FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دنیا خوبصورت ہے

رئیس فروغ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں……

نماز اور گلاب

نماز اور گلاب

جمعہ کے دن

اتنی بڑی سی

اک مسجد میں

ہم نے جا کر

پڑھی نماز

ماموں جان

وہاں سے آ کر

میں نے لگائے

اس کیاری میں

چار گلاب

جی جناب

ماموں جان

٭٭٭

منا اور چڑیا

چڑیا آ

پانی پی

دانہ کھا

چوں چوں چوں

تیرے گھر

منا سا

بچہ ہے

اس کو لا

چوں چوں چوں

میں تو اب

آپا سے

پڑھنے کو

جاتا ہوں

تو بھی جا

چوں چوں چوں

٭٭٭

یتیم بچہ  (ٹیبلو)

(ایک کمرہ ، کمرے میں ایک لڑکا شرفو عمر ۸ ، ۹ سال۔ بہت خوبصورت مگر پھٹے پرانے لباس میں بہت تھکا ہوا۔ بار بار جماہیاں لیتا ہے۔

(دھیما میوزک)

بہت تھک گیا ہوں

بہت تھک گیا ہوں

تھکن سے بدن چور ہے

اور سر دکھ رہا ہے

بہت تھک گیا ہوں

وہ بچے جنھیں میں نے دیکھا تھا کل پار ک میں

وہ سب کتنے خوش تھے

ان کی ہنسی

جیسے کلیاں چٹکتی ہیں اور پھول کھلتے ہیں

مقدر کے اچھے

وہ بچے!

اور ایک میں ہوں

میں ہنسنے کو اور کھیلنے کو ترستا ہوں

میرے مقدر میں شاید ہنسی یا خوشی نام کو بھی نہیں ہے

پھر وہ سب اپنے اپنے گھروں کو گئے

ان سب کے گھر ہیں

وہاں ان کی مائیں ہیں اور ماؤں کی مامتا ہے

مگر میں!

میرا کوئی بھی گھر نہیں

نہ جانے میں اس حال میں کب سے ہوں

ہمیشہ سے شاید اسی حال میں

ان دکھوں میں

انھیں آنسوؤں میں

بہت تھک گیا ہوں

گھڑی دو گھڑی کے لئے

یہاں لیٹ جاؤں

کچھ دیر آرام کر لوں

آرام کر لوں

آرام کر لوں (شرفو سو جاتا ہے ۔ پریاں آتی ہیں اور نغمہ چھیڑ تی ہیں)

چل۔۔۔۔۔۔۔مہکتی بہاروں میں چل

چل۔۔۔۔۔۔۔حسیں آبشاروں میں چل

مہکتی بہاریں بہت ہی حسیں ہیں

حسیں آبشاروں میں آنسو نہیں ہیں

چمکتے ستاروں میں چل

تجھے تیرے خوابوں کی دنیا دکھا دیں

انوکھے نظاروں میں تجھ کو بسا دیں

انوکھے نظاروں میں چل

یہ تاریک شب ہے سویرا نہیں ہے

بھرے شہر میں کوئی تیرا نہیں ہے

کہیں اپنے پیاروں میں چل

(گانا ختم ہوتے ہی پریاں جانے لگتی ہیں اور میڈم داخل ہوتی ہے)

میڈم: او مائی گاڈ

یہ یہاں سو رہا ہے۔

کتنے آرام سے سو رہا ہے۔

ارے اٹھ کے بیٹھ

(شرفو جاگتا ہے)

تو کون ہے؟

شاہزادہ ہے

نواب زادہ ہے

جاگیرداروں کی اولاد ہے

کسی سیٹھ کے گھر پیدا ہوا ہے

ترا باپ سردار یا میر ہے؟

بول!

یہ وقت سونے کا ہے

نکھٹّو

بہت کام سے جی چراتا ہے تو کام چور

کم بخت

گستاخ

بور

(چھوٹی بچی نازلی داخل ہوتی ہے)

میڈم؛ گھر کا سب کام پھیلا پڑا ہے۔

اور تو سو گیا

نہ گھر کی صفائی ہوئی اور نہ اب تک مسالہ پسا ہے

اور تو سو گیا اور

بتا تو نے کیوں آج اب تک مسالہ نہ پیسا ، صفائی نہ کی

نازلی: ممی ڈئیر ، ممی ڈئیر

صبح کے دس بجے

آپ جب سو رہی تھیں

تو شرفو نے اک ایک کمرے میں جھاڑو بھی دی

اور ہر اک چیز سے گرد بھی صاف کی

اور مسالہ جو شرفو نے پیسا تھا اندر کچن میں رکھا ہے

میڈم: تم چپ رہو نازلی

تم نہیں جانتیں

تم نہیں جانتیں

میں یہ پوچھتی ہوں کہ کیوں اس نے برتن نہ مانجھے ابھی تک

نازلی: ممی ڈئیر

ممی ڈئیر

اس نے برتن تو بالکل سویرے ہی مانجھے تھے ، چمکائے تھے

پھر ان کو الماریوں میں سجایا تھا

میڈم: تم چپ رہو نازلی

تم نہیں جانتیں

تم نہیں جانتیں

یہ بہت کام سے جی چراتا ہے

اس کا دل گھر کے کاموں میں لگتا نہیں

کبھی یہ تمھارے کھلونوں کو للچائی نظروں سے تکتا ہے اور چاہتا ہے

کہ ان کو چرا لے

اور انور کا جو قیمتی سوٹ ہے

اسے اپنے ان گندے ہاتھوں سے اس نے چھوا تھا

۔۔۔۔۔سوٹ پر یاد آیا

ارے میلے کپڑوں کی گٹھری جو کمرے کے کونے میں کل سے پڑی ہے

وہ تجھ کو دکھائی نہ دی

ارے بولتا کیوں نہیں

بے حیا تو نے کپڑے نہ دھوئے

کام کرتا نہیں اور کھانے کو موجود ہے

اتنا سا بچہ ہے، پر اس کی خوراک! اللہ توبہ

اگر اس کا بس ہو تو بکرے کو منٹوں میں چٹ کر کے یہ ہضم کر جائے

اور پھر بھی بھوکا رہے

نازلی: ممی ڈئیر، ممی ڈئیر

اس بیچارے نے کل رات سے کچھ بھی کھایا نہیں

اس کو HEADACHE سے FEVER ہے اورCOLD ہے

پھر بھی سب کام اس نے کیے

واقعی یہ بڑا BOLD ہے۔

میڈم: تم چپ رہو نازلی

تم نہیں جانتیں

تم نہیں جانتیں

یقیناً ہیں کچھ کام ایسے

جو اس وقت تو یاد مجھ کو نہیں آرہے

مگر پھر بھی مجھ کو یقیں ہے کہ وہ سیکڑوں کام جن کو میں اس وقت

بھولی ہوئی ہوں وہ اس نے کیے ہی نہیں

ان کے نہ کرنے کی اس کو سزا تو ملے گی ضرور

تھم تو جا بے شعور

(میڈم اسے مارنے کو دوڑتی ہے ۔ لڑکا بچنے کو بھاگتا ہے ۔ دونوں اسٹیج کے چکّر لگاتے ہیں۔ نازلی بچانے کی کوشش کرتی ہے)۔

میڈم: ٹھہر تو سہی

شرفو: ہائے مر جاؤں گا

نازلی: نہیں ممی ڈئیر

میڈم: آج کی مار کو عمر بھر یاد رکھے گا تو

شرفو: کوئی مجھ کو بچائے

نازلی: نہیں ممی ڈئیر، نہیں ممی ڈئیر

میڈم: میں تجھے آج کچا چبا جاؤں گی۔ وہ جو سب کام ہیں۔ سیکڑوں کام

جن کو میں اس وقت بھولی ہوئی ہوں

اگر تو نہ ان کو کرے گا

تو کیا ان کو ۔۔۔۔آ کر تری ماں کرے گی۔

شرفو: (طیش میں آ کر) مری ماں کو کچھ مت کہو

خبر دار دیکھو مری ماں کو کچھ مت کہو

ماں تو کہاں ہے

میں کہاں تجھ کو ڈھونڈوں

تو جنت میں ہے

میں جہنم میں ہوں

ماں!

تو آ بھی جا

تو جنت سے آ جا

مجھے اپنی باہوں میں لے، اپنی چادر میں مجھے کو چھپا

آ جا

ماں

ماں!

(شرفو بے ہوش ہو جاتا ہے)

٭٭٭

ملکوں کی سیر

آپ کو شاید ہے معلوم

یا شاید معلوم نہیں

یہ دنیا ہے کتنی حسین

یہ ہے برادر ملک ہمارا نام اس کا ایران ہے

یہ ملّت کی جان ہے

شہر بڑا تہران ہے

بنتے ہیں قالین یہاں

چاہے ان کو سارا جہاں

یہ ایرانی بچے ہیں

دیکھو کتنے اچھے ہیں

ترکی جو ترکوں کا وطن ہے اس کا جہاں میں نام ہے

ان کا دین اسلام ہے

ہمت جرات عام ہے

عزم و عمل پیغام ہے

محنت ان کا پہلا اصول

آؤ دیکھیں استنبول

بچے دیکھو کیسے ہیں

بالکل پھولوں جیسے ہیں

یہ ہے سعودی عرب کہ جس پہ صدقے ہماری جان بھی

اُترا یہاں قرآن بھی

ہم کو ملا ایمان بھی

نیکی کا رجحان بھی

تیل بڑا سرمایہ ہے

جو قسمت سے پایا ہے

بچہ بچہ نمازی ہے

جو دستورِ حجازی ہے

مصر میں ہیں اہرام جنھیں سب دور ہی سے پہچانتے ہیں

ٹورسٹ اس کو جانتے ہیں

خاک یہاں کی چھانتے ہیں

مصر کی عظمت مانتے ہیں

نہر سوئز جو بہتی ہے

ہر دم رونق رہتی ہے

بچے بھولے بھالے ہیں

یہ نازوں کے پالے ہیں

چین کا ملک ہمارا ساتھی زندہ ہے بیدار ہے

محنت کا گلزار ہے

تیز بہت رفتار ہے

سب کو یہ اقرار ہے

آبادی ہے بہت بڑی

محنت یہ کرتے ہیں کڑی

رسمیں سیدھی سادھی ہیں

بچے کام کے عادی ہیں

آؤ اب جاپان چلیں جو صنعت میں مشہور ہے

کاریگری دستور ہے

با عزت مزدور ہے

کاہلی ان سے دور ہے

گھر کو خوب سجاتے ہیں

ناچ بھی ان کو آتے ہیں

سارے گاما پادھا نی

دیکھو گڑیا جاپانی

علم و ادب میں نام ہے جس کا آرٹ میں جس کی دھوم ہے

وہ اٹلی میں روم ہے

روم کا اک مفہوم ہے

جو سب کو معلوم ہے

اٹلی کی تاریخ عجب ہے

جو اس کی شہرت کا سبب ہے

بچے پیارے پیارے ہیں

جگمگ جگمگ تارے ہیں

ملکوں ملکوں گھوم لیے اب دیکھیں پاکستان کو

اپنے وطن کی شان کو

عظمت کی پہچان کو

لاہور کو ملتان کو

پاکستان زندہ باد

پاکستان زندہ باد

٭٭٭

ایک گیت کئی کھیل

آئے بادل چلی ہوا

جاگے پھول سجیں بیلیں

آج ہماری چھٹی ہے

چھٹی کے دن کیا کھیلیں

ہرا سمندر گوپی چندر

بول میری مچھلی کتنا پانی

اپنے دل میں اتنی ہمت

بیچ سمندر جتنا پانی

کوڑا جمال شاہی

پیچھے دیکھا مار کھائی

ہنستے ہنستے ہنسی خوشی

کھیلیں بہنیں کھیلیں بھائی

کھیل بھی ہے یہ ورزش بھی

کھیلے کودے جان بنائی

ہم پھولوں بھرے آتے ہیں

آتے ہیں۔۔ آتے ہیں

تم کس کو لینے آتے ہو

آتے ہو ۔۔ آتے ہو

وہ ساتھی جو کھیل میں اوّل

جو ساتھی تعلیم میں آگے

اس کو ہم لے جائیں گے

اپنا ساتھی بنائیں گے

ہم تو سب ہی آگے ہیں

ہم تو سب ہی اوّل ہیں

تم پھولوں بھرے جاتے ہو

جاتے ہو ۔۔جاتے ہو

اکّڑ بکّڑ بم بے بھو

اسّی نوے پورے سو

سو میں لگا دھاگا

چور نکل کے بھاگا

ہم پڑھنے سے کیوں بھاگیں

صبح سویرے ہی جاگیں

کھیلیں بھی ہم پڑھیں بھی ہم

آگے آگے بڑھیں بھی ہم

٭٭٭

کہانی جو کھو گئی

میری کہانی رستے میں

جانے کہاں پہ کھو گئی جی

دل میں بہت شرمندہ ہوں

بھول یہ مجھ سے ہو گئی جی

میں جب اپنے گھر سے چلی

سڑک سڑک اور گلی گلی

کہیں مٹھائی رکھی تھی

وہیں بڑی سی مکھی تھی

مکھی بولی ۔۔بھن بھن بھن

جاؤ نہ تم ٹی وی مجھ بن

ناچوں گی اور گاؤں گی

اپنے ہنر دکھلاؤں گی

میں نے کہا کیا گاؤ گی

بیماری پھیلاؤ گی

مکھی اُڑ گئی جلدی سے

میں بھی مُڑ گئی جلدی سے

موڑ پہ چڑیا بیٹھی تھی

میرا رستہ تکتی تھی

کہنے لگی وہ چوں چوں چوں

میں بھی تمہارے ساتھ چلوں

ناچوں گی اور گاؤں گی

اپنے ہنر دکھلاؤں گی

پاس ہی چیں چیں ہونے لگی

بے بی چڑیا رونے لگی

میں نے کہا اس کو بہلاؤ

دال کا دانہ لے کر جاؤ

اُڑ گئی کہہ کے جاؤں جاؤں

بلّی بولی میاؤں میاؤں

ناچوں گی اور گاؤں گی

اپنے ہنر دکھلاؤں گی

میں اس سے کترانے لگی

بس یونہی سمجھانے لگی

چوہے اگر سن پائیں گے

کیسا مذاق اڑائیں گے

بلّی کو چوہے یاد آئے

اس نے پنجے لہرائے

پنجے میں اُلجھا غبارہ

سامنے تھا اک فوارہ

فوارے کے پاس وہاں

منّو کے بھائی چنوں میاں

گود میں تھے جو آیا کی

کیا جانیں وہ چالاکی

آج ہمیں بھی لے کے چلو

ٹیلیویژن اسٹیشن کو

میں نے ان کو ٹافی دی

انھوں نے مجھ کو معافی دی

پھر میں آئی آپ کے پاس

نہیں کہانی میرے پاس

میری کہانی رستے میں

جانے کہاں پر کھو گئی جی

دل میں بہت شرمندہ ہوں

بھول یہ مجھ سے ہو گئی جی

٭٭٭

محنتی لوگ

انجینئر

لکھ پڑھ کے میں تو اک دن

اہل ہنر بنوں گا

چاہا اگر خدا نے

انجینئر بنوں گا

ہو گی مرے ہنر سے تعمیر اس وطن کی

جاگے گی میرے فن سے تقدیر اس وطن کی

چلتی رہیں مشینیں ، صنعت تمام چمکے

جس طرح صبح چمکے ویسے ہی شام چمکے

اہل ہنر بنوں گا

انجینئر بنوں گا

ڈاکٹر

جسے تکلیف میں پاؤں

اسے آرام پہنچاؤں

جہاں غم کا اندھیرا ہو

خوشی کی روشنی لاؤں

جہاں آنسو برستے ہوں

ہنسی اس گھر میں بکھراؤں

دعا ہے ڈاکٹر بن کر

دکھی لوگوں کے کام آؤں

وطن کا سپاہی

وطن کا بہادر سپاہی بنوں

شجاعت کی دنیا کا راہی بنوں

لیفٹ رائٹ لیفٹ

لیفٹ رائٹ لیفٹ

وطن میں جہاں ہو ضرورت مری

وہیں کام آئے شجاعت مری

دلیری کا میں سب کو پیغام دوں

جو مشکل ہو وہ کام انجام دوں

ہمیشہ ترقی کی راہوں میں ہم

چلیں ساتھیوں سے ملا کے قدم

لیفٹ رائٹ لیفٹ

لیفٹ رائٹ لیفٹ

ٹیچر

نا چاندی نا سونا چاہوں

میں تو ٹیچر ہونا چاہوں

حاصل جو تعلیم کروں میں

سب میں اسے تقسیم کروں میں

ننھے منے بچے آئیں

علم کی دولت لیتے جائیں

کم نہ ہو یہ تقسیم کیے سے

جلتا ہو جیسے دیا دیے سے

پائلٹ

بلندی پہ جا کے سفر کرنے والا

ہوا باز اونچا ہوا باز اعلا

وہ رن وے پہ آیا جو ٹیک آف کر کے

تو سورج نے پہنائی کرنوں کی مالا

پسنجر ہیں سیٹوں پہ بے فکر بیٹھے

اڑائے لیے جا رہا ہے جیالا

ہماری امنگوں سے کیا کہہ رہا ہے

فضاؤں میں اڑتا ہوا یہ اجالا

وکیل

انصاف کی شان دکھاؤں

انصاف کا رنگ جماؤں

مظلوم سے ہو ہمدردی

ظالم کو سزا دلواؤں

مجرم کے کالے دل میں

قانون کی شمع جلاؤں

ہر بات میں سب سے آگے

انصاف کی بات بڑھاؤں

انصاف کی شان دکھاؤں

انصاف کا رنگ جماؤں

ہاری

سوچا ہے میں نے

ہاری بنوں گا

کھیتوں میں جھوموں

گندم اُگا کے

دھرتی کو چوموں

فصلیں سجا کے

سارے وطن کو

خوشحال کر دوں

خوشیوں سے سب کے

دامن کو بھر دوں

سوچا ہے میں نے

ہاری بنوں گا

٭٭٭

چڑیا گھر

چڑیا گھر میں بسنے والو

کیسا مزاجِ عالی ہے

مُنّو بھیّا پوچھ رہے ہیں

کیا کوئی پنجرہ خالی ہے

دوڑ میں سب سے اوّل چیتا

جنگل کی ہر ریس میں جیتا

جلدی جلدی بول رے ساتھی

کچا پپیتا ۔۔۔۔پکا پپیتا

جنگل کے سلطان کو دیکھو

شیر ببر کی شان کو دیکھو

ایسا بہادر کوئی نہیں ہے

دل والے مہمان کو دیکھو

بھاگ رہا ہے ہانپ رہا ہے

ڈر کے مارے کانپ رہا ہے

بزدل گیدڑ نام ہے اس کا

دیکھو کیسا بھانپ رہا ہے

ہاتھی سونڈ ہلانے والے

لمبے دانت دکھانے والے

دریا دریا جنگل جنگل

بھاری بوجھ اٹھانے والے

باتوں میں بے باک بہت ہے

سب پر اس کی دھاک بہت ہے

بچو اس کا نام بتاؤ

یہ بی بی چالاک بہت ہے

بن مانس کے کھیل عجب ہیں

سرکس جیسے سارے ڈھب ہیں

ایسے کھیل کہاں سے سیکھے

دیکھنے والے حیراں سب ہیں

ناچ دکھانے والے بھالو

تو کالا تیرا نام ہے کالو

کس سے ہے تیری رشتہ داری

تو آخر ہے کس کا خالو

ڈُگ ڈُگ ڈُگ ڈُگ بندر آئے

خوشی خوشی سسرال کو جائے

چھن چھن چھن چھن ناچے بندریا

جیسے مداری چاہے نچائے

زیبرا دیکھو دھاریوں والا

پایا جس نے روپ نرالا

صبح بھی اس کی شام بھی اس کی

آدھا گورا آدھا کالا

یہ کچھوے سے ہارنے والا

جھوٹی شیخی بگھارنے والا

آخر منہ کی کھا جاتا ہے

اوروں کو للکارنے والا

سانپ جو پل پل بل کھاتے ہیں

بین بجے تو لہراتے ہیں

لاکھوں رنگ نظر آتے ہیں

کنٹھی پہنے طوطے آئے

ہرے ہرے سے پر پھیلائے

مٹھو بیٹا پڑھ لیتے ہیں

کوئی ان کو اگر پڑھائے

سارس دیکھو کتنا بڑا ہے

بادل جیسے آن پڑا ہے

مچھلی آئے اور پکڑ لوں

پانی میں چپ چاپ کھڑا ہے

وہ دیکھو وہ آیا زرافہ

جیسے کوئی بیرنگ لفافہ

ہم دیتے ہیں اس کو دعائیں

گردن میں ہو اور اضافہ

٭٭٭

دنیا خوبصورت ہے

یہ دنیا تو بہت ہی خوبصورت ہے

یہاں روشنیاں ہیں شہروں میں

یہاں میٹھا پانی نہروں میں

کہیں پنچھی کی چہکار ملے

کہیں پھولوں کی مہکار ملے

کہیں پربت شان دکھاتے ہیں

کہیں ساگر آن دکھاتے ہیں

ہمیں اس پیاری دنیا سے محبت ہے

یہاں رشتے ہیں انسانوں میں

یہاں کھیت چھُپے ہیں دانوں میں

یہاں بہنیں ہیں جو پیار کریں

یہاں بھائی جان نثار کریں

یہاں باپ کی شفقت ملتی ہے

یہاں ماں کی چاہت ملتی ہے

یہ رشتے جن میں راحت ہے مسرّت ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://raisfroughe.wordpress.com

رئیس فروغ ڈاٹ ورڈپریس ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل