FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جا دیکھا تیرا امریکہ

 

 

                گل بخشالوی

 

 

 

قلب ِبینا کی ضرورت ہے …

 

15فروری 2009ء کو امریکہ میں میرے قیام کے دس سال پورے ہو جائیں گے۔ میں اپنی طرح امریکہ میں مقیم دوسرے لاکھوں غیر ملکیوں کے ساتھ ایمگریشن قوانین میں نسیم سحر کا منتظر ہوں بدقسمتی سے دنیا کے کسی بھی ملک کی زمینی صورتحال میں کوئی غیر معمولی حادثہ پیش آتا ہے خاص کر اسلامی ممالک میں تو براہِ راست امریکہ میں مقیم پُر امن مزدور پیشہ طبقے پر عذاب نازل ہو جاتا ہے اور اُن کے لیے ایمگریشن کے قوانین مزید سخت کر دئیے جاتے ہیں۔ میں گذشتہ دس سال سے فیصل آباد کے چوہدری محمد امجد کے کنوینی اینٹ سٹور پر رات کو کام کر رہا ہوں اس لیے صرف اپنی سطح تک کے امریکی شہریوں سے میرا براہِ راست رابطہ ہوتا ہے اُن کو انتہائی قریب سے دیکھتا ہوں اور اُن کی ذہنی شادابی محسوس کرتا ہوں۔ امریکہ میں اپنے قیام کے اس طویل مدت کے دوران مجھے تین صدارتی انتخابات میں امریکی عوام کا جذبہ حب الوطنی دیکھنے کو ملا۔ خدائے واحد کی دنیا میں دنیا کی سب سے بڑی مملکت اور طاقتور ملک میں انتخابی مہم کے دوران نشر و اشاعت اور عوام کا قابل تحسین کردار دیکھ کر سوچتا ہوں اے کاش!ہم خود کو دنیا کی مہذب قوم کہلانے والے کم سے کم امریکی عوام کے کردار ہی سے سبق حاصل کر لیں اس لیے کہ ہم خودی میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ مالک ارض وسما تک سے بے پرواہ ہو گئے ہیں۔ سیلاب آتا ہے تو ہم طوفانِ نوح کو بھول جاتے ہیں، زلزلے آتے ہیں تو سجدہ توبہ کے بجائے زلزلہ زدگان کے نام پر ہم چندہ مہم کی آڑ میں دوکانداری شروع کر دیتے ہیں اور دنیائے عالم کے آگے جھولی پھیلا دیتے ہیں جہاں تک زمینی صورتحال میں سیاست کا تعلق ہے تو میری نظر میں یہ جنگ صرف ذاتی مفادات اور دادا گیری کی جنگ ہے اُسے میں ذاتی طور پر کسی بھی صورت میں مذہبی عظمت اور بقاء کی جنگ تسلیم نہیں کرتا کیونکہ میں اُس نبیﷺ کا غلام ہوں جس نے فتحِ مکہ کے موقع پر فرمایا :۔

’’خدا کے گھر میں پناہ لینے والا ہر شخص چاہے وہ کسی بھی مذہب اور فرقے کا پیروکار ہو، محفوظ رہے گا‘‘

جبکہ آج مذہب کی آڑ میں دنیا کو گمراہ کرنے کی سازش کرنے والے مساجد اور امام بارگاہ تو کیا جنازے تک میں شریک معصوم لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔

امریکی انتخابات میں میری سطح تک کی عوام نے بغیر کسی رنگ ونسل میں تفریق کے انتہائی قومی جذبے میں لازوال کردار ادا کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور خوش قسمتی اس قوم کی یہ ہے کہ ان کے فیصلے پر سیاسی قیادت سرِتسلیم خم کر دیتی ہے ہارنے والے اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف عوامی فیصلے کو قبول کرتے ہیں بلکہ کامیاب اُمیدوار کو انتخابی مہم کے دوران تمام تر اختلافات کو بھُلا کر قومی وقار اور عوام کے اجتماعی فیصلے پر دلی مبارکباد دیتے ہیں اور منتخب حکومت ملکی حالات کے اُتار چڑھاؤ کے پیش نظر جو بھی اقدامات کرتی ہے عوام قومی مفاد میں ذات پر بوجھ کے باوجود کھلے دل سے تعاون کرتے ہیں وہ نہ تو احتجاج کرتے ہیں، نہ قومی املاک کو آگ لگاتے ہیں، نہ غریب محنت کشوں کی سائیکلوں، موٹرسائیکلوں اور مسافر بسوں کو آگ لگاتے ہیں، نہ ہڑتال کر کے بازار بند کرواتے ہیں، نہ سڑکیں بلاک کر کے پرامن شہریوں کا معاشی قتل عام کرتے ہیں ایسے غیر شعوری اقدامات کا الزام کچھ عرصہ قبل مزدور پیشہ بھوکے ننگے غریب لوگوں پر لگایا جاتا رہا ہے کہ یہ لوگ ان پڑھ جاہل ہیں لیکن اب یہ اعزاز کالے کوٹوں والے طبقے کو بھی حاصل ہو گیا ہے ایسے غیر فطری احتجاج میں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کی نسبت علاقائی بلکہ ذاتی حلقے تک محدود سیاسی قائدین سب سے آگے نکل آتے ہیں جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے تو مختلف فرقوں میں تقسیم یہ لوگ سجدہ عبادت کے لیے ایک ساتھ خالق کل کے حضور جھکنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور جب بات اسلام آباد کی ہوتی ہے تو ہاتھوں میں ہاتھ دے دیتے ہیں۔

امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں امریکی عوام نے اپنے شعوری پختگی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف رنگ ونسل کی تفریق کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا بلکہ اپنے اکابر پر دور غلاماں کے وہ دھبے بھی دھو دئیے جنہیں پڑھ کر اور سن کر مستقبل کے چراغوں کی روشنی دھیمی پڑ جاتی تھی لیکن آج کے گورے نوجوانوں کا سر فخر سے بلند ہے اس لیے کہ انہوں نے کل کے غلام کے سرپر قومی سلامتی کا تاج سجادیا ہے انہوں نے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ خدا کی دنیا میں ہر انسان ایک عظیم انسان ہے یہ رنگ ونسل تو صرف قوموں کی پہچان ہیں۔

ایسا ہی ایک انقلاب اکتالیس برس قبل پاکستان کی سرزمین پر آیا تھا ایسی ہی تبدیلی جس کا آج اوباما کے حوالے سے بڑا چرچا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاسی جماعت کا وجود عمل میں آیا تھا۔ ایک باقاعدہ منشور کے ساتھ جس کا نعرہ تھا ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ‘‘یہ سیاسی جماعت PPPتھی جس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت کا وجود عمل میں آیا یہ پہلی سیاسی جماعت تھی جو وفاق کے صوبوں اور آزاد کشمیر میں بھی مقبول ہوئی اس سیاسی جماعت میں لسانی، مذہبی فرقہ اور رنگ ونسل کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ PPPکا قیام ایک ایسے انقلاب کی آمد تھی جس کا وقت آ چکا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے وقت کو گرفت میں لیا اور ملک کی سیاست کا رُخ بدل دیا بالکل اسی طرح باراک حسین اوباما نے امریکی عوام کی طاقت کو انقلاب کا سرچشمہ ثابت کر دیا۔

امریکی انتخابات میں باراک حسین اوباما کی کامیابی پر دنیا بھر کے ممالک کے بھنگڑے میں پاکستان، سعودی عرب اور عرب امارات کے بادشاہ، حکمرانوں کی لُڈی اور دھمال ضرورت سے کچھ زیادہ نمایاں ہے یا تو ان شاہ بادشاہ حکمرانوں کا گریبان نہیں ہے اور اگر ہے تو اُن کی گردن اس قدر اَکڑی ہوئی ہے کہ وہ جھک کر دیکھ نہیں پاتے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ ایک طرف خادمِ حرمین شریفین ہیں تو دوسری طرف دنیائے اسلام کے سردار ایٹمی طاقت پاکستان کے سربراہ جن کے زیرِسایہ آج بھی دورِغلاماں آب وتاب سے موجود ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات میں آج بھی مقامی لوگ شاہ اور غیر مقامی گداہیں اُن کو خارجی کہہ کر بُلایا جاتا ہے اور یہ خارجی اپنے کفیل کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ ریگستان کی تپتی ریت اور جھلستی دھوپ میں مزدور پیشہ خارجیوں کی حالت سولہویں صدی کے دور غلامی سے بھی بدتر ہے۔ کفیل کے زیرسایہ برسوں زندگی کے دکھ جھیلنے والے لوگ بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں ذاتی کاروبار، مکان تو کیا یہ لوگ تو اپنی پہچان سے بھی قاصر ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں سعودی عرب سے بھی بدتر غلامی کا دور ہے۔ خانوں، بلوچی، سرداروں، سندھی وڈیروں اور سرمایہ دار چوہدریوں کے زیر سایہ، موچی، نائی، دھوبی، یہ تیسرے درجے کے شہری اپنے خون پسینے میں نہا کر بھی بھوکے سوتے ہیں اُن کے ننگ دھڑنگ بھوک سے نڈھال معصوم بچے دوائی کے لیے ترستے ہیں، غلامی کی بدترین مثال اور انتہاء اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ یہ لوگ اپنے ملازمین کو کھیتوں اور خشت بھٹوں میں کام کے لیے بیڑیاں لگا کر زندہ رہنے پر مجبور کیے ہوئے ہیں۔ اُن کو آزادی ہے تو صرف ووٹ دینے کی حد تک، اُن بدنصیبوں کی زندگی جھوٹے وعدوں کے گرد گھومتی ہے میدانِ سیاست کے کھلاڑی برسرِاقتدار آ کر قومی معیشت پر قبضہ کر کے وزراء کی فوج بھرتی کر دیتے ہیں اور مزدور ووٹرز اُن کی نظر میں نالے کے گندے کیڑے بن کر رہ جاتے ہیں۔ وہ بے چارے بھوک سے خودکشی اور یہاں تک کہ بچوں کو بھی فروخت کر دینے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔

امریکی قیادت پر اُنگلی اُٹھانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ میں انسان کی پہچان بحیثیت انسان ہے یہاں غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں تک کو شخصی آزادی حاصل ہے وہ بنیادی حقوق سے مالا مال ہیں۔ ذاتی کاروبار، ذاتی مکان، رہن سہن، مذہبی اور معاشرتی زندگی، قومی قانون کے دائرے میں ہر شخص چاہے اُس کا تعلق کسی بھی ملک یا فرقے سے ہو اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزار تا ہے۔ مسلمان اپنے ممالک کی نسبت یہاں خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں کم سے کم امریکہ میں کسی نے بھوک سے مجبور ہو کر خودکشی نہیں کی۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات دنیائے عالم خصوصاً دنیائے اسلام کے علمبرداروں کے لیے مثال ہے۔ باراک حسین اوباما کے لیے میرے جذبات اور احساسات میری نظموں میں موجود ہیں میں کیا چاہتا ہوں ؟وہی جو دنیا چاہتی ہے، امریکی انتخابات اور امریکی عوام کے تاریخی فیصلے پر میرا یہ مختصر مجموعہ ہے اسے پڑھنے کے لیے ایک حساس اور با بصیرت دل کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جب کھاریاں کی سرزمین مجھ پر تنگ کر دی گئی

 

میں اُس وقت اپنے بیٹے شاہد سبحان کے ساتھ دوبئی میں تھا جب میرے ایک عزیز نے فون پر اطلاع دی کہ تمہارے خلاف پروپیگنڈے نے تمہاری کمیٹی کے سلسلے کو خراب کر دیا ہے۔ تمہارے کمیٹی ممبران تذبذب کا شکار ہیں صدر بازار میں ایک خود غرض کمیٹی ممبر لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ بخشالوی نے انگلینڈ میں ہوٹل خرید لیا ہے اب وہ واپس نہیں آئے گا۔ میں نے اپنے عزیز کو بتایا کہ میں اپنے ممبران کو دھوکہ نہیں دے سکتا میں اگر چاہوں تو اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں رُک سکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا اور دوسرے دن ہی میں اپنے بیٹے کے ساتھ دوبئی سے واپس آ گیا۔ مشکوک کمیٹی ممبران نے کئی ایک سوالات کیے لیکن سازش گہری تھی واقعی کمیٹی ممبران کو میرے خلاف کر دیا گیا تھا میں نے تمام کمیٹی ممبران پر مشتمل ایک اہم اجلاس ساجن ہوٹل کھاریاں میں بُلایا جس میں میرے معزز اور قابل احترام دوست موجود تھے جو مجھے ہر حالت میں سازش کی فضا سے نکالنا چاہتے تھے اس اجلاس میں میں نے حاضرین سے اس بحران سے نکلنے کے لیے تعاون کی درخواست کی اور میرے سابقہ کردار کے پیش نظر حاضرین نے ایک نئی کمیٹی ڈال کر مجھ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

ان حاضرین میں ایک فرد ایسا بھی تھا جس نے درپردہ سازش میں اپنے بڑے بھائی کی تواسط سے اہم کردار ادا کیا تھا اس نے نے اپنے اشاروں پر کھیلنے والوں سے کہا ہم بخشالوی کو اُٹھنے دیں گے تو اُٹھے گا اور واقعی اُس نے اپنے گروپ کی مدد سے مجھے اٹھنے نہیں دیا میں بحران میں ڈوبتا چلا گیا اور پھر ایک وقت وہ آیا جب کھاریاں کینٹ میں میرے خلاف ایک اہم اجلاس بُلایا گیا جس میں تقریباً ہاتھ پاؤں باندھ کر مجھے بے بس کر دیا گیا میرے پاسپورٹ تک ضبط کر لیے گئے کہ میں بیرونِ ملک بھاگ نہ جاؤں۔

اس گھناؤنے کھیل میں موقع اُن ممبران کو بھی ملا جو کمیٹیاں لے چکے تھے اور ان کے ذمہ لاکھوں کی ادائیگی تھی مجھے کھاریاں شہر میں اس قدر مجبور کر دیا گیا کہ مسجد میں با جماعت نماز تک پڑھنے سے محروم ہو گیا میرے لیے زندگی کے یہ دن کسی مصیبت سے کم نہیں تھے میں خالی الذہن اور پریشان اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گیا کوئی پوچھنے آتا تو بچے جھوٹ بولتے کہ ابو گھر میں نہیں ہیں۔ دماغ کسی منصوبہ بندی سے خالی اور دل بار بار کچوکے لگاتا کہ زندگی کے اتنے حسین سال ایسے ہی ضائع ہو گئے۔ کھاریاں شہر کے ہر فرد کی زبان پر میرا نام قابل احترام تھا۔ میری ایک پہچان تھی معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں، پریشانی سے رونا بھی نہیں آتا تھا رونا چاہتا بھی تو رو نہیں سکتا تھا اور دل تھا کہ گھر کے اخراجات بچوں کی تعلیم اور زندگی کے لوازمات روٹی روزی کا سوچ سوچ کر ڈوبا جا رہا تھا ایسے لگتا تھے کہ مجھ پر کھاریاں شہر میں روزی کا واحد دروازہ بند کر دیا گیا ہو۔ کھاریاں کی سرزمین مجھ پر تنگ کر دی گئی تھی ہر سواندھیرا ہی اندھیر ادکھائی دے رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے برباد کیا تو اُس شخص نے جو کہہ رہا تھا بخشالوی میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گا آپ نے اپنے اخبار میں میرے اور میرے کاروبار کے لیے جوکردا ر ادا کیا میں کیسے بھول سکتا ہوں اور اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں تھی

ایسے عالم میں میرے صبر واستقامت کے ساتھ میرے حوصلے نے میرا ساتھ دیا میں آنے والے کل سے گھبرایا ضرور تھا لیکن ایمان کی شمع کی روشنی میں اُمید کی کرن چمک رہی تھی میں اپنے پیر و کامل کے در دولت پر حاضر ہوا پیر کامل زندہ پیر نے رب کریم کے حضور میرے لیے دعا کی اور 15دن کے اندر اندر ناروے، انگلینڈ اور امریکہ کے ویزے لگ گئے میں نے سجدہ شکر کے لیے عمرے کا ویزہ لیا اور اپنے بچوں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے وطن عزیز سے پرواز کر گیا۔

میرے جانے کے بعد میرے بچوں پر کیا گزری وہ الگ داستان ہے لیکن میرے بچوں نے کھاریاں شہر ہی میں قدم جمائے رکھے مسائل کا سامنا کیا میرے خلاف میرے جانے کے بعد جو پروپیگنڈہ ہوا اہلیانِ کھاریاں بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن آج12سال بعد امریکہ جیسے ملک سے جہاں میری ماہانہ تنخواہ 32,000امریکی ڈالر تھی امریکہ کو خیر آباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں میں موجود ہوں میں نے اپنے سر سے وہ بوجھ بفضل تعالیٰ اُتار دیا ہے جو ہجرت کے وقت لے کر گیا تھا جو تھوڑا بہت ہے اُس کی ادائیگی کے لیے حاضر کھاریاں ہوں جن لوگوں سے اپنی لاکھوں کی رقم وصول کرنی ہے اُن سے عنقریب رابطہ کروں گا

آج یہ تحریر اس لیے لکھنے کی ضرورت پیش آئی کہ میں اللہ تعالیٰ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کر رہا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایسی صورت حال پیدا کر کے بظاہر تو ایسی درد ناک کیفیت پیدا کر دی تھیں جس نے میرے ہوش حواس ہی چھین لیے تھے مگر آج میں نے جانا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو اُس کے بدلے ایک نیا راستہ بھی کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرے خاندان کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔ پنجابی کا محاورہ ہے ’’ہِک در بند تے سودر کھلے ‘‘  اس لیے سوچتا ہوں کہ جب کبھی کسی ناکامی کاسامنا ہو جائے تو اُسے اپنا اختتام نہیں سمجھ لینا چاہیے بس ذرا ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچنا چاہیے اور ایک نئی ابتداء کرنی چاہیے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مگر عجیب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجیب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور تمہارے لیے مضر ہو اور ان کو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ سورۃ البقرہ آیت 216

10فروری 1998ء کو امریکہ کے وقت کے مطابق رات 8بجے نیویارک کے JFKائیر پورٹ پر اُس امریکہ میں اُترا جس کو ہم سیاسی جلسوں اور مذہبی ریلیوں میں عوامی قائدین کی خواہشات پر گالیاں دیتے ہیں نعرے لگاتے ہیں امریکی کتے ہائے ہائے۔ جہاز سے اُتر کر ایک عالیشان ائیر پورٹ کی عمارتوں میں روشن بتیوں کو دیکھتا ہوا کاغذی کاروائی کے لیے ایمگریشن حکام سے ملاقات کے لیے قطار میں لگ گیا میرے ساتھ کئی ایک دوسرے میرے ہم وطن بھی تھے ہم قطار میں لگے تہذیب کا وہ مذہبی مظاہرہ کرتے نظر آ رہے تھے جو عام طور پر ہم اپنے ملک میں نہیں کرتے۔ اپنی باری پر صاحب ایمگریشن کے سامنے آیا تو اُس کی انگریزی میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اور نہ ہی میری گلابی انگریزی وہ سمجھ پا رہا تھا لیکن اُس کے چہرے پر وہ جلال نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ جب اُس کا چہرہ ضرورت سے کچھ زیادہ سُرخ ہو گیا تو میرے ساتھ میرے بعد کی باری والے وطن دوست نے ہم دونوں کی مشکل حل کر دی اور پھر چند ہی لمحوں میں مجھے امریکہ میں باقاعدہ داخلے کی اجازت ملی اور رازقِ کل نے مقدر میں جو رزق امریکہ میں لکھا تھا کھانے کی سندملی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا کمال ہے میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں امریکہ آؤں گا اس لیے کہ ہم جیسوں کے لیے امریکہ آنا ’’خالہ جی‘‘ کا گھر نہیں بہت مشکل ہوتا ہے لاکھوں روپے دینے پڑتے ہیں ایجنٹوں کو دھکے کھانے پڑتے ہیں لیکن مجھ پر اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نوازی تھی اس لیے کہ اللہ خوب جانتا ہے میرے ساتھ کھاریاں میں میرے جانِ عزیز دوستوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔  آستین کے سانپ نکلے۔ انہوں نے اعتماد میں اس خوبصورتی سے ڈسا کہ ہوش ٹھکانے آ گئے راہ فرار تک محدود کر دی لیکن اپنی خود غرضی میں ڈوبے ان دوست نما دشمنوں نے یہ نہیں سوچا کہ رازق وہ جس نے پیدا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ آنے سے قبل میرے مالی حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ قرض خواہوں کے خوف سے گھر سے باہر تو کیا اپنے گھر میں اپنوں سے چھپا رہتا تھا۔ بیوی بچوں کو جھوٹ بولنے پر مجبور کر دیا تھا ۔بچے بے روزگار تھے جو روزگار تھا اُس سے با عزت دو وقت کی روٹی ہی ملنا نصیب تھی یہ میری زندگی کا دوسرا وہ دور تھا جب میں آسمان کی بلندیوں سے منہ کے بل زمین پر گرا تھا۔ اپنوں نے ساتھ چھوڑ دیا تھا دوست دور ہونے لگے تھے اس لیے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا تھا سوائے میرے خدا کے میرے ایمان اور یقین کے میری ماں اور میرے پیر و مرشد کی دعا کے، یہی میرا وہ سرمایہ تھا جس پر میں قابض تھا اسی سرمائے نے میرا حوصلہ بلند رکھا اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں میرے خاندان کے لیے مسرتیں میرے مقدر میں لکھی تھیں۔ وقتی طور پر مالی بحران میرا امتحان تھا اور اس امتحان میں میرے رب نے میرے صبر کو اس خوبصورتی سے نوازا جس کا میں تو کیا میرے خاندان کا کوئی فرد تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔

میں نے اپنے پیر و مرشد حضرت قبلہ عالم زندہ پیر کے حضور حاضری دی آپ نے میرے لیے رب العزت کے حضور دعا مانگی، دعا قبول ہوئی اور صرف پندرہ دن کے دورانیے میں اُن تین ملکوں کے ویزے لگے جن کے لیے لوگوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ناروے، انگلینڈ اور امریکہ تینوں ممالک کے ویزے صرف ویزہ فیس کے عوض لگے رب العزت کی اس کرم نوازی پر سجدۂ شکر کے لیے عمرے کا ویزہ لیا اور پاکستان میں اپنوں سے بھی چھپتا ہوا 12دسمبر1998ء کو پشاور ائیر پورٹ سے ہجرت کر گیا سعودی عرب میں ہجرت کا پہلا دن خانہ کعبہ میں سجدۂ شکر میں نصیب ہوا طواف کعبہ اور سعادت عمرہ کے بعد سرور کائنات کے حضور روضۂرسولؐ پر حاضری دی اور اپنے خاندان کے تابناک مستقبل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر دعا مانگی۔ اے اللہ رب العزت!تو دلوں کا حال جانتا ہے میں کیا تھا م، کیا ہوا اور کیا چاہتا ہوں تو جانتا ہے۔ اے اللہ !مجھ پر کرم کر اور میری زندگی کا آخری عشرہ میرے اُن بد خواہوں کے لیے مثال بنا دے جو اپنی خودی میں تیری کرم نوازی کو بھول گئے ہیں۔ میرے سرپر جو میری ذمہ داریوں کا بوجھ ہے احسن طریقے سے اُتار دے، میرے خاندان کا مستقبل روشن کر میرے بچوں کو زندگی کی رعنائیوں سے سرفراز کر دے ۔

19 دسمبرکو سعودی عرب میں پہلا روزہ تھا۔ روزہ رکھا اور بیت اللہ شریف میں الوداعی طواف اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد جدہ جانے کی تیاری کرنے لگا مکہ مکرمہ میں پہلا روزہ اور گزشتہ رات کو نماز تراویح میں بڑا سرور تھا نماز تراویح کے ایمان افروز منظر میں مذہبی بہار کی خوشبو سے وجود معطر ہوا میرا سفر میری مجبوری تھی خواہش تو تھی کہ پہلا روزہ خانہ کعبہ ہی میں افطار کروں لیکن اپنی خواہش پر صبر کا پتھر رکھ کر جدہ چلا آیا۔ جدہ میں اپنے سسرالی گاؤں کے محمد صدیق اور عبدالوہاب کے ساتھ روزہ افطار کیا اور نماز عشاء کے بعد مجھے میرے عزیز جدہ ائیر پورٹ لے آئے جدہ سے برطانیہ کے لیے پرواز کا وقت صبح 2بجکر 35منٹ پر تھا۔

بورڈنگ کارڈ لے کر جدہ ائیر پورٹ کی انتظار گاہ میں سوچتا رہا کہ آنے والا کل کیسا ہو گا۔ غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن انسان باوجود جاننے کے بھی نہیں جانتا کہ ہر مشکل کا حل رب العزت کے کرم میں ہے انتظار گاہ میں نظر دوڑائی مسافروں میں واحد مسافر میں تھا جو پاکستان کے قومی لباس میں تھا میرے کوٹ پر پاکستانی جھنڈے کا بیچ میری پاکستانیت کی پہچان تھی۔ 2بجکر 35منٹ پر جہاز جدہ ائیر پورٹ سے جرمنی کے لیے روانہ ہو گیا فرنیکفرٹ جہاز کا پہلا پڑاؤ تھا۔ 20دسمبرکو اپنی گھڑی کے مطابق 8بج کر 3منٹ پر میں تمام دوسرے مسافروں کے ساتھ ائیر پورٹ لاؤنج میں آیا۔ فرنیکفرٹ ائیر پورٹ کی بھول بھلیوں اور الیکٹرونک ٹرین میں گھومتا ہوا جب گیٹ نمبرA56پر ٹرین سے اُترا تو سامنے گھڑی میں صبح کے 7بجے تھے اور باہر مکمل طور پر اندھیرا تھا۔ سعودی عرب اور جرمنی کی گھڑیوں میں 2گھنٹے کا فرق ہے۔ برطانیہ کے لیے پرواز کے انتظار میں انتظار گاہ میں بیٹھا دیکھ رہا تھا ایک دن قبل دیار مصطفیٰؐ میں مذہبی حسن دیکھتا رہا اور آج جس طرف دیکھ رہا ہوں نسوانیت لباس سے بے نیاز جھانکتی نظر آ رہی ہے۔ ماحول میں شراب کی مہک اور سگریٹ کے دھوئیں کے بادل ہیں میں اپنے قومی لباس میں دوسروں سے کچھ مختلف نظر آ رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ انتظار گاہ میں بیٹھا ہوا میں دوسروں کی نسبت کوئی نرالی مخلوق لگ رہا ہوں۔

جرمنی کے وقت کے مطابق صبح 10بج کر 15منٹ پر بورڈنگ شروع ہوئی۔ فرنیکفرٹ جرمنی سے مانچسٹرلندن کے لیے فلائٹ کے کپتان محمد انعام حسین تھے۔ ساڑھے 10بجے فرنیکفرٹ سے پرواز ہوئی اور کوئی ایک گھنٹہ فضاؤں میں رہنے کے بعد جہاز برطانیہ کے مانچسٹر ائیر پورٹ پر اُتر گیا اس ائیر پورٹ پر میں پہلی مرتبہ اُترا تھا۔ ایمگریشن آفیسر کی مادری زبان میری سمجھ سے باہر تھی خاتون تھی فرفر بول رہی تھی میں نے اشارے سے اپنے انداز میں اُسے سمجھایا بی بی بریک پر پاؤں رکھ کر آہستہ آہستہ بولیں تاکہ میں جواب دے سکوں یہاں آ کر ہم پاکستانیوں کو احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم بین الاقوامی زبان انگریزی کو پڑھ لیا کرتے تو ایسی مشکلات سے دوچار نہ ہوتے لیکن پاکستان میں تو ہم گوروں اور گوروں کی زبان سے نفرت کرتے ہیں۔

ایمگریشن خاتون آفیسر میرے انداز تکلم پر مسکرائی اور پھر بڑے پیار سے پیارے بچے کی طرح مجھ سے سوال کیے اور میں نے ہر سوال کا جواب اپنے انداز سے خوب دیا در اصل میرا ٹکٹ انگلینڈ سے واپسی کے لیے OKنہیں تھا وہ پوچھ رہی تھی واپس بھی جاؤ گے یا مستقل طور پر قیام کا ارادہ ہے میں نے کہا پہلے بھی آیا تھا بلکہ دو مرتبہ آیا ہوں اور مختصر وقت گزار کر چلا گیا لیکن اس مرتبہ ارادہ ہے کچھ زیادہ عرصہ قیام کا اس لیے ٹکٹ واپسی کے لیے ہے تو ضرور لیکن کنفرم نہیں ہے خاتون اچھی تھی مان گئی خاتون سے نجات ملی تو دوسرے مسافروں کی نسبت پاکستانی لباس میں دیکھ کر ایمگریشن کے بعد ائیر پورٹ پولیس سارجنٹ نے آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے کہا ہائے !میں نے بھی کیا ہائے !اُس نے بڑے مہذب انداز میں پوچھا کیا آپ پہلی مرتبہ انگلینڈ آئے ہیں۔ آپ کہاں جائیں گے کس کے پاس جائیں گے کیا آپ کو کوئی لینے آیا ہے اگر نہیں تو میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں میں نے کہا شکریہ جناب میں تیسری مرتبہ برطانیہ آیا ہوں مجھے یہاں لینے کوئی نہیں آیا میں بذریعہ بس گلاسگو جاؤں گا۔

ائیر پورٹ سے باہر آیا تو چوہدری جاوید اقبال میرے منتظر تھے ایمگریشن اور پولیس آفیسر کو اس لیے نہیں بتایا کہ وہ مزید کئی ایک اور سوالات پوچھیں گے جاوید اقبال میرے بیٹے شاہد بخشالوی کے دوست ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ برطانیہ کے شہری ہیں۔ جاوید اقبال کے ساتھ اُن کے گھر آیا تو اہل خانہ نے انتہائی پر تپاک استقبال کیا جاوید اقبال کے چھوٹے بھائی عقیل جاوید خدمت میں پیش پیش رہے رمضان المبارک کا دوسرا روزہ جہاز ہی میں رکھ لیا تھا۔ اذانِ مغرب کے ساتھ دوسرا روزہ برطانیہ میں افطار کیا۔ حسب پروگرام گلاسگو کے شہر سکاٹ لینڈ جانا تھا لیکن بس اسٹینڈ پر صرف 2منٹ لیٹ آنے کی وجہ سے بس نکل گئی تو جاوید اقبال نے دوسرے دن سفر کے لیے ٹرین کا ٹکٹ لیا اس طرح ایک رات مجھے مانچسٹر میں جاوید اقبال کے گھر قیام کرنا پڑادوسرے دن سحری کھا کر جاوید اقبال کے ساتھ ریلوے اسٹیشن آیا اور جاوید اقبال نے نیک تمناؤں کے ساتھ گلاسگو کے لیے رخصت کیا کسی اجنبی ملک میں یہ بذریعہ ریل میرا پہلا سفر تھا مانچسٹر میں موسم بڑا سرد تھا لیکن میں نے سردی سے بچنے کا انتظام کر لیا تھا اس لیے کہ کھاریاں سے پرواز سے قبل میں نے معلومات حاصل کر لیں تھیں مانچسٹر میں ایک دن رات کے قیام کے دوران برف باری کے خوبصورت مناظر سے بھی لطف اندوز ہوا۔

برفباری اور سردی کی وجہ سے گورے گوریاں گرم لباس میں باپردہ تھے رمضان شریف کے دوران یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کرم تھا میں نہ تو آنکھیں بند کر سکتا تھا اور نہ شیطان نے میرا ساتھ چھوڑا تھا مغربی ممالک میں تو شیطان بدبخت ہم مسلمانوں کو آڑے ہاتھ لیتا ہے۔ گورے دھوپ کے دیوانے ہیں برطانیہ مین تو ویسے بھی آسمان پر ہر وقت بادل چھائے نظر آتے ہیں اُن لوگوں کو دھوپ تو کیا ایسے موسم میں آسمان پر تارا نظر آنا بھی باعث تماشہ ہوتا ہے، بچوں کی طرح ہر ایک کو بتاتے ہیں وہ دیکھو آسمان پر تارا جیسے ہم لوگ عید کا چاند ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں۔ گورے گوریاں سورج کے پروانے ہیں دھوپ نکلتی ہے تو یہ لوگ کپڑے اُتار کر جہاں جگہ ملتی ہے لیٹ کر اونگھنے لگتے ہیں یعنی دھوپ کی کرنوں میں نہانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

مانچسٹرسے گلاسگو تک کوئی چار گھنٹے کا سفر ہے اور یہ سفر انتہائی خوبصورت مناظر میں بڑا دلچسپ ہوتا ہے، دل کرتا ہے سفر جاری ہی رہے اس لیے کہ قدرت کے حسین نظارے، مسکراہتے منظر بڑے دلچسپ اور دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ چونکہ پہاڑی سلسلے میں سرسبزوشاداب علاقہ ہے یہاں ہر دن کے آثار معمولی سی روشنی کی وجہ سے محسوس ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ دھند چھائی ہوئی ہوتی ہے، دورانِ سفر ریل گاڑی میں اعلان ہوا کہ آنے والے اسٹیشن پر مسافروں کو ریل گاڑی چھوڑنی ہو گی اس لیے کہ ریلوے ٹریک پر حادثہ ہوا ہے اور ریل آگے نہیں جا سکے گی ریلوے اسٹیشن پر بسیں آپ کا انتظار کر رہی ہیں باقی سفر بذریعہ بس ہو گا۔ میرے لیے یہ پیغام پریشانی کا باعث تھا ا س لیے کہ پہلی بار اکیلا گوروں کے دیس آیا تھا۔ انگریزی بھی پشتو میں بولتا تھا لیکن مجبوری تھی، سٹیشن پر گاڑی رکی، دوسرے مسافروں کے ساتھ ریل گاڑی سے اُترا اور اسٹیشن کے باہر دوسرے  مسافروں کے ساتھ بس میں سوار ہو گیا۔ صبح کے 11بجے تھے ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی کہیں کہیں پر برف باری ہو رہی تھی یہ موسم میرے لیے نیا تھا اس لیے کہ ہم پاکستانی برفباری تو کیا موسم سرما کی دھند میں گھر سے اس لیے باہر نہیں نکلتے کہ نمونیا ہو جائے گا۔ بس گلاسگو کے قریب پہنچی تو یہاں پر آسمان کچھ صاف نظر آیا وہ سورج جو پاکستان میں اپنی تمازت سے پریشان کیے رکھتا ہے یہاں انتہائی معصوم لگ رہا تھا۔

مسافر بس گلاسگو سینٹر میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک بازار میں آ کر رکھی تمام مسافر اُتر گئے میں بھی اُن میں شامل تھا۔ فٹ پاتھ پر کھڑا سوچ رہا تھا کیا کروں کسی غیرملک میں با وقار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کی زبان بولی اور سمجھی جائے میں چونکہ انگریزی کے معاملے میں پیدل تھا اس لیے نظر یں دوڑاتا رہا کہ کوئی دیسی نظر آئے۔ اصل انگریز کی انگریزی میری سمجھ سے باہر تھی لیکن کوئی نظر نہیں آیا، سامنے پولیس سارجنٹ کھڑا تھا اُس کے قریب آیا اور اپنی گلابی انگریزی میں اُس سے پوچھا جناب میں نے فالکرک جانا ہے، سارجنٹ جان گیا کہ میں کون ہوں، اُس نے بڑے خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے راستے کی نشاندہی کی اس لیے کہ وہ پاکستانی پولیس کا سارجنٹ نہیں تھا ورنہ پہلے میری تلاشی لیتا تلاشی میں جو ملتا نکال لیتا اور دھتکار کر کہتا میں خود یہاں نیا ہوں تمہیں کیا بتاؤں کہ تمہاری منزل کس راستے پر ہے۔ پولیس سارجنٹ کی نشاندہی پر قریبی بس سٹاپ پر آیا یہاں مجھے یاد پڑا جب میں پہلی مرتبہ زاہد شاکر کے ساتھ برطانیہ آیا تھا تو ہم دونوں اسی جگہ سے فالکرک کے لیے بس میں سوار ہوئے تھے۔

بس اسٹینڈ پر انفارمیشن والے سے پوچھا تو کہنے لگا فالکرک کے لیے 41نمبر بس ملے گی اور ٹکٹ بھی بس ہی میں ملے گا۔ گلاسگو سے فالکرک تک دو گھنٹے کے سفر میں یہ بس بازاروں اور گلیوں میں گزرنے والی لوکل بس ہوتی ہے 41نمبر بس آئی تو میں اپنے سامان سمیت بس میں سوار ہو گیا سفر شروع ہوا اور میں ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتا رہا۔ ایک سفر کا مزہ اور دوسرابازاروں گلیوں اور قدرتی خوبصورت مناظر کا 2بجے دن بس فالکرک کے بس سٹاپ پر آ کر رکی بس سے اُتر کر سامان ایک طرف رکھا اور پبلک کال بوتھ سے چوہدری عارف شاکر صاحب کو فون پر اپنے آنے کی اطلاع دی۔ صبح مانچسٹر سے روانگی کے وقت عارف شاکر کو فون پر آنے کی اطلاع کر چکا تھا۔ اس لیے وہ میرے منتظر ہی بیٹھے تھے کہنے لگے دس منٹ میں آپ کے پاس پہنچا۔ ٹیلیفون بوتھ سے نکلا تو سامنے کھاریاں کے افضال صاحب کھڑے تھے افضال صاحب سے اُس وقت عارف صاحب کے گھر ملاقات رہی تھی جب میں زاہد شاکر کے ساتھ دوسری مرتبہ برطانیہ آیا تھا۔

افضال صاحب نے پر تپاک استقبال کیا اور عارف صاحب کو فون کر دیا کہ آپ نہ آئیں میں بخشالوی کو لے کر گھر آ رہا ہوں اور کوئی دس منٹ پیدل چل کر ہم گھر پہنچے تو عارف شاکر نے حسب سابق بڑے پیار سے استقبال کیا عارف شاکر کے گلے لگ کر ذہنی سکون محسوس ہوا۔ ایسے لگاجیسے میں اپنے ہی گھر آیا ہوں مطلب ہے عارف شاکر کو دیکھ کر جان میں جان آ گئی۔

عارف شاکر کھاریاں میں کھاریاں سے میرے ہجرت سے دو ماہ پہلے عثمانیہ ہوٹل میں ملے تھے شاکر برادران میرے گھر اور ذاتی حالات سے بخوبی واقف تھے، پاکستان میں عارف شاکر نے اپنی آخری ملاقات میں کہہ دیا تھا کہ اب تمہارا انگلینڈ کا ویزہ لگ گیا ہے تو کسی اور مقام پر جانے کی بجائے میرے پاس آؤ اللہ کرم نوازی کرے گا لیکن میں نے اُس سے کہا تھا کہ عارف بھائی ان دنوں مجھ پر اللہ کے کرم کی برسات ہو رہی ہے۔ مشکل میں ضرور ہوں لیکن اپنے خاندان کے روشن مستقبل سے مایوس نہیں ہوں  میں امریکہ کے لیے ویزہ کی درخواست دے چکا ہوں چند دن بعد میرا انٹرویو ہے عارف شاکر میرے عزم سے بڑے متاثر ہوئے اور کہا کہ میں انگلینڈ میں تمہارا انتظار کروں گا اور آج 23دسمبر1998ء کو وہ انتظار ختم ہو گیا عارف شاکر صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ اپنے فلیٹ میں رہتے تھے فیملی پاکستان آئی ہوئی تھی عارف شاکر اور اُن کے رفقاء نے شاکر خاندان کی خاندانی روایات کے مطابق معزز مہمان کے اعزاز سے نوازا۔ میں نے عارف صاحب سے مخاطب ہو کر کہا عارف بھائی میں اپنوں سے بھی چھپ کر پاکستان سے نکلا ہوں اس کی وجہ میرے کچھ وہ عزیز دوست ہیں جن کو میں نے اپنے خونی رشتوں سے بھی زیادہ اہمیت دی لیکن وہ آستین کے سانپ نکلے میں اپنے اخلاق اور قلم سے سانپ کے بچوں کو دودھ پلاتا رہا آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں قلم کے حوالے سے اپنی پہچان تھا میں نے کھاریاں میں بولی کمیٹی شروع کی تھی اہالیانِ کھاریاں کے بھر پور اعتماد سے میں بڑی کامیابی سے بولی کمیٹی چلا رہا تھا ایک لاکھ سے چھ لاکھ ماہانہ بولی کی کمیٹی ہوتی رہی لیکن کچھ سُود خوروں اور ذاتی مفاد پرستوں نے اس کمیٹی کو ذاتی مفادات کے لیے ایسا انداز دیا کہ میں اور درمیانے طبقے کے کمیٹی ممبران دلدل میں پھنسنے لگے ایک سازش کے تحت ضرورت مند کو مہنگی ترین بولی پر کمیٹی اُٹھانا پڑتی جس کی ادائیگی اُس کے لیے بوجھ بنتی گئی چونکہ وہ کمیٹی کے ممبر تھے اور اپنی مرضی سے مہنگی ترین بولی کمیٹی اُٹھاتے رہے میں اُنہیں روک بھی نہیں سکتا تھا ا س دوران میں ناروے کے دورے پر اپنے بیٹے کے ساتھ ناروے گیا اس سے قبل آپ کے پاس دو مرتبہ انگلینڈ بھی آیا تھا ناروے سے واپسی پر دوبئی میں مجھے میرے عزیز گل محمد ساجن نے فون پر بتایا کہ پاکستان واپسی پر آپ کے لیے بہت مشکل حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں بہتر ہو گا کہ واپس نہ آئیں لیکن میں نے کہا کہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہی پڑے گا اور میں واپس چلا آیا پاکستان میں مجھے پتہ چلا کہ کمیٹی ممبران میں چند سرمایا داروں نے افواہ پھیلا دی کہ گل بخشالوی نے کمیٹی کی رقم سے انگلینڈ میں ہوٹل خرید لیا ہے اور وہ اب واپس نہیں آئے گا اس افواہ سے سرمایہ دار طبقے نے کمیٹیوں کی ادائیگی بند کر کے اپنی اپنی کمیٹیاں اُٹھا لیں اور جو ممبران کمیٹیاں پہلے اُٹھا چکے تھے وہ ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں تھے اُنہوں نے بھی ادائیگی بند کر دی جن ممبران نے کمیٹی نہیں اُٹھائی تھی وہ اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کرنے لگے چونکہ وصولی مکمل طور پر بند ہو چکی تھی اس لیے میں بے بس ہو گیا اور اس قدر مجبور کر دیا گیا کہ گھر سے نکلنا تک مشکل ہو گیا باوجود ہر کوشش کے میں مشکل حالات سے نہیں نکل پا رہا تھا یہاں تک کہ میرا پاسپورٹ تک کمیٹی ممبران کے کہنے پر ضبط ہو گیا یہ میری زندگی کا دوسرامشکل ترین دور تھا میں حواس باختہ ضرور تھا اس لیے کہ آمدنی کا دوسراکوئی ذریعہ نہیں تھا بچے زیر تعلیم اور بے روز گار تھے خوش بختی یہ تھی کہ کھاریاں شہر میں مکان اپنا تھا۔

عارف صاحب آپ اس حقیقت سے انکار تو نہیں کر سکتے کہ مشکل وقت میں خونی رشتے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں میرے ساتھ میرے خونی رشتوں نے تو ساتھ نہیں چھوڑا لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ میرا بوجھ اُٹھاس کیں اس لیے کسی سے شکوہ بھی نہیں کیا لیکن مجھ پر میرے اللہ نے کرم کیا ناروے، انگلینڈ اور امریکہ کا ویزہ ملنے کے بعد میں اپنے بچوں کو اللہ کے سپرد کر کے آج آپ کے سامنے موجود ہوں آگے کیا ہو گا کچھ نہیں جانتا۔

عارف شاکر اور اُس کے رفقاء نے غور سے میری داستان سُنی تو کہنے لگے یہی نظامِ حیات اور قانونِ قدرت ہے اگر ایسے حالات میں تمہارے ویزے لگے اور یہاں تک آ گئے ہو تو انشاء اللہ تمہارے مسائل بھی حل ہوں گے اللہ نگہبان۔

میرے لیے یہ بھی اعزاز ہے کہ دیار غیر میں پہلی با جماعت نماز اپنے ہی مسلک کے امام کی امامت میں پڑھ رہا ہوں نماز مغرب کی اذان ہوئی تو اپنوں سے دور پہلا روزہ دوسرے روزہ داروں کے ساتھ افطار کیا۔ نماز مغرب کے بعد کھانے کا دسترخوان سجادیا گیا اور دن بھر کی مصروفیات کی خوش گپیوں میں روزہ دار کھانا کھاتے رہے عارف شاکر کا ریسٹورنٹ عام طور پر پچھلے ٹائم کھلتا ہے اور عارف شاکر بعد از نماز مغرب اپنے ریسٹورنٹ جاتے تھے کھانے کے بعد حسب معمول وہ ریسٹورنٹ جانے لگے تو میں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ ریسٹورنٹ عارف شاکر کی رہائش گاہ سے اپنی گاڑی میں کوئی 30منٹ کی ڈرائیو پر تھا مغربی ممالک میں فاصلے میلوں اور فرلانگوں کے حساب سے نہیں بلکہ وقت کے حساب سے ماپے جاتے ہیں۔ عارف شاکر کے ساتھ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے بڑے با ذوق اور خوش گفتار تھے عارف شاکر بذات خود بھی انتہائی خوش گفتار شخصیت کے مالک ہیں اس لیے اُن کے ملازم عارف شاکر سے اس قدر بے تکلف تھے کہ لطیفہ گوئی میں احترام تک کی پرواہ نہیں کیا کرتے تھے خوش گپیوں میں ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے سب ہی ایک خاندان کے افراد ہوں اور یہی شاکر خاندان کی معاشرے میں پہچان ہے ریسٹورنٹ رات گئے بند ہوا ہم جب واپس مسجد میں آئے تو رات کے 12بجے تھے اور نماز عشاء کی جماعت کھڑی ہونے والی تھی۔

ماہ رمضان المبارک میں عام طور پر کئی ایک مساجد میں نماز عشاء کی دو جماعتیں ہوتی ہیں پہلی جماعت مقررہ وقت پر ہوتی ہے اور دوسری جماعت اس لیے رات گئے ہوتی ہے کہ کاروباری لوگ با جماعت نماز عشاء اور تراویح سے محروم نہ ہوں۔ نماز عشاء اور تراویح کی ادائیگی کے بعد ہم لوگ گھر چلے آئے رات گئے تک گپ شپ ہوتی رہی۔ عارف شاکر کی فیملی پاکستان کے دورے پر تھی اس لیے عارف شاکر کے گھر رات گئے تک دوستوں کی محفل جمتی اور خوب جمتی۔ صبح کے تین بجے سحری کھا کر سب لوگ سوگئے اور میں اپنے آنے والے کل کے لیے سرہانے پر سر رکھے سوچ رہا تھا !

عجیب خوف سا طاری ہے سونہیں سکتا

لگے جو آنکھ!تو کوئی میں خواب بھی دیکھوں

اس لیے کہ

تقدیر کے ہاتھوں جو بھٹکتا ہے مسافر

امبر پہ بھی اُس وقت ستارہ نہیں ہوتا

برطانیہ سکاٹ لینڈ میں کرسمس کی تیاریاں عروج پر تھیں وطن عزیز میں کرسمس کی تقریبات ٹیلی ویژن پر تو دیکھتا رہا ہوں لیکن دیار غیر میں پہلی بار دیکھتی آنکھوں سے کرسمس کے استقبال کے تیاریاں اور خوبصورت مناظر دیکھ رہا تھا سوچتا رہا کہ یہ لوگ کس قدر محبت سے اپنے مذہبی تہوار مناتے ہیں اور کس محبت سے سالانہ خوشی کا اہتمام کرتے ہیں گورے بازار اور گھروں کوبڑی خوبصورتی سے سجا رہے تھے شام کو فضا جب تاریکی کی چادر اوڑھنے لگتی تو درختوں، مکانوں اور شاہراہوں پر قمقمے روشن ہو جاتے۔ کرسمس کے مناظر تو بہت خوبصورت تھے لیکن ذہنی دباؤ میں ان مناظر میں دل نہیں لگ رہا تھا ذہن پر بوجھ ہو تو اچھے سے اچھا کھانا بھی بدمزہ لگتا ہے۔ گوروں کے چہرے پر مسرت کھیل رہی تھی اور میں اپنے کل کو سوچ رہا تھا اس لیے کہ میں دیار غیر میں مڑ گشت کے لیے تو نہیں روزگار کے لیے آیا تھا۔ عارف شاکر کے گھر میں مجھ جیسے حالات کے ستائے ہوئے اپنوں سے دور دیس آنے والے جب گوروں کے دیس میں اپنی عملی زندگی کی تصویر کشی کرتے تو میں پریشان ہو جاتا۔ اس لیے کہ وطن عزیز میں بیٹھ کر ہم یہی سوچتے ہیں کہ یورپی ممالک میں تو نوٹ درختوں سے لگے ہوتے ہیں لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’دُور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں ‘‘

سنہرے خواب دیکھنے والوں کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب عملی میدان میں اُترتے ہیں پتہ اُس وقت چلتا ہے جب ہم لوگ بیرونِ ملک آتے ہیں میں تو خوش بخت تھا کہ عارف شاکر کے پاس اُس کے گھر میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے نوازا جا رہا تھا مشکل تو اُسے پیش آتی ہے جس کا دیار غیر میں اللہ کے سوا اور کوئی نہ ہو اور مجھ جیسے لوگ جو سیاحت کے ویزے یا غیر قانونی طور پر آتے ہیں اُن کے لیے ملازمت تو دور کی بات قیام تک خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ برطانیہ میں عارف شاکر کے پاس قیام عارضی تھا اُنہی کے سہارے خیال تھا کہ اگر برطانیہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا موقع ملا تو امریکہ جانے کی کیا ضرورت ہے اس لیے میں نے عارف شاکر سے کہا کہ بھائی میں 2ماہ تک آپ پر بوجھ رہوں گا اس دوران اگر پاؤں جم گئے تو بہتر ورنہ امریکہ چلا جاؤں گا تو عارف شاکر کا جواب تھا۔ میرے پاس تمہارا قیام اللہ کی رضا ہے میرے پاس میرے گھر میں جو کھاتے ہو اس پر تمہارا نام لکھا ہے یہ میرے حوالے سے تمہارے لیے رب کی عطا ہے تم اپنا نصیب کھا رہے ہو، رہی بات کام کی تو میں تمہاری مجبوریوں کو بخوبی جانتا ہوں میرے پاس ریسٹورنٹ میں کام کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں نہیں چاہتا کہ آپ میرے ریسٹورنٹ میں میرے ملازم بن کر کام کریں اور وہ کام کریں جو آپ نے نہیں کیا، میں نے آپ کو کھاریاں  کی زندگی میں بہت قریب سے دیکھا ہے البتہ میں کسی اور جگہ آپ کے لیے کام کا انتظام کر رہا ہوں۔

میں نے عارف شاکر سے کہا بھائی آپ نے میرے ہاتھ میں قلم دیکھا ہے یہ تو کھاریاں میں میرے خوشحالی کا دور تھا آپ نے اس دور سے قبل کی زندگی نہیں دیکھی میں مزدور باپ کا بیٹا ہوں اور دیہاڑی دار کی حیثیت سے جون جولائی کی شدید گرمی میں بھی کام کرنے کا تجربہ ہے رہی بات ریسٹورنٹ میں کام کرنے کی تو کھاریاں میں 14سال تک ساجن ہوٹل میں بھی آپ کی فیملی نے مجھے دیکھا ہے کام کوئی بھی ہو کرنے کو تیار ہوں لیکن انا کو مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکوں گا سچائی میرے قلم کی پہچان ہے اور اس کا آپ کو بخوبی اندازہ ہے۔

25دسمبر 1999ء کو کرسمس کے دن عارف شاکر کے ایک دوست کی وساطت سے گلاسگو میں کام کی خوشخبری ملی۔ عارف شاکر کہنے لگے حاجی صاحب کام تو مل گیا ہے لیکن آپ کے لیے مشکل ہے لیکن بہتر ہے کہ جب تک آپ کو آپ کے مزاج کا کام نہیں ملتا یہی کام کرو میں نے مسکراتے ہوئے کہا پسینے کی کمائی میں کھانے کی خوشبو بڑی عجیب ہوتی ہے ایسے کھانے میں بڑی لذت ہوتی ہے یہ کام تھا مشقت کا گلاسگو میں مسجد کی تعمیر کے لیے ایک چرچ خریدا گیا تھا۔ گلاسگو میں مسلمان کمیونٹی کی ایک فعال تنظیم تھی جس کے ناظم ارشد فاروقی صاحب تھے۔ ارشد فاروقی اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انتہائی شفیق اور صاحب احساس شخصیت کے مالک تھے۔ میں فالکرک سے ارشد فاروقی صاحب کے ساتھ اُن کی گاڑی میں گلاسگو چلا آیا وہ مجھے گلاسگو میں جمعیت اہلحدیث کے امیر الطاف حسین صاحب کے پاس لے آئے الطاف حسین صاحب سے ارشد فاروقی صاحب کی بات ہو چکی الطاف حسین صاحب نے بتایا کہ ہم مسلمان برادری کے لیے مسجد کی تعمیر کا پروگرام سوچے ہوئے ہیں اس کے لیے ہم نے ایک چرچ کی عمارت خریدی ہے چرچ تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ چرچ والوں نے اس میں فرنیچر اور لکڑی کا کارخانہ لگایا تھا آپ نے اس عمارت میں لکڑی کا بنایا ہوا فرش توڑ کر اس عمارت میں پڑا ہوا سامان اکھٹا کرنا ہے جیسے ہر شام ایک گاڑی کچرے کے ڈھیر پر پھینک آیا کرے گی جہاں ہم اُسے خود جلائیں گے۔   آپ نے عمارت کی صفائی کرنی ہے جس کا معاوضہ آپ کو 20پونڈ روزانہ کے حساب ملے گا۔ الطاف حسین صاحب مجھے خریدی ہوئی عمارت میں لے آئے اور کام کی نوعیت سمجھائی اور میں نے کام کی حامی بھر لی۔ رہائش کا کوئی انتظام نہیں تھا اسی عمارت کے ایک مختصر کمرے میں رہنے کے لیے کہا گیا اور صبح ملاقات کا وعدہ کر کے الطاف حسین چلے گئے میں تنہائی کی آگ میں جھلستا کمرے میں آیا کمرے میں بجلی تو تھی لیکن گرمائش کا انتظام نہیں تھا۔ برف باری کے یخ بستہ موسم میں یہ میری پہلی شب تھی اس عمارت میں کھانے اور پانی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ عمارت کے ایک کونے میں پانی کا نلکا تھا اور پانی اس قدر ٹھنڈا جیسے برف، گو کہ اس عمارت میں بتایا ہوا کام میری سوچ سے بھی زیادہ مشکل تھا اس لیے کہ میں تو قلم کی مشقت کرنے والا تھا لیکن مجبوری تھی کر بھی کیا سکتا تھا اس لیے حالات سے سمجھوتہ کر کے اپنے گزرے ہوئے کل کو بھول کر آنے والے کل کے لیے اپنی تمام تر آسائش کی زندگی کو حالات کی مجبوریوں کے کمرے میں بند کر کے باہر سے تالا لگا دیا۔ اس عمارت میں مسلمان برادری نے پانچ وقت با جماعت نماز کی ادائیگی کا انتظام کیا تھا۔

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ تھا۔ مسلمان برادری نے اس عمارت میں افطاری کا خوب اہتمام کیا تھا۔ نماز مغرب سے کچھ دیر قبل فرزندانِ اسلام تشریف لے آئے اور افطاری کے لیے دستر خوان سجادیا اذان ہوئی، روزہ افطار ہوا اور نماز مغرب کے بعد دستر خوان پر کھانا لگا دیا گیا۔ الطاف حسین صاحب نے کھانے سے قبل مذہب دوستوں سے بڑے خوبصورت اور اچھے الفاظ میں میرا تعارف کرایا۔ کھانے کے بعد الطاف حسین صاحب کہنے لگے کہ سحری کا انتظام تو نہیں ہو سکے گا اس لیے آپ سحری کے لیے کھانا رکھ لیں میں نے اُن کی ہدایت کے مطابق سحری کے لیے کھانا محفوظ کر لیا۔ نماز عشاء اور نماز تراویح کے بعد میں اپنے مقدر کے لکھے کو سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ امتحان لے رہا ہے لیکن امتحان میں مذہبی اہتمام کی کیا بات ہے دیار غیر آنے سے قبل دیار حبیب میں عمرے کی سعادت سے سرفراز ہوا اور رمضان کے بابرکت مہینے میں نماز و روزہ کا انتہائی خوب اہتمام سے نوازا اپنے آنے والے کل کو سوچتے سوچتے جانے کس وقت آنکھ لگی اور سو گیا۔

موبائل فون میں سحری کھانے کے لیے موبائل بول پڑا سحری کے لیے کھانا نکالا تو دیکھ کر پریشان ہو گیا ٹھنڈا جیسے برف لیکن کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ چائے کی جگہ دو گلاس پانی پی لیا اور یخ بستہ پانی سے وضو کیا وضو کیا بس تیمم ہی سمجھ لیں کچھ دیر بعد ایک صاحب تشریف لائے اور اذان دی۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر کے لیے آرام کیا اور دن نکلتے ہی کام میں لگ گیا یہ ہاتھ پاؤں کی مزدوری کا میرا پہلا دن تھا لکڑی کے فرش کو اُکھاڑ کر بھاری بھر کم تختوں کو ایک طرف ڈھیر کرتا گیا موسم سرد تھا اس لیے پانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی نماز ظہر کے وقت الطاف حسین صاحب تشریف لائے دیکھا تو میں نے اُن کی سوچ سے کہیں زیادہ کام کر دیا تھا کہنے لگ سبحان صاحب روزہ دار ہو، کام اتنا کرو کہ وجود پر بوجھ نہ ہو اُن کی اس شفقت سے آنکھوں میں آنسو آ گئے میں نے کہا الطاف حسین میں کام کو بوجھ سمجھ کر نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنے وجود کو ایسے کام کا عادی بنانا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کل اس سے اور سخت کام کرنا پڑے اور گھبرایا اس لیے نہیں ہوں کہ ہمارا لڑکپن اور بچپن یہی کام کرتے ہوئے گزرا ہے۔

نماز ظہر کے بعد الطاف حسین کہنے لگے اپنے صاف کپڑے اُٹھاؤ اور میرے ساتھ چلو میرے گھر وہاں غسل کر کے کپڑے تبدیل کر دینا۔ الطاف حسین کی یہ محبت میری سچائی کا اعزاز تھا۔ الطاف حسین صاحب کے ساتھ اُن کے گھر جا کر غسل کیا اور کچھ دیر اُن کے ساتھ دنیاداری کی گپ شپ کے بعد یہ کہہ کر واپس چلا آیا کہ پیدل چلتے چلتے برطانیہ بھی دیکھ لوں گا اور وقت بھی گزر جائے گا الطاف حسین صاحب سے اجازت لے کر اپنی عارضی رہائش گاہ چلا آیا۔ نماز عصر کے بعد اپنے کمرے میں فرشِ خاکی پر لگائے گئے بستر پر بیٹھا اور اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر خیالات میں کھاریاں چلا آیا۔ اُس کھاریاں میں جہاں میری ہنستی مسکراتی زندگی کو ایک گھناؤنے سازش کے ذریعے تباہ کر دیا گیا۔ خود پرستوں کی خود پرستی میں یہ دن بھی دیکھنا تھے۔ جنہوں نے ذاتی مفادات کے میری اور میرے بچوں کی خوشحال زندگی کو برباد کر دیا۔

سکاٹ لینڈ کا موسم بڑا ہی دلربا موسم ہے یہاں کے مقیم باسیوں کے لیے تو یہ معمول کا موسم ہے۔ مطلب ہے عادی ہو چکے ہیں لیکن پاکستان جیسے گرم مرطوب علاقوں کے باسیوں کے لیے یہ موسم کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اپنا پاکستان لیجئے پاکستان میں سخت سردی اور شدید گرمی کے علاوہ اگر برسات کی رم جھم بھی ہو تو کاروبار تقریباً بند ہو جاتا ہے۔ آج کل تو ویسے بھی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند ہے اس لیے دکاندار دکانیں نہیں کھولتے خریدار بازار نہیں آتے۔ بچے سکول نہیں جاتے اور یہاں معمول کے مطابق ہر موسم میں زندگی کا رقص جاری ہے۔ بارش بوندا باندھی اور برف باری میں زندگی سڑکوں اور بازاروں میں رواں دواں ہے سناکرتے تھے کہ گورے دھوپ کے دیوانے ہیں جب ایسے موسم میں دھوپ نکلتی ہے تو یہ لوگ کپڑوں سے باہر آ جاتے ہیں اور اب تو اپنی بھی حالت گوروں جیسی ہے دھوپ نکلتی ہے تو اپنا بھی کپڑوں سے باہر نکلنے کو جی چاہتا ہے۔

گوروں کی ترقی کا راز وقت کی قدر ہے وہ زندگی کا ایک ایک لمحہ سوچ کر گزارتے ہیں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے یہاں کاروباری زندگی کے لیے وقت مقرر ہے یہ لوگ بازاروں میں فرصت کے اوقات میں آتے ہیں لیکن ونڈو شاپنگ کے لیے بے مقصد بازاروں میں گھوم پھر کر وقت ضائع نہیں کرتے۔ کام سے غرض رکھتے ہیں کام سے چھٹی کے بعد اگر ضرورت ہو تو بازار چلے آتے ہیں ورنہ گھروں میں اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاتے ہیں۔

اور میں تو پردیس میں اپنوں سے بہت دور تھا ایک ایسے کمرے میں بیٹھا ہواجس میں کسی بھی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی میرے لیے تو یہ کمرہ جنگی مجرم کا قید خانہ تھا کس کے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاتا۔ میرے پاس تو صرف یادیں تھیں ایک سوچ تھی ایک ارادہ تھا کہ انشاء اللہ اپنے وطن میں اپنوں کے پاس جاؤں گا یہی ایک سوچ یہی ایک خیال میری زندگی کا محور تھا لیکن ایک سوچ باوجود کوشش کے میری سوچ پر حاوی تھی۔ نہ سوچنے کر باوجود سوچتا۔ کہ وہ لوگ جو معاشرتی زندگی میں میرے کردار کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن خود غرضی میں اس قدر اندھے ہو گئے کہ میرا گلشن اُجاڑ کر رکھ دیا کاش!ملک برادرز الیکٹرونکس کے ملک مقصود اور حاجی شبیر حسین ملک کے پیارے دوست ریاض چوہان اس یخ بستہ کمرے کی تنہائی میں میرے ساتھ ہوتے تو میں اُن سے پوچھتا کہ اگر میں نے بقول آپ کے لاکھوں روپے ڈیپازٹ میں رکھوائے ہوتے اور انگلینڈ میں میرا ذاتی ریسٹورنٹ ہوتا تو میں اس یخ بستہ عمارت میں خانہ بدوشوں کی طرح نہ بیٹھا ہوتا۔ افطاری میں بچھی ہوئی روٹی سحری کے لیے نہ رکھتا سحری کے وقت برف کی طرح سالن اور پتھر کی طرح سخت روٹی نہ کھاتا۔ چائے کی جگہ ٹھنڈے پانی کے گھونٹ نہ بھرتا۔ دکھ تو بہت تھا لیکن شاکر تھا اس لیے اگر حضرت ابراہیم ؑکے لیے آگ گلزار بن سکتی ہے حضرت ایوب ؑکو صبر کا انعام مل سکتا ہے تو میں فقیر بھی اللہ کے اُن پیاروں کو ماننے والا ہوں اور میں یہ بھی بخوبی جانتا ہوں کہ اس کمرے کی تنہائی میں اُس پاک ذات کے سوا مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے جس کے لیے میں سجدے میں ہوں میرا ایمان ہے مجھے میرے صبر کا پھل ضرور ملے گا اس عمارت میں مزدوری 20پاؤنڈ یومیہ تھی کام صرف 4دن کا تھا اور میں نے چار دن بڑی ذمہ داری سے اپنا کام کیا مسجد انتظامیہ کو میری قلمی زندگی کا علم ہوا تو ارشد فاروقی کہنے لگے مجھے معلوم ہوا کہ آپ شاعر ادیب اور صحافی ہیں اور جو کام آپ سے لیا گیا وہ آپ کے بس کا نہیں تھا آپ نے کر کے دکھایا تعمیراتی کام تو وقتی طور پر ختم ہو گیا ہے لیکن اگر آپ ہمارے پوسٹ آفس میں کام کرنا پسند فرمائیں تو آپ کو ہفتے میں 150پاؤنڈ اُجرت ملے گی یعنی 12000/-روپے۔

میں نے ارشد فاروقی سے کہا آپ کی اس محبت کا شکریہ لیکن میرے لیے یہ مشکل ہو گا اس لیے کہ میں نے دیکھ لیا ہے کہ برطانیہ میں مزدور کی مزدوری یومیہ 20پاؤنڈ ہے اور غیر قانونی قیام میں پکڑے جانے کا خطرہ بھی ہے میں امریکہ جانے کا پروگرام بنا چکا ہوں۔ فروری تک UKمیں قیام کا ارادہ ہے اس لیے میں ذاتی فائدے کے لیے غلط بیانی سے آپ کی محبت اور حسن اخلاق کے جواب میں آپ کو دھوکا نہیں دوں گا۔

ارشد فاروقی صاحب کو میری سچائی اچھی لگی اور 28تاریخ کو زیر تعمیر مسجد الفاروق میں کام ختم ہوا اور بعد از نماز تراویح مسجد انتظامیہ کے امیر حاجی الطاف حسین نے مجھے میری مزدوری کی اُجرت میں 100پاؤنڈ دئیے اور ارشد فاروقی صاحب کے ساتھ واپس فالکرک چلا آیا اس طرح میں نے ایک طرح سے عارف شاکر پر ثابت کر دیا کہ میں ہڈ حرام نہیں مزدور باپ کا بیٹا ہوں۔ قلم میرے شعور و فکر کا زیور ضرور ہے لیکن مزدوری میرے مرحوم باپ کا ورثہ ہے۔

دیار غیر میں 5دن کی پہلی مزدوری کے 100پاؤنڈ میری جیب میں تھے۔ عارف شاکر میرے لیے بڑے پریشان تھے اور کوئی اچھی سی نوکری کی تلاش میں تھے تاکہ میں پردیس میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکوں لیکن کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے کاروبار تقریباً بند تھے اس لیے باوجود کوشش کے کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مل رہی تھی اور میں بے روزگاری کی وجہ سے پریشان تھا لیکن خوش بختی یہ تھی کہ میں عارف شاکر کے پاس اُن کی رہائش گاہ میں اُن کے ساتھ تھا اور میرے ساتھ اُن کا سلوک سگے بھائیوں سے کم نہیں تھا ورنہ بے روزگار اور وہ بھی گوروں کے دیس میں۔

عارف شاکر کی فیملی پاکستان میں تھی اس لیے جب رات کو مزدوروں کی محفل جمتی تو زخموں کے منہ کھل جاتے وطن میں اپنوں سے ہزاروں میل دور یہ مزدور طبقہ ذاتی اور گھریلو اخراجات کے بوجھ سے پریشان اپنے دکھڑے سناتے تو بعض اوقات آنسو بے قابو ہو جاتے۔ برطانیہ میں روزگار سب سے بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے غیر قانونی طور پر مقیم لوگ وہاں کے شہرت یافتہ ہم وطنوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

برطانیہ کے شہرت یافتہ افراد میں ہر کوئی عارف شاکر نہیں ہوتا۔ بعض لوگ اپنے گزرے ہوئے کل کے ساتھ آنے والے کل کو بھی بھول جاتے ہیں وہ اپنے ہم وطن غیر قانونی طور پر مقیم مجبور لوگوں کو ایسی ذہنی اذیت سے دوچار رکھتے ہیں کہ مزدور خون کے آنسو پیتے ہیں لیکن مجبوری اُن کی پاؤں کی زنجیر ہوتی ہے۔ مجبوری کی قید میں وہ زندگی کا ہر دکھ ہر زخم برداشت کرتے ہیں اُف تک نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو اُن کا برطانیہ میں جینا مشکل کر دیا جاتا ہے۔ خاص کر وہ لوگ جن کا برطانیہ میں کوئی عارضی سہارا نہ ہو جہاں تک میری بات ہے تو میں اس لحاظ سے بڑا خوش بخت تھا اس لیے کہ گیا تو مزدوری کے لیے تھا لیکن عارف شاکر کے گھر ایک معزز مہمان کی حیثیت میں مقیم تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ عارف شاکر لطیفہ گو شخصیت کے مالک ہیں اور اُن کا انداز لطیفہ ایسا ہے جیسے کسی لطیفہ گو یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ ہوں۔ عارف شاکر محفلوں کی جان شخصیت کے مالک ہیں اس لیے اُن کی قربت میں پریشانی چھو کر بھی نہیں گزرتی، ۔

31دسمبر کو گورے جشن مناتے ہیں اور اس جشن میں پہلی مرتبہ میں بھی اپنے غم بھُلانے کے لیے موجود تھا فالکرک کے مین بازار کے عین درمیان میں گرجے کے اُوپر ایک بہت بڑا گھڑیال ہے۔ گھڑیال چوک میں گورے گوریاں خوش گپیوں میں زندگی کے حسن کے ساتھ ہنستے اور جھومتے رہے۔ وہ ہاتھوں میں شراب کی بوتلیں اور جانے کیا کیا کھانے کے لیے اُٹھائے ہوئے تھے۔ زیادہ تر نوجوان جوڑے تھے۔ بینڈ ماسٹر محفل کو اپنی سریلی دھنوں سے گرما رہا تھا گورے اور گوریاں رقصاں تھیں اور میں کچھ لمحات کے لیے خود کی پریشانیوں سے دور، بہت دور محسوس کر رہا تھا قریبی دکان کے برآمدے میں کھڑا خوشیوں سے لبریز منظر دیکھ رہا تھا میں مکمل پاکستانی لباس میں تھا اس لیے TVکا کیمرہ بار بار میرا طواف کر رہا تھا۔ اُن کو خطرہ تھا شاید کہ میں کہیں دھماکے سے پھٹ پڑا، تو رنگ میں بھنگ پڑ جائے گی۔ گھڑیال میں گھنٹیاں بجنے لگیں، ماحول ناچنے لگا، بارویں گھنٹی کے ساتھ بوتلیں کھل گئیں لوگوں نے خوشی کے شور شرابے میں آسمان سر پراُٹھا لیا۔ گورے گوریاں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ گوریاں گوروں کی باہوں میں جھولنے لگیں۔ منظر بڑا جذباتی تھا اس سے قبل کہ اپنے جذبات بھڑکتے وہاں سے کھسک آیا۔

میں بخوبی جانتا ہوں جنگل میں شیر اُس وقت تک شریف ہوتا ہے جب تک وہ انسانوں سے دور ہوتا ہے اور جب وہ انسان کے خون کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتا ہے تو خونخوار درندہ بن جاتا ہے۔

میں فالکرک کے بازار کے مختلف گلیوں اور ریسٹورانوں میں بے لباس اور مدہوش جوڑوں کو رقصاں دیکھ رہا تھا۔ نئے سال کی خوشی میں مدہوش شرابی محفلوں کو دیکھتے چلتے کوئی تین بجے گھر آیا تو عارف شاکر دوستوں میں خوش گپیوں کی محفل سجائے ہوئے تھے۔ میرے اداس چہرے کو پڑھتے ہوئے عارف شاکر نے کہا آپ میرے ساتھ ریسٹورنٹ میں کام کریں جب تک برطانیہ میں ہو ڈنگ ٹپاؤ مال بنانے امریکہ چلے جانا، میں نے عارف بھائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں آج اپنی بے روزگاری کے لیے اُداس نہیں اُداس ہوں تو اس لیے کہ افضال نے وعدہ کیا تھا کہ رات کو ڈسکو دکھانے لے جاؤں گا لے کر نہیں گیا۔

میری اس بات پر سب دوست کھلکھلا کر ہنس پڑے عارف شاکر کہنے لگا زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ فکر و غم سے کچھ نہیں ہوتا، ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے عارف شاکر بڑے ہی رنگین مزاج انسان ہیں لیکن اُن کی اس رنگینی میں درسِ عبرت اور زندگی کا حسن بھی ہے ہر کسی کو قریب آنے کی دعوت دیتا ہے خلوص سے ملتا ہے اور اپنے ہاتھوں کھانا تیار کر کے مہمانوں کے سامنے رکھتا ہے اُس کے شعور میں مالک اور نوکر کا کوئی تصور نہیں۔ اُس کا فلسفہ ہے ہم سب بھائی بھائی ہیں مالک اور نوکر کا فیصلہ رب کی ذات کا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے ۔

20جنوری کو فالکرک سکاٹ لینڈ میں ہم مسلمانوں کی عید تھی۔ فالکرک اسلامک سینٹر میں نماز عید اد اکی اور شاکر بھائی کے ساتھ اسد بھائی، افضال، طارق اقبال، طارق، محمد عارف، محمد نواز اور گل جی پا امین کی رہائش گاہ پر عید ملن کے لیے گئے جہاں اُس نے گاجر کھیر پکائی تھی نماز عید کے بعد دور دیس میں پہلی عید تھی۔ گاجر کھیر کھانے کے بعد ہم سب واپس عارف بھائی کے گھر آئے۔ یہاں دودھ سویاں، چنا چاٹ چائے کے ساتھ بیکری کھا کر عید کا مزہ لیا۔ دوپہر کو گل جی کے گھر دعوت تھی میں چونکہ پاکستانی کھانے بنانے کا ماہر ہوں 14سال تک ساجن ہوٹل چلاتا رہا ہوں اس لیے عارف بھائی کے گھر چاول اور وائٹ میٹ تیار کیا اور گل جی گھر جاتے ہوئے سا تھ لے کر چلے آئے جہاں اسد بھائی اپنی اہلیہ کے ساتھ پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ اس طرح ایک دستر خوان پر ہم سب نے عید کا کھانا کھایا۔ حالانکہ یہ میری پہلی عید تھی جو بچوں سے انتہائی نامساعد حالات میں بچوں سے بہت دور تھی لیکن گل جی اور عارف شاکر نے ایسے خوبصورت اور وطن دوست انداز میں عید کا پروگرام ترتیب دیا کہ کسی فرد واحد کو اپنوں سے دور تنہا ئی کا احساس تک نہیں ہوا ایسے لگ رہا تھا کہ ہم بھائی بہنوں میں عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

25جنوری 1999ء کو فالکرک میں سیزن کی پہلی برف باری ہوئی دھرتی نے سفید چادر اوڑھ لی تھی کائنات کا رنگ سفید چادر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا برف باری کا منظر بھی بڑا خوبصورت تھا سردی اپنے جوبن پر تھی لیکن گوروں کو سردی کی پروا نہیں تھی ان لوگوں کے وجود نے اس موسم کو اپنے وجود میں سمالیا ہے۔ منفی 5ڈگری میں کلفی جم جاتی ہے لیکن گوریاں اپنے مختصر لباس میں ہرنیوں کی طرح اپنے گوروں کے ساتھ گھوم رہی تھیں۔

UKمیں آئے ہوئے آج مجھے 37دن گزرے ہیں میں حسب معمول صبح اُٹھ کر نماز فجر کے بعد تلاوت کلام پاک سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ آج بفضل تعالیٰ میں نے قرآن پاک ختم کیا یہ پردیس میں میرا پہلا ختمِ قرآن پاک تھا۔ میں عام طور پر قریبی لائبریری میں روزنامہ جنگ پڑھنے آ جاتا ہوں ٹاؤن میں بھی ایک دکان پر جنگ اخبار پڑھنے کو مل جاتی ہے۔

وطن عزیز میں اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پردیس میں ہر کوئی کچھ کمانے کے لیے آتا ہے اور ہر کسی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کچھ کمائے اور بچت کرے لیکن اخلاق، خلوص اور احسان کا خیال بھی صاحب احساس کے لیے نعمت ہے اور اس نعمت سے ہر کوئی سرفراز نہیں ہو سکتا۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ عارف شاکر جیسے لوگ بہت کم ملیں گے جو اپنے دیس کے اپنوں سے اپنائیت کے ایسے ماحول میں ملتے ہیں کہ پردیسی ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ عارف شاکر فالکرک میں آئے ہوئے دوسرے پاکستانی ہیں اس لیے اُنہیں آئے ہوئے کافی عرصہ بیت چکا ہے اور یہاں کے ماحول اور قانونی فضا سے بخوبی واقف ہیں ان کی رہنمائی مجھ جیسے نئے آنے والوں کی مثالی حوصلہ افزائی ہے۔ 28جنوری 1999ء کو میں عارف شاکر کے ساتھ ٹاؤن میں ایک ٹریول ایجنسی میں آیا اور وہاں خاتون اہلکار نے بتایا کہ ہم آپ کی بکنگ کنفرمیشن کا معاوضہ 15پاؤنڈ لیں گے آپ ائیر پورٹ چلے جائیں وہاں آپ کو بچت بھی ہو گی اور کنفرمیشن بھی۔ بہتر ہو گا کہ جانے کی بجائے فون پر رابطہ کر لیں خاتون اہلکار نے بکنگ آفس کا فون نمبر دیا۔

گھر واپسی پر عارف بھائی نے فون کیا اور سیٹ 10فروری کے لیے کنفرم ہو گئی ٹکٹ تو امریکہ اور واپسی پر پشاور کے لیے میں پشاور ہی سے بنوایا تھا لیکن بکنگ UKتک تھی باقی ٹکٹ اوپن تھا، ۔ پروگرام کے مطابق میں 9فروری کو فالکرک سے مانچسٹرجاؤں گا جہاں جاوید صاحب کے گھر ایک رات قیام کر کے 10فروری کو انشاء اللہ 12بجے امریکہ کے لیے پرواز کر جاؤں گا۔

۵ فروری کی صبح کو میں تلاوت کر رہا تھا کہ ارشد فاروقی نے فون پر بتایا کہ آج گلاسگو میں روزنامہ جنگ کے خلاف حکومت کی جابرانہ کاروائی پر کونسلیٹ کے سامنے مظاہرہ ہو گا جس میں گلاسگو اور گرد و نواح سے اخبار نویس شریک ہوں گے آپ بھی تیار ہو جائیں میں آ کر آپ کو لے جاؤں گا۔

ارشد فاروقی پروگرام کے مطابق آئے اور گلاسگو میں حبیب بینک کی عمارت کے اُوپر کونسلیٹ آفس کے سامنے دوسرے اخبارنویس دوستوں میں شامل ہو گئے۔ 11بجے جنگ کے نمائندے طاہر انعام شیخ اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ تشریف لائے وطن سے دور UKمیں کسی احتجاجی ریلی میں یہ میری پہلی شرکت تھی۔ طاہر انعام شیخ بحیثیت اخبار نویس میرے نام سے واقف تھا۔ پلے کارڈ بنوا کر ساتھ لایا تھا۔ ساڑھے 11بجے کے قریب کوئی چالیس اخبار نویس جمع ہو چکے تھے۔ احتجاجی ریلی سے خطاب میں مجھے بھی اظہار خیال کے لیے طاہر انعام شیخ نے موقع دیا یہ احتجاج در اصل پاکستان میں میاں نواز شریف حکومت کی روزنامہ جنگ کے خلاف جابرانہ پالیسی کی وجہ سے تھا وہ روزنامہ جنگ کے ادارے کو اپنے دباؤ میں لا کر اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے۔

مظاہرے کے بعد تمام اخبار نویس دوستوں نے مسجد الفاروق میں نماز جمعہ ادا کی۔ الفاروق وہ مسجد ہے جس میں کام کی پہلی مزدوری مجھے 100پاؤنڈ ملی تھی نماز جمعہ کے بعد ارشد فاروقی صاحب کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کے لیے مظاہرے میں شریک ہونے کے لیے چلے گئے اور میں بذریعہ ٹرین گلاسگو سے فالکرک چلا آیا اس لیے کہ میں نے شام کو کام پر جانا تھا۔ 8فروری کو شاکر بھائی نے برطانیہ سے امریکہ کے لیے روانگی سے قبل الوداعی دعوت کا اہتمام کیا اور اپنے قریبی دوستوں کو دعوت دی جو کہ اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر مجھے برطانیہ سے الوداع کرنے کے لیے تشریف لائے۔ امریکہ میں مقیم کھاریاں کے چوہدری محمد ذاکر ڈوگہ نے زادِ راہ کے لیے 500ڈالر بھجوائے تھے۔ ناروے میں عالم پور گوندلاں کے چوہدری محمد ریاض گوندل (مرحوم) نے چوہدری شاہد حسین شاکر کو 500کرونا دے کر بھجوائے اور عارف شاکر بھائی نے 500پاؤنڈ دئیے اس طرح امریکہ میں ’’شومنی‘‘ کے لیے میرے پاس خاصی رقم جمع ہو گئی تھی چونکہ میں سیاحت کے ویزے پر تھا اور بہت ممکن تھا کہ امریکہ میں ایمگریشن حکام پوچھ لیں کہ امریکہ میں قیام کے لیے کوئی رقم بھی ہے یا نہیں۔

برطانیہ میں عارف بھائی کی مہمان نوازی میں بڑا مزہ آیا اگر مجبوری نہ ہوتی تو عارف بھائی کے ساتھ کم تنخواہ پر ہی وقت گزار لیتا لیکن حالات کچھ ایسے تھے قرضے کا جو بوجھ تھا وہ امریکہ کے بغیر اُترنا ناممکن تھا اس لیے امریکہ جانا ضروری تھا۔ برطانیہ میں قیام کے دوران وطن دوستوں کی کبھی نہ بھولنے والی محبت میری زندگی کی حسین یاد ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب الوداعی دعوت میں میرے تاثرات کے لیے مجھے کہا گیا تو میری زبان نے میرا ساتھ نہیں دیا البتہ میرے اشکوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو میں زبان سے ادا نہیں کر سکا عزیز دوستوں سے جدائی کے لمحات بڑے کربناک ہوتے ہیں اور مجھے تو شاکر خاندان نے ایسی محبت سے نوازا تھا جیسے اُن سے میرا خون کا رشتہ ہو۔ 9فروری 1999ء کو فالکرک سے گلاسگو کے لیے بذریعہ ٹرین جانے کے لیے عارف شاکر نے طارق اقبال صاحب کے ساتھ الوداع کیا۔ طارق اقبال صاحب میرے ساتھ ریل اسٹیشن تک آئے اور ٹرین کے آنے سے قبل میں نے اُنہیں رخصت کر دیا۔ گلاسگو سے مانچسٹرتک کے لیے مجھے دوسری ٹرین لینا تھی۔ گلاسگو پہنچ کر دوسری ٹرین کے لیے کچھ فاصلے پر دوسرے ریلوے اسٹیشن جانا تھا اور ایک گورے کی رہنمائی میں ریلوے اسٹیشن آیا جہاں مانچسٹر کے لیے ٹرین تیار کھڑی تھی۔ اس طرح میں گوروں کی زبان نہ سمجھتے ہوئے بھی انتہائی آسانی سے پہنچا روانگی سے قبل میں نے جاوید اقبال صاحب کو اطلاع کر دی تھی وہ ریلوے اسٹیشن لینے کے لیے چلے آئے تھے۔ جب میں مانچسٹر میں ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلا تو جاوید اقبال صاحب میرے منتظر تھے اور وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے۔

مانچسٹر میں جاوید اقبال صاحب کی مہمان نوازی میں رات گئے تک اُن کے گھر تشریف لائے ہوئے ہارون گوندل، محمد انور، اظہر اقبال سے گپ شپ ہوتی رہی جاوید اقبال صاحب نے اُن سے میرا تعارف پہلے ہی اہل قلم کے حوالے سے کر دیا تھا اس لیے ادب ہی ہمارا موضوع بحث رہا۔ 10فروری کو صبح 9بجے جاوید اقبال اور اظہر اقبال صاحب مجھے لے کر مانچسٹر ائیر پورٹ چلے آئے کچھ ہی دیر میں بورڈنگ کارڈ لے کر میں نے عزیز دوستوں کو الوداع کر دیا اور میں فرننکفرٹ جرمنی کے لیے دوسرے مسافروں کے ساتھ انتظار گاہ میں چلا آیا۔ UKکے وقت کے مطابق 12بجے پرواز کی تیاری کا اعلان ہوا اور میں جرمنی کے لیے عازم سفر ہوا، جرمنی کے وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے میں دوسرے مسافروں کے ساتھ خیریت سے فرننکفرٹ ائیر پورٹ پہنچا۔ جرمنی ائیر پورٹ پر اپنے عارضی قیام میں مَیں ائیر پورٹ کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ جرمنی کے وقت کے مطابق5بجے شام کو امریکہ کے لیے پرواز تھی۔ ائیر پورٹ کے خوبصورت مناظر میں وقت تیزی سے گزرا اور پھر میں آخری منزل امریکہ کے لیے دوسرے مسافروں کے ساتھ جہاز میں اپنی نشست پر بیٹھ کر اپنے آنے والے کل کو سوچتا رہا۔ میری نشست جہاز کی کھڑی کے ساتھ تھی اس لیے جرمنی میں سورج کے غروب ہونے کا خوبصورت منظر دیکھتا رہا برف باری کے بعد جب سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے تو قدرتی مناظر کچھ اور ہی نکھر آتے ہیں۔ پرواز کی روانگی کا اعلان ہوا اور کچھ ہی دیر بعد ہم مسافر جہاز میں بادلوں سے اُوپر فضا میں امریکہ کی جانب عازم سفر تھے۔

امریکہ میرے سفر کی آخری منزل ہے میں نے پاکستان میں ناروے کا ویزہ بھی لیا تھا لیکن امریکہ میں داخلے کی آخری تاریخ ویزے پر 2مارچ تھی اور میں نے برطانیہ میں تقریباً 2ماہ قیام کیا اس لیے ناروے نہیں جا سکا اور وہاں جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا کام میں وہاں کر نہیں سکتا تھا اور سَیر سپاٹے کے لیے میں گھر سے نکلا نہیں تھا۔

800میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 11ہزار فٹ کی بلندی پر ہم مسافر زمین اور آسمان کے درمیان سمندر کی فضا پر اُڑتے جا رہے تھے موسم خراب تھا اس لیے کبھی کبھی جہاز ڈولنے لگتا تو ایسے لگتا جیسے ڈنگہ روڈ پرمسافر بس منڈی بہاؤالدین جا رہی ہو۔ اس وقت میری گھڑی میں رات کے ساڑھے 10بجے تھے یعنی مسلسل پرواز میں 6گھنٹے گزرے تھے جرمنی سے امریکہ تک کا سمندر کے اوپر سفراُکتا دینے والا ہے۔ سفر کے آغاز پر ائیر ہوسٹس نے میری نشست پر سٹیکر لگا کر کہا تھا کہ دورانِ سفر ہم آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق حلال کھانا فراہم کریں گے۔ لندن کے وقت کے مطابق رات12بجے ہمارا جہاز امریکہ کی فضا میں داخل ہوا تو ایک عجیب سی گھبراہٹ سے میرا دل دھڑکنے لگا مجھے ایسے لگا جیسے میں خود کو امریکہ میں گرفتاری کے لیے پیش کر رہا ہوں۔

امریکہ کی روشنیاں نظر آنے لگی تھیں۔ جہاز JFK ایئرپورٹ نیویارک پر اُترنے کی تیار کر رہا تھا اور ہم نے حفاظتی بیلٹ باندھ لیے امریکہ کے وقت کے مطابق رات8بجے جہاز JFILائیر پورٹ پر اُتر گیا ائیر پورٹ ایمگریشن حکام نے معمولی پوچھ گچھ کے بعد مجھے امریکہ میں داخلے کا پروانہ دیا اُس امریکہ میں جس کے لیے پاکستان میں لوگ 10، 10لاکھ روپے دے کر ایجنٹوں کے ذریعے پاپڑ بیلتے ہیں اور مجھ پر اللہ کی کرم نوازی تھی والدین اور ولیوں کی دعا تھی میں نے صرف 2200روپے میں ویزہ لیا اور ٹکٹ خرید کر امریکہ چلا آیا جانے کونسی نیکی کے انعام میں میرے رب نے میری ہر خواہش پوری کی۔ JFILائیر پورٹ پر ذاکر چوہدری لینے کے لیے آ رہے تھے لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آ سکے جس کی وجہ سے معمولی سی پریشانی سے دوچار ہوا لیکن قریبی ریسٹورنٹ سے فون کارڈ لے کر ذاکر سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے مجھے اپنا ایڈریس لکھوا دیا جو کہ میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو دیا اور میں ٹیکسی میں نیویارک کی بتیاں دیکھتا ہوا کوئی ایک گھنٹہ کے بعد Coneyسٹریٹ پہنچا۔

ذاکر چوہدری اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ اپنی رہائش گاہ کے سامنے میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ذاکر چوہدری اور اُس کے دوستوں نے پر تپاک استقبال کیا تھکاوٹ سے بدن چور تھا اس لیے قریبی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور گھوڑے بیچ کر سو گیا صبح اُٹھا اور امریکہ میں پہلا غسل کر کے تر و تازہ ہوا ذاکر چوہدری نے فون پر پاکستان میں اپنوں سے بات کرنے کے لیے فون ملایا تو انہوں نے امریکہ پہنچنے پر مسرت کا اظہار کیا لیکن قرض خواہوں کے تقاضوں کی وجہ سے وہ اپنی پریشانی چھپا نہیں سکے گھریلو پریشانیوں نے مزید پریشان کر دیا لیکن اب تو یہ پریشانی زندگی کا حصہ بن گئی تھی میں نے حالات کا مقابلہ کرنا تھا اس لیے اپنوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہش پوری کر دی ہے گھبراؤ نہیں انشاء اللہ یہ سب پریشانیاں دور ہوں گی بس میری زندگی اور صحت کے لیے دعا کریں بُرا وقت گزرتے دیر نہیں لگتی بشرطیکہ ارادے نیک ہوں۔ امریکہ میں اپنے قیام کی پہلی شب میں پردیس کی زندگی کا افسوسناک پہلو دیکھا ایک مختصر کمرے میں 5بستروں پر 6افراد سورہے تھے رات 12بجے دو افراد نے ڈیوٹی پر جانا تھا اُن کے جانے کے بعد ہم دونوں کے لیے سونے کی جگہ ملی اور سوگئے۔ امریکہ میں قیام کی پہلی صبح کو اُٹھا نماز فجر کی ادائیگی میں رب العزت کے حضور تھا اپنے اور خاندان کے تابناک مستقبل کے لیے۔

ذاکر چوہدری اُٹھا اور جب میں نے اُنہیں کام کے لباس میں دیکھا تو پریشان ہو گیا دیہاڑی دار مزدوری کے لباس میں ملبوس کھاریاں کے ذاکر چوہدری نے کہا حاجی صاحب پریشان نہ ہوں۔ ابتداء میں وقت گزاری کے لیے ایسی مزدوری ہماری مجبوری ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ مزدوری نہیں کر سکیں گے، کسی ہوٹل میں آپ کی ملازمت کے لیے بات کروں گا۔ میں نے ذاکر سے کہا بھائی مزدوری تو میرے بس کی بات نہیں البتہ کسی ہوٹل میں خانساماں یا برتن دھونے کی نوکری ملے تو بہتر رہے گی۔ ذاکر کام پر چلا گیا اور میں دن نکلنے پر نیچے قریبی بازار چلا آیا جہاں ایک ریسٹورنٹ کے مالک سے ملازمت کے سلسلے میں بات کی تو کہنے لگے میرے پاس اس وقت تو آپ کی ملازمت کے لیے جگہ نہیں البتہ دو دن بعد ایک لڑکا پاکستان جا رہا ہے اُس کی جگہ آپ کو رکھ سکتا ہوں لیکن کام کچھ مشکل ہے وہ مجھے اپنے ساتھ کے ہوٹل کے باورچی خانے میں لے گیا جہاں وہ لڑکا دیگچے دھو رہا تھا۔ اُس کی حالت قابل دید تھی دیگچے اُس کے اپنے وزن سے کہیں بھاری تھے۔ ہوٹل کے مالک نے کہا کہ آپ روزانہ 10گھنٹے کام کریں گے کام کے دوران کھانا پینا مفت ہو گا اور ایک گھنٹہ کے آپ کو 5ڈالر ملیں گے میں نے ہوٹل کے مالک کوئی جواب نہیں دیا اور یہ کہہ کر ہوٹل سے باہر چلا آیا کہ اپنے دوست سے مشورہ کر کے کل آپ کو بتاؤں گا۔

شام کو ذاکر کام سے واپس آیا تو اُس کی حالت دیکھ کر اپنے آنے والے کل سے گھبرا گیا لیکن مجبوری تھی اس لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگا۔ ذاکر چوہدری نے مجھے بڑا حوصلہ دیا کہنے لگا ابتداء میں میرے لیے بھی بڑی مشکل گھڑیاں تھیں وقت کے ساتھ ساتھ چلیں گے تو اللہ مدد کرے گا۔ میرے ساتھ کمرے میں رہنے والے سبھی یہی مزدوری کرتے ہیں کوئی مزدوری۔ کوئی خانساماں، کوئی باورچی اور کوئی ڈرائیور۔

رات گئے تک ہم دونوں گپ شپ میں اپنے اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ دوسرے دن حاجی بہادر جو کہ میرے سسرالی گاؤں ٹوپی کے رہنے والے ہیں اپنے ایک دوست کے ساتھ تشریف لائے اور ملاقات میں بھر پور تسلی دیتے ہوئے کہا اب امریکہ آ گئے ہو تو اللہ کاروبار کا سبب بھی انتظام کرے گا۔ بس حوصلہ رکھو اور وقتی طور پر جو بوجھ ذہن پر ہے اُسے اُتارنے کی کوشش کرو۔

12فروری 1999ء کو جمعہ کے روز چوہدری ذاکر محمود اور دیگر ان کے روم میٹ کام پر چلے گئے اور میں قریبی جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے گیا تو وہاں علامہ طاہر القادری صاحب کی تشریف آوری کی وجہ سے بڑا رش تھا۔ امریکہ میں پہلا جمعہ علامہ طاہر القادری کی امامت میں پڑھ کر بڑا سرور آیا۔ مسجد کے باہر حسب پروگرام حاجی بہادر صاحب سے ملاقات ہوئی وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ لے آئے۔ حاجی بہادر کے ایک دوست امیر عبداللہ بھی جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ حاجی صاحب نے اُن سے میرے کام کے انتظام کی بات کی اُنہوں نے بوسٹن میں فیصل آباد کے ایک دوست چوہدری امجد سے بات کی تو چوہدری امجد نے کہا کہ ہاں میرے پاس کام ہے کل ہی اپنے عزیز کو بھیج دو۔

حاجی بہادر صاحب کہنے لگے کام تو چوہدری امجد صاحب کے پاس مل جائے گا لیکن بوسٹن نیویارک سے 400میل کے فاصلے پر ہے۔ میں نے کہا کہ اگر میں ہزاروں میل سفر کر کے امریکہ آ سکتا ہوں تو امریکہ میں کام کے لیے کہیں بھی جا سکتا ہوں۔ ذاکر محمود چوہدری کو بھی یہی اعتراض تھا کہ بوسٹن بہت دور ہے تومیں نے اُنہیں کہا کہ اگر فوری طور پر اللہ نے سبب بنا لیا ہے تو میں یہ موقع پسند ناپسند میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ رات کو حاجی بہادر صاحب کے ہاں قیام کیا 13فروری کی صبح کو میں ذاکر محمود چوہدری کے پاس چلا آیا اور اپنا سامان اُٹھا کر ذاکر محمود چوہدری کے ساتھ حاجی بہادر خان کے پاس چلا آیا جہاں ذاکر محمود چوہدری اپنے عزیز محمد اقبال کے ساتھ مجھے بوسٹن کے لیے الوداع کر کے چلا گیا۔ سہ پہر 2بجے حاجی بہادر خان کے دوست محمد شفیق صاحب میرے ساتھ ٹرین میں بس اسٹیشن تک آیا جہاں بس میں بوسٹن جانے کے لیے میں نے 34ڈالر کا ٹکٹ خریدا۔ بوسٹن اور نیویارک کے درمیان بذریعہ بس 4گھنٹے اور 20منٹ کا سفر ہے۔ شام ساڑھے 7بجے میں پہنچا تو بوسٹن میں حاجی بہادر صاحب کے دوست ظہور صاحب کو فون پر آنے کی اطلاع دی اور میں اُن کی ہدایت کے مطابق ریڈ لائن ریل کار میں سینٹر سکوائر چلا آیا جہاں افسرخان صاحب میرے منتظر تھے اس طرح میں گوروں کے دیس میں گوروں کی زبان نہ جانتے ہوئے بھی انتہائی آسانی سے ظہور صاحب کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر چائے پی رہا تھا کہ ’’سیون الیون ‘‘کے مالک چوہدری امجد صاحب مجھے لینے آ گئے انہی سے حاجی بہادر کی بات ہوئی تھی۔ مَیں چوہدری امجد صاحب کے ساتھ جانے کے لیے ظہور صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بوسٹن سے SALEMکے لیے روانہ ہوا، چوہدری امجد صاحب نے بوسٹن سے SALEM تک دورانِ سفرمیرا انٹرویو لیا انداز گفتگو اور لہجے میں اپنائیت محسوس ہوئی تو اُن سے کھل کر اپنے تمام حالات بیان کیے تو وہ کہنے لگے اگر آپ نے پردیس میں دل لگا لیا اور اپنے خانگی مسائل کو سامنے رکھ کر خود کو وقتی طور پر بھلا دیا تو آپ کے مسائل مسائل نہیں رہیں گے۔

آپ اپنے اُن مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے جن کے لیے گھر اور وطن سے دور آئے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے اپنی انا کو قتل کرنا ہو گا یہ امریکہ ہے اور امریکہ میں انا کو گلے لگائے رکھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ دیکھیں گے مجھے اور میری طرح دوسرے اُن لوگوں کو جو زندگی کے حسین مقاصد کے حصول کے لیے محنت کرتے ہیں لیکن وہ اپنے وجود اور شعور کی ذات میں اپنی، ، میں، ، کو اہمیت نہیں دیتے۔ ۔ ۔

میں نے چوہدری امجد کی ان باتوں پر غور کیا تو واقعی وہ سچ بول رہے تھے۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ اگر میں نے اپنی۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ہی کو عزیز رکھنا تھا تو اپنوں سے دور نہ آتا۔ باتوں باتوں میں ہم SALEMپہنچ گئے۔ چوہدری امجد صاحب مجھے اپنے سٹور ’’سیون الیون‘‘ لے گئے جہاں انڈیا کے سکندر صاحب کام کر رہے تھے سکندر صاحب سے علیک سلیک ہوئی۔ چوہدری امجد نے سکندر صاحب کو بتایا کہ آپ نے خان صاحب کو ٹریننگ دینی ہے اور یہ یہاں رات کی شفٹ میں کام کریں گے۔ سکندر صاحب سے ملاقات اور سٹور دیکھنے کے بعد چوہدری امجد مجھے ساتھ لے کر دوسرے ملازمین کے ساتھ رہنے کے لیے قریبی ایک بڑی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں چلے آئے جہاں لاہور کے ہاشمی اور راولپنڈی کے میاں جی سے ملاقات ہوئی دونوں نے بڑے پر تپاک استقبال میں اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اپارٹمنٹ میں صفائی اور رہائشی حسن ترتیب کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی رہائش میرے مزاج کے مطابق تھی۔ امجد صاحب کے جانے کے بعد اپنے روم میٹ دونوں دوستوں نے بڑا حوصلہ دیا اور رات گئے تک گپ شپ ہوتی رہی۔

دوسرے دن حسب ہدایت میں سٹور پر گیا چوہدری امجد صاحب وہاں موجود تھے۔ کچھ دیر اُن کی ہدایت اور سٹور میں کام کی نوعیت کو سمجھنے کے بعد اپنے اپارٹمنٹ میں چلا آیا اس لیے کہ مَیں نے رات کی شفٹ میں سکندر صاحب کے ساتھ کام سیکھنا تھا۔ ’’سیون الیون‘‘سٹور میں کچھ دیر ٹھہر کر دوسرے لڑکوں کو کام کرتے دیکھتا رہا کام مشکل نہیں تھا البتہ زبان کا مسئلہ تھا گوروں کی انگریزی عام انگریزی سے کچھ مختلف ہے وہ شارٹ کٹ بولتے ہیں یہی ایک میرے لیے پریشانی تھی۔ رات کو ڈیوٹی پر آیا ٹریننگ کے لیے اور بسم اللہ کر کے کام شروع کر دیا۔

سکندر صاحب کام کے متعلق بتاتے رہے میں دیکھتا اور سوچتا رہا۔ سٹور کے اندر تو سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن رات کو3بجے جب گھر کے لیے پیدل چل پڑا تو دانت بجنے لگے انتہا کی سردی میں اپارٹمنٹ میں پہنچا تو وجود جیسے سُن ہو چکا تھا۔ میں نے زندگی میں اس قدر سردی پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔

’’سیون الیون‘‘ امریکہ کا ایک مشہور کاروباری ادارہ ہے یہ ایک جنرل سٹور کی طرح کی ایک بڑی دکان ہوتی ہے جس میں سبزی، فروٹ، ادویات اور گھریلو ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ 24گھنٹے کھلے اس سٹور میں شراب بھی ملتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر ایک سٹور میں ہو ’’سیون الیون‘‘ عام طور پر فرنچائز ہوتے ہیں اور ان کے مالک عام طور پر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں چونکہ انگریزی میں پیدل ہوں دسویں جماعت تک کی تعلیم میں ہم پاکستانی انگریزی کی ABCتک ہی تو محدود ہوتے ہیں اس لیے کہ ہمارے دور بچپن میں تو انگریزی چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی۔ چار سالوں کی انگریزی گوروں کے دیس میں کہاں کام آتی ہے۔ اس کے باوجود مجبوری تھی آئے تو مزدوری کے لیے تھے اس لیے ہم پاکستانی جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہوں ایشیائی کاروباری لوگوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ میری ہر ممکن کوشش تھی کہ مَیں باوجود مشکلات کے خود کو امریکہ کے کاروبار زندگی میں ایڈجسٹ کر سکوں۔ میرے ساتھ فیصل آباد کے غلام مصطفی دوسری شفٹ میں کام کرتے تھے اور اُن ہی سے سیکھ رہا تھا۔ دورانِ ٹریننگ میرے ہم وطن میری انا کو اس قدر مجروح کر دیتے کہ اپنی ذات پر رونا آ جاتا تھا میں چونکہ زبان سے نابلد تھا اور دکانداری میرے لیے مشکل تھی۔ غلام مصطفی بھی میری طرح ملازم تھے لیکن اُنہوں نے وہاں ایک گوری سے شادی کر کے گرین کارڈ حاصل کیا تھا اور یہی گرین کارڈ ہم پاکستانیوں میں کچھ خود پرستوں کے لیے اُن کی شان بن جاتا ہے اور وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے مذہبی اور خاندانی اقدار تک کو بھول جاتے ہیں۔ کام کے دوران ایک غلطی پر غلام مصطفی نے سٹور میں موجود امریکی لوگوں کے سامنے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر کاؤنٹر سے باہر نکال دیا میری اس توہین پر وہاں کھڑے گورے بھی تڑپ اُٹھے تھے اُس دن اپنی اس توہین پر اس قدر رونا آیا کہ بتا نہیں سکتا۔

میں سٹور کے بیک روم میں کھڑا اپنے آج کو رو رہا تھا کہ سٹور کے مالک چوہدری امجد آئے انہوں نے میری حالت دیکھی تو پریشان ہو گئے کہنے لگے گھبرانے کی ضرورت نہیں آپ کی یہ توہین جو آج ہو رہی ہے کل آپ کے کام آئے گی اس لیے کہ آپ اپنی توہین کے خوف سے کام پر خصوصی توجہ دیں گے یہ عمل صرف تمہارے ساتھ نہیں آپ تو ملازم ہیں ملازم نے ہی آپ کی توہین کی ہے لیکن مَیں تو اپنے سگے بھائی کے ساتھ کام سیکھ رہا تھا اور جو توہین میرے بھائی میری کیا کرتے تھے آپ سوچ بھی نہیں سکتے یہ لوگ جو آپ کو پریشان کر رہے ہیں اپنا کل بھول گئے ہیں ابتداء میں یہ آپ سے بھی زیادہ شعوری طور پر غریب تھے۔ گھبراؤ مت کام اور زبان سیکھنے کی کوشش کر و اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن بہت قریب ہے جب اسی سٹور میں آپ مجھے کہیں گے چوہدری صاحب آپ چلے جائیں آپ کا سارا کام میں کروں گا انشاء اللہ۔

چوہدری امجد مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے لیکن امریکی معاشرے کاروباری اور فکری لحاظ سے مجھے سے کئی سال بڑے تھے قابل احترام خاندان کے مالک چوہدری امجد کی حوصلہ افزائی میرے لیے اُس وقت زیادہ حوصلہ افزاء تھی جب انہوں نے دوسری شفٹ میں کام کرنے والے غلام مصطفی اور رات کی شفٹ میں کام کرنے والے سکندر سے کہا کہ خان صاحب کاکل جو میں محسوس کر رہا ہوں آپ نہیں کر سکتے اس لیے تربیت کے دوران اخلاقی، مذہبی اور قومی قدروں کو مد نظر رکھیں خان صاحب حصولِ تربیت کی پہلی کلاس میں ہیں اس کے ساتھ تعاون کریں

چوہدری امجد کی باتوں کو دوران کام میں سوچتا رہا۔ اس لیے کہ اُن کی باتوں اور اخلاقی عمل میں بڑا اثر تھا وہ جب بھی سٹور میں آتے احترام سے نام لیتے اور جو کام صفائی کا میرا ہوتا میرے منع کرنے کے باوجود خود کرتے اور کہتے کہ جس دن مَیں نے تم کو ملازم اور خود کو مالک سمجھ لیا میرا آنے والا خوبصورت کل برباد ہو جائے گا۔ یہ پردیس ہے اور ہم سب یہاں ملازمت کے لیے آئے ہیں کیا ہوا اگر میں دوچار سٹور بنانے میں کامیاب ہوا ہوں تو آپ کی طرح پاکستانی مزدور اور یہی بات اُن کی میرے دل میں اُتر جایا کرتی تھی۔

کام سے واپسی پر عموماً بچوں کی خیریت معلوم کرنے پاکستان فون کیا کرتا اس لیے کہ انتہائی ناگفتہ مجبوری کی وجہ سے مَیں اپنے اہل و عیال کو تنہا، صرف خدا کے سپرد چھوڑ کر آیا تھا اور کوئی بھی فرد اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مشکل دور میں اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ گھر سے مجھے بتایا جاتا کہ کون آیا تھا کس نے گھر کے دروازے پر محبت اور کس نے گالی دے کر دستک دی تھی گالی اور توہین کی دستک دینے والے بھول گئے تھے کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا اُن کا خدا ہوتا ہے اور میرے یقین نے میرے خدا کو مجھ پر اس قدر مہربان کر دیا تھا کہ جس کا میں تصور تک نہیں کر سکتا۔ گھر والوں نے میرے منع کرنے پر کسی کو نہیں بتایا تھا کہ میں کس ملک جا رہا ہوں چونکہ امریکہ آنے سے قبل میں سجدہ شکر کے لیے سعودی عرب گیا تھا عزیزوں کو علم تھا کہ میں عمرے کے ویزے پر سعودی عرب جا کر گم ہو جاؤں گا۔ میرے پاکستان سے جانے کے بعد 5ماہ تک کسی کو علم نہیں تھا کہ مَیں امریکہ میں ہوں اس لیے میرے ایک عزیز نے میری اہلیہ سے انتہائی توہین آمیز انداز میں پوچھا تھا۔

بخشالوی کون سا امریکہ چلا گیا ہے کہ وہاں سے ڈالر بھیجے گا سعودی عرب کے ریالوں سے اُن کے قرضے ختم نہیں ہوں گے میرے لیے رقم کا انتظام کرو۔ آپ کی وجہ سے قرض دار مجھے پریشان کیے ہوئے ہیں۔ میری اہلیہ نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے امریکہ سے براہِ راست فون کر کے اُنہیں بتا دیا کہ مَیں سعودی عرب کے ریال نہیں بفضل تعالیٰ ڈالر بھیجوں گا اس لیے کہ مَیں سعودی عرب میں نہیں امریکہ میں ہوں۔ فکر مت کریں چند ماہ انتظار کریں میں گھبرایا نہیں ہوں یہ میرے لیے امتحان کی گھڑی ہے اور انشاء اللہ میں امتحان میں پورا اُتروں گا اس لیے کہ خدا کی وحدانیت پر مجھے یقین ہے اور میرا یقین ہی میری دولت ہے۔ اسی دن ناروے میں مقیم چوہدری ریاض احمد گوندل سے فون پر رابطہ ہوا اُنہوں نے کہا کہ مَیں آپ کے صاحبزادے شاہد بخشالوی کو ناروے بُلانے کی کوشش کر رہا ہوں اُن کی اس حوصلہ افزائی سے میری ہمت بڑی اس لیے کہ میری زندگی کی آخری خواہش دونوں بچوں کو بیرونِ ممالک بھجوانا تھا اور اپنے تمام تر قرضوں کی ادائیگی کے بعد واپس پاکستان جانا تھا یہی میری زندگی کا واحد مقصد اور میری خواہش تھی۔

20فروری 1998ء کو سیون الیون میں کام کر کے سیکھتے ہوئے میرا آٹھواں دن تھا سٹور کے مالک چوہدری امجد کہنے لگے کہ آپ رات کو اکیلے شفٹ لینے کے فی الحال قابل نہیں اس لیے توجہ سے کام سیکھیں انہوں نے سٹور میں میرے ساتھی دوسرے ملازم سکندر سے کہا کہ خان صاحب کو زیادہ تر کاؤنٹر اور رجسٹر پر تربیت دیں۔ چوہدری امجد نے جاتے ہوئے مجھے دو سو ڈالر دئیے یہ امریکہ میں میرے پسینے کی پہلی اُجرت تھی۔ 25فروری کو محکمہ موسمیات کے اعلان کے مطابق زبردست برف باری شروع ہوئی امریکہ میں ایسا منظر میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ 2فٹ برف پڑنے کی وجہ سے ہر طرف برف کے ڈھیر لگ گئے تھے پیدل چلنا تک مشکل تھا۔ Salemمیں جیسے کائنات نے سفید چادر اوڑھ لی تھی لیکن زندگی رواں دواں تھی انتظامیہ کے بلڈوزر سڑکیں صاف کرتے رہے۔

15دن کام سیکھتا رہا زبان سے نابلد تھا لیکن ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کا حوصلہ جواں تھا۔ گورے بھی بڑے خوش گفتار تھے۔ جو بات میری سمجھ میں نہ آتی تو اپنے انداز سے سمجھاتے اُن کے بھرپور تعاون سے بڑا حوصلہ ملا۔ یکم مارچ1999ء کو میں نے باقاعدہ تنخواہ پر کام شروع کر دیا چوہدری امجد صاحب نے بتایا کہ رات 8بجے سے صبح 6بجے تک آپ کام کریں گے اور 6ڈالرفی گھنٹہ کے حساب سے روزانہ 60ڈالر آپ کی تنخواہ ہو گی اُس وقت ڈالر کا ریٹ 55روپے پاکستانی تھا یعنی 330روپے فی گھنٹہ سے معاوضے پر کام شروع کیا ایک شفٹ یعنی 10گھنٹے کی تنخواہ 3300روپے بنی جو کہ ماہانہ تقریبات ایک لاکھ بنتی تھی۔

رب العزت کی کرم نوازی سے میری سوچ سے بھی زیادہ مجھے ملنے لگا تھا چونکہ میں ایک ایسے علاقے میں تھا جہاں اُردو بولنے والے برائے نام تھے۔ اس لیے کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا کہیں آنے جانے کا اور سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ میرے پاس گاڑی نہیں تھی اور یہاں لوکل ٹرانسپورٹ کی وہ سہولت نہیں تھی جو نیویارک جیسے بڑے شہروں میں عوام کی سہولت کے لیے ہے۔ اس لیے کسی قسم کی کوئی فضول خرچی نہیں تھی بس کام تھا کھانا تھا اور سونا تھا ۔

5مارچ کی رات کوئی 2بجے جب ماحول سٹور کے گرد تقریباًسنسان تھا ایک نوجوان خاتون سٹور میں آئی اور کہنے لگی مجھے 100ڈالر دیں پہلے تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہہ کیا رہی ہے لیکن وہ انتہائی کرخت لہجے میں بولی give me 100 Dollarمیں سمجھ گیا پیسے مانگ رہی ہے میں اکڑ گیا اشارے سے پوچھا کیوں تمہیں 100ڈالر دوں خاتون گوری نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر انتہائی کرخت لہجے میں بولی لیکن میں نے جواباً اپنے لہجے میں کہا تو میری مامی لگتی ہے جا نہیں دیتا اور ہاتھ کے اشارے سے اُسے دفع ہونے کو کہا۔ اس سے پہلے کہ خاتون کچھ اور کہتی ایک اور گاہک سٹور میں داخل ہوا تو وہ انتہائی تیزی سے سٹور سے باہر چلی گئی۔ صبح کو چوہدری امجد آئے تو میں نے اُن کو رات کا واقعہ سُنایا کہنے لگے خان صاحب آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا یہ چور اور لُٹیرے ہیں اچھا ہوا تمہاری جان بچ گئی ورنہ وہ تمہیں شوٹ بھی کر سکتی تھی آئندہ ایسے موقع پر کسی سے کوئی تکرار نہیں کرنا خاموشی سے رجسٹر کھول کر اُن کو رقم دے دیا کرنا۔ آپ نے اگر ایسی کوئی مداخلت کی اور جان سے گئے تو قانون تمہاری کوئی مدد نہیں کرے گا اس لیے کہ یہاں یہی قانون ہے پیسے سے جان کی قیمت زیادہ ہے کسی بھی صورت میں ایسے لوگوں سے تکرار نہیں کرنا یہی امریکہ کا قانون ہے حالات کا تقاضہ میرے سامنے تھا اور میں ان حالات کے سانچے میں خود کو ڈال کر وہ کچھ کرنے لگا جو مجھے امریکہ میں بحفاظت رہنے کی ہدایت اور مشورے تھے۔ میں نے حالات سے سمجھوتہ کرنا شروع کر دیا اور منزل تک رسائی میں خود کو صرف کام کام اور کام تک محدود کر دیا میں نے اپنے اطراف زندگی کے حسن کو نظر انداز کر دیا اس لیے کہ میں صرف اور صرف اپنے خاندان کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے امریکہ آیا تھا اور اللہ کی کرم نوازی سے مجھے میری عمر کے تقاضے کے مطابق کام ملا اور اُجرت بھی مناسب تھی۔

28مارچ 1999ء کو امریکہ میں میری عید بڑی سوگوار تھی اپنوں سے دور دیس میں تنہا، نہ قریب کوئی مسجد تھی اور نہ میرے پاس کوئی گاڑی تھی لوکل ٹرانسپورٹ بھی نہیں تھی ٹیکسی کا کرایہ دے نہیں سکتا تھا میاں عظمت صاحب میرے ساتھ سٹور میں صبح کی پہلی شفٹ میں کام کرتے تھے۔ عمر میں مجھے زیادہ تھے اس لیے رات کی ڈیوٹی کے بعد صبح کی شفٹ بھی میں نے لے کر میاں عظمت کو نماز عید کے لیے بھیج دیا اور میں کام کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ زندگی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے ایسا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا جو دیکھ رہا ہوں لیکن شاکر ہوں اپنے مقدر پر کہ اگر میں امریکہ نہ آتا تو پاکستان میں کرتا کیا آنکھیں تو اپنوں نے بھی پھیر لیں تھیں۔ غریب اولاد تو والدین کی نظر میں بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے لیکن جس نے پیدا کیا وہ تو ساتھ نہیں چھوڑ تا صرف اُس کی ذات پر بھروسے کی ضرورت ہے اور جب انسان دل سے اپنے یقین کو شاداب رکھے تو زندگی کے گلشن میں پھول کھلتے دیر نہیں لگتی۔

5اپریل کو پہلی تنخواہ ملی تو میری خوشی ایک انتہاء پر تھی اس لیے کہ میں ایک ایسے دیس میں کامیابی کے زینے پر قدم رکھ چکا تھا جس کا نہ تو میرے مذہب سے تعلق تھا نہ زبان سے اور خوشی کی بات یہ تھی کہ سٹور کے مالک میرے کام سے مطمئن تھے جہاں غلطی ہوتی بڑے پیار سے سمجھاتے میں نے چوہدری امجد سے وعدہ کر لیا تھا کہ مشکل وقت میں آپ میرا سہارا بنے ہیں۔ دور دیس میں آپ نے میری مجبوریوں کو محسوس کیا ہے انشاء اللہ جب تک امریکہ میں ہوں آپ کے ساتھ کام کروں گا۔ چوہدری امجد کے ساتھ وعدے کے ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے لیکن تجربے اور امریکی معاشرے میں زندگی کے ہر پہلو سے بخوبی آگاہ تھے امریکی معاشرے میں زندگی جینے کے لیے اُن کے مشورے قابل غور ہوتے اور میں اُن کی رہنمائی میں اپنا مقدر سنوارنے میں مصروف تھا اللہ تعالیٰ کی اس کرم نوازی کا میں بڑا احسان مند ہوں لیکن بعض اوقات ایسے محسوس ہوتا جیسے میں کوئی سیاستدان ہوں اور حکومت وقت نے مجھے Salemشہر میں نظر بند کر رکھا ہے۔ اس لیے کہ رہائش گاہ سے کوئی 5فرلانگ کے فاصلے پر سٹور تھا ڈیوٹی کے بعد اپنی رہائش گاہ پر رہتا۔ جاتا بھی تو کس کے پاس کوئی اپنا تو کیا ہم زبان تک بھی قریب کوئی نہیں تھا۔

2اپریل کو دانت میں شدید درد اُٹھا۔ روم میٹ عابد رضا کے ساتھ ڈینٹل سرجن کے پاس گیا تو کہنے لگا آج نہیں کل آ جائیں میں نے عابد سے کہا ڈاکٹر کو بتا دو کہ کل تک تو میرا یہ دانت میرا حشر کر دے گا لیکن امریکہ میں ڈاکٹر سے وقت لینا ضروری ہے۔

کیا بات ہے میرے پاکستان کی دانتوں والے ڈاکٹر اس انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کسی کے دانت میں درد ہو اور وہ آئے مریض کے آتے ہی ایک انجیکشن لگاتے ہیں اور پَلاس (اوزار)سے دانت نکال باہر پھینک دیتے ہیں۔

ڈاکٹر نے درد کے لیے دوا لکھ دی رات کام کے دوران بھی بہت تکلیف تھی وقت مقررہ پر ڈاکٹر کے پاس گیا تو پہلے اُس نے ایکسرے کیے اور بعد میں اپنے نمبر پر اس مہارت سے دانت نکالا کہ سوئی برابر درد تک محسوس نہیں ہوا ڈاکٹر نے دانت نکالنے کی فیس 170ڈالر لی اور 21ڈالر کی دوا تجویز کی اس طرح امریکہ میں پہلا دانت شہید ہو گیا اور فیس گئی جیب سے تقریباً10ہزار روپے پاکستانی کرنسی میں!!!

پاکستان میں دانت تو تقریباً ڈاکٹر اسماعیل نے سارے نکال دئیے تھے جو چند ایک رہ گئے وہ امریکہ کے ڈاکٹر نکال دیں گے انشاء اللہ۔

امریکہ میں قیام کے لیے ضروری تھا کہ میں انگریزی کے چند جملے سیکھ لوں اس لیے میں نے ہفتہ وار انگلش لینگوئج سکول میں داخلہ لیا اور انگریزی سیکھنے پر بھرپور توجہ دی اپنے روم میٹ دوست کے تعاون سے میرے سوشل سکیورٹی کا مسئلہ حل ہو گیا۔ عام طور پر امریکی شہریت کے بعد ہم پاکستانیوں کی آنکھیں بدل جاتی ہیں لیکن چوہدری امجد صاحب کے ہر مسئلے میں بھرپور تعاون سے میں نے خود کو امریکہ میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔ سوشل سکیورٹی ملی تو گاڑی بھی خرید لی اس طرح امریکہ میں میرے قیام کی زندگی کو رنگ لگنے لگے۔ 2000ء میں امریکی حکومت نے امریکہ میں مقیم غیر قانونی قیام کے تارکین وطن کو موقع دیا کہ وہ اپنی رجسٹریشن کرا لیں بصورت دیگر اُن کو امریکہ سے نکال دیا جائے گا۔ میرے لیے انتہائی پریشان کن لمحے تھے۔ اس لیے کہ ضروری نہیں تھا کہ رجسٹریشن کرانے والوں کو قیام کی سند جاری کر دی جائے۔ عام طور پر یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ امریکہ حکومت اس گیم کے ذریعے ایسے غیر قانونی تارکین وطن کو ریکارڈ پر لا رہی ہے جو کہ ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے کچھ لوگ جو امریکی معاشرے میں کسی جرم میں ملوث تھے انہوں نے امریکہ چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور بڑی تعداد میں لوگ امریکہ سے چلے بھی آئے تھے۔

مجھے میرے دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ کے لیے بہتر ہے کہ خاموشی سے پاکستان چلے جاؤ۔ یہ امریکی گیم ہے ممکن ہے گرفتار ہو کر کئی ایک مسائل کا شکار ہو جاؤ۔ تو میں نے دوستوں سے کہا اگر میں امریکہ سے واپسی کی پوزیشن میں ہوتا تو چلا جاتا لیکن میں تو کشتیاں جلا کر آیا ہوں۔ چوہدری امجد صاحب کا مشورہ تھا کہ امریکہ میں اکیلے تم نہیں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن ہیں کس کس کو ڈپورٹ کریں گے۔ اگر قیام امریکہ کے دوران تم سے کوئی جرم سرزرد نہیں ہوا اور تم کسی فرد واحد پر بوجھ نہیں تو امریکہ تمہیں امریکہ سے نہیں نکالے گا تم بار ڈر کر اس کر کے نہیں آئے اور نہ ہی جعلی ویزے پر آئے ہو پاکستان سے سیاحت کے ویزے پر آئے ہو۔ تمہارا امریکہ میں داخلہ قانونی ہے قیام غیر قانونی ہے اس لیے میں تمہارے ساتھ تمہاری رجسٹریشن کے لیے جاؤں گا میں تمہیں سپانسرز کروں گا۔

چوہدری امجد صاحب کی حوصلہ افزائی کام آئی اور میں اُن کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے ایمگریشن کے سامنے حاضر ہوا اور دوستوں کے منع کرنے کے باوجود میں نے پاسپورٹ، سوشل سکیورٹی، ڈرائیونگ لائسنس اور کریڈٹ کارڈ ایمگریشن آفیسر قانون کے سامنے رکھ دئیے۔ میری وکیل میرے ساتھ تھی۔ ایمگریشن نے میرے تمام کاغذات دیکھ لیے اور سب کچھ ریکارڈ پر لے کر میرے پاسپورٹ کے علاوہ تمام دستاویزات مجھے واپس کر دئیے اور مجھ سے پنجہ یعنی پانچوں اُنگلیاں لگوا کر فارغ کر دیا۔

گرین کارڈ انٹرویو کے دوران 7سال بعد پتہ چلا تھا کہ ایمگریشن نے میرے ڈیپورٹیشن کے آرڈر کر دئیے تھے لیکن وکیل نے مجھے نہیں بتایا کہ میں ذہنی طور پر پُرسکون رہوں اور اُس نے میرا مقدمہ ایمگریشن کورٹ میں دائر کر دیا۔ ایمگریشن میں زیر سماعت کیس کی وجہ سے مجھے وقتی طور پر تحفظ ملا تھا اور جب ایمگریشن کورٹ نے 7سال بعد میرے حق میں فیصلہ دیا تو میری وکیل نے گرین کارڈ کے لیے میری درخواست دے دی۔ اس طرح میں امریکہ میں مقامی طور پر کسی پریشانی سے دوچار نہیں رہا اور اپنے کام سے کام رکھا۔ عدالت میں ایمگریشن کیس کی سماعت کے دوران چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں اگر شادی کر لوں تو میرا گرین کارڈ جلدی بن جائے گا لیکن ایسے دوستوں کے لیے میرا جواب ہوتا کہ میں امریکہ میں اپنی ذاتی زندگی کے حسن کے لیے نہیں آیا میرے سر پر خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ قرضوں کا بوجھ ہے میں اُن لوگوں کی حالت دیکھ رہا ہوں جنہوں نے گرین کارڈ کے حصول کے لیے گوریوں سے پیپر میرج کیا ہے یا امریکی قوانین کے مطابق نکاح کیا ہے ایسی ذلالت سے زندگی کی خوشیاں خریدنے کی آخر ضرورت کیا ہے امریکہ میں دورانِ قیام اگر مجھے کوئی تکلیف نہیں کاروبارِ زندگی ٹھیک ہے تو کیا ضرورت ہے گرین کارڈ کی ویسے بھی گرین کارڈ پاس ہو تو ہر چھ ماہ بعد پاکستان آنے کے لیے دل دھڑکے گا جو کماؤں گا خرچ ہوتا رہے گا۔

امریکہ میں اپنے قیام کے دوران اگر مشکل گھڑی آئی تھی تو Eleven-Nine(نائن الیون)کے حادثے کے بعد لیکن امریکی معاشرے میں عوام کی سطح تک ہم مسلمانوں کو کوئی ایسی پریشانی لاحق نہیں تھی حکومتی سطح تک جو کچھ تھا دنیا نے اُس وقت بھی دیکھا تھا آج بھی دیکھ رہی ہے اور آنے والے کل کو بھی دیکھے گی۔ امریکہ کے سٹیٹ میساچوسٹس کے شہر Salemمیں چوہدری امجد صاحب کے فرنچائز سٹور Eleven-Seven(سیون الیون)میں رات کی شفٹ میں مسلسل 12سال کام کیا اور اُن کے فراہم کردہ فلیٹ کے ایک کمرے میں 12سال مختلف دوستوں کے ساتھ گزارے۔ اس دوران کئی ایک نشیب و فراز آئے لیکن ثابت قدم رہا اور ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا جانے کب تک امریکہ میں اپنوں سے دور ہوتا لیکن اپنے بچوں کی خواہش پر امریکہ مستقل طور پر چھوڑ کر پاکستان چلا آیا۔

یہ تھی کہانی میری زندگی کی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اُس کی کرم نوازی سے آج زندگی کا آخری عشرہ انتہائی آرام وسکون سے گزر رہا ہے۔ دونوں بچے شاہد بخشالوی اور امجد بخشالوی افریقہ میں ہیں بیٹی اپنے سسرال میں خوشحال ہے داماد دبئی میں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مقیم ہے اور میں کھاریاں میں اپنی صحافتی اور ادبی زندگی کے حسن سے سرفراز ہوں۔ قسط وار سلسلے کو یہاں ختم کرتا ہوں البتہ امریکہ میں قیام کے دوران کی دلچسپیاں سلسلہ وار چلتی رہیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

 امریکہ میں قیام کے دوران کی زندگی!!!

 

                مانیکا کے دیس میں میری تنخواہ لگ گئی،

 

نیویارک کی زندگی مجھے پسند نہیں آئی اس لیے کہ یہاں گوروں کی نسبت کالوں کی تعداد زیادہ تھی میں جس مقام پر عارضی طور پر رہائش پذیر تھا وہاں کا منظر ایسے لگتا جیسے پاکستان کے دل شہر لاہور کی گو المنڈی۔ ۔

نیویارک شہر میں غیر ملکیوں کی کثرت میں پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کی اکثریت تھی اس معروف ترین شہر میں عام طور پر مزدور پیشہ لوگوں کو اُن کی محنت کا معاوضہ بہت کم ملتا ہے خاص کر اُن کو جو میری طرح غیر قانونی طور پر روپوش مقیم تھے اور ایسے لوگوں کو ملازمت ملتی تو اپنے ہی ملکوں کے انکاروباری لوگوں کے پاس جو گرین کارڈ کے حصول اور امریکی شہری ہونے کے ناطے غیر قانونی طور پر مقیم مجبور لوگوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے جیسے خرکار کیمپ میں مالکان یا خشت بھٹہ کے مزدوروں کے ساتھ پاکستان میں کیا جاتا ہے۔ نیویارک میں دوہی دن میرا قیام تھا لیکن میں نے مجبور لوگوں کی جو مجبورزندگی وہاں دیکھی تو پریشان ضرور ہو گیا تھا امریکہ میں پاکستان ہی کی کیا ہر ملک کے شہری اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں۔

میں پاکستان کی بات اس لیے کروں گا کہ میں نہ صرف پاکستانی ہوں بلکہ بفضل تعالیٰ مسلمان بھی ہوں اور اپنے ملک کے ہر فرد کو مسلمان ہی کے آئینے میں دیکھتا ہوں میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہی وہ امریکہ ہے جس میں زندگی کے حسن کی تلاش میں آیا ہوں تو یقیناًً میں نے غلطی کی ہے لیکن تقدیر میں رب العزت نے میرے لیے کچھ اور ہی لکھا تھا اور مجھے میرے عزیز حاجی بہادر خان کی وساطت سے نیویارک شہر بلکہ سٹیٹ سے بہت دور میساچوسٹس کے اُس شہر میں کام ملا جو امریکہ کا پہلادارالخلافہ تھا ۔

Salemایک صاف ستھرا اور خوبصورت لوگوں کا خوب صورت شہر یہاں گوروں اور کالوں کی اکثریت میں غیر ملکیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ نیویارک سے بذریعہ بس بوسٹن پہنچاتو میں نے ظہور صاحب کو فون کیا ظہور حاجی بہادر خان کے دوست تھے اور میں نے اُن ہی کے پاس جانا تھا۔ ظہور صاحب نے بذریعہ ٹرین آنے کے لیے کہا شہر کی لوکل ٹرین میں میرا پہلا سفر تھا۔ زبان بھی نہیں آتی تھی لیکن شعوری زبان و فکر نے بھرپور ساتھ دیا۔ ایک ڈالر کا ٹکٹ لیا اور 10منٹ میں ظہور صاحب کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچ گیا۔ راہبری کے معاملے میں امریکی گورے بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ زبان نہ آئے تو لکھی ہوئی چِٹ اُنہیں دکھادیں اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ انجان ہے اس لیے بھرپور اور بڑے انسانی اخلاق اور اطمینان سے راہنمائی کرتے ہیں۔ مجھے بھی ٹرین میں سوار ہوتے ہی ایسے ہی ایک گورے کی راہنمائی ملی۔ رات کے 8بج رہے تھے اور سخت سردی میں میرے دانت بھی بج رہے تھے۔ ظہور صاحب سے رابطے کے بعد چند ہی منٹوں میں اُن کا روم میٹ لینے آ گیا اُن کی رہائش گاہ کوئی 10منٹ کے فاصلے پر تھی ہم پیدل چلے آئے۔ علیک سلیک کے بعد قضا نمازیں پڑھیں اور نئے مقام پر اپنے خوبصورت کل کے لیے دعا مانگی۔ بھوک بھی مچل رہی تھی ظہور صاحب نے خصوصی اہتمام کیا تھا اس لیے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اسی دوران چوہدری امجد کا فون آیا کہ وہ لینے آ رہے ہیں۔

ظہور صاحب کی مہمان نوازی اور حوصلہ افزائی کا شکریہ ادا کر کے چوہدری امجد صاحب کے ساتھ گاڑی میں تعارف کے دوران محسوس ہوا کہ جس کے ساتھ کام کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خوبصورت ذہن کے پاکستانی اور با اخلاق مسلمان ہیں اور میرے لیے یہی میری خوشی کا مقام تھا۔ میں امجد صاحب کے ساتھ اُسی سٹور پر آیا جہاں میں نے کام کرنا تھا۔ رات کی شفٹ پر ہندوستان کے مسلمان سکندر صاحب موجود تھے۔ رات کی شفٹ پر کام والا نہ ہونے کی وجہ سے سکندر صاحب عارضی طور پر کام کر رہے تھے میں نے اسی سٹور پر رات کی شفٹ میں کام کرنا تھا۔ چوہدری امجد اپنے کام میں مصروف ہو گئے اور میں سکندر صاحب کے ساتھ کھڑا گوروں کا لوں کو دیکھتا رہا جو لائن میں کھڑے سودا سلف خرید رہے تھے۔ اُن کی زبان میرے لیے بالکل نئی تھی اور یہی ایک پریشانی مجھے تھی کہ اُن کے ساتھ کام کیسے کروں گا۔

چوہدری امجد صاحب اپنے کام سے فارغ ہوئے تو مجھے ساتھ لے کر سٹور میں کام کرنے والے دوسرے ملازمین کے ساتھ رہنے کے لیے اپارٹمنٹ میں لائے جہاں لاہور کے سہیل ہاشمی اور راولپنڈی کے میاں عظمت موجود تھے۔ ان سے پہلی ملاقات بڑی گرم جوش اور خوشگوار رہی، کھانا چونکہ میں کھا چکا تھا امجد صاحب مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور میں وہاں بسترخاکی پر دراز ہو گیا رات بہت ہو گئی تھی دوسرے دن گوروں کا لباس پہن کر سٹور پر آیا جہاں سکندر صاحب نے مجھے ٹریننگ دینا تھی کام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ گوروں کی زبان کے بغیر کام بہت مشکل ہو گا اور جب چوہدری امجد صاحب نے کہا کہ چند دن ٹریننگ کے بعد رات کی شفٹ پر تنہا کام کریں گے تو میرے پسینے چھوٹ گئے۔ سپرسٹورتھا کئی ایک قسم کی چیزیں تھیں اُن کی قیمت زبانی یاد ہونا اور رجسٹرمیں رِنگ کرنا۔ سکینررجسٹر اُس وقت نہیں تھا اور پرائیویٹ سٹوروں میں زیادہ تر کاروباری لوگ سکینررجسٹرپسندبھی نہیں کرتے اس لیے کہ وہ حساب صحیح بتاتا ہے اور صحیح حساب یعنی دکانداری کی انکم پر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔

جوئے کی ٹکٹیں، لاٹری مشین کا استعمال، کافیاں بتانا وغیرہ یہ سب میرے جیسے فرد واحد کے لیے مشکل تھا لیکن چوہدری امجد کے حوصلے نے حوصلہ دیا اور میں بھرپور توجہ سے کام دیکھتا اور اپنے ہاتھوں سے کرتا رہا۔ عام طور پر میرے جیسے زبان اور کام سے نابلد مزدور پیشہ ایسے سٹوروں میں کام سیکھنے میں مہینے لگا دیتے ہیں لیکن میرے شعور نے میراساتھ دیا اور میں 15دن میں کام سیکھ کر چوہدری امجد علی کی مہربانی سے شفٹ لینے کے لیے تیار ہو گیا۔ چوہدری امجد علی نے بتایا کہ کچھ دن آپ اپنی تنہائی محسوس کریں گے لیکن ذاتی دلچسپی اگر آپ کے ساتھ رہی تو آپ کے لیے کوئی مشکل مشکل نہیں رہے گی کوئی بھی فرد کوئی بھی کام ماں کے پیٹ میں نہیں سیکھتا۔ یہاں آنے والے ہم سب کو ابتداء میں ایسی مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے لیکن حوصلے اور کوشش کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے لیکن ایک بات ذہن نشین کر لیں یہ پاکستان نہیں امریکہ ہے یہاں بعض حالات میں اپنے بھی اپنے نہیں ہوتے کسی کیپاس کسی کو دینے کے لیے وقت نہیں۔ روز محشر کی طرح یہاں ہر کوئی اپنا بوجھ خود اُٹھاتا ہے۔ کوشش اور محنت کرو گے تو امریکہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکو گے۔ مجھے بہت ملازم مل جائیں گے اور تم بھی بھوکے نہیں مرو گے لیکن اپنے پسینے کی کمائی میں زندگی کا حسن بڑا خوبصورت ہوتا ہے اپنے آپ پر بھروسہ رکھو۔ ہاں رات کی شفٹ کے دوران اگر کوئی ڈاکو تمہیں لوٹنے آتا ہے تو جوانمردی دکھانے کی ضرورت نہیں۔ اطمینان سے ڈاکو جو کہتا ہے اُس پر عمل کرنا، کوئی مداخلت نہ کرنا اس لیے کہ وہ چند سیکنڈ میں اپنا کام کر کے بھاگنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ معمولی مداخلت بھی وہ برداشت نہیں کرتے گولی مار دیتے ہیں۔ زندگی سے قیمتی چیز اور کوئی نہیں تم یہاں اپنے خاندان کا مستقبل سنوارنے آئے ہو زندگی سے کھیلنے کے لیے نہیں لیکن اگر دورانِ مداخلت تم جان سے گئے تو قانون ساتھ نہیں دے گا اس لیے کہ سٹور میں لگے چاروں طرف کیمرے سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ امریکہ میں قانون کا احترام بہت ضروری ہے سٹور میں دوران ڈیوٹی یاسٹور سے باہر عام زندگی میں قانون کا احترام کرو گے تو کوئی وردی والا تمہیں نہیں پوچھے گا لیکن اگر قانون کا احترام بھول گئے تو سمجھو دوسرے دن امریکہ سے واپس پاکستان گئے۔ چوہدری امجد علی کی نصیحت آمیز گفتگو ایک مکمل درس تھا۔ امریکہ میں رہ کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی بھی فرد اپنے خاندان کے خونی رشتوں کو چھوڑ کر پردیس نہیں جاتا مجبوریاں ہوتی ہیں اور جب مجبوریوں کا احساس ہو تو پردیس بھی اپنا دیس لگتا ہے۔ چوہدری امجد صاحب رات گئے گھر چلے گئے اور میں نے اُن کی نصیحت کی روشنی میں کام شروع کیا اور مانیکا کے دیس میں میری تنخواہ لگ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 شاہد بخشالوی دوسری مرتبہ امریکہ آ رہا تھا

 

امریکہ میں میرے قیام کے گیارویں سال میرا صاحبزادہ امریکہ آیا تو ملاقات کا جذباتی منظر!

دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ باپ بیٹا بغلگیر تھے۔ محبت اور احترام کے وہ لمحے ہم باپ بیٹے کے لیے یادگار تھے۔ امریکہ میں مسلسل گیارہ سال میری مجبوری تھی۔

ایمگریشن عدالت نے میرے قیام کے کیس کا فیصلہ 9سال بعد میرے حق میں دیا تھا میرے مستقل قیام کے لیے میر انٹرویو بھی ہو چکا تھا میں پاکستان جا سکتا تھا لیکن واپس نہیں آ سکتا تھا۔ شاہد بخشالوی افریقہ میں ہے وہ وہاں سے برطانیہ گیا اور برطانیہ سے امریکہ آیا، مقدر کی بات ہے امریکہ میں میرا کوئی قانونی سٹیٹس نہیں تھا صرف سوشل سکیورٹی کی بنیاد پر اپنے قیام میں شاہد کو سپانسرز کیا اور اُس کو 5سال کے لیے افریقہ سے امریکہ کا ویزہ مل گیا تھا۔ شاہد بخشالوی صرف پندرہ دن کے لیے آیا تھا اُس نے مجھے اور امریکہ دیکھا اور میں نے شاہد کو !

دورانِ قیام شاہد نے میرے قیام سے جو تاثر لیا وہ اُس کے جانے کے چند ماہ بعد مجھ پر عیاں ہوا۔

’’ہمارے والد ہم اہل خاندان کے لیے امریکہ میں کیسی زندگی جی رہے ہیں میں دیکھ آیا ہوں۔ خود پر زندگی کی مسرتیں حرام کر کے ہمارے لیے مسرتوں کے انبار لگا دئیے ہمارے   والد کے ہم خاندان والوں پر احسانات ہمارے حقوق سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

اپنے بیٹے کے اُن تاثرات سے میری روح کو بڑی تسکین ملی۔ میری اولاد نے وہ تسلیم کر لیا جو بحیثیت ایک والد کے میرا فرض تھا۔ شاہد بخشالوی دوسری مرتبہ آیا تو میں نے کہا کہ بیٹا آپ امریکہ چلے آئیں۔ یہاں اپنا مستقبل سنواریں، وہ مسکراکر کہنے لگا میں آپ کو امریکہ سے نکالنے کے لیے آیا ہوں یہاں کی زندگی کے ہر پہلو کو میں نے دیکھ لیا ہے۔ میں افریقہ میں خوش ہوں آپ امریکہ چھوڑ دیں اپنے دیس چلے جائیں میرے چھوٹے بھائی امجد بخشالوی کو میرے پاس بھیج دیں۔

آپ نے اپنا حق ادا کر دیا اب ہمیں خدمت کا موقع دیں۔ ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ بیٹے کی اس محبت پر میں نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا بیٹا مجھے یہاں کوئی تکلیف نہیں امریکہ میں قیام کے لیے ہر سہولت میرے پاس ہے 10گھنٹے نائٹ شفٹ کی ماہانہ تنخواہ 2850ڈالر ہے اوور ٹائم الگ ہے تین لاکھ روپے کے قریب ماہانہ تنخواہ ہے عنقریب میرا گرین کارڈ بھی مل جائے گا۔ شاہد نے میری طرف دیکھا اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے کہنے لگا کس کام کے وہ ڈالر اور گرین کارڈ جب آپ نہیں ہوں گے۔

میں لاجواب ہو گیا اور 12سال بعد مستقل طور پر پاکستان چلا آیا۔

۲۵اکتوبر ۲۰۱۰ء کو میرے مقدر نے میری زندگی کے ایک نئے دور کے دروازے پر دستک دی ہے اُس گھر کے دروازے پر جس میں زندگی کا آخری عشرہ پر سکون ہوتا ہے۔ جس میں خونی رشتوں کے گلاب مہکتے ہیں۔ ۱۲دسمبر ۱۹۹۸ء کو خانگی مسائل اور ذاتی مجبوریوں کا بوجھ اُٹھائے اپنوں سے بھی چھپ کر خاموشی سے پر دیس چلا آیا تھا۔ وطن عزیز اور عزیز رشتوں کو الوداع کہہ کر عمرے کے لیے سعودی عرب گیا وہاں سے برطانیہ اور پھر فروری ۱۹۹۹ء کو امریکہ آیا۔ اللہ کی کرم نوازی اور والدین کی دُعا اور شب و روز کی محنت سے زندگی کے صحرا میں پھول کھلے تو میرا صاحبزادہ شاہد سبحان بخشالوی جو کہ جنوبی افریکہ میں ہوتے ہیں سیر وسیاحت کے ویزے پر امریکہ آیا۔ باپ بیٹے کی امریکہ میں دس سال کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ شاہد نے اپنے قیام کے چند روز میں پر دیس میں میری تنہائی کے درد کو محسوس کیا اور وطن واپسی پر اہل خاندان کے سامنے اپنی آنکھوں میں سجائی میری تصویر رکھ دی۔ شاہد کی زبان میری تنہا زندگی کی منظر کشی وہ برداشت نہ کر سکے اور وطن واپسی کا تقاضہ شروع کر دیا لیکن وطن عزیز میں معاشی اور مالی زندگی کا آئینہ میرے سامنے تھا اس لئے اُن کی ضد پر صبر کا پتھر رکھ دیا۔ لیکن جولائی ۲۰۱۰ء میں جب شاہد دوسری بار برطانیہ سے ہوتا ہوا امریکہ آیا تو میں نے اُس کے محبت بھرے تقاضے پر اُس کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور وعدہ کیا کہ اسی سال وطن واپس چلا جاؤں گا۔

خوش بخت ہوتے ہیں وہ والدین جن کی اولاد اُن کی دولت سے زیادہ اُن کے وجود اور دعاؤں کے محتاج ہوتی ہے۔ امریکہ جس نے نہیں دیکھا وہ اُس کے خوابوں کی حسین دنیا ہے اور جس نے دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خوابوں کیاس دنیا میں اُن کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ امریکہ کو الوداع کہنے پر میرے قریبی دوستوں نے مشورہ دیا بخشالوی بڑی غلطی کر رہے ہو، لوگ لاکھوں روپے دے کر امریکہ آتے ہیں اور تم امریکہ میں زندگی کی ہر سہولت سے مالا مال ہونے کے باوجود بغیر کسی وجوہ کے امریکہ کو الوداع کہہ رہے ہو۔ دوسری طرف میرے بچے کہہ رہے تھے کہ ابا حضور آپ کی شب و روز محنت سے ہماری زندگی کا گوشہ گوشہ دمک رہا ہے۔ آؤ اپنے مہکتے گلشن میں اور زندگی کا آخری عشرہ سجدۂ شکر کے لیے وقف کر دو۔ بچوں کی اس محبت پر میں نے دوستوں کے مشورے کو قربان کر دیا۔ اس لیے کہ میرے بیوی بچوں نے میری 12سال کی محنت کو سامنے رکھا اور میرے پسینے کا ایک بھی قطرہ ریت میں گرنے نہیں دیا۔

میں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کروں گا کہ ایمیگریشن کی سست رفتاری ایک طرف لیکن عام لوگوں نے میرے حسن عمل کی وجہ سے مجھے اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ بُرے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہم پردیسیوں کو امریکہ میں اُس وقت تک غیر ملکی ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا جاتا جب تک ہم اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی نہ ماریں۔ اپنوں میں اپنوں کے ساتھ زندگی اور مذہبی آزادی خودی میں مگن امریکہ میں پر امن زندگی کی شان ہے لیکن اگر امریکہ میں رہ کر امریکہ کے قوانین اور معاشرتی زندگی میں اُن کی طرز زندگی کا احترام نہ کیا جائے تو امریکی قوانین کے محافظ کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو قانون توڑ نے والے غیرملکیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر باراک اوباما اور خاتون اوّل مشل اوباما نے میر تصنیف ’’تبدیلی ‘‘پر اپنے تاثرات کے ساتھ خط تھا۔ جس کے جواب میں مَیں نے لکھا کہ میں میری ہر تحریر میرے ضمیر کی آواز ہے۔ جہاں تک میرے شعور نے میرا ساتھ دیا میں اپنا عمل جاری رکھوں گا۔ اس لیے کہ میرا کوئی بھی عمل میرے ضمیر کا بوجھ نہیں بلکہ میری روح کا سکون ہے۔ ضروری نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف میں قلمی جنگ امریکہ ہی میں بیٹھ کر لڑوں گا اگر ایمیگریشن حکام میری درخواست پر میرے مستقل قیام کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تو میں اپنے دیس پاکستان چلا جاؤں گا۔

۱۳فروری ۱۹۹۹ء کو میں نے فیصل آباد کے پاکستانی نژاد امریکی شہری چوہدری امجد کو بتا دیا تھا کہ میں جب تک امریکہ میں رہوں گا آپ ہی کے سٹور میں کام کروں گا۔ اس لئے میں نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو سٹور میں اپنی ذمہ داریوں کا حساب اُن کے سپرد کرتے ہوئے اُن سے ہاتھ ملانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو کہنے لگے میں ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۰ ء کو سٹور سے آپ کو الوداع کروں گا۔

امریکہ میں قیام کے دوران ادب دوستوں نے بھر پور محبت میں میری ادبی شخصیت کو شاداب رکھا۔ گو کہ میں ادبی مراکز سے بہت دُور تھا۔ لیکن ہر ادبی محفل میں ادب دوست میرے ادبی کردار میں مجھے ہمیشہ شریک محفل رکھا کر تے تھے۔ محمد اشرف سہیل نے اپنے گھر میں مشاعرے کا اہتمام کیا تو میں قاری محمد حنیف کے ساتھ ادب دوستوں سے ملاقات کے لیے نیو جرزی گیا۔ شریک محفل شعراء میں قمر علی عباسی، نیلو فر عباسی، ڈاکٹر صبیحہ صبا، رشیدہ عیاں، ندا فردوس، آفتاب قمر اور دیگر شعراء و شاعرات سے ملاقات ہوئی۔ رات کو وہیں قیام کیا۔ صبح کو طیبہ اشرف صاحبہ نے حلوہ پوری کا ناشتہ کرا کے الوداع کیا۔ مامون ایمن صاحب نے اپنے گھر پر الوداعی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ مامون ایمن صاحب اور اُن کی اہلیہ شایستہ ایمن کے ساتھ الوداعی کھانا کھا کر ہم واپس باسٹن چلے آئے۔ salem لائن کلب نے الوداعی تقریب میں یادگار فریم کیا ہوا سرٹیفکیٹ دے کر الوداع کرتے ہوئے میری خدمات کو سراہا۔

قاری محمد حنیف جو میرے عزیز ہیں ۲۵اکتوبر تک اُن کے گھر قیام کیا۔ جنہوں نے میری خاطر مدارت میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کی۔ اپنی وکیل مینڈوزا کو میں نے فون پر بتا دیا تھا کہ میں گرین کارڈ کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ آپ نے میرے لئے جو کردار ادا کیا میرے لئے باعث صد افتخار ہے۔ ۲۵اکتوبر کو قاری محمد حنیف صاحب اُن کی اہلیہ اور بچوں نے مجھے لوگن ائیر پورٹ پر الوداع کیا۔ ڈیلٹا ائیر ٹریول کے جہاز کی کھڑکی سے امریکی دنیا کا منظر دیکھتا رہا اور پھر جب جہاز کے پر کھلے تو میں اپنی نشست پر سر رکھ کر افریقہ کی تصوراتی دنیا دیکھنے لگا۔

امریکہ میں میرا عارضی قیام غیر قانونی نہیں تھا، 2006ء میں امریکی ایمگریشن نے ورک پرمٹ جاری کیا جو امریکہ میں میرے قیام کا قانونی جواز تھا البتہ میں امریکہ سے اگر وطن واپس آتا تو ایمگریشن قوانین کے تحت نہ صرف میں واپس نہیں جا سکتا تھا بلکہ 10سال تک مجھ پر امریکہ کے ویزے پر پابندی لگ جاتی یعنی میں ویزے کے لیے درخواست نہیں دے سکتا تھا درخواست دے بھی دوں تو ویزہ ملنا مشکل تھا۔ سب کچھ میرے علم میں تھا امریکہ میں اپنے قیام کے دوران میں مکمل طور پر پرسکون تھا کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ تنخواہ بھی بفضل تعالیٰ 3ہزار ڈالر ماہانہ تھی کچھ اُوپر کی کمائی بھی ہو جاتی تھی لیکن پردیس کی تنہائی تھی۔ خونی رشتوں کی یادیں تھیں احساسات کے دکھ تھے، رشتوں کی مہک تھی جو بے چین کیے ہوئے تھی لیکن پاؤں میں زنجیریں تھیں مجبوریوں کی اس لیے چاہتے ہوئے بھی واپسی کی ہر خواہش پر مجبوری کے پاؤں رکھ دیا کرتا تھا۔

شاہد بخشالوی جب دوسری مرتبہ 15دن کے لیے امریکہ آئے تو اُنہیں احساس ہوا میری مجبوری کا وہ ایسے کہ شاہد بخشالوی کی آمد سے 10دن قبل میں نے سٹور کے مالک چوہدری امجد سے کہا تھا کہ میرا صاحبزادہ امریکہ آ رہا ہے اور مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزارنے اور اُسے امریکہ دکھانے کے لیے چھٹی کی ضرورت ہو گی۔ چوہدری امجد نے کہا کوئی بات نہیں میں رات کی شفٹ کے لیے دوسرے آدمی کا انتظام کر لوں گا لیکن جب شاہد بخشالوی امریکہ آیا تو چوہدری امجد نے باوجود میرے احتجاج کے مجھے ایک دن کی چھٹی دینا بھی گوارا نہیں کی اور نہ ہی میرے بیٹے سے ملنے آئے جس کا مجھے دلی طور پر دکھ تھا لیکن مجبوری تھی میں چاہتا تو کام سے جواب دے سکتا تھا لیکن وہ سپانسرز تھے گرین کارڈ کے انٹرویو میں وہ میرے ساتھ تھے اگر میں کام چھوڑ دیتا تو میرے ایمگریشن میں وہ رکاوٹ بن سکتے تھے۔

چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے شاہد بخشالوی 15دن تک میری تنہائی میں میرے ساتھ رہا اُسے اپنے شہر سے باہر نہیں لے جا سکا۔ شاہد بخشالوی کو میری تنہائی، قید تنہائی لگی اور اُس نے تقاضہ کر دیا۔ آپ پاکستان واپس چلے جائیں زندگی کے آخری عشرے میں آرام کریں ہم آپ کے کمائے ہوئے ڈالروں کا کیا کریں گے جب آپ ہم میں نہیں ہوں گے، میرے بیٹے کی یہ بات میرے دل کو لگی میں بھی ذہنی طور پر تھک چکا تھا اور ویسے بھی رب العزت کی کرم نوازی سے قرضے کا بوجھ اُتر چکا تھا۔ سرپر خوبصورت چھت ہے سائے کے لیے، دوبیٹے اور بیٹی اپنے اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ خوش ہیں۔ اپنے اپنے کاروبار میں اپنے بچوں کے کفیل ہیں پھر بھی میں نے بیٹے سے کہا کہ میں سوچوں گا۔

شاہد بخشالوی امریکہ سے 15دن بعد افریقہ واپس چلے گئے اور میں چوہدری امجد کے اس غیر اخلاقی برتاؤ پر پریشان امریکہ میں سوچنے لگا۔ جس شخص کے ساتھ 12سال کام کیا ان 12سالوں میں صرف7دن چھٹی کی اگر اُس کو یہ بھی احساس نہیں کہ میرے بچے کی موجودگی میں مجھے دو دن کی چھٹی دے دے تو ایسے خودپرستوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا آخر فائدہ ہی کیا۔ جو انسانیت تک سے محروم ہیں مجھے چوہدری امجد کے اس غیر اخلاقی برتاؤ نے وطن واپسی پر مجبور کر دیا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں وطن واپس چلا جاؤں۔ کئی ایک دوستوں نے مشورہ دیا کہ اگر آپ چوہدری امجد کے ساتھ خوش نہیں تو کسی اور کی ملازمت کر لیں پاکستان جا کر کیا کریں گے۔ ایسے دوستوں کے لیے میرا جواب تھا کہ ملازمت کے آغاز پر میں نے چوہدری امجد سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک امریکہ میں ہوں۔ ملازمت آپ کی کروں گا اگر ملازمت چھوڑ دوں گا تو صرف وطن واپسی پر ! اگر12سال کی خدمت و ملازمت کے باوجود چوہدری امجد کو میری نیک نیتی کا احساس نہیں تو کیا ہوا، میں وعدہ خلافی نہیں کروں گا اور میں نے امریکہ سے ساؤتھ افریقہ کے لیے ویزہ حاصل کر لیا۔ ساؤتھ افریقہ کے لیے امریکہ سے واپسی پر چوہدری امجد کو سٹور کا مکمل حساب دیا اور تین دن اُن کے پاس قیام کیا اُن کی دی ہوئی کرائے کی رہائش گاہ میں کہ وہ مکمل طور پر اپنا حساب دیکھ لیں 12سال تک چوہدری امجد کے سٹور میں رات کی ڈیوٹی سرانجام دیتا رہا اور اُسی کی دی ہوئی کرائے کی رہائش میں قیام رہا یعنی ایک ہی ملازمت اور ایک ہی رہائش میں 12سال گزار کر براستہ ساؤتھ افریقہ پاکستان آیا۔

٭٭٭

 

 

 

ساؤتھ افریقہ میں قیام

 

ساؤ تھ افریقہ میں اپنے قیام کے دوران خونی رشتوں کے درمیان بیٹھ کر پردیس کی تنہا زندگی کے 12سال کی تھکاوٹ دُور ہو گئی۔ اپنوں میں دیکھ کر میں خود کو انتہائی پر سکون محسوس کر رہا تھا۔ میرے صاحبزادے شاہد بخشالوی کی گوری بیوی برطانیہ کے دورے پر تھی۔ اس لئے میں کبھی صاحبزادے اور کبھی جورو کے بھائی کے صاحبزادے شیر خان کے گھر رہتا۔ سارادن اُس کے گلاب بچوں کے ساتھ کھیلتا۔ گھر کے قریب ہی عالیشان مسجد تھی اذان ہوتی تو با جماعت نماز پڑھنے چلا جاتا۔ شیر خان کی بیوی جو کہ مجھے میری بیٹی سے بھی زیادہ عزیز ہے پرہیزی کھانے کی وجہ سے میرے باوجود انکار کے انتہائی محبت سے مرغن غذا اور میٹھا کھانے پر مجبور کرتی۔ بچے کام پر چلے جاتے تو میں بہو رانی کے ساتھ بازار جا کرتا زہ سبزیاں اور سودا سلف لے آتا۔ قلم کاغذ سے فرصت ملتی تو بہو کے سا تھ باورچی خانے میں اُس کا ہاتھ بٹاتا۔ یاد رہے کہ میں لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ باورچی بھی کمال کا ہوں۔ کھاریاں شہر میں چودہ سال تک ساجن ہوٹل میں باورچی کی غیر موجودگی میں ہوٹل کے لیے کھانے میں خود پکایا کرتا۔ اس تجربے کا فائدہ امریکہ میں بڑا کام آیا اس لئے کہ پکانے والی تو پاکستان میں تھی۔ وہاں خود ہی کماتا اور خود ہی پکا کر اپنوں کی تصاویر ذہن میں بٹھا کر سیر ہو کر کھاتا۔

ساؤتھ افریقہ میں میرے خاندان کے کئی ایک افراد ہیں۔ شاہد بخشالوی اور شیر خان دونوں کے گھروں میں تقریباً100کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس لئے کبھی شیر کے گھر محفل جمتی اور کبھی شاہد بخشالوی کے گھر۔ اپنے پیارے میرے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کرتے اور سب مل بیٹھ کر کھاتے اور کھانے کے بعد دیر تک خوش گپیوں میں وقت گزرتا۔ شاہد اور شیر خان صبح کام پر جاتے وقت ساتھ جانے کو کہتے تو میں از راہ مذاق اُنہیں کہتا امریکہ میں قیام کے دوران گوریوں کی خوبصورت صورتیں کی جو تصویر میری آنکھوں میں سجی ہے اُس پر ساؤتھ افریقہ کی کالیوں کی کالی صورت کا غلاف نہ ہی چڑھے تو بہتر ہے۔ بچے میری ایسی خوش مزاج باتوں پر خوب ہنستے۔

میری نظر میں خوش مزاجی زندگی کا حسن ہے اور جو لوگ اس دولت سے مالا مال ہیں اُن کی خانگی زندگی میں محبت کے گلاب کھلتے ہیں اور مہکتے گلابوں میں گھر آنگن کی فضا ہر وقت مہکتی رہتی ہے۔ عید الضحیٰ بھی قریب تھی اور پاکستان میں اپنوں کا یہ مطالبہ بھی روز بروز بڑھ رہا تھا کہ 12سال امریکہ میں رہ کر افریقہ چلے آئے اور اب وہاں ڈیرے لگا دئیے۔ پاکستان چلے آؤ مزید انتظار مشکل ہے۔ ان محبت بھرے تقاضوں میں، مَیں محسوس کر رہا تھا کہ میرے پیارے واقعی میرے وجود کو اپنے درمیان دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ شاہد بخشالوی کہنے لگا ابو آپ کے لیے آپ کے اپنے پریشان ہیں اس لئے مزید قیام کی بجائے آپ پاکستان چلے جائیں۔ میری ٹکٹ چونکہ 14دسمبر کی تھی۔ اس لیے افریقی کرنسی کے 500رینٹ ویکر 17نومبر کی بکنگ کی ہمارا خیال تھا کہ عید ا لضحیٰ 16نومبر کو ہو گی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ عید 17نومبر کو ہے۔ تو میں نے بچوں سے کہا کہ چلو عید قرباں کی نماز آپ کے ساتھ افریقہ میں پڑھ لوں گا۔ اور قربانی کا گوشت دوبئی میں اپنے بھتیجے طارق عثمان اور عزیز دوست سیّد اعجاز شاہین کے ساتھ کھالوں گا۔ دوبئی میں تین دن قیام کے بعد میں نے 21نومبر کو دوبئی سے پاکستان آنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

٭٭٭

 

 

 

ساؤتھ افریقہ سے دوبئی تک

 

رازق کل نے جو رزق جہاں لکھا ہے ہر بندہ وہ اُسی مقام پر کھاتا اور جیتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ میں عید الضحیٰ کی نماز گھر کے قریب آزاد ول کی عالی شان مسجد میں پڑھ کر روحانی مسرت حاصل ہوئی۔ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران 12سال میں 23عیدیں منائیں لیکن خوشی صرف نماز عید کی ادائیگی تک محدود رہی اس لئے کہ میں عید کی شب ڈیوٹی پر ہوتا۔ صبح ڈیوٹی سے واپسی پر گھر میں نمازِ فجر اپنے 5مربع گز کے کمرے میں پڑھ کر نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے کوئی 30میل کے فاصلے پر مسجد میں جاتا۔ نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد گھرواپسی پردیس میں اپنوں کے ساتھ عید کی خوشیوں کی یاد کو سینے سے لگا کر کمرے کے اطراف کی چار دیواروں پر کھڑی چھت کو دیکھتا اور خود سے کہتا کہ۔

کس شان کی ہوتی ہے شب عید وطن میں

پردیس میں اے کاش !کہ آیا نہ کرے عید

میں اپنے خاندان کا واحد فرد امریکہ میں تھا۔ چند ایک دوست قریب تھے لیکن ڈالروں سے عشق میں عید کے دن بھی کام پر ہوتے۔ کچھ تو نمازِ عید تک نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ۔ چوہدری امجد کے تین گیس سٹیشن ایک شراب سٹور اور دو سیون الیون کے سٹور تھے۔ جو عید کے دن بھی نمازِ عید تک کے لیے بند نہیں ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان سٹوروں اور گیس سٹیشنوں میں کام کرنے والے مسلمان چاہنے کے باوجود بھی نمازِ عید کی ادائیگی سے محروم ہوتے۔ اگر کوئی نمازِ عید پڑھنے کی ضد کرتا تو چوہدری امجد اُس کی جگہ کام کرتے اور ملازم نمازِ عید پڑھنے چلا جاتا۔ چوہدری امجد کی فیملی پر رب کریم کے فضل سے دولت کی برسات ہے۔ اُن کی اہلیہ 5وقت کی نمازی ہیں۔ کبھی سٹور پر آتیں تو نماز کے وقت مجھ سے جائے نماز مانگتیں اورسٹور ہی میں نماز پڑھتیں۔

ہاں تو ساؤتھ افریقہ میں نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد عرصہ دراز کے بعد اپنوں کے ساتھ عید کے دن کا خصوصی کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد کچھ عزیز تو قربانی دینے کے لیے چلے گئے اور میں شاہد سبحان کے ساتھ دوبئی جانے کے لیے۔ جوہانسبرگ ائیر پورٹ چلا آیا۔ بورڈنگ کارڈ لینے کی باری آئی تو بورڈنگ کارڈ دینے والی خاتون افسر نے کہا۔ آپ کے پاکستانی پاسپورٹ پر ہاتھ کی لکھائی ہے دوبئی میں عارضی قیام کے لیے آپ کو کمپیوٹرائزڈپاسپورٹ کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ اگر آج کی فلائٹ پر جانا چاہیں تو اپنی ٹکٹ فوری طور پر نئی تاریخ کی بنوا لیں آپ 12گھنٹے سے زیادہ دوبئی ائیر پورٹ پر قیام نہیں کر سکتے۔ خاتون آفیسر نے یہ کہہ کر پریشان کر دیا۔

شاہد بخشالوی نے کہا ٹھیک ہے میں ٹکٹ نئی لے لیتا ہوں لیکن میں نے کہا کہ پاکستان میں سب عزیزوں کو 22تاریخ کی صبح 2بجے کا کہا ہے سب کو فون پر اطلاع دینے سے بہتر ہے کہ 19تاریخ کی ٹکٹ لے لیں۔ یہ فیصلہ کر کے ہم واپس ایمرٹ ائیر ویز کی ٹریول ایجنسی میں آئے اور 500/-رینٹ مزید دے کر 19نومبر شام 7بجے کی بکنگ کروا لی۔ ٹریول ایجنسی سے ساؤتھ افریقہ میں اپنے پیاروں کو فون پر گھر واپسی کا کہا تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھے، کہنے لگے ہم نے آپ سے کہا تھا کہ عید کی خوشیاں ہم مل کر منائیں گے قربانی کا گوشت کھائیں گے لیکن آپ نہ مانے اور خدا نے ہماری سُن لی۔ شاہد بخشالوی کے گھر واپسی پر پیارے عزیز قربانی کا گوشت لے آئے اور دوسرے دن میں نے خود گوشت پلاؤ کے ساتھ شوربے والا گوشت پکایا۔ اور ہم سب نے مل کر ایک دستر خوان پر سیر ہو کر قربانی کا گوشت کھایا۔

19نومبر کو شام 5بجے جوہانسبرگ ائیر پورٹ پہنچے، شاہد بخشالوی نے بورڈ نگ کارڈ لینے میں مدد کی۔ اور میں ایمگریشن حکام سے با وقار مسافر ہونے کا اجازت نامہ لے کر انتظار گاہ میں چلا آیا۔ 7بجے کی پرواز سے جوہانسبرگ سے روانہ ہوا اور صبح 5بجے دوبئی ائیر پورٹ پر بخیریت جہاز کے پاؤں لگے۔ دوبئی ائیر پورٹ پر میرے بھتیجے طارق عثمان اپنی فیملی کے ساتھ 12سال بعد ملاقات کے لیے بے چین منتظر کھڑے تھے۔ میں ایمگریشن آفیسر کے پاس آیا اور مختصر قیام کے لیے ائیر پورٹ سے باہر جانے کے لیے کہا۔ تو خاتون آفیسر نے کہا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر چونکہ تحریر ہاتھ سے لکھی گئی ہے اس لئے آپ کو ٹرانزٹ ویزہ نہیں مل سکتا۔ آپ ائیر پورٹ پر 14گھنٹے کے لیے ہمارے مہمان ہیں اُس نے ایک ہوٹل کا ٹوکن دیتے ہوئے کھانے کی دعوت دی۔

میں نے بوجہ مجبوری طارق عثمان کو فون کر کے بتا دیا کہ بیٹے میری خواہش تو تھی کہ دوبئی میں آپ کی فیملی اور دیرینہ دوست سیّد اعجاز شاہین سے ملاقات ہو لیکن ائیر پورٹ حکام مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اس لیے زندگی ہوئی تو پھر ملاقات ہو گی۔ طارق عثمان اور اُن کے بیوی بچے انتہائی مایوس تھے گھر واپس چلے گئے اور میں اپنا بیگ اُٹھائے اُداس اُداس ناشتے کے لیے دنیا کے خوبصورت ترین ائیر پورٹ کے اندر ہوٹل کی تلاش میں ایک طرف چل پڑا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 دوبئی سے سرزمین پاک تک

 

 

دوبئی ائیر پورٹ پر ٹرانزٹ ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے میرا قیام تقریباً14گھنٹے کا تھا۔ صبح 5بجے ائیر پورٹ پر جہاز سے اُترا اور پاکستان کے لیے پرواز کا وقت رات 9بجے کا تھا۔ کاؤنٹر پر تشریف فرما خاتون جو میرے وطن کی زبان اُردو بول رہی تھی نے کہا کہ آپ فلاں ریسٹورنٹ میں جا کر ناشتہ کر سکتے ہیں۔ دوبئی ائیر پورٹ پر ریسٹورنٹ کی تلاش میں نکلا اور کوئی آدھا گھنٹہ ائیر پورٹ کے بازار مصر میں گھومتا گھامتا دوسری منزل کے ایک ریستوران میں لگی ہوئی لمبی لائن میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ مفت کا ناشتہ تھا کون چھوڑنے والا تھا۔ کوئی 15منٹ بعد نمبر آیا تو کاؤنٹر پر تشریف فرما خاتون نے کہا آپ کی فلائٹ رات 9بجے کی ہے اگر آپ صبح کا ناشتہ کریں گے تو پھر دوپہر کا کھانا مفت میں نہیں ملے گا۔ خاتون نے بڑی سمجھداری والی بات کی اور دوپہر کو کھانے کی لالچ میں صبح کا ناشتہ چھوڑ کر ریستوران سے نیچے اُتر آیا۔ سوچ رہا تھا کہ دوبئی ائیر پورٹ کے حکام بھی بڑے چالاک ہیں دنیا کے اس خوبصورت ترین ائیر پورٹ پر مختصر قیام کے لیے مسافروں کو اگر صبح دوپہر اور پھر شام کا کھانا مفت میں ملے تو ائیر پورٹ پر بنے ہوئے لاتعداد ہوٹلوں اور ٹی سٹالوں میں کھانے پینے کے لیے دوبئی کے شہری تو نہیں آئیں گے۔

ا ئر پورٹ پر ہم مسافروں کے لیے مساجد کا اہتمام ہے۔ ان مساجد میں مجھ جیسے مسافر نہ صرف ربّ کریم کے حضور سجدہ کرتے ہیں بلکہ سجدے کے بعد آنکھ بھی نیند دیوی سے لیا کرتے ہیں۔ میری بھی نماز کے بعد کبھی آنکھ لگتی اور کبھی بازارِ مصر میں گھومنے نکل آتا۔

رات9بجے کی فلائٹ کے لیے ائیر پورٹ پر اعلان ہوا، تو لائن میں جا کر کھڑا ہوا۔ مسافروں کی بڑی تعداد میں کوئی ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بورڈنگ کارڈ ملا تو ایک انتظار گاہ سے دوسری انتظار گاہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ ساڑھے آٹھ بجے جہاز میں بیٹھنے کے لیے دروازہ کھلا اور مسافر دوبئی سے پاکستان کے لیے جہاز میں بیٹھنے کے لیے لائن میں جانے لگے۔ جہاز کے قریب گیلری میں ائیر پورٹ کی ایک خاتون افسر کے قریب آیا تو اُس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے لائن سے باہر کر دیا اور بغیر کسی سوال و جواب کے میرے دستی بیگ پر سٹکر لگایا اور میرے احتجاج کے باوجود بیگ جہاز کے سامان والے حصے میں پھینک دیا۔ خاتون کے اس ہنگامی عمل سے میں پریشان ہو گیا۔ اس لئے کہ دستی بیگ میں نہ صرف نقد رقم تھی بلکہ بچوں کے لیے قیمتی تحائف اور کمپیوٹر بھی اُسی بیگ میں تھا چونکہ وہ میرا دستی بیگ تھا اس لئے اُسے تالا لگانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ باوجود احتجاج کے میں خاموشی کے سوا کر بھی کیاسکتا تھا۔ سوائے دُعا کے یہ تو ہم مسلمانوں کا عمل ہے کہ خدا اُس وقت بہت یاد آتا ہے جب کسی مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خوشی اور بے کار لمحوں میں تو یاد کرنے کے لیے اور بہت سی چیزیں اور لوازمات ہوتے ہیں۔ دوبئی ائیر پورٹ سے سرزمین پاک کی قدم بوسی تک اللہ تعالیٰ سے بھی دعائیں مانگتا رہا کہ میرے دستی بیگ کے تالے پر ائیر پورٹ کے کسی اہلکار کی نظر نہ پڑے ورنہ پھر قاری خود ہی سمجھ لے کہ کیا ہوتا۔ ۔ ۔

سرزمین پاک کے دارالخلافہ اسلام آباد میں بے نظیر ائیر پورٹ پر جہاز اُترنے کا اعلان ہوا تو دل کی دھڑکنیں کچھ تیز سی ہو گئیں۔ عجیب سی روحانی مسرت محسوس ہونے لگی اس لئے کہ 12سال بعد میں اپنے دیس کی پاک دھرتی پر قدم رکھنے والا تھا اور میرے وہ پیارے جن کی یاد میں مَیں زندگی کی ہر مسرت سے محروم تھا۔ ائیر پورٹ سے باہر میرا انتظار کر رہے تھے۔ آج سے پورے 12سال قبل میں جب اپنوں سے بھی نظر یں چرائے ایک مجرم کی سی حیثیت میں خود کو جلاوطنی کی سزا سناتے ہوئے پشاور ائیر پورٹ سے بیرون پاکستان جا رہا تھا تو ائیر پورٹ پر میرے بھتیجے طارق عثمان شاہد راہی میرے بچے شاہد بخشالوی اور امجد بخشالوی مجھے اپنے آنسوؤں میں الوداع کہنے کے لیے موجود تھے۔ وہ انتہائی کرب ناک لمحے تھے اور ان لمحوں کے بعد پردیس میں زندگی کے 12سال کیسے گزرے یہ تو وہی جانتا ہے جو پردیس کے درد سے آشنا ہے لیکن آج منظر ہی کچھ اور دیکھنے والا تھا۔ دوبئی ائیر پورٹ پر طارق عثمان اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھے، لیکن ٹرانزٹ ویزہ نہ ملا اس لئے الوداع کرنے والا دوبئی میں استقبال نہ کر سکا۔ جبکہ شاہد بخشالوی ساؤتھ افریقہ سے دو مرتبہ ملنے کے لیے امریکا آیا تھا۔ ہاں برادری کے دوسرے کئی ایک عزیز و اقارب رات2بجے ائیر پورٹ پر موجود تھے۔

1998ء میں پاکستان سے جاتے وقت میں نے صرف شاہد بخشالوی کی بیٹی یعنی صرف ایک پوتی کو گود میں اُٹھایا تھا اور بفضل تعالیٰ، نورین بیٹی، شاہد اور امجد کے چھ بچوں اور بھانجوں بھتیجوں کے بچوں یعنی میرے پردیس جانے کے بعد پیدا ہونے والی نئی نسل کے کئی ایک پھول کلیوں سے ملنے والا تھا۔ اور یہی میری خواہش تھی امریکا میں قیام کے دوران انٹر نیٹ پران معصوم پھول کلیوں کو دیکھتا تو رونے لگتا تھا اور میری کوشش ہوتی کہ انٹر نیٹ پر ان خوبصورت بچوں کو نہ دیکھا کروں۔ فون پر ہی رابطہ رہتا تھا۔

اسلام آباد ائیر پورٹ پر میری آمد رات 11بجے تھی ایمگریشن سے فارغ ہو کر جیسے ہی میں گیٹ سے باہر آیا تو 10سال سے کم عمر کے معصوم بچوں نے گیٹ پر ہی ایسے گھیرے میں لے لیا کہ ائیر پورٹ کے استقبالیہ میں انتظامیہ اور لوگ پریشان ہو گئے اس لیے کہ ان بچوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ وہ بچے تھے جو اپنے والدین کی شناخت پر مجھے میری تصویر میں دیکھتے رہے یہ سب میری پاکستان میں غیر موجودگی کے دورانیے میں دنیا میں تشریف لائے تھے۔

بچوں اور بڑوں کے اس پر تپاک استقبال پر میں اللہ رب العزت کا شکر گزار ہوں اس لیے کہ مجھے ائیر پورٹ پر میرے خونی رشتوں کے ساتھ میرے عزیز دوست بھی تھے جو ایک لمبی قطار میں کھڑے باری باری مجھے گلے لگا رہے تھے۔ اپنے تو اپنے دوستوں کی بہو بیٹیاں مجھ سے لپٹ کر خوشی کا وہ اظہار کر رہی تھیں جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور میرے اس پر تپاک استقبال سے مجھے احساس ہوا کہ چاہنے والے جب زندگی میں کسی موڑ پر ملتے ہیں تو اُن کی چاہت کی باہیں کھل جاتی ہیں۔

آج بفضل تعالیٰ میں اپنے دیس اپنے گھر میں زندگی کے آخری عشرے میں پرسکون ہوں اور یہ اللہ کی کرم نوازی ہے مجھے میرے بچے وہ خوشیاں دے رہے ہیں جو بحیثیت والا میرا حق ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 بارہ سال بعد پہلی عید خونی رشتوں میں

 

زندگی امتحان لیتی ہے اور زندگی کا امتحان وہی امتیازی نمبروں سے پاس کرتا ہے جو رب العزت کے فیصلوں پر صبر واستقامت سے میدانِ عمل میں ثابت قدم رہے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں ہماری تقدیر میں وہ سب کچھ لکھ کر دے رکھا ہے جو ہماری زندگی کی ضرورت ہے لیکن ان ضرورتوں کے حصول کے لیے ایمان کا استحکام ضروری ہے اگر ہمیں کوئی جان سے مارنے کی سوچتا ہے تو بدبخت نہیں جانتا کہ ہمیں بچانے والا اُس سے بڑا ہے۔

کھاریاں شہر سے 1998ء میں جن حالات میں ہجرت پر مجبور ہوا کھاریاں شہر کا ہر فرد بخوبی جانتا ہے اہلیانِ کھاریاں میں کچھ لوگ ایسے تھے جو سمجھتے تھے کہ گل بخشالوی کھاریاں بدر ہو گیا کبھی واپس نہیں آئے گا لیکن بہت چاہنے والے ایسے تھے جو کھاریاں میں میری کمی محسوس کر تے ہوئے میری با عزت واپسی کے لیے دربار رب العزت میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہوئے تھے۔

آج12سال بعد جب وہ مجھے اپنے درمیان پہلے کی نسبت زیادہ خوبصورت زندگی میں دیکھتے ہیں تو اُن کے چہروں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے اور وہ کچھ لوگ جو کھاریاں بدری پر تالیاں بجا رہے تھے دیکھ دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ پھر واپس آ گیا کس قدر سخت جان ہے یہ شخص!

بہر حال امتحان کی گھڑی تھی اور کامیاب ہو گیا دسمبر2010ء میں وطن واپسی پر پہلا رمضان المبارک زندگی کے حسین روپ میں دیکھا با جماعت نماز تراویح میں ختم قرآن اور افطاری کی ایمان افروز محفلیں جو میرے مقدر میں تھیں اُس سے سرفراز ہوا اس سے بڑھ کر میری خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے۔

رمضان المبارک کے بابرکت ایام سے سرفرازی کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں بخشالی ضلع مردان چلا آیا تاکہ دیار غیر میں عید الفطر اور عید الضحیٰ کی 25عیدیں جو 12×7مربع فٹ کے ایک کمرے میں اطراف کی دیواروں اور گونگے چھت کے نیچے بیٹھ کر خیال میں اپنوں کی صورتیں سجا کر گزاریں تھیں وطن واپسی کے بعد پہلی عید اپنوں کو آنکھوں میں سجا کر اور سینے سے لگا کر گزاروں۔

دیار غیر امریکہ میں رمضان المبارک کے روزے رکھتے مسجد چونکہ قریب نہیں تھی اس لیے صرف نماز جمعہ با جماعت پڑھنے کے لیے گھر سے کوئی 40کلومیٹردور جایا کرتا تھا۔ چاند رات اور عید الفطر کی صبح کو اپنوں کی یاد پردیس میں ستاتی ہے اور ایسے ستاتی ہے کہ تنہائی میں آنسو تک نکل آتے ہیں لیکن مسائل اور مجبوریوں کی قید میں صبر کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

USAمیں عید کیا تھی دو چار دوستوں کے ساتھ ہوتے وہ بے چارے بھی اپنوں کی یاد میں گم ہوتے چہروں پر سے مسکراہٹ تک غائب ہوتی۔ میری رات کو ڈیوٹی ہوا کرتی تھی اور یہ بھی خوش بختی تھی ورنہ زیادہ تر لوگ تو سرکاری ڈیوٹی میں نماز عید تک پڑھنے سے قاصر رہتے۔

گوروں کا دیس تھا کرسمس کے دن اُن کی چھٹی ہوا کرتی تھی تو ہم مسلمانوں کو اُن کی جگہ ڈبل ڈیوٹی پر مجبور کیا جاتا تھا لیکن مسلمانوں کی عید کے موقع پر ہمیں یہ سہولت میسر نہیں تھی اگر کوئی نماز عید پڑھنے پر بضد ہوتا تو چوہدری محمد امجد اپنی نماز عید قربان کر کے کاؤنٹر پر کھڑے ہو جاتے۔

نماز عید پڑھ کر ڈیرے پر آتا اور فریزر میں رکھا ہوا کھانا مائیکرو ویوو میں گرم کر کے کھاتا اور آنے والی شب کی ڈیوٹی کے لیے سونے کی کوشش کرتا لیکن نیند آنکھوں سے دور ہی رہتی کروٹیں بدل بدل کر دیواروں اور چھت کی خاموشی میں خیالوں کی دنیا میں اپنوں سے گلے ملتا اُنہیں عید مبارک کہتا اور اُن سے خیالوں ہی خیالوں میں گپ شپ کے دوران آنکھ لگ جاتی اور شام کو اُٹھ کر ڈیوٹی پر چلا جاتا اس طرح کی 25عیدیں گزار کر وطن آیا تو بخشالی میں عید کے مزے لینے چلا آیا تھا۔

12سال بعد اپنوں اور اپنوں سے پیارے اہل بخشالی کے ساتھ ندی کنارے بخشالی کی تاریخی قدیم مسجد میں نماز عید ادا کی اور وہاں سے ندی کنارے بخشالی کی مہکتی سرسبزوشاداب فضا میں مسرت بھری سانسوں میں ہچکولے لیتا ہوا اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان چلا گیا۔

بخشالی میں ایک قدیم روایت ہے کہ اپنے محلے کے ہجرے یا کسی خاص گھر سے مشترکہ ناشتہ کیا جاتا ہے۔ اہل محلہ اپنے اپنے گھروں سے عید الفطر کی صبح کو جو کچھ بھی گھروں میں پکاتے ہیں ہر گھر سے ایک یادو افراد اپنے حصے کا ناشتہ ہجرے میں لے آتے ہیں اور ایک ہی دستر خوان پر محلے بھر کے لوگ بیٹھ کر عید الفطر کا ناشتہ کرتے ہیں اسی سابقہ روایت کے مطابق ہمارے بڑے بھائی جان الحاج عثمان الدین کے گھر کی حویلی میں محلے بھر کے اپنے اور اپنوں سے پیارے اہل محلہ ناشتہ لے کر آئے اور ہم سب نے مل کر بزرگوں کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے ناشتہ کیا اور پھر سلسلہ شروع ہوا اپنے عزیزوں کے گھر جانے اور عزیزوں کے گھر آنے کا سارا دن مسکراہٹوں، گپ شپ اور اپنوں سے محبت کی خوشبو میں گزر گیا اللہ رب العزت نے مجھ ناچیز کو یہ موقع فراہم کیا اس کے لیے میں اپنے پیارے رب کا جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پاؤں پھسلنے سے پہلے پاکستان آ گیا

 

 

میری پہلی محبت میری ماں ہے شعور کی دہلیز پر ماں دھرتی کی محبت کو سینے سے لگا لیا اس طرح ماں اور ماں دھرتی سے میری زندگی میرے ساتھ کھیلنے لگی۔ 1965ء کی جنگ میں پاک فوج کی داد شجاعت پر قومی مسرت کو دیکھ کر تعلیم ادھوری چھوڑی اور وطن عزیز کا محافظ بن گیا لیکن پاک فوج میں افسر شاہی اور مزدور سپاہی کی حالت دیکھ کر ایسا لگا جیسے عام زندگی میں جاگیردار اور مزارع، پاک آرمی کی یہ زندگی ذہن نے تسلیم نہیں کی اور پاک فوج کو خیر آباد کہہ کر واہ آرڈیننس فیکٹری میں چپڑاسی بھرتی ہو گیا۔ ایک افسر کی مہربانی اور مالی تعاون سے میٹرک کا پرائیویٹ امتحان پاس کر کے کلرک بن گیا۔ پیپلز پارٹی کا بنیادی جیالا تھا جس رات ضیاء الحق نے بھٹو حکومت پر قبضہ کیا اُس رات کی صبح کو میں کھاریاں چلا آیا نہ آتا تو دوسرے جیالوں کے ساتھ جیل میں ہوتا۔

تحریک جمہوریت بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے بعد ضیاء الحق کے ہاتھوں جمہوریت نوازوں کا انجام، شہید بے نظیر بھٹو کے تاریخی استقبال جسے ماہ وسال کے اُتار چڑھاؤ میں زندگی اُردو ادب سے اپنی محبت فکر و شعور میں مہکتی رہی۔ اُردو کا اسیر ضرور تھا لیکن تھا تو پٹھان صاحب زبان تھا اور نہ ہی غم روزگار نے کسی شاعر و  ادیب کو پڑھنے کا موقع دیا۔ تعلیم بھی برائے نام، اس لیے جو ذہن میں آیا اُسے اگر دل نے تسلیم کر لیا تو کہہ دیا، کہہ کر لکھ دیا اور لکھ کر سُناد یا۔ سننے اور پڑھنے والوں نے میرے لکھے کو پسند کیا یا نہیں کبھی بھی اس کو سوچا نہیں اس لیے کہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا تھی! سعدیؒ نے کہا تھا کہ درد دل کسی درد آشنا ہی کو سناؤ، کیوں کہ گھائل کی گھت گھائل ہی جانے اور نہ جانے کوئی۔

اپنے احساس کے درد کو بیان کرتا اور لکھتا رہا اس دوران اپنے وجود میں جیالا پن بھی عروج پر تھا۔ 1988ء میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور جشن آزادی کے موقع پر بے نظیر بھٹو کی تحریک جمہوریت کے جلسے کے لیے لاہور کو میاں محمد نواز شریف نے ہندوستان کا مقبوضہ کشمیر بنا دیا تھا لاہور کے تمام داخلی شاہراہیں بند تھیں جیالا تھا رکاوٹیں عبور کر کے انار کلی جا پہنچا۔ پان والی گلی کے سامنے ایک ٹولی میں کھڑا تھا کہ گولی چلی، گولیوں کی برسات میں ایک گولی میری زندگی سے صرف ایک سوتر کے فاصلے پر سر کے بالوں کے چمڑے کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔ گولی لگتے ایسا لگا جیسے کسی نے پورا لاہور اُٹھا کر میرے سر میں دے مارا ہو، میں خون میں نہا گیا اس طرح ماں دھرتی پر جابر سلطان کے جابر وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں ماں دھرتی پر میرے خون کے چند قطرے گرے اور ظلم و جبر کے خلاف صدائے حق کے لیے میرے فکر و شعور کا گلشن مہکنے لگا گو کہ مجھے جو کہنا اور لکھنا چاہیے تھا اور ہے وہ نہیں لکھ سکا اور نہ کہہ سکا۔

میری شاعری اور نثر میں شاعری اور نثر کاحسن نہیں اگر ہے تو بس اُردو ادب اور وطن عزیز سے محبت کا جذبہ ہے اگر کوئی صاحب شعور محبت اور خلوص کی نظر سے دیکھے تو! نفرت سے دیکھنے والے تو صورت یوسف میں بھی عیب نکال دیتے ہیں۔ حالات نے پلٹا کھایا اور مالی طور پر کمزور دیکھ کر جب اپنوں نے بھی کنارہ کر لیا تو اپنے خاندان کو خدا کے سپرد کر کے 1998ء میں وطن عزیز سے ہجرت کر گیا اس حقیقت کے پیش نظر کہ اچھے دنوں میں آپ کے اپنے آپ کی عظمت و عزت کے گیت گاتے ہیں لیکن جب آپ آسمان سے گرتے ہیں تو آپ اپنے اُ نہی پیاروں کی بدصورتی پر سمندر روتے ہیں۔

دیس سے پردیس آیا تو برطانیہ میں شاکر برادران کی محبت میں اپنے ذہن پر پڑے ہوئے بوجھ کو ہلکا محسوس کرنے لگا مشکل گھڑی میں کوئی صاحب شعور سرپر ہاتھ رکھ دے تو سکون ملتا ہے اور حوصلے میں خلوص شامل ہو تو بڑے سے بڑے مسائل کے حل کے لیے کمزور سے کمزور انسان بھی تن کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر اس کھڑے پن میں اللہ تعالیٰ پر یقین کامل ہو تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی۔ کھاریاں کے شاکر برادران زاہد، شاہد اور عارف کے تعاون اور حوصلے کے گیتوں میں تین ماہ گزرے تو برطانیہ میں لکھا ہوا رزق ختم ہوا اور فروری 1999ء میں امریکہ چلا آیا۔ امریکہ جہاں کی نہ زبان میری تھی اور نہ معاشرتی رکھ رکھاؤ، ہاتھ میں قلم تھا اور شعور میں زندگی اس کے سوا میرے پاس تھا ہی کیا سیر وسیاحت کے ویزے پر گیا تھا اور ارادہ تھا واپس نہ آنے کا اس لیے کہ بوجھ ہی ایسا اُٹھا کر لے گیا تھا جس کی وجہ سے واپسی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اعلیٰ تعلیم تھی اور نہ کوئی ہنر، قیام بھی غیر قانونی تھا ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ہم پاکستانی مسلمان دنیا کے کسی کونے کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ تہذیب میں چلے جائیں خاندانی خون کی مہک ہمارے ساتھ ہمارے شعور میں مہکتی رہتی ہے یعنی ہم اپنی خاندانی روایات اور خصلتیں نہیں بھول پاتے اور ایسے لوگ جن کو اپنے خاندانی خصلتوں سے پیار ہو اُن کو جب امریکہ کی شہریت تو دور کی بات گرین کارڈ تک مل جائے تو اُن کے خون کی پہچان اُن کے سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے۔ اس طرح وہ مذہبی اقدار اور وقار کو بھول کر خود کو امریکی صدر اوباما کا دودھ شریک بھائی سمجھنے لگتے ہیں۔ مزدور کا حق مارنا تو اُن کی شان ہوتی ہے وہ اپنے کام و کاروبار کے لیے ایسے ہی غیر قانونی قیام کے لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اس لے کہ اُن کے منہ میں زبان نہیں ہوتی۔ مجبوری کی وجہ سے وہ اپنے ہونٹ سی لیتے ہیں اگر بے لگام زبان بول گئی تو دیسی اوبامے اُن کی شکایت کر دیں گے۔ یہ دیسی اوبامے یہ خود پرست دیسی مسلمان معمولی معمولی بات پر ایسی شان بدتمیزی سے اپنے زیر سایہ ملازموں سے پیش آتے ہیں کہ اچھے بھلے خاندانوں کے مجبور لوگ خون کے آنسو روتے ہیں۔

امریکہ میں اپنے قیام کے دوران میں بھی ایک دیسی کا ملازم تھا اپنی مجبوری کی وجہ سے اُس کی غلامی میری ضرورت تھی اس لیے کہ دیار غیر میں میں بے زبان تھا گوروں کے دیس مزدوری میری مجبوری تھی اور میری مجبوری کو دکان کے مالک کس طرح دیکھ رہے تھے اس کا اندازہ صرف وہ لوگ لگا سکتے ہیں جو میری طرح آج بھی امریکہ میں مجبور ہیں اور ایسے مالکوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو انسان کی قدر و قیمت سے بے پرواہ صرف اور صرف اپنے کاروبار سے پیار کرتے ہیں۔ داناؤں نے کیا خوب کہا ہے کہ مصائب ٹوٹ پڑنے سے قبل آدمی زندگی کے آرام اور اشیاء کی قدر و قیمت نہیں جانتا، کسی چیز کی قدر و قیمت اور افادیت کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ پاس نہ رہے امریکہ میں قیام کے چند ماہ بعد احساس ہوا کہ اپنے وطن میں بھوک اور پیاس سے مر جانا پردیس کی شاہی زندگی سے لاکھ بہتر ہے اس لیے کہ ہر روز لمحے لمحے میں احساس کی شدت و تشدد سے زندگی زندگی نہیں ہوتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

وطن کی واپسی پر کچھ تنگ دل سوچ رہے ہیں !

 

12سال بعد وطن واپسی پر صاحب شعور اور اہل نظر اہالیانِ کھاریاں نے حسب سابق بڑی محبت کا اظہار کیا اور کر رہے ہیں اس لئے کہ اُن کے ساتھ میری 22سال کی رفاقت کے دن وہ ابھی تک نہیں بھولے۔ وہ جب کسی محفل، مسجد یا سرراہ ملتے ہیں تو اس گرم جوشی سے بغلگیر ہوتے ہیں جیسے میں ہی اُن کے وجود کا حصہ تھا۔ میں اپنے چاہنے والوں کے لفظوں میں خود سے محبت کی خوشبو میں مہک اُٹھتا ہوں لیکن کچھ ایسے تنگ دل آج بھی ہیں جو سامنے تو نہیں آتے لیکن بولتے ضرور ہیں کہ بخشالوی تو لاکھوں روپے لے کر بھاگ گیا تھا، واپس کیسے آ گیا۔ جانے یہ بے شعور اور بے زبان یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کون سا ایسا بے ضمیر انسان ہو گا۔ جو اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر کے ہجرت کرتا ہے، کوئی بھی فرد خوشی سے گھر بار اور گلاب جیسے معصوم بچے چھوڑ کر نہیں جاتا۔ مجبور ہوتا ہے یا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ میں بھی اُن بے بس لوگوں میں شامل تھا جو کھاریاں شہر کے چند سود خوروں اور دولت کے پجاریوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر وطن سے ہجرت کر گیا تھا۔ میرے جانے کے بعد میرے ہی جیسے چنددوسرے معزز اور صاحب خاندان لوگ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے اور وہ آج بھی مجبوری کی وجہ سے اپنے گھر واپس نہیں آ سکے اور شاید کبھی نہ آ سکیں۔ جانے ایسی سوچ رکھنے والے بے شعور لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ امریکا جیسے ملک جانے کے لیے لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے جاتے ہیں اور جا کر وہیں کے ہو جاتے ہیں۔ مجھے میرے رب کی کرم نوازی سے 3700روپے میں ناروے، انگلینڈ اور امریکا تینوں ممالک کے ویزے صرف 15دن میں ملے تھے۔ ناروے تو میں نہیں گیا۔ انگلینڈ میں 3ماہ قیام کے بعد امریکا گیا اور 12سال کی مشقت میں اپنا بوجھ ہلکا کر کے وطن عزیز واپس آ گیا۔ امریکا کی اُردو دنیا میں میرا نام ہی میری پہچان تھی لیکن اپنے بچوں اور اہالیانِ کھاریاں کی محبت میں زندگی کا آخری عشرہ گزارنے واپس آ گیا ہوں اور بڑے وقار سے زندگی جی رہا ہوں۔ قابل احترام ہیں وہ لوگ جو مجھ جیسے عام فرد کا احترام کرتے ہیں۔

کھاریاں کے اُن منافع خوروں اور سود خوروں نے یہ نہیں سوچا کہ مارنے والے سے بچانے والا خالق کل ہے وہی رازق کل ہے۔ اُس رب کریم کے فضل سے آج میں کھاریاں شہر میں عزت و احترام سے اگر جی رہا ہوں تو یہ میرا ایمان اور خدا کی قدرت پر یقین ہے۔ میرے پیارے محمدؐ کی مجھ پر نظر اور میرے پیر کامل حضرت زندہ پیرؒ کی دعا ہے۔ آج میری زندگی سے اگر محبت کی خوشبو آ رہی ہے تو یہ میرے والدین کا وہ خون ہے جس کا دوسرا نام خلوص، محبت سچائی، عظمت خدا اور عشق مصطفیٰؐ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

کیا فرق ہے میڈونا کے بھائی اور چوہدری مظہر میں

 

میرے گذشتہ کالم ’’کیا فرق ہے میڈونا کے بھائی اور چوہدری امجد کے بھائی میں‘‘ پر امریکہ سے چوہدری محمد امجد کا پیغام ملا ہے کہ میرے بھائی کے متعلق آپ نے جو لکھا ہے وہ ناکافی ہے مزید معلومات اور اصل حقائق کے لیے رابطہ کریں۔ چوہدری امجد سے اصل حقائق کے لیے رابطے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ میں 12سال تک اُن کے ہاں اُن کے سٹور ’’7الیون‘‘میں رات کو بلا ناغہ کام کرتا رہا ہوں اور میں وہی کچھ لکھ رہا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یا محسوس کیا۔ چوہدری امجد کے بھائی چوہدری مظہر کے ساتھ اُن 12سالوں میں چندسال ساتھ ساتھ گزرے ہیں اس لیے میری تحریر میں کوئی مبالغہ نہیں اور نہ ہی الزام تراشی ہے میری تحریر کی ہر طرح کی سچائی کی آج بھی اُن کے پرانے ملازمین سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ ’’

چوہدری امجد کی عمر میرے بیٹے کی عمر سے 2سال زیادہ ہے لیکن وہ انتہائی سیانے ہیں اُس کی نظر میں پاک آرمی کے سابق کرنل و میجر بھی کم علم ہیں میرا تو کسی کھاتے میں شمار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کہ پنجابی کی وہ مثال ہے کہ ’’جنہاں دے کر دانے اُنہاں دے کملے وی سیانے ‘‘کچھ دوستوں کے دل میں یہ خیال گزرے گا کہ اگر چوہدری امجد اس قدر خود غرض تھے تو اُس کے ساتھ ملازمت کی ضرورت کیا تھی تو عرض ہے کہ یہ طویل داستان ہے کوئی بھی شخص خوشی سے ظلم و جبر برداشت نہیں کرتا، اُس کی کوئی ایسی مجبوری ہوتی ہے جس کی وجہ سیوہ ظلم و جبر کی چکی میں پسنے کے باوجود راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ آئندہ قسطوں میں چوہدری امجد کے کردار پر سے پردہ اُٹھاؤں گا اس لیے کہ گزشتہ دنوں امریکہ میں میری وکیل کا خط مجھے موصول ہوا ہے کہ تمہارا ایمگریشن کیس تمہاری توقعات کے عین مطابق کینسل ہو گیا ہے اور تمہاری فائل بند کر دی گئی ہے۔

چوہدری امجد اپنی ذات میں بادشاہ ہیں اُن کے کہنے کے مطابق اُن کے چھوٹے بھائی چوہدری مظہر کی عادتیں ہی کچھ ایسی ہیں کہ فیملی میں کوئی فرد اسے اپنے پاسرکھنے کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ چوہدری امجد کے مطابق اُن کے چھوٹے بھائی چوہدری مظہر حافظ قرآن ہیں اور سات مرتبہ حج کی سعادت سے بھی سرفراز ہوئے ہیں۔ چوہدری مظہر اگر دل سے کام کرتے تو ہم ملازموں کو پیچھے چھوڑ جایا کرتے تھے سٹور پر کام کے دوران گو کہ اُسے اجازت نہیں تھی کہ رجسٹر پر آ کر کام کرے (یعنی گاہک کو سوداسلف دے کر قیمت وصول کرے )لیکن ہم ملازمین سٹور میں کام میں مصروفیت کے دوران چوہدری مظہر کو رجسٹر پر کھڑا کر دیا کرتے تھے وہ بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری سر انجام دیتے تھے لیکن احساسِ کمتری کے شکار چوہدری مظہر پر خاندان کی توجہ نہیں تھی۔ چوہدری امجد کے مطابق اور کوئی رشتہ دار اُسے اپنے پاس رکھتا نہیں اس لیے میری مجبوری ہے کہ میں چوہدری مظہر پر احسان کر کے اپنے ملازموں کے پاس فقیروں کی سی حالت میں رکھے ہوئے ہوں۔

چوہدری مظہر کو عید، شب برات پر کوئی خرچہ تک نہیں ملتا تھا البتہ چوہدری امجد اُس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ گندگی پھینکنے والے بڑے پلاسٹک بیگ میں چوہدری مظہر اپنے وہ کپڑے وغیرہ رکھا کرتا تھا جو ہم ملازمین کے کہنے پر چوہدری امجد اُس کے لیے خرید کر دے دیا کرتے تھے۔ امریکہ سے میری واپسی سے 6ماہ قبل ایک رات چوہدری مظہر کو اُس کا سگابھانجا گاڑی میں بٹھائے میرے پاس ’’7الیون‘‘میں لے آیا، کہنے لگا کہ مظہر ماموں کو امجد ماموں نے آپ کے پاس آپ کے مکان میں رہنے کے لیے بھیجا ہے میں انکار اس لیے نہیں کر سکتا تھا کہ مکان چوہدری امجد کا تھا اور میں ایک کمرے میں کرایہ دار تھا۔ البتہ احتجاج ضرور کیا اس لیے کہ چوہدری مظہر کے ساتھ ایک مکان میں رہنا غلاظت کے ڈھیر میں رہنے کے مترادف تھا اس لیے کہ وہ رات کو بستر میں پیشاب کیا کرتا تھا جس لباس میں کام کرتا اُسی میں سوتا، اُسی میں رات کو پیشاب کرتا اگر کوئی اُسے پہننے کے لیے دوسرا لباس دیتا تو ٹھیک ورنہ ملنگوں کی طرح اُسی میں کام پر چلا جاتا اور گھر میں بدبو کی وجہ سے ہم ملازمین کا رہنا عذاب ہو جاتا۔

چوہدری مظہر کو اپارٹمنٹ میں لے جانے سے قبل ایک دوسرے ملازم دوست سے رابطے پر پتہ چلا کہ مالک مکان نے چوہدری مظہر کی وجہ سے دوسرے ملازمین کو مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا اس لیے کہ وہ گھر گندگی کا گھر بن گیا تھا لیکن چوہدری امجد نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور مالک مکان نے مکان خالی کروا کر تمام سامان کچرا خانے میں بھجوا دیا تھا۔ چوہدری مظہر شکل و صورت میں انتہائی خوبصورت اور جاذبِ نظر شخصیت کا مالک ہے۔ خوش طبیعت ہیں میں عام طور پر اُسے کھانا پکا کر کھلاتا، باتھ روم میں اُس کے ساتھ داخل ہو کر بچوں کی طرح اُسے غسل کرواتا، اُس کے ساتھ مل کر اُس کے کپڑے لانڈری میں دھلواتا اور ہر ماہ اُس کا بستر تبدیل کر کے نیا لے کر آتا اور یہ تمام اخراجات میں چوہدری امجد سے لے لیا کرتا تھا۔ چوہدری امجد نے کبھی بھی انکار نہیں کیا وہ بخوشی ادائیگی کرتا اور شکریہ بھی ادا کرتا کہ میں اُس کے بھائی کا خیال رکھ رہا ہوں لیکن امریکہ تو ایسا ملک ہے کہ جہاں مزدور پیشہ لوگوں کو اپنا خیال رکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔ وہ کسی اور کا کیا خیال رکھ سکتا ہے لیکن خوف خدا کی وجہ سے چوہدری مظہر کی حالت زار پر ترس آ جایا کرتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

میرا دیس پاکستان ہے

 

وطن عزیز میں جب مالی طور پر زندگی، زندگی کا بوجھ بن گئی اور میں گھر کے صحن تک محدود ہو گیا۔ تو سوچتا رہا، آخر کیوں۔ میرے شہر کے مکینوں نے شہر میں میرے کردار کو کیوں نظر انداز کر دیا قریبی دوست آستین کے سانپ کیوں بن گئے میرے اعتماد کو کیوں ڈس گئے۔ ایک وقت تھا کہ ادبی، صحافتی، سیاسی، مذہبی، معاشرتی، علمی یعنی ہر سٹیج پر میری شخصیت میرے کردار کی پہچان تھی۔ انتظامیہ اور سیاست کے میدان میں میرے قلم کی بے باکی میری شان تھی۔ وہ بھی وقت تھا جب کرداروں نے شاہراہ عام پر مجھے گنتی کے دستوں سے لہو لہان کر دیا، تو عدلیہ کے جج صاحبان، انتظامیہ کے اعلیٰ افسران، سیاسی اکابرین معززین شہر اور بخشالی میں حلقہ انتخاب سے منتخب صوبائی اسمبلی کے سپیکر عبدالاکبر خان اظہار افسوس ہمدردی کے لیے ہسپتال اور گھر تک آئے۔ میں اُس وقت بھی خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اگلے ہفتے میرے اخبار کی سُرخی تھی۔

میں نے اپنی زندگی میں اپنے قبر پر آنے والے کل کے لیے تختی سجادی ہے۔ میرے قلم کی پرواز اور بلند ہو گئی اور میرے گھر کے سامنے والی گلی بخشالوی ؔسٹریٹ کے نام سے منسوب ہو گئی۔ اس قدر بلند کردار کے باوجود آسمان سے زمین پر منہ کے بَل گرا۔ آخر کیوں ؟میں سوچتارہا !

خونی رشتے میرے کل کی غربت سے خوفزدہ ہو گئے۔ میرا پاسپورٹ تک میرے عزیزوں نے ضمانت کے طور پر ضبط کر لیا۔ ہاں اگر تھے تو چند ایک دوست اور اپنے بچے میرے ساتھ تھے معاشرتی بد کرداروں کی سیاست نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا، لیکن میرا خدا مجھ سے نہ چھین سکے۔

میرے ایمان نے مجھے حوصلہ دیا، میں اپنے پیرو مرشد ’’حضرت زندہ پیرؒ ‘‘(جو اُس وقت بقید حیات تھے )دربار عالیہ گھمگول شریف کے حضور حاضر ہو گیا۔ حضرت صاحب نے کئی ایک زائرین کی موجودگی میں میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی۔ راستے کھُل گئے۔ گھر آیا اور کمال حکمت عملی سے ضبط شدہ پاسپورٹ حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے صرف 20دن میں، ’’ناروے ‘‘، ’’انگلینڈ‘‘ اور امریکہ کے ویزے، میرے پاسپورٹ کے زینت بن گئے۔ سجدۂ شکر ضروری تھا۔ وہ بھی خانہ کعبہ میں عمرے کا ویزہ حاصل کیا اور خاموشی سے پشاور ائیر پورٹ پر اپنے بچوں کی آنکھوں میں جدائی کے آنسو دیکھ دیکھ کر سعودی عرب کے لیے پرواز کر گیا (قدرت خدا کی۔ آج اپنی کہانی رمضان کے مبارک مہینہ میں لکھ رہا ہوں اور وطن سے ہجرت کے موقع پر بھی خانہ کعبہ میں سجدۂ شکر کا اعزاز رمضان المبارک میں ملا تھا )۔

خانہ کعبہ میں سجدۂ شکر کے بعد درِ مصطفیٰؐ پر حاضری دی وہاں اپنے خاندانی وقار اور تابناک مستقبل کے لیے دُعا مانگی۔ خانہ کعبہ اور درِ رسولؐ پر حاضری سے ایمان کی زمین سیراب ہو کر شاداب محسوس ہونے لگی چونکہ میں ’’ناروے ‘‘میں مستقل قیام نہیں کر سکتا تھا اس لئے ناروے کا ارادہ ترک کر کے انگلینڈ کا رُخ کیا۔ انگلینڈ خوبصورت ملک ہے لیکن دو ماہ قیام کے بعد محسوس کیا کہ انگلینڈ میں اپنے سینے پر جو بوجھ لے کر ہجرت کر آیا ہوں اُتار نہیں سکوں گا اس لئے فروری ۱۹۹۹ء میں امریکہ چلا آیا تو میں نے قلم، کاغذ اور کتاب کو مجبوری کی الماری میں بند کر کے تالا لگا دیا

(انگلینڈ کی برفانی موسم میں چند دن کی مزدوری وہ بھی رمضان کے مہینے میں کھبی نہیں بھول پاؤں گا۔ تفصیل میرے سفرنامہ جا دیکھا تیرا امریکہ میں شامل ہے )

میں نے امریکہ میں بارہ سال رہ کے بھی امریکہ نہیں دیکھا خونی رشتوں اور اپنے آنے والے کل میں اپنی پہچان کو سامنے رکھے ہوئے تھا بابائے قوم محمد علی جناح کے منشور کام کام اور بس کام سے محبت میں وقت کے ساتھ ساتھ پسینہ رنگ لانے لگا، بوجھ سرسے اُترنے لگا میرے کل سے خوفزدہ میرے رشتے قریب آنے لگے۔ میں نے ایک نیکی کے عوض 70نیکیوں کے ثواب کو عزیز رکھا۔ خیرات و زکوٰۃ ساتھ ساتھ اپنے غریب ترین خاندان کے 7بچوں کو رقم دے کر بیرون ملک بھجوایا۔ میں نے کبھی ڈالر کی چمک کو ایمان کی روشنی پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اس لئے ایک معصوم جوڑے کو لاٹری میں جیتی ہوئی رقم مبلغ دس ہزار ڈالر کا انعام اُن کو دلوایا اگر میں چاہتا تو اتنی بڑی رقم جیب میں بھی ڈال سکتا تھا اس لئے کہ خدا کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ میرے اس عمل سے دوسرے دن مقامی انگریزی روزنامہ Salem Newsمیں خبر میرے بیان کے مطابق میرے دین اور دیس کے حوالے سے مرکزی سُرخی میں شائع ہوئی اور امریکہ کے تقریباً تمام اُردو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ ممتاز کا لم نگار اور بے لگام کے مصنف اشرف سہیل کے لکھے ہوئے کالم نے اس خبر کی اہمیت کو چار چاند لگا دیے امریکہ میں دین اور دیس کے حوالے سے یہ میرا پہلا بڑا اعزاز ہے۔ امریکہ میں اپنے اس قیام کے دوران میری بیوی نے یہ نہیں کہا کہ میرا شوہر امریکہ میں ہے اور نہ ہی میرے بچوں نے کہا کہ ہمارا بابا امریکہ میں ہے انہوں نے اپنے پاؤں اپنے گزرے ہوئے کل کی چادر تک ہی محدود رکھے اس دوران میرے دونوں صاحبزادے افریقہ چلے گئے بڑے بیٹے نے قدم جما لیے اور چھوٹا خاندان کی دیکھ بال کے لیے واپس اپنے دیس چلا گیا۔

آٹھ سال بعد مجھے میرے پسینہ سے میرے سکون کی خوشبو آنے لگی تو میں نے الماری کا تالا کھولا منظر ادب پر آنے میں دیر لگی لیکن دنیائے اردو ادب میں میری پہچان کام آ گئی میری ادبی شخصیت امریکہ میں نکھرنے لگی۔ امریکہ کے تاریخی انتخابات پر دین اور دیس کے احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے میری منظوم تصنیف ’’تبدیلی ‘‘شائع ہوئی (یہ میری تصانیف اور تالیفات کے سلسلے کی انیسویں اشاعت تھی)اس کتاب کی اشاعت پر ادب دوستوں امریکی کانگریس کے رکن,لائن کلب انٹرنیشنل، ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل اور دوسرے دانشوروں کے خطوط کے ساتھ سا تھ امر یکہ کے صدر باراک اوباما اور خاتون اول مشل اوباما کے دستخطوں سے لکھی ہوئی تحریر میں میرے قلمی اور شعوری کردار کو سراہا گیا۔ یہ امریکہ میں میرا دوسرا بڑا اعزاز ہے۔

پاکستان سے ہجرت کے وقت۱۲ سال تک باقاعدگی سے شائع ہونے والا ادبی ماہنامہ ’’قلم قافلہ ‘‘ جس کی اشاعت رک گئی تھی۔ شمالی امریکہ سے شائع ہونے لگا۔ تو ادب دوستوں نے ادب دوستی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے میرے قلمی اور ادبی کردار پر تبصرے اور مضامین لکھ کر اخبارات کو دئیے۔ امریکہ کے طول وعرض میں ادب دوستوں سے میرا بھرپور رابطہ اپنے قیام کے دوران میرا تیسرا بڑا اعزاز ہے۔

امریکہ میں قیام کے دوران دولت، عزت، شہرت ملی۔ لیکن وہ خوشبو جو میرے دیس کی مٹی، میرے دیس کے گلوں اور خونی رشتوں میں ہے اس سے محروم ہوں، سرزمین کی دھوپ چھاؤں اپنے دل کی زمین پر محسوس کر رہا ہوں۔ گلاب وہاں مہکتے ہیں، خوشبو یہاں محسوس کرتا ہوں۔ خون وہاں گر تا ہے دامن میرا لال ہوتا ہے۔ بھوک وہاں تڑپتی ہے دامن میرا بھیگتا ہے۔ ڈرون حملہ وہاں ہوتا ہے زمین میرے دل کی ہلتی ہے۔ زلزلہ وہاں آتا ہے آسمان مجھ پر آ گرتا ہے۔ سیلاب وہاں آتا ہے اپنے مکان کی چھت کے نیچے میں یہاں ڈوب جاتا ہوں یعنی میری مثال ماہی بے آب کی سی ہے ایک لمحے کے لیے بھی دیس کا احساس نے ساتھ نہیں چھوڑتا۔

امریکہ میں ۲۰فروری ۱۹۹۹ء کو جس مکان میں قدم رکھا۔ آج بھی اُسی مکان کے ایک کمرے میں چھت اور دیواروں کے ساتھ تنہائی کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ جہاں کام کی ابتداء کی تھی۔ آج بھی اُسی دکان میں رات کو نوکری کرتا ہوں۔ اس دوران ۶مرتبہ مجھے گن پوائنٹ اور چاقو کی نوک پر ڈاکوؤں نے لُوٹا اس طویل دورانیے میں اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے ایسی کوئی بیماری میرے قریب نہیں آئی۔ جس کی وجہ سے میں کام پر نہ گیا ہوں یہی وجہ ہے کہ بارہ سال میں صرف سات دن چھٹی کرنے کی فضول خرچی کی آج بفضل تعالیٰ میں امریکہ اور دیس میں اپنے خاندان کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوں۔ اپنے پسینے میں مہک رہا ہوں۔

گذشتہ سال کام کے دوران مجھے میرے سینے میں تکلیف محسوس ہوئی، سر چکرانے لگا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک فرد کو سٹور سپرد کر کے مقامی ہسپتال گیا۔ ۴ گھنٹے تک ڈاکٹر میرے وجود کا معائنہ کرتے رہے اور جب میری تکلیف کے بارے میں بتایا تو میں گھبرایا نہیں۔ مسکرایا تھا اس لیے کہ زندگی تو ایک امانت ہے، میں نے اپنے درد کو اپنے تک محدود رکھا۔ اپنوں سے حصول ہمدردی کے لیے اس کا چرچا نہیں کیا اور سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کیا۔ میں نے بوسٹن میں مقیم اپنے ایک عزیز پروفیسر محمد حنیف صاحب جو کہ امام مسجد ہیں کو اپنے اکاؤنٹ کا ایک چیک دستخط کر کے دے دیا۔ اور گذارش کی کہ اگر دیارِ غیر میں زندگی نے بے وفائی کی تو میری لاش میرے دیس لے جانے کے لیے چندہ نہ مانگنا۔ سرزمین پاک میں اپنے بڑے بھائی الحاج عثمان الدین کو فون پر کہا۔

بھائی۔ ۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے۔ اگر زندگی نے دیکھتی آنکھوں میں ملاقات کا موقع نہیں دیا تو مجھے دیار غیر میں نہیں اپنے دیس میں، اپنے والدین کے پہلو میں اپنے آبائی گاؤں بخشالی میں سپرد خاک کر دینا میں بعد از وفات اپنے دیس کی مٹی میں مہکنا چاہتا ہوں، اس لئے کہ میرا خون میری شخصیت اور میرا دیس میری پہچان ہے۔ آج بھی اگر کام کے دوران مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ تم کس ملک کے رہنے والے ہو۔ تو میں بڑے فخر سے کہتا ہوں میرا دیس پاکستان ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 مومن کی شان اور پاکستان کی خوشب

 

 

سرزمین پاک میں امریکی سرکار کی نظروں میں غیر مصروف عوامی قیادت کی قیادت میں، پاکستان کے بھوکے، ننگے اور بے گھر عوام امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ امریکی سرکار کی خوشامد اور دہشت گردی کے خلاف خود نمائی کے لیے نام نہاد قیادت، قومی اور نجی املاک کو آگ لگانے میں وطن عزیز کے معصوم بے سکون شہریوں کو استعمال کر رہے ہیں جو کہ بنیادی ضرورتوں کی کم یابی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار اور سراپا احتجاج ہیں۔

جب کہ دکھی انسانیت اور انسانی حقوق کے علمبرداری کے دعویدار امریکہ میں اُمت مصطفیٰؐ کے پروانے خاص کر سرزمین پاکستان کے باشندوں کی زندگی عجب دورا ہے پر ہے وطن عزیز میں زمینی حالات کے پیش نظر امریکہ میں مقیم محنت کش شدید ذہنی پریشانی سے دوچار ہونے کے باوجود نہ تو امریکہ میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی امریکہ کو چھوڑ سکتے ہیں۔

اُمت مصطفیٰؐ کی خدائی اور عالمی اجتماعی قوت سے خوفزدہ مغربی طاقتوں کی سیاست اور ضمیر فروش عوامی قیادت نے پاک دھرتی پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنت نظیر دھرتی کو جہنم بنا دیا ہے۔ مغربی آقاؤں کے پجاری مذہبی اور لسانی حقوق کی آڑ میں اپنی گھناؤنی سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں، مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے، معصوم بے گناہ شہری اپنے خون میں نہا رہے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ رب کائنات ہی رازق کل ہے کئی بار سوچا کہ امریکہ کو چھوڑ  دوں لیکن قیام رضائے رب ہے اس لئے اپنے ہموطنوں کے ساتھ مجبوریوں کی قید میں ذہنی تشدد کی سزا بھگت رہا ہوں۔

بفضل تعالیٰ اُمت مصطفیٰؐ کے چہروں پر نورِ مصطفیٰؐ اُن کی پہچان ہے، یہی وجہ ہے کہ مومن خلقت عظیم میں دُور سے پہچانا جاتا ہے۔ اور ہماری اس پہچان کی بدولت امریکہ کی مختلف ایجنسیاں اور ایف۔ بی۔ آئی کے اہلکار سائے کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم محب وطن پاکستانیوں کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے وجود سے پاکستانیت کی خوشبو آتی ہے۔ اس لئے آج کل جب ہم پاکستانی امریکہ کے کسی شہر کی گلی سے گزرتے ہیں تو گھروں میں پالتو کتے ہمیں دیکھے بغیر ہماری خوشبو سے ہمیں پہچان کر ہم پر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر ہمارا تعلق خیبر پختون خواہ سے ہو تو یہ شریف کتے تو ہم پر بھونک بھونک کر پاگل ہو جاتے ہیں۔

گذشتہ ماہ حسب معمول اسفند یار ولی نجی دورے پر امریکہ تشریف اُن کی جماعت کے سیکرٹری اطلاعات نے ہمیں دعوت دی کہ اسفند یار ولی بوسٹن میں پختون برادری کے زیرِ انتظام مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھنے تشریف لارہے ہیں اور دوسرے دن بوسٹن ہی میں پختون برادری کے اجتماع سے خطاب کریں گے۔

اسفند یار ولی لیڈری کی شان برقرار رکھتے ہوئے نمازِ جمعہ کے مقررہ وقت سے دو گھنٹے بعد میں تشریف لائے تھے دوسرے دن پختون برادری کے اجتماع میں اس لیے شریک نہ ہوا کہ امریکہ میں ہم سے خطاب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم پختون تو محب وطن تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کیا ہوا ہم امریکہ میں ہیں دل تو پاکستان ہے ہم سے خطاب کی بجائے جائیں امریکہ سرکار سے بات کریں کہ خیرات کے عوض تمہاری جنگ ہم اپنی سرزمین پر لڑ رہے ہیں۔ جان عزیز جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔ ہم پاکستانی قوم اپنے گھروں بازاروں میں کیا مساجد اور جنازہ گاہ تک میں محفوظ نہیں ہیں۔ سولی پر لٹکے ہم اپنے ہی دیس میں پنا گزینوں کی سی زندگی جی رہے ہیں۔

امریکی سرکار تم ہمیں نہ اپنے دیس میں جینے دیتے ہو نہ پردیس میں سکون سے مرنے دیتے ہو لیکن اسفند یار ولی سے کیا شکوہ، گذشتہ ایک کالم میں، مَیں نے لکھا تھا کہ موصوف نیویارک کے ایک ریستوران میں جہاں پاکستان کے ادیب شاعر اور صحافی راقم السطور کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ میں شریک تشریف فرما تھے۔ ایک گمنام پاکستانی کی طرح آئے اور بغیر کوئی دعا سلام کے ایک نشست پر بیٹھ گئے تھے۔ امریکی سرکار کی نظر میں تو اسفند یار ولی (نہ تین میں نہ تیرہ میں )یہاں تو صدر پاکستان سے لے کر صوبائی اسمبلی کے منتخب نمائندوں تک کشکول اُٹھائے آتے ہیں۔ امریکی سرکار کی زیارت کرتے ہیں۔ انہیں امریکہ میں وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو سر زمین پاک پر سِرعام نہیں ملتا ہر ایک اپنے حصے کی خیرات لے کر چلا جاتا ہے۔ ہم مزدور پیشہ دیس میں جلیں یا پردیس میں مریں۔ اُن کی بھلا سے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 ہیلووین

 

 

میسا چوسٹس کے شہر Salemمیں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے ہیلووین کا سالانہ جشن جوش و خروش سے منایا۔ اس قومی تہوار کے لیے احسن اقدامات و انتظامات پر مقامی لوگوں اور سیاحوں نے مقامی انتظامیہ کی تعریف کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔

پولیس کے چیف Polul Tuckerکے مطابق ایک لاکھ سیاح Salemآئے جو کہ ایک ریکارڈ تعداد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ تہوار انتہائی پر امن رہا۔ کسی بھی قسم کا کوئی قابل ذکر ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی بھاری جمعیت پر سکون ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیوٹی پر تھی۔ جنہوں نے اپنے فرائض کے ساتھ بھر پور انصاف کیا۔

Salem Cityکی مئیر Kim Driscolنے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے شہر کا دورہ کیا اور شائقین تہوار سے ملی۔ انہوں نے کہا کہ غیر متوقع طور پر اس سال Halloweenانتہائی پر امن رہا۔ کئی خاندان دن کو آئے اور شام سے پہلے رخصت ہو گئے اس کے باوجود سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مرکزی بازار Essex Streetکے علاوہ شہر کے مختلف تفریحی اور تاریخی مقامات پر تاریخی نوعیت کے عمارات دیکھنے کے لیے گھوم پھر رہے تھے۔ 75ڈگری کے خوشگوار موسم میں دھوپ کی تمازت نے اس تہوار کو چار چاند لگا دیے Mayor Kim Driscolنے سیاحوں اور مقامی لوگوں کا مقامی انتظامیہ سے بھرپور تعاون پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔

Salem جو کہ امریکہ کا پہلا دارالخلافہ بلکہ پہلا شہر ہے اسی مقام سے امریکہ کی آبادی کی ابتداء ہوئی تھی۔ اس لیے میسا چوسٹس کو New Englandبھی کہا جاتا ہے۔ Salemمیں امریکہ کا پہلا چرچ اور دیگر کئی ایک تاریخی مقامات و عمارات ہیں جو کہ دورِ قدیم کی یاد ہیں۔

Halloweenکے تہوار کے لیے Salemامریکہ کا مرکز ہے۔ اسی شہر سے اس تہوار کی ابتداء ہوئی کہا جاتا ہے کہ یہاں کے ایک مکان (Witch House)میں جن بھوتوں نے ایک خاندان کو ہلاک کر دیا تھا۔ بطور احتجاج کچھ لوگوں نے جن بھوتوں کا روپ دھار لیا۔ اور آہستہ آہستہ یہ دن قومی سطح پر منایا جانے لگا۔ گو کہ یہ امریکہ کا قومی تہوار نہیں لیکن اس کے باوجود نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں یہ تہوار بڑے دلچسپ انداز میں منایا جاتا ہے۔

اکتوبر کے مہینے میں مقامی انتظامیہ تہوار کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات شروع کر دیتے ہیں اور کاروباری لوگ اس تہوار میں اپنی چاندی کے منظر رہتے ہیں۔ شاہراہوں پر خصوصی Markکے جھنڈے اور بینرز کے ساتھ ساتھ بجلی اور سٹریٹ لائٹ کے کھمبوں کے گرد مکئی کے ٹانڈے باندھ دیتے ہیں، گھروں و دفاتر، بینکوں مطلب ہے ہر کاروباری نوعیت کے مقامات پر چھت کے نیچے اور باہر پیٹا کدو مختلف سائز میں رکھ دیے جاتے ہیں۔ دکانیں اس تہوار کے لیے مخصوص لباس اور جن بھوتوں کے ساتھ ساتھ دیگر جانوروں کے کا سٹیوم سے بھر دیے جاتے ہیں۔

اکتوبر کے آخری عشرے میں سیاحوں کی آمد سے Salemمیں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔ اس مرتبہ ہفتہ وار چھٹی یکم نومبر کو تھی اس لیے یکم نومبر ہی تہوار کا آخری دن تھا۔

صبح ہی سے شہر میں گہما گہمی عروج پر تھی گو کہ عام امریکی اس تہوار کو نہیں مناتے بلکہ ایک مخصوص طبقہ خاص کر نوجوان نسل زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، عجیب و غریب قسم کے لباس ہاتھوں میں مختلف نوعیت کے پلاسٹک کے ہتھیار، چہروں پر پلاسٹک سے بنے مختلف قسم کے خول، یعنی ہر دیس کا معاشرتی رنگ کا بہروپ لیے سروں کی تال پر رقصاں رہتے ہیں۔

نوجوان خواتین کے مختصر لباس میں عجیب وغریب حلیہ بنائے ہوتے ہیں، چہروں اور جسم کے مختلف حصوں پر مصنوعی زخموں، نقش و نگار، اور سرخ رنگ سے رنگین خونی لباس، چہروں پر مختلف قسم کے رنگ غرضیکہ یہ لوگ اس موقع پر جن بھوتوں کا روپ اپنائے ہوتے ہیں۔

میں گزشتہ گیارہ سال سے اسی شہر کے صدر دروازے پر ’’سیون الیون‘‘سٹور میں رات کو کام کرتا ہوں اور عموماًاس تہوار کی آمد سے سٹور میں مختلف قسم کے واقعات سے خوفزدہ ہوتا ہوں۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اس مرتبہ اس تہوار کے شائقین نے کام کے دوران پریشان نہیں کیا رات 9بجے سے صبح3بجے تک سٹور میں میلے کا سماں تھا۔ لیکن پولیس کو مدد کے لیے فون کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

مجموعی طور پر Halloween 2009انتہائی پر امن رہا، اور بیرون شہروں اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے سیاح اس تہوار سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوئے۔ البتہ نوجوان نسل اس تہوار کی رنگینی کو ننگا کر رہی ہے خواتین کے مختصر لباس پر اگر پابندی نہ لگائی گئی تو یہ دلچسپ تہوار اخلاقی قدروں کی تباہی میں اپنی شان کھودے گا۔

یاد رہے کہ Salem Cityکی مئیر Kim Driscolاور City وارڈ ممبر 3نومبر کے انتخابات میں آئندہ چار سال کے لیے بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میرا ابا امریکہ میں ہے

 

ماں دھرتی میں جیون کو درپیش مشکلات ومسائل سے پریشان حال وہ لوگ جو خونی رشتوں اور اپنے پیاروں کے تابناک مستقبل کے حسین خواب دیکھنے والے حصول ویزہ کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے۔ اُدھار لیتے ہیں اُدھار نہ ملے تو سُود خوروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ گھر دالان، کھیت کھلیان یہاں تک کہ بیوی، بیٹوں اور بہنوں کا زیور تک گروی رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے ممالک کی نسبت اگر ویزہ امریکہ کا ملے تو پردیس آنے والے کی نسبت اُس کو چاہنے والے کچھ زیادہ ہی دھمال ڈالتے ہیں۔ اس لئے کہ امریکہ کے گلی کوچوں شاہراہوں اور باغات میں پھل دار پودوں پر ڈالر لگتے ہیں۔

سیاحت کے ویزے پر امریکہ آ کر امریکہ میں گم ہو جانے والے چند ایک خوش بخت ایسے ہوتے ہیں جو امریکہ میں مقیم اپنے کسی پیارے کے سہارے کسی کنارے لگ جاتے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر زندگی کے وجود پر ایسے زخم کھاتے ہیں جن کا کوئی مرہم بھی نہیں ملتا۔ وہ نہ تو امریکہ میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی وطن واپسی کا سوچ سکتے ہیں اس لئے کہ خانگی زندگی کے مسائل اور مجبوریاں اُن کے پاؤں کی زنجیر ہوتی ہیں۔

خود غرض، موقع پرست اور مردہ ضمیر لوگ کہاں نہیں ہوتے، ہم اپنے دیس میں جن زر داروں، خرکاروں اور کاروباری امیر زادوں کا رونا روتے ہیں، یہی لوگ امریکہ میں اپنا کاروبار چلانے کے لیے ایسے مجبور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ملازم رکھ لیتے ہیں۔ اور ان سے کام تو بے زبان جانوروں کی طرح لیتے ہیں لیکن اُجرت وہ دیتے ہیں جس سے اُس کا اپنا گزارہ بھی مشکل ہوتا ہے لیکن حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے ملازم چپ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

فکر و شعور، علم و عقل، خاندانی وقار اور دل ہونے کے باوجود اپنی مجبوریوں کی وجہ سے وہ جاہل، گنوار سمجھے جاتے ہیں۔ اُن کے منہ میں بولنے کے لیے زبان تو ہوتی ہے لیکن اُس کو غیر قانونی حیثیت کا تالا لگا ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسے مجبور لوگ پاکستان اور بھارت میں خرکار کیمپ یا خشت بھٹہ کے مزدوروں کی مثال ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

امریکہ میں، امریکی شہریت کا حامل فرد قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ زندگی کی ہر سہولت اور مراعات سے مستفید ہوتا ہے لیکن غیر قانونی قیام کے حامل لوگ اپنے آقاؤں کے رحم  و کرم پر ہوتے ہیں۔ اُن کی حیثیت کسی زر خرید غلام سے کم نہیں ہوتی۔ ہم قوم، ہم زبان، ہم مذہب، ہم وطن کاروباری لوگ بعض اوقات اپنے مجبور ملازم پر اس قدر درد ناک ذہنی تشدد کرتے ہیں کہ ملازم اخلاقی توہین کی وجہ سے خاموش زمین میں دھنس جاتا ہے۔ اپنے وطن کے کچھ کمی کمین، کم بخت امریکی شہریت کے حامل کاروباری جن کی آنکھوں پر ڈالروں کی پٹی چڑھی ہوتی ہے وہ اپنے پاس ملازم سید زادوں اور خاندانی وقار کے حامل ملازمین پر ہاتھ اُٹھانے تک سے گریز نہیں کرتے۔ بعض اوقات اُن پر چوری اور کام چوری کے الزام لگا کر نہ صرف ملازمت سے جواب دے دیتے ہیں۔ بلکہ اُن کو اُن کے پسینے کی کمائی تک نہیں دیتے۔ میں نے اپنے ساتھ کئی ایک ایسے ہم وطنوں کو خون کے آنسو روتے دیکھا ہے یہ لوگ فریاد کریں بھی تو کس سے کریں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ مجبور اور مزدور پیشہ لوگ دل پر پتھر رکھ کر اور انا کے زخموں پر اپنوں سے اپنی محبت کا مرہم رکھ کر ٹیلیفون پر جب بات کرتے ہیں تو لگتا ہے دنیا بھر میں شاید ہی اس سے زیادہ کوئی دوسرا فرد خوشحال ہو۔ یہ لوگ سب کچھ خود پر برداشت کر کے اپنوں کو اپنے وطن میں کھاتے پیتے اور تصاویر میں ہنستے مسکراتے دیکھا کر زندگی کے ہر دکھ دردسے سمجھوتہ کر کے جی رہے ہوتے ہیں۔

مجبوری کی قید میں پایہ زنجیر روکھی سوکھی کھا کر زندگی کو روتے ہیں اور وطن میں آنے والے کل سے بے پرواہ ان کے بچے گزرے ہوئے کل کو بھول کر حلوہ پوری کھا کر فخر سے کہتے ہیں۔ ہمارا ابا امریکہ میں ہے لیکن جو بچے اپنے گزرے ہوئے کل کو یاد رکھتے ہیں ان کا حال خوبصورت اور مستقبل روشن ہوتا ہے اور ایسے خوش نصیب خاندانوں میں ایک خاندان میرا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 امریکا کے اخبارات میں شائع ہونے والا اشرف سہیل کا کالم

 

آزادی کی جنگ خواہ فلسطین میں ہو، عراق میں ہو، انڈونیشیا میں ہو، افریقہ میں ہو، افغانستان میں ہو، پاکستان میں یا کشمیر میں ہو ہر جگہ اس جنگ کو مذہب کے ساتھ جوڑ اجانے لگا ہے۔ انفرادی یا قومی آزادی کے حصول کے لیے مذہب کی آڑ لینے یا تشدد کو مذہب کی بنیاد بنانے کی اجازت مذہب نہیں دیتا لیکن اب ایسا کیوں ہو رہا ہے جب کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دیتا اور پھر اسلام تو ویسے بھی امن کا مذہب ہے۔ یہ کیسا اسلام متعارف کروایا جا رہا ہے جس میں بے گناہ افراد کو اغوا کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اور پھر اس قتل کی ویڈیو بھی جاری کی جاتی ہے اور اس ویڈیو میں قاتلوں کو سروں پر ایسے رو مال باندھے ہوتے ہیں جن پر ’’اللہ اکبر‘‘ درج ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ؟یہ کون لوگ ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ہماری صفوں میں گھس آئے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ 9/11کے فوراً بعد درجنوں مسلمان نوجوانوں نے وہاں جا کر متاثرین کی مدد کی تھی۔ ۔ اپنا خون دیا تھا …لیکن پھر بھی نہ تو پاکستانی اور نہ ہی عام مسلمان اپنے مذہبی کردار کو اُجاگر کر سکے …9/11کے نام پر دو ملک تباہ کر دیے گئے، لاکھوں مسلمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایران اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں اور باقی مسلم ممالک اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان اور ایران کو زیر کرنے میں یہ سازش ٹولہ کامیاب ہو گیا تو پھر کیا ہو گا ؟آخر وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے دوست بن کر ہمارے ساتھ دشمنوں کا سلوک کر رہے ہیں ؟

ایک طرف تو ہمیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف ہمیں اپنے کردار سے بھی ثابت کرنا ہو گا کہ نہ تو ہمارا مذہب اور نہ ہماری تہذیب و روایات ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ہم کسی بھی طور تشدد کی راہ اپنائیں۔ ہم تو محبت کرنے والے لوگ ہیں یہ رویہ ثابت کرنے کے لیے الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا کے افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور ایسی تحریریں اور پروگرام پیش کرنے ہوں گے جن سے محبت اور بھائی چارے کی بو آتی ہو اور ایسا کردار پیش کرنا ہو گا جس سے پتہ چلے کہ ہم محبت کرنے والے مضبوط کردار کے لوگ ہیں۔ ایسا کردار جسے ہمارے اخبارات کے ساتھ ساتھ مغربی میڈیا بھی اپنے لوگوں تک پہنچانے پر مجبور ہو جائے۔ ایک ایسا دھماکہ ہو جس سے بارود کی نہیں محبت کی خوشبو آئے۔ ایسا ہی ایک دھماکہ گزشتہ ہفتے (میسا چوسیٹس)کے ایک چھوٹے سے شہر Salemمیں بھی ہوا۔ گو اس دھماکے کی شدت کو ریکٹر سکیل پر نہیں ناپا گیا اور نہ ہی پاکستانی اخبارات نے اس دھماکے کی شدت کو محسوس کیا

سیلم سٹی میں ایک ’’سیون الیون ‘‘سٹور ہے اوراس کا مالک ایک پاکستانی چوہدری محمد امجد ملک جن کا فیصل آبا سے ہے گل بخشالوی اس سٹور میں رات کی شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ ادبی حوالے سے گل بخشالوی کو کون نہیں جانتا کہ وہ تقریباً 24کتابوں کے مولف و مصنف ہیں۔ 2008ء میں ان کی کتاب ’’تم کب تک بھٹو مارو گے ‘‘منظرِ عام پر آئی اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب امریکی صدر بارک حسین اوباما پر لکھی گئی ’’تبدیلی ‘‘کے نام سے منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے باراک اوباما کی تقریر کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر امریکا کے صدر باراک اوباما اور خاتونِ اول نے گل بخشالوی کو خط بھی لکھا ہے لیکن آج ہم گل بخشالوی کے ادبی حوالوں پر بات نہیں کریں گے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج ہم گل بخشالوی کی نہیں بلکہ سبحان الدین کی بات کریں گے اس سبحان الدین کی جس کی رگ رگ میں وطن کے لیے پیار بھرا ہے۔ سبحان الدین گل تقریباً گیارہ سال قبل امریکہ آئے اور تب سے ہی وہ سیلم کے ایک ’’سیون الیون‘‘ میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اب تک پاکستان نہیں جا سکے ہیں لیکن اس طویل عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی ان کا وطن کی مٹی سے رشتہ نہیں ٹوٹا ہے۔ ان کا قلم آج بھی دیس ہی کے گیت گاتا ہے۔ ان کا دل آج بھی گاؤں میں چلنے والی پن چکی کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ وطن کی مٹی کی مہکار کو وہ آج بھی اپنے جسم کے روئیں روئیں میں محسوس کرتے ہیں۔ آج بھی وہ اپنے پسینے میں وطن کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔ آج بھی ان کا دل وطن میں ہونے والے خودکش حملوں پر خون کے آنسو روتا ہے۔ امریکی ڈرون طیاروں کے حملے انہیں رات بھر سونے نہیں دیتے۔ کھمبوں پر لٹکی سر بریدہ لاشیں ان کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں اور تب وہ تسکین قلب کے لیے اپنے قلم کی تشہیر کی نوک بنا لیتے ہیں۔ وہ ایک اچھے انسان تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی وہ ایک سچے عاشق رسولؐ اور پکے مسلمان بھی ہیں۔ اس کا یقین آپ کو اس واقعہ سے بھی ہو جائے گا۔

سبحان الدین گل اپنی ذمہ داریاں بڑی تندہی سے نبھاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ’’سیون الیون‘‘ کے مالک چوہدری محمد امجد ان پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ رات کی شفٹ پر تھے ایک غیر امریکی مزدور جوڑے نے لاٹری ٹکٹ ان سے لیا اور کھرچ کر دیکھا تو 10کا ہندسہ اسے نظر آیا اس نے مزید کھر چنے کی زحمت گوارا نہیں کی ٹکٹ سبحان صاحب کے ہاتھ میں تھما یا اور کہا کہ میں 10ڈالر جیت گیا ہوں لہٰذا مجھے 10ڈالر دو تاکہ میں جاؤں۔ سبحان الدین صاحب نے ٹکٹ دیکھا اور 10ڈالر اس کو دے دیے۔ ٹکٹ انہوں نے وہیں رکھ دیا کہ جب رش ذرا کم ہو جائے گا تو مشین میں ڈال کر کنفرم کر لوں گا کیونکہ وہ لڑکا تقریباً روز ہی آتا تھا اور رقم بھی معمولی تھی۔ رات میں جب ذراسکون ہوا تو سبحان صاحب نے ٹکٹ کنفرم کرنے کے لیے مشین میں ڈالا تو ان کو حیرت ہوئی کہ مشین نے ٹکٹ نہیں لیا دوسری مرتبہ بھی یہ ہی ہوا۔ ۔ لاٹری مشین پانچ سو سے زیادہ ٹکٹ نہیں لیتی اس کو شک گزرا۔ تو ٹکٹ کو مزید سکریچ کیا۔ ۔

یہیں سے سبحان الدین کے سچے اور پکے مسلمان ہونے کا امتحان شروع ہو گیا کیونکہ یہ بات سبحان الدین یا ان کے رّب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھے کہ لاٹری کی انعامی رقم 10 ہزار ڈالر ہے اگر وہ چاہتے تو وہ یہ رقم خاموشی سے جیب میں ڈال سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ممکن ہے کہ اس میں ان کے نام کا بھی عمل دخل رہا ہو کیونکہ ان کا نام سبحان بھی تو اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ممکن ہے ان کے ذہن میں عام انسان کی طرح کئی خیال آئے ہوں لیکن انہوں نے شیطان کو غالب آنے نہ دیا اور فوراً دکان کے مالک چوہدری محمد امجد کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کر دیا اور پرسکون ہو گئے وہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک ایسی روحانی خوشی محسوس ہوئی جو بیان نہیں کی جا سکتی۔ پھر انہوں نے مقامی پولیس اور لاٹری کمپنی کو بھی مطلع کر دیا اور اپنے اس اقدام سے انہوں نے ہم سب پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ سبحان الدین کے اقدام کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔

اسے بھی محض ایک اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے ہے کہ دوسرے روز وہی لڑکا پھر آیا تو سبحان صاحب نے اس سے کہا کہ میرے پاس تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے لیکن سناؤں گا تب جب تم اپنی گرل فرینڈ کو ساتھ لے کر آؤ گے جو کل بھی تمہارے ساتھ تھی۔ ان کے آنے سے قبل سبحان الدین نے سیلم نیوز کے رپورٹر کو بھی فون کر دیا۔ لڑکا فوراً گیا اور اپنی گرل فرینڈ کو ساتھ لے آیا۔ اسی دوران مقامی اخبار کے نمائندے اور فوٹو گرافر بھی وہاں پہنچ گئے۔ ۔ ۔ ۔ تب سبحان الدین نے اس جوڑے کو بتایا کہ کل جو ٹکٹ تم نے مجھے دیا تھا اس میں 10ڈالر کا نہیں 10ہزار ڈالر کا انعام نکلا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کو یقین نہیں آ رہا تھا لیکن جب سبحان الدین نے ان کو ان کا انعام یافتہ ٹکٹ دیا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اور سبحان صاحب اپنے اس عمل پر مطمئن۔

یہ دھماکہ کسی بم دھماکے سے کم نہ تھا۔ ایسے دھماکے اسلام کی سر بلندی کے لیے ضروری ہیں۔ ایمانداری کے ایسے واقعات کی وسیع پیمانے پر تشہیر ہونی چاہیے تاکہ جب اسلام یا مسلمانوں کے خلاف کوئی بات ہو لوگوں کو مسلمان کا یہ رخ بھی نظر آئے اور جب کوئی ظالم انسان کسی مسلمان خاتون کو حجاب نہ پہننے پر قتل کرے تو یہ اس کا انفرادی فعل قرار دیا جائے اور تمام مسلمانوں کو مطعون نہ کیا جا سکے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں  نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید