FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سورہ مائدہ اور اس کا دورِ نزول

 

الیوم اکملت کی تفسیر

 

ابنِ آدم

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

 

 

 

تعارف

 

سورہ مائدہ بالاتفاق مدنی سورہ ہے۔ اس میں ۱۶ رکوع اور ۱۲۰ آیات ہیں۔ سورت کی پندرھویں رکوع میں شامل ۱۱۴ ویں آیت کے لفظ ‘مائدہ ‘سے اس سورت کا نام موسوم ہے۔ سورت کے طرز کلام سے اور بعض روایات سے بھی اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ یہ سورت ایک ہی تقریر ہے نہ کہ مختلف تقاریر کا مجموعہ۔ سورت کا نام اس کی آخری آیات میں سے ایک میں وارد لفظ ‘مائدہ’ سے منسوب ہونا بھی اس بات کا غماز ہے کہ یہ سورت ایک ہی بار میں نازل ہوئی ہے۔ سورت کے اسی ربط کے متعلق مولانا سید ابو الاعلیٰ المودودیؒ تفہیم القرآن میں فرماتے ہیں کہ:

"سلسلہ بیان میں کہیں خفیف سا بھی خلا محسوس نہیں ہوتا جس سے یہ قیاس کیا جا سکے کہ یہ سورہ دو یا تین خطبوں کا مجموعہ ہے "1

سورت کا محور اس کی پہلی آیت کے بالکل ابتدائی الفاظ ہیں جن میں مومنین کو ان کے عہد پورے کرنے کے بارے میں ہدایت کی گئی ہے، اگرچہ یہاں بات مختصر ہے لیکن پوری سورت کے مضمون سے متشرح ہوتا ہے کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کے متعلق ہے، کہ جس کے متعلق امت نے سمعنا و اطعنا کا اقرار کیا تھا۔ واقعات کے بیان سے بالکل واضح ہے کہ کفار مکہ سے مسلمانوں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہیں2، دوسری جانب یہ بھی عیاں ہے کہ اس کے نزول کے وقت مدینہ منورہ میں یہود بھی موجود ہیں۔ لیکن اسی سورت کی آیت نمبر ۳ کے ایک درمیانی فقرے کو لے کر ایک شان نزول اتنی شہرت پا گئی ہے کہ بعض لوگ اس سورت کو قرآن کی آخری سورت قرار دے دیتے ہیں، جو کہ ذوالحجہ ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ ذوالحجہ ۱۰ ہجری کے وقت تک مسلمانوں کو مکمل طور پر عرب کی سرزمین میں عروج حاصل ہو چکا تھا، لہٰذا جب مخالف کفار اور مقیم یہودیوں کے متعلق گفتگو ہوتی ہے 3 تو ایک عام قاری سورت کے الفاظ کو زمانے کے ساتھ مربوط نہیں کر پاتا اور سورت کے پیغام کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ یہ سورت قرآن کی ان سورتوں میں سے ہے جو کہ سورہ بقرہ، نساء، احزاب، نور وغیرہ کی طرح احکامات پر مشتمل ہیں، اس لیے اس کے احکامات کا مکمل ادراک اور سمجھ کے لئے اس کے دور نزول کا معلوم ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ احکامات کے لحاظ سے یہ سورت، سورہ بقرہ اور سورہ نساء کا تکملہ ہے، گویا اس کا زمانہ نزول ذوالقعدہ ۳ ہجری یعنی سورہ نساء کے نزول کے بعد کا کوئی وقت بنتا ہے۔ دور نزول پر بحث سے پہلے بہتر ہے کہ اس بنیادی روایت کا ذکر کر لیا جائے جس کی وجہ سے اس سورت کو ۱۰ہجری میں نازل شدہ سورت سمجھا جاتا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، أَنَّ أُنَاسًا، مِنَ الْیَہُودِ قَالُوا لَوْ نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَةُ فِینَا لاَتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیدًا‏۔ ‏ فَقَالَ عُمَرُ أَیَّةُ آیَةٍ فَقَالُوا ‏الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی‏۔ ‏ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّی لأَعْلَمُ أَىَّ مَکَانٍ أُنْزِلَتْ، أُنْزِلَتْ وَرَسُولُ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ‏۔ ‏ (صحیح بخاری، کتاب المغازی)

طارق بن شہاب نے کہا کہ چند یہودیوں نے کہا کہ اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن عید منایا کرتے۔ عمرؓ نے فرمایا، کون سی آیت؟ انہوں نے کہا ”آج میں نے تم پر اپنے دین کو مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔ “ اس پر عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول صلی اللہ علیہ و سلم میدان عرفات میں کھڑے ہوئے تھے (صحیح بخاری، کتاب المغازی )۔

یہ وہ روایت ہے جو قیس بن مسلم عن طارق بن شہاب عن عمرؓ بن خطاب کی سند کے ساتھ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی اور سنن نسائی میں ایک یا متعدد یہودیوں کو لے کر الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ درج ہے۔ متعدد کتب میں آنے کے باوجود بھی یہ روایت تین راویوں تک خبر واحد ہی ہے اور اپنا مکمل دارومدار طارق بن شہاب پر رکھتی ہے۔ طارق بن شہاب کی شخصیت پر روشنی، روایت کے متن پر بعض اٹھنے والے سوالات کے بعد ڈالی جائے گی۔

۱۔ روایت کے مطابق الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا 4 ایک آیت ہے۔ جب کہ مصحفِ قرآنی میں ایسی کوئی آیت درج نہیں ہے بلکہ یہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر۳ کا درمیانی ٹکڑا ہے جس سے پہلے بھی ایک بات چل رہی ہے اور بعد میں بھی چل رہی ہے۔

۲۔ حضرت عمرِ فاروق نے اپنے پورے دورِ خلافت میں، ما سوائے ایک بار یروشلم کے، کہیں سفر نہیں کیا، البتہ سالانہ حج کے سفر اس کے علاوہ ہیں۔ جس وقت حضرت عمرؓ یروشلم گئے تھے، اس وقت وہاں صرف عیسائی رہا کرتے تھے، جبکہ دوسری طرف ۵ ہجری میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد مدینہ میں بھی یہودی موجود نہیں تھے۔ مکہ المکرمہ حدود حرم میں میں واقع ہے، لہذا وہاں حج کے موقع پر یہودیوں سے ملاقات ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر ان نامعلوم یہودیوں کی حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی کہاں ؟

۳۔ روایت تاثر یہ دے رہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک کامل دین دیا گیا ہے جب کہ یہودیوں کو ایک نامکمل دین دیا گیا تھا، جب کہ یہ بات ہرگز درست نہیں۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۴۵ میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے متعلق فرماتے ہیں:

وَکَتَبْنَا لَہُ فِی الْأَلْوَاحِ مِن کُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِیلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ فَخُذْہَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَکَ یَأْخُذُوابِأَحْسَنِہَا۔۔ ۔۔ ۔۔ ﴿۱۴۵﴾

اور ہم نے اسے (موسیٰ کو) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی سو انہیں مضبوطی سے پکڑ لے اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی بہتر با توں پر عمل کریں۔۔ ۔۔ ۔۔ ﴿سورہ اعراف، آیت ۱۴۵﴾

قرآن کی یہ گواہی اپنے اندر کافی ہے کہ یہودیوں کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق ہدایات دی گئی تھیں، کوئی نامکمل دین نہیں کیا گیا تھا۔

۴۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ جس روز ہم پر یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس روز عید مناتے ایک لایعنی بات ہے، کیونکہ یہودیوں کی کتاب توریت ان پر تدریجاً نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ یکمشت دی گئی تھی۔ یہ بات اگر کسی ایسی قوم کا فرد کرے کہ جس پر کتاب جستہ جستہ اتاری گئی ہو تو بات سمجھ میں آنے والی بھی ہوتی۔

۵۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ وہ اس آیت کے نزول والے دن عید مناتے ایک اور لحاظ سے بھی غلط ہے۔ یا تو ان کا یہ کہنا ان کا اپنے تہواروں سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے یا پھر شاید طارق بن شہاب کا یہودیوں کے مذہب سے لاعلمی کا مظہر ہے، کیونکہ حضرت موسیٰؑ کو جس دن توریت تختیوں کی صورت میں کوہ سینا پر ملی تھی، یعنی وہ دن جب کہ ان کو ان کا دین کامل شکل میں دیا گیا تھا، وہ یہودیوں کے یہاں تہوار کا ہی دن ہے جس کو عید نزول تورات ھبط یا عبرانی میں عید شوط کہا جاتا ہے جو کہ یہودیوں کے تیسرے مہینہ سِوَن کی ۶ یا ۷ تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ جن یہودیوں کو خود اپنے تہواروں کا ہی کوئی علم نہ ہو، ان کو ایک دوسری قوم کی کتاب کا اتنی باریک بینی سے علم ہونا تقریباً نا ممکنات میں سے ہے۔

یہی روایت جامع ترمذی کی کتاب التفسیر میں عمار بن ابی عمار کی غریب سند کے ساتھ حضرت عبداللہؓ بن عباسؓ اور یہودی کے مکالمہ کے طور پر درج ہے، 5 جہاں یہودی نے بعینہ یہی سوال کیا اور حضرت عبداللہؓ بن عباسؓ نے بھی حضرت عمرؓ والا جواب دیا۔ تفسیر طبری میں یہی مکالمہ ایک الگ سند کے ساتھ حضرت عمرؓ اور عیسائی کے درمیان درج ہے۔ تمام روایتیں سب اختلاف کے بعد بھی اتنے حصے پر متفق ہیں کہ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا اپنے اندر خود ایک آیت ہے نہ کہ کسی آیت کا ٹکڑا۔ آخر الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا کو ایک الگ آیت قرار دلوانے میں یہ راوی اتنے مُصِر کیوں تھے۔ قرآن میں دی گئی ترتیب کے مطابق یہ الفاظ انہیں کیوں کھٹک رہے تھے کہ کبھی عیسائیوں سے مکالمہ کروا کر یہ باور کروا رہے ہیں کہ یہ ایک الگ آیت ہے اور کبھی یہودیوں سے۔ مگر ان روایتوں سے ایک چیز ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ایک یا متعدد یہودی یا عیسائی اگر حضرت عمرؓ یا حضرت عبداللہؓ ابن عباسؓ سے یہ سنسنی خیز مکالمہ نہ کرتے تو امت مسلمہ اس آیت؟)اگر تو یہ آیت ہے ) کی شانِ نزول سے تو محروم ہی رہ جاتی۔ اس لحاظ سے تو بحیثیتِ امت ہمیں اہل کتاب کا احسان مند ہونا چاہیے، ورنہ روایات سے تو یہی معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت عمرؓ یا ابن عباسؓ کا اس مکالمہ کے بغیر یہ شانِ نزول بتانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ایک اہم بات جس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی وہ یہ کہ یہودیوں کا یہ کہنا کہ اگر ہمارے یہاں یہ آیت نازل ہوتی تو ہم عید مناتے ایک گونہ اس بات کا اقرار ہے کہ مسلمانوں کے پاس جو قرآن ہے وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دور فاروقیؓ کے متعدد یہودی اس بات کا اقرار آخر کرتے ہی کیوں، یعنی وہ یہ بات بلا ضرورت مان ہی کیوں رہے تھے کہ اسلام دین حق ہے، ان کو کسی نے مجبور تو نہیں کیا تھا کہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے آ گئے۔ اور اگر آ ہی گئے تھے تو پھر بھی حضرت عمرؓ یا حضرت ابن عباسؓ نے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت نہ دی۔ اور اگر دی تھی تو ان کے پاس قبل نہ کرنے کا جواز کیا رہا تھا۔

در اصل یہاں حضرت عمرؓ اور یہودی کے اس مبینہ مکالمے کو حکایاتی انداز دے کر مسلمانوں کی نفسیات سے کھیل کر ان سے ایک اہم بات کا اقرار کروا لیا گیا ہے اور وہ یہ کہ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا کسی آیت کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ اپنے اندر خود ایک آیت ہے۔ آیت کے اتنے حصے کو اپنی اصل میں ایک آیت قرار دلوانا ایک مخصوص مسلک کی بنیادی ضروریات میں سے تھا۔ در اصل اس مسلک والوں کا کہنا تھا کہ ۱۸ ذوالحج ۱۰ ہجری کو حجۃ الوداع سے مدینہ واپسی پر غدیر خم کے مقام پر اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر۶۷ میں رسول کو تنبیہانہ انداز میں حکم دیا 6 کہ اگر آپﷺ نے اپنے بعد حضرت علیؓ کی امامت و خلافت کا اعلان نہیں کیا تو آپﷺ نے حقِ نبوت ادا کیا ہی نہیں (واضح رہے سورہ مائدہ کی آیت ۶۷ میں امامت علیؓ کے متعلق کوئی الفاظ صراحتاً یا کنایتاً موجود نہیں ہیں اور نہ ہی اس سے ماقبل یا مابعد اس نوعیت کا کوئی مضمون ہے کہ جس کہ بنیاد پر ادنیٰ سا بھی قیاس کیا جا سکے کہ یہ آیت امامت حضرت علیؓ کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے )، اس حکم پر حضور پاکؐ نے ولایت و امامتِ حضرت علیؓ کا اعلان کیا اور کہا کہ میں جس کا مولیٰ ہوں پس علی اس کا مولیٰ ہے۔ اس کے فوراً بعد یہ آیت الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا (آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے ) نازل ہوئی۔ اسی بنا پر اس دن کو عیدِ غدیر کہتے ہیں۔ (یہ بات یاد رہے کہ جس دن کو امامتِ علیؓ کا دن ظاہر کر کے عید منائی جا رہی ہے وہ در حقیقت یومِ شہادت حضرت عثمانؓ غنی ہے۔ )

ظاہر ہے کہ دو الگ الگ موضوعات کی ڈیڑھ آیتوں پر مشتمل اس کہانی کو گلوں سے اتارنے کے لیے پہلی حاجت تو یہ تھی کہ آیت نمبر۳ کے اس ٹکڑے کو ایک مکمل آیت کے طور پر پیش کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ سورہ مائدہ کا زمانہ نزول ۱۰ ہجری ثابت کیا جائے کیونکہ اس کہانی میں سورہ مائدہ ہی کی مختلف آیات کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ قرآن پاک میں کیونکہ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا کوئی آیت نہیں ہے، لہذا بنیادی ضرورت اس کو آیت قرار دلوانے کی تھی جس کے لیے ایک جانب حضرت عمرؓ کا کندھا استعمال کیا گیا، دوسری طرف یہودیوں کی آڑ لی گئی۔ اس فارمولا کے استعمال سے مسلمانوں نے بحیثیتِ مجموعی اس ٹکڑے کو ایک مستقل آیت کے طور پر اپنے ذہنوں میں قبول کر لیا۔ جن لوگوں نے خلیفہ وقت حضرت عثمانؓ کو صرف پروپگنڈے کی بنیاد پر عین قصر خلافت میں شہید کروایا تھا، وہ کوئی معمولی نوعیت کے لوگ تو تھے نہیں۔ لوگوں کے ذہنوں سے کھیلنے میں بڑے ماہر تھے۔ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے کس طرح حضرت عمرؓ کا کندھا استعمال کر کے جھوٹ بولا جا سکتا ہے، وہ یہ بخوبی جانتے تھے۔ کیونکہ ابتداً انھوں نے حضرت عثمانؓ کی ذات کو لے کر ہی فتنہ کا آغاز کیا تھا، حضرت عمرؓ کو برا بھلا کہنے کی ریت تھوڑے عرصے بعد شروع کی گئی، لہذا اس دور کے مسلمانوں کی حضرت عمرؓ سے غیر معمولی مودت اور یہودیوں سے مخاصمت وہ بہترین فارمولا تھا جس کا استعمال کر کے وہ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا کو مسلمان ذہن کی حد تک اس کو مستقل آیت قبول کروا سکتے تھے۔

یہ وہی فارمولا ہے جو پاکستانی سیاست میں ہمارے سیاسی قائدین عوام میں اپنا اعتبار بڑھانے کے لیے بھارت کا نام لے کر استعمال کرتے ہیں۔ کوئی دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لگانے کے دعوی کر کے معتبر ٹھہرتا ہے اور کوئی ہزار سال تک ہندو بنیے سے جنگ کا اعلان کر کے۔ سادہ لوح عوام اسی میں خوش ہو کر ان کے سارے گناہ معاف کر دیتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ روایت میں یہودیوں کا نام استعمال کیا گیا۔ غدیر خم کی کہانی کا اہم ترین حصہ تو طارق بن شہاب نے حضرت عمرؓ اور یہودی کے مابین مکالمے کی آڑ لے کر امت مسلمہ سے بحیثیتِ مجموعی قبول کروا ہی لیا ہے کہ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا در اصل سورہ مائدہ کی آیت ہے نہ کہ آیت کا یک جزو، اور دوسرا یہ کہ یہ آیت ذوالحج ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی۔7 طارق بن شہاب کیونکہ بہت اعلیٰ کتب کا راوی ہے، اس لیے اسماء الرجال کی کتابوں میں اس پر بہت ہلکا ہاتھ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ بہتر یہی ہے اس آدمی کی شخصیت کو اس کی اپنی بیان کردہ روایات کی روشنی میں تلاش کی جائے۔

 

 

 

 

طارق بن شہاب کی شخصیت اسی کی اپنی بیان کردہ روایات کے آئینہ میں

 

صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت مقدادؓ بن اسود کی منقبت میں طارق بن شہاب کی مندرجہ ذیل روایت رقم ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ، عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رضى اللہ عنہ قَالَ شَہِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِح وَحَدَّثَنِی حَمْدَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا الأَشْجَعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مُخَارِقٍ عَنْ طَارِقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَالَ الْمِقْدَادُ یَوْمَ بَدْرٍ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّا لاَ نَقُولُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسَى ‏{‏فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا ہَا ہُنَا قَاعِدُونَ‏}‏ 8 وَلَکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ‏۔ ‏ فَکَأَنَّہُ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم‏۔ ‏ وَرَوَاہُ وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مُخَارِقٍ عَنْ طَارِقٍ أَنَّ الْمِقْدَادَ قَالَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صلى اللہ علیہ و سلم‏۔ ‏ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر)

ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے مخارق نے، ان سے طارق بن شہاب نے، میں نے عبداللہ ابن مسعود سے سنا کہ میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے قریب موجود تھا ( دوسری سند ) اور مجھ سے حمدان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو النضر ( ہاشم بن قاسم ) نے بیان کیا، کہا ہم سے عبید اللہ بن عبدالرحمٰن اشجعی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے مخارق بن عبداللہ نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے موقع پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: یا رسول اللہ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی «فاذہب أنت وربک فقاتلا إنا ہا ہنا قاعدون‏» کہ ”آپ خود اور آپ کے خدا چلے جائیں اور آپ دونوں لڑ بھڑ لیں۔ ہم تو یہاں سے ٹلنے کے نہیں۔ “ نہیں ! آپ چلئے، ہم آپ کے ساتھ جان دینے کو حاضر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی اس بات سے خوشی ہوئی۔ اس حدیث کو وکیع نے بھی سفیان ثوری سے، انہوں نے مخارق سے، انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے کہ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ عرض کیا (جو اوپر بیان ہوا)۔ (صحیح بخاری، کتاب تفسیر)

پہلی نظر میں دیکھنے میں یہ ایک مبنی بر عقیدت روایت محسوس ہوتی ہے جس کو پڑھنے کے بعد قاری کا ذہن اصحاب رسول کے جذبے کو سرا ہے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن قرآن کے پیرائے پر اس کو پرکھا جائے تو یہ سراسر لغو ثابت ہو گی۔ بقول طارق بن شہاب، حضرت مقدادؓ بن اسود نبی پاکﷺ کو دلاسا دینے کے لئے سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۲۴ کا حوالہ دے رہے تھے۔ غزوہ بدر ۲ ہجری میں وقوع پذیر ہوئی اور طارق بن شہاب ہی کے مطابق سورہ مائدہ کا نزول تو ۱۰ ہجری حجۃ الوداع کے موقع پر ہے۔ سورہ کے نزول سے ۸ سال قبل حضرت مقدادؓ بن اسود کو سورہ مائدہ کی یہ آیت کون پڑھا گیا تھا؟ اگر کوئی اس کا یہ جواب دے کہ ممکن ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر سے پہلے نازل ہو چکی ہو (جیسا کہ روایت پرستوں کا عمومی دستور ہے 9) تو بھی متعدد سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ غزوہ بدر سے پہلے سورہ جمعہ، سورہ بقرہ، سورہ صف اور سورہ محمّد بالترتیب نازل ہوئیں جن میں جہاں ایک جانب سورہ جمعہ، سورہ بقرہ اور سورہ صف میں یہودیوں کا ذکر موجود ہے، وہیں دوسری جانب سورہ بقرہ، سورہ صف اور سورہ محمد جہاد سے متعلق بھی ہیں اور بالخصوص سورہ صف میں تو یہودیوں کے موازنے کے ساتھ ہی جہاد کی تلقین کی گئی ہے۔ سورہ مائدہ کی یہ آیت اگر واقعتاً غزوہ بدر سے پہلے نازل ہوئی ہوتی تو اس کا جائز مقام سورہ صف یا پھر سورہ بقرہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ طارق بن شہاب ہی کے بیان کے مطابق ۱۰ ہجری میں نازل ہونے والی سورہ مائدہ میں۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ۸ سال تک یعنی سورہ مائدہ کے باقاعدہ نزول تک کیا یہ آیت معلق رہی؟ اس آیت کی تلاوت کا آخر کیا طریقہ کار رہا؟ ظاہر ہے کہ یہ آیت مقدار میں اتنی کم ہے کہ نماز میں تو تلاوت نہیں کی جا سکتی تھی اور قرآن میں بھی یہ کس سورت کے عنوان کے تابع رکھی گئی تھی کیونکہ سورہ مائدہ میں لفظ مائدہ تو سورت کی آیت نمبر ۱۱۴ میں آیا ہے جو کہ سورت کی آخری آیتوں میں سے ایک ہے۔ بات بالکل واضح ہو گئی کہ طارق بن شہاب نے یہ غلط روایت کسی مقصد کے تحت حضرت مقدادؓ بن اسود کی منقبت میں گھڑی تھی۔ طارق بن شہاب کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے اس روایت کا مزید جائزہ لیا جائے تو وجہ کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس نے آخر حضرت مقدادؓ بن اسود ہی کی مدح میں غلط روایت کیوں بیان کی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک طبقہ کے نزدیک حضرت مقدادؓ بن اسود اُن تین (یا بعض روایتوں کے مطابق چار) صحابہ میں سے تھے10  جو وفات نبویؐ کے فوراً بعد، جب کہ تمام صحابہؓ مرتد ہو گئے تھے، تب بھی اسلام پر قائم رہے، یعنی حضرت علیؓ کی معیت میں رہے۔ صرف ایک اسی روایت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ تقیہ باز طارق بن شہاب کا ذہنی رجحان کس طرف تھا۔ یہاں پر یہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ طارق بن شہاب کی دونوں روایتیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ گویا ان میں سے ایک تو لازمی موضوع ہے ( در حقیقت دونوں ہی صحیح نہیں ہیں )۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ طارق بن شہاب اپنے سیاسی مقاصد کو تقویت دینے کے لیے کس بے رحمی سے قرآن کی آڑ لے رہا تھا۔

بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسے لوگوں کے متعلق خود کیا کہہ رہا ہے:

فَمَن اَظلَمُ مِمَّنِ افتَرٰى عَلَى اللّٰہِ کَذِبًا اَو کَذَّبَ بِایٰتِہ۔۔ ۔۔ ۔ ﴿ۥ۱۷﴾‏

پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۱۷﴾

صرف سورہ مائدہ سے متعلق پیش کردہ دونوں روایتیں پڑھی جائیں اور پھر ان دونوں کے تضاد پر خالی الذہن ہو کر غور کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ یونس کی اس آیت میں بیان کردہ دونوں عیب طارق بن شہاب کی شخصیت میں موجود ہیں، حالانکہ مجرم قرار دینے کے لیے تو ایک عیب بھی کافی تھا۔

امام ذہبی نے اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء میں 11 یمنی الاصل طارق بن شہاب کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس کا کہنا تھا کہ میں نے رسولؐ اللہ کو دیکھا ہے اور ابو بکرؓ اور عمرؓ کی خلافت میں ۳۰ یا ۴۰ سے زائد جنگوں میں شریک ہوا ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں جنگوں میں شرکت کا اہل تھا وہ نبیؐ کے زمانے میں غزوات میں شمولیت سے کیوں محروم رہ گیا۔ کیا اس کو بھی اویس قرنی کی طرح جہاد سے خلاصی ملی ہوئی تھی؟ ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے ہی دعوے کے مطابق حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ادوار میں مسلسل جہاد میں مصروف رہا تھا وہ پھر حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں جہاد سے یکایک کنارہ کش کیوں ہو گیا۔ اس کی وجہ تو یہی بنتی نظر آتی ہے کہ وہ شروع سے ہی حضرت عثمانؓ کو ایک غاصب خلیفہ مانتا ہو گا۔ جو بات سید قطب اور ان کے دیسی ہم نواؤں کو ساڑھے تیرا سو سال بعد معلوم ہوئی، مالک الاشتر اور کوفی باغیوں کو ۱۰ سال میں معلوم ہوئی وہ ان صاحب کو پہلے دن سے ہی معلوم تھی کہ حضرت عثمانؓ درست خلیفہ نہیں ہیں۔ ان ساری با توں پر غور کرنے سے اس شخص کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یا تو یہ شخص براہ راست ان باغیوں میں سے ہے جنہوں نے مظلوم خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ کیا تھا یا پھر ان کے ہمنواؤں میں سے تھا۔ اس کی خاندانی تاریخ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔ شہادتِ عثمان غنیؓ اس امت کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اصل حادثہ ہے، چودہ سو سالوں میں اس امت میں اٹھنے والے بیشتر فتنوں کے ڈانڈے یا تو براہ راست انؓ کی شہادت سے جڑے ہیں، یا بالواسطہ طور پر۔ یہ حادثہ صرف ایک خلیفہ کا قتل نہیں تھا بلکہ اسلام کی مرکزیت پر حملہ تھا، اور اس کا سکرپٹ ایک یمنی الاصل یہودی عبداللہ ابن سبا نے کوفہ میں بیٹھ کر تیار کیا تھا۔ طارق بن شہاب کی اگلی روایت شہادتِ عثمانؓ کی تصویر کو مزید صاف کر د ے گی۔

عاشورہ یعنی ۱۰ محرم الحرام کے روزے کے متعلق اعلیٰ اسناد کے ساتھ متعدد روایات صحیح بخاری میں ہی موجود ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ قریش مکہ یہ روزہ ایام جاہلیت سے ہی رکھتے چلے آ رہے تھے گویا یہ روزہ بھی حج اور ختنہ کی طرح ملت ابراہیمی کی بقایا سنتوں میں سے ایک سنت تھا جس پر قریش اُس وقت تک قائم تھے۔ اسی روز غلاف کعبہ بھی بدلا جاتا تھا۔ سورہ نحل، انعام اور حج جیسی مکی سورتوں میں بھی ملت ابراہیم پر کاربند رہنے کی بات کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ صحیح بخاری ہی کی روایات کی رو سے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے یہ روزہ بحیثیت فرض روزہ رکھا جاتا تھا۔

حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا یَحْیَى، حَدَّثَنَا ہِشَامٌ، قَالَ أَخْبَرَنِی أَبِی، عَنْ عَائِشَةَ رضى اللہ عنہا قَالَتْ کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُہُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاہِلِیَّةِ، وَکَانَ النَّبِیُّ صلى اللہ علیہ و سلم یَصُومُہُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ کَانَ رَمَضَانُ الْفَرِیضَةَ، وَتُرِکَ عَاشُورَاءُ، فَکَانَ مَنْ شَاءَ صَامَہُ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ یَصُمْہُ‏‏۔ ‏(صحیح البخاری-کتاب التفسیر)

قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ (کی فرضیت) باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے ‏‏۔ ‏(صحیح البخاری-کتاب التفسیر)

صحیح بخاری ہے کی ایک دوسری حدیث کے مطابق غلاف کعبہ بھی قریش اسی دن بدلا کرتے تھے:

حَدَّثَنَا یَحْیَى بْنُ بُکَیْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ عُقَیْلٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ‏.‏ وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی حَفْصَةَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رضى اللہ عنہا قَالَتْ کَانُوا یَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ یُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَکَانَ یَوْمًا تُسْتَرُ فِیہِ الْکَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللَّہُ رَمَضَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم”مَنْ شَاءَ أَنْ یَصُومَہُ فَلْیَصُمْہُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ یَتْرُکَہُ فَلْیَتْرُکْہُ‏”‏‏.‏)صحیح بخاری، کتاب الحج)

رمضان (کے روزے ) فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عاشوراء ہی کے دن (جاہلیت میں ) کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کہ ”اب جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔ “ (صحیح بخاری، کتاب الحج)

دوسری جانب طارق بن شہاب کی روایت کے مطابق یہ روزہ ملت ابراہیمی کی پیروی میں نہیں بلکہ یہودیوں کی تقلید میں رکھا گیا تھا اور اس کا علم بھی مدینہ آ کر ہی نبی اکرمﷺ کو ہوا تھا، طارق بن شہاب کا کہنا ہے کہ:

حَدَّثَنِی أَحْمَدُ أَوْ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ الْغُدَانِیُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَیْسٍ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِی مُوسَى رضى اللہ عنہ قَالَ دَخَلَ النَّبِیُّ صلى اللہ علیہ و سلم الْمَدِینَةَ وَإِذَا أُنَاسٌ مِنَ الْیَہُودِ یُعَظِّمُونَ عَاشُورَاءَ وَیَصُومُونَہُ فَقَالَ النَّبِیُّ صلى اللہ علیہ و سلم ‏ "‏ نَحْنُ أَحَقُّ بِصَوْمِہِ ‏”‏‏۔ ‏ فَأَمَرَ بِصَوْمِہِ‏۔ ‏(صحیح البخاری-کتاب مناقب الأنصار)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری، کتاب مناقب الأنصار)

نبی پاکﷺ نے یہودیوں کی دیکھا دیکھی اس دن کی تعظیم کا حکم کیوں دے دیا۔ اگر یہودیوں کے مقدس دنوں کی تعظیم ہی مقصود تھی تو یہودی تو سبت (ہفتہ کا دن) کی تعظیم بھی کرتے تھے جس کا ثبوت قرآن کی مکی سورتوں سے بھی ثابت تھا۔ آخر اس دن کی تعظیم نبی پاکﷺ نے کیوں نہ کرائی۔ سعید بن جبیر اسدی کوفی کی روایت سے 12معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے عاشورے کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس دن ہمیں فرعون سے نجات ملی تھی- کیا صرف یہودیوں کے زبانی دعوے پر ان کی ایک عبادت کا چلن مسلمانوں میں کرادیا گیا، بلکہ اس کو فرض بھی قرار دے دیا؟ اس بات کا کیا ثبوت تھا کہ یہی وہ دن ہے جب حضرت موسیٰؑ کو فرعون سے نجات ملی تھی۔ ہجرت مدینہ ربیع الاول میں منعقد ہوئی، عاشورہ ۱۰ مہینے بعد محرم میں آیا، اگر عاشورہ ہی وہ دن تھا کہ جس دن یہودی یوم نجات (یوم غفران) کا جشن مناتے تھے تو وہ تو ہجرت کے دس ماہ بعد آیا۔ یہودیوں کے یہاں صرف یوم غفران ہی کا تہوار تو نہیں تھا، ایک سال میں متعدد تہوار آئے تھے، مثلاً عید فسح کا تہوار، جس کا حکم تورات سے بھی ثابت ہے، اس کو آخرکیوں نہ منوایا۔ اگر خیرسگالی ہی ثابت کرنی تھی تو اس کے متعدد مواقع ان دس ماہ میں آ چکے تھے اور وہ بھی وہ مواقع جن کے توریت اور قرآن دونوں سے تصدیق بھی ہوتی تھی۔

حساب کے حوالے سے بھی اس روایت کو اگر پرکھ لیا جائے تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔ یوم غفران ۱۰ تشری کو منایا جاتا ہے جو کہ عبرانی سال کا سا تواں مہینہ ہے۔ نبی پاک نے ہجرت ربیع الاول کے مہینہ میں کی اور رمضان کے روزے ۲ ہجری میں فرض ہوئے۔ یعنی ۱۰ محرم کو (خیرسگالی کے لیے ؟) جو روزہ رکھا گیا وہ ۲ ہجری کا بنتا ہے۔ یہودی کیلنڈر شمسی قمری تقویم کے تحت ہے۔ اگر اسلامی تقویم کو ۲ ہجری میں محض قمری مانا جائے، یا شمسی قمری (جس کا اس وقت عرب میں چلن بھی تھا) ہی مانا جائے، تو دونوں صورتوں میں ۱۰ محرم ۲ ہجری، ۱۰ تشری (یہودیوں کا یوم غفران) کو نہیں پڑتا۔ ابو ریحان البیرونی نے حساب کی بنیاد پر ہی طارق بن شہاب اور سعید بن جبیر کی اس روایت پر سوال اٹھا دیے تھے جو کہ ابن حجر عسقلانی نے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے مسترد کر دیے۔ مگر سوالات تو اپنی جگہ آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ البیرونی کے اٹھائے گئے سوالات کی تحقیق کر کے توثیق آج بھی کی جا سکتی ہے۔

یہودیوں کی مرعوبیت پر مبنی یہ روایت آخر کس لئے وضع کی گئی تھی؟ کیا یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلام بنیادی طور پر یہودیت کا چربہ ہے، یہ وہی چیز ہے جس کا اظہار آج کے اسلام مخالف مغربی دانشور اسی قسم کی روایتوں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس غلط روایت بلکہ رسول پاکﷺ پر تہمت کا کوئی مقصد تو تھا۔

اس کا آسان جواب یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں تمام دنیا میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی دجلہ اور فرات کی وادی میں مقیم تھی جس کو وہ اپنا بابلی دور پراگندگی 13 کہتے ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں یہودی عبداللہ ابن سبا نے اسلام مخالف مہم حضرت عثمانؓ کی آڑ لے کر شروع کی تھی اور یہودیوں کا اسلام سے جو بغض تھا اس کی گواہی تو خود اللہ نے قرآن میں متعدد جگہ 14کی ہے۔ لہذا اسلام میں رخنہ ڈالنے کے کیے ہراول دستہ کا کردار بھی یہی عراقی یہودی ادا کر رہے تھے۔ یہیں کوفہ کا شہر آباد کیا گیا تھا اور یہی شہر تقیہ باز طارق بن شہاب کا بھی مسکن تھا۔ عاشورے کی روایات سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ زمانہ جاہلیت میں (اولاد ابراہیم ہونے کے باعث) قریش تو یہ روزہ رکھتے تھے مگر پورے عرب میں اس کا چلن نہیں تھا۔ طارق بن شہاب نے کیونکہ غیر قریشی اور غیر مکی خاندان میں آنکھ کھولی تھی، تو اس کا تو اس روزے سے واسطہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی ہوا ہو گا۔ اور جب کوفہ میں اس نے یہود کے منہ سے مسلمانوں میں اس روزے کے چلن کی وہ کہانی سنی ہو گی جو کہ اس نے بعد میں آگے بیان کی، تو اس پر یقین کرنا اس کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوا ہو گا۔ اس بات کی تصدیق ایک دوسری روایت سے بھی ہو جاتی ہے جو کہ سعید بن جبیر نے کی ہے، وہ بھی یمنی الاصل تھے، کوفہ کے رہائشی تھے، حضرت عثمانؓ کے خلاف بلوا کرنے والے کمیل بن زیاد کے اسسٹنٹ تھے۔ ان کی روایت طارق بن شہاب کی روایت سے بھی زیادہ تفصیلی ہے کہ یہ روزہ یہودیوں کو دیکھا دیکھی ہی شروع کیا گیا تھا۔ یہودیوں کی پیروی کا پرچار کرتی یہ روایات کیا یہ بات ثابت نہیں کر رہیں کہ تقیہ بازوں اور یہودیوں میں ابتداء ہی سے مکمل گٹھ جوڑ تھا اور شہادتِ عثمانؓ میں یہودی دماغ بھی پوری طرح کارفرما تھا۔

طارق بن شہاب کا تعلق یمنی الاصل بجیلہ قبیلے کے الاحمسی خاندان سے تھا۔ یہ خاندان طائف کے جنوب میں تہامہ کے علاقہ میں آباد تھا۔ دورِ فاروقیؓ میں جب عراق فتح ہوا اور کوفہ کا شہر بسایا گیا، تو کئی دیگر یمنی قبائل کی طرح الاحمسی خاندان کے افراد بھی کوفہ جا کر بس گئے۔ ۶۰ ہجری کی دہائی میں جبکہ مختار ثقفی نے زبیریوں اور مروانیوں کے خلاف پورے عراق میں شورش برپا کی ہوئی تھی اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا رہا تھا، الاحمسی خاندان کے کئی افراد نے احمد بن شمیط الاحمسی البجلی کی قیادت میں مختار ثقفی کی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہوئی تھی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب طارق بن شہاب الاحمسی حضرت عثمانؓ کے سالے اور میر منشی مروانؒ بن حکمؓ کے خلاف یہ روایات بیان کر رہا تھا:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِیہِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ۔ ح وَعَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: ‏‏‏‏ أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِی یَوْمِ عِیدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ: ‏‏‏‏ یَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِی یَوْمِ عِیدٍ وَلَمْ یَکُنْ یُخْرَجُ فِیہِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ: ‏‏‏‏ مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا: ‏‏‏‏ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ: ‏‏‏‏ أَمَّا ہَذَا فَقَدْ قَضَى، ‏‏‏‏‏‏مَا عَلَیْہِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏یَقُولُ: ‏‏‏‏ مَنْ رَأَى مُنْکَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ۔

مروان عید کے روز منبر لے کر گیا اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: مروان! تو نے خلاف سنت کام کیا ہے، ایک تو عید کے روز تو منبر لے کر گیا حالانکہ اس دن منبر نہیں لے جایا جاتا تھا، دوسرے تو نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو اس پر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: فلاں بن فلاں ہے اس پر انہوں نے کہا: اس شخص نے اپنا حق ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو تم میں سے کوئی منکر دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹا سکے تو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے مٹائے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب صلاہ)

روایت یہ بتاتی ہے کہ مروانؒ بن حکم نے عید کے اجتماع میں نبی کریمﷺ کی سنت کے برخلاف نماز کو خطبہ کے بعد ادا کیا۔ مروانؒ حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں مدینہ منورہ کے گورنر تھے لہٰذا جب وقوعہ عید کی نماز میں پیش آیا تو اس کا گواہ تو پورا مدینہ شہر ہونا چاہیے تھا، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کرنے والے سب کوفی ہیں15۔ جو لوگ حدیث قلتین کی بحث سے اگاہ ہیں وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ احناف کے اصول حدیث میں کوئی روایت اسی وقت معتبر ہوتی ہے جب کہ اس کے بنیادی راوی اس سے متعلق بھی ہوں۔ اور ایک ایسا واقعہ جس کو ایک مجمع کو روایت کرنا چاہیے، صرف ایک عاد راویوں تک ہی محیط نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ مفتی پوپلزئی کی رمضان اور عید کے چاند کی شہادتوں کو مرکزی رویت ہلال ہر سال مسترد کر دیتی ہے۔

اس روایت میں دوسری اہم دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جس شخص نے اٹھ کر ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا وہ کم از کم صحابی تو نہیں تھا ورنہ حضرت ابو سعید خدریؓ کو اس کے تعارف کی ضرورت نہ محسوس ہوتی۔ یاد رہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں مدینہ منورہ میں کئی صحابہؓ موجود تھے۔ اور اُن سب کی موجودگی میں یہ بے نام تابعی، جو غالباً کوئی کوفی ہو گا، صرف مروان کی تصیح کرنے عید کی نماز پڑھنے مدینہ آیا تھا، کیونکہ کسی مقامی صحابیؓ کو تو روایت کے مطابق توفیق ہوئی نہیں تھی کہ وہ ظالم حکمران کے آگے کلمہ حق بلند کرتا۔ یعنی اسی روایت کے مطابق وہ سب کے سب صحابیؓ (نعوذ باللہ)ایمان کے ادنی ترین درجہ پر تھے، اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر وہ مروان کے اس عمل کو برا سمجھ بھی رہے ہوں16۔ کیونکہ صحیح مسلم کے مطابق حضرت ابو ہریرہؓ مدینہ میں مروانؒ کی غیر موجودگی میں ان کے نائب گورنر ہوتے تھے۔

وَحَدَّثَنِی حَرْمَلَةُ بْنُ یَحْیَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ، أَخْبَرَنِی یُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَةَ، کَانَ – حِینَ یَسْتَخْلِفُہُ مَرْوَانُ عَلَى الْمَدِینَةِ – إِذَا قَامَ لِلصَّلاَةِ الْمَکْتُوبَةِ کَبَّرَ ‏.‏(صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ)

حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌‌کو جب مروان مدینہ میں اپنا نائب بنا کر جاتے تو جب وہ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تکبیر کہتے (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ)

صحیح مسلم کی درج بالا روایت سے یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ کم از کم حضرت ابو ہریرہؓ تو مروانؒ سے راضی تھے، اب دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں، یا تو طارق بن شہاب کی اس روایت کو اس کی سیاسی روایت مانا جائے یا پھر نعوذ باللہ یہ مان لیا جائے کہ حضرت ابو ہریرہؓ ایمان کے ادنیٰ ترین درجہ پر بھی نہیں تھے جیسا کہ ایرانی عقیدہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی وفات کے ساتھ ہی صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد حق سے ہٹ گئی تھی۔ اگر کوئی شخص طارق بن شہاب کی محبت میں حضرت ابو ہریرہؓ کے ایمان سے خالی ہونے پر راضی ہے تو بات یہیں ختم نہیں ہو گی بلکہ حضرت ابو ہریرہؓ کی ان تمام روایتوں سے دستبردار بھی ہونا پڑے گا جو کہ تعداد میں کم از کم پانچ ہزار سے زائد ہیں۔ بیک وقت دونوں کشتیوں میں پاؤں نہیں رکھا جا سکتا۔

کیا کوئی مسلمان یہ توقع کر سکتا ہے کہ ان صحابہ کرم کے سامنے، جن سے اللہ راضی ہو گیا، سنتوں کی اس طرح پامالی ہو رہی ہو گی اور وہ سب ہونٹ سی کر بیٹھے رہیں گے اور ایک گمنام تابعی ایمان کی اتنی حرارت رکھتا تھا کہ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ کیسا ظلم ہے کہ راوی نے اس نیک تابعی کا نام بھی محفوظ نہیں کیا۔ یہ روایت بھی راوی کی ذہنی سوچ بتانے کے لئے کافی ہے کہ صحابہ کرمؓ کے متعلق وہ کیا رجحان رکھتا تھا۔ طارق بن شہاب کے ذکر کے اختتام پرحضرت عثمانؓ غنی کے متعلق اس کی ایک اور سیاسی روایت ملاحظہ ہو:

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عُمَرَ الأَحْمَسِیِّ، عَنْ مُخَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم ‏ "‏ مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ یَدْخُلْ فِی شَفَاعَتِی وَلَمْ تَنَلْہُ مَوَدَّتِی ‏”‏ ‏۔ ‏ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ لاَ نَعْرِفُہُ إِلآَ مِنْ حَدِیثِ حُصَیْنِ بْنِ عُمَرَ الأَحْمَسِیِّ عَنْ مُخَارِقٍ ‏۔ ‏ وَلَیْسَ حُصَیْنٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِیثِ بِذَاکَ الْقَوِیِّ ‏۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب)

بقول طارق بن شہاب، عثمان بن عفان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”جس نے عربوں کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں شامل نہ ہو گا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہو گی“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث غریب ہے، ۲۔ ہم اسے صرف حصین بن عمر احمسی کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ مخارق سے روایت کرتے ہیں، اور حصین محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب)

اگرچہ اس روایت کو اسی کے خاندان کے ایک دوسرے فرد حصین بن عمر الاحمسی کی وجہ سے امام ترمذی نے ضعیف روایت مانا ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ روایت تو قبولیت اور عدم قبولیت دونوں صورتوں میں طارق بن شہاب الاحمسی کی سیاست میں مفید تھی۔ دجلہ و فرات کی وادی 17 بنیادی طور پر (اُس وقت) عرب خطہ نہیں تھی، اس روایت کو قبولیت ملنے کی صورت میں علاقہ میں نوآباد عربوں کی سیادت وہاں پہلے سے بسے ہوئے غیر عرب نومسلموں پر مستقل بنیادوں پر قائم ہو جاتی اور یوں بھی عراق میں آ کر بسنے والے عربوں میں غالب اکثریت انہی یمنی الاصل لوگوں کی تھی۔ یمنی عرب تو ویسے ہی اپنے آپ کو مضری (قریشی) عربوں کے مقابلے میں برتر سمجھتے تھے کیونکہ اُنکے خیال میں وہ اصلی عرب تھے، تو گویا روایت کی قبولیت کی صورت میں براہ راست فائدہ انہی یمنی عربوں کو پہنچنا تھا اور عدم قبولیت کی بناء پر غیر عرب لوگوں کی تنقید کا نشانہ حضرت عثمانؓ کی ذات اور بنو امیہ کو بننا تھا، کہ وہ لوگ نسل پرستی پر مبنی سیاست کر رہے ہیں اور نبی اکرم کے حجۃ الوداع کے واضح پیغام، کہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے، کا انکار کر رہے ہیں۔

 

ایرانی مفسر شیخ محسن قرائتی کی ‘تفسیر نور’ اور الیوم اکملت کی تفسیر

 

بحث کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے بہتر ہے کہ مشہور ایرانی مفسر شیخ محسن قرائتی کی فارسی تفسیر جو کہ ‘تفسیر نور’ سے موسوم ہے سے رجوع کیا جائے اور دیکھا جائے ایران کا سرکاری مسلک اس آیت کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ ان کی یہی تفسیر سال ۱۹۹۷ میں بہترین کتاب کے لیے (اسلامی جمہوریہ؟) ایران کا صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۳ کی تفسیر کے ذیل میں موصوف رقم طراز ہیں:

"حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر دو آیتیں ایک ہی آیت میں بیان کی گئی ہیں، ایک میں تو اضطراری اور مجبوری کے علاوہ حرام گوشت کے استعمال کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری "الیوم” سے لے کر "دینا” تک ایک مستقل آیت ہے۔ اور اس کی چند دلیلیں ہیں۔

۱۔ اگر مذکورہ آیت سے "الیوم” سے ” دینا” تک کو حذف کر دیا جائے تو آیت کے معنی میں کسی قسم کی کمی اور نقص واقع نہیں ہوتا۔

۲۔ کفار کو دین سے اس لئے مایوسی نہیں ہوتی کہ وہ کسی قسم کے گوشت کو کھائیں یا کسی قسم کے گوشت کو نہ کھائیں۔

۳۔ شیعہ اور سنی روایات کی رو سے جو اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں۔ "الیوم یئس الذین کفروا” کا تعلق "الیوم الکملت لکم دینکم۔۔ ۔ ”سے نہ کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد کے جملوں سے۔

چونکہ آیت کا یہ حصہ نہایت ہی حساس تھا اور حاسدوں اور مخالفوں کے دل میں بہت کھٹکتا تھا۔ لہٰذا حضرت رسول خدا کے حکم ہی سے اسے گوشت کی حرمت کے حکم کے درمیان قرار دیا گیا ہے تاکہ مخالفین کی دستبرد سے محفوظ رہ جائے۔ ویسے ہی جیسے طلا اور جواہرات کو دوسری عام قسم کی چیزوں کے درمیان میں چھپایا جاتا ہے تاکہ چوروں اور لٹیروں کی لوٹ مار سے محفوظ رہ سکیں۔

شیعہ اور سنی روایات بتاتی ہیں کہ آیت کا یہ حصہ "الیوم یئس الذین۔۔ ۔ تا۔۔ ۔ لکم الاسلام دینا” حضرت علی علیہ السلام کے مقام غدیر خم میں منصب امامت پر فائز ہونے کے بعد نازل ہوا۔ نقلی دلائل سے قطع نظر عقلی دلائل بھی اسی بات کی راہنمائی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس دن "الیوم” کے لئے چار اہم خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ۱۔ تمام کفار کی مایوسی کا دن ۲۔ دین کے کامل ہونے کا دن ۳۔ لوگوں پر نعمت خداوندی کے تمام ہونے کا دن ۴۔ ایک دن کہ جس میں اسلام لوگوں کے لئے ایک کامل دین اور مکمل مذہب کے طور پر خدا کا پسندیدہ قرار دیا گیا۔

اگر ہم تاریخ اسلام کے تمام ایام پر اچھی طرح غور و حوض سے کام لیں تو تاریخی نوعیت کا کوئی بھی دن خواہ وہ روز بعثت پیغمبر ہو یا روز ہجرت، یا یوم ولادت حضرت فاطمہ زہرا ہو یا کسی بھی جنگ میں لشکر اسلام کی کامیابی کا دن، حجۃ الوداع ہو یا کوئی اور تاریخی اہمیت کا حامل دن، اس دن کی عظمت، سربلندی، اعزاز اور افتخار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ حجۃ الوداع کا دن بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ حج خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو پھر بھی ہے تو دین کا ایک جزو۔ پس مذکورہ چار صفات کا حامل صرف روز غدیر خم ہی ہے جس میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کو پیغمبر کے جانشین کے طور پر منصوب کیا گیا اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امامت کی رہبری کے لئے منتخب کیا گیا۔ "(اقتباس ختم)

اس تقریر کے بعد موصوف نے صحابہ کرامؓ کا نام لیے بغیر ان پر رکیک حملے کیے ہیں۔ مگر (اسلامی جمہوریہ؟) ایران کے صدارتی ایوارڈ یافتہ اس تفسیر کے اتنے ہی حصہ پر ہی غور کر لیا جائے تو بھی خاصی تصویر واضح ہو جاتی ہے۔

  • بعثت نبویؐ کے دن سے بڑا دن نصبت علیؓ کا دن ہے، گویا دونوں افراد میں رتبہ میں بڑھ کر کون ہوا؟ اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑا جاتا ہے۔
  • قرآن کی ترتیب توفیقی (من جانب اللہ)نہیں بلکہ صوابدیدی ہے۔
  • (نعوذ باللہ)نبی پاکؐ کا ایمان قرآن کی درج ذیل آیت پر نہیں تھا، اسی واسطے ان کو چوروں اور لٹیروں کا خوف لاحق ہوا۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ

بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں

اور تبھی انہوں نے ایک ہیرے جیسی آیت کو ایک عام سی دوسری آیت کے درمیان چھپا دیا۔

  • یہ بھی ثابت ہوا کہ آیت کی موجودہ ترتیب کے تحت امامتِ علیؓ کم از کم قرآن پاک سے ثابت نہیں ہوتی، جب تک کہ اس پر روایات کا پیوند نہ لگایا جائے۔ کیونکہ شرائتی صاحب کے مطابق تو اس آیت کو ایک دوسری آیت کے درمیان چھپایا ہی اس لیے گیا تھا کہ حاسدوں کے دست برد سے محفوظ رہ سکے۔
  • قرآن اپنے دعوے میں جھوٹا قرار پاتا ہے کیونکہ محسن شرائتی کے مطابق اس میں صرف مبین نہیں بلکہ چھپی ہوئی آیات بھی موجود ہیں۔
  • نبی پاکؐ کو تو بحیثیتِ بشر حاسدوں اور مخالفوں (کون حاسد؟) کا خوف لاحق ہو گیا ہو گا، مگر کیا اللہ بھی اسی خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اس نے بھی اپنے نبیؐ کو مبین قرآن کو مبہم بنانے کے اس کام سے نہیں روکا، اگر یہ صحیح ہے تو (نعوذ باللہ) مخالفین اور حاسدین (اہرمن)تو آسمانی خدا(یزدان) سے زیادہ طاقت ور ہوئے۔ محسن قرائتی مسلمانوں کے اللہ تعالیٰ کو کہیں اپنے آباء و اجداد کے مذہبِ سابقہ (مجوسی مذہب)کے خداؤں پر تو قیاس نہیں کر گئے۔
  • یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کی مختلف آیات اپنے درجات میں مختلف ہیں۔ کسی آیت کا درجہ سونے اور جواہرات جیسا ہے تو دوسری بالکل عام سی آیت ہے۔ قرآن پاک نے جب سورہ بقرہ میں یہودیوں پر فردِ جرم عائد کی ہے تو ان کی یہ عادت بھی گنائی ہے۔

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ

کیا تم کتابِ (خدا) کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو

  • محسن شرائتی کے مطابق تو چور، لٹیرے، حاسدین اور مخالفین وہ ہیں جنہوں نے غدیر خم (۱۸ ذوالحج ۱۰ ہجری )کے اس مزعومہ اعلان کو نہیں مانا جس میں امامت یا خلافت کے لیے حضرت علی کی تخصیص کر دی گئی تھی اور جس کو ان کے مطابق حضرت مقداد بن اسودؓ سمیت تین (یا بعض روایتوں کے مطابق چار) صحابہؓ کے علاوہ سب نے مسترد کر دیا تھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے جو اس سوچ کے حامی ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کی غرض سے حضرت عثمانؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کو برا بھلا کہہ کر، فریق مخالف کی اگر ہاں میں ہاں ملا لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اول تو یہ بات اپنے اندر خود ہی رافضیت کی ایک شکل ہے، مگر فریقِ مخالف صرف اتنے پر راضی نہیں ہے۔ وہ تو تمام اصحابؓ کو اتنا ہی برا جانتے ہیں جتنے کا اظہار وہ حضرت امیر معاویہؓ کے لیے کرتے ہیں اور آپ لوگوں سے کرواتے ہیں۔ مزید یہ ہے قرآن پاک کی بھی من مانی تشریح چاہتے ہیں۔
  • یہیں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ‘ الیوم اکملت ‘ والے حصے کو علیحدہ آیت کے روپ میں پیش کرنا در حقیقت کس کا اصلی ایجنڈا تھا جس کو حضرت عمرؓ بالمقابلہ نامعلوم یہودیوں کی حکایت کا روپ پہنا کر طارق بن شہاب نے مسلمانوں کے گلے سے اتروایا ہے۔

 

غدیر خم کی بقیہ کہانی اور ہماری روایات

 

سبائی برادری اس افسانے کو عرفہ کے دن سے بھی منسوب کر سکتی تھی، مگر کیونکہ شہادتِ عثمانؓ کا دن ان کی تاریخ میں زیادہ اہمیت کا دن تھا، جیسا کہ شرائتی صاحب کا بیان ہے، لہذا ۱۸ ذوالحج کی کہانیاں بھی سنائی گئیں۔ مگر یہاں بھی بغلی چال ہی چلی گئی۔ براہ راست ۱۸ ذوالحج کا بتانا مشکل تھا، کیونکہ اس صورت میں شیعیت عریاں شکل میں سامنے آ جاتی، اس لیے ابن جریج نے ایک انوکھی ترکیب نکالی۔ بقول ابن جریج، یہ آیت (؟) نبی اکرم کی وفات سے اکیاسی ۸۱ دن پہلے نازل ہوئی۔ ایک جانب تو یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرامؓ اتنے اجڈ تھے کہ تیس تک کی گنتی بھی نہیں جانتے تھے، مہینے کے دن بھی انگلیوں پر گن کر جان پاتے تھے، دوسری جانب وہیں ایسے سپر کمپیوٹرز کی مانند فہیم لوگ بھی موجود تھے جو الٹی گنتی میں بات کرنا اور سمجھانا بھی جانتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کہ کس علاقے میں اس طریقے پر بولا جاتا ہے کہ مرنے سے ۸۱ دن پہلے یہ کہا اور ۷۵ دن پہلے یہ کہا اور ۶۵ دن پہلے فلاں بات کی۔ کس معاشرے میں اس پیرائے میں بات کی جاتی ہے کہ موت کو مرکزی نقطہ مانتے ہوئے اس سے مہینوں پہلے کے اوقات کو اس باریک بینی سے بیان کیا جائے۔ عرف میں تو موت سے چند لمحوں پہلے سے ۳ یا ۴ دن قبل تک کی بات تو سمجھ آ سکتی ہے، اس سے پہلے کا پیمانہ تو ہفتوں، مہینوں اور پھر سالوں پر چلا جاتا ہے۔ مثلاً دو ہفتہ قبل، یا پانچ چھ مہینہ پہلے یا سال بھر پہلے، گویا زمانہ جتنا پیچھے جاتا جاتا ہے، دقائق اتنے ہی خام ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ابن جریج یہاں ۱۸ ذو الحج کو باور کرنے کے لئے ایک دوسرا راستہ تلاش کر رہا تھا۔ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری سے ۸۱ دن پہلے ۱۸ ذو الحج ۱۰ ہجری پڑی۔ گویا مستقبل میں کوئی شخص جب وصال نبوی کے تناظر میں ابن جریج اور طارق بن شہاب کی روایات کا موازنہ کرے گا تو تطبیق کے مطابق ابن جریج کی روایت کو ترجیح دے گا کیونکہ اس موضوع پر مزید شیعہ روایات بھی موجود ہیں۔ مگر حوادث زمانہ نے طارق بن شہاب کی روایت کو جب حدیثوں کی بڑی کتب کی زینت بنا دیا تو ابن جریج کی روایت صرف تفاسیر تک ہی محدود رہ گئی۔ بعد کے زمانہ میں بعض سوچنے والے دماغوں نے جب تطبیق کی صورت نکالنے کی کوشش کی تو انھوں نے ابن جریج کی روایت کو وصال نبویؐ کی بجائے طارق بن شہاب کی روایت کے تناظر میں پرکھا، اور وصالِ نبویﷺ کو ۹ دن کو پیچھے کر کے ۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری قرار دے دیا اور کہا کہ ابن جریج نے وصال سے پہلے ۸۱ دن عرفہ کے دن سے ہی گن کر بتائے ہیں۔ ان خوش گمان محققین کی تحقیق سر آنکھوں پر، مگر دشواری یہ ہے کہ ۲ربیع الاول ۱۱ہجری کو پیر کا دن نہیں بلکہ جمعرات یا جمعہ کا دن ٹھہرتا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مشہور حدیثِ قرطاس کی روشنی میں یومِ وفات پیر کا دن ہی بنتا ہے۔ اب جب بخاری اور مسلم کی روایت کو مسترد ہی کرنا ٹھہرا تو پھر اس روایت کو کیوں نہ مسترد کیا جائے جس نے قرآن کے نظم کو بری طرح توڑا ہے، یعنی طارق بن شہاب کی یہی روایت۔

غدیر خم کی کہانی کی تیسری کڑی یعنی نبی پاکﷺ سے منسوب یہ فرمان ہے "من کنت مولاہ فعلی مولاہ”، اس کا مطلب ہے کہ حضورؐ جس شخص کے مولا ہوں، حضرت علیؓ بھی اس کے مولا ہوں گے، یعنی یہ ولایتِ علیؓ کا اعلان ہے، اور روافض کے نزدیک یہ اعلان حضرت علیؓ کی آئندہ خلافت سے متعلق ہے۔ یہ روایت روافض کے ساتھ ساتھ صوفیاء کے حلقے میں بھی انتہائی معروف ہو گئی ہے بلکہ اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ صوفیاء بالعموم اس مبینہ اعلان کو حضرت علیؓ کی علومِ باطنی کی امامت سے متعلق گردانتے ہیں۔ عربی زبان میں مولا کسے کہتے ہیں اس بات سے قطع نظر اس روایت میں حضرت علیؓ کو مولا قرار دینے سے پہلے نبی پاکﷺ کو مولا ماننے کی شرط رکھی گئی ہے لہذا اگر کسی کو اس روایت کے مطابق حضرت علیؓ کو اپنا مولا قرار دینا ہی ہے تو اس سے پہلے نبی پاکﷺ کو بھی مولا بیان کرنا چاہیے۔ مگر حیران کن بات ہے کہ مولا علیؓ کا نعرہ لگانے والے کسی شخص کے منہ سے بھی مولا محمدؐ کا نعرہ نہیں لگایا جاتا۔ سنن ابن ماجہ کی روایت ہے کہ:

حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِیَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: ‏‏‏‏ قَدِمَ مُعَاوِیَةُ فِی بَعْضِ حَجَّاتِہِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَیْہِ سَعْدٌ فَذَکَرُوا عَلِیًّا فَنَالَ مِنْہُ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ سَعْدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ: ‏‏‏‏تَقُولُ ہَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ‏‏‏‏مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ‏‏‏‏لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ الْیَوْمَ رَجُلًا یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ.(سنن ابن ماجة، کتاب السنة)

معاویہؓ اپنے ایک سفر حج میں آئے تو سعدؓ بن ابی وقاص ان کے پاس ملنے آئے، لوگوں نے علیؓ کا تذکرہ کیا تو معاویہؓ نے علیؓ کو نامناسب الفاظ سے یاد کیا، اس پر سعدؓ ناراض ہو گئے اور بولے: آپ ایسا اس شخص کی شان میں کہتے ہیں جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا ہے: جس کا مولیٰ میں ہوں، علیؓ اس کے مولیٰ ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے یہ بھی سنا: تم (علی) میرے لیے ویسے ہی ہو جیسے ہارونؑ موسیٰؑ کے لیے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، نیز میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا: آج میں لڑائی کا جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے – (سنن ابن ماجہ، کتاب السنہ)

اگرچہ روایت کا متن ہی اس کی شیعیت کے اعلان کے لیے کافی ہے، کہ جس میں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ قران کے رحماء بینھم18 (سورہ فتح) کے دعوے کے باوجود بھی صحابہ ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف بغض رکھتے تھے بلکہ برا بھلا بھی کہتے تھے، مگر اس کی سند سے بھی اس روایت کا شیعہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

اس روایت کے ایک راوی موسیٰ بن مسلم کے متعلق ابن عدی اور ذہبی کا بیان ہے کہ یہ مجہول ہے۔ (میزان جلد ۴ صفحہ ۲۲۲)۔ موسیٰ بن مسلم سے یہ روایت نقل کرنے والا ابو معاویہ ضریر ہے۔ اس کا نام محمد بن خازم ہے۔ تمام صحاح میں اس کی روایت پائی جاتی ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ اعمش سے جو روایت نقل کرتا ہے وہ درست روایت کرتا ہے لیکن اور لوگوں کی روایت میں اسے وہم ہوتا ہے۔ (تقریب صفحہ ۲۹۵)۔ اور ابو معاویہ ضریر یہ روایت کیونکہ اعمش کی بجائے موسیٰ بن مسلم (مجہول راوی) سے کر رہا ہے اس لئے اس کو صحیح نہیں مانا جا سکتا۔ ممکن ہے یہ موسیٰ بن مسلم اس کے کسی وہم ہی کی پیداوار ہو۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابو معاویہ اعمش کی روایات میں ثقہ ہے لیکن جب وہ اور لوگوں سے روایت کرے تو اس میں اضطراب ہوتا ہے۔ یہی امام احمد بن حنبل کا قول ہے۔ بلکہ وہ تو واضح طور پر فرماتے ہیں کہ ابو معاویہ اعمش کے علاوہ کسی کی روایت کو صحیح طور پر یاد نہیں رکھتا۔ حاتم کہتے ہیں کہ ابو معاویہ سے اگرچہ بخاری مسلم نے روایت نقل کی ہیں لیکن یہ غالی قسم کا شیعہ تھا۔ ( میزان جلد ۴ صفحہ ۵۷۵)

حاصل کلام یہ کہ ابو معاویہ ضریر ایک غالی قسم کا شیعہ تھا اور کسی شیعہ کی ایسی روایت ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتی جو اس کے مذہب کی تائید پر مبنی ہو۔ جہاں ایک طرف مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ شیعوں کا بنیادی عقیدہ ہے وہیں اس روایت کے دیگر اجزاء بھی اپنے اندر تشیع کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ روایت حضرت سعدؓ بن ابی وقاص سے منسوب کی گئی ہے حالانکہ وہ ان صحابہ میں داخل ہیں جنھوں نے حضرت علیؓ کی بیعت تک نہیں کی تھی۔ حیرت کا مقام ہے کہ حضرت علیؓ کی ولایت سے واقف ہونے کے باوجود بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوئے اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو یہ روایت ایک جھوٹی روایت ثابت ہوئی اور حضرت سعدؓ اور حضرت امیر معاویہؓ پر سراسر اتہام ہے۔

 

آیت نمبر۳ کی اندرونی شہادت

 

سورہ مائدہ کے دورِ نزول پر بحث میں اب ذرا یہ دیکھ لیا جائے کہ آیا سورہ مائدہ کی آیت نمبر۳ کی اندرونی شہادت سے کیا اِس آیت کا ۹ یا ۱۸ ذوالحج ۱۰ہجری میں نازل ہونے کا کچھ امکان ہے بھی یا نہیں۔ اس کے لیے اس آیت کو سورت ہی کی ابتدائی دو آیات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے، اور خط کشیدہ الفاظ کو دھیان میں رکھا جائے۔

یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اَوفُوا بِالعُقُودِ  ؕ اُحِلَّت لَکُم بَہِیمَۃُ الاَنعَامِ اِلَّا مَا یُتلیٰ عَلَیکُم غَیرَ مُحِلِّی الصَّیدِ وَاَنتُم حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحکُمُ مَا یُرِیدُ ﴿۱﴾ یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوالَا تُحِلُّوا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَلَا الشَّہرَ الحَرَامَ وَلَا الہَدیَ وَلَا القَلَآئِدَ وَلَا آٰمِّینَ البَیتَ الحَرَامَ یَبتَغُونَ فَضلًا مِّن رَّبِّہِم وَرِضوَانًا ؕ وَاِذَاحَلَلتُم فَاصطَادُوا ؕ وَلَا یَجرِمَنَّکُم شَنَاٰنُ قَومٍ اَن صَدُّوکُم عَنِ المَسجِدِ الحَرَامِ اَن تَعتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ  وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَ العُدوَانِ  وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ العِقَابِ ﴿۲﴾ حُرِّمَت عَلَیکُمُ المَیتَۃُ وَالدَّمُ وَ لَحمُ الخِنزِیرِ وَمَااُہِلَّ لِغَیرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ المُنخَنِقَۃُ وَ المَوقُوذَۃُ وَ المُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیحَۃُ وَ مَااَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیتُم وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَن تَستَقسِمُوا بِالاَزلَامِ ؕ ذٰلِکُم فِسقٌ ؕ اَلیَومَ یَئِسَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن دِینِکُم فَلَا تَخشَوہُم وَ اخشَونِ ؕ اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا ؕ فَمَنِ اضطُرَّ فِی مَخمَصَۃٍ غَیرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ﴿۳﴾

اے ایمان والو! اپنے عہد و پیمان پورے کرو۔ تمہارے لئے مویشی قسم کے تمام چوپائے حلال ٹھہرائے گئے، بجز ان کے، جن کا حکم تم کو پڑھ کر سنایا جا رہا ہے، ناجائز کرتے ہوئے شکار کو حالتِ احرام میں۔ بیشک اللہ حکم دیتا ہے جو چاہتا ہے ﴿۱﴾ اے ایمان والو! شعائرِ الٰہی کی بے حرمتی نہ کیجیو، نہ محترم مہینوں کی، نہ قربانیوں کی، نہ پٹے بندھے ہوئے نیاز کے جانوروں کی، نہ بیت اللہ کے عازمین کی، جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طالب بن کر نکلتے ہیں اور جب تم حالتِ احرام سے باہر آ جاؤ تو شکار کرو، اور کسی قوم کی دشمنی، کہ اس نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا ہے، تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم حدود سے تجاوز کرو، اور تم نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو، گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ سخت پاداش والا ہے ﴿۲﴾ تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا گیا، جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ سے مرا ہو، جو اوپر سے گر کر مرا ہو، جو سینگ لگ کر مرا ہو، جس کو کسی درندے نے کھایا ہو، بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کر لیا ہو اور وہ جو کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعے سے۔ یہ سب باتیں فسق ہیں۔ اب یہ کافر تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے تو ان سے نہ ڈرو، مجھ ہی سے ڈرو۔ اب میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو، دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔ پس جو بھوک میں مضطر ہو کر، بغیر گناہ کی طرف مائل ہوئے، کوئی حرام چیز کھا لے تو اللہ بخشنے والا، مہربان ہے ﴿۳﴾ (ترجمہ: مولانا امین احسن اصلاحی)

پہلی آیت کے خط کشیدہ الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ تقریر ابھی شروع ہوئی ہے – اور جن جانوروں کے علاوہ بقیہ چوپائے حلال کیے گئے ہیں ان کا ذکر اسی تقریر کی اگلی کسی آیت میں آگے آ رہا ہے۔ اور وہ ذکر اِس آیت نمبر۳ کے خط کشیدہ الفاظ میں آیا ہے۔ یہی وہ آیت ہے جس کو اہل سنت سے روایات کی بنیاد پر حجۃ الوداع سے جڑوایا گیا ہے اور اہل تشیع نے اس آیت کو حجۃ الوداع کے ۹ دن کے بعد غدیر خم کے مقام سے جوڑا ہے۔

آیت نمبر۱ سے یہ بات تو متشرح ہوئی کہ آیت نمبر۳ اور آیت نمبر۱ ایک ہی تقریر کا حصہ ہیں، یعنی اگر آیت نمبر۳ (ازروئے روایت) ذوالحج ۱۰ہجری کی کسی تاریخ کو نازل ہوئی ہے، تو آیت نمبر۱کو بھی اسی تاریخ کو نازل ہونا چاہیے۔ سورت کی آیت نمبر۲میں احرام کی بندش سے نکلنے کا ذکر ہے جبکہ آیت نمبر۱میں احرام کی بندش کا ذکر ہے، گویا آیت نمبر۲، آیت نمبر۱ کے بعد مصحف کی ترتیب ہی کے مطابق نازل ہوئی ہے۔ اور آیت نمبر۳ کے متعلق یہ پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے کہ وہ اسی نشست میں نازل ہوئی ہے جس میں آیت نمبر۱۔ گویا سورہ مائدہ کی کم از کم یہ تینوں آیتیں ایک ہی مجلس کی نازل شدہ آیات بنتی ہیں۔ آیت نمبر۲ کے خط کشیدہ الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں رہ جاتا کہ یہ تینوں آیات فتح مکہ رمضان ۸ہجری سے پہلے ہی کسی وقت نازل ہوئی ہیں کیونکہ مسجد حرام کا راستہ روکا جانا فتح مکہ سے پہلے ہی ممکن ہو سکتا تھا بعد میں نہیں۔ گویا حجۃ الوداع (یا غدیر خم) کے موقع پر ان آیات کا نزول بالکل نا ممکن ہے۔

شانِ نزول اور دورِ نزول میں جب اس درجہ تفاوت پایا گیا تو اس مسئلہ سے نکلنے کا حل ڈھونڈا گیا۔ درست سمت میں اگر حل تلاش کیا جاتا تو قران پاک کی کسوٹی پر شانِ نزول کی روایات کو پرکھا جاتا، اور جو روایت اس کسوٹی پر پوری اتر جاتی، اس کو قبول کیا جا سکتا تھا، مگر جو روایت قرآن کے متن اور نظم دونوں سے اس قدر ٹکرا رہی ہو اس کو بلا تکلف رد کر دیا جانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ حل ایک دوسری سمت میں تلاش کیا گیا تاکہ من پسند روایات کو کسی طرح قابل قبول بنایا جا سکے، اور وہ حل یہ تھا کہ یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ جب کبھی آیت کے کسی ٹکڑے سے متعلق مبینہ شان نزول کو آیت کا بقیہ حصہ یا اگلی پچھلی متصل آیات مسترد کر رہی ہوں گی، تو آیت اور سورت ہی کو توڑ دیا جائے گا، اور ہر حصہ کی الگ تفسیر کی جائے گی۔ گویا جب کبھی کوئی واقعہ ہوتا تو اس کے جواب میں کبھی آدھی اور کبھی پونی آیت نازل ہو جاتی تھی، اور نبی پاکﷺ ان آدھے پونے ٹکڑوں کو مختلف سورتوں میں مختلف مقامات پر ٹنکوا دیتے تھے۔ گویا کوئی سورت بھی وصالِ نبویﷺ تک حتمی نہیں کہی جا سکتی تھی، مبادا کون گھڑی کون سے نئے الفاظ وحی کی صورت میں نازل ہوں اور نبی پاکﷺ ان کو کس سورت کی کس آیت کے درمیان لگوا دیں کہ سورت اور آیت کی شکل ہی بدل جائے، نتیجتاً قرآن کی سورتوں کی متصل آیات میں یا کسی ایک ہی آیت کے مختلف الفاظ میں کوئی نظم تلاش نہ کیا جائے۔ ہر لفظ اپنے اندر ایک الگ دنیا ہے جس کا اپنے ماقبل یا مابعد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا جو بھی شانِ نزول پیش کی گئی ہے اس کو آنکھیں بند کر کے مِن و  عَن قبول کر لیا جائے۔ اگر اس لغو نظریہ کو واقعی درست ماننا ہے تو سب سے پہلے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اپنے ہی دعوے کے برخلاف ‘مبین کتاب’19  ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ دنیا کی مبہم ترین کتاب ہے جو کہ اپنے الفاظ کی ترتیب میں کوئی بھی مدعا بیان کرنے سے قاصر ہے اور جس کے الفاظ کی ایک خاص ترتیب نبی پاکﷺ نے غالباً صرف تلاوت کے غرض سے ہی دے دی ہے۔ ورنہ اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کے لیے اس کی شانِ نزول کی کتابوں سے رجوع کیا جائے۔ اُن شانِ نزولوں سے، جو کہ بیشتر مقامات پر خود ایک دوسرے سے بھی بری طرح ٹکرا رہی ہیں، لہذا ابدی ہدایت کی دعویدار اس کتاب کو ایک بھاری پتھر سمجھ کر چوم کر ایک طرف رکھ دیں اور جب بارہویں امام آئیں گے تو وہ اس قرآن کی تشریح کر دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن دنیا کی کوئی پہلی کتاب تو نہیں ہے۔ اگر قرآن اپنے آپ کو بار بار کتاب کہہ رہا ہے 20 اور وہ بھی وہ کتاب جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے، تو اس کو کتاب ہونے کے بنیادی اغراض تو پورے کرنے ہی چاہیے۔ کتابوں کا اصل مقصد ایک مربوط کلام کو قلم بند کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ لوگ جو موقع پر نہ بھی ہوں، ان کے لیے بھی متعلقہ معاملہ کو سمجھنا آسان ہو جائے اور جو لوگ موقع پر ہیں بھی، ان کے لیے بھی معاملات یاد دہانی کا باعث رہیں۔ انسانی تمدن کی تاریخ کے ہزاروں سالوں میں لاکھوں کتابیں لکھی گئیں۔ مگر یہ بیہودہ نظریہ کتابُ اللہ کے علاوہ شاید کسی بھی دوسری کتاب کے ساتھ منسوب نہیں کیا گیا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اس وقت، کہ جب (نظریہ کے مطابق) نبی پاکﷺ اِن آدھی پونی آیتوں کو ایک نئے ربط میں منضبط کر رہے تھے، ان کے سامنے یہ بات کیوں نہ اٹھائی کہ حضورؐ آپ اِن منتشر اجزاء کو جس طور جوڑ رہے ہیں، وہ تو ایک نئے ربط کلام میں بالکل الگ ہی تاثر پیش کر رہے ہیں، جو کہ اصل شانِ نزول کے خلاف ہے۔ اور یہ بات ایک کتاب کے بنیادی مقصد ہی کی اِبا کرتی ہے کہ وہ حقیقی تاثر کی بجائے غلط تاثر پیش کرے۔ صحابہ کرامؓ نہ سہی، کفارِ مکہ، منافقینِ مدینہ اور یہودیوں کو تو یہ سوال لازماً ہی اٹھانا چاہیے تھا، کیونکہ قرآن بار بار انہیں چیلنج کر رہا تھا۔ مثلاً قرآن کے مقابلہ میں اُن لوگوں سے مثلِ قرآنی 21 کچھ سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری جانب جب قرآن اپنی ہی لائی ہوئی آیات میں (ازروئے روایات) بار بار ترمیم کر رہا ہو، تو مدِ مقابل کی جانب سے سوال اٹھنا بنتا تھا مگر حیران کن بات ہے کہ یہ سوال کہیں سے نہیں اٹھا۔ یہ بات اس کا ثبوت ہے کہ وہ تمام شانِ نزولیں جو سورت کے دورِ نزول اور اس کی آیات کے نظمِ کلام سے ٹکرا رہی ہیں، بعد کی پیداوار ہیں۔ اور اپنی اصل میں غلط روایتیں ہیں۔ ایسی تمام روایات عراقیوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے گھڑی تھیں۔ مثلاً سورہ احزاب میں جہاں ‘اہلِ بیت’  22 کا لفظ آیا ہے اس سے بالکل پہلے اور اس کے بعد ازواجِ مطہرات سے کلام ہو رہا ہے، مگر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آیت سے خواہ یہی تاثر آ رہا ہو کہ ‘اہلِ بیت’ ازواج النبیﷺ ہیں، مگر در حقیقت وہ پنجتن پاکؓ ہیں – اور یہ بات اس تواتر سے بتائی گئی ہے کہ حاملِ قرآن ہونے کی دعویدار اس امت میں آج شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس کا دھیان لفظ ‘اہلِ بیت’ سن کر ازواج النبیﷺ کی جانب مرتکز ہوتا ہو۔ کیا صرف یہی ایک بات روایت پرستی کے غلو میں انکارِ قرآن کی نظری اور عملی صورت نہیں ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود بھی اگر کسی کا یہ ماننا ہے گو آیت نمبر ۳ کا ابتدائی اور آخری حصہ پہلے کبھی نازل ہو گیا ہو مگر ‘الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا’ کا ٹکڑا لازماً حجۃ الوداع کے موقع پر ہی نازل ہوا ہے، ان کے لیے پہلے تو مولانا مودودی کی رائے پیش خدمت ہے جو انہوں نے آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں تفہیم القرآن میں بیان کی ہے۔

"مستند روایات 23سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں واقع ہوئی ہے وہ صلح حدیبیہ سے متصل زمانہ ۶ ہجری کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ کلام ان فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نسب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے، وَالْعِلٌمُ عِنْداللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اسی سیاقِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لئے اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبیؐ پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔ ” (تفہیم القرآن، سورہ مائدہ، حاشیہ ۱۶)

جن لوگوں کی نظر سے تفہیم القرآن گزری ہوئی ہے، وہ اس بات سے واقف ہوں گے کہ مولانا نے متعدد جگہوں پر صحیح مانی جانے والی کئی روایتوں کو سورت کے الفاظ اور نظم سے ٹکرانے کے باعث، کبھی وضاحت کر کے اور کبھی بلا وضاحت ہی مسترد کیا ہے، اور اکثر و بیشتر قرآن کے ہی الفاظ کو روایتوں پر فوقیت دی ہے۔ (ابتدائی سورتوں میں تو یہ طریقہ کثرت سے نظر آ رہا ہے )، مگر طارق بن شہاب کی روایت نے کیونکہ مشہوری کے کئی ریکارڈ توڑے ہوئے ہیں، اس لیے شاید اس کا براہ راست انکار خطرے سے خالی نہ تھا۔ مگر پھر بھی مولانا کا احسان ہے کہ انہوں نے آیت قرآنی کے ساتھ ہونے والی زبردستی کی اس دھاندلی کو مِن و عَن قبول نہ کیا۔ اور آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر اُسی سلسلہ کلام کے تحت کی جس کا کہ وہ حصہ ہے۔ اگر بالفرض مولانا مودودی کے ہی پیش کردہ دو بار نزول والے نظریہ کو درست مانا جائے تو بھی اس ٹکڑے کا حقیقی نزول تو تب ہی مانا جائے گا جبکہ وہ پہلی بار 24 نازل ہوا، دوسری بار تو محض یاد دہانی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں طارق بن شہاب کی روایت تو پھر بھی مسترد ہی ٹھہرتی ہے کیونکہ (ازروئے روایتِ طارق بن شہاب) یہودیوں کی بات کے جواب میں حضرت عمرؓ کو وہ تاریخ بتانی چاہیے تھی جب آیت کا یہ ٹکڑا بحیثیتِ وحیِ متلو پہلی بار نازل ہوا تھا نہ کہ بحیثیتِ یاد دہانی دوسری بار۔

اس کے بعد بھی اگر کوئی پھر بھی اسی نظریہ کا قائل ہے کہ بقیہ آیت خواہ کبھی بھی نازل ہوئی ہو، آیت کا یہ درمیانی ٹکڑا ۱۰ہجری کے عرفہ کے دن ہی نازل ہوا ہے، تو ان سے یہ سوال کرنا جائز بنتا ہے کہ اسی آیت میں ‘الیوم’ کا لفظ ایک بار نہیں بلکہ دو بار آیا ہے۔ پہلی بار ‘الیوم’ کا لفظ آیت کے اس فقرے میں استعمال ہوا ہے:

اَلیَومَ یَئِسَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن دِینِکُم فَلَا تَخشَوہُم وَ اخشَونِ ؕ

آج کافر تمہارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو

سورہ توبہ (نازل شدہ رجب ۹ہجری) سے یہ تو واضح ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت کا یہ ٹکڑا سورہ توبہ سے پہلے ہی کبھی نازل ہو سکتا ہے، کیونکہ سورہ توبہ کے بعد اس کا نزول ایک لایعنی بات کا نزول ہونا ثابت ہوتا ہے۔ گویا قرآن پر ایک مزید الزام پڑتا ہے۔ اور اگر اس ٹکڑے کا نزول سورہ توبہ سے پہلے ہے (اور یقیناً پہلے ہی ہے ) تو اس کی تاریخ نزول کیا ہے۔ طارق بن شہاب کے دعوے کے مطابق اس نے حضرت عمرؓ کے ساتھ بیسیوں جہادوں میں شرکت کی، آخر جب اس کو ایک ہی آیت میں وارد دوسرے ‘الیوم’ کی شانِ نزول کی تاریخ معلوم پڑ گئی تھی تو اس کو اسی آیت میں وارد ‘پہلے ‘الیوم’ کے سلسلے میں جستجو کیوں نہ ہوئی۔ یا یہ پہلا ‘الیوم’ کیونکہ اس کے کسی سیاسی مقصد کی تکمیل میں اس طرح معاونت نہیں کر رہا تھا لہذا اس کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔

 

سورہ مائدہ سے مزید شہادت

 

حجۃ الوداع کے تین ماہ بعد نبی پاک کا وصال ہو گیا۔ جو لوگ سورہ مائدہ کا نزول حجۃ الوداع کے موقع پر قرار دے کر اس کو قرآن پاک کی آخری نازل شدہ سورت بیان کرتے ہیں وہ طارق بن شہاب ہی کی روایت کو مد نظر رکھتے ہیں جب کہ سورہ مائدہ ہی میں آیت نمبر ۱۰۱ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لَا تَسَٔلُوا عَن اَشیَآءَ اِن تُبدَ لَکُم تَسُؤکُم‌ۚ وَاِن تَسَٔلُوا عَنہَا حِینَ یُنَزَّلُ القُراٰنُ تُبدَ لَکُم ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنہَا‌ؕ وَاللّٰہُ غَفُورٌ حَلِیمٌ‏ ﴿۱۰۱﴾

اے ایمان والو! ایسی بات مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر یہ باتیں ایسے وقت میں پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی گذشتہ سوالات اللہ نے معاف کر دیے ہیں اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے ﴿۱۰۱﴾

اس آیت سے یہ تو واضح ہوا کہ آیندہ کے لئے مسلمانوں کو نبی پاک سے غیر ضروری سوالات کرنے سے روکا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آیندہ اگر وہ غیر ضروری سوالات کریں گے تو جوابات قرآن میں بھی ظاہر کر دیے جائیں گے۔ جو کہ نتیجتاً سائل کو ناگوار گزرے گا۔ سوالات کی نوعیت کیا ہوتی تھی، اس سے قطع نظر یہ تو واضح ہو گیا کہ سورہ مائدہ قرآن کی آخری نازل شدہ سورت ہر گز ہو سکتی بلکہ اس دور کی ہے جب کہ مدنی معاشرہ ابھی زیر تربیت تھا یعنی ہجرت کے بعد کے ابتدائی سال نہ کہ وصال نبویؐ سے متصل پہلے۔ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی آباد تھے جو کہ نبی پاکؐ کے پاس آ کر غیر ضروری سوالات کیا کرتے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ مدینہ کے نو مسلموں کو بھی بے مقصد سوالات پر اکساتے تھے نتیجتاً بعض مسلمان نبی پاکؐ سے اس نوعیت کے سوالات کرنے لگے تھے۔ سورہ بقرہ جو کہ ہجرت کے بعد پہلی تفصیلی سورت نازل ہوئی اس میں مسلمانوں کو یہود کے اس طریقہ سے عدم تعلق کی تلقین کی گئی ہے جو کہ وہ حضرت موسیٰ ؑکے دور سے اب تک ہر نبی کے ساتھ کرتے ہی چلے آئے تھے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۸ میں ارشاد ہوتا ہے:

اَم تُرِیدُونَ اَن تَسَٔلُوا رَسُولَکُم کَمَا سُئِٕلَ مُوسٰى مِن قَبلُ‌ؕ وَمَن یَّتَبَدَّلِ الکُفرَ بِالاِیمَانِ فَقَد ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیلِ‏ ﴿۱۰۸﴾

کیا تم یہ چاہتے ہوکہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو، جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ سے کئے گئے تھے۔ اور جس شخص نے ایمان (چھوڑ کراس) کے بدلے کفر لیا، وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا ﴿۱۰۸﴾

یہاں سے یہ بھی واضح ہو گیا سورہ مائدہ کی آیت ۱۰۱ میں اس موضوع پر جو آخری تنبیہ آئی ہے وہ مدینہ میں یہود کی موجودگی میں ہی آئی ہو گی کیونکہ خود قرآن بھی اس بات پر شاید ہے کہ مسلمانوں میں غیر ضروری سوالات کرنے کا طریقہ یہودیوں کی طرف سے ہی آیا تھا۔ ۵ ہجری کے آخر میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد مدینہ منورہ سے یہودیوں کا خاتمہ ہو گیا تھا لہٰذا سورہ مائدہ کا نزول ۵ ہجری سے پہلے ہی کبھی ہونا چاہیے۔

 

نزولِ سورہ مائدہ اور صلح حدیبیہ

 

۱۰ ہجری میں سورہ مائدہ کے نزول کو ماننے کی کمزوری دیکھتے ہوئے مفسرین کا ایک دوسرا گروہ اس سورت کا نزول صلح حدیبیہ کے بعد کا بتاتا ہے۔ اس گروہ کے پیش نظر درج ذیل روایت ہے جس کو نقاش نے حضرت ابو سلمہ سے روایت کیا ہے:

لما رجع من الحدیبیة قال: یا علی أشعرت أنہا نزلت علی سورة المائدة ؟ و نعمت الفائدة

جب رسول اللہ حدیبیہ سے لوٹے تو فرمایا "اے علی! کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر سورہ مائدہ نازل ہوئی ہے اور بہت اچھا فائدہ ہے ” (فتح القدیر جلد دوئم صفحہ ۴)

تفسیر قرطبی میں ابو بکر ابن العربی کے حوالے سے درج ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔

ہذا حدیث موضوع لا یحل لمسلم أعتقادہ

یہ حدیث موضوع ہے کسی مسلمان کو اس کا اعتقاد جائز نہیں (المحرر الوجیز، جلد۲)

لہٰذا ایک گھڑی ہوئی روایت کے اوپر اپنا مضمون کھڑا کرنا کوئی مضبوط دلیل نہیں بنتی۔ بعض دوسرے لوگوں نے راستہ روکنے کے ذکر کی بنیاد پر یہ گمان کیا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کا ہی موقع بنتا ہے۔ حالانکہ راستہ روکنے کا ذکر تو سورہ انفال 25میں بھی ہے، سورہ بقرہ میں بھی ہے، سورہ محمد 26و سورہ فتح 27 میں بھی ہے، یہاں تک کہ مکے میں نازل ہونے والی سورت سورہ حج 28 میں بھی ہے۔ لیکن اس بات کو اگر مان بھی لیا جائے کہ یہاں جس راستہ روکنے کا ذکر ہے وہ صلح حدیبیہ والا موقعہ ہی ہے تو صلح حدیبیہ کے فوراً بعد تو سورہ فتح نازل ہوئی ہے اور اس میں مومنین کے دلوں پر سکینت (اطمینان) نازل ہونے کا ذکر ہے۔ جب کہ سورہ مائدہ میں راستہ روکنے کے ذکر کے فوراً بعد مومنین کو تحمل کا درس دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ معاہد قوموں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے اس کا ذکر تو سورہ بقرہ اور دیگر سورتوں میں پہلے ہی نازل ہو چکا تھا۔ لہٰذا صلح حدیبیہ کے بعد تو اہلیانِ مکہ مسلمانوں کی معاہد قوم بن چکے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی ناروا سلوک کرنا تو گویا نازل شدہ احکاماتِ قرانی ہی کی نافرمانی ٹھہرتا۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کی طرف سے اطمینان بھی مسلمانوں کے قلوب پر نازل کر دیا تھا۔

ایک اور استدلال یہ ہے کہ یہ سورت عمرہ قضاء کے موقع پر نازل ہوئی کیونکہ آپؐ عمرہ پر جا رہے تھے اس لئے حج کے مسائل اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ عمرہ قضاء (۷ ہجری) میں آپؐ عمرے کی نیت سے جا رہے تھے، اور حج کی قربانی کے مسائل کا اس سے کیا ربط ہے ؟

 

سورہ مائدہ کا دورِ نزول دیگر مدنی سورتوں کے موازنہ کے ساتھ

 

سورہ مائدہ اور سورہ آل عمران (نازل شدہ ۳ ہجری)

 

سورہ مائدہ میں حضرت عیسیٰ کا ذکر بحیثیت مسیح متعدد بار ہوا ہے (سورہ مائدہ آیت ۱۷، ۷۲، ۷۵)۔ مسیح کے لغوی معنے در اصل اس شخص کے ہیں جس کے مسح کیا جائے۔ اور اس لفظ کا تصور یہودی اور عیسائی دنیا میں قدرے مختلف ہے۔ یہود میں مسیح کا تصور دورِ موسوی کے بعد کسی وقت رائج ہوا ہے۔ اور ان کی اقدار کے مطابق کسی شخص کے متعلق تائیدِ ایزدی کا علامتی اظہار اس کے سر پر تیل مل کر کیا جاتا تھا۔ بنی اسرائیل میں متعدد مسیح گزر چکے ہیں اور یہ لفظ وہ اپنے نبیوں، بادشاہوں اور کاہنوں میں سے بعض کے لئے استعمال کرتے تھے، مثلاً المسیح الکاہن، المسیح المحافظ۔ طالوت بھی مسیح تھے، حضرت داؤد بھی مسیح تھے92، یہاں تک کہ ایرانی بادشاہ کوروش (سائرس)، جن کا ذکر سورہ کہف میں ذوالقرنین کے لقب سے ہوا ہے، بھی مسیح تھے۔ گویا مسیح اسرائیلی تاریخ میں کسی مخصوص شخصیت کے ساتھ منسوب لفظ نہیں ہے۔ البتہ ان کے لٹریچر میں آخری زمانے کے ایک مثالی بادشاہ کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے، جو کہ ان کے مطابق آل داؤدؑ میں سے ہو گا۔ عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ آلِ داؤدؑ کا وہ مسیح در حقیقت حضرت عیسیؑ تھے۔ لوقا اور متی کی اناجیل اس دعوے میں وزن ڈالنے کے لیے مسلسل حضرت عیسیؑ کے لیے ‘اے داؤد کے بیٹے ‘ کی تکرار کرتی نظر آتی ہیں۔ مزید یہ کہ حضرت عیسیٰؑ کو لے کر مسیح کا تصور عیسائیوں کے یہاں اُس تصور سے خاصہ مختلف ہے جو یہود کا اپنے آخر الزمانی مسیح کو لے کر ہے۔ جبکہ تیسری طرف دورِ نبوی کے عرب لفظ مسیح سے متعلق اُن تصورات سے بالعموم نا آشنا تھے، جو یہودی اپنے آخر الزماں کو لے کر اور عیسائی حضرت عیسیٰؑ کو لے کر رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ بنیادی طور پر رسولاً الیٰ بنی اسرائیل تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مسیح بھی تھے۔ اُن کے دور کے یہودیوں نے تو بحیثیتِ مجموعی اُن کو رسول ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، مسیح ہونے کا معاملہ تو ثانوی تھا۔ لہٰذا قرآن نے جب حضرت عیسیٰؑ کا ذکر بحیثیت مسیح شروع کیا تو ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی کہ حضرت عیسیٰؑ کا نام مسیح عیسیٰؑ ابن مریمؑ تھا اور اس کا بیان سورہ آل عمران (شوال ۳ہجری) میں کر دیا تاکہ اہل کتاب بالخصوص یہود 30 آئندہ جب قرآن میں اس لفظ کو سنیں تو وہ اس سے صرف حضرت عیسیٰ ؑ کو ہی مراد لیں۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر۴۵ میں حضرت عیسیٰؑ کو بحیثیت مسیح بتایا گیا ہے۔

یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللَّہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ۔۔ ۔ ﴿۴۵﴾

اے مریمؑ! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا۔۔ ۔ ﴿۴۵﴾

گویا اس تعارفی آیت میں یہودیوں کے لیے حضرت عیسیٰؑ کے (بھی)  31مسیح ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس آیت کے جواب میں مدینہ کے یہودیوں نے طنزاً کہا کہ یہ کیسا مسیح تھا جو ہمارے پُرکھوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ سورہ آل عمران(شوال ۳ ہجری) کے فوری بعد سورہ نساء (ذوالقعدہ ۳ ہجری) میں یہودیوں کی اِس بد گوئی کا جواب دیا گیا کہ:

وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللَّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَٰکِن شُبِّہَ لَہُمْ۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۱۵۷﴾

اور(اللہ نے اِن یہودیوں کے دلوں پر مہر کر دی ہے اِن کے یہ کہنے کے سبب) کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کر دیا؛ حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا تھا۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۱۵۷﴾

واضح رہے کہ حضرت عیسیؑ کا متعدد مکی سورتوں (سورہ انعام، سورہ مریم، سورہ انبیاء، سورہ مومنون، سورہ شوریٰ، سورہ زخرف) میں بھی ذکر ہوا ہے اور سورہ بقرہ(۱ تا ۲ ہجری) اور سورہ صف(۲ ہجری) جیسی مدنی سورتوں میں بھی ہوا ہے، جو کہ سورہ آل عمران(شوال ۳ہجری) کے نزول سے پہلے نازل ہو چکی تھیں، لیکن ان میں سے کسی سورت میں بھی حضرت عیسیؑ کا ذکر لفظِ مسیح کے ساتھ نہیں کیا گیا ہے۔

سورہ آل عمران کی اس آیت میں گویا حضرت عیسیٰ ؑ کو مسیح کے لفظ کے ساتھ متعارف کرایا گیا ہے اور اس کے بعد سورہ نساء (ذوالقعدہ ۳ہجری)، سورہ مائدہ، اور سورہ توبہ (رجب۹ ہجری) میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر لفظِ مسیح کے ساتھ متعدد بار کیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کا بحیثیت مسیح سورہ مائدہ میں ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ سورہ مائدہ کا نزول سورہ آل عمران (شوال ۳ ہجری) کے بعد کسی وقت ہوا ہے۔

 

سورہ مائدہ اور سورہ نور (نازل شدہ ۶ ہجری)

 

سورہ نور کی آیت نمبر ۳ میں ارشاد ہوتا ہے:

اَلزَّانِى لَا یَنکِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَو مُشرِکَةً۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۳﴾

زناکار مرد وہ ہوتا ہے جو (فعلِ) نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ عورت سے یا مشرکہ عورت سے۔۔ ﴿۳﴾

سورہ نور کی یہ آیت جہاں ایک طرف زنا (حدود آرڈننس کی زبان میں زنا بالرضا) اور عزت لوٹنا/ریپ (حدود آرڈننس کی زبان میں زنا بالجبر) کے فرق کو واضح کر رہی ہے، وہیں قانونِ اسلامی کے تدریجاً نفاذ اور اُس کے عکس میں مدنی سورتوں کی ترتیب کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ آیت کے مطابق کسی بھی مرد پر زناکار ہونے کا اطلاق دو سورتوں میں ہو گا، اور اس کا تعین فریق مقابل کی حیثیت جانچ کر کیا جائے گا۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ عورت بھی بدکاری کی مرتکب ہوئی ہو۔ یعنی عرف میں جو فعل زنا کہلاتا ہے اس کا ارتکاب باہم رضامندی کے ساتھ دونوں فریقوں نے کیا ہو۔ اسی وجہ سے عورت کو بھی زانیہ کہا گیا ہے۔ حدود آرڈدننس کی زبان میں اس کو زنا بالرضا کہا جاتا ہے۔

دوسری صورت یہ ہو گی کہ فریق مخالف خاص جسمانی فعل کا ارتکاب اپنے تئیں سارے ضابطے پورے کرنے کے بعد کر رہا ہو۔ مثلاً ایک ہندو شریف زادی اپنے تمام ریت رواج نبھاتے ہوئے، برادری کے سامنے ایک مسلمان مرد کو ورمالا پہنائے اور پھر اس کو اپنا پتی پرمیشور مانتے ہوئے خلوت صحیحہ کی مرتکب ہوئی ہو، تو وہ کس واسطے زناکار ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ اسلامی قانون کا علم رکھنا اس کی ذمہ داری تو نہیں ہے۔ مگر دوسری طرف وہ مسلمان مرد اس کے ساتھ نکاح رچا کر بھی زناکار ہی ٹھہرتا ہے کیونکہ اسلامی قانون کے تحت یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ اور بغیر نکاح کا یہ جسمانی تعلق مرد کی طرف سے زنا ہی ٹھہرا۔ یہیں سے مزید یہ بھی واضح ہوا کہ زنا(حدود آرڈننس کی زبان میں زنا بالرضا) اور ریپ(حدود آرڈننس کی زبان میں زنا بالجبر) دو علیحدہ جرائم ہیں، کیونکہ اگر سورہ نور کی اس آیت کی روشنی میں عزت لوٹنے والے کو زانی مانا جائے تو جس کی عزت لوٹی گئی ہو اس کے لیے دو ہی امکانات رہ جاتے ہیں کہ یا تو وہ مشرکہ ہو یا پھر اس کو بھی زانیہ مانا جائے، اور زانیہ ٹھہرنے کی صورت میں وہ بھی حد کی سزا کی مستحق قرار پائے گی، جو کہ درست نہیں ہے۔

سورہ نور کی مذکورہ آیت میں زنا کے حوالے سے مشرکہ کے لفظ کا تعین یہ واضح کر رہا ہے کہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت آ چکی ہے، بصورتِ دیگر قانون قرآنی میں تناقص ثابت ہو گا۔ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت سورہ مائدہ کی آیت نمبر۵ میں دی گئی ہے۔

وَالمُحصَنٰتُ مِنَ المُؤمِنٰتِ وَالمُحصَنٰتُ مِنَ الَّذِینَ اُوتُوا الکِتٰبَ مِن قَبلِکُم۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۵﴾

(حلال کی گئیں تمھارے لئے ) خاندانی عورتیں خواہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان گروہوں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۵﴾

نکاح کے حوالے سے یہ آیت سورہ بقرہ (نزول ۱ تا ۲ ہجری) اور سورہ نساء (نزول ذوالقعدہ ۳ ہجری) کے مباحث کا تکملہ ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۱ بتاتی ہے کہ مشرک عورتوں سے نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں، جبکہ سورہ نساء کی آیت ۲۴ اور ۲۵ بتاتی ہیں کہ آئندہ کن مسلمان عورتوں سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور مزید وضاحت یہ کی گئی کہ اگر آزاد عورتیں نہ ملیں تو مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لیا جائے۔ سورہ مائدہ کی اس آیت نمبر ۵ میں بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے بھی نکاح جائز ہے۔ سورہ نور میں بتایا گیا کہ اگر مشرکہ سے نکاح کیا تو بھی مسلمان مرد زناکار ہی ٹھہرے گا۔ سورہ نور کا نزول شعبان ۶ ہجری میں ہوا ہے اور سورہ نساء کا ذوالقعدہ ۳ ہجری میں۔ گویا ثابت ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول ذوالحجہ۳ ہجری اور رجب ۶ ہجری کے درمیان کسی وقت ہوا ہے۔

 

سورہ مائدہ اور سورہ فتح (نازل شدہ ذوالقعدہ ۶ ہجری)

 

سورہ مائدہ کی آیت ۵۲ اور ۵۳ میں اسلامی ریاست کے ان منافقین کا ذکر ہو رہا ہے جو دونوں کشتیوں میں اپنے پاؤں رکھنا چاہتے تھے۔ کچھ تو وہ لوگ تھے جو کہ اعتقادی منافق تھے اور اہلِ کتاب کے ساتھ ساز باز میں مصروف تھے، کیونکہ وہ اسلام کی بیخ کنی چاہتے تھے اور کچھ دوسرے بھی تھے جو کہ عملی منافق تھے، اور جو اس انتظار میں تھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لہذا بتا دیا گیا کہ فتح مکہ یا اس سے پہلے ہی کوئی ایسا واضح قرینہ نظر آ جائے جس سے مستقبل کا نوشتہ صاف پڑھا جا سکے تو منافقین کا حال کیا ہو گا۔ اور اس وقت وہ نبی پاکؐ کو آ کر اپنی وفاداریوں کا یقین دلائیں گے۔ مسلمانوں اور کفارِ مکہ کے درمیان ہونے والی صلح حدیبیہ (ذوالقعدہ ۶ ہجری ) نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اب مکہ والوں نے مسلمانوں کے وجود کو قانونی طور پر بھی قبول کر لیا ہے، اور مستقبل میں اگر حالات نے کروٹ نہ کھائی تو کم از کم اگلے دس سال تک مسلمانوں اور اہلیانِ مکہ کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہو گی۔

فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیہِمْ یَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّہُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِہِ فَیُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِہِمْ نَادِمِینَ﴿۵۲﴾ وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا أَہَٰؤُلَاءِ الَّذِینَ أَقْسَمُوا بِاللَّہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۵۳﴾

تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں "ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں ” مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ﴿۵۲﴾ اور اُس وقت اہل ایمان کہیں گے "کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ؟”۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۵۳﴾

سورہ مائدہ کی ان آیات سے جہاں یہ واضح ہوا کہ یہ سورت فتح مکہ (رمضان ۸ ہجری) سے پہلے نازل ہوئی ہے وہیں یہ بھی واضح ہو گیا کہ یہ صلح حدیبیہ (ذوالقعدہ ۶ ہجری) سے بھی پہلے نازل ہوئی ہے، کیونکہ سورہ مائدہ کے جن الفاظ میں منافقین کے افکار کا اظہار ہوا ہے اس کی تائید صلح حدیبیہ سے واپسی پر سورہ فتح 32 (ذوالقعدہ ۶ ہجری) کی درج ذیل آیات میں کر دی گئی ہے۔

سَیَقُولُ لَکَ المُخَلَّفُونَ مِنَ الاَعرَابِ شَغَلَتنَا اَموَالُنَا وَاَہلُونَا فَاستَغفِر لَنَا‌ ۚ یَقُولُونَ بِاَلسِنَتِہِم مَّا لَیسَ فِى قُلُوبِہِم‌ؕ قُل فَمَن یَّملِکُ لَکُم مِّنَ اللّٰہِ شَیًٔا اِن اَرَادَ بِکُم ضَرًّا اَو اَرَادَ بِکُم نَفعًا ‌ؕ بَل کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِیرًا‏﴿۱۱﴾ بَل ظَنَنتُم اَن لَّن یَّنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالمُؤمِنُونَ اِلٰٓى اَہلِیہِم اَبَدًا وَّزُیِّنَ ذٰ لِکَ فِى قُلُوبِکُم وَظَنَنتُم ظَنَّ السَّوءِ ۖۚ وَکُنتُم قَومًا ۢ بُورًا‏ ﴿۱۲﴾

اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ "ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ” یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ان سے کہنا "اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے ؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے ﴿۱۱﴾ (مگر اصل بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو) بلکہ تم لوگوں نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آ سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کیے اور تم سخت بد باطن لوگ ہو” ﴿۱۲﴾

یعنی جب مسلمان مکہ کی جانب عمرہ کی نیت سے روانہ ہوئے تھے تو منافقین کو لگا تھا کہ اب مسلمانوں کی واپسی نہیں ہو گی، اور مشرکین مکہ ان کا خاتمہ کر دیں گے۔ مگر اب جب صلح کے بعد واپسی ہو رہی ہے تو مدینہ پہنچنے پر یہ لوگ دربارِ نبویؐ میں حاضر ہو کر اپنی وفاداریوں کی یقین دہانی کرائیں گے اور ساتھ ہی نہ جانے کے عذرات بھی پیش کریں گے۔ ثابت ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول صلح حدیبیہ، ذوالقعدہ ۶ سے پہلے کبھی ہوا ہے۔

سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۲ میں فرمایا گیا ہے:

وَلَا یَجرِمَنَّکُم شَنَاٰنُ قَومٍ اَن صَدُّوکُم عَنِ المَسجِدِ الحَرَامِ اَن تَعتَدُوا‌ ۘ …..‏ ﴿۲﴾

اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا، تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو…﴿۲﴾

گویا مسلمانوں میں سے بعض افراد کو مشرکین مکہ پر شدید غصہ تھا کہ اس بات کا امکان موجود تھا کہ وہ مکہ والوں کی دشمنی میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ دیں اور ناروا زیادتیوں پر اتر آئیں۔ دوسری جانب سورہ فتح کی آیت نمبر ۴ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

ہُوَ الَّذِى اَنزَلَ السَّکِینَةَ فِى قُلُوبِ المُؤمِنِینَ لِیَزدَادُو ا اِیمَانًا مَّعَ اِیمَانِہِم‌….. ﴿۴﴾

وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے ….. ﴿۴﴾ (سورہ فتح)

گویا صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں سکینت نازل کر دی گئی تھی۔ لہذا اب جب کفار مکہ کے ناجائز سلوک کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے ہی مسلمانوں کو اطمینان عطا کر دیا تھا تو مسلمانوں کی طرف سے مشرکینِ مکہ پر غصہ اور زیادتی کا احتمال باقی نہیں رہا تھا۔ یہاں سے بھی ثابت ہوا کہ سورہ مائدہ، سورہ فتح، ذوالقعدہ ۶ ہجری سے پہلے نازل ہوئی ہے۔

 

سورہ مائدہ اور سورہ احزاب (نازل شدہ ذوالقعدہ ۵ ہجری)

 

سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ میں اللہ تعالیٰ نبی اکرمﷺ سے ارشاد فرماتا ہے:

یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۶۷﴾

اے رسول جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۶۷﴾

سورہ مائدہ کی اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ اہل کتاب اور ان میں بھی بالخصوص یہود کی بنیادی بیماری کا ذکر کر رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ دین کی ترویج کا کام کرتے، انہوں نے الٹا ظلم و تعدی شروع کر دی، حرام خوری کرنے لگے، اس پر مستزاد یہ کہ یہ سمجھنے لگے کہ اللہ تو مجبورِ محض ہے، اس لیے ان کی تمام تر بد معاشیوں اور نافرمانیوں کے باوجود بھی اس کی کُل مہربانیاں اور عنایتیں انہی تک ہی محدود رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُنکی اس غلط سوچ کی وجہ سے اُن پر لعنت بھیج دی گئی ہے۔ اس تناظر میں نبی اکرمﷺ سے ارشاد ہو رہا ہے کہ بحیثیتِ پیغمبر آپؐ کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام ہدایتِ خداوندی بغیر کسی کم و کاست کے آگے پہنچائیں، ورنہ حقِ پیغمبری ادا نہیں ہو گا۔ اور اس کام میں اللہ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ اس آیت کے تحت امت مسلمہ کو بھی بالواسطہ ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ بھی مستقبل میں یہودیوں کی طرح اپنے لیے اس نظریہ کو نہ پنپائیں کہ ہم تو بخشے بخشائے ہیں، ہم سے تو جنت کا وعدہ ہے، اور اس لیے کچھ بھی اعمال کرتے رہیں، کوئی تردد کی بات نہیں ہے۔

واضح رہے کہ یہی وہ آیت ہے جس کے لیے اہلِ تشیع کہتے ہیں کہ یہ غدیر خم کے مقام پر ۱۸ ذوالحجہ ۱۰ ہجری کو تب نازل ہوئی تھی کہ جب نبی پاکﷺ حضرت علیؓ کی خلافت کے اعلان کے سلسلے میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد نبی پاکﷺ نے اپنا وہ ‘تاریخ ساز’ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت علیؓ کی خلافتِ بلا فصل کا اعلان کیا گیا۔ مزید یہ بھی کہ اس (مبینہ) اعلان کے بعد ہی سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۳ کا وہ ٹکڑا بھی نازل ہوا تھا جس کو آج یہ امت ایک الگ آیت سمجھتی ہے۔

دوسری جانب سورہ احزاب کی آیت نمبر ۳۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

الَّذِینَ یُبَلِّغُونَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَیَخشَونَہٗ وَلَا یَخشَونَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ۔۔ ۔۔ ۔ ‏ ﴿۳۹﴾

جو لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔۔ ۔۔ ۔ ﴿۳۹﴾

یہ آیت تب نازل ہوئی ہے جبکہ حضور پاکﷺ نے حضرت زینب بنت جحشؓ، جو کہ نبی پاکؐ کے متبنیٰ حضرت زیدؓ بن حارثہ کی مطلقہ تھیں، سے حکم خداوندی کے تحت نکاح کیا۔ کیونکہ یہ نکاح اس وقت کے عرب معاشرے کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا تھا تو معاشرہ با آسانی قبول کرنے پر تیار نہ تھا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول، اس کے احکامات کی بجا آوری میں کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔

اگرچہ دونوں آیات کا پس منظر مختلف ہے، لیکن آیات کے بنیادی الفاظ دونوں ہی کے مشترک ہیں۔ سورہ مائدہ میں کہا گیا ہے کہ اگر آپؐ نے خدائی احکامات کو لوگوں تک نہ پہنچایا تو آپؐ نے رسالت کا حق ہی ادا نہ کیا۔ اور دوسری طرف جب خدائی احکامات ہی کے تحت آپؐ نے حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا، تو سورہ احزاب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کے رسول احکامات کی بجا آوری میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ دونوں آیات کا مضمون دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ سورہ مائدہ کا نزول سورہ احزاب (ذوالقعدہ ۵ ہجری) سے پہلے ہوا ہے۔

 

سورہ مائدہ اور سورہ تحریم (نازل شدہ ۵ ہجری)

 

سورہ تحریم کی آیت نمبر ۲ میں اللہ تعالیٰ قسموں سے نکلنے کے لئے کفارے کا ذکر فرماتا ہے۔

قَد فَرَضَ اللّٰہُ لَکُم تَحِلَّةَ اَیمَانِکُم‌ؕ وَاللّٰہُ مَولٰکُم‌ۚ وَہُوَ العَلِیمُ الحَکِیمُ‏ ﴿۲﴾

خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔ اور خدا ہی تمہارا کارساز ہے۔ اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے ﴿۲﴾

سورہ تحریم میں یہاں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۹ ہے۔

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغوِ فِى اَیمَانِکُم وَلٰکِن یُّؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدْتُّمُ الاَیمَانَ‌ ۚ فَکَفَّارَتُہٗ اِطعَامُ عَشَرَةِ مَسٰکِینَ مِن اَوسَطِ مَا تُطعِمُونَ اَہلِیکُم اَو کِسوَتُہُم اَو تَحرِیرُ رَقَبَةٍ‌ ؕ فَمَن لَّم یَجِد فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ‌ ؕ ذٰ لِکَ کَفَّارَةُ اَیمَانِکُم اِذَا حَلَفتُم‌ ؕ وَاحفَظُوا اَیمَانَکُم‌ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُم ایٰٰتِہٖ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ‏ ﴿۸۹﴾

خدا تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے ) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے ) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ﴿۸۹﴾

معلوم ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول سورہ تحریم سے پہلے ہوا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سورہ تحریم کا اپنا نزول کب ہوا؟ اس کا جواب بھی سورہ تحریم کی ایک دوسری آیت سے مل جاتا ہے۔ سورہ تحریم کے پہلے رکوع میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر ازواج مطہرات سے خطاب ہو رہا ہے۔ آیت نمبر ۴ میں نبی کی دو ازواج کو توبہ کا حکم دیا گیا اور آیت نمبر ۵ میں فرمایا گیا کہ اگر نبی پاک تم تمام ازواج کو طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں عطا کرنے پر قادر ہے۔ سورہ احزاب شوال/ذوالقعدہ ۵ ہجری میں متعدد تقاریر کی صورت میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں مزید سخت انداز میں ازواج مطہرات کو دین اور دنیا میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا گیا۔ تمام ہی ازواج نے اللہ اور اس کے رسول کو چن لیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم سے طلاق کا حق سلب کر لیا۔ سورہ تحریم اور سورہ احزاب کے مضامین پڑھ کر یہ اندازہ بآسانی ہو جاتا ہے کہ سورہ تحریم سورہ احزاب سے متصل پہلے نازل ہونے والی سورت ہے۔ گویا سورہ تحریم کا نزول ۵ ہجری کے وسط میں کسی وقت ہوا ہے اور سورہ مائدہ کا نزول اس سے پہلے۔

 

سورہ مائدہ بموازنہ سورہ بقرہ ۱/۲ ہجری اور سورہ نساء ۳ ہجری

 

سورہ بقرہ اور سورہ نساء کی مانند سورہ مائدہ بھی احکامات ہی کے سلسلے کی ایک سورت ہے۔ سورہ بقرہ کا نزول ہجرت مدینہ کے بعد شروع ہوا اور غزوہ بدر (رمضان ۲ ہجری) سے کافی پہلے تکمیل کو پہنچ گیا۔ کیونکہ سورہ صف اور سورہ محمد بھی غزوہ بدر سے پہلے اور سورہ بقرہ کے بعد خاص جہاد کے موضوع کو لے کر نازل ہوئی ہیں۔ جب کہ سورہ نساء غزوہ احد (شوال ۳ ہجری) کے بعد سورہ آل عمران کی تکمیل ہونے پر ذو القعدہ ۳ ہجری میں نازل ہوئی۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر۔۔ میں مسلمانوں کو شراب سے گریز کی ترغیب 33 دی گئی ہے۔ سورہ نساء میں بتایا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے 34 اور سورہ مائدہ میں اس سلسلے کی تکمیل ہوئی اور شراب کی قطعی حرمت کا اعلان کر دیا گیا۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوۤا اِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالاَنصَابُ وَالاَزلَامُ رِجسٌ مِّن عَمَلِ الشَّيطٰنِ فَاجتَنِبُوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحُونَ‏ ﴿۹۰﴾ سورہ المائدہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ﴿۹۰﴾ سورہ مائدہ

معلوم ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول سورہ نساء کے بعد ہوا ہے۔

 

حاصلِ کلام

 

ان تمام تقابلات سے یہ ثابت ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول گویا ذوالحجہ ۳ ہجری (سورہ نساء کے ناول کے بعد )سے اوائل ۵ ہجری (سورہ تحریم کے نزول سے قبل) کسی وقت ہوا ہے۔ اتنی تفصیل کے بعد سورت کی اندرونی شہادت سے سورہ مائدہ کے زمانہ نزول کا قطعی تعین ہو جاتا ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۲ میں ارشاد ہوتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَآئِٕرَ اللّٰہِ وَلَا الشَّہرَ الحَرَامَ وَلَا الہَدىَ وَلَا القَلَٓاٮِٕدَ وَلَاۤ آٰمِّینَ البَیتَ الحَرَامَ یَبتَغُونَ فَضلًا مِّن رَّبِّہِم وَرِضوَانًا ‌ؕ وَاِذَا حَلَلتُم فَاصطَادُوا‌ ؕ وَلَا یَجرِمَنَّکُم شَنَاٰنُ قَومٍ اَن صَدُّوکُم عَنِ المَسجِدِ الحَرَامِ اَن تَعتَدُوا‌ ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوٰى‌ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الاِثمِ وَالعُدوَانِ‌ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ العِقَابِ‏ ﴿۲﴾

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ اُن لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں ہاں جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار تم کر سکتے ہو اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو نہیں ! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے ﴿۲﴾

اس آیت سے جن حالات کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں کہ مکے والوں سے تعلقات شدید کشیدہ ہیں کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا جواباً ناروا زیادتیوں کی طرف جانے کا بھی احتمال ہے۔ حج کے زمانے کا آغاز ہو گیا ہے اور عرب کے مختلف علاقوں سے مکے کی طرف قافلوں کی روانگی یا تو شروع ہو چکی ہے یا ہونے والی ہے۔ یعنی ذوالقعدہ کا مہینہ ہے اور یہ ذوالقعدہ ۴ ہجری کا ہی بن سکتا ہے۔ نظم قرآن اور سورہ کی اندرونی شہادتوں کی بنیاد پر ثابت ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول ذوالقعدہ ۴ ہجری بنتا ہے۔

 

۴ ہجری کے حالات میں سورہ مائدہ کا نزول

 

سورہ مائدہ کی تفصیل میں ایک انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ یہ چوتھی طویل سورت ہے جو کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نازل ہوئی ہے۔ سورہ بقرہ ہجرت مدینہ کے بعد پہلی طویل سورت نازل ہوئی جو کہ غزوہ بدر سے پہلے نازل ہوئی۔ اس سورت میں ان وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جن کی وجہ سے یہودی امامت کے عہدے سے معز ول ٹھہرے تھے۔ اور بنیادی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے سمعنا و اطعنا کی بجائے سمعنا و عصینا کا طریقہ اپنایا ہوا تھا۔

سورہ بقرہ میں پھر اسلامی ریاست کے مسلمان شہریوں کو بتایا گیا کہ شہداء علی الناس کے کام آپ لوگوں کے سپرد کر گیا ہے۔ (آیت ۱۴۳)۔ مزید یہ کہ مرکز اسلام مکہ المکرمہ کے رہائشیوں کی طرف اقدامی جہاد کی تحریک (۱۴۴) اور پھر حکم دے دیا گیا (۱۴۹)؛ لہٰذا اس اقدام میں اب مکہ والوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف اللہ سے ڈریں اور اس کے ان احکامات کی اطاعت کریں تاکہ وہ مکہ والوں پر غلبہ کی صورت میں اپنی نعمت آپ لوگوں کو عطا کرے (۱۵۰)۔ جہاد الی مکہ کے حکم کی پیروی کر کے مسلمان ویسے ہی فلاح پائیں گے جیسے اللہ نے ان لوگوں کے درمیان اپنا رسول بھیجا اور وہ رسول ان لوگوں کی زندگیاں سنوار رہا ہے (۱۵۱)۔ لیکن یاد رہے کہ یہ ایک کٹھن مرحلہ ہو گا لہٰذا صبر اور نماز کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتے رہیں (۱۵۳) اور جو مسلمان جہاد کرتے ہوئے مارے جائیں ان کو مردہ مت کہیں کہ اُن لوگوں نے اپنی زندگیاں گنوا دیں وغیرہ وغیرہ بلکہ در حقیقت وہ لوگ تو زندہ ہوں گے تاہم باقی لوگوں کے شعور سے ماورا ہوں گے (۱۵۴)۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو اس راستہ میں بھوک، خوف، خطر اور جان و مال کی آزمائشوں سے بھی گزرنا ہو گا (۱۵۵)۔ ایسے حالات میں صبر کرنا ہو گا اور اللہ سے رجوع کرنا ہو گا (۱۵۶)۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی خاص عنایت نازل ہوں گی۔

جہاد سے متعلق ان احکامات کے بعد مزید احکامات بھی آئے ہیں جن میں حرام و حلال بھی زیر بحث آیا۔ اور جب مسلمانوں نے سمعنا و اطعنا کا اقرار کر لیا (۲۸۵)تو اللہ تعالیٰ نے بھی وعدہ فرمایا کہ اللہ بھی کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالے گا(۲۸۶)۔ سورہ بقرہ کے بعد سورہ محمد میں جہاد کے طریقہ کار بیان کیے گئے تاہم غزوہ بدر میں بعض صحابہ سمعنا و اطعنا کے اس اقرار کو مکمل طور پر پورا نہ کر سکے35۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو غیر معمولی فتح تو حاصل ہوئی لیکن کفار مکہ بھی پوری طرح کچلے نہ جا سکے۔ اس بات کا ذکر سورہ انفال  36میں ہے۔

۳ ہجری میں آل عمران نازل ہوئی، یہودیوں اور مشرکوں سے کہا گیا کہ اگر تم لوگوں نے حق کو قبول نہ کیا تو تم لوگوں کا انجام بھی فرعون اور دیگر اقوام کی طرح ہو گا(۱۱) اور عنقریب تم ضرور مغلوب ہو جاؤ گے (۱۲)۔ پھر ان لوگوں کو غزوہ بدر کے حوالے سے تنبیہ دی گئی کہ کس طرح اللہ نے ایک قلیل گروہ کو ایک بڑے گروہ کے مقابلے میں اللہ نے فتح دی(۱۳)۔ اس کے بعد نیک اور تقویٰ گزار لوگوں کی خصوصیات گنوائی گئی ہیں اور پھر کہا گیا کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام یعنی اللہ کی تابعداری ہے (۱۸)۔ سورہ آل عمران کے پہلے حصہ کے نزول کے بعد غزوہ احد ہوئی اور مسلمانوں کو ابتداء میں کامیابی حاصل ہوئی۔ کفار مکّہ کے جب پاؤں اکھڑ گئے تو مسلمانوں کے تیر اندازوں کے دستے نے سمعنا و اطعنا کے حلف کے برخلاف اپنے صوابدید پر مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا، جب کے رسول کی طرف سے جگہ چھوڑنے کا کوئی حکم نہیں آیا تھا۔ لہٰذا بھاگے ہوئے کفار نے جب خالی جگہ دیکھی تو دوبارہ آ کر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ نتیجتاً مسلمانوں کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ احد میں کامیابی نہ ملنے کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کی طرف سے سمعنا و اطعنا کے عہد میں کچھ کمی رہ جانا تھی۔ لہٰذا اللہ کی طرف سے بھی کفار کے مغلوب ہو جانے کا عہد فوری طور پر پورا نہ ہوا۔

مگر اس کے بعد جب مسلمانوں نے سمعنا و اطعنا کی مکمل طور پر پاسداری کی تو ۴ ہجری میں غزوہ بنو نضیر اور پھر غزوہ بدر صغریٰ میں یہود مدینہ اور مشرکین مکہ دونوں پر بلا کسی جانی نقصان کے مسلمانوں کا ابدی غلبہ قائم ہو گیا۔ غزوہ احزاب ۵ ہجری میں مکہ والوں نے بنو نضیر کے جلا وطن یہودی قبیلے اور عرب کے کئی دیگر قبائل کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ اور ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام اور نامراد ہوئے۔ مدینہ میں مقیم یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے مرد اس جنگ میں غداری کرنے کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئے۔ اور پھر اس کے بعد خیبر اور فتح مکہ میں بھی اسی غلبہ کا پھر اظہار ہوا۔

در اصل غزوہ بدر صغریٰ مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین غزوات میں سے ایک ہے۔ شوال ۳ہجری میں غزوہ احد سے واپسی پر کفارِ مکہ کے سردار جناب ابو سفیان نے بدر کے مقام پر اگلے سال دوبارہ مقابلے کی دعوت دی تھی جس کو مسلمانوں نے قبول کر لیا تھا۔ ربیع الاول ۴ ہجری میں غزوہ بنو نضیر کی صورت میں مسلمانوں کو ایک غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ اس غزوہ میں مدینہ کے سب سے متمول یہودی قبیلے بنو نضیر نے بغیر کسی جنگ کے ہتھیار ڈال دیے تھے اور خیبر کی طرف جلا وطنی قبول کر لی تھی۔ معاہدے کی رو سے اپنا تمام جنگی اسباب اور غیر منقولہ جائیداد مدینہ چھوڑ کر روانہ ہوئے تھے۔ جو کہ مال فے کی صورت میں مسلمانوں کو حاصل ہوا تھا۔ جہاں ایک طرف اس غزوہ کا ایک انتہائی مثبت نفسیاتی اثر مسلمانوں پر پڑا وہیں مخالفین بشمول اہلیانِ مکہ کو شدید دھچکا ملا۔ شوال ۴ ہجری میں وعدے کے مطابق مسلمان میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے حالانکہ صرف ایک سال قبل وہ مکہ والوں کے ہاتھوں زبردست چوٹ کھ اچکے تھے لیکن دوسری جانب مکہ والے اپنے ہی دیے ہوئے چیلنج پر میدانِ بدر نہ آئے۔ اسی اثناء میں ذو القعدہ کا مہینہ شروع ہوا، اور سارے عرب سے حج کے قافلے مکہ کی طرف روانہ ہونا شروع ہو گئے اور اس طرح وہ سب ہی مکہ والوں کی بزدلی پر مبنی اس پسپائی سے فوری واقف بھی ہو گئے۔ گویا سارے عرب میں مکہ والوں نے اپنی سبکی کا سامان خود ہی پیدا کر لیا۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔

غزوہ بنو نضیر اور غزوہ بدر صغریٰ میں ملنے والی مسلمانوں کو ملنے والی غیر معمولی کامیابی، مسلمانوں کو اعتدال کی راہ سے افراط کی جانب بھی لے جا سکتی تھی، لہٰذا سورت کے ابتدا ہی میں ان کو یاد دلا دیا گیا کہ اللہ سے جو عہد کیے ہوئے ہیں ان کو یاد رکھیں اور مکے والوں کی دشمنی میں ان لوگوں کو کچھ نہ کہہ دیں جو محض حج کے سلسلے میں مکہ جا رہے ہیں۔ دشمنی کے اظہار کے بھی ضابطے ہوتے ہیں۔ اور بھلائی کے کاموں میں بہرحال تعاون ہی کیا جائے۔

 

الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ کے معنی نظم قرآن کے تناظر میں

 

مولانا مودودیؒ اپنی کتاب” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات” میں لفظ دین کے ذیل میں فرماتے ہیں۔

قرآن میں لفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے:

  • غلبہ اور تسلط کسی ذی اقتدار کی طرف سے
  • اطاعت تعبد و بندگی صاحب اقتدار کے لیے
  • قاعدہ ضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے
  • محاسبہ فیصلہ و جزا و سزا

مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ لفظ دین کی اس تعریف کی روشنی اور غزوہ بدر صغریٰ کے پس منظر میں الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا کا ترجمہ یوں بنتا ہے:

آج میں نے (مسلمانانِ مدینہ) تمہارے غلبہ کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے (آج کے بعد نہ تو یہود مدینہ تم پر غالب آئیں گے اور نہ ہی مشرکین مکہ) اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے (جس کا وعدہ سورہ بقرہ آیت ۱۵۰ میں کیا تھا) اور تم لوگوں کے لیے اسلام کے دین (ضابطہ) ہونے پر راضی ہو گیا ہوں (کہ تم لوگوں نے پوری طرح تابعداری کا مظاہرہ کیا تو میں نے بھی بلا جنگ دونوں فریقوں کو سرنگوں کر دیا۔

 

حرف آخر

 

ثابت ہوا کہ سورہ مائدہ کا نزول غزوہ بدر صغریٰ سے واپسی پر ذوالقعدہ ۴ ہجری میں ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے دور نزول کے تعین کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اور یہ ثابت کر کے ہمیں فائدہ کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم فائدہ جو ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ایسی کئی روایات جن کی سند یا متن میں ضعف موجود ہو، اور اس پر مستزاد کہ متن شان نزول ہونے کی اِبا بھی کر رہا ہو تو ایسی روایت کی حقیقت کھل کر سامنے آ سکتی ہے۔ مثلاً حضورؐ کا ہجرت کے بعد جمعہ کا پہلا خطبہ، اس خطبہ میں سورہ آل عمران اور سورہ احزاب کی آیات کا بھی ذکر ہے۔ ظاہر یہ دونوں سورتیں اپنے متن کے اعتبار سے مدنی ہیں اور اس پر سب کا اتفاق بھی ہے۔ تو ایسی صورت حال میں ان دونوں سورتوں کے الفاظ کا ان کے نزول سے پہلے ہی کسی خطبہ میں ذکر کیسے ممکن ہو گیا۔ ایسے ہی حضرت عمرؓ کا اپنے بہن کے گھر اسلام لانے کا واقعہ ہے۔ جس میں تلاوت کی گئی آیات کا تعلق سورہ حدید سے بتایا گیا ہے جو کہ ہجرت کے سا تویں سال نازل ہوئی، تو مکی دور کے ایک واقعہ میں اس کا ذکر خود بخود سوالات کو جنم دیتا ہے کہ آیا حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طور پر ہے بھی جس طور پر وہ شہرت پا گیا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ ایسے متعدد واقعات ہماری تاریخ اور روایات میں درج ہیں کہ جن کی شانِ نزول سے منسوب واقعہ تو مدنی ہو جب کہ سورہ پہلے ہی مکہ میں نازل ہو چکی ہو۔ سورہ مائدہ کو اگر اس کے درست محل پر متعین کیا جائے گا تو قرآن خودبخود کئی مشہور دیومالائی اور تبرائی روایتوں کو پرکھنے کی کسوٹی بن جائے گا۔ ان میں ایک اہم واقعہ نبی پاکؐ کی حضرت ماریہؓ کے ساتھ حضرت حفصہؓ کے گھر میں ملاقات ہے۔ اس واقعہ کو مغربی دنیا خوب اچھالتی ہے، جبکہ ہمارے لوگ دفاعی تاویلات دیتے رہتے ہیں۔ اتنی محنت اس مبینہ وقوعہ کی تاویلات کرنے کی بجائے اگر اس پر کر لی جاتی کہ آیا یہ قصہ تاریخی اعتبار سے ممکن بھی ہے یا کسی درمیانی راوی نکی کارستانی ہے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ حضرت ماریہ ۷ ہجری میں حرم نبوی میں شامل ہوئیں، سورہ مائدہ (ذوالقعدہ ۴ ہجری)، سورہ تحریم (وسط ۵ ہجری) اور سورہ احزاب (ذوالقعدہ ۵ ہجری) کا دور نزول کا درست تعین اس واقعہ کے جھوٹے ہونے کا اعلان کر دیتا ہے کیونکہ جس سورت (سورہ تحریم) کا حوالہ اس قصہ کی شان نزول بتایا گیا ہے وہ تو کئی سال پہلے نازل ہو چکی ہے اور تینوں سورتیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ روایت یا اس نوعیت کی دیگر روایتیں منافقین عجم نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر پھیلائی ہی اس مقصد سے تھیں کہ حیات نبویؐ پر رکیک حملے کر کے اسے داغدار بنایا جائے۔ اور نتیجتاً اسلام کے پھیلاؤ پر بند باندھا جا سکے، اور وہ اپنی اس سازش میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اسلام جس رفتار سے پھیلا بعد کی ساڑھے تیرہ صدیوں میں نہ پھیل سکا۔

آج کے دور کے ملحدین اور مستشرقین انہی روایات کو لے کر اسلام اور نبی کریمؐ کی ذات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہماری جوابی تاویلات اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ تذبذب کا شکار مسلمان نوجوان ان تاویلات سے مایوس ہو کر بہت حد تک اپنے افکار میں ملحد ہو جاتا ہے۔ سورتوں کے صحیح دورِ نزول کے تعین سے نبی کریمؐ کے ذات کے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ کے کردار پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی با آسانی مل سکتے ہیں۔

دوسرا اہم فائدہ جو کہ سورتوں کے صحیح دورِ نزول کے تعین سے پہنچ سکتا ہے اور جو ہمارے آج کی معاشرتی زندگی سے متعلق ہے، وہ نومسلموں کو لے کر ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہو کہ اسلام کے احکامات ایک نو مسلم معاشرے میں تدریجاً نافذ ہوئے تھے۔ اسلام قبول کرنے کی صورت میں ایک نو مسلم کو جن معاشی اور معاشرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بحیثیت پیدائشی مسلمان اس کا ادراک ہم نے نہیں کر پاتے ہیں۔ اگر بالفرض نو مسلم شادی شدہ ہو تو مسائل دو چند ہو جاتے ہیں، یعنی سماجی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ازدواجی پہلو کی جہت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اور اگر انفرادی حیثیت میں اسلام قبول کرنے والی وہ نو مسلمہ اگر شادی شدہ عورت ہو تو دشواریوں میں مزید اضافہ۔ ایسی صورت حال میں بہت سی عورتیں قبولِ اسلام کی ہمت ہی نہیں کرپانیں۔ ابتدائی صدیوں میں مسلمانوں کی ۹۹ فیصد آبادی، خواہ پیدائشی مسلمان ہوں یا نومسلم، ان علاقوں میں مقیم تھی جو کہ دارالسلام کا حصہ تھے۔ لہٰذا خاندان یا برادری کی طرف سے ہونے والے مقاطعات کے جواب میں ریاست کی طرف سے ایک حد تک معاونت حاصل ہو جاتی تھی۔ آج صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج کی زبان میں دارالسلام ان ممیلک کو بالعموم کہ دیا جاتا ہے جن میں مسلم اکثریت ہو اور آج انہی ممالک میں غیر مسلموں کے مسلمان ہونے پر قدغنیں لگانے کی بات بھی ہوتی ہے، لہذا نو مسلم کو بعض اوقات ریاست کی طرف سے بھی معاندانہ رویہ کا سامنا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ آج کے زمانے میں بیشتر نومسلم وہ لوگ ہیں جو کہ دارالکفر کے شہری ہیں جیسے مغربی ممالک یا ہندوستان۔ ایسے ممالک میں تو شادی شدہ فرد کے لئے اپنا مذہب بدل کر اسلام قبول کرنا بہت دشوار ہے کیونکہ تبدیلیِ مذہب کرنے والا فریق اکثر و بیشتر فتووں کی صورت میں اپنے نکاح سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اگرچہ بعض صورتوں میں عدت کے دورانیے تک (تین مہینہ) نکاح کو معتبر بھی مان لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مدت ایک قلیل مدت ہے جس میں فریق ثانی سے اسلام قبول کرانا تو دور کی بات اسلام سے روشناس کرانا بھی نا ممکن ہوتا ہے۔ نتیجتاً خاندان کا بکھرنا ایک لازمی عمل ٹھہر جاتا ہے۔ اور اگر نو مسلم فریق پھر بھی اپنے (سابقہ) غیر مسلم شریک حیات کے ساتھ رہے تو زناکار ٹھہرتا ہے۔

یہ مسئلہ کوئی معمولی نوعیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ پہلے جب مسلمان دنیا میں غالب تھے تو اس مسئلہ کے دوسرے حل موجود تھے مگر آج جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ آج کی صورت حال میں اس مسئلہ کے سلسلے میں اگر قرآن سے مدد لی جائے تو آسانی ہو سکتی ہے۔ اسلام کے ابتدائی احکامات بھی تو نومسلموں پر ہی نافذ ہو رہے تھے۔ سورہ نساء (۳ ہجری) میں مسلمانوں کو آئندہ مسلمانوں سے ہی نکاح کی ہدایت کی گئی ہے جب کہ سورہ مائدہ (۴ ہجری) میں اہل کتاب کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سورہ ممتحنہ(۷ہجری) میں مشرکوں سے نکاح کی تنسیخ کر دی گئی۔ اگر اس ترتیب پر غور کیا جائے تو نو مسلم فریق کو اس کے مشرک شریک حیات کے ساتھ جاری مناکحت کی تنسیخ کے لئے ۴ سال کا وقت دیا گیا ہے۔ یہ دورانیہ اتنا کافی ہے کہ نکاح کے دونوں فریق اسلام پر راضی یا عدم رضامندی کی صورت میں اپنا اور اپنی اولاد کے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔

ایک دوسرا اہم نکتہ اہل کتاب شادی شدہ عورت کا اسلام قبول کرنا ہے۔ سورہ مائدہ (۴ ہجری) میں مسلمان مردوں کو اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جب کہ سورہ نور(۶ ہجری) میں کہا گیا ہے کہ زانیہ عورت نکاح نہیں کرتی مگر زانی مرد سے یا مشرک مرد سے، یعنی اگر مسلمان عورت مشرک مرد سے نکاح کرتی ہے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ زنا ہوتا ہے۔ ان دونوں آیات کی تطبیق کی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ غیر شادی شدہ اہل کتاب نو مسلمہ تو اہل کتاب مرد سے شادی نہیں کر سکتی مگر شادی شدہ اہل کتاب عورت اگر مسلمان ہو گئی ہے تو وہ اپنے کتابی شوہر کے ساتھ بحیثیت بیوی کے رہ سکتی ہے۔ مگر قبولِ اسلام کے وقت اس کا شوہر اگر کتابی نہ ہو اور مشرک ہو تو پچھلی دلیل کے مطابق ۴ سال کے بعد نکاح منسوخ ہو جائے گا۔

اسی طرح تاریخ میں ایک اور واقعہ بھی ذکر آتا ہے۔ دسویں صدی عیسوی کے روسی حکمران ولادمیر نے جب سلاوی وثنیت چھوڑ کر کسی باقاعدہ مذہب کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے یہودیوں، کیتھولک عیسائیوں، مشرقی کلیسائی عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی اپنا مذہب پیش کرنے کی دعوت دی۔ عیسائیوں کے ایماء پر بادشاہ نے مسلمانوں سے شراب کے متعلق ان کے مذہبی عقائد دریافت کیے، کیونکہ روس میں شراب کا چلن بہت عام تھا۔ اور جب مسلمانوں کی طرف سے شراب کی حرمت، اور اس سے فوری اجتناب کے دلائل آئے تو روسی بادشاہ نے اسلام پر عیسائیت کو فوقیت دے دی اور مشرقی کلیسائی عیسائیت اختیار کر لی۔ دیکھا جائے تو دورِ نبوی کے نو مسلم معاشرے میں شراب کی حرمت کے احکامات فوری نہیں بلکہ تدریجاً آئے تھے۔ سورہ بقرہ (۲ ہجری) میں شراب سے نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ سورہ نساء (۳ہجری) میں نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کا حکم آیا، اور سورہ مائدہ (۴ ہجری) میں شراب کی قطعی حرمت کا اعلان کیا گیا۔ غور کیا جائے تو اس معاملے میں بھی قرآن نے ایک انسانی فطرت کے مطابق حل مہیا کیا تھا جو کہ بعد کی نسلوں سے صرف سورہ مائدہ کے غلط دورِ نزول کی شہرت کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہو گیا اور تاریخ کا پورا دھارا بدل گیا۔ ورنہ بہت ممکن ہے کہ اُس وقت روسیوں کے قبولِ اسلام کی وجہ سے مشرقی یورپ کے کئی ممالک آج مسلم ممالک کی فہرست میں شامل ہوتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حواشی

 

1۔تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ ۴۳۴،سورہ مائدہ، زمانہ نزول

2۔ اور تمہیں اس قوم (مشرکین مکہ) کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو —– ﴿۲﴾

3 ۔ اے پیغمبرؐ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں خواہ وہ اُن میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے (یعنی منافقین)، یا اُن میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں، اور دوسرے لوگوں (یعنی مشرکین مکہ) کی خاطر، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے، سن گن لیتے پھرتے ہیں — ﴿۴۱﴾

 

 

4۔حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚذَ‌ٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴿۳﴾ (سورۃ المائدہ)

5۔ ابن عباس رضی الله عنہما نے آیت «اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا» پڑھی، ان کے پاس ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اگر یہ آیت ہم ( یہودیوں ) پر نازل ہوئی ہوتی تو جس دن یہ آیت نازل ہوئی ہے اس دن کو ہم عید ( تہوار ) کا دن بنا لیتے یہ سن کر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: یہ آیت عید ہی کے دن نازل ہوئی ہے۔ اس دن جمعہ اور عرفہ کا دن تھا۔ ( اور یہ دونوں دن مسلمانوں کی عید کے دن ہیں ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔

6۔ اے رسول جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا اور الله تجھے لوگوں سے بچائے گا بے شک الله کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا (سورہ مائدہ آیت ۶۷)

7۔ کہانی کے بقیہ حصوں کو کس طرح سے قبول کروایا گیا ہے، اس کا اجمالی ذکر آگے آئے گا۔

8۔ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ  أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (سورہ مائدہ آیت ۲۴) کہا اے موسیٰ ہم کبھی وہاں داخل نہیں ہو ں گے جب تک کہ وہ اس میں ہیں سو تو اور تیرا رب جائے اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔

9۔ مولینا ابو الاعلیٰ المودودیؒ  سورہ حج کی آیات ۵۲ اور ۵۳ کی تفسیر کے ذیل میں حاشیہ ۱۰۱ میں اسی سوچ کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ ‘کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟’

10۔ ان صحابہ کے نام حضرت مقدادؓ بن اسود، سلمانؓ فارسی اور ابوذرؓ غفاری ہیں۔ جبکہ بعض شیعہ روایتوں کے مطابق چوتھے صحابی حضرت عمارؓ بن یاسر ہیں- شیعہ کتاب ’اختصاص‘ میں امام جعفر صادقؒ کا قول نقل کیا گیا ہے، امت میں مقدادؓ کا رتبہ وہی ہے جو قرآن مجید میں لفظ ’الف‘ کا ہے۔

11۔ قال قيس بن مسلم : سمعته يقول : رأيت رسول الله ۔ صلى الله عليه و سلم ۔ وغزوت في خلافة أبي بكر وعمر بضعا وثلاثين ۔ أو قال : بضعا وأربعين (قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے سنا کہ میں نے رسول آللہﷺ کو دیکھا ہے، اور میں نے ابوبکر اور عمر کی خلافت میں تیس سے اوپر یا چالیس سے اوپر غزوات میں حصہ لیا ہے)۔ اس کے اس دعوے کے لکھنے کے باوجود بھی امام ذہبی نے اسے تابعین کے زمرے میں ہی گنا ہے، شاید یہ مقامِ صحابیت کے اعجاز میں سے تھا۔

12۔ سعید بن جبیر یمنی کوفی الاسدی سے روایت ہے کہ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر فتح عنایت فرمائی تھی چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار)

13۔ Babylonian Diaspora

14۔    (اے نبی) تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے— ﴿۸۲﴾ (سورہ مائدہ)

15۔ اس روایت کا دوسرا راوی سلیمان بن مہران الاعمش ہے جسکو صحاح کا راوی ہونے کے باوجود بھی سب نے بالاتفاق شیعہ کہا ہے-

16۔    حضرت عمرؓ کی پوتی مروانؒ کے بیٹے عبد العزیزؒ کی بہو ہیں اور حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کی والدہ ہیں۔ حضرت علیؓ کی صاحبزادی رملہؒ (جن کا نام ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ بنت ابو سفیانؓ کے نام پر حضرت علیؓ نے رکھا تھا اور جو کہ حضرت امیر معاویہؓ کی بہن بھی ہیں) کی شادی مروانؒ کے ایک اور بیٹے معاویہؒ بن مروانؒ سے ہوئی۔ مروانؒ کے پوتے ولیدؒ بن عبدالمالکؒ بن مروانؒ کی زوجہ حضرت حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب کی پوتی تھیں۔ نسب کی کتابوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان جلیل القدر صحابہ کرامؓ کے خاندان نہ صرف مروانؒ سے راضی تھے بلکہ ان سے رشتہ داریاں بھی کر رہے تھے۔ طارق بن شہاب کی روایت کی روشنی میں حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت عمر ؓکے خاندان کے لوگوں کے عمل کو کیا گردانا جائے گا۔

17۔ قبل از اسلام عراق کا دریائی میدان اشوریوں کی اکثریت کا علاقہ تھا جو کہ  آرامی بولیاں بولتے تھے۔ علاقے کی زرخیزی کی وجہ سے مختلف وقتوں میں خراسانی، فارسی، آرمنیانی، نبطی، یونانی اقوام کے افراد بھی آ بسے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ خطہ بادشاہ بخت نصر کے بعد سے یہودیوں کے دورِ پراگندگی کے باعث ان کی سب سے بڑی آماجگاہ بھی تھا۔ ساسانیوں کی سِطوَت کا مقام یعنی ان کا دارالحکومت طیسفون (خسرو پرویز کا دارالحکومت جس کو عربی میں مدائن بھی کہتے ہیں) بھی اسی خطہ میں موجود تھا۔ دریا فرات کے جنوب میں بنو لخم کا عرب قبیلہ بھی آباد تھا۔ دور فاروقی میں جنگ قادسیہ کے بعد کوفہ اور بصرہ کے نام سے دو شہر بطور چھاؤنی بسائے گئے تھے۔ جن میں بیشتر آبادی یمنی الاصل عربوں کی آ کر بسی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس خطہ کے لوگوں نے بھی عربی زبان کو اپنا لیا اور آج یہ خطہ ایک عرب علاقہ ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں یمن کا مشہور  سدمارب ڈیم ٹوٹ جانے کے بعد کئی یمنی قبائل عرب کے صحراؤں میں بادیہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے۔ البتہ بنو لخم اور غسانی عرب مختلف وقتوں میں عراق اور شام کے مضافاتی علاقوں میں جا کر بس گئے تھے۔ کوفہ اور بصرہ کی آبادکاری کی صورت میں ان یمنی قبائل کو دوبارہ زرخیز میدانوں میں آباد ہونے کا موقع ملا تھا۔

18۔  محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ ﴿۲۹﴾ (سورہ فتح)

19۔  قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (سورہ مائدہ ۱۵)

(اے اہل کتاب!)بےشک تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔

20۔     ذَ‌ٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ  فِيهِ (سورہ بقرہ آیت ۲)

(قرآن مجید) وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔

21۔ فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ (سورہ طور آیت ۳۴)

اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا تو لائیں

22۔   نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو ﴿۳۲﴾  اپنے گھروں میں وقار سے رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں سج دھج دکھاتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے ﴿۳۳﴾  اور بیان کرتی رہو  اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں، بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے ﴿۳۴﴾ (سورہ احزاب آیات ۳۲۔۳۴)

23۔ مستند روایات سے ان کی مراد طارق بن شہاب کی زیرِ بحث روایات ہیں۔

24۔   مولینا مودودیؒ کے نظریہ کے مطابق صلح حدیبیہ سے متصل زمانہ نزول ہے۔

25۔اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اِتراتے ہوئے (یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے لیے ) اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے ﴿۴۷) سورہ انفال

26۔  جو لوگ کافر ہوئے اور خدا کے رستے سے روکتے رہے پھر کافر ہی مر گئے خدا ان کو ہرگز نہیں بخشے گا ﴿۳۴) سورہ محمد

27 ۔وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو اُن کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا اگر (مکہ میں ) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے ) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے ﴿۲۵﴾ سورہ فتح

28 ۔ جو لوگ کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے رستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں۔ خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے۔ اور جو اس میں شرارت سے کج روی (وکفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ﴿۲۵﴾ سورہ حج

29۔ مگر اے مالک! تو نے اپنے مسیح (چنے ہوئے داؤد) پر غضبناک ہوگیا۔  (کتاب: تہلیم/مزمور/زبور؛ باب: ۸۹؛ آیت: ۳۹)۔

30۔    اُس وقت (۳ ہجری) مدینہ میں بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہودی قبیلے آباد تھے۔

31۔    اس لیے کہ یہودی جن دیگر افراد کو مسیح مانتے آئے تھے، ان کا  مسیح ہونے سے انکار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ حضرت عیسیؑ کا نام مسیح عیسیؑ ابن مریمؑ ہے۔

32۔ سورہ فتح، صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ واپسی پر اثنائے سفر نازل ہوئی تھی۔

33۔پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو ﴿۲۱۹﴾ سورہ بقرہ

34۔  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو—﴿۴۳﴾ سورہ نساء

35۔  پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔۔۔(۴) سورہ محمد

36  ۔کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے ﴿۶۷) سورہ انفال

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل