FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

رتی ماشہ تولہ

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

چند مکالمے

 

 

’’السلام و علیکم‘‘

’’وعلیکم السلام‘‘

’’کہیے مولانا کیا حال ہے‘‘

’’اللہ کا فضل و کرم ہے ہر حال میں گزر رہی ہے‘‘

’’حج سے کب واپس تشریف لائے‘‘

’’جی آپ کی دُعا سے ایک ہفتہ ہو گیا ہے‘‘

’’اللہ اللہ ہے آپ نے ہمت کی تو خانہ کعبہ کی زیارت کر لی۔ ہماری تمنا دل ہی میں رہ جائے گی دُعا کیجیے یہ سعادت ہمیں بھی نصیب ہو۔‘‘

’’انشاء اللہ ورنہ میں گنہگار کس قابل ہوں۔‘‘

’’میرے لائق کوئی خدمت‘‘

’’کسی تکلیف کی ضرورت نہیں ہاں دیکھیے ذرا کان کیجیے ادھر میرے ہاں کھانڈ کی دو بوریاں ہیں۔ میری بے شمار لوگوں سے جان پہچان ہے کسی کو ضرورت ہو تو مجھ سے فرما دیجیے۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ دام واجبی ہوں گے‘‘

***

 

’’لیجیے جناب ہماری خدمات کا صِلہ مل گیا‘‘

’’کیا ویسے مبارک ہو‘‘

’’سو سو مبارک کمپنی نے نوکری سے جواب دیا۔‘‘

’’ہائیں یہ کب کی بات ہے‘‘

’’ایک مہینہ ہو گیا ہے‘‘

’’لاحول ولا مجھے معلوم ہی نہیں تھا‘‘

’’دو سو ملازموں کی چھانٹی ہوئی تھی نا‘‘

’’بہت افسوس کی بات ہے کوئی احتجاج وغیرہ ہوا تھا۔‘‘

’’سیکڑوں ہڑتالیں ہوئیں جلوس نکلے کئی مرتبہ لوگوں نے بھوک ہڑتال کی، وعدے ہوئے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔‘‘

’’تعجب ہے کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی‘‘

’’اللہ رحم کرے۔‘‘

’’اللہ رحم نہیں کرے گا۔ وہ دن لد گئے۔ جب وہ مائل بہ کرم ہوا کرتا تھا۔ اتنے آدمی ہیں وہ کس کس کی حاجت روائی کرے۔ میرا تو خیال ہے اُوپر آسمانوں پر بھی راشننگ سسٹم ہو گیا ہے‘‘

***

 

’’میں اس بد ذات سے کیا کہوں صاف مجھے دغا دے گیا‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’حرامزادے نے وعدہ کیا۔ اور دونوں گاڑیاں ٹھکانے لگا دیں۔‘‘

’’اس کی وجہ‘‘

’’میں نے اُس کا ایک کام کیا تھا اس کے عوض میں اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ایک بیوک کار جو اس کے پاس آنے والی تھی آدھی قیمت پر دے دے گا‘‘

’’اور جو تم نے اُس کا کام کیا تھا وہ لاکھوں کا تھا۔

’’اسی لیے تو کہتا ہوں بلڈی سوائن نے میرے ساتھ دھوکا کیا لیکن میں اس سے بدلہ لوں گا۔ خود بیوک میرے گھر پہنچا کے جائے گا۔‘‘

***

 

’’باورچی کو بلاؤ جلدی بلاؤ ہم اس سے بات کرنا مانگتا ہے۔‘‘

’’حضور حاضر ہوں‘‘

’’یہ تم نے آج کیسے واہیات کھانے پکائے ہیں‘‘

’’حضور۔‘‘

’’حضور کے بچے اس پلیٹ سے بیگم صاحب نے ایک ہی نوالہ اُٹھایا تھا کہ انھیں متلی آ گئی۔‘‘

’’حضور ممکن ہے کوئی گڑبڑ ہو گئی ہو۔ معافی چاہتا ہوں‘‘

’’معافی کے بچے اُٹھاؤ سالن باہر پھینک آؤ‘‘

’’ہم نوکر کھا لیں گے سرکار۔‘‘

’’نہیں باہر ڈسٹ بن میں ڈال دو اور تم سزا کے طور پر بھوکے رہو۔ اٹھیے بیگم ہم کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔‘‘

***

 

’’اماں اب گزارا کیسے ہو گا یہاں لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آ گیا ہے۔‘‘

’’تو ٹھیک کہتی ہے بیٹا‘‘

’’سارا بازار ہی مندا ہے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’لوگوں کے پاس روپیہ جو نہیں‘‘

’’لیکن جو سڑکوں پر اتنی شاندار موٹریں چلتی ہیں یہ جو عورتیں تن پر زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں یہ کہاں سے آتا ہے اماں!‘‘

’’ان لوگوں کے پاس ہے‘‘

’’تو پھر بازار کیوں مندا ہے‘‘

’’اب ان لوگوں نے اپنے آپس ہی میں ہمارا دھندا شروع کر دیا ہے۔‘‘

***

 

’’ڈارلنگ‘‘

’’جی‘‘

’’ساری دکانیں چھان ماریں مگر تمہارے سائز کی میدم فورم بریزر نہ مل سکی‘‘

’’اوہ! ہاؤ سیڈ میرا سائز ہی کیا واہیات سا ہے۔‘‘

***

 

’’دعوت تو جناب ایسی ہو گی کہ یہاں کی تاریخ میں یادگار رہے گی۔ لیکن ایک افسوس ہے کہ فرانس سے جو میں نے شمپیئن منگوائی تھی وقت پر نہ پہنچ سکے گی‘‘

’’اجی سُنیے تو‘‘

’’اوہ آپ مجھے بڑا ضروری کام ہے۔ معاف فرمائیے۔‘‘

’’معافیاں تم لاکھ مرتبہ مانگ چکے ہو۔ وہ میرا سو روپے کا قرض ادا کرو جو تم نے آج سے قریب قریب ایک سال ہوا لیا تھا۔‘‘

’’میں پھر معافی چاہتا ہوں میری بیوی بیمار ہے دوا لینے جا رہا ہوں‘‘

’’میں ان گھسوں میں آنے والا نہیں خدا کی قسم اگر آج میرا قرض ادا نہ ہوا تو سر پھوڑ دوں گا تمہارا۔‘‘

’’آپ کیوں اتنی زحمت اُٹھائیں میں خود ہی اس دیوار کے ساتھ ٹکر مار کے اپنا سر پھوڑے لیتا ہوں۔ یہ لیجیے۔‘‘

***

 

’’یہ چرس کی لت تمھیں کہاں سے پڑی‘‘

’’کیا بتاؤں یار اب تو اس کے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔‘‘

’’میں نے تم سے پوچھا تھا کہ لت کہاں سے پڑی تم نے کچھ اور ہی ہانکتا شروع کر دیا ہے‘‘

’’بھائی یہ لت مجھے جیل میں لگی‘‘

’’جیل میں وہاں تو ایک مکھی بھی اندر نہیں جا سکتی‘‘

’’بھائی میرے وہاں مگر مچھ بھی جا سکتے ہیں ہاتھی بھی جا سکتے ہیں اگر تمہارے پاس دولت ہے تو آپ وہاں ایک دو ہاتھی بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں‘‘

’’پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ یہ چرس وہاں کیسے پہنچ سکتی ہے‘‘

’’ویسے ہی جیسے ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں میرے عزیز جیل خانہ صرف اُن لوگوں کے لیے جیل خانہ ہے جو صاحبِ استطاعت نہیں جو دولت مند مجرم ہیں اُن کو وہاں ہر قسم کی مراعات مل سکتی ہیں اور ملتی ہیں۔

’’اگر تم چاہو تو تمھیں وہاں شراب مل سکتی ہے گانجہ مل سکتا ہے افیون دستیاب ہو سکتی ہے۔ اگر تم بڑے رئیس ہو تو اپنی بیوی کو بھی وہاں بُلا سکتے ہو۔ جو رات بھر تمہاری مٹھی چاپی کرتی رہے گی۔‘‘

’’جیل خانوں میں ایک ’’خاکی‘‘ مارکیٹ ہوتی ہے جو بلیک مارکیٹ سے زیادہ ایماندار ہے۔‘‘

***

 

’’کرنل صاحب آپ کی عمر کتنی ہو گی۔‘‘

’’میرا خیال ہے پینسٹھ کے قریب ہو گی آپ کی‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں ماشاء اللہ ابھی جوان ہیں۔ میری عُمر؟ میری عمر یہی پچیس چھبیس برس کے قریب ہو گی۔‘‘

’’تو ہم دونوں سچ بول رہے ہیں‘‘

***

 

مجھے لپ اسٹک سے نفرت ہے معلوم نہیں عورتیں اسے کیوں استعمال کرتی ہیں اس سے ہونٹوں کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔

’’مجھے خود اس سے نفرت ہے‘‘

’’لیکن تمہارے ہونٹوں پر تو یہ واہیات چیز موجود ہے خون کی طرح سُرخ ہو رہے ہیں۔‘‘

’’یہ سرخی میرے اپنے ہونٹوں کی ہے۔ یعنی مصنوعی نہیں‘‘

’’تو آؤ ایک بوسہ لے لُوں۔‘‘

’’بڑے شوق سے‘‘

’’پرے ہٹیے اب مجھے نہیں معلوم تھا کہ مرد بھی لپ اسٹک استعمال کرتے ہیں۔‘‘

’’وہ کیسے‘‘

’’ذرا آئینے میں اپنے ہونٹ ملاحظہ فرمائیے‘‘

***

 

’’صاحب آپ سے کوئی ملنے آیا ہے‘‘

’’کہہ دو صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘

’’بہت اچھا جناب۔‘‘

چلا گیا‘‘

’’جی نہیں چلی گئی‘‘

’’کیا مطلب۔‘‘

’’جی وہ ایک ایکٹریس تھی جس کا نام۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

’’بھاگو بھاگو جلدی اُس کو بُلا کے لاؤ اور کہو تم نے جھوٹ بولا تھا کہ میں گھر پر نہیں ہوں‘‘

***

 

’’آپ آج کل کہاں غائب رہتے ہیں‘‘

’’بیگم ایک یتیم بچہ ہے اُس کو دیکھنے کبھی کبھی چلا جاتا ہوں‘‘

’’اُس یتیم بچے سے آپ کو اتنی دلچسپی کیوں ہے‘‘

’’یتیم جو ہوا‘‘

’’آپ کی جیب میں اس کا فوٹو بھی موجود رہتا ہے‘‘

’’اس لیے اس لیے‘‘

’’کہ وہ آپ کا یتیم بچہ ہے‘‘

’’نون سنس‘‘

’’آپ کی قمیص پر سرخ دھبہ کیسے لگا۔‘‘

’’میری قمیص پر کہاں ہے‘‘

’’داہنے ہاتھ۔ گریبان کے قریب‘‘

’’اوہ میں جب دفتر میں کسی ضروری مسئلے پر غور کر رہا ہوتا ہوں تو مجھے کسی بات کا ہوش نہیں رہتا یہ لال پنسل کا نشان ہے جس سے میں نے کھجلا لیا ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں لیکن اس میں سے تو میکس فیکٹر کی خوشبو آ رہی ہے۔‘‘

***

 

’’تم آج کل کس کی بیوی ہو‘‘

’’کل تو مسٹر کی تھی آج چھٹی پر ہوں‘‘

***

 

’’آپ میدان جنگ میں جا رہے ہیں خدا آپ کا حافظ و ناصر ہو لیکن مجھے کوئی نشانی دیتے جائیے۔‘‘

’’میری نشانی تو تم خود ہو‘‘

’’نہیں کوئی ایسی چیز دیتے جائیے جس کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتی رہوں‘‘

’’میں وہاں سے بھیج دُوں گا۔‘‘

’’کیا چیز‘‘

’’وہ زخم جو مجھے لڑنے کے دوران آئیں گے‘‘

***

 

’’آپ کی بیگم کیسی ہیں‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہو گا۔ اپنی بیگم کے بارے میں مجھ سے دریافت فرما سکتے ہیں‘‘

’’وہ کیسی ہیں‘‘

’’پہلے سے بہتر اور خوش ہیں۔ اُن کی طبیعت بہت پسند آئی۔‘‘

***

 

’’یار تم اتنی عورتوں سے یارانہ کیسے گانٹھ لیتے ہو‘‘

’’یارانہ کہاں گانٹھتا ہوں باقاعدہ شادی کرتا ہوں‘‘

’’شادی کرتے ہو‘‘

’’ہاں بھائی میں حرام کاری کا قائل نہیں شادی کرتا ہوں اور جب اُکتا جاتا ہوں تو حقِ مہر ادا کر کے اُس سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہوں‘‘

’’اسلام زندہ باد!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

برف کا پانی

 

 

’’یہ آپ کی عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ہیں‘‘

’’میری عقل پر تو اُسی وقت پتھر پڑ گئے تھے جب میں نے تم سے شادی کی بھلا اس کی ضرورت ہی کیا تھی اپنی ساری آزادی سلب کرا لی۔

’’جی ہاں آزادی تو آپ کی یقیناً سلب ہُوئی اس لیے کہ اگر آپ اب کھلے بندوں عیاشی نہیں کر سکتے شادی سے پہلے آپ کو کون پوچھنے والا تھا جدھر کو منہ اُٹھایا چل دئیے، جھک مارتے رہے‘‘

’’دیکھو میں تم سے کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ کہنا ہو چند لفظوں میں صاف صاف کہہ دیا کرو مجھے یہ جھک جھک پسند نہیں۔ جس طرح میں صاف گو ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی صاف گو ہوں‘‘

’’آپ کی صاف گوئی تو ضرب المثل بن چکی ہے‘‘

’’تمہاری یہ طنز خدا معلوم تم سے کب جدا ہو گی اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔

’’آپ کی طبیعت تو شگفتہ گفتگو سُن کر بھی خراب ہو جاتی ہے اب اس کا کیا علاج ہے اصل میں آپ کو میری کوئی چیز بھی پسند نہیں۔ ہر وقت مجھ میں کیڑے ڈالنا آپ کا شغل ہو گیا ہے اگر میں آپ کے دل سے اُتر گئی ہوں تو صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتے بڑے صاف گو بنے پھرتے ہیں آپ ایسا ریا کار شاید ہی دنیا کے تختے پر ہو۔‘‘

’’اب میں ریا کار بھی ہو گیا کیا ریا کاری کی ہے میں نے تم سے یہی کہ تمہاری نوکروں کی طرح خدمت کرتا ہوں۔‘‘

’’بڑی خدمت کی ہے آپ نے میری‘‘

’’سر پر قرآن اُٹھاؤ اور بتاؤ کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے کبھی تم نے میرا سر تک سہلایا ہے میں بُخار میں پھنکتا رہا ہوں کبھی تم نے میری تیمار داری کی۔ پچھلے دنوں میرے سر میں شدت کا درد تھا میں نے رات کو تمھیں آواز دی اور کہا مجھے بام دے دو مگر تم نے کروٹ بدل کر کہا۔ میری نیند نہ خراب کیجیے۔ آپ اُٹھ کر ڈھونڈ لیجیے کہاں ہے۔ اور یاد ہے جب تمھیں نمونیہ ہو گیا تھا تو میں نے سات راتیں جاگ کر کاٹی تھیں دن اور رات مجھے پل بھر کا چین نصیب نہیں تھا۔

’’دن بھر سوئے رہتے تھے آپ میری بیماری کا ایک بہانہ مل گیا تھا سات چھٹیاں لیں اور دفتر کے کام سے نجات پا کر آرام کرتے رہے ہیں آپ کے سارے حیلے بہانے جانتی ہوں میرا علاج آپ نے کیا تھا یا ڈاکٹروں نے‘‘

ان ڈاکٹروں کو تم بُلا کر لائی تھیں کیا۔ اور دوائیں بھی کیا تم نے خود جا کر خریدی تھیں اور جو روپیہ خرچ ہوا کیا فرشتوں نے اوپر سے پھینک دیا تھا کتنے سفید جھوٹ بولتی ہو کہ میں دن کو سویا رہتا تھا قسم خدا کی جو ایک لمحے کے لیے بھی ان دنوں سویا ہوں تم بیمار ہو جاؤ تو گھر کی اینٹیں بھی جاگتی رہتی ہیں تم اُس وقت کس کو سونے دیتی ہو۔ آہ و پُکار کا تانتا بندھا رہتا ہے جیسے کسی پر بہت بڑا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔

’’جناب بیماریاں ظلم نہیں ہوتیں تو کیا ہوتی ہیں جو میں نے برداشت کیا ہے وہ آپ کبھی نہ کر سکتے۔ اور نہ کبھی کر سکتے ہیں میں نے کتنی بیماریاں خندہ پیشانی سے سہی ہیں آپ کو تو خیر اس وقت کچھ یاد نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ آپ میرے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔‘‘

’’دن ہی کو میں تمہارا دشمن بن جاتا ہوں رات کو تو تم نے ہمیشہ بہترین دوست سمجھا ہے‘‘

’’شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے رات اور دن میں فرق ہی کیا ہے‘‘

’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ کہہ کر آپ نے میرا گلا گھونٹ دیا کہ میں آپ سے کچھ اور نہ کہہ سکوں‘‘

’’لو بھئی اب میں اطمینان سے یہاں بیٹھ جاتا ہوں آرام جائے جہنم میں تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو ایک ہی سانس میں کہتی چلی جاؤ‘‘

’’میری سانس اتنی لمبی نہیں‘‘

’’عورتوں کو سانس کے متعلق تو یہی سُنا تھا کہ بہت لمبی ہوتی ہے اور زبان بھی ماشاء اللہ کافی دراز‘‘

’’آپ یہ مہین مہین چٹکیاں نہ لیجیے میں نے اگر کچھ کہہ دیا تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔‘‘

’’اس تن بدن میں کئی بار آگ لگ چکی ہے چلو ایک فائر کرو اور قصہ تمام کر دو‘‘

’’قصہ تو آپ میرا تمام کر کے رہیں گے۔‘‘

’’کس لیے۔ مجھے تم سے کیا بغض ہے اللہ کے واسطے کا بیر تو نہیں مجھ سے ہے۔‘‘

’’محبت اور اطاعت کو آپ بیر سمجھتے ہیں اس لیے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کی عقل پر پتھر پتھر پڑ گئے ہیں۔

’’میری عقل پر پتھر پڑیں یا کوہ ہمالیہ کا پہاڑ لیکن تمہاری محبت اور اطاعت میری سمجھ میں نہیں آئی اطاعت کو فی الحال چھوڑو لیکن میں یہ پوچھتا ہُوں کہ اب تک تم محبت بھری گفتگو کر رہی تھیں‘‘

’’تو میں نے آپ کو کون سی گالی دی ہے‘‘

’’گالی دینے میں تم نے کوئی کسر تو اٹھا نہیں رکھی ریا کار تک تو بتا دیا مجھ کو اس سے بد تر گالی اور کیا ہو سکتی ہے۔‘‘

’’یہ لو کھلا گریبان ہے میں نے اپنا سارا سر اس میں ڈال دیا اب تم بتاؤ۔ صرف تمہاری شکل نظر آتی ہے۔ خوفناک، بڑی ہیبت ناک‘‘

’’تو کوئی دوسری کر لیجیے جو خوش شکل ہو۔‘‘

’’ایک ہی کر کے میں نے بھر پایا ہے۔ خدا نہ کرے زندگی میں دوسری آئے۔‘‘

’’آپ مجھ سے اس قدر تنگ کیوں آ گئے ہیں۔‘‘

’’میں قطعاً تنگ نہیں آیا بس تم دل جلاتی رہتی ہو۔‘‘

’’میرا دل تو جل کر کوئلہ ہو چکا ہے سچ پوچھیے تو میں چاہتی ہوں کہ کچھ کھا کے مر جاؤں۔ میں جا رہی ہوں‘‘

’’کہاں‘‘

’’میں نے ایک من برف منگوائی ہے اسے چار بالٹیوں میں پانی کے اندر ڈال رکھا ہے اس ٹھنڈے پانی سے نہاؤں گی اور پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤں گی ایک مرتبہ مجھے پہلے نمونیہ تو ہو ہی چکا ہے اب ہو گا تو پھیپھڑے یقیناً جواب دے جائیں گے۔‘‘

’’خدا حافظ‘‘

’’خدا حافظ خود کشی کا یہ طریقہ تم نے بہت اچھا ڈھونڈا ہے جو آج تک کسی کو سُوجھا نہیں ہو گا‘‘

’’آپ کے پہلو میں تو دل ہی نہیں‘‘

’’جو کچھ بھی ہے بہر حال موجود ہے اور دھڑکتا بھی ہے۔ جاؤ یخ آلود پانی سے نہا کر پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤ‘‘

’’جا رہی ہوں۔ آپ سے چند باتیں کرنی ہیں۔‘‘

’’ضرور کرو‘‘

’’میرے بچوں کا آپ ضرور خیال رکھیئے گا‘‘

’’کیا وہ میرے بچے نہیں ہیں۔‘‘

’’ہیں لیکن شاید میری وجہ سے اچھا سلوک نہ کرو‘‘

’’نہیں نہیں تم کوئی فکر نہ کرو میں انھیں بورڈنگ میں داخل کرانے لے جاتا ہوں خدا حافظ‘‘

’’خدا تمہارا حافظ ہو مجھے تو فی الحال خود کشی نہیں کرنی لیکن سنو نمونیہ ہو تو ڈاکٹر کو بُلا لاؤں۔‘‘

’’ہرگز نہیں میں مرنا چاہتی ہوں‘‘

’’تو میں نہیں بُلاؤں گا۔ لیکن نمونیہ کے مریض فوراً نہیں مرتے پانچ چھ روز تو لگاتے ہیں۔‘‘

’’آپ اس عرصہ تک انتظار کیجیے گا۔‘‘

’’بہت بہتر‘‘

’’میری کہی سُنی معاف کر دیجیے گا‘‘

’’وہ تو میں نے اُسی روز کر دی تھی جب تم سے نکاح ہوا تھا۔‘‘

’’میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کی عقل پر جو پتھر پڑ گئے ہیں انھیں دُور کر دیجیے گا۔‘‘

’’میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم کہو تو قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوں اچھا تو میں چلا بچے باہر کھیل رہے ہیں انھیں ہوسٹل لے جاتا ہوں واپس دو تین گھنٹے میں آ جاؤں گا۔ اگر اس دوران میں تم مر گئیں تو بہت اچھا، تجہیز و تکفین کا سامان کر دُوں گا ٗ مجھے ابھی کل ہی تنخواہ ملی ہے۔‘‘

’’جائیے میں بھی چلی۔‘‘

’’الوداع‘‘

’’الوداع‘‘

’’کبھی کبھی مجھ نابکار کو یاد کر لیا کیجیے‘‘

’’ضرور ضرور تم نابکار کیوں کہتی ہو خود کو‘‘

’’میں کس کام کی ہوں‘‘

’’خیر چھوڑو۔ بحث اس پر الگ شروع ہو جائے گی۔ اور تمہاری خریدی ہُوئی ایک من برف پگھل کر گرم پانی میں تبدیل ہو جائے گی۔‘‘

’’یہ تو آپ نے درست کہا۔ اچھا میں چلی۔‘‘

***

’’میں آ گیا ہوں بچوں کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرا کے تم غسل خانے میں ابھی تک کیا کر رہی ہو۔‘‘

’’کچھ نہیں سوچ رہی تھی۔‘‘

’’کیا سوچ رہی تھیں‘‘

’’میں نے وہ خط دوبارہ پڑھا‘‘

’’کونسا خط‘‘

’’جو آپ کی میز کی دراز میں پڑا تھا کسی لڑکی کی طرف سے تھا۔ اب میں نے جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ کے نام نہیں بلکہ اُس اخبار کے ایڈیٹر کے نام ہے جہاں آپ کام کرتے ہیں مجھے افسوس ہے میں نے آپ پر شک کیا۔‘‘

’’تم ہمیشہ شک کیا کرتی ہو اب تو میری عقل کے پتھر ہٹ گئے۔ وہ لڑکی نہیں کوئی مرد ہے اسی لیے میں تفتیش کی غرض سے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا خیر چھوڑو ٹھنڈا پانی تو پلاؤ ایک من برف تم نے منگوائی تھی۔‘‘

’’اُس کا سب پانی میں نے غسل خانے میں ڈال دیا۔ بڑا ٹھنڈا ہو گیا ہے آپ بھی یہاں آ جائیے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

شلجم

 

 

"کھانا بھجوا دو میرا۔ بہت بھوک لگ رہی ہے‘‘

’’تین بج چکے ہیں اس وقت آپ کو کھانا کہاں ملے گا؟

’’تین بج چکے ہیں تو کیا ہوا۔ کھانا تو بہر حال ملنا ہی چاہیے۔ آخر میرا حصہ بھی تو اس گھر میں کسی قدر ہے۔‘‘

’’کس قدر ہے۔‘‘

’’تو اب تم حساب داں بن گئیں جمع تفریق کے سوال کرنے لگیں مجھ سے‘‘

’’جمع تفریق کے سوال نہ کروں تو یہ گھر کب کا اُجڑ گیا ہوتا۔‘‘

’’کیا بات ہے آپ کی لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے کھانا ملے گایا نہیں‘‘

’’آپ ہر روز تین بجے آئیں تو کھانا خاک ملے گا۔ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ اگر آپ اس وقت کسی ہوٹل میں جائیں تو وہاں سے بھی آپ کو دال روٹی نہیں مل سکے گی مجھے آپ کا یہ وطیرہ ہرگز پسند نہیں‘‘

’’کون سا وطیرہ‘‘

’’یہی کہ آپ تین بجے تشریف لائے ہیں کھانا پڑا جھک مارتا رہتا ہے میں الگ انتظار کرتی رہتی ہوں مگر آنجناب خدا معلوم کہاں غائب رہتے ہیں‘‘

’’بھئی دنیا میں انسان کو کئی کام ہوتے ہیں میں صرف دو دن ہی تو ذرا دیر سے آیا۔‘‘

’’ذرا دیر سے؟ ہر خاوند کو چاہیئے کہ وہ گھر میں بارہ بجے موجود ہو تاکہ اسے 1 بجے تک کھانا مل جائے ٗ اس کے علاوہ اسے اپنی بیوی کا تابع فرمان ہونا چاہیے اس لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی ہوٹل میں جا رہے جہاں کے تمام نوکر اور بہرے اس کے تابع فرمان ہوں۔‘‘

’’آپ کا ارادہ تو یہی ہے جب ہی تو آپ کئی دن سے پر تول رہے ہیں میں آپ سے کہتی ہوں ابھی چلے جائیے۔

’’کھانا کھائے بغیر‘‘

’’جائیے ہوٹل میں آپ کو مل جائے گا۔

’’لیکن تم نے تو ابھی کہا تھا کہ اس وقت کسی ہوٹل میں بھی دال روٹی نہیں ملے گی بات کر کے بھول جاتی ہو۔‘‘

’’میرا دماغ خراب ہو چکا ہے بلکہ کر دیا گیا ہے‘‘

’’یہ تو صحیح ہے کہ تمہارا دماغ خراب ہے لیکن یہ خرابی کس نے پیدا کی‘‘

’’خدا نہ کرے تم مرد لیکن مجھے یہ تو بتاؤ میرے بغیر تمہارا گزارہ کیسے ہو گا۔‘‘

’’میں اپنی موٹر بیچ لُوں گی۔‘‘

اس سے تمھیں کتنا روپیہ مل جائے گا۔‘‘

’’چھ سات ہزار تو مل ہی جائیں گے‘‘

ان چھ سات ہزار روپوں میں تم کتنے عرصہ تک اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکو گی۔

’’میں آپ کی طرح لکھ لُٹ اور فضول خرچ نہیں آپ دیکھیے گا میں ان روپوں میں ساری عُمر گزار دُوں گی میرے بال بچے اسی طرح پلیں گے جس طرح اب پل رہے ہیں۔‘‘

’’یہ ترکیب مجھے بھی بتا دو مجھے یقین ہے کہ تمھیں کوئی ایسا منتر ہاتھ آ گیا ہے جس سے تم نوٹ دُگنے بنا سکتی ہو ہر روز بٹوے سے نوٹ نکالے ان پر منتر پھونکا اور وہ دُگنے ہو گئے۔‘‘

’’آپ میرا مذاق اُڑا تے ہیں۔ شرم آنی چاہیے آپ کو۔‘‘

’’چلو ہٹاؤ اس قصے کو۔ کھانا دو مجھے۔‘‘

’’کھانا آپ کو نہیں ملے گا۔‘‘

’’بھئی آخر کیوں میرا قصور کیا ہے؟‘‘

’’آپ کے قصور اور آپ کی خطائیں اگر میں گنوانا شروع کروں تو میری ساری عمر بیت جائے۔‘‘

’’آپ نے اور کس نے میری جان کا روگ بنے ہوئے ہیں مجھے نہ رات کا چین نصیب ہے نہ دن کا۔‘‘

’’دن کا تم چھوڑو رات کا چین آپ کو نصیب کیوں نہیں۔ بڑے اطمینان سے سوئی رہتی ہیں جیسے محاورے کے مطابق کوئی گھوڑے بیچ کر سو رہا ہو۔‘‘

’’اپنے گھوڑے بیچ کر آدمی کیسے سو سکتا ہے کتنا واہیات محاورہ ہے‘‘

’’واہیات ہی سہی لیکن ابھی چند روز ہوئے تم نے گھوڑا اور اس کے ساتھ تانگہ بھی بیچ ڈالا تھا اور اُس دن تم رات بھر خراٹے لیتی رہی تھیں۔‘‘

’’مجھے تانگہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی، جب کہ آپ نے مجھے موٹر لے دی تھی اور خراٹے بھرنے کا الزام بھی غلط ہے۔‘‘

’’محترمہ جب آپ خواب خرگوش میں تھیں تو آپ کو کیسے پتہ چلتا کہ آپ خراٹے لیتی ہیں بخدا اس رات میں بالکل نہ سو سکا۔‘‘

’’اس کا اوّل جھوٹ اور اس کا آخر جھوٹ‘‘

’’چلیے تمہاری خاطر اب مان لیا اب کھانا دو۔‘‘

’’کھانا نہیں ملے گا آج آپ کسی ہوٹل میں جائیے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ وہیں بسیرا کر لیجیے۔‘‘

’’تم کیا کرو گی‘‘

’’میں میں مرتو نہیں جاؤں گی آپ کے بغیر‘‘

’’دیکھو بیگم اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اگر تم نے کھانا نہ دیا تو میں اس گھر کو آگ لگا دُوں گا غضب خدا کا میرے پیٹ کا بھوک کے مارے بُرا حال ہو گیا ہے اور تم واہی تباہی بک رہی ہو مجھے کل اور آج ایک ضروری کام تھا اس لیے مجھے دیر ہو گئی اور تم نے مجھ پر الزام دھر دیا کہ میں ہر روز دیر سے آتا ہوں کھانا دو مجھے ورنہ۔۔۔‘‘

’’آپ مجھے ایسی دھونس نہ دیں، کھانا نہیں ملے گا آپ کو‘‘

’’یہ میرا گھر ہے میں جب چاہوں آؤں جب چاہوں جاؤں تم کون ہو کہ مجھ پر ایسی سختیاں کرو میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ تمہارا یہ مزاج تمہارے حق میں اچھا ثابت نہیں ہو گا۔‘‘

’’آپ کا مزاج میرے حق میں تو بڑا اچھا ثابت ہوا ہے۔ دن رات کڑھ کڑھ کے میرا یہ حال ہو گیا ہے۔‘‘

’’دس پاؤنڈ وزن اور بڑھ گیا ہے بس یہی حال ہوا ہے تمہارا۔ اور میں تمہاری زُود رنج اور چڑچڑی طبیعت کے باعث بیمار ہو گیا ہوں۔‘‘

’’کیا بیماری ہے آپ کو‘‘

’’تم نے کبھی پوچھا ہے کہ میں اس قدر تھکا تھکا کیوں رہتا ہے۔ کبھی تم نے غور کیا کہ سیڑھیاں چڑھتے وقت میرا سانس کیوں پھول جاتا ہے۔ کبھی تم کو اتنی توفیق ہوئی کہ میرا سر ہی دبائیں جو اکثر درد کے باعث پھٹنے کے قریب ہوتا ہے تم عجیب قسم کی رفیقۂ حیات ہو‘‘ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ایسا خاوند میرے پلے باندھ دیا جائے گا تو میں نے وہیں اپنے گھر پر ہی زہر پھانک لیا ہوتا۔‘‘

’’زہر تم اب بھی پھانک سکتی ہو۔ کہو تو میں ابھی لا دُوں‘‘

’’لے آئیے۔‘‘

’’لیکن مجھے پہلے کھانا کھلا دو‘‘

’’میں کہہ چکی ہوں وہ نہیں ملے گا آپ کو آج‘‘

’’کل سے تو خیر مل ہی جائے گا۔ اس لیے میں کوشش کرتا ہوں‘‘

’’آپ کیا کوشش کیجیے گا۔‘‘

’’خانساماں کو بُلاتا ہوں‘‘

’’آپ اُسے نہیں بلا سکتے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس میں نے کہہ جو دیا کہ آپ کو ان معاملوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں‘‘

’’حد ہو گئی۔ اپنے گھر میں اپنے خانساماں کو بھی نہیں بلا سکتا‘‘

’’نو کر کہاں ہے۔‘‘

’’جہنم میں‘‘

’’اس وقت میں بھی اُسی جگہ ہوں لیکن میں اس کو دیکھ نہیں پاتا ادھر ہٹو ذرا میں اسے تلاش کروں شاید مل جائے۔‘‘

’’اس سے کیا کہنا ہے آپ کو؟‘‘

’’کچھ نہیں صرف اتنا کہوں گا کہ تم علیحدہ ہو جاؤ تمہارے بدلے میں اس گھر کی نوکری خود کیا کروں گا۔‘‘

’’آپ کر چکے‘‘

’’سلام حضور بیگم صاحب سالن تیار ہے صاحب لگا دُوں ٹیبل پر‘‘

’’تم دُور دفعان ہو جاؤ یہاں سے‘‘

’’لیکن بیگم صاحب آپ نے صبح جب خود باورچی خانے میں شلجم پکائے تو وہ سب کے سب جل گئے کہ آنچ تیز تھی اس کے بعد آپ نے آرڈر دیا کہ صاحب دیر سے آئیں گے اس لیے تم جلدی جلدی کوئی اور سالن تیار کر لو سو میں نے آپ کے حکم کے مطابق دو گھنٹوں کے اندر اندر دو سالن تیار کر لیے ہیں اب فرمائیں ٹیبل لگا دوں دونوں انگیٹھیوں پر دھرے ہیں ایسا نہ ہو آپ کے شلجموں کی طرح جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ میں جاتا ہوں آپ جب بھی آرڈر دیں گی خادم ٹیبل لگا دے گا۔‘‘

’’تو یہ بات تھی۔‘‘

’’کیا بات تھی میں اتنی دیر تک باورچی خانے کی گرمی میں جھلستی رہی اس کا آپ کو کچھ خیال ہی نہیں آپ کو شلجم پسند ہیں تو میں نے سوچا خود اپنے ہاتھ سے پکاؤں کتاب ہاتھ میں تھی جس میں ساری ترکیب لکھی ہوئی تھی۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میں سو گئی اور وہ کم بخت شلجم جل بھُن کر کوئلہ بن گئے۔ اب اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘

’’کوئی قصور نہیں‘‘

’’چلیے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں‘‘

’’یہاں تو بڑے بڑے مگر مچھ دوڑ رہے ہیں‘‘

’’ہر بات میں مذاق‘‘

’’مذاق برطرف ذرا ادھر آؤ میں تمہارے شلجم دیکھنا چاہتا ہوں کہیں وہ بھی کوئلہ نہیں بن گئے‘‘

’’کھانا کھانے کے بعد دیکھا جائے گا‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

گاف گُم

ڈرامہ

 

 

حامد: (ٹائپ کرتے ہوئے ) پا۔۔ ۔ کس۔۔ ۔ تان۔۔ ۔ میں۔۔ ۔ تع۔۔ ۔ لی۔۔ ۔ می۔۔ ۔ فلم۔۔ ۔ نہیں نہیں۔۔ ۔ (کاٹ کر) فلمو۔۔ ۔ ں۔۔ ۔ کی۔۔ ۔ اہمیت۔۔ ۔ پر۔۔ ۔ ابھی۔۔ ۔ تک۔۔ ۔ غور۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ کیا۔۔ ۔ گیا۔۔ ۔ لیکن یہ گاف کدھر گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ارے سچ مچ یہ گاف کدھر ہے۔ لاحول ولا ملتا ہی نہیں

(سلیمان داخل ہوتا ہے)

سلیمان: کیا نہیں ملتا۔؟

حامد: گاف نہیں مل رہا یار۔

سلیمان: (حیرت سے) گاف؟

حامد: ہاں بھئی گاف۔ ابھی یہاں تھا خدا معلوم کہاں غائب ہو گیا۔

سلیمان: اور زیادہ حیرت سے (کون ہے یہ گاف)

حامد: کاف کا بڑا بھائی۔

سلیمان: سمجھتے ہوئے اوہ۔۔ ۔ تو آپ تھانے میں رپٹ کیوں نہیں لکھواتے۔

چِلا کر مل گیا مل گیا زور سے کی پر انگلی مارتے ہوئے۔ دھت تیری (عبارت پڑھتے ہوئے۔ پاکستان کی۔ نہیں نہیں۔ پاکستان میں تعلیمی فلموں کی اہمیت پر ابھی تک غور نہ کیا گیا اس کمبخت گاف نے تو مجھے پریشان کر دیا تھا۔ کچھ دیر اور اسی طرح غائب رہتا تو یہ مضمون یہیں کا یہیں دھرا رہ جاتا۔

سلیمان: تو آپ فلمستان میں پاکستانی فلموں کی اہمیت پر غور فرما رہے ہیں۔

حامد: جی نہیں میں تعلیمستان میں غوری فلموں پر اہمیت فرما رہا ہوں۔

سلیمان ہنستا ہے۔

حامد: قبلہ سلیمان صاحب آپ اس وقت تشریف لے جائیے۔ مجھے واقعی پاکستان میں تعلیمی فلموں پر غور کرنا ہے۔

سلیمان: میں ابھی تشریف لے جاتا ہوں لیکن آپ میرے پہلے ایک دو سوالوں کا جواب دے لیجئے۔

حامد: فرمائیے۔

سلیمان: جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے آپ کے پاکستان بنے کو۔ درست ہے نا۔

حامد: جی ہاں

سلیمان: آپ کے ہاں گنتی کے اسٹوڈیو تھے ایک شاید جل چکا ہے کاری گر موجود نہیں ساز و سامان کی کمی ہے عام تفریحی فلم آپ بنا نہیں سکتے سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ اپنا نیا اُردو ٹائپ رائٹر لے کر تعلیمی فلموں پرکیوں غور فرما رہے ہیں۔

حامد: تمہاری گفتگو کا کوئی پہلو طنز سے خالی نہیں ہوتا۔

سلیمان: حامد صاحب آپ میرے سوال کا جواب دیجئے۔

حامد: آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کو جو چیز ہمارے پاس نہیں ہمیں بنانا ہے۔

سلیمان: بڑے شوق سے بنائیے۔۔ ۔۔ ۔۔ خدا آپ کے ارادوں میں برکت دے لیکن حضرت یہ کام شروع کرنے سے پہلے سوچنا سمجھنا ضروری ہے اناڑیوں کی طرح شروع کیجئے تو قدم قدم پر آپ کے ٹائپ رائٹر میں گاف گُم ہو جایا کرے گا۔

حامد: (جز بز ہو کر) بکواس نہ کرو۔

سلیمان: مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کے دفاع کا توازن بگڑ گیا اب آپ میری منطق کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ ایک سگریٹ مرحمت فرما سکتے ہیں آپ۔

حامد: جی نہیں دام بڑھ جانے کی وجہ سے میں نے چھوڑ دیئے ہیں۔

سلیمان: مبارک ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ اپنا سگریٹ سُلگانے کی تو اجازت ہے مجھے (سگریٹ لگاتا ہے)

حامد: (جھپٹا مار کر سگریٹ کی ڈبیا چھینتے ہوئے) ادھر لاؤ ایک۔۔ ۔۔ ۔۔ کمینے کہیں کے۔

سلیمان: (مسکراتے ہوئے) آپ پوری ڈبیا لے سکتے ہیں لیکن میں کمینہ نہیں۔

حامد: خیر نہ سہی۔ سگریٹ تو دو۔

سلیمان: کتنی جلدی مان لیا آپ نے اسے کہتے ہیں ایمان کی کمزوری۔

حامد: (سگریٹ سُلگا کر) بتاؤ کیا کہہ رہے تھے تم۔

سلیمان: میں یہ عرض کر رہا تھا کہ میرے بتانے پر آپ کا فوری مان لینا آپ کے ایمان کی کمزوری ہے۔

حامد: آپ اوندھی کھوپڑی کے انسان معلوم ہوتے ہیں غلطی تسلیم کرنا بہادرانہ فعل ہے۔

سلیمان: آپ ایک اور غلطی تسلیم کر کے اور بہت بڑے بہادرانہ فعل کو سرانجام دیجئے کہ پاکستان میں یہ جو آپ تعلیمی فِلموں کی اہمیت پر غور فرما رہے ہیں۔ فضول ہے۔

حامد: تم دلائل سے ثابت کر دو۔ میں مان جاؤں گا۔

سلیمان: شاباش۔۔ ۔۔۔۔ ٹھہریئے پہلے میں اپنے دماغ کا ٹائپ رائٹر درست کر لوں ایسا نہ ہو گاف گم ہو جائے۔

حامد: (ہنستا ہے) ٹھیک ہو گیا۔

سلیمان: جی ہاں خدا کے فضل و کرم سے (کھانستا ہے) اچھا قبلہ فرمائیے ہمارے اس طرف جسے کبھی ہندوستان کہتے تھے فلم انڈسٹری قائم ہوئے کتنے برس ہو چکے ہیں۔

حامد: قریب قریب چالیس برس۔

سلیمان: ان قریب قریب چالیس برسوں میں اس صنعت نے آپکے خیال کے مطابق خاطر خواہ ترقی کی ہے یا نہیں۔

حامد: نہیں۔

سلیمان: کیوں؟

حامد: بہت سی وجوہات ہیں۔

سلیمان: جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ جیسے بزرگوں نے مضمون نویسی پر زور زیادہ دیا اور صحیح کاموں پر کم۔

حامد: کیا تم ذاتیات سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔

سلیمان: جی نہیں اس لیئے کہ آپ کی ذات سے پاکستان کی فلمی صنعت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں شرمائیے نہیں یہ واقعہ ہے مگر کسر صرف اتنی ہے کہ آپ دوسرے پاکستانیوں کی طرف جذبات میں الجھ کر اپنا صحیح راستہ بھول جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات آپ کا گاف گم ہو جاتا ہے۔

حامد: ہنستا ہے گاف کے پیچھے تم بہت بُری طرح پڑے ہو۔

سلیمان: پڑنا چاہیئے۔ گناہ کا پہلا حرف کمبخت۔۔ ۔۔ ۔۔ گندگی میں یہی سب سے پہلے اور جب گم ہوتا ہے۔ تو یہی پہلے گم ہوتا ہے۔

حامد: ہنستا ہے۔ آدمی ذہین ہیں آپ سلیمان صاحب!

سلیمان: آپ نے پھر غلطی کی۔۔ ۔۔ ۔۔ کوئی لفظ بنانا ہی تھا تو یوں بنایا ہوتا علم کے وزن پر علم سے عالم بنا۔ قلم سے قالم ذرا آگے چلیئے علم سے علامہ۔ فلم سے فلامہ۔

حامد: ہنستا ہے۔ تو آج سے ہو گیا۔ فلامہ اجل سلیمان۔۔ ۔۔ ۔۔

سلیمان: تسلیم عرض کرتا ہوں اور اصل موضوع سے ہٹ جانے پر معذرت طلب کرتا ہوں میں کہہ رہا تھا کہ فلمی صنعت نے یہاں بالکل خاطر خواہ ترقی نہیں کی۔ ہندوستان تقسیم ہونے کے بعد اس صنعت کا جو کچھ بھی یہاں بچا ہے ظاہر ہے کہ اس پر چھاپ ہی ہندوستانی ہے۔ اس میں جو برائی اور کمی ہے۔ ظاہر ہے (وہ بھی ہماری اپنی۔ بُرائی اور کمزوری ہے)

حامد: درست ہے۔

سلیمان: اس طرح پاکستان میں تعلیمی فلموں کی اہمیت پر غور نہیں کیا گیا۔ تو اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ سرے ہی سے اس پر غور نہیں کیا گیا۔ یہ بھی سوچنا ہے کہ اس مسئلے پر ہمیں سوچنے کا موقع ہی کہاں ملا ہے۔ ہمارے فلم سازوں نے ابھی عام تفریحی فلم ہی نہیں بنائیں تعلیمی تو بہت بعد کی چیز ہے۔

حامد: کہتے تو ٹھیک ہو۔

سلیمان: بھائی صاحب میں ہمیشہ ہی ٹھیک کہتا ہوں پر مصیبت یہ ہے کہ میرا واسطہ پڑتا ہے آپ ایسے جذباتی لوگوں سے جو کنواں کھودنے کے لیئے ہاتھوں میں ڈول لیئے گھر سے نکل پڑتے ہیں پاکستان میں آپ شوق سے تعلیمی فلم بنائیے ایک نہیں ہزار بنائیے اور ان کی اہمیت سے کسی کافر کو بھی شبہ نہیں ہو سکتا۔ مگر سب سے پہلے آپ اپنے عام تفریحی فلموں کا اسٹنڈرڈ اونچا کیجئے۔ جی نہیں سب سے پہلے آپ اپنے تماشائیوں کو فلم دیکھنے کا سلیقہ سکھائیے۔

حامد: کیا مطلب؟

سلیمان: میں عرض کرتا ہوں (عورتیں ہنستی ہوئی اندر داخل ہوتی ہیں)۔۔ ۔۔ ۔۔ تو بھئی میرا تو گاف گم ہو گیا۔

تشریف لے آئیں میری زوجہ محترمہ۔۔ ۔۔ ۔۔

حامد: میری بھی ہمراہ ہیں۔

مسرت: آداب عرض سلیمان صاحب

سلیمان: تسلیمات

عفت: حامد بھائی سلام

حامد: وعلیکم السلام

عفت: مسرت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بیٹھے کوئی سازش کر رہے تھے۔

سلیمان: جی ہاں بہت گہری سازش۔

مسرت: ہمیں شامل نہ کیجئے گا اس میں

حامد: نہیں

مسرت: کیوں

حامد: فلامہ اجل سلیمان صاحب جواب دیجئے۔

سلیمان: بتانا میں تمہارے پاس کس لیئے آیا تھا۔ ارے ہاں سر درد کی دوا لینے مسرت کو دیکھا تو ایک لحظہ کے لیئے بھول گیا کہ سر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔

حامد: (مسکراتے ہوئے) ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے منہ پہ رونق۔

مسرت: خاک بھئی رونق نہیں بہت بُرا حال ہے ان کا درد کے مارے سر پھٹا جا رہا ہے سو اس کا ایک ہی علاج ہے۔ کیوں عفی؟

عفت: بالکل۔

سلیمان: جو بیمار ہے اس کو تو علاج بتایا ہی نہیں تم نے۔

مسرت: دردِ دل دیکھئے۔

عفت: ایک درد۔ دوسرے درد کو بالکل دور کر دے گا۔

سلیمان: ایک جو یہ ساتھ ہی چمٹ گیا کمبخت

مسرت: حامد بھائی آپ ان سے کہیں کہ ہمارے ساتھ دردِ دل دیکھنے چلیں۔

حامد: چلا جائے گا۔ اگر عفی مجھے معاف رکھے۔

عفت: اجی واہ۔ آپ تو سب سے پہلے چلیں گے۔ اُ ٹھیے۔ اُ ٹھیے۔

مسرت: آپ بھی اٹھئے سلیمان صاحب۔

سلیمان: آج پہلا دن ہے مسرت بہت رش ہو گا۔

حامد: چلو سلیمان چلتے ہیں۔

عفت: دیکھا مسرت میرے شوہر تو ڈبیا میں بند رکھنے کے قابل ہیں۔

حامد: خدا کے لیئے ابھی بند کر دو مجھے۔

عفت: پہلے پکچر دیکھنے چلیں۔ بعد میں دیکھا جائے گا۔

سلیمان: لیکن میں کہتا ہوں یہ دو، بس چلی جاتیں ہمارے بغیر

عفت: بھائی جان آپ زیادہ باتیں نہ کیجئے شو کا وقت ہو رہا ہے۔

سلیمان: چلیئے جناب۔

حامد: چلو عفت۔

عفت: ٹھہریئے۔۔ ۔۔ ۔۔ آؤ مسرت۔۔ ۔۔ ۔۔ ذرا ہم۔

حامد: زیادہ بناؤ سنگار اچھا نہیں ہوتا جناب۔

عفت: آپ گاڑی نکالیے ہم ابھی آتے ہیں۔

حامد: چلو بھئی سلیمان۔

(دونوں باہر نکلتے ہیں)

سینما ہال کے باہر

مسرت: اف توبہ کتنی بھیڑ ہے۔

سلیمان: میں نے تم سے کہا تھا آج پہلا شو ہے بہت رش ہو گا۔

مسرت: تو کیا ہوا۔ حامد بھائی آپ کی طرح سست نہیں۔ یوں چٹکیوں میں ٹکٹ لے آئیں گے۔

سلیمان: غریب پس رہا ہو گا۔

عفت: وہ آ گئے

سلیمان: ذرا حلیہ ملاحظہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کشتی لڑ کے آ رہے ہیں۔

مسرت: ٹکٹ مل گئے حامد بھائی۔

حامد: جی نہیں۔ ہاؤس فل ہے۔ لیکن کتنے بد تمیز ہیں یہ لوگ۔

عفت: کیا ہوا؟

حامد: دیکھو ہیٹ کا کیا ناس مارا گیا ہے۔

(بلیک میں ٹکٹ بیچنے والے کی صدا آتی ہے)

ٹکٹ بیچنے والا: ڈھائی روپے کا تین روپے میں۔

مسرت: یہ ٹکٹ تو مل رہے ہیں

ٹکٹ والا: کتنے چاہئیں میم صاحب۔

مسرت: میں نے تم سے بات نہیں کی۔

ٹکٹ والا: اللہ رے دماغ۔ ڈھائی کا تین میں۔ ڈھائی کا تین میں۔ جو لینا چاہیئے پہلے مجھے سلام کرئے۔

مسرت: بد تمیز کہیں کا۔

سلیمان: کہیں کا نہیں۔ یہیں کا ہے۔

حامد: ہنستا ہے۔

عفت: سلیمان صاحب یہ ڈھائی کا ٹکٹ تین میں کیوں بیچ رہا تھا۔

سلیمان: تاکہ آپ جیسی میم صاحبوں کو آسانی سے مل جائے۔

حامد: ہوں۔ صریحاً بلیک مارکیٹ کر رہا ہے۔

سلیمان: آپ کچھ بھی کہہ لیجئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مارکیٹ میں پیش کر رہا ہے۔

حامد: تم ہر چیز کو اپنی ترچھی نگاہ سے دیکھو گے۔

سلیمان: آپ بھی اس نگاہ سے دیکھیں تو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ لوگ بہت بڑے نبض شناس ہیں ان کا وجود ہم شریف آدمیوں کے لیئے باعث زحمت ہے۔

مسرت: ماشاء اللہ۔

سلیمان: چشم بد دور بھی کہو۔ مذاق نہیں کر رہا حامد۔ تمہارا پچیس روپے کا فلیٹ ہیٹ میلا ہونے سے یقیناً بچ جاتا۔ اگر تم نے چپکے سے اس آدمی سے دو روپے زیادہ خرچ کر کے ٹکٹ لے لیئے ہوتے۔

مسرت: یہ تو ٹھیک ہے۔

سلیمان: کہتا ہمیشہ ٹھیک ہی ہوں لیکن آپ لوگ مانتے بہت دیر میں ہیں۔

ٹکٹ والے کو آواز دیتا ہے۔ (میاں ٹکٹ فروش)

ٹکٹ والا: (دُور سے) مجھے بُلایا ہے آپ نے

سلیمان: جی ہاں۔

حامد: ہنستا ہے۔

سلیمان: معافی چاہتا ہوں اور سلام عرض کے بعد چار ٹکٹ آپ کے مقرر کردہ کنٹرول ریٹ پر لینے کی جرأت کرتا ہوں۔

ٹکٹ والا: تم آدمی اچھے معلوم ہوتے ہو۔

سلیمان: تسلیم عرض کرتا ہوں آپ پہلے شخص ہیں جس نے بروقت داد دی ہے۔

ٹکٹ والا: (مسکراتا ہے) یہ لیجئے چار ٹکٹ آپ ڈھائی ڈھائی روپے ہی دے دیں۔

سلیمان: بڑی نوازش ہے آپ کی۔

ٹکٹ والا: نوازش ووازش کچھ نہیں۔ لیکن آپ کی میم صاحبہ سے کہہ دیجئے کہ سینما آتے وقت مزاج گھر چھوڑ آیا کریں صدا دیتے ہوئے۔ ڈھائی روپے کا ٹکٹ سوا تین روپے میں۔ ڈھائی کا سوا تین روپے میں۔ ریٹ بڑھا دیئے سرکار نے۔

(حامد اور سلیمان دونوں ہنستے ہیں)

مسرت: ذرا سرکار کی شکل دیکھئے۔

سلیمان: دردِ دل نہ دیکھئے گا۔

مسرت: ہاں سچ وقت ہو گیا ہے چلو عفت۔

(سینما ہال کے اندر)

مسرت: اف کس قدر اندھیرا ہے۔

عفت: کچھ سوجھتا ہی نہیں۔

حامد: تم میری انگلی پکڑ لو لاؤ ادھر۔

ایک عورت: معاف کیجئے گا یہ میری انگلی ہے۔

حامد: ہکلا کر م۔ م۔ معاف کیجئے گا۔

(مسرت اور عفت کی دبی دبی ہنسی)

ایک تماشائی: خاموش۔ کون ہنس رہا ہے۔

سلیمان: مجھے تو بڑی اچھی گدے دار سیٹ مل گئی ہے۔

دوسرا تماشائی: معاف کیجئے گا آپ مجھ پر تشریف فرما ہیں۔

سلیمان: (ایک دم اُٹھ کر) اوہ

(حامد، عفت اور مسرت سب کھکھلا کر ہنستے ہیں )

تماشائی: بیک وقت خاموش خاموش۔

سلیمان: (آہستہ سے) بیٹھ جائیے۔ سب۔ پکچر شروع ہونے والی ہے۔ (ایک چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آتی ہے)۔ ہجوم کا رد عمل۔ قہقہے۔ سیٹیاں خاموش کراؤ۔ خاموش کراؤ کی بلند آوازیں۔

سلیمان: پاکستان کے شیر خوار بچوں کے دل میں درد پیدا کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ انہیں شروع ہی سے فلم دکھائی جائیں نوٹ کر لو حامد۔

حامد: آہستہ وہ دیکھو پردے پر ہیروئن نمودار ہو گئی۔

سلیمان: گانا شروع کرے گی تو فوراً مان لوں گا۔

میوزک کا افتتاحی ٹکڑا ذیل کے گیت میں تحلیل ہو جاتا ہے۔

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

کیا کہوں کچھ بھی کہہ نہیں سکتی

اور کہے بن میں رہ نہیں سکتی

کیا بتاؤں کہ معاملہ کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

دل میں سو سو خیال آتے ہیں

ایسے آتے ہیں جیسے جاتے ہیں

تو ایک دم کچھ کھٹ پٹ ہوتی ہے اور گیت ایک دھچکے کے ساتھ بند ہو جاتا ہے اس پر ہجوم بہت شور برپا کرتا ہے۔ طرح طرح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں آہستہ آہستہ یہ شور ختم ہو جاتا ہے (واپس گھر میں)

مسرت: لاحول والا۔ کتنا برا انتظام ہے ان سینما گھروں میں۔

سلیمان: تم بُرا ہرگز نہیں کہہ سکتیں۔

مسرت: کیوں؟

سلیمان: جو چیز ہو اُسے اچھا بُرا کہا جا سکتا ہے۔ مگر جو چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس پر رائے زنی کا تمہیں کوئی حق حاصل نہیں۔

مسرت: چلا کر، میں آپ کی کج بحثی سے تنگ آ گئی ہوں۔

سلیمان: تم بھی حامد کی طرح ہر چیز سے جو صحیح ہو تنگ آ جاتی ہو۔

حامد: مجھے ابھی تھوڑی دیر کے لیئے بخش دو میں اپنا ہیٹ درست کر رہا ہوں۔

سلیمان: یہ قیامت تک درست نہیں ہو گا۔ ادھر تشریف لائیے پاکستان میں تعلیمی فلموں پر غور کریں۔

مسرت: ہائے اللہ یہ میری ساڑھی کو کیا ہو گیا۔

عفت: دیکھوں تو

مسرت: پورے روپے برابر جل گئی۔

سلیمان: پرانے یا نئے روپے برابر۔

مسرت: جل کر۔ میرا نقصان ہو گیا ہے اور آپ کو ہنسی سوجھتی ہے اللہ کرے اس کی دونوں آنکھیں پھوٹیں جس نے میری جارجٹ کی نئی ساڑھی غارت کی۔

سلیمان: ایک آنکھ تو رہنے دی ہوتی غریب سینما دیکھنے کا شوقین ہے۔

عفت: پکچر ہاؤس میں سگریٹ پینے کی سخت ممانعت ہونی چاہیئے۔

سلیمان: اور عورتوں کو اپنے شیر خوار بچے ساتھ لانے کی کھلی اجازت اور پان کھانے والیوں اور والوں کے لیے پیک دان مفت چاہئیں۔

حامد: مذاق برطرف ہمارے سینما گھر اچھی خاصی بک بک ہیں۔

سلیمان: کیا کہوں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا اور کہے بن میں رہ نہیں سکتا کہ سب سے پہلے تعلیمی فلم بنانے والوں۔ فلم دکھانے والوں کے لیئے فلم بنانے چاہئیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو تعلیم و تدریس کے لیئے لیکچر دینے لگیں گے۔

مسرت: چلو عفی۔ یہ ساڑھی رفو کرنے کیلئے دے آئیں۔

عفت: چلو۔ قدموں کی چاپ

سلیمان: حامد میں تم سے ایک بات کہوں۔

حامد: کہو۔

سلیمان: پاکستان میں سب سے پہلے ہمیں ایسے رفوگروں کی اہمیت پر غور کرنا چاہیئے جو ہماری معاشرت کے چاک سی دیں۔ میں سچ کہتا ہوں نئے کپڑے بنانے سے پہلے ان پھٹے پرانے کپڑوں ہی کے متعلق سوچنا چاہیئے۔ یہی کلیدِ حیات ہے۔

حامد: ٹھہرو مجھے یہ باتیں معلوم کر لینے دو۔

سلیمان: ٹھہرو۔ پہلے مجھے یہ پوچھنے دو کہ تفریحی اور تعلیمی فلموں میں تمہارے نزدیک کیا فرق ہے۔

حامد: تفریحی اور تعلیمی فلموں میں یہ فرق ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ رُک جاتا ہے

سلیمان: گاف گم ہو گیا کیا۔

حامد: اور کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ تم سوال ہی کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے کرتے ہو۔

سلیمان: سنو۔ تفریحی فلم تعلیمی بھی ہو سکتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر فلم تعلیمی فلم ہوتا ہے۔

حامد: میرا مطلب بالکل یہی تھا۔ تم خواہ مخواہ بوکھلا دیتے ہو۔

سلیمان: ایسی بوکھلاہٹ صحت مند ہے کیونکہ تم فوراً سمجھ جاتے ہو۔ اب ایک پار پھر بوکھلا جاؤ اور سمجھو کہ ہمارے فلمساز اپنے فلم اس وقت تک نہیں بنائیں گے جب تک حکومت انہیں مجبور نہیں کرئے گی۔

حامد: مجبوری میں انسان اچھا کام کیسے کر سکتا ہے۔

سلیمان: بھائی جان فلمی دنیا ایک بالکل ہی دوسری دنیا ہے۔ پچھلے دنوں دوسری جنگ عظیم کے دوران میں سرکار انگریز نے تمام بڑے بڑے فلمسازوں کے نام احکام جاری کیئے کہ وہ ایک ایک پروپیگنڈا فلم بھی تیار کریں یہ احکام پا کر فلمساز بہت سٹپٹائے۔ فرار کا کوئی راستہ نہ ملا تو انہیں مجبوراً پروپیگنڈا اور تفریحی فلموں کو سمو کر ایسے فلم تیار کرنے ہی پڑے جن میں سے اکثر کامیاب ہوئے۔

حامد: گنتی کے صرف تین چار فلم ایسے تھے۔

سلیمان: کچھ بھی ہو مگر وہ چیز تو دور ہو گئی جس سے ہمارے فلمسازوں کو ڈر لگتا تھا ان کو خوف تو نہ رہا کہ ایسے فلم جن کی پبلک عادی نہیں بہت بڑی فیل ہوں گی۔

حامد: یہ تو ہے

سلیمان: اگر یہ ہے تو ہمارے ہاں یقیناً ایسے تعلیمی فلم بن سکتے ہیں جو آمدن کا بھی ذریعہ ہوں۔

حامد: ٹھہرو مجھے نوٹ کر لینے دو۔

سلیمان: کر لو

حامد: ایک دم چِلا کر۔ ارے میرا فاؤنٹن پین کدھر گیا۔ باہر کی اس جیب میں تھا اُڑا لے گیا کوئی سنیما میں۔

سلیمان: دیکھو یہ تو ہے۔

حامد: یہ تو ہے لیکن تمہارے پاس کیسے آیا۔

سلیمان: بجلی فیل ہوئی اور گڑ بڑ مچی تو میں نے دیکھا ایک صاحب جو از قسم جیب تراش تھے۔ بڑے اطمینان سے تمہارے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے شغل فرما رہے تھے۔

حامد: تم اندھیرے میں بھی دیکھ لیتے ہو۔

سلیمان: میری آنکھیں بلی کی ہیں جیب میں ہاتھ ڈال کر گھڑی نکالتا ہے۔ یہ لو اپنی گھڑی لے لو۔

حامد: گھڑی۔ ہاتھ میں لے کر یہ گھڑی تو میری نہیں۔

سلیمان: تمہاری نہیں۔ تو وہ غریب لُٹ گیا۔

حامد: کون۔

سلیمان: وہی جو تمہارا پن اُڑانا چاہتا تھا۔ (ہنستا ہے) کمال ہو گیا جب میں نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر تمہارا پن اور یہ گھڑی نکالی تو اس غریب نے ڈر کے مارے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ کی بہر حال اب یہ سوچنا ہے کہ گھڑی کا کیا کیا جائے۔

حامد: یہ واقعی سوچنے کی بات ہے۔

سلیمان: فی الحال اپنی جیب میں رکھتا ہوں اور اسے ایمانداری سے وقت بتانے کا عادی کرتا ہوں اس کے بعد سوچیں گے کہ کس آدمی کے گھر ڈالا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شراب

 

 

’’آپ کے منہ سے بُو کیوں آ رہی ہے‘‘

’’کیسی بو؟‘‘

’’جیسی پہلے آیا کرتی تھی مجھے بنانے کی کوشش نہ کیجیے‘‘

’’لاحول ولا، تم بنی بنائی ہو، تمھیں کون بنا سکتا ہے‘‘

’’آپ بات ٹال کیوں رہے ہیں؟

’’میں نے تو آج تک تمہاری کوئی بات نہیں ٹالی‘‘

’’لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آ گیا ہے لیکن آپ کو کچھ فکر ہی نہیں‘‘

’’یہ تم نے اچھی کہی۔ تمہارے پاس کم سے کم بارہ ساڑھیاں پندرہ قمیضیں سولہ بلاؤز دس شلواریں اور پانچ بنیانیں ہوں گی اور تم کہتی ہو کہ لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ تم عورتوں کی فطرت ہی یہی ہے کہ ہمیشہ ناشکری رہتی ہو‘‘۔

’’آپ بس مجھے ہر وقت یہی طعنہ دیتے ہیں۔ بتائیے ان پچھلے چھے مہینوں میں آپ نے مجھے کتنا روپیہ دیا ہے‘‘۔

حساب تو میرے پاس نہیں لیکن اندازاً چھ سات ہزار روپے ہوں گے‘‘۔

’’چھ سات ہزار؟ آپ نے ان میں سے کتنے لیے‘‘

’’یہ مجھے یاد نہیں‘‘

’’آپ کو بھلا یہ کب یاد رہے گا۔ چور اچکے ہیں اول درجے کے۔

’’یہ تمہاری بڑی مہربانی ہے کہ تم نے مجھے اوّل درجے کا رتبہ بخشا۔ بس اب چپ رہو اور سو جاؤ‘‘

’’سو جاؤں؟‘‘۔ نیند کس کم بخت کو آئے گی۔ جس کا شوہر ایسا گیا گزرا ہو۔ آپ کو کم از کم میرا نہیں تو اپنی ان بچیوں ہی کا کچھ خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے تن پر بھی کپڑے نہیں‘‘۔

’’ننگی پھرتی ہیں۔ ابھی دس روز ہوئے میں نے تمھیں ایک تھان پوپلین کا لا کر دیا تھا۔ اس سے تم نے تینوں بچیوں کے معلوم نہیں کتنے فراک بنائے۔ اب کہتی ہو کہ ان کے تن پر کپڑے ہی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ غلط بیانی کیوں ہوتی ہے۔ کل کو تم یہ شکایت کرو گی کہ تمہارے پاس کوئی جوتا کوئی سینڈل نہیں۔ حالانکہ تمہاری الماری میں کئی جوتے اور سینڈلیں پڑی ہیں۔ چار روز ہوئے تمہارے لیے واکنگ شو لے کر آیا تھا۔‘‘

’’بڑا احسان کیا تھا آپ نے مجھ پر۔‘‘

’’احسان کی بات نہیں۔ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔‘‘

’’آپ حقیقت بیان کر رہے ہیں، تو اس حقیقت کا انکشاف بھی کر دیجیے کہ آج آپ کے منہ سے بو کیوں آ رہی ہے‘‘

’’کیسی بو‘‘

’’اوہ تو تمہارا مطلب ہے، میں نے شراب پی ہے‘‘

’’مطلب وطلب میں نہیں جانتی، جو بو آپ کے منہ سے میری ناک تک پہنچ رہی ہے صریحاً اسی خبیث چیز کی ہے‘‘

’’خواہ مخواہ تو کوئی شک نہیں کرتا۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔‘‘

’’بھئی کسی کی بھی قسم لے لو۔ میں نے نہیں پی۔ نہیں پی۔ نہیں پی‘‘

’’آپ کا اُکھڑا اُکھڑا لہجہ چغلی کھا رہا ہے۔‘‘

’’اس لہجے کو جھونکو جہنم میں۔ میں نے نہیں پی!‘‘

’’خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ آپ نے کم از کم آدھی بوتل پی ہے۔‘‘

’’یہ اندازہ تم نے کیسے لگایا؟‘‘

’’پندرہ برس ہو گئے ہیں آپ کے ساتھ زندگی گزارتے۔ کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھ سکتی۔ آپ کو یاد ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے ٹیلی فون کیا تھا اور میں نے فوراً آپ کی آواز سے اندازہ لگا کر آپ سے کہا تھا کہ اس وقت آپ چار پیگ پیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ تھا؟‘‘

’’نہیں اُس دن میں نے واقعی چار پیگ پیے تھے۔‘‘

’’اب میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ نے آدھی بوتل پی رکھی ہے۔ اس لیے آپ ہوش میں ہیں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔‘‘

’’منطق ونطق میں نہیں جانتی۔ میں نے آپ کے ساتھ پندرہ برس گزارے ہیں میں اس دوران میں یہی دیکھتی رہی ہوں کہ آپ دو تین پیگ پئیں تو بہک جاتے ہیں اگر پوری بوتل یا اس کا نصف چڑھا جائیں تو ہوش مند ہو جاتے ہیں‘‘۔

’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی میں پیوں تو آدھے سے کم نہ پیوں‘‘

’’آپ کو تو مجھے ایک روز زہر پلانا پڑے گی تاکہ یہ قصہ ہی ختم ہو جائے‘‘۔

’’کون سا قصہ۔ زُلیخا کا؟‘‘

’’زلیخا کی ایسی کی تیسی میرا نام کچھ اور ہے۔ غالباً آپ اس نشے کے عالم میں بھول گئے ہوں گے‘‘۔

’’میں تمہارا نام کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘

’’بتائیے کیا نام ہے میرا؟‘‘

’’تمہارا نام تمہارا نام؟ لیکن نام میں کیا پڑا ہے چلو آج سے زلیخا ہی سہی‘‘۔

’’اور آپ یوسف!‘‘

’’قسم خدا کی، آج تم نے طبیعت صاف کر دی میری۔ لو یہ سو روپے کا نوٹ۔ آج اپنے لیے کوئی چیز خرید لو۔‘‘

’’یہ نوٹ آپ پاس ہی رکھیے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ایسے لمحات میں بہت فیاض ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘

’’کون سے لمحات میں؟‘‘

’’یہی لمحات جب آپ نے پی رکھی ہو‘‘۔

’’یہ پی پی کی رٹ تم نے کیا لگا رکھی ہے تم سے سو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ پچھلے چھے مہینوں سے میں نے ایک قطرہ بھی نہیں پیا لیکن تم مانتی ہی نہیں۔ اب اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

’’اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنا علاج کرائیے۔ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیجیے تاکہ وہ آپ کی اس بد عادت کو دُور کر سکے۔ آپ کبھی غور و فکر کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی صحت کتنی گر چکی ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کے رہ گئے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہتی ہوں۔‘‘

’’صرف ایک دو منٹ رونا کافی ہے، ساری رات رونے کی کیا ضرورت ہے اور پھر اتنا پانی آنکھوں میں کہاں سے آ جاتا ہے جو ساری رات تکیوں کوسیراب کرتا ہے۔‘‘

’’آپ مجھ سے مذاق نہ کیجیے‘‘

’’میں مذاق نہیں کر رہا۔ ساری رات کوئی عورت، کوئی مرد رو نہیں سکتا۔ البتہ اونٹ یہ سلسلہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے کوہان میں کافی پانی جمع ہوتا ہے، جو آنسو بن بن کے ان کی آنکھوں سے ٹپک سکتا ہے۔ مگر مچھ ہیں، جن کے آنسو مشہور ہیں۔ یہ پانی میں رہتے ہیں اس لیے ان کو متواثر پانی بہانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ میں آبی حیوان یا جانور نہیں، اور نہ تم ہو‘‘

’’آپ تو فلسفہ بگھارنے لگتے ہیں‘‘۔

’’فلسفہ کوئی اور چیز ہے، جس کے متعلق تمہارے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہو گا۔ میں صرف ایسی باتیں بیان کر رہا تھا جو عام آدمی سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے، مگر افسوس ہے کہ تم نے انھیں نہ سمجھا اور ان پر فلسفے کا لیبل لگا دیا۔‘‘

’’میں جاہل ہوں۔ بیوقوف ہوں۔ ان پڑھ ہوں۔ مجھے یہ سب کچھ تسلیم ہے۔ جانے میری بلا کہ فلسفہ کیا ہے؟ میں تو صرف اتنا پوچھنا چاہتی تھی کہ آپ کے منہ سے وہ گندی گندی بو کیوں آ رہی ہے؟‘‘

’’میں کیا جانوں۔ ہو سکتا ہے، میں نے آج دانت صاف نہ کیے ہوں‘‘۔

’’غلط ہے ہم دونوں نے اکٹھے صبح غسل خانے میں دانتوں پر برش کیا تھا۔ ٹوتھ پیسٹ ختم ہو گئی تھی۔ میں نے فوراً نوکر کو بھیجا اور وہ کولی نوس لے کر آیا۔‘‘

’’ہاں، ہاں مجھے یاد آیا‘‘

’’آپ ہوش ہی میں نہیں۔ آپ کی یاد کو اب کب تک جگاتی رہوں گی۔‘‘

’’یاد کو چھوڑو کل صبح تم ٹھیک پانچ بجے جگا دینا۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘

’’ضروری کام کیا ہے آپ کو؟ شراب کی بوتل کا بندوبست کرنا ہو گا۔‘‘

’’بھئی، مدت ہوئی میں اس چیز سے نا آشنا ہو چکا ہوں‘‘۔

’’آج تو آپ پوری طرح آشنا ہو کے آئے ہیں‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے۔ میں تمہاری قسم کھا کے‘‘

’’میری قسم آپ نہ کھائیے۔ آپ کیسی بھی قسم کھائیں، مجھے آپ کی کسی بات پر یقین نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ شراب پینے کے بعد آپ کی کوئی بات قابل اعتماد نہیں ہوتی۔‘‘

’’یعنی تم ابھی‘‘۔

’’آپ کو یہ ہچکی شروع کیوں ہو گئی۔‘‘

’’ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ شاید ڈاکٹروں کو بھی نہ ہو۔‘‘

’’پانی لاؤں؟‘‘

’’نہیں اندر میری الماری میں گلیسرین پڑی ہے، وہ لے آؤ‘‘۔

’’اس سے کیا ہو گا۔‘‘

’’وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔‘‘

’’آپ نشے میں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گلیسرین کا استعمال غلط ہو جائے‘‘

’’جاؤ۔ اُس کے چار قطرے فوراً ہچکی بند کر دیں گے۔‘‘

’’لیکن آپ کے منہ سے یہ بو کس چیز کی آ رہی ہے۔‘‘

’’میرے پیچھے کیو کیو کیوں پڑی ہو؟ گلیسرین لاؤ۔‘‘

’’لاتی ہوں۔ یہ سب شراب پینے کی وجہ سے ہے۔‘‘

’’کس کم بخت نے پی ہے۔ اگر پی ہوتی تو یہ حال نہ ہوتا‘‘۔

’’لے آئی ہو گلیسرین‘‘۔

’’جی نہیں، وہاں آپ کی بوتل پڑی تھی۔ اُس میں سے یہ تھوڑی سی گلاس میں ڈال کر لے آئی ہوں۔ پانی کا گلاس بھی ساتھ ہے۔ آپ خود جتنا چاہیں اس میں ملا لیجیے۔ میرا خیال ہے گلیسرین سے آپ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچے گا جتنا اس چیز سے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تین میں، نہ تیرہ میں

 

 

’’میں تین میں ہوں نہ تیرہ میں، نہ ستلی کی گرہ میں‘‘

’’اب تم نے اُردو کے محاورے بھی سیکھ لیے۔‘‘

’’آپ میرا مذاق کیوں اُڑاتے ہیں۔ اردو میری مادری زبان ہے‘‘

’’پدری کیا تھی؟ تمہارے والد بزرگوار تو ٹھیٹھ پنجابی تھے۔ اللہ اُنھیں جنت نصیب کرے بڑے مرنجاں مرنج بزرگ تھے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اتنی دیر لکھنؤ میں رہے، وہاں پچیس برس اُردو بولتے رہے لیکن مجھ سے ہمیشہ انھوں نے پنجابی ہی میں گفتگو کی۔ کہا کرتے تھے اُردو بولتے بولتے میرے جبڑے تھک گئے ہیں اب ان میں کوئی سکت باقی نہیں رہی۔‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں‘‘

’’میں تو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں۔ کوئی بات بھی تم سے کہوں تم یہی سمجھو گی کہ جھوٹ ہے حالانکہ جھوٹ بولنا عورت کی فطرت ہے۔‘‘

’’آپ عورت ذات پر ایسے رکیک حملے نہ کیا کریں۔ مجھے بڑی ہی کوفت ہوتی ہے۔‘‘

’’بہت بہتر آئندہ محتاط رہنے کی کوشش کروں گا۔‘‘

’’صرف کوشش کریں گے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ اپنی زبان ایسے معاملوں میں قطعی طور پر بند رکھیں گے۔‘‘

’’یہ وعدہ میں نہیں کر سکتا۔ بندہ بشر ہے۔ ہو سکتا ہے سہواً میرے منہ سے کچھ نکل جائے جسے تم حملہ قرار دے دو۔‘‘

’’میں یہ سوچتی ہوں آپ آپ کس قسم کے شوہر ہیں بس ہر بات کو مذاق میں اُڑا دیتے ہیں۔ پرسوں میں نے آپ سے کہا کہ منجھلی کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے تو آپ نے مسکرا کر کہا فکر نہ کرو ٹھیک ہو جائے گی۔ لڑکا ہوتا تو فکر و تردّد کی بات تھی، لڑکیاں نہیں مرا کرتیں۔‘‘

’’میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ سب سے چھوٹی اُوپر کی منزل سے نیچے گری اور بچ گئی۔ دو مرتبہ اسے ہیضہ ہوا، چیچک نکلی، نمونیا ہوا مگر وہ زندہ ہے اور اپنی بڑی بہنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تندرست ہے۔‘‘

’’آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آتی‘‘

’’یہ میری منطق نہیں میری جان قدرت کو یہی منظور ہے کہ مرد دُنیا میں کم ہو جائیں اور عورتیں زیادہ۔ تمھارا پہلا بچہ جو لڑکا تھا، اسے معمولی سا زُکام ہوا اور وہ دوسرے دن اللہ کو پیارا ہو گیا تمھاری بڑی لڑکی کو تو تین بار ٹائیفائیڈ ہوا لیکن وہ زندہ ہے۔ میرا خیال ہے وہ وقت آنے والا ہے جب اس دنیا میں کوئی مرد نہیں رہے گا، صرف عورتیں ہی عورتیں ہوں گی۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ مردوں کے بغیر تم عورتوں کا گزارا کیسے ہو گا۔‘‘

’’یعنی جیسے آپ لوگوں کے بغیر ہمارا گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم بہت خوش رہیں گی مردوں کا خاتمہ ہو گیا تو یہ سمجھیے کہ ہمارے تمام دُکھ درد کا خاتمہ ہو گیا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔‘‘

’’تم آج محاوروں کو بہت استعمال کر رہی ہو۔‘‘

’’آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘

’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض ہو بھی کیا سکتا ہے۔ محاورے میری املاک نہیں میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ تم آج محاورے زیادہ استعمال کر رہی ہو۔‘‘

’’دو ہی تو کیے ہیں، یہ زیادہ ہیں کیا؟‘‘

’’زیادہ تو نہیں لیکن اندیشہ ہے کہ تم دس پندرہ اور مجھ پر ضرور لڑھکا دو گی۔‘‘

’’تھوتھا چنا باجے گھنا آج اتنا کیوں گرج رہے ہو۔ آپ کو معلوم نہیں کہ جو گرجتے ہیں برستے نہیں۔‘‘

’’دو محاورے اور آ گئے۔ خدا کے لیے ان کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ آج ناراضی کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’ناراضی کا باعث آپ کا وجود ہے۔ مجھے آپ کی ہر حرکت بُری معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’میں اگر تم سے پیار محبت کی باتیں کرتا ہوں تو وہ بھی تمھیں بُری لگتی ہیں۔‘‘

’’مجھے آپ کی پیار محبت کی باتیں نہیں چاہئیں۔‘‘

’’تو اور کیا چاہیے‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے میں کیا جانوں شوہر کو اپنی بیوی کو سمجھنا چاہیے وہ کیا چاہتی ہے، کیا نہیں چاہتی۔ اس کو اس کا علم پوری طرح ہونا چاہیے آپ تو بالکل غافل ہیں۔‘‘

’’میں کوئی قیافہ گیر، رمز شناس اور نفسیات کا ماہر نہیں کہ تمھیں پوری طرح سمجھ سکوں۔ اور تمھارے دماغ کے تلوّن کی ہر سلوٹ کے معنی نکال سکوں میں اس معاملے میں گدھا ہوں۔‘‘

’’آپ اونٹ ہیں اونٹ‘‘

’’کس لحاظ سے؟‘‘

’’اس لیے کہ آپ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔‘‘

’’اچھا بھلا ہوں۔ میری کل سیدھی ہے۔ ابھی تم نے مجھ سے پرسوں کہا تھا کہ آپ چالیس برس کے ہونے کے باوجود ماشاء اللہ جوان دکھائی دیتے ہیں۔ تم نے میرے بدن کی بھی بہت تعریف کی تھی۔‘‘

’’وہ تو میں نے مذاق کیا تھا۔ ورنہ آپ تو ایسا جھڑوس ہو چکے ہیں۔‘‘

’’دیکھو ایسی بد زبانی مجھے پسند نہیں تم بعض اوقات ایسی بکواس شروع کر دیتی ہو، جو کوئی شریف عورت نہیں کر سکتی۔‘‘

’’تو گویا میں شریف نہیں فاحشہ ہوں بازاری عورت ہوں۔ میں نے آپ کو کیا گالی دی جس پر آپ کو اتنا طیش آ گیا کہ آپ نے مجھ کو بد زبان کہہ دیا۔‘‘

’’بھئی، میں اب جھڑوس ہو چکا ہوں۔ مجھ سے بات نہ کرو۔‘‘

’’میں آپ سے بات نہ کروں گی تو اور کس سے کروں گی۔‘‘

’’میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں تم اپنے بھنگی سے گفتگو کر سکتی ہو۔ اس سے یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ میں جھڑوس ہو گیا ہوں۔‘‘

’’آپ کو شرم نہیں آتی۔ آپ نے یہ کیسی بات کہی ہے؟‘‘

’’بھنگی اور مجھ میں کیا فرق ہے! جس طرح تم اس غریب سے پیش آتی ہو، اسی طرح کا سلوک مجھ سے کرتی ہو۔‘‘

’’بڑے بیچارے غریب بنے پھرتے ہیں اور اب مجھ سے کہتے ہیں کہ میں بھنگی کے ساتھ بات کیا کروں۔ غیرت کا مادہ تو آپ میں رہا ہی نہیں۔‘‘

’’میں نر ہوں۔ مادہ تم ہو۔‘‘

’’اس سے کیا ہوا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد عورتوں کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں۔ ہم میں کیا برائی ہے۔ کیا عیب ہے۔ یہی نا کہ ہمارے والدین نے غلطی سے آپ کے ساتھ میری شادی کر دی۔‘‘

’’شادی تو آخر کسی جگہ ہونی ہی تھی۔ تم کیا کرتیں اگر نہ ہوتی؟‘‘

’’میں بہت خوش رہتی۔ شادی میں آخر پڑا ہی کیا ہے؟‘‘

’’کیا پڑا ہے خاک! میں تو کنواری رہتی تو اچھا تھا۔ اس بک بک میں تو نہ پڑتی۔‘‘

’’کس بک بک میں؟‘‘

’’یہی جو آئے دن ہوتی رہتی ہے۔‘‘

’’نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ روز روز کی چخ صرف تمہاری وجہ سے ہوتی ہے ورنہ میں نے ان پندرہ برسوں میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کہ تمہاری خدمت کروں۔‘‘

’’خدمت؟‘‘

’’خدمت نہ کہو، میں اپنا فرض ادا کرتا رہا ہوں۔ خاوند کو یہی کرنا چاہیے۔ تمھیں مجھ سے کس بات کا گلہ ہے؟‘‘

’’ہزار گلے ہیں، ایک ہو تو بتاؤں‘‘

’’ان ہزار گلوں میں سے ایک گلہ تو مجھے بتا دو تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں۔‘‘

’’آپ کی اصلاح اب ہو چکی۔ آپ تو ازل سے بگڑے ہوئے ہیں۔‘‘

’’یہ اطلاع تمھیں کہاں سے ملی تھی؟ میں تو اس سے بالکل بے خبر ہوں۔‘‘

’’آپ کی بے خبری کا تو یہ عالم ہے کہ آپ کو خود اپنی خبر نہیں ہوتی۔‘‘

’’غالب کا ایک شعر ہے:

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی!‘‘

’’غالب جائے جہنم میں اس وقت تو آپ مجھ پر غالب ہیں۔‘‘

’’لاحول ولا۔ میں تو جھڑوس ہو چکا ہوں۔ ازل سے بگڑا ہوا ہوں۔‘‘

’’آپ میری ہر بات کا مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘

’’میں یہ جرأت کیسے کر سکتا ہوں مجھ میں اتنی طاقت ہے نہ مجال لیکن میں کیا پوچھ سکتا ہوں کہ آج آپ کی ناراضی کا باعث کیا ہے؟‘‘

’’میری ناراضگی کا باعث کیا ہو سکتا ہے، یہی کہ آپ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آپ خود سوچیے۔ بڑے سمجھدار ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں؟‘‘

’’میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے کانوں کے لیے ’ٹوپس‘ لے کر آؤں گا۔ مگر میں جس دوکان میں گیا وہاں مجھے دل پسند ٹوپس نہ ملے۔ تم نے مجھ سے کہا تھا کہ لٹھے کا ایک تھان لے کر آؤ۔ میں نے شہر بھر میں ہر جگہ کوشش کی مگر ناکام رہا۔ تمہارے ریشمی کپڑے جو لانڈری میں دھُلنے کے لیے گئے تھے۔ میں ان کو وصول کرنے گیا۔ مگر لانڈری والے نے کہا کہ اُس کے دھوبی بیمار ہیں، اس لیے دو دن انتظار کیجیے۔ تمہاری گھڑی جو خراب ہو گئی تھی۔ اس کے متعلق بھی میں نے پوچھا۔ گھڑی ساز نے کہا کہ اس کا ایک پرزہ بنانا پڑے گا جو وہ بنا رہا ہے۔‘‘

’’آپ بہانے بنانا خوب جانتے ہیں۔‘‘

’’خدا کی قسم سچ کہہ رہا ہوں تمہاری قمیضیں کل درزی سے آ جائیں گی، اس کو میں نے بہت ڈانٹا کہ تم نے اتنی دیر کیوں کر دی۔ اس نے کہا، حضور کل لے جائیے گا۔‘‘

’’قمیصیں جائیں بھاڑ میں۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’آپ کو تو کچھ ہوش ہی نہیں‘‘

’’میں کیا بے ہوش رہتا ہوں تمھیں جو کہنا ہے کہہ ڈالو۔ اتنی لمبی چوڑی تمہید کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’ضرورت اس لیے تھی کہ آپ پر کچھ اثر نہ ہوتا اگر میں نے ایک جملے میں اپنا مدعا بیان کیا ہوتا۔‘‘

’’تو از راہِ کرم اب تم ایک جملے میں اپنا مدعا بیان کر دو تاکہ میری خلاصی ہو۔‘‘

’’میری داڑھ اتنی تکلیف دے رہی ہے کئی مرتبہ سے آپ سے کہہ چکی ہوں کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلیے مجھے، مگر‘‘

’’ابھی چلو! داڑھ کیا، تم چاہو تو میں سب دانت نکلوا دوں گا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

سگریٹ اور فاؤنٹین پن

 

 

’’میرا پارکر ففٹی ون کا قلم کہاں گیا۔‘‘

’’جانے میری بلا‘‘

’’میں نے صبح دیکھا کہ تم اُس سے کسی کو خط لکھ رہی تھیں اب انکار کر رہی ہو‘‘

’’میں نے خط لکھا تھا مگر اب مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں غارت ہو گیا۔‘‘

’’یہاں تو آئے دن کوئی نہ کوئی چیز غارت ہو تی ہی رہتی ہے مینٹل پیس پر آج سے دس روز ہوئے میں نے اپنی گھڑی رکھی صرف اس لیے کہ میری کلائی پر چند پھنسیاں نکل آئی تھیں دوسرے دن دیکھا وہ غائب تھی۔‘‘

’’کیا میں نے چرا لی تھی۔‘‘

’’میں نے یہ کب کہا سوال تو یہ ہے کہ وہ گئی کہاں تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں نے یہ گھڑی وہیں رکھی ہے اُس کے ساتھ ہی دس روپے آٹھ آنے تھے وہ تو رہے لیکن گھڑی جس کی قیمت دو سو پچھتر روپے تھی وہ غائب ہو گئی۔ تم پر میں نے چوری کا الزام کب لگایا؟‘‘

’’ایک گھڑی آپ کی پہلے بھی گم ہو گئی تھی۔‘‘

’’ہاں‘‘

’’میں تو یہ کہتی ہوں کہ آپ نے خود انھیں بیچ کھایا ہے‘‘

’’بیگم تم ایسی بے ہُودہ باتیں نہ کیا کرو مجھے وہ دونوں گھڑیاں بہت عزیز تھیں۔ جس کے علاوہ ان کو بیچنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا تم جانتی ہو کہ میری آمدنی اللہ کے فضل سے کافی ہے۔ بینک میں اس وقت میرے دس ہزار سے کچھ اُوپر روپے جمع ہیں گھڑیاں بیچنے کی ضرورت مجھے کیسے پیش آ سکتی تھی۔‘‘

’’کسی دوست کو دے دی ہو گی‘‘

’’کیوں مجھے اِن کی ضرورت نہیں تھی۔ میں تو گھڑی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔‘‘

’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسا چھکڑا ہوں جس میں کوئی پہیہ نہیں وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا گھر میں کلاک ہے مگر وہ تمہاری طرح نازک مزاج ہے ذرا موسم بدلے تو جناب بند ہو جاتے ہیں پھر جب موسم ان کے مزاج کے موافق ہو تو چلنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

’’یعنی میں کلاک ہوں‘‘

’’میں نے صرف تشبیہ کے طور پر کہا تھا۔ کلاک تو بہت کام کی چیز ہے‘‘

’’اور میں کسی کام کی چیز نہیں۔ شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے۔‘‘

’’میں نے تو صرف مذاق کے طور پر یہ کہہ دیا تھا تم خواہ مخواہ ناراض ہو گئی ہو۔‘‘

’’میں آج تک کبھی آپ سے خواہ مخواہ ناراض ہوئی ہوں آپ خود ایسے موقعے دیتے ہیں کہ مجھے ناراض ہونا پڑتا ہے۔‘‘

’’تو چلیے اب صلح ہو جائے۔‘‘

’’صلح ولح کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی ان برسوں میں آپ سے میں پندرہ ہزار مرتبہ صلح صفائی کر چکی ہوں مگر نتیجہ کیا نکلا ہے۔ وہی ڈھاک کے تین پات‘‘

’’ڈھاک کے تین پاتوں کو چھوڑو تم مجھے میرا پارکر قلم لا کے دے دو مجھے چند بڑے ضروری خط لکھنے ہیں۔‘‘

’’مجھے کیا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ لے گیا ہو گا کوئی اُٹھا کر اب میں ہر چیز کا دھیان تو نہیں رکھ سکتی۔‘‘

’’تو پھر تم کس مرض کی دوا ہو‘‘

’’میں نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ آپ میری زندگی کا سب سے بڑا روگ ہیں‘‘

’’تو یہ روگ دُور کرو ہر روگ کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہوتا ہے‘‘

’’خدا ہی بہتر کرے گا یہ روگ یہ کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دُور ہونے والا نہیں‘‘

’’اگر تمہاری یہی خواہش ہے کہ مر جاؤں تو میں اس کے لیے تیار ہوں میرے پاس اتفاق سے اس وقت قاتل زہر موجود ہے میں کھا کر مر جاتا ہوں۔‘‘

’’مر جائیے۔‘‘

’’اِس کے لیے تو میں تیار ہوں تاکہ روز روز کی بک بک اور جھک جھک ختم ہو جائے۔‘‘

’’آپ تو چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے چھٹکارا ملے۔ بیوی بچے جائیں بھاڑ میں آپ آرام سے قبر میں سوتے رہیں لیکن میں آپ سے کہے دیتی ہوں کہ وہاں کا عذاب یہاں کے عذاب سے ہزار گنا زیادہ ہو گا۔‘‘

’’ہوا کرے میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر قائم ہوں۔‘‘

’’آپ کبھی اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہے‘‘

’’یہ سب جھوٹ ہے میں جب کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو اس پر قائم رہتا ہوں ابھی پچھلے دنوں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں سگریٹ نہیں پیوں گا چنانچہ اب تک اس پر قائم ہوں‘‘

’’پاخانے میں سگریٹ کے ٹکڑے کہاں سے آتے ہیں۔‘‘

’’مجھے کیا معلوم تم پیتی ہو گی۔‘‘

’’میں! مجھے تو اس چیز سے سخت نفرت ہے‘‘

’’ہو گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاخانہ بھی کوئی ایسی معقول جگہ ہے جہاں پر سگریٹ پیے جائیں۔‘‘

’’چوری چھپے جو پینا ہوا پاخانے کے علاوہ اور موزوں و مناسب جگہ کیا ہو سکتی ہے آپ میرے ساتھ فراڈ نہیں کر سکتے۔ میں آپ کی رگ رگ کو پہچانتی ہوں۔‘‘

’’یہ تم نے مجھ سے آج ہی کہا کہ میں پاخانے میں چھپ چھپ کر سگریٹ پیتا ہوں‘‘

’’میں نے اس لیے اس کا ذکر آپ سے نہیں کیا تھا۔ آپ چونکہ تمباکو کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے سگریٹ نوشی آپ ترک نہیں کر سکتے لیکن یہ بہر حال بہتر ہے کہ آپ دو ایک سگریٹ دن میں پی لیتے ہیں جہاں آپ پچاس کے قریب پھونکتے تھے۔‘‘

’’میں نے ڈھائی برس میں ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ بھنگی پیتا ہو گا۔‘‘

’’بھنگی گولڈ فلیک اور کریون اے نہیں پی سکتا۔‘‘

’’حیرت ہے‘‘

’’کس بات کی حیرت تو مجھے ہے کہ آپ صاف انکار کر رہے ہیں مجھے بنا رہے ہیں‘‘

’’نہیں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سگریٹ وہاں کون پیتا ہے‘‘

’’آپ کے سوا اور کون پی سکتا ہے مجھے تو اس کے دھُوئیں سے کھانسی ہو جاتی ہے مجھے تو اس سے سخت نفرت ہے معلوم نہیں آپ لوگ کس طرح دھُواں اپنے اندر کھینچتے ہو۔‘‘

’’خیر اس کو چھوڑو میرا پارکر قلم مجھے دو‘‘

’’میرے پاس نہیں ہے‘‘

’’تمہارے پاس نہیں ہے تو کیا میرے پاس ہے آج صبح تم خدا معلوم کسے خط لکھ رہی تھیں تمہاری انگلیوں میں میرا ہی قلم تھا۔‘‘

’’تھا۔ لیکن مجھے کیا معلوم کہاں گیا۔ میں نے آپ کے میز پر رکھا ہو گا۔ اور آپ نے اُٹھا کر کسی دوست کو دے دیا ہو گا۔ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘

’’دیکھو بیگم میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قلم میں نے کسی دوست کو نہیں دیا ہو سکتا ہے کہ تم نے اپنی کسی سہیلی کو دے دیا ہو‘‘

’’میں کیوں اتنی قیمتی چیز کسی سہیلی کو دینے لگی۔ وہ تو آپ ہیں کہ ہزاروں اپنے دوستوں میں لُٹا دیتے ہیں۔‘‘

’’اب سوال یہ ہے کہ وہ قلم ہے کہاں مجھے چند ضروری خط لکھنے ہیں جاؤ میری جان ذرا تھوڑی سی تکلیف کرو ممکن ہے ڈھونڈنے سے مل جائے۔‘‘

’’نہیں ملے گا آپ فضول مجھے تکلیف دینا چاہتے ہیں‘‘

’’تو ایسا کرو دوات اور پن ہولڈر لے آؤ۔‘‘

’’دوات تو صبح آپ کی بچی نے توڑ دی پن ہولڈر بھانجے کے بیٹے نے‘‘

’’اتنے پن ہولڈر تھے کہاں گئے۔‘‘

’’آپ ہی استعمال کرتے ہیں‘‘

’’میں نے آج تک پن ہولڈر کبھی استعمال نہیں کیا کبھی کبھی تم کیا کرتی ہو۔‘‘

’’آپ کی بچیاں آفت کی پتلیاں ہیں وہی توڑ پھوڑ کے پھینک دیتی ہوں گی۔‘‘

’’تم دھیان کیوں نہیں دیتیں‘‘

’’کس کس چیز کا دھیان رکھوں مجھے گھر کے کام کاج سے فرصت نہیں ہے‘‘

’’اسی لیے تو میری دو گھڑیاں غائب ہو گئیں۔ جب دیکھو لیٹی رہتی ہو۔ خدا معلوم گھر کا کام کاج لیٹے لیٹے کرتی ہو۔‘‘

’’گھر کا سارا کام تو آپ کرتے ہیں‘‘

’’میں اس کا دعویٰ نہیں کرتا بہر حال جو کچھ میں کر سکتا ہوں کرتا رہتا ہوں‘‘

’’کیا کرتے ہیں آپ؟‘‘

’’ہفتے میں ایک دو دفعہ مارکیٹ جاتا ہوں مرغی اور مچھلی خرید کر لاتا ہوں انڈے بھی، کوئلے کا پرمٹ بھی حاصل کرتا ہوں، گھی کا بندوبست کرتا ہوں، اب میں اور کیا کر سکتا ہوں۔‘‘

’’مصروف آدمی ہوں دفتر میں جاتا ہوں وہاں نہ جاؤں تو مہینہ ختم ہونے کے بعد سات سو روپے کیسے آ سکتے ہیں۔‘‘

’’ان سات سو روپوں میں سے آپ مجھے کتنے دیتے ہیں‘‘

’’پورے سات سو روپے‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن آپ اپنا گزارہ کس طرح کرتے ہیں۔؟‘‘

’’اللہ بہتر جانتا ہے‘‘

’’رشوت لیتے ہیں اور کیا ورنہ ساری تنخواہ مجھے دینے کے بعد آپ پانچ سو پچپن کے سگریٹ نہیں پی سکتے۔‘‘

’’میں نے سگریٹ پینے ترک کر دیے ہیں‘‘

’’آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔‘‘

’’میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ تم میرا پارکر قلم ذرا ڈھونڈ کے نکالو‘‘

’’میں آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘

’’تو اور کس کے پاس ہے‘‘

’’مجھے کیا معلوم میں نے صبح خط لکھ کر مینٹل پیس پر رکھ دیا۔‘‘

’’وہاں تو اس کا نام و نشان نہیں‘‘

’’آپ نے کسی دوست کو بخش دیا ہو گا گیارہ بجے آپ کے چند دوست آئے تھے۔‘‘

’’میرے دوست کہاں تھے۔ صرف ملاقات کرنے آئے تھے۔ میں تو ان کا نام بھی نہیں جانتا۔‘‘

’’میرا نام بھی آپ بھول گئے ہوں گے بتائیے کیا ہے۔‘‘

’’تمہارا نام لیکن بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے تم تم ہو بس؟‘‘

’’ان پندرہ برسوں میں آپ کو میرا نام بھی یاد نہیں رہا میری سمجھ میں نہیں آتا آپ کس قسم کے انسان ہیں۔‘‘

’’قسمیں پوچھو گی تو حیران رہ جاؤ گی ایک کروڑ سے زیادہ ہوں گی اب جاؤ میرا قلم ڈھونڈو۔‘‘

’’میں نہیں جانتی کہاں ہے۔‘‘

’’یہ قمیص تم نے نئی سلوائی ہے‘‘

’’ہاں‘‘

’’گریبان بہت خوبصورت ہے ارے یہ اس میں تو میرا قلم اٹکا ہوا ہے‘‘

’’سچ میں نے یہاں اُڑس لیا ہو گا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

’’ٹھہرو میں خود نکال لیتا ہوں۔ ممکن ہے تم قمیص پھاڑ ڈالو‘‘

’’یہ کیا گرا ہے‘‘

’’یہ کیا ہے ارے یہ تو پانچ سو پچپن سگرٹوں کا ڈبہ ہے کہاں سے آ گیا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

جھُمکے

 

 

سُنار کی اُنگلیاں جھمکوں کو برش سے پالش کر رہی ہیں جھمکے چمکنے لگتے ہیں ستار کے پاس ہی ایک آدمی بیٹھا ہے جھمکوں کی چمک دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما اُٹھتی ہیں بڑی بے تابی سے وہ اپنے ہاتھ ان جھمکوں کی طرف بڑھاتا ہے اور سُنار کہتا ہے ’’بس اب رہنے دو مجھے‘‘ سُنار اپنے گاہک کو اپنی ٹُوٹی ہوئی عینک میں سے دیکھتا ہے اور مسکرا کر کہتا ہے ’’چھ مہینے سے الماری میں بنے پڑے تھے آج آئے ہو تو کہتے ہو کہ ہاتھوں پر سرسوں جما دُوں‘‘

گاہک جس کا نام چرنجی ہے کچھ شرمندہ ہو کر کہتا ہے ’’کیا بتاؤں لالہ کروڑی مل۔ اتنی رقم جمع ہونے میں آتی ہی نہیں تھی تم سے الگ شرمندہ جورو سے الگ شرمندہ، عجب آفت میں جان پھنسی ہوئی تھی۔ جانے اس سونے میں کیا کشش ہے کہ عورتیں اس پر جان دیتی ہیں۔‘‘

سُنار پالش کرنے کے بعد جھمکے بڑی صفائی سے کاغذ میں لپیٹتا ہے اور چرنجی کے ہاتھوں میں رکھ دیتا ہے۔ چرنجی کاغذ کھول کر جھمکے نکالتا ہے جب وہ جھُمر جھمر کرتے ہیں تو وہ مسکراتا ہے۔ بھئی کیا کاریگری کی ہے لالہ کروڑی مل۔ دیکھے گی تو پھڑک اُٹھے گی۔ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالتا ہے اور سُنار سے یہ کہہ کر ’’کھرے کر لو بھائی‘‘ دکان سے باہر نکلتا ہے۔

دکان کے باہر ایک تانگہ کھڑا ہے گھوڑا ہنہناتا ہے تو چرنجی اس کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے‘‘ تمھیں بھی دو جھمکے بنوا دُوں گا میری جان فکر مت کرو‘‘ یہ کہہ کر وہ خوش خوش گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے ’’چل میری جان ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے‘‘

چرنجی خوش خوش اپنے طویلے پہنچتا ہے دھیمے دھیمے سروں میں کوئی گیت گنگناتا اور یُوں اپنی خوشی کا اظہار کرتا وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا اور کہتا ہے:

’’ابھی چھٹی نہیں ملے گی میری جان تیری مالکن یہ جھُمکے پہن کر کیا باغ کی سیر کو نہیں جائے گی۔‘‘

چرنجی جلدی جلدی گھر کا زینہ طے کرتا ہے اور زور سے آواز دیتا ہے۔ مُنی مُنی ایک چھوٹی سی لڑکی بھاگتی ہوئی اندر سے نکلتی ہے اور چرنجی کے ساتھ لپٹ جاتی ہے چرنجی جھمکے نکال کر اس کی کان کی لوؤں کے ساتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے‘‘ ماں کہاں ہے تیری۔ جواب کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کے سارے کمروں میں ہاتھ میں جھمکے لیے پھرتا ہے مُنی کی ماں۔ مُنی کی ماں کہتا۔ لڑکی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے ’’مُنی، ماں کہاں ہے تیری۔ لڑکی جواب دیتی ہے۔ وہاں گئی ہے: لڑکی کا اشارہ سامنے بلڈنگ کی طرف تھا۔ چرنجی اُدھر دیکھتا ہے کھڑکی کے شیشوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت کا سایہ نظر آتا ہے مرد عورت کے کانوں میں بُندے پہنا رہا ہے لمبے لمبے بُندے یہ منظر دیکھ کر چرنجی کے منہ سے دبی ہوئی چیخ سی نکلتی ہے وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی ننھی بچی کو اُٹھا کر سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بچی اس خوفناک سائے کو دیکھے سینے کے ساتھ اس طرح اپنی بچی کو بھینچے وہ آہستہ آہستہ نیچے اُترتا ہے وہ جھمکے جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اس کے ہاتھوں سے فرش پر گر پڑتے ہیں۔

نیچے طویلے میں آ کر وہ اپنی بچی کو جو کہ سخت پریشان ہو رہی ہے تانگے میں بٹھاتا ہے اور خود گھوڑے کی باگیں تھام کر تانگے کو باہر نکالتا ہے۔

چرنجی بالکل خاموش ہے جیسے اسے سانپ سُونگھ گیا ہے اُس کی ننھی بچی سہمے ہُوئے لہجے میں بار بار پوچھتی ہے ’’ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پِتا جی ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پتا جی؟

چرنجی کی بیوی اپنے گھر واپس آ گئی ہے اور ایک آئینہ سامنے رکھے اپنے جھمکوں کو پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے اور گا رہی ہے۔ آئینہ دیکھتے دیکھتے وہ اپنی بچی کو آواز دیتی ہے مُنی ادھر آ تجھے ایک چیز دکھاؤں کوئی جواب نہیں ملتا کہاں چلی گئی تو۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھتی ہے اور اِدھر اُدھر اُسے ڈھونڈتی ہے جب وہ نہیں ملتی تو باہر نکلتی ہے سیڑھیوں کے اختتامی سرے پر جو چبوترہ سا بنا ہے اس پر کھلے ہوئے کاغذ میں دو جھمکے دکھائی دیتے ہیں چرنجی کی بیوی ان کو اُٹھاتی ہے ایک دم اسے خوفناک حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ اِن جھمکوں کو مٹھی میں بھینچ کر وہ چیختی ہے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے دیوانوں کی طرح دوڑی دوڑی اندر جاتی ہے سب کمروں میں پاگلوں کی طرح چکراتی ہے اور مُنی کو آوازیں دیتی ہے جب اس کے دماغ کا طوفان کچھ کم ہوتا ہے تو وہ وہیں بیٹھ جاتی ہے جہاں پہلے بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے آئینہ پڑا ہے، اس میں وہ غیر ارادی طور پر اپنی شکل دیکھتی ہے۔ پرنجی کی بیوی جب اپنی شکل اس زاویے میں دیکھتی ہے تو اس سے متنفر ہو کر آئینہ اُٹھاتی ہے اور زمین پر پٹک دیتی ہے آئینہ چکنا چور ہو جاتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی باہر نکلتی ہے۔

سامنے والی بلڈنگ کا ایک کمرہ یہ کمرہ پُر تکلف طریقے سے سجا ہوا ہے ایک لڑکی اور ایک لڑکا جس کی عُمر میں تقریباً دو برس کا فرق ہے لڑکی چھ برس کی اور لڑکا آٹھ برس کا ہے دونوں اپنے باپ کے پاس بیٹھے ہیں اور اس سے کھیل رہے ہیں اتنے میں دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوتی ہے پہلی بار جب دستک ہوتی ہے تو بچوں کا باپ نہیں سنتا۔ جب دوسری بار پھر ہوتی ہے تو وہ چونکتا ہے بچوں کی طرف دیکھتا ہے پھر ان کی آیا کی طرف اور کہتا ہے ان کو باہر لے جاؤ۔ کوئی میرا ملنے والا آیا ہے، جلدی جلدی بچوں کو نکال کر دروازہ بند کرتا ہے دوسرے دروازے کی طرف بڑھتا ہے جب دروازہ کھلتا ہے تو چرنجی کی بیوی اندر داخل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بچوں کے باپ کو سخت حیرت ہوتی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’’تم تو کہہ رہی تھیں مجھے جلدی گھر جانا ہے اب واپس کیسے آ گئیں۔ چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی۔ ساکت جامد کھڑی رہتی ہے اُس کو خاموش دیکھ کر وہ پھر اُس سے پوچھتا ہے‘‘ وہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔‘‘

چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی وہ پھر اس سے سوال کرتا ہے۔ تم خاموش کیوں ہو۔ جھُمکے پسند نہیں آئے۔ چرنجی کی بیوی کے ہونٹ کھلتے ہیں۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے کیوں نہیں آئے۔ بہت پسند آئے۔ کیا اور لا دو گے مجھے؟ بچوں کا باپ مسکراتا ہے جتنے کہو، بس یہی بات تھی ’’بڑے تلخ لہجے میں چرنجی کی بیوی کہتی ہے بس یہی بات تھی لیکن مجھے صرف جھُمکے ہی نہیں چاہئیں ناک کے لیے کیل۔ ہاتھوں کے لیے کنگنیاں کڑے گلے کے لیے ہار ٗ ماتھے کے لیے جھومر پاؤں کے لیے پازیب مجھے اتنے زیور چاہئیں کہ میرا پاپ ان کے بوجھ تلے دب جائے اپنی عصمت کا زیور تو اُتار چکی ہُوں اب یہ گہنے نہ پہنوں گی تو لوگ کیا کہیں گے۔ بچوں کا باپ یہ گفتگو سن کر سخت متحیر ہوتا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہ چرنجی کی بیوی سے کہتا ہے۔ یہ تو کیا بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔ چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔ بہکی پہلے تھی اب تو ہوش کی باتیں کر رہی ہوں سنو۔ میں تمہارے پاس اس لیے آئی ہوں کہ وہ چلا گیا ہے میری بچی کو بھی ساتھ لے گیا ہے اُسے سب کچھ معلوم ہو چکا ہے اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا جس طرح میری لٹی ہوئی آبرو واپس نہیں آئے گی بولو مجھے پناہ دیتے ہو میں تمھیں اس پاپ کا واسطہ دے کر اِلتجا کرتی ہوں کہ جو تم نے اور میں نے مل کر لیا ہے کہ مجھے پناہ دو بچوں کا باپ چرنجی کی بیوی کی سب التجائیں سنتا ہے مگر وہ کیسے اس عورت کو پناہ دے سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو جھُمکے کے بدلے بیچا۔ ایک سودا تھا جو ختم ہو گیا چرنجی کی بیوی کو یہ سُن کر بہت صدمہ ہوتا ہے ناکام اور مایوس ہو کر وہ چلی جاتی ہے۔

چرنجی اب ایک نئے گھر میں ہے رات کا وقت ہے۔ وہ اپنی بچی مُنی کو سُلانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ سوتی نہیں بار بار اپنی ماں کے بارے میں پوچھتی ہے چرنجی اس کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے مگر بچی کی معصوم باتیں اُسے پریشان کر دیتی ہیں آخر میں گھبرا کر اُس کے منہ سے یہ نکلتا ہے ’’مُنی تمہاری ماتا جی مر گئی ہیں راستہ بھول کر وہ ایسی جگہ چلی گئی ہیں جہاں سے واپس آنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے۔ چرنجی فوراً منی کا چہرہ کمبل سے ڈھانپ دیتا ہے چرنجی کی بیوی داخل ہوتی ہے چرنجی اُٹھتا ہے اور اسے باہر دھکیل کر اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیتا ہے ’’چلی جاؤ یہاں سے‘‘ وہ اُس سے کہتا ہے چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔ ’’چلی جاتی ہوں میری بچی مجھے دے دو‘‘ چرنجی غصے اور نفرت بھرے لہجے میں اُس سے کہتا ہے وہ عورت جو مرد کی بیوی نہیں بن سکتی اولاد کی ماں کیسے ہو سکتی ہے اپنے پاپ بھرے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہو کیا تمھیں منی کی ماں کہلانے کا حق حاصل ہے کیا اس دن کے بعد جب تم نے یہ جھمکے لے کر ایک غیر مرد تو ہاتھ لگانے دیا تم اپنی اولاد کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر سکتی ہو کیا تمہاری مامتا اُس دن جل کر راکھ نہیں ہو گئی تھی جب تمہارے قدم ڈگمگائے تھے اپنی بچی لینے آئی ہو وہ جھمکے پہن کر جنہوں نے تمہاری زندگی کے سب سے قیمتی زیور کو اُتار کر گندی موری میں پھینک دیا ہے۔ میں یہ پوچھتا ہوں جب یہ جھمکے ہلتے ہیں تو تمہارے کانوں میں یہ آواز نہیں آتی کہ نہ تم ماں رہی ہو نہ بیوی۔ جاؤ تمہاری مانگ سیندور سے اور تمہاری گود اولاد سے ہمیشہ خالی رہے گی جن قدموں سے آئی ہو انہی قدموں سے واپس چلی جاؤ۔ چرنجی اپنی بیوی کی التجاؤں کو ٹھکرا دیتا ہے تو وہ چلی جاتی ہے افسردہ اور خاموش۔

تانگے کا پہیہ گھوم رہا ہے یہ بتانے کے لیے کہ وقت گزر رہا ہے اور کئی سال بیت رہے ہیں تانگے کا پہیہ مڑتا ہے اور بڑے دروازے میں داخل ہوتا ہے یہ دروازہ گورنمنٹ کالج کا ہے جس میں کئی لڑکے اور لڑکیاں گزر رہی ہیں تانگہ کالج کے کمپاؤنڈ میں ٹھہرتا ہے چرنجی اب کافی بڈھا ہو چکا ہے۔ تقریباً آدھے بال سفید ہیں۔ اس کی ننھی بچی اب جوان ہے تانگے کی پچھلی نشست پر سے جب اُٹھتی ہے تو چرنجی اس کو بہت نصیحتیں کرتا ہے۔ بڑے صاحب کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کہنا جو سوال پوچھیں ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔ وغیرہ وغیرہ لڑکی اپنے باپ کی ان باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے اور اچھا اچھا کہتی وہاں سے چلتی ہے لیکن فوراً ہی چرنجی اس کو روکتا ہے اور جیب سے برفی نکال کر اس کو دیتا ہے اور کہتا ہے۔ پہلا دن ہے منہ میٹھا کر لو زبردستی وہ اپنی لڑکی کے ہاتھ میں برفی رکھ دیتا ہے۔

سامنے کالج کے برآمدے میں دو تین لڑکے کھڑے ہیں جو آنے جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو گھور رہے ہیں جب کرشنا کماری (چرنجی کی بیٹی) برآمدے کی طرف آتی ہے تو ایک لڑکا جس کا نام جگدیش ہے اپنے ساتھی کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھونکا دیتا ہے اور کہتا ہے۔

’’لو بھئی ایک فرسٹ کلاس چیز آئی ہے۔ طبیعت صاف ہو جائے گی تمہاری۔ یہ کہہ کر جب وہ کرشنا کماری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اُس کے دوست سب اُدھر متوجہ ہوتے ہیں مگر انھیں بجائے ایک دیہاتی لڑکا نظر آتا ہے جو بڑا انہماک سے اپنے فارم کا مطالعہ کرتا ہوا ان کی طرف چلا آ رہا ہے سب لڑکے اس دیہاتی کو دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھئی کیا چیز ہے طبیعت واقعی صاف ہو گئی۔ کرشنا کماری اس دوران میں ایک طرف ہو گئی تھی۔ یہ دیہاتی لڑکا جس کا نام کرشن کمار ہے کا لج کے اِن پرانے شریر طالبعلموں کی طرف بڑھتا ہے جگدیش سے وہ بڑے سادہ لہجے میں پوچھتا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے جگدیش ذرا پیچھے ہٹ کر اسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے چڑیا گھر۔‘‘ کرشن کمار اسی طرح سادہ لوحی سے جواب دیتا ہے جی نہیں چڑیا گھر میں کل جاؤں گا میں یہاں داخل ہونے آیا ہوں۔ سب لڑکے بے چارے کرشن کمار کا مذاق اُڑاتے ہیں اُسے چھیڑتے ہیں اتنے میں ایک لڑکی کرشنا کماری کو ساتھ لیے ان لڑکوں کے پاس آتی ہے اور ان میں سے ایک لڑکے کو جس کا نام ستیش ہے مخاطب کر کے کہتی ہے ستیش میرا پیریڈ خالی نہیں تم انھیں بتا دو کہ کہاں داخلہ ہو رہا ہے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دے کر وہ تیز قدمی سے چلی جاتی ہے ستیش فارم دیکھتا ہے اور کہتا ہے آپ کا نام کرشنا کماری ہے۔ کرشن کمار بول اُٹھتا ہے جی نہیں میرا نام کرشن کمار ہے سب ہنستے ہیں ستیش کرشن کمار کا فارم بھی لے لیتا ہے اور دونوں سے کہتا ہے آئیے کمار اور کماری صاحبہ میں آپ کو راستہ بتا دوں سب چلتے ہیں۔

اس کمرے کے باہر جہاں داخلہ ہو رہا ہے ستیش ٹھہر جاتا ہے اور ایک فارم کرشن کمار اور دوسرا کرشنا کو دے کر کہتا ہے۔ ’’اندر چلے جائیں۔‘‘

کرشن کماری اور کرشنا کمار دونوں اندر داخل ہوتے ہیں کرشن کمار ایک میز کی طرف بڑھتا ہے کرشن کماری دوسرے میز کی طرف اِدھر کرشنا کماری کا انٹرویو شروع ہوتا ہے اُدھر کرشن کمار کا۔ کرشن کماری کا نام پڑھ کر پروفیسر کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتے ہیں۔ کشتی لڑتے ہیں، گولہ پھینکتے ہیں۔

ادھر دوسرا پروفیسر کرشن کمار سے کہتا ہے ’’آپ کو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائی کے کام کا شوق ہے کرشن کمار اور کرشنا کماری حیران رہ جاتے ہیں کرشن کماری پروفیسر سے کہتی ہے جی نہیں مجھے تو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائیوں کا شوق ہے اُدھر کرشن کمار پریشان ہو کر پروفیسر سے کہتا ہے جی نہیں مجھے تو کبڈی کھیلنے گولہ پھینکنے اور کشتی لڑنے کا شوق ہے دونوں کے فارم تبدیل ہو گئے تھے ہال میں قہقہے بلند ہوتے ہیں ہال کی کھڑکیوں کے باہر جگدیش اور ستیش اور ان کی پارٹی کھڑی یہ سب تماشا دیکھتی رہتی ہے۔

بازار میں تانگہ کھڑا ہے چرنجی اس کو صاف کر رہا ہے اتنے میں ایک پٹھان آتا ہے اور چرنجی سے ان دو سو روپوں کا تقاضہ شروع کر دیتا ہے جو اُس نے قرض لے رکھے ہیں پٹھان روز روز کے وعدوں سے تنگ آیا ہوا ہے چنانچہ وہ چرنجی سے بڑے دُرشت لہجے میں باتیں کرتا ہے چرنجی پٹھان سے معافی مانگتا ہے اور کہتا کہ وہ بہت جلد اس کا قرضہ ادا کر دے گا پٹھان چرنجی سے کہتا ہے کہ وہ تانگہ گھوڑا بیچ کر قرض ادا کر دے گا اس سے چرنجی کو صدمہ ہوتا ہے تانگہ گھوڑا وہ کبھی بیچنے کے لیے تیار نہیں اس لیے کہ وہ اسے بہت عزیز ہے اتنے میں کرشنا کماری کی آواز آتی ہے ’’پتا جی‘‘ میری کتابیں آپ ساتھ لے گئے ہیں نا چرنجی اپنی لڑکی جواب دیتا ہے۔ ہاں بیٹی لے آیا ہوں اپنے ساتھ یہ کہہ کر وہ پٹھان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے خان میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے میری لڑکی کے سامنے اپنے روپوں کا تقاضہ نہ کرنا خان کا دل کچھ پسیجتا ہے چنانچہ جب کرشن کماری آتی ہے اور تانگے میں بیٹھتی ہے تو چرنجی سے کچھ نہیں کہتا،  خان کو سلام کر کے چرنجی تانگہ چلاتا ہے۔

دیہاتی لڑکے کرشن کمار کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، جگدیش نے اس کے پرانی وضع کے کوٹ کے ساتھ فرسٹ ائیر فول کی چٹ لگا رکھی ہے جدھر سے وہ بے چارہ گزرتا ہے لڑکے اُس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں کرشن کمار جب سب کو ہنستے دیکھتا ہے تو خود بھی ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔

اس دوران میں چرنجی کا تانگہ اور ایک موٹر آتی ہے اس میں سے ستیش اور اس کی بہن آ نکلتی ہے یہ وہ لڑکی ہے جس نے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دیا تھا۔ کرشن کماری جب ستیش کی بہن نرملا کو دیکھتی ہے تو اُن کو نمستے کرتی ہے نرملا نمستے کا جواب دیتی ہے اور اپنے بھائی کا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے یہ میرے بھائی ستیش ہیں مگر آپ کی ایک بار پہلے ملاقات ہو چکی ہے ستیش کرشنا کماری کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتی ہیں، کشتی لڑتی ہیں اور گولہ پھینکتی ہیں، کرشنا کماری اس روز کا واقعہ یاد کر کے شرما جاتی ہے مگر ساتھ ہی ہنس پڑتی ہے تینوں کالج کی طرف بڑھتے ہیں کچھ دُور جاتے ہیں تو ایک شور سُنائی دیتا ہے۔

جگدیش اور اُس کے ساتھیوں نے کرشن کمار کو کیچڑ بھرے گڑھے میں دھکا دے کر گرا دیا تھا کیچڑ میں بے چارہ لت پت ہے لڑکے چھیڑ رہے ہیں جگدیش آگے بڑھ کر جب اُسے اُٹھانے لگتا ہے تو اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے کرشن کمار سے اب برداشت نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کوٹ اسے بے حد عزیز ہے یہ اُس کے مرحوم باپ کا تھا جو اُس کی ماں نے سنبھال کر اُس کے لیے رکھا ہوا تھا جب اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے تو وہ دیوانوں کی طرح اُٹھتا ہے اور جگدیش کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے کالج میں جگدیش کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ بہت لڑاکا ہے کوئی اس کے مقابل میں نہیں ٹھہر سکتا مگر جب کرشن کمار اسے بری طرح لتاڑتا ہے تو سب لڑکے حیران رہ جاتے ہیں اور جگدیش اور کرشن کمار دونوں کشتی لڑتے لڑتے ستیش کرشنا کماری اور نرملا کے پاس آ جاتے ہیں تو زبردست گھونسہ مار کر جب کرشن کمار جگدیش کو گراتا ہے تو بے اختیار کرشنا کماری کے منہ سے نکلتا ہے ’’یہ کیا وحشیانہ پن ہے‘‘ کرشن کمار یہ آواز سنتا ہے اور اپنا ہاتھ روک لیتا ہے ستیش جگدیش کو اُٹھا کر ایک طرف لے جاتا ہے اتنے میں گھنٹی بجتی ہے سب لوگ چلے جاتے ہیں صرف کرشن کمار۔ کرشنا کماری اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں چند لمحات خاموش کھڑے رہتے ہیں آخر میں کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں کرشنا کماری سے کہتا ہے ’’مجھے معاف کر دو۔ آئندہ مجھ سے کبھی ایسی وحشیانہ حرکت نہیں ہو گی کرشنا کماری اس کی سادگی سے بہت متاثر ہوتی ہے جب وہ اس سے کہتا ہے میں کسی سے کچھ نہیں کہتا لیکن یہ لڑکے میری طرف دیکھ دیکھ کر کیوں ہنستے ہیں۔ کیوں چھیڑتے ہیں کیوں تنگ کرتے ہیں۔ مجھے کیچڑ میں لت پت کر دیا ہے۔ یہ میرا کوٹ پھاڑ دیا ہے۔ جو میرے باپ کا ہے۔

کرشنا کماری اُس سے ہمدردی کرتی ہے اور اُسے بتاتی ہے کہ لڑکے اس کو صرف اس لیے چھیڑتے ہیں کہ اس کا لباس پرانی وضع کا ہے۔ اگر وہ اس طرح کا لباس پہننا شروع کر دے جیسا کہ دوسرے پہنتے ہیں تو اسے کوئی نہیں ستائے گا۔

کرشنا کماری کی باتیں کرشن کمار کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں جگدیش اور اُس کے ساتھی جھاڑیوں کے پیچھے سے ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ لیتے ہیں۔

ہوسٹل کرشن کمار اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا ہے اور سُوٹ کا معائنہ کر رہا ہے اس دوران میں وہ ایک گانا گاتا ہے بڑے جذبات بھرے انداز میں، اُس کے گانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے

ساتھ والے کمرے میں جگدیش ڈنڑ پیل رہا ہے اور ڈسیل پھیر رہا ہے جب اُسے گانے کی آواز آتی ہے تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلتا ہے اور یہ معلوم کرتا ہے کہ ساتھ والے کمرے میں کوئی گا رہا ہے باہر نکلتا ہے اور کمرے کے دروازے پر دستک دیتا ہے اندر سے آواز آتی ہے آ جاؤ۔ ’’جگدیش دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ کرشن کمار نیا سوٹ پہنے کھڑا ہے جب دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو کرشن کمار کہتا ہے۔ آپ لڑنے آئے ہیں تو مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائیے کیونکہ میں اب کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا جگدیش مسکراتا ہے اور اپنے تیل لگے بدن کی طرف دیکھتا ہے نہیں نہیں میں لڑنے نہیں آیا صلح کرنے آیا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ بڑھاتا ہے جسے کرشن کمار قبول کر لیتا ہے اس کے بعد جگدیش اس کے گانے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے دوست ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل کو لگی ہے آواز میں بہت درد ایسے ہی پیدا نہیں ہوا ضرور کسی کی ترچھی نظر نے تمھیں گھائل کیا ہے۔ کرشن کمار بہت سادہ لوح ہے فوراً ہی اپنے دل کا راز جگدیش کو بتا دیتا ہے ’’اب تم نے دوست کہا ہے تو تم سے پردہ اُس لڑکی کرشنا کماری نے ایسی پیاری پیاری باتیں کی ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے دل کو کیا ہو گیا ہے بڑی شریف اور بڑی ہمدرد لڑکی ہے اُس نے مجھے بتایا کہ تم لوگ مجھے کیوں چھیڑتے ہو اب دیکھ لو اُس کے کہنے پر میں نے تین سُوٹ بنوا لیے ہیں۔ جگدیش اس کا ہمراز بن جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے تمھیں عشق ہو گیا ہے سمجھے یعنی تمہارا دل جو ہے نا وہ اس لڑکی پر آ گیا ہے اب تمھیں یہ چاہئیے کہ تم اس لڑکی پر اپنے عشق کا اظہار کر دو اگر تم نے اپنی محبت کو اپنے پہلو میں دبائے رکھا تو اسے زنگ لگ جائے گا اور دیکھو عورت کو اپنی طرف مائل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ تم اُسے کوئی تحفہ دو انگوٹھی بُندے جھمکے کچھ بھی۔

سادہ لوح کرشن کمار جگدیش کی یہ سب باتیں اپنے پلے باندھ لیتا ہے۔

کالج کے باغیچے میں کرشنا کماری ایک بنچ پر بیٹھی ہے کرشن کمار آہستہ آہستہ اُس کے پاس جاتا ہے جس طرح جگدیش نے کہا تھا اس طرح وہ اس پر اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے بڑے خام انداز میں اس کے بعد وہ اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو سونے کے جھمکے تحفے کے طور پر پیش کرتا ہے کرشنا کماری یہ ڈبیا غصے میں آ کر ایک طرف پھینک دیتی ہے۔ کرشن کمار کو صدمہ پہنچتا ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے چونکہ وہ بے حد سادہ لوح ہے اس لیے وہ ساری بات کرشنا کو بتا دیتا ہے مجھے جگدیش نے کہا تھا کہ دل میں کوئی بات نہیں رکھنی چاہیے، مجھے کئی راتوں سے نیند نہیں آئی میں ہر وقت تمہارے متعلق سوچتا رہتا ہوں۔ تم نے کیوں مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اگر میرے دل میں تمہارے لیے محبت پیدا ہوئی ہے تو یہ تمہارا قصور ہے میرا نہیں۔ یہ جھمکے تو میں نے تمھیں دینے ہیں ان سے میری محبت ظاہر نہیں ہوتی یہ تو مجھ سے جگدیش نے کہا تھا کہ ایسے موقعوں پر تحفہ ضرور دینا چاہیے میں تو اپنی ساری زندگی تمھیں تحفے کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوں۔

جب کرشنا کماری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جگدیش نے اسے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ کرشن کمار کی صاف گوئی سے متاثر ہوتی ہے تو وہ جھمکوں کی ڈبیا اُٹھا لیتی ہے اور اپنے پاس رکھ لیتی ہے اور اس سے کہتی ہے مجھے تمہارا یہ تحفہ قبول ہے۔ کرشن کمار بہت خوش ہوتا ہے جھمکے لے کر کرشن کماری کچھ اور کہے سُنے بغیر چلی جاتی ہے کرشن کمار چند لمحات خاموش کھڑا رہتا ہے اتنے میں جگدیش اور ستیش دونوں جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلتے ہیں اور کرشن کمار کو مبارکباد دیتے ہیں کرشن کمار بہت جھینپتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ جگدیش سے کہتا ہے مگر یار تم نے تو کہا تھا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتلاؤں گا۔

ستیش کی طرف دیکھ کر وہ پھر کہتا ہے ان کو بھی پتہ لگ گیا ہے جگدیش کرشن کمار کو تسلی دیتا ہے کہ ستیش اپنا آدمی ہے وہ کسی سے کچھ نہیں کہے گا چنانچہ ستیش بھی کرشن کمار کو ہر ممکن تسلی دیتا ہے کہ وہ اس کے عشق کا راز کسی کو نہیں بتائے گا۔

طویلے میں چرنجی ساز پالش کر رہا ہے۔ تانگے کی پیتل کی چیزیں پالش کر رہا ہے گھوڑے کو مالش کر رہا ہے جب مالش کرتا ہے تو اُس سے پیار و محبت کی باتیں کرتا ہے۔ دوست تم نے میری بہت خدمت کی ہے اگر تم نہ ہوتے تو جانے زندگی کتنی کٹھن ہو جاتی تم نے اور میں نے دونوں نے مل کر مُنی کو پڑھایا ہے اتنے میں اس کے دو تین دوست جو تانگے والے ہیں، آتے ہیں ان میں ایک چرنجی سے کہتا ہے یہ تم گھوڑے سے کیا باتیں کر رہے ہو جیسے یہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ چرنجی گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے اور کہتا ہے انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی۔ انھیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔ غلام محمد تیری جان کی قسم سچ کہتا ہوں اس جانور نے میری بڑی خدمت کی ہے تانگے میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جوتے رکھا ہے غریب اتنے میں پٹھان آتا ہے چرنجی اس کو سلام کرتا ہے اور اپنے تہمند کے ڈب سے نوٹ نکالتا ہے اور کہتا ہے۔

’’خان صاحب یہ رہے آپ کے سو روپے کھرے کر لیجیے۔ باقی رہے سو اس کا بھی بندوبست ہو جائے گا۔ یہ میرا گھوڑا سلامت رہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ بڑے فخر سے اپنے گھوڑے کی طرف دیکھتا ہے پٹھان نوٹ لے کر چلا جاتا ہے اتنے میں ایک تانگے والا چرنجی سے کہتا ہے تم لڑکی کو پڑھانا شروع کر کے خواہ مخواہ ایک جنجال میں پھنس گئے ہو۔ کوئی نہ کوئی قرض خواہ تمہارے پیچھے لگا ہی رہتا ہے۔ چرنجی ہنستا ہے سب سے بڑی قرض خواہ میری بیٹی ہے اس کا قرض ادا ہو جائے تو ایسے لاکھ قرض لینے والے میرے پیچھے پھرتے ہیں مجھے کوئی پروا نہیں تم میں سے کوئی افیم کا نشہ کرتا ہے کوئی شراب کا مجھے بھی ایک نشہ ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ میری لڑکی دولت مند آدمیوں کی لڑکیوں کی طرح پڑھ رہی ہے تو میرا دل و دماغ ایک عجیب نشے سے جھومنے لگتا ہے عورت کو ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے میرے بھائی اس کے قدم مضبوط ہو جاتے ہیں یہ کہہ کر وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے اور خوش خوش باہر نکلتا ہے تاکہ گھر جائے۔

اندر آئینہ سامنے رکھے کرشنا کماری اپنے کانوں میں کرشن کمار کے دئیے ہوئے جھمکے پہنے بیٹھی ہے اور انھیں پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے گیت گا رہی ہے اور جیسے بے خود سی ہو رہی ہے جھمکے اسے بہت پسند آئے ہیں اس پسندیدگی کا اظہار اُس کی ہر حرکت سے معلوم ہوتا ہے۔

چرنجی آتا ہے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی وہ گانے کی آواز سنتا ہے۔

کرشنا کماری بدستور گانے میں مشغول ہے دفعتاً پاگلوں کی طرح چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشن کماری ایک دم گانا بند کر کے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو ڈھانپ لیتی ہے چرنجی آگے بڑھتا ہے زور سے کرشنا کماری کے دونوں ہاتھ نیچے جھٹک دیتا ہے۔ قریب ہے کہ جھمکوں کو اس کے کانوں سے نوچ لے۔ کرشن کماری خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹتی ہے چرنجی پاگلوں کی طرح اُس کی طرف بڑھتا ہے اور چلانا شروع کر دیتا ہے کہاں سے لیے ہیں تو نے جھمکے کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے وہ اس قدر زور سے چلاتا ہے کہ ایک دم اسے چکر آ جاتا ہے۔ جذبات سے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتا ہے اس کی بلند آواز بالکل دھیمی ہو جاتی ہے کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے۔ سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے اس کی لڑکی فوراً پنکھا لے کر جھلنا شروع کر دیتی ہے۔

چند لمحات کی خاموشی کے بعد وہ ایک گلاس پانی مانگتا ہے۔ کرشن کماری اس کو پانی پلاتی ہے پانی پینے کے بعد وہ کرشنا کماری سے پھر پوچھتا ہے منی یہ جھمکے تو نے کہاں سے لیے ہیں کرشنا کماری تھوڑے سے توقف کے بعد ذرا حکمت سے جھوٹ بولتے ہوئے جواب دیتی ہے ’’کالج کی ایک سہیلی نے دئیے ہیں۔ چرنجی اپنی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے اپنی سہیلی کو واپس دے آؤ۔ لڑکی پوچھتی ہے کیوں پتا جی چرنجی جواب دیتا ہے۔ تمہاری ماں کو یہ زیور پسند نہیں تھا یہ کہہ کر وہ اُٹھتا ہے اور بیماروں کی طرح قدم اُٹھاتا باہر چلا جاتا ہے اُس کی لڑکی اُس سے پوچھتی ہے۔ ’’کھانا نہیں کھائیں گے آپ؟‘‘

چرنجی جواب دیتا ہے ’’نہیں۔‘‘

باہر نکل کر چرنجی گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے۔ اور تانگہ چلاتا ہے اور (گھوڑے کو) مخاطب کر کے اُس سے کہتا ہے آج میری لڑکی نے پہلی بار جھوٹ بولا ہے اور افسردگی کے عالم میں وہ تانگے پر کئی بازاروں کے چکر لگاتا ہے حتیٰ کہ رات ہو جاتی ہے۔

ایک نیم روشن بازار میں سے اُس کا تانگہ گزر رہا ہے اچانک ایک عورت چند مردوں کی جھپٹ سے نکل کر تیزی سے چرنجی کے تانگے کی جانب بڑھتی ہے وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے بھاگتی تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ جاتی ہے یہ عورت شراب کے نشے میں چور ہے۔ زیورات سے لدی ہوئی ہے تانگے میں بیٹھتے ہی وہ چرنجی سے باتیں شروع کر دیتی ہے۔ ‘‘مجھے چھیڑتے تھے اُلو کے پٹھے پر میں دام لیے بغیر کسی کو ہاتھ لگانے دیتی ہوں کیوں تانگے والے تمہارا کیا خیال ہے۔ دنیا میں پیسہ ہی تو ہے تم کچھ بولتے نہیں۔ مجھے یاد آیا میرا پتی ایک تانگے والا ہی تھا پر اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ مجھے نگوڑے جھمکے لا دیتا لیکن اب دیکھو میری طرف یہ کڑے، یہ گُلوبند، یہ انگوٹھیاں ایک سے ایک بڑھ کر یہ کہہ کر وہ درد بھرے انداز میں ہنستی ہے۔ عصمت کا گہنا اتر جائے تو یہ زیور پہننے ہی چاہئیں۔

چرنجی پہچان لیتا ہے کہ یہ عورت کون ہے اُس کی بیوی تھی جو اس حالت کو پہنچ چکی تھی۔ چرنجی کمبل سے اپنا چہرہ قریب قریب چھپا لیتا ہے اس پر طوائف اُس سے کہتی ہے تم کیوں اپنا چہرہ چھپاتے ہو چھپانا تو مجھے چاہیے یہ چہرہ جس پر کئی پھٹکاریں پڑی ہیں یہ کہہ کر وہ پھر ہنستی ہے تم خاموش کیوں ہو تانگہ روک دو میرا گھر آ گیا ہے چرنجی تانگہ روک دیتا ہے طوائف پائیدان پر پاؤں رکھ کر اُترنے لگتی ہے کہ لڑکھڑا کر گرتی ہے اوندھے منہ چرنجی دوڑ کر اُسے اُٹھاتا ہے طوائف ہنستی ہے گرنے والوں کو اُٹھایا نہیں کرتے میری جان یہ کہہ کر جب وہ گھر کی طرف چلنے لگتی ہے تو لڑکھڑا کر پھر گرتی ہے۔ چرنجی اس کو تھام لیتا ہے اور اُس کو اُس کے گھر تک چھوڑ آتا ہے جب چلنے لگتا ہے تو طوائف اس کو کرایہ دیتی ہے چرنچی کرایہ لے لیتا ہے طوائف اس کا بازو پکڑ کر اندر گھسیٹتی ہے ’’آؤ میری جان آؤ آج کی رات میرے مہمان رہو میں تم سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گی آؤ شراب کی پوری بوتل پڑی ہے اوپر آؤ۔‘‘

چرنجی تانگے میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ طوائف ہنستی ہے اور کہتی ہے بیوقوف کہیں کا مفت کی قاضی بھی نہیں چھوڑتا۔

چرنجی گھر پہنچتا ہے جب اندر داخل ہوتا ہے تو اُسے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے کمرے میں جا کر دیکھتا ہے کہ اس کی لڑکی بستر پر اوندھے منہ لیٹی ہے اور زار زار رو رہی ہے چرنجی اُس کے پاس جاتا ہے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور رونے کا سبب پوچھتا ہے اس کی لڑکی اور زیادہ رونا شروع کر دیتی ہے جب چرنجی دوبارہ اس سے رونے کا سبب پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے مجھے ماں یاد آ رہی ہے اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو میں میں وہ اس کے آگے کچھ نہیں کہہ سکی اور باپ کے پاؤں پکڑ کر کہتی ہے مجھے معاف کر دیجیے پتا جی میں نے آج آپ سے جھوٹ بولا ہے چرنجی کہتا ہے مجھے معلوم ہے۔ اس پر اس کی لڑکی کہتی ہے اگر آج میری ماتا جی ہوتیں تو میں نے یہ جھوٹ کبھی نہ بولا ہوتا بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لڑکیاں صرف اپنی ماؤں کو ہی بتا سکتی ہیں چرنجی اپنی لڑکی کو اُٹھاتا ہے اور اپنے پاس بٹھاتا ہے میں تمہاری ماں ہوں، بولو کیا بات ہے شرماؤ نہیں۔ کرشنا کماری جھینپ جاتی ہے اور شرما کر کہتی ہے ’’یہ جھمکے مجھے کالج کے ایک لڑکے نے دئیے ہیں پتا جی۔ وہ بہت ہی اچھا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل جاتی ہے سسکیاں لیتی ہوئی چرنجی بستر پر پڑے ہوئے جھمکوں کو اُٹھاتا ہے اور اُن کی طرف دیکھتا ہے۔

چرنجی کا تانگہ کالج کے دروازے میں داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اپنی کتابیں لے کر نیچے اُترتی ہے چرنجی اپنی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور لڑکی کو دے کر کہتا ہے اسے آج واپس کر دینا’’ کرشنا کماری ڈبیا لے کر خاموشی سے چلی جاتی ہے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی وہ کالج کے باغیچے کی طرف بڑھتی ہے۔ باغیچے میں ایک بنچ پر کرشن کمار بیٹھا ہے اور ایک خط پڑھ رہا ہے کرشنا کماری کو دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس سے باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ماتا جی کا خط آیا ہے لو پڑھو نہیں ٹھہرو۔ میں پڑھ کے سُناتا ہوں پر تم ہنسنا نہیں، میری ماں بے چاری سیدھی سادی دیہاتی ہے میں نے ان کو تمہاری بات لکھی ہے میں اُن سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتا سُنو انھوں نے کیا لکھا ہے بیٹا کمار ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اس لڑکی کی بدنامی ہو اس کے ماں باپ سے ملو اور کہو جیسی وہ ان کی بیٹی ہے ویسے ہی تم ان کے بیٹے ہو میری طرف سے اُس کو آشیرواد دینا تم جُگ جُگ جیو اور باقی احوال یہ ہے کہ میں نے خالص گھی کی اپنے ہاتھ سے یہ مٹھائی بنائی ہے جو تمھیں بھیج رہی ہوں اس میں آدھا حصہ تمہاری کرشنا کماری کا ہے۔ کہنا تمہاری ماتا جی نے بھیجا ہے۔ کرشنا کماری دم بخود یہ باتیں سنتی رہتی ہے کرشن کمار اس رو میں باتیں کرتا رہتا ہے اور کرشنا کماری کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کچھ کہہ سکے دیکھا میری ماں کتنی سیدھی سادھی ہے انھوں نے مٹھائی بھیجی ہے بالکل خراب تھی۔ پر میں ساری کی ساری کھا گیا ہوں کیا کرتا اگر نہ کھاتا تو ناراض ہو جاتیں۔ میں بھی بالکل ان جیسا ہوں اگر تم نے اس روز میرا تحفہ قبول نہ کیا ہوتا تو میرا دل ٹوٹ جاتا جانے میں کیا کر بیٹھتا کرشنا کماری کچھ کہنا چاہتی ہے مگر اس کی آواز رندھ جاتی ہے جھمکے واپس دینا چاہتی ہے نہیں دے سکتی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں ایک دم تیزی سے مڑتی ہے اور کرشن کمار کو وہیں چھوڑ کر چلی جاتی ہے

کرشنا کماری تیزی سے جا رہی ہے کہ اس کی مڈ بھیڑ جگدیش اور ستیش سے ہوتی ہے دونوں اُس کی طرف غور سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں کرشنا کماری چلی جاتی ہے جگدیش اور ستیش ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اُس طرف بڑھتے ہیں جدھر کرشن کمار بیٹھا ہے۔

جگدیش اور ستیش دونوں کمار سے ملتے ہیں جُگدیش اُس سے کہتا ہے ’’کمار تم نے یہ کیا غضب کر دیا بے چاری رو رہی تھی بھئی یہ رومانس اچھا رہا مارا وارا تو نہیں تم نے‘‘

کرشن کمار سادہ لوحی کے ساتھ مسکراتا ہے اور کہتا ہے ایک خاص بات تھی جگدیش نے اُس سے یہ خاص بات دریافت کی تو کرشن کمار کہتا ہے ایک خاص بات تھی جگدیش پھر اُس سے یہ خاص بات دریافت کرتا ہے کرشن کمار کہتا ہے۔ بھئی سب باتیں تمھیں نہیں بتا سکتا۔ کہہ جو دیا ایک خاص بات تھی یہ کہہ کر وہ چلا جاتا ہے جگدیش اور ستیش دونوں اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں اور کرشنا کماری کے متعلق باتیں شروع کر دیتے ہیں جگدیش کہتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ فلرٹ ہے اُس کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تانگے والے سے بات چیت کی جائے وہ اُس کے سارے بھید جانتا ہو گا باہر ہی باہر معاملہ طے ہو جائے گا اور یہاں کالج میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ ستیش کو یہ بات پسند آتی ہے چنانچہ طے ہوتا ہے کہ جگدیشن تانگے والے سے بات چیت کرے۔

چرنجی کالج کے باہر تانگہ لیے کھڑا ہے پاس ہی پان سگریٹ والے کی دُوکان ہے یہاں جگدیش کھڑا ہے پان والے سے پان اور سگریٹ لیتا ہے اور چرنجی کی طرف بڑھتا ہے گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے پھر اس کی تعریف کرتا ہے اس طرح وہ چرنجی سے آہستہ آہستہ گفتگو شروع کر دیتا ہے آخر میں وہ باتوں باتوں میں چرنجی سے کہتا ہے ’’استاد ہر عیش کرتے ہو ہر روز ایک پٹاخہ سی لونڈیا اس تانگے میں بٹھا کر لاتے ہو اور لے جاتے ہو اچھا میں نے کہا۔ کچھ ہماری دال گل سکتی ہے اور اُستاد تم چاہو تو سب کچھ کر سکتے ہو تمہارے دائیں ہاتھ کا کام ہے ایسا ہی ایک تانگہ گھوڑا بن جائے گا۔ اگر ہمارا کام ہو جائے، چرنجی ہنستا رہتا ہے جگدیش کو اور شہہ ملتی ہے ’’اماں ہم سب جانتے ہیں کہ لونڈیا ایسی نہیں کہ ہاتھ نہ آ سکے۔ کالج میں اس کا ایک لڑکے سے سلسلہ جاری ہے۔ چرنجی اب کچھ دلچسپی لیتا ہے اور جگدیش سے چند باتیں دریافت کرتا ہے جگدیش اسے بتاتا ہے کہ اس لڑکی کرشنا کماری پر کالج میں ایک لڑکا جو بہت بدمعاش ہے ڈورے ڈال رہا ہے اور اُس لڑکے سے وہ کانوں کے جھمکے بھی لے چکی ہے۔

یہ سب باتیں بتانے کے بعد جگدیش چرنجی سے کہتا ہے‘‘ دیکھو اگر اس کو زیوروں کا ہی شوق ہے تو ہم بڑھیا بڑھیا چیز دے سکتے ہیں تم یہ باتیں اپنے طور سے اس کے ساتھ کرنا سمجھے۔ اس قسم کی چند باتیں ہونے کے بعد طے ہوتا ہے کہ جگدیش شام کو کمپنی باغ کے پاس فلاں فلاں مقام پر چرنجی کا انتظار کرے جب لڑکی جھٹ مان جانے والی ہے تو چرنجی سارا معاملہ ٹھیک کر دے گا۔

اسی روز شام کو جگدیش مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا ہے کھمبے کے ساتھ کھڑا سگریٹ پی رہا ہے اتنے میں عین وقت پر چرنجی کا ٹانگہ سڑک پر نمودار ہوتا ہے چرنجی کھمبے کے پاس اپنا تانگہ روکتا ہے جگدیش بہت خوش ہو کر چرنجی سے کہتا ہے‘‘ بھئی بالکل انگریز ہو ٹھیک وقت پر آئے ہو نہ ایک منٹ اُدھر نہ ایک منٹ ادھر چرنجی مسکراتا ہے اور کہتا ہے، اب آپ وقت ضائع نہ کیجیے اور بیٹھ جائیے تانگے میں میں آپ کو سیدھا راستہ بتا دُوں جگدیش خوش خوش تانگے میں بیٹھ جاتا ہے اور چرنجی کو ایک سگریٹ پیش کرتا ہے تانگہ چلتا ہے۔

جگدیش چرنجی کے ساتھ لڑکی کی باتیں کرتا رہتا ہے تانگہ مختلف سڑکیں طے کرنے کے بعد ایک ویران سی جگہ پر پہنچتا ہے چرنجی باگیں کھینچ کر گھوڑا ٹھہرا تا ہے بڑے اطمینان سے اپنا کمبل اور پگڑی اتار کر اگلی نشست پر رکھتا ہے اور آستینیں چڑھا کر جگدیش سے کہتا ہے آئیے آپ کی لڑکی سے ملاقات کرا دوں ’’جُگدیش چرنجی کی طرف شک کی نظروں سے دیکھتا ہے مگر چرنجی اس کا بازو پکڑتا ہے اور کھینچ کر جھاڑیوں کے پیچھے لے جاتا ہے چند لمحوں کے بعد جگدیش کا ہیٹ سڑک پر آ گرتا ہے۔

کالج کا ہوسٹل جگدیش کا کمرہ باہر دروازے پر جگدیش کا نام پیتل کے بورڈ پر لکھا ہوا ہے ستیش آتا ہے اور دروازے پر دستک دیتا ہے دروازہ کھلتا ہے ستیش اندر داخل ہوتا ہے کیا دیکھتا ہے کہ جگدیش کا سر منہ سُوجا ہوا ہے اور کئی پٹیاں اس کے جسم پر بندھی ہیں۔ ستیش اس سے پوچھتا ہے یہ کیا ہو گیا ہے تمھیں جگدیش اسے کرسی پر بٹھاتا ہے اور سارا قصہ سُناتا ہے بھئی یہ تو برسوں کی ورزش کام آ گئی ورنہ بندے کا تو کل کام تمام ہو گیا ہوتا۔ میں نے تانگے والے سے تمام معاملہ طے کر لیا چنانچہ وہ مجھے کمپنی باغ میں ملا لڑکی وہاں موجود تھی اُس سے باتیں بھی ہوئیں لیکن ستیش کے ہمراہ وہاں تین چار اور چاہنے والے آ گئے۔ مجھے اُس کے ساتھ دیکھ کر جل ہی تو گئے اُن میں سے ایک نے مجھ پر کوئی ریمارکس کسا۔ لڑکی میرے ساتھ تھی میں نے دل میں کہا جگدیش یہاں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ میں اُٹھا اور ایک ایسا گھونسہ اُس سالے کی ٹھوڑی کے نیچے جمایا کہ دن کو تارے ہی نظر آ گئے ہوں گے بچہ جی کو، بس پھر کیا تھا۔ باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ چاروں مجھ پر پل پڑے مگر ستیش میں نے بھی وہ ہاتھ دکھائے کہ یاد ہی کرتے ہوں گے ایک ایک کو فرش کر کے رکھ دیا۔ کچھ چوٹیں مجھے بھی آ گئیں ساتھ والے کمرے میں یہ سب باتیں کرشن کمار سنتا ہے کیونکہ دونوں کمروں کے درمیان لکڑی کا ایک پردہ ہے جو اوپر سے خالی ہے ستیش جگدیش کی سب باتیں سُن کر کہتا ہے اور بھائی ایسے موقعوں پر کون کس کی مدد کرتا ہے تم کیا بچوں ایسی باتیں کرتے ہو اتنے میں جگدیش کے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور کرشن کمار غصے میں بھرا ہوا داخل ہوتا ہے جگدیش سے کہتا ہے ’’تم نے جو کچھ کہا ہے جھوٹ ہے تم ایک شریف لڑکی پر بہتان باندھ رہے ہو جگدیش سنتا ہے اور کہتا ہے میرا کچومر نکل گیا ہے اور تم کہتے ہو بہتان باندھ رہا ہوں یقین نہ ہو تو تانگے والے سے پوچھ لو جو مجھے لے گیا تھا غصے میں آ کر چونکہ اُس کی محبوبہ کی عزت پر حملہ کیا گیا ہے کرشن کمار زور سے ایک چانٹا جگدیش کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے بکواس مت کرو لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے ’’مجھے معاف کر دو جگدیش یہ چانٹا تمہارے منہ پر نہیں اس تانگے والے کے منہ پر مارنا چاہیے تھا جو اس کی زندگی تباہ کر رہا ہے یہ کہہ کر چلا جاتا ہے۔‘‘

کرشن کمار اپنے کمرے میں آتا ہے میز پر بیٹھتا ہے کاغذ لے کر خط لکھنا شروع کر دیتا ہے مگر چند سطریں لکھ کر کاغذ پھاڑ دیتا ہے کرسی پر سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کمرے میں اضطراب کے ساتھ ادھر ادھر زور سے ٹہلتا ہے سامنے کھونٹی پر اپنا سُوٹ دیکھتا ہے اُسے اُتار کر اپنے پیروں میں روند دیتا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تو پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے پھر اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر درد بھری دھن میں کوئی گیت گاتا ہے۔

چرنجی کھانا کھا رہا ہے پاس ہی اس کے اس کی لڑکی بیٹھی ہے چرنجی منہ میں نوالہ ڈالنے ہی والا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آتی ہے چنانچہ وہ اپنی لڑکی سے پوچھتا ہے ’’مُنی تم نے جھمکے واپس کیے، کرشنا کماری جھوٹ نہیں بولتی‘‘ پتا جی میں اس کو واپس دینے گئی پر دے نہ سکی۔ چرنجی نوالہ وہیں تھال میں رکھ دیتا ہے اور پوچھتا ہے ’’کیوں؟ کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں وہ صرف اتنا کہہ سکتی ہے مجھے معلوم نہیں ’’چرنجی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کھانا کھائے بغیر باہر چلا جاتا ہے۔

ایک آدمی عینک لگائے ڈیسک کے ساتھ بیٹھا ہے چرنجی سے کہتا ہے یہاں انگوٹھا لگاؤ۔ چرنجی اپنا انگوٹھا آگے بڑھا دیتا ہے اس پر وہ آدمی سیاہی لگاتا ہے اور پکڑ کر کاغذ پر جما دیتا ہے انگوٹھا لگانے کے بعد وہ ڈیسک سے نوٹ نکالتا ہے اور چرنجی کے حوالے کر دیتا ہے چرنجی نوٹ لے کر باہر نکلتا ہے۔

باہر ایک شیڈ کے نیچے اس کا ایک تانگہ گھوڑا کھڑا ہے چرنجی اپنے انگوٹھے کی سیاہی دیکھتا اس کی جانب بڑھتا ہے ایک ہاتھ میں اس نے نوٹ پکڑے ہوئے ہیں آہستہ آہستہ گھوڑے کے پاس جاتا ہے اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر گلو گیر آواز میں کہتا ہے ’’بیچ آیا ہوں تجھے دوست یہ دیکھ اپنی قیمت‘‘ یہ کہہ کر وہ گھوڑے کے منہ کے آگے اپنا وہ ہاتھ پھیلا دیتا ہے جس میں نوٹ ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو ہیں لوگ اپنا ایمان بیچتے ہیں میں تجھے بیچ آیا ہوں تو جو کہ میرا سچا دوست تھا آواز چرنجی کے گلے میں رندھ جاتی ہے تو بول نہیں سکتا تو تیری زبان ہوتی تو میں تیرے منہ سے سُنے بغیر کبھی نہ جاتا کہ چرنجی تو جھوٹا ہے مطلبی ہے۔ دغا باز ہے جس طرح وقت پڑنے پر لوگ گلے کا کنٹھا اُنگلی کی انگوٹھی بیچ دیتے ہیں اس طرح تو نے مجھے بیچ دیا ہے لعنت ہے تجھ پر یہ کہہ کر وہ اپنا انگوٹھا دیکھتا ہے اور گھوڑے سے کہتا ہے یہ سیاہی دیکھی تم نے اس سودے کی مالک ہے مگر میں تیرے ساتھ کیوں باتیں کروں تو اب میرا نہیں مجھے تجھ پر کوئی حق نہیں رہا۔ آخری بار چرنجی منہ پرے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے۔

رات کا وقت ہے چرنجی کمبل اوڑھے پیدل چلا آ رہا ہے راستے میں ایک تانگے والا تانگہ ٹھہرا کر اس سے پوچھتا ہے ’’آج تانگہ گھوڑا نہیں جوتا چرنجی۔ چرنجی جواب دیتا ہے آج نہیں جوتا۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ یہ کہہ کر وہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ گھر میں چرنجی کی لڑکی کرشنا کماری لالٹین جلائے انتظار کر رہی ہے۔ کبھی اُٹھتی ہے کبھی بیٹھتی ہے اسے کسی پہلو چین نہیں اتنے میں دروازہ پر دستک ہوتی ہے وہ اُٹھ کر دروازہ کھولتی ہے چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اُس سے پوچھتی ہے پتا جی آج آپ اتنی دیر سے آئے ہیں کہاں چلے گئے تھے۔ چرنجی اپنے کمبل سے ایک پوٹلی نکالتا ہے اور اُسے کھول کر اپنی لڑکی کو دیتا ہے یہ زیور لانے گیا تھا تیرے لیے تجھے شوق جو ہے ان کا اب تو تیرا دل نہیں للچائے گا تو کہے گی تو میں ایسے اور زیور بھی لا دوں گا اپنا آپ بھی بیچ ڈالوں گا تیرے دل میں للچاہٹ پیدا نہ ہونے دُوں گا۔ کرشنا کماری کبھی زیوروں کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے باپ کی طرف آخر میں کہتی ہے کوئی چیز بیچی ہے آپ نے یہ گہنے خریدنے کے لیے اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو سخت غلطی کی ہے یہ کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ سے زیور فرش پر گر پڑتے ہیں پتا جی میں نے کبھی ان چیزوں کو للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھے ان چیزوں کا شوق ہے چرنجی اُس سے کہتا ہے تو نے وہ جھمکے واپس کیوں نہیں کیے۔‘‘

کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کاش میری ماں ہوتی اور میری بات سمجھ سکتیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ میں سونے چاندی کے لیے اپنا آپ بیچ دُوں گی آپ نے مجھے تعلیم دی ہے میرے قدم مضبوط کیے ہیں پتا جی میں آپ کی بیٹی ہُوں آپ نے میرا نہیں اپنا اپمان کیا ہے یہ کہہ کر وہ روتی روتی پاس پڑے ہوئے صندوقچے سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتی ہے اور اپنے باپ کو دے کر کہتی ہے ’’لیجیے یہ جھمکے جس نے مجھے دیے تھے اُس کو آپ ہی واپس دے آئیے اگر آپ کہیں گے تو میں اُس کی یاد کو بھی اپنے دل سے نکال کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گی یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ چرنجی فرش پر پڑے ہوئے زیوروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔

کالج کا صدر دروازہ کرشن کمار خاموشی سے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اُس کی نظریں دروازہ پر جمی ہوئی ہیں جگدیش اور ستیش آتے ہیں ستیش اس سے پوچھتا ہے بڑی دیر سے یہاں خاموش کھڑے ہو کیا بات ہے۔ کرشن کمار ایک عزم کے ساتھ جواب دیتا ہے اُس بدمعاش تانگے والے کا انتظار کر رہا ہوں آج اُس کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ ساری عُمر یاد رکھے گا۔ جگدیش کرشن کمار کو تانگے والے کے خلاف اور زیادہ مشتعل کرتا ہے دفعتاً سب کی نظریں دروازے کی طرف اُٹھتی ہیں تانگے والا چرنجی کرشنا کماری دونوں پیدل اندر داخل ہوتے ہیں جگدیش یہ دیکھ کر کہتا ہے آج تانگہ کہاں گیا اور کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر چرنجی اپنی لڑکی کو کتابیں دیتا ہے کرشنا کماری دُور سے کرشن کمار کو دیکھتی ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ چرنجی سر ہلا دیتا ہے کرشن کمار کرشنا کماری کا اشارہ دیکھ لیتا ہے کرشنا کماری ایک طرف چلی جاتی ہے کرشن کمار غصے میں بھرا سیدھا تانگے والے کی طرف بڑھتا ہے چرنجی بھی اُس کی طرف آ رہا ہوتا ہے چرنجی کے پاس پہنچ کر کرشن کمار نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کھینچ کر ایک چانٹا چرنجی کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے کہ اشارے ہو رہے تھے میری طرف کیا مجھے بھی تم اپنے جیسا بدمعاش سمجھتے ہو۔ ایک چانٹا وہ چرنجی کے منہ پر جما دیتا ہے۔ اُلو کے پٹھے شرم نہیں آتی تجھے پرائی لڑکیوں کو بُرے راستے پر لگاتے ہوئے کیا تیری کوئی لڑکی نہیں جو پیسے کے لالچ میں آ کر بھڑوے بنے ہوئے ہو چرنجی کے منہ سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے وہ آگے بڑھتا ہے کرشن کمار یہ سمجھ کر کہ وہ اُسے مارنا چاہتا ہے گھونسے بازی شروع کر دیتا ہے چرنجی اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے کرشن کمار گھونسے چلاتا رہتا ہے اتنے میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں جن میں جگدیش بھی شامل ہے ایک دو پٹیاں ابھی تک اسی کے سر پر بندھی ہوئی ہیں کرشنا کماری چیختی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور کرشن کمار سے کہتی ہے ’’کمار یہ تم کیا کر رہے ہو۔ یہ میرے پتا جی ہیں ’’کرشن کمار متحیر ہو کر کہتا ہے ’’پتا جی۔ چرنجی کے منہ سے خون جاری ہے وہ مسکراتا ہے ہاں بیٹا میں اس کا پِتا ہوں اور تمہارا بھی یہ کہہ کر وہ کرشن کمار کو سینے سے لگا لیتا ہے جیتے رہو میں نے تم سے مار کھائی ہے لیکن اس جوان سے پوچھو کہ وہ جگدیش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میرے بازوؤں میں کتنا بل ہے جگدیش وہاں سے کھسک جاتا ہے کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں چرنجی سے معافی مانگتا ہے اپنی لڑکی اور کرشن کمار کے سر پر پیار کا ہاتھ پھیر کر چرنجی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو دے کر کہتا ہے لو اسے اپنے پاس رکھو۔‘‘

شہنائیاں بج رہی ہیں کرشنا کماری اور کرشن کمار کی شادی ہو چکی ہے چرنجی اپنی لڑکی اور کرشن کمار کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر رہا ہے اپنی لڑکی سے کہتا ہے تم اپنی ماں کو یاد کیا کرتی تھیں تمھیں ماں بھی مل گئی ہے یہ کہہ کر وہ کرشنا کماری کی ماں کی طرف دیکھتا ہے جو ایک سیدھی سادھی دیہاتن ہے وہ مسکراتی ہے اور کرشنا کماری کی طرف ہاتھ بڑھا کر سر پر ہاتھ پھیرتی ہے اور بڑی سادہ لوحی کے ساتھ کہتی ہے بیٹی میں نے تیرے لیے اپنے ہاتھ سے مٹھائی بنا کر بھیجی تھی کیا تو نے کھائی تھی۔ کرشنا کماری ذرا جھینپ کر کہتی ہے کھائی تھی ماتا جی بہت ہی مزے دار تھی۔

ایک تانگے میں چرنجی کی بیوی شراب کے نشے میں دھُت بیٹھی ہے تانگہ چل رہا ہے اُس کے ساتھ ہی ایک مرد بیٹھا ہے۔ چرنجی کی بیوی پان تھوک دیتی ہے بہت بد مزہ ہے۔ اتنے میں تانگہ وہاں پہنچتا ہے جہاں کرشنا کماری اور کرشن کمار کی شادی ہو رہی ہے۔ تانگے والا تانگہ ٹھہرا دیتا ہے اور اپنے گاہک سے کہتا ہے معاف کیجیے گا میں ابھی حاضر ہوا۔ چرنجی کی بیوی پوچھتی ہے کہاں جا رہے ہو تم تانگے والا کہتا ہے جرنجی تانگے والے کی لڑکی کی شادی ہو رہی ہے میں اُسے مبارکباد دے آؤں۔ یوں چٹکیوں میں آیا۔ یہ کہہ کر تانگے والا چلا جاتا ہے۔ چرنجی کی بیوی چند لمحات کے لیے پتھر کی مورتی سی بن جاتی ہے لیکن لڑکھڑاتی ہوئی اُٹھتی ہے اور تانگے سے اُتر کر اُدھر جاتی ہے جہاں سے شہنائیوں کی آواز آتی ہے۔ بارش ہو رہی ہے چرنجی کی بیوی جو شراب کے نشے میں مد ہوش ہے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شادی منڈل کی طرف بڑھتی ہے بارش ہو رہی ہے باہر تماشائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ دولہا دُلہن کو دیکھتی ہے اچھی طرح دیکھنے کے لیے جب وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے تو ایک آدمی اسے پیچھے ہٹا دیتا ہے اور کہتا ہے اے کیا دیکھ رہی ہے تُو۔ تیری ماں نے کبھی شادی نہیں کی ہو گی۔ چرنجی کی بیوی اس آدمی سے جھگڑنا شروع کر دیتی ہے میں ماں ہوں تو نہیں جانتا میں ماں ہوں۔ سارے تماشائی ہنستے ہیں چرنجی کی بیوی دیکھ رہی ہے کرشنا کماری بھی کسی بات پر ہنس رہی ہے چرنجی کی بیوی کی مامتا جاگ اُٹھتی ہے وہ چلانا شروع کر دیتی ہے مجھے اندر جانے دو مجھے اندر جانے دو کچھ گڑبڑ ہوتی ہے اتنے میں چرنجی باہر نکلتا ہے اور اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اور اُس سے کہتا ہے کیا چاہتی ہو۔ تم چرنجی کی بیوی کہتی ہے میں اپنی لڑکی سے ملنا چاہتی ہوں چرنجی کہتا ہے آؤ میں تمھیں اُس سے ملا دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ اُسے ایک طرف لے جاتا ہے جہاں اس کا تانگہ کھڑا ہے چرنجی اسے تانگے تک لے جاتا ہے۔

تانگہ چلا جا رہا چرنجی کی بیوی شراب کے نشے میں بار بار چرنجی سے پوچھتی ہے مجھے میری بیٹی سے مِلاؤ۔ مجھے میری بیٹی سے مِلاؤ۔ میں اُس کی ماں ہوں میں اُسے ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔ چرنجی خاموش رہتا ہے تانگے کی رفتار تیز ہوتی رہتی ہے ایک بار تنگ آ کر وہ چرنجی سے پوچھتی ہے کہاں لے جا رہے ہو مجھے‘‘ چرنجی جواب دیتا ہے جہاں پتی اور پتنی کو جانا چاہیے، گھوڑا سرپٹ دوڑتا ایک کھائی میں گرتا ہے۔

تانگے کے پُرزے اُڑ جاتے ہیں کھائی کے نیچے چرنجی اور اس کی بیوی پڑے ہیں اور دونوں بُری طرح زخمی ہوئے ہیں چرنجی مر چکا ہے مگر اُس کی بیوی ابھی زندہ ہے وہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے اُسے اپنی جوانی کا وہ دن یاد آتا ہے جب جھمکے پہنے گا رہی تھی۔ وہ جوان ہے اور جھمکے اپنے کانوں میں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے اور گا رہی ہے اپنی بچی کو آواز دیتی ہے۔ اور کہتی ہے مُنی منی آ تجھے ایک چیز دکھاؤں اس کی بند مُٹھی کھلتی ہے اُس کی ہتھیلی پر وہی جھمکے نظر آتے ہیں جو چرنجی اس کے لیے لایا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ملاقاتی

 

 

’’آج صبح آپ سے کون ملنے آیا تھا‘‘

’’مجھے کیا معلوم میں تو اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔‘‘

’’آپ تو بس ہر وقت سوئے ہی رہتے ہیں آپ کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا حالانکہ آپ سب کچھ جانتے ہوتے ہیں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ اب مجھے کیا معلوم کون صبح سویرے تشریف لایا تھا کون آیا ہو گا۔ میرے ملنے والا یا کوئی اور شخص جسے سفارش کرانا ہو گی‘‘

’’آپ کی سفارش کہاں چلتی ہے۔ بڑے آئے ہیں گورنر کہیں گے۔‘‘

’’میں نے گورنری کا دعوے ٰ کبھی نہیں کیا لیکن اِدھر اُدھر میری تھوڑی سی واقفیت ہے اس لیے دوست یار کبھی کبھی کسی رشتے دار کو یہاں لے آتے ہیں کہ سفارش کر دو‘‘

’’آپ بات ٹالنے کی کوشش نہ کیجیے۔ میری اس بات کا جواب دیجیے کہ صبح سویرے آپ سے ملنے کے لیے کون آیا تھا۔‘‘

’’بھئی کہہ تو دیا ہے کہ مجھے علم نہیں۔ میں اندر اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ تمھیں اتنا تو یاد ہونا چاہیے کہ رات بڑے بچے کو بخار تھا اور میں دیر تک جاگتا رہا اُس کے بعد اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور نو بجے تک سوتا رہا۔‘‘

’’میں تو اُوپر کوٹھے پر تھی ہو سکتا ہے کہ آپ اس سے اُٹھ کر ملے ہوں۔‘‘

’’کسی سے کچھ پتہ بھی تو چلے‘‘

’’آپ کو پتہ چل جائے گا جب میں یہ گھر چھوڑ کر میکے چلی جاؤں گی‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا تمھیں ایکا ایکی کیا ہو جاتا ہے تمہارے دماغ میں یقیناً فتور ہے۔‘‘

’’فتور ہو گا آپ کے دماغ میں۔ میرا دماغ اچھا بھلا ہے دیکھیے میں آپ سے کہہ دوں آپ زبان سنبھال کر بات کیا کیجیے مجھ سے آپ کی یہ بد زُبانیاں برداشت نہیں ہو سکتیں۔‘‘

’’تم خود پرلے درجے کی بد زبان ہو کیا عورت کو اپنے شوہر سے اس طرح سے بات کرنی چاہیے۔‘‘

’’جو شوہر اس قابل ہو گا۔ اُس سے اس قسم کے لہجے میں گفتگو کرنا پڑے گی۔‘‘

’’بند کرو اس گفتگو کو۔ میں تمہاری اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ چکا ہوں تم تو میکے جاتی رہو گی۔ میں اس سے پہلے اس گھر سے نکل کر چلا جاؤں گا۔‘‘

’’کہاں‘‘

’’کسی جنگل میں‘‘

’’وہاں جا کر کیا کیجیے گا۔‘‘

’’سنیاسی بن جاؤں گا۔ تم سے چھٹکارا تو مل جائے گا۔ خدا کی قسم چند برسوں سے تم نے میرے ناک میں دم کر رکھا ہے بات بات پر نوک جھونک کرتی ہو آخر یہ سلسلہ کیا ہے جانے کون کم بخت صبح مجھ سے ملنے آیا تھا میرے دشمنوں کو بھی خبر نہیں خود کہتی ہو کہ تم کوٹھے پر تھیں تمھیں کیسے معلوم ہو گیا کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے کبھی تک کی بات بھی کیا کرو۔‘‘

’’آپ تو ہمیشہ تک کی بات کرتے ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے۔ آپ دفتر سے آئے تو میں نے آپ کی سفید قمیص پر لال رنگ کا ایک دھبہ دیکھا میں نے پوچھا یہ کیسے لگا آپ سٹپٹا گئے مگر فوراً سنبھل کر ایک گھڑ دی کہ لال پنسل سے کھجا رہا تھا شاید یہ اُس کا نشان ہو گا۔ حالانکہ جب آپ نے قمیص اُتاری اور میں نے اس دھبے کو غور سے دیکھا تو وہ لپ اسٹک کا دھبہ تھا۔‘‘

’’میرا خیال ہے کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے‘‘

’’جناب اس لال دھبے سے خوشبو بھی آ رہی تھی۔ کیا آپکے دفتر کی لال پنسلوں میں خوشبو ہوتی ہے‘‘

’’عورت کا دُوسرا نام اپنے خاوند کی ہر بات کو شک کی نظروں سے دیکھنا ہے۔

کل صبح تم نے ہی میری اِس قمیص پر سینٹ لگایا تھا۔‘‘

’’لگایا ہو گا مگر وو دھبہ یقیناً لپ اسٹک کا تھا۔‘‘

’’یعنی آپ لپ اسٹک لگے ہونٹ میری قمیص چومتے رہے‘‘

’’آپ کو باتیں بنانا خوب آتی ہیں قمیص چومنے کا سوال کیا پیدا ہوتا ہے، کیا ہونٹ ویسے ہی قمیص سے نہیں چھو سکتے۔‘‘

’’چھو سکتے ہیں بابا چھو سکتے ہیں تم یہ سمجھتی ہو کہ میں کوئی یوسف ہوں کہ لڑکیاں میرے حسن سے اس قدر متاثر ہوتی ہیں کہ غش کھا کر مجھ پر گرتی جاتی ہیں اور میں جھاڑو ہاتھ میں لے کر سڑکوں سے یہ کوڑا کرکٹ اُٹھاتا رہتا ہوں۔‘‘

’’مرد ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں‘‘

’’دیکھو تم عورت ذات کی خود عورت ہو کر توہین کر رہی ہو۔ کیا عورتیں اتنے ہی کمزور کردار کی ہیں کہ ہر مرد کے آگے پا انداز کی طرح بچھ جائیں خدا کے لیے کچھ تو اپنی صنف کا خیال کرو میں نے تو ہمیشہ عورت کی عزت کی ہے۔‘‘

’’عزت کرنا ہی تو آپ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جو بے چاری بھولی بھالی عورت کو آپ کے جال میں پھنسا لیتا ہے۔‘‘

’’میں کوئی چڑی مار نہیں جو جال بچھاتا رہے‘‘

’’آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں ورنہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ چڑی ماروں کے گرو ہیں۔‘‘

’’یہ رُتبہ آج تم نے بخشا ہے۔ آٹھ دس روز ہوئے مجھے کمینہ کہا گیا تھا آج چڑی ماروں کا گرو پرسوں یہ ارشاد ہو گا کہ تم ہٹلر ہو۔‘‘

’’وہ تو آپ ہیں۔ اس گھر میں چلتی کس کی ہے جو آپ کہیں وہی ہو گا۔ ہو کے رہے گا۔ میں تو تین میں ہوں نہ تیرہ میں‘‘

’’میں کہتا ہوں اب یہ فضول بکواس بند ہو جانی چاہیے میرا دماغ چکرا گیا ہے۔‘‘

’’دماغ آپ کا بہت نازک ہے۔ ذراسی بات کر و تو چکرانے لگتا ہے۔ میں عورت ہوں میرا دماغ تو آج تک آپکی باتوں سے نہیں چکرایا۔‘‘

’’عورتیں بڑی سخت دماغ ہوتی ہیں یُوں تو انھیں صنف نازک کہا جاتا ہے مگر جب واسطہ پڑتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ایسی صنفِ کرخت دُنیا کے تختے پر نہیں۔‘‘

’’آپ حد سے بڑھ رہے ہیں‘‘

’’کیا کروں۔ تم جو میرا دماغ چاٹ گئی ہو تم اتنا تو سوچو کہ میں دفتر میں آٹھ گھنٹے جھک مار کر گھر آیا ہوں تھکا ہارا ہوں مجھے آرام کی ضرورت ہے اور تم لے بیٹھی ہو ایک فرضی قصّہ کہ تم سے ملنے کے لیے صبح سویرے کوئی آیا تھا۔ کون آیا تھا یہ بتا دو تو ساری جھنجھٹ ختم ہو۔‘‘

’’آپ تو بس بات ٹالنا چاہتے ہیں‘‘

’’کون خر ذات بات ٹالنا چاہتا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کسی نہ کسی حیلے ختم ہو۔ لو اب بتا دو کون آیا تھا مجھ سے ملنے‘‘

’’ایک چڑیل تھی۔‘‘

’’وہ یہاں کیا کرنے آئی تھی۔ میرا اُس سے کیا کام؟‘‘

’’یہ آپ اُسی سے پوچھیے گا۔‘‘

’’اب تو مجھ سے پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ کون آیا تھا۔ لیکن تم تو کوٹھے پر سو رہی تھی۔‘‘

’’میں کہیں بھی سوؤں لیکن مجھے ہر بات کی خبر ہوتی ہے۔‘‘

’’اچھا بھئی میں تو اب ہار گیا نہا دھو کر کلب جاتا ہوں کہ طبیعت کا تکدر کسی قدر دُور ہو۔‘‘

’’صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ اُس سے ملنے جا رہے ہیں‘‘

’’خدا کی قسم آج میرا دماغ پاش پاش ہو جائے گا۔ میں کس سے ملنے جا رہا ہوں‘‘

’’اُسی سے‘‘

’’تمہارا مطلب ہے اُسی چڑیل سے‘‘

’’اب آپ سمجھ گئے۔ تو کلب جا کر آپ کو اور کس سے ملنا ہے مجھ سے‘‘

’’تم تو ہر وقت میرے سینے پر سوار رہتی ہو‘‘

’’اسی لیے تو آپ اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کرنے جا رہے ہیں کسی دن مجھے زہر ہی کیوں نہیں دے دیتے تاکہ قصہ ہی ختم ہو‘‘

’’اتنی دیر میں تو پاگل نہیں ہوئی۔ لیکن آج ضرور ہو جاؤں گی۔‘‘

’’اس لیے کہ میں نے آپ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔‘‘

’’میری تو ہر رگ آج دُکھ رہی ہے تم نے مجھے اس قدر جھنجوڑا اور لتاڑا ہے کہ اللہ کی پناہ تم عورت نہیں ہو لندھر پہلوان ہو۔‘‘

’’یہ سننا آپ سے باقی رہ گیا تھا نہ رہے وہ چڑیل اس دُنیا کے تختے پر‘‘

’’پھر وہی چڑیل دیکھو باہر ڈیوڑھی سے مجھے کسی عورت کی آواز سُنائی دی ہے‘‘

’’آپ ہی جا کر دیکھیے‘‘

’’لاحول ولا قوۃ عورتوں کو دیکھنا میرا کام نہیں صرف تمہارا ہے!‘‘

’’نوکر سے کہتی ہوں‘‘

’’بی بی جی وہی بی بی آئی ہیں جو آج صبح آئی تھیں۔‘‘

’’میں چلتا ہوں‘‘

’’نہیں نہیں آپ ہی سے تو وہ ملنے آئی ہے‘‘۔

’’اوہ ذکیہ تم تم تم یہاں کب آئیں‘‘

’’ہوائی جہاز میں پہلے نیرولی سے کراچی پہنچی پھر وہاں سے یہاں ہوائی جہاز ہی میں آئی۔ ابا جی باہر کھڑے ہیں‘‘

’’تم نے بھی حد کر دی ذکیہ۔ میں خود جاتی ہوں اپنے ابا جی کو لینے اتنی مدت ہو گئی ہے اُن کو دیکھے ہوئے!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

نفسیات شناس

 

 

آج میں آپ کو اپنی ایک پُر لطف حماقت کا قصّہ سُناتا ہوں۔

کرفیوں کے دن تھے۔ یعنی اس زمانے میں جب بمبئی میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہو چکے تھے۔ ہر روز صبح سویرے جب اخبار آتا تو معلوم ہوتا کہ متعدد ہندوؤں اور مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

میری بیوی اپنی بہن کی شادی کے سلسلے میں لاہور  جا چکی تھی۔ گھر بالکل سُونا سُونا تھا اسے گھر تو نہیں کہنا چاہیے۔ کیونکہ صرف دو کمرے تھے ایک غسلخانہ جس میں سفید چمکیلی ٹائلیں لگی تھیں اس سے کچھ اور ہٹ کر ایک اندھیرا سا باورچی خانہ اور بس۔

جب میری بیوی گھر میں تھی تو دونوکر تھے۔ دونوں بھائی کم عمر تھے۔ ان میں سے جو چھوٹا تھا وہ مجھے قطعاً پسند نہیں تھا اس لیے کہ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ چالاک اور مکار تھا چنانچہ میں نے موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُسے نکال باہر کیا اور اُس کی جگہ ایک اور لڑکا ملازم رکھ لیا جس کا نام افتخار تھا۔

رکھنے کو تو میں نے اُسے رکھ لیا لیکن بعد میں بڑا افسوس ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ پھرتیلا تھا۔ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور کوئی افسانہ سوچ رہا ہوں کہ وہ باورچی خانہ سے بھاگا آیا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’صاحب آپ نے بُلایا مجھے۔‘‘

میں حیران کہ اس خر ذات کو میں نے کب بُلایا تھا چنانچہ میں نے شروع شروع تو اتنی حیرت کا اظہار کیا اور اس سے کہا۔ افتخار تمہارے کان بجتے ہیں میں جب آواز دیا کروں اُسی وقت آیا کرو۔

افتخار نے مجھ سے کہا۔ لیکن صاحب آپ کی آواز ہی سنائی دی تھی۔

میں نے اس سے بڑے نرم لہجے میں کہا۔ نہیں میں نے تمھیں نہیں بُلایا تھا جاؤ اپنا کام کرو۔

وہ چلا گیا لیکن جب ہر روز چھ چھ مرتبہ آ کر یہی پوچھتا صاحب آپ نے بُلایا ہے مجھے تو تنگ آ کر اُس سے کہنا پڑتا تم بکواس کرتے ہو تم ضرورت سے زیادہ چالاک ہو بھاگ جاؤ یہاں سے اور وہ بھاگ جاتا۔

گھر میں چونکہ اور کوئی نہیں تھا اس لیے میرا دوست راجہ مہدی علی خان میرے ساتھ ہی رہتا تھا اُس کو افتخار کی مستعدی بہت پسند تھی۔ وہ اُس سے بہت متاثر تھا۔ اس نے کئی بار مجھ سے کہا منٹو۔ تمہارا یہ ملازم کتنا اچھا ہے۔ ہر کام کتنی مستعدی سے کرتا ہے۔

میں نے اُس سے ہر بار یہی کہا۔ راجہ میری جان تم مجھ پر بہت بڑا احسان کرو گے۔ اگر اسے یہاں اپنے یہاں لے جاؤ مجھے ایسے مستعد نوکر کی ضرورت نہیں معلوم نہیں کہ راجہ کو افتخار پسند تھا تو اُس نے اُسے ملازم کیوں نہ رکھ لیا میں نے راجہ سے کہا۔

’’دیکھو بھائی یہ لڑکا بڑا خطرناک ہے مجھے یقین ہے کہ چور ہے کبھی نہ کبھی میرے چونا ضرور لگائے گا۔‘‘

راجہ میرا تمسخر اُڑاتا۔ تم فرائڈ بن رہے ہو۔ ایسا نوکر زندگی میں مشکل سے ملتا ہے تم نے اسے سمجھا ہی نہیں۔

’’میں سوچ میں پڑ جاتا کہ میرا قیافہ یا اندازہ کہیں غلط تو نہیں۔ شاید راجہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو۔ ہو سکتا ہے افتخار ایماندار ہو اور جو میں نے اس کی ضرورت سے زیادہ پھرتی اور چالاکی کے متعلق فیصلہ کیا ہے بہت ممکن ہے غلط ہو مگر سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچتا کہ میں نے جو فیصلہ کیا ہے وہی درست ہے مجھے اپنے متعلق یہ حسن ظن ہے کہ انسانی نفسیات کا ماہر ہوں۔ آپ یقین مانیے افتخار کے متعلق جو رائے میں نے قائم کی تھی دُرست نکلی لیکن۔‘‘

’’یہ لیکن ہی سارا قصہ ہے‘‘

اور قصّہ یُوں ہے کہ میں جب بمبئی ٹاکیز سے واپس آیا کرتا تھا تو عادتاً ریل گاڑی کا ماہانہ ٹکٹ جو ایک کارڈ کی صورت میں ہوتا تھا جو سلو لائیڈ کے کور میں بند رہتا تھا، اپنے میز کے ٹرے میں رکھا کرتا تھا جتنے روپے پیسے اور آنے جیب میں ہوتے وہ بھی اس ٹرے میں رکھ دیتا۔ اگر کچھ نوٹ ہوں تو میں وہ ٹکٹ کے سلو لائیڈ کے کور میں اُڑس دیا کرتا۔

ایک دن جب میں بمبئی ٹاکیز سے واپس آیا تو میری جیب میں ساٹھ روپے کی مالیت کے چھ نوٹ دس دس کے تھے میں نے حسبِ عادت جیب میں سے ٹرین کا پاس نکالا اور سلولائڈ کور میں چھ نوٹ اڑسے اور برانڈی پینے لگا۔ کھانا کھانے کے بعد میں سو گیا۔

صبح جلدی بیدار ہوتا ہوں یعنی یہی کوئی ۵ بجے ساڑھے پانچ کے قریب اخبار آ جاتے تھے اُن کا جلدی جلدی مطالعہ کرتے کرتے چھ بجے میں اُٹھ کر غسل کرتا اُس کے بعد پھر برانڈی پیتا اور کھانا کھا کر سو جاتا۔

اُس شام بھی ایسا ہی ہوا افتخار نے بڑی پھرتی سے میز پر کھانا لگایا جب میں کھا کر فارغ ہوا تو اس نے بڑی پھرتی سے برتن اُٹھائے۔ میز صاف کی اور مجھ سے کہا ’’صاحب آپ کو سگریٹ چاہئیں۔‘‘

میں نے اس سے بڑے درشت لہجے میں کہا۔ کہ ’’سگریٹ تو مجھے چاہئیں۔ لیکن تم لاؤ گے کہاں سے جانتے نہیں ہو آج کرفیو ہے نو بجے سے صبح چھ بجے تک۔‘‘

افتخار خاموش ہو گیا۔

میں حسبِ معمول صبح پانچ بجے اُٹھا لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں نوکر سو رہے تھے۔ کرفیو کا وقت چھ بجے تک تھا۔ اس وقت کوئی اخبار نہیں آیا تھا۔ صوفے پر بیٹھا اونگھتا رہا۔

تھوڑی دیر کے بعد اُکتا کر میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو بازار سنسان تھا وہ بازار جو صبح تین بجے ہی ٹرالوں کی کھڑکھڑاہٹ اور مل میں کام کرنے والی عورتوں اور مردوں کی تیز رفتاری سے زندہ ہوتا تھا۔

کھڑکی ایک ہی تھی۔ اس کے پاس ہی میری میز پر جو ٹرے پڑی تھی میری نظر اتفاقیہ اس پر پڑی شام کو ہر روز میں اس میں اپنا ریل کا پاس اور روپے پیسے رکھا کرتا تھا اس لیے کہ یہ معاملہ عادت بن کر طبیعت بن گیا تھا۔

جب میں نے ٹرے کو اتفاقیہ دیکھا تو مجھے وہ پاس نظر نہ آیا جس کے کور میں میں نے دس دس کے چھ کرنسی نوٹ رکھے تھے پہلے تو میں نے سمجھا کہ شاید میں نے کاغذوں کے نیچے رکھ دیا ہو گا لیکن جب کاغذ اُٹھائے تو کچھ بھی نہ تھا۔

بڑی حیرت ہوئی۔ ایک ایک کاغذ اُلٹ پلٹ کیا مگر وہ پاس نہ ملا۔ دونوں نوکر باورچی خانے میں سو رہے تھے۔ میں بڑا متحیر تھا کہ یہ قصہ کیا ہے میں نے اگر گھر آنے سے پہلے شراب پی ہوتی تو میں سمجھتا کہ میرا حافظہ جواب دے گیا ہے یا جیب سے رو مال نکالتے وقت مجھ سے وہ چھ نوٹ کہیں گر گئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا میں نے بمبئی ٹاکیز سے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا اس لیے کہ گھر میں برانڈی کی پوری بوتل موجود تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر تلاش شروع کی تو دیکھا میرا ریلوے پاس دس دس کے چھ نوٹوں سمیت میز کے نچلے درازمیں فائلوں کے نیچے پڑا ہے میں دیر تک سوچتا رہا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا اس لیے کہ میں نے اسے چھپا کر نہیں رکھا تھا۔

میں نے سوچا کہ یہ افتخار کی حرکت ہے۔ جبکہ میں سو رہا تھا باورچی خانے کے کام سے فارغ ہو کر ٹرے میں وہ پاس دیکھا اور اس کو میز کے نیچے والی دراز میں فائلوں کے اندر چھپا دیا۔

رات کرفیو تھا اس لیے وہ باہر نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی غالباً یہ اسکیم تھی کہ جب صبح کرفیو اُٹھے تو وہ پاس نوٹوں سمیت لے کر چمپت ہو جائے گا مگر میں بھی ایک کائیاں تھا میں نے پاس فائلوں کے نیچے سے اُٹھایا اور پھر ٹرے میں رکھ دیا تاکہ میں افتخار کی پریشانی دیکھ سکوں۔

مجھے مقررہ وقت پر بمبئی ٹاکیز جانا تھا چنانچہ حسبِ معمول میں نے کُرتہ اور پاجامہ نکالا پاجامہ میں ازار بند ڈالا اور تولیہ لے کر غسل خانے میں چلا گیا لیکن میرے دل و دماغ میں صرف ایک ہی خیال تھا۔ اور وہ افتخار کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا مجھے یقین تھا کہ وہ میری میز کے نچلے دراز میں چھپایا ہوا پاس بڑے وثوق سے نکالے گا پھر جب اُسے نہیں ملے گا تو وہ اِدھر اُدھر دیکھے گا۔ جب اُسے ناکامی ہو گی تو وہ اُٹھے گا اُس کی نظر ٹرے پر پڑے گی وہ کس قدر حیران ہو گا لیکن وہ پاس کو اُٹھائے گا اور اپنے قبضے میں اُڑس کر چلتا بنے گا۔

میں نے اپنے دماغ میں اسکیم بنائی تھی کہ غسل خانے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا رکھوں گا۔ غسل خانہ میرے کمرے کے بالکل سامنے تھا ذرا سا دروازہ کھلا رہتا اور میں تاک میں رہتا تو افتخار کو رنگے ہاتھوں پکڑ لینے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا۔

میں جب غسل خانے میں داخل ہوا تو بہت مسرور تھا۔ بزعمِ خود نفسیاتی ماہر ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ خوش تھا کہ آج میری قابلیت مُسلم ہو جائے گی۔

افتخار کو پکڑ کر میں راجہ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ میرا یہ ارادہ نہیں تھا کہ اسے پولیس کے حوالے کروں مجھے صرف اپنا دلی اور ذہنی اطمینان ہی تو مطلوب تھا۔ چنانچہ میں نے غسل خانے میں داخل ہو کر جب اپنے کپڑے اُتارے تو دروازہ ذرا سا کھلا رکھا۔

پانی کے دو ڈونگے اپنے بدن پر ڈال کر میں نے صابن ملنا شروع کیا اس کے بعد کئی مرتبہ جھانک کر کمرے کی طرف دیکھا مگر افتخار پاس لینے نہ آیا۔ لیکن مجھے یقین واثق تھا کہ وہ ضرور آئے گا اس لیے کہ اس وقت کرفیو اُٹھ چکا تھا۔

میں فوارے کے نیچے بیٹھا اور اُس کی تیز اور ٹھنڈی پھوار میں اپنا کام بھول گیا اور سوچنے لگا۔ افسانہ نگار ہونا بھی بہت بڑی لعنت ہے میں نے اسکیم کو افسانے کی شکل دینا شروع کر دی ساتھ ساتھ نہاتا بھی رہا اتنا مزا آیا کہ افسانے اور پانی میں غرق ہو گیا۔

میں نے پورا افسانہ صابن اور پانی سے دھو دھا کر اپنے دماغ میں صاف کر لیا۔ بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ اس افسانے کا انجام یہ تھا کہ میں نے اپنے نوکر کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے اور میری نفسیات شناسی کی چاروں طرف دھُوم مچ گئی ہے۔

میں بہت خوش تھا چنانچہ میں خلافِ معمول اپنے بدن پر ضرورت سے زیادہ صابن ملا۔ ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کیا لیکن ایک بات تھی کہ افسانہ میرے دماغ میں اور زیادہ صاف اور زیادہ اُجلا ہوتا گیا جب نہا کر باہر نکلا تو میں اور بھی زیادہ خوش تھا۔ اب صرف یہ کرنا تھا کہ یہ قلم اُٹھاؤں اور یہ افسانہ لکھ کر کسی پرچے کو بھیج دُوں۔

میں خوش تھا کہ چلو ایک افسانہ ہو گیا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں گیا میرے فلیٹ میں صرف دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں تو وہ معاملہ پڑا تھا۔ یعنی میرا ریلوے کا پاس جس میں دس دس کے چھ نوٹ ملفوف تھے میں دوسرے کمرے میں کپڑے پہن رہا تھا۔

کپڑے پہن کر جب باہر نکلا تو یوں سمجھیے جیسے افسانوں کی دنیا سے باہر آیا۔ فوراً مجھے خیال آیا کہ میری اسکیم کیا تھی۔ میز پر پڑی ٹرے کو دیکھا۔۔ ۔

میرا ریلوے پاس دس دس کے چھ نوٹوں سمیت غائب تھا۔

میں نے فوراً اپنے شریف نوکر کو طلب کیا اور اُس سے پوچھا۔

’’کریم افتخار کہاں ہے‘‘

اس نے جواب دیا۔ ’’صاحب وہ کوئلے لینے گیا ہے۔‘‘

میں نے صرف اتنا کہا ’’تو اُس نے اپنا منہ کالا کر لیا ہے۔‘‘

کریم نے اُس کی تلاش کی مگر وہ نہ ملا میں غسل خانے میں انسانی نفسیات کو صابن اور پانی سے دھوتا اور صاف کرتا رہا۔ مگر افتخار مجھے صاف کر گیا۔ اس لیے کہ اسی صبح جب میں بمبئی ٹاکیز کی برقی ٹرین میں روانہ ہوا تو میرے پاس، پاس نہیں تھا ٹکٹ چیکر آیا تو میں پکڑا گیا مجھے کافی جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

٭٭٭

 

 

 

 

رتی، ماشہ، تولہ

 

 

زینت اپنے کالج کی زینت تھی۔ بڑی زیرک ٗ بڑی ذہین اور بڑے اچھے خدو خال کی صحتمند نوجوان لڑکی۔ جس طبیعت کی وہ مالک تھی اس کے پیشِ نظر اُس کی ہم جماعت لڑکیوں کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا۔ کہ وہ اتنی مقدار پشد عورت بن جائے گی۔

ویسے وہ جانتی تھیں کہ چائے کی پیالی میں صرف ایک چمچ شکر ڈالنی ہے زیادہ ڈالدی جائے تو پینے سے انکار کر دیتی ہے قمیص اگر آدھا انچ بڑی یا چھوٹی سِل جائے تو کبھی نہیں پہنے گی۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند سے بھی نپی تلی محبت کرے گی۔

زینت سے ایک لڑکے کو محبت ہو گئی وہ اس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اُس کا اور زینت کا مکان آمنے سامنے تھا ایک دن اُس لڑکے نے جس کا نام جمال تھا اُسے کوٹھے پر اپنے بال خشک کرتے دیکھا تو وہ سر تاپا محبت کے شربت میں شرابور ہو گیا۔

زینت وقت کی پابند تھی صبح ٹھیک چھ بجے اُٹھتی۔ اپنی بہن کے دو بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی اس کے بعد خود نہاتی اور سر پر تولیہ لپیٹ کر اوپر کوٹھے پر چلی جاتی اور اپنے بال جو اُس کے ٹخنوں تک آتے تھے سُکھاتی کنگھی کرتی اور نیچے چلی جاتی جوڑا وہ اپنے کمرے میں کرتی تھی۔

اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر عمل کے وقت معین تھے۔ جمال گر صبح ساڑھے چھ بجے اُٹھتا اور حوائج ضروری سے فارغ ہو کر اپنے کوٹھے پر پہنچتا تو اُسے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑتا اس لیے کہ زینت اپنے بال سُکھا کر نیچے چلی گئی ہوتی تھی ایسے لمحات میں وہ اپنے بالوں میں اُنگلیوں سے کنگھی کرتا اور ادھر ادھر دیکھ کے واپس نیچے چلا جاتا اس کو سیڑھیاں اُترتے ہوئے یوں محسوس ہوتا کہ ہر زینہ کنگھی کا ایک دندانہ ہے جو اُترتے ہوئے ایک ایک کر کے ٹوٹ رہا ہے۔

ایک دن جمال نے زینت کو ایک رقعہ بھیجا وقت پر وہ کوٹھے پر پہنچ گیا تھا جبکہ زینت اپنے ٹخنوں تک لمبے بال سُکھا رہی تھی اس نے یہ تحریر جو خوشبو دار کاغذ پر تھی روڑے میں لپیٹ کر سامنے کوٹھے پر پھینک دی زینت نے یہ کاغذی پیراہن میں ملبوس پتھر اُٹھایا۔ کاغذ اپنے پاس رکھ لیا اور پتھر واپس پھینک دیا۔ لیکن اُس کو جمال کی شوخئ تحریر پسند نہ آئی اور وہ سر تا پا فریاد بن گئی اُس نے لکھا تھا۔

زلف برہم سنبھال کر چلیے

راستہ دیکھ بھال کر چلیے

موسمِ گُل ہے اپنی بانہوں کو

میری بانہوں میں ڈال کر چلیے

موسمِ گل قطعاً نہیں تھا۔ اس لیے اس آخری شعر نے اُس کو بہت کوفت پہنچائی اس کے گھر میں کئی گملے تھے جن میں بوٹے لگے ہوئے تھے یہ سب کے سب مرجھائے ہوئے تھے جب اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کا ردّ عمل یہ ہوا کہ اس نے مُرجھائے بے گُل بُوٹے اکھاڑے اور اس کنستر میں ڈال دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ جمع کیا جاتا تھا۔

ایک زُلف اس کی برہم رہتی تھی۔ لیکن راستہ دیکھ بھال کر چلنے کا سوال کیا پیدا ہوتا تھا زینت نے سوچا کہ یہ محض شاعرانہ تُک بندی ہے لیکن اس کے بال ٹخنوں تک لمبے تھے۔ اسی دن جب اس کو یہ رقعہ ملا تو نیچے سیڑھیاں اُترتے ہوئے جب ایک زینے پر اپنی ایک بھانجی کے کان سے گری ہوئی سونے کی بالی اُٹھانی پڑی تو وہ اس کی سینڈل سے اُلجھ گئے اور گرتے گرتے بچی۔ چنانچہ اُس دن سے اُس نے راستہ دیکھ بھال کر چلنا شروع کیا۔ مگر اس کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنے میں سخت اعتراض تھا۔ وہ اسے زیادتی سمجھتی تھی اس لیے کہ موسم گل نہیں تھا موسم گل بھی ہوتا تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پھولوں سے بانہوں کا کیا تعلق ہے اس کے نزدیک بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنا بڑا واہیات بلکہ سوقیانہ ہے چنانچہ جب وہ دوسرے روز صبح ۶ بجے اُٹھی اور اپنی بھانجیوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا چاہا تو اُسے معلوم ہوا کہ اتوار ہے اس کے دل و دماغ میں وہ دو شعر سوار تھے۔

اُس نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بچیوں کو تیار کرے گی اس کے بعد نہائے گی اور اپنے کمرے میں جا کر جمال کا رقعہ پڑھ کر اُسے جی ہی میں کوسے گی مگر اتوار ہونے کے باعث اس کا یہ تہیہ درہم برہم ہو گیا۔ اُسے وقت سے پہلے غسل کرنا پڑا حالانکہ وہ اپنے روز مرہ کے اوقات کے معاملے میں بڑی پابند تھی۔

اُس نے غسل خانے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا دو بالٹیوں سے پہلے نہاتی تھی دو بالٹیوں سے اب بھی نہائی۔ لیکن آہستہ آہستہ اُس نے نہاتے وقت اپنی بانہوں کو دیکھا۔ جو سڈول اور خوبصورت تھیں پھر اُسے جمال کی بانہوں کا خیال آیا لیکن اس نے ان کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ قمیص کی آستینوں کے اندر چھپی رہتی تھیں ان کے متعلق وہ کیا رائے قائم کر سکتی تھی بہر حال وہ اپنے گدرائے ہوئے بازو دیکھ کر مطمئن ہو گئی اور جمال کو بھول گئی۔

غسل میں کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی۔ اس لیے کہ وہ اپنے حسن و جمال کے متعلق اندازہ کرنے بیٹھ گئی تھی اس نے کافی دیر غور کرنے پر یہ نتیجہ نکالا کہ وہ زیادہ حسین تو نہیں لیکن قبول صورت اور جوان ضرور ہے۔

جوان وہ بلا شبہ تھی۔ وہ چھوٹی مختصر سی ریشمی چیز جو اُس نے اپنے بدن سے اُتار کر لکس صابن کی ہوائیوں میں دھوئی تھی اُس کے سامنے ٹنگی تھی۔ یہ گیلی ہونے کے باوجود بہت سی چغلیاں کھا رہی تھی۔

اس کے بعد روڑے میں لپٹا ہوا ایک اور خط آیا اُس میں بے شمار اشعار تھے شعروں سے اُسے نفرت تھی اس لیے کہ وہ انھیں محبت کا عامیانہ ذریعہ سمجھتی تھی خط آتے رہے زینت وصول کرتی رہی لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔

وہ محبت کے شدید جذبے کی قائل نہیں تھی اس کو جمال پسند تھا اس لیے کہ وہ خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اُس کے متعلق وہ لوگوں سے بھی سُن چکی تھی کہ وہ بڑے اچھے خاندان کا لڑکا ہے شریف ہے اس کو اور کسی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رہا غالباً یہی وجہ تھی ایک دن اُس نے اپنی نوکرانی کے دس سالہ بچے کے ہاتھ اس کو یہ رقعہ لکھ کر بھیج دیا۔ ’’آپ کی رقعہ نویسی پر مجھے اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہیں کہ یہ شعروں میں نہ ہوا کرے مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجھے چاندی اور سونے کے ہتھوڑوں سے کُوٹ رہا ہے۔

یہ خط ملنے کے بعد جمال نے اشعار لکھنے بند کر دیے لیکن اُس کی نثر اُس سے بھی کہیں زیادہ جذبات سے پُر ہوتی تھی زینت کی طبع پر یہ بھی گراں گزرتی۔ وہ سوچتی یہ کیسا آدمی ہے وہ رات کو سوتی تو اپنا کمرہ بند کر کے قمیص اتار دیتی تھی اس لیے کہ اس کی نیند پر یہ ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔ مگر جمال تو اُس کی قمیص کے مقابلے میں کہیں زیادہ بوجھل تھا۔ وہ اُسے کبھی برداشت نہ کر سکتی لیکن اُس کو اس بات کا کامل احساس تھا کہ وہ اس سے والہانہ محبت کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زینت نے جمال کو کئی موقع دیے کہ وہ اس سے ہمکلام ہو سکے وہ اس سے جب پہلی بار ملا تو کانپ رہا تھا۔ کانپتے کانپتے اور ڈرتے ڈرتے اُس نے ایک ناول بغیر عنوان کے اپنی جیب سے نکالا اور زینت کو پیش کیا اسے پڑھیے میں میں اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور کانپتا لرزتا زینت کے گھر سے نکل گیا۔

زینت کو بڑا ترس آیا۔ لیکن اُس نے سوچا کہ اچھا ہوا۔ اس لیے کہ اُس کے پاس زیادہ وقت تخلیے کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابا ٹھیک ساڑھے سات بجے آنے والے تھے اور جمال سوا سات بجے چل دیا تھا۔

اس کے بعد جمال نے ملاقات کی درخواست کی تو زینت نے اسے کہلا بھیجا کہ وہ اس سے پلازہ میں شام کا پہلا شو شروع ہونے سے دس منٹ پہلے مل سکے گی۔ زینت وہاں پندرہ منٹ پہلے پہنچی جو سہیلی اُس کے ساتھ تھی اُس کو کسی بہانے اِدھر اُدھر کر دیا دس منٹ اس نے باہر گیٹ کے پاس جمال کا انتظار کیا جب وہ نہ آیا تو کسی تکدر کے بغیر وہاں سے ہٹی اور اپنی سہیلی کو تلاش کر کے اندر سینما میں چلی گئی۔

جمال اُس وقت پہنچا جب وہ فرسٹ کلاس میں داخل ہو رہی تھی زینت نے اُسے دیکھا اس کے ملتجی چہرے اور اس کی معافی کی خواستگار آنکھوں کو مگر اُس نے اُس کو گیٹ کیپر کی بھی حیثیت نہ دی اور اندر داخل ہو گئی شو چونکہ شروع ہو چکا تھا اس لیے اس نے اتنی نوازش کی کہ جمال کی طرف دیکھ کر گیٹ کیپر سے کہا

’’معاف کیجیے گا ہم لیٹ ہو گئے‘‘

جمال شو ختم ہونے تک باہر کھڑا رہا جب لوگوں کا ہجوم سینما کی بلڈنگ سے نکلا تو اس نے زینت کو دیکھا آگے بڑھ کے اس سے بات کرنا چاہی مگر اُس نے اُس کے ساتھ بالکل اجنبیوں سا سلوک کیا چنانچہ اُسے مایوس گھر لوٹنا پڑا۔

اُس کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بال بنوانے اور نہا دھو کر کپڑے پہننے میں اسے دیر ہو گئی تھی۔ اُس نے رات کو بڑی سوچ بچار کے بعد ایک خط لکھا جو معذرت نامہ تھا۔ وہ زینت کو پہنچا دیا یہ خط پڑھ کر جب وہ مقررہ وقت پر کوٹھے پر آئی تو جمال نے اس کے تیوروں سے محسوس کیا کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔ اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ دیر تک جاری رہا زینت کو جمال سے شکایت رہتی کہ وہ خط بہت لمبے لکھتا ہے جو ضرورت سے زیادہ جذبات سے پُر ہوتے ہیں۔ وہ اختصار کی قائل تھی محبت اُس کو بھی جمال سے ہو چکی تھی مگر وہ اُس کے اظہار میں اپنی طبیعت کے موافق برتتی تھی

آخر ایک دن ایسا آیا کہ زینت شادی پر آمادہ ہو گئی مگر ادھر دونوں کے والدین رضا مند نہیں ہوتے تھے بہر حال بڑی مشکلوں کے بعد یہ مرحلہ طے ہوا اور جمال کے گھر زینت دلہن بن کے پہنچ گئی حجلۂ عروسی سجا ہوا تھا ہر طرف پھول ہی پھول تھے جمال کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا عشق و محبت کا اُس نے چنانچہ عجیب و غریب حرکتیں کیں زینت کو سر سے پاؤں تک اپنے ہونٹوں کی سجدہ گاہ بنا ڈالا۔

زینت کو جذبات کا یہ بے پناہ بہاؤ پسند نہ آیا وہ اکتا گئی ٹھیک دس بجے سو جانے کی عادی تھی اُس نے جمال کے تمام جذبات ایک طرف جھٹک دئیے اور سو گئی۔

جمال نے ساری رات جاگ کر کاٹی زینت حسبِ معمول صبح ٹھیک چھ بجے اٹھی اور غسلخانے میں چلی گئی باہر نکلی تو اپنے ٹخنوں تک لمبے بالوں کا بڑی چابک دستی سے جوڑا بنانے میں مصروف ہو گئی اس دوران میں وہ صرف ایک مرتبہ جمال سے مخاطب ہوئی ’’ڈارلنگ مجھے بڑا افسوس ہے۔‘‘

جمال اس ننھے سے جملے سے ہی خوش ہو گیا جیسے کسی بچے کو کھلونا مل گیا ہو۔ اُس نے دل ہی دل میں اس فضا ہی کو چومنا شروع کر دیا جس میں زینت سانس لے رہی تھی وہ اُس سے والہانہ طور پر محبت کرتا۔ اس قدر شدید انداز میں کہ زینت کی مقدار پسند طبیعت برداشت نہیں کرتی تھی وہ چاہتی تھی کہ ایک طریقہ بن جائے جس کے مطابق محبت کی جائے۔

ایک دن اس نے جمال سے کہا۔ آپ مجھ سے یقیناً ناراض ہو جاتے ہوں گے کہ میری طرف سے محبت کا جواب تار کے سے اختصار سے ملتا ہے لیکن میں مجبور ہوں میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے آپ کی محبت کی میں قدر کرتی ہوں۔ لیکن پیار مصیبت نہیں بن جانا چاہیے آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

جمال نے بہت خیال رکھا۔ ناپ تول کر بیوی سے محبت کی مگر ناکام رہا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں میں ناچاقی ہو گئی۔

زینت نے بہت سوچا کہ طلاق ہی بہتر صورت ہے جو بد مزگی دُور کر سکتی ہے چنانچہ جمال سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اُس نے طلاق کے لیے جمال کو کہلوا بھیجا اس نے جواب دیا کہ مر جائے گا مگر طلاق نہیں دے گا۔ وہ اپنی محبت کا گلا ایسے بے رحم طریقے سے گھونٹنا نہیں چاہتا۔

زینت کے لیے جمال کی یہ محبت بہت بڑی مصیبت بن گئی تھی اُس نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں پہلے روز جب فریقین حاضر ہوئے تو عجیب تماشا ہوا جمال نے زینت کو دیکھا تو اس کی حالت غیر ہو گئی اُس کے وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی سماعت اور کسی تاریخ پر ملتوی کر دی جائے۔ زینت کو بڑی کوفت ہوئی وہ چاہتی تھی کہ جلد کوئی فیصلہ ہو۔ اگلی تاریخ پر جمال حاضر عدالت نہ ہوا۔ کہ وہ بیمار ہے۔ دوسرے مہینے کی تاریخ پر بھی وہ نہ آیا تو زینت نے ایک رقعہ لکھ کر جمال کو بھیجا کہ وہ اُسے پریشان نہ کرے اور جو تاریخ مقرر ہوئی ہے اس پر وہ ٹھیک وقت پر آئے۔ تاریخ سولہ اگست تھی رات سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی زینت حسبِ معمول صبح چھ بجے اٹھی نہا دھو کر کپڑے پہنے اور اپنے وکیل کے ساتھ تانگے میں عدالت پہنچ گئی اُس کو یقین تھا کہ جمال وہاں موجود ہو گا اس لیے کہ اس نے اس کو لکھ بھیجا تھا کہ وقت پر پہنچ جائے۔ مگر جب اُس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور اسے جمال نظر نہ آیا تو اُس کو بہت غصہ آیا۔

مقدمہ اُس دن سر فہرست تھا۔ مجسٹریٹ نے عدالت میں داخل ہوتے ہی تھوڑی دیر کے بعد جمال اور زینت کو بلایا۔ زینت اندر جانے ہی والی تھی کہ اُس کو جمال کی آواز سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

اُس کا چہرہ خون میں لِتھڑا ہوا تھا بالوں میں کیچڑ کپڑوں میں خون کے دھبے لڑکھڑاتا ہوا وہ اس کے پاس آیا اور معذرت بھرے لہجے میں کہا۔ زینت مجھے افسوس ہے۔ میری موٹر سائیکل پھسل گئی اور میں۔۔۔‘‘

جمال کے ماتھے پر گہرا زخم تھا جس سے خون نکل رہا تھا۔ زینت نے اپنا دوپٹہ پھاڑا اور پٹی بنا کر اس پر باندھ دی اور جمال نے جذبات سے مغلوب ہو کر وہیں عدالت کے باہر اس کا منہ چوم لیا۔ اُس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ بلکہ وکیل سے کہا کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی مقدمہ واپس لے لیا جائے۔‘‘

جمال دس دن ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں زینت اس کی بڑی محبت سے تیمار داری کرتی رہی آخری دن جب جمال مشین پر اپنا وزن دیکھ رہا تھا تو اس نے زینت سے دبی زُبان سے پوچھا میں اب تم سے کتنی محبت کر سکتا ہوں‘‘

’’زینت مسکرائی ایک من۔‘‘

جمال نے وزن کرنے والی مشین کی سوئی دیکھی اور زینت سے کہا۔

’’مگر میرا وزن تو ایک من تیس سیر ہے۔ میں یہ فالتو تیس سیر کہاں غائب کروں‘‘

زینت ہنسنے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

انجام بخیر

 

 

بٹوارے کے بعد جب فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے اور جگہ جگہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے خون سے زمین رنگی جانے لگی تو نسیم اختر جو دہلی کی نوخیز طوائف تھی اپنی بوڑھی ماں سے کہا ’’چلو ماں یہاں سے چلیں‘‘

بوڑھی نائکہ نے اپنے پوپلے منہ میں پاندان سے چھالیہ کے باریک باریک ٹکڑے ڈالتے ہوئے اُس سے پوچھا ’’کہاں جائیں گے بیٹا‘‘

پاکستان۔ یہ کہہ کر وہ اپنے استاد خان صاحب اچھن خان سے مخاطب ہُوئی۔

’’خان صاحب آپ کا کیا خیال ہے یہاں رہنا اب خطرے سے خالی نہیں۔‘‘

خان صاحب نے نسیم اختر کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تم کہتی ہو مگر بائی جی کو منا لو تو سب چلیں گے۔

نسیم اختر نے اپنی ماں سے بہتر کہا۔ کہ چلو اب یہاں ہندوؤں کا راج ہو گا۔ کوئی مسلمان باقی نہیں چھوڑیں گے۔

بڑھیا نے کہا تو کیا ہوا۔ ہمارا دھندہ تو ہندوؤں کی بدولت ہی چلتا ہے اور تمہارے چاہنے والے بھی سب کے سب ہندو ہی ہیں مسلمانوں میں رکھا ہی کیا ہے‘‘

’’ایسا نہ کہو۔ ان کا مذہب اور ہمارا مذہب ایک ہے۔ قائد اعظم نے اتنی محنت سے مسلمانوں کے لیے پاکستان بنایا ہے ہمیں اب وہیں رہنا چاہیے۔‘‘

مانڈو میراثی نے افیم کے نشہ میں اپنا سر ہلایا اور غنودگی بھری آواز میں کہا۔

’’چھوٹی بائی۔ اللہ سلامت رکھے تمھیں کیا بات کہی ہے۔ میں تو ابھی چلنے کے لیے تیار ہوں میری قبر بھی بناؤ تو رُوح خوش رہے گی۔‘‘

دوسرے میراثی تھے وہ بھی تیار ہو گئے لیکن بڑی بائی دلی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی بالا خانے پر اُسی کا حکم چلتا تھا۔ اس لیے سب خاموش ہو گئے۔

بڑی بائی نے سیٹھ گوبند پرکاش کی کوٹھی پر آدمی بھیجا اور اُس کو بُلا کر کہا:

’’میری بچی آج کل بہت ڈری ہوئی ہے۔ پاکستان جانا چاہتی تھی۔ مگر میں نے سمجھایا۔ وہاں کیا دھرا ہے۔ یہاں آپ ایسے مہربان سیٹھ لوگ موجود ہیں وہاں جا کر ہم اُپلے تھاپیں گے آپ ایک کرم کیجیے۔‘‘

سیٹھ بڑی بائی کی باتیں سُن رہا تھا مگر اس کا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ایک دم چونک کر اُس نے بڑی بائی سے پوچھا۔

’’تو کیا چاہتی ہے‘‘

ہمارے کوٹھے کے نیچے دو تین ہندوؤں والے سپاہیوں کا پہرا کھڑا کر دیجیے تاکہ بچی کا سہم دور ہو۔

سیٹھ گوبند پرکاش نے کہا۔ یہ کوئی مشکل نہیں۔ میں ابھی جا کر سپریٹنڈنٹ پولیس سے ملتا ہوں شام سے پہلے پہلے سپاہی موجود ہوں گے۔

نسیم اختر کی ماں نے سیٹھ کو بہت دُعائیں دیں۔ جب وہ جانے لگا تو اس نے کہا ہم آپ اپنی بائی کا مجرا سُننے آئیں گے۔

بڑھیا نے اُٹھ کر تعظیماً کہا۔ ہائے جم جم آئیے آپ کا اپنا گھر ہے بچی کو آپ اپنی قمیص سمجھیے کھانا یہیں کھائیے گا۔

’’نہیں میں آجکل پرہیزی کھانا کھا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنی توند پر ہاتھ پھیرتا چلا گیا۔

شام کو نسیم کی ماں نے چاندنیاں بدلوائیں گاو تکیوں پر نئے غلاف چڑھائے زیادہ روشنی کے بلب لگوائے اعلیٰ قسم کے سگرٹوں کا ڈبہ منگوانے بھیجا۔

تھوڑی ہی دیر کے بعد نوکر حواس باختہ ہانپتا کانپتا واپس آ گیا۔ اُس کے منہ سے ایک بات نہ نکلتی تھی۔ آخر جب وہ کچھ دیر کے بعد سنبھلا تو اُس نے بتایا کہ چوک میں پانچ چھ سکھوں نے ایک مسلمان خوانچہ فروش کو کرپانوں سے اُس کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے جب اُس نے یہ دیکھا تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور یہاں آن کے دم لیا۔

نسیم اختر یہ خبر سُن کر بے ہوش ہو گئی۔ بڑی مشکلوں سے خان صاحب اچھن خان اُسے ہوش میں لائے مگر وہ بہت دیر تک نڈھال رہی اور خاموش خلا میں دیکھتی رہی۔ آخر اُس کی ماں نے کہا ’’خون خرابے ہوتے ہی رہتے ہیں کیا اس سے پہلے قتل نہیں ہوتے تھے۔

دم دلاسہ دینے کے بعد نسیم اختر سنبھل گئی تو اُس کی ماں نے اُس سے بڑے دُلاراور پیار سے کہا۔

’’اٹھو میری بچی جاؤ پشواز پہنو سیٹھ آتے ہی ہوں گے۔

نسیم نے بادل نخواستہ پشواز پہنی سولہ سنگھار کیے اور مسند پر بیٹھ گئی اُس کا جی بھاری بھاری تھا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوتا تھا۔ کہ اُس مقتول خوانچہ فروش کا سارا خون اُس کے دل و دماغ میں جم گیا ہے اُس کا دل ابھی تک دھڑک رہا تھا وہ چاہتی تھی کہ زرق برق پشواز کی بجائے سادہ شلوار قمیص پہن لے اور اپنی ماں سے ہاتھ جوڑ کر بلکہ اُس کے پاؤں پڑ کر کہے کہ خدا کے لیے میری بات سُنو اور بھاگ چلو یہاں سے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ہم پر کوئی نہ کوئی آفت آنے والی ہے۔

بُڑھیا نے جھنجھلا کر کہا۔ ہم پر کیوں آفت آنے لگی ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے‘‘

نسیم نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا اس غریب خوانچہ فروش نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو ظالموں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ بگاڑنے والے بچ جاتے ہیں۔ مارے جاتے ہیں جنہوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ہوتا

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

ایسے حالات میں کس کا دماغ دُرست رہ سکتا ہے۔ چاروں طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں یہ کہہ کر وہ اُٹھی۔ بالکونی میں کھڑی ہو گئی اور نیچے بازار میں دیکھنے لگی۔ اسے بجلی کے کھمبے کے پاس چار آدمی کھڑے دکھائی دیے۔ جن کے پاس بندوقیں تھیں اُس نے خان اچھن کو بتایا اور وہ آدمی دکھائے ایسا لگتا تھا کہ وہی سپاہی ہیں جن کو سیٹھ نے بھیجا ہو گا۔

خان صاحب نے غور سے دیکھا۔

’’نہیں یہ سپاہی نہیں۔ سپاہیوں کی تو وردی ہوتی ہے مجھے تو یہ گُنڈے معلوم ہوتے ہیں۔

نسیم اختر کا کلیجہ دھک سے رہ گیا ’’گُنڈے‘‘

اللہ بہتر جانتا ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا لو یہ تمہارے کوٹھے کی طرف آ رہے ہیں۔ دیکھ نسیم کسی بہانے سے اُوپر کوٹھے پر چلی جاؤ میں تمہارے پیچھے آتا ہوں۔ مجھے دال میں کالا نظر آتا ہے۔

نسیم اختر چپکے سے باہر نکلی اور اپنی ماں سے نظر بچا کر اوپر کی منزل پر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد خان صاحب اچھن خان اپنی چندھی آنکھیں جھپکاتا اُوپر آیا اور جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی چڑھا دی۔

نسیم اختر جس کا دل جیسے ڈُوب رہا تھا۔ خانصاحب سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے‘‘

وہی جو میں نے سمجھا تھا۔ تمہارے متعلق پوچھ رہے تھے کہتے تھے سیٹھ گوبند پرکاش نے کار بھیجی ہے اور بلوایا ہے۔

تمہاری ماں بڑی خوش ہوئی بڑی مہربانی ہے اُن کی۔ میں دیکھتی ہوں کہاں ہے شاید غسل خانے میں ہو۔ اتنی دیر میں میں تیار ہو جاؤں‘‘

ان گنڈوں میں سے ایک نے کہا ’’تمھیں کیا شہد لگا کر چاٹیں گے بیٹھی رہو جہاں بیٹھی ہو خبردار جو تم وہاں سے ہلیں ہم خود تمہاری بیٹیوں کو ڈھونڈ نکالیں گے‘‘

میں نے جب یہ باتیں سُنیں اور ان گُنڈوں کے بِگڑے ہوئے تیور دیکھے تو کھسکتا کھسکتا یہاں پہنچ گیا ہوں‘‘

نسیم اختر حواس باختہ تھی۔ اب کیا کیا جائے؟

خان نے اپنا سر کھجایا اور جواب دیا ’’دیکھو میں کوئی ترکیب سوچتا ہوں بس یہاں سے نکل بھاگنا چاہیے۔

اور ماں‘‘

اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اس کو اللہ کے حوالے کر کے خود باہر نکلنا چاہیے اُوپر چار پائی پر دو چادریں پڑی ہوئی تھیں خان صاحب نے ان کو گانٹھ دے کر رسہ سا بنایا اور مضبوطی سے ایک گنڈے کے ساتھ باندھ کر دوسری طرف لٹکایا نیچے لانڈری کی چھت تھی وہاں اگر وہ پہنچ جائیں تو راستہ آگے صاف ہے لانڈری کی چھت کی سیڑھیاں دوسری طرف تھیں اُس کے ذریعے سے وہ طویلے میں پہنچ جاتے اور وہاں سائیں سے جو مسلمان تھا تانگہ لیتے اور اسٹیشن کا رُخ کرتے۔

نسیم اختر نے بڑی بہادری دکھائی۔ آرام آرام سے نیچے اُتر کر لانڈری کی چھت تک پہنچ گئی۔ خانصاحب اچھن خان بھی بحفاظت تمام اُتر گئے۔ اب وہ طویلے میں تھے سائیں اتفاق سے تانگے میں گھوڑا جوت رہا تھا دونوں اُس میں بیٹھے اور اسٹیشن کا رخ کیا مگر راستے میں ان کو ملٹری کا ٹرک مل گیا اُس میں مسلح فوجی مسلمان تھے جو ہندووں کے خطرناک محلوں سے مسلمانوں کو نکال نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا رہے تھے جو پاکستان جانا چاہتے ان کو اسپیشل ٹرینوں میں جگہ دلوا دیتے۔

تانگہ سے اُتر کر نسیم اختر اور اُس کا اُستاد ٹرک میں بیٹھے اور چند ہی منٹوں میں اسٹیشن پر پہنچ گئے اسپیشل ٹرین اتفاق سے تیار تھی اس میں ان کو اچھی جگہ مل گئی اور وہ بخیریت لاہور پہنچ گئے یہاں وہ قریب قریب ایک مہینے تک والٹن کیمپ میں رہے۔ نہایت کسمپرسی کی حالت میں اس کے بعد وہ شہر چلے آئے نسیم اختر کے پاس کافی زیور تھا جو اُس نے اُس رات پہنا ہوا تھا جب سیٹھ گوبند پرکاش اُس کا مجرا سُننے آ رہا تھا یہ اُس نے اُتار کر خان صاحب اچھن خان کے حوالے کر دیا تھا ان زیوروں میں سے کچھ بیچ کر اُنھوں نے ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا لیکن مکان کی تلاش جاری رہی آخر بدقت تمام ہیرا منڈی میں ایک مکان مل گیا جو اچھا خاصہ تھا اب خانصاحب اچھن خان نے نسیم اختر سے کہا ’’گدے اور چاندنیاں وغیرہ خرید لیں اور تم بسم اللہ کر کے مجرا شروع کر دو۔‘‘

نسیم نے کہا۔ ’’نہیں خان صاحب میرا جی اکتا گیا ہے میں تو اس مکان میں بھی رہنا پسند نہیں کرتی کسی شریف محلے میں کوئی چھوٹا سا مکان تلاش کیجیے۔ کہ میں وہاں اُٹھ جاؤں میں اب خاموش زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔

خان صاحب کو یہ سُن کر بڑی حیرت ہوئی۔ کیا ہو گیا ہے تمھیں‘‘

بس جی اچاٹ ہو گیا ہے میں اس زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتی ہوں دعا کیجیے خدا مجھے ثابت قدم رکھے ’’یہ کہتے ہوئے نسیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

خانصاحب نے اُس کو بہت ترغیب دی پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ایک دن اُس نے اپنے اُستاد سے صاف کہہ دیا کہ وہ شادی کر لینا چاہتی ہے اگر کسی نے اسے قبول نہ کیا تو وہ کنواری رہے گی۔

خان صاحب بہت حیران تھا۔ کہ نسیم میں یہ تبدیلی کیسے آئی فسادات تو اس کا باعث نہیں ہو سکتے پھر کیا وجہ تھی کہ وہ پیشہ ترک کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔

جب وہ اُسے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تو اسے ایک محلے میں جہاں شرفاء رہتے تھے ایک چھوٹا سا مکان لے دیا اور خود ہیرا منڈی کی ایک مالدار طوائف کو تعلیم دینے لگا۔ نسیم نے تھوڑے سے برتن خریدے ایک چارپائی اور بستر وغیرہ بھی ایک چھوٹا لڑکا نوکر رکھ لیا اور سکون کی زندگی بسر کرنے لگی پانچوں نمازیں پڑھتی۔‘‘

روزے آئے تو اس نے سارے کے سارے رکھے ایک دن وہ غسل خانے میں نہا رہی تھی کہ سب کچھ بھول کر اپنی سُریلی آواز میں گانے لگی اُس کے ہاں ایک اور عورت کا آنا جانا تھا نسیم اختر کو معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت شریفوں کے محلے کی بہت بڑی پھپھا کٹنی ہے شریفوں کے محلے میں کئی گھر تباہ و برباد کر چکی ہے کئی لڑکیوں کی عصمت اونے پونے داموں بِکوا چکی ہے کئی نوجوانوں کو غلط راستے پر لگا کر اپنا الو سیدھا کرتی رہتی ہے جب اُس عورت نے جس کا نام جنتے ہے نسیم کی سُریلی اور منجھی ہوئی آواز سُنی تو اُس کو فوراً خیال آیا کہ اس لڑکی کا آگا ہے نہ پیچھا، بڑی معرکے کی طوائف بن سکتی ہے چنانچہ اُس نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کر دئیے اس کو اس نے کئی سبز باغ دکھائے مگر وہ اس کے قابو میں نہ آئی آخر اُس نے ایک روز اس کو گلے لگایا اور چٹ چٹ اس کی بلائیں لینا شروع کر دیں۔ جیتی رہو بیٹا۔ میں تمہارا امتحان لے رہی تھی تم اس میں سولہ آنے پوری اُتری ہو۔ نسیم اختر اس کے فریب میں آ گئی ایک دن اُس کو یہاں تک بتا دیا کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایک یتیم کنواری لڑکی کا اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

جنتے کو موقع ہاتھ آیا۔ اُس نے نسیم سے کہا۔ بیٹا یہ کیا مشکل ہے میں نے یہاں شادیاں کرائی ہیں سب کی سب کامیاب رہی ہیں اللہ نے چاہا تو تمہارے حسب منشا میاں مل جائے گا جو تمہارے پاؤں دھو دھو کر پئے گا۔

جنتے کئی فرضی رشتے لائی مگر اُس نے ان کی کوئی زیادہ تعریف نہ کی آخر میں وہ ایک رشتہ لائی جو اس کے کہنے کے مطابق فرشتہ سیرت اور صاحب جائیداد تھا نسیم مان گئی تاریخ مقرر کی گئی اور اُس کی شادی انجام پا گئی۔

نسیم اختر خوش تھی کہ اس کا میاں بہت اچھا ہے اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا ہے لیکن اُس دن اُس کے ہوش و حواس گم ہو گئے جب اُس کو دوسرے کمرے سے عورتوں کی آوازیں سنائی دیں دروازے میں سے جھانک کر اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر دو بوڑھی طوائفوں سے اُس کے متعلق باتیں کر رہا ہے جنتے بھی پاس بیٹھی تھی۔ سب مل کر اس کا سودا طے کر رہے تھے اس کی سمجھ میں نہ آیا کیا کرے اور کیا نہ کرے بہت دیر روتی سوچتی رہی آخر اُٹھی اور اپنی پشواز نکال کر پہنی اور باہر نکل کر سیدھی اپنے اُستاد اچھن خان کے پاس پہنچی اور مجرے کے ساتھ ساتھ پیشہ بھی شروع کر دیا ایک انتقامی قسم کے جذبے کے تحت وہ کھیلنے لگی۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل