FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

جہانِ عقل و جنوں

 

 

شبیر ناقدؔ

ISBN:  978 969 7578 40 5

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

شبیر ناقِدؔ

معرفت پروفیسر ظہور احمد فاتح، نزد تعمیرِ نو اکیڈمی

کالج روڈ، تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان(پنجاب۔  پاکستان)

رابطہ فون:  0333-5066967 0303-9297131 0342-5237636

 

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

مرحومہ نانی اماں کے نام

 

وہ جو سراپا مہر و وفا تھی

وہ جو خلافِ جور و جفا تھی

ہستی سے جس کی گھر میں تھی برکت

روشن تھیں شمعیں جس کی بدولت

جس نے سنواری تھیں جیون کی زلفیں

گل ہو گئی آج وہ شمعِ الفت

دیوار و در سے برستی ہے حسرت

دنیا مری آج ویران سی ہے

گھر کی فضا آج سنسان سی ہے

گئی بانٹنے والی نورِ محبت

ہو اس پہ سدا سایۂِ رحمت

 

 

 

 

 

یہ حسن عظمت کا تاج مانگے

یہ بے کسوں سے خراج مانگے

جہاں میں کوئی نہیں ہے فارغ

سماج کچھ کام کاج مانگے

جہاں میں جو کوئی بھی ہے ظالم

وہ اپنے جیسا ہی راج مانگے

جفائیں کر کے وہ دان پیہم

وفائیں ظالم سماج مانگے

وہ جس نے مجھ پر ستم کیا ہے

ستم کا اچھا سا باج مانگے

کسی سے کیا وہ کرے محبت؟

جو بھوکا ہے وہ اناج مانگے

نہ اور کچھ مانگے تیرا ناقدؔ

سکون، سکھ اور لاج مانگے

 

 

 

 

 

ہیں میرے مسائل حقیقت پہ مبنی

مری زندگانی ہے غربت پہ مبنی

 

چلن بے حیائی کا ہے عام ہر سو

بھلا کب جہاں ہے شرافت پہ مبنی؟

 

وہی وقت ٹھہرے گا بخشش کا ساماں

جو ہو گا تمہارا عبادت پہ مبنی

 

مجھے خوف آئے کسی سے بھلا کیا؟

کہ جیون ہے میرا جسارت پہ مبنی

 

وہ ایام ناقدؔ ہیں جیون کا حاصل

رہے جو تمہاری رفاقت پہ مبنی

 

 

 

 

 

سانس لینا کب یہاں  آسان ہے؟

زندگی جیسے کوئی طوفان ہے

 

ہو چکا ناپید ہو جیسے خلوص

دشمن انساں ہوا انسان ہے

 

ہجر میں دوزخ ہوئی اپنی حیات

اب امنگوں کا جہاں سنسان ہے

 

اب تو ہے تیری تمنا رات دن

قرب تیرا ہی مِرا ارمان ہے

 

پیار ناقدؔ کا تو وہ سمجھا نہیں

کیا کہیں وہ کم سن و نادان ہے

 

 

 

 

بے حسوں کے اس جہاں میں با وفا کوئی نہیں

چارہ گر کوئی نہیں ہے دلربا کوئی نہیں

 

میں نے چاہا ہے تجھے ہی ٹوٹ کر جانِ جہاں

پیار قلزم ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں

 

وار دی میں نے تجھی پر اپنی ساری زندگی

اور تو میری بجز الفت خطا کوئی نہیں

 

سب پجاری ہیں یہاں پر اپنے اپنے نفس کے

سب یہاں ہیں غرقِ عصیاں پارسا کوئی نہیں

 

جو ہمارے ساتھ الجھے گا اسے کہنا ہے یہ

تو نے لڑنا ہے تو لڑ اور التجا کوئی نہیں

 

چار دن کی زندگی مہماں ہمارے پاس ہے

ہم سے ناقدؔ سب ہیں راضی اور خفا کوئی نہیں

 

 

 

 

 

ہے سامنا کچھ اذیتوں کا

جہاں کی پیہم کدورتوں کا

غم و الم میں حیات گزری

بیان کیا ہو مصیبتوں کا؟

رہے ہیں دن رات غم میں غلطاں

صلہ ملا ہے حماقتوں کا

ہوا مشقت کی نذر جیون

یہ جبر تو ہے ضرورتوں کا

یہ نفسا نفسی کا جو سماں ہے

ہے کال در اصل الفتوں کا

روا نہ رکھی کہیں حقارت

رہا ہوں رسیا محبتوں کا

کسی سے مجھ کو نہیں ہے نفرت

ہوں استعارہ میں چاہتوں کا

کسی سے کیسی ہو چھیڑ خوانی؟

نہ شوق مجھ کو شرارتوں کا

نہیں ہے کھانے سے مجھ کو رغبت

نہیں ہوں رسیا ضیافتوں کا

کرن سے ما تھا جو ضو فشاں ہے

کمال ہے یہ عبادتوں کا

مری جو رسوائی ہو رہی ہے

ثمر ہے یہ تو رقابتوں کا

جو معرکے میں نے سر کیے ہیں

ہے فیض سارا کرامتوں کا

غزل اسی کی ہی معتبر ہے

ہے پاس جس کو نفاستوں کا

نہیں ہے آسان شعر کہنا

یہ کام تو ہے لطافتوں کا

دروغ گوئی سے نا شناسا

امیں ہوں ناقدؔ صداقتوں کا

 

 

تیرے سخن سے ناقدؔ جلتا ہے اک زمانہ

اس میں  عدو کی خاطر پنہاں ہے تازیانہ

 

اس کو سمجھ نہ آئے مطلب وہ کیسے پائے؟

میری حقیقتیں بھی اس کو لگیں فسانہ

 

ہے دور نفرتوں سے، جگ کی کدورتوں سے

بخشی گئی ہے جس کو طبع قلندرانہ

 

میں خیر خواہ ہوں تیرا میں ہوں گواہ تیرا

تجھ کو سمجھ نہ آئے یہ حرفِ محرمانہ

 

مجھ کو سکوں نہیں ہے پل بھر خوشی نہیں ہے

بجلی کی زد میں  ہر دم اپنا ہے آشیانہ

 

 

 

 

معاملہ ہے عجیب کچھ کچھ

خفا ہے مجھ سے حبیب کچھ کچھ

 

ذرا سی اُس کی ملی تھی قربت

جلا تھا مجھ سے رقیب کچھ کچھ

 

مجھے زمانے نے روند ڈالا

میں آدمی ہوں نجیب کچھ کچھ

 

تری جفائیں شمار ہیں سب

یہ دل مِرا ہے حسیب کچھ کچھ

 

شِفا ملی ہے خوشی ملی ہے

مگر ہے نالاں طبیب کچھ کچھ

 

تھی خامشی ہی زبان اس کی

لگا تھا مجھ کو خطیب کچھ کچھ

 

میں تیری کس سے کروں شکایت؟

جلا ہے میرا نصیب کچھ کچھ

 

نوشتے اس کے بھی ہیں معمے

سمجھ نہ آئے ادیب کچھ کچھ

 

میں اس سے خائف اسی لیے ہوں

ہے زندگانی مہیب کچھ کچھ

 

مجھے جدائی نے مار ڈالا

ذرا ہو ناقدؔ قریب کچھ کچھ

 

 

 

 

 

یہاں ستم رواج ہے

سو نفرتوں کا راج ہے

 

مروتوں سے ماورا

کٹھور دل سماج ہے

 

رکھے جو ظلم ہی روا

سر پہ اسی کے تاج ہے

 

ہے فکر نظم و نثر کی

نہ اور کام کاج ہے

 

ہے خوار ناقدِ حزیں

نہ قدر ہے نہ لاج ہے

 

 

 

 

 

دکھوں سے بھری ہے مری زندگانی

مری ذات کی ہے فسردہ کہانی

تری یاد مجھ کو دلاتی رہے جو

مجھے بخش دے کوئی ایسی نشانی

ستم کی تھی اک داستانِ مسلسل

ہوئی ہے بیاں جو ہماری زبانی

مجھے دشت میں پیاس نے اب ہے گھیرا

میسر نہیں مجھ کو دو گھونٹ پانی

کہا میں نے درشن کا تحفہ عطا کر

ہنسا اور کہنے لگا لن ترانی

سکوں مجھ کو ملتا نہیں ہے کہیں  بھی

طبیعت ملی ہے مجھ لامکانی

سدا بھول جاتے ہو تم عہد و پیماں

تمہاری یہ عادت بہت ہے پرانی

رہا ہوں خوشی سے میں محروم ناقدؔ

رہی غم کا مسکن یہ میری جوانی

 

 

 

 

 

خوشی میرے جیون میں معدوم ہے

حزیں رہنا ہی میرا مقسوم ہے

 

بصیرت کی دولت جسے بھی ملی

وہی شخص راحت سے محروم ہے

 

سدا مجھ پہ کرتا رہے گا جفا

یہی اس کی فطرت سے معلوم ہے

 

روا مجھ پہ رکھا گیا ہر ستم

یہی سچ سخن میں بھی مرقوم ہے

 

پس مرگ زندہ رہے نام جو

بھلا کیسے ناقدؔ وہ مرحوم ہے

 

 

 

 

 

سکون عنقا ہے ہر کسی کا

عجب تماشا ہے زندگی کا

جو راحتیں تھیں ہوئی ہیں غارت

سناؤں کیا حال بے بسی کا؟

اذیتوں کا محاصرہ ہے

عجب فسانہ ہے بے کسی کا

بپا ہوئی ہے جہاں میں شورش

ہوا ہے اب راج بے حسی کا

کسی کو اپنی خبر نہیں ہے

عجیب عالم ہے بے خودی کا

سخن ہے میرا تری شکایت

یہ قصہ ہے تیری بے رخی کا

وہ سمجھے میرا کلام ناقدؔ

جسے قرینہ ہو شاعری کا

 

 

 

 

 

سکھائی ہے فطرت نے خارا شگافی

بنایا گیا ہے مجھے اک سپاہی

 

مرا دل غنی ہے مجھے غم نہیں ہے

مجھے حق نے بخشی ہے من کی امیری

 

ہمیشہ مجھے راہ دکھائی ہے اس نے

سدا میری قدرت نے کی راہنمائی

 

وسیع النظر میں رہا ہوں ازل سے

رہی دور مجھ سے سدا کم نگاہی

 

نہیں مال و دولت کی کچھ فکر مجھ کو

رہی پاس ناقدؔ ہے آگاہی اپنی

 

 

 

 

 

زندگی کا عذاب رہنے دے

بے خودی ہم رکاب رہنے دے

میں ہوں قائل وفا پرستی کا

یہ جفا کا نصاب رہنے دے

نشہ مطلوب سرمدی ہے مجھے

ساقیا یہ شراب رہنے دے

دل ہمارا اسیرِ عصیاں ہے

شیخ فکرِ ثواب رہنے دے

لگ نہ جائے کسی کی چشمِ بد

اپنے رخ پر نقاب رہنے دے

تجھ کو ساقی قسم ہے صہبا کی

تشنگی کا عتاب رہنے دے

تابکے رنج میں رہوں غلطاں

پاس چنگ و رباب رہنے دے

جان میری چھڑائے گا ناقدؔ

اب تو خنجر پہ آب رہنے دے

 

 

 

 

بہت زخم دل میں چھپائے ہوئے ہیں

ستائے ہوئے ہیں رلائے ہوئے ہیں

 

ہمیں پاس رہنے دو کچھ دیر جاناں

کہ قربت کی حسرت بڑھائے ہوئے ہیں

 

نہیں خاص کچھ مسکراہٹ کی عادت

کسی کے لیے مسکرائے ہوئے ہیں

 

ہمیں ایک پل کو بھی راحت نہیں ہے

کہ آلام دل میں بٹھائے ہوئے ہیں

 

بلایا تھا تو نے ہمیں حاضری کو

سو ہم پا بجولان آئے ہوئے ہیں

 

ہمیں راس آیا نہ اخلاص ناقدؔ

محبت میں سب کچھ لٹائے ہوئے ہیں

 

 

 

 

 

کسی خواب گہ میں قیام ہے

کسی بے وفا سے کلام ہے

مجھے پیار ہے تری ذات سے

ترے عشق سے مجھے کام ہے

ترا راج ہے مری جان پر

مِرا دل ترا ہی غلام ہے

نہ تو جان میرے بدن میں ہے

نہ تو جیب میں میری دام ہے

ترے دم سے ہیں مری دھڑکنیں

مِرے لب پہ تیرا ہی نام ہے

کبھی بن سکے تیرا میت وہ

یہ خیال بھی ترا خام ہے

میں وہی ہوں ناقدِ بے نوا

جو امیدوارِ پیام ہے

 

 

 

 

ساون بھر ہے بادل گرجا

اب کے ساون ٹوٹ کے برسا

 

باغ میں اک ہریالی سی ہے

کلیوں کا بھی روپ ہے نکھرا

 

تیری میری قدر ہی کیا ہے؟

تو بھی رسوا میں بھی رسوا

 

کوئی میرے پاس نہیں ہے

یادوں میں کھویا ہوں تنہا

 

سب کچھ میرا تیری خاطر

شعر بھی میرا تیرا چرچا

 

آنکھوں میں نیر آ جاتے ہیں

لیتا ہوں میں نام جو تیرا

 

مل جاتی جو تیری قربت

دل کی باتیں تجھ سے کہتا

 

نام تمہارے کی ہے چاہت

میں نے دل سے تم کو چاہا

 

رکھا کیا ہے دل میں ناقدؔ

صرف تمہارا نام لکھا ہے

 

 

 

 

 

تنہائی ہے سناٹے ہیں خوف سماں ہے

ہر لمحہ ہے بے کل میرا ہوش کہاں  ہے؟

 

غم ہمراز پرانا ٹھہرا ساتھی میرا

ساتھ مِرے اک بے چینی ہے حزن جواں ہے

 

عشق ہوا ہے تجھ سے پیار نبھایا میں نے

تیرے ذکر سے ہر پل میری سانس رواں ہے

 

بات مری میں آسانی ہے ہر اک سمجھے

کب مشکل ہے سب سے آساں میری زباں ہے

 

غم کی لے میں غمگیں شعر ہیں ناقدؔ میرے

سوز، سخن سے نسبت اپنی غم پنہاں ہے

 

 

 

 

 

ترا دل محبت پہ مائل نہیں ہے

سو میری وفا کا یہ قائل نہیں ہے

 

کسی سے بھلا کیسے الفت کریں ہم؟

یہاں پیار کے کوئی قابل نہیں ہے

 

کوئی خیر خواہی بھلا کیسے چاہے؟

مرا دل بھی اب کے مرا دل نہیں ہے

 

یہ دولت، یہ شہرت ہے کس کام کی اب؟

کہ قربت تری مجھ کو حاصل نہیں ہے

 

وہ راہِ محبت کا راہی ہے کیسا؟

ہوا عشق میں جو بھی گھائل نہیں ہے

 

ملے جس میں اس کو خلوص و مروت

میسر وہ ناقدؔ کو محفل نہیں ہے

 

 

 

 

 

جو الفتوں میں ثواب پایا

سو نفرتوں میں  عذاب پایا

 

جو حرف تم نے پڑھا دیا تھا

اسی کو جانِ نصاب پایا

 

کتابِ دل میں  ہے نقش تیرا

تجھے سراپا کتاب پایا

 

حیات بے شک رہی ہے مشکل

تجھے مگر ہم رکاب پایا

 

بسا ہے وہ دل میں اپنے ناقدؔ

چمن میں جیسے گلاب پایا

 

 

 

 

 

تری فکر کا کوئی محور نہیں ہے

ترے پاس دانش کا جوہر نہیں ہے

 

محبت سے میں کیوں نہ بوسہ اسے دوں؟

وہ انسان ہے کوئی پتھر نہیں ہے

 

ستم بھی کرے اور پچھتائے بھی وہ

بھلا اس قدر وہ ستم گر نہیں ہے

 

رہے مجھ پہ وہ مہرباں کیسے ہر دم

کہ دلبر ہے کوئی قلندر نہیں ہے

 

گزارا ہے ناقدؔ بصد لطف جیون

تلاطم کوئی من کے اندر نہیں ہے

 

 

 

 

 

لبوں پہ حرفِ سوال کیسا؟

نظر میں  عکس جمال کیسا؟

 

گزر گئیں تو گزر گئی ہیں

گئی رتوں کا ملال کیسا؟

 

کیا ہے تجھ سے جو عشق میں نے

تو میرا اس میں کمال کیسا؟

 

ازل سے مغموم آتما ہے

یہ مجھ پہ آیا زوال کیسا؟

 

ہے حسن حسنِ نظر کے باعث

تو پھر فروغِ جمال کیسا؟

 

کریں  گے اظہارِ شوق ناقدؔ

کسی کا خوفِ جلال کیسا؟

 

 

 

 

 

مجھے کسی کا ملال کیوں ہو؟

خرد میں تشنہ سوال کیوں ہو؟

 

جنم لیا جس نے حسرتوں میں

تو اس میں کوئی کمال کیوں ہو؟

 

سدا رہا ہوں جو حاسدوں میں

وہ آدمی خوش خصال کیوں ہو؟

 

ہو سعی پیہم کا رنگ جس میں

وہ بخت رو بہ زوال کیوں ہو؟

 

میں روز سہتا ہوں رنج ناقدؔ

مری طبیعت بحال کیوں ہو؟

 

 

 

 

 

یہ سلسلے بھی عجیب نکلے

کہ طرفہ اپنے نصیب نکلے

 

امیر کوئی سما نہ پایا

درونِ دل کچھ غریب نکلے

 

مجھے بھی جیون سمجھ نہ آیا

الم کے سائے مہیب نکلے

 

مداوا کس سے کرائیں اب ہم؟

کہ دشمن جاں طبیب نکلے

 

تھا میکدے میں ہجوم بے حد

کھلا جو در سب خطیب نکلے

 

بنایا تھا ہم نے جن کو قاصد

وہی ہمارے رقیب نکلے

 

 

 

 

 

ترکش میں اک تیر نہیں ہے

آنکھ میں کوئی نیر نہیں ہے

 

بے معشوق سا رانجھن ہوں میں

میری کوئی ہیر نہیں ہے

 

میرا تن خلعت سے عاری

جسم پہ کوئی لیر نہیں ہے

 

جس کی بات امر ہو جائے

کوئی ایسا میر نہیں ہے

 

ادب کرے کیا خلقت اس کا؟

ناقدؔ کوئی پیر نہیں ہے

 

 

 

 

 

تری تصویر سینے میں

نظر کے آبگینے میں

 

مری ہے اک یہی خواہش

کہ جا پہنچوں مدینے میں

 

مجھے حاصل سکوں کیسے؟

کہاں راحت ہے جینے میں؟

 

مجھے اک راز ہی سمجھو

ملوں گا میں دفینے میں

 

مجھے کیوں خوف ہو ناقدؔ؟

کہ ہوں تیرے سفینے میں

 

 

 

 

 

من پر جانے آئے لوگ

زخم بڑھانے آئے لوگ

 

میں جو اس دنیا میں آیا

مجھ کو ستانے آئے لوگ

 

میں سمجھا تھا مخلص ہوں گے

تیر چلانے آئے لوگ

 

خود ہنسنے کی خواہش لے کر

مجھ کو رلانے آئے لوگ

 

ناقدؔ میری بے چینی کو

گیت سنانے آئے لوگ

 

 

 

 

 

دل والوں کی ریت رہی ہے

پیت ہی ہر دم میت رہی ہے

 

تم سے نہیں ہے کوئی شکوہ

چاہے جیسی بیت رہی ہے

 

میں ہارا ہوں دل سے جاناں

چاہت ہی اب جیت رہی ہے

 

دھن دولت تو پاس نہیں ہے

ساتھ مِرے بس پیت رہی ہے

 

غم ہے ناقدؔ پونجی میری

اس سے ہر پل پریت رہی ہے

 

 

 

 

جو زلف کے ہم اسیر ہوتے

تو سوچ کتنے امیر ہوتے

 

ہمیں جو دیدار تیرا ہوتا

نصیب پھر بے نظیر ہوتے

 

نہ راس آئی جو دنیاداری

تو چاہا ہم بھی فقیر ہوتے

 

نہ کارواں یوں بھٹکتا پھرتا

بھلے جو اس کے امیر ہوتے

 

خلوص ہم کو عطا نہ ہوتا

تو ہم بھی اک ٹیڑھی کھیر ہوتے

 

نہ ملتا ہم کو جو قرب تیرا

ہماری آنکھوں میں نیر ہوتے

 

رقیب مجھ سے نہ بچنے پاتے

جو میرے ترکش میں  تیر ہوتے

 

جو پائی منزل سکوں نہ پایا

سدا کے ہم راہ گیر ہوتے

 

سبق پڑھاتے محبتوں کا

اگر کہیں ہم بھی پیر ہوتے

 

خرد کی دولت نہ پاس ہوتی

تو ہم بھی ناقدؔ حقیر ہوتے

 

 

 

 

 

یہ چہرہ مِرا کرب کی داستاں ہے

کہ جیون کا ہر جور اس پر عیاں ہے

 

مری ذات اک سوزِ جاں کا ہے مظہر

سو اندوہ گیں میرا طرزِ بیاں ہے

 

مرے من میں رقصاں ہے اک تیر، شعلہ

مری زندگانی میں فرحت کہاں  ہے؟

 

بڑھا جا رہا ہوں منازل کی جانب

مرے پیچھے پیہم خروشِ سگاں ہے

 

مقدر میں ناقدؔ مسرت نہیں ہے

نصیبوں میں غم کا وہ سیلِ رواں ہے

 

 

 

 

 

لبوں پہ فقط حرفِ اقرار ٹھہرے

مری اصل دولت مرا پیار ٹھہرے

ہوا تم سے جس دن سے پیمان الفت

زباں پہ مری اب نہ انکار ٹھہرے

توقع نہ تھی جن سے چارہ گری کی

وہی میری ہستی کے غم خوار ٹھہرے

تھیں وابستہ جن جن سے امیدیں اکثر

وہ افراد بھی اب ہیں لاچار ٹھہرے

فرو مائے گی ہے مری آگہی ہے

کہ کم فہم ہی میرے سردار ٹھہرے

ہے اشغالِ ہستی نے ایسا تھکایا

زمانے میں ہم جیسے بیمار ٹھہرے

مِرا یار ناقدؔ وہ چکنا گھڑا ہے

نہ اِس پار ٹھہرے نہ اُس پار ٹھہرے

 

 

 

 

 

مری زیست غربت کی تصویر ٹھہری

مری آگہی میری تعزیر ٹھہری

 

میں چپ ہوں مگر مدعا تو عیاں ہے

مری خامشی میری تقریر ٹھہری

 

کیے میں نے لاکھوں جتن تیری خاطر

موثر نہ کوئی بھی تدبیر ٹھہری

 

مِرا اس کا رشتہ تو ہے دل کا ناتا

میں رانجھن ہوں وہ بھی مری ہیر ٹھہری

 

خوشی سے نہیں کچھ سروکار ناقدؔ

گلے میں مرے غم کی زنجیر ٹھہری

 

 

 

 

 

مرے صبر کا امتحان کس لیے ہے؟

مرا حزن آتش فشاں کس لیے ہے؟

 

جلاتا ہے مجھ کو سدا سوز دل میں

بتا اے خدا! یہ جہاں کس لیے ہے؟

 

کہاں تک رہیں گے غموں کے یہ بادل

مرے بھاگ میں یہ سماں کس لیے ہے؟

 

کہا تھا نہ اپناؤ راہِ محبت

یہ دن رات آہ و فغاں کس لیے ہے؟

 

ستم کا تسلسل ہے سانسوں کی ڈوری

جفا یہ بھی ناقدؔ جواں کس لیے ہے؟

 

 

 

 

 

ہوئے خوف سے میرے لرزاں قدم بھی

رہے مجھ پہ کچھ اس طرح سے ستم بھی

 

کیے یوں کسی نے مسلسل کرم بھی

کہ تنگ آ گئے زندگانی سے ہم بھی

 

اجیرن ہوئی ایسے ہستی ہماری

کہ ہم بھول بیٹھے ہیں باغِ ارم بھی

 

کیا ہے مسائل نے یوں ہم کو بے خود

سو ہم چل نہ پائیں فقط دو قدم بھی

 

سکوں اپنی ہستی میں ناقدؔ نہیں ہے

کیے بے کلی میں فسانے رقم بھی

 

 

 

 

 

ہیں تیری ادائیں صنم دلبرانہ

مگر اپنی چاہت بھی ہے اک فسانہ

 

بغاوت بھی تو اک ضرورت ہے میری

مسلسل رہا ہوں ستم کا نشانہ

 

جو فتنہ گری سے یہ تنگ آ گیا ہے

سو محشر کا طالب ہوا ہے زمانہ

 

نہیں کچھ سروکار الفت سے مجھ کو

مگر میرے انداز ہیں عاشقانہ

 

بہت میرا مصروف جیون ہے ناقدؔ

میں ہر وقت ہوں  اک سفر پہ روانہ

 

 

 

 

 

مسلسل اذیت ہے میرا مقدر

سو میرا مقدر ہے میرا ستم گر

 

رہے پاس میری وفاؤں کا جس کو

ملا مجھ کو ایسا کوئی بھی نہ دلبر

 

اگر پھول دینا نہیں ہے گوارا

نہ مارو مِری جان تم کوئی پتھر

 

جہاں کے ستم سے ہے دل میرا گھائل

مِرے یار تم تو چلاؤ نہ خنجر

 

بہت معتبر ہے سخن میرا ناقدؔ

ملے گی نئی زندگی مجھ کو مر کر

 

 

 

 

 

محبت کا ہر سو سماں چاہیے اک

مجھے ایسا پیارا جہاں چاہیے اک

 

نہیں کوئی تخصیص نام و نسب کی

مجھے با وفا مہرباں چاہیے اک

 

نہ بجلی کی زد میں کبھی آنے پائے

وہ خوش بخت سا آشیاں چاہیے اک

 

جسے دار منظور ہو سچ کی خاطر

وہ سچائی کا پاسباں چاہیے اک

 

مِرا راز افشا نہ ہرگز کرے جو

وہ ناقدؔ مجھے راز داں چاہیے اک

 

 

 

 

 

زندگی اک عذاب ٹھہری ہے

درد و غم کا نصاب ٹھہری ہے

 

کرب اس میں ہے گزرے لمحوں کا

روز و شب کی کتاب ٹھہری ہے

 

داستاں کیا ہے اپنی ہستی کی؟

مثل روزِ حساب ٹھہری ہے

 

کوئی کیسے ہمیں بھلائے گا؟

ہر گھڑی لاجواب ٹھہری ہے

 

زندگی اب حسین ہے ناقدؔ

ہر خوشی ہم رکاب ٹھہری ہے

 

 

 

 

 

آپ میں دیکھی ہے ہم نے بے نیازی کی ادا

آپ جتنے پر جفا ہیں ہم ہیں اتنے با وفا

 

آپ ہیں ہم سے گریزاں ہم ہیں  شیدا آپ کے

دونوں ہو جائیں اکٹھے ہے طلب کا اقتضا

 

معترف خود ہی نہیں ہیں اک جہاں ہے معترف

مانتے ہیں لوگ ہم کو صاحب جود و سخا

 

باز آنے والے اخلاص و محبت سے نہیں

چاہے ظلم و جور کی ہو جائے ہم پر انتہا

 

اپنی دنیا خود ہی پیدا کی ہے ہم نے عمر بھر

ہم پہ ناقدؔ اہلِ دنیا کی نہیں کوئی عطا

 

 

 

 

ہمیں فکر ہر دم رہی ہے تمہاری

اسی حال میں عمر ساری گزاری

 

نہیں اور کوئی تمنا ہماری

رہا کام اپنا فقط جاں نثاری

 

سدا خیر خواہی سے منسوب ہم ہیں

یہی اک ادا ہم کو اپنی ہے پیاری

 

رہے کاربندِ جفا اہلِ دنیا

رہی ایک خلقت وفاؤں سے عاری

 

مشیت نے بخشا ہے اخلاص ناقدؔ

ہمیں راس آئی فقط غم گساری

 

 

 

 

 

سدا خوش رہا کر یہی زندگی ہے

یہ آدرش ہی زینتِ شاعری ہے

 

کسی پل پریشان ہوتا نہیں میں

کہ میری معاون سدا آگہی ہے

 

مشیت نے بخشے ہیں اوصاف ایسے

کہ خائف رہی مجھ سے فتنہ گری ہے

 

مسائل سے خائف ہوا میں نہ ہرگز

جنوں میرا ناصر ممد عاشقی ہے

 

ہے جہدِ مسلسل سے جیون عبارت

اسی حال میں زیست میری رہی ہے

 

مرا وقت ناقدؔ ہے مصروف گزرا

مِرا کام ہی تو مِری سرخوشی ہے

 

 

 

 

 

رت جگوں کے اسیر ٹھہرے ہیں

آپ اپنی نظیر ٹھہرے ہیں

 

جب سے تم نے بھلا دیا ہم کو

ہم تو گویا حقیر ٹھہرے ہیں

 

ساتھ اپنے رہا نہیں کوئی

دشت میں ہم فقیر ٹھہرے ہیں

 

کوئی مانے بھلا ہمیں کیسے

آپ اپنے امیر ٹھہرے ہیں

 

ساتھ ناقدؔ کوئی نہ دے پایا

غم کے تنہا سفیر ٹھہرے ہیں

 

 

 

 

 

رت جگوں کا ریاض جاری ہے

قرض جن کا غضب کا بھاری ہے

زیست یونہی سنور نہیں پائی

کر کے محنت بہت سنواری ہے

اہلِ دانش ہیں عقل رکھتے ہیں

اس لیے تو یہ بے قراری ہے

رہ کے اپنوں میں بھی ہیں بیگانے

زیست کی ہر گھڑی ادھاری ہے

کون اس بات کا کرے دعویٰ

یہ جو دنیا ہے سب ہماری ہے

ہم نے دانستہ کی نہیں حرکت

یہ جو ہے فعل اضطراری ہے

فیصلہ رب کے ہاتھ ہے ناقدؔ

کام اپنا تو جاں نثاری ہے

 

 

 

 

 

مجھے لے ہی ڈوبی مری خاکساری

مرے بھاگ میں رہ گئی بے قراری

 

مجھے تیری چاہت سے دکھ ہی ملے ہیں

ہوئی راہِ الفت میں ہے سنگ باری

 

اگرچہ میں دیتا رہا ہوں دہائی

کسی نے سنی نہ مِری آہ و زاری

 

طبیعت پہ چھائی ہوئی ہے اُداسی

ہے حالت مِری اس لیے اضطراری

 

یہاں ہے تسلط جہالت کا ناقدؔ

سو اب تک روا ہے یہاں کاروکاری

 

 

 

 

 

کسی سنگ دل نے رلا دیا

مِرا چین مجھ سے بھلا دیا

 

بڑا حق وفا کا ادا کیا

مِرا نام دل سے مٹا دیا

 

مرا بیٹا رویا جو بھوک سے

اسے دے تسلی سلا دیا

 

یہ تمام فیض اسی کا ہے

کہ سبق وفا کا پڑھا دیا

 

یہ کرم ہے ناقدِ زار پر

اسے شعر کہنا سکھا دیا

 

 

 

 

 

پریشاں ہوا ہوں عزیزوں کے باعث

نہیں سب مصائب نصیبوں کے باعث

بہت مضطرب وہ مجھے لگ رہا تھا

ہنسایا اُسے ہے لطیفوں کے باعث

سدا اس لیے غم میں غلطاں رہا ہوں

حزیں ہوں بہت دل نشینوں کے باعث

ہے باوصفِ اخلاص اسلام تازہ

نہیں اس کی ہستی خطیبوں کے باعث

چلن بے حیائی کا ہے عام ہر سو

یہاں شرم زندہ شریفوں کے باعث

ہے میرے مسائل کا واحد سبب یہ

میں بے چین ہوں کچھ رفیقوں کے باعث

کوئی دوش اس میں تو میرا نہیں ہے

مجھے اس نے چھوڑا رقیبوں کے باعث

نہ بیمار ہوتے تھے یہ لوگ ناقدؔ

مرض سب بڑھے ہیں طبیبوں کے باعث

 

 

 

 

 

ستم زندگی کا گوارا نہیں ہے

مرا اس جہاں میں سہارا نہیں ہے

 

مِری موت ٹھہری ہے میری محبت

کہ ہرگز مجھے تو نے مارا نہیں ہے

 

بھلا کیسے ملتی محبت میں منزل؟

کہ سنگ دل وہ اب کے ہمارا نہیں ہے

 

تمہیں کیسے دنیا کہے گی معزز؟

کہ جیون کو تم نے سنوارا نہیں ہے

 

نہیں میری قسمت تمہارا تقرب

کوئی دوش ناقدؔ تمہارا نہیں ہے

 

 

 

 

 

کسی سے اپنی نہ آشنائی

نہ کوئی مخلص نہ کوئی بھائی

مِرا حوالہ بنے گی اک دن

جو کی ہے میں نے غزل سرائی

جو زخم تھے سب ہرے رہے ہیں

مجھے محبت نہ راس آئی

کسی نے فریاد کب سنی ہے؟

اگرچہ دی ہے سدا دہائی

ہے کام اپنا فقط کمانا

نہ میری قسمت مِری کمائی

قدم کہیں بھی نہ ڈگمگائے

مِرے مقدر میں تھی بھلائی

سبھی نے ہے داد سے نوازا

غزل جو ناقدؔ نے ہے سنائی

 

 

 

 

 

سدا جاگ کر شب گزاری ہے سب

مجھے یاد ہر دم تمہاری ہے سب

 

ہمیں رزق چاہے ملے جس جگہ سے

خدا کی زمیں تو ہماری ہے سب

 

خوشی کا گزر پاس کیسے ہو میرے؟

مِرے پاس تو بے قراری ہے سب

 

نہیں آتے مجھ کو خوشی کے ترانے

مِری شاعری آہ و زاری ہے سب

 

تمہیں ہم نے ناقدؔ کہاں چھوڑا ہے؟

فقط بے وفائی تمہاری ہے سب

 

 

 

 

 

ایسا اجڑا ہے امیدوں کا نگر

پیار کی صورت نہیں آئی نظر

 

بس نہیں چلتا کسی بھی چیز پر

اپنی ہستی سے نہیں ممکن مفر

 

پیار میں سب کچھ لٹایا عمر بھر

راس ہم کو بھی نہ آئی یہ ڈگر

 

بے سہارا اس جہاں میں  ہم رہے

کوئی بھی مونس نہیں ہے چارہ گر

 

بے وفائی اس نے کی ناقدؔ سدا

وہ جو ٹھہرا تھا ہمارا ہم سفر

 

 

 

 

 

ہے کرب آنکھوں میں رتجگوں کا

کہ حال پتلا ہے بے کسوں کا

اسی سے میں نے کی ہے محبت

رہا جو غم خوار دوسروں کا

نہ تو اُن کو راس آ سکی محبت

نہ کوئی مونس ہے دل جلوں کا

کوئی جو غم نہ کسی کے بانٹے

جہاں جیسے ہو بے حسوں کا

رہے ہیں یہ لوگ غم میں غلطاں

نہیں کوئی حال شاعروں کا

مجھے تو غم ہی ملے ہیں ان سے

ہوا جو دیوانہ مہ وشوں کا

سبھی نے ہم پر ستم کیے ہیں

سنائیں کیا حال دلبروں کا؟

کلام اپنا ہے ایسے ناقدؔ

کہ جیسے نالہ ہو عاشقوں کا

 

 

 

 

 

مجھے بھول جانے کی کوشش نہ کرنا

کبھی یوں ستانے کی کوشش نہ کرنا

 

میں  پہلے جہاں کا ستایا ہوا ہوں

ستم اور ڈھانے کی کوشش نہ کرنا

 

ترے پیار میں وار دوں گا میں  جیون

مجھے آزمانے کی کوشش نہ کرنا

 

نبھانا بہر حال وعدہ ملن کا

بہانے بنانے کی کوشش نہ کرنا

 

مجھے قرب بخشا ہے احسان تیرا

یہ احساں جتانے کی کوشش نہ کرنا

 

ترے نام پر مر مٹا ہوں میں ناقدؔ

مجھے تو رلانے کی کوشش نہ کرنا

 

 

 

 

 

غمِ ہجراں میں  جینا ہے غمِ ہجراں میں مرنا ہے

سدا میں نے کچھ ایسے ہی سفر جیون کا کرنا ہے

یہ دھن میری بھی پکی ہے مِری الفت بھی سچی ہے

تجھے اپنا بنانا ہے ترے دل میں اترنا ہے

کیے اس نے سدا مجھ سے کئی تھے عہد و پیماں بھی

مگر میں جانتا ہوں یہ اسے اک دن مکرنا ہے

ابھی کچھ اور آئیں گی بہاریں اس پری وش پر

جوانی اور آئے گی اسے بننا سنورنا ہے

مجھے کوئی سمیٹے گا بھلا کیسے، نہیں ممکن

تباہی اور آئے گی، ابھی میں نے بکھرنا ہے

سدا خائف سا رہتا ہوں سجھائی کچھ نہیں  دیتا

ستم اک اور باقی ہے ابھی جاں سے گزرنا ہے

میں مر جاؤں مگر زندہ وفا ناقدؔ تو رہ جائے

مجھے راہِ محبت میں کچھ ایسا کام کرنا ہے

 

 

 

 

 

تو نہ ہو پائے گا میرا یہ کبھی سوچا نہ تھا

پیار میں ہوں گا میں رسوا یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

روز و شب تیری ہی حسرت میں گزاری زندگی

تو مجھے کر دے گا تنہا یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

نذر کر دی ہے تری بیداد کی میں نے حیات

حال تک تو نے نہ پوچھا یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

تجھ سے وابستہ مِری امید ہے جانِ وفا

تو مجھے کل دے گا دھوکا یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

عشق ناقدؔ اک مسلسل روگ ہے سمجھا ہوں آج

ہو نہ پائے گا مداوا یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

 

 

 

جیون ایک انوکھا رستا

روتا گاتا ہنستا بستا

 

وہ بے حد غصے میں ہوتا

جب بھی پاس میں اس کے جاتا

 

میں بھی اس کی عزت کرتا

میرے پاس اگر وہ آتا

 

چاہے جیسا بھی ہے پایا

خوش ہو کر ہے وقت گزارا

 

غم خوشیوں سے ہیں پیوستہ

میں نے ہر دم ہے یہ سمجھا

 

تم کو تو نفرت تھی مجھ سے

کیسے میں تم کو پا سکتا؟

 

میرا بھی تو ایک بھرم ہے

کیوں کہے کوئی ایسا ویسا؟

 

اس سے پیار ہے ناقدؔ مجھ کو

میرا سب کچھ دھرتی ماتا

 

 

 

 

 

اب کے ہماری زندگی

ہے داستانِ بے بسی

 

دل میں تمنا ہے بسی

ظلمت میں چاہوں روشنی

 

کچھ بھی نظر آتا نہیں

ہے چارسو اک تیرگی

 

احساس سے عاری جہاں

چھائی ہوئی ہے بے حسی

 

الفت کروں کیسے یہاں؟

نہ راس آئی عاشقی

 

ناقدؔ مجھے تو کھا گئی

اہلِ جہاں کی بے رخی

 

 

 

 

 

تیری ہنسی میں غم ہے

جتنا میں سمجھوں کم ہے

 

مجھ کو نہ یاد رکھے

ظالم ہوا بلم ہے

 

تو نے خرد ہے بخشی

مولا ترا کرم ہے

 

ترا قرب جو ملا تھا

وہی داستاں رقم ہے

 

خوشیاں نہ پاس بھٹکیں

ہم کو ملا الم ہے

 

ناقدؔ مِرا اثاثہ

کاغذ ہے اور قلم ہے

 

 

 

 

 

رابطوں کا جہان رکھتا ہوں

خود کو بھی درمیان رکھتا ہوں

 

مجھ کو نسبت بھی فکر و فن سے ہے

آگہی کا نشان رکھتا ہوں

 

پاس میرے جہاں کا سب کچھ ہے

میں زمین و زمان رکھتا ہوں

 

مجھ کو بخشا گیا نہ اذنِ کلام

یوں تو منہ میں  زبان رکھتا ہوں

 

کوئی دشمن نہ مات دے ناقدؔ

اپنے جذبے جوان رکھتا ہوں

 

 

 

 

 

 

یہاں سنگ سنگ قباحتیں

ہمیں راس کب ہیں اذیتیں

تو نے چھین لیں وہ جو پاس تھیں

نہیں پاس اب مرے راحتیں

مِرے کام کچھ بھی نہ آ سکا

نہ مراقبے نہ ریاضتیں

مِری ہم نوا نہ خرد رہی

رہیں ساتھ میرے حماقتیں

ترے پاس اب نہ خلوص ہے

تجھے بھا گئی ہیں شرارتیں

نہ سکون ہے نہ قرار ہے

یہاں روز و شب ہیں رقابتیں

یہ طلب ہے ناقدِ زار کی

اسے قرب کی دے ضیافتیں

 

 

 

 

عجیب جیون بسر ہوا ہے

کہ بے ہنر باہنر ہوا ہے

 

معاف کر دو حضور مجھ کو

قصور مجھ سے اگر ہوا ہے

 

ہے دل کی دنیا کا کیا فسانہ؟

یہ ایک اُجڑا نگر ہوا ہے

 

عجب ہے فطرت صنم کی یارو

جفا پہ اپنی نڈر ہوا ہے

 

سنائیں کیا حال اپنے دل کا

یہ نفرتوں کی ڈگر ہوا ہے

 

پلایا خونِ جگر ہے اس کو

وفا کا بوٹا شجر ہوا ہے

 

جہاں سے کوئی گزر نہ پایا

وہاں سے میرا گزر ہوا ہے

 

بڑی عقوبت ہے سچ کی یارو

یہ جرم مجھ سے مگر ہوا ہے

 

دیا ہے یاروں نے مجھ کو دھوکا

سو دوستوں سے مفر ہوا ہوں

 

کہاں  ہوں پہنچا کہاں تھا جانا

یہ کیسا ناقدؔ سفر ہوا ہے؟

 

 

 

 

 

خدایا میں تیری رضا ڈھونڈتا ہوں

وفا کا ہوں خوگر وفا ڈھونڈتا ہوں

 

زمیں کے خداؤں سے تنگ آ گیا ہوں

میں آکاش والا خدا ڈھونڈتا ہوں

 

بہت سہہ چکا ہوں ستم نفرتوں کے

کوئی با وفا دلربا ڈھونڈتا ہوں

 

جفاؤں کی زد میں گزارا ہے جیون

وفاؤں کا اب آسرا ڈھونڈتا ہوں

 

عجب طرز ہے میرے جینے کا ناقدؔ

میں فانی ہوں لیکن بقا ڈھونڈتا ہوں

 

 

 

 

 

ہوئے خال و خد زندگانی کے مدھم

مجھے اس لیے خوف آتا ہے پیہم

 

مرے پاس تو رنج و غم ہیں فراواں

مگر سکھ ملے گا مرے پاس کم کم

 

ہے زخموں سے مملو مِرا جسمِ خاکی

لگائیں گے کس کس جگہ آپ مرہم

 

اسے بھول جاؤں یہ ممکن نہیں ہے

وہ میرا مسیحا ہے میرا پریتم

 

سنے ہیں بہت سے سخن ور جہاں میں

مگر تیرے ناقدؔ کا ہے اور عالم

 

 

 

 

 

ملے ہیں بہت ہم سفر راستے میں

بنے ہیں کئی چارہ گر راستے میں

 

کہیں بھی نظر اپنی جمنے نہ پائی

حسیں کتنے آئے نگر راستے میں

 

ہے جوبن پہ امروز تیری صباحت

لگے نہ کسی کی نظر راستے میں

 

نہ یہ ظلمتِ شب ہمیشہ رہے گی

کسی دن تو ہو گی سحر راستے میں

 

کٹا اپنا جیون سفر میں ہے ناقدؔ

مرے ساتھ ہرگز نہ ڈر راستے میں

 

 

 

 

 

دردِ پیہم نصیب لگتا ہے

زندہ رہنا عجیب لگتا ہے

ہم پہ چھاؤں نہیں مسرت کی

غم کا سایہ مہیب لگتا ہے

ہو گئے ختم فاصلے سارے

دور تھا جو قریب لگتا ہے

کس کا لاشہ کفن سے عاری ہے؟

کوئی مفلس غریب لگتا ہے

پاس جس کے ہے مال و زر وافر

وہ تو سب کو حبیب لگتا ہے

پُر اثر یوں بیان ہے جس کا

کوئی ماہر خطیب لگتا ہے

جس کو دیکھو مریض ہے ناقدؔ

شاذ کوئی طبیب لگتا ہے

 

 

 

 

 

مِرا شعر ہے آگہی کے لیے بھی

ہے انسان سے دوستی کے لیے بھی

 

ہمیں ظلمتِ شب نے ایسا ستایا

ترستے رہے چاندنی کے لیے بھی

 

ہوا تیرگی سے اخلاص حاصل

تڑپتے رہے روشنی کے لیے بھی

 

فسانے مرے پاس ہیں ہر طرح کے

جنوں کے لیے بھی خودی کے لیے بھی

 

فقط آشنا سے نہیں ربط ناقدؔ

تڑپ دل میں ہے اجنبی کے لیے بھی

 

 

 

 

محبتوں کو بڑھا دیا ہے

سو فاصلوں کو گھٹا دیا ہے

 

ملا ہے کیا الفتوں سے ہم کو

کہ الفتوں نے مٹا دیا ہے

 

جو نفرتوں سے بھی بجھ نہ پائے

چراغ ایسا جلا دیا ہے

 

وہ جس نے مجھ کو بھلا دیا تھا

اسے بھی دل سے بھلا دیا ہے

 

جو تا ابد ہی امر رہے گا

فسانہ ایسا سنا دیا ہے

 

جسے کوئی بھی بتا نہ پایا

وہ راز میں نے بتا دیا ہے

 

تھے چاہتوں کے امین پھر کیوں

منافرت کو بڑھا دیا ہے

 

نہ چین پاؤں گا پھر ابد تک

سکون ایسا بھلا دیا ہے

 

خلوص مشکوک ہو نہ ناقدؔ

مروتوں کو گھٹا دیا ہے

 

 

 

 

 

مجھے اب تو جینے کا یارا نہیں ہے

ستم اور سہنا گوارا نہیں ہے

مرا اب کے جی بھر گیا ہے جہاں سے

کہ دنیا میں میرا گزارا نہیں ہے

ملے جس سے خوشیوں کی سوغات مجھ کو

کوئی ایسا دلکش نظارا نہیں ہے

مرا حق نہیں کیوں چمن کے گلوں پر؟

گلستان کو میں نے سنوارا نہیں  ہے؟

یہ تسکین و راحت یہ مہر و محبت

ہے سب کچھ تمہارا، ہمارا نہیں ہے

سدا سکھ کی خاطر ترستے رہو تم

خوشی پہ کوئی حق تمہارا نہیں ہے

سنی اس نے کب میری فریاد ناقدؔ

اُسے کب دکھوں  میں  پکارا نہیں ہے؟

 

 

 

 

 

آگ لگی ہے جب سے چمن میں

ایک نقاہت سی ہے بدن میں

 

یوں ویرانی چھائی ہے اب

فرق نہیں کچھ گھر اور بن میں

 

غم کے بادل پھیل گئے ہیں

اک مایوسی ہے آنگن میں

 

چین سکوں کیسے پاؤں میں؟

آگ لگی ہے میرے من میں

 

ناقدؔ خستہ حال ہوئے ہیں

جان کہاں ہے اپنے تن میں؟

 

 

 

 

 

حسیں استعارہ ہوں میں آگہی کا

کہ ناتا مرے ساتھ ہے روشنی کا

 

پریشان و بے کل سدا میں  رہا ہوں

صلہ یہ ملا ہے تری دوستی کا

 

مجھے زندگی میں مصائب ملے ہیں

بنے ہیں جو عنواں مِری شاعری کا

 

مِری شاعری کیا مرے شعر کیا ہیں؟

فسانہ ہے یارو فقط بے بسی کا

 

خوشی کم ملی غم ملے ہیں زیادہ

یہ حاصل ہے ناقدؔ مِری زندگی کا

 

 

 

 

 

یہ پاؤں کے گھنگرو ہیں  زنجیر میری

ہوئی ہے بہت اس سے تحقیر میری

 

حقارت کا مجھ سے سبب کیا ہے ساجن؟

یہ کیوں پھینک دی تو نے تصویر میری؟

 

کوئی دوش مجھ پر نہیں اور جاناں

مِری سوچ ٹھہری ہے تعزیر میری

 

مِری زندگی سوزِ جاں میں کٹی ہے

الم سے عبارت ہے تفسیر میری

 

تکلم سے میرے پریشاں ہو ناقدؔ

گراں تم پہ گزری ہے تقریر میری

 

 

 

 

 

مِری رت جگوں میں کٹی زندگانی

ملی جس سے میرے قلم کو روانی

 

کیے ہیں رقم سوز کے سب فسانے

میں رکھتا نہیں کوئی شعلہ بیانی

 

رقم ہوں گی کچھ اور بھی داستانیں

مکمل نہیں ہے ابھی تک کہانی

 

سدا غم کی آتش نے مجھ کو جلایا

کٹی اس طرح کچھ ہے میری جوانی

 

وہ رہ رہ کے بے چین کرتی ہیں ناقدؔ

کٹی تھیں جو قربت میں راتیں سہانی

 

 

 

 

 

شعور میرا تری عطا ہے

تری وفا ہی مِری بقا ہے

 

میں بے حسوں کے حصار میں ہوں

سو میرا نالہ بھی نارسا ہے

 

قصور میرا نہیں ہے کوئی

مِرا تخیل مِری سزا ہے

 

مجھے تو اس نے کیا ہے گھائل

عجیب ظالم تری ادا ہے

 

ہوا ہوں ناقدؔ بہت پریشاں

تری جفا ہی مِری قضا ہے

 

 

 

 

 

مجھے تو ہے احساس اپنی انا کا

تجھے کیوں نہیں پاس میری وفا کا؟

 

ہوئیں لغزشیں مجھ سے جو زندگی میں

مجھے خوف رہتا ہے ان کی سزا کا

 

رکھوں گا میں  خوشیوں کی امید کیسے؟

کرم ہے سدا مجھ پہ تیری جفا کا

 

ترے پاس ہے سکھ سکوں کی جو مایا

اثر ہے یہ سب کچھ ہماری دعا کا

 

نہ ٹھکراؤ ناحق حقارت سے اس کو

ہے جیسا بھی ناقدؔ ہے بندہ خدا کا

 

 

 

 

 

 

 

وفا کے ہیں خوگر وفا ڈھونڈ لیں گے

طلبگارِ حق بھی خدا ڈھونڈ لیں گے

 

اگر جستجو ہم کو کرنا پڑی تو

کوئی ہم بھی دلکش ادا ڈھونڈ لیں گے

 

ہوئے اپنی ہستی سے بیزار ہم تو

کوئی اپنی خاطر قضا ڈھونڈ لیں گے

 

اگر فکرِ عقبیٰ نے ہم کو ستایا

کوئی اپنی خاطر سزا ڈھونڈ لیں گے

 

وفا تیری مقسوم ناقدؔ نہیں گر

تو ہم تیری رمزِ جفا ڈھونڈ لیں گے

 

 

 

 

 

مجھے تجھ سے محبت ہے صنم میرے

ترے عشوے ترے غمزے الم میرے

تری یادیں ترے سپنے ترے نوحے

مرے یہ سب اثاثے ہیں بلم میرے

مجھے تیری سمجھ بالکل نہیں آتی

سدا سوزاں رہا ہے کیوں قلم میرے

مرے اشعار میں سارے زمانے ہیں

حقیقت میں جہاں کے سب صنم میرے

مِرا منصب حقیقت کو رقم کرنا

ہوئے ہیں ہاتھ پھر کیونکر قلم میرے؟

مجھے یارو زمانہ کیا بھلائے گا

سبھی کے ہاتھ میں ہوں گے علم میرے

مجھے ناقدؔ سمجھنا اب نہیں مشکل

ہوئے مجھ سے فسانے سب رقم میرے

 

 

 

 

 

ٹھہری ہے میری زندگی حزن و الم کی داستاں

مجھ کو سکوں حاصل نہیں ہر وقت ہوں محوِ فغاں

 

مسکن بنا ہے جسم بھی اک روز و شب کے کرب کا

ہیں دور مجھ سے فرحتیں، راحت رہی ہے کب یہاں؟

 

ہے دور دورہ ظلم کا، دہشت کا، استبداد کا

ہیں اس قدر خاموشیاں اہلِ زباں ہیں بے زباں

 

ہیں ہر طرح کے روگ میری ذات کو گھیرے ہوئے

اب زندگی گویا ہماری ہو گئی ظلمت نشاں

 

تیرا ستم ناقدؔ بڑھا ہے ہر طرح کے ظلم سے

غم کا ہوا ہے راج یوں، ہر آن ہے دوزخ سماں

 

 

 

 

 

غم و سوز میں عمر ساری کٹی ہے

زباں پر تو آہ و فغاں ہی رہی ہے

 

تجھے ایسی طرفہ طبیعت ملی ہے

تری ہر شناسا سے ان بن ہوئی ہے

 

مِری زندگانی خوشی سے تہی ہے

سدا غم کی لے میں ہی ہر بات کی ہے

 

فقط بے حسی ہے یہاں چاروں جانب

کہی بات میری بھی اب ان کہی ہے

 

کہیں بھی حقیقت جو میں نے بیاں کی

کسی نے بھی ناقدؔ نہ ہرگز سنی ہے

 

 

 

 

 

حالت ہوئی ہے ابتر

قسمت رہی ہے خنجر

صورت ہماری بدتر

سانسیں بنی ہیں نشتر

سارے ہیں لوگ پتھر

عالم ہوا ستم گر

میرا عجب مقدر

دل میں بپا ہے محشر

گزری جو میرے دل پر

سمجھے کوئی قلندر

جو ہے جہاں کا سرور

میرا وہی ہے یاور

ناقدؔ کے غم بھی کم کر

سارے جہاں کے پرور

 

 

 

 

 

چین سکوں پامال ہوا ہے

حال بہت بدحال ہوا ہے

 

جو تھا جیون کا سرمایا

وہ بیگانہ مال ہوا ہے

 

ساتھ نبھانے کا تھا وعدہ

تم کو بچھڑے سال ہوا ہے

 

جس کے پاس تھی قرب کی دولت

ہجر میں وہ کنگال ہوا ہے

 

پیار سے عاری ہے جگ ناقدؔ

اب الفت کا کال ہوا ہے

 

 

 

 

 

ترا ہجر اک پل گوارا نہیں ہے

مرا اب کے تجھ بن گزارا نہیں ہے

تجھے میں نے بخشی ہے بے انت چاہت

محبت کا میری کنارا نہیں ہے

بصارت سے محروم اب ہو نہ جاؤں

کہ نظروں کے آگے نظارہ نہیں ہے

غزل اپنی کیسے نہ زندہ رہے گی؟

اسے کیا لہو سے نکھارا نہیں ہے؟

فروغِ بدی ہے فقط کارِ شیطاں

سو مخلص وہ ہرگز ہمارا نہیں ہے

اسی سے ہیں وابستہ ساری امیدیں

سوا اس کے کوئی سہارا نہیں ہے

کیا اس سے احسان بڑھ کر ہو تیرا

مجھے تو نے بے موت مارا نہیں ہے

اگر پیار ناقدؔ نہیں میری قسمت

کوئی دوش اس میں تمہارا نہیں ہے

 

 

 

 

 

زندگی درد کی داستاں بن گئی

بے بسی میری حسرت نشاں بن گئی

 

بے حسی کا ہوا راج یوں دہر میں

با زبانی مِری بے زباں بن گئی

 

عمر بھر غم نے روندا ہے مجھ کو یہاں

شاعری بھی مِری اب فغاں بن گئی

 

کیسے اعراض برتوں محبت سے میں؟

تیری چاہت جو شعلہ فشاں بن گئی

 

پیار اخلاص کے لوگ بیری ہوئے

ریت کچھ ایسی ناقدؔ یہاں بن گئی

 

 

 

تو چاہے جتنی کرے جفائیں

ترے لیے ہیں مری دعائیں

 

سکوں سے بچے نہ سونے پائیں

سدا بلائیں انہیں ڈرائیں

 

بہار میری نہیں ہے قسمت

مِری مخالف ہوئیں ہوائیں

 

میں جان تم پر نثار کر دوں

ہمیشہ لوں میں تیری بلائیں

 

مجھے ہے عقبیٰ کا خوف بے حد

کریں ہیں خائف مجھے خطائیں

 

رہا ہوں زندہ کرم ہے تیرا

ہیں مجھ پہ مولا تری عطائیں

 

خوشی سے کوئی نہ رہنے پایا

ہیں دہشتوں سے بھری فضائیں

 

ہماری قسمت عجیب قسمت

کہ جو کمائیں وہ کھا نہ پائیں

 

ہمارا اس میں قصور کیا ہے؟

جو وہ نہ مانیں تو کیا منائیں؟

 

رہا مسلسل اذیتوں میں

ہیں ساتھ میرے مِری بلائیں

 

ہمیں محبت سے اب ہے نفرت

ملی ہیں ناقدؔ سدا سزائیں

 

 

بہت کر چکا ہوں ادب کی میں خدمت

زمانے سے پھر بھی نہیں پائی عزت

 

مجھے راس آئی نہیں ہے شرافت

بنی زندگانی مسلسل اذیت

 

ودیعت ہوئی ہے مجھے جو جسارت

یہ ہر آن کرتی ہے میری حفاظت

 

اگرچہ ترا قرب ہے ایک راحت

گوارا نہیں تجھ کو میری رفاقت

 

سخن کی شب و روز کی ہے ریاضت

اسے میں نے سمجھا ہے ناقدؔ عبادت

 

 

 

 

 

میں نے اونچے گاڑے جھنڈے

گونجے دہر میں میرے نعرے

دنیا بھول سکے گی کیسے؟

قریہ قریہ میرے چرچے

کوئی مجھ کو کیسے روکے؟

کب مسدود ہیں رستے میرے؟

تم تو بھول گئے ہو ہم کو

لیکن ہم نہیں تم کو بھولے

یاروں کو سمجھانا یہ ہے

زیب نہیں دیتے ہیں شکوے

جن لوگوں نے ٹھکرایا ہے

وہ تو میرے یار تھے گہرے

محشر برپا کر دیں ناقدؔ

ان کے عشوے ان کے غمزے

 

 

 

 

 

دیا وقت میں نے ہے سارا ادب کو

کیا یاد میں نے اسی میں ہی رب کو

برابر سبھی کو جو میں نے ہے سمجھا

دیا اس لیے پیار میں نے ہی سب کو

ہے تفریق سے ماورا ذہن میرا

نہیں معتبر جانا نام و نسب کو

رہے شادماں اہلِ دنیا اگرچہ

فقط مجھ سے نسبت رہی ہے غضب کو

مجھے گفتگو سے تو روکا گیا ہے

تکلم کی حسرت رہی نطق و لب کو

نہیں کوئی مشکل جو تو آنا چاہے

بہانہ بنانا نہ ہرگز سبب کو

کوئی اور بھی کام ناقدؔ نہیں ہے

تجھے یاد میں نے کیا روز و شب کو

 

 

 

 

مولا نجات بخشے مجھ کو عذاب سے

خائف ہوا ہوں میں تو شب کے عتاب سے

 

خوشیاں بھی اس نے بخشیں غم بھی عطا کیے

جو کچھ ملا ہے مجھ کو ملا ہے کتاب سے

 

مطلوب مجھ کو اس کی اطاعت رہی سدا

مجھ کو غرض نہیں ہے گناہ و ثواب سے

 

دن رات ہم تو ترسیں دیدار کے لیے

تجھ کو ہوئی ہے رغبت کیونکر حجاب سے؟

 

کیسی ہے پردہ داری ہم اہلِ شوق سے

چہرے کا چاند جھانکے کچھ تو نقاب سے

 

میری کہانی مشکل سمجھے تو کوئی کیا

جانا نہ اس نے مطلب لُب لباب سے

 

تم نے جفائیں کر کے ہم کو خفا کیا

برتیں گے ہم بھی غفلت اب کے جناب سے

 

اس نے کیا پریشاں بدنام بھی کیا

تنگ آ گیا ہوں میں تو دل کے نصاب سے

 

کھولا ملائکہ نے میرے عمل کا کھاتہ

مجھ کو غرض نہیں ہے ان کے حساب سے

 

تیرا شباب قاتل تیری ادا ستم

پایا ہے سوز ناقدؔ تیرے شباب سے

 

 

 

 

مجھ پر یہ ظلم کس نے ڈھایا؟

کس نے میرا چین چرایا؟

 

وقت نے جب ساقی ٹھہرایا

میں نے سب کو خوب پلایا

 

میری نیند اڑائی تم نے

کیسا تم نے گیت سنایا؟

 

اس کے پاس نہیں جاؤں گا

جب وہ مجھ کو لینے آیا

 

تم سے میں یہ پوچھنا چاہوں

تم نے اتنا کیوں تڑپایا؟

 

اس کے قرب کو ترسا ہوں میں

اک پل بھی آرام نہ پایا

 

میں تو ایک امین ہوں اس کا

جس نے مجھ کو راز بتایا

 

خاموشی ہی خاموشی ہے

دہشت کا اک خوف ہے چھایا

 

جس کی خاطر پاپڑ بیلے

اس نے مجھ کو خوب رلایا

 

اس سے پیار کیا ہے میں نے

جو ہے میرے دل کو بھایا

 

گرچہ میں مجبور تھا بے حد

تیرا پھر بھی ساتھ نبھایا

 

کنجوسی نہ آئی مجھ کو

جو چاہا وہ پہنا کھایا

 

پاس نہ آیا میرے ناقدؔ

اس نے مجھ کو ہے بلوایا

 

 

 

 

 

احساس رت جگوں کا مجھ کوستا رہا ہے

یہ دکھ مجھے ازل سے پیہم رلا رہا ہے

 

گھر میں کروں چراغاں رہ میں  بجھاؤں نیناں

رستہ میں دیکھوں ہر پل محبوب آ رہا ہے

 

تجھ سے بھی دور ہوں میں غم سے بھی چور ہوں میں

صدمہ جگر کو میرے ہر دم یہ کھا رہا ہے

 

برسوں کی خشک سالی ہونٹوں پہ تشنگی ہے

ساقی مِرا ہے کیسا مجھ کو بھلا رہا ہے؟

 

کیسے بھلاؤں اس کو کیسے نہ یاد رکھوں؟

ناقدؔ وہ میرے دل میں ہر آن چھا رہا ہے

 

 

 

 

 

رہی ساتھ ہر دم قلم کی رفاقت

فقط میری غم خوار ٹھہری فراست

 

جہاں کیسے سمجھے خلوص و مروت؟

نہیں پاس رکھتا یہ اتنی ذہانت

 

کبھی بھول کر پاس میرے تو آؤ

کروں گا دل و جان سے میں سہاگت

 

مرے پاس جو بھی سخن مجتمع ہے

یہ در اصل ہے دہر کی اک امانت

 

نہیں آہ ناقدؔ مرے پاس کچھ بھی

اگر ہے تو شعروں کی ہے اک ضیافت

 

 

 

 

 

نئے زاویے فکر و فن کے ہیں میرے

سو چرچے بہت اب سخن کے ہیں میرے

 

یہاں کوئی بلبل چہکنے نہ پائے

کہ دستور ایسے چمن کے ہیں میرے

 

اسے تیغ اٹھانے کی حاجت نہیں ہے

وہ عشوے وہ غمزے سجن کے ہیں میرے

 

نہیں مندمل ہونے کی کوئی صورت

بڑھے زخم ایسے بدن کے ہیں میرے

 

مرے پاس ناقدؔ فراغت نہیں ہے

یہ لمحے سجن سے ملن کے ہیں میرے

 

 

 

 

 

کاغذ قلم سے رشتہ اپنا بہت پرانا

دوری بھی ان سے چاہی لیکن یہ دل نہ مانا

 

اہلِ خرد بھی ہوں میں اہلِ قلم بھی ہوں میں

حساس ہوں میں بے حد مجھ کو نہ پھر ستانا

 

پل بھر خوشی نہیں ہے دم بھر سکوں نہیں ہے

فطرت مِری نہیں ہے خوشیوں کے گیت گانا

 

مجھ کو ملی بصارت سب کچھ مجھے ملا ہے

اندھا نہ مجھ کو سمجھو جانو نہ مجھ کو کانا

 

جتنے ستم ہوں ناقدؔ مجھ کو نہ خوف ہو گا

مشکل مرے لیے ہے یادیں تری بھلانا

 

 

 

 

 

غموں میں سدا زندگی ہے گزاری

مِری ہم سفر ہے مِری آہ و زاری

 

مجھے روز رہتا ہے یہ خوف لاحق

نہ سانسیں کرے سلب یہ بے قراری

 

مجھے ڈر ہے امشب نہ تم آ سکو گے

سدا بھول جانا ہے عادت تمہاری

 

مجھے رات بھر نیند آتی نہیں ہے

میں ہر شب ہی کرتا ہوں اختر شماری

 

محبت سے پیش آئے ہم سب سے ناقدؔ

مروت سے نسبت رہی ہے ہماری

 

 

 

 

 

دیا وقت میں نے ہے سارا جنوں کو

کبھی میں نے چاہا نہیں ہے سکوں کو

ترے ہجر میں کتنا بے تاب ہوں میں

بیاں کیا کروں اپنے حالِ زبوں کو؟

اسی جرم کی ہے سزا میں نے پائی

سدا میں نے چاہا فقط مہ رخوں کو

یہ پہلے ہی بے حد ستائے ہوئے ہیں

مِری جان چھیڑو نہ تم دل جلوں کو

وہ بے حال ہے جس کا کوئی نہیں ہے

ملی کب ہے راحت یہاں بے کسوں کو؟

امیروں کی قائم رہی تاج داری

یہاں پوچھتا کون ہے مفلسوں کو؟

گزارے ہیں فن کی ریاضت میں ناقدؔ

نہ بے سود سمجھو مرے رت جگوں کو

 

 

 

 

 

کوئی مجھ سا ہرگز پریشاں نہ ہو گا

مِرے درد کا تم سے درماں نہ ہو گا

 

جوانی میں ہیں مہرباں لوگ لیکن

بڑھاپے میں کوئی بھی پرساں نہ ہو گا

 

اگر تو نے بخشا مجھے قرب اپنا

تو میری طرح کوئی فرحاں نہ ہو گا

 

بھلا کیسے میں خوش رہوں گا مِری جاں؟

اگر تو مرے سنگ شاداں نہ ہو گا

 

ترے ہجر میں زندگی مضطرب ہے

کوئی اہلِ دل اتنا سوزاں نہ ہو گا

 

ہے نذرِ ستم یوں مِری ذات ناقدؔ

کوئی رنج میں ایسے غلطاں نہ ہو گا

 

 

 

 

 

سدا ساتھ رہتی ہے اک سرگرانی

مرے غم نے پائی ہے ایسی جوانی

تری ذات ہے ایک قطرے کی صورت

سمندر کی سمجھو گے کیا بیکرانی؟

ہے میری شرافت کا قائل زمانہ

کسی سے کبھی کی نہیں چھیڑ خوانی

سدا سے ہی دنیا میں پیاسا رہا ہوں

نہیں  میری قسمت میں دو گھونٹ پانی

کیے میں نے تخلیق اشعار لاکھوں

مسلم ہے اپنے قلم کی روانی

ملا آفرینش سے مجھ کو بڑھاپا

نہیں میں نے جیون میں دیکھی جوانی

مجھے زندہ رہنے کے قابل بنایا

رہے گی مجھے یاد یہ مہربانی

اگرچہ مرے ہونٹ ناقدؔ سلے ہیں

رہے گی نہ ہرگز سدا بے زبانی

 

 

 

 

 

ستم جس قدر چاہے تیرا بڑھے گا

مرا پیار اس سے بھی بڑھتا رہے گا

 

تجھے جھوٹ ہی وہ لگے گا مِری جاں!

مِرا کوئی تجھ سے جو شکوہ کرے گا

 

کروں چاہے سچ کی سدا پاسداری

کوئی بات میری بھلا کیا سنے گا؟

 

خوشامد کی خو اس میں ہر دم رہے گی

جو غیروں کی پس خوردگی پر پلے گا

 

اسی سے ہی جدت کو نسبت رہے گی

ادب میں جو تازہ فسانے لکھے گا

 

نہیں ہے مسیحائی کی کچھ توقع

مرے زخم ناقدؔ ہرے وہ کرے گا

 

 

 

 

 

مجھے آزمانے کی کوشش نہ کرنا

ستم کوئی ڈھانے کی کوشش نہ کرنا

 

تمہارے مٹانے سے مٹ نہ سکیں گے

کبھی تم مٹانے کی کوشش نہ کرنا

 

ہمیں بھول جانا نہیں کوئی آساں

عبث بھول جانے کی کوشش نہ کرنا

 

نہ آؤ گے تو صاف کہہ دو مجھے تم

بہانے بنانے کی کوشش نہ کرنا

 

ترے وصل پر منحصر زندگی ہے

کہیں دور جانے کی کوشش نہ کرنا

 

غزل ہی تمہارا ہے معیار ناقدؔ

کبھی تم فسانے کی کوشش نہ کرنا

 

 

 

 

 

مسلط ہیں میرے چمن پر خزائیں

نہیں عندلیبوں کی آتی صدائیں

 

نہیں میری قسمت میں پھولوں کی خوشبو

ہوئیں میری جب سے مخالف ہوائیں

 

عطا ہو ہمیں اب تو قربت تمہاری

ہوئیں ختم تم پر ہماری وفائیں

 

ہماری محبت کو نسبت ہے تم سے

تمہیں پیار سے کیسے ہم نہ بلائیں؟

 

مِری بات پر نہ دھرے کان تو نے

ہوئیں بے اثر تجھ پہ میری نوائیں

 

بھلا کیسے ممکن ہے اعراض ناقدؔ

رہیں گی سدا یاد تیری جفائیں

 

 

 

 

 

نہیں راس آئی محبت کی دنیا

کہ در اصل یہ تو ہے نفرت کی دنیا

 

مِری زندگی کو ہے دانش سے نسبت

تمہیں بھا گئی ہے حماقت کی دنیا

 

عبارت مروت سے جیون ہے میرا

مگر تیری دنیا کدورت کی دنیا

 

چلن بے حیائی کا ہے عام ہر سو

مِری جان کب ہے شرافت کی دنیا؟

 

غزل میری چاہت سے ہے خوب ناقدؔ

حقیقت میں ہے یہ لطافت کی دنیا

 

 

 

 

 

مرے پاس ہے صرف لفظوں کی دولت

ہے غمگین و پرسوز غزلوں کی دولت

 

بہت اس کی خاطر جتن کر لیے ہیں

سو پھر ہاتھ آئی یہ حرفوں کی دولت

 

بہت سے زمانے ہیں ان میں سمائے

بھلا کب ہے بے سود نظموں کی دولت

 

یہ نعمت بڑی پیار کے بول بھی ہیں

حقیقت میں ہے یہ تو روحوں کی دولت؟

 

مجھے گیت گانوں سے رغبت نہیں ہے

مرے پاس ناقدؔ ہے نوحوں کی دولت

 

 

 

 

 

طبیعت اضطرابی ہے

مسلسل خام خوابی ہے

 

تجھے دن رات پڑھتا ہوں

ترا چہرہ کتابی ہے

 

سکوں کیسے میسر ہو؟

کہ کیفیت عذابی ہے

 

میں تنہا رہ نہیں سکتا

سو ملنے کی شتابی ہے

 

میں ناقدؔ سب سے مخلص ہوں

یہی مجھ میں خرابی ہے

 

 

 

 

 

تری بے وفائی

مِری جگ ہنسائی

مری کب ہے مانی

ہے اپنی منائی

نشہ اس کا باقی

جو تو نے پلائی

بھلا کب ہیں مخلص؟

مگر سب ہیں بھائی

کروں کیا بھروسہ؟

ہے تجھ میں برائی

تفاخر نہ کرنا

ہے ہر شئے پرائی

ہے صد شکر اس کا

ملی ہے بھلائی

جو کی پیت ناقدؔ

ہمیشہ نبھائی

 

 

 

 

 

سناؤ نہ مجھ کو نئے فلسفے

میں طے کر چکا ہوں یہ سب مرحلے

 

نئی منزلیں سامنے ہیں مرے

اگرچہ کٹھن ہیں مِرے راستے

 

مروت سے تم رام کر دو اسے

تمہیں جیسا چاہے مخالف ملے

 

مرے شعر بھی ہیں حقیقت لیے

کوئی تو مِری بات کو بھی سنے

 

وہی راز مجھ پر ہیں  اکثر کھلے

کسی پر جو ناقدؔ نہیں کھل سکے

 

 

 

 

 

محبت کے غم وہ اٹھائے تو سمجھے

کوئی اس اذیت کو پائے تو سمجھے

مِرا رونا بے اثر سنگ دل پر

اگر اس کو کوئی رلائے تو سمجھے

وہ نادان تو ہے فراست سے عاری

سمجھ میں اگر اس کی آئے تو سمجھے

مزہ ہے پلانے میں پینے سے بڑھ کر

کسی کو کئی مَے پلائے تو سمجھے

جو کرتا ہے مجھ پر سدا سنگ باری

کوئی سنگ اس پر اُٹھائے تو سمجھے

یہ ہے شرطِ لازم کرے وہ محبت

کسی سے اگر دھوکہ کھائے تو سمجھے

کسی نے نہ میری محبت کو جانا

سمجھ میں مرا پیار آئے تو سمجھے

کسی نام کا نقشہ ہو اس کے دل پر

اگر اس کو ناقدؔ مٹائے تو سمجھے

 

 

 

 

 

طلب ہے مجھے اک حسیں دلربا کی

خلوص و مروت کی صدق و صفا کی

 

ترے ساتھ ہر دم وفائیں ہی کی ہیں

مگر تو نے مجھ سے ہمیشہ جفا کی

 

تری پیت کا میت ہر پل رہوں گا

قسم ہے مجھے اب کے اپنی وفا کی

 

زمانے کے شر سے جو محفوظ رکھے

مجھے ہے ضرورت اک ایسی دوا کی

 

سخن میرا ناقدؔ جہاں سے نرالا

ہے تعریف کی سب نے طرزِ ادا کی

 

 

 

 

 

دیکھیے یہ بے خودی کب تک رہے؟

عشق میں دیوانگی کب تک رہے؟

 

ساتھ دینے کا تھا وعدہ عمر بھر

کیا خبر یہ دوستی کب تک رہے؟

 

وار بیٹھا ہوں میں سب کچھ پیار میں

دیکھنا ہے عاشقی کب تک رہے؟

 

اپنی سانسوں کا بھروسہ بھی نہیں

کون جانے زندگی کب تک رہے؟

 

ہے خرد کا پاس بھی حاصل مجھے

ساتھ میرے آگہی کب تک رہے؟

 

جانِ ناقدؔ بے بسی کے ساتھ ساتھ

جانے میری بے بسی کب تک رہے؟

 

 

 

 

 

 

 

مِرے فسانوں میں آگہی ہے

سو جوش جذبہ ہے روشنی ہے

 

سکون پل کو نہیں میسر

غموں سے مملو زندگی ہے

 

وہ جس پہ وارا ہے میں نے جیون

وہی بنا اب کے اجنبی ہے

 

ہے سامنا تیری بے رخی کا

یہ دشمنی ہے کہ دوستی ہے

 

کسی کا ہو ساتھ کیسے ناقدؔ

مِری رفاقت میں مفلسی ہے

 

 

 

 

 

راتوں کو بھی ہم جاگے ہیں

دنیا پیچھے، ہم آگے ہیں

 

دیکھ شجاعت، ہیبت اپنی

میداں سے دشمن بھاگے ہیں

 

رشتوں میں اخلاص کہاں ہے؟

گویا یہ کچے دھاگے ہیں

 

لگتا ہے تو آنے کو ہے

پھر منڈیر پہ کچھ کاگے ہیں

 

کل تک تو ہم غیر تھے ناقدؔ

اب کیوں ہم اپنے لاگے ہیں؟

 

 

 

 

 

 

 

ہے صدق و صفا بھی

خلوص و وفا بھی

 

بڑی ایک نعمت

ہے شرم و حیا بھی

 

سخن میں کنایہ

ہے طرزِ ادا بھی

 

اثر کاش کرتی

ہماری نوا بھی

 

کیا تو نے سب کچھ

وفا بھی، جفا بھی

 

نہیں ساتھ دیتی

مِرا اب صدا بھی

 

ہیں جیون کا حصہ

یہ جرم و سزا بھی

 

نمازِ محبت

کبھی ہو ادا بھی

 

ہے دہشت میں لپٹی

ہماری فضا بھی

 

فنا میں بھی پنہاں

ہے رازِ بقا بھی

 

عدو رت ہے ناقدؔ

مخالف ہوا بھی

 

 

 

 

 

عشق میں ہیں سو پاپڑ بیلے

دل نے بے حد صدمے جھیلے

 

نیناں دید کو ترس گئے ہیں

کب ہوں گے درشن کے میلے؟

 

دل نے استقبال کیا ہے

پیار کی جب ہم بازی کھیلے

 

پھول خوشی کے کب قسمت میں؟

کانٹوں سے معمور ہیں بیلے

 

تجھ کو کیا مطلوب ہے ناقدؔ

میرے پاس ہے جو کچھ لے لے

 

 

 

 

 

 

 

تری یاد مجھ کو نہیں سونے دیتی

کہ پل کو بھی تنہا نہیں ہونے دیتی

 

میں رونے لگوں بھی تو آنسو نہ آئیں

مجھے استقامت نہیں رونے دیتی

 

یہ دنیا فقط ہے جفاؤں کی خوگر

مجھے تخمِ الفت نہیں بونے دیتی

 

تجھے بھولنا بھی جو چاہوں تو کیسے؟

تری یاد من سے نہیں کھونے دیتی

 

عطا مجھ کو قسمت نے کی مفلسی

یہ ناقدؔ تونگر نہیں ہونے دیتی

 

 

 

 

 

تری یاد میں عمر ہم نے گزاری

ترا پیار ہے زندگانی ہماری

 

یہ چاہت ہماری ہے روحوں کی چاہت

سمجھنا ہمیں تم نہ تن کا پجاری

 

بجز اس کے کوئی نہیں کام ہم کو

سدا ہم نے کی ہے محبت نگاری

 

دیا ہم کو الفت نے سب کچھ جہاں میں

فقط پیار نے اپنی ہستی سنواری

 

میں امشب نہ آؤں تو پھر سو ہی جانا

مِری جان کرنا نہ اختر شماری

 

ترا ہجر ناقدؔ تو ہے جان لیوا

ملے گی خدا جانے کب رستگاری؟

 

 

 

 

 

 

 

تجھے راہِ الفت پہ لانا ہے میں نے

کہ ہر حال میں تجھ کو پانا ہے میں نے

 

ترے دل کے تاروں کو جو چھیڑ دے گا

وہ جادو اثر گیت گانا ہے میں نے

 

تقاضا محبت کا ہے خیر خواہی

تجھے ہر بدی سے بچانا ہے میں نے

 

فقط قرب تیرا ہی منزل ہماری

تجھے میت اپنا بنانا ہے میں نے

 

مرا من محبت کا ہے اک سمندر

بھلا کس کو ناقدؔ ستانا ہے میں نے

 

 

 

 

 

 

 

مرا ذہن گردش میں ہے سوچ راہوں میں ہے

ازل سے مری جاں تو میری نگاہوں میں ہے

 

کہیں بھی میسر مجھے اب وہ راحت نہیں

سکوں جو مِرے دلربا تیری بانہوں میں ہے

 

ہے اعمالِ حسنہ سے عاری یہ جیون مِرا

ملی مجھ کو ہر پل اذیت گناہوں میں ہے

 

زمانہ انہیں ہے سمجھنے سے عاری

مِرا غم مِرا سوز پنہاں ان آہوں میں ہے

 

کسی بھی عقوبت کا ہو خوف کیا اب مجھے؟

کہ ناقدؔ تحفظ تمہاری پناہوں میں ہے

 

 

 

 

 

ہوں تنگ تیری حماقتوں سے

تری مسلسل شرارتوں سے

 

مزید کوئی بھی غم نہیں ہے

ملا ہے دکھ صرف چاہتوں سے

 

خلوص مجھ کو ہوا ودیعت

ہوں دور بے حد قباحتوں سے

 

کیے بہت سے ہیں راز افشا

مجھے ہے نسبت کرامتوں سے

 

مجھے مشیت نے حزن بخشا

ملا سکوں کب عبادتوں سے؟

 

محبتوں کی ہے پیاس مجھ کو

نہیں ہے رغبت ریاضتوں سے

 

فقط محبت میں چین پایا

ملی اذیت رقابتوں سے

 

ہے میری دمساز میری خلوت

گراں طبیعت رفاقتوں سے

 

فقط سچائی کے ہم امیں ہیں

ہمیں ہے نسبت صداقتوں سے

 

غزل کو ناقدؔ دوام بخشا

نفاستوں سے لطافتوں سے

 

 

 

 

 

ترا غیض ہے پیار کی اک علامت

کبھی میں نے سمجھا نہیں اس کو نفرت

 

سدا پیار کے پھول بانٹا کرو تم

تمہیں زیب دیتی نہیں یہ کدورت

 

سمجھتا ہوں میں ساری باتیں تمہاری

مجھے ایسی بخشی گئی ہے بصیرت

 

مری جان غیروں کا مقصد یہی ہے

کہ وہ درمیاں اپنے ڈالیں عداوت

 

مری زندگی کی یہ خواہش ہے ناقدؔ

میسر رہے مجھ کو تیری رفاقت

 

 

 

 

 

مزہ مجھ کو جینے میں آتا نہیں ہے

نظر کو سماں کوئی بھاتا نہیں ہے

 

ترے ذکر سے کیسے اعراض ممکن؟

زباں سے ترا نام جاتا نہیں ہے

 

خوشی سے اگر من نہ مسرور ہو پھر

کوئی گیت ایسے تو گاتا نہیں ہے

 

سدا غم کی خبریں ہی لاتا ہے قاصد

خوشی کی خبر کوئی لاتا نہیں ہے

 

ہو سب کچھ خدا کا دیا پاس ناقدؔ

کوئی بھوکے بچے سلاتا نہیں ہے

 

 

 

 

 

ترستا ہوں میں راحت کو

تری قربت کی لذت کو

 

سخن مشکل نہیں میرا

اگر سمجھو عبارت کو

 

نہ کر تقلید غیروں کی

نہ اپنا اس ثقافت کو

 

مجھے غربت گوارا ہے

کروں گا کیا امارت کو؟

 

سمجھتا ہے بہت ناقدؔ

تری ہر اک شرارت کو

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل