FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

زادِ سخن

شبیر ناقد

مفت میں ہے کب ملی معراجِ فن؟

پائی منزل کتنے پاپڑ بیل کر

(شبیر ناقِدؔ)

ISBN: 978 969 7578 55 9

شبیر ناقِدؔ

معرفت پروفیسر ظہور احمد فاتح، نزد تعمیرِ نو اکیڈمی

کالج روڈ، تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان(پنجاب۔ پاکستان)

رابطہ فون: 0333-5066967 0303-9297131 0342-5237636

 

ڈاؤن لوڈ کریں



ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

حمد باری تعالیٰ

تِرا نام وردِ زباں رہے

ترا خاکسار جہاں رہے

مرے سنگ تیرا ہی سنگ ہو

میں جہاں رہوں تو وہاں رہے

ترے نام سے ہے یہ روشنی

تری ذات سے ہے یہ آگہی

مرے ساتھ تیری عنایتیں

تری روز و شب کی حمایتیں

مرا میت لطف و کرم ترا

مرے ساتھ تیری ہدایتیں

میں ترا ہوں سائل خوش نوا

ہو ثباتِ علم و عمل عطا

 

شعور کی صلیب ہے

جنوں مرا قریب ہے

کبھی خوشی کبھی ہے غم

حیات کچھ عجیب ہے

جو منزلیں ہوں راہ میں

تو دور بھی قریب ہے

جو سوچ سے ہے ماورا

ادب نہیں ادیب ہے

جو خیر خواہِ فن بنے

وہ شخص بھی مہیب ہے

کبھی شِفا ملے کبھی شَفا

عجب مرا طبیب ہے

جو بے کسوں کا ساتھ دے

وہ آدمی نجیب ہے

بلیغ جس کی بات ہے

وہی بڑا خطیب ہے

اے ناقِدِؔ الم ترا

خزاں زدہ نصیب ہے

 

زندگی کا عذاب جاری ہے

درد و غم کا نصاب جاری ہے

اس کا انجام جانے کب ہو گا؟

روز و شب کی کتاب جاری ہے

کب ہے موقوف روزِ محشر پر؟

روز روزِ حساب جاری ہے

کوئی مخلص نظر نہیں آیا

ہر کسی کا عتاب جاری ہے

کب رکی گردشِ قلم ناقِدؔ

لمحہ لمحہ جناب جاری ہے

 

میں محبت کے سفر میں کیوں رہا تنہا سدا؟

زندگی کی جس کی خاطر وہ نہ میرا بن سکا

باوفا کہنے کو جو کہتا ہے سارا یہ جہاں

اس جہانِ بے وفا میں کون ٹھہرا باوفا؟

مطلبی سے اس جہاں کے مطلبی سب کھیل ہیں

کچھ نہ اس میں پا سکے ہم کچھ نہیں اپنا ہوا

احمقانہ سا عمل ہے اب وفا کی جستجو

مادیت کا دور ہے ٹھہرے ہیں سب اہلِ جفا

ہم رہے رنجور زندانِ طلب میں عمر بھر

وہ رہا خوش باش ناقِدؔ ہے اسے سب کچھ ملا

 

اب وفا رسوا رہے گی عمر بھر

ہے یہی لکھا ہوا دیوار پر

مفت میں ہے کب ملی معراجِ فن؟

پائی منزل کتنے پاپڑ بیل کر

اپنی دنیا آپ کر پیدا یہاں

ہم نفس کوئی نہیں ہے چارہ گر

زندگی تنہا کٹی ہے دم بہ دم

معتبر پایا نہ کوئی ہم سفر

کی ہے ناقِدؔ عمر بھر آوارگی

یم بہ یم، قریہ بہ قریہ، دربدر

 

گو مگو میں حیات کرتا ہوں

کچھ سبیل ثبات کرتا ہوں

دن گزرتا ہے دنیاداری میں

فکرِ عقبیٰ میں رات کرتا ہوں

طاری رہتی ہے اب گرانی سی

کب کسی سے میں بات کرتا ہوں

پاس جتنے ہیں وسوسے میرے

سب کو وقفِ ممات کرتا ہوں

بے بسی کی فضاؤں میں ناقِدؔ

میں ذرا فکرِ ذات کرتا ہوں

 

میری گفتگو ہے عوام سے

مرے لفظ بھی تو ہیں عام سے

مجھے ذوقِ عجز و خلوص ہے

مجھے کچھ غرض نہیں نام سے

مرے پاس تھوڑا سا وقت ہے

مجھے کام اپنے ہی کام سے

مرا فلسفہ ہے عجیب سا

کرے پیار کوئی نہ دام سے

یہی غم ہے ناقِدِؔ بے نوا

نہ ملی وفا کسی گام سے

 

قطعات

زندگی کیوں خراج لیتی ہے

مجھ سے سانسوں کا باج لیتی ہے

مجھ سے کرتی نہیں محبت وہ

پھر بھی سب کام کاج لیتی ہے

O

شعر مرا ہے غم میں ڈوبا

جیون میرا درد کا دریا

تم کرتے ہو تن کی پوجا

میں کرتا ہوں من کی رِکشا

 

رنگِ حیات

ملگجے اندھیرے میں

آفتوں کے گھیرے میں

عمر کٹ گئی مری

زیست بٹ گئی مری

زندگی فسردہ ہے

دل بھی نیم مردہ ہے

چار سو اداسی ہے

روح سخت پیاسی ہے

پاس اپنے ہمت ہے

اور استقامت ہے

صورتِ احوال

ضعفِ پیری نے ہمیں ہے بیدِ مجنوں کر دیا

غم جو تھا عنقا اسے ہے روز افزوں کر دیا

کر گئی ہے بے زری رسوا زمانے میں ہمیں

یوں ہی جینا تھا جہاں کے قید خانے میں ہمیں

اب ہمارے درد کا کوئی رہا درماں نہیں

کوئی بھی دکھ میں ہمارے اب رہا غلطاں نہیں

درد ہی میں ہیں گزاری زندگی کی ساعتیں

ہم پہ گزری ہیں گراں یہ آگہی کی ساعتیں

بے حسی کے عہد میں تصویرِ غم بن کے رہے

طلمتِ حالات میں مشق ستم بن کے رہے

ہم میں تھا اخلاص بے حد کرب میں پھر بھی رہے

اس لیے اہلِ زمانہ پھر ہیں دشمن بن گئے

ہے رواں اپنا سفینہ بے بسی کے بحر میں

عالمِ ناگفتنی ہے بے کسی کے بحر میں

 

دہشت گرد کے نام!

کتنے ہیں گھر بار اجاڑے؟

ماؤں سے ہیں بیٹے چھینے؟

بد امنی کو خوب ہوا دی

نردوشوں کو خوب سزا دی

باپ سے اس کی بیٹی چھینی

ماں کی گود بھی کی ہے خالی

اسکولوں کا امن اُجاڑا

تیرے ہاتھ نہ کچھ بھی آیا

شیطانی ہے تیری جنگ

ہاتھ میں تیرے تیر تفنگ

اب تجھ کو نہ رہنے دیں گے

ہم تجھ سے ہر آن لڑیں گے

اپنا پورا زور لگا کر

دم لیں گے ہم تجھ کو مٹا کر

عزم جواں ہے پیہم اپنا

جب تک ہے دم میں دم اپنا

خود کش حملے تیرا جیون

موت کا دھندہ سارا جیون

غازی اور شہید بنیں گے

جو تیرا رستہ روکیں گے

دو دن کی ہے تیری کہانی

اپنا فسانہ تو ہے دوامی

 

لازوال محبت

تھے پہلے خوب صورت تم

تم اب بھی خوب صورت ہو

تمہارا کل حسیں ہو گا

تمہیں چاہا تھا پہلے بھی

تمہیں ہیں چاہتے اب بھی

تمہیں ہم کل بھی چاہیں گے

بتاؤ آج تک تم کو

کسی نے یوں دعا دی ہے؟

کسی کا پیار ہے اتنا؟

کسی میں حوصلہ بھی ہے

دعاؤں کا، وفاؤں کا

محبت کا

 

جبر حیات

رہی ضابطوں میں مقید مری جاں

مجھے تلخ جیون ودیعت ہوا ہے

مرا حسن ہوتا رہا مسخ اکثر

سدا تلخیوں سے ہی پالا پڑا ہے

طبیعت مری خوش گواری کو ترسے

رہی دور مجھ سے شگفتہ مزاجی

رہا مجھ پہ سنجیدگی کا تسلط

ہے کردار سارا مسائل کا اس میں

ہوا اس لیے میرا جیون اجیرن

جو دل نے ہے چاہا وہ میں کر نہ پایا

خرد کے ہی احکام ہیں میں نے مانے

مرا دل بھی اب مجھ سے شکوہ کناں ہے

کہے مجھ سے اب میری راحت کہاں ہے؟

ترے پاس بے چینیوں کا سماں ہے

بہ ایں حال رہتا ہوں میں مضطرب سا

لگے روپ جیون کا اب منقلب سا

 

عجب طرزِ حماقت ہے

کہ اک ظالم سے الفت ہے

وفا میری ہے مجبوری

جفا میری ضرورت ہے

سبھی میرے مخالف ہیں

فقط رب کی حمایت ہے

رہا ہوں میں سدا بے کل

یہی تیری عنایت ہے

رہے ہمدرد ہم جس کے

وہی محوِ بغاوت ہے

نہیں اخلاق لوگوں میں

فقط نامِ شرافت ہے

مجھے تو نے ہے ٹھکرایا

یہی وجہِ اذیت ہے

بہت بے چین ہوں ناقِدؔ

فزوں تر دردِ فرقت ہے

 

لوگ کرتے ہیں گفتگو تیری

ہے ہمیں صرف آرزو تیری

دنیا ساری ہوس کی خوگر ہے

ہم کو مطلوب آبرو تیری

ہم نے تو محض تجھ کو چاہا ہے

کی نہیں صرف جستجو تیری

ہر فسانے میں ذکر تیرا ہے

بات ہوتی ہے کو بکو تیری

کیسے اعراض تجھ سے ممکن ہو

جبکہ صورت ہے چارسو تیری

فن میں ناقِدؔ تری تجلی ہے

اس میں شامل ہے مشکبو تیری

خود سروں سے ہے دوستی اپنی

خود سے جیسے ہو دشمنی اپنی

زندگی ہے گزارنی تنہا

تجھ کو بخشی ہے بے رخی اپنی

التجائیں نہ کر سکے پیہم

کام آئی نہ عاجزی اپنی

ساتھ اپنا نہ کوئی دے پایا

دوست اپنی ہے آگہی اپنی

پیروی ہم کسی کی کیا کرتے؟

اپنا خاصا ہے شاعری اپنی

ساتھ کب کوئی دینے والا ہے؟

کام آتی ہے بے بسی اپنی

پاس ناقِدؔ نہیں کوئی میرے

ساتھ رہتی ہے بے خودی اپنی

 

کہانی ہم سفر کی ہے

محبت کی ڈگر کی ہے

خطا تو کچھ نہ تھی لیکن

سزا یہ عمر بھر کی ہے

جو ہم نے تم سے کھائی تھی

وہ ٹھوکر دربدر کی ہے

اذیت بن گئی ہے جو

جفا وہ چارہ گر کی ہے

ہمیں ہستی نہ راس آئی

تو کوشش کی مفر کی ہے

نہیں جو بات کرنی تھی

وہی ناقِدؔ مگر کی ہے

ہمیں تیری ظالم اداؤں نے مارا

ترے ہجر کی ہے سزاؤں نے مارا

ہمیں آپ سے کچھ شکایت نہیں ہے

ہمیں تو ہے اپنی وفاؤں نے مارا

کسی بد نظر کا نہ تھا صید میں تو

مجھے تو ہے تیری دعاؤں نے مارا

ہمیں وقت پیہم رلاتا رہا ہے

ہمیں ہر کسی کی جفاؤں نے مارا

بنا تیرا ناقِدؔ ستم کا نشانہ

اسے تیری ہر دم عطاؤں نے مارا

 

احسانِ مشیت

سدا میں نے گائے محبت کے نغمے

مرے پاس بھٹکی نہیں ہے کدورت

مری ذات ہے استعارہ وفا کا

مشیت نے بخشی مجھے ہے مروت

اسی کے ہی دم سے ملا صبر مجھ کو

مری زندگی ہے اسی کی بدولت

اگر پاس میرے یہ دولت نہ ہوتی

کسی سے بھی مجھ کو محبت نہ ہوتی

کرم یہ کیا مجھ کو بخشی یہ دولت

ہے قدرت کی مجھ پر بڑی یہ عنایت

 

رجعتِ قہقری

گھر تو کچے تھے

لوگ سچے تھے

پیار کرتے تھے

رب سے ڈرتے تھے

قول کرتے تھے

جو نبھاتے تھے

جان دیتے تھے

مان رکھتے تھے

گھر جو پکے ہیں

لوگ کچے ہیں

جان لیتے ہیں

مان کھوتے ہیں

اب نہ چاہت ہے

اب نہ راحت ہے

 

خواہش وصل

مجھے شک ہے مجھے تو بھول بیٹھی ہے

مگر میں تیرا شیدا ہوں مری چاہت بھی سچی ہے

مجھے تجھ سے یہ شکوہ ہے مجھے الفت نہیں بخشی

غمِ ہجراں میں تڑپا ہوں مجھے راحت نہیں بخشی

جفا مجھ سے ہے کی ہر دم دغا مجھ سے کیا تو نے

ستم فرمائے ہیں تو نے کہاں کی ہے وفا تو نے

مجھے ہو اب عطا قربت بہت فرقت میں تڑپا ہوں

جنوں میں ہوں میں سرگرداں تری چاہت میں رسوا ہوں

عطا ہوں قرب کی گھڑیاں یہی میری تمنا ہے

ترے درشن کی یہ خواہش عنایت کی ہی آشا ہے

 

زیانِ بُعد

یہی اکثر کہا تجھ سے

کہ مجھ سے دور مت ہونا

جدائی میں مسائل ہیں

اگر تو دور ہو مجھ سے

تو قسمت روٹھ جاتی ہے

تری قسمت کا میں روشن ستارہ ہوں

ہوں قربت میں سکوں تیرا

مگر دوری میں بے چینی

 

علت و تعلیل

جب طبیعت اداس ہوتی ہے

تیری تصویر دیکھ لیتا ہوں

تو ہے باعث اگر اداسی کا

تو ہی عنوان ہے مسرت کا

 

کربِ پنہاں

ترا وقت ہے بے نیازی میں گزرا

مگر کرب میں میری ہستی رہی ہے

مری جاں تجھے اس کا احساس کب ہے؟

مگر میں سلگتا رہا ہوں مسلسل

رہی شعلگی میرے جیون کا حصہ

تجھے کیا خبر عشق و اخلاص کیا ہے؟

تجھے کب ہے معلوم کیا شئے ہے فرقت؟

کہ ہر غم سے تو تو ہے لاعلم جاناں

 

تتلیاں

عمر جو کچھ بھی ہو میری

دل جواں رہتا ہے میرا

رنگ دل کش تتلیوں کے

اچھے لگتے ہیں مجھے بھی

 

بنے جو تیرے ہم قدم سوچتے ہیں

ملیں گے سفر میں الم سوچتے ہیں

انہیں سوچنے کی بھی توفیق ہوتی

سدا جن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں

جفائیں کبھی ہیں پریشان کرتی

کیے ہیں جنہوں نے کرم، سوچتے ہیں

انہیں بھول جانا بھی آسان ہو تا

نہ کرتے اگر وہ ستم، سوچتے ہیں

کبھی زندگی کا تو سوچا نہیں ہے

مگر ہم برائے عدم سوچتے ہیں

یہ انساں میں کیسی ہے نفرت، عداوت

کبھی یہ بھی دیر و حرم سوچتے ہیں

سدا جن کو عصیاں سے رغبت رہی ہے

عجب یہ ہے بہرِ ارم سوچتے ہیں

جنہیں سوچنا راس آ جائے ناقِدؔ

جہاں کے وہ سب زیر و بم سوچتے ہیں

 

ہمیں وقت اتنا رلاتا ہے کیوں؟

مسلسل ہمیں یہ ستاتا ہے کیوں؟

جسے پاس اپنے بلاتا ہوں میں

وہی مجھ سے دامن چھڑاتا ہے کیوں؟

جو تھے زخم پہلے ہرے ہیں ابھی

نئے زخم پھر وہ لگاتا ہے کیوں؟

محبت میں دل نے بہت دکھ سہے

محبت کے پھر گیت گاتا ہے کیوں؟

کوئی چارہ سازی مری کیوں کرے؟

کوئی پاس مجھ کو بلاتا ہے کیوں؟

مجھے کوئی خوشیوں سے نسبت نہیں

کوئی سکھ مرے پاس آتا ہے کیوں؟

مجھے آزمایا گیا ہے بہت

وہ ناقِدؔ مجھے آزماتا ہے کیوں؟

 

روز و شب کا حساب لکھتے ہیں

زندگی ہے، نصاب لکھتے ہیں

شاعری میرؔ کی امانت ہے

درد و غم کے عذاب لکھتے ہیں

خود کو تنہا کبھی نہیں رکھا

تجھ کو بھی ہم رکاب لکھتے ہیں

اپنے دشمن کا بھی ادب کر کے

اس کو عالی جناب لکھتے ہیں

جب طبیعت ہو موج میں ناقِدؔ

وصفِ حسن و شباب لکھتے ہیں

 

خلوص کا راہ گیر ہوں میں

کہ رتجگوں کا اسیر ہوں میں

جہاں میں میری مثال مشکل

کہ آپ اپنی نظیر ہوں میں

کسی سے کیا میں غرض رکھوں گا؟

کہ راہ چلتا فقیر ہوں میں

کئی مری ذمہ داریاں ہیں

بشیر ہوں میں نذیر ہوں میں

نہیں مری دسترس میں سب کچھ

نہ کوئی قادر قدیر ہوں میں

ہے مختصر سا مرا تعارف

محبتوں کا سفیر ہوں میں

خرد کی دولت ہے پاس وافر

لکیر کا کب فقیر ہوں میں؟

مجھے قلم پر ہے ناز ناقِدؔ

متاعِ فن کا امیر ہوں میں

 

زندگی نت اداس رہتی ہے

بے کلی آس پاس رہتی ہے

جس نے کوئی خوشی نہیں بخشی

جانے کیوں اس کی آس رہتی ہے

دل پریشان ہے بہت میرا

ہجر میں جاں نراش رہتی ہے

کیوں نہ دو چار ہو غموں سے وہ؟

جس کی ریکھا میں یاس رہتی ہے

ہر خوشی اس پری نے پائی ہے

پھر بھی کچھ بدحواس رہتی ہے

جانے ٹوٹی ہے اس پہ کیا افتاد؟

وقفِ خوف و ہراس رہتی ہے

پاس میرے نہیں وہ اب ناقِدؔ

من میں اس گل کی باس رہتی ہے

 

جادۂ منزل

مجھے پیار تو پیار کے ساتھ ہے

یہ اظہار ہر یار کے ساتھ ہے

مجھے ہر کسی سے ہے نفرت ملی

محبت کے بدلے کدورت ملی

مگر پیار میرا تو بڑھتا رہا

اگرچہ مجھے سب نے پاگل کہا

یہاں سب ہیں میرے مخالف ہوئے

یہاں بات کوئی نہ میری سنے

سدا پیت کے گن ہی گاؤں گا میں

اسی طور منزل کو پاؤں گا میں

 

پریم کویتا

تیرے پیار میں عمر ساری کٹی ہے

مری زندگانی کا حاصل یہی ہے

ترا پیار ہے میرے جیون کا گہنا

نہیں اس سے بڑھ کر مجھے کچھ بھی کہنا

مجھے پیار ہر دم تری دوستی سے

ترے حسن سے اور تری ہم دمی سے

سدا مجھ کو تجھ سے محبت رہے گی

اسی سے مرے دل کو راحت ملے گی

تری پیت کے گیت گاتا رہوں گا

محبت کا بربط بجاتا رہوں گا

 

مشکل میل

تو بھی مجھ بن رہ نہیں سکتی

دل کی بات بھی کہہ نہیں سکتی

میں بھی تجھ بن رہ نہیں سکتا

من کی بات بھی کہہ نہیں سکتا

تیری صورت دیکھنا چاہوں

لمحہ بھر کو رہ نہ پاؤں

ایسے میں اظہار ہے مشکل

پیار سمجھنا پیار ہے مشکل

راہ تری دشوار بہت ہے

گرچہ دل میں پیار بہت ہے

ایسے میں دشوار ملن ہے

تیرا میرا غمگیں من ہے

 

غیر معمولی

ہم دناچر

ہم نشاچر

رت جگوں کے شہنشاہ

کیا ہو نسبت؟

اب ہمیں آرام سے

ہر ہزیمت سے رہے نا آشنا

کامیابی ہی ملی ہر گام پر

ہم نہیں کرتے محبت نام سے

عشق فرماتے ہیں پیہم کام سے

 

شکتی

ہمارا حوصلہ دیکھو

ادب دشمن کی صحبت میں

ادب تخلیق کرتے ہیں

 

ہو بہو

بتاؤں تمہیں اک نئی بات جاناں

نظر آئی ہم شکل کل شب تمہاری

تمہاری طرح تھی وہ معصوم صورت

تمہاری طرح ریشمی سی تھیں زلفیں

تمہاری طرح تھا لبوں پہ تبسم

تمہاری طرح گفتگو کرتی آنکھیں

تمہاری طرح چال مستانی اس کی

تمہاری طرح وہ بھی غنچہ دہن تھی

خدا کی قسم وہ تمہاری طرح تھی

مگر تم نہیں تھیں

 

کاوش

نظم و نثر کی مزدوری ہے

کرب رہا ہے جس کا حاصل

 

نہ کوئی آن بان ہے

عجیب داستان ہے

ہے جگ سے کی سدا وفا

ہوا نہ مہربان ہے

ستم سے اب گریز پا

زمیں نہ آسمان ہے

تری جفا کا اب مجھے

نہ وہم نہ گمان ہے

نہ میں ہوں ناقِدِؔ کرم

نہ میرا آستان ہے

 

تجھ سے جدا نہیں ہوں

دل کا برا نہیں ہوں

میرا یقین کر لو

میں بے وفا نہیں ہوں

کر لوں ستم گوارا

اتنا بھلا نہیں ہوں

چاہے گا کوئی کیسے؟

میں دلربا نہیں ہوں

ناقِدؔ کسی خوشی سے

میں آشنا نہیں ہوں

 

ملے ہیں بہت ہم سفر زندگی میں

بنے ہیں کئی چارہ گر زندگی میں

کہیں بھی نظر اپنی جمنے نہ پائی

حسیں کتنے آئے نگر زندگی میں

ہے جوبن پہ امروز تیری صباحت

لگے نہ کسی کی نظر زندگی میں

نہ یہ ظلمتِ شب ہمیشہ رہے گی

کسی دن تو ہو گی سحر زندگی میں

کٹا اپنا جیون سفر میں ہے ناقِدؔ

مرے ساتھ ہرگز نہ ڈر زندگی میں

 

معلوم یہ ہوا ہے

تو نے کیا دغا ہے

تو نے تھا جس کو چاہا

تو اس سے جا ملا ہے

ترے پاس کچھ اگر ہے

مری جان وہ جفا ہے

جس نے کیا ہے پاگل

وہ تو تری ادا ہے

مل جائے وصل تیرا

بس اتنی التجا ہے

تیری جدائی ساجن

میرے لیے سزا ہے

تو نے جفائیں کی ہیں

میں نے تو دی دعا ہے

ہجراں کو تیرے ناقِدؔ

سمجھا تری عطا ہے

 

بہت جبر میں نے جہاں میں سہا ہے

مرا اس لیے حال ابتر ہوا ہے

کسی کو نہیں ترس آیا ذرا بھی

فسانہ الم کا تو سب نے سنا ہے

نہیں پاس میرے کوئی اور دولت

فقط پاس میرے تمہاری جفا ہے

روا تم نے رکھے ہیں مجھ پر مظالم

بتاؤ یہ خود ہی جفا ہے وفا ہے

مرے پیار کے آپ لائق نہیں ہیں

مجھے اس نے ناقِدؔ یہ ہر پل کہا ہے

 

سوزِ حیات

بے وفا سا زندگی کا روپ ہے

میری قسمت چھاؤں کب ہے دھوپ ہے

ہر قدم پر زیست نے دھوکے دیے

ہو گئے ہیں زخم اپنے سب ہرے

کر سکی کب یاوری قسمت مری؟

دوش میری ذات کا وحشت مری

شمعِ ہستی جل رہی ہے سوز سے

بے بسی بھی پل رہی ہے سوز سے

ساتھ جب تک فکر کے خوشیاں نہیں

غم سے دھندلی ہو گئی میری جبیں

 

التماسِ قرب

تیری دید کو ترسیں نیناں

ساون بن کر برسیں نیناں

ہجر میں ابتر حال ہوا ہے

سو سالوں کا سال ہوا ہے

من دھرتی ہے سوزاں تجھ بن

دل میں غم ہیں مہماں تجھ بن

چھوڑ گئی ہے دنیا ساری

اپنی ہستی حزن کی ماری

لمحہ بھر کو قربت دے دو

سانسوں کو کچھ راحت دے دو

 

حاجتِ چارہ گر

کسی کی یاد آتی ہے

مجھے آ کر جگاتی ہے

کوئی سونے نہیں دیتا

سکوں میں بھی نہیں پاتا

مجھے حسرت ہے خوابوں کی

کئی طرفہ سرابوں کی

مری آشا نراشا ہے

مرا سپنا ادھورا ہے

کوئی آ کر سلا دے اب

یہ غم سارے بھلا دے اب

 

نقشِ جاوداں

مٹانے کو گو وقت نے سعی کی ہے

مگر ہم نکھر کر امر ہو گئے ہیں

ہمارا ہے اثبات جہدِ مسلسل

ہمیں حق نے بخشا ہے عزمِ مصمم

نہیں کوئی آساں مٹانا ہمارا

جہاں کے صحیفے پہ مرقوم ہم ہیں

امر ہم ہیں، زندہ ہے اپنا فسانہ

مٹانے سے جس کو ہے قاصر زمانہ

 

غواصی

کتابوں کے سمندر میں

رہے ہیں غوطہ زن پیہم

فقط گوہر تلاشے ہیں

 

پل بھر جیون

بند کمرے میں تنہا رہ کر

اس کی یاد کی مالا جپتے

سانسوں کو سنسان بنا کر

خوابوں کا شمشان بنا کر

درد و الم کو میت بنا کر

ہار کو اپنی جیت بنا کر

ہم نے یوں ہے عمر گزاری

جیسے پل بھر آنکھ لگی ہو

 

نردوش

ہمیں جو یاد آتے ہیں

انہیں سب یاد کرتے ہیں

ہے اس میں دوش کیا اپنا؟

 

حزیں ہے بہت زندگانی مری

ہے نذرِ مصائب جوانی مری

زمانے کی خوشیاں تو اس میں نہیں

غموں سے بھری ہے کہانی مری

تمہاری امانت مرا پیار ہے

سدا پاس رکھنا نشانی مری

کسی بات کا اب اثر بھی نہیں

زبانی بھی ہے بے زبانی مری

جفاؤں کے بدلے وفائیں ہی کرنا

یہ عادت ہے ناقِدؔ پرانی مری

 

مجھے زمانہ سمجھ نہ پائے

خلوص اس کو نہ راس آئے

اسے مسرت سے میں نوازوں

مگر مجھے روز و شب رلائے

مجھے ہے مطلوب لمس تیرا

تری جدائی مجھے ستائے

غموں نے یوں دل میں گھر کیا ہے

خوشی کوئی بھی نہ دل دکھائے

ملے گا کیسے سکون مجھ کو؟

کوئی تو ناقِدؔ مجھے بتائے

 

خلوص ہے روح میں سمایا

اسی لیے دکھ سدا اٹھایا

وہ بعد برسوں کے پھر جو لوٹا

وہ خود بھی رویا مجھے رلایا

اگرچہ اس نے جفائیں کی ہیں

اسے مگر دل بھلا نہ پایا

کبھی بھی راحت نہ پاس بھٹکی

پریم کا جب سے گیت گایا

مجھے بھلایا ہے تو نے ناقِدؔ

مگر تجھے میں نے کب بھلایا؟

 

یہ تیری میری جنگ اناؤں کی جنگ ہے

کب ہے زمیں کی جنگ خلاؤں کی جنگ ہے

ہم لوگ کرتے رہتے ہیں دعوے وفاؤں کے

میرا خیال ہے یہ وفاؤں کی جنگ ہے

تجھ سے جفا ہوئی ہے تو مجھ سے جفا ہوئی

اے جانِ من یہ جفاؤں کی جنگ ہے

ساری دعائیں میری ہیں یوں بے اثر ہوئیں

ایسا لگا اثر سے دعاؤں کی جنگ ہے

ناقِدؔ بہت ہیں دور گلوں کی مہک سے ہم

جب سے چھڑی چمن میں ہواؤں کی جنگ ہے

 

مجھے صاف کہہ دو نہیں تم نے آنا

ہو آسان شاید تمہیں پھر بھلانا

مسیحائی سے آشنا تم نہیں ہو

فقط سیکھا تم نے ہے مجھ کو ستانا

مرے پیار میں تو نہیں شبہ کوئی

مجھے تم خوشی سے سدا آزمانا

فراموش تو کر سکے گا مجھے کیا

تیرا میت برسوں سے میں ہوں پرانا

مری جان ہے ملتجی تجھ سے ناقِدؔ

ستم تم نہ بیمارِ الفت پہ ڈھانا

 

خصائصِ فن

سخن ہمارا نہیں ہے مشکل

سو یاد رکھنے کے ہے یہ قابل

زباں بھی ہم نے ہے سہل برتی

قلم ہمارے کی رو ہے برقی

صنائع بھی ہیں بدائع بھی ہیں

رموز بھی ہیں وقائع بھی ہیں

عروض بھی ہے شعور بھی ہے

ہے سوز اس میں سرور بھی ہے

ہمارے فن میں سمائی ندرت

سخن ہمارے میں جاذبیت

 

یورشِ ایام

جو بے قراری سی چارسو ہے

جو آہ و زاری بھی کوبہ کو ہے

جہاں کی حالت ہے اضطراری

لگے ہے بے چین خلق ساری

حیات میں کب رہا مزا ہے

ملا ہے جو بھی وہ بے وفا ہے

خراب سب کا چلن ہوا ہے

جسے بھی دیکھو وہ رو رہا ہے

خوشی کسی کو نہیں میسر

کوئی نہیں مہر سے معطر

اے میرے مالک تو اب کرم کر

جو دکھ ہمارے ہیں ان کو کم کر

 

پریم بپتا

رات کو جلدی سو جاتی ہو

پھر سپنوں میں کھو جاتی ہو

یاد تمہاری مجھ کو ستائے

پل بھر مجھ کو نیند نہ آئے

تم نے کیسے روگ لگایا؟

لمحہ بھر بھی چین نہ پایا

میرے بھاگ میں تھا دکھ لکھا

جو مجھ کو ہے تم نے بخشا

مجھ کو چاہت راس نہ آئی

پائی ہے اس میں رسوائی

 

ہے خطا اگر محبت

دل پہ نہیں ہے قابو

مجبور دل سے ہوں میں

میں نے جو کی محبت

میرا قصور کیا ہے؟

کس جرم کی سزا ہے؟

تو جو ہوا خفا ہے

سرکار کیا خطا ہے؟

یہ بھی خطا اگر ہے

ہوتی رہے گی صادر

یہ تو ہے میرا جیون

جیون نہ ہو اجیرن

 

اہلِ وفا

محبت کرنے والے کیا

ذرا سی بات پر ناراض ہوتے ہیں

محبت میں تو وہ سب کچھ لٹاتے ہیں

اسی میں چین پاتے ہیں

کبھی غصہ نہیں کرتے

وہ ہر پل پیار کرتے ہیں

اسی ڈھب میں ہی جیتے ہیں

اسی ڈھب میں ہی مرتے ہیں

 

خواہش

نہیں وقت کا اور کوئی بھی مصرف

یہ جی چاہتا ہے کہ باتیں کریں ہم

 

سدا ڈھائے ستم تو نے نہ ہرگز حال پوچھا ہے

کوئی ہے تیرا دیوانہ تری چاہت میں رسوا ہے

نہیں دنیا سے رغبت بھی فقط چاہت سے چاہت ہے

تجھے پانے کی حسرت ہے یہی میری تمنا ہے

زمانے کا کوئی غم بھی نہیں کچھ پاس رکھتا میں

نہ دولت ہے نہ صورت ہے نہ منصب ہے نہ دنیا ہے

وہ ظالم ہے جفا جو ہے نہیں مخلص وہ مجھ سے بھی

سدا کی ہے وفا جس سے سدا جس بت کو پوجا ہے

جسے ملنا ضروری تھا اسے تو مل نہیں پائے

جسے ہم نے نہیں چاہا اسی نے ہم کو چاہا ہے

ذرا تو پاس آ جاؤ مرے دل کو لبھا جاؤ

یہی اک میری حسرت ہے یہی ناقِدؔ تقاضا ہے

تم ہو ہماری آرزو

تم ہو ہماری جستجو

تم سے محبت ہے ہمیں

تم ہو جہاں میں خوبرو

اہلِ جہاں شیدا ترے

چرچے ہیں تیرے کو بکو

ہیں تیرے دم سے محفلیں

تجھ سے ہے رونق چار سو

نہ جام کوئی پاس ہے

نہ پاس ہے کوئی سبو

خود چاند گہنا جائے گا

آیا جو اس کے روبرو

ناقِدؔ تجھی سے پیار ہے

تجھ سے ہماری آبرو

 

چاندنی رات ہے

اک تری ذات ہے

آج ہوں شادماں

کل ملاقات ہے

اور کچھ بھی نہیں

غم کی بہتات ہے

جو تری جیت ہے

وہ مری مات ہے

تیرا شکوہ کرے

کس کی اوقات ہے؟

لب پہ ناقِدؔ سدا

پیار کی بات ہے

جگا کر ہمیں آپ سوئے ہوئے ہیں

سزا ہے کہ چاہت میں کھوئے ہوئے ہیں

غموں کا سمندر بنا من ہمارا

کئی زخم دل میں سموئے ہوئے ہیں

ہے مطلوب ہم کو نیا گھاؤ جاناں

پرانے سبھی چاک دھوئے ہوئے ہیں

ہمیں کیا غرض اس جہاں سے ہو ساجن

کہ ہم تیری یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں

مفر کیسے ممکن ہمیں حزن سے ہو

غموں میں سبھی کچھ ڈبوئے ہوئے ہیں

یہی کچھ کیا ہے سدا ہم نے ناقِدؔ

سو اشکوں کی مالا پروئے ہوئے ہیں

ذہن میں ایک یاس بیٹھی ہے

سو طبیعت اداس رہتی ہے

دل پریشان سا مسلسل ہے

تیری یادوں میں آنکھ روئی ہے

کیا فسانہ سناؤں فرقت کا

ہجر تیرے میں عمر بیتی ہے

سب میسر درونِ خانہ ہے

گھر سے نکلیں تو دال ملتی ہے

پیار اس کو تو وہ نہیں کرتی

پر وہ ناقِدؔ کو جان کہتی ہے

 

اضطرابِ حیات

ہم جی رہے ہیں پیار میں ہم مر رہے ہیں پیار میں

مقدور بھر جو کرنا تھا وہ کر رہے ہیں پیار میں

اس نے مجھے تو قرب کی دولت کبھی بخشی نہیں

جب وصل کی لذت نہیں راحت نہیں کچھ بھی نہیں

ہم کیا کریں بے کیف سی ہے زندگی کی داستاں

ہیں چارسو صدمے ہمیں گھیرے ہوئے جائیں کہاں؟

اس شہرِ پر آزار میں کوئی ملا مخلص نہیں

کوئی یہاں مونس نہیں اہلِ وفا مخلص نہیں

بے چین سی ہستی کاغم اب بن گیا روگ ہے

نفسانفسی کا ہے عالم بے دلی ہے سوگ ہے

 

اعترافِ محبت

مجھے وہ جان کہتی ہے

وہ اپنی آن کہتی ہے

وہ اپنا مان کہتی ہے

وہ مجھ بن رہ نہیں سکتی

جدائی سہہ نہیں سکتی

جو چاہے کہہ نہیں سکتی

سدا چاہت پہ مائل ہے

مری الفت کی قائل ہے

حسیں شکل و شمائل ہے

فقط ہے میری دیوانی

مرے سپنوں کی ہے رانی

جفا سے ہے وہ بیگانی

وہ مجھ سے پیار ہے کرتی

زمانے سے نہیں ڈرتی

مری چاہت میں ہے مرتی

تصویرِ غم

ہر انسان ادھورا ہے

کون جہاں میں پورا ہے؟

راحت کس کے پاس رہی؟

سب کو اس کی آس رہی

سکھ نے کس کا ساتھ دیا

غم ہی اکثر ساتھ رہا

نفسا نفسی ہے ہر سو

ہر دل میں ہے غم کی لو

خوشیوں سے جو دور ہوئے

ہم بے حد مجبور ہوئے

 

چکلے

یہ بازار جسموں کے اب جو سجے ہیں

تعیش کے سب یہ مراکز بنے ہیں

حقیقت میں یہ ننگِ انسانیت ہیں

جہالت کا ساماں ہے تہذیبِ نو میں

یہ پھر بھی ہے دعویٰ کہ ہم ہیں مہذب

 

عہد شکن

ڈوب جائے گا یہ سورج بھی ترے وعدوں سمیت

کل نیا سورج عیاں ہو گا نئے وعدوں کے ساتھ

اس طرح شاید گزر جائے گی یہ ساری حیات

تو مگر پورا نہ کر پائے گا کوئی عہد بھی

 

پچھتاوا

تجھے مجھ سے محبت تھی

ذرا بھر شک نہیں مجھ کو

مجھے پانے کی خواہش میں

تو جیتی اور مرتی تھی

مری جاں تجھ سے شرمندہ

رہوں گا عمر ساری میں

کفِ افسوس ملتا ہوں

نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

کہ تجھ کو مل نہیں پایا

میں تجھ کو پا نہیں پایا

 

بات نہ مجھ سے کرنا چاہے

دل بھی اس پر مرنا چاہے

مجھ کو ہر پل خوف ہے جس کا

وہ کیوں مجھ سے ڈرنا چاہے؟

جس کا آہ پہ بس نہیں چلتا

ٹھنڈی آہیں بھرنا چاہے

مین نے جس کو دل بخشا ہے

اس پر پاؤں دھرنا چاہے

ان کا درشن کر لیں ناقِدؔ

نین کا پھول نکھرنا چاہے

 

اجڑے نصیب میرے

سکھ ہیں رقیب میرے

اوروں سے ان کا ناطہ

کب ہیں حبیب میرے؟

خوشیاں ہوئی ہیں عنقا

غم ہیں مہیب میرے

اب کے بنے ہیں قاتل

جو تھے طبیب میرے

خوشیاں مری نرالی

دکھ ہیں عجیب میرے

مجھ سے ہیں دور ناقِدؔ

جو تھے قریب میرے

مرے صبر کی انتہا چاہتے ہو

جفا کر کے بھی تم وفا چاہتے ہو

کوئی چیز تم سے بچا کے نہ رکھی

بتاؤ مجھے اور کیا چاہتے ہو؟

ستم سب روا تم نے مجھ پر کیے ہیں

ستم کر کے اتنے عطا چاہتے ہو

مرا زندہ رہنا گوارا نہیں ہے

مری جان میری قضا چاہتے ہو

مجھے اپنی الفت میں رسوا کیا ہے

مگر مجھ سے بندِ قبا چاہتے ہو

مری موت میں فائدہ ہے تمہارا

مجھے مار کر تم بقا چاہتے ہو

وفائیں تو کی ہیں بہت میں نے ناقِدؔ

اگر خوش نہیں کیا جفا چاہتے ہو

 

سر چکرانے لگ جاتا ہے

ایسے میں کیا ہو پاتا ہے؟

اس نے کب قربت بخشی ہے؟

کب وہ میرے پاس آتا ہے؟

اس کو ہرگز بھول نہ پاؤں

وہ میرے دل کو بھاتا ہے

کیا بخشے گا مجھ کو خوشیاں؟

تحفے میں پتھر لاتا ہے

غم ہیں اس کی قسمت ناقِدؔ

گیت خوشی کے جو گاتا ہے

 

تری یادوں میں تڑپا ہوں

سکوں سے کب میں سویا ہوں؟

یہی اک دوش ہے میرا

تری چاہت میں رسوا ہوں

نہیں کچھ پاس اب میرے

سبھی کچھ ہار بیٹھا ہوں

تمہیں محفل میسر ہے

مگر میں کب سے تنہا ہوں

یہی اک روگ ہے ناقِدؔ

تپِ ہجراں میں جلتا ہوں

 

حالِ زار

یہ وقت جیسا ہے کٹ رہا ہے

ملال حصوں میں بٹ رہا ہے

یہاں یہ عنقا سکوں ہوا ہے

کہ غم بھی سب کا فزوں ہوا ہے

خلوص و الفت کا کال ہے اب

ہوا یہ جیون محال ہے اب

یہ نفسا نفسی کا اک سماں ہے

ہے رنج وافر الم جواں ہے

محبتوں کا کہاں نشاں ہے؟

کوئی کسی کا نہ مہرباں ہے

اذیتوں میں قرار کیسے؟

چمن میں آئے بہار کیسے؟

 

ناگزیر

جاناں مجھ کو تو مل جائے

پھول تمنا کا کھل جائے

تجھ کو پانا ہی جیون ہے

تجھ بن محض اجیرن من ہے

میں لازم ملزوم ہو جاناں

چاہت ہو مقسوم ہو جاناں

تو ہے خوابوں کی شہزادی

تجھ سے ہے من کی آبادی

ہم کب تک یوں دور رہیں گے

ملنے کو مجبور رہیں گے

 

ذوقِ علم

جو علم و ادب سے محبت کرے گا

وہ سارے جہاں کی قیادت کرے گا

اسی کا سدا نام روشن رہے گا

ہمیشہ جو عرفان کا ساتھ دے گا

زمانہ اسی کے ہی گن گائے گا پھر

وہ دنیا کا ممدوح بن جائے گا پھر

یہ دنیا اسی کی رعایا بنے گی

سعادت اسے دوجہاں کی ملے گی

اگر علم و فن کا وہ رسیا رہے گا

زمانہ اسے اپنا رہبر کرے گا

 

سندیس

نئی سحر کا نقیب ہوں میں

پیام لایا ہوں الفتوں کا

ہے میرے آگے عظیم مقصد

مٹانے آیا ہوں نفرتوں کو

بسانے آیا ہوں چاہتوں کو

خلوص و الفت کی ساعتوں کو

یہ التجا بھی ہے نسل نو سے

مٹا کے رکھ دیں کدورتوں کو

جہاں کی ساری قباحتوں کو

 

عکاس

میرے ہر احساس میں تو ہے

میرا تو وجدان بھی تو ہے

تیرے دم سے میری ہستی

دلکش ہے اک خوابِ حسیں سے

میری ہر کوشش کاوش کو

تجھ سے ہی تحریک ملی ہے

تو ہی میری جانِ تمنا

تو ہی جیون ساتھی میرا

تیرے توسط سے ہی میرا

سانسوں کا بندھن قائم ہے

میری ہر تخلیق میں اب تو

تیری صورت جلوہ گر ہے

میری ہستی تیرا پرتو

 

مری شاعری میں ہے آہ و فغاں

ہے میری غزل میں مسرت کہاں؟

جلی ہے سدا سوز سے شمعِ جاں

سکوں کا نہ دیکھا یہاں کوئی سماں

مفاسد کا ہر سو چلن ہے یہاں

بنی ہے یہ دھرتی جہالت نشاں

بڑھے جس قدر چاہے تیری جفا

اسی میں ہے رازِ محبت نہاں

مصائب سے بالکل میں خائف نہیں

سدا میرے جذبے رہے ہیں جواں

جدھر دیکھیے درد ہے رنج ہے

خدا نے بنایا عجب یہ جہاں

جوانی ملی دولتِ سوز سے

مری نبض ہے اس کے باعث رواں

ہے رحمت جہاں میں وہ عہدِ خدا

جو رکھتا ہے پہلو میں شوقِ تپاں

نہ پاؤ گے پل بھر مجھے چین میں

انوکھی بہت ہے مری داستاں

مٹا خود کو ناقِدؔ خدا کے لیے

اگر چاہیے ہستیِ جاوداں

 

محبت کا پرچار ہوتا رہے گا

حقیقت کا اظہار ہوتا رہے گا

زمانے میں جو کلمۂ حق کہے گا

سزا کا سزاوار ہوتا رہے گا

امیہ کرے چاہے جتنا تشدد

مفاسد سے انکار ہوتا رہے گا

زمانے میں زندہ رہوں نہ رہوں

سدا میرا اقرار ہوتا رہے گا

جہاں سے رہی ہے ستم کی توقع

یہاں جینا دشوار ہوتا رہے گا

کرو تم رقم ایک تازہ فسانہ

کسی کا یہ اصرار ہوتا رہے گا

جفائیں مسلسل بڑھاتے رہو تم

فزوں روز و شب پیار ہوتا رہے گا

زمانہ محبت کا دشمن ہے ناقِدؔ

وفا محل مسمار ہوتا رہے گا

 

وفا پہ مری کیوں ہے الزام آیا؟

جفاؤں کی نسبت مرا نام آیا

زمانے میں کی جس نے سچ کی حمایت

وہ حر بن کے دنیا میں ہے کام آیا

اٹھو بڑھ کے برساؤ پتھر اسی پر

کہ پھر شہر میں ایک بدنام آیا

ہوا تذکرہ جب بھی محفل میں تیری

مرا نام ہی محل دشنام آیا

بڑی ہے سعادت قلم کی نوازش

یہ میرے مقدر میں انعام آیا

ہے پتوں کا پت جھڑ میں گرنا مقدر

یہ بادِ صبا کا ہے پیغام آیا

عجب حال تھا مے گساروں کا اس دم

سرِ مے کدہ جب وہ گلفام آیا

قسم اپنی تشنہ لبی کی ہے ناقِدؔ

نہ میرے مقدر میں اک جام آیا

 

انوکھا زمانے کا دستور ہے

جسے دیکھیے سخت مجبور ہے

زمانے کے انداز بدلے گئے

نہ وہ شوقِ موسیٰ نہ وہ طور ہے

اگر سوچیے تو ہے نزدیک وہ

اگر دیکھیے تو بہت دور ہے

مجھے کیسے ظلمت کا احساس ہو؟

زمانے میں ہر سو ترا نور ہے

مجھے کیوں نہ جاں سے پیاری لگیں

وفا ان جفاؤں میں مستور ہے

ترا نام ہے زیبِ ہر انجمن

زباں در زباں تیرا مذکور ہے

ہو اک نہ اک روز وہ غرقِ نیل

جہاں میں بنا جو بھی مغرور ہے

ہے توفیق اعمال ناقِدؔ جسے

وہی شخص دنیا میں مسرور ہے

 

اپنے دل کی بات بتا جا

مجھ کو اپنا حال سنا جا

طاری ہے سکرات کا عالم

لمحہ بھر دیدار کرا جا

چاہے جتنے صدمے آئیں

شوق شدید لیے بڑھتا جا

تیرے پیار میں جو ہے بے کل

تو بھی اس کی سمت چلا جا

من روشن ہو جائے ناقِدؔ

پیت کی ایسی جوت جگا جا

 

علم و ادب

ہے علم و ادب سے ہی رغبت مجھے

نہیں چاہیے ان کی فرقت مجھے

مجھے ان کے باعث ملیں منزلیں

جہالت کی چھوٹی ہی سب محفلیں

عقیدت محبت انہیں میں ملی

شرافت جسارت انہیں میں ملی

ہیں جس روز سے علم و دانش ملے

بھلایا ہے سب کچھ انہیں کے لیے

انہیں کے ہی دم سے محبت جواں

انہیں کی بدولت ہے دنیا رواں

یہی نوعِ انساں کے دلدار ہیں

جو ہیں اہلِ دانش وہ اخیار ہیں

 

فیضانِ ادب

غزل لکھتے لکھتے غزل ہو گیا ہوں

کہ ویران سا اک محل ہو گیا ہوں

ہوئیں دور مجھ سے زمانے کی خوشیاں

اجیرن ہوئیں میرے جیون کی گھڑیاں

مجھے سکھ سکوں راس آتا نہیں اب

کبھی بھول کر پاس آتا نہیں اب

بنی زندگی کرب کا ایک مسکن

مرا بھر گیا اب غموں سے ہی آنگن

مری آگہی میری رسوائی ٹھہری

مری کامیابی بھی پسپائی ٹھہری

نہیں خود پہ بھی اتنی تنقید بہتر

ہے نقصان اس میں ہی اپنا سرا سر

 

حرفِ زار

جہاں ہے ہمیں اب مٹانے پہ مائل

ہوا ہے مسلسل ستانے پہ مائل

بہت دہر میں ہم بھی رسوا ہوئے ہیں

بڑے غم ہمیں زندگی میں ملے ہیں

ہمیں راس آئی نہ یہ دنیا داری

کٹی حزن میں زندگی اپنی ساری

یہاں سازِ تسکین دل کچھ نہیں ہے

جفا کار گردوں ہے ظالم زمیں ہے

ہمیں زہر لگتا ہے سارا جہاں اب

خوشی کا نہیں جس میں نام و نشاں اب

 

دیش بھگتی

دیس کی کرنے کو رکھوالی

ہے اپنے گھر بار کو چھوڑا

اپنے سب پریوار کو چھوڑا

سب سے ناتا پریم کا توڑا

وطن سے رشتہ پیار کا جوڑا

گر پتنی کی چاہت میں ہی

گر بچوں کی الفت میں ہی

میں رہ جاؤں گرچہ گھر میں

دیس کی رکھشا کون کرے گا؟

اس کی سیوا کون کرے گا؟

 

عکاسِ دل

مجھے کچھ لوگ کہتے ہیں

تیرا لہجہ غزل کیوں ہے؟

مجھے کچھ لوگ کہتے ہیں

خراشیں کیوں ہیں چہرے پر؟

مجھے کچھ لوگ کہتے ہیں

جبیں پر سلوٹیں کیوں ہیں؟

مجھے کچھ لوگ کہتے ہیں

ہیں رخ پر جھریاں کیسی؟

جواباً میں یہ کہتا ہوں

مرا پرسوز ہے لہجہ

خراشیں کرب کا منظر

نہاں ان سلوٹوں میں ہے

اثر اک ناگواری کا

مرے دکھ جھریوں میں ہیں

مرا عکاسِ دل چہرہ

رتجگوں کا سفر اتنا آساں نہیں

بے کلی میں کوئی میرا پرساں نہیں

زندگی ہے خموشی سے محوِ سفر

شورشوں میں رہا اب میں غلطاں نہیں

مہ وشوں کی اسیری نہیں اب رہی

اب نظر میں کوئی ماہِ کنعاں نہیں

فلسفے فکر کے ہیں سخن میں مرے

ذہن میں صرف اب زلفِ پیچاں نہیں

کب توقع رہی ہے مسیحائی کی

دردِ ناقِدؔ کا کوئی بھی درماں نہیں

 

تر و تازہ رکھتے ہیں مجھ کو الم بھی

مجھے ہیں گوارا جہاں کے ستم بھی

زباں سے تو کرتے ہیں اقرارِ ایماں

مگر آستیں میں چھپے ہیں صنم بھی

مرا عزم ٹھہرا مری کامیابی

اگرچہ نہیں تو مرا ہم قدم بھی

نہیں رکھتے ثانی جہانِ سخن میں

کیے ہم نے کچھ شعر ایسے رقم بھی

مجھے اپنی کٹیا پہ ہے ناز ناقِدؔ

یہی میری خاطر ہے باغِ ارم بھی

 

جہاں یہ ہوا ہے سماں حشر کا

کروں میں بھلا کیا بیاں حشر کا

ہوئی ہے بہت اب کے فتنہ گری

نظر آ رہا ہے نشاں حشر کا

مجھے زندہ رہنے کی خواہش نہیں

بنی میری ہستی جہاں حشر کا

مری کوئی منزل نہیں دوستو

مسافر ہوں میں تو رواں حشر کا

ستاتا ہے آشوبِ ہستی مجھے

ہے دن رات عالم یہاں حشر کا

مجھے سوز ناقِدؔ جلاتا رہا

ہے شعلہ سا مجھ میں تپاں حشر کا

ہیں بے سود اب کے جنوں کے فسانے

کہ انداز بدلے گئے ہیں پرانے

مری شاعری اب امر ہو گئی ہے

رکھیں گے مجھے یاد اگلے زمانے

میں پہلے ہی بے حد ستایا ہوا ہوں

لگے ہو مری جان تم بھی ستانے

وہ فٹ پاتھ پر مردہ پایا گیا ہے

جو نکلا تھا بچوں کی روزی کمانے

مٹے گی یہ کب اور بھی کچھ بڑھے گی

تری یاد کو لوگ آئے مٹانے

اسے کر نہ پایا فراموش یہ دل

مجھے سنگِ دل جو لگا ہے بھلانے

انہیں دوستی سے بھی نفرت ہے ناقِدؔ

وہ کہتے ہیں مہنگے پڑے دوستانے

 

ادھر آگہی ہے ادھر بے کلی ہے

کہ آپس میں ان کی عجب دوستی ہے

نہیں ختم ہوتی تسلسل ہے ایسا

کہ ان مٹ مری جاں تری کج روی ہے

سدا سوز میں ہی سلگتا رہوں گا

مشیت سے میراث ایسی ملی ہے

مٹاؤ گے کیا میرا مٹنا ہے مشکل

ملی مجھ کو اک سرمدی زندگی ہے

جو نا آشنا آگہی سے ہو ناقِدؔ

ہنر ہے وہ کیسا وہ کیا شاعری ہے؟

 

تسخیرِ حزن

مجھے الم سے نہیں ہے نسبت

میں حوصلوں کا ہوں ایک پربت

مجھے گوارا ہے ہر اذیت

کہ جس میں شامل بھی ہو مشیت

بندھا نہ ڈھارس تو میری ناصح

غمِ زمانہ کا میں ہوں فاتح

مری حمیت میری جسارت

کہ یہ تو قدرت سے ہے عبارت

کیا مسخر جہانِ غم کو

ملی بقا پھر مرے قلم کو

 

التجائے کرم

جو بے گھر ہیں تو ان کو گھر بخش مولا

انہیں حوصلے کا ثمر بخش مولا

دے ان کے الم کو تبسم کی صورت

عطا ہو انہیں بھی تو راحت کی دولت

جہاں بھر کی خوشیاں انہیں دان کر دے

وہ کمزور ہیں ان پہ احسان کر دے

یہ مخلوق تیری یہ شاہکار تیرے

ہیں کیوں تنگ ان پر مصائب کے گھیرے

خدایا ہو ان پہ بھی رحمت کا سایہ

رہے ان پہ تیری محبت کا سایہ

 

رمضان المبارک

آیا ہے بن کے رحمت رمضان کا مہینہ

سب سے بڑی ہے نعمت رمضان کا مہینہ

ممنون ہیں خدایا تیرے کرم پہ ہر دم

تیری ہے اک عنایت رمضان کا مہینہ

موقع ہے یہ غنیمت توبہ کرو عزیزو

ایمان کی سعادت رمضان کا مہینہ

لمحے سعید اس کے دن اس کے ہیں مبارک

ہے روز و شب عبادت رمضان کا مہینہ

احسان ہے خدا کا اس نے عطا کیا ہے

انسان کی ضیافت رمضان کا مہینہ

 

متاعِ انا

کبھی بھیک الفت کی مانگی نہیں ہے

مجھے پاس ہر دم رہا ہے انا کا

کبھی سوئے منزل میں بھاگا نہیں ہوں

مرے پاس آتی ہے خود چل کے منزل

مری کامیابی کا باعث انا ہے

مرے پاس جو بھی ہے اس کی عطا ہے

یہی میری ہستی کا معیار ٹھہرا

تعلق مری ذات سے اس کا گہرا

اسی کے ہی دم سے ہے جیون سنہرا

 

کس سے کہوں میں عید مبارک؟

عید کا دن ہے دنیا خوش ہے

پر میں ایسے میں غمگیں ہوں

مجھ کو اس کی یاد ستائے

لمحہ لمحہ

محشر بن کر بیت رہا ہے

مجھ پہ بھاری عید کا دن ہے

میں اس کی یادوں میں گم ہوں

اس کی نسبت سوچ رہا ہوں

کہ اس کا کیا عالم ہو گا؟

سب کے ساتھی ساتھ ہیں ان کے

خوشیوں سے سرشار نہ کیوں ہوں؟

میں تنہا یہ سوچ رہا ہوں

کس سے کہوں میں عید مبارک؟

 

رواں دواں ہوئے جو ہم وفا کی شاہراہ پر

بہت سہمے بھی ہیں ستم وفا کی شاہراہ پر

گھرا ہوا ہوں روز و شب مصیبتوں کے درمیاں

ملے ہیں مجھ کو یوں الم وفا کی شاہراہ پر

فزوں ہیں گو اذیتیں مگر امنگ ہے جواں

اٹھے ہیں پھر مرے قدم وفا کی شاہراہ پر

خلوص کی عطا ہے یہ، صلہ بہت بڑا ہے یہ

ہوا جو میرا سر قلم وفا کی شاہراہ پر

امید فائزِ یقیں ہوئی ہے ناقِدِؔ حزیں

کبھی جو کھائی تھی قسم وفا کی شاہراہ پر

 

صدا دے رہی ہے وہ منزل پرانی

مرے پیار کی تھی جو پہلی نشانی

فسانہ امر کر دیا میں نے اپنا

میں ہیرو ہوں اسی کا وہ میری کہانی

زمانہ ہے میری محبت سے واقف

بیاں سب ہوا شاعری کی زبانی

بہت زندگانی میں صدمے سہے ہیں

ستم سے عبارت ہے میری جوانی

اسی کے ہی میں جام پیتا ہوں ناقِدؔ

نہیں ختم ہوتا یہ اشکوں کا پانی

 

ہیں عبث باتیں لب و رخسار کی

اب نہیں خواہش کسی دلدار کی

الفتوں نے غم دیے اتنے مجھے

اب طلب باقی نہیں ہے پیار کی

بے حسی کا راج یوں ہے دہرپر

کارگر صورت نہیں اظہار کی

حزن میرا بن گیا ہے چارہ گر

اب نہیں خواہش کسی غم خوار کی

نیر ہی دھوئیں گے ناقِدؔ زخمِ دل

ہے دوا واحد یہی بیمار کی

 

نہیں رکھتا ادراک میرا زمانہ

مرے پاس افکار کا ہے خزانہ

غزل کا مری ایک یہ بھی ہے زیور

ودیعت اسے سوز ہے جاودانہ

سفر سوئے عقبیٰ ہوا گویا جاری

جہاں سے اٹھا جو مرا آب و دانہ

عقوبت اذیت مصیبت قیامت

بناتی ہیں مجھ کو ستم کا نشانہ

ملی جب فراغت محبت سے ناقِدؔ

ہوا آگہی کے سفر پر روانہ

 

عدو ہم پہ ڈھائے گا کیسے غضب؟

جواں جاگتے ہیں تو سوتے ہیں تب

مٹائے گا کیسے ہمیں دہر سے؟

نہیں پاس رکھتا وہ کوئی سبب

رہے گا نہ کچھ اس کا نام و نشاں

نہیں کچھ ہمارے لیے یہ عجب

سمجھتا ہوں دانش کو معیار میں

نہیں سامنے کچھ بھی نام و نسب

امر ٹھہرے گا یہ تو ناقِدؔ سدا

کیا میں نے تخلیق ایسا ادب

 

دعائے مغفرت

(8 اکتوبر 2005ء کے زلزلہ زدگان کے لیے)

بنا زلزلہ یہ قیامت کا ساماں

رہے گا سدا یاد آفت کا ساماں

سزا اپنے اعمال کی جو ملی ہے

جہنم کا منظر یہ دھرتی بنی ہے

خدا ساری روحوں کو تسکین بخشے

انھیں اپنی رحمت سے سرشار کر دے

کبھی ایسی مالک مصیبت نہ آئے

پریشان کن کوئی آفت نہ آئے

تو کر مولا دھرتی پہ رحمت کا سایہ

ہمیں چاہیے تیری برکت کا سایہ

 

عزمِ جواں

اگر سو گئے ہم تو جاگے گا کون؟

تحفظ یقینی بنائے گا کون؟

ہے جینا ہمارا وطن کے لیے

یہ سانسوں کی مالا وطن کے لیے

یہ دھرتی ہے پیاری ہمیں جان سے

ودیعت ہوئی ہے یہ رحمان سے

وطن کا تحفظ ہی ایمان ہے

یہی عشق اپنا ہے ارمان ہے

یہ دھرتی حسیں استعارہ لگے

حسیں اس کا ہر اک نظارہ لگے

یہ جنت ہماری سلامت رہے

دعا ہے کہ یہ تا قیامت رہے

 

احساسِ ستم التجائے کرم

رہی ہے سدا مجھ پہ سکرات طاری

سکوں سے مری زندگانی ہے عاری

یہ پرسوز جیون جہنم بنا ہے

سدا مجھ کو قسمت سے دکھ ہی ملا ہے

غموں نے مجھے بخش دی بے قراری

لبوں پہ مرے بس گئی آہ و زاری

ہے دنیا کی دوزخ میں تو نے جلایا

جہاں کا مجھے ہر ستم ہے دکھایا

مصائب اٹھائے ہیں بے انت بھاری

رہی مضطرب زندگی میری ساری

مگر بخشنا اخروی کامیابی

میسر ہو سرکار کی ہم رکابی

 

وقفِ اذیت

ہوئے ہیں ہم رت جگوں کے کچھ یوں اسیر جاناں

کہ نیند آنکھوں سے اُڑ چکی ہے

ہمارا انداز ہے جنونی

دوروں پہ حاوی ہے بے سکونی

گراں ہوئے ہیں حیات کےد ن

قرار آیا نہ ایک پل بھی

سمجھ نہیں پائے خود کو ہم بھی

رواں دواں ہم ہیں گومگو میں

نہیں خبر ہم کو ہم کہاں ہیں

یہ بے خودی ہے کہ بے کلی ہے

حیات ایسی ہمیں ملی ہے

 

تاکید

خون پسینے کی ہے کمائی

یہ جو کچھ پیسے جوڑے ہیں

ان کی خاطر میں جاگا ہوں

سرما کی لمبی راتوں میں

محشر سی گرمی بھی کاٹی

دور رہا ہوں تم سے بھی میں

فرقت کا ہر کرب سہا ہے

دنیا کے آلام بھی جھیلے

کچھ تو مجھ پر رحم کرو تم

یوں نہ اڑاؤ دولت بے جا

جب کوئی بھی ساتھ نہ دے گا

کام آئے گی کوڑی کوڑی

 

جو دن کو دگنے الم ہیں میرے

تو چوگنے شب کو غم ہیں میرے

جہاں سے مجھ کو نہیں شکایت

شدید اہلِ کرم ہیں میرے

نہیں ہے ان میں کوئی تفاوت

کہ قلب و جاں بھی بہم ہیں میرے

زباں پہ ہے ذکر لا الہ کا

نہ آستیں میں صنم ہیں میرے

کیا ہے ناقِدؔ جنہیں مسیحا

پرائے زائد ہیں، کم ہیں میرے

 

مجھے تو نے بخشی نہیں اپنی قربت

نہیں میری قسمت میں شاید یہ راحت

سکوں کب ملا ہے سدا غم ہی غم ہیں

مشیت نے بخشی نہیں مجھ کو راحت

مری جان احساس سے تم ہو عاری

خدا نے عطا کی نہیں تم کو الفت

صباحت نے مغرور جس کو کیا ہے

کسی سانولے سے کرے کیا محبت؟

تجھے اس نے ناقِدؔ جو چاہا نہیں ہے

سو بہتر ہے تم بھی کرو نہ محبت

 

دن رات لکھ رہا ہوں

ہر بات لکھ رہا ہوں

جذبات لکھ رہا ہوں

صدمات لکھ رہا ہوں

تیرے کرم کو ساقی

سوغات لکھ رہا ہوں

مجھ پر ستم کی جو ہے

بہتات لکھ رہا ہوں

آمد کو تیری ناقِدؔ

بارات لکھ رہا ہوں

 

جینا سیکھو مرنا سیکھو

ڈوب کے خوب ابھرنا سیکھو

بندے میں قدرت ہی کیا ہے

صرف خدا سے ڈرنا سیکھو

کون سنوارے جیون گیسو؟

اپنے اپ سنورنا سیکھو

اوروں کے محتاج بنو مت

کام سبھی خود کرنا سیکھو

ہنسنے کا جو شوق ہے ناقِدؔ

ٹھنڈی آہیں بھرنا سیکھو

 

جوانی میں سوجھی ہے تم کو شرارت

نہ ہو جائے ہم سے بھی کوئی حماقت

خدا نے تمہیں دان کی ہے صباحت

مگر اس نے بخشی ہے مجھ کو فراست

فراواں مرے پاس ہے غم کی دولت

مجھے مفلسی میں ملی یہ وراثت

نہیں ہے ترے پاس جنسِ مروت

اگرچہ تو رکھتا ہے دل کش جسامت

سدا کی ہے ناقِدؔ سخن میں ریاضت

مسلسل کیے جائیں گے یہ عبادت

 

حزنِ جاوداں

ہوئے قتل سب میرے معصوم جذبے

اذیت کو نسبت ہے جیون سے میرے

سروکار مجھ کو نہیں ہے خوشی سے

میں نالاں رہا ہوں سدا زندگی سے

کہ دوزخ نشاں میری خاطر جہاں ہے

مری زیست اک دکھ بھری داستاں ہے

مصر ہے جفا پہ یہ سارا زمانہ

بنا میں یہاں ہر ستم کا نشانہ

نہ دنیا ہے میری نہ عقبیٰ ہے بہتر

میں خائف ہوں دونوں سے ناقِدؔ برابر

 

حرفِ جنوں

اپنا انداز ہی جنونی ہے

بے سکونی سی بے سکونی ہے

اپنی قسمت ہی بے کلی ٹھہری

دوستی ہے ہموم سے گہری

کوئی اپنا نہ چارہ گر ٹھہرا

بس قلم ہی تو ہم سفر ٹھہرا

اب اذیت ہی زندگانی ہے

بے کلی میں مری جوانی ہے

عام خوشیوں سے ماورا ہوں میں

سنگ رہتے ہوئے جدا ہوں میں

 

نذرِ دلبر

دلبر مجھ کو بے حد پیارا

یہ ہے میری آنکھ کا تارا

اس بن میں تو جی نہ پاؤں

زخم کوئی بھی سی نہ پاؤں

یہ تو نورِ نظر ہے میرا

میری جان، جگر ہے میرا

من میں پیار اسی کا قائم

دل میں اس کی یادیں دائم

یہ ہے میرے پیار کی دولت

اس سے وابستہ ہے راحت

اس سے قول قرار رہے گا

چاہت کا اظہار رہے گا

اس کی ادائیں میری خاطر

اس کی جفائیں میری خاطر

کاش نہ اس کو غم ہو کوئی

شوق نہ اپنا کم ہو کوئی

 

نقشِ دوام

قیام میرا ہے مختصر سا

ادھار ہیں میری چند سانسیں

ہے نقش میرا مگر دوامی

اسے نہ کوئی مٹا سکے گا

مجھے نہ ہرگز بھلا سکے گا

جہاں میں مجھ سا نہ پا سکے گا

نہ گیت ایسا سنا سکے گا

سنو یہ کہنا اٹل ہے میرا

میں جانتا ہوں ہنر ہے میرا

 

شکایت

اگر غیر ہوتے شکایت بھی کرتے

ہمیں دکھ دیے ہیں سدا دوستوں نے

 

باعثِ بیداری

سبب رتجگوں کا

ہیں یہ چار چیزیں

جگاتی ہے سینا مری مجھ کو پیہم

یہ دھرتی جو ماں کے موافق مجھے ہے

سدا میں نے کرنی ہے اس کی حفاظت

میں سینک ہوں اس کا یہ ہے فرض میرا

جگائے مجھے میرے اندر کا شاعر

ادب بھی تو میں نے ہے تخلیق کرنا

وہ بیوی جو ہے میرے جیون کی ساتھی

وہ کہتی ہے باتیں کرو مجھ سے پیہم

نبھاؤ جو ہے پیت کی ریت ساری

ہیں کچھ اور بھی زندگی کے تقاضے

جگاتے ہیں مجھ کو میں سو پاؤں کیسے؟

 

تجھے مری خبر نہیں

کہ آنکھ تیری تر نہیں

ہے آگہی کا ساتھ بھی

ریاض بے ثمر نہیں

نہیں ہیں سہل منزلیں

اگر تو ہم سفر نہیں

ملوں نہ میں تمہیں جہاں

وہ کوئی رہگزر نہیں

جہاں خلوصِ دل نہ ہو

وہ پیار کا نگر نہیں

یہ ناقِدِؔ سخن کا ہے

کلام بے اثر نہیں

ہے میرا ہر اک عمل نرالا

سمجھ سکے گا شعور والا

میں کھونے والا تھا اس جہاں میں

دیا ہے تو نے مجھے سنبھالا

ستم رسیدہ فقیر ہوں میں

کہ مجھ سے سب نے کیا گھٹالا

کہا ہے مجھ کو یہ شاعروں نے

یہ قافیہ ہے عجب نکالا

ملی ہیں مجھ کو تو نفرتیں ہی

پڑا ہے جب بھی کسی سے پالا

سیاہ بے شک ہے رنگ میرا

مگر میں دل کا نہیں ہوں کالا

یہی تو ناقِدؔ کی زندگی ہیں

اسے فقط ہے غموں نے پالا

 

ابتلا ہے معاشقہ میرا

ہے مصائب سے واسطہ میرا

میں نے پائی ہے بے خودی ایسی

خود سے کم کم ہے رابطہ میرا

منحرف تم سے ہو نہیں سکتا

تجھ سے ملتا ہے زائچہ میرا

ہے دنیا غرض پرستوں کی

ان سے کیسے ہو سلسلہ میرا؟

عزم بالجبز کر لیا میں نے

کون روکے گا راستہ میرا؟

ہے مسافت مری طویل بہت

بڑھتا جاتا ہے فاصلہ میرا

عکس اپنا میں اس میں دیکھوں گا

تیرا چہرہ ہے آئینہ میرا

میں کہ ناقِدؔ تھا پیش ازیں مرہمؔ

یہ حوالہ ہے سابقہ میرا

 

سخن بھی ہے لازوال تیرا شبیر ناقِدؔ

ادب میں ہے یہ کمال تیرا شبیر ناقِدؔ

بہت ہی ارفع بہت اعلیٰ بہت ہی جامع

کلام تیرا خیال تیرا شبیر ناقِدؔ

جو تیرے نینوں سے نیر دریا رواں دواں ہیں

کیا ہے کس نے یہ حال تیرا شبیر ناقِدؔ؟

جواب ہرگز نہ دے سکے گا زمانہ تجھ کو

بہت ہی مشکل سوال تیرا شبیر ناقِدؔ

نہ تاب کوئی جہان میں اس کی لا سکے گا

ہے بے محابا جلال تیرا شبیر ناقِدؔ

 

من کا نگر ہے خالی

قسمت ہوئی ہے کالی

نینوں پہ نیر میرے

تیرے لبوں پہ لالی

میں وقت کا گدا ہوں

در کا ترے سوالی

خوشبو کو ترسے ہر پل

تیرے چمن کا مالی

مجھ کو جو روتے دیکھا

اس نے بجائی تالی

سمجھا نہ بات ہرگز

اس کی تھی عمر بالی

ہم پر ہوئی مسلط

برسوں کی خشک سالی

دل میں ہوئی ہے حسرت

دیکھوں وہ کملی کالی

رقصِ خزاں ہے ناقِدؔ

سوکھی ہے ڈالی ڈالی

حاصل عمل

چاہے کوئی نام کمائے

چاہے کوئی دام کمائے

کچھ ایسا کر گزریں ہم

دنیا میں کام آئے کم

عقبیٰ میں ہو مستحسن

قسمت ہو جائے روشن

نذرِ فرید بسلسلہ صد سالہ تقریباتِ جشنِ فرید

ترا جشن ہم کیوں منائیں نہ خواجہ؟

تری انجمن کیوں سجائیں نہ خواجہ؟

تو شاعر ہے ماہر سلوک و وفا کا

تجھے رہنما کیوں بنائیں نہ خواجہ؟

 

تلاشِ تسکیں

دیا زخم تو نے وہ جانِ تمنا

کسی طور وہ اب کے بھرتا نہیں ہے

نہیں ہے مری جاں بھلانے کے قابل

زمانے سے یہ زخم کیسے چھپاؤں؟

میں اپنی نظر سے نہاں کیسے رکھوں؟

کہ رسوائی میرا مقدر بنی ہے

مری زندگی اب کے اس موڑ پر ہے

نہ مرنے کے قابل نہ جینے کے لائق

رفاقت بھی تیری ہے اک زہرِ قاتل

جدائی بھی تیری گوارا نہیں ہے

ستم سہنے کا مجھ میں یارا نہیں ہے

سمجھ میں نہیں کیسے جیون گزاروں؟

حیاتِ پریشاں کو کیسے سنواروں؟

مرے واسطے یہ دعا کر مری جاں

کہ اب مر بھی جاؤں

میں تسکین پاؤں، میں تسکین پاؤں

 

رفاقتِ غم

کوئی اپنا نہیں لگتا

کسی کے گھر نہیں جاتا

سدا رہتا ہوں تنہا میں

مری مونس ہے تنہائی

مرا غم ہے مرا ہمدم

کسی کے پاس کیوں جاؤں؟

نیا پھر زخم کیوں کھاؤں؟

اکیلا مجھ کو رہنے دو

میں خائف ہوں رفاقت سے

مجھے نفرت ہے جلوت سے

مری راحت ہے خلوت میں

فقط غم کی رفاقت میں

کہ غم نے ہے انا بخشی

مجھے خوئے وفا بخشی

اذیت لادوا بخشی

اسی نے ہے جلا بخشی

سخن کو ہے بقا بخشی

یہ دولت بے بہا بخشی

مجھے غم نے کیا کندن

یہی تو میرا پارس ہے

یہی میری وراثت ہے

یہی اک میرا وارث ہے

 

التجا

مرا ایسی دنیا میں دم گھٹ رہا ہے

جہاں چار سو نفرتیں خیمہ زن ہیں

جہاں ہر طرف راج ہے ظلمتوں کا

جہاں ہر طرف بے بسی بے کسی ہے

مرا ایسی دنیا میں دم گھٹ رہا ہے

مجھے اس جہاں سے اٹھا میرے مولا

نہیں تو اسے پھر محبت عطا کر

 

فکرِ سوزاں

مری فکر نے مار ڈالا ہے مجھ کو

مجھے مار ڈالا مری آگہی نے

مرا جسم ہے میرے اعضا سے بوجھل

گریزاں ہوں میں اس لیے زندگی سے

شب و روز کی مستقل مفلسی سے

کبھی مجھ کو محسوس ہوتا ہے ایسے

کہ اک بے کسی ہے مری زندگی میں

نہ جینے کی کوئی خوشی مجھ کو حاصل

نہ مرنے کا ہے کوئی غم اب کے باقی

مجھے زندہ رکھے ہے جبرِ مشقت

کہ پر فکر جیون بھی ہے اک اذیت

 



تری یاد اب کے قیامت بنی ہے

سزا اپنی خاطر محبت بنی ہے

ترے ہجر میں میرا دل جل رہا ہے

سدا روتے رہنا ہی عادت بنی ہے

نہیں میری تقدیر میں سکھ کی سانسیں

بھری زندگانی مصیبت بنی ہے

مرے چار سو ہے مصائب کا میلہ

سدا میری قسمت ہزیمت بنی ہے

کیے ایسے دلبر نے احسان ناقِدؔ

پریشان رہنا ہی قسمت بنی ہے

 

جو مطلوب تھا پا لیا زندگی میں

بہت کچھ مجھے مل گیا زندگی میں

گزارا ہے کچھ اس طرح میں نے جیون

کسی کا کٹے جیسے دن بے خودی میں

پریشان و مضطر ہوں میں اس کے باعث

الم میں نے پائے سدا مفلسی میں

میں بے چین و بے تاب رہتا ہوں اکثر

مجھے کیا ملا ہے تری دوستی میں

سکوں کا کوئی بھی دقیقہ نہ گزرا

بنا محشرستان دن عاشقی میں

ہے تخلیق بھی باعثِ کرب ناقِدؔ

ملا سوزِ وافر مجھے شاعری میں

دل کی تیری شبی نہیں جاتی

مستقل مفلسی نہیں جاتی

راحت و غم بدلتے رہتے ہیں

پر مری بے بسی نہیں جاتی

کیا نصیحت کرے مجھے ناصح؟

جب مری بے خودی نہیں جاتی

ایسا گہرا الم ملا ہے مجھے

میری افسردگی نہیں جاتی

لاکھ سمجھایا اس کو ناقِدؔ نے

شوخ کی بے رخی نہیں جاتی

 

مرے اشک آنکھوں سے تھمتے نہیں

کسی طور روکے سے رکتے نہیں

بنایا ہے من میں مصائب نے گھر

ذرا دیر کو شاد رہتے نہیں

نہیں راس آئی ہمیں بے بسی

شکایت کسی کی بھی کرتے نہیں

ہے مہرِ خموشی لبوں پر سدا

کسی سے کوئی بات کہتے نہیں

گزرتی ہے ناقِدؔ عجب زندگی

غم و رنج و حرماں سے بچتے نہیں

 

زندگی تو ہے بحرِ الم دوستو

میں رہا ہوں سدا محوِ غم دوستو

کوئی دولت زمانے کی رکھتا نہیں

میرا سرمایہ ہے بس قلم دوستو

میں ہمیشہ رہا کرب میں سوز میں

مجھ پہ ہر دم ہوئے ہیں ستم دوستو

وہ مجھے اپنا بن کے رہا لوٹتا

کچھ ہوئے اس طرح بھی کرم دوستو

حزن سے اپنا جیون عبارت رہا

استراحت کے لمحے تھے کم دوستو

کوئی مشکل رہی نہ مرے سامنے

ہو گئے جب دل و جاں بہم دوستو

یوں سرِ بزم اس کو نہ رسوا کرو

کچھ تو ناقِدؔ کا رکھو بھرم دوستو

 

"کلام آپ کا انتخاب ہمارا”۔۔ ۔ کے نام

(ریڈیو پاکستان لاہور کی پیشکش)

یہ برنامج منتخب ہے ہمارا

ہے مطلوبِ خاطر ہمارا تمہارا

ادب میں سدا نام اس کا رہے گا

ہمیں ہے دل و جان سے بھی پیارا

یہ نایابؔ و مشعلؔ، کنولؔ اور خادمؔ

خیالؔ و سحرؔ کا ہے اس پہ گزارا

یہ فاتحؔ یہ ساجدؔ نبیلؔ و زبیریؔ

ہے ابصارؔ و عرفاںؔ نے اس کو سنوارا

یہ کاہشؔ یہ ناقِدؔ یہ خورشید کہنکؔ

ہے محبوب عالمؔ بھی اس کا ستارا

یہ فن کے جواہر ادب کے نگینے

انہیں یونہی تقسیم کرنا خدارا

صدائے منفرد

صداؤں کے اس ہجوم میں بھی

صدا نرالی رہی ہے میری

نوا انوکھی مری جہاں سے

مثال لاؤ گے تم کہاں سے؟

جہاں میں میرا سخن امر ہے

خدا کا بخشا ہوا ہنر ہے

قطعہ

اخوت مسلسل بڑھے اس جہاں میں

محبت کا سورج چڑھے اس جہاں میں

مرے دوستو اٹھ کے ہموار کر دو

پڑے ہیں بہت سے گڑھے اس جہاں میں

 

گرو کے نام

(استادِ محترم ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے پس منظر میں)

رقم نام تیرے فسانے کروں گا

میں ان میں وفا کے ترانے لکھوں گا

عطا کی ہے تو نے یہ چاہت کی دولت

اخوت کی دولت محبت کی دولت

جہاں میں ترا نام زندہ رہے گا

ترا معتبر کام زندہ رہے گا

زمانہ تجھے ہے مٹانے سے قاصر

ہے تاریخ تجھ کو بھلانے سے قاصر

مسلم تری یونہی عظمت رہے گی

وفا خیز تیری صداقت رہے گی

بٹے گی زمانے میں الفت کی دولت

سخاوت کی دولت محبت کی دولت

ترے فن پہ سب کچھ نچھاور کروں میں

رفاقت میں تیری جیوں اور مروں میں

ترے ہی حوالے سے میری بقا ہے

مرے دل نے ہر بار مجھ سے کہا ہے

 

فکر پس منظر

چند روپوں کی خاطر ہم نے

کیوں اپنے گھر بار کو چھوڑا؟

سب سے پیار کا ناتا توڑا

سب چھوٹے اپنے بیگانے

بھول گیا میں سب یارانے

یاد کے لحظے محشر بن کر

لمحہ لمحہ بیت رہے ہیں

درد مسلسل جیت رہے ہیں

گھر میں بھی تو چین سکوں تھا

چاہت راحت جوش جنوں تھا

٭٭٭

تشکر: ناشر ناصر ملک، اردو سخن جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل