FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

جب ہم نے سفر آغاز کیا

 

 

 

                   ماجد صدّیقی

 

 

حصہ دوم

 

 

 

حصہ اول کے لیے یہاں کلک کریں

 

باب: گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

 

اسے وسائل کی کمی کہیے یا ہمارے دیہاتی بھائیوں کا مولائی پن کہ ان حضرات میں اکتفا کا جذبہ کچھ زیادہ ہی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ بجز اُن لوگوں کے جو ابتداء ہی سے کسی روشن مستقبل کی شاہراہ پر ہو لیتے ہیں ہمارے کصر دیہاتی بھائی اپنی معیشت کا ایک چھوٹا سا جدی پُشتی ذریعہ اپنانے کے بعد باقاعدہ زندگی کا کچھ اس طرح آغاز کرتے ہیں کہ مسائل روز بروز بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں جب کہ وسائل زمین جنبد نہ جنبد گل محمد ہی رہتے ہیں ، چنانچہ ہم کہ فرزند ہی دیہات کا تھے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سروس بھی دیہاتی ماحول میں ہی ملی اپنی قسمت پر تھوڑے تھوڑے مکتفی بھی ہونے لگے لیکن جس طرح اہلِ تصوف کی نظر اپنے فانی ہونے پر ذرا کھُل کے پڑتی ہے تو اس تناظر میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہمیں بھی اپنی عارضی ملازمت کے کسی بھی وقت کھُنج جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو ہم بھی مذکورہ ماحول میں کافی حد تک فکر این و آں سے آزاد ہو چکے ہوتے لیکن اس آزادی پر پابندی کا جو تھوڑا بہت سایہ رہا اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم نے اپنی تنخواہ کے سہ ماہی ہچکولوں کے باوجود جوں توں کر کے داخلے کی فیسیونیورسٹی کی نذر کر دی اس لئے کہ ایک سال ضائع ہونے کے بعد ہمیں اپنی ملازمت کے خوف کے ساتھ ساتھ وہ اجازت نامہ بھی کچھ کر گزرنے پر آمادہ کئے ہوئے تھا جسے ہم نے اپنے محکمے سے کچھ اس انداز میں حاصل کیا تھا جس طرح اولادِ نرینہ سے محروم بد نصیب والدین کسی درگاہ سے فیضیاب ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ضد کی ہے اور بات مگر خُو بُری نہیں

بھولے سے اُس نے سینکڑوں وعدے وفا کئے

فیس داخلہ بھیجی تو یونیورسٹی والے کچھ زیادہ ہی فعال ثابت ہوئے کہ ایک دن انہوں نے بذریعہ رجسٹرڈلیٹر ہمیں ہمارا بی اے کا رول نمبر بھی بھیج دیا تاہم ضروری نہ تھا کہ یونیورسٹی والوں کی فعالیت ہماری کسالت پربھی غالب آتی۔ اس لئے کہ ہمارے پاس اگر کچھ موجود تھا تو یونیورسٹی کی مرتب کردہ فہرستِ نصاب تھی۔ اس نصاب میں شامل کتب کے وجود کا ہمیں کسی نابالغ لڑکے کی منگیتر کی طرح کوئی علم نہ تھا تاہم وہ جو مصیبت کے وقت بچ نکلنے پر بڑی بوڑھیاں کہا کرتی ہیں۔

ہاں ہن ہاتھوں کا دیا کام آ گیا ورنہ اس مشکل سے بچ نکلنے کی کوئی صورت تھی، بھلا ہمیں بھی اپنے ہاتھوں کے دئیے کا کچھ اسی طرح کا سہارا حاصل تھا اور وہ ہاتھوں کا دیا ایک تو ہماری نگارشات تھیں جو آئے دن ہمارے خیالات کو صیقل رکھنے کے لئے معرض وجود میں آنے کو بے تاب رہتیں اور دوسرا یہ بھی تھا کہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہم نے ایف اے تک کی تعلیم جو دے کر حاصل نہیں کی تھی بلکہ ۸۹۴ الف دے کر حاصل کی تھی خصوصاً انگریزی وغیرہ کہ کالج سے رخصت ہونے کے باوجود ہم انگریزی خوان انھوں میں کانے راجے ضرور متصور ہوتے تھے۔

ہم نے ابتداًء تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی ٹھانی کہ جیسے بھی ہو فیس داخلے کی رقم یونیورسٹی کو معاف کئے دیتے ہیں اور امتحان میں بیٹھنے کے لئے کسی خوشگوار موسم کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں ایک اور حادثہ یہ ہوا کہ ہماری ڈیٹ شیٹ جیسے اہل یونیورسٹی نے ہمارے محکمے کے مشورے سے تیار کی تھی کہ ادھر امتحان قریب آیا اور اُدھر سکول میں فصلِ ربیع کی چھٹیاں ہو گئیں جن کے بعد ظاہر ہے ہمیں اپنے گاؤں ہی کا دورہ کرنا تھا اور جس کی راہ میں وہ قصبہ بھی آتا تھا جسے تعلیمی اصطلاح میں امتحانی سینٹر کہا جاتا ہے اور ہمارا پڑاؤ وہاں اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہمارا سابقہ کالج اسی قصبے میں پڑتا تھا نیز بہت سارے ادیب اور غیر ادیب حضرات سے ابھی ہماری صاحب سلامت قائم تھی چنانچہ کوچۂ یار میں جائیں گے یہ ہم سے پہلے اٹھتے ہیں نقشِ قدم آج قدم سے پہلے تجدید تعلقات کی اس ضمنی کوشش میں جب ہم نے اپنا سفر بریک کیا تو سب سے پہلے جس شخص سے ہماری ملاقات ہوئی وہ ہمارا ایک سابق کلاس فیلو تھا، باہمی کیفیات کے ایکسچینج (Exchange) کے بعد موصوف کا رخ ہماری نالائقی کی جانب پھرا تو ہم باوجود کوشش کے اپنی وکالت میں ناکام رہے جس پر ہمیں از خود نہ صرف یہ اقرار کرنا پڑا کہ ہم امتحان میں بیٹھنے سے دستبردار ہو رہے ہیں بلکہ ……انہیں اس ضمن میں وہ دستاویزی ثبوت بھی دکھایا جسے عرف عام میں رول نمبر سلپ کہتے ہیں ہمارے اس اعتراف پر سب سے پہلے جو کاروائی انہوں نے کی یہ تھی کہ ہمارا رختِ سفر تانگے میں رکھوایا اور ہمیں وہاں لے چلے جہاں ہمارے دو چار اور دوست اسی قبیل کے رہتے تھے ان کے اس جبر کا حل یوں تو بڑا آسان تھا اور یہ تھا کہ ہم دوسرے روز تانگے میں رختِ سفر رکھتے اور بس سٹاپ پر پہنچ جاتے لیکن راستے میں انہوں نے ہمارے ساتھ ڈرامہ یہ کیا کہ بحوالہ پاکستان ٹائمز ہمیں یہ خبر سنا دی کہ آئندہ سال کوئی امیدوار خواہ وہ یونیورسٹی کا ’’ساکے دار‘‘ ہی کیوں نہ ہو ( یعنی محکمہ تعلیم ہی کا فرد کیوں نہ ہو ) امتحان میں شریک نہ ہو سکے گا ہم نے یہ خبر سنی تو ہمارے قدموں تلے سے تانگہ جیسے دفعتاً نکل گیا۔

مثالیہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر،

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے

اس لئے کہ اب تو کشتیوں کے جلنے کے پس منظر میں کوئی طارق بھی موجود نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ ہم نے اس نازک موقع پر یعنی تانگے میں بیٹھے بیٹھے جو فیصلہ کیا وہ یقیناً تاریخی تھا کہ ہم نے امتحان میں بیٹھنے کا مصمّم سے بھی دو چُکے وَدھ پکا ارادہ کر لیا اور اپنے ساتھیوں کی نصابی کتب پر یکبارگی پل پڑے۔

داناؤں کا کہنا ہے کہ چاہے کسی کمتر سے کمتر آدمی کا دم اس کی ناک میں کر دو اس پر اسے اپنے اظہار خیال کا موقع بھی اگر فراہم کرو تو یہ بات تمہارے مشاہدے سے بعید نہیں کہ وہ کمترین شخص شاید تمہاری نظر میں دنیا کا بہترین مقرر ثابت ہو۔

کچھ ایسا ہی حال اس گھڑی ہمارا تھا چنانچہ ہمارے نزدیک درمیان میں پڑے والے ایک دن اور ایک رات بیلنے میں دیا ہوا گنا ہو کر رہ گئے۔ اور جب ہم نے بر رضا و رغبت پہلا پرچہ دیا اور کمرہ امتحانسے کنول صورت اپنے ساتھیوں کی منڈلی میں پہنچے تو دیکھنے والوں نے قرائن سے اندازہ کر لیا کہ ہمارا شیر ہاری نہیں دکھائے گا۔ اور ان کا یہ اندازہ صد فی صد درست نکلا کہ کوئی بھی آزمائش ہو اس کا حجاب اترنے کی دیر ہوتی ہے اس کے بعد تو انسان خدا جانے کیا کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ لہذا ہمارے ہاتھوں بھی جو کچھ ہوا اس سے قطعاً مختلف نہ تھا۔

نتیجہ نکلا تو یم اپنے قریبی ساتھیوں میں جیسے اشرف المخلوقات کے درجے سے گر کر جنّاتی مخلوق ہو گئے تھے۔

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

( احمد مشتاق)

جو کوئی بھی ملتا ہمیں یوں حیرت سے دیکھتا گویا اپنے عہد کے یشر سارمان میں تھے اس لئے کہ وہ ہماری نصابی قسم کی درونِ خانہ درسی ریاضت سے بخوبی آگاہ تھے۔

یہ معرکہ سر ہوا تو ہمیں بھی اپنا گریجویٹ ہونا کچھ کچھ محسوس ہونے لگا مثلاً سب سے پہلے تو ہم نے احسان بی اے کی طرح خط و کتابت میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس لامحالہ مبارک ڈگری کا اظہار موقع بے موقع بلکہ بے تحاشا شروع کر دیا، پھر اپنے نام کی پلیٹ…اپنے اس تازہ تعلیمی تخلص سمیت لکھوائی اور سب سے بڑھ کر یہ … کہ اس لقب کی خوشی میں اپنی ادھ تنخواہ صرف کر کے اپنے وزٹنگ کارڈز بھی چھپوا مارے، جنہیں بہت بعد میں از کار رفتہ سمجھ کر اپنے شاگردوں میں یکبارگی تقسیم کر ڈالا۔

ہم بی اے ہو چکے تھے اور ایک ایسے ماحول میں تھے جہاں ……

؎ گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

ہم مرزا خانؔ  سے ہر گز کم نہ تھے، اس لئے کہ کوسوں دور دور تک ( ہماری مراد علاقے کے دوسرے مڈل سکولوں سے ہے ) ہمیں اپنے ’’سانویں ‘‘ کا کوئی جواں مرد نظر نہیں آتا تھا چنانچہ اسی خوشی نے جب وفور کی حد بھی پھلانگ ڈالی تو ہم نے بے سوچے سمجھے وہی کچھ کر ڈالا، جو کوئی بھی نوجوان دھیدو کیا کرتا ہے اور یہ کاروائی ہمارا اپنی موجودہ ملازمت سے مستفعی ہونے اورکسی بڑے شہر کا رُخ کر کے صحیح معنوں میں اپنی اہمیت جتلانے کا فیصلہ تھا اور فیصلہ ہم نے وہی کیا جو ان دنوں حکومتِ وقت نے کیا تھا۔ یعنی وہ کراچی سے راولپنڈی آ رہی تھیجس کی جرس پر جنوبی سمت سے ہی ہم نے بھی اپنی جائے قیام و طعام کو خیر آباد کہہ دیا۔ اور حکومت وقت کے پوری طرح راولپنڈی منتقل ہونے سے پہلے پہلے جائے مقصودہ پر پہنچ گئے۔

مُجھے تھا دامِ اسیری نشیب دریا کا

اُچھل گیا میں کناروں سے تُند خو ہو کر

سلیم شاہدؔ

٭٭٭

 

 

 

باب: داستاں اپنے پائنتی بدر ہونے کی

 

ایک ماہ نامے کا مُدیر ایک روزنامے کا کالمسٹ اور ایک سکول کا استاد رہ چکنے کے بعد ہم گاؤں پہنچے تو ہماری حالت بالکل معتوب و معز ول وزیروں جیسی تھی جس کا اگرچہ ہمیں تجربہ تو نہیں لیکن لوگ باگ ہمیں کچھ ایسی ہی نگاہوں سے دیکھا کرتے جس طرح ایسے اصحاب کو دیکھا جاتا ہے۔ ایک بات البتہ ہم نے بھی بڑے لوگوں والی کی۔ جو یہ تھی کہ اپنے صحن خانہ کے ایک گوشے میں موسمی پھولوں کا ایک چھوٹا سا باغیچہ لگا ڈالا چنانچہ اس طرح ہمارا کچھ وقت تو ان کی داشت پرداخت میں گزرنے لگا اور کچھ وقت علامہ اقبالؒ کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ گنگنانے میں یعنی یہ کہ

دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب

مہینہ بھر کے مکمل آرام و استراحت کے بعد ہم نے اپنے دوش و فردا پر نظر ڈالی تو کسی دیوالیے ساہوکار کی طرح پرانے بہی کھاتوں میں ایک نام ذہن میں معاً جگمگا اٹھا اور یہ نام نامی تھا اپنے سابق ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کا جنہیں محض اس لئے ہمارا خیال رہتا تھا کہ ہم ان کے نزدیک مستقبل کی ادبی کھیتی کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات تھے۔

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میں ہوا کمال اچھا

رشتے کا اس نحیف سی کرن کی روشنی میں ہم نے ایک دن ضلعی تعلیمی دفتر کا رخ کیا تو واپسی پر ہمارا عالم وہی تھا جو رنگ پُور سے واپسی پر رانجھے جو گی کا تھا یعنی ہم بامراد و کامران لوٹے تھے اور ابھی گھر پہنچنے پر اچھی طرح ستانے بھی نہ پائے تھے کہ ہمارے سہ بارہ تقرر بطور مدرس کے احکامات نے ہمارے دروازے پر آن دستک دی اور تقرر ہمارا اسی سکول میں اور اسی پوسٹ پر ہوا جنہیں چھوڑے ہمیں صرف چار مہینے ہوئے تھے۔ ؎

وہی جامہ کہ مرے تن پہ نہ ٹھیک آتا تھا

وہی انعام ملا عاقبتِ کار مجھے

چنانچہ ہم نے اپنا مخصوص ساز و رخت سنبھالا اور؎

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں

کا کھسیانہ سا ورد کرتے ہوئے اسی چاردیواری میں پہنچ گئے جہاں کچھ مدت پہلے ہماری عمر عزیز کے پورے تین سال گزرے تھے۔

سکول میں ہمارے پہنچنے سے پہلے ہماری تعیناتی کی خبر ابھی پہنچی تھی، لہذا جب ہیڈماسڑ صاحب سے ملاقات ہوئی تو کچھ یوں جیسے دو ملکوں کے کونٹرپارٹس آپس میں ملتے ہیں ، وہ چہک چہک کر ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے اور ہم مچل مچل کر انہیں جواب دے رہے تھے۔ لیکن جب بالآخر ہمیں اس امر کا خیال کرنا ہی پڑا کہ خیر سے اب زمانہ ہمیں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں کر پائے گا تو جیسے سانپ ہی نہ سونگھ لیا،یکایک اپنے سر پر طرے والی پگڑی جمائی۔ انگلیوں میں سگریٹ کو اسی روایتی انداز سے پکڑا جس طرح بلی اپنے بچوں کو دانتوں میں دبا لیتی ہے۔ اور اپنے ایک معتمداستاد کو بلا کر یہ کہتے ہمیں ان کے حوالے کر دیا کہ انہیں ان کا متروکہ چارج واپس کر دیجئے اور کاغذات وغیرہ مکمل کر کے مجھے دکھائیے۔

ہر چند ہمارا یہ استقبال کوئی اچھا نہیں تھا۔ پھر بھی محض ان کی بیزاری سے ہم ملازمت سے باز رہنے کا فیصلہ تو کرنے سے رہے تھے چنانچہ ایک بار پھر گزشتہ شب و روز کی چکی کا گالا بن کر ہم دوبارہ اپنے کولہو میں جُٹ گئے۔

ہمارے اور رئیس مدرسہ کے درمیان کشیدگی کی جو فضا ازمنہ قدیم سے چلی آ رہی تھی اس کی صحت میں ابھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ لہذا چھوٹی موٹی کھٹ بٹ کے واقعات تقریباً روز ہی وقوع پذیر ہونے لگے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہیڈماسٹر صاحب نے بہر اعتبار ہمیں اپنا حریفسمجھ لیا۔ حالاں کہ بائیس افراد کے عملے میں تین چوتھائی حضرات موصوف کے مزاجِ عالی کے دبی دبی زبان میں شروع ہی سے شاکی تھے یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی زبان آداب عشق کی پوری پوری طرح پابند تھی، ورنہ ان جذبات کا اظہار متعدد با رہو چکا ہوتا اور گار نہیں ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ سکول میں ون پارٹی رول کا ہی دور دورہ تھا بلکہ حالات و قرائن سے مخلوط حکومت ہی کے آثار نمایاں رہتے تھے۔

واقعات کی تفصیل میں جنا تو فضول ہے، ہاں اتنا ہوا کہ جب دو اڑھائی برس کا لاوا پک چکا تو ایک دن اچانک ہمارے ایک نائب ضلعی معائن دورے پر سکول آ گئے، افسر معائن کا سکول میں کیا پہنچنا تھا گویا کسی فاتح ملک کا نمائندہ کسی مفتوحہ علاقے میں آ دھمکا، چاروں طرف سرگوشیاں سی ہونے لگیں اس لئے کہ مذکورہ افسر معائن سکول کے معائنے کو نہیں آتے تھے۔ بلکہ انہیں سکول کی فضا کا تجزیہ بھی درپیش تھا، اور تجزیہ وہ تھا جو سرکاری زبان میں تفتیش کہلاتا ہے۔ یہ تفتیش ایک درخواست پر کی جانے والی تھی۔ جو سکول کے کسی نیم خبطی طالب علم کے دستخطوں سے محکمے کو پہنچی تھی جو سکول کا بہرحال ایک سینئر طالب علم اور قصبے کے ایک متمول باپ کا بیٹا تھا۔

تفتیش شروع ہوئی تو جو استاد بھی اندر سے ہو کر باہر آتا ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہی نکلتا اس لئے کہ درخواستپ دستخط تو لاریب اسی طالب علم کے تھے جن کے متعلق اسے یقین نہ تھا کہ اس سے یہ دستخط کس نے کب اور کیسے کرائے تھے لیکن اساتذہ کو سراپا تصویر بنانے والی وہ تحریر تھی جو اس درخواست کے دامن میں لبالب موجود تھی، اور جسے یقیناً ہیڈماسٹر صاحب کے کراماً کاتبین میں سے کسی ایک نے تیار کیا تھا جو دوسروں کی نظر میں اور اپنے نزدیک بھی یقیناً ہم نہ تھے بلکہ موصوف کا کوئی مقرب فرشتہ ہی ہو سکتا تھا اور فرشتہ بھی وہی جو سرد و گرم چشیدہ اور جہاں دیدہ ہونا چاہئے تھا۔

اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا

غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

تاہم عملے کیاکیس ارکان جب اس سرکاری ڈاکٹری جیسے تفتیشی مرحلے سے گزر چکے اور اپنی ذاتی مجبوریوں کے باعث ہر عریاں حقیقت کو اپنی کھوٹی کھری سوگندوں سے اپنی ڈپلومیسی کا لباس پہنا چکے تو ہم پر کھلا یہ کہ اس خرد مندانہ تفتیش میں ہم اہل جنوں کا نام کہیں شامل نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سے برتر درجہ ملا ہے یعنی درخواست کے بے نام مدعی ہونے کا۔

بُت خُدا ہوں کہ نہ ہوں ہے مگر اتنی توقیر

بُتکدہ آج بھی کعبہ ہے مسلمانوں کا

آخر جب تفتیش کلیۃً ملزم کے حق میں تکمیل پا چکی اور باری اصل مشتبہ کی آئی یعنی ہمیں طلب کیا گیا تو ہم بالکل مادرِ مسیح کی طرح افسر معائن کے پاس جا پہنچے جو ایک پلنگ پر براجمان تھے اور جس کی پائنتی بیٹھنے پر ہمیں یوں جھڑک دیایا جسے ہم مشتبہ تو تھے ہی توہین عدالت کے مرتکب بھی ہو چلے تھے۔

یہ اپنی وضع اور یہ دشنام مے فروش

سن کر جو پی گئے یہ مزہ ’’ بے بسی‘‘ کا تھا

موصوف نے ہمارے ہاتھ میں قلم تھمایا اور ہمیں ہماری زندگی کی ایسی املا لکھائی جس کے نفس مضمون کا مذکورہ واقع سے دور کا تعلق بھی نہ تھا پھر اسے عینک کے متعدد زاویے بد بدل کر دیکھا، پرکھا، ہمارے چہرے کے تاثرات کو گھورا اور پھر فرمانے لگے یہ درخواست آپ نے لکھی تھی۔

’’ہم نے عرض کیا ہاں حضور، درخواست نہیں ،یہ املا ہم نے ضرور لکھی ہے ‘‘

جس پر انہوں نے کچھ تنبیہی کلمات کے ساتھ اپنے تھانے کی حدود سے ہمیں چھٹی دے دی۔

شام ہوئی تو پتہ یہ چلا کہ اس ڈرامے کے ہیرو فی الواقعہ ہمیں قرار دئیے جا رہے ہیں جس پر ہم قدرتی طور پر سیخ پا ہوئے اس لئے کہ جسمانی طور سے ہم ہزار نحیف و نزار سہی، مارل کریج……… ہم میں ہمیشہ اتنا ضرور رہا ہے کہ ہم اپنی یادداشت میں سے کوئی ایسا واقعہ ٹریس نہیں کر سکتے جس میں ہم نے کبھی کوئی منافقانہ کار روائی کی ہو چنانچہ ہم نے اپنی آستینیں تو نہ چڑھائیں لیکن پیشانی کے بل ہم سے مٹائے نہ جا سکے جنہیں چہرے پر سجائے ہم ہیڈماسٹر صاحب کے خلوت خانے میں جا دھمکے اور لگے ہاتھوں گفتگو قبل دوپہر کے واقعہ سے متعلق شروع کر دی۔

یہ بھی عجب ستم ہے حنا تو لگائیں غیر

اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

ان بے ہنگم مذاکرات میں کئی نازک مقامات بھی آئے تاہم سب سے نازک مرحلہ وہ تھا جب ہم نے انہیں بالآخر اس امر کا کھلا چیلنج دے ڈالا کہ حضرت آپ ہمارا نام شاملِ تفتیش افراد میں بطور مشتبہ ضرور شامل جانئے لیکن ایک بات یاد رکھئے کہ ایسا کرنے سے ان ساری فرضی سوگندوں کا پول کھل جائے گا جو آپ نے استحصالی انداز میں لوگوں سے لے رکھی ہیں۔

اچھا نہ ہو گا میں بھی اگر بولنے لگا!

میری زباں سے زنگ نہ چپ کا اتارئیے

اور اگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو؎

زبانِ خنجر جو چپ رہے گی لہو پکارے گا آستیں کا

آپ کا ذاتی ریکارڈ آپ کے حق میں کبھی خاموش نہیں رہے گا۔ موصوف نے جب ہمیں سچ مچ برہم و برانگیختہ دیکھا اور ایک نظر اپنے نامہ اعمال پر بھی ڈالی تو یکایک سنگ سے موم ہو گئے۔ اور ہمیں اپنی بغل میں لیتے ہوئے کہنے لگے نہیں بیٹے ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے ہرگز آپ کو مشتبہ نہیں گردانا۔ یہ تاثر محض افسر معائن کا ہے۔ سو اس سے اس کا یہ حق نہ چھینئے، رہی یہ بات کہ اس سے آپ کی ملازمت پر کوئی آنچ آئے گی اس ضمن میں آپ کو سوگند مجھ سے لینا چاہتے ہیں میں اس کے لئے حاضر ہوں۔

تلوار کی تیز دھار تھا جو

آخر کو خاکسار نکلا

ہم کو مُجرم نہ تھے اور اپنے دل کا غُبار ہی نہیں نکال چکے تھے بلکہ اپنی بیگناہی کو تسلیم بھی کرا چکے تھے، ہیڈماسٹر صاحب کے پاس سے تو واپس آ گئے لیکن رات بھر افسر معائن کی جانب سے اپنی پائنتی بدر ہونے کی فرعونی حرکت ہمیں کھولاتی رہی جس کا آسان اور مروّجہ حل ہم نے یہ نکالا کہ اگلی صبح جب افسرمعائن ہمارے کمرے میں بغرض معائنہ تشریف لائے تو ہم اپنی سطح سے تیس چالیس سیڑھیاں نیچے اُتر کر بشمول طلبائے جماعت اپنی نشست سے سرکنے تک نہ پائے۔

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ سنجیدگاں لیکن

وہ مجھ کو گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں ؟

اس کا اثر انہوں نے کیا لیا،یہ بات تو دُہرانے کی نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعد کے کئی مہینے اپنی اس حرکت کا کچھ اس طرح کا تاسف ہمیں دامن گیر رہا جس طرح کسی تھڑ دلے نے اپنے حریف کے منہ پر تھوک دیا ہو اور بعد میں مسلسل پچھتا رہا ہو۔

یہ مرحلہ تو گزر گیا لیکن اس کے بعد کے اثرات کچھ زیادہ ہی نمایاں نکلے جن کے پہلو سے پھر ایک بڑے واقعہ نے جنم لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب: یہ مسائل تصّوف

 

ہم ہر فن مولا تو نہیں اور نہ ہی ایسا بننے کی کبھی خواہش کی ہے البتہ آس پاس کے ماحول میں ہمارا ابتدائی تعارف ہوا تو سکول کے دنوں میں ایک ماہیا سرا کی حیثیت سے ہوا، کہ اساتذہ کرام چھٹی کے بعد نہ صرف ہمیں بلکہ کلاس بھر کو روک لیتے اور ہم سے بیک وقت سات علیٰحدہ علیحٰدہ سروں میں ماہیا سنا کرتے جس پر بقول سامعین ہمیں فی الواقع عبور حاصل تھا لیکن جب زندگی کے میدان میں اترے تو اس میدان میں جیسے ہماری سیٹی ہی گم ہو گئی۔

مصّوری یا ڈرائینگ قسم کا شغل ہمیں از خود ہی نہ لبھا سکا البتہ کتابت میں اتنا لپکا ہمیں ضرور تھا کہ ہم نے دسویں جماعت ہی میں پوری کی پوری بانگ درا کو قدِ آدم چارٹوں پر نہ صرف کتابت کیا بلکہ آس پاس بغرض آویختگی انہیں تقسیم بھی کرتے رہے۔

لطیفہ بازی اگر فنونِ لطیفہ میں شامل ہے تو ہم اس فن میں بھی قبل از رسم نکاح خاصے ماہر مانے جاتے تھے لیکن وہ جو فانی نے کہا ہے

منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی

تھک تھک کر اس راہ میں آخر ایک اک ساتھی چھوٹ گیا

ہوتے ہوتے ہمارا خاصا بوجھ از خود ہی ہلکا ہو گیا اور جو کچھ باقی رہ گیا وہ ایک تو فنِ شعر طرازی تھا

اس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے

انگلیوں میں قلم لیا کیجئے

اور ایک خفیف سا احساس یہ دامن گیر رہا کہ جہاں ہم ٹیڑھی میڑھی نظموں میں ٹیڑھی میڑھی اور منحنی قسم کی تصویریں الفاظ کی مدد سے کھینچ لیتے ہیں وہاں اگر جذبے کی شدت سلامت ہے تو ہمیں کسی نہ کسی ایسے سراپے کی تجسیم بھی ضرور کرنی چاہیے جسے اگر کبھی دیکھیں تو اسے اپنی نظموں پر منطبق کر کے ہم اپنی فنی مہارت کا اندازہ بھی کر سکیں۔

قاریِ محترم اسے ہم فقیروں کی چالاکی نہ سمجھئے اگر آپ کا خیال اس موقع پر کسی اور جانب پھسل رہا ہو تو وہ بے چارہ بھی کچھ زیادہ راہ گم کردہ نہیں ہے۔ صرف یہ بات دھیان میں رکھیئے کہ ہم استاد تھے، اور استاد بھی جنابِ ندیم کے کردار مولوی عبداللہ کی طرح بنیادی طور پر ایک انسان ہوتا ہے۔ لہذا اسے بھی اپنے اندرونی محسوسات کے اظہار کا حق ضرور حاصل ہونا چاہیے لیکن اتفاق ہے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم نے ہاتھ میں قلم کی بجائے پلاسٹر تھاما تو ہمیں ہرگز یہ اندازہ نہ تھا کہ ہمارے ہاتھوں کوئی پیکر معرضِ تشکیل میں آ جائے گا اور پھر یہ کاروائی ہم ایک ایسی بیٹھک میں کر رہے تھے جو ایک فرشی مسجد کی عین بغل میں پڑتی تھی گویا…مفر خؤر…ہم نے اس زیادتی غالب کے سر تھوپا جو ہم سے بہت پہلے کہہ گئے تھے، ۔

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے

مگر اس عمل آذری میں احتیاز وہی کی، جو ماہ رمضان میں بعض ہوٹلوں والے کرتے ہیں ، چنانچہ کچھ لالٹین اور کچھ وجدان کی روشنی سے ہم نے اپنا کام چلا لیا اور جب کام چل نکلا یعنی ایک ہنستا مسکراتا پیکر ہمارے ہاتھوں میں آ گیا، تو یوں لگا جیسے ہم نے مونٹ ایورسٹ جیسی چوٹی تن تنہا سر کر لی ہے۔

ہم نے وہ مجسمہ اپنے چند نہایت قریبی احباب کو دکھایا تو ان میں سے ایک نے ہم پر محض الزام تراشی کی غرض سے اس کی تصویر بھی اتار لی اور اسے سر را ہے کہ ہم جیسے ناظر کی نظر میں اتری کسی ’’کرماں والی‘‘ کی شبیہ قرار شے ڈالا اور ہمیں یہ تو یہ کہا۔ کہ

خود بھی وہ خوب چوکس و چالاک ہے ظفرؔ

مدت سے آپ کی ہے نظر جس کے مال پر

لیکن ہماری حیرت کا اس وقت حد نہ رہی جب ایک دن وہی تصویر ہمیں بذریعہ ڈاک کچھ اس طرح کے نفس مضمون کے ساتھ موصول ہوئی کہ ’’حضرت ! آپ کے فن کی داد دئیے بغیر تو نہیں رہا جا سکتا۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ مجھے اپنے باپ کی عزت بھی عزیز ہے، البتہ اتنا ضرور کہوں گی کہ اپنی اس غائبانہ مصوری نے میرے اندر خدا جانے کیسی ہلچل سی مچا دی ہے۔ اس کے باوجود مجھے اپنے اوپر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے لہذا اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھنے دیجئے گا۔

ہم نے وہ خط اٹھایا اور اسے اپنے اسی دوست کے پاس لے گئے جس نے زنانہ طرز تحریر میں ہمارے ساتھ یہ مذاق کیا تھا لیکن جب اس نے وہ چہرہ ہمیں راہ چلتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ایک موقع بھی فراہم کر دیا تو ہمیں یقین سا آنے لگا کہ

عشق اوّل درِ دل معشوق پیدا می شود

ہم نے اپنے کئے پر پچھتانا تو کیا تھا البتہ اتنا ضرور ہوا کہ محترمہ کے سچ مچ کے بقلم خود لکھے ہوئے پند نامے کے رعب میں آ گئے جو در اصل ہمارے اندر ہی کا یہ خوف تھا کہ اگر یہ مشق جاری رکھی گئی تو خدا جانے ہمیں اس انداز کے اور کتنے تنبیہی خطوط موصول ہوتے رہیں گے لہذا ہم نے

اس وقت مجھے دعوی تسخیر بجا ہے

جس وقت مرے حکم میں وہ عشوہ گر آوے

اس مجسمے کو جس نے ہمیں ایک طرح سے مبہوت سا کر دیا تھا اس میدان میں اپنی پہلی اور آخری کوشش قرار دیتے ہوئے اپنے سوٹ کیس میں برے اہتمام سے بند کر دیا۔

کچھ دن گزرے تو ہمیں کچھ کرم فرماؤں کے کہنے پر اُن کے ڈیرے پر اُٹھ جانا پڑا یعنی بالجسد اُن کے سایۂ بزرگی میں جا پہنچے جہاں اور تو کچھ ہوا نہ ہوا ہماری شاعرانہ بانسری ضرور بند ہو گئی۔ اور یہ ایک شاعری ہی تو تھی جس کے ناطے ہم اپنے دل کا بوجھ گاہ گاہ ہلکا کر لیا کرتے تھے۔ لہذا حبس کی اس فضا سے ہم نے جلد چھٹکارا حاصل کر لیا اور ایک اور مکان میں منتقل ہو گئے کہ مکان بدلنے میں پہلے ہی ہمارا جواب نہ تھا۔ مکان کی تبدیلی پر ایک دن سوٹ کیس کو جھاڑنے کا خیال آیا اور مجسمے کا مزاج بھی پوچھنے کی کوشش کی تو بے چارے کا سر اس کے تن سے جُدا نظر آیا جسے ہم نے بجائے کسی بت شکنی کے کارنامے کے محض انتقالِ مکان کے سلسلے میں اس کے معاً ضرب آشنا ہونے پر محمول کیا اس کے ٹکڑوں کو سریش سے جوڑا اور اسے سوٹ کیں میں دوبارہ دفن کر دیا۔

ہمیں اس امر کا اندازہ تو نہیں کہ اگر ہمارے ذہن میں یہ مجسمہ بنانے کا خبط سما گیا تھا تو بعد از تشکیل اسے اس طرح سنیت کر رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ دراں حالیکہ ہم اوّل آخر مسلمان تھے اور مسلمان بھی نہایت سادہ لوح، ہاں جب کبھی اس دیہاتی ماحول میں ہمیں اس کی موجودگی سے کسی کنواری ماں کی خطا جیسا احساس ہوتا جسے ہم لوگوں کی نظروں سے چھپاتے پھرتے تھے تو اندر سے ایک آواز بلند ہوتی کہ اگر پھول سے خوشبو آتی ہے تو اسے ضرور آنا چاہئے کیونکہ پھول یہ خوشبو کہیں سے چرا نہیں سمجھا جا سکتا۔

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

تُجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجسمہ بنا، ٹوٹا پھر جُڑا اور ہم نے اسے ہمیشہeasy ہی لیا لین اس انکشاف پر کہ ہم اپنے جاننے بوجھنے والے حلقوں میں آذر کے حلقۂ شاگردی میں شامل سمجھے جا چکے ہیں ہمیں پہلی بار ایک عجیب طرح کی حیرت کا سامنا ہوا لیکن جب ہم نے اس سلسلے کی کڑیاں اپنی گزشتہ نقل مکانی سے ملائیں تو حکایت ڈائجسٹ والے احمد یار خان کے تفتیشی کلیات کے تحت ہم نے اس الزام کے اپنے سر تھوپے جانے کو بالکل برحق سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال ہمارے لئے باعثِ تسلی بھی ہوا کہ وہ حضرت جو رشتے میں کسی نہ کسی طرح ہمارے بزرگ قرار پائے تھے، پنجگانہ نماز پڑھتے تھے اور اوراد و وظائف اس پر مستزاد تھے آخر ہمارے سوٹ کیس کا لنڈی کوتل براند کھولنے میں کامیاب کیونکر ہوئے اور اس کامیابی کے حصول کے لئے انہیں ہمارے غیاب میں یہ خیال سوجھا …تو کیسے سوجھا … اس لئے کہ … مگر چھوڑیے صاحب ان باتوں کو اور آئیے ہماری ان کاوشوں کی جانب جو فن کا فن بھی تھیں اور جن پر اس طرح کی کئی قدغن بھی نہ تھی، ہماری مراد یقیناً اپنی شاعرانہ استعداد سے ہے وہی استعداد جس کا بھوت ان دنوں ہم پر کچھ زیادہ ہی سوار تھا۔

تنہائی چاہے جیسی بھی ہو انسان کو کسی دوسرے کو اپنے پاس کھینچ لانے کی ترغیب دلاتی ہی رہتی ہے اور اگر یہ امر ناممکن ہو تو پھر بزبان مومن اس طرح کے شعر کہلایا کرتی ہے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

ہم کہ بطور استاد مرعوب رہنے کے اسباب از خود ہی پیدا کرتے رہتے تھے اس میدان میں خاصے غالب بھی تھے اور خواہش یہ رہتی تھی کہ ہمیں اگر کچھ میسر رہے تو یہ بھی ہو اور وہ بھی یعنی ہماری فکری تنہائی ہم سے شعر بھی کہلائے اور ایسے احباب کو بھی کھینچ لائے جو از قبیلۂ ما ہوں

لوگ ہی آن کے یک جا مجھے کرتے ہیں کہ میں

ریت کی طرح بکھر جاتا ہوں تنہائی میں

ان حضرات کی تعداد اگرچہ زیادہ تھی لیکن ایک کا ذکر ہم ضرور کریں گے۔ جن سے ہمارا تعارف بالکل اسی طرح ہوا جس طرح پُنوں کا تعارف سسّی سے ہوا تھا کہ جو سوداگر سسّی کے دیس سے لوٹتا پُنوں سے اس کے حسن لازوال کے قصے بار بار بیان کرتا یہاں تک کہ پنوں میاں ایک دن اس حسنِ بیمثال کی تلاش میں خود ہی نکل کھڑے ہوئے ہمیں ان صاحب کا کھوج اس رسالے کے تازہ شمارے سے لگا جس کے ہم کچھ عرصہ پہلے مُدیر بھی رہ چکے تھے اورجس کی ادارت کے فرائض بہت مدت بعد ہمارے اشتراک کے ساتھ انہوں نے خود بھی اپنے ذمے لئے مذکورہ شمارے میں ایک غزل مطبوعہ تھی جس کا مطلع تھا

چاند نکلا کوئی بیمار اٹھا ہو جیسے

رات چمکی مرا غم پڑا ہو جیسے

ہم نے یہ غزل پڑھی اور اس کا دروازہ کھلتے ہی یعنی مطلع پڑھتے ہی پنوں ہو گئے، پنوں کو تو پھر پاپیادہ چلنے یا شتر سواری کرنے کا تکلف بھی کرنا پڑا ہو گا لیکن ہم نے محض ریل کا ٹکٹ لیا اور چودہ پندرہ میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ اس لئے کہ حضرت کا پیشہ اور شغل دونوں ہمارے پیشے اور شغل کے عین مطابق تھے، ملاقات ہوئی توجیسے جنم جنم کے آشنا نکلے طبیعت میں ایک جانب اتھاہ دردمندی اور شکیب جلالی مرحوم کی شعری تصویروں کے مرقعے لیکن……

ہونٹوں پر رقص میں تری رنگینی جمال

یعنی لبالب خوش کلامی سے آراستہ، ملاقات کے بعد (کہ ان کی جائے تدریس پر ہوئی تھی) جب فقیروں کے ڈیرے پر پہنچے تو مرحلہ ہماری تواضع کا آ گیا جس کا تھوک کے حساب سے انہوں نے جم گیس پیپرز کی طرح ایک ہی حل نکال رکھا تھا، اور وہ حل تھا اکٹھے چھ دنوں کے راشن کی ذخیرہ اندوزی جسے عرفِ عام میں میٹھی روٹیاں کہا جاتا ہے ہم نے اس کے علاوہ ان کے کمرے میں چائے کی کیتلی، پانی کے گلاس اور سٹوو کے سوا کچن کی رشتہ دار اور کوئی چیز دیکھی جس سے ہمیں ان کی نالائقی پر ایک طرح سے رحم بھی آیا اس لئے کہ ہم تو اگر سروس سے نکال بھی دئیے جاتے تو اس جنت الفردوس کو چھوڑنے کے بعد بھی اپنے پاس نیم باورچی ہونے کا ڈپلومہ ضرور رکھتے تھے، رہا سوال ان کی اس روز کی اس تواضع کا تو یقین جانئے، دودھ اور مکھن سے خستہ کی ہوئی ان روٹیوں کا ذائقہ کچھ ایسا نکلا کہ مادری شفقت کیاس توشے کی موجودگی میں ہمیں موصوف کا وہ مطلع بھول گیا جو کشاں کشاں ہمیں وہاں تک لایا تھا۔

یہ تو تھی ان حضرات سے ہماری پہلی ملاقات ان سے ایک اور ملاقات کا قصہ اور بھی دلچسپ ہے۔ ہم اپنے ایک کرم فرما کے ساتھ ان سے ملنے گئے تو پروگرام یہ طے پایا کہ ہم آمدہ شب ان کے پاس ہی گزاریں جس کے عوض وہ اگلی صبح راولپنڈی تک ہمارا ساتھ دیں گے ان کا باورچی خانہ خاصا آباد تھا اس لئے کہ وہ کہیں سے ایک عدد نوکر لاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، موصوف نے ہمارے لئے مرغ کا گوشت تیار کروایا رمضان المبارک کا مہینہ تھا، بڑی پر تکلف افطاری کے بعد کھانا کھایا تو مرغ ہم تینوں کی دسترس سے صاف بچ گیا جس کا بظاہر ایک ہی حل موجود تھا کہ ہم سحری کے وقت اس کا نشہ ہرن کر دیتے، رات ہوئی تو انہیں اپنے ہیڈماسٹر کا پیغام پہنچا جس کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ وہ آئندہ دن سکول میں ہی گزاریں گے۔ ہم نے یہ صورت حال دیکھی تو سحری کی گاڑی ہی سے پنڈی کھسک جانا مناسب سمجھا اس لئے کہ اگر رُک جاتے اور وہ اکلوتی بس ہمیں میسر نہ آتی جس کی امید پر ہم نے رات وہاں گزارنے کا پروگرام بنایا تھا تو پھر ہماری روانگی اگلی سہ پہر ہی کی گاڑی سے ممکن تھی۔

ہم نے کہ سٹیشن تک کے ایک آدھ میل کے پیدل شبانہ سفر کی فکر سے بھی دوچار تھے۔ سحری سے دو تین گھنٹے پہلے ہی اسٹیشن کا رخ کر لیا، شدید جاڑے کے دن تھے اور ہمارے پاس دن دہاڑے کی سردی کے پیش نظر ایک ہی کمبل تھا ہم چلے تو میزبان کو جگانا سوئے ادب سمجھا اور چونکہ آئندہ سحری عالم غربت میں درمیان میں پڑتی تھی اس لئے ہم نے بلا اجازت میزبان اور با اجازت مرغ بریان بچی کھچی دو چپاتیاں اور مرغ برشتہ کے دست و بازو صاحب خانہ کے باورچی خانے سے اٹھائے اور اپنے بیگ میں اڑس لیا۔

موصوف کو سید بادشاہ تھے ہماری اس حرکت پر خفا ہونے سے تو رہے تھے تاہم ہمیں یہ وہم ضرور تھا کہ یہ مُرغ دزدیدہ ہمیں بھلے ہی ہضم ہو گا۔ اسے اتفاق جانیے یا موصوف کی کرامت کہ جب ہم سٹیشن کے جوار میں پہنچے اور خیر سے تن بدن سے الف ننگے ایک شیڈ کے نیچے پناہ لی تو سردی کی لہر ہمارے آر پار یوں نکل گئی جیسے خربوزے کے درمیان سے چاقو نکل جاتا ہے وہ تو بھلا ہو وہاں کے مقیم ہوٹل کے ایک مالک کا جس نے ہماری دستگیری و تن پوشی کی ورنہ ہمارے ہاتھوں آج یہ سطور آپ تک شاید ہی پہنچ پاتیں۔

ان صاحب کا نام ہم نے انتقاماً صیغہ راز میں رکھا ہے اس لئے کہ ہمارا یہ کامیاب شاعر اب محض ایک تہ دار پروڈیوسر ہے اور ہمارے مسلسل تقاضوں کے بعد ہمارا منہ بند رکھنے کو اکثر اوقات اپنا پوٹھوہاری کلام چھپوانے کی تسلی بھی ہمیں دے دیتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے کامیاب پروڈیوسر ہونے کے ناتے ہی کبھی اپنی اندر کے کامیاب شاعر کو بھی ہوا لگوائے لیکن اگر ایسا ہوا تو گفتہ فیض کا کیا ہو گا۔ ؎

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

٭٭٭

 

 

 

باب: ایں میرا تُلّا

 

گریجوایٹ ہونے اور ڈگری کے حصول کے بعد دارالحکومت کی یاترا کے دوران ہمیں دوبارہ اسی تنخواہ پر کام کرنے کا خیال محض روزینے کے حصول یا پرانی جگہوں سے انس کے باعث انہیں آیا تھا بلکہ راولپنڈی میں منتقل بجا طور پر ایک تو ہماری ادبی لگن کے باعث بھی تھی لیکن اس کا دوسرا اور اہم پہلو یہ تھا کہ شہر کی ایک کالج میں ایوننگ کلاسز اٹنڈ کر کی ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کی دھن میں محو بھی تھے، مگر اس شہر خوبی میں قدم ہی نہ جمنے پائے اور وقت مسلسل قدموں تلے سے کھسکتا نظر آیا تو ہم نے وہی راہ اپنا نامناسب سمجھی جس پر چل کر ہم ایف اے سے بی اے ہوئے تھے۔

دیوار اک اور سامنے ہے

لے چاٹ اسے بھی اب زباں سے

لہذا جب دوبارہ سوئے منزل روانہ ہوئے تو مشکلات جن سے ایک بار ہم گزر چکے تھے ازسرنو ہماری راہ دیکھتی نظر آئیں امتحان میں شرکت کے لئے وہی اجازت نامے کا چکر ہیڈماسٹر کی رضامندی کا معاملہ، کتابوں کی نایابی اور اسی طرح کے جانے اور کتنے بکھیڑے تھے جن کا ہمیں سامنا تھا اس کے باوجود

زندگی جب عبارت کامرانی ہی سے تھی

مات کھانا درد سے اپنے لئے دشوار تھا

جیسا عزم راسخ بھی ہمارے ہی اندر موجود تھا چنانچہ اس دور میں ہمہ دم وہی حکایت ہمارے پیش نظر رہی جس میں کسی بادشاہ سلامت نے یکایک اپنی نگرانی میں اعلان کرا دیا تھا کہ اگر کوئی شخص پوہ ماگھ کی رُت میں ایک رات دریا میں کھڑے ہو کر گزار دیتو آنجناب اسے کسی شیریں کا رشتہ تو نہیں دیں گے، البتہ اس کا منہ اشرفیوں سے ضرور بھر دیں گے جس کے جواب میں کسی ماہر نفسیات نوجوان نے نہ صرف یہ کہ یہ شرط قبول کر لی بلکہ شب مشروط گزار بھی ڈالی اور جب انعام وغیرہ کی رقم اسے مل گئی تو ہر چند کہ اس زمانے میں پریس کانفرنسوں کا رواج نہ تھا پھر بھی اس سے اس کامیاب کا راز بغیر کسی سزا کی دھمکی کے پوچھا گیا تو اس نے کہا ’’دریا سے بہت دور، آگا ایک الاؤ روشن تھا۔ (جو ظاہر ہے اس جوان طناز کا اپنا ہی اہتمام ہو گا) میں پانی میں کھڑا ہوا تو یہی سوچتا رہا۔

جدا ہیں آج اگر ہم تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

میں نے اپنے جملہ ذہنی قویٰ کو اسالاؤ پر مرکوز کئے رکھا تا آنکہ اسی ایک دھن میں اس شب سیاہ کی سحر کر ڈالی۔

ہم بھی کہ، ماہر نفسیات جوان تو نہ تھے ایک مشکل سے ضرور دوچار تھے، وہی مشکل جس کا خلاصہ جناب فیضؔ نے اس طرح تیار کیا ہے ؎

زندگی کیا کسی ملس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی دور کے پیوند لگے جاتے ہیں

ہماری زندگی ملازمانہ جبر کی قبا ضرور تھی لیکن ادھر بھی معاملہ

پائے گدالنگ نیست

والا تھا بلکہ اس سے بھی کچھ اگیرے کہ ہمیں اپنے دوبارہ مقام مذکورہ پر تعینات ہونے پر اکثر وہی کہانی یاد آ جاتی کرتی جو کچھ یوں ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی تلا نامی شخص نے کسی جاٹ سے برسوں پرانے قرض کی کچھ رقم وصول کرنی تھی لیکن جب بھی وہ اس غرض کو وہاں جاتا جاٹ کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کے اس ٹال دیتا۔ ایک بار تُلا عزمِ صمیم کے ساتھ جاٹ کے گھر پہنچا تو جاٹ نے اپنا ترٹ سنبھالا اور اسے تڑا تڑا اپنی بیوی کے (ترٹ: خوفناک آواز پیدا کرنے والا نباتاتی رسّہ جسے بیل وغیرہ ہانکنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ ) تن بدن پر برسانا شروع کر دیا یہ بھگدڑ مچی دیکھی تو تُلا وہاں سے غائب ہو گیا جس پر طوفان وقت سے کچھ پہلے ہی تھم گیا، جاٹ کی بیوی اپنے چُلہانے پر پہنچی تو جاٹ جوشِ جذبات میں پکار اٹھا۔

میں وی ہیساں جٹ

مارے کندھاں تے پئے ترّٹ

ماریا میں وی کوئی نئیں

(یعنی میں بھی جاٹ تھا میں اپنا ترّٹ محض دیوار پر مارتا رہا میں نے تمہاری پٹائی تو نہیں کی ہے )

جس کے جواب میں اس کی بیوی کہنے لگی

میں وی ہیساں رانی

سُکے سنگھ پئی اڑرانی

روئی میں وی کوئی ناں

(یعنی میں بھی اس گھر کی رانی ہوں اور جھوٹ مُوٹ کا واویلا کرتی رہی ہوں ، میری آنکھوں سے بھی کوئی آنسو پھوٹنے نہیں پایا۔ )

میاں بیوی کے ان اعلانات مسُرت کی گونج ابھی صحن میں باقی تھی کہ اندر سے آواز آئی۔

ناں ایں میرا تُلا

کر کے بیٹھا واں میں جُلا

گیا میں وی کوئی ناں

(میرا نام بھی تُلا ہے اور اپنے آپ کو لحاف میں چھپائے بیٹھا ہوں ، ٹلنے کا نام میں بھی نہیں لوں گا۔ )

چنانچہ اب کے تُلّے جیسے عزم کے ساتھ ہم دوبارہ اپنی منزل کی جستجو میں لگ گئے، سب سے پہلے تو ہم نے جیسے تیسے ہوا امتحان میں شرکت کی محکمانہ اجازت حاصل کی،یہ اجازت کیسے حاصل ہوئی اس کا طریقِ کار (در آں حالے کہ ہیڈماسٹر صاحب ہم سے پہلے سے کہیں زیادہ خفا تھے )کچھ اور بھی پیچیدہ ہو گیا لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری۔

مطلقہ عورتوں کی عدت کا عرصہ تو غالباً چار سوا چار مہینے ہوتا ہے لیکن دوسرے بڑے امتحان تک ہمارا یہ عرصے دو سال نکلا چنانچہ یہ دو سال گزر چکے تو آئندہ امتحان کا رول نمبر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ امتحان کے دن قریب آئے تو کھیڑوں کی بارات بھی ساتھ ہی آ دھمکی اور رانجھا بے چارہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ وہ اپنے ماتھے سے اپنے چاک ہونے کا ٹیکہ کیسے اتارے کہ میدانِ عشق میں …… منفی طاقتیں ہمیشہ عشاق کے درپے رہی ہیں۔

ہیڈماسٹر صاحب نے ہمیں بیس دنوں پر پھیلی ہوئی ڈیٹ شیٹ کے مدِ مقابل چھٹی دینے سے ان کار کر دیا، ان کا یہ حملہ اگرچہ متوقع تھا لیکن اس کے حل کے متعلق ہم نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اس لئے کہ معاملہ محکمے سے ہمارے اغوا کا نہ تھا بلکہ یہ رخصتی باقاعدہ طور پر ہونا قرار پائی تھی پھر بھی اگر یہ صورتحال پیدا ہوئی تو اس موقع پر اعتدال کی راہ اپنانا ہی بقول دانایاں مفید مطلب ہو سکتا تھا سو ہم نے بھی یہی راہ اپنائی بقول ریاض

عادت سی ہے اب نشہ نہ ہے کیف

پانی نہ پیا شراب پی لی

اور سات دن کی رُخصت اتفاقیہ بحساب ایک ایک دن حاصل کرتے رہے جو کسی انداز سے بھی رد نہ کی جا سکتی تھی اور جُوں توں کر کے یہ امتحان دے مارا۔ ہم نے یہ امتحان کیسے دیا،یہ داستان تو خاصی طویل ہے لیکن اگر بالاختصار کہا جائے تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں ان دنوں بھی پہلے امتحان کی طرح بیک وقت دو عارضے لاحق تھے، ایک عارضے تو وہی اختلاج قلب والا اور دوسرا وہ جو ذرا زیادہ عزیز تھا۔ اور وہ تھا سربراہ ادارہ کی محبت و موانست کا عارضہ، ان عارضوں کے باوجود ہم ایک دن سکول میں پڑھاتے سہ پہر کی گاڑی سے راولپنڈی کا رخ کرتے درمیان میں ایک جنکشن پڑتا تھا جہاں درمیانی شب اپنے ایک آشنا کے پاس (جو محکمہ ریلوے میں ملازم تھے اور جن سے ہماری نسبت شاعرانہ تعلقات کے علاوہ عارضہ قلب مضطرب کے باعث بھی تھی) گزارتے اور ایک دوسرے کی نبض کی دھڑکنیں گن گن کے اس بیماری کی شدت کا اندازہ کرتے رہتے۔ صبح دم بس پکڑتے اور پرچہ شروع ہونے سے پہلے جائے امتحان پر پہنچ جاتے، جُون کے مہینے کا شکاٹیں ڈالتا ہوا موسم اس پر سفر کی تکان اور اس تکان پر کام و دہن میں تلخیِ حالات کا زہر… ہمارا حال ہر لحاظسے پتلا تھا۔ تاہم ہم نے اپنے امتحان کا حال کسی بھی مرحلے پر پتلا نہ ہونے دیا۔

پرچہ ہو چکتا تو ہم وہ ٹرین پکڑتے جو ہمیں سیدھا پھر اپنی جائے ملازمت پر لے جاتی، درمیان کے ایک دو دن سکول میں حاضری دیتے اور پھر وہی دوڑ لگاتے جس سے باز رہنا ہمیں کسی طرح منظور نہ تھا ان دِقتوں اور فنی خرابیوں کے باوجود جب امتحان کا نتیجہ نکلا اور ہم کسی قدر با عزّت طور پر کامیاب قرار پائے تو اس کامیابی کو ہمارے نزدیک کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا؎

یہ فیصلہ بھی مرے دستِ باکمال کا تھا

جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

باب” اساد کنٹرپیٹ اور ہم

 

دیہاتی مدرسین کے لئے حالات میں تبدیلی پیدا کرنا بیشتر صورتوں میں اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے بارانی زمینوں میں کپاس کی فصل اگانا، وضع قطع بدلنا بھی کچھ سہل نہیں البتہ مکانات کا بدلتے رہنا ان لوگوں کا محبوب مشغلہ رہتا ہے جس میں پھر زیادہ عمل دخل خارجی حالات ہی کا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ملک عزیز میں تازہ جمہوریت کی بحالی کے بعد کے دیہاتوں کا حال تو ہمیں معلوم نہیں البتہ ان دنوں ایسی جگہوں پر مکانات بلا کرایہ ہی مل جاتے تھے ہاں بعض حالات میں ایسا ضرور ہوتا تھا کہ مالکان مکان نے فصلوں کی کٹائی وغیرہ کرنے موسم بھر کے لئے کھیتوں کھلیانوں میں جانا ہوتا تو اپنا سجا سجایا مکان محلے کے ماسٹر جی کے سپرد کر دیتے تھے جس میں رہائش کے علاوہ اس کی دربانی کے غیرمحسوس فرائض بھی ماسٹر صاحب ہی کو ادا کرنا پڑتے تھے لیکن جونہی رُت پھرتی یعنی اہل مکان کے فراغت کے دن آتے ماسٹر جی کو بھی مکان سمیت ان فرائض غیر منصبی سے سبکدوش کر دیا جاتا۔

ایسے حالات میں ہمارا آئے دنوں مکان بدلتے رہنا کچھ ایسے اچنبھے کی بات نہ تھی۔ چنانچہ اپنے ہاتھوں تیار کردہ مجسمے کا سرقلم کرانے کے بعد جس مکان میں منتقل ہوئے تھے ہمیں وہ بھی جلد ہی خالی کرنا پڑا اور اب کہ فصلوں کی کٹائی یا بیجائی کا موسم ابھی مہینوں دور تھا ہمیں کوئی ایسا ٹھکانہ نہ ملنے پایا جہاں ہم اپنی ڈیڑھ فٹ لمبی سند سمیت سکون و اطمینان سے رہ سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ امر بھی ناممکن تھا کہ ہم قصبے کی چوں گی کے خیمے میں منتقل ہو جاتے، لہذا طوعاً کرہاً ہمیں اسی شاملاتِ مدرسہ میں آنا پڑا جسے انگریزی میں تو بھلا سا نام دیا جاتا تھا یعنی بیچلرز ہیڈکوارٹر، مخفف جس کا بی ایچ کیو تھا لیکن جس کا بنیادی حقیقی اور عوامی نام وہی کانجی ہاؤس تھی۔ جس سے ہماری مڈبھیڑ

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

والے زمانے میں ہوئی تھی، فرق صرف یہ تھا کہ اب اس مکان کے مکین ایک اور صاحب تھے جو کچھ دنوں سے ہمارے رفیق کار ہوئے تھے اور کانجی ہاؤس مذکور میں اپنی پروبیشن پیریڈ گزار رہے تھے اور حق بات تو یہ ہے کہ ہمیں اب کے کانجی ہاؤس بوجوہ ناگوار لگا جن میں سیایک درجہ کانجی ہاؤس میں ہمارے پہلے شریک مائدہ صاحب کی ناروا عدم موجودگی بھی تھی؎

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

کانجی ہاؤس کے موجودہ مکین سابق فوجی تھے اور جنگ عظیم دوم تک میں بالجسد شریک رہ چکے تھی اور سروس ہی کے دوران میں انہوں نے آخری عمر کا توشہ یہ حاصل کر لیا تھا کہ تدریسی ڈپلومہ ساتھ ہی لیتے آئے تھے، ان کی زندگی چونکہ کسی بالغ شاخ کیطرح عسکری فضا سے خاصی مختلف فضا میں داخل ہو رہی تھی لہذا اس شاخ میں کسی قسم کے جھکاؤ کا پیدا ہونا یقیناً ایک غیر فطری عمل تھا۔

دیکھنے کو تو سکول ٹیچر ہو گئے لیکن رفتار و گفتار کے اعتبار سے اب بھی بھرپور جوان نظر آتے تھے اور مخصوص گرائمر کی زبان میں نئے ماحول کا سایہ تک اپنے اوپر نہیں پڑنے دیتے تھے، یہاں تک کہ ٹرن آؤٹ، مورال ری ٹریٹ وغیرہ جیسے الفاظ تو وہ سبزیوں ترکاریوں اور چھوٹے بڑے گوشت کی خرید کے سلسلے میں بھی استعمال میں لانے سے باز نہ آتے۔

موصوف ہمارے ڈاکیے یار کی طرح رنگ اور ہٹ دونوں کے سخت پکے تھے لیکن ان میں اور ہمارے پیام بر ساتھی میں فرق یہ تھا کہ ایک تو انہیں مرچوں سے بلا کی نفرت تھی، حالانکہ آپ بھی پیدائشی طور پر رہنے والے سرحد پار ہی کے تھے اور دوسرا یہ کہ گفتگو میں راشننگ کے کچھ زیادہ ہی قائل تھے۔

جہاں تک ان کے رہائشی آداب کا تعلق تھا وہ بھی ان کی عادات کی طرح بڑے اٹل تھے اور عادات ان کی یہ تھیں کہ کلچیٹ پہلی آواز کے ساتھ ہی بیدار ہو جاتے محلے کے کنوئیں سے پانی کی دو بڑی بالٹیاں ایک ساتھ لبا لب بھر کر لاتے اور کانجی ہاؤس کے عام استعمال کے کمرے میں گھس کر دو دو گھنٹے تک علاقہ ہائے دورو نزدیک کو سیلاب آشنا کرتے رہتے تا آنکہ مسجد کا مؤذن اذان دیتا اور وہ جانماز بچھا کر سر بسجود ہو جاتے۔ اس مرحلے پر یوں تو ہم بھی گاہ گاہ ان کے شریک رہے لیکن جو مرحلہ اس کے بعد پڑتا وہ خاصا اعصاب آزما تھا، اور یہ تھا کہ موصوف کانجی ہاؤس کو جیسے گورنمنٹ ہاسٹل بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی کمروں اور آنگن کے فرش کو جھاڑو سے یوں رگڑنے لگتے جیسے کوئی مُعمر رنڈوا شیو کے بعد اپنے چہرے کو رگڑتا ہے۔ اس کے بعد باری ناشتے کی آتی جس میں ہو ایک تیر سے دو شکار کرتے یعنی پیٹ پوجا بھی کر لیتے اور اپنے جوتوں کی عمرِ رفتہ لوٹا لا تے اور مصروفیات کے اس سارے رچاؤ کے باوجود سکول میں کچھ ایسی باقاعدگی سے پہنچتے کہ اس کے صحن میں ان کا پہلا قدم سکول لگنے کا اعلان سمجھا جاتا اور وہاں بھی پہنچنے کے فوراً بعد وہ پھر ننھے مُنے پودوں کی گوڈی میں ہمہ تن محو ہو جاتے۔

پودوں کی اس گوڈی کو انہوں نے اپنے یگانہ روزگار مزاج کے ہاتھوں نام بھی اپنی ہی طرز کا دے رکھا تھا جسے کنٹر پیٹ چڑھانا کہتے تھے یہ وہ لفظ تھا جو ان کی زبان پر لعابِ دہن کے ساتھ ساتھ ہر آن حاضر و ناضر رہتا یہاں تک کہ ہو تے ہوتے کا اپنا نام بھی کنٹر پیٹ ہی ہو کر رہ گیا۔

موصوف کا گاؤں ان کی جائے ملازمت سے بیس پچیس میل کے فاصلے پر تھا اور وہاں پڑتا تھا جہاں ریلوے لائن جا کر دم توڑ دیتی تھی۔ ہماری نظر میں وہ خوش قسمت تھے کہ اپنی جائے ملازمت سے براہراست کنٹیکٹڈ تھے، بال بچہ وہ اپنے نجی اکاؤنٹ کے ساتھ گاؤں ہی میں رکھنے کے قائل تھے لہٰذا ہفتے کی شام کو اُن کا جانا عزرائیل کے آنے کے مترادف تھا جبکہ بیشتر حالات میں ہمارا قیام وہیں ہوا کرتا۔

اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فرقت سے کہو

دل بھی کم دُکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں

چنانچہ اس مرحلے پر سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اتوار صحیح معنوں میں اتوار ہو کر آتا ہم صبح آٹھ نو بجے بستر سے نکلتے، خراماں خراماں بازار تک جاتے چائے کی پیالی اور دوچار سگریٹ نوش جان کرنے کے بعد دو چار دوستوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے گھر پہنچتے اور جب دوست احباب آ چکتے تو ساتھ ہی مالٹوں کے دوچار درجن بھی برآمد کر لئے جاتے اور یہ جنس اتنی احتیاط سے کھائی پی یا چوسی جاتی کہ مجال ہے، جو ایک بھی چھلکا پسِ دیوار جانے پائے بلکہ یہ سارا مال نہایت غیر قدرتی انداز میں یہاں وہاں پھیلا دیا جاتا گویا صحن بھر میں تازہ پھلوں کا ڈڈو توڑ کر دم لیتے اس لئے کہ اس بستی میں جہاں ہم رہتے تھے دو اصطلاحیں ایسی تھیں جو نہ صرف زبانِ زد عام تھیں بلکہ ان کے پس منظر میں دو مخصوص اعمال مذمومہ بھی کار فرما تھے۔

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

ہمیں خدا نے اس لعنت سے تو محفوظ رکھا لیکن جس طرح شنید تھی وہاں یہ دونوں عمل انتقامی کاروائی کے طور پر اپنائے جاتے تھے جن میں سے ایک تو وہی ڈڈو توڑنا یابھنن تھا کے منقسم اپنے ہاتھوں سے تازہ قسم کی غلاظت اکٹھی کرتا اسے اپنے گھر میں ڈالتا اور رات کی تاریکی میں اپنے مخالف کے صحن میں دے مارتا اور دوسرا عمل تھا ’’آڑو اوئے آڑو‘‘ کا یہ قسم ذرا دلیرانہ انتقام کی تھی اس لئے کہ جس کسی سے انتقام لینا مقصود ہوتا چند بھاڑے کے بچوں کو اس کے پیچھے لگا دیا جاتا جو ’’آڑو اوئے آڑو ‘‘ کا ورد کرنے لگتے، یہاں تک کہ یہ آواز سن کر اس مخلوق میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا جو یہ آواز لگا رہی ہوتی اور وہ شخص جوان میں گھر جاتا اپنے حواس کو کہیں ہفتوں میں ہی بحال کر پاتا۔

اب ایسے ماحول میں ہم اگر پس و پیش کی ان خوش ادائیوں سے متاثر نہ ہوتے تو اور کیا کرتے، چنانچہ چھلکوں اور اپنے آنگن کی حد تک ہم نے بھی یہ عمل متعدد بار دہرایا اور اس غرض کو دہرایا کہ جب اگلے روز ہمارے ساتھی تشریف لاتے تو دو ایک دن ہم سے ضرور چین بجیں رہتے جس کا اور کوئی فائدہ یا نقصان تھا یا نہیں ہم پر ان کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں میں کسی قدر ڈھیل ضرور آ جاتی۔

ہمارے کنٹر پیٹ دوست کا معمول یہ تھا کہ وہ ہمیشہ سحری کی ٹرین سے واپس آیا کرتے، کہنا ان کا یہ تھا کہ بیس میل کے اس سفر کے دوران وہ اپنی گذشتہ رات سمیت ساری نیند پوری کر لیا کرتے جس پر ہم انہیں نہایت عزیزانہ انداز میں اکثر اوقات کہا کرتے کہ حضرت احتیاط لازم ہے کسی دن ایسا نہ ہو کہ آپ سوتے سوتے راولپنڈی پہنچ جائیں اور جوابدہی کی پاداش میں ہم دھر لئے جائیں جس پر وہ اپنے ہونٹوں اور پیشانی کے پٹھوں کو بیک وقت کاشن دیتے ہوئے کہتے ہیں کیا کہا؟ ہم اور سوتے سوتے راولپنڈی پہنچ جائیں۔ میاں کہاں کی باتیں کرتے ہو، ہم نے تو جاگنے سونے کی تربیت بمباری کے سائے میں حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ راستہ چلتے کسی ابرِ رواں کا سیہ بھی میسر آ جائے تو ہم جھٹ گھڑی کے لئے نہ صرف نیند کی آغوش میں جا سکتے ہیں بلکہ وہاں سے آ بھی سکتی ہیں۔

ہم نے عرض کیا حضور یہ تو بجا ہے لیکن جو ہر ہفتے آپ آئندہ کے چھ دنوں کے لئے پندرہ بیس سیر آٹے کا فوجی کٹ اپنے ہمراہ لاتے ہیں ، اگر ایسا ہو جائے کہ آپ محض ایک سٹیشن ہی آگے جا کر بیدار ہوں تو گناہوں کا یہ پٹارہ آپ کہاں چھوڑ کر آئیں گے، اس لئے کہ واپسی کی گاڑی تو ہمارے سکول کے انٹرول کے بعد آتی ہے، ہماری اس بات کا جواب انہوں نے وہی دیا جو ان سے مخصوص تھا…… پھر ہم……اپنے آپ ہی کو کنٹرپیٹ چڑھا دیں گے۔

ہماری یہ نصیحت تو یقیناً بچگانہ تھی اور ہمیشہ ان کے سر پر سے گزر جاتی رہی لیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ موصوف؎

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

ایک نہیں بلکہ دو سٹیشن آگے چل کر بیدار ہوئے۔ در آں حالیکہ پورا ایک من آٹا بھی ان کے زیب دوش تھا۔

گاڑی چونکہ سحری کے وقت آیا کرتی تھی لہذا اوار کی شام کو ہم باہر کا دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا کرتے اپنے کمرے کو مقفل کر کے دوسرے کمریسے اندر آ جاتے اور چابی ایک مخصوص جگہ پر ٹکا دیتے جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ جب ہم صبح بیدار ہوتے تو کنٹرپیٹ بھائی اپنے معمولات میں سرتا پا غرق نظر آتے۔

اس دن ہم اٹھے تو کچھ کچھ سحرزدہ تھے اس لئے کہ رات ہی سے موسم کی طبیعت ذرا مچلی ہوئی تھی اور بوندیں موسمی کونجوں کی طرح ایک گنگناہٹ کے ساتھ برابر پڑ رہی تھیں چنانچہ سحری کے دوران ہمارے کمرے میں کوئی ہل چل نہیں مچی تھی لہذا طے تھا کہ استاد کی جان پر ضرور کچھ بن آئی ہے جس پر ہمیں ایک خیال تو کنٹرپیٹ بھائی کی روایتی نیند کا بھی آیا لیکن چونکہ موصوف نے جاتی دفعہ اپنے گھر میں بیماری کا تذکرہ بھی کیا تھا لہذا ہمیں فکر ہونے لگی کہ خدا خیر کرے کہیں صورتِ حال زیادہ خراب نہ ہو گئی ہو۔ تاہم ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ استاد اپنی چھٹی وغیرہ کی درخواست ضرور بھجوا دیں گے۔ ہم نے ناشتہ کیا کپڑے بدلے اور سکول کو چل دئیے لیکن ابھی گھر سے نکلے ہی ہوں گے کہ سامنے سے استاد مکرم پانی اور کیچ میں لت پت کندھے پر ایک من کا توڑا اٹھائے ہمیں اپنی جانب بڑھتے دکھائی دئیے اور یُوں ہوا جیسے کسی ٹیکسی یا کار کے ہارن کی تار شاٹ ہو جاتی ہے، ہماری ہنسی کا کنکشن بھی کسی ایسی ہی جگہ پھنس کر رہ گیا تھا، زیر لب کچھ کچھ بڑبڑاتے ہمارے قریب سے گزرتے تو ہمیں واپس ڈیرے پر آنے کا اشارہ کیا ہم ان کے ساتھ تو ہو لئے لیکن جب کمرے میں پہنچے اور ان کے دوش مبارک سے توڑا اتروایا تو وہ ایک من کی بجائے ایک ٹن کا لگا کہ توڑے کا وڑا اس لئے کسی بھٹیارن کی تاؤن بنا ہوا تھا کہ موصوف نے سٹیشن پر اترتے ہی اپنی گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑا دیا تھا۔ اور وہ بھی الف یا پیادہ اس مفاست میں بارش ان کا اپنا تو کچھ نہ بگاڑ سکی لیکن بارش کی کارستانی سے آٹے نے خشک سے تر ہونے کاجو مرحلہ طے کیا تھا اس مرحلے کو پایۂ اختتام تک پہچانے کے لئے استاد کنٹرپیٹ ایک دن اور ایک رات تک مسلسل روٹیاں پکاتی رہے جو اپنے اہل محلہ کے علاوہ ہمیں بھی آئندہ ہفتہ بھر دانتوں سے توڑ توڑ کر کھانی پڑیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب: مرداں چنیں کنند

 

سکول کی چاردیواری میں ہر استحصالی کار روائی پر ہماری رگِ حمیت پھڑک اٹھا کرتی تھی جسے محکمہ تعلیم میں روایت کا درجہ حاصل تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہیڈماسٹر صاحبان اپنے معتوب مدرسین کی تنخواہیں رُکوا دیا کرتے، سالانہ ترقیاں منسوخ کر دی جاتیں ، پانی بند کرا دیا جاتا یہاں تک کہ نوبت تبادلوں تک بھی پہنچ جاتی چنانچہ اس طرح کے بیشتر معاملات اپنے اندر کچھ ایسا منفی رچاؤ پیدا کر لیتے جس سے سکول کی فضا ہمیشہ کے لئے مسموم ہو جایا کرتی ہمارے سکول میں تو پھر اساتزہ طلبہ کی تعداد خاندانی منصوبہ بندی کے عین منافی تھی،یہ صورت حال ایسے سکولوں میں بھی دیکھی جا سکتی تھی جہاں

اک لاٹری تے اک لال ہووے

یعنی دو دو چار چار اساتذہ پر مشتمل عملہ موجود ہوتا یہ تو بجا ہے کہ ساری منافرتوں اور گھٹیا قسم کے سلوک کی اصل وجہ معاشی بے سامانی ہوتی ہے لیکن اسے کیا کہیے کہ ہمارے یہاں جہاں ایک جانب کھیتیوں کے بطن سے رزق پیدا کرنے والے مزارعین کو غیرانسانی مخلوق تصور کیا جاتا رہا، وہاں ذہنوں کی کھیتوں کو سیراب کرنے والا یہ طبقہ اس سے کہیں زیادہ نظرانداز کیا گیا۔ اجتماعی مغائرت اس پر مستزاد جانیے جس کا قدرتی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ یہ طبقہ بھی اپنے دوسرے ہموطن طبقات کی طرح شخصی مصلحتوں اور باہمی منافقتوں کا شکار ہونے سے محفوظ نہ رہ سکا، لیکن ہم کہ جن کی تنخواہ مسلسل بانجھ پن کا شکار تھی؎

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو………

ایک لحاظ سے آسودہ نظر بھی تھے کہ عارضی اساتذہ کو نیا برس لگنے، یعنی سالانہ ترقی وغیرہ کے حصول کے لالچ یا اس کے اسقاط کا کوئی کھٹکا نہ تھا اور محکمہ تعلیم کی انتظامی کوڈ میں یہی ایک شق تھی جو اساتذہ اور افسران با اختیار کے درمیان استحصالی کار روائیاں کرنے یا سہنے کا سبب بنتی اس سے بے نیاز ہونا ہمارے لئے اس واسطے مبارک امر تھا کہ ہم اساتذہ کی اس ذیل میں نہ آ سکے جنہیں محض اس حقیر مصلحت کے ناتے ساری تلخیاں برداشت کرنا پڑتیں چنانچہ اپنی اس محرومی کے سبب اپنے گرد و پیش میں ہم خاصے دلیر سمجھے جاتے تھے اور اس وسیلے سے بعض اوقات اپنے قبض الوصولی ساتھیوں کے ترجمان بھی قرار پاتے۔

اساتذہ کی دوسری کمزوری گھر یا گھر کے کسی مقام سے دورافتادہ مقام پر تبادلے کا خدشہ تھا۔ اس لئے کہ کوئی بھی بال بچے دار تنخواہ ملازم اس سیاحانہ عیاشی کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا، سو، یہ خدشہ بھی ہمیں کم ہی تھا، تیسری کمزوری وہ تھی جسے حساب کتاب کا نام دیا جاتا، مدرسوں میں بعض اساتذہ سماجی طور پر چُر چَر بنانے یا اپنے ہم پیشہ افراد میں تمغۂ اہمیت پانے یا شاید فنڈز سے قابلِ خلال حد تک کچھ کھا پی لینے کے لالچ میں ہیڈماسٹر کے قریب ہونے کا سودا ذہن میں پال لیتے ہیں لیکن ہم کہ مزاج شاہانہ اور سماج درویشانہ رکھتے تھے اس سے بھی آزاد تھے کہ محض عارضی ملازم تھے اور کسی بھی صورت میں کسی کے معتمد قرار نہیں دئیے جا سکتے تھے۔

ان حالات کی روشنی میں ہماری اخلاقی جرات اگر بقول ضمیر جعفری؎

اک میاں اچھلے تو بیوی نے کہا اے جانِ من

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بَن

کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی باعثِ تعجب نہ تھی، چنانچہ ہر وہ معاملہ جس کا اظہار ہماری اساتذہ برادری سے نہ ہو پاتا کسی نہ کسی انداز سے ہماری توجہ کا مرکز بن جاتا اور ہم کہ

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

کے بالطبع اسیر تھے اس سلسلے میں میدان میں اترنے سے خدا جانے کیسے باز نہ آتے۔

ایسے ہی ایک موقع پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کا حوالہ شاید ہم نے پہلے بھی دیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ کہ ان دنوں ضلعی انتظام کے تحت چلنے والے سکولوں میں شاید پرندگان خصوصاً کنجشکان کے گڑبڑانے سرسرانے چہچہانے بلکہ چُر چرانے کی رُت کے پیش نظر فصل ہائے ربیع و خریف کی چھٹیاں ہو کرتی تھیں جوموسم بہار کے اختتام اور موسم خزاں کے آغاز کے موقع پر ہوتیں لیکن جون جولائی اور اگست کے مہینوں میں ننھے منے بچوں کو میلوں کی مسافت طے کر کے سکولوں میں آنا پڑتا اور کڑکتی دوپہروں کو واپس جانا ہوتا تھا اور ہوتا یہ کہ صبح کی اسمبلی کے دوران ہی میں بیشتر بچے جو گھروں سے شاید باسی روٹی بھی کھا کے آئے ہوتے تھے یا نہیں بے ہوش ہو جاتے جس کے باعث اساتذہ کا آدھا دن تو اسی طرح کے مریضوں کی تیمار داری میں گزر جاتا۔ ادھر سہ ماہی وقفوں کے بعد ملنے والی تنخواہ کی روشنی میں اساتذہ کا حال بھی؎

میرے حال سے دنیا کا اندازہ کر لو!

پھلوں سے لدے شجر کا اک پیلاپتا ہوں

سے کچھ مختلف نہ تھا۔

تدریس ہو یا تعلیم دونوں طرح کے فریضے اگر کسی چیز کے سب سے زیادہ متقاضی ہو سکتے ہیں تو وہ بقول دانایاں … پُر سکون ما حول ہی ہو سکتا ہے اور حادثہ یہ تھا کہ یہ ما حول بالاہتمام اس طبقے سے چھین لیا گیا تھا۔

ایک دن بیٹھے بٹھائے ہم نے کچھ دوستوں کی توجہ اس دھاندلی کی جانب مبذول کرائی تو سبھی نے یک زبان ہو کر ہم سے اتفاق کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ ذکر عملے کے دوسرے ارکان سے چھڑا تو انہوں نے بھی بہ تمام تر بزرگی اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔

ہمارا سکول ایک ایسے قصبے میں تھا جہاں نظام بنیادی جمہوریت سے بھی بر سوں پہلے ایک پنچایت قائم تھی اور اس کے زیر اہتمام ایک دو جماعتی ہائی سکول بھی تھا اور چونکہ مدرسہ مذکور کا الحاق ثانوی تعلیمی بورڈسے تھا لہذا وہاں بھی تعطیلات کا سلسلہ وہی تھا جس کا اجراء لارڈ میکالے نے ملک کے جغرافیائی اور سیاسی حالات کو سامنے رکھ کر کیا تھا۔

ہم نے دوچار دن مراقبہ کیا تو ہمیں یہ عقدہ کم سے کم مقامی طور پر حل ہوتا نظر آیا

جس کے لئے ہم نے عملی قدم اٹھایا کہ اپنے تین چوتھائی سٹاف کی جانب سے ایک عدد مچلکہ ضمانت یعنی درخواست بوساطت ہیڈ ماسٹر صاحب بنام ڈسٹرکٹ انسپکٹر صاحب مدارس لکھی دوچار صاحبانِ دل و گردہ ساتھیوں کو ہمراہ لیا اور اسے عدالتِ عالیہ تک بھیجنے سے ان کار کر دیا اور بجا طور پر کیا اس لئے کہ……

مُجھے اس سے کیا توقع بہ زمانہ جوانی

کبھی کود کی میں جس نے نہ سنی مری کہانی

اور کہا یہ کہ سکول مذکور چونکہ ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں اہلِ اعانت کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا علاقے کے غریب عوام پر وہ یہ ستم اپنے ہاتھوں ڈھانا گوارہ نہیں کرتے۔

جہاں تک اہلِ زراعت والدین کی اعانت کا سوال تھا وہ تو ہائی سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم بالغ و نیم بالغ بچے ان کے زیادہ ممد ثابت ہو سکتے تھے یہ پوائنٹ ہم نے اُن سے نہ صرف ڈسکس کیا بلکہ خیر سے ہمارے مذکورہ مچلکہ ضمانت میں بھی شامل تھا مگر افسوس کہ ہمارا دعویٰ پہلی ہی پیشی پر بالحجت خارج کر دیا گیا کہ عدالتِ ہذا یہ کاروائی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اگر سائلان اپنی دادرسی کے خواہاں ہیں تو براہ راست عدالتِ عالیہ سے رجوع کریں۔

درخواست ہمارے پاس تھی جس پر عملے کے تین چوتھائی سے بھی زیادہ اصحاب کے دستخط موجود تھے اور ہم نے پیشہ وارانہ دانائی یہ کی کہ ابتدا ہی میں درخواست کی تین نقول تیار کر لیں جن میں سے ایک ریکارڈ کے لئے تھی، دوسری برائے ملاحظہ عدالتِ زیریں اور وہ جو بچ جاتی تھی وہ ہم نے بوساطت چیئر مین پنچایت قصبہ مذکور پہلے ہی عدالتِ عالیہ میں دائر کر دی تھی۔

دستخطی اساتذہ نے جب درخواست کا یہ حشر دیکھا تو وہ اپنے طور پر کسی قدر مضطرب بھی ہوئے اوراس مسئلے کے آگوئں سے چیں بجیں بھی اس لئے کہ اس ماحول میں کسی سر براہِ مدرسہ کی مرضی کے خزف اس طرح کے جمہوری ایکے کی یہ واحد مثال تھی جو خدا جانے کیسے قائم ہوئی اور حادثہ یہ ہوا کہ ادھوری رہ گئی۔ درخواست پر اب کسی اور کاروائی کا ہونا ناممکن بھی تھا اور دور دراز کار بھی اس لئے کہ اس کی ایک نقل اپنے مقامِ مقصودہ تک پہنچ چکی تھی لہذا ہم خاموش ہو گئے یہاں تک کہ اپریل کا مہینہ بھی آ گیا، لیکن محکمانہ سطح پر کسی قسم کے ایسے آثار پیدا نہ ہوئے جن سے کھلتا کہ بذریعہ چیئر مین بھیجی جانے والی درخواست پر کوئی کاروائی عمل میں آئی ہے پانچ یا چھ اپریل کو ہم دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ سکول جا رہے تھے کہ اُن چار اساتذہ میں سے ایک صاحب جنوں نے بنام وفا درخواست مذکور پر دستخط نہیں کئے تھے دور سے شلوار کی بجائے تہ بند میں ملبوس آتے نظر آئے تو ہم نے ……

من اندازِ قدبرامی شنا سم

کی ایک الٹی توجیہہ کے تحت ساتھیوں کو اچانک یہ مژدہ سنا ڈالا کہ بہار کی چھٹیاں ہو گئی ہیں جس پر وہ چونکے تو ہم نے انہیں مدرس مذکور کے تہمد کی طرف متوجہ کیا جو ہمارے خیال میں یقیناً چھٹیوں کی اطلاع منجانب ہیڈ ماسٹر ہمیں پہچانے آ رہے تھے اور جب موصوف ہمارے قریب آئے تو ایک کھسیانی ہنسی کے ساتھ ہمارے اندازے کی صد فیصد تصدیق کرتے دکھائی دیئے اس لئے کہ

خدشہ تھا جس کا تیر وہی کام کر گئے

مذکورہ درخواست اپنی مراد کو پہنچ چکی تھی اور اس میں محض اساتذہ کے ایکےیا قصبے کے چیئر مین کی سفارش ہی دخیل نہ تھی بلکہ خداوندان۳ محکمہ کے اس جذبۂ چشم کو بھی برابر کا دخل حاصل تھا جو ہمارے سمیت رئیس مدرسہ کے خلاف اُن کے ذہنوں میں پایا جاتا تھا۔ ہم نے یہ اطلاع پائی تو کُچھ اس طرح اچھلتے کودتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے جیسے

ہنجیریاں دے گھر پُتر جمے

لیکن جب ہفتہ بھر کی یہ چھٹیاں گزار کرواپس جائے ملازمت پر پہنچنا ہوا تو پتہ چلا کہ سکول گئے ہیں اور اب سکول تعطیلاتِ موسم بہار کے بعد دوبارہ نہیں کھلے گا بلکہ تعطیلات فصلِ ربیع کے بعد کھلے گا جو شاید مئی کے پہلے ہفتے تک تھیں ………

تنہا تھا معرکے میں سوئمبر کے ایک میں

نظریں لگی تھیں خلق کی جس کی کمان پر

احباب سے ملتا ہوا تو انہیں کچھ زیادہ ہی سرنگوں پایا کہ سبھی کے سبھی ……

غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

کے اسیر نظر آئے جس پر ہم نے انہیں ننھے بچوں سے ملتی جلتی تشّفی دلائی کے اب یہ معاملہ چل ہی نکلا ہے تو………

چنانچہ گھبرانے کی بجائے جو راہ ہمیں سجھائی دی وہ وہی مستقبل کی واہندی وگدی سڑک تھی یعنی دُنیائے صحافت کی راہ، جس پر چل کر ہم نے پہلے تو مختلف اخبارات میں جامع قسم کے مراسلے شائع کرائے اور شاید ہمارے اتنے کئے پر کوئی مثبت نتیجہ نہ بھی نکلتا تو ہم نے اس میں اضافہ یہ کیا کہ ایک دو اخبارات کے مُدیران گرامی سے اس فی الحقیقت نازک مسئلے پر اداریے بھی لکھوا ڈالے جس کا فوری اور تیر بہدف اثر یہ ہوا کہ جہاں جون میں صوبے بھر کے جملہ ہائی سکول بسلسلہ تعطیلاتِ گرما بند ہوئے وہاں صوبے بھر کے پرائمری اور مڈل سکولوں میں بھی ان ہی تعطیلات کے رائج ہونے کا اعلان ہو گیا اس سے جنہیں مسرور ہونا تھا وہ تو ہوئے مگر کچھ لوگ متاسف یا متاثر بھی ہوئے اور وہ تھے ہمارے قبلہ جناب ہیڈ ماسٹر صاحب اور ان کے چار حواری نصف جن کا ایک اور ایک گیارہ ہوتا ہے جن میں سے اول الذکر نے وفورِ جذبات میں اپنی باقی ماندہ چار سالہ سروس اور سلیکشن گریڈ سبھی کو نظرانداز کرتے ہوئے جوانانہ اقدام یہ کیا کہ ان احکامات کے جواب میں محکمے کو اپنا احتجاجی استعفی داغ دیا۔

ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند

اور محکمے نے ستم ظریفی یہ کی کہ یہ استفعی بکمال رضا و رغبت منظور کر لیا۔

میں نہ کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب: ہیں کواکب کُچھ نظر آتے ہیں کچھ

 

ایک ’’جینوئن کاز ‘‘ کے لئے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ہماری جو کشاکش ایک شخص کے نقصان مایہ کے علاوہ شماتت ہمسایہ پر بھی منتج ہوئی۔ اس سے ہمیں کسی مسرت یا فتح مندی کا احساس تو کیا ہونا تھا اس سلسلے میں ہمیں کچھ قلق بھی نہ ہوا۔ اس لئے کہ ایک تو یہ انتہائی کار روائی موصوف نے بقائمی ہوش و حواس خود اپنے قلم سے کی تھی، دوسرا یہ کہ ان کی روایتی ہٹ دھرمی بالآخر آنے والی کئی نسلوں کی بلی کا بھی باعث بنی، ورنہ جہاں تک ہمارے اپنے حاسۂ دردمندی کا تعلق ہے، ہم تو بعض اوقات اس گوتمی طرز احساس کے اسیر بھی ہو جایا کرتے تھے۔

آہلنیوں اک وٹ سی ڈِگّا

چڑیاں چڑ چڑ چوں چوں لائی

کال کلوٹا کا گا ہسیا

چڑیاں دی اکھیاں وچ پھر گئی

بھیڑی موت دی کال سیاہی

کوئی اخباری مل جاندا تے

ایہہ وی خبر تے واہ واہ آہی

ہیڈماسٹر صاحب کے مستعفی ہونے سے جو سیٹ خالی ہوئی۔ کچھ دنوں تکتو…

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق

کا نمونہ بنی رہی، اس لئے کہ مذکورہ سکول میں پچھلے کچھ عرصے سے باہم کھینچا تانی کاجو ماحول استوار ہو رہا تھا، اس کی خبریں دور و نزدیک ساتھ ساتھ جاتی رہی تھیں ، لہذا کوئی بھی ہیڈماسٹر یہ تخت کی وی بآسانی قبول کرنے کے لئے رضا مند نہ تھا لیکن یہ عبوری دور بھی زیادہ عرصے تک جاری نہ رہا، اور ہمارے وہاں قیام کے دوران ہی میں سکول کے تیسرے سر براہ بھی نہایت سراسیمگی کے عالم میں تشریف لے آئے۔

سکول کے ماحول میں نہ تو پہلے ہی کوئی قابلِ ذکر خرابی تھی اور نہ آئندہ کسی ایسی خرابی کے پیدا ہونے کا امکان تھا، اس لئے کہ……

نہ مار نہ کُٹ تے آندر گھُٹ

کے مصداق بقائے امن کا ماحول برقرار رکھنے کا اہتمام ادائیگیوں کار کشائیوں اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں مسلسل روڑے اٹکانے سے محکمے نے خود ہی کر رکھا تھا۔

نئے ہیڈماسٹر صاحب آئے تو موصوف نے آتے ہی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب فرمایا جس میں انہیں سکول کی اینٹوں سے لے کر سیکنڈ ہیڈماسٹر تک ہر جانب سے بھرپور تعاون کا معقول سگنل ملا، چنانچہ اس سے جہاں نووارد کی سراسیمگی میں کچھ کمی ہوئی وہاں سکول کی فضا میں بھی ایک خوش آئندہ قسم کا ٹھہراؤ پیدا ہونے لگا اور ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا ہو گا کہ موصوف نے بھی اپنے پیشرو کی انتہا پسندی کو بھانپ لیا۔

ہم کو اپنا تعلیمی کیرئر مکمل کر چکے تھے یعنی وہ منزل ہمیں مل چکی تھی جس کے لئے ؎

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

معرکۂ تعطیلات کے سر ہونے کے بعد اب مزید کسی عرصے کے لئے کسی اور معرکے میں ٹانک اڑانے جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، لہذا پاکستان ٹائمز کے صفحات کے ان حصوں کو ذرا اور بھی دقت نظر سے پڑھنے لگے جنہیں اشتہارات روزگار کہا جاتا ہے اور جنہیں پچھلے متعدد برسوں سے اپنے خرچ پر بلا ناغہ پڑھتے چلے آ رہے تھے۔

ایک دن ایسے ہی ایک اشتہار پر نظر پڑی تو کھلا یہ کہ ملکِ عزیز کے شہر سیالکوٹ کے ایک کالج میں شعبہ اردو میں ایک عدد لیکچرار درکار ہے، ہمیں یہ بے بدل سعادت حاصل ہوتی نظر آئی تو بلا تامل کالج مذکور کی انتظامیہ کو ایک عدد درخواست داغ دی جس کے جواب میں ہمیں جلد ہی بلاوے کا خط بھی آ گیا۔

ہم نے سیالکوٹ کا رُخ کیا تو اپنے ہمراہ اپنے ایک عزیز کو بھی لیتے گئے جو خود ایک ماہر بیروزگار تھا اور کچھ دنوں سے کسی نئے روزگار کی تلاش میں ہمارے پاس آیا ہوا تھا۔ ہم نے یہ سفر بالاقساط طے کیا یعنی پہلا پڑاؤ جہلم شہر میں کیا جہاں سے اگلی صبح روانہ ہوئے تو شگون یہ ہوا کہ جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ لاہور کی جانب سے ہمہ تن مستعدد کوّوں کا ایک لامتناہی سیلاب (آپ کو اب کہہ لیجئے ) امنڈتا دکھائی دیا،یہ اتنی ساری مخلوق بھی اگرچہ کوئی انٹرویو دینے تو نہیں جا رہی تھی تاہم وہ جو کہتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی نظر آتا ہے ہمیں یہ مخلوق اپنی ہی طرح بے روزگار دکھائی دی اور ہم راہ بھر سوچتے یہی رہے کہ اتنی طویلمسافت کے بعد اگر انہیں کسی مقام پر غذائے مرغن میسر بھی آتی ہے تو یہ بھلے لوگ وہیں اپنا ڈیرہ کیوں نہیں جما لیتے، صبح دما اس بے طرح جسمانی کسرت سے کیا لیتے ہیں ، مگر ہماری یہ الجھن بالآخر اس احسا سسے رفع ہوئی کہ انسانی برادری میں بھی تو ضرورت سے زیادہ فعالیت کے شکار کچھ لوگ ہمارے دوست استاد کنٹریپیٹ کی طرح کے پائے ہی جاتے ہیں ، سو ہم ان کے متعلق مشوش ہوں تو کا ہے کو ہوں۔

سیا لکوٹ پہنچنے تو فرط عقیدت ہم قدم اُٹھاتے بھی جیسے جھجکتے دکھائی دئیے اس لئے کہ اس خاک بے نظیر کا سر زمیں پاک چپے چپے پر جو احسان ہے اس کی روشنی میں یہ سعادت شاید ہی کسی اور ’’تھان‘‘ کو حاصل ہوا اور پھر مستقبل کے قومی بکھیڑوں میں الجھی ایک اور شخصیت بھیت و اسی شہر نے علم و ادب کو بخشی تھی……… ہماری مراد جناب فیضؔ سے ہے۔

کالج کے احاطے میں قدم رکھا تو تعطیلات موسم گرما کے سبب ایک مستقل خاموشی اور آسمان تک پہنچے ہوئے تناور درختوں کی سبزی و خنکی نے ہمارا ’’ہوٹا‘‘ جیسے اور بھی ٹھنڈا کر دیا، ایسے میں اگر ہمارا دل ناداں کسی ٹیوب ویل کا انجن بنا ہوا تھا تو وہ محض اس خواہش کی شدت کا ایک کرشمہ بھی تھا جو بجا طور پر ہمیں اس شہر کے ہو رہنے کی ترغیب دلا رہی تھی لیکن معاملہ یک طرفہ فیصلے تک محدود نہ تھا سو ہونا وہی تھا جو اہل سیالوکٹ کرتے اور وہ اہل سیالکوٹ جن سے ہمارا سامنا ہوا، کالج کے پرنسپل تھے، جو شعبۂ سائنس کے استاد تھے۔ ہمیں گمان تھا کہ ہمارے انٹرویو کے لئے پورا بورڈ تشکیل دیا گیا ہو گا لیکن وہاں کی صورت حال ہماری توقع یا خدشے کے سراسر منافی نکلی۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

جناب پرنسپل نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا، ہمارے کاغذات پر ایک بار پھر نگاہ ڈالی، ہم سے اردو ادب سے دلچسپی کی وجوہات کلمات نکاح کی طرح پوچھیں یہاں تک کہ ہم سے شاعری کے نزول دور دور کے متعلق سوالات کر ڈالے اور جب دیکھا کہ یہ حضرت کسی طرح ٹلنے والے نہیں ہیں تو انتہائی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ہمیں کہنے لگے۔

’’برخوردار! ہمیں آپ کی قابلیت اور کسی کالج سے متعلق ہونے کے لئے آپ کے وفورِ شوق کا پورا پورا اعتراف ہے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ کالج کی انتظامیہ اخبارات میں اشتہار محض سرکار سے جان چھڑانے کے لئے ردِ عذر کے طور پر دیتی ہے ورنہ اصل صورتحال تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے مطلوبہ لیکچرار کا تقرراس اشتہار کی اشاعت سے بہت پہلے عمل میں آ چکا ہے۔

بڑا دل خوش ہوا اے ہمنشیں کل جوش سے مل کر

ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں

ہمیں اپنے سیلیکٹ ہونے نہ ہونے کا احساس تو ہوا یا نہ ہوا، پرنسپل مذکور سے مل کر اتنی مُسرت ضرور ہوئی کہ مجبوروں کی اس دنیا میں کچھ مجبور ایسے بھی ہیں جو تمام تر جبر کے باوجود اپنے باطن پر منافقت کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیتے۔

ہم لیکچرار ہوتے ہوتے تو رہ گئے لیکن چڑیا کے بوٹ (بچّے ) کی طرح آشیاں سے اس سمت میں پہلی پرواز کے بعد ہی پرانے ماحول میں اپنے آپ کو جیسے فالتو محسوس کرنے لگے اور اس احساس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ ہوتے ہوتے ہم نے اپنے موجودہ ماحول کو بدلنے کا کچھ ایسا ہی ارادہ کر لیا جس طرح کا عزم بعض سیاست دان سیاست سے باز رہنے کا کرتے ہیں تاہم ایسا کرنے میں فوری ہمت ہمیں اس لئے ہونے پائی کہ ہم جہاں اتنے عرصے سے مقیم تھے، وہاں کچھ شخصیات ایسی بھی تھیں جن کی مقناطیسی نسبتیں تیاگنا ہمیں خاصا مشکل بھی نظر آیا۔ ان میں سے ایک صاحب تو سّید بادشاہ تھے جن کے متعلق ہم نے اپنی ایک نظم سٹاف نامہ لکھتے ہوئے کچھ اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔

مشکل میں ہے ساتھی تو مسرت میں ہے ہمراہ

اخلاص ہی اخلاص ہے عباس علی شاہ

اور دوسرے صاحب ہمارے ایک بزرگ تھے …… باریش و با تمکنت کو جہاں سینے میں ایک دل دردمند رکھتے تھے، وہاں اپنی بتیسی کے درمیان زبانِ شیریں مقال جیسی نعمت بھی قدرت نے انہیں سونپ رکھی تھی اس پر مستزاد یہ کہ ہم جہاں ہمہ وقت ایک لامتناہی تخلیقی…… دھن کے اسیر رہتے وہاں موصوف کو اپنے ملنے جلنے والوں کے چہروں کی شکنیں محو کرنے کا لپکا تھا۔ یہی نہیں ، اپنی پرائیویٹ زندگی میں قیام پاکستان کے دنوں سے ایک منہدم مسجد کا احیاء ان کا ایک اور کارنامہ بھی تھی، جسے انہوں نے تنہا تگ و تاز سے انجام دیا۔

اسی طرح کے اور بھی یقیناً متعدد حضرات تھے جن سے بچھڑنا ہمیں سچ مچ اپنے گوشت پوست سے جُدا ہونا لگتا تھا، لیکن اس دوران میں سکول کی فضا میں ہمیں ایک ایسے واقعہ سے دوچار ہونا پڑا جس کے ناطے ہمیں یہ بات اچھی نہ لگی کہ ہم اپنے چیمپئن ہونے کا علاقائی اعزاز ہمیشہ کے لئے اپنے پاس دبائے رکھیں لہذا وہاں سے کوچ کے اسباب از خود ہی نمایاں ہونے لگے۔

اور وہ واقعہ یہ تھا کہ ہم نے اواخر قیام کے دنوں میں کانجی ہاؤس میں دوسرے پڑاؤ کے بعد (محبی مولوی محمد نور الٰہی) حسب روایت ایک اور بھرے پرے گھر کی نگہبانی کے فرائض اپنے ذمے لے رکھے تھے، اس گھرکی مالکہ ایک بیوہ خاتون تھی جو اپنے باپ کے ہمراہ اپنے پیدائشی گھر ہی میں رہتی تھی اور حسن اتفاق یہ تھا کہ اسی خاتون کا اکلوتا بچہ ہمارے سکول میں کسبِ فیض کر رہا تھا جو خیر سے چھٹی جماعت میں پہنچا تو اس کی فیس معاف کرانا ہمارے عین فرائض اقامتی میں شمار ہونے لگا۔ جس میں کسی قضا کا بظاہر کوئی کھٹکا نہ تھا، ہم نے لڑکے کے نانا حضور سے ایک درخواست لکھوائی اور ہیڈماسٹر حور کے حوالے کر دی۔ اس تاکید کے ساتھ کہ لڑکا اس رعایت کا مستحق تو ہے ہی اس وجہ سے بھی قابلِ التفات ہے کہ آپ کے عملے کا ایک رُکن سکونت کے ناتے اس کے نانا کا ممنونِ احسان ہے اس پر ہیڈماسٹر صاحب نے بکمال دردمندی و معاملہ آشنائی ہماری ہاں میں ہاں ملائی لیکن موقع جب فیس معافی کا آیا اور موصوف نے مذکورہ درخواست اڑھائی یا ساڑھے تین روپے فیس میں سے صرف ایک روپے کی معافی کے آرڈر بقلم خود ثبت فرماتے ہوئے مذکورہ درخواست (ہماری ممنونیت کو) ہمیں تھمائی تو…… خدا جانے وہ دراز قامت شخص اپنے ہاتھ میں لی اور ریزہ ریزہ ان کے سامنے پھیلا دی۔ یہ خفگی اگرچہ ہمیں مضحکہ خیز بھی لگی لیکن انسان بھی بقول منٹو عجیب شے ہے۔ اٹھانے پہ آئے تو پہاڑوں کا بوجھ سر پہ اٹھا لے اور نہ چاہے تو رائی کا بار سہارنے سے بھاگ کھڑا ہو۔ بہرحال ہم نے اس بدمزگی کے بعد فیصلہ وہی کیا جو بہت مدت بعد ابن انشا نے اپنے تخلص میں تھوڑے سے تصرف کے بعد کیا تھا۔

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا

اس لئے کہ ضروری نہ تھا کہ سکول میں ہونے والے آئندہ کسی حادثے کی محکمانہ فائل پر بھی ہمارے ہی نام نامی کا اندراج بحروف جلی کیا جاتا، چنانچہ ہم نے اسی ’’تُوڑ‘‘ میں اپنے ضلعی دفتر کا ایک چکر کاٹا لیکن نہ اس طرح جیسے بسلسلہ حصولِ اجازت برائے امتحان لگایا تھا اس لئے کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد گھر کی مرغی چاہے دال برابر تھی لیکن افسرانِ بالا ہم پر بلا شُبہ مہربان تھے اور یہ اسی موانست کا اثر تھا کہ جب لوٹے تو ہماری جیب میں ضلع کے ایک انتہائی گوشے میں واقع سکول میں تبادلے کے آرڈر موجود تھے جو ہماری رضامندی کے عین مطابق جاری کئے گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب: دور بیٹھا غُبار میر اُس سے

 

 

ہم اب اپنی ملازمت کے اسٹیشن نمبر تین پر پہنچ چکے تھے، اس لئے کہ اسٹیشن نمبر ایک تو وہی تھا جہاں سے ہم تازہ تازہ آئے تھے۔ دوسرا قدرے چھوٹا اسٹیشن (بلحاظ قیام) راولپنڈی تھا، اور تیسرایہی جس کا ذکر ہو رہا ہے۔

یہ مقام اگرچہ نسبتاً زیادہ خاموش طبع تھا لیکن ہماری نظر میں اس کی بڑی خوبی یہ تھی کہ سڑک کے کنارے واقع تھا جو سیدھی جلالپور جٹاں کو جاتی تھی اور وہ بھی بے دھڑک۔ ایک اور کشش اس سٹیشن میں یہ تھی کہ وہاں کے رئیس مدرسہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں ہونا تو ادیب چاہئے تھا لیکن حادثات زمانہ کے ہاتھوں محض استاد ہو کر رہ گئے تھے۔ تاہم اس صلاحیت کا رُخ انہوں نے اُس دانائی کی جانب موڑ رکھا تھا جسے عرف عام میں علم طبابت کہا جاتا ہے۔

ہم کہ مبینہ مریض قلب و جگر تھے۔ ان سے اس ضمن میں بھی توقعات رکھتے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ بہت بعد تک بھی ہم اپنی ان توقعات کو پورا نہ کرنے پائے اس لئے کہ:

دل و نظر سے جو اُس پر کھلا نہ راز اپنا

تو حرف و صوت سے احساس کیا دلاتے اسے

اور احساس انہیں اس لئے نہ ہوا کہ ان کی پتری ہمارے حق میں ویسے ہی ٹھیک نکلی، ان کا اندازہ یہ تھا کہ جب تک ہماری تخلیقی صلاحیتیں فعال ہیں ہمارے اس عارضے کا علاج ناممکن ہے اور بھلا ہوا کہ ہم اس نئے مقام پرکسی جمال گوٹے وغیرہ کی زد سے صاف طوربچے رہے۔

نئے اسٹیشن پر پہنچے تو ماحول یکسر مختلف تھا، ہیڈماسٹر صاحب ہمیں مودبانہ تو نہیں بلکہ اَدب آشنا نگاہ سے ضرور دیکھتے تھے اور بہت اچھا دیکھتے تھے۔ لہذا کسی گزشتہ ڈرامے کے اعادے کا کوئی کھٹکا نہ تھا، ویسے بھی سکول کے اساتذہ اور طلبہ کی تعداد پلاننگ آشنا تھی اور سکول کی فضا کچھ تو قحط الرجال کے باعث اور کچھ فیاضی فطرت کی وجہ سے …… کہ ندی کنارے کی فضا تھی۔ جناب فیضؔ کی شعری فضا کی طرح خاصی سکون پرور اور مدھم مدھم سی تھی جہاں تدریسی کام کچھ یوں سبک لگتا جیسے ہم کسی مکتب میں نہیں بلکہ کسی ٹی وی پروگرام کی شوٹنگ کے لئے آئے ہوئے ہیں لیکن ہم کہ گزشتہ پانچ چھبرس سے بذریعہ بس جائے ملازمت پر پہنچنے کو ترس گئے تھے جب ایک ایسے اسٹیشن سے فیضیاب ہوئے جہاں اپنے گاؤں سے بس پر بیٹھ کر سیدھے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ سکتے تھے۔ دونوں دیہات کے درمیان کچھ یوں آنے جانے لگے جیسے منگنی او شادی کے درمیانی وقفے میں ’’میکال و سسرال‘‘ کی قیام گاہوں کے درمیان کوئی دولہا مبتلائے سفر رہتا ہے۔

مگر نہیں یہ مبالغہ تو شاید زیادہ ہو وہاں ہفتے کی شام یا کسی چھٹی کے دن سے پہلے کی شام ہمارا دل گھر جانے کو کچھ زیادہ ہی زور کرتا، لہذا ہم نے اس لاڈلے کا کہا موڑنا کبھی مناسب نہ سمجھا اس لئے کہ اس سفر میں سب سے بڑی عیاشی اگر ہمارے لئے تو یہ کہ اپنی امی جان کے ہاتھوں کا ناشتہ نوش جان کرنے کے باوجود ہم اسی صبح اپنے سکول میں پہنچ جایا کرتے اگرچہ یہ سفر رِ سکی ضرور ہوتا تھا۔

دو تین ہفتے گزرے تو یہ سفر واقعی رِسکی ہو گیا اور اس طرح ہوا کہ دوران سفرایک مقام ایسا بھی آتا تھا جسے اصطلاح میں ’’چنہاں دا کنڈھا‘‘ بھی کہا جاتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اس لئے کہ اس اسٹیشن پر شوقکی راہ میں ’’مشکل کارفرما تھیں اور ان مشکلہا کا تعلق اس مقام پر ہمارے معائن افسر کے دفتر کے واقع ہونے سے تھا جنہیں محکمانہ اصطلاح میں اے ڈی آئی کہا جاتا تھا اور جو ان دنوں اساتذہ کرام سے خاکم بدہن؎

بعد از خُدا بزرگ توئی قصّہ مختصر

جیسی حیثیت تسلیم کرانے کے بعد برضا و رغبت متقاضی ہوا کرتے تھے اور جن سے ایک آدھ بار ازروئے اتفاق ہمارا ’’گھول‘‘پڑ بھی چکا تھا لیکن گاہ گاہ گھور اندھیریوں میں بھی کوئی جگنو ٹمٹما اٹھتا ہے۔ مذکورہ مقام اسطرح کے دو افسروں کا ٹھکانا تھا، جن میں سے ایک سے خدا جانے سروس کے ابتدائی ماتحتانہ ایام ہی میں ہماری کیسے بن آئی کہ تعلقات کی نوعیت؎

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

جیسی ہو گئی لیکن وہ جو دوسرے تھے اور ان دنوں ہمارے امیجیٹ افسر تھے ایک تو اپنے جسمانی جغرافیے کی وجہ سے اور ایک خاندانی حدوداربعے کے لحاظ سے …… کہ اس وقت کے سب سے بڑے ضلعی افسر کے خانوادے کے چشم و چراغ تھے، ہمیں اپنے قد سے خواہ مخواہ بڑے نظر آتے اور جو بد شگونی اس دن ہوئی یہ تھی کہ ہم نے حسب معمول بس بدلی تو بس کی فرنٹ سیٹ کو ان دونوں حضرات کی بالجسد موجودگی سے کسی بیکری کے سانچے کی طرح ٹھنسا ہوا پی یا، ہم کہ بیکری کے بے بی بسکٹ سے بھی کچھ کم تھے، اس تناظر میں اپنے آپ کو چوپٹ کی آخری گاٹی کی طرح بہر لحاظ خطرے میں محسوس کر رہے تھے ہم نے ان حضرات سے چشم پوشی کی بجائے زیادہ خطرناک اقدام کیا اور بجائے بس سٹاپ کے کسی کو نے میں چھپنے اور کسی دوسری بس کی تاک میں رہنے کے بس کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے اور دل ہی دل میں کورنش بجا لاتے اپنے افسران معائن تک پہنچ گئے اور اس لئے پہنچ گئے کہ ان راہروان راہ وفا کی منزل وہ بھی تو ہو سکتی تھی جو منزل ہمارے دہن و شکم کی تھی اور بعد میں ہوا بھی یہی مگر جو کچھ اس وقت ہوا وہ ہماری توقع کے عین برعکس تھا اس لئے کہ ہم گھر سے وقت پر بس نہ ملنے کے باعث آدھ پون گھنٹہ لیٹ ضرور تھے لیکن اس برہمی کے مستحق نہ تھے جو ہمیں اس پردیس کے عالم میں دیکھنا پڑی۔

بس میں ازروئے اتفاق ابھی کوئی چوتھا درویش نہیں آنے پایا تھا، لہذا خیریت رہی کہ ہمیں جو تلخ و ترش سننا پڑا اس میں شماتت ہمسایہ کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ موصوف نے کہ ہمارے سگے باس تھے ہمیں رنگے ہاتھوں دیکھا تو کسی نوآموز ریکروٹ کی طرح ہم پر تند و تیز الزامات کی چاند ماری کر دی۔ اس چاند ماری میں اگرچہ کوئی نشانہ ہماری چاند پر تو صحیح نہ بیٹھا (چاند اس مفہوم میں کہ ٹائیفائیڈ کی ایک تازہ تازہ حملے کے باعث ہمارے سر کے بال ان دنوں خاصے اڑ چکے تھے ) لیکن انہوں نے اس موقع پر اپنے نگران محکمے کی روٹیاں ضرور حلال کر ڈالیں ہمیں اس کا اندازہ تو نہیں کہ یہ طوفان کب تھما اس لئے کہ بس میں ڈرائیور اور کنڈکٹر کے سوا اور کوئی سواری مذکورہ مقام سے نہ بیٹھی البتہ اتنا یاد ہے کہ جب بس سے اترے تو ہمارے قبلہ و کعبہ ہمارے آگے آگے تھے اور ہم ان کے پیچھے پیچھے اور مارشل لاء کی اصل دفعات کے نفاذ کا مقام ابھی دوچار فرلانگ آگے پڑتا تھا۔

یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا

گھر سے تو اس کے برابر نکلا!

والا قصہ ہوتا تو ہماری معصومیت قابلِ دید بھی تھی لیکن اب تو ہم برابر موصوف کا پیچھا کر رہے تھے، گویا مُجرم اپنے حق میں عادلانہ کاروائی کے لئے انصاف کا تعاقب کر رہا تھا ہم راہ بھر سر نیہوڑائے چلتے تو رہے لیکن یوں جیسے ہمارے زیر قدم سطح ماہتاب تھی کہ اپنے جیسے تیسے وزن میں با پناہ کمی کا احساس ہمیں برابر ستاتا رہا آخر جب سکول پہنچے تو ہاں بھی پہلا قدم موصوف نے ہی سکول میں ٹکایا اور

دُور بیٹھا غبارِ میر اس سے

عشق بِن یہ اوب نہیں آتا

ہم کہ ویسے ہی متاخر تھے سکول کے احاطے میں بھی بعد ہی میں داخل ہوئے جہاں پہنچتے ہی ہم نے ایک لاشعوری یا بالغانہ حرکت یہ کی کہ رجسٹر حاضری معلمین پر بلا تعینِ زمانہ اپنے حاضری کے خانے میں اپنے دستخط بقائمی ہوش و حواس کر ثبت کر دئیے تا کہ سند رہے اور بوقت مصیبت کام آتے اور سکول اس لمحے ہمارے لئے میدان حشر اس لئے تھا کہ ہمارا نامۂ اعمال وہاں سے با آسانی دستیاب ہو سکتا تھا جو حاصل بھی کیا گیا لیکن بحمد اللہ کہ اس میں آڈٹ کی کوئی غلطی نہ تھی۔ البتہ جب موصوف کے حضور ہماری باقاعدہ مجرمانہ پیشی ہوئی تو سوال جواب کا سلسلہ بڑا مختصر نکلا … فرمایا … ’’ آپ نے اپنی حاضری کے ساتھ وقت کا اندراج کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اپنے رزق نامے کے سامنے عالمِ رکوع میں اگر کچھ کیا تو یہی کہ بکمال عُجلت اپنا قلم نکالا اور

دل و جاں نذر کروں ، اپنی وفا پیش کروں

کی مکمل تصویر بن گئے، انہوں نے یہ منظر دیکھا تو از راہ تفنّن یا از شاہراہ ترّحم پورے دو تین گھٹنوں کے بعد پہلی مرتبہ ان کا اصل چہرہ ان کے کندھوں پر ہمیں لوٹتا دکھائی دیا کہ موصوف کے خشمگیں ہونے کا رنج ہمیں تھا یا نہیں موصوف کے چہرے کی وجاہت کے بگڑنے کا قلق ہمیں بلاشبہ تھا ہمارے نظریات میں یہ تبدیلی تو بہت بعد میں آئی؎

پھر یہ کہاں لطف ہجوم نگاہ

ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا

تاہم اس وقت ہمارا جو عالم تھا وہ یقیناً موصوف کے حق میں ہمدردانہ تھا کہ غم و غصہ انہیں زیبا نہ تھا

احساس برہمی سے چہرہ خزاں ہوا ہے

کیجے اسی سے اس کا اندازہ ناز کی کا!

مگر خیر اب جوان کے رُخ پر زیر لب مسکراہٹ کا چند طلوع ہو ہی چکا تو ہماری فکری اور وجدانی کیفیات بھی بحال ہونے لگیں اور اس گھڑی تو مکمل طور پر بحال ہو گئیں جب انہوں نے اپنے قلم سے ہمارے نام کے سامنے وہی وقت درج کر دیا جو انوکی نے ان کے سامنے درج کیا تھا۔

وہ دن اور پھر اس کے بعد کا دسواں دن ہم نے اگرچہ اپنے گاؤں کا رخ تو نہ کیا لیکن ایک اہتمام ’’اندر و اندری‘‘ یہ کر ڈالا کہ مغرب کی فضا راس نہ آئی۔ تو یکایک مشرق میں جانے کی ٹھان لی اور اس ہجرت میں خضر انہی صاحب کو کیا جو گزشتہ سطور میں مذکورہ سفر کے دوران کے ابتدائی چند میلوں میں ہمیں ایک خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہے تھے۔ المختصر یہ کہ ہم نے اپنا تبادلہ اپنے سرکاری حلقے کے ایک انتہائی مشرقی سکول میں کرا ڈالا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب: لوٹ جاتی ادھُر کو بھی نظر کیا کیجے

ہم نے اسٹیشن نمبر تین اس لئے نہیں چھوڑا تھا کہ محکمے میں ہمارا نامِ نامی ڈیوٹی پر ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچنے پر خدا نخواستہ بستہب کے ملزموں میں لکھا جانے والا تھا اور ہمیں راہ فرار اختیار کئے بغیر اپنا مستقبل صاف صاف تاریک نظر آ رہا تھا نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی اس لئے کہ ہم جہاں سے چلے تھے اور جہاں پہنچے تھا مشرق و مغرب کی یہ دونوں حیں ایک ہی دائرہ افق کی پابند یعنی اسی افسرِ معائن کے زیر نگین تھیں جس کے احتساب و عتاب اور ہدایات و عنایات کے حلقے میں ہم کچھ دنوں پہلے بیک وقت آ چکے تھے بلکہ یہ تبادلہ ہم نے اس لئے کروایا کہ عقل و جنون کی یکجائی ہمارے فنی مستقبل کو اپنی لپیٹ میں لیتی نظر آنے لگی تھی ہماری مراد یقیناً طبابت اور شاعری کے یکجا ہونے سے ہے کہ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب جو سراسر محبت اور مودٔت کے مجسمے تھے ہمارے علیحٰدہ ڈیرہ جمانے تک پر راضی نہ تھے مہربان تھے، مشفق تھے، معاون تھے، سب کچھ تھے لیکن ان کا بزرگانہ سایہ کچھ ایسا گھمبیر تھا کہ ہم خواہ مخواہ اپنے آپ کو ایک طرح سے نظر بند سا محسوس کرنے لگے تھے، اور کچھ یوں بھی تھا کہ ان ہی دنوں ہمارے ادبی بچپن کے ایک ساتھی جنہیں اپنے فن سے کچھ اس طرح کا والہانہ لگاؤ تھا جس طرح کی لگن بعض شوقین نوجوانوں کو کبوتر اور باز وغیرہ پالنے سے ہوتی ہے مذکورہ اسٹیشن نمبر چار پر نئے نئے تعینات ہوئے تھے ان سے اس نسبتِ غیر مترقبہ کے علاوہ ہماری ایک اور ننھی منی نسبت یہ بھی تھی کہ ہمارے ایک نہایت ہی مربی و محسن استادِ مکرم کے برادر عزیز تھے۔

ہم مذکورہ مقام پر پہنچے تو اسے پہلے مقامات سے کہیں زیادہ کشادہ ظرف اور پُر سحر پایا اس لئے کہ ایک تو اس کا محلِ وقوع انگریزی طرز کی جدید کوٹھیوں کی طرح بیک وقت کچے پکے دونوں رنگوں سے ترتیب پایا تھا کہ اس تک پہنچنے کے لئے ٹانگوں یا بس کے ذریعے جو مسافت طے کرنا پڑتی آخر میں جا کے میل ڈیڑھ میل کی حد تک کچے راستے پر مشتمل تھی لہذا جہاں مسافر کی آنکھیں پکی سڑک کی صلابت سے پتھرانے سی لگتیں وہاں آخر آخر کھری کھری مٹی کا سوندھا پن بھی اسی کے استقبال کو آتا۔ دریا کے پاٹ کا ایک برساتی نالہ بلا اجازت ہی گزر رہا تھا اور ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ اس لئے برابر جاری رہتا کہ سکول گاؤں کی بغل میں واقع اسی نالے کے اُس پار پہاڑوں کے تصوراتی دامن میں پڑتا تھا۔

ہم اسٹیشن مذکور پر کیا پہنچے گویا کسی وفاقی ادارے میں پہنچ گئے اس لئے کہ ہاسٹل کے نام پر ایک بہت بڑی عمارت کے سکول کے ساتھ منسلک ہونے کے باعث ہمیں اب کسی کانجی ہاؤس میں بند رہنے کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ اور طلبہ کی کمی اور رقبے کی زیادتی کی وجہ سے ہاسٹل اتنا وسیع تھا کہ ہمیں جاتے ہی اپنے مذکورہ دوست کے کمرے کے عین پہلو میں ایک کمرہ بھی مل گیا جس میں ہم ماضی کی سہانی یادوں اور مستقبل کے تابناک منصوبوں کے ہمراہ یوں گھُس گئے جیسے کسی اقلیتی فرقے کو کسی ملک کے معاملاتِ قصا و قدر میں اچانک دخل حاصل ہو گیا ہو۔

ہاسٹل سے سکول تک جانے کا راستہ سہگل برادری کے نصیبوں کی طرح کچھ زیادہ ہی وسیع تھا۔ جس میں اگر کوئی نشیب بھی آتا تو اس پر چلتے ہوئے ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے کیس بڑے خاندان کے لاڈلے سکٹنگ کے شغل میں مصروف ہوں۔ اور اس نشیب میں پہنچ کر جو کچھ دیکھنے میں آتا

عالمِ جوش جنوں میں ہے روا کیا کیا کُچھ

کہئے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں

اس کی تفصیل اگرچہ وضع احتیاط کی متقاضی ہے کہ دیاتوں میں بودوباش کا سلسلہ شہروں کی نسبتبہت سارا مختلف ہوتا ہے تاہم ابن آدم کے اندر بھی کئی دنیائیں آباد ہیں اور وہ چاہے تہذیبی اعتبار سے کتنے ہی بندھنوں میں کیوں نہ گھرا ہو اس کی ایک کھڑکی اس کے کچھ وحشی جذبوں کی جانب بھی ضرور کھلتی ہے مثلاً یہی کہ مقامِ مذکور کا ذکر تو ہم بعد میں کریں گے گزشتہ سٹیشنوں میں سے ایک سٹیشن پر گاؤں کا تالاب سکول سے کچھ ہی دور واقع تھا جہاں گاؤں کی لڑکیاں ، بالیاں اور گھروں گھاٹوں والیاں کپڑے وغیرہ دھونے آیا کرتی تھیں ، سکول کے ایک بازو کی کھڑکیاں چونکہ اسی تالاب کی جانب کھلتی تھیں لہذا دورانِ تدریس

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے

اساتذہ کی نظر اکثر اوقات ادھر بھی پھسل جایا کرتی اور پڑھانے کا سارا انہماک درہم برہم ہو کر رہ جاتا اس لئے کہ تالاب پر موجود بیبیاں کنارِ آب پہنچتے ہی اپنے سروں پر اٹھائی کپڑوں کی گھٹڑیاں ہی نہ کھلتیں بلکہ دھوئے جانے والے کپڑوں میں اپنے تن بدن کے کپڑے سبے پہلے شامل کرتے جس کی دو وجوہات یہ تھیں کہ بیشتر حالات میں ایک تو ہمارے دیہاتیوں کو اپنا ستر ڈھانپنے کے لئے بالعموم ایک آدھ جوڑا ہی میسر آتا ہے اور دوسرا یہ کہ تن بدن کے کپڑوں کو سب سے پہلے دھونا اس لئے بھی ضروری ہو جاتا… کہ انہیں یہی کپڑے پہن کر واپس بھی جانا ہوتا تھا تاہم ایک جانب تو اس آزادانہ حرکت کو بے شک اہلِ دیہہ کی مجبوری کا نام دے دیجئے جس کی ذمہ داری کے ڈانڈے خدا جانے آگے کہاں کہاں جا کے ملتے ہیں لیکن اسے کیا کہا جائے کہ دوسری جانب

چمک سے برق کی کمتر ہے وقفۂ دیدار

نظر ہٹی کہ اسے ہاتھ اک بہانہ لگا

اہل دیہہ کے لڑکوں بالوں میں اپنی اٹھتی ہوئی جوانی کے جذبوں کی درپردہ یا ہوا ئی تسکین کا یہ لپکا بھی تھا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے مذکورہ ماحول کے بعض خفیہ گوشوں میں متعدد بار کھاتے پیتے گھرانوں کے کچھ ایسے گمراہ نوجوانوں کو بھی دیکھا جو اپنے چہروں پر شعبۂ بے حیائی کی دُور بینیں سجائے کسبِ بینائی کے شغل میں برابر مصروف نظر آیا کرتے تھے۔

اور اب کہ اس طرح کی صورتِ حال ہماری روزمرہ کی گزرگاہ کے عین بیچ میں پڑتی تھی محض ایک تالاب تک محدود نہ تھی بلکہ جس طرح پہلے مذکور ہے مذکورہ نالے کا پاٹ خیرسے خاصا بڑا تھا جس کے کسی حصے پر محض ٹھڈا مارنے سے بھی پانی جنت کے ثمر ہائے آویزاں کی طرح از خود لبانِ تشنہ کی طرف بڑھنے لگتا، ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ ہمارے دیہاتی بھائی ہزار نادار سہی لیکن وہ اپنی زندگیاں تک تحفظ ناموس کے نام پر لٹانے میں کبھی دریغ نہیں کرتے البتہ پنجابی فلموں نے دیہات کے اس جذبے کو جس طرز ادا کی آڑ میں بدنام کیا ہے وہ دیہات کے اسی کمزور پہلو سے پھوٹتی ہے کہ زن، زر، زمین میں سے اول الذکر اپنے مردوں کی اس بڑی ذمہ داری کو بعض حالات میں ذرا لائٹ ہی لیتی ہیں تا آنکہ ان کے رکھوالے ان کی اس بے احتیاطی کی بھینٹ نہیں چڑھ جاتے سو مذکورہ نالے کے پاٹ میں بھی پانی کی دستیابی کے لئے ایسے مقامات کا انتخاب جو رہ نوردوں کی عین زد میں آتے ہوں ہمارے اسی طرح کے احساس کی ترجمانی کرتا تھا۔

ہم صبح دم سکول جاتے تو نقصِ امن کی کسی واردات کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی خدشہ اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ اس ہمگام کچھ تو گاؤں کی بیبیاں اپنے گھریلو کام کاج میں مصروف ہوتیں اور کچھ یہ بھی تھا کہ وہ وقت محض پانی لانے کا ہوتا تھا پانی سے کھل کھیلنے کا نہیں لیکن جب وقت سکول سے واپسی کا آتا تو صورتِ حال مذکورہ سابقہ تالاب جیسی ہوتی جہاں کھلے آسمان کے نیچے قطعی فطری مناظر سے آنکھ بچانے کو ہمارے لئے ضروری تھا کہ یا تو ہم دور ہی سے کسی نعت یا مولود کے الفاظ گنگنانے لگتے کے اگر کسی مخالفانہ قوت کے کانوں میں پڑ بھی جاتے تو قابلِ مواخذہ نہ ہوتے اور یوں اس محو تطہیر بدن مخلوق کو سنھبلنے کا احساس دلا دیتے یا ایک آدھ مخصوص عربی رو مال اپنے کندھوں پر ڈالے رکھتے اور اس پُر خطر فضا میں سے گزرتے ہوئے اپنی مردانہ شرم و حیا کا تحفظ اپنی نظروں کو مقید کر لینے سے کرتے لیکن روزمرہ اس طرح کا اہتمام ہمارے لئے عذاب جان اس لئے تھا کہ ایک تو ضروری نہ تھا کہ ایسے موقعوں پر نعت و مناجات وغیرہ کے کلمات ہر لحظہ ہمارے وردِ زبجن رہ سکتے اور دوسرا یہ بھی لازم نہ تھا کہ پینٹ بوشرٹ جیسے بدیسی لباس کے ساتھ عربی رو مال بھی ہمہ وقتی ہمارے پاس ہوتا سو باہمی گفت و شنید کے بعد ہم چار پانچ ہاسٹل نشینوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے زیر اثر ننھی مخلوق کو وہ گڑھے بھر دینے پر مامور کر دیا جائے جو عین ہماری راہ میں آتے ہیں کہ بقائے امن کی راہِ اعتدال یہی ہو سکتی تھی؎

سوچتا کُچھ ہے تو کرتا کُچھ ہے

آدمی ہوتا ہے جب مشکل میں ،

ہم نے ایک دو بار یہ سرا سر غیر قانونی حرکت تو کر ڈالی لیکن مرحلہ جب اس کے ردِ عمل کا آیا تو ہمارا واسطہ نیم محکمانہ احکامات سے بھی جا پڑا کے اس دراز حرکتی کی شکایت کے لئے متاثرین دیہہ نے آناً فاناً انصاف کی زنجیر کھینچ ڈالی؎

ہوا کہ چھیڑنے کی عادتِ بد

مقدر میں مرے رنج و تعب تھا

چنانچہ اس نازک صورتِ حال میں بھی ہمیں گفتۂ غالب ہی کا قائل ہونا پڑا؎

رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں اتنی پڑیں مُجھ پر کہ آساں ہو گئیں

ادھر وہ جگہ جو ہماری قیام گاہ تھی اپنے اندر کئی بوالعجمیاں رکھتی تھی، ہمیں ہاسٹل کی زندگی کا تجربہ نہ تھا صرف کچھ آداب سے آگاہی تھی اور ہو بھی پطرس مرحوم کی زبانی لیکن ان آداب میں فرق یہ تھا کہ ہم ہاسٹل میں حصولِ تعلیم کے لئے مقیم نہ تھے بلکہ بہر تدریس براجمان تھے اور کچھ ایسے تنہا بھی نہ تھے ہم نے کہ برسوں سے اپنے باورچی خود چلے آ رہے تھے جب پہلے ہی روز باورچی کا پکا چکھا تو زندگی میں پہلی بار اس سوتیلے پن کی کنکریاں ہمیں دانتوں تلے کرکراتی محسوس ہوئیں جن سے پورن بھگت جیسے خدا جانے کتنے ہی جیالوں کو واسطہ رہا ہو گا۔

ہاسٹل کا باورچی میٹھی زبان، تیکھی چال اور اپنی دراز قامتی کی وجہ سے اپنی نوکری محفوظ رکھنے میں تو ماہر تھا ہی شاید کھانا پکانے میں بھی ماہر ہو لیکن جو کچھ وہ بالفعل کرتا اس سے اس فنی مہارت کا مظاہرہ ہرگز نہیں ہوتا تھا ایک اور مشکل جو ہمارے علاوہ ایک دو اور میانہ قامت حضرات کو در پیش تھی یہ تھی کہ موصوف کا قد سرو صنوبر سے بھی کہیں نکلتا ہوا تھا جس کی موجودگی ہمہ دم الٹا ہم سے تکریم و تعظیم کا تقاضا کرتی رہتی اور یہ ایک ایسی قباحت جس سے چھٹکارا ممکن تو نہ تھا لیکن پرہیز کی صورتیں البتہ نکل سکتی تھیں جن میں سے ایک صورت ہم نے یہ نکالی کہ اپنا ’’چلہا چونکا‘‘ اس تعلیمی کیمپ میں بھی علیٰحدہ جما لیا۔

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

اس علیٰحدگی کا اور کچھ فائدہ تو ہوا نہ ہوا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اپنے ہم نفس ساتھیوں پر ہمارے نیم رئیسانہ بلکہ مجنونانہ ٹھاٹھ باٹھ کا سکہ برابر جمنے لگا کیونکہ ان کا بل اگر چوبیس روپے فی کس ماہوار آتا تو تھا توہم ان کے اسی بل کو چوکا لگاتے نظر آتے تھے یعنی ہر ماہ اپنی یک صد تنخواہ میں سے چھیانوے روپے خرچ کر بیٹھے بلکہ باقی چار روپے بھی باورچی کی چپاتیاں پکانے کی خدمت ہی کی نذر ہو جایا کرتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب: کالے دھن کا بارِ گراں اور توشۂ آخرت

 

لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں

یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں

یہ شعر اگرچہ ہم نے بہت بعد میں کہا تاہم اس سے ضرور کھلتا ہے کہ کسی احساس کے بیج سے پودا بننے تک خدا جانے کتنے مرحلے آتے ہیں۔

پہروں آنکھیں نم رہیں دل خوں ہوا

جب کہیں اک شعرِ تر موزوں ہوا

اور جو شعر تر بلکہ شعر ہائے تر ہم نے موزوں کئے تھے ’’عدم پلاننگ‘‘ کی وجہ سے ان کی تعداد کچھ اس قدر ہو گئی تھی کہ انہیں محض بیاض کے صفحوں میں ٹھونسے رکھنا خدا جانے ہمیں کیوں گھلنے لگا۔ اس کا ایک سبب تو پیرا نہ سوچ کے مطابق وہی تھا۔ ؎

آں را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک

کہ ہم دنیاوی حساب میں تو عدم توازن کے شکار تھے ہی تخلیقی حساب میں اپنا دامن اس خیال سے صاف رکھنا چاہتے تھے کہ جو تخلیقی سفر ہم نے کافی کچھ سوچنے کے بعد شروع کر رکھا تھا کسی بندش یا رکاوٹ کا شکار نہ ہوتا اور کچھ یہ بھی تھا کہ اس میں تھوڑا بہت ہاتھ ہمارے شوق فزوں کا بھی تھا اس لئے کہ ہم ابھی بچپن کی حدیں صحیح طرح نہیں پھلانگ پائے تھے، جب ہمیں اس بات کا علم ہوا کہ ہمارے گاؤں بلکہ ہمارے پڑوس کا ایک بزرگ شعر کہتا ہے اور یہ کہ پمفلٹوں کی صورت میں انہیں چھپوا کر مدرسوں میں بیچتا اور ثواب دارین بھی حاصل کرتا ہے تو ہم نے اس مرد بے مثال دبے عدیل سے خدا جانے کتنے ہی ننھے منے انٹرویو اس ننھی منی عمر ہی میں کر ڈالے اور ثواب دارین سے قطع نظر جن کی روایت کو ہم نے پہلی بار ان دنوں آگے بڑھایا جب ہم بسلسلہ ملازمت سٹیشن نمبر ایک پر خیمہ زن تھے۔

ہم نے اپنی کسی داخلی اپج سے متاثر ہو کر ایک نظم بعنوان سید الشہداء بزبان پنجابی لکھی اور بجائے کسی اخبار یا رسالے کو بھیجنے کے اپنے خرچ پر اسے اس لئے چھپوا ڈالا کہ ایک تو اس میں ہمارے دیرینہ شوق فزوں کی تکمیل مضمر تھی، دوسرا ہماری نظر میں یہ کارِ خیر کسبِ سعادت کے مترادف بھی تھا مگر وائے قسمت کہ ہماری تصنیف اس محدود ماحول میں ہمارے تخلص کی ہیئت مرکبی کے باعث ان دنوں اس پذیرائی سے ہمکنار ہوئی جس کی وہ مستحق تھی۔ تاہم اپنی باقاعدہ تخلیقات میں سے اس پہلی تخلیق کی اشاعت کی عدم پذیرائی سے ہم چنداں بد دل بھی نہ ہوئے اس لئے کہ ہمارے نزدیک مذہب جس صراط مستقیمکا نام ہے صالح ادب بھی اسی دریا کے معاون ندی نالوں کی ایک اکائی ہے اور یہ ندی نالے ہمارے فکر و وجدان کے پہلو سے مسلسل پھوٹ رہے تھے چنانچہ وہ سارا کچھ جو ہم نے کسی مذہبی عنوان کے علاوہ کہہ رکھا تھا ہمیں برابر اس امر کے لئے بے چین رکھتا کہ جیسے بھی ہو؎

ظاہر نہیں کسی پر تجھ لعل کی حقیقت

واقف ہوا ہوں اس سوں میں جوہری کی مانند

یہ متاع معرضِ اشاعت میں ضرور آنی چاہئے جس کے لئے مُنّو بھائی سے لے کر اشفاق احمد تک یعنی پنڈی سے لے کر لاہور تک ہم نے متعدد دروازوں پر دستک دی اور جس کے جواب میں ہمیں اپنی ہی اس تخلیق کی گونج سنائی دیتی رہی۔

الم قرض خواہ ہے

کہ دروازۂ دل پہ دستک دئیے جا رہا ہے

نہیں اس اپنے مگر

آس کی ایک بھی پھوٹی کوڑی کہ اس کو ادا ہو،

مکرتا ہوں اپنے ہی ہونے سے آخر

بدل کر کچھ اپنی ہی آواز اُس کو

بڑے نرم لہجے میں کہنے لگا ہوں !

’’کسی کام سے وہ تو باہر گئے ہیں !‘‘

ان حضرات میں سے مُنّو بھائی کا ذکر تو ہم نے محض اس لئے کیا ہے کہ وہ ان دنوں ہمارے ادبی استغاثے کے بلا معاوضہ وکیل تھے اور ؎

ہم نیک و بد حضُور کو سمجھائے دیتے ہیں

قسم کے مشوروں سے لاریب ہمیں نوازتے رہتے تھے۔ البتہ جناب تلقین شاہ سے ہمارا ’’ڈیل ‘‘ اس لئے ہوتے ہوتے رہ گیا کہ درمیان میں معاملہ مذکورہ بالا نظم والا ہی کود پڑا یعنی ان کا ادارہ ’’داستان گو ‘‘ ان ہی روایتی حالات کا شکار ہو گیا جسے منفی مکتب فکر کے داعی حضرات زوال پذیر ہونا کہتے ہیں تاہم اس سلسلے کی خط و کتابت آج بھی کچھ تصویر ہائے بتاں کے ساتھ ( لفظ بتاں لغوی معنوں میں استعمال جان لیجیے ) ہمارے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ اب کہ ہم اپنی ملازمت کے درجہ چہارم کے کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھے جہاں ہماری تخلیقات میں برابر کا اضافہ ہو رہا تھا وہاں وہ شوقِ فزوں کچھ اور بھی شدت اختیار کرنے لگا تھا اور ارادے کچھ اس طرح کے ہو چلے تھے ؎

مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی

سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس

لہذا ہم کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جب ہماری یہ جنوں سامانی اپنا روایتی رنگ دکھلا سکتی اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ہم جنہیں ایم اے کی ڈگری لئے بھی ڈیڑھ سال ہونے کو آیا تھا اور تا حال مبلغ ننانوے روپے بارہ آنے (دوگنے جن کے ایک سو ننانوے روپے اٹھ آنے ہوتے ہیں )مشاہرہ پا رہے تھے محکمے کے ’’تاؤلے پن‘‘ کی وجہ سے اپنی تعلیمی ترقی کے دن سے پونے دو سو روپیہ مشاہرہ کے اچانک مستحق قرار دے دئیے گئے جس کا ریاضیانہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں پونے دو ہزار روپوں جیسی خطیر بلکہ خطرناک رقم کا بار گراں یک بارگی اٹھانا پڑ گیا جس کا کچھ حصہ تو بجا طور پر ہمارے گزشتہ زخموں کے اندمال کے لئے درکار تھا کہ؎

نسبتؔ ہمیں بھی حضرت غالب سے کچھ تو تھی

چنانچہ رقم کے اس حصے کو ہم نے بکمال سرخروئی برتا اور حق بات یہ ہے کہ خاصے خوش اوقات ہوئے لیکن اس رقم کا وہ حصہ جو اس سماجی فرض کی ادائیگی کے بعد بھی بچ رہا ہمیں کچھ اس طرح کا کالا دھن محسوس ہونے لگا جیسے

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

چنانچہ اس نازک موقع پر ہمارے شوق بے لگام نے عالم خوابیدگی سے اچانک کروٹ لی تو اس رقم کے مصرف کا مکمل نقشہ آناً فاناً ہمارے ذہن میں لہرا گیا ہم نے اپنے شعری بستہ باندھا، راولپنڈی پہنچے، منو بھائی سے اپنی پہلی باقاعدہ تصنیف ’’وتھاں ناپدے ہتھ‘‘ کا سرورس بنوایا، پریس کا رخ کیا اور واپس اس دن پلٹے جب اپنی گزشتہ فروگزاشتوں کا نصف بوجھ دو تین بوریوں کی صورت میں ہمارے ناتواں کندھوں پر تھا۔

ہماری پنجابی غزلوں کا سرمایہ اپنی سزا کو پہنچ چکا تھا لیکن ہمیں یہ سرمایہ اس لئے بے قرار رکھنے لگا کہ اس کی فزیکل حیثیت ان نوٹوں سے ہزارہا گنا زیادہ تھی جنہیں ہم لٹنے کے ڈر سے اپنے کسی سیف میں نہیں تو اپنے سرہانے دبا کر بھی مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔ ہرچند اس متاع کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ لیکن ہمارا فنی اعتقاد…… اب تجارت کی حدود میں آ چکا تھا لہذا…… ذہن ہمہ دم اسی طرح کے منصوبوں کی تیاری میں لگا رہتا…… کہ انہیں نکالیں تو کس کے ہاتھ جس کا آسان اور مہذبانہ حل ہمیں ایک ہی نظر آیا کہ جو بھی ملنے نہ ملنے والا شخص ہمیں ملتا ہم اپنی اس تصنیف کا ایک آدھ نسخہ اس کی نذر کرتے اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے اسے بنگاہِ امتنان دیکھتے اور کچھ اس طرح کی غیرمحسوسالتجا کے ساتھ اس سے رخصت ہوتے۔ جیسے کوئی مشفق باپ اپنی کسی بدنصیب نوبیاہتا بیٹی کے مستقبل کی خاطر ادھر والوں کے سامنے اپنی انا کا طّرہ سرنگوں کرتا ہے۔

اس مقام پر ہمیں تجارت کا الف، بے تو کیا آتا کہ اگر کوئی نسخہ کسی کی سفارش سے اس کے کسی جاننے والے کو بھیجا بھی گیا تو بیشتر یہی ہوا کہ وہ نسخہ ہمیں ڈاک خرچ کی ’’ڈز‘‘ دیتا ہوا پھر ہماری دہلیز پر پہنچ جاتا رہا۔ اس طرح کے نسخوں کی فروخت کا صحیح اکاؤنٹ تو ہمارے پاس نہیں ہے، ویسے اندازہ یہ ہے کہ فیاضیِ دوراں کے ہاتھوں ہماری تنخواہ میں جو ’’بڑھوتری‘‘ غیر متوقع طور پر ہو گئی تھی اس کا پانچ دس فیصد بعد میں بھی ہماری تنخواہ سے منہا ہوتا رہا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اس محنت سے قطع نظر جو ہم نے اس نسخے کی تیاری تک کی تھی، ہمارا جتنا کچھ خرچ اٹھا چند اخبارات کے تبصروں کی صورت میں اس کا معاوضہ ہمیں ضرور مل گیا۔ جسے ہم نے اس نکتہ نظرسے اہم گردانا کہ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے میں بھی آخر آدمی خرچ تو کیا کچھ نہیں کرتا لیکن جواباً اسے کاغذ کا ایک پھڑکا ہی تو میسر آتا ہے اور سچ یہ ہے کہ یہ توشۂ آخرت ہمارے لئے مورد ین انیف تھا کہ شاعری برادری میں بیٹھ کر باہم گھٹنوں اور کمر کے گرد دیہاتیوں والا صافہ ضرور باندھ سکتے تھے جسے شاید نفسیات کی زبان میں خوداعتمادی بھی کہتے ہیں۔ ؎

ہاں ہمیں ماجدؔ جنم لینا پڑا اک اور بھی

یوں تو جینے کا سلیقہ یہ ہمیں آیا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب: ہمہ آہوانِ صحرا

 

 

مُجھ پر بنے گی، گر نہ بنی اُس کی جان پر

بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر

یہ شعر پڑھنے سے اگر آپ کو اس کے خالق پر ماہر شکاری ہونے کا گمان گزرے تو عرض ہے کہ وہ ماہر شکاری ہمیں ہیں لیکن وہ شکاری جو پریکٹیکل سے زیادہ تھیوری کے ماہر ہوتے ہیں۔

ہمارا بچپن اس وادی میں گزرا تھا جس کے چاروں اور پہاڑیوں کے نہایت متوازن سلسلے ہیں اور ان سلسلوں میں سے دو سلسلے ایسے بھی ہیں جو آگیکسی قدر طویل نشیبی جنگلات سے ملے ہوئے ہیں جن میں لومڑوں اور گیڈروں سے لے کر چیتوں اور شیروں تک تقریباً سبھی جانور گاہ گاہ پائے جاتے رہے اور ہم نے بچپن کے ابتدائی دنوں میں دو ایک شکار شدہ چیتے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عطائی حکیموں کی طرح ہم محض اسی مشاہدے کی بناء پر ماہر شکاری کے مقام تک پہنچ گئے، تھیوری میں ہمارے نمبر اس لئے زیادہ قرار پا سکتے ہیں کہ عارضۂ احتجاجِ اعصاب کے دوران ہمیں جناب رئیس امروہوی جیسے ہی ایک بزرگ نے شکاریات کے عنوان کے تحت چھپنے والی کہانیوں کے بالاعتکاف مطالعے کا مشورہ ایک بار دیا تھا، مؤقف ان کا یہ تھا کہ اس سے اندر کے بہ سارے خوف ہوا ہو جاتے ہیں اور حسنِ اتفاق دیکھئے کہ ہم اس بزرگ کے چکر میں کچھ اسطرح آئے کہ اس قبیل کے لٹریچر کی مقدار اس لٹریچر سے بھی کہیں متجاوز ہو گئی جو ہم نے ایم اے کی ڈگری کے لئے سولہ سال تک سہیڑے رکھا، اس مطالعے سے ہمارا عارضہ تو گیا یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اکثر شب تنہائی میں ہم عالم خواب میں بھی بلبلا اٹھتے رہے اور یقیناً نہیں تو غالباً مبارک احمد سے خدا جانے کتنا عرصہ پہلے بڑی منضبط نثری نظمیں فی البدیہہ تخلیق کرتے رہے۔

لیکن قاری محترم ہمیں اس میدان میں اتنا گیا گزرا بھی نہ سمجھئے اس لئے کہ چند ایک شکار تو ہم نے بقائمی ہوش و حواس بدستِ خود بھی کئے جن میں سے کچھ کا ذکر ہم…… ضروری بھی سمجھتے ہیں۔

بچپن کے دنوں میں ہمیں اپنے ماحول کے قریبی جنگلوں میں جانے کا اتفاق اکثر ہو جاتا تھا جس کے ناتے ہمارے سمیت گاؤں کے اکثر لڑکے بالے غلیل وغیرہ کے شکار کا شوق پورا کر لیتے ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہم نے بھی ایک بار یہ تجربہ جب خود کیا تو

مارن والے موئے محمد قدرت رب دی ہوئی

جیسا نقشہ آنکھوں میں لہرا گیا وہ دن اور پھر سینکڑوں دن یہی معمولی سا واقعہ ہمیں اس شغل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائب کر گیا۔

اسی دوران ہم نے اپنا یہ جماعتی شوق پورا کرنے کی ایک اور راہ اپنائی اور وہ تھی کُڑکی سے فاختا میں پھانسنے کا بالکل عاشقانہ طرز کا اندازِ شکار کڑکی کسی جانور کے سینگ، لکڑی کے ایک دستے اور ذبیحہ بزومیش کی انتڑیوں کو خشک کرنے سے تیار کی ہوئی ڈوری سے بنائی جاتی تھی، جسے ہم نے گراں یاب ہونے کے باوجود خریدا اور ایک دو ساتھیوں کے ہمراہ مسلسل کئی کئی اتوار اس کے استعمال میں غارت کر دئیے اور استعمال اس کا یہ ہوتا تھا کہ زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا بنا کر کڑکی میں ایک آدھ دانہ اڑا دیا جاتا۔ وہ کڑکی خاک میں دفنا دی جاتی اور اُوپرسے زمین ہموار کر کے گندم یا باجرے کے کچھ دربان دانے بکھیر دئیے جاتے اور خود کسی جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ کر اس لمحے کا سخت بے چینی سے انتظار کیا جاتا جس لمحے کوئی بے دوش تلاشِ معاش کا اسیر ہو کر اپنی گردن کڑکی کے حوالے کر چکا ہوتا۔

ہم نے اس شغل عاشقانہ میں دو ایک بار کامیابی بھی حاصل کی لیکن اس سے دست برداری کا واقعہ بھی بعینہٖ غلیل سے دست برداری جیسا ہی جانئے اس لئے کہ ایک دن ہم نے یہ شوق تن تنہا پورا کرنا چاہا اور کڑکی لگانے کے مرحلے سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اس کم بخت نے الٹی ہماری ہی انگشت شہادت نگل لی۔ جسے اپنے بائیں بازو سے آزاد کرانا ہمیں بس سے باہر نظر آیا تو خدا جانے کرب کی کس شدت کے ساتھ ہم نے میل بھر بلکہ اصطلاح جدید میں کلومیٹر بھر کا فاصلہ آناً فاناً طے کیا، گھر پہنچے اور اپنے بزرگوں کے دستِ تعاون سے اس کم بخت سے اپنا پیچھا چھڑایا اور یوں جانئے کہ اس میدان میں ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا لنگوٹہ کھول دیا۔

دوران ملازمت سٹیشن سٹیشن نمبر ایک پر ہوتے ہوئے ایک بار پھر

ہر چند سُبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور

شکار کھیلنے یاد رکھنے کا موقع در آیا تو کرشمہ ہائے قدرت پر ہمارا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا یوں کہ ان دنوں بسلسلہ جستجوئے ہم سخناں ہماری ملاقات اپنے ہی محکمے کے ایک ایسے فرد سے ہوئی جس سے متعلق یہ کہنا شاید زیادہ صحیح ہو کہ

خاک کے پردے سے نکلے لوگ دکھلائیں تو ہم

میر سا لیکن ملے ماجدؔ کوئی ہمراز بھی

اور وہ صاحب تھے ہمارے بے نیاز شاعر جناب عابد جعفری جن کی پنجابی شاعری کا آغاز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اور اختتام یوں کہ سٹیشن نمبر چار سے رُخصتی کے بعد ہمیں ان کے پاس جا کر ان کا سارا کلام نہ صرف یک جا بلکہ اپنے پاس محفوظ کرنا پڑا جو آج تک گئے ’’گواچے سُکھ‘‘ کے نام سے ہمارے پاس ہے اور جس کے ضیاع کا کھٹکا ہمیں اس لئے تھا کہ موصوف تا دم تحریر

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کی مکمل تصویر بنے رہتے ہیں ، انہی صاحب کے ہمراہ ایک بار ہمارے یہاں ایک اور صاحب تشریف لائے تو ہم بڑی اضطراری کیفیت میں بازار کی جانب لپکے اس لئے کہ غروبِ آفتاب کا وقت تھا اور ترکاری وغیرہ کا انتظام در پئے آزاد تھا لیکن ہم نے اپنا روایتی تھیلہ ابھی اٹھایا ہی تھا کہ ہمارے دوست کے دوست اور ہمارے نووارد مہمان نے ہمیں ہاتھ سے پکا اور اپنی نشست پر بٹھا دیا۔ ہم نے زیرِ لب اظہار مدعا کرنا چاہا تو انہوں نے زیرِ لب ہمیں اپنے تھیلے کی جانب متوجہ کیا اور کہا کہ اسے کھولئے، ہم نے وہ پٹارا کھولا، تو کچھ یوں کھو گئے جیسے ہمارے بچپن کی ساری ناکامیاں ہماری آنکھوں میں لہرا گئی تھیں ، موصوف کے پٹارے میں پانچ مختلف پرندے زبان حال سے ہماری ہانڈی کی راہ پانے کو بے قرار نظر آئے۔ اور جب ہم نے اس من و سلویٰ کو اس پٹارے سے نکال باہر کیا تو ہمیں ساتھ ہی وہ غلیل بھی نظر آئی جس سے موصوف نے یہ پھل شاخِ ہوا سے ہمارے لئے اتارا تھا، انتہائی متعجبانہ استفسار پر پتہ یہ چلا کہ موصوف اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور یہ کہ اگر ہم ان کے گاؤں جائیں تو وہ اس فن کا مظاہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کریں گے۔

اُن کی یہ دعوت کچھ تو شوق شکار کے سلسلے میں ہماری گزشتہ محرومیوں کے باعث اور کچھ ان کی فنی مہارت کے طفیل ہمیں کچھ زیادہ ہی بھلی لگی چنانچہ کچھ ہی مدت بعد ہم ایک دن ان کے یہاں اچانک ٹپک پڑے۔ ان کا گاؤں کھلے میدان میں واقع تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ گنجان کھدروں کی آغوش میں بھی پڑتا تھا، لہذا وہاں پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد ہم ان کھدروں کے غیرآباد حصوں کے عین درمیان تھے۔ موصوف نے اپنی غلیل سے یکے بعد دیگرے نو فائر کئے اور دسواں انہیں اس لئے نہ کرنے دیا گیاہ شکاری کے تھیلے میں اب کسی کنجشک فرومایہ کے جسد ناتواں کے سمٹنے کی گنجائش بھی نہ تھی گویا اس ستم ظریف نے شکار سے ہماری رہی سہی دلچسپی بھی تمام کر ڈالی۔

نہ آج لُطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے

وہ رات جو کہ تیرے گیسوؤں کی رات نہیں

اور اب کہ ہم اسٹیشن نمبر چار پر پھر ایسے ہی ارمان انگیز اور ولولہ خیز گردو نواح میں محصور تھے اور ہاسٹل میں رہنے کے ناتے خالصتاً چھڑوں جیسی زندگی گزار رہے تھے اور بہت سارے مجروانہ مشاغل کے علاوہ جن میں بعض احباب کے آپس میں گزشتہ و آئندہ ارمانوں کی جزئیات کا …… ایکسچینج بھی تھا، میلوں تک کے علاقے کی سیر ہمارا روزمرہ کا معمول تھی۔ چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر

نکل ہوا میں کہ عالم کچھ ان دنوں اس کا

مثالِ گفتہ غالب شراب جیسا ہے

ہمارے احباب میں سے وہ صاحب جن کی فکری معیت کی کشش ہمیں ہمیں کشاں کشاں وہاں لے گئی تھی اور جو کچھ عرصہ بعد کسی کشش سے لیس ہو کر ایک اور مقام پر کھسک گئے تھے، ایک دن اچانک شکار کھیلنے کا مژدہ ہمیں سنانے لگے جسے سبھی حضرات نے بکمال التفات سنا اور شکار کے دن اور مقام کا تعین بھی کھڑے کھڑے وہیں ہو گیا کہ موصوف تخلیق شعر کے علاوہ ایک عدد لائسنسی بندوق کے بھی مالک تھے اس لئے نہیں کہ تخلیق شعر کے سلسلے میں ان آلات حرب کی بھی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ عسکری علاقے سے متعلق ہوتے ہوئے اس طرح کی متاع گراں کا حصول وہاں کے امتیازی سماجی آداب میں شامل سمجھا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں یہ سعادت کبھی نصیب نہ ہو سکی۔

شکار کا دن آیا تو ہم بقول یکے از احباب اپنی اُمت سمی رو بکوہ و دمن ہوئے تو جاتے ہوئے باورچی کو صریحی احکامات دیتے گئے ؎

آج بازار سے کچھ بھی نہیں لانا ہو گا

اور جب شکارگاہ کی حدود میں پہنچے تو ہمیں اپنے عزائم اور بھی بلند ہوتے نظر آئے اس لئے کہ پرندوں چہچہوں سے پس و پیش کا ماحول غالبؔ کی تحریک شعر کی یاد دلا رہاتھا۔ ؎

ہم چمن میں کیا گئے گویا دبستان کھل گیا

بلکہ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو وہ بات بھی اس سمے ہمارے حق میں کچھ زیادہ غیر صحیح نہ تھی، کہ

ہمہ آہوان صحرا سر خود سنہادہ بر کف

بامید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

لیکن فے الحال کچھ تو اپنے عزائم کی بلندی کے باعث اور کچھ اپنی اُمت کی سنگ باری کے طفیل جنہیں غالب نے یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے سند یافتہ کر دیا ہے۔

سنگ اُٹھایا تھا کہ سرد آیا

ہمارے شکار کے تھیلے بیریوں کے کھٹ میٹھے پھلوں سے لبا لب بھرے ہُوئے تھے۔ ہم نے اس مولائی مخلوق یعنی پرندوں پر ہا تھ اٹھانا خلافِ شان سمجھا اور اور زیادہ گھنے جنگلوں میں اُتر گئے اس اُمید پر کہ ذرا اس آہوانِ صحرا کو بھی دیکھا جائے جو سر بکف ہمارے منتظر ہیں اور یہ تحریص ہمیں اس لئے ہوئی عقابی بلکہ ’’شتابی‘‘ نگاہوں نے ایسے ہی ایک غول کا پتہ بڑی دُور سے لگایا لیا تھا چنانچہ اب صورت حال عین کشاکش میں ہمہ تن محو ہم بالائی نشیبی جگہوں سے یوں لڑھکتے جا رہے تھے جیسے کسی حلوائی کا شیرہ قفس دیگ سے رہائی کی راہ پاتا ہے۔ اسی مجنونانہ دوڑ میں ہمارے شہ شکاری جو ہمارے آگے آگے جا رہے تھے اور تفنگ بدست بھی تھے ہمیں ایک پتھر سے لڑھکتے کیا دکھائی دیئے کہ ہم خود جیسے کسی توپ کے دہانے میں جا پڑے جنگل کی خاموشی اور پتھروں کی پاک طینتی کے باعث بندوق کے منہ سے نکلے ہوئے کلمہ شر کے پھیلاؤ نے جیسے ہمیں دہلا کر رکھ دیا۔

ہمیں اس لئے کہ موصوفہ کا رُخ ہماری جانب تھا اور وہ عفیفہ جو اس کے بطن سے ظہور پذیر ہوئی تھی ہماری کن پٹی کے پاس سے یوں گزر گئی تھی جیسے بعض حالات میں رقیب روسیاہ کا مکا جبڑے کے پاس سے ہو کر گزر جاتا ہے اور وہ ہاتھ جس کی جنبش سے یہ سارا کچھ ہوا تھا اس لئے تھر تھرا رہا تھا کہ بندوق کی لبلبی ارادۃً نہیں بلکہ کسی اتفاقیہ جنبش ہی سے مائل بہ سخن ہو گئی تھی۔

اس ناگہانی حادثے سے بچ نکلنے پر ہماری اپنی سیٹی تو جیسے گم ہی ہو گئی لیکن وہ لوگ بھی جو ہمارے اس سفر شوق میں برابر کے شریک تھے کچھ ایسے پرسکون نہ رہ سکے تاہم جب اجتماعی اعتباریسہمیں خیال اپنے باورچی کو منہ دکھانے کا آیا تو مجبوراً ہر کسی کو اپنے جذبۂ حمیت کو للکارنا پڑا۔ اگرچہ اس مرحلے پر ہمارے عزائم کسی قدر پست ضرور نکلے اس لئے کہ اب ہماری توجہ کا مرکز آہوان صحرا نہ تھے بلکہ وہی مولائی مخلوق تھی جن پر ہاتھ اٹھانا ہم نے ابتداً ایک بزدلانہ حرکت تصور کیا تھا۔

چاہتے ہو خوبروؤں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے

لیکن معیارِ فکر کی اس تبدیلی کی انتہا دیکھئے کہ جب ہم اپنی جائے قیام پر پہنچے تو ایک عدد کبوتر اور ڈیڑھ عدد تلیروں کے سوا ہمارے تھیلوں میں اگر کچھ تھا تو اللہ کے نام کے سوابیر ہی بیر تھے چنانچہ شام کے ملگجے اندھیروں میں اپنے باورچی کا سامنا ہوا تو نہ صرف یہ کہ اس مردِ طویل قامت کی نگہ میں ہمیں زچ ہونا پڑا بلکہ یہی رسوائی ہمیں اپنے اپنے معدوں کے سامنے بھی اٹھانا پڑی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب: تُو اور آرائش خمِ کا کل

 

ہم نے بدلنے کو سکول تو بدل لیا، اور سنبھلنے کو بہت کچھ سنبھل بھی گئے ہمارے شب و روز میں کوئی نمایاں فرق نہ آنے پایا۔ اس لئے کہ ایک تو اپنی حالیہ سروس کے متوازی کالج کی ڈر میں موزوں ہونے کی کوشش میں تھے۔ دوسرا موجودہ ماحول کا کوئی گوشہ بھی اب ہم سے چھپا نہ تھا سکول جانا… پہلے دعا میں شامل ہونا …… پھر پی ٹی شو کی مشقوں میں گارڈ آف آنر سے کسی قدر مختلف انداز میں مصروفِ تربیت طلباء کی حرکات و سکنات دیکھنا … پھر یکے بعد دیگرے کلاسوں میں گھسے جانا۔ تا آنکہ تفریح کا وقفہ آنے پر اساتذہ کی منڈلی میں جا بیٹھا، سالانہ ترقیوں ، اتفاقیہ چھٹیوں ، اے ڈی آئی حضرات کے عشووں ، غمزوں حتیٰ کہ ان کے روز مرہ معمولات کو موضوع گفتگو بنانا … گاہ گاہ گفتگو کا رخ ڈی آئی کی ذاتِ با برکات کی جانب پھیرنا، کلرکوں … خصوصاً اے ڈی آئی آفس کے کلرکوں کی کج ادائیوں پر تبادلہ خیال کرنا … اور اپنی اصل ملازمت کے علاوہ … گائیں بچھڑے پالنے دانے بھوسے چکانے اور انڈوں ، مرغیوں کی خرید و فروخت کی زیر بحث باریکیوں جیسے ذیلی مشاغل پر باہم مصوری کرنا وغیرہ ایسے معمولات تھے جن کے اب ہم قریب قریب عادی ہو چکے تھے اور جن کا اعادہ اب اپنے اندر ہمارے لئے ہمارے لئے زیادہ بورنگ وہ وقفہ ہوتا جسے محکمانہ جسے اصطلاح میں تفریح کا وقفہ کہا جاتا ہے۔ اس وقفے کو … کہ نہایت ضروری بھی تھا خوشگوار بنانے کے لئے ہم نے اس دوران میں باہمی اشتراک سے چائے کا اہتمام کرنا چاہا تو یہ اہتمام ہونے کو تو بہت جلد ہو گیا لیکن جتنا جلدی ہوا اُتنا ہی تیزی سے اس لئے بگڑ بھی گیا کہ سٹاف کا کچھ حصہ نوجوان اور بے فکرے برخور داروں پر مشتمل تھا جبکہ کچھ حصے میں بزرگ سرپرست اور صاحب اولاد قسم کے لوگ شامل تھے جس سے حفظ مراتب کی فضا کو نقصان پہنچتا دیکھ کر نوجوان طبقے نے چائے کے اس پروگرام سے چائے کی بجائے دودھ پتّی پینے کا رعب گانٹھ کر علٰیحدگی اختیار کر لی اور ایسا کرنے سے سلیکشن گریڈ ریٹائرمنٹ کے آداب اور بعد از ریٹائرمنٹ کے منصوبوں جیسی گفتگو سے بھی کچھ کچھ نجات پا لی اور یہ بھی ہوا کہ گاہ گاہ بیت بازی زیر لب ماہیا سرائی یا کسیقدر بالغانہ لطیفوں کے تبادلے کے مواقع بھی فراہم ہونے لگے۔ لیکن اس علیحٰدگی سے ؎

جو وسوسہ تمہیں اپنے کہے سنے پر ہے

اثر اسی کا ہمارے بھی ناطقے پر ہے

کچھ کچھ منفی نتائج بھی ساتھ ساتھ برآمد ہوتے گئے یہاں تک کہ نہایت خفیف حرکات و سکنات مثلاًکلاس روم میں اکڑوں بیٹھنے، اونچی آواز میں چھنکنے، خوشبو لگا کر سکول آنے اور اسی قبیل کی کچھ اور کج ادائیوں پر بھی نوجوانوں کی اس منڈلی کی باقاعدہ جواب طلبیاں ہونے لگیں اور وجہ اس ساری این واں کی ایک ٹیکنیکل خرابی تھی جو انتظامیہ کی مشینری میں مستقل طور پر داخل ہو گئی تھی، کہ سکول کے اصل ہیڈ ماسٹر … اصل ہیڈ ماسٹر نہ تھے،

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

اصل ہیڈ ماسٹر اس لئے نخالص تھے کہ سکول کے سینئر موسٹ ممبر نے ان کے حق میں … اپنے حق سربراہی سے دستبرداری کا اعلان کسی خفیہ سمجھوتے کے تحت کر رکھا تھا اور موصوف اگر محض ٹیچر ہوتے تو اصل ہیڈ ماسٹر صاحب اُن سے آنکھیں پھیر بھی لیتے کہ اس طرح کی اکثر مثالیں مرتب ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن فتور صرف یہی تھا کہ مدرسے کی استادیِ عظمیٰ سے دستبردار ہونے والے صاحب شعبۂ قضا و قدر کے اہم نمائندے بھی تھے یعنی بیک وقت اپنے سکول کے سینئر موسٹ ممبر آف دی سٹاف بھی تھے اور اے ڈی آئی کے کلرک بھی۔

ہر چند ان کا حلقۂ اختیار وہ نہ تھا جس میں ہم لوگ بطور ادنیٰ ماتحت کے کام کر رہے تھے، کہ ان کا تعلق ان اے ڈی آئی صاحب سے تھا جنہیں ہم اپنے محکمے کے ایک بردبار افسر سمجھتے تھے اور جن سے ہمارے سفارتی تعلقات… پہاڑ اور گلہری… کی طرح بڑے خوشگوار تھے۔ تاہم اپنے حلقے کا افسرمعائن بھی ان کی دسترس سے باہر نہ تھا، جس کی شہ پر وہ نہ صرف یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب کو اپنا معمول بنائے رکھتے۔ بلکہ سٹاف بھر کو اپنی…… ود آؤٹ سائیلینسر آوا… کے رُعب میں لانے کے بالطبع خواہشمند رہتے۔ جس کا آسان اور بے ضر ر ساحل انہوں نے یہی نکال رکھا تھا، جس کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ہوا ہے۔

ہماری منڈلی شرپسندی سے ہزار دور سہی پھر بھی ہیڈماسٹری کی شا ملات کے دونوں وارثوں کے حلقہ عتاب میں آ چکی تھی لہذا اس کا ایک ایک فرد اپنی اپنی جگہ پریشان سا رہنے لگا۔ ان اصحاب میں سے ایک صاحب ایسے بھی تھے جن کا شغل باوجود اس کے کہ آجکل کی طرح ان دنوں تبادلہ وجہکسب زر نہ تھا (کہ سال میں دوچار بار افسران بالا سے ساز باز کر کے دوچار مقالات پر تبادلہ کرایا، اور دو تین ہزار روپوں کے مالک بن گئے ) تبادلے کرانا اور مسلسل تبادلے کرانا تھا اور تبادلے بھی وہ جو اسیران فتنہ پسند ایک جیل سے دوسری جیل میں کراتے ہیں ، اسے اتفاق کہئیےیا خوبی قسمت کہ یہ حضرت ہمارے ساتھ سٹیشن نمبر ایک پر بھی کچھ عرصہ تک کام کر چکے تھے، اور دیگر کارہائے نمایاں کے علاوہ ایک کارنامہ انہوں نے یہ کیا تھا کہ سکول اکاؤنٹس میں گڑبڑ یا کسی اور سلسلے میں تفتیش پر آئے ہوئے اے ڈی آئی صاحب کی موجودگی میں بکمال دلجمعی اپنے ایک رفیقِ کار کے سر پر جوتے یا شاید لاٹھیاں برسانا شروع کر دی تھیں ، جس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ اے ڈی آئی صاحب اپنی جوتیاں وہیں چھوڑ کر چلتی ٹرین میں جا گھسے اور عازم سفر واپس ہو گئے۔

ان حضرات کے کچھ اوصاف کا موجودہ سٹاف کے کچھ ارکان کو بھی علم تو تھا کہ……

میں اسے شُہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہُوں

مُجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے

خاطر غزنوی

لیکن ذرا کم کم…… چنانچہ پہلے تو بزرگوں کی منڈلی نے بھی انہیں جیتنے کی ایک ناکام سی کوشش کی مگر جب وہ سراسر اپنی طبعی عمر کے ساتھیوں میں ضم نظر آئے تو ان سے بھی وہی سلوک روا رکھا جانے لگا جو ہم ایروں غیروں سے کیا جا رہا تھا، اس سلوک کے وہ نہ تو مستحق تھے کہ سکول کے چوتھے سینئر ممبر تھے۔ اور نہ متحمل کہ طبیعت نہایت عاجلانہ رکھتے تھے۔ لہذا جب فریقین کی کھینچا تانی بڑھی تو ایک دن ایسا بھی آیا جو ہمارے شیر کی انتہائی مسرتوں کا دن تھا۔

ہو یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب کو خُدا جانے کس ناگہانی مصروفیت کے سبب ہماری وہاں سال بھر کی موجودگی کے دوران میں پہلی بار رُخصت اتفاقیہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ ایک نہیں اکٹھی تین چار دنوں کی چھٹی پر چلے گئے سکول کے اصل سینئر استاد ویسے ہی اپنی مرضی سے ڈیوٹی پر آیا کرتے تھے یعنی یہ کہ ہفتے بھر میں جمعۃ المبارک کے دن سکول آ جاتے، شاید اس لئے کہ

ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی

یہ بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں (عدم)

اور اتفاق یہ تھا کہ ان تین دنوں میں جمعہ ہرگز نہیں پڑتا تھا اور وہ جو تیسرے نمبر تھے، خیر سے پہلے ہی ہفتہ بھر کی چھٹی پر تھے، چنانچہ حالات کے یکسر پلٹا کھانے سے جو نازک صورت حال پیدا ہوئی اور انتظامیہ کے خیال میں سکول کی عنانِ اختیار کا بچّہ سّقہ کے ہاتھ میں آ جانا تھا۔ لیکن امر واقعہ یہ تھا کہ یہ بچّہ سّقہ کچھ زیادہ ہی بالغ النظر بھی تھا اور ترقی پسند بھی…… اس نے عنان اختیار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا، وہ انتہائی غیر روایتی انداز کا تھا کہ سکول کے اصل اور پس پردہ ہیڈماسٹر صاحب کے حاضری کے خانے میں بدست خود سرخ سیاہی سینہ صرف لکیر کھینچی بلکہ لفظ غیر حاضر کا اندراج بھی کر دیا۔

ان کے دورِ اقتدار کا دوسرا دن طلوع ہوا تو انہوں نے گزشتہ کار روائی کا پھر اعادہ کر دیا۔ حتیٰ کہ تیسرے دن بھی بوقت نیم چاشت وہی کچھ کر ڈالا جو پچھلے دو روز سے کرتے آ رہے تھے۔ ہمیں ان کی اس کار روائی کا بوساطت رجسٹر معلمین علم تو تھا لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ کیا کچھ کر گزرنے والے ہیں۔

تا ہم اُن کی پسِ لب فوارے کی طرح اُبلتی ہنستی سے یہ شک ضرور ابھرنے لگا کہ ہو نہ ہو کچھ نہ کچھ ہونے والا ضرور ہے۔

تیسرا دن زوال پذیر ہونے کو آیا، تو سکول کے روح رواں معاً اپنے دھاگے والی عینک، بھیں گے پا ئنچوں والی شلوار( کہ اُن کی شلوار کا داہنا پائنچہ ہمیشہ اپنی ہم عمر سائیکل پر سوار ہونے سے پہلے ان کے گھٹنوں تک اُٹھتا اور واپسی تک اسی حالت سفر میں مبتلا رہتا) بوسیدہ سلیمانی ٹوپی جس کے ان کا وجود تو دیکھنے والوں کو نظر آتا رہتا لیکن کسی قدر روغنی اور بالوں کے ہمرنگ ہونے کی وجہ سے خود نظر نہیں آتی تھی اور اپنے گنتی کے دو چار باقی ماندہ دانتوں اور ان دانتوں میں لعابِ دہن میں شرابور رُک رُک کر پھوٹتی ہنسی سمیت سکول کی جانب بڑھتے دکھائی دئے۔

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

اور آتے ہی اپنی کلاہ اپنے سر پر کج کرنے کی بجائے ہیڈماسٹر کے دفتر میں ٹکائی، خود سکول بھر کا راؤنڈ لگایا، عمارت کو دیکھا، صحن کو ٹھونکا بجایا اور جب ہر شے کو اپنی اپنی جگہ پر دُرست پایا تو ایک بچّے سیکرسی منگوائی اور صحن میں

آ پچھلی کلفتوں کو ذرا بھول جائیں ہم

کے مصداق نہ صرف براجمان ہوئے بلکہ بیٹھتے ہی آرائش جمال میں بھی جُٹ گئے کہ ہفتے بھر کا یہ شغل محبوبی انہوں نے اسی ایک دن پہ اٹھا رکھا ہوتا تھا اور تفصیل اس شغل کی یہ ہے کہ موصوف چھٹانک بھر تیل سرسوں خالص منگواتے، اسیالٹ پلٹ کر دیکھتے، سونگھتے، اپنی مونچھوں پر لگاتے اور پھر اپنے سہاگے جیسے پیاسے بالوں میں بذریعہ مالش اسے اتروا لیتے کہ آئندہ چھ دنوں تک کے لئے انہیں اس طرح کا کوئی کھڑاگ پالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی،

تُو اور آرائشِ خمِ کا کل

’’ہم‘‘ اور اندیشہ ہائے دور و دراز

موصوف کو تن تنہا محوِ آرائش دیکھ کر تفریح کا گھنٹہ بجنے کے ساتھ ہی ہمارے شیر نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور اپنی بے چینیوں اور اندیشہ ہائے دور و دراز کو فرد کرنے کے لئے ان کی بغل میں جا بیٹھے اسی دوران میں ہماری مخصوص چائے آئی جس کی چند چُپکیاں انہوں نے بھی از راہ سرپرستی زیرِ حلقوم کیں ، ساتھ ہی اِدھر اُدھر کی باتیں بھی ہوتی رہیں ، لیکن اس روز کے شہنشاہ کے پسِ لب کی ہنسی کا فوارہ ان کے کنج ہائے لب سے کُچھیوں پھوٹنے لگا کہ گفتہ فیض جیسے دو مقابل مناظر میں بٹ گیا۔

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہوا آغاز

کبھی تو شب سرکا کل سے مشک بار چلے

ہنسی کا فوارہ زیادہ دیر دبا نہ سکنے کی وجہ سے انہوں نے محض خیریت پُرسی کے سے انداز میں موصوف سے جب یہ پوچھا کہ………

’’پچھلے دو تین دنوں سے آپ سکول نہیں آئے تھے ‘‘…… تو جیسے کورے چُونے پر پانی کا چھینٹا جا پڑا۔

وہ اپنی کرسی سے نہ صرف یہ کہ سپندوار اُچھلے بلکہ اپنے حریف پر…… اپنی صدائے بے بارود کے گولے ایک ایک کر کے برسانے شروع کر دئیے۔

’’ تو کون ہوتا ہے مُجھ سے پوچھنے والا، میں سکول آؤں یا نہ آؤں ؟ تجھے اس سے کیا غرض، تو اپنی اوقات پہچان اور اپنی حیثیت پر نظر رکھ… یہ اور اس قبیل کے جانے کتنے ہی جُملے تھے جو اُن کے دندان مبارک کی جھِیتوں سے مارٹر توپوں کے دہانے کی طرح پھوٹنے لگے اور پھوٹتے ہی چلے گئے۔

ادھر ہمارے شیر تھے کہ خیر سے واسے ہی عاجلانہ مزاج رکھتے تھے تُو تُو مَیں مَیں کے اس مرحلے پر زبان سے تو انہوں نے ایک آدھ جملہ ہی نکالا ہو گا لیکن اپنی بھرپور جسامت کو کام میں لاتے ہوئے کسی باکسر کو بالفعل خراجِ عقیدت پیش کرنا شروع کیا تو ہمیں تو یوں لگا جیسے وہ جن کی جان میں سکول کی جان تھی، سکول کے آنگن ہی میں اپنے مزار کی کھدائی کرنے لگے ہیں۔

یا اتنا سخت جان کر تلوار بے اثر

یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا (شکیب جلالی)

ہم لوگوں نے اس ناخوشگوار واقعہ کو طُول نہ پکڑنے دیا لیکن جو کچھ ہو چکا تھا اور ہمارے شیر کی تنہا منصوبہ بندی سے ہوا تھا۔ اس کے متعلق وہ خاموش رہنے والے نہیں تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے واقعہ کی مکمل رپورٹ آناً فاناً تیار کی اور ضلعی و تحصیل افسران کو اپنے اس کارنامے کی روداد ارسال بھی کر دی؎

ایں کار از تو آمد مرداں چنیں کنند

یہ واقعہ ہونے کو تو ہو گیا… لیکن جہاں اس نے سکول کی فضا کو کچھ دنوں تک کے لئے خاصا پرسکون کر دیا ہاں ہمیں بڑی مشکل میں ڈال دیا، اور وہ مشکل تھی ہمارے اپنے دوست اور کرم فرما اے ڈی آئی سے واقعہ مذکور کے بعد ہماری اپنی ملاقات جن کا دفتر مضروب کے دم قلم سے آباد تھا، خیر ہم نے ان سے ملاقات کی اور انہیں اصل صورتِ حال سے آگاہ بھی کیا، تاہم ایسے حالات میں دل کا لکھا ماتھے پر آ بھی جائے تو اسے پڑھنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا۔ ہم اس ساری کاوش کے باوجود اُن کے ذہن سے اس وہم کو دور نہ کر سکے کہ یہ زیادتی محض ہمارے اس شیر ہی کی نہ تھی بجز اس کے کہ اس کار روائی کو اب بخیر و خوبی دبانے میں ان کے معاون ثابت ہوتے۔ سو ہمیں اخلاقاً یہ سارا کُچھ کرنا پڑا۔ اور خُدا جانے یہ سارا کُچھ ہو کیسے گیا۔ اس لئے کہ واقعہ کے ہیرو نے واقعہ سے پہلے اور بعد میں کسی کی تیاری بطرز استادانہ جس اندازسے کر رکھی تھی، مصالحتی مہم میں اس کی باریکیاں کھلیں تو اس کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ حضرتِ کلرک تو محض اس عمارت کی کھڑکی تھے جس میں ہمارے شیر نے نقب لگائی تھی، واقعات و حادثات کا سلسلہ تو ذرا آگے سے شروع ہونا تھا اور خیر گزری کہ یہ سلسلہ دراز نہ ہونے پایا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ہمارے متلون مزاج افسرِ اعلیٰ یعنی اے ڈی آئی حلقہ جب اس معاملے کو دفنانے کے لئے تشریف لائے تو اُن کی طبیعت میں ہمارے ہاسٹل کے باورچی تک کو بردباری کے آثار واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔

ادھر کچھ دنوں کے بعد… یونیورسٹی والوں نے بی ایڈ کے نتیجے کا اعلان کر دیا۔ جس کا ناگہانی نتیجہ یہ نکلا کہ ضلع بھر کے عارضی انگریزی ماسٹروں کو کسی اغوا شُدہ طّیارے کے مسافروں کی طرح یکبارگی رہا کر دیا گیا، جن میں ہمارا نام سرِ فہرست تھا۔

موسم کی روداد رقم کرنے کے لئے

شاخیں اپنے ہاتھ کٹاتی رہتی ہیں

چنانچہ ہم نے اپنا سازورخت سنبھالا، اس بکھیڑے سے نجات پائی… تو پہلے تو انتقاماً بی ایڈ میں داخلے کا ارادہ کیا لیکن دوسری جانب اہلِ خانہ کی طبیعت مائل بہ کرم دیکھی… تو ان کا کہا نہ ٹھکراتے ہوئے اس عارضی تعلق کو مستقل تعلق میں بدلنے کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کر ڈالی، جو کچھ ہی روز پہلے منگنی کی صُورت میں استوار ہوا تھا۔

ہے کہاں تمّنا کا دُوسرا قَدم یا رب!

میں نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا، پایا

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی ٹیکسٹ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید