سنن نسائی
امام ابو نسائی
جلد پنجم
جمعہ کا بیان
نماز جمعہ کے وجوب سے متعلق
سعید بن عبدالرحمن مخزومی، سفیان، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم لوگ دنیا میں بعد میں آئے لیکن ہم لوگ قیامت کے دن پہلے ہوں گے لیکن فرق صرف اس قدر ہے کہ یہود اور نصاریٰ کو ان لوگوں کو ہم لوگوں سے قبل (آسمانی) کتاب ملی اور ہم لوگوں کو بعد میں ملی اور یہودی لوگوں نے ہفتہ کا دن مقرر کیا اور نصاریٰ نے اتوار کا دن اور خداوند قدوس نے ہم لوگوں کو ہدایت فرمائی اس روز کی اور لوگ ہمارے تابع ہیں کیونکہ جمعہ کا دن دنیا کی پیدائش کا دن ہے۔
یہودی ایک روز ہم لوگوں کے بعد ہیں اور نصاریٰ ہم سے دو دن کے بعد
واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، ابو مالک اشجعی، ابو حازم، ابو ہریرہ، ربعی بن حراش، حذیفہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے پہلی امت کے لوگوں کو گمراہ کر دیا جمعہ کے دن سے تو اہل یہود نے ہفتہ کا دن مقرر فرمایا اور نصاریٰ نے اتوار کا دن تجویز کیا پھر اللہ نے ہم لوگوں کو پیدا فرمایا تو جمعہ کا روز ارشاد فرمایا اب پہلے دن جمعہ کا ہوا پھر ہفتہ اور پھر اتوار کا تو یہودی اور نصرانی لوگ ہم لوگوں کے ماتحت بن گئے۔ قیامت کے دن اور ہم لوگ دنیا والوں میں پست ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔ تمام مخلوقات سے پہلے ہمارا فیصلہ ہو گا۔
نماز جمعہ چھوڑنے کی وعید کا بیان
یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، محمد بن عمرو، عبیٍدۃ بن سفیان حضرمی، ابو جعد ضمیری سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تین جمعہ کی نماز ترک کر دے تو خداوند قدوس اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔
٭٭ محمد بن معمر، حبان، ابان، یحیی بن ابو کثیر، حضرمی بن لاحق، زید، ابو سلام، حکم بن میناء، عبداللہ ابن عباس و عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے منبر کی لکڑیوں پر لوگوں کو باز رہنا چاہیے نماز جمعہ ترک کرنے سے نہیں تو خداوند قدوس ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔
٭٭ محمود بن غیلان، ولید بن مسلم، مفضل بن فضالۃ، عیاش بن عباس، بکیر بن اشجع، نافع، عبداللہ ابن عمر، حفصہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز جمعہ کیلئے ہر ایک بالغ مرد کے ذمہ جانا لازم ہے۔
بغیر عذر نماز جمعہ چھوڑنے کا کفارہ
احمد بن سلیمان، یزید بن ہارون، ہمام، قتاٍدۃ، قدامۃ بن وبرۃ، سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بغیر عذر (شرعی) تین جمعہ چھوڑ دے اس کو چاہیے کہ وہ ایک دینار صدقہ دے اور اگر ایک دینار نہ دے تو (کم از کم) آدھا دینار صدقہ دے۔
فضیلت جمعہ سے متعلق احادیث
سوید بن نصر، عبد اللہ، یونس، زہری، عبدالرحمن اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بہترین (یعنی افضل دن) جس میں سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے کہ اس روز حضرت آدم کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اسی روز وہ جنت میں داخل ہوئے اور اسی روز وہ جنت سے باہر نکالے گئے۔
جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بکثرت درود بھیجنا
اسحاق بن منصور، حسین جعفی، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، ابو اشعث صنعانی، اوس بن اوس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمام دنوں میں تم لوگوں کے واسطے جمعہ کا دن ہے اس روز حضرت آدم کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اس روز ان کی روح قبض ہوئی اور اس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ لوگ بے ہوش ہو جائیں گے تو اس روز تم لوگ بہت زیادہ درود شریف بھیجو اس لئے کہ تم لوگ جو درود بھیجو گے وہ میرے سامنے پیش ہو گا صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگوں کا درود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کس طرح سے پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر میں خاک ہو چکے ہو گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے زمین پر حرام فرمایا ہے انبیاء کے اجسام مبارک کو۔
جمعہ کے دن مسواک کرنے کا حکم
محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابو ہلال و بکیر بن اشجع، ابو بکیر بن منکدر، عمرو بن سلیم، عبدالرحمن بن ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کا غسل ہر ایک بالغ پر واجب ہے (مرد ہو یا عورت) اور مسواک کرنا اور خوشبو لگانا اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق اور ایک روایت میں ہے کہ اگرچہ عورت کی خوشبو ہو۔
جمعہ کے دن غسل کرنے سے متعلق
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی آدمی جمعہ کی نماز ادا کرنے کے واسطے آئے تو اس کو غسل کرنا چاہیے۔
غسل جمعہ واجب ہے
قتیبہ، مالک، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کے روز غسل کرنا ہر ایک بالغ شخص پر لازم ہے۔
٭٭ حمید بن مسعٍدۃ، بشر، داؤد بن ابو ہند، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک مسلمان مرد پر سات روز میں ایک روز غسل کرنا لازم ہے اور وہ جمعہ کا دن ہے۔
جمعہ کے دن اگر غسل نے کرے تو کیا کرنا چاہئے ؟
محمود بن خالد، ولید، عبداللہ بن العلاء، قاسم بن محمد بن ابی بکر سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمعہ کے غسل کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں لوگ عالیہ میں رہائش کیا کرتے تھے (عالیہ وہ گاؤں ہیں جو کہ مدینہ منورہ کے نزدیک اونچائی پر واقع ہے ) اور وہ جمعہ میں آتے تو وہ لوگ میلے کچیلے آتے تو جس وقت ہوا چلتی تھی تو وہ ہوا ان کے جسم کی بدبو اڑاتی تھی۔ اس وجہ سے لوگوں کو تکلیف محسوس ہوتی تھی تو جس وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں یہ بات عرض کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ غسل کس وجہ سے نہیں کرتے ؟
٭٭ ابواشعث، یزید بن زریع، شعبہ، قتادہ، حسن، سمرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس شخص نے بہتر کیا اور جس شخص نے غسل کیا تو وہ غسل کرنا افضل ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ حسن نے سمرہ سے اس حدیث کو نقل کیا ان کی کتاب سے۔ اس لئے حضرت حسن نے حضرت سمرہ سے نہیں سنا عقیقہ کی حدیث کو اور خدا خوب واقف ہے۔
غسل جمعہ کی فضلیت
عمرو بن منصور وہارون بن محمد بن بکار بن بلال، ابو مسہر، سعید بن عبدالعزیز، یحیی بن حارث، ابو اشعث صنعانی، اوس بن اوس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن اپنی بیوی کو غسل کرائے یعنی اس سے ہم بستری کرے اور خود بھی غسل کرے (مطلب یہ ہے کہ اپنی عورت سے ہم بستری کرے ) اور مسجد میں جلدی پہنچے اور امام کے نزدیک بیٹھ جائے اور وہ شخص لغو کلام نہ کرے تو اس شخص کو ہر ایک قدم کے عوض ایک سال کے روزے اور عبادت کا اجر ملے گا۔
جمعہ کے لئے کیسا لباس ہونا چاہئے ؟
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر نے ایک جوڑا کپڑے کا فروخت ہوتے ہوئے دیکھا اور وہ ریشمی تھا کہ جس کو عطاء بن حاجت فروخت کرتے تھے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کاش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کپڑے کو خریدیں اور جمعہ کے دن اور جس دن باہر کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا کریں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو پہنا کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس لباس کو وہ شخص پہنے گا کہ جس کا آخرت میں کوئی اور کسی قسم کا حصہ نہیں ہے نہ وہاں کی نعمتوں میں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اس قسم کے جوڑے آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت عمر کو دیا۔ عمر نے فرمایا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے یہ کپڑا پہناتے ہیں اور پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عطارد کے جوڑوں کے متعلق کیا فرمایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تجھے یہ جوڑا پہننے کیلئے نہیں دیا ہے پھر حضرت عمر نے وہ جوڑا اپنے بھائی کو پہنایا جو کہ مشرک تھا مکہ مکرمہ میں۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، حسن بن سوار، لیث، خلد، سعید، ابو بکر بن منکدر، عمرو بن سلیم، عبدالرحمن بن ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کا غسل کرنا واجب ہے ہر ایک بالغ شخص پر اسی طریقہ سے مسواک کرنا اور خوشبو لگانا اپنی وسعت کے مطابق۔
نماز جمعہ کے لئے جانے کی فضیلت سے متعلق
عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، ولید، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، ابو اشعث، اوس بن اوس سے روایت ہے جو کہ صحابی تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بروز جمعہ غسل کرے اور (اپنی بیوی کو بوجہ جماع) غسل کرائے اور نماز جمعہ کیلئے وہ جلدی کر کے مسجد پہنچے اور جمعہ کی نماز کیلئے پیدل چلے سوار نہ ہو اور امام کے قریب (یعنی صف اول میں ) بیٹھ جائے اور خاموش رہے اور بیہودہ کلام نہ کرے تو ایسے شخص کو ہر ایک قدم پر ایک نیک عمل ملے گا۔
جمعہ کے دن مسجد جلدی جانے کے فضائل
نصر بن علی بن نصر، عبدالاعلی، معمر، زہری، الاغرل ابو عبد اللہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس روز جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاتے ہیں اور جو کوئی جمعہ کے واسطے آتا ہے اس کا نام لکھتے ہیں پھر جس وقت امام (خطبہ کیلئے ) نکلتا ہے تو فرشتے کتابیں لپیٹ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سب لوگوں سے پہلے جمعہ پڑھنے آتا ہے تو وہ شخص ایسا ہے کہ جسے کسی شخص نے (مکہ میں ) ایک اونٹ قربان کرنے کے واسطے بھیجا۔ پھر جیسے کہ کسی نے بکری بھیجی پھر جیسے کسی نے بطخ راہ خدا میں صدقہ کی پھر جیسے کسی نے راہ خدا میں مرغی بھیجی پھر جیسے کہ کسی نے انڈا صدقہ کیا۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، زہری، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازہ پر فرشتے لوگوں کو لکھتے ہیں جو شخص پہلے مسجد پہنچتا ہے تو اس کو پہلے پھر جو اس کے بعد مسجد پہنچتا ہے تو اس کو بعد میں لکھتے ہیں اس طریقہ سے جس وقت امام (خطبہ کیلئے ) نکلتا ہے تو نامہ اعمال لپیٹ دیئے جاتے ہیں اور فرشتے خطبہ سننے لگتے ہیں پھر جو شخص سب لوگوں سے قبل نماز جمعہ کو جلدی کر کے پہنچتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص نے ایک اونٹ قربانی کرنے کے واسطے مکہ مکرمہ بھیجا۔ پھر جو شخص اس کے بعد جیسے کہ کسی شخص نے قربان کرنے کے واسطے ایک گائے بھیجی پھر جو شخص اس کے بعد آئے تو وہ شخص ایسا ہے کہ جیسے کہ اس نے قربان کرنے کے واسطے ایک مینڈھا بھیجا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرغی اور انڈے کا تذکرہ فرمایا۔
٭٭ ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، لیث، ابن عجلا ن، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فرشتے جمعہ کے دن مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ حضرات لوگوں کو ان کے درجات کے مطابق (یعنی ترتیب سے ) تحریر کرتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک اونٹ قربانی کرنے کے واسطے بھیجا اور بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک مرغی قربان کرنے کیلئے بھیجی اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے کسی نے ایک چڑیا قربان کرنے کے واسطے بھیجی اور بعض ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک انڈا صدقہ کرنے کیلئے بھیجا ہو۔
جمعہ کے دن کس وقت نماز کیلئے جانا افضل ہے ؟
قتیبہ، مالک، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرے اور (مسجد) چلا جائے (یعنی سورج کے زوال کے بعد پہلی گھڑی میں چلا جائے ) تو اس شخص نے گویا ایک اونٹ قربانی کرنے کے واسطے بھیجا اور جو شخص دوسری گھڑی میں مسجد جائے تو اس نے گویا ایک گائے بھیجی اور جو شخص مسجد تیسری گھڑی جائے تو اس شخص نے گویا کہ راہ خدا میں ایک بکری بھیجی اور جو شخص چوتھی گھڑی میں مسجد جائے تو اس نے گویا کہ ایک مرغی راہ خدا میں بھیجی اور جو شخص پانچویں گھڑی میں مسجد پہنچے تو اس نے گویا کہ ایک انڈا بھیجا پھر جس وقت امام خطبہ پڑھنے کے واسطے نکلتا ہے تو فرشتے آ جاتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں۔
٭٭ عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو و الحارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، جلاح، عبدالعزیز، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کا دن بارہ گھنٹہ کاہے جو بندہ مومن خداوند قدوس سے کچھ مانگے خداوند قدوس اس کو عنایت فرمائے گا تم لوگ اس کو عصر کے بعد آخری وقت میں تلاش کرو۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، یحیی بن آدم، حسن بن عیاش، جعفر بن محمد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز جمعہ پڑھتے تھے پھر جس وقت ہم لوگ واپس آئے تو ہم لوگ اپنے اونٹوں کو آرام پہنچاتے۔ حضرت امام محمد نے فرمایا کہ میں نے حضرت جابر سے دریافت کیا کہ کونسا وقت ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سورج کے زوال کے بعد ہی۔
٭٭ شعیب بن یوسف، عبدالرحمن، یعلی بن حارث، ایاس بن سلمہ بن الاکوع سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کرتے جس وقت ہم لوگ واپس آ جاتے تو دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا تاکہ ہم لوگ ان کے سایہ میں قیام کر سکیں۔
اذان جمعہ سے متعلق احادیث
محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سائب بن یزید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر اور عمر کے دور میں پہلی اذان جمعہ کی اس وقت ہوا کرتی تھی کہ جس وقت امام منبر پر بیٹھتا پس جس وقت عثمان کی خلافت قائم ہو گئی اور لوگ کافی تعداد میں ہو گئے تو انہوں نے تیسری اذان کا جمعہ کے دن حکم کیا مع تکبیریں۔ اذان ہو گئی تو اذان دی گئی تو مقام زوراء پر اذان دی گئی (مدینہ میں ایک جگہ کا نام)۔ اس کے بعد اس طرح سے حکم قائم رہا۔
٭٭ محمد بن یحیی بن عبد اللہ، یعقوب، صالح، ابن شہاب، سائب بن یزید سے روایت ہے کہ تیسری اذان کا حکم حضرت عثمان نے دیا جس وقت مدینہ منورہ میں لوگ زیادہ ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک ہی اذان تھی یعنی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، زہری، سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت بلال جمعہ کے دن اذان دیتے تھے جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر بیٹھ جاتے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے نیچے اترتے تو تکبیر پڑھتے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اسی طرح سے رہا۔
امام جب خطبہ کے واسطے نکل چکا ہو تو اس وقت مسجد میں آ جائے تو سنت پڑھے یا نہیں ؟
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عمرو بن دینار، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص آئے اور امام خطبہ دینے کے واسطے نکل چکا ہو تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ (تحیٰۃالمسجد) کی دو رکعت ادا کرے جمعہ کے روز۔
امام خطبہ کے لئے کس چیز پر کھڑا ہو؟
عمرو بن سواد بن اسود، ابن وہب، ابن جریج، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت خطبہ پڑھتے تھے تو مسجد کے ایک ستون پر جو کہ کھجور کی لکڑی کا تھا اس پر سہارا لگاتے جس وقت منبر بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر چڑھنے لگے تو وہ ستون بے قرار ہو گیا اور اس میں سے ایک آواز پیدا ہو گئی جیسے کہ اونٹنی کی آواز ہوتی ہے اور وہ ستون آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرقت سے رونے لگا یہاں تک کہ اس آواز کو تمام مسجد والوں نے سنا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے اترے اور اس کو گلے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا۔
٭٭ احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، عمرو بن مرۃ، ابو عبیٍدۃ، کعب بن عجزٰۃ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن حکم کو دیکھا کہ وہ بیٹھے بیٹھے خطبہ پڑھ رہے تھے انہوں نے فرمایا ان کو دیکھو اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ دیکھو اس خبیث شخص کو کہ وہ بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے حالانکہ خداوند قدوس نے فرمایا ہے کہ لوگ جس وقت تجارت دیکھتے ہیں یا کھیل دیکھتے ہیں تو وہ دوڑ جاتے ہیں اس جانب اور تم کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں پس معلوم ہوا کہ خطبہ کھڑے ہو کر دینا چاہیے۔
امام کے قریب بیٹھنے کی فضیلت
محمود بن خالد، عمر بن عبدالواحد، یحیی بن حارث، ابو اشعث صنعانی، اوس بن اوس ثقفی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص غسل دے اور خود غسل کرے جمعہ کے دن (یعنی جمعہ کے دن اپنی عورت سے صحبت کرے جس کے نتیجہ میں وہ دونوں غسل کریں ) اور وہ شخص مسجد جلدی پہنچے اور خاموش رہے اور وہ شخص بیہودہ کلام نہ کرے تو اس شخص کو ہر ایک قدم پر ایک سال کے روزے اور عبادت کا اجر ملے گا۔
جس وقت امام منبر پر خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنیں پھلانگنا ممنوع ہے
وہب بن بیان، ابن وہب، معاویہ بن صالح، ابو زاہریٰۃ، عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ایک شخص حاضر ہوا لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ کیونکہ تم نے لوگوں کو سخت تکلیف پہنچائی۔
اگر امام خطبہ دے رہا ہو اور اس وقت کوئی شخص آ جائے تو نماز پڑھے یا نہیں ؟
ابراہیم بن حسن و یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، عمرو بن دینار، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے روز حاضر ہوا اور اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے دو رکعات (تحیٰۃ المسجد) پڑھ لی ہیں ؟ اس شخص نے کہا نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو رکعت پڑھ لو۔
جس وقت خطبہ ہو رہا ہو تو خاموش رہنا چاہئے
قتیبہ، لیث، عقیل، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن کہے خاموش رہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس شخص نے بھی لغو کلام کیا کیونکہ خاموش رہنے کا حکم بھی نئی بات کرنے جیسے ہے۔ کسی سے یہ کہنا کہ تم خاموش رہو تو یہ بھی کلام ہے۔
٭٭ عبدالملک بن شعیب بن لیث بن سعد، جدی، عقیل، ابن شہاب، عمر بن عبدالعزیز، عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ و سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جس وقت تم خطبہ کے وقت اپنے ساتھی سے کہو کہ تم خاموش رہو تو تم نے (بھی) بیہودہ کلام کیا۔
خاموش رہنے کے فضائل سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابو معشر زیاد بن کلیب، ابراہیم، علقمہ، قرثع ضبی، سلیمان سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن حکم کے مطابق اپنے آپ کو پاک کرے پھر اپنے مکان سے نکلے اور نماز جمعہ میں حاضر ہو اور وہ خاموش رہے نماز ہونے تک تو اس کے اگلے جمعہ تک کے گناہ معاف ہو جائیں گے
خطبہ کس طریقہ سے پڑھے ؟
محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو اسحاق ، ابو عبیٍدۃ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حاجت کا خطبہ (یعنی نکاح وغیرہ کا) اس طریقہ سے سکھلایا آخر تک۔ یعنی تمام تعریف ہے اللہ کی اور ہم اس سے مدد چاہتے ہیں اور اس سے مغفرت مانگتے ہیں اور ہم پناہ مانگتے ہیں اپنے خدا کی اپنے قلوب کی برائی سے کہ جس کو خداوند قدوس راستہ دکھلا دے تو اس کو گمراہ کرنے والا کوئی شخص نہیں ہے اور جس کو گمراہ کر دے تو اس کو کوئی راستہ بتلانے والا نہیں ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ علاوہ اللہ کے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین آیات کریمہ تلاوت فرمائی۔ اے ایمان والو! تم خدا سے ڈرو اپنے پروردگار سے کہ جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر دونوں کے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائے اور تم ڈرو اللہ سے کہ جس کے نام پر تم مانگتے ہو اور تم ڈرو اس کے رشتہ ناطوں سے اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور تم مضبوط بات کہا کرو۔ امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ ابو عبیدہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے نہیں سنا اور نہ عبدالرحمن نے حضرت عبداللہ سے سنا اور نہ عبدالجبار بن وائل نے اپنے والد حضرت ابن حجر سے سنا۔
خطبہ جمعہ میں غسل کی ترغیب سے متعلق احادیث
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ پڑھا تو ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے جس وقت کوئی شخص نماز جمعہ کے واسطے جانے لگے تو اس کو چاہیے کہ وہ شخص پہلے غسل کرے۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، ابراہیم بن نشیط سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن شہاب سے جمعہ غسل کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ غسل مسنون ہے پھر بیان کیا کہ مجھ سے حضرت سالم بن عبداللہ نے نقل کیا اور انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر سے سنا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو منبر پر بیان فرمایا۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عبداللہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا جو شخص تمہارے میں سے نماز جمعہ کے واسطے حاضر ہو تو اس کو غسل کرنا چاہیے۔ دیگر روایت بھی ذکر فرمائی گئیں۔
جمعہ کے روز امام کو خیرات کرنے کی ترغیب دینا چاہئے
محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ابن عجلان، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا جو کہ خراب اور خستہ حالت میں تھا (یعنی وہ شخص میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نماز سے فارغ ہو گئے ہو؟ اس شخص نے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم دو رکعت پڑھ لو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے حضرات کو بھی اس کی جانب توجہ کرائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ دینے کی ترغیب دلائی انہوں نے کپڑے ڈالنا شروع کر دیئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آدمی کو ان میں سے وہ کپڑے دے دئیے۔ جس وقت دوسرا جمعہ ہوا تو پھر وہ شخص حاضر ہوا اور اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو رغبت دلائی صدقہ کرنے کی۔ اس آدمی نے ان دو کپڑوں میں سے جو کہ آئندہ جمعہ میں اس کو ملے تھے ایک کپڑا رکھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابھی پچھلے جمعہ کو یہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے آیا تھا اس وجہ سے میں نے لوگوں کو اسے صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے کپڑے دئیے جن میں سے دو کپڑے اسے دے دئیے اس مرتبہ یہ آیا تو میں لوگوں کو پھر صدقہ کی ترغیب دے رہا تھا اس پر اس نے بھی (انہی ہی میں سے ) ایک کپڑا دے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے ڈانٹا اور فرمایا کہ اپنا کپڑا اٹھا لو۔
امام کا منبر پر بیٹھ کر اپنی رعایا سے خطاب کرنا
قتیبہ، حماد بن زید، عمرو بن دینار، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چلو اٹھو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ابو موسی اسرائیل بن موسی، حسن، ابو بکرہ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر دیکھا۔ حسن کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی ان (حسن) کی طرف اور کہتے میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ شائد رب کریم اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان مصالحت کرا دے۔
خطبہ میں قرآن پڑھنا
محمد بن مثنی، ہارون بن اسماعیل، علی و ابن مبارک، یحیی، محمد بن عبدالرحمن، ابنۃ حارثہ، حارثہ بن نعمان سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سورہ ق سن کر یاد کی۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے جمعہ کے دن منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
دوران خطبہ اشارہ کرنا
محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، حصین فرماتے ہیں کہ بشیر بن مروان نے جمعہ کے دن منبر پر (دوران خطبہ) اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا تو عمارہ نے انہیں تنبیہ کی اور فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے زائد نہیں کیا اور اپنی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔
خطبہ ختم کرنے سے پہلے منبر سے اترنا اور پھر واپس جانا
محمد بن عبدالعزیز، فضل بن موسی، حسین بن واقد، عبداللہ بن بریٍدۃ، بریرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسن و حسین آئے۔ دونوں نے سرخ کپڑے پہن رکھے تھے اور گراتے گراتے (بوجہ بچپن) چلے آ رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں دیکھ کر خطبہ روک دیا اور اتر کر انہیں اٹھا لیا اور پھر دوبارہ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا تمہارے اموال اور اولاد میں فتنہ ہے دیکھو! میں نے انہیں دیکھا کہ اپنے کرتوں میں گرتے چلے آ رہے ہیں تو میں صبر نہ کر سکا (یعنی گھبراہٹ ہوئی کہ کہیں گر کر چوٹ نہ لگ جائے ) اور میں نے خطبہ موقوف کر کے انہیں اٹھا لیا۔
خطبہ مختصر دینا مستحب ہے
محمد بن عبدالعزیز بن غزوان، فضل بن موسی، حسین بن واقد، یحیی بن عقیل، عبداللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کا ذکر زیادہ کیا کرتے اور لایعنی گفتگو کم کرتے۔ نماز لمبی پڑھتے اور خطبہ مختصر دیتے۔ نیز بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کا کام کر دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔
بروز جمعہ کتنے خطبے دئیے جائیں ؟
علی بن حجر، اسرائیل، سماک، جابر بن سمرہ، فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہمیشہ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک خطبہ دے کر بیٹھ جاتے اور دوبارہ کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے۔
دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے کا بیان
اسماعیل بن مسعود، بشر بن مفضل، عبید اللہ، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو خطبے ارشاد فرماتے اور دونوں خطبے کھڑے ہو کر ارشاد فرماتے۔ نیز ان دونوں خطبوں کے درمیان فصل کرتے۔ (یعنی ذرا دیر کو بیٹھتے )
خطبوں کے درمیان خاموش بیٹھنا
محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزیدیعنی ابن زریع، اسرائیل، سماک، جابر بن سمرہ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بروز جمعہ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے پھر بیٹھ جاتے اور خاموش رہتے۔ اس کے بعد دوبارہ کھڑے ہوتے اور دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے اگر کوئی شخص تم سے یہ کہہ دے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھتا ہے۔
دوسرے خطبہ میں قرأت کرنا اور اللہ عز و جل کا ذکر کرنا
عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، سماک، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ پھر کچھ دیر تشریف رکھتے اور دوبارہ کھڑے ہوتے اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قران پاک کی چند آیات کی تلاوت فرماتے اور اللہ جل جلالہ کا ذکر فرماتے۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطبہ اور نماز دونوں متوسط ہوتے۔ (یعنی نہ بہت چھوٹے اور نہ بہت طویل)
منبر سے نیچے اتر کر کھڑا ہونا یا کسی سے گفتگو کرنا
محمد بن علی بن میمون، فریابی، جریر بن حازم، ثابت البنانی، انس فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر سے نیچے تشریف لاتے تو جو بھی سامنے آ جاتا اس سے گفتگو فرماتے۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتا تب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے بڑھتے اور نماز پڑھاتے۔
نماز جمعہ کی رکعات
علی بن حجر، شریک، زبید، عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نماز جمعہ عیدالفطر عید الضحی اور سفر کی نماز دو دو رکعات ہیں اور یہ (دوہمیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معلوم ہوئی۔) امام نسائی کہتے ہیں کہ عبدالرحن بن ابی لیلی نے عمر رضی اللہ سے کوئی حدیث نہیں سنی۔/
نماز جمعہ میں سو رہ جمعہ اور سورہ منافقون پڑھنا
محمد بن عبدالاعلیٰ صنعانی، خالد بن حارث، شعبہ، مخول، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورہ الم سجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت فرماتے پھر جمعہ کی نماز میں سورہ جمعہ اور منافقون کی تلاوت فرماتے۔
نماز جمعہ میں سورہ الاعلیٰ اور سورہ غاشیہ کی تلاوت کرنے کا بیان
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، معبد بن خالد، زید بن عقبۃ، سمرہ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نماز جمعہ میں سورہ الاعلیٰ اور سورہ غاشیہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے
نعمان بن بشیر سے جمعہ میں قرأت سے متعلق مختلف احادیث
قتیبہ، مالک، ضمرۃ بن سعید، عبید اللہ بن عبد اللہ، ضحاک بن قیس، نے نعمان بن بشیر سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کی نماز میں سورہ جمعہ کے بعد کون سی سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ؟ (نعمان بن بشیر نے ) کہا سورہ غاشیہ۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حبیب بن سالم، نعمان بن بشیر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمعہ کے دن سورہ الاعلیٰ اور سورہ غاشیہ تلاوت کیا کرتے تھے اور اگر کبھی جمعہ کے دن ہی عید بھی ہو جاتی تو دونوں میں یہی سورتیں تلاوت فرماتے۔
جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی اس کا جمعہ ادا ہو گیا
قتیبہ و محمد بن منصور، سفیان، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو جمعہ کی ایک رکعت مل گئی اس نے جمعہ پا لیا (یعنی اگر دوسری رکعت میں بھی شامل ہو تو اس کا جمعہ ادا ہو گیا۔)
بعد جمعہ مسجد میں کتنی سنتیں ادا کرے
اسحاق بن ابراہیم، جریر، سہیل، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھ چکے تو اسے چاہیے اس کے بعد چار رکعات ادا کرے۔
امام کا بعد جمعہ نماز ادا کرنا
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ لیکن گھر واپس جا کر دو رکعتیں ادا کیا کرتے تھے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ لیکن گھر واپس جا کر دو رکعتیں ادا کیا کرتے تھے
جمعہ کے بعد دو طویل رکعات ادا کرنا
عبٍدۃ بن عبد اللہ، یزید، ابن ہارون، شعبہ، ایوب، نافع، عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کے بعد دو طویل رکعات پڑھتے اور فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی بعینہ (دو طویل رکعات) ادا فرمایا کرتے تھے۔
بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان
قتیبہ، بکر یعنی ابن مضر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب میں کوہ طور پر گیا تو میری ملاقات کعب بن احبار سے ہو گئی۔ ہم دونوں ایک دن اکٹھے رہے۔ میں انہیں رسول کریم کی احادیث سناتا اور وہ مجھے تورات کی احادیث بیان کرتے رہے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا طلوع آفتاب ہونے والے دنوں میں سب سے اچھا دن جمعہ کاہے۔ اسی دن آدم کی پیدائش ہوئی اسی دن (آدم) جنت سے نکالے گئے اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اسی دن ان کی وفات ہوئی اور یہی دن روز قیامت ہو گا۔ کوئی جانور ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سورج طلوع ہونے تک قیامت کے خوف کی وجہ سے کان نہ لگائے رہے۔ اسی دن ایک گھڑی ایسی بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس گھڑی نماز پڑھنے کے بعد رب ذوالجلال والا کرام سے کچھ طلب کرتا ہے تو رب قدوس اسے ضرور وہ چیز عطا فرماتے ہیں۔ کعب کہنے لگے ایسا دن تو سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ میں نے کہا نہیں ! ہر جمعہ کو ایسی ساعت آتی ہے۔ چنانچہ کعب نے تورات پڑھی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ فرمایا یہ ساعت ہر جمعہ کو آتی ہے۔ پھر میں وہاں سے چلا تو بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ (ابوہریرہ) کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے کہا کوہ طور سے۔ فرمایا اگر میری ملاقات آپ سے وہاں جانے سے پہلے ہو جاتی تو آپ ہرگز وہاں نہ جاتے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی زیارت کیلئے سفر نہ کیا جائے۔ مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد بیت المقدس۔ پھر اس کے بعد میری ملاقات عبداللہ بن سلام سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا میں آج کوہ طور پر گیا تھا وہاں میری کعب سے ملاقات ہوئی میں نے ایک دن ان کے ساتھ گزارہ میں ان سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث بیان کرتا تھا اور وہ تورات کی روایات بیان کرتے رہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورج طلوع ہونے والے دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کاہے اسی دن آدم کی پیدائش ہوئی اسی دن وہ جنت سے نکالے گئے اسی دن ان کی توبہ کو اللہ جل جلالہ نے شرف قبولیت بخشا۔ اسی دن ان کی وفات ہوئی اور قیامت بھی جمعہ ہی کے دن قائم ہو گی اور انسان کے علاوہ کوئی جانور ایسا نہیں ہے جو جمعہ کے دن آفتاب طلوع ہونے تک قیامت کے ڈر کی وجہ سے اسی طرف متوجہ نہ رہے۔ (اور میں نے یہ بھی کہا کہ) اس میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص اس میں نماز ادا کرے اور اللہ جل جلالہ سے کوئی چیز طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور وہ چیز عطا کرتے ہیں۔ کعب کہنے لگے وہ دن تو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے۔ عبداللہ بن سلام کہنے لگے کعب جھوٹ بولتے ہیں۔ میں نے کہا اس کے بعد کعب نے (توریت کو) پڑھ کر دیکھا تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سچ کہا ہے یقینا ایسی گھڑی ہر جمعہ کو آتی ہے۔ اس پر عبداللہ فرمانے لگے۔ کعب نے سچ کہا اور مجھے اس ساعت کا علم ہے۔ میں نے کہا میرے بھائی پھر مجھے آگاہ کرو۔ انہوں نے کہا غروب آفتاب سے پہلے جمعہ کی آخری گھڑی ہے۔ میں نے کہا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ جو شخص اس ساعت کو نماز میں پائے۔ لیکن اس وقت تو نماز ہی ادا نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کیا تم نے یہ فرمان نہیں سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے ایک نماز ادا کی اور دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہا تو گویا وہ حالت نماز میں ہی ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ کہا تو پھر یہ بھی اسی طرح ہے۔
٭٭ محمد بن یحیی بن عبد اللہ، احمد بن حنبل، ابراہیم بن خالد، رباح، معمر، زہری، سعید، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے دن ایک ایسا وقت بھی ہے اگر کوئی مسلمان اس وقت اللہ تعالیٰ سے کسی (جائز) چیز کی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز لازما عطا کرتا ہے۔
٭٭ عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، محمد، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو قاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوران نماز اس ساعت کو پالے اور پھر اس میں اللہ جل جلالہ سے کوئی چیز طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور وہ چیز عطا فرماتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ یہ ساعت چند گھڑی کیلئے ہے (یعنی مختصر ہے )
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس، ابن جریج، ابن ابو عمار، عبداللہ بن بابیہ، یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ارشاد ربانی ہے اگر تم لوگوں کو خطرہ ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے تو تمہیں نماز کم کرنے پر کوئی گناہ نہ ہو گا۔ لیکن اب تو ہم لوگوں کو امن نصیب ہو گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے بھی پہلی دفعہ یہ بات سن کر اسی طرح حیرت ہوئی تھی جس طرح تمہیں ہوئی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم لوگوں کو عطا کیا گیا ایک صدقہ ہے لہذا اسے قبول کرو۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عبداللہ بن ابو بکر، عبدالرحمن، امیہ بن عبداللہ بن خالد نے عبداللہ بن عمر سے کہا کہ ہم حضر اور خوف کی نماز کے متعلق ذکر تو قرآن میں پاتے ہیں لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں ملتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ اے بھتیجے ! اللہ تعالیٰ نے جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہماری طرف معبوث کیا اس وقت ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔ لہذا ہم لوگ بعینہ اسی طرح کرتے جس طرح ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے اور بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیشہ حالت سفر میں قصر نماز ہی پڑھی اسی وجہ سے ہم بھی قصر ہی پڑھتے ہیں۔
٭٭ قتیبہ، ہشیم، منصور بن زاذان، ابن سیرین، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کیلئے نکلے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ رب العالمین کے علاوہ کسی کا خوف بھی نہیں تھا (یعنی کفار کی طرف سے ایذاء دئیے جانے کا اندیشہ نہ تھا) لیکن باوجود اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قصر ادا فرماتے رہے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن عون، محمد، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف آ رہے تھے اور اس وقت ہمیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کا اندیشہ نہیں تھا لیکن ہم دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، شعبہ، یزید بن خمیر، حبیب بن عبید یحدث، جبیر بن نفیر، ابن سمط، سمط رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب کو مقام ذوالحیلفہ پر دو رکعت ادا کرتے ہوئے پایا تو ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے کہا۔ میں تو اسی طرح کرتا ہوں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کرتے تھے۔
٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، یحیی بن ابو اسحاق ، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کیلئے نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس آنے تک نماز قصر ادا فرماتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (مکہ مکرمہ) میں قیام کی مدت دس دن تھی۔
٭٭ محمد بن علی بن حسن بن شقیق، ابو حمزٰۃ، سکری، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے ساتھ سفر میں (ہمیشہ) دو ہی رکعت پڑھی ہیں
٭٭ حمید بن مسعٍدۃ، سفیان، ابن حبیب، شعبہ، زبید، عبدالرحمن بن ابو لیلی، عمر فرماتے ہیں کہ جمعہ عیدالفطر عیدالضحی اور سفر کی نماز دو دو رکعت ہے اور یہ (دو رکعت نماز ہی) مکمل نماز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی فرمایا ہے۔
٭٭ محمد بن وہب، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید، ایوب، ابن عائد، بکیر بن اخنس، مجاہد ابو حجاج، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک زبان سے حضر کی نماز چار رکعت سفر کی دو رکعت اور خوف کی نماز ایک فرض کی گئی ہے۔
٭٭ یعقوب بن ماہان، قاسم بن مالک، ایوب بن عائد، بکیر بن اخنس، مجاہد، ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے تم پر حضر میں چار رکعت سفر میں دو رکعت اور حالت خوف میں صرف ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔
مکہ معظمہ میں نماز پڑھنا
محمد بن عبدالاعلی، خالد بن حارث، شعبہ، قتادہ، موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ ابن عباس سے دریافت کیا کہ اگر مکہ معظمہ میں با جماعت نماز کے علاوہ کوئی نماز پڑھوں تو کتنی رکعات پڑھو؟ فرمایا ابو قاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کی سنت کے مطابق دو رکعت ادا کرو۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
دھونے کی حد سے متعلق
احمد بن عمرو بن سرح و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عطاء بن یزید، حمران سے روایت ہے (جو حضرت عثمان کے غلام تھے ) انہوں نے خبر دی کہ حضرت عثمان بن عفان نے وضو کا پانی منگوایا اور دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر تین مرتبہ منہ دھویا پھر دایاں اور بایاں بازو تین تین مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا پھر دایاں پاؤں ٹخنوں تک تین تین مرتبہ دھویا پھر بایاں پاؤں دھویا۔ اس طریقہ سے (یعنی ٹخنوں تک تین مرتبہ دھویا) پھر فرمایا کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اس طریقہ سے کہ جس طریقہ سے میں نے وضو کیا پھر بیان کیا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس طریقہ سے وضو کرے کہ جیسے میں نے وضو کیا ہے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کرے اور قلب (دل) میں کسی طرح کے وسوسے نہ لائے تو اس شخص کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
جو توں میں وضو سے متعلق یعنی جوتے پہن کر وضو کرنا؟
محمد بن علاء ابن ادریس، عبید اللہ و مالک و ابن جریج، مقبری، عبید بن جریج سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے کہا کہ میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم یہ چمڑے کے جوتے پہن کر وضو کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے ہی جوتے پہنتے تھے اور ان میں وضو فرماتے تھے۔
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
قتیبہ، حفص، الاعمش، ابراہیم، ہمام، جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا اور انہوں نے موزوں پر مسح کیا۔ لوگوں نے عرض کیا آپ موزوں پر مسح کرتے ہیں ؟ جریر نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عبداللہ کے ساتھیوں کو مذکورہ حدیث بہت زیادہ پسند تھی اس لئے کہ جریر نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات سے چند روز قبل اسلام قبول فرمایا۔
٭٭ عباس بن عبدالعظیم، عبدالرحمن، حرب بن شداد، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ، جعفر بن عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا اور (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ) اپنے موزوں پر مسح کیا۔
٭٭ عبدالرحمن بن ابراہیم و سلیمان بن داؤد، ابن نافع، داؤد بن قیس، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت بلال دونوں حضرات (مقام اسواف میں ) تشریف لے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حاجت کے لئے تشریف لے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے (یعنی واپس تشریف لائے ) تو اسامہ نے بلال سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ کیا عمل انجام دیا؟ حضرت بلال نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے پھر وضو فرمایا چہرہ دھویا اور ہاتھ دھوئے۔ سر اور موزوں پر مسح فرمایا اور نماز ادا فرمائی۔
٭٭ سلیمان بن داؤد و حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابو نصر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن عمر، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں پر مسح فرمایا۔
٭٭ قتیبہ، اسماعیل و ابن جعفر، موسیٰ بن عقبۃ، ابو نصر، ابو سلمہ، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا موزوں پر مسح کرنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے
٭٭ علی بن خشرم، عیسی، الاعمش، مسلم، مسروق، مغیرۃ بن شعبہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس تشریف لائے تو میں لوٹے میں پانی لے کر حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں بانہیں دھونا چاہتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چوغہ تنگ تھا چوغہ کی آستین اوپر نہ چڑھ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کو چوغے کے نیچے سے باہر نکالا اور دھویا اور موزوں پر مسح کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث بن سعد، یحیی، سعد بن ابراہیم، نافع بن جبیر، عروہ بن مغیرۃ، مغیرۃ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حاجت کے لئے تشریف لئے گئے تو حضرت مغیرہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے پیچھے چلے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ایک لوٹا پانی لے کر گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پانی ڈالا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حاجت سے فارغ ہو گئے پھر وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔
جراب اور جوتوں پر مسح سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سفیان، ابو قیس، ہذیل بن شرجیل، مغیرۃ بن شعبہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔ حضرت ابو عبدالرحمن نے عرض کیا کہ میں اس بات سے واقف نہیں ہوں کہ کسی نے اس روایت میں حضرت ابو قیس کی متابعت کی ہو گی اور حضرت مغیرہ سے ہی درست ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں پر مسح فرمایا ہے۔
دوران سفر موزوں پر مسح کرنے کا بیان
محمد بن منصور، سفیان، اسماعیل بن محمد، حمزٰۃ بن مغیرۃ بن شعبہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے مغیرہ تم میرے پیچھے رہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگ میرے سے آگے آگے جاؤ۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پیچھے ہی رہا میرے پاس پانی کا ایک لوٹا تھا لوگ روانہ ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے (اعضاء پر) پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک تنگ آستین کا چوغہ پہنے ہوئے تھے جو کہ ملک روم کا تیار کردہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے ہاتھ نکالنا چاہا تو وہ تنگ پڑھ گیا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چوغے کے نیچے سے ہاتھ نکال لیا اور چہرہ اور ہاتھوں کو دھویا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر مبارک پر مسح فرمایا۔
مسافر کے لئے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کا بیان
قتیبہ، سفیان، عاصم، زر، صفوان بن عسال سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو حالت سفر میں رخصت اور سہولت عطا فرمائی کہ ہم اپنے موزے نہ اتاریں تین دن تین رات تک۔
٭٭ احمد بن سلیمان رہاوی، یحیی بن آدم، سفیان الثوری و مالک بن مغول و زہیر و ابو بکر بن عیاش و سفیان بن عیینہ ، عاصم، زر سے روایت ہے کہ میں حضرت صفوان بن عسال سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو حکم فرماتے تھے کہ جس وقت ہم لوگ مسافر ہوں تو ہم مسح کریں اپنے موزوں پر اور یہ کہ نہ اتاریں ان کو تین روز تک کہ پیشاب پاخانہ اور سونے کی حاجت میں مگر یہ کہ حالت جنابت (ناپاکی) میں ان کو اتارنا ضروری ہے۔
مقیم کے واسطے موزوں پر مسح کرنے کی مدت
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، عمرو بن قیس ملانی، حکم بن عیینہ، قاسم بن مخیمرۃ، شریح بن ہانی، حضرت علی سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسافر کے واسطے تین روز اور تین راتیں جبکہ مقیم کے لئے ایک روز اور ایک رات مقرر فرمائی۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو معاویہ، الاعمش، حکم، قاسم بن مخیمرۃ، شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ صدیقہ سے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تم حضرت علی کی خدمت میں جاؤ اور خود ان سے دریافت کرو وہ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت علی نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو حکم فرماتے تھے کہ مقیم ایک روز تک مسح کرے اور مسافر تین دن اور تین رات تک۔
با وضو شخص کس طریقہ سے نیا وضو کرے ؟
عمرو بن یزید، بہزبن اسد، شعبہ، عبدالملک بن میسرہ، نزال بن سبرۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا۔ انہوں نے ظہر کی نماز ادا فرمائی پھر وہ لوگوں کے کام میں مصروف ہو گئے جب نماز عصر کا وقت آیا تو ایک برتن میں پانی پیش کیا گیا تو انہوں نے پانی کا ایک چلو لے کر چہرہ دونوں ہاتھ سر اور دونوں پاؤں پر مسح فرمایا۔ اس کے بعد کچھ بچا ہوا پانی لے کر کھڑے ہو کر اس کو پی لیا اور کہا کہ لوگ اس طریقہ سے وضو کرنے میں میرا خیال کرتے ہیں کہ جس میں تمام اعضاء پر مسح کیا جائے حالانکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور جس شخص کا وضو نہ ٹوٹا ہو اس کے لئے یہی وضو ہے۔
ہر نماز کے لئے وضو بنانا
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عمرو بن عامر، حضرت انس سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک چھوٹا برتن پیش کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے وضو فرمایا حضرت عمرو بن عامر نے عرض کیا میں نے حضرت انس سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک نماز کے لئے وضو فرماتے تھے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں میں نے عرض کیا اور تم؟ انہوں نے کہا ہم لوگ تو کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے جس وقت تک وضو نہ ٹوٹتا تھا یا ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔
٭٭ زیاد بن ایوب، ابن علیہ، ایوب، ابن ابو ملیکہ، حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پاخانہ سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھانا پیش کیا گیا لوگوں سے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم لوگ خدمت اقدس میں پانی پیش کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو وضو کرنے کا حکم اس وقت ہوا ہے کہ جس وقت نماز کے لئے کھڑا ہوں۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، سفیان، علقمہ بن مرثد، ابن بریٍدۃ، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک نماز کے لئے وضو فرمایا کرتے تھے جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن تمام نمازوں کو ایک ہی وضو سے ادا فرمایا۔ حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آج کے دن ایسا کام کیا ہے کہ جو اس سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک نماز کے لئے وضو فرماتے تھے اور آج آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متعدد نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عمر میں نے قصداً اور عمداً یہ عمل انجام دیا ہے۔
پانی کے چھڑکنے کا بیان
اسمعیل بن مسعود، خالد بن حارث، شعبہ، منصور، مجاہد، حضرت حکم بن سفیان سے روایت ہے کہ اس نے اپنے والد سے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت وضو فرماتے تو ایک چلو پانی لے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی شرم گاہ پر چھڑک لیتے اس حدیث مبارکہ کی راوی حکم بن سفیان یا حضرت سفیان بن حکم ہیں۔ ان کے نام میں اختلاف ہے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ صحابی ہیں اور حضرت ابن عبدالبر نے فرمایا کہ اس سے بھی ایک حدیث منقول ہے جو کہ وضو سے متعلق ہے اور وہ روایت مضطرب ہے۔
٭٭ عباس بن محمد دوری، احوص بن جواب، عمار بن رزیق، منصور، احمد بن حرب، قاسم و ابن یزید الجرمی، سفیان، منصور، مجاہد، حکم بن سفیان سے منقول ہے کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی شرم گاہ پر پانی چھڑکا یا وضو فرمایا۔ احمد کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے بھی پانی چھڑکا۔
وضو کا بچا ہوا پانی کار آمد کرنا
ابو داؤد، سلیمان بن سیف، ابو عتاب، شعبہ، ابو اسحاق، ابو حیہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو اعضاء وضو دھوتے دیکھا پھر وہ کھڑے ہوئے اور بچا ہوا پانی پیا اور فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے (عمل) کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، مالک بن مغول، عون بن ابو جحیفہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس مقام بطحا میں تھا تو بلال نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کا بچا ہوا پانی نکالا۔ لوگ اس کو لینے کے لئے آگے بڑھے میں نے بھی کچھ پانی پیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ایک لکڑی (سترہ) زمین میں گاڑھ دی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کی امامت فرمائی اور نماز پڑھائی اور گدھے کتے اور عورتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ابن منکدر، جابر سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں حضرات میری عیادت کے لئے تشریف لائے انہوں نے مجھ کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی میرے اعضاء پر ڈالا۔
وضو کی فرضیت
قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، ابو ملیح سے بیان کیا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کو بغیر وضو کے اور صدقہ چوری اور خیانت کے مال سے نہیں قبول فرماتا۔
وضو میں اضافہ کرنے کی ممانعت
محمود بن غیلان، یعلی، سفیان، موسیٰ بن ابی عائشہ، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وضو کا طریقہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو تین تین مرتبہ وضو کر کے دکھایا۔ پھر فرمایا وضو اس طرح ہے۔ اب جو شخص اضافہ کرے اس نے برا کیا حد سے زیادتی کی اور ظلم کا ارتکاب کیا۔
وضو پورا کرنا
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ابو جہضم، عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن عاص کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے فرمایا کے خدا کی قسم ہم لوگوں کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (یعنی قبیلہ بنی ہاشم کو) خاص نہیں فرمایا کسی بات سے مگر تین باتوں سے ایک تو ہم کو حکم ہوا پوری طرح وضو کرنے کا دوسرے زکوٰۃ نہ استعمال کرنے کا اور تیسرے یہ کہ گدھوں کو گھوڑیوں پر نہ چھوڑا کریں۔
٭٭ قتیبہ، جریر، منصور، ہلال بن یساف، ابو یحیی، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وضو اچھی طرح سے کیا کرو۔
وضو مکمل کرنے کی فضیلت سے متعلق
قتیبہ، مالک، علاء بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتلاؤں کہ جو تمہارے گناہوں کو ختم کر دے اور تمہارے درجات بلند کر دے ؟ وہ ہے وضو پورا کرنا دشواری محسوس ہونے کے وقت اور مسجد تک بہت سے قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لئے منتظر رہنا یہی رباط ہے یہی رباط ہے۔
حکم خداوندی کے مطابق وضو کرنا
قتیبہ بن سعید، لیث، ابو زبیر، سفیان بن عبدالرحمن، عاصم بن سفیان ثقفی سے روایت ہے کہ ہم لوگ(مقام) سلاسل کی جانب جہاد کرنے کے لئے روانہ ہوئے لیکن جنگ نہ ہوئی پھر بھی ہم لوگ وہیں پر جمے رہے۔ بعد میں ہم لوگ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آ گئے اور اس وقت ان کے پاس ابو ایوب اور عقبہ بن عامر تشریف فرما تھے۔ عاصم سے فرمایا اے ابو ایوب ہم کو جہاد نہیں مل سکا یعنی جہاد میں شرکت نہ کر سکے اور ہم نے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص چار مسجدوں میں نماز ادا کرے تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے ابو ایوب نے فرمایا اے میرے بھتیجے ہم تم کو اس سے زیادہ آسان بات بتلاتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص حکم کے مطابق وضو کرے اور حکم خداوندی کے مطابق نماز ادا کرے تو اس شخص کی مغفرت کر دی جائے گی۔ چاہے وہ شخص پہلے جو عمل بھی کر چکا ہو۔ عاصم نے بیان کیا کہ اے عقبہ کیا مسئلہ اسی طرح سے ہے ؟ حضرت عقبہ نے جواب میں فرمایا جی ہاں مسئلہ اور واقعہ اسی طریقہ سے ہے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، جامع بن شداد، حمران بن ابان، ابو بردہ، عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا جو شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اچھی طرح وضو کرے گا تو اس کے واسطے پانچ نمازیں ان کے درمیان (یعنی نمازوں کے دروان) سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہو جائیں گی
٭٭ قتیبہ، مالک، ہشام، عروہ، حمران بن ابان، عثمان سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ کوئی شخص اس طرح کا نہیں ہے جو کہ بہتر طریقہ سے وضو کرے پھر نماز ادا کرے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی مغفرت کر دیتا ہے دوسری نماز کے وقت کے آنے تک جب تک اس نماز کو ادا کرے یعنی دونوں نمازوں کے درمیان جس قدر گناہ اس سے صادر ہوئے تمام کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
٭٭ عمرو بن منصور، آدم بن ابو ایاس، لیث، ابن سعد، معاویہ بن صالح، ابو یحییٰ سلیم بن عامر و ضمرۃ بن حبیب و ابو طلحہ نعیم بن زیاد، عمرو بن عبسہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرنے کا کس قدر اجر و ثواب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نے وضو کر لیا اور صاف کر کے تم نے دونوں پہونچے دھوئے تو تمہارے تمام گناہ نکل (معاف ہو) گئے۔ تمہارے ناخنوں اور ہاتھ کے پوروں سے پھر جب تم نے کلی کر لی اور ناک کے دونوں سوراخوں کو تم نے صاف کر لیا اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے دونوں کہنیوں تک اور تم نے سر پر مسح کر لیا اور دونوں پاؤں دھوئے ٹخنوں تک تو تم اکثر گناہوں سے نکل گئے اب اگر تم نے اپنا چہرہ زمین پر رکھ لیا رضائے خداوندی کے لئے تو تم اپنے گناہوں سے اس طریقہ سے نکل گئے جیسے تم اس دن کے تھے کہ جس دن تمہاری ماں نے تم کو جنم دیا یعنی جس دن تمہاری ولادت ہوئی۔ حضرت ابو امامہ نے جو اس حدیث کو حضرت عمرو بن عنبسہ سے روایت کرتے ہیں۔ کہا اے عمرو بن عنبسہ تم ذرا غور کر کے بات کہو کہ کیا ہر ایک انسان کو اس قدر نعمتیں ہر ایک مجلس میں حاصل ہو جاتی ہیں۔ حضرت عمرو بن عنبسہ نے فرمایا کہ تم سن لو خدا کی قسم میں بوڑھا ہو گیا اور میری وفات کا زمانہ نزدیک ہے اور میں ضرورت مند اور محتاج بھی نہیں ہوں (جو کسی دباؤ کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف غلط بات منسوب کروں ) بلاشبہ اس کو میرے کانوں نے سنا اور میرے قلب نے اس کو نبی سے محفوظ رکھا۔
وضو سے فراغت کے بعد کیا کہنا چاہئے ؟
محمد بن علی بن حرب المروزی، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید، ابو ادریس الخولانی و ابو عثمان، عصبہ بن عامر الجہنی، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اچھے طریقہ سے وضو کرے (یعنی سنت رسول کے مطابق) پھر وہ شخص کہے تو ایسے شخص کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہ شخص جنت کے جس دروازے سے اس کا دل چاہے داخل ہو جائے۔
وضو کے زیور سے متعلق ارشاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
قتیبہ، خلف و ابن خلیفۃ، ابو مالک الاشجعی، ابو حازم سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو ہریرہ کے پیچھے تھا اور وہ اس وقت نماز ادا کرنے کے لئے وضو فرما رہے تھے اور اپنے ہاتھوں کو دھو رہے تھے بغلوں تک۔ میں نے کہا اے ابو ہریرہ یہ کس قسم کا وضو ہے ؟ انہوں نے کہا اے ابن فروخ تم اس جگہ پر موجود ہو اگر مجھ کو اس بات کا علم ہوتا کہ تم اس جگہ موجود ہو تو میں اس طریقہ سے وضو نہ کرتا۔ میں نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مومن بندہ کا زیور اسی جگہ تک ہو گا کہ جس جگہ تک اس کا وضو (پانی) پہنچے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، علاء بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنت البقیع (قبرستان) کی جانب تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم لوگوں پر سلامتی ہو اے گھر والو صاحب ایمان لوگو تم پر سلامتی ہے (یہ) مکان ہے اہل اسلام و اہل ایمان کا اور ہم لوگ انشاء اللہ تم سے ملاقات کرنے والے ہیں مجھ کو تمنا ہے کہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کی زیارت کروں ان سے ملوں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارا مقام تو اس سے کہیں زیادہ ہے تم لوگ میرے صحابی اور ساتھی ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو کہ ابھی دنیا میں نہیں آئے (اگرچہ تمہارا مقام آنے والے لوگوں سے بہت بلند ہے ) اور میں قیامت کے دن ان لوگوں کا "فرط” ہوں گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان لوگوں کو کس طریقے سے پہچانیں گے کہ جو لوگ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آئیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ذرا دیکھو اور غور کرو اگر کسی شخص کے سفید چہرہ اور پاؤں کے گھوڑے خالص مشکی گھوڑوں میں شامل ہو جائیں تو وہ شخص اپنے گھوڑے کی شناخت نہیں کرے گا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کیوں نہ شناخت کرے گا (یعنی ضرور شناخت کرے گا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس طریقہ سے وہ میرے بھائی قیامت کے دن آئیں گے اور ان کے چہرے اور ہاتھ اور پاؤں وضو (کے نور سے ) چمکتے دمکتے ہوں گے اور میں قیامت کے دن ان لوگوں کا "فرط” ہوں گا۔
بہترین طریقہ سے وضو کر کے دو رکعات ادا کرنے والے کا اجر؟
موسی بن عبدالرحمن مسروقی، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعۃ بن یزید الدمشقی، ابو ادریس خولانی و ابو عثمان، جبیر بن نفیر الحضرمی، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اچھے طریقے سے وضو کرے اور پھر دو رکعات ادا کرے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ متوجہ ہو کر (مطلب یہ ہے کہ اپنی توجہ ادھر ادھر نہ کرے بلکہ چہرہ قبلہ کی طرف پوری طرح سے متوجہ رکھے اور دل سے بھی توجہ رکھے اور لغو اور بیہودہ خیالات نہ لائے ) تو ایسے شخص کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
ہناد بن سری، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، ابو عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھ کو مذی بہت زیادہ آتی تھی جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی فاطمہ میرے نکاح میں تھیں تو مجھ کو (اس وجہ سے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے شرم و حیا محسوس ہوئی میں نے ایک شخص سے کہا کہ جو میرے نزدیک بیٹھا ہوا تھا کہ تم ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حکم شرع اس سلسلے میں دریافت کر لو چنانچہ اس شخص نے حکم شرع دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مذی میں وضو ہے یعنی جب مذی خارج ہونے لگے تو (اگرچہ) غسل اس کے نکلنے سے لازم نہیں ہوتا صرف وضو کرنا کافی ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، ہشام بن عروہ، حضرت علی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود سے عرض کیا کہ جس وقت کوئی آدمی اپنی بیوی کے پہلو میں بیٹھ جائے اور اس کی مذی خارج ہونے لگے لیکن وہ صحبت نہ کر سکے تو اس حکم شرح سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو کیونکہ مجھ کو تو یہ مسئلہ دریافت کرتے ہوئے شرم و حیا محسوس ہوتی ہے اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی فاطمہ میری منکوحہ ہیں چنانچہ حضرت مقداد بن اسود نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (مذی کی صورت میں ) اپنی شرم گاہ دھو لو (غسل کی ضرورت نہیں ) اور اسی طرح وضو کر لو جس طرح نماز کے لئے کرتے ہو۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، عمرو، عطاء، عائش بن انس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی تو میں نے حضرت عمار بن یاسر سے کہا کہ تم یہ مسئلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی فاطمہ میری منکوحہ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے واسطے اس صورت میں وضو کرنا کافی ہے۔
٭٭ عثمان بن عبد اللہ، یزید بن زریع، روح بن قاسم، ابن ابو نجیح، عطاء، ایاس بن خلیفہ، رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا حضرت عمار کو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مذی کے بارے میں مسئلہ دریافت کریں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس صورت میں اپنے عضو مخصوص کو دھو لو اور وضو کر لو۔
٭٭ عتبہ بن عبداللہ المروزی، مالک و ابن انس، ابو نصر، سلیمان بن یسار، مقداد بن اسود سے روایت ہے کہ حضرت علی نے ان کو حکم فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ مسئلہ دریافت کریں کہ جس وقت کوئی شخص اپنی اہلیہ کے نزدیک بیٹھ جائے اور اس کی مذی خارج ہو جائے تو ایسے شخص کے ذمہ کیا لازم ہے ؟ (غسل یا وضو)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا دراصل میرے نکاح میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی فاطمہ ہیں اس وجہ سے مجھ کو یہ مسئلہ دریافت کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ حضرت مقداد نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو اس طریقہ کی کوئی بات (مذی) ہو تو وہ شخص اپنی شرم گاہ کو دھو لے اور جس طریقہ سے نماز کے لئے وضو کرتے ہیں اسی طرح سے وضو کر لے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سلیمان، منذر، محمد بن علی، حضرت علی سے روایت ہے کہ مجھ کو شرم و حیا محسوس ہوئی کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مذی خارج ہونے کے بارے میں مسئلہ دریافت کروں۔ فاطمہ کی وجہ سے کیونکہ وہ میرے نکاح میں تھیں پس میں نے حضرت مقداد بن اسود کو حکم دیا کہ وہ یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے مسئلہ دریافت کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس میں وضو ہے۔
پاخانہ پیشاب نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
محمد بن عبدالا علی، خالد، شعبہ، عاصم، زر بن حبیش سے روایت ہے کہ میں ایک صاحب کے پاس گیا جن کو صفوان بن عسال کہا جاتا تھا تو میں ان کے مکان کے دروازے پر بیٹھ گیا جس وقت وہ مکان سے باہر آئے تو انہوں نے دریافت فرمایا کیا کام ہے ؟ میں نے کہا کہ میں علم کی خواہش رکھتا ہوں انہوں نے فرمایا کہ فرشتے طالب علم کے لئے اپنے پر خوشی کے ساتھ بچھاتے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں موزوں کے بارے میں مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہم لوگ سفر میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو موزوں کے نہ اتارنے کا حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ حالت سفر میں تین روز تک موزہ نہ اتاریں مگر حالت جنابت میں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب پاخانہ یا سو کر اٹھنے کی حالت میں موزہ اتارنے کا حکم نہ فرماتے بلکہ وضو کرنے کا حکم فرماتے اور وضو کرنے میں موزوں پر مسح کرنا درست تھا۔
پاخانہ نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جانے کا بیان
عمرو بن علی و اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، شعبہ، عاصم، زر، صفوان بن عسال سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ جس وقت ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سفر میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو موزہ نہ اتارنے کا حکم فرماتے مگر حالت جنابت سے لیکن پیشاب پاخانہ یا نیند سے بیدار ہونے کی صورت میں موزہ نہ اتارنے کا حکم فرماتے (بلکہ وضو کا حکم فرماتے )۔
٭٭ قتیبہ، سفیان، زہری، محمد بن منصور، سفیان، زہری، سعید یعنی ابن مسیب و عباد بن تمیم، عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شکایت پیش ہوئی کہ ایک شخص کو اس بات کا وہم ہوتا ہے (مطلب یہ ہے کہ ہوا خارج ہونے کا اس کو یقین نہیں ہے کہ اس کی ہوا خارج ہو گئی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص نماز چھوڑ کر نماز سے نہ نکلے جب تک کہ وہ خود بدبو نہ سونگھ لے ریح کے نکلنے کی یا ریح خارج ہونے کی آواز نہ سن لے۔
باب سونے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
اسماعیل بن مسعود و حمید بن مسعٍدۃ، یزید بن زریع، معمر، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں میں سے جس وقت کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر تین مرتبہ پانی نہ ڈالے کیونکہ اس کو علم نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری (یعنی رات میں کس جگہ ہاتھ پڑا)
اونگھ آنے کا بیان
بشر بن ہلال، عبدالوارث، ایوب، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی شخص نماز پڑھتے وقت اونگھنے لگ جائے تو اس کو چاہیے کہ نماز چھوڑ دے ، ایسا نہ ہو کہ (ایسی حالت میں وہ شخص) بد دعا کرنے لگے خود اپنے ہی واسطے اور وہ نہ سمجھے۔
شرم گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
ہارون بن عبد اللہ، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عروہ بن زبیر، مروان بن حکم، حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ میں ایک دن مروان بن حکم کے پاس گیا تو ہم نے ان باتوں کا بھی ان کے سامنے تذکرہ کیا کہ جن سے وضو لازم ہو جاتا ہے۔ عروہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے۔ مروان نے کہا کہ مجھے بسرہ بنت صفوان نے اطلاع دی انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تمہارے میں سے جس وقت کوئی شخص اپنی شرم گاہ چھوئے تو وہ وضو کر لے (یعنی پہلا وضو ختم ہو جائے گا)
٭٭ احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان بن سعید، شعیب، زہری، عبداللہ بن ابو بکر بن عمرو بن حزم، عروہ بن زبیر، حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ جس وقت مروان بن حکم مدینہ منورہ کے حاکم تھے انہوں نے نقل کیا کہ شرم گاہ کے چھونے سے وضو کرنا لازم ہو جاتا ہے جب کہ کوئی شخص اس کو اپنے ہاتھ سے چھوئے۔ میں نے اس بات سے انکار کر دیا اور کہا کہ جو شخص شرم گاہ چھوئے تو اس پر وضو کرنا لازم نہیں آتا مروان نے کہا کہ مجھ سے بسرہ بن صفوان نے نقل فرمایا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان فرمایا ان چیزوں کے بارے میں کہ جن سے وضو کرنا ضروری ہے تو فرمایا کہ شرم گاہ چھونے سے وضو کرے۔ عروہ سے کہا کہ میں برابر جھگڑا کرتا رہا مروان سے حتی کہ مروان نے اپنے سپاہیوں میں سے ایک سپاہی کو طلب کیا اور اس کو بسرہ کے پاس روانہ کیا اس شخص نے بسرہ سے دریافت کیا جو کہ اس نے مروان سے نقل کیا تھا تو بسرہ نے اس سے وہ بات کہلائی کہ جو مروان نے نقل کی تھی۔
شرم گاہ چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے سے متعلق
ہناد، ملازم، عبداللہ بن بدر، قیس بن طلق بن علی سے روایت ہے کہ ہم لوگ اپنی قوم کی طرف نکلے۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی اور نماز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھی جس وقت نماز سے فراغت ہوئی تو ایک جنگلی شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں اس کے بارے میں جو کہ اپنی شرمگاہ کو بحالت نماز چھو لے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شرم گاہ کیا چیز ہے وہ بھی تو جسم کے ایک گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔
اس کا بیان کہ اگر مرد شہوت کے بغیر عورت کو چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹتا
محمد بن عبداللہ بن حکم، شعیب، لیث، ابن ہاد، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرماتے رہتے تھے اور میں جنازہ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی، عبید اللہ، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ تم نے نہیں دیکھا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لیٹی رہتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرماتے رہتے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا پاؤں (آہستہ سے ) دبا دیتے تھے۔ میں اپنا پاؤں سمیت لیتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ فرماتے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ابو نصر، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سوتی رہتی اور میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قبلہ کی جانب ہوتے تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاؤں دبا دیتے میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو جاتے تو میں پاؤں پھیلا لیتی ان دنوں مکان میں چراغ نہیں تھا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک و نصیر بن فرج، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، محمد بن یحیی بن حبلان، اعرج، ابو ہریرہ، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موجود نہیں پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے ہاتھ سے تلاش کرنے لگ گئی۔ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں پر پڑ گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا پاؤں مبارک کھڑے کئے ہوئے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیرے غصہ سے اور تیری عافیت کی تیرے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے میں تیری حمد و ثنا نہیں بیان کر سکتا تو ایسا ہی ہے کہ جیسے تو نے اپنی حمد و ثنا بیان کی۔
بوسہ لینے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان
محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، سفیان، ابو روق، ابراہیم تیمی، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کا بوسہ لیتے پھر نماز ادا کرتے (لیکن) دوبارہ وضو نہ فرماتے۔ (صاحب کتاب) امام نسائی فرماتے ہیں مذکورہ حدیث اس باب کی سب سے عمدہ حدیث ہے اور اس حدیث مبارکہ کے مرسل ہونے کی علت یہ ہے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ صدیقہ سے نہیں سنا اور اعمش نے یہ حدیث حضرت حبیب بن ثابت سے اور وہ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت فرماتے ہیں لیکن یحیی بن سعید قطان فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اور عروہ کی عائشہ صدیقہ سے منقول حدیث کہ استحاضہ والی عورت کے خون کے قطرے چٹائی وغیرہ پر گریں قابل اعتبار نہیں ہیں۔
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل و عبدالرزاق، معمر، زہری، عمر بن عبدالعزیز، ابراہیم بن عبداللہ بن قارظ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے تم لوگ ان چیزوں پر وضو کرو جو کہ آگ سے لگائی گئی ہوں (یعنی جو آگ سے پکائی گئی ہوں ان کو کھانے کے بعد وضو کرو)۔
٭٭ ہشام بن عبدالملک، محمد یعنی ابن حرب، زبیدی، زہری، عمر بن عبدالعزیز، عبداللہ بن قارظ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ وضو کرو اس چیز کو کھا کر جو آگ سے پکائی گئی ہو۔
٭٭ ربیع بن سلیمان، اسحاق بن بکرو ابن مضر، جعفر بن ربیعۃ، بکر بن سواٍدۃ، محمد بن مسلم، عمر بن عبدالعزیز، عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا کہ وہ مسجد کے اوپر وضو کر رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے پنیر کے کچھ ٹکڑے کھائے تھے اس وجہ سے وضو کر لیا تھا کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرماتے وضو کرنے کا ان اشیاء کے کھانے سے جو کہ آگ میں پکی ہوں۔
٭٭ ابراہیم بن یعقوب، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین المعلم، یحیی بن ابو کثیر، عبدالرحمن بن عمرو، مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں وضو کروں اس غذا کو کھا کر جس کو کہ میں قران کریم میں حلال پاتا ہوں اس لئے کہ وہ غذا آگ سے پکی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نے یہ بات سن کر کنکریاں جمع فرمائیں اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں ان کنکریوں کے شمار کرنے سے کہ رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ وضو کرو ان چیزوں سے جو کہ آگ سے پکی ہوں۔
٭٭ محمد بن بشار، ابن ابو رعدی، شعبہ، عمرو بن دینار، یحیی ابن جعٍدۃ، عبداللہ بن عمرو، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ وضو کرو ان اشیاء کو کھا کر جو آگ سے پکی ہوں۔
٭٭ عمرو بن علی و محمد بن بشار، ابن ابو عدی، شعبہ، عمرو بن دینار، یحیی بن جعٍدۃ، عبداللہ بن عمرو، ابو ایوب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ وضو کرو ان چیزوں کو کھا کر جن کو آگ نے تبدیل کر دیا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ آگ سے جو چیز پکی ہو اس کو کھا کر وضو کرو۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید و ہارون بن عبد اللہ، حرمی و ابن عمارۃ بن ابو حفصہ، شعبہ، عمرو بن دینار، یحیی بن جعٍدۃ، عبداللہ بن عمرو القاری، ابو طلحہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ ان چیزوں کو کھا کر وضو کرو جن کو آگ نے بدل دیا ہو۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، حرمی بن عمارۃ، شعبہ، عن ابو بکر بن حفص، ابن شہاب، ابن ابو طلحۃ، ابو طلحہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو کرو ان اشیاء کو کھا کر جن کو آگ نے پکایا ہو (یعنی آگ سے تیار کی گئی ہوں )۔
٭٭ ہشام بن عبدالملک، محمد، زبیدی، زہری، عبدالملک بن ابو بکر، خارجۃ بن زید بن ثابت، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ وضو کرو ان چیزوں کو کھا کر جن کو آگ نے چھوا ہو یعنی آگ سے تیار کی گئی ہوں۔
٭٭ ہشام بن عبدالملک، ابن حرب، زبیدی، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو سفیان بن سعید بن اخنس بن شریق سے مروی ہے کہ وہ حضرت ام حبیبہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ اور ابو سفیان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے حضرت ابو سفیان کو ستو پلایا پھر ان سے کہا کہ میرے بھانجے وضو کرو اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ وضو کرو ان چیزوں کو کھا کر جن کو آگ نے چھوا ہوا ہو۔
٭٭ ربیع بن سلیمان بن داؤد، اسحاق بن بکر بن مضر، بکر بن مضر، جعفر بن ربیعۃ، بکر بن سواٍدۃ، محمد بن مسلم بن شہاب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو سفیان بن سعید بن اخنس سے روایت ہے کہ انہوں نے ستو پیا تو حضرت ام حبیبہ نے ان سے فرمایا اے میرے بھانجے وضو کرو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے وضو کرو ان چیزوں سے کہ جن کو آگ نے چھوا ہو
آگ سے پکی ہوئی اشیاء کھا کر وضو نہ کرنے سے متعلق
محمد بن مثنی، یحیی، جعفر بن محمد، علی بن حسین، زینب بنت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دست کا گوشت تناول فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے اور پانی کو چھوا تک نہیں (یعنی وضو وغیرہ نہیں کیا)
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، محمد بن یوسف، سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح سے احتلام کی وجہ سے نہیں بلکہ (اہلیہ سے ہمبستری کر کے ) حالت جنابت میں اٹھتے تھے لیکن پھر بھی روزہ رکھ لیتے اور انہوں نے ایک دوسری مزید حدیث بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی پسلی رکھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے تناول فرمایا پھر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور وضو نہیں فرمایا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، محمد بن یوسف، ابن یسار، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روٹی اور گوشت تناول فرمایا (اور یہ کھانے کے بعد) وضو نہیں فرمایا۔
٭٭ عمرو بن منصور، علی بن عیاش، شعیب، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ دونوں باتوں میں یعنی آگ سے پکی ہوئی چیز کھا کر دوبارہ وضو کر لینا یا وضو نہ کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دونوں باتوں میں سے ایک آخری بات آگ سے پکی ہوئی شئی کھا کر وضو ترک کرنا ہے۔
ستو کھانے کے بعد کلی کرنا
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، بشیر بن یسار، سوید بن نعمان سے روایت ہے کہ جس سال غزوہ خیبر پیش آیا اس سال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلے۔ جس وقت ہم مقام صہباء میں پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پر اترے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی نماز ادا فرمائی اور سفر کے لئے صحابہ سے توشہ منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ستو آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ اس ستو کو گھول لو۔ چنانچہ وہ ستو پانی میں گھول لیا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ ستو کھایا اور ہم لوگوں نے بھی کھایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز مغرب ادا کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کلی کی تو ہم نے بھی کلی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا کی اور وضو نہیں کیا۔
دودھ پی کر کلی کرنے کا بیان
قتیبہ، لیث، عقیل، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دودھ نوش فرمایا پھر پانی منگوا کر کلی فرمائی اور ارشاد فرمایا اس میں چکنائی ہوتی ہے۔
کونسی باتوں سے غسل کرنا لازم ہے اور کن سے نہیں ؟
عمرو بن علی، یحیی، سفیان، اغر و ابن صباح، خلیفۃ بن حصین، قیس بن عاصم سے روایت ہے کہ جس وقت مشرف بہ اسلام ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو غسل کرنے کا حکم فرمایا پانی اور بیری کے پتے سے۔
جس وقت کافر مسلمان ہونے کا ارادہ کرے تو وہ غسل کرے
قتیبہ، لیث، سعید بن ابو سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ثمامہ بن اثال حنفی مسجد نبوی کے نزدیک ایک کھجور کے درخت کے نیچے تشریف لے گئے اور انہوں نے غسل فرمایا پھر وہ مسجد میں واپس آئے اور فرمایا کے میں اس کی شہادت دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کی قسم روئے زمین پر تمہارے چہرہ سے زیادہ مجھ کو کوئی چہرہ ناپسند نہیں تھا اب مجھ کو تمہارا چہرہ تمام چہروں سے زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے اور تمہارے سواروں سے مجھ کو پکڑ لیا جب کہ میں تو عمرہ کرنے کا ارادہ کرتا تھا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کیا رائے ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو خوشخبری دی اور عمرہ کرنے کا حکم فرمایا (یہ حدیث یہاں پر مختصرا نقل کی گئی ہے )۔ کافر مشرک کو زمین میں دبانے سے غسل لازم ہے
٭٭ محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، ابو اسحاق، ناجیہ بن کعب، حضرت علی سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابو طالب گزر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور ان کو زمین میں دبا دو۔ میں نے کہا وہ تو کافر و مشرک ہونے کی حالت میں مرے ہیں پس ان کو دبا دینا کیا ضروری ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ ان کو زمین میں دبا دو۔ میں جس وقت ان کو زمین میں دبا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غسل کرو۔
ختانوں کے مل جانے (دخول صحیحہ) پر غسل کا واجب ہونا
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، قتادہ، ابو رافع، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی مرد عورت کے چوخانے (یعنی عورت کی دونوں طرف کی پنڈلیوں اور اس کی دونوں طرف کی ران پر بیٹھ جائے ) پھر طاقت لگائے یعنی اپنے عضو مخصوص کو عورت کے عضو مخصوص میں داخل کرے تو غسل کرنا لازم ہو گیا۔
٭٭ ابراہیم بن یعقوب بن اسحاق، عبداللہ بن یوسف، عیسیٰ بن یونس، اشعث بن عبدالملک، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت مرد عورت کے چار خانوں پر بیٹھ جائے (مطلب یہ ہے کہ دونوں ہاتھ اور پاؤں کے درمیان یا دونوں پاؤں اور رانوں کے درمیان یا شرم گاہ کے چاروں کونے پر) پھر اپنے عضو مخصوص کو آگے کی طرف کر کے طاقت لگائے تو چاہے انزال نہ ہو جب بھی غسل واجب ہو گیا۔
جس وقت منیٰ نکل جائے تو غسل کرنا ضروری ہے
قتیبہ بن سعید و علی بن حجر، عبیٍدۃ بن حمید، رکین بن ربیع، حصین بن قبیصۃ، علی سے روایت ہے کہ ان کو بہت زیادہ مذی آیا کرتی تھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا جب تم مذی دیکھو تو عضو مخصوص دھو ڈالو اور جس طریقہ سے نماز کے لئے وضو کرتے ہیں اسی طریقہ سے وضو کر لو اور جس وقت تم (ناپاک) پانی کودتا ہوا نکالو (یعنی منیٰ نکل آئے ) تو غسل کرو۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، عبدالرحمن، زائٍدۃ و اسحاق بن ابراہیم، ابو ولید، زائٍدۃ، رکین بن ربیع بن عمیلۃ انفزاری، حصین بن قبیصۃ، علی سے روایت ہے کہ مجھے بہت زیادہ مذی آیا کرتی تھی تو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (کسی صحابی کے ذریعے سے ) دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم مذی دیکھو تو وضو کر لو اور جس وقت تم اچھلتا ہوا پانی (مطلب یہ ہے کہ منی) دیکھو تو غسل کرو۔
عورت کے لئے احتلام کے حکم کا بیان
اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ اگر کوئی عورت سونے کی حالت میں وہ چیز دیکھے جو کہ مرد دیکھتا ہے یعنی منیٰ (احتلام) دیکھے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی اس سے نکل آئے تو وہ عورت غسل کر لے۔
٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا اور اس وقت عائشہ صدیقہ تشریف فرما تھیں کہ یا رسول اللہ رب قدوس کو حق بات کہنے سے حیاء نہیں محسوس ہوتی۔ جس وقت کوئی خاتون خواب میں وہ بات دیکھے جو کہ مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے ؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں وہ غسل کرے۔ عائشہ صدیقہ نے فرمایا تم پر افسوس ہے کیا واقعی کوئی خاتون اس طریقہ سے دیکھتی ہے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ پھر انسان کی شکل و صورت کس طریقہ سے مل جاتی ہے۔
٭٭ شعیب بن یونس، یحیی، ہشام، زینب بنت ام سلمہ، ام سلمہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رب قدوس حق بات کہنے سے شرم و حیاء نہیں محسوس فرماتا۔ کیا عورت کو جب احتلام ہو جائے تو اس کو غسل کرنا لازم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت عورت (ناپاک) پانی (شرم گاہ پر) دیکھے۔ یہ بات سن کر ام سلمہ کو ہنسی آ گئی اور فرمانے لگیں کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا () اگر انزال نہیں ہوتا تو شکل و صورت کس طرح سے (والدین کے ) مشابہ ہو جاتی ہے۔
٭٭ یوسف بن سعید، حجاج، شعبہ، عطاء الخراسانی، سعید بن مسیب، خولۃ بنت حکیم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ عورت کو اگر نیند کی حالت میں احتلام ہو جائے تو وہ کیا کرے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت وہ (ناپاک) پانی یعنی منیٰ دیکھے تو وہ غسل کرے۔
اگر کسی کو احتلام تو ہو لیکن (جسم یا کپڑے پر) تری نہ دیکھے ؟
عبدالجبار بن العلاء، سفیان، عمرو، عبدالرحمن بن سائب، عبدالرحمن ابن سعاد، ابو ایوب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانی پانی سے واجب ہو گا۔
مرد اور عورت کی منیٰ سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مرد کی منیٰ (تندرستی میں ) گاڑھی اور سفید ہوتی ہے اور عورت کی منیٰ زرد اور پتلی ہوتی ہے۔ جو کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جائے تو بچہ اسی شکل کا پیدا ہوتا ہے۔
حیض کے بعد غسل کرنا
عمران بن یزید، اسماعیل بن عبداللہ العدوی، الاوزاعی، یحیی بن سعید، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت فاطمہ بنت قیس (جو کہ قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتی تھیں ) وہ ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھ کو استحاضہ ہے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ ایک رگ ہے تو جس وقت حیض آئے تو عورت نماز ترک کر دے اور جس وقت حیض کے دن گزر جائیں تو خون دھو ڈالو یا اس کے بعد نماز ادا کرو۔
٭٭ ہشام بن عمار، سہل بن ہاشم، الاوزاعی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت حیض آئے تم نماز ترک کر دو اور جس وقت حیض کے دن ختم ہو جائیں تو غسل کرو۔
٭٭ عمران بن یزید، اسماعیل بن عبد اللہ، الاوزاعی، زہری، عروہ، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش کو سات سال تک (مرض) استحاضہ رہا۔ انہوں نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اپنی شکایت پیش کی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ حیض نہیں ہے بلکہ ایک رگ کا خون ہے (جس کی وجہ سے کبھی کبھی خون آ جاتا ہے ) لہذا تم غسل کر لو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ ربیع بن سلیمان بن داؤد، عبداللہ بن یوسف، ہیثم بن حمید، نعمان، اوزاعی و ابو معید، حفص بن غیلان، زہری، عروہ بن زبیر و عمرۃ بنت عبدالرحمن، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش کو جو کہ عبد الرحمان بن عوف کی اہلیہ محترمہ تھیں اور زینب بنت جحش کی بہن تھیں کو استحاضہ ہو گیا۔ لہذا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ حیض نہیں ہے بلکہ ایک رگ ہے۔ جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر لو اور نماز ادا کرو۔ جس وقت پھر حیض کے دن آ جائیں تو نماز ترک کر دو۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا کہ پھر حضرت ام حبیبہ بنت جحش غسل فرماتی تھیں ہر ایک نماز کے واسطے۔ اس کے بعد وہ نماز ادا فرماتی تھیں اور کبھی صرف غسل فرماتی تھیں۔ ایک ٹب میں اپنی بہن زینب کی کوٹھڑی میں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھی۔ تو خون کی سرخی پانی کے اوپر آ جاتی پھر وہ نکل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا فرماتی اور یہ خون ان کو نماز سے نہ روکتا تھا۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، عروہ و عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سالی اور حضرت عبد الرحمان عوف کی اہلیہ محترمہ تھیں ان کو سات سال تک استحاضہ ( کا خون) جاری رہا۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حکم شرع دریافت کیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ (خون) حیض ( کا) نہیں ہے بلکہ ایک رگ سے (آ رہا ہے ) تم نماز ادا کرتی رہو۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا مجھے (مرض) استحاضہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ ہے۔ تم غسل کر لو اور نماز ادا کرتی رہو۔ پھر وہ غسل کیا کرتی تھیں ہر ایک نماز کے واسطے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، جعفر بن ربیعۃ، عراک بن مالک، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خون (استحاضہ) کے بارے میں حکم شرع دریافت کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا میں نے ان کے پاس غسل کرنے کا ٹب دیکھا جو کے خون سے پر تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم رک جاؤ (یعنی ابھی روزہ نماز ادا نہ کرو) حساب کے اعتبار سے اسی قدر دن ٹھہر جاؤ کہ جس قدر دن تم کو حیض آتا تھا اس مرض سے قبل۔ پھر تم غسل کر لو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ ام سلمہ یہ حدیث سابقہ مضمون کے مطابق ہے۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، نافع، سلیمان بن یسار، ام سلمہ، دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک خاتون کے خون جاری رہتا تھا تو حکم شرع دریافت کیا گیا۔ اس کے لئے ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان دنوں اور راتوں کو شمار کر لو کہ جن میں حیض جاری رہتا تھا۔ اس مرض سے قبل نماز ترک کر دو اتنے دنوں تک ہر ماہ میں۔ پھر جس وقت اس قدر دن گزر جائیں تو تم غسل کر لو اور لنگوٹ باندھ لو (ایک کپڑا یا روئی کا پھایہ یا پینٹی) شرم گاہ پر رکھ لو پھر نماز ادا کرو۔
لفظ اقراء کی شرعی تعریف و حکم
ربیع بن سلیمان بن داؤد بن ابراہیم، اسحاق بن بکر، وہ اپنے والد سے ، یزید بن عبد اللہ، ابو بکر بن محمد، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش حضرت عبدالرحمن بن عوف کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ ان کو استحاضہ (کا مرض) لاحق ہو گیا اور وہ کسی وقت بھی پاک نہیں ہوتی تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ حیض نہیں ہے بلکہ ایک چوٹ ہے رحم کی تم اپنے دن کی تعداد پر غور کر لو۔ جس قدر دن کو اس کو حیض آتا تھا۔ پھر نماز چھوڑ دے ان دنوں میں۔ اس کے بعد ہر ایک نماز کے لئے غسل کرو۔
٭٭ محمد بن مثنی، سفیان، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش کو استحاضہ سات سال تک جاری رہا۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ حیض نہیں ہے بلکہ ایک رگ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نماز ترک کر دینے کا فرمایا۔ (ماہواری آنے کے دنوں تک) پھر غسل کر کے نماز ادا کرنے کا۔ چنانچہ وہ ہر ایک نماز کے لئے غسل فرمایا کرتی تھیں۔
٭٭ عیسی بن حماد، لیث، یزید بن ابو حبیب، بکیر بن عبد اللہ، المنذر بن مغیرۃ، عروہ، حضرت فاطمہ بنت جحش حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور خون آنے کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ ہے۔ دیکھتی رہو جب تمہارا قرء یعنی (حیض) جاری ہو تو نماز ادا نہ کرو۔ پھر جب تمہارا قرء چلا جائے (یعنی حیض بند ہو جائے ) تو تم دوسرے حیض تک نماز ادا کرو۔ پھر جس وقت دوسرا حیض آئے تو تم نماز پڑھنا ترک کر دو۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ و وکیع و ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت جحش خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ مجھ کو (مرض) استحاضہ رہتا ہے جس سے میں پاک ہی نہیں رہتی۔ کیا میں نماز ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں یہ رگ ہے حیض نہیں ہے۔ جس وقت حیض کے دن آئیں تو تم نماز ترک کر دو۔ پھر جس وقت حیض کے دن گزر جائیں تو خون دھو ڈالو اور نماز ادا کرو۔
مستحاضہ کے غسل کے متعلق
محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ مستحاضہ عورت کو دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں یہ کہا گیا کہ یہ ایک رگ ہے جو کے بند نہیں ہوتی اور حکم فرمایا گیا اس کو نماز ظہر میں تاخیر اور نماز عصر میں جلدی کرنے کا اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کرنے کا۔ اس طریقہ سے نماز مغرب میں تاخیر کرنے اور نماز عشاء میں جلدی کا اور دونوں وقت کی نمازوں کے لئے ایک غسل کا۔ پھر فجر کے لئے ایک غسل کرنے کا۔
نفاس کے بعد غسل کرنے سے متعلق
محمد بن قدامہ، جریر، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس کی حالت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا گیا کہ جب ان کو نفاس کا خون جاری ہوا مقام ذوالحلیفہ میں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر صدیق سے فرمایا کہ تم ان کو غسل کرنے کا حکم کرو اور احرام باندھنے کا حکم کرو۔
استحاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق سے متعلق
محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، محمد، عبداللہ ابن عمرو بن علقمہ بن وقاص، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت فاطمہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ لاحق ہو گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ ارشاد فرمایا حیض کا کالے رنگ کا ہوتا ہے جو کہ شناخت کر لیا جاتا ہے جس وقت اس طریقہ سے خون آئے تو نماز ترک کر دو۔ پھر جس وقت دوسری قسم کا خون آئے تو تم وضو کرو۔ اس لیے کہ وہ ایک رگ ہے (یعنی ایک رگ سے بوجہ بیماری خون آتا ہے )
٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، محمد بن عمرو، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ لاحق ہو گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حیض کا کالے رنگ کا ہوتا ہے جو کہ شناخت کر لیا جاتا ہے جس وقت اس طرح سے خون آئے تو تم نماز ترک کر دو۔ پھر جس وقت دوسری قسم کا خون جاری ہو تو تم وضو کرو کیونکہ وہ ایک رگ ہے (اور اس رگ کے بہنے سے نماز روزے ترک کرنا چاہیے )۔
٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ابن زید، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ لاحق ہو گیا۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے استحاضہ ہو گیا ہے اور میں پاک ہی نہیں ہوتی کیا میں نماز ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے جس وقت حیض آیا کرے تو تم نماز چھوڑ دیا کرو پھر جس وقت حیض ختم ہو جائے تو خون کا نشان دھو ڈالو اور وضو کرو اس لئے کہ یہ ایک رگ ہے حیض نہیں ہے کسی نے عرض کیا کہ کیا ایسی صورت میں غسل کرے ؟ انہوں نے کہا کہ غسل میں کیا شبہ ہے کسی کو اس میں شک و شبہ نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کرنا تو ضروری ہے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پاک نہیں ہوتی ہوں تو کیا میں نماز ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ خون تو ایک رگ کاہے حیض نہیں ہے جس وقت حیض آئے یعنی وہ دن آئیں کہ جب اس مرض کے اندر مبتلا ہونے سے قبل حیض آیا کرتا تھا تو تم نماز چھوڑ دو۔ پھر جس وقت وہ زمانہ گزر جائے تو خون دھو کر نماز ادا کرو۔ (مطلب یہ ہے کہ غسل کرنے کے بعد نماز ادا کرو۔ جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں وضاحت سے مذکور ہے )۔
٭٭ ابو اشعث، خالد بن حارث، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو حبیش کی لڑکی حضرت فاطمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز پڑھنا ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ ہے اور حیض نہیں ہے۔ جس وقت حیض آئے تو نماز ترک کر دو پھر جب حیض بند ہو جائے تو تم خون کو دھو کر غسل کرو اور نماز ادا کرو۔
جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں گھس کر غسل کرنے کی ممانعت
سلیمان بن داؤد و حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، ابو سائب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے جس وقت کہ وہ شخص حالت جنابت میں ہو۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، سفیان، ابو زناد، موسیٰ بن ابو عثمان، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس سے غسل کرے۔
باب رات کے شروع حصہ میں غسل کرنا
عمرو بن ہشام، مخلد، سفیان، ابو العلاء، عباٍدۃ بن نسی، غضیب بن حارث سے روایت ہے کہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے کس حصہ میں غسل فرماتے تھے ؟ عائشہ صدیقہ نے فرمایا کبھی شروع حصہ میں اور کبھی آخری حصہ میں غسل فرماتے تھے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اس پاک رب العالمین کا شکر و احسان ہے کہ جس نے (سہولت اور) گنجائش رکھی۔
رات کے ابتدائی یا آخری حصہ میں غسل کیا جا سکتا ہے ؟
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، برد، عباٍدۃ بن نسی، غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دریافت کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے آغاز میں غسل فرمایا کرتے تھے یا رات کے آخر میں ؟ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عمل اور معمول دونوں طریقہ سے تھا کبھی رات کے شروع حصہ میں اور کبھی آخر رات میں۔ میں نے سن کر رب قدوس کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اس پروردگار کا شکر ہے جس نے وسعت و گنجائش رکھی۔
غسل کے وقت پردہ یا آڑ کرنے سے متعلق
مجاہد بن موسی، عبدالرحمن بن مہدی، یحیی بن ولید، مجل بن خلیفہ، ابو سمع سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت کیا کرتا تھا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل کرنے کا ارادہ فرماتے تو مجھ سے فرماتے پشت پھیر کر کھڑے ہو جاؤ۔ میں پشت پھیر کر کھڑا ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اپنی آڑ) میں چھپا لیتا۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، مالک، ابو مرۃ، عقیل بن ابو طالب، ام ہانی سے روایت ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ غسل فرما رہے تھے اور حضرت فاطمہ ایک کپڑے کی آڑ کئے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کون ہے ؟ میں نے کہا کہ ام ہانی ہوں۔ پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر آٹھ رکعات ادا فرمائیں ایک کپڑے میں جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لپیٹے ہوئے تھے۔
پانی کی کس قدر مقدار سے غسل کیا جا سکتا ہے ؟
محمد بن عبید، یحیی بن زکریا، بن ابو زائٍدۃ، موسیٰ جہنی سے روایت ہے حضرت مجاہد ایک پیالہ لے کر حاضر ہوئے۔ میں نے اس کا اندازہ کیا تو اس میں آٹھ رطل پانی تھا۔ یعنی ایک صاع اس کا وزن تھا جو کہ تقریباً چار سیر کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی۔ انہوں نے عائشہ صدیقہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قدر مقدار پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، شعبہ، ابو بکر بن حفص، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت عائشہ صدیقہ کا بھائی (دودھ شریک بھائی) دونوں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے غسل فرمایا کرتے تھے ؟ انہوں نے ایک برتن طلب فرمایا کہ جس میں ایک صاع پانی تھا۔ پھر پردہ ڈال کر غسل فرمایا تو سر کے اوپر تین مرتبہ پانی ڈالا۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ٹب سے غسل فرماتے تھے کہ جس میں ایک فرق پانی آتا تھا نیز میں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مل کر ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، عبداللہ بن جبر، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو فرماتے تھے ایک مکوک سے اور پانچ مکوک سے غسل کیا کرتے تھے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، ابو الاحوص، ابو اسحاق، ابو جعفر سے روایت ہے کہ ہم نے غسل کے مسئلہ میں آپس میں بحث و مباحثہ کیا اور ہم جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جابر نے فرمایا غسل جنابت کے لئے ایک صاع پانی کافی ہے۔ ہم نے کہا کہ ایک صاع تو کیا دو صاع بھی کافی نہیں ہو سکتا۔ جابر نے کہا کہ اس شخص (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو کافی تھا جو کہ تم سے بہتر تھا اور تم سب سے زیادہ بال رکھتا تھا۔
غسل کے واسطے پانی کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں
سوید بن نصر، عبد اللہ، معمر، زہری، اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمرو ابن جریج، زہری، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے کہ جس (برتن) میں ایک فرق پانی آتا تھا۔
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کر سکتا ہے
سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام بن عروہ، قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور میں (مشترکہ طور پر) ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔ (یعنی دونوں ایک ہی برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی کا چلو (پیالہ لیتے اور غسل کرتے )
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ صدیقہ، فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل جنابت کیا کرتے تھے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، عبیدہ بن حمید، منصور، ابراہیم بن اسود، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے برتن میں جھگڑا کرتی تھی کیونکہ ہم دونوں غسل جنابت ایک ہی برتن سے کیا کرتے تھے۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔
٭٭ یحیی بن موسی، سفیان، عمرو، جابر بن زید، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ مجھ سے میری خالہ حضرت میمونہ نے بیان کیا کہ وہ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سعید بن یزید، عبدالرحمن بن ہرمز، ناعم جو کہ حضرت ام سلمہ کے غلام تھے ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ کیا خاتون مرد (شوہر) کے ساتھ غسل کر سکتی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں اگر عقل رکھتی ہو دیکھو میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ایک ہی ٹب سے غسل کرتے تھے۔ پہلے ہم دونوں اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالتے۔ یہاں تک کہ ان کو صاف کرتے پھر ان پر پانی ڈالتے پھر ہاتھ پانی میں ڈال کر (پانی نکالتے )۔ حضرت ام سلمہ نے شرم گاہ کے لفظ کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ اس کی کوئی پرواہ کی۔
جنبی شخص کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کی ممانعت
قتیبہ، ابو عوانہ، داؤد، حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص سے ملاقات کی (جو کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت میں چار سال تک رہا تھا جس طرح ابو ہریرہ رہے تھے ) اس شخص نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا (ایک روز وقفہ کر لینا بہتر ہے ) اور جس جگہ غسل کیا جائے وہاں پر پیشاب کرنے سے منع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کی بھی ممانعت فرمائی کہ عورت کے غسل سے باقی بچے ہوئے پانی سے کوئی شخص غسل کرے اور نہ عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے بلکہ دونوں ساتھ ساتھ پانی لیتے جائیں۔
ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کی اجازت
محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عاصم و سوید بن نصر، عبد اللہ، عاصم، معاذٰۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاہتے کہ غسل سے جلدی سے فراغت حاصل فرما لیں اور میری کوشش ہوتی کہ میں جلدی سے غسل سے فارغ ہو جاؤں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اے عائشہ صدیقہ تم میرے واسطے پانی چھوڑ دو اور میں کہتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے غسل کے واسطے پانی چھوڑ دیں۔ حضرت سوید سے منقول روایت میں اس طریقہ سے مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے زیادہ جلدی فرماتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ جلدی کرتی تھی۔ تو میں کہنے لگتی تھی کہ میرے واسطے پانی چھوڑ دیں۔
ایک پیالہ سے غسل کرے کا بیان
محمد بن بشار، عبدالرحمن، ابراہیم بن نافع، ابن ابو نجیح، مجاہد، ام ہانی سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ نے ایک پیالے سے غسل کیا جس میں آٹے کا نشان تھا۔ (اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پاک شئے پانی میں مل جانے سے کچھ نقصان نہیں ہوتا)۔
جس وقت کوئی خاتون غسل جنابت کرے تو اس کو اپنے سر کی چوٹی کھولنا لازم نہیں
سلیمان بن منصور، سفیان، ایوب بن موسی، سعید بن ابو سعید، عبداللہ بن رافع، ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اپنے سر کی چوٹی کی منڈھیاں (گرہیں ) مضبوطی سے باندھتی ہوں۔ کیا غسل جنابت کے وقت ان کو کھول دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تجھ کو کافی ہے سر پر تین چلو پانی ڈالنا (تاکہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے ) اور پھر پورے بدن پر پانی بہا لیا کرو۔
اگر حائضہ عورت احرام باندھنے کا ارادہ کرے اور اس کے لئے وہ غسل کرے
یونس بن عبدالاعلی، شہیب، مالک، ابن شہاب وہشام بن عروہ، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حجتہ الوداع میں نکلے۔ میں نے عمرہ کا احرام باندھا۔ جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو میں حالت حیض میں تھی۔ پس میں نے نہ تو خانہ کعبہ کا طواف کیا اور نہ میں نے کوہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔ (مطلب یہ ہے کہ میں حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہ کر سکی) جب میں نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زمانہ حج آ گیا ہے اور میں اب تک عمرہ نہ کر سکی بوجہ حیض کے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں حج سے محروم رہوں گی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنا سر کھول ڈالو اور اب کنگھی کر لو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ کا ارادہ ترک کر دو۔ چنانچہ میں نے حسب ہدایت اسی طریقہ سے کیا جس وقت میں حج ادا کر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (عائشہ صدیقہ کے بھائی) کے ہمراہ مقام تنعیم کو بھیجا۔ میں نے عمرہ کا احرام باندھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے عمرہ کی جگہ ہے۔
جنبی شخص برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ کو پاک کرے
احمد بن سلیمان، حسین، زائٍدۃ، عطاء بن سائب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت جنابت کا غسل فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے برتن میں پانی رکھا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالتے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل۔ جس وقت دونوں ہاتھوں کو دھو کر فارغ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں ہاتھ کو برتن میں ڈالتے اور پانی لے کر بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو دھوتے۔ جس وقت اس سے فراغت ہو جاتی تو دائیں ہاتھ سے پانی بائیں ہاتھ پر ڈالتے اور دونوں ہاتھ دھوتے پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی تین مرتبہ ڈالتے پھر سر پر پانی ڈالتے تین مرتبہ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہتھیلیاں بھر کر تین مرتبہ جسم پر پانی ڈالتے پھر تمام جسم مبارک پر پانی ڈالتے۔
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ کو کتنی بار دھونا چاہیے ؟
احمد بن سلیمان، یزید، شعبہ، عطاء بن سائب، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے عرض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل جنابت کس طریقہ سے کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھوں پر پہلے تین مرتبہ پانی ڈالتے پھر عضو مخصوص (اور شرم گاہ) دھوتے پھر ہاتھوں کو دھوتے۔ پھر کلی فرماتے اور ناک میں پانی ڈالتے اس کے بعد سر کے اوپر تین مرتبہ پانی ڈالتے پھر تمام جسم مبارک پر پانی بہاتے۔
دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد جسم کی ناپاکی کو زائل کرنے کا بیان
محمود بن غیلان، نضر، شعبۃ، عطاء بن سائب، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے غسل جنابت فرمایا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پانی کا ایک برتن آتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈال کر دونوں ران دھوتے (اور شرم گاہ و عضو مخصوص پر) جہاں جہاں ناپاکی محسوس ہوتی اس کو دھوتے پھر سر کے اوپر تین مرتبہ پانی ڈالتے پھر تمام جسم پر پانی بہاتے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عمر بن عبید، عطاء بن سائب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غسل جنابت کا تفصیلی حال بیان فرمایا تو کہا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھوتے پھر دائیں ہاتھ سے پانی ڈالتے بائیں ہاتھ پر اور شرم گاہ کو دھوتے اور اس پر جو لگا ہوتا (یعنی ناپاکی) اس کو دھوتے تھے۔ حضرت عمر بن عبید نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ پھر دائیں ہاتھ سے تین مرتبہ بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے۔ پھر کلی فرماتے تین مرتبہ اور ناک میں پانی ڈالتے۔ اس کے بعد تمام جسم مبارک پر پانی بہاتے۔
غسل کرنے سے قبل وضو کرنے کے متعلق
قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت جنابت کا غسل فرماتے تو پہلے دونوں ہاتھوں کو دھوتے۔ پھر وضو فرماتے جس طریقہ سے نماز کے واسطے کیا جاتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی میں انگلیوں کو ڈال کر اپنے بال کی جڑوں میں خلال فرماتے۔ پھر سر پر تین چلو پانی ڈالتے پھر تمام جسم مبارک پر پانی بہاتے۔
جنبی شخص کے سر کے بالوں میں خلال کرنے سے متعلق
عمرو بن علی، یحیی، ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غسل جنابت کے متعلق بیان فرمایا تو اس طریقہ سے بیان فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے تو ہاتھوں کو (اچھی طرح سے ) دھوتے اور وضو کرتے اور سر میں خلال کرتے تاکہ پانی بالوں میں اچھی طرح سے پہنچ جائے پھر تمام جسم پر پانی بہاتے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے سر مبارک کو پانی سے تر فرماتے۔ پھر تین بار سر کے اوپر تین چلو بھر کر پانی ڈالتے۔
جنبی کے واسطے کس قدر پانی غسل کے لئے بہانا کافی ہے ؟
قتیبہ، ابو حوص، ابو اسحاق، سلیمان بن صرف، جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ لوگوں نے غسل کے بارے میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بحث کی۔ کسی نے بیان کیا کہ میرا تو غسل اس طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر پانی کے تین چلو ڈالتا ہوں (باقی غسل کی تفصیل وہی ہے جو کہ حدیث سابق میں گزر چکی ہے )۔
(عورت) حیض سے فراغت کے بعد کس طریقہ سے غسل کرے ؟
عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، منصور، ابن صفیٰۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حیض سے فارغ ہونے والی خاتون کے طریقہ غسل کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس طریقہ سے غسل کرنا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ غسل سے فراغت کے بعد (کپڑے یا روئی وغیرہ کا) ایک ٹکڑا لے لے کہ جس میں مشک لگی ہوئی ہو اور اس سے پاکی حاصل کر۔ یہ سن کر اس خاتون نے کہا میں کس طریقہ سے اس سے پاکی حاصل کر سکتی ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا جواب سن کر چہرہ مبارک پر (شرم و حیاء کی وجہ سے ہاتھ کی) آڑ فرما لی اور ارشاد فرمایا تم اس سے پاکی حاصل کرو (یہ جملہ حیرت کے طور پر فرمایا) حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا میں نے اس خاتون کو پکڑ کر کھینچ لیا اور (آہستہ سے ) کہا۔ خون کی جگہ پر اس کو رکھ لو۔
غسل سے فراغت کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں
احمد بن عثمان بن حکیم، حسن، ابن صالح، ابو اسحاق و عمرو بن علی، عبدالرحمن، شریک، ابو اسحاق، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وضو نہیں فرمایا کرتے تھے۔
جس جگہ غسل جنابت کرے تو پاؤں جگہ بدل کر دوسری جگہ دھوئے
علی بن حجر، عیسی، اعمش، سالم، کریب، ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے جنابت کے غسل کیلئے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کو دو مرتبہ یا تین مرتبہ دھویا پھر دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی لیا اور اپنی شرم گاہ پر پانی بہایا۔ پھر شرم گاہ کو بائیں ہاتھ سے دھویا پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور ہاتھ کو زور سے رگڑا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے وضو فرمایا کہ جس طریقہ سے نماز پڑھنے کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر دونوں چلو بھر کر تین مرتبہ پانی سر پر ڈالا پھر تمام بدن کو دھویا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جگہ سے ہٹ گئے (یعنی جگہ بدل دی) اور دونوں پاؤں دھوئے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیلئے وضو کا پانی خشک کرنے کیلئے کپڑا لے کر حاضر ہوئی۔
غسل سے فارغ ہونے کے بعد اعضاء کو کپڑے سے نہ خشک کرنا
محمد بن یحیی بن ایوب بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس، اعمش، سالم، کریب، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس (وہ) خشک کرنے کے واسطے کپڑا لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ کپڑا قبول نہیں فرمایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھ کو جھٹکنے لگے۔
جنبی شخص کھانا کھانے کا ارادہ کرے اور غسل نہ کر سکے تو وضو کر لینا چاہئے
حمید بن مسعٍدۃ، سفیان بن حبیب، شعبہ، عمرو بن علی، یحیی و عبدالرحمن، شعبۃ، حکم، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنابت کی حالت میں جس وقت کھانا کھانے یا سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو فرماتے جس طریقہ سے نماز کے واسطے وضو کرتے۔
اگر جنبی شخص کھانا کھانا چاہے اور صرف اس وقت ہاتھ ہی دھو لے تو کافی ہے اس کا بیان
محمد بن عبید بن محمد، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو فرماتے اور اگر کھانا کھانے کا ارادہ کرتے تو دونوں ہاتھ دھوتے۔
جنبی شخص جس وقت کھانے پینے کا ارادہ کرے تو ہاتھ دھونا کافی ہے
سوید بن نصر، عبد اللہ، یونس، زہری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو فرماتے اور اگر کھانے پینے کا ارادہ فرماتے تو دونوں ہاتھ دھوتے پھر کھانا تناول فرماتے۔
جنبی اگر سونے لگے تو وضو کرے
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سونے کا ارادہ فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت جنبی ہوتے تو وضو فرماتے جس طریقہ سے سونے سے قبل نماز پڑھنے کے واسطے وضو فرماتے۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، عبداللہ بن عمر، نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم لوگوں میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں جس وقت وہ وضو کر لے۔
جس وقت جنبی شخص سونے کا قصد کرے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرے اور عضو مخصوص دھو لے
قتیبہ، مالک، عبداللہ بن دینار، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ عمر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیان کیا کہ مجھ کو رات کے وقت جنابت ہو جاتی ہے اور اس وقت غسل کرنے کا موقعہ نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم وضو کر لو اور شرم گاہ دھو ڈالو اس کے بعد سو سکتے ہو۔
جس وقت جنبی شخص وضو نہ کرے تو کیا حکم ہے ؟
اسحاق بن ابراہیم، ہشام بن عبدالملک، شعبۃو عبید اللہ بن سعید، یحیی، شعبہ، علی بن مدرک، ابو زرعۃ، عبداللہ بن نجی، علی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس مکان میں (رحمت کے ) فرشتے داخل نہیں ہوتے کہ جس مکان میں تصویر کتا یا جنبی شخص موجود ہو۔
اگر جنبی شخص دوبارہ ہمبستری کا ارادہ کرے تو کیا حکم ہے ؟
حسین بن حریث، سفیان، عاصم، ابو متوکل، ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ایک ہی غسل سے۔
ایک سے زیادہ عورتوں سے جماع کر کے ایک ہی غسل کرنا
اسحاق بن ابراہیم و یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل بن ابراہیم، حمید، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس گئے ایک ہی غسل سے یعنی سب سے صحبت کی اور آخر میں غسل فرمایا۔
ایک سے زیادہ عورتوں سے جماع کر کے ایک ہی غسل کرنا
محمد بن عبید، عبداللہ بن مبارک، معمر، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں کے پاس جاتے ایک ہی غسل سے (مطلب وہی ہے جو کہ اوپر مذکور ہے )
جنبی شخص کے واسطے تلاوت قران جائز نہیں ہے
علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، شعبہ، عمرو بن مرۃ، عبداللہ بن سلمہ سے روایت ہے کہ میں اور دو اشخاص حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت الخلاء سے نکل کر تلاوت قرآن فرماتے اور ہمارے ساتھ تشریف فرما ہو کر گوشت تناول فرماتے اور تلاوت قرآن فرماتے اور تلاوت قرآن سے کوئی شئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے رکاوٹ نہ بنتی علاوہ حالت جنابت کے (مطلب یہ ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت جنابت میں ہوتے تو تلاوت قرآن نہ فرماتے جس وقت تک کہ غسل نہ فرماتے۔)
٭٭ محمد بن احمد، ابو یوسف، عیسیٰ بن یونس، اعمش، عمرو بن مرۃ، عبداللہ بن سلمہ، علی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت جنابت کے علاوہ ہر ایک حالت میں تلاوت قرآن فرماتے تھے۔
جنبی شخص کے ساتھ بیٹھ جا نا اور اس کو چھونے وغیرہ سے متعلق فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
اسحاق بن ابراہیم، جریر، شیبانی، ابو برٍدۃ، حذیفہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ عادت مبارکہ تھی جس وقت کسی صحابی سے ملاقات فرماتے تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور اس کے واسطے دعا فرماتے۔ میں نے ایک دفعہ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر رخ بدل دیا۔ پھر دن چڑھنے کے وقت میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تجھ کو دیکھا تو علیحدہ ہو کر چل دیا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اس وقت حالت جنابت میں تھا تو میں ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو ہاتھ نہ لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔
٭٭ اسحاق بن منصور، یحیی، مسعر، واصل، ابو وائل، حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میری ملاقات ہوئی اور میں اس وقت حالت جنابت میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری جانب کو جھکے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں حالت جنابت میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان ناپاک اور نجس نہیں ہوتا۔
٭٭ حمید بن مسعٍدۃ، بشر، ابن مفضل، حمید، بکر، ابو رافع، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ کے ایک راستہ میں ان سے ملاقات کی اور وہ (یعنی ابو ہریرہ) اس وقت حالت جنابت میں تھے تو وہ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر خاموشی سے سرک گئے اور غسل سے فارغ ہوئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تلاش فرمائی تو وہ نہ مل سکے۔ جب واپس آئے تو دریافت فرمایا اے ابو ہریرہ تم کس جگہ تھے ؟ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ملاقات فرمائی تھی تو میں اس وقت حالت جنابت میں تھا۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک بیٹھ جانا برا لگا جس وقت تک کہ میں غسل سے فارغ نہ ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن ناپاک نہیں ہوتا۔
حائضہ سے خدمت لینا
محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، یزید بن کسان، ابو حازم، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ مجھ کو کپڑا اٹھا کر دے دو۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نماز نہیں پڑھ رہی ہوں (یعنی حیض آ رہا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تمہارے ہاتھ میں نہیں لگا ہوا۔ اس کے بعد عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کپڑا اٹھا کر دے دیا۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، عبیٍدۃ، اعمش و اسحاق بن ابراہیم، جریر عن اعمش، ثابت بن عبید، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم مسجد سے مجھ کو بوریا اٹھا کر دے دو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں حالت حیض میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں لگ رہا ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم ، ابو معاویۃ، الاعمش، یہ حدیث سابقہ حدیث جیسی ہے۔
حائضہ کا مسجد میں چٹائی بچھانا
محمد بن منصور، سفیان، منبوذ، ام میمونہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر مبارک ہم میں سے کسی کی گود میں رکھ کر قرآن کریم پڑھتے اور وہ بیوی (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ محترمہ) حالت حیض میں ہوتی۔
اگر کوئی شخص اپنی حائضہ بیوی کی گود میں سر رکھ کر تلاوت قرآن کرے ؟
اسحاق بن ابراہیم و علی بن حجر، سفیان، منصور، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک ہم لوگوں میں سے کسی کی گود میں ہوتا اور وہ خاتون حالت حیض میں ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلاوت قرآن فرماتے۔
جس خاتون کو حیض آ رہا ہو اس کو شوہر کا سر دھونا کیسا ہے ؟
عمرو بن علی، یحیی، سفیان، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر مبارک میری طرف جھکا دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حالت اعتکاف میں ہوتے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر دھوتی اور میں حالت حیض میں ہوتی تھی۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابو اسود، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر مسجد کے باہر کی طرف نکالتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت حالت اعتکاف میں ہوتے میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک دھوتی حالانکہ مجھ کو حیض آ رہا ہوتا تھا۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھی حالانکہ اس وقت مجھ کو حیض آ رہا ہوتا تھا۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک و علی بن شعیب، معن، مالک، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے دوسری سند کے ساتھ مذکورہ بالا مضمون منقول ہے۔
جس عورت کو حیض آ رہا ہو اس کے ساتھ کھانا اور اس کا جھوٹا کھانا پینا
قتیبہ، یزید، ابن مقدام بن شریح بن ہانی، شریح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ کیا کوئی خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ حالت حیض میں کھا سکتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں وہ کھا سکتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو بلایا کرتے تھے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھاتی اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہڈی اٹھاتے اور میرا حصہ بھی اس میں لگاتے میں پہلے اس حصہ کو چوستی پھر اس کو رکھ دیتی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو چوستے اور اس جگہ منہ مبارک لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی منگواتے اس میں بھی میرا حصہ لگاتے میں پہلے لے کر پیتی۔ پھر رکھ دیتی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو اٹھا کر پیا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیالے پر اس جگہ پر منہ لگاتے کہ جس جگہ میں نہ منہ لگایا تھا۔
٭٭ ایوب بن محمد، عبداللہ بن جعفر، عبید اللہ بن عمرو، اعمش، مقدام بن شریح، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک (برتن میں ) اسی جگہ لگاتے کہ جس جگہ پر میں نے منہ لگا کر پیا تھا اور میرا جوٹھا پانی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نوش فرماتے حالانکہ اس وقت مجھ کو حیض آ رہا ہوتا تھا۔
جس عورت کو حیض آ رہا ہو اس کا جوٹھا پانی پینا
محمد بن منصور، سفیان، مسعر، مقدام بن شریح، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو برتن عنایت فرماتے میں اس برتن میں سے پانی پیتی اور میں حیض سے ہوتی تھی۔ پھر میں وہ برتن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کرتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلاش فرما کر برتن میں اسی جگہ منہ مبارک لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، مسعر و سفیان، مقدام بن شریح، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں پانی پیتی تھی حالت حیض میں پھر وہ برتن میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیش دیتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک اس جگہ لگاتے جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا اور میں ہڈی حالت حیض ہی میں چوستی۔ پھر وہ ہڈی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک اسی جگہ لگاتے کہ جہاں پر میں نے منہ لگایا تھا۔
حائضہ عورت کو اپنے ساتھ لٹانے سے متعلق احادیث
اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام و عبید اللہ بن سعید و اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، یحیی، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ اس دوران مجھ کو حیض آنا شروع ہو گیا تو میں نکل گئی اور اپنے حیض کے کپڑے اٹھا دیئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم کو حیض آیا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ لیٹ گئی۔ یعنی چادر میں لیٹ گئی۔
٭٭ محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، جابر بن صبح، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک لحاف میں سوتے تھے اور میں حالت حیض میں ہوتی تھی تو اگر میرے جسم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم پر کچھ لگ جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی جگہ کو دھو ڈالتے۔ اس سے زیادہ جگہ نہ دھوتے پھر نماز ادا فرماتے۔ اس کے بعد پھر آرام فرماتے۔ پھر اگر کچھ لگ جاتا تو اسی طریقہ سے کرتے۔
حائضہ خاتون کے ساتھ آرام کرنا اور اس کو چھونا
قتیبہ، ابو احوص، ابو اسحاق، عمرو بن شرجیل، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم خاتون میں سے جب کسی کو حیض آتا تو حکم فرماتے کہ تم تہمد لے لو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بیوی کے ساتھ آرام فرماتے ساتھ سوتے مطلب ہے کہ جماع کے علاوہ تمام کام انجام دیتے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے میں سے جو خاتون حائضہ ہوتی اس کو تہہ بند باندھنے کا حکم فرماتے پھر اس سے مباشرت فرماتے۔ (مفہوم سابقے روایت میں گزر چکا ہے )
٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس و لیث، ابن شہاب، حبیب، عروہ، بدیٰۃ و لیث، میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں میں کسی بیوی کے ساتھ مباشرت فرماتے اور وہ خاتون حائضہ ہوتی بشرطیکہ ایک خاتون تہہ بند لئے ہوتی جو کہ دونوں ران کے آدھے حصے اور گھٹنوں تک پہنچتی۔ (مطلب یہ ہے کہ ناف سے شروع ہوتی اور آدھی ران یا گھٹنوں تک ہوتی۔) لیث کی روایت میں ہے کہ اس تہہ بند کو وہ خاتون بہت مضبوطی سے باندھتی تھی۔
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم
اسحاق بن ابراہیم، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ یہودیوں میں سے جس وقت کسی خاتون کو حیض آتا تو وہ اس کو اپنے ساتھ نہ کھلاتے نہ اس کو ساتھ پانی پلاتے۔ نہ ایک مکان میں اس کے ہمراہ رہتے۔ حضرات صحابہ کرام نے اس کے متعلق دریافت فرمایا اس پر خداوند قدوس نے آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ تم سے حیض کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما دیں کہ حیض ایک ناپاکی ہے تو تم لوگ خواتین سے حالت حیض میں علیحدہ رہو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ وہ عورتوں کو حالت حیض میں بھی ساتھ کھلائیں پلائیں اور ایک مکان میں ساتھ رہیں اور علاوہ ہمبستری کے تمام کام کریں۔
نہی خداوندی اور ممانعت کے علم کے باوجود جو شخص بیوی سے حالت حیض میں ہمبستری کر لے اس کا کیا کفارہ ہے ؟
عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، حکم، عبدالحمید، مقسم، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کے بارے میں کہ جو اپنی حائضہ بیوی سے ہمبستری کرے کہ وہ ایک دینار صدقہ ادا کرے۔
جو خاتون احرام باندھے اور اس کو حیض شروع ہو جائے ؟
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج کے واسطے نکلے حج کے ارادہ سے۔ پس جس وقت مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آ گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اور میں اس وقت رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تم کو کیا ہو گیا ہے ؟ کیا تم کو حیض آنے لگا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ تو وہ شئی ہے کہ جو (تقدیر میں ) لکھ دی گئی ہے خداوند قدوس کی طرف سے آدم کی صاحبزادیوں کے واسطے۔ اب تم وہ تمام کام انجام دو جو کہ حاجی لوگ انجام دیتے ہیں۔ لیکن تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا (باقی کام حیض سے پاکی کے بعد انجام دینا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں کی جانب سے ایک گائے کی قربانی کی۔
نفاس والی خاتون احرام کیسے باندھیں ؟
عمرو بن علی و محمد بن مثنی و یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے میرے والد ماجد نے نقل فرمایا کہ ہم لوگ حضرت جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس طریقہ سے فریضہ حج انجام دیا؟ انہوں نے بیان فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مدینہ منورہ سے حج کرنے کے واسطے روانہ ہوئے ) جس وقت ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ روانہ ہو گئے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیق کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس کے محمد بن ابی بکر نامی لڑکے کی ولادت ہو گئی۔ انہوں نے کسی کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بھیجا کہ اب مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ انہوں نے فرمایا کہ تم غسل کر لو اور لنگوٹ کس لو۔ اس کے بعد لبیک پکارا۔
اگر کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟
عبید اللہ بن سعید، یحیی بن سعید، سفیان، ابو مقدام ثابت الحداد، عدی بن دینار، ام قیس بنت محصن سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ اگر حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو ایک چپٹی لکڑی کی نوک سے کھرچ ڈالو اور اس کو تم بیری کے پتے اور پانی سے دھو ڈالو۔
٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد بن زید، ہشام بن عروہ، فاطمہ بنت المنذر، اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا کہ اگر حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو کھرچ دو پھر تم اس کو مل کر پانی سے دھو ڈالو اور پھر تم اس سے نماز ادا کرو۔
منیٰ کپڑے میں لگ جانے کا حکم
عیسی بن حماد، لیث، یزید بن ابو حبیب، سوید بن قیس، معاویہ بن خدیج، معاویہ بن ابو سفیان، ام حبیبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کپڑے میں نماز ادا فرماتے تھے جس کپڑے کو پہن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم بستری فرماتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کپڑے میں ناپاکی نہ محسوس ہوتی تھی۔
کپڑے پر سے منیٰ دھونے کا حکم
سوید بن نصر، عبد اللہ، عمرو بن میمون الجزری، سلیمان بن یسار، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے مبارک سے میں منیٰ دھویا کرتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا کرنے کے لئے تشریف لے جاتے اور پانی کے نشان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑوں میں ہوا کرتے تھے۔
کپڑے سے منیٰ کے کھرچنے سے متعلق
قتیبہ، حماد، ابو ہاشم، ابو مجلز، حارث بن نوفل، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے مبارک سے منیٰ کو کھرچ دیا کرتی تھی۔ (مطلب یہ ہے کہ منیٰ کو میں پانی سے نہیں دھوتی تھی)
٭٭ عمرو بن یزید، بہز، شعبہ، حکم، ابراہیم، ہشام بن حارث، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ البتہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے پر جب منیٰ دیکھتی تو منیٰ کو کھرچ دیا کرتی تھی۔
٭٭ حسین بن حریث، سفیان، منصور، ابراہیم، ہمام، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں درحقیقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے سے منیٰ کھرچ دیا کرتی تھی۔
٭٭ شعیب بن یوسف، یحیی بن سعید، اعمش، ابراہیم، ہمام، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ درحقیقت میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے سے منیٰ مل دیا کرتی تھیں۔
٭٭ قتیبہ، حماد بن زید، ہشام بن حسان، ابو معشر، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں خود جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے سے منیٰ کو مل دیا کرتی تھی (یعنی کھرچ کر یا مسل کر صاف کر دیتی تھی)۔
٭٭ محمد بن کامل، المروزی، ہیثم، مغیرۃ، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے میں منیٰ جب دیکھتی تھی تو اس کو کھرچ دیا کرتی تھی۔
کھانا نہ کھانے والے بچہ کے پیشاب کا حکم
قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ام قیس بنت محصن سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بچہ کو لے کر جو کہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بچہ کو گود میں بٹھلایا۔ اس لڑکے نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگا کر اس پر چھڑک دیا اس کو نہیں دھویا۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک لڑکا حاضر ہوا۔ اس لڑکے نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جگہ پر پانی بہا دیا۔
لڑکی کے پیشاب سے متعلق
مجاہد بن موسی، عبدالرحمن بن مہدی، یحیی بن ولید، محل بن خلیفۃ، ابو سمع سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کپڑا لڑکی کے پیشاب سے دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جائے۔
جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کے پیشاب کا حکم
محمد بن عبدالاعلی، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ (قبیلہ) عکل کے چند لوگ ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور ان لوگوں نے زبان سے اسلام قبول کر لیا پھر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم لوگ جانور والے لوگ ہیں (ہمارا گزر اوقات دودھ ہی پر ہے ) اور ہم کاشت کار لوگ نہیں ہیں اور ان کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے واسطے کئی اونٹ اور ایک چروا ہے کا حکم دیا اور ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ مدینہ منورہ سے باہر جا کر رہو اور ان جانوروں کا دودھ اور پیشاب پی لیا کرو اور باہر جا کر رہو۔ جب وہ لوگ صحت یاب ہو گئے اور وہ لوگ قبیلہ حرہ کے ایک جانب تھے تو وہ لوگ کافر بن گئے اور اسلام قبول کر کے مرتد ہو گئے۔ وہ لوگ نبی کے چروا ہے کو قتل کر کے اور اونٹوں کو لے کر فرار ہو گئے۔ جس وقت یہ خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلاش کرنے والے لوگوں کو ان کے پیچھے بھیجا۔ وہ لوگ ان کو پکڑ کر لے آئے تو ان کی آنکھیں (سلائی سے ) پھوڑ دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو اسی جگہ مقام حرہ میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ لوگ تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
٭٭ محمد بن وہب، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید بن ابو انسۃ، طلحہ بن مصرف، یحیی بن سعید، انس بن مالک سے روایت ہے کہ چند لوگ قبیلہ عرینہ کے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور ان لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہ آئی۔ ان کے (چہروں کے رنگ) پیلے پڑ گئے اور ان کے پیٹ اوپر کو چڑھ گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو دودھ دینے والی اونٹنی دے کر حکم فرمایا کہ تم لوگ اس اونٹنی کا دودھ اور پیشاب (بطور علاج) پی لو۔ ان لوگوں نے اسی طریقہ سے کیا حتی کہ وہ لوگ شفا پا گئے۔ تو وہ لوگوں چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہانک کر ساتھ لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کی تلاش میں آدمی دوڑائے اور ان کو پکڑ کر لانے کا حکم فرمایا۔ وہ لوگ گرفتار ہو کر آئے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں چلائی گئی۔ عبدالملک بن مروان جو کہ اس وقت اہل اسلام کا امیر اور حاکم تھا انہوں نے انس سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سزا ان لوگوں کو کفر قبول کرنے (یا مرتد ہونے ) کی وجہ سے دی یا ان کے جرم کی وجہ سے تھی؟ انس نے جواب میں فرمایا کفر کی وجہ سے سزا دی۔
حلال جانور کا پاخانہ اگر کپڑے پر لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟
احمد بن عثمان بن حکیم، خالد، یعنی ابن مخلد، علی، ابن صالح، ابو اسحاق، عمرو بن میمون، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ کے نزدیک نماز ادا کر رہے تھے اور ایک جماعت قبیلہ قریش کی بیٹھی ہوئی تھی ان لوگوں نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا ان لوگوں میں سے کسی شخص سے کہا تم لوگوں میں سے کون شخص ایسا ہے جو کہ اس ناپاک کو یعنی اونٹ کی اوجھ کو لے کر کھڑا رہے جس وقت یہ شخص (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سجدہ کریں تو یہ گندگی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پشت پر رکھ دے۔ ان لوگوں میں ایک بدنصیب انسان کھڑا ہوا اور وہ شخص گندگی لے کر کھڑا رہا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں گئے اس بدنصیب شخص نے وہ گندگی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پشت مبارک پر رکھ دی۔ یہ حضرت فاطمۃ زہرہ رضی اللہ عنہا کو جو کہ اس وقت (نابالغ) لڑکی تھیں وہ بھاگی ہوئیں آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پشت مبارک سے وہ گندگی اٹھائی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا اے خدا تو قریش کو سمجھ لے۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا اے خدا تو ابو جہل بن ہشام اور شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ابی معیط اسی طرح سات قریش کے قبیلہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بد دعا فرمائی۔ عبداللہ نے نقل کیا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قرآن کریم نازل فرمایا ہے میں نے ان لوگوں کو غزوہ بدر کے دن ایک اندھے کنویں کے اندر گرا ہوا پایا (یعنی ان لوگوں کو دنیا میں ہی سخت ترین سزا مل گئی)
گر تھوک کپڑے کو لگ جائے تو اس کا حکم
علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر کے ایک کونہ میں تھوک کر اس کو اس سے مل دیا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، قاسم بن مہران، ابو رافع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے سامنے کی طرف نہ تھوکے نہ تو دائیں جانب اور نہ ہی بائیں جانب بلکہ نیچے کی طرف پاؤں کی طرف تھوکے ورنہ تو جس طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھوکا کرتے تھے تو اس طرح سے تھوک دے یعنی اپنے کپڑے میں تھوکے اور اس کو مل دے۔
تیمم کے شروع ہونے سے متعلق
قتیبہ، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ کسی سفر میں نکلے اور ہم جس وقت مقام بیداء یا ذات الجیش میں پہنچ گئے تو میرا گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو تلاش فرمانے کیلئے رک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمرا دوسرے لوگ بھی ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پر پانی موجود نہ تھا اور نہ ہی لوگوں کے ہمراہ پانی تھا۔ چنانچہ لوگ صدیق اکبر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ دیکھ لیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے ؟ (یعنی ہار گم کر دیا) اور انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر حضرات صحابہ کرام کو بھی ایک ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں پر پانی تک نہیں ہے اور نہ ساتھیوں کے ساتھ پانی ہے۔ یہ بات سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا تشریف لائے اور اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری ران پر سر رکھ کر سو گئے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور دیگر حضرات کو ایک ایسی جگہ روک دیا (یعنی ٹھہرنے پر مجبور کیا) کہ جس جگہ نہ تو پانی ہیاور نہ ہی ساتھیوں کے ساتھ پانی ہے اور یہ فرما کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا مجھ پر ناراض ہو گئے اور میری کمر میں (لکڑی وغیرہ سے ) ٹھونک مارنے لگے اور میرے اوپر ناراض ہو گئے لیکن میں اپنی جگہ سے نہیں ہلی صرف اسی وجہ سے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح سے آرام فرما رہے ) اور سوتے رہے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کے وقت بیدار ہوئے تو وہاں پرپانی موجود نہ تھا۔ چنانچہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام میں سے بعض حضرات نے بغیر وضو کے ہی نماز پڑھ لی اس پر خداوند قدوس نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ حضرت اسید بن حضیر نے فرمایا کہ یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے اے صدیق اکبر کے گھر کے لوگو عائشہ صدیقہ نے فرمایا اس کے بعد ہم نے اپنا اونٹ اٹھایا کہ جس پر میں سوار تھی تو پھر میرا ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔
سفر کے بغیر تیمم
ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، جعفر بن ربیعہ، عبدالرحمن بن ہرمز، عمیر، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ بن یسار، میمونہ، علی، ابو جہیم بن حارث، حضرت عمیر سے روایت ہے جو کہ حضرت عبداللہ ابن عباس کے غلام تھے اور حضرت عبداللہ بن یسار جو کہ حضرت میمونہ کے غلام تھے دونوں کے دونوں حضرت ابو جہیم بن حارث کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیر جمل (جگہ کا نام) تشریف لائے کہ راستے میں ایک شخص ملا اس شخص نے سلام کیا تو حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا جواب نہیں دیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیوار کے نزدیک تشریف لائے اور چہرہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح فرمایا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب دیا۔
مقیم ہونے کی حالت میں تیمم
محمد بن بشار، محمد، شعبہ، سلمہ، ابو ذر، ابن عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے دریافت کیا کہ مجھ کو جنابت کی حالت لاحق ہو گئی ہے اور پانی غسل کے لئے نہ مل سکا حضرت عمر نے فرمایا کہ تم نماز نہ پڑھو (یعنی نماز اس صورت میں قضا کر دو) جس وقت پانی مل جائے تو تم اس وقت غسل کر کے نماز ادا کر لینا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین کیا آپ کو یہ بات نہیں یاد ہے کہ جس وقت میں اور آپ دونوں ایک لشکر میں تھے اور ہم کو حالت جنابت ہو گئی تھی اور ہم کو پانی نہیں مل سکا تھا اور آپ نے نماز ہی نہیں پڑھی تھی اور میں نے مقام منیٰ میں پہنچ کر نماز ادا کی ہم لوگ جس وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے واقعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (تم کو مٹی میں لوٹ مارنا ضروری نہیں تھا) تم کو کافی تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان میں پھونک ماری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھوں کو منہ اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر پھیرا۔ سلمہ نے شک کیا ہے ہاتھوں کا مسح دونوں پہنچوں تک یا دونوں کہنی تک (پھیرا) یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو تم نے نقل کیا ہے اس کو ہم تمہارے ہی سپرد کرتے ہیں۔
٭٭ محمد بن عبید بن محمد، ابو حوص، ابو اسحاق، ناجیٰۃ بن خفاف، عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ مجھ کو غسل کی ضرورت پیش آئی اور میں اونٹوں میں مشغول تھا تو مجھے پانی نہیں ملا میں مٹی میں اس طرح سے (تیمم کرنے کی نیت سے ) لوٹ پوٹ ہوا کہ جس طریقہ سے جانور مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتا ہے۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمھارے واسطے تیمم کرنا کافی تھا۔
سفر میں تیمم
محمد بن یحیی بن عبد اللہ، یعقوب بن ابراہیم، صالح، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عیینہ، عبداللہ ابن عباس، عمار سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں مقام اولات الجیش میں پہنچے اور ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ تھیں اور ان کا گلو بند ملک یمن کے موتی کے نگ کا تھا جو کہ (علاقہ) ظفار کے نگوں کا تھا وہ ٹوٹ کر گر گیا۔ لوگ اس گلو بند کی تلاش میں مشغول ہو گئے لوگوں کے پاس پانی تک موجود نہ تھا تو حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم نے لوگوں کو ہار تلاش کرنے میں مبتلا کر دیا جب کہ ان کے ساتھ پانی نہیں ہے اور نہ ہی اس جگہ پانی ہے اس خداوند قدوس نے مٹی پر تیمم کرنے کی اجازت نازل فرمائی۔ اس وقت مسلمان کھڑے ہو گئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اور ہاتھ زمین پر مارے پھر ہاتھ اٹھا لئے اور مٹی کو نہیں جھٹکا اور اپنے چہروں اور ہاتھوں اور مونڈھوں پر مسح فرمایا اور اندرونی جانب بغلوں کے اندر تک مسح کر لیا۔
کیفیت تیمم میں اختلاف کا بیان
عباس بن عبدالعظیم عنبری، عبداللہ بن محمد بن اسماء، جویریٰۃ، مالک، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تیمم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں پر اس کے بعد مونڈھوں تک مسح فرمایا۔
تیمم کا دوسرا طریقہ کہ جس میں ہاتھ مار کر گرد غبار کا تذکرہ ہے
محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، سلمہ، ابو مالک و عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابزی، عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا اے امیرالمومنین کبھی ایک ایک دو دو ماہ تک ہم لوگوں کو پانی (وضو یا غسل کے مطابق) نہیں ملتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھ کو نہ پانی ملے تو میں نماز نہ پڑھوں۔ جس وقت تک میں پانی حاصل نہ کر سکوں۔ حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا اے امیر المؤمنین آپ کو یاد ہے کہ جس وقت میں اور تم دونوں فلاں فلاں جگہ پر موجود تھے اور ہم اونٹ چراتے تھے تو تم کو معلوم ہے کہ ہم کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسی آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کو مٹی کافی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دونوں ہتھیلی کو زمین پر مارا پھر ان کو پھونک ماری اور چہرہ پر مسح فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے عمار تم خدا سے ڈرو کہ تم بغیر کسی روک ٹوک کے حدیث نقل کرتے ہو (شاید تم بھول گئے ہو یا تم کو دھوکا ہو گیا ہے ) حضرت عمار نے فرمایا اے امیر المؤمنین اگر آپ چاہیں تو میں اس حدیث کو نقل نہ کروں گا۔ حضرت عمر نے فرمایا نہیں بلکہ تم نقل کرو اس کو ہم تمہارے ہی حوالے کر دیں گے یعنی تم خود ہی اس پر عمل کرنا ہم اس پر عمل نہیں کریں گے جس وقت تک دوسرے شخص کی گواہی بھی نہ آئے۔
تیمم کا ایک دوسرا طریقہ
عمرو بن یزید، بہز، شعبہ، حکم، ذر، ابن عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے تیمم کا مسئلہ دریافت کیا وہ اس مسئلہ کا جواب نہ بتلا سکے حضرت عمار نے فرمایا تم کو یہ یاد ہے کہ جس وقت ہم اور تم دونوں ایک لشکر میں تھے اور مجھے غسل کرنے کی ضرورت پیش آئی میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا تھا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کو اس طریقہ سے کرنا کافی تھا اور (تیمم کرنے کے لئے حضرت شعبہ نے دونوں گھٹنوں پر دونوں ہاتھ مارے پھر ان پر پھونک ماری اور چہرہ اور دونوں پہنچوں پر ایک مرتبہ مسح فرمایا۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، شعبہ، حکم، ابن ابزی، حکم، ابن عبدالرحمن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آ گئی وہ شخص حضرت عمر کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا کہ میں جنبی ہوں اور غسل کرنے کے واسطے مجھ کو پانی نہیں مل سکا تو میں کیا کروں ؟ حضرت عمر نے کہا کہ تم ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو۔ حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا کیا تم کو یہ یاد نہیں ہے کہ جس وقت ہم لوگ ایک لشکر میں تھے پھر ہم لوگوں کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آ گئی۔ تم نے تو نماز ہی نہ پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھی تھی۔ پھر میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کو یہ کرنا بالکل کافی تھا اور حضرت شعبہ نے اپنی ہتھیلی زمین پر ماری پھر اس پر پھونک ماری اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی کو ملا پھر چہرہ پر مسح فرمایا۔ حضرت عمر نے فرمایا مجھ کو معلوم نہیں ہے حضرت عمار نے فرمایا چلو کوئی بات نہیں ہے اگر تم لوگوں کی رائے نہیں ہے تو میں اس روایت کو نہ نقل کروں بلکہ جو تم نقل کرو گے وہ تمہارے ذمہ رہے گا۔
ایک اور دوسری قسم کا تیمم
عبد اللہ بن محمد بن تمیم، حجاج، شعبہ، حکم و سلمہ، ذر، ابن عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کے ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا میں جنبی ہوں۔ اگر مجھ کو پانی نہ مل سکا تو میں کیا کروں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نماز نہ ادا کرو۔ حضرت عمار نے فرمایا اے امیرالمومنین کیا تم کو یہ واقعہ یاد نہیں ہے کہ جس وقت میں اور تم دونوں کے دونوں ایک ہی لشکر میں تھے۔ پھر ہم کو جنابت کی حالت لاحق ہو گئی اور ہم کو پانی نہ مل سکا۔ تم نے تو نماز ادا نہ کی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا پھر میں نے نماز ادا کی۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کو اس طرح سے عمل کرنا کافی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (تیمم کی نیت سے ) دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا پھر چہرہ کا مسح فرمایا اور دونوں پہنچوں کا مسح کیا۔ حضرت سلمہ نے اس حدیث کے بارے میں شک کیا اور کہا کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ ہاتھوں کا تذکرہ کیا ہو یہ بات یاد نہیں ہے۔
جنبی شخص کو تیمم کرنا درست ہے
محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، شقیق سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ کے پاس بیٹھا تھا حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے فرمایا کیا تم نے حضرت عمار کا یہ قول نہیں سنا جس وقت انہوں نے حضرت عمر سے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک کام کے واسطے بھیجا مجھ کو وہاں غسل کرنے کی ضرورت پیش آ گئی اور پانی نہ مل سکا تو میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کو اس طریقہ سے کرنا کافی تھا اور دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا اور دونوں ہتھیلیوں پر پھونک ماری پھر بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر مارا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر مارا اپنے دونوں پہنچوں سمیت اور پھر چہرہ پر مسح فرمایا۔ حضرت عبداللہ سے فرمایا تم نہیں دیکھتے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے حضرت عمار کے فرمانے پر اکتفا نہیں کیا۔
مٹی سے تیمم کے متعلق حدیث
سوید بن نصر، عبد اللہ، عوف، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ شخص لوگوں سے علیحدہ ہے اور جماعت میں شامل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کے ساتھ کس وجہ سے تم جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو جنابت کی حالت لاحق ہو گئی ہے اور مجھے پانی نہیں مل سکا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے اوپر مٹی لازم کر لو۔ وہ تمہارے واسطے کافی ہے جس وقت مانی نہ مل سکے تو تم اس پر تیمم کر لو۔
ایک ہی تیمم سے متعدد نمازیں ادا کرنا
عمرو بن ہشام، مخلد، سفیان، ایوب، ابو قلابۃ، عمرو بن بجدان، ابو ذر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پاک مٹی مسلمان کے واسطے وضو کے قائم مقام ہے (چاہے ) کوئی شخص دس سال سے پانی نہ پا سکے۔
جو شخص وضو کے لئے پانی اور تیمم کرنے کے لئے مٹی نہ پا سکے
اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت اسید بن حضیر اور کئی حضرات کو حضرت عائشہ صدیقہ کے ہار کی تلاش کے واسطے بھیجا کہ جس ہار کو وہ کسی اپنی دوران سفر کی قیام گاہ میں بھول گئی تھیں تو نماز کا وقت ہو گیا اور ان لوگوں کا نہ تو وضو تھا اور نہ ہی وضو کرنے کیلئے پانی موجود تھا چنانچہ ان لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے واقعہ عرض کیا تو اس پر آیت (فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْا) 5۔ المائدہ:6) آخر تک نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تم کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جس وقت تمہارے ذمے ایک ایسی بات پیش آئی کہ جس کو تم برا سمجھتی تھیں تو خداوند قدوس نے تمہارے واسطے اس میں خیر کا پہلو پیدا فرما دیا۔ تمہارے واسطے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، طارق سے روایت ہے کہ ایک آدمی کو جنابت لاحق ہو گئی اس نے نماز نہیں پڑھی وہ شخص پانی کی جستجو میں مشغول رہا اور وہ پانی ملنے کا منتظر رہا اور نماز کا وقت ابھی باقی تھا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے اچھا کیا پھر ایک دوسرے شخص کو جنابت لاحق ہوئی اس نے تیمم کر کے نماز ادا کر لی اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے بھی اسی طریقہ سے فرمایا یعنی تم نے اچھا کیا۔
٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، سفیان، سماک، عکرمۃ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کسی زوجہ مطہرہ نے جنابت سے غسل فرمایا پھر اس کے بچے ہوئے پانی سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا ان زوجہ مطہرہ نے بیان فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ غسل کا بچا ہوا پانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی کو کوئی شئی ناپاک نہیں کرتی۔
پانیوں کا بیان
بیئر بضاء سے متعلق
ہارون بن عبد اللہ، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن کعب القرظیی، عبید اللہ بن عبدالرحمن بن رافع، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم لوگ بئر بضاعہ سے وضو کریں (جبکہ) اس کنویں میں کتوں کے گوشت اور حیض کے کپڑے اور بدبو دار اشیاء ڈالی جاتی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانی پاک ہے کہ جس کو کوئی شئی ناپاک نہیں کرتی۔
٭٭ عباس بن عبدالعظیم، عبدالملک بن عمرو، عبدالعزیز بن مسلم، مطرف بن طریف، خالد بن ابی نوف، سلیط، ابن ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک روز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک سے گزرا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بئربضاعہ کے پانی سے وضو فرما رہے تھے۔ میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کنویں کے پانی سے وضو فرما رہے ہیں۔ جب کہ اس کنویں میں بدبو دار اشیاء ڈالی جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی کو کوئی شئی ناپاک نہیں کرتی۔
پانی کا ایک اندازہ جو کہ ناپاکی کے گرنے سے ناپاک نہ ہو
حسین بن حریث المروزی، ابو اسامۃ، ولید بن کثیر، محمد بن جعفر بن زبیر، عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی الہ علیہ و آلہ و سلم سے اس پانی کے متعلق دریافت کیا گیا جہاں جانوروں اور درندوں کا کئی مرتبہ اس پر آنا ہو (پانی پینے کے واسطے )۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت پانی دو قلے ہو جائے تو وہ ناپاک نہ ہو گا۔
٭٭ قتیبہ، حماد، ثابت، انس سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص نے مسجد میں پیشاب کر دیا لوگ اس شخص کی جانب دوڑ پڑے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اس شخص کا پیشاب بند نہ کرو جس وقت وہ شخص پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کا ایک ڈول منگایا اور اس جگہ بہا دیا۔
٭٭ عبدالرحمن بن ابراہیم، عمر بن عبدالواحد، اوزاعی، محمد بن ولید، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص کھڑا ہو گیا اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس شخص کو پکڑنا چاہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اس کو چھوڑ دو اور اس شخص نے جس جگہ پیشاب کیا ہے وہاں پر پانی کا ایک ڈول بہا دو اس لئے کہ تم لوگ آسانی کے واسطے بھیجے گئے ہو دشواری کے واسطے نہیں بھیجے گئے۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی شخص کو غسل کرنے کی ممانعت سے متعلق
حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو، ابن حارث، بکیر، ابو سائب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں (اس حالت میں ) غسل نہ کرے جب کہ وہ شخص جنبی ہو۔
سمندر کے پانی سے وضو سے متعلق
قتیبہ، مالک، صفوان بن سلیم، سعید بن ابو سلمہ، مغیرۃ بن ابو برٍدۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم لوگ سمندر میں سوار ہوتے ہیں اور ہم لوگ کچھ پانی یا کم مقدار میں پانی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اگر ہم لوگ اس پانی سے وضو کر لیں تو ہم لوگ پیاسے رہ جائیں۔ تو کیا سمندر کے پانی سے ہم لوگ وضو کر لیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردہ حلال ہے۔
برف اور اولے کے پانی سے وضو کا بیان
اسحاق بن ابراہیم، جریر، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ تو میرے گناہوں کو دھو ڈال برف اور اولے سے اور میرا دل تمام قسم کی برائیوں سے پاک کر کہ جس طریقہ سے تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کر دیا۔
برف اور اولے کے پانی سے وضو کا بیان
علی بن حجر، جریر، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرماتے اے خدا دھو دے مجھ کو میرے گناہوں سے برف اور پانی اور اولے سے۔
کتے کا جوٹھا
علی بن حجر، علی بن مسہر، اعمش، ابو رزین و ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کسی کے برتن میں جب کوئی کتا منہ ڈال کر چپ چپ کرے تو اس کو پلٹ دو یعنی وہ چیز پوری طرح سے گرا دو پھر وہ برتن سات مرتبہ دھو۔
کتے کے جوٹھے برتن کو مٹی سے مانجھنے سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، خالد یعنی ابن حارث، شعبہ، ابو تیاح، مطرفا، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شکاری کتے اور گلے کے کتے کی اجازت عطا فرمائی (یعنی بھیڑ بکریوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے جو کتا پالا جائے وہ اس سے مستثنی ہے ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب برتن میں کتا منہ ڈال کر چپ چپ کرے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤ آٹھویں دفعہ اس برتن کو مٹی سے مانجھو اور صاف کرو۔
٭٭ عمرو بن یزید، بہز بن اسد، شعبہ، ابو تیاح یزید بن حمید، مطرفا، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا ان لوگوں کو کتوں سے کیا تعلق اور شکاری کتے اور شکاری کتے اور حفاظت کرنے والے کتوں کی اجازت دی اور ارشاد فرمایا جب کتا برتن میں منہ ڈال کر چپ چپ کرے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھو ڈالو اور آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھوؤ۔ حضرت ابو ہریرہ نے اس کے خلاف نقل فرمایا انہوں نے فرمایا اس کو ایک مرتبہ مٹی سے دھولو۔ (یعنی ساتویں مرتبہ مٹی سے صاف کرو)۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، قتادہ، خلاس، ابو رافع، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال کر (پانی وغیرہ) پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے پہلی مرتبہ مٹی مل کر دھوئے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ بن سلیمان، ابن ابو عروبۃ، قتادہ، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال کر چپڑ چپڑ پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے پہلی مرتبہ مٹی مل کر دھوئے۔
بلی کے جوٹھے سے متعلق
قتیبہ، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، حمیٍدۃ بنت عبید بن رفاعۃ، کبشۃ بنت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ ابو قتادہ ایک دن میرے پاس آئے تشریف لائے پھر انہوں نے ایسی بات کہی کہ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے ان کے واسطے وضو کا پانی ڈالا کہ اس دوران بلی آ کر اس پانی میں سے پینے لگ گئی۔ ابو قتادہ نے برتن کو اور نیچے کی طرف کر دیا یہاں تک کہ بلی نے پانی اچھی طرح پی لیا۔ پھر ابو قتادہ نے جو میری جانب دیکھا تو میں ان کی جانب دیکھ رہی تھی (بوجہ حیرت کے )۔ حضرت ابو قتادہ نے فرمایا اے میری بھتیجی! تم حیرت کرتی ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ ابو قتادہ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلی ناپاک نہیں ہے وہ تو دن رات تمہارے اوپر گھومنے والوں میں سے ہے یا گھومنے والیوں میں سے ہے۔
حائضہ عورت کے جھوٹے کا حکم
عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، مقدام بن شریح، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں ہڈی کو چوسا کرتی تھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی جگہ پر اپنا منہ لگاتے تھے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہڈی چوستے اور میں اس وقت حیض میں ہوتی تھی میں برتن میں پانی پیتی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی جگہ پر منہ لگاتے تھے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی۔
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کی اجازت
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ مرد اور عورت تمام کے تمام مل کر دور نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں (ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے ) وضو کیا کرتے تھے۔
عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع سے متعلق
عمرو بن علی، ابو داؤد، شعبہ، عاصم، ابو عبدالرحمن واسمہ سواٍدۃ بن عاصم، حکم بن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرد کو عورت کے وضو سے جو پانی بچ جائے اس سے وضو کرنے سے منع فرمایا۔
جنبی کے غسل سے جو پانی بچ جائے اس سے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان
قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک ہی برتن میں غسل فرمایا کرتی تھیں (اس طرح سے ہر ایک دوسرے کا بچا ہوا پانی استعمال کرتا)
وضو اور غسل کے واسطے کتنا پانی کافی ہے ؟
عمرو بن علی، یحیی بن سعید، شعبہ، عبداللہ بن جبر، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مکوک پانی سے وضو فرماتے اور پانچ مکوک سے غسل فرماتے۔
٭٭ ہارون بن اسحاق، عبٍدۃ، یعنی ابن سلیمان، سعید، قتادہ، صفیہ بنت شیبہ ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے اور تقریباً ایک صاع پانی سے غسل فرماتے۔
٭٭ ابوبکر بن اسحاق، حسن بن موسی، شیبان، قتادہ، حسن، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مد سے وضو فرماتے تھے اور ایک صاع سے غسل فرماتے تھے۔
حیض کا بیان
حیض کی ابتداء اور یہ کہ کیا حیض کو نفاس بھی کہتے ہیں
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج کے ارادہ سے نکلے جس وقت ہم لوگ سرف نامی جگہ پہنچے تو مجھ کو حیض آنا شروع ہو گیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے میں اس وقت رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کو کیا ہو گیا ہے میرا خیال ہے کہ تم کو نفاس (حیض) آنا شروع ہو گیا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تو وہ امر ہے کہ جو خداوند قدوس نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے۔ تم وہ تمام کام کرو جو کام حاجی لوگ کرتے ہیں۔ لیکن خانہ کعبہ کا طواف نہ کرو۔
استحاضہ سے متعلق خون شروع اور ختم ہونے کا تذکرہ
عمران بن یزید، اسماعیل بن عبد اللہ، ابن سماعہ، اوزاعی، یحیی بن سعید، ہشام بن عروہ، عروہ، فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے جو قبیلہ قریش بنی اسد سے تھیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں اور عرض کیا مجھے استحاضہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ ایک رگ ہے جب حیض آنا شروع ہو تو نماز چھوڑ دو اور جس وقت حیض کے دن ختم ہو جائیں تو غسل کر لو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ ہشام بن عمار، سہل بن ہاشم، اوزاعی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہو جائے تو غسل کرو۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ام حبیبہ بنت جحش نے مسئلہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو استحاضہ آ گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ ہے تم غسل کر لو اور پھر نماز ادا کرنا تو وہ ہر غسل ایک نماز کے لئے کیا کرتی تھیں۔
جس خاتون کے حیض کے دن ہر ماہ مقرر ہوں اور اس کو (مرض) استحاضہ لاحق ہو جائے
قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، جعفر بن ربیعۃ، عراک بن مالک، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خون کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا یعنی جس وقت ہمیشہ خون آتا رہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ میں نے ان کے غسل کرنے کاٹب دیکھا جو خون سے بھرا ہوا تھا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم (اس قدر) ٹھہری رہو کہ جتنے دن پہلے تمہارا حیض روکتا تھا تجھ کو نماز اور روزے سے اس مرض سے پہلے اور تم غسل کرنا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو اسامۃ، عبید اللہ بن عمر، نافع، سلیمان بن یسار، ام سلمہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھ کو استحاضہ کی بیماری ہو گئی ہے اور میں کسی طرح سے بھی پاک نہیں ہوتی۔ کیا میں نماز ترک کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن جس قدر دن اور رات تم کو پہلے حیض آیا کرتا تھا۔ ان میں تم نماز ترک کر دو پھر تم غسل کرو اور تم لنگوٹ باندھو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ قتیبہ، مالک، نافع، سلیمان بن یسار، ام سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسئلہ دریافت فرمایا ایک خاتون کے سلسلے میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ خاتون دن اور راتوں کا شمار کرے کہ جن میں ہر ماہ اس کو حیض آیا کرتا تھا۔ اس مرض سے قبل پھر اتنے دنوں نماز چھوڑے اور جس وقت دن گزر جائیں تو وہ غسل کرے اور لنگوٹ باندھ لے ایک کپڑے کا پھر نماز ادا کرے۔
اقراء کے متعلق
ربیع بن سلیمان بن داؤد بن ابراہیم، اسحاق، ابن بکر بن مضر، یزید بن عبد اللہ، ابن اسامۃ بن ہاد، ابو بکر، ابن محمد بن عمرو بن حزم، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش جو کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے نکاح میں تھیں۔ ان کو استحاضہ کا مرض لاحق ہو گیا اور وہ کسی طریقہ سے بھی پاک نہیں ہوتی تھیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ حیض نہیں ہے بلکہ یہ تو بچہ دانی کی ایک چوٹ ہے تم اپنے قرء کا شمار کر لو۔ (یعنی ماہواری کو شمار کر لو) کہ جتنے دن ماہواری آتی تھی ان دنوں میں تم نماز چھوڑ دو پھر تم اس کے بعد ہر ایک نماز کے لئے غسل کر لو۔
٭٭ ابوموسی، سفیان، زہری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش کو مرض استحاضہ ہو گیا سات سال تک۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ حیض ماہواری نہیں ہے بلکہ ایک رگ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا نماز چھوڑ دینے کا۔ اپنے قرء(ماہواری کے ایام تک) پھر غسل کر کے نماز پڑھنے کا۔ تو وہ غسل ہر ایک نماز کے واسطے کیا کرتی تھیں۔
٭٭ عیسی بن حماد، لیث، یزید بن ابو حبیب، بکیر بن عبد اللہ، المنذر بن مغیرۃ، عروہ، فاطمہ بنت ابی جیش سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے خون جاری ہونے کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ ہے تم دیکھتی رہو جب تمہارا قرء یعنی (حیض) آئے تم نماز نہ پڑھو پھر جس وقت تم نماز ادا کرو دوسرے حیض تک۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ و وکیع و ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت جحش نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے استحاضہ ہو گیا ہے میں پاک نہیں ہوتی۔ کیا میں نماز ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں یہ تو ایک رگ ہے یہ حیض نہیں ہے۔ جس وقت حیض آئے تو نماز چھوڑ دو پھر جس وقت حیض کے دن پورے ہو جائیں تو خون دھو ڈالو اور نماز ادا کرو۔
جب استحاضہ والی عورت دو وقت کی نماز ایک وقت ہی میں ادا کرے تو (دونوں وقت کیلئے ) ایک غسل کرے
محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مستحاضہ عورت کے بارے میں دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کہا گیا کہ یہ ایک رگ ہے جو کے بند نہیں ہوتی (یعنی کسی رگ کے منہ کھل جانے کی وجہ سے عورت کو خون آنے لگتا ہے وہ حیض نہیں ہوتا) اور حکم فرمایا گیا اس کو نماز ظہر میں تاخیر کرنے کا اور نماز عصر میں جلدی کرنے کا اور دونوں نماز کے لئے ایک غسل کرنے کا۔ اس طریقہ سے نماز مغرب میں تاخیر کرنے اور نماز عشاء میں عجلت کرنے کا اور دونوں نماز کے واسطے ایک غسل کرنے کا پھر نماز فجر کے لئے ایک غسل کرنے کا۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، زینب بنت جحش سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ عورت مستحاضہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم اپنے حیض کے دنوں میں ٹھہر جاؤ (یعنی نماز روزہ نہ کرو) پھر غسل کرو اور نماز ظہر میں تاخیر کرو اور نماز عصر میں جلدی اور دونوں کو ایک ہی غسل کرو۔ پھر نماز مغرب میں تاخیر کرو اور نماز عشاء میں جلدی اور غسل کر کے دونوں کو ایک ساتھ پڑھ لو اور نماز فجر کے واسطے غسل کر لو۔
٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، محمد بن عمرو، ابن علقمۃبن وقاص، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، فاطمہ بنت ابو حبیش سے روایت ہے کہ ان کو استحاضہ تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت حیض کا خون آئے تو وہ کالے رنگ کا خون ہوتا ہے تو تم نماز نہ پڑھو پھر جس وقت دوسرے قسم کا خون آئے تو تم وضو کرو اور نماز ادا کرو۔ اس لیے کہ وہ خون ایک رگ کا خون ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، محمد بن عمرو، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ ہو گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حیض کا خون کالے رنگ کا ہوتا ہے اور اس کی شناخت کر لی جاتی ہے جس وقت اس طرح کا خون آئے تو تم۔ پھر جس وقت دوسری قسم کا خون جاری ہو تو تم وضو کر لو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ ہو گیا۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے استحاضہ (کا مرض ہو گیا ہے ) اور میں پاک ہی نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے جس وقت حیض آئے تو نماز ترک کر دو پھر جس وقت حیض آنا بند ہو جائے تو تم خون دھو ڈالو اور (ہر ایک نماز کے واسطے وضو کرو) کیونکہ یہ ایک رگ کا خون اور یہ حیض نہیں ہے کسی نے عرض کیا کیا وہ خاتون غسل نہ کرے ؟ آپ نے فرمایا غسل میں کس کو شک ہے یعنی حیض سے پاک ہوتے وقت ایک مرتبہ تو غسل کرنا تو ضروری ہے۔ (پھر استحاضہ میں ہر ایک نماز کے لئے غسل کرنا تو ضروری نہیں ہے صرف وضو کرنا کافی ہے )
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ، فاطمہ بنت ابی حبیش، ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو استحاضہ (کامرض) ہے میں پاک نہیں ہوتی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے جس وقت حیض آ جائے تو تم نماز پڑھنا موقوف کر دو پھر جس وقت حیض رخصت ہو جائے تو خون دھو ڈالو اور تم نماز ادا کرو۔ (مطلب یہ ہے کہ غسل کرنے کے بعد نماز ادا کرو۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ، نے فرمایا حضرت فاطمہ ابی حبیش نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میں پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز پڑھنا ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ کا خون ہے۔ حیض نہیں ہے جس وقت تم کو حیض آ جائے تو تم نماز چھوڑ دو پھر جس وقت حیض سے دن پورے ہو جائیں تو تم خون کو دھو ڈالو اور پھر غسل کرو اور نماز ادا کرو۔
٭٭ ابواشعث، خالد بن حارث، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو حبیش کی لڑکی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پاک ہی نہیں ہوتی ہوں ایسی صورت میں کیا نماز پڑھنا ترک کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہیں یہ تو ایک رگ ہے یہ ماہواری نہیں ہے۔ جس وقت حیض آئے تو نماز پڑھنا ترک کر دو۔ پھر جس وقت رخصت ہو تو خون دھو ڈالو اور تم غسل کرو اور نماز ادا کرو۔
زردی یا خاکی رنگ ہونا ماہواری میں داخل نہ ہونے سے متعلق
عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، محمد، ام عطیٰۃ سے روایت ہے کہ ہم خواتین زردی یا خاکی رنگ کو کچھ نہیں خیال کرتی تھیں۔
جس عورت کو حیض آ رہا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا اور ارشاد باری کی تشریح کا بیان
اسحاق بن ابراہیم، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ یہودی خواتین کو جس وقت ماہواری آتی تھی تو یہودی لوگ ان کو اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے اور نہ ساتھ پلاتے تھے اور نہ ایک کوٹھڑی میں ان کے ساتھ رہائش کرتے۔ حضرات صحابہ کرام نے اس سلسلہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اس پر خداوند قدوس نے آیت کریمہ "لوگ تم سے عورتوں کے ایام ماہواری کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ وہ اذیت کا وقت ہے۔ پس چاہیے کہ ان دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور وہ جب تک فارغ ہو کر پاک صاف نہ ہو لیں ان سے تعلق خاص قائم نہ کرو اور جب وہ پاک صاف ہو لیں تو اللہ نے فطرتی طور پر جو بات جس طرح ٹھہرا دی ہے اس کے مطابق ان کی طرف ملتفت ہو” نازل فرمائی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ کھلانے پلانے کا حکم فرمایا اور ایک کمرہ رہنے اور دیگر تمام کام (علاوہ ہمبستری) کی اجازت دی۔
بیوی کو حالت حیض میں مبتلا ہونے کے علم کے باوجود ہمبستری کر نے کا گناہ اور اس کا کفارہ
عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، حکم، عبدالحمید، مقسم، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کرے حالت حیض میں تو اس کو ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنا ضروری ہے۔
حائضہ کو اس کے حیض کے کپڑوں میں اپنے ساتھ لٹانا درست ہونے سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام و اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، اسماعیل بن مسعود، خالد، ابن حارث، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی کہ ایک دم (مجھ کو یاد آ گیا کہ میں حیض سے ہوں ) اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے اٹھ گئی اور میں نے حیض کے کپڑے اٹھائے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم کو حیض آنا شروع ہو گیا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو بلایا اور پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔
کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی لحاف میں آرام کرے اور اس کی بیوی کو حیض آ رہا ہو
محمد بن مثنی، یحیی، جابر بن صبح، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی لحاف میں ہوا کرتے تھے حالانکہ اس وقت مجھ کو حیض آ رہا ہوتا تھا (یعنی میں حائضہ ہوتی تھی) اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم یا کپڑے پر کچھ لگ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صرف اسی قدر حصہ جگہ دھویا کرتے تھے اور اس حصہ سے زیادہ نہ دھوتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی کپڑے میں نماز ادا فرماتے۔
حائضہ عورت کے ساتھ آرام کرنا اور اس کا بوسہ لینا
قتیبہ، ابو احوص، ابو اسحاق، عمرو بن شرجیل، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ جس وقت ہمارے میں سے کوئی خاتون حالت حیض میں ہوتی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس خاتون کو حکم فرماتے ایک مضبوط قسم کے تہمد کے باندھنے کا پھر اس خاتون سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مباشرت فرماتے (یعنی حائضہ بیوی کے ساتھ لیٹتے بوس و کنار وغیرہ کرتے )
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے میں سے جس وقت کسی خاتون کو حیض آنا شروع ہوتا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو تہہ بند باندھنے کا حکم فرماتے پھر اس خاتون سے بوس و کنار کرتے۔
جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کسی زوجہ مطہرہ کو حیض آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت کیا کرتے ؟
ہناد بن سری، ابن عیاش، ابو بکر، صدقۃ بن سعید، جمیع بن عمیر سے روایت ہے میں اپنی ولدہ اور خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوا ان دونوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی زوجہ مطہرہ حالت حیض میں ہوتی تھیں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا عمل اختیار فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا جس وقت ہمارے میں سے کسی خاتون کو حیض آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرماتے خوب بڑی اور عمدہ قسم کے تہبند باندھنے کا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان بیوی کے سینہ سے لپٹ جاتے اور ان کے پستان سے لپٹ جاتے۔
٭٭ حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس و لیث، ابن شہاب، حبیب، عروہ، بدیٰۃ، لیث، میمونہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی سے مباشرت کرتے اور وہ خاتون حالت حیض میں ہوتی جس وقت وہ خاتون تہہ بند پہنے ہوتی جو کہ آدھی ران یا گھٹنے تک پہنچتی اس کی آڑ کر لیتی۔
حائضہ عورت کو اپنے ساتھ کھلانا اور اس کا جھوٹا پانی پینا
قتیبہ بن سعید بن جمیل بن طریف، یزید ابن مقدام بن شریح بن ہانی، ابو شریح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ کیا کوئی خاتون حالت حیض میں اپنے شوہر کے ساتھ کھا سکتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں وہ کھا سکتی ہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو بلایا کرتے تھے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھاتی اور میں اس وقت حالت حیض میں ہوتی اور میں حائضہ ہوتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہڈی اٹھاتے اور میرا حصہ بھی اس میں لگاتے میں پہلے اس کو چوسا کرتی پھر اس کو رکھ دیتی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو چوستے اور اس جگہ منہ مبارک لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ ہڈی پر لگایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی پیتے اور میرا بھی حصہ لگاتے پہلے میں لے کر پانی پیتی پھر رکھ دیتی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو اٹھا کر پیتے اور پیالہ پر اسی جگہ پر منہ لگاتے جہاں میں نے منہ لگایا تھا۔
٭٭ ایوب بن محمد، عبداللہ بن جعفر، عبید اللہ بن عمرو، اعمش، مقدام بن شریح، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو برتن عنایت فرماتے میں اس میں پانی پیتی اور میں حالت حیض میں ہوتی پھر وہ برتن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلاش فرما کر اسی جگہ منہ لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا۔
حائضہ عورت کا جوٹھا استعمال کرنا
محمد بن منصور، سفیان، مسعر، مقدام بن شریح، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے میں حالت حیض میں پانی پیتی تھی پھر وہ برتن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دے دیتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک اس جگہ لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا اور میں حالت حیض میں ہڈی چوستی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دے دیتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک اسی جگہ لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، مسعر و سفیان، مقدام بن شریح، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حالت حیض میں پانی پیا کرتی تھی پھر وہ برتن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیش کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک اس جگہ لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا اور میں حالت حیض میں ہڈی چوستی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیش کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا منہ مبارک اسی جگہ لگاتے کہ جس جگہ میں نے منہ لگایا تھا۔
اگر کوئی شخص اپنی حائضہ بیوی کی گود میں سر رکھ کر تلاوت قران کرے تو کیا حکم ہے ؟
اسحاق بن ابراہیم و علی بن حجر، سفیان، منصور، امہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک ہمارے میں سے کسی خاتون کی گود میں ہوتا اور وہ خاتون حالت حیض میں ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلاوت قرآن فرماتے رہتے۔
حالت حیض میں عورت سے نماز معاف ہو جاتی ہے
عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، ابو قلابۃ، معاذٰۃ عدویٰۃ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کیا حائضہ عورت نماز کی قضا کرے ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم حروریہ ہو؟
حائضہ خاتون سے خدمت لینا کیسا ہے ؟
محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، یزید ابن کیسان، ابو حازم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ مجھ کو (مسجد سے ) کپڑا اٹھا کر دے دو۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نماز نہیں پڑھتی ہوں (یعنی مجھے حیض آ رہا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تیرے ہاتھ میں نہیں لگ رہا ہے پھر انہوں نے وہ کپڑا (مسجد سے جھک کر) اٹھا کر دے دیا۔
٭٭ قتیبہ، عبیٍدۃ، اعمش، اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، ثابت بن عبید، قاسم ابن محمد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز ارشاد فرمایا مجھ کو تم مسجد سے مجھ کو بوریا اٹھا کر دے دو میں نے عرض کہا کہ میں حیض میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تمہارا حیض ہاتھ میں نہیں لگ رہا ہے۔
اگر حائضہ عورت مسجد میں بوریہ بچھائے
محمد بن منصور، سفیان، منبوذ، میمونہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر مبارک ہم لوگوں میں سے کسی کی گود میں رکھتے اور قرآن کریم کی تلاوت فرماتے اور وہ خاتون حالت حیض میں ہوتی تھی اور ہمارے میں سے کوئی خاتون اٹھ کر مسجد میں بوریہ بچھا دیتی تھی اور وہ خاتون حالت حیض میں ہوتی تھی۔
اگر کوئی خاتون بحالت حیض شوہر کے سر میں کنگھا کرے اور شوہر مسجد میں معتکف ہو
نصر بن علی، عبدالاعلی، معمر، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر میں کنگھی کیا کرتی تھیں اور وہ حالت حیض میں ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معتکف ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر مبارک ان کو دے دیتے اور وہ اپنے حجرے میں ہوتی تھیں۔
حائضہ کا اپنے خاوند کے سر کو دھونا
عمرو بن علی، یحیی، سفیان، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر میری جانب جھکا دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعتکاف میں ہوتے اور میں حالت حیض ہوتی تھی۔
٭٭ قتیبہ، فضیل، ابن عیاض، اعمش تمیم بن سلمہ، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر مبارک مسجد سے باہر نکالتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعتکاف میں ہوتے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر دھوتی اور میں حالت حیض ہوتی تھی۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک میں کنگھی کرتی تھی اور میں حالت حیض میں ہوتی تھی۔
اگر حائضہ خواتین عید گاہ میں داخل ہوں اور مسلمانوں کی دعا میں شرکت کرنا چاہیں ؟
عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، حفصہ سے روایت ہے کہ ام عطیہ جس وقت رسول کریم کا تذکرہ فرماتی تھیں تو اس طرح سے فرماتی تھیں کہ میرے والد کی قسم میں نے کہا کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس اس طریقہ سے فرماتے تھے ؟ حضرت ام عطیہ نے فرمایا قسم ہے میرے والد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نوجوان لڑکیوں اور پردہ نشین خواتین کو اور حائضہ خواتین کو عیدگاہ کی طرف نکلنا چاہیے تو ان خواتین کو چاہیے کہ یہ نیکی اور بھلائی کے کام میں اور مسلمانوں کی دعا میں شرکت کریں البتہ جن خواتین کو حیض آ رہا ہو ان کو چاہیے کہ وہ مسجد سے الگ رہیں یعنی نماز میں شرکت نہ کریں اور مسجد میں وہ داخل نہ ہوں لیکن باہر سے دعا میں شامل رہیں۔
اگر کسی خاتون کو طواف زیارت کے بعد ماہواری آ جائے تو کیا حکم ہے ؟
محمد بن سلمہ، عبدالرحمن بن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابو بکر، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا حضرت صفیہ بنت حیی کو حیض شروع ہو گیا ہے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا کہ انہوں نے ہم کو ٹھہرا رکھا ہو بیت اللہ کا انہوں نے طواف نہیں کیا تھا؟ (یعنی طواف زیارت جو کہ ایک رکن ہے حج کا تو کیا وہ اس سے فارغ نہیں ہو گئی تھیں ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وہ طواف سے فارغ ہو گئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر روانہ ہو چلو۔
بوقت احرام حائضہ کو کیا کرنا چاہئے ؟
محمد بن قدامہ، جریر، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس کو جس وقت مقام ذوالحلیفہ میں نفاس جاری ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ان کے شوہر) حضرت ابو بکر صدیق سے کہا کہ ان کو غسل کرنے اور احرام باندھنے کا حکم دو۔
جس خاتون کو نفاس آ رہا ہو اس کی نماز جنازہ
حمید بن مسعٍدۃ، عبدالوارث، حسین یعنی معلم، ابن بریٍدۃ، سمرۃ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حضرت ام کعب کی نماز ادا جب کہ ان کی وفات ہو گئی تھی حالت نفاس میں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے ان کی پشت کے سامنے۔
اگر ماہواری کا خون کپڑے میں لگ جائے ؟
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ہشام بن عروہ، فاطمہ بنت المنذر، اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ حیض کا خون کپڑے میں لگ جائے تو کیا کرنا چاہیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کپڑے (جگہ) کو مل دو پھر اس کو چھیل دو اور اس کپڑے میں نماز ادا کرو۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، سفیان، ابو مقدام، عدی بن دینار، ام قیس بنت محصن سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ اگر ماہواری کا خون کپڑے میں لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو کھرچ ڈالو پسلی (ہڈی وغیرہ) سے اور تم پانی اور بیری سے اس کو دھو ڈالو۔
غسل کا بیان
جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنا ممنوع ہے
سلیمان بن داؤد و حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابو سائب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے جب کہ وہ شخص جنبی ہو۔
٭٭ محمد بن حاتم، عبد اللہ، معمر، ہمام بن منبہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے میں سے کوئی شخص نہ پیشاب کرے ٹھہرے ہوئے پانی میں پھر اس پانی سے غسل یا وضو کرے۔
٭٭ احمد بن صالح بغدادی، یحیی بن محمد، ابن عجلان، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت فرمائی اور اس پانی سے غسل جنابت بھی کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ابو زناد، موسیٰ بن ابو عثمان، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے اور پھر ایسے پانی میں غسل کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ قتیبہ، سفیان، ایوب، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا تمہارے میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ایسے پانی سے غسل کرے۔
حمام (غسل خانہ) میں جانے کی اجازت سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، عطاء، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص خدا پر اس قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ حمام میں نہ داخل ہو بغیر کسی تہہ بند وغیرہ کے یعنی اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہ کھولے۔
برف اور اولے سے غسل
محمد بن ابراہیم، بشر بن مفضل، شعبہ، مجزاٰۃ بن زاہر، عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے دعا مانگا کرتے تھے اے خدا مجھ کو گناہوں سے پاک اور غلطیوں سے معاف فرما دے۔ اے خدا مجھ کو پاک صاف فرما دے ان گناہوں سے کے جس طریقہ سے صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑا برف اولے اور ٹھنڈے پانی سے۔
٭٭ محمد بن یحیی بن محمد، محمد بن موسی، ابراہیم بن یزید، رقبۃ، مجزاٰۃ اسلمی، ابن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے اے خدا مجھ کو گناہوں سے برف اولوں اور ٹھنڈے پانی سے پاک صاف فرما دے۔ اے خدا مجھ کو گناہوں سیاس طریقہ سے پاک فرما جس طریقہ سے سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے۔
سونے سے قبل غسل سے متعلق
شعیب بن یوسف، عبدالرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، عبداللہ بن ابی قیس سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے میں نے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت جنابت میں کس طریقہ سے سویا کرتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل فرمانے سے قبل سو جایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عام طریقہ سے عمل فرمایا کرتے تھے اور کھبی وضو فرما کر سو جاتے تھے اور غسل نہ فرماتے البتہ وضو لازمی طریقہ سے فرما لیا کرتے تھے۔
رات کے شروع میں غسل کرنا
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، برد، عباٍدۃ بن نسی، غضیف سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے شروع حصہ میں غسل فرمایا کرتے تھے یا رات کے آخر حصہ میں ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک طریقہ سے کیا کرتے تھے کبھی رات کے شروع میں غسل فرماتے اور کبھی آخر رات میں غسل فرماتے۔ میں نے کہا خداوند قدوس کا شکر ہے کہ جس نے دین میں وسعت رکھی۔
غسل کے وقت پردہ کرنا
ابراہیم بن یعقوب، زہیر، عبدالملک، عطاء، حضرت ابو یعلی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی شخص کو سامنے غسل کرتے ہوئے دیکھا (یعنی بغیر کسی آڑ کے غسل کرتے ہوئے دیکھا) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر چڑھ گئے اور اللہ کی حمد بیان فرمائی پھر فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس علم اور شرم والا ہے اور پردہ میں رکھتا ہے اور وہ دوست رکھتا ہے شرم اور پردہ کو پس تمہارے میں سے جس وقت کوئی شخص غسل کرے تو اس کو پردہ کر لینا چاہیے۔
٭٭ ابوبکر بن اسحاق، اسود بن عامر، ابو بکر بن عیاش، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، حضرت ابو یعلی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس بہت پردہ والا ہے تو تمہارے میں سے جس وقت کوئی شخص غسل کرے تو اس کو چاہیے کہ کسی شئی کی آڑ کر لے۔
٭٭ قتیبہ، عبیٍدۃ، اعمش، سالم، کریب، عبداللہ ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غسل کرنے کے واسطے پانی رکھا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پردہ کر لیا پھر فرمایا میں ایک کپڑا بدن کے خشک کرنے کے واسطے لے کر حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا خیال نہیں فرمایا۔
٭٭ احمد بن حفص بن عبد اللہ، ابراہیم، موسیٰ بن عقبۃ، صفوان بن سلیم، عطاء ابن یسار، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت ایوب ننگے ہونے کی حالت میں غسل فرمایا کرتے تھے کہ اس دوران ان کے اوپر سونے کی ٹڈی آ کر گر گئی تو وہ اپنے کپڑے میں اس کو پکڑ کر سمیٹنے لگے۔ اس وقت خداوند قدوس نے ان کو پکارا اور فرمایا اے ایوب کیا میں نے تجھ کو غنی نہیں بنایا۔ حضرت ایوب نے فرمایا کس وجہ سے نہیں۔ اے میرے پروردگار یعنی تو نے مجھ کو بلاشبہ غنی بنایا ہے لیکن میں تیری برکات سے غنی نہیں ہو سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ میں چاہے جس قدر غنی ہو جاؤں پھر بھی میں تیری نعمتوں کا محتاج ہی رہوں گا۔
پانی میں کسی قسم کی حد کے مقرر نہ ہونے سے متعلق
قاسم بن زکریا بن دینار، اسحاق بن منصور، ابراہیم بن سعد، زہری، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک برتن سے غسل فرماتے جو کہ ایک فرق تھا اور میں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن میں غسل فرماتے (یعنی دونوں ہاتھ ڈال کر اس میں سے پانی لیتے جاتے تھے )
مرد اور عورت اگر ایک ساتھ اکٹھا غسل کریں
سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام، قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے اور دونوں اس میں سے چلو لیا کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں غسل جنابت ایک ہی برتن سے کیا کرتے تھے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، عبیٍدۃ بن حمید، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت اسود سے فرمایا کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہوتا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے برتن میں چھین جھپٹ کرتی تھی۔ یعنی غسل جنابت کے وقت میں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی ایک برتن میں غسل کرتے تھے۔
مرد اور عورت کو ایک ہی برتن سے غسل کرنے کی اجازت
محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عاصم، سوید بن نصر، عبد اللہ، عاصم، معاذٰۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے۔ میں چاہتی کہ جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل غسل سے فارغ ہو جاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاہتے تھے کہ جلدی سے مجھ سے پہلے غسل سے فارغ ہو جائیں۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ میرے واسطے پانی رہنے دیں اور میں کہتی کہ میرے واسطے رہنے دو حضرت سوید نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاہتے تھے کہ جلدی سے غسل فرما لیں اور میں چاہتی تھی کہ میں جلدی سے غسل سے فارغ ہو جاؤں تو میں کہتی تھی دیکھو میرے واسطے پانی رہنے دو۔
ایسے پیالے سے غسل کرنا جس میں آٹا کا اثر باقی ہو
محمد بن یحیی بن محمد، محمد بن موسیٰ بن اعین، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، ام ہانی سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں فتح مکہ کے دن حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت غسل فرما رہے تھے اور اس وقت فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آڑ کئے ہوئے تھیں کسی کپڑے سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کونڈے سے کہ جس میں آٹا لگا ہوا تھا اس سے غسل فرما رہے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز چاشت ادا فرمائی۔ ام ہانی فرماتی ہیں مجھ کو یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس قدر رکعات ادا فرمائیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل سے فارغ ہوئے۔
جس وقت عورتوں کے سر کی مینڈھیاں گندھی ہوئی ہوں تو سر کا کھولنا لازمی نہیں ہے
سوید بن نصر، عبد اللہ، ابراہیم بن طہمان، ابو زبیر، عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ تم نے دیکھا کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں اس برتن سے غسل فرماتے تھے وہاں پر ایک ڈول صاع کے برابر رکھا ہوا تھا یا اس سے کچھ کم ہو گا ہم دونوں اس ڈول سے ایک ساتھ غسل کرنا شروع کرتے تو میں اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالتی اپنے ہاتھ سے اور میں اپنے سر کے بال کھول لیتی (غسل کرنے کے وقت)
اگر کسی شخص نے احرام کے واسطے غسل کیا اور اس نہ احرام کے بعد پھر خوشبو لگائی اور اس خوشبو کا اثر باقی رہ گیا تو کیا حکم ہے ؟
ہناد بن سری، وکیع، سعد و سفیان، ابراہیم بن محمد بن منتشر، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ اگر میں گندھک لگا کر حج کروں تو مجھ کو یہ عمل اچھا معلوم ہوتا ہے اس سے کہ میں حالت احرام میں ہوں اور حج کروں اس حالت میں کہ خوشبو پھیلاتا ہوں (یعنی میرے جسم یا کپڑے سے خوشبو آتی ہو) محمد بن منتشر نے فرمایا یہ سن کر میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خود خوشبو لگائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے پھر اس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا (تو احرام کی حالت میں خوشبو کا اثر باقی رہا)۔
جنبی شخص اپنے تمام جسم پر پانی ڈالنے سے قبل دیکھ لے کہ اگر ناپاکی اس کے جسم پر لگی ہو تو اس کو زائل کرے
محمد بن علی، محمد بن یوسف، سفیان، اعمش، سالم، کریب، عبداللہ ابن عباس، میمونہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے وضو فرمایا کہ جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا کرنے کے واسطے وضو فرمایا کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاؤں مبارک نہیں دھوئے اور جو کچھ اس پاؤں پر لگا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دھویا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے جسم پر پانی بہایا۔ اس کے بعد اپنے پاؤں کو وہاں سے ہٹایا اور دونوں پاؤں مبارک دھوئے۔ حضرت میمونہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غسل جنابت یہی تھا۔
شرم گاہ دھونے کے بعد زمین پر ہاتھ مارنے کا بیان
محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، سالم بن ابی جعد، کریب، عبداللہ ابن عباس، میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت غسل جنابت فرماتے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ مبارک دھوتے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور شرمگاہ دھوتے پھر اپنا دایاں ہاتھ زمین پر مارتے اور اس پر رگڑتے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھ دھوتے اور جس طریقہ سے نماز کیلئے وضو کیا جاتا ہے اسی طریقہ سے وضو فرماتے پھر سر مبارک اور پورے جسم پر پانی ڈالتے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جگہ سے ہٹ جاتے اور اپنے دونوں پاؤں مبارک پانی سے دھوتے۔
وضو سے غسل جنابت کا آغاز کرنا
سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت غسل جنابت فرماتے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے پھر جس طریقہ سے نماز کا وضو ہوتا ہے اس طریقہ سے وضو فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھوں سے بالوں میں خلال فرماتے۔ جس وقت یقین ہو جاتا کہ جسم مبارک میں پانی پہنچ گیا ہے اس وقت تین مرتبہ پانی اپنے اوپر ڈالتے پھر تمام جسم مبارک دھوتے۔
طہارت حاصل کرنے میں دائیں جانب سے ابتدا کرنا
سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، اشعث بن ابی اشعثاء، مسروق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب سے (غسل) فرمانا پسند خیال فرماتے تھے جہاں تک ہو سکتا اپنی طہارت حاصل کرنے میں اور جوتا پہن لینے میں اور کنگھی کرنے میں۔ مسروق جو کہ اس روایت کے راوی ہیں انہوں نے (مقام) واسط میں اس حدیث کی روایت کرتے وقت اس قدر اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک کام دائیں جانب سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔
غسل جنابت کے وضو میں سر کے مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے
عمران بن یزید بن خالد، اسماعیل بن عبد اللہ، ابن سماعۃ، اوزاعی، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ و عمرو بن سعد، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے غسل جنابت کے متعلق دریافت فرمایا کہ کس طریقہ سے یہ غسل کرنا چاہیے اور اس سلسلہ کی بہت سی روایات گزر گئی ہیں پہلے اپنے دائیں ہاتھ پر دو یا تین مرتبہ پانی ڈالے پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالے اور پانی لے کر اپنی شرم گاہ پر بہائے اور بائیں ہاتھ سے شرم گاہ دھوئے تاکہ شرم گاہ (میں گندگی نجاست وغیرہ لگی ہو تو وہ) صاف ہو جائے۔ اس کے بعد اگر دل چاہے تو بائیں ہاتھ کو مٹی سے رگڑے پھر بائیں ہاتھ پر پانی ڈالے یہاں تک کہ وہ صاف ہو جائے پھر دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے اور کلی کرے اور ناک میں پانی دے اور چہرہ دھوئے اور تین تین مرتبہ دونوں کہنی دھوئے جس وقت سر کا نمبر آئے تو سر پر مسح نہ کرے بلکہ سر پر پانی بہا دے اس طریقہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غسل جنابت کی کیفیت نقل فرمائی۔
غسل جنابت میں جسم صاف کرنے سے متعلق
علی بن حجر، علی بن مسہر، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت غسل جنابت فرماتے تھے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ مبارک دھوتے پھر نماز کیلئے وضو کرتے پھر سر کے بالوں کا انگلیوں سے خلال فرماتے۔ یہاں تک کہ سر کے صاف ہونے کا یقین و اطمینان حاصل ہو جاتا پھر دونوں چلو بھر کرتین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے۔ پھر تمام جسم پر پانی ڈالتے۔
غسل جنابت میں جسم صاف کرنے سے متعلق
محمد بن مثنی، ضحاک بن مخلد، حنظلۃ بن ابی سفیان، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت غسل جنابت فرماتے تو ایک برتن پانی منگاتے حلاب کی طرح کا اور ہاتھ میں لے کر پہلے سر کے دائیں جانب سے غسل کا آغاز فرماتے پھر بائیں جانب سے پھر دونوں ہاتھ سے پانی لیتے اور سر پر ہاتھ ملتے۔
جنبی شخص کو سر پر کس قدر پانی ڈالنا چاہئے ؟
عبید اللہ بن سعید، یحیی، شعبۃ، ابو اسحاق، سوید، عبد اللہ، شعبہ، ابو اسحاق، سلیمان، جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک روز غسل کرنے کے بارے میں تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالتا ہوں۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، مخول، ابو جعفر، جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت غسل فرماتے تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالتے۔
ماہواری سے غسل کرنے کے وقت کیا کرنا چاہئے
حسن بن محمد، عفان، وہیب، منصور بن عبدالرحمن، امہ صفیہ بنت شیبہ ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں ماہواری سے فراغت کے بعد غسل کس طریقہ سے کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایک ٹکڑا لے کر کپڑے یا روئی کا کہ جس میں مشک لگی ہو اس سے پاکی حاصل کرو۔ اس خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کس طریقہ سے پاکی حاصل کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم پاکی حاصل کرو۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور اس خاتون کی جانب سے چہرہ پھیر لیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ سمجھ گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مفہوم کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا میں نے اس خاتون کو اپنی جانب کھینچ لیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جو مقصد تھا اس کو واضح فرما دیا۔
غسل میں اعضاء کو ایک ایک مرتبہ دھونا
اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، سالم بن ابی الجعد، کریب، عبداللہ ابن عباس، میمونہ، فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل جنابت کیا تو اپنی شرم گاہ کو دھویا پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر رگڑا پھر نماز کی طرح وضو کیا اور پھر پورے بدن اور سر پر ایک مرتبہ پانی بہایا۔
جس خاتون کا بچہ پیدا ہو وہ کس طریقہ سے احرام باندھے
عمرو بن علی و محمد بن مثنی، و یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعد، جعفر بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد امام محمد باقر سے سنا انہوں نے کہا ہم لوگ جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حجۃ الوداع کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے نکلے جس وقت ماہ ذی القعدہ کے پانچ روز گزرے تھے اور ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نکلے جس وقت ذوالحلیفہ میں داخل ہوئے تو اسماء بنت عمیس (اہلیہ ابو بکر) کو بچہ کی ولادت ہو گئی کہ جن کا نام محمد بن ابی بکر تھا۔ انہوں نے کسی کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں روانہ کیا اور پوچھا اب مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم غسل کر کے لنگوٹ باندھ لو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لبیک پکارا (یعنی اب احرام باندھ لو)
غسل سے فارغ ہونے کے بعد وضو نہ کرنے سے متعلق
احمد بن عثمان بن حکیم، حسن، ابو اسحاق، عمرو بن علی، عبدالرحمن، شریک، ابو اسحاق، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل کرنے کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے کیونکہ غسل کرنا کافی ہے۔
ایک سے زیادہ بیویوں سے جماع کر کے ایک ہی غسل فرمانا
حمید بن مسعٍدۃ، بشر، ابن مفصل، شعبہ، ابراہیم بن محمد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خوشبو لگایا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس ہوتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کو احرام باندھے ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک سے خوشبو مہکتی تھی۔
مٹی سے تیمم کرنا
حسن بن اسماعیل بن سلیمان، ہیثم، سیار، یزید الفقیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو پانچ قسم کے انعام عطا فرمائے گئے ہیں جو مجھ سے قبل کسی کو عنایت نہیں فرمائے گئے۔ اول تو ایک ماہ کے رعب کے ساتھ مدد کیا گیا ہوں۔ دوسرے یہ کہ میرے واسطے زمین مسجد بنائی گئی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ میرے واسطے تمام زمین پاک بنائی گئی (یعنی تیمم کی دولت سے میں نوازا گیا ہوں گزشتہ امت کو یہ دولت حاصل نہیں تھی) اس وجہ سے اب میری امت میں سے جس شخص کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ نماز ادا کرے اور چوتھی بات یہ ہے کہ مجھ کو شفاعت کبری کا حق دیا گیا ہے یعنی شفاعت عامہ میرے واسطے خاص کر دی گئی ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ میں پوری کائنات اور تمام بنی نوع انسان کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں یعنی مجھ سے پہلے ہر ایک بنی خاص اپنی قوم کی جانب بھیجا جاتا ہے۔
ایک شخص تیمم کر کے نماز ادا کر لے پھر اس کو اندرون وقت پانی مل جائے ؟
مسلم بن عمرو بن مسلم، ابن نافع، لیث بن سعد، بکر بن سواٍدۃ، عطاء بن یسار، ابو سعید سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے تیمم کیا اور نماز ادا کر لی پھر وقت کے اندر ان کو پانی مل گیا۔ یا ایک شخص نے وضو کر لیا اور نماز کا اس نے اعادہ کر لیا اور دوسرے شخص نے نماز نہیں لوٹائی پھر دونوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے ارشاد فرمایا کہ جس نے کہ نماز نہیں لوٹائی تھی کہ تم نے سنت پر عمل کیا (یعنی حکم شرح اسی طریقہ سے ہے کہ نماز کا ادا کرنا لازم نہیں ) اور تمہاری نماز ہو گئی اور دوسرے شخص سے فرمایا تمہارے واسطے دوگنا حصہ ہے یا تمہارے واسطے ایک لشکر کا حصہ ہے (مطلب یہ ہے کہ جس طریقہ سے لشکر کو غنیمت کے مال سے حصہ ملتا ہے اس قدر تم کو اجر ملے گا)
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، لیث بن سعد، عمیرۃ، بکر بن سواٍدۃ، عطاء بن یسار سے مذکورہ روایت (مرسلا) جیسی روایت اوپر گزری ہے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ ایک شخص کو جنابت لاحق ہوئی تو اس شخص نے نماز نہیں پڑھی پھر وہ شخص رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا اور ایک شخص جنبی ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بھی وہی ارشاد فرمایا کہ جو پہلے ارشاد فرمایا تھا یعنی تم نے ٹھیک کیا۔
مذی خارج ہونے پر وضو کا بیان
علی بن میمون، مخلد بن یزید، ابن جریج، عطاء، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی اور حضرت عمارنے آپس میں بات چیت کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے بہت زیادہ مذی آتی ہے اور میں اس مسئلہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرنے سے شرم محسوس کرتا ہوں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں ہے لیکن تم دونوں میں سے کوئی شخص مسئلہ دریافت کر لے تو میں نے سنا کہ ان دونوں میں سے (مقداد بن اسود اور عمار بن یاسر میں سے ) کوئی شخص یہ مسئلہ دریافت کرے چنانچہ ان حضرات میں سے کسی نے یہ مسئلہ دریافت کیا لیکن میں بھول گیا کہ مسئلہ دریافت کرنے والے کون صاحب تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص کو ایسا ہو کہ اتفاق سے اس کے مذی نکل آئے تو اس کو چاہیے کہ اس کو دھو ڈالے پھر نماز کی طرح کا وضو کر لے۔
٭٭ محمد بن حاتم، عبٍدۃ، سلیمان، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس، علی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ کو بہت زیادہ مذی آتی تھی میں نے ایک شخص سے کہا کہ تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کرو چنانچہ ان صاحب نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس مسئلہ کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مذی میں صرف وضو کرنا کافی ہے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد بن حارث، شعبہ، سلیمان، اعمش، منذرہ، محمد بن علی، علی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ کو شرم و حیا کی وجہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مذی سے متعلق مسئلہ معلوم کرنے میں شرم محسوس ہوئی کیونکہ فاطمہ میری منکوحہ تھیں اس وجہ سے میں نے حضرت مقداد سے کہا تو انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسئلہ دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس میں وضو (کافی) ہے۔
٭٭ احمد بن عیسی، ابن وہب، مخرمۃ بن بکیر، سلیمان بن یسار، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت مقداد کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں مذی سے متعلق مسئلہ دریافت کرنے کے بارے میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم وضو کر لو اور شرم گاہ دھو ڈالو۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، لیث بن سعد، بکیر بن اشج، سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت علی نے حضرت مقدار کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں مذی سے متعلق حکم شرع دریافت کرنے کے واسطے بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی شرم گاہ دھو ڈالو اور وضو کر لو۔
٭٭ عتبہ بن عبد اللہ، مالک، ابو نضر، سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت علی نے حضرت مقدار بن اسود سے کہا کہ تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مذی سے متعلق مسئلہ دریافت کرو کہ جس وقت کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے اور اس کی مذی خارج ہو جائے تو اس شخص کو کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ میرے نکاح میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی ہیں اس وجہ سے مجھ کو یہ مسئلہ دریافت کرتے ہوئے حیا محسوس ہوتی ہے۔ حضرت مقداد نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو اس قسم کا اتفاق ہو تو وہ اپنی شرم گاہ کو دھو ڈالے اس کے بعد اس کو وضو کرنا چاہیے اور اس طرح وضو کرے کہ جیسا وضو نماز کے واسطے کرتا ہے۔
جس وقت کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اس کو وضو کرنا چاہئے
عمران بن یزید، اسماعیل بن عبد اللہ، اوزاعی، محمد بن مسلم زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص رات میں نیند سے بیدار ہو تو اس کو اپنا ہاتھ برتن میں نہیں ڈالنا چاہیے کہ جس وقت تک کہ وہ شخص اس پر دو مرتبہ یا تین مرتبہ پانی نہ بہا لے۔ اس لئے کہ معلوم نہیں کہ اس کا ہاتھ کس جگہ رہا یعنی رات میں سوتے وقت کس کس جگہ ہاتھ پڑا۔
٭٭ قتیبہ، داؤد، عمرو، کریب، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو دائیں جانب کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا کی اور لیٹ کر ان کو نیند آ گئی اس کے بعد مؤذن آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی اور وضو نہیں فرمایا۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، محمد بن عبدالرحمن طفاوی، ایوب، ابو قلابۃ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے جس وقت کوئی شخص نماز میں اونگھنے لگ جائے تو اس کو چلے جانا چاہیے اور سو جانا چاہیے کیونکہ اونگھ کی حالت میں نماز ادا کرنا بہتر نہیں ہے۔
شرم گاہ چھونے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
قتیبہ، سفیان، عبداللہ یعنی ابن ابو بکر، ابو عبدالرحمن، عروہ، بسرہ بنت صفوان سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی شرم گاہ کو چھوئے اس کو چاہیے کہ وضو کرے۔
٭٭ عمران بن موسی، محمد بن سواء، شعبہ، معمر، زہری، عروہ بن زبیر، بسرۃ بنت صفوان سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنا ہاتھ شرم گاہ تک پہنچائے اس کو چاہیے کہ وہ وضو کرے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے بیان کیا کہ شرم گاہ چھونے سے وضو لازمی ہے اور فرمایا کہ مجھ سے حضرت بسرہ بنت صفوان نے اس واقعہ کو بیان فرمایا کہ حضرت عروہ نے کسی کو حضرت بسرہ کے پاس بھیجا۔ بسرہ نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان باتوں کا تذکرہ فرمایا کہ جن سے وضو کرنا لازم ہوتا ہے تو ارشاد فرمایا کہ شرم گاہ کو چھونے سے وضو کرنا لازم ہے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، یحیی بن سعید، ہشام بن عروہ، بسرۃ بنت صفوان سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنی شرم گاہ کو چھوئے تو اس کو چاہیے کہ وہ شخص نماز نہ پڑھے جب تک وضو نہ کر لے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید