FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

دفن خزانہ

نا معلوم

مشینی ترجمہ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ایک دفعہ کا ذکر ہے، کہ ایک نہایت محنتی کسان جس کا نام رحیم تھا، ایک زرعی گاؤں میں رہتا تھا جو کہ پاکستان کے زرخیز صوبہ پنجاب میں واقع تھا۔ رحیم کے چار بیٹے تھے۔ ان کے نام تھے اکبر، اصغر، ناصر اور بابر جو کہ چاروں میں سب سے چھوٹا تھا۔

یہ چاروں بھائی دوسرے سب ان بچوّں سے بہت مختلف تھے جو کہ قریبی دیہی علاقوں میں رہتے تھے، کیوں کہ یہ چاروں اپنا زیادہ تر وقت کھیلنے اور شرارتیں کرنے میں گزارتے تھے۔ جب ہمسائے میں رہنے والے لوگ ان بھائیوں کی شرارتوں سے تنگ آ جاتے تو وہ رحیم سے ان کی شکایت کرتے، تب وہ سب شرارتی بھائی بھولے بھالے بن جاتے اور وعدے پر قائم رہنے کا ارادہ کئے بغیر ہمسایوں سے معافی بھی مانگ لیتے۔

گاؤں میں ایک پرائمری سکول تھا۔ رحیم نے اپنے چاروں بیٹوں کو وہاں اس امید میں داخل کرا دیا کہ ان کے اندر کوئی نظم و ضبط قائم ہو گا۔ مگر یہ سب بھائی روزانہ سکول بہت دیر سے جاتے۔ اور استاد خواہ کتنی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے، مگر وہ اپنے طور طریقے نہ بدلتے۔

رحیم بہت ہی رحم دل انسان تھا اور اس نے کبھی اپنے بیٹوں کے ساتھ سخت کلامی نہیں کی، بلکہ وہ ان کے پاس بیٹھ جاتا اور ان کو دلائل دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا۔

’’پیارے بیٹو!‘‘ رحم دل والد نے ایک دن بہت پیار سے کہا۔ ’’تم لوگ ابھی بہت کمسن ہو، اور اپنا تمام وقت کھیل کود میں گزارتے ہو۔ لیکن اگر تم نے اس عمر میں محنت کرنا نہ سیکھا تو جب تم لوگ بڑے ہو جاؤ گے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہو گے‘‘۔

سب بیٹے یک زبان ہو کر بڑے جوش سے کہتے۔ ’’ابا جان! آپ بالکل فکر نہ کریں ہم بہت جلد سب کچھ سیکھ لیں گے، ہم وعدہ کرتے ہیں‘‘۔

لیکن جیسے ہی ان کے والد انہیں ایک اور موقعہ دینے کے لئے راضی ہوتے تو چاروں بھائی اپنا وعدہ فوراً بھول جاتے۔ اور جلد ہی اپنے پرانے طور طریقوں پر اتر آتے، اور وہ جدھر بھی نکل جاتے شرارتیں کرتے، تباہی اور بربادی ڈھاتے نظر آتے۔ اگر کوئی ان سے کوئی کام کرنے کے لئے کہتا تو وہ سب طرح طرح کے بہانے بنا دیتے، جب کہ در اصل یہ چاروں بھائی نہایت سست اور کاہل تھے۔

پھر اسی طرح دن، مہینے اور سال گزر گئے اور یہ چاروں بڑھ کر جوان ہو گئے۔ انہوں نے پڑھنا لکھنا بالکل نہ سیکھا اور نہ ہی انہوں نے کھیت پر کوئی کام والد کی مدد کے لئے کیا۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنی من گھڑت فضول باتوں اور مشکلات کے لئے الزام دیتے رہتے۔ اور ان میں سے کسی ایک نے بھی، کبھی ایک دفعہ بھی اپنے برے طور طریقے کے لئے اپنی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

آخر رحیم ایک ضعیف اور بوڑھا آدمی ہو گیا مگر وہ پھر بھی کھیت پر سارا دن خود اکیلا ہی کام کرنے پر مجبور تھا۔ یہ کام ایک بوڑھے آدمی کے لئے بہت محنت کا تھا، اور رحیم کو وہ دن بہت مشکل لگنے لگے تھے۔

فصل کی پیداوار میں بھی کمی آ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس دولت میں بھی جو کہ وہ فصل کو منڈی میں بیچ کر حاصل کر سکتا تھا۔ رحیم اور اس کی بیوی اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھے، مگر وہ چاروں بھائی ان واقعات کے بارے میں بالکل بھی پریشان نہ ہوتے تھے۔ کبھی کبھار وہ کھیت میں اپنے والد کی مدد کرنے چلے جاتے، لیکن زیادہ تر اپنے بچاؤ کی خاطر بہانے بناتے رہتے۔ وہ تمام دن صرف نکمّے بیٹھے رہتے، کھاتے پیتے اور آرام سے سوتے۔

اگر کبھی کوئی اکبر سے کہتا کہ وہ کھیت پر جا کر اپنے والد کی مدد کرے، تو وہ کہتا کہ ’’دوسرے تینوں میں سے کوئی جا کر مدد کرے کیوں کہ میرے تو سر میں درد ہے‘‘ وغیرہ، وغیرہ۔ اسی طرح ہر ایک بھائی کو جب بھی کوئی کسی کام کرنے کو کہتا تو وہ اسی قسم کا بہانہ بنا دیتا، اور ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے بھائیوں میں سے کسی ایک کو وہ کام کرنے کے لئے پیش کر دیتا۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رحیم واقعی اس قدر ضعیف اور بیمار ہو گیا کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا، اور اس نے حقیقت میں یہ محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔ رحمدل باپ اپنے ناکارہ بیٹوں کے بارے میں بہت فکر مند ہو گیا، اور اس کے دماغ کو بہت سے مشکل سوالات نے گھیر لیا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ جب وہ نہیں ہو گا تو ان کا کیا ہو گا؟ انہوں نے کوئی ہنر نہیں سیکھا تھا اس لئے وہ اپنے لئے روزی کیسے مہیا کر سکیں گے؟ ان کے برے اعمال کے باوجود رحیم اپنے بیٹوں کو دل سے چاہتا تھا اور ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ بچارہ ضعیف آدمی بہت ہی غور سے یہ سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے؟

بہت دیر غور کرنے کے بعد رحیم کو ایک منصوبہ سمجھ میں آیا جس کے بارے میں اس نے خیال کیا کہ شاید وہ کار آمد ہو سکے، پھر وہ خود بخود مسکرایا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کے چاروں بیٹوں کو بلا کر لائے تا کہ وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھیں۔ اور اس سے پہلے کہ وہ قبر میں جا سوئے، انہیں اپنی وصیت سنائے اور نصیحت کے چند الفاظ بھی کہہ سکے۔

رحیم کی بیوی یہ سن کر بہت پریشان ہو گئی کیونکہ وہ اپنے خاوند کو بہت چاہتی تھی۔ بہر حال اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور انہیں ان کے والد کی خواہش کے بارے میں بتایا۔ چاروں بھائیوں کو اس بات کا بہت صدمہ ہوا کہ ان کا باپ فوت ہو جائے گا۔ وہ اپنے والد کے قدموں کے پاس اس کی آخری وصیت سننے کے لئے بیٹھتے ہی رونے اور آہ و زاری کرنے لگے۔

’’پیارے بیٹو!‘‘ رحمدل باپ نے کہا۔ ’’میں نے زندگی بھر تم سے محبت کی اور تمہاری دیکھ بھال کی۔ میں نے واقعی پوری کوشش کی کہ تم خوشی اور آرام و آسائش سے رہو اور میں تمہاری حفاظت کرتا رہا، لیکن اب میں بوڑھا اور بیمار ہوں اور جانتا ہوں کہ میں جلد ہی مر جاؤں گا‘‘۔

بوڑھا پھر کھانسنے لگا، اس کی سانس میں خرخراہٹ تھی۔ اور اب چاروں بھائی خود دیکھ سکتے تھے کہ ان کا باپ حقیقت میں بہت بیمار تھا۔

’’لیکن میں نے ایک بہت بڑا خزانہ تم لوگوں کے لئے بچا رکھا ہے‘‘۔ رحیم نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تا کہ تمہاری زندگی میرے جانے کے بہت عرصے بعد تک بھی آرام سے گزرتی رہے‘‘۔

’’بہت زمانہ گزرا، میں نے اپنے کھیت کی زمین میں کسی جگہ ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا۔ پھر میں نے اس گڑھے میں اس خزانے کو اس وقت کے لئے کہ جب تمہیں اس کی ضرورت پڑے، حفاظت کے ساتھ دفن کر دیا۔ لیکن اب مجھے بالکل یاد نہیں رہا کہ وہ کس جگہ پر ہے‘‘۔

چاروں بھائی ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، لیکن وہ اپنے باپ کے خزانے کے تصوّر سے کافی خوش بھی نظر آ رہے تھے۔

’’میرے مرنے کے بعد تمہیں اس کا سراغ لگانا ہو گا اور اسے کھود کر نکالنا ہو گا‘‘۔ رحیم نے بات جاری رکھی۔ ’’پھر تم اپنے چچا سے جو کہ اس وقت خاندان میں سب سے بڑے ہوں گے، درخواست کرنا کہ وہ اس خزانے کو تم چاروں کے درمیان برابر حصّوں میں تقسیم کر دیں۔ اس کے لئے آ پس میں جھگڑے مت کرنا، اپنے چچا کے فیصلے کی تعظیم کرنا۔ یاد رکھو کہ اپنے بڑوں کی عزّت کرنا ہماری تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ تمہیں ان کی عزّت کرنے کو اپنا فرض سمجھنا چاہیئے‘‘۔

چاروں بھائی کھیت میں دفن کئے ہوئے خزانے کو فوراً ہی ڈھونڈنے کے لئے مضطرب نظر آنے لگے۔ رحیم نے یہ ظاہر کیا کہ اس نے اپنے بیٹوں کے اس رویئے کو دیکھا ہی نہیں، اور اس نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

’’ایک اور نصیحت جو کہ میں تمہیں دینی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی مت لڑنا، تمہارے دشمن تمہیں منصوبہ بندی اور ساز باز کرنے کے لئے اکسائیں گے، لیکن کچھ بھی ہو جائے تم چاروں ہمیشہ متحد رہنا۔ مل جل کر تم سب بہت طاقت ور رہو گے اور کوئی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور کسی کو بھی اس خزانے کے بارے میں اس وقت تک مت بتانا جب تک تمہیں وہ مل نہ جائے‘‘۔

جب رحیم نے اپنی تقریر ختم کی تو اس نے آنکھیں بند کر لیں، پھر وہ جلد ہی فوت ہو گیا۔ اپنے والد کے جنازے اور تدفین کے بعد ان بھائیوں نے اپنے کھیت کے دوسرے سرے سے کھودنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اب تک اپنی زندگی بہت سستی، کاہلی، آرام اور آسائش میں گزاری تھی اس لئے کھیت کے تھوڑے سے حصے کو کھودنا بھی ان کو بہت مشکل لگا۔ سست اور کاہل سب بھائی جلد ہی ہار کر گھر پر آرام کرنے کے لئے چل دیئے۔

اگلے دن پھر ایسا ہی کیا۔ پھر اس سے اگلے دن، اور اس سے بھی اگلے دن ایسے ہی کرتے رہے، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ مگر یقیناً کھیت کا زیادہ تر حصّہ بھائیوں نے کھود ہی لیا۔ ان کو اسی طرح کام کرتے مہینہ بھر اور گزر گیا مگر انہیں دفن کیا ہوا خزانہ نہیں ملا۔ وہ کسی اور سے اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی مدد لینا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ اس خزانے میں کسی اور کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ سب کھدائی کرتے کرتے بہت تھک گئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اس خزانے کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

آخر کار بھائیوں نے غور کیا کہ انہوں نے پورا کھیت کھود ڈالا لیکن خزانے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تب انہوں نے خیال کیا کہ ان کے باپ نے خزانہ بہت ہی گہرا دفن کیا ہو گا۔ اس لئے انہوں نے اور بھی زیادہ گہرا کھودنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک اور مہینہ گزر گیا مگر دفن کئے ہوئے خزانے کا کوئی نشان بھی نہیں تھا!

سارا کھیت اب پوری طرح نیچے سے اوپر ہو چکا تھا اور ہمسائے بھی ان بھائیوں کی محنت پر رشک کرنے لگے تھے۔

آخر کار چاروں بھائیوں نے دفن کئے ہوئے خزانے کو کبھی بھی پا لینے کے خیال کو ترک کر دیا۔ مگر یہ دیکھ کر کہ انہوں نے کھیت کو اتنی اچھی طرح تیار کر لیا تھا، اس لئے انہوں نے وہاں پر اس موسم میں گیہوں کی کاشت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب فصل کاٹنے کا زمانہ آیا تو اس کھیت میں بہت اعلیٰ درجے کا اور بہت مقدار میں گندم پیدا ہوا، جس کو وہ سب بھائی منڈی میں لے گئے اور اسے ہزاروں روپوں میں فروخت کر دیا۔

اپنے والد کی نصیحت پر چلتے ہوئے سب بھائی اپنی کمائی ہوئی دولت کو اپنے چچا کے پاس لے گئے اور ان سے اس رقم کو چاروں میں برابر تقسیم کرنے کی درخواست کی۔ ان کے چچا چاروں بھائیوں پر فخر کرنے لگے اور بولے، ’’شاباش! میرے بھتیجو! تم نے آخر کار یہ ثابت کر دیا کہ تم میرے محنتی بھائی رحیم کے محنتی بیٹے ہو۔ یہ کھیت جو میرا بھائی تمہارے لئے چھوڑ گیا ہے وہ خود ہی ایک خزانہ ہے۔ اور اگر تم اسی طرح محنت کرتے رہو گے تو تم اس کا ہمیشہ انعام پاتے رہو گے‘‘۔

اگلے سال چاروں بھائیوں نے محنت کر کے پھر گندم کی کاشت کی۔ اس دفعہ پیداوار پہلے سے بھی بڑھ کر ہوئی۔ اور جب انہوں نے یہ گندم منڈی میں فروخت کی تو انہوں نے پہلے سے بہت زیادہ رقم بنائی۔

کچھ سال تک اسی طرح کام کرنے کے بعد چاروں بھائی کافی امیر ہو گئے اور اپنے کام میں بھی خوش رہنے لگے۔ آخر کار یہ واضح ہو گیا کہ اکبر، اصغر، ناصر اور بابر نے دفن کئے ہوئے خزانے کے معمے کو حل کر لیا، کہ اصل خزانہ تو محنت اور ترتیبی نظام کا صلہ تھا۔ چاروں بھائی اپنے والد کی ہوشیاری اور دور بینی پر فخر کرتے تھے، کیوں کہ صرف وہی تھا کہ جس نے ان کو محنت، نظم و ضبط، اتحاد اور اپنے بڑوں کی تعظیم کی فضیلت کا سبق دیا تھا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://worldstories.org.uk

اصلاح، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل