FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دیوندر ستیارتھی کی کچھ کہانیاں

حصہ چہارم

دیوندر ستیارتھی

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول

ورڈ فائل

ای پب فائل


کنڈل فائل

حصہ دوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ سوم 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ چہارم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

پُل کنجری

آج پھر پاشان یاتری کو تاج محل کے سامنے ریت کے گھروندے بناتے دیکھا- موہنجوداڑو کو سر پر اُٹھائے اور کھجوراہو کو بغل میں دبائے- ہمیں تو موہنجوداڑو اور کھجوراہو میں بھی تاج محل نظر آتا ہے۔

گھُٹنوں پر کُہنیاں، ہتھیلیوں میں چہرہ۔ کیا بانو، کیا دیویانی۔

اندھا ہاتھی سُنے گا تو ہنس دے گا۔ پُل کی طرف کھُلی رہے گھر کی کھڑکی۔

جے ہو! جے ہو! پُل کنجری تیری جَے ہو۔ ’’کہانی میں پُل کنجری۔ جیسے آئینے کے سامنے بصرے کی حُور، بانو آپا۔‘‘ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی دیویانی کہ آنکھ کا پانی سوکھنے نہ پائے۔‘‘ آندھی کہاں سے اُٹھی؟ ملتان سے، جہاں موراں کنجری کا جنم ہوا۔ واہ ری موراں! تیری آنکھ کا جادو۔

رات بھر تھرکتی رہی موراں:

 ’’عشقے دی گلی وچوں کوئی کوئی لنگھ دا‘‘

مہاراجہ کے خزانے میں آیا کوہِ نور اور رنواس میں موراں -گھنگھرو کی جھنکار۔ سکّہ تیرے نام کا۔ واہ ری موراں!

گھوڑے نہیں ہاتھی بیچ کر سوئے اوتار اور شہریار۔ اُن کی زبان پر بچپن کا گیت:

اٹکن بٹکن دہی چٹاکن

اگلا جھولے بگلا جھولے

ساون میں کریلا پھُولے

رفو گر امام علی کی اور بات، جس کے لیے درویش کی بات پتھّر کی لکیر، شِلالیکھ پر درویش کے ساتھ تین بندر۔ یہ تصویر دیکھتے دیکھتے وہ سوئی میں دھاگا پروتا اور کپڑے کے گھاؤ سیتے ہوئے گنگناتا:

 ’’پیسے کا لوبھی فرنگیا

دھوئیں کی گاڑی اُڑائے لیے جائے۔۔۔‘‘

 ’’گھاٹ پر جانے سے پہلے جُوتے مت اُتارو۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔

ایک ہی جیل میں رہے اوتار اور شہریار۔ کبھی تین سال، کبھی تیرہ سال۔ پھر شہریار نے درویش کی بجائے دست گیر کو اپنا پیر مان لیا۔ درویش کی یہی کوشش رہی کہ دیش ایک ہے لیکن دست گیر نے الگ رستہ اپنایا۔

 ’’یاپیردست گیر!‘‘ درویش نے آرتی اُتاری۔ لیکن دست گیر نے ہٹ دھرمی نہ چھوڑی۔

ایک کے دو دیش بنے اور ہم ابابیل کی طرح رو دیے۔

 ’’جینے کی سزا -گھر سے بے گھر!‘‘ ستیہ کام کی آواز

بات میں بات، پُل کنجری کی رات۔ اب تو سیما کو ہی پُل کنجری مان لو۔

کیا اِس پار، کیا اُس پار۔ اُجڑے ہوئے بے گھر لوگوں کے کارواں آتے رہے، جاتے رہے۔

پاشان یاتری نے کہا۔ ’’کھول دو۔‘‘

ڈاکٹر جسپی بولے۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ۔‘‘

ستیہ کام کی وہی آواز

خون کی ہولی دل بیگانہ

بول کبوتر دانہ دانہ

 ’’اُٹھ سہیلی آنسو پونچھ!‘‘ پاشان یاتری کی کہانی، ڈاکٹر جسپی کی زبانی۔

وہی مینا، وہی جام۔ وہی طبلے کی تھاپ، وہی پائل کی جھنکار:

چھم چھما چھم — چھم

چھم چھما چھم — چھم

پینے کے بعد ہر کوئی سلطان۔

 ’’تیری جنّت ماں کے قدموں تلے ہے، دیویانی!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی بانو آپا کہ جننی جنم بھومی سورگ سے مہان۔‘‘

پُل کے دونوں طرف وہی گھر، وہی گلیاں۔ وہی لوریاں، وہی بابل، وہی برہا کے گیت۔ کچھ تو ہو، جو سب کے من کو بھائے۔

وہی جُگنی، وہی میں، وہی جمالو

وہی ہوا، وہی آگ، وہی پانی

 ’’ریہرسل میں چلو گی، دیویانی؟‘‘

 ’’چلو۔‘‘

اوتار کی پتنی دیویانی، شہریار کی بانو۔ بچپن کی سہیلیاں۔ دونوں کی زبان پر ایک گیت:

جاگ اری کوئلیا جاگ

چلا آ رہا کالا ناگ

سُور داس کیسے پہچانے

ہولی کھیلے اپنے پھاگ

اندھا ہاتھی نینا دیوی بھی کیوں نہ ہو آئے، اُسے پنکھیں نہیں مل سکتیں۔ آنکھ کھُلتے ہی اُچھل کر بستر سے نہ اُٹھو۔ سپنے میں جو کچھ دیکھا اُس پر سوچو۔

آج آکھاں وارث شاہنوں

کِتوں قبراں وِچّوں بول

اجّ پھیر کتاب عشق دا

کوئی اگلا ورقا کھول

کہانی نہیں، تصویر۔ ڈاکٹر جسپی کا ایک نام موسم شِری واستو۔ ودھان مُسکرایا۔ ستیہ کام نے جُملہ کسا۔ ’’ٹھیلے پر موسم آیا۔‘‘

موسم سے لپٹی ہوئی آواز اور کیا کہتی؟

نرتیہ آرمبھ ہو جائے تو مؤتر دھار کی کیا ضرورت؟

دیویانی کا ایک نام کُنگ پوش -کیسر کا پھول۔ جیسے بند کلی کا آخری مکان۔ ’’کہانی۔ بھلے ہی مر جائے، کہانی کار پر آنچ نہ آنے پائے۔‘‘ ودھان نے کندھے اُچکائے۔

کلیاں دُلہن کے جوڑے کا شنگار کرتی ہیں اور قبروں کی اُداسی بڑھاتی ہیں۔

 ’’ایک دِن رنگ لائیں گے یہ گھاؤ۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں

اس دور کے انسان سے یہ پیڑ بڑے ہیں

فرنگی رخصت ہوا۔ اپنا رنگ چھوڑ گیا۔ سُندری کا ایک نام ’’پِن اَپ بیوٹی۔‘‘ الوداع نہیں، گُڈ بائی۔ گھُس پیٹھیے بن کر کتنے شبد چلے آئے۔ آزادی کے بعد بھی غلامی کا احساس۔

 ’’چلو آزادی تو مِل گئی، شہریار!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا، اوتار کہ گوں گا بہرہ مہاوت سُوتر دھار۔

بار بار گڑگڑانے سے دیوتا بھی مہنگے ہو جاتے ہیں، ناگ چمپا!

 ’’اوتار اور شہریار کو میں اپنی آنکھیں مانتا ہوں۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔

میری ایک آنکھ گنگا، دوسری جمنا۔

ایک ہی راگ بہار۔ ایک ہی گھاٹ کا پانی۔ کبھی اِس پار کبھی اُس پار۔

 ’’جتنی ندیاں ہیں، سبھی پر پُل ہوتے ہیں، بانو آپا!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی دیویانی کہ سبھی سہیلیاں پالکی پر سوار۔‘‘

لال انکّھَادی ایہو پئی دسدی اے

روئے تُسیں وی ہوروئے اسیں وی ہاں

آزادی سے پہلے کی ایک شام۔ جیسے اندھیروں میں ڈوبتی آنسوؤں کی جھیل۔ پہلے شہریار کو سانپ نے ڈسا، پھر اوتار کو۔ دونوں موت کے مُنھ سے بچ نکلے۔

اندھیرے میں کانوں کو آنکھیں لگ گئیں، ناگ چمپا!۔۔۔ جو گی اُتر پہاڑوں آیا، چرخے دی گونج سُن کے۔۔۔

اندھا ہاتھی پُل پر سے گزر گیا- بغیر مہاوت

بدلتا موسم مسکرایا۔ ممّی ڈیڈی آئیں گے، لال کھِلونا لائیں گے۔ سب آپس میں بات کرتے ہیں۔

 ’’مٹّی میں مِل جائے مِترو مرجانی!‘‘ ماں کی پھٹکار، ماں کا پیار۔

بستی بستی، پربت پربت، غم کی وہی کہانی۔

اندھا ہاتھی پیچھے رہ گیا۔ گوں گا بہرہ مہاوت اکیلا ہی پُل پر سے گزر گیا۔

 ’’ندی پُل اور ہم۔‘‘ ناٹک نے سب کو چونکایا۔

اُڑ جا بُلبل! پت جھڑ آیا۔

 ’’اِدھر سے اُدھر جاؤ اور آتے ہوئے مُٹھّی بھر مٹی لیتے آؤ۔ ہم اسے سجدے کریں گے۔‘‘ علی امام نے کہا تھا۔

 ’’بول میری مچھلی کتنا پانی۔‘‘ پاشان یاتری کی کہانی۔

 ’’لنکا میں ہاہا کار۔۔۔‘‘ کیا گایا جاتا ہے اس پار،

مُٹھی میں آسمان۔ آشیر باد چاہیے۔ ایک ہاتھ میں طوطا، ایک میں مینا۔

دور کوئی ڈمرو بجائے! پیپل کے نیچے، پنگھٹ کے پیچھے۔ ہونی بیٹھی جال بچھائے!

 ’’ناٹک کار نے کون سی بھید کی بات بتائی؟‘‘ راگ ملتانی۔

 ’’شہر میں کوئی نہ گائے۔‘‘ حکم سُلطانی۔

بات مہاراجہ کی۔ جب پُل بن کر تیار ہوا، ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی رہی موراں۔

ایک ہاتھ الگنی پر، ایک کمر پر۔ آرتی راگھون کا بھرت ناٹیم۔

پھول گلی سے آئی بارات۔ اندھے ہاتھی کی چنگھاڑ۔ تقدیر بھی اندھی ہوتی ہے۔

شبدوں اور رنگوں کو کیا معلوم کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ شاید ایک روز ہم پاگل ہو جائیں گے۔

 ’’میں تو پِیا سے نینا لڑا آئی!‘‘ دیویانی گاتی رہی۔

تم سر کیوں کھجانے لگے، ستیہ کام! باتوں کے سوداگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔

آدی باسیوں کی یہی ریت ہے کہ پیالہ مُنہ سے لگانے سے پہلے چار بُوند دارُو دھرتی پر ٹپکاتے ہیں۔

ایک ہی کہانی ہزار بار کہی جاتی ہے۔ موراں کیسے رانی بنی، کچھ تو کہو۔

بابُل کا گیت کچھ اور اونچا اُٹھاؤ، دُلہن کی سہیلیو!

نینوں سے تیکھی کٹار چلانے کا انداز کہاں سے سیکھا، ناگ چمپا! کچھ تو کہو۔

کجری رسُولن بائی کی:

ترپت جِیَّرَا ہمار — نیۂر میں!

بیت گئی برکھا بہار — نیۂرمیں!

 ’’دُولھے کا جوتا کس نے چُرایا؟‘‘ سالیوں کی وہی چھیڑ چھاڑ۔

گرتے پتّے کی سرسراہٹ نے ہوا کا کندھا تھپتھپایا۔

بلّی نے راستہ کاٹا، ابابیل نے گھونسلا بنایا۔

دل سے دل ملاؤ تو کتھک کا آغاز ہو۔ چلو۔ بارہ دری کی چھت سے کبوتر اُڑائیں اور پلکوں سے پھول اُٹھانے کا کھیل کھیلیں۔

مینا بھابھی نے بیٹی بیاہ دی۔ بیٹی کا نام ناگ چمپا۔

ستیہ کام میں کیا دیکھا ناگ چمپا نے کہ اُس کی دُلہن بن گئی۔

لیٹے لیٹے ستیہ کام پہلے سونے کی مہر پر موراں کی تصویر دیکھی، پھر شِلالیکھ پر درویش کا اُداس چہرہ۔

 ’’صبح آنکھ کھُلی تو پہلے مسجد کا مینار دیکھا، اوتار!‘‘

 ’’اگر تمھاری نظر مندر کے کلش پر پڑتی تو بھی کیا فرق پڑتا؟‘‘

آج پھر شہریار اور اوتار پُل پر سے گزرے اور سُر میں سُر ملا کر گاتے رہے:

بول اری او دھرتی بول

راج سنگھاسن ڈاؤاں ڈول

 ’’تم تو بوڑھے طوطے کے سامنے آئینہ رکھ کے آواز دیتے ہو۔‘‘ اوتار مُسکرایا۔

رانی بننے سے پہلے موراں کہا کرتی تھی کہ ابھی تو میں نے گُڑیا کا بیاہ بھی نہیں رچایا۔ یہ کہانی کہنے والی نانی اب کہاں؟

گھر کی طرح کہانی کا بھی پچھواڑہ ہوتا ہے۔ اچھّا متی کی لہریں ہماری بھول پر آج تک رو رہی ہیں۔

کاش دست گیر کی باتوں میں آنے کے بجائے شہریار کے دماغ پر درویش کی چھاپ رہتی۔

ناٹک تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہم کہیں تو گہرائی میں ڈبکی لگائیں۔

رتن کٹوری گھی جلے، چولھے جلے کسار

گھونگھٹ میں گوری جلے، جا کے مورکھ بھرتار

نتھ کا موتی کہاں گِرا؟ گوری اُداس ہو گئی۔ کون کہے رانی آگا ڈھانپ، تم گاؤ گے اور ہم سُنیں گے راگ دیش- اب کے ساون گھر آ جا!۔۔۔ من کی تلیّاسوکھی پڑی ہے۔۔۔ ایک بوند برساجا!

صبح کی چائے سب کو جگائے –جاگو! جاگو! جاگو!

رات کا پیالہ سب کو سُلائے — سوجاؤ، سپنوں کی دُنیا میں کھو جاؤ۔

پیلا موسم، ہریالا سپنا، کالا ناگ۔ سب ساتھ، آس پاس۔ گھاٹ پر املتاس۔

کارواں کی وہی بات۔ آنکھ اوٹ، پہاڑ اوٹ۔

کیا ہم اپنے آپ کو معاف کر دیں؟ کہاں لِکھو گے شِلا لیکھ؟ کوئی پتھّر نظر نہیں آتا۔

گونگے بہرے مہاوت کے آگے فائلوں کے ڈھیر پڑے رہے۔

علی امام مارا گیا رفو کرتے کرتے۔ کون جانے دُنیا سے جاتے وقت وہ کِس کِس کی چادر کے گھاؤ اَن سِلے چھوڑ گیا۔

درویش کی وہی تصویر، تینوں بندر خاموش۔

آپ بتائیے، پُل کے آر پار آنے جانے پر اتنے پہرے کیوں؟ راگ درباری کا ہمیں کیا فائدہ؟ ناگ چمپا گاتی رہی:

اڑوسن پڑوسن کچھ بھی کہیں

میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے

دھرتی ماتا! ہمیں معاف کر دو۔ اپنوں نے پھُول بھی پھینکا تو پتھّر لگا۔

واہ ری بسنت کی رات! تیری میری سب کی بات۔

آزادی کیا آئی، جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔

دیویانی گنگناتی رہی:

دُکھ کی بات سہی جاتی ہے

کہی نہیں جاتی یہ بات

نیند سے جاگی تو مُنھ موڑ کر کھڑی ہو گئی ناگ چمپا۔

گوتم بدھ کے جنم جنمانتر کا کتھا سنسار -جاتک۔ گوتم بُدھ کا ایک اور نام- تتھاگت۔

تتھاگت نے کہا تھا۔ ’’بھکشوؤ! اُس یُگ میں میں ایک جُلاہا تھا۔ کپڑا بُنتے وقت مجھے پتہ نہ چلتا، چادر ہے کہ کفن۔‘‘

 ’’ہر کہانی بیچ سے شروع ہو جاتی ہے، وِدھان!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا اتاری کہ کبھی تین گھوڑوں کی کہانی، کبھی تین ہاتھیوں کی۔‘‘

سانپ کو کس نے مارا؟ اُسے دفناتے وقت چہرہ ڈھانپ لو اور سُکھ کی سانس لو۔

گونگے بہرے مہاوت کی ہنسی الگنی پر سوکھتی ساڑی کی طرح لہرائی۔

ناگ چمپا گنگناتی رہی:

جنازے کو میرے وہ رُکوا کے بولے

یہ لَوٹیں گے کب اور کہاں جا رہے ہیں

کہانی اور تصویر کے بیچ کتنی پرچھائیاں۔ وجوگ کی کتنی شہنائیاں۔۔۔

کسی نے راستے میں آنکھیں بچھائیں، کسی نے آنکھیں چُرائیں۔

اپنا اپنا ووٹ، سونے میں کھوٹ۔ بن گیا رقیب آخر، جو تھا راز داں اپنا!

ہم سب اولیا ہیں ناگ چمپا!

حدّ ٹپّے اولیا، بے حد ٹپّے پیر

حدّ بے حدّ دونوں ٹپّے اوہراناں فقیر

 ’’اِکّے دُکّے لوگ بھیڑ میں سے نکل آئے، پاشان یاتری!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ اوبے رائے کونٹی نینٹل میں وِہسکی گلے سے نیچے اُتارتے ہوئے کوئی یہ کلپنا نہیں کر سکتا کہ نظام الدین کے قبرستان کی چھاتی پر سوار ہے یہ شہرِ آرزو۔

ودھان کا وہی اعلان کہ وہ سپنے میں لاہور کی گلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ [وہ چَوبُرجی، وہی قلعہ گوجرسنگھ، وہ ہی شملہ پہاڑی، وہی مصری شاہ] اور وہی انارکلی۔

یہ رات جس درد کا شجر ہے

وہ مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے

کیا تم جاگ رہے ہو، لاہور؟ تم تو اب بھی اپنے ہو،

پُل کے نیچے بہتی ہوئی ندی کتنی اُداس۔ جیسے غلامی کا اتہاس۔

پھول گلی میں بچّے چلّاتے رہے:

آئی نانی رام کلی

پھُول بکھیریں گلی گلی

آؤ کوئی نیا کھیل کھیلیں، چھوٹی سرکار! کہیں تمھارے سر پر ابابیل کا گھونسلا نہ گِر جائے۔

ہم اندھے ہاتھی کو دیکھتے رہے۔ گونگے بہرے مہاوت کی میز پر فائلوں کے انبار ویسے کے ویسے۔

ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ ایک کے دو دیش کیوں بنے۔ پھر بھی ہم ایک ہیں۔

 ’’کہہ دو اپنی لیلاؤں سے اونچی رکھیں لَو۔‘‘

مارے جانے سے پہلے علی امام نوّے سال کا ہو چکا تھا۔ درویش کی پرارتھنا سبھا میں اُس نے کہا تھا:

 ’’میرا نام رفو گر۔ یہی میری عادت، یہی عبادت۔‘‘

آگ ڈوم باگ ڈوم

گھوڑا ڈوم ہاتھی ڈوم

کھڑکی سے جھانکتی دھوپ مُسکرائی۔

تتھاگت نے کہا تھا۔ ’’بھکشوؤ! اُس یُگ میں میں نے ایک چُوہے کو شیر بنا دیا وہ مجھ پر جھپٹا۔ میں نے کہا۔ پُنر موشکو بھَو وہ دوبارہ چوہا بن گیا۔‘‘

راج نیتی کا بھی یہی عالم۔ کبھی چوہے سے شیر، کبھی شیر سے چُوہا۔

کہانی میں قتلِ عام، تصویر میں جنازہ۔ پھول اتنا رویا کہ کانٹے بھی سسکیاں لیتے رہے۔

آرتی راگھون سے پوچھو، مہاراجہ اور موراں کی کہانی کہاں ہاتھ لگی۔

مُلتان پر مہاراجہ نے پرچم پھہرایا۔ رات بھر جشن ہوتا رہا۔ موراں کا مُلتانی ٹپّہ۔

مینڈے نین شرابی تینڈا دِل گھوڑ سوار

لنگھ آ جاپتن جھناں دا مہاراجہ پر دیسی یار

گِلّ ہُلّ گئی وِچّ بجار مینڈے دِلدار

میں اِس پار توں اُس پار مَینڈے سردار

مہاراجہ موراں کو مُلتان سے لاہور لے آیا۔ ہاتھیوں کا جلوس۔ سونے کے ہودے پر مہاراجہ کی بغل میں موراں۔ بھیڑ سے اُٹھتی پھبتیاں کہ مہاراجہ نے ایک کنجری کو رانی بنایا۔ امرتسر میں اکال تخت کے سامنے مہاراجہ کو ایک پیڑ سے باندھا گیا -ایک اپرادھی کے روپ میں۔ معافی ملنے کی خوشی میں مہاراجہ نے اچھّا متی کا پُل بنوایا۔ پُل کا نام- پُل کنجری۔

یاد لاہور کی۔ بھگوان سنگھ کی دہی کے پیڑوں والی لسّی اور بدھا وا سنگھ کا اچار شلغم۔ گورنمنٹ کالج سے نیلا گُنبد تک دو فرلانگ لمبی سڑک۔

کہانی میں جلتا ہوا پیڑ:

آگ لگی اِس برکش کو، جلنے لگ گئے پات

تم کیوں اُڑو نہ پنچھیو، جب پنکھ تمھارے ساتھ

پھل کھائے اِس برکش کے، گندے کیے پات

یہی ہمارا دھرم ہے، جلیں گے اِس کے ساتھ

 ’’اگر تمھارا ایمان ایک پتھّر کے برابر ہو تو تم پُل بنا سکتے ہو۔‘‘ موراں نے کہا تھا۔

ہم پُل پر سے گزرے۔ لیکن موراں کی کہانی ہاتھ نہ آئی۔

وِدھان کی زبان پر اپنا کلام۔ ایک آنسو بھری یاد:

وہ گلیاں جن سے وابستہ ہیں یادیں میرے بچپن کی

میرے بھُوکے قدم اب اُن کے ذرّوں کو ترستے ہیں

نہ جانے آج اُن میں کیسے کیسے لوگ رہتے ہیں

جہاں آباد میرے اپنوں کی پیاروں کی دُنیا تھی

پُل پر کھڑے ہو کر ایسا لگتا ہے کہ ہم ندی کے ساتھ بہتے جا رہے ہیں۔

پاشان یاتری کا ایک نام ’’لابوہیم‘‘

ہیلو لابوہیم!

سیمار ماجھے نُحی اسیم

تادیم تا نادیم

تادیم دیم دیم

تاتاری کی اور بات ہے، جس نے ناگ چمپا کو یقین دِلایا کہ ناٹک کی کلا میں وہ ستیہ کام سے کئی میل آگے ہے۔

ستیہ کام نے ایک رات اپنے کو شراب میں ڈبو دیا۔ جیسے کوئی موت کی انگلی تھام لے۔ ناگ چمپا نے ستیہ کام کی چِتا ٹھنڈی ہونے سے پہلے ہی تاتاری کو اپنا ہیرو مان لیا۔

 ’’اٹریا پر گرا رے کبوتر آدھی رات!‘‘

ویسے ہم میں کوئی خاص بات نہیں، دودھیا! ارے سنو سنو۔

دیویانی نے بیٹے کو اُٹھا کر چھاتی سے لگا لیا۔

مہابھارت کی وہی بات۔

 ’’اندھے کا بیٹا اندھا!‘‘ دُریودھن کو لڑکھڑاتے دیکھ کر دروپدی نے کہا تھا۔

موراں ہنستی رہی سپنے میں۔ کیا اِس پار، کیا اُس پار۔ ہمیں بھول تو نہیں جائے گا یہ سپنا؟

بانسری پر راگ جُو گیا!

اس کہانی کی ایک بھی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں۔ دودھیا اور وِدھان کی آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔

اندھا ہاتھی رات بھر چنگھاڑتا رہا۔

 ’’ناگ چھیڑ لیا کالا، منتر یاد نہیں۔‘‘ ناگ چمپا گنگناتی رہی۔ پاشان یاتری اور ڈاکٹر جسپی ہنستے ہنستے چُپ ہو گئے۔

 ’’ہرکسی کو مذاق سوجھتا ہے، رتی راگھون!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی ناگ چمپا کہ پروفیسر دودھیا کنوارے ہی رہیں گے۔‘‘

اُدھیڑ بُن میں نانی کی آنکھ لگ گئی۔

قبرستان کی جگہ شہید مارکٹ بن گئی۔ جیسے راگ جُو گیا میں ناگ چمپا کی روہانسی آواز۔

 ’’اس میں ہے ہی کیا، دیویانی!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی بانو آپا کہ سبزی منڈی کو پُرانی جگہ سے اُٹھا کر کہاں لے گئے۔ آ رتی راگھون کھِلکھلا کر ہنس پڑی۔ کوئی پوچھے اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟

سچ نہیں تو کیا؟ جلدی کیا ہے؟ ایک بار پھر ہو آئیں موہنجوداڑو۔

ٹھہرو، ہم آتے ہیں۔ کوئی لُکّڑ، کوئی پڑھ پتھّر، کوئی لَکّڑ بازار۔

یوں بھی کہی جاتی ہے کہانی، پروفیسر دودھیا؟

اب ہم کیا کریں؟ ایک طرف چٹانیں، دوسری طرف گھر۔

سڑک پر تو ہر کوئی چل سکتا ہے۔

درویش کی تصویر – گھر گھر، گلی گلی۔

 ’’ہاتھی کے سر پر دیپ جلاؤ۔ بُرا مت دیکھو، بُرا مت بولو، بُرا مت سُنو۔‘‘ درویش کے شبد گونج اُٹھے۔

کسی نے اُس کی ہتیا کر دی۔

 ’’آنے والی نسلوں کو یقین نہ ہو گا کہ ہاڑ ماس کا ایسا پُتلا دھرتی پر چلتا پھرتا تھا۔‘‘ دستگیر کی آواز، پُل کے پار۔

تیرے ہی بچّے تیرے ہی بالے

دھرتی ماں چھاتی سے لگا لے

 ’’ٹاہی ٹِپ گیا!‘‘ بلیّے شاہ کہہ گیا۔

 ’’ہم ایسی کچّی گولیاں نہیں کھیلے، دودھیا!‘‘ یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ آج کل ہم پر راہُو کیتو کا پھیرا ہے۔‘‘

ہمیں پیار سکھایا کس نے؟

آرتی راگھون نے۔

راستے میں قبرستان بھی ہے، شمشان بھی۔ واہ رے یاروں کے یار۔

جمالو دُور کھڑی۔۔۔ رنّ نہا کے چھپّڑچوں نکلی، سُلفے دی لاٹ ورگی۔

پانی آگ بُجھائے

آنسو آگ لگائے

دنیا کچھ بھی کہے، کچھ بھی کہتی رہے، نفرت کا نغمہ ہمیں روز ستائے۔ کیا اِس پار کیا اُس پار۔

یہ مت کہو کہ پسینہ پونچھنے کی فرصت نہیں۔

کہانی کار کا دل بیٹھ گیا۔ آنکھوں میں پھر آنسو آ گئے۔

ہم کیسے کہیں کہ مہاراجہ اور موراں کی کہانی سچ ہے یا جھوٹ۔

بچّے گڑیا کا بیاہ رچاتے رہے۔ آنکھوں میں چمک آ گئی۔ گڑیا کا بیاہ تو موراں نے بھی رچایا ہو گا۔

 ’’ابھی کیا کچھ دیکھیں گی ہماری آنکھیں، پاشان یاتری؟‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر جسپی کی کتنی آوازیں آپس میں ٹکراتی رہیں جیسے پھلکاری کے رنگ۔‘‘

کوئی پُرانا گیت سناؤ۔ ناگ چمپا! شام گہری ہونے لگی۔ سات تو کب کے بج گئے۔

کیا موراں کا ٹپّہ سنو گے؟ طبلے پر جھپ تال پریم بلبّھ سُنا رہے تھے۔

 ’’آج کون سی ساڑی پہنے گی رتی راگھون؟ کہانی اور تصویر کے بیچ وہی آدی تال، پاشان یاتری!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ سدا چار جیون ہے اور دُراچار مرتیو۔‘‘

ایک بار پھر وِدھان کا قہقہہ اُٹھا۔ تاتاری چہکنے لگا۔ جیسے کہانی کار اپنے اندر جھانکنے لگے۔

ایک کے دو دیش بنے۔ پھر دو کے تین۔ ابھی اور کتنا پاپ چڑھے گا ہمارے سرپر؟

ناتی مالا جپتی رہی۔

 ’’گنگا میّا میں جب تک پانی رہے، کہانی میں ہماری دلچسپی بنی رہے، آرتی راگھون!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی ناگ چمپا! سر ہلا کر بولے پروفیسر دودھیا کہ شادی کا اُن کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘

شادی والی ساڑی میں کھِل اُٹھی دیویانی۔

 ’’گھر کو پانی پت کا میدان نہ بناؤ، دودھیا!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ اگر تمھارا ایمان ترکمان کے برابر ہے تو تم اُردو بازار کو بچا سکتے ہو۔‘‘

توبہ ہماری! ہم نہیں بولیں گے۔ کہانی کار کی گھبراہٹ پسیج اُٹھتی تو بات آگے بڑھتی۔

 ’’پیار بھرا دِل کبھی نہ توڑو، ناگ چمپا!‘‘۔۔۔ ’’یہ تومیں کہہ رہی تھی رتی راگھون۔ کہ سو باتوں کی ایک بات۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔‘‘

یہ گھر اور بازار میں رہیں گے۔ نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے! سپنے میں مہاراجہ کے سامنے موراں کو ناچتے دیکھا۔

پھُول گلی میں بچّے گاتے رہے!

برسو رام دھڑاکے سے

بُڑھیا مر گئی فاقے سے

بینکاک کی بات یاد ہے نا۔ ہمارے راج دُوت کو سُوٹ بوٹ میں دیکھ کر ہزاروں بھکشو، جو اسے ’’بدھ کے دیش کا آدمی‘‘ سمجھ کر سواگت کو آئے تھے، ہوائی اڈّے سے اُلٹے قدموں لَوٹ گئے۔

اپنی ٹکّر کی بات تو ہونی چاہیے۔ اَن ہونی کو ہونی کر دیں، ہونی کو اَن ہونی۔ واہ رے دودھیا! واہ رے وِدھان!

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ کیا اس پار۔ کیا اُس پار۔

او میرے پانی دیوا! تیرے سب نام لیوا! رتی راگھون پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی دودھیا۔‘‘

 ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ آج پھر سپنے میں موہنجوداڑو کو کھجوراہو سے گلے ملتے دیکھا۔‘‘

دھب دھب دھب گالی پہ گالی میری بنّو میری جان

ندی کنارے بنجاروں نے گایا نٹ کلیان

یاد رہے گا رتی راگھون کا دانتوں تلے اُنگلی دبانا۔

مورا لائی کوئٹہ سے آئی۔ ’’جھنکار گھنگھرو کی‘‘ — ناگ چمپا کے ناٹک کی ہیروئن- مورا لائی

 ’’یہ سب تو زیرو کے بلب ہیں، دودھیا!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ موراں نے ضرور پتہ لگا لیا تھا کہ مہاراجہ کے کتنے وزیر تھے اور کتنے جلّاد۔‘‘

 ’’سو جیہ میرے آگے ہیں کلیسہ میرے پیچھے۔۔۔‘‘

 ’’دشمن کے گریباں سے کھیلنے والے ایک دوسرے کے گریبان پر کیوں جھپٹ پڑے، رتی راگھون؟ ۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی ناگ چمپا کہ دلدل کو دیکھ کر ہم نے پائنچے کیوں سمیٹ لیے؟‘‘

گاؤں گاؤں، نگر نگر وہی کہانی:

طوطیا من موتیا!

میں آکھ رہی، میں ہٹک رہی

توں ایس گلی نہ جا

ایس گلی دے جٹّ بُرے

جیہڑے لیندے پھاہیان پا

طور طیے من موتیے!

میں جیوندا میں جاگدا

تو چلّ گھر بچیّاں کول

میں پچھّے پچھّے آنودا

بچیاں کئی چوگ لیانودا

سر پر ناریل مت توڑو، ناگ چمپا!

ادھر درویش کا چیلا سنگھاسن پر وراجمان- اُدھر دست گیر کا پیغام — پُل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا! جب تک دست گیر زندہ رہا، اُداس رہا۔ درویش کے مارے جانے کا غم دماغ پر چھایا رہا۔

پُل کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے کب تک دیکھتے رہو گے؟

ہمارا پرنام سنیچر کی شام کے نام، جب پُل بن کر تیار ہوا۔

اے لحد اپنی مٹّی سے کہہ دو، داغ لگنے نہ پائے کفن کو

آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے، آج ہی کے نہائے ہوئے ہیں

 ’’کیا اندھے ہاتھی کی آتما بھی اندھی ہوتی ہے، تاتاری؟‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا دودھیا کہ پُل کنجری کا قصّہ مہاراجہ اور موراں کے زمانے سے بہت آگے نکل آیا۔‘‘

علی امام کے ابّا جان کی آپ بیتی۔

میاں والی جیل کی کہانی۔

ایک کھیپ گئی، ایک آئی۔

 ’’ہر کوئی شاعری پر اُتر آیا، پاشان یاتری!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ کہانی پیچھے رہ گئی۔‘‘

ناگ چمپا کے ناٹک کی وہی کہانی کہ سات گڈریے پُل پار کر گئے، ساتواں پُل پر موت کا شکار۔ بجلی اُسی پر گری۔

گونگے بہرے مہاوت کے خلاف کوئی فائل کیسے آگے آئے۔

مجبوری کا نام درویش۔ موکم کروتی وا چالم –گونگے کو واچال بنا دیتی ہے سرسوتی۔

 ’’تم بہت پیارا جھوٹ بولتی ہو، ناگ چمپا!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی آرتی راگھون کہ سونے میں تانبا ملائے بغیر چوڑیوں کی سَولائیاں قائم نہیں رکھی جا سکتیں۔‘‘

دھِیاں جمائی لے گئے، بہوئیں لے گئے پوت

کہے منوہر جانگلی، تم رہے اوت کے اوت

گُونتھ لو جُوڑے میں پُونم کا چاند، ناگ چمپا! اب تو تمھارے ناٹک میں بھی آ گئی یہ بات۔

موراں کا ایک نام تھا شبنما۔ مہاراجہ پیار سے اُسے ’’شبو‘‘ کہہ ڈالتا تو اُس کا مُلتانی ٹپّہ شروع ہو جاتا۔

 ’’دُعا بے کار ہے۔ لیکن بددعا اتنی کارگر کیوں ہے؟‘‘موراں نے مہاراجہ سے پوچھا۔ کچھ تو زیبِ داستاں بھی چاہیے۔ جیسے کالے لہنگے کے لیے ہنری گوٹ اور لال دوپٹے پر سلمیٰ ستارہ۔

 ’’کنگھی کی خاطر دو گنجوں میں لڑائی ہو گئی، تاتاری!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا دودھیا کہ تیسرا گنجا بیچ میں کُودا۔‘‘

ارے ارے راجہ بیٹا! تم پھر گِر گئے۔ اس بار پھر تم نے چیونٹی کا آٹا گرا دیا۔

کون سے ازم کا نہیں حامی

یا الٰہی یہ دودھیا کیا ہے

وہی آدی باسی بول:

ہم تین تھے۔ ایک کو وہ پکڑ لے گئے۔

ایک کے بغیر ہم کتنے اُداس

تتھاگت نے کہا۔ ’’بھکشوؤ! اُس یُگ میں بھکشو آنند اندھا ہاتھی تھا اور میں گوں گا بہرہ مہاوت۔ چودہ سال بعد اندھے ہاتھی کی دِرشٹی لَوٹ آئی۔ اور گوں گا بہرہ مہاوت بولنے اور سُننے لگا۔ شراوستی کے لوگوں نے اِسے اتہاس کے پنّوں میں سجا دیا۔‘‘

کتھا کا وِراٹ روپ۔

 ’’وہی ہوا جو چراغوں کو بُجھاتی ہے، آگ کو اور بھی بھڑکاتی ہے۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔

 ’’چھوٹے بچّے بھی بڑے سپنے دیکھتے ہیں، پاشان یاتری!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ پوں گا پنڈت کی وہی کتھا –ماتا کُنتی کے پانچ پُتر۔ ایک بھیم، ایک ارجن، ایک اور، ایک اور، اور ایک ہم بھول گئے!‘‘

قصّہ آزادی سے پہلے کا۔

علی امام کی امّی جان، اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جیل سے آیا ابّا جان کا خط:

 ’’بیٹا علی امام!

آج جیل کے احاطے میں بے نام قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے میری آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ درویش رات بھر میرے آنسو پونچھتا رہا۔‘‘

 ’’آنسو پلکوں سے بڑے ہو گئے، ناگ چمپا!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی رتی راگھون کہ ہر جنم میں ہمارا ملن۔‘‘

رگِ گُل سے بُلبل کے پر باندھتے ہیں۔۔۔ ہم کسے دیوتا مان لیں؟

فرنگی پھر بھی اپنا رنگ چھوڑ گیا۔ وہی اندھا ہاتھی اور گوں گا بہرہ مہاوت۔

 ’’من‘‘ ابھیمنّو، یُگ دُریودھن، پاشان یاتری!‘‘۔۔۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹرجسپی! -ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے!‘‘

 ’’مور کو ناچنے اور ہاتھی کو چنگھاڑنے کے سوا آتا ہی کیا ہے؟‘‘ دست گیر نے کہا تھا۔

سورج سورج کھیل رہے تھے، یہ جو رات جلے ہیں پیڑ

ایسا بھی ہوتا ہے یارو، سپن لوک بن جائے پیڑ

اِدھر اوتار کے سامنے ناگ چمپا کا ناٹک اور پُل پر سے گزرتا ہوا اندھا ہاتھی۔ اُدھر شہریار کے سامنے سونے کی مہر پر موراں کی تصویر۔

 ’’رنگ منچ جل کر بھسم ہو گیا۔ اداکار ابھی زندہ ہیں۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔

گاتی رہیں بانو اور دیویانی:

اے سہیلی! ترا بانکپن لُٹ گیا

آئینہ توڑ دے!

تِتلی پاس سے اُڑ گئی۔ بچّے پیچھے بھاگتے رہے۔

بارہ دری سے آگے شہید چوک، جہاں علی امام اور درویش کا خون گلے مِلا۔ عقیدت کے چراغ جلتے رہے۔

رونے کا انداز کوئی مینڈکوں سے سیکھے، جن کی آنکھیں نکال لی گئیں۔ لیکن وہ رات بھر ٹرّاتے رہے۔ کیا اِس پار، کیا اُس پار۔

اونچی چٹان کے بیچوں بیچ گہری دراڑ۔

اپنی ڈفلی اپنا راگ

کیوں گائیں بے موسم پھاگ

چندن بن کے پیڑوں پر کیوں

اُگ آئے نفرت کے ناگ

راستہ ہمیں پوچھتا ہوا رنگ منچ تک آ پہنچا۔

روپ محل کے سامنے اوتار اور شہریار میں ٹھن گئی۔ دونوں میں ہاتھا پائی۔ چشمے چکنا چُور۔

چشمے تو آ گئے۔ لیکن پُل کنجری کو ’’پُل کامیانی‘‘ بنانے کا کام مکمل نہ ہو سکا۔

اس پار ناری نکیتن کی سنیما بکا دیویانی۔ اُس پار بلبل اکادمی کی پرنسپل- بانو۔

الگنی پر سُوکھتی ساڑی ہوا کے کان بھرتی رہی۔

قصہ مہاراجہ اور موراں کا۔

 ’’میرے لیے ہاتھی کا پنجر سجاؤ، مہاراج‘‘ رانی بنتے ہی موراں کی ادا۔

پہلے ہاتھی دانت کا منڈپ بنایا گیا۔ پھر اُس کے اندر ہاتھی کا پنجر سجایا گیا۔

سونے چاندی کے دیپ جگمگا اُٹھے۔

 ’’زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا ہوا سوا لاکھ کا۔‘‘ موراں نے آرتی اُتاری۔

ایک رات ہاتھی کا پنجر چوری ہو گیا۔ اِسی غم میں گھُل گھُل کر موراں مر گئی۔

واہ ری موراں! تیری یاد۔ آدھی رات کی خاموشی۔ تیری پائل کی جھنکار۔

 ’’پُل پر گھر نہ بناؤ۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔

جَے ہو! جے ہو! پٍل کنجری تیری جَے ہو۔

آج پھر پاشان یاتری کو پُل پر سے گزرتے ہوئے آدھی رات کی خاموشی میں موراں کی پائل کی جھنکار سُنائی دیتی رہی:

چھم چھما چھم –چھم!

چھم چھما چھم –چھم!

٭٭٭

جنم بھومی

گاڑی ہربنس پورہ کے اسٹیشن پر کھڑی تھی۔ اسے یہاں رکے ہوئے پچاس گھنٹے سے اوپر ہو چکے تھے۔ پانی کا بھاؤ پانچ روپے گلاس سے یکدم پچاس روپے گلاس تک چڑھ گیا تھا۔ پچاس روپے گلاس کے حساب سے پانی خریدتے ہوئے لوگوں کو نہایت لجاجت سے بات کرنی پڑتی تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں بھاؤ اور نہ چڑھ جائے، کچھ لوگ اپنے دل کو یہ تسلّی دے رہے تھے کہ جو ادھر ہندوؤں پر بیت رہی ہے وہ ادھر مسلمانوں پر بھی بیت رہی ہو گی۔ انھیں بھی پانی اس سے سستے بھاؤ پر نہیں مل رہا ہو گا۔ انھیں بھی نانی یاد آ رہی ہو گی۔

پلیٹ فارم پر کھڑے کھڑے ملٹری والے بھی تنگ آ چکے تھے۔ یہ لوگ مسافروں کو حفاظت سے نئے دیش میں لے جانے کے ذمہ دار تھے۔ لیکن ان کے لیے پانی کہاں سے لاتے؟ ان کا اپنا راشن بھی کم تھا۔ پھر بھی بچے کھچے بسکٹ اور مونگ پھلی کے دانے ڈبوں میں بانٹ کر انھوں نے ہمدردی جتانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ اس پر مسافروں میں چھینا جھپٹی دیکھ کر انھیں حیرت ہوتی اور وہ کچھ کہے سنے بغیر ہی پرے کو گھوم جاتے۔

جیسے مسافروں کے ذہن میں یم دوتوں کی کلپنا ابھر رہی ہو۔ جیسے ان کے جنم جنم کے پاپ ان کے سامنے ناچ رہے ہوں۔ جیسے جنم بھومی سے پریم کرنا ہی ان کا سب سے بڑا دوش تھا۔ اسی لیے تو وہ جنم بھومی کو چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ قہقہے اور ہنسی ٹھٹھول جنم بھومی نے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ عورتوں کے چہروں پر جیسے کسی نے سیاہ دھبّے ڈال دیے ہوں، ابھی تک انھیں اپنے سروں پر چمکتی ہوئی چھریاں لٹکتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ لڑکیوں کے کانوں میں گولیوں کی سنسناہٹ گونج اٹھتی اور وہ کانپ کانپ جاتیں۔ ان کے ذہن میں بیاہ کے گیت بلوائیوں کے نعروں اور مار دھاڑ کے شور میں ہمیشہ کے لیے دب گئے تھے۔ پایل کی جھنکار ہمیشہ کے لیے گھائل ہو گئی تھی۔ ان کے سینوں کی شفق مٹیالی ہوتی چلی گئی۔ زندگی کا راگ موت کی گہرائیوں میں بھٹک کر رہ گیا، قہقہے سوگ میں ڈوب گئے اور ہنسی ٹھٹھول پر جیسے شمشان کی راکھ اڑنے لگی۔ پانچ دن کے سفرمیں سب کے چہروں کی رونق ختم ہو گئی تھی۔

یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اس پر غور کرنے کی کسے فرصت تھی؟ اور اس پر غور کرنا کچھ آسان بھی تو نہ تھا۔ یہ سب کیسے ہوا کہ لوگ اپنی ہی جنم بھومی میں بیگانہ ہو گئے؟ ہر چہرے پر خوف و ہراس تھا۔ بہتوں کو اطمینان ضرور تھا کہ جان پر آ بننے کے بعد وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن ایک ہی دھرتی کا انّ کھانے والے لوگ کیسے ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے کے لیے تیار ہو گئے؟ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟

نئے دیش کا تصور انھیں اس گاڑی میں لے آیا تھا۔ اب یہ گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھتی؟ سننے میں تو یہاں تک آیا تھا کہ اس اسٹیشن پر کئی بار بلوائیوں نے حملہ کر کے تمام مسافروں کے خون سے ہاتھ رنگ لیے تھے۔ لیکن اب حالت قابو میں تھی۔ اگرچہ کچھ لوگ پچاس روپے گلاس کے حساب سے پانی بیچنے والوں کو بدمعاش بلوائیوں کے شریف بھائی ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ نئے دیش میں یہ سب مصیبتیں تو نہ ہوں گی۔ وہاں سب ایک دوسرے پر بھروسہ کر سکیں گے۔ لیکن جب پیاس کے مارے ہونٹ سوکھ جاتے اور گلے میں پیاس کے مارے سانس اٹکنے لگتا تو ان کے جذبات میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا۔

کھچا کھچ بھرے ہوئے ڈبے پر آلوؤں کی بوری کا گمان ہوتا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت جو بہت دنوں سے بیمار تھی ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔ اس کے تین بچّے تھے۔ ایک لڑکی سات سال کی تھی ایک پانچ سال کی اور تیسرا بچہ ابھی دودھ پیتا تھا۔ یہ گود کا بچہ ہی اسے بری طرح پریشان کر رہا تھا۔ کبھی کبھی تنگ آ کر وہ اس کو جھنجھوڑ دیتی۔ اس عورت کا خاوند بار بار بچّے کو گود میں لے کر کھڑا ہو جاتا۔ لیکن بچّے کی چیخیں نہیں رکتی تھیں۔ وہ پھر اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا۔ وہ اپنی بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ تیسرا بچہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا تو بہتر تھا۔

بچّے کو اپنی گود میں لیتے ہوئے بیمار عورت کے خاوند نے دھیرے سے کہا۔ ’’گھبراؤ مت۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ بس اب تھوڑا سا فاصلہ اور باقی ہے۔‘‘

بیمار عورت خاموش بیٹھی رہی۔ شاید وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر گاڑی اور رکی رہی تو بلوائی آپہنچیں گے اور یہ گنتی کے ملٹری والے بھلا کیسے ہماری جان بچا سکیں گے۔ گویا یہ سارے مسافر لاشوں کا انبار تھے۔

قریب سے کسی نے پوچھ لیا۔ ’’بہن جی کو کیا تکلیف ہے؟‘‘

بیمار عورت کا خاوند بولا۔ ’’اس گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا جہاں میں پڑھا تا تھا۔‘‘

 ’’تو آپ اسکول ماسٹر ہیں؟‘‘

 ’’یہ کہیے کہ اسکول ماسٹر تھا‘‘ بیمار عورت کے خاوند نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’اب بھگوان جانے نئے دیش میں ہم پر کیا بیتے گی۔‘‘

وہ اپنے دماغ کو سمجھاتا رہا کہ ذرا گاڑی چلے تو سہی۔ وہ بہت جلد اپنے راج میں پہنچنے والے ہیں۔ وہاں ڈاکٹروں کی کمی نہ ہو گی۔ کہیں نہ کہیں اسے اسکول ماسٹر کی جگہ مل ہی جائے گی۔ اس کی آمدنی پہلے سے بڑھ جائے گی۔ وہ اپنی بیوی سے کہنا چاہتا تھا کہ جنم بھومی میں جو جو چیز آج تک حاصل نہیں ہو سکی، اب نئے دیش میں اور جنتا کے راج میں اس کی کچھ کمی نہ ہو گی۔

بڑی لڑکی کانتا نے بیمار ماں کے قریب سرک کر کہا۔ ’’ماں! گاڑی کب چلے گی؟‘‘

چھوٹی لڑکی شانتا کھڑکی کے باہر جھانک رہی تھی۔

کانتا اور شانتا کا بھیّا للت باپ کی گود میں برابر روئے چلا جا رہا تھا۔

اسکول ماسٹر کو اپنے اسکول کا دھیان آ گیا۔ جہاں وہ پچھلے دس برس سے ہیڈ ماسٹر تھا ٹیکسلاکے نزدیک، اس گاؤں کو شروع شروع میں یہ منظور نہ تھا کہ وہاں یہ اسکول ٹھیر سکے۔ اس نے بڑے پریم سے لوگوں کو سمجھایا تھا کہ یہ گاؤں ٹیکسلا سے دور نہیں- ٹیکسلا، جس کا پراچین نام ’’تکش شلا‘‘ ہے اور جہاں ایشیا کا سب سے بڑا وشو ودیالیہ تھا۔ جہاں دور دور کے دیشوں سے نوجوان تعلیم پانے آیا کرتے تھے۔ یہ خیال آتے ہی دوبارہ اس کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ کیونکہ اس دور کے لوگوں نے تو ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے کی قسمیں کھائیں اور ظلم و ستم کی یہ واردات ڈھولوں اور شہنائیوں کے سنگیت کے ساتھ ساتھ عمل میں لائی گئیں۔ پڑھے لکھے لوگ بھی بلوائیوں کے سنگ سنگاتی بنتے چلے گئے۔ شاید اُنھیں بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا کہ ابھی تو پراچین ’’تکش شلا‘‘ کی کھدائی کے بعد ہاتھ آنے والے سنگتراشی کے بیش قیمت نمونے بھی اپنا سندیش برابر سنائے جا رہے تھے۔ یہ کیسی جنم بھومی تھی؟ اس جنم بھومی پر کسے فخر ہو سکتا تھا۔ جہاں قتلِ عام کے کھیل کھیلنے کے لیے ڈھول اور شہنائیاں بجانا ضروری سمجھا گیا؟ تاریخ کی گھنٹی بجنے پر اس نے بارہا اسکول کے طالب علموں کو یہ جتایا تھا کہ یہی وہ ان کی جنم بھومی ہے جہاں کبھی کنشک کا راج تھا، جہاں اہنسا کا منتر پھونکا گیا تھا۔ جہاں بھکشوؤں نے تیاگ، شانتی اور نروان کے اپدیش دیے اور بار بار گوتم بدھ کے بتائے ہوئے راستے کی طرف اشارہ کیا۔ آج اسی دھرتی پر گھر جلائے جا رہے تھے اور شاید ڈھلتی برفوں کے شیتل جل سے بھرپور دریاؤں کے ساتھ ساتھ گرم گرم انسانی لہو کا دریا بہانے کا منصوبہ پورا کیا جا رہا تھا۔ ڈبے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کندھے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر وہ کہنا چاہتا تھا کہ گوتم بدھ کو دنیا میں بار بار آنے کی ضرورت نہیں۔ اب گوتم بدھ کبھی جنم نہیں لے گا۔ کیونکہ اس کی اہنسا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ اب لوگ نروان نہیں چاہتے۔ اب تو انھیں دوسروں کی آبرو اتارنے میں مزہ آتا ہے، اب تو مادر زاد برہنہ عورتوں اور لڑکیوں کے جلوس نکالنے کی بات کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی۔ آج جنم بھومی کو گرہن لگ گیا۔ آج جنم بھومی کے بھاگ پھوٹ گئے۔ آج جنم بھومی اپنی سنتان کی لاشوں سے اٹی پڑی ہے اور اب یہ انسانی گوشت اور خون کی سڑانڈ کبھی ختم نہیں ہو گی۔

اس دوران میں ننھا للت رو رو کر سو گیا تھا۔ کانتا اور شانتا برابر سہمی سہمی نگاہوں سے کبھی ماں کی طرف اور کبھی کھڑکی کے باہر دیکھنے لگتی تھیں۔ ایک دو بار ان کی نگاہ للت کی طرف بھی اٹھ گئی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ابھی تھوڑی دیر اور ان کا باپ للت کو لیے کھڑا رہے۔ کیونکہ اس کی جگہ پر انھیں آرام سے ٹانگیں پھیلانے کا موقع مل گیا تھا۔

شانتا نے کانتا کے بال نوچ ڈالے اور کانتا رونے لگی۔ پاس سے ماں نے شانتا کے چپت دے ماری اور اس پر شانتا بھی رونے لگی۔ ادھر للت بھی جاگ اٹھا اور وہ بھی تلخ اور بے سرے انداز میں رونے چیخنے لگا۔

اسکول ماسٹر کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ پراچین تکش شلا کے وشو ودّیالہ اور بھکشوؤں کے اپدیش سے ہٹ کر وہ یہ کہنے پر آمادہ ہو گیا کہ کون کہتا ہے اس دیش میں کبھی گوتم بدھ کا جنم ہوا تھا۔ وہ کانتا اور شانتا سے کہنا چاہتا تھا کہ رونے سے تو کچھ فائدہ نہیں۔ ننھا للت تو بے سمجھ ہے اور اس لیے بار بار رونے لگتا ہے، تم تو سمجھ دار ہو تمھیں تو بالکل نہیں رونا چاہیے۔ کیونکہ اگر تم اس طرح روتی رہو گی تو بتاؤ تمھارے چہرے کنول کے پھولوں کی طرح کیسے کھل سکتے ہیں۔

پاس سے کسی کی آواز آئی۔ ’’یہ سب فرنگی کی چال تھی۔ جن بستیوں نے بڑے بڑے حملہ آوروں کے حملے برداشت کیے اور ان گنت صدیوں سے اپنی جگہ پر قائم رہیں، آج وہ بھی لٹ گئیں۔‘‘

 ’’ایسے ایسے قتلِ عام تو ان حملہ آوروں نے بھی نہ کیے ہوں گے۔ ہمارے اسکولوں میں جھوٹی، من گھڑت تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے۔‘‘ ایک اور مسافر نے شہ دی۔

اسکول ماسٹر نے چونک کر اس مسافر کی طرف دیکھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ تم سچ کہتے ہو۔ مجھے معلوم نہ تھا۔ ورنہ میں کبھی اس جھوٹی، من گھڑت تاریخ کی تصدیق نہ کرتا۔ وہ یہ بھی کہنا چاہتا تھا کہ اس میں اس کا کوئی خاص قصور نہیں کیونکہ نام نہاد تہذیب کے چہرے سے خوب صورت خول سانپ کی کینچلی کی طرح ابھی ابھی تو اترا ہے اور ابھی ابھی تو معلوم ہوا ہے کہ انسان نے کچھ بھی ترقی نہیں کی۔ بلکہ یہ کہنا ہو گا کہ اس نے ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔

 ’’جنھوں نے بلوائیوں اور قاتلوں کا ساتھ دیا اور انسانیت کی روایات کی خلاف ورزی کی‘‘ اسکول ماسٹر نے جرأت دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’جنھوں نے ننگی عورتوں اور لڑکیوں کے جلوس نکالے، جنھوں نے اپنی ان ماؤں بہنوں کی آبرو پر ہاتھ ڈالا، جنھوں نے ماؤں کی دودھ بھری چھاتیاں کاٹ ڈالیں اور جنھوں نے بچوں کی لاشوں کو نیزوں پر اچھال کر قہقہے لگائے۔ ان کے ضمیر ہمیشہ ناپاک رہیں گے اور پھر یہ سب کچھ یہاں بھی ہوا- جنم بھومی میں بھی اور نئے دیش میں بھی۔‘‘

اس کے جواب میں سامنے والا مسافر خاموش بیٹھا رہا۔ اس کی خاموشی ہی اس کا جواب تھا۔ شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ ان باتوں سے بھی کیا فائدہ، اس نے صرف اتنا کہا ’’یہ کیسی آزادی ملی ہے؟‘‘

کانتا اور شانتا کے آنسو تھم گئے تھے۔ للت بھی چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا۔ اسکول ماسٹر کی نگاہیں اپنی بیمار بیوی کی طرف اٹھ گئیں جو کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ جنم بھومی چھوڑنے پر ہم کیوں مجبور ہوئے یا کیا یہ گاڑی یہاں اسی لیے رک گئی کہ ہمیں پھر سے اپنے گاؤں کو لوٹ چلنے کا خیال آ جائے۔

اسکول ماسٹر کے ہونٹ بری طرح سوکھ رہے تھے۔ اس کا گلا بری طرح خشک ہو چکا تھا۔ اسے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اس کی آتما میں کانٹے چبھو رہا ہے۔ ایک ہاتھ سامنے والے مسافر کے کندھے پر رکھتے ہوئے وہ بولا۔

 ’’سردار جی! بتاؤ تو سہی کہ کل کا انسان اس انّ کو بھلا کیسے اپنا بھوجن بنائے گا جس کا جنم اس دھرتی کی کوکھ سے ہو گا جسے ان گنت معصوم بے گناہوں کی لاشوں کی کھاد پراپت ہوئی؟‘‘

سردارجی کا چہرہ تمتما اٹھا جیسے وہ ایسے عجیب سوال کے لیے تیار نہ ہوں۔ کسی قدر سنبھل کر انھوں نے بھی سوال کر ڈالا۔ ’’آپ بتاؤ اس میں دھرتی کا کیا دوش ہے؟‘‘

 ’’ہاں ہاں- اس میں دھرتی کا کیا دوش ہے؟‘‘ اسکول ماسٹر کہہ اٹھا ’’دھرتی کو تو کھاد چاہیے۔ پھر وہ کہیں سے بھی کیوں نہ ملے۔‘‘

سردار جی پلیٹ فارم کی طرف دیکھنے لگے، بولے ’’یہ گاڑی بھی عجیب ڈھیٹ ہے چلتی ہی نہیں۔ بلوائی جانے کب آ جائیں۔‘‘

اسکول ماسٹر کے ذہن میں ان گنت لاشوں کا منظر گھوم گیا جن کے بیچوں بیچ بچّے رینگ رہے ہوں۔ وہ ان بچوں کے مستقبل پر غور کرنے لگا۔ یہ بھی کیسی نئی پود ہے! وہ پوچھنا چاہتا تھا۔ یہ نئی پود بھی کیسی ثابت ہو گی؟ اُسے ان ان گنت دوشیزاؤں کا دھیان آیا جن کی عصمت لوٹ لی گئی تھی۔ مرد کی دہشت کے سوا اب ان لڑکیوں کے تصور میں اور کیا ابھر سکتا ہے؟ ان کے لیے یقیناً یہ آزادی بربادی بن کر ہی تو آئی۔ وہ یقیناًاس آزادی کے نام پر تھوکنے سے کبھی نہ کترائیں گی۔ اسے ان لڑکیوں کا دھیان آیا جو اب مائیں بننے والی تھیں۔ یہ کیسی مائیں بنیں گی؟ وہ پوچھنا چاہتا تھا یہ نفرت کے بیج بھلا کیا پھل لائیں گے؟ اس نے سوچا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ ہو گا۔ وہ ڈبے میں ایک ایک شخص کا کندھا جھنجھوڑ کر کہنا چاہتا تھا کہ میرے اس سوال کا جواب دو۔ ورنہ اگر یہ گاڑی پچاس پچپن گھنٹوں تک رکنے کے بعد آگے چلنے کے لیے تیار بھی ہو گئی تو میں زنجیر کھینچ کر اسے روک لوں گا۔

 ’’کیا یہ گاڑی اب آگے نہیں جائے گی، ہے بھگوان؟‘‘بیمار عورت نے اپنے چہرے سے مکھیاں اڑاتے ہوئے پوچھا۔

اسکول ماسٹر نے کہا: ’’نراش ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ گاڑی آخر چلے گی ہی۔‘‘

اسکول ماسٹر کھڑکی سے سر نکال کر باہر کی جانب دیکھنے لگا۔ ایک دو مرتبہ اس کا ہاتھ جیبوں کی طرف بڑھا، اندر گیا، اور پھر باہر آ گیا۔ اتنا مہنگا پانی خریدنے کی اسے ہمت نہ ہوئی۔ جانے کیا سوچ کر اس نے کہا: ’’گاڑی ابھی چل پڑے تو نئے دیش کی سرحد میں گھستے اسے دیر نہیں لگے گی۔ پھر پانی کی کچھ کمی نہ ہو گی۔ یہ کشٹ کے لمحے بہت جلد بیت جائیں گے۔‘‘

کندھے پر پڑی ہوئی پھٹی پرانی چادر کو وہ بار بار سنبھالتا۔ اسے وہ اپنی جنم بھومی سے بچا کر لایا تھا۔ بلوائیوں کے اچانک حملہ کرنے کی وجہ سے وہ کچھ بھی تو نہ نکال سکا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ اپنی بیمار بیوی اور بچوں کو لے کر بھاگ نکلا تھا۔ اب اس چادر پر انگلیاں گھماتے ہوئے اسے گاؤں کی زندگی یاد آنے لگی۔ ایک ایک واقعہ گویا ایک ایک تار تھا اور انہی تاروں کی مدد سے وقت کے جلا ہے نے زندگی کی چادر بن ڈالی تھی۔ اس چادر پر انگلیاں گھماتے ہوئے اسے اس مٹی کی خوشبو محسوس ہونے لگی جسے وہ برسوں سے سونگھتا آیا تھا۔ جیسے کسی نے اسے جنم بھومی کی کوکھ سے زبردستی اکھیڑ کر اتنی دور پھینک دیا ہو۔ جانے اب گاڑی کب چلے گی؟ اب یہ جنم بھومی نہیں رہ گئی۔ دیش کا بٹوارہ ہو گیا، اچھا چاہے برا۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب دیش کے بٹوارے کو جھٹلانا آسان نہیں۔ لیکن کیا زندگی کا بٹوارہ بھی ہو گیا؟ تہذیب و تمدن کا بٹوارہ بھی ہو گیا؟

اپنی بیمار بیوی کے قریب جھک کر وہ اسے دلاسا دینے لگا ’’اتنی چنتا نہیں کیا کرتے نئے دیش میں پہنچنے بھر کی دیر ہے۔ ایک اچھے سے ڈاکٹر سے تمھارا علاج کرائیں گے۔ میں پھر کسی اسکول میں پڑھانے لگوں گا۔ تمھارے لیے پھر سے سونے کے آویزے بنوا دوں گا۔‘‘

کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی بیوی سے الجھ جاتا کہ بھاگتے وقت اتنا بھی نہ ہوا کہ کمبخت اپنے آویزے ہی اٹھا لاتی۔ بلکہ وہ اس کجلوٹی تک کے لیے جھگڑا کھڑا کر دیتا جسے وہ آئینے کے سامنے چھوڑ آئی تھی۔ کجلوٹی جس کی مدد سے وہ اس ادھیڑ عمر میں بھی کبھی کبھی اپنی آنکھوں میں بیتے سپنوں کی یاد تازہ کر لیتی تھی۔

کانتا نے جھک کر شانتا کی آنکھوں میں کچھ دیکھنے کا خیال کیا۔ جیسے وہ پوچھنا چاہتی ہو کہ بتاؤں پگلی ہم کہاں جا رہے ہیں؟

 ’’میرا جھنجھنا!‘‘ شانتا نے پوچھا۔

 ’’میری گڑیا!‘‘ کانتا کہہ اٹھی۔

 ’’یہاں نہ جھنجھنا ہے نہ گڑیا۔‘‘ اسکول ماسٹر نے آنسو بھری آنکھوں سے اپنی بچیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تم فکر نہ کرو، میری بیٹیو! جھُنجھنے بہتیرے، گڑیا بہتیری، نئے دیش میں ہر چیز ملے گی۔‘‘

لیکن رہ رہ کر اس کا ذہن پیچھے کی طرف مڑنے لگتا۔ یہ کیسی کشش ہے؟ -یہ جنم بھومی کی کشش ہے جیسے وہ خود ہی جواب دینے کا جتن کرتا۔ جنم بھومی پیچھے رہ گئی۔ اب نیا دیش نزدیک ہے۔ گاڑی چلنے کی دیر ہے۔ اس نے جھنجھلا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ جیسے وہ ڈبے میں بیٹھے ہوئے ایک ایک شخص سے پوچھنا چاہتا ہو کہ بتاؤ گاڑی کب چلے گی۔

جنم بھومی ہمیشہ کے لیے چھوٹ رہی ہے۔ اس نے اپنے کندھے پر پڑی ہوئی چادر کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سہلاتے ہوئے کہنا چاہا۔ جیسے اس چادر کے بھی کان ہوں اور وہ سب سن سکتی ہو۔ کھڑکی سے سر نکال کر اس نے پیچھے کی طرف دیکھا اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے جنم بھومی اپنی بانہیں پھیلا کر اسے بلا رہی ہو۔ جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ تم مجھے یوں چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔ میرا آشیرباد تو تمھارے لیے ہمیشہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔

چادر پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے ہوئے اسکول ماسٹر کو جنم بھومی کی دھرتی کا دھیان آ گیا جو صدیوں سے روئی کی کاشت کے لیے مشہور تھی۔ اس کے تصور میں کپاس کے دور تک پھیلے ہوئے دودھیا کھیت ابھرے۔ یہ سب اسی کپاس کا جادو ہی تو تھا کہ جنم بھومی روئی کے ان گنت ڈھیروں پر فخر کر سکتی تھی۔ جنم بھومی میں اس روئی سے کیسے کیسے باریک تار نکالے جاتے تھے، گھر گھر چرخے چلتے تھے۔ سجیلی چرخہ کاتنے والیوں کی رنگیلی محفلیں، وہ بڑھ بڑھ کر سوت کاتنے کے مقابلے۔ وہ سوت کی انٹیاں تیار کرنے والے خوبصورت ہاتھ۔ وہ جلا ہے جو روایتی طور پر بیوقوف تصور کیے جاتے تھے۔ لیکن جن کی انگلیوں کو مہین سے مہین کپڑا بننے کا فن آتا تھا۔ جیسے جنم بھومی پکار پکار کر کہہ رہی ہو- تم قد کے لمبے ہو اور جسم کے گٹھے ہوئے۔ تمھارے ہاتھ پاؤں مضبوط ہیں۔ تمھارا سینہ کشادہ ہے۔ تمھارے جبڑے اتنے سخت ہیں کہ پتھر تک چبا جائیں۔ یہ سب میری بدولت ہی تو ہے۔ دیکھو تم مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ اسکول ماسٹر نے جھٹ کھڑکی کے باہر دیکھنا بند کر دیا اور اس کی آنکھیں اپنی بیمار بیوی کے چہرے پر جم گئیں۔

وہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے وہ دن ابھی تک یاد ہیں للت کی ماں جب تمھاری آنکھیں کاجل کے بغیر بھی بڑی بڑی اور کالی کالی نظر آیا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہیں وہ دن جب تمھارے جسم میں ہرنی کی سی مستی تھی۔ ان دنوں تمھارے چہرے پر چاند کی چاندنی تھی اور ستاروں کی چمک۔ مسکراہٹ، ہنسی، قہقہہ- تمھارے چہرے پر خوشی کے تینوں رنگ تھرک اٹھتے تھے۔ تم پر جنم بھومی کتنی مہربان تھی۔ تمھارے سر پر کالے گھنگھریالے بال تھے۔ ان ساون کے کالے بادلوں کو اپنے شانوں پر سنبھالے تم کس طرح لچک لچک کر چلا کرتی تھیں گاؤں کے کھیتوں میں۔

دھر دھر دھاں دھاں- جیسے مٹکی میں گرتے وقت تازہ دوہا جانے والا دودھ بول اٹھے۔ اسکول ماسٹر کو یوں محسوس ہوا کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جیسے وہ گھومتے ہوئے بھنور میں چمکتی ہوئی کرن کے دل کو بھانپ کر آج خوشی سے یہ کہہ سکتا ہو کہ بیتے سپنے ذہن کے کلابھون میں ہمیشہ تھرکتے رہیں گے۔ جیسے وہ طاق میں پڑی ہوئی صراحی سے کہہ سکتا ہو- او صراحی! تیری گردن تو آج بھی خمیدہ ہے۔ بھلا مجھے وہ دن کیسے بھول سکتے ہیں جب تم نئی نئی اس گھر میں آئی تھی۔

وہ چاہتا تھا کہ گاڑی جلد سے جلد نئے دیش میں داخل ہو جائے۔ پھر اس کی سب تکلیفیں رفع ہو جائیں گی۔ بیوی کا علاج بھی ہو سکے گا۔ جنم بھومی پیچھے رہ جانے کے تصور سے اسے ایک لمحے کے لیے کچھ الجھن سی ضرور محسوس ہوئی۔ لیکن اس نے جھٹ اپنے من کو سمجھا لیا۔ وہ یہ کوشش کرے گا کہ نئے دیش میں جنم بھومی کا تصور قائم کر سکے۔ آخر ایک گاؤں کو تو جنم بھومی نہیں کہہ سکتے۔ جنم بھومی تو بہت وشال ہے- بہت مہان ہے- اس کی مہما تو دیوتا بھی پوری طرح نہیں گا سکتے، جدھر سے گاڑی یہاں تک آن پہنچی تھی اور جدھر گاڑی کو جانا تھا، دونوں طرف ایک سی زمین دور تک چلی گئی تھی۔ اسے خیال آیا کہ زمین تو سب جگہ ایک سی ہے جنم بھومی اور نئے دیش کی زمین میں بہت زیادہ فرق تو نہیں ہو سکتا۔ وہ چاہتا تھا کہ جنم بھومی کا صحیح تصور قائم کرے۔ پو پھٹنے سے پہلے کا منظر -دور تک پھیلا ہوا افق- کنارے کنارے پہاڑیوں کی جھالر- آسمان پر بگلوں کی ڈار کھلی قینچی کی طرح پرواز کرتے ہوئے۔ پورب کی طرف اوشا کا اجالا- دھرتی پر چھائی ہوئی ایک مدماتی مسکراہٹ- اجالے میں کیسر کی جھلک- دھرتی ایسی جیسے کسی دوشیزہ کی گردن کے نیچے اونچی گھاٹیوں کے بیچوں بیچ تازہ سپید مکھن دور تک پھیلا ہوا ہو۔۔۔ وہ چلّا کر کہنا چاہتا تھا کہ جنم بھومی کا یہ منظر نئے دیش میں ضرور آئے گا۔ وہ اپنے کندھے پر پڑی ہوئی چادر کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سہلانے لگا۔ جیسے وہ اس چادر کی زبانی اپنے خیالات کی تصدیق کرانا چاہتا ہو۔ لہکتی ڈالیاں، مہکتی کلیاں، دھنک کے رنگ، کہکشاں کی دودھیا سندرتا، کنواریوں کے قہقہے۔ دلہنوں کی لاج -جنم بھومی کا روپ، انہی کی بدولت قائم تھا۔ اپنے اسی خمیر پر اپنی اسی تاثیر پر جنم بھومی مسکراتی آئی ہے اور مسکراتی رہے گی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ نئے دیش میں بھی جنم بھومی کا یہ روپ کسی سے کم تھوڑی ہو گا۔ وہاں بھی گیہوں کے کھیت دور تک سونا بکھیرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جنم بھومی کا یہ منظر نئے دیش میں اس کے ساتھ ساتھ جائے گا۔ اسے یقین تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں برابر کندھے پر پڑی ہوئی پھٹی پرانی اور میلی چادر سے کھیلتی رہیں۔ جیسے لے دے کر یہی چادر جنم بھومی کی علامت ہو۔

 ’’فرنگی نے دیش کا نقشہ بدل ڈالا‘‘ سردار جی کہہ رہے تھے۔

پاس سے کوئی بولا ’’یہ اس کی پرانی چال تھی۔‘‘

ایک بڑھیا کہہ اٹھی ’’فرنگی بہت دنوں سے اس دیش میں بس گیا تھا۔ میں نہ کہتی تھی کہ ہم برا کر رہے ہیں جو فرنگی کو اس کے بنگلوں سے نکالنے کی سوچ رہے ہیں؟ میں نہ کہتی تھی فرنگی کا سراپ لگے گا؟‘‘

پاس سے دوسری بڑھیا بولی۔ ’’یہ سب فرنگی کا سراپ ہی تو ہے بہن جی!‘‘

اسکول ماسٹر کو پہلی بڑھیا پر بری طرح غصہ آیا۔ اس بڑھیا کی آواز میں جنم بھومی کے توہمات بول اٹھے ہیں، اس نے سوچا۔ دوسری بڑھیا پہلی بڑھیا سے بھی کہیں زیادہ مورکھ تھی جو بنا سوچے ہاں میں ہاں ملائے جا رہی تھی۔

پرے کونے میں ایک لڑکی چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ جیسے اس کی سہمی سہمی نگاہیں اس ڈبّے کے ہر مسافر سے پوچھنا چاہتی ہوں -کہ کیا یہ میرے گھاؤ آخری گھاؤ ہیں؟ اس کے بائیں طرف اس کی ماں بیٹھی تھی جو شاید فرنگی سے کہنا چاہتی تھی کہ میری غلامی واپس دے دو۔ غلامی میں میری لڑکی کی آبرو تو محفوظ تھی۔

ڈبّے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی آنکھوں میں ڈر کا یہ حال تھا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ بڑی تیزی سے بوڑھے ہو رہے تھے۔ سردارجی بولے: ’’اتنی لوٹ تو باہر سے آنے والے حملہ آوروں نے بھی نہ کی ہو گی۔‘‘

پاس سے کسی نے کہا: ’’اتنا سونا لوٹ لیا گیا کہ سو سو پیڑھیوں تک ختم نہیں ہو گا۔‘‘

 ’’لوٹ کا سونا زیادہ دن نہیں ٹھیرتا۔‘‘ ایک اور مسافر کہہ اٹھا۔

سردارجی کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ بولے ’’پولیس کے سپاہی بھی تو سونا لوٹنے والوں کے ساتھ رہتے تھے۔ لیکن لوٹ کا سونا پولیس کے سپاہیوں کے پاس بھی کَے دن ٹھیرے گا؟ آج بھی دنیا مست گرو نانک دیو جی کی آ گیا پر چلے تو شانتی ہو سکتی ہے۔‘‘

اسکول ماسٹر اس گفتگو میں شامل نہ ہوا۔ اگرچہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ کم سے کم میں نے تو کسی کا سونا نہیں لوٹا اور نہ آئندہ کسی کا سونا لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

چھپّن، ستّاون، اٹھاون -اتنے گھنٹوں سے گاڑی ہربنس پورہ کے اسٹیشن پر رکی کھڑی تھی۔ اب تو پلیٹ فارم پر کھڑے کھڑے ملٹری والوں کے تنے ہوئے جسم بھی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ڈبے سے باہر نکل کر دیکھے کہ آخر گاڑی رکنے کی کیا وجہ ہے۔ ہر شخص کا دم گھٹا جا رہا تھا اور ہر شخص چاہتا تھا کہ اور نہیں تو اس ڈبے سے نکل کر کسی دوسرے ڈبے میں کوئی اچھی سی جگہ ڈھونڈ لے۔ لیکن یہ ڈر بھی تو تھا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ نہ اِدھر کے رہیں نہ ادھر کے اور گاڑی چل پڑے۔

بڑھیا بولی: ’’فرنگی کا سراپ ختم ہونے پر ہی گاڑی چلے گی۔‘‘

دوسری بڑھیا کہہ اٹھی: ’’سچ ہے بہن جی!‘‘

اسکول ماسٹر نے اڑنے والے پرندے کے انداز میں بازو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا: ’’فرنگی کو دوش دیتے رہنے سے تو نہ جنم بھومی کا بھلا ہو گا نہ نئے دیش کا۔‘‘

بڑھیا نے روکھی ہنسی ہنستے ہوئے کہا: ’’فرنگی چاہے تو گاڑی ابھی چل پڑے۔‘‘

کانتا نے کھڑکی سے جھانک کر کسی کو پانی پیتے دیکھ لیا تھا۔ وہ بھی پانی کے لیے مچلنے لگی۔ اس کی بیمار ماں نے کراہتی ہوئی آواز میں کہا: ’’پانی کا تو اکال پڑ رہ ہے، بٹیا!‘‘

شانتا بھی پانی کی رٹ لگانے لگی۔ سردارجی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے۔ پانچ پانچ روپے کے پانچ نوٹ اسکول ماسٹر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’اس سے آدھا گلاس پانی حاصل کر لیا جائے!‘‘

اسکول ماسٹر نے جھجکتے ہاتھوں سے نوٹ قبول کیے۔ آدھے گلاس پانی کے تصور سے اُس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ خالی گلاس اٹھا کر وہ پانی کی تلاش میں نیچے پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ اب ہندو پانی اور مسلم پانی کا امتیاز اٹھ گیا تھا۔ بڑی مشکل سے ایک شخص کے پاس نظر آیا باون روپے گلاس کے حساب سے پچیس روپے کا آدھے گلاس سے کچھ کم ہی آنا چاہیے تھا۔ لیکن پانی بیچنے والے نے پیشگی روپے وصول کر لیے اور بڑی مشکل سے ایک تہائی گلاس پانی دیا۔

ڈبے میں پہنچ کر سردارجی کے گلاس میں تھوڑا پانی انڈیلتے وقت سردار جی سے جلدی میں کوئی ایک گھونٹ پانی فرش پر گر گیا۔ اس پر اسے بڑی ندامت کا احساس ہوا جھٹ سے پانی کا گلاس کانتا کے منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا: ’’پی لو، بٹیا!‘‘

ادھر سے شانتا نے ہاتھ بڑھائے۔ اسکول ماسٹر نے کانتا کے منہ سے گلاس ہٹا کر اسے شانتا کے قریب کر دیا۔ پھر بہت جلد کانپتے ہاتھوں سے یہ گلاس اس نے اپنی بیمار بیوی کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا جس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے خاوند سے کہا کہ پہلے آپ بھی اپنے ہونٹ گیلے کر لیتے لیکن خاوند اس کے لیے تیار نہ تھا۔

کانتا اور شانتا نے مل کر زور سے گلاس پر ہاتھ مارے۔ بیمار ماں کے کمزور ہاتھوں سے چھوٹ کر گلاس نیچے فرش پر گر پڑا۔ اسکول ماسٹر نے جھٹ لپک کر گلاس اُٹھا لیا۔ بڑی مشکل سے اس میں ایک گھونٹ پانی بچ رہا تھا۔ یہ ایک گھونٹ پانی اس نے جھٹ اپنے حلق میں انڈیل لیا۔

سردارجی کہہ رہے تھے: ’’اتنا کچھ ہونے پر بھی انسان زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔‘‘

اسکول ماسٹر کہہ اٹھا: ’’انسانیت جنم بھومی کا سب سے بڑا بردان ہے، جیسے ایک پودے کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسر جگہ لگایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہم نئے دیش میں جنم بھومی کا پودا لگائیں گے۔ ہمیں اس کی دیکھ بھال کرنی پڑے گی اور اس پودے کو نئی زمین میں جڑ پکڑتے کچھ وقت ضرور لگے گا۔‘‘

یہ کہنا کٹھن ہو گا کہ بیمار عورت کے حلق میں کتنے گھونٹ پانی گزرا ہو گا۔ لیکن اتنا تو ظاہر تھا کہ پینے کے بعد اس کی حالت اور بھی ڈانواڈول ہو گئی۔ اب اُس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ بیٹھی رہ سکے۔

سردار جی نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا: ’’دریا بھلے ہی سوکھ جائیں لیکن دلوں کے دریا تو ہمیشہ بہتے رہے ہیں اور ہمیشہ بہتے رہیں گے۔ دل دریا سمندر ڈونگھے۔ دلوں کے دریا تو سمندر سے بھی گہرے ہیں۔‘‘

اسکول ماسٹر کہہ اٹھا: ’’کبھی یہ دلوں کے دریا جنم بھومی میں بہتے تھے۔ اب یہ دلوں کے دریا نئے دیش میں بہا کریں گے۔‘‘

بیمار عورت بخار سے تڑپنے لگی۔ سردار جی بولے: ’’یہ اچھا ہو گا کہ انھیں تھوڑی دیر کے لیے نیچے پلیٹ فارم پر لٹا دیا جائے۔ باہر کی کھلی ہوا ان کے لیے اچھی رہے گی۔‘‘

اسکول ماسٹر نے احسان مند نگاہوں سے سردار جی کی طرف دیکھا۔ اس نے للت کو جو اس وقت سو رہا تھا کانتا اور شانتا کی جگہ پر آرام سے سلا دیا اور پھر سردار جی کی مدد سے اپنی بیمار بیوی کو ڈبے سے نیچے اتار کر پلیٹ فارم پر لٹا دیا سردار جی پھر اپنی جگہ پر جا بیٹھے۔

بیمار بیوی کے چہرے پر رو مال سے پنکھا جھلتے ہوئے اسکول ماسٹر اسے دلاسا دینے لگا۔ ’’تم اچھی ہو جاؤ گی۔ ہم بہت جلد نئے دیش میں پہنچنے والے ہیں۔ وہاں میں اچھے اچھے ڈاکٹروں سے تمھارا علاج کراؤں گا۔‘‘

بیمار عورت کے چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹ ابھری۔ لیکن اس کی زبان سے ایک بھی لفظ نہ نکلا۔ جیسے اس کی کھلی کھُلی آنکھیں کہہ رہی ہوں، میں جنم بھومی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ میں نئے دیش میں نہیں جانا چاہتی۔ میں اسی دھرتی کی کوکھ سے نکلی اور اسی میں سما جانا چاہتی ہوں۔‘‘

اس کا سانس زور زور سے چلنے لگا۔ اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ اسکول ماسٹر گھبرا کر بولا: یہ تمھیں کیا ہوا جا رہا ہے؟ گاڑی اب اور نہیں رکے گی۔ نیا دیش نزدیک ہی تو ہے۔ اب جنم بھومی کا خیال چھوڑ دو۔ ہم آگے جائیں گے۔‘‘

کھڑکی سے کانتا اور شانتا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔ اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ سردار جی نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر پوچھا: ’’اب بہن جی کا کیا حال ہے؟‘‘

اسکول ماسٹر نے رندھی ہوئی آواز سے کہا: ’’اب یہ جنم بھومی ہی میں رہے گی۔‘‘

سردارجی بولے: ’’کہو تو تھوڑا پانی خرید لیں۔‘‘

بیمار عورت نے بُجھتے ہوئے دیے کی طرح سنبھالا لیا اور اس کے پران پکھیرو نکل گئے۔

لاش کے قریب جھک کرا اسکول ماسٹر نے بڑے غور سے دیکھا اور کہا: ’’اب وہ پانی نہیں پیے گی۔‘‘

ادھر انجن نے سیٹی دی اور گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ رینگنے لگی۔ اس نے ایک بار بیوی کی لاش کی طرف دیکھا۔ پھر اس کی نگاہیں گاڑی کی طرف اٹھ گئیں۔ کھڑکی سے کانتا اور شانتا اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ لاش کے ساتھ رہ جائے یا لپک کر ڈبے میں جا بیٹھے؟ یہ سوال بجلی کی طرح اُس کے دل و دماغ کو چیرتا چلا گیا۔

اس نے اپنے کندھے سے جھٹ وہ پھٹی پرانی، میلی چادر اتاری جسے وہ جنم بھومی سے بچا کر لایا تھا اور جس کے دھاگے دھاگے میں ابھی تک جنم بھومی سانس لے رہی تھی۔ اس چادر کو اس نے اپنے سامنے پڑی ہوئی لاش پر ڈال دیا اور جھٹ سے گاڑی کی طرف لپک پڑا۔ کانتا کی آواز ایک لمحے کے لیے فضا میں لہرائی- ’’ماتا جی!‘‘

گاڑی تیز ہو گئی تھی۔ کانتا کی آواز ہوا میں اچھل کر رہ گئی تھی۔ اس نے شانتا کو گود میں اٹھا لیا اور پلٹ کر لاش کی طرف نہ دیکھا۔

٭٭٭

ہرے رنگ کی گُڑیا

میں نے اُسے پہلے پہل ایک سرکاری دفتر میں دیکھا۔ وہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس تھی۔ میں اپنے پُرانے دوست مٹُّو سے ملنے کے لیے ٹھیک گیارہ بجے پہنچا۔ وہ وہاں پہلے سے موجود تھی۔ مٹو نے اُس سے میرا تعارف کرایا جب یہ پتہ چلا کہ وہ مصوّری میں دلچسپی رکھتی ہے اور اِس فن میں اُسے بڑی شہرت حاصل ہے تو مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ میری درخواست پر اُس نے اپنے ہاؤس بوٹ کا پتہ لکھ دیا۔ بہت دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوتے دیر نہ لگی کہ ہماری یہ ملاقات محض رسمی ملاقات نہیں ہے۔ اُس نے زور دے کر کہا۔ ’’تھوڑا وقت نکال کر میرے ہاں آئیے۔ میری کچھ نئی تصویریں دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ میں اپنی کوششوں میں کہاں تک کامیاب رہی ہوں۔‘‘

 ’’ہم ضرور حاضر ہوں گے‘‘ مٹّو نے سرکاری فائل سے ایک لمحہ کے لیے چھُٹی لیتے ہوئے وعدہ کیا۔

 ’’مجھے بھی لیتے چلیے‘‘ مٹّو کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں نے کہا ’’نئی تصویریں دیکھنے کا مجھے بھی بے حد شوق ہے۔‘‘

 ’’میں انتظار کروں گی!‘‘ وہ مُسکرائی۔ مسکراہٹ سے ہنسی، ہنسی، سے قہقہہ، اور پھر اُس کی شخصیت شانتی اور سکون کے تاثر میں کھو گئی۔

مٹّو سرکاری فائل پر جھُک گیا۔ جیسے وہ بھول کر بھی یہ نہ سوچ سکتا ہو کہ سرکاری فائل کا کام تھوڑی دیر کے بعد بھُگتایا جا سکتا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ بھی غنیمت ہوا کہ میں پہنچ گیا ورنہ صوفیاؔ کو میرے دوست کی یہ بے رُخی بہت بُری طرح اَکھرتی۔

وہاں بیٹھے بیٹھے صوفیاؔ سے اتنی باتیں ہو گئیں کہ اب ہمارے بیچ میں کسی طرح کی دُوری کا تصوّر مٹ گیا۔ اُس نے بتایا کہ سبز رنگ کا لباس اُسے بے حد پسند ہے۔ اور جس روز وہ سب سے زیادہ خوش ہوتی ہے یہ نا ممکن ہے کہ وہ سبزرنگ کے لباس کے سوا کوئی دوسرا لباس پہنے۔ بچپن سے ہی اُسے چاکلیٹ پسند تھیں اور یہ نا ممکن ہے کہ اُس کی جیب میں دو چار چاکلیٹ نہ رہیں۔ پھولوں کی موجودگی اُس کی روح میں لطافت پیدا کرتی ہے۔ موسیقی اور رقص کی فضاؤں میں سانس لینے کی بات وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ دیس دیس کی سیر، ہر روز نئے چہرے دیکھنے کی جستجو، زندگی کے محور پر گھومتی ہوئی مصوّری — ایسی، ایسی بہت سی باتیں جسے صوفیا ایک ہی سانس میں بتا گئی تھی۔

 ’’کبھی کبھی نئی تصویر بناتے ہوئے مجھے آنے والے زمانہ کی جھنکار سُنائی دینے لگتی ہے!‘‘ وہ مسکرائی۔ اور مجھے محسوس ہوا کہ اگر یہ صحیح ہے تو صوفیا کی تصویروں کے رنگ زندگی کی کشمکش کے رنگ ہوں گے۔ اُن میں کسی طرح کا ڈیڈ لاک نہ ہو گا۔

 ’’شاعری کی طرح مصوّری بھی سچائی چاہتی ہے!‘‘میں نے دھیمی آواز میں کہا۔

مٹّو کو جیسے ہماری گفتگو سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ سرکاری فائل سے سر اُٹھا کر اُس نے چپراسی کو گھنٹی دے کر بُلایا اور چائے لانے کا حُکم دیا۔ ’’تھوڑا نمکین ضرور لانا، تھوڑی مٹھائی بھی۔‘‘

میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں صوفیاؔ سے کہا کہ چلیے یہی کیا کم ہے، آخر ہمارے دوست کو ہمارا تھوڑا بہت خیال تو ہے۔ صوفیا نے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’’میں اس لیے حاضر ہوئی تھی کہ آپ کا محکمہ میری تصویروں کے فوٹو لینے کا انتظام کر دے۔‘‘

 ’’یہ کام میں ضرور کر دوں گا۔‘‘ مٹو نے وعدہ کیا۔

 ’’تو کب تک اُمید رکھوں؟‘‘ صوفیا نے کسی قدر لجاجت سے کہا ’’میں بہت جلد باہر جا رہی ہوں۔‘‘

 ’’آپ جائیں گی بھی تو اگلے ہفتے۔‘‘ میں نے بڑھاوا دیا۔

 ’’اس ہفتے تو میں جانے سے رہی۔‘‘

 ’’تو میں ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘

 ’’ضرور آئیے۔‘‘

صوفیا کے چہرے سے معصومیت برستی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں تپاک اور ہمدردی کی جھلک نمایاں تھی۔ کبھی کبھی اُس کی آنکھوں میں سوچ کا رنگ اُبھرتا جیسے تعارف کے بعد ہونٹوں پر مسکراہٹ تھرکنے لگتی ہے۔ سچ کہتا ہوں مجھے صوفیا کی یہ کمزوری بہت ناگوار گزری کہ پبلسٹی والوں سے اُسے خود یہ درخواست کرنی پڑے کہ وہ اُس کی تصویروں کے فوٹو لے کر مختلف اخباروں کو بھیجنے کا انتظام کریں۔ پبلسٹی والوں کو سو بار غرض ہوتی تو صوفیا کا ہاؤس بوٹ پوچھ کر اُس کے ہاں پہنچتے اور محکمہ کے ڈائرکٹر کی چٹھی میں صاف صاف لکھا ہوتا کہ اگر مادام صوفیا اپنی کچھ تصویروں کے فوٹو لینے کی اجازت دے سکے تو محکمہ کشمیر ٹورسٹ پبلسٹی بے حد ممنون ہو گا۔ صوفیا کو تھوڑا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ پبلسٹی والے بھاگے بھاگے اُس کے ہاں محکمہ پبلسٹی کی یہ درخواست لے کر آتے۔ خیر اب تو صوفیا خود ہی محکمہ پبلسٹی میں چلی آئی تھی۔ جیسے اپنی اس حرکت کے ذریعہ اُس نے سب کے سب مصوّروں کی ہتک کر دی ہو۔

 ’’حافظؔ نے لکھا ہے کہ اپنا وطن بہشت ہوتا ہے۔‘‘ میں نے صوفیا کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔

 ’’بہت بڑی بات کہہ دی حافظ نے۔‘‘ وہ پہلے مسکرائی، پھر ہنستی رہی۔

اُس نے بتایا کہ کشمیر اُسے بے حد پسند ہے۔ اسی لیے نیپال کے سفر میں بھی اُسے کشمیر کی یاد کبھی بھولی نہ تھی۔ وہاں اُس نے گِنتی کے دن بڑی مشکل سے کاٹے۔ ہر وقت وہ یہی سوچا کرتی کہ وہ دن کب آئے گا جب اُس کے پاؤں پھر سے کشمیر کی دھرتی کو چُوم رہے ہوں گے۔ بڑے موثر انداز میں اُس نے بتایا کہ نیپال سے کشمیر پہنچ کر اُس نے خوشی سے جھوم کر اِدھر اُدھر دیکھا تھا اور اب جب کہ وہ دو ہفتوں کے لیے بمبئی جا رہی تھی اُسے ڈر تھا کہ بمبئی جا کر بھی اُس کی وہی حالت نہ ہو جائے جو نیپال پہنچنے پر کٹھمنڈو میں ہوئی تھی —

 ’’کشمیر مجھے پسند ہے، کوئی اسے بہشت سمجھے چاہے نہ سمجھے‘‘ صوفیا نے جیسے دل کی گہرائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ میری بہترین تصویریں کشمیر کی تصویریں ہیں۔ ایک بات اور بھی تو ہے۔ فنکار کو اپنا وطن تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اب چونکہ مجھے کشمیر میں ہی گھر کا احساس ہوتا ہے، یہی میرا وطن بن گیا ہے۔ کشمیر کی فضا میں سانس لیے بِنا جیسے میرا فن مر جائے گا۔‘‘

 ’’تو یہ کہیے کہ آپ مصوّری کو جغرافیائی اور سیاسی دیواروں سے گھیر کر رکھنے کی قائل ہیں۔‘‘ مٹو نے فائل سے سر اُٹھا کر ہماری گفتگو میں شامل ہونے کا دم بھرا۔

 ’’چائے کا کب تک انتظار کرنا ہو گا؟‘‘ میں نے صورتِ حال کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے کہا۔

 ’’ابھی آیا چاہتی ہے چائے۔‘‘

 ’’ابھی کا مطلب دس منٹ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

 ’’شاید۔‘‘

صوفیا بیٹھی مسکراتی رہی۔ جیسے اُس کی مسکراہٹ کشمیر کی دہلیز پر کھڑی عورت کی طرح نئے زمانے کا استقبال کر رہی ہو۔ بولی ’’بہشت کی حور ہے آزادی۔ کیا وہ گھر گھر جائے گی؟ اب تو کسی کسی گھر میں آزادی ناچ رہی ہے، لیکن یقین کیجیے کہ ایک دن کشمیر کی دُکھ بھری کہانی کا اَنت ہو جائے گا۔ اُس وقت لوگ میری تصویروں میں اس نئی سماج کی روح دیکھ کر کتنے خوش ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے- آخر یہ کیسے ممکن ہو سکا کہ مادام صوفیا نے اپنی تصویروں میں آج سے دس برس پہلے وہی بات اُجاگر کی جس کی ضرورت ہمیں اتنے دنوں بعد محسوس ہوئی؟‘‘

 ’’اب آپ کی تصویروں کے فوٹو لینے کا انتظام زیادہ سے زیادہ دو روز لے گا‘‘ مٹو نے سرکاری فائل سے سر اُٹھا کر تسلّی دی۔

چائے آ گئی۔ میں نے ٹرے کو صوفیا کی طرف سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’اب اپنا کام کیجیے۔‘‘

صوفیا نے پہلا پیالہ مٹو کی طرف بڑھایا دوسرا پیالہ میری طرف۔ تیسرا پیالہ اپنے ہونٹوں تک لے جاتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ مٹو لاکھ بے رُخی دکھائے۔ آخر وہ اچھا آدمی ہے اور یہ اُس کی ایمانداری ہے کہ دوستوں کی موجودگی میں بھی سرکاری فائلوں کو بھگتانے کی بات اُسے اہم معلوم ہوتی ہے۔

چائے کے بعد صوفیا اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس نے مجھ سے پوچھا- اس وقت کدھر چلنے کا ارادہ ہے؟ بولی۔ ’’اب میں چلوں گی۔‘‘

 ’’آرٹسٹ لوگ محکمہ پبلسٹی پر اتنے مہربان ہیں‘‘ مٹو نے پیشانی کھجاتے ہوئے کہا ’’وہ خود ہی اِدھر چلے آتے ہیں یہ اُن کی عین عنایت ہے۔‘‘

 ’’مجھے ابھی رُکنا ہو گا۔‘‘ میں نے کہا ’’آپ چلیے۔‘‘

صوفیا چلی گئی۔ مٹو بولا۔ ’’کہیے کیا ارشاد ہے، قبلہ؟‘‘

 ’’اپنی اب تک کی چھپی ہوئی ہر پبلیکیشن کا ایک ایک نسخہ دلا سکیں تو عنایت ہو گی۔‘‘

 ’’ابھی لیجیے۔ پہلے بتایا ہوتا تو اب تک یہ چیزیں آپ کے سامنے پہنچ چکی ہوتیں۔‘‘

 ’’خیر اب نکلوا دیجیے۔‘‘

مٹو نے گھنٹی بجا کر چپراسی کو بلایا اور کاغذ کے پُرزے پر نوٹ لکھ کر کہا۔ ’’اسے سومناتھ کے پاس لے جاؤ۔ بولو کہ یہ کتابیں اور پمفلٹ دس منٹ کے اندر اندر مل جانے چاہئیں۔‘‘

دفعتاً مٹو زور زور سے ہنسنے لگا۔ ’’ مجھے صوفیا سے ایک ہی شکایت ہے -‘‘

 ’’ہم بھی سُنیں۔‘‘

 ’’اُس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی ایک تصویر مجھے ضرور دے گی۔ اِسی اُمید پر ہم نے اُس کی بے حد پبلسٹی کی۔ مانا کہ وہ کشمیر کو اپنی تصویروں میں پیش کرتی ہے اور اس طرح کشمیر کی ٹورسٹ پبلسٹی میں ہماری مددگار ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ڈھول پیٹنے سے جب بھی اُس کی تصویریں اچھے داموں پر بکتی ہیں، سب کا سب روپیہ اُسی کی جیب میں جاتا ہے۔‘‘

 ’’وہ اپنی کوئی تصویر تحفہ کے طور پر ضرور پیش کرے گی۔‘‘

 ’’چلیے اور انتظار کر لیتے ہیں۔ آخر دُنیا اُمید پر قایم ہے۔‘‘

مجھے یوں محسوس ہوا کہ مٹو کے ہونٹوں پر کوئی گوں گا خیال تھرک اُٹھا ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اُسے الفاظ نہیں مِل رہے تھے۔ بولا۔ ’’بہت سے آرٹسٹ تو کاغذ پر رنگ تھوپ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں تصویر تیار ہو گئی۔ لیکن صوفیا بہت محنت کرتی ہے۔ اپنی تصویروں میں اُس نے کشمیر کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ رنگ ہم آہنگ ترنم کے ساتھ کشمیر کی خوبصورتی کا دم بھرتے چلے جاتے ہیں۔ اس پبلسٹی کے لیے ہم صوفیا کے بے حد ممنون ہیں، لیکن –‘‘

 ’’لیکن صوفیا کو اپنا وعدہ یاد رکھنا چاہیے۔‘‘ میں نے ہنس کر بڑھاوا دیا ’’اور اگر صوفیا صحیح قسم کی آرٹسٹ ہے تو وہ اپنی کوئی تصویر اگلی بار آپ کے لیے ضرور لیتی آئے گی۔‘‘

مٹّو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس نے کہا- تمھارے مُنھ میں گھی شکر۔ تمھاری زبان مبارک! اُس وقت اُس کا ذہن ویران نہ تھا۔ سنبھل کر اُس نے کہا۔ ’’ہم تو زندگی کے علمبردار ہیں۔ اگر سچائی کا دم بھرنا گناہ ہے تو ہم سچ مچ گناہگار ہیں۔ صوفیا جانتی ہے کہ مجھ پر اُس کا رُعب ہے۔ میں ہمیشہ اُس کے لیے، اُس کے فن کے لیے لڑتا رہا ہوں۔ آپ یہ مت سمجھیے کہ میں ایک تصویر کی شکل میں اپنی خدمات کا صِلہ چاہتا ہوں۔ میں چاہوں تو اُس کی ایک تصویر خریدسکتا ہوں۔ لیکن –‘‘

 ’’لیکن جو مزا تحفہ میں ملی ہوئی تصویر کا ہوتا ہے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’وہ مزا خریدی ہوئی تصویر کا نہیں ہوتا۔‘‘

 ’’آپ نے تو میری زبان سے یہ الفاظ چھین لیے۔‘‘

 ’’داد دیجیے۔‘‘

ہماری آنکھیں کچھ لمحوں کے لیے ایک دوسرے کو داد دیتی رہیں۔ اس بیچ میں میرے لیے ضروری لٹریچر آ گیا تھا۔ اس کے لیے میں نے مٹو صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جذبۂ خود داری کو میں نے سنبھال کر تھام رکھا تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ ابھی ہفتہ دس دن اور ہوں کشمیر میں اور دلّی جانے سے پیشتر ایک بار اُن کا نیاز ضرور حاصل کروں گا۔

کئی روز دوسری ہی کشمکش میں گزر گئے۔ صوفیا کے ہاؤس بوٹ میں جانے کے لیے وقت نہ نکالا جا سکا۔ کئی بار مجھے اپنے ذہن میں گدگدی سی محسوس ہونے لگتی۔ صوفیا کی یاد میں زندگی کا ایک نیا موڑ نظر آنے لگتا۔ صوفیا نے پہلی ہی ملاقات میں دل کھول کر رکھ دیا تھا۔ اُس نے کسی اور کا افسانہ نہیں سُنایا تھا، اپنی تصویروں کا افسانہ سُنایا تھا۔ یہ تصویریں مجھے بلا رہی تھیں۔ جیسے پوچھ رہی ہوں- تم کب آ رہے ہو؟

ایک روز میرے ایک ساتھی نے، جو نہ صرف بے حد ہنس مُکھ واقع ہوا تھا بلکہ جسے ڈوگری لوک گیتوں کی کچھ پُرانی دھُنیں بڑی باریکی سے پیش کرنے کی اہلیت حاصل تھی، نہ جانے کیا سوچ کر پوچھا۔ ’’آپ صوفیا کو جانتے ہیں؟‘‘

 ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کچھ اس سادگی سے پوچھا۔ جیسے صوفیا کے بارے میں مجھے کوئی علم ہی نہ ہو۔

 ’’صوفیا کی تصویریں خوب بِک رہی ہیں آج کل‘‘ میرے ساتھی نے شکایت کی ’’یہاں کے آرٹسٹ مُنھ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ بڑے بڑے فریم میکروں کے ہاں صوفیا نے اپنی تصویریں رکھ چھوڑی ہیں۔ اُس کی دیکھا دیکھی یہاں کے آرٹسٹ بھی ان فریم میکروں کے ہاں اپنی تصویریں بکنے کے لیے رکھ جاتے ہیں۔ دُکاندار کو تو کمیشن چاہیے۔ اُس کی بلا سے صوفیا کی تصویر بکے چاہے یہاں کے کسی آرٹسٹ کی۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ صوفیا کی تصویریں بکتی ہیں اور یہاں کے آرٹسٹ کافی ہاؤس میں بیٹھ کر صوفیا کا نام لے لے کر اُسے سو سو صلواتیں سُناتے ہیں۔ کہتے ہیں اُسے فن کی بہت زیادہ تمیز نہیں ہے۔ اُس کی تصویریں فلیٹ ہیں۔ کوئی کہتا ہے اُسے انگریز اور امریکن ٹورسٹوں کو ٹھگنے کا ڈھنگ آ گیا ہے۔ کلب میں وہ اُن سے ملتی ہے اور ہونٹوں پر جھوٹی سچی مسکراہٹیں بکھیر کر اُن کا دل موہ لیتی ہے اور پھر اپنی تصویروں کا پراپگینڈہ کرتی ہے، فریم میکروں کے پتے بتا دیتی ہے جن کے ہاں اُس کی تصویریں نمائش اور بکری کے لیے پڑی رہتی ہیں۔‘‘

 ’’اپنی تصویروں کے بارے میں کسی کو کچھ بتانا تو بہت بڑی زیادتی نہیں ہے۔‘‘ میں نے صوفیا کی طرفداری کی ضرورت سے زیادہ اہمیت دی۔‘‘ میں نے سُنا ہے کہ صوفیا کی تصویریں بہت گمبھیر ہوتی ہیں۔ وہ محض کاغذ پر رنگ تھوپنے تک ہی اکتفا نہیں کرتی۔ اب تم سے چھپانے سے کیا حاصل؟ ابھی اگلے ہی روز صوفیا سے میری ملاقات ہو گئی۔‘‘

 ’’کہاں؟‘‘

 ’’مٹو صاحب کے دفتر میں۔‘‘

 ’’کون مٹو صاحب؟‘‘

 ’’وہی پبلسٹی والے مٹّو صاحب۔‘‘

 ’’تو یہ کہیے کہ صوفیا کے ہاں چلنے کا ارادہ ہے۔‘‘

 ’’آپ بھی چلیے۔‘‘

ہم بازار سے بنڈ کی طرف ہولیے۔ اور دس منٹ تک پیدل چلنے کے بعد اُس ہاؤس بوٹ کے سامنے جا پہنچے جہاں صوفیا رہتی تھی۔ لکھا تھا –کتّوں سے خبردار رہیے۔ میرا ساتھی گھبرایا۔ میں نے اُسے تسلی دی کہ یہاں کوئی خطرہ پیش نہیں آئے گا۔‘‘ میں نے صوفیا کو نزدیک سے نہیں دیکھا‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’صرف اُس کے بارے میں اِدھر اُدھر کی باتیں سُنی ہیں۔ شاید صوفیا اتنی خراب نہ ہو جتنی کہ بتایا جاتا ہے۔‘‘

میں نے سنبھل کر کہا۔ ’’صوفیا عورت ہے۔ شاید یہی اُس کا سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘

جذبات کی رَو میں بہہ کر میرے ساتھی نے کہا۔ ’’اگر لوگ صوفیا کو صرف اِسی لیے بُرا بھلا کہتے ہیں تو میں یقیناً اُن کا ساتھ نہیں دے سکتا۔‘‘

ہاؤس بوٹ کے اندر ہم نے اپنا کارڈ بھیج دیا تھا۔ ہم اس انتظار میں کھڑے تھے کہ ہاؤس بوٹ سے نکل کر ہاؤس بوٹ کے مالک کا نوکر ہمیں بتائے کہ ہم اندر جا سکتے ہیں۔ آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جب ہاؤس بوٹ کے نوکر نے اطلاع دی کہ ہمیں اندر بلایا جا رہا ہے۔

جس وقت ہم ہاؤس بوٹ میں پہنچے صوفیا نے آگے بڑھ کر ہمارا سواگت کیا۔ وہ بہت مختصر سے لباس میں تھی۔ بہت حد تک یہ وہی لباس تھا جو تیرتے وقت آج کل کی جدید لڑکیاں پہنتی ہیں۔ رنگ وہی سبز۔ ’’اس لباس کا رنگ تو نیلا ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔

اُس کی آنکھوں میں کوئی گستاخی نہ تھی۔ وہ جھٹ اندر چلی گئی۔ کہتی گئی کہ اُسے ایک کام یاد آ گیا۔ لباس کا ڈھنگ وہی تھا۔ لیکن اب کے وہ واپس آئی تو سبز رنگ کی بجائے نیلا لباس پہنے ہوئے تھی۔ اُس وقت وہ کوئی جل پری ہی تو معلوم ہو رہی تھی۔ بولی ’’اِدھر تین دن سے ہاؤس بوٹ کی مرمت ہو رہی ہے۔ بڑی مصیبت ہے۔ ہر وقت ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک۔ میں تو تنگ آ گئی ہوں۔‘‘

 ’’اب ایک نہ ایک مصیبت تو لگی ہی رہتی ہے مادام۔‘‘ میں نے ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک سے اُبھرتے ہوئے کہا۔

صوفیا نے سامنے کی میز پر کہنیاں ٹیک کر میری طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس نے کہا- آکاش بدل جاتا ہے۔ دھرتی بدل جاتی ہے۔ لیکن اِنسان کا چہرہ وہی رہتا ہے۔ میں نے اُس کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمھاری سب سے پیاری تصویر کون سی ہے؟‘‘

 ’’اب یہ فیصلہ میرے بس کا روگ نہیں‘‘ اُس نے سوچتے سوچتے اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

 ’’میں نے یہ سوال کاروباری انداز میں نہیں کیا۔‘‘

 ’’یہ میں خوب سمجھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر صوفیا خاموش ہو گئی۔ پھر مسکراہٹ اُبھری، پھر ہنسی کا فوارہ سا اُچھلا۔ وہ بہت خوش تھی۔ اُس کی آنکھوں کی نیلگوں جھیلوں میں ایک سوال اُبھرا۔ پھر وہ سنبھل کر بولی۔ ’’آپ ایسے وقت آئے جب کہ ہاؤس بوٹ میں مرمت ہو رہی ہے۔ پھر بھی آپ میری کچھ تصویریں تو ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے پیاری تصویر کون سی ہے یہ فیصلہ خود کیجیے۔‘‘

میرا ساتھی گمبھیر آنکھوں سے صوفیا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیسے اُسے یقین نہ آ رہا ہو کہ یہ وہی صوفیا ہے جس کے بارے میں لوگ کافی ہاؤس میں بیٹھ کر اُلٹی سیدھی باتیں کرتے تھے۔

اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’اِنھیں ڈوگری لوک گیتوں کی بہت سی پُرانی دھُنیں یاد ہیں۔ آج ان کے ایک دوست کے ہاں گئے تھے جس سے بہت سے لداخی گیت حاصل کیے۔ معلوم نہیں آپ نے کبھی محسوس کیا یا نہیں کہ کشمیری لوک گیت کی دھُنیں بے حد یاس انگیز ہوتی ہیں۔ جیسے صدیوں کی غلامی کے نیچے دبی ہوئی جنتا گا نہ سکتی ہو، محض رو سکتی ہو-‘‘

 ’’لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جادو کے اثر سے کشمیری لوک گیتوں کی دھُنیں ہی بدل جائیں، جیسے جیسے حالات بہتر ہو گئے ان میں وہی چمک آتی جائے گی جو اکثر پہاڑی گیتوں کا خاصہ ہے۔

 ’’یہ تو سچ ہے۔ لیکن آج نہیں تو کل کشمیری گیتوں کی دھُنیں بدل کر رہیں گی۔‘‘

میری درخواست پر میرے ساتھی نے ایک گیت گا کر سُنایا جس میں ایک عورت نے شکایت کی تھی کہ اُسے اتنی بھی تو آزادی نہیں کہ وہ اپنے محبوب کے پاس جا سکے۔

صوفیا کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ یوں محسوس ہوا کہ نیلے لباس والی جدید جل پری ہاؤس بوٹ کی کسی کھڑکی سے نیچے جہلم میں کود پڑے گی اور تیرتی تیرتی اپنے محبوب کے پاس جا پہنچے گی۔ لیکن میں نے موقع پا کر فرمائش کی کہ ہم اُس کی تصویریں دیکھنے کے لیے بے قرار ہو رہے ہیں۔

پہلے اُس نے وہ بکس کھولا جس میں نیپال کی تصویریں رکھی تھیں۔ نیپال کے مندروں، بازاروں اور اُن بازاروں میں چلتے پھرتے لوگوں کو اُس نے نہایت ایمانداری سے پیش کیا تھا۔ ایک تصویر میں ایک نیپالی کُنبہ دِکھایا گیا تھا جس میں ایک بُڑھیا کے چہرے پر کم و بیش وہی جذبات پیش کیے گئے تھے جو گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ پڑھتے وقت ماں کے چہرے پر اُبھرتے نظر آتے تھے، جب روس کی یہ عورت انقلاب کی روح بن کر رجعت پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ نیپال کے پُورے سٹ میں یہی تصویر سب سے پیاری تصویر تھی۔ میں نے اِسے اُٹھا کر ایک کونے میں تپائی پر رکھ دیا تاکہ ہم کچھ دیر کے لیے اِسے دیکھ سکیں۔

 ’’کسی تصویر سے پُورا تعارف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ تھوڑی دیر ہماری آنکھوں کے سامنے رہے‘‘ میں نے صوفیا کے فن کی داد دیتے ہوئے کہا۔

وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر میری کُرسی کے بازو پر آ بیٹھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تصویر اِسی جدید قسم کی جل پری نے بنائی ہے۔ جیسا کہ صوفیا نے بتایا، اُس کی ماں ایک یہودی عورت تھی اور اُس کا باپ تھا ایک فرانسیسی۔ ان دونوں نسلوں کے امتزاج سے صوفیا کا جنم ہوا تھا۔ اُس کا باپ بھی اچھا خاصا مصوّر تھا۔ کٹھمنڈو میں صوفیا پیدا ہوئی تھی کوئی تیس برس پیشتر، جب کہ اُس کا باپ نیپال کے وزیر اعظم کی پورٹریٹ بنانے کے لیے انڈونیشیا سے نیپال پہنچا تھا۔ صوفیا نے بتایا کہ جب وہ چھوٹی سی تھی تو ایک انڈونیشیا ئی آیا اُسے انڈونیشیائی لوک گیت گا کر سُنایا کرتی تھی۔ جب وہ سات برس کی تھی اُس کے باپ کو دوبارہ نیپال دربار کی طرف سے دعوت ملی۔ اُس کے باپ کو نیپال دربار کے لیے بہت سی پورٹریٹ بنانے کا کنٹریکٹ ملا تھا۔ ان دِنوں صوفیا کو نیپالی لوک گیت سُننے کا موقع مِلا۔ اُس نے بتایا کہ اب کے جب وہ نیپال گئی تو اُسے وہ دن یاد آ گئے جب نیپال پر راناؤں کے دربار کا رعب غالب تھا۔ اور اب جب کہ نیپال کی جنتا نے جمہوریت کی نئی راہوں پر چلنا شروع کر دیا تھا، نیپال کا چہرہ جلدی جلدی بدل رہا تھا۔

میرے ساتھی نے اس شرط پر ایک ڈوگری لوک گیت پیش کرنا منظور کیا کہ صوفیا ایک انڈونیشیائی لوری سُنائے اور ایک نیپالی لوک گیت جس میں نیپال کی روح بول رہی ہو۔

 ’’ہاں ہاں منظور ہے‘‘ صوفیا نے وعدہ کیا۔

میرے ساتھی نے وہ گیت سُنایا جس میں کوئی بھگت اپنے بھگوان سے شکایت کرتا ہے-

ہریا! میں کِئیاں کری جپاں تیرے نامے؟

گھراں جورُو بنائی لیندی کامے!

ڈنگرے گی چھڈی آیاں دھارا

مُنّوآں کھڈایاں

نہوئی دھوئی لگیاں رسوئی

اجّ آؤ نائی مُنّوے دے مامے!

ہریا! میں کِئیاں کری جپاں تیرے نامے؟

ہے ہری! میں کس طرح تیرا نام جپوں؟ گھر میں جورو مجھے غلام بنائے رکھتی ہے۔ ڈھور ڈنگروں کو سامنے والی پہاڑی چھوڑا (اب جورُو کہتی ہے) مُنّے کو کھلاؤ۔ نہا دھو کر رسوئی کا کام شروع کر دو۔ آج مُنّے کے ماموں نے ہمارے ہاں آنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہے ہری! میں تمھارا نام کیسے جپُوں؟ ۔۔۔ گیت کا مفہوم بتایا گیا تو صوفیا دیر تک، کھلکھلا کر ہنستی رہی۔ میں نے سوچا کہ نیلے لباس والی یہ جدید قسم کی جل پری جب بیاہ کرائے گی تو شاید اپنے شوہر کو اُتنا غلام نہیں بنائے گی جتنا کہ ڈوگری گیت میں ایک شوہر کی تصویر پیش کرتے وقت کسی لوک کوی نے دِکھانے کی کوشش کی تھی۔

انڈونیشیائی لوری کو صوفیا نے کچھ اس طرح پیش کیا جیسے سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر کہہ رہی ہوں، اب سوجاؤ! کل صبح زندگی کی جد و جہد شروع ہو گی۔ اور نیپالی لوک گیت میں ایک لڑکی نے اپنے باپ سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اپنے سات جوڑے کبوتروں میں سے ایک جوڑا کبوتر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دے۔ باپ انکار کر دیتا ہے۔ کہتا ہے گائے کا جہیز لے لو، لیکن کبوتر کا جوڑا جہیز میں مت مانگو۔ لڑکی نہیں مانتی۔ آخر ہار کر باپ کہتا ہے- چلو تمھاری مرضی ہی سہی۔ تم ایک جوڑا کبوتر لے جاؤ۔

انڈونیشیائی، نیپالی اور ڈوگری لوک گیتوں کی دھُنیں بہت کچھ گلے ملتی نظر آ رہی تھیں۔ میں نے موقع پا کر ایک لداخی گیت گا کر سُنایا جس میں اپنے جنم استھان سے بہت دُور پڑا ہوا کوئی نوجوان کہتا ہے -پہاڑ پر درّے کے سرے پر پہنچتے ہی میں نے اپنی جنم بھومی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اور گاؤں کو اپنے تخیل میں ہوبہو سانس لیتے دیکھ لیا۔ دیکھنے ہی سے تو جی نہیں بھرتا۔ کیونکہ وہاں پہنچنا تو کٹھن ہے!۔۔۔ صوفیا کا انگ انگ تھرک رہا تھا۔ جیسے آج اُس نے کسی جدید عمر خیام کے لیے ساقی کے فرائض سر انجام دینے کے لیے تیاری کرنی ہو۔ معاً وہ میری کرسی کے بازو سے اُچھل کر اندر چلی گئی اور ایک تصویر اُٹھا لائی جس میں ایک نیپالی لڑکی نے کبوتر کے جوڑے کو سینے سے بھینچ رکھا تھا۔ بولی۔ ’’تم مانو نہ مانو، میں کہتی ہوں اُس لداخی گاؤں میں بھی کوئی ایسی لڑکی ضرور ہو گی جس نے کبوتر کے جوڑے کو سینے سے بھینچ رکھا ہو گا۔ کیوں میں کچھ جھوٹ کہتی ہوں!‘‘

 ’’اور سب جھُوٹ ہو سکتا ہے۔‘‘ ’’لیکن یہ بات جھوٹ نہیں ہو سکتی۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’صوفیا جی! یہ کبوتروں والی تصویر تو بین الاقوامی فن کی بیش قیمت تصویر ہے!‘‘ میرے ساتھی نے لجاجت سے کہا۔

صوفیا کے اُبھرے ہوئے گالوں کی ہڈیاں اُبھر کر میرے ساتھی کی داد کا جواب دے رہی تھیں۔

پھر اُس نے کشمیری تصویروں والا بکس کھولا اور ایک ایک کر کے بہت سی تصویریں دِکھائیں۔ میرے ساتھی نے اُس تصویر پر ہاتھ رکھ دیا جس میں ایک کشمیری دوشیزہ نے اپنے ہاتھ میں بادام کے پھولوں کی ٹہنی تھام رکھی تھی۔ ’’یہ بہترین تصویر ہے!‘‘ اُس نے اپنی جگہ سے اُچھل کر کہا۔

 ’’یقیناً!‘‘ میں نے تصدیق کی۔ ’’بادام کے پھول بہار کے پھول ہیں۔‘‘

 ’’آپ غلطی کر رہے ہیں‘‘ میرے ساتھی نے سمجھایا۔ ’’بادام کے پھول کھلنے سے پہلے تو کشمیر میں نرگس اپنی آنکھیں کھولتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی تصویر میں صوفیا جی نرگس کے پھولوں سے بھی بہت بڑے سمبل کا کام لیں گی۔‘‘

صوفیا خوش تھی۔ شاید اس سے پہلے کسی نے اُس کے ہاں آ کر اُس کی تصویروں کو اتنے غور سے نہیں دیکھا تھا۔ پھر سے میری کُرسی کے بازو پر آ کر بیٹھتے ہوئے صوفیا نے کہا۔ میں سوچ رہی ہوں -‘‘

 ’’کیا سوچ رہی ہیں آپ؟‘‘

 ’’یہی کہ آپ کی ایک پوٹریٹ بناؤں۔‘‘

 ’’لیکن میری پورٹریٹ سے کیا ہو گا؟‘‘

صوفیا نے اُٹھ کر پورٹریٹ بنانے کے لیے جگہ ٹھیک کی۔ ایک طرف سے کھڑکی کا پردہ کھول دیا۔ باقی سب پردے بند کر دیے۔ میرا ساتھی اُس ڈوگری لوک گیت کے سُر گنگنا رہا تھا جس میں کوئی دُلہن کہتی ہے-

 ’’دھاریں دھُوراں پئیاں

میں کلّی آگھر کئیاں رہنا!‘‘

پہاڑوں پر دھُول چھا گئی۔ میں اکیلی گھر کیسے رہوں؟

 ’’دھاریں دا سنجوگ دھُوریں کنیں دکھی کری

مناں چلی پئی آں سو ہے دیاں بھاراں!

میں کلّی آگھر گئیاں رہنا؟‘‘

پہاڑوں کا دھول کے ساتھ سنجوگ دیکھ کر، ہے میرے من! گرمی کی بہار نے وداع لی۔

 ’’پائی کے پجیباں پھراں انگن پساری آ

سجنّے دا راہ دِکھاں کھلی میں دوآری آ

سارا سارا دن اُوندی، مکھّی اےچ اکھّی آں بچھائی کری

مناں اساں ہاری ہٹّی جاناں!

میں کلّی آگھر کئیاں رہنا!‘‘

پازیب پہن کر کبھی میں آنگن میں جاتی ہوں، کبھی دالان میں۔ کبھی اپنی کھڑکی پر کھڑی ہو کر اپنے ساجن کا راہ دیکھتی ہوں۔ سارا سارا دن اُن کے انتظار میں راہ پر آنکھیں بچھائے ہوئے، ہے من! ہم تھک جائیں گے، ہار جائیں گے۔ میں اکیلی گھر میں کیسے رہوں؟ ۔۔۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ یہ اُس وقت کا گیت ہے جب گرمی کے بعد نیا موسم شروع ہوتا ہے۔ اور برہن ساجن کی جدائی سہہ نہیں سکتی۔

میں اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔ سبز رنگ کا مختصر سا لباس پہنے صوفیا پورٹریٹ بنا رہی تھی۔ ایک آدھی بار میں نے آنکھ بچا کر صوفیا کی طرف دیکھ لیا۔ مجھے اُس کے باپ کا دھیان آیا جو نیپال کے وزیر اعظم کا پورٹریٹ بنانے کے لیے کٹھمنڈو پہنچا تھا آج سے تیس برس پیشتر، جب کٹھمنڈو میں صوفیا کا جنم ہوا تھا- لیکن میں- میں تو صرف لوک گیت جمع کرنے والا ایک ادیب تھا۔

میرا ساتھی برابر لوک گیت کی دھُن گنگنائے جا رہا تھا۔ جیسے وہ پوچھ رہا ہو- کیا کبھی تمھارے دل میں بھی ساجن کے لیے اسی طرح ہُوک اُٹھی ہے؟

معاً باہر سے کُتّے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ہاؤس بوٹ کا نوکر دوڑ کر باہر گیا اور کچھ لمحوں کے بعد مٹو صاحب داخل ہوئے۔ آتے ہی وہ سیدھے صوفیا کی بغل میں چلے گئے۔ صوفیا نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مٹّو صاحب کا استقبال کیا اور پھر وہ میری پورٹریٹ بنانے میں جُٹ گئی۔

تھوڑی دیر مٹو صاحب چُپ بیٹھے رہے۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔ ’’تو یہ ٹھاٹھ ہیں؟ اب سمجھا کہ آپ اُس روز میرے کمرے میں صوفیا کی اتنی تعریف کیوں کر رہے تھے۔‘‘ صوفیا ذرا سا مسکرائی اور پھر اُس کا ہاتھ تیزی سے رنگ اُٹھا اُٹھا کر کینوس پر جمانے لگا۔ اب میری نگاہ تو کینوس تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ چور آنکھوں سے صوفیا کی طرف دیکھنے کی حرکت بھی اب مجھ میں کہاں تھی۔

مٹّو سمجھ گیا کہ صوفیا فرصت میں نہیں ہے۔

 ’’اچھا تو اجازت!‘‘ مٹّو بولا۔ ’’کبھی پھر سہی۔‘‘

صوفیا خاموش رہی۔

مٹّو اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے اُس کی طرف دیکھ کر صوفیا کی طرف سے بھی معذرت کر دی۔ دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مٹّو نے کہا۔ ’’تو پھر کب ملاقات ہو گی؟‘‘

صوفیا خاموش رہی۔

جب مٹّو چلا گیا تو صوفیا خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔

میں نے حوصلہ کر کے پُوچھ لیا۔

 ’’کیوں مٹّو صاحب سے ان دنوں کچھ ناراضگی ہے؟‘‘

 ’’وہ مجھے آج تک نہیں سمجھ سکا۔ وہ مجھے باہر سے دیکھتا ہے۔ محض باہرسے۔ باہر سے دیکھنے سے تو میں زیادہ سے زیادہ ہرے رنگ کی گُڑیا ہی نظر آ سکتی ہوں۔ لیکن میں پوچھتی ہوں کیا میں بس یہی کچھ ہوں جو باہر سے نظر آتی ہوں۔ مجھے تو اُس انسان کی تلاش ہے جو مجھے اندر سے پہچانے۔ ایسا انسان صرف میرے کینوس پر اُبھرتا ہے۔‘‘ اور وہ تیز تیز جنبش کے ساتھ رنگ اُٹھا اُٹھا کر کینوس پر جماتی رہی۔ میرے دوست نے ایک دو بار میری آنکھوں میں جھانک کر بتانا چاہا کہ خوب مزے میں ہو، میرے یار! لیکن میرا ہی دل جانتا تھا کہ مجھ پر کیسی گذر رہی تھی۔

واقعی ہرے رنگ کی گُڑیا نے مجھے قید کر لیا تھا۔

٭٭٭

گٹاری کے انڈے

مُنھ میں کوئی کیڑا یا کوئی ننھّا مکوڑا یا ٹڈّا تھامے گٹاری اپنے گھونسلے میں گھس جاتی۔ گھونسلے کا دروازہ ایک گول سوراخ ہی تو تھا۔ اُوپر کی منزل میں کونے والے غسل خانے کی چھت پر جہاں ٹین کی چادر کا سِرا کاریگر نے باہر کو بڑھا رکھا تھا۔ بس وہیں اس ٹین کے نیچے دیوار کے آخری سرے میں یہ سوراخ تھا جو گٹاری کے گھونسلے کا دروازہ تھا- نیچے رسوئی کے دروازے پر کھڑے کھڑے بدھ سنگھ گٹاری کو اپنے گھونسلے میں داخل ہوتے دیکھتا اور سوچتا کہ ماں کی محبت دنیا میں سب سے بڑی چیز ہے، دُنیا کی کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

جب گُلی کی ماں آیا پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی کہ آج اُس نے گُلی کو وقت پر کھانا کیوں نہیں کھلایا، بدھ سنگھ کی نگاہ میں گٹاری کی شخصیت اُبھر کر اونچی اُٹھ جاتی۔ جب کوئی خوفناک بات ہوتی گٹاری کا جوڑا رسوئی کے بغل والے پیڑ پر بیٹھ کر ایسی ایسی آوازیں نکالتا کہ بدھ سنگھ بڑی چوکسی سے اِدھر اُدھر دیکھتا- وہ کہتا ’’گٹاری سے بڑا انسان کا دوسرا دوست نہیں ہو سکتا- سانپ کو دیکھ کر سب سے پہلے گٹاری ہی شور کرتی ہے۔‘‘ اس مکان میں ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھار سانپ نظر آ جاتا تھا۔ گٹاری کی چیخ پُکار ہی سانپ کی موجودگی کا پتہ دے دیتی۔ اُس وقت بدھ سنگھ ہاتھ میں لٹھ اُٹھائے سانپ کی تلاش میں نکل پڑتا -جب سے وہ اِس گھر میں آیا تھا چنار کے نیچے تین چار سانپ مار چکا تھا۔

بُدھ سنگھ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا۔ بات کرتے وقت یوں سامنے آتا جیسے مداری کے سامنے جمورا۔ سامنے والے شخص کا جائزہ لیتا، اور پھر نپے تُلے انداز میں اپنا فلسفہ بگھارنے لگتا- ’’ ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں انسان کو منھ سے کھولنی پڑتی ہیں۔ ہمارے گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ سوچ کر بولو، سوچ کر کام کرو‘‘ گھر والے اُس سے خوش تھے کیونکہ اپنے کام کے علاوہ وہ دوسروں کا کام بھی بخوشی کر دیتا۔ فرش پر بکھری ہوئی کتابوں کو ٹھیک کر دیتا۔ سانپ کا ذکر آنے پر تو وہ غصہ میں آ جاتا۔ کہتا ’’میں اُس پر جھپٹ پڑوں گا، ایک ہی ڈنڈے سے اُس کی سِری توڑ دوں گا۔‘‘ اُس کی آواز میں اتنی گرم جوشی تھی کہ اُس کی بات پر یقین کرنا پڑتا۔ ضروری اور غیر ضروری بات میں وہ بہت فرق نہیں کر سکتا تھا۔ وہی گرمجوشی، وہی ہلچل پیدا کرنے والی آواز۔ جب وہ بات کرتا تو اُس کے اُبھرے ہوئے گالوں کی ہڈیاں اُبھرتی نظر آتیں۔ اُس وقت اوپر کھڑکی کے دروازے پر بیٹھا گٹاری کا جوڑا تیکھی سی آواز میں بولنے لگتا۔ بُدھ سنگھ سوچتا کہ گٹاری اُس کو داد دے رہی ہے۔

کوئی بدھ سنگھ سے بات کرے نہ کرے، کبھی کبھی وہ رسوئی کے برانڈے میں اُونچی آواز میں خود ہی باتیں کرتا رہتا۔ ابھی گھر کی کسی بات پر تبصرہ کیا جا رہا ہے۔ ابھی ریڈیو پر سُنی ہوئی کسی خبر کو نمک مرچ لگایا جا رہا ہے، بات کرتے وقت وہ ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگتا۔ اُسے اس بات کا سب سے بڑا اطمینان ہے کہ گھر میں اس کا اعتبار ہے اور وہ اپنا کام ایمان داری سے کرتا ہے -جتنے مہمان آتے، اُن کے ساتھ بُدھ سنگھ کا سلوک ہمیشہ خوشگوار رہتا۔ بچّوں سے اُسے بے حد محبت تھی۔ گُلی کی ماں اُس پر اس لیے بھی خوش تھی کہ گُلی کا جتنا خیال وہ رکھتا ہے، آیا بھی نہیں رکھتی۔ چنار کی ٹہنی پر بیٹھ کر گٹاری اپنی زبان میں کچھ کہنے لگتی تو بدھ سنگھ پاس کھڑے ہو کر اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا۔ اُسے محسوس ہوتا کہ گٹاری کہہ رہی ہے- بدھ سنگھ! میں جانتی ہوں کہ تم اکیلے تین آدمیوں کا کام کرتے ہو، وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا۔ بڑی معصومیت سے وہ گٹاری کی طرف دیکھتا۔ جیسے کہہ رہا ہو- میں تو تمھارا بھی اُتنا ہی نوکر ہوں گٹاری! جتنا گُلی کی ماں کا!

بجلی کے تار پر لٹکتا ہوا کوّا بھی بدھ سنگھ کو جانتا تھا۔ کم سے کم بُدھ سنگھ کا یہی خیال تھا۔ کوّے کی کائیں کائیں سے بدھ سنگھ کو پتہ چل جاتا کہ کوّا بھوک سے چلّا رہا ہے یا خوشی کا سُر پھیر رہا ہے، کبھی یوں بھی ہوتا کہ کوّا غصہ میں ہوتا۔ اُس وقت چنار کے پیڑ پر بیٹھی گٹاری چلّا کر بدھ سنگھ سے شکایت کرتی- بُدھ سنگھ لاٹھی گھُما کر کوّے کو اُڑا دیتا۔ کیونکہ بدھ سنگھ کو معلوم تھا کہ گٹاری اور کوّے کا پُرانا بَیر چلا آتا ہے اور کوّے کی موجودگی میں گٹاری کو یہ محسوس نہیں ہو سکتا کہ اس کا گھونسلا سلامت ہے۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ کوّے اور گٹاری کا بَیر ختم کیوں نہیں ہو سکتا۔ کوّے اور گٹاری کی موجودگی میں وہ اپنے دل سے باتیں کرتے ہوئے اسی موضوع پر سوچنے لگتا اور پھر جیسے کچن کی دیواروں کو سُنانے کے لیے اُونچی آواز میں کہنے لگتا ’’گٹاری تو بہت معصوم پنچھی ہے۔ وہ بیچاری تو کوّے کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ کوّا ہی اُس کے بچّوں کا دشمن ہے، کم بخت کو کسی کا گھونسلا اُجاڑنے میں نہ جانے کیا ملتا ہے! اپنے آپ کو گٹاری کی خدمت کے قابل بنانے کے لیے وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتا۔ ساتھ ہی اس کی یہ خواہش نہ تھی کہ گٹاری اُس کا شکریہ ادا کرے۔ کوّے پر اُسے غصّہ آنے لگتا۔ شیطان کو گٹاری پر ذرا رحم نہیں آتا۔ آخر گٹاری اُس کا کیا بگاڑتی ہے؟‘‘

صبح جاگنے پر بدھ سنگھ کی نگاہ گٹاری کے گھونسلے پر پڑتی۔ گٹاری کو گھونسلے کے قریب بیٹھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتا۔ اُس کی سب سے بڑی دلچسپی تھی گُلی کو مسکراتے اور مچل مچل کر باغیچہ کی روش پر اُچھلتے کودتے دیکھنا، گُلی کی ماں کے مُنھ سے ایک آدھ تعریف کا بول سُن لینا، یا پھر کسی مہمان کے مُنھ سے زمانے کے حالات پر ہلکا پھُلکا سا تبصرہ سن کر اُس کے بارے میں رائے قائم کرنا۔ لیکن اس سے ہٹ کر اگر اس کی کوئی دلچسپی ہو سکتی تھی تو وہ تھا گٹاری کا گھونسلا -جب بھی گٹاری انڈے دیتی بدھ سنگھ سوچتا کہ گٹاری کی نئی نسل شروع ہونے والی ہے۔ انڈوں سے بچّے نکلنے کا اُسے بے حد انتظار رہتا۔ اُن دِنوں وہ خاص طور پر گٹاری کے گھونسلے کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتا۔ اُس کی نگاہ سیدھی گٹاری کے گھونسلے پر پہنچتی حالانکہ زمین پر کھڑے کھڑے یہ نا ممکن تھا کہ کوٹھی کی اُوپر کی منزل میں کونے والے غسل خانہ کی چھت پر ٹین کی چادر کے بڑھے ہوئے سِرے کے نیچے دیوار کے آخری سِرے کے گول سوراخ کے اندر کی دُنیا کے بارے میں کوئی بات دریافت کی جا سکے- کھڑکی پر بیٹھی گٹاری کی آواز میں لوری کی آمیزش دیکھ کر بدھ سنگھ اندازہ لگا لیتا کہ گٹاری کے انڈوں سے بچّے نکل آئے ہیں۔

گٹاری انسان کی سب سے بڑی دوست ہے! — یہ بدھ سنگھ کا تکیہ کلام تھا کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ آیا سے بات کرتے وقت وہ عورت کو گٹاری سے تشبیہ دیتا۔ لیکن اس کے باوجود عورت کا صحیح تصوّر بدھ سنگھ کے ذہن کو کبھی نہ گدگداتا۔ اسی لیے تو اس نے کبھی بھول کر بھی بیاہ کی بات نہ سوچی تھی۔ اُس کے ہاتھ کام کرتے کرتے بہت کھُردرے ہو گئے تھے۔ بیوی ہوتی تو کبھی اُس کے ہاتھوں پر تیل ہی چپڑ دیا کرتی، لیکن اُس نے تو قسم کھا رکھی تھی کہ بیاہ کے جھگڑے میں نہ پڑے گا- – بیوی کی غیر موجودگی کا تصوّر اُسے کبھی تنگ نہ کرتا۔ آیا کے چوڑے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے وہ اکثر سوچتا کہ بُڑھیا اپنے بیٹوں کی سعادت مندی حاصل نہ کر سکی۔ ورنہ اس عمر میں اُسے آیا کا کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اُس نے ایسے باپ بھی دیکھے تھے جن کے بیٹے اُن پر بھُوکے ریچھوں کی طرح جھپٹتے تھے۔ ایسی مائیں بھی دیکھی تھیں جن کے بیٹے بیویوں کے غلام ہو کر اپنی ماؤں کو ایسی جلی کٹی سُنا ڈالتے تھے کہ سُننے والے کو مُنھ میں اُنگلی دبا کر رہ جانا پڑتا تھا۔ ایسے بیٹے پیدا کرنے سے کیا حاصل۔ بس یہی سوچ کر اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اکیلا رہے گا- دم کا دم، نہ دھوکا نہ غم- یہی اس کا فلسفہ تھا۔ پھر بھی گٹاری کے لیے اس کی محبت اُمڈی پڑتی تھی۔

بدھ سنگھ کا چہرہ کبھی اُداس نہ ہوتا۔ اُس کی آواز میں کبھی تکان کا گمان نہ ہوتا- یہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ وہ دوسرے نوکروں سے کتنا مختلف ہے، ایک طرح سے وہ چوبیس گھنٹے کا نوکر تھا۔ نوکری میں ناغے کا تو سوال ہی نہ اُٹھ سکتا تھا۔ گُلی کی ماں کو کبھی اُس پر جرمانہ کرنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ بلکہ وہ تو اس بات کے انتظار میں رہتی کہ کبھی بدھ سنگھ بھی چھُٹّی مانگے۔ ’’کبھی تو چھُٹی بھی منانی چاہیے۔‘‘ گُلی کی ماں اس سے کہا کرتی ’’مہینے میں ایک بھی چھُٹی نہ منائے تو انسان کی زندگی میں گھُن لگ جائے!‘‘لیکن بدھ سنگھ تھا کہ اُسے گھُن کا ڈر نہ تھا۔

گُلی کی ماں کی ساس بھی تو اسی کوٹھی میں رہتی تھی۔ صحیح معنوں میں بُدھ سنگھ گلی کی ماں کی ساس کا نوکر تھا جنھیں ہر کوئی احترام سے بھابو جی کہہ کر پکارتا تھا۔ بھابو جی پر تو بدھ سنگھ جان دیتا تھا۔ جب بھابو جی کبھی بیمار پڑتیں تو بدھ سنگھ آدھی رات کو اُٹھ اُٹھ کر پوچھتا۔ ’’بھابو جی! کچھ چاہیے تو نہیں؟‘‘ بھابو جی اُسے بیٹے سے بڑھ کر سمجھتی تھیں۔ اسی لیے بھی بدھ سنگھ کسی بات سے جھنجھلا کر تھوڑا ناراض بھی ہو جاتا تو بھابو جی بُرا نہ مانتیں۔ اُن کا خیال تھا کہ بدھ سنگھ دِل کا سچّا ہے۔ اُس کی بات چیت کا کھُردرا پن بھابو جی کو ذرا بھی تو نہ بُرا لگتا۔ کیونکہ بدھ سنگھ نے اپنے مُنھ سے یہ بھی تو نہ کہا تھا کہ اُس کی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ گلی کی ماں بدھ سنگھ پر اس لیے بھی خوش تھی کہ جہاں وہ بھابو جی کا پورا خیال رکھتا ہے وہاں ضرورت پڑنے پر خاص خاص مہمانوں کے آنے پر وہ سب چیزیں تیار کر دیتا ہے جن پر کشمیری رسوئیے کا ہاتھ ٹھیک نہیں چلتا۔

بھابو جی کچھ پُرانے خیالات کی تھیں۔ اس لیے وہ گُلی کی ماں کے کچن سے الگ اپنی رسوئی بنوائی تھیں۔ بدھ سنگھ اُن کا رسوئیا بھی تھا اور پرائیوٹ اسسٹنٹ بھی۔ کیونکہ وہ ہر کام میں بدھ سنگھ کی صلاح لیتیں۔ گُلی کی ماں کے بارے میں ان کی رائے بہت اچھی تھی اکثر وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر کوئی اُن کی سگی بیٹی بھی ہوتی تو شاید اُن کی اتنی سیوا نہ کرتی- بھابو جی بھابو جی کہتے گلی کی ماں کی زبان سوکھتی تھی- بھابو جی کو سب سے بڑی حیرت تو اس بات پر تھی کہ گلی کی ماں کا جنم اُسی قوم میں ہوا جس کی اس دیس پر حکومت رہی۔ لیکن کس طرح اُن کے بیٹے کے ساتھ انگلینڈ سے یہاں آنے پر اُس نے اپنی طبیعت کو اس دیس کے مطابق ڈھال لیا تھا، کس طرح وہ یہاں کے تمدن میں رچ بس گئی تھی، یہ بات سچ مچ بہت بڑی تھی۔ اس دیس میں آنے کے بعد بھابو جی کے بہو بیٹے کو کچھ کم کشمکش کا سامنا کرنا نہیں پڑتا تھا۔ لیکن کیا مجال کہ بھابو جی نے اپنی بہو کے ماتھے پر تیوری دیکھی ہو۔ خیر اب تو ان کی زندگی ایک ڈھب پر آ گئی تھی۔ گلی کی ماں بچّوں کے کالج میں پروفیسر تھی اور گلی کے پتاجی پھر سے وہ میگزین نکالنے کی فکر میں تھے۔ جس کے ذریعہ اُنھوں نے انگلینڈ سے لَوٹنے پر اس دیس کی بہت بڑی خدمت انجام دی تھی اور جسے اقتصادی وجوہات کے باعث بند کر دینا پڑا تھا۔ بدھ سنگھ پر گلی کے پِتا جی بہت خوش تھے اور بھابو جی کے کمرے میں بیٹھ کر وہ اکثر کہا کرتے ’’دیکھ بدھ سنگھ! تیری بڑی برخورداری ہے کہ بھابو جی کا سارا کام اپنے ذمّہ لے رکھا ہے۔‘‘ اور بھابو جی کہتیں۔ ’’بیٹا! جیسے تم میرے بیٹے ہو ویسا ہی بدھ سنگھ بیٹا ہے۔ میری بس ایک ہی اِچھّا ہے کہ بُدھ سنگھ بیاہ کرالے۔ اس کی بھی ایک بیٹی ہو گلی جیسی!‘‘ گُلی کے پِتا جی کہتے۔ ’’واہ بھابو جی! ڈگری کراؤ بدھ سنگھ کی ڈھائی ہزار کی۔ اتنا تو بیچارے نے جوڑا بھی نہ ہو گا۔‘‘ بدھ سنگھ یہ سنتا تو کچن کی طرف چلا جاتا۔ اور اس وقت اگر گٹاری کھڑکی سے بول اُٹھتی تو اُسے محسوس ہوتا کہ گٹاری پوچھ رہی ہے۔ ’’تم کب بیاہ کراؤ گے، بد ھ سنگھ؟‘‘ وہ کچن سے باغیچہ کی طرف چلا جاتا۔ جیسے بیاہ کی بات کو اَن سُنا کرنے کے لیے وہ بڑی سے بڑی جد و جہد کر سکتا ہو۔

وہ کئی بار رات کو دبے پاؤں بھابو جی کے کمرے میں جاتا اور سوتے میں اُن کا گمبھیر چہرہ دیکھ کر اُسے بڑی خوشی ہوتی۔ دبے پاؤں وہ اس کمرے سے چلا آتا۔ بھابو جی کا چہرہ دیر تک اُس کی آنکھوں میں تیرتا رہتا۔ اُن کی گہری اور ہمدرد آواز جیسے اس وقت اس کے کانوں میں برابر گونج رہی ہو۔ اُسے خیال آتا کہ سوتے سے ایک لمحہ کے لیے جاگ کر بھابو جی اُس سے یہی کہیں گی- ’’بدھ سنگھ! اب تو تمھیں بیاہ کرانے میں دیر نہ کرنی چاہیے۔‘‘ وہ جواب کے لیے تیار رہتا ’’نہیں بھابو جی! یہ نہیں ہو سکتا جس نے ہمیشہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا ہو وہ بیاہ کرائے، میں تو آزاد ہوں!‘‘

کچن کے برانڈے میں کھڑے کھڑے کبھی کبھی بدھ سنگھ اپنے دل سے باتیں کرتے کرتے اُونچی آواز میں کہنے لگتا۔ ’’گٹاری دو انڈے دیتی ہے ایک ساتھ، دو انڈے۔ بیس پچیس دِن اِن انڈوں کو سینا پڑتا ہے۔ آدھا دن گٹاری سیتی ہے، آدھا دن گٹارا سیتا ہے۔ لیکن عورت اور مرد کبھی اپنے کام بانٹ کر نہیں کرتے، اسی لیے تو بیاہ مصیبت بن جاتا ہے۔ نہیں بھابو جی نہیں- بدھ سنگھ بیاہ نہیں کرائے گا۔ بدھ سنگھ اتنا بُدّھو نہیں ہے کہ اپنے پیروں میں ایک زنجیر ڈال لے۔ بھابو جی! پھر بدھ سنگھ آپ کی سیوا بھی نہیں کر سکے گا- اُسے بیاہ کرنے کو نہ کہنا بھابو جی!‘‘

گٹاری کی زرد چونچ بدھ سنگھ کو بہت پیاری لگتی تھی، گٹاری کے پیر بھی تو زرد تھے، ان کے بارے میں بدھ سنگھ مزے لے لے کر وہ قصّہ چھیڑ دیتا۔ ’’گٹاری کے پیر اپنے نہیں ہیں۔ یہ بہت پہلے کی بات ہے جب گٹاری کے پیر اپنے ہوتے تھے۔ وہ مور کے سامنے ناچنے لگی۔ مور نے خوش ہو کر کہا۔ ’’مانگ لے گٹاری جو تیری اِچھّا ہو۔‘‘ گٹاری نے مور سے کہا۔ ’’تم میرے ساتھ اپنے پیر بدل لو۔‘‘ مور نے سوچا بچن دیا ہے تو پورا کرنا چاہیے۔ بس جی مور نے اپنے پیر گٹاری کو دے دیے اور گٹاری کے پیر خود لے لیے۔ آج تک مور کو اس بات کا افسوس ہے۔ یہ سودا بڑے خسارے کا رہا۔ گٹاری تو مور کے پیر لے کر پہلے سے کہیں زیادہ سندر ہو گئی اور مور اب تک روتا ہے۔ جب بھی مور ناچتا ہے اپنے پیروں کو دیکھے بنا نہیں رہ سکتا۔ کہتا ہے۔ ’’میں اتنا سُندر ہوں لیکن میرے پیر کتنے بھونڈے ہیں۔‘‘ اور اگر اُسے اوپر کھڑکی پر بیٹھی ہوئی گٹاری نظر آ جاتی تو وہ پکار کر کہتا۔ ’’تو بڑی چالاک نکلی۔ تو نے مور کے پیر اُڑا لیے بات بات میں۔ واہ ری میری چُلبُلی گٹاری! واہ ری چھِنال!‘‘ گٹاری کے پَر سیاہی مائل بھُورے نہ ہوتے تو زرد چونچ اور زرد پیر اتنے خوبصورت نہ لگتے۔ یہ سوچ کر بدھ سنگھ ٹکٹکی باندھے گٹاری کی طرف دیکھتا رہتا۔

بھابو جی اکثر بدھ سنگھ کو اپنے آپ سے باتیں کرتے سُنتیں اور سمجھاتیں۔ ’’اس طرح تو تیرا دماغ پھر جائے گا بدھ سنگھ، تُو اپنے آپ سے باتیں نہ کیا کر۔‘‘ لیکن بدھ سنگھ کہتا۔ ’’میرے گورو مہاراج کا کہنا ہے، بھابو جی کہا اچھا اپنا ایسے ہی ہے جیسے کھیرے کا کھانا۔ جیسے کھیرے کو ایک سرے سے تھوڑا سا کاٹ کر اور اسی ٹکڑے کو باقی کھیرے پر اُسی جگہ جہاں سے وہ کاٹا گیا ہے گھِسا کر کھیرے کا کڑوا پانی نکال دیا جاتا ہے ایسے ہی آدمی کو ایکانت میں اپنے مَن سے باتیں کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے جینے کا کڑوا پانی ارتھات زہر نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ بھابو جی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ بُدھ سنگھ یہ نہ سمجھ سکتا کہ بھابو جی کیوں ہنس رہی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بھابو جی دُور سے بدھ سنگھ کو اپنے آپ سے باتیں کرتے سُنتیں۔ ’’گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ کئی باتوں میں انسانوں سے پرندے اچھّے ہیں اور کئی باتوں میں پرندوں میں بھی وہی بیماری پھیلی ہوئی ہے جو انسانوں میں ہے۔ اب کوئی کووّں سے پوچھے کہ وہ گٹاریوں کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں۔ تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ کیا یہی اچھا ہو کہ کووّں اور گٹاریوں کی دوستی ہو جائے- یہ دوستی کیسے ہو اس کا اُپائے گورو مہاراج کے پاس ضرور ہو گا۔‘‘

گلی کی ماں چائے کے میز پر اپنے خاوند سے بحث میں اُلجھ کر گرم ہو جاتی یا جب ایسے موقعوں پر گلی کے پتاجی کسی بات پر جھنجھلا اُٹھتے تو بدھ سنگھ بھابو جی سے بات کرتے ہوئے کہتا۔ ’’گورو مہاراج کا کہنا ہے بھابو جی کہ کھارے کنوئیں کا پانی کبھی میٹھا نہیں ہو سکتا۔ چاہے کنوئیں میں من بھر کھانڈ ڈال دیں۔‘‘ بھابو جی کہتیں۔ ’’ تو کہنا کیا چاہتا ہے، بدھ سنگھ؟‘‘ وہ بات کو ٹالتے ہوئے کہتا ’’بھابو جی میں پُوچھتا ہوں کیا گٹاری اور گٹار میں بھی اَن بن رہتی ہو گی؟‘‘ بھابو جی ہنس کر کہتیں۔ ’’تو پاگل ہو جائے گا، بدھ سنگھ! جب دیکھو گٹاری کی بات۔ گٹاری تیرے دماغ میں بیٹھ گئی ہے۔ تجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں اُلٹی سیدھی ہانکتے ہوئے وہ کہتا ’’بھابو جی، سانپ کے بچّے کبھی انسان کے دوست نہیں ہو سکتے چاہے اُنھیں مَن بھر دُودھ پلایا جائے۔‘‘ بھابو جی حیرت سے بدھ سنگھ کی طرف دیکھتیں۔ بدھ سنگھ کی آواز سیٹی کی طرح گونجتی۔ بھابو جی سوچتیں کہ بدھ سنگھ میں ایک ہی کمی رہ گئی وہ پڑھا لکھا ہوتا تو بڑے بڑوں کے کان کترتا۔

جب سے بھابو جی نے چار پانچ مرتبہ بدھ سنگھ کو گٹاری کا ذکر کرنے سے ٹوک دیا تھا وہ اُن کے سامنے گٹاری کا ذکر کرنے سے جھجکنے لگا تھا۔ وہ اُوپر کھڑکی پر بیٹھی ہوئی گٹاری سے پکار کر کہنا چاہتا کہ اب اُسے کہیں دوسری جگہ گھونسلا بنا لینا چاہیے۔ جب کوئی کسی کو دیکھنا تک گوارا نہ کرے تو اُس شخص کو چاہیے کہ اُس گھر سے الگ ہو جائے۔ بس گٹاری کو بھی اپنا گھونسلا بدل لینا چاہیے۔

لیکن گٹاری اپنا گھونسلا بدلنے کو تیار نہ ہوئی۔ گٹاری کی آواز اُسے پیاری نہ لگے، بُدھ سنگھ اس کے لیے بھی اپنے دل کو سمجھانے لگا۔ جب بھابو جی ناراض ہوتی ہیں تو انھیں ناراض کرنے سے کیا حاصل۔ گٹاری کی آواز میں کون سے لڈو رکھے ہیں؟ آخر کسی پرندے کی آواز انسان کے دماغ پر کیوں چھائی جائے؟ ویسے تو انسان اور پرندے بھائی بھائی ہیں۔ دونوں پر ایک ہی سورج چمکتا ہے۔ لیکن بھابو جی کی بات بھی ٹھیک ہے۔ ہر وقت ایک ہی بات کے پیچھے پڑے رہنے سے انسان پاگل پن کو دعوت دیتا ہے۔ ہر وقت گٹاری کی غمگین آواز کو دماغ پر دستک دینے کی اجازت کیوں دی جائے؟ انسان کا دماغ جتنا ہلکا رہے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ بدھ سنگھ نے فیصلہ کر لیا کہ بھابو جی کے کہنے کے مطابق چلے گا اور اپنے دماغ کو ہر خطرے سے بچا کر رکھے گا۔

اب گٹاری اُوپر کھڑکی پر بیٹھی رہتی۔ بدھ سنگھ بھول کر بھی اس کی طرف نہ دیکھتا۔ گٹاری کی آواز سے اب اُسے کوئی لگاؤ نہیں رہ گیا تھا۔ اب وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت بھی کم کر رہا تھا۔ کیونکہ بھابو جی کی صاف اور واضح رائے یہی تھی کہ ایسا کرتے رہنے سے بدھ سنگھ پاگل ہو جائے گا وہ پاگل نہیں ہونا چاہتا تھا۔

صبح کی چائے کی میز پر بیٹھے بیٹھے گلی کی ماں گھاس پر بیٹھی گٹاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گلی سے کہتی۔ ’’وہ رہی گٹاری، تیری بہن۔‘‘

گلی گٹاری کے پیچھے بھاگتی اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتی۔ گٹاری ہاتھ نہ آتی، لیکن وہ بار بار چائے کی میز کے قریب آ بیٹھتی اور اپنی مخصوص آواز میں بولتی۔ گلی کی ماں خوش ہو کر گلی کو گدگداتی۔ گلی دوبارہ گٹاری کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑتی۔ بچّی کو اپنی کوشش میں ناکام پا کر گلی کی ماں کہتی۔ ’’بدھ سنگھ! گلی کی مدد کرو۔‘‘

 ’’ہم کیا مدد کرنے سکتا، بو بوجی؟‘‘ آیا ہنس کر کہتی۔

ایک دن گلی کے پتاجی نے بدھ سنگھ سے کہا ’’دیکھو بدھ سنگھ! ایک بار گٹاری کو پکڑ کر گلی کے ہاتھ میں تھما دو۔ پھر چاہے گٹاری اُڑ ہی جائے۔ گلی بہت للچاتی ہے۔ وہ ایک دو منٹ تک گٹاری کو چھُو چھُو کر دیکھ لے گی۔ پھر وہ خود ہی کہے گی ’’گٹاری کو چھوڑ دو بدھ سنگھ۔‘‘

بدھ سنگھ مالک کا حکم نہ ٹال سکا۔ وہ گٹاری کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن گٹاری اُس کے ہاتھ نہ آئی۔ گلی کے پتاجی ہنس ہنس کر اُسے بڑھاوا دیتے رہے۔ ’’پکڑو، پکڑو- وہ گئی گٹاری۔‘‘

گلی کی ماں کو یہ کھیل پسند نہ آیا۔ ڈانٹ کر بولی۔ ’’رہنے دو، بدھ سنگھ! یہ ٹھیک نہیں۔‘‘

 ’’کیوں ٹھیک نہیں؟‘‘ گلی کے پتا جی کہہ اُٹھے۔

 ’’اس میں بحث کی تو جگہ نہیں؟‘‘

 ’’میں کب کہتا ہوں کہ بحث کی جگہ ہے؟‘‘

 ’’گٹاری کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘

 ’’تنگ کون کرتا ہے؟‘‘

 ’’تو یہ کیا ہے؟‘‘

 ’’یہ تو دوستی کی جا رہی ہے۔‘‘

بدھ سنگھ میز کے پاس آ گیا تھا۔ وہ حکم کے انتظار میں کھڑا رہا۔ گلی اُٹھ کر گھاس پر لیٹ گئی تھی اور روئے جا رہی تھی۔ گلی کے پتاجی نے اسے اُٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ بولے ’’گٹاری ہاتھ نہیں آتی تو نہ سہی، بدھ سنگھ ایک کام کرو۔ بانس کا لمبا زینہ لگا کر گٹاری کے گھونسلے میں جھانک کر دیکھو۔ اگر گٹاری کے انڈوں سے بچّے نکل آئے ہوں تو گٹاری کا بچہ نکال لاؤ اور ایک منٹ کے لیے اُسے گلی کے ہاتھ پر رکھ دو۔ وہ اتنے سے خوش ہو جائی گی۔ پھر تم گٹاری کے بچّے کو واپس گھونسلے میں رکھ آنا۔‘‘

بدھ سنگھ لپک کر بانس کا زینہ اُٹھا لایا اور اسے اُوپر کی منزل کے کونے والے غسل خانہ کی دیوار سے لگا کر اُوپر چڑھنے لگا۔ گلی کی ماں نے چلّا کر کہا۔ ’’پہلے میرے پاس آؤ بدھ سنگھ!‘‘

بدھ سنگھ زینے سے اُتر کر گلی کی ماں کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

گلی کی ماں نے آواز دی۔ ’’آیا‘‘

آیا دوڑ کر آئی۔ گلی کی ماں نے کہا۔ ’’گلی کو اندر لے جاؤ۔‘‘

گلی نے پتا جی کی گود سے آیا کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں بھابو جی باہر آئیں، شور سُن کر وہ گھبرا گئی تھیں۔ بولیں۔ ’’کیا جھگڑا ہے؟

 ’’جھگڑا کچھ نہیں، بھابو جی!‘‘ گلی کی ماں نے اپنے خیال کی تائید چاہتے ہوئے کہا۔ ’’بدھ سنگھ گٹاری کا بچّہ لانے جا رہا ہے۔ میں کہتی ہوں گٹاری ناراض ہو جائے گی۔‘‘

 ’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے، گٹاری کا بچّہ اُٹھانے سے گٹاری تو ناراض ہو گی ہی۔‘‘ بھابو جی نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

بدھ سنگھ خاموش کھڑا تھا، وہ بہت پریشان تھا کہ کس کا حکم مانے، بھابو جی اور گلی کی ماں کا یا گلی کے پِتا جی کا۔ اُس نے تو گٹاری کا ذکر تک کرنا چھوڑ رکھا تھا اور تین چار روز سے اُوپر کھڑکی میں بیٹھی گٹاری کی طرف دیکھنے تک کی کوشش نہ کی تھی۔ کیونکہ وہ پاگل پن کو دعوت نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ سیدھی اور سُتھری زندگی گزارنے کا قائل تھا۔ وہ کسی طرح کی اُلجھن میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ عورت کے لیے اس کے ذہن میں کوئی جگہ نہ کی تو یہ گٹاری کدھر کی جادوگرنی تھی۔ بھابو جی نے پہلے بتا دیا ہوتا تو وہ گٹاری سے آشنائی نہ بڑھاتا۔ خیر اب تو اُسے گٹاری کی آواز میں کسی طرح کی نغمگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اب گٹاری کی صورت اس کے تصوّر کو سہلانے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی، اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اس کے سپنوں کو چھُو تک نہیں سکتی تھی اور بھی تو پرندے تھے، بلبل تھی، مینا تھی گرڑ تھا اور وہ پہاڑی پرندہ بھی تھا جو بہار کے شروع میں پہاڑوں کی طرف جانے سے پہلے سری نگر کے باغوں میں چہکنے کے لیے آ جاتا تھا، جس کی دُم بہت لمبی اور خوبصورت ہوتی ہے، ایسے ہی اور بھی بہت سے پرندے تھے۔ ایک گٹاری ہی تو نہ تھی۔

کچھ لمحوں کے لیے چائے کی میز پر خاموشی رہی۔ گلی کے پتا جی نے کڑک کر کہا۔ ’’بدھ سنگھ! تم یہ کام نہیں کر سکتے تو مجھے دوسرا انتظام کرنا ہو گا۔‘‘

 ’’جی صاحب!‘‘ بُدھ سنگھ چونک کر زینے کی طرف بڑھا۔

گلی کی ماں خاموش تھی۔ بھابو جی بھی کچھ نہ بولیں۔ بدھ سنگھ زینے پر چڑھ گیا۔ کچھ لمحوں کے بعد اُس نے واپس آ کر کہا۔ ’’جی صاحب! میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے میرا پہلے بھی یہی خیال تھا۔ گٹاری کو انڈے دیے بیس دن ہی ہوئے ہیں۔ ابھی پانچ روز اور لگیں گے، پھر جا کر انڈوں سے دو ننھے مُنّے بچّے باہر نکلیں گے۔‘‘

 ’’اچھا تو پانچ دن اور انتظار کرتے ہیں۔‘‘ گلی کے پتاجی نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’’ہماری گلی اچھی لڑکی ہے۔ وہ گٹاری کے بچے سے ضرور دوستی کرے گی۔‘‘

بھابو جی کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی۔ گلی کی ماں نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ گلی کے پتا جی نے ان کی طرف دیکھا اور ہنس کر کہا۔ ’’ہم زبردستی کرنے کے قائل نہیں۔ پانچ دن بعد گٹاری کے انڈوں سے دو بچّے باہر نکلیں گے، جب وہ دس روز کے ہو جائیں گے ہم گٹاری کے بچّے سے گلی کی ملاقات کرائیں گے۔‘‘

 ’’بہت اچھی بات ہے!‘‘ بھابو جی نے کہا۔

 ’’مجھے بھی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ گلی کی ماں نے کالج میں پڑھنے والی کسی لڑکی کی درخواست قبول کرنے کے انداز میں کہا۔

گلی اپنے پتاجی کی گود سے اُتر کر آیا کی طرف بھاگ گئی۔

بدھ سنگھ نے پرانی عادت سے بے قابو ہو کر کہا۔ ’’جی صاحب! میرا حساب کبھی غلط نہیں ہوتا۔ گٹاری ہمیشہ دو ہی انڈے دیتی ہے، سال میں ایک بار۔ پورے پچیس دن وہ اپنے انڈے سیتی ہے۔ آدھا وقت گٹاری سیتی ہے اور آدھا وقت گٹار، یہ نہیں کہ اکیلی گٹاری پر ہی سارا بوجھ ڈال دیا جائے۔‘‘

 ’’ہاں ہاں، بدھ سنگھ! تمھارا حساب کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘‘ گلی کے پتاجی نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس جھگڑے میں چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ اب یہ چائے نہیں لسّی ہے۔ پھر سے چائے لاؤ۔ ایک دم گرم۔‘‘

دوبارہ چائے آئی تو گلی کی ماں بولی۔ ’’گٹاری نے کتنی اونچی جگہ گھونسلا بنایا ہے؟‘‘

 ’’اب ذرا گٹاری کو بیچ میں نہ لاؤ۔‘‘ گلی کے پتاجی بولے۔ ’’ورنہ چائے پھر ٹھنڈی ہو جائے گی۔‘‘

گلی کی ماں نے مسکراتے ہوئے چائے کا کپ تیار کر کے اپنے شوہر کے ہاتھ میں تھمایا۔ پھر اس نے اپنا کپ ہونٹوں سے لگانے کے بعد سنجیدگی سے کہا۔ ’’جس کمرے میں لڑکیوں کے کالج میں انگریزی پڑھاتی ہوں وہاں روشندان میں گٹاری نے گھونسلا بنایا تھا پچھلے سال۔ ایک دن میں لڑکیوں کو پڑھا رہی تھی۔ اچانک اوپر سے دونوں انڈے ایک لڑکی کے سر پر گرے اور ٹوٹ گئے۔ رطوبت سے بے چاری لڑکی کا چہرہ خراب ہو گیا۔ سب لڑکیاں کھِلکھلا کر ہنس پڑیں۔ میری طبیعت پر بہت زبردست دھچکا لگا۔ میں اس دن پیرئڈ نہ لے سکی۔ اس لڑکی نے غسل خانہ میں جا کر اپنا چہرہ صاف کر لیا تھا اور باقی لڑکیاں سنجیدہ ہو کر پڑھنے کے لیے تیار تھیں۔ لیکن میرے دل پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔‘‘

 ’’تم بہت حسّاس ہو، یہ مجھے معلوم ہے۔‘‘

 ’’وہ واقعہ مجھے اب تک غمگین بنائے ہوئے ہے۔‘‘

 ’’اب یہ تو غلط بات ہے کہ ایک برس پہلے کے واقعہ پر آنسو بہائے جائیں۔‘‘

 ’’انڈا گِر کر ٹوٹ گئے تو گٹاری کا جوڑا کمرے میں دیوانہ وار منڈلانے لگا تھا۔ ان کی چیخ پُکار کئی دن تک سُنائی دیتی رہی تھی۔ جیسے ان کے انڈے توڑنے کا گناہ ہم سے سرزد ہوا ہو۔‘‘

 ’’اب اس غم کو دفنا دینا ہی ٹھیک ہو گا۔‘‘

 ’’اس غم کا دھماکا سا ہوتا ہے میرے دماغ میں۔ اُس وقت میں بے چین ہو جاتی ہوں۔‘‘

 ’’یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ ع

 ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!‘‘

کچھ لمحوں کے لیے سکوت طاری ہو گیا۔ بدھ سنگھ بھابو جی کے پلنگ کے قریب کھڑا سہمی سہمی سی نگاہوں سے چائے کے میز کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کاش وہ گلی کی ماں کو دِلاسا دے کر کہہ سکتا کہ پچھلے غم بھول جاؤ، آنے والے غم کی فکر کرو، وہ حیران تھا کہ بھابو جی کیوں چُپ بیٹھی ہیں، وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب انسان بھی اپنی زندگی کا مالک نہیں رہا، پرندے اپنی زندگی کے مالک بننے کی اہلیت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ زندگی ہے تو ایک نہ ایک غم لگا رہے گا، ایک نہ ایک ظلم، ایک نہ ایک نا انصافی، زندگی سپیرے کی بِین ہے نہ جادوگر کا تھیلا۔ زندگی ایک سڑک ہے جس پر پیدل چلنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ گورو مہاراج نے کہا ہے، زندگی کا مطلب ہے چلتی کا نام گاڑی، اور گورو مہاراج کا یہ بھی تو کہنا ہے –سوارتھ لاگ کریں سب پریتی۔ انسان نے کوئی چیز گُم کر دی ہے۔ وہ چیز ہے انسانیت، گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ انسانیت زیادہ دیر تک گم نہیں رہ سکتی۔ انسان صداقت کو ڈھونڈ رہا ہے، انصاف کو آواز دے رہا ہے، صداقت کسی دوسرے کی جیب کا سکّہ نہیں ہے۔ انصاف کسی پہیلی کا نام نہیں ہے۔ صداقت کے بِنا انسان سانس نہیں لے سکتا۔ انصاف کے بِنا ظلم اور لُوٹ کھسوٹ کی جڑ نہیں اُکھڑ سکتی۔۔۔ اور اُسے محسوس ہوا کہ گلی کی ماں معمولی عورت نہیں ہے۔ جسے گٹاری کے برس بھر پہلے کے درد و غم کا تصوّر آج بھی غمگین بنائے ہوئے ہے۔

ایک ایک کر کے تین دِن گزر گئے۔ گلی کے پتاجی ہر روز صبح کی چائے پر بدھ سنگھ کو یاد دِلاتے کہ زینہ لگا کر گٹاری کے گھونسلے میں جھانک کر دیکھے۔ انڈوں سے بچّے نکل آئے یا نہیں۔

 ’’جی صاحب! میرا حساب غلط نہیں ہو سکتا ہے۔ گورو مہاراج کا پرتاپ ہے۔‘‘ بدھ سنگھ جواب دیتا۔ ’’بھگوان نے چاہا تو پانچویں دن گٹاری کے انڈوں سے بچّے باہر آ جائیں گے اور پھر دس روز کی کوئی شرط نہیں دو تین دن بعد ہی گٹاری کے بچّوں سے گلی کی دوستی کرائی جا سکتی ہے۔‘‘

 ’’ٹھیک ہے‘‘ گلی کے پتاجی کہہ اُٹھتے!

گلی کی ماں خاموش رہتی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بھابو جی سے تائید چاہتے ہوئے کہتی ’’میں کہتی ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دیا جائے ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ اتنی اُونچائی سے گٹاری کے بچّے نکال کر گلی کو دکھائے جائیں، تھوڑا وقت بیتنے پر گٹاری کے بچّے خودبخود اُتر کر چائے کے میز کے قریب پھُدکتے نظر آئیں گے۔‘‘

 ’’اب یُوں روڑا مت اٹکاؤ ڈارلنگ! گلی کے پتاجی نے گردن کھجاتے ہوئے کہا۔ بُدھ سنگھ گٹاری کے انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد ان کا پورا خیال رکھا کرے گا۔ اپنے کام کے ساتھ وہ یہ کام بھی کرے گا۔ آخر گٹاری نے ہمارے گھر میں گھونسلا بنایا ہے تو ہم اسے غیر نہیں سمجھتے اس میں بھی وہی زندگی پَر تولتی ہے جو ہمارے اندر سانس لیتی ہے، کیوں یہ کچھ جھوٹ ہے؟‘‘

پانچواں اور چھٹا دن بھی گذر گیا یعنی بیس اور پانچ پچیسواں اور چھ اور بیس چھبیسواں دن۔ ابھی تک گٹاری کے انڈے اسی طرح پڑے تھے۔ ستائیسویں دن بدھ سنگھ نے کسی قدر شرمندہ ہو کر کہا۔ گورو مہاراج کا کہنا جھوٹ تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انسان کا حساب غلط بھی ہو سکتا ہے –گورو مہاراج کی لاج رہ جائے۔ اگر آج گٹاری کے انڈوں سے بچے نکل آئیں۔‘‘

گلی کی ماں کالج چلی گئی۔ گلی کے پتاجی کسی ملاقاتی سے گفتگو کر رہے تھے۔ بدھ سنگھ دوڑا دوڑا آیا۔ اس کے ہاتھ میں لٹھ تھا۔ بولا۔ ’’جی صاحب! ابھی ابھی سانپ اِدھر سے نکل کر گیا ہے۔‘‘

گٹاری کا جوڑا رسوئی کے بغل والے پیڑ پر بیٹھا چیخ پکار کر رہا تھا۔ ان پرندوں پر کیا مصیبت آ گئی؟‘‘ ملاقاتی نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’یہ کیسا نغمہ ہے؟ کتنے رومانٹک ہیں وہ لوگ جو پرندوں کی بولی میں نغمگی ڈھونڈا کرتے ہیں۔‘‘

 ’’یوں شاعروں پر نشتر زنی تو نہ کیجیے‘‘ گلی کے پتا جی ہنس کر بولے۔ ’’زندگی کا نغمہ خالی ایک سُر سے نہیں بنتا۔ غم و الم بھی زندگی۔۔۔ کے واضح اور ضروری سُروں کو ترتیب دیتے ہیں، کچھ سُر مسرّت آگیں ہوتے ہیں تو کچھ غم انگیز۔ کچھ سُر جانی پہچانی آواز کی داغ بیل ڈالتے ہیں تو کچھ سُر اجنبی کی طرح دروازے پر دستک دیتے ہیں، مستقبل کے چہرے سے نقاب اُلٹنے والے سُر ہمیشہ دوستانہ ہمدردی لیے رہتے ہیں۔ صبر و استقلال کے سُر۔ زندگی کے بارے میں فرمائش پوری کرنے والے سُر شیطنت پر طنز کسنے والے سُر — ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سنگیت کی ابتدا پرندوں کی بولیوں کی نقل اُتارنے سے ہوئی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

 ’’اس کے بارے میں تو دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔‘‘ ملاقاتی نے ہنس کر کہا

گٹاریوں کا جوڑا چلّا رہا تھا۔ جیسے ان پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ بدھ سنگھ لٹھ اُٹھائے آیا۔ بولا۔ ’’گٹاریوں کا بدلہ میں نے لے لیا۔ آخر گورو مہاراج کے آشیرباد سے میں نے سانپ کی سِری توڑ ڈالی۔ گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ جب سانپ سویرے جاگتا ہے وہ کہتا ہے کہ ہے بھگوان مجھے ایسے انسان کی شکل دِکھا جو مجھ پر ہاتھ اُٹھائے تو میری سِری ضرور توڑ ڈالے تاکہ مجھے زخمی ہو کر اِدھر اُدھر نہ بھٹکنا پڑے۔ سِری ٹوٹنے سے مرنے پر سانپ دوسرے جنم میں انسان بنتا ہے۔‘‘

 ’’اسی لیے شاید کچھ انسان سانپوں کے بھائی ہوتے ہیں۔‘‘ ملاقاتی نے طنز کی۔

 ’’یہ سانپ گٹاریوں کے گھونسلے میں گھس کر اُن کے انڈے کھا گیا۔‘‘ بدھ سنگھ بولا ’’گٹاریاں چلّاتی رہ گئیں۔ چلیے وہ بھی نہ بچ سکا۔‘‘

گلی کی ماں کالج سے آئی تو گٹاریوں کی بے بسی کی کہانی سُن کر افسوس سے ہاتھ ملتی رہ گئی۔ گٹاریوں کے دو انڈے پچھلے سال لڑکیوں کے کالج میں انگریزی کے پیرئڈ میں روشندان سے گِر کر ٹوٹ گئے تھے، دو انڈے یہ تھے جنھیں آج سانپ کھا گیا تھا۔ ’’ہمارے گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ گٹاری پہلے عورت ہوتی تھی۔‘‘ بدھ سنگھ نے اپنی مخصوص آواز میں کہنا شروع کیا ’’گٹاری کی مصیبت اب بھی کچھ کم نہیں، وہ لاکھ گردن بلند کرے، لاکھ چہکنے کا جتن کرے، زندگی کا غم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس پر بھی گٹاری انڈے دینے سے باز نہیں آتی۔‘‘

٭٭٭

فاختہ کی چونچ میں دانہ

یوں مجھے کالی ناتھ سے پوری ہمدردی ہے۔ اس کی سُوجھ بُوجھ کا میں قائل ہوں۔ اس کی ذہانت کا سکّہ ماننے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ باہر والوں میں جو افسانہ نگار کالی ناتھ کو پسند ہیں وہ مجھے بھی کچھ کم پسند نہیں۔ اسی لیے تو مجھے کبھی اس کی بات کاٹنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

شروع میں کالی ناتھ سے میری ملاقات ہوئی تو وہ ٹیگور کے کچھ افسانے پڑھ چکا تھا۔ پھر اس کی رسائی شرت تک ہوئی تو وہ شرت کا ہو کر رہ گیا۔ کم سے کم ان دنوں تو مجھے یہی محسوس ہونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ کبھی کوئی پریم چند کا ذکر چھیڑ دیتا تو وہ ناک بھوں چڑھا کر اِدھر اُدھر دیکھتا جیسے اس آب و ہوا میں اس کا دم گھٹا جا رہا ہو۔ اب کالی ناتھ نے پریم چند کے کچھ افسانے بھی پڑھ ڈالے ہیں اور بات بات میں پریم چند کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن یہ بات نہیں کہ وہ چیخوف، موپسان، ہنری اور سمرسٹ ماہم کو بالکل بھول گیا ہو۔

جب بھی کسی روز ہماری محفل جمتی ہے تو ہمارے بیشتر دوست کالی ناتھ کی زبان سے بار بار یہ جملہ سُن کر کہ ’ہم باہر والوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ‘ تنگ آ جاتے ہیں۔ یہ غنیمت ہے کہ کالی ناتھ کم سے کم پریم چند کا ذکر ضرور کرتا ہے لیکن یقین کیجیے، پریم چند کا ذکر وہ یوں کرتا ہے جیسے باتیں کرتے کرتے وہ ایک آدھ جمائی لے لے۔

کبھی آپ بھی آئیے ہماری مجلس میں۔ ایک آدھ شام ہمارے ساتھ گذار کر دیکھیے اور بھی بہت سے دوستوں سے ملائیں گے۔ باہر کھلی جگہ ہے۔ میز لگے رہتے ہیں۔ گملوں میں پھول دیکھیے۔ پاس والی کرسی پر کوئی فاختہ بھی نظر آ سکتی ہے۔ کوئی معصوم چہرہ۔ ایک دم معصوم۔ فاختہ کا تصور بُرا نہیں۔ امن کی تمام تر اشاریت ایک فاختہ پر قربان ہے۔ برسات کے موسم میں جب آسمان پر بادل گھِرے ہوئے ہوں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو تو کھلی جگہ میں کسی میز پر ہماری محفل جمتی ہے۔ نئے آنے والوں کے لیے اِدھر اُدھر سے کوئی نہ کوئی کرسی کھینچ لینے سے کام چل جاتا ہے۔

کالی ناتھ ہماری مجلس کا روحِ رواں ہے۔ کوئی اس سے اتفاق کرے نہ کرے۔ وہ اپنی بات ضرور کرے گا۔ افسانے کا موضوع ہو تو بازی اسی کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ شاعری کا موضوع ہو تو بھی وہ جی جان سے باگ ڈور کو سنبھالے رکھتا ہے۔ چاہے موضوع سائنس ہو، پالٹیکس ہو، اخبار نویسی ہو اور چاہے تحریکِ آزادی یا عالمگیر امن کی تحریک، وہ ہر ایک پر بول سکتا ہے اور اپنے خیال کی تائید میں نہ جانے کہاں سے حوالہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ میں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی مجلس میں چلنے والی بحث سے ایک دم دل چُرا کر میں اپنے ہی خیالات کی دُنیا میں کھویا رہتا ہوں اور میرا دھیان اس وقت لوٹتا ہے جب ہماری مجلس کا کوئی رُکن میری موجودگی کے باوجود میری ذہنی غیر موجودگی کا پتہ چلتے ہی میرا بازو جھٹک کر کہتا ہے۔ ’’ارے بھائی! تم کس سوچ میں ڈوب گئے؟‘‘ میں اس وقت اپنے اس وقتی ماحول کو دیکھتا ہوں جو کسی اور ہی ملک کی زبان بولتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کالی ناتھ کبھی اپنی دھرتی کی زبان کیوں نہیں بولتا۔

ہماری شام کی محفلوں کا ایک رُکن ہے سا ہنی۔ اب سا ہنی ٹھہرا شاعر۔ اسے یہ ناپسند ہے کہ کالی ناتھ ہمیشہ افسانوں کی دنیا میں ہی پرواز کرتا رہے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساہنی محفل میں آتے ہی کالی ناتھ کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیتا ہے اور پھر موقع پا کر اپنا کلام پیش کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کالی ناتھ عجیب سا منھ بنا کر کہتا ہے۔ ’’وہ بات کہاں جو غالب میں ہے!‘‘

ہمارے دوستوں میں سردار ہربندرسنگھ آہووالیہ افسانہ نگار ہیں۔ ابھی اگلے ہی روز کالی ناتھ نے او ہنری کے ایک افسانے پر اچھی خاصی تقریر جھاڑ ڈالی تو ہربندرسنگھ بُری طرح جھنجھلایا۔ اپنی فاختئی رنگ کی بُش شرٹ کے بٹن کھول کر اس نے سارس کی طرح گردن کو اکڑا لیا اور پھر بڑی تیز آواز میں پوچھا — ’’کیوں جناب! آپ کو ہمارا ایک بھی افسانہ آج تک کیوں پسند نہیں آیا؟‘‘

اس کے جواب میں کالی ناتھ کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ سردار جی! آپ کیا کھا کر او ہنری کا مقابلہ کریں گے۔

ہربندر ہماری مجلس میں ابھی ایک نووارد ہے۔ لیکن میں اسے نو آموز سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کر سکتا۔ وضع داری کا اسے بہت پاس ہے۔ مجھے اس کی بات پوری طرح سمجھنے کے لیے اپنے کان اس کے ہونٹوں کے قریب لے جانے پڑتے ہیں اور ہربندر کے بارے میں یہ تو ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ وہ بحث میں اس وقت اُلجھتا ہے جب اس کے قریب اس کا کوئی حمایتی بیٹھا ہو۔

کالی ناتھ نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا۔ ’’ہمارے نئے لکھنے والوں کے ہاں کہانی نام کی چیز یعنی کہانی کی کہانیت یکسر غائب ہو رہی ہے۔‘‘

ساہنی نے یہ دعویٰ کیا کہ فلاں افسانہ نگار اس دور کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ کالی ناتھ نے فوراً کہا۔ ’’یہ بالکل غلط ہے۔ صاحب! پریم چند والی بات اس میں کہاں؟‘‘

ہربندر کو طیش آ گیا۔ اس سے پہلے کہ ساہنی کالی ناتھ کی بات کا جواب دے، ہربندر نے گرم ہو کر کہا۔ ’’کیا تمھارا مطلب ہے کہ فاختہ کی چونچ میں بھی وہ دانہ نہیں ہے جو پریم چند کی چونچ میں ہے؟‘‘

اس کے جواب میں کالی ناتھ مسکراتا رہا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کو فاختئی رنگ کی بُش شرٹ ہی زیادہ پسند ہے، لیکن فاختہ کی چونچ میں دانے کی تشبیہ تو بالکل بے معنی ہے۔

پاس والی میز پر فاختئی ساڑھی میں سجی ہوئی ایک معصوم سی لڑکی بیٹھی چائے کی چسکی بھر رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے ہماری آنکھیں اس طرف اُٹھ گئیں معلوم ہوتا تھا کہ ہماری مجلس پر فاختئی رنگ غالب آ گیا۔ ساہنی نے ہنس کر کہا۔ ’’وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔‘‘ اس پر قہقہہ پڑا۔

لیکن کالی ناتھ نے جھٹ سنبھل کر بات کا رُخ موپسان کی اس مشہور کہانی کی طرف پھیر دیا۔ جس میں جنگ کے دوران میں کچھ پناہ گزین کسی صحیح سلامت مقام کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک بیسوا بھی ہے جسے ہر کوئی اپنے سے کمتر سمجھتا ہے۔ لیکن جس کی نمائشی ٹیپ ٹاپ سے ہر کوئی متاثر ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں بدیسی فوجی چوکی ہے اور وہاں سے گذرنے کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کوئی عورت فوجیوں کا دل خوش کرنے کے لیے ان کی محفل میں شامل ہونے پر رضامند ہو جائے۔ وہاں یہ بیسواں اپنے ہمسفروں کی مدد کرتی ہے۔ اسی کی بدولت دوسری عورتوں کی عزت بچ جاتی ہے۔ لیکن اگلے سفر میں سب عورتیں اس بیسوا کو اور بھی نفرت سے دیکھنے لگتی ہیں۔ کالی ناتھ بول پڑے! دیکھیے موپسان کی اس کہانی کی ٹکّر کی کہانی تو پریم چند نے بھی نہیں لکھی۔‘‘

اس کے بعد کالی ناتھ کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ اُبھری جس کے پیچھے تازہ اخبار کی بڑی سرخی کی طرح یہی سوال سر اُٹھا رہا تھا کہ ہربندر جی! آپ کیوں خواہ مخواہ افسانے کی ٹانگ توڑ رہے ہیں؟‘‘

اتنے میں گوسوامی بھی کندھے سیکڑتا اور لمبے لمبے ہاتھ بڑھاتا آ گیا اور پاس والی میز سے ایک خالی کرسی سرکا کر ہماری مجلس میں شامل ہو گیا۔ اس نے حسبِ عادت ادب کی دوامی قدروں پر تقریر شروع کر دی۔

گوسوامی کا لب و لہجہ اگرچہ اس موضوع کا پوری طرح ساتھ دے رہا تھا۔ لیکن کالی ناتھ نے تیور بدل کر کہا۔ ’’اجی اس موضوع پر تو کوئی ٹالسٹائی ہی کچھ کہہ سکتا ہے۔‘‘

 ’’تمھارا مطلب ہے کہ ایک ٹالسٹائی کے بعد دوسرا ٹالسٹائی پیدا ہی نہیں ہو سکتا؟‘‘ گوسوامی نے ہنس کر کہا۔ ’’ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جہاں ہمیں ادب کی دوامی قدروں کو سمجھنا چاہیے وہاں ہمیں اپنے ملک کے کلچر کو سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

 ’’آپ کا مطلب ہے کہ ہم عمر بھر پُرانے قصے کہانیاں ہی پڑھتے رہیں!‘‘کالی ناتھ مسکرایا۔ ’’تو ہم وار اینڈ پیس اور سبین کرستوف جیسے گرنتھ کس وقت پڑھیں گے؟‘‘

گوسوامی نے کسی امام کی طرح سنجیدہ ہو کر کہا۔ ’’ویسے دیکھا جائے تو یہ دیس دیس کی حد بندیاں فضول ہیں۔ اور سچ پوچھا جائے تو انسانیت ایک ہے، تہذیب ایک ہے، ادب ایک ہے۔‘‘

 ’’لیکن پہلے تو ہمیں اپنے ہی ملک کے ادب کو سمجھنا چاہیے!‘‘ ہربندر نے اپنی بش شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے تیزی سے کہا۔

گوسوامی بولا ’’دیکھیے بندہ کی سیوائیں تو سب سجنوں کے لیے حاضر ہیں۔ اب جو بات کرشن مہاراج گیتا میں کہہ گئے ہیں، وہی بات تھوڑے بہت پھیر بدل کے ساتھ بائیبل میں بھی مل جاتی ہے۔ صداقت ایک ہے۔ ادب صداقت چاہتا ہے، خلوص چاہتا ہے اور آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میں نے ’نئے لوگ‘ میں جو افسانے منتخب کیے ہیں، ان میں صداقت کی اسی چنگاری کو پیش پیش رکھا ہے۔‘‘

سا ہنی نے بات کا رُخ بدلتے ہوئے کہا۔ ’’ارے بھئی کچھ چائے وائے!‘‘

سا ہنی نے پہلی بار میرے جی کی کہی۔ کالی ناتھ نے زور سے میز پر ہاتھ مارا۔

 ’’چائے بھی آ جائے گی، ساہنی!‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’ذرا گیان گوشٹھی کو تو جمنے دو۔‘‘

گوسوامی نے گمبھیر ہو کر کہا۔ ’’سردار ہربندرسنگھ کا افسانہ ’’نئے لوگ‘‘ میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں نے سردار جی سے کہا تھا کہ وہ اپنے سینے کو ٹٹولیں اور کوئی ایسی چیز کاغذ پر اُتار کر رکھ دیں جسے وہ اب تک کے اپنے تجربے کا حاصل سمجھتے ہوں جس میں ان کی اپنی زبان ہو، اپنا مخصوص محاورہ ہو۔‘‘

کالی ناتھ نے زور سے گردن ہلا کر کہا۔ ’’آپ کا بس چلے گوسوامی جی تو آپ تو قدم قدم پر او ہنری اور سمرسٹ ماہم کھڑے کر دیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ افسانہ لکھنا تو بہت دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لانا ہے اور یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ محض محنت کرنے سے ہر شخص افسانہ نگار بن سکتا ہے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ –‘‘

 ’’کچھ بھی ہو‘‘ ہربندر کڑک کر بولا۔ ’’ہم کالی ناتھ کو یہ اجازت تو نہیں دے سکتے کہ وہ بڑے بڑے مصنفوں کے نام لے لے کر ہم پر بھاری بھرکم چٹانیں گراتا چلا جائے۔ اور یہاں معصوم فاختائیں نیچے پستی میں پڑی اپنے پر پھڑپھڑاتی رہیں اور اپنی بلندیوں کو نہ پا سکیں۔‘‘

گوسوامی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہربندر کے جسم کی لمبائی اور چوڑائی ناپتے ہوئے کہا۔ ’’سردارجی! آپ کو مارنے والا تو ابھی پیدا نہیں ہوا۔‘‘

ساہنی نے بات کا رُخ بدلتے ہوئے کہا۔ ’’سردار جی! آج تو ہم آپ کا کوئی افسانہ ضرور سُنیں گے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’واہ واہ! ساہنی، تم نے تو واقعی میری زبان کے الفاظ چھین لیے۔ میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا۔‘‘

بڑی مشکل سے سردار جی نے اپنے جھولے سے نیا افسانہ نکالا۔ انھوں نے پہلی شرط یہی رکھی کہ کالی ناتھ اپنی زبان سے افسانے کی فرمائش کرے اور سب احباب کو چائے بھی آج وہی پلائے۔

کالی ناتھ نے عجب سا منھ بنا کر چاروں طرف یوں نظریں دوڑائیں، جیسے کہنا چاہتا ہو کہ ایک تو ہم کہانی سُننے کی کوفت گوارا کریں، دوسرے چائے بھی ہم ہی پلائیں۔

گوسوامی کو کالی ناتھ کے دل کی بات بھانپنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ زور سے گردن ہلا کر بولا۔ ہم سردارجی سے متفق ہیں۔‘‘

کالی ناتھ نے کسی قدر شرمندہ سا ہو کر بیرے کو بلایا اور چائے کا آرڈر دیا۔

چائے آئی تو کالی ناتھ نے پہلا کپ سردارجی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ ’’معاف کیجیے گا سردار جی! آپ مجھے بالکل غلط سمجھے۔‘‘

چائے کے طوفان میں سب گلے شکوے دور ہو گئے۔ اب سردار جی سے افسانہ سُنانے کا تقاضا شروع ہوا۔

سردار جی نے افسانہ شروع کرنے سے پیشتر تمہیداً کہنا شروع کیا۔ ’’دیکھیے حضرات! میں نیا رنگروٹ ہوں۔ لیکن بندوق تو آپ کو بھی تھامنی ہو گی۔‘‘ کالی ناتھ نے مسکرا کر کہا۔ ’’میرا مطلب ہے قلم سے بھی بندوق کا کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کا زمانہ ہے۔ قلم کی تشبیہ ذرا سوچ سمجھ کر دیجیے۔‘‘

 ’’اب کہیے؟‘‘ ہربندر نے کرسی سے اُچھل کر کہا۔

 ’’تو آپ قلم کو برش کی طرح چلانے پر ہی تُلے ہوئے ہیں!‘‘ کالی ناتھ نے عجب سا منھ بنا کر کہا۔ ’’لیکن یہ کام تو کوئی چیخوف یا موپسان ہی کر سکتا ہے۔ یا پھر کوئی پریم چند۔‘‘

 ’’ہم بھی تو اس روایت کے دعوے دار ہیں۔‘‘ ساہنی نے ہربندر کے لیے اپنا بازو بڑھایا۔

 ’’تو پھر یہ مانیے کہ آپ کہانی میں کہانیت کے قائل ہیں!‘‘ کالی ناتھ نے طنزاً کہا۔ ’’یہاں تو یہ حال نظر آتا ہے کہ اسکیچ سامنے آ گیا، کہانی تین میل پیچھے چھوٹ گئی!‘‘

ریستوران میں بہت شور تھا اور ایسے میں یہ ممکن نہ تھا کہ ہماری محفل میں کوئی شخص افسانہ پڑھ کر سُنائے۔ پھر آزو بازو چند خوبصورت چہرے بھی مختلف میزوں پر نظر آ رہے تھے اور طبیعت خواہ مخواہ مچل اٹھتی تھی اور دھیان اِدھر اُدھر بھٹک جاتا تھا۔

گوسوامی نے مسکرا کر کہا۔ ’’پہلے یہ بتائیے سردار جی! کہ اس نئے افسانے میں آپ نے کیا موضوع پیش کیا ہے؟‘‘

ہربندر نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ ایک لڑکی کا افسانہ ہے جسے میں نے فاختہ کے روپ میں پیش کیا ہے اور بڑے خلوص کے ساتھ- بڑی ہی معصوم تھی یہ لڑکی۔ ایک گھونسلے میں ایک فاختہ نے انڈے دیے۔ اِن انڈوں میں سے ایک ننھی فاختہ نے جنم لیا۔ باقی انڈے گھونسلے سے نیچے گر کر ٹوٹ گئے۔ یہ ننھی فاختہ بڑی ہوئی۔ اس کے پَر نکلے، اس نے اُڑنا سیکھا۔ اُڑنا تو اس کی سرشت کا حصہ تھا۔ اُڑنا تو اس کی روایت تھی۔ وہ فاختہ ملک کے اس پار سے اُس پار آئی۔ اس کی ماں اس کے ساتھ تھی۔ اپنی ماں کی پرورش کے لیے نوجوان فاختہ نے طے کیا کہ وہ کبھی شادی نہ کرے گی۔ اب نوجوان فاختہ ایک دفتر میں ملازم ہے۔ جس دن اسے تنخواہ ملتی ہے وہ اپنی جیب میں یوں نوٹ ڈال کر گھر پہنچتی ہے جیسے فاختہ اپنی چونچ میں دانہ لیے گھونسلے میں آتی ہے۔ ننھے بچوں کی پرورش کے لیے! لیکن اس نوجوان فاختہ کی چونچ میں جو دانہ ہوتا ہے وہ اس کی ماں کے لیے ہوتا ہے جس نے ایک دن اسے جنم دیا تھا۔‘‘

کالی ناتھ سے اس موضوع پر رائے پوچھی گئی تو وہ بہت گمبھیر ہو کر بولا۔ ’’میں تو اپنی رائے افسانہ سُن کر ہی دے سکتا ہوں۔‘‘ لیکن ہربندر اس شور میں افسانہ پڑھ کر سنانے کے لیے تیار نہ ہوا۔

گوسوامی نے ہربندر کے ہاتھ سے لے کر یہ افسانہ خود پڑھنا شروع کر دیا۔ پڑھتے پڑھتے کئی بار اس کی پیشانی پر متوازی شکن نظر آنے لگتے۔ جیسے افسانہ واقعی اس کے ذہن میں اُتر رہا ہو۔ ساہنی قدم قدم پر داد دینے لگتا۔ جیسے وہ ہربندر کے افسانے کی داد محض اس شرط پر دے رہا ہو کہ کل جب وہ اپنی نظم پڑھ کر سنائے تو ہربندر بھی اسی طرح اس کے کلام کی داد دے اور کھل کر کہے کہ یہ تو نئی شاعری کا ایک شاہکار ہے۔

افسانہ ختم ہوا تو گوسوامی نے کہا۔ ’’یہ افسانہ پریم چند کی روایت کی بڑی شدّت سے نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ اور اس نے اہلِ مجلس کو خاموش پا کر بڑے وثوق سے کہا۔ ’’ہربندر کی کوشش قابلِ تعریف ہے۔‘‘

 ’’کالی ناتھ جی! آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ساہنی نے جیسے کالی ناتھ کے دل کی بات بھانپنے کی کوشش کی۔

 ’’ان کا کیا خیال ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’اب ہمارے کالی ناتھ جی تو ہربندر کو او ہنری ماننے سے رہے۔‘‘

کچھ لمحوں کے لیے جیسے ہماری مجلس کے روحِ رواں کالی ناتھ پر سَو گھڑے پانی پڑ گیا۔ گوسوامی نے مجلس کو گرماتے ہوئے کہا۔ ’’حق تو یہ ہے کہ تنقید بہت خلوص چاہتی ہے۔ نئے لکھنے والے ہمیشہ آتے رہیں گے۔ یہ فرض نمائندہ رسائل کے ایڈیٹروں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھائیں اور اس طرح ادب کے دھارے کو آگے لے جائیں۔‘‘

ساہنی بھی خاموش نہ رہ سکا۔ اچھل کر بولا۔ ’’میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر یہ افسانہ انگریزی میں ترجمہ کر کے ولایت کے کسی رسالے میں بھیجا جائے تو اس کی تعریف ہوئے بِنا نہ رہے گی۔‘‘

 ’’بشرطیکہ گوسوامی کی کانٹ چھانٹ سے بچ جائے!‘‘ کالی ناتھ نے گوسوامی کو آڑے ہاتھوں لینا چاہا۔

گوسوامی نے کالی ناتھ کی بات اَن سُنی کرتے ہوئے کہا۔ ’’ادب اور خاص طور پر اچھا ادب ہر جگہ اپنی قدر کراتا ہے۔‘‘

کالی ناتھ بولا۔ ’’خیر او ہنری یا سمرسٹ والی بات تو نہیں ہے۔‘‘

 ’’اب چھوڑیے او ہنری کا قصہ۔‘‘ ہربندر نے طیش میں آ کر کہا۔ ’’آپ کے پاس اپنی کوئی بات کہنے کے لیے ہو تو ہم سُن سکتے ہیں!‘‘

 ’’تو کیا مجھ سے میری زبان چھین لی جائے گی؟‘‘ کالی ناتھ بھی خاموش نہ رہ سکا۔

گوسوامی نے کندھے ہلاتے ہوئے کالی ناتھ کی بات ایک دم اَن سُنی کر دی۔ پہلے سے کہیں زیادہ گمبھیر ہو کر اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جہاں تک سردار جی کی زبان کا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ وہ ابھی بہت خام ہے۔ اس کا شین قاف ہی نہیں، اندازِ بیان بھی قابلِ اصلاح ہے اور تکنیک کا تقاضا مانتے ہوئے کہیں کہیں تفصیل کی کانٹ چھانٹ بھی کرنا ہو گی۔

 ’’مطلب؟‘‘ ہربندر کسی قدر گھبرایا۔

 ’’مطلب یہی کہ لکھنے کے لیے تو بہت تپسیّا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک لفظ اپنا جادو رکھتا ہے۔ اسے سمجھنا ہو گا، اسے پہچاننا ہو گا۔ جیسے ہون کنڈ میں آہوتی ڈالتے ہیں- ویسے ہی لکھنے والے کو اپنی تحریر میں گھی کی نہیں، اپنی آتما کی آہوتی ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ہربندر بیٹھا دانت پیستا رہا۔ کالی ناتھ نے اپنی کرسی سے اُچھل کر کہا۔ ’’یہ تو آپ وہی بات کہہ رہے ہیں جو ایک جگہ او ہنری بھی فرما گئے ہیں!‘‘

ریستوران میں بہت شور تھا اور ہماری مجلس میں گفتگو کا انداز دھرپد کے پکّے گانے سے ہٹ کر کسی ٹھمری کا آنچل تھامنے کے لیے بیتاب دِکھائی دیتا تھا۔

گوسوامی نے فاختہ کی ادھوری کہانی کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے کہا۔ ’’کچھ بھی ہو، یہ تو ایک حقیقت ہے کہ آج ہم جس طرح اپنی چونچ میں دانہ اُٹھا کر لاتے ہیں ایسے ہی ہمارے پیشرو اُٹھا کر لاتے رہے۔‘‘

کالی ناتھ نے کچھ کہنے کی کوشش ضرور کی۔ لیکن اس کی آواز گلے میں ہی پھنس کر رہ گئی۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔

گوسوامی نے گمبھیر آواز میں اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ادب ایک ہے، افسانہ ایک ہے، صداقت ایک ہے، انسانیت ایک ہے اور ادب کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کی دیس دیس اور زبان زبان کی حد بندیاں محض مقامی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘

ہربندر نے بڑے مفکّرانہ انداز میں بات ختم کی۔ ’’ہم بھی فاختہ کے بچے ہیں۔ اُڑنا ہی ہماری سرشت میں ہے اور میرا افسانہ ’’فاختہ کی چونچ میں دانہ‘‘ فن کی بلندیوں کو چھُو نہیں سکتا تو ان کی طرف اشارہ ضرور کر رہا ہے۔‘‘

سب کی نگاہیں کالی ناتھ پر جم گئیں۔ لیکن وہ چائے کی خالی پیالی اپنے ہاتھ میں تھامے خاموش بیٹھا رہا۔

٭٭٭

برہمچاری

پنچ ترنی کی وہ رات مجھے کبھی نہ بھولے گی، نہ پہلے کسی پڑاؤ پر سورج کماری نے اِتنا سنگار کیا تھا، نہ پہلے وہ گیس کا لیمپ جلایا گیا تھا۔ اس روشنی میں سورج کماری کا عروسی لباس کتنا بھڑکیلا نظر آتا تھا۔

دونوں گھوڑے والوں کو خاص طور پر بُلایا گیا تھا۔ ایک کا نام تھا عزیزا اور دوسرے کا رفیع۔ جے چند کا کشمیری کلرک جیا لال بہت مسرور نظر آتا تھا۔ خود جے چند بھی دُولھا بنا بیٹھا تھا۔ رسویئے کو نہ جانے اِس محفل میں کچھ کشش کیوں نہ محسوس ہوئی۔ کام سے فارغ ہوا۔ تو یاترا کا بازار دیکھنے چلا گیا۔

پریم ناتھ سے بغیر کچھ کہے سُنے ہی جب میں سری نگر سے پیدل ہی پہلگام کے لیے چل دیا تھا، تب کسے خبر تھی کہ اتنے اچھے خیمے میں جگہ مِل جائے گی۔ سورج کماری نے میرا بھید پا لیا تھا۔ اُس نے جے چند کو بتا دیا کہ میں گھر والوں کی رضامندی کے بغیر ہی ادھر چلا آیا ہوں۔ اس طرح اُس نے میرے لیے اپنے خاوند کی ہمدردی اور بھی اُبھار دی۔

جیالال نے عزیزا سے وہ گیت گانے کا مطالبہ کیا جس میں ایک کنواری کہتی ہے- ’’بید مُشک کی خوشبو میرے من میں بس گئی ہے۔ باورے بھونرے! تُو کہاں جا سویا ہے؟‘‘ اُسے یہ گیت یاد نہ تھا۔ اُس نے سوچا ہو گا کہ وہ لڑکی جس کے من میں بید مُشک کی خوشبو بس گئی تھی، سورج کماری سے کہیں بڑھ کر سُندر ہو گی۔ یہ دوسری بات ہے کہ کشمیر کی بیٹی کو اکثر بہت خوبصورت لباس نصیب نہیں ہوتا۔

خود سورج کماری نہ جانے کیا سوچ رہی تھی، مجھے اُس کا وہ رُوپ یاد آ رہا تھا جب وہ ہرا دوپٹہ اوڑھے گھوڑے پر سوار تھی اور چندن واڑی پار کر کے برف کے اُس پُل پر اُتر پڑی تھی جس کے نیچے سے شیش ناگ بہہ رہا تھا۔ تب وہ جنگل کی اپسرا معلوم ہوتی تھی۔ راستے میں جنگلی پھول چُن کر چلتے چلتے جیا لال نے ایک گجرا تیار کر لیا تھا۔ اور وہ مسکراہٹ مجھے کبھی نہ بھولے گی جو کہ جیالال سے یہ گجرا لیتے ہوئے سورج کماری کی آنکھوں میں رقص کرنے لگی تھی۔

میں نے کہا۔ ’’گیت تیار کرنا بہت مشکل کام تھوڑا ہی ہے۔ الفاظ کو بنسری میں سے گزار دو، گیت ہو جائے گا!‘‘

سورج کماری بولی۔ ’’میرے پاس تو پُر اثر الفاظ بھی نہیں رہ گئے۔ ہاں بنسری میں نے سنبھال کر رکھ چھوڑی ہے۔۔۔ کبھی مجھے بھی شعرو نغمہ کی دھُن لگتی تھی۔‘‘

میں خاموش ہو گیا۔ لیکن اپنے ذہن میں اُس سے مخاطب ہوا- گھبرا نہیں، خاموش دُلہن، تیرے بول تو بہت سُریلے ہیں۔۔۔ وہ ضرور کسی دِن پھر بھی بنسری میں سے گزریں گے۔۔۔ اور اپنے گیتوں میں تُو مجھے بھول تو نہ جائے گی۔۔۔

عزیزا نے لوچ دار آواز میں گانا شروع کیا:

 ’’لج پھُلے اندونن

چ کنن گوئے نامے اون؟

لج پھُلے کول سرن

ووتھو نِیرن کھس دو

پھُولی یو سمن اندونن

چ کنن گوئے نامے اون؟‘‘

— ’’دور جنگلوں میں پھول کھل گئے۔ کیا میری بات تیرے کانوں تک نہیں پہنچی؟ کول سر جیسی جھیلوں میں پھول کھِل گئے۔ اُٹھو ہم چراگاہوں کی طرف چڑھیں گے۔ دُور جنگلوں میں چنبیلی کے پھول کھِل گئے۔ کیا میری بات تیرے کانوں تک نہیں پہنچی؟‘‘

جے چند کشمیری خوب سمجھتا تھا۔ کشمیر میں ٹھیکیداری کرتے اُسے کئی سال ہو گئے تھے۔ سورج کماری نے کیوں اِس زبان میں دلچسپی نہ لی تھی۔ اس بات پر سب سے زیادہ حیرت مجھے اُسی رات ہوئی۔ جے چند بولا۔ ’’یہ کسی کنواری کا گیت ہے۔ اُس نے دیکھا کہ بہار آ گئی۔ چنبیلی کے پھول بھی کھِل گئے اور پھر شاید غیر شعوری طور پر اُس نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ خود بھی چنبیلی کا ایک پھُول ہے۔‘‘

گیت کا ایک ہی ریلا عزیزا کو میرے قریب کھینچ لایا۔ سارے راستے میں کبھی میں نے اُسے اِتنا خوش نہ دیکھا تھا۔ آدمی کتنا چھُپا رہتا ہے۔ اُسے جاننے کی میں نے اب تک کوشش بھی تو نہ کی تھی۔

روز روز کے لمبے سفر سے ہم بہت تھک گئے تھے، اب اس شغل میں سب تھکاوٹ بھول گئی۔ سورج کماری کا سُندر چہرہ سامنے نہ ہوتا تو عزیزا کو بہار کا گیت نہ یاد آیا ہوتا۔

سورج کماری کہہ رہی تھی۔ ’’بابوجی! میں نے سُنا ہے کہ اس وادی میں بہنے والی پانچوں ندیوں کا پانی، جو اتنا قریب قریب بہتا ہے، ایک دوسری سے کم و بیش ٹھنڈا ہے۔‘‘

جے چند بولا۔ ’’ شاید یہ ٹھیک ہو!‘‘

میں سوچنے لگا کہ سب مرد بھی تو ایک سی طبیعت کے مالک نہیں ہوتے۔۔۔ عورتیں بھی طبیعت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتیں۔۔۔ واہ ری قدرت، پنچ ترنی کی پانچوں ندیوں کا پانی بھی یکساں ٹھنڈا نہیں!

 ’’پاربتی ان ندیوں میں باری باری سے نہایا کرتی تھی، بابوجی!‘‘

 ’’تم سے کس نے کہا؟‘‘

 ’’جیا لال نے۔‘‘

جیالال چونک پڑا۔ سورج کماری نے عیش طلب ہنسی ہنس کر جے چند کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ خود بھی ایک پاربتی ہو، اور اپنے شِو کو رجھانے کا جتن کر رہی ہو۔

میں نے عزیزا سے کوئی دوسرا گیت گانے کا مطالبہ کیا۔ وہ گا رہا تھا:

 ’’ونی ومئی آرولِن یارکُنی مے لکھنا؟

چھوہ لو گم مس ولن یارکُنی مے لکھنا؟

ومئی سیندزئینی یارکُنی مے لکھنا؟

– ’’آرول کے پھولوں میں تمھیں تلاش کروں گی۔ کہیں تم ملو گے نہیں (میرے محبوب)؟ میرے بال بال کو خود سے نفرت ہو گئی ہے۔ کہیں تم ملو گے نہیں (میرے محبوب؟) سندھ نالے کے پانیوں پر تمھیں تلاش کروں گی۔ کہیں تم مِلو گے نہیں (میرے محبوب؟‘‘)

رفیع اُس درخت کی طرح تھا، جسے جھنجھوڑنے پر اونچی ٹہنی پر لگا ہوا پھل نیچے نہیں گِرتا۔ اُس نے ایک بھی گیت نہ سنایا، لیکن جیالال کافی اُچھل پڑا اور بغیر رسمی تقاضے کے اُس نے گانا شروع کیا:

چُوری یار چُولم تائے، تہی ماڈے اُوٹھ دون؟

تہی ماڈے اُوٹھ وون؟

دُورن مارن گرائے لو لو، گرائے لولو!

وتھی دی وگ نیادرد دہائے کرونے

سنگرمالن چھائے لولو، چھائے لولو!‘‘

– ’’میرا محبوب چوری چوری بھاگ گیا۔ کیا تم نے اُسے دیکھا ہے کہیں، دیکھا ہے کہیں؟- کان کے سبزے ہلاتے ہوئے، ہلاتے ہوے! اُٹھو پریو! ہم ’’رود‘‘ ناچ ناچیں گے، پہاڑیوں کی چھاؤں میں، چھاؤں میں!‘‘

جیالال مُسکرا رہا تھا۔ شاید خود ہی اپنے گیت پر خوش ہو رہا تھا۔ سورج کماری کی طرف للچائی ہوئی آنکھوں سے دیکھنا بیکار نہ رہا۔ وہ اُس کی زبان نہ سمجھتی تھی، داد نہ دے سکتی تھی، لیکن اُسے مُسکراتا دیکھ کر وہ بھی مسکرانے لگی۔

سورج کماری کی مسکراہٹ میں کتنی موہنی تھی۔ وہ کالی داس کی کسی حسن و عشق کی نظم کی طرح تھی۔ جس میں الفاظ ایک سے زیادہ معنی پا اُٹھتے ہیں۔ چنانچہ میری سمجھ میں یہی بات آئی کہ اُس کی مسکراہٹ جے چند اور جیا لال کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے ہے۔

مگر میں اس مایا میں پھنسنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ماضی کی پُرانی کہانی ’’کچ دیویانی‘‘ میری آنکھوں کے آگے پھر گئی- سورج کماری شاید دیویانی تھی اور میں نے محسوس کیا کہ میں بھی کسی کچ سے کم نہیں۔

ماضی کا کچ سورگ کا رہنے والا تھا۔ میں اسی دھرتی کا۔ یہی فرق تھا۔ وہ دھرتی پر ایک رِشی کے آشرم میں زندہ جاوید رہنے کی وِدّیا سیکھنے آیا تھا۔ اور میں نے یاترا کے دن کاٹنے کے لیے جے چند کے خیمے میں پناہ لی تھی۔ سورگ سے چلتے وقت کچ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ ودّیا سیکھ کر واپس سورگ میں لوٹنا اور وہاں کے باسیوں کو اس کا فیض پہچانا کبھی نہ بھولے گا۔ اس کے لیے سب سے ضروری یہی تھا کہ وہ برہمچاری کے دھرم پر برقرار رہے۔ رِشی کسی کو یہ وِدّیا آسانی سے سکھاتا نہ تھا۔ کتنے ہی نوجوان اُس سے پہلے بھی آ چکے تھے۔ ہر کوئی رِشی کے غصّے کی تاب نہ لا کر وہیں ختم ہو گیا۔ مگر جب کچ آیا تو رِشی کی لڑکی دیویانی اُس پر شیدا ہو گئی تھی۔ اپنے باپ سے فرمائش کر کے اُس نے اُسے وِدّیا سکھانے پر رضامند کر لیا۔ جب کچ یہ وِدّیا سیکھ چکا تو وہ واپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ دیویانی کہتی ہے- ’’دیکھیو اس وینومتی ندی کو مت بھولیو۔ یہ تو خود محبت کی طرح بہتی ہے!‘‘

کچ جواب دیتا ہے ’’اسے میں کبھی نہ بھولوں گا۔۔۔ اسی کے قریب، اُس دن جب میں یہاں پہنچا تھا۔ میں نے تجھے پھول چُنتے دیکھا تھا۔۔۔ اور میں نے کہا تھا۔ میرے لائق سیوا ہو تو کہو۔‘‘

دیویانی کہتی ہے۔۔۔ ’’ہاں اِسی طرح ہمارا پیار شروع ہوا تھا۔۔۔ اب تم میرے ہو۔۔۔ عورت کے دل کی قیمت پہچانو۔۔۔ پیار بھی کسی وِدّیا سے سستا نہیں۔۔۔ اور اب تمام دیوتا، اور اُن کا بھگوان اپنی مشترکہ طاقت سے بھی تمھیں واپس نہیں لے سکیں گے۔۔۔! مجھے پھول پیش کرنے کے خیال سے بیسیوں بار تم نے کتاب پرے پھینک دی تھی۔۔۔ اَن گنت بار تم نے مجھے وہ گیت سنائے تھے جو سدا سورگ میں گائے جاتے ہیں۔ تم نے یہ رویّہ صرف اِسی لیے تو اختیار نہیں کیا تھا کہ یوں مجھے خوش رکھ سکو اور آسانی سے وہ وِدّیا سیکھ لو جسے میرے پِتا جی نے پہلے کسی کو سکھانا منظور نہیں کیا تھا۔۔۔‘‘

کچ کہتا ہے۔ ’’مجھے معاف کر دے دیویانی!۔۔۔ سورگ میں تو مجھے ضرور جانا ہے۔۔۔ پھر میں تو برہمچاری ہوں!‘‘

 ’’برہمچاری!۔۔۔ ایک راہی کی طرح تُو یہاں آ نکلا تھا۔ دھُوپ تیز تھی۔ چھاؤں دیکھ کر تُو یہاں آ بیٹھا۔ پھول چُن کر تُو نے میرے لیے ایک ہار بنایا تھا۔۔۔ اب خود ہی اپنے ہاتھوں سے تُو ہار کا دھاگا توڑ رہا ہے۔۔۔ دیکھ، پھول گِرے جا رہے ہیں۔۔۔!‘‘

 ’’برہمچاری تو میں ہوں ہی۔ سورگ میں ہر کوئی میرے انتظار میں ہو گا۔۔۔ وہاں مجھے جانا ضرور ہے۔۔۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اُس سورگ میں مجھے اب شانتی نصیب نہ ہو گی۔‘‘

میں نے سوچا کہ ایک لحاظ سے میں کچ سے کہیں زیادہ معقول وجہ پیش کر سکتا ہوں۔ میں کہہ سکتا ہوں۔ ’’سورج کماری! تیری مسکراہٹ صرف تیرے خاوند کے لیے ہونی چاہیے۔ دیویانی کی طرح تو کسی رشی کی کنواری لڑکی تھوڑا ہی ہے۔‘‘

سورج کماری انگڑائی لے رہی تھی۔ اُس کے بالوں کی ایک لٹ بائیں گال پر سرک آئی تھی۔ میری طرف مخاطب ہو کر بولی۔ ’’بس یا ابھی اور۔۔۔؟‘‘

میں نے اُس کا پورا مطلب سمجھے بغیر ہی کہہ دیا۔ ’’بس۔ اور نہیں۔‘‘

 ’’اور نہیں۔۔۔ خوب رہی! میں تو ادھر کی زبان سمجھتی نہیں۔ تمھاری خاطر بابوجی نے عزیزا کو یہاں بُلایا۔ اب تھوڑے سے گیت سُن کر ہی تمھاری بھوک مِٹ گئی؟ تو یوں ہی گیتوں کی رَٹ لگا رکھی تھی پہلگام میں؟ ۔۔۔‘‘

میں نے کہا ’’نہیں بی بی جی، میں نے سوچا آپ کو نیند آ رہی ہے اور شاید عزیزا بھی سونا چاہتا ہے۔‘‘

عزیزا کچھ نہ بولا اور جے چند نے محفل برخاست کر دی۔ عزیزا اور رفیع چلے گئے اور رسوئیاں جے چند اور سورج کماری کے بستر لگا کر ہمارے پاس آ بیٹھا۔

سورج کماری پُوچھ رہی تھی۔ ’’بابوجی! سُنا ہے گُپھا میں کبوتروں کا جوڑا بھی درشن دیتا ہے۔‘‘

 ’’صبح کو تم خود ہی دیکھ لو گی۔‘‘

 ’’یہ کبوتر کہاں سے آتے ہیں؟‘‘

 ’’اب یہ میں کیا جانوں؟‘‘

 ’’ایک سُنارن نے بتایا تھا کہ یہ کبوتر شِو اور پاربتی کے رُوپ میں۔‘‘

 ’’شاید عورتوں کا وید یہی کہتا ہو۔‘‘

رسوئیا سو چُکا تھا۔ جے چند اور سورج کماری بھی سوگئے۔ جیالال بولا۔ ’’اُف کتنی سردی ہے!‘‘

 ’’کتنی سردی ہے، برہمچاری ہو کر بھی یہ سردی نہیں سہہ سکتے۔ شرم کا مقام ہے۔‘‘

برہمچاری تو میں ہوں۔ مگر اس آب و ہوا کا عادی نہیں ہوں۔‘‘

 ’’برہمچاری کو تو کسی بھی موسم سے ڈرنا نہیں چاہیے۔‘‘

 ’’تم بھی تو برہمچاری ہو‘‘- اُس نے طعنہ مارا۔

 ’’تو میں کب ڈرتا ہوں؟‘‘

 ’’تو کیا تم خیمے کے باہر کھُلے آسمان کے نیچے سو سکتے ہو؟‘‘

 ’’یہ بات میں نے جوش میں آ کر کہہ دی تھی۔ میں نے اپنی موٹی کشمیری لوئی اُٹھائی اور خیمے سے باہر نکل گیا۔ جیا لال میرے پیچھے بھاگا۔ میں رُک کر کھڑا ہو گیا۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ سنّاٹا تھا۔

وہ بولا۔ ’’ میں نے تو ہنسی میں کہہ دیا تھا اور تم سچ مان گئے۔‘‘

سچ ہو چاہے جھوٹ میں دکھا دوں گا کہ برہمچاری ڈرتا نہیں۔‘‘

 ’’اچھا تو خیمے کے قریب ہی سوجاؤ۔‘‘

میں خیمے کے قریب ہی لوئی میں لپٹ کر لیٹ گیا۔ وہ اندر سے چٹائی نکال لایا۔ بولا۔ ’’اسے نیچے ڈال لو۔ اَیسی تو کوئی شرط نہ تھی کہ ننگی دھرتی پر سو کر دکھاؤ گے۔‘‘

چٹائی ڈال کر وہ میرے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ بولا۔ ’’ارے یار مفت میں کیوں جان گنواتے ہو؟‘‘

’’اونہہ!‘‘ میں نے شانے پھڑکاتے ہوئے کہا ’’مجھے کسی بات کا خطرہ نہیں۔‘‘

 ’’اچھا تو میں ٹھیکیدار صاحب کو جگاتا ہوں۔‘‘ جیالال بولا۔

پھر جیا لال اُس مسلمان چروا ہے کی کہانی سُنانے لگا۔ جس نے ایک بڑا کام کیا تھا۔ یاتری امرناتھ کا رستہ بھول گئے تھے۔ اُس نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا اور اُس کے عوض میں اب تک اُس کی اولاد کو چڑھاوے کا ایک معقول حصّہ ملتا آ رہا ہے۔

میں نے شرارتاً کہا۔ ’’وہ چرواہا ضرور اُس وقت برہمچاری ہو گا۔‘‘

وہ ہنس پڑا اور اندر جا کر لیٹ رہا۔ میں چاند اور تاروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پرانے زمانے میں بڑے بڑے رِشی اِدھر آتے تھے تو خیموں میں تھوڑا ہی رہتے تھے۔ یوں کھلے آسمان تلے پڑ رہتے ہوں گے۔ اس کڑاکے کی سردی سے وہ ڈرتے نہ تھے۔

کچھ دیر کے بعد تارے میری نگاہ میں کانپنے لگے۔ چاند دھُند میں لپٹ گیا۔ خواب آلود پلکوں نے آنکھوں کو سِی دیا، اور۔۔۔

میں نے دیکھا کہ جیا لال گھوڑے پر سوار سورج کماری کو گجرا پیش کر رہا ہے اور وہ پشاور کی ہری دوپٹے والی جوان عورت عجب انداز سے مُسکرا رہی ہے۔ میں نے جیالال کو متنبہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’جیالال! تمھارا نصب العین عورت سے کہیں بلند ہے۔۔۔ عورت ایک اِلیوِژن ہے- مایا!‘‘

جیالال ایک طنز آمیز مسکراہٹ سے میری طرف دیکھنے لگا اور بولا۔ ’’لیکن یہ مایا بھی کس قدر حسین ہے۔ مجھے اس سراب کے پیچھے سرگرداں رہنے دو!‘‘

عزیزا بید مُشک کی ٹہنی لیے آ رہا تھا۔ میں نے معاً اُس سے سوال کیا۔ ’’یہ کس کے لیے لائے ہو عزیزا؟‘‘

 ’’اُس بہار کی دُلہن کے لیے جو خیمے میں اس وقت مستِ خواب ہے۔ ’’عزیزا نے نیم مد ہوش آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اُس وقت مجھے کسی سورج کماری کی آواز سنائی دی۔ جیسے وہ گا رہی ہو- ’’بید مُشک کی خوشبو میرے من میں بس گئی ہے۔۔۔ دُور جنگلوں میں چنبیلی کے پھول کھِل گئے۔ کیا میری آواز تمھارے کانوں تک نہیں پہنچی، میرے محبوب؟‘‘

اور جیسے کوئی جے چند کہہ رہا ہو۔ ’’تمھاری آواز میں نے سُن لی۔ اُٹھو، ہم چراگاہوں کی طرف چڑھیں گے۔‘‘

پھر وہ سورج کماری تتلیوں کے پیچھے بھاگی۔ جے چند بھی اُس کے ساتھ ساتھ رہا۔ سورج کماری کو دیکھ کر مجھے اُس چینی کنواری کا خیال آیا۔ جسے تتلیوں نے پھول سمجھ لیا تھا، اور ٹولیاں بنا کر اس کے گرد جمع ہو گئی تھیں۔۔۔ مگر یہ تتلیاں تو سورج کماری سے بھاگ رہی تھیں۔ اور اُن کا پیچھا کرتے اُس کا سانس چڑھ رہا تھا۔ جے چند کو دیکھ کر مجھے چینی تاریخ کے اُس بادشاہ کی یاد آئی جس نے پنجروں میں سینکڑوں تتلیاں پال رکھی تھیں۔ جب اُس کے باغ میں خوبصورت لڑکیاں جمع ہوتیں تو وہ حُکم دیتا کہ پنجروں کے دروازے کھول دیے جائیں۔ یہ تتلیاں بلا کی سیانی تھیں۔ وہ سب سے خوبصورت لڑکیوں کے گِرد جمع ہو جاتیں اور اس طرح یہ لڑکی بادشاہ کی نگاہوں میں بھی جچ جاتی۔۔۔ کیا اِس جے چند نے بھی تتلیوں کی مدد سے اس سورج کماری کو چُنا تھا، پر یہ تتلیاں تو نہ سورج کماری کی پروا کرتی تھیں نہ جے چند کی۔۔۔

دوڑتی دوڑتی وہ سورج کماری ایک چروا ہے کے پاس جا پہنچی۔ بولی ’’بنسری پھر بجا لینا۔ پہلے میرے لیے تتلی پکڑ دو- وہ سُندر تِتلی جو ابھی ابھی سامنے پھول پر جا بیٹھی ہے۔ ’’شاید تتلی کی بجائے وہ اُس نوجوان چروا ہے ہی کو گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ اور پھر جب اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو اُسے جے چند نظر نہ آیا۔

وہ بدستور گا رہی تھی- ’’کہیں تُم ملو گے نہیں، میرے محبوب؟ آرول کے پھولوں میں تمھاری تلاش کروں گی۔‘‘

کہیں سے کوئی جیالال آ نِکلا۔ بولا۔ ’’تُو نرگس ہے- خمار سے بھرپور۔ تُو شرم سے گردن جھُکائے ہوئے ہے۔‘‘ اور وہ سورج کماری بولی۔ ’’باورے بھونرے! میں تیرے انتظار میں تھی!‘‘

جے چند کو آتا دیکھ کر جیالال بھاگ گیا، ورنہ وہ بُری طرح پٹتا۔ جے چند بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ سورج کماری سر جھکائے کھڑی تھی۔ پاؤں کے انگوٹھے سے وہ زمین کُریدتی رہی۔

میں نے تہیّہ کر لیا کہ مزید یہ کھیل نہ دیکھوں گا۔ اپنی لوئی میں سمٹ کر لیٹ گیا۔ سورج کماری کا خیال تک میرے دِل میں نہ اُٹھے۔ بس یہی میری کوشش تھی۔ مگر سورج کماری تھی کہ سامنے سے ہٹتی ہی نہ تھی۔ میرے پاس آ بیٹھی اور پُر معنی نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اُسے اپنے بالکل قریب پا کر میں بہت گھبرایا اور میں نے چِلّاتے ہوئے کہا۔ ’’عورت! — عورت مایا ہے۔ اور پھر میں تو ایک برہمچاری ہوں۔‘‘

اُس نے میرا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔ میں گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔ ’’نہ بابا! مجھے پاپ لگے گا!‘‘

 ’’اور مجھے بھی؟‘‘

 ’’ہاں۔‘‘

 ’’پیار تو پاپ نہیں؟‘‘

میں چُپ رہا۔ وہ بولی۔ ’’اب یاد آیا۔ جیالال سے گجرا لے کر میں نے اُسے تھوڑی سی مسکراہٹ دے دی تھی۔ اُس دن سے تم کچھ تنے تنے سے رہتے ہو۔۔۔ تمھارے ہاتھ کس طرح شل ہو رہے ہیں! جانتے ہو؟‘‘

 ’’ہو جانے دو۔‘‘

 ’’پاؤں نیلے ہو رہے ہیں۔‘‘

 ’’ہونے دو۔ تم جاؤ۔‘‘

وہ مجھے سہلاتی رہی۔ اُس کے بازو کتنے پُر راحت تھے! اُن میں کتنی گرمجوشی تھی۔ وہ مجھ سے لِپٹ گئی۔ مجھے بھینچنے لگی۔ میں سنبھل نہ سکا۔ جسم ہارتا جاتا تھا۔

کیا سچ مُچ میں وہ دِیا ہوں جس کا تیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جس کی بتّی کبھی بُجھتی نہیں؟ کیا عورت مایا ہے۔۔۔ سورج کماری بھی مایا ہے؟ اُس کے بازوؤں کی گرمجوشی اُس کی لمبی لمبی پلکیں اور اُس کے اُبھرے ہوئے گال، کیا یہ سب مایا ہے؟ اِس پیار سے خدا ناراض ہوتا ہے، تو ہو جائے، یہ بات تھی تو یہ صورتیں نہ بنائی ہوتیں، یہ جذبات نہ دیے ہوتے!

اُوپر تارے جھلملا رہے تھے۔ میرے ذہن میں پیار کے جذبات جاگ رہے تھے۔ میں نے کہا۔ ’’اپنے پریشان بال درست کر لو۔‘‘

وہ کچھ نہ بولی۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ ’’سورج کماری! تم نے کتنی تکلیف کی۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس سردی میں تم یہاں بیٹھی ہو، خیمے میں چلی جاؤ۔‘‘

وہ کچھ نہ بولی۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ بنسری میں سُرجاگ اُٹھیں گے۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ بنسری منہ لگانے ہی سے بجے۔۔۔ ہوا بھی تو سُر جگا سکتی ہے۔۔۔ اور اُس کا گیت مجھے ہمیشہ کے لیے جیت لے گا۔

مجھے ایک پُرانی کہانی یاد آ گئی۔ دیکھا کہ سامنے ایک آشرم ہے۔ میں آشرم کے دروازے کی طرف چلا گیا۔ دیکھا کہ ایک سُندر کنواری کھڑی مُنہ بسور رہی ہے۔ اندر سے رِشی نکلتا ہے۔ پوچھتا ہے۔ ’’کیا دُکھ ہے تجھے دیوی؟‘‘ لڑکی کہتی ہے ’’مجھے بسیرا چاہیے۔‘‘ رِشی گھبرا جاتا ہے۔ ’’بسیرا۔۔۔ پر دیوی! یہاں تو عورت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘ لڑکی کہتی ہے۔ ’’صرف آج کی رات- صبح ہی میں اپنی راہ لوں گی۔‘‘ رِشی کہتا ہے۔ ’’اچھا سامنے اُس کمرے میں چلی جا۔ اندر سے سانکل لگا لیجیو‘‘۔۔۔ نصف رات گزر جانے پر رِشی کی ہوس جاگتی ہے۔ وہ لڑکی کے کمرے کی طرف آتا ہے۔ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ ’’رِشی دیو، یہ پاپ ہو گا۔‘‘ لڑکی اندر سے کہتی ہے۔ تم تو گویا میرے باپ ہو۔ وہ دروازہ نہیں کھولتی۔ رِشی چھت پھاڑنے لگتا ہے۔۔۔ پیشتر اس کے کہ وہ چھت پھاڑ کر اندر کُودتا ہے، وہ سُندرکنواری اپنی عصمت بچانے کے لیے باہر بھاگ جاتی ہے۔۔۔ پھر جیسے کسی نے تصویر اُلٹی لٹکا دی۔ میں نے دیکھا کہ رِشی اپنے ہون کُنڈ کے قریب سو رہا ہے اور وہ سندر کنواری اُس کے پاس آ بیٹھی ہے۔ اُس نے رِشی کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا ہے۔ رِشی گھبراتا ہے۔ پیچ و تاب کھاتا ہے۔ مگر پھیلتے اور سمٹتے ہوئے بازوؤں کی گرفت اُسے بھاگنے سے روکے رکھتی ہے۔۔۔

میرا جسم سردی سے اکڑ رہا تھا۔ اپنی ضد پر جھنجلانے کے لیے جس گرمی کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔ دِل سے باتیں کرتے کرتے میں پھر نیند کے دھارے میں بہہ گیا۔۔۔

میرا سینہ گرم ہو گیا تھا۔ گردن بھی اور شانے بھی۔ پیٹ بھی گرم ہو رہا تھا۔ پیٹ کی نِچلی انتڑیاں ٹھنڈے پانی سے نکل کر آگ کی طرف لپکنے والے بچوں کی طرح جد و جہد کر رہی تھیں۔ گردن کے پاس تو گرم اور خوشگوار خوشبو میں بسی ہوئی سانس لِپٹ رہی تھی۔ زانو ابھی بے حسّ تھے، جیسے وہ میرے نہ تھے۔ اور پاؤں میں کسی نے سیسہ بھر دیا تھا- ٹھنڈا اور بھاری!

میں نے بولنا بند کر دیا تھا، کون جانے یہ کیا چیز تھی۔ جو میرے اندر برہمچریہ کے خیال کا تعاقب کر رہی تھی۔ اس خیال کی آواز جسم کی ایک ایک گہرائی سے سُنی اَن سُنی سی اُٹھ رہی تھی۔ یہ کچھ ایسی حالت تھی، جو سوتے سوتے چھاتی پر ہاتھ آ پڑنے سے ہو جاتی ہے۔۔۔ کوئی میرا دل کھٹکھٹا رہا تھا۔ میں نے ایک انگڑائی لی۔ ہاتھ کی ٹھنڈی اُنگلیاں پیٹ پر آ لگیں۔ اب یہ گرم تھا۔ زانوؤں میں بھی کچھ جُنبش محسوس ہوئی اور یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ پاؤں بھی اب میرے جسم سے الگ نہیں۔

سورج کماری بھی چُپ تھی۔ مگر جب اُس کے بازو مجھے بھینچنے کے لیے پھیلتے اور سمٹتے تھے۔ وہ کنکھیوں سے میری طرف دیکھ کر کچھ کہنا چاہتی۔ مگر اُس کے ہونٹ جو دیر تک اُڑتے رہنے والے پرندوں کی طرح پر سمیٹ کر آرام کر رہے تھے مِل کر رہ جاتے۔ ادھ سوئی سی اُس کی آنکھیں تھیں۔ جیسے گھنے جنگل کے سایوں میں کرنیں جھلملا اُٹھتی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں کسی قدر خاموش مسکراہٹ تھرتھرانے لگتی۔ اپنی آنکھیں میں نے اُس کی گردن کی طرف موڑیں۔ دیکھا کہ اُس کی رگیں مد ہوش سی لیٹی ہوئی ہیں۔

زور سے شانے ہلا کر میں اُس کی آنکھوں کے اندر جھانکنے لگا۔ کیا یوں دیکھنا گناہ ہے؟ کیا برہمچریہ ہی سب سے اُونچی چیز ہے؟ کیا اس کے لیے سب لُطف چھوڑ دینا چاہیے؟- یہ سب لطف جو خوبصورتی، گرمجوشی اور از خود رفتگی سے مل کر بنا ہے؟

سورج کماری جو پہلے کون جانے کس غنودگی میں اُونگھ اُونگھ جاتی تھی، اب شاید کسی سپنے کی راحت بخش چھاؤں کی بجائے خود زندگی میں تھرکنے والے پیار کا آنند لینا چاہتی تھی۔ اُس کی آنکھیں پھیلنے لگیں۔ پلکوں کی سیاہی دھیرے دھیرے دُور ہوتی گئی۔ میری آنکھیں کھُل گئیں۔ کچھ دیر تو نیلے آسمان کے گرد کرنوں کا نظارہ رہا- ایک مست پھیلا ہوا نظارہ! پھر یہ نظارہ سمٹ کر سورج کماری کی آنکھوں میں بدل گیا۔

میرا سر اُس کی گود میں تھا۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں ڈر گیا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ سورج کماری نے اپنا ہاتھ میری آنکھوں پر پھیرا۔ دوبارہ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ خیمے کے اندر ہوں، پاؤں کے پاس انگیٹھی سُلگ رہی ہے۔ اور کئی اُداس چہرے میرے گرد جمع ہیں۔

دیکھنے کی قوّت کے ساتھ ساتھ سُننے کی قوت بھی لوٹ آئی۔ سنسکرت کے کچھ بول میرے کانوں میں پڑے۔ کوئی پنڈت جی میرے لیے پرارتھنا کر رہے تھے۔ اپنے آپ یا ان لوگوں کے کہنے پر۔

میں خاموش تھا۔ احسان مندی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ اپنی ہٹ دھرمی پر پشیمان بھی تھا۔ یہ دونوں خیال کافی دیر تک رہے۔ پھر کچھ شیطانی جذبے، جن سے ہماری زندگی قائم ہے، دھیرے دھیرے جاگنے لگے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ ہٹ دھرمی نہ ہوتی تو سورج کماری کی گود کا لطف اور سکون کیسے نصیب ہوتا۔ سورج کماری کی آنکھیں ایکا ایکی چمک اُٹھیں۔ میں ڈرا۔ کیا اُس نے میرے جذبات کا بھید پا لیا ہے؟ شرم، بے بسی، خود فریبی اور نہ جانے کِن کِن چیزوں سے پیدا ہونے والی ایک مسکراہٹ میری نوخیز مونچھوں ہی میں کہیں گُم ہو گئی۔

سورج کماری نے لوگوں سے کہا ’’اب یہ ٹھیک ہیں۔۔۔ ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ لوگ بستر وغیرہ سنبھالیے۔ امرناتھ جانے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘

لوگ اطمینان سے سفر کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ مگر پنڈت جی بدستور منتر پڑھے جا رہے تھے۔ اُن کی آنکھیں بند تھیں۔ سورج کماری نے ایک بار پنڈت جی کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف مُنہ موڑ کر ایک للچائی سی ادا سے مسکرا کہا۔ ’’اُٹھو برہمچاری۱؂ جی!۔۔۔‘‘

٭٭٭

چاچا فضل دین

روپم کو مجھ سے محبت ہے نہ کہ میرے گانو والوں سے۔ وہ تو میرے ہی کردار سے واقف ہے، میرے ماں باپ اور دور و نزدیک کے بھائی بہنوں سے تو اسے کوئی سروکار نہیں۔ بھلے آدمی نے کبھی بھول کر بھی تو اس بات میں دلچسپی نہیں لی کہ میرے گانو کا کیا نام ہے۔ ایک دو بار شروع میں میں نے اسے اپنے گانو کا نام بتایا بھی تو مجھے یہی محسوس ہوا کہ اسے یہ نام بالکل نہیں چھو سکا۔ اپنے گانو والوں کے بارے میں بھی میں نے ایک آدھ بار اسے کچھ نہ کچھ ضرور بتانا چاہا۔ لیکن جب سامنے بیٹھا انسان کسی کی بات سُن کر بالکل بے حِس معلوم ہو رہا ہو، تو بات سنانے والے کو اتنا تو لازم ہے کہ بات کا رُخ بدل دے۔ ہمارا خاندان بھی کون سا شاہی خاندان ہے اور میرے بھائی بہن بھی کون سے شہزادے شہزادیاں ہیں کہ روپم کا دھیان کھینچ سکیں۔ اب تو ایک عرصہ ہو گیا۔ میں نے کبھی بھول کر بھی روپم کے سامنے اپنے گانو اور اپنے خاندان کے بارے میں زبان نہیں کھولی۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں بھی روپم کے گانو کے بارے میں کبھی کچھ نہیں پوچھتا اس کا خیال ہے کہ وہ ملتان شہر میں پیدا ہوا۔ اور اس لحاظ سے وہ ایک شہری ہے نہ کہ دیہاتی، میں کہتا ہوں ’’چلو بھئی روپم، ہم دیہاتی سہی، تمھیں تمھارا شہر مبارک!‘‘

 ’’میرا شہر مجھے کیسے مبارک؟‘‘ روپم ہنس کر کہتا ہے۔ ’’میرا شہر تو ادھر رہ گیا- پاکستان میں! میرے بھائی بھی اب میری طرح دلّی میں رہتے ہیں۔ اور تم تو جانتے ہو کہ انسان جس شہر میں رہتا ہے وہی اس کا شہر بن جاتا ہے۔‘‘

روپم کا اصلی نام ہے رُوپ مَدل۔ لیکن میں اُسے روپم کہہ کر پکارتا ہوں اور میرا یہ انداز اُسے پسند ہے۔ اکثر وہ ہنس کر کہتا ہے۔ ’’روپ مدل اور روپم میں بھی اتنا ہی فرق ہے جتنا ملتان اور دلّی میں۔ پھر بھی مجھے ملتان کے ادھر رہ جانے کا ذرا بھی غم نہیں۔ ارے میاں! آخر ملتان میں بھی ایسی کیا بات تھی؟ وہاں چناب تھا تو یہاں جمنا موجود ہے اور پھر ایک بات یہ بھی تو ہے کہ چناب میں تو اکثر سیلاب آ جاتا تھا اور بیچاری جمنا تو کبھی کبھار ہی ناراض ہوتی ہے۔‘‘

روپم کو دلّی میں ملازمت کرتے چودہ برس ہو گئے۔ کالج سے نکلتے ہی اُسے غمِ روزگار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پِتا جی نے صاف صاف اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ چنانچہ وہ دلّی چلا آیا۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ اسے دلی میں کام ملتے دیر نہ لگی وہ مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے لیکن جہاں تک ملازمت کا تعلق ہے، میرا عرصۂ ملازمت تو سات سال کا بھی مشکل سے ہی ہو گا۔ اکثر میں اس سے کہتا ہوں۔ ’’دیکھو روپم! میرے لیے ملازمت کا تجربہ ابھی تک نیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ میں ملازمت میں پوری طرح بھیگ نہیں سکا۔‘‘

اس وقت روپم یہ شکایت شروع کر دیتا ہے کہ ہم لوگ اپنا بہترین وقت یعنی دن میں دس بجے سے پانچ بجے تک کا وقت تو ایک طرح سے کولھو کے بیل کی طرح گزار دیتے ہیں۔‘‘

میں ہنس کر کہتا ہوں۔ ’’اب اس زندگی کا اپنا مزا ہے۔‘‘

 ’’کیا خاک مزا ہے؟‘‘ وہ جیسے جل بھُن کر کہتا ہے۔ ’’اب دیکھیے ہم صبح سویرے جاگتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سونے کا سورج طلوع ہو رہا ہے لیکن ایک دو گھنٹے بھی مشکل سے گذرتے ہوں گے کہ دفتر کی طرف بھاگنے کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے۔ دفتر میں جا کر پانچ بجے تک کسی نہ کسی طرح زندگی کا اتنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ اور وہ بھی محض دو روٹیوں کی خاطر!‘‘

 ’’لیکن یہ دو روٹیاں بھی تو ضروری ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں ’’مانا کہ ہم تم فن کار ہیں۔ لیکن آخر بھوک تو ہمیں بھی لگتی ہے اور جیسی حالت سے ہمارا ملک اس وقت گزر رہا ہے ہم جانتے ہیں کہ فن سے دلچسپی رکھنے والے لوگ محض فن کی بدولت روٹی نہیں کھا سکتے۔‘‘

روپم بات کا رُخ بدل کر کہتا ہے ’’جو مزہ گھومنے کا ہے وہ ایک جگہ بندھ کر رہنے کا تو نہیں ہو سکتا۔ آخر ہینرلٹ نے سیروسیاحت پر اپنا شاہکار مضمون یوں ہی تو نہیں لکھ دیا تھا۔‘‘

 ’’لیکن انسان عمر بھر سیروسیاحت تو نہیں کر سکتا۔‘‘

 ’’تو اپنی شکست قبول کر لو۔‘‘

 ’’مطلب؟‘‘

 ’’مطلب یہی کہ تم وہیں آ کر کھڑے ہو گئے ہو جہاں سے شروع کیا تھا‘‘

 ’’سچ پوچھو تو میں تو اب بھی سیروسیاحت کا مزہ لینے سے نہیں چوکتا۔‘‘

میرا مطلب ہے کہ جو شخص بیس برس تک سیروسیاحت میں عمر گزارتا رہا اور وہ بھی مست قلندر انداز سے، وہ کسی کے بندھن کو کب تسلیم کرتا ہے؟ دماغی طور پر تو وہ برابر سیاحت کرتا رہتا ہے۔ یہی حالت میری ہے۔‘‘

 ’’سیروسیاحت کا ذائقہ اور ہوتا ہے۔ اب دفتر کی بندھی بندھائی زندگی کو بھی سیروسیاحت سے ہم پلّہ ٹھیرانے کا تو یہ مطلب ہے کہ اب تم کبھی سفر پر نہیں نکلو گے۔ حالانکہ اپنا ملک پہلے ہی ہمالیہ سے کنیا کماری تک ہی پھیلا ہوا ہے، لیکن دنیا تو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘

روپم کا فلسفہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں جھنجھلا کر کہتا ہوں۔ ’’مان لیجیے کہ میں بیس برس تک اپنے ملک کے متعدد کونوں کا جائزہ لیتا رہا۔ اور اب میں نئے حالات کے پیش نظر دلّی کا جائزہ لے رہا ہوں۔ تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟ دلّی میں بھی تو ایک دنیا آباد ہے۔ جس کے مشاہدے کے لیے کافی وقت چاہیے۔‘‘

روپم برابر ’’میں نہ مانوں‘‘ انداز میں سر ہلاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں نے ہینرلٹ کا مضمون پڑھ کر نہیں بلکہ صحیح معنوں میں پیر کے چکر کے پھیر میں پڑ کر کالج کی شروع کی زندگی میں ہی گھر والوں کی رضامندی کے بغیر گھر سے بھاگ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میری سیروسیاحت کی اس پر چھاپ ہے لیکن نہ معلوم کس جذبے کے تحت وہ اکثر اپنی زندگی سے بیزار ہو کر کہہ اُٹھتا ہے۔ ’’یہاں ہم اپنی زندگی بیکار کھو رہے ہیں!‘‘

میں کہتا ہوں ’’کم سے کم میرا تو یہ خیال نہیں ہے، روپم!‘‘

 ’’تو ہم کون سا تیر چلا رہے ہیں؟‘‘

 ’’اب یہ تو بڑا ٹیڑھا سوال ہے۔‘‘

 ’’تو سیدھا سوال کون سا ہے؟‘‘

 ’’خیر چھوڑو ایک سوال کا جواب کسی دوسرے سوال سے دینا مجھے ناپسند ہے۔ دفتر کی زندگی کے علاوہ بھی تو ہماری زندگی ہے۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ ہم کوئی کام کی چیز لکھ بھی رہے ہیں یا نہیں۔‘‘

 ’’یہ بھی تو ایک دوسرا درد سر ہے۔ یہ تو خیریت ہے کہ ہم لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے دوستوں کے نقص نکالتے وقت یہی کہتے ہیں۔ یار! وہ ہمارا فلاں دوست کچھ بھی تو نہیں لکھتا یا یہ کہ اگر وہ لکھتا ہے تو ہم کہتے ہیں، یار!وہ کیا خاک لکھتا ہے۔ اگر ہم پہلوان ہوتے تو اپنے دوستوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے- یار! فلاں آدمی بھی کوئی آدمی ہے وہ ہماری طرح دس بیس سیر دودھ تو پی کر دِکھا نہیں سکتا۔ اگر ہم قصاب ہوتے تو یہی کہتے- فلاں شخص بھی کدھر کا انسان ہے۔ وہ تو ایک چیونٹی کو بھی نہیں مار سکتا۔‘‘

روپم کا فلسفہ کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔ میں جھنجھلا کر کہتا ہوں ’’تو پھر کیا کیا جائے۔‘‘

 ’’سیروسیاحت سے مُنہ موڑنے کا جو لازمی نتیجہ ہو سکتا ہے وہ تو بھگتنا ہی ہو گا۔ ایک تم ہو کہ سیروسیاحت کی زندگی سے مُنہ موڑ کر کولھو کے بیل بن گئے اور جرأتِ رندانہ کا یہ حال ہے کہ اسے بھی سیروسیاحت سے تعبیر کر رہے ہو۔‘‘

 ’’تو گویا ملازمت کی کوئی خوبی نہیں ہے اور سیروسیاحت پر ہی سب خوبیاں مرکوز ہیں؟ لیکن روپم صاحب! سچ کہتا ہوں کہ میں تو دونوں کا رس لے چکا ہوں۔ دونوں میں خوبیاں بھی اور دونوں میں نقص بھی ہیں۔‘‘

 ’’سیروسیاحت میں کیا نقص ہے؟ میں بھی تو سُنوں!‘‘

 ’’بھائی میرے اس کے لیے بھی تو پیسہ چاہیے۔ پیسے کے بغیر بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘

 ’’لیکن ملازمت بھی تو بہت بڑی بکواس ہے۔‘‘

 ’’یہ محض کہنے کی بات ہے۔‘‘

 ’’اجی میں تو واقعی اسی طرح محسوس کرتا ہوں۔‘‘

 ’’تو لاؤ ہاتھ۔ آؤ فیصلہ کر لیں۔ تم تیار ہو تو کل سے ہم اپنے اپنے دفتر جانا بند کر دیں۔‘‘

روپم نے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو تم نے بھی آج کسی نہ کسی طرح یہ تو محسوس کیا کہ دفتر کی بندھی بندھائی سی زندگی بیکار اور فضول ہے۔ لیکن کل سے ہی ہم کام پر جانا چھوڑ دیں، اس بارے میں مزید غور کرنا ہو گا۔‘‘

اس دن سے روپم کچھ کچھ کٹا کٹا سا رہنے لگا۔ میں نے تو اس کا چیلنج منظور کر لیا تھا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ کبھی چودہ سال کی نیم سرکاری نوکری سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہ ہو گا۔ اب جب بھی وہ مجھ سے ملتا۔ میں ہمیشہ یہی کہتا۔ ’’ ہاں تو روپم کیا ارادہ ہے؟ تھوڑا بہت تو بینک بیلنس تمھارا بھی ہو گا۔‘‘ اور میں بھی کسی نہ کسی طرح بیوی بچوں کی گزربسر کے لیے اپنی چھوٹی سی اکاؤنٹ بُک بیوی کے نام پر ٹرانسفر کرا کر تمھارے ساتھ چل پڑوں گا۔‘‘

 ’’سوچیں گے۔‘‘ وہ ہمیشہ سنجیدہ ہو کر کہتا۔ ’’ویسے فیصلہ تو ہم کر ہی چکے ہیں۔ اب تو محض اس پر عمل شروع کرنے کی گھڑی کا انتظار ہے۔‘‘

میں اس سے ملتان کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیتا تو وہ کہتا، ’’ملتان کو گولی مارو۔ وہاں ایسی کیا بات تھی۔ دلّی بھی بُری نہیں۔‘‘

 ’’اپنے بچپن کا کوئی واقعہ ہی سناؤ، جو ملتان سے وابستہ ہو، یا جس میں دریائے چناب کی لہروں کی یاد تھرکتی ہو۔‘‘

 ’’اس کے جواب میں وہ کسی شاعر کا یہ شعر گنگناتا!‘‘ ع

یاد نہ کر دِلِ حزیں بھولی ہوئی کہانیاں!

ایک آدھ دفعہ اس نے مجھے یہ ضرور بتایا کہ اس کے پتاجی اسٹیشن ماسٹر تھے۔ اور ان کی عمر ریلوے کی نوکری کرتے کرتے کٹی اور ریلوے اسٹیشن کی بجلی کی بتیوں کا منظر اس کے دل و دماغ پر اتنا غالب ہے کہ اب بھی جب موقع ملتا ہے وہ دلّی کے ریلوے اسٹیشن پر جا نکلتا ہے اور گاڑیوں کے آتے جاتے اور بجلی کی روشنی میں آتے جاتے مسافروں کو دیکھتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی وہ زور دے کر کہہ چکا تھا کہ اس کے لیے بھی اسے خواہ مخواہ ملتان کے ریلوے اسٹیشن کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جیسا کہ اس کا خیال تھا۔ ملتان کے ریلوے اسٹیشن سے تو دلّی کا ریلوے اسٹیشن کہیں زیادہ بڑا اور عالی شان تھا۔

میں ہمیشہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا کہ روپم کی جڑ کس زمیں میں دھنسی ہوئی ہے کیونکہ نہ اسے ملتان کے ادھر پاکستان میں رہنے کا غم تھا اور نہ ملتان سے دلّی چلے آنے کی ہی کوئی خلش اسے کبھی ستاتی تھی۔ پھر بھی یہ اس کی دیدہ دلیری تھی کہ وہ عجب جذباتی لہجے میں شاعر کا یہ شعر گنگنانا شروع کر دیتا۔ ؎

مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے

چمن اُڑ گئے آندھیاں آتے آتے

مجھے یہ پتہ چلاتے بھی دیر نہ لگی کہ داغؔ کا یہ شعر روپم نے پہلے پہل ناشاد سے سُنا تھا۔ اب ناشاد بھی تو میرا دوست تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ کہیں غلطی سے روپم کو اپنے لاہور جانے کا قصہ سُنا بیٹھا۔ جہاں اُسے ایک مشاعرے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ قصہ یہ تھا کہ ناشاد کو لاہور میں کرشن نگر کی اس گلی میں کچھ دوستوں نے ایک جگہ چائے پر بُلایا۔ جہاں در اصل اُس کا پُرانا گھر واقع تھا۔ ناشاد کو پچھلی یادوں نے اتنا گھیر لیا تھا کہ میز پر چائے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس کا گلا اتنا بھر آیا کہ وہ چائے کا پیالہ اُٹھا کر حلق میں چائے کا ایک بھی گھونٹ نہ اُنڈیل سکا۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ جتنے لوگ چائے پر بلائے گئے تھے ان میں سے ایک بھی شخص چائے کا گھونٹ اپنے حلق سے نیچے نہ اُتار سکا۔ اس واقعہ پر روپم نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ہمیں تو سوائے جذبات کے اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہ جذبات محض کمزوری کی علامت ہو سکتے ہیں۔‘‘ ناشاد کا خیال تھا کہ روپم نے اسے سمجھنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی تھی اور اپنے نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے اس نے روپم کو داغؔ کا یہ شعر سنایا تھا جو اگرچہ آج سے بیسیوں سال پیشتر لکھا گیا تھا لیکن وہ اتنا واضح اور زوردار تھا کہ اگر اسے شرنارتھیوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ہم شاعری کی داد دیے بِنا نہیں رہ سکتے، اس کے جواب میں بھی روپم نے یہی کہا تھا ’’خیر شعر بڑا نہیں ناشاد صاحب! لیکن میں یہاں بھی وہی بات عرض کروں گا کہ ہم محض جذباتی ہو کر نہ رہ جائیں۔‘‘

ایک دن ہم تینوں دوست ایک ریستوران میں شام کی چائے پر اکٹھے ہو گئے ناشاد نے جان بوجھ کر وہ لاہور والا واقعہ سُنا ڈالا۔ اور میں نے چھوٹتے ہی کہا۔ ’’یہ تو بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس کے پسِ منظر میں وہ درد پنہاں ہے جو اِن دیواروں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے جو ملک ملک کے بیچ میں انسان نے کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

 ’’واقعی‘‘ ناشاد نے جیسے آج پہلی بار اس واقعہ کی نوعیت کو محسوس کیا۔ ’’کہاں ایک سمندر ختم ہوتا ہے اور کہاں دوسرا سمندر شروع ہوتا ہے۔‘‘ یہ بتانے کے لیے پانی پر کوئی لکیر نظر نہیں آ سکتی۔‘‘ میں نے زور دے کر کہا۔ ’’اسی طرح انسانیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی ایک ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان اس گلی کو بھول جائے جہاں اس کا بچپن بیتا۔‘‘

 ’’لیکن مجھے تو ملتان کی یاد کبھی نہیں ستاتی۔ اور نہ ہی اس گلی کی یاد مجھے کبھی پریشان کرتی ہے جہاں میرا بچپن گزرا۔‘‘ روپم نے چائے کے پیالے میں چمچہ ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ محض اس لیے کہ میں جذبات کو اپنے دل و دماغ پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتا۔‘‘

 ’’اور اسی لیے شاید تم نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم نوکری کو خیرباد کہہ کر سیروسیاحت پر نکل پڑیں۔‘‘ میں نے روپم کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے دھوئیں کے چھلوں کو بنتے بگڑتے دیکھ رہا تھا۔

ناشاد نے کہا۔ ’’دیکھیے میں آپ لوگوں کی طرح کہیں ملازم نہیں ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ میں نے اپنی آزادی کس طرح خریدی ہے یہ شاید آپ لوگ نہیں جانتے۔ ہاں تو مجھے کام مل سکتا ہے۔ تین چار سو روپیے تو فی زمانہ کہیں نہیں گئے۔ لیکن میں یہ سوچ کر خوش ہو لیتا ہوں کہ میں نے تین چار سو روپیوں پر لات نہیں ماری بلکہ سمجھو کہ میں نے یہ روپیے کما لیے اور انھیں صرف کر کے اپنی آزادی خرید لی۔‘‘

 ’’پھر بھی میں آپ لوگوں کو یہی رائے دوں گا کہ آپ نوکری نہ چھوڑیں۔‘‘ ناشاد نے سنجیدہ ہو کر کہا۔

میں نے کہا۔ ’’یہ بحث میں بھی کر چکا ہوں، لیکن روپم نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ تم بیس برس تک سیروسیاحت کر چکے ہو۔ لیکن بہتر ہو گا کہ پھر سے سیروسیاحت کرو میرے ساتھ، ورنہ سیروسیاحت کا اب تک حاصل کیا ہوا مزہ بھی کر کرا ہو جائے گا۔‘‘

 ’’تو تم نے کیا جواب دیا؟‘‘ ناشاد نے جھٹ پوچھ لیا۔

 ’’میں نے لاکھ کہا کہ میں آج بھی اپنے کمرے میں اپنی پچھلی سیروسیاحت کے بل بوتے پر بوالعجبی کو بلا سکتا ہوں جو کہ در اصل میری زندگی کا حاصل ہے لیکن روپم نہیں مانتا۔ اب وہ تمھارے سامنے بیٹھا ہے۔ یقین نہ آ رہا ہو تو خود اسی سے پوچھ لو۔‘‘

 ’’روپم خاموش بیٹھا رہا۔ وہ سگریٹ کے کش لگاتا رہا۔ مسکراتا رہا۔ مچھوے کی طرح کوئی نئی دلیل ڈھونڈتا رہا۔ جسے آج کی شام ایک مچھلی کی طرح اپنے جال میں پھانس لے۔ لیکن شاید ناشاد کی موجودگی میں اسے کوئی دلیل سوجھ نہیں رہی تھی۔‘‘

ناشاد بولا۔ ’’خیر چھوڑو۔ ہم بھی کیا بحث لے بیٹھے۔ کوئی مزے دار بات سُنا ؤ۔‘‘

 ’’کیسی بات سُننا پسند کرو گے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’جیسی بات چاہو حاضر کر سکتا ہوں۔ آخر بندہ بیس برس تک گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہے اور سیروسیاحت کا واقعی سب سے بڑا جادو یہی ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں ایک نیا گداز پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایسی بوالعجبی اس کے ہاتھ لگتی ہے جسے میں تو الہ دین کے چراغ سے تشبیہ دے سکتا ہوں۔‘‘

 ’’اتنی جسارت؟‘‘ روپم نے جیسے اُبھر کر کہا۔ ’’کبھی یہ بھی سوچا کہ سیروسیاحت سے ہاتھ دھوئے کتنے برس بیت گئے۔ ’سات سال‘ اور جناب سات سال کچھ کم نہیں ہوئے۔ اب تو تم بھی میری طرح کولھو کے بیل ہو۔ ہر روز دفتر کی طرف بھاگتے ہو۔ چاہے سونے کا سورج لاکھ کہہ رہا ہو کہ آج تو کہیں گھومنے کا دِن ہے۔‘‘

 ’’اب یہ تو بہت فضول سی دلیل ہے۔‘‘ ناشاد نے ہنس کر کہا۔ اگرچہ میں تو آپ لوگوں سے یہی کہہ سکتا تھا کہ میری طرح آزاد ہو جاؤ۔ لیکن نہیں۔ میں یہ غلطی نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں مانتا ہوں کہ ہر شخص میری طرح آزادی کی قیمت ادا نہیں کر سکتا اور پھر میں پوچھتا ہوں کہ سیروسیاحت کا آپ کے نزدیک کیا مصرف ہے۔ ’’پہلے تو آپ کو اپنے پس منظر کے ساتھ یکسوئی کا احساس پیدا کرنا ہو گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان دور دور تک دنیا کو دیکھنے کے لیے جا سکتا ہے۔ لیکن کبھی یہ بھی سوچا کہ اس زمین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جہاں آپ پیدا ہوئے، جہاں آپ کا بچپن بیتا۔ جہاں ایک پیڑ کی طرح آپ کی جڑیں زمین کے نیچے دھنستی چلی گئیں۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’میرے ذہن میں وہ سینکڑوں ہزاروں گانو گھوم جاتے ہیں جہاں میرے پانو کا چکر مجھے لے گیا۔ میں ان انسانوں کی یاد ہی کو پاتا ہوں جنھیں میں نے اپنے سفر کے دوران میں دیکھا۔ جن کا لب و لہجہ دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر مجھے متاثر کرتا رہا۔ وہ زندگی مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے جس کی بدولت میں حقیقت کی گہرائیوں کو سمجھنے کے قابل ہو سکا۔‘‘

 ’’یہ سب ٹھیک ہے‘‘ ناشاد نے ہنس کر کہا۔ میں تو یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو میری طرح آپ کے گانو کی گلی کہاں تک اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘

 ’’گانو کی گلیاں تو ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں جو چائے کی پیالی پر بَہک کر رو سکتے ہیں۔‘‘ روپم نے شاہانہ انداز میں کہا۔ ’’ہم تو ان کھوکھلے جذبات سے بے نیاز ہیں۔‘‘

 ’’اچھا تو لو ہماری گلی کا قصہ سن لو۔ میں نے کہا، شروع میں پچھلے برس کی بات ہے کہ میں اپنے گانو گیا۔ یہ سب سے لمبا عرصہ تھا جو میں نے اپنی تمام زندگی میں گانوسے باہر گزارا۔ میرا مطلب ہے کہ پہلے تو میں ہمیشہ ہر دوسرے تیسرے سال اپنے گانو ہو آتا تھا لیکن اب کے آٹھ برس کا عرصہ گذر گیا اور میں اس دوران میں ایک بار بھی گانو نہ جا سکا۔ پچھلے تین چار برسوں سے میں ہمیشہ یہ محسوس کرتا تھا کہ میرا گانو مجھے بُلا رہا ہے۔ کئی بار میں نے پروگرام بنایا لیکن کوئی نہ کوئی وجہ غالب آ جاتی اور میرا پروگرام بیچ ہی میں رہ جاتا۔ لیکن جب میں پچھلے برس اپنے گانو گیا تو میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔‘‘

 ’’وہ کیسے؟‘‘ ناشاد نے جھٹ پوچھ لیا۔

روپم بیٹھا سگریٹ کے دھوئیں کے چھلے اُڑاتا رہا۔ اسے شاید میری باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ کیونکہ اس کے نزدیک ملتان اور دلی میں اتنا بھی فرق نہیں رہ گیا تھا جتنا اس کے اصل نام روپ مدل اور میرے دیے ہوئے نام روپم میں نظر آ سکتا تھا۔

میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ اس لیے کہ ہمارے گانو کی صورت اُداس تھی۔ بہت سے لوگ جنھیں گانو والوں نے ملک کے بٹوارے کے دوران میں زبردستی باہر نکال دیا تھا، اور جو شاید پاکستان کی سرحد پار کرنے پر مجبور ہو گئے تھے، اب وہاں نظر نہ آ سکتے تھے۔ چنانچہ اب ایک بھی تیلی نہیں رہ گیا تھا جو کولھو میں سرسوں کا تیل نکال سکے۔ ایک بھی جُلاہا نہیں رہ گیا تھا جو گانو والوں کے لیے بیاہ شادی میں دُلہن کے واسطے خاص طور پر کھدّر کے تھان تیار کر سکے۔ ہماری گلی اُداس تھی۔ میں نے دیکھا کہ گانو کی روح تو ہماری گلی میں سمٹ آئی ہے۔ اب نہ ہمارے پڑوس میں ہماری خاندانی دائی کے گھر والوں میں سے کوئی شخص موجود تھا، نہ فضل دین تیلی ہی کہیں نظر آ سکتا تھا، جسے ہم بچپن سے ہی چاچا کہہ کر پُکارتے تھے، جو کبھی مسجد میں نماز پڑھنے بھی جاتا تھا اور پھر اپنے صحن میں بھی نماز پڑھ لیتا تھا جو بہت دین دار تھا اور جب میرے پِتا جی نے بتایا کہ ان کے لاکھ کہنے پر بھی فضل دین نے اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے ہمراہ پاکستان کی سرحد کی طرف جانے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی روز باہر سے آنے والے شرنارتھیوں کا ریلا آیا اور اُن میں سے کسی نے فضل دین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔‘‘

 ’’اُف!‘‘ ناشاد کہہ اُٹھا۔

روپم اب بھی سگریٹ کے چھلّے اُڑا رہا تھا۔ جیسے وہ کہنا چاہتا ہو کہ کیا فضول سی باتیں شروع ہو گئیں۔

میں نے کہا۔ ’’آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ میں سات دن تک اپنے باڑے کی طرف قدم نہ اُٹھا سکا جس کا راستہ چاچا فضل دین کے گھر کے صحن میں سے ہو کر جاتا تھا لیکن آٹھویں دن بھی جب میں حوصلہ کر کے اپنے باڑے کی طرف جانے لگا تو میں راستہ سے ہی لوٹ آیا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہاں اب چاچا فضل دین کے خون کا ایک بھی دھبہ موجود نہ ہو گا۔ اور جو لوگ اَب اس مکان میں رہتے ہوں گے انھوں نے اس مکان کو لیپ پوت کر اچھا کر رکھا ہو گا۔ جب میں اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ہماری گلی کتنی اُداس نظر آتی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی ایک اور کسک یا کسی اُجڑی سونی گلی کی یاد مجھے ملازمت سے محروم بھی کر سکتی ہے اور زندگی دوبارہ اپنے مرکز کی جانب لوٹ سکتی ہے۔‘‘

٭٭٭

انگور پک گئے

بنسری اپنی کوکھ میں نہ جانے کتنے خوابیدہ سر، نہ جانے کتنے نیم بیدار رنگ جذب کرتی ہوئی ایک اچھوتے نغمے کو جنم دیتی ہے- یہی حال تخیل کا ہے- جو دھرتی کی ہی جانب دیکھنے پر مجبور ہے- جو ہل کی لکیروں کا جائزہ لیتی ہوئی آنے والی فصلوں کی تصویر پیش کرتی ہے- میں انھیں خیالات میں کھویا ہوا تھا جبکہ مجھے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ایک شرنارتھی دکاندار کی ٹوکری میں کچھ بھٹے ّ نظر آ گئے- میں سچّ کہتا ہوں کہ یہ بھٹے ّ دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی- بھاؤ پوچھنے کی میں نے چنداں ضرورت نہیں سمجھی- جیب سے رو مال نکال کر بچھا دیا- دکاندار نے مجھے سے پوچھے بغیر ہی ایک سیر بھٹے ّ تول کر رو مال پر ڈالا دیے

"کتنے پیسے ہوئے سردار جی؟” رو مال میں بھٹّے  لپیٹ کر اسے گانٹھ دیتے ہوئے میں نے پوچھ لیا –

’’نہ زیادہ نہ کم پورے چھ آنے”

اس نے جواب دیا، …. جیب سے پیسے نکال کر میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا- ‘نہ زیادہ نہ کم پورے چھ آنے ‘ دکاندار کا بول میرے دل میں برابر چبھتا رہا- یہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ ؟ ‘نہ زیادہ نہ کم، کہے بغیر کیا اس کا کام نہیں چل سکتا تھا؟ ؟ بلکہ "پورے چھ آنے کہنے کے بجائے، چھ آنے، کہنا ہی کافی ہوتا- ہمارے لوگ کتنے بیکار الفاظ استعمال کرتے ہیں، کتنے بیکار رنگ انڈلیتے ہیں! نہ جانے میرے تخیل کو کیا سوجھا کہ چلتے چلتے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی گانو میں پہنچ گیا ہوں اور کوئی پوچھ رہا ہے _اس رو مال میں کیا ہے بھٹے ّ؟ ؟ الٹے بانس بریلی کو! بھٹوں کو یہاں گانوَ میں پہلے ہی کیا کچھ کمی تھی کہ یہ تکلیف اٹھائی…… جیسے میں من ہی من میں بری طرح شرمندہ ہو گیا اور یہ سوچ کر کہ یہ بھٹے ّ وہ بھٹے ّ تو ہرگز نہیں جو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر سیدھے کھیت سے لائے گئے ہوں بلکہ یہ تو چھ آنے سیر والے بھٹے ّ ہیں، میں بری طرح لاجواب ہو گیا- جی میں تو آیا کہ واپس جا کر یہ بھٹے ّ سردار جی کی ٹوکری میں پھینک آؤں اور کہوں ___یہ پورے چھ آنے سیر والے بھٹے ّ میرے کام کے نہیں، مجھے تو وہ بھٹے ّ چاہیے جو جن کا ذکر خیر لوک گیت میں بھی گونج اٹھا ہے ___”میرا یار مکیّ دی راکھی، ڈب وچ لیا وے جھلیاں!، (میرا محبوب مکئی کے کھیتوں کا رکھوالا ہے وہ اپنی دھوتی کی پھینٹ میں بھٹے ّ چھپا کر لاتا ہے) لیکن میرے پاؤں پیچھے کی طرف پلٹنے کے عوض آگے کی طرف بڑھتے چلے گئے- گھر پہنچ کر میں نے ان بھٹوں کو آگ پر بھوننے کی تاکید کی، کوئلوں کی آگ پر بھونے ہوے بھٹے ّ، اور وہ بھی پورے چھ آنے سیر والے بھٹے ّ، محبوب کی دھوتی کی پھینٹ میں چھپا کر لائے ہوے بھٹے ّ نہیں، پھر بھی بہت مزے دار لگے –

اگلے روز میں سردار جی کی دکان پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جس ٹوکری میں کل بھٹے ّ تھے آج انگور گھچے پڑے ہیں، میں نے ہنس کر کہا- "ہم تو بھٹوں ّ کے گاہک ہیں سردار جی!” انگوروں کے نہیں- "

” بنے ٹھنے بھٹوں نے آپ کا کیا سنوار ہے اور بیچارے انگوروں نے کیا بگاڑا ہے "؟ ؟ دکان دار نے ہنس کر پوچھ لیا –

میں اس کا کیا جواب دے سکتا تھا؟ ہاں میں نے اتنا ضرور کہا” اب انگور ہی لینے پڑیں گے- ہم تو اس ٹوکری سے یارانہ گانٹھ چکے ہیں سردار جی "!

دکان دار کی آنکھوں میں ایک چمک تھرک اٹھی- بولا شکر ہے واہگورو کا کہ ابھی تک ایسے گاہک موجود ہیں آپ ہمارے گا نو آئے ہوتے تو میں آپ کو اتنے انگور کھلاتا کہ آپ کی طبیعت خوش ہو جاتی -” آپ چاہیں تو اس ٹوکری سے بھی مجھے پیٹ بھر انگور کھلا سکتے ہیں سردار جی میں نے اچھل کر کہا” لیکن یہ وہ انگور تو نہیں ہیں جو آپ کو اپنے گانو میں کھلا سکتا تھا وہ انگور اور تھے، یہ اور انگور ہیں "-

دوکان دار کی آواز میں جدائی کے سر گونج اٹھے جو بنسری کے نغمے میں رنگ بھر دیتے ہیں

میں نے کہا "کیوں ان انگوروں میں بھی تو رس ہو گا یہ بھی میٹھے ہوں گئے "

” آپ بھی کیا بھولی باتیں کرتے ہیں جی! دوکان دار نے گویا تخیل کی کوچی تیزی سے تصویر پر پھیرتے ہوے کہا -” یہ انگور بھلا ان انگوروں کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ "-

میں انتظار میں تھا کہ وہ انگوروں کا بھاؤ بتائے میں کس قدر خوش ہو رہا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ پورے تین روپے سیر کا بھاؤ بتائے گا شاید ڈھائی روپے سیر پر ہی مان جائے گا –

وہ کہہ رہا تھا "لاکھوں خوشبوئیں اپنی کوکھ میں چھپا کر رکھنے والی دھرتی تو پیچھے رہ گئی جس پر انگور پیدا ہوتے ہیں "

مجھے دوکان دار کی نا امیدی اچھی نہیں لگی آخر وہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے، یہ بات میں سمجھ نہیں سکتا تھا- میں نے کہا "آخر یہ انگور اسی دھرتی سے آئے ہوے ہیں پہلے بھی اسی طرح آتے تھے اتنا کیا فرق پڑ گیا! بہت فرق تو پڑ بھی نہیں سکتا- "جی ہاں یہ تو ٹھیک ہے ” وہ کہہ رہا تھا” "بہت فرق نہیں پڑ سکتا- آپ سچ کہتے ہو لیکن کبھی میں ان ہاتھوں سے انگور اگاتا تھا”

"آپ انگور اگاتے تھے سردار جی! "

” میں نے پوچھا

"کیسے اگاتے تھے انگور؟ کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ بھولے بادشاہ سردار جی”

"اب وہ دھرتی پیچھے رہ گئی جہاں میں نے چن چن کر انگور کی بیلیں لگائی تھیں- ہو سکتا ہے آپ کو آج یقین بھی نہ آئے- آج آپ کو یقین آ بھی کیسے سکتا ہے؟ آج ہم اپنے گھر کے بادشاہ نہیں رہے ____آج ہم فٹ پاتھ کے دکان دار بن گئے ہیں! "

"یقین کیسے آئے گا سردار جی”؟ آپ کو جھوٹ بولنے کی کیا پڑی ہے؟ لیکن ایک بات تو بتاؤ، کیوں وہ انگور کی بیلیں یہاں نہیں لگائی جا سکتیں؟ "

میں نے دیکھا دوکان دار کے چہرہ پر ایک رنگ آ رہا تھا، ایک رنگ جا رہا ہے، شاید وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ سرکار اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہے وہ جانتا تھا کہ وہاں کی آب و ہوا کو یہاں نہیں لا سکتی جو انگور کی فصل کے لیے بے حد ضروری ہے

میں نے اس کا حوصلہ بڑھا نے کے لئے کہا "سائنس دانوں کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ نئے حالات کو دیکھتے ہوے اس دھرتی پر انگور کی سہولت مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں سرکار ان سے ضرور مدد لے گی -”

کئی گاہک آئے، …

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول

ورڈ فائل

ای پب فائل


کنڈل فائل

حصہ دوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ سوم 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ چہارم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل