FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دھوپ چھاؤں

 

 

عابدہ احمد عابی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

کمرے میں ہفتے بھرکے باسی موتیا اور گلاب کے پھولوں کی مہک رچی بسی تھی، ماسڑ بیڈ والی دیوار پھولوں سے بنے ہوئے ایک دل سے سجی آنکھوں کو بھلا تاثر دے رہی تھی۔  بیڈ کے بالکل سامنے رکھے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے وہ بیٹھی ہاتھوں پہ لوشن مل رہی تھی، دفعتاً باتھ روم کا دروازہ کھلا تھا اور دراز قد آور توانا جسم کا مالک اپنا سر تولیے سے رگڑتا باہر نکلا۔

“یار میری گرین ٹی تیار ہے کیا ؟ ” یونہی تولیے سے سر رگڑتے اس نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا اور ہاتھوں پہ لوشن ملتی وہ جیسے کسی خیال سے چونکی۔۔

“اوہ سوری ! مجھے یاد نہیں رہا۔۔  ابھی لاتی ہوں ” شوہر کی گھورتی نگاہیں اور ماتھے کے بل۔۔  وہ ایک دم سے کھڑی ہوئی۔۔  دونوں اب بالکل آمنے سامنے تھے۔  مرد کے کندھے سے اوپر پہنچتا لڑکی کا قد۔

“کتنی عمر ہے تمہاری ؟”، فرجاد نے تولیہ گول مول سا کر کے ہوا میں اچھال دیا جو “اتفاق” سے اُس کے منہ پہ آ لگا۔  (ایسے اتفاقات ان گنتی کے سات دنوں میں کئی بار ہو چکے تھے )۔۔  اس کے سیدھے لمبے بال منتشر ہوئے اور ذہن شوہر کے سوال پہ۔

“ان۔۔ ۔  انیس سال ” وہ کچھ حیران ہو کر بولی تھی۔  شادی کے اس ایک ہفتے میں اتنا تو وہ جان گئی تھی کہ شوہر کا مزاج پل میں تولہ پل میں ماشہ والا ہے۔۔

“تو آنسہ مہر ماہ آپ کو انیس سالوں میں کسی نے نہیں سکھایا کہ اگلے گھر جا کر شوہر کی پسند ناپسند کو کتنی اہمیت دینی ہے ” وہ تو باقاعدہ کمر پہ ہاتھ جما کر کھڑا ہو گیا…وہی لڑنے والا انداز۔  ساس تھی نہیں لیکن شوہر تھا اور کیا خوب تھا۔۔۔۔  آنسہ مہر ماہ گھبرائی۔

کوئی جواب نہ سوجھا تو ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

“ “قد اتنا بڑا اور عقل شاید دو انچ جتنی بھی نہیں ہے آپ میں۔۔  ” قد لمبا ہونا بھی انسان کو بے عزت کروا سکتا ہے یہ اسے ابھی پتا چلا تھا۔۔ ۔  ایسا جملہ شادی کے پہلے ہی ہفتے میں شاید ہی کسی دلہن کو سننے کو ملا ہو وہ دل مسوس کر رہ گئی۔

“سوری”، جھکے سر سے بس یہی کہہ سکی۔

“چلیں جی سوری کہہ دیا اب مجال اگلے بندے کی آپ کو اُف بھی کہہ جائے۔۔  ” ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھتے ایک اور جملہ اچھالا وہ جلدی سے ایک جانب ہوئی۔۔

“میں ابھی لاتی ہوں ” کسی خادمہ کے سے انداز میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ تے ہوئے اس نے کہا۔  شوہر کے ہونٹ ایک دم سے مسکرانے کو پھیلے اُسے یہ فرمانبرداری اچھی لگی۔۔

“اب ایسا بھی کوئی فرعون نہیں ہوں جو اپنی نازک سی بیوی کو رات کے دو بجے کچن میں دھکیل دوں محض گرین ٹی کے لئے۔۔  ” ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر بالوں میں پھیرتے اب کے اس کا انداز دوستانہ تھا۔  ماہ مہر کی پھنسی ہوئی سانس بحال ہوئی۔

“یار ! یہ دعوتوں میں بندے کی ڈائٹنگ کا کیسا تیا پانچہ ہوتا ہے نا۔۔  ” خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے وہ مصروف سے لہجے میں بولا۔

ماہ مہر نے بس سر ہلا نے پہ اکتفا کیا۔۔  ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ فرجاد کے کسی دوست کی دعوت سے واپس آئے تھے۔۔  کتنا کھا لیا تھا نا ؟ اب تو اسے بھی اپنی فکر ہو چلی تھی۔۔  شادی کے پہلے دن کے بعد سے وہ ڈنر یا لنچ میں کہیں نہ کہیں انوائیٹڈ ہی تھے۔۔

” میں سوچ رہا ہوں۔۔  کل سے چھٹیوں کو ماروں گولی اور کلب دوبارہ جانا شروع کروں ” اب وہ بیڈ پہ بیٹھ چکا تھا اور سوچ سوچ کر بولتے ہوئے اپنی روزمرہ کی روٹین ترتیب دے رہا تھا وہ یونہی کھڑی سر بلاتی جا رہی تھی۔

“کہیں آوٹ آف شیپ نہ ہو جاؤں۔۔  کتنے دن تو ہو گئے شادی سے پہلے سے ہی جانا چھوڑ رکھا ہے اور اب یہ دعوتیں۔۔  لگتا ہے میں نے کچھ ایکسٹرا پونڈز تو گین کر ہی لئے ہوں گے ” بولتے بولتے وہ ایک دم رکا تھا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس آنے کے لئے کہا۔۔  وہ جھجکتی ہوئی چلی آئی۔  فرجاد نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے ساتھ بیڈ پہ بٹھا لیا۔

“کیا ہوا ؟ اتنی چپ کیوں ہو؟ ” اس کے نرم ہاتھ پہ اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈالتے ہوئے اب وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا۔  وہ کنفیوژڈ ہوئی۔

“نہیں تو۔۔  میں تو آپ کو سن رہی تھی ” وہ دھیرے سے بولی تھی۔

“تم بولو کیا چل رہا ہے ذہن میں ”، اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے وہ مستقل اس کا چہرہ تکے جا رہا تھا۔۔  مہر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اس کی آنکھوں کا نرم تاثر۔۔  اس کی تھوڑی ہمت بندھی۔۔  وہ تو آجکل ایک ہی نقطے پہ سوچ رہی تھی لیکن ابھی تک فرجاد سے کہنے کا حوصلہ نہ ہوا تھا اب جب وہ خود پوچھ رہا تھا تو اس نے اس موقعے کو غنیمت جانا۔

“وہ۔۔ ۔  آپ اپنی روٹین اسٹارٹ کرنے کی بات کر رہے تھے نا تو۔۔  ” وہ رکی تھی اور فرجاد کی طرف دیکھا۔۔  فرجاد نے اس کی بات کی تائید میں سر ہلا یا تھا۔

تو میں۔۔ ۔  سوچ۔۔  میرا مطلب تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں دوبارہ سے کالج جوائن کر لوں ” سوچ سوچ کر بات کرتے ہوئے آخر میں وہ روانی سے کہہ ہی گئی۔۔  فرجاد نے ایک دم سے اس کا ہاتھ جھٹکنے کے انداز میں چھوڑا تھا۔  اس کا موڈ آف ہو چکا تھا۔۔

” یہ بھی کوئی کرنے والی بات ہے۔۔  ذرا جو پیار سے بات کر لی فرمائشی پروگرام شروع ہو گیا۔۔  سو جاؤ خاموشی سے۔۔  اچھے بھلے موڈ کا سوا ستیاناس کر دیا”۔وہ بہت بولنے کا عادی تھا۔۔  یہ اب مہر کو اچھی طرح اندازہ ہو چلا تھا۔  وہ بد دلی سے اس کے پہلو سے اٹھی تھی۔۔

“کیا تھا اگر میں کچھ دن اور صبر کر لیتی۔۔  کہیں ضد میں نہ آ جائے۔۔  ان کا مزاج بھی تو ایسا ہی ہے۔۔  کب گرجنے لگے۔۔  کب برسنے کون جانے ” دل ہی دل میں سوچتے ہوئے وہ اپنا کمبل ذرا سا اٹھا کر بیڈ پہ لیٹ گئی۔۔  فرجاد ابھی بھی بڑ بڑا رہا تھا۔۔  اسے ایک بار پھر سے اپنی جلد بازی پہ افسوس ہوا تھا۔۔

☆☆☆

 

” مہر۔۔ ۔  مہر ” وہ کچن میں دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی۔  جب فرجاد کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔  وہ جلدی سے کفگیر رکھ اور ہاتھ اپنے ایپرن سے پونچھتے باہر کی طرف لپکی۔

“جی آ گئی ” لاونج میں بیٹھے فرجاد نے اسے آتے دیکھ کر اس کا فون اس کی طرف بڑھایا۔

“فون ہے ابو کا ” وہ اس کے ابو نظام الدین کو ابو ہی کہتا تھا۔  مہر کے فون کی طرف بڑھتے ہاتھ سست پڑے تھے۔۔  فرجاد حسب معمول سب چھوڑ چھاڑ اس پہ نظریں جما کر بیٹھ گیا وہ اس کے سامنے ابو سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اک ذرا سی تنہائی کے لئے وہاں سے اٹھنے میں جو جو جھگڑے اُٹھ کھڑے ہوتے ان کا سوچ کر ہی وہ مارے باندھے بالکل اس کے مقابل صوفے پہ بیٹھ گئی۔۔  فرجاد جو کچھ دیر قبل ٹی وی پہ کوئی پرانا ہاکی کا میچ دیکھ رہا تھا، نے ٹی وی آف کر دیا۔  مہر نے اک گہرا سانس بھرا اور اپنے ابو سے فون پہ بات کرنے لگی۔  فرجاد اس کے بالکل قریب آ کر بیٹھ گیا کہ وہ اُس کی سانسوں کی آہٹ سن سکتی تھی، اُس نے دل ہی دل میں دانت کچکچائے وہ یقیناً اُس کی ابو کے ساتھ ہونے والی گفتگو سننے کے “موڈ” میں تھا، ابو جو کچھ کہہ رہے تھے وہ جانتی تھی کہ وہ فرجاد کے کانوں تک بھی بخوبی پہنچ رہا ہے۔  مہر سے بات کرنا مشکل ہو گیا اور وہ ہوں ہاں سے ہی کام لیتی رہی، صبر کے زہریلے گھونٹ کیا ہوتے ہیں اور انہیں کیسے پی لینا پڑتا ہے یہ اُسے فرجاد بہت اچھی طرح سمجھا رہا تھا۔

☆☆☆

 

“تمہارے ابو ناراض ہیں تم سے ” رات کو وہ سونے کے لیے بستر پہ لیٹے تو حسب معمول فرجاد نے چٹکلا چھوڑا تھا۔۔  اسے اب حیرت اس کے ایسی باتیں نہ کرنے پہ ہوتی تھی۔۔  جو سوال وہ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے پوچھے جانے کی منتظر تھی وہ اب اس کے منہ سے نکلا تھا۔  مہر نے اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے اپنے برابر کہنیوں کے بل لیٹے فرجاد کو دیکھا۔  اور گہرا سانس بھرا تھا۔

“نہیں۔۔  ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔  آپ کو ایسا لگا ؟ “۔اس کے سوال کا جواب دے کر وہ اس سے عام سے لہجے میں سوال کر گئی۔

“ظاہر ہے لگا تو پوچھا۔۔  نہ تو تم انھیں خود سے کال کرتی ہو۔۔  نہ ہی ان سے ملنے کی ضد کرتی ہو ” فرجاد کی اب تفتیش شروع و چکی تھی۔  وہ اس کے بچاؤ کے رستے یونہی بند کر دیا کرتا تھا سوال پوچھ پوچھ کر۔

“تو اس سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ناراض ہیں مجھ سے ” اسے غصہ آنا شروع ہو چکا تھا۔۔  یہ شخص ہمیشہ اسے اپنے سوالوں کی سولی پہ لٹکائے رکھتا تھا اور مزے کی بات یہ کہ جواب بھی اپنی مرضی کے چاہتا تھا۔

” یہی تو جاننا ہے کہ کون کس سے اور کیوں ناراض ہے ؟” اس کے لبوں پہ چڑادینے والی مسکراہٹ سجی دیکھ کر وہ چڑ ہی تو گئی۔

“آپ ہماری فکر میں دبلے نہ ہوں۔۔  اور خواہ مخواہ اپنا دماغ نہ تھکائیں “کہتے ہوئے اپنا کمبل جھٹکا۔  مطلب میں سونے لگی ہوں۔۔  اب مزید باتیں نہیں۔  لیکن اس سے پہلے کہ وہ لیٹتی فرجاد نے ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو تھاما اور اسے اپنی طرف کھینچنے والے انداز میں نیچے گرایا تھا۔

“زبان بند کرو اپنی”۔۔۔  وہ غرایا تھا اور اس کے بازو کو ایک اور جھٹکا دیا تھا۔  “سی”ا س کے منہ سے بے ساختہ سسکاری نکلی تھی۔

“آئندہ سوچ سمجھ کر بولنا۔۔  پہلی غلطی معاف کر رہا ہوں۔۔  ورنہ مجھے چلتی زبان روکنی آتی ہے ” وہ ابھی بھی اس کے بازو کو گرفت میں لئے ہلکے ہلکے جھٹکے دیئے جا رہا تھا۔

وہ شاکڈ سی اپنا بازو چھڑانا یا اس کی گرفت کی مضبوطی سے ہونے والی تکلیف کا اظہار بھی کرنا بھول گئی۔

“سمجھ گئیں ” ایک آخری جھٹکا دے کر اس کا بازو چھوڑ کر وہ خود سیدھا لیٹ گیا۔  وہ آنکھوں میں آنسو بھرے لب چباتے اپنا بازو سہلانے لگی۔

“جی ” اس کی آواز بھی رندھی رندھی سی تھی۔  فرجار بے ساختہ مسکرایا تھا۔۔ ” اب اوقات میں رہے گی ساری عمر۔۔  ٹھیک کہتے ہیں میرے دوست۔۔  شروع میں ہی بیوی کو دبا لو ورنہ اپنے ہاتھوں قبر کھود کر اس میں اپنی مردانگی دبا دو۔۔  ” مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے وہ سوچ کر مسکرائے جا رہا تھا۔

“اچھا چلو دوبارہ سے شروع کرتے ہیں۔۔  اب ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔  ” جانے اسے کس چیز کی کھوج تھی۔  مہر بالکل روہانسی ہو گئی۔۔  وہ اسے یونہی زچ کرتا تھا۔  “کیا چاہتا ہے یہ شخص ؟ “، اس کا دل چاہا وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑے، حالانکہ وہ زندگی میں کبھی نہیں روئی تھی مگر یہ بھی زندگی ہی اُسے سکھا رہی تھی اور جس کی وجہ سے سکھا رہی تھی وہ اُسے چاہ کر بھی بددعا نہیں دے سکتی تھی۔

“اچھا یہ بتاو کہ تمہاری بہن کا کیا چکر تھا ؟ وہ کیوں گھر سے بھاگی تھی ؟” وہ بڑے مزے سے بولا تھا جیسے موسم کا حال پوچھ رہا ہو۔  مہر یوں بد کی تھی جیسے سوال نہ ہو کوڑا اس کی پشت پر پڑا ہو۔۔ شڑاک،، ،،

وہ کیسے بھول گئی تھی کہ اس بات کا حوالہ تازیانہ بن کر اس کی زندگی کا حصہ نہیں بنے گا۔ جن حالات میں اس کی شادی ہوئی تھی کیسے ممکن تھا کہ فرجاد کا منہ سانپوں کی پٹاری نہ بنتا جس میں ہر رنگ اور نسل کا بلبلاتا ہوا سوال پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔۔  جواب تو دینا تھا۔۔  وہ نپے تلے انداز میں اسے بتانے لگی۔

☆☆☆

 

نظام الدین میٹرک بورڈ آفس میں کلرک تھے ایک ایماندار اور حق حلال کی کھانے کمانے والے کلرک۔  ایک بیوی، دو بیٹیاں اور اپنا گھر یہی ان کی کل کائنات تھی۔  بیٹیاں جوان ہوئیں تو بیوی نے موئے بخار کا بہانہ کر کے رخت سفر باندھ لیا۔  پیچھے میاں اور بچیاں بس روتے ہی رہ گئے۔  آنسو وقت کے ساتھ خشک ہو گئے تو گھر کی دیکھ ریکھ کا مسئلہ اٹھا جسے مہر اور ثمر دونوں نے خوش اسلوبی سے سلجھا لیا۔

نظام الدین نے بیٹیوں کو اور بیٹیوں نے گھر کو سنبھال لیا۔  زندگی کچھ ڈگر پہ آنے لگی۔۔  بیوی کے گزر جانے کے بعد نظام الدین بیٹیوں کے بے حد قریب آ گئے۔۔  وہ ہر بات باپ سے شئیر کرنے لگیں۔۔  ثمر کا اعتماد تو اتنا بڑھا کہ باپ کو اپنی پسند تک بتا دی شادی کے لئے۔  نظام الدین جیسے ہکا  بکا رہ گئے۔  بیٹی مزے سے ایک دوست کے طور پہ انھیں اپنا ہمراز بنا کر مطمئن ہو گئی اور وہ وہیں آندھیوں کی زد میں آ گئے۔

“ابو ! پھر بتائیں نا کب بلاؤں احمر کو آپ سے ملنے کے لئے ؟” کچھ دن باپ کی طرف سے کچھ سننے کی منتظر رہنے کے بعد وہ پھر ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

“ثمر! تمھیں میں نے کالج پڑھنے کے لئے بھیجا تھا۔۔  یہ کون سا نیا سبق پڑھ آئی ہو ” محبت کرنے والے دوست پہ روایتی باپ حاوی ہو چکا تھا۔

“جی ” ثمر کو اتنی کیا کسی بھی سختی کی باپ سے تو کم از کم امید نہیں تھی۔۔  وہ ایک پل کو گڑبڑائی تھی۔

ابو ! وہ میرے پروفیسرہیں۔۔  آ۔۔ ۔  آپ ایک بار ان سے مل لیں پلیز۔۔  مجھے یقین ہے کہ آپ ان سے مل کر خوش ہوں گے۔  ” دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر انہیں مروڑتے ہوئے کہا تھا۔

“مجھے یہ سب بتا چکی ہو تم پہلے بھی۔۔  بہت مایوس کیا ہے تم نے مجہے۔۔  میں ایسی کسی بات کی اپنی بیٹیوں سے امید بالکل نہیں کر رہا تھا ” وہ مایوسی سے سر ہلا رہے تھے۔

“ابو پلیز ! یہ کوئی گناہ نہیں ہے۔۔  مجھے ایک آدمی پسند ہے۔۔  اور مین آپ سے درخواست کر رہی ہوں کہ اس سے مل کر دیکھ تو لیں۔  ” وہ لجاجت سے کہتی ان کے قدموں میں آ بیٹھی۔

“میری ایک بات یاد رکھو ثمر !” انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے تمہید باندھی تھی۔  ثمر کا دل سینے میں سکڑنے لگا۔

“کوئی ایسا کام کبھی نہ کرو کہ وہ تمہیں لوگوں کے قدموں میں لے آئے ” ان کا اشارہ اس کے اپنے قدموں میں بیٹھنے کی طرف تھا۔  اس کی آنکھوں میں بے یقینی ہلکورے لینے لگی۔۔

ابو ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں ؟

ابو ! اس کے لب بے آواز ہلے تھے۔

“بلا لو اس لڑکے کو لیکن یاد رکھو آخری فیصلہ میرا ہی ہو گا ” وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے۔۔

” سچ ابو ” ثمر سے خوشی سنبھالنا دوبھر ہو گیا۔

“ہاں ! اس اتوار کو بلا لو کھانے پہ۔۔  اس کے ماں باپ سمیت ” یونہی پیٹھ موڑے ہوئے وہ بولے تھے۔  ثمر” تھینک یو ابو “کہتی ہوئی ان کی پشت سے آ لپٹی۔  وہ کوئی ردعمل دئیے بغیر کھڑکی سے باہر جانے کیا تلاش کرتے رہے ۔، ۔۔

☆☆☆

 

ثمر اور مہر نے مل کر بڑا پر تکلف لنچ تیار کیا تھا۔  ثمر کی خوشی دیدنی تھی۔۔  وہ سارے میں لہراتی، بل کھاتی پھر رہی تھی۔  ابو بس ایک پر سوچ سی سنجیدگی کے ساتھ مہمانوں کے آنے کا انتظار اور کھانے کے لوازمات کا جائزہ لے رہے تھے۔  ثمر نے اپنی خوشی میں محسوس ہی نہیں کیا تھا کہ ابو اس سے کس قدر کھچے کھنچے تھے۔

“آئے نہیں ابھی تک وہ لوگ ؟ ایک گھنٹے سے اوپر ہو گیا ہے انتظار کرواتے ” ڈرائنگ روم میں بیٹھے ابو آنے والوں کا انتظار کرنے کی کوفت اٹھا رہے تھے۔

“ابو ! وہ ٹریفک میں پھنس گئے تھے۔۔  ابھی بس کچھ ہی دیر میں آ جائیں گے۔۔  آپ کے لئے کچھ لاؤں ؟ ” جلدی جلدی ان کی تشفی کروانے والے انداز میں ثمر بولی تھی۔  کچھ دیر پہلے ہی اس کی فون پہ احمر سے بات ہوئی تھی۔

“نہیں۔۔  ان کے ساتھ ہی کھانا کھاؤں گا میں ” کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولے تھے اسی وقت باہر گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا۔

” وہ لوگ آ گئے ” ثمر جوش سے بولتی کھڑی ہوئی تھی اور ڈرائنگ روم کی کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے کو لپکی۔

” ثمر” ابو کی بھاری آواز نے اس کا کھڑکی کا پردہ ہٹاتا ہاتھ روکا تھا۔

” تم جاؤ کچن میں۔۔  میں ہوں یہاں ” انہوں نے اسے کچھ کہنے کے جیسے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا، وہ ناچار مرے مرے قدموں سے چلتی جی ابو کہتی گھر کے اندرونی حصے کی طرف چلی گئی۔

☆☆☆

 

“کاروبار کیا ہے آپ کا ؟”، ان کے آتے ہی کھانا چن دیا گیا تھا لہذا سب کھانے سے فارغ ہو کرچائے کی چسکیاں لے رہےے تھے۔  جب نظام الدین نے سنجیدگی سے احمر کے ابا کو مخاطب کیا۔

“آو جی ! رب کا بڑا کرم ہے۔۔  صدر میں اپنی کپڑے کی تین دکانیں ہیں۔۔  کٹ پیس، زنانہ، مردانہ، بچگانہ ” سادہ سے احمر کے ابا بتاتے چلے گئے۔  نظام الدین نے پہلو بدلا تھا۔  ان سے ملاقات کی سب سے نا قابل برداشت چیز ان کا دیہاتی لب و لہجہ تھا۔  وہ شہری تھے۔۔  ایسے لہجے ان کے لئے نا قابل قبول تھے۔ ۔۔مسئلہ شہر اور گاؤں کا نہیں تھا اُس طبقاتی فرق کو پروان چڑھانے والی سوچ کا تھا جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلی آ رہی تھی۔

“لگتا ہے۔۔  آپ لوگوں کے ہاں تعلیم اتنی عام نہیں ” وہ استہزائیہ لہجے میں بولے تھے۔  احمر نے ایک دم سے اپنا جھکا سر اٹھایا تھا۔  اسے ثمر کے والد کا بات کرنے کا انداز بڑا عجیب لگ رہا تھا۔

“بھائی صاحب ! ہم ٹھہرے جٹ بندے۔۔  ہمارے پرکھوں میں کہاں پڑھائی کا رواج تھا۔۔  یہ تو آج کل کا دور بس تلیم (تعلیم ) کا ہے۔  تو ہمارے بچے بھی چار جماعتیں پڑھ گئے ۔۔کرم ہے اس ذات کا۔”  احمر کی امی نے سادگی سے کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ جو کہ سونے کے موٹے موٹے کڑوں میں پھنسے ہوئے تھے اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔

“ہوں۔۔ ۔  ”

“اور میاں احمر! کتنا کما لیتے ہو ٹیچنگ سے “، وہ اپنا رخ احمر کی طرف موڑ کر یوں بولے تھے جیسے خود کی لاکھوں کی آمدن ہو۔

“بس سر ! میرا گزارہ ہو جاتا ہے۔۔  پرائیویٹ ادارے جتنا استحصال کرتے ہیں اس لحاظ سے تو میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی کما پاتا ہوں ہر ماہ ” احمر نے سنجیدگی سے بغیر کسی لگی لپٹی کے جواب دیا۔

“یہ بات درست ہے۔۔  آجکل کمانا تو آسمان سے تارے توڑنے سے زیادہ مشکل کام ہو گیا ہے۔  ” یہ پہلی بات تھی جس کی نظام صاحب نے تائید کی تھی۔

“یہ ابو کن باتوں میں لگ گئے ہیں۔۔ ۔  ” ڈرائنگ روم کے دروازے کے ساتھ لگی ثمر نے اپنے پیچھے کھڑی مہر سے سر گوشی کی تھی۔

“مجھے تو ابو خوش نہیں لگ رہے ثمر ” مہر نے اسے دروازے سے پیچھے کھنچتے ہوئے اپنا خیال ظاہر کیا تھا۔  وہ نہیں چاھتی تھی ان کی بھن بھن مہمانوں تک پہنچے اس لئے اسےد روازے سے پرے دھکیل رہی تھی۔

“لیکن انھوں نے تو خود احمر لوگوں کو بلایا ہے ” ثمر کے لئے مہر کی بات کو ہضم کرنا مشکل ہو گیا۔

“پتہ نہیں یار ! جو مجھے لگا میں نے کہہ دیا۔  اب دیکھو ابو کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟” مہر نے کندھے اچکائے تھے۔

“کیا مطلب کیا فیصلہ؟ ابو کا فیصلہ وہی ہپو گا جو میں چاہتی ہوں ” ثمر کو اس کی بات پسند نہیں آئی تھی۔  آخری جملہ گردن اکڑا کر کہا گیا تھا۔

“اور اگر ابو کا فیصلہ مختلف ہوا تو ” مہر نے دہکتا ہوا سوال پوچھا تھا اور ثمر فوراً بھڑکی تھی۔

“تو پھر ابو اپنی ثمر کر ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے ” ثمر نے اس کے سر پہ بم پھوڑا اور تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی۔  مہر وہیں کھڑی اس کے انتہائی ردعمل کے بارے میں سوچ سوچ کر دہلتی رہی۔

☆☆☆

 

“مجھے یہ رشتہ قبول نہیں ” ابو کا لہجہ حتمی تھا۔  ثمر کا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول گیا۔۔  اسے یقین تھا کہ احمر ابو کو پسند آئے گا لیکن۔۔ ۔

“لیکن کیوں ابو “! وہ تڑپی تھی۔

“عجیب جاہلوں والا خاندان ہے۔  بات تک تو ٹھیک سے کر نہیں پاتے۔۔  بس لڑکا پڑھ گیا تو کسی بھی اچھے خاندان میں ڈگری کے بل پہ گھس جاؤ ” وہ تنفر سے بولے تھے ان کا اشارہ احمر کے والدین کے دیہاتی انداز اور لب و لہجے کی طرف تھا۔۔  سچ تو یہ تھا کہ یہ صرف ثمر کو قائل کرنے کے لئے اک بہانہ گھڑا تھا انھوں نے احمر ہر لحاظ سے انھیں ایک انسان کے طور پر پسند آیا تھا لیکن داماد کے نہیں۔۔  اگر بیٹی کی پسند نہ ہوتا تو وہ ہنسی خوشی اس کے ہاتھ میں ثمر کا ہاتھ تھما دیتے۔۔

“ابو یہ کیا بات ہوئی بھلا ؟ وہ دیہاتی ضرور ہیں لیکن سیدھے اور سچے لوگ ہیں۔  ” ثمر ان سے بحث پہ اتر آئی تھی اور یہی چیز انہیں اس رشتے کے مزید خلاف کر رہی تھی۔

“میں باپ ہوں تمھارا یا تم میری ماں ” وہ ایک دم سے ہی گرجے تھے۔  ثمر ایک پل کو ڈر سی گئی۔۔

“کہہ دیا نا میری طرف سے انکار ہے۔  اور یہی شرط تھی ان سے ملنے کی کہ آخری فیصلہ میرا ہی ہو گا ” انھوں نے اس پہ برستے پوئے اسے یاد دلایا تھا۔

یہ غلط بات ہے ابو !” وہ ثمر تھی ان کی لاڈلی۔۔  تن کر ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

“مجھے معلوم ہے آپ کو احمر اچھا لگا ہے لیکن صرف اپنی سو کالڈ انا کی خاطر آپ اپنی بیٹی کی خوشی کو قربان کر رہے ہیں۔۔  مت کریں ایسا پلیز !” کہتے کہتے وہ رو دی۔

“ثمر !میں نے تمھیں ہر بات کی آزادی دی تھی لیکن اپنی زندگی کا فیصلہ خود سے کرنے کا اختیار نہیں۔۔ ۔  مجھے اس لڑکے کا خاندان کسی لحاظ سے تمھارے قابل نہیں لگا۔  ” ان کے لہجے کی سختی ثمر سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔  اپنی آنکھوں کا پہلا روپہلا خواب وہ کیسے کسی کو نوچ لینے دیتی۔

“لیکن احمر تو ان جیسا نہیں نا ! وہ پڑھا لکھا ہے قابل ہے اور۔۔ ۔  ” وہ اپنی طرف سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔  انہیں اس کا بحِث کرنا کھل رہا تھا۔

“بحث مت کرو۔۔ ۔  وہ ان ہی میں سے ہے۔۔  ان ہی جیسا۔۔  ہماری اور ان کی زبان تک ایک نہیں۔۔  تم کیسے گزارہ کرو گی ان گنواروں میں ؟ ” ان کے پاس بھی دلائل کی کمی نہیں تھی۔

“ہم علیحدہ رہ لیں گے۔ ” اس نے حل پیش کیا تھا۔

“واہ! بہت اچھے۔۔  علیحدہ کس بل پہ رہو گے تم لوگ ؟ اس کی پروفیسری میں تو گھر کا کرایہ ہی نکلے گا۔۔  باقی کھانا پینا۔۔  کپڑا لتا۔۔  خاندان بھگتانا۔۔  پھر اور بہت سی باتیں ہیں جو تم نہیں سوچ سکتیں ” وہ اس کا ہر حل رد کرتے جا رہے تھے۔

“بے فکر رہو۔۔ ۔  جلد ہی کوئی اچھا رشتہ دیکھتا ہوں تمھارا۔۔  سوچا تھا کچھ پڑھ لکھ کر بن جاؤ۔۔  لیکن تم تو اور ہی راہ پہ نکل کھڑی ہوئیں۔۔  خیر۔۔  میں نوجوانی کے تقاضے بھی سمجھتا ہوں۔۔  کہا ہے ایک دو لوگوں سے جلد کوئی اچھی خبر ملے گی۔۔ ” انھوں نے تسلی دیتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔۔ ۔

“نہیں چاہئیے کوئی آپ کا لایا ہوا اچھا رشتہ! مجھے احمر کے علاوہ کوئی اور قبول نہیں ہو گا۔  ” آنسو بھری آنکھوں سے اس نے ان کا ہاتھ جھٹکا تھا اور وہی ہاتھ اس کے گال پہ پڑا تھا۔

“بہت سن لی بکواس میں نے۔۔ ۔  تمہاری شادی وہیں ہو گی جہاں میں ہاں کروں گا اور وہ احمر ہر گز نہیں ہو گا۔۔  سمجھ لو یہ بات ” منہ پہ پڑنے والے تھپڑ پہ شاکڈ سی کھڑی ثمر کچھ اور سننے کے قابل کہاں رہی تھی۔

☆☆☆

 

گھر کی فضا میں پہلے سی خوشی اور بے تکلفی مفقود ہو چکی تھی۔  ثمر کالج سے آنے کے بعد اپنے کمرے میں گھسی رہتی۔۔  نظام صاحب اس کے رشتے کے لئے کوششیں تیز کر چکے تھے۔  احمر ایک دو بار اپنے والدین کو لے کر انھیں منانے کے لئے آیا تھا۔ لیکن نظام صاحب نے ان لوگوں کی بے عزتی کر کے انھیں نکال دیا تھا۔  ثمر ان سے بالکل بد ظن ہو چکی تھی۔  اور انہیں بھی پروا نہیں تھی کہ اسے سمجھاتے یا مناتے۔۔  دونوں اپنے اپنے دائروں میں قید ہو چکے تھے۔  مہر بولائی بولائی کالج سے آنے کے بعد پھرا کرتی۔ کالج میں اُس کا دل نہ پڑھائی میں لگ رہا تھا نہ ہی میچ پریکٹس میں، بین الصوبائی سطح پر ہونے والے مقابلے میں اُس کا کالج بھی شامل تھا اور وہ اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کی ایک بہترین پلیئر تھی، جذبات پر قابو رکھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کو کیسے حل کیا جاتا ہے یہ اُس کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن گھر میں چلنے والے “انا کے کھیل” میں وہ بری طرح شکست کھاتی رہی تھی کہ دونوں جانب سے کوئی بھی اس کی بات سننے اور سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھا، دوسری جانب نظام صاحب اس کی طرف سے بھی شکوک کا شکار ہو چکے تھے۔  ثمر ہر چیز سے بے نیاز تھی، ثمر کیا سوچ رہی تھی یہ کچھ دنوں بعد سمجھ آ گیا تھا۔

☆☆☆

 

مہر کے لئے وہ دن ایک بہت بڑی کامیابی سمیٹے آیا تھا۔  کالج کی کرکٹ ٹیم میں وہ کپتان کے طور پر منتخب ہو چکی تھی۔۔  نظام صاحب کے ساتھ کرکٹ میچز دیکھتے ہوئے کب اُس کے اندر یہ شوق پیدا ہوا اسے یاد نہیں تھا۔۔  یاد تھا تو بس یہ کہ کرکٹ اس کا خواب، جنون بن چکا تھا۔  وہ اپنی محنت سے ہی کالج ٹیم میں بیٹنگ کے لیے سیلیکٹ ہوئی تھی اور اس کی شاندار کارکردگی دیکھتے ہوئے ان کی کرکٹ ٹیم کے کوچ معیز رئیس نے اس پر خاص محنت کی تھی۔۔  جس کا نتیجہ وہ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی صورت حاصل کر چکی تھی۔

“تم بہت آگے جاؤ گی مہر۔۔ ۔  میں تمہیں بہت جلد نیشنل اسٹیڈیم میں پرفارم کرتے دیکھ رہا ہوں ” اسے کپتانی کا بیج اور شیلڈ تھماتے ہوئے سر معیز نے کہا تھا۔  اس کا چہرہ جو پہلے ہی جوش سے ٹمٹما رہا تھا مزید جگمگانے لگا۔  وہ جیسے ہواوں میں اڑتی گھر آئی تھی۔

“ابو۔۔  ابو۔۔  ثمر۔۔ ۔  کہاں ہیں سب آپ؟” سینے پہ کپتانی کا بیج سجائے اور ہاتھوں میں شیلڈ اٹھائے وہ گھر کے بیرونی دروازے سے ہی چلاتی آ رہی تھی۔۔

وہ یونہی آوازیں دیتی ابو کے کمرے میں چلی آئی۔۔  وہ باکل سامنے ہی صوفے پر آگے کو جھکے بیٹھے تھے۔۔  ان کے ہاتھ میں موبائل اس انداز سے پکڑا ہوا تھا جیسے ابھی ابھی کسی سے فون پہ بات کر رہے تھے۔

“ابو !” مہر کو عجیب سا احساس ہوا۔۔  سارے گھر میں اک پرساسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی وہی خاموشی اسے ابو کے وجود کا حصہ بھی محسوس ہوئی تھی۔  وہ گھبرا کر تیزی سے ان کے نزدیک چل آئی۔

ابو۔۔  ابو ! آوازیں دینے کے ساتھ اس نے ان کا بازو بھی ہلا ڈالا۔

انھوں نے ایک دم سے اپنا سر اٹھایا تھا۔۔  سرخ، خون آگیں آنکھیں اور بھیگا چہرہ۔۔  وہ دھک سے رہ گئی۔۔  کیا ہوا تھا ؟ ثمر بھی گھر میں موجود نہ تھی یا شاید حسب معمول کمرے میں بند تھی۔۔

ابو۔۔  کیا ہوا ہے ؟ ” پنجوں کے بل نیچے بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا تھا اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔  بہت ہی خلاف معمول سی سچویشن تھی۔

“تم کہاں سے آ رہی ہو ” اس کے سوال کے جواب میں ان کا سرسراتا سوال آیا تھا۔

“میں۔۔ ۔۔  میں کالج ” وہ ہکلا سی گئی۔  اسے کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔  دل الگ سے بیٹھا جا رہا تھا۔

“وہ بھی کالج ہی گئی تھی۔۔ ۔  تم کس کالج سے آ رہی ہو ” ابو جانے کیا کہنا چاہ رہے تھے اور پتا نہیں کیا کہہ رہے تھے۔۔  اسے ان کی دماغی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔

“ابو ہوا کیا ہے ؟ ثمر کہاں ہے ؟” اس نے ان کا بازو ہلایا تھا۔

“نام مت لو اس لڑکی کا۔۔ ۔  وہ تھی اب ہمارے لئے نہیں رہی ” وہ اسے دھکیل کر اٹھ کھڑے ہوئے یوں اچانک دھچکہ لگنے سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور پیچھے کی طرف گر گئی۔

“مطلب ؟”، اس کا سکڑا دل پھیلنا بھول چکا تھا۔۔

“نکاح کر لیا ہے اس نے احمر سے ”۔۔  وہ چیخے تھے۔

“یہ دیکہو۔۔  ابھی فون آیا تھا اس کا۔۔  نا فرمان۔۔  جہنم میں جلے گی یہاں بھی اور وہاں بھی۔۔  ” انھوں نے اپنا فون اٹھا کر دیوار سے دے مارا تھا۔

کیا ” مہر پہ جیسے کوہ ہمالیہ آ گرا۔

☆☆☆

 

ثمر چلی گئی تھی۔۔  ابو کی لاڈلی اور ضدی بیٹی نے جس چاند کی خواھش کی تھی اسے پا لیا تھا۔  گرہن تو مہر کے حصے میں آیا تھا۔۔  نظام صاحب نے اسے کالج سے اٹھوا لیا تھا۔  لاکھ احتجاج، منتیں، اعتبار نہ توڑنے کے وعدوں کے باوجود۔۔  نظام صاحب تو چٹان بن چکے تھے۔

“نہیں تو نہیں۔۔ ۔۔  مزید کوئی کلنک کا ٹیکہ نہیں چاہئیے ” وجود چٹان لہجہ چٹان۔۔  مہر اپنا سر پٹخ پٹخ کر کرلانے لگی۔

“ابو میری تعلیم۔۔  کرکٹ میرا جنون۔۔  ”

“بھول جاؤ سب۔۔  گھر بیٹہو۔۔  کوئی گھریلو عورتوں والے ہنر سیکھو۔۔  تم نے بسنا ہے اور بسانا ہے اجاڑنا نہیں بڑی والی کی طرح ” ان کا ایک ہی فیصلہ تھا۔۔  آخر کار تھک ہار کر وہ چپ کر گئی۔۔  وہ ان سے سخت ناراض ہو گئی تھی۔۔

ایک کی غلطی کی سزا دوسرا کیوں بھگتے ؟ یہ سوال اس کے اندر چکراتا رہتا اور وہ پورے گھر میں۔۔  طرح طرح کے باغی خیالات ذہن کی دیواریں پھاند پھاند کر ادھم مچائے رکھتے۔۔ ۔  وہ خود سے لڑتی نڈھال ہو جاتی۔  یونہی سال گزر گیا۔  نظام صاحب نے بالآخر اس کا رشتہ ڈھونڈ ہی نکالا۔

فرجاد ہاکی کی لوکل ٹیم کا کوچ تھا۔۔  یہ اتفاق تھا یا مقدر کی چال وہ سمجھ نہ سکی لیکن دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لی کہ خود سپورٹس مین ہے تو اس کے محسوسات ضرور سمجھے گا۔۔  مایوسی کی جگہ پھر سے امیدوں نے لے لی۔

نظام صاحب کے لئے سب سے بڑی اس رشتے کی خوبی یہ تھی کہ اس کی کوئی ساس، سسر یا دوسرے سسرالی رشتے دار نہ تھے بس ایک نند تھی جو اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ دبئی میں سالوں سے بسی تھی۔  ماں باپ کب کے گزر چکے تھے۔  اکیلی بہن اور اکلوتا بھائی۔۔  بہن نے اب کی بار پاکستان کے پھیرے میں اپنے تیس کے ہونے والے بھائی کی شادی کا پکا ارادہ باندھا تھا۔۔  قرعہ فال مہر کے نام کھلا تھا۔  مہر، فرجاد کے نام لکھ دی گئی۔۔  ابو شانت ہو گئے۔۔  اور اس سے خوش بھی لیکن اس کے دل میں ایک نہ کھلنے والی گرہ پڑ چکی تھی۔۔

اُس نے آہستہ آہستہ ساری بات فرجاد کے سامنے کہہ دی “ثمر کہاں ہے کس حال میں ہے ہم نہیں جانتے، وہ اگر خوش بھی ہے اپنی زندگی میں تو زیادہ دن نہیں رہے گی اُس نے ابو کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے اور میرے ساتھ، …” وہ کہتے ہوئے یکدم رُک گئی اور کہہ نہ سکی کہ “میرے ساتھ تو نہ جانے کس چیز کا بدلہ لیا گیا ہے ”، فرجاد بے تاثر چہرہ لئے مہر کو دیکھ رہا تھا لیکن اُسے اس کے الفاظ اور لہجے کی سچائی پر یقین کیسے آ سکتا تھا، مہر نے سر اٹھا کر فرجاد کی جانب دیکھا اور اُسے یہ سمجھنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا کہ فرجاد نے شک کی عینک کے ساتھ اس معاملے کو دیکھا ہے لہذا اُس کی مشکلات کم ہونے کا کوئی امکان نہیں، وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔

☆☆☆

 

“کرکٹ تو لڑکوں کا کھیل ہے تمہیں اس میں کیوں دلچسپی پیدا ہو گئی “اُس روز فرجاد کا موڈ بڑے دنوں بعد پھر عدالت لگانے کا تھا۔  کھانے کی ٹیبل پہ اپنی من پسند چکن جلفریزی اور نان اڑاتے ہوئے اس نے اچانک پوچھ کر مہر کو حیران کیا۔

“پتہ ہے میں ابو کے ساتھ سارے میچز دیکھتی تھی۔۔  وپیں سے مجھے شوق پیدا ہوا۔۔  اور میرا کالج کی ٹیم میں سلیکشن بھی آسانی سے ہو گیا۔۔  مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں بیٹنگ اتنی اچھی کر سکتی ہوں۔۔  وہ تو سر معیز نے مجھ پر محنت کی اور سارے گر سکھائے ” جوش سے بولتے بولتے اسے اچانک احساس ہوا تھا کہ شاید وہ کچھ غلط بول گئی تھی۔۔  یہ احساس فرجاد کے چہرے کے بدلتے تاثرات نے ہی اس میں پیدا کیا تھا۔  فرجاد کی تیوری ایک بار پھر سے چڑھ چکی تھی۔

“اوہ ! سر معیز۔۔  کون تھا یہ ؟” کھوجتا لہجہ اور مشکوک نظریں۔۔  مہر کے ہاتھ میں پکڑا نوالہ خاموشی سے واپس اس کی پلیٹ میں جا گرا۔۔

وہ تو بس کوچ تھے ہمارے ” گردن جھکا کر اس نے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔

بس۔۔ ۔  کوچ۔۔  کیا ایج تھی اس کی ” اس کی تفتیش شروع ہو چکی تھی۔۔  اور مہر کا سار جوش مر چکا تھا۔۔

“کیسی بنی ہے جلفریزی؟ ” مہر کو کچھ اور نہ سوجھا تو جلفریزی رغبت سے کھاتے فرجاد سے سوال جڑ دیا۔۔  اس نے ایک دم سے کھانے سے ہاتھ روکا تھا اور اپنی گود میں پڑا نیپکن اٹھا کر جلفریزی کے ڈونگے میں پٹخا۔

“جو سوال پوچھا ہے اس کا سیدھا جواب دو ” پانی کا گلاس غٹاغٹ پیتے ہوئے وہ مشتعل ہوا تھا۔۔  مہر پھر سے غلطی کر چکی تھی اب دنوں اس کا موڈ سیدھا نہیں ہونے والا تھا۔۔

یہی کوئی پچیس چھبیس سال ” جھکے سر اور کانپتے ھاتھوں سے اس سے وہ بولی۔۔

“اوہ ! اسی لئے اتنی اداس رہتی ہو۔۔  جب سے شادی ہوئی ہے کوئی نئی بیویوں والی بات نہیں تم میں۔  اسی پچھلے کا سوگ مناتی رہتی ہو نا تم ! ” وہ یوں سر ہلا رہا تھا جیسے بات کی طے تک پہنچ گیا ہو،

وہ ایک دم سے ٹیبل پہ ہاتھ مارتے ہوئے دھاڑا۔۔

ٹیبل پہ پڑی چیزیں بری طرح ہلی تھیں ویسے ہی مہر کا دل۔۔  بڑی ٹیڑھی کھیر تھا۔

“ہر گز نہیں !آپ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہے ہیں ؟ وہ صرف ہمارے کوچ تھے اور کچھ نہیں ” مہر نے با اعتماد انداز میں فرجاد کو خود پہ یقین دلانے کی کوشش کیہ۔

“بکواس بند کرو اپنی ! کچھ تو تھا۔۔  یونہی تو نہیں تمھارے باپ نے تمہیں پورا سال کالج سے اٹھا کر گھر بٹھائے رکھا۔۔  بڑی بھاگ گئی اور چھوٹی کا کوئی نہ کوئی چکر تو تھا نا۔۔  بولو ” وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر ٹیبل پہ جھک آیا اور اس کے چہرے کو پکڑ کر اونچا کیا۔

“نہیں تھی ایسی کوئی بات بخدا ! آپ۔۔  کچھ تو سوچیں۔۔  کیا کہہ رہے ہیں ؟ ایک بے بنیاد بات کو لے کر آپ اپنی مرضی کا جواب مجھ سے نہیں اگلوا سکتے۔ ” مہر کی بھی برداشت ختم ہو چکی تھی۔۔  انگلی اٹھا کر خود کو گھورتے فرجاد کو کہا اور وہاں سے چلی گئی۔  فرجاد نے پانی کا گلاس اٹھا کر فرش پہ دے مارا۔  ایک چھناکا سا ہوا تھا۔۔ ۔۔

☆☆☆

 

اسے لگتا تھا وہ ایک عذاب سے نکل کر دوسرے میں آ پھنسی تھی۔۔  ثمر کی غلطی کی اتنی بھیانک سزا بھگتنے کا تو اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔  دو مردوں نے مل کر اس کی زندگی تباہ کر دی تھی۔  پہلے باپ اور اب شوہر۔۔ ۔  اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کیسے فرجاد کو خوش رکھے ؟ کیسے اس کی ذہن میں کلبلاتے شک کے کیڑے کو مار کر باہر نکالے۔۔  فرجاد شکی تھا، بد زبان تھا اور اسے لگتا تھا کہ اب شاید اس پہ ہاتھ بھی اٹھانا شروع کر دے۔۔  شادی کے پہلے مہینے ہی ان کے اتنے جھگڑے ہو چکے تھے کہ وہ عاجزآ گئی تھی۔  باپ کو کچھ بتانے کا فائدہ نہیں تھا نہ اس کا دل چاہتا تھا۔  ان کی ہی تو دی ہوئی مصیبت وہ جھیل رہی تھی۔۔

فرجاد گھر سے باہر نکلتے ہوئے تالا لگا کر جاتا تھا۔  گھر آ کر اس کا فون چیک کرتا رہتا تھا بلکہ اپنے پاس ہی رکھتا تھا۔۔  جانے اسے کس کی کال کا انتظار تھا ا س کے فون پہ۔۔

وہ ایک قید سے نکل کر ایک زنداں میں پھنس چکی تھی۔۔  اسے ربائی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔۔

☆☆☆

 

سر شام ہی آندھی کا غبار چڑھا تھا۔  اس نے دھلے کپڑے چھت پہ سکھانے کے لئے پھیلائے ہوئے تھے۔  موسم کے تیور دیکھ کر وہ فوراً چھت کی طرف لپکی۔۔  اتنی سی دیر میں ہی کپڑے مٹی سے اٹ چکے تھے۔۔

“یا اللہ ! ابھی تو کپڑے دھوئے تھے۔۔  کیسی ظالم آندھی ہے سب کچھ دھول ہو گیا۔۔  ” کپڑوں کا بڑا سا گولہ بنائے وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے افسوس کر رہی تھی۔  صحن میں بھی ہر طرف دھول اڑ رہی تھی۔۔  اس سے آنکھیں کھلی رکھنا مشکل ہو گیا اور تب ہی وہ کسی سے ٹکرائی۔

کک۔۔ ۔۔  کون ” کپڑوں کا گولہ ہاتھ سے چھوٹ کر گرا اور اس کے اوسان خطا ہوئے تھے۔۔  اڑتی دھول میں اور کچھ گھبراہٹ میں اسے اپنے سامنے کھڑا فرجاد نظر ہی نہ آیا۔

“میں ہوں فرجاد ! خیر ہے ؟ کیوں ہونق ہوئی جا رہی ہو ؟” دکھائی تو اسے ابھی بھی اتنا خاص نہیں دے رہا تھا لیکن سنائی بخوبی دے رہا تھا۔  فرجاد کی آواز سن کر اس کی جان میں جان آئی۔

میں ڈر گئی تھی ” نیچے گرے کپڑے اٹھاتے ہوئے اس نے کہا۔

“کمال ہے۔۔ ۔  ڈر کیسا ؟ کیا اپنی کوئی چوری پکڑے جانے پہ ڈر گئی تھیں تم ؟ ” فرجاد اور کوئی سیدھی بات کر جائے نا ممکن تھا۔

“آپ کے اچانک آ جانے پہ میں ڈر گئی تھی۔ ” اس نے بڑے ضبط سے اپنا لہجہ ہموار رکھا تھا ورنہ تو دل چاہ رہا تھا۔  کپڑے اس کے منہ پہ مارے اور وہاں سے غائب ہو جائے۔۔  اس کی ایسی باتوں کو جھیلنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔

“یہ کپڑوں کا کیا حال کیا ہے ؟ لاونج میں داخل ہوتے ہی پہلی قابل گرفت چیز مہر کے ہاتھ میں پکڑا کپڑوں کا گولہ تھا جو مٹی سے اٹا ہوا تھا۔

“دیکھ تو رہے ہیں آپ۔۔  آندھی نے ہر چیز کا ناس کر دیا ہے۔ کپڑے تو کپڑے آپ تو خود بھی اس وقت مٹی میں آٹے بھوت ہی لگ رہے ہیں۔  ” وہ بیزاری سے بولتی چلی گئی۔۔  اور فرجاد کے ماتھے پہ بل نمودار ہونے لگے۔

“بہت زبان چلانے لگی ہو۔۔  لگتا ہے اپنی اوقات بھولتی جا رہی ہو ” فرجاد اور تحمل دو مختلف چیزیں تھیں۔  اب بھی وہ ہائپر ہو رہا تھا۔

“کیا ہے اوقات میری ؟ کیا تماشہ بنا رکھا ہے آپ نے ؟ کس چیز کا شک ہے آپ کو مجھ پہ آج کھل کر بتا ہی دیں ” وہ چٹخی تھی۔

تمہاری اوقات۔۔  ” وہ استہزائیہ ہنسا تھا۔

“ایک ایسی لڑکی کی اوقات کیا ہو گی جسے اس کے باپ نے ہی قابل اعتبار نہ جانا ہو ” زہریلے لہجے کا سارا زہر وہ اس کے اندر اتار کر وہاں سے چلا گیا اور وہ وہیں آندھیوں کی زد میں بیٹھی رہ گئی۔

☆☆☆

 

اس دن نظام صاحب جانے کیسے اس کی طرف چلے آئے۔  وہ انہیں فرجاد کے ساتھ آتا دیکھ کر حیران رہ گئی۔  اس کی شادی کو چھ ماہ ہو چلے تھے۔  شادی سے پہلے فرجاد کے بر دکھوے کو ہی آئے تھے یہاں اور اب آج۔۔ ۔

اسلام و علیکم ابو ! ” دل میں ہزار شکووں کے باوجود وہ انہیں دیکھ کر کھل اٹھی تھی اور فوراً ان کے سینے سے جا لگی۔

وعلیکم السلام! ” انھوں نے اس کا ما تھا چوما تھا۔۔  وہ اندر تک شانت ہو گئی۔

“ارے بھئی ابو کو اندر تو آنے دو۔۔ ۔  رونا دھونا نہ شروع ہو جانا ” فرجاد نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تھا۔  وہ ذرا سا جھینپی۔

“اوہ سوری ابو ! آئیں نا پلیز ” ان کا ہاتھ پکڑے وہ انہیں لاونج میں لئے چلی آئی۔

لاونج اور اس سے ملحقہ نظر آتا کچن کا حصہ صاف ستھرا تھا۔  نظام صاحب نے بیٹھتے بیٹھتے کسی فکر مند ماں کی طرح بیٹی کے گھر کا جائزہ لیا۔۔

“بیٹا بغیر بتائے آنے کی معافی چاہتا ہوں ” انھوں نے اپنے سامنے بیٹھے داماد سے شرمندگی سے کہا۔

“ارے ابو ! کیسی بیگانوں والی بات کی ہے آپ نے ؟” فرجاد فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے برابر آ بیٹھا اور ان کا ہاتھ تھام لیا۔  ابو اتنی اپنائیت پہ اپنے داماد پہ نثار ہو گئے۔

“وہ در اصل میں نے تم دونوں کو کال کی تھی۔۔  مہر کا نمبر بند تھا اور تم شاید بزی تھے اس لئے کال ریسیو نہیں کی” انھوں نے وضاحت کی۔

“ابو !میری تو میٹنگز چلتی رہتی ہیں تو فون کو سائلنٹ پہ رکھتا ہوں اس لئے مجھے آپ کی کال کا پتا نہیں چل سکا۔ ”۔  فرجاد بڑے خوشگوار موڈ میں بولتا اسے حیران کئے دے رہا تھا۔

“کوئی بات نہیں بیٹا۔ ! اسی بہانے میں خود آ گیا ” وہ اپنے داماد کی خوش اخلاقی سے پوری طرح متاثر ہو چکے تھے۔

“اور مہر تمھارا فون کیوں بند ہے ؟ میں بھی کب سے کال کر رہا تھا اور پریشانی میں ہی گھر آیا تھا۔۔  مجھے لگا یا تو تم سو رہی ہو گی یا پھر ٹی وی میں مگن ” اپنے لہجے میں فکر مندی سموئے وہ مہر کو زہر لگا تھا۔

“سونا اور ٹی وی اس ٹائم ؟” اس کا تیر نشانے پہ بیٹھا تھا۔۔  ابو کے کان کھڑے ہوئے تھے۔۔  حیرت سے کبھی مہر کو اور کبھی سامنے دیوار میں ٹنگے سنہری کلاک کو دیکھتے جو پانچ کا گھنٹہ بجا رہا تھا۔۔  یہ تو کسی خاتون خانہ کے سونے یا ٹی وی دیکھنے کا ٹائم نہیں۔۔  یہ تو شوہر حضرات کی گھر واپسی سے کچھ دیر پہلے ہونے والی لوازمات اور اپنی تیاری کا ٹائم ہوتا ہے۔

“وہ ابو ! ایک بار یہ غلطی کی تھی اس ٹائم سونے کی۔۔  آپ کے داماد کا ماشاءاللہ حافظہ اتنا اچھا ہے کہ نہ خود بھولتے ہیں نہ مجھے بھولنے دیتے ہیں میری کوتاہیاں۔۔  ” وہ فرجاد کی طرف دیکھ کر بظاہر مسکرا کر بولی تھی۔  ورنہ دل تو چاہ رہا تھا اس کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دے۔

“باتیں ہی بناتی رہو گی یا کچھ کھانے پینے کی بھی تیاری کرو گی ” اس کی بات ہنسی میں اڑاتے ہوئے فرجاد نے اپنا اگلا تیر کمان سے نکالا تھا۔

“اوہ سوری ! خیال ہی نہیں رہا ابو ” وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتی اٹھی تھی۔

“دیکھ لیں ابو مہر کو تو خیال بھی دلوانا پڑتا ہے ۔۔ کبھی کھانا پکانا بھول جاتی ہے۔۔  کبھی میرے کپڑے استری کرنا اور کبھی کبھی تو مجھے بھی بھول جاتی ہے۔  ” چہرے پہ مسکراہٹ۔۔  نرم لہجہ۔۔ ۔  اسے مہر کو بھگو بھگو کر مارنے کا بڑا لطف آ رہا تھا۔  جو کھڑی اپنے دانت کچکچا رہی تھی۔۔  نظام صاحب داماد کی مذاق کی آڑ میں کہی گئی بات کا مطلب سمجھ چکے تھے اس لئے اب چہرے پہ سنجیدگی لئے بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے۔

“چلیں ابو ! چھوڑیں ان باتوں کو۔۔  مجھے ذرا زمین کا چکر لگانا ہے۔۔  اس لئے ابھی گاؤں نکلنا ہے۔۔  وہ تو اچھا ہوا آپ مل گئے۔۔  اب میرا سفر آپ کی دعا  سے اچھا کٹے گا۔  ” سعادتمندی سے گردن جھکا کر بیٹھے فرجاد کو مہر نے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا اور اس کی نظریں نظام صاحب کی عقابی نگاہ سے چھپی نہ رہ سکیں۔  انھوں نے بے چینی سے اپنی جگہ پہلو بدلا تھا۔۔  “یہ مہر نے کیاروش اپنائی ہوئی ہے شوہر کے ساتھ ” انہیں یہ سوال اندر ہی اندر بڑا پریشان کر رہا تھا۔

“تمہاری محبت ہے بیٹا ” وہ بس اتنا ہی کہہ سکے ان کا دماغ مختلف سوچوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔

“ارے جاؤ بھی ! کچھ خاطر مدارت کرو اپنے ابو کی۔۔  پہلی بار آئے ہیں تمہارے گھر ” اس نے بت بنی کھڑی مہر کو گھور کر کہا۔

“جی ” مہر کچن میں جانے کے لئے مڑی تھی۔

“ارے نہیں بیٹا! میں تو بس تھوڑی دیر کے لئے آیا تھا ” انھوں نے مہر کو فوراً روکا۔

“اگلے ہفتے میں سعودیہ جا رہا ہوں بڑے بھائی کے پاس۔۔  ” انھوں نے فرجاد کو اپنے آنے کا مقصد بتانا شروع کیا۔  مہر ان کے ساتھ آ بیٹھی۔

“یہ تو بہت مبارک خبر ہے ابو ” فرجاد نے بے ساختہ خوشی کا اظہار کیا تھا اور اُٹھ کر ان کے گلے ملا۔ ”

خیر مبارک۔۔  خوش رہو۔۔  ” انہوں نے داماد کی اسی گرمجوشی پہ اسے دل سے ایک زور دار جپھی دی تھی۔

“مبارک ہو ابو !:  خاموشی سے بیٹھی مہر نے بھی انھیں خوشی سے مبارک دی تھی انھوں نے اس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا۔ ”

“واپسی کب تک ابو ” فرجاد نے مہر کا سوال اس کے منہ سے اچکا تھا۔

“واپسی کچھ ماہ بعد انشاءاللہ۔۔  بڑے عرصے سے بھائی بلا رہے ہیں۔۔  سوچا تھا کچھ ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاؤں تو اس پاک زمین کی زیارت کرنے جاؤں گا۔۔  بس اب اللہ نے تم جیسا بیبا داماد اور یہ موقع بھی دے ہی دیا۔۔  شکر اس کا ” وہ بڑے عاجزی سے بول رہے تھے۔

“بیشک۔۔ ۔  بیشک۔۔  اسی کا کرم ہے۔۔  اچھا ابو میں تو نکلوں مزید دیر مناسب نہیں۔۔  صبح صبح واپسی ہے انشاءاللہ۔۔  ” فرجاد نے اپنی کلائی پہ بندھی گھڑی پہ نظر ڈالتے ہوئے عجلت میں کہا تھا اور اُٹھ کر ان کے گلے آ لگا۔

“اللہ کی امان بیٹا! ” انہیں اپنے انتخاب پہ ایک فخر سا محسوس ہو رہا تھا لیکن جانے کیوں مہر بہت چپ تھی۔۔  وہ فرجاد کے جانے کے بعد اس سے پوچھنے کا قصد کئے بیٹھے تھے۔

“مہر ! میرے کپڑے تیار ہیں نا ؟” اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے نظام صاحب کے ساتھ بیٹھی مہر کو مخاطب کیا تھا۔

“نہیں ” یک حرفی جواب پہ وہ بے ساختہ اس کی طرف گھوما تھا۔۔  گو کہ گھوما تو اس کا دماغ بھی تھا لیکن سسر کی موجودگی آڑے آ گئی۔۔  سسر بھی بیٹی کے ایسے صفا چٹ جواب پہ حق دق اس کی شکل دیکھ رہے تھے۔

“بھئی آپ کو کونسا میرے استری کئے ہوئے کپڑے پسند آتے ہیں۔۔  چار پانچ بار بھی استری کرنے پہ آپ کی تسلی نہیں ہوتی تو میں نے سوچا۔۔  آج سے آپ خود ہی یہ کام سر انجام دے لیا کریں۔۔  میرا بھی ٹائم بچے اور آپ کا بھی۔  ” بڑے مزے سے پیر ہلاتے ہوئے اس نے وضاحت دی تھی۔۔ حالانکہ تین چار جوڑے اس کی استری شدہ وارڈروب میں لٹکے ہوتے تھے لیکن اُسے بھی جیسے اُسے زچ کرنے کا موقع ملا تھا۔

“مہر ” نَظام صاحب کو بیٹی کی یہ زبان درازی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی فوراً اسے ٹوکا تھا۔

”جی ابو ! سچ ہی تو بول رہی ہوں۔۔  کیوں فرجاد ” سابقہ انداز۔۔  اب کے شوہر کی تائید چاہی گئی۔۔

وہ اسے گھورتے ہوئے کوئی جواب دئیے بغیر ایڑیوں کے بل گھومتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔  نظام صاحب اس کی کلاس لینے کے لئے پوری طرح تیار ہو چکے تھے۔

☆☆☆

 

“یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں مہر!”رات کے کھانے سے فارغ ہو کر وہ دونوں باپ بیٹی اب چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔  جب کتنی دیر سے دل میں ہوتی کھد بد کے ہاتھوں مجبور ہو کر نظام صاحب نے پوچھا تھا۔  وہ رات یہیں رہ گئے تھے۔  فرجاد ان سے جاتے ہوئے ریکوئسٹ کر کے گیا تھا۔ مہر کے اکیلی ہونے کی وجہ سے۔

کیا دیکھ لیا ابو آپ نے ؟ ” مہر کا انداز لا پرواء ساتھ وہ سنٹرل ٹیبل پہ رکھا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کرنے لگی۔

“تم اپنے شوہر سے کیا اس طرح بات کرتی ہو ؟ ” انھوں نے شام کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔

“جی نہیں۔۔  پہلے نہیں کرتی تھی لیکن اب ایسے ہی کروں گی۔  ” ٹی وی کو میوٹ کر کے وہ چینل پہ چینل بدلتے ہوئے مزے سے بولی تھی۔

“کیا بکواس ہے یہ ؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ” انہوں نے صوفے سے اٹھ کر اس سے ریموٹ چھینا تھا۔

“دماغ میرا نہیں آپ کے داماد کا خراب ہے۔۔  پہلے اسے ٹھیک کر لیں آپ ” وہ تنک کر بولی تھی۔

“مہر۔۔ ۔  ” انہوں نے تنبیہ کرنے والے انداز میں اس کا نام لیا تھا۔

“کوئی مسئلہ ہے کیا؟ “نظام صاحب کو اس کے چڑچڑے پن کا کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔  بظاہر تو سب ٹھیک لگ رہا تھا۔

“ابو ! کیا آپ کو یہی نمونہ ملا تھا میرے لئے ” مہر کا سوال ان کا پارہ چڑھا گیا۔

“کیا بکواس لگا رکھی ہے ؟ اچھا خاصا نوجوان ہے۔۔  اپنا گھر۔۔  زمینیں۔۔ ۔  سرکاری نوکری۔۔  اور سب سے بڑھ کر اپنا ہم زبان اور تمہاری ہی طرح کھلاڑی۔۔ ۔  اور کیا چاہئیے تمہیں ؟ ” نظام صاحب بے بیٹھے بیٹھے فرجاد کی ساری خصوصیات گنوا ڈالیں۔

“ھاھاھاھا! کھلاڑی۔۔ ۔  ٹھیک کہا کھلاڑی ہی تو ہے۔۔  ” وہ قہقہہ لگا کر بولی تھی۔

“ناشکری نہ کرو۔۔  اور اپنا گھر اچھے سے سنبھالو۔۔  اچھی لڑکیوں کی طرح ” نظام صاحب نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔  وہ تو انھیں مایوس کر رہی تھی۔

“وہ بہت عجیب سا ہے۔۔  غیر مستقل مزاج۔۔  جیسے جیسے ”

مہر کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس کی نیچر اپنے باپ کو کیسے سمجھائے۔

” سب شوہر ایسے ہی ہوتے ہیں۔  بیوی کا کام ہے اپنے شوہر کو سمجھنا۔ اسے سمجھنے کی کوشش کرو ” اب کی بار وہ نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے بولے تھے۔

“مجھے کون سمجھے گا ابو ؟” مہر نے دکھ سے انھیں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

“کیا مطلب ؟” انہیں خاک بھی پلے نہ پڑا۔

“آپ نے اعتبار نہیں کیا۔۔  اور شوہر نے۔۔ ”، وہ ایک لمحے کیلئے رُکی “نہ اعتبار۔۔  نہ عزت۔۔ نہ محبت ” وہ کہہ کر یوں خاموش ہو گئی جیسے اور کچھ کہنے کو بچا نہ ہو۔۔  وہ کچھ دیر تو خاموش بیٹھے اس کے بولنے کے منتظر رہے۔

“رات کافی ہو گئی ہے۔۔  آپ آرام کریں اب ” وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔  اس کی طرف سے یہ گفتگو ختم ہو چکی تھی۔۔

”مہر ! ” انہوں نے اسے پیچھے سے پکارا تھا۔  وہ رکی ضرور لیکن مڑی نہیں ۔

“عورت کو پاوں جمانے کے لئے تھوڑی سی زمین ہی کافی ہوتی ہے۔  جسے وہ گھر بنا دیتی ہے۔۔  یہ تمہارا گھر ہے۔۔  تمہاری زمین۔۔  اسے کبھی نہ چھوڑنا۔۔  ” وہ شاید سانس لینے کو رکے تھے۔ مہر نے مڑے بغیر ہی ان کے بولنے کا انتظار کیا تھا۔

“رہی بات فرجاد کی تو یاد رکھو پتھر پہ گرتا قطرہ قطرہ پانی اس میں سوراخ کر دیتا ہے۔۔  یہ تو پھر انسان ہے۔۔  جلد بازی مت کرنا کبھی بھی ” مہر نے ذرا سی گردن موڑ کر ڈبڈبائی آنکھوں سے انہیں دیکھا تھا

“مجھے تھوڑی سی امید تھی ابو کہ شاید آپ کو احساس ہو کہ آپ نے میرے ساتھ زیادتی کر دی ہے لیکن۔۔”، اُس نے انگلیوں سے بڑی بے دردی سے اپنے آنسو صاف کئے تھے “آپ نے یہ بھرم بھی اس لمحے ختم کر دیا۔۔کاش ابو …آپ نے اپنی بیٹی کو “عورت” سمجھنے کے بجائے “انسان” سمجھا ہوتا”وہ کہہ کر رُکی نہیں اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔  نظام صاحب نے تھک کر صوفے کی پشت سے اپنا سر ٹکا دیا۔۔  وہ اس کے لئے دعا گو تھے۔

عجیب باپ تھے نظام صاحب ویسے، بیٹی کو سولی پر چڑھا کر دعا کرتے تھے کہ اُسے خراش بھی نہ آئے ۔

☆☆☆

 

“چلو فٹا فٹ تیار ہو جاؤ۔۔  ” فرجاد ابھی گھر واپس آیا تھا اور آتے ہی اسے کچن میں کھانا بناتے دیکھ کر خوشگوار موڈ میں کہا تو وہ حیرانی سے مڑی۔۔

“کہاں جانا ہے یوں اچانک ” ہاتھ میں پکڑا کفگیر سلیب پہ رکھتے ہوئے وہ بولی۔

“آج ڈنر باہر کرنے کا موڈ ہے۔۔  تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔  بہت بھوک لگی ہوئی ہے آج تو سٹیڈیم میں وقت ہی نہیں ملا کھانے تک کا۔۔۔  میں اتنی دیر میں فریش اپ ہو لوں ” اس کا نرم لہجہ۔۔ ۔  وہ دل ہی دل میں مسکرائی۔۔  سچ ہے مردوں کی کوئی کل سیدھی نہیں۔۔  جب دل چاہے خوش جب دل چاہا ناراض سوچتے ہوئے وہ کچن سے باہر نکل آئی۔  فرجاد بیڈ روم میں جا چکا تھا۔

وہ بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔

یار! میرے کپڑے نکال دو۔۔  اور ہاں سنو ” وہ اٹیچڈ باتھ کے دروازے میں کھڑا اسے بدایت دے رہا تھا۔

“اپنے لئے پرپل سوٹ نکالنا۔۔  جو آپا نے تمہیں پچھلے ہفتے بھیجا ہے ” اس کی فرمائش پہ وہ اچنبھے کا شکار ہوئی تھی۔۔  اس نے آج تک اس سے ایسی کوئی فرمائش نہیں کی تھی۔۔  وہ بے انتہا خشک مزاج بندہ تھا یا شاید اس کے لئے بنا ہوا تھا۔۔

“جی ” وہ کہہ کر اپنی وارڈروب کھول کر کھڑی ہو گئی۔۔ وہ منتظر تھی اس راز سے پردہ اٹھنے کی کہ فرجاد کے اس خوشگوار موڈ کی وجہ کیا ہے ۔

☆☆☆

 

فرجاد نے ہو ٹل میں ڈنر سرو ہونے تک اس سے ڈھیروں باتیں کر ڈالیں۔۔  اتنی باتیں جتنی اس نے شادی کے نو ماہ میں کبھی نہیں کی تھیں۔۔  مہر کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔  تو کیا تبدیلی آ رہی تھی ؟ کیا ابو نے ٹھیک کہا تھا ؟، اس حوالے سے وہ ضرور سوچتی جو اگر فرجاد ان آٹھ مہینوں میں اُس کے اندر کوئی امید کوئی خوش گمانی باقی رہنے دینا۔۔  وہ بظاہر سر شار سی بیٹھی اس کے کسی سنائے گئے لطیفے پہ ہنس رہی تھی اور دل ہی دل میں قیاس لگانے میں مصروف تھی۔

“تمہارا پاسپورٹ تو بنا ہوا ہے نا؟”، اپنی کسی بات کے درمیان میں فرجاد نے اچانک “یو ٹرن” لیا تھا، وہ اگر سنبھل کر بیٹھنے کی عادی نہ ہو گئی ہوتی تو ضرور ٹھٹکتی۔

“جی بنا ہوا ہے ”۔

“ویری گڈ۔۔اصل میں ٹیم ملائشیا جا رہی ہے تو میں نے سوچا کہ تم بھی میرے ساتھ ہی چلو۔۔”، اُس نے ہنستے ہوئے کہا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے پاتی دائیں جانب سے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔

“مہر۔۔ ۔  یہ آپ ہیں ” حیرت بھری آواز پہ اپنی پلیٹ پہ جھکے فرجاد نے بھی سر اٹھا کر دیکھا تھا۔  ایک بے حد ڈیشنگ بندہ عین اس کے سامنے مہر کے پہلو میں کھڑا تھا۔

“سر آپ ؟ مہر پہچان کراپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی تھی۔

“سر۔۔ ” فرجاد نے زیر لب دہرایا تھا۔

“کہاں غائب ہو گئی تھیں آپ۔۔  بنا بتائے۔۔  اچانک ؟” وہ بندہ مہر کے اچانک نظر آ جانے پہ کچھ زیادہ ہی پر جوش لگ رہا تھا اسی لئے بولتا چلا گیا۔۔

“کون ہیں یہ مہر ؟”، فرجاد نے انتہائی سنجیدگی سے چپ چاپ کھڑی مہر کو مخاطب کیا تھا۔

“وہ۔۔  یہ۔۔  سر معیز ہیں۔۔  ہماری کالج ٹیم کے کوچ ” شروع کی گھبراہٹ پہ وہ قابو پا کر اعتماد سے بولی تھی۔

“اوہ سوری ! مجھے اپنا تعارف کروانا چاہئے تھا۔۔  ” معیز نے فرجاد کی طرف مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔

“یہ میرے ہزبینڈ ہیں۔۔  فرجاد گیلانی۔  ” اب کے اس نے معیز کا فرجاد سے تعارف کرایا تھا۔۔  ایک پل کو گرمجوشی سے فرجاد سے ہاتھ ملاتے معیز کا ہاتھ ڈھیلا پڑا تھا۔ فرجاد اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔

“اچھا!تو یہ وجہ تھی اچانک غائب ہو جانے کی ؟ “، شگفتہ سا لہجہ۔۔

“آپ بھی کیا اپنی وائف کے ساتھ آئے ہیں یہاں ؟” مہر نے معیز کے تعاقب میں نگاہیں دوڑائیں تھیں۔۔  کسی کی تلاش میں۔

ارے نہیں ! ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا۔۔  ” وہ شرارت سے مسکرایا تھا۔  وہ بھی ہنس دی۔۔  دفعتاً اسے احساس ہوا کہ فرجاد بالکل خاموش بیٹھا تھا۔

اس نے نظر فرجاد پر ڈالی اور اس کا چہرہ اسے سرخ نظر آیا۔

“یا اللہ!” اس کا دل چاہا اپنے بال نوچ ڈالے۔۔  معیز سر نے آ کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا تھا۔۔  اس کا اتنا مشکلوں سے سیدھا ہوتا موڈ پھر سے خراب ہو چکا تھا۔

“میں بھی کتنا ڈفر ہوں۔۔  آپ لوگوں کی پرائیویسی میں مخل ہو رہا ہوں۔۔  معذرت پلیز ! کیری آن ” معیز کو بھی شاید فرجاد کے خراب موڈ کا احساس ہو چکا تھا۔۔  اس لئے اس نے مزید بات چیت کرنا نا مناسب سمجھتے ہوئے وہاں سے جانا بہتر سمجھا۔

“کوئی بات نہیں سر ! آپ نے یاد رکھا شکریہ۔  ” مہر نے زبردستی مسکراتے ہوئے کرٹسی نبھائی تھی۔

“بھئی اتنی ہونہار کھلاڑی کو کون بھول سکتا ہے ؟۔۔  چلیں آپ انجوائے کریں۔۔  مجھے اجازت ؟”

معیز نے بولتے بولتے فرجاد کی طرف الوداعی مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا۔ ۔۔فرجاد کا رویہ اگر اس کے ساتھ خوش اخلاقی کا رنگ لئے ہوتا تو وہ یقیناً اس کے ساتھ گپ شپ لگانے کا ارادہ رکھتا تھا، فرجاد اُسے بے شک نہیں جانتا تھا لیکن معیز بہر حال کسی قدر فرجاد سے واقف تھا اور وجہ اُس کی کوچنگ کی تعریفیں تھیں مگر فرجاد نے اس سے ہاتھ ملانے کے بجائے ایک جھٹکے سے اپنی کرسی پیچھے دھکیلی تھی۔۔  اور ٹیبل پہ پڑا اپنا موبائل اور والٹ اٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔۔

“ارے فرجاد صاحب ! رکیں تو ” معیز کو کسی گڑ بڑ کے احساس نے فرجاد کا نام پکارنے پہ مجبور کر دیا تھا۔

“فرجاد۔۔  رکیں۔۔  فر۔۔ ” اسے یوں جاتا ہوا دیکھ کر شاکڈ سی مہر ایک دم سے ہوش میں آ کر اس کے پیچھے لپکی تھی لیکن فرجاد کی چھوڑی ہوئی کرسی سے اس کا پیر ٹکرایا تھا۔۔  وہ وہیں تکلیف کی شدت سے بیٹھتی چلی گئی۔

“اوہ نو ! مہر۔۔  آپ ٹھیک ہیں ؟ ” اس ساری صورتحال سے بوکھلایا ہوا معیز زمین پہ بیٹھی مہر کہ طرف جھکا تھا۔  اردگرد کی میزوں سے لوگ بغور اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔

“کیا ہوا۔۔ ۔  کون تھا یہ ؟ “لوگوں نے تماشا دیکھا بھی تھا اور سنا بھی۔۔  فرجاد نے آج اسے پبلک پلیس پہ بھی ذلیل کروا دیا تھا۔

مہر بے انتہا شرمندگی محسوس کرتے ہوئے وہیں گھٹنوں میں منہ چھپا کربیٹھ گئی۔

☆☆☆

 

“فرجاد ! ایسی کوئی بات نہیں۔۔  آپ خواہ مخواہ ” وہ وضاحتیں دے دے کر تھکنے لگی تھی لیکن فرجاد کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔۔ وہ گھر کس طرح پہنچی تھی اس میں فرجاد کو کوئی دلچسپی نہیں تھی بس سارا مسئلہ یہ تھا کہ اس کا معیز کے ساتھ پہلے ہی سے کوئی چکر تھا۔۔  اس کے نزدیک تو نظام صاحب نے اپنی بلا اس کے سر منڈھ دی تھی۔۔

“مجھے تمھاری کسی بات کا یقین نہیں۔۔  اس لئے اپنا وقت ضائع مت کرو۔۔  اور نہ میرا دماغ مزید خراب ” وہ تنفر سے بولا تھا۔

“کیا مطلب یقین نہیں ؟ ایسا کیا کیا ہے میں نے ؟ ” وہ تڑخی تھی۔  یہ روز روز کے ڈرامے اس کی برداشت سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔۔

“تمہیں نہیں پتا کیا کیا ہے تم نے ؟” اس نے اس کا بازو دبوچ کر دانت کچکچائے۔

“خناس بھرا ہوا ہے آپ کے دماغ میں۔۔  مجھے بس یہ پتا ہے ” اپنا بازو چھڑاتے ہوئے وہ چلائی تھی

چٹاخ۔۔  معیز کا بھاری ہاتھ اس کے گال پہ انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا تھا۔

“آواز نیچی رکھو۔۔  بے ہودہ عورت۔۔  ” وہ غرایا۔  مہر کو اپنے سن گال پہ بہتے آنسوؤں کا احساس جاتا رہا۔

“تمہاری بہن کی طرح تمہارا بھی عاشق ہی تھاوہ کوچ ؟ یہی وجہ تھی کہ تمھارے باپ نے تمہیں پورا سال کالج سے اٹھا کر گھر بٹھائے رکھا اور جب مجھ جیسا قربانی کا بکرا مل گیا تو تمھیں میرے ماتھے مار گئے۔ ” اس نے گنگ کھڑی مہر کو ایک جھٹکے سے بیڈ پہ گرایا تھا اور خود کمرے اور پھر لاونج میں پڑی کار کی چابیاں اٹھاتے گھر سے ہی باہر نکل گیا۔

☆☆☆

 

ہاسپٹل کے ٹھنڈے کاریڈور میں وہ اس وقت سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں کسے بلائے ؟

“اوہ میرے خدا! یہ کیا ہو گیا ؟” وہ بڑبڑا رہی تھی۔ پچھلی رات کے واقعات اس کی ذہن میں گردش کرنے لگے۔۔

سر معیز سے اتفاقیہ ملاقات ایک بھیانک حادثے میں بدل جائے گی یہ اس کے سان و گمان میں بھی نہ تھا۔  اس سے جھگڑ کر گاڑی لے کر نکلنے والے فرجاد کا گھر سے کچھ دور روڈ پہ ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔  محلے کا ہی کوئی بندہ اطلاع لے کر آیا تھا۔  وہ افتاں و خیزاں ہاسپٹل پہنچی تھی۔۔  آپریشن کیسے ہوا تھا ؟ کون کون فرجاد کا جاننے والا آیا تھا ؟ اسے کچھ خبر نہیں تھی۔  وہ تو بس گم صم سی تھی۔۔ ۔  شاید کسی ممکنہ بری خبر نے اس کے حواس مختل کر دئیے تھے۔

“ایکسیڈنٹ بہت شدید تھا۔۔  جان بچ گئی ہے۔۔  لیکن ایک ٹانگ۔۔ ۔  ہمیں کاٹنی پڑی۔۔  ” کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد آپریشن تھیٹر سے برآمد ہونے والے سفید اوور آل پہنے کسی ڈاکٹر نے اسے مخاطب کیا تھا۔۔  انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔  وہ ایک دم سے ڈھے گئی۔۔

“سسٹر۔۔  سسٹر۔۔  ” اسے بینچ پہ بے سدھ گرے دیکھ کر وہی ڈاکٹر نرس کو بلانے لگا۔

“آپ ٹھیک ہیں نا ؟ اس کا کندھا دھیرے سے چھو کر ڈاکٹر نے پوچھا تھا۔

وہ بس پتھرائی آنکھوں سے خلاء میں گھورتی رہی۔۔

“آپ کے ساتھ کوئی مرد ہے ؟ ڈاکٹر کو اس کی حالت ٹھیک نہیں لگ ہی تھی۔

“ن۔۔ ۔  نن۔۔  نہیں ” اس کا سکتہ ٹوٹا تھا، اس وقت کسی مرد کے ساتھ کا یہ سوال اُسے چابک کی طرح لگا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

“یس ڈاکٹر ” اسی وقت ڈیوٹی نرس ان کے پاس چلی آئی۔

“سسٹر ! انہیں دیکھیں پلیز ! یہ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں “ڈاکٹر نرس کو اس کے متعلق بدایت دینے لگا۔۔  وہ یونہی سسکتی رہی۔

☆☆☆

 

“اب کیا ہو گا ” وہ اک گہرا سانس بھر کر ان سوچوں سے باہر آئی تھی، ہاسپٹل کاریڈور میں ٹہلتے ہوئے رات کالی کرنا شاید اب اُس کی تقدیر ہی بن گیا تھا۔

“فرجاد کیسے ری ایکٹ کرے گا ؟

میں اسے کیسے سنبھالوں گی اکیلی ‘‘

وہ جتنا سوچوں سے پیچھا چھڑا چاہتی تھی وہ اتنا ہی ریت والی آندھی کی طرح گھسی ہی آ رہی تھیں ۔۔

“آپا بھی ابھی تک نہیں پہنچیں۔۔  ” کاریڈور کے داخلی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔  آپا کو تو وہ کل ہی انفارم کر چکی تھی۔۔  اور ان کی ٹکٹس بھی ہو چکی تھیں۔  اب تو بس ان کے آنے کا انتظار تھا۔  ابو کو بھی فون پہ اس نے مناسب الفاظ میں اطلاع پہنچا دی تھی اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔  یہ خبر سنتے ہی وہ انجائنا کے اٹیک کا شکار ہو چکے تھے اور اب خود بھی سعودیہ کے کسی ہاسپٹل میں پڑے تھے۔۔  ساری مصیبتیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آگے پیچھے چلی آ رہی تھیں۔

“ہائے مہر! ہائے اللہ۔۔ ۔  یہ کیا ہو گیا ” اپنی سوچوں میں الجھی مہر یہ آواز سن کر اچھل کر کھڑی ہوئی تھی۔  آپا اس کے سامنے اپنا بھاری بھرکم وجود لئے کھڑی تھیں دونوں بازو وا کئے۔  وہ ان کی کھلی بانہوں میں سما گئی اور دونوں مل کر رونے لگیں۔

“اوہو ! کیا بچکانہ پن ہے یہ ثوبیہ؟” ان کے پیچھے کھڑے اطہر بھائی نے آپا کو مخاطب کرتے ہوئے۔ جھنجھلا کر کہا تھا ”

“ارے کیا بچکانہ پن ؟ میرے اکلوتے بھائی پہ اتنی بڑی قیامت بیت گئی۔  بھری جوانی میں۔  اب کیا رووں بھی نا ” آپا روتے روتے تنک کر بولی تھیں۔

“میرا مطلب تھا کہ ہاسپٹل میں رونا دھونا مچانا ٹھیک نہیں ہے۔  ” اب کی بار وہ گڑبڑا کر وضاحتیں دینے لگے۔

“کہاں ہے فرجاد؟ ” دوپٹے سے نام پونچھتے ہوئے آپا مہر سے مخاطب ہوئی تھیں۔

“آپا ! آئی سی یو سے روم میں شفٹ کر دیا ہے۔۔  لیکن ابھی وزٹنگ آورز نہیں ہیں۔۔  صبح ہی مل سکیں گے ؟” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی۔۔  آپا نے ابکی بار اسے غور سے دیکھا تھا۔۔  ستا ہوا چہرہ۔۔ ۔  سوجی ہوئی آنکھیں۔۔  انھیں ایک دم ہی اس پہ ترس آیا تھا۔۔  یہاں کوئی مرد بھی تو نہیں تھا۔  وہی اکیلی بھاگ دوڑ میں لگی ہوئی تھی۔

“میں ذرا ڈاکٹر سے مل آؤں ” اطہر بھائی کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔۔

“ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں اب ؟”، اس کے کندھے پہ ہاتھ دھرے وہ اسے لئے ہوئے بینچ پہ آ بیٹھیں۔

“بہت بھیانک ایکسیڈنٹ تھا۔۔  پوری رفتار سے گاڑی مخالف سمت سے آنے والے ٹرالر سے ٹکرائی تھی۔۔  جان بچ گئی ہے اور دو ہاتھ اور ایک پاؤں۔۔ ۔  دوسرا تو بس چورا ہو گیا تھا۔۔  کاٹنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔۔  ” دل گرفتگی سے کہتے کہتے وہ رو پڑی۔۔

“ہائے۔۔  ہائے میرا دل۔۔ ۔  ہائے میرا بھائی ” آپا شاید ہونے والے حادثے کا تصور کر رہی تھیں۔۔  کبھی دل پہ ہاتھ رکھتیں کبھی آنکھوں سے رواں آنسو پونچھنے لگتیں۔۔  وہ دونوں اکیلی بیٹھی قسمت کی سفاکی پہ ماتم کناں تھیں۔

☆☆☆

 

فرجاد نے ہوش میں آنے کے بعد ویسا ہی ردعمل دیا تھا جیسا کہ ایک بھاگتا دوڑتا انسان اچانک ہونے والے حادثے میں جسم کا کوئی عضو گنوا کر دیتا ہے۔۔  اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔۔  ڈاکٹرز کے پاس تو ایک ہی حل تھا۔۔  نیند کا انجکشن لیکن کب تک اسے نیند میں رکھ سکتے تھے۔۔  ہاسپٹل سے ڈسچارج ہونے کے بعد آنے والے بہت سارے دن صرف اور صرف اذیت میں گزرے تھے۔  وہ چیختا چلاتا۔۔  جو چیز ہاتھ لگتی اسے توڑ دیتا۔۔  دوا کھانے سے انکار کر دیتا۔۔ اور تو اور ایک دن آپا کا دوپٹہ جانے کیسے اس کے ہاتھ لگا تھا۔۔  اس کا پھندہ بنا کر گلے میں ڈال کر دونوں ہاتھوں سے مخالف سمت میں کھینچنے لگا وہ تو شکر تھا کہ آپا اسے دیکھنے اس کے روم میں چلی آئیں اور پھر تو جیسے ان کی روح فنا ہو گئی سامنے کا منظر دیکھ کر۔۔ ۔  ان کی چیخوں سے وہ اور اطہر بھائی بھاگے چلے آئے تھے۔۔  بڑی مشکل سے نیم بے ہوش اور نیم پاگل سے فرجاد کو قابو کیا تھا آپا اور اظہر بھائی نے۔۔  وہ بس لرزتی ٹانگیں لئے دروازے میں کھڑی اندر کا ہولناک منظر دیکھتی رہی تھی۔۔  اتنی ہمت ہی نہ تھی دو قدم ہی چل پاتی۔۔

☆☆☆

 

“ہوا کیا تھا آخر؟ ایسے کیسے اندھوں کی طرح فرجاد گاڑی چلا رہا تھا ؟ ” ہزار بار کا دہرایا سوال آپا ایک بار پھر لے بیٹھی تھیں۔۔ ۔  وہ ہمیشہ کی طرح عاجز آئی تھی۔

کچھ نہیں ہوا تھا آپا !کتنی بار آپ کو بتا چکی ہوں ” وہ جھنجھلا رہی تھی۔۔

“اے لو بہن ! کچھ تو ہوا ہو گا۔۔ ۔  اس کا کیا دماغ خراب تھا کہ بغیر کسی بات کے گاڑی لے جا کر سیدھا ٹرالر میں دے ماری ؟ ” آپا کو اس کی جھنجھلاہٹ سے چڑ ہو رہی تھی۔۔

وہ ایک حادثہ تھا آپا صرف حادثہ ” وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی تھی۔

“کچھ تو ہوا تھا مہر ! فرجاد صرف غصے میں ہی تیز ڈرائیونگ کرتا ہے۔۔  اسے کس بات کا غصہ تھا ؟ ” آپا اپنی بات پہ مصر تھیں۔۔

یا اللہ ! “مہر ان کے سوالوں کے سامنے مزید کھڑا نہ رہ سکتی تھی۔

“مہر ٹھیک کہہ رہی ہے آپا۔۔  وہ صرف ایک حادثہ تھا۔۔  یا شاید قسمت کی خرابی ” جانے کب فرجاد اپنی وہیل چئیرگھسیٹتا گھسیٹتا وہاں چلا آیا تھا اور ان کی باتیں سن لی تھیں۔۔

مہر نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔  فرجاد اور اس کی حمایت؟

اس بھیانک حادثے کو تین مہینے ہو چکے تھے۔۔  اس دوران وہ مختلف جذباتی مراحل سے گزرا تھا۔۔  انکار، تکرار، بے انتہا غصہ۔۔ ۔  بے بسی اور اب آخر میں وہ اسے قبول کر چکا تھا۔۔  مہر سے اس کا تعلق نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔۔  وہ بہت کم اس کے سامنے آتی۔۔  اس سے فرجاد کو اس بے بسی اور بے چارگی کی حالت میں دیکھنا اپنی برداشت سے باہر کی چیز لگتا تھا۔  اس دوران آپا اور اطہر بھائی نے بڑا ساتھ دیا تھا۔۔  اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو وہ کیسے فرجاد کو سنبھالی ؟

“ماشاءاللہ! میرا بھائی کتنے دن بعد آج خود سے باہر نکلا ہے۔۔  ” آپا فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھیں اور بڑھ کر اس کا ما تھا چوم لیا تھا وہ پھیکے سے انداز میں مسکرایا تھا۔

“بھائی اطہر کہاں ہیں ؟” فرجاد نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے بہنوئی کے متعلق پوچھا تھا۔

“ارے بتایا تو تھا کہ آج ٹکٹس کروانے تھے اسی سلسلے میں گئے ہیں ٹریول ایجنسی ” آپا کا جواب ایک دم سے فرجاد کو اداس کر گیا تھا۔

“تو کیا آپ لوگ اب چلے جائیں گے ” اس کی وہیل چئیر گھسیٹ کر صوفے کے قریب لارہی آپا ایک لمحے کیلئے ساکت ہوئی تھیں پھر اس کے قریب بیٹھ کر بولیں۔

“ہاں بھیا ! تین ماہ ہو گئے۔۔  وہاں بچے بہت تنگ کرتے ہیں دادی اور پھپھی کو۔۔  اور تمھارے بھائی کے کام کا بھی حرج ہو رہا ہے۔۔  دل تو بہت تھا کہ تمہارے پاس مزید رکتی لیکن۔۔  ( وقفہ ) ہائے یہ گھر داریاں۔۔ ۔  کیسے کیسے رشتے چھڑوا دیتی ہیں ” وہ کافی زود رنج ہو رہی تھیں۔۔  بھائی سے دور جانے کا ابھی من نہیں تھا لیکن یہ دنیا کے جھمیلے کہاں کسی کو سانس لینے دیتے ہیں ؟

“چلیں آپا ! خیریت سے جائیں۔۔  خوش رہیں۔۔  احسان ہے آپ کا کہ اتنے مہینے مجھے سنبھالا ” فرجاد نے اپنے قریب بیٹھی آپا کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگائے تھے۔۔  آپا کی آنکھیں بھر آئی تھیں اور مہر کی بھی۔۔

“میں چائے لاتی ہوں ” اس سے پہلے کہ آنکھیں چھلک پڑتیں وہ وہاں سے اٹھنے کا بہانہ دریافت کر چکی تھی۔

☆☆☆

 

آپا واپس جاچکی تھیں، فرجاد کافی حد تک سنبھل گیا تھا۔۔  اب وہ اپنے زیادہ کام خود سے سر انجام دے لیتا تھا۔  دونوں کے درمیان عجیب سی خاموشی در آئی تھی۔۔  فرجاد کچھ کہنے نہ کہنے کے درمیان ہی الجھا رہتا تھا اور وہ جیسے کوئی رو بوٹ ہی بن گئی تھی جسے بس زندہ رہ کر کوئی فارمیلٹی پوری کرنی ہو۔

“کتنی خاموشی ہو گئی ہے نا !”، اُس رات کھانے کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے چائے کے کپ سنبھالے بیٹھے تھے۔۔  فرجاد بیڈ روم کی کھڑکی کے ساتھ وہیل چئیر لگائے بیٹھا تھا۔۔  باہر بڑے زور کی بارش برس رہی تھی۔۔ طویل خاموشی سے اکتا کر فرجاد نے ہی برف توڑی تھی۔

مہر اس کی وہیل چئیر کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔ ۔

”ہوں” وہ ہنکارا بھر کر پھر خاموش ہو گئی۔۔  فرجاد کو اس خاموشی سے الجھن ہونے لگی تھی۔

“بچوں سے گھر میں کتنی رونق ہو جاتی ہے نا۔ !”اس نے بات آگے بڑھائی تھیی۔۔  مہر نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔  ایک لمحے میں بڑی تلخ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی تھی، وہ شاید بھول چکا تھا، اسے مگر یاد تھا زیادہ نہیں بس سال بھر پہلے کی بات تھی جب بے حد مشکل سے ہی سہی لیکن اس نے فرجاد سے بات کرنی چاہی تھی۔

“فرجاد! میں سوچ رہی تھی کہ ہم۔۔ ۔ ” وہ رکی تھی۔۔  کلب جانے کے لئے تیار ہوتے فرجاد نے جاگرز پہنتے ہوئے ایک لمحے کو ہاتھ روک کر اسے دیکھا تھا۔

ہاں اب بولو بھی۔۔  “وہ جسب عادت جھنھجلایا تھا۔

“ہماری شادی کو چھ ماہ ہو گئے ہیں اور ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں ” وہ رکی تھی۔

“تو۔۔  ” فرجاد جاگرز پہن چکا تھا آئینے کے سامنے کھڑا اپنا تنقیدی جائزہ لے رہا تھا۔

“تو یہ کہ ہم اگر اپنا چیک اپ کروا لیں۔۔  ” اس نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا۔

“ھاھاھا” فرجاد آئینے کے سامنے سے ہٹ کر عین اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔

مہر کو اس کا قہقہ اپنا مذاق اڑاتا محسوس ہوا تھا۔  اس نے بیساختہ لب بھینچے تھے وہ کیوں اس سے کسی بھلائی کی امید لگا بیٹھتی ہے ؟

“بچے بنانے کا شوق ہو رہا ہے محترمہ کو ” فرجاد نے اس کے سلیقے سے پونی ٹیل میں بندھے سلکی بالوں کی ایک لٹ کھینچ کر نکالی تھی۔

“پہلے اپنا اعتبار تو بنا لو مس مہر نظام الدین ” اس کے بالوں کی لٹ اپنی انگلی پہ لپیٹتا وہ کمینگی سے بولا تھا۔  مہر کو لگا اس کا وجود ہوا میں تحلیل ہو رہا ہو۔  اتنی تذلیل۔۔ ۔  صرف اس وجہ سے کہ اس کی بہن نے اپنی مرضی کی شادی کی تھی۔۔

“کس سوچ میں پڑ گئیں ؟” اسے گم صم سا خود کو تکتے پا کر فرجاد نے پوچھا تھا۔

“ہاں۔۔ ۔  وہ جیسے چونکی تھی۔ ”کچھ نہیں۔۔  ” سر جھٹکتے ہوئے جیسے ماضی دماغ سے جھٹکنے کی کوشش کرتی مہر کو فرجاد نے غور سے دیکھا تھا۔

“مہر !ایک بات کہوں ” فرجاد اور کسی بات کی اجازت مانگے ؟ یہ انہونی بھی آج ہو ہی گئی تھی۔

مہر نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں الجھن لئے سر ہلانے پہ اکتفا کیا تھا۔

“مجھے احساس ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط سلوک کیا ہے۔۔ ۔  اور شاید یہ اسی کی سزا ملی ہے مجھے۔  ” اس نے اپنے کٹی ہوئی ٹانگ کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔ ۔  مہر تڑپ کر اس کی وہیل چئیر کے پاس آ بیٹھی۔۔

“میں نے کبھی آپ کو بد دعا نہیں دی ” وہ جانے کیوں اپنی صفائی دینے لگی۔

“بد دعا نہ دینے سے بڑی بددعا اور کیا ہو گی “؟ وہ مسکرایا تھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔

“مجھے معاف کر دو پلیز! مجھے احساس ہو چکا ہے کہ میں غلط تھا۔۔  میری سوچ واہیات تھی۔۔  میں خود کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔  ” اس کا ہاتھ دھیرے دھیرے تھپتھپاتے ہوئے بولتا فرجاد اسے کسی اور ہی دنیا کا باسی لگا۔۔  مہر نے کچھ کہے بغیر اس کے گھٹنوں پہ سر ٹکا دیا۔۔

☆☆☆

 

ان دونوں کے تعلقات اعتدال پہ آنا شروع ہو چکے تھے۔  فرجاد اب وہیل چئیرگھسیٹتا چھوڑ کر لاٹھی کے سہارے چلنے لگا تھا۔  مہر نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔۔  کچھ حادثے زندگی میں ضروری ہوتے ہیں تا کہ آپ سے جڑے دوسرے انسان زندہ رہ سکیں۔

ان ہی دنوں جب وہ تنکا تنکا اکٹھا کر کے اپنا بکھرا شیرازہ سمیٹ رہے تھے۔۔  اسے نظام صاحب کی اچانک موت کی اطلاع آئی تھی۔۔  انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ صحت ان کی فرجاد کے ایکسیڈینٹ کے بعد سے سنبھلی ہی نہ تھی۔  انہیں وہیں پہ دفنا دیا گیا تھا۔  وہ ان کا آخری دیدار بھی کرنے سے محروم رہی تھی۔  وہ ایک بار پھر ٹوٹ کر بکھری تھی۔  اس بار فرجاد نے اسے نرمی سے سمیٹ لیا تھا۔  وہ جتنا حیران ہوتی کم تھا۔  فرجاد اس حادثے کے بعد بالکل بدل گیا تھا اس کی کئی خوبیاں مہر کے علم میں شادی کے ڈیڑھ سال بعد آئی تھیں۔۔  وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بنتے جا رہے تھے۔۔

☆☆☆

 

موسم اچانک بدلا تھا۔۔  سردی کی شدت میں روز بروز ہوتا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔  اب فرجاد سنجیدگی سے کوئی کام شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔  بیٹھے بیٹھے کھاتے رہتے تو قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جاتا۔۔  فرجاد کے آپریشن اور دوائیوں اور پھر ہونے والی فزیو تھیراپی پہ بہت پیسہ خرچ ہو چکا تھا۔۔  باقی جو تھوڑا جمع جتھا تھا اسے فرجاد کسی کام پہ لگانے کا ارادہ کئے ہوئے تھا۔  وہ دونوں شام کے دھندلکے میں گھر کے قریب واقع اے – ٹی -ایم مشین سے پیسے نکلوانے آئے تھے مہینے کا شروع تھا۔۔  ساری گروسری وہ ایک ہی بار کر لیتے تھے۔  باقی چھوٹی موٹی چیزیں محلے کے جنرل اسٹور سے آتی رہتی تھیں۔

“میں سوچ رہا تھا مہر! کہ تم اب سنجیدگی سے اپنی پڑھائی کمپلیٹ کرنے کے بارے میں سوچو۔۔  “فرجاد نے وہیل چئیر گھسیٹتی مہر کو مخاطب کیا تھا۔

پڑھائی۔۔ ۔  ” مہر نے یوں کہا جیسے اسے یہ آئیڈیا پسند نہ آیا ہو

“کیوں ؟ تمہیں شوق نہیں آگے پڑھنے کا یا کم از کم اپنا ایف اے تو مکمل کر لو۔۔  ” اس نے گردن گھما کر مہر کو دیکھا تھا۔۔  مہر نے ناک چڑھائی تھی۔

“مجھے پڑھنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔۔  میری کالج میں واحد اٹریکشن تو کرکٹ تھی۔۔  ” وہ لا پروائی سے لہجے میں اسے بتانے لگی۔

واقعی ؟ صرف کرکٹ۔۔  ” فرجاد کو حیرانی ہوئی تھی۔۔  لڑکیاں تو پڑھنے کی اتنی شوقین ہوتی ہیں۔۔  اور یہ۔۔ ۔

“جی ہاں ! میں بس ایک ایوریج اسٹوڈنٹ تھی۔۔  کرکٹ ٹیم کی کپتان ہونے کی وجہ سے مجھے بڑی رعایتیں مل جاتی تھیں۔۔  ” وہ مزے سے کہہ گئی۔

“حیرت ہے یار ! لڑکیاں تو کیا کیا پاپڑ بیلتی ہیں پڑھنے کے لئے۔۔  ” فرجاد کو اس سے باتیں کرنے میں اب مزا آتا تھا وہ کوئی ایک موضوع چھیڑ دیتا تو اسے کسی نہ کسی طرح انوالو رکھتا تھا۔۔

“پتہ نہیں بھئی وہ کون سی لڑکیاں ہوتی ہیں۔۔  ” فرجاد اسے دیکھے بغیر بھی بتا سکتا تھا کہ اب بھی اس نے کہتے ہوئے اپنی ناک چڑھائی ہو گی۔۔  یہ اس کا مخصوص انداز تھا ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے۔

وہ مسکرایا تھا۔

“لیں جی آ گئی اے – ٹی-ایم۔۔  آپ رکیں ذرا۔۔  میں نکالتی ہوں پیسے۔ ” مہر نے کہتے ہوئے اس کی وہیل چئیر ایک سائیڈ پہ کی تھی اور خود پیسے نکالنے لگی۔۔

یہ لیں۔۔ ۔  پورے پچاس ہیں ” پیسے فرجاد کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے وہ بولی تھی۔

“تم رکھو نا ” فرجاد لینے میں متامل ہوا۔۔

“لیں۔۔  میں آپ کی وہیل چئیر گھسیٹوں گی یا پیسے سنبھالوں گی۔۔  میں ہینڈ بیگ بھی لے کر نہیں آئی۔۔  اس لئے آپ ہی رکھیں۔۔  ” مہر نے فرجاد کے ہاتھوں میں باقاعدہ پیسے تھمائے تھے۔

“ہم رکھ لیتے ہیں۔۔  اتنی بھی کیا مشکل ہے ؟” مہر کے پیچھے سے آواز آئی تھی اور ساتھ ہی کوئی چیز اس کی کمر میں چبھی تھی۔۔  اس کی روح فنا ہو گئی۔

“اے کون ہو تم ” فرجاد نے اچانک پڑنے والی افتاد سے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔۔

“آپ کے سالے ہیں بھیا جی “۔۔ ۔  سر اور منہ مفلر میں لپیٹے لمبا سا کوٹ پہنے وہ شخص غرایا تھا۔

“پیسے دو ادھر ” کہتے ساتھ ہی اس نے ذرا سا آگے بڑھ کر فرجاد کے ہاتھ سے رقم چھیننی چاہی تھی جسے فرجاد نے چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

“ادھر دو لنگڑے۔۔  اس سے پہلے کہ تمھاری بیوی کی یہاں لاش نظر آئے ” اس شخص کے لہجے میں چھپی دھمکی نے فرجاد کو بالکل بے بس کر دیا تھا۔۔  اس نے روتی ہوئی مہر کو ایک نظر دیکھا اور اس کی نظریں اپنی کٹی ٹانگ سے ہوتی ہوئی اس شخص کے ہاتھ میں پکڑے بلیک ریوالور پہ جا ٹکیں۔۔ مہر نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے فرجاد کے دھواں ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا تھا۔

مرد تب نہیں مرتا جب اس کے ہاتھ پیرکٹ جاتے ہیں ۔

مرد تب بھی نہیں مرتا جب وہ کمانے اور ذمے داری اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔

مرد تب مر جاتا ہے جب اس کی عزت دہلیز پار کرجائے ۔

مگر مرد تب زندہ درگور ہو جاتا ہے جب وہ اپنی عزت کی حفاظت کرنے جوگا نہیں رہتا۔

کیا نہیں تھا فرجاد کی نگاہوں میں …مہر کو لمحہ لگا تھا۔۔اُس نے بے ساختہ اپنے آنسو صاف کئے تھے اور دوپٹے کو نا محسوس انداز میں اپنی کمر کے گرد باندھا تھا۔

“ابے دے نا ! ” اس شخس نے رقم فرجاد کے بے جان ہاتھوں سے جھپٹنے کی ایک اور کوشش کی تھی اور اسی لمحے اپنی گردن پکڑ کر بیٹھ گیا تھا، فرجاد کسی رو بوٹ کی طرح ساکت اس دلیر ڈاکو کو دیکھ رہا تھا جو بے حد اطمینان سے اب مہر سے پٹ رہا تھا، اس کا روالورہاتھ سے چھوٹ کر گر چکا تھا اور وہ باقاعدہ مہر کو اپنی بہن کہتے ہوئے معافی مانگ رہا تھا۔

“کیا سمجھتے ہو کہ میرا شوہر اگر اپاہج ہو گیا ہے تو تم جیسا کوئی کیڑا مکوڑا منہ اٹھا کر اسے دھکا دے گا”۔مہر اسے آڑے “لاتوں ” لئے چیخ رہی تھی، نہ جانے ان سالوں میں کس کس چیز کا غبار تھا جو اس کے اندر وحشت بن کر جمع ہو گیا تھا اور جسے وہ اس منحنی سے ڈاکو پر نکال رہی تھی ۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ مرد تب بھی مر جاتا ہے جب کوئی عورت اس کی خاطر سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہے۔

مہر عام سی نہیں تھی۔۔

فرجاد عام سا ہی تھا۔

☆☆☆

 

فرجاد اس دن کے حادثے کے بعد ایک بار پھر اپنے خول میں بند ہو چکا تھا۔۔  اپنی بے بسی کا احساس اسے پاگل کئے دے رہا تھا۔۔  ” میں مہر تو کیا اپنی بھی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہا”۔  یہ سوچ آکٹوپس کی طرح اس کے دماغ سے لپٹ چکی تھی۔  وہ ہر چیز حتی کہ خود سے بھی بیزار نظر آتا تھا۔

مہر کی اسے نارمل کرنے کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہو رہی تھیں۔۔  فرجاد سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند گزار دیتا اور وہ کسی بے چین روح کی صورت سارے گھر میں پھرا کرتی۔

“آخر آپ کا مسئلہ کیا ہے ؟” وہ اس دن ضبط کھو بیٹھی تھی۔۔  دو وقت کا کھانا اس کے روم میں جوں کا توں رکھا تھا۔۔ فرجاد خود سے زیادہ اسے اذیت میں رکھ رہا تھا۔

“میرے بہت سارے مسائل ہیں۔  جنہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔  اس لئے مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو۔۔  میں خود ہی سنبھل جاؤں گا۔۔  تم ٹینشن نہ لو پلیز”وہ انتہائی رکھائی سے بولا تھا۔

“میں ٹینشن ہی میں تو ہوں جب سے شادی ہوئی ہے۔۔  آپ بتائیں میرا کیا قصور ہے ؟ مجھے کیوں تنہائی کی بھٹی میں جلنے کے لئے اکیلا چھوڑا ہوا ہے ؟” آنسو اس کے گالوں پہ بہنے لگے۔۔  وہ انتہائی عاجز آئی ہوئی محسوس ہوئی تھی فرجاد کو۔

“تم باہر نکلو۔۔ ۔  کالج جاؤ۔۔  کچھ پڑھو۔۔  سیکھو۔۔  کرکٹ کھیلو۔۔  تمہیں پوری آزادی ہے۔۔  مجھ جیسے معذور کے ساتھ کیوں قید رکھتی ہو سارا دن خود کو اس گھر میں ” اب کی بار اس کا لہجہ نرمی لئے ہوئے تھا۔

“ٹھیک ہے اب میں یہی کروں گی۔۔  ” اس نے فرجاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔  اپنی بات کہہ کر وہ کچھ پل اسے گھورتی رہی اس کا ردعمل جانچنے کو۔

“اچھی بات ہے ” فرجاد نے سابقہ انداز برقرار رکھا۔۔  اس نے کچھ لمحے مزید اسے گھورنے میں گزارے اور پھر مڑ کر اس کے کمرے سے چلی گئی۔

☆☆☆

 

آنے والے کچھ دن اس نے مختلف ویب سائٹس کی مدد سے کرکٹ کے اداروں اور ممکنہ آفرز کو سرچ کرنے میں گزارے اور فرجاد نے اپنے کمرے میں مقید اپنی تنہائی کے ساتھ، وہ سارا سارا دن کمرے میں بند کیا سوچتا رہتا تھا مہر نے جاننے کی قطعاً کوشش نہیں کی، اس کے سر پر جیسے بھوت سوار تھا کہ کچھ کرنا ہے، کچھ ایسا جو فرجاد کے دماغ پر چھائی ہر دھند صاف کر دے اور جو خود مہر کو ایک بامعنی زندگی گزارنے کا اطمینان دے سکے ۔

بالآخر اسے مطلوبہ آفر مل ہی گئی۔۔ ۔  وہ کسی مقامی کرکٹ کلب کی طرف سے اشتہار دیا تھا۔  “فریش ٹیلنٹ ہنٹ ” کے نام سے اس ویب پیج پہ مطلوبہ خواتین کھلاڑیوں کی کوالیفیکیشنز پہ پورا ترنے کے لئے ریجسٹریشن کا لنک موجود تھا۔  اس نے فٹا فٹ اس سوالنامے میں پوچھے گئے سارے سوالوں کے جواب انٹر کئے تھے اور کچھ ہی دنوں بعد اس کلب نے اسے اس کے فارم کو اپروو کر لیا تھا۔۔  وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔  اب اگلا مرحلہ اس کلب جانے اور انٹرویو پینل کے سامنے پیش ہونے کا تھا۔۔  وہ جوش سے تیاری کرنے لگی۔

☆☆☆

 

وہ اپنی طرف سے پوری تیاری کر کے آئی تھی لیکن۔  انٹرویو روم میں پہنچتے ہی اسے اپنا ذہن سلیٹ کی طرح صاف لگا تھا۔۔  اس نے گھبراہٹ میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔۔  لگتا تھا کہ کسی فیشن شو کی پریڈ میں حصہ لینے والے گروپ میں وہ غلطی سے چلی آئی ہے۔۔  اس کا تو خیال تھا کہ امیدوار سادے حلیے میں ہوں گی لیکن یہاں تو بہار ہی آئی ہوئی تھی۔  اسے اپنا سفید رنگ کا لباس ایک دم پھیکا سا لگنے لگا۔۔  وہ اللہ کا نام لے کرایک خالی چئیر پہ بیٹھ گئی۔۔  کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اسے شبہ گزرا اس کا نام پکارا گیا ہے۔

“ہائیں اتنی جلدی کیسے ؟ کوئی اور ہو گی ” ابھی اسے آئے ہوئے بمشکل پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے۔  اتنی جلدی باری آنا ممکن نہیں تھا اس لئے وہ خود کو تسلی دے کر فرصت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

“مسز مہر ماہ فرجاد!” نام ایک بار پھر پکارا گیا تھا۔۔  اب کی بار وہ چونکی تھی۔۔

“نام تو میرا ہی ہے۔۔  ” زیر لب حیرت بھری خود کلامی۔

نام ایک بار پھر پکارا گیا تو وہ سارے کمرے میں گردن گھماتی، کنفیوژڈ سی کھڑی ہو گئی۔۔

“آپ ہی ہیں مسز مہر ” سیکرٹری بولتی قریب چلی آئی۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔

“کمال ہے۔۔  آپ کا نام کب سے پکارا جا رہا ہے اور آپ کو علم بھی ہے۔۔  آپ پھر بھی کوئی جواب نہیں دے رہیں۔۔  ” سیکرٹری کے میک اپ زدہ چہرے پہ ناگواری سی تھی۔

“ایم سوری ! میں سمجھی کسی اور کا ہے۔  ” اس نے شرمندگی سے کہا۔

“چلئے۔۔  آپ کی باری ہے ” اس کی بات پہ سیکرٹری نے نخوت سے ناک چڑھائی اور سر جھٹک کر اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی۔

وہ جھجھکتے ہوئے آفس کے نیم وا دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی۔۔

سامنے ہی بڑی سہ ٹیبل کے پیچھے تین حضرات تشریف فرما تھے۔

“مسز مہر ماہ ؟” ان میں سے ایک نے اس کے اندر داخل ہونے پہ تصدیق کے لئے پوچھا تھا۔

اس نے بیساختہ اثبات میں سر ہلایا تھا۔

“آئیے پلیز ! “اسی سوٹڈ بوٹڈ آدمی نے سامنے دھری چئیر کی طرف اشارہ کیا تھا۔

وہ پزل سی بیٹھ گئی۔۔

“جی تو آپ نے اپنے پروفامر میں لکھا ہے کہ آپ اپنے کالج کی ٹیم کی کپتان کے طور پہ کھیلتی رہی ہیں؟ ” اسی سنٹر میں بیٹھے آدمی نے اس کا آن لائن فل کی جانے والی پروفائل دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

“جی ” اس نے اعتماد سے جواب دینے کی کوشش کی تھی۔

“آپ کو کیوں لگتا ہے کہ آپ ہمارے بیسٹ الیون کا حصہ بن سکتی ہیں ؟ اب کے اس کے ساتھ بیٹھے دائیں طرف والے شخص نے سوال پوچھا تھا۔

“کیونکہ میں اچھا کھیلتی ہوں ” اس کی جو سمجھ میں آیا اس نے جواب دے دیا۔  وہ دونوں اشخاص ایک دم سے ہنسے تھے۔

“اچھا ! یہ تو سب ہی امیدوار کہہ رہی ہیں جو کہ تین سو سے اوپر ہیں۔۔  بہرحال آپ کی سفارش بہت تگڑی تھی اس لئے انٹرویو تو کلئیر سمجھئیے حالانکہ آپ شادی شدہ “بھی” ہیں لیکن پرفارمنس ٹیسٹ ہی آپ کی قابلیت کو فائنل کرے گا۔ ” وہی آدمی مسکر کر بولا تھا۔  اس کی بات پہ وہ حیران رہ گئی۔۔

“سفارش۔۔  مگر میں تو یہاں کسی کو نہیں جانتی ” حیرانی اس کے سوال سے ہی نہیں آنکھوں سے بھی مترشح تھی۔

“آپ کو علم نہیں ہو گا۔۔  ہمارے کوچ معیز صاحب کا کہنا ہے کہ آپ ان کی پرانی اسٹوڈنٹ رہ چکی ہیں۔۔  وہ ساتھ والے روم میں ہیں۔  جاتے ہوئے ان سے ملتی جائیے گا۔۔  اور پرفارمنس ٹیسٹ پاس کرنے کے لئے ٹپس بھی لیتی جائیے گا۔۔  “یہ صاحب کافی باتونی معلوم ہو رہے تھے۔۔  بولنا شروع کرتے تو چپ ہونے کا نام نہیں لیتے تھے

۔ معیز سر کا نام سن کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔  وہ یہاں کیسے ؟

“ٹھیک ہے پھر آپ سے سنڈے کو ملاقات ہوتی ہے۔ ” وہی باتونی شخص اسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر مسکرا کر بولا تھا۔  مسکراہٹ چہرے پہ مروتاً ہی سجائی گئی تھی اب کی بار۔

“جی سر !” وہ یکدم جاگی تھی۔  بیٹھے بیٹھے کھو جانا اس کی ثانوی عادت بن چکی تھی۔

“تھینک یو” کہتے ہوئے وہ فوراً اٹھی تھی اور سلام کرتے ہوئے آفس سے باہر نکلی تھی۔  اس کا ارادہ قطعاً سر معیز سے ملنے کا نہ تھا بلکہ وہ تو اب پچھتا رہی تھی یہاں آ کر۔۔  معلوم ہوتا کہ یہاں سر معیز بھی ہوں گے تو وہ کبھی نہ آتی۔۔ ۔  وہ کوئی نئی مصیبت افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔

اپنے کرکٹ کے شوق پہ لعنت بھیجتے ہوئے وہ تیز تیز قدموں سے وہاں سے نکلنا چاہ رہی تھی جب عقب سے آنے والی سر معیز کی آواز نے اس کے قدم جکڑ کئے۔۔

“مہر۔۔  رکیں تو ” اپنا نام سن کر ایک پل کو ٹھٹھک کر رکتی مہر نے دوبارہ سے رفتار پکڑی تھی۔

“ارے کیا ہو گیا۔۔  رکیں تو ذرا۔  ” وہ بھاگتا ہوا اس کے ہم قدم ہوا تھا۔

مہر جھنجھلا گئی تھی۔

“پلیز ! مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔  ”ا اس نے تلخی سے کہا۔۔  معیز پریشان ہوا تھا اس کے ایسے روکھے انداز پہ۔

“کیا ہو گیا ہے ؟ آپ اس دن والی بات پہ ابھی بھی ناراض ہیں کیا ؟ اس نے ریسٹورنٹ والی بات کا حوالہ دیا تھا۔  مہر نے اس کی طرف دیکھے بغیر چلنا شروع کر دیا۔۔

“نہیں بہت خوش ہوں۔۔ ۔  آپ سے اچانک ہونے والی ملاقات میں مجھے خزانہ ملا تھا نا ” وہ کافی تلخی سے بول رہی تھی۔

“دیکھیں ! آپ کے ہزبینڈ کو غلط فہمی ہوئی تھی اور میں ان کی غلط فہمی دور کر سکتا ہوں۔۔  لیکن آپ کو تو معلوم ہے نا ایسا نہیں تھا جیسا وہ سمجھے۔  ” معیز جانے کیوں خواہ مخواہ اپنی صفائی دیتے بولتا اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔  اب وہ اس عمارت سے نکل کر سڑک پہ آ چکی تھی۔

“کوئی فائدہ نہیں اب ! جو ہونا تھا ہو چکا۔۔  ” اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا تھا۔

“مطلب کچھ ہوا تھا کیا اس دن ؟” اس کی محمل باتیں معیز کی سمجھ سے باہر تھیں۔

“نہیں کچھ خاص نہیں۔۔  بس ہمارا جھگڑا ہوا تھا۔۔  اور میرے ہزبینڈ غصے میں گاڑی لے کر نکلے تھے اور ان کا ایکسیڈنٹ ہوا اور بس ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔۔  ” سڑک پہ کسی سواری کی تلاش میں نظریں دوڑاتی وہ بڑے عام سے لہجے میں بولی تھی۔

کیا۔۔ ۔  ” معیز کی آواز حیرت سے بلند ہو چکی تھی۔

☆☆☆

 

“ہو گیا انٹرویو!” وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی تھی صحن میں لاٹھی کے سہارے ٹہلتے فرجاد نے اس سے پوچھا تھا۔۔

“ہاں ہو گیا ” لوکل ٹرانسپورٹ کی خواری سے وہ کافی تھکی لگ رہی تھی۔

“کیسا ہوا ؟” اس کے پیچھے پیچھے لاونج میں داخل ہوتے فرجاد کو سب جان لینے کی جلدی تھی۔

“کلئیر ہو گیا ہے۔۔  بس پرفارمنس ٹیسٹ کے بعد فائل رزلٹ بتائیں گے۔۔  ” اپنے جوتے اتارتے ہوئے وہ بولی تھی اور شولڈر بیگ سنٹرل ٹیبل پر پھینکا تھا۔

“گڈ۔۔ ۔  ضرور سیلیکٹ ہو جاؤ گی تم ” فرجاد خوشدلی سے بولا تھا۔  پچھلے دنوں والی قنوطیت کا شائبہ تک اس کے چہرے پہ نہیں تھا۔  مہر نے اک گہرا سانس بھرا تھا۔۔  اب تو زندگی بھر شاید بے یقینی کے حالات میں گزارا کرنا تھا۔۔  کبھی کبھی تو وہ اس سب سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔۔  لیکن بھاگنا اتنا آسان کہاں ہوا کرتا ہے۔

“کیا سوچنے لگیں ؟ سوچوں کا اتار چڑھاؤ اس کے چہرے پہ کھوجتے فرجاد نے پوچھا تھا

“کچھ خاص نہیں ” مہر نے سر جھٹکا تھا۔

“کچھ کہنا چاہتی ہو ” فرجاد کو لگا شاید وہ کوئی بات کرنا چاہ رہی تھی۔

“ہاں ” مہر کے بالوں کا جوڑا لپیٹے ہاتھ لمحے بھر کو رکے تھے۔

“کیا میں اسے معیز کے بارے میں بتا دوں ” اس نے خود سے سوال پوچھا تھا۔۔  وہ شش و پنج میں تھی۔  چھپا تی تو بھی اس کا نقصان تھا بتاتی تو جانے کیسا ردعمل دیتا فرجاد ؟ فی الحال اس نے خاموشی کو مناسب سمجھا تھا۔

“نہیں۔۔  بس تھکن سی ہو گئی ہے اور کچن میں جانے کی ہمت نہیں کچھ بنانے کے لئے ” سستی سے جمائی لیتے ہوئے وہ بولی تھی۔

“ارے تو اس میں اتنا فکر کرنے کی کیا بات ہے ؟ میں کچھ منگوالیتا ہوں۔ ” فرجاد نے اس کا مسئلہ حل کیا تھا۔

“اوکے ” وہ بالکل عام سے انداز میں بولی۔۔  ورنہ سارے دن کی خواری کے بعد اب شام کا کھانا بنانے کی ہمت وہ خود میں بالکل نہیں پا رہی تھی۔

“تم چینج کرو۔۔ میں آرڈر کرتا ہوں۔۔  ” فرجاد نے سنٹرل ٹیبل پہ پڑا اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔  وہ سر بلاتی اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔

☆☆☆

 

پرفارمنس ٹیسٹ وہ آوٹ آف پریکٹس ہونے کے باوجود کلئیر کر چکی تھی۔۔  باقی کے مراحل اس کے لئے نہایت آسان ثابت ہوئے تھے۔  معیز کی سرپرستی اور مشورے اس کے ساتھ تھے۔  گو کہ وہ اس سے بہت ریزرو رہتی تھی۔ لیکن ٹیم کا کوچ ہونے کی وجہ سے اس کا اس سے براہ راست رابطہ ہوتا رہتا تھا۔

“تمہارے ہزبینڈ کیسے ہیں ؟” اس دن وہ پریکٹس کے بعد گھر جانے کے لئے اپنے سپورٹس کٹ کامن روم میں سنبھال رہی تھی جب معیز اندر داخل ہوا تھا اور سلام دعا کے بعد پوچھا تھا۔

“ٹھیک ہیں۔۔ ” اسپورٹس بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں گویا ہوئی تھی۔

“سب ٹھیک ہے نا ؟ ” معیز نے کچھ دیر کی خاموشی اور اس کے جھکے چہرے کو دیکھنے کے بعد پوچھا تھا۔

“کیوں ؟ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟” بیگ اٹھاتے ہوئے وہ تنک کر بولی تھی۔  اسے معیز کی کوئی بھی پیش قدمی خوفزدہ کر دیتی تھی۔

“کیونکہ تمہارے چہرے پہ بڑا بڑا لکھا ہے کہ تم خوش نہیں ہو ” دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسا کر وہ لفظ لفظ پر زور دے کر بولا تھا۔

“آپ میری ماں نہیں ہیں۔۔  سو پلیز یہ فکر آپ نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔۔  ” ایک جھٹکے سے بیگ کو کاندھے پہ ڈالتے ہوئے وہ سخت لہجے میں بولی تھی۔

“کسی کی فکر کرنے کے لئے کیا اس کی ماں ہونا ضروری ہے ؟ ” گھمبیر لہجہ۔۔  مہر کو تاو دلانے کے لئے کافی تھا۔

“بات سنیں سر معیز !” اس نے انگلی اٹھا کر وارن کرنے والے انداز میں کہا تھا۔

“میں ایک شادی شدہ عورت ہوں اور اپنی حدیں اور بد نیتوں کی نیتیں بخوبی پہچانتی ہوں۔۔  آپ اپنا دانہ یہاں سے سمٹیں اور کسی اور کو ڈالیں۔۔  ” اس کے لفظ لفظ سے بے انتہا سختی کا اظہار ہو رہا تھا۔

“اور ہاں اگر آپ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو میں انتظامیہ سے شکایت کرنے پر مجبور ہو جاؤں گی۔

عین اس کے سامنے کھڑے اس کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ بولی تھی۔

“پلیز مہر! مجھے غلط مت سمجھو۔۔  میری نیت صاف ہے ” معیز کے لہجے اور آنکھوں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے مہر کی باتوں سے تکلیف ہوئی ہے۔

“میں یہاں اپنا ایک پرانا خواب پورا کرنے آئی ہوں کوئی نیا عذاب مول لینے نہیں۔۔  آپ میرا راستہ نہ کاٹیں ” شاید اسے اپنے لہجے کی سختی کا خود بھی اندازہ ہوا تھا اس لئے اب کی بار دھیمے انداز میں کہا۔

“تمہیں کبھی بھی کوئی بھی ضرورت ہو۔۔  ایک آواز دے لینا۔۔ ” جانے کے لئے مڑتی مہر کے کانوں میں معیز کی آواز پڑی تھی۔۔  اس نے رک کر ذرا کی ذرا گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔۔  جو اپنی آنکھوں میں انتہا کی نرمی لئے کھڑا اس کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔۔  مہر نے تیزی سے قدم آگے بڑھائے تھے۔

☆☆☆

 

فرجاد نے محلے میں ہی اپنا گروسری اسٹور کھول لیا تھا۔  آہستہ آہستہ چیزیں اپنی جگہ پہ واپس آ رہی تھیں۔

فرجاد اب ہر ممکن مہر کے ساتھ وقت گزارنے اور اس کی پسندیدہ چیزوں اور باتوں میں دلچسپی ظاہر کرنے کی بھر پور کوشش کرتا تھا۔  بظاہر دونوں ایک آسودہ کپل کی تصویر پیش کرتے تھے لیکن کچھ تھا ان کے بیچ جو انہیں مکمل ہونے نہیں دے رہا تھا۔  وہ کیا تھا ؟ اس کی سمجھ نہ مہر کو آ رہی تھی اور نہ ہی فرجاد کو۔  کبھی کبھی فرجاد کو مہر اپنے ساتھ ناخوش لگتی تھی۔۔  اور یہ خیال ہی اس کی سانسیں روک دیتا تھا کہ کہیں کبھی وہ اسے چھوڑ نہ جائے۔

کتنی مضحکہ خیز بات تھی۔  یہ وہی فرجاد تھا جس نے مہر کو شادی کے پہلے سال گویا سینگوں پہ اٹھا رکھا تھا۔  کونسی بات ایسی تھی جو دل دکھانے والی اس نے مہر سے نہ کی ہو ؟ اکیلے میں سوچنے بیٹھتا تو اندر ہی اندر شرمندہ ہوتا رہتا۔۔  اور اسے خوش کرنے کی تدبیریں سوچا کرتا۔۔

وہ سوچوں کے سفر پہ کتنا دور نکل گیا تھا یہ احساس اسے مسلسل بجتے اپنے موبائل کو دیکھ کر ہوا۔ پندرہ مسڈ کالز۔۔

اس نے موبال اٹھا کر دیکھا تھا۔۔  آپا کالنگ۔۔ ۔  جلدی سے فون کاٹ کر انہیں کال بیک کی تھی۔

“ارے کہاں گم ہو تم ؟ خیر تو ہے نا۔۔ ۔  کب سے کال کر رہی ہوں۔۔  ” وہ چھوٹتے ہی بولی تھیں۔

“جی جی آپا ! سب خیر ہے۔۔  بس دکان میں مصروف تھا ” اس نے کہا اگر اصل بات بتا دیتا تو آپانے ایک گھنٹے کا لیکچر ضرور پلا دینا تھا۔۔  غیر ذمہ داری پہ۔۔

“لو تم تو دکان میں مصروف ہو۔۔  تمہاری بیگم صاحبہ کہاں مصروف ہے۔۔  آجکل۔۔ جب بھی فون کرو یا تو بند ملتا ہے یا پھر اٹھا لے تو کہیں باہر نکلی ہوتی ہے۔  ہو کیا رہا ہے وہاں ؟ ” آپا بھری بیٹھی تھیں شاید۔۔  شروع ہوئیں تو رکنے کا نام نہ لیا۔

“وہ آپا وہ جاتی ہے نا کرکٹ کلب تو وہاں ٹائم نہیں ملتا اس لئے فون آف کر دیتی ہے۔۔  ” فرجاد نے اپنے تئیں ان کی تسلی کرانے کی کوشش کی تھی۔

“یہ بھی خوب کہی بھیا ! کون عقل مند مرد اپنی بیوی کو یوں غیر مردوں میں سارا دن چھوڑتا ہے کہ الٹی سیدھی چھلانگیں لگاتی رہے۔۔  ؟ ” آپا نے اس کی عقل پہ ماتم کیا تھا۔

“نہیں آپا! سب لڑکیاں ہی ہوتی ہیں وہاں ” اس نے مہر کی صفائی پیش کی۔

“تم سے سات سال بڑی ہوں۔۔  دنیا دیکھی ہے میں نے۔۔  اسی لئے کہتی ہوں۔۔  ختم کرو یہ ڈرامہ۔۔  اپنا گھر اور شوہر سنبھالے۔۔  کیسی عورت ہے اپنی پڑی ہوئے۔  ” آپا بڑے تیقن سے تیکھے لہجے میں بول رہی تھیں۔  فرجاد کا اعتماد جو بڑی مشکل سے مہر پہ بحال ہوا تھا بری طرح ڈگمگایا۔۔  صحیح تو کہ رہی ہیں آپا ؟ کوئی اس کے اندر سے بولا تھا۔

“چندا ! اپنی بھینس خود ہی مضبوط کھونٹے سے باندھنی پڑتی ہے۔۔  ورنہ دنیا تو مفت کا دودھ اڑاتے دیر نہیں لگاتی۔۔  ” آپا جانے کیا کیا بولے جا رہی تھیں۔  فرجاد کا دماغ تو ایک ہی نقطے پر اٹک گیا تھا۔۔ ۔

☆☆☆

 

“بہت خوش رہنے لگی ہو آج کل ” فرجاد نے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر گنگناتی اور تیار ہوتی مہر کو ٹٹولتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

“ہاں ! نہیں تو ” وہ اس سوال کے لئے ہر گز تیار نہیں تھی۔۔  اس لئے گڑبڑا گئی۔

“واپسی کب تک ہے ” اس نے اپنے بالوں میں بوبی پنز لگاتی مہر سے پوچھا۔

“فنکشن تو دیر تک چلے گا۔۔  کوئی سنگر وغیرہ بھی بلا رکھے ہیں۔۔  لیکن میں ایک دو گھنٹے میں واپس آ جاؤں گی۔۔  بس اپنی سند اور شیلڈ لے کر۔  ” اب وہ اپنا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔۔  مصروف سا انداز۔۔

“اچھا ” فرجاد کے پاس پوچھنے کو کوئی اور سوال نہ رہا۔

“آپ بھی چلتے نا ! اس کی تیاری فائنل ہو چکی تھی۔۔  وہ آئینے کے سامنے سے ہٹ کر دیوا رگیر الماری میں جا گھسی۔

“نہیں۔۔  میں کیا کروں گا جا کر۔۔  اور پھر دکان کون دیکھے گا ؟ ” فرجاد بد دلی سے بولا اسے مہر کا یہ فنکشن اٹینڈ کرنا بالکل بھی پسند نہیں آ رہا تھا لیکن اس کے پاس کوئی وجہ بھی نہیں تھی اسے روکنے کی۔  خود ہی اس نے اجازت۔ دی تھی تو اب خود ہی بھگتنا تھا۔

“یہ بھی ٹھیک ہے ” پیروں میں نازک سینڈل پھنساتے ہوئے اس نے کہا تھا۔  فرجاد کو غصہ آیا تھا۔۔  منہ دیکھے کو بس ایک بار ہی اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے کر وہ فارغ ہو گئی تھی۔۔  اصرار کرتی تو وہ ضرور چلتا اس کے ساتھ۔۔

“چلیں پھر مجھے گلی کی نکڑ تک چھوڑ آئیں۔۔  وہاں سے میں ٹیکسی کر لوں گی۔۔  ” وہ سیدھی کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔۔  کتنی پیاری لگ رہی تھی وہ آج۔۔  فرجاد کے اندر جیلسی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔۔

“آپا ٹھیک کہتی ہیں۔۔  مجھے اس پہ نظر رکھنی چاہیے۔۔ ”

“چلیں بھی ! “اسے یوں سوچوں میں غلطاں دیکھ کر باہر نکلتی مہر پلٹی۔۔

“ہوں ! چلو ” سوچوں کے برعکس اس نے اپنی آواز میں بشاشت پیدا کرنے کی کوشش کی اور لاٹھی ٹیکتا ہوا اس کے ساتھ چلنے لگا۔

☆☆☆

 

رات وہ لوگ دیر سے سوئے تھے۔  اس لئے صبح دونوں کی ہی آنکھ کافی دیر سے کھلی۔  موبائل پہ ٹائم دیکھتے ہوئے مہر کی سٹی گم ہوئی۔۔  ساڑھے دس بج رہے تھے۔  فرجاد آٹھ بجے تک اپنی دکان کھول لیتا تھا آج وہ بھی پڑا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔

فرجاد اٹھیں۔۔  گیارہ بجنے والے ہیں ” اپنے پہلو میں لیٹے فرجاد کو اس نے کندھے سے پکڑ کر ہلایا تھا اور خود باتھ روم میں گھس گئی۔  جب تک وہ فریش ہو کر باہر نکلی۔۔ ۔  فرجاد دوسرا واش روم یوز کر کے نہا دھو کر بیٹھا تھا۔

“یار ! جلدی ناشتہ بناو۔۔  آج تو کافی دیر ہو گئی ہے ” فرجاد نے مہر سے کہا تھا۔

“جی بناتی ہوں ابھی ” بالوں پہ لپٹا تولیہ اس نے اتار کر صوفے کی پشت پر پھیلایا تھا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔

بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اپنی گھڑی اٹھاتے فرجاد کی نظر ٹیبل پہ رکھے مہر کے فون پہ پڑی تھی۔۔  اس نے کچھ سوچ کر اس کا فون اٹھا لیا۔۔  فون ان لاکڈ تھا۔۔  اس کی انگلیاں بیساختہ ٹچ اسکرین پہ پھرنے لگیں۔۔  اب تو کتنا عرصہ ہوا وہ مہر کا فون چیک کرنا چھوڑ چکا تھا۔۔  لیکن آج جانے کیا تحریک اندر سے ملی کہ وہ اب اس کے فون کے مختلف فنکشنز سے ہوتا ہوا گیلری میں گھس چکا تھا۔

پہلی تصویر جو کہ ایک سیلفی ہی تھی پہ نظر پڑتے ہی اس کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔

☆☆☆

 

“فرجاد !اب آ بھی جائیں۔۔  آپ کا ناشتہ تیار ہے۔  ” وہ ڈائنگ ٹیبل پہ ناشتہ رکھے کب سے فرجاد کو آوازیں دے رہی تھی جو اب کمرے سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔  کچھ دیر اس کا مزید انتظار کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اس کا نام پکارنے لگی تھی کہ وہ چلا آیا۔

“کمال کرتے ہیں اتنی دیر لگا دی آنے میں ” مہر نے اپنے اور اس کے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے اس سے شکوہ کیا تھا۔

“یہ کیا ہے ؟” فرجاد نے اس کا موبائل ٹیبل پہ پھینکا تھا۔

“کیا کیا ہے ؟” مہر کو اس کا یوں اپنا قیمتی موبائل پٹخنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔

اس نے اپنا فون اٹھا کر کھلی ہوئی ایپ کو دیکھا تھا۔۔

یہ کل فنکشن میں لی جانے والی ایک گروپ سیلفی تھی۔۔  اس کے ساتھ پوری ٹیم کھڑی تھی۔  اور عین اس کے پیچھے مسکراتا ہوا معیز کھڑا اس کا منہ چڑا رہا تھا۔  مہر نے بے ساختہ اپنا ما تھا تھاما تھا۔  اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ فرجاد چوروں کی طرح ایک بار پھر سے اس کے فون میں گھس کر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد کر لے گا۔

“سیلفی ہے اور کیا ” بڑی کوشش کر کے مہر نے اپنا لہجہ نارمل بنایا۔

“یہ تمہاری سیلفی میں کیا کر رہا ہے ؟ “اسے گھورتے ہوئے فرجاد کا دوسرا اعتراض آیا۔

“یہ کوچ ہے وہاں ہماری ٹیم کا اسی لئے یہ بھی اس گروپ سیلفی کا حصہ بن گیا۔۔  جو کہ قطعی میرا ارادی فعل نہیں تھا۔۔  جہاں سب اپنے اپنے سیلز سے گروپ سیلفیز لے رہے تھے میں نے بھی لے ڈالی۔۔  اس میں اتنا چیخنے کی کیا بات ہے ؟” اب وہ باقاعدہ جھنجھلا رہی تھی۔۔  فرجاد کی اس قسم کی کچہریوں سے اسے سخت نفرت تھی۔

“یہ تمہارا کوچ کیسے بن گیا ؟ یہ تو کسی کالج میں تھا۔  اب یکا یک یہ وہاں بھی پہنچ گیا جہاں تم ہو۔۔  “فرجاد نے ٹیبل پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔  اس کے ماتھے کی رگ مسلسل پھڑک رہی تھی جو کہ اس کے انتہائی غیض کی نشانی تھی۔

“مجھے نہیں پتہ یہ وہاں کیسے آ گیا ؟ نہ میں نے اسے دعوت دی اور نہ ہی میری سفارش پہ اسے کوچ رکھا گیا ہے۔۔  ادارے کی مرضی جسے چاہیں کوچ بنائیں۔۔  اس میں میرا کیا عمل دخل ” وہ بھی چیخی۔۔

“مجھے نہیں پتہ! تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔۔  مجھے اندھیرے میں رکھا۔۔  ” اس کا پارہ ہائی ہوتا جا رہا تھا۔

“میں نے آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔۔  اور اس بات کو نہ بتانے کا مقصد اسی تماشے سے بچنا تھا جو ڈرامہ ابھی کری ایٹ کر رہے ہیں۔۔  اس لئے میں نے خاموشی بہتر جانی۔ ”مہر کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی۔  ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔  ان دنوں کے دماغ انتہائی گرم ہو چکے تھے۔

“مجھے معذور جان کر تم جو چاہے مرضی کرتی پھرو۔۔  اور میں تم سے پوچھوں بھی نا ” فرجاد نے ٹیبل شیٹ کھینچی تھی۔۔  سارے برتن ایک چھناکے سے ٹوٹے تھے سب کچھ فرش پہ بکھر گیا۔

“آپ کا صرف دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں اور یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گا” برتنوں اور ناشتے کا حال دیکھ کر وہ چیخی تھی۔

“اور تمہاری نیت خراب ہے یہ بھی کبھی ٹھیک نہیں ہو گی ہو نا آخر گھر سے بھاگ جانے والی کی بہن، تمہارے خاندان میں تو باپ کی عزت کا خیال رکھنے کا رواج نہیں تو شوہر کی عزت کیا رکھو گی تم” وہ اس سے بلند آواز میں چیخا تھا۔

“بس” مہر کسی شیرنی کی طرح دھاڑی تھی “اس سے زیادہ بکواس برداشت نہیں کروں گی میں ۔۔”

“ہاں ! تم تو مجھ سے جان چھڑانے کے بہانے ویسے ہی ڈھونڈتی ہو۔۔  تمھارے چہرے پہ کبھی بھی میرے ساتھ ہوتے ہوئے وہ خوشی نہیں آتی جو اس تصویر میں اس بندے کے ساتھ کھٹے ہونے پہ نظر آ رہی ہے یوں چیخ چلا کر کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہو۔۔”

“مجھے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی آپ سے جان چھڑانے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔  سمجھے آپ ؟ مہر نے انگلی اٹھا کر کہا تھا۔۔  اس کا تنفس تیز تر ہو چکا تھا۔

“تو جاؤ چلی جاؤ اسی عاشق کے پاس جس کے ساتھ سارا دن گزار کر آتی ہو۔۔  ” فرجاد نے اپنی لاٹھی سے ٹیبل کو دھکیلا تھا۔ ”

“ٹھیک کہا آپ نے۔۔ مجھے چلے ہی جانا چاہیے۔۔  آپ جیسے ذہنی مریض اور معذور بندے کے ساتھ رہ کر میں بھی پاگل ہو جاؤں گی۔  ” مہر نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا اور وہاں سے چلی گئی۔  پیچھے فرجاد مغلظات بکتا رہ گیا۔

☆☆☆

 

“کیا ہوا خیر ہے نا ؟” تیسری ہی بال پہ آوٹ ہو کر وہ واپس اپنے جگہ آ کر بیٹھی ہی تھی کہ معیز چلا آیا۔  وہ کافی دیر سے دیکھ رہا تھا کہ پریکٹس کرتے ہوئے وہ مکمل کسی اور ہی جہاں میں پہنچی ہوئی تھی جو اس کے ذہنی انتشار کی نشانی تھی۔

“کیوں ؟ کیا ہوا ہے ؟” وہ معیز کی دخل در معقولات پہ تنک کر بولی۔

“مطلب کوئی گڑ بڑ ہے “۔۔ ۔  معیز نے یوں سر ہلایا تھا جیسے سب سمجھ گیا ہو۔

“آپ چلے جائیں یہاں سے پلیز ” وہ منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئی۔

“مجھ پہ اعتماد کر سکتی ہو۔۔ ۔  شاید میں تمہارے کسی کام آ سکوں ” معیز گھوم کر اسی طرف آ بیٹھا جہاں وہ منہ کئے بیٹھی تھی۔

“آپ ہی کا کیا بھگت رہی ہوں۔۔  سکون ہی غارت ہو کر رہ گیا ہے جس دن سے آپ منہ اٹھا کر ریسٹورنٹ میں ملے تھے۔۔  بلکہ جب سے شادی ہوئی ہے۔  ” ہونٹ چباتے ہوئے اس کا لہجہ بے انتہا تلخ تھا۔

“دیکھو ! میں بہت بارمعذرت کر چکا ہوں۔۔  بس تمہیں یوں اچانک اتنے عرصے بعد دیکھا تو بے اختیار تمہاری ٹیبل پہ چلا آیا۔۔ ۔  مجھے کیا پتہ تھا کہ تم ایک عدد ہلاکو خان ٹائپ شوہر کی مالک بن چکی ہو ” معیز نے تحمل سے کئی بار کی دہرائی بات دہرائی۔

“سارے عذاب میری ہی زندگی میں رکھے ہوئے ہیں۔۔  تنگ آ گئی ہوں میں۔۔  ” وہ اس سے کوئی بات نہ کرنے کا مصمم ارادہ باندھ کر گھر سے نکلی تھی لیکن اب اس کے ساتھ بیٹھی بے تکان بولتی جا رہی تھی اسے کسی کندھے کی تلاش تھی۔۔

“ہوا کیا ہے ؟ کچھ بتاؤ گی بھی ” معیز کو لگا اس وقت اسے کتھارسس کی بہت سخت ضرورت تھی اس لئے اس سے پوچھا۔

مہر نے نگاہ اٹھا کر اسے تولتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔  وہ یقین کرے یا نہ کرے …سوچ میں پڑ گئی۔۔

“ٹرسٹ می۔۔  ایم ہئیر فار یو ” معیز نے اس کی مشکل آسان کرنے کی ایک اور کوشش کی۔

مہر نے تھک کر سر کرسی کی پشت سے لگایا۔  معیز دلجمعی سے اس کا چہرہ تکنے لگا۔۔  کچھ دیر کی پر سوچ خاموشی کے بعد وہ بولنا شروع ہو چکی تھی۔

☆☆☆

 

کتنے دن گزر گئے تھے ان دونوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کئے۔  دونوں کے کمرے بھی الگ ہو چکے تھے۔  مہر اس وقت تک کمرے میں بند رہتی جب تک فرجاد گھر سے نکل نہ جاتا۔۔  اپنا ناشتہ، کھانا وہ خود بنا رہا تھا۔  وہ اس کی ہر ضرورت سے لاتعلق ہو چکی تھی۔۔  سردیوں کی شدت بڑھتی جا رہی تھی ایسے میں فرجاد کی کٹی ٹانگ میں ظالم درد شروع ہو جاتا۔۔  وہ لاٹھی ٹیکنے سے بھی جاتا رہا تھا۔  ایک بار پھر وہیل چئیر کی زینت بنا اپنے کام سر انجام دیتا رہتا۔  مہر اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب دیکھتی لیکن اس پہ بے حسی لوہے پہ لگے زنگ کی طرح حملہ آور ہو چکی تھی۔۔  وہ بہت بیزار رہتی تھی۔۔  زندگی میں رنگ تو پہلے ہی نا تھے لیکن ایسی گھور اندھیروں کی راجدھانی اس کا کبھی خواب نہیں رہی تھی۔۔  وہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ لینا چاہتی تھی۔۔  لیکن کوئی چیز تھی جس نے ابھی تک اسے فرجاد سے باندھ رکھا تھا۔  ان کچھ دنوں میں معیز نے اس کی دلجوئی کرنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کر ڈالی تھی۔  مہر کا دل معیز کے لیے پگھلنے لگا تھا۔

“اے کاش! کہ ثمر گھر سے نہ بھاگتی تو میرے ساتھ یہ سب نہ ہوتا ” اس پہ قنوطیت حاوی ہونے لگتی۔۔  کتنی نفرت تھی اسے اپنی ماں جائی سے ؟کہیں مل جاتی تو شاید وہ اسے اپنے بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کے منہ پہ تھوک دیتی۔۔

توبہ۔۔ ۔  کیسی کیسی زہریلی سوچیں اس کے دماغ میں پنپ رہی تھیں آجکل۔

فرجاد نے کتنی کوشش کی۔۔  اس سے بات کرنے کی اسے منانے کی۔۔  حتی کہ دبئی سے آپا تک کال کرتی رہیں۔۔  لیکن اس کے وجود پہ چھائی بے حسی کی برف نہ پگھلی۔۔ ۔

اس شخص کا تو روز کا تماشا تھا۔۔  خود ہی بکتا جھکتا تھا خود ہی مان جاتا تھا۔۔ ۔  اور اوپر سے اسے بھی اپنے مزاج مطابق ڈھالنے کی فکر میں غلطاں رہتا تھا۔۔  اب اور نہیں۔۔ ۔  اس نے فیصلہ کیا تھا۔۔

☆☆☆

 

تم جلدی نہیں کر سکتے تھے ” مہر نے ان چند دنوں میں یہ شکوہ معیز سے اتنی بار کیا تھا کہ اسے خود یاد نہیں تھا۔۔

دونوں اس وقت فون پہ بات کر رہے تھے۔

میں نے دیر نہیں کی۔۔  کسی اور کی جلدی نے مجھے دیر کرا دی ” معیز کا لہجہ گھمبیر تھا۔۔  وہ اسے مکمل اپنے دل کا حال بتا چکا تھا۔ کہ کیسے کالج کے دنوں سے ہی وہ اس کے دل میں دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھی۔۔  وہ بات آگے بڑھانے کی پلاننگ ہی کرتا رہ گیا اور اس کے ابو نے آناً فاناً اس کی شادی فرجاد سے کر دی۔

“دیکھو ! تمھارے گھر والوں کو تو کوئی پرابلم نہیں ہو گی نا؟میرا مطلب ہے کہ میں شادی شدہ ہوں ” ڈرتے ڈرتے مہر نے اس سے پوچھا۔۔  جو سوال اسے سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا وہ اب کر رہی تھی۔۔

“ارے ! کوئی ہو گا تو پرابلم ہو گی نا ” وہ ہنسا تھا۔

“کیا مطلب ؟” اس کے خاک بھی پلے نہ پڑا۔۔

“یار ! نہ ماں نہ باپ اور نہ ہی خاندان کا اتا پتہ۔۔  کس کو مشکل ہونی ہے میری آسانی سے ؟ ” وہ پھیکے سے انداز میں ایک بار پھر ہنسا۔

“تو تمہارے والدین۔۔  ” مہر کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیسے پوچھے اس سے ؟

“بہت چھوٹا تھا میں جب میرے ماں باپ کا سفر میں ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔۔  میں بھی ان کے ساتھ تھا۔۔  وہ تو بچ نہ سکے۔۔  میں بچ گیا۔۔  لیکن ان کی کوئی شناخت نہ ہو سکی۔۔  کون تھے کہاں جا رہے تھے۔۔  کیونکہ میں ان کو امی ابو کہہ رہا تھا تو سب نے فرض کر لیا کہ میں ان ہی کی اولاد ہوں۔۔  اخباروں میں اشتہار وغیرہ دئیے گئے۔۔  کوئی نہ آیا تو مجھے پولیس نے کسی یتیم خانے میں داخل کروا دیا۔۔  بس یونہی رلتے رلتے بڑا ہو گیا اور کچھ پڑھ لکھ بھی گیا۔۔  ” وہ تفصیل سے بتا ربا تھا۔

“اوہ۔۔  افسوس ہوا سن کر ” مہر نے افسوس کیا۔

“افسوس۔۔  میرے بچ جانے کا کیا ؟ معیز نے شرارت سے پوچھا تھا۔

“بدھو! تمہارے والدین کا اور جن حالات میں تمہاری پرورش ہوئی ”

“اس افسوس کو خوشی میں کب بدل رہی ہو تم ! ” باتوں سے اپنی مطلب کی بات پکڑنا معیز کا مشغلہ تھا۔

“ہوں ! جلد۔۔  ” مہر نے سوچتی ہوئی آواز میں کہا تھا۔

تو پھر کل ڈنر پہ آ رہی ہو نا ” معیز کے لہجے میں آس تھی۔

“بالکل ” مہر نے تیقن سے کہا۔۔  وہ فیصلہ کر چکی تھی اب باقی کے معاملات اس سے مل کر طے کرنے تھے۔۔  وقت کم تھا ابھی اسے فرجاد کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے کا مشکل مرحلہ بھی سر کرنا تھا۔

☆☆☆

 

فرجاد اپنی وہیل چئیر گھسیٹا اس کے کمرے کے بند دروازے کے سامنے ایک بار پھر آ کھڑا ہوا۔۔

“مہر پلیز! اب بس کرو۔۔  بہت ہو گیا۔۔  معاف کر دو مجھے ” وہ ایک بار پھر دروازے کی طرف منہ کئے اونچی آواز میں اسے مخاطب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

“میں وعدہ کرتا ہوں آج کے بعد تمہیں مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔  پلیز دروازہ کھول دو۔۔  مجھے تم سے بات کرنا ہے ” وہ لجاجت سے بول رہا تھا اس امید پر کہ شاید دروازہ کھل جائے۔۔  اور پھر دروازہ کھل گیا۔۔  مہر ڈارک پرپل کلر کا ڈریس پہنے کھڑی تھی۔۔

“بہت شکریہ ! “فرجاد ممنون ہوا۔۔  وہ خاموشی سے دروازے سے ہٹ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی وہ اپنی وہیل چئیر پہ ہاتھ مارتا اندر داخل ہوا تھا اس نے حیرت سے اس کی تیاری کو دیکھا۔۔

“کک۔۔  کہیں جا رہی ہو کیا ؟” اس کی آواز کپکپائی۔

“ہاں ! “ٹھنڈے لہجے میں یک لفظی جواب۔۔  فرجاد کو سچ مچ کی کپکپی چڑھی تھی۔

“کہاں ؟” بڑی دقت سے وہ بولنے کے قابل ہوا تھا۔۔ ۔  گالوں پہ بلش آن لگاتی مہر کا ہاتھ ایک پل کو رکا تھا۔۔

“اپنے حصے کی خوشیاں لینے ” اس کے چہرے پہ چڑانے والی مسکراہٹ تھی۔۔  فرجاد کا دل دھک سے رہ گیا۔۔

“تت۔۔ ۔  تم۔۔ ۔  مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو ” یہ سوال پوچھتے ہوئے اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی تھیں۔۔

“ابھی نہیں۔۔ ۔  لیکن بہت جلد ” آنکھوں میں کاجل کی دھار تیز کرتے ہوئے وہ لا پرواہی سے بولی۔

“تم کیا کرنے لگی ہو مہر ؟ ” فرجاد کی حالت قابل رحم لگ رہی تھی۔۔  ایک یی پل میں اس کے چہرے پہ صدیوں کے مسافت کے آثار نمودار ہونے لگے۔

“بہت جلد آپ کو پتہ چل جائے گا ” وہ اس کی حالت کا اندر ہی اندر لطف کے رہی تھی۔

“دیکھو ! مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔۔  میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ” اس نے اس کی پشت کو تکتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔

“محبت۔۔ ۔  “وہ پلٹ کر چیخی تھی۔

“آپ کو مجھ سے محبت نہیں تھی نہ ہے۔۔  آپ کو صرف میری ضرورت ہے۔۔  جیسے یہ وہیل چئیر اور لاٹھی۔۔ ۔  ” وہ فرجاد کو لاجواب کر چکی تھی۔۔  اس کے پاس کوئی دلیل نہ رہی۔۔

“اگر تمہارے ابو زندہ ہوتے تو کیا تم تب بھی مجھے چھوڑ دیتیں ” ہارے ہوئے انداز میں فرجاد نے ایک اور کوشش کی تھی۔

بالوں میں برش کرتی مہر برش ڈریسنگ ٹیبل پر برش پٹخ کر اس کی طرف مڑی تھی۔

“آپ کے یہ جذباتی ہتھیار میرے فیصلے کی عمارت کو مسمار نہیں کر سکتے۔۔  میں آپ جیسے ذہنی مریض اور ادھورے شخص کے ساتھ مزید اپنی زندگی ضائع نہیں کر سکتی۔۔  ” کتنا کٹھور تھا اس کا لہجہ۔ وہ ایسی تو نہ تھی۔۔

گلاب تھی پھر کیکر کیسے بن گئی تھی…وہ جواب جانتا تھا۔۔

“مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔۔  میں بہت شرمندہ ہوں۔۔  معاف کر دو پلیز اور جو چاہے سزا دے لو میں اُف نہیں کروں گا ” فرجاد اسے ہر ممکن طریقے سے منانے کی اپنی سی سعی کر رہا تھا۔

“سزا۔۔  سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں ” فرجاد کو اس کی آنکھوں میں سفاکی نظر آئی تھی۔  اسے لگا شاید وہ سانس نہیں لے پائے گا۔

“میں جا رہی ہوں۔۔  اب مجھے پیچھے سے آواز نہیں دینا۔۔  ” اپنا بیگ کاندھے پہ ڈالتے ہوئے وہ تنفر ست تھی۔۔  فرجاد کی سانسیں پتھر کی ہو گئیں۔۔ ۔

زندگی کی یہ بازی بھی وہ ہار چکا تھا۔۔  اسے اپنے گال گیلے ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا لیکن شاید اس کے ہاتھ بھی پتھر کے ہو چکے تھے جو آنسو پونچھنے کو اُٹھ ہی نہ سکے۔۔  مرد روتے ہوئے کیسے لگتے ہیں بھلا ؟ کوئی اسے اب دیکھتا تو جان جاتا۔۔

“اوغ ” مہر ابھی کمرے سے نکلی بھی نہ تھی کہ اسے ایک دم ابکائی آئی تھی وہ اپنا بیگ اور ہاتھ میں پکڑا موبائل بیڈ پہ پھینک کر واش روم کی طرف بھاگی۔۔

فرجاد نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے بھاگتے دیکھا تھا۔۔

“کک۔۔ ۔  کیا ہوا ” اپنی وہیل چئیر پہ ہاتھ مارتا وہ واش روم کے آدھ کھلے دروازے کی طرف چلا آیا اور اندر جھانکنے کی کوشش کی۔  مہر واش بیسن پہ جھکی اپنا منہ دھو رہی تھی۔۔  پھر وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی۔  دفعتاً مہر کے فون کی اونچی بیل بجنا شروع ہو گئی۔۔  فرجاد کو لگا اس کا دل حلق سے باہر نکل جائے گا۔۔  وہ بغیر دیکھے بھی جانتا تھا کہ یہ کال صرف اور صرف معیز کی تھی۔۔

فون مسلسل بج رپا تھا اوراس کی رنگ بیل کے ساتھ ہی فرجاد کا دل سکڑ اور پھیل رہا تھا۔

سارے میں عجیب سے ہر اسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔  فرجاد نے مہر کو واش روم سے نکلتے دیکھا تو بے اختیار اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔  مہر کا سارا میک اپ بہہ چکا تھا اس کے چہرے پہ پانی کے قطرے تھے۔ وہ ہانپ رہی تھی۔  اس نے ایک نظر اپنے فون کو دیکھا جس کی بیل مسلسل بج رہی تھی اور دوسری نظر آنکھیں میچے فرجاد کو۔۔  وہ کچھ پل یونہی فرجاد کو دیکھتی رہی۔۔  کبھی کبھی فیصلہ لینے میں ایک پل لگا کرتا ہے اور یہی پل مہر کو چاہیے تھا۔

فرجاد کو لگا شا ید وہ جا چکی ہے۔  اس نے اپنی بند آنکھیں کھولی تھیں اور جو منظر اس کی نگاہوں نے دیکھا تھا اس نے اسے حیرت کا شدید جھٹکا دیا تھا۔  مہر نے جھک کر بیڈ پہ پڑا موبائل اٹھایا اور اس کی سم نکال کر کھڑکی سے باہر پھینک دی۔

فیصلہ ہو چکا تھا۔  آنے والی زندگی نے جانے والے کے قدم باندھ دئیے تھے۔۔  فرجاد کے چہرے پہ ایک دم سکون پھیلا تھا۔  مہر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کی وھیل چئیر کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔

“تم نہیں جاؤ گی؟ ” افرجاد کے لہجے میں صرف سہم تھا۔۔  اس نے نفی میں سر ہلایا اور پھر وہ اس کی وہیل چئیر گھسیٹتی کمرے سے باہر لے گئی۔۔  ان کا سفر ایک بار پھر سے شروع ہو چکا تھا۔۔  ننھی سی اُمید مہر کے پیٹ میں کھلکھلا رہی تھی۔۔ ۔

☆☆☆

ماخذ: کنواس ڈائجیسٹ

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل