FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تکون کی چوتھی جہت

 

 

 

اقبال خورشید

 

ماخوذ: ’ادب سلسلہ، شمارہ دو، مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ

 

 

کیا تم نے اس کے خاموش قدموں کی آواز نہیں سنی؟

وہ آتا ہے۔ آتا ہے۔ اور ہمیشہ آتا ہے۔

ہر لمحہ اور ہر عمر میں۔ ہر دن اور ہر رات وہ آتا ہے۔ اور ہمیشہ آتا ہے۔

میں نے بہت سے گیت مختلف کیفیات قلب میں گائے ، لیکن ان کا لحن ہمیشہ یہی رہا ؛ وہ آتا ہے ، اور ہمیشہ آتا رہے گا۔

گرم اپریل کے معطر ایام میں جنگل کے راستے وہ آتا ہے ، اور ہمیشہ آتا رہے گا۔

جولائی کی باران تاریکی میں ، بادلوں کے گرجنے والی رتھ پر وہ آتا ہے۔ اور ہمیشہ آتا ہے۔

تو اثر الم کی حالت، اُسی کے قدم ہیں ، جو میرے دل کے اندر گڑ جاتے ہیں۔ اور اس کے قدموں کا زرین مس ہے ، جو میری مسرتوں کو درخشاں بنا دیتا ہے۔

(گیتانجلی۔ رابندر ناتھ ٹیگور)

 

 

 

 

پہلا باب

 

 ’’عورت‘‘

 

شام ویران تھی۔ شہر بارش کی قید میں تھا۔ سمندر سڑکوں پر آ گیا۔ نشیبی علاقے ڈوب گئے۔ چھتیں ڈھتی گئیں۔

اُس روز، میں نے آخری بار اُس کی آواز سنی۔

وہ، میری روح کا نغمہ، اس شام میلوں پرے تھا۔

ایک ایسے شہر میں ، جو ریاست کا حصہ تو تھا، پر گزرتے پَلوں کے ساتھ ریاست سے دور ہوتا جا رہا تھا۔

شاید وہ موسم سے متعلق بتا رہا تھا، یا شاید اپنے پراجیکٹ سے متعلق، جس کی تکمیل میں ابھی وقت تھا۔

چند اور دن، یا چند اور ہفتے۔

کوشش کے باوجود میں سمجھ نہیں سکی۔ ایسا نہیں تھا کہ اُس کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی تھی، بلکہ اِس کا سبب وہ وجود تھا، جو میرے وجود میں حرکت کر رہا تھا۔

میں حاملہ تھی۔

دھرتی سے آسمان تک پانی کا پردہ تنا تھا۔ میں کھڑکی میں بیٹھی تھی۔ شیشے پر پانی کی دستک کئی گھنٹوں سے جاری تھی۔

ٹھیک اُس پل، جب مجھے خود میں کوئی شدت سے حرکت کرتا محسوس ہوا، میلوں دور اُس کے لفظوں کو کاٹتی ایک کرخت آواز سنائی دی۔ گو لہجہ اجنبی تھا۔ اور زبان بھی، پر وہ آواز مجھے مانوس لگی۔ شاید وہ پہلے بھی مجھ پر بیت چکی تھی۔

وہ مجھے بھول کر اس کرختگی میں الجھ گیا۔ اور ٹھیک تب، کچھ ہوا۔

کچھ پریشان کن۔ اور پھر۔ ۔ ۔ کوئی آواز نہیں رہی۔ لفظ تحلیل ہو گئے۔ موبائل فون بند ہو چکا تھا۔ رابطہ ٹوٹ گیا۔

میں کھڑکی میں بیٹھی تھی۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ اور دیوار پر ایک چیونٹی رینگ رہی تھی۔

’’مرد‘‘

وہ طوفانی شام تھی۔

پالا پڑ رہا تھا۔ برف باری کی وجہ سے جیپ راستے میں پھنس گئی۔ ڈرائیور نے ، جو مقامی تھا، سفر جاری رکھنے کی غرض سے ، یا کسی ایسی غرض سے جسے میں نہیں سمجھ سکا، سڑک چھوڑ دی۔

کمپنی کی ہدایات تھیں کہ ایسا نہ کیا جائے کہ حالات کٹھن تھے۔ فقط سڑک ہی کسی حد تک محفوظ تھی، مگر اب۔ ۔ ۔ ہم اُسے چھوڑ چکے تھے۔ اور اب زمین کے ایک ایسے ٹکڑے پر تھے ، جسے سفیدی نے ڈھانپ رکھا تھا۔ پہلو میں ایک دریا تھا، جو جم چکا تھا۔ اور تب، میں نے اُسے فون کیا۔

اُسے ، جو ناقابل بیان رس کا پیالا تھی۔

آواز دُور سے آتی معلوم ہوئی۔ مجھ میں کنول کھلا۔

وہاں بارش ہو رہی تھی۔ اُس نے کہا نہیں ، پر میں جانتا تھا کہ وہ اِس لمحے کھڑکی میں بیٹھی ہو گی، اور بارش شیشے پر دستک دیتی ہو گی۔

میں نے اُسے برف باری اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں بتایا، پر حقیقتاً فقط اُس کی بابت جاننا چاہتا تھا کہ وہ میرے وجود کا ایک ٹکڑا اٹھائے ہوئے تھی۔ وہ حمل سے تھی۔ اور اس لحظے مجھے اُس کے پاس ہونا چاہیے تھا۔

وہ طوفانی شام تھی۔ آخری شام۔ ۔ ۔ جب اُس کی جادوئی آواز نے مجھ تک رسائی حاصل کی۔

جیپ ایک جھٹکے سے رک گئی۔ کھڑکی پر دستک ہوئی۔

میں نے شیشہ نیچے کیا۔ برفیلی ہوا اندر داخل ہوئی۔ دوسری طرف، گرتی برف کے درمیان، ڈوبتی روشنی میں ، چہرہ ڈھانپے ہوئے ، ٹھیک ویسا شخص کھڑا تھا، جیسا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔

کہیں دور، کسی پرندے کے پر پھڑپھڑائے۔

جس زبان میں اُس نے بات کی، وہ میرے لیے اجنبی تھی۔ یک دم اس کے ہاتھ میں بندوق چمکی۔ برف کی چادر سے اُس جیسے مزید برآمد ہوئے ، جو جیپ میں سوار تھے۔ اور مجھے اِس احساس نے آن لیا کہ میری زندگی بدلنے والی ہے۔

طوفان میں محبوس اس شام۔ ۔ ۔ میں نے آخری بار مریم کی آواز سنی،

جو حاملہ تھی،

اور کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی۔

’’جنگ جو‘‘

ہاں ، برف گر رہی تھی۔

ندی جم گئی۔ اور سفیدی نے علاقے کو ڈھانپ لیا، مگر وہ ٹھنڈ نہیں تھی، جو کبھی مجھے اپنے سائے میں چھپا لیا کرتی۔ ۔ ۔ جو دبے پاؤں دالان میں چلتی۔ ۔ ۔ کھڑکی سے داخل ہوتے بادل سے اٹکھیلیاں کرتی۔ ۔ ۔ ۔ جس سے میں محبت کرتا تھا۔

نہیں ، اب وہ ٹھنڈ نہیں تھی۔ کہیں بھی نہیں۔

گذشتہ کئی برس سے میں اُس کی کمی محسوس کر رہا ہوں۔ اگر وہ ہوتی، تو آسمان سے برستے بارود کا اندیشہ، گو ختم نہیں ہوتا، مگر گھٹ ضرور جاتا۔ اور اپنے ہم وطنوں کے حملے کم کریہہ معلوم ہوتے۔

پر اب وہ ٹھنڈ نہیں رہی۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔

اُس شام، جب ہم نے اُسے اغوا کیا، برف گر رہی تھی، جس نے راستے مسدود کر دیے۔ اور اس کی جیپ چلانے والا — جو ہم میں سے نہیں تھا، مگر ہمارا ہم درد تھا — اُسے وہاں لے آیا، جہاں ہم پوشیدہ تھے۔

وہ براہ راست ہمارا دشمن نہیں۔ ایک غیر مسلح، عام انسان۔ غیرملکی بھی نہیں۔ البتہ جس کمپنی میں ملازم تھا، وہ ضرور غیرملکی تھی۔

اُسے اغوا کرنا کس قدر کار آمد ثابت ہو گا، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ ویڈیو نشر ہونے کے بعد ہی یہ بتانا ممکن ہے ، جس میں وہ ہمارے مطالبات پڑھے گا، اِن الفاظ کے ساتھ: ’’اگر یہ مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے ، تو مجھے قتل کر دیا جائے گا!‘‘

جیپ سے اترتے ہی وہ ٹھٹھرنے لگا۔ ہم نے اس کا موبائل فون، بٹوا اور دیگر سامان قبضے میں لے لیا۔ آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔

گرتی برف کے درمیان سفر کرتے ہم پہاڑوں میں چھپے اپنے ٹھکانے تک پہنچے۔ اُسے باڑے میں دھکیل دیا گیا۔ ایک نوجوان نے — جو نیا نیا ہم میں شامل ہوا تھا، اور زندہ دلوں کے شہر سے تھا — اُس پر بہت سا چارا ڈال دیا، تاکہ وہ ٹھٹھرنے سے باز رہے۔ مگر یہ ہو نہیں سکا۔ اس نے ٹھٹھرنا جاری رکھا۔ گو ٹھنڈ کچھ خاص نہیں تھی۔

ابو داؤد کا خیال تھا کہ وہ ایک عام آدمی ہے۔ بلاشبہ مقامی نہیں ، مگر کوئی غیرملکی بھی نہیں۔ ساحلی شہر سے آیا ہوا ایک عام انسان۔ مگر میں ابوداؤد سے متفق نہیں۔

جیپ کی کھڑکی پر دستک دینے سے قبل میں وہ دعائیہ کلمات دہرا رہا تھا، جو کبھی میرے باپ کا باپ دہرایا کرتا تھا۔

’’اے کُل، میری آرزو کا اتنا مختصر حصہ مجھ میں باقی رہنے دے کہ تجھ ہی کو ہر طرف محسوس کروں۔ ‘‘

میری دعا قبول نہیں ہوئی۔

ابو داؤد کے نزدیک وہ عام آدمی ہے۔ مگر میں متفق نہیں۔

وہ بہت خاص ہے۔ ۔ ۔ مگر فقط میرے لیے !

٭٭

 

 

 

دوسرا باب

 

 ’’عورت‘‘

 

میری کوکھ میں پلتی روح مضطرب تھی۔ اندیشہ مجھے کھا رہا تھا۔ پیڑ چپ تھے۔ اور سڑکوں پر کیچڑ کھڑا تھا۔

رابطہ منقطع ہوئے پانچ دن گزر گئے۔ میں کھڑکی میں بیٹھی ہوں۔ اور آسمان پر سیاہ بادل تیر رہے ہیں۔

اُس کی غیرملکی کمپنی کے مقامی عہدے داروں کو یقین تھا کہ اُسے اغوا کیا گیا ہے۔ اگرچہ اغوا کاروں نے رابطہ نہیں کیا، مطالبات سامنے نہیں آئے ، مگر انھیں امید تھی کہ جلد ایسا ہو گا۔

جلد ایک ویڈیو منظر عام پر آئے گی، جس میں وہ اجنبیوں میں گھِرا ہو گا۔ خوف زدہ اور سہما ہوا۔

کیا واقعی ایسا ہو گا؟ کیا وہ زندہ بھی ہے؟ کہیں اُسے۔ ۔ ۔

میں آگے نہیں سوچ پاتی۔

زندگی بدل دینے والے معجزے سے میں فقط چند ہفتوں دور ہوں۔ معجزہ۔ ۔ ۔ جو اچانک نہیں ہو گا، اور جس کے لیے — خواب اور حقیقت — دونوں ہی دنیاؤں میں خاصا اہتمام کیا گیا۔ اور ایسے میں اس سانحے کا ظہور ہو۔

کوئی حوصلہ افزائی کرنے والا نہیں۔ تسلی کے دو بول بولنے والا نہیں۔ ماں باپ چند برس قبل رخصت ہو چکے۔ ساس سُسر کی فقط تصویر دیکھی۔ سر پر ہاتھ رکھنے والے سب ہی مٹی کی آغوش میں ہیں۔

ابھی علی کا فون آیا تھا۔

دو روز قبل وہ سامنے والے سوفے پر بیٹھا تھا۔ افسردگی چہرے پر منجمد۔ ہاتھ میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں اور ادویہ کا پیکٹ۔ اور جوتوں پر کیچڑ۔

وہ دوپہر بارش میں الجھی تھی۔ اُس نے یقین دلایا کہ وہ احمر کو ڈھونڈے بغیر دم نہیں لے گا۔ آج فون پر بھی اُس نے یہی بات دہرائی، اگرچہ میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔

ریاست کا شمالی حصہ — جہاں قدیم پتھروں پر بدھا کی کہانی لکھی تھی، جسے بگاڑ دیا گیا — افغانستان پر ہونے والے حملے کے بعد محیر العقول واقعات کا مرکز بن گیا تھا، جہاں اب غیر یقینیت ہی، اکلوتی یقینی شے تھی۔

سڑکوں پر کیچڑ تھا۔ رابطہ منقطع ہوئے پانچ دن گزر چکے۔ چھٹے دن کا آغاز ہونے کو تھا، جو ضرور ایک خالی دن ہو گا۔ مجھے یقین ہے۔

’’مرد‘‘

وہ مویشیوں کا باڑا تھا، جہاں خاموشی اور ٹھنڈ تھی۔ ٹھٹھرنا میرا معمول تھا۔ اور اُس کی یاد میرا اکلوتا سہارا۔

سیاہ پٹی نے مجھے اندھا کر دیا۔ ہاتھ پشت پر بندھے۔ فقط کھانے کے وقت اُنھیں کھولا جاتا۔ اور میں اندھیرے میں نامانوس اشیاء حلق میں اتارتا۔ رفع حاجت کے لیے یہی طرز اختیار کرتا۔

میں جن کی تحویل میں تھا، میری بابت زیادہ فکر مند نہیں تھے۔ بلکہ خاصے بے پروا تھے۔ میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاؤں ، یا جانوروں کی طرح کھانے لگوں ، اُنھیں غرض نہیں۔

برتن لانے لے جانے والا ابتداً بات کرنے سے انکاری تھا، مگر جب میرا گریہ جم گیا، اور ماتم تمام ہوا، تب اُس نے میرے طویل سوالوں کے مختصر جواب دینے شروع کیے ، جو اکثر ہاں ، نہیں ، اور پتا نہیں تک محدود ہوتے۔

ویسے سوالات کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ یہ تو میرا خوف تھا، جو سوال میں ڈھل جاتا:

’’کون ہو تم لوگ؟ مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ کیا مجھے قتل کر دیا جائے گا؟ ‘‘

احمقانہ سوالات۔ میں جواب جانتا تھا۔ میں پہلا تو نہیں جو قید، اذیت اور خوف کے اِن غیر مختتم مراحل سے گزر رہا ہوں۔ کئی پہلے بھی اِس سے گزرے۔

لمحۂ موجود میں بھی، نامعلوم مقامات پر، کئی انسان اس تاریک اور سرد دنیا میں سانس لے رہے ہوں گے۔ اور کئی آنے والے دنوں میں اِس نرک میں خود کو موجود پائیں گے۔

زمین کے اِس حصے پر یہ معمول بن گیا ہے۔ ریاست یہاں ایک جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک بے انت جنگ۔

میں نہیں جانتا کہ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں۔ مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے بدن اس کا ایندھن ہیں۔ یہ سوختگی کی فصل بو رہی ہے ، جس پر پلنے والوں میں افسردگی اور خوف بیٹھ گیا ہے۔ ہم اپنے گیت بھول چکے۔

میں اُس کی مشتعل یاد کے سہارے سانس لے رہا تھا۔ اِس امید پر موسم کے حملے سہہ رہا تھا کہ جلد آزادی میرے نتھنوں میں سانس پھونکے گی۔ ایک بار پھر وہ میری بانہوں میں ہو گی۔ اور اِس بار میں اُسے ، بوسوں کے درمیان، جذبات سے مہکتے ہوئے ، یہ بتانے میں کام یاب رہوں گا کہ میں اسے کتنا چاہتا ہوں۔

وہ ایک باڑا تھا۔ وہ ایک نئی دنیا تھی۔

مجھے یہاں آئے شاید دس دن گزر گئے ، یا شاید گیار ہواں دن تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ دنوں کی ترتیب معنویت کھو چکی تھی۔

’’جنگ جو‘‘

وہ خواہش، جو دکھ کا باعث بنتی ہے ، اس کا جنم کہاں ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ماضی میں !

گیارہ روز تک میں اُسے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا رہا، مگر ہاتھ فقط ناکامی آئی۔

اُسے باڑے میں ، ایک ستون سے باندھا گیا تھا۔ اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بھاگ نہیں سکتا۔ اس برف باری میں ، پہاڑوں کی بھول بھلیاں میں وہ بھاگ کر جاتا بھی تو کہاں؟

سڑک دُور تھی۔ وہ رستوں سے ناواقف تھا۔ سردی برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتا تھا۔ باڑا پھر بھی بہتر مقام تھا۔ نسبتاً گرم۔

ابوداؤد اور دیگر ساتھیوں کے درمیان وہ گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے زیر بحث نہیں آیا۔ اور یہ اچنبھے کی بات نہیں۔ بلاشبہ وہ غیر اہم تھا۔ اور اگر اہم ہوتا، تب بھی ہمیں اُس کی گم شدگی کے بعد، ایک مخصوص صورت حال جنم دینے کے لیے ، کچھ انتظار کرنا تھا۔

وہ ڈیڑھ ہفتے سے زیر بحث نہیں آیا، البتہ میں ہر لمحے اس سے متعلق سوچتا رہا۔ شعلے دل سے اٹھتے تھے۔

جب میں صبح، سورج کے ظہور سے پہلے بیدار ہوتا۔ ۔ ۔ وہ مجھے اپنے پہلو میں دکھائی دیتا۔

اور جب میں کھانا کھانے بیٹھتا، وہ ظاہر ہو جاتا۔ اور جب میں رفع حاجت کو جاتا، وہ پہلے سے وہاں موجود ہوتا۔

وہ ہر طرف تھا۔ اور ایسا بلا سبب نہیں تھا۔

اس کا پرس، جس سے رقم اور کاغذات نکال لیے گئے ، اب بھی میرے پاس تھا۔

اُس میں فقط ایک تصویر تھی۔ اُس کی شادی کی تصویر۔ اور یہ ہی تصویر اُس پرس کی— جو غیر اہم تھا، انتہائی— میری جیب میں موجودگی کی اکلوتی وجہ تھی۔

اور اِسی باعث میں نے اُس کا موبائل فون، اگرچہ یہ خطرناک تھا، تا حال تلف نہیں کیا۔ اُس میں چند تصاویر تھیں۔ اُس کی۔ اُس کے دوستوں کی۔ اور۔ ۔ ۔ اُس کی بیوی کی۔

میں باڑے کی سمت بڑھ رہا تھا، جہاں وہ تھا، جس کی قسمت میری قسمت سے ، عجیب ڈھنگ سے جڑی تھی۔

٭٭

 

 

 

تیسرا باب

 

 ’’عورت‘‘

 

میرے پیر سوج گئے۔ بوجھ مجھے ڈھے رہا تھا۔ بستر میری ضرورت تھا۔ زچگی کے دن قریب آ گئے۔ اور وہ میلوں دور تھا۔

سامنے دیوار پر، چیونٹیوں کی طویل قطار سے ذرا نیچے ، ایک فریم ہے۔

تصویر میں میرا سر اُس کے کاندھے پر ہے۔ آنکھوں میں مسرت رقصاں۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ۔ پس منظر میں مصنوعی آبشار۔

یہ تصویر ولیمے والے روز لی گئی۔

اس رات میری بے ربط ہوئی کائنات نے ، ایک غیر متوقع واقعے کے مانند، تکمیلیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ورنہ تو میں بکھری ہوئی تھی کہ کچھ ہی عرصہ قبل میں بڑے سانحے سے گزری۔

ایک ٹریفک حادثے نے مجھے ماں باپ سے محروم کر دیا۔

اس سرد رات، سرکاری اسپتال کے کریہہ ایمرجینسی وارڈ کے باہر، آنسو بہانے کے لیے جو پہلا کاندھا میسر تھا۔ ۔ ۔ وہ احمر ہی کا تھا۔

اور اسی رات میرے آنسو اور اس کے بدن کے درمیان ایک رشتے نے جنم لیا، جو جلد اٹوٹ لگنے لگا۔

اُس نے میری کم زور ہستی کو ایک تازہ زندگی سے معمور کر کے لامتناہی بنا دیا۔

مجھے یاد ہے ، اگست کی جس سہ پہر احمر سے میری پہلی ملاقات ہوئی، شہر کو حبس نے گھیر رکھا تھا۔ اور گرمی غیر مختتم اداسی کو جنم دیتی تھی، جو درختوں پر کھلے پھولوں سے عیاں تھی۔

وہ میری ہی تلاش میں لائبریری آیا تھا۔ چند روز بعد علم سماجیات اور معاشرہ کے زیر عنوان ایک سیمینار ہونا تھا، جس کے لیے اُسے کمپیئر کی ضرورت تھی۔ اور قدرت کے کارندوں نے ، جو نہیں جانتے تھے کہ ان کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ، اسے میری جانب دھکیل دیا۔

ہم دونوں ایک دوسرے سے ویسے ہی ملے ، جسے متوسط طبقے کے دو نوجوان— جو بہ ہر حال محبت کرنا چاہتے ہیں ، مگر اپنی اس خواہش سے لاعلم ہوتے ہیں — ملتے ہیں۔

اور پھر ملاقاتوں میں تسلسل کے امکان کی پیدایش ہوئی۔ اور موسم کی تبدیلیاں جاری رہی۔

وہ میری پروا کرتا ہے۔ ۔ ۔ یہ پر مسرت ادراک مجھے اُس روز ہوا، جب ہم پکنک کے لیے ایک ایسی جھیل کی سمت گئے ، جس کے بیچوں بیچ محبت سے لبریز دو دلوں کا مزار تھا۔

اُس نرم دوپہر، لانچ میں مزار کی جانب بڑھتے ہوئے ، پھسلن زدہ سیڑھیاں چڑھتے ، وہاں دعا مانگتے ، اور وہاں سے لوٹتے ہوئے ، اس کی موجودگی، اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھی۔

جب ہم شہر لوٹے ، وہاں کشیدگی پھنکار رہی تھی۔ اگرچہ اجالوں کے شہر میں اس نوع کے تاریک دن بکثرت آتے تھے ، مگر میں تھوڑی پریشان ہو گئی کہ میرا گھر کچھ دور تھا۔

اس روز احمر کی بائیک نے مجھے گھر چھوڑا۔

دوران سفر اُس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کہ جو ہمارے بدنوں کے مس ہونے کا کوئی امکان جنم دے۔ نہیں ، نہ تو رفتار تیز تھی، نہ ہی سڑکوں پر گڑھے تھے ، مگر بدن مس ہو ہی گئے۔

قدرت کے کاموں کے سامنے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔

اس رات میں کھڑکی میں بیٹھی— جس کے باہر پورا چاند تھا — اسی کی بابت سوچتی رہی۔ یہ اس نے بعد میں بتایا کہ وہ بھی میری بابت سوچ رہا تھا۔ اور کھڑکی کے باہر چاند تھا۔

ہماری ملاقاتیں ، لائبریری میں ، کینٹین میں ، سیمینار ہال میں ہوتی رہی، جہاں ایک ٹھوس، مگر غیر مرئی رشتہ ہمارے درمیان سانس لیتا۔

اور جس روز مجھے سانحات میں بڑے سانحے کی اطلاع ملی، میں اسی کے ساتھ ایک اسائنمنٹ تیار کر رہی تھی۔ اور اسی کے ساتھ سرکاری اسپتال پہنچی، جس کی کریہہ دیواروں میں ایک المیہ منتظر تھا۔ ماں باپ مجھے چھوڑ چکے تھے ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔

میری آنکھوں کی نمی اس میں جذب ہوتی تھی۔ اور یہ عمل اس پل تک جاری رہا، جب تک آنسو تمام نہیں ہو گئے۔ میرے دور پرے کے رشتے دار، محلے دار اور دوست اس کے بعد ہی اسپتال پہنچے۔

دروازے پر دستک ہوئی ہے۔ ضرور علی ہو گا۔ دواؤں کے ساتھ، کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ، اور اپنی بہن کے ساتھ، جسے لانے کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ میری دیکھ ریکھ کے لیے۔

نہ جانے کیوں ، گھر میں چیونٹیوں کی تعداد اچانک بڑھ گئی ہے۔

’’مرد‘‘

موت کے پہلو میں ٹھٹھرتے ہوئے ، انسان فقط یادوں کے سہارے زندہ رہ سکتا ہے۔ انسیت اور زندگی سے بھرپور یادیں۔ اُس وقت یہ سوال معنویت کھو دیتا ہے کہ آیا سوچنا اُس کی موجودگی کا سبب ہے ، یا موجودگی اس کے سوچنے کی وجہ۔

بس یادیں۔ ۔ ۔

اُس روز اتنا حبس نہیں تھا۔ کم از کم اُس کے ہوتے ہوئے تو نہیں۔ وہاں تازگی تھی، چھاؤں تھی، جہاں وہ تھی۔ اور یہ درختوں پر کھلے پھولوں سے عیاں تھا۔

پہلی نظر کی محبت افسانوی معلوم ہوتی ہے۔ مگر زندگی افسانوں سے زیادہ افسانوی ہے۔ ہاں ، پہلے ہی روز میں نے اپنے وجود کا ایک حصہ اُسے سونپ دیا۔

گزرتا وقت خاموش اور حسین تھا۔ ہم قریب آتے گئے ، پر ہنوز ایک دیوار تھی، جو اظہار کے درمیان حائل تھی۔ اور پھر وہ سانحہ ہوا، جس نے مجھے اُس سانحے کی یاد دلا دی، جو اُس سمے مجھ پر بیتا، جب میں کچھ یاد رکھنے کے قابل نہیں تھا۔ بہت کم سن تھا۔

اُسے بھی، میرے مانند، اپنے ماں باپ کو کھونا پڑا۔

اور تب آنسوؤں کی برسات ہوئی۔ ایسی برسات، جسے میں نے جذب کر لیا۔

وہ ٹوٹ چکی تھی۔ اور اُسے سنبھالنے کی خواہش، وہ اکلوتی خواہش تھی، جو مجھ میں سانس لیتی۔ نغموں کے بیج بوتی تھی۔

اُس کے گرد یاسیت کا کہرا تھا، راستہ دکھائی نہیں پڑتا تھا۔ بس ایک امکان تھا کہ میں — بھٹیارے کا بیٹا— خود کو قربانی کے لیے پیش کر دوں۔ اور ایسا میں بہ خوشی کرنے کے لیے تیار تھا۔ ویلنٹائن کا دن منتخب کر چکا تھا۔ اور اُس دن۔ ۔ ۔

کہیں کھٹکا ہوا ہے۔ شاید باڑے میں کوئی ہے۔ ۔ ۔ مگر کون؟

’’جنگ جو‘‘

میں نے وہ چھوٹی سی بانسری توڑ دی، جس کی دھنیں پرندوں کو گرویدہ بنا لیتی تھیں۔

کبھی سوچا نہیں تھا کہ قدرت نے ہماری ملاقات کے لیے اِس دورافتادہ، برفیلے مقام کا انتخاب کیا ہو گا، جسے چھوڑنے کے بارے میں ابو داؤد سنجیدگی سے سوچنے لگا ہے۔

کسی بھی لمحے حملہ ہو سکتا ہے۔

میں باڑے کی سمت بڑھ رہا ہوں ، جہاں وہ شخص ہے۔ ۔ ۔ جس کی قسمت میری قسمت سے جڑی ہے۔ اور اس کا سبب وہ خود نہیں ، بلکہ وہ عورت ہے ، جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

وہ عورت۔ ۔ ۔ جس سے میں محبت کرتا تھا!

مریم۔ ۔ ۔ ڈیپارٹمنٹ کی قابل ترین طالبہ۔ یونیورسٹی کی سب سے اچھی مقر ر۔ اور میرے لیے دنیا کی حسین ترین لڑکی۔

میں ہر لمحے اُس کے اردگرد رہا، مگر وہ کبھی میرے ہونے کا ادراک نہیں کر سکی۔ اور یہ متوقع تھا۔ شمالی علاقے کے ایک سرسبز گاؤں سے — جس کے سبزے کو گھن لگ گیا، جہاں اب دہشت کا راج تھا — اجالوں کے شہر آنے والے ایک طالب علم کو نظرانداز کرنا آسان ہے کہ وہ ذہنی طور پر خود کو نظرانداز کرنے کا عادی ہوتا ہے۔

میں آس پاس ہی تھا۔ اس لمحے بھی، جب وہ سیمینار کی کمپیئرنگ کر رہی تھی، اور میں پچھلی صفوں میں تھا۔

ہاں ، آس پاس۔ اُس بس میں جو ہمیں لے کر قدیم قبرستان اور پھر جھیل کی سمت جاتی۔ اس لانچ میں ، جو جھاگ چھوڑتے ہوئے مزار کی جانب بڑھتی۔ اور اس مجمعے میں ، جو اس کے ماں باپ کے انتقال کے بعد تعزیت کے لیے اس کے گھر گیا۔

میں ہر لمحے وہیں تھا۔ ۔ ۔ مگر وہ میری موجودگی سے لاعلم رہی۔ اور مجھے اس کا قلق نہیں تھا۔

میں منتظر تھا، اس دن کا، جب میں ہمت جٹا سکوں۔ اظہار کر سکوں۔ ۔ ۔ اس محبت کا، جو سمندروں سی بے کراں تھی۔

اور پھر وہ دن آن پہنچا۔

یہ بارش سے پہلے کی روداد ہے۔

وہ پیڑ کے نیچے ، سر جھکائے کھڑی تھی۔ ہواؤں نے شاخوں میں ہل چل مچا دی۔ پرندے چہکے ، اور خشک پتے گرنے لگے۔

وہ تنے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ میں ہمیشہ کی طرح پاس ہی تھا۔ بس، چند قدموں پرے۔ ہاتھ میں گل دستہ لیے۔

بادلوں نے آسمان ڈھانپ رکھا تھا۔ بار آور ہواؤں کا شور تھا۔ میرا دل مسرت اور اندیشوں سے لبریز، دھڑک رہا تھا۔

وہ گرتے پتوں کے درمیان تھی۔

اور پھر اُس کے نزدیک ایک آہٹ ہوئی۔ ۔ ۔ اُس نے سر اٹھایا۔ آنکھوں میں شناسائی کا جنم ہوا۔ اور چہرے پر تبسم کا ظہور ہوا۔ وہ آگے بڑھی۔ اور شاخیں جھُکیں۔ اور زمین نے اسے محسوس کیا۔

خشک پتے بار آور ہواؤں پر سوار تھے۔ وہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ کچھ ہونے کو تھا۔ اور میں یہ دیکھ سکتا تھا۔

وہ ٹھہر گئی کہ وہ ٹھہرنے کا مقام تھا۔ آنکھوں میں نمی تھی۔ مسرت تھی۔

اور پھر بادل گرجا۔

اس کا سر ایک کشادہ سینے پر ٹک گیا۔ اور بارش شروع ہو گئی۔ توانا بازوؤں نے اُسے آغوش میں لیا۔ اور میرا بھیتر پھٹنے لگا۔

میں اپنے مقام پر تھا، اور وہ اپنے مقام پر۔ مجھ سے چند قدم دور۔ ۔ ۔ ایک شخص کی بانہوں میں۔ ۔ ۔ جس کے ہاتھ میں گل دستہ نہیں تھا، فقط ایک پھول تھا۔

یہ وہ شخص تھا، جس سے وہ محبت کرتی تھی۔

اور یہ شخص، میں نہیں تھا۔

ہر منظر دھندلا گیا۔ آنسو، بارش کے قطروں کے ساتھ افلاک سے اترے۔ میں بھیگ گیا۔ اور پلٹا۔ آوارہ پتوں کے درمیان، برستے آسمان تلے ، درختوں کی قطار سے گزرتا ہوا میں اُس سے دور ہونے لگا۔

اور پھر دور ہوتا گیا۔ اور پھر بہت دور ہو گیا۔

یونیورسٹی چھوڑ دی۔ اس کا شہر چھوڑ دیا۔ گاؤں چلا آیا، جہاں کشت و خون کا بازار گرم تھا، جس کی تپش اب میں برداشت کر سکتا تھا کہ میرا اندرون مسلسل سُلگ رہا تھا کہ اذیت مسلسل تھی۔ ۔ ۔ جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے میں نے خود کو ایک ناممکن مقصد کے سپرد کر دیا۔

مقصد، جس کا حصول ہماری زندگیوں میں ممکن نہیں تھا۔ یہ ایک طویل جنگ تھی، جس میں ہمارے ذمے فقط لڑنا تھا۔ ہر پل۔ ایک ایسے دشمن سے ، جو آسمانوں سے حملہ کرتا۔

مجھے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنی تھی۔ اپنے اُن بھائیوں کے لیے ، جو بے سبب مارے گئے۔ اُن بچوں کے لیے ، جنھیں جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔ ان ماؤں کے لیے ، جو بے سہارا ہوئیں۔ اس وادی کے لیے ، جس کا سبزہ سوکھ گیا۔ اور اس دریا کے لیے ، جس کے پانی میں دراڑیں ابھر آئیں۔

مجھے ایک طویل جنگ لڑنی تھا۔ اور میں ایسا کر سکتا تھا کہ میرے اندرون میں زلزلے آتے۔ اور آتش فشاں پھٹے۔

میرے اندر درد تھا۔ اور میں ایک جنگ لڑ رہا تھا، جس میں ہمیں ایسی حدیں پار کرنی پڑیں ، جنھیں عام حالات میں شاید ہم پار نہیں کرتے۔ کئی ایسوں کو مارنا پڑا، جنھیں عام حالات میں چھوڑ دیتے۔ ایسے مقامات پر حملے کرنے پڑے ، جہاں عام حالات میں سُر جھکائے داخل ہوتے۔ یاسر جھکائے داخل نہ بھی ہوتے ، تو کم از کم اُنھیں ڈھانے کی سعی نہ کرتے۔

مگر ایسا ہوا کہ یہی لکھا گیا تھا۔

اور جنگ کے طفیل۔ ۔ ۔ اُس شخص سے میری ملاقات ہوئی، جو میری زندگی چرا لے گیا تھا۔

و ہی شخص، جس کے بازو اس روز بھرے ہوئے تھے۔

و ہی شخص، جو میرا رقیب تھا۔

میں باڑے کی جانب بڑھ رہا تھا، جہاں وہ موجود تھا!

٭٭

 

 

 

 

چوتھا باب

 

 ’’بیانیہ‘‘

 

کسی نامعلوم مقام پر، جہاں ماسوائے برف کے ، غبار کے ، کچھ جنگ جوؤں کے ، غاروں ، ہتھیاروں کے ، اور خطرے کے ، کچھ نہیں تھا، دو آدمی، جو اجنبی ہونے کے باوجود اجنبی نہیں تھے ، ایک دوسرے کے سامنے موجود تھے۔ بالکل خاموش۔

ایک کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ ہاتھ جکڑے تھے ، اور موت کا خوف اُس پر سایہ فگن تھا۔

دوسرا، اگرچہ آزاد تھا، مگر اپنے ماضی میں بندھا تھا۔ اور ایک احساس، جسے تذبذب کہا جا سکتا ہے ، اُس میں پھنکارتا تھا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ بالکل چپ۔

مگر وہ زیادہ دیر خاموش نہیں رہنے والے تھے۔

بالآخر کلام ہونا تھا۔ جو ابتدا سے تھا۔

باہر برف گر رہی تھی۔ باڑے میں اداس سی بُو تھی۔

جو آدمی حالت جنگ میں تھا، اُس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا۔ اور پرندے کے پر پھڑپھڑائے۔

جو حالت قید میں تھا، وہ متوجہ ہوا۔ ’’کک ک۔ ۔ ۔ کون؟ ‘‘

قیدی نے سوال کیا۔ جنگ جو نے جواب نہیں دیا۔ قیدی نے سوال دہرایا۔ جنگ جو نے گہرا سانس لیا۔ باڑا غبار سے بھر گیا۔

وہ جواب نہیں دے سکتا تھا۔ ۔ ۔ وہ اپنی شناخت کھو چکا تھا۔

شام آ رہی تھی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی۔ جنگ جو کی نظریں قیدی پر تھیں ، جو خستہ حالی اور خوف کی تصویر بنا تھا۔

وقت گزرتا رہا۔ برف گرتی رہی۔ اور خاموشی رہی۔ اور بہت سا وقت بیت گیا۔ یہاں تک کہ شام آ گئی۔

’’کک ک۔ ۔ ۔ کون؟ ‘‘

جنگ جو کے دل میں قیدی کے لیے ایک اچانک جذبے نے جنم لیا، جو ایک انسانی جذبہ تھا۔ اور وہ گھبرا گیا۔ اور خاموشی سے باہر چلا گیا۔

کئی ساعتوں بعد، جب اندھیرا ہو گیا تھا، وہ پلٹا۔

اس کے پاس کپڑے تھے۔ کچھ کھانے کو تھا۔ ایک تھال میں گرم پانی تھا۔ اور یہ غیر متوقع تھا۔

قیدی کے لیے وہ انوکھی شام تھی۔ ایک سرد، مگر تحیر خیز شام۔ تھوڑا ہی سہی، مگر گرم پانی میسر تھا۔ وہ غلاظت سے ، جو اُس کے جسم کا حصہ بن گئی تھی، چھٹکارا پا سکتا تھا۔

آنکھوں پر پٹی بندھی رہی، مگر ہاتھ کھول دے گئے۔ اور ہاتھ کھولنے والے نے کرخت لہجے میں اُسے متنبہ کیا کہ اُس کے ہاتھ میں بندوق ہے :

’’ذرا سی چالاکی تمھاری جان لے لے گی۔ ‘‘

قیدی نے ، جو یہ آواز پہلے بھی سن چکا تھا، اُس کی ہدایت پر بلا چون و چرا عمل کیا۔

اس نے گندے کپڑوں سے نجات حاصل کی۔ خود کو صاف کیا۔ پھر کھانے کی جانب متوجہ ہوا، جو تعجب خیز حد تک خوش ذائقہ تھا۔

اِس دوران جنگ جو کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔ جب قیدی فارغ ہوا، تو اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ بندھ دیے۔ پھر وہ جانے کے لیے پلٹا۔ اور تب ایک آواز نے اس کے قدم پکڑ لیے :

’’بھائی۔ ذرا ٹھہرو۔ ‘‘

قیدی، گو دیکھ نہیں سکتا تھا، مگر اسی سمت دیکھ رہا تھا، جہاں وہ تھا۔

’’میری بیوی۔ ۔ ۔ اکیلی ہے۔ وہ۔ ۔ ۔ حاملہ۔ ۔ ۔ کیا تم اُس تک یہ اطلاع پہنچا سکتے ہو کہ میں زندہ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

جنگ جو کو ایک بے نام احساس نے آ لیا۔ تخیل بادلوں سے بھر گیا۔ اور تاریکی چھا گئی۔ مگر جلد اُس نے ہر نوع کے احساس سے نجات حاصل کر لی۔ یہ تربیت کا حصہ تھا۔ کرختگی کو خود پر غالب کیا:

’’کیا تمھیں یقین ہے کہ تم کل تک زندہ رہو گے؟ ‘‘

قیدی لرز اٹھا۔ چہرہ سفید پڑ گیا۔ خوف نے اُسے نگل لیا۔ باڑے میں خاموشی اور بُو اتر آئی۔

اُس نامعلوم مقام سے کوسوں پرے ، ساحلی شہر میں ایک عورت دریچے میں کھڑی تھی۔ چہرے سے تھکن عیاں تھی۔ اُس کے شوہر کو لاپتا ہوئے دو ہفتے بیت چکے تھے۔ اور اُس کے ملنے کا امکان مٹ گیا تھا۔ اور وہ حاملہ تھی۔

اُسے سڑک پر ایک شناسا چہرہ دکھائی دیا۔

اُس کے شوہر کا دوست ہاتھ میں چند تھیلے اٹھائے عمارت کی سمت آ رہا تھا۔

دریچے کے باہر گملے لگے تھے ، جن پر ایک تتلی منڈلا رہی تھی۔

٭٭٭

 

وقت، جو چوتھی جہت ہے — جو تین جہتوں کو خود میں سموئے ہے ، جو ٹھہرا ہے ، اور بیت رہا ہے ، جو در حقیقت التباس ہے ، جو کہیں نہیں ہے — اُن تین جیون کتھاؤں میں اپنی آتما پھونکتا تھا۔

مریم بستر پر تھی۔ وہ اس لمحے کی سمت بڑھ رہی تھی، جو تخلیق کا لمحہ تھا۔ جسم سوج چکا تھا۔ تھکن قابض تھی۔ وہ بوجھ ڈھو رہی تھی، جس سے اُسے محبت ہو گئی تھی۔

کئی دریاؤں پرے ، کسی ناممکن مقام پر، دو آدمی ایک دوسرے کے سامنے تھے۔

اور وہ، خلاف توقع، ایک دوسرے کے عادی ہوتے جا رہے تھے۔

ایک کی آنکھوں پر پٹی تھی، پر وہ مطمئن تھا۔ اور دوسرا، جو گذشتہ چند ملاقاتوں میں خود پر کرختگی طاری کیے ہوئے تھے کہ یہ تربیت کا حصہ تھا، ذرا پرسکون ہو چکا تھا۔

ایک قیدی تھا۔ دوسرا جنگ جو۔ اور تیسرا سکون۔ جو شِو کا پرتو تھا۔

وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ اور اِس ناممکن عمل کا آغاز قیدی کی نتیجہ خیز پہل کے نتیجے میں ہوا۔ اور یہی عمل اُس برفیلی دنیا میں زندگی کا اکلوتا اشارہ تھا۔

دھیرے دھیرے وہ ایک دوسرے کو کہانیاں سنانے لگے۔ اور ایسا وہ ایک دوسرے کے اصرار پر کیا کرتے۔ جو عام طور پر اتنا خفیف ہوتا کہ اُسے اصرار نہیں کہا جا سکتا۔

جنگ جو قیدی کے سامنے انتہائی مختصر الفاظ میں اپنی وادی کا کرب بیان کرتا، اور سوچتا:

’’میں اسے یہ سب کیوں بتا رہا ہوں؟ یہ ہم میں سے نہیں !‘‘

اور قیدی اُسے اپنے ، امید میں گھرے تاریک شہر کے طویل قصّے سنتا۔ اور بڑبڑاتا:

’’یہ بھلا سپنوں بھری زندگی کی کہانی سن کر کیا کرے گا؟ ‘‘

مگر وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ ان کے پاس وقت تھا، جو چوتھی جہت ہے۔ اور وہ ایک دوسرے کو کہانیاں سنانے لگے تھے ، ایک دوسرے کے اصرار پر۔ ایک ایسے جذبے کے تحت جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

ایک شام، جب برف باری کچھ دیر کے لیے رک گئی تھی، جنگ جو نے اپنے ماں باپ کی بابت بتایا، جو بہ خوشی اُسے جنگ کے سپرد کر چکے ہیں۔

اور اسی شام قیدی نے اسے بتایا کہ وہ بچپن ہی میں ماں باپ سے محروم ہو گیا تھا۔

اور پھر ایک صبح، جب بوجھل کہرا چھایا تھا، ایک نے بتانا شروع کیا، اس گاؤں کے بارے میں ، جہاں وہ بڑا ہوا۔ جہاں نہ تو بجلی تھی، نہ ہی گیس۔ نہیں۔ ۔ ۔ سڑک بھی نہیں۔ اسپتال بھی نہیں۔

دبیز دھند تھی۔ اور دوسرا کہہ رہا تھا، اس محلے کی بابت، جہاں اس نے شعور کی دہلیز عبور کی۔ جہاں بجلی آنکھ مچولی کھیلتی۔ اور گیس کبھی یکساں نہیں رہتی۔ اور سڑک برسوں میں بنتی، اور چند روز میں بیٹھ جاتی۔

جنگ جو کہتا:

’’کھیتوں سے پرے ایک نشیبی حصہ تھا، وہاں ہم کرکٹ کھیلا کرتے۔ میں بہت اچھا بلے باز تھا۔ ‘‘

اور قیدی بولتا:

’’میں کمال کا بالر تھا۔ ایک چھوٹا سا پارک تھا ہمارے محلے میں۔ وہیں ہم دوست شام میں جمع ہو جاتے۔ بعد میں اُس پر قبضہ ہو گیا۔ ‘‘

جنگ جو: ’’جب میں بچہ تھا، ہر سمت امن تھا۔ اور اب امن غارت ہو گیا ہے۔ ‘‘

قیدی: ’’امن تو میرے شہر میں بھی نہیں۔ شاید وہ بچپن تک ہی محدود ہوتا ہے۔ ‘‘

وہ ایک دوسرے کے اصرار پر، ایک دوسرے کو کہانیاں سنانے لگے تھے۔ جنگ جو یاسیت کے ، جنگ زدہ ماحول کے اور کرب کے قصّے بیان کرتا۔

قیدی زندگی کی، تنگ گلیوں پر مشتمل محلوں کی، اوائل عمری کی، اور چائے خانوں کی باتیں کرتا۔

اور اس دوران انھوں نے اشاروں اشاروں میں اپنے ابتدائی جنسی تجربات بھی بانٹ لیے۔

تویوں وہ — برف اور غبار کی دنیا میں — دھیرے دھیرے آگے بڑھتے گئے۔

اور وقت موجود رہا۔ جو اِس عمل کا شاہد بنا۔

اور اس دورافتادہ مقام پر موجود دیگر نے اس عمل میں دل چسپی نہیں لی۔

قیدی کے لیے باڑا اب رہنے کے قابل تھا۔ وہاں خوراک وقت پر پہنچ جاتی۔ بھاپ دیتا ہوا پانی بھی چلا آتا۔ اور گرم کپڑے مددگار ثابت ہوتے۔ اور وہ اِس، حیران کن حد تک حوصلہ افزا صورت حال کو ان نیک اعمال کا نتیجہ خیال کرتا، جو اس نے انجام نہیں دیے تھے ، پر اُنھیں انجام دینے کی نیت کر رکھی تھی۔

قیدی، جنگ جو کو اپنا دوست خیال کرتا۔ گو اس نے اب تک اُسے دیکھا نہیں تھا، پر اسے لگنے لگا تھا کہ وہ اُس جیسا ہی ہے۔ ایک عام انسان۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا۔ جو اعلیٰ طبقے کی جنگ میں الجھ گیا۔

وہ اکثر خود سے کہتا: ’’اچھا انسان ہے۔ بس قسمت اسے یہاں لے آئی۔ کیا اس نے میری بیوی کو مطلع کیا ہو گا؟ ‘‘

جنگ جو قیدی کو جانتا تھا۔ اور اُس کے پتھریلے دل میں کبھی کبھار نرمی ہمکتی۔ اور وہ گھبرا جاتا۔ خود سے پوچھتا:

’’کیا میں اپنے رقیب سے محبت کر سکتا ہوں؟ کیا اِس جذبے کے علاوہ بھی کوئی اور شے ہمیں جوڑ سکتی ہے؟ ‘‘

وہ ملتے رہے۔ اور اب موسم بدلنے لگا تھا۔ اور ٹھنڈ کچھ کم ہو گئی۔ اور پیڑ مسکرائے۔ اور دور کہیں مذاکرات کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

ابو داؤد نے ٹھکانا بدلنے کا فیصلہ موخر کر دیا۔ باڑے میں کہانیاں بُنی جاتی رہیں۔

اور پھر ایک دن قیدی نے اپنی محبت کی کہانی سنائی:

’’وہ فروری کی ابرآلود دوپہر تھی۔ ۔ ۔ میں نے ایک پھول خریدا۔ ۔ ۔ میں اُسے بتانا چاہتا تھا کہ میں اُس سے محبت کرتا ہوں ، مگر مجھے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ۔ ۔ ‘‘ آواز رندھنے لگی۔ ’’آہ، بارش ہو رہی تھی اُس روز۔ ۔ ۔ میں اس کے سامنے تھا۔ ۔ ۔ وہ آگے بڑھی اور۔ ۔ ۔ میرے سینے سے۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ‘‘

آنکھوں میں آنسو اتر آئے ، جو چوڑی سیاہ پٹی میں جذب ہونے لگے۔

جنگ جو خاموش کھڑا رہا۔ گو وہ کہنا چاہتا تھا کہ میں بھی وہیں تھا۔ ٹھیک تمھارے پیچھے۔ اور میرے ہاتھ میں ایک گل دستہ تھا۔ اور میں بھی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ چپ رہا۔ بالکل چپ۔

’’دوست۔ ‘‘ قیدی نے آنسو اندر اتار لیے۔ ’’کیا تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟ ‘‘

جنگ جو کے دل پر گھونسا لگا۔ باہر تاریکی اتر رہی تھی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی۔ آسمان پر بادل تھے۔

’’دوست؟ ‘‘ قیدی نے کہا۔

کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر قدموں کی آواز سنائی دی۔ جنگ جو جا رہا تھا۔

وہ باڑے سے باہر آیا۔

اور تب اُس کا حلق آنسوؤں سے تر ہوا۔

اور اس نے دھندلاتے آسمان کی سمت دیکھا۔ وہاں کچھ نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں۔

اُس رات بستر پر پڑی عورت کو، جو تخلیق کے بے حد قریب تھی، ایک فون کال موصول ہوئی۔

فون کرنے والے نے ، جس کی آواز پریشان کن حد تک مانوس تھی، فقط ایک جملہ کہا:

’’تمھارا شوہر زندہ ہے۔ ‘‘

اور لائن کٹ گئی۔

٭٭

 

 

 

پانچواں باب

 

 ’’عورت‘‘

 

پت جھڑ شروع ہو گیا۔

خشک ٹہنیاں اسپتال کی کھڑکی سے جھانک رہی تھیں۔ دیوار پر چیونٹیاں قطار کی صورت محو سفر تھیں۔ زچگی کا مرحلہ مکمل ہوئے چند ہی گھنٹے بیتے تھے۔ میرے دو دانت گر گئے۔ اور میں نے بیٹا جنا تھا۔

وہ زندہ تھا۔ اور یہ خیال مجھے سنبھالتا۔ دوران زچگی یہی میری قوت تھا، جس نے میرے سانس کی ڈور کو اُس کے سانس کی ڈور سے باندھے رکھا، جو میرے پیٹ میں تھا، جس کی قلقاریاں میں سن چکی تھی۔

قلقاریاں ، جن میں اُس کے قہقہوں کی چٹخ تھی۔ اُس کی آنکھیں ٹھیک اُس کی آنکھوں سی تھیں ، جس سے میں محبت کرتی تھی۔ ہونٹ، ناک، ما تھا سب ویسا ہی تھا۔

نرس اسے لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ چادر میں لپٹا میرے بازوؤں میں منتقل ہوا۔ اس کے ننھے ہاتھوں کے لافانی لمس نے مجھے گانے کا حکم دیا۔ میرے سینے میں حرکت ہوئی۔

میرے اندر ایک قوت سانس لیتی۔ وہ جوش مارتی تھی۔ چہرے دمک رہا تھا۔ ٹہنیاں کھڑکی سے جھانکتیں۔ چیونٹیوں کی قطار تھی۔ اور تب دھڑ سے دروازہ کھلا۔

علی ہانپ رہا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔

کچھ رونما ہوتا تھا۔ ۔ ۔

’’مرد‘‘

باڑے کے باہر کھلا آسمان تھا۔

گو میں دیکھ نہیں سکتا تھا، مگر کشادگی خود کو محسوس کروانے کی پُر اسرار قوت رکھتی ہے۔

تازہ ہوا نے بدن چھویا۔ میرے اندر خوف تھا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب ایک سے زائد افراد مجھے لگ بھگ گھسیٹتے ہوئے ، بڑبڑاتے ہوئے ، اُس بے سمت دنیا میں ، کسی سمت لے جا رہے تھے۔ اور وہ بھی ان میں شامل تھا۔

میں نے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنی تھی۔

چند قدم چلنے کے بعد میں نے خود کو نسبتاً گرم حصے میں محسوس کیا۔ اُنھوں نے مجھے زمین پر بٹھا دیا۔ مثانے میں پیچیدگیوں کا جال تھا۔ معدے میں ریت تھی۔ اور ڈاڑھ میں درد ہو رہا تھا۔

بے شک میں لرز رہا تھا۔

میں انٹرنیٹ پر ایسی کئی ہولناک ویڈیوز دیکھ چکا تھا، جس میں مقدس کلمات کی ادائی کے بعد تیز دھار آلے سے قیدی کا سر۔ ۔ ۔

میں زمین پر بیٹھا تھا۔ پیشاب خطا ہو گیا تھا، یا ہونے کو تھا، مگر دوسری جانب ایک خاص نوع کی معمولیت تھی۔ قدموں کی، اضطراب سے پاک، آواز سنائی دی رہے تھی۔ روشنی گھٹتی بڑھتی۔ اور آلات کی کھٹ پٹ تھی، جو تیز دھار معلوم نہیں ہوتے تھے۔

میں نے اُن آوازوں پر توجہ مرکوز کی۔ وہ شاید پانچ آدمی تھے ، بلکہ چھے۔ اور۔ ۔ ۔ وہ بھی ان میں موجود تھا، جس نے اپنا نام ابن عمر بتایا تھا، گو میں جانتا تھا کہ یہ اُس کا اصل نام نہیں۔

میرے کان آوازوں پر لگے تھے۔ دو پیر میری سمت آئے۔ وہ شخص میرے انتہائی نزدیک کھڑا تھا۔ اُس کا لباس تازہ تازہ دھلا تھا۔ کپڑوں سے سرف کی تیز خوش بو اٹھ رہی تھی۔

اور تب ایک جھٹکے سے آنکھوں کی پٹی اتار دی گئی۔ اور جیسے صدیوں بعد میں دیکھنے کے قابل ہوا۔

اور دنیا اتنی تازہ تھی کہ کئی اشیاء بے نام تھیں۔ اُن کے تذکرے کے لیے اُن کی سمت اشارہ لازم تھا، تاہم یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں رہی۔ جلد ہی میں اپنے گرد و پیش کو شناخت کرنے لگا۔

وہ ایک کمرہ نما غار تھا۔ جنگ جوؤں سے بھرا، جنھوں نے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ اسلحہ ہاتھوں میں تھا۔ پچھلی دیوار پر ایک بڑا سا بینر تھا، جس پر ایک جھنڈا تھا۔ اور مقدس کلمہ لکھا تھا۔ سامنے ایک ویڈیو کیمرا تھا۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر کاغذ مجھے تھما دیا۔

یہ وہ ہی لمحہ تھا، جو مجھ سے پہلے سیکڑوں پر بیت چکا تھا۔ اور اب میری باری تھی۔

یہ وہ لمحہ تھا۔ ۔ ۔ جو تاریخ کا حصہ بننے والا تھا۔

’’جنگ جو‘‘

برف چٹخنے لگی ہے۔ دریا میں پانی کے ابتدائی نشان ظاہر ہوئے۔ صبح دبیز کہرا چھایا رہتا، جس سے پانی کے قطرے ٹپکتے۔ موسم بدل رہا تھا۔

آج میں نے اُسے ہیبت سے لرزتے دیکھا۔ اور تازہ ہوا میں سانس لیتے دیکھا۔ اور وہ بیان پڑھتے دیکھا، جو ہم نے اُسے تھمایا تھا، جسے اس نے ٹھیک ویسے ہی پڑھا، جیسی مجھے امید تھی۔ اِن الفاظ کے ساتھ: ’’اگر ان لوگوں کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے ، تو یہ مجھے قتل کر دیں گے۔ ‘‘

اور ہمارے مطالبات کیا تھے؟

جیل میں قید اپنے ساتھیوں کی رہائی۔

اور اس عمل میں وہ، اُس کا بیان، اُس کا لرزنا معاون ثابت نہیں ہونے والے تھے۔ یہ ہم بہ خوبی جانتے تھے۔

در حقیقت اس کا اغوا ایک لاحاصل عمل تھا۔

وہ ایک غیر اہم انسان تھا۔ اسے قیدی کے روپ میں گڑگڑاتا دیکھ کر حکومت ہمارے ساتھیوں کو رہا نہیں کرے گی۔ اور ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اُن کی رہائی کے لیے ہم نے جیل پر حملے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

ریکارڈنگ کے بعد اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ واپس باڑے لایا گیا۔ اور اس پورے عمل کے دوران میں فاصلے پر رہا۔ اگرچہ میں آگاہ تھا کہ وہ میری موجودگی سے آگاہ ہے۔

برف چٹخنے لگی ہے۔ اور اس کی آواز سنی جا سکتی ہے۔

٭٭

 

چھٹا باب

 

 ’’عورت‘‘

 

وہ میرے سامنے تھا۔ نقاب پوش اجنبیوں میں گھرا۔ ڈرا ہوا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا۔

اس کا رنگ نسبتاً صاف ہو گیا تھا، مگر آنکھیں پتھرا گئیں۔ اور آواز بھرا گئی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی تھی۔ اور وہ اس لباس میں تھا، جو وہ فقط عبادت کے روز پہنا کرتا۔

وہ براہ راست کیمرے میں دیکھ رہا تھا۔ اور میں براہ راست اس کی آنکھوں میں۔ جن میں میری یاد کی پرچھائیاں تھیں۔

وہ میرا تھا۔ اور دُور تھا۔

ویڈیو آج ہی نشر ہوئی۔ اور اب بار بار نشر کی جا رہی تھی۔ علی اُس کی غیرملکی کمپنی کے مقامی افسروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

خفیہ ایجینسی کے دو اہل کار، معمول کی کار روائی کے لیے فلیٹ کی سمت بڑھ رہے تھے۔

ٹی وی کے پیچھے والی دیوار پر ایک چیونٹی رینگ رہی تھی۔ وہ اپنوں سے بچھڑ گئی تھی۔

بچہ میری گود میں تھا۔ اس کا چہرہ ٹی وی اسکرین کی جانب تھا۔ شاید اس نے اُس شخص کو پہچان لیا تھا، جس نے اُسے میرے وجود میں داخل کیا تھا۔

برسات چلی گئی۔ کیچڑ ابھی موجود تھا۔

’’مرد‘‘

چند روز اضطراب رہا۔ اور پھر میں عادی ہو گیا۔

چند روز وہ نہیں آیا۔ اور جب آیا، تب بھی کھنچا کھنچا رہا۔ میری باتوں کے جواب میں بس ہوں ، ہاں کرتا رہا۔ ہاں ، جب ایک طویل دن کے اختتام پر میں نے اِس امکان کا اظہار کیا کہ اگر سب کچھ ویسا ہی ہوا ہو، جیسا ہونے کی میں نے امید کی تھی، تو اب تک ضرور میرا فلیٹ ایک نئی روح سے بھر گیا ہو گا:

’’ضرور میں باپ بن چکا ہوں۔ ‘‘

اور تب، خاموشی کے طویل وقفے کے بعد، اُس نے کچھ ایسا کہا، جس کی بابت میں نے سوچا ضرور تھا، مگر امید نہیں کی تھی۔

’’میں نے تمھاری بیوی کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم زندہ ہو۔ ‘‘ یہ اس کے الفاظ تھے ، جنھوں نے مجھے پُر فریب مسرت سے بھر دیا۔

’’تو اس نے کیا کہا۔ ۔ ۔ ؟ کیا وہ ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ؟ وہ۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ جا چکا تھا۔

میں پھر تنہا تھا۔ خاموشی میں گونجتی اُن بے آواز، آوازوں کو سننے کے لیے ، جن کا میں عادی ہو گیا تھا، جن میں اس دریا کی آواز بھی تھی، جو ابھی بہنا شروع نہیں ہوا تھا، مگر جلد بہنے والا تھا۔

’’جنگ جو‘‘

اُس کی کہانی انت کی سمت بڑھ رہی ہے۔

اور میرایہ اندیشہ بے سبب نہیں۔ آج ہی ایک عرب ساتھی نے ، اُس وقت، جب میں باڑے کی سمت جا رہا تھا، فقرہ کسا:

’’تم جلد اس داستان گو سے محروم ہو جاؤ گے !‘‘

میرا گمان تھا کہ اب کوئی شے مجھ پر لرزہ طاری نہیں کر سکتی، میں خوف سے ماورا ہوں ، مگر اِس ایک جملے نے۔ ۔ ۔ مجھ پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔ باڑے میں داخل ہونے تک اس سے چھٹکارا حاصل کر چکا تھا۔

ویڈیو نشر ہوئے ڈیڑھ ہفتہ گزر چکا ہے۔ اور توقع کے عین مطابق کوئی رد عمل نہیں آیا۔ مگر ہمیں جلدی نہیں۔ مذاکرات کی بازگشت تھی۔ خطۂ عرب میں دفتر کھل گیا تھا۔ بات چیت آگے بڑھ سکتی تھی۔ مگر ساتھ ہی مختلف علاقوں سے افسوس ناک خبریں بھی موصول ہو رہی تھیں۔

ہم میں سے چند آسمان سے برستے شیطانی قہر کا شکار ہو گئے تھے۔ اور چند کا تعاقب ہو رہا تھا۔ اور۔ ۔ ۔ ہم بھی اُن کا تعاقب کر رہے تھے۔ مختلف گروہوں نے ریاستی اہل کاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ وہ لین دین کرنے کی بہتر پوزیشن میں تھے۔ اصولی طور پر ہمیں یہ ہی کرنا چاہیے ، مگر ابوداؤد کے ارادے تھوڑے مختلف ہیں۔ جس کے دو اسباب ہو سکتے ہیں۔

پہلا سبب تو شاید یہ ہے کہ وہ اِس ٹھکانے کو — اِس کے باوجود کہ چند ساتھیوں نے علی الصبح، کہرے سے پرے ، بادلوں کے اوج پر دو پرندوں کا عکس دیکھا تھا — محفوظ خیال کرنے لگا ہے۔ اور دوسرا سبب شاید یہ ہے کہ اُس کی بہن کی شادی ہونے والی ہے۔ اُسے گاؤں جانا ہو گا۔ شاید وہاں چند ہفتے لگیں۔ اس عرصے میں خاموش رہنا دانش مندی ہے۔

’’کیا خیال ہے تمھارا۔ لڑکا ہوا ہو گا یا یا لڑکی؟ ‘‘

یہ جملے آج اُس کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔ وہ ماحول سے ہم آہنگ ہو گیا۔ اور جس ستون سے بندھا تھا، اُسی سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔

’’بیٹا ہوا ہو گا، تو ضرور مجھ جیسا ہو گا۔ ‘‘ وہ مسکرا رہا تھا۔ ’’نہ جانے کبھی اُسے دیکھ پاؤں گا یا نہیں؟ ‘‘

میرا گمان تھا کہ اب کوئی شے مجھ پر لرزہ طاری نہیں کر سکتی، مگر اس جملے نے مجھ پر لرزہ طاری کر دیا۔

٭٭

 

 

 

 

ساتواں باب

 

 ’’عورت‘‘

 

میرا غم صحراؤں سے وسیع، اور چوٹیوں سے بُلند، اور سمندروں سے گہرا تھا۔ اور کسی کو اس سے غرض نہیں۔ یہ فقط میرا تھا۔

علی کی ہر کوشش ناکام گئی۔ کئی دروازے کھٹکھٹائے گئے ، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ اُس نے خود کو میرے روبرو مایوس ظاہر کرنے سے اجتناب برتا۔ اس کے دوست کو لا پتا ہوئے ساڑھے تین ماہ بیت چکے تھے۔

میرے اندروں میں مایوسی تو نہیں تھی، مگر شرمندگی ضرور تھی۔ میں اُس کے لیے بوجھ بن چکی تھی۔

احمر کی کمپنی کی جانب سے تین ماہ کی تن خواہ بینک میں جمع کروا دی گئی، مگر اُس رقم کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔ علی ہی سارا خرچا برداشت کر رہا تھا، مگر کب تک؟

آخر کب تک میں اِس فلیٹ میں ، جس کی دیواروں پر از خود چیونٹیاں ظاہر ہو جاتی اور غائب ہو جاتی ہیں ، قید رہوں گی۔ مجھے نکلنا پڑے گا، مگر۔ ۔ ۔ یوشع کا کیا ہو گا؟

وہ ابھی کم زور ہے۔ میرے جسم کی حدت اس کی زندگی اور چھاتیوں کا رس اس کی غذا ہے۔ خدایا، میں ایک ناقابل بیان مشکل پھنس چکی ہوں۔

میرا غم عظیم صحراؤں سے وسیع تھا۔ اور کسی کو پروا نہیں تھی۔ میں اس بات کا یقین کر چکی تھی، مگر پھر۔ ۔ ۔ ایک فون کال موصول ہوئی:

’’وہ زندہ ہے !‘‘

میلوں دور سے آتی یہ آواز میں پہلے بھی سن چکی تھی۔

میں چپ تھی۔ اور وہ بھی چپ تھا۔

وہ ایک وقفہ تھا۔ ایک مانوس وقفہ۔ ایک پُر خطر وقفہ۔ ایک خاموش وقفہ۔ جو بہت کچھ کہتا تھا۔

میں چپ ہی رہی۔ اور اُسے چپ توڑنی پڑی:

’’وہ۔ ۔ ۔ پوچھ رہا تھا۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ‘‘

لہجے میں بلا کا تذبذب تھا، جو اِس امر کا اظہار تھا کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔ اور اِس بات کا اشارہ تھا کہ وہ اب۔ ۔ ۔ وہ بات جاننا چاہتا ہے ، جو نہیں جانتا۔ اور جو میں اُسے بتانا چاہتی ہوں۔

’’وہ۔ ۔ ۔ تمھارا شوہر۔ ۔ ۔ پوچھ۔ ۔ ۔ رہا تھا کہ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بیٹا۔ ‘‘ میں نے دھیرے سے کہا۔

اس نے دھیرے سے سانس لیا۔

پنگوڑے میں کسی نے انگڑائی لی۔

’’کیا تم اسے قتل کر دو گے؟ ‘‘ یہ وہ سوال تھا، جو میں کرنا چاہتی تھی۔ اور میں نے کیا۔

وہاں میلوں دُور، جہاں کبھی بدھ کا سندیسا سانس لیتا تھا، بس منہ زور ہوا تھی، جس کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔

’’مرد‘‘

اب میرے پاس فقط کہانیاں ہیں۔ کہانیاں ، جن کا جنم حقیقت سے ہوا ہے۔ کہانیاں ، جو میں اُسے سنانا چاہتا ہوں ، جو یہ اطلاع پہچانے کے بعد کہ اللہ نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ہے ، اب خال خال ہی آتا ہے۔

میری کہانیاں — بچپن کی، لڑکپن کی، جوانی کی، متوقع بڑھاپے کی کہانیاں — اُس حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش ہیں ، جسے میں نے جیا۔ پر یہ کہانیاں — حیرت انگیز طور پر — اُس حقیقت سے مختلف ہیں۔

اوریہ سب بہت ہی پُراسرار ہے۔

وہ واقعات جو میری زندگی میں بیتے ، انھیں بیان کرتے ہوئے اب، جب میں ایک قیدی ہوں ، ادراک کا ایک عجیب لمحہ مجھ پر اترا۔

اور میں نے جانا کہ جس اسلوب اور پیرایے میں مَیں انھیں بیان کر رہا ہوں ، اُن سے وہ تصویر سامع کے ذہن میں نہیں بنتی، جیسی داستان گو کے ، یعنی میرے ، ذہن میں موجود ہے۔

ہاں ، یہ تصویر اُس تصویر سے کسی حد تک مشابہ ضرور ہے۔ مگر یہ وہ تصور نہیں ہے۔

سوچتا ہوں ؛ کیا کامل حقیقت کا بیان ایک ناممکن کوشش ہے؟

سوچتا ہوں ؛ کیا کامل حقیقت ناقابل بیان ہے؟

میرا ذہن اب قصّوں میں جی رہا ہے ، جس میں کردار اور مقامات ایک دوسرے کو دہرا رہے ہیں۔

ہر قصّے میں ایک فلیٹ ہے۔

ایک عورت ہے۔

اور ایک بچہ۔

بہ ظاہر ہر کہانی مختلف ہے ، مگر ہر کہانی ایک سی ہے۔

باہر موسم بدل گیا۔ دریا کا بہاؤ بے آواز ہے۔ ہوا قابل قبول ہو گئی۔ مجھے قید کرنے والوں کے قدموں میں ٹھہراؤ در آیا۔ البتہ کبھار کبھار، علی الصبح کسی کی چیخ سنائی دیتی ہے۔

کوئی آسمان میں سیاہ پرندے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔

اس کے آنے کا کوئی وقت نہیں۔ البتہ اس کی آمد سے چند لحظے قبل مجھے ادراک ہو جاتا ہے۔ اِس کا سبب وہ ناقابل فہم پھڑپھڑاہٹ نہیں ، جو اس کی آمد سے نتھی ہے ، جو کبھی انتہائی واضح ہوتی ہے ، اور کبھی انتہائی خفیف۔ بلکہ وہ بُو ہے ، جس سے میں آشنا ہو گیا ہوں۔

وہ چپ چپ رہنے لگا ہے۔ اور شاید میں جانتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے۔

میں جانتا ہوں ، ہر کہانی کا ایک انت ہوتا ہے۔ ۔ ۔

’’جنگ جو‘‘

صبح میں دھند میں لپیٹی ہیں۔ برف پگھل چکی ہے۔ اور بہت سا وقت گزر گیا ہے۔

میرے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ میں خاموش اس کے سامنے بیٹھا رہتا ہوں۔ اسے سنتا رہتا ہوں۔ اس مہک کو محسوس کرتا ہوں ، جو تب سے اُس سے پیوست ہے ، جب ہم نے اُسے اغوا کیا تھا۔

اور یہ مہک ہنوز تازہ ہے۔

شروع میں تو میں اندازہ نہیں کر سکا، لیکن اب میں جانتا ہوں کہ یہ کسی کی دَین ہے۔ یہ مہک کسی اور کی ہے۔ اور اب نئی نسل میں منتقل ہو چکی ہے۔

میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ میں بس اُسے سنتا رہتا ہوں۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں اس سے کتنی نفرت کرتا ہوں۔

ابو داؤد کو گئے دو ہفتے ہو چکے۔ ہمارے محاذ پر خاموشی ہے ، البتہ دیگر محاذوں پر جنگ جاری ہے۔ اور ساتھ ہی۔ ۔ ۔ مذاکرات بھی۔

گویہ ناقابل فہم ہے ، مگر ایسا ہی ہے۔

وہ آگے بڑھ کے وار کرتے ہیں ، ہم گھات لگا کر۔ اُن کے ساتھ ان کے ہم درد ہیں ، ہمارے ساتھ ہمارے ہم درد۔ وہ اپنے وسائل پر جی رہے ہیں ، ہم اپنے وسائل پر۔ وہ عقیدت میں خوش ہیں۔ اور ہم عقیدے میں۔

تو ہم گھات لگا کر حملے کرتے ہیں۔ اور پھر اس کی ذمے داری قبول کر لیتے ہیں۔ اور کبھی کبھار کوئی اور حملہ کرتا ہے۔ اور ذمے داری ہمارے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔

اور یہ ٹھیک ہے۔

میں اسے سنتا رہتا ہوں۔ اگرچہ اُس کی کہانیوں میں دھماکے نہیں۔ خون نہیں۔ کٹے ہوئے اعضا نہیں۔ گریہ کرتی عورتیں ، اور دم توڑتے بچے نہیں۔ اس کے باوجود مجھے وہ مانوس مانوس لگتی ہیں۔

سوچتا ہوں ؛ اگر میں نے اس کی زندگی جی ہوتی، تو کیا میں بھی اس جیسی کہانیاں سناتا؟

پھر سوچتا ہوں ؛ اگر وہ میری زیست گزارتا، تب کیا مجھ سا سامع بن جاتا؟

وہ میرے کپڑے پہنتا ہے۔ میرے حصے میں آنے والی خوراک سے شکم بھرتا ہے۔ اس کی ڈاڑھی میری ڈاڑھی جتنی ہو گئی ہے۔ اس کے پیروں میں وہ جوتے ہیں ، جو کل تک میرے پیر میں تھے۔

وہ۔ ۔ ۔ میرے جیسا ہو گیا ہے۔

کیا واقعی ایسا ہے ، یا یہ فقط بصری التباس ہے؟

صبحیں دھند میں لپیٹی ہیں۔ بہت سا وقت گزر گیا ہے۔

٭٭

 

 

 

آٹھواں باب

 

عورت کا خط

 

احمر۔ سوچا تھا، اپنے احساس کو تحریر کی شکل دے کر اُس درد کو کچھ کم کر لوں گی، جس نے مجھے ادھیڑ ڈالا ہے ، مگر قلم سنبھالتے ہی یہ بڑھنے لگا۔ غالب آ گیا۔ اور اب لاوے کی صورت مجھ میں حرکت کر رہا ہے۔

میں بھی کیا موضوع لے کر بیٹھی۔ کرب کی بات کیوں کی جائے۔ وہ تو میرا اٹوٹ انگ ہے۔ کیوں ناں زندگی کی باتیں کریں۔ یوشع کی باتیں۔ اِس پل وہ میرے پہلو میں ہے۔ ابھی ابھی سویا ہے۔ بالکل تم جیسا ہے وہ۔ اُس کے ہوتے تمھارے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اس تصویر کو تکتا ہے ، جو ہماری سائڈ ٹیبل پر رکھی ہے ، جس میں تم مسکرا رہے ہو۔ اور تمھارے مضبوط بازوؤں نے مجھے تھام رکھا ہے۔

خدایا، وہ لمحہ کس قدر زندہ تھا۔ اور یہ لمحہ، جو ابھی دست یاب ہے ، کس قدر مردہ۔

اور میں اِس مردگی میں زندہ ہوں۔

مجھے باہر نکلنا ہو گا۔ آواز بلند کرنی ہو گی۔ میں میڈیا اور سماجی تنظیموں سے رابطہ کروں گی۔ فرخندہ نے یقین دلایا ہے کہ وہ یوشع کا خیال رکھے گی۔ فرخندہ، علی کی بڑی بہن۔ شادی شدہ، مگر بے اولاد۔ گذشتہ چند ماہ سے میں اُسی کی پناہ میں ہوں۔ وہ ہر نماز کے بعد میرے لیے دعا مانگتی ہے۔ اور اسی کے یقین کے طفیل میں اس دنیا میں قدم رکھنے کو تیار ہوں ، جہاں چند برس قبل رونما ہونے والے سانحے نے مجھے زمین سے اکھاڑ دیا تھا۔ اور تمھیں آگے بڑھ کر مجھے سنبھالنا پڑا۔

پر اب تم نہیں ہو، بس تمھاری یاد ہے۔ اور مجھے خود کو سنبھالنا ہے۔ اب مجھے باہر نکلنا ہو گا۔ اگرچہ علی زیادہ پر امید نہیں۔ وہ اب تمھارے بارے میں بات کرتے ہوئے کترانے لگا ہے۔ بس یوشع کو گود میں لیے بیٹھا رہتا ہے ، مجھے سنتا رہتا ہے۔ وہ اپنی مایوسی کا اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ وہ جانتا ہے کہ مایوسی میرے لیے سم قاتل ہے۔ تو وہ خاموش رہتا ہے ، اور میں اسے کہانیاں سناتی رہتی ہوں۔ وہ کہانیاں ، جو ہماری زندگیوں سے پیدا ہوئیں۔ اور وہ کہانیاں جن کے پیدا ہونے کی امید تھی۔

میں جانتی ہوں کہ یہ خط کبھی تم تک نہیں پہنچ سکے گا، کیوں کہ میں اسے کبھی پوسٹ نہیں کروں گی۔ میرے پاس تمھارا پتا نہیں۔ اور اس شخص نے ، جو اجنبی ہونے کے باوجود مجھے مانوس لگا، بس یہ بتانے پر اکتفا کیا کہ تم زندہ ہو۔ اور یہ پوچھنا کافی جانا کہ میں نے کیا جنما ہے۔ اور یہ نہیں دریافت کیا کہ میں نے اس کا کیا نام رکھا ہے۔ اور اب میں اسے یہ بتا نہیں سکتی۔ اس کا نمبر بند جا رہا ہے۔

احمر، میں تمھیں کہاں تلاش کروں؟

اس روح میں ، جو تم نے مجھ میں سموئی تھی، یا پھر اس روح میں ، جو تم ساتھ لے گئے؟

تمھاری مریم!

مرد کا خط

میری مریم،

کتنی ہی باتیں ہیں ، جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ کتنا کچھ تمھیں بتانا چاہتا ہوں ، پر مجھے فقط ایک ورق دیا گیا۔ اور کہا گیا ہے کہ اگر میں اپنے پیاروں کے نام کوئی پیغام لکھنا چاہوں ، تو لکھ دوں۔

کتنی ہی باتیں ہیں۔ اور فقط ایک ورق۔

میں نہیں جانتا کہ یہ خط ہے ، کوئی وصیت، یا مرنے والے کی آخری تحریر؟ البتہ ایک بات جانتا ہوں کہ کرب کے طویل دورانیے میں یہ راحت فراہم کرنے والا اکلوتا عمل ہے کہ مبہم ہی سہی، یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ میں اپنے جذبات تم تک پہنچا سکوں۔

اور میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اور اس بچے سے محبت کرتا ہوں ، جسے تم نے جنم دیا۔

ایک دوست ہے یہاں۔ اسی نے اطلاع دی تھی۔ وہ بہت اچھا ہے۔ ہمارے جیسا۔ جنگ نے اُسے الجھا دیا۔ جنگ، جو اس کی نہیں ، مگر نقصان اس کا ہے۔

خیر، ابھی ان باتوں کے لیے وقت نہیں۔ وقت بہت کم ہے۔ اور میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تمھیں مضبوط بننا ہو گا۔ حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ تو کبھی ہمت نہیں ہارنا۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ میری چاہت تمھارا تعاقب کرتی ہے۔ اور میرا سایہ تمھارے ساتھ ہے۔

تمھیں ہمارے انس کی نشانی کو سنبھالنا ہو گا۔ اور جینا ہو گا۔ دعا تو یہی ہے کہ میرے ساتھ، لیکن اگر یہ ہو نہیں سکا۔ ۔ ۔ تو میرے بغیر۔

تمھیں جینا ہو گا مریم۔ یہی اکلوتا انتخاب ہے۔ یہ تقدیر کے کھیل ہیں۔ ناقابل فہم۔ ناقابل بیان۔

میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ اپنے آخری سانس تک۔ اور اس کے بعد بھی۔

احمر، جو تمھارا ہے۔

خود کلامی نما خط

یہ خط تو نہیں۔

اور اِس کا کوئی واضح مخاطب بھی نہیں۔ شاید اِس کا مخاطب میں خود ہوں۔ میں فقط خود سے کلام کر سکتا ہوں۔ یہ خود کلامی کی دنیا ہے۔ اور یہ پیدایش کے باب میں آٹھواں دن ہے۔

آج انھوں نے اسے ایک کاغذ دیا۔ اپنے اہل خانہ کے نام خط لکھنے کے لیے۔ یہ معمول کی کار روائی ہے۔ ایسا کیا جاتا ہے۔

ایک ازبک ساتھی کے بہ قول: ’’قیدی کے پاس فقط دو امکانات ہوتے ہیں ، یا تو رہا ہو جائے گا، یا مارا جائے گا۔ اور دونوں ہی صورتوں میں اُسے اپنے گھر والوں کو خط لکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ ‘‘

یہ وہی ازبک ہے ، جو یہاں آمد کے ابتدائی سخت ایام میں ایک گم نام اس کیمو شاعر کی نظم میں پناہ ڈھونڈا کرتا تھا:

مالک!

کیا تجھے اس بات سے

کبھی اکتاہٹ نہیں ہوتی

کہ تیرے اور ہمارے درمیاں

ہمیشہ

بادلوں کی دھند چھائی رہتی ہے؟

عام دنوں میں تو میں ان کافرانہ کلمات پر اسے سختی سے جھڑک دیتا، مگر کل جب یہ مصرعے اس کی زبان سے ادا ہوئے ، تومیں نے غیر ارادی طور پر آسمان کی سمت دیکھا۔

وہاں مشرق اور مغرب کے رب کی نشانیاں تیر رہی تھیں۔

ابوداؤد کا فون آیا تھا۔ وہ اگلے ہفتے لوٹ آئے گا۔ اور پھر نئے منصوبے بنائے جائیں گے ، نئی چالیں چلی جائیں گی، کیوں کہ ہمارے دشمن بھی نئی چالیں چل رہے ہیں۔

اس کے اور میرے درمیان مکالمہ تمام ہو چکا۔ سبب یہ نہیں کہ میں اُوب چکا ہوں ، بلکہ اس کا سبب وہ ہولناک خبر ہے ، جو مجھے پرسوں شام، جب ماحول پر یاسیت کی چادر تنی تھی، موصول ہوئی۔

میرے گاؤں پر دجالی پرندوں نے حملہ کیا تھا۔ ہمارے دو ساتھی شہید ہو گئے۔ اور ساتھ ہی۔ ۔ ۔ میرا گیارہ سالہ بھائی بھی۔

بلاشبہ یہ جنگ ہے۔ اور ہم بدترین کے لیے تیار ہیں۔ مگر یہ اطلاع بدترین سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ فقط گیارہ برس کا تھا۔ اُن کا براہ راست دشمن نہیں۔ نہتّا۔ ایک عام انسان۔ لیکن ظالموں کو اس سے غرض نہیں۔ وہ فقط ظلم کرنا جانتے ہیں۔ اور اب ہم ظلم سہنے کو تیار نہیں۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی جنگ کے لیے ، جس میں جیت ہماری ہو گی، چاہے ہم زندہ رہیں ، یا چاہے زندگی کی بازی ہار جائیں۔

ہم ہر صورت فاتح رہیں گے۔ معصوم بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، اور بہادر جوانوں کا خون رائے گاں نہیں جائے گا۔ ہم انھیں کچل دیں گے۔ اور اُن کے حمایتیوں کو۔ ہر اس شخص کو جو ہمارے خلاف کھڑا ہو گا کہ ہماری قوت بڑھ رہی ہے۔ ملک بھر سے مجاہد آ رہے ہیں۔ نصرت قریب ہے۔ ہماری آنکھیں فتح کو اپنی سمت بڑھتا ہوا دیکھ چکی ہیں۔

انھوں نے مظلوموں اور بے گناہوں کا شکار کر کے تمام حدیں پار کر لیں۔ تمام اصول توڑ ڈالے۔ اور۔ ۔ ۔ ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔

اب یہاں کوئی اصول نہیں۔ بس، جنگ ہے۔

وہ گیارہ برس تھا۔ اور شہید ہو گیا۔

میری دکھیاری ماں بینائی کھو چکی ہے۔

اور باپ بوڑھا ہے۔

ان کا کھیت سوکھ چکا۔

اور انھیں میری ضرورت ہے۔

مگر اب اس زمین میں فصل نہیں بوئی جا سکتی۔ بارود اس کی زرخیزی کھا گیا۔ اب زمین یا تو میدان جنگ بنے گی۔ یا قبرستان۔

اس خط کا مخاطب میں خود ہوں۔ میں سُلگ رہا ہو۔ جل رہا ہو۔ لاوے اور نفرت سے بھرا ہوں۔ یہ آتش فشاں۔ ۔ ۔ ۔ یہ تتلی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

جنگ جو نے حیرت سے اُس تتلی کو دیکھا، جس کی موجودگی وہاں ناممکن تھی۔ وہ وہاں کی نہیں تھی۔ اور منظر میں یک بارگی ظاہر ہوئی تھی۔

اُس کے پر زرد تھے ، جن کی حرکت اسرار کو جنم دیتی۔

اور جنگ جو کے چہرے پر زرد تحیر تھا۔

کیا واقعی اختتام آن پہنچا تھا؟

٭٭

 

 

 

 

نواں باب

 

 ’’بیانیہ‘‘

 

ابوداؤد وقت سے پہلے لوٹ آیا۔

مذاکرات کی بازگشت دم توڑ چکی تھی۔ دونوں ہی فریق ہتھیار تیز کرنے لگے۔ گھمسان کا رن پڑنے کو تھا۔

کسی نامعلوم مقام پر، سرحد کے قریب، اُن پہاڑوں میں جن کے درمیان دریا بہتا، جنگ جو نقشے بچھائے بیٹھے تھے۔ گذشتہ چند روز میں آسمان نے چار میزائل داغے۔ ان کے دو اہم کمانڈو ہلاک ہو گئے۔ مختلف شہروں سے گرفتاریوں کی خبریں ملی تھیں۔

اب جنگ کو اوج پر پہنچنا تھا۔

ابوداؤد دیگر گروپس سے رابطے میں تھا۔ ایک جامع، اور گھاتک حکمت عملی وضع کی جا رہی تھی۔ بڑے حملوں کا منصوبہ تھا، خاص لوگوں کو نشانہ بنانا تھا، جن کے ساتھ عام لوگوں کا مرنا طے تھا کہ یہ میدان جنگ ہے۔

آخر میں اسٹیج لاشوں سے بھرنے والا تھا۔ منظر میں گدھ ظاہر ہونے تھے۔

یہ ایک حزنیہ تھا۔

’’ہمیں یہ جگہ چھوڑنی ہو گی۔ ‘‘ ابوداؤد حکم جاری کر چکا تھا۔ ضروری سامان سمیٹا جا رہا تھا۔ اس خاموش مقام پر پراسرار گہما گہمی تھی۔ اور ایسے میں وہ — جسے سب ابن عمر کہہ کر مخاطب کرتے تھے ، گو یہ اس کا اصل نام نہیں تھا — اُس شخص کی بابت سوچ رہا تھا، جو اس کے دیے ہوئے کپڑوں میں ملبوس تھا۔

وہ متذبذب تھا کہ قیدی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ گو وہ اس بابت بہ خوبی جانتا تھا۔ تاہم وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس سرد پہاڑی مقام پر، جہاں سبزہ نہیں ، زرد تتلیوں کی آمد کا مقصد کیا ہے۔

وہ اب بکثرت دکھائی دینے لگیں۔ کھلے مقام پر، باڑے میں ، غاروں میں ، دریا کے پانی پر۔ اور وہ دھیرے دھیرے مر رہی تھیں۔

ہر صبح زمین پر زردی پھیلی نظر آتی۔ تتلیاں بکھری ہوتیں۔ وہ زمین کا بوسے لیتے ہوئے جان دیتیں۔ اور زمین کی ہو جاتیں۔ اُسے اپنے رنگ میں رنگ دیتیں۔

ازبک کا خیال تھا کہ اس کا سبب ہولناک جغرافیائی تبدیلیاں ہیں ، جس نے تتلیوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ہجرت، جو اُنھیں موت کے دہانے پر لے آئی۔ البتہ افریقی کا خیال تھا کہ یہ علامت ہے ، اس بات کی کہ آسمان نیک روحوں سے خالی ہو گیا ہے۔

ضروری سامان سمیٹ لیا گیا۔ کوچ کا حکم صادر ہونے کو تھا۔ اور تب عرب نے — وہ ہی عرب، جس نے موسم سرما میں ابن عمر پر جملہ کَسا تھا — سوال اٹھایا:

’’اس شخص کا کیا کیا جائے ، جو باڑے میں ہیں؟ ‘‘

ابوداؤد نے و ہی جواب دیا، جس کی توقع سب کر رہے تھے :

’’اب وہ غیر اہم ہے۔ اُس سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ ‘‘

یہ واضح ہدایت تھی، جسے سب سمجھ گئے ، ماسوائے اس کے جو اُس سے کہانیاں سنا کرتا تھا۔

وہ تعجب اور تذبذب کے درمیان معلق، اپنے لیڈر کو تکتا رہا۔ اور اس عمل نے اس کے لیڈر کو پریشان کن حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے اپنے قابل بھروسا اور پرانے ساتھی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا:

’’یہ کام تم کرو گے۔ آج رات۔ ‘‘

سب واضح تھا۔ کل یہ جگہ چھوڑ دی جانی تھی۔ آج رات اِسے نشانات سے پاک کرنا تھا۔

وہ آسمان تلے آ گیا۔ نظر اٹھائی۔ وہاں زرد تتلیاں تھیں۔ اس نے ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک مرتی ہوئی تتلی اس کے ہاتھ پر اتر آئی۔

اُس نے مٹھی بند کر لی۔

اس کا ہاتھ زرد ہو گیا۔

٭٭٭

 

مریم ایک خواب میں قید تھی۔

اوریہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے لبریز خواب تھا۔

درختوں اور گرتی برف کے درمیان، تاریکی میں ، وہ ایک سایے کا تعاقب کر رہی تھی۔

دوڑتے دوڑتے تھک چکی تھی۔ سایہ ہنوز دور تھا۔ وہ رک کر ہانپنے لگی۔ سایہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ پھر دوڑی۔ سایہ پھر دور ہونے لگا۔

وہ چڑھائی تھی۔ شاید ایک پہاڑی۔ سایہ اوپر کی سمت جا رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ اچانک غائب ہو جاتا۔ اور پھر ایک چٹان کے پیچھے سے جھانکتا۔ وہ پتھروں کے سہارے آگے بڑھ رہی تھی۔

اب چڑھائی مشکل ہو گئی۔ بھنبھناہٹ میں شدت در آئی۔ برف باری تیز ہو گئی۔ پراسراریت سانس لینے لگی۔

وہ چوٹی پر تھی۔ وہاں ہواؤں کا خاموش شور تھا۔ بھنبھناہٹ تھی۔ دریا بہنے کی آواز تھی۔ اور سایہ تھا۔

وہ کنارے پر کھڑا تھا۔ اب وہ رک چکا تھا۔ آگے رستہ نہیں تھا۔

مریم نے اسے پکارا۔ پکار بے آواز تھی۔

وہ مڑا۔ اگرچہ چہرہ تاریکی میں تھا، مگر اُس نے پہچان لیا۔ اس چہرے پر ایک اداس مسکراہٹ تھی۔

آخری مسکراہٹ۔

اس نے بازو کھول دیے۔ مریم آگے بڑھی۔ تیزی سے۔ پوری قوت سے۔ خوف اور تحیر کے زیراثر۔

اس نے بازو کھول رکھے تھے۔ وہ پیچھے کی سمت گر رہا تھا۔

وہ چلائی۔ ’’احمرر رر ر۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ خواب میں قید تھی۔ اور بیدار ہونے سے قاصر تھی۔

٭٭٭

 

جانے کون سا پہر تھا۔

قیدی کے لیے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس کی زندگی کئی ماہ سے تاریک تھی۔ پر وہ اُس درد کا اندازہ لگا سکتا تھا، جو اس کی پسلیوں میں اٹھا۔ یہ ایک درشت ٹھوکر کا نتیجہ تھا۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اگلے ہی پل کسی نے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کر دیا۔ کرخت آواز میں اسے چلنے کا حکم دیا گیا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا، جس نے اسے سراسیمہ کر دیا۔ پہلی بار وہ اس انجان دنیا میں دُرشتی سے آشنا ہو رہا تھا۔

وہ دو آدمی تھے ، جن میں سے ایک کو وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی سُگندھ سے آشنا تھا کہ اب یہ ہی سُگندھ اس کے بدن سے بھی اٹھتی تھی کہ وہ اس کے دیے ہوئے کپڑے پہنتا تھا۔

’’کیا یہ۔ ۔ ۔ تم ہو؟ ‘‘ اس نے اطمینان کرنا چاہا۔ جواب میں بندوق کا بٹ اُس کے کاندھے سے ٹکرایا۔

’’آگے بڑھو۔ ‘‘ کوئی دہاڑا۔

’’وہی ہے۔ ‘‘ قیدی نے سوچا۔ ’’سو فی صد وہی۔ مگر۔ ۔ ۔ اس سے انتہائی مختلف۔ ‘‘

وہ باڑے سے باہر آ گئے ، کھلے آسمان تلے ، جس کے کھلے پن کو اُس نے اپنے بدن پر محسوس کیا۔ بندوق کی نوک کمر میں چبھی، جس نے سمت کا تعین کیا۔ اور وہ آگے بڑھنے لگا۔

ہوا سرد تھی۔ دریا بہنے کی آواز دور ہو رہی تھی۔ دہشت بڑھ رہی تھی۔

چلتے چلتے وہ ایسے مقام پر پہنچے ، جہاں کامل سکوت تھا، جس میں غیریقینی تھی۔ اور سونے پن میں ہیبت تھی۔

’’یہیں۔ ‘‘ ایک نے کہا۔ اور قیدی کا گلا خشک ہو گیا۔

’’نہیں۔ ‘‘ دوسرے نے تیزی سے جواب دیا۔ ’’تھوڑا آگے۔ ‘‘

ایک وقفہ در آیا۔ قیدی کو زیر ناف الجھن محسوس ہوئی۔ زبان موٹی ہونے لگی۔ اُس نے جھرجھری لی۔

’’وہاں ایک کھائی ہے۔ ‘‘ یہ اُس نے کہا، جس کے بدن کی خوش بُو اب وہ پہنے تھا۔

قیدی کو ٹھوکر لگی۔ کسی نے اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیا۔ اسے شدید تکلیف محسوس ہوئی۔

’’چلتے رہو۔ ‘‘ ایک مانوس، مگر درشت آواز۔

سونے پن میں قدموں کی دھمک تھی۔ اس رات آسمان پر چاند نہیں تھا۔ تارے بجھ گئے۔ فقط تاریکی، جس میں تین سائے حرکت کر رہے تھے۔

’’بس کرو۔ ‘‘ ایک نے کہا۔ آواز میں اضطراب تھا۔ ’’آگے سڑک ہے۔ ‘‘

’’تھوڑا آگے۔ وہاں کھائی ہے۔ ‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔

تکون آگے بڑھی۔ قیدی لرزتا رہا۔ وقت سست روی سے گزرتا رہا۔ دریا کی آواز اب گم ہو چکی تھی۔ پہاڑ گھٹ گئے۔ آسمان تاریک تھا۔

’’میں اسے ختم کر رہا ہوں۔ ‘‘ ایک دہاڑا۔

قیدی پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ صدمے سے گرنے لگا۔

’’ٹھہرو۔ ‘‘ دوسرا چلایا۔ ’’یہ میرا شکار ہے۔ ‘‘

کمر پر ٹھوکر لگی۔ قیدی گھٹنوں پر آ رہا۔ ایک جھٹکے سے آنکھوں سے پٹی اتار دی گئی۔ ایک تاریک دنیا اس کے سامنے تھی، جہاں اشیاء کو نام دینے ، یا ان کی جانب اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہاں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔

اور وہ مرنے والا تھا۔

وہ گھٹنوں پر تھا۔ اور ہار چکا تھا۔ تاریکی میں دو سائے حرکت کر رہے تھے۔ ایک سایہ اس کے عین سامنے تھا۔ بے حد قریب۔

لوہے کی بُو قیدی کے نتھنوں میں گھسی۔ ساتھ ہی ایک آشنا بُو تھی۔ قیدی نے پہچان لیا۔ ہاں ، وہ ہی۔ ۔ ۔ اس سمے بندوق تانے سامنے موجود تھا۔ سایے کی صورت۔

فرشتے کے پر پھڑپھڑائے۔

قیدی نے سر جھکا لیا۔ اس نے کتاب المبین کی مقدس آیات دہرائیں۔ پیغمبر کو یاد کیا۔

اور وقت کے ٹھیک اسی ٹکڑے میں۔ ۔ ۔ سائے کی زبان سے الہامی کلمات ادا ہوئے۔ اور اس نے بھی رسول کا نام لیا۔

وہ دونوں یک ساں تھے۔ اور یہ ایک المیہ تھا۔

وقت آن پہنچا۔

’’چلو۔ ‘‘ ایک سایہ چلایا۔

’’الوداع۔ ‘‘ دوسرے نے کہا۔

قیدی نے آنکھیں بند کر لیں۔ سامنے ایک ہیولا تھا، جو درخت تلے کھڑا تھا۔ اور پتے گر رہے تھے۔ ۔ ۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔

فائر ہوا۔ سونا پن ایک چیخ سے بھر گیا۔ طویل کراہت کا جنم ہوا۔ اس نامعلوم مقام پر بارود اور خون کی بُو پھیلی۔

وہ خواب آلود لمحہ تھا۔ قیدی کا بھنچا ہوا جسم ڈھیلا پڑنے لگا۔ سانس گھٹا۔ بے رنگ دھواں چھا گیا۔ اس نے بھاری پپوٹے اٹھائے۔

وہ ایک نئی دنیا میں تھا، جو اتنی نئی نہیں تھی کہ اشیاء کو ناموں سے نہ پکارا جا سکے۔

اس نے ایک سایے کو سامنے پایا۔ دوسرا زمین پر اضطرابی حرکت کر رہا تھا۔

’’ممم جانتا تھ۔ ۔ ۔ غ دا ر۔ ۔ ۔ ‘‘ کراہت میں الفاظ تھے۔ ’’میں نے ابوداؤد کو۔ ۔ ۔ وہ آتے ہ وں گ ے۔ ۔ ۔ ‘‘

ایک اور فائر۔ آواز خاموش ہو گئی۔

سایہ قیدی کی سمت پلٹا۔ اس کے ہاتھ کھول دیے۔ ’’اٹھو۔ ‘‘

اندھیرے میں الجھے وقت نے یک دم رفتار پکڑ لی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھے۔ جنگ جو راہ بر تھا، قیدی مقلد۔ اور ایسا بے سبب نہیں تھا۔

وہ چلتے رہے۔ پہاڑ ٹیلوں کی شکل اختیار کر گئے۔ آسمان پر چاند نہیں تھا۔

سڑک کے ابتدائی آثار ظاہر ہوئے۔ اور پھر انجن کی مانوس گڑ گڑاہٹ سنائی دی۔

زندگی نے انگڑائی لی۔ اور ایک ٹرک، بڑے ہی غیر متوقع انداز میں ، منظر میں ظاہر ہوا۔ اس کی ہیڈ لائٹس بند تھیں۔

ٹرک کے اگلے حصے میں حرکت ہوئی۔ دروازہ کھلا۔ اور ٹھیک تب۔ ۔ ۔ اُس منظر میں ہیجان کا جنم ہوا۔

دور کہیں دو فائر ہوئے تھے۔ فاصلے پر دو دیے ٹمٹمائے۔ وہ ایک جیپ تھی، جو اُس سمت سے آتی تھی، جس سمت ایک دریا تھا، اور ایک باڑا تھا۔ جو اب خالی تھا۔

جنگ جو نے — جس کا چہرہ ہنوز تاریکی میں تھا، جو قیدی کے لیے ہنوز اجنبی تھا — تیزی سے کہا۔ ’’ٹرک میں سوار ہو جاؤ۔ ‘‘

قیدی نے چھلانگ لگائی، ٹرک میں داخل ہوا، اور اپنی پھرتی پر حیران ہونے لگا۔

’’نکلو۔ ‘‘ آواز سایے سے بلند ہوئی تھی۔ مخاطب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شخص تھا، جو مقامی تھا۔ اُن جیسا تھا، جو جنگ لڑ رہے ہیں ، اور ان جیسا بھی جو جنگ میں شریک نہیں ، مگر اُس کے ثمرات بھگت رہے ہیں۔

ٹرک آگے بڑھنے لگا۔ فائرنگ کی آواز گونجی۔ قیدی نے کھڑکی سے جھانکا۔ ٹمٹماتی روشنی اب دہکتی ہیڈلائٹس کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ جیپ قریب آ گئی۔ اور جو افراد اُس پر سوار تھے ، وہ غصیل معلوم ہوتے تھے۔

’’الوداع۔ ‘‘ جنگ جونے دھیرے سے کہا۔ اور قیدی نے سن لیا۔

اور پھر اُس نے رخ موڑا۔ اور نظریں جیپ پر ٹکائیں۔ آسمان پر پُر اسرار امکانات کا ظہور ہوا۔ ایک ستارہ ٹوٹا۔

ٹرک آگے بڑھ رہا تھا۔ قیدی سایے پر مرکوز تھا۔ ’’تمھارا ناممم م۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

جنگ جو نے جواب نہیں دیا۔ بس، مقدس کلمات ادا کیے :

’’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ‘‘

بندوق سیدھی کی۔ اگلے ہی پل اس کی نال نے شعلے اگلے۔

وہ پہچان کا لمحہ تھا کہ شعلوں سے ، تاریک کائنات میں کچھ روشنی ہوئی۔ اور روشنی اچھی تھی۔ اور روشنی میں اس کا چہرہ دمکا۔

لمبے بال شانوں پر پھیلے تھے۔ وہ لہرا رہے تھے۔ ڈاڑھی سینے تک تھی۔ اور آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی۔

مزید فائر ہوئے۔ دونوں طرف سے۔ اور دونوں طرف سے چیخیں بُلند ہوئیں۔ کچھ سایے گر گئے۔

سڑک پر زندگی تھی۔ ٹرک آگے بڑھ گیا۔ وہ موت کے لمحے سے نکل آیا تھا۔ اُس میں زردی پھیلی تھی۔ ڈرائیور خاموش اور اکتا ہوا تھا۔ اس نے بتیاں روشن کر دیں۔

قیدی نے آئینہ دیکھا۔

وہ پہچان کا لمحہ تھا۔ ۔ ۔

آئینے میں ایسا شخص تھا، جس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ ڈاڑھی سینے تک آتی تھی۔ آنکھوں میں چمک تھی۔

تو وہ کون تھا؟ وہ شخص، جو سڑک کے کنارے ، زخموں سے چور گولیاں برسا رہا تھا، اور دھیرے دھیرے مر رہا تھا؟

یا پھر وہ۔ ۔ ۔ جو زندہ تھا، اور آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا؟

وہ کون تھا؟

٭٭

 

 

 

 

دسواں باب

 

 ’’مرد‘‘

 

وہ سمے کا پیڑ تھا، جس کی لہراتی شاخوں سے کرم کے پتے گرتے۔ اور ہر پتے پر ایک کہانی درج تھی۔

فضا قدیم نغموں سے پُر تھی۔ وہ تنے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ اور میں ٹھیک اُس کے سامنے تھا۔ بادلوں سے ڈھکے آسمان میں ہوا ہمکتی تھی۔ اور مسرت اور اندیشوں سے لبریز میرا دل دھڑک رہا تھا۔

اُس نے سر اٹھایا۔ آنکھوں میں تحیر کا جنم ہوا۔ ناشناسائی سے شناسائی پیدا ہوئی۔ چہرے پر تبسم کا ظہور ہوا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ اور شاخیں جھُکیں۔ اور زمین تھرکی۔

گرتے ، خشک پتے۔ لہراتی زلفیں۔ قدم بہ قوم اس کا آگے بڑھنا۔ بادلوں میں حرکت کرتی ہستی۔ اور میرا وہاں موجود ہونا۔

وہ ایک کامل لمحہ تھا۔

اُس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ مسرت تھی۔ سر میرے کشادہ سینے پر تھا۔ سینہ، جس میں جنگ کی خواہش تھی، جس میں آنسو جذب ہوتے تھے۔ اور میرے بازوؤں نے اُسے آغوش میں لے رکھا تھا۔

اور تب، ششدر کر دینے والا ادراک مجھ پر اترا۔

ادراک کہ میں اِس منظر کو جانتا ہوں۔

شاید کسی ناول کے اوراق میں اِس منظر سے ملاقات ہوئی تھی؟

یا شاید کبھی سنیما کے پردے پر اِسے دیکھا تھا؟

یا شاید۔ ۔ ۔ اِسے جیا تھا؟

شاید میں اس کا حصہ تھا؟

میری سماعتوں نے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کا تحفہ قبول کیا۔ اور میں نے جانا کہ یہ ایک تکون ہے۔ کوئی تیسرا بھی ہے۔

کوئی ایسا، جس کا بھیتر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے برسوں قبل ایک شخص کا پھٹا تھا۔

وہ کون تھا؟

میں پلٹا۔

کچھ فاصلے پر وہ کھڑا تھا۔ ۔ ۔ علی، میرا دوست۔

اس کی گود میں ، چادر میں لپٹا نومولود تھا، جو ٹانگیں چلا رہا تھا۔ اُس نے زیرجامہ گیلا کر دیا تھا۔

’’تمھیں زندہ دیکھ کر اچھا لگا۔ ‘‘ وہ چلایا۔

اُس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ وہ خوش تھا۔

انت کی ابتدا

تند ہواؤں کے درمیان وہ موجود تھے۔

کائنات کے مرکز میں۔

ٹھیک اُس کی دھڑکن میں۔

زندہ۔

سانس لیتے ہوئے۔

مرد کی سنہری زلفوں پر مقدس دھوپ چمکتی۔ اس کا لبادہ روشن تھا۔ چہرہ دیوتاؤں سا تھا۔

عورت اس کے کشادہ سینے سے سر ٹکائے کھڑی تھی۔ اور اس کے سینے کی شان بڑھاتی تھی۔ وہ اُسے مکمل کرتی تھی۔

اور عورت کے چہرے پر افلاک سے اترا سکون تھا۔ وہ جیون کا راز تھی۔ زندگی کا اسرار تھی۔ اور اس کے مقدس بازوؤں میں ایک پاکیزہ روح تھی۔ ایک بچہ۔ جس پر فرشتے سایہ کرتے۔

ہاں ، یہ ایک تکون تھی، جو مکمل تھی۔ جو کائنات کے آغاز کا سبب تھی۔ جو خود کائنات تھی۔

ہاں ، یہ ایک تکون تھی۔

اور اِس تکون سے کچھ دور ایک شخص کھڑا تھا۔ وہ ایک عام انسان تھا۔

ایک عظیم انسان۔

دیوتاؤں کا سپوت۔

وہ خوش تھا، اور رو رہا تھا۔

اُس منظر سے میلوں دُور، وقت کے کسی نامعلوم دائرے میں — وہاں ، جہاں پتھروں میں تتھاگت سانس لیتا تھا — ایک سورما کی لاش پڑی تھی۔

ایک زندہ شخص، جو مر گیا۔ اور باقی رہا۔

جس نے تکون مکمل کی۔ جو اس کی چوتھی جہت تھا۔

جو الوہیت کی چنگاری تھا۔

اس کے گرد نور کا زرد ہالا تھا، جو اُس کا کفن تھا۔

جنت سے اترنے والی زرد تتلیوں نے اُسے ڈھانپ رکھا تھا۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے جریدے کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید