FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سلسلۂ روز و شب

ڈاکٹر سلیم خان

حصہ دوم

حصہ اول

حصہ سوم

 

لال چوک پر ترنگا اور لال قلعہ پر بھگوا

(قسط سوم )

بی جے پی والے دراصل خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ چاہنے اور ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ انسان جو کرنا چاہتا ہے اکثر وہ ہوتا نہیں ہے اور جو نہیں چاہتا وہ ہو جاتا ہے مثلاً ایسا کون سوئم سیوک ہو گا جو یہ نہیں چاہتا ہو کہ لال قلعہ پر بھگوا جھنڈا لہرائے لیکن چاہنے سے کیا ہوتا ہے ؟ کل کو اگرسر سنگھ چالک موہن بھاگوت کو بھی ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے تب بھی اس بیچارے کو لال قلعہ پر ترنگا ہی لہرانا پڑے گا لیکن ان عقل کے ماروں کو کون سمجھائے کہ لال چوک پر ترنگا پرچم ایسا ہی ہے جیسا کہ لال قلعہ پر بھگوا لہرانا۔ چونکہ یہ آسان سی بات بھارتیہ جنتا پارٹی کی سمجھ میں نہیں آتی اس لئے وہ بار بار لال چوک پر پرچم کشائی کے لئے مچل جاتی ہے اور یاترا پر نکل پڑتی ہے۔ یہ یاترا ہندوستان بھر میں گھومتی ہے اور پھر جا کر جموں یا پنجاب کے اندر ایک جترا کی شکل اختیار کر کے دم توڑ دیتی ہے۔ اس لئے اب اس پارٹی کو اپنا نام بدل کر بھارتیہ جتراپارٹی رکھ لینا چاہئے۔ بھارت کی جنتا کے مسائل میں اسے ویسے بھی کوئی خاص دلچسپی ہے نہیں۔ اپنے وجود کا احساس کرانے کی خاطر یاترائیں نکالنا اور جترا لگانا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی تک ان یاتراؤں سے اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

سنگھ پریوار کے اندر یاترا کی داغ بیل جن سنگھ کے بانی صدر شیاما پرساد مکرجی نے ڈالی۔ وہ بھی ایک سیماب صفت آدمی تھے۔ شروع میں تقسیمِ ہند کے مخالف تھے لیکن بعد میں اس کے حامی بن گئے اس لئے کہ غیر منقسم بنگال میں ہندو اقلیت میں تھے اور یہ انہیں گوارہ نہ تھا۔ مغربی بنگال کی علیٰحدگی نے ہندوؤں کو اقلیت سے نکال کر اکثریت میں پہنچا دیا تھا گویا مکرجی صاحب کے نزدیک مل جل کر رہنے سے زیادہ اہمیت اکثریت میں رہنے کی تھی۔ نظریاتی مد و جزر کا اثر ان کی انتخابی سیاست پر بھی ہوتا رہا۔ انہوں نے پہلا انتخاب کانگریس کے ٹکٹ پر لڑا پھر استعفیٰ دے کر آزاد کھڑے ہو گئے دوبارہ الکشن جیتنے کے بعد ہندو مہاسبھا کا چولا اوڑھ لیا۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد جب ہندو مہاسبھا پر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے پابندی لگائی تو انہوں نے مہا سبھا کا بسنتی چولا اتار کر پھینک دیا اور اس سے الگ ہو گئے۔ پنڈت نہرو نے خوش ہو کر انہیں وزارت صنعت و حرفت سے نواز دیاتو پھر نہرو کے لیاقت علی خاں کو دی جانے والی دعوت کا بہانہ بنا کرکانگریس سے دوسری بار قطع تعلق کر لیا اور سر سنگھ چالک گرو گولوالکر کا آشیرواد لینے کے لئے ناگپور پہنچ گئے اس طرح ایک نئی سیاسی جماعت بھارتیہ جن سنگھ وجود میں آ گئی۔ خدا کا کرنا ایساہوا کہ پہلے ہی انتخاب میں اس تین الفاظ والی جماعت کو تین سیٹیں بھی مل گئیں۔ لیکن اس کے بعد مکرجی صاحب کے دماغ میں کشمیر کا سودہ سمایا اور ۱۹۵۳ ء میں کشمیر کی یاترا پر نکل کھڑے ہوئے۔ اس وقت کشمیر میں داخلے کے لئے اجازت نامہ درکار تھا لیکن انہوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلا اجازت داخل ہونے کی کوشش کی نتیجہ یہ ہوا کہ سشما اور ارون جیٹلی کی مانند گرفتار کر لیے گئے اور حراست ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

شیاما پرساد مکرجی کے بعد اڈوانی جی کی یادگار ایودھیا یاترا کو سمستی پور بہار میں لالو پر ساد یادو نے روک لیا اس لئے اپنے رام رتھ میں سوار ہو کر وہ ایودھیا پہنچنے سے محروم رہے۔ اس یاترا کو روکنے کے طفیل لالو نے پندرہ سال بہار پر راج کیا اور مرکز میں وزیر ریلوے بھی ہوئے لیکن اس یاترا کے باعث اڈوانی جی اس قدر بدنام ہوئے کہ بی جے پی کو انتخاب میں کامیابی دلانے کے باوجود انہیں اٹل جی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اٹل جی ایودھیا یاترا میں نہ گرفتار ہوئے اور نہ ہی اس کے دو سال بعد بابری مسجد کی شہادت کے وقت ایودھیا کے قریب پھٹکے بلکہ الٹا افسوس کا اظہار کر کے مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہے۔

بی جے پی کے تیسرے صدر مرلی منوہر جوشی کو بھی کشمیر جانے کی سوجھی اور انہوں نے ایکتا یاترا نکالی۔ اٹل جی اور اڈوانی جی انہیں جموں میں جلسہ کر کے چھوڑ آئے اور دہلی میں یہ پوچھے جانے پر کہ آپ لال چوک کیوں نہیں گئے ؟ جواب دیا مجھے خودکشی کا شوق نہیں ہے۔ خیر کسی طرح نرسمہاراؤ نے مرلی جی کو لال چوک کے بجائے ایک فوجی چھاونی میں پہنچایا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے جب انہوں نے ترنگا لہرایا تو پتہ چلا وہ الٹا ہے مطلب ہرا رنگ اوپر اور لال نیچے۔ اب یہ حسنِ اتفاق تھا یاکسی کشمیری کے ہاتھ کی صفائی تھی یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں خود بی جے پی کے ذریعہ لہرائے جانے والے پرچم میں بھی اوپر سبز رنگ ہی تھا۔ یہ جھنڈا وندن بھی مرلی جی کو دوبارہ بی جے پی کا صدر نہ بنا سکا اور اس کے بعد ان کا پرچم پارٹی کے اندر ہمیشہ کے لئے سر نگوں ہو گیا۔

محترمہ اوما بھارتی کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ نہ صرف ایودھیا میں اڈوانی جی کے ساتھ تھیں بلکہ سری نگر میں مرلی جی کے ساتھ بھی موجود تھیں جب وہ مدھیہ پردیش کی وزیر اعلیٰ بنیں تو وزیر اعظم بننے کے چکر میں انہوں نے ہبلی کی عیدگاہ میں جا کر پرچم لہرانے کا فیصلہ کیا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں نہ صرف مدھیہ پردیش کی وزارت اعلیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑ ی بلکہ آگے چل کر پارٹی نے ہی انہیں چلتا کر دیا۔ اب وہ اپنی بھارتیہ جن شکتی پارٹی بنا کر نہ جانے کس صحرا میں کشتی چلا رہی ہیں۔ اڈوانی جی نے جب سیاست سے ریٹائرمنٹ کا ارادہ کیا تو ان کے دو فرمانبردار چیلے سشما سوراج اور ارون جیٹلی صدارت کے سب سے بڑے دعویدار بن کر سامنے آئے لیکن سنگھ پریوار نے اڈوانی کی جناح نوازی کے لئے دھوبی کے بجائے اس کے گدھے پر غصہ اتارتے ہوئے ان دونوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا اور نتن گڈکری جیسے نا اہل شخص کو محض وفاداری کے انعام سے نوازتے ہوئے پارٹی کا صدر بنوا دیا۔ فی الحال پارٹی کے دونوں پٹے ہوئے مہروں نے اپنی سیاسی بساط کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے ایکتا یاترا  نکالنے کا فیصلہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس یاتراسے گڈکری اسی طرح کنارہ کش رہے جیسے اٹل بہاری اڈوانی کی یاترا سے اور اڈوانی جی مرلی منوہر جوشی کی یاترا سے تھے۔ وہ پارٹی جو آپس میں ایکتا پیدا نہیں کر سکتی وہ ملک کے اندر کس طرح اتحاد پیدا کرے گی یہ تو خود بی جے پی والے بھی نہیں جانتے۔ لیکن اس یاترا کے بعد ارون اور سشما کا کیا حشر ہونے والا ہے یہ بتلانا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ نتن گڈکری ان دونوں کی سیاسی ارتھی کو کشمیر میں نہیں تو جموں میں لے جا کر ضرور جلائیں گے۔

 ملک کے عوام و خواص کواب اس طرح کے تماشوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ انہیں مرلی منوہر جوشی کی ایکتا یاترا کا حشر یاد تھا اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ سری نگر کے لال چوک پر ترنگا لہرانے کا شوشہ کامیاب نہ ہوسکا۔ ملک کے عوام اس حقیقت سے واقف ہو گئے ہیں کہ یہ سب سرکس کے شیر ہیں جو محفوظ شامیانے میں تو خوب گرجتے اور دہاڑتے ہیں لیکن اگر انہیں حفاظتی دستوں کے بغیر گلی محلے میں چھوڑ دیا جائے تو چوہے کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے کہ محض شیر کی کھال کو لپیٹ لینے سے دانت تو نہیں نکل آتے۔ اور بغیر دانت والے شیر سے بچے ڈرتے نہیں کھیلتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو اپنی مادرِ تنظیم آر ایس ایس کے ناگپور میں واقع صدر دفتر پر یا دہلی مرکز جو اتفاق سے جھنڈے والان نامی محلہ میں ہے ابھی تک ترنگا لہرا نے میں کامیاب نہ ہو سکی تو اس سے لال چوک میں پرچم کشائی کی توقع ایک خام خیالی ہی ہے اس لئے کہ کشمیر میں ابھی تک یہ لوگ کسی پنچایت کا انتخاب بھی جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا کی باسی کڑھی میں اس نئے ابال کی وجہ راشٹر بھکتی نہیں ہے بلکہ عوام کی توجہات کو ہندو دہشت گردی کی جانب سے ہٹانا تھا۔ اس حوالے سے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ فی الحال ذرائع ابلاغ میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے لیکن یہ معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کہ محض کھیل تماشے سے حل ہو جائے اگر سھگی پریوار والے اس معاملے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کے ماتھے پر ایک نیا نہایت بدنما کلنک لگ چکا ہے اور پھر اس کو مٹانے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہو گی۔ ایسا کیونکر ممکن ہو گا ؟اس سلسلے میں ایک مشورہ تو یہ ہے کہ اب بی جے پی کے رہنما سری نگر کے بجائے خود اپنی ریاست مدھیہ پر دیش کا رخ کریں اور دیواس کی یا ترا نکالیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اندور کے قریب دیواس میں ایسا کیا ہے کہ سنگھ پریوار کو اس کا رخ کرنا چاہئے۔ اگر کسی سنگھی سے آپ یہ سوال کریں گے تو وہ بلا توقف جواب دے گا ہمارے مہان پرچارک سنیل جوشی دیواس بائی پاس کے قریب ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے جنہیں سیمی سے تعلق رکھنے والے مسلم دہشت گردوں نے بلی چڑھا دیا۔ لیکن یہ معاملہ ایک ماہ قبل تک کا تھا جب تک کہ راجستھان پولس نے ہر شد سولنکی عرف راج کو جوشی کے قتل کے الزام میں گرفتار نہیں کیا تھا اور اس نے اپنا اعترافِ جرم نہیں کیا تھا۔ اس کا ایک اثر تو یہ ہوا کہ جوشی کے قتل کی پہلی اوردوسری برسی کے موقع پر سنگھ کے جو لوگ اس کی تصویر کو ہار پھول چڑھانے کے لئے اس کے گھر گئے تھے اس سال وہ اس جانب پھٹکے بھی نہیں۔ راج بسٹ بیکری کا مجرم ہے اور گجرات سے فرار ہو کر سنیل جوشی کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ اس کی گرفتاری کے بعد سنگھ پریوار نے جوشی خاندان کی جانب سے اپنی نظریں پھیر لیں اور پہلے ہی سے معاشی مشکلات میں گرفتار اس کے خاندان کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جوشی کی بھانجی چنچل کے مطابق اب تو آرایس ایس کی جانب سے چلائے جانے والے سرسوتی شیشو مندر نے پانچ سو روپئے فیس ادا نہ کرنے کے باعث اس کی بہن کو امتحان میں شریک ہونے سے محروم کر دیا ہے حالانکہ جب جوشی زندہ تھا تو ان کی یہ مجال نہیں تھی حالانکہ اس وقت روپئے کی کوئی کمی بھی نہیں تھی۔ چنچل کے مطابق اب وہ ہندوتوا وادیوں سے نفرت کرتی ہے حالانکہ اس کی دیوار پر اب بھی ساورکر، گولوالکر اور ہیڈگیوار کی تصویریں آویزاں ہے۔ شاید سنگھ والے سنیل جوشی سے اس لئے بھی ڈرتے تھے کہ اس نے کانگریس کے رہنما پیار سنگھ نیناما اور اس کے لڑکے کا قتل کر دیا تھا اور ہندوستان بھر میں ہونے والی زعفرانی دہشت گردی میں ملوث تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چنچل کے مطابق جس رات جوشی کا قتل ہوا سادھوی پرگیہ اس کے گھر آئی تھی اور ایک صندوق اٹھا کر لے گئی۔ اس نے سنیل کے گھر والوں کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا کہ اس کا قتل ہو چکا ہے بلکہ انہیں بعد میں پتہ چلا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سادھوی کو جوشی کے گھر والوں سے پہلے اس کے قتل کا پتہ کیسے چل گیا ؟ اور اس صندوق میں کیا تھا جواس رات وہ اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی۔ اگر سشما اور ارون اس کا پتہ لگا کر ہندوستان کے عوام کو بتلا دیں تو یہ واقعی اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ اپنے پاپوں کا پرائشچت کر رہے ہیں۔ نیز سنگھ پریوار کے ایسے خاندان کے ساتھ بی جے پی ایکتا قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جس سے فی الحال سنگھ پریوار نے نظریں پھیر لی ہیں۔

سشما اور ارون کو اگر ایسا لگتا ہے کہ سنیل جوشی کے گھر جانے سے وہ خود دھر لئے جائیں گے اس لئے ایسا کرنا خطرناک ہے تو کم از کم دیواس کے قریب پتر کھیڈا گاؤں میں جا کر شہراج بی سے ملاقات کریں اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کریں جس کے ۶۵ سالہ شوہر رشید شاہ اور ۲۷ سالہ جوان بیٹے جلیل کو ہندوتوا وادیوں نے سنیل جوشی کے قتل کے الزام میں زندہ جلا دیا تھا نیز ایک لڑکے اور لڑکی کو زخمی کر دیا۔ عدالت نے اس کے الزام میں پانچ مجرمین کو عمر قید کی سزا دی لیکن ان میں سے بھنور سنگھ اور مہی پال سنگھ کے علاوہ باقی تین ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں۔ ان لوگو ں نے ہائی کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ تین ملزمین عجب سنگھ، نارائن سنگھ اور وجئے گانی مندی اس قدر بارسوخ ہیں کہ کھلے بندوں گھومتے ہیں لیکن مدھیہ پردیش کا انتظامیہ انہیں گرفتار کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ ڈسٹرکٹ جج سی وی سرپر کر نے پولس کی اس معاملے میں سرزنش بھی کی اس کے باوجود ا س کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ اگر سشما یا ارون اپنے وزیرِ اعلیٰ چوہان سے کہہ کر انہیں گرفتار کروائیں اور سزا دلوائیں تو یقیناً یہ ملک کے اندر اتفاق و اتحاد کی جانب ایک اہم قدم ہو گا لیکن بی جے پی کو فضول یاتراؤں سے فرصت ملے تبھی تو وہ ایسا کرسکے گی۔ ایسا کرنے میں اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ اس کے اپنے پریوار والے اشوک سنگھل سے لے کر پروین توگڑیہ تک سارے کٹر پنتھی ڈنڈا لیکر اس کے پیچھے پڑ جائیں گے اس لئے بی جے پی سے فی الحال کسی سمجھداری کی توقع کرنا ایک کارِ دارد ہی ہے۔ یہ پارٹی فی الحال اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کی خاطر شارٹ کٹ تلاش کر رہی ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ لال قلعہ کا راستہ لال چوک سے ہو کر جاتا ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ بی جے پی والے جب بھی اس راستہ سے لال قلعہ کی جانب کوچ کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ الٹا ہی نکلتا ہے بقول ارون جیٹلی۔ ’’ مرکزی اور ریاستی حکومت نے انہیں روک کر علیٰحدگی پسندوں کے آگے پوری طرح سپر ڈال دی ہے اور نتیجے میں ان کا حوصلہ بڑھا ہے۔ ‘‘ یہ صد فی صد حقیقت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کہ ایسی صورتحال کو کس نے اور کیوں پیدا کیا؟جس پر قابو پانے کے لئے حکومت کو انتہائی اقدام کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا؟ اگراس سوال کے جواب کی معرفت بی جے پی کو حاصل نہیں ہوتی تو وہ کبھی بھی لال قلعہ تک نہیں پہنچ سکے گی اور کبھی بھول چوک سے پہنچ بھی جائے تو وہاں زیادہ وقت ٹک نہ سکے گی۔

٭٭٭

 

ہندوتوا کی نفسیات اور اسلام کی دعوت

(قسط چہارم)

ہندو دہشت گردی کی پرمپرا پانچ ہزار سال قدیم ہے۔ جب سے آریہ قوم نے سر زمین ہند پر قدم رکھا اسی وقت سے یہ عمل جاری و ساری ہو گیا۔ سب سے پہلے ان لوگوں نے اس ملک میں بسنے والے دراوڑوں کو گنگا کی زر خیز وادی سے بے دخل کر کے جنوب کے پہاڑوں میں کھدیڑ دیا۔ اس کے بعد یہاں کے باشندوں کو ذات و نسل کی بنیاد پر مختلف برادریوں میں تقسیم کیا۔ ان کے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر گھول کر خود ان کے مسیحا بن گئے۔ مذہبی پیشوائی کا فائدہ اٹھا کر مقامی اکثریت کو شودر قرار دے دیا۔ جنگجو کشتریوں کو اپنا ہمنوا بنا کر ان سے جنگی مفادات حاصل کئے اوربدلہ میں ان کے سیاسی مظالم کو دھرم یدھ قرار دے دیا۔ تجارت پیشہ ویش برادری کے ہرمعاشی استحصال کی دھرم گرنتھوں سے توثیق کی اور اسے جائز ٹھہرایا تاکہ ان کی لوٹ کھسوٹ میں اپنا حصہ محفوظ رکھا جا سکے اور ورن آشرم کا ایسا مایا جال رچایا کہ اس نے ان کوسماج کے سب سے اعلیٰ اور ارفع چوٹی پر ممیز کر دیا۔

اس پراچین ظلم و استحصال کے خلاف خود سرزمینِ ہند پر گوتم بدھ اور مہاویر جیسے مجدد پیدا ہوئے جنھوں نے اس نظام کے خلاف اپنے اپنے انداز میں بغاوت کی اور بدھ مذہب و جین مت کی بنیاد ڈالی۔ بدھ مت کو ابتدا میں اتفاق سے اشوک جیسے عظیم بادشاہ کی سرپرستی حاصل ہو گئی اس لئے براہمن اس کا بال بیکا نہ کر سکے لیکن آگے چل کر جیسے ہی اقتدار کا سایہ اس کے سر سے اٹھا سناتنی دہشت گردوں نے بودھوں کا دیس نکالا کر دیا یہی وجہ ہے کہ کہ بدھ مت کے ماننے والے چین، جاپان اورسری لنکا میں ہندوستان کی بنسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ بودھوں کے معبدوں کو نیست و نابود کر دیا گیا یہاں تک کہ گیا میں پائے جانے والے بودھ ویہار کو بھی (جہاں گوتم بدھ نے نروان حاصل کیا تھا) وشنو کا مندر قرار دے دیا۔ جینیوں کو نگلنے کے لئے خود سبزی خور بن گئے ان کو ان کی شناخت کو مٹا کر اپنے اندر اس طرح ضم کر لیا کہ اب کوئی فرق ہی دکھائی نہیں دیتا۔

مسلمان ہندوستان میں حاکم کی حیثیت سے آئے تو یہ لوگ ان کی سرکار دربار میں پہونچ گئے لیکن انہیں اپنے سماج سے دور رکھا۔ انگریزوں کی چاپلوسی میں بھی براہمن پیش پیش رہے اور آزادی کے لئے چلنے والی تحریکوں کی بلاواسطہ مخالفت کر کے فرنگیوں کی خوشنودی حاصل کی۔ اس صورتحال میں آزادی سے قبل تقریباً ایک ہزار تک براہمنوں نے اول تو مسلمانوں اور بعد میں انگریزوں سے خوشگوار تعلقات رکھے اور اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔ لیکن افسوس کے آگے چل کر جمہوریت کی آڑ میں یہی طبقہ ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بن گیا۔ اس پوری تاریخ میں اپنے سے طاقتور کی غلامی اور اپنے سے کمزور کی آقائی کا کامیاب تجربہ جاری و ساری رہا لیکن گڑبڑ اس وقت ہو گئی جب مسلمانوں نے کمزور ہونے کے باوجود غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ملک تقسیم ہو گیا تو باقی ماندہ مسلمانوں سے اس بات کی توقع تھی کہ کم از کم وہ غلامی پر راضی ہو جائیں گے لیکن جب ایسا بھی نہیں ہوا تو ہندوؤں کے اندر شدت پسندی اور انتہا پسندی نے جنم لیا جس نے آگے چل کر دہشت گردی کا روپ دھارن کر لیا۔ براہمنی طرزِ فکر میں آنے والی تبدیلی کا اصل محرک اس کا مشرکانہ عقیدہ ہے ؟جب کوئی فرد یا گروہ اس ظلم عظیم کا مرتکب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے لئے اس دنیا میں دو انتہائی حیثیتوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر اس کے پاس طاقت ہو تو وہ کمزوروں کا خدا بن کر ان کو اپنا بندہ بنانے کی کو شش کرتا ہے جیساکہ پہلے چار ہزار سالوں تک کیا گیا یا پھر طاقتور کی بندگی بجا لانے میں اپنی عافیت و خیریت سمجھتا ہے جیسا کہ بعد کے ایک ہزار سالوں میں ہوا۔ اپنی اس حیثیت کا تعین کرنے کے لئے کسوٹی طاقت کا توازن ہوتی ہے گویا اگر اپنے پاس طاقت ہو تو کمزوروں کے سوامی بن کر اپنی مرضی چلاؤ اور اگر نہ ہو تو طاقتور کے داس بن کر چپ چاپ ملائی کھاؤ۔ تقسیم ہند اور انگریزوں کے چلے جانے کے باعث براہمنوں کو ایسا لگا کہ عرصہ دراز تک ملائی کھانے کے بعد اب مرضی چلانے کا موقع ہاتھ آیا ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جس طرح ملوکیت میں طاقت درکار تھی اب جمہوریت میں اکثریت کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔ ہر دو صورتوں میں براہمن قوت و اکثریت سے محروم ہی رہے۔ اس لئے پھر ایک بارسازشوں کی مدد لی گئی۔ ہندو دہشت گردی کے حوالے سے حالیہ انکشافات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ لوگ اسلحہ بھی سازشی ذہن کے ساتھ اٹھاتے ہیں اور انتخاب کے معاملے میں تو خیر ہر کوئی منافقت کی سہارہ لیتا ہے اس لئے صرف انہیں کو قصوروار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔

دورِ جدید میں اپنے اقتدار کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر براہمنوں نے یوروپی فسطائیت کو اپنایا۔ اسی غرض سے معروف ہندو دانشور ڈاکٹر بی ایس مونجے نے بنفس نفیس اٹلی کا سفر کر کے مسولینی سے ملاقات کی، دامودر ساورکرنے مونجے کے سیاسی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ہندو مہا سبھا قائم کی، ڈاکٹر ہیڈگیوار کو سماجی سطح پر رائے عامہ کی ہمواری کے لئے آر ایس ایس بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد جب مہا سبھا کا مستقبل تاریک ہو گیا تو سنگھ نے شیاما پرساد مکرجی کے ہاتھوں جن سنگھ کی داغ بیل ڈالی۔ بال ٹھاکرے نے مزید شدت اختیار کرتے ہوئے ہندوتوا میں علاقائیت کی آمیزش کر کے شیوسینا کی بنیاد رکھی، کرنل پروہت کومسلح جدوجہد کی خاطر ابھینو بھارت کا خیال آیا اور سادھوی پرگیا نے وندے ماترم کا نعرہ لگایا۔ یہ سب کے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کے چہروں پر واجپائی اور اڈوانی کی طرح مختلف مکھوٹے ہیں لیکن ان کے افکارو خیالات، ان کے مقاصد اور غرض و غایت میں کوئی فرق نہیں ہے بظاہر تمام تر اختلافات کے باوجود یہ سب ایک بولی بولتے ہیں اور نازک گھڑی میں ایک دوسرے کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔

ہندو توا وادیوں نے اکثریت کو جب اپنا ہمنوا بنانے کا منصوبہ بنایا تو ان کے سامنے نئے مسائل کھڑے ہو گئے۔ ان کاحل براہمنوں کو یوروپی فسطائیت میں نظر آیا۔ اولاً تو ہندو دھرم کے نسلی امتیاز اور ہٹلر ومسولینی کے قومی تفاخر کے درمیان زبردست یکسانیت پائی جاتی تھی اس کے علاوہ کسی مثبت بنیاد پر ہندوؤں کے درمیان اتحاد قائم کرنا ناممکن تھا۔ اتحاد کے لئے مساوات کے قائم کرنے سے ورن آشرم کا خاتمہ ہو جاتا تھا اور نسلی امتیاز کے بغیر اپنا رسوخ باقی رکھنا براہمنوں کے لئے ناممکن تھا لیکن فسطائیت کے منفی نظریہ میں اس مسئلہ کا نہایت آسان ساحل موجود تھا ایک خیالی دشمن پیدا کرو اور لوگوں کو اس سے ڈرا کر اپنا ہمنوا بنا لو۔ ہٹلر نے یہودیوں کی مدد سے یہ کام کیا اور ہندو فسطائیوں کو مسلمانوں میں اپنا شکار نظر آیا۔ ہندوتوا وادیوں کی مسلم دشمنی اسی ضرورت کا تقاضہ ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے دور اقتدار میں براہمنوں نے ان کی غلامی کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھا اسی طرح اگر مسلمان بھی ان کی غلامی پر راضی ہو جاتے تو وہ انہیں برضا و رغبت شودروں میں شامل کر لیتے لیکن یہ نہ ہوا مسلمانوں نے اقتدارسے محرومی کے باوجود سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک کشمکش کا آغاز ہو گیا۔

مسلمانوں نے سنگھ کے آگے سپر ڈالنے سے کیوں انکار کیا؟ اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے۔ ایک تو مسلمانوں کا عقیدہ توحیداس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو اللہ بزرگ وبرتر کے علاوہ کسی اور کے آگے کسی طورپر سر تسلیم خم کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اسلام ہندوستان میں تلوار کے علاوہ دعوت کے ساتھ داخل ہوا تھا مگر بد قسمتی سے یہ دو تلواریں مختلف ہاتھوں میں تھیں۔ حکمرانوں کو جن کے پاس اقتدار تھا دعوت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور صوفیا جن لوگوں نے اپنی زندگی کو دعوت کے لئے وقف کر دیا تھا اقتدار سے محروم تھے۔ لیکن صوفیا نے جس انداز میں مشرف بہ اسلام ہونے والے مسلمانوں کی تربیت اور تزکیہ کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان فطرتاً آزادی و خود داری کوسخت کوشی اور ابتلا و آزمائش پر ترجیح دینے لگے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے سلطان الہند خواجہ نظام الدین چشتی ؒکی زندگی کو دیکھا جا سکتا ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ۱۴ رجب ۵۳۶ ہجری کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان کے ایک دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جس زمانے میں آپ کی ولادت ہوئی وہ بڑا پر آشوب دور تھا سیستان اور خراسان لوٹ مار کی زد میں تھے ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ اس وقت ۱۳سال کی عمر میں آپ نے اپنے والد خواجہ غیاث الدین حسین سے پوچھا خون مسلم کی یہ ارزانی کب تک جاری رہے گی۔ تو وہ بولے یہ خونی ہوائیں اہل ایمان کے لئے آزمائش ہیں تمہیں صبر سے کام لیتے ہوئے اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ ۱۵ سال کی عمر میں صبر کی تلقین کرنے والا باپ بھی  دار فانی سے رخصت ہو گیا۔ والد کی رحلت کے بعد والدہ بی بی نور نے بیٹے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے علم و فضل میں کمال حاصل کرنے کی تلقین کی۔ مگر ایک سال بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔

روایتوں میں آتا ہے کہ آپ ۵۸۶ہجری کو دعوت و تبلیغ کی غرض سے جب ہندوستان کی جانب چلے تو پہلے ملتان میں پانچ سال تک قیام کیا اور سنسکرت زبان سیکھی۔ چونکہ آپ کو ہندو قوم کے سامنے اسلامی تعلیمات پیش کرنا تھا اس لیے مقامی لوگوں کی زبان جاننا ضروری تھا۔ ملتان کے بعد دہلی میں قیام پذیر ہوئے۔ یہاں اپنے مرید حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کو چھوڑ کر خود اجمیر شریف کے خطہ زمین کو تبلیغ کے لئے منتخب فرمایا۔ اس وقت اجمیر پر پرتھوی راجہ چوہان کی حکمرانی تھی۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اجمیر شہر کے نواح میں گھاس پھونس کی ایک جھونپڑی بنائی اس جھونپڑی میں نماز کا مصلی، پانی کا برتن اور ایک جوڑا لباس شہنشاہ معرفت کا کل اثاثہ تھا۔ شروع شروع میں مقامی لوگ آپ کو جوگی یا سادھو سمجھتے رہے لیکن جب لوگوں نے آپ کو قریب سے دیکھا تو وضع قطع کے اعتبار سے آپ ہندو سنیاسیوں سے مختلف دکھائی دیئے۔ پھر ایک دن کچھ راجپوت آپ کی جھونپڑی میں داخل ہوئے۔ آنے کی وجہ پوچھی’’ آپ کون ہیں ؟ اور یہاں آنے کا مقصد کیا ہے ؟‘‘آپ نے جواباً فرمایا کہ میں مسلمان ہوں اور تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے آیا ہوں۔ مسلمان کا نام سن کر راجپوت چونک اٹھے۔ کیا تم شہاب الدین غوری کی قوم سے ہو؟ ہاں وہ میرا دینی بھائی ہے۔ آپ نے فرمایا۔ غوری تو اپنے ہمراہ ایک لشکر جرار لے کر آیا تھا۔ مگر میں تو تمہارے درمیان تنہا ہوں۔ پھر بھی تمہیں خدا کا پیغام سناؤں گا اور تمہیں وہ پیغام سننا ہو گا۔ اگر تم اپنے کان بند کر لو گے تو تمہاری سماعتوں میں شگاف پڑ جائیں گی۔ وہ پیغام تمہارے ذہن و دل کی گہرائیوں میں اتر کر رہے گا۔ اگر تم اپنے گھروں کے دروازے بند کر لو یا دل و دماغ پر پہرے بٹھا دو تب بھی روشنی کی لکیر آہنی دروازوں سے گزر کر تم تک پہنچ جائے گی۔ یہ ایک بڑا دعویٰ تھا جو ایک سرکش قوم کے درمیان کیا جا رہا تھا۔ ایک راجپوت کو آپ کی بات ناگوار گزری اس نے تلخ لہجے میں کہا کہ ہم اپنی زمین پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ زمین اللہ کی ہے اگرکسی انسان کی ملکیت ہوتی تو تمہارے باپ دادا موت کاذائقہ نہ چکھتے یا زمین کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ کا یہ جواب سن کر راجپوتوں نے کہا کہ ہم کسی اللہ کو نہیں جانتے زمین و آسمان پر ہمارے دیوتاؤں کی حکومت ہے یہاں تمہارے رہنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ تم دوبارہ اپنی زبان پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لاؤ گے۔ اس پر آپ نے فرمایا  ’’میں تو اسی کے نام سے زندہ ہوں اور تمہیں بھی اسی کے نام کی برکت سے زندہ کرنے آیا ہوں۔ ‘‘ ایک راجپوت نے اللہ کا وہ پیغام سننے کی فرمائش کی جسے لیکر آپ تشریف لائے تھے۔ آپ نے سورۃ اخلاص پڑھ کر اس کا ترجمہ سنسکرت زبان میں سنایا۔ اور فرمایا کہ اللہ کو سب سے ناپسند اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش ہے۔ مٹی کے جو بت ایک جگہ سے دوسری جگہ خود حرکت نہیں کر سکتے وہ تمہاری مدد کیا کریں گے۔ یوں آپ نے اجمیرمیں پہلی بار اسلام کی دعوت پیش کی تھی۔ آپ کی زبان سے اپنے بتوں کے خلاف ادا ہونے والے الفاظ سن کر راجپوت غصے میں لال پیلے ہو گئے اور تلواریں بے نیام ہو گئیں۔ وہ آپ کو تہہ تیغ کر دینا چاہتے تھے کیونکہ آپ نے ان کے روبرو ان کے بتوں کی نفی کی تھی۔ مگر آپ کے جلال سے راجپوتوں کے جسم پر خوف طاری ہو گیا۔ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ گئیں پھر وہ لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ راجپوت فرار ہوتے ہوئے چیخ رہے تھے کہ یہ تو جادوگر ہے۔

اس کے بعد راجپوتوں کی ایک اور جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ کے پیغام کو سنا اور اپنے آبا و اجداد کا مذہب چھوڑ کر ایک ایسے مذہب میں داخل ہو گئے جس کی نگاہ میں اچھوت، کھتری، شودر، ویش، راجپوت اور برہمن سب برابر تھے۔ کفر کے قلعے میں پہلا شگاف پڑ چکا تھا۔ مذہبی اجارہ داروں کی پیشانی پر گہری لکیریں ابھر آئیں۔ ہندو دھرم کے رکھوالوں نے نومسلمین کو طلب کیا اور پوچھا ’’آخر تمہیں اس اجنبی کے پیغام میں کیا کشش محسوس ہوئی تم نے اس کے خدا کو دیکھا ہے ؟‘‘ دین اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں نے کہا ہم کچھ نہیں جانتے ہمارے دل نے گواہی دی کہ وہ سچ بولتا ہے۔ بس ہم مجبور ہو گئے۔ کچھ ناعاقبت نا اندیشوں نے راجہ پرتھوی چوہان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ باغیوں کی اس مختصر سی تعداد کو قتل کر دیا جائے اوراسلام کے خطرے سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑا لی جائے۔ راجہ پرتھوی نے یہ تجویز قبول نہیں کی اس لئے کہ مسلمان ہونے والوں میں بہت سے با اثر ہندو قبائل کے لوگ بھی شامل تھے اس طرح ریاست میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ لیکن ان کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا۔ جاسوسوں نے پرتھوی راج کو خبر دی کہ معتوب راجپوت نیا مذہب قبول کر کے بہت خوش ہیں تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔ پرتھوی راج مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو ہر صورت میں روکنا چاہتا تھا۔ مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ اس مسلمان فقیر کا مقابلہ ہندو جادوگر ہی کر سکتے ہیں۔ اس لئے شادی جادوگر کو اس کے مقابلے پر لایا جائے جو ساحرانہ کمالات میں لا ثانی ہے۔

شادی جادوگر کو دربار میں طلب کر کے حکم دیا گیا کہ اپنے جادو کی طاقت سے دیوتاؤں کی بستی کو مسلمانوں کے وجود سے پاک کر دے۔ مہاراج کی طرف سے حکم ملتے ہی شادی جادوگر نے اپنے چیلوں کو نئے منتر سکھائے اور ساحروں کی فوج لے کر آگے بڑھا۔ جادوگروں کی یہ جماعت اپنے منتر پڑھتے پڑھتے اچانک ایک جگہ ٹھہر گئی جب شادی جادو گرنے انہیں آگے بڑھنے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ ان میں آگے بڑھنے کی طاقت نہیں ہے۔ شادی جادوگر اپنے منتر پڑھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اس کی آنکھیں آگ برسا رہی تھیں منہ سے بھڑکتے شعلے نکل رہے تھے۔ اس کا  وجود غم  و غصہ سے دہک رہا تھا۔ حضرت معین الدین چشتیؒ نے اپنے خادم کے ہاتھ پانی کا ایک پیالہ بھر کر بھیجا جیسے ہی شادی جادوگر نے پیالے کا پانی پیا تو کفر کی ساری تاریکیاں اس کے دل و دماغ سے جاتی رہیں۔ اسلام کی رحمت و خیر خواہی نے اس کے قلب و ذہن کو مسخر و منور کر دیا اور اس طرح خداپرستوں کی صف میں ایک اور کلمہ گو کا اضافہ ہو گیا۔

سلطان الہند خواجہ نظام الدین چشتی ؒنے دعوت اور کردار کے نورسے ایک ہزار سال قبل ہندوستان میں توحید کا چراغ روشن کرتے ہوئے اپنے مخاطبین سے کہا تھا‘‘قدرت بار بار سرکشوں کو مہلت نہیں دیا کرتی۔ اس سے پہلے کہ تمہارے آبا و اجداد کی زمین تم پر تنگ ہو جائے بت پرستی چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آو۔ ورنہ دوزخ کی دہکتی آگ کے لئے تیار ہو جاؤ‘‘ آج وہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ سرکشوں کی مہلت کے دن ختم ہو رہے ہیں زمین ان کے لئے تنگ ہوتی جا رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کے علمبردار اسی تیاری اور دلیری کے ساتھ دعوت دین کا کام کر رہے ہیں جیسا کہ سلطان الہند نے کیا تھا؟ اس سوال کا مخاطب سنگھ پریوار نہیں بلکہ امت مسلمہ ہے۔

٭٭٭

 

اختلافات کے چکر ویوہ میں نام نہاد مختلف پارٹی

وکی لیکس کی بدولت آئے دن سیاسی حلقوں میں ایک نہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حقیقت کو جانچا اور پرکھا جائے۔ وکی لیکس کی حیثیت دراصل سفارتکاروں کے لکھے ہوئے ذاتی ملفوظات سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور پھر یہ امریکی سفارتکار جن کے پیغامات منکشف ہوتے رہتے ہیں کوئی منکر نکیر تو ہیں نہیں کہ ان کو سب کچھ سچ سچ دکھلائی دیتا ہو اور وہ جو کچھ دیکھتے ہوں اسے من و عن لکھ ڈالتے ہوں۔ ہوتا یہ ہے کہ یہ سفارتکار کچھ لوگوں سے گفتگو کر کے ان کا ذہن ٹٹولتے ہیں۔ اب جن سے بات چیت کی جاتی ہے ان کو کچھ معلوم ہوتا ہے کچھ نہیں ہوتا۔ جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس میں سے کچھ صحیح ہوتا ہے کچھ غلط ہوتا ہے۔ اپنی ناقص معلومات میں سے کچھ تو وہ لوگ بتلاتے ہیں اور کچھ چھپا لیتے ہیں۔ جو کچھ بتلاتے ہیں اس میں کچھ سچ ہوتا ہے اور کچھ جھوٹ ہوتا ہے۔ یہاں تک تو بولنے والے کا معاملہ ہوا۔ اب سننے والا کچھ سمجھتا ہے کچھ نہیں سمجھتا۔ جو سمجھتا ہے اس میں سے کچھ صحیح سمجھتا ہے کچھ غلط سمجھتا ہے۔ جو صحیح سمجھتا ہے اس میں سے کچھ اسے یا د رہ جاتا ہے اور کچھ وہ نوٹس لکھنے تک بھول جاتا ہے۔ جو کچھ لکھتا ہے اس میں نہ جانے کیا کچھ اپنی طرف سے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر ملا دیتا ہے۔ اس طرح وہ دستاویز عالمِ وجود میں آتی ہے۔ اس کی تصدیق کا کوئی اہتمام کسی بھی مرحلے میں نہیں کیا جاتا اور اس پر اکثر کوئی اقدام بھی نہیں کیا جاتا لیکن جب یہ وکی لیکس کے ویب سائٹ پر شائع ہو جاتی ہے تو اس پر ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ جو لوگ اس آسیب کا شکار ہوتے ہیں وہ تو اپنا دفاع کرنے کی غرض سے مندرجہ بالا منطق اور دلائل کا سہارا لیتے ہیں لیکن ان کے مخالفین وکی لیکس کے انکشافات کو الہام کا درجہ دے کر پھیلانے لگتے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے میں جٹ جاتے ہیں۔

من موہن سنگھ کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حوالے سے وکی لیکس کے انکشافات سامنے آئے تھے تو بی جے پی والوں نے اسے خوب اچھالا اور کانگریس پارٹی اپنے بچاؤ میں لگ گئی۔ کانگریس نے اپنی سرکار کو گرنے سے بچانے کے لئے روپئے تقسیم کئے یہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اس کے لئے کسی وکی لیکس کی چنداں ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ کانگریس نے ایسا نہ پہلی بار کیا ہے اور نہ یہ آخری بار ایساہواہے بلکہ کانگریس کیا بی جے پی والوں نے بھی اپنی سرکار بچانے کے لئے لکشمی دیوی کو سونے کا تلک لگایا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ شری کرشنا نے کروکشیتر کے میدان میں جو گھوشنا کی تھی کل یگ میں اس کے معنیٰ بدل چکے ہیں بھارتیہ جن تنتر میں جب جب اقتدار کو خطرہ لاحق ہو تا ہے دھن دولت کا مایا جال سدرشن چکر بن حرکت میں آ جاتا ہے اور رن بھومی پر چھا جاتا ہے۔

 قدیم زمانے میں غلاموں کے بازار لگتے تھے اور انہیں خریدا اور بیچا جاتا تھا آج کل ممبران پارلیمان کی منڈی لگتی ہے جہاں وہ بذاتِ خود اپنے ضمیرکاسودہ کرتے ہیں اپنی وفاداریاں درہم و دینار کے عوض نیلام کر دیتے ہیں آج کل یہ اس قدر معمولی بات ہو گئی ہے کہ ایسا کرنے سے نہ ہی بکنے والے کے اندر کوئی احساسِ ندامت ہوتا ہے اور نہ ہی ان رائے دہندگان کو جنھوں نے اپنا قیمتی ووٹ دے کر انہیں ایوان اقتدار میں بھیجا تھا اس پر شرم محسوس ہوتی ہے ورنہ وہ دوبارہ ایسوں کو اپنے حلقہ انتخاب سے کامیاب و کامران نہ کرتے۔

وکی لیکس کا آسیب گزشتہ ہفتے ارون جیٹلی سے چمٹ گیا ہے اور پتہ چلا کہ انہوں نے کسی زمانے میں امریکی سفیر رابرٹ بلیک سے یہ کہہ دیا تھا کہ ہندوتوکا نظریہ تو بی جے پی کے لئے بس ایک سیاسی موقع پرستی ہے گویا یہ ایک سیاسی ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اب کانگریس والے اس نعمت غیر مترقبہ پر بغلیں بجانے میں لگ گئے۔ سونیا گاندھی سے لے کر کپل سبل تک سبھی نے بی جے پی کی منافقت پر جم کر تنقید کی حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے لئے اشتراکیت کی اور کانگریس کے نزدیک سیکولرزم کی جو وقعت ہے۔ بی جے پی کے لئے ہندوتوا کی بعینہ وہی حیثیت ہے۔ وطنِ عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں نظریہ کو ٹائلٹ پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اپنے جسم سے لگی غلاظت کو اس کے ذریعہ پونچھ کر اسے کوڑے دان میں پھینک دیتی ہیں۔

 ارون جیٹلی چونکہ وکیل پہلے اورسیاستدان بعد میں ہیں اس لئے انہیں خوف ہے کہ مبادا رابرٹ نے ان کے بیان کو ٹیپ کر رکھا ہو نیز تر دید کی صورت میں ممکن ہے ان کی آواز ذرائع ابلاغ سے نشر ہونے لگے اس لئے انہوں نے مفہوم کے بجائے الفاظ کی تر دید پر اکتفا کیا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اسی مفہوم کو ادا کرنے ق کے لئے انہوں نے دوسرے الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ارون جیٹلی کو ایسی متنازعہ گفتگو کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟ اس سوال کا بلا واسطہ جواب اسی وکی لیکس کے کیبل میں درج ہے۔ جیٹلی کا کہنا تھا کہ اڈوانی جی آئندہ دو تین سال سے زیادہ بی جے پی کی قیادت نہیں کر سکیں گے اور اس کے بعد نئی نسل کے پانچ میں سے کسی ایک کو لیڈرشپ کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ یاد رہے یہ بات  ۲۰۰۵ء کی ہے اور اس لحاظ سے اڈوانی جی کے دن کب کے لد چکے ہیں بی جے پی نے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں پارٹی کی رہنمائی کے فرائض سشماسوراج اور ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں پارٹی کی قیادت ارون جیٹلی کے حوالے کر کے اس کا عملی اعتراف کر لیا ہے۔

جیٹلی نے نئی نسل کے جن پانچ لوگوں کا ذکر کیا ہے اس میں سرِ فہرست خود ان کی نظر میں ان کے اپنے سوا کوئی اور ہو نہیں سکتا گویا انہیں اب پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے اپنے چار حریفوں کا صفایا کرنا ضروری ہے اور وہ اس کام میں بڑی تندہی سے لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ مرتبہ انہوں نے پارٹی انتخاب سے قبل آسام میں پارٹی کے مشترک نگراں سدھانشو متل کا بونڈر کھڑا کر کے مجلس عاملہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر ڈالا اور پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں لیکن یہ بازی الٹی پڑی آرایس ایس نے راج ناتھ کو اناتھ کر کے ان کی جگہ نو سکھئے نتن گڈکری کو پارٹی کی ڈگدگی تھما دی تاکہ نیا صدر اپنے سنگھی آقاؤں کے اشارے پر تماشہ لگاتا رہے۔ ویسے ارون جیٹلی کے لئے بھی یہ کمزور صدر کسی قدر قابل قبول رہا ہو گا اس لئے کہ اگر مودی یاسشما آ جاتیں تو ان کو چیلنج کرنا نا ممکن ہو جاتا بلکہ وہ لوگ سب سے پہلے ارون جیٹلی ہی کا ٹکٹ کاٹ کر انہیں بلا ٹکٹ آسام جیسی کسی ریاست میں بن باس پر روانہ کر دیتے۔ بی جے پی میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ان کے عظیم دانشور گووندا چاریہ عرصہ دراز سے شمال مشرق کی خاک چھانتے چھانتے اب گمنامی کے اندھیرے میں غرق ہو چکے ہیں۔

ارون جیٹلی سے تر غیب حاصل کر ان کی حریفِ اول سشما نے اس بار بی جے پی کی مجلس عاملہ سے قبل اپنا سدرشن چکر چھوڑا اور کہہ دیا کہ کرناٹک کے ریڈی برادران کی ترقی و خوشحالی میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ جس وقت ان کو وزیر بنایا گیا اس وقت یدورپا وزیر اعلی تھے اور ارون جیٹلی ریاست میں نگراں کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے اس لئے وہ دونوں لوگ اس کے لئے ذمہ دار قرار پاتے ہیں ان کا یہ کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ نے سشما اور ریڈی خاندان کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں حالانکہ سشما سوراج کی بات بالکل صحیح ہے۔ ریڈی برادران نے اپنی غیر قانونی کان کنی سے کروڑوں کا کالا دھن جمع کر رکھا ہے وہ اپنی ذاتی ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں اس لئے یہ کہنا کہ ان کی خوشحالی میں سشما کا حصہ ہے سراسر غلط بات ہے بلکہ اگر ٹھیک سے تحقیقات کی جائیں تو ممکن ہے ایسے شواہد ہاتھ لگیں جن سے پتہ چلے سشما کی خوشحالی میں ریڈی برادران کا حصہ ہے۔

کرناٹک میں ہونے والی غیر قانونی کان کنی اور اس میں بی جے پی کے افراد کا ملوث ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس کا اعتراف وزیر اعلی یدورپا کھلے عام کر چکے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سشماسوراج ریڈی برادران کو ۱۹۹۹ء سے جانتی ہیں جب انہوں نے بیلاری سے سونیا گاندھی کے خلاف انتخاب لڑا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جبکہ اتر پردیش میں بی جے پی کا غلغلہ تھا اور کانگریس والوں کو رائے بریلی تک کی سیٹ محفوظ نہیں لگتی تھی اس لئے سونیا نے اپنی ساس اندرا گاندھی کے نقش قدم پر جنوب کا رخ کیا تھا اور ان کے خلاف بی جے پی نے دیسی بہو کے طور پر سشما کو میدان میں اتارا تھا۔ فی الحال بی جے پی ریڈی برادران کے احسان تلے اس قدر دبی ہوئی ہے کہ سشما تو کیا اگر اڈوانی بھی مخالفت کریں تب بھی ان کو وزیر بننے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ریڈی برادران نے اپنے علاقے کے ۳۰ میں سے ۲۳ نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی دلائی اور آزاد امیدواروں کی وفاداری حاصل کرنے کے لئے کئی کروڑ روپئے خرچ کئے اور بدلے میں دو بھائی تو وزیر بن گئے اور تیسرے کو ایسے سرکاری ادارے کا سربراہ بنایا گیا جسے وزیر کی مراعات حاصل ہیں۔ اس لئے سشما کو ریڈی برادران کے عروج کے لئے کوئی بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کے باوجود پارٹی میں اپنا قد بڑھانے اور ارون جیٹلی کو نیچا دکھلانے کی خاطر سشما سوراج نے یہ کیچڑ اچھالا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر راج ناتھ جن کو ارون جیٹلی نے ٹھکانے لگایا تھا آگے آئے اورریڈی برادران کو وزیر بنانے کی ذمہ داری ازخود قبول کر لی۔

بی جے پی کے اندر فی الحال جو مہابھارت چھڑی ہوئی ہے وہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ان پانچوں میں سے کوئی ایک اپنے تمام حریفوں کا مکمل خاتمہ کر کے خود بلا شرکت غیرے پارٹی کی باگ نہیں سنبھال لیتا۔ اس صورتحال کو سنبھالنے میں لال کرشن اڈوانی مہابھارت کے شری کرشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ دوبارہ وزیر اعظم بننے کا خواب وہ ترک کر دیں اور طالبعلموں کی صف سے اٹھ کر گروجی کی استھان پر براجمان ہو جائیں لیکن اپنے تمام تر تحفظات و مجبوریوں کے باوجود وہ ہنوز امید سے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ان کی گود ہری ہو گی اور وہ ہندوستان کے تخت طاؤس پر کسی نہ کسی طرح براجمان ہوں گے۔ اقتدار کی یہی حرص و ہوس نہ صرف اڈوانی جی بلکہ بی جے پی کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔

گوونداچاریہ جو کسی زمانے میں اڈوانی جی کے خاص مشیر ہوا کرتے تھے انہوں نے اسی سال ماہ مارچ کے اندر ایک انٹرویو میں اس صورتحال پر بڑا تفصیلی اور نہایت بے باک تبصرہ کیا تھا۔ اس انٹرویو میں ان لوگوں کے لئے بہت سامان عبرت ہے جو سنگھ پریوار کے نقوش پر اپنی سیاسی حکمتِ عملی وضع کرنے کے خواہش مند ہیں۔ گووندا چاریہ کے مطابق بی جے پی میں فی الحال زبردست کنفیوژن پایا جاتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ آپسی رسہ کشی نے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اڈوانی جی کالے دھن کے معاملے کو اہمیت دیتے ہیں اور جیٹلی اس مسئلے پر بیان دینے سے پارٹی ترجمان کو روک دیتے ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی سنجیدہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اڈوانی جی کی حالت گھر میں موجود ضعیف ونحیف بزرگ کی سی ہو گئی ہے جس کا احترام تو سبھی کرتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات سنتا نہیں ہے۔ ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۹ء کی ناکامیوں نے اڈوانی جی کو توڑ کر رکھ دیا ہے اب تو یہ حالت ہے کہ وہ پارٹی کے اندر کسی معقول آدمی کو اپنے درد میں بھی شریک نہیں کر سکتے اور گرومورتی جیسے لوگوں کی باتوں میں آ کر اپنے سمیت پارٹی کو رسوا کر بیٹھتے ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا بڑا دلچسپ حل گووندا چاریہ نے ۲۰۰۵ء میں اڈوانی جی کو سجھایا تھا ان کا مشورہ یہ تھا کہ قیادت نوجوانوں کو سونپ دی جائے یا پارٹی کو ختم کر دیا جائے جیسا کہ اٹل جی نے جن سنگھ کے ساتھ کیا تھا اور اگر جذباتی لگاؤ کے باعث ایسا ممکن نہیں ہے تو اسے واپس آرایس ایس کے حوالے کر کے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا جائے۔ انہیں یقین تھا کہ ان میں سے کسی مشورے پر عمل نہ ہو گا اور ویسا ہی ہوا۔

گوونداچاریہ نے اس جماعت کے حوالے سے جو کبھی ایک مختلف قسم کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی تھی اس قدر سخت موقف کا اظہار کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب ان کے انٹرویو میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نظریاتی سطح پربی جے پی نے اب بالکل ہی مخالف سمت کو اختیار کر لیا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی امیروں کی حامی اور کارپوریٹ کی ہمنوا ہیں۔ اسی کے ساتھ بازار کی قوتوں پر معیشت کے چلنے کی حمایت کرتی ہیں۔ بدعنوانی کے معاملے میں بھی بی جے پی کانگریس سے الگ نہیں ہے اس طرح کانگریس اور اس کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں بچا ایسے میں زبردستی تیار کی جانے والی اس کاربن کاپی پر اصلی دستاویز کا فائق ہونا ایک فطری امر ہے۔

گوونداچاریہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے اندر کارکنان کا اپنے رہنماؤں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ پارٹی ایک انتخابی مشین میں تبدیل ہو گئی ہے جس کا ہدف صرف اور صرف اقتدار کا حصول بن گیا ہے۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ بی جے پی اب ایک مقصدِ  عظیم کے حصول کی خاطر کام کرنے والے کارکنوں کی جماعت کے بجائے اقتدار کے حصول میں سرگرداں امیدواروں کی جماعت بن گئی ہے۔ جس کے باعث نظریاتی معاملے میں سنجیدہ کارکنان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ بی جے پی کے معاملے میں جو رابطے اور تنظیم کا کام آرایس ایس کر سکتی ہے اس کا مظاہرہ پچھلے پانچ سالوں میں نظر نہیں آیا جس کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ آرایس ایس خود بے دست و پا ہو گئی ہے وہ اس مخمصے میں گرفتار ہو کہ آیا بی جے پی کی سر پرستی کی جائے یا اسے عاق کر دیا جائے۔ گوندا چاریہ کے خیال میں آر ایس ایس بی جے پی کی محتاج نہیں ہے۔ آر ایس ایس کو چاہئے کہ وہ کردار سازی اور قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دینے پر اپنی ساری قوت اور وسائل کو صرف کر دے۔ یہ ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن اسی کو کرنے میں اس کے لئے سکون و  اطمینان ہے۔ اس لئے کہ یہی آر ایس ایس کے کے قیام کا بنیادی مقصد ہے۔ گوونداچاریہ کا بیان ہندوستان کی ساری نظریاتی تحریکات کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔   ٭٭٭

 

بی جے پی کی رامائن سے مہابھارت کی جانب رتھ یا ترا

وکی لیکس کی مثال پنڈورا نامی اس صندوق کی سی ہے جس کے بطن سے سے آئے دن نت نئے آسیب نمودار ہوتے تھے اور یہ غیر یقینی مخلوق کب کس سے لپٹ جائے اس کی بھویشیہ وانی مہا رشی ویاس کے لئے بھی ممکن نہیں ہوسکتی تھی حالانکہ سنا ہے ویاس جی انتریامی تھے۔ انہوں نے دواپر یگ میں بیٹھ کر تریتا اور ست یگ کے حالات معلوم کر لئے اور نہ صرف ویدوں کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ان کی تدوینِ جدید کا عظیم کارنامہ انجام دے ڈالا بلکہ ۱۸ پرانوں کی تصنیف کر گزرے جس میں لاکھوں اشلوک پائے جاتے ہیں۔

وکی لیکس کے حالیہ انکشاف کے بعد جس میں ارون جیٹلی کے حوالے یہ کہا گیا تھا کہا انہوں نے ہندوتوا کو محض ایک سیاسی ابن الوقتی قرار دیا ارون جیٹلی سمیت سنگھ پریوار یہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ بات سراسر غلط ہے لیکن بی جے پی والے یہ نہیں کہہ رہے کہ ہندوتو اگر سیاسی ڈھکوسلہ نہیں ہے ؟تو آخر کیا ہے ؟ یہ مسئلہ نہ صرف اس نظریہ کے ساتھ ہے بلکہ اس دھرم کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ہے۔ ہندوستان کا دستور تک اس ہندو کی تعریف بیان کرنے سے قاصر ہے اس لئے وہ کہتا ہے کہ جو مسلمان، عیسائی، جین، بدھ یا سکھ نہیں ہے وہ ہندو ہے۔ سناتن دھرم کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت حکایات میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ جس طرح یہ مذہب انسانوں کو چار طبقات میں ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے اسی طرح یہ انسانی تاریخ کو بھی چار ادوار میں بانٹتا ہے۔ ست یگ، تریتہ، دواپر اور کل یگ۔ تریتا یگ تک اس مذہب کی بنیاد ویدوں پر تھی جن پر یہ لوگ برہما کے اپنے الفاظ کی حیثیت سے ایمان رکھتے تھے لیکن دواپر یگ میں ویدوں کو چار عنوانات کے تحت تقسیم کر دیا گیا اور اس طرح یجر وید، سام وید، اتھر وید اور رگ وید مرتب ہوئے۔ اس دوران ان تعلیمات میں کس قدر خلط ملط ہوا اس کا اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ اس کے بعد ویدوں کی تعلیمات کو آسان بنانے کی خاطر ہندو رشی منی ان کی تفسیر بیان کرنے میں جٹ گئے اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ۱۰۸ اپنشد تصنیف کر ڈالے گئے لیکن اس کے باوجود ویدوں اور اپنشدوں کو عوام میں قبول عام حاصل نہ ہو سکا تو پھر قصے کہانیوں سے مدد لی گئی اور رزمیہ کتھاؤں پر مشتمل پُران لکھے جانے لگے اس طرح ۱۸ پُران عالمِ وجود میں آ گئے جن میں سے وشنو پُران سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ وشنو پُران کے اندر وشنو دیوتا کے دنیا کو ظلم سے پاک کرنے کی خاطر اور یہاں سے برائیوں کے خاتمے کی غرض سے اوتار بن کر آنے کا بیان پایا جاتا ہے لیکن ان کے تمثیلی و علامتی قصہ ہونے پر سارے ہندو علماء کا اجماع ہے۔

وشنو پُران ہندو عوام کے اندر خاصے مقبول ہو گئے جن میں وشنو کے آٹھ اوتار کا ذکر اور ایک کی پیشن گوئی ملتی ہے۔ ان کہانیوں کے اندر ایک خاص ارتقاء اور تدریج کا عمل کارفرما دکھلائی دیتا ہے مثلاً پہلے چار اوتار ست یگ کے ہیں ان میں سے تین تو مکمل طور سے جانور کے بھیس میں اور چوتھا نصف انسان اور نصف شیر گویا آدھا جانور اور آدھا انسان۔ پہلی کہانی حضرت نوح ؑ کے واقعہ سے متاثر ہے جس میں ساری کائنات کے عظیم سیلاب کی نذر ہو جانے کا اور وشنو کے مچھلی بن کر اسے بچانے کا قصہ ملتا ہے۔ دوسری میں وشنو کچھوا بن کر آتے ہیں اور اس کچھوے کی پیٹھ پر کھونٹہ گاڑ کر دیو اور دانو ارتھ(زمین کا) منتھن کرتے ہیں تاکہ اس میں سے امرت کشید کیا جا سکے۔ تیسری کہانی میں وشنو خنزیر کے بھیس میں تشریف لاتے ہیں اور ساری دنیا کو اپنے سونڈ نما منہ پر اٹھا کر سمندر کی طہ میں چلے جاتے ہیں اور چوتھی میں نر سمھا جو آدھا شیر اور آدھا انسان ہے اپنے دشمن کو پھاڑ کھاتا ہے۔ اب ظاہر ہے اس طرح کی کہانیوں کو مقبول ہونا ہی تھا سو ہو گیا۔

تریتا یگ کے تینوں اوتار اتفاق سے انسان ہیں سب سے پہلا پستہ قد بونا جس کا نام وامنا ہے اپنی چالبازی اور چمتکار کی بنیاد پر دشمن کو زیر کر لیتا ہے۔ وہ تین قدم زمین کا وردان مانگتا ہے اور اپنے قدموں کو پھیلا کر ساری دنیا کو اس کے احاطے میں لے لیتا ہے۔ یہاں کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوتا۔ دوسرا اوتار پرشورام اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے دشمن کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے یہاں تشدد تو ہے سیاست نہیں ہے۔ تیسری کہانی مشہور و معروف رام چندر جی کی رامائن ہے جس میں سیاست اور جنگ دونوں ہے لیکن یہ ایک صاف ستھری داستان ہے جو جنس زدگی سے پاک صاف ہے۔ اس میں راون کی بہن سپر نکھا لکشمن کو شادی کی پیش کش کرتی ہے اس کے باوجود وہ اس کی ناک کاٹ کر اس سے دور ہو جاتا ہے۔ راون جیسا ولن سیتا کا اغوا کرنے کے باوجود اس پر دست درازی کی جرأت نہیں کرتا لیکن کیکئی کی سیاست بہرحال رامائن کو اپنے پیش رو حکایات سے ممتاز کر دیتی ہے۔

دواپر یگ میں رام لیلاکرشن لیلا میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مہابھارت اس کو بیان کرتی ہے جو ان سب سے آگے نکلی ہوئی ہے۔ یہ جنگ و جدال، سیاسی چال اور جنس پرستی سے مالامال طلسمِ ہوشربا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رامانند ساگر کی رامائن کو بی آر چوپڑہ کی مہا بھارت نے مقبولیت میں مات دے دی اور اس کے بعد دوبارہ سنجے دت نے اسے بنایا اور وہ بھی خاصی کامیاب رہی گویا لوگ ایک ٹی وی ڈرامے میں جو کچھ دیکھنا چاہتے ہیں وہ سارا مسالہ اس میں موجود ہے۔ ویسے ادی شنکر اچاریہ نے بودھ مت کو نگلنے کی خاطر گوتم بدھ کو بھی وشنو کا اوتار قرار دے دیا اور اس طرح وشنو کا نواں اوتار کل یگ میں نمودار ہو گیا لیکن بہت سارے ہندو اب بھی اس کو صحیح نہیں مانتے اور بودھ تو اپنے دین کو ہندو مت سے بغاوت قرار دیتے ہیں جو صد فی صد حقیقت ہے۔

رامائن اور مہا بھارت کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذ کر کہانی میں دشمن غیر ہے اور مؤخر الذکر داستان میں ساری کشمکش اپنوں کے درمیان ہے۔ راون کی ذات برہمن ہے جبکہ رام شتری، رام ہندوستانی ہے راون سری لنکا کا باشندہ گویا ایک شمال تو دوسرا جنوب۔ اس کے برعکس مہابھارت میں ساری سیاست اور ساری جنگ و جدال ایک خاندان کے اندر برپا ہے۔ کورو اور پانڈو چچا زاد بھائی ہیں اور ارجن و کرن تو ایک ہی ماں کنتی کے دو پتر یعنی آپس میں سگے بھائی اس کے باوجود ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار۔ کرشنا اپنے ماما کنس کو قتل کرتا ہے تو شکنی اپنی بہن کے سسرال والوں کو رسوا کرتا ہے گویا ایک خانہ جنگی ہے جو ہر سو برپا ہے۔ سنگھ پریوار کو اگرہندو دھرم کے تناظر میں دیکھا جائے ایسا لگتا ہے کہ جن سنگھ کا زمانہ اس کا ست یگ تھا اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلی ربع صدی اس کا تریتہ یگ تھا جس میں بی جے پی کی پہلی نسل نے رام مندر کی تحریک چلائی اور اس کے بعد کا زمانہ یعنی ۲۰۰۵ء کے آگے دواپر یگ جس میں آپسی سرپھٹول اب خانہ جنگی کی شکل اختیا ر کر گئی ہے اس مرحلے میں ضعیف اور دھرندر آرایس ایس گرو درونا چاریہ کی مانند کوروں کے ساتھ ہے کرشنا کا کردار نائیڈو اور نتیش کمار جیسے لوگ ادا کر رہے ہیں۔

 تریتا یگ کی کیفیت اس سے یکسر مختلف تھی اس وقت پارٹی کی توجہ پوری طرح باہر کے راون یعنی کانگریس کو شکست دینے پر مرکوز تھی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس دوران بھی آر ایس ایس نے کیکئی کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑے بیٹے اٹل بہاری واجپائی کو درمیان ہی میں بن باس پر روانہ کر دیا اور اپنے منظورِ نظر اڈوانی کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کو ہنومان اور اس کی وانر سینا کی حاجت ہوئی تو وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو میدان میں اتارا گیا لیکن اس کے باوجود کانگریسی راون کو شکست دینے میں کامیابی نہیں ہوئی اور ۱۳ دن کی جنگ میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ اس ناکامی کے باوجود پارٹی کے حوصلے بلند تھے اب راون کے بھائی وبھیشن کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا نے کی کوشش شروع ہوئی اور جارج فرنانڈیس نے اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رام سینا کا حامی بن گئے لیکن یہ سودے بازی خاصی پیچیدہ تھی۔ راون کے ساتھی اپنی شرائط لیکر آئے تھے۔ راون کی لنکا کو خاکسترکر کے جب رام سینا ایودھیا نگری میں داخل ہوئی تو باہر والوں کے اصرار پر بھرت کو سنگھاسن سے ہٹا کراصلی رام یعنی اٹل جی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس کے بعد جب دوبارہ انتخاب میں کامیابی درج کرنے کے لئے شری رام اپنے اشو میگھ پر سوار ہو کر نکلے تو نئی نسل کے مہاجن اور مودی نے لو اور کش کی مانند نادانستہ وجئے یاترا کو روک دیا۔ اس سارے مرحلے میں سازشوں کے جال تو بنے جاتے رہے لیکن کوئی بغاوت یا خانہ جنگی کی فضا پیدا نہیں ہوئی۔ گویا کل یگ کی رامائن کا ماحول بھی تریتا یگ کا سا تھا یعنی نہ ست یگ اور نہ کل یگ بلکہ دونوں کے درمیان مگر ست یگ سے قریب تر۔

رامائن کے بعد ہندوتوا کے اس قافلے کو مہابھارت سے دوچار ہونا تھا سو وہ بھی ہو گیا۔ اٹل جی کی بیماری اور اڈوانی جی کی پے در پے ناکامیوں نے بی جے پی کو تریتا سے دواپر یگ میں پہنچا دیا۔ ارون جیٹلی کی رابرٹ بلیک سے گفتگو اور سشما سوراج کا ریڈی برادران کو لے کر موجودہ تنازعہ اسی مہابھارت والی خانہ جنگی کا شاخسانہ ہے۔ مہابھارت ویسے تو نہایت دلچسپ رز میہ داستان ہے مگر اس کا انجام بڑا دردناک ہے۔ اس لاجظ سے بھی یہ رامائن اور دیگر وشنو پُرانوں سے مختلف ہے۔ کروکشیتر میں لڑے جانے والے آخری معرکے میں سارے کورو مارے جاتے ہیں۔ اپنے بیٹوں کی بکھری ہوئی لاشوں کو دیکھ کر ان کی ماں گندھاری کرشن کو شراپ (بددعا) دیتی ہے اور اسے اس خون خرابے کے لئے ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ گندھاری کے مطابق کرشنا ایسی مابعد طبعی قوتوں کا مالک تھا کہ جنگ کو ٹال سکتا تھا لیکن اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا آج کل لال کرشن اڈوانی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ پارٹی کے اندر برپا ہونے والے خلفشار کو ٹال سکتے ہیں لیکن گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے ہیں۔ گندھاری کی بددعا ۳۶ سال بعد پوری ہوتی ہے اور کرشنا اپنے خاندان کو اسی طرح تباہ و تاراج ہوتا دیکھتے ہیں اور خود بھی ہلاک ہو جاتے ہیں اور کرشن کی دوارکا نگری سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔ یا دو نسل کی بربادی کی خبر سن کر راجہ یدھشٹر کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہبانیت اختیار کرتے ہیں اور اپنا تخت و تاج چھوڑ کر ہمالیہ کی جانب کوچ کرتے ہیں اور کیلاش پربت کے راستے میں ایک ایک کر کے چار بھائی اور دروپدی راستے میں گر جاتے ہے۔ ان کے گر نے کی وجہ دھرتراشٹر یہ بتلاتے ہیں کہ انہیں اپنی طاقت، فن یا حسن و جمال پر کبر غرور تھا ہاں دروپدی اپنے امتیازی سلوک کے باعث نجات سے محروم رہتی ہے۔ بی جے پی کی دوسری نسل کے رہنماؤں کے اندر بھی کبر و غرور کی برائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انہیں چاہئے کہ مہابھارت کے انجام سے سبق لیں۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ارون جیٹلی نے بھی لیڈرشپ کے لئے پانچ دعویداروں کا ذکر کیا جن میں سے ایک خاتون یعنی سشما سوراج ہے۔ مہابھارت کے آخر میں صرف دھرت راشٹر کوموکش(نجات) پراپت ہوتا ہے جو اس جنگ اور خون خرابے کا سخت مخالف تھا۔ بی جے پی کے معاملے میں اگر کوئی کردار دھرتراشٹر سے مشابہ ہے تو وہ اٹل بہاری واجپائی ہے جو اپنی عمر اور مرتبے کے لحاظ سے بھی دھرتراشٹر کی مانند ہے۔ بی جے پی لمحہ بہ لمحہ مہابھارت کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے قرار واقعی انجام کی جانب رواں دواں ہے۔

٭٭٭

 

عالمِ اسلام

 

جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے

فلسطینی انتخابات پر نظر رکھنے کی خاطر مشاہد کے طور پر آنے والے وفد میں سابق صدر جمی کارٹر بھی شامل تھے اور انہوں نے ببانگ دہل اس بات کی توثیق کر دی کہ انتخابات غیر جانبدارانہ طریقہ پر منعقد ہوئے ہیں لیکن جب اس میں حماس کی کامیابی کی اطلاعات آنے لگیں تو سابق خارجہ سکریٹری کونڈالیزا رائس نے حیرت سے کہا اوہو یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ہمیں تو ہرگزاس کی توقع نہیں تھی۔ مصر کی موجودہ صورتحال پر نہ صرف موجودہ سکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن بلکہ سارے اوبامہ انتظامیہ کا یہی حال ہے۔ کون جانتا تھا کہ ابھی حال میں غزہ جانے والے ایشیائی قافلہ سے جس فرعون خصلت حکمران نے ایرانی رضاکاروں کو رعونت کے ساتھ اتار دیا تھا وہ خود جلد اقتدار پر بنے رہنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے کے لئے اس قدر مجبور ہو جائے گا۔ جن بے گناہ لوگوں کو برسوں سے اس نے جیل میں ٹھونس رکھا ہے وہ آزاد ہو جائیں گے۔ اس کا لاؤ لشکر بے دست وپا ہو جائے گا اور وہ خود اپنے محل میں محصور ہو جائے گا۔ کون جانتا تھا کہ فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے ‘‘کے مناظر اس طرح چشمِ زدن میں ہمارے سامنے آ جائیں گے

 جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑ کے گی

بس رحم کرے گا الله ہی

جو طاقت بھی ہے قادر بھی

دنیا کے مفکرین و دانشور ان حالات کو دیکھ کر ششدر و حیراں ہیں لیکن قادر مطلق رب ذوالجلال نے توسورہ ابراہیم کی۲۶ ویں آیت میں صاف صاف فرما دیا ’’کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ‘‘ باطل کے اس درخت کو شیطان نہایت خوشنما اور جاذب نظر بنا کر پیش کرتا ہے جس سے اچھے اچھوں کو دھوکہ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ شجر اسی وقت تک لہلہاتے ہیں جب تک کہ مالک اجل کا فیصلہ نہیں آ جاتا مگر جب صور پھونک دیا جاتا ہے تو یہ بے قرار درخت رو ئی کے گالوں کی مانند ہوا میں تیرنے لگتے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا جیسی کہ حالت زارتیونس کے سابق سربراہ زین العابدین بن علی یا مصر کے حکمراں حسنی مبارک کی ہے۔ کون جانے کہ جب تک آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں اس وقت تک فرعونِ وقت کو بھی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا چکا ہو۔

قرآن حکیم میں شجر خبیثہ کے ساتھ ساتھ شجر طیبہ کا بھی ذکر ملتا ہے فرمان خداوندی ہے ’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں۔ ‘‘ (ابراہیم ۲۵۔ ۲۶)

حسنی مبارک کے بالمقابل اگر اخوان المسلمون کو دیکھا جائے تو گویا اس آیت کی زندہ تفسیر نظر آ جاتی ہے۔ یہ اس صدی کا معجزہ ہے کہ ا یک صالح تحریک کو مٹانے کی کوشش کرنے والے ایک ایک کر کے مٹا دیئے گئے۔ شاہ فاروق اور سعد ذغلول کو تاریخ کی دیمک چاٹ گئی۔ جمال عبدالناصر کو قدرت نے اپنے بدترین دشمن اسرائیل کے ہاتھوں رسو ا کر کے رخصت کیا، انور سادات خود اپنے ہی فوج کے چند خوددارسپاہیوں کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچا اور اب اس کے جانشین حسنی مبارک کو ملک کے عوام ہر دن ذلت و رسوائی کے گھڑے کی جانب دھکیلتے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا اس شخص پر لعنت بھیج رہی ہے سوائے ملعونِ  قدیم اسرائیل کے کہ وہ دونوں ایک جان دو قالب ہیں۔ دونوں کے اندر فرعون کی روح کارفرما ہے۔

 اس نازک صورتحال میں نائب صدر سلیمان نے جب حزب اختلاف کو بات چیت کے لئے بلایا تو اس میں سر فہرست اخوان المسلمون کا نام تھا۔ یہ وہی سلیمان ہے جو بدستور اخوان کے خلاف زہر افشانیاں کرتا رہا ہے۔ ابھی حال میں و کی لیکس کے ذریعہ افشا ہونے والے وستاویز کے مطابق اس امریکی پٹھو نے ۲۰۰۸ء میں امریکی سفارتکار فرانسس ریکیارڈو کے سامنے یہ جھوٹ گھڑا تھا کہ اخوان کے تحت ۱۱ دہشت گرد تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔ اس سے قبل ۲۰۰۶ء میں اخوان کی انتخابی کامیابیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا یہ لوگ پابندی کے باوجود ایک زبردست قوت بن کر ابھرے ہیں اور مصری معاشرے میں ان لوگوں نے اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں یہ افسوس ناک ہے۔ ویسے امریکی سفیر کے سامنے اس بات کو تسلیم کرنے سے بھی سلیمان نہیں چوکا کہ اخوان نہ تو صرف ایک سیاسی تنظیم ہے اور نہ ہی سماجی یا مذہبی گروہ بلکہ یہ ان تینوں کا مجموعہ ہے۔ یہ بات ایک حقیقت پسندانہ اعتراف تھا اس لئے کہ اسلامی تحریک کو ایسا ہی ہونا چاہئے چونکہ اسلام کا تعلق نہ صرف زندگی کے ان تین شعبوں سے ہے بلکہ یہ دین تمام ہی شعبہ ہائے حیات پر محیط ہے اسی لئے اسے مکمل نظام حیات بھی کہا جاتا ہے۔

 یہ ایک حقیقت ہے مصری ایوان کے لئے ۲۰۰۵ء میں ہونے والے انتخابات کے وقت اخوان المسلمون پر پابندی تھی۔ اس لئے اس کے امیدواروں کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ حکومت نے چھاپے مارکر بے شمار رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کر لیا تھا اور دوران انتخاب بھی زبردست دھاندلی کی اس کے باوجود اخوان کے ۸۸ امیدوار کامیاب ہو گئے اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کو صرف ۱۴ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا گویا جن کو پال پوس کر رکھا گیا اخوان کو ان کے مقابلہ۶ گنا زیادہ کامیابی حاصل ہوئی جبکہ اخوان المسلمون پر گزشتہ۰ ۵ سالوں میں جو روح فرسا مظالم ہوئے ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بقول محمد علی جوہر ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

جتنا    بھی      دباؤ      گے       اتنا     ہی یہ      پھیلے      گا

پچاس سال تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد پہلی مرتبہ ایک غیر قانونی تنظیم اخوان المسلمون کو مذاکرات میں شامل کرنا اسرائیل، امریکہ اور یوروپ سب کے لئے ناگوار تھا لیکن حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ کوئی اس پر تنقید نہ کرسکا سورہ فتح کی آخری آیت میں اس بشارت کی منظر کشی انجیل کے حوالے سے کی گئی ہے ‘‘ اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار اس کے پھلنے پھولنے پر جلیں ‘‘اس صورتحال نے نہ صرف مومنین کے سینوں کو ٹھنڈک بخشی بلکہ کافروں کے دلوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اسی کو انگریزی ادب میں فینکس نامی ایک شاہین صفت پرندہ سے تشبیہ دی جاتی ہے جو تباہی و بربادی کے مرقد سے اس وقت نمودار ہوتا ہے جب ظلم کے شعلے آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں لیکن آسمان کی بلندیوں پر پہونچ کر جب وہ اپنے پر پھیلاتا ہے تو امن و سکون کی بادِ بہاری چلنے لگتی ہے اور عدل و قسط کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد انگریزوں نے مصر پر اپنا تسلطکے لئے قائم کرنے کی کوشش کی اور شاہ فواد کو بادشاہ بنا دیا۔ فواد برطانوی سامراج کا ا سی طرح باجگذار تھا جیسا کہ آزادی سے قبل ہندوستان کے نواب اور راجہ ہوا کرتے تھے لیکن جلد ہی وہاں بھی کانگریس جیسی ایک وفد پارٹی وجود میں آ گئی اور اس نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ آزادی چھیڑ دی۔ سعد ذغلول کو پہلے انگریزوں نے قید و بند میں ڈالا اور پھر اس سے معاہدہ کر لیا گویا مصر میں برطانیہ جیسی ملوکیت نما جمہوریت قائم ہو گئی لیکن بادشاہ اور وفد کے درمیان تعلقات استوار نہ ہو سکے۔ ذغلول کی موت کے بعد اس کی جگہ نہاس پاشا نے لی اور فواد کے بعد اس کا بیٹا فاروق بادشاہ بن گیا۔ اسی دورِ پر فتن میں حسن البناء شہید نے اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی۔ ۱۹۲۸ ء میں ۶افراد نے مل کر اس تحریک کا آغاز کیا اور ۱۹۳۶ ء تک اس کے ممبران کی تعداد ۸۰۰  ہو گئی لیکن ۱۹۳۸ ء کے آتے یہ تعداد دو لاکھ تک جا پہنچی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اخوان المسلمون کے رضا کاروں نے اسرائیل کے خلاف جہاد میں عملاً حصہ لیا تھا اور اس جاں نثاری کا بدلہ حکمرانوں نے یوں دیا کہ تحریک کے روح رواں حسن البناء کو شہید کر دیا گیا گویا اخوانیوں پر آزمائش و ابتلاء کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود اخوان المسلمون کا زور نہیں ٹوٹا اور ۱۹۵۰ء کے آتے آتے اخوانیوں کی تعداد ۲۰ لاکھ تک پہنچ گئی اور یہ تحریک نہ صرف مصر بلکہ عرب دنیا کے چپے چپے میں پھیل گئی۔

تحریک اسلامی پر ظلم توڑنے والی ملوکیت نما جمہوریت کچھ زیادہ دن ٹھہر نہ سکی ۱۹۵۲ ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ قدرت نے اس کو چلتا کر دیا۔ اس بغاوت کے کرتا دھرتا جمال عبدالناصر اور انورسادات تھے۔ بادشاہوں اور سیاستدانوں کی جگہ فوجی وردی میں ملبوس اشتراکیت نواز لوگ بر سر اقتدار آ گئے لیکن اخوان کے دن نہیں بدلے۔ جمال عبدالناصر نے سید قطب شہید کے پاک خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے کی جسارت کر دی سیدقطب تو شہادت کا جام پی کر سرخ رو ہو گئے لیکن مشیت نے عرب قوم پرستی کے نام پر اترانے والے جمال عبدالناصر کو اسرائیل کے ہاتھوں ذلیل کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب لیگ کی سربراہی سے اسے الگ کر دیا گیا اوراسی صدمہ میں وہ جان بحق ہو گیا۔

 جمال عبدالناصر کے بعد ان کے دستِ راست انور سادات نے اقتدار سنبھالا اور اخوانیوں پر مظالم جاری رکھے لیکن اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے کے لئے شام کے ساتھ مل کر اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں انہیں ابتدائی کامیابی حاصل ہوئی لیکن بالآخر جب امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں اپنی رسد روانہ کی تو جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور شام و مصر دونوں کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد انور سادات نے اشتراکی چولہ اتار کر پھینک دیا اور سرمایہ دار امریکیوں اور صیہونی یہودیوں سے ہاتھ ملا لیا تاکہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق کا سودہ کر کے اپنی کھوئی ہو ئی زمین حاصل کر سکیں۔ لیکن یہ پینترے بازی انورسادات کے کوئی کام نہ آئی اور جس فوج کی وردی پہن کر وہ آیا تھا اسی فوج کے خوددار سپاہیوں نے اس کو سرِ عام سلامی لیتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا۔ انور سادات کی موت پر امریکہ اور اسرائیل میں صفِ  ماتم بچھ گئی امریکہ کے تین سابق صدور نے جنازے میں شرکت کی ریمبو کہلانے والا رونالڈ ریگن حفاظت کے ڈر سے نہیں آسکا لیکن ساری مسلم دنیا نے انورسادات کی موت پر سکون کا سانس لیا اس لئے کہ اس نے امت کی پیٹھ میں خنجر آزمایا تھا۔

انور سادات کے بعد ان کا نائب حسنی مبارک کا نا مبارک ظہور ہوا جو تیس سال تک امریکہ اور اسرائیل کے تلوے چاٹتا رہا۔ اسرائیل کو سستے داموں پر گیس فراہم کرتا رہا اور نہ صرف غزہ کے فلسطینیوں بلکہ مصر کے اسلام پسندوں کا بھی گلا گھونٹتا رہا۔ اس دوران اس نے مصری عوام کے تمام حقوق کو ایک ایک کر کے پامال کیا۔ ان کا سماجی اور معاشی استحصال کیا عوام غربت و افلاس کی چکی میں پستے رہے اور یہ خود ۷۰ بلین ڈالر کے اثاثہ کا مالک بن گیا اپنی عمر کے ۸۴ ویں سال میں وہ اپنے بیٹے جمال مبارک کی تاجپوشی کی تیاری میں مصروف تھا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ تیونس میں برپا ہونے والے انقلاب سے ترغیب حاصل کر کے سڑکوں پر اتر آئے اور اب مبارک لوگوں کے سامنے گڑ گڑا رہا ہے۔ میں دوبارہ انتخاب نہیں لڑوں گا۔ میرا بیٹے نے بھی استعفیٰ دے دیا ایسی دہائی دے رہا لیکن عوام کو اس مگر مچھ پر اعتبار نہیں وہ اس کو بھگانے بلکہ اب تو اس پراس کے جرائم کے لئے مقدمہ چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اس کے نامزد کردہ وزیر اعظم کو عوام نے دفتر میں داخل ہونے سے روک دیا اور اس کی قومی جمہوری پارٹی کے سارے دفاتر کو پھونک دیا گیا ہے۔

مصر کے موجودہ صورت حا ل پر محتاط ترین تبصرہ واشنگٹن میں موجود مصری سفیرسامع شکری نے کیا۔ وہ بولے مستقبل کا مصر بہر صورت موجودہ مصر سے مختلف ہو گا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے سامع اب بھی اسی حکومت کے ملازم میں ہیں جو اقتدار سے جونک کی طرح چپکا ہوا ہے اور چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے کے اصول پر کارفرما ہے۔ بدقسمتی سے اس کی کھال اس قدر موٹی ہے کہ لاکھ ادھاڑے جانے پر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی یہ کھال دراصل ایک مایا جال ہے کہ جواس سے چمٹ جاتا ہے وہ پہلے تو مالا مال ہوتا ہے اور بعد میں کنگال ہو کر رخصت ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں قارون کی مثال دی گئی ہے وہ بنی اسرائیل کے اندر پیدا ہوا لیکن اپنے مفاد کی خاطر فرعون کا حواری بن گیا نتیجہ میں اس کی دولت میں اضافہ ضرور ہوا لیکن بالآخر اسے اپنے مال واسباب کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا گیا۔ نہ اس کا مال اس کے کسی کام آسکا اور نہ فرعون کی سرپرستی اسے تباہ و برباد ہونے سے بچا سکی فی الحال حسنی مبارک کے پاس خطیر اثاثہ ہے اوراسرائیل سمیت امریکہ، یوروپ اس کی تباہی پر ٹسوے بہا رہے ہیں لیکن اس کا اقتدار دن بدن ذلت و رسوائی کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ فنا کے شعلے اس کی چاروں طرف لپک رہے ہیں اس صورتحال پر کیا خوب تبصرہ ترکی وزیر اعظم طیب ارغدان نے کیا انہوں نے حسنی مبارک سے کہا ہم میں سے کسی کو حیات جاودانی حاصل نہیں ہے ہر ایک کو اس دنیا سے لوٹ کر جانا ہے لیکن بعد از موت ہم کو ان اعمال کا حساب بھی دینا ہے جو ہم اس دنیا میں کر کے لوٹیں گے۔ اس موقع پر حسنی مبارک کے لئے اوبامہ سے بہتر نصیحت ارغدان کی ہے۔ یہی بات فیض احمد فیض نے اپنی نظم ’’ہم دیکھیں گے ‘‘میں کہی تھی ؎

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ا زل میں لکھا ہے

ہم دیکھیں گے

بس نام رہے گا الله کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

وہ خالق بھی ہے مالک بھی

گزشتہ نوے سالوں میں مصر کے اندر تمام قسم کے سیاسی تجربات کئے جا چکے ہیں۔ ملوکیت کے ساتھ جمہوریت کو آزمایا گیا۔ اشتراکی آمریت بھی آئی اور چلی گئی۔ سرمایہ دارانہ استحصال کا مزہ بھی لوگوں نے چکھ لیا۔ ان تمام نظاموں کو چلانے والے سیکولر لوگ تھے جو قوم پرستی پر ایمان رکھتے تھے۔ مغرب سے تعلیم یافتہ اور مغرب کے رحم و کرم پر انحصار کرتے تھے۔ اگر کو ئی یہ کہتا ہے کہ وہاں حقیقی جمہوریت نہیں قائم ہو سکی اس لئے مسئلہ ہوا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان ان تینوں ممالک میں حقیقی جمہوریت موجود ہے اور اس کے باعث خود ان ممالک کے عوام کو کیا مل رہا ہے نیز ساری دنیا میں اس کی وجہ سے کس قدر فتنہ بپا ہے یہ جاننے کے لئے کسی تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مصر اور عالم انسانیت کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ مختلف باطل نظریات کو تو آزمایا جاتا ہے لیکن اسلام سے کنی کاٹ لی جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے آئینہ وہی رہتا ہے چہرے بدل جاتے ہیں۔ اس مرتبہ مصر کے عوام آئینہ بدلتے ہیں یا چہرہ؟اس سوال پر ساری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ سارے لوگ دیکھ رہے۔ آپ اور میں بھی ان دیکھنے والوں میں شامل ہیں ہم سب کی حالت فیضؔ جیسی ہے جس کا کہنا ہے ؎

جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی   دیکھیں   گے

٭٭٭

 

بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

انسانی تاریخ و تمدن کا قافلہ سخت جاں فتح و شکست کے دو پہیوں پر اپنی منزل کی جانب مسلسل رواں دواں ہوتا ہے۔ لہروں کے مد و جزر کی مانند توانائی بھی برقناطیسی شعاعوں کی مددسے بل کھاتی لہراتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اس میں ہر نشیب کے ساتھ ایک فراز ہوتا اور ہر چڑھاؤ کے بعد ایک اتار آتا ہے۔ اسی حرکت و عمل کا نام زندگی ہے جس دن کائنات کی یہ دھڑکن بند ہو جائے گی قیامت برپا ہو جائے گی۔ شکست و ریخت سے جب بھی اہل ایمان کا پالہ پڑتا ہے انہیں سب سے پہلے خدا یاد آتا ہے۔ یہ اسی قدر فطری امر ہے جیسا کہ بچے کا گرتے ہی اپنی ماں کی جانب مڑ کر دیکھنا۔ اس کے لئے کسی بچہ کو نہ تو تلقین و نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی تربیت و تزکیہ کی بس اس کے نفس کا فطرت پر ہونا اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔

ننھا طفل اپنی مادر حقیقی کو خوب جانتا ہے لیکن بڑے بوڑھے اس امر میں دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اکثر سوتیلی کو سگی ماں سمجھ بیٹھتے ہیں اگر یقین نہ آتا ہوپیرِحقیرحسنی مبارک کو دیکھ لیجئے اس نے اقتدار کو چھوڑنے سے قبل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اسرائیلی قانون سازبن یامین بین الئیزرسے فون پر طویل گفتگو کی۔ اس کام کے لئے اسے ساری دنیا میں کوئی اور نہ ملا یہ وہی بن یامین ہے جو نہ صرف وزیر صنعت و حرفت اور معیشت و محنت رہ چکا ہے بلکہ اس کو وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم بننے کا بھی موقع ملا ہے۔ اس شخص نے مبارک کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے بڑی صفائی سے یہ تسلیم کیا تھا کہ اگر انتخابات کرائے جاتے ہیں تو حزب اختلاف اخوان کامیاب ہو جائے گی۔ بقول بن یامین کے ’’مبارک نے امریکہ کو برا بھلا کہنے کے بعد مجھے جمہوریت کا درس دیتے ہوئے کہا مشرق وسطیٰ کا مقدر یہی ہے کہ یہاں امریکہ کے ذریعہ جمہوریت کی حمایت ایران میں تو کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی ہاں غزہ میں حماس کو ضرور کامیاب کر گئی اور مصر میں بھی انتہا پسند اسلام کو جنم دے گی لیکن یہ معاملہ مصر تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خلیج کے دوسرے عرب ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کے نتیجہ میں اگر مستقبل میں اسلامی انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے تو مجھے (یعنی مبارک کو) کوئی حیرت نہیں ہو گی۔ ‘‘ یہ بات صحیح ہے لیکن کون اس سے کس قدر متاثر ہو گا اس کا دارومدار اس کے امریکہ اور اسرائیل سے تعلقات پر منحصر ہے بقول بشر الاسد شام پر اس کے خاطر خواہ اثرات نہ ہوں گے اس لئے کہ مصر کے بر عکس اس کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات نہیں ہیں وہ اسرائیل و امریکہ نواز محمودعباس کے بجائے حماس کا ہمدرد ہے نیز وہ معیشت کے میدان میں امریکہ پر انحصار نہیں کرتا۔

بن یامین کے مطابق حسنی مبارک با عزت طریقہ پر نکل جانا چاہتا تھا وہ بار بار دوہراتا تھا میں نے اپنے ملک کی ۶۱ سال خدمت کی ہے اس کے باوجود مظاہرین چاہتے ہیں کہ میں فرار ہو جاؤں۔ میں نہیں بھاگوں گا۔ وہ مجھے اٹھا کر پھینک دینا چاہتے ہیں میں نہیں چھوڑوں گا۔ اگر ضرورت پڑی تو میں قتل ہو جاوں گالیکن حسنی مبارک کی یہ آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی اور اسے بے آبرو ہو کر جانا ہی پڑا اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے تشویش جتاتے ہوئے کہا کہ مصر میں ایران جیسا اسلامی انقلاب آیا چاہتا ہے جس میں اقتدار اخوان کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ یہ وہی بات ہے جو رائے ہنانیہ نے یروشلم پوسٹ میں لکھی ’’موجودہ صورتحال میں اسرائیل کے ساتھ امن کوئی مبارک جیسا آمر ہی قائم کر سکتا ہے۔ اگر عوام کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی تو وہ امن معاہدے کے خاتمہ کا مطالبہ کریں گے۔ ‘‘اسرائیل کو لگتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو غزہ کی غیر قانونی گھیرا بندی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔

اسرائیل کو مصر سے رعایتی قیمت میں ملنے والی گیس سپلائی کے بند ہو جانے کی فکر بھی ستاتی ہے یہ ستم ظریفی ہے کہ یہ معدنی گیس مصر سے نکل کر اسرائیل تو پہنچتی ہے لیکن غزہ کے مظلوم اس سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اس خدمت کے عوض جس پر حسنی مبارک کو بڑا ناز ہے امریکہ مصر کو ڈیڑھ بلین ڈالر کی مدد دیتا ہے اس میں سے ۱ء ۳بلین ڈالر تو ہتھیاروں کی نذر ہو جاتے ہیں یعنی واپس امریکہ چلے جاتے ہیں باقی ۲۰۰ ملین حسنی مبارک اور ان کے اقربا کی جیب میں چلے جاتے تھے اس لوٹ پاٹ نے حسنی مبارک کو دنیا کا سب سے امیر فرد بنا دیا ہے، فوربس کے مطابق میکسیکو کے کارلوس کا اثاثہ ۵۴ بلین ڈالر ہے اور بل گیٹس کا صرف ۵۳ بلین جبکہ حسنی مبارک کے پاس بغیر کسی کاروبار کے تقریباً۷۰ بلین ڈالر موجود ہیں لیکن ابھی تازہ خبر یہ ہے کہ سوئیس بنکوں نے اس اثاثے کو منجمد کر دیا ہے گویا چوروں کا مال سب چور کھا گئے والی کہانی جو شاہ ایران کے حوالے سے سامنے آئی تھی وہ پھر ایک بار دوہرائی جانے والی ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ شاہ ایران کو کسم پرسی کے عالم مصر کی سرزمین نے نگل لیا اب دیکھنا یہ کہ حسنی مبارک کی خاک کس مٹی میں ملتی ہے۔

اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد حسنی مبارک کا محل وقوع پر اسرار ہو گیا ہے اور طرح کی طرح افواہیں گرم ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ کہ وہ سب سے پہلے قاہرہ سے بھاگ کر شرم الشیخ گیا لیکن وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ آنے کے فوراً بعد وہ کسی خلیجی ملک کی جانب پرواز کر گیا۔ ایک خبر یہ بھی آئی کہ اس کی صحت نہایت نازک ہے کینسر سے وہ پریشان ہے، سنا ہے اپنا آخری بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے وہ دو مرتبہ بے ہوش بھی ہوا تھا اور اب اپنے علاج کے لئے جرمنی پہنچ گیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم مرکل کے ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوے کہاکہ وہ نہ آیا ہے اور نہ آ رہا ہے، اسے اب جرمنی جانے کے لئے ویزے کی ضرورت ہو گی اس لئے کہ اب وہ صدر تو ہے نہیں نیز اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اثاثہ منجمد ہو جانے کے بعد علاج کے اخراجات کہاں سے پورے کئے جائیں گے ؟ دنیا کے امیر ترین شخص کے حوالے سے ان خدشات کے اظہار نے حسنی مبارک کو فرعون کی مانند سامانِ عبرت بنا دیا ہے۔ ویسے ان متضاد افواہوں کے درمیان کوئی بعید نہیں کہ کل کو یہ خبر بھی جگہ پالے کہ حسنی مبارک تل ابیب کے اندر اپنے دیرینہ دوست ایریل شیرون کے بغل میں موت و زیست کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔

مصائب کی گھڑی میں مومن کے قدم زمین پر ہوتے ہیں اور پیشانی رب عظیم کے آگے خم ہوتی ہے لیکن جب مشکل کے بعد آسانی تشریف لاتی ہے تو انسان ہوا میں اڑنے لگتا ہے۔ خطرہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب خزاں کے بعد باد بہاری چلنے لگتی ہے۔ گویا سورہ نصر کی مصداق ’’جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے۔ ‘‘ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نئی آزمائش سے انسان کیسے نمٹے ؟یہ صورتحال اس لئے نازک ہوتی ہے کہ عام طور پر انسان سرے سے اسے آزمائش تسلیم ہی نہیں کرتا۔ وہ تو یہ سوچ سوچ کر شاداں و فرحاں ہوتا ہے اب آزمائش کے دن ہمیشہ کے لئے لد گئے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ غم کی طرح خوشی کو بھی دوام حاصل نہیں ہے سورہ رحمٰن کی آیات اعلان کر رہی ہیں کہ ’’ پس ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے (۲۶) اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ ‘‘(۲۷)اس موقع پر عالمِ غفلت میں مبتلا ہو کر پھلجھڑیاں چھوڑنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا نسخہ بھی بتلایا دیا گیا ’’تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ‘‘(۳)

حسنی مبارک کی قبیل کے طاغوت کا رویہ اللہ بزرگ و برتر کی کبریائی بیان کرنے کے بجائے خود اپنی تعریف و توصیف کروانے کا ہوتا ہے وہ لوگ اس حقیقت سے غافل ہو جاتے ہیں کہ اس کائنات کے حقیقی و ابدی اقتدار کا مالک خدائے ذوالجلال کی ذاتِ والا صفات ہے اسی لئے سورہ آل عمران میں حکم دیا گیا ’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے۔ ۔ ۔ ‘‘(۲۶)گویا انسانوں کو حاصل ہونے والا اقتدار عارضی ہوتا ہے۔ اور اسی کو حاصل ہوتا ہے جسے اللہ چاہتا ہے اور اسی وقت تک اس کے پاس رہتا جب تک کہ اللہ چاہتا ہے۔ گویا اس کا ملنا اور چھننا دونوں انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں آئے دن رونما ہوتی رہتی ہیں لیکن کوئی ان سے عبرت نہیں پکڑتا۔

عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملوکیت میں اقتدار اولاد کے حصہ میں اپنے آپ آ جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ آمریت میں بھی یہ ہوتا ہے حافظ الاسد کا بیٹا بشر الاسد شام کا فرمانروا بنا ہوا ہے۔ جمہوریت میں بھی یہ عمل ہوتا رہتا ہے۔ پنڈت نہرو سے لیکر راہل گاندھی تک سارا خاندان اس بات کا گواہ ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی جمہوریت بھی بیٹیوں کو نواز تی رہی ہے۔ جارج بش کے بیٹے کو امریکی جمہوریت بھی نہ صرف ایک بلکہ دو دو بار اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکی گو کہ اس کی نا اہلی اظہر من الشمس ہو گئی تھی۔ ویسے اقتدار کا انسانوں کی مرضی کے خلاف کسی اور کو مل جانا بھی کئی بار کھل کر سامنے آ جاتا ہے مثلاً اندرا گاندھی کا راجیو کے بجائے سنجے کا اس کام کے لئے انتخاب کرنا اور راجیو گاندھی کاجس نے شادی سے قبل خود کو سیاست سے کنارہ کش کر لیا تھا نہ صرف وزیر اعظم بن جانا بلکہ ان کی پر دیسی بیوی سونیا کا ہندوستانی سیاسی افق پر سب زیادہ طاقتور سیاسی محور بن کر ابھرنا۔ پاکستان میں آصف علی زرداری کا بینظیر کو دوبارہ سیاسی بکھیڑے میں پڑنے سے روکنا اور خود صدر بن جانا۔ یہ تمام واقعات سیاسی مبصرین کے وہم و گماں سے پرے تھے لیکن ان کے رونما ہو نے سے یہ ثابت ہو گیا کہ اقتدار مختلف راستوں سے حاصل ہو تا ہے اور مختلف طریقوں سے چھین بھی لیا جاتا ہے اور یہ اقتدار کا آنا اور جانا خود صاحبِ اقتدار کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتا۔

حسنی مبارک کے سر پر سے جب امریکہ کا سایہ التفات اٹھ گیا تو فوج اس کے سر پر استعفیٰ کی تلوار لے کر پہنچ گئی۔ اس وقت مبارک نے قوم سے خطاب کرنے کی اپنی آخری خواہش کا اظہار کر دیا۔ فوجی سربراہان نے سوچا شاید یہ اپنی بچی کھچی ساکھ کو کسی طرح سنبھال کر لے جانا چاہتا ہے اس لئے ایک اور موقع کی بھیک اس کی جھولی میں اچھال دی گئی لیکن اس احمق نے اسے بھی گنوا دیا۔ اس نے نہ تو اپنے کرتوتوں کے لئے قوم سے معافی مانگی اور نہ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ملک کے مفاد میں عظیم قربانی دینے کا ڈھونگ رچایا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو ایسا کر سکتا تھا اس کے برخلاف اقتدار سے چپکے رہنے کے اپنے عزم کو دوہرایا۔ لوگوں نے جوتے اچھال کر ا س کا جواب دیا۔ مبارک نے اپنے آپ پر غالب کا مصرعہ ‘‘بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے ’’ بذاتِ خودچسپاں کر لیا۔ اول تواس کے اقتدار نے اسے ذلیل کیا اور پھر اقتدار کے اصرار نے اس کی رسوائی میں چار چاند لگا دیئے مشیت ایزدی اسی طرح کام کیا کرتی ہے فرمایا’’توجسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘(۲۶)

حسنی مبارک جیسے لوگ جب اپنی ذلت و رسوائی کا شکوہ کرتے ہیں تو ان کے جواب میں فرمایا جاتا ہے ’’ مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ‘‘(۲۸)استسثنائی رخصت مظلوم افراد کو تو حاصل ہے لیکن جو باغی و طاغی حکمراں اپنا اقتدار بچانے کی خاطر اللہ کے دشمنوں پربھروسہ کرتے ہیں، اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے اہل ایمان والوں کے بجائے ان کے دشمنوں کو اپنا رفیق و دمساز بناتے ہیں ان کو انہیں کے دوست نما دشمنوں کے ذریعہ سرِ بازار برہنہ کر دیا جاتا ہے۔ حسنی مبارک کے قریبی یہودی دوست بن یامین کے ذاتی ٹیلی فون کے طشت از بام ہونے کی مثال اوپر گذر چکی ہے۔

اہل ایمان یوں تو ہر وقت رسول کریمﷺ کی یاد سے اپنے قلب کو معطر رکھتے ہیں لیکن ماہ ربیع الاول میں آپ ؐ کے ذکر کی خوشبو چہار جانب پھیل جاتی ہے اور اس موقع پر نبی کریم ؐ کے رحمت اللعالمین ہونے کی بات بڑی کثرت سے دوہرائی جاتی ہے۔ لیکن سورہ انبیاء کی اس آیت کو اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں مصر کے موجودہ حالات پر تبصرہ و رہنمائی بھی ہے فرمایا ’’اور زَبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے (۱۰۵) اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔ ‘‘ (۱۰۶) گویا وقتی طور پر تو یہ ممکن ہے کہ قبطیوں جیسا کوئی جابر و طاقتور اقتدار زمین کے کسی خطہ پر قائم ہو جائے لیکن بالآخر زمین کی وراثت کے حقدار اللہ کے نیک بندے ہی ہوں گے۔

اس بات کا ذکر زبور میں موجود ہے اور یہودی خود اسے دیکھ سکتے ہیں نیز بنی اسرائیل کی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے ان دو آیات کے بعد فرمایا کہ ’’ اے محمدؐ، ہم نے جو آپ کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ ‘‘(۱۰۷) گویا اب آپ کے ذریعہ نیک بندوں کو اقتدار سونپا جائے گا اور مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ نے نبی پاکؐ اور ان کی امت کے نیک بندوں کو زمین کا وارث بنایا لیکن اس کے بعد والی آیت میں آئندہ کے مراحل کا ذکر ہے فرمایا’’( اِن سے کہو )میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا خدا صرف ایک خدا ہے، پھر کیا تم سرِ اطاعت جھکاتے ہو؟‘‘ (۱۰۸)

 اس دعوت کو صاف صاف پیش کر دینے کے بعد اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ ’’میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دور۔ ‘‘ اسی کے ساتھ جس ڈھیل کے باعث اکثر طاغوتی طاقتیں اپنے بارے میں زبردست خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں انہیں خبردار کیا گیا کہ ’’میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر) تمہارے لیے ایک فتنہ ہے اور تمہیں ایک وقت خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ ‘‘(۱۱۱)دنیا نے دیکھا کہ حسنی مبارک کی رسی کو ۳۰ سال تک دراز کیا گیا لیکن وہ اپنی بغاوت سے بعض نہیں آیا یہاں تک کہ اس پر اس سلسلے کی آخری آیت چسپاں ہو گئی۔ (رسولؐ نے کہا )’’اے میرے رب، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمان ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔ ‘‘(۱۱۲)

٭٭٭

 

سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری قدرت کیا

اقوامِ عالم کی امامت کے منصبِ جلیل پر کسی قوم کے فائز ہونے کا پتہ اس طرح چلتا ہے کہ وہ ساری دنیا کی توجہات کا مرکز بن جاتی ہے کسی کے لئے اس کی جانب سے صرفِ نظر کرنا مشکل تو کجا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات دیگر قوموں پر پڑنے لگتے ہیں اور لوگ اس کی مثالیں دینے لگتے ہیں نیز اس کے معاملات میں مداخلت کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اس کسوٹی پر اگر اقوامِ عالم کو پرکھا جائے تو پتہ چلے گا فی زمانہ اگر چہ کہ امت مسلمہ اس منصب پر پوری طرح فائز نہیں ہوئی ہے لیکن بڑی تیزی کے ساتھ اس جانب پیش قدمی فرمارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کی نظریں یوروپ اور امریکہ کی جانب لگی ہوتی تھیں۔ ہر کس و ناکس مغرب کی نقالی کو اپنے لئے باعثِ فخر و سعادت سمجھتا تھا بلکہ حالت یہ تھی کہ مغرب میں برف باری ہوتی تھی تو ایشیا خاص طور پر وسط ایشیا میں حکمرانوں سمیت عوام کو زکام ہو جاتا تھا اور بیجا مداخلت کا یہ عالم تھا کہ محض انتخاب میں اپنی مقبولیت کے اضافہ کی خاطر معصوم مسلمانوں پر بمباری کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب حالات خاصے بدل گئے ہیں گزشتہ چند ماہ سے بین الاقومی خبروں میں مسلمانوں کا بول بالہ ہے ہر کوئی عالمِ  اسلام کی جانب متوجہ ضرور ہے لیکن کسی کی مجال نہیں ہے کہ مداخلت کرنے کی جرأت کرے۔

ماضی کے برخلاف حالیہ تبدیلیوں کے پسِ پشت کوئی بیرونی طاقت یا اس کا مفاد کارفرما نہیں ہے۔ ان سارے تغیرات کی زمامِ  کار صرف و صرف امت مسلمہ کے ہاتھ میں ہے اور ساتھ ہی اب یہ حالات ساری دنیا پر اپنا اثر ڈالنے لگے ہیں لوگ مسلم عوام کی جانب رشک وتحسین کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ چین جیسے ابھرتے ہوئے سپر پاور نے اس زلزلے کے جھٹکے محسوس کر لئے ہیں اور وہاں کے حکمرانوں نے  اپنے عوام کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا ہے یہ سوال بھی کیا جانے لگا ہے کہ امریکہ کب تک اس طرح کی بغاوت کو ٹال سکے گا نیز اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ معاشی بحران اس انقلاب کی راہ کو بڑی تیزی کے ساتھ ہموار کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب امریکی عوام بھی مضطرب ہو کر سڑک پر اتر آئیں گے۔ امریکہ کے معروف ماہرین معیشت جن میں ٹرینڈ ریسرچ کے چیف ایکزیکٹیو جیرالڈ کلینٹی بھی شامل ہیں نے ۲۰۱۲ء کے آتے آتے امریکہ میں خوراک کی خاطر فسادات کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ظاہر کر دیا ہے ان کے مطابق بے روزگار عوام ملازمت کی خاطرسڑکوں پر اتر آئیں گے اور ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیں گے اس لئے کہ ان کے پاس اس کی سکت ہی نہ ہو گی۔ جیرالڈ کے اندازوں کو اس لئے آسانی کے ساتھ ٹالا نہیں جا سکتا کہ ماضی میں سویت یونین اور مشرقی ایشیا کے معاشی بحران کے حوالے سے ۱۹۸۷ء میں جو قیاس آرائی اس نے کی تھی وہ صحیح ثابت ہو چکی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں عالمی کساد بازاری کی پیشن گوئی وہ کر چکا تھا اور اسی وقت اس نے خوراک کے دنگوں کی بات کہی تھی۔ امریکہ میں مصر کی طرح کے انقلاب کا امکان اس لئے بھی بہت روشن ہے کہ قدرتی اور انسانی وسائل سے ایشیا پہلے ہی سے مالا مال ہے اس پر طرہ یہ کہ صنعتی پیداوارکا محور بھی فی الحال امریکہ اور یوروپ سے نکل کر ایشیا کی جانب کوچ کرچکا ہے۔

امریکہ کی داخلی صورتحال سے زیادہ اس کی خارجہ پالیسی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئی ہے جس کا اعتراف صدر وابامہ کے نامزد کردہ مشرق وسطیٰ کے مشیر ڈینس روس اپنے حالیہ بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا اسرائیلی حکومت کومصری انقلاب سے یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ فلسطینیوں کے معاملے میں موجودہ صورتحال ناپائیدار ہے اور اس طرح کے غیر مستحکم حالات خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مصر میں وقت کے ساتھ جس طرح بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا رہا اسی طرح حالات سے فلسطین بھی دوچار ہو گا اور آگے چل صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ ڈینس نے مصر کو اسرائیلی امن کا سب سے اہم ستون قرار دیا اور کہا کہ امریکہ اپنی معاشی مشکلات کے باوجود اسرائیل کی امداد جاری رکھے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ شاخ نازک ہی ٹوٹ جائے گی تو ا س  ولدا لحرام کے لئے خود اپنے خنجر سے خودکشی کے علاوہ کون سا چارۂ کار باقی بچے گا؟

مصر سے مشابہ ترین صورتحال اگر کسی ملک میں پائی جاتی ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ ان دونوں ممالک کا انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا، عرصہ دراز تک بظاہر غیر جانبداری کا دکھاوہ اور بباطن دائیں بازو کی جانب واضح جھکاؤ نیز اسرائیل سے دشمنی اور پھر پلٹا کھا کر نہ صرف امریکی غلامی کو قبول کرنا بلکہ اسرائیل سے پینگیں بڑھانا یہ تمام مشترک عناصر ہیں۔ ایک فرق ضرور ہے کہ ہندوستان میں انتخابات ہوتے رہے ہیں فوجیوں کے بجائے شہری اقتدار پر فائز رہے ہیں جبکہ مصر میں بھی انتخابی ڈرامہ کے باوجود فوجیوں کی مسلسل حکومت رہی اور حسنی مبارک سے قبل مصر کے دونوں سربراہ مر کر اقتدار سے دستبردار ہوئے ویسے یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ہندوستان کے پہلے مقبول و معروف وزیر اعظم پنڈت نہرو کا انتقال جس طرح چین کے ہاتھوں شکستِ فاش کے صدمہ سے ہوا اسی طرح ان کے عزیز دوست صدر جمال عبدالناصر کی موت اسرائیل کے ہاتھوں میدانِ جنگ میں پسپائی کے بعد ہوئی نیز اندرا گاندھی کو جس طرح ان کے حفاظتی دستہ نے ہلاک کیا اسی طرح انورسادات کو ایک فوجی نے قتل کر دیا۔ انتخابات کے اندر دھاندلی تو دونوں ممالک میں ہوئی لیکن ان کی کمیت میں فرق ضرور رہا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان ایک معمولی سا فرق یہ بھی تھا کہ ہندوستان میں آزادی کے بعد بیشتر عرصہ اقتدار کا تاج نہرو خاندان کے قدموں میں رہا درمیان میں کبھی کبھار کچھ اور لوگوں کو بھی موقع ملتا رہا جبکہ ایسی کوئی خاندانی حکومت مصر میں قائم نہ ہوسکی حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال مبارک کو صدارت پر فائز کرنے سے پہلے چلتے کر دئیے گئے۔ نظریاتی سطح پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو اپنے سیکولر، سوشلسٹ اور قوم پرست ہونے پر بڑا ناز تھا۔ ان سارے مشترک عوامل کے پیش نظر ہندوستان میں مصر کی بڑی گونج سنائی دی اور کمیونسٹ پارٹی سے لے کر بی جے پی تک سبھی ہندوستان کے اندر بھی مصر جیسی بغاوت کی پیشن گوئی کرنے لگے ہیں۔ کانگریس ا یسا کہنے سے اس لئے گریز کر رہی ہے کہ وہ بر سر اقتدار ہے کل کو اگر ان سے اقتدار چھن جائے تو وہ بھی یہی کہیں گے۔

سماجی سطح پر مشابہت تلاش کی جائے توسرِِ فہرست بدعنوانی دکھائی دیتی ہے۔ یہ حقیقت اظہر من ا لشمس ہے کہ سوئس بنکوں میں ہندوستانی سیاستدانوں کا جملہ کالا دھن مصریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹوجی گھوٹالہ کی رقم میں صفر گنتے گنتے غریب گنتی بھول جاتا ہے۔ کلماڈی سے لیکر ڈالمیا تک بدعنوان اقتدار کے مہرے کھیل کھیل میں ارب پتی بن گئے ہیں اور ہزاروں شہادتوں کے باوجود ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں انتخابات کے بعد حکومتیں ضرور تبدیل ہو تی ہیں لیکن جو بھی حکمران ایک اقتدار پر قابض ہو تا ہے وہ اپنے آپ کو کسی حسنی مبارک یا معمر قذافی سے کمتر نہیں سمجھتا بلکہ اڈوانی اور مودی تو ان سے دو قدم آگے نکلے ہوئے ہیں۔ حسنی کو تین سو افراد کی ہلاکت کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا جبکہ مودی ہزاروں کو قتل کرنے باوجود اقتدار سے چپکا ہوا ہے۔

من موہن سنگھ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ نہایت صاف ستھری شخصیت کے حامل ہیں لیکن ان کے دور حکومت میں جس طرح کی بدعنوانیوں میں خود ان کی اپنی پارٹی وزراء اور وزرائے اعلیٰ ملوث پائے گئے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حالیہ دنوں میں ایک بدعنوان افسر تھامس کو مرکزی ویجلنس کمیشن کا سربراہ بنا کر جس کا مقصد ہی بدعنوانی پر لگام لگانا ہے انہوں نے جس ڈھٹائی کا ثبوت دیا اس کی نظیر پیش کرنا محال ہے۔ حزب اختلاف کے اعتراض کے باوجود ایک ایسے شخص کو جس کے خلاف عدالت میں گھپلے بازی کا مقدمہ درج ہے سی وی سی کی سربراہی کے اہم ترین منصب پر فائز کر نے کی جرأت کوئی سردار ہی کرسکتا ہے۔ عدالت عالیہ نے تھامس کی تقرری کو کالعدم قرار دے کر وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ کی بھی سرزنش کر ڈالی لیکن دیگر کئی معاملات میں خود عدالت بھی اقتدار کے ہاتھوں کا کھلونا بنی رہی۔

اس سال جبکہ ساری دنیا میں عالمی یوم خواتین منا یا جا رہا تھا دارالخلافہ دہلی کی سڑکوں پر دن دہاڑے ایک طالبہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ کوئی اکا دکا واقعہ نہیں ہے شہر دہلی میں ۲۰۰۹ء کے اندر ۴۵۹ عصمت دری کے واقعات ہوئے تھے جبکہ ۲۰۱۰ء میں یہ تعداد بڑھ کر ۴۸۹ ہو گئی حالانکہ دہلی کی وزیرا علیٰ شیلا دکشت ہیں اور کانگریس کی زمام کار سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ لوگ خواتین کے لئے ریزرویشن کا قانون بنا رہے ہیں جبکہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات گزشتہ سال ۵۲۸ سے بڑھ ۵۸۵کر ہو گئے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے اس طرح کے اکثرسانحات پولس تھانے میں درج نہیں ہوتے روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایک جائزے سے پتہ چلا ہے کہ دہلی شہر کی ۶۶ فیصد خواتین گزشتہ سال ۲ تا ۵ مرتبہ چھیڑ خوانی کا شکار ہوئی ہیں۔

ہندوستان کی خوشحالی کا ساری دنیا میں ڈنکا بج رہا اس خوشحالی کا چراغ روشن رکھنے کی خاطر گزشتہ سال تین مرتبہ شہر ممبئی کے باندرہ علاقے کی جھگی جھونپڑیوں کو پھونک دیا گیا۔ پچھلے ہفتہ لگنے والی آگ نے ۲۰۰۰ گھروں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت کا چراغ انہیں جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والے باشندوں کے دم سے روشن ہے وگرنہ محلوں اور کوٹھیوں کے امراء تو اسی وقت ووٹ دینے کے لئے آتے ہیں جب ذرائع ابلاغ کے لوگ ان کی تصویر کشی کے لئے موجود ہوتے ہیں ورنہ وہ پولنگ بوتھ پرآنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے لیکن غریبوں کے ووٹ سے کامیاب ہونے والے سیاستدان بلڈرس سے مل کر انہیں مسکینوں کا جہاں پھونک دیتے ہیں۔ یہ تو شہروں کی حالت زار ہے گاؤں کی حالت تو اور بھی بیکار ہے۔

 ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق بھارت کی آٹھ ریاستوں میں رہنے والے غریب افراد کی تعداد سب صحارہ افریقہ کے غریب ترین ۲۶ ممالک سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں جنوبی ایشیا ئی اور افریقی ممالک میں غربت کا موازنہ کیا گیا ہے۔ مطالعاتی جائزے میں غربت کی پیمائش کے لیے صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دستیابی جیسے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا ہے۔ آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر سبینا الکائرے اس مطالعاتی جائزے کی شریک مصنف ہیں۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ایک ارب ۷۰ کروڑ کی آباد ی کے علاقے جنوبی ایشیا میں تقریباً ۵۱ فی صد افراد غربت کے دائرے میں آتے ہیں۔ افریقی ممالک سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی غریب براعظم افریقہ میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا  ہے کہ افریقہ کے ۲۶ غریب ترین ملکوں سے بھارت کا موازنہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں بھی عوام اسی قدر غربت اور محرومی کا شکار ہیں جتنا کہ افریقہ کے۔ بلکہ بھارت میں غربت کی شدت افریقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اور یہ پہلو بہت چونکا دینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن کسانوں کی خودکشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں گزشتہ ۱۳ سالوں میں تقریباً دو لاکھ کسانوں نے خودکشی کی گویا ہر آدھے گھنٹے میں ایک سانحہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

قانون کی بالا دستی پر ہم ہندوستانیوں کو بڑا فخر ہے مگر بابری مسجدکے مقدمہ میں عدلیہ نے مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کر کے اپنا اصلی چہرہ دکھلا دیا۔ وہ زخم ابھی بھرا بھی نہیں تھا کہ گودھرا کا فیصلہ آگیا۔ گودھرا میں پہلے ٹرین جلی پھر اس کا بہانہ بنا کرریاست بھرکے مسلمانوں کو آگ میں جھونک دیا گیا اور اب عدالت کے فیصلے نے دستورکے تقدس کو جلا کر راکھ کر دیا۔ سابرمتی ایکسپریس میں آگ کیسے لگی؟ اور کیوں لگی ؟ اس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ اس آگ میں صرف۵۹ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے جواب میں ۹۴ افراد کو گرفتار کر کے ۹ سال تک جیل میں رکھا گیا۔ اس کے بعد اس ساری سازش کے سرغنہ کے ملزم مولانا عمر جی سمیت ۶۳ افراد کے ساتھ رہا کر دیا گیا اور ۳۱ کو سزا سنائی گئی اورسزا بھی ایسی کہ ۱۰ کو پھانسی اور ۲۱ کو عمر قید۔ گویا بابری سے لیکر گودھرا تک ہر جگہ دو تہائی اور ایک تہائی کا فارمولا چلتا رہا۔ مسجد کی زمین تین حصوں میں تقسیم ہو ئی دو تہائی ہندوؤں کو اور ایک تہائی مسلمانوں کو۔ یہاں دو تہائی رہا ایک تہائی کو سزا۔ سزا میں دو تہائی کو عمر قید اور ایک تہائی کو پھانسی۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے ؟ایک سوال یہ بھی ہے کہ جن بے گناہوں کو نو سال تک قید و بند کی مشقت برداشت کرنی پڑی اس کے لئے قصوروار کون ہے ؟اور اس کو کون سزا دے گا؟اسی کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے جن لوگوں کو گواہی پر یہ سزا سنائی گئی وہ کون لوگ ہیں ؟ وشواہندو پریشد کے ۹گواہوں سے متعلق خود جج پی آر پٹیل نے اعتراف کیا کہ وہ سب جھوٹے ہیں ؟پٹیل کے مطابق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پلیٹ فارم پر کارسیوکوں کی خدمت کر رہے تھے جبکہ ان میں سے کسی کے پاس پلیٹ فارم ٹکٹ نہیں تھا؟ ان کا تعلق سندھی سماج سے ہے جو مسلمانوں کے تجارتی حریف ہیں۔ وہ لوگ اس بات کا جواب بھی نہ دے سکے کہ ان کو گاڑی کے تاخیر سے آنے کی اطلاع کیسے ملی؟ نیز ان سب پر آتش زنی کے بعد فسادکے دوران قتل و غارتگری میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات ہیں۔ اس کے باوجود ان کی کہانی پر گودھرا میں معصوموں کو سزا سنا دی گئی تاکہ اس کی مدد سے نریندر مودی آئندہ انتخاب جیت سکے۔ اس معاملے کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ ۵۹ لوگوں کو ہلاک کرنے کے الزام میں ۳۱ مسلمانوں کو سنگین سزا جبکہ تقریباً ۲۰۰۰ مسلمانوں کو شہید کرنے والے ہندوؤں کو کوئی سزا نہیں۔ حالانکہ فسادات میں حصہ لینے والے ہندو رہنما تہلکہ جریدے کے کیمرے کے سامنے اپنے جرائم کا ڈھٹائی کے ساتھ اعتراف بھی کرچکے ہیں۔

ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں پرمظا لم مولانا وسطانوی کے چہیتے مودی ہی کے راج میں ہوتے ہوں ایسا نہیں ہے۔ اس سے پہلے مہاراشٹر میں فسادات کے دوران ۱۰۰۰ مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے مجرمین کو چھوڑ دیا گیا جبکہ ممبئی بم بلاسٹ جس میں ۳۵۰ ہندو ہلاک ہوئے تھے اس الزام میں کئی معصوم مسلمان گزشتہ دس سالوں سے جیل کی چکی پیس رہے ہیں۔ اسیمانند کے اعتراف جرم کے باوجود مالیگاؤں بلاسٹ میں گرفتار ہونے والے مسلم نوجوانوں کو ہنوز رہائی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو قانون کی یہ نا انصافی نہیں سمجھ میں آتی انہیں چاہئیے کہ ایک بار پھر منو شاسترکا مطالعہ فرما لیں۔ اس ہندو صحیفہ کے مطابق ایک شودر کی جان لینا کسی مینڈک، کوے یا الوّ کو ہلاک کرنے سے کم سنگین جرم ہے کسی کتے یا بلی کو مارنے کی سزا شودر کو مارنے کے برابر ہے۔ شودر کو براہمن کے خلاف عدالت میں گواہی دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ جہاں تک قانون کی نظر میں عدم مساوات کا تعلق ہے منو سمرتی کہتی ہے کہ اگر کوئی کشتریہ براہمن کو گالی دے تواسے ۱۰۰ا شرفی جرمانہ اگر ویشیہ دے تو ۲۰۰اشرفی لیکن اگر شودر ایسی جرأت کر بیٹھے تو اسے سزائے موت جبکہ اس کے برخلاف اگر براہمن کسی کشتری سے بدسلوکی کرے تو اسے ۵۰ اشرفی ہرجانہ اور ویشیہ سے کرے ۲۵ اشرفی لیکن اگر شودر کے ساتھ بدسلوکی جائے توسزا گھٹ کر ۱۲ اشرفی ہو جاتی ہے۔ منو کے زمانے میں کم از کم ۱۲ اشرفی تو سزا ہوتی لیکن جمہوری ہندوستان میں تو یہ بھی نہیں ہوتا۔

منو شاستر میں جس طرح انسانی معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح مغرب نے بھی مشرقی ممالک کے حکمرانوں کو چار حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے غالباً ان کو یہ تر غیب اپنے کتے پالنے کے شوق سے ملی ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں کتا ایک معیوب جانور سمجھا جاتا مغرب میں ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ان کا پسندیدہ پالتو چوپایہ ہے شاید یہ شرف کتے کو اپنی وفاداری کے سبب سے حاصل ہے۔ یہ ایک طرف تو اپنے آقا کے وفادار ہوتے ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کے غمگسار نہیں ہوتے۔ یہ اپنی گلی میں شیر کی طرح گرجتے اور برستے ہیں اپنے عوام پر مظالم توڑتے ہیں مگر اپنے آقاؤں کے آگے بھیگی بلی کی مانند دم ہلاتے ہیں۔ اہل مغرب اپنے باجگزار حکومتوں سے اسی وفاداری کی توقع رکھتے ہیں۔ ان چار قسموں میں ایک تو آوارہ کتے ہوتے ہیں جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ ان کے باعث نا کسی کا کوئی خاص فائدہ اور نہ کسی کو کوئی خطرہ۔ وہ یونہی سڑکوں اور راستوں پر زبان لٹکائے پھرتے رہتے ہیں۔ کھانے اور سونے کے علاوہ اپنی نسل کو باقی رکھنا یہی ان کی زندگی کے مقاصد ہوتے ہیں۔ عاشقوں کی طرح راتوں کو جاگنا اور کبھی دل کرے تو شعر و نغمہ ان کی تفریح کا سامان ہوتا ہے۔ ہند و پاک اور ان جیسے بے ضرر ممالک اسی زمرے میں آتے ہیں۔ دوسری قسم پالتو نمائشی کتوں کی ہے جن کو وہ لوگ بہت عزیز رکھتے ہیں بلکہ ان کی خاطر جس طرح میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آ جاتی اسی طرح ان ممالک کے رشتے بھی دیگر ممالک سے بگڑ جاتے ہیں ان میں تیونس، فلسطین کا مغربی کنارہ اور یمن جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان کے علاوہ تیسری قسم شکاری کتوں کی ہے مثلاً اسرائیل، مصر یا جنوبی کو ریا ان کے ذریعہ وہ لوگ اپنے دشمنوں کو ڈرانے دھمکانے کا بلکہ کاٹ کھانے کا کام لیتے ہیں اور آخری قسم پاگل کتے کی ہے مثلاً کرنل معمر قذافی جو اپنی اس عوام کو کاٹ کھانے کے لئے دوڑتا پھر رہا ہے جس نے اس احمق کو برسوں تک اپنا خون جگر پلا کر تندرست و توانا کیا لیکن اب وہ پوری طرح سے باؤلہ ہو چکا ہے۔ اس لئے اس سے کسی قسم کی دانشمندی تو کجا احسانمندی کی بھی توقع ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ یوسف القرضاوی جیسے نرم مزاج عالم دین کو اس کے قتل کا فتویٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا اور انہوں نے صاف طور پر فرما دیا کہ جس فوجی کو بھی موقع میسر آ جائے بلکہ اگر کسی شہری کو بھی موقع ملے تو وہ قذافی کا کام تمام کر دے۔ اس شخص نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے کتے کی عبرت ناک موت کا انتخاب کر لیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب طرابلس کی سڑکوں پر اس کی بے گور و کفن لاش پڑی ہوئی ہو گی اور اس پر کوئی آنسو بہانے والا نہ ہو گا۔ جس وقت یہ عبرتناک منظر ٹی وی کے پردے پر دکھلایا جا رہا ہو گا پس پردہ کرنل معمر قذافی کے ۲۰۰۹ء میں قطر کے اندر دئیے گئے بیان کے الفاظ گونج رہے ہوں گے ’’میں عالمی رہنما ہوں، عربوں کا سفید ریش بزرگ قائد، افریقی بادشاہوں کا شہنشاہ اور مسلمانوں کا امام ‘‘اور ناظرین حیرت کر رہے ہوں گے کہ کیا وہی شخص ہے جس نے کبھی بزعم خود اپنے بارے میں اس طرح کا بلند بانگ دعویٰ کیا تھا۔

ہندوستان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ یہاں مصر جیسی کوئی ‘‘سمپورن کرانتی‘‘ آئے جس کا خواب جئے پرکاش نارائن نے ایمرجنسی کے بعد دیکھا تھا اس لئے کہ جب بھی ایسا موقع آئے گا غالب کی مصداق عوام کو انتخابات میں الجھا دیا جائے گا اور کٹھ پتلیوں کے کھیل سے بہلا دیا جائے گا۔ لوگ کرداروں کی تبدیلی کو عظیم انقلاب سمجھ کر مطمئن ہو جائیں گے لیکن اگر فرض کریں کہ عوام کے صبر کا پیمانہ واقعی لبریز ہو جاتا ہے اور بناوٹی تبدیلیوں پر راضی نہیں ہوتے تو اس صورت میں جنوبی ہندوستان کی ریاستیں تیونس بن جائیں گی۔ وہاں کے حکمران بہت جلد اپنی مال و متاع سمیٹ کر زین العابدین کی طرح رفو چکر ہو جائیں گے۔ شمالی ہندوستان کے حکمران آسانی سے نہیں مانیں گے بلکہ حسنی مبارک کی طرح مزاحمت کر یں گے لیکن بالآخر انہیں بھی پسپا ہو کر اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ وسطی ہندوستان یعنی گجرات، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، بہار، اڑیسہ اور بنگال کی صورتحال نہایت نازک ہو گی۔ ان ریاستوں میں بنگال کو چھوڑ کر سارے مقامات پر بی جے پی حالیہ یا سانقہ حکومتیں ہیں۔ بنگال کے کمیونسٹ بھی سفاکی میں کسی طور بی جے پی سے کم نہیں ہیں لیکن اسی کے ساتھ ان علاقوں میں نکسلوادی نہ صرف مسلح بلکہ سرگرم بھی ہیں اس لئے ممکن ہے وسطی ہندوستان لیبیا جیسی خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔ ویسے مستقبل میں کیا ہو گا اور کیا نہیں یہ تو کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا بقول علامہ اقبالؒ ؎

دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا

گنبدِ  نیلو   فری   رنگ    بدلتا ہے کیا

٭٭٭

 

میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

(قسط اول)

’’تمہیں زندہ رہنے کا استحقاق حاصل نہیں ہے کیونکہ تم قذافی کے دشمن ہو‘‘۔ اس جملے کے ساتھ۱۹۹۶ء میں لیبیا کے پولس اہلکاروں نے سالم جدران کو بن غازی سے قریب اجدابیہ شہرسے گرفتار کیا تھا۔ سالم کرنل سید جدران کے ان پانچ بیٹوں میں سے ایک تھا جنھیں ۶ سا ل قبل گرفتار کر کے ایسے نامعلوم مقامات پر پہنچا دیا گیا جہاں کوئی پرندہ بھی بلا اجازت قذافی پر پَر نہیں مار سکتا تھا۔ لیبیا کے رہنے والے جدران برادران اور ان جیسے ہزاروں نوجوانوں کا قصور اس کے سوا کوئی اور نہیں تھا کہ وہ دین دار مسلمان تھے۔ ان لوگوں نے اپنی اس جہادی روایت کو برقرار رکھا ہوا تھا جس نے خلافت عثمانیہ کا دفاع کیا۔ ان لوگوں نے لیبیا پر قائم ہونے والے اطالوی تسلط کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ یہ لوگ افغانستان اور عراق کے جہاد میں بھی شریک اپنے ملک لیبیا سے آمریت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ ان کا تعلق لیبیا کے اسلامی مزاحمتی گروہ سے تھا اور یہ اخوان المسلمون سے متاثر تھے۔ ایسے میں جبکہ جدران قبیلے کے لوگ اپنے نونہالوں کی رہائی سے پوری طرح مایوس چکے تھے پھر ایک بار قذافی کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت نے زور پکڑا۔ اس دوران سید جدران کو انتظامیہ کا پیغام موصول ہوا۔ ’’ہم تمہارے بیٹے تمہیں لوٹا دیں گے بشرطیکہ تم خاموش بیٹھے رہو(گویا مزاحمت میں حصہ نہ لو)۔ ‘‘ لیکن قید و بند کی صعوبتیں جن کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہی تھیں وہ بھلا احسان کے اس دام میں کیونکر گرفتار ہوتے۔ اجدابیہ کے حریت پسند عوام نے انتظامیہ کی اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور کہا جب تک سارے قیدی آزاد نہیں ہو جاتے اس وقت تک کوئی گفت و شنید نہیں ہو گی۔ ۱۷ فروری کو جب اجدابیہ میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے پر قذافی کی حامی فوجوں نے حملہ کر کے تین افراد کو شہید کر دیا تو اس کے جواب میں سارے شہر سے سرکاری اہلکاروں کو نکال باہر کیا گیا اور یہ شہر قذافی کے چنگل سے آزاد ہو گیا اس طرح جدران برادران سمیت سارے قیدی رہا ہو گئے اور عامر عثمانی کا یہ شعر پھر ایک بار زندہ و تابندہ ہو گیا ؎

کہیں سماعت شکن دھماکے، فضا میں حل ہو کے رہ گئے ہیں

کہیں     حوادث   کی    تند    آندھی نئے  شگوفے    کھلا   رہی  ہے

اجدابیہ میں برپا ہونے والا یہ انقلابِ زمانہ کوئی بالکل نئی اور انوکھی واردات نہیں ہے۔ انسانی تاریخ دراصل تغیر اور تسلسل کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے انگریزی میں اسے چینج وتھ کنٹی نیویٹی(change with continuity )کہا جاتا ہے۔ عالمِ  انسانیت گویا ایک خلائی جہاز میں وقت کے افق پر روزِ ازل تا ابد رواں دواں ہے حالانکہ اس قدیم و عظیم رتھ کے دونوں پہئے تغیر و تسلسل ایک دوسرے کے مخالف سمتوں میں گھومتے ہیں اس کے باوجود سفر آگے ہی آگے کا ہوتا ہے۔ اصحابِ بصیرت اس سفر کی رنگینیوں میں محو نہیں ہوتے بلکہ وہ مستقبل کے خواب سجاتے ہیں اور مشیت ایزدی ان کی اس جسارت پر خوش ہو کر ان کی نگاہوں کو عالمِ غیب کے جلوے دکھلاتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں علامہ اقبال اس کیفیت میں کیا فرماتے ہیں ؎

عالمِ        نو       ہے      ابھی     پردۂ      تقدیر        میں

میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

جس زمانے میں اقبال نے مسجد قرطبہ کا سفر کیا تھا وہ تقریباً سو سال پرانی بات ہے اور اس وقت امت مسلمہ اپنے تنزل کی ا تھاہ گہرائیوں میں ڈوبی زوال کی انتہائی سرحدیں عبور کر چکی تھی۔ یاس و نا امیدی کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ عروج و سربلندی محض خواب و خیال بن کر رہ گیا تھا۔ دنیا کے نقشے پر عالم اسلام ایک کھیل تماشے کی چیز بن گیا تھا۔ مغربی طاقتیں مل بیٹھ کر کچھ خطوط کھینچ دیتی تھیں تو نئے ممالک وجود میں آ جاتے تھے کچھ نام لکھ دیئے جاتے تھے جو سربراہ مملکت کہلاتے تھے اور پھر وہ ان ممالک کو سربراہان سمیت آپس میں تقسیم کر لیا جاتا ہے اور ایسا کرتے وقت وہاں کے عوام تو کجا ان کے نام نہاد امراء و سلاطین تک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ ایسی دگر گوں صورتحال مندرجہ ذیل را زِ ہستی وہی بیان کر سکتا ہے جس کی نگاہوں میں آنے والی سحر کے مناظر کو بے حجاب کر دیا گیا ہو ؎

روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب

رازِ    کھلونہ ر چڑھاوhread.php?t=212عبیدوسٹنگ سے

تا ہے کہ غازی صاحب سے  کچھ فرو گزاشت ہوئی ہے۔ ا ع)ھی چلتا ہوں ذرا رائتہ پی لوں تو چخدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں

آج کل ہم جو انقلابِ زمانہ دیکھ رہے ہیں وہ دراصل گز شتہ صدی میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات کا تسلسل ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز جنگ عظیم کی تیاری سے ہوا۔ پہلی جنگ عظیم میں کسے شکست ہوئی اور کون فاتح رہا اس سے قطع نظر جس نے سب سے زیادہ خسارہ اٹھایا وہ مسلمان تھے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ جنگ عظیم کے دونوں فریقوں کی سب سے بڑی کامیابی تھی اور تاریخ نے اس بات کو ثابت کر دیا وہ تمام حریف آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے حلیف بن گئے۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہی امت کی شکست و ریخت کی سب سے بڑی علامت تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے آتے آتے مسلمان اس قدر تقسیم ہو چکے تھے کہ اقوام عالم کے نزدیک ان کی کوئی وقعت و حیثیت باقی نہیں بچی تھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نے قلب اسلام میں اسرائیل نام کا خنجر پیوست کر دیا۔ اسرائیل کے توسط سے مغرب نے مسلمانوں کو میدان جنگ میں یکے بعد دیگرے دو مرتبہ شکست سے دوچار کر کے اپنی جنگی بر تری کا لوہا منوا لیا۔ بقول عامر عثمانی صورتحال یوں تھی ؎

فضا میں ہر سو تنے ہوئے ہیں، دھوئیں کے تاریک شامیانے

زمیں   پہ   جنگ و جدل کی  دیوی، بساط ماتم بچھا  رہی ہے

فلسطینیوں کے ساتھ مظالم کا بازار گرم کر کے مسلمانوں کے اندرمجبور ی و بے چارگی کا ایسا شدید احسا س پیدا کیا گیا کہ وہ کبھی بھی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ کریں ان پر اس بات کو واضح کر دیا گیا کہ تم خود اپنی سر زمین پر بھی آزادو خودمختار نہیں ہو۔ فلسطینیوں کو نہ صرف اپنے گھروں سے نکل کرپڑوسی ممالک کے مہاجرین کیمپوں میں رہنے کے لئے مجبور کیا گیا بلکہ ان کیمپوں پر بھی بمباری کر کے معصوم عوام کو شہید کرنے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا گیا اور اس سفاکی کے جواب میں مسلم ممالک زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کو ئی اقدام نہ کر سکے۔ پہلے اردن سے فلسطینیوں کی بیخ کنی کی گئی۔ پھر تیونس سے انہیں اکھاڑ پھینکا گیا اور بالآخر غزہ کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ غزہ کے عوام فی الحال ان حقوق سے بھی محروم ہیں جو سزایافتہ قیدیوں کو جیل کی چہار دیواری کے اندر حاصل ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ سب سے بڑی سیاسی شکست تھی۔ سفارتی سطح پرمسلم حکمرانوں پر دباؤ ڈ ال کر انہیں اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے پر مجبور کیا گیا اس طرح مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ حربی، سیاسی، سماجی اور سفارتی میدان میں جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں مسلم حکمرانوں نے قبلۂ اول کی بازیابی کا نام تک لینا چھوڑ دیا۔ گویا خلافت عثمانیہ کے بعد نصف صدی مسلمانوں کے شکست و ریخت کا تاریخی تسلسل تھا لیکن پھر ایک بار تغیر کی ہوائیں چلنے لگیں اور پیام اقبال کی گونج سنائی دینے لگی؎

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

روح     امم      کی    حیات    کشمکشِ  انقلاب

امت مرحومہ نے اپنا احتساب کیا اور قضا کے ہاتھ میں تلوار بن گئی۔ بے جان امت کے اندر اسلام کی روح بیدار ہو گئی اور ایران کے اندر انقلاب کی کشمکش اپنا رنگ دکھلانے لگی۔ شاہِ ایران دراصل مغربی سرمایہ داری کی سب سے طاقتور علامت تھے جسے اسرائیل اور امریکہ دونوں کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ اسلام کی آندھی کے سامنے شاہ اور اس کے ہمنوا خس و خاشاک کی مانند اڑ گئے گویا لات و منات کی جوڑی میں سے ایک بت ٹوٹ کر بکھر گیا۔ اس کے بعد افغانی مسلمانوں نے سوویت یونین کا پنجہ اکھاڑ کر پھینک دیا اوراسے ایسی شکستِ  فاش سے دوچار کیا کہ نہ صرف اس کی فوجیں میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئیں بلکہ اشراکیت کا نظریہ اور سوویت یونین کا سامراج دونوں کا بیک وقت خاتمہ ہو گیا۔ عامر عثمانی کی نظم کا ایک اور شعر افق کی پیشانی پر چمکنے لگا؎

وہ بھیڑئیے   جن کے ناخنوں پر لگی ہوئی   تھی لہو کی مہندی

مہیب رو، کرگسوں کی ٹولی انہیں کی لاشوں کو کھا رہی ہے

جس وقت ’’لاشرقیہ لاغربیہ۔ اسلامیہ اسلامیہ’’ کا نعرہ سارے عالم میں گونج رہا تھا اس مرحلے کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ایران کے اشتراکی بنام مجاہدین خلق، اسلامی مجاہدین کے ہم رکاب تھے اور افغانستان میں مجاہدینِ  اسلام کو مغربی سرمایہ داری کی حمایت حاصل تھی لیکن آگے چل کر ان دونوں نے اپنے چہرے سے خود نقاب نوچ کر پھینک دی۔ ایران کے خلاف چھیڑی گئی جنگ میں صدام حسین کو امریکہ کے ساتھ ساتھ روس کا تعاون حاصل ہو گیا۔ اسی طرح القاعدہ کا بہانہ بنا کر امریکہ نے افغانستان میں اپنی مسلم دشمنی کا راز از خود افشا کر دیا اور جب دس سال بعد شکست کے دروازے پر دستک دینے کی نوبت آئی تو روس نے بلا واسطہ اس کی امداد شروع کر دی۔ اسطرح حق کے مقابلے میں باطل کی مصلحت پسندی اور پھر موقع ملتے ہی خنجر زنی بالکل عیاں ہو کر سامنے آ گئی لیکن ان بیچاروں کی یہ ابن الوقتی اور باہم اتحاد و تعاون بھی انتشار و افتراق کا شکار امت مسلمہ کا مقابلے میں کسی فیصلہ کن کامیابی کے حصول میں ناکام رہا۔ دور جدید کے ان دونوں نظریات کی حامل سپر پاورس کا یہ حشر ہو گا اس کی توقع کسی نے نہیں کی تھی مگر بقول شاعر ؎

چمن کے ہونٹوں پہ ہچکیاں ہیں، دھڑک رہی ہے گلوں کی چھاتی

خزاں   کے   دامان   آستیں   میں   کلی کلی    منہ    چھپا   رہی  ہے

افغانستان اور ایران کے بعد ترکی نے جہاں سے اسلام دشمنی کی ابتدا ہوئی تھی اپنا رنگ بدلنا شروع کیا اورسیاسی سطح پر برپا ہونے والی تبدیلی نے آگے بڑھ کر عدلیہ کو پاک صاف کیا۔ بالآخر فوج کو بھی بے دست و پا کر دیا گیا اور وزارتِ عظمیٰ نیز کرسیٔ صدارت پر اسلام پسند فائز ہو گئے۔ یہ اسرائیل اور مغرب کے لئے ایک شدید جھٹکا تھا۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ترکی کی جانب امریکی جہازوں کو اپنی زمین سے اڑنے کی اجازت کا نہیں دیا جانا امرِ محال سمجھا جاتا تھا اور بھری محفل میں اسرائیلی صدر کو ذلیل کر نے کی بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن چشمِ فلک نے یہ نظارے بھی دیکھ لئے۔ افغان، ایران اور ترکی میں برپا ہونے والی تبدیلیاں عجم کے علاقوں تک محدود تھیں جبکہ سرزمینِ عرب کو مغرب اپنا محفوظ قلعہ خیال کرتا تھا لیکن اب وقت کے دھارے نے اپنا رخ تبدیل کیا۔ ایک طرف حماس کی الفتح پر کامیابی نے یہودیوں کے ایجنٹوں کو شکست سے دوچار کر دیا تھا تودوسری جانب حزب اللہ نے میدانِ جنگ میں اسرائیل کو شکست فاش سے دوچار کر کے ساری دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ اسرائیل کو امریکی پشت پناہی کے باوجود ہرانے کی خاطر مسلمانوں کی ایک بے اقتدار تنظیم ہی کافی ہے۔ ۲۰۰۶ء کی جنگ کے بعد امریکہ بہادر کا یہ حال تھا کہ ؎

زمیں پہ اوندھے پڑے ہیں ساغر، اداس و پر نم ہے چشم ساقی

ہوئے   ہیں   فق    میکدے  کے چہرے، شراب  کو نیند آ رہی  ہے

 ٭٭٭

 

نگاہِ انساں کو آج فطرت نئے مناظر دکھا رہی ہے

 (قسط دوم )

عرب دنیا کے اندر عوامی انقلاب کا آغاز تیونس سے ہوا جو مصر سے ہوتا ہوا اب لیبیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے لیکن یہ معاملہ ان تین ممالک تک محدود ہوتا دکھلائی نہیں دیتا بلکہ اس کی تپش بحرین اور یمن میں کافی تیز دکھائی دے رہی ہے۔ جہاں تک ہلکی آنچ کا تعلق ہے اردن، فلسطین کا مشرقی کنارہ، الجزائر، شام اور سعودی عرب یہ تمام ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ اس دوران رونما ہونے والی دو اور تبدیلیاں قابلِ ذکر ہیں ایک تو مسلم دنیا میں ایک نئے مغرب مخالف اتحاد کا قیام اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے میدان میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابی۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ افغانستان کے بیشتر حصہ پر جہاں طالبانی حکومت عملاً قائم ہے امریکہ کے خلاف بر سرجنگ ہے پھر ایران ہے اور اس کے آگے عراق و قطر، شمال میں ترکی اور شام، ان کے مغرب میں لبنان و غزہ اور شمالی افریقہ میں مصر، سوڈان اور تیونس۔ ان ممالک نے چہار جانب سے اسرائیل کو اپنے درمیان اس طرح جکڑ لیا ہے کہ ا ب وہ بے دست و پا ہو کر رہ گیا ہے حالت یہ ہے کہ جن کے دلوں میں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ ہے وہ بھی ا ب اس کا اظہار کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اب وہ زمانے لد گئے جب نام نہاد مسلم رہنماؤں کی صیہونیوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی تصاویر اخبارات کی زینت بنا کرتی تھیں۔ اسلامی دنیا کی یہ نئی پیش بندی دراصل امریکی رسوخ کے بلادِ اسلامیہ سے مکمل خاتمہ کا پیش خیمہ ہے۔ امریکہ نوازی کے بڑے بڑے سرخیل حرف غلط کی مانند مٹائے جا چکے ہیں اور باقی ماندہ پیادے جو کبھی ہوا میں اڑا کرتے تھے اب اپنی راتوں کی نیند گنوا بیٹھے ہیں بقول شاعر ؎

فلک پہ کٹتی تھی جن کی راتیں، وہ منہ کے بل گر کے سو گئے ہیں

جو    عیش گاہوں    میں    سو رہے   تھے    فضا انہیں گد گدا رہی ہے

اہل مغرب نے مسلمانوں کا جس قدر نقصان اسرائیل کی فوجی پشت پناہی کے ذریعہ کیا اس سے زیادہ نفسیاتی اذیت کا سامان ذرائع ابلاغ کے توسط سے پہونچایا۔ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کی مہم نے مسلمانوں کے حوصلوں کو خوب پست کیا اور ان کے درمیان بے شمار اختلافات کو جنم دیا لیکن پھر الجزیرہ چینل کی آمد نے دنیا کو بتلا دیا کہ آزاد صحافت کس کو کہتے ہیں۔ آج کی تاریخ میں دنیا کا سب سے زیادہ قابل اعتبار چینل الجزیرہ ہے جو ہر طرح کی سرکاری مداخلت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ اس کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ اس نے تمام تر تعذیب و عتاب کے باوجود ہمیشہ ہی ظالموں کے خلاف مظلوموں کاساتھ دیا یہی وجہ ہے کہ اگر سب سے زیادہ کسی کو قید و بند کی صعوبتوں سے گذرنا پڑتا ہے تو وہ الجزیرہ ہے۔ دوسرے ذرائع مثلاً بی بی سی یا سی این این وغیرہ کو امریکہ بہادر کی مدد سے لگام لگانے کی کامیاب کوشش جابر حکمرانوں نے کی لیکن الجزیرہ پر کسی کا کوئی زور نہ چل سکا۔ الجزیرہ کے صحافیوں نے اپنی مختصر سی مدت میں دلیری و جانبازی کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال پیش کرنے سے مغرب قاصر ہے۔ الجزیرہ کے نامہ نگاروں کا خون عراق سے لیکر لیبیا تک کی سرزمین کو لالہ زار کر چکا ہے اور اس کی برتری کو امریکہ کا نامور میڈیا بھی تسلیم کرتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ امریکہ نے ذرائع ابلاغ کے میدان میں آزاد و خود مختار  صحافت کا جو دعویٰ کیا تھا اب وہ پوری طرح کھوکھلا ثا بت ہو چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بی بی سی اور سی این این جیسے چینلس پر کوئی اہم خبر سنسر کے بغیر نشر نہیں ہوتی۔ زر پرست یہودیوں کے زیر اثر چلائے جانے والے میڈیا میں کبھی بھی ایسا دم خم نہیں ہو گا کہ وہ اپنے مالکان کے تجارتی مفادات کو داؤں پر لگا کر حق بات کہے نیز جذبۂ شہادت سے عاری مغربی نامہ نگار اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر میدانِ جنگ میں کود جائیں یہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ایسی توقع تو صرف مسلمان ہی سے کی جا سکتی ہے۔ الجزیرہ کی مغربی ذرائع ابلاغ پر برتری کا بنیادی سبب آئین جوانمرداں ہے جس سے مغرب کے اداکار صحافی یکسر محروم ہیں ؎

آئین جوانمرداں  حق   گوئی و    بے    باکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

مسلم دنیا کے حکمرانوں کے موجودہ حالت زار کی بنیادی وجہ ان کے فکر و نظر کی بے راہ روی ہے۔ دنیا کی محبت میں یہ نفس کے بندے اپنے رب کو بھول گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ رب ذوالجلال نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا اور وہ اپنی اصل حیثیت کو بھول گئے اپنی رعایا کو وہ اپنا بندہ اور غلام سمجھنے لگے اور اپنے آپ کو نعوذ باللہ محکوموں کا آقا۔ ایسے لوگوں کی تنبیہ سورہ آل عمران میں اس طرح کی گئی کہ’’ کہو! خدا یا ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے۔ ‘‘ گویا اس کائنات کا حقیقی و دائمی اقتدار تو اللہ رب العزّت کے ہاتھوں میں ہے انسانوں کو جو مجازی اقتدار دیا جاتا ہے وہ نہ صرف عارضی ہے بلکہ مستعار ہے اور وہ کسی بھی انسان کے پاس اسی وقت تک رہتا ہے جب تک کہ مالک الملک کی مرضی ہو تی ہے آگے فرمایا ’’ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘ ڈھیل دینے اور کھینچ لینے کا مکمل اختیار اسی کے پاس ہے لیکن ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ ’’تیرے {اللہ} کے ہاتھ میں بھلائی ہے۔ ‘‘ گویا تمام تر بھلائیوں کا سر چشمہ اللہ کی ذاتِ با برکات ہی ہے۔ اقتدار سے نوازنے اور اسے چھین لینے کی ہر دو صورت حاکم و محکوم دونوں کے لئے باعثِ خیر ہے جب ظالم کو ڈھیل دی جاتی ہے تواسے اپنی اصلاح کا موقع ملتا ہے اور مظلوموں کے درجات کو صبر و ثبات کی منازل سے گذار کر بلند و برتر کیا جاتا ہے اور جب ظالموں کو اقتدار سے بے دخل کر کے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے تو ایسے میں مظلوم شکر و احسان کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوارتے ہیں اس الٹ پھیر کی جو تشبیہ قرآنِ عظیم پیش فرماتا ہے وہ بھی ملاحظہ فر مائیں

’’(وہ)رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔ ‘‘(آل عمران۲۸)

زمانۂ عدل کا ظلم کی کالی رات کے اندر سے نمودار ہو جانا اور عدل کے اجالے پر نا انصافی کے اندھیرے کا چھا جانا انسانی تاریخ کے نشیب و فراز کا جزو لاینفک ہے۔ اس آیت میں رزق سے مراد ذرائع و وسائل ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت اس معاملے میں کسی مداخلت کی مطلق سزاوار نہیں ہے۔ اس حقیقت کی معرفت جن کو حاصل ہوتی ہے وہ اقتدار کو امانت خیال کرتے ہیں اور اپنے آپ کے لئے شہنشاہ کے بجائے خلیفہ کا لقب پسند کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی نیابت سے بڑی کوئی اور سعادت ان کے لئے نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف جب نادان عوام گمراہ طاغوت کو مالک الملک تسلیم کر لیتے ہیں تو مشیت ایزدی ایک جھٹکے میں ان حاکم و محکوم دونوں کی غلط فہمی کو دور کر دیتی ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی یہ مکافاتِ عمل جاری ساری ہے۔ اس کی زندہ مثال معمر قذافی کی ہے کہ بیالیس سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کر نے والا اور آخری فرد اور گولی تک مقابلہ کی دھمکی دینے والے بزدل کرنل نے ‘‘ نو فلائی زون‘‘ کی تجویز کے منظور ہوتے ہی چار منٹ کے اندر جنگ بندی کا اعلان کر دیا نیزطرابلس سے بن غازی تک امن مارچ کی باتیں کرنے لگا۔ اپنے ہم وطن نہتوں پر آگ اگلنے والے طیارے دشمنوں کے آگے دم دبا کر بیٹھ گئے۔ مشیت ایزدی اول تو ان ظالموں کو بے نقاب کرتی ہے اور پھر رسوائی کی گہری کھائی میں انہیں ڈھکیل دیتی ہے۔ اگر قذافی کو یہ ڈھیل نہ دی جاتی تو اس کے اندر پوشیدہ سفاکی و درندگی کا کسے علم ہوتا ؟ وہ تو عوام کی خیر خواہی کے بلند بانگ دعووں کے ساتھ اس دار فانی سے کوچ کر جاتا۔

اپنے آپ کو مالک الملک سمجھنے والے حکمراں اقتدار کے نشے میں چور ہو کر نہ صرف قومی و ملی مفادات کو داؤں پر لگا دیتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر کو بھی سرِ بازار نیلام کر دیتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے ہی عوام کے بنیادی حقوق سلب کرنے سے باز نہیں آتے۔ وہ اپنی ذاتی تجوریوں کو بھرنے کی خاطر اپنے ملک کی رعایا کا جی بھر کے استحصال کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ اپنوں کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں اور ان سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نہایت دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس میں یہ احمق حکمران اپنے دو ستوں سے اپنی حفاظت کے لئے اپنے دشمنوں سے رجوع کرتے ہیں اور انہیں دوست بنا لیتے ہیں۔ اس دنیا میں اس شخص سے بڑھ کر نادان کون ہو گا جو دوستوں کو چھوڑ کر دشمنوں پر انحصار کرے اور دشمن تو آخر دشمن ہی ہوتا ہے وہ اس وقت تک پشت پناہی کرتا ہے جب تک کہ اپنے عوام پر ان کا زور چلتا ہے لیکن جب وہ اس سے محروم ہو جاتے ہیں تو دشمن بھی اپنا ہاتھ جھٹک کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔ چشمِ فلک اس حقیقت کا مشاہدہ مصر و تیونس کے گلی کوچوں میں کر چکا ہے اور لیبیا میں کر رہا ہے۔

سورۃ الفجرمیں تین ایسی سر کش قوموں کا ذکر کیا گیا جو نہ صرف بے حد طاقتورتھیں اور جنھوں نے زمین میں خوب جی بھر کے فساد پھیلایا اور آخر کار قہرخداوندی کے مستحق ہوئے۔ جب عذاب کا کوڑا ان پر برسا تو ان کاسارا کا سارا جاہ و جلال دھرا کا دھرا رہ گیا۔ فرمایا گیا:

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا (۶) اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ (۷) جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟ (۸) اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں ؟ (۹) اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟ (۱۰) یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی (۱۱) اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا (۱۲) آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا (۱۳) حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔ (۱۴)

سرکش قوموں کا انجام بیان کرنے کے بعد ان کے معاشرے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی کا تعلق عقائد یا عبادات سے یا حقوق اللہ سے نہیں بلکہ سبھی کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ گویا اللہ رب العزت یقیناً اپنے حقوق کی پامالی کی سزا روزِ قیامت عطا فرمائے گا لیکن جو اس دنیا میں دیگربندوں کے حقوق سلب کر ے گا اس کو دنیا و آخرت میں دوہری سزا ملے گی۔ فرمانِ خداوندی ہے :

’’ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے (۱۵) اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے (۱۶) اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو (۱۷)ور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔ (۱۸)

یہ احکامات بظاہر انفرادی نوعیت کے ہیں لیکن جب کوئی قوم مجموعی طور پر ان عیوب کو اپنا شعار بنا لیتی ہے اور جس معاشرے میں یتیموں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، مسکین کو کھانا تک نہیں کھلایا جاتا یعنی بنیادی ضروریات سے انہیں محروم کر دیا جاتا ہے۔ میراث کے مال کوتقسیم کرنے کے بجائے اسے سمیٹ کر نگل لیا جاتا ہے وہاں اللہ کا عذاب آتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس عتاب الٰہی کا مستحق کیوں بناتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ جب انسان مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو جاتا ہے تو یہ سب کر گذرنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ اگر ان آیات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ان میں تیونس لے کر لیبیا تک کی صورتحال صاف دکھلائی دیتی ہے۔ مغرب ان معاملات کو سیکولر مسائل گردانتا ہے اس لئے کہ ان کا تصور دین ناقص و محدود ہے جو عبادات و عقائد سے آگے نہیں جاتا لیکن اسلام حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی یکساں طور پر اہمیت دیتا ہے۔ اس لئے اسلام کے نزدیک یہ مسائل خالص دینی نوعیت کے ہیں۔

 تغیر و تسلسل کے حوالے سے اللہ کی سنت اور مشیت کو ذہن نشین کروانے کی خاطرسورہ فجر کی ابتدائی آیات میں تین اشیاء کی قسم کھائی گئی ہے گویا ان تینوں کو گواہ کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک طاق اور جفت اعداد ہیں جو گنتی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اعداد کی یہ دوقسمیں اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ ایک قبیل کے اعداد کو دو سے تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے کو نہیں۔ اس اختلاف کے باوجود ترتیب کے لحاظ سے ہر دو طاق اعداد کے درمیان ایک جفت اور ہر دو جفت اعداد کے درمیان ایک طاق آ جاتا ہے یہی انقلابِ زمانہ کی گواہی ہے ہر دو عروج کے درمیان ایک زوال اور دو انحطاط کے درمیان ایک ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دس راتوں کی قسم کھائی گئی جو نہایت معنی خیز علامت ہے۔ قمری ماہ کے اندر چاند کے تین پہر ہوتے ہیں پہلے عشرے میں چاند بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن دوسرے عشرے کا نصف عروج اور نصف زوال کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ آخری عشرہ میں چاند سرعت کے ساتھ رو بہ زوال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ا یک رات کے لئے ساری دنیا کی نظروں سے اوجھل تک ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی قوموں اور عظیم ترین سلطنتوں کے ساتھ یہی عمل دوہرایا جاتا رہا ہے۔ عروج سے آغاز پھر درمیان میں استحکام و انجماد اور بالآخر دورِ زوال۔ اس سورہ کو فجر سے منسوب کرنے کے بعد رات کے رخصت ہونے اور صبح کے نمودار ہونے کی قسم کھائی گئی جو اس حقیقت کی غماز ہے کہ ہر رات کا مقدر بہر حال ایک حسین صبح ہے۔ ایسا لگتا ہے ایک صدی کی ناکامیوں و نا مرا دیوں کے بعد اب امت کے ساتھ مشیت کوئی اور ہی معاملہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اسی لئے ؎

نگاہِ انساں   کو   آج  فطرت   نئے  مناظر دکھا  رہی  ہے

حریم ظلمت پہ جتنے پردے پڑے ہوئے تھے اٹھا رہی ہے

اگر یقین نہ آتا ہو تو اپنی ۶ سال بعد حاصل ہونے والی رہائی کے بعد نوجوان ابراہیم جدران کے عزائم ملاحظہ فرمائیں ’’عوام کو آ زادی و حریت سے ہمکنار کرنے کی ذمہ داری اب ہمارے کندھوں پر ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ہمارا فرضِ منصبی ہے جس قوم کے نوجوانوں کو اپنے فرض منصبی کا شعور حاصل ہو جائے اور وہ اسے ادا کرنے کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو جائیں تو اسے کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ ‘‘ابراہیم کے بھائی مفتاح اس حوالے سے کہتا ہے ’’ قذافی کی آمریت نے ہمارے سامنے دو متبادل رکھے۔ یا تو وہ ہم پر ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت سے حکومت کریں گے یا ہمیں قتل کر دیں گے۔ لیبیا کے عوام نے اس کے جواب میں یہ پیغام بھیجا ہے کہ ’’ہم اس آزمائش سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ہم ۶۰ لاکھ کی تعداد میں ہیں اور ہم میں سے ۵۰ لاکھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر نے سے پس و پیش نہیں کریں گے تاکہ باقی کے دس لاکھ(یعنی آئندہ نسل) عزت و وقار کی زندگی گذار سکیں۔ ‘‘ان ایمان افروز جملوں کو پڑھ کر عامر عثمانی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎

جہانِ کہنہ کے بحر و بر میں ہوا ہے برپا کچھ ایسا عالم

سماعتیں   ڈگمگا رہی ہیں،  نظر کی لو تھر تھرا رہی  ہے

٭٭٭

 

 

کہ میرا صبر ترے جبر سے زیادہ ہے

(قسط سوم)

لیبیا میں ناٹو کی فوجی کارروائی کا آغاز جس روز ہوا، اتفاق سے وہ عراق میں امریکی جارحیت کی آٹھویں سالگرہ بلکہ برسی کا دن تھا۔ اسی لئے شاید امریکی صدر اوبامہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں عراق کے ذکر سے دانستہ گریز کیا۔ اس تجاہل عارفانہ کی اپنی وجوہات ہیں ورنہ مغرب کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو خوشنما بنا کر پیش کر نے میں مہارت رکھتا ہے بلکہ دوسروں کی کامیابیوں کا سہرہ بھی اپنے سر باندھنے سے نہیں چوکتا۔ لیبیا کے معاملے میں امریکہ کا انتہائی محتاط رویہ دودھ کے جلے کاچھاچھ کو پھونک پھونک کر پینے کے مترادف ہے ورنہ امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کے قرارداد کی پاسداری تو کجا اس کی منظوری کا انتظار بھی نہیں کرتا نیز کسی فوجی اقدام کی کمان دوسروں کے حوالے کرنا امریکہ بہادر کا شعار کبھی نہیں رہا۔ فوجی کمان ناٹو کے حوالے کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ‘‘اس کمان کے منتقل ہو جانے سے امریکی ٹیکس دہندہ کے اخراجات و خطرات میں غیر معمولی کمی واقع ہو گی‘‘ صدر اوبامہ کو دو سال کے اندر دوبارہ انتخاب لڑنا ہے بشرطیکہ ان کی پارٹی انہیں دوبارہ اپنا امیدوار نامزد کر ے۔ اس لئے ابھی سے اپنے رائے دہندگان کا خیال انہیں ستانے لگا ہے او بامہ کو پتہ چل چکا ہے کہ اس دگرگوں معاشی صورتحال میں عوام کو جنگ و جدال کے نشہ سے پھسلایا نہیں جا سکتا۔ اوبامہ نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ ‘‘ہم دنیا بھرکی فوجداری نہیں کر سکتے الا ّیہ کہ ہمارے قومی مفادات پر آنچ آئے۔ ‘‘ امریکی فکر و عمل میں آنے والی حالیہ تبدیلی اس کا ایک ثبوت ہے کہ افغانستان اور عراق کے معرکہ میں پے در پے حاصل ہونے والی ناکامیوں نے مغرور و جابر حکمرانوں کا دماغ درست کر دیا ہے۔ کرنل قذافی کو بزور قوت اقتدار سے بے دخل کرنے میں اتحاد کے ریزہ ریزہ ہو جانے کے اندیشے کا اظہار امریکی صدر نے کیا۔ لیبیا کے حریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی اوبامہ تذبذب کا شکار نظر آئے ’’میں نہ تو اس کو خارج از امکان سمجھتا ہوں اور نہ ہی اس پر فیصلہ کر رہا ہوں ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ قذافی کی افواج آگے چل کر کیا کرنے والی ہیں ؟‘‘

ان مدافعانہ کلمات کے پہلو بہ پہلو اوبامہ نے چند متضاد باتیں بھی کہیں مثلاً ’’کچھ اقوام دوسرے ممالک میں ہونے والے مظالم سے چشم پوشی کر سکتے ہیں لیکن امریکہ ان سے مختلف ہے۔ ہم ایسی صورتحال میں خاموش تماشائی نہیں بن سکتے جبکہ کوئی ظالم اپنے ہی عوام سے یہ کہے کہ ان کے ساتھ رحم نہیں کیا جائے گا اور اس کی فوجیں معصوم مردو خواتین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے لگیں۔ جب اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والے لوگ خود اپنی ہی حکومت کے ذریعہ ہلاک کئے جانے لگیں تو ہمیں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا۔ ‘‘اوبامہ تو کیاکسی بھی سربراہ مملکت کی زبان سے یہ باتیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں بشرطیکہ ان کا اطلاق بلا تفریق ظلم و جبر کے خلاف ہو لیکن افسو س ناک پہلو یہ ہے کہ اس معاملہ میں بڑی جانبداری برتی جاتی ہے۔ تیونس اور مصر میں انقلاب سے پہلے کہی جانے والی بات بعد والے موقف سے مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح کی تنقید کا نشانہ قذافی کو بنایا جاتا ہے ویسی تنقید بحرین اور یمن کے حوالے سے نہیں ہوتی بلکہ خاموشی برتی جاتی ہے جبکہ فلسطین کے حوالے سے علی الاعلان صیہونی ظالموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ اس غیر مساویانہ رویہ نے مغرب کی منافقت کا پردہ چاک کر کے اسے لا اعتبار بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی ہر مثبت و منفی کارروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیبیا کے معاملے میں جب کرنل قذافی پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو خود امریکہ اس کی حمایت نہیں کر پاتا اس لئے کہ اس نے بین الاقومی فوجداری عدالت کو ابھی تک تسلیم کر کے اپنے آپ کو اس کا تابع نہیں بنایا شاید اسے اندیشہ ہے کہ اس کے اپنے فوجی جرائم کو بنیاد بنا کر اس پر مقدمہ نہ دائر کر دیا جائے۔

لیبیا میں ہونے والی تاخیر سے بہت سارے لوگ اس لئے پریشان ہیں کہ لیبیا کے زمینی حقائق سے خاطر خواہ واقفیت نہیں رکھتے۔ لیبیا کی صورتحال مصر اور تیونس سے مختلف ہے۔ تیونس اور مصر کے آمردیگر عرب سربراہان مملکت اور مغرب دونوں کے منظور نظر تھے ان کو نہ صرف ہمدردیاں حاصل تھیں بلکہ باہم مشترک مفادات بھی تھے۔ اس لئے ابتدا میں یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ وہاں انقلاب آئے۔ اس کے بر خلاف کرنل قذافی نے نہ صرف مغرب بلکہ عرب سربراہوں کو بھی ناراض کر رکھا ہے اور کسی کو اس سے ہمدردی نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ کشادہ دلی کے ساتھ قذافی کی بے دخلی کے حامی نہیں ہیں جس کی اپنی وجوہات ہیں۔ مثلاً عرب سر براہان کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر لیبیا کے عوام نے فوج کا مقابلہ کرنے کے بعد کامیابی درج کروا لی تو عوام کے دل سے ان کی خوف و دہشت کافور ہو جائے گی اور ان کے اپنے ملک کے عوام کو ایسا غیر معمولی حوصلہ حاصل ہو گا جس پر قابو پانا کسی کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ اس لئے یہ لوگ بیک وقت قذافی کا انجام بد بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے اقتدار میں بنے رہنے کے بھی خواہاں ہیں۔ بیک وقت یہ متضاد باتیں ناممکن ہیں۔ اسی کے ساتھ بین الاقوامی مداخلت کی حمایت بھی ان کے اپنے لئے مستقبل میں خطرے کی گھنٹی ہے عرب سربراہوں کی پریشانی کا یہ دوسرا سبب ہے لیکن اب جو زمانہ آ رہا ہے اس کی بہترین ترجمانی مقبول عامر نے اپنے اس شعر میں کی ہے ؎

اب کے نہ کوئی قصر، نہ ایوان بچے گا

اب کے جو چلی ہے وہ ہوا تیز بہت ہے

مغرب کے اندیشے عربوں سے مختلف ہیں۔ اہل مغرب کو پتہ ہے کہ کرنل قذافی کو اقتدارسے بے دخل کرنا اس لئے مشکل ہے کہ لیبیا میں اب بھی قبائلی نظام باقی ہے۔ فوج کی وفاداریاں چونکہ قبائلی عصبیت کے تحت منقسم ہیں اس لئے فوج مصر یا تیونس کی طرح کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس لئے مغرب کو لیبیا کے اندر پر امن اقتدار کی منتقلی ممکن نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ قذافی اور اس کا بیٹا سیف الاسلام علی الاعلان خانہ جنگی کی دھمکی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس خانہ جنگی کی پیشگی تیاری کرنل معمر قذافی نے کر رکھی ہے۔ گذشتہ ۴۲ سالوں میں مختلف قبائل کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا الو سیدھا کرنے کے فن میں قذافی ماہر ہے اس لئے لیبیا کے مقدر کا فیصلہ عوامی مظاہرے سے آگے بڑھ کر میدان جنگ تک پہنچ گیا ہے اور اس صورتحال میں حریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنا ناگریز ہو گیا ہے۔ لیبیا کے اندر حریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا تدارک امریکہ کی خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن لندن میں منعقد ہونے والی چالیس ممالک کی کانفرنس میں کر چکی ہیں لیکن امریکی ایڈمرل جیمس سفٹافریڈس نے سینٹ کے سامنے خفیہ اطلاعات کے حوالہ سے یہ کہہ کر ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی کہ اس اسلحہ کے حزب اللہ اور القاعدہ کے ہاتھ لگ جانے کا قوی امکان ہے۔ یہ فطری بات ہے کیونکہ مجاہدین آزادی آپس میں کسی غیر فطری تفریق کے قائل نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں مغرب اسلحہ فراہم بھی کرنا چاہتا ہے اور نہیں بھی جو بیک وقت ناممکن ہے۔

لیبیا کی مزاحمت کے طول پکڑنے کا سبب وہاں کے قبائلی نظام میں مضمر ہے۔ لیبیا کی مقامی آباد ی ۵۰ لاکھ ہے نیز وہاں ۱۵ لاکھ غیرملکی لوگ بستے ہیں اس طرح جملہ ۶۵ لاکھ۔ مقامی آباد ی کی اکثریت عربی بولتی ہے ویسے ایک جدید تحقیق کے مطابق ان میں سے ۹۰ فیصد وہ مقامی بربر ہیں جنھوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد عربی زبان کو بھی اپنا لیا اور عرب کہلانے لگے۔ لیبیا میں ویسے تو تقریباً کل ۱۴۰ قبائل ہیں لیکن ان میں سے اکثر کسی نہ کسی بڑے قبیلے کی شاخ ہیں اس طرح جملہ۳۰ بڑے قبائل ہیں۔ ملک کے مغربی علاقہ میں سب سے بڑا قبیلہ ورفلہ ہے جس کی آباد ی ۱۰ لاکھ ہے اور جو ۵۲ ذیلی قبائل پر مشتمل ہے۔ وسیع و عریض ضلع مصراتہ میں یہ لوگ  آباد ہیں۔ ان کا تعلق بنی ہلال سے ہے جس نے ۱۱ویں صدی عیسوی میں یہاں اسلام قائم کیا تھا۔ ان کے علاوہ الزینتان، اولاد بوسیف، مصلعطہ، الرجبان اور مجرابہ وغیرہ دیگر قبائل بھی مغربی لیبیا میں  آباد ہیں۔

کرنل قذافی کا تعلق وسطی لیبیا کے شہر صرط میں بسنے والے القذاقہ قبیلے سے ہے۔ معمر قزافی کے اقتدار میں آنے سے قبل اس قبیلے کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ قذافی نے المغراعہ نامی بڑے قبیلے کے ساتھ مل کر شاہ سعید السنوسی کو ۴۲ سال قبل اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ سابق وزیر اعظم عبدالسلام جلود اور لا کر بی دھماکے کا ذمہ دار عبدالباسط المغراعی دونوں اسی با اثر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ الریاح، الحربہ اور الزوائد اس علاقے کے دیگر بڑے قبائل ہیں فی الحال یہی علاقہ متحارب قوتوں کے درمیان میدان کارزار بنا ہوا ہے۔ ملک کے مشرقی حصہ میں جہاں آزادی کی لہر بڑے زور شور سے چل رہی ہے الزاویہ سب سے با اثر قبیلہ ہے جو بن غازی اور اجدابیہ کے آس پاس  آباد ہے۔ ان کے علاوہ بنو سلیم ہے جو بنی ہلال کے ساتھ فاطمی دور حکومت میں یہاں آیا تھا لیکن مغرب کے بجائے مشرق میں آبسا۔ مصراتہ نام کا ایک قبیلہ بھی یہاں  آباد ہے جو مغرب کے ضلع مصراتہ میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ الوقیر، تواجیر، رملہ، کرغلہ اور العبادیات اس علاقے کے دیگر قبائل ہیں۔ قذافی سے بغاوت کر کے حریت پسندوں سے مل جانے والے جنرل سلیمان محمود اور میجر عبدالفتاح یونس کاتعلق العبادی قبیلے سے ہے۔ ایک اور قبیلہ فرجان ہے جو اجدابیہ کے اطراف میں  آباد ہے اور اس نے موجودہ کشمکش میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان قبائل کے علاوہ خانہ بدوش بر بر قبیلے مثلاً طوارق جنوبی لیبیا میں  آباد ہیں اور ہنوز قذافی کی حمایت کر رہے ہیں۔

 کرنل معمر قذافی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس قبائلی عصبیت کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ پروان چڑھایا اور آپسی انتشار کے سائے میں اپنے اقتدار کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا گیا۔ قذافی نے اس منتشر فوج کے ہوائی دستہ کو ہمیشہ ہی اپنے وفادار قبیلے کے پاس رکھا اسی لئے ساری دنیا نے دیکھا کہ لیبیائی ہوائی فوج نے اپنے ہی نہتے عوام پر بے دریغ بمباری کی یہ دراصل قبائلی عصبیت کا شاخسانہ تھا نیز جیسے ہی نو فلائی زون کی تجویز منظور ہوئی اپنے لوگوں کو بچانے کی خاطر آناً فاناً قذافی نے جنگ بندی کا اعلان بھی کر دیا۔ سرکاری فوج کے علاوہ قذافی نے اپنی حفاظت کے لئے تین اور انتظامات کئے ایک تو عوامی ملیشیا کے نام پر ایک مسلح دستہ لیبیا میں موجود ہے جو ملک کے عوام کے بجائے قذافی خاندان کی وفاداری کا دم بھرتا ہے۔ اس کے علاوہ قذافی کے بیٹے خمیس کی اپنی مسلح بریگیڈ ہے جو اس کے علاوہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ کرنل قذافی کا چھوٹا بیٹا تو غنڈوں کی فوج کا سرغنہ ہے لیکن اس کا بڑا بیٹا سیف الاسلام جس نے ٹیلی ویژن پرخانہ جنگی کی دھمکی تھی اور آخری گولی تک لڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا لندن کے مشہورو معروف اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکا ہے ویسے یہ حسن اتفاق ہے کہ اس کی تھیسس کا عنوان ’’ آمرانہ نظام حکومت میں جمہوریت کا فروغ ‘‘تھا۔

اپنے اقتدار کی حفاظت کے لئے تیسرا انتظام قذافی نے یہ کیا تھا کہ غیر ملکی جنگجو بھی مہیا کر رکھے تھے جنہیں عام طور پرمرسینری کہا جاتا ہے، اس دستہ میں بھرتی کاآغاز ویسے تو ۱۹۸۰ء میں ہوا تھا لیکن مصر اور تیونس میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اس کام میں بڑی تیزی آئی اور سیکڑوں غیر ملکی درندوں کو خود اپنے عوام کے خلاف استعال کی غرض سے درآمد کیا گیا۔ یہ لوگ چونکہ دولت کی خاطر آئے ہیں اس لئے بلاکسی اخلاقی حدود و قیود کے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں غیر قانونی باشندوں کی حیثیت یرغمال کی سی ہو گئی ہے۔ جب قذافی کے ہاتھوں میں اقتدار کی ڈور کمزور ہو جائے گی اور ان کی تنخواہ بند ہو جائے گی تب یہ کہاں جائیں گے کوئی نہیں جانتا۔ حریت پسندوں کا کہنا ہے کہ ان پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ قذافی کی جانب سے کئے گئے ان تمام انتظامات کے باوجود لیبیا کی آزادی کے متوالے اس شعر کو گنگناتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ؎

اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے

کہ میرا صبر ترے جبر سے زیادہ ہے

لیبیا کی سرزمیں سے وہاں کی جہاد آزادی کا آغاز ہوا اور اب اس کی کمان ’’قومی کونسل‘‘کے ہاتھوں میں ہے اس کا تعلق نہ امریکہ سے ہے اور نہ یوروپ سے اس کے رہنما شلابی یاکرزئی کی طرح اوپر سے مسلط نہیں کئے گئے بلکہ عوام میں سے آگے آئے ہیں۔ اس ۳۰ رکنی کونسل میں سے کسی کو غیرملکیوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے کا شوق نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اپنی آزادی کی جنگ خود لڑیں گے لیکن اس کے لئے یا تو عالمی برادری ہمیں اسلحہ سے لیس کر کے قذافی کی فوج کے ہم پلہ کر دے یا اس کی فوج کو تکنیکی اعتبار سے ہمارے برابر کر دے باقی کام خود کر لیں گے۔ ویسے برطانیہ نے اس بات کا پتہ لگانے کی خاطر کہ ان کو کس قدر مرعوب کیا جا سکتا ہے ان سے برطانوی خاتون پولس اہلکار ایوون فلیچر کے قتل کے ملزم عمر احمد سوڈانی کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن کونسل نے اسے ٹھکرا کر یہ جتلا دیا کہ کوئی ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس فیصلے سے کونسل کی خود داری اور عزم و حوصلہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لیبیا سے متعلق جو رابطہ کمیٹی بنائی گئی ہے اس کا آئندہ اجلاس قطر میں ہونے جا رہا ہے۔ اس کمیٹی میں اقوام متحدہ کے علاوہ افریقی اتحاد، عرب لیگ، رابطہ عالم اسلامی(او آئی سی)اور یوروپین یونین شامل ہیں نیز اس بات کا بھی فیصلہ ہوا ہے کہ اس کی صدارت کسی ایک ادارے کے پاس نہیں ہو گی بلکہ مختلف اداروں کے درمیان گردش کرتی رہے گی۔ اس سارے عملسے اگربالواسطہ کسی کو دور رکھا گیا ہے تو وہ امریکہ ہے۔ یہ عظیم تبدیلی مجاہدین اسلام کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے جس کے عالم اسلام پردورس نتائج مرتب ہوں گے۔ بقول شاعر ؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ  دفعتاً   نہیں   ہوتا

٭٭٭

 

 

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینیوا

علا مہ اقبال کے کچھ اشعار پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں ان کے الہامی ہونے کا گمان گذرتا ہے مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ ’’سنا ہے میں نے یہ قدسیوں سے ’’ تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی ہے جو ان کے کانوں میں کچھ بول رہا ہے اور جو کچھ وہ سن رہے ہیں ہم سے بول رہے ہیں۔ مذکورہ بالا مصرع بھی اسی زمرے کا ہے۔ جس زمانے میں علامہ اقبال نے یہ شعر کہا تھا اقوام متحدہ نہیں بلکہ لیگ آف نیشن ہوا کرتی تھی اور اس کا صدر دفتر جینیوا میں واقع تھا۔ دوسری جنگِ عظیم لیگ آف نیشن کو کھا گئی اور پھر جو اقوامِ متحدہ بنی تو امریکہ اس کو اغوا کر کے نیویارک لے گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن یہ بے چاری قسمت کی ماری امریکہ کی زر خرید لونڈی بنی ہوئی ہے۔ امریکہ اور روس دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود جرمنی کے خلاف اتحاد میں شامل تھے اور پھر ماسکو کو یوروپ کا حصہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اقبال ماسکو کو مشرق کا جینیوا نہیں کہہ سکتے تھے۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ مغرب اپنے غرور و کبر کے باعث مشرق کے کسی جینیوا کا رکن نہیں بنے گا۔ لیکن مغرب کے جینیوا کا متبادل وہ تہران کے علاوہ کسی اور مشرقی شہر کو ضرور بنا سکتے تھے۔ مسلم ممالک میں انقرہ، قاہرہ، یروشلم، بغداد یا لاہور اور دیگر ممالک میں ٹوکیو، پیکنگ، ہانگ کانگ یا دہلی ان میں سے کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن آج جب ہم عالمی بساط پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا تھا کہ نہیں۔ تہران کے علاوہ اور کسی شہر میں جینیوا کا متبادل بننے کا دم خم نہیں پایا جاتا ہے۔ حکیم الامت نے کیا خوب پیشن گوئی کی ؎

تہران  ہو  گر  عالم  مشرق کا   جینیوا

شاید کہ اقوام کی تقدیر بدل جائے

فی الحال اقوامِ متحدہ نے ایران کے خلاف معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں اور مشرق و مغرب دونوں جانب سے وہ امریکی افواج کی موجودگی سے گھرا ہوا ہے، شمال میں بیٹھا اسرائیل آئے دن اس پر حملے کے خواب دیکھتا رہتا ہے لیکن وہ خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا اور جس دن اسرائیل ایسی خودکشی کی جرأت کرے گا اس کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ابھی پچھلے ہفتے امریکی دفاعی سکریٹری یوروپ کو آگاہ کر چکے ہیں کہ اس کے کئی شہر ایران کے میزائلوں کی زد میں ہیں اگر ایسا ہے تو اسرائیل کا ہر شہر ایران کی زد میں ہے ویسے بھی اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں کل شہر ہی کتنے ہیں۔ اس امریکی دھمکی سے قطع نظر ایران کے سیاسی وسفارتی تعلقات پر نظر ڈالیں تو ایک دلچسپ صورتحال دکھلائی دیتی ہے۔ ایران کے پڑوس میں عراق ہے جہاں انخلا کے باوجود اب بھی ایک لاکھ سے زیادہ فوج سبز چھاونیوں میں دبکی بیٹھی ہے اس کے باوجود گزشتہ چار سالوں میں عراقی صدر نوری المالکی نے چار مرتبہ تہران کا دورہ کیا۔ اس بار جب مالکی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تب بھی امریکہ اپنی لاکھ کوشش کے باوجود ایاض علاوی کو وزیرِ اعظم نہ بنوا سکا اور ۷ ماہ کے سیاسی تعطل کے بعد بالآخر صدر طالبانی نے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک مصالحت کے بعد المالکی ہی کوحکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ یہ بیک وقت امریکہ کی بہت بڑی سفارتی ناکامی اور ایران کی کامیابی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں خود صدر حامد کرزئی نے ایک امریکی جریدے سے بات چیت کے دوران اعتراف کر لیا کہ انہیں ایران سے نقد امداد موصول ہوتی رہی ہے اور حکومت کا کام کاج چلانے کے لئے یہ ضروری ہے۔ صدر کرزئی کو یہ رقم ان کی فوج کا سربراہ عمرداؤد زئی پہونچایا کرتا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ شخص تہران میں افغانستان کاسابق سفیرہوا کرتا تھا اور آج کل حامد کرزئی کو مغرب کے خلاف بھڑکاتا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ بہادر اپنے پٹھو کرزئی سے کہہ کر اسے فوج کی سربراہی سے ہٹوا کیوں نہیں دیتا؟ اور اگر صورتحال یہ ہے کہ حامد کرزئی جیسے کمزور اور لاچار رہنما سے ناٹو اپنی بات منوا نہیں سکتا تواس کے تین ممالک کو حاصل سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کس کام کا ہے ؟امریکیوں کا الزام یہ بھی ہے کہ ایران بیک وقت کرزئی اور مجاہدین کی مدد کرتا ہے تاکہ مجاہدین امریکیوں سے لڑیں اور کرزئی ایرانی مفادات کی حفاظت کرے۔ ناٹو کے امریکی کمانڈر جنرل پیٹرسن نے اس معاملے میں حامد کرزئی کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امریکی بھی بلاواسطہ مجاہدین کی مدد کرنے پر مجبور ہیں بلکہ گزشتہ دنوں تو یہ خبر بھی آئی کہ ایک ٹھگ نے اپنے آپ کو مجاہدین کا نمائندہ بنا کر امریکیوں سے لاکھوں ڈالر اینٹھ لئے۔ ویسے امریکی سرمایہ دار بھی تو بیک وقت دونوں متحارب سیاسی جماعتوں کو انتخابی چندہ دیتے ہیں اس میں کون سی نئی بات ہے ؟ ایران کا ایک پڑوسی پاکستان بھی ہے اس نے تمام تر امریکی دباو کے باوجود ایران پاک گیس پائپ لائن کا منصوبہ منسوخ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ایران کے جوہری توانائی کے مسئلے کو پابندی کے بجائے گفت و شنید سے حل کرنے کا قائل ہے۔ یہ دراصل امریکہ کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔ انڈونیشیا اور ملیشیاسے بھی ایران کے بہترین سفارتی اور ثقافتی تعلقات ہیں چونکہ یہ دونوں غیر جانبدار تحریک کے اہم ارکان اور ایران بھی اس میں شامل ہے اس لحاظ سے ایران کو ہمیشہ ہی ان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈی۸ نامی مسلم ممالک کے اتحاد میں ایران ان کے ساتھ معاشی اشتراک میں شامل ہے۔ ماضی میں اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل میں انڈونیشیا ایران کے جوہری توانائی کے حق کی حمایت کر چکا ہے گزشتہ سال جب ملیشیا کے نمائندے ارشد منظور نے ایران کے خلاف رائے دی تو اس کی سرزنش کی گئی اور واپس بلا لیا گیا۔ اس کے بعد ملیشیا کے نائب وزیرِ خارجہ کوہلان پلئیّ نے اعلان کیا کہ مبینہ اقدام سرکاری موقف کے خلاف تھا۔ اس سال مشرقِ بعید کے ان دونوں بڑے مسلم ممالک نے ایران پر پابندیوں کی کھل کر مخالفت کی ہے، اس لئے کہ فی الحال ان کے درمیان وسیع تجارتی معاہدے ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ نام نہاد پابندیوں سے یہ معاشی سرگرمیاں متاثر نہ ہو گی۔

 شام تو ہمیشہ سے ایران کا دوست رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے ایران کے تعلقات کبھی بھی خراب نہیں ہوئے، عمان نے عراق کے ساتھ جنگ کے دوران بھی ایران کی حمایت کی۔ فلسطینیوں کے حقیقی نمائندے حماس کے ایران سے تعلقات جگ ظاہر ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ روزِ اول سے ایران نواز رہی ہے۔ ترکی نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کبھی بھی منقطع نہیں کئے بلکہ طیب اردغان کے بر سرِاقتدار آنے کے بعد ان تعلقات کے اندر خاصی گرم جوشی آئی ہے۔ اور تو اور ملک عبداللہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سعودی عرب سے بھی ایران کے تعلقات میں بہتر ہوئے ہیں۔ ملک عبداللہ نے جس گرمجوشی کے ساتھ احمدی نژاد کا استقبال کیا تھا اور خود ان کو اپنے ہمراہ حرم کے اندر لیکر گئے تھے وہ مناظر ہنوز تازہ ہیں۔ اس کے بعد سابق صدر رفسنجانی کی مدد سے جس طرح ملی اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مسلم دنیا سے باہر نکلیں تو کیوبا سے لیکر برازیل تک سارے امریکہ مخالف ممالک ایران کے ساتھ ہیں۔ روس علی الاعلان جوہری منصوبے میں نہ صرف ایران کی مدد کر رہا ہے بلکہ جوہری ایندھن بھی فراہم کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ ایران کے بہترین تجارتی تعلقات ہیں۔ شمالی کوریا فطری طور پر ایران کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال جس طرح صدر احمدی نژاد نے امریکہ کی سرزمین پر اقوامِ متحدہ کے اندر اور باہر اسلام کی دعوت پیش کی اور صدر بش کو خط لکھ کر جس انداز میں اسلام کا پیغام پہنچایا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ یوروپ اور امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود ایران کی سفارتی و سیاسی اثرورسوخ کا تقابل کسی بھی مسلم ملک سے کیا جائے تو ایران ہی کا پلہ بھاری دکھلائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی حالیہ پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی صدر احمدی نژاد نے بڑے اعتماد سے کہا اس تجویز کی حیثیت ہمارے نزدیک ایک کاغذ کے پرزے سے زیادہ نہیں جسے ہم نے کوڑے دان کی نذر کر دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جہاں چند ممبران مستقل طور پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں وہیں کچھ کو باری باری سے عارضی طور پر بھی سلامتی کونسل میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ان عارضی ارکان کو ویٹو کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس بار جب ایران کے خلاف پابندی کی تجویز لائی گئی تو بارہ امریکی باجگذاروں نے اس کی حمایت کر دی لیکن برازیل اور ترکی نے اس عالمی پابندی کی مخالفت کی یہ سب عین توقع کے مطابق تھا لیکن جو بات حیرت انگیز تھی وہ لبنان کا رائے شماری میں حصہ نہ لینا تھا۔ لبنان میں فی الحال سعد حریری وزیرِ اعظم ہیں۔ ان کا سب سے بڑا سیاسی حریف حزب اللہ ہے جسے ایران کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حریری خاندان کے سعودی عرب کے بر سرِ اقتدار آلِ سعود سے نہایت قریبی تعلقات ہیں۔ مرحوم رفیق حریری کے قائم کردہ تجارتی ادارے سعودی اوجر کا صدر دفتر ریاض میں ہے۔ اس کے باوجود لبنان کا ایران کی مخالفت سے گریز کرنا ایک چونکا دینے والا رویہ تھا۔ لیکن بات یہاں رکی نہیں بلکہ چار ماہ بعد ایرانی صدر احمدی نژاد اپنا شام کا دورہ ختم کرنے کے بعد بیروت پہونچ گئے۔ لبنان میں احمدی نژاد کا غیر معمولی عوامی استقبال ہوا۔ یہ اوبامہ کی مانند کوئی نو ٹنکی دورہ نہیں تھا، احمدی نژاد نے سرکاری عہدیداران سے ملاقات کرنے کے بعد کسی لعن طعن کی پرواہ کئے بغیر حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ ان سرحدی علاقوں کا دورہ بھی کیا جہاں سے چار سال قبل اسرائیل کو ذلیل کر کے کھدیڑ دیا گیا تھا اور وہاں پر کئے جانے  والے باز آباد کاری کے کاموں کا معائنہ کیا اور تحسین کی۔

احمدی نژاد کے بعد اس ماہ ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردغان لبنان کے دورے پر بیروت پہنچ گئے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ان کے دورے سے بیروت میں دو دھماکے ہوئے اور گزشتہ ماہ استنبول میں بم دھماکہ ہوا۔ جب تک ترکی کے اسرائیل سے خوشگوار تعلقات تھے ترکی میں امن و امان تھا اور جیسے ان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب تو بم دھماکے ان کا تعاقب بھی کرنے لگے ہیں، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ اس کے باوجود اردغان نے ببانگِ دہل وہ بات کہہ دی جس کا اندیشہ اسرائیل کو پریشان کر رہا تھا۔ اردغان نے کہا کہ اسرائیل کیا سمجھتا ہے وہ اپنے جدید ٹینکوں اور بمبار طیاروں کے ساتھ لبنان میں داخل ہو کر یہاں کے ہسپتالوں اور اسکولوں کو تباہ کرے گا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے ایسا نہیں ہوسکتا، آئندہ اگر اسرائیلی درندے غزہ پر فاسفورس بم اور کلسٹربم برسائیں گے اور معصوم بچوں اور خواتین کو ہلاک کریں گے تو ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ جائیں گے۔ ہم حتی المقدور تمام ذرائع کا استعمال کر کے عدل و انصاف کا دفاع کریں گے۔

ان دو تاریخی دوروں کے بعد لبنانی صدر سعد حریری نے ایران آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دورہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ بین الاقوامی طاقت کے توازن پر زبردست اثرات مرتب کر سکتا ہے اس لئے کہ اسرائیل سے مقابلہ کرنے والی ایک زبردست طاقت حزب اللہ لبنان میں موجود ہے جو اسرائیل کے خلاف ماضی میں تین بڑی کامیابیاں درج کروا چکی ہے۔ اس دورے کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مرحوم رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہیں جس میں اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ کے ایماپر حزب اللہ کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے اور سعد حریری پر حزب اللہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے۔ ایسی صورت میں لبنان پھر ایک بارزبردست سیاسی خلفشار کا شکار ہو جائے گا اور جو مقاصد اسرائیل اپنی فوجی قوت سے حاصل نہ کرسکا اسے خانہ جنگی کے ذریعہ حاصل کر ے گا۔ لیکن سعد حریری اس نازک صورتحال سے نمٹنے کے لئے جو پیش بندی کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔ ان پر امریکی کانگریس میں الزام لگایا گیا کہ انہیں سعودی حکومت کی جانب سے امداد حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کا استعمال فوجی مقاصد کے لئے کرتے ہیں اس کے باوجود اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب یا امریکہ سے تعاون حاصل کرنے کے بجائے ایران کا رخ کیا۔ اس لئے اول الذکر زبانی جمع خرچ سے آگے جا نہیں سکتا اور مؤخر الذکر کا علاج بیماری سے بدتر ہوتا ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی تحقیقات نتیجہ خیز نہیں ہوتیں فلوٹیلا کے اغوا کی رپورٹ کو ویٹو کر دیا جاتا ہے لیکن رفیق حریری کے قتل کے معاملے میں غیر معمولی دلچسپی دکھلائی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس شیخ یٰسین جیسے فرشتہ صفت انسان کو دن دہاڑے شہید کر دیا جاتا ہے اور اس کی سزا تو درکنار تحقیقات تک کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اور تو اور پاکستان کے صدر مرحوم جنرل ضیاء الحق کے قتل کو اس طرح بھلا دیا جاتا ہے گویا وہ فطری موت تھی، بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات بھی اقوامِ متحدہ کے ذریعہ نہیں کروائی جاتی اس لئے کہ اگر ایسا کیا گیا تو شک کی سوئی خود امریکہ بہادر یا ان کے منظورِ نظر پرویز مشرف کی جانب گھوم جائے گی۔ ایسے میں کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن لبنان میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے کی خاطر یہ ضروری ہے اس لئے اقوام متحدہ کے پسِ پردہ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن امریکہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اب وہ زمانے لد گئے جب وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنی من مانی کر لیا کرتا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ بین الاقوامی سیاست پر اس کے رسوخ میں زبردست کمی واقع ہو چکی ہے اگر یقین نہ آتا ہو تو کوریا کی حالیہ صورتحال کو دیکھ لیجئے جہاں امریکی و چینی حلیف جنوبی کوریا و شمالی کوریا کے درمیان پنجہ آزمائی جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر شمالی کوریا نے بمباری کر دی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے جن کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے اسے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بعد کا تلخ ترین واقعہ قرار دیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ اس حملے پر انہیں بہت دُکھ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی کمانڈ (یواین سی) نے شمالی کوریا کی پیپلز آرمی کے ساتھ ایک اجلاس طلب کر لیا۔ جس کا مقصد معلومات کا تبادلہ اور کشیدگی میں کمی قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی واقعے کی تفتیش کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ کیا یہ رد عمل کسی سپر پاور کے شایانِ شان ہے ؟ جبکہ امریکا جنوبی کوریا کی ہر ممکن مدد اور حملے کی صورت میں دفاع کا اعلان کر چکا ہے۔ لیکن یہ گیدڑ بھپکی بیان بازی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کے برخلاف چین نے اپنے دیرینہ اتحادی شمالی کوریا کے جنوبی کوریا کے حملے پر محتاط رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دونوں ملکوں پر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔

اس سال مارچ میں شمالی کوریا نے مبینہ طور پر جنوبی کوریا کا ایک بحری جنگی جہاز تباہ کر دیا تھا اوراس وقت سے دونوں ممالک کے رشتے کشیدگی کا شکار ہیں۔ چھبیس مارچ کو ہونے والے اس حملے میں جنوبی کوریا کی بحریہ کے چھیالیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے اس کے باوجود امریکا شمالی کوریا کا بال بیکا نہ کرسکا، الٹے شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر دیا۔ شمالی کوریا کے سرکاری ٹی وی پر کہا گیا تھا کہ ’جنوبی کوریا کے کٹھ پتلی عسکری گروہ ہمارے پانیوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور انہوں نے متعدد اشتعال انگیز حرکات کیں۔ اگر جان بوجھ کر اشتعال انگیز حرکات جاری رکھی گئیں تو شمالی کوریا اپنے پانیوں کی حفاظت کے لیے بھرپور عسکری قوت استعمال کرے گا اور جنگ چھیڑ دے گا‘۔ اس قدر جری موقف اختیار کرنے کے باوجود امریکا کی جانب سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی اس لئے کہ چین شمالی کوریا کی سرپرستی کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا علی الاعلان اپنے جوہری منصوبے پر عمل کر تا جاتا ہے۔ ہنری کسنجرکے زمانے میں امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز پر غور کیا تھا لیکن اب وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا اس لئے کہ جواباً ممکن ہے چین اپنے فوجیوں کو کوریا کی یونیفارم پہنا کر امریکہ روانہ کر دے اور امریکہ کا بیڑا غرق ہو جائے۔

بین الاقوامی سیاسی شطرنج پر چین اور ہندوستان کا موازنہ کرنے کے لئے حالیہ ایشیائی اور دولتِ مشترکہ کے کھیلوں کا تقابل سود مند ہو گا۔ غلاموں کے درمیان تو ہندوستان نے آقائے محترم برطانیہ کو بھی مات دے دی اور آسٹریلیا کے بعد دوسرے نمبر پر آیا لیکن ایشیائی کھیلوں میں منظر بدل گیا۔ وہاں چین کے بعد کوریا دوسرے مقام پرتھا اور جاپان کے بعد ایران چوتھے مقام پر تھا۔ ہندوستان کو قزاقستان کے بعد چھٹے درجہ پر قناعت کرنا پڑا۔ یہ علامات دنیا بھر میں رونما ہونے والے طاقت کے توازن میں تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں ؎

اٹھو،   وگر  نہ حشر  بپا   ہو گا  پھر   کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

٭٭٭

 

 

ریمنڈ ڈیوس :ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

( قسط اول)

’’خون کا بدلہ خون ‘‘ کسی شخص کا اپنی موت سے قبل ان الفاظ کا کہنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اور خاص طور پر ایسے میں جب کہ وہ فطری طور پر موت کا شکار نہیں ہو رہا ہو بلکہ خودکشی کر رہا ہو۔ یاس، مایوسی اور محرومیت کی ساری حدوں سے گذر جانے کے بعد شمیلہ فہیم نے زہر کی شیشی کو اپنے حلق سے نیچے اتار لیا اور ہسپتال میں ڈاکٹروں اور پولس اہلکاروں کے سامنے یہ کہہ کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئی کہ ’’جس طرح میرے شوہر کو قتل کر دیا گیا اسی طرح ان کے قاتل کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے۔ ‘‘ کیا یہ کوئی نامعقول مطالبہ ہے ؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر مناسب سوچ رکھنے والی شمیلہ نے آخر خود کشی کیوں کی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کے خاوند کا قاتل ریمنڈ ڈیوس نہ ہوتا تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا خیال اس کے دل میں کبھی بھی نہ آتا؟ اب سوال یہ بنتا ہے کہ یہ ریمنڈ ڈیوس کون ہے ؟ ریمنڈ ڈیوس کی شخصیت بالکل رچرڈ  ہیڈلی کی طرح ہے کہ جسے جب بھی دیکھو کچھ نہ کچھ نیا نظر آ جاتا ہے گویا ندا فاضلی کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے کہ ؎

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی                      جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ریمنڈ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کو بچانے کے لئے امریکی سفارتخانے سے گاڑی اس قدر حواس باختہ ہو کر دوڑ پڑی کہ اس نے ایک معصوم راہگیر کو کچل کر ہلاک کر دیا۔ اس کو پولس سے چھڑانے کے لئے خود سفیرکارمیلا کونرائی علی الاعلان میدان میں کود گئے۔ اس کی رہائی کے لئے پہلے تو ڈیرل عیسیٰ نامی امریکی رکنِ پارلیمان نے وزیر اعظم گیلانی اور صدر آصٖف زرداری سے ملاقات کی اس کے بعد تین بڑے رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد امریکہ سے اسلام  آباد آ دھمکا اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کر کے ڈیوس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ صدر اوبامہ نے ٹی وی پر اس کی حمایت میں نہ صرف بیان دیا بلکہ اپنے دستِ راست جان کیری کو بنفسِ نفیس پاکستان روانہ کیا واضح رہے کیری نے جارج بش کے خلاف گزشتہ انتخاب لڑا تھا اور فی الحال وہ خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اس تمام اتھل پتھل کے علاوہ ڈیوس کی خاطر ڈرون حملوں کے سلسلہ کو بند کر دیا گیا۔ یہ سارا اہتمام کسی معمولی آدمی کے لئے تو نہیں ہوتا ؟گویا ریمنڈ جو کوئی بھی ہے آدمی بہت خاص ہے اور اپنی حکومت کی جانب سے کسی اہم کام پر مامور ہے۔

اب ایک اور سوال پیدا ہو گیا کہ وہ کون سا اہم کام ہے جو ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کرتا رہا ہے ؟ ڈیوس کے حوالے سے جس قدر جوابات تلاش کئے جاتے ہیں اسی قدر نئے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ امریکیوں کے مطابق ڈیوس کی حراست غیر قانونی ہے اس لئے کہ اسے سفارتی مراعات حاصل ہیں اور پاکستان کو ویانا کنونشن کا لحاظ کرتے ہوئے ڈیوس کو رہا کر دینا چاہئے۔ اس بات پر کچھ اور سوال پیدا ہو جاتے ہیں ؟ کہ آخر یہ ویانا کنونشن کس بلا کا نام ہے جس سے قاتلوں کے تحفظ کا اہتمام ہو جاتا ہے ؟ نیز کیا سفارتخانے میں کام کرنے والا سارا عملہ بلا تفریق ان مراعات کا حقدار ٹھہرتا ہے ؟ ان تحفظات کا دائرہ کارکس قدر وسیع ہے ؟ کس صورتحال میں ان کا اطلاق ہوتا ہے اور کب یہ ساکت ہو جاتی ہیں ؟ امریکہ نے خود اپنی سرزمین پر ان مراعات کی پاسداری کی کیسی مثالیں قائم کی ہیں ؟گویا ریمنڈ ڈیوس سوالات کا آتش فشاں بن کر پھٹ پڑا ہے اور اس کی گونج سے سارا عالم دہل گیا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے خود ریمنڈ فی الحال جیل کی سلاخوں کے پیچھے عیش کر رہا ہے اس کے برعکس امریکی انتظامیہ وپاکستانی حکومت ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کا ناٹک کر رہے ہیں عدالت و پولس نے کڑا رخ اختیار کر رکھا ہے۔ عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی میں زبر دست اضافہ ہو گیا ہے۔ اور امریکہ مخالف جذبات کے شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں اس لئے قوی امکان یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ پاک امریکی تعلقات پر دوررس اثرات کا حامل ہو گا۔

ریمنڈ ڈیوس کو جس وقت عوام نے گرفتار کر لیا اس وقت وہ اپنے پستول سے نہیں بلکہ موبائل کیمرے سے شوٹنگ کر رہا تھا۔ لاہور کے موژنگ علاقے میں جہاں سفارتکار تو کجا امریکی سیاح بھی نہیں پھٹکتے ریمنڈ ڈیوس اس کا تعاقب کرنے والے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے دو اہلکاروں کو قتل کر چکا تھا گویا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے نزدیک وہ ایک مشتبہ غیر ملکی تھا اور اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی خاطر انہوں نے اپنے آدمی تعینات کئے تھے، یہ پاکستانی حکام کا حق تھا اور مہلوکین اپنی قومی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔ ریمنڈ نے ان پر اپنی کار کے اندر سے آٹھ گولیاں داغیں اور ان کی موت کے بعد بھی گولیاں برساتا رہا۔ اس درندگی کے باوجود نہ اس میں ندامت تھی اور نہ خوف اس لئے وہ اپنی گاڑی دوڑا کر لاشوں کے قریب لے آیا اور موبائل کیمرے سے تصویر کشی کرنے لگا۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگ اس کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے اور وہیں حساب چکا دیا جاتا لیکن اگر ایسا ہو جاتا تو ذرائع ابلاغ میں یہ خبر چھپ جاتی کہ طالبانی دہشت گردوں نے ایک امریکی سفارتکارکوبلاوجہ ہلاک کر دیا جس نے مرتے مرتے اپنے دفاع میں دو دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اسی کے ساتھ نئے سرے سے ڈرون حملوں کا جواز بھی پیدا ہو جاتا لیکن اس بار قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا سو عوام نے سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے اس درندے کو پولس کے حوالے کر دیا لیکن اب اگر امریکی دباؤ ڈال کر اسے چھڑا لیتے ہیں تو اس کے بعد انہیں پاکستانی عوام سے دستوری پاسداری کی توقع کرنے کا حق نہیں رہے گا لوگوں کا عدالتی نظام پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے ایسے میں ممکن ہے امریکیوں کے لئے اپنا قونصل خانہ بند کر کے بھاگنے کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار باقی نہ رہے اور اگرایسا ہوا تو  اس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔

لیٹن روڈپولس کے افسر منیر احمد نے عدالت میں جو فردِ جرم داخل کی ہے اس کے مطابق یہ قتل اپنے دفاع میں نہیں بلکہ عمداً کیا گیا ہے اس لئے کہ مقتولین کے پاس پائی جانے والی بندوقوں کے اندر گولیاں نہیں تھیں انتظامیہ کے مطابق ملزم تفتیش میں تعاون نہیں کر رہا ہے۔ پولس نے ۴۷ عینی شاہدین کے نام بھی پیش کئے۔ گرفتاری کے وقت ڈیوس کے پاس تین قسم کے شناختی کاغذات تھے جن میں سے ایک کے مطابق وہ پشاور کے امریکی قونصل خانے کا ملازم ہے۔ اس کا پس منظر فوجی ہے اور امریکہ کے نجی ادارے جس کے بارے میں ماہرین کی رائے ہے کہ وہ سی آئی اے کی ایک شاخ سے بھی منسلک رہا ہے۔ اس کے پاس امریکہ کے ویٹیرن افیرس محکمہ کے کارڈ کے علاوہ، محکمہ دفاع کے ایک ٹھیکہ دار کا کارڈ بھی برآمد ہواجس سے یہ انکشاف ہوا کہ دو لاکھ ڈالر فی سال کی اجرت پر اس کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ امریکی حکام عام طور پر مقامی بدمعاشوں کو حفاظتی کمپنیوں کے ذریعہ اپنی خدمت میں لے کر دنیا بھر میں تخریب کاری کا کام انجام دیتے ہیں۔

ڈیوس کے مطابق اسے ہائی پیرین پروٹیکٹیو کنسلٹنٹ نامی کمپنی کے توسط سے ملازمت پر رکھا گیا جس کا پتہ ۵۱۰۰ نارتھ لین، فلوریڈا ہے۔ اس کے پاس اس کمپنی کا تجارتی کارڈ بھی موجود تھا جب اس کمپنی کے متعلق تفتیش کی گئی تو پتہ چلا مندرجہ بالا پتہ پر نہ تو ایسی کوئی کمپنی موجود ہے اور نہ ہی کبھی ماضی میں اس کا وجود تھا بلکہ اس نام کی کسی کمپنی کا ریاست فلوریڈا کے سرکاری دفتر میں سرے سے کوئی اندراج ہی نہیں پایا جاتا۔ اس فرضی کمپنی کا ایک ویب سائٹ ضرور موجود ہے جس پر لکھے فون پر کوئی جواب نہیں ملتا۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق وہ کاونسلر کے دفتر میں تکنیکی صلاح کار تھا بلکہ لاہور قونصل خانے کا ملازم ہے اور اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے۔ یہ بات اپنے آپ اس وقت غلط ثابت ہو گئی جب اس کے پاس عام پاسپورٹ پایا گیا جس پر تاجر کا ویزا لگا ہوا تھا۔

اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ وہ سفارتی دفتر کا ملازم تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ موژنگ کس لئے گیا؟ اور اس نے سفارت خانے کی گاڑی کے بجائے کرائے کی نجی گاڑی کیوں استعمال کی؟ اور اس گاڑی میں تین تین موبائل فون کے علاوہ پستول، دوربین اور دیگر اسلحہ کیوں موجود تھا؟ پاکستانی قانون کے مطابق کسی غیرملکی تاجر کا اسلحہ لیکر چلنا جرم ہے۔ لیکن خود اپنی دنیا میں مست رہنے والے امریکی صدر براک اوبامہ کو شاید ان حقائق کا علم نہیں ہے یا ہو سکتا ہے وہ بھی احمق بلی کی طرح آنکھ میچ کر دودھ پینے کی غلطی کر رہے ہیں لیکن شتر مرغ والی یہ خوش فہمی انہیں یقیناً مہنگی پڑے گی۔ اوبامہ نے اخبار نویسوں سے کہا کہ ہم اسے چھڑانے کی اپنی کوشش جاری رکھیں گے اور پاکستانی حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ویانا کنونشن کا لحاظ رکھے گی ان کے خیال میں اس تحفظ کے بغیر سفارتکار اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر براک اوبامہ ایک سفارتکار اور تخریب کار کے درمیان فرق نہیں جانتے یا یہ بھی ممکن ہے چونکہ امریکہ کے سارے سفاتخانے اسی خدمت پر مامور ہوں اس لئے یہ فرق ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہو تیس سال قبل اسی الزام میں ایران نے امریکی سفارتخانے کو یرغمال بنا لیا تھا اور ایسے ثبوت پیش کر دئیے تھے جن سے امریکہ کی ساری دنیا میں رسوائی ہوئی تھی لیکن لگتا ہے ان لوگوں نے اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ اس حادثہ سے محض دو روز قبل امریکی سفارتخانے نے اپنے اہلکاروں کی ایک فہرست حکومت پاکستان کے حوالے کی تھی اور ان میں ریمنڈ ڈیوس کا نام نہیں تھا لیکن بعد میں ایک ترمیم شدہ فہرست جمع کی گئی اور اس میں ڈیوس کا نام شامل کر دیا گیا۔ اس کے باوجود سنا ہے پاکستانی وزارت خارجہ نے وزارت انصاف کو خط لکھ کر تصدیق کر دی ہے کہ اس قاتل کو سفارتی تحفظ حاصل ہے لیکن ایسا کرنے کی خاطر اس بے غیرت حکومت کو خود اپنے با ضمیر وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی کی برطرفی کرنی پڑی۔ شاہ محمد قریشی کی برطرفی کے باوجود دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ان کی تائید کر ڈالی اور بالآخر یوسف رضا گیلانی کو اپنے سرکاری اہلکاروں پر دستور زباں بندی نافذ کرنی پڑی۔ شاہ محمد قریشی کے مطابق جو ماہرین ویانا کنونشن کا حوالہ دے رہے ہیں انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اس معاملے میں دو علیٰحدہ شقیں رہنمائی کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ اگر ویانا کنونشن کے ذریعہ کچھ مراعات حاصل ہوتی ہیں تو اسی کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں اور اگر کوئی اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کرے تو وہ اپنے آپ خود کو مراعات سے محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ویانا کنونشن کو اگر کوئی قتل و غارتگری کی کھلی چھوٹ سمجھتا ہے تو اس کی بہت بڑی غلطی ہے۔ اس کنونشن میں صاف طور سے اعتراف کیا گیا ہے کہ مراعات کا مقصد کسی فرد کا ذاتی مفاد نہیں بلکہ اس کی اپنی سفارتی ذمہ داریوں کی ادائے گی میں سہولت فراہم کرنا ہے اور سفارتکارکی بنیادی ذمہ داری ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ ہے۔ کون ایسا شخص ہو گا جو یہ کہے گا کہ ریمنڈ ڈیوس کی اس بہیمانہ حرکت سے پاکستان اور امریکی تعلقات دوستانہ ہوئے ہیں ؟

 ویانا کنونشن میں سفارتکاروں کو اس ملک کے قوانین کی پاسداری کی بھی تلقین کی گئی ہے جس میں وہ مقیم ہوتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کا اسلحہ کے ساتھ سفر کر نا بذات خود پاکستانی قوانین کی پامالی تھا کجا کہ ان کا بے دریغ استعمال کر کے کسی کو ہلاک کر دینا۔ سفارتکار اور سفارتی افسران کے درمیان بھی ویانا کنونشن کے اندر تفریق کی گئی ہے۔ اس تعریف کے مطابق اسلام  آباد قونصل خانے کے سفارتی اہلکار کسی نہ کسی درجے میں ان مراعات کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں لیکن لاہور یا پشاور کے ذیلی دفاتر سے متعلق لوگوں کو مذکورہ تحفظات خود اقوام متحدہ فراہم نہیں کرتی جس کی دہائی جاہل لوگ بڑھ چڑھ کر دے رہے ہیں۔ ویسے دستور پاکستان کے مطابق صرف سفارتکاروں کو مراعات حاصل ہیں قونصل خانے میں ملازمت کرنے والے دیگراہلکاراس سے محروم ہیں۔ پاکستان کے دستور میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ سنگین جرائم کا مرتکب ہونے والے کسی شخص کو کوئی تحفظ حاصل نہ ہو گا۔ اسی کے ساتھ ویانا کنونشن کے اندر بھی استثنائی صورت حا ل کی وضاحت موجود ہے جس کے مطابق قونصل خانے کے افسران کو گرفتار یا نظر بند نہیں کیا جائے گا الاّ یہ کہ وہ کسی سنگین جرم کا ارتکاب کریں اور اس کا فیصلہ مقامی عدالت کرے گی۔ ریمنڈ ڈیوس نے جو جرم کیا ہے وہ امریکی انتظامیہ کے نزدیک تو غیر سنگین ہو سکتا ہے لیکن کسی بھی انصاف پسند انسان کے نزدیک نہیں۔ عدالتی نظام میں ماضی کے حوالوں کو مثال بنا یا جاتا ہے اس لئے کیوں نہ خود امریکہ ہی کی مثال لی جائے۔ ۱۹۹۷ء  میں جارجیا کے ایک سفارتکار کو امریکا کے اندر۱۶ سالہ لڑکی کے قتل کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے جبکہ ویانا کنونشن ۱۹۶۲ء سے نافذ ہے اور امریکہ اس قانون کی پاسداری کا سب سے بڑا دعویدار ہے۔

٭٭٭

 

 

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

( دوسری قسط)

ریمنڈ ڈیوس سے متعلق سب سے زیادہ چونکا دینے والا انکشاف امریکہ ہی کے ایک مؤقر ترین جریدے لانگ وار جرنل نے کیا جس کے مطابق ریمنڈ کا تعلق پاکستان میں ڈرون حملہ کرنے والے دستہ سے ہے اگر اس بات کو صحیح مان لیا جائے تو اس معمہ کی ساری کڑیاں اپنے آپ مل جاتی ہیں۔ ڈرون حملہ آوروں کا فوج اور سی آئی اے سے متعلق ہونا، سفارتخانے کا اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑنا۔ ان کی شناخت کو صیغۂ راز میں رکھا جانا اور اس کا اپنے نشانوں کی تلاش میں اسلحہ بردار مصروف علاقوں میں جانا اور سفاکی سے قتل و غارتگری میں ملوث ہونا سب کچھ عین حسبِ فطرت محسوس ہوتا ہے۔ اس سے امریکی حکومت کی سخت گیری اور پاکستانی حکام کی نرمی بھی سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس عالم سکرات میں مبتلا امریکہ کی بیماری کا نہیں بلکہ محض ایک علامت کا نام ہے جبکہ اصل بیماری ہے امریکہ کی افغان حکمت عملی ہے۔ اس پالیسی کو سمجھنے کے لئے افغانستان کے اندر گزشتہ دس سالوں میں رونما ہونے والے حالات کا جائزہ لینا ہو گا۔

۲۰۰۱ء کے اوائل میں طالبان نے افیون کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کر دی اور اس سے خوش ہو کر امریکی انتظامیہ نے ماہِ مئی میں افغانستان کے لئے اضافی ۴۳ ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر دیا تاکہ افیون کے ذریعہ ہونے والی آمدنی کے بند ہو جانے سے متوقع نقصان کی بھر پائی ہو سکے۔ اس امداد کو کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن خارجہ سکریٹری کولن پاویل نے اس پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ ۴۳ ملین گو کہ آج کے حالات میں بہت کم محسوس ہوتے ہیں لیکن اس وقت افغانستان کی مجموعی گھریلو پیداوارکل ۲ بلین تھی اس لحاظ سے یہ مدد ۲۰ فی صد سے زیادہ تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ۱۱ستمبر کا حملہ ہو گیا جس نے جارج ڈبلیو بش کو جنون میں مبتلا کر دیا۔ اس حملے کے بعد دئیے جانے والے بش کے بیانات اس کی ہذیانی کیفیت کی دلیل ہیں۔

بش نے کہا تھا امریکہ فی الحال اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ طالبان کو فوراً اقدام کرنا ہو گا وہ یا تو دہشت گرد وں کو ہمارے حوالے کریں گے ان کے مقدر میں حصہ دار بن جائیں گے۔ ہمارا صدمہ غصہ میں اور غصہ عزم میں بدل چکا ہے۔ ہم دشمن کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے یا انصاف کو دشمن تک لے جائیں گے۔ ان دھمکیوں میں انصاف سے مراد سزا ہے۔ اس دھمکی کے جواب میں افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالکبیر نے کہا ہم اسامہ بن لادن کی حوالگی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں بشرطیکہ امریکہ اس کے خلاف ثبوت ہمارے سامنے پیش کرے لیکن اس کے لئے امریکہ کو اپنی موجودہ پالیسی بدلنی ہو گی یعنی بمباری کو بند کرنا ہو گا اس کے بعد ہم لوگ مصالحت کر سکتے ہیں اور پھر اسامہ بن لادن کو مقدمہ کی خاطر کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر گفتگو ہو سکتی ہے، اس معقول ترین تجویز کا پر تکبر جواب بش نے یہ دیا کہ جب میں نے کہہ دیا کہ کوئی مصالحت نہیں تو اس کا مطلب ہے کوئی مصالحت نہیں۔ ہمیں پتہ ہے وہ مجرم ہے۔ اسے لوٹا دو اس کی معصومیت یا جرم پر گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس دھمکی کے جواب میں پاکستان کے اندر مقیم افغانی سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا تھا ہم یونہی اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے نہیں کریں گے، ہمارا موقف یہی ہے کہ اس کے خلاف جو ثبوت ہیں انہیں ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔ ہم شواہد کی بنیاد پر مقدمہ چلائیں گے یا کسی تیسرے غیر جانبدار ملک میں مقدمہ چلے گا۔ ملا ضعیف نے ورلڈ ٹریڈ سینڑمیں ہلاک ہونے والوں کے لئے افسوس کا اظہار کیا لیکن امریکہ کو اس کے جواب میں معصوم شہریوں پر بمباری کرنے سے منع کیا اس لئے کہ ایسا کر کے وہ ساری مسلم دنیا کی ناراضگی مول لے رہا تھا۔ ضعیف نے اقوام متحدہ کے ذریعہ ۱۱ستمبر کے حملے کی تحقیق کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہم امریکی حملے کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کریں گے، اگر وہ اپنا زور دکھلانا چاہتے ہیں تو ہم بھی تیار ہیں ہم کسی صورت زور وجبر کے آگے نہیں جھکیں گے۔ اس کے بعد پھر ایک بار نئے سرے سے صلیبی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اپریل۲۰۰۴ء میں جارج بش نے اعلان کیا کہ طالبان کا خاتمہ کیا جا چکا ہے اور القاعدہ بری طرح مجروح ہو چکی ہے اسی کے ساتھ ہم لوگ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ۲۰۰۴ء ستمبر میں بش نے اعلان کیا کہ امریکی فوج کی بدولت طالبان ناپید ہو چکے ہیں اور افغانستان کے عوام اب آزاد ہیں لیکن اس طرح کے بلند بانگ دعویٰ کرنے والا جارج بش آگے چل کر اپنی زبان سے مکر گیا اسے جاتے جاتے دسمبر۲۰۰۸ء میں کابل کی سرزمین پر اس اعتراف کے لئے مجبور ہونا پڑا کہ ’’میں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا تھا کہ طالبان کو صفحۂ ہستی سے مٹا یا جا چکا ہے ‘‘۔

آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ نظر آتا ہے جو دس سال قبل کو ئی مبصر اپنے آگے نہیں دیکھ سکا تھا زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کا عزم کرنے والا نمرود وقت جوتا کھا کر جا چکا لیکن اپنے ناپاک ارادوں میں اسے کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ۲۰۰۸ء کے اواخر میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف برطانوی فوج کے کمانڈر بریگیڈئیرمارک کارلٹن اسمتھ نے اعتراف کر لیا کہ ہم افغانستان کی جنگ نہ جیت سکتے ہیں اور نہ یہ ہمارا مقصد ہے یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا سا معاملہ تھا اس نے کہا کہ عوام کو کسی فیصلہ کن فتح کی توقع نہیں کرنی چاہئے بلکہ طالبان کے ساتھ گفتگو کا آغاز ہو جانا چاہئے اس کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ میں اعتراف شکست کی ایک آندھی آ گئی اور جب اس جنگ کی طوالت نے ویتنام کو پار کر دیا تو خود خارجہ امور کے سربراہ جان کیری نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ محض طاقت کے زور سے کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔ جان کیری بذاتِ خود ویتنام کی جنگ میں شریک ہو چکے ہیں آگے چل کراس بات کو صدر اوبامہ نے بھی دوہرایا۔

براک اوبامہ کو پتہ تھا کہ عراق کے بعد افغانستان سے انخلا کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہیں ہے اس لئے اقتدار میں آنے کے بعد اوبامہ نے یہ اعلان کیا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا آغاز ۲۰۱۱ء  میں ہو جائے گا اور اس کا انتظامیہ اب بھی اپنی بات پر قائم ہے نیز یہ عمل۲۰۱۴ء تک مکمل ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ میں سابق مستقل امریکی نمائندے جان بولٹن کے مطابق اوبامہ کا یہ موقف واضح طور پر اپنی کمزوری کا اظہار ہے اور اس سے طالبان و القاعدہ کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اب انہیں تو بس یہ کرنا ہے کہ انخلا کا انتظار کریں گویا اس کے بعد تو انہیں کو غالب آنا ہے۔ عوام کی توجہ اس رسوائی سے دوسری جانب مبذول کرانے کی خاطر اوبامہ انتظامیہ نے اپنا رخ افغانستان سے ہٹا کر پاکستان کے سرحدی علاقوں کی جانب کیا پہلے تو پاکستانی فوج کے ذریعہ سوات میں تباہی مچائی اور اس کے بعد ڈرون حملوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا بلکہ ایک مرتبہ باقاعدہ فوج کشی کا بھی ارادہ کر لیا لیکن پھر فوجی رسد کی رکاوٹ نے عقل ٹھکانے لگا دی۔

اس دوران بظاہر تو اوبامہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تماشہ کرتا رہا لیکن پس پردہ اس نے طالبان سے گفتگو کا باقاعدہ آغاز کر دیا اور ۲۰۰۹ء میں اسی عبدالسلام ضعیف کو طالبان کی نمائندگی کرنے کے لئے برطانیہ آنے کی دعوت دی گئی جس نے اعلان کیا تھا کہ ہم دفاع کریں گے اور جور و ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ اس گفت و شنید کے لئے جس کو کسی زمانے میں بش نے پوری طرح مسترد کر دیا تھا جس انداز میں فضا ہموار کی گئی وہ بھی نہایت دلچسپ معاملہ ہے۔ اول تو خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن نے اعلان کیا کہ افغانستان کامسئلہ صرف اور صرف سیاسی سطح پرحل ہو سکتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہم طالبان اور القاعدہ کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بیان بلا واسطہ اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ ساری دنیا کی طاقتیں متحد ہو کر بھی افغا نیوں کو جنگ کے میدان میں شکست سے دوچار نہیں کر سکتیں۔ اس کے بعد نائب صدر جوزف بیڈن نے کہا۷۰ فی صد طالبانی محض ذاتی مفاد کے لئے لڑنے والے جنگجو ہیں اس لئے ان سے لڑنے کے بجائے مصالحت کی جا سکتی ہے اور امریکہ اس طریقہ کار کو آزمانا چاہتا ہے۔ بیڈن کو یہ غلط فہمی ہے کہ ۷۰فی صد طالبانی دولت کے لئے لڑ رہے ہیں بقیہ ۲۵ فی صد کے بارے میں اسے یقین نہیں ہے کہ وہ اپنے جہاد میں کس قدر سنجیدہ ہیں لیکن اس کے خیال میں ۵ فی صد ضرور ایسے ہیں جن کو شکست دینا ضروری ہے گویا بیڈن نے یہ اعتراف کر لیا کہ وہ صرف ۵ فی صد مجاہدین کو شکست دینے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ بیڈن نے یہ اعلان کیا کہ بغاوت کے خاتمے کی غرض سے صدر اوبامہ نے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اس ساری بیان بازی میں آخری جملے کے علاوہ سب کچھ غلط ہے دراصل اس تلخ سچ کی کڑواہٹ کو چھپانے کی خاطر اوپر میٹھا جھوٹ گھڑا گیا ہے۔

 ویسے اب تو افغانستان کے حوالے سے بچہ بچہ یہ جان گیا ہے کہ امریکی طالبان سے براہ راست گفتگو کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود طالبانی حملوں میں کسی قسم کی کمی نہیں آ رہی اس لئے کہ مجاہدین جانتے ہیں کہ اپنا دباؤ بنائے رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ جس چیز نے امریکہ کو مصالحت کی میز پر آنے کے لئے مجبور کیا ہے وہ ان کی شرافت نہیں کمزوری ہے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ سال ناٹو نے اپنے سات سو فوجیوں کی ہلاکت کو تسلیم کیا جبکہ۲۰۰۹ء میں یہ تعداد صرف ۵۰۰ تھی گویا چالیس فی صد کا اضافہ اس سال بھی ماہِ جنوری کے اندر مرنے والے ناٹو فوجیوں کی تعداد۴۸ تھی۔ طالبان اور القاعدہ کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی حکمت عملی اب ایک نئے مسئلہ سے دوچار ہو گئی ہے اسلامی دنیا میں تیونس کے بعد مصر میں ہونے والی تبدیلیوں اور بحرین، یمن، الجزائر اور لیبیا میں ہونے والے مظاہروں سے مغرب کے خیمہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ایسے میں اگر افغانستان میں بسنے والے القاعدہ کے مجاہدین کو منتشر کر دیا جاتا ہے اور وہ ان ملکوں میں لوٹ جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں مغربی طاقتوں کی مسلم ممالک سے مکمل بیخ کنی ہو جائے گی اور ان کی برسوں کی محنت پر یکلخت پانی پھر جائے گا۔ ملا عمر نے امریکی انتظامیہ کو ۱۹۹۸ء  میں پہلی اور آخری بار فون کیا تھا جبکہ بل کلنٹن نے دارالسلام، تنزانیہ اور نیروبی میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد افغانستان کے اندر القاعدہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ ایک متوسط درجہ کے افسر نے ملا عمر کے فون کو لیا تو انہوں نے اطمینان سے مشورہ دیا اس حرکت کے لئے امریکی کانگریس (پارلیمان ) کو چاہئے کہ وہ بل کلنٹن سے استعفیٰ طلب کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی حملوں کا الٹا اثر ہو گا اور نتیجہ میں حملے کم ہونے کے بجائے بڑھ جائیں گے۔ ملا عمر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے لئے یہ ان کا بہترین مشورہ ہے۔ کاش کے امریکی انتظامیہ نے ملا عمر کے اس مشورے پر کان دھرا ہوتا اور اس پر عمل کیا ہوتا تو کم از کم آج اس ہزیمت سے محفوظ رہتے اور امریکہ کے عظیم طاقت ہونے کا بھرم قائم رہتا جو کہ پے در پے شکست کے بعد پاش پاش ہو گیا ہے۔ ملا عمر کی خود اعتمادی کی جھلک ظفر علی خاں کے اس شعر میں نظر آتی ہے ؎

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ  بجھایا  نہ  جائے  گا

٭٭٭

 

 

اسامہ بن لادن: جمہوریت کی سفاک سیاست

اسامہ کی ہلاکت نے ۱۱ ستمبر کی شہرت کو مات دے دی۔ انٹر نیٹ پراس خبر کو اس طرح اچھالا گیا کہ اس سے متعلق چوبیس گھنٹوں میں ۱۵کروڑ سے زائد مضامین، اور تبصرے آن لائن ہو گئے جس میں ۷۰ہزار سے زائد نیوز اسٹوریاں تھیں۔ انٹر نیٹ پر موجود مواد میں پندرہ کروڑ دس لاکھ سے زائد مضامین اور خبریں اسامہ بن لادن کے متعلق ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے اس غبار نے ساری دنیا کے عوام کا دماغ ماؤف کر دیا۔ وقتی طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی لیکن اس غبارے کو سوئی لگانے کا کام بھی اس میں ہوا بھرنے والوں نے خود کر دیا اور شکوک و شبہات کے دباؤ میں یہ اپنے آپ سکڑنے لگا۔ مطلع صاف ہو رہا ہے۔

مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے وہ زیادہ دیر چل نہیں پاتا۔ جب دھکا لگنا بند ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے اور اپنے تضاد کے باعث پکڑا جاتا ہے۔ اس نازک ترین معاملے میں قصر ابیض یعنی وہائٹ ہاؤس کی تضاد بیانی ملاحظہ فرمائیں۔ سب سے پہلا اختلاف تو اس بات پر رونما ہو گیا کہ یہ حملہ آور ہیلی کاپٹر اڑے کہاں سے تھے ؟اس کے بعد جو ہیلی کاپٹر تباہ ہوا اس کے بارے میں اول تو یہ خبر آئی کہ اسے مار گرایا گیاپھر پتہ چلا کیا وہ میکانکی خرابی کے باعث گر گیا اس کے بعد یہ بتلایا گیا کہ حویلی کا درجہ حرارت برداشت نہ کر سکا اور پھٹ پڑا چونکہ یہ سارے بیانات ایک ہی انتظامیہ کے مختلف ترجمان دے رہے ہیں اس لئے کس کو تسلیم کریں اور کسے مسترد کر دیں یہ پیچیدہ سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ حویلی میں داخلے کے بعد کیا ہوا اس کے متعلق بھی تضاد بیانی دلچسپ ہے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ نام نہاد اسامہ نہتا تھا تو دوسرے صاحب ٹیلی ویژن پر فرماتے ہیں اس نے گولیاں چلائیں، کوئی نہتا تو اسی صورت گولی چلا سکتا ہے جبکہ وہ جادو گر ہو لیکن اس کی گولی سے کوئی نہیں مرتا۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ گرفتاری کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا بلکہ صرف قتل کے احکامات دئیے گئے تھے اس لئے دیکھتے ہی گولی چلا دی گئی دوسرے کے مطابق زندہ گرفتار کیا گیا پھر ہلاک کیا گیا۔ عربیہ چینل پر حویلی سے گرفتار ہونے والی لڑکی کا یہی بیان نشر ہوا ہے۔ اب اگر کوئی مجرم گرفتار ہو گیا تو اس پر مقدمہ چلا کر کیوں نہ اس پر الزام ثابت کیا جائے۔ انصاف اس کو نہیں کہتے کہ کسی نہتے آدمی کواس کی بیوی بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا جائے لیکن یہ سب مہذب دنیا کی باتیں ہیں جن کا اطلاق امریکی انتظامیہ پر نہیں ہوتا اور پھر جہاں نہ ملزم ہی حقیقی اور نہ الزام ہی سچا تو انصاف کا سوال ہی کیونکر پیدا ہوتا ہے ؟

ایک ترجمان نے ٹی وی پر بتلایا کہ اسامہ نے اپنی بیوی کو ڈھال بنایا اور اس لئے وہ ہلاک ہو گئی دوسرے نے کہا ایسا نہیں ہوا اس کی بیوی دوسرے کمرے میں سو رہی تھی۔ جو عورت ہلاک ہوئی وہ بیوی نہیں تھی اور کسی کو ڈھال نہیں بنایا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والے بیٹے کا نام اول تو خالد بتلایا گیا پھر اس میں اصلاح ہوئی اور وہ حمزہ بن گیا۔ اس پر دعویٰ کہ اوبامہ خود ٹیلی ویژن پر براہ راست ہر پل کے مناظر دیکھ رہے تھے لیکن ان کے پاس بیٹھے ہوئے پنٹا گون کے سربراہ نے کہا اندر جانے کے بعد ۲۰ تا ۲۵ منٹ تک اندھیرا چھایا رہا اور ہمیں کچھ بھی پتہ نہ چلا۔ کیمرہ سنا ہے فوجی کی ٹوپی میں لگا ہوا تھا لیکن تصویروں کو براہ راست نشر کرنے کے لئے کون سی تکنیک استعمال کی گئی اس کی تفصیل کوئی بھی بتلا نہ سکا۔ اب جو تصویریں ظاہر کی گئی ہیں اس کو گارجین نے پرانا کہا ہے ان متضاد باتوں کو پڑھ کر عام قاری اگر کنفیوز ہو جائے تو کیا حیرت کہ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جئے کارنی نے بھی اپنے کنفیوز ہونے کا برملا اعتراف کر لیا۔ اس خلط مبحث کا سبب یہ ہے کہ جب کئی لوگ بیک وقت جھوٹ بولتے ہیں تو انہیں پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے بلکہ فرد واحد بھی یاد نہیں رکھ پاتا کہ اس نے پہلے کیا کذب بیانی کی تھی اسی طرح جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے اور اس کا تضاد باہر آ جاتا ہے۔

اس معاملے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت خبروں کی اس سونامی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ایک ویب سائٹ ایسی بھی تھی جس کو بزور قوت بند کروا دیا گیا (گویاہیک کر لیا گیا) اس سائٹ کا نام ہے ‘‘ اصل میں کیا ہوا‘‘ (یعنی واٹ ریلی ہیپنڈ)۔ یہ وقتی پابندی تھی جو دودن بعد اٹھ گئی اور اب اس کی زیارت کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اسے معتوب کیوں کیا گیا۔ اس سائٹ پر برسوں سے ایسا مواد جمع کر کے رکھا گیا جن کے مطابق شیخ اسامہ بن لادن کے فطری موت کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان خبروں میں امریکی فوجی افسران، نامور اخبارات مثلاً گارجین اور معروف ٹیلی ویژن چینل جیسے فوکس او ربی بی سی پر نشر ہونے والی خبریں اور انٹرویو موجود ہیں۔ قابل ذکر لوگوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو، حامد کرزئی اور پرویز مشرف کے بیانات بھی ہیں۔ مصر سے شائع ہونے والے اخبار کا عربی اقتباس بھی نقل کیا گیا ہے۔ اگر مغرب کولا اعتبار اور سیاستدانوں کے بیانات کو ناقابلِ یقین قرار دے دیا جائے تب بھی پاکستان کے معتبر اور بے باک صحافی چودھری ذبیح اللہ بلگن کی بات کو کیسے مسترد کریں گے جنھیں ایک ٹی وی انٹرویو میں کرنل امام نے تین سال قبل بتلایا کہ وہ خود شیخ اسامہ بن لادن کے جنازے اور تدفین میں شریک ہو چکے ہیں۔ اسامہ کو گردے کا عارضہ تھا وہ تمام تر علاج کے باوجود اس مرض سے صحت یاب نہ ہو سکے اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے جسد خاکی کو افغانستان کے ایک گاؤں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر ایبٹ  آباد میں مارا جانے والا شخص کون تھا ؟اور اوبامہ نے یہ ڈرامہ کیوں کیا ؟ یہ دوسوالات اہمیت کے حامل ہیں۔

جہاں تک پہلے سوال کی بات ہے جس سرعت کے ساتھ امریکیوں نے اس لاش کو سمندر برد کر دیا اس سے اسامہ بن لادن کے اس ہم شکل کی اصل شناخت تو ناممکن ہو گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ جس طرح اسامہ بن لادن پر مقدمہ چلا کر کوئی الزام عدالت میں ثابت نہ کر سکا اسی طرح اس لاش کو بھی کسی غیر جانبدار لیب میں بھجوا کر اس امر کی تصدیق نہیں کروا سکا کہ آخر وہ شخص تھا کون؟ نیز آئندہ کے لئے بھی تحقیق و تفتیش کے سارے امکانات کو ختم کر دیا گیا۔ چند گھنٹوں کے اندر لاش کے خلیات پاکستان سے امریکہ پہنچ گئے وہاں اسامہ بن لادن کی بہن کے خلیات سے ان کا موازنہ بھی ہو گیا اور پلک جھپکتے اوبامہ نے ٹیلی ویژن پر تصدیق کر دی اور ساری قوم خوشی سے جھوم اٹھی۔ اس طرح کا چمتکار مسلم دنیا کے کسی پسماندہ ملک میں ہو تو مغرب کی جانب سے ہزار سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن اگر امریکہ میں ہو تو ساری دنیا آنکھ موند کر اس کی تائید و حمایت میں جٹ جاتی ہے اس لئے کہ بقول اوبامہ ہم جو بھی چاہیں جہاں بھی چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اوبامہ کے اس جہان میں افغانستان شامل نہیں ہے اسی لئے ایبٹ آباد آنا پڑا۔ اوبامہ نے جو یہ شعبدہ بازی دکھلائی ہے ایسا امریکی انتظامیہ نے پہلی بار نہیں کیا بلکہ یہ ان کی قدیم روایتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے پہلے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے وقت بھی بلا کسی تحقیق و تفتیش کے جارج بش پر ایک گھنٹے کے اندر انکشاف ہو گیا کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن ہے جو افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا ساری دنیا کے ممالک بے چوں چرا اس کی ہمنوائی کرنے لگے کسی نے نہیں پوچھا کہ آخر آپ کے پاس اس بے بنیاد دعوے کی دلیل کیا ہے ؟اس لئے وہ ہم شکل کون تھا جسے مار گرایا گیا اس پر وقت صرف کرنے کے بجائے یہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا اس سوال پر توجہ ہونی چاہئے۔

اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی اور مقبولیت میں اضافہ اس مشکل سوال کا آسان جواب ہے۔ جارج بش نے بھی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی اور افغانستان پر چڑھائی کر دی لیکن جب دو سال تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تو اس کے امکانات بھی معدوم دکھلائی دئیے تو اس نے ایک نرم چارہ عراق کو نشانہ بنایا اور صدام پر عمومی تباہی کے اسلحہ رکھنے کا الزام لگا کر حملہ کر دیا یہ الزام آگے چل کر غلط ثابت ہوا لیکن تب تک وہ اپنا دوسری میقات کا انتخاب جیت چکا تھا۔ امریکی عوام کے گلے سے سربراہ کی ناکامی نہیں اترتی۔ وہ ناکام رہنما کو انتخاب میں نامراد کر دیتے ہیں انہیں بے وقوف بنانے کا سب سے آسان نسخہ ’’مہم سر ہو گئی‘‘(مشن اکمپلشڈ)کا نعرہ ہے جسے سننے کے بعد امریکی عوام اپنے سارے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ یہ دراصل رائے دہندگان کا جذباتی استحصال ہے جو ہر انتخاب کے وقت مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ حقیقی نہ سہی تو مجازی مہم چھیڑ دی جاتی ہے اور پھر اسے سر کر لیا جاتا ہے۔ جارج بش نے صدام کو اقتدار سے دستبردار کرنے کے بعد یہی نعرہ لگایا تھا اور بڑے آرام سے انتخاب جیت گیا اوبامہ نے بھی اسی آزمودہ نسخے کو آزمایا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسال قبل جس صدر کی مقبولیت ۶۵ فیصد سے زیادہ تھی اور ناراضگی کا تناسب ۲۰ فی صد سے کم تھا اب وہ معاملہ الٹ پلٹ گیا ہے۔ اقتصادی میدان میں اپنی زبردست ناکامی کے باعث حالیہ ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹس کانگریس میں اپنی اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ماہ اپریل میں اوبامہ کی مقبولیت گھٹ کر ۴۶ فیصد ہو گئی تھی اور ناراضگی بھی اس کو چھو رہی تھی۔ امریکہ میں صدر کو عوام سے پہلے اپنی پارٹی کے ممبران کی حمایت حاصل کر کے امیدواری حاصل کرنی پڑتی ہے تب جا کر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی نوبت آتی ہے اور اگر موجود صدر کی مقبولیت میں خاصی کمی آ جائے تو پارٹی دوسری میقات کے لئے کسی اور کو اپنا امیدوار نا مزد کر دیتی ہے۔ یہی خطرہ اوبامہ کو لاحق ہو گیا تھا کہ مبادا آئندہ انتخاب میں ہیلری کلنٹن ان سے آگے نہ نکل جائیں اس لئے اس نے یہ جوا کھیلا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم میں اوبامہ کی زبان سے ‘‘ مجھے اطلاع موصول ہوئی تھی‘‘۔ ‘‘ میں نے بذات خود نگرانی کی‘‘۔ ‘‘ میں نے حکم دیا‘‘ اس طرح کے الفاظ بار بار سننے میں آئے حالانکہ اسامہ بن لادن کے سر پر ۲۵ کروڑکا انعام تھا اس لئے اس میں صدر کو اس قدر دلچسپی لینے کی ضرورت نہیں تھی جو کوئی بھی ایسا کرتا وہ انعام کا حقدار ہوتا لیکن سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے صدر صاحب اس مہم میں جٹ گئے اور بلآخر مہم کے سر ہو جانے کا خوش کن اعلان فرما دیا۔

اوبامہ اپنی اس بازی میں کامیاب ہو گئے ان کی مقبولیت کچھ لوگوں کے مطابق اوسطاً۵۷ فی صد تک جا پہنچی ہے ریپبلکنس کے خیمے میں ہلچل مچ گئی ہے اس لئے کہ ری پبلکن رائے دہندگان جو ان سے صرف ۹ فی صد راضی تھے اب ۲۴ فیصد تائید کرنے لگے ہیں گویا ۱۵ فیصد کا اضافہ دشمن کے کیمپ سے یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں ریپلکن لیڈر نے اس مہم میں اپنی پارٹی کا حصہ لگاتے ہوئے اعلان کر دیا کہ جس کام کو جارج بش نے شروع کیا تھا اسی کو اوبامہ نے پورا کیا۔ رمسفیلڈ نے بھی ہر ایک کو اس کا حصہ دینے کی بات کی بلکہ ان کے مقابلے انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھنے والی باربرا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس واقعہ کے بعد وہ اوبامہ کے خلاف ریپبلکن پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑنے کی غلطی نہیں کر سکتیں۔ عام رائے دہندگان کے اندر بھی ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ ویسے جمہوریت میں کسی کی موت سے فائدے کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ راجیو گاندھی کی غیر معمولی کامیابی اندرا گاندھی کے قتل اور اس کے باعث حاصل ہونے والی ہمدردی کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ اگر بینظیر زندہ ہوتیں تو آصف زرداری کے لئے صدارت کا خواب دیکھنا بھی محال تھا لیکن ان دو واقعات سے قطع نظر جہاں ہمدردی کے ووٹ ملے تھے مودی نے مسلمانوں کے قتل عام کی بنیاد پر اپنا پہلا انتخاب جیتا۔ اسی بدلے کی بھاونا جس کا اظہار اوبامہ کرتے ہیں مودی بھی کر رہا تھا۔ بی جے پی کی پہلی ۱۳ دنوں والی حکومت بھی بابری مسجد کی شہادت کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ رام مندر کی تحریک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار مشابہت موجود ہے۔ جمہوریت کے کھیل میں یہ سب ہوتا رہتا ہے۔

نام نہاد اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر اوبامہ کا بیان صرف اور صرف سیاسی جعلسازی ہے جس کے پردے میں وہ افغانستان سے اپنے بے نیل و مرام واپسی کی ناکامی کو ڈھانپنے اور اپنی انتخابی مہم کو سہل بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان و یوروپ کے سر براہان کے تبصرے ضمیر فروشی اور ابن الوقتی سے زیادہ کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ سی این این پر اوبامہ کی تائید میں دم ہلاتے ہوئے امریکی صحافی پیٹر برجن نے اعلان کر دیا کہ ’’ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اختتام ہے ’’ لیکن اس کے بر خلاف فوجی تجزیہ کار اور امریکی بریگیڈئیر مارک کیمٹ کا کہنا ہے کہ یہ تحریک کا خاتمہ نہیں ہے، یہ دہشتگردی (نام نہاد) کا خاتمہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک باب کا اختتام ہے۔ اسامہ بن لادن کی گرفتاری و قتل محض ایک علامت سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لئے کہ وہ برسوں قبل تحریک کی عملی قیادت سے دستبردار ہو چکے تھے۔ القاعدہ تنظیم اسامہ بن لادن کی شخصیت سے کہیں زیادہ ہے گو کہ اس کا تشخص اسامہ ہیں۔ مارک کا بیان حقیقت پسندانہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اسامہ حیات تھے کیا وہ ایثار و مزاحمت، صبر واستقامت اور جرأت و شجاعت کی علامت نہیں تھے ؟ اگر تھے تو یہ اوصاف حمیدہ مغرب کو یا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مغرب زدہ دانشوروں کو کیوں نظر نہیں آتے ؟

 اس کی بنیادی وجہ تویہ ہے کہ ایریل شیرون اور نتن یاہو جیسے ظالم جن کو امن کے پیغامبر دکھلائی دیتے ہیں۔ مصری مبارک اور یمنی صالح جیسے لوگ جن کے منظور نظر ہوں۔ ریمنڈڈیوس جیسا سفاک قاتل جن کا سفارتکار ہو اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی معصوم دوشیزہ جن کی نگاہ میں سنگین مجرم ہو تو ایسوں کو اسامہ اور نصراللہ اگر دہشت گرد نظر نہ آئیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اور جو لوگ مغرب کی عینک لگا کر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں انہیں بھی وہی سب نظر آتا ہے جو مغرب انہیں باور کراتا ہے۔ ذہنی غلامی اسی کا نام ہے ورنہ اس بات کا ا دراک کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے جس کی عالمی دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری سے ہوا تھا اور قریب ترین نمونہ عراق کی جارحیت ہے جہاں فوج کشی کا آغاز اس دعویٰ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ وہاں عمومی تباہی کے اسلحہ (ویپنس آف ماس ڈیشٹرکشن) موجود ہے۔ اس نامعقول جنگ کے نتیجے میں اب تک تقریباً ۱۵ لاکھ معصوم عراقی جان بحق ہو چکے ہیں۔ ۷ ہزار کے قریب اتحادی فوجی مارے جاچکے ہیں اور بالآخر بش نے یہ کہہ کر اپنا دامن جھٹک لیا کہ خفیہ ایجنسی کی اطلاعات غلط تھیں اور وہاں مذکورہ اسلحہ دستیاب نہیں ہوسکا۔ جن لوگوں کو اپنی اس عظیم غلطی پر ذرہ برابر ملال نہ ہو انہیں ہر دہشت گرد بھلا آدمی دکھلائی دیتا ہے اور مزاحمت کار ان کی آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے۔

بزدل اور کوتاہ بین لوگ عام طور سے ظلم کے بجائے اس کے خلاف ہونے والی بغاوت کو باعث فساد سمجھتے ہیں اسی لئے انہیں محمود عباس خوشنما اور حماس بدنما دکھلائی دیتی ہے لیکن مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے نہ کبھی مستکبرین کے جاہ وجلال کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ان کے باجگزاروں کی جانب سے کی جانے والی لعنت ملامت کی پرواہ کرتے ہیں۔ ان کا طرز حیات نہ تو مجبوریِ حالات طے کرتے ہیں اور نہ مادی مفادات۔ وہ غیروں کے طفیل جینے کے بجائے خود اپنا جہان  آباد کرتے ہیں اور دوسروں کے لئے روشنی کا مینار بن جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن بھی انہیں میں سے ایک تھے۔

 اپنی نوجوانی کے دن اسامہ نے شہزادے کے مانند گزارے۔ وہ اگر چاہتے تو جدہ میں تعمیر ہونے والی ہزار میٹر اونچی عمارت کے بلند ترین منزل پر اپنا گھر بنا سکتے تھے لیکن جو اپنا گھر جنت میں بناتے ہیں ان کو دنیا کی بلندیاں حقیر معلوم ہوتی ہیں۔ اسامہ بن لادن نے اقبال کے شاہین کی مصداق قصر سلطانی کے گنبد پر نشیمن بنانے کے بجائے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرہ کیا۔ ۱۹۷۹ء  میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کی خبر انہوں نے ریڈیو پر سنی۔ ابتدا میں انہوں نے افغان مجاہدین کا مالی تعاون کیا مگر کچھ عرصے بعد وہ خود اپنی تمام دولت اور ثروت کو چھوڑ کر میدان کارزار کا رخ کیا۔ اسامہ بن لادن نے شیخ عبداللہ عظام اور دیگر مجاہدین کے ساتھ ملکر سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کر دیئے۔ جس وقت وہ روسیوں سے بر سر پیکار تھے مغرب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے مغرب کو چیلنج کیا تو وہ دہشت گرد کہلائے جانے لگے حالانکہ ہر دو صورت میں ان کی جنگ جارحیت کے خلاف تھی۔

افغانستان میں سوویت یونین کو شکست فاش سے دوچار کرنے کے بعد اسامہ وطن واپس لوٹ گئے۔ صدام حسین کے کویت پر حملہ کافائدہ اٹھا کرامریکہ نے ایک طرف عراق پرحملہ کر دیا تو دوسری طرف وہ سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ بنا کر مقدس سرزمین میں داخل ہو گیا۔ تاہم اس موقع پر اسامہ بن لادن نے سرزمین حجاز پر امریکی فوجیوں کی آمد کی مخالفت کی اور عراق کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اسلامی فورس تشکیل دینے کی تجویز پیش کی یہیں سے اسامہ بن لادن کو امریکہ نے اپنا دشمن بنا لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ۱۹۹۲ء میں اسامہ کو اپنا وطن چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔ اسامہ بن لادن نے سرزمین حرمین پر ناپاک امریکی وجود کے خلاف تحریک جاری رکھی اور آخر کار سعودی عرب سے امریکہ کو نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ اسامہ کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔ جو لوگ امت کی ساری تباہی کے لئے اسا مہ بن لادن کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر امریکی فوج سعودی عرب کو اپنا مستقر نہیں بناتی تو یہ اختلاف ہی رونما نہ ہوتا اور اگر اسا مہ اس کے خلاف آواز نہ اٹھاتے تو وہ انخلاء بھی عمل میں نہ آتا۔ اس کے علاوہ عراق سے بھی اس قدر قلیل مدت کے اندر امریکی انخلا میں القاعدہ کے کردار کا انکار ممکن نہیں ہے۔ آئندہ ایک سال کے اندر امریکی وہاں سے نکل جائیں گے ورنہ امریکہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر مزاحمت نہ ہو تو اس کی فوجیں کبھی بھی واپس نہیں ہوتیں جاپان کے اندر دوسری جنگ عظیم کے قائم کردہ فوجی مستقر آج بھی موجود ہیں۔ القاعدہ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے وطن پرستی کے بت کو مسمار کر کے طاغوت کے مقابلے امت کو جسدِ واحد بنا دیا۔

افغانستان کے خوددار طالبان نے جن کے پاس اسامہ نے ۱۹۹۶ء  میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور اب یہ جہاد ویتنام کی جنگ سے طویل ہو چکا ہے۔ آج بھی افغانستان کے بڑے حصے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ ابھی حال میں ۵۰۰ طالبانی مجاہد جیل توڑ کر فرار ہو گئے اور ناٹو افواج ان کا بال بیکا نہ کر سکی۔ وسط جولائی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا آغاز ہونا ہے جو۲۰۱۴ء  میں مکمل ہو جائے گا۔ اس سبکی پر پردہ ڈالنے کے لئے جعلی اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے اپنی سیاسی روٹی سینکنے کی ایک کامیاب کو شش اوبامہ نے ضرور کی ہے لیکن سوڈا واٹر کا یہ ابال کب تک رہے گا یہ تو وقت ہی بتلائے گا۔ انتخاب کو ابھی ڈیڑھ سال کا وقفہ باقی ہے اس وقت تک یہ معاشی ابتری جاری رہی تو اوبامہ کو ایک نیا ناٹک رچانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ جارج بش جس اسامہ کا ہوا کھڑا کر کے اپنے عوام کو دہشت زدہ کرتے رہے اور ان کے ووٹ سمیٹتے رہے اوبامہ نے اس خیالی دشمن کو ختم کر دیا ہے۔ ڈیڑھ سال کے اندر اگر اوبامہ بی جے پی کے بابر کی طرح کوئی اور خونخوار دشمن ایجاد کرنے میں ناکام رہے تو امریکی عوام ان کے دشمن بن جائیں گے اور یہ ساری بازیگری کسی کام نہ آئے گی ایسے میں جوش ملیح آباد ی کا ایک شعر معمولی سی ترمیم کے ساتھ ان پر صادق آ جائے گا ؎

سر کرنے  پھر چلا تھا مہم  انتخاب  کی

ہر سانس میں شکست کی دنیا لئے ہوئے

٭٭٭

 

 

عالمِ  شرق و غرب

 

 

۱۱ ستمبر: گرد چہرے پر جمی تھی آئینہ دھوتے رہے

سرد جنگ کے اختتام پذیر ہونے کے بعد اگر امریکہ جنگ و جدال کے طریقہ کار کو سرد بستہ میں ڈال کر مسلم دنیا سے امن و سلامتی کی بنیاد پر تعلقات استوار کر لیتا تو جارج بش کو ۱۴ ستمبر۲۰۰۱ء  کے دن یہ اعلان کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ ’’یہ اکیسویں صدی کی پہلی جنگ ہے ‘‘۔ قدرت نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کو ایک نادر موقع عنایت فرمایا تھا۔ وہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا نیز اس کے علاوہ دوسری عالمی اسلامی قوت امریکہ کے ساتھ تھی۔ اگر اس وقت امریکی انتظامیہ جنگ و جدال کو سرد خانے کی نذر کر کے اسلامی دنیا کی جانب امن و دوستی کا ہاتھ بڑھاتا تو یہ صدی ساری دنیا کے لئے بشمول امریکہ کے ایک سلامتی و خوشحالی کی صدی بن سکتی تھی لیکن اس نے یہ موقع گنوا دیا اور ایک دہائی کے اندر خود اپنی قبر تیار کر دی جس میں دن بدن زندہ درگور ہوتا جا رہا ہے۔

امریکہ فی الحال جس معاشی بحران کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ جنگی اخراجات ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں ۱۲۸۰ بلین ڈالر اس یکطرفہ جنگ پر خرچ کر چکا ہے ۲۰۲۱ ء تک اخراجات کا تخمینہ ۱۸۰۰ بلین ڈالر ہے۔ اس خطیر رقم میں سے ۶۳ فی صد یعنی ۸۰۶ بلین ڈالر عراق پر خرچ ہوئے جس کا ۱۱ستمبرسے کوئی تعلق نہیں تھا دیگر فوجی اڈوں پر ۲۹ بلین اور افغانستان پر صرف ۴۴۴ بلین یعنی ۳۵ فیصد خرچ ہوا جس کو بلا جواز حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ۶ بلین کا کوئی حساب نہیں ملتا لیکن ان ۱۲۸۰ بلین ڈالر میں کس قدر رقم بلواسطہ یا بلا واسطہ سیاستدانوں اور ان کی حمایت کرنے والے سرمایہ داروں کی تجوری میں چلی گئی اس کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے اس لئے کہ اس پر قومی سلامتی کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے۔ اس دولت کی ریل پیل کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس حکومت کے پاس اپنے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں اپنے بزرگوں کی خاطر صحت کا بجٹ نہیں ہے۔ جس ملک کے خزانے کا رواں رواں قرض کے بوجھ تلے دب گیا ہے وہ آخر اس بے جواز جنگ کو کیوں جاری رکھے ہوئے ہے ؟

مالی خسارے کے علاوہ جو جانی نقصان ہوا ہے اس کی تفصیل رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ ۱۱ستمبر کے حملے میں کل ۲۸۰۰ کے آس پاس لوگ مارے گئے ان کا بدلہ لینے کے لئے جو جنگ چھیڑی گئی اس میں خود امریکی اعتراف کے مطابق ۶۲۰۰ فوجی مارے گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر حکومت اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کی تعداد گھٹا کر بیان کرتی ہے خود امریکہ کے اندر اس بارے میں زبردست راز داری برتی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی اس جنگ میں بے شمار ایسے بے روزگار جنگجو نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں جنھیں فوج میں باقاعدہ شامل نہیں کیا گیا ان مر سی نری(mercenary )کے لئے سرکاری دہشت گرد کے علاوہ کوئی اور اصطلاح مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کی موت و حیات کو ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور ان کی ہلاکت ۶۲۰۰ میں شامل نہیں ہے۔ امریکی انتظامیہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے باقاعدہ ۵۵ ہزار فوجی زخمی ہوئے ہیں اور جو نفسیاتی امراض کا شکار ہوئے وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ عراق میں ان ظالموں نے ۱۲ لاکھ اور افغانستان میں ۲۰ ہزار معصوموں کو شہید کیا۔ پاکستان اور صومالیہ وغیرہ میں ۶۵۰۰ افراد جان بحق ہوئے۔ ہندوستان کے فاضل مبصرین بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا یہ بھی غلط ہے اس دوران ۱۳ بڑے حملے ہوئے جس میں ۱۰۰۰ افراد ہلاک ہوئے۔

اپنے آپ کودنیا بھر کے مظلوموں کا نجات دہندہ کہنے والے امریکہ کا یہ حال ہے کہ وہ خود ۱۱ ستمبر کے حملے میں امدای کام کرنے والے رضا کاروں کے زخموں کا مداوا کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہا۔ ایک حالیہ تحقیقی مطالعہ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ جن ۵۰ ہزار لوگوں نے اس کار خیر میں حصہ لیا تھا۔ دس سال بعد ان میں سے ڈپریشن یعنی مایوسی و بے حوصلگی کا شکار لوگوں کی تعداد ۲۸ فی صد ہے۔ ذہنی دباؤ کا شکار ۳۲ فی صد ہیں اور ۲۱ فیصد لوگ دیگر صحت کے مسائل سے جو جھ رہے ہیں۔ ماؤنٹ سینائی اسکول کے ڈاکٹر جون کے مطابق ان رضاکاروں کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے ۴۸ فیصد استھما اور ۴۳ فی صد دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان رضا کاروں میں سفید فام لوگوں کا تناسب ۵۷ فی صد ہے ان کی اوسط عمر ۳۸ سال ہے۔

امریکی انتظامیہ نے یہ جنگ دو محاذ پرلڑی ایک محاذ پر بندوق، بمبار طیارے اور ٹینک تھے تودوسرے پر کیمرہ، مائک اور قلم تھا۔ ایک کا شکاربیرونی دنیا تھی اور دوسرے کا مخاطب امریکی عوام تھے لیکن پہلے کی طرح دوسرے محاذ پربھی انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پی ای ڈبلیو جو امریکہ کا نہایت معتبر ادارہ ہے اس کے جائزے کے مطابق رائے عامہ بدل رہی ہے۔ دس سال قبل جب لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا حملہ اس لئے ہوا کہ ہم نے کوئی غلطی کی ۵۵ فی صد نے اس کا انکار کر دیا تھا لیکن اب ۴۳ فی صد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس حملے کی وجہ امریکہ کی اپنی غلطیاں ہیں اور ۴۵ فی صد اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اس میں بھی تقسیم پارٹی لائن پر ہے ڈیموکریٹ اور غیر جانبدار افراد اس کے لئے امریکی جرائم کو ذمہ دار گردانتے ہیں جب کہ ری پبلکن اس کے لئے امریکہ کو ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ یہ وہی ہٹ دھرمی ہے جو ہندوستان کے سنگھیوں میں پائی جاتی ہے جن کی آنکھوں پر عصبیت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ پہلے ۵۵ فیصد یہ کہتے تھے کہ حملے کے بعد امریکہ کا اقدام درست تھا اب ایسا سمجھنے والوں کی تعداد گھٹ کر ۴۰ فی صد تک جا پہنچی ہے خاص بات یہ ہے کہ نوجوان طبقے نے امریکی اقدام کو غلط قرار دیا ہے۔ اس سروے کے مطابق ۶۰ فی صد لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں ۱۱ ستمبر کے حملے نے امریکی طرز زندگی کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے گویا دھیرے دھیرے حقائق سامنے آرہے ہیں اور شاعر کی بات سچ ہو رہی ہے ؎

کس سلیقے سے متاعِ ہوش ہم کھوتے رہے

گرد  چہرے   پر جمی  تھی  آئینہ  دھوتے رہے

اس تبدیلی کی سب سے بڑی قیمت مسلمانوں نے چکایا ان کو ہراساں کرنے کی بے شمار کوششیں کی گئیں۔ مختلف انداز میں انہیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ اس سال عید کے بعد نیویارک کے ایک تفریحی پارک میں جب مسلمان خاندان پہنچے تو کئی مقامات پر ان کی خواتین سے حجاب ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور انکار کرنے پر انہیں فیس واپس لے کر نکل جانے کے لئے کہا گیا۔ اس ناروا سلوک کے خلاف کچھ لو گوں نے احتجاج کیا تو ان میں سے ۱۵ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور پارک کو وقتی طور پر بند کر دینا پڑا۔ مسلمان امریکہ میں کس قدر رسوا کئے گئے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ۳۵ فی صد مسلمان اب امریکہ کو ترجیحی ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔

 افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے سے زیادہ سنگین معاملہ ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا ناپاک وجود ہے۔ اگر امریکہ اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا تو ۱۱ ستمبر کا حملہ کبھی بھی نہیں ہوتا لیکن اس نے اس معاملے میں دو رخی برتی۔ اسرائیل کی نہ صرف ہر طرح سے حمایت کی بلکہ اس کے جرائم میں بذاتِ خود شریک ہو گیا اور تو اور فلسطینیوں کے حامی مصر کو توڑ کر اپنے ساتھ کر لیا اور اسے اپنے بھائیوں کے بجائے اپنے دشمن کا ہمنوا بنا دیا۔ اس کے بعد فلسطینی آزادی کے رہنما یاسر عرفات کو اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کر دیا اور انہیں ہر طرح سے رسوا کر کے ان کی جگہ اپنے زر خرید پٹھو محمود عباس کو بٹھا دیا۔ اس طرح فلسطینیوں کو چہار جانب سے گھیر لیا گیا اس کا ردِ عمل وہی ہوا جو اس بلی کا ہوتا ہے جسے مارنے سے پہلے نکاسی کے سارے راستے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بلیّ حملہ آور کے ہاتھ پر نہیں بلکہ چہرے پر جھپٹ پڑتی ہے اور یہی ہوا ورلڈ ٹریڈ سنیٹر امریکہ کا تشخص تھا اس کی پیشانی پر چمکتا ہوا تارہ تھاجو دیکھتے دیکھتے ڈھیر کر دیا گیا اور اسی کے ساتھ ایک اور سپر پاور کا سورج زوال پذیر ہو گیا۔

امریکہ کے تحقیق و تفتیش کے ادارے نے دس سال بعد ۱۱ ستمبر پر اپنی رپورٹ کا خلاصہ پیش کیا اس کے مطابق امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی نے دوسرے جہاز کو مار گرانے کا حکم دیا تھا جسے ماننے سے فوج نے انکار کر دیا۔ اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ حملے کے بعد ایک زبردست افراتفری کا ماحول تھا اور کسی کو یہ پتہ نہ تھا کہ وہ کہ کیا کر رہا ہے گویا اس طرح کے حملے کا مقابلہ کرنے کی کوئی تیاری تھی اور نہ ہی منصوبہ تھا۔ اس کے باوجود حملے کے بعد اس کا سیاسی فائدہ بڑی خوبی کے ساتھ اٹھایا گیا اوراس کے پسِ پردہ دنیا بھر میں جی بھر کے تباہی مچا ئی گئی۔ بے وقوف آدمی کی پیشانی پر احمق نہیں کھدا ہوتا اس کے اعضاء و جوارح بھی عقلمند جیسے ہی ہوتے ہیں دونوں کے اندر عقل موجود ہوتی ہے لیکن فرق اس کے استعمال سے پڑتا ہے۔ عقلمند دوسروں کی غلطی سے عبرت حاصل کر کے خود کو سنبھال لیتا ہے۔ امریکہ سوویت یونین کے انجام سے سبق سیکھ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معمولی بے وقوف اپنی حماقت سے ہوشیار ہو کر اصلاح کی جانب مائل ہو جاتا ہے لیکن ۱۱ستمبر کے حملے کے بعد وہ بھی نہ ہوسکا۔ مہا بے وقوف اس طرح پہچانا جاتا ہے کہ وہ اپنی حماقت کی بے جا توجیہ  کرتا ہے۔ اس پر اصرار کر کے یکے بعد دیگرے حماقت کرتا چلا جاتا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے گزشتہ دس سالوں میں یہی کیا اور بالآخر نشانِ عبرت بن گیا۔ ۱۱ ستمبر کا پیغام یہی ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے دس سال قبل اس صدی کی جس جنگ کا اعلان کیا تھا اس میں امریکہ شکستِ فاش سے دوچار ہو چکا ہے۔

٭٭٭

 

 

وہ آ ئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

(قسط اول)

سرزمینِ ہند پر صدر براک اوبامہ کی آمد آمد ہے۔ اوبامہ نے صدارت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کو قصرِ ابیض میں پہلا مہمان بنایا تھا اور اب وہ خود مہمان بن کر تشریف لا رہے ہیں ایسے میں غالب کا مشہور مصرع ’وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے ‘ بے ساختہ یاد آتا ہے۔ شاعر نے نہ جانے کس کے لئے یہ شعر کہا تھا ؟ لیکن فی الحال صدر اوبامہ کے حالیہ دورے پر یہ پوری طرح چسپاں ہو گیا ہے۔ ’کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں ‘ان کیسا تھ ساتھ گھرکو دیکھنا ا س لئے بھی ضروری ہے کہ امریکی صدور کے منحوس قدم جن گھروں میں پڑتے ہیں ان کا نقشہ بہت جلد بدلنے لگتا ہے۔ مثلاً پاکستان جو کبھی امریکہ کا منظورِ نظر تھا لیکن اس بار صدر صاحب نے اس سے کنی کاٹ لی اس لئے کہ اب اس گھر میں دیکھنے جیسا کچھ بھی نہیں بچا سب کچھ تباہ و برباد کر دیا گیا۔ افغانستان جس کو اوبامہ نے انتخابی مہم کے دوران خوب اچھالا تھا اور بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے وہ بھی اچانک ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیاہے۔

صدر صاحب نے پاکستان کا قصد کیوں نہیں کیا ؟اس سوال پر سیاسی مبصرین خوب اٹکلیں لگا رہے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جمہوری اقدار مشترک ہیں اس لئے ان کے درمیان اشتراکِ عمل فطری امر ہے لیکن ہندوستان میں جمہوریت ابھی نئی نہیں آئی بلکہ اس وقت بھی پائی جاتی تھی جبکہ ہم سوویت یونین کے ہمنوا ہوا کرتے تھے لیکن اس وقت ہماری جمہوریت کے اندر کوئی کشش امریکی انتظامیہ کو نہیں دکھلائی دیتی تھی بلکہ اس وقت پاکستان کے فوجی آمر اور چین کی اشتراکی حکومت امریکہ کو ہم سے بھلی معلوم ہوتی تھی۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے وہ ایک ضرورت تھی اور اب چین پر لگام لگانے کے لئے ہندوستان کا ساتھ ضروری ہو گیا ہے۔ ہند امریکی تعلقات میں گرم جوشی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اگر اوبامہ واقعی جمہوریت نواز ہوتے تو وہ گزشتہ سال اسلامی ممالک کے اپنے دورے کا آغاز سعودی عرب سے نہ کرتے جہاں باقاعدہ ملوکیت ہے اور پھر مصر نہ جاتے جو جمہوریت کا سب سے بڑا مذاق ہے۔

صدر اوبامہ کے عراق سے لے کر پاکستان تک کے سارے علاقہ کو نظر انداز کرنے کی سب سے بڑی وجہ خوف ہے۔ اس خوف کو ایک آسان سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سال کے آغاز میں متحدہ عرب امارات کی ایک ریاست راس الخیمہ میں کشتی رانی کا ایک بین الاقوامی مقابلہ ہونا تھا جسے آخری وقت میں اسپین منتقل کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ امریکہ کی جانب سے کیا جانے ولا اعتراض تھا۔ بیان کی جانے والی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہاں طالبان یا القاعدہ جیسا کوئی گروہ سر گرمِ عمل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات امریکہ سے کہیں زیادہ محفوظ اور پر امن علاقہ ہے۔ یہاں پر عام جرائم کی شرح نہیں کے برابر ہے۔ راس الخیمہ میں دہلی کی طرح ڈینگو اور ملیریا وغیرہ کا بھی کو ئی خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی بد عنوانی کی بنیاد پر تعمیر کئے گئے پلوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ تھا۔ امریکی انتظامیہ کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ یہ مقام ایران سے محض ۶۰ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے اس لئے ہم وہاں جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ امریکی عوام کی طرح ان کے نمائندے یعنی حکمران بھی اپنی تمام تر دیدہ دلیری کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ بزدل افراد ہوتے ہیں۔ اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج کی موجودگی کے باوجود صدر بش نے جس طرح خفیہ انداز میں بغداد کا پہلا دورہ کیا تھا وہ سب کو یاد ہے۔ لیکن جاتے جاتے کسی نے انہیں علیٰ الاعلان عراق جانے کا مشورہ دے دیا اور پھر وہ جو تاجو تاریخ کا حصہ بن گیا اسے بھلا کون بھول سکتا ہے نہ بش، نہ اوبامہ اور نہ باقی دنیا۔

 افغانستان میں اوبامہ کے سارے منصوبے ملیامیٹ ہو چکے ہیں اور امریکی وہاں سے عراق ہی کی طرح فرار کا باعزت راستہ تلاش کر رہے ہیں اور ان کا پٹھو کرزئی اپنی جان کی امان طالبان سے طلب کرنے پر مجبور ہو گیا ہے ایسے میں اوبامہ کیا منہ لے کر وہاں جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ایک نازک مرحلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ اوبامہ کی حماقت ہے۔ افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر امریکیوں نے پاکستان پر ڈرون حملہ شروع کر دیا اور پھر گزشتہ ماہ ناٹو فوجیوں نے سرحد پر حملہ کر کے پاکستانی فوجیوں کو بھی ہلاک کر دیا اس طرح پانی سر سے اونچا ہو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ بزدل پاکستانی حکمرانوں کو عوام کے دباؤ میں آ کر سرحد بند کرنا پڑا۔ پاکستانی حکام نے اس کا جواز امریکہ کے ذریعہ لگائے گئے الزام سے نکالا جس میں کہا گیا تھا حملہ کی وجہ مجاہدین کا اٖفغانستان سے پاکستان میں گھس جانا ہے۔ پاکستان نے جواباً کہا اگر ایسا ہے تو سرحد کو بند ہو جانا چاہئے۔ سرحد کے بند ہوتے ہی امریکی ایندھن و خورد و نوش کی سپلائی بند ہو گئی نیز پاکستان میں پھنسے ہوئے مال بردار ٹرکوں کو آگ لگانے کا کام شروع ہو گیا۔ لاکھوں ٹن اشیاء جلا کر خاک کر دی گئیں اور امریکیوں کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ امریکیوں کو معافی طلب کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس کے بعد ہی دوبارہ سرحدی چوکیوں کو کھولا گیا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ماں کوئی کڑوی دوا پلانے کی خاطر منہ بند کرنے والے بچہ کی ناک دبا دیتی ہے اور بچہ روتا چلاتا کڑوی دوائی کو نگل جاتا ہے۔

افغانستان کی صورتحال فی الحال امریکیوں کے لئے ایک ایسا ناسور بن چکی ہیں کہ جس کا علاج ناممکن ہے اس طرح کی بیماری اپنے ساتھ مریض کو یوں پیار سے لیکر جاتی ہے کہ وہ پھر لوٹ کرواپس نہیں آتا۔ لیکن افسوس کہ عادی نشہ بازوں کی طرح کوئی اپنے پیش رو سے عبرت نہیں پکڑتا۔ نہ سوویت یونین نے برطانیہ سے سبق سیکھا تھا اور نہ امریکا نے سوویت یونین سے ہی کچھ سمجھا۔ اب سنا ہے امریکہ بہادر ہندوستان کو اپنا وارث بنا کر افغانستان سے رفو چکر ہونا چاہتا ہے اور یہ صدر اوبامہ کے دورے کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے۔ ویسے جن افغانیوں نے تین سپر پاورس کے چھکے چھڑا دئیے وہ ہندوستانی فوج کا کیا حشر کریں گے یہ جاننے کے لئے کسی نجومی کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی ماہرین ہندوستانی حکومت کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ افغانستان میں اپنے قدم جمانے سے وہ پاکستان کو دونوں جانب سے گھیر سکتا ہے لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہندوستان اور امریکہ کی سرحدیں تو افغانستان سے نہیں ملتیں لیکن چین اور پاکستان کی ضرور ملتی ہیں اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری فو جیں ان دونوں کے درمیان گھر کر رہ جائیں۔ ویسے ہندوستان کے پاس داخلی مسائل کی کوئی کمی نہیں جو خارجی مسائل کو دعوت دی جائے۔ ملک میں نکسل وادیوں نے ایک بڑے حصہ پر اپنی حکومت قائم کر رکھی ہے اور کشمیری نوجوان اگر اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھاتے ہیں تو ہم بو کھلا کر گولی چلانے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے شہید ہونے والے معصوم نوجوان امریکہ کو نظر نہیں آتے لیکن اس سے حقیقت نہیں بدل جاتی ’ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ‘ اور ظلم تو اسی وقت مٹتا ہے جب ظالم صفحۂ ہستی سے مٹ جائے یا اپنے رویہ سے باز آ جائے۔

امریکہ کی ہندوستان میں غیر معمولی دلچسپی کی ایک وجہ ہندوستان کی معاشی خوشحالی بتائی جاتی۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی شرح پیداوار ماضی قریب میں ہندوستان سے بہتر رہی ہے اور آئندہ بھی اس کے جاری رہنے کا قیاس لگایا جا رہا ہے ایسے میں اگر معاشی مفادات فیصلہ کن ہوتے تو چین کو سبقت حاصل ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں پیداوار کے بالمقابل کھپت کا زیادہ ہونا ہے گویا قومی سطح پران کی آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہے اس لئے قومی خسارہ ایک لاکھ ۳۶ ہزار کروڑ ڈالر تک پہونچ گیا گویا ہر امریکی شہری فی الحال ۴۴ ہزار ڈالر کا مقروض ہے اوراس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے امریکی حکومت قومی بانڈ فروخت کرتی ہے اور ان بانڈس کا سب سے بڑا خریدار چین تھا اس نے ایک سال قبل ۳۴۰۰ کروڑ کے امریکی بانڈس فروخت کر کے ایک کھلبلی مچا دی اس کے باوجود اس کے پاس ہنوز ۷۵۵۴۰ کروڑ کے بانڈس موجود ہیں جاپان کے پاس اس سے بھی زیادہ بانڈس ہیں اس طرح امریکی معیشت دن بدن چین و جاپان کے شکنجہ میں جکڑتی جا رہی ہے اور آج اگر چینی حکومت اپنے تمام امریکی بانڈس کو بازار میں لے آئے تو امریکہ کا عزت و وقار کوڑیوں کے بھاؤ بک جائے گا اس لئے امریکہ چین کو فوج کے ذریعہ ڈرا کر رکھنا چاہتا ہے لیکن چین جاپان کی طرح کوئی نامرد ریاست نہیں ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد خصّی کر دیا گیا تھا۔ چین پر دباؤ ڈالنے کی خاطر امریکہ ہندوستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن ہندوستان کو اپنی خدمات پیش کرنے سے قبل ان لوگوں کا انجام ضرور دیکھ لینا چاہئیے جنھوں نے ماضی میں اس طرح کے تعاون سے نوازا تھا۔

 صدام حسین کو امریکہ نے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ دس سال تک جنگ جاری رہی امریکہ خوب زور و شور سے مدد کرتا رہا لیکن جب جنگ ناکامی پر ختم ہوئی تو اسلحہ کا بل بھیج دیا اور ادائیگی کے لئے دباؤ ڈالنے لگا۔ جب عراق نے قرض ادا کرنے کے لئے تیل کی قیمت میں اضافہ کے پیشِ نظر پیداوار میں کمی کی تو اپنے ہمنوا کویت کی مدد سے اس کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ جب عراق نے کویت کو سبق سکھانے کی خاطر اس پر حملہ کیا تو نہ صرف صدام کو کھدیڑ دیا گیا بلکہ اس پر معاشی پابندیاں لگا کر دس سالوں تک کمزور کیا گیا اور بالآخر جارج ڈبلیوبش نے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت میں اضافہ کر کے انتخابی کامیابی حاصل کرنے کی خاطر نہ صرف صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل کیا بلکہ اسے تختہ دار تک پہونچا دیا۔ اس سیاسی بازی گری میں عراق کے لاکھوں معصوموں نے جانیں گنوائیں اور کروڑوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسری مثال پاکستان کی ہے جو دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ساتھ کیا ہوا کہ خود دہشت گردی کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان کو امریکہ کے ساتھ اپنی پینگیں بڑھانے سے قبل اس راہ کے پیش رو مسافروں کا انجام دیکھ کر اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اس لئے کہ غالب کا مصرع ’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘ اگر کسی پر صادق آتا ہے تو وہ امریکہ بہادر ہی ہے۔

غریب و مفلس عوام کی بنیادی ضرورت روٹی کپڑا اور مکان ہوتی ہے لیکن امیر کبیر لوگوں کے پاس ان اشیا کی فراوانی ہوتی ہے ان کی ضروریات زندگی سیرو تفریح، کاروبار و تجارت اور عبادت و ریاضت پر مشتمل ہوتی ہے۔ صدر اوبامہ کے ہندوستان میں قیام کا پروگرام اس حقیقت کا مظہر ہے۔ وہ دہلی کے بجائے ممبئی تشریف لائیں گے اور سیرو تفریح کی خاطر ہوٹل تاج میں قیام کریں گے۔ یہ وہی مشہور زمانہ مقام ہے جہاں دوسال قبل حملہ ہوا تھا۔ دوسرے دن وہ تجارت کے فروغ کی غرض سے ہوٹل ٹرائیڈنٹ میں سرمایہ کاروں سے ملاقات کریں گے۔ یہ عمارت بھی دہشت گردوں کے حملہ کا شکار ہوئی تھی۔ بہتر ہوتا کہ صدر اوبامہ اپنے دورے کے دوران یہودیوں کے نریمان ہاؤس میں موجود مرکز شبد بھی جاتے جہاں دہشت گرد وں نے حملہ سے قبل قیام کیا تھا اور وہاں کچھ وقت عبادت و ریاضت میں گذارتے تاکہ امریکی آشیرواد سے کئے گئے حملہ کا معائنہ تکمیل پذیر ہو جاتا۔ صدر اوبامہ دہلی میں جا کر پہلے راشٹر پتی بھون جائیں گے پھر گاندھی جی کی سمادھی پر پھول چڑھائیں گے واپس آ کر وزیرِ اعظم سے ملاقات اور بالآخر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو خطاب یہ گویا اصل سیاسی سرگرمیاں ہیں جن کے لئے ان کا دورہ ہونے والا ہے۔ صدر اوبامہ کے دہلی جانے سے قبل ممبئی آنے کی واحد توضیح یہ بیان کی جاتی ہے کہ امریکی صدر ہندوستانیوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہندوستان کے ساتھ ہیں اور رچرڈ کولمن ہیڈلی کے مطابق چونکہ اس حملہ میں پاکستان ملوث ہے اس لئے اس پر دباؤ ڈالیں گے۔ لیکن یہاں دو اہم سوال پیدا ہوتے ہیں اولاً آیا ہیڈلی اس حملہ میں شامل تھا یا نہیں ؟ثانیاً یہ کہ آخر یہ ہیڈلی ہے کون؟

پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ وہ یقیناً اس حملہ میں شامل ہے اسی لئے کہ تفصیلات بیان کرنے کے لئے اسے اس امر کا اعتراف کرنا پڑا۔ دوسرے سوال کا جواب بھی سب جانتے ہیں رچرڈ ہیڈلی امریکہ کی بدنامِ  زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ اب اگر ممبئی کا حملہ امریکی ایجنٹ کے ذریعہ کروایا گیا تو کیا اس کا سوتردھار امریکہ نہیں ہوا؟ امریکی انتظامیہ کے مطابق وہ ڈبل ایجنٹ تھا۔ پہلے سی بی آئی کا اور پھر لشکر کا۔ اگر اس جھوٹ کو بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ لشکر کے اس ایجنٹ کو اپنی جیل میں کیوں پال رہا ہے ؟ وہ اسے اپنے دوست ہندوستان کے حوالے کیوں نہیں کرتا ؟ تاکہ اجمل قصاب کے ساتھ اسے بھی قرارواقعی سزا سنائی جائے۔ امریکی صدر وزیرِ اعظم من موہن کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کو خطاب کریں گے جس کا ایک موضوع یقیناً دہشت گردی ہو گا ایسے میں کیا رچرڈہیڈلی سے متعلق یہ سوال صدر اوبامہ سے نہیں کیا جانا چاہئے ؟ لیکن کیا دنیا کی سب بڑی جمہوریت میں کوئی صحافی ایسا کرنے کی جرأت کر سکے گا؟ اور اگر کسی نے پوچھ لیا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی یقین دہانی سے قبل امریکہ خود رچرڈ ہیڈلی کو ہندوستان کے حوالے کرے۔ تو اس بیچارے کا انجام کیا ہو گا ؟ اگر رچرڈ ہیڈلی ہندوستان آ جاتا ہے اور کوئی غیرجانبدار ادارہ اس کی تفتیش کرتا ہے تو یقیناً ممبئی حملہ میں امریکہ کا رول واضح ہو جائے گا نیز ہیمنت کرکرے کے قاتلوں کا سراغ بھی اپنے آپ لگ جائے گا لیکن کیا کبھی ایسا ہو گا؟

صدر براک اوبامہ کا دورۂ ہندسرمایہ دارانہ جمہوریت کے طلباء کے لئے اس نظام کے خدوخال کو سمجھنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ امریکی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ فی صد ہے لیکن غیر سرکاری ذرائع اس کے ۱۵ فی صد سے تجاوز کی تصدیق کرتے ہیں۔ حالیہ نصف مدتی انتخاب میں براک اوبامہ نے رائے دہندگان کو بہلانے کی خاطر اس موضوع کو اچھالا اور ‘ آوٹ سورسنگ’ (یعنی امریکی کمپنیوں کا ہندوستان میں موجود تجارتی اداروں سے کام لینا ) کی مخالفت کی لیکن اب وہ انتخابی دور ختم ہو گیا ہے اور رائے دہندگان کے بجائے ان سرمایہ داروں کو خوش کرنے کا موقع آگیا ہے جن کے مالی تعاون سے انتخابات لڑے جا رہے تھے۔ آوٹ سورسنگ کا سیدھا نقصان امریکی عوام کو ہوتا ہے لیکن اس سے براہِ راست فائدہ امریکی سرمایہ داروں کا ہوتا ہے اس لئے کہ ایسا کرنے سے ان کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں اور منافع بڑھ جاتا ہے۔ اس آوٹ سورسنگ سے ہندوستانی عوام، یہاں کے صنعت کار اور حکومت تینوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ عوام کو روزگار مل جاتا ہے۔ صنعت کار اپنی دلالی کماتے ہیں اور وہ کس قدر ہوتی ہے اس کا اندازہ ستیم کے گھپلے میں سامنے آچکا ہے، حکومت عوام اور سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور سرکاری خزانہ مالامال ہوتا ہے۔ عوام جب اس کمائی کو خرچ کرتے ہیں تو تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور اس سے بھی حکومت کو ٹیکس ملتا ہے۔ اس لئے آوٹ سورسنگ میں امریکی عوام کے علاوہ بقیہ تمام اندرونی و بیرونی فریقوں کا فائدہ ہے۔ صدر براک اوبامہ چونکہ جمہوریت کے حوالے سے امریکی عوام کے نمائندے ہیں اس لئے انہیں اپنے عوام کے مفاد کو ترجیح دینا چاہئیے لیکن جمہوری نظام میں یہ عمل صرف نظری سطح پر ہوتا ہے عملی سطح پراس کی نوبت نہیں آتی۔ اس لئے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے نت نئے طریقہ ایجاد کئے جا چکے ہیں۔ صدر اوبامہ آوٹ سورسنگ کے مسئلہ کو اٹھا کر ہندوستانی حکومت یا اپنے اوپر احسان کرنے والے امریکی سرمایہ داروں کو ناراض کرنے کی حماقت ہر گز نہیں کریں گے بلکہ اس مسئلہ سے مالی فائدہ اٹھانے کی کو شش کریں گے۔ یہی ساری دنیا کے جمہوری رہنماؤں کا شعار ہے۔ اسی لئے وہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کی دیکھ بھال اور پرورش کرتے ہیں نیز اگر وہ موجود نہ ہوں تو انہیں پیدا کرتے ہیں۔

ہندوستان کے خزانہ میں جو کثیر سرمایہ جمع ہو رہا ہے اس کے حقدار یہاں کے غریب عوام ہیں جن سے ووٹ لیکر خزانہ کی امین حکومت قائم ہوتی ہے لیکن اگر یہ جمہوری حکومت اس سرمائے کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے تو اس سے ہونے والی بد عنوانی محدود ہوتی ہے۔ اس میں کئی حصہ دار پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کا پردہ فاش ہونے کا امکان بھی موجود ہوتا ہے جیسا کہ آجکل دولتِ مشترکہ کھیلوں کے حوالہ سے ہنگامہ برپا ہے، ایسے میں بدعنوانی کا سب سے محفوظ راستہ دفاعی اخراجات پر ہونے والا خرچ ہے اس لئے کہ اسے قومی مفاد کے تحت صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے اور ا س پر اعتراض کرنے والے کو قوم کا دشمن بلکہ غدارِ وطن ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں خاص طور پر ممبئی حملہ کے بعد ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ امریکہ کے پاس بیچنے کے لئے فی الحال اسلحہ سے بہتر کو ئی اور شئے نہیں ہے اس لئے امریکی صدر ہندوستان کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ امریکی عوام کو محروم کر کے جو رقم ہندوستان نے کمائی ہے اس کے فوائد سے ہندوستان کے غریب عوام کو محروم کر کے ہندوستانی و امریکی سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کی جیب کو بھرا جا سکے۔ دنیا کی سب سے عظیم او ر وسیع ترین جمہوریت کے سربراہ ممبئی اور دہلی میں یہی کریں گے اور عوام بیچارے ٹیلی ویژن کے پردے پر ان کے ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھ کر خوش ہو ں گے اور ان کی منافقانہ دروغ گوئی پر سر دھنیں گے۔ بقول شاعر ؎

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے      اہلِ     کرم      دیکھتے     ہیں

ملک کے نامور صحافی اور دانشور حضرات صدر اوبامہ اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کی اس ملاقات کو جمہوریت کی عظیم کامیابی قرار دیں گے اس لئے کہ اس جمہوری نظام نے بے یار و مددگار عوام کے ذہنوں پر جس طرح قفل ڈال رکھا ہے بے بس صحافیوں کے قلم کو بھی اپنے پاس رہن رکھ لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

تشکر: مصنف جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ اول

حصہ سوم