FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

فہرست مضامین

تفسیر تیسیر القرآن

مولانا عبد الرحمٰن کیلانی

جلد چہارم

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

۱۰۵۔ سورۃ الفیل

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے پروردگار نے ہاتھی [۱] والوں سے کیا برتاؤ کیا

[١] یمن میں ابرہہ کا عالی شان گرجا تعمیر کرنا :۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب رسول اللہﷺ کو ہے۔ تاہم اس کے مخاطب تمام اہل عرب ہیں۔ قرآن میں ان ہاتھی والوں کی کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ یہ لوگ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کس غرض سے آئے تھے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ بالکل قریبی زمانہ میں پیش آیا تھا اور عرب کا بچہ بچہ اس کی تفصیلات سے واقف تھا اور بہت سے شعراء نے اس واقعہ کو اپنے اپنے قصائد اور منظوم کلام میں قلمبند کر دیا تھا۔ واقعہ مختصراً یہ تھا کہ یمن میں اہل حبشہ کی عیسائی حکومت قائم تھی اور ابرہہ نامی ایک شخص حکومت حبشہ کا نائب السلطنت مقرر تھا۔ وہ بیت اللہ کے اثر و رسوخ اور عزت و عظمت سے بہت حسد کرتا تھا۔ وہ چاہتا یہ تھا کہ عرب بھر میں یمن کے دار الخلافہ صنعاء کو وہی حیثیت حاصل ہو جائے جو مکہ کو حاصل ہے۔ اور قریش مکہ کعبہ کی وجہ سے جو سیاسی، تمدنی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں وہ ہماری حکومت کو حاصل ہونا چاہئیں۔ اسی غرض سے اس نے صنعاء میں ایک عالی شان کلیسا تعمیر کرایا۔

کعبہ پر حملہ کا ارادہ :۔ کلیسا کی عمارت کعبہ کے مقابلہ میں بڑی پر شکوہ اور عالی شان تھی۔ اس کے باوجود لوگ ادھر متوجہ نہ ہوئے۔ بلکہ جب عرب قبائل کو اس کلیسا کی تعمیر کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو کسی نے خفیہ طور پر اس کلیسا میں پاخانہ کر دیا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق کسی نے اسے آگ لگا دی۔ جس سے ابرہہ کو کعبہ پر چڑھائی کرنے اور اسے تباہ و برباد کرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ اور یہ ممکن ہے کہ اس نے خود ہی کعبہ پر چڑھائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پیدا کرنے کے لیے خود ہی اس کلیسا کو آگ لگوائی ہو یا اس کی بے حرمتی کروائی ہو۔ بہرحال ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کے لیے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا۔ اس لشکر میں تیرہ ہاتھی بھی تھے اور وہ خود بھی ایک اعلیٰ درجہ کے محمود نامی ہاتھی پر سوار تھا۔ یہ لشکر مکہ کی طرف روانہ ہوا تو راستہ میں اکثر عرب قبائل مزاحم ہوئے لیکن ابرہہ کے اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں ان کی کیا حیثیت تھی۔ وہ شکست کھاتے اور گرفتار ہوتے گئے۔ بالآخر ابرہہ منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک مقام محسر تک پہنچ گیا۔ اس نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ کچھ لوٹ مار بھی کی۔ عبد المطلب جو ان دنوں کعبہ کے متولی اعظم اور قریشیوں کے سردار تھے، کے دو سو اونٹ بھی اپنے قبضہ میں کر لیے۔ پھر اہل مکہ کو پیغام بھیجا کہ میں صرف کعبے کو ڈھانے آیا ہوں۔ آپ لوگوں سے لڑنے نہیں آیا۔ لہٰذا اگر تم لوگ تعرض نہ کرو گے تو تمہارے جان و مال محفوظ رہیں گے اور میں اس سلسلہ میں گفت و شنید کے لیے تیار ہوں۔

ابرہہ اور عبد المطلب کا مکالمہ :۔ اس پیغام پر عبد المطلب اس سے گفتگو کرنے کے لیے اس کے ہاں چلے گئے۔ قریش مکہ کو اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ وہ کسی طرح بھی ابرہہ کے لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں لا سکتے۔ لہٰذا عبد المطلب نے روانگی سے قبل ہی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں اور اپنے اموال سمیت پہاڑوں میں چھپ جائیں۔ پھر ان لوگوں نے کعبہ میں جا کر خالصتاً اللہ تعالیٰ سے نہایت خلوص نیت کے ساتھ دعائیں کی تھیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے۔ کیونکہ ہم میں اتنی سکت نہیں۔ اس وقت بھی کعبہ میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے مگر اس آڑے وقت میں وہ اپنے سب معبودوں کو بھول گئے اور اکیلے اللہ سے دعائیں کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیں۔ جب عبد المطلب ابرہہ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجاہت سے بہت متاثر ہوا اور خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ عبد المطلب نے بڑی سادگی سے جواب دیا :’’اپنے اونٹوں کی واپسی‘‘ اس جواب پر ابرہہ سخت حیران ہوا جیسے آپ کی قدر و منزلت اس کی نظروں سے گر گئی ہو، پھر کہنے لگا : میرا تو خیال تھا کہ آپ کعبہ کے متعلق کوئی بات کریں گے؟ عبد المطلب نے پھر سادگی سے جواب دیا کہ : اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لیے ان کا مطالبہ کر دیا۔ کعبہ کا مالک میں نہیں۔ اس کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ آپ جانیں اور وہ جانے۔ اس جواب پر وہ اور بھی حیران ہوا تاہم اس نے عبد المطلب کے اونٹ واپس کر دیے۔ عبد المطلب واپس چلے آئے اور آ کر لوگوں کو پھر اپنی حفاظت کی تاکید کر دی۔ اور ابرہہ نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کی تیاری شروع کر دی۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہوا کہ اس کے اپنے ہاتھی محمود نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے بہتیرے تیر لگائے گئے اور آنکس مارے گئے مگر وہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا تھا اور جب اس کا رخ کعبہ کے علاوہ کسی دوسری طرف کیا جاتا تو فوراً دوڑنے لگتا تھا۔ یہ لوگ اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ یا بالفاظ دیگر اپنے لشکر بھیج دیے۔

ابابیلوں کی کنکر بازی :۔ ان پرندوں میں سے ہر ایک کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور دو کنکر دونوں پنچوں میں تھے۔ ان پرندوں نے وہی کنکر اس لشکر پر پھینک کر کنکروں کی بارش کر دی۔ یہ کنکر ایسی تیزی سے لگتے تھے جیسے بندوق کی گولی لگتی ہو۔ جہاں کنکر لگتا زخم ڈال دیتا تھا اور کبھی آر پار بھی گزر جاتا تھا۔ چنانچہ اس لشکر کے بیشتر افراد تو وہیں مر گئے۔ باقی جو بچے وہ واپس مڑے لیکن وہ راستہ میں مر گئے۔ ابرہہ خود بھی راستے میں ہی مرا تھا۔ اور اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ آپﷺ کی ولادت با سعادت سے صرف ۵٠ دن پہلے محرم میں پیش آیا تھا۔

۲۔   کیا اس نے ان کی تدبیر [۲] کو بے کار نہیں [۳] بنا دیا تھا؟

[٢] ابرہہ کے مقاصد کیا تھے؟ کَیْدَ بمعنی چال یا خفیہ تدبیر۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو علی الاعلان دن دہاڑے کعبہ پر حملہ کرنے آیا تھا اور برملا کہتا تھا کہ میں کعبہ پر حملہ کرنے آیا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں نے ہمارے کلیسا کی توہین کی ہے تو اس میں اس کی چال یا خفیہ تدبیر کیا تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی خفیہ تدبیر یہ تھی کہ کعبہ کی تخریب کے بعد اہل عرب کی توجہ اپنے کلیسا کی طرف مبذول کرے۔ اور اس سے اس کا مقصد مذہبی فوائد کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ تمام تر تجارتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا جو کعبہ کی وجہ سے قریش مکہ کو حاصل تھے۔

[٣] تَضْلِیْلٍ۔ ضَلّ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس غرض کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ مقصد حاصل نہ ہو اور وہ کام بالکل بے نتیجہ اور بے کار ثابت ہو۔ اس کی مزید تشریح سورۃ والضحیٰ کی آیت ﴿وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدٰی﴾ کے حاشیہ میں دیکھیے۔

۳۔   اور ان پرندوں کے غول کے غول بھیج دیے

۴۔   جو ان پر کنکروں [۴] کے پتھر پھینکتے [۵] تھے

[۴] سجیل فارسی کے لفظ سنگ گل (بمعنی مٹی کا پتھر) سے معرب ہے۔ یعنی وہ نوکدار کنکریاں جن میں مٹی کی بھی آمیزش ہوتی ہے اور مٹی سے کنکریاں بن رہی ہوتی ہیں۔

[۵] تَرْمِیْھِمْ رمی بمعنی کسی چیز کو نشانہ بنا کر دور سے پتھر کنکر وغیرہ پھینکنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پرندے ان پر کنکر گراتے تھے۔ بلکہ فرمایا نشانہ بنا کر پھینک رہے تھے۔ واضح رہے کہ تیر اندازی کے لیے بھی رمی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ گویا وہ پرندے یا اللہ کے لشکر باقاعدہ ان پر حملہ آور ہوئے تھے۔

۵۔   پھر انہیں یوں بنا دیا جیسے کھایا ہوا بھوسا [۶] ہو

[۶] عَصْفٌ بمعنی غلہ کے دانہ کے اوپر کے پردے اور چھلکے نیز توڑی اور بھوسہ وغیرہ جو مویشیوں کے لیے چارہ کا کام دیتا ہے۔ اور عَصْفٍ مَاکُولٍ سے مراد یا تو چارے کا وہ حصہ یا ڈنٹھل ہیں جو جانور چرنے کے بعد آخری حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یا چارے کا وہ حصہ ہے جو جانور کھاتے وقت یا جگالی کرتے وقت منہ سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ گویا اس عذاب کے بعد ہاتھی والوں کی لاشوں کی حالت بھی سخت بگڑ گئی تھی۔ جو لوگ قرآن میں مذکور معجزات کی مادی تاویل کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں وہ اس معجزہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ دور حاضر میں پرویز صاحب نے اپنی تفسیر مفہوم القرآن میں اس کی آخری تین آیات کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرمایا ہے : (انہوں (یعنی اصحاب الفیل) نے پہاڑ کے دوسری طرف ایک غیر مانوس خفیہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ وہ تم پر اچانک حملہ کر دیں لیکن چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ (جو عام طور پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں فطری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں گی) ان کے سروں پر منڈلاتے ہوئے آ گئے اور اس طرح تم نے دور سے بھانپ لیا کہ پہاڑ کے پیچھے کوئی لشکر آ رہا ہے (یوں ان کی خفیہ تدبیر طشت از بام ہو گئی) چنانچہ تم نے ان پر پتھراؤ کیا۔ اور اس طرح اس لشکر کو کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔ (یعنی ان کا کچومر نکال دیا۔) (مفہوم القرآن ص ١۴٨۴)

پرویزی تاویل اور اس کا جواب :۔ اب دیکھیے پرویز صاحب کا بیان کردہ مفہوم درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔ ١۔ آپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ’’چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ عام طور پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں تاکہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں‘‘ دور نبوی میں بے شمار جنگیں ہوئیں تو کیا کسی اور موقع پر بھی چیلوں اور گدھوں کے لشکر کے اوپر منڈلائے تھے؟ دور نبوی کے علاوہ اور کسی بھی جنگ کے موقعہ پر کہیں اوپر چیلیں اور گدھ کبھی نہیں منڈلائے۔ لہٰذا یہ پرویز صاحب کی گپ ہے۔

٢۔ سجیل کا معنی پہاڑوں کے پتھر نہیں۔ بلکہ مٹی ملے کنکر ہیں اور یہ فارسی لفظ سنگ گل سے معرب ہے۔

٣۔ ایسے کنکر یا کنکریاں پہاڑوں کے اوپر نہیں ہوتیں۔ نہ ہی ایسی کنکریوں سے کسی ایسے لشکر جرار کو ہلاک کیا جا سکتا ہے جس میں ہاتھی بھی ہوں۔

۴۔ تَرْمِیْ واحد مونث غائب کا صیغہ پرندوں کی جماعت کے لیے استعمال ہوا ہے لیکن آپ نے اس کا ترجمہ ’’تم نے ان پر پتھراؤ کیا‘‘ بیان فرمایا۔ یہ تَرْمُوْنَ کا ترجمہ ہے۔ ترمی کا نہیں ہو سکتا۔

۵۔ علاوہ ازیں تاریخ سے بھی ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکتی کہ اہل مکہ اصحاب الفیل کے مقابلے کے لیے نکلے ہوں۔

٭٭٭

۱۰۶۔ سورۃ قریش

 

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کر دیا [۱] تھا

[١] ایلاف کے دو پہلو :۔ اِیْلاَفٌ کا مادہ الف ہے اور اس سے الفت مشہور و معروف لفظ ہے۔ الفت کا معنی ایسی محبت ہے جو خیالات میں ہم آہنگی کی وجہ سے ہو (مفردات) اور الف کے معنی کسی چیز کے منتشر اجزاء کو اکٹھا کر کے انہیں ترتیب کے ساتھ جوڑ دینا۔ کسی کتاب کی تالیف کا بھی یہی مفہوم ہے۔ گویا ایلاف کے مفہوم میں الفت، موانست اور قریش کے منتشر افراد کی اجتماعیت کے سب مفہوم پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایلاف کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک کا پس منظر یہ ہے کہ قبیلہ قریش حجاز میں متفرق مقامات پر بکھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے قصّی بن کلاب (رسول اللہﷺ کے جد اعلیٰ) کو یہ خیال آیا کہ اپنے قبیلہ کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ چنانچہ اس نے اپنے سارے قبیلہ کو مکہ میں اکٹھا کر دیا۔ اسی بنا پر قصّی کو مُجَمّع کا لقب دیا گیا۔ اس طرح کعبہ کی تولیت اس قبیلہ کے ہاتھ آ گئی۔ اور ایلاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہاشم کے بیٹوں کو خیال آیا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینا چاہیے جو ان قافلوں کے ذریعے ہوتی تھی جو یمن سے شام و فلسطین تک جاتے تھے۔ یمن میں بلاد مشرق سے تجارت ہوتی تھی اور شام میں افریقہ و مصر سے۔ چنانچہ ہاشم کے بیٹوں نے آس پاس کے علاقوں سے تجارتی روابط قائم کیے اور عملاً تجارت میں حصہ لینا شروع کیا۔ جس سے مکہ ایک بین الاقوامی منڈی بن گیا۔ قریش کے قافلے سال بھر میں دو تجارتی سفر کرتے تھے۔ گرمیوں میں وہ شام و فلسطین کی طرف جاتے تھے۔ کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت بہت ٹھنڈا تھا اور سردیوں میں ان کا قافلہ یمن کی طرف جاتا تھا کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت گرم تھا۔ سال میں ان دو تجارتی سفروں سے اتنی آمدنی ہو جاتی تھی کہ سال کا باقی حصہ آرام سے گھر بیٹھ کر کھاتے تھے پھر بھی ان کے پاس بہت کچھ بچ جاتا تھا۔ اس طرح وہ آسودہ حال اور خاصے مالدار بن گئے۔ یہ دونوں موسموں کے تجارتی سفر ہی ان کی تمام تر دلچسپیوں کے مرکز و محور بن گئے تھے۔

۲۔   کہ وہ سردیوں اور گرمیوں میں (تجارتی) سفر سے مانوس ہو گئے تھے

۳۔   لہٰذا [۲] انہیں چاہیے کہ اس گھر (کعبہ) کے مالک کی (ہی) عبادت کریں

[٢] لاِیْلاَفِ میں ابتدائی لام تعلیل کے لیے آیا ہے یعنی چونکہ اللہ نے قریش کے منتشر افراد کو مکہ میں ایک مقام پر اکٹھا کر دیا تھا ان میں الفت پیدا کر دی تھی اور وہ ایک دوسرے سے مانوس تھے۔ پھر کعبہ کی تولیت بھی ان کے سپرد کر دی تھی۔ مزید برآں انہیں گرمی اور سردی کے تجارتی سفروں سے مانوس کر دیا تھا لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ اس گھر یعنی کعبہ کے مالک ہی کی عبادت کریں۔ کیونکہ قریش معاشرتی، سیاسی، تمدنی اور تجارتی جو فوائد بھی حاصل کر رہے تھے وہ اس کعبہ کی بدولت ہی حاصل کر رہے تھے۔ لہٰذا انہیں صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنی چاہیے جو اس گھر کا مالک ہے۔ دوسرے معبودوں یا ان تین سو ساٹھ بتوں کی نہیں کرنی چاہیے۔

۴۔   جس نے انہیں بھوک (کے دنوں) میں کھانا کھلایا اور انہیں خوف سے (بچا کر) امن [۳] عطا کیا

[٣] قریش مکہ پر اللہ کے احسانات :۔ مکہ اور اس کے آس پاس کا تمام علاقہ یا پہاڑی ہے یا ریگستانی۔ جہاں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی بلکہ پورے علاقہ حجاز کا یہی حال تھا۔ لوگوں کا عام پیشہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالنا تھا۔ یا پھر لوٹ مار اور ڈاکہ زنی۔ عرب قبائل تجارتی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور ایک دوسرے کو بھی۔ اس بد امنی اور رہزنی سے صرف قریش بچے ہوئے تھے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انہیں عرب بھر میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ رہزن قبیلے ان کے تجارتی قافلہ سے تعرض نہیں کرتے تھے، بلکہ جس قافلے کو قریش پروانہ راہداری دے دیتے وہ بھی محفوظ سفر کر سکتے تھے۔ اور قریش کا وطن مکہ تو ویسے ہی امن والا شہر تھا اور لوگ یہیں آ کر پناہ لیتے تھے۔ قریش کے قافلوں سے راستہ میں جگہ جگہ ٹیکس بھی وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ قریش کے بد امنی سے محفوظ ہونے کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی شخص کبھی نا دانستہ کسی قریش پر حملہ آور ہوتا اور وہ صرف اتنا کہہ دیتا کہ انا حرمی تو حملہ آور کے اٹھے ہوئے ہاتھ وہیں رک جاتے تھے۔ قریش مکہ کو دوسرے قبائل عرب پر جو سیاسی اور معاشی تفوق حاصل تھا اس کی وجہ محض کعبہ کی تولیت تھی۔ جسے تمام قبائل عرب اللہ کا گھر سمجھتے تھے۔ اس اللہ کے گھر میں ٣۶٠ بت رکھے ہوئے تھے۔ جنہیں رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن توڑا تھا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سارے بت صرف قریش کے نہیں تھے بلکہ تمام قبائل عرب اپنے اپنے بت کا ایک مثنیٰ بیت اللہ میں بھی لا کر رکھ دیتے تھے اور یہ قریش کی مہربانی تھی کہ کسی قبیلہ کو اپنا بت بیت اللہ میں رکھنے دیں یا نہ رکھنے دیں۔ کیونکہ بیت اللہ کے متولی یہی لوگ تھے۔ پھر اگر کوئی قبیلہ قریش مکہ سے کوئی ناروا سلوک کرتا تو قریش اس قبیلہ کے بت کی گردن مروڑ سکتے تھے۔ اسے توڑ پھوڑ بھی سکتے تھے اور کعبہ سے باہر بھی پھینک سکتے تھے۔ بالفاظ دیگر قبائل عرب کعبہ میں اپنے بت اس لیے رکھتے تھے کہ ان کا اور ان کے خدا کا نام بلند ہو اور قریش اس لیے رکھ لیتے تھے کہ ان قبائل کے خدا ہمارے پاس بطور یرغمال رہیں گے۔ یہ تھی وہ اصل وجہ جس کی بنا پر دوسرے قبائل قریشیوں کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ اور کسی کو ان کے تجارتی قافلوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اور اسی بت پرستانہ نظام کی بدولت قریش مکہ کئی طرح کے فائدے اٹھا رہے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ نے ان بتوں اور اس بت پرستانہ نظام کے خلاف صدا بلند کی تو قریش نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو پھر تو ہم زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ ہمارے تجارتی قافلے بھی لوٹ مار کی زد میں آ جائیں گے۔ قبائل عرب میں جو ہمارا احترام اور عزت کی جاتی ہے وہ سب کچھ خاک میں مل جائے گا اور ہمارے سیاسی تفوق کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔ ان حالات میں ہم تمہاری باتوں کو کیونکر قبول کر سکتے ہیں؟ تو قریش کے اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے پانچ جواب دیئے تھے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے سورۃ ق کے حواشی ۷٨ تا ٨۵) علاوہ ازیں تھوڑی مدت پہلے ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے اس کے لشکر کو برباد کر دیا تھا۔ اس واقعہ سے اہل عرب کے دلوں میں قریش کا عزت و احترام اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی عزت و احترام کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہر طرح کی لوٹ مار اور جگا ٹیکس سے محفوظ سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کثیر منافع حاصل ہو جاتا تھا۔ اتنا زیادہ جتنا کسی دوسرے تجارتی قافلے کو ہونا ناممکن تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دوسرے عرب قبائل تو بھوکوں مر رہے تھے جبکہ قریش نہایت آسودہ حالی اور امن و چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے انہیں احسانات کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان احسانات کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ تم صرف اکیلے پروردگار کی جو اس کعبہ کا مالک ہے عبادت کرتے۔ مگر تم ایسے احسان فراموش ثابت ہوئے ہو کہ اس کے ساتھ اپنے دوسرے معبودوں کو بھی شریک بنا لیتے ہو۔

٭٭٭

۱۰۷۔ سورۃ الماعون

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا [۱] کو جھٹلاتا ہے

[١] دین کے چار معنی :۔ دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی کامل اور مکمل حاکمیت (٢) انسان کی مکمل عبودیت اور بندگی (٣) قانون جزا و سزا (۴) قانون جزا و سزا کے نفاذ کی قدرت۔ کفار مکہ ان چاروں باتوں کے منکر تھے۔ وہ صرف ایک اللہ ہی کو الٰہ نہیں مانتے تھے بلکہ اپنی عبادت میں دوسرے معبودوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اللہ کے قانون جزا و سزا کے بھی منکر تھے اور آخرت کے بھی۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب آپﷺ کو ہے لیکن تبصرہ کفار مکہ پر ہے کہ انکار آخرت نے ان میں کون سی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں پیدا کر دی تھیں۔

۲۔   یہی تو ہے جو یتیم کو دھکے [۲] دیتا ہے

[٢] اہل عرب عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم کر دیتے تھے۔ حالانکہ حقیقتاً میراث کے وہ ضرور حقدار ہونا چاہئیں۔ لیکن اہل عرب کا دستور تھا کہ جو شخص میت کے وارثوں سے زیادہ با اثر اور زور آور ہوتا وہی ساری میراث پر قبضہ جما لیتا تھا اور یتیموں کو دھتکار دیتا تھا۔ یہ ان کی زرپرستی اور انکار آخرت کا نتیجہ تھا۔ نیز اگر کوئی یتیم ان سے مدد مانگنے آتا تو اس سے برا سلوک کرتے تھے۔ اور اس کے اصرار پر دھکے مار کر دفع کر دیتے تھے اور اگر کوئی کسی یتیم کی پرورش کا ذمہ لیتا بھی تھا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کرتا رہتا تھا۔

۳۔   اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب [۳] (بھی) نہیں دیتا

[٣] یتیموں کی پرورش سے غفلت برتنا یا محتاجوں کے کھانے تک کی فکر نہ کرنا، انہیں خود کھلانا تو درکنار کسی کو اس کی ترغیب تک نہ دینا ایسی اخلاقی اور معاشرتی برائیاں ہیں جو ہر مذہب میں مذموم سمجھی جاتی ہیں اور سمجھی جاتی رہی ہیں۔ مگر جب انسان کو مال و دولت جوڑنے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنے کی فکر لاحق ہو جائے تو وہ اتنا بخیل بن جاتا ہے کہ اسے اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حالت زار دیکھنے پر قطعاً رحم نہیں آتا اور ان کی اس سنگدلی کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں روز آخرت کی جوابدہی کا یقین ہی نہیں ہوتا۔

۴۔   پھر ایسے نمازیوں کے لیے (بھی) ہلاکت ہے

۵۔   جو اپنی نماز سے غافل [۴] رہتے ہیں

[۴] اس سورت کی آیت نمبر ۴ اور ۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ کیونکہ ان میں منافقوں کی نماز کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اور منافقوں کا مکی دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فرقہ مدنی دور میں ہی وجود میں آیا تھا جب مسلمانوں کی ریاست قائم ہو چکی تھی۔ نماز سے غافل رہنے سے مراد یہ ہے کہ کبھی پڑھ لی، کبھی نہ پڑھی، کبھی بے وقت پڑھ لی جب وقت تنگ ہو چکا ہو۔ جلدی جلدی چند ٹھونگیں مار لیں۔ نماز کو بس ایک عادت اور ورزش کے طور پر پڑھ لیا۔ مگر اللہ کی یاد ایک لمحہ کے لیے بھی نہ آئی۔ بس دنیوی خیالات میں مستغرق رہے۔ غرض نماز سے غفلت کی بے شمار صورتیں ہیں جو اسی ضمن میں آتی ہیں۔

۶۔   جو ریا کاری کرتے [۵] ہیں

[۵] اگر اس آیت کو سابقہ آیت سے متعلق قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی بھی وہ نماز پڑھتے ہیں وہ بھی اللہ کے حکم یا آخرت کے ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ پھر اس ریا کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ منافق نماز اس لیے پڑھتے ہیں کہ دوسرے مسلمان انہیں دیکھ لیں اور ان کا شمار مسلمانوں میں ہو جائے۔ دوسری یہ کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے تو اس وقت وہ نماز بنا سنوار کر اور لمبی کر کے پڑھنے لگتے ہیں۔ ایسی نمازیں ان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کی ہلاکت کا سبب بن جائیں گی اور حقیقتاً ایسے لوگ بھی آخرت کے منکر ہی ہوتے ہیں۔

۷۔   اور معمولی برتنے کی چیزیں (بھی مانگنے پر) نہیں دیتے [۶]۔

[۶] مَاعُوْن ہر اس برتنے والی چیز کو کہتے ہیں جو معمولی قسم کی ہو اور عام لوگوں کے استعمال میں آنے والی ہو۔ برتنے کی اشیاء گھریلو استعمال کی چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً کلہاڑی، ہنڈیا، کھانے کے برتن، ماچس وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ زر پرستی کی ہوس اور آخرت سے انکار نے ان لوگوں میں اتنا بخل پیدا کر دیا ہے کہ یتیموں کو ان کا حق ادا کرنا اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا تو درکنار، وہ معمولی معمولی عام برتنے کی چیزیں عاریتاً مانگنے پر بھی دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ بعض لوگ مانگ کر کوئی برتنے کی چیز لے لیتے ہیں پھر واپس ہی نہیں کرتے یا اس چیز کا نقصان کر دیتے ہیں تو ایسی صورت میں شریعت نے جو احکام دیئے ہیں وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے :

عاریتاً مانگی ہوئی چیز کے متعلق احکام:۔ ١۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ اپنی کسی بیوی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ کسی دوسری بیوی نے کھانے کی رکابی بھیجی تو اس بیوی نے جس کے ہاں آپﷺ ٹھہرے ہوئے تھے (از راہ رقابت) خادم کے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ رکابی گر گئی اور ٹوٹ گئی۔ آپﷺ رکابی کے ٹکڑے اور جو کھانا اس میں تھا اسے جمع کرنے لگے اور فرمایا : ’’تمہاری ماں کو غیرت آ گئی‘‘ پھر خادم کو ٹھہرایا اور اس بیوی سے ایک سالم رکابی لے کر اس بیوی کے ہاں بھجوا دی جس نے بھیجی تھی اور یہ ٹوٹی ہوئی رکابی اسی گھر میں رکھ لی، جہاں ٹوٹی تھی۔

(بخاری، کتاب المظالم، باب اذاکسر قصعۃ اوشیأ الغیرہ)

٢۔ آپﷺ نے فرمایا :’’مانگی ہوئی چیز واپس کرنا، ضامن کو تاوان بھرنا، اور قرضہ کی ادائیگی لازم ہے۔‘‘

(ترمذی۔ ابواب البیوع، باب ان العاریۃ مؤادۃ)

٣۔ آپﷺ نے فرمایا :’’جس ہاتھ نے جو کچھ لیا ہو اسی پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔‘‘ (خواہ نقد رقم ہو یا کوئی اور چیز)

(ابو داؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی تضمین العاریہ)

٭٭٭

۱۰۸۔ سورۃ الکوثر

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   ہم نے آپ کو کوثر [۱] عطا کیا ہے

[١] کوثر کے مختلف مفہوم اور مختلف پہلو :۔ کَوْثَر۔ کَثُرَ سے مشتق ہے جس میں بہت مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اہل لغت نے اس کا معنی خیر کثیر لکھا ہے اور بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثر بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو آپ کو عطا کی گئی۔ چنانچہ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو اونگھ آ گئی۔ اٹھے تو تبسم فرمایا۔ اور تبسم کی وجہ یہ بتائی کہ ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی۔ پھر یہی سورت کوثر پڑھی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا :’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں‘‘ فرمایا : وہ ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے بہشت میں دی ہے۔ نیز اس سلسلے میں درج ذیل احادیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے معراج کے قصہ میں فرمایا : میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے تھے۔ میں نے جبریل سے پوچھا : یہ نہر کیسی ہے؟ اس نے جواب دیا : ’’یہ کوثر ہے‘‘ (جو اللہ نے آپﷺ کو عطا کی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابو عبیدہؓ نے سیدہ عائشہؓ سے پوچھا کہ’’ کوثر سے کیا مراد ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے پیغمبرﷺ کو ملی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں وہاں ستاروں کی تعداد جتنے آبخورے رکھے ہیں۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کوثر سے ہر وہ بھلائی مراد ہے جو اللہ نے آپﷺ کو عطا کی۔ ابو بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیرؓ سے کہا کہ :’’لوگ تو کہتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے‘‘ سعید نے جواب دیا کہ : ’’جنت والی نہر بھی اس بھلائی میں داخل ہے جو اللہ نے آپﷺ کو عنایت فرمائی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) علاوہ ازیں کوثر سے مراد حوض کوثر بھی ہے جو آپﷺ کو قیامت کے دن میدان محشر میں عطا کیا جائے گا۔ جس دن سب لوگ پیاس سے انتہائی بے تاب ہوں گے اور ہر شخص العطش العطش پکار رہا ہو گا۔ آپﷺ اس حوض پر بیٹھ کر اہل ایمان کو پانی پلائیں گے اور جس خوش قسمت کو اس حوض کوثر کا پانی میسر آ جائے گا اسے قیامت کا سارا دن پھر پیاس نہیں لگے گی اور اس سلسلے میں اتنی احادیث صحیحہ وارد ہیں جو تواتر کو پہنچتی ہیں۔ اوپر جو کچھ ذکر ہوا اس خیر کثیر کا تعلق تو اخروی زندگی سے ہے۔ دنیا میں بھی آپ کو خیر کثیر سے نوازا گیا۔ آپﷺ کو نبوت دی گئی اور قرآن جیسی عظیم نعمت دی گئی جس نے ایک وحشی اور اجڈ قوم کی ٢٣ سال کے مختصر عرصہ میں کایا پلٹ کے رکھ دی۔ آپﷺ کا ذکر بلند کیا گیا۔ آپﷺ نے اپنے مشن کو اپنے جیتے جی پوری طرح کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔ عرب میں کفر و شرک کا کلی طور پر استیصال ہو گیا اور آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت چھوڑی جو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام دنیا پر چھا گئی۔

۲۔   تو آپ اپنے پروردگار کے لیے نماز ادا [۲] کیجیے اور قربانی کیجیے

[٢] یعنی ان نعمتوں اور احسانات کے شکریہ کے طور پر آپﷺ اپنے پروردگار کے لیے نماز بھی ادا کیجیے اور قربانی بھی دیجیے۔ بدنی عبادتوں میں سے نماز بہت اہمیت رکھتی ہے اور مالی عبادتوں میں سے قربانی۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ یعنی آپﷺ کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس پروردگار کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ گویا ان آیات میں مشرکین مکہ پر تعریض ہے جو عبادت بھی بتوں کی کرتے تھے اور قربانی بھی بتوں کے نام پر اور ان کے لیے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا چاہیے۔ واضح رہے بعض علماء نے نحر سے مراد عید الاضحیٰ کے دن کی قربانی لی ہے۔ اور نماز سے مراد اسی دن کی نماز عید جو قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔

۳۔   بلا شبہ آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا [۳] ہے

[٣] کفار مکہ کے اخلاف :۔ شانئ۔ شَنأ۔ شناء سے مصدر شَنَاٰنُ اور اسم فاعل شانیئ ہے اور اس سے مراد ایسا دشمن ہے جو بد خواہ بھی ہو اور کینہ پرور بھی۔ یعنی عداوت بھی رکھتا ہو اور بغض بھی اور یہ دشمنی کا تیسرا اور انتہائی درجہ ہے قریش مکہ آپﷺ کے ایسے ہی دشمن تھے۔ بالخصوص ان کے سردار اور معتبر لوگ۔ جب آپﷺ کا دوسرا بیٹا (جسے طیب بھی کہتے ہیں اور طاہر بھی) بھی فوت ہو گیا تو یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے اور تالیاں بجانے لگے اور ایک دوسرے کو مبارک کے طور پر کہنے لگے۔ بتر محمد اور بتر کا لفظ کسی جانور کے دم کاٹنے سے مخصوص ہے اور معنوی لحاظ سے مقطوع یا لا ولد کو کہتے ہیں یا جس کا ذکر خیر کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ محمدﷺ کی کوئی نرینہ اولاد تو رہی نہیں۔ اس کا معاملہ بس اس کی اپنی زندگی تک ہی محدود ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَبْتَرْ آپﷺ نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہیں۔ ان دشمنوں میں سے اکثر تو جنگ بدر میں مارے گئے اور اگر ان کی نسل کہیں بچی بھی ہے تو ان کی اولاد میں کوئی بھی اپنے ایسے اسلاف کا نام لینا اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا گوارا تک نہیں کرتا۔ ان کا ذکر خیر کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ سب لوگ ان پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو جو شان و عظمت اور آپﷺ کے ذکر خیر کو جو بقا بخشی ہے وہ لازوال ہے۔ دنیا کے اربوں مسلمان ہر روز کئی مرتبہ آپﷺ پر اور آپﷺ کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔ اذانوں اور نمازوں میں آپﷺ کا نام لیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پھر میدان محشر میں آپﷺ کو جو درجات عطا کیے جائیں گے اور مقام محمود عطا کیا جائے گا ان کے ذکر سے قرآن اور حدیث کی کتب بھری پڑی ہیں۔

٭٭٭

۱۰۹۔ سورۃ الکافرون

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   آپ کہہ دیجیے: اے کافرو!

۲۔   جس کی تم عبادت [۱] کرتے ہو میں اس کی عبادت نہیں کر سکتا

[١] کفار مکہ کی ایک خطرناک چال’ حق و باطل میں سمجھوتہ :۔ اس سورت میں ان کافروں سے خطاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

﴿وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا﴾

(بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الکافرون) جب آپﷺ کی دعوت سے مکہ میں کچھ لوگ مسلمان ہو گئے تو کفار مکہ کو ابتداءً اسلام اور کفر میں سمجھوتے کی سوجھی اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئیں۔ کبھی لالچ کا راستہ اور کبھی دھمکی اور دھونس کا راستہ۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ کفار نے یہاں تک پیش کش کر دی کہ آپ چاہو تو ہم آپ کے قدموں میں مال و دولت کے انبار لگا دیتے ہیں۔ حکومت چاہو تو وہ بھی حاضر ہے۔ کسی مالدار اور حسین لڑکی سے شادی چاہتے ہو تو وہ بھی حاضر ہے مگر ہمارے معبودوں کی توہین نہ کیا کرو۔ منجملہ ایسی تدابیر کے ایک تدبیر یا تجویز یہ بھی تھی کہ کافروں نے آپ سے کہا کہ ایک سال ہم آپﷺ کے معبود کی عبادت کیا کریں گے بشرطیکہ اگلے سال تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو۔ کفار کی یہ تدبیر کسی روا داری کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ایک انتہائی خطرناک چال تھی۔ جس سے وہ دھوکا دے کر پیغمبر اسلام کو ان کے قدموں سے اکھیڑنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی معبود برحق بلکہ سب سے بڑا معبود تسلیم کرتے تھے۔ ان کا جرم تو صرف یہ تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لیے اس شرط سے نہ ان کے عقیدہ میں کچھ فرق آتا تھا اور نہ ہی طرز زندگی میں، جبکہ اللہ کے رسول کو وہ شرک کی نجاست میں مبتلا کرنا چاہتے تھے جسے مٹانے کے لیے ہی آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ باطل کبھی اکیلا چل نہیں سکتا۔ جب تک اس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ کی جائے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ وہ اکیلا چل نہیں سکتا جب تک اس میں سچ کی آمیزش نہ ہو اور یہی ان کافروں کا مذہب تھا۔ جبکہ حق باطل کی ادنیٰ سی آمیزش بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ حق میں باطل کی ادنیٰ سی آمیزش سے حق باطل بن جاتا ہے۔ جیسے ایک من دودھ میں اگر ایک پاؤ بھر پیشاب ملا دیا جائے تو سارے کا سارا نجس، پلید اور ناقابل استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی مضمون کو کسی شاعر نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔ ؎ باطل دوئی پرست ہے، حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول کافروں کی اسی سمجھوتے کی تجویز کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔

۳۔   اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے [۲] ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں

[٢] قرآن نے کافروں کی اس تجویز کا دو ٹوک فیصلہ کر دیا اور اپنے نبی سے فرما دیا کہ سب کافروں کے سامنے یہ اعلان کر دو کہ اس شرط پر ہمارے تمہارے درمیان کبھی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ میں کسی قیمت پر تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کر سکتا۔ جس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم بھی ایک اکیلے اللہ کی عبادت کرنا گوارا نہ کرو گے اور اپنے دوسرے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہو گے۔

۴۔   اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم (اور تمہارے آباء و اجداد) عبادت کرتے رہے

۵۔   اور نہ ہی تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت [۳] کرتا ہوں

[٣] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت نمبر ۴ اور ۵ میں آیت ٢ اور ٣ کے مضمون کا ہی تکرار ہے اور اگر اسے تکرار ہی تسلیم کیا جائے تو بھی یہ تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ تاہم یہ محض تکرار نہیں بلکہ ان میں دو قسم کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ پہلی دو آیات میں ’ما‘ کو موصولہ اور پچھلی دو آیات میں ’ما‘ کو مصدریہ قرار دیا جائے۔ اس صورت میں پچھلی آیات کا معنی یہ ہو گا کہ جو طریق عبادت میں نے اختیار کیا ہے۔ اسے تم قبول نہیں کر سکتے اور جو تم نے اختیار کر رکھا ہے اسے میں نہیں کر سکتا۔ آپﷺ کا طریق عبادت یہ تھا کہ آپ نماز میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے تھے اور اس طریق عبادت سے کافروں کو خاصی چڑ تھی اور اس سے منع بھی کرتے تھے جیسا کہ سورت علق میں ابو جہل اور عتبہ بن ابی معیط سے متعلق کئی واقعات درج کیے جا چکے ہیں۔ اور کافروں کا طریق عبادت یہ تھا کہ گاتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے، کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ آپ بھلا ان کا یہ طریق عبادت اختیار کر سکتے تھے۔؟ اور اگر بعد کی آیات میں بھی ’ما‘ کو موصولہ ہی سمجھا جائے تو بھی دو فرق واضح ہیں۔ ایک یہ کہ پہلی آیت میں لاَ اعْبُدُ آیا ہے اور بعد کی آیات میں لاَ اَنَا عَابٍدٌ اور ظاہر ہے کہ جو تاکید لاَ اَنَا عَابِدٌ (یعنی میں کسی قیمت پر عبادت کرنے والا نہیں) میں پائی جاتی ہے وہ لاَاَعْبُدُ میں نہیں پائی جاتی اور دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلی آیات میں ما تَعْبُدُوْنَ (یعنی جنہیں تم آج کل پوجتے ہو) ہے۔ اور بعد والی آیات میں ماعَبَدْتُمْ صیغہ ماضی میں ہے یعنی جنہیں تم پہلے پوجتے رہے یا تمہارے آباء و اجداد پوجا کرتے تھے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ مشرک اپنی حسب پسند اپنے معبودوں میں تبدیلی کر لیا کرتے تھے۔ جو چیز فائدہ مند نظر آئی یا جو خوبصورت سا پتھر نظر آیا اسے اٹھا کر معبود بنا لیا اور پہلے کو رخصت کیا۔

۶۔   تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے [۴] لیے میرا دین

[۴] شرک سے متعلق کسی قسم کی لچک اور روا داری کی کوئی گنجائش نہیں :۔ یہ ہے وہ دو ٹوک فیصلہ جو صرف مکہ کے کافروں کو نہیں، دنیا بھر کے کافروں کو بھی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ مشرکوں کو ان کے معبود مبارک رہیں۔ مگر مسلمان اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں کر سکتے۔ شرک کے معاملہ میں اسلام نے کسی قسم کی لچک اور روا داری برداشت نہیں کی۔ خواہ یہ مشرک کافر ہوں یا اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہوں۔ کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود لوگوں کی اکثریت مشرک ہی ہوتی ہے جیسا کہ سورت یوسف کی آیت نمبر ١٠۶ میں فرمایا : ﴿وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾

٭٭٭

۱۱۰۔ سورۃ النصر

 

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   جب اللہ کی مدد اور فتح [۱] آ پہنچی

[١] فتح مکہ۔ مکہ پر چڑھائی کا سبب اور کیفیت :۔ فتح سے مراد کسی عام معرکہ کی فتح نہیں بلکہ اس سے مراد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن قریش کا مرکز شہر مکہ ہے۔ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ آیا مسلمان مکہ کو فتح کر سکیں گے یا نہیں؟ اگر کر لیں تو اسلام سچا مذہب ہے ورنہ نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اسلام لانے کو بھی فتح مکہ سے مشروط اور فتح مکہ تک موخر کر رکھا تھا۔ گویا فتح مکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ اور خالصتاً اللہ کی مدد سے اور معجزانہ انداز سے واقع ہوئی تھی۔ جس میں مسلمانوں کو معمولی سے معرکہ کی بھی ضرورت پیش نہ آئی۔ مکہ پر چڑھائی کا فوری سبب قریش مکہ کی عہد شکنی تھی جو انہوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط کو پس پشت ڈال کر اور اپنے حلیف قبیلہ بنو بکر کی علی الاعلان مدد کر کے کی تھی۔ اور جب بنو خزاعہ کی فریاد پر رسول اللہﷺ نے قریش کے سامنے کچھ شرائط پیش کیں تو قریشی نوجوانوں نے انہیں ٹھکرا دیا تھا۔ اسی دوران آپﷺ نے انتہائی خفیہ طریق سے مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کر دی اور اپنے حلیف قبائل کو بھی خفیہ طور پر پیغام بھیج دیا تھا۔

ابو سفیان کی گرفتاری :۔ جب آپﷺ مدینہ سے روانہ ہوئے تو لشکر کی تعداد چار ہزار تھی۔ راستہ میں حلیف قبائل ملتے گئے اور مکہ پہنچنے تک دس ہزار کا جرار لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔ آپﷺ نے مکہ کے قریب مر الظہران میں پڑاؤ ڈالا تو اس لشکر کو میلوں میں پھیلا دیا اور حکم دیا کہ آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کیے جائیں۔ دشمن یہ منظر دیکھ کر اس قدر مرعوب ہو گیا کہ اس میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔ ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں سمیت حالات کا جائزہ لینے نکلا ہی تھی کہ گرفتار ہو گیا۔ سیدنا عباسؓ نے اسے اپنے گھوڑے کے پیچھے بٹھایا تاکہ بلا تاخیر اس کے لیے دربار نبوی سے امان کا پروانہ حاصل کر لیا جائے۔ سیدنا عمرؓ کو خبر ہوئی تو وہ بھی فوراً دربار نبوی کو روانہ ہوئے تاکہ ابو سفیان کو دربار نبوی میں پہنچنے سے پہلے اور امان ملنے سے پیشتر ہی قتل کر دیا جائے۔ اتفاق کی بات کہ سیدنا عباس پہلے پہنچ گئے اور ابو سفیان کی جان بچ گئی۔ آپﷺ نے اسے معاف کر دیا اور سیدنا عباس سے کہا کہ اسے اپنے خیمہ میں لے جائیں۔

آپ کا مسلمانوں کو کفار کے سامنے شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کا حکم :۔ دوسرے دن آپﷺ نے ابو سفیان کو پہاڑی کے ایک بلند مقام پر کھڑا کیا اور اسلامی لشکر، جو قبائل کے لحاظ سے مختلف فوجی دستوں میں بٹا ہوا تھا، کو حکم دیا کہ ابو سفیان کے سامنے پوری شان و شوکت کے ساتھ گزرتے جائیں۔ اس نظارہ نے صرف ابو سفیان پر ہی نہیں، تمام کفار کے دلوں پر اسلام کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ مقابلہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا اور اس طرح عرب کا یہ مرکزی شہر بلا مقابلہ اور بغیر کسی خون خرابہ کے فتح ہو گیا۔

معافی کا اعلان :۔ فتح کے بعد آپﷺ نے اپنے ان جانی دشمنوں کو بڑی فراخدلی کے ساتھ معاف کر دیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمان ہو گئے بلکہ اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ کافروں کے دلوں میں اس طرح رعب ڈال دینا اور مکہ کا اس طرح بلا مقابلہ فتح ہو جانا بلا شبہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔

۲۔   اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے [۲] ہیں

[٢] فتح مکہ اور مشرک قبائل کا جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا :۔ عرب قبائل تو پہلے ہی اس بات کے انتظار میں تھے کہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو یہ قبیلے دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ مکہ رمضان ٨ھ میں فتح ہوا تھا۔ ٩ھ میں اس قدر وفود اسلام لانے کے لیے مدینہ حاضر ہوئے کہ اس سال کا نام ہی عام الوفود پڑ گیا۔ ہر قبیلے کے چند معتبر لوگ مدینہ جاتے، اسلام کی تعلیم حاصل کرتے پھر واپس آ کر اپنے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگے۔ ٩ھ میں حج کے موقع پر اعلان برات کیا گیا جس کا تفصیلی ذکر سورۃ توبہ کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔ اس اعلان کی رو سے اب مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے یا تو وہ اسلام میں داخل ہو جائیں یا پھر جزیرہ عرب سے باہر نکل جائیں۔ چنانچہ مشرکین عرب نے بھی پہلی ہی بات قبول کی اور اسلام لے آئے۔ اس طرح ١٠ھ میں سر زمین عرب کفر و شرک سے پاک ہو گئی۔

۳۔   تو آپ اپنے پروردگار [۳] کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے۔ اور اس سے بخشش طلب کیجیے۔ یقیناً وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

[٣] آپ کی وفات کی طرف اشارہ :۔ یہ سورت سب سے آخری نازل ہونے والی مکمل سورت ہے۔ (مسلم، کتاب التفسیر) اور یہ ١٠ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نازل ہوئی۔ اس کے بعد چند متفرق آیات نازل ہوئیں جیسے ﴿الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (۳:۵) وغیرہ مگر مکمل کوئی سورت نازل نہیں ہوئی اور یہ آیت بھی اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس سورت سے آپﷺ نے سمجھ لیا کہ آپﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہو چکا ہے اور آپﷺ عنقریب اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ چنانچہ اسی سال حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ کہہ کر کہ :’’شاید آئندہ سال تم میں موجود نہ ہوں گا‘‘ اس بات کی طرف واضح اشارہ کر دیا تھا، اور سمجھدار صحابہ بھی اس سورت سے یہی کچھ سمجھتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ مجھے (اپنی مجلس مشاورت میں) بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ بلا لیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگے :’’آپ اسے ہمارے ساتھ بلا لیتے ہیں جبکہ ہمارے بیٹے اس جیسے ہیں‘‘ سیدنا عمر نے جواب دیا : ’’اس کی وجہ تم جانتے ہو‘‘ چنانچہ ایک دن سیدنا عمرؓ نے مجھے بھی بزرگ صحابہ کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دن آپ نے مجھے صرف اس لیے بلایا کہ انہیں کچھ دکھائیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ :’’اللہ تعالیٰ کے قول ﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ﴾ سے تم کیا سمجھتے ہو؟‘‘ بعض لوگوں نے کہا : ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں فتح حاصل ہو تو ہمیں چاہیے کہ اللہ کی تعریف کریں اور اس سے بخشش چاہیں‘‘ اور بعض خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ پھر مجھے پوچھا گیا : ’’کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’نہیں‘ کہنے لگے :’’پھر تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا : اس سورت میں آپﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ نے اپنے رسول کو آگاہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور مکہ فتح ہو گیا اور یہی تمہاری وفات کی علامت ہے۔ سو اب آپﷺ اللہ کی تعریف کیجیے، اس سے بخشش مانگیے وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ سیدنا عمرؓ کہنے لگے :’’میں بھی اس سے وہی کچھ سمجھا ہوں جو تم کہہ رہے ہو‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت میں آپﷺ کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے اتنے بڑے احسانات کے شکریہ کے طور پر اب پہلے سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید کیا کریں اور آپﷺ کی زندگی بھر کی کاوشوں میں جو کوئی لغزش رہ گئی ہو تو اس کے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سورت نصر نازل ہوئی تو اس کے بعد آپﷺ رکوع اور سجدہ میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ’سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘

(بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ النصر)

٭٭٭

۱۱۱۔ سورۃ المسد / لہب

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   ابو لہب [۱] کے دونوں ہاتھ تباہ ہوں اور وہ (خود بھی) ہلاک ہو

[١] ابو لہب کا تعارف :۔ ابو لہب کا اصل نام عبد العزیٰ تھا اور رسول اللہﷺ کا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا۔ نہایت ہی حسین و جمیل تھا۔ رنگ سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی کنیت ابو لہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہﷺ کی ولادت کی خبر اسے اس کی لونڈی ثویبہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثویبہ کو آزاد کر دیا۔

(بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب امھاتکم الٰتی ارضعنکم)

آپﷺ کے والد تو آپﷺ کی ولادت سے پیشتر ہی وفات پا چکے تھے۔ بڑا چچا ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو باپ کا قائم مقام سمجھ کر اس نے اپنی طبیعت کے خلاف اس خوشی کا اظہار کیا تھا یا اسے کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کے بخل ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کے دادا عبد المطلب فوت ہونے لگے تو انہوں نے آپ کی کفالت (اس وقت آپﷺ کی عمر آٹھ برس تھی) ابو لہب کے بجائے ابو طالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابو لہب کی نسبت بہت کمزور تھے۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد تین سال تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہایت خفیہ طور پر ہوتا رہا۔ پھر جب یہ حکم نازل ہوا۔ ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ اپنے قریبی کنبہ والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ تو آپﷺ نے اس حکم کی تعمیل میں بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کل ۴۵ آدمی جمع ہوئے۔

ابو لہب کی مخالفت :۔ آپﷺ نے ان کے سامنے لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت پیش کی تو ابو لہب جھٹ سے بول اٹھا : دیکھو! یہ سب حضرات تمہارے چچا یا چچازاد بھائی ہیں۔ نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا۔ اور میں سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ بس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے اور عرب کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑے تو ایسی صورت میں تم سے زیادہ اور کون شخص اپنے خاندان کے لیے شر اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ابو لہب کی یہ تلخ اور ترش باتیں سننے کے بعد آپﷺ نے خاموشی اختیار کر لی اور دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ابو طالب کی حمایت :۔ چند دن بعد آپﷺ نے دوبارہ اپنے قرابتداروں کو مدعو کر کے اپنی دعوت ذرا کھل کر پیش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے کھل کر آپﷺ کی حمایت کا اعلان کر دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عبد المطلب کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ابو طالب کی اس حمیت کے جواب میں ابو لہب کہنے لگا: ’’خدا کی قسم! یہ (یعنی دعوت توحید) برائی ہے۔ لہٰذا محمدﷺ کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم خود ہی پکڑ لو‘‘ اس کے جواب میں ابو طالب نے کہا: ’’اللہ کی قسم! جب تک جان میں جان ہے ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے‘‘ اس دوسری دعوت کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپﷺ کو یقین ہو گیا کہ معززین بنو ہاشم میں کم از کم ایک آدمی (یعنی ابو طالب) ایسا ہے جس کی حمایت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

کوہ صفا پر دشمنوں کا اعتراف :۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک تیسرا جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ایک دن آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور ایک فریادی کی طرح وا صباحاہ کی آواز لگائی اور قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا اور کہا اے بنی فہر، اے بنی عدی، اے بنی کعب وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سب قبائل کے قابل ذکر اشخاص آپﷺ کے پاس اکٹھے ہو گئے اور جو نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ آپﷺ ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے پوچھا : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار ایک لشکر جمع ہو رہا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا : ’’ہاں!‘‘ اس لیے کہ آپﷺ کے متعلق ہمارا ہمیشہ سچ ہی کا تجربہ رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اچھا تو سن لو کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں لہٰذا تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ ابولہب کی برہمی :۔ آپﷺ ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ ابو لہب یکدم بھڑک اٹھا اور کہنے لگا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا (سارا دن تم پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اگرچہ ابو لہب کی اس بد تمیزی کی وجہ سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپﷺ نے حسب ِ ارشاد باری اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کر دیا اور آپﷺ کی یہ پکار مکہ کے ایک ایک فرد تک پہنچ گئی اور ابو لہب کی بد خلقی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ابولہب کا ہی قرآن نے کیوں نام لیا؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف ابو لہب کا ہی قرآن میں کیوں نام لے کر ذکر کیا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر ابو لہب کا جرم واقعی اتنا شدید جرم تھا کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جا سکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو داد رسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ ابو لہب ہی وہ واحد بد بخت شخص ہے جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جب بنو ہاشم اور بنو مطلب کو معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تھا تو اس وقت بھی ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو آپﷺ پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا تھا اور اس قانون کے احترام کا حق ادا کیا۔ حد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے آپ کی حفاظت کے لیے زندگی بھر قریش مکہ کی مخالفت مول لی۔ حالانکہ آخری دم تک وہ ایمان نہیں لائے تھے۔

(بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ﴾)

اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرہ میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ حقیقی والد فوت ہو چکا ہو۔ اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپﷺ کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہئے تھا خواہ وہ ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ مگر وہ آپ کی حفاظت کی بجائے بغض و عناد میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپﷺ کے صف اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کوہ صفا پر جس بد خلقی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا اس پر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی سطح پر ابو لہب آپﷺ کے باپ کے مقام پر تھا اور باپ ہونے کے ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ خاموش رہتے۔ لہٰذا اس کی اس بد تمیزی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دے دیا۔ واضح رہے کہ ﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھبٍ﴾ سے یہ مراد نہیں کہ جسمانی لحاظ سے ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں بلکہ یہ بد دعا کی قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ صرف عربی میں نہیں۔ ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔

۲۔   نہ اس کا مال اس کے کسی کام آیا اور نہ وہ جو اس [۲] نے کمایا

[٢] ابو لہب کا جنگ بدر میں شامل نہ ہونے کا منصوبہ :۔ مال کی ہوس اور بخل مل کر ایک تیسری صفت پیدا کرتے ہیں اور وہ ہے بزدلی۔ جب جنگ بدر کے لیے بھرتی کا اعلان عام ہوا تو ابو لہب اس سے فرار کی راہیں سوچنے لگا۔ ایک شخص سے اس نے چار ہزار درہم قرضہ لینا تھا جس کے ملنے کی اسے کوئی توقع نہ تھی۔ کیونکہ وہ شخص مفلس تھا۔ ابو لہب نے اس سے سودابازی کی کہ اگر وہ اس کی جگہ جنگ بدر میں شریک ہو جائے تو وہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اس طرح ابو لہب نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ڈوبے ہوئے قرضہ کی وصولی بھی ہو گئی اور جنگ سے بچاؤ کا مقصد بھی حاصل ہو گیا۔ جنگ بدر میں قریشیوں کی شکست فاش کی خبر سن کر اسے اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار پڑ گیا۔

ذلت کی موت :۔ ساتویں دن یہ بیماری چیچک کی شکل اختیار کر گئی تو اسے اپنی ساری عمر کی کمائی برباد ہوتی نظر آنے لگی کیونکہ اب اسے اپنی موت کا یقین ہو چکا تھا۔ چھوت کی وجہ سے اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ بالآخر وہ نہایت بے کسی کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا کوئی بیٹا اس کے قریب نہ گیا۔ تین دن تک اس کی لاش بے گور و کفن گلتی سڑتی رہی۔ پھر جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو انہوں نے ایک حبشی کو کچھ معاوضہ دیا کہ وہ ایک گڑھا کھود کر اس میں لاش کو دھکیل دے اور اوپر سے مٹی ڈال دے۔ یا پتھر وغیرہ دور سے پھینک کر لاش کو چھپا دے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ما کَسَبَ سے مراد اس کی اولاد ہے جیسا کہ احادیث صریحہ سے ثابت ہے۔ اس طرح اللہ کا یہ قول پورا ہوا کہ نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد۔

۳۔   جلد ہی [۳] وہ بھڑکتی آگ میں داخل ہو گا

[٣] ابو لہب کنیت ہونے کی دنیا میں مناسبت یہ تھی کہ اس کا رنگ سیب کی طرح لال تھا اور آخرت میں مناسبت یہ ہو گی کہ شعلوں والی آگ میں پھینکا جائے گا۔

۴۔   اور اس کی بیوی جو ایندھن [۴] اٹھائے پھرتی ہے

[۴] ابو لہب کی بیوی کا تعارف :۔ ابو لہب کی بیوی کا نام ارویٰ اور کنیت ام جمیل تھی۔ ابو سفیان بن حرب بن امیہ کی بہن تھی۔ جو ابو جہل کی موت کے بعد رئیس قریش اور سپہ سالار افواج بنا تھا۔ رسول دشمنی میں یہ عورت بھی اپنے خاوند سے کسی صورت کم نہ تھی۔ جنگل سے خار دار جھاڑ جھنکار اٹھا لاتی اور رات کے اندھیرے میں آپﷺ کے گھر کے آگے ڈال دیتی تاکہ جب آپ صبح بیت اللہ کو جائیں تو آپﷺ کے پاؤں میں کانٹے چبھ جائیں۔ نیز آپ کے بال بچے بھی زخمی ہوں۔ خاصی بد زبان اور مفسدہ پرداز عورت تھی۔ جب سورۃ لہب نازل ہوئی تو یہ مٹھی بھر کنکریاں لے کر بیت اللہ کو چل کھڑی ہوئی۔ تاکہ آپﷺ کو ہجو کی صورت میں سورۃ لہب کا جواب دے اور کنکریاں مار کر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرے۔ اتفاق کی بات کہ اسے اللہ کے رسولﷺ نظر ہی نہ آئے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے کہنے لگی :’’تمہارا ساتھی کدھر ہے؟ سنا ہے وہ میری ہجو کرتا ہے۔‘‘ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ’’اس نے تو کوئی ہجو نہیں کی۔ (یعنی اگر ہجو کی ہے تو وہ اللہ نے کی ہے آپﷺ نے نہیں کی) یہ جواب سن کر وہ واپس چلی آئی۔

۵۔   اس کی گردن میں مضبوط [۵] بٹی ہوئی رسی ہو گی

[۵] ابو لہب کی بیوی کی موت :۔ جِیْد بمعنی لمبی اور خوبصورت گردن، ہرن کی طرح پتلی اور لمبی گردن۔ اس گردن میں وہ ایک سونے کا ہار پہنا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میں یہ ہار بیچ کر محمدﷺ کی مخالفت کے کاموں میں لگاؤں گی۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جس مونج کی چبھنے والی موٹی رسی سے وہ جھاڑ جھنکار باندھا کرتی وہی اس کی گردن میں اٹک گئی اور ایسی پھنسی کہ بالآخر اس کی موت کا سبب بن گئی۔

٭٭٭

۱۱۲۔ سورۃ الإخلاص

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   آپ کہہ دیجیے [۱] کہ: اللہ ایک [۲] ہے

[١] اللہ کے اکیلے اور وحدہ لاشریک ہونے پر کفار کا تعجب اور سوالات :۔ آیت کے انداز سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کا جواب دیا جا رہا ہے۔ آپﷺ اکیلے اللہ کی دعوت دے رہے تھے جبکہ دور نبوی کی ساری دنیا طرح طرح کے شرک میں مبتلا تھی۔ لہٰذا اللہ کی ذات کے متعلق آپ سے کئی بار سوال ہوا اور کئی قسم کے فرقوں کی طرف سے ہوا۔ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے اٹھایا تھا۔ جو ہر خوبصورت پتھر کو معبود بنا لیتے تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس سوال کی نوعیت درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔ سیدنا ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے آپﷺ سے کہا کہ اپنے رب کا ہم سے نسب بیان کرو۔ تو اللہ نے یہ سورت اتار دی کہ آپ انہیں کہہ دیں کہ ’’وہ اکیلا ہے۔ اللہ صمد ہے اور صمد وہ ہوتا ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا ہو اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہو۔ اس لیے کہ جو کسی سے پیدا ہو گا ضرور مرے گا اور جو مرے گا اس کا کوئی وارث بھی ہو گا۔ اور اللہ نہ مرے گا اور نہ اس کا کوئی وارث ہو گا اور نہ اس کا کوئی کفو ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ کفو کی معنی یہ ہے کہ نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ برابر ہے اور اس کی مثال کوئی چیز نہیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) مشرکوں کے بعد جس نے بھی آپﷺ سے اللہ کے بارے میں کوئی سوال کیا تو آپﷺ یہ سورت پڑھ کر سنا دیتے تھے۔

[٢] مختلف قوموں کے خداؤں کی تعداد :۔ اَحَدٌ بمعنی لاثانی، بے نظیر، یکتا، اس لحاظ سے اس لفظ کا اطلاق صرف ذات باری تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ گنتی میں ایک، دو، تین کے لیے واحد، اثنین، ثلٰثۃ آتا ہے۔ واحد کے بجائے احد نہیں بولا جاتا۔ البتہ دو موقعوں پر احد کا لفظ واحد کا مترادف ہو کر آتا ہے۔ (١) اسمائے اعداد کی ترکیب میں جیسے احد عشر (گیارہ) احدھما (دونوں میں سے کوئی ایک۔) احَدٌ مِّنْکُمْ (تم میں سے کوئی ایک) اَحَدُکُمْ (تمہارا کوئی ایک) یوم الاحد (اتوار) وغیرہ (٢) نفی کی صورت میں صرف ذوی العقول کے لیے آتا ہے جیسے لَیْسَ فِی الدَّارِ اَحَدٌ (گھر میں کوئی بھی نہیں ہے) جبکہ واحد کا لفظ عام ہے جو ماسوا اللہ کے لیے تو عام مستعمل ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صرف اس صورت میں کہ اللہ کی کوئی صفت بھی مذکور ہو جیسے ھُوَ اللّٰہ الْوَاحِدُ الْقَھَّار (١٣: ١۶) یعنی اللہ وہ ہے جو اکیلا ہے سب کو دبا کر رکھنے والا)۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ صرف ایک ہی ہے۔ دو نہیں۔ جیسا کا مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ نیکی کا خدا یزدان ہے اور بدی کا خدا اہرمن ہے۔ تین بھی نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں خدا ہیں اور تینوں مل کر بھی ایک ہی خدا بنتا ہے۔ یا ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ خدا، مادہ اور روح تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ وہ تینتیس کروڑ بھی نہیں جیسا کہ ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کی تعداد شمار کرتے ہیں بلکہ وہ ایک اور صرف ایک ہے۔

۲۔   اللہ بے نیاز [۳] ہے

[٣] صمد کا مفہوم اور صمد اور غنی میں فرق :۔ صَمَدٌ میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) کسی چیز کا ٹھوس اور مضبوط ہونا (٢) لوگ ہر طرف سے اس کی طرف قصد کریں۔ اور الصَّمَدُ ایسی ذات ہے جو خود تو مستقل اور قائم بالذات ہو۔ وہ خود کسی کی محتاج نہ ہو مگر دوسری سب مخلوق اس کی محتاج ہو۔ بے نیاز کے لیے عربی زبان میں غنی کا لفظ بھی آتا ہے اور اس کی ضد فقیر ہے۔ اور غنی وہ ہے جسے کسی دوسرے کی احتیاج نہ ہو مگر یہ لفظ صرف مال و دولت کے معاملہ میں بے نیاز ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غنی دولت مند کو کہتے ہیں۔ یعنی کم از کم اتنا مالدار ضرور ہو کہ اسے معاش کے سلسلے میں دوسروں کی احتیاج نہ ہو جبکہ صمد کا لفظ جملہ پہلوؤں میں بے نیاز ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جملہ پہلوؤں میں اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ کھانے پینے سے بھی بے نیاز ہے اور سونے اور آرام کرنے سے بھی۔ وہ اپنی زندگی اور بقا کے لیے بھی کسی کا محتاج نہیں ہے۔ مگر باقی سب مخلوق ایک ایک چیز رزق، صحت، زندگی، شفاء، اولاد حتیٰ کہ اپنی بقا تک کے لیے بھی اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی بھلائی کی بات ایسی نہیں جس کے لیے مخلوق اپنے خالق کی محتاج نہ ہو۔

۳۔   نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی [۴] کی اولاد ہے

[۴] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ انسان نے جب بھی اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوچا ہے تو اسے انسانی سطح پر لا کر ہی سوچا ہے اور چونکہ انسان اولاد کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس لیے انسان نے اللہ کی بھی اولاد قرار دے دی۔ حالانکہ جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا مرنا اور فنا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور جو چیز مرنے والی یا فنا ہونے والی ہو وہ کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔ نیز انسان کو اولاد کی خواہش اور ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قائم مقام بنے اور اس کی میراث سنبھالے جبکہ اللہ کو ایسی باتوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ حی لایموت ہے، اسی خیال سے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو اور یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور یونانی، مصری اور ہندی تہذیبوں نے کروڑوں کی تعداد میں دیوی اور دیوتا بنا ڈالے۔ کوئی دیوی ایسی نہ تھی جس کا انہوں نے کوئی دیوتا شوہر نہ تجویز کیا ہو۔ اور کوئی دیوتا ایسا نہ تھا جس کے لیے انہوں نے کوئی دیوی بیوی کے طور پر تجویز نہ کی ہو۔ پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ چلا کر کروڑوں خدا بنا ڈالے۔ یہ بھی غنیمت ہی سمجھئے کہ کسی قوم نے کسی کو اللہ کا باپ نہیں بنا ڈالا۔ ورنہ ایسے مشرکوں سے کیا بعید تھا کہ وہ ایسی بکواس بھی کر ڈالتے۔ اس آیت سے ایسے توہمات کی تردید ہو جاتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا شدید جرم ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اس جرم پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔

اللہ کی اولاد قرار دینا اسے گالی دینے کے مترادف ہے :۔ سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بنی آدم نے مجھے جھٹلایا اور یہ اسے مناسب نہ تھا اور مجھے گالی دی اور یہ اسے مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانے کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ ہرگز پیدا نہ کروں گا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور میرے جوڑ کا تو کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

۴۔   اور اس کا ہمسر کوئی [۵] نہیں۔

[۵] کفو کا لغوی مفہوم :۔ کُفُوًا : کفاء کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اس جیسے دوسرے ٹکڑے سے ملا کر خیمہ کی پچھلی طرف ڈال دیا جاتا ہے اور کفو اور کُفٰی بمعنی ہم پایہ، ہم پلہ، مرتبہ و منزلت میں ایک دوسرے کے برابر ہونا۔ اس کے مقابلہ اور جوڑ یا ٹکر کا ہونا۔ کفو کا لفظ عموماً میدان جنگ میں دعوت مبارزت کے وقت یا نکاح اور رشتہ کے وقت بولا جاتا ہے۔ فلان کفو لفلان یعنی فلاں شخص فلاں کے جوڑ کا یا مد مقابل یا ہمسر ہے۔ رشتہ کے وقت بھی فریقین یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے فریق کی معاشی، معاشرتی اور تمدنی حالت اس جیسی ہے یا نہیں؟ بس یہی کفو کا مفہوم ہے۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی ذات کے متعلق طرح طرح کے سوال کرتے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ اس کائنات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کے جوڑ کی ہو اور تمہیں سمجھایا جا سکے کہ اللہ فلاں چیز کی مانند ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾

سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے :۔ واضح رہے کہ چونکہ اس سورت میں توحید کے جملہ پہلوؤں پر مکمل روشنی ڈال دی گئی ہے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے اس سورت کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے اور یہ چیز بیشمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں بنیادی طور پر تین عقائد پر ہی زور دیا گیا ہے۔ اور وہ ہیں توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں توحید کا چونکہ جامع بیان ہے اس لیے اسے قرآن کی تہائی کے برابر قرار دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا ابو الدرداء سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے پوچھا : کیا تم ہر رات کو ایک تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ نے عرض کیا : کوئی شخص تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ ’’تہائی قرآن کے برابر ہے‘‘

(مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔)

٢۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم لوگ جمع ہو جاؤ تاکہ میں تمہارے سامنے قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں ہم جمع ہوئے تو نبیﷺ نکلے۔ اور سورت ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ﴾ پڑھی۔ پھر اندر چلے گئے۔ ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شاید آسمان سے کوئی خبر آئی ہے جس کے لیے آپ اندر چلے گئے۔ پھر آپ باہر نکلے تو فرمایا : ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے سامنے تہائی قرآن پڑھوں گا۔ سو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘ (حوالہ ایضاً)

٣۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار مقرر کر کے بھیجا۔ وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قراءت کو ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ﴾ پر ختم کرتے تھے۔ جب فوج لوٹ کر آئی تو لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا تو آپﷺ نے فرمایا : کہ اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ رحمٰن کی صفت ہے اور میں اسے دوست رکھتا ہوں کہ اسے پڑھا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’کہ اسے کہہ دو کہ اللہ تمہیں دوست رکھتا ہے‘‘ (حوالہ ایضاً)

٭٭٭

۱۱۳۔ سورۃ الفلق

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   آپ کہیے کہ: میں صبح کے پروردگار سے [۱] پناہ مانگتا [۲] ہوں

[١] فلق کا لغوی مفہوم :۔ فَلَقٌ کے معنی پھٹنا اور الگ ہونا بھی ہے۔ اور پھاڑنا بھی۔ ﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ﴾ (۹۲:۶) بمعنی صبح کو پھاڑنے اور ظلمت سے الگ کرنے والا۔ اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جو چیز بھی ظہور میں آتی ہے۔ وہ تاریکی اور پردہ غیب سے ہی ظہور میں آتی ہے۔ جیسے اس سے پہلی آیت میں فرمایا : ﴿فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی﴾ (۹۵:۶) یعنی وہ ذات جو زمین کو پھاڑ کر اس سے دانہ اور گٹھلی کی کونپل نکالنے والا۔ اسی طرح انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزے کو باہر نکالنے والا۔ یا رحم مادر سے بچہ کو باہر لانے والا۔ زمین یا پتھر کو پھاڑ کر اس سے چشمے جاری کرنے والا۔ حتیٰ کہ اللہ نے ایک ملے جلے مادے کو ہی پھاڑ کر اس سے آسمان و زمین کو الگ الگ کیا اور انہیں وجود میں لایا تھا۔ اس لحاظ سے فالق اور خالِقٌ تقریباً ہم معنی ہیں۔

[٢] اللہ کے علاوہ دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے :۔ پناہ اس وقت مانگی جاتی ہے جب انسان کو کوئی ایسا خطرہ درپیش ہو جس کی مدافعت کرنے کی وہ اپنے آپ میں ہمت نہ پاتا ہو۔ اور اس ہستی سے پناہ مانگی جاتی ہے جو نہ صرف یہ کہ پناہ مانگنے والے سے زیادہ طاقتور ہو بلکہ اس چیز سے بھی طاقتور ہو جس سے حملہ یا تکلیف کا خطرہ درپیش ہے۔ اور سب سے زیادہ طاقتور اور ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب پر حکمران اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا پناہ صرف اسی سے مانگنی چاہیے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ ایسی صورت میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے جیسا کہ دور جاہلیت میں لوگ جب کسی جنگل میں مقیم ہوتے تو اپنے مزعومہ عقائد کے مطابق وہاں کے جنوں کے بادشاہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ہاں اگر ظاہری اسباب کی بنا پر کسی سے پناہ مانگی جائے تو یہ جائز ہے۔ تاہم بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہی کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس دونوں میں مختلف اشیاء سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکر ہے۔ اور دونوں کا مضمون باہم ملتا جلتا ہے۔ لہٰذا ان دونوں سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے یعنی وہ سورتیں جنہیں پڑھ کر اپنے پروردگار سے پناہ مانگی جاتی ہے اور رسول اللہﷺ ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو جسم کے ہر اس حصے پر پھیرتے تھے جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے تھے۔

۲۔   ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی [۳] ہے

[٣] جو کچھ کائنات میں موجود ہے وہ سب کچھ اللہ ہی نے پیدا کیا خواہ وہ چیزیں جاندار ہوں یا بے جان۔ اور ہر چیز خواہ کتنی ہی فائدے مند ہو اس کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس آیت میں ہر چیز کے برے یا نقصان دہ پہلو سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے خواہ وہ شر وجود میں آ چکا ہو یا اس سے کسی شر کے پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ اس آیت میں تو ہر چیز کے شر سے پناہ مانگنے کا عمومیت کے ساتھ ذکر ہے۔ البتہ اگلی تین آیات میں ان چند مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جن کا شر بہت واضح ہے۔

۳۔   اور اندھیری [۴] رات کے شر سے جب وہ چھا جائے

[۴] جرائم زیادہ تر رات کی تاریکی میں کیے جاتے ہیں :۔ غَاسِقٍ۔ غسق بمعنی شفق غائب ہو جانے کے بعد کا اندھیرا۔ اس لحاظ سے غاسق اس ابتدائی رات کو کہتے ہیں کہ جب وہ تاریک ہونے لگتی ہے اور وقب کسی چٹان وغیرہ میں گڑھے کو کہتے ہیں اور وَقَبَ بمعنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب ہو جانا اور وَقَبَ الظَّلاَمُ بمعنی اتنی تاریکی چھانا جس کے اندر اشیاء غائب ہو جائیں اور تاریک رات کے شر سے پناہ مانگنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر گناہ کے کام رات کی تاریکیوں میں کیے جاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، زنا وغیرہ کے مجرم عموماً رات کی تاریکیوں میں ہی ایسے کام کرتے ہیں۔ اور عرب قبائل میں تو دستور ہی یہ تھا کہ جب کسی قبیلے پر لوٹ مار کرنا ہوتی تو رات میں سارا سفر ختم کر لیتے اور صبح کی روشنی نمودار ہوتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے تھے۔

۴۔   اور گرہوں میں [۵] پھونک مارنے والیوں کے شر سے

[۵] آپ پر جادو :۔ گرہ میں پھونکیں مارنے کا کام عموماً جادوگر کیا کرتے ہیں اور جو لوگ بھی موم کے پتلے بنا کر اس میں سوئیاں چبھوتے ہیں اور کسی کے بال حاصل کر کے ان میں گرہیں لگاتے اور پھونکیں مارتے جاتے ہیں سب جادوگروں کے حکم میں داخل ہیں۔ اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو جادوگر نہیں عامل کہا جاتا ہے۔ اور جادو کرنا صریحاً کفر کا کام ہے۔ جیسے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٢ میں یہ صراحت موجود ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جادو چونکہ کفر کا کام ہے۔ اس لیے جادو کا اثر کسی ایماندار یا مومن پر نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ رسول اللہﷺ پر بھی جادو کیا گیا تھا اور اس جادو کا آپﷺ کی طبیعت پر اثر بھی ہو گیا تھا۔ اور یہ بات اتنی احادیث صحیحہ میں مذکور ہے جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں لہٰذا یہ حضرات اپنے اس نظریہ کے مطابق ایسی تمام احادیث کا انکار کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم پہلے یہاں بخاری سے ایک حدیث درج کرتے ہیں پھر ان کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپﷺ صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو آپ پر جادو کیا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ آپﷺ کو معلوم ہوتا کہ آپﷺ ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کر نہیں رہے ہوتے تھے۔ آخر آپﷺ نے ایک روز دعا کی (کہ اللہ اس جادو کا اثر زائل کر دے) پھر فرمانے لگے : عائشہ رضی اللہ عنہا! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ نے مجھے وہ تدبیر بتا دی جس سے مجھے اس تکلیف سے شفا ہو جائے۔ ہوا یہ کہ (خواب میں) دو آدمی میرے پاس آئے۔ ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پائنتی کی طرف۔ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا :’’اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا ’’اس پر جادو کیا گیا ہے‘‘ پہلے نے پوچھا :’’کس نے جادو کیا ہے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا :’’لبید بن اعصم (یہودی) نے‘‘ پہلے نے پوچھا : ’’کس چیز میں جادو کیا؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ ’’کنگھی اور آپ کے بالوں اور نر کھجور کے خوشے کے پوست میں‘‘ پہلے نے پوچھا : ’’یہ کہاں رکھا ہے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا :’’ذروان کے کنوئیں میں‘‘ غرض آپﷺ اس کنوئیں پر تشریف لے گئے جب وہاں سے پلٹے تو سیدہ عائشہؓ سے فرمایا : ’’اس کنوئیں کے درخت ایسے ڈراؤنے ہو گئے تھے جیسے ناگوں کے پھن ہوں‘‘ سیدہ عائشہؓ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہﷺ! آپ نے اس کو (یعنی جادو کے سامان کو) نکالا کیوں نہیں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا : ’’مجھے اللہ نے اچھا کر دیا۔ اب میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ لوگوں میں ایک جھگڑا کھڑا کر دوں‘‘ پھر وہ کنواں مٹی ڈال کر بھر دیا گیا۔

(بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ)

اور بخاری کی دوسری روایت جو کتاب الادب میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ اکیلے نہیں بلکہ چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے تھے اور آپﷺ نے وہ جادو کی اشیاء کنوئیں سے نکلوائی تھیں نیز یہ کہ اس کنوئیں کا پانی جادو کے اثر سے مہندی کے رنگ جیسا سرخ ہو گیا تھا۔

(بخاری۔ کتاب الادب، باب ان اللہ یامر بالعدل والا حسان)

اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (١) لبید بن اعصم ایک ماہر جادو گر تھا۔ ٢۔ لبید کی دو لڑکیاں بھی جادوگری کے فن میں ماہر تھیں۔ ان لڑکیوں نے ہی کسی طریقہ سے آپﷺ کے سر کے بال حاصل کر کے ان میں گرہیں لگائی تھیں۔ ٣۔ ذروان کنوئیں سے جو اشیاء برآمد کی گئیں۔ ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں۔ اور ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ جبریل نے آ کر بتایا کہ آپﷺ معوذتین پڑھیں۔ چنانچہ آپﷺ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں کیونکہ ان دونوں سورتوں کی گیارہ ہی آیات ہیں۔ اور ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہو گئے جیسے کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔ ۴۔ لبید بن اعصم کو پوچھا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا مگر آپﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ان احادیث پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا یعنی اگر کوئی کرے بھی تو اس کا اثر نہیں ہوتا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب ہزارہا لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں تو اس دہشت کا اثر موسیٰؑ کے دل پر ہو گیا تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلیٰ﴾ موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے (بذریعہ وحی) کہا : موسیٰ ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔

چند اعتراضات اور ان کے جواب :۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی پر جادو کا اثر تسلیم کر لیا جائے تو شریعت ساری کی ساری ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے۔ کیا معلوم کہ نبی کا فلاں کام وحی کے تحت ہوا تھا یا جادو کے زیر اثر؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ۷ ھ میں (جنگ خیبر اور صلح حدیبیہ کے بعد) پیش آیا۔ جبکہ یہودی ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ پہلے خیبر کے یہودی ایک سال جادو کرتے رہے جس کا خاک اثر نہ ہوا۔ پھر وہ مدینہ میں لبید بن اعصم کے پاس آئے جو سب سے بڑا جادوگر تھا اور اس کی بیٹیاں اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں۔ انہوں نے بڑا سخت قسم کا جادو کیا۔ اس کا بھی چھ ماہ تک آپﷺ پر کچھ اثر نہ ہوا۔ بعد میں اس کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ تاہم اس کا اثر محض آپ کے ذاتی افعال تک محدود تھا۔ یعنی آپ یہ سوچتے کہ میں فلاں کام کر چکا ہوں جبکہ کیا نہیں ہوتا تھا۔ یہ ذہنی کوفت آپ کو چالیس دن تک رہی۔ بعد میں اللہ نے آپﷺ کو حقیقت حال سے آگاہ کر دیا اور آپﷺ شفا یاب ہو گئے۔ اب دیکھیے یہ بات واضح ہے کہ اس وقت تک قرآن نصف سے زیادہ نازل ہو چکا تھا۔ اہل عرب اس وقت دو گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک مسلمان اور ان کے حلیف، دوسرے مسلمانوں کے مخالفین، اگر اس دوران آپﷺ پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا، یعنی کبھی آپﷺ نماز ہی نہ پڑھاتے۔ یا ایک کے بجائے دو بار پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کر کے یا غلط سلط پڑھ دیتے یا کوئی اور کام منزل من اللہ شریعت کے خلاف آپﷺ سے سرزد ہو جاتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپﷺ کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ کفار کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کو یا تو جادو گر کہتے تھے اور یا جادو زدہ (مسحور) اب اگر ہم خود ہی آپﷺ پر جادو اور اس کی اثر پذیری تسلیم کر لیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض اس لیے غلط ہے کہ کفار کا الزام یہ ہوتا تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعویٰ کا آغاز ہی جادو کے اثر کے تحت کیا ہے اور جو کچھ یہ قیامت، آخرت، حشر و نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے۔ یہ سب کچھ جادو کا اثر یا پاگل پن کی باتیں ہیں۔ گویا وہ نبوت اور شریعت کی تمام تر عمارت کی بنیاد جادو قرار دیتے تھے لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ واقعہ آپﷺ کی نبوت کے بیس سال بعد پیش آتا ہے جبکہ آدھا عرب آپﷺ کی نبوت اور احکام شریعت کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتا تھا۔ پھر یہ واقعہ احکام شریعت پر چنداں اثر انداز بھی نہیں ہوا البتہ اس واقعہ سے اس کے برعکس یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔ کہ آپ ہرگز جادوگر نہ تھے۔ کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔

۵۔   اور حاسد کے شر سے جب [۶] وہ حسد کرے۔

[۶] حَسَد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت، فضیلت، عز و شرف عطا کیا ہو تو اس پر کوئی دوسرا شخص اس سے جلے اور یہ چاہے کہ اس سے یہ نعمت چھن کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم اس سے ضرور چھن جائے۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس جیسی نعمت مجھے بھی اللہ عطا کر دے تو یہ حسد نہیں بلکہ رشک ہے جسے عربی زبان میں (غِبطة) کہتے ہیں اور یہ جائز ہے۔ حاسد سے پناہ اس صورت میں مانگی گئی ہے جب وہ حسد کرے اور حسد کی بنا پر کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس سے پہلے وہ محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ وہ اپنے طور پر اندر ہی اندر جلتا ہے تو جلتا رہے۔ اسے اپنے اس عمل کی یہی سزا کافی ہے۔

٭٭٭

۱۱۴۔ سورۃ الناس

ببِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

۱۔   آپ کہیے کہ: میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں

۲۔   جو لوگوں کا بادشاہ ہے

۳۔   جو لوگوں کا الٰہ [۱] ہے

[١] شیطان کے شر سے پناہ دینے والے کی صفات :۔ اس سورت کی ابتدائی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات بیان کر کے اس سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ وہ تمام لوگوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ اسے یہ خوب معلوم ہے کہ فلاں شخص کے فلاں شر سے فلاں انسان کو کیا تکلیف پہنچ سکتی ہے؟ دوسرے یہ کہ تمام انسانوں کا بادشاہ بھی ہے۔ یعنی وہ انسانوں پر پورا اقتدار اور اختیار بھی رکھتا ہے اور ظاہری اسباب پر بھی اس کا پورا کنٹرول ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ الٰہ بھی ہے۔ اور الٰہ کے مفہوم میں یہ بات از خود شامل ہے کہ وہ ہر ایک کی فریاد سنتا اور اس کی داد رسی بھی کر سکتا ہے اور تمام باطنی اسباب پر بھی اس کا کنٹرول ہے۔ اور حقیقت میں ایسی ہی ہستی اس بات کی سزاوار ہو سکتی ہے کہ لوگ اس سے دوسروں کے شر سے پناہ طلب کریں۔ وہ پناہ دے بھی سکتا ہے اور دوسروں کے شر سے محفوظ بھی رکھ سکتا ہے۔

۴۔   اس وسوسہ [۲] ڈالنے والے کے شر سے جو (وسوسہ ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے

[٢] خناس کا لغوی مفہوم :۔ وَسْوَاس طبی نقطہ نگاہ سے یہ ایک مرض ہے جسے وہم بھی کہتے ہیں۔ یہ مرض غلبہ سودا کی وجہ سے ذہن کو ماؤف کر دیتا ہے اور انسان ایسی فضول باتیں کرنے لگتا ہے جو پہلے اس کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ دل میں آنے والی برائی اور بے نفع بات اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس کا معنی شیطان کا کسی برے کام کی طرف راغب کرنا اور برے خیال دل میں ڈالتے رہنا اور اس کی نسبت صرف شیطان کی طرف ہوتی ہے۔ جس کی ایک صفت خَنَّاس ہے اور خَنَّاس شیطان ہی کا صفاتی نام ہے۔ خَنَّاس بمعنی ظاہر ہو کر چھپ جانے والا یا سامنے آ کر پھر پیچھے ہٹ جانے والا۔ شیطان کا یہ عمل صرف ایک بار ہی نہیں ہوتا بلکہ بار بار ہوتا ہے۔ وَسوَس کے لفظ میں تکرار لفظی ہے جو تکرار معنوی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیطان ایک بار وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے۔ پھر دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے پھر چھپ جاتا ہے تاآنکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

۵۔   جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے

۶۔   خواہ وہ جنوں [۳] سے ہو یا انسانوں سے

[٣] شیطان کا انسان نفس بھی ہو سکتا ہے جو وسوسے ڈالتا ہے :۔ اَلجِنَّۃُ: انسان کے علاوہ دوسری مکلف مخلوق جن ّ ہے۔ جنوں میں سے کچھ نیک اور صالح بھی ہوتے ہیں اور کچھ خبیث، موذی اور بد کردار بھی۔ اس دوسری قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ پھر شیطان کے لفظ کا اطلاق ہر موذی چیز، سرکش اور نافرمان پر بھی ہونے لگا خواہ انسان ہو یا جن یا کوئی جانور۔ مثلاً سانپ کو اس کی ایذا دہی کی وجہ سے شیطان اور جن ّاور جانّ (٢۷: ١٠) کہتے ہیں۔ پھر یہ شیطان یا خناس صرف جن اور انسان ہی نہیں ہوتے بلکہ انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ جیسے فرمایا : ﴿وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ﴾ (۵٠: ١۶) چنانچہ آپﷺ ایک دفعہ مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تھے کہ رات کو آپ کی زوجہ محترمہ صفیہ بنت حیی آپﷺ کے پاس ملنے کے لیے آئیں۔ آپﷺ انہیں الوداع کرنے کے لیے ساتھ گئے۔ رستہ میں دو انصاری آدمی ملے۔ آپﷺ نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ’سبحان اللہ‘ (یعنی آپﷺ پر کون شک کر سکتا ہے؟) آپﷺ نے فرمایا : ”انَّ الشَّیْطَانَ یِجْرِیْ مِنْ ابْنِ اٰدَمَ مَجْرَی الدَّمِ“

(بخاری، کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ تکون عند الحاکم۔۔)

یعنی شیطان ہر انسان میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے بھی انسان کے اپنے نفس کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔ نیز آپﷺ کے خطبہ مسنونہ کے یہ مشہور و معروف الفاظ ہیں۔ ’وَنَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أنْفُسِنَا‘ یعنی ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ معوذات سے دم جھاڑ کرنا مسنون ہے :۔ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو معوذتین کہتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ سورۃ اخلاص کو بھی ملا لیا جائے تو انہیں معوذات کہتے ہیں۔ اور آپ کا معمول تھا کہ آپﷺ اکثر یہ سورتیں پڑھ کر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو چہرہ اور جسم پر پھیرا کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی مرض الموت میں معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ پھر جب آپﷺ کی بیماری میں شدت ہوئی تو میں معوذات پڑھ کر آپﷺ پر پھونکتی اور اپنے ہاتھ کے بجائے برکت کی خاطر آپ ہی کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھراتی۔ معمر نے کہا : میں نے زہری سے پوچھا (یہ دونوں اس حدیث کی سند کے راوی ہیں) کہ کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا : دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیرتے

(بخاری۔ کتاب الطب و المرضیٰ۔ باب الرقی بالقرآن والمعوذات)

تعویذ لکھ کر پلانا یا لٹکانا سب نا جائز اور بدعت ہے :۔ واضح رہے کہ دم جھاڑ کے سلسلے میں مسنون طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی کوئی آیت یا آیات یا مسنون دعائیں پڑھ کر مریض پر دم کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ جتنے طریقے آج کل رائج ہیں۔ مثلاً کچھ عبارت لکھ کر یا خانے بنا کر اس میں ہندسے لکھ کر اس کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکانا۔ یا گھول کر پانی پلانا یا بازو یا ران پر باندھنا سب نا جائز ہیں۔ بلکہ اگر قرآنی آیات یا مسنون دعائیں بھی لکھی جائیں جن میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو تب بھی یہ خلاف سنت، بدعت اور نا جائز ہیں۔ اور ہم انہیں بدعت اور نا جائز اس لیے کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہﷺ اس طرح تعویذ لکھنے لکھوانے کو اچھا سمجھتے تو اس دور میں بھی لکھوا سکتے تھے اور اس میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ لہٰذا ایسے سب طریقے نا جائز اور خلاف سنت ہیں اور بدعت کی تعریف میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چوتھی جلد تمام ہوئی اور قرآن مجید کی یہ تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ مکمل ہوئی۔

٭٭٭

ماخذ:

https://aislam.org/book.php?bid=2010

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل