FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سورہ الکہف اور عصرِ حاضر

 

سورہ الکہف کے تعلیمی اور تربیتی پہلو

 

 

ڈاکٹر دلدار احمد علوی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں
 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

سورہ الکہف: تمہید اور خلاصہ

 

سورہ الکہف سورہ نمبر ۱۸ ہے۔ یہ رسولِ اکرمﷺ کی مکی زندگی کے اس آخری دور میں نازل ہوئی جب سردارانِ مکہ کی مخالفانہ سرگرمیاں اپنے عروج کو پہنچ چکی تھیں۔ وہ نہ صرف ہر طرح کے جبر و تشدد سے کام لے رہے تھے، بلکہ بزعمِ خویش علمی و فکری سوال بھی اٹھا رہے تھے۔

شرک اور اکابر پرستی کے عقائد نوعِ انسانی کے لئے زہرِ قاتل ہیں چاہے ان کا سرچشمہ کچھ بھی ہو۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی بقا اور نشو و نما ء توحیدِ خالص کے ساتھ ناقابلِ انقطاع وابستگی کے بغیر ممکن نہیں۔ سورہ بتاتی ہے کہ گوناگوں عملی اور فکری چیلنجوں کے جواب میں اہلِ ایمان کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیئے۔ سورہ کا مجموعی مزاج تمثیلی ہے، وہ تمثیلوں اور مثالوں کے ذریعے کائناتِ وجود کے گہرے اسرار و رموز کا انکشاف کرتی اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول اور ضابطے سکھاتی ہے۔

رسولِ اکرمﷺ کی مدینہ ہجرت سے کچھ عرصہ پہلے کا مکہ ہے۔ رسولِ اکرمﷺ پوری درد مندی اور دلسوزی کے ساتھ حق کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ اہلِ ایمان کی چھوٹی سی جماعت سخت گیر سردارانِ مکہ کے غیض و غضب کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ وہ رسولِ اکرم اور آپ کے پیغام کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حق پوری وضاحت اور دلائل کے ساتھ سامنے آ چکا ہے، مگر کفار کی مخالفت میں شدت آتی جا رہی ہے۔ وہ گویا زبانِ حال سے عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جب یہ سورہ نازل ہوئی۔

قرآن نے اصحابِ کہف کے اپنے قصے میں در اصل اس صورتِ حال کا نقشہ کھینچا ہے جس کا مکہ کے مظلوم مگر با ہمت اہلِ ایمان سامنا کر رہے تھے۔

"بے شک وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے (ان کی ثابت قدمی کے باعث) ان کے شعورِ ہدایت کو اور بڑھا دیا تھا۔ اور جب وہ راہِ خدا میں اٹھ کھڑے ہوئے توہم نے ان کے دلوں کو مضبوطی عطا کی، پس انھوں نے (برملا) کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور کو بطورِ معبود ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو گویا ہم نے ایک ایسی بات کہی جو حق سے نہایت ہی ہٹی ہوئی ہے۔ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ یہ ان (کی الوہیت) کے حق میں کوئی روشن دلیل کیوں نہیں پیش کرتے ؟ پس، اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے متعلق ایسی بات تراشے جو خلافِ حقیقت ہو”۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ قرآنِ مجید اصحابِ کہف کا قصہ ایک تاریخ نگار کے طور پر پیش نہیں کر رہا، نہ یہ اس کا مقصد ہے۔ وہ اپنے آپ کو اول تا آخر کتابِ ہدایت کہتا ہے، اور اس حوالے سے وہ ماضی کے واقعات کو اپنی بات کہنے کے لئے بطور واسطہ یا میڈیم کے کام میں لاتا ہے۔ اصحابِ کہف کتنے تھے، ان کے نام کیا کیا تھے، وہ کہاں کے رہنے والے تھے، ان کا تعلق کس زمانے سے تھا، وہ غار میں کتنا عرصہ رہے وغیرہ جیسے سوالات سے قرآنِ مجید کو کوئی بحث نہیں، اس کی ساری دلچسپی ان کے واقعہ کی روح سے ہے۔ وہ اس مقصد کو اجاگر کرنا چاہتا ہے جس کے لئے اصحابِ کہف نے جد و جہد کی تھی۔ وہ اہلِ حق کی توجہ ان کی مقصد سے وابستگی، صبر واستقامت، حوصلہ و ہمت، جرءت و بہادری، اور ایثار و قربانی کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اہلِ حق کی جد و جہد کبھی رائگاں نہیں جاتی۔ وہ دکھانا چاہتا ہے کہ باطل چاہے کتنا ہی طاقتور ہو آخری فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔

اسی طرح حضرت موسیٰؑ  اور بندۂ خاص کے قرآنی قصہ کا مقصد ایک تمثیل کے پیرائے میں یہ سمجھانا ہے کہ خدا کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ کسی واقعہ کی ظاہری شکل اس کی کلی معنویت کا احاطہ نہیں کرتی۔ بظاہر کشتی کا تختہ اکھاڑ کر اسے نقصان پہنچایا گیا تھا، مگر حقیقت میں اسے ظالم حکمران کے قبضے میں جانے سے بچایا گیا تھا۔ اگر آپ ایک چھوٹے نقصان کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہیں تو کسی بڑے نقصان کا انتظار کیجیئے۔ آج اگر باطل طاقتور ہے تو عین ممکن ہے کہ خدا کی مشیت اس کے پردے میں حق کی پرورش کر رہی ہو۔ انسان کو ہر حال میں صبر اور شکر سے کام لینا چاہیئے۔

ذو القرنین کا قرآنی قصہ یہ درس دیتا ہے کہ سچے اہلِ ایمان کو طاقت اور اختیار کا استعمال کس طرح کرنا چاہیئے۔ ان کا تصورِ عالم اور اصولِ حکمرانی کیا ہوں۔ اور وہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کس طرح یقینی بنائیں۔

اس میں مکہ کے اہلِ ایمان کو اس فتح مبین کی ایک جھلک بھی دکھا دی گئی ہے جو آگے چل کر انھیں حاصل ہونے والی تھی۔ وہ جو آج "اصحابِ کہف ” کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، بہت جلد” ذو القرنین "کے عہد میں داخل ہوں گے جب اقتدار کی کنجیاں ان کے ہاتھوں میں ہوں گی۔ یہ ایک ایسا دور ہو گا جس میں انسان کی مادی اور روحانی دونوں قسم کی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔ حیاتِ انسانی کے دونوں قرن۔۔ مادی اور روحانی۔۔ اس سے فیضیاب ہوں گے۔

 

خلاصہ

 

سورہ الکہف اپنے نزول کا ایک عمومی مقصد بیان کرتی ہے اور ایک خصوصی۔ عمومی مقصد عام انذار اور تبشیر ہے۔ جبکہ خصوصی مقصد ان لوگوں کو خبردار کرنا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے۔ قرآن ان کے اس عقیدہ کو ایک نہایت سنگین بات قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں کو خدا کی حقیقت کا کچھ علم نہیں۔ یہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو بالکل خلافِ حقیقت ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کے اٹھائے ہوئے سوالوں اور کٹ حجتیوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ اصحابِ کہف و رقیم کا واقعہ خدا کی خاص طور پر تعجب خیز نشانیوں میں سے تھا۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اصحابِ کہف سچے توحید پرست اور ہرقسم کے شرک سے بری تھے۔ ان کی جد و جہد ہی شرک کے خلاف تھی۔ لہٰذا آج جو لوگ ان سے اپنی نسبت جتا رہے ہیں ان کا حقیقت میں ان سے کوئی نظریاتی تعلق نہیں۔ یہ لوگ اصل میں اصحابِ کہف کے واقعہ کی روح کو فراموش کر چکے ہیں۔ اور اپناسارا وقت ان بے مقصد جزئیات پر بحث مباحثے میں صرف کر رہے ہیں جن کے متعلق ان کے پاس کوئی حقیقی علم نہیں۔ ان کے تمام تر دعوے بے بنیاد قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ کائناتِ ارض و سماء کے غیب کا علم صرف خدائے واحد و لاشریک کو ہے۔ وہ موجوداتِ عالم کے ہر فعل اور قول سے خوب خوب آگاہ ہے۔ وہ لوگ جو شرک پر مبنی عقائد کے حامل ہیں انھیں علم ہونا چاہیئے کہ خدا کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں۔ خدا اپنے اختیار و اقتدار میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

مشیتِ الٰہی نے مستقبل میں جن باتوں کو ہونا مقدر کیا ہے وہ ہو کر رہیں گی۔ کوئی انھیں واقع ہونے سے روک نہیں سکتا۔ اہلِ ایمان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ خدا کے سوا کسی کو اپنا محافظ اور سہارا نہیں پائیں گے۔ مخالفینِ حق کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اہلِ ایمان کی آپس میں یکجہتی ناگزیر ہے۔ مادی اغراض انھیں ہر گز ایک دوسرے سے دور نہ کریں۔ وہ کسی پروپیگنڈا کا شکار نہ ہوں اور جو لوگ خدا کی یاد سے غافل ہیں ان کی پیروی نہ کریں۔

خدا نے انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی عطا کی ہے۔ جو چاہے ایمان لائے، جو چاہے انکار کی روش اختیار کرے۔ مگر کفر اور ایمان دونوں کے اپنے اپنے نتائج ہوں گے۔ حق کی مخالفت کا نتیجہ دردناک عذاب کی شکل میں برآمد ہو گا، جبکہ حق کی پیروی نہایت خوشگوار نتائج پیدا کرے گی۔

شرک پر مبنی عقائد رکھنے والوں کو خدا نے جو نعمتیں عطا کر رکھی ہیں وہ ان پر گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ اپنے شرکیہ عقائد کو ترک کر کے خدائے واحد کے شکر گزار بندے نہیں بنیں گے تو انھیں بہت جلد تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر ان کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ رہ جائے گا۔ سارا اختیار تو بہر حال سچے خدا کا ہے۔ جو اس کے احکامات پر چلے گا اس کے لئے اس کے ہاں بہترین اجر ہے۔ وہی انسان کے اعمالِ خیر کو ان کے بہترین انجام سے ہمکنار کرتا ہے۔

دنیا کی زندگی ناپائدار، عارضی اور فانی ہے۔ جو چیز انسان کا ساتھ دے گی وہ اس کے اچھے اعمال ہیں۔ اچھے اعمال کا اجر بھی اچھا ہو گا، اور وہ بہترین ذریعۂ امید بھی ہیں۔ قیامت برپا ہو گی اور اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ خدا ہی اس کائنات کا اکیلا خالق اور مالک ہے۔ مشرکین جن فرضی یا حقیقی ہستیوں کو الوہیت میں شریک قرار دیتے ہیں وہ خدا کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی، اور یہ اپنے اعمال کے نتائج کا سامنا کر کے رہیں گے۔

خدا نے اس قرآن میں لوگوں کی ہدایت کے لئے ہر طرح کی مثالیں گوناگوں پہلوؤں سے بار بار بیان کی ہیں۔ لیکن ضد، ہٹ دھرمی اور تعصبات کے شکار انسان کی کٹ حجتیاں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔ وہ بے لاگ اور بے تعصب ہو کر نہیں سوچتا۔ جب اس کے ایک سوال کا جواب دے دیا جاتا ہے تو وہ ایک نیا سوال گھڑ کر لے آتا ہے۔

ہدایت کے نہایت روشن دلائل کے واضح ہو جانے کے بعد بھی جو لوگ حق کی مخالفت جاری رکھتے ہیں وہ گویا زبانِ حال سے خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن خدا نے اپنے فضل و کرم سے مہلت کا ایک قانون ٹھہرایا ہوا ہے۔ خدا کا قانون انسانوں کو توبہ اور اصلاحِ احوال کا پورا پورا موقع دیتا ہے۔ لیکن جب لوگ مہلت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور حق کی مخالفت پر جمے رہتے ہیں، تباہی اور بربادی ان کا مقدر بنتی ہے۔

خدا خیرِ مطلق ہے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ کسی واقعہ کی ظاہری شکل اس کی مکمل حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی۔ ظاہری شکل تو اس کی کلی حقیقت کی بس ایک ہلکی سی جھلک دکھاتی ہے۔ حضرتِ موسیٰؑ  اور خدا کے ایک بندۂ خاص کا قرآنی قصہ اسی حقیقت کو نمایاں کرتا ہے۔

جنھیں خدا زمین میں اقتدار عطا کرتا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خلقِ خدا کی بھلائی کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ مجرموں کے ساتھ قانون کے مطابق نبٹنا اور عام شہریوں کے ساتھ سہولت اور نرمی کا رویہ اختیار کرنا ان کا طرزِ عمل ہونا چاہیئے۔ اہلِ اقتدار کو اعلیٰ ظرف اور کشادہ قلب ہونا چاہیئے۔ اپنے شہریوں کا تحفظ اہلِ اقتدار کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے انھیں ہر ممکن اقدام کرنا چاہیئے۔ اس میں فسادی قوتوں کی سرگرمیوں کا سدِ باب کرنا بھی شامل ہے۔ دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔ فسادی قوتوں کے سامنے جو "دیوار” بھی کھینچی جائے گی وہ چاہے کتنی ہی مضبوط ہو اسے بالآخر شکست و ریخت کا شکار ہونا ہوتا ہے۔ علمی ترقیاں مادی دیواروں کو آہستہ آہستہ بے معنی کر کے رکھ دیں گی۔ پہاڑ اور سمندر انسانی نقل و حرکت کو روک نہ سکیں گے۔

مخالفینِ حق جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے کہ خدا کی یاد کی آیات دیکھ نہیں سکتیں اور جن کے کان صدائے حق سننے کی تاب نہیں لاتے، انھیں جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ مخالفینِ حق کی خام خیالی ہے کہ وہ خدا کے کسی بندے کو اپنا کارساز بنا لیں گے۔ یہ ممکن نہیں۔ مخالفینِ حق کی منزل جہنم ہے۔ خدا کے کسی بندے کو اس کا بیٹا قرار دے کر یہ سمجھنا کہ وہ ان کا نجات دہندہ بنے گا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

جن لوگوں کی تمام تر جد و جہد دنیا کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ اچھا کام کر رہے ہیں، اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں یہی لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا کی آیات و احکامات اور آخرت کے حساب و کتاب کا انکار کیا، سو ان کے تمام تر اعمال ضائع ہو گئے، روزِ قیامت ان کی کوئی قدر نہ ہو گی۔ لیکن جو لوگ ایمان لائیں گے اور اچھے اعمال سرانجام دیں گے ان کی منزل جنت الفردوس ہو گی۔

خدا کی قدرت کے عجائبات کی کوئی حد نہیں۔ چند حقیقتیں ہیں جن کا انکشاف اس سورہ میں ہوا ہے۔ دنیا کے حالات کس ڈگر پر چلیں گے۔ اسلامی دعوت کو کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اہلِ ایمان نے کس طرح کے رویے اپنانے ہیں۔

خدائے واحد و لاشریک کو چھوڑ کر اس کے کسی بندہ کو کارساز اور نجات دہندہ قرار دینا اپنی منزل کھوٹی کرنے کے مترادف ہے۔ اہلِ ایمان اس حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان خدائے واحد پر ایمان لائے، اچھے اعمال سرانجام دیتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

الغرض، سورہ الکہف بتاتی ہے کہ اہلِ ایمان کو کس کس طرح کے فکری اور عملی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ ان کا سامنا کس طرح کریں۔ خیر خواہانہ جذبہ، مقصدیت پر نظر، غیر ضروری بحث مباحثے سے پرہیز، باہمی اتحاد و یکجہتی، مصائب و مشکلات پر صبر و استقامت، علم و معرفت کی طلب و جستجو، اختیار و اقتدار کا درست استعمال، فکرِ آخرت، اعمالِ صالحہ کی بجا آوری اور خدا کی بندگی میں ہر گز کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ان تعلیمات میں سے ہیں جو اس سورہ میں سکھائی گئی ہیں۔ شرک کی بے شمار شکلیں ہیں اور یہ ہر شکل میں انسان کے لئے تباہ کن ہے، لیکن اس کی ایک شکل وہ ہے جس میں حقیقی یا فرضی شخصیت کو خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دیا جا تا ہے۔ قرآنِ مجید کے نزدیک یہ ایسے عقائد ہیں جن کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔ خدا کے کسی بندے کو کارساز، حاجت روا اور نجات دہندہ قرار دینا جہالت اور توہم پرستی کے شاخسانے ہیں۔ سورہ الکہف میں انسان کو انھی عقائدِ باطلہ سے خبردار کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ اس کے اختیار و اقتدار میں کوئی شریک نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا بطورِ انسان روحانی ارتقاء توحیدِ خالص کے ساتھ انمٹ فکری وابستگی کے بغیر ممکن نہیں۔ شرک انسان کے اس ارتقا ء کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سورہ کی آخری آیت میں گویا پوری سورہ کے پیغام کا نچوڑ دے دیا گیا ہے:

….”تمھارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔ پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امید وار ہو اسے چاہیئے کہ اچھے اعمال سرانجام دے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے”۔

انسان کے انفرادی اور اجتماعی ارتقاء کا یہ نسخۂ کیمیا ہے۔

 

 

سورہ الکہف اور دو کا عدد

 

سورہ الکہف کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس میں دو کا عدد متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ یہ عاجز جن مقامات کی نشاندہی کر سکا ہے وہ یہ ہیں۔

۱۔     دو گروہ (آیت ۱۲) ، ایک وہ جو غار کے اندر تھا اور ایک وہ جو اس کے باہر۔

۲۔     دو بازو (آیت ۱۸)

۳۔     دو شخص یا آدمی (آیت ۳۲)

۴۔     دو باغ (آیت ۳۲، ۳۳)

۵۔     دو دریا (آیت ۶۰)

۶۔     حضرت موسیٰ اور ان کا خادم (آیت ۶۱ اور دیگر)

۷۔     حضرت موسیٰ اور بندۂ خاص (۷۱ اور دیگر)

۸۔     دو یتیم لڑکے

۹۔     ذو القرنین، دو زمانوں یا دو سینگوں والا۔

۱۰۔    دو پہاڑ یا رکاوٹیں (آیت ۹۳)

۱۱۔    دو پہاڑ یا رکاوٹیں (آیت ۹۶)

اس کے علاوہ کئی مقامات پر دو یا تثنیہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ کئی مقامات پر دو چیزیں بالمقابل یا ساتھ ساتھ ذکر ہوئی ہیں۔

وہ جو "غار” کے اندر ہیں ان کے لئے وقت کا تصور ان سے مختلف ہے جو غار کے باہر ہیں۔ علم کے دو اقالیم [ ڈومین ] یا دریا ہیں، مادی اور روحانی، طبیعی اور مابعد الطبیعی، علمِ شریعت اور علمِ تکوینی۔ حقیقت کے دو پہلو یا رخ ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔

سورہ کی ابتدا میں قرآن کی دو صفات بیان کی گئی ہیں: یہ ہر قسم کی ظاہری اور معنوی کجی سے پاک ہے، اور ٹھیک اور درست رہنمائی کرنے والی ہے۔ اس سورہ کا مقصدِ نزول دو چیزیں بتائی گئیں: انذار اور تبشیر۔ پہلے عمومی انذار کا ذکر ہے اور پھر خصوصی انذار کا۔ فرمایا اللہ کی حقیقت کا کوئی علم ان کو ہے نہ ان کے آباء و اجداد کو تھا۔ اس طرح اگر گہری نظر سے دیکھتے جائیں تو پوری سورہ میں اس کی بہت سی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

اصحابِ کہف، حضرت موسیٰؑ  اور بندۂ خاص اور ذو القرنین کے قصص صرف اس سورہ میں آئے ہیں۔ یہ حقیقت اس سورہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ یہ ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کا آغاز الحمد للہ سے ہوتا ہے۔ دوسری سورتیں سورہ الفاتحہ، سورہ الانعام، سورہ السبا اور سورہ الفاطر ہیں۔ ان سورتوں میں حمد کے بعد کائنات کی خلقت یا ربوبیت کا ذکر ہے، جبکہ سورہ الکہف میں قرآن کے نزول کا بیان ہے۔ کائنات اور قرآن دونوں معرفتِ رب کی کتابیں ہیں۔ ایک کتابِ تکوین ہے تو دوسری کتابِ تدوین۔ ایک خدا کی تخلیق ہے تو دوسری اس کا کلام۔ ایک ورک آف گاڈ ہے تو دوسری ورڈ آف گاڈ۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

سورہ کی آیات کو مندرجہ ذیل طور پر تین حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

تمہیدی آیات: ۱ تا ۸

نفسِ مضمون، تفصیلی مباحث: ۹ تا ۱۰۱

اختتامی آیات: ۱۰۲ تا ۱۱۰

وسیع تر مفہوم میں سورہ کا مرکزی مضمون اثباتِ توحید اور ردِّ شرک ہے۔ خدا ایک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کے لئے بیٹا قرار دینا، یا اس کے بندوں کو اپنا کارساز اور نجات دہندہ خیال کرنا تباہ کن عقائد ہیں۔ جو اپنے رب سے ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہیئے کہ۔۔ ۔۔ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

 

 

 

 

ترجمہ اور تشریح آیات ۱ تا ۸

 

ترجمہ

وہ خدا تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے جس نے اپنے بندہ (بندۂ خاص) پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے، ایک ایسی کتاب جو ہر قسم کے نقص سے پاک ہے، (اور ہر معاملہ میں) کامل راہنما (افراط و تفریط سے مبرا، مکمل ضابطۂ حیات) ۔ (خدا نے یہ کتاب نازل فرمائی ہے) تاکہ، (ایک طرف، مخالفینِ حق کو) اس سخت گرفت سے آگاہ کر دے جو (ان کے اعمالِ بد کے نتیجے کے طور پر) خدا کے قانون کے مطابق ظہور پذیر ہو گی، اور، (دوسری طرف،) ان اہلِ ایمان کو جو صلاحیت بخش کام کرتے ہیں یہ خوشخبری سنا دے کہ یقیناً ان کے لئے (ان کے رب کے ہاں) نہایت عمدہ اجر ہے۔ (نعمتوں بھری جنت) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (۱۔ ۳)

اور (خدا نے یہ کتاب نازل فرمائی ہے) تا کہ ان (لوگوں) کو (خاص طور پر) خبردار کر دے جو خدا کے لئے بیٹا قرار دیتے ہیں (یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے) ۔ (حقیقت یہ ہے کہ) انھیں خدا (کی حقیقت) کا کچھ علم ہی نہیں، اور نہ ہی ان کے آباء و اجداد کو تھا (جنھوں نے یہ جھوٹے عقیدے تراشے تھے) ۔ وہ بات جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، نہایت سنگین ہے (تباہ کن نتائج کی حامل) ۔ جو یہ کہہ رہے ہیں، سراسر خلافِ حقیقت ہے۔ (۴۔ ۵)

(اے رسولِ اکرم۔ رحمتِ دو عالم!) اگر یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے تو کیا آپ (فرطِ غم سے) اپنی جان ان کے پیچھے تلف کر دیں گے ؟ (اس کی ضرورت نہیں، آپ کا کام پیغام پہچانا ہے، ماننے یا نہ ماننے کا فیصلہ انھوں نے خود کرنا ہے۔) (۶)

زمین پر جو کچھ بھی ہے، ہم نے اسے اس کے لئے باعثِ زینت بنایا ہے (ہر شے جاذبِ نظر، پر کشش اور دلفریب ہے) تاکہ ہم ان (لوگوں) کو آزمائیں کہ ان میں سے کون ہے جو عمل کے اعتبار سے بہتر ہے۔ اور بالآخر، ہم اس (زمین) پر موجود ہر شے کو فنا کر کے اسے غیر آباد چٹیل میدان بنا دیں گے۔ (۷۔ ۸)

 

تشریح

آیات ۱ تا ۸ سورہ الکہف کی تمہیدی آیات ہیں۔ ان میں قرآنِ مجید کے مقصدِ نزول کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ حمد کسی وجود کی ذاتی خوبیوں کے بیان کو کہتے ہیں۔ الحمد للہ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام خوبیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ وہ خیرِ مطلق ہے۔ ہر قسم کے نقص سے پاک اور منزّہ۔ لہٰذا، اس نے اپنے بندۂ خاص پر جو کتاب نازل کی ہے، وہ ہر قسم کی کجی اور ٹیڑھ سے پاک ہے۔ اس کے پیغام میں کسی قسم کا کوئی نقص (Flaw) نہیں۔ کوئی بات، کوئی نکتہ، کوئی دعویٰ خلافِ حقیقت نہیں۔ قیِّماً کا مطلب ہے بالکل سیدھی، ٹھیک، درست۔ افراط و تفریط سے مبرا۔ یعنی کامل راہنما، حقیقت کی درست عکاس۔ پس ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس کی راہنمائی کے لئے یہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے۔

قرآنِ مجید نے اپنے مقصدِ نزول کو بار ہا دو اصطلاحوں میں بیان کیا ہے: انذار اور تبشیر۔ انذار کا مطلب ہے خبردار کرنا (to warn) ، اور تبشیر کا مطلب ہے بشارت اور خوشخبری دینا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے انسان کی تخلیق جن قوانین کی بنیاد پر کی ہے ان میں ایک قانونِ مکافاتِ عمل ہے۔ اس قانون کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ اچھے اعمال کے اچھے اور برے اعمال کے برے نتائج برآمد ہوں گے۔ انذار کا مطلب انسان کو برے اعمال کے برے نتائج سے خبردار کرنا اور تبشیر کا مطلب اسے اچھے اعمال کے اچھے نتائج کی خوشخبری دینا ہے۔ قرآنِ مجید نے اچھے اعمال کے لئے اعمالِ صالحہ کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مطلب ہے وہ اعمال اور سرگرمیاں جو انسان کی صلاحیت اور لیاقت میں اضافہ کا باعث بنیں۔ ہم اسے capacity development کہہ سکتے ہیں۔

آیت ۴ میں یہ سورہ اپنے نزول کا ایک خصوصی مقصد بیان کرتی ہے۔ یعنی ان لوگوں کو ان کے غلط نظریہ کے سنگین نتائج و عواقب سے خبردار کرنا جو یہ قرار دیتے ہیں کہ فلاں خدا کا بیٹا (Son of God) ہے۔ نعوذ باللہ۔ قرآن (آیت ۵) کہتا ہے انھیں خدا کی حقیقت (Nature of God) اور اس کی ذات و صفات کا کچھ علم نہیں۔ نہ ہی ان کے ان آباء و اجداد کے پاس کوئی حقیقی علم (True Knowledge) تھا جنھوں نے یہ عقیدہ تراشا تھا۔ وہ بات جو یہ اپنی زبانوں سے کہہ رہے ہیں نہایت سنگین (مگر انھیں اس کا احساس نہیں ہے) ۔ وہ خدا جو لائقِ حمد ہے، تمام خوبیوں کا سرچشمہ، اور ہر عیب سے پاک ہے، یہ اس کے لئے ایک ایسا عقیدہ رکھتے ہیں جو خلافِ حقیقت ہے۔ خدا کی سچی وحی نے خدا کا ہمیشہ ایک ہی تصور دیا ہے وہ یہ کہ خدا واحد اور لاشریک ہے۔ خدا کے بیٹے کے عقیدے کی کوئی الہامی بنیاد نہیں۔ یہ صرف اور صرف انسانی ذہن کی اختراع ہے، جسے کچھ انسانوں نے کسی حقیقی الہامی بنیاد کے بغیر گھڑا ہے۔ (مزید دیکھیں سورہ یونس آیت ۶۸، اور سورہ مریم آیات ۸۸ تا ۹۱)

ان آیات سے اس سورہ کے مرکزی مضمون اور عمود (Central theme) کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ سورہ ہجرتِ مدینہ سے کچھ عرصہ پہلے نازل ہوئی تھی۔ سردارانِ قریش جو گیارہ بارہ سال سے اسلامی دعوت کی مزاحمت کر رہے تھے اور اسے کچلنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے تھے، بعض اہلِ کتاب کے زیرِ اثر اب نئے نئے سوال اٹھا نے لگے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

رسولِ اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ آپ سراپا رحمت تھے۔ یہ بات آپ کو ہر وقت سخت بے چین اور مضطرب رکھتی تھی کہ لوگ اپنے باطل عقیدوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور قرآن کی سچی تعلیمات کو ماننے پر تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کی زبانی آپ کو تسلی دیتا ہے کہ اس قدر رنجیدہ نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعور عطا فرمایا ہے۔ اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور ارادہ و اختیار کی آزادی (Free will) بخشی ہے۔ روئے زمین پر جو کچھ ہے اسے خدا نے زمین کے لئے زینت اور آرائش کا باعث بنایا ہے۔ دنیا کی یہ رونقیں، یہ خوبصورتیاں انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اس طرح یہ جاذبِ نظر اور دلفریب دنیا انسان کے لئے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ گویا، یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ انسان نے اپنی مرضی سے ایک یا دوسرا فیصلہ کرنا ہے۔ مشیتِ الٰہی اس حقیقت کو ظہور میں لانا چاہتی ہے کہ انسانوں میں سے کون ہے جو عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔ کون ہے جو دنیا کی رونقوں میں کھو کر اپنی منزل ضائع کر بیٹھتا ہے، اور کون ہے جو حسنِ مطلق کی طلب و جستجو کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین قرار دیتا ہے۔ مگر دنیا کی رونقیں عارضی اور فانی ہیں۔ مشیتِ الٰہی روئے زمین کو ایک دن چٹیل میدان بنا دینے والی ہے۔ ذاتِ الٰہی کے سوا ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔

دنیا کی جس زیب و زینت نے مخالفینِ حق کو قبولِ حق سے روکا ہوا ہے وہ بہت جلد ان سے چھن جائے گی۔ مثبت اور تعمیری انسانی اعمال زمین کی خوبصورتیوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جبکہ منفی اور تخریبی اعمال تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتے ہیں۔ آیت میں اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہ چیز جو روئے زمین کو بالآخر چٹیل میدان بنا دے گی وہ انسان کی منفی سرگرمیاں ہی ہوں گی۔ (جرز اس زمین کو کہتے ہیں جو پانی نہ ملنے کی وجہ سے نباتات پیدا نہ کر سکے۔)

آیت ۶ ہمیں رسولِ اکرمﷺ کی انتہا درجے کی اس غمخواری اور دلسوزی سے آگاہ کر رہی ہے جو آپ خلقِ خدا کے لئے رکھتے تھے۔ اس میں آپ کے ماننے والوں کے لئے دعوتِ فکر ہے۔

آیات ۷ اور ۸ انسانی حیات کے قرآنی فلسفے کا نچوڑ بیان کر رہی ہیں۔ انسان صاحبِ شعور مخلوق ہے جس کے لئے دنیا ایک جائے امتحان ہے۔ خدا کا قانونِ مکافات اس بات کو دیکھ رہا ہے کہ کون حسنِ عمل کا اظہار کر رہا ہے اور کون خود کو منفی سرگرمیوں سے آلودہ کر رہا ہے۔ زمین کی سب رونقیں بہر حال فانی ہیں۔ بقا صرف خد کی ذات کو حاصل ہے۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ کون باقی سے دل لگاتا ہے اور کون خود کو فانی کی نذر کر دیتا ہے۔ فیصلہ انسان کو خود کرنا ہے۔ اسے اس کی آزادی دی گئی ہے۔ لیکن اعمال کے نتائج پر اسے اختیار حاصل نہیں۔ ان کا ظہور اعمال کی نوعیت کے مطابق ہو گا۔

اہلِ ثروت و اقتدار پیغامِ حق کی مخالفت میں ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، جبکہ مٹھی بھر اہلِ ایمان صبر و ہمت اور ایثار و قربانی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ان سرفروشوں کو بھی کرنا پڑا تھا دنیا جنھیں اصحابِ کہف و رقیم کے نام سے جانتی ہے۔

 

 

 

آیات ۹ تا ۲۶

 

ترجمہ

کیا تُو (اے مخاطب!) واقعی یہ سمجھتا ہے کہ اصحابِ کہف و رقیم کا واقعہ ہماری تعجب خیز نشانیوں میں سے ہے، جبکہ کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور کہا کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر اور ہمارے اس معاملہ میں ہماری راہنمائی فرما۔ تو (قصہ گوؤں کے مطابق) ہم نے غار میں ان کے کانوں پر کئی برس کے لئے تھپک لگا دی۔ پھر انھیں اٹھایا کہ دیکھیں ان دو گروہوں میں سے کون (غار میں) ان کی مدتِ قیام کا صحیح شمار کر سکتا ہے۔ (۹۔ ۱۲)

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:) ہم آپ کو ان کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ بے شک وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے (ان کی ثابت قدمی کے باعث) ان کے شعورِ ہدایت کو اور بڑھا دیا تھا۔ اور جب وہ راہِ خدا میں اٹھ کھڑے ہوئے توہم نے ان کے دلوں کو مضبوطی عطا کی، پس انھوں نے (برملا) کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور کو بطورِ معبود ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو گویا ہم نے ایک ایسی بات کہی جو حق سے نہایت ہی ہٹی ہوئی ہے۔ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ یہ ان (کی الوہیت) کے حق میں کوئی روشن دلیل کیوں نہیں پیش کرتے ؟ پس، اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے متعلق ایسی بات تراشے جو خلافِ حقیقت ہو۔

(ایک دوسرے سے کہنے لگے) سو، اب جبکہ تم ان (لوگوں) کو، اور ان کے معبودوں کو جن کی وہ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں چھوڑ کر الگ ہو گئے ہو تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لئے اپنا دامنِ رحمت کشادہ کر دے گا، اور تمہارے اس کام میں تمہیں ہر وہ چیز مہیا فرمائے گا جس کی تمہیں حاجت ہو گی۔ (چنانچہ وہ غار میں پناہ گزین ہو گئے) ۔ (۱۳۔ ۱۶)

(اے مخاطب! اگر) توسورج کو دیکھے جب وہ ابھرتا ہے تو ان کی غار کے دہانہ سے دائیں جانب ہٹ کر گزرتا ہے، اور جب وہ غروب ہوتا ہے تو بائیں جانب کتراتا ہوا گزرتا ہے۔ جبکہ وہ غار کے اندر اس کے کشادہ صحن میں ہیں۔ یہ (محفوظ اور وسیع غار کا انتخاب) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جسے اللہ ہدایت سے ہمکنار کرے وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ بے راہ رکھے، اس کے لئے تم کوئی مددگار، راہنما نہیں پاؤ گے۔ (۱۴۔ ۱۷)

اور تم انھیں جاگتا ہوا خیال کرو گے، حالانکہ وہ سو رہے ہیں۔ اور ہم انھیں پھیرتے ہیں کبھی دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب۔ اور ان کا کتا دو بازو پھیلائے (غار کی) دہلیز پر ہے۔ اگر تو (اے مخاطب!) جھانک کر انھیں دیکھے تو الٹے پاؤں وہاں سے بھاگ کھڑا ہو، اور ان کا نظارہ تجھے ہیبت سے بھر دے۔ (۱۸)

اور اس طرح ہم نے انھیں اٹھایا تو وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔ ایک نے پوچھا: تم یہاں کتنی مدت رہے ہو؟ بعض نے کہا: ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہوں گے۔ دوسروں نے کہا: ہماری مدتِ قیام کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پس، تم اپنے میں سے کسی کو اپنا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف روانہ کرو، سو وہ دیکھے کہ کس کے ہاں عمدہ پاکیزہ کھانا ملتا ہے۔ وہ وہاں سے تمہارے لئے کھانا لے آئے۔ اسے چاہیئے کہ خوش اخلاقی سے کام لے، اور ہرگز کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔ وہ لوگ اگر تم پر آگاہ ہو گئے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں (جبراً) اپنے جھوٹے مذہب میں لوٹا دیں گے اور (اگر تم نے ایسا کیا تو) کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔ (۱۹۔ ۲۰)

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:) اور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا تاکہ وہ جانیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے (کہ حق بالآخر غالب ہو گا) ، اور یہ کہ فیصلے کی گھڑی کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جب وہ ان کے معاملہ میں آپس میں بحث کر رہے تھے تو بعض نے کہا کہ ان کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کر دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (مگر) ان لوگوں نے جنہیں ان کے معاملہ میں غلبہ حاصل ہوا کہا کہ ہم تو ضرور ان کی یاد میں ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔ (۲۱)

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:) کچھ لوگ کہیں گے کہ اصحابِ کہف تین تھے، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا۔ سب بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں۔ اور (اسی طرح) کچھ کہیں گے وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ (اے رسولؑ !) آپ فرمایئے: میرا رب ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ ان کی حقیقت سے کم ہی لوگ آگاہ ہیں۔ پس ان کے معاملہ میں بحث نہ کرو سوائے اتنی بات کے جو (قرآن میں) ظاہر کر دی گئی۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی سے ان کے متعلق کچھ دریافت کرو۔ (۲۲)

اور، کسی شے کے متعلق نہ کہو کہ میں اسے کل کر دوں گا، مگر یہ کہ اللہ بھی چاہے۔ اور اپنے رب کو یاد کرو جب بھول جاؤ۔ اور کہو کہ مجھے امید ہے کہ میرا رب اس سے بھی زیادہ کامیابی کی راہ مجھ پر کھول دے گا۔ (۲۳۔ ۲۴)

اور (کچھ لوگ کہیں گے کہ) وہ اپنے غار میں تین سو سال ٹھہرے رہے، اور بعض نے اس شمار میں نو سال کا اضافہ کیا۔ آپ فرمایئے اللہ ہی ان کی مدتِ قیام کو بہتر جانتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ حقیقتیں اسی کے علم میں ہیں۔ کیا ہی خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سب باتیں سننے والا۔ اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں کیونکہ وہ اپنے اقتدار میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (۲۵۔ ۲۶)

 

تشریح

قرآنِ مجید اس بات کی نفی کرتا ہے کہ اصحابِ کہف و رقیم کا واقعہ قدرتِ خداوندی کا کوئی غیر معمولی طور پر تعجب خیز اور انوکھا واقعہ ہے۔ کائناتِ ارضی و سماوی اس سے کہیں زیادہ محیر العقول آیات سے لبریز ہے۔ دیکھنے والی آنکھ چاہیئے۔ رسولِ اکرمﷺ اور آپ کے ساتھی صبر و استقامت اور ایثار و قربانی کی جو تاریخ رقم کر رہے ہیں اور جو آگے وہ کرنے والے ہیں وہ اصحابِ کہف کے واقعہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لہٰذا، اصحابِ کہف کے واقعہ کو غیر معمولی طور پر انوکھا خیال کرنا درست نہیں۔ کہف بہت بڑے اور وسیع غار کو کہتے ہیں۔ رقیم کے متعدد معنے بیان کئے گئے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے اسے مرقوم یعنی لکھی ہوئی چیز کے معنوں میں لیا ہے۔ اس اعتبار سے اسے کتاب کے ہم معنی کہا جا سکتا ہے۔

آیت ۱۳ میں یہ کہنا کہ "ہم آپ کو ان کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں” یہ ثابت کرتا ہے کہ پچھلی آیت میں جو بات کی گئی ہے قرآن کا اپنا موقف نہیں بلکہ ان قصوں کا لبِ لباب ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں بعض لوگ سناتے تھے، قطع نظر اس سے کہ وہ درست تھے یا غلط۔ نخنُ نقصُّ علیکَ نَبَاھُم بالحق کے بالحق (صحیح صحیح، ٹھیک ٹھیک، سچائی کے ساتھ) سے اس نظریہ کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصحابِ کہف کے غار میں عرصۂ دراز تک سوئے رہنے کا نظریہ قرآنِ مجید سے حتمی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔

اصحابِ کہف کی قوم کا تصورِ خدا شرک پر مبنی تھا جیسا کہ آیت ۱۵ سے واضح ہے۔ مگر ان کے پاس اپنے عقیدے کے حق میں نہ تو کوئی الہامی بنیاد تھی اور نہ کوئی عقلی دلیل۔ یہی حال نزولِ قرآن کے زمانے کے ان لوگوں کا تھا جو خدا کے لئے بیٹا قرار دیتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے وہ اصحابِ کہف کے نہیں بلکہ ان کی مشرک قوم کے وارث ہیں۔ اصحابِ کہف تو خدائے واحد و لا شریک پر ایمان رکھتے تھے (آیت ۱۴) ۔

پھر یہ کہ ان کی قوم عقائدی طور گمراہ ہی نہ تھی بلکہ سخت ظالم اور جابر بھی تھی۔ اختلافِ نظریات برداشت نہ کرتی تھی اور مخالفین کو سنگسار تک کر دیتی تھی۔ جو خدائے واحد پر ایمان لاتے تھے ان کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھا جاتا اور انھیں جبراً اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور کیا جاتا تھا (آیت ۲۰) ۔ یہی حال مکہ کے سرداروں کا تھا۔ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہر قسم کا ظلم روا رکھے ہوئے تھے۔ مذہبی تعذیب (Religious persecution) عام تھی۔ سردارانِ مکہ کچھ اپنے طور پر اور کچھ اس زمانے کے اہلِ کتاب کے اکسانے پر مختلف سوالات اٹھاتے تھے۔ مقصد کوئی مثبت علمی مباحثہ نہ ہوتا تھا۔ وہ صرف الجھانا، تنگ کرنا اور اذیت دینا چاہتے تھے۔ انھوں نے اصحابِ کہف کے حوالے سے بحث بھی انھیں مقاصد کے تحت چھیڑی تھی۔ بعض اہلِ کتاب اپنا ناتا اصحابِ کہف سے جوڑتے اور ان کے واقعے کو اپنے عقیدے کے حق میں بطورِ دلیل پیش کرتے تھے۔ قرآنِ مجید اس کی نفی کرتا ہے۔

” وہ چند نوجوان تھی” کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ چند جواں ہمت لوگ تھے چاہے ان کی عمر کچھ بھی تھی۔ وہ اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کے (شعورِ) ہدایت میں اور اضافہ کر دیا۔۔ ۔۔ ۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ ظلم اور جبر کے مقابلے میں ثابت قدم رہے تو قانونِ فطرت کے مطابق ان کے شعورِ ہدایت اور بصیرت میں اضافہ ہوتا گیا، اور ان کا حوصلہ اور ہمت بڑھتی گئی۔ جب آپ ہمت سے ظلم کا مقابلہ کرتے ہیں تو آپ کے اندر مزید ہمت اور پختگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔

جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے ہم قوم ان کی کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں بلکہ الٹا ان کی جان کے درپے ہو گئے ہیں تو انھوں نے خدا کی دی ہوئی بصیرت اور نورِ ہدایت سے ایک غار میں پناہ گزین ہونے کا فیصلہ کیا۔ کہف اور غار دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ کہف بڑے اور وسیع غار کو کہتے ہیں۔ یہاں (آیت ۱۶ میں) کہف سے پہلے ال کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ غار انھوں نے پہلے سے متعین کر رکھا تھا۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے غار کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ اس کا صحن کشادہ اور دہانہ تنگ تھا۔ سورج کی کرنیں براہِ راست اس کے اندر نہ جاتی تھیں۔ قرآنِ مجید نے اپنے مخصوص ادبی اسلوب میں اس کی منظر نگاری اس طرح کی ہے:

” (اے مخاطب! اگر) توسورج کو دیکھے جب وہ ابھرتا ہے تو ان کی غار کے دہانہ سے دائیں جانب ہٹ کر گزرتا ہے، اور جب وہ غروب ہوتا ہے تو بائیں جانب کتراتا ہوا گزرتا ہے۔ جبکہ وہ غار کے اندر اس کے کشادہ صحن میں ہیں۔”

ایک مناسب، وسیع اور محفوظ غار کا انتخاب اور اس میں پناہ لینے کا فیصلہ خداداد بصیرت کی بنیاد پر تھا۔ قرآنِ مجید اسے اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت قرار دیتا ہے (آیت ۱۷) ۔ یہ راہنمائی اور دانائی عطیۂ خداوندی ہے۔ جو خدا کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتے ہیں خدا ان کی راہنمائی فرماتا اور کارسازی کرتا ہے۔ جو خدا کے ہو جاتے ہیں، خدا ان کا دوست اور ہمدم بن جاتا ہے۔ اور جو خدا سے ناتا توڑ کر غیر اللہ کی بندگی اختیار کر لیتے ہیں، خدا کی مدد اور راہنمائی ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، اور وہ بالآخر تباہی کے گڑھوں میں جا گرتے ہیں۔ خدا کے مقابلے میں ان کا کوئی دوست اور راہنما نہیں ہوتا (آیت۱۷) ۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔ چنانچہ، خدا کی مشیت نے اصحابِ کہف کی کارسازی اور راہنمائی کی، جبکہ ان کی قوم اس سے محروم رہی۔

پھر، جب وہ غار میں آ گئے تو ایسا نہیں ہوا کہ غافلوں کی طرح اس میں بے سدھ پڑے رہے ہوں۔ وہ عام جذباتی قسم کے نوجوان نہ تھے۔ نہایت ہوشمند اور بیدار مغز تھے۔ وہ اگر سوتے بھی تھے تو اس طرح کہ دیکھنے والوں کو جاگتے ہوئے محسوس ہوتے تھے (آیت ۱۸) ۔ گویا، وہ چوکنا (alert) اور مستعد رہتے تھے۔ حوصلہ مند تو تھے ہی با تدبیر بھی تھے۔ وہ ہر آن حکمت و تدبیر سے کام لے رہے تھے۔ انھیں سمجھ تھی کہ کس طرح ماحول کو دہشت ناک بنایا جا سکتا ہے۔

وہ وہاں ایک عرصہ تک رہے۔ آیات ۱۹۔ ۲۰ سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ اس عرصہ میں ان کا اپنی قوم سے کوئی رابطہ نہ رہا تھا۔ ان کا، قرآنی اسلوب میں، یہ سوال و جواب کہ وہ یہاں کتنا عرصہ رہے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہاں اتنی مدت رہے کہ انھیں اس کا کوئی صحیح اندازہ نہ رہا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قرآنِ مجید کا یہ اندازِ بیان یہ معنے رکھتا ہو کہ وہ وہاں غیر معین عرصہ رہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یوم کا لفظ عرصۂ وقت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، چاہے طویل ہو یا قلیل۔

یہ سورہ جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا ہے ہجرتِ مدینہ سے کچھ عرصہ قبل نازل ہوئی تھی۔ اگر ہم رسولِ اکرمﷺ کا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ غارِ ثور میں پناہ لینا ذہن میں رکھیں تو بہ آسانی یہ استنباط کر سکتے ہیں کہ وحی الٰہی ان آیات میں مکہ کے مصیبت زدہ اہلِ ایمان کی مستقبل کے لائحہ عمل اور سٹریٹیجی کے لئے گائیڈ لائنز فراہم کر رہی ہے۔ قرآنِ مجید قصوں، کہانیوں کی کتاب نہیں، کتاب ہدایت ہے۔ چنانچہ، وہ اصحابِ کہف کے واقعہ کے صرف انھیں پہلوؤں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتا ہے جو اس کے پیغامِ ہدایت کے اعتبار سے اہم ہیں۔

مکہ میں جب رسولِ اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہچانا شروع کیا تو بہت جلد کفارِ مکہ اہلِ ایمان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ظلم بڑھتا گیا۔ جبر کا یہ ماحول تھا، جس میں یہ سورہ نازل ہوئی۔ اصحابِ کہف کے واقعے کے قرآنی بیان میں عہدِ رسالت مآب کے اہلِ ایمان کے لئے، اور پھر ہر اس عہد کے اہلِ ایمان کے لئے جو دینی اعتبار سے کسی جبر و تعذیب کے ماحول میں رہ رہے ہوں، ہدایت کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔

” اور چاہیئے کہ خوش اخلاقی سے کام لے” (ولیتلطف) کے الفاظ ہر زمانے کے اہلِ ایمان کو حکیمانہ طرزِ عمل کی تلقین کر رہے ہیں۔ حکمت اور بصیرت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ جوش کے ساتھ ہوش نہ ہو تو یہ نری تباہی بلکہ خود کشی ہے۔ اسی کا دوسرا نام جہالت ہے۔ قرآن حکیم نے حکمت کو خیرِ کثیر قرار دیا ہے۔

اصحابِ کہف کے غار میں قیام کے دوران ان کے شہر میں حالات بدل گئے۔ وہ لوگ جنھوں نے ظلم و جبر کا نظام قائم کر رکھا تھا اقتدار ان سے چھن گیا، اور انھیں تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اصحابِ کہف کو سرخروئی حاصل ہوئی۔ اس طرح ان کی قوم کے لوگوں پر یہ واضح ہو گیا کہ اللہ کا یہ وعدہ سچا ہے کہ بالآخر غلبہ حق ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ باطل چاہے بظاہر کتنا ہی طاقتور ہو آخر کار مٹ کر رہتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی آ کر رہتی ہے۔ یہ ایک اصولِ عام ہے جس پر ہر عہد کے اہلِ ایمان کو یقین رکھنا چاہیئے۔ مکہ کے اہلِ ایمان اس پر کامل یقین رکھتے تھے۔ جب کوئی حق و صداقت کی خاطر حکمت و بصیرت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہوتا ہے تو مشیتِ ایزدی اس کی مدد کرتی ہے اور وہ بالآخر کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ حق و باطل کی کشمکش میں آخری اور حتمی کامیابی ہمیشہ حق کو حاصل ہوتی ہے۔

آیت ۲۱ کے اس ٹکڑا کی تشریح دو طرح سے کی گئی ہے "جب وہ ان کے معاملہ میں آپس میں بحث کر رہے تھے تو بعض نے کہا کہ ان کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کر دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (مگر) ان لوگوں نے جنہیں ان کے معاملہ میں غلبہ حاصل ہوا کہا کہ ہم تو ضرور ان کی یاد میں ایک عبادت گاہ بنائیں گے”۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اصحابِ کہف کی یاد میں یا ان کی غار پر بطورِ یادگار ایک عمارت بنا دی جائے جو کسی خاص مذہب و مسلک کی نمائندگی نہ کرتی ہو، وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، ان کے عقیدہ و نظریہ کو وہی بہتر جانتا ہے، ہم اس معاملہ میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی مراد ایک ایسی عمارت تھی جس کا مذہب سے تعلق نہ ہو یعنی ایک سیکولر بلڈنگ۔ ایسا لگتا ہے وہ ان کی عظمت کوتو تسلیم کر رہے تھے مگر اسے کسی مذہب یا مسلک سے جوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن وہ لوگ جن کی رائے کو غلبہ حاصل ہوا ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم تو ان کی یاد میں ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔ لگتا ہے یہ وہ لوگ تھے جو سیاسی طور پر غالب تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی تدبر القرآن میں زیرِ نظر آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"اس سے اس انقلابِ حال کا کچھ اندازہ ہوتا ہے جو ان جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں برپا ہوا کہ ملک میں ان لوگوں نے اکثریت حاصل کر لی جو موحد اور خدا پرست تھے۔ دوسرے جو موحّد اور خدا پرست نہیں تھے ان کے اندر بھی اتنی تبدیلی اور رواداری واقع ہو گئی کہ اصحابِ کہف کی یاد گار قائم کرنے کی سعادت وہ بھی حاصل کرنے کے متمنی تھے۔” (ص۵۷۵)

خواجہ احمد الدین تفسیر بیان للناس میں اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں:

"اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں اصحابِ کہف کے خیر خواہوں کی حکومت تھی۔” (ص ۷۶)

اس نقطۂ نظر کے مطابق وہ لوگ جنھوں نے عبادت گاہ تعمیر کرنے کی رائے دی تھی وہ موحد اور سچے اہلِ ایمان تھے۔ اس کے بر عکس، بعض اہلِ علم کی رائے میں یہ” وہ لوگ ہیں جو سچے پیروانِ مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ در اصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحابِ کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے”۔ (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن جلد سوم، زیرِ نظر آیت،ص ۱۸)

اس جملے سے کہ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جو صرف کوئی عمارت (بطورِ یادگار) تعمیر کرنے کے حق میں تھے وہ سچے موحد تھے۔ یہ اصحابِ کہف کی جد و جہد کی اہمیت کو تو تسلیم کرتے تھے مگر اس بات کے حق میں نہ تھے کہ ان کی آرامگاہ پر کوئی عبادت گاہ تعمیر کی جائے۔ اس سے دوسرے نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔

غالباً قرآنِ مجید جس پہلو کی جانب ہماری توجہ مبذول کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بہت جلد لوگ اصحابِ کہف کی جد و جہد کے اصل مقصد اور روح کو فراموش کر کے ضمنی، فروعی اور غیر اہم باتوں میں الجھ گئے اور اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ اگلی آیت میں اسی رویے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کی گفتگو کے مرغوب موضوعات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ اصحابِ کہف کی تعداد کیا تھی، یا یہ کہ وہ غار میں کتنی مدت رہے۔ قرآن کہتا ہے یہ بے مقصد بحث ہے۔ کسی کے پاس اپنی رائے کے حق میں کوئی ٹھوس تاریخی شہادت نہیں۔ تمام آرا اٹکل کے تیر اورقیاس آرائیاں ہیں۔ پھر ان مباحث کی کوئی تعلیمی و تربیتی اہمیت بھی نہیں۔ لہٰذا، ان میں اپنا وقت اور توانائیاں کیوں ضائع کی جائیں۔ غیب کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ جو واقعہ تاریخ کی کتاب سے محو ہو چکا، اس کا حقیقی علم صرف خدائے علیم و خبیر کو ہے۔

قرآنِ مجید جس فلسفہٗ حیات کا داعی ہے اس میں بنیادی اہمیت مقصد اور روح کی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ماننے والے مقصد کو فراموش کر کے خود کو فروعات کی نذر کر دیں۔ اسلام کے مخالفین اہلِ ایمان کو ہمیشہ غیر اہم معاملات میں الجھانا چاہتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے تم ان بے مقصد مباحث میں نہ پڑو۔ صرف اتنی بات کرو جتنی بذریعہ وحی واضح کر دی گئی (آیت ۲۲) ۔ اہلِ کتاب کے مختلف فرقے اصحابِ کہف کی تعداد اور غار میں ان کی مدتِ قیام کے بارے میں مختلف آرا رکھتے تھے۔ مگر کسی کے پاس کوئی ٹھوس تاریخی یا دستاویزی ثبوت نہ تھا۔ لہٰذا ان سے اس بارے میں کچھ پوچھنا بے سود ہے (۲۲) ۔ قطعی علمی یا تاریخی شواہد کی غیر موجودگی میں کوئی معروضی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔

اہلِ ایمان کو چاہیئے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں ہر گز یہ نہ کہیں کہ وہ اسے کل کر دیں گے۔ زمانۂ آئندہ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کل کیا ہو گا، اس کا دارومدار مشیتِ الٰہی پر ہے۔ انسان کی کوئی چاہت صرف اس وقت منصہ شہود پر آ سکتی ہے جب وہ مشیتِ الٰہی کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ مشیتِ الٰہی نے تاریخ کے سفر کو جن اسباب و علل کے ساتھ مشروط کیا ہے، ان کو مدِ نظر رکھے بغیر کوئی ارادہ عملی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اہلِ ایمان ہر شے کو فراموش کر کے صرف اپنے رب کی یاد کو اپنے دل میں بسائیں (اور مخالفین کی قیاس آرائیوں کی پروا نہ کریں) ۔ ان اسباب و علل کی طرف توجہ دیں جن کا اہتمام حصولِ مقصد کے لئے لازمی ہے۔ جب ایسا ہو گا تو کامیابی اور کامرانی کی وہ راہیں کشادہ ہوں گی جو اپنی مثال آپ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرمﷺ کو ہدایت کے جو روشن دلائل عطا فرمائے ہیں، وہ اصحابِ کہف کے واقعہ سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ آپ کے ساتھیوں نے ہمت اور عزیمت کی جو تاریخ رقم کی ہے دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے (۲۳۔ ۲۴) ۔ جب ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھا جائے یعنی دعوتِ حق کے لئے انتھک، مسلسل اور بلا انقطاع جد و جہد کی جائے تو اس کے نتیجے میں، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق، کامیابی کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی جاتی ہے۔

اصحابِ کہف کی مدتِ قیام کے متعلق مختلف لوگوں کے مختلف قیاسات ہیں۔ مگر ان میں سے کسی کے پاس کوئی حقیقی علم نہیں۔ اصل حقیقت سے صرف اللہ آگاہ ہے، جو ماضی، حال اور مستقبل کے سب غیب و شہادت کا علم رکھتا ہے۔ زمین اور ماورائے زمین کائنات سب کے پوشیدہ اسرار و رموز کا علم اسی کے پاس ہے۔ وہ ایسا دیکھنے والا ہے کہ اس جیسا دیکھنے والا کوئی نہیں۔ ہر ہر شے کا نگہبان اور محافظ۔ جو اس کی دی ہوئی بصیرت کو کام میں لا کر تمام تر اسباب و عوامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جد و جہد کرتے ہیں، وہ انھیں کامیابی سے سرفراز فرماتا ہے۔ پھر یہ کہ وہ سب سے بڑھ کر سننے والا ہے۔ لوگ جو کچھ کہتے ہیں، وہ اس کے علم میں ہے۔ صادق القول اور کاذب القول نتائج کے اعتبار سے برابر نہیں ہوتے۔ مشیتِ الٰہی دونوں کو اپنے اپنے انجام تک پہنچاتی ہے۔ جو اپنے ارادوں کو مشیتِ الٰہی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرتے، وہ بالآخر ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کی اتباع ہی حتمی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ جو الٰہی ضابطوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور انحراف کی راہوں پر گامزن رہتے ہیں، ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ اہلِ ایمان کو چاہیئے کہ وہ اپنی زندگی ہمیشہ حق و صداقت کے اصولوں کے مطابق بسر کریں۔ (۲۶)

 

چند مباحث

 

اصحابِ کہف کی جد و جہد Passive (انفعالی) تھی یا Active (فعال) ؟ عام طور پر لوگوں نے اسے ایک انفعالی جد و جہد کی شکل میں دیکھا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ قصے اور داستانیں ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت گردش میں تھیں، اور جن کے چرچے آج بھی ہیں۔ لیکن اگر ان تمام افسانوں اور Legendsکو ایک طرف رکھ کر استنباطِ نتائج کے لئے صرف قرآنِ مجید کے متن (Text) کو بنیاد بنایا جائے تو حقیقت کا ایک مختلف نقشہ سامنے آتا ہے۔ ہمیں افسانوی تفصیلات اور اضافات کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآنِ مجید کے قصۂ اصحابِ کہف کے ماحصل اور نفسِ مضمون کو سمجھنا ہو گا۔ ہمارا موضوعِ سخن” قرآن کا قصۂ اصحابِ کہف” ہونا چاہیئے۔ قرآن کے اصحابِ کہف کی جد و جہد واضح طور پر ایک فعال جد و جہد ہے۔

پہلی چار آیات (۹ تا ۱۲) میں سے پہلی آیت (۹) میں قرآن اس واقعہ کے خاص طور پر تعجب خیز، غیر معمولی اور محیر العقول ہونے کی نفی کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی جد و جہد جو نہایت قابلِ قدر تھی، فطرت کے اصولوں کے عین مطابق تھی۔ وہ ایسی نہ تھی جسے خاص طور پر غیر معمولی یا محیر العقول قرار دیا جائے۔ اگلی تین آیات میں قرآن ان مختلف داستانوں کا لبِ لباب بیان کرتا ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں گردش میں تھیں۔ یہ حقیقت کہ ان آیات (۱۰تا۱۲) میں اصل اور سچے واقعے کا خلاصہ نہیں بلکہ زیرِ گردش داستانوں کا ماحصل ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ کتنی صحیح یا کتنی غلط تھیں، کا استنباط اگلی آیت (۱۳) سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ جس میں یہ نہیں کہا جا رہا کہ’ ہم آپ کو اصحابِ کہف کا واقعہ "تفصیل” سے سناتے ہیں، بلکہ کہا جا رہا ہے کہ ” بالحق ” یعنی سچا، درست اور ٹھیک ٹھیک، سناتے ہیں۔ لہٰذا، واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کا اصل قصہ آیت ۱۳ سے شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ، قرآن کے مخصوص، پُر اعجاز ادبی اسلوب میں فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ان کا قصہ ٹھیک ٹھیک پیش کرتے ہیں، یعنی وہ یوں ہے: بے شک وہ کچھ جوان (یا جواں ہمت افراد) تھے جو اس کے باوجود کہ انھوں نے باطل عقائد اور ظلم و جبر کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی، اپنے رب پر ایمان لائے تھے۔ جبر و استبداد کے باوجود جب وہ حق پر ثابت قدم رہے، اپنی جد و جہد جاری رکھی، تو مشیتِ الٰہی کے آفاقی قانون کے مطابق ان کے نورِ ہدایت و بصیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ آیت ۱۳ کے اس آخری حصے میں ان کی اپنے نظریہ کے ساتھ Commitmentکا اظہار ہے۔ (” وہ لوگ جو ہماری راہ میں جد و جہد کرتے ہیں، ہم انھیں اپنی راہوں کی ہدایت عطا کرتے ہیں "۔ اخلاص پر مبنی جد و جہد، انسان کی اپنے نظریہ کے ساتھ وابستگی کو اور بڑھا دیتی ہے۔) اور جب وہ حق کی خاطر عملی جد و جہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو خدا کے قانونِ مشیت کے مطابق ان کی ہمت اور حوصلہ میں اور اضافہ ہوا۔ چنانچہ، انھوں نے اپنے قول اور فعل سے اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو ارض و سماوات کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو گویا ہم نے ایک ایسی بات کہی جو حق سے نہایت دور ہے۔ یہ ایک نا انصافی پر مبنی فعل ہو گا۔ یہ حرکت ہمیں راہِ راست سے دور لے جائے گی۔ یہ ایک ایسی بات کا اثبات ہو گا جو حقیقت میں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہو گا۔ لہٰذا، ہم اپنے سچے نظریات پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔

وہ کہتے ہیں: ہماری قوم کے لوگ معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر معبودانِ باطل کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ایسا اس کے باوجود کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اپنے باطل نظریات کے حق میں کوئی عقلی یا الہامی سند یا دلیل نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس سے بڑھ کر کوئی راہِ انصاف سے ہٹا ہوا نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایک ایسا تصور رکھتا ہو جو خلافِ حقیقت ہو۔ اصحابِ کہف کی یہ بات ان کے نظریہ کی پختگی، عزم و حوصلہ کی مضبوطی اور Clarity of thought کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ ہم نظریہ افراد کی جماعت تھی جو عملی جد و جہد میں مصروف تھی۔ منتشر الخیال جذباتی نوجوانوں کا کوئی گروہ نہ تھا۔ وہ دانا اور ہوشمند افراد کی جماعت تھی۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے تھے۔ اپنی جد و جہد کے ایک ایسے مرحلے پر جب ظلم اور استبداد حد سے بڑھ گیا، انھوں نے باہم مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ اب جبکہ ہم ان گم کردہ راہ لوگوں اور ان کے باطل عقائد و نظریات سے بیزار اور کنارہ کش ہو چکے ہیں (اور یہ ہماری جان کے درپے ہو چکے ہیں) وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم پہاڑ کے وسیع غار کو اپنا ٹھکانا بنائیں۔ (یہاں اس وسیع غار کے لئے ” الکہف” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے کوئی خاص وسیع غار مراد ہے جس کی نشاندہی، ایسا لگتا ہے کہ، وہ پہلے ہی کر چکے تھے۔) انھیں اللہ تعالیٰ کی رحمت پر مکمل بھروسہ تھا۔ وسائل و اسباب کے لئے جو ان کے بس میں تھا انھوں نے کیا۔ اسباب کی طرف پوری توجہ دینا اور حتی الوسع کوشش کرنا دانائی کی نشانی ہے، یہ توکل کے خلاف نہیں۔ یہ غار جس کا انھوں نے، خدا کی دی ہوئی بصیرت سے، انتخاب کیا تھا، ایسا تھا کہ سورج کی شعاعیں براہِ راست اس کے اندر نہ جاتی تھیں۔ اس کا اندر کا احاطہ کشادہ تھا مگر دہانہ تنگ اور ایسی سمت میں تھا کہ طلوع و غروب کے موقع پر بھی سورج کی کرنیں اس کے اندر نہ جاتی تھیں (ممکنہ طور پر وہ شمالاً جنوباً واقع تھا) ۔ چنانچہ، اس میں ہلکا اندھیرا چھایا رہتا تھا، جب تک آنکھیں اس کی عادی نہ ہو جائیں، اندر کوئی چیز واضح طور پر نظر نہ آتی تھی۔ باہر سے اندر دیکھنے والے کے لئے تو اندر کا نظارہ اور بھی مشکل تھا۔ ان کا خدا کی دی ہوئی بصیرت سے صحیح غار کا انتخاب کرنا خدا کی نشانیوں میں سے تھا (۱۷) ۔ اگر وہ انحراف کی راہوں کے مسافر ہوتے تو نہیں نہ تو کوئی مددگار میسر آتا اور نہ کوئی سیدھی راہ پر ان کی رہنمائی کرنے والا (۱۷) ۔ اصحابِ کہف نہ صرف صاحبانِ ہمت تھے، بلکہ صاحبانِ حکمت بھی تھے۔ اگلی آیت (۱۸) ممکنہ طور پر غار میں ان کی دفاعی مستعدی کی نشاندہی کرتی ہے۔ وہ چوکنا اور alert تھے۔ جب سوتے تھے تو اس طرح نہیں جس طرح نادان اور غافل لوگ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں۔ کیموفلاج (Camouflage) کی کچھ نہ کچھ صورتیں انھوں نے اختیار کی ہوں گی۔ ممکن ہے جب کچھ لوگ سوتے ہوں تو دوسرے پہرا دیتے ہوں۔ ان کے ساتھ ان کا کتا بھی تھا۔ جس اہتمام سے قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عام سا کتا نہ تھا جو بس راہ چلتے ہوئے ان کے ساتھ ہو لیا تھا۔ بلکہ ایک تربیت یافتہ کتا تھا۔ ان کا ا س کو اپنے ساتھ رکھنا حفاظت اور چوکیداری کی غرض سے تھا۔ اس کی ایک کیفیت کو قرآن نے اپنے مخصوص اسلوب میں اس طرح بیان کیا ہے:

” اور ان کا کتا (بھی) اپنے اگلے پاؤں پھیلائے (غار کی) دہلیز پر (موجود ہے)”

الغرض، انھوں نے اپنی مضبوط حکمتِ حربی سے ایسا ہیبت ناک ماحول تخلیق کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی اچانک باہر سے اندر جھانک کر دیکھتا تو اس پر سخت رعب طاری ہو جاتا اور وہ دہشت زدہ ہو کر الٹے پاؤں بھاگ نکلتا۔ قرآنِ مجید کی یہ منظر نگاری ان کی بیدار مغزی کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اس میں رسالت مآبﷺ کے زمانے اور بعد میں آنے والے اہلِ ایمان کے لئے گہرا سبق ہے۔

وہ اس حال میں کچھ عرصہ رہے۔ کتنا عرصہ قرآن اس کی تصریح نہیں کرتا۔ لیکن قرآن کا اصحابِ کہف کا قصہ (یعنی خالص قرآن کا بیانdescription نہ کہ مروجہ داستانوں کی افسانوی تفصیلات) ایک ایسا قصہ ہے جو اس واقعہ کو ایک ایسے واقعہ کے طور پر بیان کرتا ہے جو فطرت کے قوانین کے مطابق واقع ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ یقیناً اتنا ہی عرصہ رہے ہوں گے جتنا انسان فطرت کے قوانین کے مطابق رہ سکتا ہے۔ قرآنی تبیین description میں ان کا ایک دوسرے سے پوچھنا کہ وہ وہاں کتنا عرصہ رہے یہ معنے رکھتا ہے کہ وہ وہاں غیر معین عرصہ رہے، یا اتنی مدت کہ انھیں یاد ہی نہر ہا کہ وہ وہاں کتنا عرصہ رہے۔ جب انسان پورے انہماک کے ساتھ کسی جد و جہد میں محو ہو جاتا ہے تو وقت کا اسے احساس نہیں رہتا۔ وہ لوگ جو کسی جد و جہد کے لئے کمر بستہ ہوں، انھیں یاد رکھنا چاہیئے کہ انھیں غیر معین عرصے تک مصروفِ جد و جہد رہنا پڑ سکتا ہے۔

اصحابِ کہف جب بیدار ہوئے تو انھوں نے ایک ساتھی (یا ممکن ہے دو یا زیادہ دوستوں کی ایک ٹیم) کو کھانے کا بندوبست کرنے شہر بھیجا۔ اس موقع پر ان کی جو گفتگو ہوئی قرآنِ حکیم نے اسے اپنے جس مخصوص ادبی اسلوب میں بیان کیا ہے، اس میں اہلِ ایمان کی تربیت کا بہترین سامان موجود ہے:

…”پس، تم اپنے میں سے کسی کو اپنا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف روانہ کرو، سو وہ دیکھے کہ کس کے ہاں عمدہ پاکیزہ کھانا ملتا ہے۔

وہ وہاں سے تمہارے لئے کھانا لے آئے۔ اسے چاہیئے کہ خوش اخلاقی سے کام لے، اور ہرگز کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

وہ لوگ اگر تم پر آگاہ ہو گئے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں (جبراً) اپنے جھوٹے مذہب میں لوٹا دیں گے اور (اگر تم نے ایسا کیا تو) کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔”

گویا، وہ مشکل ترین حالات میں بھی پاکیزہ (دوسرے لفظوں میں، حلال و طیب) کھانے کی چاہت رکھتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ساتھی کو احتیاط، نرمی اور خوش تدبیری و خوش اخلاقی کی تلقین کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جن حالات میں انھوں نے غار میں ٹھکانا کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ کیسے تھے۔ وہ نہایت ظلم، جبر اور استبداد کا دور تھا۔ کسی کو اجازت نہ تھی کہ وہ حاکمِ وقت کے مذہب و عقیدہ سے انحراف کرے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا تھا تو اسے سخت ترین سزائیں دی جاتی تھیں۔ جس لفظ کا ترجمہ خوش اخلاقی کیا گیا ہے وہ مفسرین کے نزدیک قرآنِ مجید کے بالکل وسط میں آتا ہے۔ اس سے قرآن کے مطلوب طرزِ حیات میں خوش خلقی اور خوش تدبیری کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس لفظ کا معنی سنگسار کرنا کیا گیا ہے وہ لعنت ملامت کرنے اور دھتکارنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

قرآنِ مجید کا قصۂ اصحابِ کہف یہاں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اہلِ ایمان کی تعلیم و تربیت ہے۔

وہ بادشاہوں کا زمانہ تھا۔ سب بادشاہ اپنے مزاج اور طرزِ حکمرانی میں ایک جیسے نہ ہوتے تھے۔ کوئی اگر ظالم و جابر ہوتا تھا تو کوئی رحم دل اور کشادہ قلب بھی ہوتا تھا۔ محلاتی سازشیں بھی ہمیشہ جاری رہتی تھیں۔ اگر کوئی بادشاہ سال ہا سال تک تختِ حکمرانی پر براجمان رہتا تھا تو کوئی چند ہی دنوں میں کسی بغاوت کی نذر بھی ہو جاتا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ملک کے سیاسی حالات بدل گئے۔ جبر کا وہ ماحول جس میں انھوں نے غار میں ٹھکانا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، باقی نہ رہا۔ ان کے حامی یا خیر خواہ غالب آ گئے۔ اور وہ شہر جہاں ان کے لئے جان بچانا مشکل تھا، اس میں ان کی عزت و تکریم کے ڈنکے بجنے لگے۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور (فیصلے کی) گھڑی کے آنے میں کوئی شک نہیں سے ممکنہ طور پر یہ مراد ہے کہ اہلِ حق اگر ثابت قدم رہیں تو آخری کامیابی انھیں کو حاصل ہو گی۔ باطل چاہے کتنا ہی طاقتور ہو بالآخر شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ وقت آ کر رہے گا جب حق اور باطل میں فیصلہ ہو گا۔

"But whatever the source of this legend, and irrespective of whether it is of Jewish or Christian origin, the fact remains that it is used in the Qur’an in a purely parabolic sense: namely, as an illustration of God’s power to bring about death (or "sleep”) and resurrection (or "awakening’) ; and, secondly, as an allegory of the piety that induces men to abandon a wicked or frivolous world in order to keep their faith unsullied, and of God’s recognition of that faith by His bestowal of a spiritual awakening which transcends time and death.” (Muhammad Asad)

 

 

 

 

آیات ۲۷ تا ۳۱

 

ترجمہ

اور آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب سے جو (حصہ) وحی کیا جاتا ہے، (لوگوں کو) پڑھ سنائیے۔ (کہ) کوئی نہیں جو اس کے کلمات کو بدل سکے۔ اور تم اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔ اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھو جو اپنے رب کواس کی خوشنودی چاہتے ہوئے صبح و شام پکارتے ہیں، اور دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے تمھاری نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔ اور اس (نادان) کی پیروی نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غفلت میں پڑا رہنے دیا، اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے، اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔ (۲۷۔ ۲۸)

اور کہہ دیں: حق (کا یہ پیغام) تمھارے رب کی طرف سے (نازل ہوا) ہے۔ پس جس کا جی چاہے (اس پر) ایمان لائے اور جس کا جی چاہے (اس کا) انکار کر دے۔ بے شک ہم نے ظالموں کے لئے ایک ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی چار دیواری نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایک ایسے پانی سے کی جائے گی جوایسا ہو گا جیسے پگھلی ہوئی دھات۔ وہ چہروں کو جھلسا دے گا۔ کیا ہی برا ہو گا وہ مشروب، اور کیا ہی برا ٹھکانا۔ (۲۹)

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے صلاحیت بخش کام انجام دیئے (یاد رکھیں کہ) ہم ان کا اجر ہر گز ضائع نہیں کریں گے جو عمدہ اعمال بجا لاتے ہیں۔ یہی وہ (خوش نصیب) ہیں جن کے لئے ہمیشگی کے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ انھیں ان (باغات) میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ اور وہ سُندُس اور اِستَبرَق کا سبز لباس پہنیں گے۔ وہ ان (باغات) میں آراستہ پلنگوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہو گا وہ اجر، اور کیا ہی عمدہ آرام گاہ۔ (۳۰۔ ۳۱)

 

تشریح

قرآن کا قصۂ اصحابِ کہف ہمیں نہ صرف ماضی کے اصحابِ کہف کی جد و جہد کی ایک جھلک دکھاتا ہے، بلکہ اس میں مستقبل کی کچھ اہم پیشین گوئیاں بھی موجود ہیں۔ اس میں آیات۱۷، ۱۸ مضارع یعنی حال و مستقبل کے صیغے میں ہیں۔ انھیں ایک پہلو سے اصحابِ کہف کے مذہبی اعتبار سے موجودہ (نزولِ قرآن کے وقت کے) اور آئندہ کے ہم قوموں کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ آیت ۲۴ کے آخری حصے کے حوالے سے تو تقریباً سبھی مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد رسولِ اکرمﷺ کو ایسی کامیابی عطا فرمائے گا جو اصحابِ کہف کے واقعے سے زیادہ تعجب خیز ہو گی۔ (مثلاً، پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں: "اس جملہ کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے جب کفار نے عناد و آزمائش کے لئے حضورﷺ سے اصحابِ کہف کا حال دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو ان کے حالات پر آگاہی بخشی اور ساتھ ہی فرما یا کہ آپ ان لوگوں کو جو اصحابِ کہف کے حالات بتانے کو آپ کی نبوت اور صداقت کی دلیل قرار دے رہے ہیں کہہ دیں کہ میری صداقت کی ایسی ایسی روشن دلیلیں اللہ تعالیٰ ظاہر فرمانے والا ہے کہ ان کے سامنے اس واقعہ کا علم کوئی حیثیت نہیں رکھتا” (ضیا القرآن جلد سوم،ص ۲۳) ۔ مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں: ” آیت ۲۳ میں اس طرف اشارہ ہے کہ عنقریب ایسا ہی معاملہ تمھیں بھی پیش آنے والا ہے یعنی اپنی قوم سے راہِ حق میں کنارہ کشی کرو گے اور غارِ ثور میں کئی دن تک مقیم رہو گے۔ پھر تم پر فتح و کامرانی کی ایسی راہ کھولی جائے گی جو اس معاملہ سے بھی کہیں عظیم تر ہو گی” (ترجمان القرآن، جلد دوم،ص ۴۱۱)

اس سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ اس آیت میں "کلمات ” کا تعلق مستقبل کی پیشین گوئیوں سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (اے نبیﷺ!) آپ کے رب کی کتاب سے جو آپ پر بزبانِ وحی منکشف کیا جا رہا ہے وہ پڑھ سنایئے (اورحسبِ سابق مخالفین کی پروا نہ کیجیئے) ، آپ کے رب نے جو مقدر کیا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ اس کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں۔ اور یہ کہ اس وقت اے مخاطب تیرے لئے خدا کے بغیر کوئی جائے پناہ نہ ہو گی۔ "کلماتِ وحی نے جن باتوں کا اعلان کیا ہے، انھیں کوئی بدل نہیں سکتا اور انقلابِ حال کا اب وقت دور نہیں”۔ (آزاد، ایضاً)

اللہ نے جو اصول و ضوابط ٹھہرائے ہیں وہ اٹل ہیں۔ اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کر کے رہیں گے۔ یہ اللہ کے وہ قوانین ہیں جن میں تبدیلی کوئی نہیں کر سکتا۔ اس کے قوانین کی پیروی ہی انسان کے لئے امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی جائے امن و قرار (مُلتَحَداً) نہیں۔ انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھے جو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر مصروفِ جد و جہد رہتے ہیں۔ اور حیاتِ دنیا کی کسی چمک دمک کی خاطر ان سے اپنی نگاہیں نہ پھیرے۔ پھر یہ کہ، دنیا کی کوئی طاقت، کوئی حرص، کوئی خوف انسان کو جادۂ حق سے ہٹا نہ سکے۔ وہ کسی بھی حال میں ان لوگوں کی پیروی نہ کرے جن کے دل یادِ الٰہی سے غافل ہیں، یعنی الٰہی ضابطوں اور اصولوں کی ان کے نزدیک کچھ اہمیت نہیں۔ وہ بس اپنی خواہش کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور اس باغیانہ روش میں اتنے پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔ (۲۷۔ ۲۸) ۔ تفسیری ترجمے کا ایک انداز یہ ہو سکتا ہے:

اور (اے رسولِ اکرم) آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب سے جو (حصہ) وحی کیا جاتا ہے، (لوگوں کو) پڑھ سنائیے۔ (یہ کہ) کوئی نہیں جو اس کے کلمات کو بدل سکے۔ اور (یہ کہ) تم اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔ اور (یہ کہ) اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھو جو اپنے رب کواس کی خوشنودی چاہتے ہوئے صبح و شام پکارتے ہیں، اور دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے تمھاری نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔ اور (یہ کہ) اس (نادان) کی پیروی نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غفلت میں پڑا رہنے دیا، اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے، اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔ (۲۷۔ ۲۸)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

اور کہہ دیں: حق (کا یہ پیغام) تمھارے رب کی طرف سے (نازل ہوا) ہے۔ پس جس کا جی چاہے (اس پر) ایمان لائے اور جس کا جی چاہے (اس کا) انکار کر دے۔

یہ قرآن پیغامِ حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے۔ لیکن دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی طاقت (Free will) عطا کی ہے۔ جس کا جی چاہے اس کے ضابطوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے، اور جس کا جی چاہے انکار کی روش اختیار کر لے۔ مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ دونوں کے اپنے اپنے نتائج ہوں گے۔ مشیتِ الٰہی میں یہ بات طے ہے کہ راہِ حق و انصاف سے انحراف کرنے والوں کو نہایت اذیت ناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرآن یہاں ان اذیت ناک نتائج کو اپنی علامتی زبان میں ایک ایسی آگ سے تعبیر کرتا ہے جس کی گویا خیمے کی طرح کی قناتیں انسان کو ہر طرف سے اپنے احاطے میں لیے ہوں گی۔ یعنی انسان اپنے اعمال کے نتائج کی مکمل گرفت میں ہو گا جس سے اس کے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ جب وہ پینے کے لئے پانی مانگے گا تو اسے ایک ایسا مشروب دیا جائے گا جو پگھلی ہوئی دھات کی طرح کا ہو گا، اور اس کے چہرے کو بھون ڈالے گا۔ قرآن کہتا ہے یہ مشروب بہت برا ہو گا ور اسی طرح وہ ٹھکانا بھی جس میں انھیں رہنا ہو گا۔ (۲۹)

یاد رکھنا چاہیئے کہ سزاؤں کا یہ بیان علامتی زبان میں ہے۔ اسے لغوی اور لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہیئے۔ اس کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اہلِ علم اس پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید میں آخرت کی سزا اور اسی طرح جزا کا جو بیان ہے وہ علامتی اور استعاراتی (Symbolic & metaphorical) زبان میں ہے۔ آخرت کو اس دنیا پر معمول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دنیا ایک طبیعاتی (Physical) عالم ہے جبکہ آخرت کی نوعیت مابعد الطبیعاتی (Metaphysical) اور روحانی (Spiritual) ہو گی۔ ہم طبیعاتی عالم کے زمان و مکان (Time & space) کا اطلاق مابعد الطبیعاتی عالم پر نہیں کر سکتے۔ قرآنی بیانات کا مدعا یہ ہے کہ آخرت میں انسان کے اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ مخالفینِ حق کے انجام کی تصویر کشی ان کے موجودہ عیش پرستانہ طرزِ حیات کی اصطلاحوں میں کی گئی ہے۔

اس کے برعکس، وہ لوگ جو اس پیغامِ حق کو دل و جان سے قبول کریں گے، اور اپنی زندگی اس کے حیات آفریں ضابطوں کے مطابق گزاریں گے، ان کے لئے بہترین اجر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ ان کا اجر ہر گز ضائع نہیں کرے گا جو عمدہ اعمال سرانجام دیں گے۔ قرآنِ مجید کی علامتی زبان میں، انھیں ہمیشگی کے باغات عطا ہوں گے، یعنی ایسے باغات جو ہمیشہ سرسبز و شاداب رہیں گے۔ ان کے بیچوں بیچ (رحمتِ خداوندی کی) نہریں بہتی ہوں گی۔ انھیں گویا شاہانہ شان و شوکت عطا ہو گی۔ انھیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ وہ ایسا ہرا بھرالباس زیبِ تن کریں گے جو سندس (باریک ریشم، Silk) اور استبرق (موٹے ریشم، Brocade) کا بنا ہوا ہو گا۔ وہ آراستہ پلنگوں پر، تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ کیا کہنے اچھے اعمال کے اس صلے کے، اور کیا کہنے اس جائے قرار کے۔ (۳۰۔ ۳۱) سبز لباس سدا بہار نعمتوں کا علامتی اظہار ہے۔

علامہ محمد اسد اپنی تفسیر دی میسج آف قرآن (The Message of the Qur’an) میں لکھتے ہیں:

"Like all other Qur’anic descriptions of happenings in the hereafter, the above reference to the "adornment” of the believers with gold and jewels and silk (cf. similar passages in 22: 23, 35: 33 and 76: 21) and their "reclining upon couches (ara’ik) ” is obviously an allegory – in this case, an allegory of the splendor, the ever-fresh life (symbolized by "green garments”) , and the restful fulfillment that awaits them in result of the many acts of self-denial which their faith had imposed on them during their earthly life. – Referring to the symbolism of these joys of paradise, – Razi draws our attention to the difference in the construction of the two parts of this clause: the first part is in the passive form ("they will be adorned…”) and the second, in the active ("they will wear…”) . In his opinion, the active form alludes to what the righteous will have earned by virtue of their deeds, whereas the passive form denotes all that will be bestowed on them by God above and beyond their deserts.”

 

 

 

آیات ۳۲۔ ۴۴

 

ترجمہ

اور (اے رسولِ اکرمﷺ) ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کیجیے۔ ان میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عطا کیئے تھے، ان کے گرد ہم نے کھجور (کے درختوں) کی باڑ بنائی تھی، اور دونوں کے درمیان اناج کا کھیت بھی اگایا تھا۔ دونوں باغوں نے اپنا اپنا خوب پھل دیا، اور اس میں سے کوئی چیز کم نہ ہوئی۔ اور ہم نے ان کے درمیان نہر جاری کر دی۔ پس، اس کے پاس بکثرت پھل تھا۔ پھر، ایک روز اس نے اپنے ساتھی سے مباحثہ کرتے ہوئے کہا کہ میں مال و دولت کے اعتبار سے بھی تم سے بڑھ کر ہوں اور میری افرادی قوت بھی تم سے زیادہ ہے۔ (۳۲۔ ۳۴)

اور (پھر، ایک دن) وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ اپنے آپ پر ظلم کر رہا تھا۔ کہنے لگا: میں نہیں سمجھتا کہ یہ (سرسبز و شاداب باغ) کبھی تباہی سے دوچار ہو گا۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ (فیصلے کی) گھڑی کبھی آئے گی۔ اور اگر (بالفرض) مجھے میرے رب کی طرف لوٹایا ہی گیا تو میں وہاں بھی یقیناً اس سے بہتر ٹھکانا پاؤں گا۔ (۳۵۔ ۳۶)

اس کے ساتھی نے اس سے سوال و جواب کرتے ہوئے کہا: کیا تو اس (ہستی) کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے (بطورِ نوعِ حیات) مٹی سے پیدا کیا، پھر (بطورِ فرد) ایک تولیدی مادے سے۔ پھر (یہ کہ) تجھے بطورِ انسان بہترین ساخت عطا فرمائی۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ وہ اللہ ہی میرا رب ہے، اور (یہ کہ) میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ کاش اپنے باغ میں داخل ہوتے وقت تو یہ کہتا: ماشاء اللہ، لا قوۃ الآ باللہ۔ (وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے، اور اللہ کی مدد کے بغیر کسی میں کوئی طاقت نہیں) ۔ اگر تیری نظر میں میں مال و اولاد میں تجھ سے کم تر ہوں تو یہ عین ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ کے مقابلے میں کوئی بہتر چیز عطا کر دے، اور (دوسری طرف) تیرے باغ پر کوئی آسمانی عذاب بھیج دے، جس سے وہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے۔ یا (یہ کہ) اس کا پانی زمین کی گہرائی میں اس طرح جذب ہو جائے کہ تو تلاش کے باوجود اسے نہ پا سکے۔ (۳۷۔ ۴۱)

اور (پھر ایک دن) اس کا سب مال و متاع برباد ہو گیا، اور وہ اپنے اس مال کے نقصان پر جو اس نے اپنے باغ پر خرچ کیا تھا، کفِ افسوس ملنے لگا۔ اور (اب) وہ باغ اپنے چھپروں پر گرا پڑا تھا۔ اور وہ (بصد حسرت) کہتا تھا: اے کاش میں نے کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنایا ہوتا۔ (۴۲)

(اس کا حال اب یہ تھا کہ) نہ اس کے پاس کوئی جماعت رہی تھی جو اللہ کو چھوڑ کر اس کی مدد کرتی، اور نہ ہی وہ خود اس قابل تھا کہ اپنی مدد کرتا۔ (۴۳)

یہاں سے ثابت ہو گیا کہ سارے اختیار کا مالک خدائے برحق ہے۔ وہی ہے سب سے بڑھ کر اجر دینے والا اور اسی کے ہاتھ میں بہتر انجام ہے۔ (۴۴)

 

 

 

تشریح

قرآنِ مجید کے اپنے الفاظ میں یہ ایک مثال یا تمثیل (Parable) ہے۔ تمثیل میں کسی حقیقت کو کرداروں کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ دو آدمی اصل میں دو نظامِ فکر یا یوں کہیں کہ ان سے مراد دو قسم کی ذہنیتیں (Mentalities) ہیں۔ ایک نظامِ فکر میں خدائے واحد و لا شریک پر ایمان، احساسِ آخرت اور ہر حال میں اس کا شکر بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، جبکہ دوسرا نظامِ فکر شرک، انکارِ آخرت، مادی اور دنیاوی اسباب و وسائل پر ناز، اور تکبر اور گھمنڈ سے عبارت ہے۔ ایک God-centred ہے جبکہ دوسرا Matter-centredہے۔ اصحابِ کہف الٰہی نظامِ فکر کی نمائندگی کر رہے تھے اور ان کی قوم مادی نظامِ فکر کے ترجمان تھے۔ اس طرح مکہ کے اہلِ ایمان کی جد جہد کا مقصد روحانی اقدار کا غلبہ تھا جبکہ ان کے مخا لفین مادی نظریۂ حیات کی بقا کے لئے کوشاں تھے۔ یہ سورہ سوچ کے انھیں دو دھاروں کا تقابل سامنے لا رہی ہے۔

انگوروں کے دو باغ ہیں۔ (ہم جانتے ہیں کہ انگور ایک بیلدار پودا ہے جسے چھپروں (عروشات) یا دوسرے سہاروں پر چڑھایا جاتا ہے۔) ہر باغ کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ یا چاردیواری ہے، جو پھل بھی دیتے ہیں اورکسی آندھی یا طوفان کے مقابلے میں انگور کے پودوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ پھر، ان باغوں کے درمیان اناج کا کھیت بھی ہے۔ باغوں کی زمین زرخیز ہے اور زیرِ زمین پانی بآسانی دستیاب ہے۔ یہ نتیجہ اس بات سے نکلتا ہے کہ قرآن نہر کے ذکر سے پہلے یہ بتاتا ہے کہ وہ باغ بھرپور پھل لاتے تھے، اور اس میں کوئی کمی نہ کرتے تھے۔ نہر کا ہونا ایک اضافی نعمت ہے۔ گویا، نور علیٰ نور۔ آگے باغ کے پانی کی زمین کی گہرائی میں اتر جانے کی جو بات کی گئی ہے اس سے بھی یہی مستنبط ہوتا ہے کہ زیرِ زمین پانی وافر دستیاب تھا۔ نہر تو کہیں پیچھے سے آ رہی ہے۔ اس کے حوالے سے اگر بات ہو رہی ہوتی تو طرزِ کلام مختلف ہوتا۔

تمثیل کا پلاٹ یہ ہے۔ ایک آدمی کے دو باغ ہیں، جن کے بیچ میں اناج کا کھیت ہے۔ باغوں اور کھیت کی زمین خوب زرخیز ہے۔ زیرِ زمین پانی وافر دستیاب ہے۔ باغوں کے درمیان ایک نہر بھی رواں ہے جو انھیں اور کھیت کو سیراب کرتی ہے۔ یہ بظاہر ایک بے عیب بندوبست ہے۔ اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ باغ اور کھیت بہترین پیداوار دے رہے ہیں۔ رواں دواں نہر کی موجودگی اس بات کی ضمانت فراہم کر رہی ہے کہ اس کے باغوں اور کھیت کے زرخیزی اور شادابی مستقبل میں بھی اسی طرح جاری رہے گی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ چیزیں "ہم” نے اسے عطا کی تھیں۔ اس میں اس بات پر زور ہے کہ وسائل اور اسباب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اصل دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ وسائل و اسباب بھی اسی کی مشیت کے تابع ہیں۔ انسان کو ہمیشہ اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ انسانی کاوشوں کو مطلوبہ نتائج تک لے جانے میں سازگار قدرتی عوامل کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر قدرتی عوامل سازگار نہ ہوں تو انسان لاکھ محنت کرے من پسند نتائج حاصل نہیں کر سکتا۔ جب حقیقت یہ ہے تو انسان کے پاس اس کے سوا اور چارا ہی کیا ہے کہ وہ ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرے، زبانی بھی اور عملی بھی۔

مگر وہ شخص گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ اسے اپنے مال و دولت اور اپنے لوگوں کی تعداد اور قوت پر ناز ہے۔ وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے ہٹ کر کو ئی برتر مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پہلے تو قیامت نام کے کسی دن نے آنا نہیں، لیکن اگر بالفرض آ ہی گیا تو اسے وہاں بھی ان سے بہتر ٹھکانا ملے گا۔ گویا وہ سمجھتا ہے کہ وہ خِلقی طور پر ہی یہ استحقاق رکھتا ہے کہ دنیا میں بھی اس کے پاس بہترین مال و متاع ہو اور آخرت میں بھی اسے بہترین نعمتیں ملیں۔ خدا کی تخلیقی اسکیم ہی میں وہ ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔

اس کا دوست اسے سمجھاتا ہے۔ اسے اس کی نظری اور عملی کوتاہیوں کا احساس دلاتا ہے۔ اسے بتاتا ہے کہ اس کا طرزِ فکر اور ورلڈ ویو کیا ہونا چاہیئے۔ پھر اس کی توجہ اس طرف مبذول کرتا ہے کہ تباہی اوپر سے بھی آ سکتی ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پانی جو تیرے باغ اور کھیت کو سیراب کرتا ہے زمین کی گہرائی میں اتر کر ناقابلِ رسائی ہو جائے۔ مگر اس پر کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کا لائف اسٹائل جوں کا توں رہتا ہے۔ چنانچہ، ایک دن اس کا سب مال و متاع تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ اپنی جس جماعت پر اسے ناز ہوتا تھا نہ وہ اس کی کوئی مدد کر سکتی ہے اور نہ وہ خود ہی اس قابل ہوتا ہے اپنی مدد کر سکے اور "ترقی” اور "خوشحالی” کے دن واپس لا سکے۔

اب وہ بصد حسرت کہتا ہے: اے کاش اس نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا (۴۲) ۔ خدا (یعنی الٰہی اقدار اور تقاضوں) کو نظر انداز کر کے مادی اسباب و وسائل پر بھروسہ شرک کی بدترین شکلوں میں سے ہے۔

قرآن کا منشاء یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا مطمحِ نظر کوئی اعلیٰ تر مقصد ہونا چاہیئے نہ کہ محض مادی ترقی اور کامیابی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن دنیا کی ترقی اور کامیابی کے خلاف ہے۔ وہ اس کے خلاف نہیں، صرف اسے اپنی زندگی کا آخری ہدف قرار دینے سے روکنا چاہتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور اس کے متعلقات کی حیثیت عارضی اور ناپائدار ہے، اور ایک ناپائدار شے کو اپنی زندگی کا آخری نصب العین قرار دینا انسان جیسی بلند مرتبہ اور اخلاقی مخلوق کے درجہ سے گری ہوئی بات ہے۔ (اگلی آیات میں دنیا کی ناپائداری کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے۔)

اس تمثیل میں بہت سے پہلو توجہ طلب ہیں اور معنویت کے حامل ہیں۔ پہلی دو آیات میں ” دو باغوں” (جنَّتَین) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، لیکن بعد کی آیات میں باغ کا لفظ مفرد یا واحد استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کے انگوروں کے دو باغ اور ان کے درمیان کی کھیتی ایک ہی بڑے باغ کا حصہ تھے۔ شروع کی آیات میں عطائے ربانی کا تذکرہ ہے، لہٰذا کسی قدر کھول کر بیان کرنے کی ضرورت تھی، تا کہ نعمتوں کی فراوانی کا ایک نقشہ کھنچ جائے۔ بعد کے جملوں میں پورے باغ کو بطورِ مجموعی وجودِ واحد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس تمثیل میں دو باغ زمانی ترتیب (Chronological) میں ہوں یعنی ایک باغ۔ کھیتی۔ دوسرا باغ [یعنی زمانی ترتیب میں پہلے ایک باغ، پھر ایک کھیتی، اس کے بعد پھر ایک باغ]۔ اگر دو آدمیوں سے مراد دو قومیں ہوں تو باغوں کا زمانی ترتیب میں ہونا نہایت بامعنی ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ باغ زیادہ خوشحالی کی علامت ہیں، جب کہ کھیتی مقابلتاً ایک زیادہ محنت طلب کام ہے۔ قریش بعض اہلِ کتاب کی انگیخت پر رسولِ اکرمﷺ اور مسلمانوں سے نام نہاد” علمی” سوال و جواب کر رہے تھے۔ یہ ممکن ہے کہ قرآن یہاں تمثیل کی زبان میں قریش سے کہہ رہا ہو کہ اہلِ کتاب تو اپنی پے در پے نافرمانیوں کے باعث اپنے باغ (آسمانی ہدایت جو انھیں پہلے حضرت موسیٰؑ  اور پھر حضرت عیسیٰؑ کے ذریعے عطا کی گئی) ضائع کر چکے ان کی باتوں میں کیوں آتے ہو۔ ان سے بہتر ” باغ” اب اہلِ اسلام کو ملنے والا ہے بلکہ مل چکا ہے۔ تم آگے بڑھ کر اس کے امین کیوں نہیں بنتے۔

تمثیل کی آخری آیت میں اس کا لبِ لباب اور حاصل بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کی نعمتوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ اللہ کا قانونِ عروج و زوال بے لاگ ہے۔ جو کوئی اپنے آپ کو اہل ثابت کرے گا، خدا کی نعمتیں اسے حاصل ہوں گی۔ خدا کا قانون کسی عمل کو اس کے حسبِ حال صلے (ثواب) کے بغیر نہیں چھوڑتا، اور وہ نتائج و عواقب کا تعین کسی کمی بیشی کے بغیر کرتا ہے۔ اہلِ ایمان کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو الٰہی قانون کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں، اور خود کو خلافت و امامت کا اہل ثابت کریں۔

 

 

 

آیات ۴۵ تا ۴۹

 

ترجمہ

اور ان (لوگوں) کے سامنے دنیا کی زندگی کی حقیقت بیان کریں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم نے اوپر سے (بارش کا) پانی برسایا، پس اس سے زمین کا سبزہ خوب گنجان ہو کر اگتا ہے، پھر (کچھ ہی عرصہ بعد سوکھ کر) وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں۔ اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۴۵)

مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ تیرے رب کے نزدیک باعتبارِ اجر اور باعتبارِ امید (ان سے) بہتر ہیں۔ (۴۶) اور (اے لوگو!) اس دن کو پیشِ نظر رکھو جب ہم ان پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیں گے اور تم زمین کو دیکھو گے کہ بالکل عریاں ہو گئی ہے۔ اور ہم (اس دن) ان (سب) کو جمع کریں گے، سو، ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (۴۷) اور وہ آپ کے رب کی بارگاہ میں صف بستہ پیش کیئے جائیں گے۔ (پھر ہم انھیں کہیں گے کہ آج) "تم ہمارے پاس اسی طرح آئے ہو جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ جبکہ، تم تو یہ گمان کئے ہوئے تھے کہ ہم تمھارے لئے کوئی یومِ موعود مقرر نہیں کریں گے”۔ (۴۸)

اور (اس دن) ان کے سامنے (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی۔ پس، تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ اس سے جو اس میں لکھا ہو گا، لرزاں ہوں گے۔ اور وہ کہیں گے: "ہائے ہماری شامت! یہ عجیب کتاب ہے ! اس نے احاطۂ شمار میں لانے سے نہ کسی چھوٹی شے کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی شے کو”۔ اور، جو کچھ بھی انھوں نے کیا ہو گا، سب موجود پائیں گے۔ اور آپ کا رب تو کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرتا۔ (۴۹)

 

 

 

تشریح

دنیا عارضی اور نا پائیدار ہے۔ بارش برستی ہے تو اس کے پانی سے زمین کی جڑی بوٹیاں خوب گھنی ہو کر اگتی ہیں۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہو جاتا ہے۔ مگر چند ہی دنوں میں یہ سب نباتات سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں اور ہوائیں انھیں ادھرسے ادھر اڑائے پھرتی ہیں۔ کل جو لہلہاتی ہوئی ہریالی تھی، آج وہ ہواؤں کے دوش پر اڑتی ہوئی گرد ہے۔ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہی ہے۔ [مثال کا ایک معنی کسی چیز کی حالت اور حقیقت بھی ہے۔ ] انسان پیدا ہوتا ہے، بچپن، لڑکپن اور جوانی کے مراحل سے گزرتا ہوا بڑھاپے کی عمر کو جا پہنچتا ہے، اور پھر موت کی نذر ہو کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تابع ہے۔ اس کے قوانین کی حکمرانی سے باہر کوئی شے نہیں۔ اس کے قوانینِ قدرت آفاقی اور بے لاگ ہیں۔ افراد کی طرح قومیں اور تہذیبیں بھی انھیں الٰہی قوانین کے تابع ہیں۔

جب دنیا کی زندگی کی ساری حقیقت بس اتنی سی ہے تو اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کی نذر کر دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔

یہ مال اور اولاد جن پر انسان بہت اتراتا ہے، دنیا کی زندگی کی رونق ہیں۔ یہ دنیا کی چیزیں ہیں اور انھیں دنیا ہی میں رہ جانا ہے۔ جو چیز انسان کے ساتھ آگے جائے گی وہ اس کے صالح اعمال ہیں۔ قرآن انسان کے تمام امورِ خیر اور بھلائی کے سب کاموں کو باقیات الصالحات کہتا ہے۔ آخرت کی زندگی کی زینت کا دارو مدار اعمالِ صالحہ پر ہے۔ اعمالِ صالحہ کے نتائج و ثمرات تا ابد رہیں گے۔ یہ دنیا کی زیب و زینت کے مقابلے میں صلے کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں، اور امید کے اعتبار سے بھی۔ یہ خدا کی رحمت کی امید کا بہتر ذریعہ ہیں۔ (They are a better source of hope.) اچھے اعمال انسان کو اس قابل کرتے ہیں کہ وہ خدا کی رحمت کی بہتر امید رکھ سکے۔ لہٰذا، انسان کو چاہیئے کہ وہ ان پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرے۔

ایک دن آئے گا جب اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا، یعنی انھیں نابود کر دے گا۔ اور زمین بالکل عریاں اور واضح ہو کر سامنے آ جائے گی۔ یہاں ممکنہ طور پر پہاڑوں سے مراد طاقتور لوگ اور طبقۂ اشرافیہ) (Aristocracyہے، اور زمین سے عام لوگ مراد ہیں۔ گویا، عام لوگ طاقتور لوگوں کے تسلط سے آزاد ہو جائیں گے۔ مشیتِ الٰہی اس طرح سب کو اکٹھا کرے گی کہ کوئی پیچھے نہ رہے گا۔ لوگ خدا کے قانون کے سامنے اس طرح پیش کئے جائیں گے کہ سب ایک ہی صف میں ہوں گے، کوئی امتیاز نہ برتا جائے گا۔”تم ہمارے پاس (آج) اسی طرح آئے ہو جس طرح تم اس وقت تھے جب ہم نے تمھیں پہلی بار تخلیق کیا تھا”۔ یعنی خدا کے قانون کے مقابلے میں یکہ و تنہا، ناتواں، نہ اپنے لئے کچھ کر سکنے کی طاقت اور نہ کسی دوسرے کے لئے۔ کوئی کسی پر کسی بھی لحاظ سے اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ کوئی چیز خدا کے قانونِ عدل کے مقابلے میں ساتھ نہیں دے سکتی۔ نہ مال، اور نہ اولاد۔ یہ خدا کے "وعدے ” کے ظہور کا دن ہو گا۔ اگرچہ بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسا کوئی دن آنے والا نہیں۔ یہ محض ان کا زعم ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا۔ اور جب وہ آئے گا تو ہر قسم کی مصنوعی اونچ نیچ اور امتیازات مٹ جائیں گے۔

ان کے سامنے (اعمال کی) کتاب رکھی جائے گی۔ یہ ایسی کتاب ہو گی جس میں چھوٹی بڑی ہر چیز رقم ہو گی۔ جو کچھ اس میں لکھا ہو گا مجرم اس سے لرزاں ہوں گے۔ ممکن ہے کہ یہاں کتاب سے مراد "خدا کے قانونِ عدل کی کتاب” ہو۔ ایسی صورت میں مطلب ہو گا خدا کا قانون چھوٹی بڑی ہر چیز کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے، کوئی چیز اس سے باہر نہیں۔ مجرم اس سے خوف زدہ ہوں گے۔ اللہ کا قانون سراپا عدل و احسان ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اپنے اوپر ظلم انسان خود کرتا ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر بدی کی قوتوں کی پیروی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی طاقت (Free will) عطا فرمائی ہے۔ وہ اپنے اختیار سے نیکی یا بدی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے۔ جب انسان بدی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے اوپر ظلم کر رہا ہوتا ہے۔

ممکن ہے ان آیات میں عدل و احسان پر مبنی اس معاشرے کے قیام کی پیشین گوئی ہو جسے رسولِ اکرمﷺ نے ریاستِ مدینہ کی شکل میں قائم کیا تھا۔ قرآنِ مجید کے مطلوب عادلانہ معاشرے کا قیام ہر عہد کے اہلِ ایمان کا نصب العین ہونا چاہیئے۔ آج جو لوگ مادی وسائل کی بنیاد پر حق کی مخالفت کر رہے ہیں، بہت جلد انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ اور اپنے اعمالِ بد پر نہایت شرمندہ ہوں گے۔ کوئی ان کا حامی اور مدد گار نہ ہو گا۔ ان کا یہ انجام ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہو گا۔ اسلامی ریاست کی طرف سے ان پر ہر گز زیادتی نہ کی جائے گی۔

 

 

 

آیات ۵۰ تا ۵۳

 

ترجمہ

اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا: ” آدم کے سامنے جھک جاؤ”تو وہ جھک گئے سوائے ابلیس کے۔ وہ از قسمِ جن تھا سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ پس، کیا تم (اے انسانو!) میرے بجائے اسے اور اس کی ذریت کو اپنے دوست بناؤ گے، جبکہ (حقیقت یہ ہے کہ) وہ سب تمھارے دشمن ہیں۔ کیا ہی برا بدل ہے جو ظالموں نے اختیار کیا ہے۔ ! میں نے ان سے نہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت مدد لی تھی اور نہ ہی ان کی اپنی پیدائش کے وقت۔ اور میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بنانے والا نہ تھا۔ اور اس دن کو پیشِ نظر رکھو جب اللہ (مشرکین سے) فرمائے گا کہ بلاؤ ان (ہستیوں) کو جنھیں تم میرا شریک ٹھہراتے تھے، وہ انھیں پکاریں گے مگر وہ انھیں کوئی جواب نہ دیں گے۔ اور ہم ان کے درمیان ایک آڑ حائل کر دیں گے۔ اور مجرم آگ کو دیکھیں گے تو یہ سمجھیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں۔ اور وہ اس سے نجات پانے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے۔ (۵۰۔ ۵۳)

 

 

 

تشریح

خدا کی کائنات اسرار ہائے گوناگوں سے بھری ہوئی ہے۔ "ملائکہ” اور "جن”ّ کی آخری حقیقت ابھی پردۂ غیب میں ہے۔ علمِ نفسیات تمام تر پیش رفتوں کے باوجود ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ مابعد الطبیعات اور روحانیات کا علمی سفر تو شاید ابھی شروعہ نہیں ہوا۔ ہم اگر کچھ کہنے کے قابل ہیں تو حقیقت کے اعتبار سے نہیں بلکہ حقیقت کے مظاہر کے اعتبار سے شاید کچھ کہہ سکیں۔ انسان کے اندر اخلاقی اعتبار سے دو طرح کی نفسیاتی یا غیر مرئی قوتیں (Invisible forces) کارفرما ہیں: مثبت اور منفی۔ مثبت قوتیں انسان کے مقصدِ وجود کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ یہ گویا انسان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ جب کہ منفی قوتیں انسان کے اندر کام کرنے والے وہ مہیجات (Impulses) ہیں جو اسے اس کے نصب العین سے دور ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ "شیطانی” اور "ابلیسی” قوتیں ہیں۔ یہ غیر مرئی اور پوشیدہ ہیں، اور انسان کے ” اندر” اس کی سائکی میں کارفرما ہیں۔ قرآنِ مجید، جو ادب کا شہپارہ ہے، اس حقیقت کو ایک تمثیل کی شکل میں بیان کرتا ہے۔

خدا غیر مرئی قوتوں کو بزبانِ تکوین حکم دیتا ہے کہ وہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں، اس کی فرمانبرداری کریں۔ سب غیر مرئی طاقتیں اس کی اطاعت کرتے ہوئے انسان کی فرمانبرداری اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن ابلیس انسان کی فرمانبرداری کے الٰہی حکم کو نہیں مانتا۔ ابلیس وہ غیر مرئی قوت ہے جو انسان کے اندر کارفرما ہوتی ہے اور اسے بدی پر ابھارتی ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں راقم الحروف کی کتاب قرآن سائنس اور انسان) ۔

انسان کے ایک اخلاقی وجود کے طور پر درجۂ کمال کو حاصل کرنے کے لئے ابلیس کا وجود بنیادی شرط ہے۔ لیکن وہ لوگ جو بدی کی ترغیبات اور دلفریبیوں کی نذر ہو جاتے ہیں، وہ کمال کے بجائے زوال کی طرف لڑھکنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے آپ کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔

ذریت سے مراد ابلیسی اور شیطانی قوتیں اور شیطان کے پیروکار ہیں۔ یہ تخریبی اور منفی قوتیں ہیں۔ ” کانَ مِنَ الجن” کا کیا مطلب ہے ؟ جنّ کے لفظی معنیٰ غیر مرئی اور پوشیدہ کے ہیں۔ چنانچہ اس فقرے کا مفہوم ہو سکتا ہے: وہ غیر مرئی قوتوں یا موجودات میں سے تھا۔ علامہ محمد اسد نے ترجمہ کیا ہے:

he [too] was one of those invisible beings

یعنی وہ تھا تو ملائکہ ہی میں سے مگر اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ لیکن اگر اس کے جن ہونے کو اس کی حکم عدولی کی علت ٹھہرایا جائے تو جن کا لفظ یہاں منفی شیطانی قوتوں کے مفہوم میں ہو گا۔ یعنی چونکہ وہ از قسمِ جن تھا اس لئے اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ اس نظریہ کے مطابق مطلب یہ ہو گا کہ ملائکہ اپنی فطرت اور بناوٹ ہی میں ایسے ہیں کہ ان کے لئے حکمِ خداوندی سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن جن کو ماننے یا نہ ماننے میں سے کسی ایک کو چننے کی آزادی حاصل ہے۔ لہٰذا ابلیس کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ الٰہی حکم کو ماننے سے انکار کر دے سو اس نے ایسا کر دیا۔ ان میں سے کوئی نظریہ ہمارے مقصود کے خلاف نہیں، جس کا ہم نے سطورِ بالا میں اظہار کیا ہے۔

انسانی نظامِ فکر میں جو مقام خدا کا یعنی خدائی اقدار کا ہونا چاہیئے نادان انسان وہ مقام شیطان یعنی شیطانی اقدار کو دے دیتا ہے۔ وہ پیمانہ جو خیر سے لبریز ہونا چاہیئے، شر سے بھر جاتا ہے۔ مثبت سرگرمیوں کی جگہ منفی سرگرمیاں لے لیتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے یہ کیا ہی برا بدل (Exchange / substitute) ہے۔ انسان کا اپنے آپ کو ان شیطانی قوتوں کی سرپرستی میں دینا جنھوں نے انسانی نظامِ فکر میں خدا کی جگہ لے لی ہے، نظامِ فطرت کے تقاضوں کی مخالف سمت میں چلنا ہے۔

اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے مطابق تخلیق کیا ہے۔ اس کی حرکت اور سمتِ حرکت الٰہی قوانین کے تابع ہے۔ اس میں کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جب انسان غیرِ خدا کو الوہیت میں خدا کا شریک ٹھہراتا ہے تو گویا وہ اپنی فطرت کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ شیطانی قوتیں راہِ حق پر انسان کی دست و بازو بننے کے بجائے اس کا راستہ مسدود کرتی ہیں۔

کائنات (اور فطرتِ انسانی) کا رخ مثبت ہے جب کہ گمراہ کرنے والوں کی سرگرمیوں کی سمت منفی۔ ایک وقت آتا ہے جب انسان تباہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے، اور سب شیطانی قوتیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ اس کائنات میں منفی قوتوں کا کوئی اختیار نہیں۔ جو ان کے پیچھے چلا، اس نے اپنی منزل کھوٹی کی۔ شرک سراسر خسارے کا سودا ہے۔ جب مشکل وقت آتا ہے یہ منفی قوتیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ انسان انھیں پکارتا ہے، مگر وہ جواب نہیں دیتیں۔ ناکامی اور نامرادی کا دہکتا جہنم انسان کے سامنے ہوتا ہے۔ انسان کو صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ وہ اس میں گر کر رہے گا۔ اس کے لئے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یوں، انسان بے بسی اور پچھتاوے کی مکمل تصویر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

 

 

 

آیت ۵۴

 

ترجمہ

اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کی راہنمائی) کے لئے (ہدایت کا) ہر عمدہ مضمون گوناگوں پہلوؤں سے بیان کیا ہے۔ لیکن، انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ (۵۴)

 

 

 

تفسیر

ہم نے اپنے اس ترجمہ کی بنیاد علامہ محمد اسد کے ترجمے پر رکھی ہے

"Thus, indeed, have We given in this Qur’an many facets to every kind of lesson [designed] for [the benefit of] mankind. However, man is, above all else, always given to contention.”

مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی آیت کا یہی مفہوم لیا ہے:

"اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے ہر قسم کی تنبیہات گوناگوں پہلوؤں سے بیان کر دی ہیں لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے”۔

پیر کرم شاہ الازہری کے ترجمہ کی بنیاد پر آیت کے پہلے حصے کا مفہوم یوں ہو گا:

بے شک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی راہنمائی کے لئے ہر قسم کی مثالیں طرح طرح سے بار بار بیان کی ہیں۔

مثل کے ایک معنے عمدہ اور خوبصورت کے بھی ہیں، اس لئے بعض اہلِ علم نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے اس معنے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

” اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے واسطے ہر قسم کے عمدہ مضامین طرح طرح سے بیان فرمائے ہیں۔ اور آدمی جھگڑنے میں سب سے       بڑھ کر ہی۔”

ہم نے اپنے ترجمہ میں عمدہ مضمون کے الفاظ کا انتخاب اسی ترجمے کی بنیاد پر کیا ہے۔ سورہ الکہف میں از اوّل تا آخر متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے اس آیت کو اس سورہ کی کلیدی آیات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس سورہ کی ۱۱۰ آیات میں ۵۴ویں آیت ہے۔ اس طرح یہ تقریباً سورہ کے وسط میں ہے۔ صَرَّفنا صَرَفَ کے مادے سے ہے۔ اس کا مطلب ہے: ہم نے بار بار، پھیر پھیر کر، طرح طرح سے، بیان کیا، گوناگوں پہلوؤں سے بیان کیا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں اس حقیقت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں ہدایت و نصیحت کے تمام عمدہ مضامین پھیر پھیر کر اور گوناگوں پہلوؤں سے بیان کیئے ہیں تاکہ قرآن کا پیغام انسان پر پوری طرح واضح ہو جائے۔

لیکن وہ انسان جس نے نہ ماننے کا تہیہ کر لیا ہو، اس پر کسی نصیحت یا بیانِ نصیحت کے کسی اسلوب کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ منفی سوچوں کی گرفت میں رہتا ہے۔ اس کے اعتراضات ختم نہیں ہوتے، وہ بحث و نزاع جاری رکھتا ہے۔ جب اس کے ایک سوال کا جواب دے دیا جاتا ہے تو وہ ایک اور سوال اٹھا دیتا ہے۔

انسان کو علم و صداقت کا سچا طالب ہونا چاہیئے۔ یعنی True seeker of knowledge and truth

اس کے لئے خود کو تعصبات سے آزاد کرنا ضروری ہے۔ اگر انسان کے ذہن پر تعصبات کے پردے پڑے ہوں تو اس پر کسی دلیل کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہٹ دھرمی اور ضد سچائی کے راستے کی سخت چٹانیں ہیں۔ سچائی تک پہنچنے کے لئے انھیں پاش پاش کرنا ضروری ہے۔

 

 

 

آیت ۵۵

 

ترجمہ

اور جبکہ لوگوں کے پاس ہدایت آ چکی تو پھر ان کو ایمان لانے اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے سے اس کے سوا اور کسی چیز نے نہیں روکا کہ یا تو ان کو بھی اگلوں جیسا ماجرا پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آ موجود ہو۔ (۵۵)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

تشریح:

انتہائی مشکل آیات میں سے ہے۔ ایک متبادل ترجمہ ہے:

اور لوگوں کو، جبکہ ان کے پاس ہدایت آ گئی، ایمان لانے اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر یہ کہ خدا کے جس دستور کا ظہور گزشتہ لوگوں کے لئے ہوا تھا، ان کے لئے بھی ہو یا یہ کہ ان پر عذاب آئے رُو در رُو۔

آیت کریمہ کا ممکنہ مفہوم یہ ہے کہ ان کی حالت کہہ رہی ہے کہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ان پربھی سنتِ اولین کا اطلاق ہو یا عذابِ آئندہ کا سامنا کریں۔

عذابُ قبلا سنت الاولین کے ساتھ contrast میں ہے ؟ قُبُلا آئندہ اور مستقبل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے (زمخشری) ۔ ایک تشریح کے مطابق اس سے مراد ہے آخرت کا عذاب (تفسیرِ حقانی) ۔ مطلب یہ ہے کہ منکرین اپنی حالت میں اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آئے جو پہلے وقتوں کے منکرین کے ساتھ پیش آیا کرتا تھا، یا پھر وہ آخرت کے عذاب کے حقدار ٹھہریں اور بعد از مرگ جہنم میں جائیں۔ ان کا طرزِ عمل تقاضا کر رہا ہے کہ ان پر بھی سنتِ اولین کا اطلاق ہو یا آخرت کا عذاب بلا تاخیر آ واقع ہو۔

جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس ہدایت کا پیغام آ پہنچا تو چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے، مگر وہ اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور مخالفت پر قائم ہیں۔ اور یوں انھوں نے خود کو خدا کے عذاب کا مستحق ٹھہرا لیا ہے۔ وہ بزبانِ حال خدا کے عذاب کو پکار رہے ہیں۔

[یہ ایسے ہی ہے جیسے مثلاً کہا جائے کہ آپ کو علاج کرانے سے کس چیز نے روکا ہے سوائے اس کے کہ آپ بھی ان دوسرے مریضوں کی طرح مر جائیں جو علاج نہ کرانے کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ ؟؟؟؟؟ علاج نہیں کرائیں گے تو قوی اندیشہ ہے کہ مر جائیں گے۔ ]

ہدایت آ چکنے کے بعد ایمان نہ لانا اور مغفرت طلب نہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ لوگ، اپنی حالت سے، اسی طرح کے معاملے کے منتظر ہیں جس طرح کا معاملہ اگلے لوگوں کو پیش آیا تھا، یا عذابِ آخرت کے منتظر ہیں۔ ایمان اور استغفار کی روش نہیں اپنائیں گے تو اندیشہ ہے کہ اسی طرح کے عذاب سے دوچار ہو جائیں گے جس طرح کا عذاب گزشتہ وقتوں کے منکرین پر آیا تھا، یا آخرت کے عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ علامہ محمد اسد کا ترجمہ یہ ہے:

"what is there to keep people from attaining to faith now that guidance has come unto them, and from asking their Sustainer to forgive them their sins – unless it be [their wish] that the fate of the [sinful] people of ancient times should befall them [as well], or that the [ultimate] suffering should befall them in the hereafter?”

قُبُلاً کے معنے میں اہلِ علم کی ایک سے زیادہ آرا ہیں۔ ایک معنے میں اسے قبیل (قِسم) کی جمع بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ، مولانا احمد رضا قادری نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

"اور آدمیوں کو کس چیز نے اس سے روکا کہ ایمان لاتے جب ہدایت ان کے پاس آئی اور اپنے رب سے معافی مانگتے مگر یہ کہ ان پر اگلوں کا دستور آئے یا ان پر قسم قسم کا عذاب آئے”۔ (کنز الایمان، زیرِ نظر آیت)

پیر کرم شاہ الازہری کا ترجمہ بھی تقریباً اسی کے مطابق ہے (ضیا القرآن، زیرِ نظر آیت) ۔ اس ترجمہ کا مفہوم غالباً یہ ہے کہ یا تو ان پر گزشتہ قوموں کی طرح ایک جیسا عذاب آئے جس سے وہ سب کے سب ایک ساتھ ہلاک ہو جائیں، یا ان پر متفرق اور طرح طرح کا عذاب نازل ہو۔

یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں ” او” "یا” کے معنوں میں نہ ہو بلکہ اس کا استعمال یہاں توضیح کے لئے ہو۔ یعنی "او” کے بعد کا ٹکڑا اس سے پہلے کے ٹکڑے کی وضاحت کر رہا ہے۔ علامہ غلام احمد پرویز کے ترجمہ میں اسی مفہوم کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔

"ذرا سوچو کہ جب ان لوگوں کے پاس ہدایت اس وضاحت سے آ گئی، تو پھر وہ کونسی بات تھی جو انہیں اس سے روکتی کہ وہ اس کی صداقت کو تسلیم کریں اور اپنے پروردگار کے قانون کی اطاعت سے اپنے لئے سامانِ حفاظت طلب کریں ! یہ بات اس کے سوا کیا تھی کہ ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آئے جو اقوامِ سابقہ کے ساتھ پیش آتا رہا ہے، یہاں تک کہ ہمارا عذاب ان کے سامنے آ کھڑا ہو جائے”۔ (مفہوم القرآن، زیرِ نظر آیت)

وہ زبانِ حال سے مطالبہ کر رہے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ان کی حالت تقاضا کر رہی ہے۔۔ ۔۔ ۔ کہ ان پر عذاب آئے۔ لیکن خدائے غفور و رحیم نے ایک قانونِ مہلت ٹھہرا رکھا ہے۔ وہ ایک دم عذاب نہیں بھیجتا بلکہ مہلت دیتا ہے۔ توبہ اور رجوع کا موقع دیتا ہے۔ اصلاحِ احوال کا موقع دیتا ہے۔ عذاب اعمال کا فطری نتیجہ ہے، جس سے توبہ اور رجوع کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر انسان اعمالِ بد کے مسلسل ارتکاب پر جما رہے، مُصِر رہے، تواسے ان کے تباہ کن نتائج و عواقب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

 

 

آیات ۵۶ تا ۵۹

 

ترجمہ

اور ہم (اپنے) رسولوں کو صرف خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے (حق کے) انکار کی روش اختیار کی ہے، باطل کے سہارے جھگڑتے ہیں، تا کہ اس سے حق کو مٹا دیں، اور میری آیات کو اور جس (عذاب) سے انھیں خبردار کیا جاتا ہے ایک مذاق بنا دیں۔ اور اس شخص سے بڑھ کر (اپنے آپ پر) ظلم کرنے والا کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی مگر اس نے ان سے روگردانی کی روش اختیار کی، اور جو (اعمالِ بد) اس نے آگے بھیجے تھے ان (کے نتائج) کو فراموش کر دیا۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اس (قرآن) کو سمجھ نہیں سکتے، اور ان کے کانوں کو (حق کی آواز) سننے کی قوت سے محروم کر دیا ہے۔ سو، آپ کتنا ہی انھیں ہدایت کی طرف بلائیں یہ کبھی راہ پانے والے نہیں۔ لیکن آپ کا رب نہایت بخشنے والا، اور صاحبِ رحمت ہے۔ اگر وہ ان کے اعمال کی پاداش میں انھیں فوراً پکڑنا چاہتا تو ان پر بلا تاخیر عذاب بھیج دیتا (مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔) ، اس کے برعکس، ان کے لئے ایک میعاد مقرر ہے جس کے بعد یہ اس کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔

اور یہ بستیاں ہیں (جو سنتِ اولین کے مطابق تباہی سے دوچار ہوئیں) ، جب ان کے باشندوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کیا تو ہم نے انھیں (ان کے اعمالِ بد کے باعث) ہلاک کر دیا۔ اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک میعاد مقرر کی تھی۔ (۵۶۔ ۵۹)

 

 

 

تشریح

مخالفین زبانِ حال سے عذاب کا تقاضا کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ” ہم پر وہ عذاب لے آیئے جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں”۔ لیکن عذابِ الٰہی کا نزول کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ اللہ کے مقرر کردہ نظام کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا اور رسلؑ  لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے ہیں۔ ان کا مقصدِ بعثت انذار اور تبشیر ہے۔۔ یہ فیصلہ کرنا لوگوں کا کام ہے کہ وہ کس طرح کے اعمال سرانجام دیتے ہیں۔ جو لوگ حق و صداقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں وہ اپنی بے سر و پا دلیلوں کے ذریعے حق کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے طرزِ عمل کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہوتی۔ یہ آیات الٰہیہ کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے انھیں ہدفِ استہزا بناتے ہیں۔ آخرت ان کے لئے بعید از قیاس ہے۔ ان کے نزدیک قانونِ مکافات کوئی معنے نہیں رکھتا۔

وہ شخص یا معاشرہ جس نے الٰہی اقدار و احکامات کی اتباع سے انکار کیا اور احکاماتِ خداوندی کی مخالفت پر مبنی اپنے اعمال کے برے نتائج کو فراموش کر دیا، اس سے بڑھ کر اپنے اوپر ظلم کرنے والا کوئی نہیں۔ الٰہی احکامات کی مخالفت پر مبنی انسانی اعمال تباہ کن نتائج پیدا کرتے ہیں۔

جو لوگ حق و صداقت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ اپناتے ہیں، ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتی ہے۔ ہٹ دھرمی کسی منطق کو نہیں مانتی۔ تعصبات کے سامنے ہر دلیل بے معنی ہے۔ جب انسان کے ذہن پر تعصبات کے پردے پڑ جاتے ہیں، وہ بے لاگ ہو کر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے کان حق و صداقت کی آواز کو سننے کی قوت کھو دیتے ہیں۔

یہ قانونِ فطرت ہے کہ ہٹ دھرمی انسان کو کلمۂ حق کے سمجھنے اور صدائے حق کے سننے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہے۔ اس قسم کے انسان پر کوئی نصیحت اثر کرتی ہے اور نہ کوئی دلیل۔

اللہ تعالیٰ بے حد مغفرت فرمانے والا صاحبِ رحمت ہے۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں ایک دم نہیں پکڑتا۔ بلکہ انھیں مہلت دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے ان کی اصلاح کریں۔ لیکن جب اعمالِ بد اپنی شدت میں انتہا کو جا پہنچتے ہیں تو مہلت کا عرصہ ختم ہو جاتا ہے۔

یہ بات نہایت اہم ہے۔ انسان کا ہر عمل اپنے ساتھ ایک نتیجہ رکھتا ہے۔ لیکن اعمال کے نتائج کا ظہور ایک نظام کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسانی اعمال کے نتائج کے ظہور کے ضمن میں ایک قانونِ مہلت مقرر کر رکھا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ رجوع اور اصلاح کا وقفہ ہے۔ جو لوگ اور معاشرے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عذاب کی گرفت میں آنے سے بچ جا تے ہیں اور جو اس کی پروا نہیں کرتے وہ اس کی نذر ہو جاتے ہیں۔

دنیا میں جو واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں، ان کے پیچھے خدا کی گہری حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ظاہری اسباب واقعات کا جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں، وہ حقیقت کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے۔ حقیقت اپنے ظاہری اظہار سے زیادہ گہری ہوتی ہے۔ اس کائنات کا ایک خدا ہے جو اس کے تمام امور کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ زمان و مکان کی ہر ہر جہت اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جہاں کسی واقعہ کے محدود، طبیعاتی اسباب ہوتے ہیں، وہیں اس کے وسیع تر، مابعد الطبیعاتی عوامل بھی ہوتے ہیں۔ انسان کی آنکھ صرف طبیعاتی اسباب کو دیکھتی ہے، جبکہ خدا کی حکمتِ بالغہ ظاہر و باطن اور غیب و شہادت سب کو اپنے احاطے میں لئے ہوتی ہے۔

حضرت موسیٰؑ  اور خدا کے ایک بندۂ خاص کا واقعہ جو اگلی آیات میں بیان ہوا ہے، اس سے اس حقیقت کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔

 

 

 

آیات ۶۰ تا ۸۲

 

ترجمہ

اور دیکھو! موسیٰؑ  نے اپنے نوجوان (ساتھی) سے کہا: "میں جب تک اس مقام تک نہ پہنچ جاؤں جہاں دو دریا ملتے ہیں نہیں رکوں گا، چاہے مجھے مدتِ دراز تک چلنا پڑے”۔

پس جب وہ ان کے آپس میں ملنے کے مقام پر پہنچے، انھیں اپنی مچھلی کا دھیان نہ رہا، اور اس نے دریا میں اپنا راستہ لیا، چل دی۔

پھر جب وہ وہاں سے آگے بڑھے تو آپ نے اپنے ساتھی سے کہا: "ہمارا کھانا لاؤ، یقیناً ہمیں اپنے اس سفر میں بڑی تکان کا سامنا کرنا پڑا ہے”۔

ساتھی نے کہا: "آپ نے ملاحظہ فرمایا ! جب ہم (سستانے کے لئے) اُس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، تو میں مچھلی سے بے دھیان ہو گیا۔۔ اور یہ شیطان ہی کی کارستانی تھی کہ میں اس کا آپ سے ذکر کرنا بھول گیا۔۔ ۔ اور اس نے دریا میں اپنا راستہ لیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے”۔

آپ نے کہا: "یہ تو ہم نہ چاہتے تھے”۔

سو، وہ دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس لوٹے۔

(جب واپس پہنچے) تو (وہاں) انھوں نے ہمارے (خاص) بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنی جناب سے رحمت عطا فرمائی تھی، اور اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔

موسیٰؑ  نے اس سے کہا: "کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں بشرطیکہ آپ مجھے اس علمِ حکمت میں سے سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے”؟

اس نے کہا: "آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اور جو بات آپ کے دائرۂ علم سے باہر ہو گی، آپ اُس پر صبر کر بھی کیسے سکیں گے”۔

آپ نے کہا: "انشاء للہ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ اور، میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا”۔

اُس (بندۂ خدا) نے کہا:” اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے متعلق اس وقت تک نہ پوچھیئے گا جب تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ کروں”۔

پس وہ (دونوں) چل پڑے۔ یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے، تو اُس (بندۂ خدا) نے اس میں شگاف کر دیا۔

موسیٰؑ  نے کہا: "کیا آپ نے اس میں شگاف اس لئے کیا ہے کہ اس کی سواریوں کو ڈبو دیں۔ یہ تو آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے”۔

اس نے کہا: "کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے”۔

آپ نے جواب دیا: "مجھ پر میری بھول کی وجہ سے گرفت نہ کیجیئے، اور نہ میرے اس معاملے میں مجھ پر زیادہ سختی کیجئے”۔

پھر وہ دونوں چل پڑے۔ یہاں تک کہ ان کی ایک لڑکے سے ملاقات ہوئی۔ اُس (بندۂ خدا) نے اسے قتل کر دیا۔

موسیٰؑ  بول اٹھے: "آپ نے ایک معصوم جان کو کسی قصاص کے بغیر قتل کر ڈالا؟ یہ تو آپ نے ایک نہایت نازیبا حرکت کی ہے”۔

اس نے کہا: "کیا میں نے آپ کو (پہلے ہی) کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے”۔

موسیٰؑ  نے کہا: ” اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے متعلق سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ (بے شک) نہ رکھیں۔ آپ میری جانب سے حدِ عذر کو پہنچ گئے”۔

پھر وہ چل پڑے۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی کے رہنے والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا کھلانے کی درخواست کی تو انھوں نے ان کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انھوں نے اس بستی میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی۔ اس (بندۂ خدا) نے اسے درست کر دیا۔

موسیٰؑ  نے کہا: ” اگر آپ چاہتے تو اس (محنت) پر کچھ معاوضہ ہی لے لیتے”۔

اس نے کہا:” بس اب یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت ہے”۔

"میں اب آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔ کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ سو، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں اور (اس کی وجہ یہ تھی کہ) ان کے آگے ایک (جابر) بادشاہ تھا جو ہر (بے عیب) کشتی کو زبردستی اپنے قبضے میں لے رہا تھا”۔

"اور وہ جو لڑکا تھا، (اس کی حقیقت یہ ہے کہ) اس کے والدین اہلِ ایمان تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ (اگر زندہ رہا تو) انھیں (بھی) سرکشی اور کفر پر مجبور کر دے گا۔ سو، ہم نے چاہا کہ ان کا رب انھیں اس کی جگہ ایسا فرزند عطا فرمائے جو پاکیزہ نفسی میں اس سے بہتر اور مہرو محبت میں اس سے بڑھ کر ہو”۔

"اور جہاں تک دیوار کا تعلق ہے، تو وہ شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی، جس کے نیچے ان کا خزانہ (دفن) تھا، اور ان کا باپ ایک نیک انسان تھا۔ پس، آپ کے رب نے یہ چاہا کہ وہ (دونوں بچے) اپنی جوانی کو پہنچیں، اور (اس وقت) اپنا خزانہ حاصل کر لیں۔ یہ (ان پر) ان کے رب کی خاص رحمت تھی”۔

"اور (جو کچھ میں نے کیا) میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کر سکے”۔ (آیات ۶۰۔ ۸۲)

 

 

 

تشریح

ان آیات میں حضرت موسیٰؑ  کے ایک سفر کا بیان ہے، جس کے دوران ان کی ملاقات ایک بندۂ خدا سے ہوتی ہے۔ یہ ملاقات دو دریاؤں کے سنگم پر ہوتی ہے۔ موسیٰؑ  اس بندۂ خدا سے اس کے ساتھ رہنے کی اس شرط پر درخواست کرتے ہیں کہ وہ انھیں اس علم میں سے سکھائے جو خدا نے اسے سکھایا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے۔ ساتھ ہی اضافہ کرتا ہے کہ آپ ایک ایسی بات پر صبر کر بھی کیسے سکیں گے جو آپ کے احاطۂ واقفیت سے باہر ہو گی۔ موسیٰؑ  فرماتے ہیں کہ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ چنانچہ دونوں چل پڑتے ہیں۔ موسیٰؑ  نے اپنے سفر کا آغاز اپنے ایک نوجوان خادم کے ساتھ کیا تھا۔ بندۂ خدا سے ملاقات کے بعد اس نوجوان کا ذکر نہیں ملتا۔ اس سفر میں یکے بعد دیگرے تین واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر واقعہ کی ایک ظاہری شکل ہے اور ایک اس کی داخلی حقیقت۔ جب تک داخلی حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا جاتا، واقعہ کی ظاہری شکل اسے ایک ایسے معمہ کے طور پر پیش کرتی ہے جس کی کوئی منطقی توجیہ نظر نہیں آتی۔ چنانچہ، حضرت موسیٰؑ  ہر موقع پر سوال اٹھاتے ہیں۔

حضرت موسیٰؑ  کو یہ سفر کب پیش آیا؟ اس کی ایک توجیہ یہ ہے کہ یہ حقیقت میں موسیٰؑ  کا مکاشفہ یا روحانی سفرہے۔ دو دریاؤں سے مراد ہے حقیقت کے ظاہری اور باطنی، یا مادی اور روحانی پہلو۔ بعض مفسرین کے نزدیک ان سے خود حضرت موسیٰؑ  اور وہ بندۂ خدا مراد ہیں۔ موسیٰؑ  علمِ شریعت کی عکاسی کرتے ہیں اور وہ بندۂ خدا علمِ تکوینی کی۔

بعض اہلِ علم نے اس قصہ کو ایک تمثیل یا الیگری (Allegory) قرار دیا ہے، جس کا مقصد حقیقت کے ظاہری اور داخلی پہلوؤں کی موجودگی کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرنا ہے۔

اکثر مفسرین کے نزدیک، تا ہم، یہ ایک ایسے واقعے کا بیان ہے جو حضرت موسیٰؑ  کو ان کی ظاہری زندگی میں پیش آیا تھا۔ اگر ایسا ہے تو یہ کس زمانے کی بات ہے ؟ ایک رائے یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے بعد کا واقعہ ہے۔ دوسری رائے میں یہ ابتدائی دور کا واقعہ ہے۔

ایک امکان یہ ہے کہ یہ اس موقعہ پر پیش آیا تھا جب موسیٰؑ  نے مصر سے ہجرت کی تھی۔ جب غلطی سے آپ کے ہاتھ سے ایک مصری کا قتل ہوا تو فرعونی جو پہلے ہی آپ کے دشمن ہو چکے تھے آپ کی جان کے درپے ہو گئے۔ چنانچہ آپ کو مصر سے ہجرت کرنا پڑی۔ دوسرے لفظوں میں، مصری کا قتل مصر سے آپ کی ہجرت کا بہانہ یا سبب بنا۔ جب مجمع البحرین پر پہنچے تو وہ مچھلی جسے خادم نے بھون کر اگلے دن کے کھانے کے لئے تیار کرنا تھا تڑپ کر دریا میں جا گری اور غائب ہو گئی۔ یہاں قیام کے بعد جب آگے روانہ ہوئے تو تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ تھکاوٹ اور بھوک کا احساس ہوا۔ کچھ دیر دم لینے اور کھانا کھانے کے لئے بیٹھے تو معلوم ہوا کہ کھانا نہیں ہے۔ خادم بتاتا ہے کہ وہ مچھلی جسے بھون کر کھانے کے لئے تیار کرنا تھا وہ تو اچھل کر دوبارہ دریا میں چلی گئی تھی، مگر وہ اس کا ذکر آپ سے کرنا بھول گیا۔ آپ نے کہا کہ ہمیں واپس وہاں چلنا ہو گا۔ چنانچہ دونوں مجمع البحرین لوٹ آئے جہاں اب ان کی ملاقات خدا کے ایک خاص بندے سے ہوئی۔ لہٰذا، خادم کا مچھلی کو بھول جانا، مچھلی کا اچھل کر دریا میں غائب ہو جانا اور یوں کھانے کے لئے باقی نہ رہنا، خادم کا حضرت موسیٰؑ  سے اس کا ذکر کرنا بھول جانا، آگے سفر پر روانہ ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد تھکاوٹ اور بھوک کا احساس ہونا۔۔ یہ سب چیزیں اس بات کا ذریعہ بنیں کہ وہ مجمع البحرین کی طرف واپس لوٹیں تاکہ ان کی ملاقات خدا کے بندۂ خاص سے ہو۔ سو، ایک واقعات کی ظاہری شکل ہے اور دوسری ان کی باطنی حقیقت۔ ظاہری شکل ناپسندیدہ ہے۔ لیکن اگر یہ واقعات ظہور پذیر نہ ہوتے تو بندۂ خاص سے ملاقات کا نہایت پسندیدہ نتیجہ بھی نہ نکلتا۔ مثلاً، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھوک اور تھکاوٹ کا احساس نہ ہوتا اور آپ چلتے چلتے بہت آگے نکل جاتے تو ممکن تھا کہ واپس نہ لوٹتے۔ واپس لوٹنا اور بندۂ خاص سے ملنا مقدر تھا اس لئے ظاہری اسباب اسی کے مطابق ظہور پذیر ہوئے۔

سَرَبَ چلنے کا راستہ، سارِب بِالنھَارِ دن میں چلنے والا۔ غَدَآء صبح کے وقت کا کھانا، ناشتہ۔ نَصَب سخت تھکان۔ جب مقر رہ مقام سے آگے بڑھے تو بھوک اور تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ آپ اس مقام کی طرف لوٹیں جہاں آپ کی ملاقات بندۂ خاص سے ہونا تھی۔

آیت ۶۲ میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ  نے کھانا طلب فرمایا۔ اگلی آیت سے پتا چلتا ہے کہ اس سے مراد مچھلی تھی۔۔ ۔۔ ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ مچھلی کھانے کی غرض سے تھی نہ کہ کسی اور مقصد کے لئے۔

آیات ۶۴۔ ۶۵ میں ہے: جب وہ واپس لوٹے "تو انھوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا۔۔ ۔۔ ۔” اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ملاقات ظاہری اعتبار سے اتفاقی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کا ارادہ کر کے نہیں گئے تھے” ورنہ فوجدا العبد لایا جاتا۔ یعنی انھوں نے اس بندے کو جس کی طرف انھیں بھیجا گیا تھا پا لیا” (خواجہ احمد الدین) ۔ ظاہری اعتبار سے "Planned” نہ تھی مگر باطنی اعتبار سے اس کا ہونا مقدر تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بندۂ خاص کے سفر کے دوران جو تین واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے اور بعد ازاں اس بندے نے جو ان کی تشریح کی اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں واقع ہونے والا ہر واقعہ کے پیچھے وسیع تر الٰہی حکمت ہوتی ہے۔ انسان کی نظر حقیقت کے صرف ظاہری پہلو کو دیکھتی ہے۔ چنانچہ وہ حقیقت کی کلی توجیہ سے اکثر قاصر رہتا ہے۔ یہ سرگزشت اسی حقیقت کو سمجھانے کے لئے بیان کی گئی ہے۔ ” حکمت کے اسرار واقعاتِ زندگی میں جس طرح مصور ہو کر سامنے آتے ہیں مجرد اظہار و بیان سے اس طرح سامنے نہیں آتے” (مولانا امین احسن اصلاحی) ۔

مجمع البحرین کے محلِ وقوع کے بارے میں ایک سے زیادہ آراء پائی جاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات طیبہ پر جو جدید تحقیقات ہوئی ہیں ان کی رو سے غالباً یہ وہ مقام ہے جہاں نہر سویز اور خلیجِ عقبہ کا ملاپ ہوتا ہے۔ طورِ سینا کا پہاڑی سلسلہ بھی اس کے قریب ہے، جبکہ ممکنہ طور پر یہ مدین جہاں حضرت موسیٰؑ  مصر سے ہجرت کر کے تشریف لے جا رہے تھے کے بھی راستے میں پڑتا ہے۔ "بہرحال مجمع البحرین کوئی سے دو دریاؤں کے سنگھم کا نام ہو، قرآن کریم نے جس مقصد کے لئے اس واقعہ کو بیان کیا ہے اس کا سمجھنا اس پر موقوف نہیں” (پیر کرم شاہ الازہری) ۔

لہٰذا، اسے ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سبق آموز قصہ کے طور پر پڑھنا ہو گا اور اپنی توجہ ان اسباق پرمرکوز کرنا ہو گی جو قرآن کا بنیادی مقصد ہیں۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ قرآن کی عبارت سے کیا اصول کشید ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں خدا کے اس بندہ کا نام بیان نہیں ہوا۔ لیکن مفسرین نے اس کا نام خضر بیان کیا ہے۔ روایات کے مطابق یہ صفاتی نام یا لقب ہے۔ اس کا معنیٰ سرسبز و شاداب بتایا گیا ہے۔ بہت سے مفسرین کے مطابق آپ ایک نبی تھے لیکن کسی قوم کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ آپ درجۂ نبوت پر فائز تھے اور خصوصی علم سے نوازے گئے تھے۔ بعض مفسرین کی رائے میں آپ ایک ولی تھے۔ پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں: "لیکن علما ء محققین کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی تھے، کیونکہ ولی کے الہام سے علمِ ظنی حاصل ہوتا ہے اور اس میں خطا کا احتمال ہوتا ہے۔ الہام کی وجہ سے قتل جیسے سنگین فعل کا ارتکاب جائز نہیں ہو سکتا۔ اس لئے آپ کو نبی ماننا پڑے گا اور نبی کا علم یقینی ہوتا ہے” (ضیاء القرآن) ۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ آپ ” ایک خیالی مثالی معنیٰ تھے جو حضرت خضر کے نام سے ظاہر ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رہبری کر کے پھر مٹ گیا” (قاشانیؒ بحوالہ روح البیان از علامہ شیخ اسماعیل حقی البروسی) ۔

آیت میں ہے کہ اس بندۂ خاص نے کشتی میں شگاف ڈالا۔ آیت یہ نہیں بتاتی کہ اس نے یہ شگاف کس طرح ڈالا۔ یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ طبیعی عوامل کو بطورِ آلہ یا سبب استعمال کیا گیا ہو۔ مثلاً، ممکن ہے اس نے یہ کام ہو اکے کسی تیز جھونکے یا پانی کی کسی تند لہر کے ذریعے کیا ہو۔ اسی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ لڑکے کے قتل میں بھی کسی نہ کسی طبیعی عامل کو بروئے کار لایا گیا ہو گا۔ جیسے کسی کھائی سے گرنا یا کسی دریا میں ڈوبنا وغیرہ۔ یتیم بچوں کے دفینے پر موجود دیوار کے سیدھا کرنے کے عمل کی تشریح بھی اسی طرح کی جا سکتی ہے۔ یہ سوال بہرحال دلچسپ ہے کہ یہ کام اس بندۂ خاص نے اس طرح کیئے جیسے ہم انسان کسی کام کو کرتے ہیں، یا ان کے لئے طبیعی عوامل کو آلہ اور ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

اس قصہ کا مرکزی سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اگر وہ حق کے مخالفین کو مہلت دیتا ہے یا اہلِ ایمان کو آزمائش سے دوچار کرتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی کوئی گہری حکمت کام کر رہی ہوتی ہے۔

۔۔ ۔۔

روح البیان میں ہے: "البحرین سے خود موسیٰ اور خضر علیہما السلام مراد ہیں۔ ان کی کثرتِ علمی کی وجہ سے انھیں بحرین سے تعبیر کیا گیا ہے، اور ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام علمِ ظاہر کے دریا تھے اگرچہ آپ میں علمِ بطون کی کمی نہ تھی لیکن چونکہ آپ شریعت کے پاسبان تھے اسی لئے آپ میں علمِ ظاہر کا غلبہ تھا، اور خضر علیہ السلام علمِ باطن کے دریا تھے یعنی آپ پر علمِ بطون کا غلبہ تھا، اور انبیا علیہم السلام چونکہ صفتِ جمال و جلال کے مظاہر ہیں اسی لئے ان کے مراتب میں فرق ہوتا ہے” (علامہ اسماعیل حقی البروسی) ۔

 

 

 

 قصہ کے تعلیمی پہلو

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے شاگرد سے فرماتے ہیں: "میں جب تک اس مقام تک نہ پہنچ جاؤں جہاں دو دریا ملتے ہیں نہیں رکوں گا، چاہے مجھے مدتِ دراز تک چلنا پڑے”۔ اس میں ایک طرف تو آپ اپنے عزمِ صمیم کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے شاگرد کو اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے لئے ذہنی طور پر تیار فرما رہے ہیں۔ گویا، اسے اعتماد میں لے رہے ہیں۔

فتیٰ نوجوان کو کہتے ہیں۔ ” خادم کو ادب و احترام کے لئے خادم کے بجائے فتیٰ (نوجوان) کے لفظ سے یاد فرمایا گیا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سکھایا گیا کہ فرقِ مراتب کے باوجود ہمیں کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کرنا چاہیئے جس سے کسی اپنے سے کم درجہ کی تذلیل اور دلآزاری کا پہلو نکلتا ہو” (ضیا ء القرآن) ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بندۂ خاص سے اس کے ساتھ رہنے کی درخواست اس طرح کی: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے اس خصوصی علم میں سے سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ غور کیجیئے "حضرت موسیٰؑ  اپنی جلالتِ شان کے با وجود کتنے ادب اور احترام سے اپنی خواہش کا اظہار فرما رہے ہیں۔ ہر طالب کو حضرت کلیم کے اس اسوۂ حسنہ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔۔ ۔۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر اپنے سے کم درجہ والے میں کوئی کمال ہو تو اس کے حصول سے باز نہیں آنا چاہیئے” (ضیاء القرآن (۔ اس سے حصولِ علم کی اہمیت کا بھی اظہار ہو رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بندۂ خاص کے ساتھ رہنے کی خواہش حصولِ علم کی غرض سے کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہ آپ کے اظہارِ مدعا کے طریقے میں انکسار اور تواضع ہے۔ کہتے ہیں: تاکہ مجھے آپ اس علمِ رشد میں سے سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ علم میں سے سکھائیں کا مطلب ہے کہ میں آپ کے کل علم کے سیکھنے کی درخواست نہیں کر رہا، بلکہ اس میں سے کچھ حصہ پانے کی خواہش رکھتا ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی فقیر کسی دولت مند کے مال سے تھوڑا سا حصہ طلب کرے۔ جو آپ کو سکھایا گیا سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ علم کا منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ رُشد (ہدایت و رہنمائی) کا لفظ یہ سکھا رہا ہے کہ انسان کو ہمیشہ مثبت اور تعمیری علم کی طلب و جستجو کرنی چاہیئے۔ اسی کو علمِ نافع بھی کہتے ہیں۔ ان آیات میں ایک سچے طالبِ علم کے سیکھنے کا وافر سامان موجود ہے۔

اس بندۂ خاص کو جو خصوصی علم دیا گیا تھا اسے اہلِ علم نے علمِ تکوینی کا نام دیا گیا ہے۔ تکوین تخلیق اور بناوٹ کو کہتے ہیں۔ سادہ طور پر اس کا مطلب ہے قوانینِ فطرت کا علم۔ دوسرے لفظوں میں علمِ تکوینی کا مطلب ہے کائنات کے مابعد الطبیعاتی یا روحانی اسرار و رموز کا علم، واقعات کی ظاہری اشکال کے پیچھے موجود وسیع تر باطنی حقائق کا علم۔ تاہم، اس بندۂ خاص کے پاس جو علم تھا اس کی حیثیت محض نظری (Theoretical) نہ تھی۔ بلکہ اس کا تعلق عمل (Action) سے بھی ہوتا ہے۔ علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں: ” (یہ وہ علم تھا جو) اشارات کے طریق سے حاصل ہونا تھا۔ وہ علمِ باطن جو مکاشفہ کے طور پر حاصل ہوتا ہے وہ یہاں مراد نہیں، نہ یہی علمِ ظاہری جسے الفاظ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل ظاہر ہے کہ اگر وہ ظاہری باطنی علم ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کے ہاں بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خود بلا واسطہ یا بواسطۂ جبریل علیہ السلام ایسے علوم عطا فرماتا، انھیں حضرت خضر علیہ السلام کے پاس اس لئے بھیجا تھا تاکہ معلوم ہو کہ وہ خصوصی علم ہے جسے اشارہ کے طور سکھایا جاتا ہے اگرچہ وہ بھی وہی علومِ مذکورہ تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حاصل بھی تھے لیکن چونکہ ان پر علومِ ظاہری غالب تھے اور وہ انھوں نے عبارات کے طریق سے حاصل کئے تھے اور یہاں اشارات کے طور سکھایا جانا تھا” (روح البیان) ۔

یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔ اس نے نادار لوگوں کی کشتی کو چھن جانے سے اس حال میں بچایا کہ انھیں اس کی خبر بھی نہ تھی۔ اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہمیشہ اپنے رب پر اعتماد اور بھروسہ رکھیں۔ اپنی ذمہ داری کو محنت اور دیانت سے سر انجام دیں اور نتائج اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ وہ جس حال میں رکھے اس پر راضی رہیں۔

سرکش نوجوان کے قتل میں اس کے والدین کے لئے مصلحت تھی، جبکہ یتیموں کے دفینے کی حفاظت کے اہتمام میں ان کے باپ کی نیکو کاری کا لحاظ رکھا گیا۔ لیکن ایسی کوئی وجہ ناداروں کی کشتی حفاظت میں بیان نہیں کی گئی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب کے شاملِ حال ہے اور کوئی اس سے محروم نہیں۔ وہ ماں باپ کی نیکو کاری کے باعث ان کی اولاد پر اپنا فضل فرماتا ہے یا نیک ماں باپ کی ان کی اولاد کی سرکشی سے حفاظت فرماتا ہے تو وہ اتنا رحیم و کریم ہے کہ ان اسباب کے بغیر بھی اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی چادر پھیلائے رکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے: اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اسی سورہ میں پہلے گزرا ہے کہ اللہ نہایت مغفرت فرمانے والا اور صاحبِ رحمت ہے۔

آیت میں بندۂ خاص نے اس بات کی وجہ بیان کی ہے کہ حضرت موسیٰؑ  ان کے ساتھ صبر کیوں نہ کر سکیں گے۔ گویا وہ خود ہی حضرت موسیٰؑ  کے صبر نہ کر سکنے کی جسٹیفیکیشن دے رہے (اس کا جواز پیش کر رہے ہیں) ۔ مقصد یہ ہے کہ حضرتِ کلیم کی شان میں کسی سوء ادب کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو۔ اگر آپ صبر نہ کر سکیں گے تو یہ کوئی عیب کی بات نہیں، کیونکہ آپ معذور ہوں گے۔ ایک ایسی انہونی بات پر صبر کیسے کیا جا سکتا ہے جس کی کوئی معقول وجہ انسان کے سامنے نہ ہو۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنی گفتگو کے دوران مخاطب کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا چاہیئے۔

حضرت موسیٰؑ  جب پہلی مرتبہ اعتراض اٹھاتے ہیں تو وہ بندۂ خاص کہتے ہیں: کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے ؟ (۷۲) لیکن جب آپ دوسری مرتبہ اعتراض اٹھاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: کیا میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے ؟ (۷۵) ۔ دوسری مرتبہ کے ردِ عمل میں "آپ سے” (لَکَ) کے الفاظ ہیں، جبکہ پہلی مرتبہ کے ردِ عمل میں یہ نہیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پہلی مرتبہ کے ردِ عمل میں نرمی ہے جو دوسری مرتبہ کے ردِ عمل میں قدرے کم ہو گئی ہے۔ گویا، دوسری مرتبہ رُو در رُو مخاطب کر کے بات کی جا رہی ہے۔ یہاں سے یہ سبق ملتا ہے کہ استاد کو شاگرد کے خلافِ توقع سوال اٹھانے پر نرمی سے جواب دینا چاہیئے۔ ضرورت پڑنے پر الفاظ میں تھوڑا سا زور ڈال کر شاگرد کو احساس دلایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ آیات میں الفاظ کا یہ فرق قرآنِ حکیم کی معجز بیانی کی ایک ہلکی سی جھلک بھی دکھا رہا ہے۔ اسی طرح کا فرق آیت ۷۸ اور ۸۲ میں ہے۔ آیت ۷۸ میں لفظ ما لم تستطع ہے جبکہ ۸۲ میں مالم تسطع ہے۔ دونوں کا لفظی مطلب ایک ہی ہے یعنی وہ باتیں جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا۔ مگر تستطع ایک بڑا لفظ ہے بمقابلہ تسطع کے۔ جب تک باتوں کی حقیقت واضح نہ ہوئی تھی تو بڑا لفظ استعمال ہوا اور جب حقیقت واضح ہو گئی تو چھوٹا لفظ استعمال ہوا (غور کیجیئے گا) ۔ قرآن ادب کا وہ بے مثل شہپارہ ہے جس کے ادبی محاسن کا احاطہ ممکن نہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے۔

آیت ۸۱ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک انسان کو پاکیزہ کردار اور شفقت و محبت سے پیش آنے والا ہونا چاہیئے۔

 

 

 

آیات ۸۳ تا ۹۸

 

ترجمہ

اور (اے رسول !) یہ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہیے: "میں تم کو اس کا کچھ ذکر (کلامِ الٰہی میں) پڑھ کر سناتا ہوں”۔

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:) "ہم نے اسے زمین میں اقتدار بخشا تھا، اور اسے ہر قسم کے وسائل عطا کئے تھے”۔

پس، اس نے درست وسائل کا اہتمام کیا (اور ایک مہم پر روانہ ہوا) ۔ یہاں تک کہ وہ غروبِ آفتاب کی سمت میں خشکی کے آخری کنارے پر جا پہنچا، تو اس نے غروب کے وقت سورج کو یوں پایا گویا کہ وہ ایک سیاہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اور، اس نے وہاں ایک قوم پائی۔ ہم نے کہا: "اے ذو القرنین! چاہے تم انھیں سزا دو، چاہے ان کے ساتھ عمدہ سلوک کرو (یہ تمھارے اختیار میں ہیں)”۔

اس نے کہا: "جس نے ظلم کیا، ہم اسے ضرور سزا دیں گے۔۔ پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا، تو وہ اسے سخت سزا دے گا۔۔ اور جو ایمان لایا اور اس نے اچھے کام کئے تو اس کے لئے (اس کے رب کے پاس بھی) اچھا بدلہ ہے، اور ہم بھی اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ کریں گے”۔

ایک بار پھر اس نے وسائل کا اہتمام کیا (اور ایک اور مہم پر روانہ ہوا) ۔ یہاں تک کہ (اپنی سلطنت کے مشرقی کنارے پر) سورج کے زمین کی اوٹ سے نمودار ہونے کے مقام پر پہنچا تو اس نے پایا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے، ہم نے جس کے لئے اس کے مقابلے میں کوئی آڑ نہیں بنائی تھی۔ ہم نے ایسا ہی کیا تھا (اور اس نے بھی انھیں ان کے حال پر رہنے دیا) ، اور ہم اس کے احوال سے پوری طرح آگاہ تھے۔

پھراس نے وسائل کا اہتمام کیا (اور ایک اور راہ پر روانہ ہوا) ۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اس نے ان کے پیچھے ایک قوم کو پایا جو اس کی کوئی بات بمشکل ہی سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے درخواست کی: ” اے ذو القرنین! یاجوج اور ماجوج نے اس علاقہ میں بڑا فساد برپا کر رکھا ہے۔ سو، کیا ہم آپ کے لئے کچھ خراج مقرر کریں تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنا دیں”۔

اس نے کہا: ” میرے رب نے جو کچھ مجھے عطا کر رکھا ہے وہ (میرے لئے) بہتر ہے (اس سے جو تم مجھے دے سکتے ہو) ۔ پس تم (عملی) قوت سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط آڑ بنا دوں گا”۔ "تم میرے پاس لوہے کی سلیں لاؤ”۔

(کام شروع ہو گیا) یہاں تک کہ دونوں پہاڑوں کے مابین خلا کو (دیوار اٹھا کر) بھر دیا گیا تو اس نے حکم دیا: ” (بھٹیاں سلگاؤ اور) خوب دھونکو”۔ جب وہ (لوہا) آگ (کی طرح سرخ) ہو گیا تو اس نے کہا: "پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ اس پر انڈیل دوں”۔

پس (اس طرح) ایک ایسی دیوار بن گئی کہ وہ (یاجوج اور ماجوج) نہ تو اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں سرنگ لگا سکتے تھے۔

ذو القرنین نے (تکمیلِ کار کے بعد) کہا: "یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ (جب تک وہ چاہے گا یہ قائم رہے گی) ، پھر جب اس کا وقتِ موعود آئے گا، وہ اسے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اور میرے رب کی ٹھہرائی ہوئی بات ہمیشہ ہو کر رہتی ہے”۔ (۸۱۔ ۹۸)

 

 

تشریح

قرآنِ مجید ذو القرنین کا تذکرہ ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے نہیں کر رہا بلکہ وہ اس کے پیرائے میں انسان تک اپنی تعلیمات پہچانا چاہتا ہے۔ مثلاً، ایک عادل حکمران یا نظامِ حکومت کا طرزِ حکمرانی کیا ہونا چاہیئے، وہ کن بنیادی اصولوں اور آئیڈیالوجی کو پیشِ نظر رکھے۔ ظالموں اور مجرموں کے ساتھ کس طرح پیش آئے۔ عام شہریوں کے ساتھ اس کا طرزِ عمل کیا ہو۔ پرامن اور غیر متحارب قوموں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہو۔ ظالموں اور فسادیوں سے کس طرح لوگوں کی حفاظت کرے۔ چنانچہ ذو القرنین کا قرآنی بیان اس کی صرف تین مہموں کے سرسری حوالوں اور ان سے اخذ ہونے والے ارفع اخلاقی اصولوں کے بیان تک محدود ہے۔ یہ بیان بطورِ ذکر ہے۔ قرآن کا یہ تذکرہ اسے ایک صاحبِ ایمان، عادل اور انسان دوست حکمران کے طور پر یاد رکھے جانے کا سبب بنے گا۔

"I will convey unto you something by which he ought to be remembered.”

قرآن کہتا ہے خدا نے ذو القرنین کو زمین میں اقتدار اور قدرت و طاقت عطا کی تھی۔ سَبَبا سے وہ ذریعہ یا طریقہ مراد ہے جس سے مقصود حاصل ہو سکے، جیسے علم، قدرت یا آلات، وسائل وغیرہ۔ علامہ محمد اسد زیرِ نظر آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"According to Ibn ‘Abbas, Mujahid, Sa’id ibn Jubayr, ‘Ikrimah, Qatadah and Ad-Dahhak (all of them quoted by Ibn Kathir) , the term sabab – lit., "a means to achieve [anything]” – denotes, in this context, the knowledge of the right means for the achievement of a particular end.”

یعنی اس جگہ سبب سے مراد مقصود کے حصول کے درست طریقوں کا علم ہے۔ علامہ محمد اسد نے آیات ۸۴۔ ۸۵ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

” (18: 84) Behold, We established him securely on earth, and endowed him with [the knowledge of] the right means to achieve anything [that he might set out to achieve];

(18: 85) and so he chose the right means [in whatever he did”.]

فَاَتبعَ سَبَبا کا مطلب ہے پس اس نے درست ذریعے یا طریقے کی پیروی کی یعنی درست ذریعہ یا طریقہ اختیار کیا:

"Lit., "he followed [the right] means”: i.e., he never employed wrong means to achieve even a righteous goal.”

مطلب یہ ہے کہ ذو القرنین نے حصولِ مقصد کے لئے ہمیشہ درست طریقے بروئے کار لائے۔ آگے ذو القرنین کی پہلی مہم کا ذکر ہے۔

حتیٰ اذا بلغ مغرب الشمس (یہاں تک کہ وہ غروبِ آفتاب کے موقع یا مقام پر پہنچا) کا مطلب ہے کہ وہ اپنی مملکت کے اعتبار سے غروبِ آفتاب کی سمت میں خشکی کے آخری کنارے پر پہنچا کہ جہاں سے آگے سمندر تھا۔ یہ ایک ایسا سمندر تھا جس کا پانی سیاہ، دلدلی اور گدلا تھا۔ غروبِ آفتاب کے وقت ایسا لگتا تھا جیسے کہ سورج سیاہ دلدلی پانی میں ڈوب رہا ہے۔ قرآن مجید نے اپنے بلند ادبی اسلوب میں اس منظر کی منظر نگاری کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کُروی ہے اور سورج جو اس سے بہت بڑا ہے، اس سے نہایت دور ہے۔ مگر ساحلِ سمندر سے غروبِ آفتاب کا منظر دیکھنے والے کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ گویا کہ سورج سمندر کے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ آیت یہ نہیں کہہ رہی کی سورج واقعی سیاہ پانی میں ڈوب رہا تھا بلکہ اس کے الفاظ ہیں کہ ذو القرنین نے ایسا پایا، اس نے ایسا محسوس کیا، اسے بظاہر ایسا لگا۔۔ ۔۔ ۔

عَین کا ایک معنی وسیع پانی بھی ہے۔ علامہ اسد لکھتے ہیں:

"”abundance of water” – which, according to many philologists (cf. Taj al-‘Arus) , is one of the meanings of ‘ayn (primarily denoting a "spring.”)”

ہم نے کہا: "اے ذو القرنین! چاہے تم انھیں سزا دو، چاہے ان کے ساتھ عمدہ سلوک کرو (یہ تمھارے اختیار میں ہیں)”۔ ہم نے کہا (قلنا) کا ایک ممکنہ مفہوم ہے ہم نے اس کے دل میں القا کیا۔ یعنی بطریقِ القا یا الہام کہا۔ لیکن زیادہ امکان اس کا ہے کہ اس سے مراد زبانِ حال سے کہنا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: "لفظ ‘قول’ صورتِ حال، اختیار، اور رویہ کی تعبیر کے لئے بھی آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس فتح کے نتیجے میں جو رعایا اس کے قبضہ میں آئی وہ اس طرح اس کے قدموں میں ہم نے ڈال دی اور ایسا اختیار اس پر اس کو دیا کہ چاہے وہ ان کو سزا دے چاہے ان کے ساتھ احسان کرے کوئی اس کے اختیار و اقتدار میں مداخلت کرنے والا نہیں تھا۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا نے قولاً اس کو اجازت دے دی کہ وہ چاہے ظلم کرے چاہے عدل، اس کو دونوں کا یکساں حق ہے۔ حق تو صرف عدل اور احسان کا ہے۔ ہر بادشاہ اور حکمران خدا کی طرف سے عدل و احسان پر مامور ہے لیکن اس کو چھوٹ ظلم و نا انصافی کے لئے بھی ملی ہوتی ہے۔ اگر وہ عدل کرے گا تو خدا سے اس کا انعام پائے گا اور اگر ظلم کرے گا تو اس کی سزا بھگتے گا” (زیرِ نظر آیت)۔

دوسرے لفظوں میں، یہ قول بلسانِ حال ہے۔ یعنی حالت اور کیفیت نے اس کی عکاسی کی۔

اگلی آیت میں ہے اس نے کہا۔۔ ۔۔ ۔ یعنی اس نے بزبانِ عمل کہا، اپنے طرزِ عمل سے یہ شہادت دی۔۔ ۔۔ لبِ لباب یہ ہے کہ ذو القرنین ایک نہایت خدا ترس اور عادل حکمران تھا۔ جب مشیتِ الٰہی سے کوئی قوم اس کے زیرِ تسلط آ جاتی تھی تو وہ اس کے ساتھ عدل و احسان کا رویہ اختیار کرتا تھا۔

یہاں بین السطور میں ایک نہایت اہم پیغام موجود ہے۔ جب کوئی قوم ظلم و ستم کا شیوہ اختیار کرتی ہے تو دنیا میں بھی جلد ہی تباہی و بربادی کا شکار ہو جاتی ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے سخت عذاب ہے۔ ایک اور زاویئے سے اگر دیکھا جائے تو آیات ۸۷۔ ۸۸ میں در اصل ایک صاحبِ ایمان اور عادل حکمران کی آئیڈیالوجی بیان کی جا رہی ہے۔ اس کا نچوڑ یہ ہے کہ جو کوئی ظلم اور فساد کا شیوہ اختیار کرتا ہے ریاست کا نظام اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے۔ علاوہ ازیں آخرت کی عدالت میں بھی اس کے لئے سخت سزا ہے۔ ایک ریاست کے لئے ضروری ہے کہ جہاں وہ ظالموں اور مجرموں کے ساتھ عدل کے مطابق آہنی ہاتھوں سے پیش آئے، اپنے عام شہریوں کے ساتھ نرمی اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے۔ ان کے حقوق اور ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھے۔

ذو القرنین کی اگلی مہم اپنی حدودِ مملکت کے اعتبار سے مشرق کی جانب تھی۔ اس نے ایک بار پھر درست ذرائع اور وسائل کا اہتمام کیا اور مشرق کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں اس کا جس قوم سے آمنا سامنا ہوا وہ اپنے تمدنی ارتقا کی جس حالت پر تھی اس کی عکاسی قرآن نے اپنے مخصوص ادبی اسلوب میں اس طرح کی ہے: جب ذو القرنین طلوعِ آفتاب کی سمت میں آخری حد پر پہنچا تو اس نے پایا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے ہم نے جس کے لئے اس کے مقابلے میں کوئی آڑ نہیں بنائی تھی۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے مطابق ” یہ ان کے انتہائی وحشی اور غیر متمدن ہونے کی تصویر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبائل گھر در اور تعمیر و تمدن سے بالکل نا آشنا اپنی وحشت کے بالکل ابتدائی دور میں تھے، اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے” (زیرِ نظر آیت) ۔ اس نے انھیں ان کے حال پر رہنے دیا اور انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی۔ علامہ اسد کے الفاظ میں:

"Dhu’l-Qarnayn left them as he had found them, being mindful not to upset their mode of life and thus to cause them misery.”

"اور ہم اس کے احوال سے پوری طرح آگاہ تھے” یعنی ایک عادل اور دانا حکمران کی حیثیت سے جس اعلیٰ ظرفی اور فہم و فراست کی اسے ضرورت تھی وہ اس کے اندر پوری طرح موجود تھی۔ چنانچہ اس نے لوگوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ اس نے اپنے طرزِ حکمرانی سے خود کو بارِ حکومت اٹھانے کا اہل ثابت کیا۔

آیات ۹۲۔ ۹۸ میں ذو القرنین کی تیسری مہم کا ذکر ہے۔ اس سفر میں وہ دو بلند پہاڑوں کے درمیان پہنچا۔ وہاں اس کی ملاقات ایک ایسی قوم سے ہوئی جس کے بارے میں قرآن اپنے مخصوص اسلوب میں کہتا ہے "وہ لوگ اس کی کوئی بات مشکل ہی سے سمجھتے تھے”۔ اس کا ممکنہ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ تھے جن کی زبان مختلف تھی اور وہ ذو القرنین کی زبان نہ سمجھتے تھے۔ گویا ان کا میل ملاپ دوسری قوموں سے کوئی خاص نہ تھا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک الگ لسانی گروہ تھا جو وقت کی مرکزی اور عام رابطے کی زبان سے نابلد تھا۔ لیکن اس چیز نے ذو القرنین کو ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے تحفظ کا انتظام کرنے سے نہیں روکا۔ یہ اس کی اعلیٰ ظرفی اور انسان دوستی کہ ایک اور دلیل ہے۔ وہ دوسرے لسانی گروہوں کا بھی پورا پورا خیال رکھتا اور کسی معاوضے کے بغیر ان کی مدد کرتا تھا۔ یہ قرآن کے ذو القرنین کے قصہ کے بیان کرنے کا ایک اہم مقصد ہے۔

لوگوں کی اس پیشکش کے جواب میں کہ ہم آپ کے لئے خراج کا انتظام کریں تاکہ آپ یاجوج و ماجوج سے ہماری حفاظت کے لئے ان کے اور ہمارے درمیان ایک مضبوط آڑ بنا دیں اس نے ان سے کسی قسم کا مالی معاوضہ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا: ” میرے رب نے جو کچھ مجھے عطا کر رکھا ہے وہ بہتر ہے” (اس سے جو تم مجھے دینے کی پیشکش کر رہے ہو) ۔ اس سے اگرچہ وہ ساری نعمتیں مراد ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا ہوا تھا، مگر خصوصیت کے ساتھ اس سے مراد وہ ہدایتِ ربانی ہے جو اسے حاصل تھی۔ علامہ محمد اسد لکھتے ہیں:

"It is generally assumed that the phrase "that wherein my Sustainer has so securely established me (makkanni) ” refers to the power and wealth bestowed on him; but it is much more probable – and certainly more consistent with the ethical tenor of the whole parable of Dhu’l-Qarnayn – that it refers to God’s guidance rather than to worldly possessions.”

یعنی الٰہی ہدایت کی وہ دولت جو مجھے عطا کی گئی ہے وہ اس مال و دولت سے بہتر ہے جو تم مجھے دے سکتے ہو۔ تاہم تم اس پروجیکٹ میں (عملی) قوت سے میری مدد کرو۔ اسے لیبر ورک یا ورک فورس کہتے ہیں۔ یعنی ٹیکنیکل سپورٹ اور مالی اخراجات میری حکومت فراہم کرے گی تم ورک فورس مہیا کرو۔ چنانچہ پہاڑوں کے درمیان بلند اور مضبوط دیوار تعمیر کی گئی۔ اس میں پتھروں کے ساتھ لوہے کے تختے اور تانبا استعمال کیا گیا۔ یہ سب کام ذو القرنین کی ہدایت پر بلکہ اس کی رہنمائی میں فنی ماہرین اور مزدوروں نے سرانجام دیا تھا۔ اس لئے قرآن ان کا فاعل اسے قرار دیتا ہے۔ جب دیوار بن کر تیار ہو گئی تو اس نے کہا: "یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ (جب تک وہ چاہے گا یہ قائم رہے گی) ، پھر جب میرے رب کا مقرر کیا ہوا وقت آئے گا، وہ اسے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اور میرے رب کی ٹھہرائی ہوئی بات ہمیشہ ہو کر رہتی ہے”۔ اگرچہ یہ دیوار مضبوط ہے لیکن کائنات کی ہر دوسری شے کی طرح اسے بھی بالآخر شکست و ریخت کا شکار ہونا ہے۔ اس کی بھی ایک طبعی عمر ہے۔ جب یہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکے گی، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیست و نابود ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں، مستقبل کی سائنسی ترقیاں اس طرح کی ناقابلِ عبور دیوار کے تصور کو بے معنی کر دیں گی۔

ذو القرنین کا یہ کہنا کہ یہ یعنی دیوار میرے رب کی رحمت ہے اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہر وہ کام جس میں خلقِ خدا کے لئے فائدہ اور بھلائی ہو وہ خدا ہی کی رحمت ہے اگرچہ اسے انسان نے سرانجام دیا ہو۔

ذو القرنین دیوار کی تعمیر کو خدا کی رحمت قرار دیتا ہے۔ اس میں سبق یہ ہے کہ خدا کا ایک شکر گزار بندہ بڑے سے بڑا کارنامہ سر انجام دینے کے بعد بھی کسی فخر میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ اس کا سر خدا کی بارگاہ میں اور جھک جاتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ چونکہ یہ دیوار اس نے بنائی ہے لہٰذا ہمیشہ رہے گی۔ بلکہ برملا، دنیا کی اور چیزوں کی طرح، اس کے فنا ہو جانے کا اعلان کرتا ہے۔ یہ اسی وقت تک قائم رہے گی جب تک خدا کا قانونِ طبعی اجازت دے گا۔ اس کے بعد یہ نیست و نابود ہو جائے گی۔

یاجوج اور ماجوج کی تشریح میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ علامہ محمد اسد کی تحقیق یہ ہے:

"……it is most logical to assume (especially on the basis of 21: 96-97) that the terms Yajuj and Majuj are purely allegorical, applying not to any specific tribes or beings but to a series of social catastrophes which would cause a complete destruction of man’s civilization before the coming of the Last Hour.”

علامہ موصوف کے الفاظ social catastrophes (انسانی سماج اور معاشرت کو تباہ و برباد کر دینے والے عوامل) خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ یاجوج اور ماجوج کے قرآنی الفاظ وسیع تر علامتی مفہوم رکھتے ہوں، اور کسی بھی زمانے کی ظالم اور جابر اقوام کے ہم معنیٰ ہوں جو کمزور اقوام پرکسی جائز وجہ کے بغیر یلغار کریں۔ عہدِ حاضر کی استعماری قوتیں بھی ایک اعتبار سے یاجوج و ماجوج کی مختلف شکلیں ہیں، جن کا مطمع ء نظر کمزور اقوام کے وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرنا اپنے سیاسی اقتدار کو وسعت اور دوام بخشنا ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی وہ طاقتور اشرافیہ جو کمزور عوام کا بے دردی سے استحصال کرتی ہے اسے بھی وسیع تر معنوں میں یاجوج و ماجوج کہہ سکتے ہیں۔

 

 

 

آیات ۹۹ تا ۱۰۱

 

ترجمہ

اور اُس روز ہم ان کو ایک دوسرے کے ساتھ (سمندر کی تند موجوں کی طرح) ٹکرانے کے لئے چھوڑ دیں گے۔ اور صور پھونکا جائے گا توہم ان سب کو اکٹھا کر دیں گے۔ اور اس روز ہم جہنم کو ان منکروں کے سامنے نمودار کر دیں گے، جن کی آنکھوں پر میرے ذکر سے پردہ پڑا رہا، اور جو (کلمۂ حق) سن بھی نہیں سکتے تھے۔ (۹۹۔ ۱۰۱)

 

 

 

تشریح

اس روز سے کیا مراد ہے ؟ تین امکانات بیان کیئے گئے ہیں: (۱) وہ وقت جب دیوار بنائی جا رہی تھی، (۲) وہ زمانہ جب دیوار قائم نہ رہے گی، اور (۳) یومِ قیامت۔

پہلے نظریہ کے مطابق جب دیوار بنائی جا رہی تھی، یاجوج و ماجوج تند موجوں کی طرح امڈ پڑے تھے۔ ذو القرنین کی فوجوں کی ان کے ساتھ لڑائی ہوئی اور بہت سے سرکش ہلاک ہو کر جہنم رسید ہوئے۔ دوسرے نظریہ کے مطابق جب دیوار نیست و نابود ہو جائے گی تو سرکش قبائل دوسری قوموں پر یلغار کر دیں گے، اس طرح گویا جنگ کا بگل بجے گا اور متحارب قومیں ایک دوسرے کے مقابلے میں اکٹھی ہو جائیں گی۔ تیسرے نظریہ کے مطابق، جب قیامت یا قربِ قیامت جب قیامت کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے کا زمانہ آئے گا، طاقتور قومیں کمزور قوموں کے خلاف یلغار کریں گی، یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا حتیٰ کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ یا یہ کہ قیامت کے روز مختلف انسانی گروہ سمندر کی موجوں کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔ زیادہ تر مفسرین نے تیسرے نظریہ کی تائید کی ہے۔

یہ دیوار جو سرکش قبائل کے حملوں کو روکنے کے لئے بنائی گئی ہے، ہمیشہ نہیں رہے گی۔ دنیا کی ہر دوسری چیز کی طرح اس نے بھی شکست و ریخت کا شکار ہونا ہے۔ جب ایسا ہو گا تو یہ قبائل بپھری ہوئی موجوں کی طرح دوسری اقوام کے ساتھ متصادم ہوں گے۔ دیوار کے نابود ہو جانے کے بعد جس زمانے نے آنا ہے اس میں رفتہ رفتہ عام مادی رکاوٹیں (Physical barriers) بے معنی ہو جائیں گی۔ اور طاقتور اقوام دنیا کے مختلف خطوں میں گویا موجزن ہوں گی۔ یہ سلسلہ اسی طرح رہے گا یہاں تک کہ دنیا اپنے اختتام پر جا پہنچے گی۔

جنھوں نے اپنی بصری اور سمعی قوتوں کے مثبت استعمال سے گریز کیا، نہ آثارِ قدرت سے نصیحت حاصل کی اور نہ کلمۂ حق کی سماعت کی تاب لائے، ایک وقت آئے گا کہ مشیتِ ایزدی سے وہ جہنم کو اپنے سامنے پائیں گے۔

ان کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہے، وہ آثارِ قدرت کو سبق آموزی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔

 

 

 

آیات ۱۰۲ تا ۱۰۸

 

ترجمہ

تو کیا وہ لوگ جنھوں نے انکار کی روش اختیار کر رکھی ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا اپنا کارساز بنا لیں گے ؟ (یہ ان کی خام خیالی ہے) ۔ ہم نے منکرینِ حق کے لئے جہنم بطورِ ضیافت تیار کر رکھی ہے۔

کہیے: ” کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں”؟ "وہ لوگ جن کی تمام جد و جہد اس دنیا کی زندگی میں کھو کے رہ گئی، اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ کوئی بڑا عمدہ کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اوراس کی ملاقات کا انکار کیا۔ پس ان کے اعمال اکارت گئے اور قیامت کے دن ہم ان کو ذرا بھی وزن نہ دیں گے۔ یہی جہنم ان کا بدلا ہے بوجہ اس کے کہ انھوں نے انکارِ حق کی روش اختیار کی، اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا”۔

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے صلاحیت بخش کام کئے ان کے لئے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہاں سے نکل کر کہیں اور جانا نہیں چاہیں گے۔ (۱۰۲۔ ۱۰۸)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

تشریح:

 

اللہ کے مقابلے میں کسی کی کوئی کارسازی نہیں کر سکتا۔ منکرین حق کا انجام جہنم ہے جس سے انھیں خدا کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ مادہ پرستانہ ذہنیت اخلاقی و روحانی اقدار کو تسلیم نہیں کرتی۔ وہ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتی ہے۔ لہٰذا آخرت کے اعتبار سے ان کی تمام کدو کاوش بے نتیجہ رہتی ہے۔ انسان کی وہ سرگرمیاں جو اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈال سرانجام دی جاتی ہیں، وہ وسیع تر تناظر میں نوعِ انسانی کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہیں۔ خدا کی آیات اور اس کے رسولوںؑ  کے مذاق اڑانے کا ممکنہ مفہوم الٰہی اخلاقی اقدار کو پامال کرنا ہے۔ ان سے دنیا پرست علماء و مشائخ اور احبار اور رہبان بھی ہو سکتے ہیں۔ جو عام لوگوں کا مذہبی اور روحانی استحصال کرتے اور ان کی ضعیف الاعتقادی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

دنیا میں انسان جس مقام پر پہنچتا ہے وہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو وہ اس سے اور آگے جانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ لیکن، جنت الفردوس وہ عظیم مقام ہو گا جہاں انسان کی ہر آرزو کی تکمیل و تسکین ہو گی۔ چنانچہ، انسان اس سے نکل کر کہیں اور جانے کی تمنا نہ کرے گا۔

 

آیات ۱۰۹تا۱۱۰

 

ترجمہ

کہہ دیجیئے: "اگر میرے رب کے کلمات کو قلم بند کرنے کے لئے سمندر روشنائی بن جائے تو میرے رب کے کلمات کے ختم ہونے سے پیشتر سمندر ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں”۔

کہہ دیجیئے: "میں تمھاری طرح ایک انسان ہی ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ” تمھارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔ پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا آرزومند ہو، اسے چاہیئے کہ صلاحیت بخش اعمال سرانجام دے، اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے”۔ (۱۰۹۔ ۱۱۰)

 

تشریح:

البحر سے کل سمندر مراد ہے۔ کلمات کا مطلب ہے علم و حکمت کی باتیں، آیات و عجائباتِ قدرت۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلماتِ علم و

حکمت لامتناہی ہیں۔ مخلوق کے لئے ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ سورہ لقمان میں ہے:

اگر (خدا کے کلمات کے لکھنے کو) زمین کے تمام درخت قلمیں اور (کل) سمندر روشنائی بن جائے تو بھی خدا کے کلمات لکھے نہ جا سکیں گے، چاہے سات سمندر اور اس کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ (۲۷: ۳۱)

یاد رہے کہ عربی زبان میں سات ایک عددِ تکثیری ہے یعنی ایک ایسا عدد جو کثرت کا مفہوم دیتا ہے۔ لہٰذا، سات سمندروں سے مراد ہے بے شمار سمندر۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے کلمات لامحدود ہیں۔ انھیں احاطۂ شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔ آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کی اللہ کے تخلیقی امکانات کی کوئی حد نہیں۔ مستقبل اپنے دامن میں جو امکانات چھپائے ہوئے ہے وہ گوناگوں ہیں۔

رسولِ اکرمﷺ نے بزبانِ وحی واضح فرما دیا کہ وہ نوعِ انسانی کے ایک فرد اور اللہ کے رسول ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے مرتبۂ بلند پر فائز ہیں۔ مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ اس موقع پر اعلانِ بشریت بطورِ تواضع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نہ خدا ہیں، نہ خدا کے شریک۔ خدا تو بس ایک اللہ ہے جو واحد و لاشریک ہے۔

اس سورہ میں جن بنیادی مسائل سے بحث کی گئی ہے ان میں مقربانِ خدا کو الوہیت میں شریک ٹھہرانا، انھیں خدا کا بیٹا قرار دینا اور خدا کے مقابلے میں اپنا مددگار اور کارساز تصور کرنا سب سے اہم ہے۔ لہٰذا، سورہ کے اختتام پر اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ رسولِ اکرمﷺ خدا کے بندے ہیں۔ تاکہ آپ کے ماننے والے بھی کہیں خدا نخواستہ ان گمراہیوں کا شکار نہ ہو جائیں جن میں گزشتہ قومیں مبتلا ہو گئی تھیں۔

ہر شخص جو آخرت اور اپنے رب سے ملاقات کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیئے کہ صلاحیت بخش اعمال سرانجام دے، اور اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق بسر کرے۔ خود کو ہر قسم کے شرک سے محفوظ رکھے اور ہر کام میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو پیشِ نظر رکھے۔

Say [O Prophet]: "I am but a mortal man like all of you. It has been revealed unto me that your God is the One and Only God. Hence, whoever looks forward [with hope and awe] to meeting his Sustainer [on Judgment Day], let him do righteous deeds, and let him not ascribe unto anyone or anything a share in the worship due to his Sustainer!” (Asad)

۔

اختتامی

سورہ الکہف بلا مبالغہ نہایت گہرے اور تہہ در تہہ مضامین کی حامل سورہ ہے۔ اس کے مطالب اور معانی کے سامنے قلم سرنگوں ہے۔ اس کی لفظی اور معنوی خصوصیات کا احاطہ نا ممکن ہے۔ آپ جتنا سوچتے ہیں، اتنا ہی ڈوبتے اور جذب و گم (Absorb) ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ایک بے کراں سمندر کے کنارے کھڑے ہوں۔ ہر آیت کثیر الجہت اور Multi-Dimensionalism کی حامل ہے۔

 

تمہیدی آیات

 

قرآنِ مجید ظاہری اور معنوی ہر قسم کے عیب سے پاک اور کامل راہنما ہے۔ سورہ کا عمومی پیغام عام انذار اور تبشیر ہے۔ لیکن خاص طور پر ان لوگوں کو ان کے عقائد کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرنا چاہتی ہے جو کہتے ہیں کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے۔ ان کے پاس ان کے اس عقیدہ کے حق میں کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں۔ قرآن کہتا ہے نہ ان کے پاس خدا کی حقیقت کا کوئی علم ہے اور نہ ان کے ان بزرگوں کے پاس ہی تھا جنھوں نے یہ عقیدہ تراشا تھا۔ ان کا دعویٰ نہایت تباہ کن نتائج کا حامل ہے۔ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں نرا جھوٹ ہے۔ رسولِ اکرمﷺ نہایت غمخواری کے ساتھ انھیں حق کی دعوت دے رہے ہیں مگر وہ ماننے پر تیار نہیں۔ وہ دنیا کی رونقوں میں اس قدر کھوئے ہوئے ہیں کہ پیغامِ حق میں انھیں کوئی دلکشی محسوس نہیں ہوتی۔ مگر دنیا کی رونقیں تو صاحبِ شعور انسان کے لئے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں حسنِ عمل کے اعتبار سے کون کہاں ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی یہ تمام آرائشیں اور زیبائشیں فانی ہیں۔

 

قصۂ اصحابِ کہف

ایسا لگتا ہے کہ نزولِ قرآن کے زمانے میں اصحابِ کہف کا بہت چرچا تھا، اور ان کے متعلق کئی کہانیاں گردش میں تھیں۔ ان کی تعداد اور غار میں ان کی مدتِ قیام کے حوالے سے کئی نظریے لوگوں میں بحث مباحثے کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ ان کے واقعے کو ایک تعجب خیز اور حیران کن واقعے کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ قرآن سب سے پہلے تو اس واقعے کے خاص طور پر تعجب خیز ہونے کی نفی کرتا ہے۔ اصحابِ کیف کا واقعہ فطرت کے قوانین کے عین مطابق انسانی جد و جہد کا واقعہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر اہم تفصیلات میں الجھنے کے بجائے واقعہ کی روح پر اپنی توجہ مرکوز کی جائے۔ اصحابِ کہف سچے توحید پرست تھے۔ وہ اپنی قوم کے مشرکانہ عقائد سے بیزار تھے۔ چنانچہ وہ توحید کی دعوت لے کر اٹھے۔ لیکن قوم ان کی جان کی دشمن ہو گئی۔ نتیجتاً، ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ اپنی قوم سے الگ ہو کر ایک غار میں، جس کا تعین انھوں نے خدا کی عطا کردہ بصیرت سے پہلے سے کر رکھا تھا، پناہ گزین ہو جائیں۔

مکہ کے اہلِ ایمان اپنی جد و جہد کے جس دور سے گزر رہے ہیں وہ ایک طرح سے اصحابِ کہف کے واقعہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس میں اہلِ ایمان اور ان کے مخالفین دونوں کے لئے درسِ موعظت اور عبرت ہے۔ اصحابِ کہف کا جذبہ، عزم و ہمت، صبر و استقامت اور ایثار و قربانی میں اہلِ ایمان کے لئے سبق ہے۔ مخالفین بالآخر ناکام ہوئے، اور اصحابِ کہف کی جد و جہد کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ جنھیں کل راہِ حق میں اپنا گھر بار تک چھوڑنا پڑا، وہ آج اپنی قوم کی عقیدتوں کا مرکز اور ان کے لئے سرمایۂ افتخار بن چکے ہیں۔ اس میں مکہ کے مخالفینِ حق کے لئے درسِ عبرت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر تک حق کی آواز کو دبا نہ سکیں گے۔ یہ وعدۂ الٰہی پورا ہو کر رہے گا کہ حق بالآخر غالب آ کر رہتا ہے اور یہ کہ حق و باطل میں فیصلے کی گھڑی آ کر رہے گی۔

اصحابِ کہف کے قصہ کے قرآنی بیان میں مکہ کے اہلِ ایمان کی جد و جہد کی گویا ایک جھلک دکھائی گئی ہے، اور ان مصائب و مشکلات کا اظہار بھی ہو رہا ہے جن سے وہ گزر رہے تھے۔۔ اس سے ہر عہد کے اہلِ ایمان کے نہ صرف نصب العین کی صراحت ہوتی ہے بلکہ انھیں لائحہ عمل کے بنیادی اصول بھی ملتے ہیں۔

اہلِ ایمان کو چاہیئے کہ وہ خود کو غیر ضروری مباحث میں ہرگز نہ الجھنے دیں۔ جن کے پاس کسی واقعے کا حقیقی علم نہ ہو ان سے دریافتِ حال کا کوئی حاصل نہیں۔ جب تک انسان کی چاہت مشیتِ الٰہی کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو وہ ثمر بار نہیں ہو سکتی۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوری استعداد اور استطاعت کو بروئے عمل لاتے ہوئے ان اسباب و علل کی تکمیل کی جد و جہد کرے جو کامیابی کے لئے ضروری ہیں۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو مشیتِ الٰہی اس کے لئے کامیابی کی بہتر راہیں کشادہ کر دے گی۔

 

اہلِ ایمان کا لائحۂ عمل

کائنات کے سربستہ رازوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ماضی کے جس واقعے کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہ ہو، اس کی حقیقت خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح مستقبل کا علم بھی صرف خدا کو ہے۔ ہر فعل اس کی نظر میں ہے اور ہر قول کی اسے خبر ہے۔ مخالفینِ حق بالآخر ناکام ہوں گے۔ جن معبودانِ باطلہ پر انھیں تکیہ ہے وہ ان کے کچھ کام نہ آ سکیں گے۔ اس لئے کہ خدا نے اپنے اختیار و اقتدار میں کسی کو شریک نہیں کیا ہوا۔

خدا کے قونین اٹل ہیں، اس نے جن باتوں کا واقع ہونا ٹھہرایا ہوا ہے وہ واقع ہو کر رہیں گے۔ مخالفینِ حق کہیں پناہ نہ پائیں گے۔ ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو دوسرے اہلِ ایمان کے ساتھ وابستہ رکھے۔ ان کی جد و جہد کا نصب العین خدا کی رضا جوئی ہونا چاہیئے۔ حیاتِ دنیا کی چمک دمک انھیں ہرگز اپنے نصب العین سے غافل نہ ہونے دے۔ وہ مخالفینِ حق کی پیروی کسی صورت نہ کریں۔

خدا نے انسان کو ارادہا اختیار کی آزادی دی ہے۔ وہ چاہے ایمان کی راہ کا انتخاب کرے، چاہے کفر کی، اسے اس کی آزادی ہے۔ لیکن ایمان اور کفر دونوں کے اپنے اپنے نتائج ہوں گے۔ خدا کے قانونِ مکافاتِ عمل کے مطابق اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔

روئے زمین کی تمام اشیاء جو انسان کے لئے کسی نہ کسی طور پر کشش کی حامل ہیں، اس کے لئے امتحان کا ذریعہ ہیں۔ بہت سے لوگ خدا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو کر ناشکری اور سرکشی کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ دنیا کی رونقیں انھیں حق سے غافل کر دیتی ہیں۔ مال و دولت کی فراوانی ان میں تکبر اور گھمنڈ پیدا کر دیتی ہے۔ وہ عام انسانوں کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے لئے اخلاقی اقدار بے معنی ہو جاتی ہیں۔ وہ خبطِ عظمت میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ ان پر کسی نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔ جس خدا نے سطحِ زمین کو نعمتوں سے آراستہ کیا ہے وہ اسے بنجر میدان بھی بنا سکتا ہے۔ خدا کے قوانین اٹل اور بے لاگ ہیں۔ تکبر اور ناشکری کا نتیجہ جب نعمتوں کے چھن جانے کی شکل میں نکلتا ہے توانسان کی بے بسی اور بے کسی دیدنی ہوتی ہے۔ ایسا ہر واقعہ اہلِ بصیرت پر یہ واضح کر دیتا ہے کہ اختیار و اقتدار کا مالک صرف اللہ ہے۔ اچھے نتائج صرف اس کے احکامات کی پیروی سے برآمد ہوتے ہیں، اور اس کے قوانین کی اطاعت ہی انسان کو اچھے انجام سے ہمکنار کر سکتی ہے۔

دنیا کی زندگی ناپائدار اور عارضی ہے۔ مال و اولاد تو صرف حیاتِ دنیا کی آرائش و زیبائش کا باعث ہیں۔ جس چیز نے ہمیشہ انسان کے ساتھ رہنا ہے وہ اس کے اچھے اعمال ہیں۔ یہ اچھے اعمال ہی ہیں جن کا خدا کے قوا نین کے مطابق اجر بہت اچھا ہوتا ہے، اور جن سے اچھی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔ (مال و اولاد جو حق کی مخالفت کا ذریعہ بنے نہ کسی اچھے اجر کا باعث بنتی ہے اور نہ اس سے کوئی اچھی امیدوابستہ کی جا سکتی ہے۔)

جب فیصلے کی گھڑی آئے گی تو یہ پہاڑ جیسے اہلِ ثروت (جنھیں اپنے مال اور اولاد پر گھمنڈ ہے) منظر سے ہٹا دیئے جائیں گے۔ زمین کی طرح کے بچھے ہوئے بے حیثیت اور ادنیٰ درجے کے عام لوگ ان کے اثر سے نکل آئیں گے۔ سب خدا کی عدالت میں جمع کئے جائیں گے۔ صف بستہ، بندہ و مولا کی کسی تمیز کے بغیر۔ یکہ و تنہا۔ وہ سب جو سمجھتے تھے کہ اعمال کے نتائج کے ظہور کا کوئی دن آنے والا نہیں۔ جب (اعمال کی) کتاب سامنے رکھی جائے گی تو مجرم اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوف زدہ ہو کر رہ جائیں گے۔ کہیں گے یہ کیسی کتاب ہے جس نے احاطۂ شمار میں لائے بغیر نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی چیز کو۔ وہ اپنے سب اعمال کو سامنے موجود پائیں گے۔ سب اپنے کئے کا بدلا پائیں گے۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو گی۔ خدا کے قانون میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں۔

مخالفینِ حق نے خدا کو چھوڑ کر شیطان اور اس کے بھائی بندوں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے۔ جو ذہنی اور عملی قوتیں الٰہی اقدار کے فروغ کے لئے صرف ہونی جاہئیں تھیں وہ شیطانی اقدار کو دوام دینے پر صرف کی جا رہی ہیں۔ نظامِ فکروعمل میں جو مقام خدا کا ہونا چاہیئے تھا انھوں نے وہ شیطان کو دے رکھا ہے۔ مگر یہ کائنات شیطانی نہیں، الٰہی قوانین کے تابع ہے۔ حق کی مخالفت کا لازمی نتیجہ جہنم ہے۔ لوگ خدا کو چھوڑ کر جن معبودانِ باطل کو اپنا کارساز خیال کرتے وہ ان کے کچھ کام نہ آئیں گے۔

قرآنِ مجید میں ہدایت کے مضامیں گونا گون پہلوؤں سے پھیر پھیر کر بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن تعصبات کا شکار انسان پیغامِ حق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ مخالفینِ حق جس شدت کے ساتھ حق کی مخالفت کرتے ہیں اس کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی ہے۔ لیکن خدا کے رسولوں کا مقصدِ بعثت انذار اور تبشیر ہوتا ہے۔ خدا نے اپنی رحمت سے مہلت کا ایک قانون مقرر کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے جن لوگوں پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، ان کو بھی مہلت دی گئی تھی۔ مہلت کا قانون آئندہ بھی کارفرما رہے گا۔ یہ انسانوں کو اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے۔

 

خدا کے ہر کام میں حکمت ہے

خدا کے ہر کام میں حکمت ہے۔ وہ اگر ظالموں کو جلد عذاب نہیں دیتا تو اس میں ضرور کوئی گہری حکمت ہوتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھنا اور ہر حال میں صبر اور شکر سے کام لینا چاہیئے۔

حضرت موسیٰؑ  اور خدا کے ایک بندے کے قصے میں اس حقیقت کو ایک تمثیل یا قصہ کی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ کسی واقعہ کی ظاہری شکل اس کی کلی حقیقت کا احاطہ نہیں کرتی۔ وہ تو اس کی بس اوپری جھلک دکھاتی ہے۔

 

اہلِ ایمان کی جد و جہد کا منطقی نتیجہ

اہلِ ایمان کی جد و جہد کو مشیت الٰہی اس کے منطقی نتیجے تک لے کر جائے گی۔ آج کے مظلوموں کو خدا حکومت و اقتدار عطا فرمائے گا۔ پس جاننا چاہیئے کہ جب اہلِ ایمان کو اقتدار حاصل ہو تو ان کی حکمرانی کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہئیں۔ ذو القرنین کے قصہ میں ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ کی تصویر کشی کی جا رہی ہے۔ اہلِ ایمان کی حکومت اپنے شہریوں کی روحانی اور مادی دونوں قسم کی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتی ہے۔ وہ حق و انصاف اور بہبودِ انسانی کی علمبردارہوتی ہے۔ ایسی حکومت اپنے شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔

یاجوج اور ماجوج وسیع تر معنوں میں ہر قسم کی فسادی قوتیں ہیں جو کمزور، ناتواں اور نہتے لوگوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنائیں۔ ہر حکومت جو ذو القرنین کے نقشِ قدم پر چلے گی وہ ان فسادی قوتوں کا سدِ باب کرے گی۔ جو لوگ الٰہی اقدار کو پسِ پشت ڈالیں گے انھیں جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

منکرینِ حق جنھیں اپنا کارساز سمجھتے ہیں وہ خدا کے بندے ہیں، جو خدا کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہ آئیں گے۔ خدا کا قانونِ مکافات اپنا کام کرے گا۔ جن لوگوں کی تمام تر جد و جہد دنیا کی زندگی کی نذر ہو کر رہ جاتی ہے وہ سراسر گھاٹے کے سوداگر ہیں۔ ان کے تمام تر اعمال

رائگاں جائیں گے۔ وہ تمام سرگرمیاں جو اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر سرانجام دی جائیں گی، ان کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اس کے برعکس، جو اعمال اخلاقی اقدار کے تابع رہ کر سر انجام دیئے جائیں گے ان کے نتائج نہایت خوشگوار ہوں گے۔

 

خدا کے کلمات کا احاطہ ممکن نہیں:

سورہ کہف نہایت گہرے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کی تفسیر اور تشریح کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے اسرار و رموز کا احاطہ ممکن نہیں۔ اس میں ماضی کے قصوں کے پیرائے میں مستقبل کے حالات کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ مثالوں اور تمثیلوں کے اسلوب میں قوموں کے عروج و زوال کے اصول بیان کئے گئے ہیں۔ دنیا میں اہلِ ایمان کی جد و جہد کے نصب العین اور لائحہ عمل کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ اس میں اس کشاکش کی طرف عمیق اشارے کئے گئے ہیں جو قوموں کے درمیان مستقبل میں واقع ہو گی۔

سورہ کہتی ہے خدا کے کلمات یا عجائباتِ قدرت کا احاطہ ممکن نہیں۔

 

لقائے رب کے امیدوار کیا کریں

آخری آیت میں سورہ کے مجموعی پیغام کا نچوڑ دیا گیا ہے۔ رسولِ اکرمﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ اعلان کروایا گیا کہ اللہ کے عطا کردہ تمام تر کمالات، رفعتوں اور عظمتوں کے باوجود وہ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو اور کون ہے جس کے متعلق خدا کی الوہیت میں شرکت کا گمان بھی کیا جا سکے۔ خدا تو صرف ایک اللہ ہے۔ پس، جو کوئی لقائے رب (رب سے ملاقات) کی امید رکھتا ہے، اسے چاہیئے کہ وہ صلاحیت بخش اعمال سرانجام دے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں
 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل