FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

شباب ​

 

 

 

                   صبا اکبر آبادی

 

 

 

 

 

 

اے رب ذوالجلال ، قلم کو جمال دے

تحریر کو حسیں بنا خد و خال دے

نقطوں کو حُسن اور کشش کو کمال دے

ایک ایک حرف نور کے سانچے میں ڈھال دے

 

تحریر حمد کو تری تائید چاہئیے

ہر دائرے کو مرکز توحید چاہئیے

 

 

اے بے مثال ، رنگ مثالی ملے مجھے

بحر سُخن میں آب لآلی ملے مجھے

کوئی بیاں نہ لطف سے خالی ملے مجھے

ساز رقم میں سوز بلالی ملے مجھے

 

حاجت لبوں کی ہو نہ ضرورت زبان کی

آواز ہو صریر قلم میں اذان کی

 

 

اے کردگار ، جہل سے اپنے ہوں منفعل

ہوں جستجوئے علم کی کاوش میں مستقل

ہے کم سوادیوں سے خود آگاہ میرا دل

اہل ادب کے سامنے رہتا ہوں میں خجل

 

کیا جاؤں صاحبان قلم کے حضور میں

بھٹکا ہوا ہوں کوچۂ بین السطور میں

 

 

منطق سے آشنا ہوں نہ علم کلام سے

کہتا نہیں ہوں شعر کسی اہتمام سے

کرتا ہوں عام بات ہر اک خاص و عام سے

ہر دم شراب جہل چھلکتی ہے جام سے

 

موزونیت جو دی ہے تو حسن بیاں بھی دے

لکنت نہ جس میں آئے ، مجھے وہ زباں بھی دے

 

 

ہے ادعائے فن نہ مجھے دعویِ کمال

ایک ایک شعر پر ہے غلطی کا احتمال

ہے عشق سے وقوف نہ آگاہی جمال

زخموں کا رنج ہے نہ کوئی فکر اندمال

 

منزل حیات میں کوئی پیش نظر نہیں

کس سمت جا رہا ہوں مجھے کچھ خبر نہیں

 

 

تحریر کے لئے میں اٹھاتا ہوں جب قلم

پیش نگاہ ہوتی ہیں سو صورتیں بہم

منزل مری کدھر ہے اٹھاؤں کدھر قدم

سینے میں فرط یاس سے رُکنے لگا ہے دم

 

تحریر میں نہ ربط نہ مقصد بیان میں

سو لغزشیں ملیں ہیں خود اپنی زبان میں

 

 

میں اور ماجرائے شہیدان کربلا

میں اور سیر گاہِ گُلستانِ کربلا

میں اور بیانِ شامِ غریبانِ کربلا

کج مج زباں سے مدحتِ سلطانِ کربلا

 

لکھنی ہے تشنگی شہِ عالی صفات کی

ہو جُنبشِ قلم میں روانی فرات کی

 

 

 

جو دل کی بات ہے نہیں ہوتی ہے وہ ادا

مفہوم ناتمام تو معدوم مدعا

نقصِ بیان پر ہیں پشیمانیاں بجا

ہر مصرع سو طرح سے لکھا اور مٹا دیا

 

طیبہ کی گفتگو میں بیانِ نجف تو ہو

جو بیت ہو وہ قابلِ بیت الشرف تو ہو

 

 

 

لکھنا ہے جلد جلد جو یہ ماجرائے غم

کیا کیجئے منہ سے خون اُگلنے لگا قلم

بھٹکائے دیتے ہیں مجھے منزل کے پیچ و خم

رکھیں مجھے معاف ادیبانِ ذی حشم

 

پہلا سا اب دماغ نہیں دل نہیں رہا

لرزش سے ہاتھ لکھنے کے قابل نہیں رہا

 

 

ایک ایک حرف ٹوکتا ہے برملا مجھے

ایک ایک لفظ کرتا ہے غم آشنا مجھے

اِک اِک کشش ہے جادہ راہِ خطا مجھے

آنکھیں دکھا رہا ہے ہر اِک دائرہ مجھے

 

ترچھے لگے ہیں زخم جو قلبِ دونیم پر

چلتا نہیں قلم بھی خطِ مستقیم پر

 

 

مقصود ہے جو مدحتِ شاہنشہِ اُمم

زمزم سے دھو کے آج اُٹھاتا ہوں پھر قلم

یارب میرے بیاں میں نہ ہو کوئی پیچ و خم

سیدھا ہو راستہ مرا منبر سے تا حرم

 

جو لفظ بھی ملے وہ نگینہ ملے مجھے

توفیقِ مدح شاہِ مدینہ ملے مجھے

 

 

میں کون؟ ایک بندہ عاصی خطا شعار

اعمالِ بد سے تا دمِ تحریر شرمسار

عصیاں ہیں بے حساب ، خطائیں ہیں بے شمار

کیسے ملے گا محفل ِ مدحت میں مجھ کو بار

 

اِک بار پھر شباب کی تجدید چاہئے

پیری کا دَور ہے تری تائید چاہئے

 

 

آواز میں گرج ہے نہ لہجے میں زِیر و بم

الفاظ میں اثر ہے نہ قابو میں ہے قلم

چہرے پہ رنگ و روپ نہ آنکھوں میں اپنی دَم

دنداں دَہن سے ہو گئے رُخصت کھُلا بھرم

 

کیا ہو گیا شباب کے عالم سے چھوٹ کے

اب منہ سے بات بات نکلتی ہے ٹوٹ کے

 

 

تخیل میں بہاؤ نہ جذبات میں ہے رَو

شمعِ خیال ماند پڑی ہے کہاں کی ضَو

اِک شعلہ نحیف ہے اور آندھیاں ہیں سو

ہر دَم چراغِ زیست کی کم ہو رہی ہے لو

 

مہلت نہ دن کی ہے نہ اب اُمید رات کی

بُجھنے ہی کے قریب ہے مشعل حیات کی

 

 

لاؤں کہاں سے وہ جو روانی قلم کی تھی

کیا دھُوم اِک زمانے میں حُسنِ رقم کی تھی

نفع و زیاں کا غم نہ خبر بیش و کم کی تھی

خیرات سب وہ اپنی جوانی کے دم کی تھی

 

پہروں یہ سوچتا ہوں کہ اللہ ! کیا لکھوں

نوحہ لکھوں شباب کا یا مرثیہ لکھوں

 

 

پیری میں یاد آتی ہے رنگینی شباب

باتوں میں ایک نشہ تھا آنکھوں میں تھی شراب

رُخسارِ پُر بہار تھے کھلتے ہوئے گلاب

شاداب تھی حیات جوانی تھی کامیاب

 

بٹھلا دیا تھا وقت نے اس شہ نشیں پر

اِک پاؤں آسماں پہ تھا اِک زمین پر

 

 

صحرا تھے گردِ راہ تو دریا تھے آب جُو

بجلی کی طرح دوڑتا تھا جسم میں لہو

ہنگامۂ نشاط و بہاراں و رنگ و بو

نغمے ، ہجومِ کیف ، رفیقانِ ہا و ہُو

 

اشعار لب پہ کیسی روانی کے ساتھ تھے

کیا غلغلے بہارِ جوانی کے ساتھ تھے

 

 

وہ عُمر ، عُرفِ عام میں کہیئے جسے شباب

افسانۂ حیات کا تھا اِک حسین باب

اِک اِک نفس میں نغمہ ، ہو جس طرح سے رباب

شورش میں موجِ بحر ، نزاکت میں جوں حباب

 

ایک ایک سانس موجۂ سیلاب رنگ تھی

اعصاب میں صلابتِ فولاد رنگ تھی

 

 

اللہ ! وہ شباب کا عالم کدھر گیا

شیرازۂ تخیل رنگیں بکھر گیا

مجھ کو خمارِ ضعف دیا اور گذر گیا

تھا دو گھڑی کا نشہ ، چڑھا اور اُتر گیا

 

لے کر متاعِ عیش کو عمرِ رواں گئی

اب ڈھونڈتے رہو کہ جوانی کدھر گئی

 

 

عُمرِ بشر میں کیا ہے مشیت کا انتظام

طفلی میں بے بسی تو لڑکپن میں دھُوم دھام

پھر عالمِ شباب میں رنگینیاں تمام

پیری میں پھر اجل کی تمنائیں صبح و شام

 

انسان کی حیات کے بھی طُرفہ طور ہیں

کل اور تھے مزاج مگر آج اور ہیں

 

 

رنگِ شباب ہوتا ہے سو طرح جلوہ گر

پڑتی ہے راستوں پہ اچٹتی ہوئی نظر

رہتی نہیں ہے کچھ بھی بد و نیک کی خبر

ہوتا ہے دل پہ خون کی گرمی کا وہ اثر

 

حدت شباب کی جو گذرتی ہے ظرف سے

انساں کو ہاتھ سینکنے پڑتے ہیں برف سے

 

 

عقل و خرد کی بات بہت بے مزا لگے

ٹوکے اگر خطا پہ کوئی تو بُرا لگے

دِل کو اگر مرض ہو تو عینِ شفا لگے

بادِسموم بھی ہو تو بادِ صبا لگے

 

گُل ہی نہیں چڑھے نگہِ انتخاب میں

کانٹے بھی خوشنما نظر آئیں شباب میں

 

 

طاقت کا زعم اور تب و تاب کا غرور

کچھ فکر حال کی ہو نہ آئندہ کا شعور

مدہوشیاں ، ترنگ ، ترنم ، خوشی ، سرور

رہتی ہے عقل عہدِ جوانی میں دُور دُور

 

غمہائے روزگار کو گردانتے نہیں

کیا دَور آنے والا ہے یہ جانتے نہیں

 

 

شوخی میں لطف اور شرارت میں انبساط

نیکی کی فکر اور نہ بُرائی کی احتیاط

ہم مشربوں سے دوستی و اُنس و ارتباط

عقبٰی کا غم نہ تھا ، غمِ دنیا کی کیا بساط

 

دل حد فہم و ہوش سے آگے بڑھا رہے

بے جام و بادہ کیفِ جوانی چڑھا رہے

 

 

دَوزخ کا خوف دل میں نہ جنت کی آرزو

عصیاں سے احتراز نہ نیکی کی جستجو

رنگوں کی اِک دھنک سی نمودار چارسُو

ٹھنڈک دل و نظر کی حسینانِ شعلہ رُو

 

آمادہ ہر نگاہ حسینوں کی لاگ پر

جنت کا احتمال کلیجے کی آگ پر

 

 

کیا کیا کروں شباب کی رنگینیاں بیاں

قدموں میں کہکشاں تھی تو رگ رگ میں بجلیاں

پیری کا احتمال نہ اندیشۂ خزاں

دل کو یہ اعتبار رہیں گے یونہی جواں

 

دریائے خوں کی تَن سے روانی نہ جائے گی

جیسے تمام عمر جوانی نہ جائے گی

 

 

انسان کی یہ عُمر بھی اِک اِمتحان ہے

جس کا مآل حشر ہے وہ داستان ہے

ظاہر میں عیش گاہ یہ سارا جہان ہے

آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

 

سامان ہر طرف ہے لگاوٹ کا لاگ کا

ایسے میں کون غم کرے دَوزخ کی آگ کا

 

 

ہاں یہ عمومیت ہے شباب عوام کی

تمیز جس میں ہو نہ حلال و حرام کی

تخصیص ہے مگر یہ خدائی نظام کی

بے داغ ہو حیات رسول و امام کی

 

تقدیس کبریا کی گواہی کہیں جسے

آئینۂ جمالِ اِلٰہی کہیں جسے

 

 

آیا زمینِ مکہ پہ وہ آخری نبی

تھا جو ازل سے حاصل منشائے ایزدی

دُر یتیم ، گوہرِ گنجینۂ خفی

نوعِ بشر کے واسطے ظلمت میں روشنی

 

ایسا رسول طاہر و اطہر کہیں جسے

پاکیزگی کا مہر منور کہیں جسے

 

 

صادق ، امین ، صاحبِ اخلاق با صفا

مقصودِ کردگار ، مشیت کا مدعا

تاجر ، سپاہی ، مصلحِ انسان و حق نما

جس کا شباب گلشنِ فردوس کی فضا

 

پیشِ نگاہ اس کے خدائی اصول تھے

کانٹے بھی اس کی راہ میں جنت کے پھول تھے

 

 

چالیس سال تک وہ ضیا بار زندگی

حق کی تجلیّوں سے پُر نور زندگی

آلائشِ حیات سے بیزار زندگی

وہ طاہر و مطہر و خود دار زندگی

 

ذہنی بلند و پست کو ہموار کر دیا

غارِ حرا کو مطلعِ انوار کر دیا

 

 

عادل بھی ، معتدل بھی ، شرافت کی جان بھی

سطحِ زمیں پہ رو کشِ ہفت آسمان بھی

وہ امن کا نقیب ، سراپا امان بھی

شاہنشہِ حیات بھی اور گلّہ زبان بھی

 

صحرائے مکہ ایک ورق علم ذات کا

اُمّی لقب ، علیم دلِ کائنات کا

 

 

ہادی ، نذیر اور مبشّر اسی کی ذات

آلودگیِ دھر میں طاہر اسی کی ذات

آیاتِ بندگی کی مفسّر اسی کی ذات

انساں پناہ اوّل و آخر اُسی کی ذات

 

اسرارِ کائنات کا محرم وہی تو ہے

تخلیقِ اوّلینِ دو عالم وہی تو ہے

 

 

آئینۂ جمال خدا وہ رُخِ حسیں

تاباں تجلیاتِ الٰہی سے وہ جبیں

انگشتریِ خلق کا وہ بے بدل نگیں

اس کے لئے خدائی کی سب نعمتیں بنیں

 

جلوہ نما ہوا وہی آدم کی روح میں

کشتی کا نا خدا بنا طوفانِ نوح میں

 

 

جس کی دعا خلیل نے مانگی وہی رسول

بالائے طور جس کی تجلّی وہی رسول

عیسٰی نے جس کی دی ہے گواہی وہی رسول

حق کی بہار ، جس کی جوانی وہی رسول

 

گونجی فضائے دہر درود و سلام سے

ہے دین کا شباب محمد کے نام سے

 

 

ایک ایک حرف اسم گرامی کا منتخب

ہے میم سے مشیّتِ حق کا ظہور سب

حا سے حبیبِ خاصِ خدا کا ملا لقب

پھر میم ہے معارفِ اسرار کا سبب

دیوانگئ کفر ملی جس سے خاک میں

دینِ مبیں کی دال ہے وہ اسمِ پاک میں

 

 

بعثت سے قبل دورِ جوانی کی آن بان

دامانِ زندگی پہ نہیں نقص کا نشان

ظاہر نَفس نفس سے تھی ہر دم خدا کی شان

اپنوں کا خیر خواہ تو غیروں پہ مہربان

 

تنہا تھے یہ رفیقِ جوانی کوئی نہ تھا

یکتائی شباب کا ثانی کوئی نہ تھا

 

 

غارِ حرا میں محوِ تفکر ادھر رسول

اور اس طرف کِھلا ابوطالب کے دل کا پھول

قلبِ محمدی کی تمنا ہوئی قبول

کعبے میں پہلی آیتِ حق کا ہوا نزول

 

کعبے کے پتھروں کو صبا چُومنے لگی

پیدا ہوئے علی تو فضا جھُومنے لگی

 

 

آغوشِ مصطفٰی میں جو آیا وہ نونہال

مہرِ مُنیرِ دین کے سائے میں تھا ہلال

تکمیلِ نُور ہو گئی اتنا بڑھا جمال

باقی تھے تربیت میں ابھی اور چند سال

 

آنے لگیں قریب حدیں جب شعور کی

جبریل لے کے آئے بشارت ظہور کی

 

 

خلعت پیمبری کا محمد (ص) کو مل گیا

جو غنچہ شاخِ گُل پہ نہاں تھا وہ کِھل گیا

سازِ شگفتگی سے دلِ کفر ہل گیا

تہذیب مُسکرائی ، غمِ مُستقل گیا

 

مُڑ کر خرد کے رُخ پہ کہانی پھر آ گئی

ایمان و آگہی پہ جوانی پھر آ گئی

 

 

پہلے رفیقِ زیست نے ایماں کیا قبول

پھر منصبِ عظیم علی کو ہوا حصول

ہوتا رہا جو وحیِ خداوند کا نزول

کِھلتے چلے گئے چمنستانِ دیں کے پھُول

 

آتا گیا شباب محمد(ص) کے دین پر

بنتا رہا ستاروں کا جھُرمٹ زمین پر

 

 

اِک اِک ستارہ رو کشِ مہتاب و آفتاب

ایک ایک قلب صدق و محبت کا ایک باب

ایک ایک دل نگاہِ رسالت کا انتخاب

اِک اِک نظر خلوص و عمل کی کھُلی کتاب

 

ایک ایک دل میں عشق رسالت مآب کا

ایک ایک لمحہ دینِ خدا کے شباب کا

 

 

صدیوں کے جو غلام تھے آزاد ہو گئے

صحرا نشیں علوم کے اُستاد ہو گئے

انسانیت کے سارے سبق یاد ہو گئے

حکمت کے جو کھنڈر تھے وہ آباد ہو گئے

 

ریگِ رواں کے ساتھ روانی تھی علم کی

اسلام کا شباب جوانی تھی علم کی

 

 

پیرانِ کُفر اس کی جوانی سے بیقرار

ظلمت زمین ڈھونڈ رہی تھی پئے مزار

جب کوئی جبر و جور نہ آیا بروئے کار

ٹھنڈے بُتوں کو خوف سے چڑھنے لگا بُخار

 

اصنامِ کعبہ لرزہ بر اندام ہو گئے

لب مصطفٰے کے مہبطِ الہام ہو گئے

 

 

سائے میں مُصطفٰے کے ہوئے مُرتضٰی جواں

مسرور تھا خود اپنی ریاضت پہ باغباں

گرنے لگیں جو کُفر کے خرمن پہ بجلیاں

اعدائے دینِ حق کے دِلوں سے اُٹھا دھُواں

 

ایسا دھُواں کہ کعبہ سیہ پوش ہو گیا

مکے کا ذرہ ذرہ ستم کوش ہو گیا

 

 

 

بھرپُور جب شباب پہ آیا ستم کا دَور

باقی کوئی بھی امن و اماں کا رہا نہ طور

ترکِ وطن کا مسئلہ آیا جو زیرِ غور

اس کے علاوہ راستہ کوئی نہیں تھا اور

اعزاز یہ دیا شب ہجرت رسول نے

سونپی علی کو اپنی نیابت رسول نے

 

 

وہ نائبِ رسول وہ تیغ و تبر کی رات

وہ نفسِ مطمئن وہ سکوں حاصلِ حیات

وہ بسترِ رسول ، وہ گہوارۂ نجات

وہ نیند ، جس کو دیکھ کے خاموش کائنات

 

کیا اہتمامِ خواب گہِ مرتضٰے کا تھا

بستر جو تھا رسول کا تکیہ خدا کا تھا

 

 

ناکام سازشوں نے اُٹھائی جو زک پہ زک

تھی فکرِ انتقام مدینے سے شام تک

ضربت علی پہ مسجدِ کوفہ میں بے جھجک

تھرا گئی زمین لرزنے لگا فلک

 

تازہ دلوں پہ گھاؤ تھے بدرو حنین کے

دشمن نبی کے ، ہو گئے دشمن حسین کے

 

 

وہ فاطمہ کی گود کا پالا ہوا حسین

کردارِ مرتضٰی سے سنبھالا ہوا حسین

حق کی تجلیوں سے اُجالا ہوا حسین

قرآن کے لباس میں ڈھالا ہوا حسین

 

ایمان یہ ہے حاصلِ ایماں حسین تھے

دنیا میں بولتا ہوا قرآں حسین تھے

 

 

نانا کا حِلم ، باپ کی قوت ، حَسن کی خُو

جو مصطفٰے کا خون ، رگوں میں وہی لہو

خود دار ، خود شناس ، حق آگاہ ، صُلح جُو

ایمان کا شباب مسلماں کی آبرو

 

سبطِ محمد عربی ، ذی شرف حسین

سلطانِ دین و ابنِ امیرِ نجف حسین

 

 

ہونے لگی جو ظلم کی یلغار دین پر

شیطانیت کی فوج اُتر آئی زمین پر

پڑتی تھی گرد مُصحفِ دینِ مبین پر

لہرائے شک و وہم کے سائے یقین پر

 

جب اہلِ ظُلم ، ظُلم پہ مغرور ہو گئے

شبیر بھی دفاع پہ مجبور ہو گئے

 

 

چھوڑا مدینہ ، جانبِ کرب و بلا چلے

ہمراہ لے کے قافلۂ اقربا چلے

انصارِ سر فروش بہ عزمِ وغا چلے

ایسے چلے بہشت کی جیسے ہوا چلے

 

ناقوں پہ محذراتِ حرم کو لئے ہوئے

عباسِ نامدار علم کو لئے ہوئے

 

 

بخشا تھا جو نبی نے علی کو وہی عَلَم

اللہ رے عَلَم کی بلندی زہے حشم

ایسا علم کہ پشتِ فَلَک سامنے تھی خَم

نصرت نے لیں بلائیں پھر پَرے کی دم بدم

 

شقّے سے سربلندی دیں آشکار تھی

پرچم پہ زُلفِ حور بہشتی نثار تھی

 

 

کیا کہئے اس عَلَم کا علُو ، عظمت و کمال

اُونچا ہو اس سے طائرِ طوبٰی یہ کیا مجال

ظاہر تھی اس سے شانِ خداوندِ ذوالجلال

اس کو اُٹھا کے چلتا تھا شیرِ خدا کا لال

 

اس سے عیاں مشیتِ ربِ عظیم تھی

چوبِ علم نہیں تھی عصائے کلیم تھی

 

 

پنجے میں اس کے پنجتنی نُور جلوہ گر

وہ آب و تاب تھی کہ ٹھہرتی نہ تھی نظر

حیران ہو کے دیکھتے تھے اس کو دیدہ ور

محجوب آفتاب تھا شرمندہ تھا قمر

 

اہلِ زمیں نہیں ، نگراں آسمان ہے

کیسے نہ ہو حَسِیں ، حُسینی نشان ہے

 

 

رفعت ہے زورِ بازوئے عباس کی گواہ

خِیرہ شروں کی اس پہ پہنچتی نہیں نگاہ

فطرت ہے جن کی پست وہ ہیں دیکھ کر تباہ

سائے میں اس کے چلتی ہے اِسلام کی سپاہ

 

یہ زندگی ہے دین کی ، ایماں کی جان ہے

اسلام کے عروج کا زندہ نشان ہے

 

 

تھے سربکف حُسین کے انصار و اقربا

مُسلم کے بھائی ، زینبِ غمگیں کے مہ لقا

ہمراہ تھے برادرِ عباس با وفا

تیور کچھ ایسے ، رُوح اجل کی بھی ہو فنا

 

قاسم بھی تھے حَسن کی نشانی بھی ساتھ تھی

اکبر کی شاندار جوانی بھی ساتھ تھی

 

 

وہ منزلیں کہ جن سے گزرتا تھا کارواں

فیضِ قدم سے بنتی گئیں رشکِ کہکشاں

جھُک جھُک کے دیکھتا تھا زمیں کو خود آسماں

ایسی بہار گلشنِ فردوس میں کہاں

 

انداز قدسیانِ فلک کے جلوس کا

یہ قافلہ تھا صرف بہتّر نفوس کا

 

 

سب کی رگوں میں جوش سے تپتا ہوا لہو

ارمان یہ کہ پیشِ خدا جائیں سُرخرو

پوری ہو نصرتِ شہ والا کی آرزو

پڑھ لیں نماز ، خون سے کر لیں ذرا وضو

 

اس بندگی کی داد ذرا آسمان دے

پیری پڑھے نماز ، جوانی اذان دے

 

 

طالع ہوا اُفق پہ محرم کا جب ہلال

تھا پاس کربلا کے رسولِ خدا کا لال

دل میں جو تھا جُدائی صُغریٰ کا بھی ملال

چہرہ تھا پُر سکون مگر قلب پُر جلال

 

تصویر ضبطِ دشت میں وہ شیر مرد تھا

دِل میں مزارِ جَد سے بچھڑنے کا درد تھا

 

 

آئے جو کربلا میں امامِ فلک مقام

دیکھا کہ چار سمت ہے فوجوں کا اژدہام

صُبح حرم کو گھیرنے آیا ہے ابرِ شام

خواہش کہ خوں میں غرق ہو دیں کا مہ تمام

 

کینہ قلوب میں جو تھا بدر و حنین کا

بیعت بہانہ بن گئی قتلِ حُسین کا

 

 

قرآن و شرعِ دین کا نگہدار وہ حُسین

ارضِ حرم کا مالک و مختار وہ حُسین

توحید کا مجسّمِ اظہار وہ حُسین

حق کی چٹان ، دین کی دیوار وہ حُسین

 

ٹکرا کے جس سے ظلم کی موجیں بکھر گئیں

جو ندیاں ہوَس کی چڑھی تھیں اُتر گئیں

 

 

ہاتھوں میں فاطمہ کے کھلایا ہوا حُسین

آغوشِ حیدری میں سمایا ہوا حُسین

اوجِ سپہرِ دین پہ چھایا ہوا حُسین

خوشبوئے مصطفٰے میں سمایا ہوا حُسین

 

اپنی جبیں پہ تاجِ امامت لئے ہوئے

سانسوں میں باغِ خُلد کی نکہت لئے ہوئے

 

 

جس میں تمام حق کے کمالات وہ حُسین

بدلی ہے جس نے موجِ خیالات وہ حُسین

جس نے پلٹ دیا رُخِ حالات وہ حُسین

ممکن بنائے جس نے محالات وہ حُسین

 

دنیا کو جس کے عزم نے مبہوت کر دیا

تختِ شہی کو تختۂ تابوت کر دیا

 

توڑی ہے جس نے جبر کی زنجیر وہ حُسین

جس نے مٹائی ظلم کی تصویر وہ حُسین

قائم ہے جس سے کعبے کی تعبیر وہ حُسین

جس نے کیا ہے موت کو تسخیر وہ حُسین

 

جس کی صفات آئیں خدا کی کتاب میں

ٹھکرا دیا تھا دہر کو جس نے شباب میں

 

 

نرغے میں آگیا تھا جو اب دینِ مصطفٰے

بدلا تھا جبرِ وقت سے آئینِ مصطفٰے

تبدیل ہو رہے تھے فرامینِ مصطفٰے

ہونے لگی تھی کھُل کے جو توہینِ مصطفٰے

 

بہرِ دفاعِ دین بھلا اور کون تھا

سبطِ رسولِ حق کے سوا اور کون تھا

 

میدانِ کربلا میں جو پہنچا نبی کا پھُول

فردوس میں علی سے یہ فرماتی تھیں بتول

مانی تھی زندگی میں جو منّت ہوئی قبول

قرآنِ دیں کی آخری آیت کا ہے نزول

 

بھٹکے گی اس کے بعد نہ اُمّت رسول کی

تکمیل پا رہی ہے رسالت رسول کی

 

 

عاشور کی سحر سے تھا آغازِ کار زار

کالی گھٹا سے تیر برستے تھے بے شمار

کھیلے خود اپنی جان سے انصارِ جاں نثار

لاکھوں کی فوج اور یہ گنتی کے دیندار

 

ایسا لڑے کہ فوج کے جی چھُوٹنے لگے

ذہنوں میں جو ہوَس کے تھے بُت ٹوٹنے لگے

 

 

انصارِ با صفا جو لڑائی میں مر گئے

آئینۂ ولا کی صفائی میں مر گئے

ابنِ حَسن بھی چہرہ نمائی میں مر گئے

عباسِ نامدار ترائی میں مر گئے

 

آنے دیا نہ حرف صداقت کے نام پر

زینب کے لاڈلے ہوئے صدقے امام پر

 

 

زین العباد تپ میں گرفتار رہ گئے

تاب و تواں نہیں تھی تو ناچار رہ گئے

اصغر ہمک کے جھولے میں ہر بار رہ گئے

سروَر کے ساتھ اکبرِ خوددار رہ گئے

 

تھا بھوک کا خیال نہ پانی کا ہوش تھا

نامِ خدا رگوں میں جوانی کا جوش تھا

 

 

وہ تین دن کی پیاس ، وہ بپھرا ہوا شباب

وہ ہاشمی جلال ، وہ گرمی ، وہ التہاب

شرما رہا تھا خود رُخِ روشن سے آفتاب

تھی مست انکھڑیوں میں ڈھلی کوثری شراب

 

پیشانیِ حُسین پہ کچھ بل پڑے ہوئے

آئینے پر عرق کے نگینے جڑے ہوئے

 

گیسُو رُخِ حسیں پہ پریشاں اِدھر اُدھر

والّیل کے ہجوم میں الشّسُ والقمر

دو اَبرو ، دو ہلال تھے پیوستہ ہم دگر

مژگاں کی فوج چشمۂ آبِ حیات پر

 

ٹھہرے نظر نہ جلوۂ رخسارِ پاک پر

یوسف پڑھیں درود رُخِ تابناک پر

 

 

تھے دو کنارے ساغرِ یاقوت کے دو لب

رنگینی جن کی دیکھ کے جھومے مئے عنب

شق تھے گلوں کے سینے اسی رشک کے سبب

کھُلتے تھے یہ تو کھُلتا تھا گلخانۂ ادب

 

سنتے تھے ان کی لحن کو داؤد جھوم کے

تکبیر بھی نکلتی تھی ہونٹوں کو چوم کے

 

 

آنکھوں کے اِرد گرد ہیں مژگاں جو صف بہ صف

وہ تیر ہیں کہ جن سے ہو باطل کا دل ہدف

ہے کیا مجال کوئی نظر ڈالے اس طرف

منصب ، نگاہ بانی میخانۂ نجف

 

بہ پاسبانِ بزمِ جنابِ امیر ہیں

ابرو کھنچے کمان ہیں یہ ان کے تیر ہیں

 

 

چڑھتے ہوئے شباب کی اللہ ری آب و تاب

رُوئے حسیں پہ کِھلتا ہوا تختۂ گلاب

بھیگی ہوئی مَسوں سے بڑھی حُسن کی وہ آب

شاداب دیکھ کر ہوں غلامانِ بوتراب

 

باقی ہے ان کے دم سے نشانی رسول کی

پھرنے لگی نظر میں جوانی رسول کی

 

 

زینب کے دل کا چاند تو بانو کے دل کا چین

عین الیقیں ہے سبطِ پیمبر کا نورِ عین

جب تک یہ سامنے ہیں ، قوی ہے دلِ حُسین

جب دیکھتے ہیں ان کو شہنشاہِ مشرقین

 

کہتے ہیں یہ بھی جائیں گے اب قتل گاہ میں

کیا سخت مرحلے ہیں شہادت کی راہ میں

 

 

یہ سوچ ہی رہے تھے اِمامِ فلک حَشم

اکبر نے آ کے چوم لئے دفعتاً قدم

لب تشنگی سے خُشک تو آنکھوں میں اشکِ غم

لب تھر تھرا گئے سرِ تسلیم کر کے خم

 

دل کے قریں شبیہِ پیمبر کو لے لیا

آغوش میں حُسین نے اکبر کو لے لیا

 

 

آغوش میں پدر کے جو آیا وہ خوش خصال

شانے پہ رکھ کے سر کو کیا ایسے عرض حال

اے بابا جان ، رَد نہ ہو یہ آخری سوال

اس دَہرِ بے ثبات میں ہے زیست پُر ملال

 

تھے دوستی کے جن سے مراسم ، نہیں رہے

جینے میں کیا مزا ہے کہ قاسم نہیں رہے

 

 

جو ہم سے سِن میں کم تھے وہ سب ہو چکے شہید

کرتے ہیں وہ بہشت میں اب مصطفٰے کی دید

اپنے لئے یہ زیست ہے اِک صدمۂ شدید

اے بابا جان ، صبر کی طاقت نہیں مزید

 

ایسا نہ ہو حضور کہ باتوں میں ٹال دیں

بابا ہمیں خوشی سے رضائے جدال دیں

 

 

یہ سُن کے دیکھنے لگے سُوئے فلک حُسین

آنکھوں میں تھا اندھیرا بچھڑتا تھا نُورِ عین

اک مرحلہ تھا فرض و محبت کے بین بین

صبر و رضا ادھر تو اُدھر بیبیوں کے بین

 

چرکے جو لگ چکے تھے دلِ چاک چاک پر

زینب پچھاڑیں کھا کے تڑپتی تھیں خاک پر

 

 

اکبر کو لے کے داخلِ خیمہ ہوئے امام

سوکھے ہوئے لبوں نے حرم سے کیا کلام

جائے گا قتل گاہ کو اپنا مہِ تمام

جو انتہا ہے صبر کی آیا ہے وہ مقام

 

فقرہ خلافِ ضبط زباں سے نکل نہ جائے

اسلام کا شباب ضعیفی میں ڈھل نہ جائے

 

 

حُکمِ امام سنتے ہی سب بین تھم گئے

آنکھوں میں تھے جو اشک وہ پلکوں پہ جم گئے

گوشوں میں اپنے اپنے سب اہلِ حرم گئے

زینب کی سمت شاہ اُٹھا کر قدم گئے

 

تعظیم دی بہن نے بھی اُٹھ کر امام کو

اکبر بھی بڑھ کے آئے پھوپھی کے سلام کو

 

 

شبیر نے یہ زینبِ محزوں سے پھر کہا

بے شک تمہارا پالا ہوا ہے یہ مہ لقا

اس کو خدا کی راہ میں کرتے ہیں ہم فدا

گیسو ، تمہی سنوار دو اِس کے بہن ذرا

 

ثابت قدم رہو یہ بڑا امتحان ہے

نامِ خدا تمہارا بھتیجا جوان ہے

 

 

زینب نے دل پکڑ کے کہا ، وا مصیبتا

زخموں سے چُور چُور ہے دلِ مامتا بھرا

بھیّا تمہارے حکم کو ٹالا نہ جائے گا

اس کو قریب لاؤ ، بَلائیں تو لوں ذرا

 

یہ بھی جناں کو جائے گا اب قتل گاہ سے

چھُپ جائے گی شبیہِ پیمبر نگاہ سے

 

 

بولیں سجا کے جسم پہ سارے سلاحِ جنگ

لڑنا کچھ اس طرح کہ ستم کیش بھی ہوں دنگ

میں جانتی ہوں دل میں تمہارے جو ہے اُمنگ

اب عرصۂ جدال کرو شامیوں پہ تن

گ

نازاں ہے اس شباب پہ کُنبہ رسُول کا

تم آخری سہارا ہو ابنِ بتول کا

 

 

سر پر رکھا عمامۂ شاہنشہ انام

باندھی کمر میں پھر اسدُاللہ کی حُسام

خاموش دیکھتے رہے کونین کے امام

حاضر تھا بابِ خیمہ پہ رہوارِ خوشخرام

 

کر کے سلام خیمے سے اکبر نکل گئے

با وصفِ ضبط شاہ کے آنسو مچل گئے

 

 

رہوار پر سور ہوئے اکبرِ جواں

نازاں ہوا فرس تو کھڑی کیں کنوتیاں

صیحہ کیا تو گونج گیا دشتِ بیکراں

ٹاپیں زمیں پہ ماریں لرز اُٹھا آسماں

 

نظریں ملائکہ کی تھیں سازِ ویراق پر

گویا نبی سوار ہوئے ہوں بُراق پر

 

 

اکبر کا وہ جمال سواری کی آن بان

پُشتِ فرس سے پست نظر آیا آسمان

دیکھے کوئی تو حیدرِ صفدر کا ہو گمان

خود بھی جوان ، ولولۂ جنگ بھی جوان

 

قبضے پہ ایک ہاتھ تھا اور ایک باگ پر

مَرکَب بھی منہ سے جھاگ اُڑاتا تھا جھاگ پر

 

 

جھپٹا جو فوجِ شام پہ وہ نونہالِ دیں

میدانِ کارِ زار کی ہلنے لگی زمیں

گِھر  گِھر کے جو اُٹھی تھیں گھٹائیں وہ چھٹ گئیں

مرکز کہیں ، سپاہ کہیں ، اسلحہ کہیں

 

وہ حال تھا کسی کو کسی کا نہ ہوش تھا

سر بھی سُبک سروں کے لئے بارِ دوش تھا

 

 

صف بستہ تھے جو فوجی رسالے بکھر گئے

دریا چڑھے تھے ظُلم کے جتنے اُتر گئے

میداں میں چھوڑ چھوڑ کے تیغ و سِپَر گئے

جو بچ گئے ، وہ سمجھے کہ بے موت مر گئے

 

سیفِ علی ہے ، کیسی روانی کا ہاتھ ہے

روکے گا کون اس کو ، جوانی کا ہاتھ ہے

 

 

سیفِ علی ، دعائے نبی میں ڈھلی ہوئی

اعدائے دینِ حق کے لہو پر پلی ہوئی

صیقل سے اور آئینۂ منجلی ہوئی

خیبر میں اور بدر و اُحد میں چلی ہوئی

 

جوہر جو اُبھرے غرق جواہر میں ہو گئی

کچھ اور تیز قبضۂ اکبر میں ہو گئی

 

 

رُوئیں تنوں کے جسم اِسے لقمۂ ہائے نرم

یکساں ہیں اس کے واسطے سب استخوان و چرم

ہے سخت سرد مہر کہ ہوتی نہیں ہے گرم

میداں میں خوش غلاف کو آتی نہیں ہے شرم

 

دوڑے ہوا کی طرح قطاروں کی بھیڑ میں

لہرائے بے حجاب ہزاروں کی بھیڑ میں

 

 

خَود و زِرَہ کو کاٹ دے مثلِ خیارِ تر

اس کی برش پہ موت بھی کہتی ہے الحذر

نخلِ حیات اس نے کئے لاکھوں بے ثمر

پکّے پھلوں کی طرح گرائے تنوں سے سر

 

مامُور باغبانئ گلزارِ دین پر

لاشوں کے گُل کھلائے ہیں اس نے زمین پر

 

 

میدانِ کارِ زار میں اکبر تھے محوِ جنگ

عباس کی لڑائی کے تھے سارے رنگ ڈھنگ

دریائے خون میں تھا فَرَس صورتِ نہنگ

تھا عرصۂ حیات اُدھر بزدلوں پہ تنگ

 

کیا وار تھے بنیرۂ شیرِ اُلاہ کے

روباہ ڈھونڈتے تھے وسیلے پناہ کے

 

 

دیوارِ کُوفہ تک ہوئی پسپا جو فوجِ شام

ٹھہرا فَرَس کو روک کے دم بھر مہِ تمام

تلوار اُٹھا کے خیموں کی جانب کیا سلام

محوِ دُعا اُدھر تھے امامِ فلک مقام

 

یہ باپ کی ضعیفی کا روشن چراغ تھا

بیٹے کی جنگ دیکھ کے دل باغ باغ تھا

 

زینب ادھر تھیں پردۂ خیمہ سے محوِ دید

اکبر کی جنگ دیکھ کے بڑھنے لگی امید

فرماتی تھیں کہ دیر نہیں فتح میں مزید

لو دیکھو بھاگنے لگے شیطان کے مُرید

 

ہو مژدۂ ظفر پسرِ بُو تراب کو

اللہ چشمِ بد سے بچائے شباب کو

 

 

دیکھو سکینہ بی بی ، وہ اکبر ہیں نعرہ زَن

دُشمن فرار ہو گئے خالی پڑا ہے رَن

اب ظالموں کا نشۂ قوّت ہوا ہرَن

سب کو بھگا کے آتا ہے اب میرا صَف شِکن

 

اللہ میرے یوسفِ ثانی کی خیر ہو

پیری کا آسرا ہے جوانی کی خیر ہو

 

 

آئے پلٹ کے رَن سے جو اکبر سُوئے خیّام

آغوش کر کے وا ، بڑھے کونین کے امام

اکبر نے کی یہ عرض کہ ہوں سخت تشنہ کام

سُوکھی ہوئی زبان سے ہوتا نہیں کلام

 

اس تشنگی سے مجھ کو اماں دیجئے ذرا

بابا مرے دہن میں زباں دیجئے ذرا

 

 

اکبر کے منہ میں شاہ نے جب ڈال دی زباں

بیٹے نے ہٹ کے پیچھے کہا اے شہِ زماں

ہے آپ کی تو مجھ سے بھی کچھ خشک تر زباں

تشنہ لبی میں جائے گی شاید اب اپنی جاں

 

اب سامنا اجل کا کریں گے سکون سے

ہم تشنگی بجھائیں گے دُشمن کے خون سے

 

 

یہ کہہ کے پھر پلٹ کے گئے سوئے کارِ زار

دیکھا مقابلہ پہ ہیں پھر جمع بَد شعار

تیروں کی بارشیں ہوئیں پیاسے پہ بے شمار

چاروں طرف سے ہونے لگے سینکڑوں کے وار

 

دیکھا جو دشمنوں کو جوانی بپھر گئی

لشکر ہوا فرار جہاں تک نظر گئی

 

 

ابنِ نمیر لاشوں کے ڈھیروں میں تھا نہاں

دَستِ شقی میں زہر کی ڈوبی ہوئی سِناں

نکلا چھپا چھپا جو عقب سے وہ ناگہاں

برچھی کی زد پہ آ ہی گیا سینۂ جواں

 

نوکِ سِناں گزر گئی سینے کو توڑ کر

بھاگا وہ نامراد ، ہدف اپنا چھوڑ کر

 

 

اکبر گرے جو مَرکبِ تازی سے خاک پر

خیموں کی سمت ڈال دی حسرت بھری نظر

دِل نے کہا نہ ہو شہِ والا کو کچھ خبر

کسے سہیں گے داغ مرا سیدُ البشر

 

اللہ وقت ہے یہ بڑے امتحان کا

کیسے اُٹھے گا پیری سے یہ لاشہ جوان کا

 

 

اکبر کے زَخمِ سینہ سے بہنے لگا لہو

ضعفِ بدن سے زرد ہوا اور ماہ رُو

خیمے میں بیقرار ہوئے شاہِ نیک خُو

دِل نے کہا نکل گئی اکبر کی آرزُو

 

افسانۂ شباب کا انجام آ گیا

آخر مرا جوان پسر کام آ گیا

 

دوڑے کلیجہ تھام کے مقتل کو شاہِ دیں

رکھتے قدم کہیں تھے تو پڑتا تھا وہ کہیں

آئے قریبِ لاشۂ اکبر دلِ حزیں

دیکھا کہ آس پاس کی گُلرنگ ہے زمیں

 

زخمی بساطِ خاک پہ وہ گل عذار ہے

نوکِ سنانِ ظلم کلیجے کے پار ہے

 

 

باقی جو تھی ہنوز تن نیم جاں میں جاں

مقتل کی سر زمیں پہ رگڑتا تھا ایڑیاں

شبیر نے کلیجے سے جب کھینچ لی سِناں

زخمِ جگر سے خون کا دریا ہوا رواں

 

آنکھیں کھُلیں تو صورتِ شبیر دیکھ لی

دھُندلی جو پڑ رہی تھی وہ تصویر دیکھ لی

 

 

بیٹے کے سر کو باپ نے زانو پہ رکھ لیا

فرمایا ، جاؤ جانِ پدر سُوئے مُصطفٰے

کہنا بصد ادب کہ شہنشاہِ دو سَرا

نانا کے دیں کا نام نواسے نے رکھ لیا

 

تکمیل کی حُسین نے ہر امتحان کی

پیری نے خُود اُٹھائی تھی میّت جوان کی

 

 

زینب کے دِل کا حال بھی کہنا بصد ادب

مقتول سب کو دیکھ کے زندہ ہے جاں بلب

خیموں کی آگ دیکھنی باقی ہے اس کو اب

سجاد کی اسیری کا ہے مرحلہ غضب

 

چلنا جسے محال ہے دو چار گام تک

جانا ہے پیادہ پا اُسے دربارِ شام تک

 

 

کہنا کہ تھوڑی دیر کا باقی ہے اور کام

کرنا ہے بے زبانیِ اصغر کو بھی کلام

پھر سجدۂ اخیر کا ہونا ہے اہتمام

اور اس کے بعد عالمِ فانی کو ہے سلام

 

کہنا یہ بارگاہِ رسالت مآب میں

عباس بھی فدا ہوئے عینِ شباب میں

 

 

بس اے صبا کہ اب نہ رہی طاقتِ رقم

خُوں رو رہا ہے دامنِ قرطاس پر قلم

پیری میں یہ سخن کی جوانی نہیں ہے کم

ٹھوکر کہیں نہ کھائی یہ مولا کا ہے کرم

 

آنکھیں لہُو سے تر ہُوئیں ہر شیخ و شاب کی

اکبر کی موت ، موت بھی عہدِ شباب کی

٭٭٭

ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید