریزوں کے خلاف فتوی جہاد کی نقلیں لے کر آنولہ پہنچے تو ایک ہفتہ تک حکیم صاحب ہی کے مکان پر ان کا قیام رہا۔ اس دوران جہاد کے موضوع پر مولانا کی تقریریں بھی ہوئیں اور نواب مجدالدین عرف مجو خاں حاکمِ مراد آباد کا پیغام بھی نواب کلن خاں کو پہنچایا۔ اس کے بعد مولانا کافی، نواب خان بہادر خاں (نبیرہ حافظ رحمت خاں روہیلہ)کے پاس بریلی تشریف لے گئے۔ (11)
جب مولانا کافی علیہ الرحمۃ والرضوان آنولہ سے بریلی پہنچے تو وہاں وطن کو انگریزوں اور انگریز نوازوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نواب خان بہادر خاں اور امام المجاہدین مولانا سرفراز علی صاحب سے مشورے ہوئے اور پھر جنرل بخت خاں کی ماتحتی میں جو فوج برییم سے دہلی جا رہی تھی اُسی فوج کے ساتھ آپ مراد آباد واپس ہوئے۔ (12)
سید محبوب حسین سبزواری مراد آبادی لکھتے ہیں :
’’جس وقت مراد آباد میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ بریلی چھاؤنی کی ہندستانی سپاہ نے بغاوت کر دی ہے اس خبر کے ملنے پر 29پلٹن مقیم مراد آباد نے بغاوت کر کے سرکاری خزانہ اور ہتھیار لوٹ لیے۔ اس کے بعد شہر میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور شہر کے عوام جو انگریز کی غلامی سے ناراض تھے تلواریں کھینچ کر فخر سے نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑے اور انگریزوں پر حملہ کرنا اور جگہ جگہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ علما حضرات بھی اپنی درس گاہوں سے نکل کر عوام کے ساتھ جہاد میں شریک ہو گئے۔ انگریز اس ہنگامے سے ڈر کر میرٹھ اور نینی تال فرار ہو گئے۔
حالات کے پیشِ نظر علما حضرات نے فوری انتظام کے لیے ایک جنگی مشاورتی کمیٹی قائم کی جو شہر کا انتظام بھی کرے گی اور جنگ کے لیے وسائل و ذرائع بھی فراہم کرے گی۔ اس کمیٹی کے ایک رکن مولوی سید کفایت علی کافی تھے۔ اس کمیٹی نے ضلع مراد آباد کے اندر اور باہر جہاد کے فتوے تقسیم کرائے، جن میں انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کو جہاد کا شرعی حکم دیا گیا تھا۔ اس غیر منظم جہاد کو ناکام کرنے کے لیے نواب رام پور اور کچھ مقامی غداروں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس ناکامی کے نتیجے میں مسلمانانِ مراد آباد کو بقول سر سید احمد خاں جس تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا وہ ناقابلِ بیان ہے۔
اسی دوران 29پلٹن اور جوش میں بھرے نوجوان عوام نے باہمی مشورے سے نواب مجد الدین خاں عرف مجو خاں کو حاکمِ مراد آباد مقر ر کیا، اور عباس علی خاں کو افسر توپ خانہ مقر ر کیا، مگر توپیں موجود نہیں تھیں، اور مولوی سید کفایت علی کافی کو ’’صدر شریعت‘‘ مقر ر کیا۔ علما کے فتوے نے عوام میں ہر طرف آگ بھڑکا دی تھی۔ روہیل کھنڈ میں مسلمانوں کی برہمی کا ایک خاص سبب یہ بھی تھا کہ مذہب میں مداخلت ہونے لگی تھی۔‘‘ (13)
31 مئی کو بریلی چھاؤنی میں بغاوت کے نتیجے میں خان بہادر خاں روہیلہ نبیرہ حافظ رحمت خاں روہیلہ کو روہیل کھنڈ کا نواب بنایا گیا۔ اس کے بعد کے حالات بیان کرتے ہوئے سید محبوب حسین سبزواری مراد آبادی لکھتے ہیں :
’’اسی دوران نواب خان بہادر خاں کو ایک خط مولوی سید کفایت علی کافی کا مراد آباد کے متعلق ملا جس میں نواب رام پور کی قوم دشمن سرگرمیوں کا تفصیل سے ذکر تھا۔ نواب صاحب نے یہ خط جنرل بخت خاں کو دکھایا اور نواب رام پور کی غدارانہ حرکتوں سے آگاہ کیا اور مراد آباد میں رام پور کی فوجی مداخلت سے جو حالات پیدا ہو چکے تھے ان کے سد باب کی گفتگو کی۔ نواب صاحب(خان بہادر خاں روہیلہ)نے جنرل بخت خاں کے مشورے سے محمد شفیع رسال دار کو مع رسالہ مراد آباد جا کر قیام کرنے کا مشورہ دیا(اخبار الصنادید، از حکیم نجم الغنی خاں رام پوری)رسال دار محمد شفیع آنولہ ہوتے ہوئے مراد آباد پہنچے اور خود اپنے مکان میں قیام کیا اور اپنے رسالہ کو جہاں اس وقت انٹر کالج محلہ مغل پورہ میں واقع ہے، پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ دورانِ قیام، مراد آباد کے کچھ جوشیلے جوانوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے اپنے رسالہ سے (فوجی)تربیت دلائی، اور نمبر 29پلٹن، مقیم مراد آباد جو باغی ہو گئی تھی، اس کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ ‘‘ (14)
انگریزوں کی طرف سے نواب رام پور یوسف علی خاں کو مراد آباد فتح کرنے کی اجازت مل چکی تھی اور اسی بنیاد پر نواب یوسف علی خاں نے مراد آباد کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ خان بہادر خاں حاکم روہیل کھنڈ کے لیے نواب رام پور کی مداخلت ناقابلِ برداشت تھی۔ مولانا کافی علیہ الرحمہ کے ذریعہ خان بہادر خاں روہیلہ کو حالات کا پورا علم ہو گیا تو نواب مجو خاں حاکم مراد آباد کی امداد کے لیے خان بہادر خاں نے جنرل بخت خاں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ دہلی جاتے ہوئے مراد آباد کا معرکہ سر کر لیں۔ نواب رام پور کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ جنرل بخت خاں کی فوج سے مقابلہ کرے۔ اس لیے اس نے مراد آباد سے اپنا انتظام اٹھا لیا اور اپنے افسر واپس بلا کر میدان خالی کر دیا۔ مگر جنرل بخت خاں جب 17 جون کو مراد آباد سے دہلی چلے گئے تو پھر نواب رام پور نے مداخلت کی اور 24 جون 1857ء کو دوبارہ اپنی فوج مراد آباد بھیج دی۔ اس مرتبہ نواب مجو خاں کے ساتھ مصالحت کی راہ اختیار کی جس کے نتیجے میں وہ ریاست رام پور کی طرف سے سنبھل کے حاکم مقر ر ہو گئے۔ بعد میں حالات ایسے رونما ہوئے کہ انگریزوں نے بے دردی کے ساتھ نواب مجو خاں کو بڑے اذیت ناک طریقے پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ (15)

سقوطِ مراد آباد اور مولانا کی گرفتاری

25 اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج سے مراد آباد پر حملہ آور ہوا۔ نواب مجو خاں کی سرکردگی میں مجاہدین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور مراد آباد کو انگریزوں سے بچانے کے لیے اپنی جانیں لڑا دیں۔ نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر بندوق چلاتے نظر آئے۔ سات ہتھیار بند سپاہی ان کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجے گئے، مگر وہ گرفتار نہ کر سکے، آخر وہیں انھیں گولی مار دی گئی اور انھوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
مراد آباد کے سقوط کے ساتھ ہی تمام قائدین آزادی اور انقلابی رہ نما منتشر ہو گئے، جو حکومت کے ہاتھ پڑے وہ تختہ دار پر چڑھا دیے گئے، یا حبس دوام بہ عبورِ دریائے شور کی سزا سنائی گئی۔ (16)
اس جنگ آزادی کی ناکامی کے دو بہت پرانے اسباب تھے : اول یہ کہ کوئی مرکزی تنظیم نہیں تھی جو جنگ پر قابو پاتی، دوسرے، جنگ کو ناکام بنانے کے لیے مقامی غدار بہت ہی کوشاں تھے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر مجاہدین کو زبردست جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان غداروں کی مدد سے انگریز دوبارہ 24 اپریل1858ء کو شہر مراد آباد اور اس کے مضافات پر قابض ہو گئے اور پھر عیسائی تہذیب کا وہ ننگا ناچ شروع ہوا جس کو تاریخِ عالم کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ع:
جسے دیکھا حاکمِ وقت نے، کہا یہ بھی قابلِ دار ہے
اس وقت انگریزوں نے غداروں کو ایک اور لالچ یہ دے رکھا تھا کہ جو شخص کسی بھی مجاہد کو گرفتار کرائے گا اور پھانسی دلوائے گا، اس کی جائداد کا بڑا حصہ اس غدار کو دے دیا جائے گا۔ اس لالچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی مجاہد ایسا نیں7 بچا جس کو غداروں نے گرفتار کروا کے پھانسی نہ دلوا دی ہو۔ جتنے بھی ساہو صاحبان ہیں یہ اسی غداری کی پیداوار ہیں۔ مولانا سید کفایت علی کافی کو بھی ایک کمینہ صفت انسان نے شہید کرایا، پہلے مولانا وہاج الدین عرف منو کو شہید کرایا، پھر مولانا سید کفایت علی کافی صاحب کو۔ اس غدارِ قوم و وطن کا نام فخر الدین کلال تھا۔ (اخبار الصنادید از حکیم نجم الغنی خاں رام پوری)
مولانا کافی جنگ کے بعد اپنے مکان میں روپوش تھے کہ اس ظالم نے مخبری کر کے گرفتار کرایا۔ اس نمک حرام نے انگریز کلکٹر سے جا کر مخبری کی اور اس شرط پر گرفتار کرانے کا وعدہ کیا کہ انعام میں مولانا کی تمام جائداد اس کو دے دی جائے گی۔ یہ وعدہ لے کر وہ انگریزی فوج کے دستہ کے ہمراہ مولانا کافی علیہ الرحمہ کے مکان پر پہنچ کر آواز دی۔ ملازم نے مولانا صاحب سے اجازت لے کر دروازہ کھول دیا۔ فوج کے جوان اندر داخل ہوئے۔ آپ تخت پر تشریف فرما تھے، اسی حالت میں فوجیوں نے انھیں گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد اس غدار کو آپ کی جائداد میں سے ایک بڑا حصہ دے دیا گیا اور اس کا نام انگریز کے وفاداروں کی کتاب میں درج کر لیا گیا۔
گرفتاری کے بعد فوری مقدمہ کی کار روائی شروع ہو گئی۔ اس وقت انگریزوں کی کچہری کا یہ عالم تھا کہ کوئی ملزم کے بیان کو جس طرح چاہے تحریر کر دے، ملزم کو بیان دیکھنے یا وکیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی صفائی پیش کرنے کی کوئی اجازت ہوتی تھی۔ اس وقت انگریزوں نے ایک کمیشن قائم کیا تھا جو مقدمات کی سماعت کرتا تھا اور جج صاحبان بھی اکثریتی طبقہ کے وہ لوگ تھے جو ملک اور قوم سے غداری کر رہے تھے۔ 4 مئی1858ء کو اس ظالم و جابر انگریز مجسٹریٹ کے رو برو مولانا کافی کا مقدمہ پیش ہوا اور بہت جلد ہی فیصلہ سنا دیا گاس۔ (اخبار الصنادید)
مقدمہ کی پوری تفصیل درج ذیل ہے :

روداد مقدمہ مولانا سید کفایت علی4 مئی1858ء: مقدمہ مسٹر جان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن واقع 4 مئی 1858ء

سرکاری مدعی بنام مولوی کفایت علی کافی

فیصلہ عدالت کمیشن چوں کہ اس مدعا علیہ ملزم نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور عوام کو قانونی حکومت کے خلاف ورغلایا اور شہر میں لوٹ مار کی۔ ملزم کا یہ فعل صریح بغاوتِ انگریزی سرکار ہوا، جس کی پاداش میں ملزم کو سزائے کامل دی جائے
حکم ہوا مدعا علیہ پھانسی سے جان سے مارا جائے۔
‘‘ فقط :
دستخط انگریزی
(جان انگلسن)
مئی 1858ء

مقدمہ کی پوری کار روائی صرف دو دن میں پوری کر دی گئی۔ 4 مئی کو مقدمہ مجسٹریٹ کے رو برو پیش ہوا اور 6 مئی کو حکم لگا دیا گیا۔ (17)

شہادت

16 رمضان1274ھ مطابق30 اپریل 1858ء کو مولانا کافی علیہ الرحمہ گرفتار ہوئے، ان پر انگریزی حکومت کی بغاوت کے تعلق سے مختلف الزامات عائد کیے گئے۔ سرسری اور نمائشی کار روائی، ضابطہ کی خانہ پری کے لیے ہوئی، اس کے بعد اذیت ناک سزا اور پھانسی کا حکم صادر ہوا۔ مولانا کافی علیہ الرحمہ نے جیسے ہی حکم سنا، نہایت خوشی کا اظہار فرمایا۔ سزائیں شروع ہوئیں، جسم پر گرم گرم لوہا(استری)پھیری گئی، زخموں پر نمک مرچ چھڑکا گیا۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا، مگر آپ ان اذیت ناک سزاوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ جھیلتے رہے، صبر و شکر سے کام لیتے رہے اور اس نازک موقع پر بھی آپ کے پائے استقلال میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو گئے تو انھوں نے اپنی سزاوں کے ترکش کا آخری تیر نکالا اور برسرِ عام جیل کے سامنے چوک مراد آباد میں اس عاشقِ رسول مردِ مجاہد کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ جب آپ کو سولی دینے کے لیے تختہ دار کی جانب لے جایا گیا تو آپ کی زبان پر ایک تازہ نعتیہ غزل تھی جسے بڑے ترنم اور وجد و شوق سے بلند آواز میں پڑھ رہے تھے۔
کفن دفن کے سلسلے میں عوام کے درمیان مختلف روایات گردش کرتی ہیں۔ ایک روایت حضرت مولانا محمد عمر صاحب نعیمی کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ مولانا کافی شہید علیہ الرحمہ کا جسمِ اطہر قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ یہ واقعہ مولانا محمد عمر صاحب نعیمی کے مطابق مولانا کافی علیہ الرحمہ کی شہادت کے تقریباً 30 سال بعد کا ہے کہ قبر کسی وجہ سے کھل گئی تھی تو دیکھا کہ حضرت مولانا کافی شہید علیہ الرحمہ کا جسم اطہر شہادت کے وقت جیسا تھا ویسا ہی موجود ہے۔ حشرات الارض سے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ جسمِ اطہر کے محفوظ ہونے کی خبر سن کر عوام کا بہت بڑا مجمع دیکھنے کے لیے جمع ہو گیا۔ مولانا محمد عمر نعیمی صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے نانا شیخ کرامت علی ٹھیکے دار نے جسمِ اطہر کو جیل خانہ کے پیچھے دفن کر دیا۔
اور اسی واقعہ کی دوسری شہادت جناب مولانا سیدظفر الدین احمد مرحوم بن حضرت مولانا سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سڑک اس مقام سے نکالی جا رہی تھی، جہاں حضرت مولانا کافی علیہ الرحمہ کا مزار تھا اور مزار کا نشان نمایاں نہیں تھا۔ مزدور کھدائی کا کام کر رہے تھے کہ آپ کی قبر کھل گئی اور مزدوروں کا پھاو ڑا مولانا کافی علیہ الرحمہ کی پنڈلی پر لگا۔ جسمِ اطہر اسی طرح تر و تازہ تھا جیسا شہادت کے وقت تھا۔ بڑے بوڑھے لوگوں نے چہرہ مبارک دیکھ کر شناخت کر لیا اور بھاری تعداد میں لوگ زیارت کرنے دوڑ پڑے۔ مزدوروں نے انجینیرسے بیان کیا۔ انجینیر خود آیا اور میت کو صحیح سلامت دیکھ کر ڈر گیا اور عوام کو ہٹا کر بڑے احترام کے ساتھ قبر پر دوبارہ تختہ وغیرہ لگوا کر بالکل ٹھیک کرا دیا اور سڑک کا رخ تبدیل کر دیا جس کی وجہ سے آج بھی اس مقام پر سڑک کچھ ٹیڑھی ہے۔ جسم کسی دوسری جگہ منتقل نہیں ہوا۔
مراد آباد کے لوگ مولانا سید ظفر الدین نعیمی مراد آبادی کے بیان سے زیادہ اتفاق کرتے ہیں، اور اس بیان کو مولانا امداد صابری دہلوی صاحب نے بھی اپنی کتاب ’’شہیدانِ وطن مراد آباد‘‘ میں تحریر کیا ہے۔ (19)
٭٭٭
حواشی اور حوالے

(1) شاہ ابو سعید مجددی رام پوری: آپ کی ولادت 2 ذی قعدہ1196ھ 1781ء کو رام پور میں ہوئی۔ والد کا نام حضرت شاہ صفی القدر تھا۔ آپ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کی نسل سے ہیں۔ گیارہ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ علومِ عقلیہ و نقلیہ مولانا شرف الدین رام پوری مفتیِ عدالت رام پور، اور شاہ رفیع الدین دہلوی سے حاصل کیے۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے سندِ حدیث حاصل کی۔ اپنے والد ماجد سے سلسلہ نقش بندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے۔ پھر والد ماجد کے اشارے پر حضرت شاہ درگاہی رام پوری(متوفی1226ھ 1811ء)سے طریقہ قادریت میں بیعت کی۔ بارہ سال مسلسل ان کی خدمت میں حاضر رہے اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔ 1225ھ میں دہلی میں بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ غلام علی دہلوی(متوفی1240ھ)کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ چند ماہ میں سلوکِ مجددی کی تکمیل کر کے سلسلہ نقش بندیہ مجددیہ کی خلافت سے بہرہ ور ہوئے۔ شیخ و مرشد ہونے کے باوجود شاہ غلام علی دہلوی علیہ الرحمہ آپ کی بڑی قدر کرتے، یہاں تک کہ جب کبھی آپ سفر سے واپس آتے تو شاہ صاحب استقبال کے لیے باہر نکلتے۔ جب شاہ غلام علی صاحب بیمار ہوئے تو آپ کو لکھنو سے بلا کر خانقاہ کی خدمت سپرد کی۔ 1249ھ میں حج و زیارت سے شادکام ہوئے۔ عید الفطر کے دن1250ھ بروز یک شنبہ عصر و مغرب کے درمیان ٹونک میں وصال ہوا۔ لاش تابوت میں رکھ کر دہلی لائی گئی اور چالیس روز بعد حضرت شاہ غلام علی دہلوی قدس سرہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ کے دونوں فرزند شاہ احمد سعید مجددی اور شاہ عبد الغنی مجددی علومِ ظاہر و باطن سے آراستہ ہو کر امام و مقتدا ہوئے۔
(تذکرہ علمائے اہلِ سنت، از: مولانا محمود احمد قادری، ص:19 20، مطبوعہ سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ، فیصل آباد، پاکستان، 1992ء)
(2) شیخ مہدی علی خاں ذکی مراد آبادی، اردو کے مشہور ترین شاعر شیخ امام بخش ناسخ لکھنوی کے شاگرد تھے، لکھنو اور رام پور کے درباروں سے وابستہ رہے۔ لکھنو سے ’’ملک الشعرا‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ اپنے دور کے نام ور شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ مراد آباد میں آپ کے چار شاگرد تھے :(1)مولانا سید کفایت علی کافی (2)مولوی محمد حسین تمنا (3)مولانا معین الدین نزہت والد ماجد حضرت صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی و صاحبِ تفسیر خزائن العرفان (4)مولانا شبیر علی خاں تنہا۔ یہ چار یارِ باصفا مشہور تھے۔ شیخ ذکی مراد آبادی کا بہتر سال کی عمر میں 1281ھ 1864ء میں انتقال ہوا۔
(علمائے ہند کا شان دار ماضی، ج:4، ص:376)
(3) چند ممتاز علمائے انقلاب1857ء، از:مولانا یٰسین اختر مصباحی، ص:91 مطبوعہ دار القلم دہلی1428ھ 2007ء
(4) مراد آباد تاریخ جد و جہد آزادی، از:سید محبوب حسین سبز واری، ص:141مطبوعہ اسلامی بک ہاو س، مراد آباد، مارچ2000ء
(5) الملفوظ، مرتبہ:مفتیِ اعظم ہند علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی، ج:2، ص:39، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، 1427ھ 2006ء)بہ حذف و تلخیص)
(6) انگریز نوازی کی حقیقت، از: مولانا یٰسین اختر مصباحی، ص:60مطبوعہ دار القلم، دہلی1428ھ 2007ء
(7) مطالعہ بریلویت، ج:1، ص:235 236حافظی کتب خانہ، دیوبند
(8) مقالہ محمد ایوب قادری، بی اے، مطبوعہ رسالہ العلم، کراچی، شمارہ:اپریل تا جون1957ء
(9) چند ممتاز علمائے انقلاب1857ء، ص:99
(10) ترجمان اہلِ سنت کراچی، جنگ آزادی 1857ء نمبر، ص:97
(11) ایضاً، ص:167 168
(12) ایضاً، ص:97
(13) مراد آباد تاریخ جد و جہد آزادی، از:سید محبوب حسین سبز واری، بحوالہ چند ممتاز علمائے انقلاب 1857ء، از: مولانا یٰسین اختر مصباحی، مطبوعہ دار القلم دہلی1428ھ 2007ء
(14) مراد آباد تاریخ جد و جہد آزادی، از:سید محبوب حسین سبز واری، ص:203مطبوعہ اسلامی بک ہاو س، مراد آباد، مارچ2000ء
(15) چند ممتاز علمائے انقلاب1857ء، از:مولانا یٰسین اختر مصباحی، مطبوعہ دار القلم دہلی1428ھ 2007ء
(16) (الف)جنگ آزادی نمبر، العلم، کراچی، شمارہ جون1957ء
(ب)ترجمان اہلِ سنت کراچی، جنگ آزادی 1857ء نمبر، ص:97 98
(17) مراد آباد تاریخ جد و جہد آزادی، از:سید محبوب حسین سبز واری، ص:141تا 142، بحوالہ چند ممتاز علمائے انقلاب 1857ء، از: مولانا یٰسین اختر مصباحی، مطبوعہ دار القلم دہلی، ص:95 97
(18) چند ممتاز علمائے انقلاب 1857ء، ص:94 95
(19) مصدر سابق، ص:98 99
٭٭٭
ماخذ:
http://khtmenabowt.blogspot.in/2011/05/1857-1278-1285-1274-1858-1279-1308-1289.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید