FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ترجمہ و تفسیر قرآن

 

حصہ ۲: آل عمران، النساء

 

                ترجمہ: حافظ نذر احمد

 

 

 

 

اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔

 

 

 

۳۔ سورۃ آل عمران

 

                تعارف

 

عمرانؔ حضرت مریمؓ کے والد کا نام ہے، اور آل عمران کا مطلب ہے عمران کا خاندان اس سورت کی آیات ۳۳ تا ۳۷ میں اس خاندان کا ذکر آیا ہے، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ آل عمران ہے۔

اس سورت کے بیشتر حصے اس دور میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تھے، مگر یہاں بھی کفار کے ہاتھوں انہیں بہت سی مشکلات درپیش تھیں، سب سے پہلے غزوۂ بدر پیش آیا جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے اگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا اور غزوۂ احد پیش آیا جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے اور ان سے متعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔

مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، سورۂ بقرہ میں ان کے عقائد و اعمال کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے اور ضمناً عیسائیوں کا بھی تذکرہ آیا تھا، سورۂ آل عمران میں اصل روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے اور ضمناً یہودیوں کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ عرب کے علاقے نجران میں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے، ان کا ایک وفد آنحضرتﷺ کے پاس آیا تھا، سورہ آل عمران کا ابتدائی تقریباً آدھا حصہ انہی کے دلائل کے جواب اور حضرت مسیح علیہ السلام کی صحیح حیثیت میں صرف ہوا ہے، نیز اس سورت میں زکوٰۃ سود اور جہاد سے متعلق احکام بھی عطا فرمائے گئے ہیں اور سورت کے آخر میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں پر انسان کو غور کر کے اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان لانا چاہئے اور ہر حاجت کے لئے اسی کو پکارنا چاہئے۔

(توضیح القرآن)

 

 

 

مدنیہ

آیات:۲۰۰       رکوعات:۲۰

 

 

اللہ کے نام سے جو بہت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

الم!(۱)اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہمیشہ زندہ ہے (سب کا)سنبھالنے والا ہے (۲)اس  نے آپ پر کتاب اتاری حق کے ساتھ جو اس سے پہلی (کتابوں کی) تصدیق کرتی ہے، اور اس نے توریت اور انجیل اتاری(۳) اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے، اور اس نے فرقان (حق و باطل سے جدا کرنے والا قرآن)اتارا بیشک جنہوں نے اللہ کی آیتوں سے انکار کیا، ان کے لئے سخت عذاب ہے، اور اللہ زبردست ہے، بدلہ لینے والا(۴)بیشک اللہ پر چھپی ہوئی نہیں کوئی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں (۵)

تشریح:یہاں قرآن کریم نے لفظ فرقان استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق واضح کرنے والی ہو، قرآن کریم کا ایک نام فرقان بھی ہے، اس لئے کہ وہ حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کتاب ہے،  چنانچہ بعض مفسرین نہ یہاں فرقان سے قرآن ہی مراد لیا ہے، دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد معجزات ہیں جو انبیاء کرامؑ کے ہاتھ پر ظاہر کئے گئے اور جنہوں نے ان کی نبوت کا ثبوت فراہم کیا، نیز اس لفظ سے وہ تمام دلائل بھی مراد ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالی کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

وہی ہے جو تمہاری صورت  (نقشہ)بناتا ہے  (ماں کے )رحم میں جیسے وہ چاہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زبردست ہے حکمت والا ہے (۶)

تشریح:اگر انسان اپنی پیدائش کے مختلف مراحل پر غور کرے کہ وہ ماں کے پیٹ میں کس طرح پرورش پاتا ہے اور کس طرح اس کی صورت دوسرے اربوں انسانوں سے بالکل الگ بنتی ہے کہ کبھی دو آدمی سوفیصد ایک جیسے نہیں ہوتے تواسے یہ تسلیم کرنے میں دیر نہ لگے کہ یہ سب کچھ خدائے واحد کی قدرت اور حکمت کے تحت ہو رہا ہے، اس آیت میں اس حقیقت کو بیان کر کے اللہ تعالی کے وجود اس کی وحدانیت اور حکمت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے، اس کے ساتھ اس سے ایک اور پہلو کی وضاحت بھی کی گئی ہے، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کے پاس آیا تھا اور اس نے اپنے عقائد کے بارے میں آپ سے گفتگو کی تھی، سورہ آل عمران کی کئی آیات اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، اس وفد نے حضرت عیسی علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے پر یہ دلیل بھی دی تھی کہ وہ بغیر باپ کہ پیدا ہوئے تھے، یہ آیت اس دلیل کی تردید بھی کر رہی ہے، اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص کی تخلیق اور صورت گری اللہ تعالی ہی فرماتا ہے، اگرچہ اس نے معمول کا طریقہ یہ بنایا ہے کہ ہر بچہ کسی باپ کے ذریعے پیدا ہوتا ہے،  لیکن وہ اس طریقے کا نہ پابند ہے نہ محتاج، لہذا وہ جب چاہے جس کو چاہے بغیر باپ کے پیدا کرسکتا ہے اور اس سے کسی کا خدا یا خدا کا بیٹا ہونا لازم نہیں آتا۔

(توضیح القرآن)

 

وہی توہے جس نے آپﷺ پر کتاب نازل کی اس میں محکم (پختہ) آیتیں ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری متشابہ (کئی معنی دینے والی) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے سو وہ اس متشابہات کی پیروی کرتے ہیں فساد (گمراہی)کی غرض سے اور اس کا (غلط)مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے، اور اس کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور مضبوط (پختہ)علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور نہیں سمجھتے مگر عقل والے (صرف عقل والے سمجھتے ہیں )(۷)

تشریح:اس آیت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس حقیقت کا احساس ضروری ہے کہ اس کائنات کی بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کا وجود اور اس کی وحدانیت تو ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان اپنی عقل سے معلوم کرسکتا ہے، لیکن اس کی ذات اور صفات کی تفصیلات انسان کی محدود عقل سے ماور ا ہیں، قرآن کریم نے جہاں اللہ تعالی کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے ان سے اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ ظاہر کی گئی ہے، لیکن کوئی شخص ان صفات کی حقیقت اور کنہ کی فلسفیانہ کھوج میں پڑ جائے تو حیرانی یا گمراہی کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، کیونکہ وہ اپنی محدود عقل سے اللہ تعالی کی ان لامحدود صفات کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کے ادراک سے باہر ہیں، مثلاً قرآن کریم نے کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کا ایک عرش ہے اور یہ کہ وہ اس عرش پر مستوی ہوا، اب یہ بات کہ وہ عرش کیسا ہے اس پر اللہ تعالی کہ مستوی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب انسان کی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی عملی مسئلہ اس پر موقوف بھی نہیں، ایسی آیات جن میں اس قسم کے حقائق بیان کئے گئے ہیں متشابہات کہلاتی ہیں، اسی طرح مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف الگ الگ نازل کئے گئے ہیں (مثلاً اسی صورت کے شروع میں الف لام میم) اور جنہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے وہ بھی متشابہات میں داخل ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں یہ ہدایت دی ہے کہ ان کی کھود کرید میں پڑنے کے بجائے ان پر اجمالی طور سے ایمان رکھ کر ان کا صحیح مطلب اللہ تعالی کے حوالے کرنا چاہئے اس کے برعکس قرآن کریم کی دوسری آیتیں ایسی ہیں جن کا مطلب واضح ہے اور درحقیقت وہی آیات ہیں جو انسان کے لئے عملی ہدایات فراہم کرتی ہیں انہی آیات کو محکم آیتیں کہا گیا ہے، ایک مؤمن کو انہی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔

متشابہات کے بارے میں صحیح طرز عمل بتلانا یوں بھی ضروری تھا، لیکن اس سورت میں اس وضاحت کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ نجران کے عیسائیوں کا جو وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اور جس کا ذکر اوپر کے حاشیہ میں گزرا ہے، اس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر ایک دلیل یہ بھی پیش کی تھی کہ خود قرآن نے انہیں کلمۃ اللہ(اللہ کا کلمہ)اور روح من اللہ فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی صفت کلام اور اللہ کی روح تھے اس آیت نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ قرآن کریم ہی نے جگہ جگہ صاف لفظوں میں بتایا ہے کہ اللہ تعالی کی کوئی اولاد نہیں ہوسکتی اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا قرار دینا شرک اور کفر ہے، ان واضح آیتوں کو چھوڑ کر کلمۃ اللہ کے لفظ کو پکڑ بیٹھنا اور اس کی بنیاد پر ایسی تاویلیں کرنا جو قرآن کریم کی محکم آیات کے بالکل برخلاف ہیں، دل کے ٹیڑھ کی علامت ہے، حقیقت میں حضرت عیسی علیہ السلام کو کلمۃ اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ باپ کے واسطے کے بغیر اللہ تعالی کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، جیسا کہ قرآن کریم نے اسی سورت کی آیت:۵۹ میں بیان فرمایا ہے، اور انہیں روح من اللہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی روح براہ راست اللہ تعالی نے پیدا فرمائی تھی، اب یہ بات انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کن سے پیدا کرنے کی کیفیت کیا تھی اور براہ راست ان کی روح کس طرح پیدا کی گئی ؟یہ امور متشابہات میں سے ہیں، اس لئے ان کی کھود کرید بھی منع ہے (کیونکہ یہ باتیں انسان کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتیں )اور ان کی من مانی تاویل کر کے ان سے خدا کے بیٹے کا تصور برآمد کرنا بھی کج فہمی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

 

اے ہمارے رب!ہمارے دل نہ پھیراس کے بعد جبکہ تو نے ہمیں ہدایت دی، اور ہمیں عنایت فرما اپنے پاس سے رحمت، بیشک توسب سے بڑا دینے والا ہے (۸)

اے ہمارے رب !بیشک تو لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے کوئی شک نہیں اس میں (جس میں )بیشک اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا(۹)

تشریح:یعنی راسخین فی العلم اپنے کمال علمی اور قوت ایمانی پر مغرور و مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ ہمیشہ حق تعالیٰ سے استقامت اور مزید فضل و عنایت کے طلبگار رہتے ہیں تاکہ کمائی ہوئی پونجی ضائع نہ ہو جائے اور خدا نکردہ دل سیدھے ہونے کے بعد کج نہ کر دیئے جائیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (امت کو سنانے کے لئے ) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ۔”یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ”

وہ دن ضرور آکر رہے گا اور ”زائغین” (کجرو) جن مسائل میں جھگڑتے تھے سب کا دو ٹوک فیصلہ ہو جائے گا۔ پھر ہر ایک مجرم کو اپنی کجروی اور ہٹ دھرمی کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ اسی خوف سے ہم ان کے راستہ سے بیزار اور آپ کی رحمت و استقامت کے طالب ہوتے ہیں۔ ہمارا زائغین کے خلاف راستہ اختیار کرنا کسی بدنیتی اور نفسانیت کی بنا پر نہیں محض اخروی فلاح مقصود ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ہر گز نہ ان کے مال ان کے کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد، اللہ کے سامنے کچھ بھی اور وہی وہ دوزخ کا ایندھن ہیں (۱۰)

قیامت کے ذکر کے ساتھ کافروں کا انجام بھی بتلا دیا کہ ان کو کوئی چیز دنیا و آخرت میں خدائی سزا سے نہیں بچا سکتی۔ ان آیات میں اصلی خطاب وفد ”نجران” کو تھا جسے عیسائی مذہب و قوم کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کہنا چاہیے۔ امام فخر الدین رازی نے محمد بن اسحاق کی سیرت سے نقل کیا ہے کہ جس وقت یہ وفد ”نجران” سے بقصد مدینہ روانہ ہوا تو ان کا بڑا پادری ابو حارثہ بن علقمہ خچر پر سوار تھا۔ خچر نے ٹھوکر کھائی تو اس کے بھائی کرز بن علقمہ کی زبان سے نکلا ” تعس الابعد” (ابعد سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ العیاذ باللہ) ابو حارثہ نے کہا ”تعست امک” کرز نے حیران ہو کر اس کلمہ کا سبب پوچھا۔ ابو حارثہ نے کہا واللہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) وہ ہی نبی منتظر ہیں جن کی بشارت ہماری کتابوں میں دی گئی تھی۔ کرز نے کہا پھر مانتے کیوں نہیں ؟ بولا ”لان ھٰؤلاء الملوک اعطونا اموالا کثیرۃ واکرمونا فلوامنا بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم لاخذوا مناکل ھذہ الاشیاء” (اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تو یہ بادشاہ جو بے شمار دولت ہم کو دے رہے ہیں اور اعزاز و اکرام کر رہے ہیں سب واپس کر لیں گے ) کُرز نے اس کلمہ کو اپنے دل میں رکھا اور آخرکار یہی کلمہ ان کے اسلام کا سبب ہوا (رضی اللہ عنہ وارضاہ) میرے نزدیک ان آیات میں ابو حارثہ کے ان ہی کلمات کا جواب ہے گویا دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ان کے فاسد عقیدہ کا رَد کر کے متنبہ فرما دیا کہ وضوح حق کے بعد جو لوگ محض دنیاوی متاع (اموال و اولاد وغیرہ) کی خاطر ایمان نہیں لاتے وہ خوب سمجھ لیں کہ مال و دولت اور جتھے نہ ان کو دنیا میں خدائی سزا سے بچا سکتے ہیں نہ آخرت میں عذاب سے۔ چنانچہ اس کی تازہ مثال ابھی ”بدر” کے موقع پر مسلمان اور مشرکین کی لڑائی میں دیکھ چکے ہو۔ دنیا کی بہار محض چند روزہ ہے مستقبل کی کامیابی ان ہی کے لئے ہے۔ جو خدا سے ڈرتے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ دُور تک یہ مضمون چلا گیا ہے اور عموم الفاظ کے اعتبار سے یہود و مشرکین وغیرہ دوسرے کفار کو بھی خطاب میں لپیٹ لیا گیا۔ گو اصلی مخاطب نصاریٰ نجران تھے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیر عثمانی)

 

جیسے فرعون والوں کا معاملہ ہوا اور جو ان سے پہلے تھے، انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو اللہ نے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑا اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (۱۱)

جن لوگوں نے کفر کیا انہیں کہہ دیں تم عنقریب مغلوب ہو گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ برا ہے ٹھکانہ(۱۲)

تشریح: یعنی وقت آ گیا ہے کہ تم سب کیا یہود، کیا نصاریٰ اور کیا مشرکین عنقریب خدائی لشکر کے سامنے مغلوب ہو کر ہتھیار ڈالو گے، یہ تو دنیا کی ذلت ہوئی اور آخرت میں جو گرم مکان تیار ہے وہ الگ رہا بعض روایات میں ہے کہ ”بدر” سے فاتحانہ واپسی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو فرمایا کہ تم حق کو قبول کر لو، ورنہ جو حال قریش کا ہوا، تمہارا ہو گا۔ کہنے لگے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دھوکہ میں نہ رہیئے کہ تم نے قریش کے چند نا تجربہ کاروں پر فتح حاصل کر لی۔ ہم سے مقابلہ ہوا تو پتہ لگ جائے گا کہ ہم (جنگ آزمودہ سپاہی اور بہادر) آدمی ہیں اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ”بدر” کی فتح دیکھ کر ”یہود” کچھ تصدیق کی طرف مائل ہونے لگے تھے۔ پھر کہا کہ جلدی مت کرو، دیکھو آئندہ کیا ہوتا ہے۔ دوسرے سال ”احد” کی عارضی پسپائی دیکھ کر ان کے دل سخت ہو گئے اور حوصلے بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ عہد شکنی کر کے مسلمانوں سے لڑائی کا سامان کیا۔ کعب بن اشرف ساٹھ سواروں کے ساتھ مکہ معظمہ جا کر ابُو سفیان وغیرہ سردارانِ قریش سے ملا اور کہا ہم تم ایک ہیں۔ متحدہ محاذ قائم کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ واللہ اعلم، بہرحال تھوڑے ہی دنوں بعد خدا نے دکھلا دیا کہ جزیرۃ العرب میں مشرک کا نام نہ رہا۔ ”قریظہ” کے بد عہد یہود تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ ”بنی نضیر” جلا وطن ہوئے، نجران کے عیسائیوں نے ذلیل ہو کر سالانہ جزیہ دینا قبول کیا۔ اور تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کی بڑی بڑی مغرور و متکبر قومیں مسلمانوں کی بلندی و برتری کا اعتراف کرتی رہیں۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔

(تفسیر عثمانی)

 

البتہ تمہارے لئے ان دو گروہوں میں نشانی ہے جو باہم مقابل ہوئے ایک گروہ لڑتا تھا اللہ کی راہ میں اور دوسرا کافر تھا، وہ انہیں کھلی آنکھوں سے اپنے سے دوچند دکھائی دیتے تھے اور اللہ اپنی مدد سے جسے چاہتا ہے تائید کرتا ہے، بیشک اس میں دیکھنے والوں (عقلمندوں )کے لئے ایک عبرت ہے (۱۳)

تشریح:پیچھے یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ کفار مسلمانوں سے مغلوب ہوں گے، اب اس کی ایک مثال دینے کی غرض سے جنگ بدر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں کافروں کا لشکر ایک ہزار مسلح لوگوں پر مشتمل تھا اور مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی، کافر کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے، لیکن اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کافروں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔

(توضیح القرآن)

 

اور لوگوں کے لئے مرغوب چیزوں کی محبت خوشنما کر دی گئی، مثلاً عورتیں اور بیٹے اور ڈھیر جمع کئے ہوئے سونے اور چاندی کے، اور نشان زدہ گھوڑے اور مویشی اور کھیتی۔ یہ دنیا کی زندگی کا ساز وسامان ہے اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے (۱۴)

تشریح:یعنی جب ان میں پھنس کر آدمی خدا سے غافل ہو جائے۔ اِسی لئے حدیث میں فرمایا۔ ماترکتُ بعدی فتنۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النَّساءِ (میرے بعد مردوں کے لئے کوئی ضرر رساں فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نہیں ) ہاں اگر عورت سے مقصود اعفاف اور کثرت اولاد ہو، تو وہ مذموم نہیں بلکہ مطلوب و مندوب ہے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے کہ اگر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہو، حکم دے تو فرمانبردار پائے، کہیں غائب ہو تو پیٹھ پیچھے شوہر کے مال اور اپنی عصمت کے معاملہ میں اس کی حفاظت کرے۔ اسی طرح جتنی چیزیں آگے متاع دنیا کے سلسلہ میں بیان ہوئیں سب کا محمود و مذموم ہونا نیت اور طریق کار کے تفاوت سے متفاوت ہوتا رہے گا۔ مگر چونکہ دنیا میں کثرت ایسے افراد کی ہے جو عیش و عشرت کے سامانوں میں پھنس کر خدا تعالیٰ کو اور اپنے انجام کو بھول جاتے ہیں، اس لئے زُیِّنَ لِلنَّاسِ میں سطح کلام کی عام رکھی گئی ہے۔

ابدی فلاح ان چیزوں سے حاصل نہیں ہوتی محض دنیا میں چند روز فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کامیاب مستقبل اور اچھا ٹھکانا چاہتے ہو تو خدا کے پاس ملے گا۔ اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کی فکر کرو۔ اگلی آیت میں بتلاتے ہیں کہ وہ اچھا ٹھکانا کیا ہے اور کن لوگوں کو ملتا ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری (رواں )ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک بیبیاں اور اللہ کی خوشنودی، اور اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے (۱۵)

تشریح:اس میں آنحضرتﷺ کو خطاب کر کے ارشاد ہے کہ آپﷺ ان لوگوں سے جو دنیا کی ناقص اور فانی نعمتوں میں مست ہو گئے ہیں فرما دیجئے کہ میں تمہیں ان سے بہت نعمتوں کا پتہ دیتا ہوں جو اللہ سے ڈرنے والوں اور اس کے فرمانبرداروں کو ملیں گی، وہ نعمتیں سرسبز باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ہر قسم کی گندگی سے پاک وصاف بیبیاں ہیں اور اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی ہے۔

(معارف القرآن)

 

جو لوگ کہتے ہیں اے ہمارے رب!بیشک ہم ایمان لائے، سو ہمیں ہمارے گناہ بخش دے، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا(۱۶)

تشریح:معلوم ہوا کہ گناہ معاف ہونے کے لئے ایمان لانا شرط ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور صبر کرنے والے، حکم بجا لانے والے، خرچ کرنے والے اور بخشش مانگنے والے پچھلی رات میں (۱۷)

یعنی اللہ کے راستہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر بھی اس کی فرمانبرداری پر جمے رہتے اور معصیت سے رُکے رہتے ہیں۔ زبان کے، دل کے، نیت کے معاملہ کے سچے ہیں۔ پوری تسلیم و انقیاد کے ساتھ خدا کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو اس کے بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں اُٹھ کر (جو طمانیت و  اجابت کا وقت ہوتا ہے لیکن اٹھنا اس وقت سہل نہیں ہوتا) اپنے رب سے گناہ اور تقصیرات معاف کراتے ہیں۔ ” کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَ بِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (ذاریات رکوع:۱۔ آیت نمبر:۱۷، ۱۸) ” یعنی اکثر رات عبادت میں گزارتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے کہ خداوندا! عبادت میں جو تقصیر رہ گئی اپنے فضل سے معاف فرمانا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور علم والوں نے (بھی)،  وہی حاکم ہے انصاف کے ساتھ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زبردست حکمت والا ہے (۱۸)

تشریح:امام تفسیر بغویؒ نے نقل کیا ہے کہ یہود کے دو بڑے عالم ملک شام سے مدینہ طیبہ میں وارد ہوئے، مدینہ کی بستی کو دیکھ کر آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ یہ بستی تواس طرح کی ہے جس کے لئے توراۃ میں پیشین گوئی آئی ہے کہ اس میں نبی آخرالزماں ﷺ قیام پذیر ہوں گے، اس کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ یہاں کوئی بزرگ ہیں جن کو لوگ نبی کہتے ہیں، یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپﷺ پر نظر پڑتے ہی اور تمام صفات سامنے آ گئیں جو توراۃ میں آپﷺ کے لئے بتلائی گئی تھیں، حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپﷺ محمد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر عرض کیا کہ آپ احمد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں محمد ہوں اور احمد ہوں، پھر عرض کیا کہ ہم آپ سے ایک سوال کرتے ہیں اگر آپ اس کا صحیح جواب دیں توہم ایمان لے آئیں گے، آپﷺ نے فرمایا دریافت کرو، انہوں نے سوال کیا کہ اللہ تعالی کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کونسی ہے، اس سوال کے جواب کے لئے یہ آیتِ شہادت نازل ہوئی، آپ نے ان کو پڑھ کر سنادی، یہ دونوں اسی وقت مسلمان ہو گئے۔

(معارف القرآن)

 

بیشک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور جنہیں کتاب دی گئی(اہل کتاب)نے اختلاف نہیں کیا، مگر اس کے بعد جبکہ ان کے پاس آ گیا علم آپس کے ضدسے، اور جو اللہ کی آیات(حکموں )کا انکار کرے تو بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے (۱۹)

تشریح:”اسلام” کے اصلی معنی سونپ دینے کے ہیں۔ ”مذہب اسلام” کو بھی اسی لحاظ سے اسلام کہا جاتا ہے کہ ایک مسلم اپنے کو ہمہ تن خدائے واحد کے سپرد کر دینے اور اس کے احکام کے سامنے گردن ڈال دینے کا اقرار کرتا ہے۔ گویا ”اسلام” انقیاد و تسلیم کا اور ”مسلمانی” حکمبرداری کا دوسرا نام ہوا۔ یوں تو شروع سے اخیر تک تمام پیغمبر یہی مذہب اسلام لے کر آئے اور اپنے اپنے زمانہ میں اپنی اپنی قوم کو مناسب وقت احکام پہنچا کر طاعت و فرمانبرداری اور خالص خدائے واحد کی پرستش کی طرف بُلاتے رہے ہیں، لیکن اس سلسلہ میں خاتم الانبیاء محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دنیا کو جو اکمل، جامع ترین، عالمگیر اور ناقابلِ تنسیخ ہدایات دیں، وہ تمام شرائع سابقہ حقہ پر مع شی زائد مشتمل ہونے کی وجہ سے خصوصی رنگ میں اسلام کے نام سے موسوم و ملقب ہوئیں۔ بہرحال اس آیت میں نصاریٰ نجران کے سامنے خصوصاً اور تمام اقوام و ملل کے سامنے عموماً اعلان کیا گیا ہے کہ دین و مذہب صرف ایک ہی چیز کا نام ہو سکتا ہے وہ یہ کہ بندہ دل و جان سے اپنے کو خداوند قدوس کے سپرد کر دے اور جس وقت جو حکم اس کی طرف سے پائے، بے چون و چرا گردن تسلیم جھکا دے، اب جو لوگ خدا کے بیٹے، پوتے تجویز کریں، مسیح و مریم کی تصویروں اور صلیب کی لکڑی کو پوجیں، خنزیر کھائیں، آدمی کو خدا یا خدا کو آدمی بنا دیں۔ انبیاء و اولیاء کو قتل کر ڈالنا معمولی بات سمجھیں، دین حق کو مٹانے کی ناپاک کوششوں میں لگے رہیں۔ موسٰیؑ و مسیحؑ کی بشارات کے موافق جو پیغمبر ان دونوں سے بڑھ کر شان و نشان دکھلاتا ہوا آیا، جان بوجھ کر اس کی تکذیب اور اس کے لائے ہوئے کلام و احکام سے ٹھٹھا کریں، یا جو بیوقوف پتھروں، درختوں، ستاروں اور چاند سُورج کے آگے سجدہ کریں اور حلال و حرام کا معیار محض ہوائے نفس کو ٹھہرا لیں، کیا ان میں کوئی جماعت اس لائق ہے کہ اپنے کو مسلم اور ملت ابراہیمی کا پیرو کہہ سکے۔ العیاذ باللہ۔ ”وفی روایۃ محمد بن اسحاق فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلموا۔ فقالوا قد اسلمنا۔ فقال صلی اللہ علیہ وسلم کذبتم کیف یصح اسلامکم و انتم تثبتون للہ ولدًا وتعبدون الصلیب وتاکلون الخنزیر” (تفسیر کبیر)۔

(تفسیر عثمانی)

 

پھر اگر وہ آپ سے جھگڑیں تو کہہ دیں میں نے اپنا منہ اللہ کے لئے جھکا دیا اور جس نے میری پیروی کی، اور آپ اہل کتاب اور ان پڑھوں سے کہہ دیں کیا تم اسلام لائے ؟پس اگر وہ اسلام لے آئے، تو انہوں نہ راہ پائی اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ دیکھنے والا ہے (اپنے )بندوں کو۔ (۲۰)

تشریح:جیسا کہ دو فوائد پہلے نقل کیے جا چکے۔ وہ جھگڑتے تھے کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ یہاں ان کو بتلایا گیا کہ ایسا (فرضی) اسلام کس کام کا۔ آؤ دیکھو، اسلام اسے کہتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کے پاس ہے۔ ابھی بیان ہو چکا کہ اسلام نام ہے تسلیم و انقیاد کا یعنی بندہ ہمہ تن اپنے کو خدا کے ہاتھ میں دیدے سو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین و انصار کو دیکھ لو کس طرح انہوں نے شرک، بت پرستی، بد اخلاقی، فسق و فجور اور ظلم و عدوان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان، مال، وطن، کنبہ، بیوی بچے، غرض تمام مرغوب و محبوب چیزیں حق تعالیٰ کی خوشنودی پر نثار کر دیں اور کس طرح ان کا چہرہ اور آنکھیں ہر وقت حکم الہٰی کی طرف لگی رہتی ہیں کہ اُدھر سے حکم آئے اور ہم تعمیل کریں۔ اس کے بالمقابل تم اپنا حال دیکھو کہ خود اپنی خلوتوں میں اقرار کرتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں، مگر ان پر ایمان لائیں تو دنیا کا مال و جاہ چھنتا ہے۔ بہرحال باوجود وضوح حق کے اسلام کی طرف نہیں آتے، تم جانو، ہم تو اپنے کو ایک خدا کے سپرد کر چکے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو شخص دلائل اور براہین کو نہ مانے اور صریح عناد پر اتر آئے توایسے شخص کے سامنے بحث کرنا فضول ہے اور ناحق اپنے وقت کا ضائع کرنا ہے اس لئے اتمام حجت کے لئے یہ بات کہہ کر کلام ختم کر دینا مناسب ہے کہ ہم تو خالص اللہ کے فرمانبردار بندے بن چکے ہیں اب تم اپنی جانو ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے۔

(معارف القرآن ادریسی)

 

بیشک جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور نبیوں کو قتل کرتے ہیں ناحق، اور انہیں قتل کرتے ہیں جو لوگ انصاف کا حکم کرتے ہیں، سوانہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیں (۲۱)

یہی وہ لوگ ہیں جن کے عمل ضائع ہو گئے دنیا میں اور آخرت میں اور ان کا کوئی مددگار نہیں (۲۲)

تشریح:حدیث میں ہے کہ ”بنی اسرائیل” نے ایک دن میں تینتالیس نبی اور ایک سو ستّر یا ایک سو بارہ صالحین کو شہید کیا۔ یہاں نصاریٰ نجران اور دوسرے کفار کو سنایا جا رہا ہے کہ احکام الہٰی سے منکر ہو کر انبیاء اور انصاف پسند ناصحین سے مقابلہ کرنا اور پرلے درجہ کی شقاوت و سنگدلی سے ان کے خون میں ہاتھ رنگنا معمولی چیز نہیں۔ ایسے لوگ سخت دردناک عذاب کے مستحق اور دونوں جہان کی کامیابی سے محروم ہیں۔ ان کی محنت برباد اور ان کی کوششیں اکارت ہوں گی اور دنیا و آخرت میں جب سزا ملے گی تو کوئی بچانے والا اور مدد کرنے والا نہ ملے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں دیا گیا کتاب کا ایک حصہ وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پھر ان کا ایک فریق پھر جاتا ہے اور وہ منہ پھیرنے والے ہیں (۲۳)

تشریح:یعنی جب انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ قرآن کریم کی طرف آؤ جو خود تمہاری تسلیم کردہ کتابوں کی بشارات کے موافق آیا اور تمہارے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے۔ تو ان کے علماء کا ایک فریق تغافل برت کر منہ پھیر لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کی طرف دعوت فی الحقیقت تورات و انجیل کی طرف دعوت دینا ہے۔ بلکہ کچھ بعید نہیں کہ اس جگہ کتاب اللہ سے مراد تورات و انجیل ہی ہو۔ یعنی لو ہم تمہارے نزاعات کا فیصلہ تمہاری ہی کتاب پر چھوڑتے ہیں مگر غضب تو یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور پست اغراض کے سامنے خود اپنی کتاب کی ہدایات سے بھی مُنہ پھیر لیتے ہیں۔ نہ اس کی بشارات سنتے ہیں نہ احکام پر کان دھرتے ہیں۔ چنانچہ رجم زانی کے مسئلہ میں تورات کے حکم منصوص سے صریح رُو گردانی کی۔ جیسا کہ آگے سورہ مائدہ میں آئے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ وہ کہتے ہیں ہمیں دوزخ کی آگ ہر گز نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چند دن، اور انہیں ان کے دین (کے بارے) میں دھوکہ میں ڈال دیا اس نے جو وہ گھڑتے تھے (۲۴)

تشریح:یعنی ان کے تمرد و طغیان اور گناہوں پر جری ہونے کا سبب یہ ہے کہ سزا کی طرف سے بیخوف ہیں ان کے بڑے جھوٹ بنا کر کہہ گئے کہ ہم میں اگر کوئی سخت گنہگار بھی ہو گا تو گنتی کے چند روز سے زیادہ عذاب نہ پائے گا۔ جیسا کہ سورہ ”بقرہ” میں گزر چکا اور اسی طرح کی بہت سی باتیں گھڑ رکھی ہیں۔ مثلاً کہتے تھے کہ ہم تو اللہ کے چہیتے بیٹے ہیں یا انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام سے وعدہ کر چکا ہے کہ ان کی اولاد کو سزا نہ دے گا مگر یونہی برائے نام قسم کھانے کو، اور نصاریٰ نے تو کفارہ کا مسئلہ نکال کر گناہ و معصیت کا سارا حساب ہی بیباق کر دیا۔ اللّٰھُمَ اَعِذْنَا مِنْ شُرُ و رِاَنْفُسِنَا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سوکیا (حال ہو گا)جب ہم انہیں اس دن جمع کریں گے جس میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص پورا پورا پائے گا جو اس نے کمایا اور ان کی حق تلفی نہ ہو گی(۲۵)

تشریح:یعنی اس وقت پتہ چلے گا کہ کس اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے۔ جب محشر میں تمام اولین و آخرین اور خود اپنے بزرگوں کے سامنے رسوا ہوں گے اور ہر عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ نہ کفارہ کا مسئلہ یاد آئے گا، نہ نسبی تعلقات اور من گھڑت عقیدے کام دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ کہیں اے اللہ!مالک ملک توجسے چاہے ملک دے تو ملک چھین لے جس سے تو چاہے اور جسے تو چاہے عزت دے اور ذلیل کر دے جسے چاہے، تیرے ہاتھ میں تمام بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے (۲۶)

تورات کو دن میں داخل کرتا ہے اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور تو جاندار نکالتا ہے بے جان سے اور جاندار سے بے جان نکالتا ہے، اور جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے (۲۷)

تشریح:جب غزوۂ احزاب کے موقع پر آنحضرتﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ روم اور ایران کی سلطنتیں مسلمانوں کے قبضے میں آ جائیں گی تو کفار نے بڑا مذاق اڑایا کہ ان لوگوں کو اپنے دفاع کے لئے خندق کھودنی پڑ رہی ہے اور ان پر فاقے گزر رہے ہیں مگر دعوے یہ ہیں کہ یہ روم اور ایران فتح کر لیں گے، اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں مسلمانوں کو یہ دعا تلقین فرما کر ایک لطیف پیرائے میں ان کا جواب دے دیا گیا۔

(توضیح القرآن)

 

مؤمن نہ بنائیں مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست اور جو ایسا کرے گا تواس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، سوائے اس کے کہ تم ان سے بچاؤ کرو اور اللہ تمہیں ڈراتا ہے اپنی ذات سے، اور اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے (۲۸)

تشریح:اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہو جائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورۂ نساء(۴:۱۳۹)سورۂ مائدہ(۵:۵۱)سورۂ توبہ(۹:۲۳)سورۂ مجادلہ(۲۸:۲۲)اور سورۂ ممتحنہ (۲۸:۱)میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورۂ ممتحنہ(۲۸:۸)میں واضح فرما دیا ہے اور آنحضرتﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جا سکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرتﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم  و تشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہر موالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

(توضیح القرآن)

 

کہہ دیں جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو اللہ اسے جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (۲۹)

اس دن ہر شخص (موجود) پائے گا جو اس نے کیا کوئی نیکی اور جو اس نے کوئی برائی کی وہ آرزو کرے گا کاش! اس کے درمیان اور اس (برائی)کے درمیان دور کا فاصلہ ہوتا، اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ شفقت کرنے والا ہے بندوں پر(۳۰)

 

تشریح: قیامت کے دن ہر نیکی بدی آدمی کے سامنے حاضر ہو گی، عمر بھر کا اعمال نامہ ہاتھ میں پکڑا دیا جائے گا، اس وقت مجرمین آرزو کریں گے کہ کاش یہ دن ہم سے دُور ہی رہتا یا ہم میں اور ان بُرے اعمال میں بڑی دُور کا فاصلہ ہوتا کہ ان کے قریب بھی نہ جاتے۔

یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ تم کو اس خوفناک دن کے آنے سے پہلے ڈراتا اور آگاہ کرتا ہے۔ تاکہ بُرائی کے طریقے خصوصاً موالات کفار ترک کر کے اور بھلائی کے راستہ پر چل کر اپنے خداوند قہار کے غصہ سے بچا لینے کا قبل از وقت انتظام کر رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ کہہ دیں اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (۳۱)

تشریح:دشمنان خدا کی موالات و محبت سے منع کرنے کے بعد خدا سے محبت کرنے کا معیار بتلاتے ہیں، یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو تو لازم ہے کہ اس کو اتباع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہو جائے گا، جو شخص جس قدر حبیبِ خدا محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ چلتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی روشنی کو مشعلِ راہ بناتا ہے اسی قدر سمجھنا چاہیے کہ خدا کی محبت کے دعوے میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعوے میں سچا ہو گا، اُتنا ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مضبوط و مستعد پایا جائے گا۔ جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا۔ اور اللہ کی محبت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری و باطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی۔ گویا توحید وغیرہ کے بیان سے فارغ ہو کر یہاں سے نبوت کا بیان شروع کیا گیا اور پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی دعوت دی گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ کہہ دیں تم اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی پھر اگر وہ پھر جائیں تو بیشک اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا(۳۲)

تشریح:یہود و نصاریٰ کہتے تھے نَحْنُ اَبْنَاءُ اللہِ وَاَحِبَّاؤُہ، (ہم خدا کے بیٹے اور محبوب ہیں ) یہاں بتلا دیا گیا کہ کافر کبھی خدا کا محبوب نہیں ہو سکتا۔ اگر واقعی محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کے احکام کی تعمیل کرو، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا مانو اور خدا کے سب سے بڑے محبوب کے نقشِ قدم پر چلے آؤ۔ وفد نجران نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم مسیح کی تعظیم و عبادت اللہ کی محبت و تعظیم کے لئے کرتے ہیں، اس کا بھی جواب ہو گیا۔ آگے خدا تعالیٰ کے چند محب و محبوب بندوں کا حال سُنایا گیا اور وفد نجران کی رعایت سے حضرت مسیح علیہ السلام کی سوانح زیادہ شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہے، جو تمہید ہے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کی۔ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک اللہ نے چن لیا آدمؑ کو اور نوحؑ کو اور ابراہیمؑ و عمران کے گھرانے کو سارے جہان پر(۳۳)

تشریح:واضح رہے کہ عمران حضرت موسی علیہ السلام کے والد کا بھی نام ہے اور حضرت مریمؓ کے والد کا بھی، یہاں دونوں مراد ہوسکتے ہیں لیکن چونکہ آگے حضرت مریمؓ کا واقعہ آ رہا ہے اس لئے ظاہر یہ ہے کہ یہاں حضرت مریم ؓ ہی کے والد مراد ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

وہ اولاد تھے ایک دوسرے کی، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۳۴)

تشریح:خدا کی مخلوقات میں زمین آسمان، چاند، سُورج، ستارے، فرشتے، جِن، شجر، حجر سب ہی شامل تھے۔ مگر اس نے اپنے علم محیط اور حکمت بالغہ سے ملکات روحانیہ اور کمالات جسمانیہ کا جو مجموعہ ابو البشر آدم علیہ السلام میں ودیعت کیا وہ مخلوقات میں سے کسی کو نہ دیا۔ بلکہ آدم کو مسجود ملائکہ بنا کر ظاہر فرما دیا کہ آدم کا اعزاز و اکرام اس کی بارگاہ میں ہر مخلوق سے زیادہ ہے۔ آدم کا یہ انتخابی اور اصطفائی فضل و شرف جسے ہم ”نبوت” سے تعبیر کرتے ہیں کچھ ان کی شخصیت پر محدود و مقصود نہ تھا، بلکہ منتقل ہو کر ان کی اولاد میں نوح علیہ السلام کو ملا، پھر منتقل ہوتا ہوا نوح علیہ السلام کی اولاد حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ یہاں سے ایک نئی صورت پیدا ہو گئی۔ آدم و نوح کے بعد جتنے انسان دنیا میں آباد رہے تھے وہ سب ان دونوں کی نسل سے تھے۔ کوئی خاندان ان دونوں کی ذرّیت سے باہر نہ تھا۔ برخلاف اس کے ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی نسل کے علاوہ دنیا میں دوسرے بہت خاندان موجود رہے، لیکن جس خدا نے اپنی بیشمار مخلوقات میں سے منصبِ نبوت کے لئے آدم کا انتخاب کیا تھا اسی کے علم محیط اور اختیار کامل نے آئندہ کے لئے ہزاروں گھرانوں میں سے اس منصب جلیل کے واسطے ابراہیم علیہ السلام کے گھرانے کو مخصوص فرما دیا۔ جس قدر انبیاء و رسل ابراہیم علیہ السلام کے بعد آئے ان ہی کے دو صاحبزادوں اسحاق و اسماعیل کی نسل سے آئے۔ چونکہ عموماً نسب کا سلسلہ باپ کی طرف سے چلتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لحاظ سے وہم ہو سکتا تھا کہ ان کو نسل ابراہیمی سے مستثنیٰ کرنا پڑے گا۔ اس لئے حق تعالیٰ نے ”آل عمران” اور ذریۃ بعضھا من بعض فرما کر متنبہ کر دیا کہ حضرت مسیح جب صرف ماں سے پیدا ہوئے تو ان کا سلسلہ نسب بھی ماں ہی کی طرف سے لیا جائے گا نہ کہ معاذ اللہ خدا کی طرف سے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی والدہ مریم صدیقہ کے باپ عمران کا سلسلہ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے تو آل عمران، آل ابراہیم کی ایک شاخ ہوئی اور کوئی پیغمبر خاندان ابراہیمی سے باہر نہ ہوا۔

سب کی دُعاؤں اور باتوں کو سنتا اور سب کے ظاہری و باطنی احوال و استعداد کو جانتا ہے۔ لہٰذا یہ وہم نہ کرنا چاہیے کہ یوں ہی کیف ما اتفق انتخاب کر لیا ہو گا وہاں کا ہر کام پورے علم و حکمت پر مبنی ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

جب عمران کی بی بی نے کہا اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے، میں نے تیری نذر کیا(سب سے ) آزاد رکھ کر سو تو مجھ سے قبول کر لے، بے شک تو سننے والا جاننے والا ہے۔ (۳۵)

تشریح:حضرت عمران بیت المقدس کے امام تھے ان کی اہلیہ کا نام ”حنہ بنت فاقوذا”تھا، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر ان کی کوئی اولاد ہو گی رو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔

(توضیح القرآن)

 

سو جب اس نے اس کو (مریمؑ کو) جنم دیا تو وہ بولی اے میرے رب! میں نے جنم دی ہے لڑکی، اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس نے جنم دیا ہے، اور بیٹا بیٹی کے مانند نہیں ہوتا، اور میں نے اس کا نام مریم رکھا، اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں شیطان مردود سے (۳۶)

تشریح:جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو حضرت عمران کا انتقال ہو گیا، حضرت حنہ کے بہنوئی حضرت زکریا علیہ السلام تھے جو حضرت مریم کے خالو ہوئے، حضرت مریم کی سرپرستی کا مسئلہ پیدا ہوا تو قرعہ اندازی کے ذریعے اس کا فیصلہ کیا گیا اور قرعہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکلا جس کا ذکر اسی سورت کی ۴۴ میں آ رہا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

جب بھی زکریاؑ اس کے پاس حجرہ میں داخل ہوتے تو اس کے پاس کھانا پاتے اس نے (زکریاؑ نے ) کہا اے مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ اس نے کہا یہ اللہ کے پاس سے ہے بیشک اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے (۳۷)

وہیں زکریاؑ نے اپنے رب سے دعا کی، اس نے کہا اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاک اولاد عطا کر، تو بیشک دعا سننے والا ہے (۳۸)

تشریح:حضرت مریم کے پاس بے موسم کے پھل آیا کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ دیکھا تو انہیں توجہ ہوئی کہ خدا ان کو بے موسم پھل دیتا ہے وہ مجھے اس بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتا ہے چنانچہ انہوں نے یہ دعا مانگی۔

(توضیح القرآن)

 

تو انہیں آواز دی فرشتوں نے جب وہ حجرہ میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ تمہیں یحییٰؑ کی خوشخبری دیتا ہے اللہ کے حکم کی تصدیق کرنے والا، سردار، اور نفس کو قابو میں رکھنے والا اور نبی (ہو گا) نیکوکاروں میں سے (۳۹)

تشریح:اللہ کے کلمے سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جیسا کہ اس سورت کے شروع میں اوپر واضح کیا گیا ہے انہیں کلمۃ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ باپ کے بغیر اللہ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، حضرت یحیی علیہ السلام ان سے پہلے پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کی تصدیق فرمائی۔

یہاں حضرت یحیی علیہ السلام کی ایک خاص صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے والے ہوں گے، یہ صفت اگرچہ تمام انبیاء علیہم السلام میں پائی جاتی ہے،  لیکن ان کا خاص طور سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت میں اس درجہ مشغول رہتے تھے کہ ان کو نکاح کرنے کی طرف رغبت نہیں ہوئی، اگرچہ عام حالات میں نکاح سنت ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے،  لیکن اگر کوئی شخص اپنے نفس پر اتنا قابو یافتہ ہو جیسے حضرت یحیی علیہ السلام تھے تواس کے لئے کنوارا رہنا بلا کراہت جائز ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اس نے کہا اے میرے رب! میرے لڑکا کہاں سے ہو گا جبکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری عورت بانجھ ہے۔ اس نے کہا اس طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (۴۰)

تشریح:دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے خود مانگی تھی، اس لئے یہ سوال خدانخواستہ کسی بے یقینی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ ایک غیر معمولی نعمت کی خبر سن کر تعجب کا اظہار تھا جو درحقیقت شکر کا ایک انداز ہے، نیز سوال کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا بچہ اسی بڑھاپے کی حالت میں پیدا ہو جائے گا یا ہماری جوانی لوٹا دی جائے گی، اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا”اسی طرح” یعنی لڑکا اسی بڑھاپے کی حالت میں پیدا ہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

اس نے کہا میرے رب مقرر فرما دے میرے لیے کوئی نشانی؟ اس نے کہا تیری نشانی یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین دن بات نہ کرے گا، مگر اشارہ سے، اور تو اپنے رب کو بہت یاد کر، اور صبح و شام تسبیح کر(۴۱)

تشریح:حضرت زکریا علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ کوئی نشانی معلوم ہو جائے جس سے یہ پتہ چل جائے کہ اب حمل قرار پا گیا ہے تاکہ وہ اسی وقت سے شکر ادا کرنے میں لگ جائیں اللہ تعالی نے یہ نشانی بتلائی کہ جب حمل قرار پائے گا تو تم پرایسی حالت طاری ہو جائے گی کہ تم اللہ کے ذکر اور تسبیح کے سوا کسی کسے کوئی بات نہیں کرسکو گے اور بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اشاروں سے کرنی ہو گی۔

(توضیح القرآن)

اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بیشک اللہ نے تجھ کو چن لیا ہے اور تجھ کو پاک کیا، اور تجھ کو برگزیدہ کیا عورتوں پر تمام جہان کی(۴۲)

اے مریم!تو اپنے رب کی فرماں برداری کر، اور سجدہ کر اور رکوع کر رکوع کرنے والوں کے ساتھ(۴۳)

یہ غیب کی خبریں ہیں ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اور آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ) کے لیے اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی پرورش کرے گا اور آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑتے تھے (۴۴)

تشریح:جیسا کے اوپر آیت نمبر:۳۴ میں ذکر کیا گیا، حضرت مریمؓ کے والد کی وفات کے بعد ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوا تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا، اس زمانے میں قرعہ قلموں کے ذریعے ڈالا جاتا تھا اس لئے یہاں قلم ڈالنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بیشک اللہ تجھے اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے اس کا نام مسیحؑ عیسٰیؑ ابن مریم ہے، دنیا اور آخرت میں با آبرو اور مقربوں سے ہو گا(۴۵)

اور لوگوں سے گہوارہ میں اور پختہ عمر میں باتیں کرے گا اور نیکوکاروں سے ہو گا(۴۶)

تشریح:اللہ تعالی نے حضرت مریم ؓ کی پاک دامنی واضح کرنے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کو معجزے کے طور پر اس وقت بات کرنے کی قدرت عطا فرمائی تھی جب دودھ پیتے بچے تھے اس کا ذکر سورۂ مریم (۲۹تا۳۳)میں آیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہ بولی اے میرے رب! میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا اور کسی مرد نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا، اس نے کہا اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے اس کو ’’ہو  جا‘‘ سو وہ ہو جاتا ہے (۴۷)

اور وہ اس کو سکھائے گا کتاب، اور دانائی اور توریت اور انجیل(۴۸)

اور بنی اسرائیل کی طرف ایک رسول (بھیجے گا) کہ میں تمہاری طرف ایک نشانی کے ساتھ آیا ہوں تمہارے رب کی طرف سے میں تمہارے لیے گارے سے پرندہ جیسی شکل بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ ہو جاتا ہے، اور میں اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اور میں اللہ کے حکم سے مردے زندہ کرتا ہوں، اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو بے شک اس میں تمہارے لیے ایک نشانی ہے اگر تم ایمان والے ہو(۴۹)

تشریح:یہ سب معجزے تھے جو اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کی نبوت کے ثبوت کے طور پر عطا فرمائے تھے اور آپ نے ان کا عملی مظاہرہ فرمایا۔

(توضیح القرآن)

 

اور میں اپنے سے پہلی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور تاکہ تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں، اور تمہارے پاس ایک نشانی لے کر آیا ہوں تمہارے رب سے، سو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو(۵۰)

بے شک اللہ (ہی) میرا اور تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے (۵۱)

تشریح:بنی اسرائیل کے لئے موسوی شریعت میں بعض چیزیں حرام کی گئی تھیں، مثلاً اونٹ کا گوشت اور چربی، بعض پرندے اور مچھلیوں کی بعض اقسام، حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت میں انہیں جائز قرار دیا گیا۔

(توضیح القرآن)

 

پھر جب عیسیٰؑ نے معلوم کیا ان سے کفر (تو) کہا کون ہے اللہ کی طرف میری مدد کرنے والا؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مدد کرنے والے ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے، ا ور گواہ رہ کہ ہم فرماں بردار ہیں (۵۲)

اے ہمارے رب!ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے نازل کیا اور ہم نے رسول کی پیروی کی، سو تو ہمیں گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے (۵۳)

تشریح:حسب بشارت جب عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اور پھر نبی ہوئے اور لوگوں کو توحید اور تقوی اور اپنی اطاعت کی دعوت دی اور سیدھی راہ کی طرف بلایا اور معجزات اور نشانات ان کو دکھلائے تو یہود نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کے ایذاء اور قتل کے درپے ہوئے۔

(معارف القرآن ادریسی)

 

فائدۂ مہمہ:اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ عیسی علیہ السلام کو جب لوگوں کا کفر اور مخالفت محسوس ہوئی اس وقت مدد گاروں کی تلاش ہوئی تو فرمایا من انصاری، ابتداء میں نبوت کا منصبی کا م دعوت شروع کرتے وقت تنہا ہی تعمیل حکم کے لئے کھڑے ہو گئے تھے، پہلے کسی پارٹی یا جماعت بنانے کی فکر میں نہیں پڑے جب ضرورت پیش آئی تو جماعت سی بن گئی، غور کیا جائے توہر کام ایسے ہی عزم و ہمت کو چاہتا ہے۔

(معارف القرآن)

 

”حواری” کون لوگ تھے اور یہ لقب ان کا کس وجہ سے ہوا۔ اس میں علماء کے بہت اقوال ہیں مشہور یہ ہے کہ پہلے دو شخص جو حضرت عیسٰی کے تابع ہوئے دھوبی تھے اور کپڑے صاف کرنے کی وجہ سے حواری کہلاتے تھے۔ حضرت عیسٰی نے ان کو کہا کہ کپڑے کیا دھوتے ہو آؤ میں تم کو دل دھونے سکھا دوں۔ وہ ساتھ ہو لئے۔ پھر ایسے سب ساتھیوں کا یہی لقب پڑ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے خفیہ تدبیر کی، اور اللہ (سب) تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے (۵۴)

تشریح:”مکر” کہتے ہیں لطیف و خفیہ تدبیر کو۔ اگر وہ اچھے مقصد کے لئے ہو، اچھا ہے۔ اور بُرائی کے لئے تو بُرا ہے اسی لئے وَلاَ یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیءُ ”میں مکر کے ساتھ سیئی کی قید لگائی۔ اور یہاں خدا کو ”خیرالماکرین” کہا۔ مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کر دیں۔ حتیٰ کہ بادشاہ کے کان بھر دیے کہ یہ شخص (معاذاللہ) ملحد ہے۔ تورات کو بدلنا چاہتا ہے سب کو بد دین بنا کر چھوڑے گا۔ اس نے مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کا حکم دے دیا اُدھر یہ ہو رہا تھا اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف و خفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کر رہی تھی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ بیشک خدا کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے۔ جسے کوئی نہیں توڑ سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جب اللہ نے کہا اے عیسٰیؑ! میں تجھے قبض کر لوں گا، اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے پاک کر دوں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا، اور جنہوں نے تیری پیروی کی انہیں ان کے اوپر (غالب) رکھوں گا جنہوں نے کفر کیا، قیامت کے دن تک۔ پھر تمہیں میری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا جس (بارہ) میں تم اختلاف کرتے تھے (۵۵)

پس جن لوگوں نے کفر کیا، سو انہیں سخت عذاب دوں گا دنیا اور آخرت میں اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا(۵۶)

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو (اللہ) ان کے اجر انہیں پورے دے گا، اور اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو(۵۷)

ہم آپ پر یہ آیتیں اور حکمت والی نصیحت پڑھتے ہیں (۵۸)

تشریح: بادشاہ نے لوگوں کو مامُور کیا کہ مسیح علیہ السلام کو پکڑیں۔ صلیب (سُولی) پر چڑھائیں اور ایسی عبرتناک سزائیں دیں جسے دیکھ کر دوسرے لوگ اس کا اتباع کرنے سے رُک جائیں۔ فبعث فی طلبہ من یاخذہ ویصلبہ وینکل بہ (ابن کثیر) خداوند قدوس نے اس کے جواب میں مسیح علیہ السلام کو مطمئن فرما دیا کہ میں ان اشقیاء کے ارادوں اور منصوبوں کو خاک میں ملا دوں گا۔ یہ چاہتے ہیں کہ تجھے پکڑ کر قتل کر دیں اور پیدائش و بعثت سے جو مقصد ہے پورا نہ ہونے دیں اور اس طرح خدا کی نعمت عظیم کی بے قدری کریں۔ لیکن میں ان سے اپنی یہ نعمت لے لوں گا۔ تیری عمر مقدر اور جو مقصد عظیم اس سے متعلق ہے پورا کر کے رہوں گا۔ اور تجھ کو پورے کا پورا صحیح و سالم لے جاؤں گا کہ ذرا بھی تیرا بال بیکا نہ کر سکیں۔ بجائے اس کے کہ وہ لے جائیں، خدا تجھ کو اپنی پناہ میں لے جائے گا۔ وہ صلیب پر چڑھانا چاہتے ہیں خدا تجھ کو آسمان پر چڑھائے گا۔ ان کا ارادہ ہے کہ رسوا کن اور عبرتناک سزائیں دیکر لوگوں کو تیرے اتباع سے روک دیں لیکن خدا ان کے ناپاک ہاتھ تیرے تک نہ پہنچنے دے گا بلکہ اس گندے اور نجس مجمع کے درمیان سے تجھ کو بالکل پاک و صاف اٹھا لے گا اور اس کے بجائے کہ تیری بے عزتی ہو اور لوگ ڈر کر تیرے اتباع سے رُک جائیں، تیرا اتباع کرنے والوں اور نام لینے والوں کو قرب قیامت تک منکروں پر غالب و قاہر رکھے گا۔ جب تک تیرا انکار کرنے والے یہود اور اقرار کرنے والے مسلمان یا نصاریٰ دنیا میں رہیں گے ہمیشہ اقرار کرنے والے منکرین پر فائق و غالب رہیں گے۔ بعدہٗ ایک وقت آئے گا جب تجھ کو اور تیرے موافق و مخالف سب لوگوں کو میرے حکم کی طرف لوٹنا ہے۔ اُسوقت میں تمہارے سب جھگڑوں کا دو ٹوک فیصلہ کر دوں گا اور سب اختلافات ختم کر دیئے جائیں گے۔ یہ فیصلہ کب ہو گا؟ اس کی جو تفصیل فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَاُ عَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیدًا فِی الدُّنْیَا الخ سے بیان کی گئی ہے وہ بتلاتی ہے کہ آخرت سے پیشتر دنیا ہی میں اس کا نمونہ کر دیا جائے گا۔ یعنی اس وقت تمام کافر عذاب شدید کے نیچے ہوں گے۔ کوئی طاقت ان کی مدد اور فریاد کو نہ پہنچ سکے گی۔ اس کے بالمقابل جو ایمان والے رہیں گے ان کو دنیا و آخرت میں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور بے انصاف ظالموں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اُمت مرحومہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ جب یہود نے اپنی ناپاک تدبیریں پختہ کر لیں تو حق تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث کے موافق قیامت کے قریب جب دنیا کفرو ضلالت اور دجل و شیطنت سے بھر جائے گی، خدا تعالیٰ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل (حضرت مسیح علیہ السلام) کو خاتم الانبیاء علی الاطلاق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت وفادار جنرل کی حیثیت میں نازل کر کے دنیا کو دکھلا دے گا کہ انبیائے سابقین کو بارگاہ خاتم النبیین کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے اور اُسکے بعد یہود کو چُن چُن کر ماریں گے۔ کوئی یہودی جان نہ بچا سکے گا۔ شجر و حجر تک پکاریں گے کہ ہمارے پیچھے یہ یہودی کھڑا ہے قتل کرو! حضرت مسیح صلیب کو توڑیں گے۔ نصاریٰ کے باطل عقائد و خیالات کی اصلاح کر کے تمام دنیا کو ایمان کے راستہ پر ڈال دیں گے۔ اُسوقت تمام جھگڑوں کا فیصلہ ہو کر اور مذہبی اختلافات مٹ مٹا کر ایک خدا کا سچا دین (اسلام) رہ جائے گا۔ اِسی وقت کی نسبت فرمایا واِن مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُؤمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہ (نساء رکوع٢٢، آیت:١٥٩) جس کی پوری تقریر اور رفع مسیح کی کیفیت سورہ ”نساء” میں آئے گی۔ بہرحال میرے نزدیک ثم الی مرجعکم الخ صرف آخرت سے متعلق نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسا کہ آگے تفصیل کے موقع پر فی الدنیا والا خرۃ کا لفظ صاف شہادت دے رہا ہے۔ اور یہ اس کا قرینہ ہے کہ الی یوم القیامۃ کے معنیٰ قرب قیامت کے ہیں۔ چنانچہ احادیث صحیحہ میں مُصرح ہے کہ قیامت سے پہلے ایک مبارک وقت ضرور آنے والا ہے جب سب اختلافات مٹ مٹا کر ایک دین باقی رہ جائے گا۔ وللّٰہ الحمد اولًا و آخراً۔

چند امُور اس آیت کے متعلق یاد رکھنے چاہئیں۔ لفظ ”توفی” کے متعلق کلیات ابو البقاء میں ہے۔ ”التوفی الاماتۃ و قبض الروح علیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق و علیہ استعمال البلغاء”اھ (”توفی” کا لفظ عوام کے یہاں موت دینے اور جان لینے کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن بُلغاء کے نزدیک اس کے معنی ہیں پورا وصول کرنا اور ٹھیک لینا) گویا ان کے نزدیک موت پر بھی ”توفی” کا اطلاق اسی حیثیت سے ہوا کہ موت میں کوئی عضو خاص نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پوری جان وصول کر لی جاتی ہے۔ اب اگر فرض کرو خدا تعالیٰ نے کسی کی جان بدن سمیت لے لی تو اُسے بطریق اولیٰ ”توفی” کہا جائے گا۔ جن اہل لغت نے ”توفی” کے معنی قبض روح کے لکھے ہیں، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ قبض روح مع البدن کو ”توفی”نہیں کہتے۔ نہ کوئی ایسا ضابطہ بتایا ہے کہ جب ”توفی” کا فاعل اللہ اور مفعول ذی روح ہو تو بجز موت کے کوئی معنی نہ ہو سکیں۔ ہاں چونکہ عموماً قبض روح کا وقوع بدن سے جُدا کر کے ہوتا ہے۔ اس لئے کثرت و عادت کے لحاظ سے اکثر موت کا لفظ اُسکے ساتھ لکھ دیتے ہیں ورنہ لفظ کا لغوی مدلول قبض روح مع البدن کو شامل ہے۔ دیکھئے۔ ”اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَ نْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِھَا” (زمر۔ رکوع ٥، آیت ٤٢) میں ”توفی نفس” (قبض روح) کی دو صورتیں بتلائیں، موت اور نیند، اس تقسیم سے نیز ”توفی” کو ”انفس” پر وارد کر کے اور ”حین مو تہا” کی قید لگا کر بتلا دیا کہ ”توفی” اور ”موت” دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ قبض روح کے مختلف مدارج ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے جو موت کی صورت میں پایا جائے۔ دوسرا وہ جو نیند کی صورت میں ہو۔ قرآن کریم نے بتلا دیا کہ وہ دونوں پر ”توفی” کا لفظ اطلاق کرتا ہے۔ کچھ موت کی تخصیص نہیں۔ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّلیْلِ وَ یَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّہارِ (انعام رکوع٧، آیت٦٠) اب جس طرح اس نے دو آیتوں میں نوم پر توفی کا اطلاق جائز رکھا حالانکہ نوم میں قبض روح بھی پورا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر ”آل عمران” اور ”مائدہ” کی دو آیتوں میں ”توفی” کا لفظ قبض روح مع البدن پر اطلاق کر دیا گیا تو کونسا استحالہ لازم آتا ہے۔ بالخصوص جب یہ دیکھا جائے کہ موت اور نوم میں لفظ ”توفی” کا استعمال قرآن کریم ہی نے شروع کیا ہے۔ جاہلیت والے تو عموماً اس حقیقت سے ہی ناآشنا تھے کہ موت یا نوم میں خدا تعالیٰ کوئی چیز آدمی سے وصول کر لیتا ہے اسی لئے لفظ ”توفی” کا استعمال موت اور نوم پر ان کے یہاں شائع نہ تھا قرآن کریم نے موت وغیرہ کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لئے اول اس لفظ کا استعمال شروع کیا۔ تو اسی کو حق ہے کہ موت و نوم کی طرح اخذ روح مع البدن کے نادر مواقع میں بھی اسے استعمال کر لے۔ بہرحال آیت حاضرہ میں جمہور کے نزدیک ”توفی” سے موت مراد نہیں۔ اور ابن عباس سے بھی صحیح ترین روایت یہ ہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے۔ کما فی روح المعانی وغیرہ زندہ اٹھائے جانے یا دوبارہ نازل ہونے کا انکار سلف میں کسی سے منقول نہیں۔ بلکہ ”تلخیص العبیر” میں حافظ ابن حجر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ابن کثیر وغیرہ نے احادیث نزول کو متواتر کہا ہے اور ”اکمال اکمال المعلم” میں امام مالک سے اس کی تصریح نقل کی ہے۔ پھر جو معجزات حضرت مسیح علیہ السلام نے دکھلائے ان میں علاوہ دوسری حکمتوں کے ایک خاص مناسبت آپ کے رفع الی السماء کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ آپ نے شروع ہی سے متنبہ کر دیا کہ جب ایک مٹی کا پتلا میرے پھونک مارنے سے باذن اللہ پرندہ بن کر اوپر اُڑا چلا جاتا ہے کیا وہ بشر جس پر خدا نے روح اللہ کا لفظ اطلاق کیا اور ”روح القدس” کے نفخہ سے پیدا ہوا، یہ ممکن نہیں کہ خدا کے حکم سے اُڑ کر آسمان تک چلا جائے۔ جس کے ہاتھ لگانے یا دو لفظ کہنے پر حق تعالیٰ کے حکم سے اندھے اور کوڑھی اچھے اور مردے زندہ ہو جائیں، اگر وہ اس موطن کون و فساد سے الگ ہو کر ہزاروں برس فرشتوں کی طرح آسمان پر زندہ اور تندرست رہے، تو کیا استبعاد ہے۔ قال قتادہ فطار مع الملائکۃ فھو معھم حول العرش وصارا نسیا ملکیا سماویا ارضیا (بغوی) اس موضوع پر مستقل رسالے اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ مگر میں اہل علم کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے مخدوم علامہ فقید النظیر مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری اطال اللہ بقاہ، نے رسالہ ”عقیدۃ الاسلام” میں جو علمی لعل و جواہر  ودیعت کئے ہیں ان سے متمتع ہونیکی ہمت کریں میری نظر میں ایسی جامع کتاب اس موضوع پر نہیں لکھی گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک اللہ کے نزدیک عیسٰیؑ کی مثال آدمؑ جیسی ہے، اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر کہا اس کو ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو گیا(۵۹)

تشریح:نصاریٰ اس بات پر آنحضرتﷺ سے بہت جھگڑے کہ حضرت عیسٰی بندہ نہیں اللہ کا بیٹا ہیں۔ آخر کہنے لگے کہ وہ اللہ کا بیٹا نہیں تو تم بتاؤ کس کا بیٹا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ آیت اُتری کہ آدمؑ کے تو نہ باپ تھا نہ ماں، عیسٰی کے باپ نہ ہو تو کیا عجب ہے (موضح القرآن) اس حساب سے تو آدم کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے پر زیادہ زور دینا چاہیئے، حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔

 

حق آپ کے رب کی طرف سے ہے، پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا(۶۰)

تشریح:مسیح علیہ السلام کے متعلق جو کچھ حق تعالیٰ نے فرمایا و ہی حق ہے جس میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں، جو بات تھی بلا کم و کاست سمجھا دی گئی۔

(تفسیر عثمانی)

 

جو آپ سے اس بارہ میں جھگڑے اس کے بعد جبکہ آپ کے پاس علم آ گیا تو آپ کہہ دیں ! آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے، اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں، اور ہم خود اور تم خود (بھی)، پھر ہم سب التجا کریں، پھر جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں (۶۱)

تشریح:اس عمل کو مباہلہ کہا جاتا ہے، جب بحث کا کوئی فریق دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر تل جائے تو آخری راستہ یہ ہے کہ اسے مباہلہ کی دعوت دی جائے جس میں دونوں فریق اللہ تعالی سے یہ دعا کریں کہ ہم میں سے جھوٹا یا باطل پر ہو وہ ہلاک ہو جائے، جیسا کہ اس سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے، شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے پچھلی آیتوں میں دے دیا گیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تواس آیت نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں، چنانچہ آپﷺ نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرما لیا لیکن عیسائیوں کا وفد مباہلے سے فرار اختیار کر گیا۔

(توضیح القرآن)

 

بے شک یہی سچا بیان ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور بے شک اللہ ہی غالب، حکمت والا ہے (۶۲)

پھر اگر وہ پھِر جائیں تو بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے (۶۳)

تشریح:اگر نہ دلائل سے مانیں نہ مباہلہ پر آمادہ ہوں تو سمجھ لو کہ احقاق حق مقصود نہیں، نہ دل میں اپنے عقائد کی صداقت پر وثوق ہے۔ محض فتنہ و فساد پھیلانا ہی پیشِ نظر ہے تو خوب سمجھ لیں کہ سب مفسدین اللہ کی نظر میں ہیں۔

(تفسیر عثمانی)

 

آپ کہہ دیں اے اہل کتاب! اس ایک بات پر آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر (مشترک) ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، ا ور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو نہ بنائے رب اللہ کے سوا، پھر اگر وہ پھِر جائیں تم کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم تو مسلم فرمانبردار ہیں۔ (۶۴)

تشریح: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وفد نجران کو کہا اسلموا (مسلم بن جاؤ) تو کہنے لگے اَسْلَمْنَا (ہم مسلم ہیں ) اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی طرح ان کو بھی مسلم ہونے کا دعویٰ تھا۔ اسی طرح جب یہود و نصاریٰ کے سامنے توحید پیش کی جاتی تو کہتے کہ ہم بھی خدا کو ایک کہتے ہیں، بلکہ ہر مذہب والا کسی نہ کسی رنگ میں اُوپر جا کر اقرار کرتا ہے کہ بڑا خدا ایک ہی ہے۔ یہاں اسی طرف توجہ دلائی گئی کہ بنیادی عقیدہ (خدا کا ایک ہونا اور اپنے کو مسلم ماننا) جس پر ہم دونوں متفق ہیں، ایسی چیز ہے جو ہم سب کو ایک کر سکتا ہے بشرطیکہ آگے چل کر اپنے تصرف اور تحریف سے اس کی حقیقت بدل نہ ڈالیں۔ ضرورت اس کی ہے کہ جس طرح زبان سے مسلم و موحد کہتے ہو، حقیقۃً و عملاً بھی اپنے کو تنہا خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کے سپرد کر دو۔ نہ اس کے سوا کسی کی بندگی کرو، نہ اُسکی صفاتِ خاصہ میں کسی کو شریک ٹھہراؤ، نہ کسی اور عالم، فقیر، پیر، پیغمبر کے ساتھ وہ معاملہ کرو جو صرف رب قدیر کے ساتھ کیا جانا چاہیئے۔ مثلاً کسی کو اس کا بیٹا پوتا بنانا، یا نصوصِ شریعت سے قطع نظر کر کے محض کسی کے حلال و حرام کر دینے پر اشیاء کی حلت و حرمت کا مدار رکھنا جیسا کہ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ کی تفسیر سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سب امور دعوائے اسلام و توحید کے منافی ہیں۔

(تفسیر عثمانی)

 

اے اہل کتاب! تم ابراہیمؑ کے بارہ میں کیوں جھگڑتے ہو؟ اور نہیں نازل کی گئی توریت اور انجیل مگر ان کے بعد، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟(۶۵)

ہاں ! تم ہی وہ لوگ ہو تم نے اس (بارہ) میں جھگڑا کیاجس کا تمہیں علم تھا تو اب کیوں جھگڑتے ہو اس (بارہ) میں جس کا تمہیں کچھ علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (۶۶)

ابراہیمؑ نہ یہودی تھے نہ نصرانی، (بلکہ) وہ حنیف (سب سے رخ موڑ کر اللہ کے ہو جانے والے ) مسلم (فرمانبردار) تھے اور وہ مشرکوں سے نہ تھے (۶۷)

تشریح:یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعووں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہ بے بنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کر کے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے،  کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم علیہ السلام تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر ان کو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے ؟

(توضیح القرآن)

 

بے شک سب لوگوں سے زیادہ مناسبت ابراہیمؑ سے ان لوگوں کو جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اس نبی کو اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔ (۶۸)

تشریح:اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ زیادہ مناسبت ابراہیم علیہ السلام سے اس وقت کی اُمت کو تھی یا پچھلی اُمتوں میں اس نبی کی اُمت کو ہے تو یہ اُمت نام میں بھی اور راہ میں بھی ابراہیم علیہ السلام سے مناسبت زیادہ رکھتی ہے اور اس اُمت کا پیغمبر خلقاً و خُلقاً صورۃو سیرۃحضرت ابراہیم سے اشبہ ہے اور ان کی دُعا کے موافق آیا ہے جیسا کہ سورۃ ”بقرہ” میں گزرا۔ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیاتِکَ الخ اسی لئے حبشہ کا نصرانی بادشاہ (نجاشی) مسلمان مہاجرین کو ”حزب ابراہیم علیہ السلام” کہتا تھا شاید اسی قسم کی مناسبات کی وجہ سے درود شریف میں کما صلیت علی ابراھیم فرمایا۔ یعنی اس نوعیت اور نمونہ کی صلوٰۃ نازل فرمائے جو ابراہیم علیہ السلام و آل ابراہیم پر کی تھی۔ جامع ترمذی میں حدیث ہے۔ اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ وُّلَاۃً مِّنَ النَّبِیِیِّنَ وَاِنَّ وَلِیّٖ اَبِی وَخَلِیْلُ رَبِّی :ہر نبی کے نبیوں میں سے دوست ہوتے ہیں۔ میرے دوست میرے والد اور میرے رب کے دوست (ابراہیم علیہ السلام) ہیں۔

(تفسیر عثمانی)

 

اہل کتاب کی ایک جماعت چاہتی ہے کاش وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتے اور وہ نہیں سمجھتے (۶۹)

اے اہل کتاب! تم کیوں انکار کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا حالانکہ تم گواہ ہو؟(۷۰)

تشریح:یعنی تم تورات وغیرہ کے قائل ہو جس میں پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے متعلق بشارات موجود ہیں جن کو تمہارے دل سمجھتے ہیں اور اپنی خلوتوں میں ان چیزوں کا اقرار بھی کرتے ہو۔ پھر کھلم کھلا قرآن پر ایمان لانے اور خاتم الانبیاء کی صداقت کا اقرار کرنے سے کیا چیز مانع ہے۔ خوب سمجھ لو قرآن کا انکار کرنا تمام پچھلی کتب سماویہ کا انکار کرنا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے اہل کتاب! تم کیوں ملاتے ہو سچ کو جھوٹ کے ساتھ اور تم حق کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو؟(۷۱)

تشریح:تورات کے بعض احکام تو اغراض دنیاوی کی خاطر سرے سے موقوف ہی کر ڈالے تھے۔ بعض آیات میں تحریف لفظی کی تھی۔ بعض کے معنی بدل دیئے تھے اور بعض چیزیں چھپا رکھی تھیں ہر کسی کو خبر نہ کرتے تھے جیسے بشارات پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ایک جماعت نے کہا اہل کتاب کی کہ جو کچھ مسلمانوں پر نازل کیا گیا ہے، اسے دن کے اول حصہ میں مان لو اور منکر ہو جاؤ اس کے آخر حصہ میں (شام کو) شاید کہ وہ پھر جائیں (۷۲)

تشریح:بعض یہودیوں نے مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے یہ اسکیم بنائی تھی کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت اسلام لانے کا اعلان کر دیں اور پھر شام کو یہ کہہ کر اسلام سے پھر جائیں کہ ہم نے آنحضرتﷺ کو قریب سے جا کر دیکھ لیا، آپ وہ پیغمبر نہیں ہیں جن کی خبر تورات میں دی گئی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ مسلمان یہ سوچ کر اسلام سے برگشتہ ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ جو تورات کے عالم ہیں جب اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں تو ان کی بات میں ضرور وزن ہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

اور تم (کسی کی بات) نہ مانو سوائے اس کے جو پیروی کرے تمہارے دین کی، آپ کہہ دیں بے شک ہدایت اللہ ہی کی ہدایت ہے کہ کسی کو دیا گیا جیسا کہ تمہیں دیا گیا، یا وہ تم سے تمہارے رب کے سامنے حجت کریں آپ کہہ دیں بے شک فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، جاننے والا ہے (۷۳)

وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے (۷۴)

اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں، اور اسی کو خبر ہے کہ کس کو کیا بڑائی ملنی چاہئے۔ نبوّت، شریعت، ایمان و اسلام اور ہر قسم کی مادی و روحانی فضائل و کمالات کا تقسیم کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے جس وقت جسے مناسب جانے عطا کرتا ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور اہل کتاب میں سے کوئی (ایسا ہے ) کہ اگر آپ اس کے پاس امانت رکھیں ڈھیروں مال، تو وہ آپ کو ادا کر دے۔ اور ان میں سے کوئی (ایسا ہے ) اگر آپ اس کے پاس ایک دینار امانت رکھیں تو وہ دینار ادا نہ کرے مگر جب تک آپ اس کے سر پر کھڑے رہیں، یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے کہا ہم پر امّیّوں کے (بارہ) میں (الزام) کی کوئی راہ نہیں، اور وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور وہ جانتے ہیں۔ (۷۵)

تشریح:اہل کتاب کی دینی خیانت و نفاق کے سلسلہ میں دنیاوی خیانت کا ذکر آ گیا جس سے اس پر روشنی پڑتی ہے کہ جو لوگ چار پیسہ پر نیّت خراب کر لیں اور امانتداری نہ برت سکیں ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے کہ دینی معاملات میں امین ثابت ہوں گے۔ چنانچہ ان میں بہت سے وہ ہیں جن کے پاس زیادہ تو کیا، ایک اشرفی بھی امانت رکھی جائے تو تھوڑی دیر بعد مکر جائیں۔ اور جب تک کوئی تقاضہ کے لئے ہر وقت ان کے سر پر کھڑا نہ رہے اور پیچھا کرنے والا نہ ہو، امانت ادا نہ کریں۔ بیشک ان میں سب کا حال ایسا نہیں، بعض ایسے بھی ہیں جن کے پاس اگر سونے کا ڈھیر رکھ دیا جائے تو ایک رتی خیانت نہ کریں۔ لیکن یہی خوش معاملہ اور امین لوگ ہیں۔ جو یہودیت سے بیزار ہو کر اسلام کے حلقہ بگوش بنتے جا رہے ہیں۔  مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ رضی اللہ عنہ۔

(تفسیر عثمانی)

 

کیوں نہیں ؟ جو کوئی اپنا اقرار پورا کرے، اور پرہیزگار رہے، تو بے شک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے (۷۶)

تشریح:یعنی خیانت و بد عہدی میں گناہ کیوں نہیں، جبکہ خدا تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جو کوئی خدا کے اور بندوں کے جائز عہد پورے کرے اور خدا سے ڈر کر تقویٰ کی راہ چلے یعنی فاسد خیالات مذموم اعمال اور پست اخلاق سے پرہیز کرے، اسی سے خدا محبت کرتا ہے۔ اس میں امانتداری کی خصلت بھی آ گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ اللہ کے اقرار اور اپنی قسموں سے حاصل کرتے ہیں تھوڑی قیمت، یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور نہ اللہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا قیامت کے دن اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے (۷۷)

تشریح:یعنی جو لوگ دنیا کی متاع قلیل لے کر خدا کے عہد اور آپس کی قسموں کو توڑ ڈالتے ہیں، نہ باہمی معاملات درست رکھتے ہیں نہ خدا سے جو قول و قرار کیا تھا اس پر قائم رہتے ہیں۔ بلکہ مال و جاہ کی حرص میں احکام شرعیہ کو بدلتے اور کتب سماویہ میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔ ان کا انجام آگے مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ یہود میں صفت تھی کہ اللہ نے ان سے اقرار لیا تھا اور قسمیں دی تھیں کہ ہر نبی کے مددگار رہیو۔ پھر غرض دنیا کے واسطے پھر گئے اور جو کوئی جھوٹی قسم کھائے دنیا لینے کے واسطے اس کا یہ ہی حال ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور بیشک ان میں ایک فریق ہے جو کتاب (پڑھتے وقت) اپنی زبانیں مروڑتے ہیں، تا کہ تم سمجھو کہ وہ کتاب سے ہے، حالانکہ وہ کتاب سے نہیں (ہوتا) اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ نہیں اللہ کی طرف سے اور اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور وہ جانتے ہیں (۷۸)

تشریح:یہ اہل کتاب کی تحریف کا حال بیان فرمایا۔ یعنی آسمانی کتاب میں کچھ چیزیں اپنی طرف سے بڑھا گھٹا کر ایسے انداز اور لہجہ میں پڑھتے ہیں کہ ناواقف سننے والا دھوکہ میں آ جائے۔ اور یہ سمجھے کہ یہ بھی آسمانی کتاب کی عبارت ہے یہ ہی نہیں بلکہ زبان سے دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ یہ سب اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے۔ حالانکہ نہ وہ مضمون کتاب میں موجود ہے اور نہ خدا کے پاس سے آیا ہے، بلکہ خود اس تحریف شدہ کتاب کو بھی بہیاَتِ مجموعی خدا کی کتاب نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ اس میں طرح طرح کے تصرّفات اور جعلسازیاں کی گئی ہیں۔ آج بائبل کے جو نسخے دنیا میں موجود ہیں ان میں باہم شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور بعض ایسے مضامین درج ہیں جو قطعاً خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتے۔ اس کی کچھ تفصیل ”روح المعانی” میں موجود ہے۔ اور اثبات تحریف پر ہمارے علماء نے مبسوط بحثیں کی ہیں۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم اللہ کے بجائے میرے بندے ہو جاؤ، لیکن (چاہیے کہ کہے ) تم اللہ والے ہو جاؤ اس لیے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور تم خود (بھی)پڑھتے ہو(۷۹)

اور نہ وہ تمہیں حکم دے گا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو پروردگار ٹھہراؤ، کیا وہ تہیں حکم دے گا کفر کا اس کے بعد کہ تم مسلمان (فرماں بردار) ہو چکے ؟(۸۰)

تشریح:وفد نجران کی موجودگی میں بعض یہود و نصاریٰ نے کہا تھا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم تمہاری اسی طرح پرستش کرنے لگیں، جیسے نصاریٰ عیسٰی ابن مریم کو پوجتے ہیں، آپ نے فرمایا: معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی بندگی کریں، یا دوسروں کو اس کی دعوت دیں ؟ حق تعالیٰ نے ہم کو اس کام کے لئے نہیں بھیجا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی جس بشر کو حق تعالیٰ کتاب و حکمت اور قوتِ فیصلہ دیتا، اور پیغمبری کے منصبِ جلیل پر فائز کرتا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک پیغامِ الہٰی پہنچا کر لوگوں کو اُسکی بندگی اور وفاداری کی طرف متوجہ کرے، اس کا یہ کام کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان کو خالص ایک خدا کی بندگی سے ہٹا کر خود اپنا یا کسی دوسری مخلوق کا بندہ بنانے لگے۔ اس کے تو یہ معنیٰ ہوں گے کہ خداوند قدوس نے جس کو جس منصب کا اہل جان کر بھیجا تھا، فی الواقع وہ اس کا اہل نہ تھا۔ دنیا کی کوئی گورنمنٹ بھی اگر کسی شخص کو ایک ذمہ داری کے عہدہ پر مامور کرتی ہے تو پہلے دو باتیں سوچ لیتی ہے۔ (۱) یہ شخص گورنمنٹ کی پالیسی کو سمجھنے اور اپنے فرائض کو انجام دینے کی لیاقت رکھتا ہے یا نہیں (۲) گورنمنٹ کے احکام کی تعمیل کرنے اور رعایا کو جادہ وفاداری پر قائم رکھنے کی کہاں تک اس سے توقع کی جا سکتی ہے ؟ کوئی بادشاہ یا پارلیمنٹ ایسے آدمی کو نائب السلطنت یا سفیر مقرر نہیں کر سکتی جس کی نسبت حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے یا اس کی پالیسی اور احکام سے انحراف کرنے کا ادنیٰ شبہ ہو، بیشک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کی قابلیت یا جذبہ وفاداری کا اندازہ حکومت صحیح طور پر نہ کر سکی ہو۔ لیکن خداوند قدوس کے یہاں یہ بھی احتمال نہیں۔ اگر فرد کی نسبت اس کو علم ہے کہ یہ میری وفاداری اور اطاعت شعاری سے بال برابر تجاوز نہ کرے گا تو محال ہے کہ وہ آگے چل کر اس کے خلاف ثابت ہو سکے۔ ورنہ علم الہٰی کا غلط ہونا لازم آتا ہے۔ العیاذ باللہ یہیں سے عصمت انبیاء علیہم السلام کا مسئلہ سمجھ میں آ جاتا ہے (کما نبہ علیہ ابوحیان فی البحر وفصّلہ مولانا قاسم العلوم وا لخیرات فی تصانیفہ) پھر جب انبیاء علہیم السلام ادنیٰ عصیان سے پاک ہیں تو شرک اور خدا کے مقابلہ میں بغاوت کرنے کا امکان کہاں باقی رہ سکتا ہے۔ اس میں نصاریٰ کے اس دعوے کا بھی رَد ہو گیا جو کہتے تھے کہ ابنیت و الوہیت مسیح کا عقیدہ ہم کو خود مسیح علیہ السلام نے تعلیم فرمایا ہے اور ان مسلمانوں کو بھی نصیحت کر دی گئی جنہوں نے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ ہم سلام کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا کریں تو کیا حرج ہے اور اہلِ کتاب پر بھی تعریض ہو گئی جنہوں نے اپنے احبار و رہبان کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھے (العیاذ باللہ) تنبیہ: مَاکَانَ لِبَشَرٍ الخ میں ابوحیان کے نزدیک اسی طرح کی نفی ہے جیسے مَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَھَا میں، یا وَمَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہ میں۔ وہو اصوب عندی۔

موضح القرآن میں ہے ”جسکو اللہ نبی بنائے اور وہ لوگوں کو کفر و شرک سے نکال کر مسلمانی میں لائے، پھر کیونکر ان کو کفر سکھلائے گا۔ ہاں تم کو (اے اہل کتاب!) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی۔ کتاب کا پڑھنا اور سکھانا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ اور عالم، حکیم، عارف، مدبر، متقی اور پکے خدا پرست بن جاؤ۔ اور یہ بات اب قرآن کریم پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے سے حاصل ہو سکتی ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

پھر تمہارے پاس رسول آئے اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے، اس نے فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور تم نے اس پر میرا عہد قبول کیا؟انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کیا، اس پر فرمایا پس تم گواہ رہو اور میں تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں (۸۱)

پھر جو اس کے بعد پھر جائے تو وہی نافرمان ہیں (۸۲)

تشریح:یعنی کوئی نبی اپنی بندگی کی تعلیم نہیں دے سکتا، بندگی صرف ایک خدا کی سکھائی جاتی ہے، البتہ انبیاء کا حق یہ ہے کہ لوگ ان پر ایمان لائیں، ان کا کہا مانیں، اور ہر قسم کی مدد کریں، عام لوگوں کا تو کیا ذکر ہے، حق تعالیٰ نے خود پیغمبروں سے بھی یہ پختہ عہد لے چھوڑا ہے کہ جب تم میں سے کسی نبی کے بعد دوسرا نبی آئے (جو یقیناً پہلے انبیاء اور ان کی کتابوں کی اجمالاً یا تفصیلاً تصدیق کرتا ہوا آئے گا) تو ضروری ہے کہ پہلا نبی پچھلے کی صداقت پر ایمان لائے اور اس کی مدد کرے، اگر اس کا زمانہ پائے تو بذاتِ خود بھی اور نہ پائے تو اپنی اُمت کو پوری طرح ہدایت و تاکید کر جائے کہ بعد میں آنے والے پیغمبر پر ایمان لا کر اس کی اعانت و نُصرت کرنا، کہ یہ وصیت کر جانا بھی اس کی مدد کرنے میں داخل ہے۔ اس عام قاعدہ سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے کہ خاتم الانبیاء محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کا عہد بلا استثناء تمام انبیائے سابقین سے لیا گیا ہو گا اور انہوں نے اپنی اپنی اُمتّوں سے یہی قول و قرار لئے ہوں گے،  کیونکہ ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مخزن الکمالات ہستی تھی جو عالمِ غیب میں سب سے پہلے اور عالمِ شہادت میں سب انبیاء کے بعد جلوہ افروز ہونے والی تھی، اور جس کے بعد کوئی نبی آنے والا نہ تھا، اور آپ ہی کا وجود باوجود تمام انبیائے سابقین اور کتب سماویہ کی حقانیت پر مُہر تصدیق ثبت کرنے والا تھا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے منقول ہے کہ اس قسم کا عہد انبیاء سے لیا گیا، اور خود آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آج موسٰی علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے بدون چارہ نہ ہوتا، اور فرمایا کہ عیسٰی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو کتاب اللہ (قرآن کریم) اور تمہارے نبی کی سنت پر فیصلے کریں گے، محشر میں شفاعت کبریٰ کے لئے پیش قدمی کرنا اور تمام بنی آدم کا آپ کے جھنڈے تلے جمع ہونا اور شبِ معراج میں بیت المقدس کے اندر تمام انبیاء کی امامت کرانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی سیادت عامہ اور امامت عظمیٰ کے آثار میں سے ہے، اللّٰھم صل علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آل سیدنا محمد و بارک و سلم۔

یہ الفاظ محض عہد کی تاکید و اہتمام کے لئے فرمائے کیونکہ جس عہد نامہ پر خدا تعالیٰ اور پیغمبروں کی گواہی ہو اس سے زیادہ پکی دستاویز کہاں ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ اللہ کے دین کے سوا (کوئی اور دین) ڈھونڈتے ہیں ؟ اور اسی کا فرماں بردار ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، خوشی سے اور ناخوشی سے اور اسی کی طرف وہ لوٹائے جائیں گے (۸۳)

تشریح:مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں حکم اللہ تعالی ہی کا چلتا ہے اہل ایمان اللہ کے ہر حکم کو دل و جان سے بخوشی قبول کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالی کو مانتے بھی نہ ہوں ان کو بھی چار و ناچار اللہ کے ان فیصلوں کے آگے سرجھکانا پڑتا ہے جو وہ اس کائنات کے انتظام کے لئے کرتا ہے، مثلاً اللہ تعالی اگر کسی کو بیمار کرنے کا فیصلہ فرما لے توکوئی اسے پسند کرے یا ناپسند ہر حال میں وہ فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور کوئی مؤمن ہو یا کافر اسے فیصلے کے آگے سرجھکائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

(توضیح القرآن)

 

کہہ دیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو نازل کیا گیا ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ پر اور ان کی اولاد پر، اور جو دیا گیا موسٰیؑ اور عیسٰیؑ اور نبیوں کو۔ ان کے رب کی طرف سے، ہم فرق نہیں کرتے ان میں سے کسی ایک کے درمیان اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں (۸۴)

تشریح:یعنی جو کچھ جس زمانہ میں خدا کی طرف سے اُترا، یا کسی پیغمبر کو دیا گیا، ہم بلا تفریق سب کو حق مانتے ہیں، ایک مسلم فرمانبردار کا یہ وتیرہ نہیں کہ خدا کے بعض پیغمبروں کو مانے بعض کو نہ مانے، گویا اخیر میں ونحن لہ مسلمون کہہ کر اسلام کی حقیقت بتلا دی اور آگاہ کر دیا کہ اسلام کسی نبی برحق اور کسی آسمانی کتاب کی تکذیب کا روا دار نہیں، اس کے نزدیک جس طرح قرآن کریم اور پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ماننا کفر ہے ایسے ہی کسی ایک نبی یا کتاب سماوی کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے، بیشک پیغمبر آخر الزماں کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ تمام پہلی کتابوں اور نبوتوں کا مصدق ہو، اور اس طرح کی تمام اقوام کو جن کے پاس مقامی ”نذیر” و ”ہادی” آتے رہے تھے، جامعیت کُبریٰ کے سب سے بڑے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کا راستہ بتلائے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور جو کوئی چاہے گا اسلام کے سوا کوئی اور دین، تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں سے ہو گا(۸۵)

تشریح:یعنی جب خدا کا دین (اسلام) اپنی مکمل صورت میں آ پہنچا تو کوئی جھوٹا یا نامکمل دین قبول نہیں کیا جا سکتا، طلوع آفتاب کے بعد مٹی کے چراغ جلانا یا گیس بجلی اور ستاروں کی روشنی تلاش کرنا محض لغو اور کھلی حماقت ہے، مقامی نبوتوں اور ہدایتوں کا عہد گزر چکا، اب سب سے بڑی آخری اور عالمگیر نبوت و ہدایت سے ہی روشنی حاصل کرنی چاہیے کہ یہی تمام روشنیوں کا خزانہ ہے جس میں پہلی تمام روشنیاں مدغم ہو چکی ہیں۔ فانک شمس والملوک کواکب۔ اذاطلعت لم یبد منھن کوکب۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے گا جو کافر ہو گئے اپنے ایمان کے بعد اور گواہی دے چکے کہ یہ رسول سچے ہیں اور ان کے پاس کھلی نشانیاں آ گئیں، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا(۸۶)

تشریح:جن لوگوں نے وضوح ِحق کے بعد جان بوجھ کر کفر اختیار کیا، یعنی دل میں یقین رکھتے ہیں اور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں اقرار کرتے ہیں کہ یہ رسُول سچّا ہے، اُسکی حقانیت و صداقت کے روشن دلائل، کھلے نشانات اور صاف بشارات ان کو پہنچ چکی ہیں، اس پر بھی کبر وحسد اور حُب جاہ و مال، اسلام قبول کرنے اور کفر و عدوان کے چھوڑنے سے مانع ہے جیسا کہ عموماً یہود و نصاریٰ کا حال تھا، ایسے ہٹ دھرم، ضدی معاندین کی نسبت کیونکر توقع کی جا سکتی ہے کہ باوجود اس طرح کا رویہ قائم رکھنے کے خدا تعالیٰ ان کو نجات و فلاح اور اپنی خوشنودی کے راستہ پر لے جائے گا یا جنت تک پہنچنے کی راہ دے گا، اُسکی عادت نہیں کہ ایسے بے انصاف متعصب ظالموں کو حقیقی کامیابی کی راہ دے، اسی پر ان بدبختوں کو قیاس کر لو جو قلبی معرفت و یقین کے درجہ سے بڑھ کر ایک مرتبہ مسلمان بھی ہو چکے تھے، پھر دنیاوی اغراض اور شیطانی اغواء سے مرتد ہو گئے، یہ ان پہلوں سے زیادہ کج رو اور بے حیا واقع ہوئے، اس لئے ان سے بڑھ کر لعنت و عقوبت کے مستحق ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ایسے لوگوں کی سزا ہے کہ ان پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی(۸۷)

تشریح:یعنی خدا، فرشتے اور مسلمان لوگ سب ان پر لعنت بھیجتے ہیں، بلکہ ہر انسان حتیٰ کہ وہ خود بھی اپنے اُوپر لعنت کرتے ہیں، جب کہتے ہیں کہ ظالموں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت، گو اس وقت سمجھتے نہیں کہ یہ لعنت خود ان ہی پر واقع ہو رہی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی(۸۸)

تشریح:یعنی اس لعنت کا اثر ہمیشہ رہے گا، دنیا میں پھٹکار اور آخرت میں خدا کی مار، انہیں نہ کسی وقت عذاب کی شدت میں کمی محسوس ہو گی اور نہ ذراسی دیر کے لئے عذاب ملتوی کر کے آرام دیا جائے گا

(تفسیرعثمانی)

 

مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کی تو بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے (۸۹)

تشریح:ایسے سخت بے حیا مجرموں اور شدید ترین باغیوں کو کون بادشاہ معافی دے سکتا ہے ؟ لیکن یہ اس غفور رحیم ہی کی بارگاہ ہے کہ اس قدر شدید جرائم اور بغاوتوں کے بعد بھی اگر مجرم نادم ہو کر سچے دل سے توبہ اور نیک چال چلن اختیار کر لے تو سب گناہ یک قلم معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ اللّٰھُمَّ اغْفِرْذَنُوْبِیْ فاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ کافر ہو گئے اپنے ایمان کے بعد، پھر بڑھتے چلے گئے کفر میں ان کی توبہ ہرگز نہ قبول کی جائے گی اور وہی لوگ گمراہ ہیں (۹۰)

تشریح:یعنی جو لوگ حق کو مان کر اور سمجھ بوجھ کر منکر ہوئے پھر اخیر تک انکار میں ترقی کرتے رہے، نہ کبھی کفر سے ہٹنے کا نام لیا، نہ حق اور اہلِ حق کی عداوت ترک کی، بلکہ حق پرستوں کے ساتھ بحث و مناظرہ اور جنگ و جدل کرتے رہے، جب مرنے کا وقت آیا اور فرشتے جان نکالنے لگے تو توبہ کی سُوجھی، یا کبھی کسی مصلحت سے ظاہر طور پر رسمی الفاظ توبہ کہہ لئے یا کفر پر برابر قائم رہتے ہوئے دوسرے اعمال سے توبہ کر لی جنہیں اپنے زعم میں گناہ سمجھ رہے تھے، یہ توبہ کسی کام کی نہیں، بارگاہ رب العزت میں اس کے قبول کی کوئی امید نہ رکھیں، ایسے لوگوں کو سچی توبہ نصیب ہی نہ ہو گی جو قبول ہو، ان کا کام ہمیشہ گمراہی کی وادیوں میں پڑے بھٹکتے رہنا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ مر گئے حالت کفر میں تو ہرگز نہ قبول کیا جائے گا ان میں سے کسی سے زمین بھر سونا بھی اگرچہ وہ اس کو بدلہ میں دے، یہی لوگ ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں (۹۱)

تشریح:یعنی دنیا کی حکومتوں کی طرح وہاں سونے چاندی کی رشوت نہ چلے گی، وہاں تو صرف دولتِ ایمان کام دے سکتی ہے، فرض کرو ایک کافر کے پاس اگر اتنا ڈھیر سونے کا ہو جس سے ساری زمین بھر جائے اور وہ سب کا سب پُن خیرات کر دے تو خدا کے یہاں اُسکی ذرّہ برابر وقعت نہیں نہ آخرت میں یہ عمل کچھ کام دے گا، کیونکہ عمل کی روح ایمان ہے جو عمل روحِ ایمان سے خالی ہو مردہ عمل ہو گا، جو آخرت کی ابدی زندگی میں کام نہیں دے سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے، جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو، اور جو تم خرچ کرو گے کوئی چیز تو بیشک اللہ اس کو جاننے والا ہے (۹۲)

تشریح:پیچھے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر:۶۷ میں یہ حکم گزرا ہے کہ صرف خراب اور ردی قسم کی چیزیں صدقے میں نہ دیا کرو، بلکہ اچھی چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اب اس آیت میں مزید آگے بڑھ کر یہ کہا جا رہا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ اچھی چیزیں اللہ کی خوشنودی کے لئے دو،  بلکہ جن چیزوں سے تمہیں زیادہ محبت ہے ان کو اس راہ میں نکالو تاکہ صحیح معنی میں اللہ کے لئے قربانی کا مظاہرہ ہوسکے، جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ نے اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیزیں صدقہ کرنی شروع کر دیں جس کے بہت سے واقعات حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں ملاحظہ ہو معارف القرآن جلد دوم ص:۱۰۷، ۱۰۸۔

(توضیح القرآن)

 

تمام کھانے حلال تھے بنی اسرائیل کے لئے، مگر جو یعقوب نے اپنے آپ پر حرام کر لیا تھا اس سے قبل کہ توریت اترے، آپ کہہ دیں کہ تم توریت لاؤ پھر اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو(۹۳)

پھر جو کوئی اللہ پر اس کے بعد جھوٹ باندھے تو وہی لوگ ظالم ہیں (۹۴)

آپ کہہ دیں اللہ نے سچ فرمایا اب تم ابراہیم حنیف(ایک کہ ہو جانے والے )کے دین کی پیروی کرو اور وہ مشرکوں سے نہ تھے (۹۵)

 

تشریح:بعض یہودیوں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار ہیں حالانکہ آپ اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں جو تورات کی رو سے حرام ہے، ان آیات میں اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اونٹ کا گوشت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین میں حرام نہیں تھا،  بلکہ تورات نازل ہونے سے پہلے بنی اسرائیل کے لئے بھی وہ سب چیزیں حلال تھیں جو آج مسلمانوں کے لئے حلال ہیں،  البتہ ہوا یہ تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اونٹ کا گوشت اپنے اوپر حرام کر لیا تھا جس کی وجہ حضرت ابن عباسؓ نے یہ بتائی ہے کہ ان کو عرق النساء کی بیماری تھی اور انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا ہو گئی تومیں اپنے کھانے کی سب سے پسندیدہ چیز چھوڑ دوں گا، انہیں اونٹ کا گوشت سب سے زیادہ پسند تھا، اس لئے شفا حاصل ہونے پر انہوں نے اسے چھوڑ دیا (روح المعانی بحوالہ مستدرک حاکم صحیح)اب قرآن کریم نے یہاں صریح الفاظ میں یہ بات نہیں بتائی کہ آیا اس کے بعد یہ گوشت بنی اسرائیل پر بھی حرام کر دیا گیا تھا یا نہیں لیکن سورۂ نساء (۴:۱۶۰)میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر بہت سی اچھی چیزیں بھی حرام کر دی گئی تھیں اور اسی سورت کی ۵۰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ اور جو کتاب مجھ سے پہلے آ چکی ہے یعنی تورات میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور (اس لئے بھیجا گیا ہوں ) تاکہ کچھ چیزیں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اب تمہارے لئے حلال کر دوں، نیز یہاں تورات نازل ہونے سے پہلے کے الفاظ بھی یہ بتا رہے ہیں کہ اونٹ کا گوشت شاید تورات نازل ہونے کے بعد ان پر حرام کر دیا گیا تھا، اب جو چیلنج ان کو دیا گیا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو تورات لے کر آؤ اور اس کی تلاوت کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تورات میں یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ اونٹ کا گوشت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے حرام چلا آتا ہے، اس کے برعکس یہ حکم صرف بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا،  چنانچہ اب بھی بائبل کی کتاب احبار میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کی نظر میں تورات کا ایک حصہ ہے اونٹ کی حرمت بنی اسرائیل ہی کے لئے بیان ہوئی ہے :تم بنی اسرائیل سے کہو کہ تم ان جانوروں کا گوشت نہ کھانا یعنی اونٹ کو سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے (احبار۱۱:۱۔ ۴)خلاصہ یہ کہ اونٹ کا گوشت اصلاً حلال ہے مگر حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے نذر کی وجہ سے اور بنی اسرائیل کے لئے ان کی نافرمانیوں کی بنا پر حرام کیا گیا تھا، اب امت محمدیہ(علی صاحبہا السلام) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کا اصل حکم لوٹ آیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک سب سے پہلے جو گھر مقرر کیا گیا لوگوں کے لئے وہ جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت سارے جہانوں کے لئے (۹۶)

تشریح:مسلمانوں کے اس دعوے پر کہ ہم سب سے زیادہ ابراہیم سے اشبہ و اقرب ہیں، یہود کو یہ بھی اعتراض تھا کہ ابراہیم علیہ السلام نے وطن اصلی (عراق) چھوڑ کر شام کو ہجرت کی، وہیں رہے وہیں وفات پائی، بعدہٗ ان کی اولاد شام میں رہی، کتنے انبیاء اسی مقدس سرزمین میں مبعوث ہوئے سب کا قبلہ بیت المقدس رہا کیا، پھر تم حجاز کے رہنے والے جنہوں نے بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو اپنا قبلہ بنا لیا ہے اور سرزمین شام سے دور ایک طرف پڑے ہو کس منہ سے دعویٰ کر سکتے ہو کہ ابراہیم و ملت ابراہیم سے تم کو زیادہ قرب و مناسبت حاصل ہے، اس آیت میں معترضین کو بتلایا گیا کہ بیت المقدس وغیرہ مقامات مقدسہ تو بعد میں تعمیر ہوئے ہیں، دنیا میں سب سے پہلا متبرک گھر جو لوگوں کی توجہ الی اللہ کے لئے مقرر کیا گیا اور بطور ایک عبادت گاہ اور نشان ہدایت کے بنایا گیا، وہ یہی کعبہ شریف ہے جو اس مبارک شہر مکہ معظمہ میں واقع ہوا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں نشانیاں ہیں کھلی جیسے مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں ہو گیا اور اللہ کے لئے (اللہ کا حق ہے) لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج کرنا، جو اس کی طرف راہ(چلنے کی)قدرت رکھتا ہو، اور جس نے کفر کیا تو بیشک اللہ جہان والوں سے بے نیاز ہے (۹۷)

تشریح:اللہ تعالی نے اپنی مخلوق پر بیت اللہ کا حج کرنا لازم و واجب قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت استطاعت رکھتے ہوں، اس مقدرت اور استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے فاضل اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کرسکے اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے، نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے وہاں جانے اور ارکان حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہو گی۔

اسی طرح عورت کے لئے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لئے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی جب کہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو یا یہ عورت اس کا خرچ بھی برداشت کرے، اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لئے راستہ کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جزء ہے اگر راستہ میں بدامنی ہو جان و مال کا قوی خطرہ ہو تو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے گی۔

(معارف القرآن)

 

آپ کہہ دیں اے اہل کتاب کیوں تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہو؟اور اللہ اس پر گواہ ہے (باخبر ہے )جوتم کرتے ہو(۹۸)

تشریح:پہلے سے خطاب یہود و نصاریٰ کو کیا جا رہا تھا، درمیان میں ان کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا، یہاں سے پھر ان کو تنبیہ و توبیخ کی گئی، یعنی حق و صداقت کے واضح دلائل اور قرآن کریم کی ایسی سچی اور پکی باتیں سننے کے بعد بھی تمہیں کیا ہوا کہ باوجود اہل کتاب کہلانے کے برابر کلام اللہ اور اس کے لانے والے کے انکار پر تلے ہوئے ہو، یاد رکھو تمہاری سب کاروائیاں خدا کے سامنے ہیں تمہاری نیتوں اور تدبیروں کو وہ خوب جانتا ہے، جس وقت پکڑے گا، رتی رتی کا حساب لے کر چھوڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ کہہ دیں اے اہل کتاب!تم اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو(اس کو)جو اللہ پر ایمان لائے تم اس میں ڈھونڈتے ہو کجی اور تم خود گواہ ہو، اور اللہ اس سے بے خبر نہیں جوتم کرتے ہو(۹۹)

تشریح:یہاں سے ۱۰۸ تک کی آیات ایک خاص واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، مدینہ منورہ میں دو قبیلے اوس و خزرج کے نام سے آباد تھے، اسلام سے پہلے ان کے درمیان سخت دشمنی تھی اور دونوں میں وقتاً فوقتاً جنگیں ہوتی رہتی تھیں جو بعض اوقات سالہا سال جاری رہتی تھیں، جب ان قبیلوں کے لوگ مسلمان ہو گئے تواسلام کی برکت سے ان کی یہ دشمنی ختم ہو گئی اور اسلام کے دامن میں آ کر وہ شیر و شکر  ہو کر رہنے لگے، بعض یہودیوں کو ان کا یہ اتحاد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، ایک مرتبہ دونوں قبیلوں کے لوگ ایک مجلس میں جمع تھے، ایک یہودی شماس بن قیس نے ان کے پیار محبت کا یہ منظر دیکھا تواس سے نہ رہا گیا اور اس نے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے یہ ترکیب کی کہ ایک شخص سے کہا کہ اس مجلس میں وہ اشعار سنادو جو زمانۂ جاہلیت میں اوس اور خزرج کے شاعروں نے ایک لمبی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف کہے تھے، اس شخص نے وہ اشعار سنانے شروع کر دئے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان اشعار سے پرانی باتیں تازہ ہو گئیں، شروع میں دونوں قبیلوں کے لوگوں میں زبانی تکرار ہوئی پھر بات بڑھ گئی اور آپس میں نئے سرے سے جنگ کی تاریخ اور وقت مقرر ہونے لگا، آنحضرتﷺ کو علم ہوا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ یہ سب شیطانی حرکت تھی، بالآخر آپ کے سمجھانے سے یہ فتنہ ختم ہوا، ان آیتوں میں اللہ تعالی نے پہلے تو یہودیوں سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ اول تو تم کو خود ایمان لانا چاہئے اور اگر خود اس سعادت سے محروم ہو تو کم از کم ان لوگوں کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالو جو ایمان لا چکے ہیں، اس کے بعد بڑے مؤثر انداز میں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے اور آخر میں باہمی جھگڑوں سے بچنے کا علاج یہ بتایا ہے کہ اپنے آپ کو دین کی تبلیغ و دعوت میں مصروف کر لو تواس سے اشاعت اسلام کے علاوہ یکجہتی بھی پیدا ہو گی۔

(توضیح القرآن)

 

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو(اے ایمان والو)اگر کہا مانو گے ان لوگوں کے ایک فریق کا جنہیں کتاب دی گئی(اہل کتاب)وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں (حالت)کفر میں پھیر دیں گے (۱۰۰)

اور تم کیسے کفر کرتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول موجود ہے اور جو کوئی مضبوطی سے پکڑے گا اللہ(اللہ کی رسی) کوتو اسے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دی گئی(۱۰۱)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو(اے ایمان والو)اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرنا مگر(اس حال میں )کہ تم مسلمان ہو(۱۰۲)

تشریح:یعنی ہر مسلمان کے دل میں پورا ڈر خدا کا ہونا چاہیے کہ اپنے مقدور بھر پرہیزگاری و تقویٰ کی راہ سے نہ ہٹے اور ہمیشہ اس سے استقامت کا طالب رہے، شیاطین چاہتے ہیں کہ تمہارا قدم اسلام کے راستہ سے ڈگمگا دیں، تم کو چاہیے کہ انہیں مایوس کر دو، اور مرتے دم تک کوئی حرکت مسلمانی کے خلاف نہ کرو، تمہارا جینا و مرنا خالص اسلام پر ہونا چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو جب(ایک دوسرے )کے دشمن تھے تواس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تواس نے تمہیں اس سے بچا لیا اسی طرح وہ تمہارے لئے واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (۱۰۳)

تشریح:یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے، یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے، اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل اختلال ہو جائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیاتِ تازہ حاصل کرتی ہے، لیکن تمسک بالقرآن کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و اہواء کا تختہ مشق بنا لیا جائے، بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہی معتبر ہو گا جو احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو۔

صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر خدا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے تم کو بھائی بھائی بنا دیا۔ جس سے تمہارا دین اور دنیا دونوں درست ہوئے اور ایسی ساکھ قائم ہو گئی ہے جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوتے ہیں، یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسّر نہ آسکتی تھی۔

کفر و عصیان کی بدولت دوزخ کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے کہ موت آئی اور اس میں گرے، خدا نے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اس سے بچا لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ایمان و ایقان کی روشنی سینوں میں ڈالی، حق تعالیٰ کے ان عظیم الشان دینی و دنیاوی احسانات کو یاد رکھو گے تو کبھی گمراہی کی طرف واپس نہ جاؤ گے۔

یہ باتیں اس قدر کھول کھول کر سنانے سے مقصود یہ ہے کہ ہمیشہ ٹھیک راستہ پر چلتے رہو، ایسی مہلک و خطرناک غلطی کا پھر اعادہ نہ کرو اور کسی شیطان کے اغوا سے استقامت کی راہ نہ چھوڑو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت رہے وہ بھالی کی طرف بلائے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برائی سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں (۱۰۴)

تشریح:یعنی تقویٰ، اعتصام بحبل اللہ، اتحاد و اتفاق قومی زندگی، اسلامی مواخات، یہ سب چیزیں اس وقت باقی رہ سکتی ہیں جبکہ مسلمانوں میں ایک جماعت خاص دعوت و ارشاد کے لئے قائم رہے، اس کا وظیفہ یہی ہو کہ اپنے قول و عمل سے دنیا کو قرآن و سنت کی طرف بلائے اور جب لوگوں کو اچھے کاموں میں سست یا برائیوں میں مبتلا دیکھے، اس وقت بھلائی کی طرف متوجہ کرنے اور برائی سے روکنے میں اپنے مقدور کے موافق کوتاہی نہ کرے، ظاہر ہے کہ یہ کام وہ ہی حضرات کر سکتے ہیں جو معروف و منکر کا علم رکھنے اور قرآن و سنت سے باخبر ہونے کے ساتھ ذی ہوش اور موقع شناس ہوں، ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر یا منکر کو معروف خیال کر کے بجائے اصلاح کے سارا نظام ہی مختل کر دے، یا ایک منکر کی اصلاح کا ایسا طریقہ اختیار کرے جو اس سے بھی زیادہ منکرات کے حدوث کا موجب ہو جائے، یا نرمی کی جگہ سختی اور سختی کے موقع میں نرمی برتنے لگے، شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہل ہو، حدیث میں ہے جب لوگ منکرات میں پھنس جائیں اور کوئی روکنے والا نہ ہو تو عام عذاب آنے کا اندیشہ ہے، باقی یہ کہ کن احوال و اوقات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترک میں آدمی معذور سمجھا جا سکتا ہے اور کن مواقع میں واجب یا مستحب ہے اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ”ابو بکر رازی نے ” احکام القرآن میں اس پر نہایت مبسوط کلام کیا ہے، فلیراجع۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو متفرق ہو گئے اور باہم اختلاف کرنے لگے اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح حکم آ گئے اور یہی لوگ ہیں ان کے لئے ہے عذاب بہت بڑا(۱۰۵)

تشریح:(تنبیہ) اس آیت سے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کا مذموم و مہلک ہونا معلوم ہوا جو شریعت کے صاف احکام پر مطلع ہونے کے بعد پیدا کئے جائیں، افسوس ہے کہ آج مسلمان کہلانے والوں میں بھی سینکڑوں فرقے شریعت اسلامیہ کے صاف و صریح اور مسلم و محکم اصول سے الگ ہو کر اور ان میں اختلاف ڈال کر اس عذاب کے نیچے آئے ہوئے ہیں، تاہم اسی طوفان بے تمیزی میں اللہ و رسول کے وعدہ کے موافق ایک عظیم الشان جماعت بحمداللہ خدا کی رسی کو مضبوط تھامے ہوئے مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ کے مسلک پر قائم ہے اور تا قیام قیامت قائم رہے گی، باقی فروعی اختلافات جو صحابہ رضی اللہ عنہم اور ائمہ مجتہدین میں ہوئے ہیں، ان کو آیت حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں، اس فروعی اختلاف کے اسباب پر حضرت شاہ ولی اللہ قدس سر ہ، نے اپنی تصانیف میں کافی و شافی بحث کی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے پس جن لوگوں کے سیاہ ہوئے چہرے (ان سے کہا جائے گا)کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا تواب عذاب چکھو کیونکہ تم کفر کرتے تھے (۱۰۶)

البتہ جن لوگوں کے چہرے سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (۱۰۷)

یہ اللہ کی آیات ہیں ہم آپ پر ٹھیک ٹھیک پڑھتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر کوئی ظلم نہیں چاہتا(۱۰۸)

اور اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور تمام کام اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے (۱۰۹)

تشریح: یعنی بعضوں کے چہرہ پر ایمان و تقویٰ کا نور چمکتا ہو گا اور عزت و وقار کے ساتھ شاداں و فرحاں نظر آئیں گے۔ ان کے برخلاف بعضوں کے منہ کفر و نفاق یا فسق و فجور سے کالے ہوں گے، صورت سے ذلت و رسوائی ٹپک رہی ہو گی۔ گویا ہر ایک کا ظاہر باطن کا آئینہ بن جائے گا۔

أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ : کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا، یہ الفاظ مرتدین، منافقین، اہل کتاب، عام کفار یا مبتدعین و فساق و فجار سب کو کہے جا سکتے ہیں۔ ”مرتد” تو اسی کو کہتے ہیں جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائے۔ ”منافق” زبان سے اقرار کرنے کے بعد دل سے کافر رہتا ہے۔ ”اہل کتاب” اپنے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانے کے مدعی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سب بشارتوں کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دی گئی تھیں تسلیم کریں اور ان کی ہدایات کے موافق حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں مگر وہ انکار میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ گویا اپنے نبی اور کتاب پر ایمان لانے کے بعد کافر بن رہے ہیں۔ مبتدعین کا دعویٰ زبان سے یہ ہوتا ہے کہ ہم قرآن و سنت کے متبع ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے ہیں، مگر اس کے بعد بہت سی بے اصل اور باطل چیزیں دین میں شامل کر کے یا بعض ضروریاتِ دین کا انکار کر کے اصلی دین سے نکل جاتے ہیں، اس طرح وہ بھی ایک درجہ میں اَکَفَرْ تُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کے مخاطب ہوئے، رہے فساق جن کا عقیدہ صحیح ہو، اگر ان سے خطاب ہوا تو یہ مطلب ہو گا کہ ایمان لانے کے بعد کافروں جیسے عمل کیوں کئے۔ گویا کفر سے عملی کفر مراد ہو گا اور اگر عام کفار کے حق میں یہ خطاب مانا جائے تو یہ حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ نے سب کو دین فطرت پر پیدا کیا۔ اس فطرت ایمانی کو ضائع کر کے کافر کیوں بنے۔ باقی سیاق آیات سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفر سے کفر فعلی یعنی اختلاف و تفریق مذموم مراد ہو۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے بھیجی گئی ہو(پیدا کی گئی ہو)، تم حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے، اور اللہ پر ایمان لاتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں (کچھ)ایمان والے ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں (۱۱۰)

اے مسلمانو! خدا تعالیٰ نے تم کو تمام امتوں میں بہترین اُمت قرار دیا ہے اس کے علم ازلی میں پہلے سے ہی یہ مقدر ہو چکا تھا جسکی خبر بعض انبیائے سابقین کو بھی دے دی گئی تھی کہ جس طرح نبی آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل ہوں گے۔ آپ کی اُمت بھی جملہ اُمم و اقوام پر سبقت لے جائے گی کیونکہ اس کو سب سے اشرف و اکرم پیغمبر نصیب ہو گا ادوم و اکمل شریعت ملے گی، علوم و معارف کے دروازے اس پر کھول دیئے جائیں گے، ایمان و عمل تقویٰ کی تمام شاخیں اُسکی محنت اور قربانیوں سے سرسبز و شاداب ہوں گی، وہ کسی خاص قوم و نسب یا مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہ ہو گی بلکہ اس کا دائرہ عمل سارے عالم کو اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہو گا۔ گویا اس کا وجود ہی اس لئے ہو گا کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں جنت کے دروازوں پر لا کر کھڑا کر دے۔ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں اسی طرف اشارہ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

 

وہ ستانے کے سوا تمہارا ہرگز کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اور اگر وہ تم سے لڑیں گے رو وہ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے پھر ان کی مدد نہ ہو گی(۱۱۱)

تشریح:یعنی اگر نافرمان ہیں تو ہونے دو تم کو ان کی اکثریت یا مادی سازوسامان سے خوف کھانے کی کوئی وجہ نہیں (اے خیر الامم!) خدا کا وعدہ ہے کہ یہ شیطانی لشکر تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ (بشرطیکہ تم اپنے کو خیر الامم ثابت کرو) بس یہ اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ زبان سے گالی دیں اور نا مردوں کی طرح تمکو بُرا بھلا کہتے پھریں یا کوئی چھوٹی موٹی عارضی تکلیف پہنچائیں، باقی تم پر غالب و مسلط ہو جائیں، یا کوئی بڑا قومی نقصان پہنچا سکیں، یہ کبھی نہ ہو گا۔ اگر لڑائی میں تمہارے مقابلہ پر آئے تو پیٹھ دے کر بھاگیں گے اور کسی طرف سے ان کو مدد نہ پہنچے گی جو ان کی ہزیمت کو روک سکے۔ یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں اہل کتاب کا یہی حشر ہوا۔ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے لئے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور خرچ کر دیا مگر بال بیکا نہ کر سکے۔ جہاں مقابلہ ہوا حمرُ مستنفرہ کی طرح بھاگے۔ ہر موقع پر خدا کی نُصرت و امداد خیر الامم کے شامل حال رہی اور دشمن بدحواسی اور بیکسی کی حالت میں مقہور و  مخذول ہو کر بھاگے یا قید ہوئے یا رعیّت بن کر رہے یا جہنم میں پہنچ گئے، فَلِلّٰہِ الحمد والمنہ۔

(تفیسرعثمانی)

 

ان پر ذلت چسپاں کر دی گئی، جہاں کہیں وہ پائے جائیں، سوائے اس کے کہ اللہ کے عہد میں  آ جائیں اور لوگوں کے عہد میں، وہ لوٹے اللہ کے غضب کے ساتھ، اور ان پر چسپاں کر دی گئی محتاجی، یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔ یہ اس لئے (تھا)کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھ جاتے تھے (۱۱۲)

تشریح:یہ آیتیں اہل کتاب میں سے خاص یہود کے متعلق معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ سیاق کلام اور قرآن کی دوسری آیات سے ظاہر ہے یعنی یہود پر ہمیشہ کے لئے ذلت کی مُہر کر دی گئی۔ یہ بدبخت جہاں کہیں پائے جائیں، ذلت کا نقش ان سے محو نہیں ہو سکتا۔ بڑے بڑے کروڑ پتی یہود بھی آزادی و خودمختاری سے اپنے جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کی آزاد حکومت کسی جگہ نہیں ”سوائے دستاویز اللہ کے ” یعنی بعض بچی کھچی رسمیں تورات کی عمل میں لاتے ہیں اُسکے طفیل سے پڑے ہیں اور ”سوائے دستاویز لوگو ں کے ” یعنی کسی کی رعیّت میں اُسکی پناہ میں پڑے ہیں (کذافی الموضح) بعض مفسرین نے ”حَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ” و ”حَبْلِ مِّنَ النَّاسِ” سے اللہ کا ذمہ اور مسلمانوں کا عہد مُراد لیا ہے یعنی بجز اس کے کہ مسلمانوں سے عہد کر کے خدا کے ذمہ میں آ جائیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ”بحبل من اللّٰہ” سے اسلام مراد ہے یعنی اسلام لا کر اس ذلت سے نکل سکتے ہیں یا معاہد بن کے، کیونکہ معاہدہ بھی جان و مال کی طرف مامون کر دیتا ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اہل کتاب میں سب برابر نہیں ایک جماعت (سیدھی راہ پر) قائم ہے اور رات کے اوقات میں اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ کرتے ہیں (۱۱۳)

وہ ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور وہ اچھی بات کا حکم کرتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں دوڑتے ہیں اور یہی لوگ نیکو کاروں میں سے ہیں (۱۱۴)

اور وہ جو کریں گے کوئی نیکی تو ہر گز اس کی ناقدری نہ ہو گی اور اللہ پرہیزگاروں کو جاننے والا ہے (۱۱۵)

تشریح: سب اہل کتاب کا حال یکساں نہیں۔ اتنے بُروں میں کچھ اچھے بھی ہیں۔ ان ہی ممسوخ اشقیاء کے درمیان چند سعید روحیں ہیں جن کو حق تعالیٰ نے قبول حق کی توفیق دی اور وہ اسلام کی آغوش میں آ گئے اور جادۂ حق پر ایسے مستقیم ہو گئے کہ کوئی طاقت ہلا نہیں سکتی۔ وہ رات کی تاریکی میں میٹھی نیند اور نرم بسترے چھوڑ کر خدا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے مالک کے سامنے خضوع و تذلل اختیار کرتے ہیں۔ جبین نیاز زمین پر رکھتے ہیں، نماز میں اس کا کلام پڑھتے ہیں۔ اللہ پر اور یوم آخرت پر ٹھیک ٹھیک ایمان لاتے ہیں، خالص توحید کے قائل ہیں، قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں اور جب کسی نیک کام کی طرف پکارا جائے دوڑ کر دوسروں سے آگے نکلنا چاہتے ہیں، پھر نہ صرف یہ کہ خود راہِ راست پر ہیں، دوسروں کو بھی سیدھے راستے پر لانا چاہتے ہیں بلاشبہ ان یہود میں سے یہ لوگ ہیں جن کو خدا نے نیک بختی اور صلاح و رُشد کا خاص حصہ عطا فرمایا ہے۔ یہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ذکر ہوا۔

 

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ہرگز اللہ کے آگے ان کے مال اور نہ ان کی اولاد کچھ بھی کام آئیں گے، اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں (۱۱۶)

ان کے مثال جو خرچ کرتے ہیں اس دنیا میں ایسی ہے جیسے ہوا ہو اس میں پالا ہو وہ جا لگے کھیتی کو اس قوم کی جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا پھر اس کو تباہ کر دے، اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں (۱۱۷)

تشریح:کافر لوگ جو کچھ خیرات کرتے ہیں اللہ تعالی اس کا صلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں ان کے کفر کی وجہ سے، اس کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا، لہذا ان کے خیراتی اعمال کی مثال ایک کھیتی سی ہے اور ان کے کفر کی مثال اس تیز آندھی کی ہے جس میں پالا بھی ہو اور وہ اچھی خاصی کھیتی کو برباد کر ڈالے۔

(توضیح القرآن)

 

اے ایمان والو!اپنوں کے سوا کسی کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی میں کمی نہیں کرتے وہ چاہتے ہیں کہ تم تکلیف پاؤ، (ان کی)دشمنی ظاہر ہو چکی ہے ان کے منہ سے، اور جو ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ(اس سے بھی)بڑا ہے، ہم نے تمہارے لئے آیات کھول کر بیان کر دی ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو(۱۱۸)

سن لو!تم وہ لوگ ہو جو ان کو دوست رکھتے ہو اور وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اکیلے ہوتے ہیں رو وہ تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹتے ہیں، کہہ دیجئے ! تم اپنے غصہ میں مر جاؤ، بیشک اللہ دل کی باتوں کو(خوب)جاننے والا ہے (۱۱۹)

تشریح:مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے لوگ مسلمان ہو گئے رو وہ ان یہودیوں کے ساتھ اپنی دوستی نبھاتے رہے مگر یہودیوں کا حال یہ تھا کہ ظاہر میں رو وہ وہ دوستانہ انداز میں ملتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ یہ بھی ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہو گئے ہیں لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مسلمان ان کی دوستی پر بھروسہ کرتے ہوئے سادہ لوحی میں انہیں مسلمانوں کی کوئی راز کی بات بھی بتادیتے تھے اس آیت کریمہ نے مسلمانوں کو خبر دارکیا ہے کہ وہ ان پر بھروسہ نہ کریں اور انہیں راز دار بنانے سے مکمل پرہیز کریں۔

(توضیح القرآن)

 

اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچے رو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تمہارا نہ بگاڑسکے گا ان کا فریب کچھ بھی، بیشک جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اسے گھیرے ہوئے ہے (۱۲۰)

تشریح:اگر تمہاری ذراسی بھلائی دیکھتے ہیں مثلاً مسلمانوں کا اتحاد و یکجہتی یا دشمنوں پر غلبہ تو حسد کی آگ میں بھننے لگتے ہیں، اور جہاں تم پر کوئی مصیبت نظر آئی خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتے، بھلا ایسی کمینہ قوم سے ہمدردی اور خیر خواہی کی کیا توقع ہوسکتی ہے، جو دوستی کا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا جائے۔

ممکن تھا کسی کو یہ خیال گزرے کہ جب ہم ان سے دوستانہ تعلقات نہ رکھیں گے تو وہ زیادہ غیظ و غضب میں آ کر ہمارے خلاف تدبیریں کریں گے اور بیش از بیش نقصان پہنچانا چاہیں گے، اس کا جواب دیا کہ تم صبر و استقلال اور تقویٰ و طہارت پر ٹھیک ٹھیک قائم رہو گے تو ان کا کوئی داؤ فریب تم پر کارگر نہ ہو گا، جو کاروائیاں وہ کرتے ہیں سب خدا کے علم میں ہیں، اور اس کو ہر وقت قدرت حاصل ہے کہ ان کا تار پود بکھیر کر رکھ دے تم اپنا معاملہ خدا سے صاف رکھو، پھر تمہارے راستہ سے سب کانٹے صاف کر دیئے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب آپ صبح سویرے نکلے اپنے گھر سے مؤمنوں کو جنگ کے مورچوں پر بٹھانے لگے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے (۱۲۱)

تشریح:جنگ احد میں تین ہزار کفار کا ایک لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا آنحضرتﷺ ان کے مقابلے کے لئے احد پہاڑ کے دامن میں تشریف لے گئے تھے جہاں یہ جنگ لڑی گئی، آنے والی آیات میں اس کے متعدد واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

 

جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ ہمت ہار دیں اور اللہ ان کا مددگار تھا اور اللہ پر چاہئے کہ مؤمن بھروسہ کریں (۱۲۲)

تشریح:جب آنحضرتﷺ مقابلے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلے تو آپ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے،  لیکن منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی راستے میں یہ کہہ کر اپنے تین سو آدمیوں سمیت واپس چلا گیا کہ ہماری رائے یہ تھی کہ دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کیا جائے، ہماری رائے کے خلاف آپ باہر نکل آئے ہیں اس لئے ہم جنگ میں شریک نہیں ہوں گے، اس موقع پر سچے مسلمانوں کے دو قبیلے بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے دل بھی ڈگمگا گئے اور ان کے دل میں بھی خیال آیا کہ تین ہزار کے مقابلے میں صرف سات سوافراد بہت تھوڑے ہیں اور ایسے میں جنگ لڑنے کے بجائے الگ ہو جانا چاہئے،  لیکن پھر اللہ نے مدد فرمائی اور وہ جنگ میں شامل ہوئے اس آیت میں انہی کی طرف اشارہ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور البتہ اللہ تمہاری بدر میں مدد کر چکا ہے جبکہ تم کمزور (سمجھے جاتے ) تھے تو اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار ہو(۱۲۳)

تشریح:جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی اور ان کے پاس ستر اونٹ دو گھوڑے اور صرف آٹھ تلواریں تھیں۔

(توضیح القرآن)

 

جب آپ مؤمنوں کو کہتے ہیں :کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتوں سے اتارے ہوئے (۱۲۴)

کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو اور وہ تم پر چڑھ آئیں فوراً تو تمہارا رب یہ تمہاری مدد کرے گا، پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے (۱۲۵)

اور یہ اللہ نے صرف تمہاری خوشخبری کے لئے کیا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان ہو اور نہیں مدد مگر(صرف)اللہ کے پاس سے ہے جو غالب حکمت والا ہے  (۱۲۶)

تاکہ وہ ان لوگوں کے ایک گروہ کو کاٹ ڈالے جنہوں نے کفر کیا یا انہیں ذلیل کر دے رو وہ نامراد لوٹ جائیں (۱۲۷)

تشریح:یہ سارا حوالہ جنگ بدر کا ہے اس جنگ میں شروع میں تین ہزار فرشتوں کی بشارت دی گئی تھی لیکن بعد میں صحابۂ کرام کو یہ اطلاع ملی کہ کرز بن جابر اپنا لشکر لے کر کفار مکہ کے ساتھ شامل ہونے کے لئے آ رہا ہے، کفار کی تعداد پہلے ہی مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی اب اس لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تومسلمانوں کو تشویش ہوئی اس موقع پر یہ وعدہ کیا گیا کہ اگر کرز کا لشکر اچانک آ گیا تو تین ہزار کے بجائے پانچ ہزار فرشتے بھیجے جائیں گے،  لیکن پھر کرز کا لشکر نہیں آیا اس لئے پانچ ہزار بھیجنے کی نوبت نہیں آئی۔

(توضیح اقرآن)

 

آپ کا اس میں دخل نہیں کچھ بھی خواہ(اللہ)ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں (۱۲۸)

اور اللہ ہی کہ لئے ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور جس کو چاہے بخش دے اور عذاب دے جس کو چاہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (۱۲۹)

تشریح:غزوۂ احد میں حضوراقدسﷺ کا دندان مبارک شہید ہو گیا اور چہرہ مبارک مجروح ہو گیا تو آپﷺ کی زبان مبارک پر یہ کلمات آ گئے کہ ایسی قوم کوکیسے فلاح ہو گی جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا کیا،  حالانکہ وہ نبی ان کو خدا کی طرف بلارہا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، بخاری سے ایک اور قصہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے بعض کفار کے لئے بدعا بھی فرمائی تھی اس پر یہ آیت نازل فرمائی جس میں رسول اللہﷺ کو صبر و تحمل کی تعلیم دی گئی ہے۔

(معارف القرآن)

 

اے ایمان والو! نہ کھاؤ سوددوگناچوگنا اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ(۱۳۰)

تشریح:امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر مکہ کے مشرکین نے سود پر قرض لے کر جنگ کی تیاری کی تھی، اس لئے کسی مسلمان کے دل میں بھی خیال ہوسکتا تھا کہ مسلمان بھی جنگ کی تیاری میں یہی طریقہ اختیار کریں، اس آیت نے انہیں خبر دار کر دیا کہ سود پر قرض لینا حرام ہے، یہاں سود کو کئی گنا بڑھا کر کھانے کا جو ذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم شرح پر سود کی اجازت ہے،  بلکہ اس وقت چونکہ سودی قرضوں میں بکثرت یہی ہوتا تھا کہ سود اصل سے کئی گنا بڑھ جاتا تھا اس لئے ایک واقعے کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے ورنہ سورۂ بقرہ(آیت۲۷۷اور ۲۷۸) میں صاف واضح کر دیا گیا ہے کہ اصل قرض پر جتنی بھی زیادتی ہو وہ سود میں داخل اور حرام ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور ڈرو اس آگ سے جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے (۱۳۱)

اور تم اللہ اور رسول کا حکم مانو تا کہ تم پر رحم کیا جائے (۱۳۲)

تشریح:رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم ماننا بھی فی الحقیقت خدا ہی کا حکم ماننا ہے کیونکہ اس نے حکم دیا ہے کہ ہم پیغمبر کا حکم مانیں اور ان کی پوری اطاعت کریں، جن احمقوں کو اطاعت اور عبادت میں فرق نظر نہ آیا وہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شرک کہنے لگے۔

چونکہ جنگ احد میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تھی (جیسا کہ آگے آتا ہے ) اس لئے آئندہ کے لئے ہوشیار کیا جاتا ہے کہ خدا کی رحمت اور فلاح و کامیابی کی امید اسی وقت ہوسکتی ہے جب اللہ و رسول کے کہنے پر چلو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے تیار کی گئی ہے پرہیزگاروں کے لئے (۱۳۳)

جو خرچ کرتے ہیں خوشی(خوشحالی)اور تکلیف میں اور پی جاتے ہیں غصہ اور معاف کر دیتے ہیں لوگوں کو اور اللہ دوست رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو(۱۳۴)

اور وہ لوگ جو کوئی بے حیائی کریں یا اپنے تئیں کوئی ظلم کر بیٹھیں، رو وہ اللہ کو یاد کریں پھر بخشش مانگیں اپنے گناہوں کے لئے اور کون گناہ بخشتا ہے اللہ کے سوا اور اس پر نہ اڑیں جو انہوں نے کیا اور وہ جانتے ہیں۔ (۱۳۵)

ایسے ہی لوگوں کی جزا ان کے رب کی طرف سے بخشش اور باغات ہیں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور کیسا اچھا بدلہ ہے کام کرنے والوں کا(۱۳۶)

گزر چکے ہیں تم سے پہلے طریقے (واقعات)تو زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھوکیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا(۱۳۷)

یہ بیان ہے لوگوں کے لئے اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کے لئے (۱۳۸)

تشریح:ان آیات میں حق تعالی نے مؤمنین متقین کی خاص صفات اور علامات بتلائی ہیں، جن سے بہت سے فوائد متعلق ہیں، مثلاً یہ کہ قرآن حکیم نے جگہ جگہ نیک بندوں کی صحبت اور ان کی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی تاکید فرمائی ہے، کہیں صراط الذین انعمت علیہم فرما کر دین کی سیدھی اور صحیح راہ انہی مقبول بندوں سے سیکھنے کی طرف اشارہ فرمایا، کہیں کونوا مع ا لصادقین فرما کر ان کی صحبت اور معیت کی خاص افادیت کی تلقین فرمائی، اور دنیا میں ہر گروہ کے اندر اچھے برے لوگ ہوا کرتے ہیں، اچھوں کے لباس میں برے بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں، اس لئے ضرورت تھی کہ مقبول بندوں کی خاص علامات و صفات بتلا کر یہ سمجھادیا جائے کہ لوگ غلط رہنماؤں اور مقتداؤں سے پرہیز کریں اور صادقین کی علامتیں پہچان کر ان کا اتباع کریں، مؤمنین متقین کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ان کی دائمی کامیابی اور جنت کے اعلی مقامات بتلا کر نیک بندوں کو خوشخبری اور بری راہوں پر چلنے والوں کے لئے نصیحت و ترغیب کا راستہ کھولا گیا ہے، ان آیات کے اخیر میں ھذا بیان للناس میں اسی طرف اشارہ ہے، مقبولین کی جو صفات و علامات یہاں ذکر کی گئی ہیں اس میں ابتدائی آیات میں ان صفات کا بیان ہے جن کا تعلق حق تعالی کی عبادت و طاعت سے ہے جن کو دوسرے لفظوں میں حقوق العباد اور حقوق اللہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

(معارف القرآن)

اور تم سست نہ پڑو اور غم نہ کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو(۱۳۹)

اگر تم کو زخم پہنچا تو البتہ پہنچا ہے اس قوم کو(بھی)اس جیسا ہی زخم اور یہ دن ہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں اور تاکہ اللہ معلوم کر لے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور تم میں سے (بعض کو)شہید بنائے (درجہ شہادت دے )اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا(۱۴۰)

اور تاکہ اللہ پاک صاف کر دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور مٹا دے کافروں کو(۱۴۱)

تشریح:جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آ گئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا، آنحضرتﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہو گیا توص حابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز وسامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کر دیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہو چکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہئے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بے مقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑ دیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہو گیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہو گئے ہیں تو انہوں نے موقع پا کر ٹیلے پر حملہ کر دیا، حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہو گئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بے خبر مسلمانوں پر حملہ آور ہو گیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑا دی کہ آنحضرتﷺ شہید ہو گئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرتﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرتﷺ کا مبارک دانت شہید ہو گیا اور چہرۂ مبارک لہو لہان ہو گیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا،  لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرامؓ شہید ہو چکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوس اور دل شکستہ نہ ہونا چاہئے، اور اس طرف بھی متوجہ کر رہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

( توضیح القرآن)

 

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو گے اور ابھی اللہ نے معلوم نہیں کیا(امتحان لیا)جوتم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور صبر کرنے والے ہیں (۱۴۲)

تشریح: یعنی جنت کے جن اعلیٰ مقامات اور بلند درجات پر خدا تم کو پہنچانا چاہتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ بس یونہی آرام سے وہاں جا پہنچیں گے اور خدا تمہارا امتحان لیکر یہ نہ دیکھے گا کہ تم میں کتنے خدا کی راہ میں لڑنے والے اور کتنے لڑائی کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہیں ایسا خیال نہ کرنا۔ مقامات عالیہ پر وہی لوگ فائز کئے جاتے ہیں جو خدا کے راستہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ ۔ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ تم اس سے ملنے سے قبل موت کی تمنا کرتے تھے تواب تم نے اسے (موت کو)دیکھ لیا اور تم اسے (اپنی آنکھوں سے )دیکھ رہے ہو(۱۴۳)

تشریح:جو صحابہ بدر کی شرکت سے محروم رہ گئے تھے شہدائے بدر کے فضائل سن سن کر تمنا کیا کرتے تھے کہ خدا پھر کوئی موقع لائے جو ہم بھی خدا کی راہ میں مارے جائیں اور شہادت کے مراتب حاصل کریں۔ انہی حضرات نے احد میں یہ مشورہ دیا تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑنا چاہئے ان کو فرمایا کہ جس چیز کی پہلے تمنا رکھتے تھے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ چکی اب آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا کیسا؟ حدیث میں ہے کہ لقاءِ عَدو کی تمنا مت کرو اور جب ایسا موقع پیش آ جائے تو ثابت قدم رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور محمدﷺ تو ایک رسول ہیں، البتہ گزر چکے ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول، پھر اگر وہ وفات پالیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر(الٹے پاؤں )لوٹ جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں پر(الٹے پاؤں )پھر جائے رو وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا اور اللہ جلد جزا دے گا شکر کرنے والوں کو(۱۴۴)

وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ الخ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہی تو ہیں ( خدا تو نہیں )، آپﷺ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے، یا آپ ﷺ کو شہید کر دیا جائے تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، اور جو کوئی الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا، اور اللہ تعالی ثواب دے گا شکر گزاروں کو، اس میں تنبیہ فرما دی کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں، آپﷺ کے بعد بھی مسلمانوں کو دین پر ثابت قدم رہنا ہے۔

(معارف القرآن)

 

اور کسی شخص کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر مر جائے، لکھا ہوا ہے ایک مقررہ وقت، اور جو دنیا کا انعام چاہے گا ہم اسے اس میں سے دیں گے اور جو چاہے گا آخرت کا بدلہ ہم اسے اس میں سے دیں گے اور ہم شکر کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے (۱۴۵)

تشریح:جب کوئی شخص بدون حکم الہٰی کے نہیں مر سکتا خواہ کتنے ہی اسباب موت کے جمع ہوں اور ہر ایک کی موت وقت مقرر پر آنی ضرور ہے خواہ بیماری یا قتل سے یا کسی اور سبب سے، تو خدا پر توکل کرنے والوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اور نہ کسی بڑے یا چھوٹے کی موت کو سُن کر مایوس و بد دل ہو کر بیٹھ رہنا چاہئے۔

(تفسیر عثمانی)

 

ومن یرد: اس سے اشارہ مال غنیمت کی طرف ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف مال غنیمت حاصل کرنے کی نیت سے جہاد میں شریک ہو گا اسے مال غنیمت میں سے حصہ تومل جائے گا لیکن آخرت کا ثواب حاصل نہیں ہو گا، اس کے برعکس اگر اصل نیت اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے کی ہو گی توآخرت کا ثواب حاصل ہو گا اور مال غنیمت بھی ایک اضافی فائدے کے طور پر ملے گا.

(روح المعانی)(توضیح القرآن)

 

اور بہت سے نبی (ہوئے ہیں )ان کے ساتھ(مل کر)بہت سے اللہ والے لڑے، پس وہ سست نہ پڑے (ان مصیبتوں )کے سبب جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچی اور نہ انہوں نے کمزوری (ظاہر)کی اور نہ دب گئے اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۴۶)

تشریح:یعنی تم سے پہلے بہت اللہ والوں نے نبیوں کے ساتھ ہو کر کفار سے جنگ کی ہے، جس میں بہت تکلیفیں اور سختیاں اٹھائیں لیکن ان شدائد و مصائب سے نہ ان کے ارادوں میں سُستی ہوئی، نہ ہمت ہارے، نہ کمزوری دکھائی، نہ دشمن کے سامنے دبے، اللہ تعالیٰ ایسے ثابت قدم رہنے والوں سے خاص محبت کرتا ہے، یہ ان مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی اور غیرت دلائی جنہوں نے اُحد میں کمزوری دکھلائی تھی، حتیٰ کہ بعض نے یہ کہہ دیا تھا کہ کسی کو بیچ میں ڈال کر ابو سفیان سے امن حاصل کر لیا جائے مطلب یہ ہے کہ جب پہلی اُمتوں کے حق پرستوں نے مصائب و شدائد میں اس قدر صبر و استقلال کا ثبوت دیا اس اُمت کو (جو خیر الامم ہے ) ان سے بڑھ کر صبر و استقامت کا ثبوت دینا چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کا کہنا نہ تھا اس کے سوائے کہ انہوں نے دعا کی اے ہمارے رب!ہمیں بخش دے ہمارے گناہ اور ہماری زیادتی ہمارے کام میں اور ثابت رکھ ہمارے قدم اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما(۱۴۷)

تو اللہ نے انہیں انعام دیا دنیا اور آخرت کا اچھا انعام اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۴۸)

تشریح:یعنی مصائب و شدائد کے ہجوم میں نہ گھبراہٹ کی کوئی بات کہی نہ مقابلہ سے ہٹ جانے اور دشمن کی اطاعت قبول کرنے کا ایک لفظ زبان سے نکالا، بولے تو یہی بولے کہ خداوندا! تو ہم سب کی تقصیرات اور زیادتیوں کو معاف فرما دے ہمارے دلوں کو مضبوط و مستقل رکھ، تاکہ ہمارا قدم جادۂ حق سے نہ لڑکھڑائے اور ہم کو کافروں کے مقابلہ میں مدد پہنچا وہ سمجھے کہ بسا اوقات مصیبت کے آنے میں لوگوں کے گناہوں اور کوتاہیوں کو دخل ہوتا ہے اور ہم میں کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس سے کبھی کوئی تقصیر نہ ہوئی ہو گی۔ بہرحال بجائے اس کے کہ مصیبت سے گھبرا کر مخلوق کی طرف جھکتے اپنے خالق و مالک کی طرف جھکے۔

دنیا میں ان کی فتح و ظفر کا سکہ بٹھا دیا، وجاہت و قبول عطا کیا اور آخرت کا جو بہترین ثواب ملا اس کا تو پوچھنا ہی کیا ہے، دیکھو جو لوگ خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ ٹھیک رکھیں اور نیک کام کریں ان سے خدا ایسی محبت کرتا ہے اور ایسا پھل دیتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو!اگر تم کافروں کا کہا مانو رو وہ تمہاری ایڑیوں پر(الٹے پاؤں ) پھیر دیں گے پھر تم گھاٹے میں پلٹ جاؤ گے (۱۴۹)

بلکہ اللہ تمہارا مددگار ہے اور سب سے بہتر مددگار ہے (۱۵۰)

تشریح:یعنی جنگ اُحد میں مسلمانوں کے دل ٹوٹے تو کافروں اور منافقوں نے موقع پایا، بعض الزام اور طعنے دینے لگے، بعض خیر خواہی کے پردہ میں سمجھانے لگے تاکہ آئندہ لڑائی پر دلیری نہ کریں، حق تعالیٰ خبردار کرتا ہے کہ دشمن کا فریب مت کھاؤ، اگر خدا نکردہ ان کے چکموں میں آؤ گے تو جس ظلمت سے خدا نے نکالا ہے پھر اُلٹے پاؤں اسی میں جا گرو گے اور رفتہ رفتہ دین حق کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے گا، جس کا نتیجہ دنیا و آخرت کے خسارے کے سوا کچھ نہیں، پہلے اللہ والوں کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی تھی، یہاں بد باطن شریروں کا کہا ماننے سے منع کیا تاکہ مسلمان ہوشیار رہیں، اور اپنا نفع نقصان سمجھ سکیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈال دیں گے اس لئے کہ انہوں نے اللہ کا شریک کیا جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور برا ٹھکانہ ہے ظالموں کا(۱۵۱)

تشریح:یعنی یہ تو تمہارا امتحان تھا، اب ہم کافروں کے دلوں میں ایسی ہیبت اور رعب ڈال دیں گے کہ وہ باوجود تمہارے زخمی اور کمزور ہونے اور نقصان اُٹھانے کے تم پر پلٹ کر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکیں۔ چنانچہ یہی ہوا، ابُو سفیان اپنی فوج لے کر بے نیل و مرام میدان سے بھاگا، راستہ میں ایک مرتبہ خیال بھی آیا کہ ایک تھکی ماندہ زخم خوردہ فوج کو ہم یوں ہی آزاد چھوڑ کر چلے آئے، چلو پھر واپس ہو کر ان کا کام تمام کر دیں، مگر ہیبت حق اور رُعب اسلام کے اثر سے ہمت نہ ہوئی کہ اس خیال کو عمل میں لا سکے، برخلاف اس کے مسلمان مجاہدین نے ”حمراء الاسد” تک ان کا تعاقب کیا اور اس کے بعد کبھی موقع نہ دیا کہ اُحد کے واقعات کا اعادہ ہو سکے۔

(تنبیہ)مشرک خواہ کتنا ہی زور دکھلائے اس کا دل کمزور ہوتا ہے کیونکہ وہ کمزور مخلوق کی عبادت کرتا ہے، بس جیسا معبود ویسے عابد ضَعُفَ الَطالِبُ وَ الْمَطْلُوب (الحج رکوع١٠) اور ویسے بھی اصلی زور و قوت تو فی الحقیقت خدا کی تائید و امداد سے ہے جس سے کفار مشرکین یقیناً محروم ہیں، اسی لئے جب تک مسلمان، مسلمان رہے، ہمیشہ کفار ان سے خائف و مرعوب رہے، بلکہ ہم آج تک مشاہدہ کرتے ہیں کہ باوجود مسلمانوں کے سخت انتشار و تشتّت اور ضعف و تنزل کے دنیا کی تمام کافر طاقتیں اس سوئے ہوئے زخمی شیر سے ڈرتی رہتی ہیں، اور ہمیشہ فکر رکھتی ہیں کہ یہ قوم بیدار ہونے نہ پائے، علمی اور مذہبی مناظروں میں بھی اسلام کا یہی رعب مشاہدہ کیا جاتا ہے، حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رُعب ایک مہینہ کی مسافت سے دشمنوں کے دل میں ڈال دیا جاتا ہے بیشک اسی کا اثر ہے جو اُمت مسلمہ کو ملا، فللّٰہ الحمدعلٰی ذلک ولہ المنۃ۔

 

اور البتہ اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جب تم انہیں اس کے حکم سے قتل کرنے لگے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور کام میں جھگڑا کیا اور اس کے بعد نافرمانی کی جبکہ تمہیں دکھایا جوتم چاہتے تھے، تم میں سے کوئی دنیا چاہتا تھا اور تم میں سے کوئی آخرت چاہتا تھا، پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا، تاکہ تمہیں آزمائے اور تحقیق اس نے تمہیں معاف کر دیا اور اللہ مؤمنوں پر فضل کرنے والا ہے (۱۵۲)

جنگ احد میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو حکم تیر اندازوں کو دیا تھا اس کے خلاف کیا اور آپس میں جھگڑنے لگے، کوئی کہتا تھا کہ ہم کو یہیں جمے رہنا چاہئے، اکثر نے کہا اب یہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں چل کر غنیمت حاصل کرنی چاہئے، آخر اکثر تیر انداز اپنی جگہ چھوڑ کر چلے گئے، مشرکین نے اسی راستہ سے دفعۃً حملہ کر دیا، دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خبر مشہور ہو گئی، ان چیزوں نے قلوب میں کمزوری پیدا کر دی جس کا نتیجہ فشل و جبن کی صورت میں ظاہر ہوا، گویا فشل کا سبب تنازع اور تنازع کا سبب عصیان تھا۔

تمہاری غلطی اور کوتاہی سے معاملہ اُلٹا ہو گیا اور اس میں بھی تمہاری آزمائش تھی، تاکہ پکے اور کچے صاف ظاہر ہو جائیں، جو غلطی ہوئی، خدا تعالیٰ اُسے بالکل معاف کر چکا، اب کسی کو جائز نہیں کہ ان پر اس حرکت کی وجہ سے طعن و تشنیع کرے۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

جب تم (منہ اٹھا کر)چڑھتے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے مڑ کر نہ دیکھتے تھے اور رسول تمہیں پکارتے تھے پھر تمہیں غم کے عوض غم پہنچا تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو (تمہارے ہاتھ سے )نکل گیا اور نہ (اس پر) جو تمہیں پیش آئے اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو(۱۵۳)

تم بھاگ کر پہاڑوں اور جنگلوں کو چڑھے جا رہے تھے اور گھبراہٹ میں پیچھے مڑ کر بھی کسی کو نہ دیکھتے تھے، اس وقت خدا کا پیغمبر بدستور اپنی جگہ کھڑا ہوا تم کو اس قبیح حرکت سے روکتا تھا اور اپنی طرف بُلا رہا تھا، مگر تم تشویش و اضطراب میں آواز کہاں سننے والے تھے، آخر جب کعب بن مالک چلائے تب لوگوں نے سُنا اور واپس آ کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔

تم نے رسُول کا دل تنگ کیا اس کے بدلے تم پر تنگی آئی، غم کا بدلہ غم ملا،  تاکہ آگے کو یاد رکھو کہ ہر حالت میں رسول کے حکم پر چلنا چاہئے خواہ کوئی نفع کی چیز مثلاً غنیمت وغیرہ ہاتھ سے جائے، یا کچھ بلا سامنے آئے۔ (تنبیہ) اکثر مفسرین نے فَاَثَابَکُمْ غَمًّابِغَمٍّ کے معنی یوں کئے ہیں کہ خدا نے تم کو غم پر غم دیا۔ یعنی ایک غم تو ابتدائی فتح و کامیابی کے فوت ہونے کا تھا، دوسرا اپنے آدمیوں کے مارے جانے اور زخمی ہونے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر شہادت مشہور ہونے سے پہنچا، بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ فتح و کامرانی کے فوت ہونے، غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے اور نقصان جانی و بدنی اُٹھانے کا جو غم تھا، اس کے عوض میں ایک ایسا بڑا غم دیدیا گیا، جس نے پہلے سب غموں کو بھلا دیا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتول ہونے کی افواہ، اسی غم کی شدت میں آگے پیچھے کا کچھ ہوش نہ رہا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بھی نہ سنی، جیسا کہ ایک طرف ہمہ تن ملتفت ہونے کے وقت دوسری طرف ذہول و غفلت پیش آ جاتی ہے، اللہ تمہارے احوال اور نیتوں کو جانتا ہے اور اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر اس نے تم پر غم کے بعد امن اونگھ(کی صورت میں )اتار دی، ایک جماعت کو ڈھانک لیا

تشریح:یعنی اس جنگ میں جن کو شہید ہونا تھا ہو چکے اور جن کو ہٹنا تھا ہٹ گئے، اور جو میدان میں باقی رہے ان میں سے مخلص مسلمانوں پر حق تعالیٰ نے ایک دم غنودگی طاری کر دی، لوگ کھڑے کھڑے اونگھنے لگے، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کئی مرتبہ تلوار چھوٹ کر زمین پر گری، یہ ایک حسی اثر اس باطنی سکون و اطمینان کا تھا جو ایسے ہنگامہ رستخیز میں مومنین کے قلوب پر محض خدا کے فضل و رحمت سے وارد ہوا اس کے بعد دشمن کا خوف و ہراس سب کافور ہو گیا۔ یہ کیفیت عین اس وقت پیش آئی جب لشکرِ مجاہدین میں نظم و ضبط قائم نہ رہا تھا، بیسیوں لاشیں خاک و خون میں تڑپ رہی تھیں، سپاہی زخموں سے چُور ہو رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی افواہ نے رہے سہے ہوش و حواس کھو دیئے تھے، گویا یہ سونا بیدار ہونے کا پیام تھا، غنودگی طاری کر کے ان کی ساری تھکن دُور کر دی گئی اور متنبہ فرما دیا کہ خوف و ہراس اور تشویش و اضطراب کا وقت جا چکا، اب مامون و مطمئن ہو کر اپنا فرض انجام دو، فوراً صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو کر لڑائی کا محاذ قائم کر دیا، تھوڑی دیر بعد مطلع صاف تھا، دشمن سامنے سے بھاگتا نظر آیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم میں سے، اور ایک جماعت کو اپنی جان کی فکر پڑی تھی، وہ اللہ کے بارہ میں بے حقیقت گمان کرتے تھے جاہلیت کے گمان، وہ کہتے تھے کیا کوئی کام کچھ ہمارے لئے (ہمارے اختیار میں )ہے ؟آپ کہہ دیں کہ تمام کام اللہ کے لئے  (اللہ کے اختیار میں) ہے، وہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں جو آپ کے لئے  (آپ پر) وہ ظاہر نہیں کرتے وہ کہتے ہیں اگر کچھ کام ہمارے لئے (ہمارے اختیار میں) ہوتا توہم یہاں نہ مارے جاتے ؟آپ کہہ دیں اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو جن پر (جن کی قسمت میں) مارا جانا لکھا تھا وہ ضرور نکل کھڑے ہوتے اپنی قتل گاہوں کی طرف،

تشریح:یہ منافقین کا ذکر ہے وہ جو کہہ رہے تھے کہ:کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے ؟ اس کا ظاہری مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی تقدیر کے آگے کسی کا اختیار نہیں چلتا اور یہ بات صحیح تھی، لیکن ان کا اصل مقصد وہ تھا جو آگے قرآن کریم نے دہرایا ہے یعنی یہ کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر دفاع کیا جاتا تو اتنے سارے آدمیوں کے قتل کی نوبت نہ آتی۔

(توضیح القرآن)

 

اور تاکہ اللہ آزمائے جو تمہارے سینوں میں ہے اور تاکہ صاف کر دے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ دلوں کے بھید خوب جاننے والا ہے (۱۵۴)

تشریح:اشارہ اس طرف ہے کہ اس طرح کے مصائب سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور باطنی بیماریاں دور ہوتی ہیں

(توضیح القرآن)

 

بیشک تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے جس دن دو جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں درحقیقت انہیں شیطان نے پھسلایابعض کی وجہ سے اور البتہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بیشک اللہ بخشنے والا حلم والا ہے (۱۵۵)

تشریح:مخلصین سے بھی بعض اوقات کوئی چھوٹا بڑا گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور جس طرح ایک طاعت سے دوسری طاعت کی توفیق بڑھتی ہے ایک گناہ کی نحوست سے شیطان کو موقع ملتا ہے کہ دوسری غلطیوں اور لغزشوں کی طرف آمادہ کرے، جنگ احد میں بھی جو مخلص مسلمان ہٹ گئے تھے، کسی پچھلے گناہ کی شامت سے شیطان نے بہکا کر ان کا قدم ڈگمگا دیا،  چنانچہ ایک گناہ تو یہی تھا کہ تیر اندازوں کی بڑی تعداد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پابندی نہ کی مگر خدا کا فضل دیکھو کہ اس کی سزا میں کوئی تباہ کن شکست نہیں دی، بلکہ ان حضرات پر اب کوئی گناہ بھی نہیں رہا حق تعالیٰ کلیۃً ان کی تقصیر معاف کر چکا ہے، کسی کو طعن و ملامت کا حق نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو کافر ہوئے اور وہ کہتے ہیں اپنے بھائیوں کو جب وہ سفر کریں (اللہ کی)راہ میں یا جہاد میں ہوں : اگر وہ ہوتے ہمارے پاس رو وہ نہ مرتے اور نہ مارے جاتے، تاکہ اللہ اس کو حسرت بنا دے ان کے دلوں میں اور اللہ (ہی)زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھنے والا ہے (۱۵۶)

تشریح:مارنا، جِلانا ا اللہ کا کام ہے، کتنے ہی آدمی عمر بھر سفر کرتے اور لڑائیوں میں جاتے ہیں، مگر موت گھر میں بستر پر آتی ہے، اور کتنے ہی آد می گھر کے کونے میں پڑے رہنے کے خوگر ہیں، لیکن اخیر میں خدا کوئی سبب کھڑا کر دیتا ہے کہ وہ با ہر نکلیں اور وہیں مریں یا مارے جائیں، بندہ کی روک تھام سے یہ چیز ٹلنے اور بدلنے والی نہیں، حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت فرمایا کہ میرے بدن پر ایک بالشت جگہ تلوار یا نیزہ کے زخم سے خالی نہیں، مگر آج میں ایک اونٹ کی طرح (گھر میں ) مررہا ہوں فَلَا نَامَتْ اَعْیُنُ الْجُبَنَاءِ (خدا کرے یہ دیکھ کر نا مردوں کی آنکھیں کھلیں )

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا تم مر جاؤ  تو یقیناً بخشش اور رحمت ہے اللہ کی طرف سے (یہ)اس سے بہتر ہے جو وہ(دولت)جمع کرتے ہیں (۱۵۷)

اور اگر تم مر گئے یا تم مار دئے گئے تو یقیناً اللہ کی طرف اکھٹے کئے جاؤ گے (۱۵۸)

تشریح:یعنی فرض کرو تم سفر یا جہاد میں نہ نکلے اور فی الحال موت سے بچ گئے، مگر ضروری ہے کہ کبھی نہ کبھی مرو گے یا مارے جاؤ گے، پھر بہرحال خدا کے سامنے سب کو جمع ہونا ہے، اس وقت پتہ چل جائے گا کہ جو خوش قسمت اللہ کی راہ میں نیک کام کرتے ہوئے مرے یا مارے گئے تھے ان کو خدا تعالیٰ کی بخشش و مہربانی سے کیسا وافر حصہ ملا، جس کے سامنے تمہاری دنیا کی کمائی اور جمع کی ہوئی دولت و ثروت سب ہیچ ہے، الحاصل اگر منافقین ہی کا قول تسلیم کر لیا جائے کہ گھر سے نہ نکلتے تو نہ مارے جاتے، تب بھی سراسر خسارہ تھا، کیونکہ اس صورت میں اس موت سے محروم رہ جاتے جس پر ایسی ایسی لاکھوں زندگیاں قربان کی جا سکتی ہیں، بلکہ جو حققیت میں موت نہیں حیات ابدی ہے، فنا فی اللہ کی تہ میں بقاء کا راز مضمر ہے جو جینا ہے تو مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اللہ کی رحمت(ہی)سے ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر تند خو سخت دل ہوتے رو وہ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے پس آپ معاف کر دیں انہیں اور ان کے لئے بخشش مانگیں اور کام میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ (پختہ)ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بیشک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۵۹)

تشریح:مسلمانوں کو ان کی کوتاہیوں پر متنبہ فرمانے اور معافی کا اعلان سنانے کے بعد نصیحت کی تھی کہ آئندہ اس مار آستین جماعت کی باتوں سے فریب مت کھانا، اس آیت میں ان کے عفو تقصیر کی تکمیل کی گئی ہے،  چونکہ جنگ احد میں سخت خوفناک غلطی اور زبردست کوتاہی مسلمانوں سے ہوئی تھی، شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل خفا ہوا ہو گا اور چاہا ہو گا کہ آئندہ ان سے مشورہ لے کر کام نہ کیا جائے، اس لئے حق تعالیٰ نے نہایت عجیب و غریب پیرایہ میں ان کی سفارش کی، اول اپنی طرف سے معافی کا اعلان کر دیا، کیونکہ خدا کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ اور رنج خالص اپنے پروردگار کے لئے ہوتا ہے، پھر فرمایا فَبِمَارَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ یعنی اللہ کی کتنی بڑی رحمت آپ پر اور ان پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش اخلاق اور نرم خو بنا دیا، کوئی اور ہوتا تو خدا جانے ایسے سخت معاملہ میں کیا رویہ اختیار کرتا، یہ سب کچھ اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ تجھ جیسا شفیق، نرم دل پیغمبر ان کو مل گیا، فرض کیجئے اگر خدا نہ کردہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سخت ہوتا اور مزاج میں شدت ہوتی تو یہ قوم آپ کے گرد کہاں جمع رہ سکتی تھی، ان سے کوئی غلطی ہوتی اور آپ سخت پکڑتے تو شرم و دہشت کے مارے پاس بھی نہ آسکتے، اس طرح یہ لوگ بڑی خیر و سعادت سے محروم رہ جاتے اور جمعیت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن حق تعالیٰ نے آپ کو نرم دل اور نرم خو بنایا، آپ ﷺ اصلاح کے ساتھ ان کی کوتاہیوں سے اغماض کرتے رہتے ہیں، سو یہ کوتاہی بھی جہاں تک آپ کے حقوق کا تعلق ہے معاف کر دیجئے اور گو خدا اپنا حق معاف کر چکا ہے، تاہم ان کی مزید دلجوئی اور تطییب خاطر کے لئے ہم سے بھی ان کے لئے معافی طلب کریں،  تاکہ یہ شکستہ دل آپ کی خوشنودی اور انبساط محسوس کر کے بالکل مطمئن و  منشرح ہو جائیں اور صرف معاف کر دینا ہی نہیں آئندہ بدستور ان سے معاملات میں مشورہ لیا کریں، مشاورت کے بعد جب ایک بات طے ہو جائے اور پختہ ارادہ کر لیا جائے، پھر خدا پر توکل کر کے اس کو بلا پس و پیش کر گزرے، خدا تعالیٰ متوکلین کو پسند کرتا اور ان کے کام بنا دیتا ہے (تنبیہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ” عزم” کیا ہے ؟ فرمایا: مشاور ۃ اہل الرائے ثم اتباعہم (ابن کثیر) اور مجمع الزوائد میں حضرت علی کی حدیث ہے یارسول اللہ جو بات ہم کتاب و سنت میں نہ پائیں اس میں کیا طریقہ استعمال کریں ؟ فرمایا فقہاء عابدین (سمجھدار خدا پرستوں ) سے مشورہ کرو ولاتمضوا فیہ رائیَ خَاصَّۃٍ (اور کسی اکیلے کی رائے مت جاری کرو)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو کون ہے جو تمہاری مدد کرے اس کے بعد اور چاہئے کہ ایمان والے اللہ پر بھروسہ کریں (۱۶۰)

پہلے آپ کو فرمایا تھا ” بھروسہ کرو اللہ پر” یہاں بتلایا کہ بھروسہ کے لائق ایسی ہی ذات ہوسکتی ہے جو سب سے زبردست اور غالب ہو، سب مسلمانوں کو اس کی امداد پر توکل کرنا چاہئے، گویا مسلمانوں کی تقصیر خود معاف کرنے اور اپنے پیغمبر سے معاف کرا دینے کے بعد ان کو نصیحت کی جاتی ہے کہ کسی کے کہنے سننے میں نہ آئیں خالص خدا پر بھروسہ رکھیں، اس کی مدد ہو گی تو کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی، جیسے ”بدر”میں دیکھ چکے، اور کسی مصلحت سے وہ مدد نہ کرے تو پھر کوئی مدد نہیں کر سکتا جیسا کہ احد میں تجربہ ہو گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور نبی کے لئے (شایان)نہیں کہ وہ چھپائے اور چھپائے گا وہ اپنی چھپائی ہوئی چیز قیامت کے دن لائے گا پھر پوار پورا پائے گا ہر شخص جو اس نے کمایا(عمل کیا)اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے (۱۶۱)

تشریح:شاید اس بات کو یہاں ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مال غنیمت اکھٹا کرنے کے لئے اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی،  کیونکہ جو مال بھی حاصل ہوتا خواہ وہ کسی نے جمع کیا ہو بالآخر آنحضرتﷺ ہی اسے شرعی قاعدے سے انصاف کے ساتھ تقسیم فرماتے اور ہر شخص کو اس کا حصہ مل جاتا،  کیونکہ کوئی نبی مال غنیمت میں خیانت نہیں کرسکتا۔

(توضیح القرآن)

 

تو کیا جس نے پیروی کی رضائے الہی (اللہ کی خوشنودی کی)اس کے مانند ہے جو اللہ کے غصہ کے ساتھ لوٹا؟ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور (بہت)برا ٹھکانہ ہے (۱۶۲)

ان کے مختلف درجے ہیں اللہ کے پاس اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ دیکھنے والا ہے (۱۶۳)

تشریح:پیغمبر جو ہر حال میں خدا کی مرضی کا تابع بلکہ دوسروں کو بھی اس کی مرضی کا تابع بنانا چاہتا ہے کیا ان لوگوں کے جیسے کام کر سکتا ہے جو خدا کے غضب کے نیچے اور دوزخ کے مستحق ہیں ؟ ممکن نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اللہ ایمان والوں (مؤمنوں )پر احسان کیا جب ان میں ایک رسول بھیجا ان کے درمیان سے وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور بیشک وہ اس سے قبل البتہ کھلی گمراہی میں تھے (۱۶۴)

تشریح:یعنی انہی کی جنس اور قوم میں کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا، بات چیت کرنا، زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے احوال، اخلاق، سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح واقف ہیں، اپنی ہی قوم اور کنبے کے آدمی سے جب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں تو یقین لانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو معجزات دیکھ کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ مخلوق ہے شاید یہ خوارق اس کی خاص صورت نوعیہ اور طبیعت ملکیہ و جِنّیّہ کا نتیجہ ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ جانا دلیل نبوت نہیں بن سکتا، بہرحال مومنین کو خدا کا احسان ماننا چاہئے کہ اس نے ایسا رسول بھیجا جس سے بے تکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں اور وہ باوجود معزز ترین اور بلند ترین منصب پر فائز ہو نے کے ان ہی کے مجمع میں نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے ساتھ گھلا ملا رہتا ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا جب تمہیں پہنچی کوئی مصیبت البتہ تم اس سے دوچند پہنچا چکے تھے تم کہتے ہو یہ کہاں سے آئی ؟ آپ کہہ دیں وہ تمہارے اپنے (ہی)پاس سے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۶۵)

اور تمہیں جو(تکلیف)پہنچی جس دن دو جماعتوں میں مڈبھیڑ ہوئی تو اللہ کے حکم سے (پہنچی)تاکہ وہ معلوم کر لے ایمان والوں کو(۱۶۶)

تشریح:پہلے سے احد کا قصہ چلا آتا تھا، درمیان میں جو کوتاہی ہوئی تھی اس کے عفو کا ذکر ہوا اور اسی کی مناسبت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و حقوق یاد دلائے گئے، اب پھر احد کے قصہ کی طرف عود کیا جاتا ہے یعنی جنگ احد میں جو تکلیف اور نقصان اٹھانا پڑا کیا اس پر تم تعجب سے کہتے ہو کہ مصیبت کہاں آ گئی، ہم تو مسلمان مجاہد تھے جو خدا کے راستہ میں اس کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے نکلے تھے، خدا تعالیٰ پیغمبر کی زبانی نصرت و امداد کا و عدہ فرما چکا، پھر یہ مصیبت ہم پر کیونکر اور کدھر سے نازل ہوئی، ایسا کہتے وقت سوچنا چاہئے کہ جس قدر تکلیف تم کو پہنچی اس سے دوچند تکلیف ان کو تم سے پہنچ چکی ہے، احد میں تمہارے تقریباً ستر آدمی شہید ہوئے، بدر میں ان کے ستر مارے جا چکے اور ستر تمہارے ہاتھ قید ہوئے جن پر تم کو پورا قابو حاصل تھا، چاہتے تو قتل کر ڈالتے، پھر احد میں بھی ابتداءً ان کے بیس سے زائد قتل ہو چکے ہیں، اگر تھوڑی دیر کے لئے تم کو ہزیمت ہوئی تو ”بدر” میں ان کو تباہ کن ہزیمت مل چکی اور احد میں بھی جب تم جم کر لڑے وہ منہزم ہوئے، پھر آخر میں میدان چھوڑ کر چلے گئے، ایسی صورت میں انصافاً تم کو اپنی تکلیف کا شکوہ کرنے اور زیادہ بد دل ہو نے کا موقع نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تاکہ جان لے ان لوگوں کو جو منافق ہوئے اور انہیں کہا گیا آؤ اللہ کی راہ میں لڑو یا دفاع کرو رو وہ بولے اگر ہم جنگ جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے، وہ اس دن کفر سے زیادہ قریب تھے بہ نسبت ایمان کے، وہ اپنے منہ سے کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں (۱۶۷)

وہ لوگ جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا اور خود بیٹھے رہے اگر وہ ہماری بات مانتے رو وہ نہ مارے جاتے، کہہ دیجئے تم اپنی جانوں سے موت کو ہٹا دو، اگر تم سچے ہو(۱۶۸)

تشریح:منافقین دل سے کافر اور زبان سے ایمان کا اظہار کر تے تھے اور اسی زبانی اسلام کی بناء پر مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے، اس روز عین موقع پر پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کو چھوڑ کر چلے جانے اور جھوٹے حیلے تراشنے سے اچھی طرح نفاق کی قلعی کھل گئی، اب ظاہر میں بھی بہ نسبت ایمان کے کفر سے زیادہ قریب ہو گئے اور اپنے فعل سے مسلمانوں کو نقصان اور کافروں کو تقویت پہنچائی۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں ہرگز خیال نہ کرو مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے وہ رزق پاتے ہیں (۱۶۹)

خوش ہیں اس  سے جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا، اور وہ ان لوگوں کی طرف سے خوش وقت ہیں جو نہیں ملے ان سے ان کے پیچھے، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (۱۷۰)

وہ خوشیاں منا رہے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا ایمان والوں کا اجر(۱۷۱)

تشریح:یعنی گھر میں بیٹھے رہنے سے موت تو رک نہیں سکتی، ہاں آدمی اس موت سے محروم رہتا ہے جس کو موت کے بجائے حیات جاودانی کہنا چاہئے، شہیدوں کو مرنے کے بعد ایک خاص طرح کی زندگی ملتی ہے جو اور مردوں کو نہیں ملتی، ان کو حق تعالیٰ کا ممتاز قرب حاصل ہوتا ہے، بڑے عالی درجات و مقامات پر فائز ہوتے ہیں، جنت کا رزق آزادی سے پہنچتا ہے جس طرح ہم اعلیٰ درجہ کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ذرا سی دیر میں جہاں چاہیں اڑے چلے جاتے ہیں، شہداء کی ارواح ” حواصل طیور خضر ” میں داخل ہو کر جنت کی سیر کرتی رہتی ہیں، ان ”طیور خضر”کی کیفیت و کلانی کو اللہ ہی جانے، وہاں کی چیزیں ہمارے احاطۂ خیال میں کہاں آسکتی ہیں، اس وقت شہداء بیحد مسرور و مبتہج ہوتے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے دولت شہادت عنایت فرمائی، اپنی عظیم نعمتوں سے نوازا اور اپنے فضل سے ہر آن مزید انعامات کا سلسلہ قائم کر دیا، جو وعدے شہیدوں کے لئے پیغمبر علیہ السلام کی زبانی کئے گئے تھے انہیں آنکھوں سے مشاہدہ کر کے بے انتہا خوش ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی محنت ضائع نہیں کرتا، بلکہ خیال و گمان سے بڑھ کر بدلہ دیتا ہے پھر نہ صرف یہ کہ اپنی حالت پر شاداں و فرحاں ہوتے ہیں بلکہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کا تصور کر کے بھی انہیں ایک خاص خوشی حاصل ہوتی ہے جن کو اپنے پیچھے جہاد فی سبیل اللہ اور دوسرے امور خیر میں مشغول چھوڑ آئے ہیں کہ وہ بھی اگر ہماری طرح اللہ کی راہ میں مارے گئے یا کم از کم ایمان پر مرے تو اپنی اپنی حیثیت کے موافق ایسی ہی پر لطف اور بے خوف زندگی کے مزے لوٹیں گے، نہ ان کو اپنے آگے کا ڈر ہو گا نہ پیچھے کا غم، مامون و مطمئن سیدھے خدا کی رحمت میں داخل ہو جائیں گے، بعض روایات میں ہے کہ شہدائے احد یا شہدائے بیر معونہ نے خدا کے ہاں پہنچ کر تمنا کی تھی کاش ہمارے اس عیش و تنعم کی خبر کوئی ہمارے بھائیوں کو پہنچا دے تاکہ وہ بھی اس زندگی کی طرف جھپٹیں اور جہاد سے جان نہ چرائیں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں پہنچاتا ہوں، اس پر یہ آیات نازل کیں اور ان کو مطلع کر دیا گیا کہ ہم نے تمہاری تمنا کے موافق خبر پہنچا دی اس پر وہ اور زیادہ خوش ہوئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا (حکم) قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں زخم پہنچا ان میں سے جن لوگوں نے نیکی اور پرہیزگاری کی ان کے لئے بڑا اجر ہے (۱۷۲)

جنہیں لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے (مقابلے کے لئے سامان )جمع کر لیا ہے پس ان سے ڈرو تو ان کا ایمان زیادہ ہوا اور انہوں نے کہا ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ کیسا اچھا کارساز ہے (۱۷۳)

پھر وہ لوٹے اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی اور انہوں نے پیروی کی رضائے الہی کی، اور اللہ بڑے فضل والا ہے (۱۷۴)

تشریح:ابو سفیان جب احد سے مکہ کو واپس گیا تو راستہ میں خیال آیا کہ ہم نے بڑی غلطی کی، ہزیمت یافتہ اور زخم خوردہ مسلمانوں کو یونہی چھوڑ کر چلے آئے، مشورے ہو نے لگے کہ پھر مدینہ واپس چل کر ان کا قصہ تمام کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو اعلان فرما دیا کہ جو لوگ کل ہمارے ساتھ لڑائی میں حاضر تھے آج دشمن کا تعاقب کرنے کیلئے تیار ہو جائیں، مسلمان مجاہدین باوجودیکہ تازہ زخم کھائے ہوئے تھے، اللہ اور رسول کی پکار پر نکل پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مجاہدین کی جمعیت لے کر مقام حمراء الاسد تک (جو مدینہ سے آٹھ میل ہے ) پہنچے، ابو سفیان کے دل میں یہ سن کر کہ مسلمان اس کے تعاقب میں چلے آرہے ہیں، سخت رعب و دہشت طاری ہو گئی، دوبارہ حملہ کا ارادہ فسخ کر کے مکہ کی طرف بھاگا، عبدالقیس کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ آ رہا تھا، ابو سفیان نے ان لوگوں کو کچھ دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں شائع کریں جن کو سن کر مسلمان ہماری طرف سے مرعوب و خوفزدہ ہو جائیں، انہوں نے مد ینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ مکہ والوں نے بڑا بھاری لشکر اور سامان مسلمانوں کے استیصال کی غرض سے تیار کیا ہے، یہ سن کر مسلمانوں کے دلوں میں خوف کی جگہ جوش ایمان بڑھ گیا اور کفار کی جمیعت کا حال سن کر کہنے لگے، ”حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ”ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا خدا ہم کو کافی ہے، اسی پر یہ آیات نازل ہوئیں، بعض کہتے ہیں کہ جنگ احد تمام ہو نے پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ اگلے سال بدر پر پھر لڑائی ہے، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا، جب اگلا سال آیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جہاد کیلئے چلو، اگر کوئی نہ جائے گا تب بھی اللہ کا رسول تنہا جائے گا، ادھر سے ابو سفیان فوج لیکر مکہ سے نکلا تھوڑی دور چل کر کمر ہمت ٹوٹ گئی، رعب چھا گیا، قحط سالی کا عذر کر کے چاہا مکہ واپس جائے، مگر صورت ایسی ہو کہ الزام مسلمانوں پر رہے، ایک شخص مدینہ جاتا تھا، اس کو کچھ دیا کہ وہاں پہنچ کر اس طرف کی ایسی خبریں مشہور کرنا جن کو سن کر مسلمان خوف کھائیں اور جنگ کو نہ نکلیں وہ مدینہ پہنچ کر کہنے لگا کہ مکہ والوں نے بڑی بھاری جمعیت اکٹھی کی ہے تم کو لڑنا بہتر نہیں، مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے استقلال دیا، انہوں نے یہی کہا کہ ہم کو اللہ کافی ہے، آخرمسلمان حسب وعدہ بدر پہنچے، وہاں بڑا بازار لگتا تھا، تین روز رہ کر تجارت کر کے خوب نفع کما کر مدینہ واپس آئے اس غزوہ کو بدر صغریٰ کہتے ہیں، اس وقت جن لوگوں نے رفاقت کی اور تیار ہوئے ان کو بشارت ہے کہ احد میں زخم کھا کر اور نقصان اٹھا کر پھر ایسی جرأت کی، مسلمانوں کی اس جرأت و مستعدی کی خبر سن کر مشرکین راستہ سے لوٹ گئے،  چنانچہ مکہ والوں نے اس مہم کا نام ”جیش السویق”رکھ دیا، یعنی وہ لشکر جو محض ستو پینے گیا تھا پی کر واپس آ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ شیطان تمہیں ڈراتا ہے اپنے دوستوں سے، سوتم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو(۱۷۵)

تشریح:یعنی جو ادھر سے آکر مرعوب کن خبریں پھیلاتا ہے وہ شیطان ہے یا شیطان کے اغواء سے ایسا کر رہا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ اپنے چیلے چانٹوں اور بھائی بندوں کا رعب تم پر بٹھلا کر خوفزدہ کر دے، سو تم اگر ایمان رکھتے ہو (اور ضرور رکھتے ہو جس کا ثبوت عملا ً دے چکے ) تو ان شیطانوں سے اصلا مت ڈرو صرف مجھ سے ڈرتے رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ کو غمگین نہ کریں وہ لوگ جو کفر میں جلدی کرتے ہیں یقیناً وہ ہرگز اللہ کا نہ بگاڑ سکیں گے کچھ، اللہ چاہتا ہے کہ ان کو آخرت میں کوئی حصہ نہ دے اور ان کے لئے عذاب ہے بڑا(۱۷۶)

تشریح:یعنی شیطان کی دھمکیوں سے مو من نہیں ڈرتے، ہاں منافق اس کی باتیں سن کر کفر کی طرف دوڑتے ہیں آپ ان ملعون منافقوں کی حرکات سے کچھ غمگین اور فکرمند نہ ہوں یہ اللہ کے دین اور اس کے پیغمبر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اپنا ہی نقصان کر تے ہیں ان کا حد سے زیادہ نفاق و شقاق پتہ دے رہا ہے کہ حق تعالیٰ انہیں انجام کار حقیقی کامیابی اور فوائد سے محروم رکھے گا اور بہت سخت سزا دے گا، جو لوگ ایسے معاند اور شریر کجرو ہوں اللہ کی عادت ان کے ساتھ یہی ہے، ایسوں کے غم میں اپنے کو زیادہ گھلانے کی ضرورت نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر مول لیا وہ ہرگز نہیں بگاڑ سکتے اللہ کا کچھ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے (۱۷۷)

تشریح:جنہوں نے ایمانی فطرت کو بدل کر کفر اختیار کیا، خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین، یا منافقین، یا کوئی اور وہ سب مل کر بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ہاں اپنے پاؤں پر خود اپنے ہاتھ سے کلہاڑی مار رہے ہیں جس کا نتیجہ دردناک عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ ہر گز گمان نہ کریں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے درحقیقت ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں تاکہ وہ گناہ میں بڑھ جائیں اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے (۱۷۸)

تشریح: یعنی ممکن ہے کافروں کو اپنی لمبی عمریں خوشحالی اور دولت و ثروت وغیرہ کی فراوانی دیکھ کر خیال گزرے کہ ایسے مغضوب و مطرود ہوتے تو ہم کو اتنی فراخی اور مہلت کیوں دی جاتی اور ایسی بھلی حالت میں کیوں رکھے جاتے ؟ سو واضح رہے کہ یہ مہلت دینا ان کے حق میں کچھ بھلی بات نہیں مہلت دینے کا نتیجہ تو یہی ہو گا کہ جن کو گناہ سمیت کفر پر مرنا ہے وہ اپنے اختیار اور آزادی سے خوب جی بھر کر ارمان نکال لیں اور گناہوں کا ذخیرہ فراہم کر لیں، وہ سمجھتے رہیں کہ ہم بڑی عزت سے ہیں حالانکہ ذلیل و خوار کرنے والا عذاب ان کے لئے تیار ہے اب سوچ لیں کہ مہلت دینا ان جیسوں کے حق میں بھلا ہو یا برا، نعوذ باللّٰہِ من شرور انفسنا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ(ایسا)نہیں ہے کہ ایمان والوں کو(اس حال پر)چھوڑ دے جس پر تم ہو یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے، اور اللہ (ایسا)نہیں ہے کہ تمہیں غیب کی خبر دے لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے چن لیتا ہے جس کو چاہے، تو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیز گاری کرو تو تمہارے لئے بڑا اجر ہے (۱۷۹)

یعنی جس طرح خوشحالی اور مہلت دینا کفار کے حق میں مقبولیت کی دلیل نہیں، اسی طرح اگر مخلص مسلمانوں کو مصائب اور ناخوشگوار حوادث پیش آئیں (جیسے جنگ احد میں آئے ) یہ اس کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک مغضوب ہیں، بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس گول مول حالت پر چھوڑنا نہیں چاہتا جس پر اب تک رہے ہیں، یعنی بہت سے کافر از راہ نفاق کلمہ پڑھ کر دھوکہ دینے کے لئے ان میں ملے جلے رہتے تھے جن کے ظاہر حال پر منافق کا لفظ کہنا مشکل تھا، لہٰذا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے واقعات و حالات بروئے کار لائے جو کھرے کو کھوٹے سے اور پاک کو ناپاک سے کھلے طور پر جدا کر دیں، بیشک خدا کو آسان تھا کہ تمام مسلمانوں کو بدون امتحان میں ڈالے منافقوں کے ناموں اور کاموں سے مطلع کر دیتا لیکن اس کی حکمت و مصلحت مقتضی نہیں کہ سب لوگوں کو اس قسم کے غیوب سے آگاہ کر دیا کرے، ہاں وہ اپنے رسولوں کا انتخاب کر کے جس قدر غیوب کی یقینی اطلاع دینا چاہے دے دیتا ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ عام لوگوں کو بلاواسطہ کسی غیب کی یقینی اطلاع نہیں دیجاتی انبیاء علیہم السلام کو دی جاتی ہے، مگر جس قدر خدا چاہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ ہر گز یہ خیال نہ کریں جو اس(مال)میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا کہ وہ بہتر ہے ان کے لئے بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے جس(مال)میں انہوں نے بخل کیا عنقریب قیامت کے دن طوق (بنا کر) پہنایا جائے گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے (۱۸۰)

ابتدائے سورت کا بڑا حصہ اہل کتاب (یہود نصاریٰ) سے متعلق تھا، درمیان میں خاص مناسبات و وجوہ کی بنا پر غزوۂ احد کی تفصیلات آ گئیں، انہیں بقدر کفایت تمام کر کے یہاں سے پھر اہل کتاب کی شنائع بیان کی جاتی ہیں، چونکہ ان میں سے یہود کا معاملہ بہت مضرت رساں اور تکلیف دہ تھا، منافقین بھی اکثر ان ہی میں کے تھے، اور اوپر کی آیت میں آگاہ کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ اب خبیث کو طیب سے جدا کر کے رہے گا، سو یہ جدائی جس طرح جانی و بدنی جہاد کے وقت ظاہر ہوتی تھی اسی طرح مالی جہاد کے وقت بھی کھرا کھوٹا اور کچا پکا صاف طور پر الگ ہو جاتا تھا اس لئے بتلا دیا کہ یہود منافقین جیسے جہاد کے موقع سے بھاگتے ہیں، مال خرچ کر نے سے بھی جی چراتے ہیں لیکن جس طرح جہاد سے بچ کر دنیا میں چند روز کی مہلت حاصل کر لینا ان کے حق میں کچھ بہتر نہیں، ایسے ہی بخل کر کے بہت مال اکٹھا کر لینا بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اگر دنیا میں فرض کرو کوئی مصیبت پیش نہ بھی آئی تو قیامت کے دن یقیناً یہ جمع کیا ہوا مال عذاب کی صورت میں ان کے گلے کا ہار بن کر رہے گا، اس میں مسلمانوں کو بھی کھٹکھٹا دیا کہ زکات دینے اور ضروری مصارف میں خرچ کر نے سے کبھی جی نہ چرائیں، ورنہ جو شخص بخل و حرص وغیرہ رذیل خصلتوں میں یہود منافقین کی روش اختیار کر ے گا، اسے بھی اپنے درجہ کے مو افق اسی طرح کی سزا کا منتظر رہنا چاہیئے، چنانچہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، کہ مانعین زکات کا مال سخت زہریلے اژدہے کی صورت میں متمثل کر کے ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ نعوذباللّٰہ منہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

البتہ اللہ نے ان کی بات سن لی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں جو انہوں نے کہا اور نبیوں کا ناحق قتل کرنا اب ہم لکھ رکھیں گے اور کہیں گے چکھو جلانے والا عذاب(۱۸۱)

یہ اس کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور یہ کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں (۱۸۲)

تشریح:یعنی محض اتنا ہی نہیں کہ یہود انتہائی بخل کی وجہ سے پیسہ خرچ کرنا نہیں جانتے، بلکہ جب خدا کی راہ میں خرچ کر نے کا حکم سنتے ہیں تو مذاق اڑا تے ہیں اور حق تعالیٰ کی جناب میں گستاخانہ کلمات بکنے سے بھی نہیں شرماتے، چنانچہ جب آیت مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاًحَسَناً نازل ہوئی، کہنے لگے اللہ ہم سے قرض مانگتا ہے تو اللہ فقیر محتاج ہے اور ہم غنی مالدار ہیں، حالانکہ ایک غبی اور کوڑھ مغز بھی سمجھ سکتا ہے کہ انفاق فی وجوہ الخیر کو قرض سے تعبیر فرمانے میں انتہائی رحمت و شفقت کا اظہار تھا، ظاہر ہے کہ خدا اپنا دیا ہوا مال ہم سے ہماری مصالح میں ہمارے ہی دنیاوی و اخروی فائدہ کے لئے خرچ کراتا ہے، اس کو ہمارے خرچ سے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا اور بفرض محال پہنچے بھی تو مال اور ہر چیز اسی کی مملوک ہے، پھر حقیقی معنی میں اس کو قرض کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ اس کا کمال کرم و احسان ہے کہ اس خرچ کا بہترین معاوضہ دینا بھی اپنے ذمہ لازم کر لیا اور اس کو لفظ قرض سے ادا کر کے اس لزوم کو بھی حد موکدہ مسجل کر دیا، مگر یہود اپنی کور چشمی اور خبث باطن سے احسان ماننے کے بجائے ان لفظوں کی ہنسی اڑانے لگے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رفیع میں مسخراپن کرنے سے باز نہ رہے، اس کو فرمایا کہ اللہ نے تمہاری یہ باتیں سن لیں، اس پر جو کارروائی ہو گی اس کے منتظر رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ نے ہم سے عہد کر رکھا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس قربانی لائے جسے آگ کھا لے، آپ کہہ دیں البتہ تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت رسول آئے نشانیوں کے ساتھ اور اس کے ساتھ بھی جو تم کہتے ہو پھر کیوں تم نے انہیں قتل کیا اگر تم سچے ہو(۱۸۳)

تشریح:بعضے رسولوں سے یہ معجزہ ظاہر ہوا تھا کہ قربانی یا کوئی چیز اللہ نام کی نیاز کی تو آسمان سے آگ آ کر اس کو کھا گئی، یہ علامت تھی اس کے قبول ہونے کی، چنانچہ موجودہ”بائبل” میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ایسا واقعہ مذکور ہے، اب یہود بہانہ پکڑتے تھے کہ ہم کو یہ حکم ہے کہ جس سے یہ معجزہ نہ دیکھیں اس پر یقین نہ لائیں اور یہ محض جھوٹے بہانے تھے اس قسم کا کوئی حکم ان کی کتابوں میں موجود نہ تھا، نہ آج موجود ہے اور نہ ہر ایک نبی کی نسبت یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس کو یہ معجزہ ملا تھا، ہر پیغمبر کو حق تعالیٰ نے اوقات و احوال کے مناسب معجزات دئیے ہیں، لازم نہیں کہ ہر نبی ایک ہی معجزہ دکھلائے تو سچا ثابت ہو۔

اگر واقعی اپنے دعوے میں سچے ہو اور اسی خاص معجزہ کے دکھلانے پر تمہارا ایمان لانا موقوف ہے تو پہلے ایسے نبیوں کو تم نے کیوں قتل کیا جو اپنی صداقت کی کھلی نشانیوں کے ساتھ خاص یہ معجزہ بھی لیکر آئے تھے تمہارے اسلاف کا یہ فعل جس پر تم بھی آج تک راضی ہو، کیا اس کی دلیل نہیں کہ یہ سب تمہاری حیلہ سازی اور ہٹ دھرمی ہے کہ کوئی پیغمبر جب تک خاص یہی معجزہ نہ دکھلائے گا ہم نہ مانیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو البتہ جھٹلائے گئے ہیں آپ سے پہلے بہت سے رسول جو آئے کھلی نشانیوں کے ساتھ اور صحیفے اور روشن کتاب(لے کر)(۱۸۴)

ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہارے اجر پورے پورے ملیں گے پھر جو کوئی دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا پس وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی (کچھ) نہیں ایک دھوکہ کے سودے کے سوا(۱۸۵)

تشریح:یعنی دنیا کی عارضی بہار اور ظاہری ٹیپ ٹاپ بہت دھوکہ میں ڈالنے والی چیز ہے جس پر مفتون ہو کر اکثر بے وقوف آخرت سے غافل ہو جاتے ہیں، حالانکہ انسان کی اصلی کامیابی یہ ہے کہ یہاں رہ کر انجام کو سو چے اور وہ کام کرے جو عذاب الٰہی سے بچانے والا اور جنت تک پہنچا نے والا ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور تم ضرور سنو گے ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکوں سے (بھی)دکھ دینے والی(باتیں )بہت سی اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو بیشک یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے (۱۸۶)

تشریح:یہ خطاب مسلمانوں کو ہے کہ آئندہ بھی جان و مال میں تمہاری آزمائش ہو گی اور ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی، قتل کیا جانا زخمی ہونا، قیدو بند کی تکلیف اٹھانا، بیمار پڑنا، اموال کا تلف ہونا، اقارب کا چھوٹنا، اس طرح کی سختیاں پیش آئیں گی، نیز اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے بہت جگر خراش اور دل آزار باتیں سننا پڑیں گی، ان سب کا علاج صبر و تقویٰ ہے، اگر صبر و استقلال اور پرہیزگاری سے ان سختیوں کا مقابلہ کرو گے تو یہ بڑی ہمت اور اولوالعزمی کا کام ہو گا، جس کی تاکید حق تعالیٰ نے فرمائی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے لوگوں کے لئے ضرور بیان کرنا اور اسے نہ چھپانا انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کی تو کتنا برا ہے جو وہ خریدتے ہیں (۱۸۷)

تشریح:یعنی علمائے اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ جو احکام و بشارات کتاب اللہ میں ہیں انہیں صاف صاف لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور کوئی بات نہیں چھپائیں گے نہ ہیر پھیر کر کے ان کے معنی بدلیں گے، مگر انہوں نے ذرہ برابر پروا نہ کی اور دنیا کے تھوڑے سے نفع کی خاطر سب عہد و پیمان توڑ کر احکام شریعت بدل ڈالے آیات اللہ میں لفظی و معنوی تحریفات کیں جس چیز کا ظاہر کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا یعنی پیغمبر آخرالزماں کی بشارت، اسی کو سب سے زیادہ چھپایا، جس قدر مال خرچ کرنے میں بخل کرتے اس سے بڑھ کر علم خرچ کرنے میں کنجوسی دکھائی، اور اس کنجوسی کا منشاء بھی مال و جاں اور متاع دنیا کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا، یہاں ضمناً مسلمان اہل علم کو متنبہ فرما دیا کہ تم دنیا کی محبت میں پھنس کر ایسا نہ کرنا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ ہرگز نہ سمجھیں جو لوگ خوش ہوتے ہیں جو انہوں نے کیا(اپنے کئے پر)اور چاہتے ہیں کہ اس پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیا پس آپ انہیں رہا شدہ نہ سمجھیں عذاب سے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے (۱۸۸)

اور اللہ کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے (۱۸۹)

تشریح :یہود مسئلے غلط بتاتے، رشوتیں کھاتے اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کی صفات و بشارات جان بوجھ کر چھپاتے تھے پھر خوش ہوتے کہ ہماری چالاکیوں کو کوئی پکڑ نہیں سکتا اور امید رکھتے کہ لوگ ہماری تعریف کریں کہ بڑے عالم اور دیندار حق پرست ہیں، دوسری طرف منافقین کا حال بھی ان کے مشابہ تھا، جب جہاد کا موقع آتا گھر میں چھپ کر بیٹھ رہتے اور اپنی اس حرکت پر خوش ہوتے کہ دیکھو کیسے جان بچائی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس تشریف لاتے تو غیر حاضری کے جھوٹے عذر پیش کر کے چاہتے کہ آپ سے اپنی تعریف کرائیں، ان سب کو بتلا دیا گیا کہ یہ باتیں دنیا و آخرت میں خدا کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتیں، اول تو ایسے لوگ دنیا ہی میں فضیحت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے یہاں بچ گئے تو وہاں کسی تدبیر سے نہیں چھوٹ سکتے .

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک پیدائش میں آسمانوں کی اور زمین کی اور رات دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں (۱۹۰)

تشریح:عقلمند آدمی جب آسمان و زمین کی پیدائش اور ان کے عجیب و غریب احوال و روابط اور دن رات کے مضبوط و محکم نظام میں غور کرتا ہے تو اس کو یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا مرتب و منظم سلسلہ ضرور کسی ایک مختار کل اور قادر مطلق فرمانروا کے ہاتھ میں ہے جس نے اپنی عظیم قدرت و اختیار سے ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی حد بندی کر رکھی ہے، کسی چیز کی مجال نہیں کہ اپنے محدود وجود اور دائرۂ عمل سے باہر قدم نکال سکے، اگر اس عظیم الشان مشین کا ایک پرزہ یا اس کارخانہ کا ایک مزدور بھی مالک علی الاطلاق کی قدرت و اختیار سے باہر ہوتا تو مجموعہ عالم کا یہ مکمل و محکم نظام ہرگز قائم نہ رہ سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر یاد کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں آسمانوں کی اور زمین کی پیدائش میں اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ پیدا نہیں کیا تو پاک ہے تو بچا لے ہمیں دوزخ کے عذاب سے (۱۹۱)

تشریح: یعنی کسی حال خدا سے غافل نہیں ہوتے، اس کی یاد ہمہ وقت ان کے دل میں اور زبان پر جاری رہتی ہے، جیسے حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کَانَ یَذْکُرُ اللہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہٖ نماز بھی خدا کی بہت بڑی یاد ہے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر پڑھ لے، بعض روایات میں ہے کہ جس رات میں یہ آیات نازل ہوئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حالت میں اللہ کو یاد کر کے روتے رہے۔

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا :ذکر و فکر کے بعد کہتے ہیں کہ خداوندا ! یہ عظیم الشان کارخانہ آپ نے بیکار پیدا نہیں کیا، جس کا کوئی مقصد نہ ہو یقیناً ان عجیب و غریب حکیمانہ انتظامات کا سلسلہ کسی عظیم و جلیل نتیجہ پر منتہی ہونا چاہئے، گویا یہاں سے ان کا ذہن تصور آخرت کی طرف منتقل ہو گیا جو فی الحقیقت دنیا کی موجودہ زندگی کا آخری نتیجہ ہے اسی لئے آگے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعاء کی، اور درمیان میں خدا تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہ بیان کر کے اشارہ کر دیا کہ جو احمق قدرت کے ایسے صاف و صریح نشان دیکھتے ہوئے تجھ کو نہ پہچانیں یا تیری شان کو گھٹائیں یا کار خانہ عالم کو محض عبث و لعب سمجھیں، تیری بارگاہ ان سب کی ہزلیات و خرافات سے پاک ہے، اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعات الٰہیہ میں غور و فکر کرنا وہی محمود ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ خدا کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو باقی جو مادہ پرست ان مصنوعات کے تاروں میں الجھ کر رہ جائیں اور صانع کی صحیح معرفت تک نہ پہنچ سکیں، خواہ دنیا انہیں بڑا محقق اور سائنسداں کہا کرے، مگر قرآن کی زبان میں وہ اولو الالباب نہیں ہوسکتے، بلکہ پرلے درجہ کے جاہل و احمق ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہمارے رب تو نے جس کو دوزخ میں داخل کیا  تو ضرور تو نے اس کو رسوا کیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (۱۹۲)

تشریح:جو شخص جتنی دیر دوزخ میں رہے گا اسی قدر رسوائی سمجھو، اس قاعدہ سے دائمی رسوائی صرف کفار کے لئے ہے جن آیات میں عامہ مومنین سے خزی (رسوائی) کی نفی کی گئی ہے و ہاں یہی معنی سمجھنے چاہئیں۔

جس کو خدا دوزخ میں ڈالنا چاہے، کوئی حمایت کر کے بچا نہیں سکتا، ہاں جن کو ابتداء میں یا آخر میں چھوڑنا اور معاف کر دینا ہی منظور ہو گا (جیسے عصاۃ مومنین) ان کے لئے شفعاء کو اجازت دی جائی کہ سفارش کر کے بخشوائیں، وہ اس کے مخالف نہیں، بلکہ آیات و احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہمارے رب بیشک ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا وہ ایمان کی طرف پکارتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ سوہم ایمان لے آئے اے ہمارے رب تو ہمیں بخش دے ہمارے گناہ اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے (۱۹۳)

تشریح: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا :یعنی نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے بڑی اونچی آواز سے دنیا کو پکارا، یا قرآن کر یم جس کی آواز گھر گھر میں پہنچ گئی۔

رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا: ہمارے بڑے گناہ بخش دے، اور چھوٹی موٹی برائیوں پر پردہ ڈال دے اور جب اٹھانا ہو نیک بندوں کے زمرہ میں شامل کر کے دنیا سے اٹھا لے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہمارے رب اور ہمیں دے جوتو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ کیا اور ہمیں رسوا نہ کرنا قیامت کے دن بیشک تو نہیں خلاف کرتا(اپنا)وعدہ(۱۹۴)

تشریح:  رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِکَ :پیغمبروں کی زبانی، ان کی تصدیق کر نے پر جو وعدے آپ نے کئے ہیں (مثلا ً دنیا میں آخرکار اعداء اللہ پر غالب و منصور کرنا اور آخرت میں جنت و رضوان سے سرفراز فرمانا) ان سے ہم کو اس طرح بہرہ اندوز کیجئے کہ قیامت کے دن ہماری کسی قسم کی ادنیٰ سے ادنیٰ رسوائی بھی نہ ہو۔

إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ :آپ کے ہاں تو وعدہ خلافی کا احتمال نہیں، ہم میں احتمال ہے کہ مبادا ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں جو آپ کے وعدوں سے مستفید نہ ہوسکیں، اس لئے درخواست ہے کہ ہم کو ان اعمال پر مستقیم رہنے کی توفیق دیجئے جن کی آپ کے وعدوں سے متمتع ہونے کے لئے ضرورت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ان کے رب نے (ان کی دعا)قبول کی کہ میں کسی محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہیں کرتا تم میں سے مرد ہو یا عورت تم آپس میں (ایک ہو)سوجن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے شہروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے، اور لڑے اور مارے گئے، میں ان کی برائیاں ان سے ضرور دور کر دوں گا اور انہیں داخل کروں گا باغات میں بہتی ہیں جن کے نیچے نہریں (یہ)اللہ کی طرف سے ثواب ہے، اور اللہ کے پاس اچھا ثواب ہے (۱۹۵)

تشریح: یعنی مرد ہو یا عورت ہمارے ہاں کسی کی محنت ضائع نہیں جاتی، جو کام کرے گا اس کا پھل پائے گا، یہاں عمل شرط ہے، نیک عمل کر کے ایک عورت بھی اپنی استعداد کے موافق آخرت کے وہ درجات حاصل کرسکتی ہے جو مرد حاصل کرسکتے ہیں، جب تم مرد و عورت ایک نوع انسانی کے افراد ہو، ایک آدم سے پیدا ہوئے ہو، ایک رشتہ اسلامی میں منسلک ہو، ایک اجتماعی زندگی اور امور معاشرت میں شریک رہتے ہو تو اعمال اور ان کے ثمرات میں بھی اپنے کو ایک ہی سمجھو، روایت میں ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا تھا! یا رسول اللہ! قرآن میں کہیں ہم عورتوں کی ہجرت وغیرہ اعمال حسنہ کا بالتخصیص ذکر نہیں آتا اس کا جو اب اس آیت میں دیا گیا۔

فَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَأُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ :جب کسی عمل کرنے والے کا چھوٹا موٹا عمل بھی ضائع نہیں ہوتا، پھر ان مردان خدا کا تو پوچھنا ہی کیا ہے جنہوں نے کفر و عصیان چھوڑنے کے ساتھ دار الکفر بھی چھوڑ دیا، وطن، خویش و اقارب، اہل و عیال اور مال و منال سب کو خیر باد کہہ کر دارالاسلام کی طرف نکل کھڑے ہوئے، کفار نے ان پر وہ ظلم و ستم توڑے کہ گھروں میں ٹھہرنا محال ہو گیا، وطن چھوڑنے اور گھر بار ترک کر نے پر بھی دشمنوں نے چین نہ لینے دیا، طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے رہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ وہ میرا نام لیتے تھے اور میرا کلمہ پڑھتے تھے یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ (الممتحنہ رکوع ١، آیت:١) وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّا اَنْ یُوْمِنُوا بِا للّٰہِ الْعَزِیْز الْحَمِیْد ِ(بروج رکوع ١، آیت:٨) آخر وہ میرے راستہ میں لڑے اور لڑ کر جان دے دی، یہ بندے ہیں جن کی تمام تقصیرات معاف کر دی گئیں اور جنت ان کا انتظار کر رہی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

شہروں میں کافروں کا چلنا پھرنا آپ کو دھوکہ نہ دے (۱۹۶)

(یہ)تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ کتنی بری آرام گاہ ہے (۱۹۷)

تشریح: کفار جو اِدھر ادھر تجارت وغیرہ کر کے دو لت کماتے اور اکڑتے پھرتے ہیں، مسلمان کو چاہئے کہ ان سے دھوکہ نہ کھائے یہ محض چند روز کی بہار ہے، اگر ایک شخص کو چار دن پلاؤ، قورمے کھلانے کے بعد پھانسی یا حبس دوام کی سزا دی جائے تو وہ کیا خوش عیش ہوا، خوش عیش وہ ہے جو تھوڑی سی محنت اور تکلیف اٹھا کر ہمیشہ کے لئے اعلیٰ درجہ کی راحت و آسائش کا سامان مہیا کر لے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ ڈرتے رہے ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہاں ہمیشہ رہیں گے مہمانی ہے اللہ کے پاس سے اور جو اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لئے بہتر ہے (۱۹۸)

تشریح:مہمان اس لئے کہا کہ مہمان کو اپنے کھانے پینے کی کچھ فکر کرنی نہیں پڑتی، عزت اور آرام سے بیٹھے بٹھائے ہر چیز تیار ملتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک اہل کتاب میں سے بعض وہ ہیں جو ایمان لائے ہیں اللہ پر اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا، اللہ کے آگے عاجز ی کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہیں لیتے، یہی لوگ ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے، بیشک اللہ جلد حساب کرنے والا ہے (۱۹۹)

اوپر عام متقین کا حال بیان ہوا تھا، اب اہل کتاب میں جو متقی ہوں ان کا خصوصیت سے ذکر فرماتے ہیں، یعنی جو اہل کتاب اللہ پر ٹھیک ٹھیک ایمان لائے، قرآن کو مانا اور چونکہ خود قرآن تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے ان کو بھی مانا، مگر اس طرح نہیں، جیسے دنیا پرست احبار مانتے تھے کہ تھوڑے سے دنیاوی فائدہ کی خاطر آیات اللہ کو چھپا لیا یا بدل ڈالا، بلکہ خدا کے آگے عاجزی اور اخلاص سے گرے اور جس طرح اس نے کتابیں اتاری تھیں ٹھیک ٹھیک اسی اصلی رنگ میں ان کو تسلیم کیا، نہ بشارات کو چھپایا، نہ احکام کو بدلا، ایسے پاکباز حق پرست اہل کتاب کے لئے اللہ کے ہاں مخصوص اجر ہے، چنانچہ قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہے کہ ایسے اہل کتاب کو دوہرا اجر ملے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو تم صبر کرو اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور جنگ کی تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم مراد کو پہنچو(۲۰۰)

تشریح:قرآنی اصطلاح میں صبر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس کی ایک قسم اللہ تعالی کی اطاعت میں استقامت کا مظاہرہ ہے، دوسری قسم گناہوں کے لئے اپنی خواہشات کو دبانا ہے اور تیسری قسم تکلیفوں کو برداشت کرنا ہے یہاں ان تینوں قسموں کے صبر کا حکم دیا گیا ہے، اور سرحدوں کی حفاظت میں جغرافی سرحدوں کی حفاظت بھی داخل ہے اور نظریاتی حفاظت بھی، اللہ تعالی ہمیں ان تمام احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

(توضیح القرآن)

 

خاتمہ پر مسلمانوں کو ایک نہایت جامع و مانع نصیحت فرما دی، جو گویا ساری سورت کا ماحصل ہے، یعنی اگر کامیاب ہونا اور دنیا و آخرت میں مراد کو پہنچنا چاہتے ہو تو سختیاں اٹھا کر بھی طاعت پر جمے رہو، معصیت سے رکو، دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی اور ثابت قدمی دکھلاؤ، اسلام اور حدود اسلام کی حفاظت میں لگے رہو، جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا خطرہ ہو وہاں آہنی دیوار کی طرح سینہ سپرہو کر ڈٹ جاؤ، وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوّکُمْ(انفال رکو ع٨، آیت:٦٠) اور ہر وقت ہر کام میں خدا سے ڈرتے رہو، یہ کر لیا تو سمجھو کہ مراد کو پہنچ گئے، اللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مُفْلِحِیْنَ وَفَائِزیْنَ بِفَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ اٰمین، حدیث میں ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے اٹھتے تو آسمان کی طرف نظر اٹھا کر یہ دس آیتیں ان فی خلق السمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے ختم سورۃ تک تلاوت کرتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

۴۔ سورۃ النساء

 

 

                تعارف

 

یہ سورت آنحضرتﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی اور اس کا اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا، جب مدینہ منورہ کی نوزائیدہ مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دوچار تھی، زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھر رہا تھا جس کے لئے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوں اور اخلاق و معاشرت سے متعلق تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی، دشمن طاقتیں اسلام کی پیش قدمی کا راستہ روکنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہی تھیں اور مسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے نت نئے مسائل کا سامنا تھا، سورۂ نساء نے ان تمام معاملات میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں، چونکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے، اس لئے یہ سورت خاندانی معاملات کے بارے میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے،  چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اس لئے عورتوں کے بارے میں اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں اور اسی لئے اس کا نام سورۂ نساء ہے، جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ اور بہت سے بچے یتیم ہو گئے تھے، اس لئے سورت نے شروع ہی میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے اور ۱۴ تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں، زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے ان مظالم کی ایک ایک کر کے نشاندہی کی گئی ہے اور معاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں، نکاح و طلاق کے مفصل احکام بیان کئے گئے ہیں اور میاں بیوی کے حقوق متعین فرمائے گئے ہیں، یہ مضمون ۳۵تک چلا ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، مسلمانوں کو عرب کے صحراؤں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی تھی لہذا آیت ۴۳ میں تیمم کا طریقہ اور آیت ۱۰۱ میں سفر میں نماز قصر کرنے کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے، نیز جہاد کے دوران نمازِ خوف کا طریقہ آیت ۱۰۲ اور ۱۰۳ میں بتایا گیا ہے، مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا تھا آیات۴۴تا۵۷ اور ۱۵۳ تا ۱۷۵ میں ان کی بد اعمالیوں کو واضح فرمایا گیا ہے اور انہیں راہ راست پر آنے کی ترغیب دی گئی ہے، آیات۱۷۱ تا۱۷۵ میں ان کے ساتھ عیسائیوں کو بھی خطاب میں شامل کر لیا گیا ہے اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہیں، اس کے علاوہ آیات ۵۸، ۵۹ میں سیاست اور حکمرانی سے متعلق ہدایات آئی ہیں، منافقین کی بد اعمالیاں آیات ۶۰ تا ۷۰ اور پھر آیات ۱۳۷ تا ۱۵۲ میں واضح کی گئی ہیں، آیات۶۹تا۷۱ نے جہاد کے احکام بیان کر کے منافقین کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے، اسی سیاق میں آیات ۹۲، ۹۳ میں قتل کی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں، جومسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور کفار کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے ان کی ہجرت کے مسائل آیات ۹۷ تا۱۰۰ میں زیر بحث آئے ہیں، اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرتﷺ کے سامنے فیصلے کے لئے لائے گئے، آیات ۱۰۵ تا ۱۱۵ میں ان فیصلوں کا طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کو آپ کے فیصلے دل و جان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے، آیات ۱۱۶ تا ۱۲۶ میں توحید کی اہمیت واضح کی گئی ہے، خاندانی نظام اور میراث کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے متعدد سوالات پوچھے تھے، آیات ۱۲۷ تا۱۲۹ اور پھر ۱۷۶ میں ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے، خلاصہ یہ کہ پوری سورت احکام اور تعلیمات سے بھری ہوئی ہے اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیا گیا تھا کہا جا سکتا ہے پوری سورت اس کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مدنیہ

 

آیات:۱۷۶       رکوعات:۲۴

 

اللہ کے نام سے جو بہت مہربان رحم کرنے والا ہے

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان(آدمؑ)سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے پھیلائے بہت سے مرد اور عورتیں اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم آپس میں مانگتے ہو اور (خیال رکھو)رشتوں کا بیشک اللہ ہے تم پر نگہبان(۱)

تشریح:حضرت آدم علیہ السلام سے اول تو حضرت حوا کو ان کی بائیں پسلی سے نکالا، پھر ان دونوں سے تمام مرد اور عورتوں کو پیدا کیا، اور دنیا میں پھیلایا تو حقیقت میں تمام آدمی ایک جان اور ایک شخص سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے، مطلب یہ ہے کہ جب تم سب کو عدم سے وجود میں لانے والا اور پھر تم کو باقی اور قائم رکھنے والا وہی ہے تو اس سے ڈرنا اور اس کی فرمانبرداری ضروری بات ہے

(تفسیرعثمانی)

 

جب دنیا میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو بکثرت یہ کہتے ہیں کہ خدا کے واسطے مجھے میرا حق دے دو، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے حقوق کے لئے اللہ کا واسطہ دیتے ہو تو دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی اللہ سے ڈرو اور لوگوں کے حقوق پورے پورے ادا کرو۔

(توضیح القرآن)

 

اور یتیموں کو ان کے مال دو اور نہ بدلو ناپاک (حرام)کو پاک(حلال)سے اور ان کے مال نہ کھاؤ اپنے مالوں کے ساتھ(ملا کر)بیشک یہ بڑا گناہ ہے (۲)

تشریح:کسی مرنے والے کے بچے جب یتیم ہو جاتے ہیں تو ان کے باپ کی میراث میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے مگر ان کی کم عمری کی وجہ سے وہ مال ان کے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کے سرپرست مثلاً چچا بھائی وغیرہ اسے بچوں کے بالغ ہونے تک اپنے پاس امانت کے طور پر رکھتے ہیں، اس آیت میں ایسے سرپرستوں کو تین ہدایتیں دی گئی ہیں، ایک یہ کہ جب بچے بالغ اور سمجھ دار ہو جائیں تو ان کی امانت دیانت داری سے ان کے حوالے کر دو، دوسرے یہ کہ یہ بددیانتی نہ کرو کہ ان کے باپ کی طرف سے تو میراث میں اچھی قسم کا مال ملا تھا مگر تم وہ مال خود رکھ کر گھٹیا قسم کی چیز اس کے بدلے میں دے دو اور تیسرے ایسا نہ کرو کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کا کچھ حصہ جان بوجھ کر یا بے پروائی سے خود استعمال کر بیٹھو۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر تم کوڈر ہو کہ یتیم(لڑکیوں کے حق) میں انصاف نہ کرسکو گے تو نکاح کر لو جو عورتیں تمہیں بھلی لگیں دو دو اور چار چار، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی یا جس لونڈی کے تم مالک ہو، یہ اس کے قریب ہے کہ نہ جھک پڑو(۳)

تشریح:صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ نے اس ہدایت کا پس منظر یہ بتایا ہے کہ بعض اوقات ایک یتیم لڑکی اپنے چچا کے بیٹے کی سرپرستی میں ہوتی تھی وہ خوبصورت بھی ہوتی اور اس کے باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی اچھا خاصا ہوتا تھا اس صورت میں اس کا چچا زاد یہ چاہتا تھا کہ اس کے بالغ ہونے پر وہ خود اس سے نکاح کر لے تاکہ اس کا مال اسی کے تصرف میں رہے لیکن نکاح میں وہ اس کو اتنا مہر نہیں دیتا تھا جتنا اسی جیسی لڑکی کو دینا چاہئے دوسری طرف اگر لڑکی زیادہ خوبصورت نہ ہوتی تو اس کے مال کی لالچ میں اس سے نکاح کر لیتا تھا،  لیکن نہ صرف یہ کہ اس کا مہر کم رکھتا تھا،  بلکہ اس کے ساتھ ایک محبوب بیوی جیسا سلوک بھی نہیں کرتا تھا، اس آیت نے ایسے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے ساتھ اس قسم کی بے انصافی کا اندیشہ ہوتو ان سے نکاح مت کرو،  بلکہ عورتوں سے نکاح کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں۔

مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ:جاہلیت کے زمانے میں بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی ایک شخص بیک وقت دس دس بیس بیس عورتوں کو نکاح میں رکھ لیتا تھا اس آیت نے اس کی زیادہ سے زیادہ حد چار تک مقرر فرما دی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ انسان تمام بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک کرے اور اگر بے انصافی کا اندیشہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ایسی صورت میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے کو منع فرما دیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دو پھر اگر وہ خوشی سے تمہیں چھوڑ دیں اس میں کچھ تواسے مزیدار خوشگوار سمجھ کر کھاؤ (۴)

تشریح:جن عورتوں سے نکاح کرو ان کے مہر خوش دلی اور رغبت کے ساتھ خود ادا کر دو ان کا کوئی حامی اور تم سے تقاضا کر کے وصول کرنے والا ہو یا نہ ہو۔ ایسا کرو تو پھر یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج ہی نہیں، حرج تو جب ہے کہ مہر دینے میں یا ان کے کسی حق کے ادا کرنے میں گرانی ہو۔

اگر عورت اپنی خوشی سے مہر میں سے کوئی مقدار زوج کو معاف کر دے یا لے کر پھر زوج کو ہبہ کر دے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ زوج اس خوشی سے کھا لے جو کھانا لذیذ ہو اور طبیعت اس کو رغبت کے ساتھ قبول کر لے اس کو ہنیء کہتے ہیں اور جو کھانا ہضم ہو کر بخوبی جزو بدن اور موجب صحت قوت ہو وہ مری ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور نہ دوبے عقلوں کو اپنے مال جو اللہ نے تمہارے لئے سہارا (گزران کا ذریعہ)بنایا ہے اور انہیں اس سے کھلاتے اور پہناتے رہو اور کہو ان سے معقول بات(۵)

تشریح:بے سمجھ لڑکوں کے ہاتھ میں ان کا وہ مال مت دے دو کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کے لئے سامان معیشت بنایا ہے، بلکہ اس کی پوری حفاظت رکھو اور اندیشہ ہلاکت سے بچاؤ اور جب تک ان کو نفع نقصان کا ہوش نہ آئے، اس وقت تک ان کو اس میں سے کھلاؤ پہناؤ اور تسلی کرتے رہو کہ یہ سب مال تمہارا ہی ہے، ہم تو تمہاری خیر خواہی کرتے ہیں۔ جب سمجھدار ہو جاؤ گے تم کو ہی دے دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں صلاحیت (حسن تدبیر) پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور ان کا مال نہ کھاؤ ضرورت سے زیادہ اور جلدی(اس خیال سے )کہ وہ بڑے ہو جائیں گے اور جو غنی ہو وہ (مال یتیم سے )بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ دستور کے مطابق کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ کر لو اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا (۶)

تشریح:یتیموں کے سرپرست کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے بہت سی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں، عام حالات میں جب سرپرست خود کھاتا پیتا شخص ہو اس کے لئے ان خدمات کا کوئی معاوضہ لینا درست نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتا ہے،  لیکن اگر وہ خود تنگدست ہے اور یتیم کی ملکیت میں اچھا خاصا مال ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنا ضروری خرچ بھی یتیم کے مال سے لے لے، مگر پوری احتیاط سے اتنا ہی لے جتنا عرف اور رواج کے مطابق ضروری ہے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مردوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو ماں باپ نے اور قرابت داروں نے چھوڑا اور عورتوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑا ماں باپ نے اور قرابت داروں نے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے (۷)

تشریح:جاہلیت کے زمانے میں عورتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا، آنحضرتﷺ کے سامنے ایسے واقعات پیش آئے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اور وہ بیوی اور نابالغ بچے چھوڑ کر گیا اور اس کے سارے ترکے پر اس کے بھائیوں نے قبضہ کر لیا، بیوی کو تو عورت ہونے کی وجہ سے میراث سے محروم رکھا گیا اور بچوں کو نابالغ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ دیا گیا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں واضح کر دیا گیا کہ عورتوں کو میراث سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، اللہ تعالی نے آگے ۱۱ سے شروع ہونے والے رکوع میں تمام رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے حصے مقرر فرما دئے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور مسکین تواس میں سے انہیں بھی(کچھ)دے دو اور کہو ان سے اچھی بات(۸)

اور چاہئے کہ وہ لوگ ڈریں کہ اگر وہ چھوڑ جائیں اپنے پیچھے ناتواں اولاد ہو تو ان کی فکر ہو، پس چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور چاہئے کہ بات کہیں سیدھی(۹)

تشریح:جب میراث تقسیم ہو رہی ہو تو بعض ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو شرعی اعتبار سے وارث نہیں ہیں قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے کہ ان کو بھی کچھ دے دینا بہتر ہے، مگر ایک تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس ہدایت پر عمل کرنا مستحب ہے، یعنی پسندیدہ ہے واجب نہیں ہے، دوسرے اس پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء ایسے لوگوں کو اپنے حصہ میں سے دیں، نابالغ ورثاء کے حصے میں سے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔

جس طرح تمہیں اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ان کا کیا ہو گا اسی طرح دوسروں کے بچوں کی بھی فکر کرو اور یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے ڈرو۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں اور کچھ نہیں بس وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب دوزخ میں داخل ہوں گے (۱۰)

تشریح:آیات متعددہ سابقہ میں یتیموں کے مال کے متعلق مختلف طرح سے احتیاط کرنے کا حکم تھا اور ان کے مال میں خیانت کو بڑا گناہ بتایا گیا ہے، اب اخیر میں مال یتیم میں خیانت کرنے پر وعید شدید بیان فرما کر اس حکم کو خوب مؤکد کر دیا کہ جو کوئی یتیم کا مال بلا استحقاق کھاتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔ یعنی اس کھانے کا یہ انجام ہو گا اور جملہء اخیر میں اس کو ظاہر کر دیا گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

 

اللہ تمہیں وصیت کرتا ہے تمہاری اولاد (کے بارہ) میں مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے پھر اگر عورتیں ہوں دو سے زیادہ تو ان کے لئے (اس میں سے ) دو تہائی ہے جو (وارث نے ) چھوڑا اور اگر ایک ہی ہوتواس کے لئے نصف ہے، اور اس کے ماں باپ کے لئے دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اس میں سے جو (میت نے) چھوڑا، اگر ان کی اولاد ہو، پھر اگر اس کے اولاد نہ ہو اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تواس کی ماں کا تہائی حصہ ہے، پھر اگر اس(میت)کے کئی بہن بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر گیا یا(بعد ادائے )قرض، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تو تم کو نہیں معلوم ان میں کون تمہارے لئے نفع(پہنچانے میں )نزدیک تر ہے، یہ اللہ کا مقرر کیا ہوا حصہ ہے، بیشک اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے (۱۱)

تشریح:اگر کسی میت کی اولاد بیٹا بیٹی دونوں ہوں تو ان کی میراث دینے کا یہ قاعدہ ہے کہ ایک بیٹا دو بیٹیوں کے برابر حصہ پائے گا۔ مثلاً اگر ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہوں تو نصف مال بیٹے کا اور نصف دونوں بیٹیوں کا ہو گا، اور اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو گی تو دو ثلث بیٹے کا اور ایک ثلث بیٹی کا ہو گا۔

اگر کسی میت نے اولاد میں صرف عورتیں یعنی بیٹیاں ہی چھوڑیں بیٹا نہیں چھوڑا تو وہ اگر دو سے زیادہ ہوں تب بھی ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک ہی بیٹی چھوڑی تو اس کو میت کے ترکہ کا نصف ملے گا۔ جاننا چاہیے کہ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ کے ذیل میں معلوم ہو چکا ہے کہ ایک بیٹی کو ایک بیٹے کے ساتھ ایک ثلث ملے گا۔ تو اس سے معلوم ہو گیا کہ ایک بیٹی کو دوسری بیٹی کے ساتھ بطریق اولیٰ ایک ثلث ملے گا کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی سے زائد ہے تو جب بیٹے کی وجہ سے اس کا حصہ ایک ثلث سے کم نہیں ہوا تو دوسری بیٹی کی وجہ سے کیسے گھٹ سکتا ہے، سو دو بیٹیوں کا حکم چونکہ پہلی آیت سے معلوم ہو چکا تھا اس لئے اس آیت میں دو بیٹیوں سے زائد کا حکم بتلا دیا تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ دو بیٹیوں کا حق جب ایک بیٹی سے زائد ہے تو شاید تین یا چار بیٹیوں کا حق دو بیٹوں سے زائد ہو گا، سو یہ بات ہرگز نہیں بلکہ بیٹیاں جب ایک سے زائد ہوں گی دو ہوں یا دس ان کو دو ثلث ملے گا۔

فائدہ: اولاد کے وارث ہونے کی دو صورتیں آیت میں مذکور ہوئیں اول یہ کہ لڑکا اور لڑکی دونوں طرح کی اولاد ہو۔ دوسری یہ کہ صرف دختری اولاد ہو اس کی دو صورتیں ہیں ایک لڑکی ہو یا ایک سے زائد تو اب صرف ایک صورت باقی رہ گئی وہ یہ کہ صرف پسری اولاد ہو سو اس کا حکم یہ ہے کہ تمام میراث اس کو مل جائے گی خواہ ایک بیٹا ہو یا زائد۔

ماں باپ کی میراث کی تین صورتیں بیان فرماتے ہیں۔ صورت اول کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر میت کی اولاد ہو بیٹا یا بیٹی تو میت کے ماں باپ کو ترکہ میت میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر میت کی اولاد کچھ نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو اس کی ماں کو ایک ثلث ملے گا۔ یعنی باقی دو ثلث اس کے باپ کو ملیں گے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں خواہ حقیقی ہوں یا صرف باپ یا صرف ماں میں شریک ہوں اور اولاد کچھ بھی نہیں تو اب اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، یعنی باقی سب اس کے باپ کو ملے گا، بھائی بہن کو کچھ نہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک بھائی یا ایک بہن ہو گی تو ماں کو ایک ثلث اور باپ کو دو ثلث ملیں گے جیسا کہ دوسری صورت مذکورہ بالا میں تھا۔

جس قدر وارثوں کے حصے گزر چکے یہ سب میت کی وصیت اور اس کے قرض کو جدا کر لینے کے بعد وارثوں کو دیے جائیں گے اور وارثوں کا مال وہی ہو گا جو مقدار وصیت و قرض کے نکال لینے کے بعد باقی رہے گا اور نصف اور ثلث وغیرہ اسی کا مراد ہے نہ تمام مال کا۔

فائدہ: میت کا مال اول اس کے کفن اور دفن کو لگایا جائے جو اس سے بچے وہ اس کے قرض میں دیا جائے پھر جو باقی رہے اس کو میت کی وصیت میں ایک تہائی تک صرف کیا جائے اس کے بعد جو رہے وارثوں پر تقسیم کیا جائے۔

اس آیت میں دو میراث بیان فرمائیں اولاد کی اور ماں باپ کی۔ اب فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ بات تم کو معلوم نہیں کہ کس سے تم کو نفع پہنچے گا اور کتنا نفع پہنچے گا اس لئے تم کو اس میں دخل نہ دینا چاہئیے جو کچھ کسی کا حصہ حق تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے۔ اس کی پابندی کرو کہ اس کو تمام چیزوں کی خبر بھی ہے اور بڑا حکمت والا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہارے لئے آدھا ہے جو چھوڑ مریں تمہاری بیبیاں اگر ان کی کچھ اولاد نہ ہو پھر اگر ان کی اولاد ہو تو تمہارے لئے اس میں سے جو وہ چھوڑیں وصیت کے بعد چوتھائی حصہ ہے جس کی وہ وصیت کر جائیں یا (بعد ادائے ) قرض، اور اس میں سے ان کے لئے چوتھائی حصہ ہے جو تم چھوڑ جاؤ اگر نہ ہو تمہاری اولاد، پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم چھوڑ جاؤ اس میں سے ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے نکالنے کے بعد جوتم وصیت کر جاؤ یا (ادائے ) قرض

تشریح:اب زوجین کی میراث کو بیان فرمایا جاتا ہے کہ مرد کو اس کی عورت کے مال میں سے آدھا مال ملے گا اگر عورت کے کچھ اولاد نہ ہو۔ اور اگر عورت کے اولاد ہے خواہ ایک ہی بیٹا یا بیٹی ہو اور اسی مرد سے ہو یا دوسرے مرد سے تو مرد کو عورت کے مال میں سے ایک چوتھائی مال ملے گا قرض اور وصیت کے بعد۔

اور اسی طرح عورت کو اس کے خاوند کے مال میں سے چوتھائی حصہ ملے گا اگر مرد کی اولاد کچھ نہ ہو اور اگر مرد کے اولاد ہے خواہ اسی عورت سے یا دوسری عورت سے تو عورت کو آٹھواں حصہ ملے گا خاوند کے اس مال میں سے جو وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد بچے گا مال کی ہر قسم میں سے نقد ہو یا جنس، سلاح ہو یا زیور حویلی ہو یا باغ، باقی رہا عورت کا مہر وہ میراث سے جدا ہے وہ قرض میں داخل ہے۔ یہ کل دو صورتیں ہوئیں جیسا کہ مرد کی میراث میں بھی یہی دو صورتیں تھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ایسے مرد کی میراث ہے یا ایسی عورت کی جو کلالہ ہے (اس کا باپ بیٹا نہیں ) اور اس کے بہن بھائی ہوں تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں رو وہ سب شریک ہیں ایک تہائی میں اس وصیت کے بعد جو وصیت کر دی جائے یا(بعد ادائے )قرض(بشرطیکہ کسی کو)نقصان نہ پہنچایا ہو یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا حلم والا ہے (۱۲)

یہاں سے اخیافی بھائی بہن کے میراث کا ذکر ہے جو کہ صرف ماں میں شریک ہوں۔ سو جاننا چاہیے کہ باپ اور بیٹے کے ہوتے تو بھائی اور بہن کو کچھ نہیں پہنچتا۔ ہاں اگر باپ اور بیٹا نہ ہو گا تو بھائی اور بہن کو میراث ملے گی۔ بھائی اور بہن تین طرح کے ہیں۔ سگے جو ماں باپ دونوں میں شریک ہوں جن کو عینی کہتے ہیں، یا وہ سوتیلے جو صرف باپ میں شریک ہوں جن کو علاتی کہتے ہیں یا وہ سوتیلے جو صرف ماں میں شریک ہوں جن کو اخیافی کہتے ہیں، اس آیت میں قسم اخیر کا ذکر ہے چنانچہ متعدد صحابہ کی قرات میں ولہ اخ اواخت کے بعد من الام کا کلمہ صریح موجود ہے اور اس پر سب کا اجماع ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس میت کے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، ماں باپ بیٹا بیٹی کچھ نہ ہو اور اس کے ایک بھائی یا ایک بہن اخیافی ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور مرد اور عورت یعنی اخیافی بھائی اور بہن کا برابر حصہ ہے کمی زیادتی نہیں۔ باقی رہے دو قسم کے بھائی بہن یعنی عینی اور علاتی سو ان دونوں قسموں کا حکم مثل اولاد کے ہے بشرطیکہ میت کے باپ بیٹا کچھ نہ ہو۔ مقدم عینی ہے وہ نہ ہو تو پھر علاتی۔ اس سورت کے اخیر میں ان دونوں کی میراث کا ذکر آئے گا۔

فائدہ: جاننا چاہئے کہ کلالہ کی تفسیر جو یہ کی گئی کہ اس کے باپ بیٹا نہ ہو یہ سب کو مسلم ہے مگر امام ابوحنیفہ دادی اور پوتی کی بھی نفی کرتے ہیں اور جو حکم باپ بیٹے کا ہے وہی دادی اور پوتی کا فرماتے ہیں، اور حضرات صحابہ کے وقت سے یہ اختلاف علماء میں چلا آتا ہے۔

اگر اخیافی بھائی یا بہن ایک سے زیادہ ہوں تو ان سب کو ایک تہائی مال میراث میں ملے گا اور پہلی صورت میں سدس اور دوسری صورت میں ثلث جو دیا جائے گا تو وصیت اور دین کے بعد جو باقی رہے گا اس کا سدس اور ثلث دیا جائے گا اور وصیت میراث پر مقدم جب ہو گی جب اوروں کو نقصان نہ پہنچایا ہو اور نقصان کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت ہو، دوسری یہ کہ جس وارث کو میراث میں سے حصہ ملے گا اس کے لئے کچھ وصیت بھی کر جائے یہ دونوں صورتیں درست نہیں۔ البتہ اگر سب وارث اس کو قبول کر لیں تو خیر ورنہ یہ وصیتیں مردود ہیں۔

فائدہ: وارثوں سے چونکہ اندیشہ تھا کہ ترکہ میت میں سے میت کا دین اور وصیت ادا نہ کریں بلکہ تمام مال آپ ہی رکھ لیں، اس لئے میراث کے ساتھ بار بار دین اور وصیت کا حکم تاکیداً بیان کیا گیا اور وصیت چونکہ تبرع اور احسان ہے اور بسا اوقات کوئی شخص معین اس کا مستحق نہیں ہوتا اور اس وجہ سے اس کے ضائع ہونے کا احتمال قوی تھا تو اس لئے بغرض اہتمام و احتیاط وصیت کو ہر جگہ دین سے پہلے ذکر فرمایا حالانکہ وصیت کا درجہ دین کے بعد ہے جیسا پہلے گزرا، نیز وصیت حق مورث ہے جیسے تجہیز و تکفین بخلاف وراثت اور دین کے کہ وہ دوسروں کا حق ہے تو اس حیثیت سے وصیت دین سے مقدم ہو گی گو دوسری وجہ سے دین وصیت پر مقدم ہے اور یہاں جو غیر مضار کی قید لگائی یہی قید مقامات سابقہ میں بھی معتبر ہو گی۔

شروع رکوع سے یہاں تک جو میراثیں بیان فرمائیں وہ پانچ ہیں۔ بیٹا بیٹی اور ماں باپ اور زوج اور زوجہ اور اخیافی بھائی بہن ان پانچوں کو ذوی الفروض اور حصہ دار کہتے ہیں، ان پانچوں میراث کو بیان فرما کر بطور تاکید فرما دیا کہ یہ حکم ہے اللہ کا اس کی تعمیل ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے کس نے اطاعت کی اور کس نے نافرمانی کی، کس نے میراث و وصیت و دین میں حق اور انصاف کے موافق کیا، کس نے بے انصافی کی اور ضرر پہنچایا۔ باقی ظلم و بے انصافی کی سزا میں تاخیر ہونے سے کوئی دھوکہ نہ کھائے کیونکہ حق تعالیٰ کا حلم بھی بہت کامل ہے۔

فائدہ: جاننا چاہیے کہ ذوی الفروض کے سوا کہ جن کا بیان اس رکوع میں گزرا ایک دوسری قسم کے وارث ہیں جن کو عصبہ کہتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی حصہ مثل نصف ثلث وغیرہ کے مقرر نہیں بلکہ ذوی الفروض سے جو فاضل ہو گا وہ ان کو ملے گا مثلاً اگر کسی کے عصبہ ہو اور ذوی الفروض میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا مال تمام عصبہ کو ملے گا اور جو دونوں ہوں تو ذوی الفروض کو دے کر جو مال بچے گا وہ عصبہ کو دیا جائے گا اور اگر کچھ نہ بچا تو عصبہ کو کچھ نہ ملے گا اور عصبہ اصل میں تو وہ ہے جو مرد ہو عورت نہ ہو اور اس میں میت میں اور عورت کا واسطہ بھی نہ ہو اور اس کے چار درجے ہیں اول درجہ میں بیٹا اور پوتا ہے دوسرے درجہ میں باپ اور دادا تیسرے درجہ میں بھائی اور بھتیجا چوتھے درجہ میں چچا اور بیٹا یا اس کا پوتا۔ اگر کئی شخص ہوں تو جو میت سے قریب ہے وہ مقدم ہو گا جیسے پوتے سے بیٹا، بھتیجے سے بھائی مقدم ہے، پھر سوتیلے سے سگا مقدم ہے اور ان چاروں کے سوا اولاد میں اور بھائیوں میں مرد کے ساتھ عورت بھی عصبہ ہوتی ہے یعنی بیٹے کے ساتھ بیٹی اور بھائی کے ساتھ بہن بھی عصبہ ہو گی یہ عصبہ اصلی نہیں بلکہ غیر اصلی ہیں اور اولاد اور بھائیوں کے سوا عورت عصبہ نہ ہو گی مثلاً چچا کا بیٹا عصبہ ہے مگر اس کے ساتھ ہو کر چچا زاد بہن عصبہ نہیں ہو سکتی۔

فائدہ: ان دونوں قسم مذکورہ بالا یعنی ذوی الفروض اور عصبہ کے سوا امام ابوحنیفہ کے نزدیک وارث کی تیسری قسم ذوی الارحام ہیں یعنی ایسے قرابت والے کہ ان میں اور میت میں عورت کا واسطہ ہو اور ذوی الفروض میں نہ ہو اور عصبہ بھی نہ ہو جیسے نواسہ اور نانا اور بھانجا اور ماموں اور خالہ اور پھوپھی اور ان کی اولاد۔ جب کسی میت کے ذوی الفروض اور عصبہ کوئی بھی نہ ہو گا تو اس کی میراث ذوی الارحام کو ملے گی تفصیل کتب فرائض میں مذکور ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اللہ کی(مقرر کردہ)حدیں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے (۱۳)

اور جو اللہ اور اس کے سول کی نافرمانی کرے گا اور بڑھ جائے گا اس کی حدوں سے رو وہ اسے آگ میں داخل کرے گا وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ (۱۴)

تشریح:تمام احکام مذکورہ سابقہ متعلق حقوق یتامی اور وصیت اور میراث اللہ کے مقرر فرمودہ ضابطے اور قاعدے ہیں۔ اور جو کوئی اطاعت کرے گا احکام الٰہی کی جن میں حکم وصیت و میراث بھی داخل ہے اس کے لئے ہمیشہ کو جنت ہے اور جو کوئی نافرمانی کرے گا اور حدود خداوندی سے بالکل خارج ہو جائے گا۔ وہ ہمیشہ کو ذلت کے ساتھ عذاب جہنم میں گرفتار رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کے مرتکب ہوں ان پر گواہ لاؤ چار اپنوں میں سے، پھر اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت انہیں اٹھا لے یا اللہ ان کے لئے کوئی سبیل کر دے (کوئی راہ نکالے )(۱۵)

تشریح:عورت بدکاری کا ارتکاب کرے تو شروع میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے عمر بھر گھر میں مقید رکھا جائے،  لیکن ساتھ ہی یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ بعد میں ان کے لئے کوئی سزا مقرر کی جائے گی، یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کر دے، کا یہی مطلب ہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں مرد اور عورت دونوں کے لئے زنا کی سزا سوکوڑے مقرر کر دی گئی اور آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب اللہ تعالی نے عورتوں کے لئے راستہ پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت کو سوکوڑے لگائے جائیں گے اور شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو دو مرد مرتکب ہوں تم میں سے تو انہیں ایذا دو پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے (۱۶)

تشریح:یہ مردوں کے خلافِ فطرت ہم جنسی کے عمل کی طرف اشارہ ہے اس کی کوئی متعین سزا مقرر کرنے کے بجائے صرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے مردوں کو اذیت دی جائے جس کے مختلف طریقے فقہائے کرام نے تجویز کئے ہیں مگر ان میں سے کوئی لازمی نہیں، صحیح یہ ہے کہ اس کو حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ جل شانہ اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے (الترغیب والترہیب)

(معارف القرآن)

 

اس کے سوا نہیں کہ توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمے ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو کرتے ہیں برائی نادانی سے پھر جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں پس یہی لوگ ہیں اللہ توبہ قبول کرتا ہے ان کی اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے (۱۷)

تشریح:توبہ تو بیشک ایسی چیز ہے کہ زنا اور لواطت جیسے سنگین جرم بھی اس سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ آیت سابقہ سے مفہوم ہوا لیکن اس کا بھی ضرور لحاظ رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے فضل سے قبول توبہ کا ذمہ لے لیا ہے وہ اصل میں ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو ناواقفیت اور نادانی سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کر لیتے ہیں مگر جب اپنی خرابی پر متنبہ اور مطلع ہوتے ہیں تو جب ہی نادم ہوتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں سو ایسوں کی خطائیں اللہ ضرور معاف فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کس نے نادانی سے گناہ کیا اور کس نے اخلاص سے توبہ کی، اور حکمت والا ہے جس توبہ کا قبول کرنا موافق حکمت ہوتا ہے اس کو قبول فرما لیتا ہے۔

فائدہ: قید جہالت اور قید قریب سے معلوم ہو گیا کہ جو شخص گناہ تو کرے نادانی سے اور تنبیہ کے بعد توبہ کر لے جلدی سے تو بقاعدہ عدل و حکمت اس کی توبہ مقبول ہونی ضروری ہے اور جس نے جان بوجھ کر دیدہ و دانستہ اللہ کی نافرمانی پر جرات کی یا اطلاع کے بعد اس نے توبہ میں تاخیر کی اور پہلی ہی حالت پر قائم رہا تو بقاعدہ عدل و انصاف اس کی خطا اصل میں معافی کے قابل نہیں۔ اس کا قبول کر لینا اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ ان دونوں کی توبہ کو بھی قبول کر لیتا ہے۔ یہ اس کا احسان ہے مگر ذمہ داری صرف اول صورت میں ہے باقی میں نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان لوگوں کے لئے توبہ نہیں جو برائیاں (گناہ)کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب موت ان میں سے کسی کے سامنے آ جائے تو کہے کہ میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو مر جاتے ہیں حالت کفر میں یہی لوگ ہیں ہم نے تیار کیا ہے ان کے لئے دردناک عذاب(۱۸)

یعنی اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برابر گناہ کئے جاتے ہیں اور باز نہیں آتے یہاں تک کہ جب موت ہی نظر آ گئی تو اس وقت کہنے لگا کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی توبہ قبول ہو گی جو کفر پر مر گئے اور اس کے بعد عذاب اخروی کو دیکھ کر توبہ کریں۔ ایسے لوگوں کے واسطے عذاب شدید تیار ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ دونوں آیتیں جو در بارہ قبول توبہ اور عدم قبول توبہ یہاں مذکور ہیں ہم نے جو ان کا مطلب بیان کیا یہ بعض اکابر محققین کی تحقیق کے موافق ہے اور اس میں یہ خوبی ہے کہ قید جہالت اور لفظ قریب دونوں اپنے ظاہری معنی پر قائم رہے اور علی اللہ کے معنی بھی سہولت سے بن گئے اور اس موقع پر قبول اور عدم قبول توبہ کے ذکر فرمانے سے جو مقصد ہے یعنی توبہ کیف ما اتفق مقبول نہیں اور توبہ کی چند صورتیں ہیں اور ان کی مقبولیت میں باہم فرق ہے تاکہ کوئی توبہ کے اعتماد پر معاصی پر جری نہ ہو جائے۔ یہ مقصد بھی اس صورت میں خوب حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر مفسرین حضرات نے علی العموم جو ان آیتوں کا مطلب ارشاد فرمایا ہے تو قید جہالت کو احترازی اور شرطی نہیں لیتے بلکہ قید واقعی فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گناہ ہمیشہ جہل اور حماقت سے ہوتا ہے اور قریب کے معنی یہ لیتے ہیں کہ حضور موت سے پہلے جس قدر وقت ہے وہ قریب ہی ہے کیونکہ دنیا کی زندگی قلیل ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کا توبہ قبول فرمانے کا وعدہ ان سے ہے کہ سفاہت اور عدم انجام بینی سے گناہ کر لیتے ہیں اور پھر موت کے آنے سے پہلے تائب ہو جاتے ہیں اور جو لوگ کہ موت کا مشاہدہ کرچکے اور نزع کی حالت کو پہنچ چکے یا جو لوگ کہ کفر پر مر چکے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہو گی۔ اس تقریر کے موافق توبہ کرنے والوں کی وہ دو صورتیں ہیں جو تقریر اوّل میں مذکور ہوئیں شق اوّل یعنی قبول توبہ کے اندر شمار ہوں گی۔

فائدہ: جب موت کا یقین ہو چکے اور دوسرا عالم نظر آنے لگے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں اور عالم آخرت کے دیکھنے سے پہلے کی توبہ البتہ قبول ہوتی ہے، اتنا فرق ہے کہ حسب تقریر اوّل صورت اوّل میں تو قبول توبہ قاعدہ عدل و انصاف کے موافق ہے اور دوسری صورتوں میں قبول توبہ اس کا محض فضل ہے کما مر۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم وارث بن جاؤ عورتوں کے زبردستی اور نہ انہیں روکے رکھو کہ ان سے اپنا دیا ہوا کچھ (واپس)لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کے مرتکب ہوں، اور ان عورتوں کے ساتھ دستور کے مطابق گزران کرو پھر اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو عین ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز ناپسند ہو اور اللہ رکھے اس میں بہت بھلائی(۱۹)

تشریح:زمانۂ جاہلیت میں یہ ظالمانہ رسم چلی آتی تھی کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جاتا تو اس کے ورثاء اس عورت کو بھی میراث کا حصہ سمجھ کر اس کے اس معنی میں مالک بن بیٹھتے تھے کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر نہ دوسری شادی کرسکتی تھی اور نہ زندگی کے دوسرے اہم فیصلے کرنے کا حق رکھتی تھی، اس آیت نے اس ظالمانہ رسم کو ختم فرمایا ہے، اسی طرح ایک ظالمانہ رواج یہ تھا کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا،  لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتا کہ جو مہر ان کو دے چکا ہے وہ اسے واپس مل جائے رو وہ اپنی بیوی کو طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کر دیتا تھا، مثلاً وہ اس کو گھر میں اس طرح مقید رکھتا تھا کہ وہ اپنی جائز ضروریات کے لئے بھی گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی، اس طرح ستانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ بیچاری مجبور ہو کر شوہر سے خلاصی حاصل کرنے کے لئے اسے خود یہ پیشکش کرے کہ تم اپنا مہر واپس لے لو اور طلاق دے کر میری جان چھوڑ دو، آیت کے دوسرے حصے میں اس رواج کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر بدل لینا چاہو ایک بی بی کی جگہ دوسری بی بی اور تم نے ان میں سے کسی ایک کو خزانہ دیا ہے تواس سے کچھ واپس نہ لو، کیا تم وہ لیتے ہو بہتان(لگا کر)اور صریح(کھلے )گناہ سے ؟(۲۰)

تشریح:اوپر   یہ بتایا جا چکا ہے کہ عورتوں کو گلو خلاصی کے لئے مہر واپس کرنے پر مجبور کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے جب انہوں نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہو، اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم ان سے مہر واپس کرنے کا مطالبہ کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ان پر بہتان باندھنے کے مرادف ہو گا کہ انہوں نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ ان کو مہر کی واپسی پر مجبور کرنا اس صورت کے سوا کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور تم وہ کیسے واپس لو گے ؟اور البتہ تم میں سے ایک دوسرے تک پہنچ چکا(صحبت کر چکا) اور انہوں نے تم سے پختہ عہد لیا(۲۱)

تشریح:یعنی جب مرد اور عورت نکاح کے بعد مل چکے اور صحبت کی نوبت آ چکی تو اس کے معاوضہ میں تمام مہر دینا مرد پر واجب ہو چکا تو اب کس وجہ سے اس مہر کو واپس لے سکتا ہے اور در صورت مہر ادانہ کرنے کے کیسے اس کے مہر کو دبا سکتا ہے اب تو بجز اس کے کہ عورت ہی اپنی خوشی سے معاف کر بیٹھے کوئی صورت رستگاری کی نہیں ہوسکتی اور وہ عورتیں تو بہت مضبوط اور گاڑھا اقرار تم سے لے چکیں جس کی وجہ سے وہ تمہارے قبضہ اور تصرف میں آ چکیں اور تم ان سے پورے منتفع ہو چکے نہیں تو تم کو ان پر تصرف کا کیا اختیار تھا۔ اب اس قدر تکمیل اور قبضۂ کامل اور تصرف تام کے بعد عورتوں کے مہر کو واپس لینا یا ان کا مہر نہ دینا کیسے ہو سکتا ہے۔

فائدہ: جاننا چاہیے کہ جیسا مجامعت کے بعد تمام مہر زوج کے ذمہ لازم ہو جاتا ہے، ایسا ہی اگر مجامعت کی تو نوبت نہ آئے مگر خلوت صحیحہ ہو گئی تو بھی پورا مہر واجب الادا ہو گا، ہاں اگر خلوت صحیحہ کی بھی نوبت نہ آئی اور زوج نے طلاق دے دی تو پھر نصف مہر ادا کرنا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو، مگر جو(پہلے )گزر چکا بیشک یہ بے حیائی اور غضب کی بات تھی اور برا راستہ(غلط طریقہ)تھا۔ (۲۲)

تشریح:جاہلیت میں لوگ اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرنے کو کوئی عیب نہیں سمجھتے تھے، اس آیت نے اس بے شرمی کو ممنوع قرار دیا، البتہ جن لوگوں نے اسلام سے پہلے ایسا نکاح کیا تھا ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ پچھلا گناہ معاف ہے،  کیونکہ اسلام لانے سے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، بشرطیکہ اس آیت کے نزول کے بعد نکاح کا یہ تعلق ختم کر لیا جائے۔

(توضیح القرآن)

 

تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور بھانجیاں (بہن کی بیٹیاں ) اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری عورتوں کی مائیں (ساس)اور تمہاری وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں تمہاری ان بیبیوں سے جن سے تم نے صحبت کی، پس اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو کچھ گناہ نہیں ہے تم پر، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے گزر چکا، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲۳)

سوتیلی ماں کی حرمت بیان فرما کر اب جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ان سب کو بیان فرماتے ہیں، وہ عورتیں چند قسم ہیں، اوّل ان کو بیان کیا جاتا ہے جو علاقہ نسب کی وجہ سے حرام ہیں اور وہ سات ہیں ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی ان میں سے کسی کے ساتھ کسی کو نکاح کرنا جائز نہیں۔

فائدہ: ماں کے حکم میں دادی، نانی، اوپر تک کی سب داخل ہیں ایسے ہی بیٹی میں پوتی اور نواسی نیچے تک کی سب داخل ہیں اور بہن میں عینی اور علاتی اور اخیافی سب داخل ہیں اور پھوپھی میں باپ دادا اور اوپر تک کی پشتوں کی بہن سگی ہو یا سوتیلی سب آ گئیں اور خالہ میں ماں اور نانی اور نانی کی نانی سب کی بہن تینوں قسم کی داخل ہیں اور بھتیجی میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد اور اولاد الاولاد سب داخل ہیں اور بھانجی میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد اور اولاد الاولاد داخل ہیں۔

محرمات نسبی کے بعد اب محرمات رضاعی کو بیان کیا جاتا ہے اور وہ دو ہیں، ماں اور بہن اور اس میں اشارہ ہے کہ ساتوں رشتے جو نسب میں بیان ہوئے، رضاعت میں بھی حرام ہیں، یعنی رضاعی بیٹی اور پھوپھی اور خالہ اور بھتیجی اور بھانجی بھی حرام ہیں، چنانچہ حدیثوں میں یہ حکم موجود ہے۔

اب محرمات مصاہرت کا ذکر ہے یعنی علاقہ نکاح کی وجہ سے جن سے نکاح حرام ہوتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں اول وہ کہ ان سے ہمیشہ کے لئے نکاح نا جائز ہے اور وہ زوجہ کی ماں اور اس زوجہ کی بیٹی ہے جس زوجہ سے کہ تم نے صحبت کی ہو،  لیکن اگر صحبت سے پہلے کسی عورت کو طلاق دے دو تو اس کی بیٹی سے نکاح ہو سکتا ہے اور تمہارے بیٹوں کی عورتیں ہیں اور اس میں نیچے تک کے پوتوں اور نواسوں کی عورتیں داخل ہیں کہ ان سے کبھی تمہارا نکاح درست نہیں ہوسکتا۔ دوسری قسم وہ ہے کہ ان سے ہمیشہ کے لئے نکاح کی ممانعت نہ ہو بلکہ جب تک کوئی عورت تمہارے نکاح میں رہے اس وقت تک اس عورت کی ان قرابت والی عورتوں سے نکاح کی ممانعت رہی جب اس عورت کو طلاق دے دی یا وہ مر گئی تو ان سے نکاح درست ہو جائے گا اور وہ زوجہ کی بہن ہے کہ زوجہ کی موجودگی میں تو اس سے نکاح نہیں ہو سکتا اور بعد میں درست ہے اور یہی حکم ہے زوجہ کی پھوپھی اور خالہ اور بھتیجی اور بھانجی کا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور خاوند والی عورتیں (حرام ہیں )مگر(کافروں کی عورتیں )جن کے مالک تمہارے داہنے ہاتھ ہو جائیں (تم مالک ہو جاؤ) یہ تم پر اللہ کا حکم ہے اور ان کے سوا سب عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، بشرطیکہ تم چاہو اپنے مالوں سے قید نکاح میں لانے کو، نہ کہ ہوس رانی کو، پس تم میں سے جو ان سے نفع(لذت)حاصل کریں تو ان کو ان کے مقرر کئے ہوئے مہر دیدیں اور تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جس پر تم باہم رضامند ہو جاؤ اس کے مقرر کر لینے کے بعد، بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے (۲۴)

تشریح:محرمات کو ذکر فرما کر اخیر میں اب ان عورتوں کی حرمت بیان فرمائی جو کسی کے نکاح میں ہوں یعنی جو عورت کسی کے نکاح میں ہے اس کا نکاح اور کسی سے نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ بذریعہ طلاق یا وفاتِ زوج، نکاح سے جدا نہ ہو جائے، اور عدتِ طلاق یا عدتِ وفات پوری نہ کر لے اس وقت تک کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو کنیزیں جہاد کے دوران گرفتار کر کے لائی جاتی تھیں اور ان کے شوہر دار الحرب میں رہ جاتے تھے ان کا نکاح ان شوہروں سے ختم ہو جاتا تھا، لہذا جب وہ دارالاسلام میں آنے کے بعد ایک حیض کی مدت پوری کر لیتیں اور ان کو پچھلے شوہر سے حمل نہ ہوتا تو ان کا نکاح دارالاسلام کے کسی مسلمان سے جائز تھا، مگر یہ حکم انہی باندیوں کا ہے جو شرعی طور پر باندی بنائی گئی ہوں، آجکل ایسی کنیزوں یا باندیوں کا کہیں وجود نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

غَيْرَ مُسَافِحِيْنَ:مقصد یہ ہے کہ نکاح ایک دیرپا تعلق کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنسی خواہش پوری کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کا قیام ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کے پابند ہوتے ہیں اور اس رشتے کو عفت و عصمت کے تحفظ اور بقائے نسل انسانی کا ذریعہ بناتے ہیں، صرف شہوت نکالنے کے لئے ایک عارضی تعلق پیدا کر لینا خواہ وہ پیسے خرچ کر کے ہی کیوں نہ ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اگر زوجین مہر مقرر کر لینے کے بعد کسی بات پر راضی ہو جائیں مثلاً عورت اپنی خوشی سے مہر میں سے کچھ کم کر دے یا مرد اپنی رضا سے مہر مقررہ سے کچھ زیادہ دے تو وہ مختار ہیں۔ اس میں کچھ گناہ نہیں۔ یہ نہیں کہ مہر مقررہ سے زوج کچھ کم دے یا عورت اس سے کچھ زیادہ لے تو نا جائز ہے۔ ہاں رضائے باہمی ضرور ہونی چاہئے، اخیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں اور ہر طرح کے نفع و نقصان کو خوب جانتا ہے اور جو حکم فرماتا ہے وہ سراسر حکمت آمیز ہوتا ہے اس کی متابعت میں تمہارے لئے دارین کی خوبی اور بہبودی ہے اور مخالفت میں سراسر نقصان اور خرابی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس کو تم میں سے مقدور نہ ہو کہ وہ (آزاد) مسلمان بیویوں سے نکاح کرے تو جو مسلمان کنیزیں تمہارے ہاتھ کی ملک ہوں (قبضہ میں ہوں )اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے ایمان کو، تم ایک دوسرے کے ( ہم جنس ہو)سو ان کے مالک کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور ان کو دے دو ان کے مہر دستور کے مطابق، قید نکاح میں آنے والیاں، نہ کہ مستی کرنے والیاں، نہ آشنائی کرنے والیاں چوری چھپے پس جب نکاح میں آ جائیں پھر اگر وہ بے حیائی کا کام کریں تو ان پر نصف سزا ہے جو آزاد عورتوں پر ہے، یہ اس کے لئے جو تم سے ڈرے (بدکاری کی) تکلیف میں پڑنے سے اور اگر تم صبر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (۲۵)

تشریح:چونکہ آزاد عورتوں کا مہر عام طور پر زیادہ ہوتا تھا اور باندیوں کا مہر کم، اس لئے ایک طرف تو حکم یہ دیا گیا ہے کہ باندیوں سے نکاح اسی وقت کیا جائے جب آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہ ہو، دوسری طرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی باندی سے نکاح کی نوبت آ جائے تو پھر محض اس کے باندی ہونے کی وجہ سے اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، کیونکہ فضیلت کا اصل دارومدار تقوی پر ہے، اور اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس کی ایمانی حالت زیادہ مضبوط ہے ورنہ اولاد آدم ہونے کے لحاظ سے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

جو آزاد مرد یا عورت نکاح سے فائدہ اٹھا چکے یعنی مجامعت کی نوبت آ چکی ہو اور پھر وہ زنا کرے تو وہ سگنسار کیا جائے گا اور اگر نکاح نہیں ہوا بلکہ نکاح سے پہلے ہی زنا کیا تو اس کے لئے سو کوڑوں کا حکم ہے اور لونڈی اور غلام کے لئے قبل نکاح اور بعد نکاح ہر حالت میں صرف پچاس کوڑے ہیں زیادہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لئے بیان کر دے اور تم سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی تمہیں ہدایت دے اور تم پر توجہ کرے (توبہ قبول کرے )اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے (۲۶)

اور اللہ چاہتا ہے ہے کہ وہ توجہ کرے تم پر اور جو لوگ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم(راہ ہدایت سے )پھر جاؤ بہت زیادہ(۲۷)

اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ)ہلکا کر دے اور انسان پیدا کیا گیا ہے کمزور(۲۸)

تشریح:انسان فطری طور پر جنسی خواہش کا مقابلہ کرنے میں کمزور واقع ہوا ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس کو یہ خواہش جائز طریقے سے پورا کرنے سے نہیں روکا، بلکہ نکاح کو اس کے لئے آسان بنا دیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اے مؤمنو!اپنے مال آپس میں نہ کھاؤ ناحق(طور پر)مگر یہ کہ تمہاری آپس کی خوشی سے کوئی تجارت ہو، اور قتل نہ کرو ایک دوسرے کو، بیشک اللہ تم پر بہت مہربان ہے (۲۹)

اور جو شخص یہ کرے گا تعدی(زور) اور ظلم سے پس عنقریب ہم اس کو آگ میں ڈال دیں گے اور یہ اللہ پر آسان ہے (۳۰)

تشریح:اس کا سادہ مطلب تویہ ہے کہ جس طرح دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانا حرام ہے کسی کی جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے، دوسرے کی جان لینے کو اپنے آپ کو قتل کرنے سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ دوسرے کو قتل کرنا بالآخر اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے،  کیونکہ اس کے بدلے میں خود قاتل قتل ہوسکتا ہے، اور اگر یہاں قتل نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کی جوسزا ملنی ہے وہ موت سے بھی بدتر ہو گی، اس طرح اس تعبیر سے خود کشی کی ممانعت بھی واضح ہو گئی، دوسرے کسی کا مال ناحق کھانے کے ساتھ یہ جملہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ جب ناحق مال کھانے کا رواج معاشرے میں عام ہو جائے تو اس کا نتیجہ اجتماعی خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہے جو تمہیں منع کئے گئے ہیں توہم تم سے دور کر دیں گے تمہارے چھوٹے گناہ اور ہم تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے (۳۱)

تشریح:اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان گناہ کبیرہ سے پرہیز رکھے تواس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو اللہ تعالی خود ہی معاف فرماتے رہتے ہیں، قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیک عمل مثلاً وضو نماز صدقات وغیرہ سے گناہِ صغیرہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور آرزو نہ کرو(اس کی)جو بڑائی دی اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر مردوں کے لئے حصہ(ثواب)ہے ان کے اعمال کا، اور عورتوں کے لئے حصہ(ثواب)ہے ان کے اعمال کا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگو، بے شک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے (۳۲)

تشریح:بعض خواتین نے اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ مرد ہوتیں رو وہ بھی جہاد وغیرہ میں حصہ لے کر مزید ثواب حاصل کرتیں، اس آیت کریمہ نے یہ اصول واضح فرما دیا کہ جو باتیں انسان کے اختیار سے باہر ہیں ان میں اللہ نے کسی شخص کو کسی اعتبار سے فوقیت دے رکھی ہے اور کسی کو کسی اور حیثیت سے، مثلاً کوئی مرد ہے کوئی عورت، کوئی زیادہ طاقت ور ہے کوئی کم، کسی کا حسن دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہے یہ چیزیں چونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہیں اس لئے ان کی تمنا کرنے سے فضول حسرت ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا ان چیزوں میں اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے، البتہ جو اچھائیاں انسان کے اختیار میں ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ان چیزوں میں اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے، اس میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہم نے ہر ایک کے لئے وارث مقرر کر دئے ہیں (اس مال کیلئے ) جو چھوڑ مریں والدین اور قرابت دار اور جن لوگوں سے تمہارا عہد و پیمان بندھ چکا تو ان کو ان کا حصہ دے دو، بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ (مطلع) ہے (۳۳)

تشریح:جب کوئی شخص اسلام لائے اور مسلمانوں میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو رو وہ جس شخص کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہے، بعض اوقات اس کے ساتھ یہ عہد کر لیتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں بھائی بن گئے ہیں، لہذا وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے، اور اگر ان میں سے کسی پر کوئی تاوان آ پڑا تودوسرا اس کی ادائیگی میں اس کی مدد کرے گا، اس رشتے کو”موالاۃ” کہا جاتا تھا، یہاں اسی معاہدہ کا ذکر ہے، اور امام ابو حنیفہؒ کا مسلک اس آیت کی بنا پر یہی ہے کہ یہ رشتہ اب بھی کسی نومسلم سے قائم ہوسکتا ہے اور اگر دوسرے مسلمان رشتہ دار موجود نہ ہوں تو میراث میں بھی ان کا حصہ ہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

مرد عورتوں پر حاکم (نگران) ہیں اس لئے کہ اللہ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی اور اس لئے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے پس جو نیکو کار ہیں (مرد کی)تابع فرمان ہیں پیٹھ پیچھے (عدم موجودگی میں ) حفاظت کرنے والی ہیں اللہ کی حفاظت سے، اور تمہیں ڈر ہو جن عورتوں کی بدخوئی کا پس ان کو سمجھاؤ اور ان کو تنہا چھوڑ دو خواب گاہوں میں، اور ان کو مارو پھر اگر وہ تمہارا کہا مانیں تو ان پر  (الزام کی) کوئی راہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے اعلیٰ (بلند)  سب سے بڑا ہے (۳۴)

تشریح:اس آیت کے پہلے جملہ میں خانگی اور عائلی نظام کا ایک بنیادی اصول بتلایا گیا ہے کہ اکثر چیزوں میں مساوات حقوق کے باوجود مرد کو عورت پر ایک فضیلت حاکمیت کی حاصل ہے اور عورت محکوم و تابع ہے۔

اس بنیادی اصول کے ماتحت عملی دنیا میں عورتوں کے دو طبقے ہو گئے، ایک وہ جنہوں نے اس بنیادی اصول اور اپنے معاہدہ کی پابندی کی اور مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کی، دوسرے وہ جو اس اصول پر پوری طرح قائم نہ رہا، پہلا طبقہ تو خانگی امن و اطمینان کا خود ہی کفیل ہے اس کو کسی اصلاح کی حاجت نہیں، دوسرے طبقہ کی اصلاح کے لئے آیت کے دوسرے جملہ میں ایک ایسا مرتب نظام بتلایا گیا کے جس کے ذریعہ گھر کی اصلاح گھر کے اندر ہی ہو جائے اور میاں بیوی کا جھگڑا انہیں دونوں کے درمیان نمٹ جائے کسی تیسرے کی مداخلت کی ضرورت نہ ہو، اس میں مردوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ عورتوں سے نافرمانی یا اطاعت میں کچھ کمی محسوس کرو توسب سے پہلا کام یہ کرو کہ سمجھا بجھا کر ان کی ذہنی اصلاح کرو اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہو گیا اور اگر فہمائش سے کام نہ چلا تودوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کی تنبیہ کرنے اور اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے خود علیحدہ بستر پر سوؤ، یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے اس سے عورت متنبہ ہو گئی تو جھگڑا یہیں ختم ہو گیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی توتیسرے درجہ میں معمولی مار مارنے کی بھی ا جازت دیدی گئی، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر و زخم نہ ہو، مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریمﷺ نے پسند نہیں فرمایا،  بلکہ ارشاد فرمایا کے شریف اور بھلے لوگ ایسا نہیں کریں گے، بہر حال اس معمولی مار پیٹ سے بھی اگر معاملہ درست ہو گیا تب بھی مقصد حاصل ہو گیا، اس میں مردوں کو عورتوں کی اصلاح کے لئے جہاں یہ تین اختیارات دئے گئے ہیں آیت کی آخر میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان تین نمبری تدبیروں سے وہ تمہاری بان ماننے لگیں تواب تم بھی زیادہ بال کی کھال نہ نکالو اور الزام تراشی میں مت لگو بلکہ کچھ چشم پوشی سے کام لو اور خوب سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالی نے عورتوں پر تمہیں کچھ بڑائی دی ہے تو اللہ تعالی کی بڑائی تمہارے اوپر مسلط ہے تم زیادتی کرو گے تواس کی سزا تم بھگتو گے۔

(معارف القرآن)

 

اور اگر تم ڈرو ان دونوں کے درمیان ضد(کشمکش)سے تو مقرر کر دو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے اگر دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ موافقت کر دے گا ان دونوں کے درمیان، بیشک اللہ بڑا جاننے والا بہت باخبر ہے۔ (۳۵)

تشریح:اے مسلمانو اگر تم کو اندیشہ ہو کہ خاوند اور عورت میں مخالفت اور ضد ہے وہ اپنے باہمی نزاع کو خود نہ سلجھا سکیں گے تو تم کو چاہیے کہ ایک منصف مرد کے اقارب میں سے اور ایک منصف عورت کے اقارب میں سے مقرر کر کے بغرض فیصلہ زوجین کے پاس بھیجو، کیونکہ اقارب کو ان کے حالات بھی زیادہ معلوم ہوں گے اور ان سے خیرخواہی کی بھی زیادہ امید ہے۔ یہ دونوں منصف احوال کی تحقیق کریں گے اور جس کا جتنا قصور دیکھیں گے اس کو سمجھا کر باہم موافقت کرا دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ کی عبادت کرو اور ا سکے ساتھ شریک نہ کرو کسی کو اور اچھا سلوک کرو ماں باپ سے اور قرابت داروں سے اور یتیموں اور محتاجوں سے اور قرابت والے ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) سے اور مسافر سے اور جو تمہاری ملک ہوں (کنیز۔ غلام)بے شک اللہ اسے دوست نہیں رکھتا جو اترانے والا بڑ مارنے والا ہو(۳۶)

تشریح:یعنی عبادت اور نیک عمل خدا پر یقین کر کے اور ثواب آخرت کی توقع سے کرو فخر اور ریا سے مال دینا یہ بھی شرک ہے گو کم درجہ کا ہے۔ یتامی اور نساء اور ورثاء اور زوجین کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن معاملہ کو بیان فرما کر اب یہ ارشاد ہے کہ ہر ایک کا حق درجہ بدرجہ تعلق کے موافق اور حاجت مندی کے مناسب ادا کرو۔ سب سے مقدم اللہ تعالیٰ کا حق ہے، پھر ماں باپ کا۔ پھر درجہ بدرجہ سب واسطہ داروں اور حاجت مندوں کا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پڑوسی چاہے رشتہ دار ہویا اجنبی، مسلمان ہو یا غیرمسلم، ا س کا گھر بالکل ملا ہوا ہو یا ایک دو گھر چھوڑ کر ہو، ان سب کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ:اس سے مراد وہ شخص ہے جو عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لئے ساتھی بن گیا ہو، مثلاً سفر کے دوران ساتھ بیٹھا یا کھڑا ہو، یا کسی مجلس یا کسی لائن میں لگے ہوئے اپنے پاس ہو، وہ بھی ایک طرح کا پڑوسی ہے اور اس کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے، بلکہ اس سے بھی آگے ہر راہ گیر اور مسافر کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ اپنا ساتھی یا پڑوسی نہ ہو۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہمسایہ قریب اور غیر قریب سے مراد قرب و بعد نسبی ہے یا قرب و بعد مکانی۔ صورت اولیٰ میں یہ مطلب ہو گا کہ ہمسایہ قرابتی کا حق ہمسایہ اجنبی سے زیادہ ہو گا اور صورت ثانیہ کا مدعا یہ ہو گا کہ پاس کے ہمسایہ کا حق ہمسایہ بعید یعنی جو کہ فاصلہ سے رہتا ہے اس سے زیادہ ہے اور پاس بیٹھنے والے میں رفیق سفر اور پیشہ کے اور کام کے شریک اور ایک آقا کے دو نوکر اور ایک استاد کے دو شاگرد اور دوست اور شاگرد اور مرید وغیرہ سب داخل ہیں اور مسافر میں مہمان غیر مہمان دونوں آ گئے اور مال مملوک غلام اور لونڈی کے علاوہ دیگر حیوانات کو بھی شامل ہے۔ آخر میں فرما دیا کہ جس کے مزاج میں تکبر اور خود پسندی ہوتی ہے کہ کسی کو اپنے برابر نہ سمجھے، اپنے مال پر مغرور اور عیش میں مشغول ہو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرتا سو اس سے احتراز رکھو اور جدا رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل سکھاتے ہیں اور وہ چھپاتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور ہم نے کافروں کے لئے تیار کر رکھا ہے ذلت والا عذاب(۳۷)

تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا خود پسند اور تکبر کرنے والوں کو جو کہ بخل کرتے ہیں اور اپنے مال اور علم خدا داد کو لوگوں سے چھپاتے ہیں، کسی کو نفع نہیں پہنچاتے اور قولاً اور عملاً دوسروں کو بھی بُخل کی ترغیب دلاتے ہیں اور ان کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

فائدہ: یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو فی سبیل اللہ خرچ کرنے میں خود بھی بخل کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی روکنا چاہتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جو تورات میں مذکور تھے اور حقانیت اسلام کی آیات جو موجود تھیں ان کو چھپاتے تھے۔ سو مسلمانوں کو اس سے احتراز لازم ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کو خرچ کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور جس کا شیطان ساتھی ہو تو وہ برا ساتھی ہے (۳۸)

تشریح:اور خود پسند متکبر وہ لوگ ہیں کہ اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کے لئے خرچ کرنے میں تو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں لیکن لوگوں کے دکھانے کو اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں اور ان کو نہ اللہ پر ایمان ہے نہ قیامت کے دن پر کہ حصول رضائے حق تعالیٰ اور تحصیل ثواب اخروی ان کو مقصود ہو۔ اور اللہ کے یہاں مقبول اور پسندیدہ یہ ہے کہ ان حقداروں کو دیا جائے جن کا اول ذکر ہو چکا ہے اور دینے میں اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے ثواب کی توقع ہو۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ اللہ کی راہ میں جیسا بخل کرنا برا ہے ویسا ہی لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرنا برا ہے اور ایسا کام وہی کرتے ہیں جن کا رفیق شیطان ہے جو ان کو ایسے کام پر آمادہ کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کا کیا (نقصان) ہوتا اگر وہ ایمان لے آتے اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اس سے خرچ کرتے جو اللہ نے انہیں دیا اور اللہ ان کو خوب جاننے والا ہے (۳۹)

یعنی ان کافروں کا کچھ نقصان نہ تھا اگر وہ کفر کے بجائے اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور بخل و ریا کے بجائے اللہ کی راہ میں مال کو خرچ کرتے،  بلکہ ان کا سراسر نفع تھا۔ ضرر تو اس میں ہے جس کو وہ اختیار کر رہے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا اور کس نیت سے کر رہے ہیں۔ اسی کا عوض ان کو ملے گا پہلی آیت میں یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فرمایا تھا۔ مال کو ان کی طرف منسوب کیا تھا۔ اب وَانَفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُم اللّٰہ فرمایا اس میں لطیف اشارہ ہے کہ وہ لوگ اپنا مال سمجھ کر جس طرح جی چاہتا ہے خرچ کرتے ہیں ان کو چاہیے تھا کہ اللہ کا مال سمجھ کر اس کے حکم کے موافق خرچ کرتے۔

 

بیشک اللہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اس کو کئی گنا کر دیتا ہے اور دیتا ہے اپنے پاس سے بڑا ثواب(۴۰)

تشریح:اللہ تعالیٰ کسی کا حق ایک ذرہ برابر بھی ضائع نہیں فرماتا سو ان کافروں پر جو عذاب ہو گا وہ عین انصاف اور ان کی بد اعمالی کا بدلہ ہے۔ اور اگر ذرہ برابر بھی کسی کی نیکی ہو گی تو اضعاف مضاعف اس کا اجر دے گا اور اپنی طرف سے ثواب عظیم بطور انعام اس کو عنایت کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر کیا (کیفیت ہو گی) جب ہم ہر امت سے ایک گواہ بلائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ بنا کر بلائیں گے۔ (۴۱)

تشریح:تمام انبیاء کرام قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیں گے اور آنحضرتﷺ کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بنا کر پیش کیا جائے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اس دن آرزو کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور رسول کی نافرمانی کی، کاش انہیں (مٹی میں دبا کر)زمین برابر کر دی جائے اور وہ اللہ سے نہ چھپا سکیں گے کوئی بات(۴۲)

تشریح:جس دن ہر امت میں سے ان کے حالات بیان کرنے والا بلایا جائے گا اس دن کافر اور نافرمان لوگ اس بات کی تمنا کریں گے کہ کاش ہم زمین میں ملا دیے جاتے اور مٹی میں مل کر نیست و نابود ہو جاتے، آج پیدا نہ ہوتے اور ہم سے حساب و کتاب نہ ہوتا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کسی بات کا اخفا نہ کر سکیں گے اور ذرہ ذرہ کا حساب ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو تم نماز کے نزدیک نہ جاؤ جب تم نشہ(کی حالت میں )ہو یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو(زبان سے )کہتے ہو اور نہ( اس وقت جبکہ)غسل کی حاجت ہو سوائے حالت سفر کے یہاں تک کہ تم غسل کر لو اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی جائے ضرورت(بیت الخلاء) سے آئے یا تم عورتوں کے پاس گئے (ہم صحبت ہوئے پھر تم نے پانی نہ پایا تو  پاک مٹی سے تیمم کرومسح کر لو اپنے منہ اور اپنے ہاتھوں کا بیشک اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے (۴۳)

تشریح:گمراہی کے بڑے سبب دو ہیں، اول جہل جس میں حق و باطل کی تمیز ہی نہیں ہوتی، دوسرے خواہش و شہوت جس سے باوجود تمیز حق و باطل حق کے موافق عمل نہیں کر سکتا کیونکہ شہوات سے قوت ملکی ضعیف اور قوت بہیمیہ قوی ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ ملائکہ سے بعد اور شیاطین سے قرب ہے جو بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے تو اب اس مناسبت سے حق تعالیٰ شانہ، نے مسلمانوں کو نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے اول منع فرمایا کہ یہ جہل کی حالت ہے۔ اس کے بعد جنابت میں نماز پڑھنے سے روکا کہ یہ حالت ملائکہ سے بعد اور شیاطین سے قرب کی حالت ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ جہاں جنبی ہوتا ہے وہاں ملائکہ نہیں آتے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس وقت کی بات ہے جب شراب کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا، لیکن اسی آیت کے ذریعے یہ اشارہ دے دیا گیا کہ وہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے،  کیونکہ اس کو پینے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے، لہذا کسی وقت اس کو بالکل حرام بھی کیا جا سکتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اب اگر نیند کے غلبہ یا بیماری کی وجہ سے کسی کا ایسا حال ہو جائے کہ اس کی خبر نہ رہے کہ میں نے کیا کہا تو ایسی حالت کی نماز بھی درست نہ ہو گی جب ہوش آئے تو اس کی قضا ضرور کر لے۔

حالت جنابت میں نماز کا نہ پڑھنا تاوقتیکہ غسل نہ کر لے یہ حکم جب ہے کہ کوئی عذر نہ ہو اور اگر کوئی ایسا عذر پیش آئے کہ پانی کے استعمال سے معذوری ہو اور طہارت کا حاصل کرنا ضروری ہو تو ایسے وقت میں زمین سے تیمم کر لینا کافی ہے۔ اب پانی کے استعمال سے معذوری کی تین صورتیں بتلائیں ایک بیماری کہ اس میں پانی ضرر کرتا ہے دوسری یہ کہ سفر درپیش ہے اور پانی اتنا موجود ہے کہ وضو کر لے تو پیاس سے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے دور تک پانی نہ ملے گا۔ تیسری یہ کہ پانی بالکل موجود ہی نہیں اس پانی موجود نہ ہونے کی صورت کے ساتھ دو صورتیں طہارت کی ضروری ہونے کی بیان فرمائیں ایک یہ کہ کوئی جائے ضرورت سے فارغ ہو کر آیا اس کو وضو کی حاجت ہے دوسری یہ کہ عورت سے صحبت کی ہو تو اس کو غسل کی ضرورت ہے۔

فائدہ: تیمم کی صورت یہ ہے کہ پاک زمین پر دونوں ہاتھ مارے پھر سارے منہ پر اچھی طرح مل لیوے پھر دونوں ہاتھ زمین پر مار کر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک مل لے مٹی طاہر ہے اور بعض چیزوں کے لئے مثل پانی کے مطہر بھی ہے مثلاً خف، تلوار، آئینہ وغیرہ اور جو نجاست زمین پر گر کر خاک ہو جاتی ہے وہ بھی پاک ہو جاتی ہے اور نیز ہاتھ اور چہرہ پر مٹی ملنے میں تذلل اور عجز بھی پورا ہے جو گناہوں سے معافی مانگنے کی اعلیٰ صورت ہے۔ سو جب مٹی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی نجاست کو زائل کرتی ہے تو اس لئے بوقت معذوری پانی کی قائم مقام کی گئی۔ اس کے سوا مقتضائے آسانی و سہولت جس پر حکم تیمم مبنی ہے یہ ہے کہ پانی کی قائم مقام ایسی چیز کی جائے جو پانی سے زیادہ سہل الوصول ہو۔ سو زمین کا ایسا ہونا ظاہر ہے کیونکہ وہ سب جگہ موجود ہے۔ معہٰذا خاک انسان کی اصل ہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے میں گناہوں اور خرابیوں سے بچاؤ ہے۔ کافر بھی آرزو کریں گے کہ کسی طرح خاک میں مل جائیں جیسا پہلی آیت میں مذکور ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ مول لیتے ہیں گمراہی، اور چاہتے ہیں کہ تم راستہ سے بہک جاؤ(۴۴)

اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور اللہ کافی ہے حمایتی اور اللہ کافی ہے مددگار(۴۵)

 

تشریح:بعض یہودی لوگ کلمات اور الفاظ کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں (تحریف کرتے ہیں )اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور (کہتے ہیں ہماری) سنو (تمہیں )نہ سنوایا جائے اور راعنا( کہتے ہیں ) اپنی زبانوں کو موڑ کر دین میں طعنے کی نیت سے اور اگر وہ کہتے ہم نے سنا اور اطاعت کی (اور کہتے ) سنئے اور ہم پر نظر کیجئے تو یہ ان کے لے بہتر ہوتا اور زیادہ درست ہوتا، لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کی، پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے (۴۶)

اس آیت میں بعض یہودیوں کی دو شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک شرارت یہ ہے کہ وہ تورات کے الفاظ کو اپنے موقع محل سے ہٹا کر اس میں لفظی یا معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، یعنی بعض اوقات اس کے الفاظ ہی کو کسی اور لفظ سے بدل دیتے ہیں اور بعض اوقات اس لفظ کو غلط معنی پہنا کر اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں اور دوسری شرارت یہ ہے کہ جب وہ آنحضرتﷺ کے پاس آتے ہیں توایسے مبہم اور منافقانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ظاہری مفہوم برا نہیں ہوتا،  لیکن وہ اندرونی طور پر ان الفاظ سے وہ دوسرے معنی مراد لیتے ہیں جو ان الفاظ میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں، قرآن کریم نے اس کی تین مثالیں اس آیت میں ذکر کی ہیں، ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں سمعنا وعصینا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور نافرمانی کی، وہ ان الفاظ کا مطلب یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے اور آپ کے مخالفین کی نافرمانی کی،  لیکن اندر سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور اسی بات کی نافرمانی کی ہے، دوسرے وہ کہتے تھے اسمع غیر مسمع اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ آپ ہماری بات سنیں خدا کرے آپ کو کوئی بات سنائی نہ جائے ظاہری طو ر پر وہ یہ دعا دیتے تھے کہ آپ کو کوئی ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کی طبیعت کی خلاف ہو، لیکن اندر سے ان کا مطلب ہوتا تھا کہ خدا کرے آپ کو ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کو خوش کرے، تیسرے وہ ایک لفظ راعنا استعمال کرتے تھے جس کے معنی عربی زبان میں تو یہ ہیں کہ ہمارا خیال رکھئے لیکن عبرانی زبان میں یہ ایک گالی کا لفظ تھا جو وہ اندرونی طور پر مراد لیتے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

اے اہل کتاب ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے نازل کیا، اس کی تصدیق کرنے والا جو تمہارے پاس ہے، اس سے پہلے کے ہم بہت سے چہرے مٹا ڈالیں (مسخ کر دیں )پھر ان چہروں کو الٹ دیں ان کی پیٹھ کی طرف، یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے ہفتہ والوں پر لعنت کی، اور اللہ کا حکم(پورا)ہو کر رہنے والا ہے (۴۷)

تشریح:سبت سنیچر کے دن کو کہتے ہیں تورات میں بنی اسرائیل کو اس دن روزگار کا کام کرنے سے منع کیا گیا تھا،  لیکن ایک بستی کے لوگوں نے اس حکم کی نافرمانی کی جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا اور ان کو مسخ کر دیا گیا اس واقعے کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورۂ اعراف(۷:۱۶۳)

(توضیح القرآن)

 

بیشک اللہ(اس کو)نہیں بخشتا جو اس کا شریک ٹھہرائے اور اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا پس اس نے بڑا گناہ(بہتان)باندھا(۴۸)

تشریح:یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالی جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے، لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کر کے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کر کے توحید پر ایمان لے آئے

(توضیح القرآن)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو مقدس کہتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدس بناتا ہے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے ریشہ کے برابر (دھاگے برابر) بھی ظلم نہ ہو گا(۴۹)

تشریح:یعنی پاکیزگی اور تقدس اللہ تعالی انہی کو عطا فرماتا ہے جو اپنے اختیاری عمل سے ایسا چاہتے ہیں، جن کو پاکیزگی اور تقدس نہیں ملتا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اختیاری اعمال کے ذریعے خود نا اہل بن جاتے ہیں، لہذا اگر اللہ انہیں تقدس عطا نہیں فرماتا تواس میں ان پر کوئی ظلم نہیں ہے،  کیونکہ انہوں نے خود اپنے اختیار سے اپنے آپ کو نا اہل بنادیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

دیکھو اللہ پر کیسا جھوٹ (بہتان) باندھتے ہیں اور یہی صریح گناہ کافی ہے (۵۰)

تشریح:یعنی کیسی تعجب کی بات ہے کہ اللہ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور باوجود ارتکاب کفر اور شرک کے اپنے آپ کو اللہ کا دوست کہتے ہیں اور اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کے مدعی ہیں اور ایسی سخت تہمت صریح گنہگار ہونے کے لئے بالکل کافی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ مانتے ہیں بتوں کو اور شیطان کو، اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مؤمنوں سے زیادہ راہ  (راست) پر ہیں (۵۱)

یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے تو ہر گز تواس کا کوئی مددگار نہیں پائے گا(۵۲)

تشریح:یہ مدینہ منورہ میں آباد بعض یہودیوں کا تذکرہ ہے، آنحضرتﷺ نے ان سب کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اور مسلمان آپس میں امن کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف کسی بیرونی دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے،  لیکن انہوں نے اس معاہدہ کی بار بار خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کے دشمن کفار مکہ کی حمایت اور درپردہ مدد کا سلسلہ جاری رکھا، ان کا ایک بڑا سردار کعب بن اشرف تھا، جنگ احد کے بعد وہ ایک اور یہودی سردار حیی بن اخطب کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کافروں کے پاس گیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف تعاون کی پیشکش کی، کفار مکہ کے سردار ابو سفیان نے کہا کہ اگر واقعی اپنی پیشکش میں سچے ہو تو ہمارے دو بتوں کے سامنے سجدہ کرو،  چنانچہ کعب بن اشرف نے ابوسفیان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا، پھر ابوسفیان نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے یا مسلمانوں کا، تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ کے یہ لوگ بت پرست ہیں اور کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے، لہذا ان کے مذہب کوبہتر قرار دینے کا مطلب بت پرستی کی تصدیق کرنا تھا، اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

کیا ان کے پاس سلطنت کا کوئی حصہ ہے پھر اس وقت یہ نہ دیں لوگوں کو تل برابر بھی(۵۳)

تشریح:یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی اور عناد کا سبب قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انہیں یہ توقع تھی کہ جس طرح پچھلے بہت سے انبیائے کرامؑ بنی اسرائیل سے آئے ہیں، نبی آخرالزماں ﷺ بھی انہی کے خاندان سے ہوں گے، لیکن جب آنحضرتﷺ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں مبعوث فرمائے گئے تو یہ لوگ حسد میں مبتلا ہو گئے، حالانکہ نبوت و خلافت و حکومت تو اللہ تعالی کا ایک فضل ہے وہ جب جس کو مناسب سمجھتا ہے اپنے اس فضل سے سرفراز فرماتا ہے، اگر کوئی شخص اس پر اعتراض کرے تو گویا وہ یہ دعوی کر رہا ہے کہ کائنات کی بادشاہی اس کے پاس ہے اور اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند سے انبیاءؑ کو منتخب کرے، اللہ تعالی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اگر کہیں بادشاہی واقعی ان کو مل گئی ہوتی تویہ اتنے بخیل ہیں کہ کسی کو ذرہ برابر بھی کچھ نہ دیتے۔

(توضیح القرآن)

 

یا لوگوں سے اس پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں دیا اپنے فضل سے سوہم نے دی ہے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت اور انہیں دیا ہے بڑا ملک(۵۴)

تشریح:یعنی اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت جس کو مناسب سمجھتا ہے نبوت اور خلافت و حکومت کے اعزاز سے سرفراز فرماتا ہے،  چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت و حکمت عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری رکھا،  چنانچہ ان میں بعض(مثلاً حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام) نبی ہونے کے ساتھ حکمران بھی بنے، اب تک ان کے ایک صاحبزادے (حضرت یعقوب علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت جاری رہی ہے، اب اگر ان کے دوسرے صاحب زادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز بخش دیا گیا ہے تواس میں اعتراض یا حسد کی کیا بات ہے ؟

(توضیح القرآن)

 

پھر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور ان میں سے کوئی رکا رہا(ٹھٹکا رہا)اور جہنم کافی ہے بھڑکتی ہوئی آگ(۵۵)

تشریح:یعنی حضرت ابراہیمؑ کے گھرانے میں خدائے تعالیٰ نے ہمیشہ سے بزرگی دی ہے اور اب بھی انہی کے گھرانے میں ہے۔ سو جو کوئی بلاوجہ محض حسد سے اس کو نہ مانے اس کے جلانے کے لئے دوزخ کی بھڑکتی آگ کافی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جن لوگوں نے کفر کیا بیشک انہیں ہم عنقریب آگ میں ڈال دیں گے، جس وقت ان کی کھالیں پک(گل)جائیں گی ہم اس کے علاوہ(دوسری) بدل دیں گے،  تاکہ وہ عذاب چکھیں، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے (۵۶)

تشریح:پہلی آیت میں مومن و کافر کا ذکر تھا اب مطلق مومن اور کافر کی جزا و سزا بطور قاعدہ کلیہ کے ذکر فرماتے ہیں تاکہ ایمان کی طرف پوری ترغیب اور کفر سے پوری ترہیب ہو جائے۔

کافروں کے عذاب میں نقصان اور کمی نہ آنے کی غرض سے ان کی کھال کے جل جانے کے وقت دوسری کھال بدل دی جائے گی، مطلب یہ ہوا کہ کافر ہمیشہ عذاب میں یکساں مبتلا رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ بیشک زبردست اور غالب ہے کافروں کو ایسی سزا دینے میں کوئی دقت اور دشواری نہیں اور حکمت والا ہے کافروں کو یہ سزا دینی عین حکمت کے موافق ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ہم عنقریب انہیں باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ، ان کے لئے اس میں پاک ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (سایہ) میں داخل کریں گے (۵۷)

تشریح:یعنی مومن ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور ان کو عورتیں ایسی ملیں گی جو حیض اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی اور ان کو گہری اور گنجان چھاؤں میں داخل کریں گے جو آفتاب کی دھوپ سے بالکل محفوظ ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے (۵۸)

تشریح:یہود میں عادت تھی کہ امانت میں خیانت کرتے اور فصل خصومات میں رشوت وغیرہ کی وجہ سے کسی کی خاطر اور رعایت کر کے خلاف حق حکم دیتے اس لئے مسلمانوں کو ان دونوں باتوں سے اس آیت میں روکا گیا۔ منقول ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا چاہا تو عثمان بن طلحہ کلید بردار خانہ کعبہ نے کنجی دینے سے انکار کیا تو حضرت علی نے اس سے چھین کر دروازہ کھول دیا۔ آپ فارغ ہو کر جب باہر تشریف لائے تو حضرت عباس نے آپ سے درخواست کی کہ یہ کنجی مجھ کو مل جائے اس پر آیت نازل ہوئی اور کنجی عثمان بن طلحہ ہی کے حوالہ کی گئی۔

اللہ تعالیٰ جو تم کو ادائے امانت اور عدل کے موافق حکم دینے کا حکم فرماتا ہے تمہارے لئے سراسر مفید ہے اور اللہ تعالیٰ تمہاری کھلی اور چھپی اور موجودہ اور آئندہ باتوں کو خوب جانتا ہے تو اب اگر تم کو کہیں ادائے امانت یا عدل مفید معلوم نہ ہو تو حکم الٰہی کے مقابلہ میں اس کا اعتبار نہ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص واقعہ ہوا کرتا ہے لیکن حکم عام ہوتا ہے جس کی پابندی پوری امت کے لئے ضروری ہوتی ہے، اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچایا کرو، اس حکم کے مخاطب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام مسلمان ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ خاص امراء و حکام مخاطب ہوں اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جوکسی امانت کا امین ہے، اس میں عوام بھی داخل ہے اور حکام بھی۔

(معارف القرآن)

 

اے ایمان والو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب حکومت ہو پھر اگر تم جھگڑ پڑو کسی بات میں تواس کو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور یوم آخرت پر، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے (۵۹)

تشریح:أُولِي الْأَمْرِ:سے مراد اکثر مفسرین کے مطابق مسلمان حکمران ہیں، جائز امور میں ان کے احکام کی اطاعت بھی مسلمانوں کا فرض ہے، البتہ یہ اطاعت اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم نہ دیں جو شرعاً جائز ہو، اس بات کو قرآن کریم نے دو طرح واضح فرمایا ہے، ایک تواس طرح کے اصحاب اختیار کی اطاعت کا ذکر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد فرمایا ہے، جس میں یہ اشارہ ہو گیا کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے، دوسرے اگلے جملے میں مزید صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ اگر کسی معاملہ میں یہ اختلاف پیدا ہو جائے کہ آیا حکمرانوں کا دیا ہوا حکم صحیح اور قابل طاعت ہے یا نہیں، تواسے اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دو، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو، اگر وہ قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا حکم واپس لیں اور اگر وہ حکم قرآن وسنت کے کسی صریح یا اجماعی طور پر مسلم حکم کے خلاف نہیں ہے تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں۔

(توضیح القرآن)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا وہ چاہتے ہیں کہ (اپنا)مقدمہ طاغوت(سرکش)شیطان کے پاس لے جائیں، حالانکہ انہیں حکم ہو چکا ہے کہ وہ اس کو نہ مانیں اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور گمراہی(میں ڈال دے ) (۶۰)

تشریح:یہاں سے ان منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اصل دل سے تو یہودی تھے مگر مسلمانوں کو دکھانے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، ان کا حال یہ تھا کہ جس معاملے میں ان کی توقع ہوتی کہ آنحضرتﷺ ان کے فائدے کا فیصلہ کریں گے ان کا مقدمہ تو آپ کے پاس لے جاتے،  لیکن جس مسئلے میں ان کو خیال ہوتا کہ آنحضرتﷺ کا فیصلہ ان کے خلاف ہو گا وہ مقدمہ آپ کے بجائے کسی یہودی سردار کے پاس لے جاتے، جسے اس آیت میں طاغوت کہا گیا ہے، منافقین کی طرف سے ایسے کئی واقعات پیش آئے تھے جو متعدد روایات میں منقول ہیں، طاغوت کے لفظی معنی ہیں نہایت سرکش،  لیکن یہ لفظ شیطان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ہر باطل کے لئے بھی، یہاں اس سے مراد وہ حاکم ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے بے نیاز ہو کر یا ان کے خلاف فیصلہ کرے، آیت نے واضح کر دیا کہ اگر کوئی شخص زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی کرے،  لیکن اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کسی اور قانون کو ترجیح دے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے نازل کیا اس کی طرف آؤ اور رسول کی طرف تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ رک کر آپ سے ہٹتے ہیں (پہلوتہی کرتے ہیں )(۶۱)

پھر کیسی (ندامت ہو گی)جب انہیں کوئی مصیبت پہنچیں اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر وہ آپ کے پاس اللہ کی قسم کھاتے ہوئے آئیں کہ ہم نے صرف بھلائی چاہی تھی اور موافقت(۶۲)

تشریح:یعنی جب ان کا یہ معاملہ تمام لوگوں پر کھل جاتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کے فیصلے کے بجائے یا اس کے خلاف کسی اور کو اپنا فیصل بنا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں ملامت یا کسی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ جھوٹی تاویل کرتے ہیں کہ ہم اس شخص کے پاس عدالتی فیصلہ کرانے نہیں گئے تھے، بلکہ مصالحت کا کوئی راستہ نکالنا چاہتے تھے جس سے جھگڑے کے بجائے میل ملاپ کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔

(توضیح القرآن)

 

یہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے تو آپ تغافل کریں ان سے اور ان کو نصیحت کریں اور ان کے حق میں اثر کر جانے والی بات کہیں (۶۳)

تشریح:اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی قسم اور ان کی معذرت سابقہ کی تکذیب فرمائی کہ منافقین جو کچھ زبانی باتیں بنائیں بنانے دو اللہ تعالیٰ کو ان کے دل کی باتیں خوب معلوم ہیں، یعنی ان کے نفاق اور ان کے جھوٹ کو خوب جانتا ہے۔ سو آپ بھی علم خداوندی پر بس کر کے منافقوں کی بات سے تغافل کیجئے اور ان کی بات کی پروا نہ کیجئے مگر ان کو نصیحت کرنے اور کام کی باتیں بتانے میں ہرگز کوتاہی نہ فرمائیں اور ان کی ہدایت سے مایوس نہ ہو جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اگر آپ کے پاس آتے پھر اللہ سے بخشش چاہتے اور ان کے لئے رسول(اللہ سے ) مغفرت چاہتے رو وہ ضرور پاتے اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان(۶۴)

تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ جس رسول کو اپنے بندوں کی طرف بھیجتا ہے سو اسی غرض کیلئے بھیجتا ہے کہ اللہ کے حکم کے موافق بندے ان کے کہنے کو مانیں تو اب ضرور تھا کہ یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو بلا تامل پہلے ہی سے دل و جان سے تسلیم کرتے اور اگر گناہ اور برا کرنے کے بعد بھی متنبہ ہو جاتے اور اللہ سے معافی چاہتے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی معافی کی دعا کرتے تو پھر بھی حق تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا مگر انہوں نے تو یہ غضب کیا کہ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جو بعینہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا ہٹے اور بچے۔ پھر جب اس کا وبال ان پر پڑا تو اب بھی متنبہ اور تائب نہ ہوئے،  بلکہ لگے جھوٹی قسمیں کھانے اور تاویلیں گھڑنے پھر ایسوں کی مغفرت ہو تو کیونکر ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس قسم ہے آپ کے رب کی وہ مؤمن نہ ہوں گے جب تک آپ کو منصف نہ بنائیں اس جھگڑے میں جو ان کے درمیان اٹھے پھر وہ اپنے دلوں میں آپ کے فیصلہ سے کوئی تنگی نہ پائیں اور اس کو خوشی سے (پوری طرح)تسلیم کر لیں (۶۵)

تشریح:یعنی منافق لوگ کس بیہودہ خیال میں ہیں اور کیسے بیہودہ حیلوں سے کام نکالنا چاہتے ہیں ان کو خوب سمجھ لینا چاہئے۔ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب تک یہ لوگ تم کو اے رسول اپنے تمام چھوٹے بڑے مالی جانی نزاعات میں منصف اور حاکم نہ جان لیں گے کہ تمہارے فیصلہ اور حکم سے ان کے جی میں کچھ تنگی اور ناخوشی نہ آنے پائے اور تمہارے ہر ایک حکم کو خوشی کے ساتھ دل سے قبول نہ کر لیں گے اس وقت تک ہرگز ان کو ایمان نصیب نہیں ہو سکتا اب جو کرنا ہو سوچ سمجھ کر کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے (فرض کر دیتے )کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالو، یا اپنے گھر بار (چھوڑ کر) نکل جاؤ تو ان میں چند ایک کے سوا وہ (کبھی  ایسا) نہ کرتے اور اگر یہ لوگ وہ کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے بہتر ہو اور (دین میں )زیادہ ثابت رکھنے والا ہو(۶۶)

اور اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتے (۶۷)

اور انہیں سیدھے راستہ کی ہدایت دیتے (۶۸)

 

تشریح:مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو تو بڑے سخت قسم کے احکام دئے گئے تھے جن میں توبہ کے طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنا بھی شامل تھا، جس کا ذکرسورۂ بقرہ(۵۴) میں آیا ہے، اب اگر کوئی ایسا سخت حکم دیا جاتا تو ان میں سے کوئی بھی عمل نہ کرتا، اب اس سے بہت آسان حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کر لو، لہذا عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ آپﷺ کے صحیح معنی میں فرماں بردار بن جائیں۔

بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے شیخی بھی بگھاری تھی کہ ہم توایسی فرماں بردار قوم ہیں کہ جب ہمارے آبا و اجداد کو یہ حکم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں تو انہوں نے اس جیسے سخت حکم پر عمل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، :۶۶ ان کی اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یہی لوگ ہیں ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا (یعنی) انبیا اور صدیقین اور شہداء اور صالحین(نیک لوگ)اور یہ اچھے ساتھی ہیں (۶۹)

تشریح :نبی وہ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے وحی آئے یعنی فرشتہ ظاہر میں آ کر پیغام کہہ جائے اور صدیق وہ ہے جو پیغام اور احکام خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو آئے ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے اور بلا دلیل اس کی تصدیق کرے اور شہید وہ ہے جو پیغمبروں کے حکم پر جان دینے کو حاضر ہیں اور صالح اور نیک بخت وہ ہے جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے اور بری باتوں سے اپنے نفس اور بدن کی اصلاح اور صفائی کر چکے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ یہ چار قسمیں مذکورہ جو امت کے باقی افراد سے افضل ہیں ان کے ما سواء جو مسلمان ہیں اور درجہ میں ان کے برابر نہیں لیکن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری میں مشغول ہیں وہ لوگ بھی انہیں کی شمار اور ذیل میں لئے جائیں گے اور ان حضرات کی رفاقت بہت ہی خوبی اور فضیلت کی بات ہے۔ اس کو کوئی حقیر نہ سمجھے۔

فائدہ:اس آیت میں اشارہ ہو گیا کہ منافقین جن کا ذکر پہلے سے ہو رہا ہے وہ اس رفاقت اور معیت سے محروم ہیں۔

 

یہ اللہ کی طرف سے فضل ہے اور اللہ کافی ہے جاننے والا ہے (۷۰)

تشریح:یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ماننے والوں کو انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کی رفاقت میسر آنی اللہ کا بڑا انعام اور اس کا محض فضل ہے، ان کی اطاعت کا معاوضہ نہیں، جس سے منافقین بالکل محروم ہیں اور اللہ کافی ہے جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے، وہ ہر ایک مخلص اور منافق اور ہر مطیع کی طاعت اور اس کے استحقاق اصلی اور مقدار فضل کو بالتفصیل جانتا ہے تو اب کسی کو ان امور کی تفاصیل کی وجہ سے وعدہ الٰہی کے پورا ہونے میں خلجان پیدا نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو!اپنے بچاؤ(کا سامان ہتھیار)لے لو پھر جدا جدا (دستوں کی صورت میں ) یا سب اکھٹے ہو کر کوچ کرو(۷۱)

تشریح:یہاں سے جہاد کا ذکر ہے اس سے پہلی آیت میں یہ ذکر تھا کہ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اس کو انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کی رفاقت انعام میں ملے گی اور احکام خداوندی میں حکم جہاد چونکہ شاق اور دشوار ہے خصوصاً منافقین پر جن کا ذکر اوپر سے آ رہا ہے اس لئے جہاد کا حکم فرمایا کہ ہر کوئی حضرات انبیاء صدیقین وغیرہم کی رفاقت اور معیت کی امید نہ کرنے لگے۔ منقول ہے کہ شروع اسلام میں بہت سے ضعیف الاسلام بھی دعوت اسلامی کو قبول کر چکے تھے پھر جب جہاد فرض ہو گیا تو بعض متزلزل ہو گئے اور بعض کفار کے ہم زبان ہو کر آپ کی مخالفت کرنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! منافقوں کی کیفیت تو تم کو پہلے سے معلوم ہو چکی اب خیر اسی میں ہے کہ تم اپنا ہر طرح سے بچاؤ اور اپنی خبرداری اور احتیاط کر لو ہتھیاروں سے ہو یا تدبیر سے عقل سے ہو یا سامان سے اور دشمنوں کے مقابلہ اور مقاتلہ کے لئے گھر سے باہر نکلو متفرق طور پر یا سب اکٹھے ہو کر جیسا موقع ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تم میں (کوئی ایسا بھی ہے ) جو ضرور دیر لگا دے گا پھر اگر تمہیں پہنچے کوئی مصیبت تو کہے کہ اللہ نے مجھ پر انعام کیا کہ میں ان کے ساتھ نہ تھا(۷۲)

اور تمہیں اللہ کی طرف سے کوئی فضل(نعمت)پہنچے تو ضرور کہے گا، گویا کہ(جب کہ)نہ تھی تمہارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی، اے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی مراد پاتا (۷۳)

تشریح:مطلب یہ ہے کہ یوں رو وہ زبان سے مسلمانوں سے دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن جنگ میں شرکت سے متعلق ان کے خیالات تمام تر خود غرضی پر مبنی ہوتے ہیں، خود تو جنگ میں شریک ہوتے نہیں اور جب مسلمانوں کو جنگ میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ان کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہم اس تکلیف سے بچ گئے اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوتی ہے اور مال غنیمت حاصل ہوتا ہے تو یہ خوش ہونے کے بجائے حسرت کرتے ہیں کہ ہم اس مال غنیمت سے محروم رہ گئے۔

(توضیح القرآن)

 

سو چاہئے کہ لڑیں وہ لوگ جو دنیا کی زندگی بیچتے ہیں (قربان کرتے ہیں )آخرت کے بدلے اور جو اللہ کے راستے میں لڑے اور پھر مارا جائے یا غالب آئے ہم عنقریب اسے بڑا اجر دیں گے (۷۴)

اور تمہیں کیا ہو  گیا ہے کہ تم اللہ کے راستہ میں نہیں لڑتے کم زور(بے بس)مردوں اور عورتوں اور بچوں (کی خاطر) جو دعا  کر رہے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور بنا دے ہمارے لئے اپنے پاس سے حمایتی اور بنا دے ہمارے لئے اپنے پاس سے مددگار(۷۵)

تشریح:دو وجہ سے تم کو کافروں سے لڑنا ضروری ہے، ایک تو اللہ کے دین کو بلند اور غالب کرنے کی غرض سے، دوسرے جو لوگ مظلوم مسلمان کافروں کے ہاتھ میں بے بس پڑے ہیں ان کو چھڑانے اور خلاصی دینے کی وجہ سے۔ مکہ میں بہت لوگ تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت نہ کر سکے اور ان کے اقرباء ان کو ستانے لگے کہ پھر کافر ہو جائیں، سو خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ تم کو دو وجہ سے کافروں سے لڑنا ضرور ہے تاکہ اللہ کا دین بلند ہو اور مسلمان جو کہ مظلوم اور کمزور ہیں کفار مکہ کے ظلم سے نجات پائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ایمان لانے والے اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور کافر لڑتے ہیں طاغوت(سرکش مفسد)کے راستے میں، سو تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو، بیشک شیطان کا فریب کمزور(بودا)ہے (۷۶)

تشریح:جب یہ بات ظاہر ہے کہ مسلمان اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر لوگ شیطان کی راہ میں۔ سو پھر تو مسلمانوں کو شیطان کے دوستوں یعنی کافروں کے ساتھ لڑنا بلا تامل ضروری ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے۔ کسی قسم کا تردد نہ چاہیے اور سمجھ لو کہ شیطان کا حیلہ اور فریب کمزور ہے مسلمانوں پر نہ چل سکے گا۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ترغیب دلانا اور ہمت بندھانا ہے جس کا ذکر آیات آئندہ میں بالتصریح آتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کہا گیا اپنے ہاتھ روک لو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا  تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے ڈرتا ہے جیسے اللہ کا ڈر ہویا اس بھی زیادہ ڈر، اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ہمیں اور تھوڑی مدت کیوں نہ مہلت دی؟ کہہ دیں ! دنیا کا فائدہ تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیزگار کے لئے، اور تم پر ظلم نہ ہو گا دھاگے برابر(۷۷)

تشریح:مکہ مکرمہ میں جب مسلمان کفار کے سخت ظلم وستم کا سامنا کر رہے تھے اس وقت بہت سے حضرات کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ ان کافروں سے انتقام لینے کے لئے جنگ کریں، لیکن اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں آیا تھا، اور اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کی مصلحت اس میں تھی کہ وہ صبر و ضبط کی بھٹی سے گزر کر اعلی اخلاق سے آراستہ ہوں اور پھر جہاد کریں رو وہ محض ذاتی انتقام کے جذبے سے نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ہو لہذا اس وقت جب کچھ مسلمان جہاد کی تمنا کرتے ان سے یہی کہا جا ات تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روک کر رکھو اور جہاد کے بجائے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام پر عمل کرتے رہو، بعد میں جب یہ حضرات ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو جہاد فرض ہوا، اس وقت چونکہ ان کی پرانی تمنا پوری ہو گئی تھی، اس لئے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا، لیکن ان میں سے بعض حضرات کے دل میں یہ خیال آیا کہ تقریباً تیرہ سال کی صبر آزما تکلیفوں کے بعد اب ذرا سکون اور عافیت کی زندگی میسر آئی ہے اس لئے جہاد کا حکم کچھ مزید مؤخر ہو جاتا تو اچھا تھا، ان کی یہ خواہش اللہ تعالی کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ بشریت کا ایک تقاضا تھا لیکن اللہ تعالی نے اس آیت میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ کا مقام اس بات سے بلند ہونا چاہئے کہ وہ کسی وقت دنیاوی راحت و آرام کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کے خاطر آخرت کے فوائد کو کچھ عرصے کے لئے ہی سہی مؤخر کرنے کی آرزو کرنے لگیں۔

(توضیح القرآن)

 

تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں پالے گی، اگرچہ تم ہو گے مضبوط برجوں میں، اور اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے رو وہ کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر انہیں کچھ برائی پہنچے تو کہتے ہیں یہ آپ کی طرف سے ہے۔ آپ کہہ دیں سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، اس قوم کو(ان لوگوں کو)کیا ہو گیا ہے کہ یہ بات سمجھتے نہیں لگتے (بات سمجھتے معلوم نہیں ہوتے )(۷۸)

جو تمہیں کوئی بھلائی پہنچے سووہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تمہیں کوئی برائی پہنچے رو وہ تمہارے نفس سے ہے، اور ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی ہے گواہ(۷۹)

تشریح:یعنی کیسے ہی مضبوط اور محفوظ و مامون مکان میں رہو مگر موت تم کو کسی طرح نہ چھوڑے گی، کیونکہ موت ہر ایک کے واسطے مقدر اور مقرر ہو چکی ہے، اپنے وقت پر ضرور آئے گی کہیں ہو۔ سو اگر جہاد میں نہ جاؤ گے تو بھی موت سے ہرگز نہیں بچ سکتے تو اب جہاد سے گھبرانا اور موت سے ڈرنا اور کافروں کے مقاتلہ سے خوف کرنا بالکل نادانی اور اسلام میں کچے ہونے کی بات ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالی کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے، کسی کو کوئی فائدہ پہنچے رو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے رو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے، دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اللہ تعالی کب اور کس بنا پر دیتے ہیں، اس کے بارے میں آیت:۷۹ نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالی کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اللہ تعالی پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدہ کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالی کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے، دوسری طرف اگر انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اگرچہ وہ بھی اللہ تعالی کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالی یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو، اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تواس کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کرتے،  لیکن کوئی نقصان ہو جاتا تواسے آنحضرتﷺ کے ذمے لگا دیتے تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرتﷺ پر عائد کر رہے ہیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تویہ بات بالکل غلط ہے،  کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں کسی اور حکم سے نہیں اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ)آنحضرتﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہرانسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، آنحضرتﷺ کو تورسول بنا کر بھیجا گیا ہے لہذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور نہ آپ فرائض رسالت میں کسی کوتاہی کی مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی امت کو بھگتنا پڑے۔

(توضیح القرآن)

 

جس نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان نہیں بھیجا۔ (۸۰)

تشریح:آپ ﷺ کی رسالت کو محقق فرما کر اب خدا تعالیٰ آپ کے متعلق یہ حکم سناتا ہے کہ جو ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا وہ بیشک ہمارا تابعدار ہے اور جو اس سے روگردانی کرے گا تو ہم نے آپ کو اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ ان کو گناہ نہ کرنے دیں، ہم ان کو دیکھ لیں گے۔ آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے آگے ثواب یا عقاب یہ ہمارا کام ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

وہ(منہ سے تو) یہ کہتے ہیں کہ ہم نے مانا، پھر جب باہر جاتے ہیں آپ کے پاس سے تو ان میں سے ایک گروہ رات کو اس کے خلاف مشورہ کرتا ہے جو وہ کہہ چکے، اور اللہ لکھ لیتا ہے جو وہ رات کو مشورہ کرتے ہیں، آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ پر بھروسہ کریں اور اللہ کافی ہے کارساز۔ (۸۱)

تشریح:ان منافقین کی اور مکاری سنو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو آ کر تو کہہ جاتے ہیں کہ ہم نے آپ کا حکم قبول کیا، اور باہر جا کر اس کے خلاف مشورہ کرتے ہیں، یعنی آپ کی نافرمانی اور مخالفت کا مشورہ کرتے ہیں، اور اللہ کے یہاں ان کے سب مشورے لکھے جاتے ہیں ان کو سزا دینے کے لئے۔ سواے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے منہ پھیر لیجئے اور کسی بات کی پروا مت کیجئے اور اپنے سب کام اللہ کے حوالے کر دیجئے وہ آپ کے لئے کافی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر وہ قرآن پر غور نہیں کرتے اور اگر اللہ کے سوا کسی اور کے پاس سے ہوتا تو اس میں ضرور بہت اختلاف پاتے۔ (۸۲)

تشریح:پہلی آیات سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول اللہ ہونا اور ان کی اطاعت بعینہ خدا کی اطاعت ہونی اور ان کے نافرمانوں پر حق تعالیٰ کا عذاب ہونا تو خوب ظاہر ہو گیا، مگر منافق اور آپ کے مخالف یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی گواہی اور اس کے ارشادات کی تسلیم و تصدیق میں تو ہم کو تامل ہرگز نہیں مگر یہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ خدا کا کلام ہے بشر کا بنایا ہوا نہیں تو حق تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے کہ یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے جس سے صاف معلوم ہو جائے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ دیکھو اگر قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا جیسا کہ تم گمان کرتے ہو تو ضرور قرآن میں بہت سے مواقع میں طرح طرح کے اختلافات ملتے۔ دیکھو آدمی ہر حالت میں اسی حالت کے موافق کلام کرتا ہے جو حالت پیش ہوتی ہے دوسری حالت کا دھیان نہیں ہوتا، غصہ میں مہربانی والوں کا دھیان نہیں رہتا اور مہربانی میں غصہ والوں کا، دنیا کے بیان میں آخرت کا لحاظ نہ رہے اور آخرت کے بیان میں دنیا کا۔ بے پروائی میں عنایت کا ذکر نہیں اور عنایت میں بے پروائی کا۔ بالجملہ ایک حال کا کلام دوسرے حال کے کلام سے مختلف نظر آئے گا لیکن قرآن شریف چونکہ خالق کا کلام ہے یہاں ہر چیز کے بیان میں دوسری جانب بھی نظر رہتی ہے غور و فہم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہر مقام میں ایک انداز پر ہے، دیکھئے یہاں منافقوں کا بیان  مذکور تھا جو سخت عتاب کے مستحق ہیں، سو یہاں بھی ان کی باتوں پر ا سی قدر الزام ہے جتنا چاہیے اور جو الزام ان کی ایک خاص جماعت پر تھا وہ خاص انہی پر لگایا گیا اور فرما دیا کہ بعضے ان میں سے ایسا کرتے ہیں، یہ نہیں کہ غصہ وغیرہ کی حالت میں کلام اپنی حد سے نکل جائے اور دوسری حالت کے کلام سے مختلف نظر آئے اور نیز یہ مطلب بھی ہے کہ ہم برابر دیکھتے ہیں کہ جب آدمی کوئی کلام طویل کرتا ہے تو وہ یکساں نہیں ہوتا،  بلکہ کوئی جملہ فصیح کوئی غیر فصیح، کوئی صحیح، کوئی غلط، کوئی سچا، کوئی کاذب، کوئی موافق کوئی باہم متناقض ضرور معلوم ہوتا ہے اور قرآن اتنی بڑی کتاب ان جملہ اختلافات سے پاک ہے جو طاقت بشر سے باہر ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان کے پاس کوئی امن کی خبر آتی ہے یا خوف کی تو اسے مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اسے پہنچاتے رسول کی طرف اور اپنے حاکموں کی طرف تو جو لوگ ان میں سے تحقیق کر لیا کرتے ہیں اس کو جان لیتے، اور اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تم پر اور اس کی رحمت (نہ ہوتی)تو چند ایک سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔ (۸۳)

تشریح:بعض لوگ مدینہ منورہ میں بلا تحقیق افواہیں پھیلا دیا کرتے تھے جس سے معاشرہ میں بڑا نقصان ہوتا تھا یہ آیت ایسی بے تحقیق افواہوں پر یقین کر لینے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ممانعت کر رہی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

پس آپ اللہ کی راہ میں لڑیں آپ مکلف نہیں مگر اپنی جان کے اور مؤمنوں کو آمادہ کریں، قریب ہے کہ اللہ روک دے کافروں کی جنگ(کا زور)اور اللہ کی جنگ سخت تر ہے اور اس کی سزا سب سے سخت ہے۔ (۸۴)

جو کوئی سفارش کرے اس کے لئے اس سے حصہ ہو گا اور کوئی سفارش کرے بری بات میں اس کو اس کا بوجھ (حصہ) ملے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۸۵)

تشریح:آیت نمبر۸۴ میں آنحضرتﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا کہ آپ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیں، اس کے بعد یہ آیت لا کر اشارہ کر دیا گیا کہ آپ کی ترغیب کے نتیجے میں جو لوگ جہاد کریں گے، ان کے ثواب میں آپ بھی شریک ہوں گے کیونکہ جب کوئی شخص اچھی سفارش کے نتیجے میں کوئی نیک کام کرے تو جو ثواب کام کرنے والے کو ملتا ہے اس میں سفارش کرنے والے کو بھی حصہ ملتا ہے، اسی طرح اگر بری سفارش کے نتیجے میں کوئی غلط کام ہو جائے تو جتنا گناہ غلط کام کرنے والے کو ملے گا، بری سفارش کرنے والا بھی اس کے گناہ میں شریک ہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب تمہیں کوئی دعا دے (سلام)کرے تو تم اس سے بہتر دعا دویا وہی کہہ دو، بے شک اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے۔ (۸۶)

تشریح:یعنی کسی مسلمان کو سلام کرنا یا دعا دینا درحقیقت اللہ سے اس کی شفاعت کرنا ہے تو حق تعالیٰ شفاعت حسنہ کی ایک خاص صورت کو جو مسلمانوں میں شائع ذائع ہے صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ جب کوئی اے مسلمانو تم کو دعا دے یا سلام کرے تو تم کو بھی اس کا جواب ضرور دینا چاہیے یا تو وہی کلمہ تم بھی اس کو کہو یا اس سے بہتر مثلاً اگر کسی نے کہا السلام علیکم تو واجب ہے تم پر کہ اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہو اور زیادہ ثواب چاہو تو و رحمۃ اللہ بھی بڑھا دو اور اگر اس نے یہ لفظ بڑھایا ہو تو تم ”وبرکاتہ” زیادہ کر دو۔ اللہ کے یہاں ہر ہر چیز کا حساب ہو گا اور اس کی جزا ملے گی سلام اور اس کا جواب بھی اس میں آ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن اکھٹا کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، اور کون زیادہ سچا ہے اللہ سے بات میں (۸۷)

تشریح:یعنی قیامت کا آنا اور ثواب و عقاب کے سب وعدوں کا پورا ہونا سب سچ ہے اس میں تخلف نہیں ہو گا ان باتوں کو سرسری خیال نہ کرو۔

 

سوتمہیں کیا ہو گیا ہے ؟منافقین کے بارہ میں دو گروہ(ہو رہے ہو)اور اللہ نے انہیں اوندھا کر دیا اس کے سبب جو انہوں نے کیا، کیا تم چاہتے ہو کہ اسے راہ پر لاؤ جس کو اللہ نے گمراہ کیا؟اور جس کو اللہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پاؤ گے (۸۸)

تشریح:ان آیتوں میں چار قسم کے منافقین کا تذکرہ ہے اور ان میں سے ہر قسم کا حکم الگ بیان کیا گیا ہے، اس آیت میں منافقین کی پہلی قسم کا ذکر ہے، یہ مکہ مکرمہ کے کچھ لوگ تھے جو مدینہ منورہ آئے اور ظاہری طور پر مسلمان ہو گئے اور مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کر لی، کچھ عرصے کے بعد انہوں نے حضور اقدس ﷺ سے تجارت کے بہانے مکہ مکرمہ جانے کی اجازت لی اور واپس چلے گئے، ان کے بارے میں بعض مسلمانوں کی رائے یہ تھی کہ یہ سچے مسلمان تھے اور بعض انہیں منافق سمجھتے تھے،  لیکن جب وہ مکہ مکرمہ جا کر واپس نہ لوٹے تو ان کا کفر ظاہر ہو گیا،  کیونکہ اس وقت مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنا ایمان کا لازمی حصہ تھا اور جو شخص قدرت کے باوجود ہجرت نہ کرے اسے مسلمان قرار نہیں دیا جا سکتا تھا، لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب جبکہ ان کا نفاق ظاہر ہو چکا ہے تو ان کے بارے میں کسی اختلاف رائے کی گنجائش باقی نہیں رہی.

(توضیح القرآن)

 

وہ چاہتے ہیں کاش تم (بھی) کافر ہو جاؤ جیسے وہ کافر ہوئے، تو تم برابر ہو جاؤ، پس تم ان میں سے  (کسی کو) دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اللہ کی راہ میں، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو جہاں کہیں انہیں پاؤ پکڑ لو اور قتل کرو، اور ان میں سے  (کسی کو) نہ دوست بناؤ نہ مددگار(۸۹)

تشریح:یعنی یہ منافق لوگ تو کفر پر ایسے جمے ہوئے ہیں کہ خود تو اسلام کیا قبول کریں گے وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی مثل کافر ہو کر ان کے برابر ہو جاؤ۔ سو اب تم کو چاہیے کہ وہ جب تک ایمان قبول کر کے اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس نہ چلے آئیں اس وقت تک ان کو دوست نہ بناؤ، نہ اپنے کسی کام میں ان کو دخل دو اور نہ ان کی حمایت اور اعانت کرو اور اگر وہ لوگ ایمان اور ہجرت کو قبول نہ کریں تو ان کو قید کرو اور قتل کرو جہاں قابو پاؤ اور اجتناب کلی رکھو اور ان سے کوئی تعلق نہ رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

مگر جو لوگ تعلق رکھتے ہیں (ایسی)قوم سے کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہے یا تمہارے پاس آئیں (اس حال میں ) کہ تنگ ہو گئے ہیں ان کے دل(اس بات سے )کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں، اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا رو وہ تم سے ضرور لڑتے، پھر اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں پھر تم سے نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح (کا پیام) ڈالیں، تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر(ستانے کی) کوئی راہ نہیں رکھی(۹۰)

تشریح:پچھلی آیت میں ایسے منافقین سے جنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا جن کا کفر ظاہر ہو چکا ہو، البتہ اس حکم سے دو قسم کے لوگ مستثنی کئے گئے ہیں، ایک وہ لوگ جو کسی ایسی غیر مسلم قوم کے ساتھ جا ملے ہوں جن سے مسلمانوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہو اور دوسرے وہ لوگ جو جنگ سے بالکل بیزار ہوں نہ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہوں نہ اپنی قوم سے اور چونکہ ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں سے نہیں لڑیں گے تو خود ان کی قوم ان سے لڑے گی، اس لئے وہ مسلمانوں کے پاس آ جاتے ہیں، ان کے بارے میں بھی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے خلاف کاروائی نہ کریں، یہاں تک منافقین کی تین قسمیں ہو گئیں۔

(توضیح القرآن)

اب تم اور لوگ پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ وہ تم سے (بھی) امن میں رہیں اور اپنی قوم سے (بھی)امن میں رہیں، جب کبھی فتنہ(فساد)کی طرف بلائے جاتے ہیں تواس میں پلٹ جاتے ہیں پس اگر تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور نہ ڈالیں تمہاری طرف(پیغام)صلح اور (نہ)روکیں اپنے ہاتھ تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں تم انہیں پاؤ اور یہی لوگ ہیں ہم نے ان پر تمہیں کھلی سند(حجت)دی۔ (۹۱)

تشریح:اوپر کی آیت میں تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر تھا جو واقعۃً جنگ سے بیزار تھے اور مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے تھے، اس آیت میں منافقین کی چوتھی قسم کا ذکر ہے جو جنگ سے بیزار ہونے کے معاملہ میں بھی منافقت سے کام لیتے تھے، ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے جنگ نہیں چاہتے،  لیکن یہ جھوٹا اعلان صرف اس لئے تھا تاکہ مسلمان انہیں قتل کرنے سے باز رہیں،  چنانچہ جب دوسرے کفار انہیں مسلمانو ں کے خلاف کسی سازش کی دعوت دیتے تو یہ اس سازش میں بے دھڑک شریک ہو جاتے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

اور نہیں کسی مسلمان کے (شایاں ) کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے، مگر غلطی سے، اور جو کسی مسلمان کو قتل کرے غلطی سے تو ایک غلام آزاد کرے، اور خون بہا اس کے وارثوں کے حوالے کر دے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ خود مسلمان ہو تو آزاد کرے ایک مسلمان غلام، اور اگر ایسی قوم سے ہو کہ ان کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے تو خون بہا اس کے وارثوں کے حوالہ کر دے اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کر دے، سوجو نہ پائے (میسر نہ ہو) تو دو ماہ لگاتار روزے رکھے، یہ توبہ ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے (۹۲)

تشریح:غلطی سے قتل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کو قتل کرنا مقصود نہیں تھا،  بلکہ یا توبے خیالی میں گولی چل گئی یا مارنا توکسی جانور کو تھا مگر نشانہ خطا ہونے کی وجہ سے کوئی انسان مرگیا، اس کو اصطلاح میں قتل خطا کہتے ہیں، اس کا حکم آیت نے بتایا ہے کہ ایک تو قاتل پر کفارہ واجب ہوتا ہے اور ایک دیت، کفارہ یہ ہے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے اور اگر غلام میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں، اور دیت کی مقدار احادیث میں سواونٹ یا دس ہزار دینار مقرر کی گئی ہے۔

فَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ:اس سے مراد وہ مسلمان ہے جو دار الحرب میں رہتا ہو، اگر اسے غلطی سے قتل کر دیا جائے تو صرف کفارہ واجب ہے، دیت واجب نہیں ہے۔

وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ:مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا غیر مسلم غلطی سے قتل ہو جائے جومسلم ریاست کا شہری بن کر امن سے رہتا ہے (جسے اصطلاح میں ذمی کہتے ہیں )تواس میں بھی دیت اور کفارہ اسی طرح واجب ہیں جیسے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر واجب ہوتے ہیں۔

( توضیح القرآن)

 

اور جو کوئی کسی مسلمان کو دانستہ قتل کر دے تواس کا سزا جہنم ہے، وہ ہمیشہ رہے گا اس میں، اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا، اور اس کی لعنت اور اس کے لئے (اللہ نے )بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے (۹۳)

تشریح:یعنی اگر ایک مسلمان دوسرے کو غلطی سے نہیں بلکہ قصداً اور مسلمان معلوم کرنے کے بعد قتل کرے گا تو اس کے لئے آخرت میں جہنم اور لعنت اور عذاب عظیم ہے کفارہ سے اس کی رہائی نہیں ہو گی۔ باقی رہی دنیاوی سزا وہ سورہ بقرہ میں گزر چکی۔

فائدہ:  جمہور علماء کے نزدیک خلود اس کے لئے ہے جو مسلمان کے قتل کو حلال سمجھے کیونکہ اس کے کفر میں شک نہیں یا خلود سے مراد یہ ہے کہ مدت دراز تک جہنم میں رہے گا یا وہ شخص مستحق تو اسی سزا کا ہے آگے اللہ مالک ہے جو چاہے کرے۔ واللہ اعلم.

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے )سفر کرو تو تحقیق کر لا کرو اور جو تمہیں سلام کرے اسے نہ کہو تومسلمان نہیں ہے، تم چاہتے ہو دنیا کی زندگی کا سامان، پھر اللہ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں، تم اسی طرح تھے اس سے پہلے، تو اللہ نے تم پر احسان کیا سوتحقیق کر لیا کرو بیشک جو تم کرتے ہو اسے سے اللہ خوب باخبر ہے (۹۴)

تشریح:اللہ کے راستے میں سفر کرنے سے مراد جہاد کے لئے سفر کرنا ہے، ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا کہ ایک جہاد کے دوران کچھ غیر مسلموں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے لئے صحابہ کرام کو سلام کیا، وہ صحابہ یہ سمجھے کہ ان لوگوں نے صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کیا ہے اور حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہوئے، چنانچہ انہوں نے ایسے لوگوں کو قتل کر دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ اصول بیان کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے اسلام لائے اور اسلام کے تمام ضروری عقائد کا اقرار کر لے توہم اسے مسلمان ہی سمجھیں گے اور اس کے دل کا حال اللہ پر چھوڑیں گے، لیکن یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آیت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کھلے کھلے کفریہ عقائد رکھتا ہو تو صرف السلام علیکم کہہ دینے کی بنا پر اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔

شروع میں تم بھی غیر مسلم ہی تھے، اللہ تعالی نے فضل فرمایا اور تم مسلمان ہوئے، مگر تمہارے زبانی اقرار کے سوا تمہارے سچا مسلمان ہونے کی کوئی دلیل نہیں تھی، تمہارے ظاہری اقرار ہی کی بنا پر تمہیں مسلمان مانا گیا۔

(توضیح القرآن)

 

بغیر عذر بیٹھ رہنے والے مسلمان، اور وہ برابر نہیں جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے ہیں، اللہ نے فضیلت دی درجہ میں، اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر، اور ہر ایک کو اللہ نے اچھا وعدہ دیا ہے، اور اللہ نے مجاہدوں کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اجر عظیم (کے اعتبار سے )(۹۵)

اس کی طرف سے درجے ہیں اور بخشش اور رحمت ہے اور اللہ ہے بخشنے والا مہربان(۹۶)

تشریح:یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو، ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، البتہ جہاں جہاد فرض عین ہو جائے یعنی مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک وہ لوگ جن کی فرشتے جان نکالتے ہیں (اس حال میں کہ وہ)ظلم کرتے تھے اپنی جانوں پر، وہ (فرشتے ) کہتے ہیں تم کس حال میں تھے ؟وہ کہتے ہیں کہ ہم بے بس تھے اس ملک میں، (فرشتے )کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی پس تم اس میں ہجرت کر جاتے سو یہی لوگ ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ پہنچنے  (پلٹنے ) کی بری جگہ ہے (۹۷)

۹۸؟؟؟؟

سو امید ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ معاف فرمائے اور اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے (۹۹)

تشریح:اپنی جان پر ظلم کرنا قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کر کے انسان اپنی جان ہی کو نقصان پہنچاتا ہے، آیت نمبر:۹۷ میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قدرت کے باوجود مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی، جب مسلمانوں کے لئے ہجرت کا حکم آ گیا تھا تو مکہ میں رہنے والے ہر مسلمان پر شرعاً فرض تھا کہ وہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرے،  بلکہ اس کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا تھا، اور اگر کوئی شخص قدرت کے باوجود ہجرت نہ کرتا تو اسے مسلمان قرار نہیں دیا جاتا تھا، اس آیت میں ایسے ہی بعض لوگوں کا ذکر ہے کہ جب فرشتے ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے تو ان کے ساتھ کیا مکالمہ ہوا، چونکہ یہ لوگ ہجرت کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے مسلمان نہیں رہے تھے اس لئے ان کے بارے میں دوزخی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے، البتہ جو لوگ کسی مجبوری کی بنا پر ہجرت سے قاصر رہے تھے ان کا استثناء بھی کر دیا گیا ہے کہ معذوری کی وجہ سے وہ قابل معافی ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے وہ پائے گا زمین میں بہت  (وافر) جگہ اور کشادگی اور جو اپنے گھر سے ہجرت کر کے نکلے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھر اس کو موت آ پکڑے تواس کا اجر اللہ پر ثابت ہو گیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (۱۰۰)

تشریح:اس آیت میں ہجرت کی ترغیب ہے اور مہاجرین کو تسلی دی جاتی ہے یعنی جو شخص اللہ کے واسطے ہجرت کرے گا اور اپنا وطن چھوڑے گا تو اس کو رہنے کے لئے بہت جگہ ملے گی اور اس کی روزی اور معیشت میں فراخی ہو گی تو ہجرت کرنے میں اس سے مت ڈرو کہ کہاں رہیں گے اور کیا کھائیں گے اور یہ بھی خطرہ نہ کرو کہ شاید راستہ میں موت آ جائے تو ادھر کے ہوں نہ ادھر کے کیونکہ اس صورت میں بھی ہجرت کا پورا ثواب ملے گا اور موت تو اپنے وقت ہی پر آنی ہے وقت مقرر سے پہلے نہیں آسکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب تم ملک میں سفر کرو، پس نہیں تم پر کوئی گناہ کہ تم نماز قصر کرو(کم کر لو)اگر تم کو ڈر ہو کہ تم کو ستائیں گے کافر، بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (۱۰۱)

جب تم جہاد وغیرہ کے لئے سفر کرو اور کافروں سے جو کہ تمہارے صریح دشمن ہیں اس کا خوف ہو کہ وہ موقع پا کر ستائیں گے تو نماز کو مختصر رکھو یعنی جو نماز حضر میں چار رکعت کی ہو اس کی دو رکعت پڑھو۔

فائدہ:   ہمارے یہاں سفر تین منزل کا ہونا ضروری ہے اس سے کم ہو گا تو قصر جائز نہ ہو گا اور کافروں کے ستانے کا ڈر اس وقت موجود تھا جب یہ حکم نازل ہوا۔ جب یہ ڈر جاتا رہا تو اس کے بعد بھی آپﷺ سفر میں دو رکعت ہی پڑھتے رہے اور صحابہ کو بھی اسی کی تاکید فرمائی۔ اب ہمیشہ سفر میں قصر کرنے کا حکم ہے خوف مذکور ہو یا نہ ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے شکریہ کے ساتھ قبول کرنا لازم ہے جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب آپ ان میں موجود ہوں پھر ان کے لئے نماز قائم کریں (نماز پڑھانے لگیں )تو چاہئے کہ ان میں سے ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہو اور چاہئے کہ وہ اپنے ہتھیار لے لیں، پھر جب وہ سجدہ کر لیں تو تمہارے پیچھے ہو جائیں، اور اب آئے دوسری جماعت(جس نے )نماز پڑھی، پس وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور چاہئے کہ وہ لئے رہیں اپنا بچاؤ اور اپنا اسلحہ، کافر چاہتے ہیں کہ کہیں تم اپنے ہتھیار سے غافل ہو اور اپنے سامان سے، تو تم پر یکبارگی جھک پڑیں (حملہ کر دیں )اور تم پر گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کے سبب تکلیف ہو یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ اتار رکھو اور اپنا بچاؤ لے لو، بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلت والا عذاب تیار کر رکھا ہے (۱۰۲)

تشریح:پہلے نماز سفر کا بیان تھا یہ نماز خوف کا بیان ہے، یعنی کافروں کی فوج مقابلہ میں ہو تو مسلمانوں کی فوج دو حصے ہو جائے، ایک حصہ امام کے ساتھ آدھی نماز پڑھ کر دشمن کے مقابلہ میں جا کر کھڑا ہو جائے، دوسرا حصہ آ کر امام کے ساتھ نصف باقی پڑھ لے۔ امام کے سلام کے بعد دونوں جماعتیں اپنی آدھی نماز رہی ہوئی جدا جدا پڑھ لیں۔ اگر مغرب کی نماز ہو تو اول جماعت دو رکعت اور دوسری جماعت ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے اور اس حالت میں نماز کے اندر آمد و رفت معاف ہے اور تلوار زرہ سپر وغیرہ کے اپنے ساتھ رکھنے کا بھی ارشاد فرمایا تاکہ کفار موقع پا کر یکبارگی حملہ نہ کر دیں۔

اگر بارش یا بیماری اور ضعف کی وجہ سے ہتھیار کا اٹھانا مشکل ہو تو ایسی حالت میں ہتھیا اتار کر رکھ دینے کی ا جازت ہے لیکن اپنا بچاؤ کر لینا چاہیے مثلاً زرہ سپر خود ساتھ لے لو۔

فائدہ:  اگر دشمنوں کے خوف سے اتنی مہلت بھی نہ ملے کہ نماز خوف بصورت مذکورہ ادا کر سکیں تو جماعت موقوف کر کے تنہا تنہا نماز پڑھ لیں پیادہ ہو کر اور سواری سے اترنے کا بھی موقع نہ ملے تو سواری پر اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ اگر اس کی مہلت نہ ملے تو پھر نماز کو قضا کر دیں۔

اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق تدبیر اور احتیاط اور اہتمام کے ساتھ کام کرو اور اللہ کے فضل سے امید رکھو وہ کافروں کو تمہارے ہاتھ سے ذلیل و خوار کرا دے گا، کافروں سے خوف مت کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے، پھر جب تم مطمئن(خاطر جمع)ے ہو جاؤ تو(حسب دستور)نماز قائم کرو، بیشک نماز مؤمنوں پر (بقید وقت) مقررہ اوقات میں فرض ہے۔ (۱۰۳)

تشریح:یعنی خوف کے وقت بوجہ تنگی اور بے اطمینانی اگر نماز میں کسی طرح کی کوتاہی ہو گئی تو نماز خوف سے فراغت کے بعد ہر وقت اور ہر حالت میں کھڑے ہو یا بیٹھے یا لیٹے اللہ کو یاد کرو حتیٰ کہ عین ہجوم اور مقاتلہ کے وقت بھی کیونکہ وقت کی تعیین اور دیگر قیود کی پابندی تو بحالت نماز تھی جن کی وجہ سے تنگی اور بے اطمینانی پیش آنے کا موقع ہے۔ اس کے سوا ہر حالت میں بلا دقّت اللہ کو یاد کر سکتے ہو کسی حالت میں اس کی یادسے غافل نہ رہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا کہ صرف وہ شخص کہ جس کے عقل و حواس کسی وجہ سے مغلوب ہو جائیں البتہ معذور ہے ورنہ کوئی شخص اللہ کی یاد نہ کرنے میں معذور نہیں۔

جب خوف مذکور جاتا رہے اور خاطر جمع ہو جائے تو پھر جو نماز پڑھو اطمینان اور تعدیل ارکان اور رعایت شروط اور محافظت آداب کے ساتھ پڑھو جیسا کہ امن کی حالت میں پڑھنی چاہیے اور جن حرکات زائدہ کی اجازت دی گئی وہ حالت خوف کے ساتھ مخصوص ہیں۔

بیشک نماز فرض ہے وقت معین میں، سفر، حضر، اطمینان، خوف ہر حالت میں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہے، یہ نہیں کہ جب چاہو پڑھ لو یا یہ مطلب ہے کہ نماز کے متعلق حق تعالیٰ نے پورا، ضبط اور تعین فرما دیا ہے کہ حضر میں کیا ہونا چاہیے اور سفر میں کیا، اطمینان میں کیا کرنا چاہیے اور خوف میں کیا۔ سو ہر حالت میں اس کی پابندی چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کفار کا پیچھا(تعاقب) کرنے میں ہمت نہ ہارو، اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے تو بیشک انہیں (بھی) دکھ پہنچتا ہے جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے اور تم اللہ سے امید رکھتے ہو جو وہ امید نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے (۱۰۴)

تشریح:یعنی کفار کی جستجو اور ان کے تعاقب میں ہمت سے کام لو اور کوتاہی نہ کرو۔ اگر تم کو ان کی لڑائی سے زخم اور درد پہنچا ہے تو اس تکلیف میں تو وہ بھی شریک ہیں اور آئندہ تم کو حق تعالیٰ سے وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں یعنی دنیا میں کفار پر غلبہ اور آخرت میں ثواب عظیم اور اللہ تعالیٰ تمہارے مصالح اور تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے اس کا جو حکم ہے اس میں تمہارے لئے بڑے منافع اور حکمتیں ہیں دین اور دنیا دونوں کے لئے۔ سو اس کے امتثال کو غنیمت اور بڑی نعمت سمجھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی سچی، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیں جو آپ کو اللہ دکھا دے (سوجھادے) اور آپ نہ ہوں دغا بازوں کے طرفدار(۱۰۵)

اور اللہ سے بخشش مانگیں بیشک اللہ ہے بخشنے والا مہربان(۱۰۶)

آپ ان لوگوں کی طرف سے نہ جھگڑیں جو اپنے تئیں خیانت کرتے ہیں، بیشک اللہ اسے دوست نہیں رکھتا جو خائن (دغا باز) گنہ گار ہو(۱۰۷)

وہ لوگوں سے چھپتے (شرماتے ) ہیں اور اللہ سے نہیں چھپتے  (شرماتے ) حالانکہ وہ ان کے ساتھ ہے جبکہ وہ راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ جو بات (اللہ کو) پسند نہیں، اور جو وہ کرتے ہیں اللہ اسے احاطہ کئے  (گھیرے ہوئے )ہے (۱۰۸)

ہاں (سنو) تم وہ لوگ ہو تم نے ان(کی طرف)سے دنیوی زندگی میں جھگڑا کیا، سوکون اللہ سے جھگڑے گا روز قیامت ان کی طرف سے، یا کون ان کا وکیل ہو گا؟(۱۰۹)

اور جو کوئی کرے برا کام یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش چاہے رو وہ اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا(۱۱۰)

اور جو کوئی گناہ کمائے تو وہ فقط اپنی جان پر(اپنے حق میں )کماتا ہے اور اللہ ہے جاننے والا حکمت والا(۱۱۱)

اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اس کی تہمت لگا دے کسی بے گناہ پر تواس نے بھاری بہتان اور صریح (کھلا)گناہ لادا(۱۱۲)

تشریح:یہ آیتیں اگرچہ عام ہدایتوں پر مشتمل ہیں مگر ایک خاص واقعے میں نازل ہوئی ہیں، خاندان بنو ابیرق کے ایک شخص بشر نے جو ظاہری طور پر مسلمان تھا، ایک صحابی حضرت رفاعہؓ کے گھر میں نقب لگا کر کچھ غلہ اور کچھ ہتھیار چرا لئے، اور لے جاتے وقت ہوشیاری یہ کی کہ غلے کی بوری کا منہ اس طرح کھولا کہ تھوڑا تھوڑا غلہ راستے میں گرتا جائے یہاں تک کہ ایک یہودی کے گھر کے دروازے پر پہنچ کر بوری کا منہ بند کر دیا اور بعد میں چوری کئے ہوئے ہتھیار اسی یہودی کے پاس رکھوا دئے، جب چوری کی تفتیش شروع ہوئی تو ایک طرف غلے کے نشانات یہودی کے گھر تک پائے گئے اور دوسری طرف ہتھیار اسی کے پاس سے برآمد ہوئے، اس لئے شروع میں آنحضرتﷺ کا خیال یہ ہونے لگا کہ یہ چوری اسی یہودی نے کی ہے، یہودی سے پوچھا گیا تواس نے کہا کہ ہتھیار تو میرے پاس بشر نامی شخص نے رکھوائے تھے، مگر چونکہ وہ اس پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکا تھا، اس لئے آپ کا رجحان اس طرف ہونے لگا کہ وہ جان بچانے کے لئے بشر کا نام لے رہا ہے، دوسری طرف بشر کے خاندان بنو ابیرق کے لوگ بھی بشر کی وکالت کرتے ہوئے اس بات پر زور لگا رہے تھے کے سزا بشر کے بجائے یہودی کو دی جائے، ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ یہ آیات کریمہ نازل ہو گئیں اور ان کے ذریعے بشر کی دھوکہ بازی کا پردہ چاک کر دیا گیا اور یہودی کو بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا گیا، بشر کو جب راز فاش ہونے کا پتہ لگا رو وہ فرار ہو کر کفار مکہ سے جا ملا اور وہاں کفر کی حالت میں بری طرح اس کی موت واقع ہوئی، ان آیات کے ذریعے ایک طرف تو معاملے کی اصل حقیقت آنحضرتﷺ پر کھول دی گئی، اس کے علاوہ مقدمات کے فیصلے کرنے کے لئے اہم اصول بتا دئے گئے ہیں، پہلا اصول یہ کہ تمام فیصلے کتاب اللہ کے احکام کے تابع ہونے چاہئیں، دوسرا اصول یہ کہ اللہ تعالی اپنے پیغمبرﷺ پر بہت سے ایسے امور کھولتے رہتے ہیں جو صراحۃً قرآن میں مذکور نہیں ہیں، فیصلے ان کی روشنی میں ہونے چاہئیں، آیت کے الفاظ اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں سمجھادیا ہے، اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ان سے قرآن کریم کے علاوہ آنحضرتﷺ کی سنت کی حجیت کا بھی ثبوت ملتا ہے، تیسرا اصول یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ کسی مقدمے میں غلطی پر ہے، اس کی وکالت کرنا جائز نہیں ہے، بنو ابیرق جو بشر کی وکالت کر رہی تھی ان کی تنبیہ کی گئی ہے کہ اول تو یہ وکالت جائز نہیں دوسرے اس کا فائدہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ دنیا میں پہنچ سکتا ہے آخرت میں تمہاری وکالت اس کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ پر نہ ہوتی تو ان کی ایک جماعت نے قصد کر ہی لیا  تھا کہ آپ کو بہکا دیں اور وہ نہیں بہکا رہے ہیں مگر اپنے آپ کو، اور آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتے اور اللہ نے آپ پر نازل کی کتاب اور حکمت اور آپ کو سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے اور ہے آپ پر اللہ کا بڑا فضل(۱۱۳)

تشریح:اس میں خطاب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی طرف اور اظہار ہے ان خائنوں کے فریب کا اور بیان ہے آپ کی عظمت شان اور عصمت کا اور اس کا کہ آپ کمال علمی میں جو کہ تمام کمالات سے افضل اور اول ہے سب سے فائق ہیں اور اللہ کا فضل آپ پر بے نہایت ہے جو ہمارے بیان اور ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا اور اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آپ کو جو چور کی براءت کا خیال ہوا تھا وہ ظاہر حال کو دیکھ کر اور اقوال و شہادات کو سن کر اور اس کو سچ سمجھ کر ہو گیا تھا میلان عن الحق یا مداہنت فی الحق ہرگز ہرگز اس کا باعث نہ تھا اور اتنی بات میں کچھ برائی نہ تھی بلکہ یہی ہونا ضروری تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حقیقت الامر ظاہر ہو گئی کوئی خلجان باقی نہ رہا اور ان سب باتوں سے مقصود یہ ہے کہ آئندہ کو وہ فریب باز تو آپ کے بہکانے اور دھوکا دینے سے رک جائیں اور مایوس ہو جائیں اور آپ اپنی عظمت اور تقدس کے موافق غور اور احتیاط سے کام لیں۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کے اکثر مشوروں (سرگوشیوں ) میں کوئی بھلائی نہیں مگر یہ کہ جو حکم دے خیرات کا یا اچھی بات کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرانے کا اور جو یہ کرے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سوہم عنقریب اسے بڑا ثواب دیں گے۔ (۱۱۴)

تشریح:منافق اور حیلہ گر آ کر آپ سے کان میں باتیں کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں اپنا اعتبار بڑھائیں اور مجلس میں بیٹھ کر آپس میں بیہودہ سرگوشی کیا کرتے کسی کی عیب جوئی، کسی کی غیبت، کسی کی شکایت کرتے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ جو لوگ باہم کانوں میں مشاورت کرتے ہیں اکثر مشورے خیر سے خالی ہوتے ہیں۔ صاف اور سچی باتوں کو چھپانے کی حاجت نہیں اس میں کوئی فریب ہوتا ہے۔ البتہ چھپائے تو صدقہ اور خیرات کی بات کو چھپائے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو، یا کسی ناواقف کو غلطی سے بچائے اور اس کو اچھی بات اور وہ صحیح مسئلہ بتائے تو چھپا کر بتائے تاکہ اس کو ندامت نہ ہو، یا دو میں لڑائی ہو اور غصہ والا جوش میں صلح نہیں کرتا تو اول کوئی تدبیر بنا کر پھر اس کو سمجھائے حتیٰ کہ تو ریہ کی بھی اجازت ہے۔ آخر میں فرما دیا کہ جو کوئی امور مذکور کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے کرے گا اس کو بڑا عظیم الشان ثواب عنایت ہو گا، یعنی ریا کاری یا کسی اور غرض دنیاوی کے لئے نہ ہونا چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو کوئی اس کے بعد رسول کی مخالفت کرے جب کہ اس پر ہدایت ظاہر ہو چکی اور سب مؤمنوں کے راستے کے خلاف چلے ہم اس کے حوالے کر دیں گے جو اس نے اختیار کیا اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور یہ پلٹنے کی بری جگہ ہے (۱۱۵)

تشریح:یعنی جب کسی کو حق بات واضح ہو چکے پھر اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرے اور سب مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جدا راہ اختیار کرے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے جیسا کہ اس چور نے کیا جس کا ذکر ہو چکا۔ بجائے اس کے کہ قصور کا اعتراف کر کے توبہ کرتا یہ کیا کہ ہاتھ کٹنے کے خوف سے مکہ بھاگ گیا اور مشرکین میں مل گیا۔

فائدہ: اکابر علماء نے اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکالا کہ اجماع امت کا مخالف اور منکر جہنمی ہے، یعنی اجماع امت کو ماننا فرض ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کا ہاتھ ہے مسلمانوں کی جماعت پر جس نے جدا راہ اختیار کی وہ دوزخ میں جا پڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اللہ اس کو نہیں بخشتا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور بخش دے گا اس کو سوا جس کو چاہے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا سو وہ گمراہ ہوا، گمراہی میں بہت دور کی(۱۱۶)

تشریح:یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالی جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کر کے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرے اور توحید پر ایمان لے آئے۔

(توضیح القرآن)

 

اس کے سوا نہیں پکارتے  (پرستش کرتے ) مگر عورتوں  کو اور نہیں پکارتے مگر سرکش شیطان کو(۱۱۷)

اللہ نے اس پر لعنت کی، اس (شیطان) نے کہا میں تیرے بندوں سے اپنا حصہ ضرور لوں گا مقررہ۔ (۱۱۸)

تشریح:کفار مکہ جن من گھڑت دیویوں کو پوجتے تھے ان سب کو مؤنث سمجھتے تھے، لات، منات، عزی سب کو مؤنث سمجھا جاتا تھا، نیز فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، آیت میں اشارہ یہ ہے کہ ایک طرف تو کفار مکہ عورتوں کو کمتر مخلوق سمجھتے ہیں اور دوسری طرف جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ ان کے خیال کے مطابق  سب مؤنث ہیں

(توضیح القرآن)

 

اور میں انہیں ضرور بہکاؤں گا ضرور امیدیں دلاؤں گا اور انہیں سکھاؤں گا رو وہ ضرور چیریں گے  (بتوں کی خاطر) جانوروں کے کان اور میں انہیں سکھاؤں گا رو وہ اللہ کی(بنائی ہوئی)صورتیں بدلیں گے، اور جو بنائے اللہ کے سوا شیطان کو دوست رو وہ صریح نقصان میں پڑ گیا(۱۱۹)

تشریح:کفارِ عرب بعض چوپایوں کے کان چیر کر بتوں کے نام پر وقف کر دیتے تھے اور ایسے جانور سے کوئی فائدہ اٹھانے کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اس باطل رسم کی طرف اشارہ ہے کہ اس پر شیطان عمل کرا رہا ہے، اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی سے مراد خود یہی عمل بھی ہوسکتا ہے کہ جانور کے کان خوامخواہ چیر دئے جائیں، اس کے علاوہ ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے بعض ان کاموں کو بھی تخلیق میں تبدیلی قرار دے کر منع فرمایا ہے جو عورتیں اپنے حسن میں اضافہ کرنے کی غرض سے کیا کرتی تھیں، مثلاً جسم کے کسی حصے کو سوئیوں وغیرہ سے گود کر نشانات بنوانا، چہرے کے قدرتی رویں کو(جو عیب کی حد تک بڑھا ہوا نہ ہو)صاف کرنا اور دانتوں کے درمیان مصنوعی فاصلہ کروانا۔

(توضیح القرآن)

 

وہ ان کو وعدہ دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں وعدہ نہیں دیتا مگر صرف فریب(نرا دھوکہ)(۱۲۰)

یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی جگہ نہ پائیں گے (۱۲۱)

تشریح:یعنی جب شیطان کی خباثت و شرارت اور اس کی عداوت کی کیفیت خوب معلوم ہو چکی تو اب اس میں کچھ شک نہ رہا کہ اپنے سچے معبود سے منحرف ہو کر جو کوئی اس کی موافقت کرے گا سخت نقصان میں پڑے گا۔ اس کے تمام وعدے اور امیدیں محض فریب ہیں، نتیجہ یہ ہو گا کہ ان سب کا ٹھکانا دوزخ ہے اس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ہم عنقریب انہیں باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا وعدہ سچا ہے اور کون ہے اللہ سے زیادہ سچا بات میں (۱۲۲)

تشریح:یعنی وہ لوگ جو شیطان کی خرابی سے محفوظ ہیں اور ارشاد خداوندی کے موافق ایمان لائے اور اچھے عمل کئے وہ ہمیشہ کے لئے باغ و بہار میں رہیں گے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے جس سے سچی کسی کی بات نہیں ہوسکتی پھر ایسے سچے وعدہ کو چھوڑ کر شیطان کی جھوٹی باتوں میں آنا کس قدر گمراہی اور کتنی بڑی مضرت کو سر پر لینا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

(عذاب و ثواب) نہ تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو کوئی برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اپنے لئے نہیں پائے گا اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار(۱۲۳)

اور جو اچھے کام کرے گا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر تل برابر ظلم نہ ہو گا(۱۲۴)

اور کس کا دین اس سے بہتر جس نے اپنا منہ اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ  نیکو کار بھی ہے اور اس نے ایک کے ہو رہنے والے ابراہیم کے دین کی پیروی کی اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنایا (۱۲۵)

اور اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کو احاطہ کئے ہوئے ہے (۱۲۶)

تشریح:خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں : اخلاص اور حسن عمل، اور حسن عمل نام ہے اتباع سنت رسولﷺ کا، اس لئے اخلاص کے ساتھ حسن عمل کرنے والوں کا یہ بھی فرض ہے کہ عمل کرنے سے پہلے یہ معلوم کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل کو کس طرح کیا ہے اور اس کے متعلق کیا ہدایتیں دی ہیں، ہمارا جو عمل سنت کے طریقہ سے ہٹے گا نا مقبول ہو گا، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات و خیرات اور ذکر اللہ اور درود وسلام سب میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس عمل کو کس طرح طرح انجام دیا اور کس طرح کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے، آخر آیت میں اخلاص اور حسن عمل کی ایک مثال حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوہ والسلام  کی پیش کر کے ان کے اتباع کا حکم دیا گیا اور وَاتَّخَذَ اللّٰهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا  فرما کر اس کی طرف اشارہ کر دیا کہ حضرت خلیلؑ کے اس مقام بلند کا سبب یہی ہے کہ وہ مخلص بھی اعلی درجے کے تھے اور ان کا عمل بھی باشارات خداوندی صحیح اور درست تھا۔

(معارف القرآن)

 

آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیں اللہ ان کے بارے میں حکم  (اجازت) دیتا ہے، اور جو تمہیں قرآن مجید میں سنایا جاتا ہے یتیم عورتوں کے بارے میں جنہیں تم نہیں دیتے ان کا مقرر کیا ہوا(مہر) اور نہیں چاہتے کہ ان کو نکاح میں لے لو، اور بے بس بچوں کے بارے میں اور یہ کہ تم یتیموں کے بارہ میں انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھلائی کرو گے تو بیشک اللہ اس کو جاننے والا ہے (۱۲۷)

تشریح:اسلام سے پہلے عورتوں کو معاشرے میں ایک کمتر مخلوق سمجھا جاتا تھا اور ان کے معاشرتی اور معاشی حقوق نہ ہونے کے برابر تھے، جب اسلام نے عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی اور عورتوں کو بھی میراث میں حصہ دار قرار دیا تو یہ بات عربوں کے معاشرے میں اتنی اچنبھی تھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے رہے کہ عورتوں کو جو حقوق دئے گئے ہیں وہ شاید عارضی نوعیت کے ہیں اور کسی وقت منسوخ ہو جائیں گے، جب ان کی منسوخی کا حکم نہیں آیا تو ایسے حضرات نے آنحضرتﷺ سے پوچھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ احکام عارضی نہیں ہمیشہ کے لئے ہیں، اللہ تعالی نے ان کا حکم دیا ہے اور قرآن کریم کی جو آیات پہلے نازل ہوئی ہیں ان میں بہت سے احکام آ چکے ہیں، اس کے ساتھ مرد و عورت کے باہمی تعلقات کے بارے میں کچھ مزید احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں۔

فِي يَتَامَى النِّسَاءِ :یہ اس ہدایت کی طرف اشارہ ہے جو سورۂ نساء کی آیت نمبر:۳ میں گزری ہے، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ نے اس ہدایت کا پس منظر یہ بتایا ہے کہ بعض اوقات ایک یتیم لڑکی اپنے چچا کے بیٹے کی سرپرستی میں ہوتی تھی، وہ خوبصورت بھی ہوتی اور اس کے باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی اچھا خاصا ہوتا تھا، اس صورت میں اس کا چچازاد یہ چاہتا تھا کہ اس کے بالغ ہونے پر وہ خود اس سے نکاح کر لے،  تاکہ اس کا مال اسی کے تصرف میں رہے،  لیکن نکاح میں وہ اس کو اتنا مہر نہیں دیتا تھا، جتنا اس جیسی لڑکی کو دینا چاہئے، دوسری طرف اگر لڑکی زیادہ خوبصورت نہ ہوتی تواس کے مال کے لالچ میں اس سے نکاح تو کر لیتا تھا،  لیکن نہ صرف یہ کہ اس کا مہر کم رکھتا تھا،  بلکہ اس کے ساتھ ایک محبوب بیوی جیسا سلوک بھی نہیں کرتا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر کوئی عورت ڈرے (اندیشہ کرے ) اپنے خاوند( کی طرف) سے زیادتی کی یا بے رغبتی سے، تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ وہ صلح کر لیں آپس میں اور صلح بہتر ہے اور طبیعتوں میں بخل حاضر کیا گیا ہے (موجود ہوتا ہی ہے ) اور اگر تم نیکی کرو اور پرہیز گاری اختیار کرو تو بیشک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے (۱۲۸)

تشریح:بعض اوقات کسی شوہر کا اپنی بیوی سے دل نہیں ملتا اور وہ اس سے بے رخی اختیار کر کے اسے طلاق دینا چاہتا ہے، اس صورت میں اگر بیوی طلاق پر راضی نہ ہو تو وہ اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو کر شوہر سے صلح کرسکتی ہے، یعنی یہ کہہ سکتی ہے کہ میں اپنے فلاں حق کا مطالبہ نہیں کروں گی، مگر مجھے اپنے نکاح میں رہنے دو، ایسی صورت میں شوہر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ صلح پر آمادہ ہو جائے اور طلاق پر اصرار نہ کرے،  کیونکہ مصالحت کا رویہ ہی بہتر ہے، نیز اگلے جملے میں احسان کی نصیحت فرما کر شوہر کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ دل نہ ملنے کی باوجود بیوی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرتا رہے تواس کے لئے دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری کا ذریعہ ہو گا۔

وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ :مطلب بظاہر یہ ہے کہ ہر انسان کی طبیعت میں دنیوی فائدوں کا کچھ نہ کچھ لالچ ہوتا ہے، اس لئے اگر عورت اپنے کچھ دنیوی مفادات چھوڑ رہی ہے تو شوہر کو یہ سوچنا چاہئے کہ اسے طلاق کی صورت میں کوئی سخت تکلیف پیش آنے کا اندیشہ ہے، اسی لئے وہ اپنے یہ مفادات چھوڑنے پر آمادہ ہوئی ہے، ایسی صورت میں صلح کر لینا بہتر ہے، دوسری طرف بیوی کو یہ سوچنا چاہئے کہ شوہر نے کچھ دنیوی فائدوں کے لئے نکاح کیا تھا جو اس کو میری زوجیت میں حاصل نہیں ہو رہے ہیں، لہذا وہ میری جگہ کسی اور سے نکاح کر کے وہ فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے، اب میں اپنے بعض حقوق سے دستبردارہو کر اسے کچھ دوسرے فوائد مہیا کر دوں رو وہ اس ارادے سے باز آسکتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہر گز نہ کرسکو گے اگرچہ تم بہتیرا چاہو کہ عورتوں کے درمیان برابری رکھو، پس نہ جھک پڑو بالکل( ایک ہی طرف) کہ ایک کو (آدھ میں )لٹکتی ہوئی ڈال رکھو، اور اگر تم اصلاح کرتے رہو اور پرہیزگاری کرو تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (۱۲۹)

تشریح:یعنی یہ بات انسان کے اختیارسے باہر ہے کہ وہ قلبی محبت اور لگاؤ میں بیویوں کے درمیان پوری پوری برابری کرے،  کیونکہ دل کا جھکاؤ انسان کے بس میں نہیں ہوتا،  لہذا اگر ایک بیوی سے دلی محبت دوسری کے مقابلے میں زیادہ ہو تو اس پر اللہ تعالی کی طرف سے پکڑ نہیں ہے،  البتہ عملی سلوک میں برابری کرنا ضروری ہے، یعنی جتنی راتیں ایک کہ پاس گزارے اتنی ہی دوسری کے پاس گزارے، جتنا خرچ ایک کو دے اتنا ہی دوسری کو دے، نیز ظاہری توجہ میں بھی ایسا نہ کرے جس سے کسی بیوی کی دل شکنی ہو اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ بیچ میں لٹکی ہوئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر دونوں (میاں بیوی)جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا اپنی کشائش سے اور اللہ کشائش والا حکمت والا ہے (۱۳۰)

تشریح:مصالحت کی تمام کوششوں کے باوجود ایک مرحلہ ایسا آسکتا ہے کہ اس کے بعد نکاح کا رشتہ میاں بیوی پر تھوپے رکھنا دونوں کی زندگی کو اجیرن بنا سکتا ہے، ایسی صورت میں طلاق اور علیحدگی کا راستہ اختیار کرنا بھی جائز ہے، اور یہ آیت اطمینان دلا رہی ہے کہ جب خوش اسلوبی سے جدائی عمل میں آ جائے تو اللہ تعالی دونوں کے لئے ایسے راستے پیدا کر دیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور اللہ کے لئے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور ہم نے تاکید کر دی ہے ان لوگوں کو جنہیں کتاب دی گئی تم سے پہلے، اور تمہیں (بھی) کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو گے تو بیشک اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اللہ بے نیاز ہے، سب خوبیوں والا ہے۔ (۱۳۱)

اور اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور کافی ہے اللہ کارساز(۱۳۲)

تشریح:یہ جملہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے، ان آیتوں میں تین بار دہرایا گیا ہے، پہلی مرتبہ اس کا مقصد میاں بیوی کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ اللہ کی رحمت کے خزانے بڑے وسیع ہیں وہ دونوں کے لئے کوئی مناسب ذریعہ پیدا کرسکتا ہے، دوسری جگہ اللہ تعالی کی بے نیازی بیان کرنا مقصود ہے کہ کسی کے کفر سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے،  کیونکہ ساری کائنات اس کے تابع فرمان ہے، اسے کسی کی حاجت نہیں ہے، اور تیسری جگہ اللہ تعالی کی رحمت اور کارسازی کا بیان ہے کہ اگر تم تقوی اور اطاعت کا راستہ اختیار کرو رو وہ تمہارے سارے کام بنا دے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اگر اللہ چاہے کہ تمہیں لے جائے (فنا کر دے )اے لوگو! اور دوسروں کو لے آئے (لا بسائے ) اور اللہ اس پر قادر ہے (۱۳۳)

یعنی اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ تم سب کو فنا کر دے اور دنیا سے اٹھا لے اور دوسرے لوگ مطیع و فرمانبردار پیدا کر دے۔ اس سے بھی حق تعالیٰ کا استغنا اور بے نیازی خوب ظاہر ہو گئی اور نافرمانوں کو پوری تہدید اور تخویف بھی ہو گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو کوئی دنیا کا ثواب چاہتا ہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت کا ثواب ہے اور اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے (۱۳۴)

تشریح:اس آیت میں یہ عمومی ہدایت دی گئی ہے کہ ایک مسلمان کو صرف دنیوی فائدوں ہی کی فکر میں نہیں پڑا رہنا چاہئے،  بلکہ اللہ سے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگنی چاہئے اور پچھلی آیتوں سے اس کا تعلق بظاہر یہ ہے کہ میاں بیوی کو مصالحت یا علیحدگی کا فیصلہ کرتے وقت صرف دنیا کے فائدوں پر نظر نہیں رکھنی چاہئے،  بلکہ آخرت کی بھلائی بھی پیش نظر رکھنی چاہئے،  لہذا اگر مرد یا عورت اپنے کچھ دنیوی مفادات کی قربانی دے کر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو آخرت میں بڑے ثواب کی امید ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اے ایمان والو! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہنے والے، اللہ کے لئے گواہی دینے والے، اگرچہ خود تمہارے خلاف یا ماں باپ اور قرابت داروں (کے خلاف) ہو، چاہے کوئی مالدار ہو یا محتاج(بہر حال) اللہ ان کا(سب سے بڑھ کر)خیر خواہ ہے، سو تم خواہش(نفس) کی پیروی نہ کرو انصاف کرنے میں، اور اگر تم (گواہی میں ) زبان دباؤ گے یا پہلوتہی کرو گے تو بیشک اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو(۱۳۵)

تشریح:گواہی سچی اور اللہ کے حکم کے موافق دینی چاہیے اگرچہ اس میں تمہارا یا تمہارے کسی عزیز قریب کا نقصان ہوتا ہو جو حق ہو اس کو صاف ظاہر کر دینا چاہیے، دنیاوی نفع کے لئے آخرت کا نقصان نہ لو۔

سچی گواہی دینے میں اپنی کسی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ مالدار کی رعایت کر کے یا محتاج پر ترس کھا کر سچ کو چھوڑ بیٹھو جو حق ہو سو کہو۔ اللہ تعالیٰ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ اور ان کے مصالح سے واقف ہے اور اس کے یہاں کس چیز کی کمی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو! تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی (قرآن)  اور ان کتابوں پر جو اس سے قبل نازل کیں اور جو انکار کرے اللہ کا اور اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور روز آخرت کا، تو بھٹک گیا دور کی گمراہی میں (۱۳۶)

یعنی جو اسلام قبول کرے اس کو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر دل سے یقین لائے۔ اس کے ارشادات میں سے اگر کسی ایک ارشاد پر بھی یقین نہ لائے گا تو وہ مسلمان نہیں۔ صرف ظاہری اور زبانی بات کا اعتبار نہیں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر کفر میں بڑھتے رہے اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا اور نہ دکھائے گا راہ۔ (۱۳۷)

تشریح:یعنی ظاہر میں تو مسلمان ہوئے اور دل میں مذبذب رہے اور آخر کو بے یقین لائے ہی مر گئے ان کو نجات کا راستہ نہیں ملے گا وہ کافر ہیں۔ ظاہر کی مسلمانی کچھ کام نہ آئے گی۔ اس سے مراد منافقین ہیں اور بعض فرماتے ہیں کہ یہ آیت یہودیوں کی شان میں ہے کہ اول ایمان لائے پھر گو سالہ کی عبادت کر کے کافر ہو گئے، پھر توبہ کر کے مومن ہوئے، پھر عیسٰی علیہ السلام سے منکر ہو کر کافر ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کر کے کفر میں ترقی کر گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

منافقوں کو خوشخبری دیں کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے (۱۳۸)

جو لوگ مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟بیشک ساری عزت اللہ ہے کے لئے ہے۔ (۱۳۹)

تشریح:یعنی منافق لوگ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا یہ خیال کہ کافروں کے پاس بیٹھ کر ہم کو دنیا میں عزت ملے گی بالکل غلط ہے۔ سب عزت اللہ تعالیٰ کے واسطے ہے جو اس کی اطاعت کرے گا اس کو عزت ملے گی۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و خوار رہیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق(اللہ)کتاب (قرآن) میں تم پر(یہ حکم) اتار چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ مشغول ہوں اس کے سوا کسی اور بات میں، یقیناً اس صورت میں تم ان جیسے ہو گے، بیشک اللہ جمع کرنے والا ہے تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں (ایک جگہ)(۱۴۰)

تشریح:یعنی اے مسلمانو! خدا تعالیٰ پہلے قرآن شریف میں تم پر حکم بھیج چکا ہے کہ جس مجلس میں احکام خداوندی کا انکار اور تمسخر کیا جاتا ہو وہاں ہرگز نہ بیٹھو، ورنہ تم بھی ویسے ہی سمجھے جاؤ گے البتہ جس وقت دوسری باتوں میں مشغول ہوں تو اس وقت ان کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت نہیں۔ منافقوں کی مجالس میں آیات و احکام الہٰی پر انکار و استہزاء ہوتا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ جو فرمایا کہ حکم اتار چکا تم پر یہ اشارہ ہے آیت وَاِذَارَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ اٰ یٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ الیٰ آخرہ کی طرف جو پہلے نازل ہو چکی تھی۔

فائدہ:  اس سے معلوم ہو گیا کہ جو شخص مجلس میں اپنے دین پر طعنہ اور عیب سنے اور پھر انہی میں بیٹھا سنا کرے اگرچہ آپ کچھ نہ کہے وہ منافق ہے۔

 

جو لوگ تکتے (انتظار کرتے ) رہتے ہیں تمہارا، پھر اگر تم کو اللہ کی طرف سے فتح ہوتو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کے لئے حصہ ہو(فتح ہو)تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں آئے تھے اور ہم نے تمہیں بچایا تھامسلمانوں سے، سواللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور ہر گز نہ دے گا اللہ کافروں کو مسلمانوں پر راہ(غلبہ)۔ (۱۴۱)

تشریح:یعنی یہ منافق وہ ہیں جو برابر تمہاری تاک اور انتظار میں لگے رہتے ہیں۔ پھر اگر تمہاری فتح ہو تو تم سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں مال غنیمت میں ہم کو بھی شریک کرو اور اگر کافروں کو لڑائی میں کچھ حصہ مل گیا یعنی وہ غالب ہوئے تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہ لیا تھا اور تمہاری حفاظت نہیں کی اور ہم نے کیا تم کو مسلمانوں کے ضرر سے نہیں بچایا۔ لوٹ میں ہم کو بھی حصہ دو۔

فائدہ:اس سے معلوم ہوا کہ دین حق پر ہو کر گمراہوں سے بھی بنائے رکھنا یہ بھی نفاق کی بات ہے۔

اللہ تعالیٰ تم میں اور ان میں حکم فیصل فرما وے گا کہ تم کو جنت دے گا اور ان کو جہنم میں ڈالے گا، دنیا میں جو کچھ ان سے ہو سکے کر دیکھیں مگر اہل ایمان کی بیخ کنی ہرگز نہ کر سکیں گے جو ان کی دلی تمنا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک منافق دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو اور وہ ان کو دھوکہ(کا جواب) دے گا، اور جب نماز کو کھڑے ہوں توسستی سے کھڑے ہوتے ہوں، وہ دکھاتے ہیں لوگوں کو اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم(۱۴۲)

یعنی دل سے کافر ہیں اور ظاہر میں مسلمان تاکہ دونوں طرف کی مضرت اور ایذا سے محفوظ رہیں اور دونوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کی اس دغا بازی کی یہ سزادی کہ ان کی تمام شرارتوں اور مخفی خباثتوں کو اپنے نبی پر ظاہر فرما کر ایسا ذلیل کیا کہ کسی قابل نہ رہے اور سب دغا بازی مسلمانوں پر کھل گئی اور آخرت میں جو اس کی سزا ملے گی وہ بھی ظاہر فرما دی،  چنانچہ آیات آئندہ میں ذکر آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان کی دھو کہ بازی سے تو کچھ نہ ہوا اور اللہ نے ان کو ایسا دھو کہ میں ڈالا کہ دنیا اور آخرت دونوں غارت ہوئیں۔

نماز جو نہایت ضروری اور خالص عبادت ہے اور اس کے ادا کرنے میں جانی مالی کسی مضرت کا بھی اندیشہ نہیں منافق لوگ اس سے بھی جان چراتے ہیں بمجبوری لوگوں کے دکھانے کو اور دھو کہ دینے کو پڑھ لیتے ہیں کہ ان کے کفر کی کسی کو اطلاع نہ ہو اور مسلمان سمجھے جاویں۔ پھر ایسوں سے اور کسی بات کی کیا توقع ہوسکتی ہے اور وہ کیسے مسلمان ہو سکتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے درمیان اَدھر میں لٹکے ہوئے ہیں نہ ان کی طرف نہ ان کی طرف اور جس کو اللہ گمراہ کرے تو ہرگز اس کے لئے نہ پائے گا کوئی راہ۔ (۱۴۳)

تشریح:یعنی منافقین تو بالکل تردّد اور حیرت میں گرفتار ہیں۔ نہ ان کو اسلام پر اطمینان ہے نہ کفر پر، سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کبھی ایک طرف جھکتے ہیں کبھی دوسری طرف اور اللہ جس کو بھٹکانا اور گمراہ کرنا چاہے اس کو نجات کا راستہ کہاں مل سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان اولو! کافروں کو دوست نہ بناؤ سوائے مسلمانوں کے، کیا تم چاہتے ہو کہ تم اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو؟(۱۴۴)

بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔ (۱۴۵)

تشریح:یعنی مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کرنا دلیل ہے نفاق کی جیسا کہ منافقین کرتے ہیں۔ سو تم اے مسلمانو، ایسا ہرگز مت کرنا ورنہ خداوند تعالیٰ کا صریح الزام اور پوری حجت تم پر قائم ہو جائے گی کہ تم بھی منافق ہو اور منافقوں کے لئے دوزخ کا سب سے نیچا طبقہ مقرر ہے اور کوئی ان کا مددگار بھی نہیں ہو سکتا کہ اس طبقہ سے ان کو نکالے یا عذاب میں کچھ تخفیف کرا دے۔ مسلمانوں کو ایسی بات سے دور رہنا چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور  (اپنی) اصلاح کر لی اور مضبوطی سے اللہ (کی رسی) کو پکڑ لیا اور اپنا دین اللہ کے لئے خالص کر لیا توایسے لو گ مؤمنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ جلد مؤمنوں کو برا ثواب دے گا۔ (۱۴۶)

تشریح:یعنی جو منافق اپنے نفاق سے توبہ کرے اور اپنے اعمال کی درستی کرے اور اللہ کے پسندیدہ دین کو خوب مضبوط پکڑے اور اللہ پر توکل کرے اور ریا وغیرہ خرابیوں سے دین کو پاک و صاف رکھے تو وہ خالص مسلمان ہے۔ دین و دنیا میں ایمان والوں کے ساتھ ہو گا اور ایمان والوں کو بڑا ثواب ملنے والا ہے ان کے ساتھ ان کو بھی ملے گا جنہوں نے نفاق سے سچی توبہ کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر تم شکر کرو گے اور ایمان لاؤ گے تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟اور اللہ قدر دان خوب جاننے والا ہے (۱۴۷)

تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ نیک کاموں کا قدر داں ہے اور بندوں کی سب باتوں کو خوب جانتا ہے۔ سو جو شخص اس کے حکم کو ممنونیت اور شکر گزاری کے ساتھ تسلیم کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ عادل رحیم کو ایسے شخص پر عذاب کرنے سے کوئی تعلق نہیں یعنی ایسے شخص کو ہرگز عذاب نہ دے گا وہ تو سرکش اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ کسی کی بات کا ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم ہوا ہو اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے (۱۴۸)

یعنی کسی کی برائی بیان کرنا عام حالات میں جائز نہیں، البتہ اگر کسی پر ظلم ہوا ہو رو وہ اس ظلم کا تذکرہ لوگوں سے کرسکتا ہے، اس تذکرے میں ظالم کی جو برائی ہو گی معاف ہے۔

(توضیح القرآن)

 

یہ حکم یہاں شاید اس لئے فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ کسی منافق کا نام مشہور نہ کرے اور علی الاعلان اس کو بدنام نہ کرے اس میں وہ بگڑ کر شاید بے باک ہو جائے، بلکہ مبہم نصیحت کرے، منافق خود سمجھ لے گا یا تنہائی میں نصیحت کرے، اس طرح شاید ہدایت قبول کر لے، چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے کسی کا نام لے کر مشہور نہیں فرماتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر تم کوئی بھلائی کھلم کھلم کرو یا اسے چھپاؤ یا معاف کر دو کوئی برائی تو بیشک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔ (۱۴۹)

تشریح:اس آیت میں مظلوم کو معافی کی رغبت دلانی منظور ہے کہ حق تعالیٰ زبردست اور قدرت والا ہو کر خطا والوں کی خطا بخشتا ہے۔ بندہ زیردست عاجز کو تو بطریق اولیٰ دوسروں کا قصور معاف کر دینا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینا جائز ہے مگر افضل یہ ہے کہ صبر کرے اور بخش دے۔ آیت میں اشارہ ہے اس طرف کہ منافقوں کی اصلاح چاہتے ہو تو ان کی ایذاء اور شرارت پر صبر کرو اور نرمی اور پردہ سے ان کو سمجھاؤ۔ ظاہر کی طعن اور لعن سے بچو اور کھلا مخالف مت بناؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کا اور اس کے رسولوں کا اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق نکالیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان نکالیں ایک راہ۔ (۱۵۰)

یہی لوگ اصل کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (۱۵۱)

تشریح:یہاں سے ذکر ہے یہود کا۔ چونکہ یہود میں نفاق کا مضمون بہت تھا اور آپ کے زمانہ میں جو منافق تھے وہ یہود تھے یا یہودیوں سے ربط اور محبت رکھنے والے اور ان کے مشورہ پر چلنے والے تھے اس لئے قرآن شریف میں اکثر ان دونوں فریق کا ذکر اکٹھا فرمایا ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولوں سے منکر ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کرنا چاہتے ہیں یعنی اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے بیچ میں ایک نیا مذہب اپنے لئے نکالیں ایسے ہی لوگ اصل اور ڈھیٹ کافر ہیں۔ ان کے لئے خواری اور ذلت کا عذاب تیار ہے۔

فائدہ: اللہ کا ماننا جب ہی معتبر ہے کہ اپنے زمانہ کے پیغمبر کی تصدیق کرے اور اس کا حکم مانے بدون تصدیق نبی کے اللہ کا ماننا غلط ہے اس کا اعتبار نہیں بلکہ ایک نبی کی تکذیب اللہ کی اور تمام رسولوں کی تکذیب سمجھی جاتی ہے۔ یہود نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی تو حق تعالیٰ کی اور تمام انبیاء کی تکذیب کرنے والے قرار دیے گئے اور کٹے کافر سمجھے گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ اللہ اور ا سکے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے یہی وہ لوگ ہیں عنقریب انہیں (اللہ) ان کو اجر دے گا، اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۵۲)

تشریح:یعنی اور جن لوگوں نے کسی نبی کو جدا نہیں کیا،  بلکہ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کو بڑے ثواب عطا فرمائے گا۔ اس سے مراد مسلمان ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب پر ایمان لائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اہل کتاب آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کتاب اتار لائیں، سو وہ سوال کر چکے ہیں موسیؑ سے اس سے بھی بڑا، انہوں نے کہا ہمیں اللہ کو علانیہ (کھلم کھلا) دکھا دے، سوانہیں بجلی نے آ پکڑا ان کے ظلم کے باعث، پھر انہوں نے گوسالہ کو(معبود) بنا لیا اس کے بعد کہ ان کے پاس نشانیاں آ گئیں، سوہم نے اس سے درگزر کیا اور ہم نے موسی کو صریح غلبہ دیا (۱۵۳)

تشریح: یہودیوں کے چند سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا اگر تم سچے پیغمبر ہو تو ایک کتاب لکھی لکھائی یکبارگی آسمان سے لا دو جیسے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام تورات لائے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس تمام رکوع میں الزامات کو ان کے جواب میں ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بعد تحقیقی جواب دیا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہودی جو تم سے عنادًا ایسی کتاب طلب کرتے ہیں ان کی یہ بے باکی اور سرکشی تعجب کی بات نہیں۔ ان کے بزرگوں نے تو اس سے بھی بڑی اور سخت بات اپنے نبی موسٰی علیہ السلام سے طلب کی تھی کہ خداوند تعالیٰ کا آشکارا ہم کو دکھا دو ورنہ ہم تمہارا یقین نہ کریں گے جیسا کہ سورہ بقرہ میں گزرا۔ اس پر یہ ہوا کہ ان کے کہنے والوں پر بجلی آپڑی اور سب مر گئے پھر حق تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے ان کو زندہ کر دیا۔ ایسی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر پھر یہ کیا کہ بچھڑے کو پوجنے لگے بالآخر حق تعالیٰ نے اس سے بھی درگزر فرمائی۔ سورہ بقرہ میں کسی قدر تفصیل سے مذکور ہو چکا ہے۔

غلبہ یہ کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو تو ذبح کر کے آگ میں جلا دیا اور اس کی راکھ ہوا میں دریا پر اڑا دی اور ستر ہزار آدمی بچھڑے کو سجدہ کرنے والے قتل کئے گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ان کے اوپر بلند کیا طور پہاڑ ان سے عہد لینے کی غرض سے، اور ہم نے ان سے کہا: دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو، اور ہم نے ان سے کہا ہفتہ کے دن میں زیادتی نہ کرو، اور ہم نے ان سے مضبوط عہد لیا۔ (۱۵۴)

تشریح: یعنی جب یہود نے کہا تھا کہ تورات کے حکم سخت ہیں ہم نہیں مانتے تو اس وقت کوہ طور کو زمین سے اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا تھا کہ ان حکموں کو قبول کرو اور مضبوطی سے پکڑو ورنہ پہاڑ ڈالا جاتا ہے۔

یہود کو حکم ہوا تھا کہ شہر میں داخل ہوں سجدہ کر کے اور سر جھکائے ہوئے انہوں نے سجدہ کے بدلے سرین پر سرکنا اور پھسلنا شروع کیا۔ جب شہر میں پہنچے تو ان پر طاعون پڑا، دوپہر میں قریب ستر ہزار کے مر گئے۔

یہودیوں کو حکم تھا کہ ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں اور سب دنوں سے زیادہ ہفتہ ہی کے دن مچھلیاں دریا میں بکثرت نظر آتیں۔ یہودیوں نے یہ حیلہ کیا کہ دریا کے پاس حوض بنائے۔ ہفتہ کے دن جب مچھلیاں دریا سے حوضوں میں آتیں تو ان کو بند کر رکھتے پھر دوسرے دن حوضوں میں سے شکار کرتے۔ اس فریب اور عہد شکنی پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بندر کر دیا جو جانوروں میں بہت خسیس اور مکار ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

(ان کو سزا ملی)بسبب ان کے عہد و پیمان توڑنے اور ان کے اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے اور ان کے ناحق نبیوں کو قتل کرنے اور ان کے یہ کہنے (کے سبب) کہ ہمارے دل پردہ میں (محفوظ )ہیں،  بلکہ اللہ نے ان پر کفر کے سبب مہر کر دی، سوایمان نہیں لاتے مگر کم۔ (۱۵۵)

(اور ان کو سزا ملی) ان کے کفر اور مریم پر بڑا بہتان باندھنے کے سبب(۱۵۶)

تشریح:یعنی یہود نے اس عہد کو توڑ دیا تو حق تعالیٰ نے ان کی اس عہد شکنی پر اور آیات الہٰی سے منکر ہونے پر اور انبیاء علیہم السلام کے ناحق قتل کرنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہمارے دل تو غلاف میں ہیں، ان پر سخت عذاب مسلط فرمائے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو ہدایت کی تو کہنے لگے ہمارے دل پردہ میں ہیں تمہاری بات وہاں تک پہنچ نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بات نہیں بلکہ کفر کے سبب ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے جس کے باعث ان کو ایمان نصیب نہیں ہو سکتا مگر تھوڑے لوگ اس سے مستشنٰی ہیں جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے یہ کہنے (کے سبب) کہ ہم نے قتل کیا اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو، اور انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور اس کو سولی نہیں دی، بلکہ ان کے لئے (ان جیسی)صورت بنا دی گئی، اور بیشک جو لوگ اس(بارہ) میں اختلاف کرتے ہیں وہ البتہ اس بارہ میں شک میں ہیں، اٹکل کی پیروی کے سوا انہیں اس کا کوئی علم نہیں، اور عیسی کو انہوں نے یقیناً قتل نہیں کیا۔ (۱۵۷) بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے (۱۵۸)

تشریح: اللہ تعالیٰ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ عیسٰی علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی چڑھایا۔ یہود جو مختلف باتیں اس بارے میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں، اللہ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا۔ خبر کسی کو بھی نہیں، واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا حق تعالیٰ نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی، جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو میسح سمجھ کر قتل کر دیا پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کے مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتا ہے، کسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو ہمارا آدمی کہاں گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہاں ہے، اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا علم کسی کو بھی نہیں، حق یہی ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے، بلکہ آسمان پر اللہ نے اٹھا لیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کوئی اہل کتاب سے نہ رہے گا مگر اس پر اپنی موت سے پہلے ضرور ایمان لائے گا اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔ (۱۵۹)

تشریح: حضرت عیسٰی علیہ السلام زندہ موجود ہیں آسمان پر۔ جب دجال پیدا ہو گا تب اس جہان میں تشریف لا کر اسے قتل کریں گے اور یہود اور نصاریٰ ان پر ایمان لائیں گے کہ بیشک عیسٰی زندہ ہیں مرے نہ تھے اور قیامت کے دن حضرت عیسٰی علیہ السلام ان کے حالات اور اعمال کو ظاہر کریں گے کہ یہود نے میری تکذیب اور مخالفت کی اور نصاریٰ نے مجھ کو خدا کا بیٹا کہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سوہم نے ان پر(بہت سی) پاک چیزیں جو ان کے لئے حلال تھیں حرام کر دیں یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے، اور ان کے اللہ کے راستہ سے بہت روکنے کی وجہ سے (۱۶۰)

اور ان کے سود لینے (کی وجہ سے ) حالانکہ وہ اس سے روک دئے گئے تھے اور (اس وجہ سے ) کہ وہ کھاتے تھے لوگوں کے مال ناحق، اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (۱۶۱)

تشریح: یہود کی اگلی پچھلی سخت شرارتیں ذکر فرما کر جس سے ان کی سرکشی اور ان کا گناہوں پر دلیر ہونا ظاہر ہو گیا اب فرماتے ہیں کہ اسی واسطے ہم نے ان پر شریعت بھی سخت رکھی کہ ان کی سرکشی ٹوٹے تو اب یہ شبہ نہ رہا کہ تحریم طیبات تو ان پر تورات میں کی گئی تھی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے مخالفت کرنا اور حضرت مریم پر تہمت لگانا نزول تورات کے بہت بعد میں ہوا تو سزا جرم سے مقدم کیسے ہو گئی، اس تمام رکوع کا خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ سے اہل کتاب برابر ایک سے ایک زائد شرارت اور نافرمانی اور عہد شکنی اور حضرات انبیاء کو ایذاء رسانی کرتے چلے آئے ہیں، اب اگر اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے عنادا ً تورات جیسی کتاب دفعتاً واحدۃً طلب کریں اور قرآن شریف جو سب کتابوں سے افضل ہے اس پر کفایت نہ کریں تو ان متعصب نالائقوں سے کیا مستبعد ہے ان کی اس قسم کی ناشائستہ حرکات سے تعجب مت کرو اور متحیر نہ ہو ان کی تمام حرکات چھوٹی بڑی اگلی پچھلی ہم کو خوب معلوم ہیں ہم نے بھی شریعت سخت ان کے لئے دنیا میں رکھی اور آخرت میں عذاب شدید ان کے واسطے تیار کر رکھا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

لیکن ان میں سے جو علم میں پختہ ہیں اور جو مومن ہیں وہ اس کو مانتے ہیں جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم رکھنے والے ہیں، ایسے لوگوں کو ہم ضرور بڑا اجر دیں گے (۱۶۲)

تشریح:یعنی بنی اسرائیل میں جن کا علم مضبوط ہے جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اور جو لوگ کہ صاحب ایمان ہیں وہ مانتے ہیں قرآن اور تورات و انجیل سب کو اور نماز کو قائم رکھنے والوں کا تو کیا کہنا ہے اور دینے والے زکات کے اور ایمان رکھنے والے اللہ پر اور قیامت پر ایسے لوگوں کو ہم دیں گے بڑا ثواب بخلاف اول فریق کے کہ ان کے لئے عذاب سخت موجود ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے وحی بھیجی تھی نوح کی طرف اور اس کے بعد نبیوں کی طرف اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیمؑ، اسمعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوب کی طرف، اور عیسیؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارون اور سلیمان (کی طرف وحی بھیجی) اور ہم نے داؤد کو دی زبور(۱۶۳)

تشریح: اہل کتاب اور مشرکین مکہ جملہ کفار قرآن مجید کی حقانیت اور صداقت میں طرح طرح سے بیہودہ شبہ پیدا کرتے۔ دیکھیئے اس موقع میں یہی کہہ دیا کہ جیسے تورات سب کی سب ایک دفعہ اتری تھی ایسے ہی تم بھی ایک کتاب آسمان سے لا دو تو ہم تم کو سچا جانیں بقول شخصے خوئے بدرا بہانہ بسیار۔ سو حق تعالیٰ نے اس جگہ چند آیتیں نازل فرما کر اس کی حقیقت واضح کر دی اور وحی کی عظمت اور کفار کے سب خیالات اور شبہات بیہودہ کو رد کر دیا اور وحی الہٰی کی متابعت کو عامۃ اور قرآن مجید کی اطاعت کو تخصیص کے ساتھ بیان فرما کر بتلا دیا کہ حکم الہٰی کا ماننا سب پر فرض ہے کسی کا کوئی عذر اس میں نہیں چل سکتا۔ جو اس کے تسلیم کرنے میں تردد یا تامل یا انکار کرے وہ گمراہ اور بے دین ہے۔ اب یہاں سے تحقیقی جو اب دیا جاتا ہے۔

اس سے معلوم ہو گیا کہ وحی خاص اللہ کا حکم اور اس کا پیام ہے جو پیغمبروں پر بھیجا جاتا ہے اور انبیائے سابقین پر جیسے وحی الہٰی نازل ہوئی ویسے ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی بھیجی تو جس نے اس کو مانا اس کو بھی ضرور ماننا چاہیے اور جس نے اس کا انکار کیا گویا ان سب کا منکر ہو گیا، اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان سے پچھلوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ شاید یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے جو وحی شروع ہوئی تو اس وقت بالکل ابتدائی حالت تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام پر اس کی تکمیل ہو گئی گویا اوّل حالت محض تعلیمی حالت تھی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں وہ حالت پوری ہو کر اس قابل ہو گئی کہ ان کا امتحان لیا جائے اور فرمانبرداروں کو انعام اور نافرمانوں کو سزا دی جائے۔ چنانچہ انبیائے اولوالعزم کا سلسلہ بھی حضرت نوح علیہ السلام سے ہی شروع ہوا اور وحی الہٰی سے سرتابی کرنے والوں پر بھی اوّل عذاب حضرت نوح علیہ السلام کے وقت سے شروع ہوا خلاصہ یہ کہ پہلے حکم الہٰی اور انبیاء کی مخالفت پر عذاب نازل نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کو معذور سمجھ کر ان کو ڈھیل دی جاتی تھی اور سمجھانے ہی میں کوشش کی جاتی تھی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جب مذہبی تعلیم خوب ظاہر ہو چکی اور لوگوں کو حکم خداوندی کی متابعت کرنے میں کوئی خفا باقی نہ رہا تو اب نافرمانوں پر عذاب نازل ہوا۔ اوّل حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان آیا اس کے بعد حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب علیہم السلام وغیرہ کے زمانہ میں کافروں پر قسم قسم کے عذاب آئے تو آپ کی وحی کو حضرت نوح علیہ السلام اور ان سے پچھلوں کی وحی کے ساتھ تشبیہ دینے میں اہل کتاب اور مشرکین مکہ کو پوری تنبیہ کر دی گئی کہ جو آپ کی وحی یعنی قرآن کو نہ مانے گا وہ عذاب عظیم کا مستحق ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ایسے رسول (بھیجے ) ہیں جن کے احوال ہم نے اس سے قبل آپ سے بیان کئے، اور ایسے رسول (بھی بھیجے ) جن کے احوال ہم نے آپ سے بیان نہیں کئے اور اللہ نے موسی سے خوب کلام کیا (۱۶۴)

تشریح: حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو انبیاء ہوئے ان سب کو بالاجمال ذکر فرما کر جو ان میں اولوالعزم ہیں اور جو مشہور اور جلیل القدر ہیں ان کو تخصیص اور تفصیل کے ساتھ ذکر فرما دیا جس سے خوب معلوم ہو گیا کہ آپ کے اوپر جو وحی نازل ہوئی اس کا حق ہونا اور اس کا ماننا ایسا ہی ضروری ہے جیسا تمام اولوالعزم اور مشاہیر انبیاء کی وحی کو اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ انبیاء پر جو وحی آتی ہے کبھی فرشتہ پیغام لے کر آتا ہے کبھی کتاب لکھی ہوئی مل جاتی ہے کبھی بغیر پیغام اور بدون واسطہ کے خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے بات کرتا ہے مگر ان سب صورتوں میں چونکہ وہ اللہ کا ہی حکم ہے کسی دوسرے کا حکم نہیں تو بندوں پر اس کی اطاعت یکساں فرض ہے۔ بندوں تک پہنچنے کا طریقہ تحریر ہو خواہ تقریر ہو، خواہ پیغام ہو تو اب یہود کا یہ کہنا کہ تورات کی طرح پوری کتاب ایک دفعہ میں آسمان سے لاؤ گے تو ہم تم کو سچا جانیں گے ورنہ نہیں کتنی بے ایمانی اور حماقت ہے۔ جب وحی حکم الہٰی ہے اور اس کے نازل ہونے کی صورتیں البتہ متعدد ہیں تو پھر کسی صورت میں اس کے ماننے میں تردد اور انکار کرنا یا یہ کہنا کہ فلاں خاص طریقہ سے آئے گی تو مانوں گا ورنہ نہیں صریح کفر ہے اور کھلی حماقت۔

(تفسیرعثمانی)

 

(ہم نے بھیجے ) رسول خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کو اللہ پر کوئی حجت نہ رہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے (۱۶۵)

تشریح: اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو برابر بھیجا کہ مومنوں کو خوشخبری سنائیں اور کافروں کو ڈرائیں تاکہ لوگوں کو قیامت کے دن اس عذر کی جگہ نہ رہے کہ ہم کو تیری مرضی اور غیر مرضی معلوم نہ تھی معلوم ہوتی تو ضرور اس پر چلتے۔ سو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو معجزے دے کر بھیجا اور پیغمبروں نے راہ حق بتلائی تو اب دین حق کے قبول نہ کرنے میں کسی کا کوئی عذر نہیں سنا جا سکتا۔ وحی الہٰی ایسی قطعی حجت ہے کہ اس کے رو برو کوئی حجت نہیں چل سکتی بلکہ سب حجتیں قطع ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ کی حکمت اور تدبیر ہے اور اگر زبردستی کرے تو کون روک سکتا ہے مگر اس کو پسند نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

لیکن اللہ اس پر گواہی دیتا ہے جو اس نے آپ کی طرف نازل کیا، وہ اپنے علم سے نازل کیا اور فرشتے (بھی)گواہی دیتے ہیں، اور گواہ (تو) اللہ ہی کافی ہے۔ (۱۶۶)

تشریح:یعنی وحی ہر پیغمبر کو آتی رہی یہ کچھ نئی بات نہیں سب کو معلوم ہے لیکن اس قرآن میں اللہ نے اپنا خاص علم اتارا اور اللہ اس حق کو ظاہر کر دے گا۔ چنانچہ جاننے والے جانتے ہیں کہ جو علوم اور حقائق قرآن مجید میں سے حاصل ہوئے اور برابر حاصل ہوتے رہیں گے وہ کسی کتاب سے نہیں ہوئے اور جس قدر ہدایت لوگوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جن لوگوں نے کفر  کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، تحقیق وہ گمراہی میں دور جا پڑے (۱۶۷)

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا اللہ انہیں نہیں بخشے گا اور نہ انہیں ہدایت دے گا سیدھے راستے کی(۱۶۸)

مگر جہنم کا راستہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ اللہ پر آسان ہے (۱۶۹)

تشریح: قرآن مجید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور توثیق کے بعد فرماتے ہیں کہ اب جو لوگ آپ سے منکر ہوئے اور تورات میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور حالات موجود تھے ان کو چھپا لیا اور لوگوں پر کچھ کا کچھ ظاہر کر کے ان کو بھی دین حق سے باز رکھا۔ سو ایسوں کو نہ مغفرت نصیب ہوئی نہ ہدایت جس سے خوب واضح ہو گیا کہ ہدایت آپ کی متابعت میں منحصر ہے اور گمراہی آپ کی  مخالفت کا نام ہے جس سے یہود کو پوری سرزنش ہو گئی اور ان کے خیالات کی تغلیط واضح ہو گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ گیا ہے، سوایمان لے آؤ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم نہ مانو تو بیشک جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اللہ کے لئے ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے (۱۷۰)

تشریح:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کی تصدیق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین یعنی اہل کتاب کی تغلیط اور تضلیل بیان فرما کر اب عام سب لوگوں کو منادی کی جاتی ہے کہ اے لوگو! ہمارا رسول سچی کتاب اور سچا دین لیکر تمہارے پاس پہنچ چکا، اب تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ اس کی بات مانو اور نہ مانو گے تو خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور تمہارے تمام احوال اور افعال سے خبردار ہے، تمہارے اعمال کا پورا حساب و کتاب ہو کر اس کا بدلہ ملے گا۔

فائدہ: اس ارشاد سے بھی صاف معلوم ہو گیا کہ وحی جو پیغمبر پر نازل ہو اس کا ماننا فرض اور اس کا انکار کفر ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے اہل کتاب! وین میں غلو نہ کرو(حد سے نہ بڑھو) اور نہ کہو اللہ کے بارے میں حق کے سوا، اس کے سوا نہیں کہ مسیح عیسی ابن مریم اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ، جن کو مریم کی طرف ڈالا گیا اور اس(کی طرف) سے روح ہے، سوتم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو( خدا) تین ہیں (اس سے )باز رہو، تمہارے لئے بہتر ہے، اس کے سوا نہیں (بیشک) کہ اللہ معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس کا ہے اور اللہ کار ساز ہے کافی ہے (۱۷۱)

تشریح: اہل کتاب اپنے انبیاء کی تعریف میں غلو سے کام لیتے اور حد سے نکل جاتے خدا اور خدا کا بیٹا کہنے لگتے۔ سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کی بات میں مبالغہ مت کرو اور جس سے اعتقاد ہو اس کی تعریف میں حد سے نہ بڑھنا چاہئے۔ جتنی بات تحقیق ہو اس سے زیادہ نہ کہے اور حق تعالیٰ کی شان مقدس میں بھی وہی بات کہو جو سچی اور محقق ہو اپنی طرف سے کچھ مت کہو۔ تم نے یہ کیا غضب کیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو جو کہ رسول اللہ ہیں اور اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے تھے ان کو وحی کے خلاف خدا کا بیٹا کہنے لگے اور تین خدا کے معتقد ہو گئے۔ ایک خدا، دوسرے عیسیٰ، تیسرے حضرت مریم۔ ان باتوں سے باز آؤ اللہ تعالیٰ واحد اور یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ کوئی اس کا بیٹا ہو سکتا ہے۔ اس کی ذات پاک اور اس سے منزہ اور مقدس ہے۔ یہ تمام خرابی اس کی ہے کہ تم نے وحی کی اطاعت اور پابندی نہ کی۔ وحی کی متابعت کرتے تو خدا کے لئے بیٹا نہ مانتے اور تین خدا کے قائل ہو کر صریح مشرک نہ ہوتے اور محمد رسول اللہ سید الرسل اور قرآن مجید افضل الکتب کی تکذیب کر کے آج ڈبل کافر نہ بنتے۔

فائدہ: اہل کتاب کے ایک فریق نے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام کو رسول بھی نہ مانا اور قتل کرنا پسند کیا، جن کا ذکر پہلے گزرا۔ دوسرے فریق نے ان کو خدا کا بیٹا کہا دونوں کافر ہو گئے دونوں فریق کی گمراہی کا سبب یہی ہوا کہ وحی کے خلاف کیا۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ نجات وحی کی متابعت میں منحصر ہے۔

آسمانوں اور زمین میں نیچے سے اوپر تک جو کچھ ہے سب اس کی مخلوق اور اس کی مملوک اور اس کے بندے ہیں پھر کہیے اس کا شریک یا اس کا بیٹا کون اور کیونکر ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کام بنانے والا ہے اور سب کی کار سازی کے لئے وہی کافی ہے اور کسی دوسرے کی حاجت نہیں، پھر بتلائیے اس کو شریک یا بیٹے کی حاجت کیسے ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ نہ کسی مخلوق میں اس کے شریک بننے کی قابلیت اور لیاقت اور نہ اس کی ذات پاک میں اس کی گنجائش اور نہ اس کو اس کی حاجت جس سے معلوم ہو گیا کہ مخلوقات میں سے کسی کو خدا تعالیٰ کا شریک یا بیٹا کہنا اس کا کام ہے جو ایمان اور عقل دونوں سے محروم ہو۔

فائدہ: مضمون بالا سے یہ سمجھ میں آ گیا کہ جو کوئی حق تعالیٰ کے لئے بیٹا یا کسی کو اس کا شریک مانتا ہے وہ حقیقت میں جمیع موجودات کو مخلوق باری اور باری تعالیٰ کو خالق جملہ موجودات نہیں مانتا اور نیز اللہ تعالیٰ کو سب کی حاجت براری اور کارسازی کے لئے کافی نہیں جانتا۔ گویا خدا کو خدائی سے نکال کر مخلوقات اور ممکنات میں داخل کر دیا تو اب ارشاد ( سبحانہ ان یکون لہ ولد) میں جس ناپاکی کی طرف اشارہ خفی تھا اس کا پتہ چل گیا اور فرزند حقیقی اور فرزند مجازی اور ظاہری دونوں میں وہ ناپاکی چونکہ برابر موجود ہے تو خوب سمجھ میں آ گیا کہ اس کی ذات مقدس جیسے اس سے پاک ہے کہ اس کے بیٹا پیدا ہو ایسا ہی اس سے بھی پاک اور برتر ہے کہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو بیٹا بنائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

مسیح کو ہر گز عار نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب فرشتوں کو(عار ہے )اور جو کوئی اس کی(اللہ کی) بندگی سے عار اور تکبر کرے تو وہ عنقریب انہیں اپنے پاس جمع کرے گا سب کو(۱۷۲)

تشریح:یعنی اللہ کا بندہ ہونا اور اس کی عبادت کرنا اور اس کے حکموں کو بجا لانا تو اعلیٰ درجہ کی شرافت اور عزت ہے حضرت مسیح علیہ السلام اور ملائکہ مقربین سے اس نعمت کی قدر اور ضرورت پوچھیے ان کو اس سے کیسے ننگ اور عار آسکتا ہے۔ البتہ ذلت اور غیرت تو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں ہے جیسے نصاریٰ نے حضرت مسیح کو ابن اللہ اور معبود مان لیا اور مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مان کر ان کی اور بتوں کی عبادت کرنے لگے سو ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب اور ذلت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے وہ انہیں ان کے اجر پورے پورے دے گا اور انہیں زیادہ دے گا اپنے فضل سے، اور جن لوگوں نے (بندگی کو) عار سمجھا اور تکبر کیا رو وہ انہیں عذاب دے گا دردناک عذاب اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا نہ پائیں گے کوئی دوست اور نہ مددگار(۱۷۳)

تشریح:یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی سے ناک چڑھاوے گا اور سرکشی کرے گا تو وہ یونہی نہ چھوڑ دیا جائے گا بلکہ ایک روز سب کو اللہ کے سامنے جمع ہونا ہے اور حساب دینا ہے۔ سو جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے یعنی اللہ کی بندگی پوری بجا لائے ان کو ان کے کاموں کا پورا ثواب ملے گا بلکہ اللہ کے فضل سے بڑی بڑی نعمتیں ان کے ثواب سے زیادہ بھی ان کو عنایت ہوں گی اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بندگی سے ناک چڑھائی اور سرکشی کی وہ عذاب عظیم میں گرفتار ہونگے اور کوئی ان کا خیر خواہ اور مددگار نہ ہو گا۔ جن کو اللہ کی بندگی میں شریک کر کے عذاب میں پڑے وہ بھی کام نہ آئیں گے۔ سو اب نصاریٰ خوب سمجھ لیں کہ ان دونوں صورتوں میں سے ان کے مناسب حال کیا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے موافق شان کیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آ چکی اور ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے واضح روشنی(۱۷۴)

پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اس کو مضبوطی سے پکڑا وہ انہیں عنقریب داخل کرے گا اپنی رحمت اور فضل میں اور انہیں اپنی طرف سیدھے راستہ کی ہدایت دے گا(۱۷۵)

تشریح: پہلے وحی الہٰی اور بالخصوص قرآن مجید کی عظمت اور اس کی حقانیت کا بیان اور اس کی متابعت اور اتباع کی تاکیدات کا ذکر تھا۔ اسی کے ذیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور ان کے ابن اللہ ہونے کا ذکر کیا تھا جس کے قائل نصاریٰ تھے۔ اس کی تردید اور ابطال کے بعد اب اخیر میں پھر اسی اصلی اور ضروری بات کی سب کو تاکید فرمائی جاتی ہے کہ اے لوگو تمہارے پاس رب العالمین کی طرف سے حجت کامل اور نور روشن پہنچ چکا جو ہدایت کے لئے کافی اور وافی ہے یعنی قرآن مجید، اب کسی تامل اور تردد کی گنجائش نہیں۔ سو جو کوئی اللہ پر ایمان لائے گا اور اس مقدس کتاب کو مضبوط پکڑے گا وہ اللہ کی رحمت اور فضل میں داخل ہو گا اور براہ راست اس تک پہنچے گا اور جو اس کے خلاف کرے گا اس کی گمراہی اور خرابی اسی سے سمجھ لیجئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیں اللہ تمہیں کلالہ کے بارہ میں حکم بتاتا ہے، اگر کوئی(ایسا)مرد مر جائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور ا سکی ایک بہن ہو تواس (بہن) کو اس کے ترکہ کا نصف ملے گا، اور وہ اس کا وارث ہو گا، اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر(مرنے والے کی) دو بہنیں ہوں ان کے لئے دو تہائی ہے، اس(بھائی) کے ترکہ میں سے، اور اگر بھائی بہن کچھ مرد اور کچھ عورتیں ہوں تو ایک مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔ اللہ تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے (۱۷۶)

تشریح:شروع سورت میں آیت میراث میں کلالہ کی میراث کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس کے بعد جو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے متعلق زیادہ تفصیل پوچھنی چاہی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ کلالہ کے معنی ہیں کمزور اور ضعیف۔ یہاں وہ شخص مراد ہے جس کے وارثوں میں باپ اور اولاد میں سے کوئی نہ ہو جیسا کہ پہلے بیان ہوا کیونکہ اصلی وارث والد اور ولد ہی ہیں جس کے یہ نہیں تو اس کے حقیقی بھائی بہن کو بیٹا بیٹی کا حکم ہے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو یہی حکم سوتیلوں کا ہے جو کہ باپ میں شریک ہوں ایک بہن ہو تو آدھا اور دو بہنیں ہوں تو دو تہائی اور اگر بھائی اور بہن دونوں ہیں تو مرد کو دوہرا حصہ اور عورت کو اکہرا ملے گا اور اگر فقط بھائی ہوں بہن کوئی نہ ہو تو وہ بہن کے مال کے وارث ہونگے یعنی ان کا کوئی حصہ معین نہیں کیونکہ وہ عصبہ ہیں جیسا کہ آیت میں آگے یہ سب صورتیں مذکور ہیں۔ اب باقی رہ گئے وہ بھائی بہن جو صرف ماں میں شریک ہوں جن کو اخیافی کہتے ہیں سو ان کا حکم شروع سورت میں فرما دیا گیا ان کا حصہ معین ہے۔

اگر کوئی مرد مر گیا اور اس نے ایک بہن چھوڑی نہ بیٹا چھوڑا نہ باپ تو اس کو میراث میں نصف مال ملے گا۔

اور اگر اس کے برعکس ہو یعنی کوئی عورت لا ولد مر گئی اور اس نے بھائی اعیانی یا علاتی چھوڑا تو وہ بہن کے مال کا وارث ہو گا کیونکہ وہ عصبہ ہے اور اگر اس نے لڑکا چھوڑا تو بھائی کو کچھ نہ ملے گا اور لڑکی چھوڑی تو لڑکی سے جو بچے گا وہ اس بھائی کو ملے گا اور بھائی یا بہن اخیافی چھوڑے گی تو اس کے لئے چھٹا حصہ معین ہے جیسا کہ ابتداء سورت میں ارشاد ہوا۔

اور اگر دو سے زیادہ بہنیں چھوڑے تو ان کو بھی دو تہائی دیا جائے گا۔

کچھ مرد اور کچھ عورتیں یعنی کچھ بھائی اور کچھ بہنیں چھوڑیں تو بھائی کا دوہرا اور بہن کا اکہرا حصہ ہے جیسا کہ اولاد کا حکم ہے۔

اللہ رحیم و کریم محض اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے اور ان کو گمراہی سے بچانے کی غرض سے اپنے احکام حقہ صادقہ بیان فرماتا ہے جیسے یہاں میراث کلالہ کو بیان فرما دیا۔ اس کی اس میں کوئی غرض نہیں وہ سب سے غنی اور بے نیاز ہے تو اب جو اس مہربانی کی قدر نہ کرے بلکہ اس کے حکم سے انحراف کرے اس کی شقاوت کا کیا ٹھکانہ۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ بندہ کو جملہ احکام کی تابعداری لازم ہے۔ اگر ایک معمولی اور جزوی امر میں بھی خلاف کرے گا تو گمراہی ہے پھر جو لوگ اس کی ذات پاک اور اس کی صفات کمال میں اس کے حکم کا خلاف کرتے ہیں اور اپنی عقل اور اپنی خواہش کو اس کے مقابلہ میں اپنا مقتدا بناتے ہیں ان کی ضلالت اور خباثت کو اسی سے سمجھ لیجئے کہ کس درجہ کی ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید