FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

خلا میں دھڑکن نہیں ہے

 

 

                ضیاء الرحمٰن ضیاء

 

 

 

 

 

 

نظم کے دَم کو بڑھا رکھو !!

 

مجھے بھی کیا وہی آواز مل سکتی ہے جس میں

لہجہ اپنی دسترس کے زور پر

مندی میں جاتے لفظ کو

بہر تمول خرچ کے قابل بناتا ہے

تو شمع پاٹ دارانہ

صدائے روشنی تقسیم کرتی ہے !

 

غریبی لفظ کی ہو یا حصولِ ذات کی

کورے ورق کورے بدن پر بین کرتی ہے

خودی کے نام پر

ترچھی لکیروں سے محاضر گفتگو کرنا

مگر لہجوں کی بود و باش سے پہلو تہی کرنا

نہ کوئی میزباں بننا

نہ کوئی میہماں ہونا

تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا

کہ آپ بس حرف غزل تک ہی مسائل کو سمجھتے ہیں

مگر !

کچھ اور بھی ہے۔ ۔

جو تعاقب رہ نشیں ہے، سو

اَے میرے مست حاضر باش !

اپنی نظم کے دَم کو بڑھا رکھو

مسائل سے اٹی راتوں کے اَب انبار لگنے ہیں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

اضا فتوں سے نجات

(قبلہ ستیہ پال آنند کی نذر )

 

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

اَلم کشائی میں دل کی حالت کا عکس دیکھوں

تو آئینے کی فضیلتوں کے کرم نہ بھگتوں

میں ڈوبنے پر،

محیط پانی کا ذکر چھیڑوں

کٹے کناروں،

جلے درختوں،

بھنور کے سارے ناگفتہ انداز

قاتلوں کے ہنر نہ جانوں،

کھلے بدن سے

اکہرے مطلب کی چال چل کر

بہت سی آسودہ رفعتوں کے مزاج پوچھوں،

لغات کی لغزشوں میں جھاتیں نہ مارنے کا

افادۂ عام مل سکے تو

سکون سے اپنے دل سے مل لوں،

وفا کو چوموں

جزا کو چا ہوں

میں ہجر اور وصل کی اس سزا کو دیکھوں

جسے لغات سجع نے مجھ سے گنوا دیا ہے

یا استعاروں کی بلبلاہٹ نے

بہت سے معنی چھڑا دیئے ہیں

بہت سے محسوس ذات اول

کے سبز دفتر، جلا دیئے ہیں

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

 

بنام تفہیم

اور کتنا کھلا زمانہ بنا سکو گے

بنام شرح متین

کتنا کھلا فسانہ سنا سکو گے

بنام تزئین حرف عالی

تعینات زماں کے کتنے

عظیم معبد گرا سکو گے

سفر کے ایسے نحیف و بیمار راستوں سے

پلٹ کے دیکھو

ستارہ وار

آسماں میں کتنے قمر الجھتے دکھائی دیں گے

اس آنکھ کو، پشت پر اَکہری نظر کے منظر

کو جھیلنے دو

ہوائے محسوس کو بیاں کے کھلے مکانوں سے

یوں گزرنے کا عندیہ دو

حواس کو اپنی ایک باری ہی کھیلنے دو

یہ زعم الفاظ،

اور تعبیر کا زمانہ

حصول معنی کی ایک ضد ہے

خدا کا نہ جاننا بھی آخر کو ایک حدّ ہے

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

ذرا ٹھہر لو !

میں روح ابجدسے بات کر لوں

میں خوف الفاظ سے نکل لوں

میں شوق تعبیر سے بھی بچ کر

جو ہے، جہاں ہے

سے، اس کی مرضی کی بات کر لوں !

میں خالد و جاوداں سے لے کر

بقا، فنا کے سبھی قرینوں کا ڈھنگ دیکھوں

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

٭٭٭

 

 

 

 

آخرکار نظم !!

 

نظم گھر سے چلی ہے

کھڑاؤں پہن کر

رمیدہ مزاج اور کشیدہ دہن

ابلہ مفہوم کو سر پہ رکھے ہوئے

جو فقط کمسنی سے

ترازو میں اپنے لغت وار کردار

کو کھولنے میں

مہارت سے عاری

شکستہ نظر،

منتظر ہے کسی

ناخن تازہ کاری کی

جس سے

رگ جاں کی تفہیم کا راستہ کھل سکے !!

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .

یہ مزدور بچہ

بنت در بنت

کتنی گلیوں سے ہو کر گزرتا رہا

کتنے ملبے اٹھاتا ہوا

سیڑھیاں چڑ ھ رہا ہے

بڑی زینہ کاری مقدر میں لکھی

سر ناتواں پر تغاری کی ہلچل

پسینہ فراواں

نظر بے فراغی میں الجھی ہوئی

وقت کی چال سے گرتے سائے

اکھٹے کیے جا رہا ہے

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔

نظم گھر سے چلی ہے

اسے اب بداء سے کہیں دور

حرف نہایت کی رخشندگی میں

مقدم جبینوں کے سجدوں میں

لطف خدا ڈھونڈنا ہے

یہاں واپسی کا کوئی راستہ

رہبری کو نہیں ہے

یہاں نظم ہے اور اس کا عقیدہ

یہیں پر شیاطین کی بستیاں ہیں

یہیں پر زر امر الہام ہے

خدا بھی یہیں ہے

یہیں پر خیال مسلسل کی بے چینیاں ہیں

کہیں نظم معنی کی تسلیم جاں ہے

کہیں نظم کفارۂ لفظ دل ہے

ابھی نظم اپنے عقیدے کی تفہیم میں ہے

ابھی پل صراط نظر سے گزرنا ہے باقی

ابھی اس کے اعمال میزان پر ہیں

ابھی اس کی جنت بھی تعمیر میں ہے

مگر اس کا دوزخ دھواں دے رہا ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

تعلیم

 

تمہیں میں نے سکھایا تھا

کٹوری سے

لب ساکن سے، کیسے دودھ پیتے ہیں

تراشا اَدھ کٹے ماضی کا

خوابوں کی اعانت سے

کہاں سے جوڑ لیتے ہیں

تو رونے اور ہنسنے کے

سبھی امکان

پوری آنکھ پر احسان کرتے ہیں

بہت سے ماجرے

قصہ بہ قصہ

یوں بھی تو آسان ہوتے ہیں

تمہیں میں نے بتایا تھا

بہت سید استاں تم کو سنا ئی تھی

بہت سا دل

تمہارے پاس

گروی رکھ دیا میں نے

یہ موسم قابل تجدید تو پھر بھی نہ ٹھہرا تھا

غموں کی کاشت کی فصلیں اٹھانی تھیں

بہت نقصان جاں سہہ کر

نئے دل آزمانے تھے

کبھی رونا پڑے، ہنسنا پڑے

آنچل کے احساں یاد رکھنے تھے

جہاں پر بھولنا لازم قرار جاں دیا جائے

کسی کو یاد کرنا تھا

تمہیں میں نے بتایا تھا۔ ۔ ۔

تمہیں میں نے جتایا تھا

 

تمہیں میں نے سکھایا تھا

لب ساکن سے کیسے دودھ پیتے ہیں

وفور غم

تکاثر میں بٹا غم

کلمۂ تسخیر پڑھتا ہے

تو کیسے ضبط کرتے ہیں

لب ساکن سے کیسے دودھ پیتے ہیں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا سے سرسری باتیں تو کرنے دو !

 

سفر آغاز ہوں

انجام کی بہتر خبر دوں گا

نہیں کہتا میں

خوں آشام راتوں کا کوئی قصہ

جہاں پہ پرزہ پرزہ

دل کو رونے کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا

نہیں کہتا

میں دردِ آرزو مندی

میں گھر کا بھید

گھر کی چار دیواری میں رکھوں گا

چراغ کج مقدرکی لگی

تاریک راتوں میں سہاروں گا

میں وحشت زار امکانوں

سے گزروں گا تو دل کے ماجرے

سب عام لوگوں سے چھپاؤں گا

مجھے معلوم ہے

کچھ راز راز بے خبر ہو کر

گزاریں تو سہولت ہے

نہیں کہتا کسی سے

سرخ پوشاکوں کو کیسے سبز کرتے ہیں

دل خاموش کو کیوں دفن کرتے ہیں

لبوں پر شدت جذبات کی یورش کا ٹپکا

آ لگے تو کس طرح بے لفظ رہنا ہے

نہ کرنے دو مجھے

گھر کو لگی اس آگ کو

تصویر کرنے کی کوئی خواہش

مجھے بس درد کی بے خوف تلواروں سے لڑنے دو

ہوا سے سر سری باتیں تو کرنے دو !!!

٭٭٭

 

 

 

۱۳ جون۲۰۱۵ء

 

یہ خبر بے خبر

 

 

شب غم میں ہجرت کا سارا سفر یاد آنے لگا

سبز پوروں پہ

پلکوں نے خونیں وفا کا دِیا رکھ دیا

دل بہلنے لگا

اشک کا زاویہ

میری حسب تمنا سرکنے لگا

جاں نکلنے لگی

دل دھڑکنے لگا

یہ اداسی بڑے کام کی چیز ہے

 

آرزو کے سپاہی کا رنگین نیزہ

دھلے آئینے سے نکلنے لگا

خود پہ برسی ہوئی بارشوں کے سبب

پاوں اندر کی جانب پھسلنے لگے

ہر پون سے صدا کوئی آنے لگی

انگلیوں پہ کوئی شام چھانے لگی

میں نے دل کے بدل میں

زمانے کی بے چینیاں چھانٹ لیں

اپنی آنکھیں

کسی ضبط سے بانٹ لیں

یہ خبر بے خبر، یونہی ملتی نہیں

یہ اداسی بڑے کام کی چیز ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

وقت سوال

 

میں اگر جاں کنی سے گزروں تو

خوف کے دمدموں کو سینچوں تو

اپنی والی تبار ہمت کو

تانا بانا زوال کا کر دوں

انگرکھا زرد زرد پتوں کا

تن کے موسم کو جا کے پہناؤں

راستے دھول سے بناڈالوں

منزلیں بے کلی سے دیکھوں اگر

تو یہی وقت ہے کہ یاد آئے

مجھ کو میزان دوستی تیرا

تیرے سارے حساب یاد آئیں

اپنی طرفوں کی جانچ کرنی پڑے

اور یہ دیکھنا پڑے مجھ کو

موجۂ باد رحمت باراں

مجھ سے ایسے جھجھک رہا ہے کیوں

خشک موسم کا قرضہ دار کوئی

میری ہی اور چل رہا ہے کیوں ؟

بس یہی وقت ہے کہ کھل جائیں

مجھ پہ رخصت مقام آشائیں

اور بازارِ جنس کی گرمی

مجھ سے پھر سایہ وار پوچھے تو۔ ۔ ۔

کس نے سائے خرید نے ہیں یہاں

کس کو درکار زرد پرچھائیں

اور اس درد کا خریدا ہوا

وہ اگر میں نہیں، تو کون ہوا۔ ۔ ۔ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

جوان فصلوں کا خون

 

کھڑی فصلوں میں لے کر آگ گھومیں

اک حماقت ہے

اگر چہ پک چکا ہو

ان کے دانوں کا فسوں

اور اُڑ رہی ہو گرم خاکستر سے نکلی

دل نشیں خوشبو ؟

ہمارے فیصلوں کو نظر ثانی کی ضرورت ہے

ہمارا تیشۂ شعلہ

یقیناً

اک نئی محراب میں

تازہ پھلوں پر

کار سجدہ کا نشاں دے گا

تغیر سچ سہی لیکن

یہ ہم کو ناگہاں دے گا

سنو !

اے دور اندیشی کے مہمانو !

کھڑی فصلوں میں تپش کو ذخیرہ ہی نہیں کرتے

اگر کچھ بات کرنی ہو تو

جگنو کی سفارت کام لاتے ہیں

وگرنہ

کوزۂ مہتاب سے پانی پلانے کا

تو پھر احسان لینا ہے !!

 

کھڑی فصلوں میں لے کر آگ گھومو گے

تو سورج اپنی آپ بیتی سنائے گا

سماعت کا بھرم اپنی جگہ

لیکن یہاں پر

موسمی تبدیلیاں لمحوں میں آتی ہیں

نئی فصلیں

زمینوں کے نئے ابواب لکھتی ہیں

شرائط کے مکمل ضابطے

ان کی رضا ہو کر نئے عنوان سے

تقسیم رزق شہر بنتے ہیں !!

پکی فصلوں میں لے کر آگ،

مت گھومو !!

٭٭٭

 

 

 

تاویل ضروری ہے

 

آدمی کی رسوائی

آئینے کا ماتم ہے

بے سبو زمانوں میں

بارشوں کی چاہت میں کس نے بد دعا رکھ دی

ہاتھ کی لکیروں کو کس نے روسیہ کیا ہے

کس نے خلقِ آدم کو

کبڑئی سکونت کی آزمائشیں دی ہیں

لوٹ اپنی آلودہ فطرت و تمنا پر

آنکھ کے سیاہ گوشے

پتلیوں کی گردش میں

آرزو میں پلتے ہیں

آدمی کی آنکھوں میں

بے خبر زمانوں کی یاد کے الاؤ میں

سو چراغ جلتے ہیں

 

آدمی کی رسوائی

کوہ طور سینا کی

پھر سے اک سیاحت ہے

نار ابراہیمی کی پھر سے اک جسارت ہے

طفل بے پدر کی پھر عرصۂ طفولت میں

اک نئی بشارت ہے

 

آدمی کی رسوائی

آدمی کی عظمت پر اک عظیم دھبہ ہے

آدمی عزیمت ہے

آدمی ہی رخصت ہے

اس کو چاک پر رکھ کر

صورتیں بنانا ہیں

گر پڑے اگر مٹی

خاک داں کے جوہر سے

پھر بھی مسکرانا ہے

آدمی سمجھ آئے

تب بھی آسمانی ہے

آدمی ہو پیچیدہ

تب بھی خاکوانی ہے

آدمی کی رسوائی

ایک استعارہ ہے

تیرے میرے باطن کا آخری اشارہ ہے

آ، بدن کو کھولیں ہم

روح کو پکاریں ہم

شرق و غرب کا موسم

اب بھی آشکارا ہے

آدمی کی رسوائی

کس کو یوں گوارہ ہے۔ ۔ ۔ ؟؟؟

٭٭٭

 

 

 

۱۴ جون ۲۰۱۵ء

 

دھوپ سے پہلے یہ دیوار اتر جائے گی

 

ان دنوں اور بھی کچھ سوچنا ہے

روز سورج کوئی میدان سجا دیتا ہے

سرخ بارش میری دہلیز بھگو دیتی ہے

سانس پر سانس بندھے جاتے ہیں

اور گرتی ہے مری ہمتِ جاں

خود سے ملتا ہوں تو

تم مجھ سے بچھڑ جاتے ہو

تجھ سے ملتا ہوں تو

تشکیل میں رکھی ہوئی ’’میں ‘‘

کم سے کم موجب اثبات نہیں رہتی ہے

خشک تن ہو کے ہرے خواب

کہاں تک دیکھوں

صبر آوارہ کے پہرے میں بٹھاؤں کیسے

مرتکز حادثے

جو حادثے ہیں

تعبیر نہیں

خشت پر ابھری ہوئی

کندہ تحریر نہیں

کوئی تفسیر نہیں

اب ارادوں سے فصیلوں کی ملاقات نہ ہو

اور بھی خواب ہیں

جو آنکھ پہ اترے ہی نہیں

ایسے بھی تیز جہاز

ساحل نیند پہ ہیں

جن میں پلکوں سے نکلتا

کوئی عرشہ ہی نہیں

رات کا خالی بھرم

کیسے سوغات بنے

دن کا یہ چر خہ نما

گردش جاں کو بڑھاتا جائے

کوئی تو ہو

کوئی اندازہ گر فردا نظر

میرے ہونٹوں سے سوالوں کو ہٹا تا جائے

پور سے پور ملاتے ہوئے ہنستا جائے

اور چپ چاپ کوئی کہتا ہو۔ ۔ ۔

چشم اِمروز  ارادوں کا نمک چاٹے تو

دھوپ سے پہلے یہ دیوار اتر جائے گی !!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 خاموشی کے فرزند

 

صدا سے جنگ نہیں

شور سے عداوت کیا

ہم اپنے اپنے طریقوں سے

خود کو کھوجتے ہیں

کہیں پہ گم ہیں

کہیں بے خبر ہوئے پایاب

ہماری پیش روی ہے

ثبوت حرفِ وجود

یہ اور بات کہَ ابجد نشاں ستاروں نے

ہر ایک رات کو محروم ظرف رکھا ہے

 

ہم ایک ماجرا چاہتے ہیں،

داستاں اک اور

چھپا کے سینۂ دیوار خود رکاوٹ ہیں

بس ایک اوٹ سدا زندگی کا مقصد ہے

بہم نہ ہو کوئی ابہام تو سفر سارا

بس ایک گرد کی بے فیض رِہ زنی ٹھہرے

بس ایسے ایسے قبیلوں سے ہم ہوئے منسوب

جہاں جماعت یاراں کا ذوق یکساں تھا

عبارتیں سبھی اوراق کی بیک دیگر

تھیں پشت پشت پنہ گیر و دلکشا،دلگیر

یہ اور بات مقاصد پہ رک گئے سارے

جہاں پہ چارہ گری،

حرف کی رضا جوئی،

نظر کے سارے کرشمے،

شعور کا ایراد

بس ایک ہاتھ سے تالی بجانا چاہتا تھا

تودوسرا بھی اسی کی صدا پہ آتا تھا

 

صدا سے جنگ نہیں

شور سے عداوت کیا

ہم اپنی خامشی پر اعتبار رکھتے ہیں

سکوت لفظ پہ سب دل کا بار رکھتے ہیں

ہمارے کتنے ہوئے

اور نہ کتنے ہوں گے کبھی

ہم اپنی چپ پہ سبھی انحصار رکھتے ہیں

یہ چپ، سکوت یہ لفظوں بھری ہوئی عمریں

بس ایک برف پگھلنے کے انتظار میں ہیں

شمار ہو کے ابھی پھر کسی قطار میں ہیں !!

٭٭٭

 

 

 

 

یکم جون ۲۰۱۵ء

 

چرخہ

 

شامیانے میں دھنسی ہوئی شام ہے !

ہم کہیں کروٹوں سے بہت دور ہیں

بستر جاں پہ اندیشۂ جاں جھکائے

خیالی پیالوں میں

وہم وگماں کی دوا پی رہے ہیں

چہچہ باز سورج سے چھپتے چھپاتے

کہاں آ گئے ہیں

 

وہ وحشی بدن ننگے آہنگ پر

پاؤں کو جھاڑتے

اپنی ہی ایڑھ پر رک گئے ہیں

نوک نیزہ پھری

ست سری آنکھ کی ہمتوں کو

کسی دیو نے کھا لیا ہے

اب ہمالہ نشینی نشیبی زباں میں

نئی ہمتوں کی دعا مانگنا ہے

 

شامیانے میں دھنسی ہوئی شام ہے

آنکھ اوجھل کڑی دھوپ کاترس ہے،

خوف کی ایک بارہ دری ہے

جسے سنسناہٹ

اَکیلا دُکیلا نہیں چھوڑتی ہے

کہیں سے کوئی تیز رو گرد و باراں پذیز

سحابی دعا

ابروئے کاروان فلک میں

کسی تیز بارش کا دَم پھونک دے

شامیانوں سے نکلیں

دھنسی بارشوں کا وہ شور

جس سے شام نظر ہو ظفر یاب

ہمیں گھیر لے

ایسی امید کا سلسلہ دل پہ پھر باندھ لیں

اور ہری گرد کی گود سے

شام کے ذائقوں کی سحر

پہلوئے باد میں

ہر کسیلی خبر پر دھواں باندھ دے

جب بھی چلنے سے معذور ہونے لگیں

پاؤں پاؤں نیا کارواں باندھ لیں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

گیلا موسم

 

کون ہے جو مجھے بلاتا ہے

دیکھتا ہی نہیں کہ موسم کا

کتنے دن سے مزاج برہم ہے

اَبر کی ڈور کھنچ رہی ہے یہاں

صاعقات جنوں برس رہی ہیں

رنگ اترا پڑا ہے اندر سے

دَر و دیوار ٹپکا ٹپکا ہیں

کتنے ’’ماضی نما‘‘ کتاب حیات

حاشیہ وار کھول بیٹھے ہیں

کتنے ’’ آئندگاں ‘‘ کے بہکاوے

میرے دل کی شراب پیتے ہیں

کتنے احوال حال مل جل کر

میرے پیراہن تمنا کو

ناخنوں سے اُدھیڑ دیتے ہیں

ہاں کسی جشن آرزو کے لئے

محضر جاں کی سطر بندی کو

اِک بلاوہ ہے میں چلا آؤں

دل تپیدہ ہوں

جان خاکستر

اور

ہر سلسلہ ہوا اَ بتر

کیسے میں آئینے میں اُتروں گا ؟

اب تو تکیئے سے گفتگو ہو گی

دَر و دیوار ہوں گے افسانہ

اب تو خود سے لپٹ لپٹ سمجھوں

کوئی رستہ میرا رفیق نہیں

اس بلاوے کو مسترد کر دو

قا صد بے طلب کو ردّ کر دو

نین و خط کو لپیٹ کر رکھ دو

معذرت کا نقیب خط لکھ دو

آہ خود سر کے ہاتھ بھجوا دو

میرا پیغام، میری بیزاری

مجھ کو میری گلی میں رہنے دو

میری پوری نہیں ہے تیاری

 

آئینہ خانے !

یہ پذیرائی

آئینہ خانے یہ بلاوہ خوب !

ہاں مگر تم تو جان سکتے ہو

گیلے موسم میں میں نہیں جاتا !!!

٭٭٭

 

 

 

 

محاذِ عمر

 

 (۱۷ جون ۲۰۱۵ء)

 

ہمارے آئینے

اکثر ہمارے عکس کی قیمت پہ پلتے ہیں

جہاں پر رنگ ورُوپ

اور نین و خط بہر تمنا چال چلتے ہیں

تو شیشہ پھول کی خوشبو سے

باغ عمر میں آرام پاتا ہے

 

یہ عمریں ہیں ہماری۔ ۔

سایہ سایہ ساتھ چلتی ہیں

کبھی مخضوب سالوں میں

زر آئینہ

انگشت میں پہنے ہوئے

عکس مسلسل سے صدی تحریر ہوتی ہے

ہمارا دل یہیں پر ہے

کبھی ہم

قصۂ ملبوس میں پنہاں کہانت

عمر بھر کی سلوٹوں میں ڈال دیتے ہیں

کہ چہروں کی عبارت

راویوں کے کج روش شجروں سے ٹکرا کر

کسی سنگھار کے اوراق میں مستور ہوتی ہے

ہمیشہ آئینہ گم راہ کرتا ہے

ہم اپنی عمر کا رستہ کبھی خود سے نہیں بھولے

ہمیں یہ آئینہ

اور زینہ زینہ باطنِ جاں میں اترتی

خود شبابی کی ہوس مجروح کرتی ہے

ہم اپنے وقت سے پیچھے ہی چلتے ہیں

طلسم آئینہ خانہ یہی ہے

محاذ عشق میں حسن طلب کا باب بند ہونے لگے تو

عکس اپنے مونتاجی کیف و کم سے دور ہوتا ہے

نہ دل آگے کا رہتا ہے

نہ دل پیچھے کا رہتا ہے

یہ عمریں حسن سے خالی بھی ہوں تو پھر بھی رنج آئینہ خانہ

مسلسل صورتوں کے زاویے تبدیل کرتا ہے

خزانہ حسن کا اجڑے زمانوں کی

کوئی تاویل ہوتا ہے

پھر ایسے میں

سر بستر، نمود خواب کی چاہت نہیں رہتی

یا اتنا خوبرو بننے کی حاجت ہی نہیں رہتی

طلسم عمر سے آگے طلسم آئینہ موجود رہتا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

لغت مستقیم سے بدلاؤ

 

کیفیت

لفظ سے الگ ٹھہری

لفظ کومست رہروی کی صدا

سیدھے سادھے سبھاؤ آتی نہیں

میں نے لفظوں کے شامیانے میں

ایسی ہی دھوپ کا مزا چکھا

 

میں نے ’’اضداد‘‘ میں جڑے ہیرے

اپنے معنی کو خوبرو کرتے

اپنی تیکھی مخالفت میں جتے

لغت جاں میں سفر کرتے ہوئے

عمر بھر رشتۂ نظر دیکھے

 

لفظ زندہ ہیں الٹی سمتوں میں

اور اک دوسرے کو تھامے ہوئے

دل، نظر اور وجود کو گنتے

لغت مستقیم لکھتے ہیں

زندگی آئینہ بناتے ہوئے

جس میں معنی سفر کریں تو کریں

کیفیت نقشہ ٔ جمود میں ہے

جس میں اضداد مانگتے ہیں میاں

اپنا ہم سن، مخالفانہ حریف

تب لغت آگے بڑھتی جاتی ہے

اور اک شخص ہے کہ آنکھوں سے

منطقی ضد بگھارتا ہی نہیں

اس نے بس لمحۂ فراق اٹھا

میرے سر پر دھرا تو ایسے لگا

جیسے میں عمر بھر سے تنہا تھا

جیسے میرے حریف جی اٹھے

زندگانی کے اور خوابوں کے

رات کی چیرہ دست بانہوں کے

کہنے ولا لغت کے معنی کو

کیفیت کی زبان میں لایا

اس نے الفت کی معنوی ضد میں

نفرتوں سے مجھے نوازا نہیں

صرف اِک ’’ڈر ‘‘دیا یہ کہتے ہوئے ؛

’’اب محبت کو منقطع سمجھو ‘‘

لغت جاں کے بڑھ گئے معنی

تب مجھے عمر بھر کا خوف ملا !!

٭٭٭

 

 

 

 

یہ میرا عمر بھر کا رشتہ ہے

 

ماہ وسن سے گزر گئے ہم لوگ

کیاریوں میں گئے گلابوں کی

خوشبوئے رفتہ کارسوچتی ہے

کن دنوں میں خرام جاگیں گے

آہٹیں

انگ انگ گلشن کا اپنی آواز سے جگائیں گی

کوئی رشتہ نیا بنائیں گی !

ماہ وسن سے گزر گئے ہم لوگ

کچھ نظر بند، کچھ نہفتہ سر

کچھ قفس کی کپاس چنتے ہوئے

اپنی پوروں کے حرفیہ شہکار

کچھ بہت دور سے نہ جانے ہوئے

کچھ بہت پاس سے رمیدہ خیال

ایسی کچھ دسترس کے گرمائے

جس میں سانسوں میں دوڑتے آہو

ماضیانہ خیال کے قیدی

سانس پر شرط میں نہائے ہوئے

گن رہے ہیں

کتاب پارینہ

کتنے سالوں میں مختصر ہو گی !!

 

ماہ وسن سے گزر گئے ہم لوگ

بے سوالی میں دیکھنا دنیا

اور جوابی قطار میں جم کر

اپنی باری کبھی نہیں لینا

اپنی سانسوں پہ رکھ کے بازو کو

شانۂ عمر کو دعا دینا

یہ خیالوں میں بہنے ولا لہو

اور عمروں سے بات چیت کا شوق

رِستا رہتا ہے

کم نہیں ہوتا

کوئی سامع ملے کہ نہ بھی ملے

زخم کا شور جا نہیں سکتا !

 

آپ کو مجھ سے ایسی حیرت کیا

آپ میری گلی کی سیر کریں

میری خود پر الٹ پلٹ دیکھیں

میری جیب نظر کرنسی سے

زعم کا خود پہ دیکھئے بازار

میں کہیں کا رہا تو کیسے رہا

کن شمردہ نظر بھروسوں سے

خود پہ الزام بھی لگاتا ہوں

خود کو اپنا گواہ بناتا ہوں

بے کسی۔ ۔ نارسا ئی باقی ہے

بس تعلق ہوں ربط سے آگے

یہ مرا عمر بھر کا رشتہ ہے !!

 

ماہ وسن سے گزر گئے ہوں گے

پھر کھلانے پہ بھی نہیں کھلتے

پھول

جن کو دعا نہیں ملتی

زندگی کی شفا نہیں ملتی !!

اشک کا حاشیہ سنورتا ہے !!

آنکھ میں پھول مسکرائیں تو

اس بصارت کی ریزہ چینی کا

کچھ تو کار ثواب نکلے گا

اور پھر پتلیوں میں لرزاں خواب،

بے بیاباں، خیال کا چقماق

کوئی کہسار چشم کاٹے گا

اور میں اَدھ کھلے مناظر پر

تازہ کاری کی دسترس لا کر

مہر کار جمال ڈھا دوں گا

ریشمی شوق کے قرینے سے

یا کسی مخبری کے زینے سے

 

ایسی آنکھوں سے کیا کہیں رشتہ

جن میں منظر کی بود و باش نہیں

ہانپتے، کانپتے ارادوں میں

پیرہن پیش شوق ہوتے نہیں

رنگ کی نفسیات میں جل کر

اپنی زیبائشوں سے جاتے رہے

ایسی فرمائشوں میں غرق ہوئے

جن میں خال و خط ، وجود و نبود

نظر آتے ہیں پر نہیں آتے

 

آنکھ میں پھول مسکرائیں تو

ہم قفس زاد دل کے سب اسباق

اس زباں پر انڈیل دیتے ہیں

جس کی تاویل بے بھروسہ نہیں

اپنی فریاد معتبر کر کے

جوش عہد بہار سینچتے ہیں

خود بھی اپنے خلاف بولتے ہیں

قرمزی رنگ خون میں مل کر

ایسے اشجار کو سجاتا ہے

جو نظر بھی کبھی نہیں آتے

اور آنکھوں سے گم نہیں ہوتے !

 

چشمہ چشمہ شعور پھوٹے گا

ہم بھی ان وادیوں میں گھومیں گے

جن میں دستور حاشیہ کی زباں

ان کو آتی ہے جن کی آنکھوں میں

سرمہ گیں

منظروں کی باتیں ہیں

پوچھتے ہیں کہ کون آیا ہے ؟

کور آنکھوں نے جیسے مل جل کر

ایک نیا دیپ آزمایا ہے

 

آنکھ میں پھول مسکرائیں تو

دل میں شاخ گلاب چلتی ہے

اور اک درد

اپنی کوری آنکھ

پتلیوں کے سپرد کرتا ہے

اشک کا حاشیہ سنورتا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 منزل کی بے گھری

 

ایسے سفر پہ ہم نے تسلی سے دَم کیا

جو سفر

اپنی ذات میں اپنا سفر نہ تھا

ہمراہیوں کا ساتھ نبھانا تھا بس ہمیں

گرد و غبار

ان کا ہمیں پونچھنا پڑا

مشتاق آرزو سے نہ ہو خالی ذہن و دل

حرف شعور و شعر و نظر پھونکنا پڑا

فنکار مو گرفتہ انہیں جاپتے رہے

تصویر جیسے سارا زمانہ بنا رہا

یہ مستند کمک تھی کہ گرد و غبار میں

ہمراہیوں کی آنکھ سلگنے نہ دی کبھی

اور ہم نے دم گھسیٹ کے ریگ رواں کے بیچ

ہر نقش پا کو نقش رفاقت بنا دیا

ہم لوگ سادہ لوح تھے

اچھے بھی تھے بہت

پار نظر زمانوں کو بس دیکھتے رہے

جیسے ہمارے عشق میں باد صبا چلی

اور رنگ و بو میں روشنی جی بھر نہا چلی

جیسے کہ نیلا آسماں

تاروں کا کارواں

گجروں میں بانٹ ضوئے فلک دلربا لئے

’’ہو ہو‘‘ شہاب ثاقبوں کو بانٹتا پھرے

لیکن یہ ایک خواب تھا جس کو رقم کیا

کیسے سفر پہ ہم نے تسلی سے دم کیا ؟

 

اب سفر اختتام کی زنجیر کھینچ کر

لایا ہے کارواں کو نئی منزلوں کی اور

سب اپنے حسنِ ماہ سفر کے بیاں میں ہیں

ہم سے غبار دھو کے بھی اس کشمکش میں ہیں

عمروں میں ڈھل گئے ہیں وفادار مرتبے

تصویر بن کے حسن رواں دیکھتے رہے

جس میں نہ آنکھ خواب کی تصویر بن سکے

جس پہ نہ مڑ کے نقش کف پا ہی مل سکے

کچھ لوگ تھے جو باب تمنا رقم کئے

رشتوں کے نام پر ہمیں خود سے چرا گئے

سب کچھ روا روی میں کہیں بسر ہو گیا

خس کے مزار میں جلے یونہی تمام عمر

تا پھر نہ ہو دوبارہ کوئی روسیہ سفر

پھر اس سفر کے بعد نہ ایسے سفر ملے

جیسے سفر پہ ہم نے تسلی سے دم کیا

یہ بھی خبر نہیں کہ در رائے گاں کو کھول

کس کس حساب دل کے خساروں کا غم کیا !!

٭٭٭

 

 

 

 

 

آپ آئیں گے یہاں ؟

 

میں اکیلا تو نہیں

میرے گھر میں بڑی تنہائی ہے

جو بلوغت میں کہیں آگے

کسی خواب میں ہے

رُستہ شستہ سبھی پیراہن دل

آرزو ساز زمانوں میں ڈھلے

دھن بجاتے ہیں

کسی خام وجودی غم پر

اور یہ آنکھیں مری

رونے دھونے میں بہت تیز سفر

اور اگر حاجت اخفائی ہو

آستیں عرصۂ غیرِ محدود

اور چھک چھک سے مکمل آزاد

دل میں ہر ہجر ترازو ہو جائے

یاد آنے کا بہانہ مل جائے

رخصت یار مکمل ہو جائے !!

 

ایسی آزاد رَوش ڈور کہاں ؟

جو پتنگوں سے بھی آگے نکل آئے

اور پرندوں میں جما کر آنکھیں

سلسلہ وار مکمل ہو جائے

 

آپ آئیں گے یہاں ؟

اور ٹھہریں گے بڑی دیر یہاں ؟

یہ بھی اندازہ ہے

پھر بھی یہ سوچتا ہوں

سونی پڑتی ہوئی عمروں کا قحط گزرے تو

میرا بھی حال چلے

دل کی رفتار مرے ساتھ چلے

 

روز دروازہ کھلا رکھتا ہوں

روز مہمان بلاتا ہوں کوئی

ماجرا ساز کہانی کہہ کر

خود کو تجویز میں لا رکھتا ہوں

کوئی مہمان بگڑ جاتا ہے

میری تنہائی سے ملتا بھی نہیں

زخم جو مجھ میں کھلا ہے اسے سہلاتا نہیں

کس کو معلوم ہے یہ دکھ میرا

میرے اس حجرۂ تدریسی میں

آئینہ تک میری بیعت میں نہیں

اب یہاں کوئی بھی حیرت میں نہیں !!

٭٭٭

 

 

 

 

گردش میں جلا سایہ

 

دیا بس جلایا۔ ۔

ہتھیلی فلک وار

گردش میں رکھے کناروں سے بھڑنے لگی

بخت میں جو اندھیرے

میری کاوشوں کے نگہبان تھے

محنت وقت کے ہاتھ چھونے لگے

مبادا

اماوس سے روشن جگر رات بیدار ہو

سفر کٹنے لگے

تہمتوں کے سفینے بھٹکنے لگیں

 

دیا بس جلایا۔ ۔ تو قسمت کی تبدیلیاں

خوش نما رہبروں کے گلے جا لگیں

وقت کے پاؤں رفتار میں تیز ہونے لگے

رات کی رات میں

آنے والے دنوں کو سند مل گئی

یوں قضا و قدر کی نا عقدہ کشا ئی

بھرم پر کوئی رقص کرنے لگی

یوں بہار آ گئی یوں چمن کھل اٹھا !!

 

گردش وقت ہے اور انسان ہے

بس ارادوں کی کائی پہ اَٹکا ہوا

لمحہ تضحیک کی چال چلنے لگا

روستائی میں بھٹکی ہوئی آرزو

اپنی امیدواری سے جانے لگی

پاؤں جھڑنے لگے

راستے کھلبلی میں کہیں جا پڑے

گردش وقت ہے

اور کہیں بھی کسی کو نشانہ لگے تو یہ ارشاد ہے ؛

بس مشقت میں پیدا ہوا ہے

یہ مٹی کا پتلا

یہ روح خدا کا نفخ پانے والا

ہوا اِس کے نتھنوں سے ایسی چلی

گردشوں میں، دھمالوں میں

رقصندگی میں

کہیں پاؤں ٹکتے نہیں ہیں کسی کے

دیا بس جلایا تو ایسے لگا

رات کی رات میں رات دِکھتی نہیں

یہ قضا کے زمانوں کی محتاج ہے

گردش ذات کی یہ ہی معراج ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

یکم جولائی۲۰۱۵ء

 

 

’لا‘ سے عاشقی

 

 

ابھی خود پہ اُتری کتاب خرد سے

مصافحہ گہی کی

ورق جھاڑتی گرد اٹھنے تو دو

مجھے اپنے موجود کے ترش،

تلخی بھرے جام کی

حدت بے نموئی سے ملنے تو دو

کفر ہی چھانٹ لوں

باب تشکیک پر دستکیں چھاپ لوں

اور زمانے کے ابعاد میں

اپنے اجداد کی

بے سمت آرزو کا سرا ڈھونڈ لوں

مجھ کو ’’ میں ‘‘ سے ملانے میں

جتنا کم و کیف عصری فنا پا چکا ہے

اسے انگلیوں کے خزانوں میں پھر جوڑ لوں

کوئی معبد بنا کر اسے توڑ دوں

 

ہر طرف اک جبیں ہے

ہر اک سمت میں ایک قبلہ

تعین کی دستار ہے

بے نمو نہ رہے حسن کار ازل

سو، تخیل، تفکر سے ہٹ کر

کوئی جامدانہ

رفو کار چہرہ

یا عکس بقا کا خبر یافتہ

آئنہ

ہر وفا دار کی جستجو میں تو ہے

یہ الگ بات ہے

اس لہو کی بجھارت میں

کھلتی پہیلی

ازل کی سہیلی سے ملنے میں آزاد ہے

 

کو بکو بھی نہیں

جستجو بھی نہیں

داور عشق کی آبجو بھی نہیں

مگر

سوچنا یوں ضروری ہوا ہے

ہر اک سانس میں

اک نئی قبر ہے

اک نیا جشن ہے

سو افتاد کی سرخوشی چاہئے

گرد اٹھتی رہے

ناقہ چلتی رہے

تانا بانا نئے سبز اور سرخ کا

یونہی بنتا رہے

بس سفر کی قیامت پہ جنت کا احسان ہو

اس خبر پر مرا عندیہ جان لینا

مجھے اس سفر کی نئی منزلوں کا پتا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

زمانوں کی گرد سے بچا معجزہ

 

ہمیں اپنے خیالوں سے بغاوت کی

مہک چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے

ہم اپنا آشیانہ

خواب اِترائے ہوئے اشجار سے

اَب دور رکھیں گے

چمن، ساکت ہوا میں

گل کی مسماری کی اِک تعبیر لگتا ہے

اُتر آنے لگی ہے

مے __حریفانہ

جو عرض حال کے جو ہر سے نکلی تھی

نگلنے آ گئی

آتش__ رقیبانہ

جو دست یار سے گلنار ہو کر

بے اُفق اِک آسماں ہونے کو نکلی تھی

 

ہمیں کیا ماجروں کے غول میں

کھوئے ہوئے صحنوں میں

ممیائی ہوئی باتیں

سنائی ہی نہیں دیتیں

ہمیں کیا وہ ندی نالے

جو ہاتھوں کی لکیروں سے نکلتے تھے

جہاں ہم خود پسندی کے حوالوں میں

نہاتے تھے

مسلسل بھولنے کی ضد میں بیٹھے ہیں ؟

نہیں ایسا نہیں ہے !

بہت سا اَبر برسے تو

مکانوں کی کہانی کھیت ہو جائے

بہت سے راستے

پانی کے تالابوں میں چلتے ہیں

زمانوں کو تو بوندا باند کی ہلکی نمی

تبدیلیوں کے زہر سے مسموم کرتی ہے

بدل جاتے ہیں

جنگل، اور قافِ نور کے سارے رسیلے لفظ

ماجرا ہر بار دُکھتے زخم سے آباد ہوتا ہے

کبھی راہی بھٹکتے ہیں

کبھی رستہ بھٹکتا ہے

مگر اک معجزہ

ابجد کی تربت سے نکلتا ہے

زمانوں پر زمانوں کی

نویلی حیرتیں

سفر مسلسل کا عقیدہ لاد دیتی ہیں

مگر بکھرے ہوئے،

ٹوٹے ہوئے ابجد سے

اتنا دَرس ملتا ہے

ترے نقش ّ کف پا تک

کہانی ساتھ رہتی ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

یاد داشت کا مقدمہ

 

بات اب ذائقوں سے آگے ہے

لمس میں بھیگتی ہواؤں نے

پر سمیٹے،

اڑان چھوڑ دی ہے

اب بصارت نیاز مندی سے

جسم کی گھاٹیوں کو چھوتی نہیں

وصل کے خواب کی خبر کوئی

یا فسانہ خیال گیں کوئی

رقص کی دل لگی نہیں کرتا

سانس اب زندگی نہیں کرتا

 

بات اب ذائقوں سے آگے ہے

اب سماعت کو انتظار نہیں

زمزمہ سوز سے ہوا خالی

کوئی آواز مسکراتی نہیں

گیت پہلو نہیں بدلتا کہیں

بے سماعت گزر رہا ہے خیال

کوئی پازیب دل دکھاتی نہیں

کوئی آتا ضرور ہو گا مگر

چاپ آتی ہے پر نہیں آتی

 

بات اب ذائقوں سے آگے ہے

کون چکھے ترے وظیفے کو

کون اب ناریل کا آب پئے

ذوق کو لے گئے فسانہ طراز

اب زباں رَس میں تیرتی ہی نہیں

مندمل ہو گئی پیاس مری

العجب! کوئی حیرتی ہی نہیں ؟

 

بات اب ذائقوں سے آگے ہے

روش باغباں ہوئی خالی

سب گلابوں نے چپ پہن کر بھی

داستاں کو سفر میں رکھا ہے

پھول اب بھی مہک رہے ہیں مگر

خوشبوئے یار مسکراتی نہیں

ذائقوں کے بدل گئے معنی

یا حواسوں نے بند گلیوں میں

اپنی ہی یاد داشت کھوئی ہے۔ ۔

پہلے اس جسم کا کیا انکار

پھر

نہ بوجھے ہوئے جہنم کے

سارے قیدی رہا کئے دل نے

اور اب بے حواس خیموں میں

کوئی رہتا ہے یا نہیں رہتا

مجھ کو کیا اور بھی کسے معلوم ؟

بات اب ذائقوں سے آگے ہے !!

٭٭٭

 

 

 

۲ جولائی ۱۵ء

بارگاہ دل

 

وہ جہاں تک جا چکا ہے

اُس کے پیچھے بس کوئی رُود خیال

آئے تو آئے، دل نہیں جاتا کہ دل کی چاہ

قند آرزو ہے،

حکم نامہ تو نہیں جس کو بلائے

وقت حاضر باش ہو جائے !

 

وہ جہاں تک جا چکا ہے

ساتھ میں کچھ بد گمانی کی سلگتی راکھ ہے

اور اک بکھرے ہوئے، روٹھے ہوئے

محبوب کا اندوختہ

جس میں نظر یں گھر کے دروازے کی جانب

لوٹنے میں،

پتلیوں سے بیر کھاتی ہیں

 

یقیناً لوٹنا باقی نہیں ہے !

گرد اَندازوں کی، تا رُوئے فلک اِک

غازۂ بے چین ہے

چہرہ چہرہ جس پہ رنگ آتا نہیں

آئینہ بس ہے کہ جو کمزور لمحوں میں

کسی گرتے ہوئے کے خال و خط گرنے نہیں دیتا !

 

وہ یہاں تک آ چکا ہے

جس میں

رفتار صبا کا ذکر بھی

موہوم سا اک عندیہ ہے کہ کوئی

باغ فلک کی ہر روش کو نا پتا

تارے گھماتا

چاند سہلاتا

کسی آہٹ کو چابک سے چلاتا

تیز قدموں سے

مسلسل دل کے دروازے پہ جھکتا جا رہا ہے

 

جو یہاں تک آ چکا ہے !!

اب کسے معلوم کہ کل تک کہاں تک جا چکا ہو گا؟

٭٭٭

 

 

 

سونا محل

 

آسماں گیر

ان خلاؤں میں

عشق کی داستاں اکیلی ہے

کبھی مہتاب کی ہتھیلی پر

حسن یاراں کی آبرو ٹھہری

رات کی ریشمی کہاوت میں

خوباں خوباں چراغ جلتے ہیں

ہجر کے مشغلے سنورتے ہیں

بے شمار قطار انجم میں

چاندنی کی اتھل جوانی میں

دل کے سب شامیانے کھلتے ہیں

آرزو کے حبیب آتے ہیں

دل سے روشن قدر نکلتے ہیں

چاند کی بالکنی سے دھیرے سے

مصرعہ مصرعہ بدن پھسلتے ہیں

شاعری کی ندی میں دھیرے سے

کشتیوں کے سراغ ملتے ہیں

ان ستاروں کی گزر گاہوں سے

عشق کے سب نصیب چلتے ہیں

آسماں پر ستار بجتا ہے

رقص کے زاویے بدلتے ہیں

 

ہم نے سمجھا تھا یونہی سمجھا تھا

اس فلک کی روش روش میں سدا

حسن کے پھول ہی مہکتے ہیں

اس فلک کے قریب تر ہو کر

ہم نے دیکھا تو ٹھیک ہی دیکھا

وسعت دل کی جانچ کرتے ہوئے

آنکھ کی غربتیں نمایاں تھیں

گھر میں اتنا اناج ہوتا نہیں

دل کے مہمان تک سنبھلتے نہیں

ایک خوش فہم سیر گہہ ہے فلک

جس کے سارے چراغ اندھے ہیں

رات کا یہ نگار خانۂ عشق

صبح کا دشت بے اماں ٹھہرا

پتلیوں سے نکل گئے سب خواب

آنکھ ترتیب حسن کھو بیٹھی

عشق بے آسرا نکل آیا

اور اِک آہِ سرد نے دل کو

آسماں گیر ایک پچھتاوا

یوں دیا کہ نگہ اٹھی ہی نہیں

زندگی جیسے زندگی ہی نہیں !!

 

آسماں کے قریب تر ہو کر

آؤ کار سفر سمیٹیں ہم

شب کے انبار سے نکل آئیں،

عشق کو لامکان فرضی جان،

حسن آوارۂ جہاں جانیں !

ایک آواز آ رہی ہے کہیں

’’لوٹنے کے بھی ڈر نہیں ہوتے

اِن ستاروں میں گھر نہیں ہوتے !! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

معاہدہ

 

دلوں سے بات ہو گئی

نگار چشم کی سبھی اداسیاں چلی گئیں

سکوت ذات شوق کی فغاں ہوا

نظر کے بند کھل گئے

حواس جاگنے لگے

بہار آرزو میں قلب یاسمیں

دھڑک دھڑک کے کھل رہا

شاعری کی رقص گہہ میں کھلبلی سی مچ گئی

اداس شام جا چکی تو پھر سے یاد آ گیا

کہ اس معاہدے میں

کوئی ایک تو کمی رہی

نہ موت خرچ ہو سکی

نہ زندگی بچی رہی

جو ہو سکے تو پھر سے سوچنا

قرین عقل ہے

بہار گل فشاں مرے مزاج کی ہنسی نہیں !!

٭٭٭

 

 

 

 

 

مطبع خانہ

 

اِن طباعت گھروں میں

مرے زخم کی نارسائی پڑی ہے

جو سمٹی نہ دل سے

نہ شعروں میں لپکی

مرے ہجر کی وہ دہائی پڑی ہے

طباعت گھروں میں

لٹے قافلوں کی کمائی پڑی ہے

 

ابھی زخم دل کے گھروندے میں چپ چاپ

نمود قضا کا بدن جانچتا تھا

ابھی جگ ہنسائی سے دل کانپتا تھا

ابھی دل کی دہلیز آہٹ سے خالی تھی

پرسش کو کوئی نہیں آ رہا تھا

وہ صدمۂ ہجران تھا، جو بھی تھا وہ

متانت سے درد جگر سی رہا تھا

مگر اب طباعت گھروں میں

مرے دل کی بے تابیوں کا سفر ہے

کہاں سے میں گزروں

کہ مجھ پر مرے عشق کے قاریوں کی نظر ہے

طباعت گھروں سے کتابوں نے آ کر

کنواری اداسی

بڑی بوڑھیوں کا تماشا بنا دی !!

٭٭٭

 

 

 

 

آرزوئیں

 

باندیاں آزاد کر دو

دل کے گہوارے میں خالی سانس لو

آواز دو

خود کو کہ میں خالی بدن، خالی ذہن

یوں پورب و پچھم سے آتی بارشوں سے

گفتگو ،

تہذیب در تہذیب کر سکتا ہوں

پھولوں کے جنازے ساتھ رکھ کر بھی

کہ جیسے سب جہاں کو بھول سکتا ہوں

ستاروں کی چمک سے ہٹ کے بھی

شب خوابیاں

نہ سوجھتی مسکان سے

سلوٹ بہ سلوٹ

بستر امید کر سکتا ہوں

کتنے نا چشیدہ جام بھر سکتا ہوں

لذت کے بہانوں سے

بہائے داستاں تقسیم کر سکتا ہوں

اِن بجھتے فسانوں سے !

 

یہ خالی ہاتھ بھی کوئی کرامت ہیں

یہ سادہ دل

کسی کشکول رحمت سے کہیں کمتر نہیں ہو گا

فقط یہ آرزوئیں، دل کی پھنکاریں

خیالوں کی رسیلی انگلیوں کو چومتی

دزدانہ تصویریں ہیں

جن پر خواب کا آسیب چلتا ہے

 

یہ میری آرزو مندی

کسی دستور کا وہ زائچہ ہے

جس میں

دل کو بہر استقبال

دھڑکن ساز ہونا ہے

کھڑے ہو کر انہی پنجوں کے بل

دیوار دل کے پار تکنا ہے

بسر ہونا ہے ایسے ماجروں کی خوبروئی میں

جہان پر داستاں

بے خود زمانوں کو بلاتی ہے

خم بے درد سے جاں کو سلاتی ہے

کمیں گا ہوں میں

حزن یار کا پارینہ قصہ ہاتھ سے جاتا ہے ناگہ

اور قناعت بھول جاتی ہے

سفر کی دھول اڑتی ہی نہیں

اندر کسی ریگ رواں میں بھیگتی

بے آب کشتی ڈگمگاتی ہے

باندیاں آزاد کر دو

راہداری میں چراغوں کو بجھا دو

دل جلا لو

دل کہ جس کے طاق میں

عیش تبسم عاجزی سے ضو پکڑتا ہو

نوید آرزو کے بھید کھلنے کا کوئی نقصاں نہ ہوتا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 اِن رتجگوں سے گھر بنانا ہے ؟؟

 

سوچنا ہے

اور مسلسل سوچنا ہے

پہلے دل

اک خشمگیں، کوری اداسی میں ڈھلا

اور اپنی ہی تصویر پر

بے رغبتی ، محرومیت سے جھانکتا

ہر شب کسی نادیدہ دست ناز کی چاہت میں رہتا تھا

پھر محبت نے کسی آسان لہجے میں پکارا تھا

مجھے تم سے وہ فرصت ہے

کہ جس سے میں گلابوں کی نرم رُو پتیوں سے

یوں پھسلتی ہوں

کہ جیسے برف کے طوفان میں

اک برف گاڑی

تیز تر اک کارواں لے کر نشیبوں میں اترتی ہے ‘‘

 

سوچنا ہے

اور مسلسل سوچنا ہے

کتنے اندازوں سے میں نے دل کے

دروازے بنائے تھے

ہوا کی دستکوں میں

آنے والے دن ذخیرہ

موسم جاں کو پرکھتے تھے

کہ آنکھیں منظروں پر جاں چھڑکتی تھیں

نشیلے نین

خود پر کود آتے تھے

نظر وابستہ کتنے خواب

اندازوں میں آنکھیں گرم رکھتے تھے

قدم جیسے کہ دروازوں میں رکھے تھے

سوچنا ہے

اور مسلسل سوچنا ہے

کیا ہوا ؟

کیسے ہوا یہ حادثہ

کہ جس میں فرصت جوڑتی الفت

مجھے آواز دیتی تھی تو صدموں میں گرفتہ لب

کسی کی بیوفائی کی کہانی جوڑ دیتے تھے

بہت کچھ جان لینے سے میں قاصر رہ گیا کیسے ؟

میری آواز میں روندے ہوئے لشکر

میرے لہجوں کو کیوں ترتیب دیتے ہیں ؟

یہ آنکھیں کیوں برستی ہیں ؟

یہ نیناں کیوں ترستے ہیں ؟

یہ دل کیوں بے جوازی کی مسلسل مار کھاتا جا رہا ہے

اور راتیں کن اصولوں کے بکھرنے پر

شراب سرخ کا نشہ دکھاتی ہیں

یہ کیا راتیں ہیں

جو سیال مخبر ساتھ لے کر

دل بہاتی ہیں

بہت سے راز ہیں

جو ڈھونڈنے ہیں

اور اپنی ساری تقصیروں کو پھر سے جانچنا ہے

اس محبت کو ’’ خدا حافظ‘‘ کہاں تک کہہ سکوں گا

ماجرا جس لفظ کی گتھی میں الجھا ہے

اسے تحلیل کرنا ہے

 

ہاں !ضروری کام کرنے ہیں مجھے

پڑتال کرنی ہے جگر کی

ہجر نامے چاک کرنے ہیں

بہت تاکید ہے دل کی وگرنہ

یہ نہیں تو کیا مجھے

اِن رتجگوں سے گھر بنانا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

’’ہونی کا زمانہ‘‘

 

ہر کہی پر بھی اگر کان یونہی رکھو گے

اَن سنی کو بھی اگر گھات لگا بیٹھو گے

دل کی اُترن کو کوئی رزقِ عطا سمجھو گے

آنکھ پر قصۂ منظر کا اگر پہرہ نہیں

پھر بھی کیا ضبط مقرر ہے کہ لوٹ آئے گا

وہ جسے آنا ہے

تصویر مکمل ہو کر !

 

خواب آتے ہیں

کوئی جھیل ہری ہوتی ہے

راج ہنسوں کو مداوا بھی کوئی چاہیئے ہے

اور موسم کے بدلتے ہوئے تیور یونہی

کتنے اَپنوں کو پرایوں میں بدل دیتے ہیں

اِک جدائی بھی کہیں تیرتی ہے

درد سورج سے نکل آتا ہے یوں چھن چھن کر

دھوپ کی آڑ میں اک رقص بپا ہو جیسے

خون میں پھیلے ہوئے جرثومے

جن میں موسم کے بدلنے کا کوئی ذکر نہیں

جھیل میں تیرتا رہتا ہے

ملن کا وعدہ

اور اس وعدے کی تعبیر جدائی تک ہے

کون سے لفظ کی تاثیر خدائی تک ہے ؟

 

جاگنے پر بھی کہاں آنکھ مری کھلتی ہے

سلوٹیں مجھ سے چپک جاتی ہیں

جسم اَکڑوں کسی بستر سے نکل آتا ہے

تکیہ تکیہ مجھے سوچیں کہیں لے جاتی ہیں

ایسی سوچیں

جنہیں خوشحال نظر سے دیکھیں

تو دماغوں کی خدائی کا ترانہ پڑھ لیں !

 

کون جانے کہ اُلٹ پھیر کی اس دنیا میں

کونسا لمحہ کسی قوس مقرب کی طرف

اپنے تبریک زمانوں کی خبر دیتا ہے

کونسا لمحہ کسی قوس زیاں کار کے ساتھ

لوٹ لیتا ہے کسی دست شفا کی رونق

دل کا میزان ہو یا کاتب تقدیر کا ذوق

ہوتے ہوتے کسی منظر کی خبر ہوتی ہے

گوشۂ ٔ علم سے دامان نکل آتا ہے

یعنی تفسیر سے قرآن نکل آتا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’مُوتواقبل الموت‘‘

 

وہ بھی کاٹ ڈالا ہے

جس شجر میں گلشن کی آبرو ودیعت تھی ؟

تم نے پھول توڑے ہیں

پھر غرور کا پھندہ اور کس لیا تم نے ؟

ارغواں کہ نیلا رنگ

یاسمیں کہ نیلو فر

یا گلاب کی دستار

سب ہی بے قرینہ ہیں

کس ستم کی آندھی سے ہاتھ جا ملایا ہے !

 

میں نے خواب دیکھا تھا

چاند سر نگوں ہو کر

درد کو چھپانے میں اس قدر اکیلا تھا

جیسے بے ستاروں کے آسماں کا پیدا تھا

اور اس کو تنہائی

اک گواہ کی طرح دیکھنے میں تھی مصروف

پھر کہیں اچانک ہی

درد کی سہیلی نے

ارض کی پہیلی نے

اپنی شال پھینکی تھی

چاندنی نے بالوں کو اس طرح سے جھٹکا تھا

جیسے اس کو اندر سے ٹوٹنے کا کھٹکا تھا

زرد زرد تاروں کی رات مختصر نہ تھی

ایسی ایسی تنہائی روز کب برستی تھی

چاند کا زر مہتاب خاک کا کھلونا تھا

جس سے کھیلنے ولا

وقت کا سویرا تھا !!

 

وہ بھی کاٹ ڈالا ہے

جس کے پاس ہمدردی

جانے والے راہی کی سانس کے برابر تھی

ایک ہی وہ جذبہ تھا

ڈوبنے کا خدشہ تھا

اور تم نے نفرت سے

رشتۂ وفا کاٹا

درد جانفزا کاٹا

 

کیا اسی پہ سوچوں کی انتہا ٹھہر جائے

کیا یہیں بصارت کی

آگہی ٹھہر جائے

کیا یہیں پہ دل والے

آخری تمازت پہ

گھر کا گھر جلا ڈالیں ؟

 

سن رہے ہو آوازہ

آ رہا ہے وحشت کے آخری نشیبوں سے

ہر نمو کی گردن میں

زخم بھر دیا جائے

قہر ڈھا دیا جائے

وقت کا یہ اندیشہ اور سچ نہ ہو جائے !!

٭٭٭

 

 

 

 

اَبجدی دستور کے بانی !!!

 

بہت سے رنگ تھے

ہم جن کو ابجد کہہ کے لکھتے تھے

ہمارے سر کے نیچے

سرخ ٹیلوں کے سرہانے تھے

جو سوز فکر سے اگلے زمانوں کے دہانے تھے

جنہیں ہم کوہ تسخیر بدن تسلیم کرتے تھے

 

زمانے کے بہت سے رنگ تھے

جو کہ محاذ زندگی پر خرچ ہوتے تھے

سو خود کو سین شینی آریوں سے کاٹنے کی

حربی تدبیریں بناتے تھے

نہایت تیز تربیت زدہ

وہ الف ممدودہ

کہ جس سے صوت کی اک چیخ کو ہم جمع کرتے تھے

ہم اس کو آسمانی قوس سے تعبیر کرتے تھے

 

سجیلے لوگ تھے ہم اور

ندرت کار شاہکارے

رگوں کے بھید میں چکنا جہاں تخلیق کرتے تھے

ملائم انگلیوں سے

غار میں الجھے ہوئے تاریخ کے ریزوں کو

کاغذ پر جماتے تھے

روایت کو کہانت سے ملاتے تھے

محاذ مدنیت پر اپنی نیت،

شوق کو اپنی سند کے طور پر مشہور کرتے تھے

بلا کے خوبرو تھے

ہم مناظر زاد

بہر آرزو مندی

قرینے سے زرِ تاریخ کو

قزاق ہاتھوں سے اُڑاتے تھے

کسی کے نام کی اوندھی شہادت کو

سہولت سے

کسی کے نام کی زینت بناتے تھے

سجیلے لوگ تھے ہم

آفتابی مشرقوں کو غرب کی تقدیر کرتے تھے

 

ہم ایسے لوگ تھے

جو معبدوں سے بندگی کی متھ اٹھا کر

اپنے گھر محبوس رکھتے تھے

عقائد ہم بناتے تھے

خدا تجویز کرتے تھے

بہت فنکار تھے ہم لوگ

اکثر مشتبہ را ہوں پہ چلتے شہسواروں کو چرا لاتے،

کبھی دام و دَرم کے زور پر تملیک کرتے تھے

 

سجیلے، ابجدی پرواز زادے ہم

بنام شاعری

حرف علامت کو مقدس دیوتا تسلیم کرتے تھے

تو ہم کو لوگ کہتے تھے ؛

’’ یہی اہل شرف ہیں جو

رقیبوں کو حبیب داستاں منوا کے آتے ہیں

یہی زندوں کا پس منظر،

یہی مردے جلاتے ہیں ‘‘

ہم ابجد کار کیسی دلبری تخلیق کرتے تھے

 

ہمارے یہ بھی قصے تھے کہ ہم

ابجد کو حسب آرزو تنویر کرتے تھے

جو پیدا ہو نہ سکتے تھے

ہم ان معنی کو بھی تخلیق کرتے تھے

مبادا لاشعور

اپنے ارادوں کی پنا ہوں کو

فقط خوابوں میں دکھلائے

ہمیں تو روشنی کے دیکھنے کو

روشنی تخلیق کرنا تھی

بہت سے عام لفظوں کی

بہت سے خاص معنوں میں ہمیں تعلیم کرنا تھی

 

سجیلے لوگ تھے ہم

ابجدی دستور کے بانی !!!

٭٭٭

 

 

 

 

مے نوشی

 

اَن کہی، حرف جلی سے بیر ہے تو

آدھا دل تحریر کرتے ہیں ضیاء صاحب !

ضرورت ہے

ہمیں ان دوستوں سے بات کرنے کی

جو دل میں بغض رکھتے ہیں

بظاہر کھینچتے ہیں انگلیاں

اور چپکے چپکے بات کرتے ہیں

محاسن کی

جو ہم میں پیدا ہونے جا رہے شاید

 

کہیں پر ہم رکے ہیں

یا ضرورت تھم گئی ہے

اجلی تنہائی کہاں راس آتی ہے

تخلیق کا رس پینے والوں کو

ہماری انگلیاں دل کے سفر کو

سگریٹوں سے ناپتی ہیں

اور دھوئیں کے بام پر

ہم یوں اُترتے ہیں

کہ جیسے عسکری پیادے حمایت میں

کسی لشکر کے ہنگامے میں

آگے بڑھتے آتے ہیں

سکڑتی دھوپ پر نظریں اتارے

سانس کے آنچل کو

اپنی بے دھیانی سے اچانک جھاڑتے ہیں

زینہ زینہ یوں اتر آتے ہیں اندازوں کے جال

جیسے کہ مفروضۂ دل کو یقیں میں ڈھالنا ہے

اب نہیں تو ایک دو دن میں

یہ کار نا گزیرہ ہے

 

ہماری فرصتیں بیکار

شاید صحبتیں پیدل

ہماری گفتگو اندر کی بے چینی سے آلودہ

کبھی موسم کے ٹیٰکے پر

کبھی مہنگائی کا رونا

کہیں اس باریابی کی نشستوں کا تذکر

جن میں ہم بھی فرغل جام وسحر دل نوش کرتے تھے

 

یہ ہم ہیں

غصہ ور، بے نام شاعر

جو تماشے کو زمانے کے دکھانے کو

سر باز ار لائے ہیں

مگر کہتا رہا پیچھے سے کوئی ؛

’’کچے رنگوں کے بھروسے پر

دَرو دیوار پر لکھا نہیں کرتے

خصوصاً بارشوں کے ضد پکڑتے سرخ موسم میں !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

عمراں لنگیاں۔ ۔ ۔ !!

 

آخری شام ہے

اور روتی ہوئی شب کے بدل

کچھ بھی تو پاس نہیں !

 

ہم چراغوں کی صفیں رکھتے تھے

طاق میں طاق محبت کا جنم ہوتا تھا

شام ظلمات

قطاروں میں کھڑی سوچتی تھی

کیسی مخمور جبلت سے کشیدہ گھر تھا

درو دیوار چراغوں کی مسیحائی میں

اپنے ہر درد کو شب ہوتے ہی

دھوتے جاتے تھے،

محبت کا صلہ پاتے تھے

 

مفلسی!

مفلسی یوں بھی محبت کی قبا ہے

جس کو، بہر افسانہ

کہانی کے کسی آنگن میں

مفلسانہ سا کو ئی حرف جنوں پہنائیں

دردمندی سے لطافت کی ہوا چلتی ہے

ہوک اٹھتی ہے

مگر باد صبا چلتی ہے

شام کے سائے ،

چراغوں کی مہمات کا ذکر

اور پھر مفلس بیگانہ کی تصویر کا رنگ

کیوں اتر آتا ہے آنکھوں کے نگیں خانے میں

بات ہر روز مکمل نہیں افسانے میں

 

خود فریبی بھی بڑی دولت ہے

کم سے کم

وقت سے آگے کی صدا

اور دعا دیتی ہے امید مدام

جب بھی ہاتھوں سے سلیقہ گم ہو

 

آخری شام ہے

اور آتی ہوئی شب کے بدل

کچھ بھی تو پاس نہیں

رمز کب تک میری تنہائی کا تاوان بنے

حرف کب تک

میرے گھوڑے کو نہ مارے چابک

ایسا رستہ ہے جو آسان نہیں دِکھتا ہے

آج تو بات مکمل کرو افسانے میں

ورنہ تاریخ کا دل گردش مے خانہ ہے

آخری جام کہ ہو آخری زخم

خود پہ اتریں کہ—- پس خواب چلیں

ایک الزام نکل سکتا ہے

اور بھرم توڑ کے وہ بات سر عام نکل آئے گی

جس میں ہم خود کو چھپاتے تھے

فسانے کے کسی کمبل میں !!

٭٭٭

 

 

 

 

ناسٹلجئیا

 

جو پچھلے برس تھے

ابھی تک ترے ہاتھ تھامے ہوئے

چل رہے ہیں

تمہیں آنسووں سے محبت ہے شاید

تمہیں گرد سے

اپنے پاؤں پہ مخمل لپیٹے، مزا آ رہا ہے

 

عجب خود اذیت زمانوں میں

تم نے، کھڑی سوچ سے،

اَدھ جلی دھوپ سے دوستی کا مصافحہ کیا تھا

ضرورت کے انبار کے بوجھ میں دب گئے تھے

تبھی قطرہ قطرہ

قطاروں میں آنسوبہانا نہیں چھوڑتے ہو

جو پچھلے برس تھے

انہیں تم بہت سا صلہ دے چکے ہو

 

جو پچھلے برس تھے کہانی تھے

جو اپنے ہی اسلوب کے ساتھ مل کر

کسی شاہ پارے میں ڈھلتی رہی تھی

سفر میں جو کردار رکنے تھے شاید

تمہارے نفس میں ابھی چل رہے ہیں

 

جو پہلے برس تھے وہ تاریخ بننے کی حالت میں

سکتہ زدہ ہیں

نہیں بولتے ہیں کہ تم نے انہیں پال کر،

پوس کر اتنا اونچا کیا ہے

کہ ماضی کی کھڑکی سے بھاگے ہوئے سال

تاریخ کے دست برد یقیں سے

کہیں دور آگے نکل آئے ہیں

ساتھ صدمات کی آند ھیاں ہیں کہ جو

کل سے پیوستہ ہو کر

تمہارے حضوری شجر کو گرانے میں گردان ہیں

اور تم اپنے ماضی سے لپٹے ہوئے

اپنے اگلے زمانوں کی رخشندگی سے گریزاں

زمیں پر نمک کو گرانے میں مصروف ہو

 

جو پچھلے برس تھے

انہیں حافظے کی گراں قدر جیبوں سے

ایسے گرا دو کہ جیسے

زمانہ کھلا رہ گیا ہو !

نئی سانس میں پھر نئے سال ہوں گے

زمانوں کی کھڑکی سے باد صبا کو کھلا راستہ دو !!

٭٭٭

 

 

 

 

ذوق آور کشتیاں

 

عجب کشتیوں کے مسافر ہیں

کھلنے لگے ہیں جو اپنے تئیں تو

کناروں کو پہلے نفس سے اتارا

زمینوں کے نقشوں کو غلطانِ معنی کیا ہے

جدھر زندگی آئینہ دیکھتی تھی

اسی سمت کو آنکھ میں غرق دریا کیا ہے

عجب کشتیوں کے مسافر ہیں

جو کہ ہوائے سفر میں سفنیوں سے عاری

سمندر سے آگے نکل آ رہے ہیں

 

ہر کسی بزم کا یہ بھروسہ نہیں

جام پر جام کی ایک دیوار سے

حسن آداب کی اس بلندی کو چھولے

جدھر زینہ زینہ زمانہ لگے گا

 

ایسی باتوں سے ہم کتنے دن چل سکے ہیں

رکاوٹ بنی،

پھر وہی نفسیاتی کہانی کہ جس کے

ہر اک بھید میں اک کہانی نئی تھی

ہم آخر اسی داستاں میں پھنسے رہ گئے ہیں

سانس کی الجھنیں زندگی سے نئی کشتیاں مانگتی ہیں

یہی زندگی ہے کہ جس پر ہماری

نمو پوش یلغار نے اپنے معنی سئے ہیں

کبھی حرف سے اپنی جانب بڑھے ہیں

کبھی داستاں زندگی سے بہت دور تک لے گئی ہے

بہت کوششیں کیں کہ ہاتھ آئے باد صبا کا غبارہ

تنفس میں پرواز کا زور آئے

بلندی بلندی کی تقدیر لکھے

مہک در مہک گل پرستی کے عنوان جاگیں

 

عجب کشتیوں کے مسافر ہیں

کھلنے لگیں گے جو اپنے تئیں تو

سبھی بادبانوں کے رخ موڑ دیں گے

اُدھر،

جس طرف خود  پناہ کے لیے

اس سمندر نے رستے بچھائے ہوئے ہیں

 

اے سمندر یہی زندگی ہے ،

بہاؤ سمندر کا ریگ رواں ہے

ہوا کے تصادم کا بھیگا ہوا بس یہی فیصلہ ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

باب طلسمات

 

اَب پٹاری میں کہاں رکھو گے ؟

اک پٹاری کہ لکیروں کو چھپا رکھتی تھی

رگ و ریشہ کسی مبہم کا،

نا مبہم کا

کسی آری سے،

کیسے نہ کاٹو گے جب

دل کی وریدوں سے گزر جائے گا

وسوسہ۔ ۔ ۔

جس سے

نیند بھرائی ہوئی آنکھ کو خالی کر کے

رتجگوں کے کسی کاسے کو لبا لب کرنے،

خود سے دو ہاتھ ذرا دُور

گزرنے کا سبب ملتا ہو

چارہ گر ہاتھ ملانے پہ مصر ملتا ہو ۔ ۔

 

کیسے نہ کاٹو گے تم ؟

حشر اٹھاتے قد کو

چہ میگوئی میں پڑی ضبط کسیلی حد کو !

 

الٹی جانب سے خبر

جنبۂ خوش خبری ہے

بھید کھلنے لگے جب

دست چپ وراست کا دوست

یا کہ کتبہ ——-

جو یساروں سے یمینوں کی طرف

ایک خواہش کے جھمیلے میں پھسلتا جائے

اور رضوان ثنا خون عطائے فردوس

مجھ کو دیکھے تو

تو کسی پار نظر تک دیکھے

اور ’’مالک‘‘ کو بلائے کہ کہیں غلطی ہے ؟

’’یا دروغہ !

یہ کہیں مال جہنم تو نہیں

جو کشا کش میں کہیں زعم کے سرمائے سمیت

باغ رضوانی کی پرسش کو چلا آیا ہے،

لے پکڑ، اپنی امانت، اسے لے جا اس پار

جس میں اک دھند ہے، گہرائی ہے

نا فہمی ہے

اور آوازوں کا ایک غول ہے جو چاروں طرف

ڈھونڈتا پھرتا ہے مرہم کسی دروازے سے

جا اِسے قعر مظلم میں گرفتار کرو !!!!

 

ایک زنجیر کی کھچ کھچ سے لرزنے لاگے

ایک رستہ جو کسی خوف کی میعاد میں ہے

طوق ہے،

قیدو رسن ہے

جو بلاوے کی طرح چیختا ہے

اور مفہوم بدن ہے کہ خیالات میں یوں الجھا ہے

جیسے جاگے میں کسی نیند کو دفناتے ہیں

بھول کر اور بھی کچھ بھولنے آ جاتے ہیں

انگرکھا پہنے ہوئے درد کے خمیازوں کا

اَبجدی معنوی قبروں سے نکل آتے ہیں

راس آیا نہیں چپ چاپ سفر

اور برزخ تو نرِا کیف سے خالی گھر ہے

جس میں خوش خبری انجام میسر نہ ہے

 

ُشُس !

سماعت کی کوئی کھڑکی کھلی

ہو سکتی ہے

بات جو چلنے لگی ہے

وہ کہیں پر بھی تورک سکتی ہے

اب کوئی بات اِدھر کی نہ اُدھر تک کرنا

کرب و وحشت کا زمانہ کیوں کھلا رکھا گیا

ذہن کا کوئی خزانہ کیوں کھلا رہ گیا ہے

کیسی غفلت ہے۔ ۔ ۔

کہ مضمون کی جان کاہی میں

گردن دل پہ محالات کا بوجھ آن لیا

ایک الجھن کی شکن ہے کہ شماتت کوئی

لفظ

اور نیند کی بہتات،

شعور نا فہم

اور کچھ سوچتے ہاتھوں کی ستم گاری بھی

ایک پرسہ ہے جو ناختم کسی مرگ کا ہے

اور تشریح طلب قید زمانہ بھی ہے

ایک غلطی نے صحیح سمت میں کیوں جھول لیا

نظم کے باب طلسمات کو کیوں کھول لیا۔ ۔ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

رخصت ہی عزیمت ہے !!

            (عید الفطر۔ ۱۸ جولائی ۱۵ء)

 

وقت !

ہم تیرے لئے زہر پئے آتے ہیں

سانپ کی کھول کے کنڈلی سر راہ منزل

اک کشودہ بصری کے دہانے سے

نکلتی ہوئی آگ

فہم کی پھونک سے بھڑکائے چلے جاتے ہیں

 

وقت ! اَے وقت !

طرفدار تیرے

ہاں !جنہیں شوق ملاقات نے ڈسوایا ہے

سرد راتوں کی عبادت سے گرم روزوں تک

حافیانہ سی کوئی سیر نظر کرتے ہوئے

منبر ذات سے اک لفظ نہ کہنے پائے

اپنے حق میں

سدا مرطوب لسانی سے بچے

سخت کیا،

ایک درشتی کے لب ولہجے سے

دل کی آرام روی قہر ملامت میں بسا

پھونکتے جاتے ہیں

غراتے ہیں۔ ۔

آئندہ وعدوں پہ اس نفس کو ٹرخاتے ہیں

کیا یہ ہم اپنی طرف آتے ہیں ؟؟

 

وقت!

یہ خود پہ نظر اور یہ خود صرفی بھی

سب تری اپنی عقیدت سے جڑا قصہ ہے

دیکھ یہ تیرے بدن کا ہی کوئی حصہ ہے

یہ کہانی کا وَچن تھاجسے کرداروں تک

راوی خستہ زباناں نے بہم کرنا تھا

اور ہم بیچ کی رہ اپنے موقف سے گئے

یا زمانوں کی کہی پر سے نظر اٹھتی گئی

یا کوئی موسم جاں خود پہ اتر آیا تھا

 

مرحلہ سخت ہوا جاتا ہے

نرم لمحوں کا بھی محصول نہیں ملتا ہے

وقت تقسیم کریں

ہے یہ ضرورت دل کی

عکس تقسیم کریں

حکم تعمیل سر آئینہ رخشندہ ہے

ہم تذبذب کی گرہ کھولنے آ بیٹھے ہیں

صورتیں اپنی بگاڑیں گے کہاں تک منصف !

’’ہم جمالی‘‘ کے دعاوی سے مکرنے کے لئے

ایسا ممکن ہے مرے وقت کی خونناب ندی !

دل سے کچھ عہد نبھانے کے لیئے مجبوراً

ہم ترے بعض زمانوں سے نکل جائیں گے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۰ جولائی ۱۵ء

کبھی آرام سے پہلے ، کبھی الزام کے آخر

 

کبھی آرام سے پہلے کبھی الزام کے آخر

خموشی کی طلب

میرے حریصانہ جنوں کا شامیانہ ہے

میں چھپتے چھپتے اپنے جسم کی یلغار سے،

فکر رسا کی تلخ آبی سے

کبھی تو آستینوں کی کمینوں میں لپکتا ہوں

کبھی فکر رسا کی تلخ آبی کو

کسی مہمل نظر آئینے کی بھینٹ کرتا ہوں

کبھی آرام سے پہلے کبھی الزام کے آخر

 

ہم اپنی گونا گوں آوازوں کے ڈر سے

نہ ماضی کھولنے کی بات کرتے ہیں

نہ مستقبل کا کوئی جوہر امکان رکھتے ہیں

رہا یہ حال تو۔ ۔

اس حال میں سارے زمانوں کی تھکن ہے

خود میں جمع ہوتی اک خاک زمیں ہے

جس پہ رنگ آتے سمے

ساری زمینیں آسمانی تھیں

یا افسانوں سے ابھری تھیں

جہاں چھوٹی عمر کے تار و پود

پاوں سے جب کچلے گئے تھے

اس زمیں کا سبزۂ بیزار

اک روندی ہوئی تصویر کا برباد گوشہ تھا۔ ۔ ۔

کہ جس میں دل کی ساری سلوٹوں کا بوجھ

یک دم ہی اکھٹا ہو گیا تھا

اور پھر تصویر کی سب سود مندی، خوش نظاری

داخل ایوان بے رغبت ہوئی تھی

فن کی عبرت کا کوئی ساماں ہوا تھا

وقت فکر حال کا میہماں ہوا تھا

کبھی آرام سے پہلے کبھی الزام کے آخر

 

میں خود پہ لپکا لپکا

ایک تاتاری ہوں

غارت گر ہوں امیدوں کا

اور سرکار ہوں

اپنے وجودی عاشقوں کی اک برہنہ بزم کی

کبھی آرام سے پہلے کبھی الزام کے آخر

 

کبھی لفظوں کے دروازے نہیں ہوتے

مگر معنی خدا جانے کہاں سے جھانک لیتے ہیں

یہ ہم ہیں۔ ۔

زعم تنہائی کی بیباقی کے عاشق

مسیحائی کے ڈر سے

اپنے زخموں کی دکاں کو ڈھانپ لیتے ہیں

خموشی زیب تن کر کے

کبھی آرام سے پہلے کبھی الزام کے آخر !!!

٭٭٭

 

 

 

نظر انداز ہونے تک !!

 

نظر پر اک نظر رکھ کر

فلک پر چشمِ  تر رکھ کر

کشیدہ آہ

جو لفظوں کو چھوتی بھی نہیں

تیرے حوالے سے مجھے پابند کرتی ہے۔ ۔

 

یہ کس محبوب کا کار عنایت ہے

یہ کن قسموں کا صدقہ ہے

یہ کن راتوں کی لب بستہ کہانی

اپنا زیور کھول لیتی ہے

پرندے

نیلگوں

فلکی تناور پیڑ پر

پرواز کرتے ہیں

بہت سستا کے پہروں کو

کڑی دوپہر میں سایہ نہیں پاتے

کوئی سورج مسلسل جاگتا ہے

ادھ کھلی آنکھوں سے کتنے ہی ستم آسودہ دل

ویران ہو کر

ریزہ ریزہ،

باطن باطن دہائی کو اگلتے ہیں

نہیں معلوم کن پیروں پہ دل کے زخم چلتے ہیں

بہت نادیدہ عمروں کے

بھڑکتے غم، زبوں اطوار

ہاتھوں سے لپٹتے ہیں

کوئی آواز آتی ہے

مفکر سن !

یہ آدھے ظلم کی آدھی سزا ہے

اور نامحرم در و دیوار سے لپٹی خموشی

کی جزا ہے

ماجرا تقسیم ہونے تک !

 

ماجرا۔ ۔ ؟

ماجرا کیا کہہ سکوں گا ۔ ۔

کہہ بھی دوں تو رات کے چھجے سے آنسو کا برسنا

کون روکے گا؟

نہیں سوچا گیا جو رراستہ وہ کون سوچے گا ؟

ابھی بھی حرف کی آدھی دہائی کا دھواں

بیٹھا رہا

چپ چاپ

میرے عرض کرنے پر

وگرنہ ۔ ۔

آنکھ کے تیور سنبھلنا سخت مشکل تھے

نظر انداز ہونے تک !!

٭٭٭

 

 

 

 

بے حرفی

 

کتابیں رو رہی ہیں

داستاں پر مشتمل اوراق کی ندیاں

کسی پیاسے کی چاہت میں مسلسل

خشک ہوتی جا رہی ہیں

اور معارف غار کی اندھی صلیبوں پر

چڑھائے جا رہے ہیں

نہ کوئی روزن

نہ رہرو ہے ہوا کا موجۂ بے تاب

سب غارت گر وجدان ہوتا جا رہا ہے

رو رہی ہے شعر کی شمع اندھیرے میں

مگر تابش نہیں باقی۔ ۔

محاذ دین پر۔ ۔

کوئی روایت چل نہیں پاتی

سبھی راوی درایت خانۂ دل میں

مسلسل دوڑتے ہیں

ہانپتے ہیں

پر کوئی درشن نہیں ملتا

یہاں تاریخ کے مورکھ پرندوں کے سبھی پر جل چکے ہیں

اورکسی کو دھول ہونے کی خبر کا

کچھ پتہ ملتا نہیں ہے

زمانے علم سے خالی

مکاتب سر برہنہ ہیں

ندائے علم سے خالی سماعت داغ داری ہے

یہاں سر بستہ راہیں کھولتی آواز کی پریاں

مسلسل رو رہی ہیں

کھل نہیں پایا کئی عمروں سے مجھ سے

باغ جنت تک !

 

فشردہ رنگ، آوردہ قناتیں

سر سے نکلی جا رہی ہیں

قید میں محصور کر رکھا ہے مجھ کو بے نمو ہاتھوں نے

اور باندھے ہوئے ہاتھوں سے

دل اور

جنبۂ وجدان سے آنکھیں لڑانا

عاشقی سے بیر رکھنا ہے !

نتیجے میں

روایت ٹوٹ سکتی ہے،

علامت جاگ کر اصل حقیقت کو بلا سکتی ہے

دل رفتار ہو سکتا ہے وجہ اضطرابی میں

مجال شعر میں ذوق نظر بازی نہیں کرتا تو

معنی یہ نکلتے ہیں

کوئی روٹھے تو روٹھے ۔ ۔

کوئی دل راضی نہیں کرتا

 

مسلسل قید خانہ ہے

یہ آنکھیں ہیں۔ ۔

جنہیں الماریوں میں بند

آسودہ جہانوں کی خبر ملتی نہیں ہے !

 

کتابیں رو رہی ہیں

شعر سے ہجر مسلسل

پھر سے اکتائے ہوئے لہجے میں ملتا ہے

غزل کی ناک میں دھاگہ ہے

جس کو بے ضرورت کھینچنے سے

مطلع ٔ جاں کی طنابیں ٹوٹ سکتی ہیں

 

بہت کردار تھے

جن سے محبت کا تعلق تھا

انہیں بے مہر عمروں نے بھلایا تو بھلایا ہے

پھٹے، بوسیدہ اِن اوراق میں شاید کہانی

ہے بھی یا کہ وقت کے ہمراہ

اپنا منطقی سارا تعلق توڑ بیٹھی ہے

کتابیں رو رہی ہیں

اور سناٹا مری آنکھوں میں چلتا ہے

گلی کی آخری نکڑ پہ کتے بھونکتے ہیں

اورکسی تازہ کہانی کے نئے آثار جاگے ہیں !!

٭٭٭

 

 

 

 

مومی آنکھیں

 

لا، تیری وجودیت کی شمع

رکھ دوں کسی بھی طاق کے نگر میں

سناٹوں کے مول تول میں اکثر

ظلمتیں یونہی قد بڑھاتی ہیں

اور یہ۔ ۔ ۔ سچ !

اس کی دسترس میں کچھ نہیں ہے

بس، وہم دیوار سے نکلتے ہیں

اور دیوار پر ہی سجتے ہیں !

 

میری تجویز پر کبھی سوچو !

ہے جو یک رنگی ہیئت تعبیر

روز تم آشیاں گراتے ہوئے

اپنے اشکوں کو ضبط کرتے ہوئے

(ضبط در معنی رخ تحریر )

روز اک خواب کے مقدر کا

ایک ہی فیصلہ سناتے ہو

ایک تعبیر ہی بتاتے ہو

یہ کوئی دور کی نہیں کوڑی

یہ تیرے پاس کی سہولت ہے

جس سے خوابوں کی قدو قیمت کا

زائچہ تک سنور نہیں پاتا

اور اِدراک ٹوٹ جاتے ہیں !

 

تم اگر ضد کا ایک لشکر ہو

اور ہزیمت سے بیر ہے تم کو

تم اگر درس حرب جانتے ہو

تم کو معلوم تو یہ ہونا ہے

ایک طرز و طریق پسپائی

پیش قدمی کی ابتدا ٹھہرا

اور اگر شور وشین ہستی میں

دل کی ساری پناہ جاتی رہے

تم نے محفوظ راستہ کوئی

دل کی دھڑکن کو سونپ رکھا ہے

اور محاذوں سے لوٹنے پر بھی

خود کو خوش حال حال ہی جانا

تم نے تب خوش وضع وجودیت

دل کے شجرے کو سونپ کر شاید

مذہب غم کا احترام کیا

اَے وجودی ستارگان وفا !

خود کا موسم کھلا کھلا رکھنا

حبس سے میل جول اچھا نہیں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

تھکی عمروں کی دلالت

 

تیر قالین سے اٹھا ہی نہیں

اور میں روز اپنے صوفے پر

ایک لمبی نشست بھرتا ہوں

اک گماں کے سفر پہ جاتے ہوئے

دائروں میں

قیاس کرتا ہوں

 

قیاس کیا میری پختہ رائے ہے

میں یہاں سے کبھی اٹھا ہی نہیں

جب بھی تضحیک میں بجھائے ہوئے

مجھ پہ میرے زمانے برسے ہیں

میں محاذوں پہ گمشدہ نکلا

اور اپنے شعار کھوئے ہیں

میزبانی کی اور جاتے ہوئے

میہمانی کی سمت آتا ہوں

میں مکمل شکار گاہ میں ہوں

میں تمامی نگہ سے عاری ہوں

اور کوئی سمت بھی نہیں محفوظ

 

تیر قالین سے اٹھا ہی نہیں

سیر گہ میں قرار واجب نے

دل کی تقسیم کے بہانے سے

موسموں کا برسنا روک دیا

ایک اندیشہ بھی نصیب نہ تھا

اور بدن چرخ بے اذیت میں

اپنی گردش کے رنگ سہتا رہا

حرکت حادثہ سے بچتے ہوئے !

 

تیر قالین سے اٹھا ہی نہیں

روز میں ناشتے کی ٹیبل پر

اپنے صوفے پہ کسمساتا ہوں

اک زمانہ کہ میری راہ میں تھا

اک زمانہ سنبھال لایا ہوں

اک زمانے سے کار مستقبل

ہو بھی جائے تو فائدہ ہی نہیں

وقت کا اعتبار آنے تک

کون صوفے کی اس نشست کا ہو

تا ابد اک سوار غافل تر

کہ اگر کھل گئی کمان فلک

اور زمینی شکار گا ہوں میں

تیر قالین سے نکلنے لگیں

اور ہم حلق پیش کرتے رہیں

جیسے اک عمر ذائقوں کے لیئے

ہم نے خالی گلاس چکھے تھے

 

تیر قالین سے نکل آئے

ورنہ اب سیر گاہ خالی ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

ردِ التماس کی خاص وجہ !!!

 

دل کو اب کتنی بار ڈھونڈوں گا !

وہ گلی ایک ہی گلی تو نہیں

جس سے سارے سراغ ملتے تھے

اور واپس کوئی نہ آتا تھا

 

دل کا جانا بھی پیش قدمی ہے

کیا اداسی کو طعن دے کوئی

ایک ہی گھر سے روشنی کی صدا

آنکھ سرمست تو نہیں کرتی

گوش آسودہ کار ہوتے تب

جب صدائیں ہری بھری ہوتیں

دل کی گم ذات کا بڑا اعلان

ایک اندر کی ٹوٹ پھوٹ ہے بس

یا کہیں گوشہ دار تنہائی

اپنی کروٹ میں راہ بھول گئی !

 

ڈھونڈنا

جست جستجو بھی سہی

ڈھونڈنا خواب گفتگو بھی سہی

دھونڈنا بے نمو نمو ہی سہی

ڈھونڈنا دل کی آبرو ہی سہی

پھر بھی

آواز اک مسافت ہے

اور طلب میں بھی اک قرینہ ہے

یہ طلب گرچہ سر بلندی ہے

اور طلب کا یہاں پہ زینہ ہے

دل کی کچھ مہربانیاں ہیں الگ

دل کے کچھ اپنے قہر ہوتے ہیں

دل کہ محسوس کر تو سکتا ہے

دل کہ آواز سن نہیں سکتا

دل جتانے کا وقت بیت گیا

اب جمال نظر کا قصہ ہے

دل کی افگندگی الگ ٹھہری

کار مہر وفا عجیب سا ہے

ہجر میں داستانوی رنگ ہے

اور ایسے میں

بار بار کا کھیل۔ ۔

جس میں دل ہار جاتا ہے اکثر

اپنی تاویل ساتھ ہی رکھنا

دل کی مجبوریوں کی ہے تفصیل

دل کو اب کتنی بار ڈھونڈوں گا !

وہ گلی ایک ہی گلی تو نہیں

جس سے سارے سراغ ملتے تھے

اور اندھیرے کو ڈھونڈنے کے لئے

جگنوؤں کے چراغ ملتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

نایاب فصل کی تمنا

 

مجھ کو لے چل اَے مرے دل

جہاں نایاب ہوں میں !

 

خانقاہی یہ دل و نظر کی،

یہ مجلس جاں،

جس میں اک ’’ میں ‘‘ بھی

کئی روپ لیئے آتی ہے

اور دھڑا دھڑ

کٹے، پھٹکے ہوئے

لفظوں کے اترتے ہیں محاذ

گاہ،

معنیِ رگ صد برگ سے کٹ جاتے ہیں

اور آواز نشیمن سے یوں ٹکراتی ہے

جیسے سننا ہے۔ ۔

پرندوں کا مقید ہونا !

عام ہو جاتا ہوں میں

خام ارادے لے کر

ایک انگشتری۔ ۔ ۔ ۔

ہاتھوں میں گھماتا ہوں کہ یوں

جیسے گردش میں زمانوں کو بلا لوں شاید

یا کہیں آنکھ مری اور نکل جاتی ہے

پاس اور دور کے منظر سارے

جیسے ہوتے ہوئے نہ ہونے کے ڈر میں مشغول

کامگاری۔ ۔

نہ کسی وصل کی تفصیل طلب

اور ناکامی۔ ۔

کہ جیسے کہ کوئی طے کر دے

آج کی رات ،

میری سانس میں گردش ہے رواں

کل کا قصہ کسی تدبیر پہ موقوف نہیں !

 

مجھ کو لے چل اَے مرے دل

جہاں نایاب ہوں میں !

 

خوف بھی عین سر بزم حیات ہے مقبول

خوف میں

میرے ارادوں کی کوئی فصل نہیں

اپنے ہر خواب سے نہ اپنا جنوں کاٹ سکوں

ایسی اک شرط پہ یہ زندگی منظور نہیں ؟؟؟

 

مجھ کو لے چل اَے مرے دل

جہاں نایاب ہوں میں !

اپنے افسانے کی بنتی میں کوئی سا کردار

مجھ کو بھا جائے تو انجام بچا لوں اور پھر

اپنے نایاب سے اک نظم چھپا کر اپنی

اپنے ہی عام سے ملنے کا بہانا ڈھونڈوں،

ہاں مگر !!!

مجھ کو بہتات کی آواز نہیں بننا ہے !!

٭٭٭

 

 

 

 

علم پر دائروں کی بارش

 

دوست !

تم نے نئی سمت کی کائناتی حقیقت کا

ندبہ کیا ہے

معانی کی تکثیر میں

حرف کے زاویوں کی نحوست زدہ مفلسی

کی شکایت بڑھائی ہے تم نے

یہاں تو اسی سلطنت میں عوام اور خواص

اپنے جینے کی تصویر میں جی رہے ہیں،

(خبر کیوں نہ رکھی۔ ۔ ۔ ؟)

افق پر کسی ہاتھ کی کوئی افتاد کیسے پڑے

وہ افق تو تخیل کا بد خواب ہے

جس میں ہر آنے والے دنوں کی شب ریختہ

اپنے پاوں کو جوڑے بھٹکتی چلی جا رہی ہے

 

دوستو !

اولیائی، نری ذات کی پیش قدمی ہے

جس کے مقدر میں بس مخبری ہے

جہاں پر دِیوں میں فقط تیل کی جوت ہے

آنکھ میں

دید جبرئیل کا اک ستارہ نہیں !

دوستو ! علم کی باقیاتی نمو وہم ہے،

روگ ہے

بے چنے آئینے کی مکرر شماری کا اک عندیہ ہے

جہاں صورتیں کم ہیں اورآئینہ

اپنے پیکر کے دہرائے جانے پر مستعد ہے

 

اے نظر پاش دریائے نیل !

آ کے پھر راستہ روک لے

پھر عساکر عقب میں بڑھے آ رہے ہیں

دوستو !

علم فرعون ہے

اور موسیٰ اگر وادی کوہ سینا سے واپس نہ آیا

تو ہارونؑ کی ذمہ داری کی حد کیا رہے گی ؟

 

علم اخبار ہے یا صداقت کا زینہ

حواس اپنی قیمت میں ارزاں ہوئے ہیں

جبھی تو گمانوں کی چھت سے لٹکتی

یہ چمگادڑیں۔ ۔

اپنی تعبیر کی درد مندی میں

نیندوں کی الٹی شماری میں مصروف ہیں

 

اور ادھر میں اکیلا۔ ۔ ۔

ابھی تک فسانہ شماری کے افسون میں

اپنے کردار کی مرکزیت کی بے وقت،

بیزار سی موت پر

حاشیوں کی لکیروں سے الجھا ہوا ہوں !!

٭٭٭

 

 

 

 

بلاوہ

 

یہ کرسی

یہ مکتب۔ ۔

یہ کاغذ یہ کاپی

یہ دفتر

یہ انبار معنی جو مجھ میں دبا ہے

بلاتا ہے مجھ کو میرا عہدِ مطلب

تمہارے لیئے جاں شمردہ یہ سانسیں

جو بہتی چلی جا رہی ہیں

انہیں نظم و شعر و غزل کے قرینوں میں ڈھالو

تخیل کے ابر رواں کو برسنے کا بھرپور ہنگام دو

اور الفاظ و معنی کا نقشہ بدل دو

کسی کھیت کی نرم مٹی بچھا دو۔ ۔ ۔

یہ تخلیق کی ذمے داری کے دن ہیں !

یہ بچھڑی اداسی،

یہ میلی تمنا

جو حسرت کے درکار سے غیر واصل

تمہارے دل نرم و نازک سے

اپنا بسیرا اٹھانے کو تیار ہونے کے انکار میں ہے

اسے کاغذی پیرہن میں سلا دو

اسے گیت کی کوئی بھاشا سنا دو

یہ لمحہ کہ تخلیق کا ہے

بکار مسرت۔ ۔

اسے کام اور کاج کی سمت تازہ دکھا دو

رکے کام،

جن پر کسی کی نظر کا تماشا نہیں ہے

انہیں منظروں کے جھروکے دکھا دو

غریبی کے شایان کچھ بھی نہیں ہے

مگر کر دیا ہے کسی نے

کسی کی ضرورت بناتے

تو سمجھو،

بہت کچھ بدلتا رہے گا ضرورت سے مل کر

اسے اب پیالے کی دستار کے پیچ کو

کھول کر یوں دکھا دو

کہ کوزہ گر بے مشیت کا ذوقِ ستم کھل سکے

بات کرنے کی جو رک گئی تھی

کوئی کر سکے !!

 

مجھے علم ہے عمر کی باڑھ میں

باگھ کو پیٹ بھرنے سے لے کر

جبلت کی یلغار سے کھیلنے کی تو عادت رہے گی

یونہی سبز سایوں میں آرام بڑھتے چلے جائیں تو

کچھ قباحت نہیں ہے

مگر باگھ تو باگھ ہے

اس سے آگے نکل کر بھرے جنگلوں کہانی ہے

جس میں بڑے معرکے ہیں

بڑی راز داری کا موسم پڑا ہے

 

ادسی کے جنگل میں اترو تو دیکھو ،

اے آہو بیاں !

صوت رنج و الم سے الگ ہو کے بھی ایک

دینا پڑے گی اذاں !

 

موسم صبر کو موسم شکر سے ہی ملانے کا موسم

بڑی سیر چشمی ہے

اور ایسی ہی سیر چشمی کی تاریخ لکھنے میں

کیوں دیر ہے ؟

یہ اداسی بڑے کام کی چیز ہے

ان دنوں بیج ضائع نہیں

ذہن مختل نہیں

جاں میں مدفون سانسوں کی آمد نہیں

اپنے کانوں کی کھڑکی میں بیٹھی ہوئیں،

منتظر لڑکیاں

اپنے معنی عروسانہ شب کھولتی

اک نئے عہد کی باس میں

شب زفافی کا پیکر بنی جا رہی ہیں !

 

یہ کرسی

یہ مکتب۔ ۔

یہ کاغذ یہ کاپی

یہ دفتر

یہ انبار معنی جو مجھ میں دبا ہے

مری ذمہ داری کے پھاٹک پہ

زوروں کی دستک میں مصروف ہے

اب ہوا ذمہ داری کو سمجھے

تو میں بھی

بڑے دل کا اک عندیہ دوں !

جہاں سے شکایت نہیں

اب مرا دل

نئے موسموں کی ضیافت کو بے چین ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

رونے ہنسنے کی تدوین

 

اب کسی اور ہی ماتم کو روا رکھیں گے !

ہاتھ دکھتے ہیں تو

تاریخ میں جلتے ہیں چراغ

ان ستم خانوں میں

جن سے نہ گزرنے کا جنوں

کچھ مورخ تھے

جنہیں لاحق ازلی ٹھہرا !

 

چشم نمناک ادھوری ہے بہت

نامرادی ہے

جو پوشاک کو لپٹی ہوئی ہے

آگ کے شعلوں کے اطوار بہت بگڑے ہیں

وحشت دل بھی اندھیرے کی لکیروں سے بنی

ایک تصویر ہے

جو دست کشِ طفلاں ہے

 

ایسا ہوتا ہے کہ جب سچ کی کوئی بزم نہ ہو

تیر، تلوار، قلم، سیف و بیاں۔ ۔ کچھ بھی نہ ہو

کوئی خطبہ، کوئی ندبہ نہ کوئی حرف رثا۔ ۔

کچھ بھی ہوتا رہے رونے میں مگر کچھ بھی نہ ہو

سچ میں کھلتے ہوئے دروازے کی تسلیم نہ ہو

وقت کو رینگ کے پڑھنا پڑے مکتوب ہوا

وہ ہوا جس میں شہیدوں کے لہو کی خوشبو

اپنے قاتل کے زمانوں پہ دہن کھولتی ہے

تیز ہو جاتی ہے تدبیر کی آرائش میں

مصلحت

جس کو سر روز ازل

ہر قضیئے نے بہت شوق سے اپنایا ہے

جز جنہیں

خون شفق دیکھ کے نیند آتی تھی !

 

چادر درد کی لپکوں سے نکل آنے تک

ہم نے پلکوں کا کوئی قرض چکانا ہے قدیم

نیند آتی نہیں اور خواب کی ہر فصلِ جواں

چپکے چپکے میرے بستر پہ بکھر جاتی ہے

بستر جاں میں پڑی، اکھڑی ہوئی

سلوٹیں۔ ۔

اور مرے سانس کی آوارگیاں

ایسے لگتا ہے کوئی سوکھی نہر ہیں جس میں

ایک بندی کے زمانے کا چلن لاحق ہے ،

کوئی بندش ہے

نئے خواب نہ آنے کی یہاں

فیصلے ہوتے ہیں تاریخ کا رِستا ہوا خوں

فیصلے

اور کسی عہد میں ممنون ہوئے

اور فقط کار زیاں زینت اوراق ہوا

اس کا مطلب ہے کہ ہم جبر کی حد میں ٹھہرے

ہم پہ اک صبر ہے

دہرائے ہوئے ماضی کا

اور ہم سارے زمانوں کے مسافر ٹھہرے !

 

حادثے،

سانحے،

تقدیر کے پھینکے ہوئے تیر

مثل نخچیر ہمیں کھینچ رہے ہیں اب تک

سائیں سائیں کی صدا میں کوئی جنگل ہے رواں

چپ کے سانچوں میں کوئی بات

بہک اٹھی ہے

ایک آواز پہ ملنے کو نہیں دل کا سراغ

ایک پھونکے سے نہیں بجھتا

وہم سازچراغ

یہ ستم دل کا ہو،

تاریخ کی یا شب خونی

ایک ہی بار کہانی کہیں جل تھل ہو جائے

رونے ہنسنے کی یہ تدوین مکمل ہو جائے !!

٭٭٭

 

 

 

زمانہ نشیں ہم !

 

ہم

ترے عہد جنوں کے تازیانے کے لئے

کورا بدن بنتے رہے

حرف کا سب آئینہ اندھا کئے،

تیرے کج رفتار خامے کے لئے

لوح تمنا کو لہو دیتے رہے !

 

شام کی تصویر اپنا بھید کھول !

سایہ سایہ کون ہے

جو کہ مجھے

شب۔ ۔

برہنہ خواب میں دوڑائے گا

 

خود کو چھو کر دیکھتا ہوں

برق سامانی نہیں ہوں،

میں بھی برگ گل کی کوئی قیمتی تحریر ہوں

یہ مگر

اک عقدۂ نا حل شدہ موجود ہے

میں وجودی ہوں مگر

کیسے ترے دربار میں تسطیر ہوں ؟

ہاں، میسر ہے مجھے ، میں کہہ سکوں

نا رسائی کی نوشتہ اک گری تحریر ہوں

 

ہم

ترے عہد جنوں کے تازیانے کے لئے

کورا بدن بنتے رہے

ہنس دیئے دیکھے ہوئے تیری طرف

اور رو دیئے اپنی طرف کا زاویہ چھوتے ہوئے

ہم ہوئے میدان تیری چاپ کے اعلان پر

اور رکتے رکتے اپنے چہرے پر

دیوار سی بنتے گئے

نا سپاسی تو ہوئی ہو گی مگر،

ہم مگرجانا کئے

ہم مسلسل تیری جانب تھے رواں

اک قافلہ بنتے ہوئے

اور پھر خود سے نہ نکلے

ہاتھ کی ساری لکیروں میں سفر کرتے ہوئے !!!

 

عندیہ کیا، بس یقیں ہے !

یہ یقیناً اپنی جانب کا انوکھا بار ہے !

فکری بند وبست کے بعد !

چیخ !

اب چیخ کہ یہ حلق کا انبار گراں

تجھ سے

آواز کے رشتے کو جدا کر دے گا

تم پہ تھم جائے گی

وہ حبس کہ جس کے دم سے

تم شرابور زمانہ ہی رہو گے دائم

اس پسینے میں

جہاں قوت توفیق نہیں،

تم کہ محروم تمنا ہی رہو گے اکثر

اور محروس نظر ہائے دل آزادی !

 

صبر کے نام پہ چلتی ہے کوئی باد شمیم !

زیست اندر نہیں باہر کا بھی سرمایہ ہے

پھول کیوں وسعت گلشن کی صدا دیتے نہیں

آنکھ کی آنکھ

تماشوں میں کہاں صرف صرف ہوئی !

تم نے پندار کے اس پیڑ پہ کیا کام کیا ؟

جس میں آزاد زمانوں کے نفس پھونکے گئے

شاخ در شاخ

شگوفوں سے لدی شام بہار

شانہ ٔ اَبر رواں جا کے ہلا آتی تھی

ڈھونڈ پہلو،

جو تری شان ادا سے ہٹ کر

کسی بے حکم جزیرے میں چلے جاتے ہیں

نظم تدبیر کی تصویر بنا پاؤ تو۔ ۔

تم پہ ہاتھوں کے ہنر اور طرح سے بولیں

خود حصاری ترے احساس میں قوت بھر دے

خوف بے جان رہے

بڑھتی رہے سرشاری

گھات توڑو،

نہ نشانے پہ کسی کے آؤ

آج آواز اٹھاؤ کہ اسی موسم میں

اَبر و باراں، زر و کوثر وتسنیم وسمن

تیری آواز میں آواز ملا سکتے ہیں !!

 

چیخ !

اب چیخ کہ یہ حلق کا انبار گراں

تجھ سے

آواز کے رشتے کو جدا کر دے گا

 

اب اگر چیخ سکو گے تو یہ کہہ پاؤ گے

’’ میں نے

دریا کے کنارے تو نہیں چھلکائے

ایک آواز کا دھڑکا تھاجسے ختم کیا

(ورنہ سمجھو )

میرے سینے کی گھٹن ،

خوف کی بے درد کٹار

مجھ سے نسلوں کی وفادار زباں کاٹ گئی !! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

کہانی خواب کے باہر بھی زندہ ہے !!!

 

لغت زادے !

مہا افکار کے ہونٹوں کے رس کے،

چوسنے والے !

تمہارا موت کی آورد کے معنی بڑھانا

یا کہ اس کی حاضری کی ایک موجودی سطر تحریر کرنا

اور تزئین نصاب جاں پہ دل کی خط کشی

اک شاعر بیکس پنہ کے

دل کی ٹھنڈک بن سکے نہ بن سکے۔ ۔ ۔

لیکن !

محاذ عمر خستہ

بھر بھری دیوار کی اس آخری پھیلی ہوئی چھاؤں

پہ جا کر ختم ہوتا ہے

حیات جاوداں اچھی نہیں جس جا

(یہ اکثر شاعرانہ روگ ہے )

لیکن

یہ مرگ ناگہاں معنی کے رتھ پر اپنی شوخی لاد کر

مفہوم کی گردن میں بانہیں ڈال کر

یوں چل رہی ہے

جیسے ساری انجمن اس مرگ کے مفہوم کی

آورد پہ مجبور ہے

 

اے لغت زادے !

نمودِ لفظ کے پہلے شجر کی پہلی شاخوں پر

معانی کے طمانچے ثبت کرنے سے گریزاں ہو !

خصوصاً مرگ کے بارے میں تیری

یہ وجودی مصلحت

اچھا ادب تخلیق کرنے میں رکاوٹ ہے !

ظہورِ موت کا یہ عرضیہ

آمد ہے،

اس کو لفظ کی تزئین بے جا سے ستاؤ مت

اسے آنسو پلاؤ مت

تمہارے ذہن کی آزاد کڑیوں نے جہاں چاہا

ستم ڈھایا

جہاں مانا

وہیں پر ڈھیر کو اک معرفت کے بھید میں

تاریخ کر ڈالا

یہ پیری اور مرشد زادیت آتی کہاں سے ہے ؟

انہیں آرام کا صیغہ کہاں سے یاد پڑتا ہے

مریدوں کے لباس خستہ میں نور ازل کا

یہ پھٹا پیوند

آخر کون سیتا ہے ؟

 

اے بزم لفظ !

اپنے کچھ چراغوں کو بجھا دو

رات اتنی بھی نہیں گہری کہ

شب بھر چاندنی کے سوگ میں زلفیں کھلی رکھیں

ہمارے لفظ اور مفہوم کی آرائشیں

تقسیم زنداں ہیں

جہاں پر ہم وجودی، صرف زخموں کے دکھاوے

کے لیے، خونِ وفا تقسیم کرتے ہیں

نہیں معلوم کس کا

بھید، کس کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔

 

لغت زادے !

یہ ضد اچھی نہیں ہے

اور، کہانی خواب کے باہر بھی زندہ ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

خلا میں دھڑکن نہیں ہے !!!

 

ہوا بھی ضروری ہے۔ ۔

سب مانتے ہیں

مگر

جو خلاؤں کی بے معنی وسعت کا نقشہ کھلا ہے

مسلسل

رکا، ایک بے حکم سا ہے ارادہ کوئی

نہ کہیں آنے جانے کی خواہش

نہ خود میں کسی مظہری چاپ کی وحشتوں کا

بھروسہ لئے ہے

خلا پر کہاں ہے

کسی کی حکومت کا ایسا ارادہ

جہاں پر کمندیں نگہ ڈال آئیں ؟

خواب اچھے حوالوں میں تعبیر کی

اک سنہری تمنا بھی رکھتے رہیں تو

بہت خوب ہے

مگر

خواب کی یہ مجرد، اساسی طبیعت

کسی مشورے کی تمنا نہ ٹھہرے !

 

عقائد

بڑے ذہن کے نا رسا فیصلے ہیں

کبھی بے یقینی

کبھی جوش فطرت کی بینا نگاہی سے

کچھ منظروں کی خریداریاں ہیں

کبھی جھوٹ تعبیر ہے

کبھی سچ بھی تاویل ہے

ہاں !

مگر ان کے مابین چلتی ہوا ایک ایسا خلا ہے

جسے حکم نامے کی کوئی ضرورت نہیں

اور ہمیں جھوٹ سچ آزمانے کیا یسی تمنا کہ

ہم آسمان طبیعت کے ہر طبق میں اک خلا کے بنا

ایک تعبیر کی لازمی سی ضرورت سے بند ھ کر

نیا حکم نامہ بناتے رہیں گے

زر اصل کو خام کرتے رہیں گے

 

یہ تعبیر سچ ہے نہ جھوٹا تبسم

یہ چکنے بدن کی ذہانت کی وہ کروٹیں ہیں

جنہیں ہم نے آشوب کے نام سے

بارہا

اک نئے سے نیا فیصلہ دے دیا ہے

خلا کے مقدر میں کچھ بھی نہیں تھا

مگر ہم نے اس کو ’’ خدا‘‘ دے دیا ہے !

مکرّر خدا کی یہ کاوش

ہری نیند کو روسیاہی بنائے تو حیرت نہیں ہے

یہ نقطے ہمیں قید کر لیں

تو عین حقیقت

کسی پہ کوئی حد ّ جاری نہیں ہے

 

ہم

عقائد کے مابین

حدِّ نظر میں روایات کے بندی خانے

کے وحشی

اساطیر کی ظاہری ہیبتوں سے بھی چھپ کر

چرائی گئی رحمتوں پر

خلا کی سفیدی کئے جا رہے ہیں

جسے یاد کرنے میں عرصہ لگا تھا

اسے بہر عادت

کسی وسوسہ ساز، دم پھونکتی

ایک عادت پہ عادت کی پٹی کو بندھوا رہے ہیں

 

خلاؤں سے دل کو گزارو

کہ دل پر قیامت گراتے ہوئے باد و باراں

کہیں ملحدانہ جبلت نہ چکھ لیں !!

عقائد خلاؤں سے بھرتے نہیں ہیں

خلاؤں سے خود کو گزر جانے دیجئے

ٹھہر جانے کی بات کرنی نہیں ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

اضا فتوں سے عاری

 

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

اَلم کشائی میں دل کی حالت کا عکس دیکھوں

تو آئینے کی فضیلتوں کے کرم نہ بھگتوں

میں ڈوبنے پر محیط پانی کا ذکر چھیڑوں

کٹے کناروں،

جلے درختوں،

بھنور کے سارے ناگفتہ انداز

قاتلوں کے ہنر نہ جانوں،

کھلے بدن سے

اکہرے مطلب کی چال چل کر

بہت سی آسودہ رفعتوں کے مزاج پوچھوں،

لغات کی لغزشوں میں جھاتیں نہ مارنے کا

افادۂ عام مل سکے تو

سکون سے اپنے دل سے مل لوں،

وفا کو چوموں

جزا کو چا ہوں

میں ہجر اور وصل کی اس سزا کو دیکھوں

جسے لغات فدا کاری نے

استعاروں کی بھینٹ دے کر

بہت سے معنی چھڑا دیئے ہیں

بہت سے محسوس ذات اول

کے سبز دفتر جلا دیئے ہیں

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

 

بنام تفہیم

اور کتنا کھلا زمانہ بنا سکو گے

بنام شرح متین

کتنا کھلا فسانہ سنا سکو گے

بنام تزئین حرف عالی

تعینات زماں کے کتنے

عظیم معبد گرا سکو گے

سفر کے ایسے نحیف و بیمار راستوں سے

پلٹ کے دیکھو

ستارہ وار

آسماں میں کتنے قمر الجھتے دکھائی دیں گے

اس آنکھ کو پشت پر اکہری نظر کے منظر

کو جھیلنے دو

ہوائے محسوس کو بیاں کے کھلے مکانوں سے

یوں گزرنے کا عندیہ دو

حواس کو اپنی ایک باری ہی کھیلنے دو

یہ زعم الفاظ،

اور تعبیر کا زمانہ

حصول معنی کی ایک ضد ہے

خدا کا نہ جاننا بھی آخر کو ایک حدّ ہے

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

 

ذرا ٹھہر لو !

میں روح ابجدسے بات کر لوں

میں خوف الفاظ سے نکل لوں

میں شوق تعبیر سے بھی بچ کر

جو ہے، جہاں ہے

سے، اس کی مرضی کی بات کر لوں !

میں خالد و جاوداں سے لے کر

بقا، فنا کے سبھی قرینوں کا ڈھنگ دیکھوں

جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی

معنی کا رنگ دیکھوں !

٭٭٭

تشکر: ستیہ پال آنند جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید