FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دامنِ خواب

باقی صدیقی

جمع و ترتیب

یاور ماجد، اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں…..

جب گھیر کے بے کسی نے مارا

کوئی بھی نہ دے سکا سہارا

ساحل سے نہ کیجیے اشارا

کچھ اور بھی دور اب خدارا

خاموش ہیں اس طرح وہ جیسے

میں نے کسی اور کو پکارا

احساس ملا ہے سب کو لیکن

چمکا ہے کوئی کوئی ستارا

ہوتی ہے قدم قدم پہ لغزش

ملتا ہے کہیں کہیں سہارا

کھاتے گئے ہم فریب جتنے

بڑھتا گیا حوصلہ ہمارا

کس طرح کٹے گی رات باقیؔ

دن تو کسی طور سے گزارا

اب کیا ہو کہ لب پہ آ گیا ہے

ہر چند یہ راز تھا تمہارا

اس طرح خموش ہیں وہ جیسے

میں نے کسی اور کو پکارا

حالات کی نذر ہو نہ جائے

باقیؔ ہے جو ضبطِ غم کا یارا

1/1/1951

٭٭٭

ندی کے اس پار کھڑا اک پیڑ اکیلا

دیکھ رہا ہے ان جانے لوگوں کا ریلا

یوں تیری ان جان جوانی راہ میں آئی

جیسے تو بچپن سے میرے ساتھ نہ کھیلا

جنگل کے سناٹے سے کچھ نسبت تو ہے

شہر کے ہنگامے میں پھرتا کون اکیلا

پہلی آگ ابھی تک ہے رگ رگ میں باقیؔ

سنتے ہیں کل پھر گاؤں میں ہو گا میلہ

٭٭٭

دل نے اظہارِ غم پہ اکسایا

آپ کی برہمی کا وقت آیا

کون سے راستے پہ چل نکلے

جس نے دیکھا اسی نے سمجھایا

اور بھی تلخ ہو گیا جینا

وضعداری کا جب خیال آیا

ہر تمنا سے بے نیاز ہوئے

یوں بھی دامان زیست پھیلایا

جانے کس غم میں سوئے تھے باقیؔ

آنکھ کھلتے ہی کوئی یاد آیا

1/1/1948

٭٭٭

حسن گلشن میں فرق کیا آیا

اک کھلا پھول، ایک مرجھایا

اس قدر برہمی شکایت پر

چھوڑیے ہم نے مدعا پایا

اور بھی تنگ ہو گئی دنیا

دل کو دنیا کا جب خیال آیا

ڈوب کر دل میں جب نظر نکلی

ایک عالم کو آشنا پایا

گمرہی سی ہے گمرہی باقیؔ

جس نے دیکھا اسی نے سمجھایا

1/1/1948

٭٭٭

مجھے خراب جنوں کر کے تو نے کیا پایا

ہزار پھول کھلیں گے جو ایک مرجھایا

ترے غرور نے محفل میں جو نہ بات سنی

ترے شعور نے خلوت میں اس کو دہرایا

تمہارے ذکر سے دل کو سکوں ملے نہ ملے

چلو کوئی نہ کوئی مشغلہ تو ہاتھ آیا

بہت غرور تھا اپنی وفاؤں پر جس کو

اسی کو تیری نگاہِ کرم نے ٹھکرایا

کچھ اس طرح بھی ملے ہیں فریب غم باقیؔ

قریب پہنچے تو آگے سرک گیا سایا

1/1/1950

٭٭٭

یاد آئی کیا تیری بات

نیند نہ آئی ساری رات

تم بھی واپس لا نہ سکو

اتنی دور گئی ہے بات

میرے غم میں ڈوب گئی

انگڑائی لے کر برسات

رسوائی کا نام برا

جب چھیڑو تازہ ہے بات

دل کو روشن کرتی ہیں

بجھ کر شمعیں بعض اوقات

جب عرضِ غم کی باقیؔ

ہنس کر ٹال گئے وہ بات

٭٭٭

اب کے آیا ایسا چیت

دل کی صورت چپ ہیں کھیت

پھیلا دریا کا دامن

اوپر پانی نیچے ریت

راہوں کے سناٹے میں

ڈوب گیا دل درد سمیت

اس موسم کا نام ہے کیا

دل میں ساون منہ پر چیت

نام کو آنچ نہیں باقیؔ

دل ہے یا ندی کی ریت

٭٭٭

کوئی مختار اور کوئی مجبور

خوب ہے تیری بزم کا دستور

غم زدوں کا نہ پوچھئے مقدور

موت بھی دور، زندگی بھی دور

ظلمت زیست کی بساط ہی کیا

مے کا اک گھونٹ اور نور ہی نور

کیا بتائیں کہ زندگی کیا ہے

ایک منزل مگر قریب نہ دور

وضعداری بھی سیکھ لے باقیؔ

یہ بھی ہے اک جہان کا دستور

1/1/1945

٭٭٭

کس نے کھینچی حیات کی تصویر

ہاتھ میں جام پاؤں میں زنجیر

بات کرتا ہے ہنس کے جب صیاد

بھول جاتے ہیں اپنی بات اسیر

ائے یہ راستے کے ہنگامے

اک تماشا سا بن گئے رہگیر

دیکھنا طرز پرسشِ احوال

بات کی بات اور تیر کا تیر

اتنے باریک تھے نقوش حیات

بنتے بنتے بگڑ گئی تصویر

وہ زمانے کی چال تھی باقیؔ

ہم سمجھتے رہے جسے تقدیر

٭٭٭

کب تک راز رہے گا راز

ساری دنیا ہے غماز

کس کے نغمے ، کس کا ساز

دیکھ زمانے کے انداز

گونج رہی ہے کانوں میں

اک سے ایک نئی آواز

دام و قفس تک تیرا زور

گردوں تک میری پرواز

جب دیکھو برہم برہم

کون اٹھائے اتنے ناز

ہمرازوں کے سینوں میں

ڈھونڈ رہا ہوں اپنا راز

آپ مجسم مہر و وفا

باقیؔ سب فتنہ پرداز

1/1/1951

٭٭٭

دیکھ کر آ گیا ہے ان کو خیال

ورنہ کرتا ہے کون پرسشِ حال

آرزوئے سکونِ دل توبہ

آپ کی بزم تک گیا ہے خیال

اک مصیبت سے بچ گئے تو کیا

دل سلامت رہے ہزار وبال

لازمی ہے سماعت احساس

لوگ کرتے ہیں زیر لب بھی سوال

ہیں ابھی مرحلے بہت باقیؔ

خود فریبی تو ہے اک آخری چال

1/1/1950

٭٭٭

حسیں حسیں نظر آتے ہیں آرزوؤں کے جال

نئی نئی ہے محبت، جواں جواں ہیں خیال

کبھی پیام قضا ہے ، کبھی نوید حیات

تمام عمر معمہ رہا تمہارا جمال

کیا جو غور محبت کے ماحصل پہ کبھی

تو دھندلے دھندلے نظر آئے حسن کے خد و خال

کس اعتماد پہ دعویٰ کریں محبت کا

بدل بھی جاتے ہیں اے دوست آدمی کے خیال

بس ایک ان کے اشارے کی دیر ہے باقیؔ

نفس نفس ہے تمنا، نظر نظر ہے سوال

1/1/1950

٭٭٭

اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل

ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل

لفظوں کے پھولوں پہ نہ جا

دیکھ سروں پر چلتے ہل

دنیا برف کا تودہ ہے

جتنا جل سکتا ہے جل

غم کی نہیں آواز کوئی

کاغذ کا لے کرتا چل

بن کے لکیریں ابھرے ہیں

ماتھے پر راہوں کے بل

میں نے تیرا ساتھ دیا

میرے منہ پر کالک مل

آس کے پھول کھلے باقیؔ

دل سے گزرا پھر بادل

٭٭٭

لیا کس نے ابھی سے صبح کا نام

ستارے جھلملا اٹھے سرِ شام

فسونِ آرزو ٹوٹے نہ ٹوٹے

ہمارے سامنے ہے دل کا انجام

چلے جائیں گے خالی ہاتھ بھی ہم

مگر آئے تھے سن کر آپ کا نام

جو ہم بدلے تو کوئی بھی نہ بدلا

جو تم بدلے تو بدلا دور ایام

محبت اور اطوار زمانہ

کیا اپنی وفا کو ہم نے بد نام

تمنا داغ دے جائے نہ باقیؔ

ستارا ایک ٹوٹا ہے سر شام

٭٭٭

یاد نہ آؤ صبح و شام

اور بھی ہیں دنیا کے کام

ایسی پیاس کا کیا ہو گا

جب بھی دیکھو تشنہ کام

کوئی تیری بات کرے

ہم پر آتا ہے الزام

کتنے فسانوں کا عنواں

میری نظریں تیرا بام

چپکے چپکے دل سے گزر

دیکھ نہ لے دور ایام

اتنا جرم نہ تھا باقیؔ

جتنے ہوئے ہیں ہم بدنام

٭٭٭

دیکھ کر تیرے گیسوئے برہم

مسکرانے لگے حیات کے غم

اک تمہاری نظر بدلنے سے

ہو گئیں کتنی محفلیں برہم

آ گئے آپ درمیاں ورنہ

کھل چلی تھی حقیقت عالم

دیکھنا تو بہار کے انداز

غنچے غنچے کی آنکھ ہے پر نم

آ رہی ہے وہ صبحِ نو باقیؔ

اکھو لے کر حیات کا پرچم

1/1/1950

٭٭٭

دل پہ کچھ کھل سکا نہ رازِ غم

وہ نگاہیں اٹھیں مگر کم کم

اس طرح ہو گئے جدا جیسے

راہ میں یوں ہی مل گئے تھے ہم

آرزو راستے میں چھوڑ گئی

ہم ہیں اور زندگی کے پیچ و خم

پستیاں بھی گریز کرنے لگیں

کس بلندی سے گر رہے ہیں ہم

لب گل بھی نہ تر ہوئے باقیؔ

رات برسی کچھ اس طرح شبنم

٭٭٭

کچھ تو ڈوبے دل کو ابھارو

اے ہستی کے خام سہارو

دنیا دارو! اتنی نفرت!

اتنی نفرت! دنیا دارو!

میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو

کوئی بات کرو غم خوارو!

موجیں اور پابندی دریا

ہٹ جاؤ رستے سے کنارو!

کوئی جھٹک دے دامن باقیؔ

اتنے بھی پاؤں نہ پسارو!

٭٭٭

ٹھہرو ٹھہرو قافلے والو

دل بیٹھا جاتا ہے سنبھالو

اور ستم کہتے ہیں کس کو

تم ہی کہہ دو دیکھنے والو

کچھ دن اور نہ ان سے الجھو

کچھ دن اور قضا کو ٹالو

افسانہ بھی سنتے جاؤ

دل کی بات بتانے والو

دنیا دیکھو نہ لے اے باقیؔ

دل میں امیدوں کو چھپا لو

1/1/1946

٭٭٭

دیکھ کر صبح کی گھڑی نزدیک

اور بھی رات ہو گئی تاریک

انقلاب چمن معاذ اﷲ

پھول کانٹوں سے مانگتے ہیں بھیک

اے شبِ غم ترا خیال ہے کیا

سن رہے ہیں کہ ہے سحر نزدیک

ساتھ آؤ کہ لوگ کہتے ہیں

راستہ زندگی کا ہے تاریک

دل کا دامن سمیٹ لے باقیؔ

کون دے گا تجھے حیات کی بھیک

1/1/1950

٭٭٭

یہ رات یہ دشت کی ہوائیں

کیسے اپنا دیا جلائیں

نشہ دیتا ہے زہرِ غم بھی

ہے تاب ستم تو مسکرائیں

ہوتے رہتے ہیں زخمِ تازہ

تم ساتھ نہ ہو تو بھول جائیں

اب سوز بھی ساز چاہتا ہے

دنیا کی زباں کہاں سے لائیں

کب تک سنیں دل شکست باتیں

کب تک ہم خود کو آزمائیں

دریا کو پیاس لگ رہی تھی

صحرا سے گزر گئیں گھٹائیں

آئی وہ شاہ کی سواری

آؤ ہم تالیاں بجائیں

در سے دیوار بے خبر ہے

کیسے یہ فاصلے مٹائیں

یہ رنگ کہ رنگ اڑ رہا ہے

یہ ہوش کہ ہوش میں نہ آئیں

ہم تیرے خیال سے بھی گزرے

ایسے میں اگر مراد پائیں

ہو شوقِ سفر کی خیر باقیؔ

لینے لگے حادثے بلائیں

٭٭٭

کہہ رہی ہیں حضور کی باتیں

ختم ہونے پہ ہیں ملاقاتیں

کس کی راتیں، کہاں کی برساتیں

آپ کے ساتھ تھیں وہ سب باتیں

جانے کس ڈھب کی تھیں ملاقاتیں

اور بھی تلخ ہو گئیں راتیں

اور سے اور ہو گئی دنیا

جب ملیں حسن و عشق کی گھاتیں

عم زدوں کا ہے کام کیا باقیؔ

یا شکایات یا مناجاتیں

1/1/1946

٭٭٭

ہے روایات محبت کا امیں

تیرے ٹوٹے ہوئے وعدے کا یقیں

کتنے اونچے تھے جہاں سے گویا

آسماں تھی ترے کوچے کی زمیں

ہم نے تیور تو بدلتے دیکھے

پھر کہا آپ نے کیا یاد نہیں

دیکھ کر رنگ تری محفل کا

ہم نے غیروں کی طرح باتیں کیں

حادثہ ہے کوئی ہونے والا

دل کی مانند دھڑکتی ہے زمیں

تنگ آ کر مری خاموشی سے

چیخ اٹھیں نہ در و بام کہیں

دور سے دیکھتے جائیں باقیؔ

زندگی کوئی تماشہ تو نہیں

٭٭٭

یہ آگ آگ ہوائیں یہ سرخ سرخ زمیں

مسافروں کے ارادے بدل نہ جائیں کہیں

ترے بغیر نظر کا یہ حال ہے جیسے

تمام شہر کی شمعیں کسی نے گل کر دیں

ہزار کروٹیں لیتی ہے ایک پل میں حیات

جو ایک بار نگاہیں ہٹیں تو پھر نہ ملیں

ترے خیال میں گم ہو گئے ہیں دیوانے

ترے سوا کوئی اب تیری انجمن میں نہیں

اسی کا نام تو دیوانگی نہیں باقیؔ

کہ اپنے آپ سے ہنس ہنس کے ہم نے باتیں کیں

٭٭٭

اک سانس ہے نوحہ، اک قصیدہ

لے آیا کہاں دل تپیدہ

ہیں لفظ کہ کاغذی شگوفے

ہیں شعر کہ داغ چیدہ چیدہ

ہر بات ہے اک ورق پرانا

ہر فکر ہے اک نیا جریدہ

کچھ مثل خدنگ ہیں ہوا میں

کچھ مثل کماں ہیں سرکشیدہ

گلشن میں  ہو کے بھی نہیں ہیں

ہم صورت شاخ نو بریدہ

تکتے ہیں رقص ساغر گل

پیتے ہیں شبنم چکیدہ

اپنی خوشبو ہے طنز ہم پر

ہم گل ہیں مگر صبا گزیدہ

ہر راہ میں گرد بن کے ابھرا

یہ زیست کا آہوئے رمیدہ

دل تک نہ گئی نگاہ اپنی

پردہ بنا دامن دریدہ

یا میری نظر نظر نہیں ہے

یا رنگ حیات ہے پریدہ

اس راہ پہ چل رہے ہیں باقیؔ

جس سے واقف نہ دل نہ دیدہ

٭٭٭

ہوئی کش مکش زندگی کی فسانہ

وہ دل چھوڑ کر جا رہا ہے زمانہ

اسی میں ہے پوشیدہ راز زمانہ

فسانہ حقیقت، حقیقت فسانہ

نہ اتراؤ صیاد کی دوستی پر

اسی باغ میں تھا مرا آشیانہ

ادھر نام تک مٹ رہا ہے کسی کا

ادھر بن رہا ہے کسی کا فسانہ

نہ پوچھو محبت کی پرواز باقیؔ

بہت دور تک ساتھ آیا زمانہ

٭٭٭

بولے منہ سے نہ مسکرائے

آئے مرے غمگسار آئے

دامن بھی نہ ہو جسے میسر

زخموں کو وہ کس طرح چھپائے

عنوان حیات بن گئے ہیں

جو تیری نظر نے گل کھلائے

ہے فرصت زہر خند کس کو

پھولوں کو صبا نہ گدگدائے

زخموں کو وہ چھیڑتے ہیں باقیؔ

لب پر کوئی بات آ نہ جائے

٭٭٭

جو دنیا کے الزام آنے تھے ، آئے

بہت غم کے ماروں نے پہلو بچائے

کسی نے تمہیں آج کیا کہہ دیا ہے

نظر آ رہے ہو پرائے پرائے

بہت واقعے پیش آئے تھے لیکن

نہ تم نے سنے کچھ نہ ہم نے سنائے

ملاقات کی کونسی ہے یہ صورت

نہ ہم مسکرائے ، نہ تم مسکرائے

فسانہ سنائے چلا جا رہا ہوں

یقیں سننے والوں کو آئے نہ آئے

زمانے کی آنکھوں میں نور آ گیا ہے

کوئی اپنے دامن کے دھبے چھپائے

نہ دنیا نے تھاما نہ تو نے سنبھالا

کہاں آ کے میرے قدم ڈگمگائے

الجھے ہیں ہر گام پرخار باقیؔ

کہاں تک کوئی اپنا دامن بچائے

1/1/1951

٭٭٭

ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے

راہرو کوئی نہ ٹھوکر کھائے

زندگی حرفِ غلط ہی نکلی

ہم نے معنی تو بہت پہنائے

دامن خواب کہاں تک پھیلے

ریگ کی موج کہاں تک جائے

تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے

اونچی دیوار کے لمبے سائے

بند کلیوں کی ادا کہتی ہے

بات کرنے کے ہیں سو پیرائے

بام و در کانپ اٹھے ہیں باقیؔ

اس طرح جھوم کے بادل آئے

٭٭٭

یاں تک آئے اپنے سہارے

آگے وحشت جس کو پکارے

جس کو اتنا ڈھونڈ رہے ہیں

جانے وہ کس گھاٹ اتارے

تیری آس پہ آرزوؤں نے

ہر رستے میں پاؤں پسارے

ہم نے جب پتوار سنبھالے

ابھرے طوفانوں سے کنارے

دنیا کو ہے شغل سے مطلب

تم ہارو یا باقیؔ ہارے

1/1/1948

٭٭٭

کسی نے دریا کے اسرار کھولے

تلاطم بھی آئے سفینے بھی ڈولے

زمانے کا ہے کام تقلید کرنا

مرے ساتھ ہو لے ، ترے ساتھ ہو لے

دیا ہے یہ صیاد نے حکم باقیؔ

قفس میں کوئی پر بھی اپنے نہ تولے

1/1/1950

٭٭٭

چلے ہیں ایک زمانے کے بعد دیوانے

عجب نہیں ترا در بھی نہ ان کو پہچانے

ادا شناس نگاہیں بھی کھا گئیں دھوکا

یہ کس لباس میں نکلے ہیں تیرے دیوانے

کسی امید پہ پھر بھی نظر بھٹکتی ہے

اگرچہ چھان چکے ہیں دلوں کے ویرانے

کہیں نہ روشنی پاؤ گے میرے دل کے سوا

کہاں چلے ہو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے

تری نگاہ نے رستہ بدل دیا ورنہ

چلے تھے ہم بھی غمِ زندگی کو اپنانے

بہار انجمن شب میں اب وہ بات کہاں

ہزار شمع جلے ، لاکھ آئیں پروانے

ہر ایک بات زباں پر نہ آ سکی باقیؔ

کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے

٭٭٭

ہم پوچھ سکے نہ حال تیرا

لے آیا کہاں خیال تیرا

جیسے کسی غیر کا تصور

یوں آتا ہے اب خیال تیرا

ہم دیکھتے رہ گئے جہاں کو

پوچھا تھا کسی نے حال تیرا

ٹوٹے ہیں تعلقات کیونکر

میرا تھا نہ یہ خیال تیرا

کس رنگ میں وہ ملے تھے باقیؔ

دل ہی میں رہا سوال تیرا

1/1/1951

٭٭٭

چال ایسی غمِ زمانہ چلا

پھر نہ آگے ترا فسانہ چلا

منزلِ زیست بے سراغ رہی

کوئی جب تک برہنہ پا نہ چلا

دل ملیں تو قدم بھی ملتے ہیں

ساتھ ورنہ کوئی چلا نہ چلا

کس طرف ے تری صدا آئی

چھوڑ کر دلِ ہر اک ٹھکانہ چلا

کیوں گریزاں ہیں منزلیں ہم سے

نہ چلے ہم کہ رہنما نہ چلا

آج کیسی ہوا چلی باقیؔ

ایک جھونکے میں آشیانہ چلا

٭٭٭

دل کو جب تیری رہگزر جانا

دور کا غم قریب تر جانا

بے نیازی سی بے نیازی تھی

اپنے گھر کو نہ اپنا گھر جانا

لے نہ ڈوبے کہیں یہ بے خبری

ہر خبر کو تری خبر جانا

اک نوے غم کا پیش خیمہ ہے

بے سبب زخمِ دل کا بھر جانا

تجھ سے آتی ہے بوئے ہمدردی

جانے والے ذرا ٹھہر جانا

ابتدائے سفر کا شوق نہ پوچھ

ہر مسافر کو ہم سفر جانا

زندگی غم کا نام ہے باقیؔ

ہم نے اب قصہ مختصر جانا

٭٭٭

لے گیا بچا کر وہ دل کے ساتھ سر اپنا

جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا

آئنے میں ہر صورت آئنہ نہیں ہوتی

مسکرا دیے ہم بھی عکس دیکھ کر اپنا

زندگی کے ہنگامے دھڑکنوں میں ڈھلتے ہیں

خواب میں بھی سنتے ہیں شور رات بھر اپنا

دل کے ہر دریچے میں جھانکتے ہیں کچھ چہرے

خود کو راہ میں پایا رخ کیا جدھر اپنا

کون کس سے الجھا ہے ، ایک شور برپا ہے

جا رہا ہے دیکھو تو قافلہ کدھر اپنا

خیر ہو ترے غم کی شام ہونے والی ہے

اور کر لیا ہم نے ایک دن بسر اپنا

رنگ زندگی دیکھا کچھ یہاں وہاں باقیؔ

غم غلط کیا ہم نے کچھ ادھر ادھر اپنا

٭٭٭

کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا

اور کچھ نشہ چڑھا ہے اپنا

کان پڑتی نہیں آواز کوئی

دل میں وہ شور بپا ہے اپنا

اب تو ہر بات پہ ہوتا ہے گماں

واقعہ کوئی سنا ہے اپنا

ہر بگولے کو ہے نسبت ہم سے

دشت تک سایہ گیا ہے اپنا

خود ہی دروازے پہ دستک دی ہے

خود ہی در کھول دیا ہے اپنا

دل کی اک شاخ بریدہ کے سوا

چمنِ دہر میں کیا ہے اپنا

کوئی آواز، کوئی ہنگامہ

قافلہ رکنے لگا ہے اپنا

اپنی آواز پہ چونک اٹھتا ہے

دل میں جو چور چھپا ہے اپنا

کون تھا مد مقابل باقیؔ

خود پہ ہی وار پڑا ہے اپنا

٭٭٭

کچھ بھی پایا نہ دردِ سر کے سوا

گئے جس در پہ تیرے در کے سوا

یوں پریشاں ہیں جیسے حاصل شب

آج کچھ اور ہے سحر کے سوا

کس کے در پر صدا کریں جا کر

وا نہیں کوئی اپنے در کے سوا

کل تو سب کچھ تھی آپ کی آمد

آج کچھ بھی نہیں خبر کے سوا

وائے ہنگامہ جیسے کچھ بھی نہیں

کارواں شور رہگزر کے سوا

یہ نشیمن یہ گلستاں باقیؔ

اور سب کچھ ہے بال و پر کے سوا

٭٭٭

غم کا باب وا ہوا

دل کا حق ادا ہوا

دل بنا، دوا ہوا

درد کیا سے کیا ہوا

تم مٹے کہ ہم مٹے

جو ہوا برا ہوا

میرا تذکرہ ہی کیا

میں تو بے وفا ہوا

یہ کرم بجا مگر

وہ غرور کیا ہوا

ہم کہیں بھی کچھ تو کیا

تو نے جو کہا ہوا

باقیؔ ان سے مل کے درد

اور بھی سوا ہوا

1/1/1951

٭٭٭

مرحلہ دل کا نہ تسخیر ہوا

تو کہاں آ کے عناں گیر ہوا

کام دنیا کا ہے تیر اندازی

ہم ہوئے یا کوئی نخچیر ہوا

سنگِ بنیاد ہیں ہم اس گھر کا

جو کسی طرح نہ تعمیر ہوا

سفرِ شوق کا حاصل معلوم

راستہ پاؤں کی زنجیر ہوا

عمر بھر جس کی شکایت کی ہے

دل اسی آگ سے اکسیر ہوا

کس سے پوچھیں کہ وہ اندازِ نظر

کب تبسم ہوا کب تیر ہوا

کون اب دادِ سخن دے باقیؔ

جس نے دو شعر کہے میرؔ ہوا

٭٭٭

کبھی حرم پہ کبھی بتکدے پہ بار ہوا

کہیں کہاں ترا دیوانہ شرمسار ہوا

گزر گیا ہے محبت کا مرحلہ شاید

ترے خیال سے بھی دل نہ بے قرار ہوا

تمہاری بزم میں جب آرزو کی بات چھڑی

ہمارا ذکر بھی یاروں کو ناگوار ہوا

چمن کی خاک سے پیدا ہوا ہے کانٹا بھی

یہ اور بات کہ حالات کا شکار ہوا

نسیمِ صبح کی شوخی میں تو کلام نہیں

مگر وہ پھول جو پامال رہگزار ہوا

روش روش پہ سلگتے ہوئے شگوفوں سے

کبھی کبھی ہمیں اندازہ بہار ہوا

فسانہ خواں کوئی دنیا میں مل گیا جس کو

اسی کی ذکر فسانوں میں بار بار ہوا

کس انجمن میں جلایا ہے تو نے اے باقیؔ

ترا چراغ، چراغ سر مزار ہوا

٭٭٭

میکدے سے حضور تک پہنچا

میرا قصہ بھی دور تک پہنچا

سرفرازی کی بات ہے ساری

یوں تو میں بھی حضور تک پہنچا

خلد کا ذکر آ گیا تھا ذرا

شیخ حور و قصور تک پہنچا

صورت آئینہ شکست ہوا

عشق بھی جب غرور تک پہنچا

جا سکا غم نہ پھر کہیں باقیؔ

جب دلِ ناصبور تک پہنچا

1/1/1948

٭٭٭

اپنی تنہائی پہ مر جانا پڑا

راہ میں کیسا یہ ویرانہ پڑا

کس طرف سے آئی تھی تیری صدا

ہر طرف تکنا پڑا، جانا پڑا

زندگی ہے ، شورشیں ہی شورشیں

خود کو اکثر ڈھونڈ کر لانا پڑا

تیری رحمت سے ہوئے سب میرے کام

شکر ہے دامن نہ پھیلانا پڑا

کوئی دل کی بات کیا کہنے لگے

اپنا اک اک لفظ دہرانا پڑا

راستے میں اس قدر تھے حادثات

ہر قدم پھر دل کو سمجھانا پڑا

زندگی جیسے اسی کا نام ہے

اس طرح دھوکا کبھی کھانا پڑا

ہے کلی بے تاب کھلنے کے لیے

اور اگر کھلتے ہی مرجھانا پڑا

زندگی کا راز پانے کے لیے

زندگی کی راہ میں آنا پڑا

راستے سے اس قدر تھے بے خبر

مل گیا جو اس کو ٹھہرانا پڑا

دوستوں کی بے رخی باقیؔ نہ پوچھ

دشمنوں میں دل کو بہلانا پڑا

٭٭٭

چل گیا ہے فسوں زمانے کا

اب تکلیف کرو نہ آنے کا

دیکھ کر ہم کو بے نیاز حیات

حوصلہ بڑھ گیا زمانے کا

وقت ہو تو حضور سن لیجے

آخری باب ہے فسانے کا

اک ستارہ بھی آسماں پہ نہیں

کیا کوئی وقت ہے یہ جانے کا

ڈوبتا جا رہا ہے دل باقیؔ

وقت یہ تھا فریب کھانے کا

1/1/1946

٭٭٭

ایسا وار پڑا سر کا

بھول گئے رستہ گھر کا

زیست چلی ہے کس جانب

لے کر کاسہ مرمر کا

کیا کیا رنگ بدلتا ہے

وحشی اپنے اندر کا

سر پر ڈالی سرسوں کی

پاؤں میں کانٹا کیکر کا

کون صدف کی بات کرے

نام بڑا ہے گوہر کا

دن ہے سینے کا گھاؤ

رات ہے کانٹا بستر کا

اب تو وہ جی سکتا ہے

جس کا دل ہو پتھر کا

چھوڑو شعر اٹھو باقیؔ

وقت ہوا ہے دفتر کا

٭٭٭

ناز اٹھاتا پھرے ہے کس کس کا

آپ سے کام آ پڑا جس کا

ہم بھی شاکی ہیں، آپ بھی شاکی

اب کرے کون فیصلہ کس کا

میرے جاتے ہی ہو گیا باقیؔ

اور ہے اور رنگ مجلس کا

1/1/1950

٭٭٭

ہم چھپائیں گے بھید کیا دل کا

رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا

زندگی تیرگی میں ڈوب گئی

ہم جلاتے رہے دیا دل کا

تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

زندگی بھر کوئی پتہ نہ چلا

دور گردوں کا، آپ کا، دل کا

وقت اور زندگی کا آئنہ

نوک غم اور آبلہ دل کا

ہر قدم پر ترا سوا لایا

ہر قدم پر تھا سامنا دل کا

آنکھ کھلتے ہی سامنے باقیؔ

ایک سنسان دشت تھا دل کا

٭٭٭

ہر داغ ہے داغ زندگی کا

کس کو ہے دماغ زندگی کا

دیتے رہے لو بہار کے زخم

جلتا رہا باغ زندگی کا

کس کس کے جگر کا داغ بن کر

جلتا ہے چراغ زندگی کا

کچھ آپ کی انجمن میں آ کر

ملتا ہے سراغ زندگی کا

پوچھو نہ مال شوق باقیؔ

دل بن گیا داغ زندگی کا

٭٭٭

دل کا حریفِ مے کا پیالہ نہ ہو سکا

وہ غم ملا کہ جس کا ازالہ نہ ہو سکا

موجِ صبا کے ساتھ چلی گلستان کی بات

بدنام پھول توڑنے والا نہ ہو سکا

باقیؔ دلوں میں آ گئی سڑکوں کی تیرگی

بجلی کے قمقموں سے اجالا نہ ہو سکا

٭٭٭

ترے جہاں کے نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا

میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا

کچھ اس قدر تھا نمایاں خزاں میں رنگ حیات

میں تشنہ کام بہاروں کا ساتھ دے نہ سکا

کہاں تہاری تمنا، کہاں سحر کی نمود

مریضِ ہجر ستاروں کا ساتھ دے نہ سکا

نظر نہ تھی تو نظاروں کی آرزو تھی، مگر

نظر ملی تو نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا

گلوں کا رنگِ تبسم بھی تھا گراں باقیؔ

یہی نہیں کہ میں خاروں کا ساتھ دے نہ سکا

1/1/1948

٭٭٭

وہ مقام دل وہ جاں کیا ہو گا

تو جہاں آخری پردا ہو گا

منزلیں راستہ بن جاتی ہیں

ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا

سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں

کون اس دھوپ میں چلتا ہو گا

ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں

آئنہ اور ابھی دھندلا ہو گا

راز سر بستہ ہے محفل تیری

جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہو گا

اس طرح قطع تعلق نہ کرو

اس طرح اور بھی چرچا ہو گا

بعد مدت کے چلے دیوانے

کیا ترے شہر کا نقشہ ہو گا

سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے

کوئی تو بات سمجھتا ہو گا

پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں

کوئی تو دیدۂ بینا ہو گا

خود سے ہم دور نکل آئے ہیں

تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا

ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے

اور تو سامنے بیٹھا ہو گا

تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں

ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا

خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ

پھر کسی بات پہ جھگڑا ہو گا

٭٭٭

ہر گھڑی فکر کہ اب کیا ہو گا

ایسے جینے کا سبب کیا ہو گا

دل جھکا جاتا ہے سر سے پہلے

اس سے بڑھ کر بھی ادب کیا ہو گا

وہ نہ آئیں گے سنا ہے لیکن

یوں ہوا بھی تو عجب کیا ہو گا

صبح میں دیر ہوئی جاتی ہے

کیا کہیں آج کی شب کیا ہو گا

دے گیا مات زمانہ باقیؔ

منفعل ہونے سے اب کیا ہو گا

1/1/1951

٭٭٭

سیر مانندِ صبا کیجے گا

رہ کے گلشن میں بھی کیا کیجے گا

کس توقع پہ صدا کیجے گا

نہ سنے کوئی تو کیا کیجے گا

حق پرستی ہے بڑی بات مگر

روز کس کس سے لڑا کیجے گا

بن گئے لالہ و گل جز و قفس

کس سے اب ذکر صبا کیجے گا

دوستی شرط نہیں ہے کوئی

بس یونہی ہم سے ملا کیجے گا

لو سلام سرِ رہ سے بھی گئے

اور جا جا کے گلا کیجے گا

طوف کعبہ کو گئے تو باقیؔ

میرے حق میں بھی دعا کیجے گا

٭٭٭

دشتِ جنوں میں غم کا جرس بولنے لگا

احساس تلملا اٹھا، دل ڈولنے لگا

کہتے ہیں اس کو پاس تعلق مرے خلاف

بولے وہ کیا کہ سارا جہاں بولنے لگا

اے جذب شوق تیرے اسیروں کی خیر ہو

صیاد جانے کس لیے پر کھولنے لگا

باقیؔ جہاں میں عشق کا دعویٰ ہی عیب ہے

ہر حادثہ نظر میں مجھے تولنے لگا

1/1/1947

٭٭٭

کیوں میں تیری دہائی دینے لگا

شہر کیسا دکھائی دینے لگا

لو غم آشنائی دینے لگا

میں جہاں کو دکھائی دینے لگا

اے خیال ہجوم ہم سفراں

تو بھی داغ جدائی دینے لگا

کون اندر سے اٹھ گیا باقیؔ

شور دل کا سنائی دینے لگا

٭٭٭

چمن میں شور بہت شوخی صبا کا تھا

وہ رنگِ گل تھا کہ شعلہ تری ادا کا تھا

وفا کا زخم ہے گہرا تو کوئی بات نہیں

لگاؤ بھی تو ہمیں ان سے انتہا کا تھا

دیار عشق میں ہر دل تھا آئنہ اپنا

وہی تھا شاہ کا انداز جو گدا کا تھا

غمِ جہاں کی خبر اس طرح بھی ہم کو ملی

کہ رنگ اڑا ہوا اک درد آشنا کا تھا

کسی کلی کا چٹکنا بھی ناگوار ہوا

وہ انتظار ہمیں آپ کی صدا کا تھا

قدم کچھ اس طرح اکھڑے کہ سوچ بھی نہ سکے

کدھر سے آئے تھے ہم رخ کدھر ہوا کا تھا

دیار غم سے گیا کون سرخرو باقیؔ

مگر وہ لوگ جنہیں آسرا خدا کا تھا

٭٭٭

چشم نظارہ پہ کیا کوئی بھی الزام نہ تھا

چاندنی رات تھی اور کوئی لبِ بام نہ تھا

وہم تھا لوگ مرا راستہ تکتے ہوں گے

آ کے دیکھا تو کسی لب پہ مرا نام نہ تھا

اس طرح باغ سے چپ چاپ گزر آئے ہیں

جیسے پھولوں کی مہک میں کوئی پیغام نہ تھا

عمر بھر اپنی ہی گردش میں رہے ہم باقیؔ

اس جگہ دل تھا جہاں اور کوئی دام نہ تھا

٭٭٭

اک نظر تیری مرا دل بن گئی

میرے سینے میں تو کوئی دل نہ تھا

تیری رحمت کا سہارا مل گیا

ورنہ بندہ تو کسی قابل نہ تھا

٭٭٭

کارواں یا غبار کو دیکھا

دیر تک رہگزار کو دیکھا

پھول سا رنگ، خار سے انداز

تجھ کو دیکھا بہار کو دیکھا

زلف و رخ کے طلسم سے نکلے

حسن لیلو نہار کو دیکھا

دل آزاد کا خیال آیا

اپنے ہر اختیار کو دیکھا

ہر ستارے سے روشنی مانگی

ہر شبِ انتظار کو دیکھا

کسی لمحے پہ اپنا نام نہ تھا

گردش روزگار کو دیکھا

پھر تسلی کسی کی یاد آئی

پھر دل بے قرار کو دیکھا

ہر گلِ تر تھا ایک داغ نمو

ہم نے ہر شاخسار کو دیکھا

دھیان میں آئی زندگی باقیؔ

رقص میں اک شرار کو دیکھا

٭٭٭

آستیں میں سانپ اک پلتا رہا

ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا

آپ تو اک بات کہہ کر چل دیے

رات بھر بستر مرا جلتا رہا

ایک غم سے کتنے غم پیدا ہوئے

دل ہمارا پھولتا پھلتا رہا

زندگی کی آس بھی کیا آس ہے

موجِ دریا پر دیا جلتا رہا

اک نظر تنکا بنی کچھ اسی طرح

دیر تک آنکھیں کوئی ملتا رہا

یہ نشاں کیسے ہیں باقیؔ دیکھنا

کون دل کی راکھ پر چلتا رہا

٭٭٭

کچھ اس انداز سے اس فتنہ پرور کا پیام آیا

نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا

بہار میکدہ تقسیم ہونے کو ہوئی لیکن

مرے حصے میں تم آئے نہ مے آئی نہ جام آیا

غمِ ایام تیری برہمی کا نام ہے شاید

جہاں تیری نظرِ بدلی وہیں مشکل مقام آیا

زمانہ پس گیا دو حادثوں کے درمیاں آ کر

ادھر ان کی نظر اٹھی، ادھر گردش میں جام آیا

کنارے آ گلے کوئی سفینہ جس طرح باقیؔ

اٹھا اک شور جب محفل میں کوئی تشنہ کام آیا

1/1/1948

٭٭٭

دشت یاد آیا کہ گھر یاد آیا

کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا

پھر بجھی شمع جلا دی ہم نے

جانے کیا وقتِ سحر یاد آیا

ربطِ باہم کی تمنا معلوم

حادثہ ایک مگر یاد آیا

در و دیوار سے مل کر روئے

کیا ہمیں وقتِ سفر یاد آیا

قدم اٹھتے نہیں منزل کی طرف

کیا سرِ راہگزر یاد آیا

منزلوں ذوقِ سفر سے الجھے

منزلوں آپ کا در یاد آیا

ہنس کے پھر راہنما نے دیکھا

پھر ہمیں رختِ سفر یاد آیا

زندگی گزرے گی کیونکر باقیؔ

عمر بھر کوئی اگر یاد آیا

کسی پتھر کی حقیقت ہی کیا

دل کا آئنہ مگر یاد آیا

آنچ دامان صبا سے آئی

اعتبار گلِ تر یاد آیا

دل جلا دھوپ میں ایسا اب کے

پاؤں یاد آئے نہ سر یاد آیا

گر پڑے ہاتھ سے کاغذ باقیؔ

اپنی محنت کا ثمر یاد آیا

٭٭٭

سود یاد آیا، زیاں یاد آیا

پھر جہانِ گزراں یاد آیا

ہوش آنے لگا دیوانے کو

عقل کا سنگِ گراں یاد آیا

جرس غم نے پکارا ہم کو

کاروان دل و جاں یاد آیا

اک نہ اک زخم رہا پیشِ نظر

تم نہ یاد آئے جہاں یاد آیا

نیند چبھنے لگی بند آنکھوں میں

جب چراغوں کا دھواں یاد آیا

کوئی ہنگامۂ روز و شب میں

یاد آ کر بھی کہاں یاد آیا

دیکھ کر صورت منزل باقیؔ

دعوی ہم سفراں یاد آیا

٭٭٭

رنگِ دل، رنگ نظر یاد آیا

تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا

وہ نظر بن گئی پیغام حیات

حلقہ شام و سحر یاد آیا

یہ زمانہ، یہ دل دیواہ

رشتہ سنگ و گہر یاد آیا

یہ نیا شہر یہ روشن راہیں

اپنا اندازِ سفر یاد آیا

راہ کا روپ بنی دھوپ اپنی

کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا

کب نہ اس شہر میں پتھر برسے

کب نہ اس شہر میں سر یاد آیا

گھر میں تھا دشت نوردی کا خیال

دشت میں آئے تو گھر یاد آیا

گرد اڑتی ہے سرِ راہ خیال

دلِ ناداں کا سفر یاد آیا

ایک ہنستی ہوئی بدلی دیکھی

ایک جلتا ہوا گھر یاد آیا

اس طرح شام کے سائے پھیلے

رات کا پچھلا پہر یاد آیا

پھر چلے گھر سے تماشا بن کر

پھر ترا روزنِ در یاد آیا

٭٭٭

تری نگاہ کا انداز کیا نظر آیا

درخت سے ہمیں سایہ جدا نظر آیا

بہت قریب سے آواز ایک آئی تھی

مگر چلے تو بڑا فاصلہ نظر آیا

یہ راستے کی لکیریں بھی گم نہ ہو جائیں

وہ جھاڑیوں کا نیا سلسلہ نظر آیا

یہ روشنی کی کرن ہے کہ آگ کا شعلہ

ہر ایک گھر مجھے جلتا ہوا نظر آیا

کلی کلی کی صدا گونجنے لگی دل میں

جہاں بھی کوئی چمن آشنا نظر آیا

سنو تو کس لیے پتھر اٹھائے پھرتے ہو

کہو تو آئنہ خانے میں کیا نظر آیا

یہ دوپہر یہ پگھلتی ہوئی سڑک باقیؔ

ہر ایک شخص پھسلتا ہوا نظر آیا

٭٭٭

ان کو دل کا مدعا سمجھائیں کیا

جز عم ہستی کوئی غم کھائیں کیا

شورِ نغمہ اس طرف آتا نہیں

رنگِ  محفل بن کے ہم اڑ جائیں کیا

بے نیازی سے ہے قائم شانِ حسن

ہم انہیں یاد آئیں پر یاد آئیں کیا

جل کے بجھنے کا تو باقیؔ غم نہیں

بس تری دنیا کو منہ دکھلائیں کیا

1/1/1950

٭٭٭

تو قادرِ مطلق ہے یہی وصف ہے کم کیا

آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا

تو خالق کونین ہے تو حاصل کونین

ہے جس پہ نظر تیری اسے کوئی ہو غم کیا

تو اپنے گنہگار کو توفیق عمل دے

ہوتا ہے زباں سے سر تسلیم بھی خم کیا

یہ رنگ غم زیست، یہ انداز غمِ جاں

دنیا کی تمنا میں نکل جائے گا دم کیا

اک سجدہ کیا میں نے فقط شعر کی صورت

ورنہ مری تخیل ہے کیا، میرا قلم کیا

٭٭٭

ابر گلشن برس گیا تو کیا

کوئی سوئے قفس گیا تو کیا

زندگی کا نشاں کہیں ملتا

اک نیا شہر بس گیا تو کیا

شعلۂ گل ہے اور صحنِ چمن

میرا دل بھی جھلس گیا تو کیا

راہ کا سانپ ہے گھنا سایہ

راہگیروں کو ڈس گیا تو کیا

زندگی اب اسی ہجوم سے ہے

سانس کو دل ترس گیا تو کیا

کوئے آوارگاں میں ہم پر بھی

کوئی آوازہ کس گیا تو کیا

کوئی چونکا نہ خواب سے باقیؔ

دور شورِ جرس گیا تو کیا

٭٭٭

اس کار گہ رنگ میں ہم تنگ نہیں کیا

جو سر پہ لگا ہے ابھی وہ سنگ نہیں کیا

تصویر کو تصویر دکھائی نہیں جاتی

اس آئنہ خانے میں نظر دنگ نہیں کیا

ہے حلقۂ جاں اپنی وفاؤں کا تصور

اس داغ سے آگے کوئی فرسنگ نہیں کیا

ہر بات پہ ہم دیتے ہیں غیروں کا حوالہ

اپنا کوئی آہنگ کوئی رنگ نہیں کیا

بخشے ہوئے اک گھونٹ پہ ہم جھوم رہے ہیں

اب مانگ کے پینا بھی کوئی ننگ نہیں کیا

زخم دلِ بیتاب ہے ہاتھوں میں نوالہ

اس بات پہ دنیا سے مری جنگ نہیں کیا

وہ رنگ نہیں شعلہ احساس میں باقیؔ

ہم ساز تمنا سے ہم آہنگ نہیں کیا

٭٭٭

جس طرف بھی ترا خیال گیا

اک نئے عم کی طرح ڈال گیا

زیست کس مرحلے پہ آ پہنچی

وضعداری کا بھی سوال گیا

غمِ دل پر غمِ جہاں کا گماں

چھوڑیے لطف عرضِ حال گیا

ہر تمنا پہ غم کا پہرہ تھا

پھر بھی کس کس طرف خیال گیا

دل سے رہ رہ کے ہم الجھتے ہیں

کس مصیبت میں کوئی ڈال گیا

درد اٹھا کچھ اس طرح باقیؔ

دل کی سب حسرتیں نکال گیا

٭٭٭

اک آئینہ نظر میں سما کر چلا گیا

تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا

ہم دیکھ کر جہاں کو ہراساں ہیں اس طرح

یک لخت جیسے کوئی جگا کر چلا گیا

دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا

کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا

دل پر کھلا نہ تھا کبھی یہ تشنگی کا روپ

وہ میرا زہر مجھ کو پلا کر چلا گیا

رات اپنے سائے سائے میں چھپتا رہا ہوں میں

اتنے چراغ کوئی جلا کر چلا گیا

اس طرح چونک چونک اٹھا ہوں خیال میں

جیسے ابھی ابھی کوئی آ کر چلا گیا

اک پھول اتنے رنگ نہ لایا تھا اپنے ساتھ

راہوں میں جتنے خار بچھا کر چلا گیا

باقیؔ ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ

صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا

٭٭٭

ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب

رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب

پھولوں میں چھپا بیٹھا ہوں اک زخم کی صورت

کھا جاتی ہے دھوکا مری اپنی بھی نظر اب

اس طرح اٹھا دہ سے یقیں اہلِ جہاں کا

افواہ نظر آتی ہے سچی بھی خبر اب

جو پرسشِ غم کے لیے آ جائے غنیمت

کشکول کی مانند کھلا رہتا ہے در اب

نظروں میں ابھر آتا ہے ہر ڈوبتا تارا

اس طرح گزرتی ہے مرے دل سے سحر اب

دنیا کو ہے اب کانچ کے ٹکڑوں کی ضرورت

کس کے لیے دریا سے نکالو گے گہر اب

منزل سے بہت دور نکل آیا ہوں باقیؔ

بھٹکا ہوا رہرو ہی کوئی آئے ادھر اب

٭٭٭

ہے یہ کیسی غم جاں کی صورت

دل بھی اب چپ ہے زباں کی صورت

خود پہ ہوتا ہے کسی کا دھوکا

کون سی ہے یہ گماں کی صورت

کس کی آمد ہے کہ لو دیتے ہیں

راستے کاہکشاں کی صورت

زیست کی راہ میں اکثر آیا

دل بھی اک سنگ گراں کی صورت

غم کے ہر موڑ پہ تیری باتیں

یاد آتی ہیں زیاں کی صورت

دیکھ کر صورت ساحل باقیؔ

چل دئیے موج رواں کی صورت

٭٭٭

یاد آؤ نہ صبح و شام بہت

زندگی کو ہیں اور کام بہت

ابھی آزادی حیات کہیں

ابھی پیشِ نظر ہیں دام بہت

ضبطِ غم آخری مقام نہیں

اس سے آگے بھی ہیں مقام بہت

اے محبت تجھے بھی دیکھ لیا

سنتے آتے تھے تیرا نام بہت

بند کیجے بیاض غم باقیؔ

سن چکے آپ کا کلام بہت

1/1/1951

٭٭٭

تبصرہ تھا مرے فسانے پر

تان ٹوٹی شراب خانے پر

جتنی باتیں قفس میں چھڑتی ہیں

ختم ہوتی ہیں آشیانے پر

زندگی بن کے اک نگاہ بسیط

جا پڑی تیرے آستانے پر

اے زمانے سے کھیلنے والو

اور الزام اک زمانے پر

زندگانی کا سب مزہ باقیؔ

منحصر ہے فریب کھانے پر

1/1/1946

٭٭٭

احساس زندگی کی کلی کھل گئی ہے پھر

کیا تیرے غم سے روشنی کچھ مل گئی ہے پھر

ہر نقش اک خراش ہے ، ہر رنگ ایک داغ

تصویر آئنے کے مقابل گئی ہے پھر

دو چار گام ساتھ چلے ہیں پھر اہلِ غم

کچھ دور تک صدائے سلاسل گئی ہے پھر

کچھ آدمی گلی میں کھڑے ہیں ادھر ادھر

شاید جہاں کو بات کوئی مل گئی ہے پھر

ٹوٹا ہے پھر غبارِ سر راہ کا طلسم

ہر راہرو کے سامنے منزل گئی ہے پھر

چلئے کہیں تو کچھ مجھے اپنی خبر ملے

وہ اک نظر جو لے کے مرا دل گئی ہے پھر

باقیؔ وہ بادباں کھلے وہ کشتیاں چلیں

وہ ایک موج جانب ساحل گئی ہے پھر

٭٭٭

کیوں صبا کی نہ ہو رفتار غلط

گل غلط غنچے غلط خار غلط

ہمنواؤں کی نہیں کوئی کمی

بات کیجے سر بازار غلط

وقت الٹ دے نہ بساط ہستی

چال ہم چلتے ہیں ہر بار غلط

دل کے سودے میں کوئی سود نہیں

جنس ہے خام خریدار غلط

ہر طرف آگے لگی ہے باقیؔ

مشورہ دیتی ہے دیوار غلط

٭٭٭

پہچان سکے نہ تیرے ڈھب تک

ہم جانے کہاں رہے ہیں اب تک

کیا کیا تھے اصول زندگی کے

مشکل نہ پڑی تھی کوئی جب تک

وہ بات بھی رائیگاں گئی ہے

آئی جو بصد حجاب لب تک

آئے نہ خیال میں کسی کے

ہم بیٹھے رہے خموش کب تک

کیوں زیست کے منتظر ہو باقیؔ

آتا نہیں یہ پیام سب تک

1/1/1951

٭٭٭

رہتے ہیں تصور سے بھی اب دور کہیں لوگ

پہلے سے نہیں ہم کہ وہ پہلے سے نہیں لوگ

منہ کھولے ہوئے بیٹھے ہیں کشکول کی صورت

یاقوت گراں مایہ سے تا نانِ جویں لوگ

ملتا ہے جہاں کوئی چمکتا ہوا ذرہ

رکتے ہیں وہیں لوگ بھٹکتے ہیں وہیں لوگ

کیا آپ کی رفتار کا شعلہ ہے زمانہ

رکھ دیتے ہیں ہر نقش زمانہ پہ جبیں لوگ

آ پہنچا ہے اس نکتے پہ افسانۂ ہستی

کچھ سنتے نہیں آپ تو کچھ کہتے نہیں لوگ

اس دور سے چپ چاپ گزر جا دلِ ناداں

احساس کی آواز بھی سن لیں نہ کہیں لوگ

حالات بدلنا کوئی مشکل نہیں باقیؔ

حالات کے رستے میں ہیں دیوار ہمیں لوگ

٭٭٭

ہمہ تن عرضِ حال ہیں ہم لوگ

اک مجسم سوال ہیں ہم لوگ

اور کس پر یہ حادثے گزرے

آپ اپنی مثال ہیں ہم لوگ

وقت کا فیصلہ ہے چارہ گرو

زخم تم، اندمال ہیں ہم لوگ

موت اپنی نہ زندگی اپنی

کس گماں کا مآل ہیں ہم لوگ

آپ سمجھیں تو ایک حقیقت ہیں

ورنہ خواب و خیال ہیں ہم لوگ

لاکھ پردوں میں بھی نمایاں ہیں

وقت کے خدوخال ہیں ہم لوگ

چارہ سازوں کے سرد ماتھے پر

عرقِ انفعال ہیں ہم لوگ

زندگی کی بساط پر باقیؔ

موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ

کام لیتا ہے اک جہاں باقیؔ

ہر مصیبت کی ڈھال ہیں ہم لوگ

1/1/1949

٭٭٭

کوئی سمجھے تو زمانے کا بھرم ہیں ہم لوگ

ورنہ اک قافلہ ملکِ عدم ہیں ہم لوگ

دیکھئے کون سی منزل ہمیں اپناتی ہے

راندۂ میکدہ و دیر و حرم ہیں ہم لوگ

مسکراہٹ کو سمجھ لیتے ہیں دل کا پر تو

آشنا دہر کے انداز سے کم ہیں ہم لوگ

یاد آئیں گے زمانے کو ہم آتے آتے

اک تری بھولی ہوئی طرزِ ستم ہیں ہم لوگ

کوئی نسبت نہیں اربابِ نظر سے باقیؔ

سائے کی طرح پس ساغرِ جم ہیں ہم لوگ

٭٭٭

(مختار صدیقی)

دیکھ کر تجھ میں کچھ نشانِ غزل

ہو گئے مست عاشقانِ غزل

یہ ادائیں، یہ حسن، یہ تیور

تجھ پہ ہونے لگا گمانِ غزل

تیری باتوں کا لطف آتا ہے

اتنی رنگین ہے زبانِ غزل

ہے عبارت غزل سے تیرا غرور

اور قائم ہے تجھ سے شانِ غزل

نت نئے روپ میں ابھرتا ہے

تیرا غم ہے مزاج دانِ غزل

دل کا ہر زخم بول اٹھتا ہے

جب گزرتا ہے کاروانِ غزل

وقت کے ساتھ رخ بدلتا ہے

ہر گھڑی ہے نیا جہانِ غزل

اور بھی کچھ طویل کر دی ہے

غمِ ہستی نے داستانِ غزل

کچھ طبیعت اداس ہے باقیؔ

آج دیکھا نہیں وہ جانِ غزل

٭٭٭

وہیں سمجھو ہماری داستاں ختم

جہاں کر دے کوئی افسانہ خواں ختم

جہاں ہم سے فا ہے ہم جہاں سے

کسی نے بات کر دی ہے کہاں ختم

شکست زیست کا دل پر اثر کیا

مگر ہے راہ و رسم دوستاں ختم

وہاں سے میرا افسانہ چلے گا

جہاں ہو گی تمہاری داستاں ختم

الجھتا جا زمانے کی نظر سے

کبھی تو ہو گا دور امتحاں ختم

اگر ہم چپ بھی ہو جائیں تو باقیؔ

زمانہ بات کرتا ہے کہاں ختم

٭٭٭

ماضی میں ہیں اب نہ حال میں ہم

رہتے ہیں ترے خیال میں ہم

فروا ہے کوئی خیال جیسے

یوں مست ہیں انے حال میں ہم

کھو بیٹھے ہیں اعتبار اپنا

آ آ کے جہاں کی چال میں ہم

آئے نہ ادھر غمِ زمانہ

بیٹھے ہیں ترے خیال میں ہم

دیتے ہیں کوئی جواب باقیؔ

کھوئے ہیں ابھی سوال میں ہم

1/1/1951

٭٭٭

ہر سوچ کا راستہ ہے مسدود

مجبور کا اختیار ہیں ہم

جلتی ہے جو شہر شہر باقیؔ

اس آگ کا اک شرار ہیں ہم

٭٭٭

وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم

اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم

کاٹتے ہیں رات جانے کس طرح

صبح دم گھر سے نکل آتے ہیں ہم

بند کمرے میں  سکوں ملنے لگا

جب ہوا چلتی ہے گھبراتے ہیں ہم

ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں

اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم

زندگی کی کش مکش باقیؔ نہ پوچھ

نیند جب آتی ہے سو جاتے ہیں ہم

٭٭٭

لبوں کو کھول کر یوں رہ گئے ہم

نہ کہنے پر بھی سب کچھ کہہ گئے ہم

کبھی طوفانِ غم سے کش مکش کی

کبھی تنکے کی صورت بہہ گئے ہم

برا ہو اے دل حساس تیرا

بہت دنیا سے پیچھے رہ گئے ہم

تجھے دیکھا تو غم کی یاد آئی

وہ کیسی چوٹ تھی جو سہہ گئے ہم

جہاں نے غور سے دیکھا ہے باقیؔ

نہ جانے جوش میں کیا کہہ گئے ہم

1/1/1947

٭٭٭

ہجوم رنج و غم میں کھو گئے ہم

زمانے کے مقابل ہو گئے ہم

شبِ تاریک کی زد سے نکل کر

سحر کی ظلمتوں میں کھو گئے ہم

چلو اپنوں نے بھی نظریں بدل لیں

وطن میں بھی مسافر ہو گئے ہم

اسی غفلت نے باقیؔ مار ڈالا

کہ جب تقدیر جاگی سو گئے ہم

1/1/1949

٭٭٭

کیا دورِ جہاں سے ڈر گئے ہم

کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم

حیرت ہے کہ سامنے سے تیرے

غیروں کی طرح گزر گئے ہم

وہ دور بھی زندگی میں آیا

محسوس ہوا کہ مر گئے ہم

اے دشت حیات کے بگولو

ڈھونڈو تو سہی کدھر گئے ہم

آئی یہ کدھر سے تیری آواز

چلتے چلتے ٹھہر گئے ہم

گزری ہے صبا قفس سے ہو کے

لینا غم بال و پر گئے ہم

ساحل کا مرحلہ ہے باقیؔ

طوفاں سے تو پار اتر گئے ہم

٭٭٭

خود کو لگتے ہیں اجنبی سے ہم

باز آئے اس آ گہی سے ہم

ہر تمنا ہے دور کی آواز

مر مٹے دور دور ہی سے ہم

راہ کچھ اور ہو گئی تاریک

جب بھی گزرے ہیں روشنی سے ہم

واقف رنگ دہر ہو کر بھی

تجھ سے ملتے ہیں کس خوشی سے ہم

غم کا احساس مٹ گیا شاید

اب الجھتے نہیں کسی سے ہم

کہہ کے روداد زندگی باقیؔ

ہنس دیے کتنی سادگی سے ہم

٭٭٭

کیا زیست کا راز پائیں گے ہم

کتنے پردے اٹھائیں گے ہم

ایک اپنی وفا کی روشنی سے

کس کس کا دیا جلائیں گے ہم

ہر رنگ جہاں سے ہٹ کے دیکھو

اس طرح نظر نہ آئیں گے ہم

یوں نکلے ہیں تیری جستجو میں

جیسے تجھے ڈھونڈ لائیں گے ہم

انداز جہاں کے دیکھتے ہیں

اپنی بھی خبر نہ پائیں گے ہم

اک بات نہ اٹھ سکے جہاں کی

کیا بار حیات اٹھائیں گے ہم

آغازِ سفر میں کیا خبر تھی

یوں راہ میں بیٹھ جائیں گے ہم

جو دل پہ گزر رہی ہے باقیؔ

تجھ کو بھی نہ اب بتائیں گے ہم

٭٭٭

دل کی آس مٹائے کون

جلتی شمع بجھائے کون

ان کی بات پہ جائے کون

جھوٹی آس لگائے کون

دو اک ہوں تو بات کریں

دنیا کو سمجھائے کون

ہم حق پر ہی سہمی لیکن

ان کی راہ میں آئے کون

وہ داتا تو ہیں باقیؔ

پر دامن پھیلائے کون

1/1/1946

٭٭٭

نگار دشت کی جانب کوئی قدم اب تو

ہجومِ شہر میں گھٹنے لگا ہے دم اب تو

کھڑا ہوں دل کے دو راہے پہ ہاتھ پھیلائے

چھپائے چھپتے نہیں زندگی کے غم اب تو

نئے خیال نئے فاصلوں کے ساتھ آئے

نہ مل سکیں گے کسی راستے پہ ہم اب تو

مسافران محبت کا انتظار نہ کر

کہ دل میں آ گئے راہوں کے پیچ و خم اب تو

نکل گیا ہے سفینہ ترا کدھر باقیؔ

صدائیں آتی ہیں ساحل سے دم بہ دم اب تو

٭٭٭

حسرت ہے جو نکال لو غصہ اتار لو

بے سدھ پڑا ہوں آخری پتھر بھی مار لو

ہم دامن امید کو چھوڑیں نہ ہاتھ سے

ظالم تو کہہ رہا ہے خدا کو پیار لو

دنیا ہے نام موت کا عقبیٰ حیات کا

آگے خوشی تمہاری خزاں لو بہار لو

دنیا تو اپنی بات کبھی چھوڑتی نہیں

جس طرح تم گزار سکو دن گزار لو

کچھ دیر اور بزم میں ان کی چلے گی بات

کچھ آ گئے ہیں اور مرے غمگسار لو

لے کر بیاض کیوں نہ پکاروں گلی گلی

میرا لہو خریدو، مرے شاہکار لو

باقیؔ تمہیں حیات کا ساماں تو مل گیا

اک لمحے کی خوشی بھی کسی سے ادھار لو

٭٭٭

صبح کا بھید ملا کیا ہم کو

لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو

شوقِ نظارہ کا پردہ اٹھا

نظر آنے لگی دنیا ہم کو

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی

نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو

تلخی غم کا مداوا معلوم

پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو

تیرے غم سے تو سکوں ملتا ہے

اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو

گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے

آج ہی گھر نظر آیا ہم کو

ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی

تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو

جلوہ لالہ و گل ہے دیوار

کبھی ملتے سرِ صحرا ہم کو

لے اڑی دل کو نسیمِ سحری

بوئے گل کر گئی تنہا ہم کو

سیر گلشن نے کیا آوارہ

لگ گیا روگ صبا کا ہم کو

یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں

تھام لے اے گلِ تازہ ہم کو

لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ

ایک سوکھا پتا ہم کو

٭٭٭

غم بنا دے نہ تماشا ہم کو

ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو

ہم ابھی تک ہیں وہیں راہ نشیں

جس جگہ آپ نے چھوڑا ہم کو

اک صدا تک تھی عنایت ساری

پھر کسی نے بھی نہ پوچھا ہم کو

آج دیکھا ہے نیا رنگ ان کا

دو گھڑی چھوڑ دو تنہا ہم کو

زندگی لے گئی طوفانوں میں

دے کے تنکے کا سہارا ہم کو

تیری محفل کے چراغوں کے تلے

کچھ نشاں ملتا ہے اپنا ہم کو

ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر

جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو

بات ہو، شعر ہو، افسانہ ہو

ہے بہت کچھ ابھی کہنا ہم کو

کوئی روزن ہو کہ دروازہ ہو

چاہیے ایک شرارا ہم کو

فصلِ گل آئی مگر کیا آئی

رنگ بھولا نہ خزاں کا ہم کو

لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ

ایک سوکھا ہوا پتہ ہم کو

٭٭٭

دل کے مٹنے لگے نشاں دیکھو

سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو

ہر کلی سے لہو ٹپکنے لگا

شوق تعمیر گلستاں دیکھو

بار صیاد ہے کہ بار ثمر

جھک گئی شاخ آشیاں دیکھو

دل کا انجام ایک قطرۂ خوں

حاصل بحر بیکراں دیکھو

سائے کرنوں کے ساتھ چلتے ہیں

صبح میں شام کا سماں دیکھو

داغ آئینہ بن گئے فرسنگ

سفرِ شوق کے نشاں دیکھو

پڑ گئی سرد آتش احساس

جم گیا خون عاشقاں دیکھو

لو دلوں کی حدیں سمٹنے لگیں

تنگ ہے کس قدر جہاں دیکھو

تم بھی کہنے لگے خدا لگتی

لڑکھڑانے لگی زباں دیکھو

دل کا ہر زخم ہے زباں اپنی

اس پہ بھی حسرت بیاں دیکھو

آگ سے کھیلتے ہو کیوں باقیؔ

اپنا دل دیکھو اپنی جاں دیکھو

٭٭٭

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو

جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو

وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں

کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو

رنگ ساحل کا نکھر آئے گا

دو گھڑی جانبِ دریا دیکھو

تلملا اٹھا گھنا سناٹا

پھر کوئی نیند سے چونکا دیکھو

ہم سفر غیر ہوئے جاتے ہیں

فاصلہ رہ گیا کتنا دیکھو

برف ہو جاتا ہے صدیوں کا لہو

ایک ٹھہرا ہوا لمحہ دیکھو

رنگ اڑتے ہیں تبسم کی طرح

آئنہ خانوں کا دعویٰ دیکھو

دل کی بگڑی ہوئی صورت ہے جہاں

اب کوئی اور خرابہ دیکھو

یا کسی پردے میں گم ہو جاؤ

یا اٹھا کر کوئی پردہ دیکھو

دوستی خونِ جگر چاہتی ہے

کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو

سادہ کاغذ کی طرح دل چپ ہے

حاصل رنگ تمنا دیکھو

یہی تسکین کی صورت ہے تو پھر

چار دن غم کو بھی اپنا دیکھو

غم گساروں کا سہارا کب تک

خود پہ بھی کر کے بھروسا دیکھو

اپنی نیت پہ نہ جاؤ باقیؔ

رخ زمانے کی ہوا کی دیکھو

٭٭٭

کوئی نغمہ تو در سے پیدا ہو

آپ ہوں یا ہوا کا جھونکا ہو

وہ نظر بھی نہ دے سکی تسکیں

اے دل بے قرار اب کیا ہو

کام آتے نہیں تماشائی

ایک ساتھی ہو اور اپنا ہو

وہ اندھیر کے طور کیا جانے

جس کے گھر میں چراغ جلتا ہو

دل سے اک بات کر رہے ہیں ہم

پاس بیٹھا نہ کوئی سنتا ہو

اس کے غم کا علاج کیا باقیؔ

بے سبب جو اداس رہتا ہو

٭٭٭

کیا تم سے گلہ کہ مہرباں ہو

جیتے رہو، خوش رہو، جہاں ہو

خونِ دل کا معاملہ ہے

دنیا ہو کہ تیرا آستاں ہو

منت کش داستاں سرا ہے

میری ہو کہ تیری داستاں ہو

دنیا مجھے کہہ رہی ہے کیا کیا

کچھ تم بھی کہو کہ راز داں ہو

کس سوچ میں پڑ گئے ہو باقیؔ

دنیا تو وہیں ہے تم کہاں ہو

٭٭٭

چیں بہ جبیں ہو

کتنے حسیں ہو

اتنی خموشی

گویا نہیں ہو

وہ مہرباں ہیں

کیونکر یقیں ہو

دنیا سے کھیلو

ناز آفریں ہو

یہ بے حجابی

پردہ نشیں ہو

جیسا سنا تھا

ویسے نہیں ہو

سوچو تو باقیؔ

سب کچھ تمہیں ہو

1/1/1951

٭٭٭

کہتا ہے ہر مکیں سے مکاں بولتے رہو

اس چپ میں بھی ہے جی کا زیاں بولتے رہو

ہر یاد، ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ

یہ محفل نوا ہے یہاں بولتے رہو

موج صدائے دل پہ رواں ہے حصار زیست

جس وقت تک ہے منہ میں زباں بولتے رہو

اپنا لہو ہی رنگ ہے ، اپنی تپش ہی بو

ہو فصلِ گل کہ دورِ خزاں بولتے رہو

قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے

لمبا سفر ہے ہم سفراں بولتے رہو

ہے زندگی بھی ٹوٹا ہوا آئنہ تو کیا

تم بھی بطرز شیشہ گراں بولتے رہو

باقیؔ جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں

ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو

٭٭٭

تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں

چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم سے خفا ہوں

رہنے دو کہ اب تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے

برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں

سو بار گرہ دے کے کسی آس نے جوڑا

سو بار میں دھاگے کی طرح ٹوٹ چکا ہوں

جائے گا جہاں تو مری آواز سنے گا

میں چور کی مانند ترے دل میں چھپا ہوں

ایک نقطے پہ آ کر بھی ہم آہنگ نہیں ہیں

تو اپنا فسانہ ہے تو میں اپنی صدا ہوں

چھیڑو نہ ابھی شاخ شکستہ کا فسانہ

ٹھہرو میں ابھی رقصِ صبا دیکھ رہا ہوں

منزل کی پتا جس نے دیا تھا مجھے باقیؔ

اس شخص سے رستے میں کئی بار ملا ہوں

٭٭٭

اپنا قصہ سنا رہا ہوں

سامنے تیرے آ رہا ہوں

ایک مدت تری محبت

اپنے دل سے جدا رہا ہوں

تیری شہرت کے واسطے کیا

خود پہ پردے گرا رہا ہوں

اک زمانے کی ہے نظر مجھ

اس لیے مسکرا رہا ہوں

زندگی دھن رہی ہے سر

کونسا راگ گا رہا ہوں

٭٭٭

ہجوم رنج و الم میں صبر و قرار پر غور کر رہا ہوں

ملا ہے جو اختیار اس اختیار پر غور کر رہا ہوں

نظر کے سائے ذرا ہٹا لو کہ عقل کی سانس گھٹ رہی ہے

ہٹو ہٹو میں کشاکش روزگار پر غور کر رہا ہوں

بھٹک رہا ہے خیال سود و زیاں کے پر پیچ راستوں میں

کہاں کی منزل ابھی تو گردو غبار پر غور کر رہا ہوں

میں کتنا بیباک ہو گیا ہوں مجھے سزا دو چمن پرستو!

بہار کہتے ہو تم جسے اس بہار پر غور کر رہا ہوں

بدل رہا ہے کچھ اس طرح ان کے عہد و پیماں کا رنگ باقیؔ

کیا تھا کل اعتبار آج اعتبار پر غور کر رہا ہوں

1/1/1949

٭٭٭

میں ہر اک محفل میں اس امید پر بیٹھا رہوں

کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں

دھوپ کی صورت مرے ہمراہ تو چلتا رہے

سائے کی مانند میں گھٹتا رہوں بڑھتا رہوں

ایک طوفاں کی طرح تو مجھ سے ٹکراتا رہے

اور ساحل کی طرح کٹ کٹ کے میں گرتا رہوں

تو لہو کی طرح میرے جسم میں گردش کرے

سانس کی مانند میں آتا رہوں جاتا رہوں

دشتِ دل سے تو صبا بن کے اگر گزرے تو میں

قطرہ بن کے نوکِ خار زیست پھر ٹھہرا رہوں

دائرے آبِ رواں کے ٹوٹتے بنتے رہیں

اور اپنی شکل میں بیٹھا ہوا تکتا رہوں

زندگی کے مرحلے دنیا کی خاطر طے کروں

اور محبت کے لیے میں عمر بھر پیاسا رہوں

کر دیا ہے کام کیسا تو نے یہ میرے سپرد

رات بھر آوارہ قدموں کی صدا سنتا رہوں

میری حسرت کا تقاضا ہے کہ تیری آرزو

موسمِ گل میں شکستہ شاخ پر بیٹھا رہوں

زندگی دو حادثوں کے درمیاں اک حادثہ

میں کہاں تک حادثوں کے درمیاں بہتا رہوں

زندہ رہنے کا تو باقیؔ یہ بھی اک انداز ہے

بیٹھ کر غیروں میں اپنے آپ پر ہنستا رہوں

٭٭٭

کوئی سمجھے تجھے نا مہرباں کیوں

مگر تجھ سے ہے دنیا بدگماں کیوں

کوئی تو بات ہے اظہارِ غم میں

وگرنہ لڑکھڑاتی ہے زباں کیوں

ابھرتا ہے یہیں سے ہر تلاطم

بلندی سے خفا ہیں پستیاں کیوں

جو اپنی رہگزر سے آشنا ہو

وہ دیکھے نقش پائے رہرواں کیوں

اداسی منزلوں کی کہہ رہی ہے

ادھر سے کوئی گزرے کارواں کیوں

مسافر کوئی شاید لٹ گیا ہے

چراغِ راہ دے اٹھا دھواں کیوں

جہاں تیری نظر ہو کار فرما

وہاں باقیؔ رہے میرا نشاں کیوں

٭٭٭

دل کے لیے حیات کا پیغام بن گئیں

بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں

کچھ لغزشوں سے کام جہاں کے سنور گئے

کچھ جراتیں حیات پر الزام بن گئیں

ہر چند وہ نگاہیں ہمارے لیے نہ تھیں

پھر بھی حریف گردشِ ایام بن گئیں

آنے لگا حیات کو انجام کا خیال

جب آرزوئیں پھیل کے اک دام بن گئیں

کچھ کم نہیں جہاں سے جہاں کی مسرتیں

جب پاس آئیں دشمن آرام بن گئیں

باقیؔ جہاں کرے گا مری میکشی پہ رشک

ان کی حسیں نگاہیں اگر جام بن گئیں

باقیؔ مال شوق کا آنے لگا خیال

جب آرزوئیں پھیل کے اک دام بن گئیں

1/1/1948

٭٭٭

تجھ پہ یا خود پہ اعتبار کریں

کون سا رنگ اختیار کریں

تجربے کا یہی تقاضا ہے

آپ پر بھی نہ اعتبار کریں

پرسشِ غم نہیں ہے غم کا علاج

یہ تکلف نہ غمگسار کریں

حد نہیں انتظار کی کوئی

آگے ہم جتنا انتظار کریں

پتا پتا ہے مضمحل باقیؔ

ہم کہاں تک غم بہار کریں

1/1/1950

٭٭٭

سورج ڈوب رہا ہے آؤ طوف بادہ و جام کریں

تم بھی ذرا زلفوں کو سنوارو ہم بھی ذرا آرام کریں

کس کا وعدہ کیسی تمنا، اٹھ اے دل آرام کریں

ان کو بات کا پاس نہیں تو ہم کیوں نیند حرام کریں

محفل ہستی کے سازوں پر کیوں خاموشی طاری ہے

آؤ کوئی نغمہ چھیڑیں، لاؤ کوئی کام کریں

ایک سے ایک ملا ہے بڑھ کر جس کے بھی نزدیک گئے

کس کس سے ہم الجھیں باقیؔ کس کس کو بدنام کریں

1/1/1946

٭٭٭

آپ کی یا جہاں کی بات کریں

کون سے مہرباں کی بات کریں

حسن خوش ہے نہ عشق آسودہ

کیا ترے آستاں کی بات کریں

ہو چکیں اس جہان کی باتیں

اب کوئی اس جہاں کی بات کریں

زندگی نام ہے بہاروں کا

گل نہیں گلستاں کی بات کریں

سب کو ساحل کا پاس ہے باقیؔ

کس سے موجِ رواں کی بات کریں

1/1/1949

٭٭٭

کیا ہے اس اجڑی ہوئی منزل میں

میرے دشمن رہیں میرے دل میں

وہم آنے لگے کیا کیا دل میں

رک گیا قافلہ کس منزل میں

سوچتا کچھ ہے تو کرتا کچھ ہے

آدمی ہوتی ہے جب مشکل میں

موج آتی ے لٹ جاتی ہے

کون سی بات نہیں ساحل میں

جانے کیا دل کو ہوا ہے باقیؔ

جی نہیں لگتا کسی محفل میں

٭٭٭

دل ٹھہرتا نہیں ہے سینے میں

جانے کیا مصلحت ہے جینے میں

یہ تمنا، یہ دل معاذ اﷲ

آبگینہ ہے آبگینے میں

زخم پر زخم کھائے جاتے ہیں

کس کا دل ہے ہمارے سینے میں

زندگی نے ہزار حجت کی

خون کا ایک گھونٹ پینے میں

موجِ طوفاں کو دیکھ کر باقیؔ

ناخدا چھپ گیا سفینے میں

1/1/1948

٭٭٭

خبر کچھ ایسی اڑائی کسی نے گاؤں میں

اداس پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں

نظر نظر سے نکلتی ہیں درد کی ٹیسیں

قدم قدم پہ وہ کانٹے چبھے ہیں پاؤں میں

ہر ایک سمت سے اڑ اڑ کے ریت آتی ہے

ابھی ہے زور وہی دشت کی ہواؤں میں

غموں کی بھیڑ میں امید کا وہ عالم ہے

کہ جیسے ایک سخی ہو کئی گداؤں میں

ابھی ہے گوش بر آواز گھر کا سناٹا

ابھی کشش ہے بڑی دور کی صداؤں میں

چلے تو ہیں کسی آہٹ کا آسرا لے کر

بھٹک نہ جائیں کہیں اجنبی فضاؤں میں

دھواں دھواں سی ہے کھیتوں کی چاندنی باقیؔ

کہ آگ شہر کی اب آ گئی ہے گاؤں میں

٭٭٭

کر لیا آپ نے گھر آنکھوں میں

اب کھٹکتی ہے نظر آنکھوں میں

خواب بن بن کے بکھرتا ہے جہاں

شام سے تابہ سحر آنکھوں میں

صبح کی فکر میں رہنے والے

رات کرتے ہیں بسر آنکھوں میں

۔۔ق ۔۔

کھل گیا راز گلستاں دل پر

چبھ رہے ہیں گلِ تر آنکھوں میں

روز اک طرفہ تماشا بن کر

وقت کرتا ہے سفر آنکھوں میں

بات چھیڑی تو ہے ان کی باقیؔ

آ گئے اشک اگر آنکھوں میں

٭٭٭

وقت چپ سا کھڑا ہے رستے میں

دشت کیسا پڑا ہے رستے میں

آپ کا غم ہو یا زمانے کا

کوس جو ہے کڑا ہے رستے میں

سنگ ریزوں کو دیکھنے والو

دل سا ہیرا پڑا ہے رستے میں

کوئی کانٹا ہے یا کوئی گل ہے

دل کا دامن اڑا ہے رستے میں

اس طرح چپ کھڑے ہیں ہم جیسے

ایک پتھر گڑا ہے رستے میں

دل اگر بجھ گیا تو پھر باقیؔ

ایک کانٹا بڑا ہے رستے میں

٭٭٭

تھا میسر نہ ایک تار ہمیں

ہنس پڑی دیکھ کر بہار ہمیں

اتنا خود پر بھی اعتبار نہیں

جتنا تجھ پر ہے اعتبار ہمیں

اب محبت کا یہ تقاضا ہے

کاکلوں کی طرح سنوار ہمیں

زخمِ دل دیکھ کر خیال آیا

تجھ پہ کتنا تھا اعتبار ہمیں

تیری نظروں پہ حرف آتا ہے

ورنہ دل پر ہے اختیار ہمیں

غیر سے اس طرح ملے جیسے

مل گیا کوئی غمگسار ہمیں

دل پر درد کا تقاضا ہے

دوستوں کی طرح پکار ہمیں

بارہا وقت نے دیے باقیؔ

پھول کے رنگ میں شرار ہمیں

1/1/1950

٭٭٭

موج ہاتھ آئے تو دریا مانگیں

دردِ دل مانگ کے پھر کیا مانگیں

کیا ملا انجمن آرائی سے

کیسے تنہائی سے رستہ مانگیں

دست کوتاہ نہیں دستِ طلب

مانگنے والوں سے ہم کیا مانگیں

دل کو غم ہائے جہاں سے فرصت

تجھ سے کیا تیری تمنا مانگیں

کس قدر تابِ نظر ہے کس کو

کس لیے دیدہ بینا مانگیں

شہر کا شہر کڑی دھوپ میں ہے

کس کی دیوار سے سایہ مانگیں

کبھی قطرے کو بحسرت دیکھیں

کبھی دریا سے نہ قطرہ مانگیں

کبھی اک ذرے میں گم ہو جائیں

کبھی ہم وسعتِ صحرا مانگیں

تاب نظارا نہیں ہے باقیؔ

پھر بھی ہم طرفہ تماشا مانگیں

٭٭٭

حسرت راہِ وفا کیا دیکھیں

اپنے نقشِ کفِ پا کیا دیکھیں

زندگی دل کا سکوں چاہتی ہے

رونقِ شہرِ سبا کیا دیکھیں

کھوکھلے قہقہے پھیکی باتیں

زیست کو زیست نما کیا دیکھیں

زخم آواز ہی آئنہ ہے

صورت نغمہ سرا کیا دیکھیں

قعر دریا کا تقاضا معلوم

ہم حبابوں کے سوا کیا دیکھیں

سانس کلیوں کا رکا جاتا ہے

شوخی موجِ صبا کیا دیکھیں

دل ہے دیوار، نظر ہے پردہ

دیکھنے والے بھلا کیا دیکھیں

ایک عالم ہے غبار آلودہ

جانے والے کی ادا کیا دیکھیں

زندگی بھاگ رہی ہے باقیؔ

شوق کو آبلہ پا کیا دیکھیں

٭٭٭

کیا ذروں کا جوش صبا نے چھین لیا

گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں

دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے

ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں

دلِ ناداں ہے شاید راہ پہ آ جائے

تم بھی سمجھاؤ ہم بھی سمجھاتے ہیں

تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو

ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں

بیٹھ کے روئیں کس کو فرصت ہے باقیؔ

بھولے بسرے قصے تو یاد آتے ہیں

٭٭٭

تمہاری نگاہیں جو پہچانتے ہیں

زمانے کی باتیں وہ کب مانتے ہیں

فریب تلاطم نہ دیں ناخدا اب

سفینے کناروں کو پہچانتے ہیں

زمانے کی چالیں زمانہ ہی سمجھے

نہ تم جانتے ہو نہ ہم جانتے ہیں

تعارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے

دوانے دوانوں کو پہچانتے ہیں

کرو ضبطِ غم کی نہ تلقین باقیؔ

جو ہم پر گزرتی ہے ہم جانتے ہیں

1/1/1947

٭٭٭

بات پر اپنی ہم جب آتے ہیں

زندگی کی ہنسی اڑاتے ہیں

شبِ غم کا کوئی سوال نہیں

نیند آئے تو سو بھی جاتے ہیں

جانتے ہیں مال غم پھر بھی

لوگ کیا کیا فریب کھاتے ہیں

راستہ بھولنا تو ہے اک بات

راہرو خود کو بھول جاتے ہیں

بات کو سوچتے نہیں باقیؔ

لوگ جب داستاں بناتے ہیں

1/1/1951

٭٭٭

اپنے زخموں میں چھپے جاتے ہیں

کوئی دیکھے تو نظر آتے ہیں

رنگ تصویر میں بھرنے والے

پس تصویر ہوئے جاتے ہیں

تیرے ارماں میں کہ اندوہ جہاں

دل میں کچھ سائے سے لہراتے ہیں

دھیان غربت کی طرف جاتا ہے

یاد ارباب وطن آتے ہیں

یہ غمِ دل، یہ شبِ تنہائی

سوچتے سوچتے سو جاتے ہیں

جب قدم رکھتے ہیں گھر میں باقیؔ

سینکڑوں حادثے یاد آتے ہیں

٭٭٭

صبح میں شام کے آثار بھی ہیں

حادثے کچھ پسِ دیوار بھی ہیں

راس آتی نہیں تنہائی بھی

اور ہر شخص سے بیزار بھی ہیں

آزمائش سے بھی جاں جاتی ہے

اور ہم تیرے طلب گار بھی ہیں

پہلے اک دل پہ نظر تھی باقیؔ

سامنے اب کئی بازار بھی ہیں

٭٭٭

پی کے تلخابۂ غم جاتے ہیں

لے تری بزم سے ہم جاتے ہیں

جب سے اٹھ آئے تری محفل سے

ہم کہیں اور بھی کم جاتے ہیں

جانے اس راہ میں کیا کھو آئے

روز کچھ ڈھونڈنے ہم جاتے ہیں

ان کے غصے کے نہ تیور بدلے

ورنہ طوفان بھی تھم جاتے ہیں

جب سے ٹوٹا ہے سفینہ باقیؔ

ساتھ ہر موج کے ہم جاتے ہیں

٭٭٭

آپ سے آشنائی کرتے ہیں

بات اپنی پرائی کرتے ہیں

کر رہے ہیں کوئی خطا جیسے

اس طرح ہم بھلائی کرتے ہیں

جن پہ ہوتا ہے اعتبار وہی

وقت پر بے وفائی کرتے ہیں

راہ سے آشنا نہیں پھر بھی

حسرت رہنمائی کرتے ہیں

بھول جاتے ہیں خود کو بھی باقیؔ

لوگ جب ہمنوائی کرتے ہیں

1/1/1951

٭٭٭

جب سے دل میں ترا غم رکھتے ہیں

خود سے ہم واسطہ کم رکھتے ہیں

شک نہ کیجے مری خاموشی پر

لوگ سو طرح کے غم رکھتے ہیں

یوں بھی ملتی ہیں وہ نظریں جیسے

اک تعلق سا بہم رکھتے ہیں

کرتے پھرتے ہیں تمہاری باتیں

یوں بھی ہم اپنا بھرم رکھتے ہیں

ہم یہ کیجے نہ بھروسا باقیؔ

ہم خیال اپنا بھی کم رکھتے ہیں

٭٭٭

آپ ہیں دور کہ ہم دیکھتے ہیں

چل کے دو چار قدم دیکھتے ہیں

اپنی آواز پہ رحم آتا ہے

اس بلندی پہ ستم دیکھتے ہیں

ہم سفر کیسے کہ ہم مڑ مڑ کے

اپنے ہی نقشِ قدم دیکھتے ہیں

زلزلہ کوئی ادھر سے گزرا

تیری دیوار میں خم دیکھتے ہیں

قافلے شوق حرم سے گزرے

اوج پر بخت صنم دیکھتے ہیں

زندگی جنتی بلند اڑتی ہے

درد ہم اتنا ہی کم دیکھتے ہیں

جب کسی غم کا سوال آتا ہے

صورت اہلِ کرم دیکھتے ہیں

ریگِ ساحل ہے مقدر اپنا

کیا ہر اک موج میں ہم دیکھتے ہیں

کتنا خوں اپنا جلا کر باقیؔ

صورت نان و درم دیکھتے ہیں

٭٭٭

یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں

اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے

اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

قافلہ آج کہاں ٹھہرے گا

کیا خبر آبلہ پا دیتے ہیں

بعض اوقات ہوا کے جھونکے

لو چراغوں کی بڑھا دیتے ہیں

دل میں جب بات نہیں رہ سکتی

کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں

ایک دیوار اٹھانے کے لیے

ایک دیوار گرا دیتے ہیں

سوچتے ہیں سرِ ساحل باقیؔ

یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں

٭٭٭

راہ میں شمع جلا بیٹھے ہیں

کس سے ہم آس لگا بیٹھے ہیں

رنگِ محفل سے ہمیں کیا مطلب

جانے کیا سوچ کے آ بیٹھے ہیں

ختم ہوتی نہیں دل کی باتیں

اپنا قصہ تو سنا بیٹھے ہیں

کون سنتا ہے کسی کی آواز

ہم ابھی کر کے صدا بیٹھے ہیں

مسکرایا ہے زمانہ کیا کیا

کھا کے جب تیر وفا بیٹھے ہیں

خود کو دیکھا تو نہ پہچان سکے

ہم بھی کیا حال بنا بیٹھے ہیں

ابھی کچھ ملتے ہیں منزل کے سراغ

ابھی کچھ آبلہ پا بیٹھے ہیں

منزلوں رہ گئے پیچھے باقیؔ

وہ گھڑی راہ میں کیا بیٹھے ہیں

٭٭٭

ہم کس کے جہاں میں بس رہے ہیں

جینے کے لیے ترس رہے ہیں

گلشن میں انہیں بھی ہم نہیں یاد

جو ساتھ قفس قفس رہے ہیں

آئی ترے قہقہوں کی آواز

یہ پھول کہاں برس رہے ہیں

کس رنگ میں زندگی کو ڈھالیں

ہر رنگ میں آپ بس رہے ہیں

ہم سے بھی زمانہ آشنا ہے

ہم بھی ترے ہم نفس رہے ہیں

شبنم کی طرح اڑے ہیں باقیؔ

بادل کی طرح برس رہے ہیں

1/1/1951

٭٭٭

اشکوں میں خیال ڈھل رہے ہیں

بجھ بجھ کے چراغ جل رہے ہیں

آدابِ چمن بھی سیکھ لیں گے

زنداں سے ابھی نکل رہے ہیں

پھولوں کو شرار کہنے والو

کانٹوں پہ بھی لوگ چل رہے ہیں

ہے جھوٹ کہ سچ کسے خبر ہے

سنتے ہیں کہ ہم سنبھل رہے ہیں

آرام کریں کہاں مسافر

سائے بھی شرر اگل رہے ہیں

حالات سے بے نیاز ہو کر

حالات کا رخ بدل رہے ہیں

کہتے ہیں اسے نصیب باقیؔ

پانی سے چراغ جل رہے ہیں

1/1/1951

٭٭٭

اخلاص کو مجبورِ فغاں دیکھ رہے ہیں

انداز جہانِ گزراں دیکھ رہے ہیں

ہم زیست کی راہوں میں دیے غم کے جلا کر

گزرے ہوئے لمحوں کے نشاں دیکھ رہے ہیں

کیا جرات بے باک ہے یہ دل، یہ محبت

قطرے میں سمندر کو نہاں دیکھ رہے ہیں

کیا دور سے اک ساغر گل رنگ دکھا کر

وہ کش مکش بادہ کشاں دیکھ رہے ہیں

حالات نے اس طرح جکڑ رکھا ہے باقیؔ

جو کچھ بھی دکھاتا ہے جہاں دیکھ رہے ہیں

1/1/1945

٭٭٭

دل کسی صورت ٹھہر پاتا نہیں

تو نظر کے سامنے ہے یا نہیں

مٹ گیا ہے دل سے کیا تیرا خیال

اتنا دنیا کو کبھی چاہا نہیں

اس طرح محفل یہ ہے اس کی نظر

سب ہیں تنہا اور کوئی تنہا نہیں

سوچ کر کیا بات آ بیٹھے ہو تم

ان درختوں کا کوئی سایہ نہیں

دھوپ کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں لوگ

کوئی اپنے سامنے آتا نہیں

بات مظلوموں پہ آخر آئے گی

الٹے رخ دریا کبھی بہتا نہیں

دیکھتا ہوں اس طرح ہر ایک کو

آدمی بھی آدمی گویا نہیں

یہ بھی تو پہلو ہے اک حالات کا

لوگ جو کہتے ہیں وہ ہوتا نہیں

آج باقیؔ کیا ہوا کو ہو گیا

دور تک پتا کوئی ہلتا نہیں

٭٭٭

یہ گل نہیں یہ شگوفے نہیں یہ خار نہیں

ہے چیز کون سی جو تیرا شاہکار نہیں

خیال تیری طرف ہو تو غم بھی بار نہیں

یہ کیا گلہ ہے کہ ماحول سازگار نہیں

چمن کو دیکھ کے دیکھو بنانے والے کو

مقام فکر بھی ہے صرف یہ بہار نہیں

تری نگاہِ کرم کی امید ہے ورنہ

میرے گناہوں کا یا رب کوئی شمار نہیں

زمانہ راز ہے تو راز ہی رہے باقیؔ

اسی میں اپنا بھرم ہے کہ آشکار نہیں

٭٭٭

میکشوں میں وہ اضطراب نہیں

کون اے دوست باریاب نہیں

بار دنیا نہ اٹھ سکا تو کیا

زندگی میرا انتخاب نہیں

دل کی تسکیں بھی چاہتا ہوں میں

میرا مقصد فقط جواب نہیں

اک نہ اک چیز کی کمی ہی رہی

کبھی ساغر کبھی شراب نہیں

دل کو کیونکر فریب دیں باقیؔ

غم حقیقت ہے کوئی خواب نہیں

٭٭٭

زندگی اتنی گراں بار نہیں

ہم ابھی مرنے کو تیار نہیں

لالہ و گل کی تمنا کیسی

ایک کانٹے کے روداد نہیں

بزمِ ہستی میں ہے ہو کا عالم

کوئی منصور سردار نہیں

راہ میں اور بھی دیواریں ہیں

ایک حالات کی دیوار نہیں

سب ہوس کے ہیں تقاضے باقیؔ

ورنہ گلشن میں کوئی خار نہیں

٭٭٭

چشمک ہم سفراں یاد نہیں

کون بچھڑا تھا ہاں یاد نہیں

دلِ شوریدہ سے الجھا تھا کوئی

تم تھے یا درد جہاں یاد نہیں

ہم تھے شاکی کہ جہاں تھا شاکی

کون تھا کس پہ گراں یاد نہیں

زندگی چال نہ چل جائے کہیں

کوئی بھی اپنا نشاں یاد نہیں

ہم کہاں ہیں کہ ہمیں اب کچھ بھی

جز حدیث دگراں یاد نہیں

آگ گلشن میں لگی تھی باقیؔ

فصلِ گل تھی کہ خزاں یاد نہیں

٭٭٭

گل کے پردے میں ہے کیا معلوم نہیں

شعلہ صر صر ہے کہ صبا معلوم نہیں

کس کا ہاتھ ہے کس مہرے پہ کیا جانیں

کون اور کیسی چال چلا معلوم نہیں

ہم نے خون میں لت پت گلشن دیکھا ہے

کس جانب سے شور اٹھا معلوم نہیں

ہم ہیں اور اندھیری رات کا ہنگامہ

کس کا کس پر وار پڑا معلوم نہیں

جانے کیا مستی میں اس نے بات کہی

نشے میں کیا ہم نے سنا معلوم نہیں

لحظہ لحظہ دوری بڑھتی جاتی ہے

کل کا انسان کیا ہو گا معلوم نہیں

ہر چہرے کے پیچھے کتنے چہرے ہیں

کون ہمیں کس وقت ملا معلوم نہیں

قدموں کی آہٹ پر کان رہے اپنے

کون آیا اور کون گیا معلوم نہیں

ہوش آیا تو تاریکی میں تھے باقیؔ

کتنی دیر چراغ جلا معلوم نہیں

٭٭٭

چھا کر دلوں پہ ان کی نظر مطمئن نہیں

تاروں کو روند کر بھی سحر مطمئن نہیں

ہونٹوں سے آہیں چھیننے والے ادھر تو دیکھ

ہم چپ تو ہو گئے ہیں مگر مطمئن نہیں

رودادِ غم ہے اب نئے عنوان کی فکر میں

آنسو بہا کے دیدۂ تر مطمئن نہیں

غم رفتہ رفتہ بڑھتے گئے زندگی کے ساتھ

دل مطمئن ہوا تو نظر مطمئن نہیں

روز ایک تازہ حادثہ لائے کہاں سے زیست

مانا کہ دور شام و سحر مطمئن نہیں

کس کاروانِ شوق کا باقیؔ ہے انتظار

کیوں زندگی کی راہگزر مطمئن نہیں

باقیؔ عجیب روگ ہے یہ رنگ و بو کی پیاس

دل مطمئن ہوا تو نظر مطمئن نہیں

٭٭٭

زندگی حسن بام و در تو نہیں

چند اینٹوں کا نام گھر تو نہیں

سرِ رہ حال پوچھنے والے

دل کی ہر بات مختصر تو نہیں

کیا کسی پر یقیں کریں باقیؔ

بے سہارا ہیں بے خبر تو نہیں

٭٭٭

وقف رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں

دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں

صحبت شیشہ گراں سے انکار

سنگ آئنہ بنا ہے کہ نہیں

ہر کرن وقتِ سحر کہتی ہے

روزن دل کوئی وا ہے کہ نہیں

رنگ ہر بات میں بھرنے والو

قصہ کچھ آگے بڑھا ہے کہ نہیں

زندگی جرم بنی جاتی ہے

جرم کی کوئی سزا ہے کہ نہیں

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں

کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

زخمِ دل منزل جاں تک آئے

سنگ رہ ساتھ چلا ہے کہ نہیں

کھو گئے راہ کے سناٹے میں

اب کوئی دل کی صدا ہے کہ نہیں

ہم ترسنے لگے بوئے گل کو

کہیں گلشن میں صبا ہے کہ نہیں

حکمِ حاکم ہے کہ خاموش رہو

بولو اب کوئی گلہ ہے کہ نہیں

چپ تو ہو جاتے ہیں لیکن باقیؔ

اس میں بھی اپنا بھلا ہے کہ نہیں

٭٭٭

اٹھ گئے بزم سے میخوار! نہیں کوئی نہیں

ہیں کہیں صبح کے آثار! نہیں کوئی نہیں

ایک بیکس کے تقاضوں کی حقیقت ہی کیا

میں محبت کا طلبگار! نہیں کوئی نہیں

ظلم، ادبار، ہوس، وہم، عداوت، نفرت

ہیں کوئی جینے کے آثار! نہیں کوئی نہیں

فصلِ گل آئی کھنکنے لگے ساغر لیکن

میں تبسم کا سزاوار! نہیں کوئی نہیں

دب گئے ان کی نگاہوں کے اثر سے باقیؔ

کر لیا جرم کا اقرار! نہیں کوئی نہیں

1/1/1947

٭٭٭

وضعداری کیا حقیقت راس آ سکتی نہیں

غم وہ شعلہ ہے جسے دنیا بجھا سکتی نہیں

وہ سہارا دے رہے ہیں میرے احساسات کو

اب محبت دونوں عالم میں سما سکتی نہیں

عقل نے اوہام یوں رستے میں لا کر دکھ دیے

زندگی دنیا کو اک مرکز پہ لا سکتی نہیں

دل کی آزادی بجا، نظروں کی بیباکی درست

زیست کیوں اس پر بھی کھل کر مسکرا سکتی نہیں

کچھ تو ہو باقیؔ جہاں کی چیرہ دستی کا علاج

زندگی اب اور بارِ غم اٹھا سکتی نہیں

1/1/1950

٭٭٭

غمِ دل کیا، غمِ دنیا بھی نہیں

تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں

زندگی حدِ نظر تک چپ ہے

نغمہ کیسا کوئی نالہ بھی نہیں

سرسری ربط کی امید ہی کیا

اس پہ یہ ظلم کہ ایسا بھی نہیں

بات لب پر بھی نہیں آ سکتی

اور تجھ سے کوئی پردا بھی نہیں

چپ رہیں ہم تو گلے ہوتے ہیں

کچھ کہیں تو کوئی سنتا بھی نہیں

ابھی کر دیں تجھے دنیا کے سپرد

ابھی جی بھر کے تو دیکھا بھی نہیں

کبھی ہر موج قدم لیتی ہے

کبھی تنکے کا سہارا بھی نہیں

انتہائے غمِ دنیا معلوم

اب نظر محوِ تماشا بھی نہیں

گرد راہوں پہ جمی ہے باقیؔ

کیسی منزل کوئی چلتا بھی نہیں

٭٭٭

بات دیدہ کہیں شنیدہ کہیں

آؤ اس شوخ کا قصیدہ کہیں

دل کا قصہ طویل ہوتا ہے

اس کے اوصاف چیدہ چیدہ کہیں

اس کی ہر اک ادائے رنگیں کو

زندگی پر خط کشیدہ کہیں

اور ہوتی ہے رسم شہر خیال

کیوں کسی کو ستم رسیدہ کہیں

کب وہ دشتِ وفا میں آیا تھا

کیوں ایس آہوئے رمیدہ کہیں

اس کی ہر بات کو کہیں تلوار

اپنے سر کو سر بریدہ کہیں

اس کے شعلوں کو دیں صبا کا نام

اپنے ہر رنگ کو پریدہ کہیں

جام کو جامِ جم سے دیں نسبت

اپنے خوں کو مئے چکیدہ کہیں

غیر سے دوستی مبارک ہو

اور اب کیا وفا گزیدہ کہیں

اب وہ رنگ جہاں نہیں باقیؔ

کس سے حالِ دل تپیدہ کہیں

٭٭٭

جھک گئی آنکھ عرضِ حال کے ساتھ

بات جاتی رہی سوال کے ساتھ

اے غم زیست اس پہ کیا گزری

اک تمنا بھی تھی خیال کے ساتھ

احتیاط غمِ حیات نہ پوچھ

چل دیے ہم جہاں کی چال کے ساتھ

ایک الزام بن گئی باقیؔ

فکرِ فردا بھی ذکر حال کے ساتھ

1/1/1949

٭٭٭

آرزو کی ہے اس ادا کے ساتھ

حوصلہ بڑھ گیا سزا کے ساتھ

موج حالات کا فریب نہ پوچھ

ہم ابھرتے ہیں ہر صدا کے ساتھ

اپنی آواز پر گماں کیسا

ہو گئے چپ نہ ہمنوا کے ساتھ

بات کی داستان کیا معنی

درد تھا درد آشنا کے ساتھ

اپنا دامن بھی وہ بچاتے ہیں

بے تکلف بھی ہیں گدا کے ساتھ

ایسے موسم کی انتہا معلوم

دل برسنے لگا گھٹا کے ساتھ

کسی گل کے نہ ہم رہے باقیؔ

دو قدم کیا چلے صبا کے ساتھ

٭٭٭

دل تیری اداؤں سے کھچا اور زیادہ

ہم ہو گئے دنیا سے خفا اور زیادہ

دل خون ہوا جاتا ہے دنیا کی ادا سے

یہ رنگ جما جتنا اڑا اور زیادہ

کیا داغ جلے دل کے بہ انداز چراغاں

احساس اندھیرے کا ہوا اور زیادہ

اس طرح مرے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھے

اس طرح تو گونجے گی صدا اور زیادہ

اب صورت آوارہ صدا، دل سے گزرنا

اب ٹھہرے تو چیخے گا خلا اور زیادہ

جب پڑتا ہے پھولوں پہ ترے حسن کا پرتو

گلشن میں مچلتی ہے صبا اور زیادہ

اس طرح وہ بت آیا مری راہ میں باقیؔ

یاد آنے لگا مجھ کو خدا اور زیادہ

٭٭٭

آنکھوں میں ہے سوالوں جوابوں کا سلسلہ

ٹوٹا نہیں ابھی ترے خوابوں کا سلسلہ

دنیا کے رنگ رنگ میں حسرت کی کروٹیں

موجوں کے ساتھ ساتھ جبالوں کا سلسلہ

پیچھے نہ موج ریگِ رواں کے چلے چلیں

ہو گا کہیں تو ختم سرابوں کا سلسلہ

موجِ بہار کے بھی قدم لڑ کھڑا گئے

جاتا ہے کتنی دور خرابوں کا سلسلہ

لفظوں تک آ گیا ہے جنوں کا معاملہ

دل کے ادھر ادھر ہے کتابوں کا سلسلہ

گھٹتا ہی جائے گا نگہِ شوق کا مقام

بڑھتا ہی جائے گا یہ حجابوں کا سلسلہ

باقیؔ تری نگاہ کی دیوار بن گیا

چہروں کا مرحلہ کہ نقابوں کا سلسلہ

٭٭٭

ہم سخن ہے نہ ہم نوا کوئی

کس توقع پہ دے صدا کوئی

اب تصور بھی ساتھ دے نہ سکے

دور اتنا نکل گیا کوئی

منزلوں خود سے بڑھ گئے آگے

دو قدم ساتھ جب چلا کوئی

زندگی راستہ ہے یا منزل

چل دیا سوچتا ہوا کوئی

کس توقع پہ آرزو کی تھی

کام آیا نہ آسرا کوئی

آس ٹوٹی کچھ اسطرح باقیؔ

جیسے پردہ سا اٹھ گیا کوئی

٭٭٭

سامنے بیٹھ کے ہر بات ہوئی

پھر بھی ان سے نہ ملاقات ہوئی

یوں تو کیا کچھ نہیں ہوتا لیکن

پوچھئے اس سے جسے مات ہوئی

دل ہی جب ٹوٹ گیا تو پھر کیا

نہ ہوئی یا بسر اوقات ہوئی

آپ پھر بیچ میں بول اٹھے ہیں

کب ابھی ختم مری بات ہوئی

میرے ہوتے تو وہ چپ تھے باقیؔ

کیا مرے بعد کوئی بات ہوئی

1/1/1951

٭٭٭

وہ پو پھٹی، وہ سحر آئی، رات ختم ہوئی

پھر ایک بات چھڑی، ایک بات ختم ہوئی

رہِ حیات کے ہر موڑ پر یہ غم توبہ

ابھی حیات، ابھی کائنات ختم ہوئی

مریضِ عشق نے لو شرح زندگی کر دی

چھڑی تھی آہ سے ، ہچکی پہ بات ختم ہوئی

مرے جنوں ہی نے بحث حیات چھیڑی تھی

مرے جنوں ہی پہ بحث حیات ختم ہوئی

ہمیں نے عشق کیا اختیار جب باقیؔ

جہاں سے رسم و رہ التفات ختم ہوئی

1/1/1947

٭٭٭

اٹھ کر مری نظر ترے رخ پہ ٹھر گئی

وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی

کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر منظر حیات

اک زخم کھا کے آئی جدھر بھی نظر گئی

تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں

اک اک کلی کے پاس نسیمِ سحر گئی

شبنم ہو، کہکشاں ہو، ستارے ہوں، پھول ہوں

جو شے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی

ہر چند میرے غم کا مداوا نہ ہو سکا

پھر بھی تری نگاہ بڑا کام کر گئی

وارفتگان شوق کا باقیؔ نہ حال پوچھ

دل سے اکٹھی وہ موج کہ سر سے گزر گئی

٭٭٭

کشتی نقش وہ چھوڑ گئی

رخ دریا کا موڑ گئی

کیسی آواز آئی تھی

کیا سناٹا چھوڑ گئی

دل کی ایک کرن باقیؔ

سب آئنے توڑ گئی

٭٭٭

آئی نہ پھر نظر کہیں جانے کدھر گئی

ان تک و ساتھ گردشِ شام و سحر گئی

کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر جلوہ حیات

لوٹ آئی زخم کھا کے جدھر بھی نظر گئی

آ دیکھ مجھ سے روٹھنے والے ترے بغیر

دن بھی گزر گیا، شبِ غم بھی گزر گئی

شبنم ہو، کہکشاں ہو، ستارے ہوں، پھول ہوں

جو شے تمہارے سامنے آئی، نکھر گئی

باقیؔ بس ایک دل کے سنبھلنے کی دیر تھی

ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر ٹھہر گئی

تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں

اک اک کلی کے اس نسیمِ سحر گئی

نادم ہے اپنے اپنے قرینے پہ ہر نظر

دنیا لہو اچھال کے کتنی نکھر گئی

شبنم ہو، کہکشاں ہو ستارے ہوں پھول ہوں

جو شے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی

1/1/1950

٭٭٭

ان کے لبوں پر آ کے مری بات رہ گئی

انگڑائی لے کے موج خرابات رہ گئی

پھر رخ بدل دیا غمِ ہستی نے دہر کا

پھر زیرِ بحث آ کے تری ذات رہ گئی

ہونے کو ان سے سینکڑوں باتیں ہوئیں مگر

جس بات کا گلہ تھا وہی بات رہ گئی

باقیؔ کسی سے ان کی شکایت نہ کر سکے

کچھ یوں بدل کے صورت حالات رہ گئی

1/1/1949

٭٭٭

کوئی ان کی خبر نہیں آتی

بات بنتی نظر نہیں آتی

تلخی شب نہ جس میں شامل ہو

کوئی ایسی سحر نہیں آتی

کس سے پوچھیں بہار کی باتیں

اب صبا بھی ادھر نہیں آتی

اٹھ گئی ہے وفا ہی دنیا سے

بات اک آپ پر نہیں آتی

زندگی ہے وہ آئنہ جس میں

اپنی صورت نظر نہیں آتی

دل پہ کھلتی ہے جب حقیقت غم

پھر ہنسی عمر بھر نہیں آتی

کون سی شے کی ہے کمی باقیؔ

زندگی راہ پر نہیں آتی

٭٭٭

بے کلی بے سبب نہیں ہوتی

اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی

ہم کہاں تک گلہ کریں غم سے

آپ سے بھول کب نہیں ہوتی

فکر جاں بے سبب نہیں ہوتی

اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی

کھل کے باتیں کرو کہ اب ہم سے

گفتگو زیرِ لب نہیں ہوتی

دل کی حالت عجیب ہوتی ہے

کوئی امید جب نہیں ہوتی

ہر نئے حادثے پہ حیرانی

پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی

ہم کہاں تک گلے کریں باقیؔ

وہ نظر دور کب نہیں ہوتی

کوئی باقیؔ سنے سنے نہ سنے

داستاں ختم اب نہیں ہوتی

٭٭٭

زنجیر ہوس دل کو رہائی نہیں دیتی

کیا جلتی ہوئی آگ دکھائی نہیں دیتی

دنیا کے لیے بھول گئے اپنے خدا کو

کیا قبر کی آواز سنائی نہیں دیتی

کیا اپنے سوا کوئی نظر آئے نہ ہم کو

کیوں دل کو سکوں بات پرائی نہیں دیتی

جو مانگنا ہے مانگئے وہ اللہ سے اپنے

تسکیں کبھی دنیا کی گدائی نہیں دیتی

احساس سفر سے یہ گرہ کھلتی ہے باقیؔ

منزل کی خبر آبلہ پائی نہیں دیتی

٭٭٭

رنگِ محفل ہے ادا سے تیری

کوئی اٹھ جائے بلا سے تیری

دل تری بزم میں لے آتا ہے

ہم تو واقف ہیں رضا سے تیری

مرگ و ہستی کی حدیں ملنے لگیں

بات چل نکلی وفا سے تیری

تیرے جانے پہ ہوا ہے معلوم

شمعِ روشن تھی ضیا سے تیری

وقت جب چال کوئی چلتا ہے

یاد دیتی ہے دلاسے تیری

تیری آمد کا بہانہ ہے بہار

پھول کھلتے ہیں صدا سے تیری

بوئے گل دیکھی ہے رسوا ہوتے

کیا کریں بات صبا سے تیری

کرتے پھرتے ہیں بگولے باقیؔ

بات ہر آبلہ پا سے تیری

٭٭٭

پھول بکھرے ہیں خاک پر ساقی

بام افلاک سے اتر ساقی

میکدہ اور مہیب سناٹا

بے رخی اور اس قدر ساقی

تشنہ کامی سی تشنہ کامی ہے

دل میں پڑنے لگے بھنور ساقی

بجھ رہا ہے چراغ ہے خانہ

رگ ساغر میں خون بھر ساقی

بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے

فصلِ گل کی کوئی خبر ساقی

رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح

رنگِ محفل پہ اک نظر ساقی

بے ارادہ چھلک چھلک جانا

جامِ مے ہے کہ چشمِ تر ساقی

اک کرن اس طرف سے گزری ہے

ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی

توڑ کر سب حدود میخانہ

بوئے مے کی طرح بکھر ساقی

جانے کل رنگ زندگی کیا ہو

وقت کی کروٹوں سے ڈر ساقی

رات کے آخری تبسم پر

مئے باقیؔ نثار کر ساقی

٭٭٭

جب سایہ آدمی کا پڑا سر کا آدمی

اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی

گرتا ہے اپنے آپ پہ دیوار کی طرح

اندر سے جب چٹختا ہے پتھر کا آدمی

مٹی کی بات کرتا ہے کس اہتمام سے

سونے کی سل پہ بیٹھ کے مرمر کا آدمی

سائے کا ایک طور نہ چلمن کا ایک رنگ

دیوار کا رہا نہ کسی در کا آدمی

ہر صبح اٹھ کے زیست کی دیوار چاٹنا

باہر سے کتنا دور ہے اندر کا آدمی

باقیؔ یہ پھیلتے ہوئے رنگوں کے دائرے

باہر ہی باہر اڑتا ہے باہر کا آدمی

٭٭٭

کیا ملے گی ہمیں خبر اپنی

ہے گراں خود پہ اک نظر اپنی

دوسروں کے بھلے میں بھی اے دوست

فکر ہوتی ہے بیشتر اپنی

اک سحر ظلمت جہاں سے دور

کہہ سکیں ہم جسے سحر اپنی

کارواں ہے قریب منزل کے

اب کرے فکر راہبر اپنی

پوچھتے ہیں جہاں کی ہم باقیؔ

اور کہتا ہے چارہ گر اپنی

1/1/1951

٭٭٭

منزل کی خبر نہ رہگزر کی

کیسی صورت ہے یہ سفر کی

بوجھ پلکیں، اداس نظریں

فریاد ہے میری چشمِ تر کی

اندر سے ٹوٹتے رہے ہیں

باہر سے زندگی بسر کی

دل کے قصے ہیں کیا رکھا ہے

باتیں ہیں کچھ ادھر ادھر کی

میں رات اداس ہو گیا تھا

اتنی تھی روشنی قمر کی

کچھ ہم میں نہیں بیاں کی طاقت

کچھ وقت نے بات مختصر کی

اندر کچھ اور داستاں ہے

سرخی کچھ اور ہے خبر کی

٭٭٭

ہر آہِ پر نظر ہے عم صبح و شام کی

پہلی سی بات اب نہیں تیرے غلام کی

اٹھی نہ جب نگاہ کسی تشنہ کام کی

ساقی کو پڑ گئی خم و مینا و جام کی

رکھ دو مرے غموں کو بھی دنیا کے سامنے

کڑیاں ہیں یہ بھی سلسلہ صبح و شام کی

ہر ایک معرکے میں رہا گرچہ پیش پیش

لیکن کہیں چلی نہ دل تیز گام کی

ان خشک وادیوں سے کوئی آشنا نہ تھا

باقیؔ ہے میرے نام سے شہرت سہام کی

1/1/1946

٭٭٭

اب نہیں تاب زخم کھانے کی

کر نہ تکلیف مسکرانے کی

ہے خبر گرم ان کے آنے کی

کون سنتا ہے اب زمانے کی

زندگی پھر نہ راہ پر آئی

دیر تھی اک فریب کھانے کی

سب کی نظروں میں ہم کھٹکنے لگے

یہ سزا ہے مراد پانے کی

تھا زمانہ بھی مہرباں باقیؔ

جب ضرورت نہ تھی زمانے کی

1/1/1946

٭٭٭

موج ساحل سے جب جدا ہو گی

ایک طوفاں کی ابتدا ہو گی

مجھ سے پوچھو نہ داستاں میری

میری ہر بات ناروا ہو گی

مدعا خامشی تک آ پہنچا

اب نگاہوں سے بات کیا ہو گی

دل انوکھا چراغ ہے باقیؔ

بجھ کے بھی روشنی سوا ہو گی

٭٭٭

تری نظر کے اشاروں کو ساتھ لائے گی

امید اپنے سہاروں کو ساتھ لائے گی

وہی نظر مرے رستے میں بن گئی دیوار

گماں تھا جس پہ نظاروں کو ساتھ لائے گی

تری نظر ہی کا اب انتظار لازم ہے

تری نظر ہی بہاروں کو ساتھ لائے گی

بہت نحیف سہی موج زندگی پھر بھی

مچل گئی تو کناروں کو ساتھ لائے گی

تو آنے والے زمانے کا غم نہ کر باقیؔ

کہ رات اپنے ستاروں کو ساتھ لائے گی

1/1/1948

٭٭٭

شفق کی آگ کہانی کوئی سنانے لگی

کسی کے خون کی بو راستوں سے آنے لگی

ملی ہے ایک زمانے کو روشنی جن سے

ہوائے دہر وہی مشعلیں بجھانے لگی

تھا جس خیال پہ قائم حیات کا ایواں

اسی خیال سے تلخی دلوں میں آنے لگی

سحر کے آئنے کا کوئی اعتبار نہیں

کلی تو دیکھ کے عکس اپنا مسکرانے لگی

میں اپنے دل کے بھنور سے نکل نہیں سکتا

تمہاری بات تو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی

گلوں کے منہ میں زمانے نے آگ رکھ دی ہے

بہار اپنا ہی خوں پی کے لڑکھڑانے لگی

نسیم گزری ہے زنداں سے اس طرح باقیؔ

شکستِ دل کی صدا دور دور جانے لگی

٭٭٭

کرم ہے ہم پہ تیری اک نظر بھی

مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی

جو لے جاتی ہیں ہاتھوں پر سفینہ

انہی موجوں سے بنتے ہیں بھنور بھی

عنایت ایک تہمت بن نہ جائے

نظر کے ساتھ جھک جائے نہ سر بھی

ترے نغموں میں بھی کھویا ہوا ہوں

لگے ہیں کان دل کے شور پر بھی

چلا ہاتھوں سے دامانِ تمنا

ذرا اے سیلِ رنگ و بو ٹھہر بھی

لہو میں تر ہیں کا ٹوں کی زبانیں

کسی کو ہے گلستاں کی خبر بھی

لو اب تو دل کے سناٹے میں باقیؔ

ہوا شامل سکوت بام و در بھی

٭٭٭

ترے حضور ہوں، فکر حیات ہے پھر بھی

مرے لبوں پہ زمانے کی بات ہے پھر بھی

اگرچہ اس میں تری کوششیں بھی شامل ہیں

یہ کائنات مری کائنات ہے پھر بھی

کہاں حقیقت جلوہ، کہاں فریب شرار

ہزار شمعیں جلیں رات رات ہے پھر بھی

٭٭٭

دل قتیل ادا تھا پہلے بھی

کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی

ہم تو ہر دور کے مسافر ہیں

ظلم ہم پر روا تھا پہلے بھی

دل کے صحراؤں کو بسائے کوئی

شہر تو اک بسا تھا پہلے بھی

وقت کا کوئی اعتبار نہیں

ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی

ہر سہارا پہاڑ کی صورت

اپنے سر پر گرا تھا پہلے بھی

دل کو باتوں سے ناپتے ہیں لوگ

ذکر اپنا چلا تھا پہلے بھی

آپ ہی آپ سامنے تھے ہم

ایک پردہ اٹھا تھا پہلے بھی

منزلِ دل کی جستجو معلوم

دور اک قافلہ تھا پہلے بھی

کس نے دیکھا ہے غم کا آئنہ

دل تماشا بنا تھا پہلے بھی

یہی رنگ چمن کی باتیں تھیں

یہی شور صبا تھا پہلے بھی

پھول مہکے تھے رند بہکے تھے

جشن برپا ہوا تھا پہلے بھی

زیست کے ان فسانہ خوانوں سے

اک فسانہ سنا تھا پہلے بھی

کسی در پر جھکے نہ ہم باقیؔ

اپنا رستہ جدا تھا پہلے بھی

٭٭٭

دل سے باہر ہیں خریدار ابھی

سامنے ہے بھرا بازار ابھی

آدمی ساتھ نہیں دے سکتا

تیز ہے سائے کی رفتار ابھی

یہ کڑی دھوپ یہ رنگوں کی پھوار

ہے ترا شہر پراسرار ابھی

دل کو یوں تھام رکھا ہے جیسے

بیٹھ جائے گی یہ دیوار ابھی

آنچ آتی ہے صبا سے باقیؔ

کیا کوئی گل ہے شرر بار ابھی

٭٭٭

فاصلہ دل کا مختصر ہے ابھی

فیصلہ اک نگاہ پر ہے ابھی

چاند شب کے گلے میں اٹکا ہے

دور ہنگامۂ سحر ہے ابھی

سائے قدموں کو روک لیتے ہیں

اک دیوار ہر شجر ہے ابھی

گھر کے اندر نظر نہیں جاتی

راہ میں حسن بام و در ہے ابھی

راستے گونجتے ہیں دل کی طرح

ایک آواز ہم سفر ہے ابھی

راہ بھی گرد، منزلیں بھی گرد

ہر قدم اک نئی خبر ہے ابھی

کچھ تعلق صبا سے ہے باقیؔ

دل کے دامن میں اک شرر ہے ابھی

٭٭٭

یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی

وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی

ترے شگفتہ شگفتہ نقوشِ پا کے طفیل

مری نظر میں ہر اک راہ کہکشاں تھی کبھی

مری نگاہ سے تیرا غرور روشن تھا

تری نگاہ سے دنیا مری جواں تھی کبھی

براہِ راست نظر تجھ سے بات کرتی تھی

نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی

کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے

وہاں نہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی

1/1/1945

٭٭٭

یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی

تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی

ترے شگفتہ شگفتہ نقوشِ پا کے طفیل

مری نگاہ میں ہر راہ کہکشاں تھی کبھی

مرے خیال سے تیرا غرور روشن تھا

تری نگاہ سے دنیا میری جواں تھی کبھی

ترے تبسمِ رنگیں سے پھول کھلتے تھے

مری حیات بہاروں ی داستاں تھی کبھی

وہ بے خودی مری، وہ تیرے قرب کا احساس

نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی

کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے

وہاں ہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی

٭٭٭

چل سکے دل کے نہ ہمراہ نظر کے ساتھی

راہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی

ہر کنارے کی طرف صورت دریا دیکھو

راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی

قافلے شور مچاتے ہوئے گزرے لیکن

اپنی دیوار سے آئے نہ اتر کے ساتھی

خشک شاخوں پہ سرِ شام جو آ بیٹھتے ہیں

وہی دو چار پرندے ہیں شجر کے ساتھی

چاک دامن کا گلہ کرتے رہے ہم باقیؔ

اور محفل سے اٹھے جھولیاں بھر کے ساتھی

٭٭٭

وہ نظر آئنہ فطرت ہی سہی

مجھے حیرت ہے تو حیرت ہی سہی

زندگی داغِ محبت ہی سہی

آپ سے دور کی نسبت ہی سہی

تم نہ چاہو تو نہیں کٹ سکتی

ایک لمحے کی مسافت ہی سہی

دل محبت کی ادا چاہتا ہے

ایک آنسو دمِ رخصت ہی سہی

آب حیواں بھی نہیں مجھ پہ حرام

زہر کی مجھ کو ضرورت ہی سہی

اپنی تقدیر میں سناٹا ہے

ایک ہنگامے کی حسرت ہی سہی

اس قدر شور طرب کیا معنی

جاگنے کی مجھے عادت ہی سہی

بزم رنداں سے تعلق کیسا

آپ کی میز پہ شربت ہی سہی

حد منزل ہے مقرر باقیؔ

رہرو شوق کو عجلت ہی سہی

٭٭٭

کچھ اس طرح وہ مری زندگی کے پاس آئے

سنبھل سنبھل کے ٹھکانے مرے حواس آئے

تو ہی بتا کہ اسے کس طرح میں سمجھاؤں

تری شکایتیں لے کر جو میرے پاس آئے

حیات راس نہ آئی اگرچہ دل میں مرے

بدل بدل کے امیدوں کا وہ لباس آئے

کل ان کی بزم میں گزری ہے تم پہ کیا باقیؔ

کہ شاد شاد گئے اور اداس اداس آئے

1/1/1946

٭٭٭

ہم کہیں آئنہ لے کر آئے

لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے

دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں

زلزلے کیا مرے اندر آئے

جلوہ، جلوے کے مقابل ہی رہا

تم نہ آئنے سے باہر آئے

دل سلاسل کی طرح بجنے لگا

جب ترے گھر کے باربر آئے

جن کے سائے میں صبا چلتی تھی

پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے

شعر کا روپ بدل کر باقیؔ

دل کے کچھ زخم زباں پر آئے

٭٭٭

جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے

متاعِ درد تو ہم راہ میں لٹا آئے

وہ گرد اڑاتی کسی نے کہ سانس گھٹنے لگی

ہٹے یہ راہ سے دیوار تو ہوا آئے

کسی مقام تمنا سے جب بھی پلٹے ہیں

ہمارے سامنے اپنے ہی نقشِ پا آئے

نمو کے بوجھ سے شاخیں نہ ٹوٹ جائیں کہیں

تم آؤ تو کوئی غنچہ کھلے ، صبا آئے

یہ دل کی پیاس یہ دنیا کے فاصلے باقیؔ

بہت قریب سے اب تو کوئی صدا آئے

٭٭٭

سوزِ دل، زخمِ جگر لے آئے

حادثے زادِ سفر لے آئے

دست گلچیں ہے کہ شاخِ گل ہے

جب اٹے اک گلِ تر لے آئے

ننگ ہستی ہے سکوت ساحل

کوئی طوفاں کو ادھر لے آئے

اپنی حالت نہیں دیکھی جاتی

ہم کو حالات کدھر لے آئے

تجھ سے مل کر بھی نہ تجھ کو پایا

غم بہ اندازِ دگر لے آئے

زندگی اس کی ہے جو دنیا کو

زندگی دے کے نظر لے آئے

دامن لالۂ گل سے باقیؔ

مل سکے جتنے شرر لے آئے

٭٭٭

ایسے دل پر بھی کوئی کیا جائے

سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے

اب ہے وہ زخم نظر کا عالم

تیری جانب بھی نہ دیکھا جائے

کتنی سنسان ہے راہِ ہستی

نہ چلا جائے نہ ٹھہرا جائے

ہمرہو گوش بر آواز رہو

کیا خبر کوئی خبر آ جائے

زندگی اڑتا ہوا سایہ ہے

آگے آگے ہی سرکتا جائے

آرزو دیر سے چپ ہے باقیؔ

در پہ دستک کوئی دیتا جائے

٭٭٭

موج ساحل سے جب جدا ہو جائے

ایک طوفاں کی ابتدا ہو جائے

لاکھ مجبوریاں سہی لیکن

آپ چاہیں تو کیا سے کیا ہو جائے

ہم کہیں جو روا نہیں لیکن

تم کہو جو وہی روا ہو جائے

تیری رحمت پہ اس قدر ہے یقین

جب خیال آئے اک خطا ہو جائے

دل انوکھا چراغ ہے باقیؔ

جب بجھے روشنی سوا ہو جائے

1/1/1951

٭٭٭

وفا کے زخم ہم دھونے نہ پائے

بہت روئے مگر رونے نہ پائے

کچھ اتنا شور تھا شہرِ سبا میں

مسافر رات بھر سونے نہ پائے

جہاں تھی حادثہ ہر بات باقیؔ

وہیں کچھ حادثے ہونے نہ پائے

٭٭٭

مرحلے زیست کے آسان ہوئے

شہر کچھ اور بھی ویران ہوئے

اس لگاؤ پہ ہے اک شخص سے لاگ

تھی نئی بات کہ حیران ہوئے

وہ نظر اٹھنے لگی دل کی طرف

حادثے اب مرے ارمان ہوئے

آپ کو ہم سے شکایت کیسی

ہم تو غافل ہوئے نادان ہوئے

دل وارفتہ کی باتیں باقیؔ

یاد کر کر کے پشیمان ہوئے

٭٭٭

آپ کب مائل کرم نہ ہوئے

حادثات جہاں ہی کم نہ ہوئے

خیر ہو تیری کم نگاہی کی

ہم کبھی بے نیاز غم نہ ہوئے

آج ہی آئے سینکڑوں الزام

آج ہی انجمن میں ہم نہ ہوئے

لوح آزاد ہے قلم آزاد

پھر بھی کچھ حادثے رقم نہ ہوئے

شمع کی طرح ہم جلے باقیؔ

پھر بھی آگاہ رازِ غم نہ ہوئے

٭٭٭

ہم تری بزم سے بازار میں جب لائے گئے

دور تک ساتھ لپٹے ہوئے کچھ سائے گئے

ہائے یہ شوق کہ ہر لب پہ تھا پیغام سفر

وائے یہ وہم کہ ہر گام پہ ٹھہرائے گئے

گرچہ ہر بزم میں اک قصہ ترا چلتا تھا

پھر بھی کچھ قصے کسی طرح نہ دہرائے گئے

روز ہم اک نئے احساس کی تصویر بنے

روز ہم اک نئی دیوار میں چنوائے گئے

جس جگہ کھوئے ہیں اپنوں کی تمنا میں ہم

وہیں غیروں کی روایات میں ہم پائے گئے

کیا وفا کر کے ہوئے سب کی نظر میں مجرم

ایک عرصہ ترے کوچے میں نہ ہم آئے گئے

ہر قدم حلقۂ صد دام چمن تھا باقیؔ

ہار زنجیر کی صورت کبھی پہنائے گئے

٭٭٭

رک گئی برسات، ساغر تھم گئے

تھامنا اے ضبط الفت ہم گئے

کیا سمجھ سکتے وہ اسرار چمن

جو چمن میں صورت شبنم گئے

ایک عالم سرنگوں پایا گیا

جس طرف ہم لے کے تیرا غم گئے

غم کے ہیں یا ضبطِ غم کے ترجماں

اشک جو پللوں پہ آ کر تھم گئے

اس کے آگے کیا ہوا باقیؔ نہ پوچھ

بارگاہ حسن تک تو ہم گئے

1/1/1948

٭٭٭

بے کلی کو قرار مان گئے

لے غم زیست ہار مان گئے

آپ کے ساتھ ہی بہار گئی

آپ کا اختیار مان گئے

نہ وہ آئے نہ تو نے چین لیا

اے دل بیقرار مان گئے

اس نے جو کچھ کہا مرے حق میں

لوگ بے اختیار مان گئے

بات دشوار تھی مگر باقیؔ

مے ملی مے گسار مان گئے

1/1/1948

٭٭٭

تار دل کے ٹوٹ کر چپ ہو گئے

چپ نہ ہوتے تھے مگر چپ ہو گئے

سوچ کر آئے تھے ہم کیا کیا مگر

رنگِ محفل دیکھ کر چپ ہو گئے

کیا کبھی اس کا بھی آیا ہے خیال

کیوں ترے شوریدہ سر چپ ہو گئے

کہہ رہے تھے جانے کیا لوگوں سے وہ

مجھ کو آتا دیکھ کر چپ ہو گئے

میں نہیں گویا کسی کا ترجماں

ہمنوا یوں وقت پر چپ ہو گئے

اک اداسی بزم پر چھا جائے گی

ہم بھی اے باقیؔ اگر چپ ہو گئے

1/1/1951

٭٭٭

تیرے در تک نہیں جانے پاتے

ہم کہاں اور ٹھکانے پاتے

ہر قدم پر ہے نیا ہنگامہ

ہوش میں ہم نہیں آنے پاتے

جلوہ پردہ ہے تو پردہ جلوہ

کیا ترا بھید زمانے پاتے

تم عناں گیر جنوں ہو ورنہ

چور چور آئنہ خانے پاتے

لوگ غربت کا گلہ کرتے ہیں

ہم وطن سے نہیں جانے پاتے

درد ہوتا تو مسلسل ہوتا

دل کو ہم دل تو بنانے پاتے

غم اگر ساتھ نہ دیتا باقیؔ

دشت بھی ہم نہ بسانے پاتے

٭٭٭

ہم تیری محبت سے گزرنے نہیں پاتے

ایسے بھی ہیں کچھ زخم کہ بھرنے نہیں پاتے

ہر موج تمنا ہے سراب یمِ ہستی

ہم پیاس کے صحرا سے ابھرنے نہیں پاتے

وہ دھوپ کہ دیوار سرِ راہ کھڑی ہے

سائے بھی درختوں سے اترنے نہیں پاتے

اس طرح جکڑ رکھا ہے احساس وفا نے

ہم ٹوٹ تو جاتے ہیں بکھرنے نہیں پاتے

آ کر بھی صبا باغ میں لہرا نہیں سکتی

کھل کر بھی کئی پھول نکھرنے نہیں پاتے

وہ بھیڑ ہے اک گام بھی ہم چل نہیں سکتے

وہ شور ہے ہم بات بھی کرنے نہیں پاتے

ہر موج قدم دل سے گزر جاتی ہے باقیؔ

وہ تیز ہوا ہے کہ ٹھہرنے نہیں پاتے

٭٭٭

سو گئے دل کا ماجرا سنتے

رات بھر کیا صدائے پا سنتے

گو خموشی نہیں غموں کا علاج

پھر بھی کیا کہتے اور کیا سنتے

کارواں بھی گریز پا نکلا

ورنہ کیا کیا شکستہ پا سنتے

غمِ ہستی کا روگ کیا معنی

چل کے نغمہ بہار کا سنتے

کسی کنجِ طرب میں دم لیتے

مرغ آزاد کی نوا سنتے

حسن سرو و سمن کے پردے ہیں

داستانِ غم صبا سنتے

جرس غنچۂ امید کے ساتھ

طوق و زنجیر کی صدا سنتے

گاؤں جا کر کرو گے کیا باقیؔ

شور کچھ دیر شہر کا سنتے

٭٭٭

بے نشاں رہتے بے نشاں ہوتے

تم نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے

مہر و مہ کو نہ یہ ضیا ملتی

آسماں بھی نہ آسماں ہوتے

کہیں بن قبا نہ کھل سکتا

دشت ہوتے نہ گلستاں ہوتے

تم نے تفسیر دو جہاں کی ہے

ورنہ یہ راز کب عیاں ہوتے

تم دکھاتے اگر نہ راہ حیات

جانے کس سمت ہم رواں ہوتے

ہمیں اپنی جبیں نہ مل سکتی

اتنے غیروں کے آستاں ہوتے

ایک انسان بھی نہ مل سکتا

گرچہ آباد سب مکاں ہوتے

کھل نہ سکتی کلی مسرت کی

غم ہی غم زیب داستاں ہوتے

مقصد زندگی نہ پا سکتے

اپنی ہستی سے بدگماں ہوتے

ہمیں کوئی نہ آسرا ملتا

بے اماں ہوتے ہم جہاں ہوتے

تو نے بخشی ہے روشنی ورنہ

دیدہ و دل دھواں دھواں ہوتے

٭٭٭

تو عرضِ تمنا کو بھی جھگڑا کہہ دے

ہے بات یہی دل میں تو اچھا کہہ دے

انصاف کتابوں میں بھلا لگتا ہے

مجرم ہے وہ مجرم جسے دنیا کہہ دے

گلشن میں بہاروں کی نہیں کوئی کمی

ہاں ہاتھ نہ کچھ آئے تو صحرا کہہ دے

تو دوش ہوا پر ہے تری بات ہے کیا

جو حادثہ ہو اس کو تماشا کہہ دے

دنیا کسی نسبت سے مجھے یاد رکھے

دشمن ہوں تو دشمن مجھے اپنا کہہ دے

یہ سوچ کے ہر بات میں کہہ دیتا ہوں

شاید تو کبھی بھول کے اچھا کہہ دے

اس شخص کی باتوں کا بھروسا باقیؔ

جو رجم کو بھی دل کی تمنا کہہ دے

٭٭٭

اردگرد دیواریں اور درمیاں چہرے

بغض دوستاں چہرے لطف دشمناں چہرے

گردشِ زمانہ کا اک طویل افسانہ

یہ جلی جلی نظریں، یہ دھواں دھواں چہرے

نقش نقش پر برہم، داغ داغ پر خنداں

زندگی کی راہوں میں رہ گئے کہاں چہرے

قہقہوں کے ساغر میں ڈھل سکیں نہ وہ باتیں

موج لب سے پہلے کر گئے بیاں چہرے

موسموں کی تلخی کا کچھ سراغ دیتے ہیں

شاخ جسم نازک پر برگ بے زباں چہرے

اک خیال دنیا کا کر گیا سکوں برہم

اک ہوا کے جھونکے سے ہو گئے عیاں چہرے

رنگ و بو کی تصویریں آئنے بدلتی ہیں

خار کی خلش چہرے ، پھول کا گماں چہرے

کون جان سکتا ہے درد کی حقیقت کو

آب پر شکن ارماں، خاک پر ناں چہرے

رک گئے وہاں ہم بھی ایک دو گھڑی باقیؔ

جس جگہ نظر آئے چند مہرباں چہرے

٭٭٭

ہم تو دنیا سے بدگماں ٹھہرے

آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے

ہائے وہ قافلے جو لٹ کر بھی

زیر دیوارِ گلستاں ٹھہرے

آپ کو کارواں سے کیا مطلب

آپ تو میرِ کارواں ٹھہرے

زندگی چاہتی ہے ہنگامہ

اور ہم لوگ بے زباں ٹھہرے

کبھی تیری تلاش میں نکلے

کبھی بن کر ترا نشاں ٹھہرے

گردشِ دہر ساتھ ساتھ رہی

ہم جدھر بھی گئے ، جہاں ٹھہرے

ہر قدم پر تھا اک صنم خانہ

کیا بتائیں کہاں کہاں ٹھہرے

ہر نظر سنگِ راہ تھی باقیؔ

کیا بتائیں کہاں کہاں ٹھہرے

کچھ تو کج رو جہاں بھی ہے باقیؔ

اور کچھ ہم بھی قصہ خواں ٹھہرے

1/1/1950

٭٭٭

بوئے خوں آتی ہے پیمانے سے

رند اٹھ جائیں نہ میخانے سے

کوئی دنیا سے شکایت تو نہیں

کون پوچھے ترے دیوانے سے

کس کے ہنسنے کی صدا آئی ہے

دل میں چلنے لگے پیمانے سے

زندگی کا یہ معمہ باقیؔ

اور الجھا مرے سلجھانے سے

٭٭٭

خون اخلاص کی بو آتی ہے پیمانے سے

رند گھبرا کے نکل آئے ہیں میخانے سے

تیز ہوتا ہے جنوں اور بھی سمجھانے سے

کیا توقع کرے دنیا ترے دیوانے سے

اے ابھرتی ہوئی موجوں سے الجھنے والو

ڈوب مرنا کہیں بہتر ہے پلٹ آنے سے

کیا تری انجمن آرائیاں یاد آئی ہیں

کیوں پلٹ آئے ہیں وحشی ترے ویرانے سے

آرزوؤں کے معمے نہ ہوئے حل باقیؔ

زندگی اور الجھتی گئی سلجھانے سے

1/1/1945

٭٭٭

خار چن لے گا بہارِ ناز سے

ہم ہیں واقف قلب دشت انداز سے

تیرے قصوں نے پریشاں کر دیا

ہم نہ تھے مانوس ہر آواز سے

یہ ابھرتے ڈوبتے چہرے تو دیکھ

آشنا سے ، غیر سے ، دمساز سے

اڑ چلا وہ حسن صبح شام رنگ

اور اک نغمہ شکستہ ساز سے

دام گلشن تک تو باقیؔ آ گئی

بات چل کر حسرت پرواز سے

٭٭٭

ظاہر تھا وہ غم تری ’’نہیں‘‘ سے

ہم کچھ بھی نہ کہہ سکے یقیں سے

روداد حیات کیا سنائیں

ہے یاد مگر ہیں کہیں سے

جیسے یہ تیری ہی رہگزر ہے

ہم بیٹھ گئے ہیں کس یقیں سے

رستے سے ہے گر پلٹ کے آنا

بہتر ہے پلٹ چلو یہیں سے

جذبات میں بہہ گئے ہیں باقیؔ

واقف تھے نہ ہم دل حزیں سے

1/1/1951

٭٭٭

روٹھ گیا دل سب سے

آپ گئے ہیں جب سے

پہروں سونے والے

جاگ رہے ہیں کب سے

تاریکی، سناٹا

توبہ ایسی شب سے

کون وفا کا پیکر!

ہم واقف ہیں سب سے

غم ہی غم دیکھا ہے

آنکھ کھلی ہے جب سے

ہم مجرم ہیں لیکن

بات تو کیجے ڈھب سے

کیا لینا، کیا دینا

ہنس کر ملئے سب سے

بات کرو کچھ باقیؔ

چپ بیٹھے ہو کب سے

1/1/1951

٭٭٭

اٹھا نقاب جب رخِ صبحِ بہار سے

روئی صبا لپٹ کے ہر اک شاخسار سے

شاخوں میں تھی دبی ہوئی شاید خزاں کی آگ

گلشن بھڑک اٹھا ہے نسیم بہار سے

گزرے ہوئے دنوں کے تصور سے فائدہ

کیا روشنی ملے گی چراغِ مزار سے

روداد گلستاں کو نیا رنگ دے گیا

رستا رہا ہے خون جو زخم بہار سے

باقیؔ کبھی جلی تھیں محبت کی بستیاں

راہوں میں اڑ رہے ہیں ابھی تک شرار سے

٭٭٭

اعتبار نظر کریں کیسے

ہم ہوا میں بسر کریں کیسے

تیرے غم کے ہزار پہلو ہیں

بات ہم مختصر کریں کیسے

رخ ہوا کا بدلتا رہتا ہے

گرد بن کر سفر کریں کیسے

خود سے آگے قدم نہیں جاتا

مرحلہ دل کا سر کریں کیسے

ساری دنیا کو ہے خبر باقیؔ

خود کو اپنی خبر کریں کیسے

٭٭٭

بھٹک نہ جائیں رہ نو نکالنے والے

قدم قدم پہ ملیں گے سنبھالنے والے

شبِ فراق کا احساس ہی نہ مٹ جائے

شبِ فراق کو ہنس ہنس کے ٹالنے والے

بہار بزم میں تحلیل ہو گیا ہوں میں

کہاں ہیں بزم سے مجھ کو نکالنے والے

غمِ حیات کی منزل ارے معاذ اللہ

سنبھل سکے نہ جہاں کو سنبھالنے والے

نہ بھول جائیں کہیں اپنے آپ کو باقیؔ

خوشی کو ٹالیں مصیبت کو ٹالنے والے

1/1/1945

٭٭٭

ڈر کے حالات سے دامن کو بچانے والے

ہم ترے واسطے مقتل میں تھے جانے والے

خندہ گل کی حقیقت یہ کبھی ایک نظر

اے بہاروں کی طرح راہ میں آنے والے

وقت کے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں

آئنہ گردشِ دوراں کو دکھانے والے

ختم ہنگامہ ہوا جب تو کھڑا سوچتا ہوں

آپ ہی چور نہ ہوں شور مچانے والے

غیر کے وصف کو بھی عیب کریں گے ثابت

تنگ دل اتنے کبھی تھے نہ زمانے والے

کوئی بات آ گئی کیا ان کی سمجھ میں باقیؔ

کس لیے چپ ہیں ہنسی میری اڑانے والے

٭٭٭

تباہی کے بادل ہیں لہرانے والے

کہاں ہیں زمانے کا غم کھانے والے

غمِ زندگی سے نظر تو ملائیں

غم عشقِ پر ناز فرمانے والے

زمانہ کسی کا ہوا ہے نہ ہو گا

ارے او فریبِ وفا کھانے والے

نظر اے فقیر سرِ راہ پر بھی

طواف حرم کے لیے جانے والے

چلو جام اک اور پی آئیں باقیؔ

ابھی جاگتے ہوں گے میخانے والے

1/1/1949

٭٭٭

جوش جنوں میں زیست کے سارے نشاں جلے

منزل جلی، مقام جلے ، کارواں جلے

اہلِ ستم پہ اہلِ ستم کا ستم نہ پوچھ

اک آستاں کے بدلے کئی آستاں جلے

فصلِ بہار میں جو نکالے گئے ندیم

ان کی بلا سے باغ جلے ، باغباں جلے

مجبوریوں کا نام ہی شاید ہے بیکسی

نظروں کے سامنے بھی کئی آشیاں جلے

باقیؔ ستمگروں کی ادائے ستم نہ پوچھ

زنداں وہیں بنائے نشیمن جہاں جلے

1/1/1947

٭٭٭

نہ مے بدلی نہ مے کے جام بدلے

جہاں نے میکدوں کے نام بدلے

وہی گلشن، وہی گلشن کے انداز

فقط صیاد بدلے ، دام بدلے

جو ہم بدلے و کوئی بھی نہ بدلا

جو تم بدلے تو صبح و شام بدلے

بدلنے کو ہیں میخواروں کی نظریں

بلا سے رخ نہ دورِ جام بدلے

فضائے زیست باقیؔ خاک بدلی

نہ دل بدلا نہ دل کے کام بدلے

1/1/1949

٭٭٭

غم اور خوشی کے راستے آ کر جہاں ملے

کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے

جن کے طفیل بزم تمنا میں رنگ تھا

وہ لوگ تجھ کو گردشِ دوراں کہاں ملے

راہوں پہ آج ان کا تصور بھی ہے گراں

منزل کے پاس کل جو ہمیں کارواں ملے

اہلِ نظر سے دل کی مہم سر نہ ہو سکی

کچھ سرنگوں ملے ہیں تو کچھ سرگراں ملے

روداد شوق تشنۂ اظہار ہی رہی

ملنے کو ہم خیال ملے ، ہم زباں ملے

خوں رو رہے تھے کل جو بہاروں کی یاد میں

وہ آج بے نیاز غم گلستاں ملے

باقیؔ نہ تھی اگرچہ فریب وفا کی تاب

پھر بھی رکے نقوش محبت جہاں ملے

٭٭٭

الٹی بساط میکدہ، جام ہوس چلے

ساقی کا خون پی لیں جو رندوں کا بس چلے

ممکن ہے آ ملے کوئی گم گشتہ راہرو

تھوڑی سی دور اور صدائے جرس چلے

کیوں چھا رہی ہے بزمِ جہاں پر فسردگی

دو دن تو اور ساغر سوز نفس چلے

اے خالق بہار یہ کیسی بہار ہے

ہم اک تبسمِ گلِ تر کو ترس چلے

ہر سمت ہیں بہار پہ پہرے لگے ہوئے

بادِ صبا چلے تو قفس تا قفس چلے

یا اس طرح کسی کو پیام سفر نہ دے

یا ہم کو ساتھ لے کے صدائے جرس چلے

باقیؔ یہ اختلاف یہ نفرت یہ حادثے

ہم تو نہ ہوں جہاں میں جو دنیا کا بس چلے

باقیؔ وہی تپش ہے وہی رنگ و بو کی پیاس

کہنے کو جھوم جھوم کے بادل برس چلے

1/1/1947

٭٭٭

نہ اپنے دل کے نہ اپنی زباں کے ساتھ چلے

فریب خوردہ تھے ہر مہرباں کے ساتھ چلے

کتاب دورِ جہاں کے وہ لفظ ہیں ہم لوگ

ہر اک فسانے ہر اک داستاں کے ساتھ چلے

وہ پی کے ہوش میں آئے کہ ہوش کھو بیٹھے

کھچ ایسے قصے مئے ارغواں کے ساتھ چلے

کہاں کا سود کہ اپنا خیال بھی نہ رہا

زیاں کی فکر میں ہم ہر زیاں کے ساتھ چلے

یہ رخ بھی کش مکش زندگی کا دیکھا ہے

جہاں کی بات نہ کی اور جہاں کے ساتھ چلے

ہمارے خون سے ابھریں چمن کی دیواریں

ہمارے قصے بہار و خزاں کے ساتھ چلے

کچھ اس طرح بھی کیا ہم نے طے سفر باقیؔ

نشان بن کے ہر اک بے نشاں کے ساتھ چلے

٭٭٭

سفر گل کا پتا تھا پہلے

یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

کبھی گل سے ، کبھی بوئے گل سے

کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے

زندگی آپ نشاں تھی اپنا

تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے

اس طرح روح کے سناٹے سے

کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے

اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتے ہیں

یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے

لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر

اس قدر شور کہاں تھا پہلے

دور سے ہم کو صدا دیتا تھا

تیری دیوار کا سایہ پہلے

اب کناروں سے لگے رہتے ہیں

رخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے

ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی

کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے

زہر کا ذکر کیا کرتے تھے

پی کے شربت کا پیالہ پہلے

دیکھتے رہے ہیں اب منہ سب کا

بات کرنے کا تھا چسکا پہلے

ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی

رہ نوردی کی تمنا پہلے

یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے

گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے

اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا

دور سے شور سنا تھا پہلے

جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ

خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے

٭٭٭

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے

صبر کا جام پی لیا ہم نے

کیسے انسان، کس کی آزادی

سر پہ الزام ہی لیا ہم نے

لو بدل دو حیات کا نقشہ

اپنی آنکھوں کو سی لیا ہم نے

حادثات جہاں نے راہ نہ دی

آپ کا نام بھی لیا ہم نے

اور کیا چاہتے ہیں وہ باقیؔ

خونِ دل تک تو پی لیا ہم نے

1/1/1949

٭٭٭

رسم سجدہ بھی اٹھا دی ہم نے

عظمت عشق بڑھا دی ہم نے

جب کوئی تازہ شگوفہ پھوٹا

کی گلستاں میں منادی ہم نے

آنچ صیاد کے گھر تک پہنچی

اتنی شعلوں کو ہوا دی ہم نے

جب چمن میں نہ کہیں چین ملا

درِ زنداں پہ صدا دی ہم نے

دل کو آنے لگا بسنے کا خیال

آگ جب گھر کو لگا دی ہم نے

اس قدر تلخ تھی روداد حیات

یاد آتے ہی بھلا دی ہم نے

حال جب پوچھا کسی نے باقیؔ

اک غزل اپنی سنا دی ہم نے

٭٭٭

کس توقع پہ جئیں ہم نے دل

کون کرتا ہے کرم دیوانے

پاس حالات بجا ہے لیکن

ہو نہ جائیں کہیں ہم دیوانے

اس زمانے میں وفا کا دعویٰ

خود پہ کرتے ہیں ستم دیوانے

زندگی تلخ ہوئی جاتی ہے

کھو نہ دیں اپنا بھرم دیوانے

چونک چونک اٹھے خرد کے بندے

جب بھی مل بیٹھے بہم دیوانے

ڈھونڈتے پھرتے ہیں عنواں کوئی

کر کے افسانہ رقم دیوانے

کھا گئے قحط جنوں میں باقیؔ

بیچ کر لوح و قلم دیوانے

کھائیں کیوں دہر کا غم دیوانے

اور دنیا میں ہیں کم دیوانے

سنگِ منزل کی طرح بیٹھ گئے

چل کے دو چار قدم دیوانے

٭٭٭

قطرے کی آرزو سے گہرا آئنہ بنے

آئنہ ساتھ دے تو نظر آئنہ بنے

منزل کے اعتبار سے اٹھتا ہے ہر قدم

رہرو بقدر ذوق سفر آئنہ بنے

ہم بھی مثال گردشِ دوراں ہیں بے مقام

پتھر ادھر بنے تو ادھر آئنہ بنے

ہر زخمِ دل میں زیست نے دیکھا ہے اپنا عکس

ہم آئنہ نہیں تھے مگر آئنہ بنے

ملتی ہے دل کو محفل انجم سے روشنی

آنکھوں میں شب کٹے تو سحر آئنہ بنے

ساحل کی خامشی کا فسوں ٹوٹنے لگے

دریا کا اضطراب اگر آئنہ بنے

باقیؔ کسی پہ راز چمن کس طرح کھلے

جب ٹوٹ کر نہ شاخِ شجر آئنہ بنے

٭٭٭

نذر دنیا ہوئے ارمان ہمارے کتنے

دیکھتے دیکھتے ٹوٹے ہیں ستارے کتنے

چل دیے چھوڑ کے احباب ہمارے کتنے

وقت نے چھین لیے دل کے سہارے کتنے

موج وحشت نے سفینے کو ٹھہرنے نہ دیا

راہ آئے ہیں مری رہ میں کنارے کتنے

رکھ لیا ہم نے تری مست نگاہی کا بھرم

بے خودی میں بھی ترے کام سنوارے کتنے

جیتنے والے محبت میں بہت ہیں باقیؔ

دیکھنا یہ ہے کہ اس کھیل میں ہارے کتنے

1/1/1945

٭٭٭

آ گیا ہر رنگ اپنا سامنے

کارواں اک آ کے ٹھہرا سامنے

کہہ نہیں سکتے محبت میں سراب

دیر سے ہے ایک دریا سامنے

کٹ رہا ہے رشتہ قلب و نظر

ہو رہا ہے اک تماشا سامنے

دل ہے کچھ نا آشنا، کچھ آشنا

تو ہے یا اک شخص تجھ سا سامنے

فاصلہ در فاصلہ ہے زندگی

سامنے ہم ہیں نہ دنیا سامنے

کس نے دیکھا لہو کا آئنہ

آدمی پردے میں سایہ سامنے

اپنے غم کے ساتھ باقیؔ چل دیے

ہے سفر شام و سحر کا سامنے

٭٭٭

قطرہ ہے سامنے کہیں دریا ہے سامنے

دنیا بقدر خونِ تمنا ہے سامنے

اک آن میں حیات بدلتی ہے اپنا رنگ

اک دور کی طرح کوئی آتا ہے سامنے

آنکھوں میں ہے کھچی ہوئی تصویر خونِ دل

ہم دیکھتے نہیں وہ تماشا ہے سامنے

ہم ڈھونڈنے لگے کوئی دل عافیت مقام

ہر چند تیرے شہر کا نقشہ ہے سامنے

اٹھیں تو راستہ نہ دے بیٹھیں تو بار ہو

کچھ اس طرح اک آدمی بیٹھا ہے سامنے

جوش جنوں سے ربط وہ باقیؔ نہیں مگر

کیا دل کا اعتبار کہ صحرا ہے سامنے

٭٭٭

(نامکمل غزل)

اپنی نظر کے دام سے نکلے نہ ہم کہیں

تصویر کا رخ ایک ہی رہتا ہے سامنے

سر پھوڑتا کہ دل کا سکوں دیکھتا کوئی

دیوار سامنے کبھی سایہ ہے سامنے

ہے موت کا خیال بھی کس درجہ دلخراش

اور صورت حیات بھی کیا کیا ہے سامنے

یہ خار ہے کہ تیر غمِ زندگی کوئی

یہ پھول ہے کہ اپنی تمنا ہے سامنے

٭٭٭

دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے

کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے

دل کو ہے پھر چند کانٹوں کی تلاش

پھر نہ سیر گلستاں کرنا پڑے

حالِ دل ان کو بتانے کے لیے

ایک عالم سے بیاں کرنا پڑے

پاس دنیا میں ہے اپنی بھی شکست

اور تجھے بھی بدگماں کرنا پڑے

ہوشیار اے جذبِ دل اب کیا خبر

تذکرہ کس کا کہاں کرنا پڑے

اب تو ہر اک مہرباں کی بات پر

ذکر دور آسماں کرنا پڑے

زیست کی مجبوریاں باقیؔ نہ پوچھ

ہر نفس کو داستاں کرنا پڑے

٭٭٭

منزل کے رہے نہ رہگزر کے

اللہ رے حادثے سفر کے

وعدہ نہ دلاؤ یاد ان کا

نادم ہیں ہم اعتبار کر کے

خاموش ہیں یوں اسیر جیسے

جھگڑے تھے تمام بال و پر کے

کیا کم ہے یہ سادگی ہماری

ہم آ گئے کام رہبر کے

یوں موت کے منتظر ہیں باقیؔ

مل جائے گا چین جیسے مر کے

1/1/1951

٭٭٭

تھے ہی کیا اور مرحلے دل کے

ہم بہت خوش ہیں آپ سے مل کے

اور اک دل نواز انگڑائی

راز کھلنے لگے ہیں محفل کے

لاؤ طوفاں میں ڈال دیں کشتی

کون کھائے فریب ساحل کے

رنگ و بو کے مظاہرے کب تک

پھول تنگ آ گئے ہیں کھل کھل کے

اڑ رہا ہے غبار سا باقیؔ

چھپ نہ جائیں چراغ منزل کے

1/1/1950

٭٭٭

ہم ذرے ہیں خاک رہگزر کے

دیکھو ہمیں بام سے اتر کے

چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے

جھگڑے تھے تمام بال و پر کے

اے بادِ سحر نہ چھیڑ ہم کو

ہم جاگے ہوئے ہیں رات بھر کے

شبنم کی طرح حیات کے خواب

کچھ اور نکھر گئے بکھر کے

جب ان کو خیال وضع آیا

انداز بدل گئے نظر کے

طوفاں کو بھی ہے ملال ان کا

ڈوبی ہیں جو کشتیاں بھر کے

حالات بتا رہے ہیں باقیؔ

ممنون نہ ہوں گے چارہ گر کے

٭٭٭

خورشید و قمر بھی دیکھ لیں گے

یہ راہگزر بھی دیکھ لیں گے

تاروں کا طلسم ٹوٹنے دو

انوار سحر بھی دیکھ لیں گے

جلتا ہوا آشیاں تو دیکھیں

ٹوٹے ہوئے پر بھی دیکھ لیں گے

یہ نیت ناخدا رہی تو

اک روز بھنور بھی دیکھ لیں گے

قانون خدا بھی ہم نے دیکھا

ترمیم بشر بھی دیکھ لیں گے

آغوش صدف کھلی تو باقیؔ

ہم آب گہر بھی دیکھ لیں گے

1/1/1951

٭٭٭

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم

عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل

اب یہیں دل کسی بہانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں

ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے کا

تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رخ بدلنے لگا فسانے کا

لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھّے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مضر کس کو

تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گل

کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ

بستیوں سے شرار آنے لگے

٭٭٭

تیرے افسانے سناتے ہیں مجھے

لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے

قمقمے بزمِ طرب کے جاگے

رنگ کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے

میں کسی بات کا پردہ ہوں کہ لوگ

تیری محفل سے اٹھاتے ہیں مجھے

زخم آئنہ بنے جاتے ہیں

حادثے سامنے لاتے ہیں مجھے

نیند بھی ایک ادا ہے تیری

رات بھر خواب جگاتے ہیں مجھے

تیرے کوچے سے گزرنے والے

کتنے اونچے نظر آتے ہیں مجھے

ان کے بگڑے ہوئے تیور باقیؔ

زیست کی یاد دلاتے ہیں مجھے

٭٭٭

بات کو جرم نا سزا سمجھے

اہلِ غم جانے تجھ کو کیا سمجھے

اپنے دعوے کو کیا غلط کہتے

تیری نفرت کو بھی ادا سمجھے

چھوڑیے بھی اب آئینے کا خیال

دیکھ پائے کوئی تو کیا سمجھے

اک ستارہ فلک سے ٹوٹا تھا

ہم جسے صبح کی ضیا سمجھے

اس کے غم کا علاج کیا باقیؔ

جو محبت ہی کو دوا سمجھے

1/1/1948

٭٭٭

دشت دیکھے ہیں گلستاں دیکھے

تیرے جلوے یہاں وہاں دیکھے

اس کو کہتے ہیں تیرا لطف و کرم

خشک شاخوں پہ آشیاں دیکھے

جو جہاں کی نظر میں کانٹا تھے

ہم نے آباد وہ مکاں دیکھے

دوستوں میں ہے تیرے لطف کا رنگ

کوئی کیوں بغض دشمنان دیکھے

جو نہیں چاہتا اماں تیری

مانگ کر غیر سے اماں دیکھے

تیری قدرت سے ہے جسے انکار

اٹھ کے وہ صبح کا سماں دیکھے

یہ حسیں سلسلہ ستاروں کا

کوئی تا حدِ آسماں دیکھے

ایک قطرہ جہاں نہ ملتا تھا

ہم نے چشمے وہاں رواں دیکھے

کس نے مٹی میں روح پھونکی ہے

کوئی یہ ربط جسم و جاں دیکھے

دیکھ کر بیچ و تاب دریا کا

یہ سفینے پہ بادباں دیکھے

جس کو تیری رضا سے مطلب ہے

سود دیکھے نہ وہ زیاں دیکھے

٭٭٭

اہلِ دل فرمائیں کیا درکار ہے

جام ہے ، مے ہے ، رسن ہے ، دار ہے

خار کو کوئی کلی کہتا نہیں

نرم ہو، نازک ہو پھر بھی خار ہے

کچھ کہیں تو آپ ہوتے ہیں خفا

چپ رہیں تو زندگی دشوار ہے

لوریاں دیتی رہی دنیا بہت

پھر بھی جو بیدار تھا، بیدار ہے

کاش ہوتے اتنے اچھے آپ بھی

جتنی اچھی آپ کی گفتار ہے

کل کہاں تھی آج ہے باقیؔ کہاں

زندگی کتنی سبک رفتار ہے

٭٭٭

آوازِ جرس ہے یا فغان ہے

کس حال میں قافلہ رواں ہے

اٹھتے اٹھتے اٹھیں گے پردے

صدیوں کا غبار درمیاں ہے

کس کس سے بچائے کوئی دل کو

ہر گام پہ ایک مہرباں ہے

ہر چند زمیں زمیں ہے لیکن

تم ساتھ چلو تو آسماں ہے

ضو صبح کی چھو رہی ہے دل کو

ہر چند کہ رات درمیاں ہے

ہم ہوں کہ ہو گردِ راہ باقیؔ

منزل ہے اسی کی جو رواں ہے

٭٭٭

جنونِ عشق کی منزل وہی ہے

جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے

انہی مجبوریوں نے مارا ڈالا

کہ تیری ہر خوشی میری خوشی ہے

ابھی ے ان کے آنے کی توقع

ابھی راہوں میں کچھ کچھ روشنی ہے

مری بربادیوں کا پوچھنا کیا

تری نظروں کی قیمت بڑھ گئی ہے

جہاں ان کا سوال آیا ہے باقیؔ

وہاں اپنی کمی محسوس کی ہے

٭٭٭

کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے

اڑتی ہوئی گرد پر نظر ہے

ڈسنے لگی فاختہ کی آواز

کتنی سنسان دوپہر ہے

آرام کریں کہ راستہ لیں

وہ سامنے اک گھنا شجر ہے

خود سے ملتے تھے جس جگہ ہم

وہ گوشۂ عافیت کدھر ہے

ایسے گھر کی بہار معلوم

جس کی بنیاد آگ پر ہے

٭٭٭

روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے

روز کچھ بار سفر بڑھ جائے ہے

کوئی تا حد تصور بھی نہیں

کون یہ زنجیرِ در کھڑکائے ہے

تیرے افسانے میں ہم شامل نہیں

بات بس اتنی سمجھ میں آئے ہے

وسعت دل تنگی جاں بن گئی

زخم اک تا زیست پھیلا جائے ہے

جھوم جھوم اٹھی صبا کے دھیان میں

کتنی مشکل سے کلی مرجھائے ہے

زندگی ہر رنگ میں ہے اک فریب

آدمی ہر حال میں پچھتائے ہے

گاہ صحرا سے ملے پانی کی موج

گاہ دریا بھی ہمیں ترسائے ہے

میری صورت تو کبھی ایسی نہ تھی

آئنہ کیوں دیکھ کر شرمائے ہے

باقیؔ اس احساس کا کوئی علاج

دل وہیں خوش ہے جہاں گھبرائے ہے

٭٭٭

دل دھڑکتا ہے جام خالی ہے

کوئی تو بات ہونے والی ہے

غمِ جاناں ہو یا غمِ دوراں

زیست ہر حال میں سوالی ہے

حادثہ حادثے سے روکا ہے

آرزو آرزو سے ٹالی ہے

ٹوٹ کر دل ہے اس طرح خاموش

ہم نے گویا مراد پا لی ہے

کیا زیاں کا گلہ کریں باقیؔ

کچھ طبیعت ہی لا ابالی ہے

1/1/1946

٭٭٭

زیست پر میں ہوں گراں یا تو ہے

تشنۂ شوق ہر اک پہلو ہے

خشک پتوں پہ سرشک شبنم

اور کیا حاصل رنگ و بو ہے

وقت منہ دیکھ رہا ہے سب کا

کوئی غافل کوئی حیلہ جو ہے

جانے کب دیدۂ تر تک پہنچے

دل بھی اک جلتا ہوا آنسو ہے

زخم بھر جائیں گے بھرتے بھرتے

زندگی سب سے بڑا جادو ہے

کس کی آمد ہے چمن میں باقیؔ

اجنبی اجنبی سی خوشبو ہے

٭٭٭

دیکھئے رات کیسے ڈھلتی ہے

دور ابھی ایک شمع جلتی ہے

آرزو چیت بے کلی ساون

تیری نظروں سے رت بدلتی ہے

سبز خوشے تری خبر لائے

اب طبیعت کہاں سنبھلتی ہے

دل کی کشتی کا اعتبار نہیں

تیری آواز پر یہ چلتی ہے

تیری چپ کا علاج کیا باقیؔ

بات سے بات تو نکلتی ہے

٭٭٭

احساس سفر داغ سفر بن کے عیاں ہے

منزل پہ چراغ سرِ منزل کا دھواں ہے

لازم ہے رہیں اہلِ چمن گوش بر آواز

اب میری فغان ہی مرے ہونے کا نشان ہے

ہر کام ادھورا تری نیم نگاہی کا سماں ہے

ہر سمت تری نیم نگاہی کا سماں ہے

فریاد کی اب کوئی ضرورت نہیں باقیؔ

اب حال مرا رنگ زمانہ سے عیاں ہے

٭٭٭

آب مانگو، سراب ملتا ہے

اس طرح بھی جواب ملتا ہے

سینکڑوں گردشوں کے بعد کہیں

ایک جامِ شراب ملتا ہے

یا مقدر کہیں نہیں ملتا

یا کہیں محوِ خواب ملتا ہے

جتنا جتنا خلوص ہو جس کا

اتنا اتنا عذاب ملتا ہے

غم کی بھی کوئی حد نہیں باقیؔ

جب ملے بے حساب ملتا ہے

1/1/1949

٭٭٭

جو تمہارے حضور ہوتا ہے

وہ زمانے سے دور ہوتا ہے

اپنی اپنی وفاؤں پر سب کو

تھوڑا تھوڑا غرور ہوتا ہے

بے رخی کا گلہ کریں نہ کریں

دل کو صدمہ ضرور ہوتا ہے

بخش دیجے تو کوئی بات نہیں

آدمی سے قصور ہوتا ہے

مئے الفت کی بات کیا باقیؔ

اور ہی کچھ سرور ہوتا ہے

1/1/1946

٭٭٭

خیال سود احساسِ زیاں تک ساتھ دیتا ہے

یقیں کتنا ہی پختہ ہو گماں تک ساتھ دیتا ہے

بدلتے جا رہے ہیں دم بدم حالات دنیا کے

تمہارا غم بھی اب دیکھیں کہاں تک ساتھ دیتا ہے

خیال ناخدا پھر بھی مسلط ہے زمانے پر

اگرچہ سیلِ رواں تک ساتھ دیتا ہے

زمانے کی حقیقت خود بخود کل جائے گی باقیؔ

چلا چل تو بھی وہ تیرا جہاں تک ساتھ دیتا ہے

1/1/1949

٭٭٭

ترا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے

یہ کیسا جال پھیلا ہوا ہے

خوشی ہے دے فریب زندگانی

کہ تجھ پر اعتبار آیا ہوا ہے

ازل سے ہے پریشاں زندگانی

یہ عقدہ کس کا الجھایا ہوا ہے

دلوں میں فاصلہ اتنا نہیں ہے

زمانہ درمیاں آیا ہوا ہے

بہانے لاکھ ہیں جینے کے باقیؔ

مگر دل ہے کہ گھبرایا ہوا ہے

1/1/1950

٭٭٭

کیا بتاؤں کہ مدعا کیا ہے

دل ترے درد کے سوا کیا ہے

دور تاروں کی انجمن جیسے

زندگی دیکنے میں کیا کیا ہے

ہر قدم پر نیا تماشا ہو

اور دنیا کا مدعا کیا ہے

کوئی لائے پیام فصلِ بہار

ہم نہیں جانتے صبا کیا ہے

درد کی انتہا نہیں کوئی

ورنہ عمر گریز پا کیا ہے

آپ بیٹھے ہیں درمیاں ورنہ

مرگ و ہستی میں فاصلہ کیا ہے

نہ رہا جب خلوص ہی باقیؔ

پھر روا کیا ہے ناروا کیا ہے

٭٭٭

علاج تلخیِ ایام کی ضرورت ہے

فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے

مری حیات بی صدمے اٹھا نہی سکتی

تری نظر کو بھی آرام کی ضرورت ہے

غمِ جہاں کا تصور بھی جرم ہے اب تو

غمِ جہاں کو نئے نام کی ضرورت ہے

نظامِ کہنے کی باتیں نہ کر کہ اب ساقی

نئی شراب، نئے جام کی ضرورت ہے

ترے لبوں پہ زمانے کی بات ہے باقیؔ

تجھے بھی کیا کسی الزام کی ضرورت ہے

1/1/1949

٭٭٭

میری فغاں کو بابِ اثر کی تلاش ہے

اس خانماں خراب کو گھر کی تلاش ہے

شبنم! تیرے ان آئنہ خانوں کی خیر ہو

میرے چمن کو برق و شرر کی تلاش ہے

بیٹھا ہوا ہوں غیر کے در پر شکستہ پا

کس منہ سے میں کہوں ترے در کی تلاش ہے

جس کی ضیا ہو دسترس شامِ غم سے ڈور

دنیا کو ایک ایسی سحر کی تلاش ہے

باقیؔ ہے ٹوٹنے کو اب امید کا طلسم

اک آخری فریبِ نظر کی تلاش ہے

1/1/1946

٭٭٭

نہ سہی ساز وہ غم ساز تو ہے

زندگی کا کوئی انداز تو ہے

کچھ گریزاں ہے صبا ہی ورنہ

بوئے گل مائلِ پرواز تو ہے

بن سکے سرخی روداد حیات

خونِ دل اتنا پس انداز تو ہے

لبِ خاموش بھی بول اٹھے ہیں

کچھ نہ کچھ وقت کا اعجاز تو ہے

میری آمد نہ گراں گزری ہو

اس خموشی میں کوئی راز تو ہے

کس توقع پہ صدا دیں باقیؔ

در اربابِ کرم باز تو ہے

٭٭٭

آپ تک ہے نہ غم جہاں تک ہے

جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے

اشک شبنم ہوں یا تبسمِ گل

ابھی ہر راز گلستاں تک ہے

ان کی پرواز کا ہے شور بہت

گرچہ اپنے ہی آشیاں تک ہے

پھول ہیں اس کے باغ ہے اس کا

دسترس جس کی باغباں تک ہے

پوچھتے ہیں وہ حالِ دل باقیؔ

یہ بھی گویا مرے بیاں تک ہے

٭٭٭

دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے

پہلی سی وہ اب صورت بازار نہیں ہے

ہر بار وہی سوچ وہی زہر کا ساغر

اس پر یہ ستم جرات انکار نہیں ہے

کچھ اٹھ کے بگولوں کی طرح ہو گئے رقصاں

کچھ کہتے رہے راستہ ہموار نہیں ہے

دل ڈوب گیا لذت آغوش سحر میں

بیدار ہے اس طرح کہ بیدار نہیں ہے

یہ سر سے نکلتی ہوئی لوگوں کی فصیلیں

دل سے مگر اونچی کوئی دیوار نہیں ہے

دم سادھ کے بیٹھا ہوں اگرچہ مرے سر پر

اک شاخ ثمر دار ہے تلوار نہیں ہے

دم لو نہ کہیں دھوپ میں چلتے رہو باقیؔ

اپنے لیے یہ سایہ اشجار نہیں ہے

٭٭٭

ڈوب کر نبض ابھر آئی ہے

کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے

غمزدہ غمزدہ، لرزاں لرزاں

لو شبِ غم کی سحر آئی ہے

کیا کوئی اپنا ستم یاد آیا

آنکھ کیوں آپ کی بھر آئی ہے

کیا محبت سے تعلق تجھ کو

یہ بلا بھی مرے سر آئی ہے

آپ کے اٹھتے ہی ساری دنیا

لغزشیں کھاتی نظر آئی ہے

زندگی کتنی کٹھن راہوں سے

باتوں باتوں میں گزر آئی ہے

ٹمٹمانے لگے یادوں کے چراغ

شبِ غمِ دل میں اتر آئی ہے

ہر لرزتے ہوئے تارے میں ہمیں

اپنی تصویر نظر آئی ہے

ایک برسا ہوا بادل جیسے

لو شبِ غم کی سحر آئی ہے

میرے چہرے پہ تبسم کی طرح

اک شکن اور ابھر آئی ہے

میری قسمت میں نہیں کیا باقیؔ

جو خوشی غیر کے گھر آئی ہے

٭٭٭

ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے

دل میں جب کوئی بات ہوتی ہے

شمع بجھتی ہے ، زلف کھلتی ہے

تب کہیں رات، رات ہوتی ہے

حسن سرشار، عشق وا رفتہ

کس سے ایسے میں بات ہوتی ہے

زیست لے بیٹھی ہے اپنے گلے

غم سے جب کچھ نجات ہوتی ہے

بے رخی، اختلاف، روکھا پن

یوں بھی کیا کوئی بات ہوتی ہے

زخم کھا کر نظر جب اٹھتی ہے

حاصل کائنات ہوتی ہے

غم کا احساس تک نہیں باقیؔ

یوں بھی عم سے نجات ہوتی ہے

1/1/1951

٭٭٭

لہر حالات کی اک زیر زمیں ہوتی ہے

زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے

زندگی بھی تو الجھتی ہے سیاست کی طرح

شعلہ ہوتا ہے کہیں آگ کہیں ہوتی ہے

روشنی رنگ بدلتی ہے تمنا کی طرح

ہم بھٹک جاتے ہیں منزل تو وہیں ہوتی ہے

فاصلہ بھی ہے نگاہوں کے لیے اک جادو

ہاتھ جو آ نہ سکے چیز حسیں ہوتی ہے

بیٹھے بیٹھے چمک اٹھتی ہیں نگاہیں باقیؔ

دور کی شمع کہیں اتنی قریں ہوتی ہے

٭٭٭

ہر بات سے باخبر رہی ہے

جب تک کہ نظر نظر رہی ہے

مت دیکھ کہ ہے کہاں زمانہ

یہ سچ کہ کیا گزر رہی ہے

یا بات میں بھی اثر نہیں تھا

یا کام نظر بھی کر رہی ہے

دیکھو تو ہے زخم زخم سینہ

کہنے کو کلی نکھر رہی ہے

حالات کا انتظار باقیؔ

وہ زلف ابھی سنور رہی ہے

1/1/1951

٭٭٭

وہ رگِ دل میں رگِ جاں میں رہے

پھر بھی ہم ملنے کے ارماں میں رہے

نیند کانٹوں پہ بھی آ جاتی ہے

گھر کہاں تھا کہ بیاباں میں رہے

رنگ دنیا پہ نظر رکھتے تھے

عمر بھر دیدۂ حیراں میں رہے

بُعد اتنا کہ تصور بھی محال

قرب ایسا کہ رگِ جاں میں رہے

عمر بھر نورِ سحر کو ترسے

دو گھڑی تیرے شبستاں میں رہے

قافلے صبح کے گزرے ہوں گے

ہم خیال شبِ ہجراں میں رہے

کس قیامت کی تپش ہے باقیؔ

کون میرے دلِ سوزاں میں رہے

٭٭٭

شام و سحر کے رنگ نمایاں نہیں رہے

یا ہم شریک دیدہِ حیراں نہیں رہے

پانی کی موج بن گیا انساں کا ہر لباس

عریاں ہوئے ہم اتنے کہ عریاں نہیں رہے

کیوں لفظِ بے صدا ہوئے ، کیوں حف بجھ گئے

کیا ہم کسی فسانے کا عنواں نہیں رہے

باقیؔ قدم قدم پہ لہو مانگتے ہیں لوگ

اب مرحلے حیات کے آساں نہیں رہے

٭٭٭

جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدیے

یہ جنس ہے گراں مگر ارزاں خریدیے

نظروں کے سامنے ہیں شبِ غم کے مرحلے

کچھ خون ہے تو صبحِ درخشاں خریدیے

یوں بھی نہ کھل سکا نہ کوئی زندگی کا راز

دل دک کے کیوں نہ دیدہِ حیراں خریدیے

مرنا ہے تو نظر رکھیں اپنے مال پر

جینا ہے تو حیات کا ساماں خریدیے

جو کہہ سکیں تو کیجیے یہ کاروبار زیست

جو کہہ رہا ہے یہ دلِ ناداں خریدیے

جو روح کو حیات دے ، دل کو سکون دے

یہ بھیڑ دے کے ایک وہ انساں خریدیے

زخموں کی تاب ہے نہ تبسم کا حوصلہ

ہم کیا کریں گے آپ گلستاں خریدیے

کرنا پڑے ہے جس کے لیے غیر کا طواف

وہ غم نہ لیجیے نہ وہ ارماں خریدیے

باقیؔ اسی میں حضرت انساں کی خیر ہے

سارا جہان دے کے اک ایماں خریدیے

٭٭٭

دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے

جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے

جذبِ دل کے کوئی معنی نہ رہے

کس سے عجز لبِ گویا کہیے

کوئی آواز بھی آواز نہیں

دل کو اب دل کی تمنا کہیے

اتنا آباد کہ ہم شور میں گم

اتنا سنسان کہ صحرا کہیے

ہے حقیقت کی حقیقت دنیا

اور تماشے کا تماشا کہیے

لوگ چلتی ہوئی تصویریں ہیں

شہر کو شہر کا نقشہ کہیے

خونِ دل حاصل نظارہ ہے

نگہ شوق کو پردا کہیے

شاخ جب کوئی چمن میں ٹوٹے

اسے انداز صبا کا کہیے

دیدہ ور کون ہے ایسا باقیؔ

چشمِ نرگس کو بھی بینا کہیے

٭٭٭

فرد فرد

سب کو احساس سے خالی نہ سمجھ

درد مندوں کو سوالی نہ سمجھ

*

اپنا اپنا راستہ لیں اہلِ ذوق

شمعِ محفل اور جل سکتی نہیں

*

اس طرح بھی ہے اک جہاں آباد

جس طرف آپ کی نگاہ نہیں

*

چراغ لالہ میں جلتا رہا ہے خون بہار

یہ اور بات کہ گلشن میں روشنی نہ ہوئی

*

جب جھجک کر تری نگاہ ملی

حادثات جہاں کو راہ ملی

*

رات پنگھٹ پہ کون آیا تھا

بالکل آواز تھی ترے جیسی

*

منزلوں کی کمی نہ تھی باقیؔ

زندگانی کہیں تھمی ہوتی

*

کس طرح پہنچے کوئی منزل تک

راہ میں راہنما بیٹھے ہیں

*

آتی نہیں دل کی بات لب تک

خاموش رہیں گے پھر بھی کب تک

*

پرواز کا وقت آ گیا تھا

ہم دیکھ سکے نہ بال و پر کو

*

یہ حادثے یہ الم بار ہوتے جاتے ہیں

نقاب اٹھاؤ بس اب شرح کائنات کرو

*

اپنے گھر کی خبر نہیں باقیؔ

وہ ستارہ شناس ہیں ہم لوگ

*

کیا آپ سے کہہ دیا کسی نے

کس سوچ میں آپ پڑ گئے ہیں

*

بادِ خزاں کا فیض ہے یا لغزش بہار

کچھ پھول ٹوٹ کر مرے داماں میں آئے ہیں

*

محبت تھی تری پہلی نظر تک

اب آگے دشمنی ہی دشمنی ہے

*

رات بھر ہم کروٹیں لیتے رہے

رات بھر ڈھولک کہیں بجتی رہی

*

اس طرح اٹھے تری محفل سے

جیسے ہم بھول کے آ بیٹھے تھے

*

جانے وہ چپ رہے ہیں کیوں ورنہ

بات کرنے کے سو بہانے تھے

*

دیکھ کر رنگ تیری محفل کے

زخم آنکھوں میں آ گئے دل کے

*

پرسشِ حال بھی رہنے دیجے

اس تکلف کی ضرورت کیا ہے

*

یوں آج خموش ہے زمانہ

جیسے کوئی بات ہو گئی ہے

*

عشق اب اپنی حفاظت خود کرے

حسن اپنے آپ سے بیگانہ ہے

*

ہم نے افسانہ کر دیا ہے رقم

آگے سب کچھ فسانہ خواں تک ہے

*

اتنے گل بھی نہیں ہیں گلشن میں

جتنے کانٹے چبھو لیے ہم نے

*

اے دوست مرگ و زیست کے مابین تابہ کے

بیٹھے رہو گے تم حدِ فاصل بنے ہوئے

*

کوئی کس طرح ان کو سمجھائے

بات چھیڑو تو بات کھل جائے

*

دل و نگاہ کا پردہ کبھی اٹھا تو سہی

تو اپنی ذات کے مدفن سے باہر آ تو سہی

*

ایک دیوار کی دوری ہے قفس

توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے

*

خوشبو ہم تک آ نہ سکی

پھول کچھ اتنی دور کھلے

*

بات کہہ دیتے تو اچھا ہوتا

چپ کے تو سینکڑوں پہلو نکلے

*

ہوئے آزاد لیکن آ رہی ہے

قفس کی بو ابھی تک بال و پر سے

*

اک خرابے کا تماشا بھی دیکھ

اک نئے شہر کی آواز بھی سن

*

آج تک بدگماں ہیں وہ ہم سے

آ گیا تھا ذرا جہاں کا خیال

*

در پہ دست کسی نے دی باقیؔ

کوئی پرساں حال آ ہی گیا

*

جھک گئی ہے نگاہ کیوں باقیؔ

ایک تہمت ہوئی کرم نہ ہوا

*

خود کو جکڑا ہوا پایا ہم نے

جس جگہ یاد وہ صیاد آیا

*

پرسشِ غم سے بھی ان کا مقصد

پرسشِ غم کے سوا کیا ہو گا

*

میرے ذوقِ نظر کا کیا ہو گا

چند پھولوں میں بٹ گئی ہے بہار

*

روشنی میرے مقدر میں کہاں

دور سے دیکھتا جاتا ہوں چراغ

*

در پہ دستک کسی نے دی باقیؔ

کوئی پرسان حال آ ہی گیا

*

ترے جمال کی آرائشیں نہ ختم ہوئیں

مرا خیال جنوں کی حدیں بھی چھو آیا

*

لوگ دنیا میں گھٹ کے مر جاتے

کوئی بندہ اگر خدا ہوتا

*

حاصل شورِ سلاسل معلوم

وہی زنداں ہے وہی گھر اپنا

*

ہواؤں کا رخ بھی کوئی چیز ہے

سفینہ جدھر بہہ گیا، بہہ گیا

*

رہبر کا طلسم جب ٹوٹا

یاد ایک ایک ہم سفر آیا

*

جذبۂ دل کا ہے نام آزادی

ورنہ زنداں کا در نہیں ہوتا

*

دل کی دیوار گر گئی شاید

اپنی آواز کان میں آئی

کدھر گئی وہ محبت، کہاں گیا وہ سکوں

کوئی تو پوچھتا یہ بات شہر والوں سے

*

صبح امید کا خیال نہ پوچھ

ہم نے سوچا ہے رات بھر کیا کیا

آئنہ بن گئی شفق باقیؔ

یاد آیا دمِ سحر کیا کیا

*

گردش دنیا ہے آئنہ بدست

کس قدر حیراں نظر آتے ہیں ہم

روشنی راہوں کی یاد آنے لگی

دور منزل سے ہوئے جاتے ہیں ہم

*

کیا رنگ حیات پوچھتے ہو

کچھ لوگ ہیں اور کچھ مکاں ہیں

جاتی نہیں تیرگی دلوں کی

رستے تو مثلِ کہکشاں ہیں

*

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں

ہم بھی نیند کی صورت اڑتے جاتے ہیں

جب انداز بہاروں کے یاد آتے ہیں

ہم کاغذ پر کیا کیا پھول بناتے ہیں

*

کہاں کا زادِ سفر خود کو چھوڑ آئے  ہیں

تمہاری راہ میں ایسے بھی موڑ آئے ہیں

کوئی تو محفل گل کی بہار دیکھے گا

کلی کلی پہ لہو ہم نچوڑ آئے ہیں

*

تم ظلمتوں میں دل کی کرن پھینکتے رہو

اس گھر کی روشنی کا مدار آگ پر سہی

ہونٹوں پہ مہر بن گئیں ان کی عنایتیں

راز درونِ خانہ کی مجھ کو خبر سہی

*

کلی تمہارا تبسم، صبا تمہارا خیال

تمہارے سامنے کیا ذکر رنگ و بو کرتے

ہر ایک آدمی اڑتا ہوا بگولا تھا

تمہارے شہر میں ہم کس سے گفتگو کرتے

*

گونجتی تھی کہیں صدائے جرس

قافلے دل سے رات بھر گزرے

منزلوں دل نے لی نہ انگڑائی

حادثے کیا دم سفر گزرے

*

انقلابات کے آئنے میں

صورت راہنما دیکھی ہے

دل ٹھہرتا نہیں ہے سینے میں

جانے کیا بات ہونے والی ہے

*

وقت کے اڑتے ہوئے لمحوں میں

آج کی بات بھی فرسودہ ہے

مقتل زیست میں سب کا دامن

اپنے ہی خون سے آلودہ ہے

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ماخذ: سخن سرا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل