FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

دھوپ کے پودے

(شعری مجموعہ)

 

ارشد کمال

 

کہاں سے چھاؤں ملے گی ہماری نسلوں کو

زمیں پہ دھوپ کے پودے جو ہم اگاتے رہیں

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

اپنے آبائی وطن

لکھمنیا کے نام،

جس کی آب و ہوا میں موجود

زبان و ادب کی

سوندھی مہک

مجھے اپنی شعری کاوشوں کو

جاری رکھنے کا

حوصلہ فراہم کرتی رہی

٭٭٭

 

 

پیش سخن

 

ادب کو زندگی کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی فن پارے کو بغور دیکھیے تو اس میں متعلقہ سماج کا عکس کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آتا ہے۔  البتہ یہ عکاسی، مطلق عکاسی نہیں ہوتی (جس میں سماج صرف اپنی اصل صورت میں نظر آتا ہے ) بلکہ اس کے ساتھ فن پارے میں ایک دوسرا نسبتاً غیر واضح عکس بھی موجود ہوتا ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ چونکہ شاعری، ادب کی اہم ترین صنف ہے اس لئے اس میں بھی(مختلف نظریے اور ذوق شعری کے متعدد اقسام کے باوجود) زندگی کی عکاسی اسی نہج پر ہوتی ہے۔

اچھی اور سچی شاعری کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اخترالایمان اپنے مجموعۂکلام’زمین زمین‘ کے دیباچے میں یوں رقم طرازہیں:

’’ بے دین آدمی اچھی شاعری کر ہی نہیں سکتا۔  یہ اُسی کا کام ہے  جو ایمان رکھتا ہو خدا کی بنائی ہوئی حسین چیزوں پر، انسان پر اور اُس کی انسانیت پر۔ اُس کی مجبوریوں اور لاچاریوں کوسمجھتا ہو، جو مروّجہ اچھی قدروں کو پہچانتا ہو اور ان میں اضافہ بھی چاہتا ہو۔ جو خدا کی بنائی ہوئی زمین سے محبت کرتا ہو، اور اِس بات پرکُڑھتا بھی ہو کہ انسان اسے خوبصورت بنانے کے بجائے بدصورت بنا رہا ہے۔ ‘‘

کچھ ایسی ہی کُڑھن ہے جس کا پرتَو مجھے اپنی شعری کاوشوں میں نظر آتا ہے ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

کہیں نرم اور ملائم لہجے میں تو کہیں جھنجلاہٹ کی شکل میں، کہیں سرگوشی میں تو کہیں طنز کی تلخی اور کاٹ کے ساتھ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔  تاہم اصل سوال تو یہ ہے کہ اس کُڑھن کے اظہار میں شعری تقاضے کہاں تک پورے ہو سکے ہیں ! شعری ادب سے متعلق یہ وہ بنیادی اور اہم ترین نکتہ ہے جس کی روشنی میں زیر نظر مجموعہ کا معروضی تجزیہ تو قارئین ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ بہ حیثیت قاری میں نے جب بھی اپنے کلام کو تولنے اور پرکھنے کی کوشش کی تو میرے اندر کے تخلیق کار نے مجھے سرگوشی میں اپنا یہ شعر سنا کر خاموش کر دیا ؂

جذبہ و احساس کی بارش میں دھُل جانے کے بعد

وادیِ  اظہار کا منظر بہت اچھا لگا

اور کیوں نہ ہو، کہ ماں کی مامتا اندھی جو ٹھہری !

لہٰذا اِس’ وادیِ اظہار‘ سے گزرتے ہوئے اگر قارئین کو بھی اِس کا کوئی پہلو خوشگوار معلوم ہوا اور اِس کے رنگ و بو نے انھیں ذرا بھی اپنی جانب متوجہ کیا تو میں سمجھوں گا کہہ دھوپ کے پودے کی شکل میں میرا اوّلین شعری مجموعہ رائیگاں نہیں گیا۔

ارشد کمال

 

 

 

 

وہ جو خدشہ تھا…

 

1992 میں، مَیں نے اپنی پہلی شعری تخلیق (غزل) ’ایوان اردو‘ میں اشاعت کے لیے بھیجی۔ ظاہرہے پہلی شعری کاوش جیسی ہونی چاہیے تھی، ویسی ہی تھی۔ چنانچہ اسے دیکھ کر اُس وقت کے مدیر رسالہ جناب مخمور سعیدی نے مجھے ایک تفصیلی خط لکھا۔  شومیِ قسمت کہ مذکورہ خط میرے پاس محفوظ نہیں رہ سکا۔ البتہ اس کا جوخلاصہ میرے ذہن میں محفوظ ہے اُسے میں اپنی زبان میں اس طرح تحریرکر سکتا ہوں:

’ آپ کی نثری تحریریں رسائل میں پوری توجہ سے پڑھتا رہا ہوں۔  بلا شبہہ شاعری ایک فن لطیف ہے لیکن اس کے ساتھ ایک دشواری یہ ہے کہ یہ اپنا رقیب مشکل ہی سے برداشت کرتی ہے۔ اردو میں شعراء کی تو کمی نہیں لیکن قابلِ لحاظ نثر نگار خال خال ہی نظر آتے ہیں۔  ایسے میں آپ کا شاعری کی طرف متوجہ ہونا مجھے کچھ عجب سا لگا،۔۔ ۔۔ ۔ آپ کی غزل دو ایک لفظی ترمیم کے بعد شاملِ اشاعت کر لی جائے گی، اس توقع کے ساتھ کہ شاعری کا یہ نیا شوق آپ کی نثر نگاری کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔ ‘

افسوس، کہ ایک شفیق مربی نے جس خدشے کا اظہار کیا تھاوہ درست ثابت ہوا۔۔ ۔  یعنی اس کے بعد میری نثر نگاری کی پھُلواری میں ’دھوپ کے پودے‘ اُگتے ہی چلے گئے۔

٭مصنف

 

 

 

نظم کسی خیال، تصور، احساس یا موضوع کو اس انداز میں بیان کرنے کا نام ہے کہ اس میں حشو و زائد نہ ہو، پوری نظم میں کوئی ایسا حصہ نہ ہو جسے اگر نکال کر پھینک دیا جائے تو نظم کے مفہوم پر کوئی اثر نہ پڑے یا کسی قسم کی کمی کا احساس نہ ہو۔

اختر الایمان

پیش لفظ’یادیں ‘

٭٭٭

 

 

 

 

ماسوا

 

اُسے محسوس کرتا ہوں

نسیمِ صبح کے جھونکوں میں

صر صر کے تھپیڑوں میں

اماوَس کے اندھیروں میں

مہِ کامل کے شب افروز اُجالوں میں،

 

اُسے محسوس کرتا ہوں

پپیہے کی پکاروں میں

تھرکتے مور کی دلکش اداؤں میں

کسی بے چین بلبل کے ترنم میں

کبھی نوخیز کلیوں کے تبسم میں،

 

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

اُسے محسوس کرتا ہوں

بظاہر خامشی میں غرق وادی

کے تکلم میں،

٭٭٭

 

 

 

تفسیرِ حیات

 

زیست کی اک منفرد تفسیر ہیں میرے رسولؐ

شب کے در پر صبح کی تحریر ہیں میرے رسولؐ

 

جاگتی آنکھوں میں بس کر جو جواں ہوتے گئے

ایسے ہی خوابوں کی اک تعبیر ہیں میرے رسولؐ

 

ظلمتِ شب کی سیاست سے سراسر بے نیاز

روشنی کی سر بسر تدبیر ہیں میرے رسولؐ

 

ان کے ذہن و دل کے روزن ایک عالَم کو محیط

آپ اپنے طرز کی تعمیر ہیں میرے رسولؐ

 

خیمۂ بادِ خزاں میں کیوں نہ ہو کہرام، جب

رنگ و بو کی اک جواں تقریر ہیں میرے رسولؐ

 

پڑھ سکو تو غور سے پڑھ لو ذرا بین السّطور

وقت کے احساس کی تحریر ہیں میرے رسولؐ

٭٭٭

 

 

 

 

مگر کیا کیجیے

 

تکمیل کی منزل

تو کوسوں دوُر ہے اب بھی،

کہ اُس کے ماسوا

کچھ اور بھی

موجودہے دل میں !

٭٭٭ماہنامہ’ آغاز‘(مونگیر)

(شمارہ۔ 2)

 

 

سعیِ رائیگاں

 

نڈھال ہو کر

اُداس لہجے میں

چاند، سورج یہ کہہ رہے تھے:

’’ نہ جانے کب سے

ہم اِس جہاں میں

اُجالے برسا رہے ہیں، لیکن

فصیلِ ظلمت

ہنوز قائم ہے اس زمیں پر‘‘

پھر اِس نتیجے پہ دونوں پہنچے کہ

’’ ذہنِ انساں کے طاق پر

جب تلک نہ ہو گا

چراغ روشن،

ہماری کوشش کا ماحصل تو

صفر ہی ہو گا‘‘

’ذہن جدید‘ (شمارہ17)

٭٭٭

 

 

 

 

ٹیوب زدگی

 

عصرِ نو کی آنچ پر تپتی سلگتی زندگی

ایک دن مجھ سے اچانک

یوں مخاطب ہو گئی:

’’تجربے کی ٹیوب میں

جانے کب سے قید ہوں،

آگہی کے نام پر

ہر آدمِ خاکی نے کچھ

تجربے مجھ پر کئے،

لیکن کسی کو آج تک

حاصل ہوا تو کیا ہوا !‘‘

پھر ذرا رُک کر سُلگتی زندگی نے یوں کہا:

’’ آگہی چومے گی بڑھ کے

تیرے قدموں کو، اگر

تجربے کی ٹیوب سے آزاد کر کے توُ مجھے

وادیِ فطرت میں پھر سے رقص کرتا چھوڑ دے !‘‘

٭٭٭

’ آجکل‘(ستمبر96)

 

 

 

 

 آدمِ خاکی

 

تمام دن کی تھکاوٹوں کو

بدن میں اپنے سمیٹ کر مَیں

ندی کنارے پڑا ہوا تھا،

نڈھال سورج تھا ڈوبنے کو،

میں اُس کے منظر میں کھو گیا تھا،

کہ دفعتاً طائروں کا اک غول

میری نظروں کے سامنے سے

فضا میں پرواز کرتا

کچھ اس طرح سے گزرا

کہ جیسے مجھ سے یہ کہہ رہا ہو:

’’تمھیں تمھاری زمیں مبارک!

ہمیں خوشی ہے

کہ ہم تو اِس کے مدار سے

اب نجات پا کر

نئی فضاؤں میں سانس لیں گے ‘‘

معاً مجھے یہ خیال آیا

کہ کاش!

ان طائروں کے ہمراہ

میں بھی ہوتا،

اسی تخیّل میں محو تھا مَیں،

کہ میرے اندر کے آدمی نے

مجھے جھنجھوڑا:

’’حصارِ وہم و گماں سے نکلو،

خیالِ راہ فرار چھوڑو،

خدا نے تم کو جہاں میں اپنے

دیا ہے کیسا مقام، سمجھو!‘‘

٭٭٭’زبان و ادب‘(پٹنہ)

( اپریل 05)

٭٭٭

 

 

 

 

کہانی سے حقیقت تک

 

 

کبھی دادی ماں کی زبانی

سُنی تھی کہانی

کہ اک تاجرِ عطر کی دخترِ نیک سیرت

سیانی ہوئی تو بڑی دھوم سے

خام چمڑوں کے تاجر سے شادی ہوئی،

بعد شادی وہ لڑکی جو سسرال آئی

تو ایسا تعفن وہاں تھا کہ مت پوچھیے !

خوشبوؤں میں پلی

وہ تعفن کو برداشت کرتی بھی کیسے !

اُسے تو وہاں ایک ساعت بھی رہنا گوارہ نہ تھا،

باوجودیکہ خاموش فطرت تھی وہ،

اُس نے آتے ہی اعلان یہ کر دیا:

سانس لینا بھی دوبھر جہاں ہو میاں !

ایسے ماحول میں رہنا ممکن نہیں

اور اگر رہ گئی تو خدا کی قسم

گھُٹ کے مر جاؤں گی،

جب بہو کی یہ باتیں

خُسر محترم نے سنیں

تو انھیں فکر لاحق ہوئی،

دے کے اپنی ضعیفی کا کچھ واسطہ

قدرے دلگیر لہجے میں موصوف

اپنی بہو کو منانے لگے،

اور بڑی مشکلوں سے ہوا طَے

کہ ہفتے میں صرف ایک دن ہی

بہو اُن کے گھر آئے گی،

کچھ دنوں سلسلہ یوں ہی چلتا رہا

اور بہو اپنی سسرال آتی رہی،

اِس طرح آتے جاتے

اُسے اپنے شوہر کے گھر والوں سے

جب تعلق ہوا

تو بتدریج سسرال میں

اُس کے رکنے کی مدت بھی بڑھتی گئی،

اب خسر نے تعفن کی بابت جو پوچھا

تو کہنے لگی

ہے تعفن کہاں اور کہاں کی گھٹن،

مجھ کو اِس گھر میں کوئی قباحت نہیں،

سُن کے اپنی بہو کی یہ دو ٹوک باتیں

خُسر نے کہا:

سچ کہوں اے عزیزہ !

تعفن تو ہے حسبِ سابق یہاں،

صرف اتنا ہوا ہے

کہ رچ بس گیا ہے

تری سانس میں اس طرح اب

کہ تجھ کو گراں کچھ گزرتا نہیں،

 

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ کہانی تھی کل تک

فقط اک کہانی برائے نصیحت،

مگر آج ہم

اس بہو کی طرح

کیا حقیقت میں

عصری تعفن کے عادی نہیں ہیں !

٭٭٭

’ادب ساز‘(اپریل تاجون07)

 

 

 

 

خدشہ

 

گپھاؤں، جنگلوں سے دُور

ہم تہذیب کی دھُن پر

تمدن کی رِدا اوڑھے

سفر کرتے رہے ہیں ایک مدت سے،

مگر یہ اک حقیقت ہے

کہ اس لمبے سفر کی ایک ساعت بھی

ہمارے حق میں کچھ اچھی نہیں نکلی،۔۔ ۔۔ ۔

دریدہ ہو چکی اس درمیاں چادر تمدن کی،

گراں بارِ سماعت ہو گئی تہذیب کی ہر دھُن،

… اب ایسے میں

زمیں کی شکل کو مدِّ نظر رکھیے

تویہ محسوس ہوتا ہے

کہ یوں جاری رہا اپنا سفر

تو ایک دن

پھر سے نہ جا پہنچیں

گپھاؤں کے اندھیروں میں !

٭٭٭

’ذہن جدید‘(شمارہ17 )

 

 

گھر

( ایک منظوم خط والدہ مرحومہ کے نام)

 

مری امّاں !

اُلجھ کرجب غمِ دوراں سے

ہمت ہارجاتا ہوں،

تصور میں

ترے آنچل سے خود کو ڈھانپ کر

ماضی کے آنگن میں

اُترتا ہوں سکوں پانے،

کہ تیری ذاتِ با برکت

رہی سایہ فگن جب تک،

عجب سی ایک تقویّت

سبھی کو گھر میں حاصل تھی،

وہ تیرا ڈھونڈنا اعظم ؔ کو ہر دم

اور نیّرؔ کے لیے بے چین رہنا،

پھر اس کے ساتھ ہی

ہر پل تردّد جعفرؔ و قیصرؔ کی صحّت کا

تجھے بے کل کیے رہتا،

تعلق آصفہ*سے تجھ کو ایسا تھا

کہ ُاس کا گھر بساکر بھی

نہ غافل ہو سکی اُس سے،

کہوں کیا اپنے بارے میں

کہ میں تو سب سے چھوٹا تھا،

مرے کھانے، مرے سونے

مرے پڑھنے کی خاطر

تُو نے کیا کیا دن نہیں دیکھے !

دسمبر کی ٹھٹھرتی رات میں اُٹھ کر

مری بُجھتی انگیٹھی کو ہوا دینا،

بھری برسات میں کچّے مکاں کی فکر کرنا

اور گرمی میں

سُلگتی دوپہر کی جان لیوالٗو سے

مجھ کو دُور رکھنے کا جتن کرنا،

غرض یہ حال تھا تیرا

کہ ہم سب کا جہاں آباد کرنے کی تمنا میں

گھُلایا اپنی جاں کو اس طرح تُونے

کہ آخرایک مہلک عارضہ میں مبتلا ہو کر

توُ اپنی جان سے گزری!

بہ ظاہر توُ اکیلی ہی گئی اس دارِ فانی سے

مگریہ اک حقیقت ہے

کہ تیری روح کے ہمراہ

گھر کی روح بھی نکلی خموشی سے،

عزیزوں کو شکایت ہے

کہ ارشدؔ گھر نہیں آتے،

مری امّاں ! میں جاؤں تو کہاں جاؤں،

کہ بام و در

تو صرف اک شکل ہے گھر کی،

نہ ہو جب تک تعلق کی انگیٹھی

اُس در و دیوار کے اندر،

کوئی جا کر کرے بھی کیا !

٭٭٭

’ آجکل‘(جولائی01)

ؔبہ تر تیب عمرچار بڑے بیٹے، * بیٹی

 

 

 

 

نوائے وقت

 

پتنگ اُڑانے

میں گھر سے نکلا

تو اک ضعیف آدمی نے

ناراضگی کے لہجے میں

مجھ کو ٹوکا کہ

’’اس فضا میں

نہ اُڑ سکے گی پتنگ تیری،

ہر ایک جانب

سیاہ بادل ہیں آسماں پر،

نہ جانے کب

ایک تیز بارش

کی زد میں آ کر

پتنگ تیری جو بھیگ جائے

تو ہو کے بے جان

جسم اُس کا

زمیں پہ ٹپکے !‘‘

ذرا توقف کے بعد اُس نے

یہ رائے بھی دی

 

’’پتنگ بازی کا شوق

ایسا ہی ہے تجھے تو

پتنگ اُڑانے سے پہلے

اپنی پتنگ کے جسمِ ناتواں کو

ضرور ’واٹر پروف‘ کر لے !‘‘

٭٭٭ماہنامہ’ آغاز‘(مونگیر)

(شمارہ۔ 2)

 

 

 

 

قصہ شجرِ سایہ دار کا

 

بہ ظاہر ایسا لگتا ہے

کہ گرمی میں

سُلگتی دوپہر کی

جان لیوا دھوپ میں

تپ کر

گھنیرے پیڑ

ٹھنڈی چھاؤں کی

تخلیق کرتے ہیں

زمیں کے واسطے، …لیکن

حقیقت میں

تمام اشجارِ سایہ دار کا قصہ

بس اتنا ہے

کہ وہ سورج کی کرنوں سے

غذا

اپنے لیے

تیار کرتے ہیں

٭٭٭’ آجکل‘( جون06)

 

 

 

 

خمیازہ

مزہ تھا زندگی کا

جب زمیں پر

آشتی کا بول بالا تھا،

کبوتر کی غٹر غوں

فاختہ کی ہم زباں ہو کر

سبھی کو امن کا پیغام دیتی تھی،

زمانہ چین کی تب بانسری

ہر پل بجاتا تھا،

مگر

افسوس،

غارت ہو گیا سب کچھ،

کبوتر کی جگہ

’ترشول‘ نے لی

اور ’غوری‘

فاختہ کے آشیاں پر

ہو گیا قابض،

یہ مصنوعی پرندے

جب سے آئے ہیں

کشاکش اور تشدد سے

فضا

ہرپل رہا کرتی ہے آلودہ،

زمیں پژ مردہ رہتی ہے

فلک آنسو بہاتا ہے،

اب ایسے میں

کوئی قطرہ

جب اس آنسو کا

گرتا ہے سمندر میں،

تو پھر اُس پل

بپھر کر اک

سُنامی

سر اُٹھاتی ہے

٭٭٭’ادب ساز‘(اکتوبر۔ دسمبر06)

 

 

دھوپ چھاؤں کے درمیاں

 

یہ زندگی

گلوں کی ایک سیج ہے

نہ خار و خس کا ڈھیر ہے،

بس ایک امتحان کا

لطیف سا سوال ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔  سوال کا جواب تو محال ہے،

بس اتنا ہی سمجھ لیں ہم

کہ زیست دھوپ چھاؤں ہے،

کہیں پہ یہ نشیب تو کہیں پہ یہ فراز ہے،

جہاں بٹھائے یہ ہمیں

وہیں پہ ہم بساطِ ذات ڈال کر

کرن کرن سے

کچھ نہ کچھ حرارتیں نچوڑ لیں

تمازتیں سمیٹ لیں۔۔ ۔۔ ۔۔  کچھ اس طرح

کہ چھاؤں کی عنایتوں، بشارتوں

کا اک یقیں بھی ساتھ ہو!

٭٭٭

’کتاب نما‘(دسمبر06)

 

 

 

 

ذمہ داری

 

( خود کلامی کے پیرائے میں )

 

حصارِ تشکیک توڑ کر تم

اُٹھو زمیں سے،

فلک پہ پہنچو

پھر اس جہاں پر نگاہ ڈالو

خدارا اپنا مقام سمجھو!

 

شعورِ مخصوص

جو ودیعت ہوا ہے تم کو

ذرا تم اُس سے جو کام لے لو

توشورِشب خوں

جو ہر طرف ہے

یہ خود بخود ہی خموش ہو گا،

یہ العطش کی صدا

جو ہر سمت اُٹھ رہی ہے

تم اس پہ لبیک کہ کر اپنی

فرات کا در خدارا کھولو!

 

خزاں کی محفل میں

رنگ و بو کے مذاکرے کی

سبیل تم ہو،

تمھارے شانوں پہ

ذمہ داری ہے کتنی، سمجھو!

کہ منحصر ہے

بقائے عالم

فقط تمھیں پر!

٭٭٭

 

 

 

 

عصرِ جدید

 

مرے مولا!

مجھے حیرت ہے

پھولوں میں ابھی تک

کس طرح موجود ہے

خوشبو

کہ جب ہر پل

زمینوں کو

لہو سیراب کرتا ہے،

 

مرے مولا!

مجھے حیرت ہے

آخر کس طرح اب تک

زمیں پر بسنے والوں کو

میسّر آکسیجن ہے،

کہ جب ہر پل

فضا زہریلی گیسوں سے

رہا کرتی ہے آلودہ،

 

مرے مولا !

مجھے حیرت ہے

مہر و ماہ کیوں اب تک

ہیں مصروفِ ضیا پاشی،

کہ جب لپٹی ہے

ارضِ خاک

ظلمت کی رداؤں میں،

 

مرے مولا !

یہ خوشبو،

آکسیجن اور

مہر و مہ کی تابانی

حقیقت میں

عطایا ہیں تو تیرے ہیں

کرشمے ہیں تو تیرے ہیں !

٭٭٭ماہنامہ’ آغاز‘( مونگیر)

(شمارہ 2)

 

 

 

 

ٹریجڈی

 

یہ عام دستور ہے کہ

کوئی مشین ایجادکر کے موجد

کہیں بھی بھیجے

تو ساتھ اُس کے

وہ ایک بُک لٹ بھی بھیجتا ہے،

کہ صارفین اُس کی روشنی میں

مشین سے مستفید ہوں،

اور اگر وہ موجد

مزید محتاط ہے تو

بُک لٹ کے ساتھ

اپنی مشین کا

ایک آپریٹر بھی بھیجتا ہے،

اس آپریٹر کے مشورے اور

کتابچے کی ہدایتوں پر

مشین سے کام ہم نہ لیں تو

مشین میں نقص پیدا ہو گا،

جو ہر طرح سے

ہمیں خسارے میں ڈال دے گا،

اب اس کو ایک اتفاق کہیے

کہ اور کوئی بھی نام دیجے،

ازل سے روئے زمیں پہ

جتنی مشینیں آئی ہیں

ان میں سب سے جو قیمتی ہے

وہی مشین آج بھی

تصرّف میں ہے ہمارے،

مگریہ سچ ہے کہ

اس کے بک لٹ اور آپریٹر

کی ساری باتوں کو

ہم نے یکسر بھُلا دیا ہے

٭٭٭سہ ماہی’ انتخاب‘( گیا)

(شمارہ 14)

 

 

مشورہ

 

چار دن کی چاندنی

کے سلسلے میں

میرا نوحہ

سنتے سنتے

چاند نے کل

ڈوبنے سے قبل

مجھ سے یہ کہا:

’’ چشمِ تر کے جگنوؤں سے

جو کرن بھی پھوٹ نکلے،

بس اُسے ہی

عصرِ نو کی

تیرگی میں

گھولنے کی

ڈھونڈتے رہنا سبیل !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

سوزش

 

بزم ِیاراں میں

ہنستا ہنساتا ہوا،

زندگی کی لطافت سے

محظوظ ہوتا ہوا،

دیر شب

خوب ہشّاش بشّاش

گھر اپنے واپس ہوا

تو شب و روز کے مسئلے

منہ بسورے

وہاں منتظر تھے مرے،

—-یہ مسائل

نئے تو نہیں تھے،

مگر

 

٭٭٭

’ادب ساز‘(اپریل۔ جون07)

 

 

 

 

 

جی خوش ہُوا ہے۔۔ ۔۔ ۔

 

رہِ پُر خارِ غالبؔ سے

ہے کتنا

مختلف

میری رہِ پُر خار

کا عالَم،

کہ میری آبلہ پائی

نمی

بخشے ہے

صحرا کو

٭٭٭’ آجکل‘(جون06)

 

 

 

 

نفی و اثبات

 

اُس کا اقرار کر کے

اُسے ڈھونڈنے چل پڑا،

شہر میں، دشت میں

مدتوں مارا مارا پھرا،

لیکن اُس کا نشاں

میری نظروں سے

اوجھل تھا اوجھل رہا،

آخرش تھک کے جب سو گیا

میں کسی موڑ پر،

تو مرے پردۂ خواب پر

ایک تحریر مجھ سے

مخاطب ہوئی اس طرح:

’’ تیرا اقرار بالکل بجا ہے،

مگریاد رکھ !

ایک انکار بھی

جزوِ لازم ہے

مذکورہ اقرار کا،

اس لیے غیر ممکن ہے تکمیل

تیرے اس اقرار کی،

جب تلک

اس کی بنیاد قائم نہ ہو

جزوِ انکار پر،

نا مکمل ہے اقرار جب تک ترا

غیر ممکن کہ پائے تُو اُس کا پتا !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدل کے رنگِ چمن کیسی تازگی دی ہے !

مرے جنوں نے اماوَس کو چاندنی دی ہے

 

خود اپنے گھر کا اندھیرا نچوڑ کر ہم نے

نہ جانے کتنے چراغوں کو روشنی دی ہے

 

تم اپنی فکر کو کچھ پختگی کا جامہ دو!

خیالِ خام نے فن کو برہنگی دی ہے

 

عجیب حبس کا عالم ہے بزمِ امکاں میں

اگرچہ اِس کو خدا نے کشادگی دی ہے

 

شبِ سیاہ کا شکوہ نہ کر، کہ اے ارشد!ؔ

ضیاء کے نام پہ سورج نے تیرگی دی ہے

٭

’ایوان اردو‘(ستمبر92)

 

 

 

 

 

چلچلاتی دھوپ میں گو سائباں ہم بھی نہیں

ہیں مگر مثلِ زمیں ہم، آسماں ہم بھی نہیں

 

دستِ گلچیں کی شکایت کس زباں سے ہم کریں !

سچ تو یہ ہے اِس چمن کے پاسباں ہم بھی نہیں

 

گفتگو میں سوزِ دل کی کچھ تپش کیوں آ گئی!

فطرتاً تو دوستو! آتش بیاں ہم بھی نہیں

 

ظلمتِ شب کے کرم سے ہو گئے ہیں سُرخرو

ورنہ مثلِ ماہ و انجم ضَوفشاں ہم بھی نہیں

 

کیوں لگے ہے پستہ قد ہر آدمِ خاکی ہمیں !

جبکہ ارشدؔ! اِس زمیں پر آسماں ہم بھی نہیں

٭

’ آجکل‘(فروری92)

 

 

 

کون ہے جس کا ہمیشہ سلسلہ باقی رہا!

سطحِ موجِ آب پر کب بُلبلہ باقی رہا!

 

اس نے مجھ کو مجھ سے ملنے کے مواقع کم دیے

زندگی سے بس مجھے اتنا گلہ باقی رہا

 

شاہراہِ زیست پر تھے ذہن و دل باہم رواں

پھر بھی ان کے درمیاں اک فاصلہ باقی رہا

 

اِس طرف دل کی لگیتھی، اُس طرف تھی دل لگی

درمیانِ عشق تھا جو مرحلہ، باقی رہا

 

زرد موسم کے تھپیڑے پیڑ کیا سہتا، مگر

اُس کی سوکھی شاخ پر اک گھونسلہ باقی رہا

 

گرچہ میرا واسطہ تھا بے سماعت وقت سے

پھر بھی کچھ کہنے کا مجھ میں حوصلہ باقی رہا

 

تپتے صحرا کا سفر پورا ہوا ارشدؔ، تو کیا!

حسبِ سابق تشنگی کا سلسلہ باقی رہا

٭

’شاعر‘(نومبر92)

 

 

 

 

 

رہزنی ہے جس کی فطرت، راہبر کیونکر ہوا

پھول سے گلچیں کا رشتہ معتبر کیونکر ہوا

 

کارزارِ عشق میں بھی اب سیاست آ گئی

جو رقیب ِرو سیہ تھا، نامہ بر کیونکر ہوا

 

دِل کی دھڑکن کر رہی تھی شور، تو چُپ تھے سبھی

جبیہی دھڑکن رُکی تو شورو شر کیونکر ہُوا

 

اے بساطِ آگہی! بس یہ اشارہ چاہیے

مجھ سے مل کر یہ جہاں زیر و زبر کیونکر ہُوا

 

ہر کرن ہی تیرگی کا تازیانہ ہے یہاں

وقت ایسی روشنی پر منحصر کیونکر ہُوا

 

گُربۂ فربہ کے آگے ایک موشِ ناتواں

اپنی جاں پر کھیل کر سینہ سپر کیونکر ہُوا

 

 

 

خیر مقدم ذہن کا ہو یا نہ ہو ارشدؔ، مگر

کوئی پوچھے تو کبھی، دل در بدر کیونکر ہُوا

٭

’کتاب نما‘(مارچ 92 )

 

 

 

تعلق، دوستی، قربت، سبھی رشتے بدلتے ہیں

بدلتے موسموں کے ساتھ ہی نغمے بدلتے ہیں

 

پَرائے تو پَرائے ہیں، یہاں اپنے بدلتے ہیں

ضیاء کا زاویہ بدلے تو پھر سائے بدلتے ہیں

 

اندھیرے سے اُلجھ کر جب دریچہ وا میں کرتا ہوں

اُجالے اپنا رستہ بھی اُسی لمحے بدلتے ہیں

 

مرا خالی پیالہ مجھ سے کہتا ہے سرِ محفل

کہ چہرے دیکھ کر ساقی کے پیمانے بدلتے ہیں

 

چراغِ فکر کیوں ہونے لگے خائف ہواؤں سے !

چراغِ فکر تو خود رُخ ہواؤں کے بدلتے ہیں

 

ہمارے جسم سے مٹّی کی خوشبو کیوں نہ پھوٹے گی

کہ صورت کے بدلنے سے کہیں رشتے بدلتے ہیں !

 

بہت حیران کُن ہے وقت کی تصویر اے ارشدؔ!

سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو ہم چشمے بدلتے ہیں

٭

’ آجکل‘(فروری 93)

 

 

 

 

 

زمانہ کچھ بھی کہے، تیری آرزوکر لوں

شبِ سیاہ میں سورج کی جستجو کر لوں

 

مرے خدا ! مجھے توفیقِ سر کشی دیدے

خزاں ہے سامنے، کچھ ذکرِ رنگ و بو کر لوں

 

اگر ہو مجھ کو میسّر کہیں سے کوئی کرن

تو شب دریدہ ہے جو کچھ، اُسے رفو کر لوں

 

جو آنکھ کھول دوں سُن کر ضمیر کی دستک

تو خود کو اپنی نظر میں، مَیں سرخرو کر لوں

 

ہُوا ہے کتنے دنوں بعد رابطہ قائم!

اب اپنے آپ سے ارشدؔ مَیں گفتگو کر لوں

٭

’ایوان اردو‘(مارچ 94)

 

 

 

 

 

کبھی جو اُس کی تمنا ذرا بپھر جائے

نشہ پھر اُس کی انا کا اُتر اُتر جائے

 

چراغِ شب میں تو جلنے کا حوصلہ ہی نہیں

وہ چاہتا ہے کہ تہمت ہَوا کے سر جائے

 

زمیں پہ غلبۂ شیطاں، فلک برائے مَلک

بشر غریب پریشاں کہ وہ کِدھر جائے

 

مری حیات کا سورج ہے سوئے غرب، مگر

محال ہے کہ مرا ذوق و شوق مر جائے

 

چراغِ ذہن جو روشن نہیں تو کچھ بھی نہیں

وہ تارے توڑ کے لائے کہ چاند پر جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تھک گئے جب دو قدم چلنے کے بعد

کیاکرو گے رات بھر جلنے کے بعد

 

صحبتِ آئینۂ شفاف کیا

غازۂ بے چہرگیمَلنے کے بعد

 

تیرگی کے بال و پر جلنے لگے

میرے اندر کا دِیا جلنے کے بعد

 

ہر شعاعِ نُور سے وحشت ہوئی

خیمۂ ظلمات میں پَلنے کے بعد

 

گفتگو کا دشت ہی اچّھا لگا

خامشی کیچھانوْ میں جلنے کے بعد

 

دِیدنی تھی حیرتِ برقِ تپاں

چاندنی میں آشیاں جلنے کے بعد

 

پھر سے ارشدؔ کو بصیرت مل گئی

ساعتِ قُربِ خرد ٹلنے کے بعد

٭      ’تعمیرہریانہ‘(اپریل 95 )

 

کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے

مرے اندر پُرانا اک شناور جاگ اٹھتا ہے

 

نشیمن گیر ہیں طائر، بھلا سمجھیں تو کیا سمجھیں !

وہ کیفیّت کہ جب شاہیں کا شہپر جاگ اٹھتا ہے

 

میں جب بھی کھینچتا ہوں ایک نقشہ روزِ روشن کا

نہ جانے کیسے اُس میں شب کا منظر جاگ اُٹھتا ہے !

 

زمانہ گامزن ہے پھر انہی حالات کی جانب

بپھر کر جب ابابیلوں کا لشکر جاگ اُٹھتا ہے

 

مرے احساس کی رگ سے اُلجھ پڑتا ہے جو لمحہ

اُسی لمحے تڑپ کر اک سخنور جاگ اُٹھتا ہے

 

وہ تارے جو چمک رکھتے نہیں کچھ روز روشن میں

شبِ تاریک میں ان کا مقدر جاگ اُٹھتا ہے

 

یہ مانا سیلِ اشکِ غم نہیں کچھ کم، مگر ارشدؔ

ذرا اُترا نہیں دریا کہ بنجر جاگ اُٹھتا ہے

٭

’ایوان اردو‘(مارچ 95)

 

 

 

تلاطُم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے

کہ بحرِ مصلحت اب مُستقر ہے

 

درِ صیّاد پر برپا ہے ماتم

قفس میں جب سے ذکرِ بال و پر ہے

 

تکلُّم کا کرشمہ اب دِکھا دو!

تمھاری خامشی میں شور و شر ہے

 

کروں کیا آرزوئے سرفرازی!

کہ جب نیزے پہ ہر پَل میرا سر ہے

 

ملی مُہلت تو دِل میں جھانک لوں گا

ابھی تو ذہن پر میری نظر ہے

 

چڑھے دریا میں ٹُوٹیناؤ کھینا

کہانی زندگی کی مختصر ہے

 

اگر سَودا رہے سر میں تو ارشدؔ

ہراک دیوار کے سینے میں دَر ہے

٭

’ آجکل‘(فروری 96)

 

 

 

راستے ہر طرف، گمرہی ہر طرف

روشنی میں بسی تیرگی ہر طرف

 

ایک دریا اُبلتا ہوا چار سٗو

العطَش کی صدا گونجتی ہر طرف

 

ساعتوں کا سمندر اُمنڈتا ہُوا

ناؤ کاغذ کیبَنتی ہُوئی ہر طرف

 

شہرِ آشوب دل میں سَمایا، مگر

فاختہ گفتگو میں اُڑی ہر طرف

 

خامشی میں تپش، گفتگو میں شر ر

رقص میں آتشیں زندگی ہر طرف

 

گفتگو نے بہت سر کھپایا، مگر

رقص کرتی رہی خامشی ہر طرف

 

ایکہَیجان سا ہے مری ذات میں

ورنہ دنیا میں ہے آشتی ہر طرف

٭

’شاعر‘(نومبر01)

 

 

 

اپنا ٹھکانہ ہی ٹھہرا جب اک صحرا کے دامن میں

کیوں نہ سجا لیں بزمِ جنوں ہم ذہن و دل کے آنگن میں

 

کھُلتے تھے جن کے دروازے ایک ذرا سی دستک پر

شورِ قیامت سن کر بھی اب  آتے نہیں وہ روزن میں

 

وقت کا دریا کاٹ رہا ہے ساحِل ساحِل بستی کو

پھر بھی کھیل گھروندوں کا ہے جاری آنگن آنگن میں

 

عکس تو اُلٹا رُوپ ہمیشہ ہوتا ہے سچّائی کا

جھانک سکو توجھانک لو خود میں، کیارکھّا ہے درپن میں !

 

اُن کے لطف کے دریا میں کچھ ایسا عکس اُبھرتا ہے

باسی ٹکڑا ڈال رہے ہوں جیسے بھیک کے برتن میں

 

خاموشی کے جنگل کاٹو شہرِصدا کے دیوانو!

آوازوں کے پیڑ اُگاؤ اپنے گونگے آنگن میں

 

لاکھ بچاؤ بچ نہ سکے گی ناؤ تمھاری حکمت کی

آگ کا دریا چڑھ جائے گا جب تیزابی ساون میں

٭

’ آجکل‘( نومبر01 )

 

 

 

نِت نئے لفظوں کا ہر پیکر بہت اچّھا لگا

مَے پرانی ہی سہی، ساغر بہت اچّھا لگا

 

اُس سے مجھ کو میرے ہونے کی خبر ملتی رہی

اُس کا اپنا تجربہ بن کر بہت اچّھا لگا

 

زرد موسم کے تھپیڑوں سے سَراسر بے نیاز

رنگ و بو کا سرپھِرا لشکر بہت اچّھا لگا

 

کیوں سدا آنسو پِیے، پانی طلب کرنے لگی

تشنگی کا یہ نیا تیور بہت اچّھا لگا

 

اندر اندر گِرنے والے میرے اشکوں کے طُفیل

میرا باہر اک دھنک بن کر بہت اچّھا لگا

 

جب لگی ٹھوکر تو میری کج روی جاتی رہی

مجھ کو اپنی راہ کا پتھر بہت اچّھا لگا

 

جذبہ و احساس کی بارش میں دھُل جانے کے بعد

وادیِ اِظہار کا منظر بہت اچّھا لگا

٭

’ایوان اردو‘(اکتوبر01)

 

 

 

 

 

اشک تابندہ نہیں ہے کیا کریں

دل ہے سوزندہ نہیں ہے کیا کریں

 

فکر و فن کے درمیاں احساس کا

کوئی کارندہ نہیں ہے کیا کریں

 

شام کے قدموں پہ خود کوڈ ال کر

دن جو شرمندہ نہیں ہے کیا کریں

 

یوں تو ہے تارِ نفس قائم، مگر

زندگی زندہ نہیں ہے کیا کریں

 

ان دنوں شعر و سخن کے شہر کا

درد باشندہ نہیں ہے کیا کریں

٭

ماہنامہ’بہار‘(مارچ 01)

 

 

 

فکر سوئی ہے سرِ شام، جگا دی جائے

ایک بجھتی سی انگیٹھی کو ہَوا دی جائے

 

کسی جنگل میں اگر ہو تو بُجھا دی جائے

کیسے تن من میں لگی آگ دَبا  دی جائے !

 

تلخیِِ زیست کی شِدّت کا تقاضہ ہے یہی

ذہن و دل میں جو مسافت ہے گھٹا دی جائے

 

تیرگی شب کی بسی جائے ہے ہستی میں مِری

صبح کو جا کے یہ روداد سُنا دی جائے

 

عشق والوں کی فُغاں ضبطِ فُغاں ہوتی ہے

عاشقِ وقت کو یہ بات بتا دی جائے

 

خاکِ صحرا تو بہت دوٗر ہے اے وحشتِ دل!

کیوں نہ ذہنوں پہ جمی گرد اُڑادی جائے !

 

وہ حقیقت جو نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے

کیسے آداب کے پردے میں چھُپادی جائے !

٭

’کتاب نما‘(اگست04)

 

 

 

 

 

کچھ تو مِل جائے کہیں دیدۂ پُر نم کے سِوا

آنکھ سے ٹپکے وہی گریۂ ماتم کے سِوا

 

گلشنِ زیست میں موسم کا بدَلنا کیا ہے !

کاش رُک جائے کوئی، درد کے موسم کے سِوا

 

صبح کا وقت ہے، کِرنوں کو بتادے کوئی

خوش ہیں گُلشن میں سبھی، قطرۂ شبنم کے سِوا

 

وہ زمانے کا تغیر ہو، کہ موسم کا مزاج

بے ضرر دونوں ہیں نیرنگئی آدم کے سِوا

 

ایسے طوفاں کی ہے تمہیدیہ موجودہ سکوت

کچھ نہ جب ہو گا یہاں شورشِ پیہم کے سِوا

٭

’بیسویں صدی‘(اکتوبر01)

 

 

 

خورشید تیز گام ہے یہ کیا مذاق ہے

دن میں ہی ذکرِ شام ہے یہ کیا مذاق ہے

 

جنگل میں بوڑھے پیڑ پہ کرگس کے پاس پاس

شاہین کا قیام ہے یہ کیا مذاق ہے

 

ظُلمت کو بے لگام مِرے پیچھے چھوڑ کر

جُگنو کا اہتمام ہے یہ کیا مذاق ہے

 

دریا اُبل کے چَرخ کو چومے تو ہے، مگر

ساحل ہی تشنہ کام ہے یہ کیا مذاق ہے

 

کشتی کی کج روی پہ کسی کی نظر نہیں

دریا پہ اِتّہام ہے یہ کیا مذاق ہے

 

کہتے ہیں سیلِ وقت کا اک موجۂ نشاط

منسوب میرے نام ہے یہ کیا مذاق ہے

 

ارشدؔ! چمن میں پھُول تو آزاد ہیں، مگر

خوشبو اسیرِ دام ہے یہ کیا مذاق ہے

٭

’بیسویں صدی‘(نومبر04)

 

 

 

 

 

قدم قدم پہ یہاں شورِ صور ہوتا ہے

بساطِ زیست پہ رقصِ نشور ہوتا ہے

 

کسی بھی دشت میں ملتا ہے جب نمی کا نشاں

تو میرے اشک کا چرچا ضرور ہوتا ہے

 

جوہو سکے تو اُسے ہی کشیدکر لیں ہم

سوادِ ظلمتِ ظلمتِ شب میں بھی نور ہوتا ہے

 

بجا کہ سب سے وہ ملتے ہیں عاجزی سے، مگر

خود اپنے عجز پہ اُن کو غرور ہوتا ہے

 

ترے عتاب کے صدقے ہماری دنیا سے

خموشیوں کا بیابان دوٗر ہوتا ہے

٭

’شاعر‘(نومبر05)

 

 

 

 

 

اگر چراغ کی لَو بے لگام ہو جائے

ضیاء کے نام پہ ظلمت کا کام ہو جائے

 

وفورِ شوق جو میرا اِمام ہو جائے

سراب و آب کا قصہ تمام ہو جائے

 

بہت طویل ہے یہ روزِ غم مرے ہمدم!

کرو کچھ ایسا کہ اب اِس کی شام ہو جائے

 

سوادِ شب کو ہے منظور سب، بجز اِس کے

کہ میرے گھر میں ضیاء خوش خرام ہو جائے

 

ہمیں ہماری خبر بھی مِلا کرے ارشدؔ!

کچھ اپنی زیست کا ایسا نظام ہو جائے

٭

’شاعر‘(نومبر05)

 

 

 

ربطِ دِلی کا پھر کوئی عنوان بھی تو ہو

دنیا کِیے پہ اپنے پَشیمان بھی تو ہو

 

ہو گا طلوعِ مہر، یہ امکان بھی تو ہو

کچھ تیرگی کے واسطے خلجان بھی تو ہو

 

جب آگ ہے تو پھیل ہی جائے گی، پر اِسے

مہمیز کرنے کے لیے طوفان بھی تو ہو

 

تنہابھَٹک رہا ہے خلاؤں میں آدمی

ہمراہ اس کے کوئی نگہبان بھی تو ہو

 

قسمت سے خضرِ راہ میسّر بھی ہے، تو کیا!

تھوڑا سا اپنی ذات میں ہیجان بھی تو ہو

 

آتی نہیں خزاں مرے زخموں کے باغ میں

مولا! کبھی یہ باغ، بیابان بھی تو ہو

 

ہر شخص دِل پہ بوجھ لیے کیوں پھِرا کرے !

ارشدؔ سا اِس جہان میں نادان بھی تو ہو

٭

’ آجکل‘(جنوری06)

 

 

 

میں بہت بَشّاش تھا یارو، مگر

پڑ گئی میری نظر اخبار پر

 

گرچہ اب اچّھی خبر آتی نہیں

دیکھوں کیا لاتا ہے میرا نامہ بر

 

دِل کے دروازے پہ دستک کِس کی ہے

کیا خموشی ڈھونڈنے آئی ہے گھر؟

 

بے بسی بڑھتی ہے جب حد سے سِوا

سرکشی بن کر اُٹھاتی ہے وہ سر

 

جگمگاتے شہر میں ہر سٗو مکاں

لیکن ان میں ہو گیا نایاب گھر

 

دیکھتا ہوں بیچ دریا سے یہ کیا!

لوگ ساحل پر کھڑے ہیں تر بتر

 

سُن سکو تو سُن لو ارشدؔ! غور سے

گیت کیا ہے وقت کے سُر تال پر

٭

’سر سبز‘(جون۔ دسمبر06)

 

 

 

ہوش کے در پہ بے خودی ہر پل

جیسے دریا میں تشنگی ہر پل

 

اپنی سانسوں میں روشنی بھر لو

کس کو ملتی ہے چاندنی ہر پل

 

زندگی میرا اسمِ ثانی ہے

مجھ سے کہتی ہے بے بسی ہر پل

 

قطرہ قطرہ ٹپکتی رہتی ہے

مجھ میں کیسی یہ تشنگی ہر پل!

 

’موت کا ایک دن معیّن ہے ‘

کیوں ہے بے روح زندگی ہر پل!

 

کون بتلائے اب سبب اس کا!

چُپ جو رہتی ہے راستی ہر پل

 

اک خموشی جو مجھ میں پَلتی ہے

شور کرتی ہے بس وہی ہر پل

٭

’ایوان اردو‘(دسمبر06)

 

 

 

مجھے وہ کھیل تماشا دکھائی دیتا ہے

کہیں بھی کوئی جو ہنستا دکھائی دیتا ہے

 

کبھی چہکتی تھیں صدیاں یہاں، مگر اب تو

اک ایک لمحہ سسکتا دکھائی دیتا ہے

 

ہر ایک قطرہِ شبنم کو، اُگتے سورج کی

کرن کرن میں اندھیرا دِکھائی دیتا ہے

 

بجز ہمارے، مداوا کوئی نہیں اُس کا

وہ ایک دشت جو تنہا دِکھائی دیتا ہے

 

کھڑا ہُوا ہوں مَیں اُس بامِ زیست پر، کہ جہاں

ہر ایک درد شناسا دِکھائی دیتا ہے

 

سُلگتا دشت ہے وہ اپنی اصل میں، لیکن

نگاہِ عصر کو دریا دِکھائی دیتا ہے

 

امیرِ شہر کے دامن کو کیا ہوا ارشد!ؔ

کہ سامنے سے دریدہ دِکھائی دیتا ہے

٭

’مباحثہ‘(جولائی۔ دسمبر06)

 

 

 

تعلّق ہے شمس و قمر سے، تو کیا!

ہمیں چاہیے آپ اپنی ضیاء

 

خودی سے ہے رشتہ پُرانا مِرا

مگر دوٗر رہتی ہے مجھ سے اَنا

 

نہ جانے کہاں، کیا تماشا کرے !

یہ میرے وسائل کی چھوٹی رِدا

 

چلے تھے جہاں سے وہیں آ گئے

یہ کیسا سفر ہم نے اب تک کیا!

 

کہا جب کسی نے کہ شام آ گئی

دِیے کے تعاقب میں چل دی ہَوا

 

نہ فَردا کی آہٹ، نہ دِی کا گزر

مرے دِل کا موسم رہا ایک سا

 

یہ سُن کر صبا اُن کو صَرصَر لگی

کہ ارشدؔ کو بھی ہے میسّر صبا

٭

’سرسبز‘(جون۔ دسمبر06)

 

 

 

کوئی صدیاں لگائے اشک کو گوہر بنانے میں

مرا ہر پل مگر گُزرے فقط آنسو چھُپانے میں

 

چلوکیفیّت ِصَیّاد سے محظوظ ہونا ہے

کہ طائر تولتا ہے پَر اب اپنے آشیانے میں

 

محبت، دوستی، قربت، وفاداری و ہمدردی

ڈری سہمی سی رہتی ہیں تمدن کے گھرانے میں

 

اذاں ’ آمد‘ کی سُن لی ہے، نماز اب ’رفت‘ کی ہو گی

کہاں کچھ وقت لگتا ہے اِس آنے اور جانے میں !

 

سویراہو چکا، سورج نکل آیا، مگر دیکھو!

ابھی تک وہ مَگن ہے کس طرح لوری سُنانے میں !

 

بظاہر لوگ محوِ گفتگو ہیں چار سٗو، لیکن

حقیقت میں سبھی مشغول ہیں باتیں بنانے میں

 

تأثر کیالکھوں، کیسے لکھوں، کچھ تو کہو ارشدؔ

کہ قِلّت پڑ گئی کیسی یہ لفظوں کے خزانے میں !

٭

’پرواز ادب‘( ستمبر۔ اکتوبر 05 )

 

 

 

وہ منظر جو ہیں سٗوقیانہ بہت

انہی کا ہے طالب زمانہ بہت

 

حقیقت کی جویا ہے دنیا، مگر

گڑھے جا رہی ہے فسانہ بہت

 

تِرا نام لے لے کے اے چاندنی!

مجھے دھوپ دیتی ہے طعنہ بہت

 

خموشی کے سائے میں ہو کر جواں

تکلُّم بنا عارفانہ بہت

 

اِشاروں کے جب تیر چلنے لگے

بنی گفتگو پھر نشانہ بہت

 

ہے میرے لئے جاں گُسل دشت میں

تری اک نگہ کا بہانہ بہت

 

تصوّر کی پرواز ممکن نہیں

کہ نظروں میں ہے آب و دانہ بہت

٭

’کتاب نما‘(اپریل06)

 

 

 

جسے دیکھو وہی پوچھے ہے کوئے یار کا قصہ

یہ میری زندگی ہے یا کسی بازار کا قصہ

 

میں چُپہوں ایک مدّت سے، مگریہ چُپ ہے لاحاصل

کہ میری خامشی بنتی ہے اب اخبار کا قصہ

 

سخنور ہی اسے پیراہنِ اِظہار دیتا ہے

مؤرّخ کیا لکھے اک ساعتِ بیمار کا قصہ!

 

جو مثلِ سگ گزیدہ دوٗر ہی رہتے ہیں پانی سے

اُنہی سے خلق سُنتی ہے ہراک منجدھار کا قصہ

 

در آتا ہے نہ جانے کِس طرح اشعار میں میرے

بظاہر خوشنما گلشن کے ہر آزار کا قصہ

 

جو سچ پوچھو سمجھ سے ماوراء ہر لفظ ہے اس کا

اگرچہ لگتا ہے سادہ نفَس کے تار کا قصہ

 

جہانِ کاغذی تک اب وفا محدود ہے ارشدؔ!

فسانہ لگتا ہے دنیا کو ’یارِغار‘ کا قصہ

٭

’ذہن جدید‘(شمارہ 44)

 

 

 

ہر ایک لمحٔہ غم بحرِ بے کراں کی طرح

کسی کا دھیان ہے ایسے میں بادباں کی طرح

 

نسیمِ صبح یہ کہتی ہے کتنی حسرت سے !

کوئی تو باغ میں مِل جائے باغباں کی طرح

 

ہے وہ تپش ترے پلکوں کے شامیانے میں

کہ اب تو دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح

 

ہر ایک موڑ پہ ملتے ہیں ہم خیال، مگر

کہیں تو کوئی ملے مجھ کو ہم زباں کی طرح

 

فریبِ چشم ہے یارو، کہ اک حقیقت ہے !

سماں جو شہر کا ہے، شہر کے سماں کی طرح

 

ہوائے زیست کو آنا ہے جب تک، آئے گی

بَہار بن کے کبھی، تو کبھی خزاں کی طرح

 

ہر ایک لفظ نکلتا ہے مثلِ تیرِ نوا

زبانِ یار ہے ارشدؔ کسی کماں کی طرح

٭

’ذہن جدید‘(شمارہ 44 )

 

 

 

سمندر سے کسی لمحے بھی طُغیانی نہیں جاتی

مگر ساحِل کو غم ہے خُشک دامانی نہیں جاتی

 

غنیمت ہے مِری آنکھوں کی یہسَیّال آتش بھی

اسی سے میرے ذہن و دل کی تابانی نہیں جاتی

 

سَوا نیزے پہ سورج دیر تک رُکنے نہیں پاتا

مگر کیا ہے، کہ تیری شعلہ افشانی نہیں جاتی

 

صدائے خامشی دیتی ہے اب دستک درِ دل پر

نہ جانے کیوں ہمارے گھرسے ویرانی نہیں جاتی

 

رِہا ہو کر بھی کچھ طائر قفس میں لوٹ آتے ہیں

فضائے قید کی عادت بہ آسانی نہیں جاتی

 

تمدن کا نیا جامہ بہت شفّاف ہے یارو!

کہ تن پوشی کرو کتنی ہی، عریانی نہیں جاتی

 

جتَن سارے ہی کرتا ہوں، مگر کیا کیجیے ارشد!ؔ

مِریخودداریِ فطرت ہے دیوانی، نہیں جاتی

٭

’ادب ساز‘(اپریل۔ جون06)

 

 

 

اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر

چھایا رہا نہ جانے وہ کس کس کے دھیان پر

 

مجھ کو تلاش کرتے ہو اوروں کے درمیاں

حیرانہو رہا ہوں تمھارے گمان پر

 

محفل میں دوستوں کی، وہی نغمہ بن گیا

شب خون کا جو شور تھا میرے مکان پر

 

بے شک زمیں ہنوز ہے اپنے مدار میں

لیکن دماغ اس کا تو ہے آسمان پر

 

شاید مِری تلاش میں اُتری ہے چَرخ سے

جو دھوپ پڑ رہی ہے مِرے سائبان پر

 

رہتا ہے بے نیاز جو آب و سَراب سے

کھُلتا ہے رازِ دشت اُسی ساربان پر

 

احساس اُس کا، جامۂ اظہار مانگے ہے

اُفتاد آپڑی ہے یہ ارشدؔ کی جان پر

٭

’مباحثہ‘(جولائی۔ دسمبر06)

 

 

 

اے دِل! ترے طُفیل جو مجھ پر سِتم ہُوئے

پُو چھے جو مجھ سے کوئی، تو کہہ دوں کہ کم ہُوئے

 

میرے چراغِ ذہن کو وہ گُل نہ کر سکے

حالانکہ سب اندھیرے مرے دل میں ضَم ہُوئے

 

حرفِ غضب سے بھی ہمیں محروم کر دیا

یوں بے نیاز ہم سے ہمارے صنم ہُوئے

 

اُن کی زمینِ دل کا تو قصّہ ہی اور ہے

ورنہ اِن آنسوؤں سے تو صحرا بھی نم ہُوئے

 

احباب نے تو راستے ڈھونڈے تھے مختلف

لیکن سب آکے میری ہی راہوں میں ضم ہُوئے

 

ربطِ دِلی سے خلق کو اب واسطہ کہاں !

اب تو ہَما شُما بھی اَسیرِ منَم ہُوئے

 

ارشدؔ! فصیلِ ذہن میں بڑھنے لگا جو حَبس

ہم شہرِ دِل میں جاکے ذرا تازہ دَم ہُوئے

٭

’ایوان اردو‘(جولائی07)

 

 

 

سچ کی خاطر سب کچھ کھویا، کون لکھے گا

میرایہ بے کیف سا قصہ کون لکھے گا

 

یوں تو ہر کاندھے پر اک چہرہ ہے، لیکن

کس کے پاس ہے اپنا چہرہ، کون لکھے گا

 

برف پگھل کر دریا میں طغیانی لائے

کیوں چڑھتا ہے وقت کا دریا، کون لکھے گا

 

سامنے جو حالات ہیں ان سب کے ہونے میں

کتنا کچھ ہے کس کا حصہ، کون لکھے گا

 

دشت نوردی کا قصہ تو سب لکھتے ہیں

کس گھر میں ہے کتنا صحرا، کون لکھے گا

 

خُشک ہُوا احساس کا خامہ، اب ایسے میں

کیا ہوتا ہے درد کا رشتہ، کون لکھے گا

 

روشن دن میں سورج کا گُن گانے والو!

شب کے در پر لفظ ’سویرا‘ کون لکھے گا

 

روز و شب کے بیچ تصادم میں اے ہمدم!

سورج کا کردار ہے کیسا، کون لکھے گا

 

ابرِ سِیہ تو جھُوم کے آیا، لیکن ارشدؔ

کس بستی پر کتنا برسا، کون لکھے گا

٭

’ذہن جدید‘(شمارہ47)

 

 

 

 

 

الگ اپنی ڈگر رکھیے

نگاہِ معتبر رکھیے

 

کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے

ذرا نیچی نظر رکھیے

 

مزہ جب ہے کہ چُپ رہ کر

فضا میں شور و شر رکھیے

 

انا کہتی ہے، ارماں کو

اُٹھا کر طاق پر رکھیے

 

سراپا شب ہیں کیوں حضرت!

کہیں تو کچھ سحر رکھیے

 

تسلّط غم کا ہے، تو کیا!

خوشی کی بھی خبر رکھیے

 

اُجالا، دے کے جائے گی

بھروسا رات پر رکھیے

 

حقیقت ہے پَسِ پردہ

اسے مدِّ نظر رکھیے

٭

’نئی کتاب‘(جولائی۔ ستمبر07)

 

 

 

راہ میں جو رُکاوٹ تھی، کیا ہو گئی

دھوپ میرے لیے خود گھٹا ہو گئی

 

اک نگاہِ جنوں کا اثر دیکھیے !

تپتے صحرا کی لٗو بھی صبا ہو گئی

 

اپنا چہرہ مجھے کیوں شناسا لگا!

غالباً آئینے سے خطا ہو گئی

 

جہدِ پیہم کے اسرار ایسے کھُلے

میری تشنہ لبی جاں فزا ہو گئی

 

زاویہ جب نظر کا بدلنے لگا

کج روی حُسن کی اک ادا ہو گئی

 

ریت، فتنوں کی اُڑتی ہوئی چار سٗو

انتہائے تمدّن بھی کیا ہو گئی!

 

تجھ کو پڑھنے کی کوشش بہت کی، مگر

زندگی! تٗو وَرا ألوراہو گئی

٭

’نئی کتاب‘(جولائی۔ ستمبر07)

 

 

 

 

 

یہ علم و دانش حضور! کیا ہے

نہ ہو بصیرت تو نور کیا ہے

 

یہ نفسی نفسی پڑی ہے کیسی!

یہ جیتے جی ہی نشُور کیا ہے

 

ہیں ماہ و انجم ہی نیند میں جب

سَوادِ شب کا قصور کیا ہے

 

مِری خموشی کو پڑھ کے دیکھو!

کہ اس کا بین السّطور کیا ہے

 

یہ بزمِ اِمکاں کا شور و غوغا

رہے سلامت تو صور کیا ہے

 

کوئی پتَنگا بتائے کیسے !

کہ روشنی کا سرور کیا ہے

 

جب اپنا چہرہ نہیں ہے اپنا

تو آئینے کا قصور کیا ہے

 

اگر تعلق ہے اُس سے ارشدؔ!

تو ذکرِ فردوس و حور کیا ہے

٭

’سرسبز‘(جنوری- جون07)

 

 

 

 

 

سَوادِ شب! ترے صدقے کچھ ایساہو گیا ہے

بھنوربھی دیکھنے میں اب کنارا ہو گیا ہے

 

میں اُن کی گفتگو سے عالَمِ سکتہ میں گُم تھا

وہ سمجھے اُن کی باتوں سے دلاسہ ہو گیا ہے

 

کبھی موقع ملے تو گفتگو کر لوں، خبر لوں

کہ خود سے ربط ٹوٹے ایک عرصہ ہو گیا ہے

 

کبھی اُن کا نہیں آنا خبر کے ذیل میں تھا

مگر اب اُن کا آنا ہی تماشا ہو گیا ہے

 

مجھے فرہاد و مجنوں آفریں کہتے ہیں ارشدؔ!

کہ اب میرا بھی جینے کا ارادہ ہو گیا ہے

٭

’ آجکل‘(جون07)

 

 

 

 

ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

ساحل سے سمندر کا نظارہ نہیں کرتے

 

ہر شعبۂ ہستی ہے طلبگارِ توازن

ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے

 

دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے، تو پھر کیوں

دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے !

 

دستک سے علاقہ رہا کب شیش محل کو

خوابیدہ سماعت کو پُکارا نہیں کرتے

 

ہم فرطِ مسرّت میں کہیں جاں سے نہ جائیں

اس خوف سے وہ ذکر ہمارا نہیں کرتے

 

ہم اُن کے تغافل کو سمجھتے تو ہیں، لیکن

دنیا بھی سمجھ لے، یہ گوارا نہیں کرتے

 

ظلمت سے ہی کچھ نور نچوڑو، کہ ہم ارشدؔ!

مانگے کے اُجالے پہ گُزارا نہیں کرتے

٭      ’سبق اردو‘(ستمبر07)

 

 

کیا ہے میں نے ایسا کیا، کہ ایساہو گیا ہے

مرا دل میرے پہلو میں پرایا ہو گیا ہے

 

وہ آئے تو لگا غم کا مداوا ہو گیا ہے

مگریہ کیا، کہ غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

امیرِ شہر ہے کیوں ہم سے برہم!

بھٹکتے ہیں اگر آشُفتہ سر ہم

 

ہمیں اپنی خبر بس اِس قدر ہے

کہ خود سے ہو گئے ہیں بے خبر ہم

 

سفر کی بات کب تک ہم نشینو!

چلو اب باندھ لیں رختِ سفر ہم

 

’شنیدہ کَے بوَد مانند دیدہ‘

توکّل اُس پہ کرتے ہیں مگر ہم

 

گھِسے ہم وقت کی سِل پر کچھ ایسے

سَراسرہو گئے تیر و تبر ہم

 

اُسی دھُن پر تھِرکتا ہے زمانہ

کہ رقصاں جس پہ ہوں دینار و درہم

 

مداوا ہو نہ ہو لیکن کبھی تو

ہمارے زخم پر رکھّیں وہ مرہم

 

بہت کوتاہ بیں دنیا ہے ارشدؔ!

ذرا دے دیں اسے اپنی نظر ہم

٭

سہماہی’درون‘(شمارہ10)

 

 

 

درد کی ساکِت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے

موجِ حیرت کا تماشا اب کہاں ہونے کو ہے !

 

جو گراں بارِ سماعت تھا کبھی سب کے لیے

اب وہی کلمہ یہاں حُسنِ بیاں ہونے کو ہے

 

کیوں کریں وہ اپنی قسمت کے ستارے کی تلاش!

دسترس میں جن کے سارا آسماں ہونے کو ہے

 

مجھ کو اُس منزل سے گزرے کتنی مدت ہو گئی!

وقت میری جستجو میں اب جہاں ہونے کو ہے

 

تجربے کی آنچ پر ہر شَے ہے یوں آتش بجاں

چاندنی بھی صورتِ برقِ تپاں ہونے کو ہے

 

آسماں ’ترشُول‘ اور ’غَوری‘سے ہے سہما ہوا

فاختہ کا ذکر ایسے میں کہاں ہونے کو ہے !

 

گھر میں ہے آبِ رواں، تو برف ہے منجدھار میں

کچھ نہ پوچھو دہر میں اب کیا کہاں ہونے کو ہے !

٭

سہماہی’درون‘(شمارہ 1)

 

 

 

کہایہ کس نے، کہیں سائباں نہیں ملتا!

جہاں پَڑاؤ مَیں ڈالوں، وہاں نہیں ملتا

 

مزہ تو جب ہے کہ میں اس کو پاسباں کر لوں

جو کہہ رہا ہے کوئی پاسباں نہیں ملتا

 

کچھ اِس طرح سے ہیں برپا بشر کے ہنگامے

کہ اب تو شہر میں شورِ سگاں نہیں ملتا

 

چمن میں آج کے آدم کا آنا جانا ہے

عجب ہے کیا، جو وہاں آشیاں نہیں ملتا

 

ہمارے بیچ جو دریا تھا اک تعلق کا

وہ برقرار ہے، لیکن رواں نہیں ملتا

 

ہزار صُلح کا پَرچم بلند کرتے رہو

کسی زمیں سے کوئی آسماں نہیں ملتا

 

مزاج دہر کا پہچانیے میاں ارشدؔ!

یہ وہ ندی ہے جہاں بادباں نہیں ملتا

٭

’ذہن جدید’(شمارہ49)

 

 

 

رہِ حیات کی ظُلمت کا دِل دُکھاتے رہیں

کسی کی یاد کے تارے جو جھِلملاتے رہیں

 

مزہ تو جب ہے کہ ہم زندگی کے صحرا میں

ہراکسَراب کو آبِ رواں بناتے رہیں

 

فراق و وصل حقیقت میں ایک ہوں کہ نہ ہوں

یہ عین عشق ہے دونوں کو ہم ملاتے رہیں

 

جواز کوئی نہیں آج قہقہوں کا، مگر

امیرِ وقت کا منشا ہے کھِلکھلاتے رہیں

 

ہراک نگاہ کسوٹی نہیں زمانے کی

اسے خود اپنی نظر سے بھی آزماتے رہیں

 

ہَوا کی سانس یقیناً اُکھڑ ہی جائے گی

چراغ اپنے لہو سے تو ہم جلاتے رہیں

 

کہاں سے چھاؤں ملے گی ہماری نسلوں کو!

زمیں پہ دھوپ کے پودے جو ہم اُگاتے رہیں

 

کسی مکاں میں کوئی گھر نہ مِل سکے گا یہاں

ہزار شہر میں ارشدؔ جی سر کھپاتے رہیں   ٭

 

جب ہوئی غفلت شناور سے، تماشا ہو گیا

راہ کا ہر شبنمی قطرہ بھی دریا ہو گیا

 

سربَسر طُرفہ تماشا ہے یہ عہدِ باکمال

آبجو کی جستجو میں خود ہی صحرا ہو گیا

 

خیر و شر کے درمیاں اک فیصلہ ہو گا یہاں

یہ کہانی سنتے سنتے وقت بوڑھا ہو گیا

 

رات کے پچھلے پہر میں نے جو ٹھنڈی سانس لی

صبح کے ایوان میں بھی اُس کا چرچا ہو گیا

 

جانے کیسے لوگ تھے وہ، جن کے تیور دیکھ کر

آبِ دجلہ احتراماً خشک رستہ ہو گیا

 

ہر بھنور ہی میرے حق میں اک سفینہ تھا کبھی

کیا کہوں یہ واقعہ کیوں آج قصہ ہو گیا

 

ہر نفس میں ڈھونڈتا ہوں زندگی کچھ اس طرح

لوگ کہتے ہیں کہ ارشدؔ بھی ندیدہ ہو گیا

٭

؎سولہ ہجری میں مسلمانوں نے دریائے دجلہ کواس طرح پارکیا تھاجیسے خشکی پر چل رہے ہوں

 

 

 

 

بعد مدّت خامشی ٹوٹی تھی اُن کی، اس لیے

اُن کا ہر انکار بھی اقرار سا لگنے لگا

 

درد میرا مشتہر ہوتا گیا تو ایک دن

زندگی کا ہر ورق اخبار سا لگنے لگا

 

یوں گہن میں گھِر گیا سورج مری امّید کا

ابر کا ٹکڑا مِرا غم خوار سا لگنے لگا

 

گمرہی کی کون سی منزل پہ دنیا آ گئی!

مَیں نگاہِ خلق میں کیوں پارسا لگنے لگا!

 

اپنے اندر جھانکنے کے بعد اے ارشدؔ مجھے

ہر بشر ہی صاحب کردار سا لگنے لگا

 

٭

’ آجکل‘(اپریل08)

 

 

 

جانے کیا کچھ مجھ سے پُوچھا جائے گا

حشر کا میداں سجایا جائے گا

 

دیکھ کر میری ندی کو پُرسکوں

اک بھنور اس میں اُتارا جائے گا

 

پڑھ چکے وہ میرے دِل کا ہر ورَق

اب انھیں کیا کچھ پڑھایا جائے گا!

 

وہ جو ہے میرا رقیبِ رُو سیہ

اُس کو نامہ بر بتایا جائے گا

 

اِس خموشی کو نہ جانو رائیگاں !

دوٗر تک اِس کا اِشارہ جائے گا

 

تیرگی کیوں ہنس رہی ہے اِس طرح!

تجھ سے بھی کچھ نور کاڑھا جائے گا

 

دھوپ کی کرنوں سے ریگِ دشت پر

شبنمی نغمہ بھی لکّھا جائے گا

٭

 

 

 

میرا غم جو مُشتہر ہو جائے گا

یہ جہاں زیر و زبر ہو جائے گا

 

ہے نہیں ایسا، مگر ہو جائے گا

وہ سراپا شور و شر ہو جائے گا

 

کل تلک ہوتا رہا جو کچھ یہاں

آج مہر و ماہ پر ہو جائے گا

 

بن گئے جو ہم سراپا ذہن، تو

دردِ دل اک دردِ سر ہو جائے گا

 

جوخبردارِ زمانہ ہے ابھی

جلد ہی وہ خود خبر ہو جائے گا

 

خوف سے ہم ہو گئے خائف اگر

خوف تو بالکل نِڈر ہو جائے گا

 

میں تو صرف اُس وقت کا ہوں منتظِر

نامہ بر جب راہبر ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

گرچہ ظاہر میں ہیں احوال منور سارے

رقص کرتے ہیں اندھیرے مرے اندر سارے

 

موجۂ درد بنادے گا انھیں مثلِ صبا

وہ جو پھِرتے ہیں یہاں صورتِ صرصر سارے

 

داغِ دل میرے فروزاں ہیں زمیں پر ایسے

چھپتے پھرتے ہیں فلک پر مَہ و اختر سارے

 

مرے دریائے سخن سے ہے علاقہ کہاں ان کو!

وہ تو پایاب ندی کے ہیں شناور سارے

 

تشنگی زاغ نے اپنی تو بُجھالی پل میں

حَیف، گاگر میں پڑے رہ گئے کنکر سارے

 

کون بنتا ہے سفینہ یہاں کس کی خاطر!

یوں تو موجود ہیں دریا میں شناور سارے

 

راہ رَو اور بھی دنیا میں ہیں ارشدؔ، لیکن

میری ہی راہ میں ہی پڑتے ہیں سمندر سارے

٭

 

 

 

 آبرو زیست کی ارشدؔ جی بچائے رکھیے

نیزۂ وقت پہ سر اپنا سجائے رکھیے

 

تیرگی موم کی مانند پگھل جائے گی

مطلعِ فکر پہ خورشید سجائے رکھیے

 

دَوڑتے بھاگتے لمحوں سے چُراکر ہی سہی

خود سے مِلنے کے لیے وقت بچائے رکھیے

 

گرمیِ علم سے ہو جائے نہ دِل ہی بنجر

فکر کی راہ میں احساس کے سائے رکھیے

 

ڈھلتے سورج نے کہا مجھ سے یہ سرگوشی میں

کل بھی آنا ہے مجھے، ربط بنائے رکھیے

 

کیا پتہ زیست کے دریا میں کب آ جائے اُبال!

اپنے اندر کے شناور کو جگائے رکھیے

 

چاند، سورج کے اُجالے کا بھروسا کیا ہے !

ذہن کے طاق پہ اک دیپ جلائے رکھیے

٭

 

 

 

گرچہ دعویٰ ہے کہ اُس کو نیک و بد کا ہوش ہے

گمرہی کی ہر ادا سے وقت ہم آغوش ہے

 

خیمہِ فرہاد میں تھا جو کبھی تیشہ بدست

شاہراہِ زیست پر وہ بھی خرد بر دوش ہے

 

میرے گھر کا پاسباں ہے اک سگِ عصرِ جدید

شورِ شبخوں سُن کے بھی بُت کی طرح خاموش ہے

 

جب سے ان کی پُشت پر ہے حاکمِ دوراں کا ہاتھ

وہ خطیبِ وقت ہیں، دنیا ہمہ تن گوش ہے

 

کیوں نہ روشن ہوں گے مہر و ماہ ایسے میں، کہ جب

تیرگی سارے جہاں کی مجھ میں ہی رو پوش ہے

 

بے زبانی کے ہنر میں طاق ہم ایسے ہوئے

خیرمقدم اب ہمارا ہر جگہ پُرجوش ہے

 

بَک رہا ہے جانے کیا کچھ ایک مجنوں کی طرح

اُس پہ دعویٰ ہے کہ ارشدؔ! تُو سراپا ہوش ہے ؟

٭

 

 

 

کس زباں پر ہے یہاں کون سی تقریر، نہ دیکھ

کون ہوتا ہے یہاں کس سے بغل گیر، نہ دیکھ

 

شیر میں آب ہے یا آب میں ہے شیر، نہ دیکھ

اس طرح ڈوب کے تُو وقت کی تصویر نہ دیکھ

 

لوحِ دل پر ہے رقَم جو بھی، ذرا پڑھ لے اسے !

پردۂ ذہن پہ لکھّی ہوئی تحریر نہ دیکھ

 

اپنے احساس کو اظہار کا جامہ دے دے

کیوں ہیں خاموش زمانے کے مشاہیر، نہ دیکھ

 

زندگی سے ہے تعلق، تو نبھادے اس کو

’رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ‘

 

روز و شب جس کے گزرتے ہیں جہاں سوزی میں

کیسے بنتا ہے زمانے میں وہی میر، نہ دیکھ

 

شمعِ دوراں سے ہے جو کچھ بھی میسر ارشدؔ

باعثِ تیرہ شبی ہے کہ ہے تنویر، نہ دیکھ

٭

 

 

 

 

 

شبِ ظلمت! ترے صدقے یہ کیسا انقلاب آیا

دِیا جل کر تأثر دے، زمیں پر آفتاب آیا

 

رِدائے بے حسی ہے پیرہن میرا، مگر کل شب

تری محفل سے اے ہمدم! میں ہو کر آب آب آیا

 

بیاباں میں جو دیکھی میں نے اک اُجڑی ہوئی کُٹیا

نہ جانے یاد کیوں اپنا دلِ خانہ خراب آیا

 

مری آنکھوں نے کیا دیکھا، زباں کہتی تو کیا کہتی!

شکستِ ذات سے بڑھ کر بھی کیا کوئی عذاب آیا

 

حقیقت جان لیوا ہے، فسانہ میں نہیں کہتا

انھیں شکوہ کہ ارشدؔ کا جوابِ لاجواب آیا

٭٭٭

 

 

 

 

اظہارِتشکّر

 

میں ممنون ہوں عزیزی شاہدا لاسلام ( روزنامہ ’ہندوستان اکسپریس‘ ) کا، جو اپنی صحافتی مشغولیت کے باوجود زیر نظر مجموعہ کی کمپوزنگ، طباعت اور اشاعت کے تمام دشوار گزار مراحل میں میرے  دست راست بنے رہے۔ دعا گو ہوں کہ پروردگار آں عزیز کو دنیا اور آخرت دونوں جہان میں غیر معمولی کامیابی سے سرفراز کرے، آمین۔

٭ارشدکمال

 

 

 

کوائف

 

نام: ارشد کمال

تاریخ پیدائش: 25جنوری1955(لکھمنیا)

آبائی وطن: لکھمنیا، ضلع: بیگوسرائے، بہار

والدین: محمد الیاس، واجدہ خاتون( مرحومین)

تعلیم: بی اے آنرز(انگریزی)، کلکتہ یونیورسٹی

آغازشاعری: 1992(زیرسرپرستی: جناب قیصرشمیم)

(1995تا2001تخلیقی سلسلہ موقوف رہا)

شغل:  ملازمت (وزارت دفاع، حکومت ہند)

موجودہ پتا: G-64, ABUL FAZL ENCLAVE

5 JAMIA NAGAR, NEW DELHI-2

Ph:  011-65639506; 0-9818119273

e-mail:  arshad.kamal@yahoo.co.in

٭٭٭

تشکر: Ideal Ideaz،کتاب ایپ

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل