FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سرکتے راستے

افسانے

محمد جاوید انور

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل


ای پب فائل 

کنڈل فائل

دروازہ

"کہہ دیا نا میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔”

اس کے لہجے میں مایوسی، تلخی اور احتجاج سب ملے ہوئے تھے۔

آج جب وہ پاؤں گھسیٹتا، سر جھکائے، ملگجے لباس اور بڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ سڑک کی طرف کا جالی دار دروازہ آہستگی سے کھول کر اپنے پسندیدہ کونے تک پہنچا تو میں بھی وہیں جابیٹھا۔

وہ مجھے دیمک زدہ خستہ شہتیر نظر آیا جو اپنے اوپر لدی چھت سمیت کسی بھی وقت کڑکڑا کر گرنے والاہو۔

سڑک کی طرف کھلنے والا دروازہ جس سے وحید ارشد حسب معمول برآمد بلکہ درآمد ہوا تھا دہرا دروازہ تھا۔ ایک لکڑی کے فریم کا شیشوں والاپٹ اور اس کے اوپر دہرا جالی دار پٹ۔

یہ دروازہ گویا شہر اور اہلیان شہر کو ہمارے گوشۂ علم و ادب تک براہ راست رسائی دیتا تھا۔

"مگر لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ آپ تو اتنا اچھا لکھتے تھے۔ زندگی کی کہانیاں۔ اصلی کہانیاں۔ حقیقت سے قریب۔”

میرے لہجے میں گہری تشویش در آئی۔

میں اس شب گزیدہ چراغ کی گزری ضوفشانیوں کا شاہد اور شیدا تھا۔

وحید ارشد میرے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں سے ایک تھا۔ گہرا مشاہدہ، موضوعاتی تنوع، انسانی نفسیات کا ادراک اور بہترین اسلوب۔

میں نے وحید ارشد کے افسانوں کے دونوں مجموعے پڑھ رکھے تھے اور اس کی کہانیوں کا منتظر رہتا تھا۔

ریلوے اسٹیشن کا چائے خانہ، جس کا ایک دروازہ ریلوے اسٹیشن کے اندر پلیٹ فارم سے منسلک برآمدے میں اور دوسرا باہر مصروف سڑک کے کنارے کھلتا تھا اس کا پسندیدہ ٹھکانا تھا۔

یہ چائے خانہ حقیقت میں ہمارے شہر کا "پاک ٹی ہاؤس” بلکہ شاید اس سے بھی کچھ بڑھ کر تھا۔ اس تیس پینتیس مربع فٹ کمرے میں شہر بھر کے صحافی، ادیب، دانشور، سیاستدان اور فنکار چائے پینے اور گپ شپ لگانے آتے تھے۔ ادبی، ثقافتی، سیاسی حتیٰ کہ سماجی بیٹھکوں کے لیے بھی اسی چائے خانہ کا انتخاب کیا جاتا۔

کمرے کے وسط میں ایک بڑی، بہت بڑی، گول میز تھی جس پر بے تحاشا لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ اس گول میز پر سبز رنگ کی پلاسٹک شیٹ بچھائی گئی تھی۔ درمیان میں مستقل نوعیت کے ظروف جیسے نمک دانیاں، شکر دانیاں، خلال دانیاں اور کیچپ کی بوتلیں پڑی رہتیں۔ میز کے گرد دس بھاری کرسیاں بچھی تھیں۔ تین مزید میزیں کمرے کے تینوں کونوں میں رکھی گویا اسی بڑی میز کی چھوٹی ہم شکل بہنیں تھیں۔ ہر ایک چھوٹی میز کے گرد چھ افراد کرسیاں سنبھال سکتے تھے۔ مسافر خال خال ہی اس چائے خانہ میں بیٹھتے، بس مستقل گاہک یہی افراد تھے جن کا ذکر ہوا ہے۔

میں ویسے تو پچھلے سات سال سے اس چائے خانہ کا جزو لاینفک، مالک اور منیجر تھا لیکن میری اصل یعنی دفتری حیثیت "ٹی روم کنٹریکٹر” (چائے خانہ کے ٹھیکیدار) کی تھی۔ مجھے آم کھانے سے غرض تھی اور میرے ملے جلے پیڑ میری بری بھلی شکم سیری کو کچا پکا پھل مہیا کر ہی رہے تھے۔

فراوانی نہیں تھی لیکن گزارا ہو رہا تھا۔

وحید ارشد سیاہی مائل گندمی رنگت کا منحنی سا انسان تھا۔ چیچک کے خال خال داغ اس کے انتہائی سنجیدہ اور کرب ناک حد تک غمگین نظر آتے چہرے کو دلچسپ بناتے تھے۔ وہ کہنے کو تو بلدیہ میں کلرک تھا لیکن اس کی زندگی کا عشق افسانہ نویسی تھا۔

"افسانہ لکھنا کیوں چھوڑ دیا ارشد بھائی؟ آپ تو اتنا اچھا لکھتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔ اب تو آپ کی تیسری کتاب کا بھی تذکرہ سن رہے تھے۔”

میں نے حیرت کا اظہار کیا۔

"لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ساجد صاحب! مجھے کیا دیا ہے اس لکھنے نے۔ وقت ضائع کرتا ہوں۔ چھوٹی موٹی نوکری ہے۔ ہمیشہ ایسی پوسٹ پر لگتا ہوں کہ رشوت وغیرہ کے چکر سے بچ جاؤں۔ کچھ گھر کی تربیت ایسی تھی باقی آپ کے ان ادبی دوستوں نے دماغ خراب کر دیا۔”

رائٹر حساس ہوتا ہے۔ ادیب معاشرے کا ضمیر ہے۔ اور نہ جانے کیا کیا!!

سوچتا ہوں کچھ غلط کیا تو لوگ کہیں گے کہ لو جی بڑا افسانے لکھ رہا تھا۔ اب حرام خوری پر اُتر آیا ہے۔ لکھتے لکھاتے اَنا ویسے بھی سر چڑھ جاتی ہے۔ جی میں وحید ارشد ہوں۔ افسانہ نگار۔ ادبی پرچوں میں چھپنے اور ادبی حلقوں میں بیٹھنے والا۔

صبح گھر سے بیوی کی چخ چخ سنتا نکلتا ہوں اور وہ دکھیاری بھی کیوں چخ چخ نہ کرے۔ انٹر میں تھی کہ میرے افسانوں کے چکر میں لپیٹی گئی۔ اچھی خاصی اپنے چچا زاد سے منگنی کرا کر بیٹھی تھی اور وہ تھا بھی دبئی میں الیکٹریشن۔ وہ دبئی آج والا دبئی نہیں تھا۔ ان دنوں دبئی میں ہونا بڑے معنی رکھتا تھا۔ ویزے کا حصول آسان نہیں تھا اور غیر ملکی ہنر مندوں کی تنخواہیں بہت تھیں۔ ابھی بے قدری کا دور نہیں آیا تھا۔ اس کا باپ، یعنی میرا سسر، پرائمری ٹیچر تھا اور پڑھنے کا بہت شوقین۔ پتا نہیں کدھر سے ادبی جرائد لایا جو اس کرموں ماری کے ہاتھ لگ گئے۔ محلے کا معاملہ تھا۔ اپنی گلی کے وحید ارشد اتنے نامور کہانی کار تھے۔ ماری گئی بے چاری۔

ہماری سائیکل پاس سے گزرتی تو اس کی کاپی سے رقعہ گرتا۔ اس رقعے کے مندرجات کا ذکر میری اگلی کہانی میں حیلے بہانے سے ہو جاتا۔ لفظوں سے کھیلنا میرا کام تھا۔ بے چاری باپ سے بھڑ گئی کہ لطیف الیکٹریشن کو گولی ماریں وحید ارشد صاحب کے گھر اماں کو بھیجیں۔ ورنہ چوہے مار گولیاں کھا کر آپ کی اکلوتی بیٹی کو پار لگاتی ہوں۔ شریف استاد اور اس سے بڑھ کر ادب کا رسیا۔ فوراً مان گیا۔ باپ نے پرانا رشتہ توڑا اور بیوی کو آگے لگا نیا جوڑنے آ گیا میرے گھر۔ مجھ ناکارہ کو کوئی پوچھ نہیں رہا تھا۔ میرے گھر والوں نے ایک لمحہ ضائع نہیں کیا اور راحیلہ بی بی بیگم وحید ارشد بن گئیں۔  اب تک بھگت رہی ہیں۔

بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔

خیر صبح نکلتا ہوں تو دور تک پیچھے بچوں کی اور ان کی ماں کی آوازیں آتی ہیں۔

کتاب نہیں، کاپی نہیں، فیس نہیں، وردی نہیں اور یہاں تک کہ گھی نہیں، شکر نہیں، دال نہیں، دودھ نہیں۔

سائیکل بھگاتا ہوں کہ دور نکلوں تو آوازیں کم ہوں لیکن بھن بھناہٹ دفتر تک ساتھ جاتی ہے اور دن بھر گاہے گاہے دفتر میں بھی آ پہنچتی ہے۔

یہ آوازیں ہولناک تصوراتی ہیولے بن کریوں میرے پیچھے لگ جاتی ہیں جیسے باؤلے کتے۔ "

میں نے اپنی کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب کر لی۔ مجھے یہ کتھا یوں مزہ دینے لگی جیسے وحید ارشد کا نیا افسانہ ہو۔

چٹخارے دار۔

” لطیف الیکٹریشن کا کیا بنا؟”

میرا ذہن ابھی اُدھر ہی پھنسا ہوا تھا۔

"بھئی آپ بھی عجیب ہو۔ وہیں پر اٹکے ہوئے ہو۔

ہونا کیا تھا۔ جونہی میری بیگم نے فارغ کیا اسی کی ایک سہیلی نے فوراً لطیف کو گھیرا اور اس سے شادی کر لی۔

عقلمند تھی۔

پیلی کر دی اپنی دلہن لطیف الیکٹریشن نے دبئی کے سونے سے۔ دس سال ادھر لگا کر واپس آیا تو یہ بڑا سٹور کھولا الیکٹریکل ایمپلائنسز کا میں بازار میں۔ لکھ پتی ہے آج کل۔ کنال کا گھر بنایا ہے نئی ماڈل کالونی میں۔ بچے انگریزی سکولوں سے پڑھے ہیں۔

کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے سارے افسانے لے جا کر اس کے سر پر دے ماروں اور اس کے سارے پیسے، سارے وسائل چھین لوں۔

اس طرح کے لوگوں پر مجھے "کچیچیاں” چڑھتی ہیں۔ میں اتنا کچھ لکھتا ہوں لیکن ‘کچیچیاں ‘ جیسے پنجابی لفظ کا متبادل مجھے اردو میں نہیں ملا۔ ویسے مجھے چڑھتی بھی کچیچیاں ہی ہیں اور میرے خیال میں یہ کیفیت کسی بھی اور معتدل یا معقول لفظ سے بیان نہیں ہو سکتی۔ "

اب میں پورے انہماک سے اس افسانہ کا مزہ لے رہا تھا۔ وحید ارشد باتونی تھا اور میں ایک اچھا سامع۔

” اور محبت کی شادی؟ آپ کی بیگم؟”

میں نے نئی چنگاری چھوڑی۔

” سچ بتاؤں تو کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میری بیگم کو اب یہ موقع دوبارہ دیا جائے کہ لطیف الیکٹریشن سے منگنی توڑ کر اردو ادب کے مایۂ ناز افسانہ نگار وحید ارشد سے شادی کر لو تو شاید اس کا فیصلہ میرے حق میں نہ جائے۔”

میں سوچ میں پڑ گیا۔ لطیف الیکٹریشن کبھی میرے چائے خانہ پر نہیں آیا تھا لیکن وحید ارشد اور باقی مقامی افسانہ نگار، شاعر، اور نقاد تو میرے پرانے گاہک تھے۔ سچ بتاؤں تو مجھے بھی ان کی لچھے دار باتوں، خوب صورت الفاظ پر مشتمل گفتگو اور ادبی لطائف و مباحث کا چسکا پڑ چکا تھا۔ میرا ان لوگوں کے بغیر دل نہیں لگتا تھا۔ یہ ایسی رونق تھی کہ میرے اصل اور زیادہ متمول گاہک، ریل گاڑی کے مسافر، مجھے بھول ہی چکے تھے۔ مجھے اُن کی زیادہ پروا نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ گرما گرم طرحی مشاعرے یا افسانہ پر بحث کے دوران میرے کان ادھر ہی لگے رہتے۔ اس دوران اگر کسی گاڑی سے اتر کر مسافر یا کسی مسافر کا استقبال کرنے کو آئے لوگ چائے خانہ میں آ گھستے تو مجھے دخل در معقولات لگتا۔

میرا پلیٹ فارم کی طرف کا دروازہ زیادہ تر بند رہتا اور سڑک کی طرف والا ہمیشہ کھلا۔

میں لاشعوری طور پر اپنی آمدن کو بھی اپنے ادبی مہمانوں کی سرگرمیوں سے کم تر جاننے لگا تھا۔ بس گزارا چل رہا تھا اور ہم سب خوش تھے۔ یہ ایک غیر حقیقی سی صورت حال تھی لیکن بن گئی تھی۔

اب بیچ میں وحید ارشدصاحب نے نئی درفنطنی چھوڑ دی تھی۔

میں کچھ پریشان سا ہو گیا۔

"لیکن ارشد بھائی افسانہ لکھنا چھوڑنے کی تُک اب بھی میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ آپ ملازمت کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ گزارا کرنے کو معقول مستقل آمدن ہے۔ لکھنے کی وجہ سے نام ہے۔ اب تیسری کتاب چھپنے لگی ہے ماشااللہ !! اتنا بد دل ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔”

میری حیرت اور دلچسپی بدستور قائم تھی۔

"کتاب کی بھی بھلی کہی۔ کوئی ایک سو چالیس کے لگ بھگ افسانے لکھ چکا ہوں۔ دو کتابیں بھلے وقتوں میں چھپ گئیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ اپنا خرچ نکال کر تھوڑے پیسے مجھے بھی چھوڑ گئیں۔

ان دنوں ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ جو چند کام کے ہیں بمشکل ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کے برے بھلے تنقیدی مضامین اور پھر اپنے گروپ کے چند لوگوں کے افسانے اور غزلیں نظمیں لگاتے ہیں۔ کچھ کلاسیکی چیزیں پرانی لگنی ہوتی ہیں۔ آپ اگر افسانہ دو تو پھر دے کر بھول جاؤ۔ پتا نہیں کب پرچہ نکلے اور چھپے یا نہ چھپے۔ پھر اگر چھپ بھی جائے تو اکثر آپ کو ایک اعزازی پرچہ تک نہیں بھیجتے۔ پتا نہیں یہ مجلے دو درجن چھپتے ہیں کہ تین درجن جو کہیں نظر نہیں آتے۔ نہ سٹال پر نہ کسی کتابوں کی دکان پر۔ ہم پرانے لوگوں کو سوشل میڈیا کی زیادہ خبر نہیں۔ سنا ہے وہاں کچھ ادبی فورم دھوم مچائے ہوئے ہیں۔ میرے بھی دو چار افسانے کسی نے لگوا دیے۔ سچ کہوں تو کچھ پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ میرے بڑے لڑکے نے پڑھ پڑھ کر تبصرے سنائے تو ایک دو ناموں کے علاوہ سب نامانوس نام۔

جانے کون لونڈے لپاڑے ہیں جو الگ سے شغل لگائے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کتابیں بھی ختم ہو جائیں گی اور برقی کتابیں ہی رہ جائیں گی۔

واللہ اعلم بالصواب!

کوشش کے باوجود خود کو مائل نہیں کر سکا کہ موبائل ٹیلی فون یا کمپیوٹر میں افسانہ لے کر گھس جاؤں۔

ایسے میں سوچا جو کچھ معیاری اور مقبول افسانے لکھ چکا ہوں اور غیر مطبوعہ ہیں تو کتابی شکل میں محفوظ کر لوں۔ افسانہ چوری تو اب کوئی عیب ہی نہیں رہا۔ چلو جو چھپ جائیں گے شاید چوری سے بچ جائیں۔ ایک دو ادیب دوست ہیں جو پبلشنگ کا کام کرتے ہیں۔ بھیا جی وہ تو کہہ رہے ہیں کہ پیسے دو اور کتاب چھپوا لو۔ مارکیٹنگ کا نام نہیں سنتے۔ کہتے ہیں اب کتاب کوئی خریدتا ہی نہیں۔ آپ اپنی کتابیں خود بیچ لینا اگر بکتی ہوں۔ ادیب برادری کا اور پرانا دوست ہونے کا یہ فائدہ دینے کو تیار ہیں کہ صرف کاغذ اور چھپائی کا خرچہ لے لیں گے۔ سو دوسو کتاب مجھے تحفے تحائف کے لیے دے دیں گے۔ پچیس تیس افسانے بھی چھپواؤں تو اسی ہزار سے ایک لاکھ کا خرچہ بتاتے ہیں، اگر درمیانہ سا کاغذ استعمال کریں تو۔ کل بینک سے پتا کیا تو کھاتے میں کل گیارہ ہزار تین سو باسٹھ روپے پڑے ہیں۔ دوست واقف کار ابھی سے "دستخط شدہ کاپی” کی فرمائشیں رجسٹر کرا رہے ہیں۔ یعنی کسی کی کتاب خریدنے کی نیت نہیں۔ میں یہ سرمایا کاری کدھر سے کروں۔ پتا نہیں کون مشہور ترین لوگ ہوں گے جن کی کتابیں ناشر مفت چھاپتے ہوں گے۔ رائیلٹی کا تو ملک عزیز میں تصور ہی نہیں۔ سنا ہے مستنصر حسین تارڑ صاحب کو رائیلٹی ملتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کتاب چھپواؤں تو کیسے؟ آپ میرے افسانے لے لیں اور چھپوا لیں۔ میرا کچھ تقاضا نہیں۔”

اتنی لمبی رام کہانی سن کر میرے تو پسینے چھوٹ گئے۔

"لیکن ارشد بھائی! سب کچھ پیسا تھوڑے ہی ہے۔ پیسا تو ایسے ویسوں کے گھر بھی بہت ہوتا ہے۔ اصل چیز تو عزت ہے۔

اور پھر پرسوں کی بیٹھک میں کتنی بات ہوئی تھی اس موضوع پر:

"ہم کیوں لکھتے ہیں؟”

آپ کے اندر کا تخلیق کارآپ کو اکساتا ہے نا۔ بئیے کو جو گھونسلا بُننا آتا ہے وہ فاختہ تو نہیں بُن سکتی۔ کیمیا کا بڑے سے بڑا فارمولا بنا لینے والاضروری نہیں کہ ایک مصرع موزوں پڑھ سکے۔ تخلیق کرنا تو بہت بعد کی بات ہے۔ آپ کے افسانہ کا ایک ایک تخلیقی فقرہ سونے میں تولنے کے لائق ہوتا ہے۔ سارے یہی کہتے ہیں کہ وحید ارشد جیسا علامت کا استعمال شاید ہی کوئی کر سکے۔ "

میں بھی ایک عرصے سے نثر، شاعری اور اس پر تنقید سن سن کر آدھا نقاد بن چکا تھا۔ اپنا وعظ جاری رکھا۔

"لطیف الیکٹریشن اپنے سارے درہم اور دینار خرچ کر کے آپ جیسا ایک افسانہ نہیں لکھ سکتا۔ اللہ نے آپ کو وہ خاص ہنر اور لیاقت دی ہے، آپ کے اندر کی وہ آنکھ کھول دی ہے کہ آپ کی بصیرت کا کوئی مول ہی نہیں۔ ہُما شُما آپ کے پاؤں کے برابر نہیں۔ "

میں نے اپنی ساری دانشوری بگھار دی۔

وحید ارشد چُپ سا ہو گیا۔

میں بھی اُٹھ کر اپنی مینیجر والی نشست پر جا بیٹھا۔ سامنے آمدن اور اخراجات کا رجسٹر کھلا تھا۔ اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ کا دو ماہ کرایہ نہ دے سکنے کی وجہ سے چائے خانہ کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کا نوٹس اسی رجسٹر سے جھانک رہا تھا۔ دائیں طرف لال رنگ کی پرانی گھسی ہوئی جلد والی نوٹ بک پڑی تھی جس میں کئی نامور افسانہ نگاروں شعرا اور ادبی محققین کی واجب لادا رقوم درج تھیں۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ پیچھے ہٹا لیے۔ بے خیالی میں ہاتھ ویسٹ کوٹ کی جیب میں ڈالا تو بجلی کا بل کڑکڑایا۔

کل جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔

وحید ارشد آج جلدی آ گیا تھا اور باقی ادبا اور دانشور صاحبان کے آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔

میں اپنی کرسی سے اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا پلیٹ فارم کی طرف کھلنے والے دروازے کی طرف گیا۔ جا کر تسلی کی کہ دروازہ کھلا تھا اور چٹخنی نہیں چڑھی تھی۔

پھر میں خالی الذہن سا چلتا ہوا سڑک کی طرف کھلنے والے دروازے کی طرف گیا۔ جا کر آہستگی سے دروازہ مکمل بند کر کے چٹخنی چڑھا دی۔

میں نے پلٹ کر دیکھا تو وحید ارشد میری ہی طرف متوجہ تھا۔ اس کے چہرے پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔

میں جھینپ گیا۔ کھونٹی سے لٹکتا جھاڑن یونہی پکڑا اور دروازے کے صاف شیشوں کو خواہ مخواہ دوبارہ صاف کر دیا۔ مجھے اپنی سانس گھُٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔

میں نے چٹخنی کھول دی۔

پلٹ کر دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا تو وحید ارشد کی معنی خیز مسکراہٹ اور گہری ہو چکی تھی۔

میں نے دروازے کے شیشوں والے دونوں پٹ مکمل کھول دیے اور جالی والادروازہ چٹخنی چڑھائے بغیر کھلا رہنے دیا۔

اس دروازے سے روشنی تو آتی ہی تھی ہوا بھی آ جا سکتی۔ اس آمدورفت کے بغیر مجھے میرا چائے خانہ قید خانہ محسوس ہوا۔

٭٭٭

سرکتے راستے

       جب وہ چلتی تو ریت بھرا رستہ اُس کے پاؤں کے نیچے سے سرکتا۔ متحرک راستے پر اُسے آگے بڑھنے میں سخت دشواری پیش آتی۔ ریت اُس کے پاؤں جکڑتی اور رائے گاں مشقت کا درد اُس کی پنڈلیوں سے ہوتا ہوا سر تک پہنچتا۔ اس کا گورا، گداز جسم اپنے اندر سڑتے بُستے، بے توقیر کنوار پن کا بوجھ اٹھائے اس ریتلے رستے سے یوں نبردآزما رہتا جیسے کشتی اتھلے پانیوں سے ہوتی ہوئی دلدلی ساحل میں آ پھنسی ہو۔ اس حرماں نصیب کشتی کے چپّو کم یاب پانی کو کوستے دلدل میں کھُب کھُب جاتے۔

       گاؤں والے اس راستہ کو سڑک کا نام دیتے مگر یہ تو کچی سڑک بھی نہیں تھی۔ یہ بس ایک پانچ چھ فٹ کا ریت بھرا، اُداس راستہ تھا، جس کے دونوں طرف اس کی ریتلی سطح سے دو اڑھائی فٹ اونچی مینڈھ تھی۔ بھُربھُری مینڈھ پر چھدری گھاس سے ذرا اُوپر سرکنڈے کی جھاڑیوں کے تیز تلوار، باریک لمبے پتوں کے گھیروں سے نکلتے قد آدم سرکنڈے تھے۔ سرکنڈوں کے بلند ترین سرے سفید پھندنا نما گاؤدم پھولوں کو اُٹھائے یوں اِستادہ تھے جیسے اس راستے کی نگرانی کو برچھی بردار سپاہی دو رویہ کھڑے ہوں۔

       اس دائمی اسیر کو لگتا کہ وہ گھر سے باہر بھی محصور ہی ہے۔ یہ محافظ سرکنڈے اسے رستے کے بیچوں بیچ رکھیں گے، گو ریت اس کو جکڑ جکڑ اور راستہ تھکا تھکا کر ماردے۔

       اس کا لباس ہلکا زرد تھا اور سفید چادر کے کنارے کٹاؤں والے۔

 اس کا چہرہ گول تھا، سفیدی میں جھلکتی پیلاہٹ لیے، پوری راتوں کا سفیدی مائل زرد چاند۔

       وہ چلتی گئی چلتی گئی۔ ایک قدم آگے اور آدھ قدم پیچھے۔ مشقت کی نسبت کم تر فاصلہ طے کرتی وہ چلتی گئی، چلتی گئی۔

       توانا سورج بلندیوں کی منزل مارنے کو دھیرے دھیرے اوپر سرکنا شروع کر چکا تھا۔ ریت بتدریج زیادہ سے زیادہ گرم ہوتی چلی جا رہی تھی۔ مشقت دو چند ہونا تھی اور اس کے بے مصرف خاکی بت سے جان نچڑتی چلی جانی تھی۔

راستے میں ببول کے پیڑ آئے اور گذر گئے۔

       پھر سرکنڈے کی جھاڑیاں چھدری ہونا شروع ہو گئیں۔ جہاں وقفہ آتا کھیت نظر آتے۔ کٹ چکی گندم کے ڈنٹھلوں والے کھیت۔ خالی کھیت، کہ بیوگی جن پر نوحے پڑھتی۔ گرم سرسراتی آوارہ ہوا میں پوہلی کے اکھڑ چکے، جھنجھناتے، خشک زرد پودے دوڑے دوڑے پھرتے۔

       ایک ایسا مقام آیا کہ سرکنڈے کی جھاڑیوں میں خلا سا بن گیا۔ راستے کی مینڈھ پر اَدھ جلی گھاس چمٹی تھی۔ وہ اس گھاس پر بیٹھ گئی۔ گھاس کے نیچے سے کسی کانٹے دار جڑی بوٹی کے چھوٹے چھوٹے کانٹے اس کے نرم گوشت میں ہلکے سے چبھے تو اسے اچھا لگا۔ اس نے مٹی کی مینڈھ پر نیم دراز ہونے کی کوشش میں اپنے ٹیک لگائے داہنے ہاتھ پر دباؤ ڈالا تو گھاس میں موجود جڑی بوٹی کے کانٹے بہت زور سے چبھے۔

       "دباؤ کسے پسند ہے!” اس نے سوچا اور فوراً ہاتھ اٹھا لیا۔

       پھر غور سے چاروں طرف تفصیلی نظر دوڑائی۔

       بے کل، مضطرب سی وہ متوقع، متلاشی نظروں سے مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ بے چینی، بے کلی اور نارسائی اس کے وجود سے مستقل غیر مرئی لہروں کی صورت خارج ہو کر ماحول پر اثر انداز ہو رہی تھی۔ اس کی حرکات اور کیفیت سے لگتا کہ طے شدہ جگہ اور وقت پر کوئی آنے والا ہے، جس کا شدت سے انتظار ہے۔

کوئی نجات دہندہ شاید۔

       اس کے جسم سے واضح طور پر اظہار پاتا خوف اور خدشہ دلالت کرتے کہ وہ چھپتی چھپاتی آئی ہے اور انجانے خوف کے چُنگل میں ہے۔

       اس کے انتظار میں بے چینی اور اشتیاق کے ساتھ سراسیمگی اور خدشہ صاف جھلکتے!!

کافی دیر وہ یونہی بے مقصد بیٹھی رہی۔

اس ویرانے میں اس کے علاوہ دور دور تک کوئی انسان نہیں تھا۔

       کیکر کے پرانے، آدھے سوکھے آدھے ہرے درخت پر فاختہ پھڑ پھڑائی تو سکوت یوں مرتعش ہوا جیسے ساکت جھیل میں کوئی پتھر گرے، لہریں ایک چھپاکے کے ساتھ متحرک ہو کر جی اٹھیں اور پھر فنا کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ دیں۔

       اس چھوٹی سی پھڑپھڑاہٹ کے بعد پھر چاروں طرف گرم اور سست خاموشی چھا گئی۔

       ایسے لگتا تھا کہ سوگوار ماحول کی خاموشی اور ویرانی میں بسی بوجھل اداسی زمین کے اوپر کی نباتات، جمادات و حیوانات کو خود میں سمو کر، جذب کر کے نابود کر دینے کے درپے ہے۔

       ایک مریل سی گلہری نیم سوختہ درخت سے اتری، تنے کے گرد چکر لگایا، ایک مقام پر رُک کر "چخ چخ” کی اور تیزی سے دوبارہ درخت پر چڑھ گئی۔

       اس نے مضطرب ہو کر پھر دائیں بائیں نظر دوڑائی۔

بوجھل انتظار میں شامل بے چینی اب بڑھتی جا رہی تھی، جیسے دستیاب محدود وقت مٹھی میں بند ریت کی مانند نکلا چلا جا رہا ہو۔

"اب آ جاؤ بھئی! آ بھی جاؤ!!

مجھے اور انتظار نہ کرواؤ!”

وہ منمنائی

لیکن وہ آتے آتے کچھ وقت لے گیا

اور پھر، با لآخر سرکنڈے کی جھاڑی کے ساتھ بنے نرم مٹی کے چھوٹے سے ڈھیر کی اوٹ لیتا، محتاط چال چلتا وہ آ گیا۔

اسے دیکھ کر وہ مطمئن نظر آنے لگی!

اس کے چہرے پر ظاہر تناؤ میں واضح کمی نظر آئی!

” اوہ! آ گئے تم؟”

اس نے بڑی آہستگی سے اسے مخاطب کیا۔

سیاہی مائل بھورے بالوں والاتنومند نیولا اُس سے مانوس تھا۔

انھوں نے لاتعداد بار کافی وقت اکٹھے گزارا تھا۔

یوں لگا کہ اس ملاقات کو نیولابالکل معمول کی ملاقات سمجھ کر گفتگو میں دلچسپی لے رہا تھا۔

 نیولے کے انداز میں خود اعتمادی اور وقار تھا۔

اس کی بات سن کر نیولے نے گردن پوری طرح اٹھا کر تفہیمی دانت دکھائے۔

"کیسے ہو؟” وہ پھر گویا ہوئی۔

"آج ذرا دو ٹوک بات کرو! پوری طرح کھل جاؤ میرے ساتھ۔ راز و نیاز کرو۔ دل کھول کر گفتگو کرو۔ اچھے دوست ہو جو رازدار نہیں بناتے۔ اچھی مصاحبت ہے تمہاری؟ تم بھی اپنے راز بچا کر رکھنا چاہتے ہو مجھ سے؟ میں تو تم سے کچھ نہیں چھپاتی۔ سب کچھ بتانے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنے، کتنی دقّت سے، کتنی حدیں توڑ کر آ جاتی ہوں تمہارے پاس۔”

نیولے پر اس آہستہ کلامی کا بہت اثر ہوا۔ وہ شرمندہ سا گردن جھکا کر کاندھا کھجانے لگا۔

کچھ دیر خاموشی رہی۔ نیولے نے سر اٹھایا، تیزی سے گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا اور چند قدم قریب آ گیا۔

پھر رک گیا اور اسے گھورنے لگا۔

وہ ذرا توقف کے بعد دوبارہ مخاطب ہوئی:

       "بولو بھئی بولو۔ کچھ تو کھُلو۔ میری اتنی لمبی، گہری دوستی کا بھرم رکھو۔ آج اپنا راز افشا کر دو۔ کوئی ایسا گُر کوئی ایسا منتر سکھاؤ کہ میرا جیون آسان ہو جائے۔ کچھ صلہ دو میری اتنی طویل، اتنی بے لوث دوستی کا۔

       چلو آج بتا دو کہ تم موذی سانپ کو کیسے مارتے ہو؟ کیسے بچتے ہو زہریلے ناگ کے مہلک زہر سے؟ کیسے اس کا سر لہولہان کرتے ہو؟ اس کو زہر بھرے پھن سے پکڑ کر کیسے قابو کرتے ہو؟ اتنی مضبوطی سے کہ اس کا سارا قہر، جوش، زہر، سٹپٹانا، کسمسانا اکارت جاتا ہے۔ اس کی ساری انا، سارا غرور، احساس برتری، ساری تیزی طراری دھری کی دھری رہ جاتی ہے”۔

اس مطالبے پر نیولا اپنی دونوں پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ جیسے ایک بونا سا آدمی کھڑا ہو۔

       اس کے چھوٹے چھوٹے کان ذرا سے ہلے۔ پھر نیولے نے جھریوں بھری سرخ جلد کے بیچ گڑی بلوریں، بنٹے جیسی، تیز نظر آنکھوں کو اس پر پیوست کر دیا جو اس کی پرانی دوستی کی دعویدار تھی۔ اپنے سیاہی مائل ہونٹوں کو سکوڑ کر تیز دانتوں کی جھلک دکھائی اور واپس چاروں پنجوں پر جا ٹکا۔

"خوش ہو اپنے آباد ویرانے میں؟ مزے سے ہو؟”

وہ پھر گویا ہوئی۔ وہ تو آئی ہی باتیں کرنے تھی نا۔

"سرکنڈوں سے نکلتے ہو تو آک کے پودوں میں جا گھستے ہو۔ بڑے مزے کرتے ہو۔ نہ دکھ نہ تکلیف۔ نہ مسئلہ نہ پریشانی۔

ہاں ! یاد آیا۔ کبھی آک کا پتہ ٹوٹتا دیکھا ہے تم نے۔ دودھ دھاریں بن کر امڈتا ہے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ یہ آک بھی کوئی کوکھ جلی دُکھی ماں ہی ہو گا۔ ویرانوں میں خجل خوار۔

       آک کے پھولوں کی گلابی جامنی رنگت کے گرد منڈھی سفیدی پہ نظر کرتے ہو؟ غور تو کیا ہو گا کبھی۔ پھول سے بنتی سبز، نرم پوٹلی سی تھیلی کو دیکھا ہے جس میں چھپا کر یہ ممتا کا مارا اپنے بیج سنبھالتا اور پکاتا ہے۔

پھر کیسے ریشمی پنکھ لگا کر ان بیجوں کو ہوا کے دوش پر چھوڑتا ہے کہ پھیل جائیں۔

دور دور نکل جائیں اور اپنی جڑیں جمانے کو نرم زمین ڈھونڈیں۔

فطرت نے ماں کو بھی کیا تخلیق کر دیا ہے یار۔ کیا شاہکار بنا دیا ہے۔

ہاں تیری بھی تو ماں ہو گی۔ اسے سلام کہنا!

کیا خوب دلیر جنا ہے۔

سانپوں کو زچ کرنے والا۔ بانکا اور نڈر۔

بے خطر سانپ کا پھن زہر سمیت دبوچ لینے والا۔

اس کے الٹنے پلٹنے پیچ و تاب کھانے سے بددل نہ ہونے والا۔ ہمت اور حوصلے والا۔

میرا سلام کہنا اپنی ماں سے۔

ایک مظلوم دکھیاری بے کس لاچار عورت کا سلام۔

       ماں ہونا جس کا آخری اعزاز ہے جو جانے کب چھن جائے کہ علم بڑی تیزی سے ہر سچ کو جھوٹ کیے دے رہا ہے۔

       اسے کہنا غنیمت ہے یہ وقت کہ ہم ابھی تک مائیں ہیں، چاہے یہ منصب یہ کردار ہماری ہڈیوں سے گودا بھی نچوڑ لے۔ "

نیولے نے یہ سنا تو بڑا اثر لیا۔

لگا جیسے اس کی چمکتی آنکھیں ڈبڈبا گئی ہوں۔ اس نے حسب عادت پھر تیز جھٹکوں کے ساتھ اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور مزید قریب سَرک آیا۔

سورج کی تمازت بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔

آگ برساتا گولابتدریج بلند ہو رہا تھا۔ زمینی مخلوق اس آتش فشانی کے جبر کو جھیلنے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔

       وہ جو تپتی سرکتی ریت پر رینگ رینگ کر سرکنڈوں کی جھاڑیوں اور آک کے پودوں کے بیچ اس سے ملنے آئی تھی جو اس کی باتیں سنتا تھا اور سانپ کا پھن زہر سمیت چبا ڈالنے پر قادر تھا، وقت کے گزرنے اور گزر جانے کا ادراک رکھتی تھی۔

       وہ آئی تھی اور جانے کی سوچ سے آزاد نہیں تھی۔ وہ تو زیست کی گھٹن زدہ تاریک کوٹھڑی کے اندر ہی اندر سانس لینے کو سہارے ڈھونڈتی پھرتی تھی۔

"مجھے واپس تو جانا ہو گا۔

جبر کی کوٹھڑی میں۔

کوئی راہ فرار نہیں۔

پھر واپس آؤں گی سرکنڈوں، آک، نیولے اور سانپ کی دنیا میں، ریت کی تپتی دلدل سے گزر کر۔

پھر سوال و جواب اور تشکیک کی بھٹی کا ایندھن بننا ہو گا۔

لیکن کسی روز نیولے سے مکالمہ کو پھر جو نکلنا ہے تو کیوں نہ اس دنیا کو اپنی کال کوٹھڑی میں ساتھ ہی لے جاؤں؟

وہیں مکالمہ ہو اور وہیں تماشا۔

سرکنڈوں کی جھاڑیاں ساتھ لے لوں؟

اُسترے جیسے تیز دھار لمبے تلوار پتوں والی بے رحم جھاڑیاں۔

لیکن یہ سہولت تو میری جبر کی کوٹھڑی میں مجھے پہلے ہی سے میسر ہے۔ میری تو سانس تک تلوار بن جاتی ہے۔

میرا کلیجہ تو سانس سانس کٹتا ہے۔ تلواریں اور خنجر تو میرے خون میں گھومتے ہیں۔

رگ رگ میں، نس نس میں چرکے لگاتے ہیں۔

جو موجود ہے اسے باہر سے ساتھ لے جا کر کیا کروں گی۔

سانپ؟

سانپوں والی کوٹھڑی میں تو بند ہوں۔

تو پھر؟

میرے ساتھ چلو گے انسانوں کی بستی میں؟

یار نیولے!”

نیولے نے اپنے گول مٹول کانوں کو ہلکی جنبش دی۔ گردن کو تیزی سے دائیں بائیں گھمایا۔ اپنی تیز، بلوریں آنکھیں جھکائیں۔ پھر بائیں طرف گردن موڑی اور بھاگتا ہوا سرکنڈے کی جھاڑی میں گھس گیا۔

وہ جو پریشان تھی ششدر رہ گئی!

اس نے آک کے اندر سے جامنی اور باہر سے سفید پھولوں کی ایک ڈنڈی توڑی تو سفید چکنا دودھ ابل ابل کر، بہہ کر اس کی انگلیاں چپچپی کرنے لگا۔

پھر اس نے سرکنڈے کی جھاڑیوں کی طرف دیکھا جہاں نیولاگھسا تھا تو اسے سانپ کے لاتعداد بل نظر آئے۔

"میں نے تو سنا تھا کہ سانپ اور نیولا اکٹھے نہیں رہتے۔

تو کیا یہ متروک بل ہیں؟”

اس نے سوچا۔

ابھی اسے بہت سوچنا تھا۔

سوچنا اور سوچتے رہنا ہی اس کا مقدر تھا۔

پھر وہ صرف انھیں سے بات کر سکتی تھی جو اس کی بات سنتے تھے۔

بات کرنا تو ضروری ہے نا، اور سوچنا بھی۔

جب تک دماغ ماؤف نہ ہو جائے۔

ضروری بھی اور مجبوری بھی۔

وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ریت کی نہر جیسی "سرکتی سڑک ” پر واپس رینگنے لگی۔

اس کے تصور میں اپنی گھٹن اور حبس سے بھری تاریک کوٹھڑی آ گئی جو اس کا مقدر تھی سو اس کی منتظر تھی۔

” کیا میں دشوار راستوں سے ہو کر پھر اس سرکنڈوں، آک، گلہری، سانپ اور نیولے کی دنیا میں واپس آؤں گی؟”

اس نے ریت کی دلدل سے لڑ کر واپس رینگتے ہوئے سوچا۔

"میرا خیال ہے آؤں گی۔

مجھے آنا ہی ہو گا۔

یہیں تو بستے ہیں جو میری سنتے ہیں۔”

اس کے اندر سے آواز آئی۔

٭٭٭

زندگی اے زندگی

اس نے مجھے گھما کر رکھ دیا۔

"اب تمہاری سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ میں ساری زندگی کوئی بھی تعلق، میرا مطلب ہے کہ رومانوی تعلق کیوں نہیں نبھا سکا۔”

اس نے اپنی طرف سے قصہ ختم کیا۔

ہم یہ دھواں دھار گفتگو پچھلے تین گھنٹے سے کر رہے تھے۔ اس کا خیال تھا مجھے سمجھا ہی ڈالے گا کہ اس کی زندگی ایسی کیوں تھی جیسی کہ تھی۔ اور یہ بھی کہ اس کی زندگی ایسی ہی کیوں گزری۔

ہم تین سال سے ساتھ تھے۔ کبھی یوں قریب آ جاتے کہ ہمارے بیچ سے ہوا بھی نہ گزر سکتی۔ یک جان و دو قالب سے بھی کہیں آگے۔ شاید یک جان و یک قالب۔ پھر کوئی چھوٹی سی بات ایسی نکل آتی کہ یا تو اسے چپ لگ جاتی یا مجھے۔ ہم میں سے ایک کچھوے کی طرح اپنی گردن انا کے سخت، بھدے اور ناقابل شکست خول میں گھسیڑ کر قلعہ بند ہو جاتا۔ دوسرا اپنی کوشش کی گدھ کی تیز چونچ بھی اس خول میں گھسیڑ کر اس کا نرم حصہ نہ ڈھونڈھ پاتا۔ اس سرد مہری اور نیمے دروں نیمے بروں کیفیت میں کئی دن گزر جاتے۔ پھر وقت کی حدت اور تنہائی کی گھٹن بیرونی قلعہ بندی میں دراڑ ڈالتی اور ذات کا گھوڑا گھمنڈ اور یکتائی کی خندق پھلانگ جاتا۔

مجھے بیو گی کی زندگی گزارتے پانچ سال ہو چکے تھے اگرچہ میری عمر صرف پینتیس سال تھی۔ اپنے دکھ کے دو سال گزار کر میں فطری زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی کہ ہماری ملاقات ہو گئی۔ اس کمپنی میں دوسرے شہر تبادلے معمول نہیں تھے لیکن آسامی خالی ہونے پر یا کسی عہدیدار کی درخواست پر انتظامیہ زیادہ مزاحم بھی نہیں ہوتی تھی۔

میں عادتاً بڑی سنجیدہ اور ذمہ دار گردانی جاتی تھی لیکن خشک یا بدمزاج ہرگز نہیں۔ موسیقی، مصوری، فلم، آرٹ ادب مجھے بھاتے تھے۔ طبعاً کھلے دل اور کھلے ذہن کی تھی اور میرے ارد گرد کے لوگ مجھ سے ربط ضبط میں کوئی دقّت محسوس نہیں کرتے تھے۔ میری پہلی محبت، پہلا جنسی تجربہ، شادی یا ازدواجی زندگی کا تذکرہ یہاں بے محل ہو گا۔ اسی طرح اوائل عمر یا ازدواجی زندگی کی جنسی و نفسیاتی پیچیدگیوں یا اس جانکاہ حادثے کا ذکر کہ جس نے مجھے بیوی سے بیوہ بنا دیا یہاں بے جا ہو گا۔

یہ بتانا بہرحال ضروری ہے کہ میں عمر کے اس حصہ میں تھی جہاں فطری جنسی تقاضوں کا دریا کناروں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ جذبات شدت کی آخری حدوں کو چھوتے ہیں اور یہ مدوجزر ہر ماہ کئی کئی روپ دکھاتا اور پھر دہراتا ہے۔ شرجیل مجھ سے دو تین سال بڑا تھا اور عہدے میں تھوڑا سا سینئر۔

اس کے کراچی سے لاہور تبادلہ کی محرک اس کی اپنی خواہش سے زیادہ کمپنی کی انتظامی مجبوری تھی۔ بہرحال، حاصل قصہ یہ کہ وہ نہ صرف لاہور آ چکا تھا بلکہ اب اسے لاہور میں آئے تین سال اور میرے دل میں آئے اڑھائی سال ہو چکے تھے۔

آج ہم پھر وہ قضیہ لے کر بیٹھے تھے جس نے ہمارے تعلق کو نرالاہی رنگ ڈھنگ دے رکھا تھا۔

ہم دونوں نوعمر یا ناپختہ ذہن نہیں تھے پھر بھی ہم بہت ہی تیزی سے قریب آئے۔ قریب کیا آئے ایک دوسرے میں گر گئے۔ اور گرے بھی اتنی تیزی سے کہ کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔

میں ہمیشہ یہ سمجھتی تھی کہ محبت تو بس اِک خواب ہے۔ اِک خواب، جو چڑھتی جوانیوں کے جوار بھاٹا سے بھاپ کی مانند اٹھ کر کچے ذہنوں کو گرفت کرتا ہے۔ جو جبلی تقاضوں کا ایک ملفوف اور مستور تقاضا اور اظہار ہے۔ میرا خیال تھا کہ محبت، وقت اور واقعات اس بے سمت منہ زور دھارے کو ٹھہراؤ سکون اور سمت دیتے ہیں۔ مگر میرے ان خیالات اور اعتقادات نے خاک ہونا تھا۔ میری عقل نے عاجز آنا تھا اور میری سوچ نے اپنے عجز پر قانع ہونا تھا۔

رشتوں میں جسم کتنا ہے اور ذہن کتنا، دل کتنا ہے اور روح کتنی، اس طرف کبھی دھیان نہیں گیا تھا۔ شرجیل کے آنے، پھر اتنی تیزی سے میرے بہت قریب آنے اور پھر چمٹ کر رہ جانے نے عجب صورت پیدا کر دی تھی۔ ہم نہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے تھے نہ ایک دوسرے کے بغیر۔ ہم خوب خوب لڑتے، بول چال بند ہو جاتی لیکن پھر اِک دوسرے کو ڈھونڈتے اور بات چیت شروع کرنے کے بہانے بناتے۔ ہر لڑائی کے بعد ہم اور زیادہ قریب آ جاتے اور اگلی بار اور بھی زیادہ شدید لڑائی کرتے۔

میں جنس کو ایک ہوّا بنائے بیٹھی تھی۔ شرجیل نے مجھے سکھایا کہ یہ ہوّا نہیں حقیقت ہے۔ خوف کھانے یا نفرت اور اجتناب کا منافقانہ ڈراما کرنے کی چیز نہیں۔ ماننے، تسلیم کرنے اور اہمیت دینے کی فطری چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اخلاقی قدروں یا معاشرتی پابندیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ بس اتنا تھا کہ ہمیں اپنی حدود کا پتا تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ اس موضوع سے نہ ہم بدکتے نہ جھجھکتے یا خوف کھاتے۔ بس اسے بھی ایک مسلمہ حقیقت بلکہ خوب صورت حقیقت سمجھتے۔

 اس کی پوری جمالیات اور حسیات کے ساتھ۔

بالآخر آج کی بحث بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ کچھ میں قائل ہوئی اور کچھ وہ۔ کچھ میں نہ مانی اور کچھ وہ اڑا رہا۔ ہم اتنی لمبی بحث سے فارغ ہوئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں کوچل دیے۔ ایک دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے۔

ہمیں کل پھر ملنا ہے۔ میں اپنی تنہائیوں میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے فطری تقاضوں کو کسی کی ضرورت ہے۔ وہ ‘کسی ‘ شرجیل سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس کا خیال ہے کہ ایسا کوئی بھی تعلق ہمیں راس نہیں آئے گا اور ہم دوستی سے بھی جائیں گے۔ ہم دونوں درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اچھے اداروں سے پڑھے ہیں۔ شرجیل تو ایک آدھ ڈگری باہر سے بھی لاچکا ہے۔ ہم بہت مذہبی نہیں لیکن مذہب ہماری عائلی اور سماجی زندگی میں رچ بس کر لاشعوری طور پر کہیں نہ کہیں ہمیں  اپنی گرفت میں  ضرور لاتا ہے۔

میں سخت مخمصے میں ہوں۔ کیا مجھے شرجیل سے محبت ہو چکی ہے؟

میں اس سے یہ بات کروں گی تو اس کا قہقہہ فلک شگاف ہو گا۔

کل پھر اِک بحث ہو گی۔ کل پھر دلائل چلیں گے۔ بڑا شور شرابا ہو گا۔ کہیں ذاتیات بھی آ جائیں گی اور شاید اسی بنیاد پر لڑائی بھی ہو جائے۔

ہمیں ایسے ہی کرتے کراتے تین سال گزر چکے ہیں۔ زندگی تیزی سے گزرتی جا رہی ہے۔

خیر دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے!!

٭٭٭

معمولی

ناقابلِ فراموش سے، میرے نزدیک، اولاًمراد وہ واقعہ ہے جو نہ توبھُولے نہ بھُلائے جانے کے قابل ہو۔ اس واقعے کا دلچسپ یا پیچیدہ ہونا ثانوی بات رہ جائے گی۔

سو جو واقعہ بیان کرنے جا رہا ہوں وہ مجھے بھولتا ہے نہ بھُلائے جانے کے قابل لگتا ہے۔ میں اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں اتنا مصروف ہوں کہ گھر والوں کواُتنا وقت نہیں دے پاتا جتنا اُن کا حق ہے۔ سبھی افراد خانہ اپنے طور پر مصروف رہتے ہیں۔ کبھی وقت مل جائے تو عموماً کسی اچھے ریستوران میں رات کا کھانا ہی طے پاتا ہے۔ لاہور والوں کی بڑی تفریح اب بس یہی رہ گئی ہے۔ اُس روز بھی یہی ارادہ لے کرہم سب گھر سے نکلے۔ چھوٹا بیٹا گاڑی چلا رہا تھا جواُسی کی ہے۔ باہم مشورے سے ایم۔ ایم۔ عالم روڈ کے ایک مشہور ریستوران جا پہنچے۔ ’ویلے پارکنگ‘ کی سہولت میسر تھی۔ گاڑی سے نکل کر چابی پارکنگ کے لیے متعین نو جوان ’ جو پچیس چھبیس سال کا بظاہر معقول اور مہذب شخص تھا‘ کے حوالے کی اور کھانا کھانے کے لیے ریستوران کے اندر چلے گئے۔ جب ہم کھانا کھا کر واپس آئے تو پارکنگ والانوجوان بڑی مُستعدی سے ہماری گاڑی پارکنگ سے نکال لایا، چابی میرے بیٹے کے حوالے کی اوردُزیدہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا،

’’سر ایک موٹر سائیکل والاکھڑی گاڑی کو پیچھے سے موٹر سائیکل مار کر ذرا سی بیک لائٹ توڑ گیا ہے۔ آپ کانقصان ہو گیا ہے۔ پر سر جی میرا کوئی قصور نہیں‘‘۔

 میں نے پارکنگ کا جائزہ لیا تو صرف کاریں ہی کاریں پارک تھیں اور موٹر سائیکل ایک بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ویسے بھی یہ قدرے مہنگا ریستوران تھا جہاں موٹر سائیکل والے گاہک شاذ ہی آتے ہوں گے۔ مجھے اُسکی بات پر قطعی یقین نہ آیا۔ میں ابھی الفاظ کا چناؤکرہی رہا تھا کہ کس پہلو سے اس پر حملہ آور ہُوں کہ میں نے دیکھا، کمال سکون اور متانت سے میرے بیٹے نے اپنے بٹوے سے سو کا نوٹ نکالا، نوجوان کے ہاتھ پر رکھا، مسکرا کر سر کو ہلکی سی اثباتی جُنبش دے کر کہا،’’شکریہ‘

اور گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

میں نے کہا

’’یار یہ لڑکا صرف اسی ذرا سے کام پر متعین ہے کہ گاہکوں کی گاڑیاں احتیاط سے پارک کرے اور واپسی پر بخیر و عافیت اُن کے حوالے کرے۔ اسی ایک کام کی یہ تنخواہ بھی لیتا ہے اور ٹپ بھی۔ ہمیں اس کے مینیجر کو بتانا چاہیے تا کہ اس کو تنبیہہ ہو اور یہ کل کسی اور کی گاڑی نہ توڑے۔ آٹھ دس ہزار رُوپے سے کم میں عقبی بتّی کیا آئے گی‘‘۔

بیٹا بولا،

’’پاپا آپ فکر نہ کریں۔ آپ آ جائیں، میں اپنے پیسوں سے بدلوا لُوں گا‘‘۔

وُہ پڑھنے کے علاوہ پچھلے پہر ایک فرم میں جُز وقتی کام کرتا ہے اور معقول معاوضہ پاتا ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود بے پناہ محنت سے دونوں کام رغبت سے کرتا ہے اور بڑی مصروف زندگی گزارتا ہے۔

میں نے کہا،

’’بھئی تُو عجیب آدمی ہے۔ جو جی میں آئے کر‘‘۔

 اندر سے میں تلملا کر رہ گیا کہ بہت بڑا ساہو کار ہو گیا ہے۔ مجھے کمائی کا رُعب دیتا ہے، لیکن میں بس چُپ کر گیا۔ گاڑی میں خاموشی تھی۔ ہم آہستہ آہستہ ذیلی سڑک سے نکل کر میں روڈ پر آ گئے۔ جب اُس نے محسوس کیا کہ مُوڈ خراب ہونے کی وجہ سے میں مسلسل خاموش ہُوں اور باقی بھی دَم سادھے بیٹھے ہیں تو وہُ دھیرے سے بولا،

’’پاپا ہم نئی لائٹ لگوا سکتے ہیں۔ وُہ بے چارہ کہاں سے لگوا کر دے گا۔ اُس کی دس بارہ ہزار رُوپے ماہانہ تنخواہ ہو گی۔ پتا نہیں گھر میں کیا کیا ضرورت مُنہ پھاڑے کھڑی ہو گی؟ پتا نہیں کون کون اُس چھوٹی سی رقم کا انتظار کرتا ہو گا؟ کس کی فیس، کس کی دوائی اُس رقم پر منحصر ہے؟ کونسا بل نہ ادا ہوا تو کیا مصیبت آئے گی؟ ہم شکایت کریں گے توہو سکتا ہے اُس کا مالک اس کو نوکری سے نکال دے۔ سوچیں پاپا اس صورت میں اس کے چھوٹے سے گھر میں کیا بھونچال آئے گا؟ ہم تو پاپا چھ سات ہزار رُوپے کھانے کا بل دے آئے ہیں۔ اللہ نے ہمیں توفیق دی ہے۔ ہم کیوں کسی کو تنگ کریں؟‘‘۔

بخدا میں دنگ رہ گیا۔ میں دہل گیا۔ ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس، انگریزی سکول سے پڑھا لاہور کی جدید ترین یونیورسٹی میں زیر تعلیم اور مغربی یونیورسٹیوں میں وظائف ڈھُونڈتا یہ ماڈرن اور روشن خیال بچہ مُجھے ماڈرن صُوفی لگا۔ میں ہکا بکا رہ گیا کہ ہم میں اور نئی نسل میں کیا فرق ہے۔ وہ مجھ سے خاصہ قد نکالتا، جدید موسیقی اور جم کا شوقین طاقتور نوجوان تو اپنے نفس پر بھی حاوی نکلا۔ میں نے اپنے آپ کو بڑا چھوٹا محسوس کیا۔ پھر مجھے لگا کہ ہم نے اپنی زندگیاں ضائع نہیں کیں۔ ہمارا مستقبل ہم سے بہتر نسل کے حوالے ہو رہا ہے۔ انسانیت، امن اور ماحولیات کی باتیں کرتے، کانوں میں موسیقی اُنڈیلتے پلگ ٹھونسے، جنس اور ذات سے کافی بے پروا کھُلے دل والے یہ سادہ دل لوگ ہم سے کہیں بہتر ہیں۔

اگلے دن نئی، جینوئن، عقبی بتی لگی تو بارہ ہزار رُوپے میں نے بخوشی اپنی جیب سے ادا کئے۔ جنوں پریوں اور بھوت پریت کے بغیر مجھ پر بیتی یہ واردات میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔ اس نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ میں فیصلے کرتے ہوئے اس کے اثر سے باہر نہیں نکل پاتا۔ میرے نزدیک یہ بظاہر معمولی واقعہ ناقابل فراموش ہے۔ نہ یہ مجھے بھولا ہے نہ میں اسے بھلانا چاہتا ہوں اور نہ یہ مجھے کبھی بھولے گا۔

٭٭٭

عجیب لڑکی

’’نہیں بھائی۔ میں نہیں مانتی۔ میں افسانہ لکھ رہی ہوں یا الجبرے کا سوال حل کر رہی ہوں جو آپ مجھے فارمولے پر فارمولاسکھانے سمجھانے پر تلے ہیں۔

 شروع کی لائن پٹاخہ ہونی چاہیے، پھر زینہ زینہ کہانی آگے بڑھے، کردار محدود ہوں، جزئیات پر زیادہ ارتکاز نہ ہو، تلمیحات، استعارات، تشبیہات و علامات کا محتاط استعمال ہو۔ متشابہات سے گریز ہو۔ وحدت تاثر مجروح نہ ہو پائے۔ غیر ضروری طوالت سے اجتناب کیا جائے اور پنچ لائن پر آخری دھماکا ہونا چاہیے۔ جو قاری کے پڑ خچے اُڑا دے۔

 لاحول ولاقوۃ! آپ کے فارمولے پر چل کر بھٹّے کے سانچے سے ایک سی اینٹیں تو تھاپ تھاپ کر ڈھیر لگا سکتی ہوں لیکن آزاد، طرح دار اور میری مکمل تشفی اور قاری تک تسکین آور ترسیل پر قادر شاہکار تخلیق نہیں کر سکتی۔

 مجھے کیا پڑھاتے ہیں۔ میں نے کوئی رقم پکڑی ہے بے چہرہ پابند تحریریں پیدا کرنے کی فیکٹری لگانے کی۔ میں جانوں اور میری تخلیق۔ بس قاری کی اہمیت ہے۔ لیکن سچ بتاؤں تو قاری بھی بعد میں آتا ہے۔ پہلے تو میں خود ہوں۔ میری ذات ہے۔ میرا درُون ہے۔

 پھر مجھے اپنے جیسے کچھ دیوانے تو مل ہی جائیں گے جو پڑھ کر مزہ لیں گے۔ کچھ جاننے والے ہیں جو منتظر ہوتے ہیں کہ کچھ آڑھا ترچھا لکھِوں تو اُنہیں رابطے کا بہانہ ملے۔ میری انا کی تسکین کا بہت سامان ہو جائے گا۔ شہرت مجھے کچھ خاص متاثر نہیں کرتی۔ دادا پردادا، باپ بھائی بہن سب معاشرہ میں جانے بوجھے لوگ ہیں۔ میری اپنی پہچان کے علاوہ اُن کا نام پیسہ اور شہرت بالواسطہ میرا بھی تعارف ہے۔ سو میری فکر کم کر دیں اور مجھے وہ لکھنے دیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں۔ وہ نہیں جو آپ یا آپ کے قواعد مجھ سے لکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘

توبہ توبہ! دھُواں نکال دیا۔ کیا آفت کی پرکالہ ہے؟ پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی۔ مرعوب ہی نہیں ہوتی۔ ذرا نہیں ڈرتی۔ ڈھیٹ کہیں کی۔ مسلمہ اصولوں کو چیلنج کرتی ہے۔ مصدقہ روایات کو ٹھکراتی ہے۔ زعما کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ناقدین سے متاثر ہے نہ مبصرین کی قدر دان۔ عجب ڈھیٹ پن ہے۔ کیا بیہودہ اَنا پرستی ہے۔ کیا بے کار کی ضد ہے۔ خیر دیکھتے ہیں۔ کچھ کوشش اور کرتے ہیں۔

’’دیکھو نرمین۔ یہاں بھائی نہیں بھئی مستعمل ہے۔ دونوں کی باطنی تفہیم میں بعد الطرفین ہے۔ بہرحال تُم کون سا ماننے والی ہو۔

کوئی بھی تحریر جب شہود پاتی ہے تو کسی نہ کسی طور کسی قاعدے قرینے ہی کے زیر نظم ہو گی نا۔ مادر پدر آزاد بے ڈھنگی بے ترتیب لفظی لکیروں کو کوئی کیا جانے گا۔ اب اگر افسانہ لکھو اور اُس میں افسانویت کی کمی ہو تو کیا افسانہ ہو گا!‘‘

’’مُعاف فرمائیے گا سر!‘‘

وُہ تُندی اور تلخی سے بولی۔

’’افسانویت کی کمی تو آپ یوں فرما رہے ہیں جیسے پتھالوجسٹ کی رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وٹامن بی کی کمی ہے، یا یہ کہ ہیموگلوبن کی کمی ہے۔ جانے دیں سر۔ دِل کی بات کی۔ دِل سے بات کی۔ اگلے کے دِل کو لگی۔ سیدھی ٹھاہ کر کے۔ سحر چھا گیا۔ رُوح تک سرشار ہو گئی۔ اور کسے کہتے ہیں ترسیل اور تفہیم آپ نقاد لوگ؟

 کیوں گن گن کر حرف لفظ اور سطریں لکھیں۔ تسلیم کہ زبان کی اغلاط نہیں ہونی چاہئیں۔ تو بس ٹھیک ہے نا۔ ایک دن ایک بہت مستند اور نابغۂ روزگار شاعر فرمانے لگے کہ علامت کے بغیر شاعری بے معنی ہے۔ ورنہ تو بندہ سیدھے سدھار کہہ دے کہ

’’مجھے تُم سے محبت ہے !‘‘

میرا جی چاہا کہ عرض کروں، کہ میرے نزدیک تو یہ بہت اعلیٰ شاعری ہے۔

’’مجھے تُم سے محبت ہے‘‘۔

میں تو اس مصرعے یا جملے کو جتنا پڑھتی جاتی ہوں میرے اندر گھُستا جاتا ہے۔ میری رُوح تک کو مَس کرتا ہے۔ تو پھر اس سے بڑا شعر کیا ہو گا۔ نثری نظم یا نظم کہہ لیں۔ نثر پارہ کہہ لیں عروضی مصرع کہہ لیں۔ میرا تو کام بن گیا نا۔ بس میں خوش میرا قاری خوش۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ میں نے گلقند ڈالنی ہے قواعد کی۔‘‘

’’اب ایسا بھی نہیں۔ ایسا ادب کسی شمار قطار میں نہیں آئے گا۔ ادب ہی نہیں ہو گا سرے سے۔ جو لکھنا ہے لکھو جس نے پڑھنا ہے پڑھے۔ اصناف سُخن میں نہیں آئے گا کسی طور۔ بس یاوہ گوئی ہو گی۔‘‘

میں نے ایک اور پانسہ پھینکا۔

’’نہ کریں سر جی! وُہ بھول گئے آپ جو کسی نے کہا تھا کہ کینوس، تختہ سیاہ یا کاغذ پر کسی نا سمجھ کی لگائی ایک لکیر بھی با معنی اور کارآمد تخلیق ہے۔ وہ جو کسی نے اپنے تئیں فالتو لکھ کر پھینک دیا اور اُس کے مرنے کے بعد لوگوں نے جھاڑ پونچھ کر چھپوا کر شاہکار تخلیق قرار دیا۔ کیا پتا میری، آج کی، آپ کے بقول، یاوہ گوئیاں کل کے شاہکار ہوں۔ جہت ساز ہوں۔ میرا اٹکل پچو لکھا سٹریم آف کانشئیسنس کی اگلی قسم نکلے یا کسی انجانی نئی صنف کی بنیاد ہو۔ نُقطۂ آغاز ہو۔ گھسے پٹے لگے بندھے معیار اور قواعد عام اور معمولی اذہان کے لیے حدود متعین کرتے ہوں گے۔

 غیر معمولی اور حدود شکن اذہان کو ان معمولی بندوبستی قواعد کو قطعی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔

       ع      گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

’’ارے بھئی یہ مرزا غالب نے کہا تو تھا لیکن خود بھی اس سے منکر اور تائب ہو گئے تھے۔ تفہیم کا بندوبست کیا تو قبول عام ٹھہرے‘‘۔

میں نے کوشش جاری رکھی۔۔۔

٭٭٭

بادل

میں ہوں اک بادل اور یہ ہے میری کہانی۔

میری اصلیت بیان کرتی میری کہانی۔

 میں ہوں اک گہری مہیب بھر پور سیاہ کالی گھٹا۔

حیات آفریں پانی کی نرم بوندیں، جمی ہوئی برف کے سردمہرٹکڑے، کڑکتی بجلیاں، دھمکاتی گھن گرج اور للکارے میرے جلو میں۔

میں کہ حیات و ممات کا منبع۔

میں کہ غیظ و غضب اور نزاکت و رعنائی کی متضاد صفات سے کاملہ متصف۔

نرم گرم برسوں یا تاخت و تاراج کر دوں۔

رعد بن کر خاکستر کر دوں یا تپتی جلتی زمین پر آسودگی، سیرابی اور زیست بن کر ٹپکوں۔

میرا قطرۂ حیات روئیدگی اور بقا کو ترسے، زرد اور پھر سیاہ پڑتے سبزے پر دھیرے سے آ برسے اور نوید زیست ہو۔

کثرت سے سیلاب بلا کی صورت نازل ہو کر چٹانوں کو مفتوح بناتا کرۂ ارض کو پھاڑ ڈالے۔

میرا غضب تناور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر الٹا دے اور بہا لے جائے، آسماں بوس بلندیوں کو تحت الثریٰ میں اتار دے اور پستیوں کو غرقاب کر کے نابود کر دے۔ فنا کے گھاٹ اُتار دے۔

میں غریب کے جھونپڑے پر برس کر اس کی زندگی کی ضمانت، آخری جائے پناہ چھین لینے پر مامور۔

میں بلکتی تڑپتی ماں سے اس کا اکلوتا یتیم بچہ جھپٹ لینے پر مصر۔

میں دو دلوں میں محبت کا گداز پیدا کرنے والی، جذبات آلودہ شہوت انگیز رم جھم۔

میں بہاروں کی آمد کا پیغامبر۔

میں شگوفوں کو پھول بنانے والی تراوٹ۔

میں کس حد تک مختار ہوں اور کس حد تک مجبور۔ قرنوں سے یہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔ میرے جذبات و احساسات کا وجود و عدم پس پردۂ غائب سر بستہ راز ہے۔

میرے افعال کا تنوع صمدیت پر دلالت ہے۔

میری ہیئت ترکیبی کی تحلیل ممکن ہے۔

میری صفات مرئی بھی ہیں اور غیر مرئی بھی۔

میرا اسرار اک چیستاں۔

میں کرۂ ارض پر چھایا ایک مہیب اور گہرا بادل۔

میں کائنات کو مسخر کرتا قرنوں کی ہونی کا گواہ۔

ایک مورخ، ایک حکیم و دانا، ایک مجنون و مجذوب۔ مخفی خزانوں کا مدفن۔

اجبار و اکراہ کا ماخذ۔

میں ایک مہیب، گہرا بادل۔

مجبور و مقہور، محصور و مسحور کرتا بالا دست بادل۔

میرا عدم سے وجود میں آنا بھی تو اک گورکھ دھندہ ہی تھا۔ مرے اجزائے ترکیبی، عناصر بیخ و بن۔

اک معجزاتی عمل۔ اک پیچیدہ سلسلہ۔

مگر میں ہوں محض ایک بادل۔

ہوا جسے بناتی بگاڑتی اور اڑاتی ہے۔

تو یہ کہانی کس کی ہوئی؟

بادل کی یا ہوا کی؟

اور کیا ہے ہوا کی کہانی؟

٭٭٭

تقلید

"آؤ لڑکیوں کو نمبر دیتے ہیں۔”

یونیورسٹی میں آئے ہمیں تیسرا ہفتہ تھا اور مخلوط تعلیم ہم میں سے چند کے لیے بالکل نئی۔ یہ محفل لڑکوں کے ہوسٹل نمبر تین میں خالد فاروقی کے چھوٹے سے کیوبیکل میں منعقد تھی۔

نہیں یار۔ سب اپنے اپنے حساب سے جماعت کی دو سب سے اچھی لڑکیوں کو نمبر ایک اور دو کی ترتیب سے رکھو۔

ہمارے ساتھ لاہور کے مشہور اور بہترین کالج سے لے کر دور افتادہ خالص دیہی کالج تک کے تیار کردہ نمونے، ہر دو صنف میں، موجود تھے۔

باری باری سب لگے اپنی فہرست پیش کرنے۔

"نمبر ایک پر افشین اور نمبر دو پر سعدیہ۔”

سب سے پہلے الطاف کی باری تھی۔

” کیوں بھئی؟”

خالد مُعترض ہوا۔

"کیوں پوچھنے کی اجازت نہیں۔ ہر کسی کی اپنی مرضی ہے۔ اپنی پسند اور اپنی درجہ بندی۔”

الطاف نے آنکھیں دکھائیں۔

” لیکن کوئی جواز کوئی توضیح؟

ایسے تو مزہ نہیں آئے گا نا۔”

مسعُود نے اپنی ہانکی۔

"میرا خیال ہے یہ اختیار ہر کسی کے پاس رہنے دینا چاہیے کہ وُہ اپنی درجہ بندی کی وجوہات بتاتا ہے یا خفیہ رکھتا ہے۔”

میں نے خیال ظاہر کرتے ہوئے حکم جاری کر دیا۔

جانے کیوں چند ہی ہفتوں میں ساتھی میری غیر متنازعہ قائدانہ صلاحیت اور معتبر حیثیت کے قائل ہو چلے تھے۔ چند ایک تو باقاعدہ اتباع پر اُتر آئے تھے۔

"لو جی ہم بتا ہی دیتے ہیں۔”

الطاف کھنکارا۔

"افشیں کو دیکھا ہے کبھی؟

ہائے ! کیا رنگت ہے۔

گُلابی رنگ سفیدی میں سے یوں چھلک چھلک پڑتا ہے جیسے دُودھ پر گُلاب کی پتیاں تیرتی پھرتی ہوں۔

آنکھیں دیکھی ہیں؟

اگر دیکھ پاؤ تو۔

سیاہی اور سفیدی کا وہ نکھرا نکھرا تضاد کہ شاعر کی صبح انہیں میں شام ہو جائے۔

سرخی مائل سنہرے لمبے بال۔

ریشمی اور کمر تک آتے ہوئے۔

رنگے ہوئے نہیں۔

اصلی رنگ۔ اپنا۔ قدرتی۔ محیر العقول۔

کیا لمبا چھریرا بدن ہے۔

کبھی بات کی ہے اس سے؟

ہائے۔ جھرنے بھی پانی بھریں۔

لہجے کی مٹھاس!

اف! ایک اک لفظ موتی بن کر بکھرتا ہے۔

لباس کی نفاست پہ نظر کرنا۔

بے داغ۔ بے شکن۔ بے عیب۔

جیسے نازاں ہو کہ اس سیمیں بدن نے پہننے کے لیے چنا۔

جدھر سے گزرتی ہے ایک سحر ایک خوشبو جلو میں۔۔۔

یار مجھے تو اس کی سفید فوکسی پر بھی پیار آتا ہے۔

جی چاہتا ہے اس کے نیچے آ جاؤں۔۔۔”

ہم سب افشیں کے سراپا کو دھیان میں لاتے بس اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔

ایک خاموشی چھا گئی۔ کچھ آہیں بھی سنائی دیں۔

دسمبر کی اداس سردی کمرے میں گھس آئی۔

لمبے وقفے کے بعد شہباز کی آواز سرسرائی۔

"اور سعدیہ؟”

"بس یار افشیں کے بعد تو پھر سعدیہ ہی ہے۔”

الطاف نے نیم دلی سے کہا۔

نہ کسی کو وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی نہ اصرار کی نوبت آئی۔

ہوتے ہواتے میری باری آ گئی۔

"بولیں آقا!

آپ بھی عقل و دانش کی پوٹلی کھولیں۔”

الطاف نے مجھے ٹہوکا دیا۔

دلچسپ موضوع پر سنجیدہ ہو چلی فضا میں مجھے شرارت سوجھی۔

"بھئی نمبر ایک تو ہے ہی خالدہ۔”

"ارے جانے دیں مرشد۔

خدا کا خوف کریں۔

لمبی سیڑھی۔ چادرپوش۔ شاہدرہ سے بس پر لٹک کر آتی ہے۔ کبھی بولتے تک نہیں سنا۔ مجھے تو تھوڑی بھینگی بھی لگتی ہے۔”

جاوید نے جارحانہ انداز اپنایا۔

"خبر دار۔ کسی کو کوئی حق نہیں کہ دوسرے کے انتخاب کی توہین کرے۔

لمبا ہونا کوئی جرم ہے نہ چادر پہننا یا بس میں سفر کرنا۔

میرے نزدیک تو یہ خوبیاں ہیں۔

میں خود کل ریلوے اسٹیشن سے لکشمی چوک تک ویگن نمبر چار میں کبڑا کھڑا رہا۔ کچھ سواریاں اترنے پر سیٹ ملی۔ چادر ہماری ثقافت ہے اور بنیادی طور پر میں پکا پینڈو ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی عقیدت واپس لینی ہے تو لے لو۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا۔”

میں نے مصنوعی غصہ دکھایا۔

سب شش و پنج میں پڑ گئے۔

خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا جسے طارق اور الطاف کے سگریٹ کے پھیلتے دھوئیں نے مزید گمبھیر کر دیا۔

” ٹھیک ہے آقا آپ کی مرضی ہے۔

‘داس کیپیٹل’ بھی آپ کے سرہانے پڑی رہتی ہے اور چادر بھی آپ کو پسند ہے۔

ہم آپ کے اشتراکی نظریات اور روایت پسندی کے تضاد میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔

خیر۔ نمبر دو بھی بتا دیں اب۔”

الطاف منمنایا۔

"بھئی دوسرا نمبر سوائے فرزانہ کے کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔”

میں نے دھماکا کیا۔

"واہ واہ!

فرزانہ تو مکمل برقعہ پوش ہے۔ وہ تو ہاتھ بھی دستانوں میں چھپاتی ہے۔ سوائے آنکھوں کے کچھ نظر نہیں آتا اور آنکھیں بھی بس آنکھیں ہی ہیں۔

نہ کبھی کسی لڑکے کے قریب کھڑی ہوئی نہ کسی سے بات کی۔ کلاس میں ایک کونے میں لگ کر بیٹھتی ہے۔ مجال ہے جو کبھی کوئی سوال تک پوچھا ہو۔ مجھے تو شک ہے شاید گونگی ہی ہو۔

نہ شکل کا پتا نہ عقل کا۔

میرے آقا کو اندھیرے میں کیا دور کی سوجھی۔

جانے دیں سرکار۔

نہ الو بنائیں”۔

اعتراضات کا ایک شور اٹھا لیکن میں نے مصنوعی سنجیدگی برقرار رکھی۔

اگر انہیں شک تھا کہ میں الو بنا رہا ہوں تو بھی میں اپنی شرارت سے باز آنے والا نہیں تھا۔

"دوستو! پردہ کرنا کوئی بری بات نہیں، بلکہ ایک خوبی ہے۔ نہ بولنا بھی جائز اعتراض نہیں کہ جذباتی ترسیل حرف و صوت کی پابند نہیں۔ احساسات کی رسائی اور تفہیم سمعی و بصری آلات و اعضا کی مرہون منت نہیں۔ آپ میری پسند و نا پسند کو اپنے عامیانہ معیار کے تابع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ آپ لوگ اب تک جان چکے ہوں گے کہ میں جبر کا قائل نہیں۔”

میں نے مزید فلسفہ بگھارا۔ اس سے قبل کے مباحث کافی کچھ طے کر چکے تھے اس لیے مجھ پر زیادہ دباؤ ڈالنے کا کسی کو موقع نہ ملا۔

اللہ داد کی باری سب سے آخر میں آئی۔

جنوبی پنجاب کے جس چھوٹے گاؤں کے مدرسے سے ہوتا ہوا وہ ملک کی سب سے قدیم اور نامور ترین درسگاہ تک پہنچ کر ہمارے ساتھ بیٹھا تھا وہ ناقابل یقین قصہ تھا۔

"جی حضرت ! آپ فرمائیے۔ کیا درجہ بندی فرمائی ہے۔”

خالد استہزائیہ مسکراہٹ بکھیرتا ہوا بولا۔

"فرزانہ”

وہ یکدم بول پڑا۔

"سبحان اللہ۔ اور نمبر دو؟۔”

"فرزانہ”

میں نے چونک کر دیکھا تو اپنی گھنی سیاہ چھوٹی ڈاڑھی کے ساتھ بہت سنجیدہ چہرہ بنائے وہ بالکل بے حس بیٹھا تھا۔ جیسے پتھر کا ہو۔

جلد محفل برخاست ہوئی اور سب میس کو روانہ ہوئے۔

ہم اس شغل بھری محفل کو بھول گئے، لیکن جہاں اور چھوٹے موٹے رومانس کلاس میں شروع ہوئے وہاں اللہ داد کے وحشی یکطرفہ عشق نے فرزانہ کا جینا دوبھر کر دیا۔

اللہ داد نے اپنی کرخت انگریزی میں قابل اعتراض قسم کی شاعری شروع کر دی۔ فرزانہ نے کلاس کی دوسری لڑکیوں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اس کی منگنی ہو چکی تھی اور وہ اپنے منگیتر کو بہت پسند کرتی تھی۔ یہ بھی اطلاع دی کہ بہت جلد وہ رشتۂ ازدواج میں بندھنے جا رہی تھی۔ ان اطلاعات کا اللہ داد پر کوئی اثر ہوا نہ اس کے عشق میں کوئی افاقہ۔ فرزانہ نے یہ خبر اڑائی کہ اللہ داد کی فضول حرکات کہ وجہ سے شاید وہ تعلیم ہی ادھوری چھوڑ دے۔ یہ اطلاع بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ برآمد کر سکی۔ اللہ داد نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یونیورسٹی چھوڑنے پر بھی فرزانہ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے عشق پر یہ عمل مہمیز ہی ثابت ہو۔

اسی رونے دھونے میں آخری سمسٹر آن پہنچا۔ اللہ داد کے عشق کے ہاتھوں فرزانہ یونیورسٹی کا ایک سمسٹر ضائع کرنے سے بال بال بچی۔

اللہ داد ہر وقت میرے ساتھ چمٹا رہتا۔ ہر وقت پیچھے پیچھے۔ جیسے میری تقلید اس نے خود پر فرض کر لی ہو۔

میں نے آخری دنوں میں ایک دن پوچھ ہی لیا:

” یار اللہ داد! تو نے فرزانہ کو دیکھا نہیں۔ اس سے کبھی بات نہیں کی۔ تجھے اس میں کیا بھایا کہ تو نے دو سال نہ اپنے پلے کچھ چھوڑا نہ اس کے۔ کیا دیکھ کر تم اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ خود یونیورسٹی اخراج سے بمشکل بچے اور اس کی ڈگری بھی بس جانے ہی والی تھی۔

تمہیں صرف فرزانہ ہی کیوں بھائی۔”

اللہ داد چلتا چلتا رک گیا۔ بہت سنجیدہ ہو کر میری طرف دیکھا اور دھیرے سے بولا:

 "مرشد! آپ کے ہوتے ہوئے میں خالدہ پر تو عاشق ہو نہیں سکتا تھا۔ وہ تو تھی آپ کی پسند نمبر ایک۔

میری دال ہی نہ گلتی۔

باقی بچی تھی فرزانہ۔

سو میرے حصے میں آئی ہی فرزانہ۔

میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

٭٭٭

فیک

میں جان گیا تھا کہ صبا اسماعیل ایک فیک آئی ڈی ہے لیکن میں اسے ان فرینڈ تک کرنے کو تیار نہیں تھا چہ جائیکہ بلاک کرتا۔ کچھ نشے اپنا جواز بھی ساتھ ہی لاتے ہیں اور ہوتے ہوتے جواز کے مرہون منت ہی نہیں رہتے۔

صبا کی فرینڈز ریکوئیسٹ آنے پر میں نے کئی مشترک دوستوں کے فہرست میں ہونے کی وجہ سے اسے ایڈ کر لیا۔ اونٹ اور خیمہ کا قصہ یہاں منطبق نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بدو اونٹ اور خیمہ سب خلط ملط ہو گیا۔ ہم قریب اور پھر قریب سے قریب تر آتے چلے گئے۔

مجھے شروع ہی سے شک تھا کہ وہ فیک ہے لیکن اس کی باتیں انتہائی پر مغز، دلچسپ اور دلفریب ہوتی تھیں۔ میں عموماً ان باکس گپ شپ کرنا پسند نہیں کرتا۔ نچلے درمیانہ طبقہ کا فرد ہونے کے باعث مجھے اپنے خاندان کو ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے سر توڑ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اپنے سب شغل میلوں کے باوجود میں ایک ذمہ دار انسان ہوں۔ میری شخصیت میں یہ تضاد نہیں، تنوع ہے۔ جیسے ایک بوگن ویلیا کو پیوند لگا کر آپ چار رنگ کے پھول کھلاسکتے ہیں۔ اس سے نہ تو اس پودے کی اصلیت میں کوئی فرق آتا ہے اور نہ ماہیت میں۔ بس تنوع آ جاتا ہے جو خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔ میرے بیوی بچوں کو میرے شوق گراں نہیں گزرتے کیونکہ میں اپنے شوق اپنی ذمہ داریاں قربان کر کے پورا نہیں کرتا۔ میں ایک ذمہ دار شوہر، باپ، بیٹا، دوست اور پھر بھی من موجی اور خوش باش انسان ہوں۔

بہرحال بات ہو رہی تھی کہ میں عموماً ان باکس گپیں نہیں ہانکتا۔ خود تو میں لوگوں کے پیچھے جاتا ہی نہیں اور اگر کوئی ان باکس آ جائے تو بہت ضروری اور سنجیدہ جواب دے کر فارغ ہو جاتا ہوں۔ خواتین کے سلسلے میں اور بھی زیادہ محتاط ہوں۔ میں زندگی بھر لڑکیوں کے پیچھے خوار نہیں ہوا اور اکثر میرا رویہ بے نیازی جیسا رہا ہے۔ بہرحال میں نا شائستہ اور نا خوشگوار بھی کبھی نہیں رہا۔ یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ مجھے غیر سنجیدہ انسان نہ سمجھ لیا جائے۔

صبا کے ساتھ میرا رویہ اور معاملہ شروع ہی سے ایک منفرد رنگ اختیار کر گیا۔ وہ عام نہیں تھی، کچھ مختلف سی تھی۔ صبا ان باکس، کئی اور لوگوں کی طرح، میرے اشعار کی تعریف کرتی ہوئی آئی تھی لیکن اس کی تعریف میں ناپختگی اور کچا پن نہیں تھا۔ وہ میرے کلام کی روح تک پہنچ کر اس تکنیکی یا معنوی خوبی کی تعریف کرتی جو بالکل حقیقی ہوتی۔ صبا میرے شعر کے مماثل اساتذہ یا معاصر شعرا کا کلام لا رکھتی تو میں اندر ہی اندر اس کی وسعت مطالعہ اور سخن شناسی کا مداح ہو جاتا۔ کسی بھی تخلیق کار کے لیے سب سے بڑا خراجِ عقیدت اس کی بات کو پوری گہرائی سے سمجھ لینا ہوتا ہے اور اگر اس فہم و ادراک کو مناسب بیانیہ بھی مل جائے تو اور کیا چاہیے۔ یہاں تو سونے پر سہاگا یہ کہ سمجھنے، بتانے والی ہستی بظاہر خاتون بھی تھی اور میں بہرحال ایک مرد تھا۔

مجھے تسلیم کرنا ہو گا کہ صبا کی تعریف مجھے بہت مطمئن اور مسرور کرتی۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ صبا نہ صرف تعریف کرتی بلکہ میرے کلام پر تنقید بھی کرتی اور اصلاحی تجاویز بھی دیتی۔ ہم ہر موضوع اور ہر مسئلہ پر بات کر لیتے۔ آہستہ آہستہ یہ موضوعات پھیلتے چلے گئے۔ سنا ہے لوگ ان باکس جنس پر باتیں کرتے ہیں جو "سیکس چیٹ” کہلاتی ہیں۔ ہم جنس پر بات کرنے سے کبھی نہیں کترائے لیکن یہ بات سنجیدہ اور پر مغز ہوتی۔ مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ اس گفتگو کا مقصد سستا تلذذ ہے۔ بس دو ذمہ دار اور باعلم افراد سنجیدگی سے گفتگو کر رہے ہوتے۔ کبھی کبھار اس موضوع پر شستہ اور شگفتہ ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ بھی ہو جاتی جو بھلی لگتی۔

نہ کبھی صبا نے مجھ سے "میری دوستوں” کے بارے میں سوال کیے نہ میں نے اس "کے دوستوں” کے بارے میں پوچھا۔ یہ بہرحال طے تھا کہ ہم معمولی اور عام انسان ہیں سو بشری تقاضے اور کوتاہیاں ہو سکتی ہیں اور ان کی اہمیت بس اتنی ہی ہونی چاہیے۔

کئی بار میں نے سوچا کہ اسے کہہ دوں کہ وہ فیک ہے لیکن پھر سوچا مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کی باتیں نسوانیت کے وہ سر بستہ راز بے نقاب کرتی ہیں جو صد فی صد حقیقی ہیں۔ وہ نسوانی محسوسات اور کیفیات نفیس ترین اور حساس ترین نزاکتوں کے ساتھ بیان کرتی۔ میری زندگی مجرد تو نہیں گزری نا، سو میں صنف نازک کے بہت سے حساس اور نازک معاملات سے آگاہ ہوں۔ صبا کے ساتھ گفتگو میں جب بھی ایسا کوئی موضوع یا مسئلہ زیر بحث آیا (میں اس کے لیے تانیثی صیغہ ہی استعمال کروں گا کیونکہ مجھے یہی اچھا لگتا ہے) صبا اس بحث اور بیانیہ کو ان بلندیوں اور گہرائیوں تک لے گئی جو میرے تب تک کے مطالعہ اور مشاہدہ سے کہیں آگے تھیں۔ میں نے بھی اسے کچھ نہ کچھ سکھایا ہو گا لیکن اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔

میں نے بارہا سوچا کہ وہ اپنے خاتون ہونے پر کیوں بضد ہے اور کیوں میرے ساتھ ایک مرد بن کر، کھُل کر، سامنے آ کر بات نہیں کرتی لیکن کوئی حتمی توجیہہ سامنے نہ آ سکی۔ بعض اوقات میرا یہ یقین کہ وہ خاتون نہیں مرد ہے متزلزل ہو جاتا لیکن پھر میری چھٹی حس اور میرا فہمی ادراک مجھے متنبہ کرتے کہ صبا مرد ہی ہے، عورت ہو ہی نہیں سکتی۔ اب میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں تھا بس میرا دل، میرا دماغ اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ صبا کوئی مرد ہے عورت نہیں۔

میں نے متعدد بار فون پر بات کرنے یا کھانے، چائے پر مل بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن اڑھائی سال کے تعلق میں صبا نے کبھی اس معاملہ میں ذرا سی بھی لچک نہیں دکھائی اور ہمیشہ مجھے شروع دنوں کا معاہدہ یاد دلایا کہ ہم کبھی بھی ٹیلی فون پر بات یا بالمشافہ ملاقات پر اصرار نہیں کریں گے۔ اس سارے عرصے میں لکھی ہوئی مکالمہ بازی میں ایک بار بھی صبا سے اپنے لیے مذکر صیغہ استعمال کرنے کی غلطی نہیں ہوئی۔ پھر بھی میرا دل یہ کبھی نہیں مانا کہ صبا کوئی عورت ہے۔

چند دن قبل میرے ایک عالم فاضل دوست نے معمول کے مباحثہ میں، زور دے کر، یہ بات پھر کہی کہ ہر مرد میں ایک عورت اور ہر عورت میں ایک مرد موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد چاہے کتنا بھی مضبوط، کھردرا اور وحشی کیوں نہ ہو اس کا ایک حصہ، کہیں نہ کہیں، چھپا ہوا، دبا ہوا، اوجھل نسوانیت کی نمائندگی کرتا ہوا ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت چاہے کیسی بھی نازک اندام اور چھوئی موئی فطرت کی مالک کیوں نہ ہو اپنے اندر کہیں نہ کہیں ایک مرد چھپا کر بیٹھی ہوتی ہے۔

اس بات نے مجھے پھر گہرے تدبر اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں نے اس موضوع پر گھنٹوں سوچا ہے اور اپنے اندر دور تک جھانکنے کی کوشش کی ہے۔

مجھے یہ بات بڑی دلچسپ، معنی خیز اور پیچیدہ لگی ہے۔ میں اس بیانیہ کو ہر ممکن حد تک ذاتی تجربہ بنا کر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنا چاہتا ہوں۔

میں نے اپنی فیک آئی ڈی کا نام سیمیں شہاب رکھا ہے۔

٭٭٭

مہربانی

لکڑی کی چوکی پر کھڑا اجُو حیران تھا کہ نذیر نائی آج کچھا اتار کر اس کی حجامت کیوں بنائے گا۔ صبح ہی سے حویلی میں رونق معمول سے کچھ زیادہ تھی۔ برادری والے صاف کپڑے پہن کر سروں پر رنگ برنگے صافے باندھے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اجو نے سوچا کہ آج پھر بیل گاڑیوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر سب تحصیل جا رہے ہوں گے اور شام کو ابا اس کے لیے برفی یا جلیبی لائے گا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ کسی قریبی گاؤں میں فاتحہ یا ولیمہ کے لیے جا رہے ہوں اور دن ڈھلے واپس لوٹ آئیں۔ نذیر نائی نے بھی خلافِ معمول صاف کپڑے پہنے ہوئے تھے اور جاٹوں کی داڑھیاں مونڈھتا، مونچھیں کترتا پھر رہا تھا۔ اجو کوئی بہت بچہ بھی نہیں تھا کہ پانچ چھ سال کا ہو چلا تھا لیکن تھا تو بچہ ہی۔ نذیر نائی چاچے صفدر کی ڈاڑھی مونڈ کر مسکراتا ہوا اجو کے پاس آیا۔ نذیر کا چرمی تھیلا جس میں اس کی قینچیاں، استرے، انگریزی موٹی اور باریک کٹائی والی مشین، میل سے اَٹی ہوئی پلاسٹک کی کنگھی، شیو کا جھاگ بنانے والاصابن، گھسا ہوا برش، ناخن کاٹنے والا اوزار جسے وہ نیہرنا کہتا، استرا تیز کرنے کا پتھر جسے وہ وَٹی کہتا اور جانے کیا کیا بھرا رہتا تھا، اس کے کاندھے پر لٹکا تھا۔ چمڑے کا ایک ٹکڑا علیحدہ لٹک رہا تھا۔ وَٹی پر اُسترا گھس کر نذیر اس چمڑے پر استرے کی دھار باندھتا۔ اجو ہمیشہ حیران ہوتا کہ نذیر چمڑے پر استرے کو آگے پیچھے رگڑتے ہوئے اپنی زبان بھی منہ کے اندر باہر کیوں لے جاتا ہے۔ اجو کو استرے کی چمڑے پر حرکت اور نذیر کی زبان کی مسلسل اور باقاعدہ آمد و رفت سے یہی سمجھ آ یا کہ اس تال میل سے استرے کی صحیح دھار بندھنے کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور تھا۔ خیر مسکراتا ہوا نذیر بالآخر اجو کے سامنے آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں بانس کی پتلی سی نلکی جیسی کوئی چیز اور دوسرے ہاتھ میں استرا تھا۔ تاج دین حلوائی نے اجو کے ہاتھ پکڑ لیے اور نذیر بولا، "چوہدری اعظم اُوپر دیکھ نیلے رنگ کی ٹٹیری اڑتی ہوئی جا رہی ہے”۔ اجو نے ابھی اوپر نظر کی ہی تھی کہ نیچے ہوئی حرکت سے اُس کی چیخ نکل گئی۔ اس نے خود کو چھڑانا چاہا تو دو لوگوں کی مضبوط گرفت نے اسے ہلنے بھی نہ دیا۔ اب تاج دین کے ساتھ اجو کا ماموں بھی اسے پکڑے ہوئے تھا۔ جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ اجو کی مرہم پٹی ہونے تک نذیر نائی اور تاج دین حلوائی کو اتنی فصیح و بلیغ گالیاں مل چکی تھیں کہ ان کا ترجمہ کروانے میں کئی ہفتے لگ جاتے۔ ماموں صاحب کو بھی گالیوں میں سے وافر حصہ ملا تھا۔ بہر حال ہونی بیت چکی تھی۔ اللہ بخش نمبر دار کو جب بھی کسی نے مشورہ دیا کہ اعظم کے ختنے کروا لو، بڑا ہو گا تو تنگ کرے گا تو اس نے ہنس کر کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے، ذرا بڑا ہو لے تو دھوم دھڑکے سے ختنے کریں گے۔ کمیوں کو راضی کریں گے اور برادری کی اچھی دعوت کریں گے۔ اچھی دعوت کے لیے پالے گئے دو کٹڑے کاٹے گئے۔ میٹھے اور نمکین چاولوں کی دیگیں اتریں اور گرم گرم روٹیوں کے ساتھ خوب دعوت اڑی۔ کمی کمینوں کو لاگ دئے گئے۔ مہمانوں نے کمیوں کو گھر والوں سے علیحدہ پیسے دئیے۔ میراثیوں نے حویلی میں گانے سنائے اور نقلیں اتار کر چوہدریوں کو خوب ہنسایا۔ چوہدرانیوں کو گھر کے اندر میراثنوں نے بھدی آوازوں میں خوب خوب گانے سنائے اورذ و معنی لطیفے سنا کر ہنسایا۔ نذیر نائی نے نمبردار سے لاگ لینے سے انکار کر دیا اور بولا کہ میں چوہدری اعظم کی پٹی اترنے پر انعام لوں گا۔ چوہدری بھی مان گیا کہ ٹھیک ہے جو تیری خوشی۔ اگلے دن جب نذیر پٹی بدلنے آیا تو اجو کو خاصی تکلیف تھی۔ اس نے دونوں ٹانگیں دور دور کر رکھی تھیں اور ڈیوڑھی میں بچھی چارپائی پر تکیے کے سہارے نیم دراز تھا۔ شوکت فقیر کھجور کے پتوں والی پکھی ہلا کر مکھیوں کو دور کر رہا تھا۔ نذیر کو دیکھتے ہی اجو دھاڑا۔

 "نذیر نائیا ! تیری ماں۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔ کاٹ کر کیوں پھینک دیا؟ اس کے ساتھ میں تمہاری۔۔۔۔ کو یہ کرتا تھا، وُہ کرتا تھا۔”

نذیر نائی ہنستا بھی گیا اور اجو سے جھوٹی جھوٹی معافیاں بھی مانگتا گیا۔ بالآخر مذہبی مجبوری بتائی اور کوئی شادی کا بھی جھوٹا سچا حوالہ دیا لیکن اجو کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ اس حادثے کو دو ہفتے گزر گئے۔ چوہدری اعظم کی پٹی جسے وہ پگڑی کہتا تھا کھل چکی تھی۔ حاصل حصول سے اللہ بخش نمبردار، چوہدری اعظم عرف اجو اور نذیر نائی سب مطمئن تھے۔ سردیوں کی صبح کی دھند گاؤں کے چاروں طرف پھیلے کھیتوں میں گندم کے نوخیز نرم پودوں اور باغیانہ سر اُٹھاتی سرسوں کے نرم ڈنٹھلوں، کہ جن پر زرد پھولوں کے بچھنے میں چند ہفتے پڑے تھے، کو خوب بھگو کر آہستگی سے غائب ہوتی جا رہی تھی۔ پرعزم سورج اپنے زور میں دھند کو دھکیل کر گاؤں کے کچے پکے مکانوں، جانوروں کے طویلوں اور حویلیاں کہلوانے والے مردانہ ڈیروں کو روشن اور نیم گرم کرنے کے درپے تھا۔ صبح جلد اُٹھ جانے والے دیہاتی فارغ تھے کہ اس علاقے کی ربیع کی فصلیں بوئی  جا چکی تھیں اور جانوروں کے لیے چارا دوپہر کے بعد ہی کاٹا جانا تھا۔ دیواروں کے ساتھ ٹکرا کر دھوپ کی حدت بڑھ جاتی ہے سو سورج کی طرف رخ کر کے اپنے اپنے محلے کے مرد گروہوں کی صورت میں دھوپ کھا رہے تھے۔ گپ شپ کرتے انہی گروہوں میں سب سے پر رونق ڈیرہ نمبر دار کی حویلی کے تھڑے پر لگا تھا۔ حُقے تازہ تھے اور نذیر نائی موقع غنیمت جان کر ہر خواہشمند کی ڈاڑھی مونڈھ کر اپنا کام نپٹا رہا تھا۔

"ہاں بھئی نذیر ! اجو کا زخم بھر گیا۔ اب بتا تو نے کیا لینا ہے۔ میں تیرا حق دے کر فارغ ہونا چاہتا ہوں۔”

نمبر دار کو یاد آ گیا۔

"چوہدری جی جو آپ کی خوشی۔ ہم تو آپ ہی کا دیا کھاتے ہیں۔ آپ ہی کی مہربانی سے پشتوں سے آپ چوہدریوں کی خدمت کر کے بچے پال رہے ہیں۔”

نذیر نائی نے نسلوں سے یاد کیا ہوا فقرہ دُہرایا۔

"نہ بھئی نذیر۔ ایسے نئیں۔ تو نے کہا تھا کہ مرضی کی چیز لے گا اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ تجھے خوش کروں گا”۔

نمبر دار نے اصرار کیا۔

ایک دو بار رسمی انکار کے بعد نذیر بولا،

"چوہدری صاحب اگر آپ بضد ہیں تو مجھے کوئی کٹڑی دے دیں۔ خدمت کروں گا۔ کل کو بھینس بن جائے گی تو بچے دودھ دہی کو نہیں ترسیں گے۔ لسی کا پیالہ پی کر آپ کے جان مال کو دعائیں دیں گے۔ آپ کی رانی کو بھی صبح ہی صبح گڑوی پکڑ کر لسی مانگنے نہیں جانا پڑے گا”۔

چوہدری نے ذرا توقف کیا۔ پھر نظر مویشیوں سے بھرے باڑے پر ڈالی جہاں قسم قسم کے جانور چارا کھانے، جگالی کرنے یا آرام فرمانے میں مشغول تھے اور بولا۔

 "جا راجہ جا کر بھوری کٹڑی کھول لے۔ کسی پر مہربانی کریں تو پوری کریں۔ اس کی ماں دودھ کی نہریں بہاتی ہے۔ بالٹی بھر کر دودھ دیتی ہے دونوں وقت۔ خدمت کر۔ جھوٹی (جوان بھینس) بنے گی تو تمہاری بھوک مٹا دے گی۔ عیش کروا دے گی۔ سارے محلے کو لسی بانٹنا”۔

نذیر کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ لاکھوں دعائیں دیتا اٹھا اور بھوری کٹڑی کا ماتھا چوما۔ رسی کھونٹے سے کھول کر خوشی خوشی گھر کو روانہ ہوا۔

جب نذیر کٹڑی لے کر گھر پہنچا تو اس کے گھر والوں کی تو جیسے عید ہو گئی۔ نذیر کا گھر جوہڑ کے کنارے پر ایک کچے کمرے، چھوٹے سے صحن اور بیرونی دروازے کے سامنے چھوٹے برآمدے، جسے گاؤں والے ڈھارا کہتے تھے، پر مشتمل تھا۔ گھر کے سامنے کھلی بد رو اور اس سے آگے جوہڑ۔ کٹڑی کو جوہڑ کے کنارے کھونٹا گاڑ کر باندھ دیا گیا۔ جلدی میں ایک ناند بنائی گئی۔ بھوسے اور چارے کا بندوبست کیا گیا اور سارا خاندان کٹڑی کی خدمت میں جُت گیا۔

اگر امید کے سراب نہ ہوں تو غربت اور کمزوری میں جینا دوبھر ہو جائے۔ امید جینے کا سہارا بھی دیتی ہے اور انسان کو اٹھائے اٹھائے بھی پھرتی ہے۔ کٹڑی کی شکل میں جو امید نذیر کے گھر آئی اس نے گھر بھر میں توانائی دوڑا دی۔ کٹڑی کی خوب خوب خاطر مدارات ہونے لگیں اور اس کاوش کے مثبت اثرات بھی صاف نظر آنے لگے۔ صحت مند اور لاڈلاجانور عام رفتار سے زیادہ تیزی سے قد کاٹھ اور رنگ روپ نکالنے لگا۔ اجو کے ساتھ گزرے واقعہ کو خاصا وقت بیت گیا اور وہ یہ سانحہ بھول گیا۔ نذیر کی مہربانی تو ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئی لیکن چوہدری کی مہربانی پھلتی پھولتی گئی۔ نذیر نائی نے گاؤں بھر سے مانگ تانگ کر اچھے سے اچھا چارا، کھل بنولہ، گندم اور جو کا دلیہ کھلا کھلا کر بھوری کٹڑی کو جھوٹی بنا دیا۔ اسے نہلا دھلا کر سرسوں کا تیل ملتا تو اس کی جلد چمکنے لگتی۔ سینگوں کو کالاتیل لگا کر خوب چکنے کئے رکھتا۔ جب وقت آیا تو اپنے گاؤں کا کوئی بھینسا نذیر کو بھوری کے جوڑ کا نہ لگا۔ پورا دن نکال کر اعوان گڑھ جا کر سرکاری سانڈھ سے میل کروایا اور رہٹ کے صاف پانی سے نہلا کر ناند پر لاباندھا۔ اب دس گیارہ مہینے کا انتظار شروع ہوا۔ پورا خاندان دن میں کئی بار بھوری کی جسامت کا اندازہ لگاتا۔ تھن دیکھے جاتے۔ اس کی ماں کی خوبیاں بیان ہوتیں اور اپنی قسمت پر ناز کیا جاتا۔ کئی ماہ اس چاؤ اور امید میں نکل گئے۔ سالہا سال کی محنت رنگ لانے جا رہیتھی۔ دودھ اور شہد کی نہیں تو کم از کم دودھ کی نہر والی جنت بس ملا ہی چاہتی تھی۔ یہ جھوٹی نذیر کی کٹیا کا سب سے قیمتی اثاثہ تھی۔

گرمیوں کے دن تھے اور برسات کی آمد آمد۔ بادل یکدم کسی سمت سے نکل آتے اور اکثر ڈراتے دھمکاتے گزر جاتے۔ بجلی ابھی چھوٹے شہروں میں بھی نہیں آئی تھی اور گاؤں والوں نے تو صرف بجلی کی کہانیاں ہی سنی تھیں۔ راتوں کو برسات کی بوندا باندی ہوتی تو سوتے لوگ چھتوں سے چارپائیاں بستر گھسیٹ کر حبس زدہ کمروں میں گھس جاتے۔ ایک رات اجو چھت پر سو رہا تھا کہ بادل کے گرجنے سے جاگ گیا۔ اس نے آسمان کی سمت دیکھا تو بادل چھدرے سے تھے اور جگہ جگہ بادلوں سے خالی آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ بارش کا امکان کم ہے سو چھت پر ٹک کر دوبارہ سونے کی کوشش کی جائے۔ ابھی اس نے آنکھیں موند کر کروٹ بدلی ہی تھی کہ اسے کل رات والی بد مزگی یاد آ گئی جب بوندا باندی نے اس کی نیند ایسی اچاٹ کی تھی کہ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند نہ آئی اور سورج نکل آیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ نیچے جا کر بیٹھک میں سویا جائے تاکہ دن چڑھے تک مزے کی نیند کی عیاشی کی جائے۔ کھیس اور تکیہ بغل میں دبائے اپنی ہلکی سی چھوٹی چارپائی اٹھا کر وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔ ابھی بیٹھک میں داخل نہیں ہوا تھا کہ اسے کھسر پھسر کی آواز آئی۔ وہ اس ناوقت، غیر متوقع گفتگو کے بارے میں تجسس میں مبتلا ہو گیا۔ اجو نے چارپائی اور بستر ایک طرف رکھے، دبے پاؤں بیٹھک کے بند دروازے تک پہنچا اور کان لگا کر گفتگو سننے لگا۔ اس نے اپنے ابے اور معراج دین اوڈھ کی آوازیں فوراً پہچان لیں جو رات کے سناٹے میں بہت واضح سنائی دے رہی تھیں۔

"ٹھیک ہے نمبردارا۔ یہ کام تو آج رات ہی ہو جائے گا۔ باقی پہلے بھی تم ہی سنبھالتے ہو اب بھی تم ہی سنبھالنا”۔

معراج دین بولا۔ پھر کچھ دیر خاموشی رہی۔ نمبردار اس وقت بھی حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔

"ہاں ماجھے یہ کام اب ہو جانا چاہیے۔ کمیوں کے پاس وافر رزق آ جائے تو ہمیں کون پوچھے۔ یہ قدرت کا بنایا نظام ہے۔ اس نے ایسے ہی چلنا ہے”۔

اجو نے سوچا کہ آدھی رات کو ابے سے گالیاں کھانے سے بہتر ہے چھت پر ہی سویا جائے۔ بارش آ گئی تو پھر دیکھا جائے گا۔ اس نے اپنی کھٹولی اٹھائی اور دبے پاؤں دوبارہ چھت پر چڑھ گیا۔ رات بارش تو نہ آئی لیکن صبح ہی صبح اسماعیل دھوبی کے زور زور سے بولنے کی آواز نے اسے جگا دیا۔ اسماعیل نمبردار کو آوازیں دے رہا تھا۔

"چوہدری جی جلدی چلیں۔ نذیر نائی کا سارا خاندان دہائیاں دے رہا ہے۔ رات کوئی اس کی لاڈلی جھوٹی کھول کر لے گیا ہے۔ وہی جو آپ نے اسے کٹڑی دی تھی نا دو سال پہلے۔ اب تو گابھن تھی۔ سارے خاندان نے اتنی محنت سے پالی تھی۔ رانی رسولاں بین کر کر کے کہہ رہی ہے کہ اس کی قسمت میں گھر کا دودھ دہی نہ ہو سکا۔ اس کی عمر لسی مانگ مانگ کر ہی گذر جائے گی۔ اس کے بلونگڑوں جیسے بچے بھی ماں کے ساتھ چمٹ چمٹ کر رو رہے ہیں”۔

نمبر دار نے جلدی سے اٹھ کر اپنا تہہ بند سنبھالا، کھونٹی سے اتار کر پگڑی سر پر رکھی اور عصا پکڑ کر عجلت میں باہر نکل آیا۔

"اوہ! یہ تو ظلم ہو گیا۔ ان بے چاروں کا جانور کون کھول کر لے گیا۔ وہ نمانے تو مسکین ہیں۔ تھُڑ دلے ہیں۔ نذیر اپنی زنانی کے ساتھ اندر سو گیا ہو گا، جھوٹی باہر باندھ کر۔ ان لوگوں کو بس ایک ہی کام آتا ہے۔ ان کمیوں کو کیا پتا جانوروں کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ رسہ گیری پھر سر اٹھا رہی ہے۔ کچھ کرنا پڑے گا۔ اوئے سلامتے ! میرا حقہ تازہ کر کے پیچھے ہی لے آ۔ میں جا رہا ہوں نذیر کی طرف۔ اسماعیل ! میرا بچہ! تو جا ذرا جا کر رفیق کھوجی کو بلا کر لا۔ کوئی کھوج نکالیں کون یہ ظلم کر گیا ہے۔ جھوٹی تو ڈھونڈھنی ہی پڑے گی”۔

جب نمبر دار نذیر کے گھر کے سامنے پہنچا تو خالی ناند بچے کھچے چارے کے ساتھ بڑی اداس لگ رہی تھی۔ رسولاں رونا دھونا چھوڑ کر، تھک ہار کر اب بس ٹھنڈی سانسیں بھر رہی تھی۔ بچے بھی ماں کے ساتھ چمٹ کر سہمے بیٹھے تھے۔ نذیر نے نمبردار کو آتے دیکھا تو تیزی سے آگے بڑھا اور چوہدری کے گھٹنوں کو چھو کر بولا۔

"چوہدری جی معاف کر دیں۔ ہم آپ کی مہربانی سنبھال ہی نہیں سکے۔ آپ کی عنائت کی قدر ہی نہیں کر سکے۔ چوہدری جی ہم بھوری کے قابل ہی نہیں تھے۔ ہماری نہ اتنی اوقات تھی نہ مقدر۔ چوہدری جی ہمیں معاف کر دیں "۔

٭٭٭

مہابندر

مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شہنشاہ معظم شیر بہادر کے حکم سے تادیبی تعزیر کے نفاذ پر اب بندروں کا لائحۂ عمل کیا ہو۔ انتظامی حکم کی توجیہات میں بندروں کو شریر، گستاخ اور شر پسند ہونے کا الزام دیا گیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر بندروں کے جانور ہونے پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے تھے اور انہیں کسی مختلف مخلوق کے مماثل تک قرار دے دیا گیا تھا۔ بندروں کو ایک خاص مدت تک جنگل کا بڑا حصہ خالی کر دینے کی واضح ہدایت دے دی گئی اور عدم تعمیل پر ان کی نسل کو نیست و نابود کر دینے کا اذن تھا۔ معاملہ انتہائی سنجیدہ تھا اس لیے مہا بندر کی سربراہی میں پورا قبیلہ بڑے درخت کے نیچے اور اُ وپر جلسہ برپا کیے بیٹھا تھا۔ سب اس غلام زندگی سے بیزار تھے اور استبدادی نظام کے جبر سے گلو خلاصی کے متمنی۔

سبھی آزادی چاہتے تھے۔

خواہش رکھنا ایک الگ بات ہے اور تکمیل کی تدبیر اور وسائل کی بہم رسانی ایک الگ مسئلہ۔

جنگل بدر ہوں تو کیا ٹھکانہ ہو۔ کدھر چلے جائیں اور کیسے بسر ہو۔ سیر حاصل گفتگو ہونا تھی۔ ہر ہر پہلو زیر بحث آنا تھا۔ معاملات کے یہاں تک پہنچنے کی وجوہات کا پتا چلانا اور رموز مملکت نیز اسرار جہانبانی بھی موضوع تھے۔ گفتگو کئی گھنٹے سے جاری تھی اور بحث و تمحیص کئی موڑ مڑ چکی تھی۔ اس مرحلہ پر خاموشی کا ایک مختصر وقفہ آیا لیکن جلد ہی ختم ہو گیا۔

مہا بندر نے سادہ بندروں سے کہا،

"آزادی اور خود مختاری چند بنیادی عوامل کے بغیر محال ہے۔ ہمیں اپنی اہمیت بنانا ہو گی۔ ہمیں معتبر بننا ہو گا اور میری دانست میں اچھل کود ہی سے ہم معتبر ہوں گے۔ یہی جنگل کا وتیرہ ہے اور یہی جنگل کی زندگی کا چلن۔ شور شرابا ہی ہمیں شہرت اور اعتبار بخشے گا۔ یہ آزادی کے حصول کا واحد اور آزمودہ راستہ ہے۔ اسی سے سرداری ملے گی اور اسی سے اختیار۔

یہ بندر کانفرنس کوئی دو گھنٹے سے جاری تھی۔

درمیانے اور چھوٹے سائیز کے بندروں نے کان کھجائے۔ دانت نکالے۔ ایک دوسرے کی طرف مفکرانہ انداز سے دیکھا – آپس میں چخ چخ کی اور پھر ایک نے سب کی نمائندگی کرتے ہوئی سوال داغا:

"شیر تو اچھل کود کم ہی کرتا ہے۔ شیرنی کے مارے پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتا ہے۔ شیرنی تک کو کھانے دے یا نہ کھانے دے۔ مرضی چلاتا ہے۔ بھاگ دوڑ تو شیرنی کرتی ہے۔ پھر شیر کیسے زبردست اور شیرنی کیسے زیر دست؟”

سب چھوٹے اوردرمیانہ سائیز کے بندر ستائشی نظروں سے سوالی بندر کی طرف دیکھنے لگے۔

مہا بندر نے گھور کر سب کو دیکھا۔ پھر سوال کرنے والے بندر کے سر پر دھپ جمائی اور بولا:

"ابے گھامڑ! شور شرابا تو شیر زیادہ کرتا ہے نا۔ جب اچھل کود اور شور شرابے کا مقابلہ ہو تو عین ممکن ہے کہ شور شرابا اچھل کود سے بھی زیادہ موثر ہتھیار بن جائے۔”

جب سے شیر نے بندروں کے سردار، گرو گھنٹال، مہا بندر کو اپنی پسندیدگی سے خارج کر دیا تھا بندر تشویش میں مبتلا تھے۔ روز میٹنگز ہوتیں۔ مہا بندر عمر رسیدہ اور طبعاً سست ہونے کے باوجود ان سب میٹنگز کی صدارت خود کرتا تھا۔

"اچھل کود تو جنگل میں ہم سے بڑھ کر شاید ہی کوئی کرے۔ زمین ہو یا درخت، بلندی ہو یا پستی، ہم سے بڑھ کر اچھل کود کون کرے گا۔ اک پل نچلے نہیں بیٹھتے۔ دن بھر اودھم مچاتے ہیں۔ پھر بھی ہم کم معتبر کیوں قرار دیے جا رہے ہیں۔ ہم رعایا کے رعایا ہی رہے ہمیشہ۔

محکوم اور زیر دست”۔

ایک لال گلابی منہ والی نوجوان بندریا چیخ کر بولی۔ اسے بندروں کی میڈیا مینیجر کا عہدہ حاصل تھا اور وہ سارا دن کہنے سننے پر ہی مامور تھی۔

بڑے بندر کی پیشانی پر غور و فکر کی لکیریں گہری ہو گئیں۔ ذرا تامل کے بعد متین اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا:

"شیر کے شیر ہونے میں لومڑی کے کردار کو آپ لوگ یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لومڑی کی عیارانہ خدمات شیر کو حاصل ہیں۔ سب لگائی بجھائی کی ذمہ داری اسی نے اٹھا رکھی ہے۔ اس کے ذمہ جنگل کے دوسرے باسیوں میں گروہ بندی کرانا، مغالطے پیدا کرنا اور ان میں انتشار پھیلائے رکھنا ہے۔ لومڑی اپنے لالچ میں سب کو انگلیوں پر نچاتی ہے۔ تنکا تنکا بکھیرے رکھتی ہے۔ یہ نفاق اور انتشار ہی شیر کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی سے اس کی شاہی کو دوام ملتا ہے۔ اسی سے وہ زبردست رہتا ہے اور باقی زیر دست”۔

"لیکن شیر تو جنگلی جانوروں کے کمزور اور ناتواں حتی کہ نوزائدہ بچے تک مار ڈالتا ہے۔ ہرن، بھینس، بکری کچھ نہیں چھوڑتا۔ ہمیشہ اس تاڑ میں رہتا ہے کہ کوئی کمزور جانور قابو آ جائے تو چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ گردن دبوچ کر بیٹھ جاتا ہے۔ منہ خون سے لتھیڑ کر نرم گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے۔ کچھ کھا لیتا ہے باقی پر قبضہ جما لیتا ہے۔ بیماروں، بچوں اور بوڑھوں کو سب سے پہلے دبوچتا ہے۔ پھر بھی سردار ہے۔ حالانکہ نہ اصول پسند اور بہادر ہے نہ غیرت مند؟”

ایک نوخیز بندریا جس کے چہرے سے کنوار پن اور آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی اور جو اپنی صنف میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتی جا رہی تھی باریک آواز میں بولی۔

مہا بندر خاموش ہو گیا۔ اپنا سر کھجا کر نیچا کیا۔ پھر کچھ دیر بعد ماتھے کے بل گہرے کرتے ہوئے سر اٹھایا اور محسوس ہوا کہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ اس نے ابھی کچھ کہا نہیں تھا کہ ایک نوجوان بندر نے، جو نوجوان بندروں کے ایک بڑے گروہ کا نمائندہ تھا اپنی جوشیلی تقریر شروع کر دی۔

"مجھے تو سرے سے اس جنگل ہی کی سمجھ نہیں آ رہی۔ جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا چلا جاتا ہے۔ شیر کہاں کا بادشاہ ہے؟ اگر بادشاہ ہے تو اس کا کس پر کنٹرول ہے؟ کس پر حکومت ہے۔ جس کا جو جی چاہے کرتا ہے۔ جس کا جس پر زور چلتا ہے چلاتا ہے۔ اگر شیر زیبرے، اور بھینسے کو مارتا ہے تو اس کا بادشاہ ہونا کیسے ثابت کہ شیر کو بھینسے سے مار کھاتے اور ذلت سہہ کر دم دبا کر بھاگتے ہم بارہا دیکھ چکے۔ زیبرے کی دولتی کھا کر شیر کو پسپا ہوتے بھی کئی بار دیکھا۔ بادشاہ ہونے کا دعوی تو وہ کرے جو ہر وقت اور ہر حالت میں سب پر بھاری ہو۔ کبھی دم دبا کر نہ بھاگے۔ چھپ چھپا کر اکیلے دوکیلے پر وار نہ کرے۔ چالاک بن کر بیمار، بوڑھے اور بچے ڈھونڈھ کر نہ مارے۔ بادشاہ میں کچھ منفرد شاہانہ صفات تو ہونی ہی چاہئیں نا جو اسے ممتاز کریں۔ قابل احترام بنائیں۔ معتبر ثابت کریں۔ محض مکاری، دھونس اور دھاندلی ہی سے تو کسی کا بادشاہ بن جانا معقول نہیں”۔

بڑے بندر کی برداشت جواب دے گئی۔ اسے یہ اچھی طرح محسوس ہو گیا کہ بندر طبقہ میں بے چینی اور تشویش پھیل چکی ہے۔ حالات معمول سے ہٹ رہے ہیں اور خاص طور پر نوعمر روشن خیال طبقہ عدم اطمینان کا شکار ہے۔ اس نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر اپنا غصہ قابو میں رکھا اور مدبرانہ ٹھہراؤ کے ساتھ بولا:

"میرے عزیزو ! میں آپ لوگوں کی زیادہ تر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ مانا کہ جابر بوڑھے شیر کی نامعقول اور غیر منصفانہ بادشاہی سے گلو خلاصی بہت ضروری ہے۔ تسلیم کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور ہمارا حق ہے۔ لیکن ساتھیو! رہنا تو جنگل ہی میں ہے نا۔ جنگل میں رہیں تو یہاں بوڑھے، لالچی اور مکار بادشاہ کی بادشاہی مضبوطی سے قائم ہے۔ شیر اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں سمیت اپنے کاسہ لیسوں کی بدولت تخت شاہی پر متمکن ہے۔ ہر سو اس کے جبر کا سکہ رائج ہے۔ ہم جائیں تو کہاں جائیں”؟

گہری خاموشی سے اترتی اداس شام نے ماحول کو سوگوار بنا دیا۔ صورت حال کی سنگینی نے سب کی زبانیں بند کر دیں۔ ایسے میں سب چخیانہ بھول گئے۔

ایک لمبی خاموشی کے بعد ایک نو عمر بندر نے خاموشی توڑی اور بندریا کی سی باریک نسوانی آواز میں بولا:

"محترم ساتھیو! کیوں نہ ہم قریبی انسانی آبادی میں جا بسیں۔ بس دو چھوٹی پہاڑیوں کو پار کریں تو جنگل ذرا چھدرا ہو گا اور انسانوں کی آبادی شروع ہو جائے گی۔ وہ ہم سے بہتر مخلوق ہیں۔ آزادی سے رہتے ہیں۔ یقیناً ہماری آزادی کا بھی احترام کریں گے۔ ان کی انسانیت کی بدولت ہمیں بھی آزادی اور خود مختاری کا پھل چکھنے کو مل جائے گا”۔

اُدھر چند کوس پرے انسانوں کے جنگل میں اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ بوڑھا اور سست مہا انسان اپنے حواریوں کے ساتھ پوری مکاری، مہارت اور چابکدستی سے اپنے دور حکومت میں دور ریگستانوں، گہرے کھڈوں، تاریک کیچڑ گھروں اور جنگل بستیوں میں آباد اپنی آزادی سے بے خبر آزاد انسانوں کی بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات گنوا رہا تھا۔ میڈیا مینیجر اپنے قیمتی لباس کو سنبھالتی سنہری نوٹ بک میں نوٹس لیتی جا رہی تھی۔

وہ جانتی تھی کہ عیاری، مکاری، بندر بانٹ، اچھل کود اور شور شرابا ہی اشرافیہ کو معتبر و مقتدر بنا سکتے ہیں۔۔۔۔ جمہوری بادشاہت قائم رکھ سکتے ہیں۔

کہانی ابھی بہت طویل ہے!!

٭٭٭

اُجلے پاؤں، میلے پاؤں

       وُہ میری قطار سے اگلی قطار میں میرے سامنے سے دائیں والی کرسی پر دونوں پاؤں اپنی رانوں تک سکیڑ کر سیٹ پر رکھے بیٹھی تھی۔

آلتی پالتی مارے نہیں بلکہ اپنی منحنی، نازک ٹانگیں دوہری کئے۔

 اس کے لاغرسفید پاؤں مجھے بہت خوب صورت اور سبک لگ رہے تھے۔

ایک پاؤں اُجلا تھا اور ایک میلا۔

وُہ خود بھی سُبک تھی۔ دھان پان۔

 جیسے چاہے تو ہوا اُڑا لے جائے۔

"اسے میں اٹھاؤں تو یہ اتنی ہی ہلکی ہو گی جتنی مجھے محسوس ہو رہی ہے کہ یہ ہے؟

 ایک عجیب سا خیال میرے ذہن میں آیا۔”

 یہ گوشت پوست کی عورت ہے۔ اس کے سارے، مکمل اعضا ہیں۔

یہ زندہ ہے۔ سانس لیتی کھاتی پیتی ہضم کرتی ہے۔

 چلتی پھرتی سوتی جاگتی ہے۔

 یہ یقیناً رُوئی جیسی ہلکی نہیں ہو گی نہ بیر بہو ٹی جیسی نازک۔

اُٹھانے میں یقیناً اچھا خاصا وزن محسوس ہو گا جو مجھے حیران کر دے گا اور چھونے سے یہ ٹھوس لگے گی جو میرے لطیف تصور کو کثیف کرنے کے لئے کافی ہو گا”۔

میں نے سوچا۔

اُس کے بال کالے تھے۔ سیاہ کالے اور لمبے۔ بالکل سیدھے۔ جیسے مصنوعی ہوں۔ اتنی مکمل چیزیں تو مصنوعی ہی ہو سکتی ہیں نا۔ فطری ساخت میں تو کچھ کمی بیشی، کچھ نہ کچھ انیس بیس کا فرق، کچھ اوپر نیچے ہوتا ہی ہے جو کسی چیز کو فطری شکل و صورت دیتا ہے۔

ایسے ہی اُس کے دانت تھے جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔

سفید۔

بہت سفید اور چمکدار سفید نہیں، صرف سفید اور ہموار۔

متوازن۔

 عجیب لگنے کی حد تک متوازن۔

میرا خیال بہکنے لگا اور میں اس کے دیگر مستور اعزا کو چشم تصور سے دیکھنے لگا۔

سُبک، نازک اور مکمل۔

متوازن۔

مصنوعی ہونے کی حد تک متوازن اور نازک۔

 متناسب۔

مجھے لگا کہ اگر میں اسے اوڑھوں تو وہ بہت باریک پڑے گی اور اگر ڈھانپوں تو وہ دب جائے گی۔

"جو چیز اتنی خالص، اتنی شفاف اتنی متوازن اور اتنی مکمل ہو وہ کیا لازم ہے کہ مصنوعی ہی ہو۔” میرا خیال بہکا۔

” میں اصلی ہوں تو تھوڑا کرخت، بے ڈھب اور کھردرا ہوں نا۔ اصلی تو ایسا ہی ہوتا ہے”۔

ایک اور خیال ابھرا۔

 لیکن میں تو صنف کرخت ہوں۔ وہ صنف نازک ہے۔ صنف نازک کی بھی شاید کامل نمائندہ۔ ساری عورتیں ایسی تھوڑے ہی ہوتی ہیں۔ کیا میں اس کا مقابلہ کھیتوں میں، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی، زیر تعمیر سڑک پر پتھر کوٹتی عورت سے کر سکتا ہوں؟

کیا وہ بھی ایسی ہی مکمل، متوازن اور دھان پان ہو گی؟

 یقیناً نہیں۔

تو ان دونوں طرح کی خواتین میں کچھ تو مشترک ہو گا نا۔

 میری الجھن بڑھ رہی تھی۔

ہم ایک ایسی مجلس میں بیٹھے تھے جہاں سب نہیں پہنچ سکتے تھے۔

 بس "پہنچے ہوئے لوگ” ہی اس محفل تک رسائی پا سکتے تھے۔

میرا دل پھر بھی اچاٹ سا ہو گیا۔ اس جگہ سے ہٹنے کا مطلب اپنی جگہ چھوڑنے کے ساتھ اس نظارے اور اس احساس سے بھی دور ہونا تھا جو مجھے گرفت کر چکا تھا اور میں جس کے سحر میں تھا۔

نہیں میں اس احساس سے فرار نہیں ہو رہا تھا، میں تو اس احساس کے زیر اثر اپنے سوال کے جواب کے پیچھے جا رہا تھا۔

اُجلے پاؤں، میلے پاؤں۔

 میں ہال سے باھر آیا، پارکنگ لاٹ سے گاڑی حاصل کی اور سڑکوں پر سوار ہو گیا۔ سڑک اچھی تھی اور زیادہ رش بھی نہیں تھا۔ سوچوں میں گم درمیانہ لیکن مسلسل ایک ہی رفتار سے گاڑی بھگاتا چلا آیا۔

 بڑی سڑک سے جب اپنے فارم ہاؤس کی طرف ایک کلومیٹر چھوٹی سڑک پر پلٹا تو تھوڑا محتاط ہوا۔ مجھے پتہ تھا کہ اس وقت کون فارم ہاؤس پر ہو گا اور کون نہیں۔ میں نے بڑے گیٹ سے گاڑی داخل کی اور انجن بند کر کے اسے وہاں تک خاموشی سے جانے دیا جہاں تک چرچراتی بجری پر جا کر وہ خود ہی رک گئی۔

میرے السیشنز کا جوڑا بھاگا بھاگا آیا اور دونوں گاڑی کے گرد چکر لگانے، ٹائیر سونگھنے اور شیشوں پر پنجے مارنے لگے۔

پھر جمیلہ بھی اُن کی غُر غُر سُن کر صحن میں نکل آئی اور ان کے پیچھے گاڑی تک آ گئی۔

 میں نے کتوں کو پچکار کر پیچھے لگایا اور لے جا کر ان کے کمرے میں بند کر دیا۔

جمیلہ میرے پیچھے پیچھے پھر رہی تھی۔ غلام محمد اور دینو اپنے اپنے کاموں کے چکر میں فارم ہاؤس سے بہت فاصلے پر تھے۔ فارم ہاؤس پر جمیلہ، کتوں کے جوڑے، چھ بکریوں، ایک بکرے، تین میمنوں، تیرہ مرغیوں اور چار مرغوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔

 بس میں تھا اور جمیلہ۔

ہاں کچھ درخت تھے جن پر پرندے تھے۔

پتہ نہیں کتنے۔

میں آہستہ آہستہ چلتا برآمدے میں پہنچ گیا اور پھر چنیوٹ کے رنگین پایوں والے بڑے سے پلنگ پر چڑھ کر تکیہ لگا کر بیٹھ گیا۔

جمیلہ بھی وہیں آ گئی۔

"بیٹھو”

میں نے سامنے پڑے تخت پوش کی طرف اشارہ کیا۔

وہ بغیر جھجھک کے تخت پوش پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ اسے میرے عجیب و غریب حکم ماننے کی عادت تھی۔

 بغیر مزاحمت کئے۔

 بغیر سوال کئے۔

بغیر چوں چرا کئے۔

وہ مجھے ہمیشہ بہترین متبادل مہیا کرتی تھی۔ میری بہت سی کیفیات کی شاہد اور کئی رازوں کی امین تھی۔

اس نے تخت پوش سے لٹکتی ٹانگیں جھلانا شروع کر دیں۔

"ٹانگیں اوپر کر کے بیٹھو”

میں نے نرم لیکن معمولی سے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

اُس نے ٹانگیں اوپر کر لیں اور پھیلا کر بیٹھ گئی۔

پھر اس نے متوقع، سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اُس کے چہرے سے نہ محبت ہویدا تھی نہ نفرت۔ نہ اشتیاق نہ تجسس۔ بس سپاٹ سا چہرہ لئے وہ بے معنی نظروں سے مجھے دیکھتی تھی اور جو میں کہتا تھا کر گزرتی تھی۔

 "ایسے نہیں دو زانو ہو کر بیٹھو” میں نے حکم جاری کیا۔

وہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئی لیکن اس کا منہ میری طرف تھا اور پاؤں نیچے دب کر پیچھے کے رُخ پر اس کے زانوؤں تک آ کر چھپ گئے تھے۔

"کیسی پھوہڑ ہے۔

اور ایک وہ تھی۔

کیسے بیٹھی تھی وہ!

اِک نویکلا پن تھا اُس کی نشست میں۔

 غیر معمولی لیکن پھر بھی معتبر۔

 عجب بانکپن تھا اس انداز میں۔

نفیس سی پیش کش تھی۔ دعوت تھی۔

ایک ہی وقت میں بکھرتی ہوئی اور سمٹتی ہوئی کیفیت۔

عجیب لیکن دلکش۔

یہ نہیں کہ ڈھیر لگا دو۔ کوئی کھا لے یا مکھیاں ہگ جائیں۔”

میں نے جھنجھلا کر سوچا۔

"یہ موٹی موٹی رانیں اور تگڑی پنڈلیوں کے نیچے کالے ٹخنوں کے ساتھ جُڑے موٹے تگڑے بھدے پاؤں۔ اسے کیا پتہ کہ نزاکت اور نفاست سے کیسے بیٹھتے ہیں۔”

"پاؤں دکھاؤ؟”

میں نے درُشت لہجے میں کہا۔

اُس نے جلدی سے ٹانگیں سیدھی کر کے آگے بڑھا دیں۔

میرا دیکھنے کو دل ہی نہ چاہا۔

میں اُٹھا اور اسے حیران چھوڑ کر بغیر کوئی بات کئے فارم ہاؤس کے صحن میں بنی کچی پکی سڑک پر پڑے آوارہ پتھروں کو ٹھوکریں مارتا گاڑی میں جا بیٹھا۔ تھوڑے غصے سے گاڑی سٹارٹ کی اور قدرے تیزی سے موڑ کر فارم ہاؤس سے باھر نکل آیا۔

شہر سے بیس تیس کلومیٹر دور تک دیہات کے نیم خواندہ جاٹوں سے خریدے زرعی رقبے پر فارم ہاؤسز بکھرے پڑے تھے۔ دار الحکومت کے کھاتے پیتے طبقے میں فارم ہاؤس بنانا بھی ایک رواج ہی بن گیا ہے۔ ان فارم ہاؤسز سے بہت سے اچھے برے کام لئے جاتے ہیں۔ مجھ سے بہتر یہ کون جان سکتا تھا۔

 میں ناہموار پتلی سڑک سے ہوتا ہوا پھر بڑی سڑک پر آ کر شہر سے مخالف سمت نکل گیا۔

 سات کلومیٹر دور واقع میرے ملکیتی اینٹوں کے بھٹے کی اونچی اور موٹی چمنی بہت دور سے درختوں سے قد نکالتی نظر آ رہی تھی۔ چمنی سے دھواں نہیں نکل رہا تھا کیونکہ ابھی برسات کا موسم ختم ہوا تھا اور کچی اینٹیں بنانے کا کام تین ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہوا تھا۔ یہ عمل کم از کم ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ کچی اینٹیں بنا کر سُکھانا، پھر ان کی قطاریں خاص مہارت سے بھٹی اور چمنی کے ارد گرد جما کر بھٹہ بھر کر تیار کرنا بڑی مہارت کا کام تھا۔ یہ کام مکمل ہو تو کہیں جا کر بھٹے کو آگ دکھائی جاتی ہے۔ حرارت ہر جگہ مناسب پہنچنی چاہئے تاکہ نہ تو اینٹیں زیادہ پک کر کالا پتھر بن جائیں اور نہ کم حرارت سے پھیکی رہ جائیں جو” پِلّی” کہلا کر ٹھکرا دی جائیں اور اونے پونے بیچنی پڑیں۔ میرا بھٹہ اس جگہ سے آٹھ کلومیٹر دور میرے فارم ہاؤس والی جگہ کے قریب ہوتا تھا لیکن مسلسل استعمال سے ایک تو وہاں کچی اینٹوں کے لئے قرب و جوار میں مٹی دستیاب نہ رہی اور پھر کارپوریشن والوں نے محکمہ ماحولیات کے نوٹس پر بھٹے کو پھیل کر اوپر چڑھتے شہر سے دور لے جانے کا حکم دے دیا۔ بہرحال میں نے اپنے پانچ بھٹوں سے اتنی دولت کما لی تھی کہ یہ منتقلی آسانی سے برداشت کر گیا۔ اب میرا بھٹہ تقریباً تین سال سے یہاں قائم تھا۔ یہ بھٹہ جاٹوں اور ارائیوں کے علاوہ میواتی قوم کی زمینوں کی زرخیز اوپری سطح کچی اینٹوں کی شکل میں نگلتا جا رہا تھا۔ آٹھ دس فٹ مٹی کے پیسے تو بہت ملتے تھے لیکن لہلہاتی فصلوں کے زیور پہنی دھرتی کھڈ اور گڑھے بن جاتی تھی، جس کے کناروں پر بس آک اور سرکنڈے اگتے تھے۔

نسلوں سے آباد جٹ اور ارائیں نیز تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے علاقہ میوات سے آ کر مہاجر ہو کر چلے جانے والے سکھ جاٹوں کی زمینیں الاٹ کروانے والے میواتی اپنی بھٹے میں جھونکی زمینوں کی باقیات کو دوبارہ آباد نہیں  کر رہے تھے۔ وہ منتظر تھے کہ چند کلومیٹر دور رہ گیا شہر اس زمین پر چڑھ آئے، زمینوں  کے سودے ہوں  اور بینک میں کھولے ان کے اکاؤنٹ موٹی رقموں سے بھر جائیں۔

کبھی زمین بیچنا ماں بہن بیچنے کے مصداق سمجھا جاتا تھا لیکن وہ زمانے گزر چکے تھے۔ عزت غیرت اور انا نے نئے پیمانے گھڑ لئے تھے جو خاصی گنجائش رکھتے تھے۔ آبائی پیشہ اور موروثی کھیت کھلیان بیچ کر نفع آور کاروبار اپنا لینا کوئی برا نہیں  تھا۔ شہر کی قربت نے نئی نسل کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

یہ بھٹہ لگ بھگ ڈیڑھ ایکڑ رقبے پر قائم کیا گیا تھا جو مضافاتی سڑک کے ساتھ واقع ہونے کے باوجود مجھے بڑے معقول بھاؤ سے مل گیا تھا۔ اصل بھٹے نے آدھے رقبے سے بھی کم جگہ گھیر رکھی تھی جب کہ بھٹے کے ارد گرد بہترین کوالٹی اور کم تر معیار کی اینٹوں کو چھانٹ کر گن کر ڈھیروں کی شکل میں ترتیب سے رکھا گیا تھا۔ مُنشی جو اَب مینیجر کہلاتا تھا گنتی کر کے رجسٹر میں درج کر کے ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک لوڈ کرواتا تھا۔

اس سارے کاروبار سے ذرا ہٹ کر بھٹے سے کچھ فاصلے پر جہاں میرا پلاٹ ختم ہوتا تھا سولہ بائی بارہ فٹ کے بھٹے کی خراب اینٹوں سے بنائے گئے اٹھارہ کمرے ایک قطار کی شکل میں بنے تھے۔ ان کمروں  میں  پتھیرے اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ پتھیرے زمینداروں سے خریدی گئی مٹی سے جو اڑوس پڑوس کی زمین سے حاصل کی جاتی تھی بال بچوں سمیت اینٹیں تھا پتے تھے۔ اچھی اینٹوں کے لئے مٹی میں جو خصوصیات چاہئیں وہ اس علاقہ کی مٹی میں موجود ہونے کی وجہ سے میرے بھُٹے کی اینٹیں درجہ اوّل کی قرار پاتی تھیں۔ ہماری اینٹیں ہر بار بھٹہ کھلنے سے پہلے ہی ایڈوانس میں بک ہو جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ اینٹوں کے حصول کے لئے سفارشوں کا بھی رواج تھا۔ ٹھیکیدار مالکوں  کی میرے بھٹے کی اینٹوں کے استعمال کی شرط پوری کرنے کے لئے مُنشی کی چاپلوسی تک کرتے تھے۔ یقیناً مٹی کی خاصیت کے علاوہ اتنی اچھی اینٹیں بنانے میں بہت بڑا ہاتھ محنت کش اور ہنر مند پتھیروں کے ان خاندانوں کا تھا جو بھٹے پر بنی کوٹھڑیوں میں رہتے تھے۔ یہ پشتوں  سے اس کام کو کرنے کا تجربہ رکھنے والے ہنرمند بہترین کچی اینٹیں تھاپتے تھے جن کا فی سینکڑہ معاوضہ طے تھا۔

یہ پتھیرے نسل در نسل یہی کام کرتے چلے آتے تھے اور شاید ہی کبھی بھٹہ یا بھٹہ مالک بدلتے ہوں۔ پتھیرے عام طور پر پیشگی رقم لے لیتے تھے جو اُن کی تین چار سال کے بچوں سے لے کر اَسّی سال کے بوڑھوں تک کی بھرپور محنت کے باوجود کبھی کم نہیں ہوتی تھی بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ پھر ہم سب بھٹہ مالکان کا آپس میں معاہدہ تھا کہ موجودہ مالک کی مرضی کے بغیر کوئی دوسرا بھٹے والا پتھیروں کے کسی خاندان یا کسی فرد کو کام پر نہیں رکھے گا۔ مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ کسی مالک نے برضا و رغبت کسی پتھیرا خاندان کو اپنا بھٹہ چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اب بدلتے وقت کے ساتھ کچھ لوگ جو خود کو سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے بتاتے تھے آ کر ان پتھیروں سے بانڈڈ لیبر وغیرہ کا نام لے کر سوال کرتے تھے۔ میرے کسی پتھیرے یا اس کے کسے بچے تک نے کبھی اُنہیں کچھ الٹا سیدھا نہیں بتایا تھا۔ وہ لوگ پھر پھرا کر اور کبھی فوٹو وغیرہ کھینچ کر اپنی دیہاڑی لگا کر چلے جاتے۔

 ہمارا کام کبھی متاثر نہیں ہوا۔

پتھیروں کی میرے پلاٹ کے کنارے پر بنی اٹھارہ کوٹھڑیوں میں سے تیسری کوٹھڑی پھجے دیندار کی تھی جس میں اب پھجا نہیں رہتا تھا۔ فضل دین عرف پھجّاکی دینداری بس اتنی تھی کہ اس کے باپ نے کسی کے کہنے پر اسلام قبول کر لیا تھا۔ بس اتنا قبول کیا تھا کہ صحیح یا غلط جیسا بھی اس ان پڑھ گنوار سے ہو سکا مولوی صاحب کے پیچھے پیچھے کلمہ دوھرا دیا تھا اور بہت سی مبارک بادیں وصول کر لی تھیں۔ پھجے کی ماں فجری نے بھی یہی عمل دوھرا کر اورنکاح کی تجدید کر کے حاجی عمر دین اور مولوی چراغ حسین کے لئے جنت کا بیع نامہ پکا کروا دیا تھا۔ پھجے کو اس دینداری کے لئے سب سے بڑی قربانی دینی پڑی تھی کیونکہ سات سال کا ہونے کے باوجود اس کے ختنے ہوئے تھے۔

فضل دین کا چند قطرے خون بہا تھا جبکہ اس مقصد کے لئے تاریخ میں تو خون کی ندیاں بہنے کا بھی ذکر ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ فضل دین کی کوٹھڑی میں اب وہ فضل دین نہیں رہتا تھا جس کے باپ جاگرنے جنگلی بلے کھانے والے گگڑوں کا بے نام مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا اور بے مطلب کا کڈھب نام بدل کر پاکیزہ نام رکھ لیا تھا کیونکہ فضل دین اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ اسے ورکشاپ کے جس اناڑی ڈرائیور مستری لڑکے نے کسی گاہک کی کار کی ٹرائی لیتے ہوئے مارا وہ اللہ کو پیارا نہ ہوا، بس فضل دین عرف پھجا دیندار پتھیرا اللہ کو پیارا ہو گیا۔ پھجا دیندار تو دینداری سمیت گیا لیکن پیچھے رہ گئی سیماں اور اس کی دو ننھی ننھی دیندار بچیاں۔ سیماں اور پھجے نے پیار کی شادی کی تھی اور شادی کے بعد بھی پیار کیا تھا۔ پھجے دیندار کا تو مرنے، اللہ کو پیارا ہونے کے بعد کا پتہ نہیں کیا بنا لیکن سیماں کا پیار اسی طرح قائم رہا تھا۔ اس کی خوب صورتی اور جوانی پر ترس کھاتے کئی کنوارے اور کئیر نڈوے آئے لیکن اس نے ایک ہی ضد پکڑے رکھی کہ فضل دین کی تھی اور اسی کی رہ کر اسی کی کوٹھڑی میں مرے گی۔ محنت کرے گی اور اپنی ننھی بچیوں، پھجے کی نشانیوں کو پالے گی، ان کی شادیاں کرے گی اور پھر پھجے دیندار کے پیچھے اس جہان جائے گی جہاں پھجا سارے وعدے توڑ کر چلا گیا تھا۔

پھجا اس بھٹے پر واحد پتھیرا تھا جو مجھ سے پیشگی نہیں لیا کرتا تھا۔

 سیماں اور وہ بڑے محنتی تھے، جوان تھے ہمت اور انا انکھ والے تھے۔ وہ اپنی پتھیرا برادری سے علیحدہ تھے، انوکھے تھے۔

دونوں مل کر مٹی کھودتے، برابر باریک کرتے، گھانی کرتے، گوتے اور پوری دیانتداری سے سانچہ بھر کر، اچھی طرح دبا کر جو کچی اینٹ ہموار کی گئی زمین پر الٹنے تو لگتا کہ برفی کی ڈلی ہے۔ ان کی اینٹیں نکھری نکھری سی علیحدہ نظر آتیں۔ بہرحال پھجا چلا گیا تو سیماں نے سارا کام اکیلے سنبھال لیا۔ چار سال کی زینب اور چھ سال کی بشریٰ اس کے ساتھ کھڈوں میں لڑھکتی پھرتیں۔

میں نے گاڑی کھڑی کی اور کھڈوں کے کنارے کنارے چلتا پتھیروں کا کام دیکھتا گیا۔ سب مجھے دیکھ کر حیران ہوئے۔ جو بھی دیکھتا سلام کرتا اور پھر کام میں مشغول ہو جاتا۔ پھرتے پھر۱تے مجھے وہ کھڈا نظر آ گیا جہاں سیماں کی کالی چادر کنارے پر ٹکی تھی اور وہ گوئی، کمائی ہوئی مٹی سے اینٹیں تھاپ تھاپ کر کئی قطاریں لگا چکی تھی۔ زینب اور بشریٰ کھڈے سے باہر نکل کر آگے پیچھے بھاگ کر ایک دوسری کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ سیماں کھڈے کے کنارے سے پشت ٹکا کر دونوں ٹانگیں لمبی کئے آنکھیں بند کر کے سستا رہی تھی۔ مٹی سے ستے ہوئے ہونے کے باوجود اس کے دونوں تلوے جو میری سمت تھے بالکل صاف تھے۔

اس کے سانولے پاؤں چمک رہے تھے۔ اُجلے پاؤں۔

یا شاید مجھے ایسا لگ رہا تھا۔

مجھے قیمتی جوتوں کے اندر نرم جرابوں سے ڈھکے اپنے دونوں پاؤں سخت میلے محسوس ہوئے۔

یقیناً یہ سب میرا وہم تھا۔

ایسا تھوڑے ہی ہوتا ہے۔۔۔

٭٭٭

بارِ زیست

عبد اللہ کو ایک صحت مند نومولُود کی شکل میں دین محمد کریانہ فروش کے گھر بھیجا گیا۔ جب وہ بڑا ہوا اور اس نے سوچا کہ آیا اس ساری کاروائی میں اس کا کوئی عمل دخل تھا تو اسے کچھ یاد نہ آیا۔ مذہبی تاویلات بہرحال تھیں جو معاشرتی اثرات کے زیر اثر بہت مقبول اور کائیناتی سچ کا درجہ رکھتی تھیں۔ عبد اللہ دین محمد کی اکلوتی اولاد تھا۔ اسے اپنے باپ کے دین محمد کریانہ سٹور سے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہ رہی۔

 دین محمد کی دکان قصبہ میں موجود اسی نوعیت کے دیگر دو سٹورز سے زیادہ چلتی تھی کیونکہ اس کی ایمانداری مشہور تھی۔ چیزیں تھوک میں بوریوں یا ٹین کنستر میں بند آتیں اور کریانہ کے گاہکوں کو دوکاندار چھوٹے بڑے ترازو سے تول کر اور بعض اوقات محض قیافے سے آنک کر دے دیتے۔ دین محمد جیسے کھلے دل والے دکاندار ترازو کو تھوڑا سودے کی سمت جھکا چھوڑتے، بلکہ اوپر سے چٹکی بھر اور ڈال دیتے جو اُن کے خیال میں ان کی گاہکی میں برکت کا سبب بنتا۔

سودا عموماً اخبار یا ردی میں بکی پرانی درسی کتب کے پیلے پڑتے کاغذ کا پُڑا بنا کر گاہک کے حوالے کر دیا جاتا۔ پلاسٹک شاپر نامی ماحولیاتی عذاب کا زیادہ رواج نہیں  پڑا تھا۔ سادہ سا زمانہ تھا اور بھلے لوگ۔ عدم دلچسپی کے باوجود عبد اللہ کو والد کے ساتھ کریانہ سٹور ہی سنبھالنا پڑا کیونکہ وہ ساتویں جماعت میں تین بار فیل ہوا۔ ماسٹر اقبال کا خیال تھا کہ اسے کم از کم اتنا تو پڑھ لکھ لینا چاہیے جو دوکان کا حساب کتاب باسہولت تحریر کرنے کے قابل بنا دے لیکن اس ضمن میں نہ دین محمد کی نصیحت اور مار پیٹ کسی کام آئی اور نہ ماسٹر اقبال کی۔ عبد اللہ نے نہ پڑھنا تھا اور نہ پڑھا، بس دین محمد کا مددگار بن گیا۔

زمانہ بہت تیزی سے بدلا۔ قصبہ شہر کی صورت اختیار کرنے لگا۔ نئے سٹور کھلنے لگے۔ وہ لوگ کاروبار میں آ گئے جن کا کسی نے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ پرانے قصبہ والے بڑھاپے کو پہنچنے لگے۔ نئی نسل کو نہ دین محمد کی مسلمہ دیانتداری کا کوئی لحاظ رہ گیا نہ اُس رواداری کی کوئی فکر جس نے اُن کے بزرگوں کو دین محمد سے خلوص اور اپنائیت کے بندھن میں باندھ رکھا تھا۔ عبد اللہ کے خاندان میں اتفاق سے یا قدرت کی کسی نیرنگی کے طفیل کئی پشتوں سے ایک ہی بچے کی روائت چلی آ رہی تھی۔ عبد اللہ کی اماں سارے محلے میں تائی سکینہ کے نام سے جانی جاتی تھی اور بہت بھلی عورت تھی۔ سکینہ کی خواہش تھی کہ عبد اللہ کے زیادہ بچے ہوں اور اکلوتے کی رسم ختم ہو۔ اس مقصد کے پیش نظر اس نے اپنے میکے سے ایک سگھڑ سی، پانچویں پاس لڑکی شکیلہ، اس کے لیے ڈھونڈھ نکالی۔ عبد اللہ کی اوائل عمر ہی میں شادی کر کے زیادہ بچوں کی امید باندھ لی گئی کہ بندہ کا کام تو تدبیر کرنا ہی ہے نا۔

شکیلہ بہت اچھی بیوی اور بہو ثابت ہوئی۔ دین محمد کی بے وقت موت کے بعد عبد اللہ نے بڑی منت سے دکان چلانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ شادی کے بعد اس نے اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داری کا ادراک کر کے دن رات ایک کر دیا لیکن سب کچھ انسان کے بس میں ہے نہیں۔ اگر محنت ہی کامیابی کی ضمانت ہو تو بہت سے تاجور خاک بسر اور خاک نشیں بخت آور بن جائیں۔ قدرت کے کارخانے کے بہت سے راز خفیہ ہیں۔ بہت سی ہونی انہونیوں کو ہم جب سمجھ نہیں پاتے تو قدرت کے نہ سمجھ میں آنے والے نظام اور مشیت و مقدر کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی عبد اللہ کے ساتھ ہوا۔ وہ اپنے روائتی سٹور کی بھُربھری چٹان کو جدید جنرل سٹورز کے منہ زور سیلاب کے سامنے قائم رکھ سکنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا کہ ایک نئی افتاد آ پڑی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر حکومت نے اس، سب تحصیل، کو مکمل تحصیل کا درجہ دے دیا۔ سرکاری دفاتر، اور ہسپتال پہلے سے بڑے تعمیر کیے گئے۔ اکثر سرکاری عمارتوں کی توسیع ہو گئی۔ کچہری کی رونق اور رقبہ دوچند ہو گئے۔ قصبہ شہر بن گیا اور گاڑیوں موٹر سائیکلوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ تانگے غائب ہو گئے اور ان کی جگہ بدنما، بے ڈھنگی اور پرشور چنگچیوں نے لے لی۔ شہر کی اکہری سڑکیں، جن کے کچے کناروں پر کبھی کمیٹی کی لال رنگی گاڑیاں صبح ہی صبح چھڑکاؤکرتی تھیں تو کچی مٹی کی مہک دیسی گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے مل کر کمپنی باغ میں سیر کرتے سحر خیز مرد و زَن کے نتھنوں میں گھس گھس جاتی تھی خالی ہی نہ ہو پاتیں کہ چھڑکاؤ کی نوبت آئے۔ دھول مٹی اور ڈیزل پٹرول کے دھویں کا آمیزہ صبح شام ہوا پر سوار لوگوں کے نظام تنفس کا وہ حال کرتا کہ وہ چنگچی کے سائلنسر بنے پھرتے۔ طرح طرح کی بیماریاں عام ہوتی چلی گئیں۔

مین بازار کے چوک سے، جہاں عبد اللہ کا سٹور تھا، گزرنا محال ہو گیا۔ ٹریفک کے مریل سپاہیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود سارا دن چوک اور چاروں سڑکوں پر ٹریفک بند رہنے لگی۔ گاہکوں کا چوک کی دوکانوں تک آنا دوبھر ہوا تو پرانے اور وضع دار گاہکوں نے بھی قدیم شہر کے تنگ گلیوں والے میں بازار کی نسبت آسان رسائی والے نئے سٹورز پر قناعت کر لی۔ پرانے گاہکوں کو نئے اور کشادہ لیکن جدے دیت کی رعونت اور خشکی لیے جنرل سٹورز سے خریداری میں وہ مزہ بالکل نہیں آتا تھا جو عبد اللہ کی پرانی دوکان کی پٹ سن کی بوریوں میں رکھی مختلف اشیاء کی خوشبو سونگھتے سودا بندھو اتے آیا کرتا تھا لیکن ان کے بوسیدہ جسم بھیڑ بھاڑ کی مار کھانے کے قابل بھی تو نہیں تھے۔

وقت بہت طاقت ور اور من موجی ہے۔ جب بدلتا ہے تو اس کی سفاک بے نیازی سے جو بھی تہہ و بالاہو یہ پرواہ ہی نہیں کرتا۔ عبد اللہ کریانہ سٹور سے روح نچڑتی چلی گئی۔ عبد اللہ کو باپ بھی یاد آتا اور ماں بھی۔ باپ کے سفید بالوں بھرے سینے کی وسعت بڑھاپے تک عبد اللہ کے آلام و مصائب کو خود میں سمونے سمیٹنے کی اہلیت رکھتی تھی۔ اور ماں۔ وہ بے چاری تو عبد اللہ کی جلد شادی کر کے بھی پوتا پوتی کو ترستی مر گئی۔ شکیلہ نے سٹور کی آمدن میں کمی ہونے کے باوجود اپنے سگھڑ پن سے گھر کا بھرم بنائے رکھا۔ انہی بڑھتی ہوئی پریشانیوں میں قدرت نے شکیلہ کو امید کی کرن بخشی تو دونوں اپنی نیم تاریک زندگیوں میں روشنی کے منتظر ہو گئے۔ دن گنتے گنتے وہ وقت آپہنچا کہ جس کے وہ شدت سے منتظر تھے۔ بے وقت ضرورت آ پڑی تو ہسپتال پہنچنے کا انتظام ہونے سے پہلے ہی پڑوس میں رہتی مڈوائف نے جو محلے میں اچھا خاصہ میٹر نٹی ہوم چلاتی تھی مشکل آسان کر دی۔

شاہد کو ایک چیختے چلاتے بچے کی شکل میں عبد اللہ کے گھر پیدا کر دیا گیا۔ بچہ بظاہر صحت مند تھا لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا اس کے دیکھنے کے انداز اور رد عمل سے یہ شک پختہ ہوتا گیا کہ شاہد عام بچوں سے قدرے مختلف ہے۔ جب یہ شک یقین میں بدل گیا تو عبد اللہ اور شکیلہ ایک شام روتے بسورتے شاہد کو لے کر بچوں کے بڑے ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد اُن کے شک کی تصدیق کی۔ بیج سے نکلتے نازک پودے کو ذرا سا بھی مسل دیا جائے تو وہ فطری نمو سے محروم ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا سلوک شاہد کے ساتھ اس مڈوائف نے کیا جو اس کے دنیا میں آنے کو مددگار بنی۔ شاہد کے ساتھ کچھ ایسا ہو گیا کہ اس کے دماغ کے کسی خاص حصے کو آکسیجن کی کمی نے متاثر کر دیا۔ مسلا ہوا پودا بچ تو گیا لیکن کمی مستقل رہ گئی۔ شاہد کو لگا روگ عبد اللہ اور شکیلہ کی جان کا روگ بن گیا۔ شاہد ان کی واحد اولاد ہی رہا اور اکلوتے کی رسم ادھورے پر جا پہنچی۔ اب شاہد کی پرورش دونوں کی زندگی ٹھہری۔ بچے کے بڑا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ مسائل بڑھتے چلے گئے۔ اس کی ذہنی حالت ایسی تھی کہ نہ خود کھا سکتا نہ پہن سکتا۔ پاخانہ پیشاب کروانا صفائی کرنا، کپڑے بدلنا، منہ سے بہتی جھاگ سنبھالنا۔ سب شکیلہ کی ذمہ داری بن گئے۔ گھر کے کام کے علاوہ یہ مشقت شکیلہ کی کمر توڑ کر رکھ دیتی۔ عبد اللہ دوکان بھی چلاتا اور موقعہ ملتے ہی گھر بھاگا آتا کہ شکیلہ کا ہاتھ بٹائے۔ اگر کبھی شاہد سو جاتا اور دونوں کو وقت ملتا تو انہیں سمجھ نہ آتا کہ آپس میں کیا بات کریں۔ کتنی ہی بار ہوا کہ ایک دوسرے سے چمٹے رویا کیے۔

قیامت پر قیامت تب آئی جب بقول ڈاکٹر مسلسل مشقت، فکر، اپنی خوراک اور آرام سے پہلو تہی نے شکیلہ کو فشار خون اور ذیابیطس کا مرض لاحق کر دیا۔ اپنے آپ سے لاپرواہی، دواؤں کے استعمال میں بے قاعدگی نے صورت حال بد تر کر دی۔ ذیابیطس نے حسب توقع دیگر اعضائے رئیسہ کو متاثر کرنا شروع کیا اور بلند فشار خون نے ایک کمزور دماغی شریان پھاڑ کر شکیلہ کی مشکل آسان کر دی۔

عبد اللہ رات کو دوکان بند کر کے گھر واپس آیا تو کئی بار کھٹکھٹانے پر بھی گھر کا دروازہ نہ کھلا۔ پڑوسیوں کی مدد سے دروازہ توڑ کر گھر میں گھسے تو برآمدے کے ایک نیم تاریک کونے میں ننگی زمین پر آڑی ترچھی پڑی شکیلہ دنیا کے غموں سے آزادی کا جشن منا رہی تھی۔ عبد اللہ اپنا سر ماں کی ٹھنڈی چھاتیوں کے نرم سرہانے پر رکھے لیٹا ہنس رہا تھا۔

رونا دھونا، اڑوس پڑوس، عزیز رشتے داروں کا ہجوم، جنازہ، ختم، قُل اور۔۔۔۔ طویل روح فرسا سناٹا۔

اب عبد اللہ دوکان پر جا کر دوکان کھولے اورسودا بیچ کر اپنے اور شاہد کی روزی روٹی، دوا دارو کا بندوبست کرے یا شکیلہ بن کر گھر کی صفائی، جھاڑ پونچھ، چولہا چوکا کرنے کے علاوہ سارا دن شاہد کے پیچھے پیچھے پھر کر اس کے کھانے، پہننے، پاخانہ پیشاب، تھوک جھاگ کا خیال کرے۔

کہتے ہیں کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دوپہیے ہوتے ہیں۔ یہ گاڑی ایسی ہے کہ بعض صورتوں میں ایک پہیہ غائب ہو جانے سے رُکتی نہیں، ایک پہیے پر گھسٹتی رہتی ہے، لیکن بعض صورتوں میں دوسرا پہیہ بدلنے سے لشٹم پشٹم چل پڑتی ہے۔ پھر یہ ایسی گاڑی ہے کہ کبھی اس کے دونوں پہیے مل کر ایک پہیے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ ایک پہیہ اسے روانی سے چلاتا چلا جاتا ہے۔ اس صورت میں آدھا پہیہ غائب ہو جانے سے باقی بچا آدھا پہیہ گاڑی گھسیٹنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ شکیلہ اور عبد اللہ بھی گاڑی کے اکلوتے پہیے کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جب پہیہ ادھورا ہوا تو گاڑی بالکل رُک گئی۔ گھسٹنے سے بھی منکر ہو گئی۔

گاڑی کی بقاء کے لیے عزیز اقرباء اکٹھے ہوئے اور بہت مشوروں کے بعد ایک نیا پہیہ بنام ثریا مہیا کیا گیا کہ زندگی چلتی رہے۔ اس سبیل سے گاڑی چل تو نہ پائی ہاں گھسٹنے ضرور لگی اور یوں کچھ فاصلہ بمشکل طے کر کے پھر رُک گئی۔ ادھورے پہیے نے نئے پہیے کو نہ تو بطور اپنا آدھا تسلیم کیا اور نہ دوسرا۔ عبد اللہ کو محسوس ہوا کہ اُس کی زندگی کی گاڑی بس اُسی آدھے ادھورے یا دوسرے پہیے سے چل سکتی تھی جو اب تھا ہی نہیں۔

 اُف! شکیلہ کیا گئی کہ زندگی کی ہر سبیل بھی ساتھ ہی چلی گئی۔ شکیلہ اور عبد اللہ کی گاڑی کا بوجھ بہت بھاری تھا۔ اتنا بھاری کہ کوئی دوسرا اُسے سہار ہی نہیں سکتا تھا۔ اپنوں کا بوجھ بھاری بھی ہو تو ہلکا محسوس ہوتا ہے اور پرایا معمولی بوجھ بھی بہت بھاری لگتا ہے۔ شاہد شکیلہ اور عبد اللہ کا اپنا بوجھ تھا۔ وہ اسے اٹھانے پر مائل بھی تھے اور مجبور بھی۔ موجودہ صورتحال میں تو بوجھ بھی معمولی بوجھ نہیں تھا بلکہ ایک پہاڑ تھا جسے سہار لینا، برداشت کرنا کسی بھی غیر کے لیے نا ممکن ثابت ہو گیا تھا۔ ثریا خودابھی اُس عمر میں تھی جب کچے خواب آنکھوں میں سمائے لڑکیاں شادی کے بعد کسی جادو نگری کا دروازہ کھولنے کی منتظر ہوتی ہیں۔ یہاں ادھیڑ عمر عبد اللہ کی سنجیدہ بلکہ غمزدہ اور ماتمی باقی ماندہ زندگی اور شاہد کی صورت دن رات کی بھیانک ذمہ داری ثریا کی منتظر تھی۔ ر خصتی کے وقت ثریا کی بیوہ ماں نے لاکھ خاندانی روایات، شرافت، نجابت اور وفا شعاری کے سبق پڑھائے مگر سب بے سُود۔ ثریا میں نہ عبد اللہ کو شکیلہ کی کوئی جھلک نظر آئی نہ شاہد کو ماں کا کوئی شائبہ محسوس ہوا۔ یہ بے کیف اور ملول زندگی بس چھ ماہ تک چل سکی۔

 ثریا نے ایک دن عبد اللہ کی عدم موجودگی میں شاہد کو گھر میں اکیلا چھوڑا اور باہر کے دروازہ کو تالا لگا کر اپنا اٹیچی کیس اُٹھا، ماں کے گھر جا پہنچی۔ ثریا نے صاف صاف بتا دیا کہ چاہو تو مجھے زہر دے دو لیکن اب عبد اللہ کا میرے سامنے نام بھی نہ لینا۔ اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ طلاق یا خلع بھی ملے یا نہ ملے، چاہے باقی کی ساری زندگی ماں کے گھر پڑی پڑی سڑ جاؤں اب عبد اللہ کے ہاں نہیں جاؤں گی۔ یہ بوجھ اب مجھ سے نہیں  اُٹھایا جاتا۔

عبد اللہ اور شاہد پھر اکیلے رہ گئے۔ عبد اللہ کے لئے ہر وقت شاہد کے ساتھ ساتھ رہنا، اُس کی غُوں غاں کا جواب دینا، اُس کے پاخانہ پیشاب کا خیال کرنا، کھانا پلانا، سُلانا نہلانا، کچھ بار نہ تھا۔ اُسے لگتا کہ شاہد اُس کے جسم اور روح کا حصّہ اور اُسی کی ہستی کا جزو ہے۔ اگر عبد اللہ کے پاس وسائل ہوتے تو وہ شاہد کے کھانے پینے، رہنے سہنے اور بہلانے پھسلانے میں باقی ماندہ زندگی گزار دیتا۔ مسئلہ تو یہ تھا کہ عبد اللہ کو گھر کا خرچ چلانے کے لیے کام بھی کرنا تھا۔ دونوں کو بھوک لگتی تھی۔ کپڑے چاہئیں تھے۔ گھر کی بجلی، گیس کے بل آتے تھے۔ دو جانوں کے لیے زندگی جو بھی مانگتی تھی عبد اللہ کو مہیا کرنا تھا۔ پس انداز نہ ہونے کے برابر تھا جو جلد ٹھکانے لگ گیا۔ یار، رشتہ داروں نے کچھ مدد امداد کی لیکن جلد ہاتھ کھینچ لیا۔ اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ عبد اللہ کے لیے زندگی کے راستے بند ہوتے چلے جا رہے تھے۔

 شاہد اپنی دیوانگی اور ذہنی پس ماندگی کے باوجود عبد اللہ کو بہت پیار کرتا۔ اُس کا سر چُومتا اور اُس کی چھاتی پر سر رکھ کر سوتا۔ کئی بار شاہد اپنی ماں کے پرانے کپڑے نکال لاتا اور انہیں اوڑھتا۔ یوں لگتا کہ کپڑوں سے آتی شکیلہ کی بچی کھچی خوشبو اُسے کسی اور دُنیا میں لے جاتی اور وہ آنکھیں بند کر کے مست ہو جاتا۔ عبد اللہ یہ دیکھ کر اور زیادہ دُکھی ہوتا اور اُس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ عبد اللہ کو زندگی نے اتنا اکیلا کر دیا کہ شاہد کے علاوہ کوئی اُس کا پرسانِ حال نہ رہ گیا۔

ایک رات سوچوں نے اُسے اتنا مغلوب کیا کہ رات بھر سو نہ سکا۔ فجر کی اذان کے قریب اُس کی آنکھ لگی۔ آنگن کی دھوپ نے جب اُسے جگا دیا تو اُس نے دیکھا کہ شاہد ویران باورچی خانہ میں گیس کے خالی سلنڈر سے جڑے سرد چولہے کے پاس پڑے دھونے والے برتن چاٹ چاٹ کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُسے وہ وقت یاد آ گیا جب شکیلہ صبح ہی صبح اُس کے لیے دیسی گھی کے پراٹھے تلا کرتی تھی۔ اُس کو بہت رونا آیا۔ کچھ سوچ کر وُہ اُٹھا اور شاہد کا ہاتھ پکڑ کر اُسے باورچی خانہ سے باہر لے آیا۔ اب اُسے زندگی نا ممکن دکھائی دی۔ اُس نے بہت سوچا کہ کوئی صورت زندگی کی گاڑی آگے دھکیلنے کی سُوجھ جائے لیکن اُمید کی کوئی کرن تک دکھائی نہ دی۔ اسے اپنا ذہن ماؤف ہوتا محسوس ہوا۔ دم گھٹنے لگا۔ سانس سینے میں اٹک گیا۔ وہ گھبرا کر اُٹھا۔ اس نے شاہد کو گلے لگا کر زور سے بھینچا جیسے خود میں جذب کر لینا چاہتا ہو۔ پھر آہستگی سے شاہد کی ایک ٹانگ گھٹنے کے قریب سے رسی کے ساتھ باندھی، اس کا دوسرا سرا بڑے کمرے کی دہلیز پر لگے آہنی کُنڈے کی ہک میں سے گزار کر زور سے باندھا اور کھینچ کر چیک کیا۔

 پیچھے دیکھے بغیر عبد اللہ نے بیرونی دہلیز پار کر کے باہر کے دروازے کو زنجیر لگائی اور بھاگ پڑا۔ گرتا پڑتا بھاگتا بھاگتا وہ قبرستان پہنچا اور شاہد کی ماں کی قبر پر جا گرا۔ کچی بھُر بھری مٹی سے مُٹھیاں بھر کر اس نے تھوڑی تھوڑی کر کے مٹی دوبارہ قبر پر گرا دی۔ پھر وہ قبر پر لیٹ گیا۔ کافی دیر ایسے ہی پڑا رہا۔ اس کی زندگی کی گاڑی کا آدھا پہیہ اس سنسان اور خاموش نگری میں ہر چیز سے بے نیاز مٹی کے ساتھ مٹی ہو رہا تھا۔ اسے اپنا ذہن ماؤف اور جسم بے حس ہوتا محسوس ہوا۔ بہت سی ہمت جمع کر کے وہ ادھر سے اٹھا۔ قبر سے کچھ مٹی اٹھائی اور اپنے چہرے اور سر پر مل لی۔ ادھر سے بمشکل اٹھ کر اپنے باپ کی پرانی قبر کے پاس سے گزر کر وہ اپنی ماں کی قبر پر جا بیٹھا۔ اس نے اپنے دونوں ننگے ہاتھ اور کہنیوں تک گرد آلود بازو ماں کی قبر پر پھیلی لمبی نوکیلی جنگلی گھاس میں پوری قوت سے گھسیڑ دئیے جیسے وہ اس کی ماں کے مہربان جسم کی گداز نرماہٹ کو جا چھوئیں گے۔ قبر پر تقریباً نیم دراز ہوتے ہوئے اپنا جھاڑ جھنکاڑ سر اور سرکنڈے جیسے بے ترتیب دور نگے بالوں سے بھرا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور پوری کھلی، زردی مائل مردہ آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف عجب خالی پن سے دیکھا۔ اس کا منہ پوراکھُل گیا، کنپٹی کی رگیں تن گئیں اور اس کے منہ سے ایک مہیب غیر انسانی دھاڑ نکلی جو سناٹے کو چیرتی جانے کہاں کہاں پہنچی،

"اما ا ا ا ا ا ا اںں ںں۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

٭٭٭

تعفن

اس نے اپنے مکروہ پنجے، جن کے پیچھے منحنی بازو متحرک تھے میری آنکھوں کے سامنے لہرائے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے نوکیلے اور مُڑے ہوئے ناخن میرے ڈھیلے نکال لے جائیں گے۔ اس کے بازؤوں کی لجلجی جلد پر اُگے بھورے باریک بال اتنے ہی نجس تھے جتنی کہ اس کے گلتے سڑتے جسم سے پھوٹتی بُو ناگوار تھی۔

وہ میرے کندھوں پر سوار، میرے سر کو جکڑے تھا۔

"تم تو میرے تحفظ کا عہد کر چکے تھے۔ اب میرا نرخرہ کیوں دبا رہے ہو؟”

میں اس کی ٹانگوں کی گرفت اپنے نرخرے پر نرم کرتے ہوئے خرخرایا۔ "ہُوووں۔ تُم بڑے چالاک بنتے ہو۔ اتنا زیادہ کیوں کھاتے ہو۔ بدہضمی سے بھی نہیں ڈرتے۔ دوسروں کے حصے کا بھی خود ہی کھا جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہو۔ جو کھا نہیں سکتے ذخیرہ کر لینا چاہتے ہو۔ اتنا اکٹھا کرنا چاہتے ہوکہ شمار بھی نہ کر سکو”۔

اُس کی متعفن سانسیں میرے نتھنوں میں گھُس کر میری حالت خراب کر رہی تھیں۔ اس کی ٹانگیں میرے گلے کے گرد شکنجے کی صورت میری سانس بند کر رہی تھیں جبکہ اس کی سانسوں کا تعفن میری ناک کو گویا جلائے جا رہا تھا، جھلسا رہا تھا۔ وہ اپنے پنجے میری آنکھوں کی طرف لہراتا تو میری روح فنا ہو جاتی۔ میرے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی اور وہ بدبودار پسینے سے نہا جاتا۔

"تمہیں سب میسر ہے۔ میں تو تمہارا بچا کھچا کھاتا ہوں۔ وہ بھی کبھی کبھار جب تم مجھے اجازت دیتے ہو۔ تمہاری مدد تمہاری رضامندی سے چند نوالے لیتا ہوں۔ کچھ بچاتا ہوں تو آڑے وقت کے لیے۔ جب جی چاہے تُم خوان میرے سامنے سے سرکا لیتے ہو۔ میں تو سدا سے تمہارے رحم و کرم پر ہوں۔ پھر کیوں میرا ٹینٹوا دباتے ہو”۔

میں گھگھیایا۔

"تم اپنے خوان ہی پر نظر نہیں رکھتے، کنکھیوں سے میرا طشت بھی دیکھتے ہو۔ اپنی اوقات بھول جاتے ہو۔ تمہیں یاد نہیں رہتا کہ تمہاری بقا تمہارا وجود میرے مرہون منت ہے۔ تم مجھے اپنے جیسا یا شاید خود سے بھی کمتر جاننے کی خواہش پالتے ہو۔ مجھے ہمیشہ وقفے وقفے سے تمہارا نرخرہ دبانا پڑتا ہے۔ بدنگاہی کی عادی تمہاری بے ایمان آنکھیں شاید نکالنا ہی پڑیں”۔

اس نے اس بار اپنا منحوس پنجہ زیادہ تیزی سے میری آنکھوں کے بہت قریب لہرایا۔

میں بید مجنوں سا کانپ گیا۔ اس سے نجات پانے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہر تدبیر مجھی پر اُلٹ دی جاتی۔ میں نے خود کو بہت بے بس اور مجبور محسوس کیا۔ پھر سوچا کہ ہمارا ایک دوسرے کے بغیر بھی تو گزارا نہیں۔ یہ کھیل اذیت ناک ہے لیکن معمول ہے۔ کراہیت کے باوجود اس کا مکروہ اور بدبودار وجود میرے جسم کا حصہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کے طفیلی بن چکے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ آکاس بیل نے درخت کو یوں جکڑ لیا ہے کہ اس کا جزولاینفک بن گئی ہے۔ کچھ اس صورت پیوست ہے کہ جدا کرنے سے درخت نجات نہیں پائے گا، ٹُوٹ جائے گا۔ مر جائے گا۔ آکاس بیل اور درخت ایکا کر چکے ہیں۔ دھرتی کو چوستے ہیں، کھوکھلا کرتے ہیں اور پلتے بڑھتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار یہ جھگڑا ضرور اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کتنا رس کب کس کے حصے میں آئے گا۔

اس نے اپنا دباؤ کم کر کے میرا نرخرہ کسی حد تک آزاد کر دیا۔ میں نے منہ کے راستے تازہ ہوا بھری سانس لی۔ میرے جسم میں زندگی دوڑ گئی۔

پھر فوراً ہی میرے نتھنے اس کی جسمانی سڑاند اور متعفن سانس کے متلاشی ہوئے۔

٭٭٭

کوئی پتھر

"تو مارو نہ پتھر مُجھے۔”

"مُجرم تو ہُوں آپ سب کی۔”

اُس نے سوچا۔

اب اچھا لکھاری بننا تھا تو اُس کے لئے محدُود راستے ہی کھُلے تھے۔

محنت مشقت۔ جان کا جلاپا۔ دماغ کی بھُجیا۔ خُشک ریاضت۔

یا پھر کسی کی شاگردی کی جائے۔

لیکن شاگردی کس کی؟

جو کام کے لکھنے والے سنجیدہ صفت خواتین و حضرات تھے وُہ تو پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے تھے۔

اپنے آپ میں مگن تھے۔

مست الست۔

جو درمیانہ درجے کے تھے وُہ بس اپنے جوگے تھے۔

اور تیسرے والے اُسی کے بھائی بند تھے۔ ٹُکڑا اِدھر سے جوڑا ٹُکڑا اُدھر سے پکڑا، کچا پکا قصہ کہانی، غلط املا کو ٹائپو کے پردے میں چھُپا، ملغُوبہ سا بنا کر ہجُوم نابکاراں کے آگے ڈال دیا۔

فورم کے پکے گاہک سو پچاس لائک مارتے اور دس بیس تبصرے داغ دیتے جو زیادہ تر ” ویری نائس” اور” زبردست افسانہ” ٹائپ ہوتے۔

زیادہ مشاق کھلاڑیوں نے درجن ڈیڑھ درجن جعلی آئی ڈیز بھی بنا رکھی تھیں، اس نیک کام میں سہُولت کے لئے۔

جنہیں فیس بُک نگاری کا ذرا زیادہ تجربہ تھا وُہ "رواں بیانیہ”، "کُہنہ مشق ادیبہ”، "دانشور لکھاری” وغیرہ کے گولے گھُماتے۔

سب سے اُونچے درجے کے نقاد، جنہیں اس دشت کی سیاحی میں کُچھ کم ایک دہائی ہو گئی تھی گُوگل کا اُڑن کھٹولاخُوب خُوب اُڑاتے اور اپنی دھاک بٹھاتے۔

نئے لکھنے والے تو بس سہم جاتے، مرعُوب ہو جاتے اور بعض اوقات اپنے ذاتی پیجز میں سر دے کر، دُبک کر بیٹھ جاتے۔

جعلی یعنی "فیک آئی ڈیز” کا ماہرانہ استعمال عام تھا – ایک دُوسرے کو بلاک کرنے کے بعد ‘فیک آئی ڈیز’ کی سرنگ لگائی جاتی۔ خُوب خُوب سرقہ کیا جاتا اور پھر چور مچائے شور کے مصداق دُوسروں پر سرقہ کے الزامات بھی لگائے جاتے۔

اگر عسکری تربیتی اداروں کا انٹیلیجنس ونگ صحیح کام کرتا تو اُسے جارحانہ دفاع کے مُشاق تربیت دہندہ یہیں سے دستیاب ہو جاتے۔

گُفتنی نا گُفتنی الزامات کے میزائل داغے جاتے اور یہ تک بھی دعوی کیا جاتا کہ اس طبقۂ اشرافیہ میں کہ جو منبعٔ تخلیق ہے، نوے فی صد ڈرامہ باز اور ذہنی مریض بھرے پڑے ہیں۔

اللہ اکبر۔

"جائیں تو جائیں کہاں۔ سمجھے گا، کون یہاں، درد بھرے دل کی زُباں۔ جائیں تو جائیں کہاں۔”

خیر۔ قصہ کوتاہ یہ کہ وُہ بے چاری بُہت بُری پھنسی۔

خلُوص دل سے اُردُو سیکھنے آئی تھی۔

ادب کی شُدھ بُدھ کی طلبگار۔ خلُوص کی پیکر۔ سچی رُوح۔ کدھر نکل آئی۔

کدھر پھنس گئی۔

خُوب مت ماری ہم سب نے اُس کی اور اُس کا بھاگنے کا راستہ بھی مسدُود کر کے بیٹھ گئے۔

میں ایک سالخُوردہ سگ خارش زدہ، باقی خُونخوار درندوں کے ساتھ باڑے میں ایک کونے میں بے شرمی کی زنجیر سے بندھا لوبھ کے کھونٹے کے گرد گھُمن گھیریاں کھا رہا تھا۔

ہم نے اپنی اپنی مکرُوہ آوازوں سے سارا جنگل سر پر اُٹھا رکھا تھا۔ سارے ادب شناس اور ادب نواز رنگین چہکتے طیوُر ہماری چیخم دھاڑ سے اڑنچھُو ہو چُکے تھے۔

ادبی جنگل کو لالچ کی خُشک سالی اور مکر کی شوریدگی نے چاٹ لیا تھا۔ اب بالآخر نالائقی اور جہالت کا سگریٹ پی کر جو کسی جعلی نقاد نے باقی ماندہ سُلگتا ٹُکڑا پھینکا تو زرد نا اتفاقی کی خُشک گھاس نے بھاگ کر آگ پکڑی۔

آناً فاناً ساری فیس بُک پر بکھرا عالمی ادبی جنگل بھڑ بھڑ جلنے لگا۔

مُجھے میری زنجیر نے یُوں جکڑ رکھا تھا کہ نکل بھاگنا نا مُمکن تھا۔

باقی جانوروں کا حال بھی ایسا ہی تھا۔

اور وُہ بے چاری مُعصُوم، بیاسی، نو آموز ادیبہ جنگل کے دھُواں دھُواں کنارے ہوش و حواس کھو کر، اپنے لمبے بال نوچتی ہُوئی چلا رہی تھی۔

"تو مارو نا پتھر مُجھے۔

"مُجرم تو ہُوں میں سب کی”

لیکن کوئی بچتا تو اُسے پتھر مارتا۔

٭٭٭

نظر بد

       اب جبکہ میں ایک طویل عمر گزار چکا ۱پنی سٹڈی میں آسودہ، پل پل اترتی شام کی آہٹ سنتا ہوں، سال خُوردہ سیاہ شیشم کی شاندار آرام کرسی میں نیم دراز، بڑے بڑے، شفاف شیشوں سے باہر کھڑکی پر سایہ کئے بوگن ویلیا اور جھُومر بیل کی شاخوں کو نرم ہوا سے جھُومتا دیکھتا ہُوں، جو باہر آنگن میں لگی رات کی رانی شام سے پہلے ہی جرعہ جرعہ خُوشبُو اُنڈیلنا شُرُوع کر دیتی ہے اور کمرے کے اندر ہونے کے باوجُود میرے مشام جاں کو مُعطر کئے دیتی ہے، ایسے میں نیم وا آنکھیں اور نیم خوابیدہ ذہن لئے سوچتا ہوں کیا میری سب سے شدید مُحبت وُہ تھی جو میری زندگی میں دیر سے آئی اور کبھی میری نہ ہو پائی؟کیا میری محبت کو دنیا کی نظر کھا گئی؟ کیا کوئی فیصلہ غلط ہو گیا تھا؟ کیا کوئی فیصلہ بہت دیر میں ہوا؟ کیا ایک نقصان قابل تلافی تھا اور دوسرا ناقابل تلافی؟ بہت سی سوچیں میری یاد کے گھوڑے کو دُلکی چال چلاتے ماضی کے صحراؤں کی بے أنت وسعتوں میں بھٹکاتی ہیں۔ میں تلخ کافی کا آخری گھونٹ نگل کر سگریٹ کے باقی ماندہ حصے کو ایش ٹرے میں مسل کر آنکھیں موند لیتا ہوں۔

میں رومان پسند تو تھا ہی سو کچی پکی محبت کے سچے جھوٹے جھولے اوائل عمر ہی میں جھول چکا۔ اگر باقی لڑکوں نے یہ سلسلے دسویں گیارہویں جماعت سے شروع کئے تو میں تب تک اس فن میں نیم استاد ہو چکا تھا۔ میری محبت بہت شدت سے شروع ہوتی اور بڑی سرعت سے یہ بخار مجھے جھلسا نے لگتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ جس تیزی سے یہ ابال اٹھتا اسی تیزی سے بیٹھ جاتا۔ میری ان محبتوں کا دورانیہ چھ ماہ سے ایک سال کا ہوتا اور پھر میں پرانی منزل کو وقت کی دھول میں لپیٹ نئی منزل کے لئے کمر بستہ ہو جاتا۔ بس ایک منزل سر کر لیتا تو دوسری کا سبب نکل آتا۔ آپ مجھے ہرجائی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میری یہ مہمات فریق ثانی کو سوائے جذباتی دھچکوں کے کوئی جسمانی یا اخلاقی ضرر نہ پہنچاتیں۔

اسی خوش بختی کے جھولے جھولتا میں یونیورسٹی تک آپہنچا۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں نہیں تھا کہ تجربہ کار کہلاؤں لیکن بالفعل تھا گھاگ اور تجربہ کار۔

پھر یہ ہونی بیتی کہ عروج سے ملاقات ہو گئی۔ ہمیں قریب آتے آتے ایک سمسٹر گزر گیا۔ میں جو منازل ہفتوں بلکہ دنوں میں طے کیا کرتا تھا مہینوں میں بھی مکمل طے نہ ہو پا رہی تھیں۔ جانے کیوں ہر قدم پھونک پھونک کر، تسلی اور اطمینان سے اٹھ رہا تھا۔ دونوں طرف کوئی عجلت تھی نہ بے صبری۔

اسکی چھب، بانکپن، دلیری، بے تکلفی اور خود اعتمادی لئے غیرمعمولی چُلبلا پن مجھے ڈراتا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہو گا۔ میں نظر لگ جانے وغیرہ جیسے توہمات کو نہیں مانتا لیکن مشاہدہ کا کیا کریں کہ میں نے ایسی غیر معمولی پروازوں کی ایسی ہی ہنگامی لینڈنگز دیکھی تھیں۔ میرا دل ڈرتا تھا کہ کبھی بھی کچھ ہو جائے گا اور دلی خواہش تھی کہ کچھ نہ ہو۔ جی چاہتا تھا کہ وہ یونہی یونیورسٹی کی راہداریوں، کیفے، کامن روم، لائبریری اور شاپنگ سنٹر میں چہکتی پھرے۔ مجھے نظر آتی رہے اور ایسی ہی نظر آتی رہے۔ میں نے نظر بد کا سن رکھا تھا لیکن مکمل طور پر قائل نہیں تھا۔ اس میں بھری شگفتگی اور چلبلاہٹ اس کی بے پرواہی، اعتماد اور بے نیازی بہت خاص تھی۔ وہ جدھر جاتی زندگی جلو میں ہوتی، میری نظریں تعاقب میں اور میرا دل مٹھی میں۔

"کبھی سنجیدہ ہو جایا کرو عروج” میں اپنے خوف کو چھپاتا ہوا اسے کہتا۔

"کیوں بھئی؟

"بس ایسے ہی”

"پھر بھی بتاؤ عاشر، کیوں بھلا؟تم جو مجھ سے بات کرتے ہوئے، ہنستے کھیلتے چپ ہو جاتے ہو۔ سوچ میں گم ہو جاتے ہو۔ بہت سنجیدہ ہو جاتے ہو۔ بلکہ غمگین سے نظر آتے ہو تو کیا وجہ ہے اس کی؟”

وہ پوچھتی تو مجھے کچھ جواب نہ سوجھتا۔ بس دل میں چھپا وسوسہ اپنے تک ہی رکھ لیتا۔ ہمارے تعلق کا ہمیں خود کچھ اندازہ نہ تھا کہ کیا ہے۔ دوستی ہے یا دشمنی۔ پیار ہے یا نفرت۔ بس واقفیت ہے اورساتھ ہونے کا اتفاق یا اس سے گہرا اور اس سے بھی سنجیدہ کچھ اور۔ بہرحال تھا کچھ۔ تھا کچھ خاص اور علیحدہ سا۔ کچھ تھا جو الجھاتا تھا اور پوری طرح سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ نہ کسی طرف لگتا تھا نہ جان چھوڑتا تھا۔ نہ دل اور دماغ میں واضح ہوتا تھا نہ زبان تک پہنچتا تھا۔ پتہ نہیں کیا۔ بہرحال یہ سچ تھا کہ ہم اک دوسرے کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتے تھے۔ اگر ایک دن جھگڑا ہوتا تو دوسرے دن ہم میں سے کوئی بھی کل کی بات کو یاد نہ رکھتا اور صبح یونیورسٹی کی نیلی بس سے دو مختلف دروازوں سے نکل کر ہم مقناطیس اور لوہے کی مانند ایک دوسرے سے آ چپکتے۔

ہم دونوں میں کوئی خاص طبقاتی فرق نہیں تھا۔ دونوں متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چھوٹے شہروں یا زیادہ بہتر طور پر کہوں تو قصبات سے بڑے شہر پڑھنے آئے تھے۔ دونوں کے خاندان مالی طور پر اتنے مستحکم تھے کہ ہمیں اچھے تعلیمی ادارہ کے ہاسٹل میں آسودگی سے رکھ سکتے تھے۔ معقول جیب خرچ مل جاتا تھا۔ زندگی بہت مزے سے کٹ رہی تھی۔ زندگی دلچسپ تھی۔

اُس دن موسم ابر آلود تھا۔ وسط مارچ کی خوشگوار نیم سرد ہوائیں نہر کنارے اونچے درختوں کی ہری شاخوں کو زور سے اور چھوٹے پودوں کی بھرپور سبز شاخوں کو نرمی سے جھلا رہی تھیں۔ بہار کے پھولوں کے رنگ برنگے تختے نظروں کو لبھاتے اور اُن کی خوشبو فضا کو معطر کئے دے رہی تھی۔

 ہم دونوں نے یونیورسٹی بس میں لوگوں کے کاندھوں کے اوپر سے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور ہوسٹلز کے بلاک شروع ہونے سے ایک سٹاپ پہلے اپنے اپنے دروازوں سے اتر گئے۔ آگے پیچھے چلتے ہم نے سڑک عبور کی اور گھاس کے میدان میں اتر گئے۔ پھولوں کے رنگوں سے سجے ہلکی ہلکی خوشبو میں بسے ماحول نے ہر سُو ایک نشہ سا پھیلایا تھا۔ ہم گھاس کے پلاٹ کے درمیان بنی پھولوں سے لدی کیاری کے پاس بچھی دو بینچوں پر آمنے بیٹھ گئے۔

"میرا رشتہ آیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ایک اور رشتہ آیا ہے۔”

اُس نے بڑی سہولت سے دھماکہ کیا۔

مجھے نہ خوشی ہوئی نہ غم۔

 کچھ دیر کو ایک سناٹا سا چھایا۔

مجھے جو افسردہ سا احساس ہوا وہ بس اتنا ہی تھا کہ کوئی تیسرا آ جائے گا جو ہمارے بیچ ہو گا اور مجھ سے زیادہ اہم ہو گا۔

 "کیا اُس تیسرے کی جگہ میں خود ہونا چاہتا ہوں کہ ہم دو ہی رہیں اور کوئی تیسرا بیچ میں نہ آئے؟”

میں نے خود سے سوال کیا۔

کوئی حتمی جواب نہ ملا۔

 زیادہ سے زیادہ یہ احساس جاگا کہ میں موجودہ صورت حال سے آسودہ ہوں۔ اس میں تبدیلی کے تصور سے مجھے الجھن اور بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

"عروج تم زندگی سے کیا چاہتی ہو؟

یا یہ سمجھ لو کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی کو کیسا بنانا چاہتی ہو؟

 کیسی زندگی گزارنا چاہتی ہو؟”

میں نے بظاہر بڑے پرسکون لہجے میں پوچھا۔

میرے اندر کا مد و جزر اندر ہی جذب ہو رہا تھا اور بیرونی لہریں شانت تھیں۔

اُس نے میری طرف متوجہ ہونے کی بجائے نظریں دور کہیں گاڑے رکھیں جہاں غالبا وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔

جذبات سے خالی مُردہ اور رُوکھی لیکن قطعیت سے معمور آواز میں بولی،

"عاشر زندگی ایک حقیقت کا نام ہے۔

 رومانویت نہر کنارے روتے ویپنگ ولوز کی لٹکتی نوحہ خواں شاخوں کی نرمی سے چپکی تراوٹ سے نم ادھر ہی معلق رہ جائے گی۔ باقی بچیں گی سنگلاخ زندگی کا بے مہر نوحہ پڑھتی ننگی حقیقتیں۔ وہ حقیقتیں نہ فیض کی نظموں سے بہلیں گی نہ غالب کی غزلوں سے۔ انہیں بُلھے کے بول ٹالیں گے نہ محمد رفیع کے رسیلے گانے پرچائیں گے۔ اُن سے ہتھیار بند ہو کر، مسلح ہو کر نبردآزما ہونا پڑے گا عاشر۔ ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسم اور روح کی جنگ میں جسم حقیقت ہے جو سامنے دھری ہے اور روح احساس ہے جو خود کو محسوس تو کرواتی ہے نظر نہیں آتی۔ اگر تم مجھے مادہ پرست بھی سمجھو تو سمجھ سکتے ہو لیکن سچ یہی ہے جو میں بول رہی ہوں۔ میں نے بڑے بڑے فن کاروں، شاعروں، مصوروں کو زندگی کے مکروہ ننگے پن میں بے بس اور بے لباس دیکھا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں رومانس کے خالی اور خیالی جھولے جھولنے کی بجائے حقیقت کے سپاٹ، سیدھے اور مستحکم میدان میں پکے پیروں اتروں گی۔ مجھے تمہارے نظریات کا پتا ہے لیکن میرا فیصلہ سوچا سمجھا اور عقلیت کی کسوٹی پر پرکھا ہوا ہے۔”

مجھے سمجھنے میں ایک لحظہ بھی نہ لگا کہ ہمارے ساتھ کا راستہ دو پگڈنڈیوں میں ڈھل گیا ہے اور یہیں سے راہیں جدا ہوں گی۔ ہم کب پھر گھوم پھر کر ایک دوسرے کی راہیں کاٹیں گے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ یہ بھی امکان تھا کہ ہماری پگڈنڈیاں کبھی بھی ایک دوسرے کو نہ چھوئیں اور ہم مخالف یا متوازی چلتے ہوئے فنا کی منزل کو پا جائیں۔ یہ طے تھا کہ میں عروج کے منتخب کردہ راستے، تلخ حقیقتوں کے آشنا جہان سے ہنوز جھجک رہا تھا اور اپنے خیال و خواب ہی کی اسیری عزیز رکھ رہا تھا۔

اور پھر وہ چلی گئی۔

 اُس کے ساتھ جو اسے وہ سب کچھ دے سکتا تھا جو اس کے خیال میں حقیقی خوشی کا ضامن تھا۔ وہ سب سامان زیست کہ جو مہیا ہونے پر کارزارِ حیات میں کامران و شادکام ہوا جا سکتا تھا۔

مجھے کچھ وقت لگا اور پھر وہ مجھے کم یاد رہ گئی۔

میں نے اپنی راہ چن لی۔ میری زندگی درمیانہ سی تھی۔ اپنی عادتیں چھوڑیں نہ محبتیں۔ بمشکل زیست کی۔ پرواز بہت پست رہی لیکن مستقل اور ہموار۔ سادہ لفظوں میں گزر گزر ان ہی ہوا۔ شادی، بچے، گھر گھرہستی اور درمیانہ درجہ کی نوکری جو نہ پوری طرح خوش حال رکھے اور نہ بد حال۔ بس گرتی پڑتی چلتی چلی جائے۔

اتنا وقت گزر گیا جیسے صدیاں بیت گئیں۔

اُس نے امریکہ سے پاکستان کے کئی چکر لگائے۔ مشترک دوستوں سے حال احوال کا پتہ چلتا رہا۔ کئی بار ہم ایک ہی وقت میں ایک ہی شہر یہاں تک کہ ایک ہی عمارت میں اکٹھے ہونے کے باوجود کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔

اک عمر بیت گئی۔

ہڈیوں پر کسا گوشت ڈھیلا پڑ گیا۔ میرے بہت سے بال جھڑ گئے اور جو بچ گئے وہ کہیں سے بدرنگ اور کہیں سے سفید ہو گئے جنہیں میں نے کبھی رنگنے کی کوشش نہیں کی۔

پھر ایک دن میرا فون بجا۔

 میں ان جانے نمبر کبھی نہیں اٹھاتا لیکن اُس دن بے خیالی میں اٹھا لیا۔

 قیامت منتظر تھی۔

"اب مل ہی لیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور کبھی نہ مل سکیں۔

 ملو اور حساب کتاب کر کے کھاتہ بند کر لو۔

مرنے کے بعد پتہ نہیں کیا بکھیڑے ہوں۔

 ادھر ہی مل لو تو کام نپٹے۔”

 میرا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔ پتہ نہیں کیوں سانس رُک گئی اور کہاں سے نمی اکٹھی ہو کر آنکھیں بھگونے لگی۔

کافی دیر مجھ سے کچھ بولانہ گیا اور اُس نے بھی نہ فون بند کیا نہ اور کوئی بات کی۔

"وہیں آ جانا کل اُسی وقت۔ مقررہ وقت پر اُنہی بینچوں پر اگر وہ وہیں ہوئیں۔”

میں نے اپنی آواز سنی۔

ایک بڑی سی اور ایک چھوٹی سی گاڑی کیمپس میں پہنچ گئیں۔ جہاں کبھی شاید ہی کوئی کار نظر آیا کرتی تھی وہاں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ میں نے جان بوجھ کر گاڑی ایڈمنسٹریشن بلاک کے پاس کھڑی کی اور سڑک اور پھر نہر پیدل پار کر کے کچھ پرانی یادیں تازہ کرنی چاہیں۔

 کیمپس بہت بدل چکا تھا۔ نہ وہ سکون تھا نہ سکوت۔ نہ ہوا میں تازگی تھی نہ خوشبو۔ نہر کے کچے کنارے پکے ہو کر اپنی اصلیت کھو چکے تھے۔ جس مٹی سے لپٹ کر خانہ بدوش پتے گدلے ہوا کرتے تھے اس کا نام تھا نہ نشان۔ سیاہ تارکول اور بھورے سیمنٹ نے ساری دھرتی نگل لی تھی۔ کنکریٹ کے بے حس، بدخصلت بند کے اوپر سرد لوہے کے جنگلے نے بد کردار ٹریفک کو نہر تک پہنچنے سے روک رکھا تھا اور ہماری نہر ان کریہہ جکڑ بندوں سے بہت نیچے بے دلی اور بے رغبتی سے خواہ مخواہ بہتی جا رہی تھی۔ نہر پار کرنے کو جہاں لکڑی کے تختوں والاپل ہوتا تھا، ہم جس پر جان بوجھ کر زور زور سے پیر مار کر آوازیں پیدا کیا کرتے تھے وہاں نہر کے نیچے سے ایک گزرگاہ بنا دی گئی تھی۔

 میں اس زیر آب غیر دلچسپ گزرگاہ میں غروب ہو کر اگلی سمت طلوع ہوا تو راستہ ہوسٹل بلاکس میں گھستا نظر آیا۔ میں پکے راستے کو چھوڑ کر گھاس کے میدان میں گھس گیا اور گھاس کو روندتا ہوا ایک پلاٹ سے گزر کر دوسرے پلاٹ میں داخل ہوا۔ یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی کہ وہ گھاس بھرا میدان قائم تھا اور اس کے بیچوں بیچ بڑی کیاری وہیں موجود تھی اگرچہ کیاری میں کسی پودے کی نازک پنیری جڑیں پکڑ رہی تھی۔ ننھے ننھے بچہ پودے اپنے گنتی کے چند پتوں کے معصوم سے کان کھڑے کر رہے تھے۔ پھولوں کا موسم آنے میں ابھی بہت وقت تھا۔

 دونوں بینچوں کی جگہ دو ذرا نئے نمونے کے، کسی با ذوق ڈیزائنر کے تخلیق کئے، پلاسٹک سے ڈھالے، درختوں کے مصنوعی تنوں پر ٹکے نقلی شہتیروں والے بنچ پڑے تھے۔

اُن میں سے ایک بنچ پر خزاں چھائی تھی۔

عروج ایسی ہو چکی ہو گی میرے تصور میں بھی نہیں تھا۔ اس کے گرد چھائی یاسیت اور سستی اسے اس عروج سے بہت مختلف دکھا رہی تھی جسے میں جانتا تھا۔ اس کے کپڑے تک پھیکے رنگ کے تھے۔ زیور قیمتی تھے لیکن اصلی ہونے کے باوجود مصنوعی لگ رہے تھے۔ زندگی اور ذہانت کی لو جو اس کے ساتھ چلا کرتی تھی مجھے نظر نہ آئی۔ شوخیوں اور اعتماد کی خوشبو، امید کی جھلملا ہٹ غائب تھی۔ پا لینے کا سکون اور منزل کے حصول کی تسکین مفقود تھی۔ عافیت اور آسودگی کا نور غائب تھا۔

 بس عروج کا ہیولیٰ میرا منتظر تھا جس سے روح اور زندگی نچڑ چکی تھی۔ ایک بنا سنورا خالی وجود میرا منتظر تھا جسے دیکھ کر مجھے بے اختیار وہ بے جان مجسمے یاد آئے جو ہم مہنگے ملبوسات اور زیورات کی دوکانوں میں سجے دیکھتے ہیں۔

عروج، وہ عروج کہ جسے میں جانتا تھا جس سے باتیں کئے بغیر میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور جسے دیکھے بنا میرا یونیورسٹی کا دن نہیں گزرتا تھا غائب تھی۔

 کیا اُسے نظر لگ گئی تھی۔

میں بغیر سلام کئے ساتھ کی بنچ پر بیٹھ گیا۔

 اُسے دیکھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے اپنی نظریں اپنے بن پالش کے جوتوں پر جما رکھی تھیں اور جانتا تھا کہ وہ بھی مجھے نہیں دیکھ رہی بس محسوس کر رہی ہے۔ میں نے اپنے اندر جھانکا۔ میری روح موجود محسوس ہو رہی تھی۔ گو کچھ خوابیدہ اور گرد آلُود۔ میری خوشی کہیں کونے میں پڑی تھی اور اطمینان کا بس سایہ سا موجود تھا۔

زندگی نہ مفقود تھی نہ موجود۔

"کیا مجھے بھی نظر لگ گئی ہے؟” میں نے سوچا۔

"اگر لگی بھی ہے تو کم۔

 اس لئے کہ مجھ میں تھا بھی کم جو نظر لگنے کے قابل ہو”۔

مجھے اپنے اندر اپنی ہی آواز سنائی دی۔

"شاید ایک نقصان قابل تلافی ہے اور ایک ناقابل تلافی”۔

ہم ایک دوسرے کو دیکھے ایک دوسرے سے بات کئے بغیر بہت دیر بیٹھے رہے۔

پلاسٹک سے ڈھالے مصنوعی تنے اور شہتیروں والے بینچوں نے ہمیں نگل جانا چاہا۔ نہر کنارے براجمان، قابض سیاہ سڑکوں نے ہمیں لپیٹ کر نہر کے نیچے سے گزرتے انڈر پاس کی بے جان تاریکی میں غرق کر دیا۔

اگلے سرے سے ہمیں اُگلا بھی نہیں۔

کیا کیمپس کو بھی نظر لگ چکی تھی؟

کیا شہر، ملک اور دنیا کو بھی نظر لگ چکی تھی؟

کیا یہ نقصان قابل تلافی تھا؟

تو پھر نظر بد کا وجود ہے نا۔۔۔

٭٭٭

نیرنگی

شگُفتہ نے اپنی پتلی سی چوٹی مکمل کر کے آخری گرہ لگائی، اسے پیچھے پھینکا اور حسب عادت سر کو جھٹکا۔ اس کا اکہرا لامبا بدن جیسے پتلی ٹانگوں کی بیساکھیوں پر رکھ دیا گیا تھا۔ گاؤں کی تنگ گلی میں کھلتے لکڑی کے خستہ دروازے کو اپنے پیچھے آہستگی سے بند کر کے وہ باہر نکل آئی۔ گلی کے درمیان بہتی نالی کے سیاہ کیچڑ کی سڑاند اُسے اپنے نتھنوں میں گھستی محسوس ہوئی۔ وہ نالی پھلانگ کر اپنے گھر سے دوسری طرف آ گئی اور زرد لمبی گردن گھما کر سرا سیمہ نظروں سے پیچھے دیکھا۔ رات کے پچھلے پہر کی سنسناتی خاموشی میں گلی دور تک، اتنی دور تک کہ جہاں اُس کی نظریں گھومتی گلی کی گولائیوں سے جا ٹکرائیں، سنسان پڑی تھی۔ چوروں کی سی چال چلتی، ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتی اور زمین پر رکھتی وہ گلی سے باہر کچی سڑک پر آ گئی۔ دھول سے اَٹی سڑک کے پار جوہڑ کا دن کو سبزی مائل نظر آتا ساکت پانی پورے چاند کی پراسرار چاندنی میں نہایا سنہری نظر آ رہا تھا۔ براق چاندنی پانی کی ہموار سطح سے ٹکرا کر، منعکس ہو کر، گرد و پیش میں تحلیل ہو رہی تھی۔ جوہڑ سرما کے آخری دنوں کے ماحول کی خاموش، پرسکون بھیگ چلی رات کے اسرار میں غرق تھا۔ کبھی کبھار کوئی فرقت زدہ مینڈک ٹراتا تو خاموشی ٹوٹنے کی بجائے زیادہ گہری اور گمبھیر محسوس ہوتی۔ گاؤں کے کتے یا تو سب سو چکے تھے یا گاؤں چھوڑ چکے تھے جو کسی مریل سی کتیا، کسی پلے کے بھونکنے کی نحیف آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔

اس نے جوہڑ کے کنارے کنارے چلتے کھیتوں میں گھستی پگڈنڈی پر اپنا پُر اسرار سفر جاری رکھا۔ گاؤں سے ایک ڈیڑھ ایکڑ کا فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ چھوٹی سی کچی چہاردیواری میں سمٹا ایک احاطہ ظاہر ہوا۔ بکری کی مینگنیوں، گائے بھینسوں کے گوبر اور پیشاب کی ملی جلی بو ہوا کے کندھے پر سوار اس تک آ پہنچی۔ باڑے میں چند بھینسوں، ایک گائے، دو بیلوں، ایک گدھی اور ایک کونے میں سمٹی چند بکریوں کے علاوہ ایک چتکبرا کتا بھی تھا جو گاؤں کے کتوں کی خلاف معمول خاموشی میں اب تک ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ اس کی آہٹ سن کر یا خوشبو سونگھ کر کتا بیدار ہوا اور ہلکا سا غرایا۔ طویلے کے آخر میں چھپے نیم تاریک کونے سے ایک ہیولابرآمد ہوا اور دھیمی آواز میں کتے سے بولا:

 "چُپ کر جا ڈبُو۔ گھر والے ہی ہیں”۔

ڈبو نے ذرا حیل و حُجت نہ کی اور اپنی آواز گلے ہی میں دبا کر خرخر کرتا، دُم کو چکریاں دیتا دوسرے کونے کی طرف چلا گیا۔ سایہ قریب آتا چلا گیا اور بالآخر ایک طویل قامت نوجوان میں ڈھل گیا۔ نوجوان آگے بڑھا اور بے تکلفی سے شگفتہ کو بے تابی سے گلے لگا لیا۔ دوسری طرف بھی وارفتگی اور خود سپردگی کم نہ تھی۔

کئی منٹ کے بعد وہ جدا ہوئے۔

"بہت اچھا کیا آ گئی ہو۔ اب تو میں تمہارے بغیر مرنے والاہو گیا تھا۔ اگر اشرف کو پتا چل گیا تو مارتو ہمیں وہ بھی دے گا لیکن وچھوڑے کے ہاتھوں سسک سسک کر مرنے سے شاید وہ موت بہتر ہو”۔ نوجوان بولا

"اشرف اور ابا ڈیرے پر سونے گئے ہیں۔ اماں گہری نیند سو رہی تھی۔ ویسے بھی جب سے کالا موتیا اُترا ہے اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر جاگ بھی گئی تو مجھے ہی آوازیں دے گی۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ سوئی رہے۔ اسے تو منظور نام سے چڑ ہے۔”

شگفتہ ایک ہی سانس میں بول گئی۔

منظور اس کی کمرکے گرد بازو حمائل کیے، اسے ساتھ لگائے، ساتھ چلاتا ہوا چارپائی تک لے آیا۔ یہ چارپائی ڈیرے میں بندھے جانوروں سے ذرا ہٹ کر دوسری دیوار کے پاس اس گدھا ریڑھی کے پہلو میں بچھی تھی جس کی پشت زمین پر ٹکی تھی اور دونوں چوبی بازو آسمان کی طرف نشانہ باندھے کھڑے تھے۔ چارپائی کی پائنتی ایک خاکی رنگ کا کھیس رکھا تھا اور سفید رنگ کا بھدی کڑھائی سے سجایا پھولوں والا سرہانا، جو تیل سے چپڑے بالوں سے مس ہو کر درمیان سے میلا ہو رہا تھا، سر کی طرف پڑا تھا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شگفتہ نے ہمیشہ کی طرح اپنی گوری گلابی انگلیاں، کہ ایک گھریلو دیہاتی لڑکی کے معمولات بھی جن کی ملائمت نہیں چھین سکے تھے، منظورکی گھنی سیاہ، نوکیلی اوپر کو اٹھتی ہوئی مونچھوں کے صحت مند بالوں پر پھیریں۔ یہ عمل ہمیشہ اسے بڑا ہیجان انگیز لگتا تھا۔ یہ دونوں سروں سے اوپر کو اُٹھی ہوئی شاندار کالی سیاہ مونچھیں اسے بہت پسند تھیں۔ منظور بھی ہمیشہ انہیں مروڑ کر، نو کدار بنا کر، اُٹھا کر رکھتا تھا۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ شگفتہ کے زرد گالوں پر رکھے اور منہ اپنے بالکل سامنے کر کے کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر چارپائی پر لیٹتے ہوئے شگفتہ کو بھی ساتھ ہی لٹا لیا اور دونوں گاؤں کے صاف آسمان پر پچھلی رات کے تاروں کے شفاف اور روشن جھرمٹ دیکھنے لگے۔

کچھ دیر تک وہ ساکت و صامت چت لیٹے رہے۔ پھر منظور آہستگی سے بولا:

"اتنا خطرہ مول لے کر آئی ہو۔ جان ہتھیلی پر لیے پھرتی ہو۔ میں تو نپٹ لوں گا لیکن اشرف تیرے ٹکڑے گن کر نہیں کرے گا۔ جب مقدر پر چھوڑا ہے تو صبر اور انتظار کرنا چاہیے حالانکہ یہ ہے بہت مشکل”۔

شگفتہ نے منظور کی طرف پہلو بدلا اور اپنے ہونٹ اس کے کان کی لَو سے مَس کرتے ہوئے سرگوشی میں بولی:

"بہت ضروری بات کرنی تھی۔ دن میں کئی کئی روز موقع نہیں ملتا کہ ایک بات بھی کر سکیں۔ پڑوسی ہو کر بھی شکل دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں۔ اب ایسی بات آ پڑی ہے کہ انتظار نہیں ہوا”۔

"ایسی کیا مصیبت آ گئی؟ خیر تو ہے؟”

منظور نے پریشانی ظاہر کی۔

 ویسے تو خیر ہی ہے لیکن جو بات میں بتانے لگی ہوں پتا نہیں تمہیں بھی اتنی خطرناک لگے یا نہ لگے جتنی مجھے پریشان کر رہی ہے۔ خیر دین نمبر دار آج لالے اشرف اور گاؤں کے پندرہ بیس اور بندوں کو ساتھ لے کر امتیاز پٹواری کے ڈیرے پر گیا تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ساتھ والے گاؤں سے بھی، اور شہر سے بھی۔ ہمارا گاؤں اب بالکل شہر کے ساتھ لگ گیا ہے۔ گاؤں تو کیڑی کی رفتار سے بڑھا ہے لیکن شہر چھلانگیں لگاتا گاؤں تک آپہنچا ہے۔ نئی کالونی کی کوٹھیوں کی چھت پر چلتے لوگ ہماری چھتوں سے صاف نظر آتے ہیں۔ اگر کالونی والوں نے بڑی سڑک کے پار لمبی دیوار نہ بنائی ہوتی تو ہمارے جانور چرتے ہوئے ان کی کوٹھیوں کے باغیچوں میں چمکتی ہری گھاس کو جا لیتے۔ اب نئی کالونی کے نصف سے زیادہ پلاٹ کوٹھیوں کے نیچے آ گئے ہیں اور خالی پلاٹوں پر ہر ہفتے نیا مکان اُگ آتا ہے۔ شہر سے آئے ہوئے بڑے لوگوں نے گاؤں والوں سے کہا ہے کہ اپنی زمینیں ان کے نام کر دیں۔ سوسائٹی بہت سے پیسے دے گی یا ہماری زمینوں کے بدلے میں زمین کے رقبے اور قیمت کے برابر پلاٹ دے گی۔ ادھر پکی سڑکیں اور زمین کے اندر چلنے والی بجلی لگے گی۔ بڑے بڑے گھر بنیں گے۔ باغ باغیچے بنیں گے۔ کھیل کے میدان بنیں گے۔ نئے ہسپتال اور بڑے بڑے انگریزی سکول کھلیں گے۔ بڑے بڑے سٹور بنیں گے جہاں بجلی کی سیڑھیاں چلتی ہیں جیسی ہوائی اڈے پر دیکھی تھیں”۔

شگفتہ نے اپنے گال کے نیچے ایک ہاتھ رکھ کر خود کو اس پر متوازن کر کے دوسرا ہاتھ منظور کے سینے پر پھیرتے ہوئے کہا۔

منظور نے ساری بات اطمینان سے سنی اور شگفتہ کے ہاتھ کا نشہ اپنے سینے سے سرایت کر کے دل دماغ اور آنکھوں تک کو پہنچتا محسوس کیا۔ کچھ توقف کے بعد احساس کی لذت سے بوجھل آواز میں بولا:

"یہ بات تو اب سارے گاؤں کو پتا چل چکی ہے، جھلئے!

اس گاؤں نے ہمیں بڑے سکھ دیے ہیں۔ دولت کے ڈھیر نہ سہی پر ہم نے سکھ کی موجیں مانی ہیں۔ ان کھیتوں کھلیانوں میں ان گلیوں رستوں میں کھیل کود کر بچپن گزرا ہے۔ میاں غلام رسول سے چھوٹی مسجد میں قاعدہ سیپارہ سے لے کر پرائمری سکول کے ماسٹر اسحاق کے اک، دو اور الف،ب تک جو پڑھا ہے اِدھر سے پڑھا ہے۔ شادی، غم، بارات، جنازہ سب اِدھر گزرے۔ لڑائیاں بھی ہوئیں اور صلح بھی۔ بھوک ننگ بھی مل کے جھیلا اور میلے ٹھیلے بھی ساتھ گزارے۔ شہر گاؤں کے پاس آیا تو سب کو فائدہ ہوا۔ بھینسوں کا دودھ دگنے پیسوں میں بکنے لگا۔ گوبر تک شہر کے مالی ٹوکریوں کے حساب سے خرید کر لے گئے۔ چارا کاٹا تو شہر لے جا کر نوٹوں میں تول کر بیچا۔ پڑھاکو لڑکوں کو گھر کی روٹی کھا کر شہر سے پڑھ کر روز پنڈ واپس آنے کی سہولت ملی۔ کمیوں کے لڑکے فیکٹریوں میں ملازم ہو گئے۔ گاؤں تک دو دو پکی سڑکیں آ لگیں۔ لڑکیاں جو سارا دن گھروں میں گھس کر ہانڈی روٹی اور کڑھائی کروشیا سے باہر نہیں نکلتی تھیں ویگنوں چنگ چیوں پر چڑھ کر سکولوں بلکہ کالجوں تک میں جانے لگیں۔ نرسیں اور استانیاں بن گئیں۔

فائدہ تو ہوا ہے لیکن نقصان بھی ہوا ہے۔ کمی جو سال بعد گندم کے چار من دانے لے کر سال سال بھر ہر طرح کی خدمت کرتے تھے اب کام کرنے شہر کو بھاگتے ہیں۔ ذرا سا کام بتاؤ تو منہ پھاڑ کر دیہاڑی کے حساب سے معاوضہ مانگتے ہیں۔ وہ پہلے والی چودھراہٹ نہیں رہ گئی۔ نائی جو گُچھی (اوزاروں کا چرمی تھیلا) لے کر تھڑے پر بیٹھ کر یا ہمارے پیچھے کھیتوں کھیتوں پھر کر ڈاڑھیاں مونڈھا اور حجامت بنایا کرتے تھے اب سڑک والے اڈے پر جا کر سیلون بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ ڈاڑھی منڈانے کے پیسے اُدھر کے اُدھر رکھواتے ہیں۔

سوہنیو! فائدے بھی ہوئے ہیں اور نقصان بھی”۔

منظور نے تجزیہ پیش کر دیا۔

 "یہ تو ساری باتیں سچی ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا اب بنے گا کیا؟ فائدہ ہو گا یا نقصان۔ گاؤں کا کیا ہو گا۔ ہمارے رہن سہن کا کیا بنے گا۔ شریکا برادری کدھر جائے گا۔ زمینیں چلی گئیں تو چودھراہٹ بھی گئی۔ یہاں تو عزت ہی زمین مرلے سے ہے۔ زمین گئی تو کمی کمین جو پہلے ہی شہر کے وسیب کے اثر میں بے لگامے ہو گئے ہیں ہمارے سر پر چڑھ کر ناچیں گے۔ میں اور ثریا نین برابر ہو جائیں گے۔ دین محمد میراثی تیرا مقابلہ کرے گا۔ تیرا حقہ نہیں تازہ کرے گا۔ چوہدری منظور، چوہدری منظور نہیں کہتا پھرے گا۔ کوئی جانور کے لیے چارا، چُوسنے کو گنے کا ٹکڑا یا منہ میٹھا کرنے کو گڑ کی روہڑی تجھ سے مانگنے نہیں آئے گا۔ بے زمین کمی عورتیں تیرے کھیت سے ساگ توڑنے نہیں آئیں گی اور اسی غرض سے تجھ سے ہنس ہنس کے باتیں نہیں کریں گی کہ چوہدری منظور کی دیسی سرسوں کی گندلیں بڑی مزیدار ہیں”۔

شگفتہ اپنی جھونک میں بولتی ہی چلی گئی۔

 سلگتے، گداز جسم کے نشہ میں ڈوبے ہونے کے باوجود منظور کی ہنسی چھوٹ گئی۔

 "عقلمندے! پہلے کون سی چودھراہٹ رہ گئی ہے۔ ساگ تو اب بسوں کے اڈے سے مل جاتا ہے۔ گنے بھی اُدھر پونے ملتے ہیں۔ پیسے اب کمیوں کے پاس ہم چھوٹے چھوٹے زمینداروں سے زیادہ آ گئے ہیں۔ اب دین محمد میراثی میرا حقہ صرف شام کو شہر سے واپس آ کر ایک بار بھرتا ہے اور وہ بھی میرے ساتھ مل کر شاہکوٹ کے کڑوے تمباکو کا مزہ لینے کے لیے۔ اپنے نشے کے لیے۔ میری چودھراہٹ کے خوف سے نہیں۔ پچھلے مہینے شاہکوٹ والا تمباکو ختم ہو گیا تو وہ پورا مہینا غائب رہا۔ ایک دن شام کو میاں جی سے باتیں کرتا مسجد کے پاس کھڑا نظر آیا۔ میں نے کہا، دینُو ! شاہ کوٹ سے کوڑے تمباکو کے کھبڑ آ گئے ہیں تو اگلے دن خود ہی آ پہنچا۔ تین چار ایکڑ والے نام کے چودھریوں کی نسبت کمیوں کے پاس اب زیادہ پیسے ہیں۔ وہ چھوٹا موٹا کام کر لیتے ہیں۔ عزت انا کا مسئلہ نہیں بناتے۔ نقد دیہاڑی لیتے ہیں روز کے روز۔ مجھے پتا ہے کہ اب اُلٹا چھوٹے موٹے چوہدری کمیوں کے مقروض ہوئے پھرتے ہیں۔ بس اللہ سب کا پردہ رکھے۔ ہوا اُلٹی چل پڑی ہے”۔

منظور نے ساری کتھا کہہ سنائی۔

 کچھ دیر کے لیے وہ گاؤں، دنیا، گوبر اور جانوروں کے پیشاب کی بو، چمکتے چاند اور دمکتے ستاروں کو بھلا بیٹھے۔

 پھر کچھ دیر بے سدھ لیٹے رہے۔

کافی وقت گزر گیا۔

"بات تو بیچ میں رہ گئی۔ میں جس فکر میں آئی تھی وہ تو ادھر ہی رہ گئی۔ کیا بنے گا ہمارا”۔

 شگفتہ پھر واپس آ گئی۔

"دیکھ شگفتہ ہمارے پاس زمین ہے جو کمیوں کے پاس نہیں۔ اس زمین سے ہمیں بڑی انسیت ہے۔ یہ ہمارا فخر ہمارا مان ہے۔ ہم ہمیشہ سنتے اور مانتے آئے ہیں کہ زمین زمیندار کی ماں ہوتی ہے۔ اب بھی زمین جا رہی ہے تو ہم کوئی رضا سے نہیں جانے دے رہے۔ شہر ہمارے سر پر آ گیا ہے۔ اگر زمین ہم سوسائٹی والوں کو دیں گے تو، یا تو مہنگے پلاٹ ملیں گے جو بیچ کر ہم بھاری رقم کمائیں گے یا پھر ابھی سوسائٹی والوں سے نقد موٹی رقم لیں گے۔ گاؤں تو ہمارا ہی رہے گا۔ وہ اس کے گرد دیوار بنا دیں گے۔ ہم موٹی رقم سے یا تو کہیں شہر سے کافی دور جا کر موجودہ رقبے سے کئی گنا زیادہ رقبہ خرید لیں گے اور بڑے زمیندار بن جائیں گے یا پھر اس رقم سے بہت اچھا کاروبار کریں گے اور سوسائٹی میں کئی کوٹھیاں اور دکانیں بنائیں گے۔ شگفتہ میرے خیال میں تو یہ ہماری لاٹری نکلی ہے۔ اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم گوبر پیشاب کی بو سے نکلیں اور بڑے لوگوں میں شامل ہو جائیں”۔

شگفتہ اس تقریر سے بہت زیادہ متاثر تو نہ ہوئی لیکن اسے پتا تھا کہ منظور میں موروثی ضد اور اکھڑ پن موجود ہے۔ وہ وہی کرے گا جو اس کے دل میں آ چکی ہے۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ یہ فیصلہ اس نے منڈلی کے لڑکوں کے ساتھ مل کر کیا ہو گا اور اب یہ چاچا گاما کے لفظوں میں "منڈیر پارٹی” بڑوں سے وہی منوائے گی جو یہ ٹھان چکی ہے۔

کہیں کوئی ذمہ دار مرغ اپنے دوسرے ساتھیوں سے بہت پہلے جاگ گیا اور ان دونوں کو افرا تفری پڑ گئی۔ منظور شگفتہ کے آگے آگے چل کر جوہڑ کے دوسرے کنارے تک گیا اور گاؤں شروع ہونے سے پہلے اسے اللہ حافظ کہہ کر لوٹ آیا۔ پگڈنڈی ختم ہونے سے پہلے ایک مینڈک نے اس کے قدموں کی آہٹ سن کر پر سکون، ساکت جوہڑ میں چھلانگ لگائی تو شڑاپ کی آواز دُور تک گونج گئی۔

اب کبھی کبھار گاؤں کے کتوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں جو شاید سحر خیز نمازیوں کو اپنی موجودگی سے خبردار کر رہے تھے۔ منظور نے دل سے دعا کی کہ شگفتہ کے گھر پہنچنے تک کوئی نمازی گلی میں نہ نکل آئے۔

اگلے تین چار ماہ گاؤں نت کلاں میں بڑے بڑے اکٹھ ہوئے۔ خیر دین نمبردار کی حویلی سے چار آدمی نکلتے تو چھ آ کر بیٹھ جاتے۔ مذاکرات کے بعد فیصلہ ہوا کہ نوجوان طبقے کی بات مانے بنا چارہ نہیں۔ بوڑھوں نے تسلیم کیا کہ اب ان کی ہڈیوں میں اتنا دم نہیں کہ پُرکھوں کی چھوڑی دھرتی کا سینہ چیر کر اتنے نوٹ اگا سکیں جو نئی نسل کی نئی ڈھب کی لامحدود ضروریات پوری کر سکیں۔ وہ وقت لد گیا کہ حقہ اور تاش کی بازی یا بڑ کے نیچے تپتی دوپہر سے پناہ لے کر میاں محمد بخش کی سیف الملوک یا وارث شاہ کی ہیر رانجھا کے سہارے دوپہر گزار دی جائے۔ اب گاؤں میں وی سی آر، ڈِش سے آگے کیبل، موبائل بلکہ انٹرنیٹ تک کی رسائی ہو چکی تھی۔ ایزی لوڈ، بیلنس، فیس بک اور یُوٹیوب جیسے نئے نام اور نئے تقاضے راہ پا رہے تھے۔ بزرگ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا زمانہ ماضی ہوا۔ ان کی بوڑھی ہڈیاں جوان تقاضے پورے کرنے کے قابل تو ہیں نہیں تو کیوں جوانوں کو ناراض کر کے بڑھاپا خراب کیا جائے۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد کئی دن اس بحث میں گزر گئے کہ گاؤں کی زمین کس حد سے آگے تک سوسائٹی کے حوالے کی جائے۔ دو بڑی مسجدیں تو گاؤں کی آبادی کے اندر تھیں لیکن ایک چھوٹی نیم آباد مسجد گاؤں کی مشترکہ زمین پر گاؤں سے باہر تھی۔ بڑی بحث تمحیص کے بعد بڑے میاں جی کی مرضی سے یہ طے پایا کہ وہ مسجد بھی سوسائٹی کے حوالے کر دی جائے جو چاہیں تو شہید کریں یا قائم رکھیں لیکن عوضانہ کی رقم بڑے میاں جی کو دی جائے جو اپنی نگرانی میں دونوں بڑی مسجدوں کی توسیع پر خرچ کریں۔ یہ بھی طے پایا کہ سوسائٹی بڑی سڑک سے گاؤں تک آتی نیم پختہ سڑک کے ڈیڑھ کلومیٹر ٹکڑے کو اپنے خرچ پر یا سرکاری خرچ پر دو رویہ اور پختہ کروا کر دے۔ گاؤں کے گرد کی چاردیواری میں چاروں طرف ایک ایک راستہ کھلا چھوڑا جائے جس سے نئی پختہ سڑک اور کالونی کو جاتی سڑک تک رسائی ہو۔

سب فیصلے ہو گئے اور انتظامات ہونے لگے۔ کچہری کے چکر کیا لگتے رجسٹری اور انتقال اراضی کرنے والے سوسائٹی کے زر خرید غلام اپنے بیگ بستے اٹھائے خود گاؤں آ کر گلی گلی کام نپٹانے لگے۔ شہر کے قریب ترین بینکوں کے افسران نے چھوٹے اور منیجروں نے بڑے زمینداروں کے گھروں کے چکر لگائے اور رقم محفوظ اور کم خرچ طریقے سے بینک اکاؤنٹ میں پہچانے کے بہت سے گربتا کر گاہکوں کو گھیرا۔

گاؤں میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ گاؤں سمٹ کر ایک نو تعمیر شدہ چار دیواری میں قید ہو گیا۔ جہاں آبادی کے چاروں طرف کھیت، باڑے، ڈیرے، جوہڑ اور راستے تھے وہاں اب کنکریٹ کی ساڑھے چھ فٹ اونچی دیوار نظر کو روکتی تھی۔ اس مختصر آبادی والے گاؤں کے اردگرد پختہ اینٹوں کا گول گول گھومتا ایک پندرہ بیس فٹ چوڑا راستہ تھا جو گاؤں کی سب گلیوں کی منزل تھا۔ اس راستے کو گاؤں کے چاروں اطراف آمد و رفت کے لیے چار نو تعمیر سڑکوں سے ملا دیا گیا تھا۔ جس گاؤں میں گدھا گاڑیوں، موٹر سائیکل، ٹریکٹر، چنگ چی رکشاؤں کے ساتھ شاذ ہی کوئی پرانی کار نظر آتی تھی وہاں اب چھوٹی بڑی چمکدار نئی کاروں کا آنا جانا لگ گیا جنہیں پارک کرنا مسئلہ تھا۔ کچے پکے احاطے پکے ہو گئے، چھوٹے بڑے یک منزلہ مکانوں پر دوسری منزل سوار ہوئی اور کہیں تیسری منزل بھی وارد ہو گئی۔ جہاں منظور کا احاطہ تھا وہاں سوسائٹی کے سکیورٹی والوں نے چند ہفتوں میں اپنی بارک قائم کر لی تاکہ گاؤں کے اُجڈوں سے شروع ہی سے علیحدگی اور حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست ہو جائے۔ گاؤں کے عادی چور اُچکے پھر بھی پر امید تھے کہ سوسائٹی میں گھسنے نکلنے کی سو سبیلیں ان کے ذہن میں کلبلا رہی تھیں۔

شگفتہ نے یہ ساری تبدیلیاں بڑے بوجھل دل کے ساتھ دیکھیں۔ اسے اپنا کچی مٹی کی سوندھی خوشبو میں بسا وہ گاؤں نہیں بھولتا تھا جس کی گلیوں کی کھلی نالیاں پھلانگتی وہ جوان ہوئی تھی۔ اسے درختوں کے وہ جھنڈ یاد آتے تھے جن کے شریں اور دھریک اپنے موسم میں مہکتے اور گاؤں مہکاتے تھے۔ اسے وہ کیکر یاد آتے تھے جو ساون بھادوں کے موسم میں اپنے کانٹوں کی چبھن سے زیادہ میٹھی خوشبو دیتے زرد پھولوں سے لد جاتے تھے اور چھونے پر زردی انگلیوں کی پوروں سے چپک چپک جاتی تھی۔ وہ املتاس کے زرد پھولوں کے لٹکتے ہار یاد کرتی تھی جو برسات میں پانی کی بوندوں کے بوجھ سے لٹک کر زمین سے قریب تر ہو جاتے تھے۔ اب یہ سب کچھ کنکریٹ کی دیوار سے باہر رہ گیا تھا جہاں ڈیزل کے بدبو دار دھوئیں چھوڑتی مشینیں اس سارے اثاثے کو کاٹ پیٹ کر سڑکیں بنا رہی تھی۔ ان کی یادوں بھری دھرتی کو چھوٹے بڑے پلاٹوں کی شکل دی جا رہی تھی۔

کئی انہونیاں بیت رہی تھیں۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ اشرف اور منظوربوسکی کی نئی قمیص پہنے ایک شاندار گاڑی کی عقبی نشست پر اکٹھے بیٹھے اور گاڑی شہر کو نکل گئی۔ وہ حیران رہ گئی کہ یہ آگ اور پانی کا میل کیسے ہو گیا ! گاؤں کے سب لوگوں نے زمینوں سے آئی رقم کو اپنی صوابدید یا اپنے مشیروں کے مشورے سے استعمال کیا۔ کوئی چھوٹا سا ٹرانسپورٹر بن گیا، کوئی پراپرٹی ڈیلر اور کوئی عمارتی سامان کا سٹور ڈال کر بیٹھ گیا۔ پشتوں سے ایک ہی پیشے سے منسلک لوگ نئے نئے کاروباری تجربات میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں کے دھوکا کھا کر پیسے ضائع کر لینے اور بالکل محتاج ہو جانے کی خبریں بھی گردش میں آئیں جبکہ کچھ کی دولت کے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے قصے بھی مشہور ہوئے۔

اشرف اپنے والد کا مناسب سا احترام تو کرتا تھا لیکن اسے قائل کر چکا تھا کہ اب بدلی ہوئی دنیا اشرف اور اس کے ہم عمر لوگوں کی ہے۔ پچھلی نسل غیر متعلق ہو چکی۔ جب گاؤں میں بہت سی دولت آئی تو ہر طرح کے لوگ دولت کے پیچھے آ پہنچے۔ جن خاندانوں میں فیصلے ابھی تک بزرگوں کی مشاورت سے ہوتے تھے وہ سنبھل کر چلے لیکن جہاں وقت کے بھاگتے گھوڑے کی لگام صرف نوجوان، مہم جو، نا تجربہ کار ہاتھوں میں تھی وہاں معجزے بھی رو نما ہوئے اور سانحات بھی گزرے۔

گاؤں میں سٹاک ایکسچینج اور حصص کا نام بالکل اجنبی تھا۔ سٹہ بازی کا تو شاید کسی نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو کہ کیسی بلا ہے اور کیا گل کھلا سکتی ہے۔ شہر زاد نے اپنے خالہ زاد سہیل ملک کے ذریعے منظور اور اشرف کو وہ سبز باغ دکھائے کہ دونوں باہمی مخاصمت بھول کر برضا و رغبت ایک ہی جادوگر کے سحر کے اسیر ہو گئے۔ سہیل ملک نے شہر کی سب سے شاندار آبادی کے تجارتی مرکز میں ایک عجوبہ عمارت کی ساتویں منزل پر کسی غیر معروف سٹاک بروکریج ہاؤس کا ذیلی دفتر کھول رکھا تھا۔ الٹرا ماڈرن مغربی لباس زیب تن کیے ریسپشنسٹ سے لے کر گداز صوفوں میں دھنسے، بڑی سی ٹیلی وژن سکرین پر سبز، نیلی اور سرخ پٹیوں میں چلتے اور پل پل بدلتے ہندسوں تک جادوئی ماحول، پھر میرون رنگ کی شوخ شرٹ اور کالی پتلون پہن کر کالی بو لگائے ہر آدھ گھنٹے بعد ہاٹ یا کولڈ کافی، چائے، منرل واٹر یا کولڈ ڈرنک کا آرڈر لیتے خوب صورت بیرے تک سب ماحول کسی اور ہی دنیا کا حصہ تھا۔ دونوں دیہاتیوں کے اکاؤنٹ کھول کرخرید و فروخت شروع ہو گئی۔ سبز رنگ کے بڑھتے اور سرخ رنگ کے گرتے نرخ ناچتی پریاں بن گئے۔ حصص کی خرید و فروخت کی روزکے روز رسید پیش کی جاتی۔ نئے خریدے ہوئے سمارٹ فون پر میسیج بھی موصول ہوتے جن کی انھیں کچھ سمجھ نہ آتی لیکن ہاؤس کے سمارٹ لڑکے انہیں پڑھ کر سمجھاتے۔ پہلے ہفتے میں اشرف اور منظور کی رقوم بڑھ کر دوگنا کے قریب ہو گئیں۔ ان دونوں نے مشورہ شروع کر دیا کہ اتنے پیسے کیسے سنبھالیں گے اور کہاں خرچ کریں گے۔ جو خواب وہ دیکھ چکے تھے بہت پیچھے اور بہت نیچے رہ گئے۔ منظور کا تو باپ بھی کئی سال پہلے دوسرے جہاں  جا چکا تھا اور بھائی بہن کوئی تھا نہیں۔ بوڑھی ماں کو کیا بتانا تھا اور کیا چھپانا تھا۔ اشرف نے بھی اپنے والد یا شگفتہ سے کچھ ذکر نہ کیا کہ کیا کاروبار کر رہا ہے۔ بس دونوں کا لباس، گھڑیاں اور ہاتھوں میں پکڑے جدید ترین موبائل فون ظاہر کرتے تھے کہ وہ بہت خوش اور خوشحال ہیں۔ ہفتے میں پانچ دن ایک شاندار سی کار اُنہیں صبح لے جاتی اور رات گئے واپس چھوڑ جاتی۔

اس مرحلہ پر چیزیں بہت ہی تیزی سے بدلیں۔

سہیل ملک نے اشرف اور منظور کو ایڈوانس بائینگ، ایڈوانس سیلنگ، سیپیکولیٹو بائینگ اینڈ سیلنگ (Advance Buying, Advance Selling, Speculative Buying and Selling) جیسے بڑے بڑے لفظ سکھائے۔ اب لگائی گئی رقوم کو ایک ایک دن میں دوگنا چوگنا اور دس گنا ہونا تھا۔ یہ سارا وقت ایک سہانے لیکن ناقابل یقین خواب کی طرح گزر رہا تھا۔

وقت پھر گزر گیا۔

بہت وقت گزر گیا۔

گاؤں کو جاتی چاروں نئی پختہ سڑکوں کا سیاہ تار کول مٹ میلا ہو چکا تھا۔ ٹھیکیدار کی بے ایمانیاں چھوٹے چھوٹے گڑھوں کی شکل میں ظاہر ہو رہی تھیں۔ سڑک کے کناروں کی مٹی میں گاؤں کی زمینوں کی ختم ہو چکی گھاس کی بچی کھچی جڑوں نے پھر روئیدگی بھر دی تھی۔ گاؤں کی سڑک جہاں سوسائٹی کی سڑک سے ملتی تھی وہاں بہت سی دکانیں بن گئی تھیں۔ گاؤں سے قریب کے اکثر پلاٹس پر نئے دو منزلہ بنگلے بن چکے تھے جن میں سے کچھ کی دوسری منزل کی بالکونیاں بوگن ویلیا اور جھومر بیلوں کے پھولوں سے ڈھکی تھیں۔ کچھ بیلیں پھولوں سمیت نیچے کو لٹک کر لہرا رہی تھیں۔ ایسے میں گاؤں کی سڑک سے ایک پرانی بائیسکل آ وازیں نکالتی ہوئی نکلی اور کالونی کی طرف مڑ گئی۔ سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھی معمولی سے کپڑوں میں ملبوس ادھیڑ عمر عورت نے کالی چادر اپنے گرد کس کر لپیٹ رکھی تھی تاکہ لٹک کر سائیکل کے پہیے میں نہ پھنس جائے۔ سائیکل چلانے والے مرد نے پورا زور لگا کر پیڈل گھمائے تو سائیکل کی رفتار بڑھ گئی۔ کالونی میں داخل ہو کر آٹھویں کوٹھی کے بڑے سے آہنی گیٹ کے سامنے سائیکل رکی۔ کیرئیر پر بیٹھی عورت سائیکل سے اتر کر نیچے کھڑی ہوئی، چادر ہٹا کر بدرنگ، پتلی سی چٹیا کو آگے لا کر اس کی آخری گانٹھ کو اپنی کھردری سانولی انگلیوں سے ٹٹولا، تسلی ہونے پر چٹیا پیچھے پھینکی، گردن کو جھٹکا دیا اور کوٹھی کی پارکنگ لاٹ میں داخل ہو گئی۔ باورچی خانے کاعقبی دروازہ داہنی طرف تھا اورگھر میں ڈھیروں برتن، بچے کھچے کھانے سے بھرے کوڑا دان، گندے سِنک سمیت کئی کام اس کے ہاتھوں کی معجز نمائی کے منتظر تھے۔

سائیکل والے نے سائیکل کو اپنی کمر سے ٹکا کر دونوں ہاتھ خالی کیے، انگوٹھوں اور ساتھ والی انگلیوں سے اپنی مونچھوں کو مروڑ کر نوکیں اوپر کو اٹھائیں، ایک نظر سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکی درانتی، آری، کھر پی اور بڑی سی قینچی کو دیکھا اور سائیکل چلاتا ہوا آگے نکل گیا جہاں بارھویں کوٹھی کے بڑے سے باغیچے میں اُگی گھاس، پھول اور پودے اس کے ہاتھوں کی مسیحائی سے پنپتے اورسنورتے، پھلتے اور پھولتے تھے۔

گاؤں اور شہر نے اکٹھے رہنا سیکھ لیا تھا!!

٭٭٭

افسانچے

(مائیکروفکشن)

ویسے کا ویسا

جی چاہتا ہے اُس سے بات کروں

پُوچھوں کہ کیسی ہو؟

سوچتا ہُوں کہ سب ٹھیک چل رہا ہُوا، تو جو ایک واہمہ ہے کہ میری کچھ اہمیت تھی وہ بھی نہ رہے گا

وہ تو ویسی کی ویسی ہو گی

ٹھنڈی ٹھار

ہنسے گی تو اچھی لگے گی

میرے راز، راز رکھے گی

میرا خیال رکھے گی

قدر کرے گی

دِل کی باتیں کرے گی سنے گی

نہ سمجھتے ہوئے بھی میرے فلسفے برداشت کرے گی

 پہروں گفتگو چلے گی۔

چائے کے دور ہوں گے

پیزا اور برگر آرڈر ہوں گے

اور ایسی لمبی باتیں،

جو بس باتیں ہی باتیں ہوں

تو پھر کروں اس سے بات؟

لیکن اگر اُس نے کہہ دیا کہ’’ٹھیک ہُوں‘‘تو پھر؟

مجھے تو پوچھے گی کہ کیسے ہو؟

میں تووُہی بولوں گا کہ،’’ویسے کا ویسا‘‘!

پتا نہیں یہ مذاق ہو گا یا حقیقت؟

لیکن ہوں تو میں ویسے کا ویسا

تو مان جاؤں کیا؟

کروں اس سے بات؟

٭٭٭

پند نامہ

ایک دوست کا پند نامہ صبح موصول ہوا،

’’قدر کرنا سیکھ لو۔ یہ زندگی آپ کو دوبارہ ملے گی نہ یہ دوست‘‘!

میں نے اضافہ کیا،

’’چاہئیں آپ کو‘‘؟

جواب کا منتظر ہوں۔

٭٭٭

ضرورت

 اُسے بارہا پوچھا کہ میں اُسے تنگ تو نہیں کر رہا۔ اُس نے ہمیشہ کہا کہ بالکل نہیں، بلکہ میں تو اُلٹا اُس کا بوجھ ہلکا کرتا ہوں۔

 پھر ایک وقت آیا کہ مجھے پتا چلا کہ اُسے میری ضرورت نہیں۔

 تو میں نے اُسے تنگ کرنا بند کر دیا۔

٭٭٭

سموگ

ہمارے زہر نے زمین کو گھیر لیا ہے۔ ہم نے زہر اگلا، زہر چھڑکا، زہر بویا اور زہر پھیلایا۔ ہم نے خوشبوؤں تتلیوں جگنوؤں اور بیر بہو ٹیوں کو مار ڈالا۔ اب ہمیں سانس لینے کو صرف تیزابی مسموم ہوا میسر ہے۔ اندر زہر باہر زہر اوپر زہر نیچے زہر۔ ہم کتنے زہرآلود اور زہریلے ہو گئے ہیں۔ ہم نے زمین کو بھی اپنے جیسا کر دیا ہے۔

٭٭٭

نصیحت

"حضرت کوئی نصیحت فرمائیے”!

"دنیا کی دولت ادھر ہی رہ جانی ہے۔ ساتھ جائیں گے تو بس اعمال”۔

"جی حضرت”!

"عطیات اور ہدیہ کا بکس دروازے کے ساتھ رکھا ہے”۔

٭٭٭

حلال

       "مجھے یہ مرغی حلال کر دیجئے”۔

       "کہاں سے لائے ہیں؟”۔۔۔

       "۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ "

       "اوہ ! معاف کیجے گا۔ معذور ہوں۔ میں اسے آپ کے لیے ذبح تو کر سکتا ہوں، حلال نہیں کر سکتا”۔۔

٭٭٭

یکم مئی

       آج، یکم مئی کو میں  یہ دعا مانگتا رہا کہ کہیں  مزدوروں  کو پتا نہ چل جائے کہ یہ ان کا دن ہے۔

       شکر ہے انہیں  پتا نہیں  چلا۔

٭٭٭

بھول

       اس نے کہا، "مجھے بھول جاؤ”۔

       اور میں  بھول گیا۔

       اب اسے گلہ ہے کہ میں  نے اسے بھلا دیا ہے۔

       جبکہ مجھے شکوہ ہے کہ وہ بھول جاتی ہے۔

٭٭٭

دوسرا کُتا

       ٹھنڈے میٹھے پانی کے ایک کنویں  میں  کتا گر گیا۔

       کچھ "سیانے” اکٹھے ہوئے اور انہوں  نے کہا کہ کتنی بری بات ہے۔ کتنا اچھا کنواں  تھا۔ اس کا کچھ سوچا جائے۔

       پھر بڑے سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ کنویں  میں  گرے کتے کو دوسرے کتے سے بدل لیا جائے۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے یہ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل


ای پب فائل 

کنڈل فائل