FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تابوت

(ناول)

 

حصہ اول

 

                ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

بھلا کچھ ٹھکانہ ہے اس شخص کی گمراہی کا:

جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہو

(القرآن)

 

 

 

 

 

 

وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے مل جل کے کر لی بیعت

پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے

(سلمان احمد)

 

 

 

 

انتساب

 

میرے ہمدم و دمساز

اسلم غازی صاحب

کے نام

اپنے ادبی سفرمیں جن کو میں نے

ہمیشہ اپنے ساتھ پایا

 

 

 

پاروتی

 

یاسر نے ممبئی کے تاج ہوٹل کا نام سن رکھا تھا اس کا ارادہ وہاں رک کر آگے کی منصوبہ بندی کرنا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ سب کچھ اس قدر تیزی کے ساتھ ہو گیا تھا کہ اسے کچھ غور و خوض کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ غصے میں اس قدر باؤلا  ہوا جا رہا تھا کہ چند دنوں تک کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے موقف میں نہیں تھا لیکن ہوائی اڈے پر انتظار کرنے والوں کی بھیڑ میں جیسے ہی یاسر نے اپنے دیرینہ دوست شنکر کو دیکھا اس کی کیفیت بدل گئی۔ شنکر اس کو دیکھ کر آگے بڑھا اور اس سے لپٹ کر رونے لگا۔ یاسر کے لیے یہ ناقابلِ یقین واردات تھی۔ ان دونوں کے درمیان آپس میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ شنکر نے اس کے ہاتھ سے ٹرالی لی اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔

جیسے ہی وہ لوگ سنہرے رنگ کی چمچماتی بی ایم ڈبلیو کے قریب پہنچے اندر سے پاروتی باہر آ گئی۔ اس کے ہاتھوں میں شیرخوار بچہ تھا۔ وہ بولی معاف کرنا بھائی صاحب کیلاش کو کل سے بخار ہے اس لئے مجھے گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ یاسر نے شنکر کی جانب دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر کیلاش کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ننھا کیلاش حیرت سے اجنبی آدمی کو دیکھنے لگا۔ جب یاسر نے اسے میرا بیٹا کہہ کر بوسہ لیا تو وہ ہنسنے لگا۔

یاسر بولا کون کہتا ہے یہ بیمار ہے؟

شنکر نے تائید کی جی ہاں یاسر وہ بیمار ضرور تھا لیکن شاید اپنے چاچا کے لمس نے اس کو شفا یاب کر دیا ہے۔ دیکھو پاروتی میں نہیں کہتا تھا کہ میرا دوست یاسر جادوگر ہے۔

پاروتی بولی یا سر؟ یہ یاسر کون ہے تم نے تو کہا تھا ……………

جی ہاں یاسر بولا اس نے ناصر کہا ہو گا۔ یاسر یا ناصر ایک ہی بات ہے۔

پاروتی کی سمجھ میں یہ منطق نہیں آئی پھر بھی اس نے تائید میں گردن ہلا دی اور کہا اب اسے مجھے دے دیجئے اور آپ اندر گاڑی میں بیٹھیے۔

ڈرائیور گاڑی کے اندر سامان رکھ چکا تھا۔ یاسر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ شنکر اور پاروتی پیچھے والی نشست پر بیٹھ گئے۔ کیلاش ان کے درمیان اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ یاسر کا سارا غم پلک جھپکتے ہرن ہو چکا تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کسی اجنبی ملک میں ہے۔ وہ تو گویا وہ اپنے خاندان میں لوٹ آیا تھا۔ بہت عرصے بعد کوئی اس قدر اپنائیت سے اسے ملا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک مختلف باتیں کرنے کے بعد یاسر کو ہوٹل تاج محل یاد آیا۔ اس نے پوچھا ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں؟

پاروتی نے چونک کر پوچھا کہاں کیا مطلب؟ ظاہر ہے ہم لوگ اپنے گھر جا رہے ہیں اور کہاں؟

یاسر نے گھبرا کر کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر……

ہاں ہاں میں سمجھ گئی آپ پہلی مرتبہ آ رہے ہیں نا پاروتی بولی۔ در اصل ہمارا گھر ممبئی سے ۱۵. سو میل کے فاصلے پر پونے شہر میں ہے۔

شنکر یاسر کے حیرت کی وجہ سمجھ گیا وہ بولا تاج کا مسئلہ میں نے حل کر دیا ہے۔

پاروتی پھر چونک کر بولی تاج؟ ؟ ؟

شنکر نے بات بدلتے ہوئے کہا تم تاج کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ دودھ کی بوتل کہاں ہے؟ میرا خیال ہے کیلاش کو بھوک لگ رہی ہے۔

پاروتی بولی دودھ کی بوتل؟ میں وہ تو جلدی میں گھر پر ہی بھول گئی۔

کوئی بات نہیں شنکر بولا۔ ناصر اب تم صرف آگے سڑک پر اپنی نظر رکھو تمہارا بھتیجا پیٹ پوجا کر رہا ہے۔

یاسر بولا ہاں بابا سمجھ گیا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ بھی درمیان میں کچھ دیر کے لیے کسی ہوٹل پر رک کر چائے شائے پی لیں۔

ڈرائیور بولا جناب آپ فکر نہ کریں پانچ منٹ کے اندر ہم لوگ اس ممبئی پونے ہائی وے کے ایک شاندار موٹیل میں ہوں گے۔

شنکر نے کہا دیکھو یاسر ……..میرا مطلب ہے ناصر ویسے تو یہ ہمارا ڈرائیور ہے لیکن جب یہ اسٹیرنگ کے پیچھے ہوتا ہے تو ہم پر اس کی مرضی چلتی ہے اس پر ہمارا کوئی زور نہیں چلتا۔ یاسر کو دور سے موتی محل کا بورڈ نظر آنے لگا تھا۔

موتی محل میں میلہ لگا ہوا تھا۔ ڈرائیور اتر کر سیدھا پرچون کی دوکان میں گیا اور اس سے پہلے کہ وہ لوگ ریسٹورنٹ میں کسی مناسب میز کا انتخاب کرتے وہاں سے دودھ سمیت بوتل لے آیا۔ یاسر بولا یہ آدمی عقلمند معلوم ہوتا ہے اسے تو سرخ مثلث میں ہونا چاہئے تھا۔

پاروتی نے پوچھا سرخ مثلث؟ یہ سرخ مثلث کیا ہے؟

اب شنکر کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ وہ بولا پاروتی یہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ہر بات کو پکڑ لیتی ہو؟

یاسر سمجھ گیا کہ اس سے غلطی ہو گئی۔ وہ بولا بھابی وہ در اصل بات یہ ہے کہ نیروبی میں اس کا اور میرا پسندیدہ ہوٹل سرخ مثلث ہوا کرتا تھا۔ میں نے موتی محل کو دیکھا تو مجھے وہ یاد آ گیا۔

پاروتی بولی نیروبی؟ آپ نیروبی کیوں پہنچ گئے؟

شنکر نے سوچا عجیب مشکل ہے۔ وہ بگڑ کر بولا کیوں نیروبی کوئی آسمان میں ہے؟ کہ اگر انسان وہاں جا نہیں سکتا؟ اور ایک بار چلا گیا تو لوٹ کر آ نہیں سکتا؟

پاروتی منہ بسور کر بولی آپ میرے اس معمولی سے سوال پر اس قدر ناراض کیوں ہو رہے ہیں؟ بتانا ہے بتائیے۔ نا بتانا ہے نہ بتائیے۔ ویسے آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ناصر بھائی دبئی سے آ رہے ہیں۔

یاسر بولا جی ہاں یہ بھی درست ہے کہ میں فی الحال دبئی سے آ رہا ہوں لیکن ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کی ہے۔ ہم لوگ جب نیروبی گئے تھے تو وہاں ڈھونڈنے سے کوئی ہندوستانی ہوٹل نہیں ملتا تھا بس ایک سرخ مثلث تھا جہاں ڈھنگ کا کھانا مل جاتا تھا اس لئے ہم لوگ صبح میں ناشتہ اور شام کا کھانا وہیں کھاتے تھے۔

پاروتی خوش ہو کر بولی میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی ہندوستانی پکوان بہت پسند ہیں۔

اس بیچ شنکر اپنے آپ کو سنبھال چکا تھا وہ بات بدلنے کے لیے بولا دیکھو ی……..نا….صر ….جب تم اپنی بھابی کے ہاتھ کا کھانا کھاؤ گے نا تو سرخ مثلث کو بھول جاؤ گے کیا سمجھے۔

یاسر بولا وہ تو بھولنا ہی پڑے گا۔

پاروتی بول پڑی کیوں؟ آپ نے تو ابھی میرے ہاتھ کی بنی کوئی چیز کھائی ہی نہیں؟

یاسر نے بات بناتے ہوئے کہا وہ ایسا ہے نا بھابی کہ پچھلے دنوں سرخ مثلث میں بھیانک آگ لگی اور وہ جو جل کر خاک ہو گیا۔

اچھا؟ پاروتی بولی لیکن آپ کو دبئی میں بیٹھے بیٹھے اس کا پتہ کیسے چلا؟ شنکر کو پاروتی کرید پر غصہّ آ رہا تھا۔

یاسر نے جواب دیا وہ ہمارا ایک مشترکہ دوست رابرٹ نیروبی میں رہتا ہے اسی نے یہ افسوسناک خبر دی۔

رابرٹ !! جی ہاں رابرٹ میں اسے جانتی ہوں پاروتی بولی۔

شنکر نے چونک کر کہا۔ تم؟ تم رابرٹ کو کیسے جانتی ہو؟

پاروتی فلمی انداز میں بولی میں سب جانتی ہوں۔ میرے آدمی چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

یاسرسمجھ گیا کہ وہ مذاق کر رہی ہے لیکن شنکر بے چین ہو گیا وہ کڑک کر بولا تم مجھے بتاؤ کہ تم اسے کیسے جانتی ہو؟

کل صبح ہی تو اس کا فون آیا تھا جو میں نے پہلے لیا اور پھر آپ کو دیا۔ اس کا فون بند کرنے کے بعد ہی آپ نے مجھے بتایا تھا کہ ممبئی ہوائی اڈے چلنا ہے۔ اس لئے کہ آپ کا دیرینہ دوست ناصر دبئی سے آ رہا ہے، میں سمجھ گئی رابرٹ آپ دونوں کا مشترکہ دوست ہے۔

یاسر بولا یار شنکر ایک بات ماننا پڑے گا بھابی پاروتی نے بھی جولیٹ کی طرح کسی سراغ رساں کا دماغ پایا ہے۔

شنکر کے لیے اب ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ جولیٹ؟ یہ جولیٹ کون ہے؟ پاروتی نے پھر سوال کر دیا۔

یاسر نے چٹکی لی کیوں بھابی اب پتہ چلا آپ کے آدمی چاروں طرف پھیلے ہوئے تو ہیں لیکن ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ آپ رابرٹ کو تو جانتی ہوں اور جولیٹ کو نہیں؟ مجھے تعجب ہے؟

پاروتی شرما گئی اور بولی جی ہاں بھائی صاحب مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے یہ سوال ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔

شنکر کو موقع مل گیا وہ بولا یہی کیوں اب تک تم نے جو بے شمار اوٹ پٹانگ سوال کئے ہیں ان میں سے کوئی سوال تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔

پاروتی اٹھلا کر بولی اب دو چار سوال کر دئیے تو کون سی قیامت آ گئی؟

شنکر کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا وہ بولا تمہیں سوچنا چاہئے ایک آدمی اتنا لمبا سفر کر کے تھکا ماندہ آ رہا اور تم کسی پولس افسر کی طرح اس کی ہر بات پر جرح کئے جا رہی ہو۔ وہ بیچارہ کیا سوچے گا؟ مجھے تو خوف ہے وہ اپنے گھر چلنے کا ارادہ ہی نہ ترک کر دے؟

پاروتی اس ڈانٹ پھٹکار کے آگے پسیج گئی اور بولی بھائی صاحب مجھ سے غلطی ہو گئی میں معذرت چاہتی ہوں۔ مجھے اس قدر ……….

یاسر بیچ میں بول پڑا نہیں بھابی آپ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ میں تو کہتا ہوں اس بے وقوف شنکر کو معافی مانگنی چاہئے جو بلا وجہ آپ پر برس پڑا اور اس قدر لمبا چوڑا لکچر جھاڑ دیا۔ وہ تو آپ کی شرافت ہے جو آپ نے سب کچھ چپ چاپ سن لیا خیر اس کی جانب سے میں معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے آپ کے سوالات سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی بلکہ ان کے سبب یہ سفر نہایت خوشگوار ہو گیا اور میرا غم بھی غلط ہو گیا۔ یاسر کی شبنمی پھوار نے شنکر کے انگاروں کا اثر زائل کر دیا تھا۔

یاسر کی باتوں سے حوصلہ پاکر پاروتی پھر اپنی فطرت پر لوٹ آئی اور سوال کیا….غم؟ کیسا غم؟ آپ کس غم کی بات کر رہے ہیں بھائی صاحب۔

شنکر بولا پاروتی!! اے بھاگیہ وتی خدا کے لیے اپنے سوالات کو لگام دو اور گھر کے لیے بھی کچھ چھوڑو۔ یہ ناصر کوئی بھاگا نہیں جا رہا ہے؟ یہ ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ تم گھر پہنچنے کے بعد اس سے جو مرضی ہو پوچھ لینا لیکن اب یہ سلسلہ بند کرو۔

پاروتی پھر منہ بسور کر بولی۔ اچھا بابا غلطی ہو گئی۔ اب میں کوئی سوال نہیں کروں گی بس۔

شنکر چین کی سانس لے کر بولا شکریہ میری ماں تیرا بہت بہت شکریہ۔

یاسر نے چونک کر ڈرائیور کی جانب دیکھا تو وہ بولا صاحب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے صاحب کا مطلب ہے کیلاش کی ماں۔ ویسے بھی ہمارے دیش میں ماں کا استعمال بہت عام ہے۔ ہم کبھی اپنے ملک کو بھارت ماتا کہہ دیتے ہیں کبھی کسی ندی کو گنگا میّا کہہ کر پکارتے ہیں۔ کبھی کسی جانور پر مہربان ہوتے ہیں تو اسے گؤ ماتا کا درجہ دے دیتے ہیں تو کبھی کسی درگا ماتا یا سنتوشی ماتا کی آرتی اتارنے لگتے ہیں۔ در اصل ہم لوگ اپنی سگی ماں کے علاوہ ہرکس و ناکس کا بڑا احترام بلکہ پرستش تک کرتے ہیں۔

یاسر کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا۔ پاروتی کو ڈرائیور کی اس صاف گوئی پر غصہ آ رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ ایک پردیسی کے سامنے یہ سب بیان کرنا کیا ضروری ہے؟ وہ اسے سن کر ہمارے بارے میں کیا سوچے گا؟ پاروتی سے رہا نہ گیا وہ بیچ ہی میں بول پڑی۔ بھولا تو اپنی زبان پر لگام رکھ۔ دیکھتا نہیں ہے کس سے بات کر رہا ہے۔ جو من میں آتا ہے بولتا چلا جاتا ہے۔ خبردار اگر اب تو نے اپنی زبان کھولی تو تلوے سے ……..۔

شنکر کو ہنسی آ گئی وہ بولا بھاگیہ وان اتنا غصہ نہیں کرتے۔ اگر اس کی زبان کو تم نے چیل کووّں کے آگے ڈال دی تو ہمارے بہت سارے کام رک جائیں گے۔

یاسر نے دیکھا منظر یکسر بدل چکا ہے۔ جو بے تکان بول رہی تھی وہ بولنے سے منع کر رہی ہے اور جو ابھی تک بولنے پر لال پیلا ہو رہا تھا وہ غصہ کرنے سے منع کر رہا ہے۔ اس نے سوچا اس موقع پر ایک لطیفہ سنا کر ماحول کو خوشگوار بنانا چاہئے۔

یاسرنے کہا آپ لوگوں کی گفتگو سن کر مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے اگر آپ لوگ برا نہ مانیں تو میں سناوں۔

ڈرائیور بولا جی ہاں صاحب کیا بات ہے سنائیے سنائیے ضرور سنائیے۔

شنکر کو یاسر کے گھٹیا ذوق کا پتہ تھا اس لئے وہ چوکنا ہو گیا کہ یہ نجانے کیا بک دے۔

یاسر بولا اتفاق سے یہ لطیفہ بھی ایک ڈرائیور کے متعلق ہے۔

بھولا نے جب یہ سنا تو خوشی سے جھوم اٹھا اور بولا تب تو ضرور سنائیے صاحب مزہ آ جائے گا۔ سب سے اچھے لطیفے ڈرائیورس ہی کے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ …….

پاروتی نے بیچ میں ٹوک دیا اور بولی بھولا اب اپنی چونچ بند کر اور لطیفہ سن۔

یاسر نے کہا شکریہ اور بات آگے بڑھائی ہوا یہ کہ ایک مرتبہ ایک ڈرائیور اپنے مالک کی بیوی کے ساتھ بھاگ گیا۔ یاسر کے منہ سے یہ جملہ کیا نکلا کہ سارے لوگوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ڈرائیور بھی بالکل گوں گا بہرہ ہو گیا۔ پاروتی غصہ سے تلملا اٹھی ۔ اس کا جی چاہا کہ بیچ ہی میں بول پڑے لیکن شنکر کے خوف سے چپ رہی۔ اس کیفیت سے بے نیاز یاسرنے اپنا جملہ دوہرایا تو جناب ایک عورت اپنے شوہر کے ڈرائیور کے ساتھ فرار ہو گئی۔ ظاہر ہے وہ شخص غمگین ہو گیا اور میرے جیسے ایک ہمدردو غمگسار دوست کے پاس آ کر اپنی دکھ بھری داستان بیان کرنے لگا۔

شنکر کو احساس ہو رہا تھا کہ یہ لطیفہ خطرناک رخ پر جا رہا ہے لیکن اپنے دوست کے دلآزاری کا خیال کر کے وہ خاموش رہا۔ یاسر نے بات آگے بڑھائی دوست نے پاروتی بھابی کی مانند چونک کر سوال کیا وہ لوگ تمہاری گاڑی لے کر فرار ہوئے یا چھوڑ کر؟ گاڑی کا مالک خوش ہو کر بولا یار گاڑی تو موجود ہے وہ لوگ اسے بھی میری طرح تنہا چھوڑ گئے۔ دوست نے کہا بے وقوف ڈرائیور اور اس سے بھی احمق بیوی ! خیر ایک بات بتاؤ اگر وہ واپس آ جائے تو تم اسے رکھ لو گے؟ مالک نے کہا کیوں نہیں؟ ضرور رکھ لوں گا۔

دوست بولا یار تم تو کافی کشادہ دل اور روشن خیال انسان معلوم ہوتے ہو۔ مالک بولا نہیں ایسی بات نہیں۔ آج کل ایماندار اور محنتی ڈرائیور بڑی مشکل سے جو ملتا ہے۔ آخری جملہ سن کر بھولا خوشی سے پاگل ہو گیا اور زور زور سے قہقہہ لگانے لگا جیسے کوئی گھوڑا ہنہناتا ہے۔ پاروتی کو یاسر کے ساتھ ساتھ بھولا پر بھی بہت غصہ آیا وہ بولی بھولا اب اگر تو ہنسا تو میں تجھے چلتی گاڑی سے نیچے ڈھکیل دوں گی۔ تجھے شرم نہیں آتی جو ایسے گھٹیا لطیفے پر خوش ہو کر داد دے رہا ہے۔

بھولا نے یہ سنتے ہی اچانک اپنی ہنسی پر بریک لگا دیا تھا حالانکہ اس دل چاہ رہا تھا کہ پوچھے میڈم یہ عجب زور زبردستی ہے کہ آپ لطیفہ سنانے والے کو تو کچھ نہیں کہتیں اور اس پر ہنسنے والے کی سرزنش کرتی ہیں لیکن اسے پاروتی کی دھمکی یاد آ گئی۔ شنکر سوچ رہا تھا کہ کہیں اس عورت نے چلتی گاڑی سے اس ڈرائیور کو نیچے ڈھکیل دیا تو وہ مرے یا نہ مرے گاڑی کے اندر بیٹھی ہوئی ساری سواریاں بشمول پاروتی کے پرلوک سدھار جائیں گی۔ یاسر یہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ اس سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہو گئی جس نے پاروتی کو ہنسنے ہنسانے کے بجائے لڑنے جھگڑنے پر آمادہ کر دیا؟ آخر ایک لطیفہ ہی تو اس نے سنایا تھا۔ اس میں اس قدر ناراض ہونے والی کیا بات تھی؟ لیکن اس نے اپنے آپ کوکسی طرح قابو میں رکھا اور بھولا کی مانند خاموش رہا۔ پاروتی صحیح معنوں میں درگا ماتا کا روپ دھار چکی تھی۔

اگلے پندرہ منٹ گاڑی کے اندر موت کا سناٹہ چھایا رہا اور پھر گاڑی کیلاش پربت میں داخل ہو گئی۔ اپنے دوست شنکر کی اس شاندار کوٹھی کو دیکھ کر یاسر حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ رابرٹ نے غیر معمولی ترقی کر کے وزارت قانون اور اس کے بعد وزارتِ داخلہ کا قلمدان حاصل کیا لیکن اس کے باوجود اس کا مکان ایسا شاندار نہیں تھا۔ ایک تو نیروبی میں تعمیرات کا معیار اس قدر اونچا نہیں تھادوسرے وہ کوٹھی بھی پرانی تھی جبکہ شنکر کا مکان تو بالکل نئی نویلی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔

شنکر بولا یار یاسر یہ حسن اتفاق ہے کہ……..

یاسر نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ٹوکا یاسر نہیں ناصر۔ وہ تو اچھا ہوا بھابی اندر جا چکی ہیں۔

شنکر بولا اور ہاں تو بھی ذرا خیال رکھا کر ایسے لطیفے جو ہم آپس میں سنایا کرتے ہیں وہ اس پاروتی کے سامنے …….

یاسر بولا ہاں یار بعد میں میری عقل آئی لیکن تب تک تیر آر پار ہو چکا تھا۔

شنکر نے کہا کوئی بات نہیں لیکن سن جھوٹ بولنا جس قدر آسان ہوتا ہے اسے یاد رکھنا اسی قدر مشکل ہوتا اور تجھے پتہ چل گیا ہو گا کہ پاروتی کی یادداشت………

جی ہاں میں سمجھ گیا یاسر بولا۔

شنکر نے کہا تو یاد رکھ سرخ مثلث ایک مطعم کا نام ہے جو نیروبی میں واقع ہے۔

یاسر بولا جی نہیں اب وہ موجود نہیں بلکہ اس کو آگ نے نگل لیا ہے میرا مطلب ہے کل کو بھابی نیروبی میں جا کر اسے تلاش کرنے کی کوشش کرے تو وہ اسے نہیں ملے گا۔

شنکر بولا جی ہاں اور جولیٹ کون ہے تمہیں یاد ہے کہ نہیں؟

یاسر نے فوراً ً ایک نیا جھوٹ گھڑا جی ہاں وہ رابرٹ کی ہونے والی بیوی

……..شنکر نے ٹوکا نہیں بلکہ باقاعدہ زوجہ محترمہ بن چکی ہیں۔

یاسر نے کہا یار مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میری زندگی جھوٹ کا ایک پلندہ بن گئی ہے۔

شنکر بولا لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ یاسر الجابری نیروبی سے ضرور چلا تھا لیکن دبئی میں فلائیٹ بدلنے کے بعد ناصر فیضی بن گیا ہے۔

یاسر نے کہا جی نہیں یاسرنیروبی میں پولس کی گولی سے ہلاک ہو چکا ہے۔

شنکر بولا جی ہاں یہ زیادہ درست ہے اور میں ٹی وی پر اس کی مسخ شدہ لاش بھی دیکھ چکا ہوں۔

یاسر نے کہا مجھے لگتا ہے ہمیں اس کو نوشتۂ دیوار بنا کر ہر روز صبح شام کم از کم ایک مرتبہ اسے دوہرانا ہو گا ورنہ اس رام کہانی کو یاد رکھنا مشکل ہے۔ خیر بات کہیں اور نکل گئی تو مجھے اس مکان کے بارے میں بتا رہا تھا۔

جی ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا شنکر نے بات آگے بڑھائی اس گھر کی تعمیر کا کام دوسال سے چل رہا تھا مگر ابھی گزشتہ ہفتے ہی مکمل ہوا ہے۔ ہم لوگ تین دن قبل یہاں منتقل ہوئے اور اسی کے ساتھ تم یہاں تشریف لے آئے۔ یہ میرے لئے بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ یہ سمجھ لو کہ ابھی ہم لوگ یہاں کے انتظامات کی نوک پلک درست ہی کر رہے ہیں اور اس کی افتتاحی تقریب آئندہ ہفتہ ہونی ہے۔

جی ہاں شنکر بہت بہت مبارک ہو تمہیں یہ نیا مسکن۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے اس قلیل عرصہ میں رابرٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا مکان جیسا بھی ہے سرکاری ہے اور یہ تمہاری ذاتی ملکیت ہے۔ اپنی تعریف سن کر شنکر صوفیانہ انداز میں بولا یار اس دنیا میں کیا اپنا اور کیا پرایہ۔ انسان در اصل ایک مہمان ہی تو ہے جو کچھ دن یہاں قیام کرتا ہے اور پھر بنا چاہے اپنا رختِ سفر باندھ لیتا ہے۔ ہم یہاں نہ اپنی مرضی سے آتے ہیں اور نہ جاتے ہیں۔

شنکر کا وعظ سن کریاسر کو ایسا لگا جیسے وہ اس کے اپنے بارے میں بول رہا ہے۔ یاسر کی زندگی کا اس سے بہتر خلاصہ کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ شنکر کی بات جاری تھی۔ اب وہ لوگ ایک کمرے کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ شنکر بولا اس مہمان خانے میں تم پہلے مہمان ہو توایسا کرو کہ اب آرام کرو۔ اگر کوئی ضرورت ہو مجھے فون کر دینا میری آرام گاہ کا نمبر ۹۱۱ ہے اور میرا موبائیل نمبر تو تمہارے پاس ہو گا ہی۔ شب بخیر۔ ہم کل صبح ملیں گے۔ یاسر نے جواب دیا شب بخیر۔

یاسر کپڑے بدل کرجیسے ہی اپنے بستر پر لیٹا بے ساختہ سرخ مثلث کی بابت سوچ کا باب کھل گیا۔ وہ سرخ مثلث جو دیکھتے دیکھتے مکڑی کے کمزور جالے کی مانند بکھر گیا تھا۔ اس شبستان پر سب سے پہلا وار شنکر نے کیا تھا۔ اس شنکر نے کہ یاسر آج جس کی پناہ میں تھا لیکن شنکر کے اس اقدام سے کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا اس لئے کہ شنکر کا فیصلہ اس کی اپنی ذات تک محدود تھا۔ شنکر کی اپنی مجبوری بھی تھی۔ رابرٹ نے اس کے ذمہ یہ کام دیا تھا کہ علاقہ کے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی رہنما ’کاکاجوجو‘ کو اغواء کر کے اڈے پر لائے تاکہ اس کا انتظام کیا جا سکے۔

نیروبی کا سب خطرناک زیر زمین گروہ سرخ مثلث بلاوجہ کی قتل و غارتگری کا قائل نہیں تھا۔ اس کا طریقۂ کار یہ تھا پہلے زبان سے ڈرا دھمکا کر اپنا کام نکالا جائے۔ اگر اس سے بات نہ بنے تو دھن دولت کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی جائے۔ جب یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے تو تشدد کا سہارا لیا جائے۔ وہ لوگ کسی گردن پر اسی وقت ہاتھ ڈالتے تھے کہ جب ناگزیر ہو جاتا تھا۔

شنکر جب اس کام کے لیے ’کاکاجوجو‘ کے پاس پہنچا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا تو وہ کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہو گیا اور بھری دوپہر میں تیز رفتار گاڑی سے کود گیا۔ اس کا چھلانگ لگانا تھا کہ پیچھے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے کچل دیا۔ ’کاکا جوجو‘ تو اسی وقت مرگیا لیکن اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے دوسری گاڑی والے نے شنکر پر یہ الزام لگا دیا کہ اس نے ’ کاکاجوجو‘ کو چلتی گاڑی سے باہر پھینک دیا تھا۔

شنکر تو وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس گاڑی کے ڈرائیور اور دیگر راہگیروں نے شنکر کی گاڑی کا نمبر لکھ لیا تھا۔ چونکہ دوسری گاڑی کا مالک کافی بارسوخ آدمی تھا اس لئے شنکر کے خلاف قتل کا زبردست مقدمہ بن گیا۔ ایسی صورتحال میں رابرٹ اور یاسر نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ وقتی طور پر شنکر کو روپوش ہو جانا چاہئے۔ شنکر نے چھپ کر صومالیہ کا سفر کیا اور وہاں سے اپنے ہندوستانی پاسپورٹ پر ممبئی چلا آیا۔ ہندوستان کے اندر اس کی ددیہال کے کئی رشتہ دار تھا۔ شنکر کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس نے اعزہ و اقارب کی مدد سے پونے شہر میں اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا جو دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔

رابرٹ نے آگے چل کر اپنے رسوخ کا استعمال استعمال کیا اور شنکر کے خلاف لگائے گئے سارے الزامات کو جستہ جستہ کمزور کروا دیا۔ عدالت نے تین سال بعد شنکر کی غیر موجودگی ہی میں اس کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے اسے بے قصور قرار دے دیا لیکن اس وقت تک شنکر کا کاروبار خاصہ جم چکا تھا۔ اس نے رابرٹ اور یاسر کے اصرار کے باوجود دوبارہ جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا۔ یاسر سوچ رہا تھا کہ شنکر کس قدر دانشمند تھا جو اس نے واپس اس اندھیر نگری میں قدم نہیں رکھا۔ اس حادثے نے جہاں ’ کاکاجوجو‘ کی جان لی وہیں شنکر کو ایک نئی زندگی سے نواز دیا۔ ورنہ ایک دن شنکر کو بھی یاسر کے ساتھ اپنا بوریہ بستر لپیٹ کر دبئی کے راستے ممبئی کے جہاز میں سوار ہونا پڑتا تھا۔

یاسر اب شنکر کے بجائے خود اپنا زندگی کا جائزہ لے رہا تھا۔ یاسر کی اور شنکر کی حالت میں سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ یاسر کے نکلنے کا بلکہ اس کو نکالنے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر رابرٹ نے کر دیا تھا اور نہ صرف اس کو چلتا کیا گیا تھا بلکہ جو محل ان تینوں نے بڑے ارمانوں سے تعمیر کیا تھا اسے جلا کر چراغاں کیا گیا۔ رابرٹ دھڑ لے کے ساتھ خود اپنے گھر کو آگ لگا کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہا تھا۔ لیکن شنکر پر اس آتش زنی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ تو پہلے ہی اپنے آپ کو اس گورکھ دھندے سے الگ کر کے ایک نیا جہان آباد کر چکا تھا۔

رابرٹ اور شنکر کے برعکس جو سیاست اور تجارت میں کامیابی کی نت نئی منزلیں سر کر رہے تھے یاسر تباہی و بربادی کی علامت بن چکا تھا۔ وہ نہ گھر کا تھا اور نہ گھاٹ کا۔ اس کو رابرٹ پر پھر ایک بار بہت غصہ آیا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ جب بھی موقع ملے گا وہ بدلہ ضرور لے گا اور رابرٹ کو اپنے ہاتھوں سے اس کے کئے کی قرار واقعی سزا دے گا یعنی موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب یاسر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

رابرٹ

 

صبح یاسر کو کھڑکی میں کھڑا دیکھا تو رامو دوڑا کراس کے پاس پہنچ گیا اور پوچھا جناب کیا آپ چائے پینا پسند کریں گے۔ یاسر خوش ہو کر بولا کیوں نہیں۔ رامو ابھی لایا سرکار کہہ کر غائب ہو گیا۔ یاسر نے ٹی وی کا ریموٹ دبایا تو ہندوستانی پارلیمان کے اجلاس کی کارروائی نشر ہو رہی تھی۔ ارکان پارلیمان مسلم طلاق شدہ خواتین کے حقوق پر بحث کر رہے تھے گویا بلا واسطہ اسلامی شریعت زیرِ بحث تھی یہ دیکھ کر یاسر کو کینیائی پارلیمان کے سرمائی اجلاس کی گرما گرم بحث یاد آ گئی جس میں حکومت نے ایک ایسا قانون پیش کر دیا تھا جس کی مخالفت کرنا حزب اختلاف کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔

وزیر اعظم جسٹن لامبوسا جانتے تھے کہ آئندہ انتخاب سے قبل یہ آخری اجلاس ہے اور اس میں کچھ ایسا کرنا ضروری ہے جس سے عوام کا دل جیت لیا جائے تاکہ الیکشن میں کامیابی کو یقینی ہو سکے۔ اس مقصد کے لئے بڑے غور و خوض کے بعد انہوں نے تعدد ازدواج کا قانون ایوانِ پارلیمان کے اندر پیش کر کے حزب اختلاف کو چت کر دیا۔ اپوزیشن کا تو فرض عین ہی حکومت کی ہر صحیح یا غلط بات کی مخالفت کرنا ہوتا ہے اس لئے اس نے ابتداء اس الزام سے کی کہسرکار انتخاب سے قبل۲. فیصد مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس بل کے پسِ پشتسیاسی مفاد پرستی کارفرما ہے۔

اس قانون کے مسودے کو چونکہ وزیر قانون اور پارلیمانی امور رابرٹ یا ہو نے پیش کیا تھا اس لئے انہوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو تو پرسنل لاء کے تحت تعدد ازدواج کا یہ حق پہلے ہی سے حاصل ہے۔ یہ تو اکثریتی طبقہ کے محروم لوگوں کے حقوق کی بحالی کا قانون ہے۔ اس جواب کے بعد حزب اختلاف کے الزامات کی ہوا نکال گئی لیکن رابرٹ یا ہو نے آگے بڑھ یہ اعلان بھی کر دیا کہ مجوزہ قانون اسلامی شریعت سے دو قدم آگے ہے۔

ارکان پارلیمان کے استفسار پر کہ وہ کس طرح شریعت سے زیادہ روشن خیال ہے رابرٹ نے جواب دیا مسلمانوں کی شریعت انہیں چار سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں دیتی مگر اس قانون میں ایسی کوئی تحدید نہیں ہے۔

وزیر کی یہ دلیل سن کر ایک مغرب زدہ مسلمان رکن پارلیمان چراغ پا ہو گئے اور سوال کر دیا یہ تو سراسر نا انصافی۔ کیا مسلمان اس نئے قانون سے فیضیاب نہیں ہو سکتے۔

اس پر وزیر موصوف نے مسکرا کر جواب دیا کیوں نہیں۔ اس قانون کے تحت مسلمان بھی چار سے زیادہ نکاح کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں انہیں سیکولر عدالت میں جا کر اپنے اس غیر اسلامی نکاح کا اندراج کرانا ہو گا اس طرح حکومت کے نزدیک یہ شادی جائز قرار پائے گی۔

رابرٹ یا ہو کے دلائل نے سارے مخالفین کو دم بخود کر دیا ایوان میں موجود صرف خواتین ارکان اس کی مخالفت کرتی رہیں۔ غیر مسلم خواتین تو سرے سے تعدد ازدواج کی ہی مخالف تھیں لیکن مسلم خواتین کو چار سے زیادہ پر اعتراض تھا۔ اس نئے قانون کے حق میں سب سے بڑی دلیل صدیوں سے رائج افریقی قبائل کے اندر تعدد ازدواج کا روایت تھی جس پر مغرب کی جانب سے تھوپے گئے عائلی قوانین کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہو سکا تھا۔

معاشرے کی زمینی صورتحال یہ تھی کہ پولس افسران تعدد ازدواج کی شکایت درج کرنے سے کتراتے تھے اس لئے کہ ان میں سے اکثر کی ایک زائد بیویاں تھیں۔ وکلاء مقدمہ لینے سے ڈرتے تھے اور جج حضرات فیصلہ سنانے میں ٹال مٹول کرتے تھے اس لئے کہ وہ بھی اکثر و بیشتر ایک سے زیادہ بیویوں کے خاوند تھے۔ حکومت چاہتی تھی کہ یہ قانون کثرتِ رائے سے نہیں بلکہ اتفاق رائے سے منظور کیا جائے اس لئے خواتین اراکین کو راضی کرنے کی خاطر ان سے ترمیم پیش کرنے کی درخواست کی گئی تاکہسب کو اعتماد لے کر ایک ایسا قانون وضع کیا جائے جو سارے سماج کے لیے قابلِ قبول ہو اور اس پر لوگ برضا و رغبت عمل پیرا ہوں۔ اس مقصد کے لیے مخصوص ارکان پر مشتمل ایک نمائندہ دستور ساز کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام مختلف تجاویز پر غور کر کے ایک متفقہ مسودہ پیش کرنا تھا۔

اس کمیٹی میں موجود ایک خواتین رکن پارلیمان جو اپنی منہ زوری کے لیے مشہور تھی نے ایک حیرت انگیز ترمیم پیش کر کے سارے لوگوں کو چونکا دیا۔ وہ بولی اگر تعدد ازدواج کا قانون بنانا ہی ہے تو خواتین کو بھی ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت دی جائے۔ یہ سن کر مرد ارکان ہکا بکا رہ گئے انہیں محسوس ہوا چونکہ وہ لوگ اس پر راضی نہ ہو سکیں گے اس لئے یہ قانون بن ہی نہیں پائے گا۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہوئی کہ خود خواتین ارکان کمیٹی نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ کوئی کہہ رہی تھی یہ غیر فطری ہے اور کسی کو اعتراض تھا کہ یہ غیر عملی ہے۔ ایک نے آئندہ نسلوں میں اس کے سبب برپا ہونے والے فتنہ و فساد پر تقریر کر دی اس طرح اتفاق رائے سے اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔

خواتین ارکان کمیٹی بڑی منت سماجت کے بعد اس بات پر دیگر ارکان کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ نئے نکاح سے قبل پرانی بیویوں کی رضامندی لازم ہو۔ قانون ساز ارکان کی کمیٹی نے تو با دلِ ناخواستہ اس تجویز کو قبول کر لیا لیکن انہیں پتہ تھا پارلیمان کے اندر ووٹنگ کے دوران اس کا کیا حشر ہو گا؟ پارلیمان کے اندر اسپیکرحسن شنگارہ ترمیم کی ہر شق کو علحٰدہ علحٰدہ پیش کر رہے تھے اور ہر اعلان کے بعد ایوان کے اندر ایک مشترکہ تائیدی نعرہ بلند ہوتا تھا یہاں تک کہ خواتین کی ترمیم بھی انہوں نے پڑھ کر سناڈالی اس پر خلاف توقع دو قسم کی صدائیں بلند ہوئیں۔

خواتین ارکان نے یک زبان ہو کر تائید کی مگر مردوں نے متحد ہو کر اسے مسترد کر دیا۔ کینیا کی پارلیمان کا یہ ایک نہایت منفرد منظر تھا جس میں ایوان حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے بجائے جنس کی بنیاد پر تقسیم ہو گیا تھا۔ تمام نظریاتی و جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ اسپیکر کو مجبوراً رائے شماری کروانی پڑی اور نتیجہ صاف تھا مرد حضرات اکثریت میں تھے۔

اس قانون نے سیاسی منظر نامہ کو یکایک بدل دیا۔ وزیر اعظم جسٹن لومباسا پر لگائے گئے سارے بدعنوانی کے الزامات اچانک عوام کی نظروں سے اوجھل ہو گئے اور ساری قوم ایک ایسی چیز کو پاکر خوش ہو گئی جو ان کے پاس پہلے ہی سے موجود تھی۔ اسی کے ساتھ حزب اقتدار جوبلی پارٹی کو اپنی کامیابی کا یقین ہو گیا اور جمہوری اتحاد کو پھر ایک بار اپنی شکست صاف نظر آنے لگی۔ جوبلی پارٹی کی اس شاطرانہ چال سے پارٹی کے اندر فرط ومسرت کی زبردست لہر چل پڑی تھی لیکن اسی جماعت کا وزیر قانون رابرٹ یا ہو جس نے یہ بل پیش کیا تھا اور اس کا زبردست دفاع کیا تھا اس کامیابی سے ناراض تھا۔

رابرٹ جو وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا تھا لومباسا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے حسد کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کو ایسا لگنے لگا تھا اب مزید پانچ سالوں کے لیے اس کے ارمان سرد خانے کی نذر کر دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں سارے مرد ارکان پارلیمان اس موقع پر جسٹن لومباسا کو مبارک دے رہے تھے رابرٹ خواتین ارکان کے ہمراہ ایوانِ پارلیمان سے غائب ہو چکا تھا۔ زر خرید ذرائع ابلاغ کا اس خبر کو اچھالنا اس پر گراں گذر رہا تھا۔

خواتین ارکان کے احتجاج کی حیثیت بھی علامتی تھی اس لئے کہ افریقہ کے اندر تعدد ازدواج کا چلن اس قدر عام ہے کہ اسے حسبِجبلت بلکہ عین فطرت تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن رابرٹ کی ناراضگی حقیقی تھی۔ وہ دل سے چاہتا تھا کہ اس بار اس کی اپنی جماعت جوبلی اکثریت سے محروم رہے۔ متحدہ محاذ کی کچھ کالی بھیڑوں کو اس نے اپنی حمایت پر راضی کر لیا تھا اور منصوبہ یہ تھا کہ وہ محاذ سے نکل کر اپنی حمایت جوبلی کو اس پر شرط دیں گے جسٹن لومباسا کی جگہ رابرٹ یا ہو کو وزیر اعظم بنایا جائے لیکن اس تعدد ازدواج کے قانون نے ساری بساط ہی الٹ کر رکھ دی تھی۔

رابرٹ کی ناراضگی نے لومباسا کے کان کھڑے کر دئیے۔ انہیں پہلے سے جو شک تھا اب یقین میں بدل گیا۔ لومباسا اب رابرٹ کے پر کترنے کا خفیہ منصوبہ بنانے میں لگ گئے۔ اس کا انہیں بہت ہی وسیع تجربہ تھا۔ وہ رابرٹ سے پہلے اپنے کئی مخالفین کو ٹھکانے لگا چکے تھے۔ جسٹن لومباسا نے نئی حکمت عملی کے تحت ایک نہایت حیرت انگیز فیصلہ کر کے رابرٹ سمیت ساری قوم کو چونکا دیا۔ انہوں نے وزارتوں کی تشکیل نو کا اعلان کیا۔ رابرٹ یہ توقع کر رہا تھا اس کا ٹکٹ کٹ جائے گا لیکن لومباسا نے رابرٹ کو ملک کے وزارتِ داخلہ کا اہم قلمدان سونپ دیا۔

اس اعلان کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں رابرٹ یا ہو کا جرائم پیشہ ماضی موضوع بحث بن گیا۔ سارے صحافی و دانشور لومباسا کی شہ پریک زبان ہو کر لومباسا کی مخالفت کرنے لگے۔ حزب اختلاف کو نیا موضوع مل گیا۔ اس نے وزیر اعظم پر الزام لگایا کہ انتخابات کے دوران دھاندلی کی خاطر یہ تبدیلی کی گئی ہے اور ایک جرائم پیشہ شخص کے ہاتھوں میں انتظامیہ کی باگ ڈور تھما دی گئی ہے۔ جسٹن لومباسا نے رابرٹ کی صفائی میں کہا کہ انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے جس غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے یہ اس کا ادنیٰ سا انعام ہے اور دہشت گردی کا مقابلہ وہی کر سکتے ہیں۔ پڑوسی ملک صومالیہ سے درآمد ہونے والی الشباب کے خطرے سے نمٹنے کا دم خم انہیں میں ہے اور وہی اس عہدے کے جائز حقدار ہیں۔ اس لئے یہ اہم ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے۔

لومباسا کو پتہ تھا کہ ان کی حمایت آگ پر تیل کا کام کرے گی اور جب اس کے شعلے آسمان کو چھونے لگیں گے تو خود جوبلی پارٹی کے رہنما رابرٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگیں گے اور انتخاب سے قبل اس مخالفت کی آگ میں رابرٹ کو جھونک کر وہ پھر ایک بار ہر دلعزیز بن جائیں گے اس طرح لومباسا کے راستے کا ایک کانٹا بھی نکل جائے گا۔ رابرٹ اس نئی مصیبت سے پریشان ہو گیا تھا۔ اسے اپنا سیاسی مستقبل شعلوں کی نذر ہوتا ہوا دکھائی پڑ رہا تھا کہاں تو پی ایم کے خواب اور کہا ایم پی کی کرسی سے بھی محرومی؟ رابرٹ دن رات پریشان رہنے لگا جب مخالفت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اچانک اس نے وزیر اعظم کو اعتماد میں لئے بغیر ایک پریس کانفرنس کر ڈالی۔

اس موقع پر رابرٹ نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے ببانگِ دہل یہ تسلیم کر لیا کہ نیروبی شہر کا سب سے سنگین مسئلہ بے لگام جرائم ہیں، جس کے تانے بانے سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس نے اعتراف کیا کہ سیاست میں آنے قبل اس کا تعلق جرائم کی دنیا سے رہا ہے اور اپنے تجربات کی مدد سے وہی اس لعنت سے ملک کو پاک کر سکتا ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ ملک کے اندر مجرمانہ سرگرمیوں ملوث دیگر گروہوں کے علاوہ سرخ مثلث بھی اس کے نشانے پر ہے اور بہت جلد وہ ایسے اقدامات کرنے والا ہے جن کے سبب سرخ مثلث ایک سیاہ دھبہ بن کر صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔

کینیا کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ سرخ مثلث کس آسیب کا نام ہے لیکن کسی کے اندر اس کا نام لینے کی جرأت نہیں تھی۔ رابرٹ نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر کے وزیر اعظم لومباسا سمیت ساری قوم کو چونکا دیا۔ لومباسا کا منصوبہ تھا کہ مخالفت جب بامِ عروج پر پہنچ جائے گی تو سرخ مثلث کے ساتھ رابرٹ کے تعلقات کو منظرِ عام پر لایا جائے گا تاکہ اس کی قبر میں آخری کیل ٹھونکی جا سکے لیکن رابرٹ نے اپنی ایک جرأت مندانہ شہ سے لومباسا سمیت سارے مخالفین کو مات دے دی تھی۔

عوام کو یقین ہونے لگا تھا کہ رابرٹ ہی ان کا نجات دہندہ ہے۔ لوگ اس سے یہ توقع کرنے لگے تھے کہ جرائم کے ناسور سے وہی نجات دلا سکتا ہے لومباسا نہیں۔ بازی الٹ چکی تھی لومباسا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔ اس کے سامنے رابرٹ کے اگلے اقدام کو خاموش تماشائی بنے دیکھنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ تعدد ازدواج کے قانون پر جرائم کا خاتمہ حاوی ہو چکا تھا۔ جرائم کے مضر اثرات کا شکار چونکہ خواتین سب سے زیادہ ہوتی تھیں اس لئے وہ اس کی سب بڑی حامی بن گئی تھیں۔ خواتین کو جرائم پیشہ افراد نہ صرف اخلاقی و معاشی مشکلات میں مبتلاء کرتے تھے بلکہ جنسی جرائم کی بڑھتی تعداد نے ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔

قلب شہر کے اندر موجود سرخ مثلث کے اڈے میں یاسرالجابری ٹیلی ویژن کے پردے پر اپنے دوست رابرٹ کی تقریر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سیاستدانوں کی منافقت سے وہ خوب اچھی طرح واقف تھا۔ اس نے اپنی عمر کا بڑا حصہ ان سیاستدانوں کی خدمت میں گزار دیا تھا۔ اس عرصے میں یاسر نے نہ صرف ان کو بھرپور فائدہ پہنچایا تھا بلکہ ان سے زبردست فوائد بھی حاصل کئے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ ان سیاستدنواں کے قول و عمل میں کچھ بھی مشترک نہیں ہوتا۔ یہ جو کچھ کہتے ہیں بعینہ اس کے خلاف کام کرتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یاسر یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا دوست اور شراکت دار رابرٹ عام سیاستدانوں سے مختلف ہے۔ وہ بہت کم بولتا ہے مگر خاموشی کے ساتھ بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ اپنے حلقۂ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے چونکہ اس کے پاس بڑی تعداد میں غنڈے موجود تھے اس لئے بہت زیادہ جھوٹ اور مکاری کی ضرورت اسے نہیں پیش آتی۔ لیکن بیچارے یاسر کو نہیں پتہ تھا کہ اب اس کے دوست کی توقعات محض پارلیمان کی رکنیت یا وزارت تک نہیں محدود نہیں ہے بلکہ اب وہ وزارتِ عظمیٰ کا خواب بننے لگا تھا اور ان خوابوں نے رابرٹ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

اس رات خلاف توقع رابرٹ اڈے پر نہیں آیا بلکہ اس نے یاسر کو ایک دور دراز کے ریسٹ ہاؤس میں بلوا بھیجا۔ یاسر سمجھ گیا کہ آج رابرٹ کوئی خاص بات کرنا چاہتا ہے ورنہ اس اہتمام کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔ نیروبی سے ۲.میل کے فاصلے پر دونوں دوستوں نے تخلیہ میں ملاقات کی۔ اس دوران کوئی تیسرا فرد وہاں موجود نہیں تھا۔

یاسر نے رابرٹ کو پریس کانفرنس میں کی جانے والی تقریر پر مبارکباد دینے کے بعد کہا رابرٹ تم نے تو آج سرخ مثلث کا نام لے کر کمال کر دیا۔

رابرٹ بولا اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ کوئی اور کہتا تو اس میں تعجب کی بات تھی لیکن میں تو ……….

جی ہاں دوست یاسر بولا ویسے کسی کی کیا مجال کہ کوئی ہمارا نام اپنی زبان پر لائے؟ اگر کسی احمق سے ایسی غلطی سرزد ہو جاتی تو اس وقت ذرائع ابلاغ میں اس کے قتل خبر گونج رہی ہوتی۔

رابرٹ بولا جی نہیں ہم ایسے بھونڈے طریقے سے کام کرنے کے قائل نہیں ہیں۔

یاسر بولا تو کیا اس گستاخ کو زندہ چھوڑ دیتے؟

رابرٹ ہنس کر بولا یہ میں نے کب کہا؟ مجھے تو وہ قتل والے بیان پر اعتراض ہے؟

اچھا تو کیا ہم اس کی جان بخشی کر دیتے؟

رابرٹ بولا یہ بھی میں نے نہیں کہا اس کا قتل تو یقیناً ہو جاتا لیکن ذرائع ابلاغ کی کیا مجال ہوتی کہ وہ اسے قتل کہتا۔

یاسر نے سوال کیا اچھا اگر قتل نہیں تو کیا کہتا؟

رابرٹ بولا بھئی لوگ حادثات کا شکار ہو کر بھی تو مر جاتے ہیں بلکہ میں نے سنا ہے حادثے کا شکار ہو کر مرنے والے یا اپنی فطری موت مرنے والوں کی تعداد قتل ہونے والوں سے زیادہ ہے۔

یاسر نے پھر سوال کیا تو کیا تمہارا مطلب ہے وہ از خود کسی حادثے کا شکار ہو جاتا؟

یہ میں نے نہیں کہا میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ایسا ہی کچھ ذرائع ابلاغ کہہ رہا ہوتا اور ویسے بھی ذرائع ابلاغ میں سچ کتنا ہوتا ہے اور جھوٹ کس قدر یہ تم سے زیادہ کون جانتا ہے؟

یاسر ہنس کر بولا مجھ سے زیادہ؟ مجھ سے زیادہ تم جانتے ہو اور کون جانتا ہے۔

جی نہیں یاسر میں کسی معاملے میں تم پر سبقت نہیں رکھتا ہم دونوں یا تو برابر ہیں یا تم آگے ہو۔

یاسر مسکرا کر بولا زہے نصیب لیکن اب یہ بتاؤ کہ تمہارا اگلا اقدام کیا ہے؟

یاسر تم نے میرا بیان نہیں سنا۔ میرے ارادے جگ ظاہر ہیں۔

یاسر چونک کر بولا میں نہیں سمجھا؟

اس میں سمجھنے کے لیے کیا ہے یاسر۔ کل رات کو پولس ہمارے اڈے پر چھاپہ مارے گی۔ اس لئے وہاں سے ساری اہم چیزیں ہٹا دو۔

ساری اہم چیزیں میں سمجھا نہیں؟ میرا مطلب ہے دستاویز یا کوئی ایسی چیز جو ہمارے خلاف ثبوت بن سکتی ہو۔ ویسے ہم لوگ ایسی چیزیں رکھتے کب ہیں؟

یاسر نے حیرت سے کہا رابرٹ مجھے تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔ تمہارا مطلب ہے میں سارے لوگوں کو بتلا دوں کہ کل رات چھاپہ پڑنے والا ہے۔

رابرٹ بولا یار یاسر تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ اگر ایسا ہی ہوتا تو میں تمہیں اس دور دراز کے مقام پر کیوں بلاتا۔ یہ راز صرف اور صرف میرے اور تمہارے درمیان رہے گا ورنہ معاملہ بگڑ جائے گا۔

اگر ایسا ہے تو میرا کیا ہو گا؟ یاسر نے سوال کیا۔

تمہارے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ تم ملک سے باہر نکل جاؤ۔

ملک سے باہر؟ ملک سے باہر میں کہاں جاؤں گا؟ تم تو جانتے ہو میرا کوئی ملک نہیں ہے۔ میری ماں اسی سرزمین کی رہنے والی تھی اور میرا باپ فلسطین کا رہنے والا تھا۔ میرے پاس فلسطین کا پاسپورٹ بھی نہیں ہے اور میں وہاں ہر گز محفوظ نہیں ہوں۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو میرے دوست؟

رابرٹ بولا مجھے سب پتہ ہے یاسر۔ میں تمہیں آج سے نہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب سے تم اپنے آپ کو جانتے ہو اور ہاں تم بھی مجھے اس وقت سے جانتے ہو جب سے میں …….۔

سمجھ گیا…..سمجھ گیا آگے بولو رابرٹ۔

رابرٹ نے کہا میرا خیال ہے کہ تم شنکر کے پاس ہندوستان چلے جاؤ۔

شنکر کے پاس!!! شنکر کے پاس کیوں؟

اس لئے کہ وہ بھی تمہارا اسی طرح دوست ہے جس طرح میں تمہارا دوست ہوں۔

یاسر بولا تم میرے کیسے دوست ہو رابرٹ جو مجھے اپنی مرضی کے خلاف اپنے ملک سے نکال کر ایک اجنبی ملک میں بھیج رہے ہو جہاں میرا نہ کوئی دوست ہے نہ دشمن۔

رابرٹ بولا یاسر تم یہ نہ بھولو کہ وہاں شنکر موجود ہے جو تمہارا دوست ہے۔ ہاں یہ تم نے درست کہا کہ وہاں تمہارا کوئی دشمن نہیں ہے اور یہ بہت ہی مثبت پہلو ہے۔

لیکن یہاں بھی تو میرا ایک …..یاسر کی زبان رک گئی وہ رابرٹ کو اپنا دوست نہیں کہہ سکا۔

رابرٹ بولا یار رک کیوں گئے میں کوئی پرایا تھوڑی نا ہوں؟

یاسر بولا میں کہہ رہا تھا کہ یہاں بھی میرا دشمن کون ہے؟

اچھا!!!…… رابرٹ بولا۔

یاسر نے اپنی اصلاح کی اور بولا جی ہاں اگر ہے بھی مجھے اس کی پرواہ کب ہے۔

رابرٹ بولا دیکھو یاسر وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد میں نے سب سے پہلے تمہاری خفیہ فائل منگوائی اس لئے کہ تم میرے بچپن کے یار اور غمگسار ہو اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران جو بھی جرائم میں نے اور تم نے مل کر یا الگ الگ کئے ہیں وہ سب تمہارے نام پر درج ہیں۔

یاسر نے خوف و استعجاب کے عالم میں رابرٹ کو دیکھا۔ رابرٹ نے اپنی بات جاری رکھی اور بولا میرے دوست یہ نہایت سنگین صورتحال ہے۔ یہ ایک ننگی تلوار ہے جو تمہارے سر پر لٹک رہی ہے۔ کل رات چھاپے کے بعد یہ فائل ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔ اس لئے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم کل شام کی فلائیٹ سے ممبئی کے لیے نکل جاؤ۔ میں نے تمہارے لئے ایک نئے نام سے پاسپورٹ بنا دیا ہے اور اس پر اپنے جاننے والے ہندی سفارتکار سے ویزہ بھی لگوا دیا۔ تم اسے لے کر شنکر کے پاس چلے جاؤ اور آج سے تم ناصر ہو……ناصر فیضی۔

یاسر کے قدموں تلے سے زمین کھسک چکی تھی۔ اس نے سوال کیا لیکن وہ فائل جس کا تم ابھی ابھی ذکر کر رہے تھے اس کا کیا ہو گا؟

میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ پرسوں صبح……پرسوں صبح تم یاسر کے موت کی خبر پڑھ لو گے اور اسی کے ساتھ وہ فائل بند ہو جائے گی۔

یاسر کو اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا سب کچھ چھن چکا ہے۔ اس کے ماضی معدوم ہو گیا اور اس کی شناخت تک سے اس کا عزیز دوست اسے محروم کر چکا ہے۔ گرم کافی کا کڑوا گھونٹ پی کر یاسر نے اپنے حواس جمع کئے اور بولا رابرٹ کیا ضروری ہے؟

رابرٹ نے جواب دیا جی ہاں یاسر یہ ناگزیر ہے۔

یاسر بولا کیا یہ غداری نہیں ہے؟

جی نہیں غداری تو اس وقت ہوتی جب میں تمہیں چھاپے کی بابت تاریکی میں رکھتا لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ تمہارے ساتھ میں ایسا نہیں کر سکتا میرے عزیز ترین دوست ہواس لئے میں نے تم سے پوچھے بغیر یہ سارے انتظامات از خود کر دئیے۔ مجھے یقین ہے کہ اس صورتحال میں یہی سب سے بہتر متبادل ہے۔ رابرٹ کا احساس جرم اس کو کچوکے دے رہا تھا وہ بولے جا رہا تھا۔ دیکھو یاسراس لفافے میں ٹکٹ کے علاوہ دیگر ضروریات کا بندو بست بھی ہے میرا خیال ہے کہ رات کافی ہو چکی ہے اس لئے اب تاخیر نہ ہی مناسب ہے اور نہ اس کی گنجائش ہے۔

یاسر بولا ٹھیک ہے لیکن ایک آخری سوال۔

رابرٹ نے کہا پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟

یاسر بولا جولیٹ کے بارے میں تم نے کیا سوچا ہے؟

جولیٹ؟ ………. کون جولیٹ؟

یاسر بولا وہی جولیٹ جو دن رات تمہارے نام کی تسبیح گنتی رہتی ہے۔

رابرٹ نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا جی ہاں جولیٹ! میں نے ابھی تک تو اس کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ تم ایسا کرو کہ اس کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ میں اس کے لیے یہ سارے کاغذات مہیا کر دوں گا۔

یاسر نے سوال کیا تو کیا تمہارا مطلب ہے میں اسے بھی اپنا راز دار بنا لوں؟

رابرٹ نے چونک کر کہا یاسر کیسی باتیں کرتے ہو تم؟ ایک عورت کو تم کیسے اپنا راز دار بنا سکتے ہو؟

یاسر بولا لیکن رابرٹ یہ بھی تو سوچو کہ اگر میں نے اسے نہیں بتایا تو وہ کیوں کر میرے ساتھ ہندوستان جانے کے لیے تیار ہو جائے گی؟

رابرٹ بولا یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ اگر تم نے بتا دیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ جانے کے لیے راضی نہ ہو۔ عورتیں کس قدر کم عقل اور ضدی ہوتی ہیں تم تو جانتے ہی ہو؟

یاسر نے پھر سوال کیا تو کیا کیا جائے؟ …. اسے بھی بلی کا بکرا بنا دیا جائے؟

رابرٹ کچھ سوچ کر بولا جی ہاں مجھے افسوس ہے لیکن ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار بھی تو نہیں ہے۔ میں مجبور ہوں یاسر۔

یاسر نے کہا میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر مجبور کون ہے وہ یا تم؟

رابرٹ گڑ گڑا کر بولا تم میری مجبوری کو سمجھو؟ ہماری زیر زمین دنیا میں یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہماری جان ہمیشہ ہتھیلی پر رہتی ہے۔ نہ جانے کب کہاں سے ایک گولی آئے اور ہماری کھوپڑی سے پار نکل جائے۔

یاسر نے کہا جی ہاں رابرٹ لیکن ہمیں دشمن کی گولی پر افسوس نہیں ہوتا لیکن دوست کی گولی پر………..

رابرٹ بولا وہ دوست ہی کب ہوتا ہے جو………..۔

دونوں دوستوں نے آخری مصافحہ کیا اور مختلف سمتوں میں چل پڑے لیکن اب وہ دوست ہی کب تھے؟

دوسرے دن یاسر نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ رات کون کون اڈے پر قیام کرنے والا ہے۔ اس فہرست میں سے اس نے اپنے خاص وفاداروں کو بغیر بتائے دور دراز کی مہمات پر روانہ کر دیا۔ سارے شواہد ایک ایک کر کے مٹا دئیے اور پھر جولیٹ کو اپنے کمرے میں بلایا۔ جولیٹ نے سلام کیا اور مسکرا کر بولی باس کل رات بھی آپ بہت دیر گئے لوٹے۔ آج صبح سے خاصے مصروف ہیں جبکہ آپ کی سرخ آنکھیں آرام کا تقاضہ کر رہی ہیں۔ میری رائے ہے کہ آرام کر لیں۔

یاسر مسکرا کر بولا اب آرام ہی آرام ہے جولیٹ۔

میں سمجھی نہیں باس؟

جولیٹ ہر بات کا سمجھنا ضروری نہیں ہوتا یہ بتاؤ کیا تم واقعی ادیس آبا با سے یہاں نیروبی آئی تھیں۔

جی ہاں میں ماگادی کی رہنے والی ہوں لیکن اب میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ جو کچھ ہے یہیں ہے تم تو جانتے ہی ہو۔ جولیٹ کا اشارہ رابرٹ کی طرف تھا۔

جی ہاں یاسر بولا میں جانتا ہوں لیکن رابرٹ بتلا رہا تھا کہ وہاں تمہارا کوئی ماموں وہاں رہتا ہے جو بہت ضعیف ہے۔

جولیٹ بولی جی ہاں میرا ماموں گیگاجو۔ اسی نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ میرے والد کا انتقال بچپن میں ہو چکا تھا۔ وہ میری ماں کا اور میرا بہت خیال رکھتا تھا لیکن افسوس کہ میں اس کی کوئی خدمت نہ کر سکی۔ ہوش سنبھالتے ہی یہاں نیروبی چلی آئی اور پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔

جی ہاں جولیٹ ہم سب کا یہی حال ہے۔ ہماری اس زیر زمین دنیا میں یکطرفہ ٹرافک ہوتا ہے۔ ہمیں آگے ہی آگے جانا پڑتا ہے اس لئے کہ موت ہمارا پیچھا کر رہی ہوتی ہے۔

جولیٹ ہنس کر بولی آپ فلسفی بھی ہیں یہ مجھے آج پتہ چلا خیر آپ نے میرے ماضی کی داستان کیوں چھیڑ دی۔

یاسر نے بڑی مشکل سے ایک جھوٹ گھڑا۔ وہ بولا رات رابرٹ بتا رہا تھا کہ تمہارا ماموں بہت بیمار ہے۔ میری رائے ہے کہ تم اس سے مل آؤ۔

جولیٹ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ بولی رابرٹ کو میرا کس قدر خیال ہے۔ میں خود جن کی خبر نہیں رکھتی وہ ان کی خبر گیری کرتا ہے۔ میں اپنی ماں کی میت میں بھی شریک نہ ہو سکی تھی اس لئے کہ مجھے اس کی اطلاع بہت تاخیر سے ملی تھی لیکن میں اپنے ماموں اپنے سرپرست سے ملنے ضرور جاؤں گی۔

یاسر بولا میں نے گاڑی کا بندوبست کر دیا ہے۔ غفور کار کے ساتھ تمہارا منتظر ہے تم جب بھی اس سے کہو گی وہ تمہیں لے کر چل دے گا۔

جولیٹ کی آواز بھرّا  گئی وہ بولی آپ کتنے اچھے ہیں ! رابرٹ کتنا اچھا ہے !! میرا کس قدر ………

یاسر بولا خدا حافظ جولیٹ اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔ جولیٹ نے آمین کہا۔ کمرے سے نکلی اور اپنا ضروری سامان سمیٹ کر کار میں جا بیٹھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

جولیٹ

 

جولیٹ راستے بھر اپنے ماضی کے بارے میں سوچتی رہی۔ نہ جانے کتنے سال بعد اس نے پہلی بار اپنے ماضی کے جھروکے میں جھانک کر دیکھا تھا ورنہ حال کے مسائل اس قدر سنگین ہوتے تھے کہ کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا۔ جب کبھی تھوڑی بہت فرصت مل جاتی تھی وہ مستقبل کے سپنے بننے میں لگ جاتی تھی۔ عورت ذات جہاں کہیں بھی رہے زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر اپنے مستقبل سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ جولیٹ کی ننھی منیّ دنیا اور رنگ برنگے خواب لیکن ان خوابوں کے ہر منظر میں کہیں نہ کہیں رابرٹ ضرور ہوتا تھا اور کیوں نہ ہو ماں کے انتقال کے بعد اس کا دنیا اور کون تھا؟ ماموں کو وہ بھول چکی تھی ممکن ہے ماموں بھی اسے بھول چکے ہوں۔

جولیٹ نے یہ خیال اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اس کے ماموں اس کی طرح کٹھور نہیں ہو سکتے وہ تو نہایت رحمدل انسان تھے۔ تھے کیوں؟ ہیں وہ ان سے ملنے جو جا رہی ہے۔ جولیٹ نے سوچا اس قدر طویل عرصے کے بعد وہ اپنے ماموں سے ملنے جا رہی ہے کیا وہ اسے پہچان پائیں گے؟ اس کے دل نے کہا کیوں نہیں؟ اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو کیا اسے نہیں پہچانتی؟ ضرور پہچانتی اور اگر ماں پہچان سکتی ہے تو ماموں کیوں نہیں؟ جولیٹ کی آنکھوں میں اپنی ماں کا ہیولہ آ گیا۔

جولیٹ کی ماں سونیٹ ایک فرشتہ صفت خاتون تھی۔ بالکل اپنے گاؤں کے جھرنے کی طرح صاف و شفاف اور پاکیزہ۔ جوانی کے اندر وہ بیوہ ہو گئی۔ کئی لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ نہایت قبول صورت ہے اگر چاہے تو بڑی آسانی سے اس کا نکاحِ ثانی ہو سکتا ہے لیکن سونیٹ نے صاف انکار کر دیا۔ وہ کہا کرتی تھی، جو ہونا تھا سو چکا۔ اب میرا سب کچھ میری بیٹی جولیٹ ہے۔ یہی میرے لئے کافی ہے۔

جولیٹ کو یاد تھا گاؤں کے دوسروں بچوں کے ساتھ اس کی ماں بھی اسے کھیت میں کام کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔ بڑے ایک جانب کام کرتے اور بچے دوسری جانب کھیل کود میں مصروف رہتے۔ پھر ایک دن اس کے ماموں نے اپنی بہن سونیٹ سے کہا میں چاہتا ہوں کہ جولیٹ کا اسکول میں داخلہ کر دیا جائے۔ ماں بولی کیا فائدہ پڑھ لکھ کر بھی تو اسے یہی محنت مزدوری کرنی ہے۔ ماموں بولے لیکن نقصان بھی کیا ہے؟ کم از کم پڑھ لکھ تو لے گی ہو سکتا ہے کہ استانی بن جائے یا گرجا گھر میں راہبہ کے معزز مقام پر فائز ہو جائے۔ مجھے تو تمہاری بیٹی بہت ہی ہو نہار لگتی ہے۔ ضرور یہ کوئی بڑا کام کرے گی۔

ماں مسکرا کر بولی بھائی تمہارے منہ میں گھی شکر۔ یہ جیسے میری بیٹی ہے ویسے ہی تمہاری بھی ہے تم جو چا ہو اس کے ساتھ معاملہ کرو۔ جولیٹ اسکول جانے لگی۔ صبح کھیت میں مزدوری کرتے ہوئے ماں اس کواسکول میں چھوڑ جاتی اور شام میں اپنے ساتھ واپس لے آتی۔ اس طرح نہ جانے کب اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ اچھے نمبرات میں کامیابی حاصل کرنے کے سبب اسے سرکاری اس کالر شپ مل گئی اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ نیروبی روانہ ہو گئی۔

کالج میں اس کی ملاقات رابرٹ، شنکر اور یاسر سے ہوئی جو سرخ مثلث کے نام سے مشہور تھے۔ سارا کالج ان سے تھر تھر کانپتا تھا۔ لڑکیاں تو دور ہی سے انہیں دیکھ کر اپنا راستہ بدل دیتی تھیں لیکن جولیٹ کی بات کچھ اور ہی تھی۔ جولیٹ کا معاملہ تو یہ تھا کہ جب رابرٹ اسے دیکھتا تو اپنا راستہ بدل کر اس کی جانب چل پڑتا تھا۔ وقت کے ساتھ وہ اس بد نامِ زمانہ گینگ کی ممبر بن گئی اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

جولیٹ کو یقین تھا کہ ایک دن رابرٹ اسے شادی کی انگشتری ضرور پہنائے گا لیکن رابرٹ اس قدر آرزو مند طبیعت کا حامل تھا کہ اس کی ایک خواہش پوری ہوتی دس نئی خواہشات پیدا ہو جاتیں اور وہ ان کے پیچھے بگ ٹٹ دوڑتا رہتا۔ جولیٹ کو رابرٹ سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ وہ رابرٹ کی ہر کامیابی پر اس سے زیادہ خوش ہوتی تھی۔ اسے سب سے زیادہ اطمینان اس بات پر تھا کہ رابرٹ اس کے علاوہ کسی اور کی جانب نظر بھر کے نہیں دیکھتا تھا۔ جولیٹ کو صبر و ضبط کی یہ صفت اپنی ماں سے وراثت میں ملی تھی۔

جولیٹ بھی اپنی ماں کی طرحسیدھی سادی، محنتی اور جفا کش تھی۔ خوف و ہراس اس کے قریب نہیں پھٹکتا تھا۔ شنکر کا ایک قتل سے حواس باختہ ہو کر بھاگ کھڑا ہونا اس کے نزدیک بزدلی کے مترادف تھا لیکن اسے شنکر سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے اسے کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ شکوہ شکایت جیسے الفاظ اس کی لغت میں ندارد تھے۔

گاڑی جب ماگادی کے حدود میں داخل ہوئی تو غفور نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جولیٹ گہری نیند میں سو رہی تھی۔ غفور نے پہلے تو سوچا کہ اسے جگا کر پوچھے کہ کہاں جانا ہے؟ پھر سوچا اس منہ اندھیرے ویسے بھی کہاں جائیں گے۔ غفور نے گاڑی کو ایک پیڑ کے نیچے لے جا کر روکا اور تکیہ نما تھیلا نکال کر نیچے اتر گیا۔ پیڑ کے تنے کے پاس اس نے تھیلے کو رکھا اور شبنمی نرم گھاس پر لیٹ گیا۔ رات بھر کے جاگے ہوئے غفور کی آنکھ لگنے میں چند منٹ بھی نہیں لگے۔

جولیٹ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا گاڑی کھڑی ہوئی ہے ڈرائیور غائب ہے۔ جولیٹ سمجھ گئی گاڑی خراب ہو گئی ہے لیکن باہر جھانک کر دیکھا تو ڈرائیور نیچے سورہا تھا۔ اس نے سوچا اس بیچارے کوسونے دو رات بھر کا جاگا ہوا جو ہے۔ سامنے ایک بڑا سا تخت آویزاں تھا جس پر لکھا تھا ممتا کے شہر ماگادی میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ جولیٹ نے سوچا ممتا؟ یہ ممتا کیا ہوتی ہے؟ ؟ جولیٹ آنکھ بھر آئی۔ اس نے سوچا یہ آنسو کہاں سے آ رہے ہیں؟ ؟ جولیٹ کے اندر سے آواز آئی دل سے۔ ممتا کے شہر کو جولیٹ اپنے آنسووں سے سینچ رہی تھی۔ جولیٹ نے سوچا یہ آنسو کہاں چلے گئے تھے؟ ؟ ؟ شاید یہیں رہ گئے تھے۔ جب ماں ہی پیچھے رہ گئی تھی تو بھلا آنسو کیسے ساتھ جاتے۔

جولیٹ اب کچھ اور سوچ رہی تھی۔ اس کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے کیا کرے؟ اور کہاں جائے؟ کیوں نہ اپنے آنسووں کا نذرانہ لے کر اپنی ماں کی قبر پر جائے؟ شاید وہی اس کی سب سے زیادہ مستحق تھی لیکن پھر اس نے سوچا جانے والی جاچکی۔ آنسو اسے واپس نہیں لا سکتے۔ اسے سب سے پہلے آنسو کے بجائے مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ماموں کے پاس جانا چاہئے۔ وہ اس کے اور بھی زیادہ مستحق ہیں۔

جولیٹ اس ادھیڑ بن میں کھوئی ہوئی تھی کہ اس نے سامنے سے غفور کو آتے ہوئے دیکھا۔ وہ شرمندہ ہو کر بولا معاف کیجئے۔ آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ اب بتائیے جانا کہاں ہے؟

جولیٹ بولی میرے ماموں کے گھر۔

لیکن آپ کے ماموں کا گھر کہاں ہے؟

جولیٹ نے دماغ پر زور دے کر کہا تم ماگادی کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟

جی ہاں غفور بولا بہت کچھ جانتا ہوں؟

تو پھر وہ پہاڑی کے پاس جو جھرنا بہتا ہے نا وہیں مجھے لے چلو۔ میرے ماموں کا گھر اسی کے قریب ہے۔ جولیٹ کسی بچے کی مانند بات کر رہی تھی وہ اپنے بچپن میں لوٹ گئی تھی۔

غفور بولا میڈم کسی زمانے میں یہاں مختلف پہاڑیوں کے پاس کئی جھرنے بہتے تھے لیکن اب وہ سب سوکھ گئے ہیں اس لئے آپ کوئی اور نشان بتائیے۔

ٹھیک ہے تم ایسا کرو کہ اسکول کے پاس لے چلو وہاں سے راستہ میری سمجھ میں آ جائے گا۔

غفور نے پھر سوال کیا اب تو یہاں کئی اسکول کھل گئے ہیں آپ کس اسکول کی بات کر رہی ہیں۔

جولیٹ بولی وہی کلیسا سے متصل اسکول سب سے پرانا والا جو اس وقت بھی تھا جب یہاں کوئی اسکول نہیں تھا۔

جولیٹ نے اپنے اسکول اور کلیسا کو دیکھا تو پھر ایک بار اس کی آنکھ بھر آئی۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تم گاڑی یہیں روکو میں ذرا اندر جا کر آتی ہوں۔ تقریباً بیس سال کے بعد جولیٹ اس گرجا گھر کے احاطے میں داخل ہوئی تھی جہاں اس نے پہلی مرتبہ خداوند کریم کا نام سنا تھا۔ اس وقت گرجا گھر خالی تھا اس کے باوجود وہ اندر جا کر ایک بینچ بیٹھ گئی اور دیر تک نہ جانے کیا کیا سوچتی رہی اور بولتی رہی۔ وہ کس کس سے باتیں کر رہی تھی نہیں جانتی تھی یہاں تک کہ ایک نہایت نرم و نازک ہاتھ کا بوجھ اس نے اپنے شانے پر محسوس کیا۔

جولیٹ نے مڑ کر دیکھا تو ایک معمر خاتون اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ جولیٹ نے جب اس کی مسکان کا جواب دیا تووہ بولی میرا نام سسٹر نینسی ہے۔ میں نے تمہیں آج یہاں پہلی بار دیکھا ہے؟

جی ! جی نہیں میں یہاں پہلے کئی بار آ چکی ہوں لیکن!! لیکن وہ بیس سال پرانی بات ہے۔

جی ہاں نینسی بولی میں یہاں دس بارہ سال سے ہوں۔ خیر اگر یہ اتنی پرانی بات ہے تب تو تم فادر مارلو کو جانتی ہو گی۔

جولیٹ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ وہ بولی جی ہاں جی ہاں۔ میں انہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ ہمیں اسکول میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ کہاں ہیں فادر؟

نینسی نے کہا وہ اپنے کمرے میں ہوں گے۔ کافی ضعیف ہو چکے ہیں۔ چلنا پھرنا بہت کم ہو گیا اگر چا ہو تو ان کے کمرے میں جا کر ان سے ملاقات کر لو۔

جولیٹ بولی کیوں نہیں ضرور۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان سے میری ملاقات ہو رہی ہے۔

نینسی بولی ٹھیک ہے تم یہاں بیٹھو میں انہیں پوچھ کر آتی ہوں۔

پانچ منٹ بعد نینسی فادر مارلو کے سامنے بیٹھی تھی۔ فادر مارلو کی آنکھوں میں اب بھی ویسی ہی چمک تھی لیکن وہ روشنی نہیں تھی جو جولیٹ کو پہچان سکے۔ جولیٹ کو اپنا تعارف اونچی آواز میں کرانا پڑا۔ جولیٹ کی آواز سن کر وہ مسکرائے اور بولے اوہو میری بیٹی جولیٹ آئی ہے۔ بہت خوب بہت خوب۔

جولیٹ نے پوچھا فادر آپ کیسے ہیں؟

مارلو بولے تم دیکھ تو رہی ہو۔ اچھا ہوں۔ بہت اچھا۔ خداوند عالم کا بہت بڑا احسان ہے۔ جی رہا ہوں اس کی مہربانی سے اور انتظار کر رہا ہوں اس کے بلاوے کا۔ فادر مارلو کی آواز میں جو یاس پوشیدہ تھا اسے جولیٹ نے محسوس کر لیا تھا۔ فادر بولے بیٹی مجھے خوشی ہے تم لوٹ کر تو آئیں لیکن افسوس کہ کافی تاخیر سے۔

کیا مطلب؟ جولیٹ بولی مجھے پتہ ہے ممی کا انتقال ہو چکا ہے لیکن اس کی خبر مجھے بہت دیر سے ملی۔ میں اب اپنے ماموں گیگا جو سے ملاقات کے لیے آئی ہوں۔

گیگا جو؟ فادر مارلو نے کہا گیگا جو اب کہاں ہے؟ اس کا انتقال تقریباً پانچ سال قبل ہو گیا تھا۔ اب تو تم صرف اپنی ماں اور ماموں کی قبروں کی زیارت کر سکتی ہو بیٹی۔ یہ سن کر جولیٹ رو پڑی۔ فادر مارلو نے اسے دلاسہ دیا اور کہا بیٹی مشیت کے فیصلوں پر کسے اختیار ہے اور ایک دن ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ تم طویل سفر کر کے آ رہی تھک گئی ہو گی اب تمہیں آرام کرنا چاہئے۔

فادر مارلو نے نینسی سے کہا دیکھو ان کے رکنے بندوبست اپنے ہاسٹل میں کر دو یہ جب تک بھی رہیں گی ہماری مہمان ہیں۔ ان کے خاندان کا سارا ورثہ چرچ کے لیے وقف ہے۔ بیٹی جاؤ اب آرام کرو۔ جاتے ہوئے ضرور مل کر جانا۔ خدا تمہیں سلامت رکھے۔ جولیٹ سلام کر کے باہر آ گئی۔ جولیٹ کی سمجھ میں یہ معمہ نہیں آ رہا تھا کہ اس کو رابرٹ نے جھوٹ بول کر یہاں کیوں بھجوایا دیا۔

نینسی نے جولیٹ سے کہا چلئے میں آپ کو کمرے تک لے چلوں آپ کافی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں۔

جولیٹ بوجھل قدموں کے ساتھ گاڑی تک آئی اور غفور سے کہا میں یہاں ایک دو دن رکوں گی کیا تمہارے لئے بھی مردوں کے ہاسٹل میں انتظام کروا دوں؟

غفور نے شکریہ ادا کیا اور یہ کہہ کر اپنے دوست کے گھر چلا گیا کہ جب واپس چلنا ہو فون کر دینا۔

نینسی نے جولیٹ کو ہاسٹل کے بہترین کمروں میں سے ایک میں ٹھہرا دیا تھا۔ جولیٹ نے اندر آنے کے بعد بیساختہ ٹیلیویژن کا ریموٹ دبا دیا اور خبروں کے چینل پر اس کی نظر جم گئی۔ ٹیلی ویژن کے پردے پر ان کے اڈے کی تصاویر نشر ہو رہی تھیں۔ اس پر رات کے آخری پہر میں چھاپہ پڑا تھا۔ جولیٹ کے لیے یہ نا قابلِ یقین بات تھی لیکن وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس اڈے کے علم تمام ہی حکومتوں کو تھا لیکن اس کی جانب کسی نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ لیکن اب یہ انہونی ہو چکی تھی ساری قوم بشمول جولیٹ اسے حیرت سے دیکھ رہی۔

پولس فائرنگ میں زخمی ہونے والے اور مرنے والوں کو دیکھ کر پہلی مرتبہ جولیٹ کو خوف محسوس ہوا تھا۔ سب سے پہلے اسے رابرٹ کا خیال آیا لیکن اس کے ہوش اڑ گئے جب خبر پڑھنے والی خاتون نے بتایا کہ یہ ساری کارروائی رابرٹ کی نگرانی میں کی گئی ہے اور ملک بھر سے اس کو مبارکباد کے پیغامات موصول رہے ہیں۔ اس کارروائی نے راتوں رات رابرٹ کو قوم کی آنکھوں کا تارہ بنا دیا تھا۔ اس کی مقبولیت صدر مملکت مومباسا سے کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ کئی لوگ صدرمومباسا کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے وہ اپنی عمر کا خیال کرتے ہوئے سیاست سے سبکدوش ہو جائیں اور اقتدار کی باگ ڈور رابرٹ کے ہاتھوں میں تھما دیں۔ مومباسا کا داؤں اسی پر الٹ چکا تھا۔

جولیٹ کوا س مسخ شدہ لاش کی تصویر نے سب سے زیادہ پریشان کر دیا تھا جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ وہ گروہ کے سرغنہ یاسر کی لاش ہے جبکہ جولیٹ جانتی تھی کہ رابرٹ بھی اس گروہ کا سرغنہ ہی تھا۔ جولیٹ نے رابرٹ کو فون لگایا۔ رابرٹ نے نمبر دیکھے بغیر کہا کون؟

سامنے سے جولیٹ بولی بہت مبارک ہو۔

رابرٹ نے کہا بہت شکریہ لیکن آپ کون بول رہی ہیں۔

تم ابھی سے مجھے بھول گئے؟ تم مجھے نہیں جانتے؟ یہ تم نے کیا کر دیا رابرٹ اور اگر یہی کرنا تھا تو مجھے بھی مروا دیتے مجھے زندہ رہنے کے لیے کیوں چھوڑ دیا۔

رابرٹ کا دماغ ٹھنکا۔ یہ بے وقوف لڑکی کیسے زندہ رہ گئی؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ رابرٹ اپنے آپ کو سنبھال کر بولا دیکھو اب زیادہ بکواس نہیں کرو اور خاموش بیٹھی رہو۔ تم مجھے نہیں جانتیں۔

جی ہاں رابرٹ! جولیٹ بولی میں تمہیں نہیں جانتی تھی لیکن اب جان چکی ہوں۔ تم! اپنے ساتھیوں کے قاتل ہو۔ تم نے اپنے دوست یاسر کا قتل کیا ہے۔ تم ایک نہایت سفاک مجرم ہو۔ تمہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

رابرٹ سے آج تک کسی نے اس طرح کے لب و لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ وہ بولا اپنی زبان کو لگام دے احمق لڑکی میں تیرا دماغ درست کر دوں گا۔ پہلے تو مجھے یہ بتا کہ فی الحال توہے کہاں؟ میں ابھی تیرا انتظام کئے دیتا ہوں۔

جولیٹ نے قہقہہ لگا کر کہا۔ میں قبر میں ہوں ….. قبر میں۔

رابرٹ جولیٹ کا یہ طنزیہ جملہ سن کر غصے سے پاگل ہو گیا وہ چیخ کر بولا میں تجھے قبر نکال کر ٹھکانے لگا دوں گا۔

جولیٹ نے جواب دیا مجھے قبر سے نکالنے کے لیے تجھے قبر میں آنا ہو گا کمینے اور یقین رکھ میں ہی تجھے قبر کے اندر پہنچا کر دم لوں گی۔ میں تجھ سے یاسر کے قتل کا بدلہ ضرور لوں گی اور تجھے زندہ دفن کر دوں گی۔ یہ کہہ کر جولیٹ نے فون بند کر دیا۔

رابرٹ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا سارا منصوبہ یہ احمق لڑکی خاک میں ملا دے گی۔ اگر وہ کسی طرح جسٹن مومباسا کے ہتھے چڑھ گئی تو وہ اسے اقتدار کی کرسی کے بجائے تختۂ دار تک پر لٹکا دے گا۔ اس سے پہلے کہ رابرٹ محکمۂ مواصلات کو جولیٹ کا نمبر دے کر اس کا محل و وقوع معلوم کرتا جولیٹ نے غفور کو بلانے کے بعد فون کے اندر سے سِم کارڈ نکال کر پھینک دیا۔

جولیٹ ایک عرصے تک زیر زمین گروہ سرخ مثلث کے لئے سراغ رسانی کی کئی مہمات سر کر چکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے کس چھتے پر ہاتھ مارا ہے اور اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ وزیر داخلہ سے دشمنی مول لینے کے بعد اس ملک میں رہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جولیٹ کے لئے جد از جلد ملک کی سرحد سے باہر نکل جانے میں عافیت تھی۔ ویسے جولیٹ کے لیے اس میں کوئی خاص مشکل بھی نہیں تھی اس لئے کہ کینیا کے باشندوں کے لیے افریقی یونین میں شامل سارے ممالک کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔

جولیٹ نے غفور سے کہا صومالیہ کے شہرکسامویو چلو۔ وہاں میری سہیلی فرحت رہتی ہے۔ میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ غفور بولا جو آپ کا حکم۔ لیکن میڈم کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ہماری واپسی کب تک ہو گی؟ جولیٹ نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ میں نہیں جانتی ! میں اپنے بارے میں نہیں جانتی کہ میں کب لوٹوں گی؟ لیکن تم مجھے چھوڑ کر فوراً لوٹ جاؤ گے اور یہ بھول جاؤ گے کہ تم نے مجھے کہاں چھوڑا تھا۔ غفور بولا جی ہاں میڈم سمجھ گیا۔

غفور نے جیسے ہی گاڑی اسٹارٹ کی جولیٹ کے کانوں میں یاسر کا جملہ گونج گیا ’’ جی ہاں جولیٹ ہم سب کا یہی حال ہے۔ ہماری اس زیر زمین دنیا میں یکطرفہ ٹرافک ہوتا ہے۔ ہمیں آگے ہی آگے جانا پڑتا ہے اس لئے کہ موت ہمارا پیچھا کر رہی ہوتی ہے ‘‘۔ فرحت اپنی دیرینہ سہیلی جولیٹ سے مل کر بے حد خوش ہوئی۔ جولیٹ نے اسے بتایا کہ وہ فی الحال چند ذاتی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اس لئے چند دنوں کے لیے اس کے گھر میں پناہ چاہتی ہے۔ فرحت یہ جاننے کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ اس کی مشکل کیا ہے۔ وہ بولی بہن یہ تمہارا گھر ہے۔ جب تک چا ہو اپنا سمجھ کر اس گھر میں رہو۔

جولیٹ کے ساتھ فرحت کے والدین کا سلوک بھی مشفقانہ تھا انہوں نے گویا اسے اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔ جولیٹ پہلے ہی دن سے گھر کے کام کاج میں ایسے جٹ گئی تھی کہ اگر کوئی اجنبی فرحت اور جولیٹ کو دیکھ لے تو اسے اندازہ کرنا مشکل ہو جائے کہ یہ گھر کس کا ہے اور یہاں مہمان کون ہے؟ ایک دن جولیٹ نے گھر کے اندر خاص چہل پہل دیکھی تو فرحت سے پوچھا آج مجھے کوئی خاص بات ہے کیا؟ ہر کوئی بدلا بدلا سا لگ رہا ہے؟

فرحت نے اسے بتایا جی ہاں یہ سب اس لئے ہے کہ اس کا بھائی طارق جو ہندوستان کے شہر پونے میں زیر تعلیم ہے تعطیلات گزارنے کے لیے کل آنے والا ہے۔ وہ ہرسال دو ماہ کے لیے بہار بن کر آتا ہے اور پھر اس چمن کو خزاں رسیدہ کر کے لوٹ جاتا ہے۔

طارق کا جہاز جیسے ہی ممبئی سے نیروبی کے لیے محوِ پرواز ہوا تو وہ پونے سے پوری طرح کٹ کر اپنے آبائی شہر کسامویو سے جڑ گیا۔ وہ اپنے اہل خانہ میں سے ایک ایک کے بارے میں سوچنے لگا۔ والدین کے بعد اس کی شریر بہن فرحت کی تصویر طارق کی آنکھوں میں گھوم گئی۔ فرحت اور اس کی عمر میں صرف ایک سال کا فرق تھا۔ وہ دونوں دوست کی مانند ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے ایک ساتھ بڑے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان کوئی راز داری نہیں تھی۔ وہ ایک دوسرے کے دل کی ساری باتوں سے واقف تھے۔

گھر میں جولیٹ کو دیکھ کر طارق چونک پڑا۔ فرحت نے اسے بتلایا کہ وہ اس کی عزیز ترین سہیلی جولیٹ ہے جو گزشتہ ۶ ماہ سے ان کے یہاں رہائش پذیر ہے۔ تعطیلات کے دوران نہ جانے کب اور کیسے طارق اور جولیٹ کے درمیان گہری شناسائی ہو گئی۔ طارق نے لوٹنے سے قبل فرحت سے اپنے دل کی بات کہہ دی اور جولیٹ سے یہ معلوم کرنے کی درخواست کی کہ کیا وہ اس کی شریک حیات بننا پسند کرے گی؟

فرحت نے جب جولیٹ سے اس بابت پوچھا تو اس نے ایک شرط کے ساتھ اپنی نیم رضامندی کا اظہار کر دیا۔ جولیٹ کو اس کی زندگی کے تلخ تجربات نے پختہ کار حقیقت پسند بنا دیا تھا۔ جذبات سے عاری جولیٹ نے فرحت کو بتایا وہ چاہتی ہے کہ طارق پہلے اپنے تعلیمی سلسلے سے فارغ ہو جائے اور اس کے بعد پھر ایک بار ٹھنڈے دماغ سے اس تجویز پر دوبارہ غور کرے اگر اس وقت تک اس کے ارادوں میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو پھرسے پیشکش کرے۔ وہ اسے قبول کر لے گی اور اگر خیال بدل جائے تو بلا تکلف بھول جائے وہ بھی اسے فراموش کر دے گی۔

فرحت کو جولیٹ کی غیر معمولی معروضیت نے بے حد متاثر کیا۔ اس نے اپنے تئیں فیصلہ کر لیا کہ اگر طارق اپنا ارادہ بدلے گا تو وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرے گی لیکن طارق کا معاملہ ایسا تھا کہ اسے کسی کے سمجھانے بجھانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ وہ نہایت مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور پکا ارادہ کر چکا تھا کہ اگر شادی کرے گا تو صرف صرف جولیٹ سے ورنہ کسی سے نہیں۔

ایک سال کے بعد جب طارق دوبارہ لوٹ کر آیا تو اس کے سامنے زندگی کا اعلیٰ و ارفع مقصد تھا۔ اب وہ عام نوجوانوں کی طرح بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کا خوگر نہیں تھا بلکہ ایک مجاہد آزادی بن چکا تھا اور وہ شادی سے قبل اپنے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس فرحت کو اندیشہ تھا کہ کہیں طارق ان چھٹیوں کے دوران شادی پر اصرار نہ کر بیٹھے۔ اس نے والدین کو تو تیار کر لیا تھا مگر اسے یقین تھا جولیٹ اس پر راضی نہیں ہو گی اس لئے کہ طارق کو کم از کم ایک سال مزید یونیورسٹی میں جانا تھا۔

طارق نے جب واپس آنے بعد اس بات کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں تو فرحت فکر مند ہو گئی مبادا طارق کا من بدل گیا ہے۔ ممکن ہے اسے کوئی اور لڑکی پسند آ گئی ہو۔ طارق کے رویہ نے جولیٹ کے موقف کی تائید کر دی تھی اس کے باوجود ایک دن فرحت نے طارق سے پوچھ لیا کیوں بھیا آج کل آپ کچھ بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

طارق بولا فرحو تمہاری نظر بدل گئی ہے ورنہ آئینہ تو یہی کہتا ہے کہ میں نہیں بدلا۔ طارق سوچ رہا تھا کہیں اس شیطان کی پڑیا کو تو اس کے ارادوں کا کسی صورت پتہ نہیں چل گیا؟ لیکن اس کا کوئی امکان نہیں تھا۔

فرحت بولی بھیا میری نظر نہیں آپ کا نظریہ بدل گیا ہے۔

فرحت کی بات صد فیصد درست تھی پھر بھی طارق نے بنتے ہوئے پوچھا کیوں؟ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟

بس یونہی فرحت بولی آپ آج کل میری سہیلی جولیٹ سے کچھ دور دور رہنے لگے ہیں کہیں ……؟

کہیں کیا؟ طارق نے سوال کیا۔

یہی کہ فرحت بولی آپ کا ارادہ تو متزلزل نہیں ہو گیا؟

طارق نے حیرت سے کہا یہ تم سے کس نے کہہ دیا؟ کیا جولیٹ ایسا کہہ رہی تھی؟

فرحت بولی وہ بھلا کیوں کہنے لگی۔ وہ تو اپنی دنیا میں مست ہے۔ آپ ہی نے اس میں دلچسپی لی اور آپ ہی نے اس قطع تعلق کر لیا۔

طارق بولا نہیں تو….. ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے تو اس سے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ بلکہ میری اس سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔

فرحت بولی اچھا تو مجھے کہنا چاہئے کہ آپ نے اس بار اس سے تعلقات استوار نہیں کئے۔ اب اگر انسان تعلق استوار نہ کرے تو وہ اپنے آپ قطع ہو جاتے ہیں۔

طارق بولا فرحو اب تم بہت کچھ سوچنے لگی ہو اس لئے ہمیں بھی تمہارے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ میں آج ہی امی سے بات کرتا ہوں۔

فرحت بولی بھیا بات کو مت گھماؤ یہ بتاؤ کہ کیا آپ اب بھی ……؟

طارق بولا جی ہاں میری ماں میں اب بھی ………

فرحت خوش ہو کر وہاں سے اٹھی اور جولیٹ کے پاس چلی گئی جو باغ میں پودوں کو پانی دے رہی تھی۔ فرحت نے جولیٹ سے کہا جولو تمہارے لئے ایک خوشخبری ہے۔

جولیٹ نے پوچھا کیا خوشخبری ہے مجھے بھی تو پتہ چلے؟

وہ ….. بھیا سے بات کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنا ارادہ تو نہیں بدلا؟ جولیٹ کی زبان پر تالا پڑ گیا لیکن وہ ہمہ تن گوش تھی فرحت نے ایک ایسا سوال کر دیا تھا جس سے اس کا مستقبل وابستہ تھا۔ فرحت نے اپنی بات جاری رکھی اور بولی انہوں نے کہا نہیں؟

جولیٹ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکی اور بولی کیا؟ طارق نے نہ کہہ دیا۔ مجھے پتہ تھا اسی لئے میں نے جلد بازی سے گریز کیا تھا۔

فرحت بولی نہیں پگلی میں پوچھا ارادہ بدلا تو نہیں؟ تو انہوں نے کہا نہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ ہنوز اپنے ارادے پر قائم ہیں۔

جولیٹ بولی کوئی بات نہیں اگر وہ اپنا ارادہ بدلنا چاہے تواس کے پاس مزید ایک سال کی مہلت ہے۔ فرحت کو جولیٹ کے روکھے پن پر بہت غصہ آیا اور وہ باغ سے نکل کر واپس اندر امی کے پاس چلی آئی۔ جولیٹ سوچ رہی تھی کہیں اس نے پیشکش کو التواء میں ڈال کر کوئی غلطی تو نہیں کی؟

فرحت نے اپنی ماں سے کہا امی آپ بھیا کی سگائی جولیٹ سے کیوں نہیں کر دیتیں۔

فرحت کی ماں نے ہنس کر کہا یہ لو مدعی سست اور گواہ چست؟

فرحت بولی جی ہاں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب اس بارے میں تاخیر ٹھیک نہیں ہے۔

فرحت کی ماں بولی اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو میرے پاس کیا کر رہی ہو جاؤ اور اپنی سہیلی جولیٹ کو سمجھاو جو تعلیم کے خاتمہ کی ضد پکڑ کر بیٹھی ہوئی۔ میں تو تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ اگر وہ دونوں تیار ہوں تو میں آج ان کا نکاح پڑھوا دوں۔ مجھے جولیٹ جیسی بہو کہاں ملے گی؟

فرحت بولی امی جولیٹ نکاح کے لیے ایک سال سے قبل راضی نہیں ہو گی لیکن میں تو منگنی کی بات کہہ رہی تھی۔

فرحت کی ماں نے کہا اس کا کیا فائدہ بیٹی؟ ہونا ہے تو شادی ہو ورنہ ان فضول رسومات میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔

فرحت نے کہا امی یہ رسم و رواج کا معاملہ نہیں ہے۔ میں در اصل نہیں چاہتی کہ بھیا کا ارادہ بدل جائے۔

فرحت کی ماں ہنس کر بولی اری بیوقوف تیرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ جا اپنا کام کر اور میرا دماغ مت چاٹ۔ فرحت نے سوچا ان سب لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ کوئی اس کی بات سمجھتا کیوں نہیں؟ کوئی اس کی تائید کیوں نہیں کرتا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھولا

 

کیلاش پربت کا افتتاح ایک شاندار دعوت کی شکل میں ہوا جس میں شہر کی مقتدر ہستیاں شریک تھیں۔ شنکر کے تعلقات سیاستدانوں سے لے کر صنعتکاروں تک سبھی سے تھے۔ شنکر نے اپنے رشتے داروں کے علاوہ اپنے اہم گاہکوں کو بھی شرکت کی دعوت تھی اور پھر اس کے ملازمین کی ایک لمبی چوڑی فوج تھی جو مختلف دفاتر میں کام کرتی تھی۔ یاسر نے ان میں سے کئی لوگوں سے تعارف حاصل کر لیا تھا جن میں ایک جناب صغیر زیدی اور ان کی اہلیہ نادرہ زیدی بھی تھیں۔ ان دونوں کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔ عمر کا تفاوت اپنی جگہ مزاج بھی ایک دوسرے سے متضاد تھے۔

زیدی صاحب نہایت سنجیدہ اور کم گو قسم کے انسان تھے جبکہ نادرہ شوخ و چنچل طبیعت کی حامل تھی۔ زیدی صاحب کو فلسفہ اور ادب کے مطالعہ کا شوق تھا جبکہ نادرہ نے باقاعدہ آرکٹیکٹ کا کورس کیا ہوا تھا اور باغبانی کے ڈیزائن میں مہارت رکھتی تھی۔ نادرہ چونکہ پاروتی کے بچپن کی سہیلی تھی اس لئے لازماً کیلاش پربت کے باغ اسی نے سجایا سنوارا تھا۔ اس کے علاوہ گھرکے اندر موجودسازوسامان کا انتخاب بھی اس نے پاروتی کے شانہ بشانہ کیا تھا۔

پاروتی نے نادرہ کا یاسر سے تعارف کراتے ہوئے یہی کہا تھا کہ یہ ہیں ناصر بھائی ہمارے ان کے سب سے قریبی دوست اور یہ میری سب سے چہیتی سہیلی نادرہ ہے۔ کیلاش پربت اوراس کے باغ کی ساری رونق اسی کے مرہونِ منت ہے۔ نادرہ اور یاسر بہت جلد گھل مل گئے۔ وہ یاسر کو زیدی صاحب کے پاس لے گئی اور جب زیدی صاحب نے اسے اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی جو شہر سے باہر ایک گھوڑوں کے فارم میں تھا تو یاسر بہت خوش ہوا۔

اسکول کے زمانے سے یاسر کو گھڑسواری کا شوق تھا۔ اس کے والد کھیل کود اور جسمانی تعلیم کے استاذ تھے اس لحاظ سے کھیل کود میں اس کی دلچسپی موروثی تھی۔ وہ بچپن ہی سے بڑے لڑکوں کی مانند شہ سواری کرتا تھا۔ کالج کے اندر اس کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ وہ اپنی این سی سی (نیم فوجی طلباء کا دستہ) ٹیم کا کپتان ہوا کرتا تھا اس لئے شہ سواری کے علاوہ نشانے بازی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ گھوڑوں کے سبب یاسر نے بصد شوق زیدی صاحب کی دعوت قبول کر لی۔

کیلاش پربت کے افتتاح کے دوسرے دن یاسر نے شنکر سے کہا ویسے تو مہمان تین دن کے لیے ہوتا ہے لیکن مجھے تمہارے گھر پر اب دس دن ہو رہے ہیں اس لئے اب میرا خیال ہے کہ………….

کیا خیال ہے؟

یہی کہ کہیں اور منتقل ہو جانا چاہئے۔

دیکھو یاسر اگر تمہیں یہاں کوئی پریشانی ہو تو صاف صاف بتلا دو؟ شنکر نے سوال کیا

جی نہیں ایسا نہیں ہے پھر بھی میری وجہ سے ……….۔

تمہاری وجہ سے ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ویسے بھی تین لوگوں کے لیے یہ مکان بہت بڑا ہے اور پھر تم جاؤ گے کہاں؟

یاسر بولا کسی کرائے کے مکان میں اور کہاں؟

شنکر نے جواب دیاتو سمجھ لو کہ یہی تمہارا کرائے کا مکان ہے۔

یاسر بولا لیکن ایسا سمجھنے میں ایک دقت ہے۔ کرایہ دار کو کرایہ دینا پڑتا ہے اور تم وہ مجھ سے لو گے نہیں۔

شنکر نے قہقہہ لگا کر کہا یہ تم نے کس سے کہہ دیا۔ پونے آنے کے بعد میں پکا تاجر بن گیا ہوں۔ میں تم سے کرایہ ضرور لوں گا اور مجھے تم سے اچھا کرایہ دار کہاں، لے گا؟

یاسر نے چونک کر پوچھا اگر ایسا ہے تو مجھے پتہ ہونا چاہئے کہ کرایہ کتنا ہے؟

شنکر بولا یار اب میں تم کو کیا بتاؤں۔ تم جو مناسب سمجھو دے دینا۔

یاسر بولا یہی تو مسئلہ ہے۔ کرایہ در اصل مکان مالک طے کرتا ہے اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو تم میرے مکان مالک نہیں ہو سکتے اور میں تمہارا کرایہ دار نہیں ہو سکتا۔

شنکر نے کہا یاسر اصل مسئلہ گھر کا نہیں بلکہ تمہارے مستقبل کا ہے؟ تم آگے کیا کام کرنا چاہتے ہو یہ سوچو؟

میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟ یاسر بولا میں تمہارے عزیز دوست رابرٹ کا کام تمام کرنا چاہتا ہوں بس۔

شنکر نے کہا دیکھو یاسر اگر میری مانو تو اپنے ماضی کو بھلا دو جیسا کہ میں نے بھلا دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ آسان نہیں ہے اس لئے کہ میں خود بھی اس کیفیت سے گزر چکا ہوں۔

یاسر بولا لیکن یار میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟

شنکر نے کہا ایک زمانے میں یہی میں بھی یہی سوچا کرتا تھا کہ میں بندوق چلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا لیکن جب میں نے کاروبار کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ اس کام کو زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم بھی …………….

یاسر نے بات درمیان میں کاٹ دی اور بولا یار سچ بتاؤں یہ سب مجھ سے نہیں ہو گا؟ مجھے تو اپنے پرانے کام میں ہی مزہ آتا ہے۔

شنکر نے کہا تمہیں اس میں اس لئے لطف آتا ہے کہ تم نے اس کے سوا کچھ اور کیا ہی نہیں ہے۔ جب کچھ اور کرنے لگو گے تو اس میں بھی مزہ آنے لگے گا اور دوسرے کاموں میں نہ خطرہ ہے اور سزا۔ اس لئے میری مانو تو ………………

یار شنکر اب تو مجھے نیا مکان مالک ڈھونڈنا ہی ہو گا جو مجھے اس طرح کی نصیحتیں کر کے بور نہ کرے۔ یاسر جس وقت یہ جملہ کہہ رہا تھا پاروتی کیلاش کے ساتھ پائیں باغ کے اس حصے میں آ گئی جہاں دونوں دوست بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔

پاروتی بولی معاف کرنا بھائی صاحب میں نے آپ کا آخری جملہ بغیر اجازت کے سن لیا۔

شنکر مسکرا کر بولا وہ تو اچھا ہوا کہ تم نے اس کا پہلا جملہ نہیں سنا ورنہ……..

ورنہ کیا؟ پاروتی نے حسبِ عادت سوال کیا۔

ورنہ یہی کہ تم کم از کم بے ہوش تو ہو ہی جاتیں شنکر نے چٹکی لی۔

بے ہوش ہوں میرے دشمن آپ کو تو پتہ ہی ہو گا کہ میں تو بڑے مضبوط اعصاب کی مالک ہوں۔

شنکر بولا جی ہاں مجھے اچھی طرح پتہ۔

پاروتی بولی شکریہ ویسے میں فی الحال ناصر بھائی کی بوریت کو دور کرنے کے کام میں لگی ہوئی ہوں اور آپ تو جانتے ہیں کہ میں …………

جی ہاں تم جس کام کی ٹھان لیتی ہو اسے کر کے رہتی ہو شنکر بولا لیکن تمہاری یہ زور زبردستی صرف مجھ پر چل سکتی ہے ناصر پر نہیں کیا سمجھیں؟

پاروتی بولی کیوں نہیں؟ اور پھر اس میں زور زبردستی کی کیا بات ہے یہ کام تو ان دونوں کی رضامندی سے ہو گا میرا کام تو بس دو دلوں کو ملانے کا ہے آگے ان کی اپنی مرضی۔

یاسر نے کہا بھابی شنکر تو صرف میرے لئے پریشان تھا لیکن آپ تو کسی اور کو بھی مشکل میں ڈالنا چاہتی ہیں اس لئے اب مجھے جلد از جلد اپنا بوریہ بستر لپیٹ لینا چاہئے۔

پاروتی بولی نہیں بھائی صاحب ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ اب تو آپ شہنائی کے ساتھ ہی یہاں سے جائیں گے۔

یاسر نے پاروتی کی نقل کرتے ہوئے کہا شہنائی؟ یہ شہنائی کیا ہوتی ہے؟

شنکر بولا جب بجے گی نا تو تمہیں اور ساتھ میں سارے لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔ یاسر کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔

پاروتی کے چلے جانے کے بعد یاسر نے سوال کیا یہ بھابی آج کیا بہکی بہکی باتیں کر رہی تھیں؟

شنکر نے کہا عورتیں اس طرح کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے اس لئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں لیکن میری بات پر تم سنجیدگی سے غور کرو۔ دیکھو میرا کاروبار کافی پھیل گیا۔ میں کئی چیزیں درآمد و برآمد کرنے لگا ہوں۔ میرے پاس آئے دن باہر سے نت نئی کمپنیاں آتی رہتی ہیں جن کو اپنی مصنوعات ہندوستانی بازار میں بیچنی ہوتی ہے یا یہاں کا مال اپنے ملک میں منگانا ہوتا ہے۔ ایسی ہی کسی کمپنی سے میں تمہیں ملا دوں گابس تمہیں کیا کرنا ہے دوسروں کا مال دوسروں کو بیچو اور درمیان مین اپنا منافع کماؤ۔

یاسر ہنس کر بولا یار تم کیا بات کر رہے ہو میں اس ملک کا شہری نہیں ہوں یعنی یہاں ایک پردیسی ہوں جو سیر و سیاحت کا ویزہ لگا کر آیا ہے۔

شنکر نے کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں ایک نئی پارٹنر شپ کمپنی بنوا دوں گا جس کے تم بھی ایک شراکت دار ہو گے اور پھر ایک بیرونی سرمایہ کار کی حیثیت سے یہاں رہ کر مزے سے اپنا کاروبار کرو گے۔ قانونی موشگافیوں کی تم مطلق فکر نہ کرو۔ وہ سب میں دیکھ لوں گا۔

یاسر نے کہا یار تمہاری باتیں تو معقول نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں شرح صدر نہیں ہوتا۔

شنکر بولا دیکھو جب میں یہاں آیا تھا تو مجھے بالکل خلاء میں اپنا کام شروع کرنا پڑا تھا۔ ایک دور کا رشتہ دار تھا جو تھوڑا بہت تجربہ رکھتا تھا لیکن تمہارے لئے یہ مشکل نہیں میں دفتر اور ملازمین تک میں مہیا کر دوں گا بس تمہیں ارادہ کرنا ہے۔ سرمایہ تمہارے پاس ہے اور صلاحیت کی تم میں کوئی کمی نہیں ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ ایک مرتبہ تم میدان میں اترو گے تو سبھی کو پیچھے چھوڑ جاؤ گے۔

شنکر کی مثال کو سن کر یاسر کا دماغ ٹھنکا۔ وہ بولا یار چھوڑو تمہاری پیسہ کوڑی کی کہانی اس روز پارٹی میں زیدی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اپنے گھوڑوں کے اصطبل کے بارے میں بتلا رہے تھے۔

شنکر بولا بھائی وہ کوئی معمولی اصطبل نہیں ہے بلکہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ایک زبردست فارم ہاؤس ہے۔

یاسر بولا جو بھی ہو مجھے وہاں جانا ہے وہ بڑا اصرار کر کے بلا رہے تھے تو میں نے حامی بھی بھر دی اس لئے ان کے پاس جانا تو پڑے گا ہی۔

شنکر نے کہا اس میں کوئی دقت نہیں ہے تمہیں جب بھی جانا ہو تو مجھے بتا دینا میں گاڑی اور ڈرائیور کا بندو بست کر دوں گا۔

ڈرائیور کا نام سنتے ہی یاسر کو بھولا یاد آ گیا وہ بولا یار وہ تمہارا ڈرائیور کیا نام تھا جو ہمیں ائیر پورٹ سے لایا تھا۔ وہ اس کے بعد کبھی نظر نہیں آیا۔

شنکر نے قہقہہ لگا کر کہا بھئی کیا بتاؤں تمہارے لطیفے نے اس کی ملازمت خطرے میں ڈال دی تھی۔ پاروتی اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی وہ تو کہہ رہی تھی اسے شہر سے نکال دو۔ میں نے سمجھایا میں کوئی پیشوا ہوں کیا جو لوگوں کو ملک بدر کرنے کا فرمان جاری کر دوں۔ اس پر وہ اسے نوکری سے نکالنے کے لیے بضد ہو گئی۔ میں نے اس کے بیوی بچوں کا واسطہ دیا تو اس بات پر راضی ہوئی کہ وہ کسی حال میں کیلاش پربت کے آس پاس نظر نہیں آئے گا۔ میرے لئے اس حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آج کل وہ میرے دفتر میں ڈیوٹی کرتا ہے۔

یاسر بولا تو ٹھیک ہے میں کل تمہارے ساتھ دفتر چلوں گا اور وہاں سے اس کے ساتھ زیدی کے فارم ہاؤس میں جاؤں گا۔ شنکر بولا تم بھی پاروتی کی طرح ضدی ہو۔ جاؤ گے تو اسی کے ساتھ ہاں۔ دفتر سے جب یاسر نکلنے لگا تو شنکر نے زیدی صاحب کو فون کر کے بتلا دیا۔ زیدی صاحب نے جب اپنی اہلیہ نادرہ کو یہ خبر سنائی تو وہ بولی یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ صرف آپ کے دوست ناصر ہی کیوں؟ میں اپنی سہیلی پاروتی کو کیوں نہ بلاؤں؟ جب سے کیلاش کی پیدائش ہوا ہے وہ ایک مرتبہ بھی ہمارے یہاں نہیں آئی۔

نادرہ نے پاروتی کو فون لگایا اور پاروتی نے شنکر کو فون ملا کر فوراً ً نادرہ کے گھر چلنے کا حکم دے دیا۔ شنکر کے لیے یہ ناممکن تھا اس لئے کہ اس کے پاس کچھ اہم گاہک بیٹھے ہوئے تھے وہ بولا تم ایسا کرو کہ فی الحال ناصر کے ساتھ چلی جاؤ مجھے وقت ملے گا تو میں بھی بعد میں آنے کی کوشش کروں گا۔ پاروتی جانتی تھی کہ یہ وعدہ صرف اور صرف اس کو بہلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

پاروتی نے اب یاسرکو فون لگا کر پوچھا بھائی صاحب آپ کہاں ہیں؟

یاسر نے بتایا تمہاری سہیلی نادرہ فارم کی جانب رواں دواں ہوں۔

پاروتی بولی لیکن بھائی صاحب آپ وہاں اکیلے نہیں جا سکتے۔

یاسر یہ سن کر چونک پڑا اور بولا کیوں؟ ایسا کون سا خطرہ ہے؟ اور تم مجھے نہیں جانتیں میں خطرات سے نہیں ڈرتا۔

میں جانتی ہوں اسی لئے کہہ رہی ہوں کہ آپ فوراً اپنا راستہ بدل دیں اور گھر آ جائیں مجھے آپ کے ساتھ اپنی سہیلی نادرہ سے ملنے چلنا ہے۔ یاسر نے کہا ٹھیک ہے اور فون بند کر دیا۔

بھولا اس بات چیت کو سن رہا تھا وہ بولا کیوں صاحب ارادہ بدل تو نہیں گیا؟

یاسر نے کہا دوسروں کی بات نہیں سنتے یہ غیر اخلاقی حرکت ہے۔

بھولا بولا جی ہاں جناب میں جانتا ہوں لیکن کیا کروں آنکھ کو تو بند کر سکتا ہوں لیکن کان کو بند بھی نہیں کر سکتا۔

یاسر کو اس جواب پر ہنسی آ گئی وہ بولا تمہارا نام ضرور بھولا ہے لیکن تم ویسے بھولے بھی نہیں ہو۔

بھولا نے جواب دیا شکریہ۔

یاسر نے پوچھا شکریہ؟ میں سمجھا نہیں۔

جی ہاں جناب اس کل یگ میں انسان کا بھولا بھالا ہونا خوبی نہیں بلکہ عیب ہے۔

یاسر نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ فارم ہاؤس یہاں سے کتنی دور ہے؟

بھولا بولا وہ تو بہت دور ہے صاحب تقریباً ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے۔

یاسر نے پھر سوال کیا اور کیلاش پربت؟

وہ صرف پانچ منٹ کی دوری پر ہے۔

اچھا تو گھر چلو۔ بھولا نے اگلے اشارے سے گاڑی کا رخ موڑ دیا۔

کیلاش پربت کے باہر پہنچ کر یاسر نے فون ملایا اور ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا۔

بھولا نے کہا صاحب اندر جا کر آرام سے بیٹھیں۔

یاسر بولا جی نہیں وہ ……

بھولا بیچ میں بول پڑا پانچ منٹ میں آ رہی ہیں۔

یاسر نے پوچھا یہ تمہیں کیسے پتہ؟ مجھے پتہ ہے صاحب یہ توگھسا پٹا جواب ہے۔

اس کے باوجود تم مجھے اندر جانے کے لیے کہہ رہے ہو۔

جی ہاں اس لئے کہ ان پانچ منٹوں کے وقفہ سے بھی میں واقف ہوں۔

اچھا تو کیا یہ وقفہ ……….

بھولا پھر بول پڑا در اصل یہ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ کسی مرد کے پانچ منٹ جب وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ میں تمہیں پانچ منٹ بعد فون کروں گا۔

یاسر بولا خیر مجھے تو اس کا تجربہ نہیں ہے۔

بھولا نے جواب دیا ہو جائے گا لیکن مجھے ہے۔

پاروتی ۲۵ منٹ کے بعد کیلاش کے ساتھ باہر آئی۔ اس کے پیچھے ملازمہ سازو سامان کا بڑا سا جھولا لے کر نمودار ہوئی اور گاڑی میں رکھ کر واپس چلی گئی۔ پاروتی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا معاف کیجئے بھائی صاحب ذرا دیر ہو گئی وہ ایسا ہے نا کہ کیلاش کے لیے ضروری اشیاء لینے میں تھوڑا سا وقت تو لگ ہی جاتا ہے۔

یاسر بولا کوئی بات نہیں بھابی۔

اس پر بھولا سے نہیں رہا گیا وہ بولا لیکن مالکن جب کیلاش نہیں تھا تب بھی یہی ہوتا تھا اور اب بھی اس تاخیر کے باوجود آپ کیلاش کے دودھ کی بوتل تک بھول جاتی ہیں۔

پاروتی نے جیسے یہ سنا وہ بولی کون؟ اس نے ابھی تک ڈرائیور کو غور سے نہیں دیکھا تھا۔ تو بھولا ہے؟ تو ابھی زندہ ہے؟

بھولا یہ سوال سن کر چونک پڑا اور بولا آپ کیسی بات کر رہی ہیں اگر میں مر گیا ہوں تو کیا میرا بھوت گاڑی چلا رہا ہے؟

ٹھیک ہے تو ابھی نہیں مرا لیکن بہت جلد مارا جائے گا۔ تیرے دن بھر چکے ہیں بھولا تیری موت میرے ہاتھوں ہی لکھی ہے۔ یہ بتا کہ تو نے دوبارہ کیلاش پربت میں قدم رکھنے کی جرأت کیسے کی؟

پاروتی کی یہ ہذیانی کیفیت یاسر کی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ بولا معاف کرنا بھابی یہ میرا قصور ہے۔ یہ خود نہیں آیا چونکہ آپ نے مجھے راستہ بدلنے کا حکم دیا میں نے اسے یہاں آنے کے لیے کہا اس لئے یہ بیچارہ بے قصور ہے۔ اگر آپ کو کوئی سزا دینی ہے تو مجھے دیجئے۔

پاروتی یاسر کی معذرت سے نرم پڑ گئی اور بولی نہیں بھائی صاحب آپ کا کیا قصور میں نے آپ کو بلوا لیا لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ منحوس آپ کے ساتھ ہے ورنہ میں ایسی غلطی نہیں کرتی خیر مجھے واپس اپنے گھر چھوڑ دیجئے میں اس کے ساتھ نہیں جا سکتی۔

یاسر کو اب پاروتی پر غصہ آ رہا تھا اتنا وقت برباد کرنے کے بعد وہ بلاوجہ واپس جانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ یاسر نے کہا بھابی آپ اس کے ساتھ کب جا رہی ہیں آپ تو میرے ساتھ جا رہی ہیں اس لئے اسے بھول جائیے اور اپنی سہیلی نادرہ کا خیال کر کے چلے چلئے۔

پاروتی نے کچھ سوچ کر کہا ٹھیک ہے بھولا آج میں تمہیں معاف کئے دیتی ہوں لیکن اگر دوبارہ کیلاش پر بت کے آس پاس بھی نظر آئے تو میں تمہاری ٹانگ توڑ دوں گی۔

یاسر اور بھولا نے پاروتی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد گاڑی میں خاموشی چھائی رہی یہاں تک کہ وہ لوگ کورے گاؤں میں واقع نادرہ کے فارم ہاؤس میں پہنچ گئے۔ گاڑی سے اترنے کے بعد پاروتی بولی۔ بھولا اب تو جلدی سے اپنی منحوس صورت لے کر یہاں سے دفع ہو جا اور کسی اور ڈرائیور کے ساتھ یہ گاڑی واپس بھجوا دے۔

بھولا کو پہلی بار کسی عورت کے ہاتھوں ایسی خواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر یاسر کو پرنام کیا اور بولا صاحب آپ کے لطیفے کا آدھا مطلب تو مجھے اس وقت سمجھ میں آیا تھا لیکن آدھا مطلب آج سمجھ میں آیا ہے۔

یاسر نے سوال کیا میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا؟

بھولا نے جواب دیا آپ کو یاد ہو گا اس گاڑی کے مالک کا جملہ’ ایماندار اور محنتی ڈرائیور مشکل سے ملتا ہے ‘ لیکن اس میں یہ مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ حسنِ اخلاق کی حامل سمجھدار بیوی کبھی نہیں ملتی اسی لئے اسے بیوی کے بجائے ڈرائیور کے بھاگ جانے کا افسوس تھا اور وہ بیوی کے بجائے ڈرائیور کو دوبارہ رکھنے کے لیے تیار تھا۔

بھولا نے اپنی بات جاری رکھی مجھے یقین ہے اس کی بیوی بھی ہماری مالکن کی طرح تنک مزاج اور نک چڑھی رہی ہو گی۔ لیکن اب میں جا رہا ہوں۔ بھولا نے دور جاتی ہوئی پاروتی کی جانب اشارہ کر کے کہا میں بھوکا مر جاؤں گا مگر ان کے پاس ملازمت نہیں کروں گا۔ یاسر نے بھولا کی خود داری کو سلام کر کے اسے وداع کیا اس بیچ پاروتی اپنے کیلاش کے ساتھ نادرہ کی شاندار کوٹھی میں داخل ہو چکی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

نادرہ

 

نادرہ جس قدر پاروتی سے مل کر خوش ہوئی تھی صغیر زیدی بھی یاسر سے مل کر اسی طرح پھولے نہیں سمارہے تھے۔ فارم ہاؤس کا ماحول نہایت دلنشین تھا۔ دور تک پھیلی ہوئی ہریالی اور حویلی کے چہار جانب گھنے پیڑوں کے سائے۔ ہوائیں فضائیں، پھولوں کی مہک اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سبھی کچھ ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھا۔ یاسر بولا زیدی صاحب یہاں آنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ شہر کے اندر آپ کا دل کیوں نہیں لگتا۔ اس جنت نشان مقام میں رہنے والے کو بھلا باہر کا سماں کیونکر اچھا لگ سکتا ہے؟

زیدی نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے در اصل میرا مزاج لکھنے پڑھنے کا ہے۔ چائے پینے کے بعد میں آپ کو اپنی لائبریری میں لے کر جاؤں گا تو آپ کو سب پتہ چل جائے گا۔

اس بیچ ایک نوکر نہایت ہی قیمتی کشتی میں اپنے سارے لوازمات کے ساتھ چائے لے آیا۔ یاسر بولا زیدی صاحب یہاں کی ہر شہ آپ ذوقِ لطیف کی غماز ہے۔

زیدی نے کہا جی نہیں۔

یاسر بولا تب پھر کیا یہ نادرہ صاحبہ؟ ………

جی نہیں زیدی نے کہا یہ اس کا بھی کمال نہیں بلکہ یہ تو اس کے والد اور میرے استادِ محترم کی قائم کردہ روایات ہیں جس کے مطابق یہ نظام چل رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ آپ کی ساری تعریف و توصیف کے وہی حقیقی مستحق ہیں۔ نادرہ اپنے والد صاحب کی تعریف سن کر خوش ہو گئی۔ چائے پینے کے بعد پاروتی اور نادرہ تو ایک دوسرے کے ساتھ محوِ گفتگو ہو گئیں مگر زیدی کے ساتھ یاسر ان کے دار المطالعہ میں آ گیا۔ یہ ایک بہت بڑا ہال تھا جس کے درمیان میں ایک بڑی سی میز تھی اور اس کے چاروں طرف دس بارہ شاہی کرسیاں نہایت سلیقہ سے سجیہوئی تھیں۔ کمرے کی تینوں دیواروں پر قد آدم الماریاں تھیں جن میں کتابیں ہی کتابیں مختلف موضوعات کے لحاظ سے سجائی گئی تھیں۔ ایک دیوار پر ایک بہت بڑی تصویر آویزاں تھی جس کے نیچے جلی حرفوں میں سر الطاف حسین بیگ (مرزا) لکھا ہوا تھا۔ چہرے کا رعب داب بتا رہا تھا کہ یہی نادرہ کے والدِ ماجد اور صغیر زیدی کے خسر محترم ہیں۔

یاسر نے پوچھا یہ نام کچھ ……..

زیدی صاحب نے کہا در اصل پہلے تو یہ مرزا الطاف حسین بیگ تھا لیکن جب انگریزوں نے انہیں سر کے خطاب سے نوازہ تو ترتیب بدل گئی۔ چونکہ وہ اپنا نام اسی طرح لکھتے تھے اس لئے ہم بھی اسی طرح لکھنے لگے۔ مرزا صاحب بڑے مرنجان مرنج انسان تھے۔ ان کے اندر مختلف صفات یکجا تھیں۔

وہ بذاتِ خود بہت اچھے شہسوار بھی تھے اور انہیں گھوڑوں کی بڑی پرکھ تھی۔ پہلے تو وہ خود افغانستان سے عربستان تک کا سفر کر کے بہترین نسل کے گھوڑے لاتے اور انہیں فروخت کر دیتے تھے۔ بعد میں جب ان کا شہرہ بڑھا تو دنیا کے بھر کے بڑے بڑے بیوپاری ان کے پاس آ کر اپنے گھوڑوں کی بہترین قیمت لے جایا کرتے نیز گھوڑوں کا شوق رکھنے والے امراء اور رؤساء ان کے پاس سے اونچے داموں پر اپنی پسند کا بہترین جانور خرید کر لے جاتے۔

یاسر نے پوچھا گھوڑوں کے شوق اور اس کتب خانے کا تعلق سمجھ میں نہیں آیا؟

زیدی بولے بات در اصل یہ ہے کہ مرزا صاحب کو گھوڑوں سے زیادہ لگاؤ کتابوں سے تھا۔ گھوڑے تو خیر خریدو فروخت کے لیے آتے جاتے تھے لیکن کتابیں جو یہاں آتی تھیں وہ پہلے مرزا صاحب کے قلب و ذہن میں اتر جاتی تھیں اور پھر ان الماریوں کی زینت بن جاتی تھیں چونکہ مجھے بھی پڑھنے لکھنے کا ذوق ہے اس لئے میں نے اس سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔

یاسر نے ایک اور سوال کیا یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ کا مرزا صاحب یا ان کی صاحبزادی سے رابطہ کیوں کر ہوا؟

زیدی صاحب مسکرا کر بولے بھئی ناصر صاحب وہ ایک طویل داستان ہے۔

یاسر بولا لیکن اس کا خلاصہ اگر آپ مناسب سمجھیں ………

زیدی بولے در اصل میرے والد سرکاری افسر تھے اور وہ بھی علم و فضل کے شیدائی تھے۔ یہی قدر مشترک ان کے اور مرزا صاحب کی دوستی کی بنیاد بنی۔ میں بچپن ہی سے اپنے والد صاحب کے ساتھ یہاں آیا جایا کرتا تھا۔ جب میں نے کالج کی تعلیم ختم کی تو مرزا صاحب خاصے ضعیف ہو چکے تھے۔ ان کی ایک اہلیہ اور ننھی سی بیٹی نادرہ تھی جو بڑھاپے کی اکلوتی اولاد ہونے کے سبب ان کو بہت پیاری تھی۔

اس دوران ایک حادثہ پیش آیا جس میں نادرہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد مرزا صاحب بالکل ٹوٹ سے گئے۔ ان کا دل اس دنیا سے اچاٹ سا ہو گیا۔ میرے والد نے انہیں پیشکش کی کی اگر مناسب سمجھیں تو مجھے اپنے تعاون کے لیے ملازم رکھ لیں۔ وہ چونکہ مجھے جانتے تھے اس لئے بخوشی تیار ہو گئے۔ میں نوجوان تھا اس لئے میں خوب محنت کر کے مرزا صاحب کے ہنر مندی تیزی کے ساتھ اخذ کرنے لگا اور بہت جلد ان کا سارا کاروبار سنبھال لیا۔

مرزا صاحب مجھ سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ اس چیز نے انہیں تارک الدنیا بنا دیا تھا۔ اب ان کا بہت زیادہ وقت لائبریری کے اندر گزرنے لگا تھا۔ میں جب بھی ممبئی یا دہلی وغیرہ سفر پر جاتا ان کے لیے ڈھیر ساری کتابیں اپنے ساتھ لیتا آتا۔ اس کے علاوہ ملک کے بڑے کتب خانوں سے ان کا براہِ راست رابطہ تھا اور مختلف نئی کتابیں وہ ڈاک سے منگوا لیا کرتے تھے۔ اس دوران انہیں دار المطالعہ کی تعمیر کا خیال آیا اور انہوں کوٹھی سے علیٰحدہ یہ عمارت بڑے ارمانوں سے بنوائی لیکن جب یہ بن کر تیار ہو گئی تو ان پر فالج کا زبردست دورہ پڑا جس سے وہ سنبھل نہ سکے۔

ایک دن انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ پندرہ سال کی نادرہ بھی اپنے بابا کے سرہانے کھڑی تھی۔ مرزا صاحب کہا بیٹے صغیر میرے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے اور میرے بعد میری اس معصوم بیٹی کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے سامنے اسے اپنے نکاح میں لے لو تاکہ میں بے فکر ہو کر اس دنیا سے جاؤں۔ میں نے نادرہ کی جانب دیکھا اور اس کی خاموشی کو ہاں سمجھا۔ مرزا ساحب بولے جاؤ مسجد سے قاضی صاحب کو میرے چند دوستوں کو جو قریب ہیں بلا لاؤ لیکن دیکھو تاخیر نہ کرنا۔

میں دوڑا دوڑا اپنے گھر گیا اور والد صاحب کو ساری داستان سنا دی۔ والد صاحب نے کچھ سوچ کر کہا مرزا صاحب اللہ والے آدمی ہیں ان کا عرفان درست ہو سکتا ہے تم قاضی صاحب کے پاس جاؤ میں دوچار دوستوں کے ساتھ مرزا صاحب کے پاس جاتا ہوں۔ جب میں قاضی صاحب کے ساتھ اس حویلی میں آیا تو میری والدہ اور بہن بھی یہاں موجود تھیں۔ مرزا صاحب نے اپنے تمام دوستوں کے سامنے اعلان کیا کہ وہ اپنی بیٹی نادرہ کو صغیر زیدی کے نکاح میں دینا چاہتے ہیں۔

میں ہمت کر کے بولا لیکن مرزا صاحب وہ تو ابھی نابالغ ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے جب بالغ ہو جائے تو اسے اپنی بیوی بنا لینا۔ پھر اس کے بعد ایجاب و قبول ہوا اور ایک نہایت ہی سادہ و پر وقار تقریب میں میرا نکاح ہو گیا۔ میرے والد نے مہمانوں کی خورد و نوش کا بندوبست کیا جو گویا ہمارا ولیمہ تھا۔ اس رات مرزا صاحب نے اپنی وصیت لکھوائی مجھے اور اپنی کل جائداد کے ایک تہائی کا وارث بنا کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس واقعہ کے تین چار سال تک نادرہ کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور پھر وہ با قاعدہ میری بیوی بن گئی یا یوں کہہ لو کہ میں مرزا صاحب کا گھر داماد بن گیا۔ اس کے بعد بھی نادرہ کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور اس نے بعد میں آرکیٹیکٹ کی تعلیم حاصل کی۔

…………………………………

پاروتی نے نادرہ سے پوچھا یہ ناصر بھائی اور صغیر صاحب کہاں غائب ہو گئے کہیں اصطبل کی جانب تو نہیں نکل گئے۔

نادرہ بولی مجھے نہیں لگتا۔

پاروتی نے سوال کیا تب؟

نادرہ بولی میرا گمان ہے وہ لائبریری میں بیٹھے اپنی علمیت بگھار رہے ہوں گے۔ مجھے تو یقین ہے کہ انہیں مجھ سے زیادہ، اپنی کتابوں سے عشق ہے۔

پاروتی بولی غنیمت ہے جو تم نے یہ کہہ دیا کہ انہیں کتابوں سے کم تم سے عشق ہے لیکن وہ جو کیلاش کے پاپا ہیں نا انہیں تو صرف اور صرف اپنے کام کا جنون سوار ہے آج کہا میرے ساتھ چلو تو بہانہ بنا کر کہنے لگے بعد میں وقت ملا تو آ جاؤں گا۔

اچھا نادرہ بولی تو تم نے کیا کہا؟

میں بولی پاروتی نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کیوں جھوٹ موٹ مجھے بہلا رہے ہو۔ میں کوئی دودھ پیتی بچی ہوں کیا؟ نہیں آنا ہے تو نہ آؤ اپنی بلا سے۔

نادرہ بولی لیکن اب کھانا بن گیا ہے اس لئے ان لوگوں کو دیکھنا چاہئے۔

کیلاش ایک ملازمہ کے پاس کھیل رہا تھا۔ دونوں سہیلیاں لائبریری میں پہنچیں تو یاسر اور زیدی محو گفتگو تھے۔ پاروتی بولی ویسے تو خواتین کا باتونی ہونا مشہور ہے لیکن آپ لوگوں نے تو ہم پر بھی سبقت لے لی۔

نادرہ زیدی صاحب سے مخاطب ہو کر بولی کیوں آپ تو بڑے نظم و ضبط کے پابند بنتے تھے آج آپ کے کھانے اور نماز کا وقت نہیں ہوا۔

زیدی صاحب نے سٹپٹا کر گھڑی کی جانب دیکھا اور بولے نماز کے لیے پانچ منٹ کا وقت ہے آج ترتیب بدل دیتے ہیں پہلے نماز اور پھر کھانا۔

نادرہ نے کہا ٹھیک ہے آپ لوگ نماز پڑھ کر آئیں میں کھانا لگواتی ہوں۔

زیدی بولے ناصر اب اتنا وقت تو ہے نہیں کہ مسجد تک جا سکیں اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ یہیں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اس طرف حمام ہے وہاں وضو کر لیں۔

یاسر نے کچھ سوچ کر کہا ٹھیک ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخری نماز اس نے کبھی پڑھی تھی۔ ظہر تو اسے یاد نہیں آئی جمعہ اس نے آخری مرتبہ نیروبی کے اندر پڑھی تھی جب سے یہاں آیا تھا وہ سلسلہ بھی بند تھا۔ شنکر کا گھر کمبخت ایسے علاقہ میں تھا جہاں اذان کی آواز تک نہ آتی تھی۔ وضو کرنے کے بعد دونوں نے جماعت بنا کر نماز پڑھی۔ زیدی صاحب کے خشوع و خضوع کا اچھا خاصہ اثر یاسر پر بھی پڑا۔ وہ نماز کے بعد دیر تک دعا کرتا رہا۔ اب یاسر اپنے آپ کو کچھ ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔

طعام سے فراغت کے بعد زیدی نے پوچھا اب کیا ارادہ ہے؟

یاسر بولا میں سمجھا نہیں؟

زیدی بولے میرا مطلب ہے، کیا آپ آرام کرنا پسند کریں گے؟

یاسر نے جواب دیا آرام! جی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔

زیدی نے کہا تو پھر اصطبل کی جانب چلیں۔

نادرہ بولی آپ لوگ جائیے ہم یہیں ٹھیک ہیں کیوں پاروتی؟

پاروتی بولی جی ہاں مجھے ویسے بھی گھوڑوں میں …….۔

میں سمجھ گئی نادرہ نے تائید کی گھوڑوں میں تو وہی دلچسپی لیتا ہے جسے سواری کرنے کا شوق ہو۔

پاروتی بولی یہی تو میں کہہ رہی تھی تم اصطبل سے ہو آؤ میں یہاں آرام کر لوں گی بلکہ اس وقت سونی ٹیلی ویژن پر ایک اہم سیریل نشر ہوتا ہے میں اس سے لطف اندوز ہو لیتی ہوں۔

نادرہ بولی وہ ساس بہو کی گھسی پٹی نوک جھونک تمہیں کو مبارک۔ میں ایسا کرتی ہوں کہ ان کے ساتھ اصطبل سے ہو آتی ہوں ویسے بھی ناصر صاحب پہلی مرتبہ ہمارے غریب خانے پر آئے ہیں اور سنا ہے اچھے شہ سوار ہیں۔

پاروتی بولی جو کچھ سنا ہے اس کو دیکھ کر اطمینان کر لو۔

اصطبل میں نہایت اعلیٰ نسل کے قیمتی گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ زیدی ان میں سے ہر ایک کے بارے میں بتلاتے جاتے تھے اس دوران یاسر کی نظر ایک سب سے الگ تھلگ بندھے ہوئے گھوڑے پر پڑی۔ اس نے سوال کیا اس گھوڑے کو سب سے دور رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے؟

زیدی بولے جی ہاں یہ ہماری ملکہ محترمہ کی خاص سواری ہے۔

یاسر بولا میں سمجھا نہیں۔

زیدی نے کہا نادرہ تم ہی انہیں اس گھوڑے کی کہانی سنا دو۔

نادرہ بولی کچھ خاص نہیں یہ ہمارا سب پرانا گھوڑا ہے۔ جب میں اسکول میں تھی تو میرے والد نے اسے خریدا لیکن یہ اس قدر خودسر تھا کہ کسی کو اپنے اوپرسوارہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا اس لئے اس کا کوئی خریدار نہیں ملتا تھا۔ میں اس کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ ایک دن نہ جانے کیوں میرے والد صاحب نے مجھے اس پر بٹھا دیا اور ہاتھوں سے پکڑے رہے کہ کہیں گرا نہ دے لیکن خلاف توقع وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ میرے والد نے آہستہ سے مجھے چھوڑا اور اس کی لگام مجھے تھما دی۔ میں نے ایڑ لگائی تو وہ چل پڑا۔ میرے والد یہ کرشمہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ گھوڑا ایک چکر کاٹ کر مجھے اپنے والد صاحب کے سامنے لے آیا اور انہوں نے مجھے نیچے اترنے میں مدد کی۔

نادرہ نے زیدی کی جانب اشارہ کر کے کہا آگے آپ بتائیں۔ زیدی بولے مرزا صاحب نے سوچا شاید گھوڑے کا مزاج بدل گیا لیکن جب بھی اسے بیچنے کی خاطر کسی گاہک کو دکھلایا، اس نے سوارکو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ اس طرح گویا برسوں سے یہ نادرہ کا مخصوص گھوڑا بنا ہوا ہے۔

یاسر نے پوچھا کیا میں اپنی قسمت آزما کر دیکھوں۔

زیدی بولے آپ میرے معزز مہمان ہیں اگر زحمت نہ کریں تو بہتر ہے مبادا کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔

یاسر نے کہا آپ اس کی فکر نہ کریں اس پر زین بندھوائیں۔ زیدی نے سائیس کو اس حکم دیا۔ یاسر نے چہار جانب سے گھوڑے کو دیکھا، پچکارا اور کود کر اس پر چڑھ گیا۔ یاسر کا ایسا کرنا تھا گھوڑا باؤلا ہو گیا اور بے تحاشہ اچھل کود کرنے لگا۔ نادرہ اور زیدی دم بخود یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ گھوڑا چھلتا کودتا رہا اور یاسر اپنے آپ کو سنبھالتا رہا یہاں تک کہ گھوڑا تھک گیا اور جیسے ہی سست ہوا یاسر نے ایڑ لگا دی۔ اب کیا تھا یاسر ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔ یاسر نے اپنے کالج کے زمانے کے دوچار کرتب دکھلائے اور گھوڑے سے اتر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ یاسر نے اپنی شہسواری سے نادرہ کا دل جیت لیا تھا۔ اس کو نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ جس شہزادے کو وہ برسوں سے خوابوں میں دیکھتی آ رہی ہے وہ کسی افق سے اتر کر اس کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔

زیدی صاحب اور نادرہ کا معمول تھا کہ وہ ہر روز صبح طلوعِ آفتاب سے قبل اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنے فارم ہاؤس کے آس پاس کی پہاڑیوں اور وادیوں کی سیر کرتے تھے۔ ایک دن نادرہ بولی ہم لوگ ہمیشہ مشرق کی جانب جاتے ہیں کیوں نہ ایک دن شمال کی جانب چلیں۔

زیدی صاحب نے پوچھا کیوں؟

نادرہ بولی اس یکسانیت سے میری طبیعت اوب گئی ہے۔

زیدی بولے لیکن میں نے سنا ہے کہ شمال کی جانب پہاڑیوں کے درمیان گہری کھائی ہے اس لئے وہ پر خطر علاقہ ہے۔

نادرہ بولی اوہو تو کیا ہم کھائی میں کودنے کے لیے جا رہے ہیں۔

زیدی بولے نادرہ میں جانتا ہوں کہ تم جب کوئی ضد پکڑ لیتی ہو تو بس اسے کر کے رہتی ہو پھر بھی اگر اپنا ارادہ بدل دو تو اچھا ہے۔

جی نہیں آپ کو میرے ساتھ آنا ہے تو آئیے ورنہ میں تنہا جا رہی ہوں۔

زیدی بولے نہیں میں تم کو خطرات کے درمیان اکیلا نہیں چھوڑ سکتا چلو چلتے ہیں۔

نئے ٹیلوں پر اور نئی وادیوں میں نادرہ بہت خوش تھی کبھی ایک طرف تیزی سے نکل جاتی تھی کبھی دوسری جانب۔ زیدی کو ڈر لگ رہا تھا مگر اس کے اظہار کو وہ اپنی مردانگی کے منافی سمجھتے تھے۔ در اصلیہ علاقہ زیدی کے لیے نیا ضرور تھا مگر نادرہ کے لیے نہیں وہ تنہا کئی مرتبہ یہاں آ چکی تھی اس لئے بالکل بے خوف تھی۔ اس بیچ اچانک نادرہ نے ایک خاص درے کی جانب ایڑ لگائی جب گھوڑا کافی دور نکل گیا تو زیدی نے بھی اسے جا لینے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ درے ّ کے فوراً بعد گہری کھائی تھی چونکہ نادرہ کو اس کا پتہ تھا اس نے اپنے گھوڑے کی رفتار اختتام سے قبل دھیمی کر دی اور ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر بعد تاریک درے ّ میں نادرہ کو اپنے عقب سے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئی کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا اور اسی کے ساتھ زیدی اپنے گھوڑے سمیت گہری کھائی میں گرتے ہوئے نظر آئے۔ ہوا میں معلق گھوڑے اور اس کے سوار کو نادرہ نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ایک آنسو گرا اور ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ نادرہ نے آنکھیں بند کر لیں اور اسی کے ساتھ زندگی کا ایک تاریک باب بند ہو گیا۔

نادرہ وہاں سے سیدھے پولس تھانے گئی اور صغیر زیدی کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی رپورٹ درج کرائی۔ نادرہ کے لب و لہجے سے تھانیدار کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ عورت اپنے خاوند کے موت کی خبر دے رہی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا یہ عورت ہے یا چڑیل؟ اس کے پاس گوشت و پوست کا دل ہے یا پتھر کا؟ ایسی سنگدل بیوی بھی ہو سکتی ہے یہ تھانیدار کے تصور خیال میں نہیں تھا لیکن اس کا کام رپورٹ درج کرنے کا تھا سو اس نے کر دیا۔

تفتیش کے دوران کھائی کے اندر سے زیدی صاحب اور گھوڑے کی لاش برآمد کر لی گئی۔ نادرہ کا بیان صد فیصد درستنکلا بظاہر حادثے کی مکمل ذمہ داری صرف اور صرف صغیر زیدی پر عائد ہوتی تھی جو اس کی قرار واقعی سزا بھگت چکا تھا۔ ایف آئی آر کی نقل لے کر واپس آتے ہوئے نادرہ نے پاروتی کو اپنے پاس بلایا اور اسے زیدی کے موت کی خبر سنائی۔ شنکر چونکہ یاسر کے ساتھ سنگاپور اور مشرق بعید کے دورے پر تھا اس لئے تعزیت کے لیے نہ آ سکا۔ تقریباً ایک ماہ بعد جب وہ دونوں واپس لوٹے تو ان لوگوں نے سب سے پہلے نادرہ کی تعزیت کی لیکن خلاف توقع نادرہ بالکل بھی غمگین نہیں تھی۔

نادرہ کے فارم سے واپس آتے ہوئے پاروتی نے گاڑی میں شنکر کو بتلایا کہ نادرہ کی عدت کا ایک ماہ مکمل ہو چکا ہے اور جیسے ہی بقیہ تین ماہ پورے ہوں گے وہ نکاح کر لے گی۔ یہ سن کر یاسر کا ما تھا ٹھنکا اور اس نے سوال کیا۔ نکاح کر لے گی؟ کس کے ساتھ؟

پاروتی کا نشانہ درست لگا تھا۔ اس نے کہا یہ تو میں نہیں جانتی کہ وہ خوش نصیب کون ہے؟ ویسے آپ بھی ہو سکتے ہیں۔

شنکر نے کہا پاروتی یہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیوں تم یہ بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو؟ تمہیں اپنی سہیلی کی بیوگی کا غم نہیں ہے کیا؟

پاروتی بولی کیوں نہیں مجھے اپنی سہیلی کے بیوہ ہونے کا سخت افسوس ہے اسی لئے میں چاہتی ہوں کہ وہ اس کیفیت سے جلد از جلد باہر آ جائے اور اس کی یہی ایک صورت ہے کہ وہ نکاح کر کے پھر سے سہاگن بن جائے۔ پاروتی کی گفتگو نے یاسر کے قلب و ذہن میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔

نادرہ کی دنیا بدل چکی تھی۔ اس کا پہلا نکاح نہایت ہی سادہ سی تقریب میں ہوا تھا لیکن نکاح ثانی کی دعوت آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی۔ نادرہ فارم ہاؤس کے وسیع و عریض احاطے میں ہونے والی اس پارٹی کو کامیاب کرنے کے لیے شنکر اور پاروتی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ شہر کی ایک ایک مقتدر ہستی وہاں موجود تھی۔ یاسر یہ سب دیکھ کر حیران تھا۔ اس نے کبھی خواب میں یہ نہیں سوچا تھا کہ اس قلیل عرصے میں اتنا کچھ ہو جائے گا۔ نادرہ کو پر لگے ہوئے تھے وہ ہوا میں اڑتی پھرتی تھی۔ وہ اس بات سے بے حد خوش تھی کہ سب کچھ اس کے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے لیکن اس کا علم صرف اسی کو ہے۔

جب سارے لوگ چلے گئے تو شنکر اور پاروتی نے نوبیاہتا جوڑے کو الوداع کہنے کے لیے آئے شنکر بولا یاسر میرا مطلب ہے ناصر تمہاری یہ بھابی ہے نا انتریامی ہے۔

یاسر نے حیرت سے پوچھا؟ انتریامی؟ یہ کیا ہوتا ہے؟

شنکر بولا ابھی بھی تمہاری ہندی کمزور ہے لیکن اب وہ دن دور نہیں جب تم مجھ سے بہتر ہندوستانی بولنے لگو گے۔

یاسر بولا یار تم مجھے انتریامی کا مطلب بتاتے بتاتے کہیں اور نکل گئے۔

شنکر بولا انتریامی کا مطلب ہے غیب داں ! تمہیں یاد ہے ایک مرتبہ پاروتی نے کیا کہا تھا؟

یاسر بولا بھابی نے اتنی ساری اچھی اچھی باتیں کہی ہیں کہ میں اس موقع پر کس کس کا ذکر کروں؟

شنکر بولا نہیں میں ان ابتدائی دنوں کی بات کر رہا ہوں جب تم میرے گھر سے منتقل ہونے کی بات کر رہے تھے۔ اس وقت پاروتی نے کہا تھا اب تو آپ شہنائی کے ساتھ ہی جائیں گے بھائی صاحب؟

جی ہاں یاسر بولا اور میں نے سوال کیا تھا یہ شہنائی کیا ہوتی ہے؟ تو اس نے بتایا تھا جب بجے گی تو سب کو پتہ چل جائے گا۔

شنکر بولا جی ہاں اور پاروتی کے اس جواب پر تم ہونقوں کی مانند خلاء میں دیکھ رہے تھے۔

یاسر نے کہا جی ہاں اس لئے کہ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تھا۔

شنکر بولا لیکن مجھے یقین ہے کہ آج اس جملے کا مطلب سمجھ میں آ گیا ہو گا۔

یاسر اور نادرہ یہ مسکراکر رہ گئے۔ شنکر نے یاسر کو سینے سے لگا کر مبارکباد دی اور بولا میرے دوست ناصر یہ نئی زندگی تم کو بہت بہت مبارک ہو۔

پاروتی اپنی سہیلی کے کان میں کہہ رہی تھی نادرہ یہ نیا گھوڑا تمہیں مبارک ہو۔ اب ہمیں اجازت دو۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

پروفیسر دیشمکھ

 

شادی کے ایک ہفتہ بعد شنکر اور پاروتی نے نو بیاہتا جوڑے کی اپنے گھر کیلاش پربت میں ایک نہایت پر تکلف دعوت کی جس چند قریبی دوست و احباب کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس محفل میں نادرہ اپنی اور پاروتی کی مشترک سہیلی مسز دیشمکھ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی جو کسی مجبوری کے سبب شادی کے دن نہیں آ سکی تھی۔ اس روز مسز دیشمکھ کے ہمراہ ان کے خاوندمسٹر دیشمکھ بھی تھے جو یونیورسٹی میں یوروپین اسٹڈیز کے سابق پروفیسرتھے۔ یاسر بہت جلد پروفیسر دیشمکھ سے بے تکلف ہو گیا اور ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے لگا۔

پروفیسر دیشمکھ نہایت دلچسپ آدمی تھی۔ بے تکان بولنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ مخاطب کا سوال سننے سے قبل ہی جواب دینے لگتے تھے اور اکثر نہ سوال صحیح معنیٰ میں سمجھ پاتے تھے اور ظاہر ہے ان کا جواب بھی نادرست ہوتا تھا۔ پروفیسر صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ چار لیموں کاٹو تو دو قطرہ رس نکلے۔ اسی سبب سے مسز دیشمکھ انہیں اپنے ساتھ کسی دعوت میں لے جانے سے کتراتی تھیں لیکن چونکہ شنکر اور پاروتی کا اصرار تھا اس لئے وہ بصد شوق اپنے خاوند کے ساتھ آئی تھیں۔

یاسر نے ان سے دریافت کیا کہ یونیورسٹی کے اندر یوروپین اسٹڈیز کے علاوہ اور کن خطوں کے شعبے ہیں تو پروفیسر صاحب مختلف شعبہ جات کے درمیان چپقلش بتانے لگے اور تعلیمی سیاست کی اچھی خاصی منظر کشی کر دی۔ یاسر نے موضوع بدلنے کے لیے پروفیسر دیشمکھ سے تعلیمی معیار کی بابت پوچھا تو اس سوال کے جواب میں انہوں نے پونے یونیورسٹی کو آکسفورڈ اور ہاروڈ سے بہتر ثابت کر دیا۔

یاسر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اب اس نے بالکل صاف اور واضح سوال کیا۔ پروفیسر صاحب آپ کی یونیورسٹی میں کوئی یوروپی طالب علم تو ہے نہیں لیکن یوروپین اسٹڈیز کا شعبہ ہے جبکہ اتنے سارے افریقی طلباء ہیں تو افریقی اسٹڈیز کا شعبہ کیوں نہیں ہے؟

اس سوال نے پہلی مرتبہ پروفیسر صاحب کو پریشان کر دیا لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھال کر وہ بولے اس کی کئی وجوہات ہیں اول تو افریقی طلباء اپنے براعظم کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں اب بھلا ہم انہیں کیا بتا سکتے ہیں۔

یاسر نے کہا لیکن پھر بھی یوروپین اسٹڈیز کا جواز کیسے بنتا ہے؟

دیشمکھ بولے وہ ایسا ہے نا کہ دیسی و بدیسی سارے طلباء یوروپ جانا چاہتے ہیں اور یوروپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپ تو جانتے جو بکتا ہے وہ بنتا ہے۔ جس کی کھپت ہوتی ہے وہی مال بازار میں دکھائی دیتا ہے۔

یاسر پھر گھوم کر اپنے سوال پر آیا اور پوچھا لیکن اس کا اندازہ کیوں کر لگایا گیا کہ افریقی اسٹڈیز کی کوئی مانگ نہیں ہے؟

پروفیسر دیشمکھ بیزار ہو کر بولے دیکھو ہمارے یہاں غیر ملکی زبانوں کا ایک شعبہ ہے۔ اس کے صدر تو خیر روسی زبان کے ماہر ہیں لیکن ان کے ساتھ افریقی زبان کے بھی پروفیسر ہوا کرتے تھے میں نہیں جانتا کہ وہ اب بھی حیات ہیں یا پرلوک سدھار گئے اس لئے کہ بوڑھے آدمی تھے بہت عرصہ ہوا نظر نہیں آئے۔

یاسر ہنس کر بولا پروفیسر صاحب آپ نے تو انہیں اوپر پہنچا دیا ہو سکتا ہے ریٹائر ہو گئے ہوں۔

پروفیسر دیشمکھ بولے ایک ہی بات ہے۔ بھئی وظیفہ یافتہ انسان کی حالت سپرمارکٹ کی الماری میں رکھے اس مال کی طرح ہوتی ہے جس کی تاریخ اکسپائر ہو چکی ہو۔ اس کے ظاہری ٹھاٹ باٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب کوئی گاہک اسے اٹھا کر تاریخ دیکھتا ہے تو دوبارہ وہیں رکھ دیتا ہے۔

یاسر کو یہ مثال دلچسپ لگی اس نے پوچھا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی مجھ جیسا سیدھا سادہ گاہک تاریخ دیکھے بغیر استعمال کر لے؟

پروفیسر صاحب بولے تب تو وہ بیچارہ اپنی لاپرواہی کے سبببیمار ہو جائے گا۔

یاسر نے پوچھا پروفیسر صاحب آپ کب سبکدوش ہو رہے ہیں؟

دیشمکھ صاحب کچھ لجاتے ہوئے بولے ویسے تو میں سبھی کو جوان لگتا ہوں لیکن یہ جو ہے نا۔ وہ یاسر کے پیچھے کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ یاسر نے مڑ کر دیکھا تو ادھر مسز دیشمکھ مسکرا رہی تھیں۔ دیشمکھ صاحب کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان کی دھار اچانک غائب ہو چکی تھی وہ بولے در اصل اس کو کون سمجھائے یہ مانتی ہی نہیں۔

مسز دیشمکھ نے کہا جی ہاں بات در اصل یہ ہے کہ مجھے سمجھانے منانے کی مطلق ضرورت نہیں۔

یاسر بولا کیوں؟

مسز دیشمکھ نے جواب دیا ناصر صاحب سمجھایا تو اسے جاتا ہے جو ناواقف حال ہو میں توساری حقیقت جانتی ہو ں۔

یاسر سمجھ گیا بیگم دیشمکھ پروفیسر صاحب سے دو قدم آگے ہیں۔ اس نے کہا لیکن آپ لوگوں کی نوک جھونک میں میرا سوال ہوا ہو گیا۔

پروفیسر دیشمکھ نے بولنے کا ارادہ کیا لیکن ان سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے ان کی اہلیہ بول پڑیں۔ نادرہ یہ کس ریٹائر منٹ کی بات بار بار کر رہے ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ جس طرح انسان صرف ایک مرتبہ مرتا ہے اسی طرح صرف ایک ہی بار ریٹائر بھی ہوتا ہے اور یہ تو گزشتہ پانچ سالوں سے سرکاری وظیفہ پر عیش فرما رہے ہیں۔

دیشمکھ صاحب بولے صرف میں ہی کیوں تم بھی تو اسی پر دادِ عیش دیتی پھرتی ہو۔

یاسرنے بات بدلنے کے لیے کہا یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ آپ دونوں لوگ عمر کے اس حصے میں بھی موت سے بالکل نہیں ڈرتے۔

پروفیسر دیشمکھ بولے لگتا تم نے فلم شعلے نہیں دیکھی۔ اس میں گبر سنگھ میرا مطلب ہے امجد خان کا سب سے مشہور مکالمہ کیا ہے؟

نادرہ بولی پروفیسر صاحب مجھے بھی ان کے بارے میں یہی غلط فہمی تھی کہ انہیں ہندی فلموں میں کوئی رغبت نہیں ہو گی لیکن اس ایک ہفتے میں دور ہو گئی ہے۔ یہ ویسے تو یہ فلمیں کم دیکھتے ہیں مگر شعلے انہوں نے اتنی بار دیکھی ہے کہ کبھی کبھار مجھے بھی نادرہ کے بجائے بسنتی کہہ کر پکارنے لگتے ہیں۔

یاسر ایک دم سے شرمندہ ہو گیا۔ پروفیسر صاحب اس کی کیفیت کو بھانپ گئے انہوں نے کہا اس میں حیرت کی کیا بات ہے میں بھی جب موڈ میں آتا تھا تو اپنی اس چمپا کلی کو انار کلی کہہ کر پکارا کرتا تھا اور یہ اس کا بالکل برا نہیں مانتی تھی۔

پروفیسر صاحب نے اپنا بدلہ چکا کر ماحول بدل دیا تھا اس کا فائدہ اٹھا کریاسربولا جی ہاں میں نے شعلے کم از کم دس بار دیکھی ہے۔ امجد کے دو مکالمے ’کتنے آدمی تھے؟ ‘ اور’ جو ڈر گیا وہ مرگیا‘ مجھے بے حد پسند ہیں۔

پروفیسر صاحب بولے بہت خوب اور اب یہ بتاؤ کہ گبر سنگھ کا کیا ہوا۔

یاسر بولا وہ بھی مرگیا اور میں بھی…….

نادرہ نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔ پروفیسر صاحب بولے خدا تمہاری جوڑی سلامت رکھے اب ہمیں اجازت دو۔ نادرہ اور یاسر دونوں مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے صدر دروازے تک آئے اور بڑی عقیدت و احترام سے انہیں گاڑی میں سوار کیا۔ پروفیسر اور بیگم دیشمکھ نے انہیں ڈھیروں دعائیں دیں اور رخصت ہوئے۔ یاسر کے لیے اس ملاقات کا حاصل غیر ملکی لسانیات کا شعبہ اور یوروپین اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ تھا۔

نادرہ نے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں یاسر کو چھیڑتے ہوئے کہا آج تو آپ کی علمی گفتگو سن کر میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آپ دونوں میں پروفیسر کون ہے اور …..نادرہ رک گئی۔

یاسر بولا نادرہ تم رک کیوں گئیں۔

نادرہ بولی یوں ہی۔

یاسر نے کہا اگر اجازت ہو تو میں اس جملے کو مکمل کر دوں۔

نادرہ بولی آپ نے میری نامکمل زندگی تکمیل کر دی ہے اب آپ کو کسی اجازت کی کیا حاجت؟

یاسر بولا نہیں ایسی بات نہیں۔ نادرہ فارم کی مالکن سے بات کرتے ہوئے القاب و آداب کا لحاظ کرنا ہی پڑتا ہے۔

نادرہ بولی مجھے لگتا ہے اب آپ گھوڑوں کی دنیا سے نکل کر کسی اور دنیا میں جانے والے ہیں۔ یاسر کو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ گویا اس کے ارادوں کا نادرہ کو کسی طرح علم ہو گیا۔ وہ بالکل سنجیدہ اور پژمردہ ہو گیا۔ نادرہ نے ہنس کر کہا کیوں میرے سرتاج آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟

یاسر کو اچانک ہندی فلموں کا ایک بازاری مکالمہ یاد آ گیا وہ مسکرا کر بولا لگتا ہے میری حالت ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا ‘ جیسی ہونے والی ہے۔

نادرہ بولی یہی تو میں کہہ رہی تھی کہ اب لگتا ہے آپ فلمی دنیا میں قدم رنجہ فرمائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ وہاں بھی اچھے اچھوں کی چھٹی کر دیں گے کوئی آپ کی ہمسری نہ کر سکے گا۔ اگر واقعی آپ فلم بنانا چاہتے ہیں تو بیک وقت انگریزی اور ہندی میں فلم بنائیں۔ اگر اس کی شوٹنگ ہالی ووڈ میں ہو۔ اس کا ہیروئن امریکی اور ہیرو ہندوستانی ہو تو یقین کریں یہ فلم بزنس میں شعلے کو پیچھے چھوڑ دے گی۔

یاسر بولا نادرہ ایک بات یاد رکھو شعلے سے اچھی فلم بنانے کے لیے سلیم جاوید کو دوبارہ ساتھ آنا ہو گا۔ اس کے بغیر وہ ممکن نہیں ہے۔

نادرہ نے ہنس کر کہا وہ کون سی مشکل ہے؟ اس کا نہایت آسان حل میرے پاس ہے۔ یاسر نے چونک کر پوچھا اچھا؟ ؟ ؟

نادرہ بولی جی ہاں فلم میں ہیرو کے طور پر سلمان خان کو سائن کر لو سلیم اپنے آپ آ جائیں گے اور ہدایت کاری فرحان اختر کوسونپ دو وہ جاوید کو راضی کر لے گا۔

یاسر بولا یہ تو زبردست فارمولا ہے لیکن ہم لوگ کیا کریں گے؟

ہم لوگ………نادرہ کچھ دیر تک سوچتی رہی اور پھر بولی ہم لوگ؟ ؟ ؟ ہم ایسا کریں گے میں ہیروئن کی ماں بن جاؤں گی اور آپ ہیرو کے باپ کا کردار ادا کر دینا۔

یاسر ہنس کر بولا بھئی میں تمہارے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اپنے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایسا ہوا لوگ حیرت سے سوال کریں گے یہ سگا باپ ہے یا سوتیلا؟

نادرہ بولی وہ کیوں؟

یاسر نے کہا اس لئے کہ سگے باپ کا عمر میں بیٹے سے زیادہ لگنا ضروری ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ہم اس اچھل کود جھمیلے میں پڑے ہی کیوں؟ ایسا کرتے ہیں کہ ہیلن کو ہیروئن کی ماں بنا دیتے ہیں اور شبانہ کو سلمان کی ماں۔ میں تو کہتا یہ فلم بغیر کہانی کے ہٹ ہو جائے گی۔

نادرہ بولی اب مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا کہ ان دونوں میں پروفیسر کون تھا اور ……..نادرہ پھر خاموش ہو گئی۔

یاسر بولا جی ہاں کوچوان کون؟

نادرہ بولی سچ تو یہ ہے کہ آپ کے سامنے وہ نام نہاد پروفیسر ایک کوچوان کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ آپ گریٹ ہیں ناصر سمپلی گریٹ۔

٭٭٭

 

 

 

 

شہنائی

 

نادرہ نے ایک دن یاسر سے پوچھا ناصر صاحب اس فلم کا کیا ہوا؟

یاسر بولا کون سی فلم؟

نادرہ بولی وہی سلیم جاوید اور سلمان فرحان کی فلم جس کی موسیقی ساجد واجد ترتیب دے رہے ہیں۔ نادرہ اس طرح بول رہی تھی جیسے یہ کوئی خیال نہیں بلکہ حقیقت ہو۔

یاسر بولا اوہو تمہیں وہ مذاق اب بھی یاد ہے میں تو اسے بھول ہی گیا تھا۔

نادرہ بولی لیکن میں نہیں بھولی میں ہنی ایرانی ہوں آسانی سے کوئی بات نہیں بھولتی۔

یاسر نے پوچھا یہ ہنی ایرانی بیچ میں کہاں سے آ گئی؟

اوہو تمہیں نہیں پتہ فرحان اختر کی والدہ ماجدہ کون ہے؟

شبانہ اعظمی اور کون؟

جی نہیں ناصر صاحب فلمیں دیکھنا اور فلمی معلومات رکھنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ شبانہ تو فرحان کی سوتیلی ماں ہے اس کی سگی ماں تو ہنی ایرانی ہی ہے۔

یاسر نے حیرت سے کہا تعجب ہے اچھا تواب تم کہو گی کہ ہیلن بھی سلمان کی سگی ماں نہیں ہے؟

نادرہ ہنس کر بولی اس میں کیا شک ہے سلمان کی سگی ماں سشیلا چرک ہے نہ کہ ہیلن رچرڈسن۔

یاسر نے کہا بھئی نادرہ ماننا پڑے گا تمہاری فلمی معلومات بڑی زبردست ہے۔ ہیلن اور شبانہ کے بارے میں تو پتہ ہے لیکن یہ ہنی ایرانی کیا کرتی ہے؟

ہنی پہلے تو فلموں میں اداکاری کرتی تھی اب کہانی اور منظر نامے لکھتی ہے۔

یہ تو کمال ہے؟ یاسر نے حیرت سے کہا۔

نادرہ بولی اس میں کمال کیا ہے فلمی کہانی تومیں بھی لکھ سکتی ہوں۔

یاسر بولا تم؟ ؟ ؟ یہ تو اور بھی بڑا کمال ہے۔

نادرہ بولی اس میں کمال کی کیا بات ہے۔ کہانیاں انسان ہی لکھتے ہیں اور میں بھی ایک انسان ہوں تو میں کیوں نہیں لکھ سکتی؟

یاسر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ اپنے آپ کو سنبھال کر بولا مجھے تمہارے لکھنے پر حیرت نہیں بلکہ اپنے آپ کے ایک کہانی کار کا شوہر ہونے پر حیرت ہے۔ آخر ایک کوچوان بھلا…….

نادرہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی اب اس کے بعد یہ لفظ آپ کسی کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔

یاسر سعادتمندی سے بولا جو حکم۔

اور چپ چاپ مجھ سے اپنی کہانی سنیں گے۔

یاسر پھر بولا زہے نصیب۔

ہاں تو کسی دور دراز کے گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام نادرہ تھا۔

یاسر بولا بہت خوب نادرہ نے بات آگے بڑھائی۔

نادرہ بہت خوبصورت تھی بالکل میری طرح اور اس گاؤں میں ایک نہایت خوبرو نوجوان ناصر تھا بالکل آپ کی طرح۔

یاسر بولا کہیں تم نے اپنی آپ بیتی تو نہیں لکھ ڈالی؟

نادرہ بولی جی نہیں کچھ آپ بیتی کچھ جگ بیتی یہ سمجھ لو کہ ملی جلی داستان ہے۔

بہت خوب مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ یوروپین کاؤ بوائے ماحول میں ہندوستانی کرداروں کی کہانی ہے۔

جی ہاں اسی لئے تو میں کہہ رہی تھی کہ اس کی شوٹنگ ہالی ووڈ میں ہونی چاہئے لیکن پھر فرنگی ہیروئن؟

نادرہ بولی وہ ایسا ہے کہ ناظرین میں کثیر تعداد اب ہندوستانیوں کی ہو گئی ہے۔ وہ ہندوستان کے علاوہ یوروپ اور امریکہ میں بھی فلم کو ہٹ کر دیتے ہیں۔ اب آپ گاوں کے ماحول میں بھارتیہ ناری کو لے کر اسے ساتر لباس پہنا دو گے تو وہ ان جدید فلم بینوں کے ذوقِ طبع پر گراں نہیں گزرے گا؟

بہت خوب مبارک ہو نادرہ تم تو بالکل کمرشیل انداز میں سوچنے لگی ہو ناصر نے تعریفی انداز میں کہا۔

کیوں نہیں؟ نادرہ بولی ناصر صاحب جو لوگ فلم بنانے سے قبل ان تجارتی زاویوں کا خیال نہیں رکھتے ان کی اچھی اچھی فلمیں بھی یا تو ریلیز نہیں ہوتیں یا فلاپ ہو جاتی ہیں مگر جو عوام کی پسند کا پاس و لحاظ کرتے ہیں ان کی گھٹیا فلمیں تک سپر ڈپر ہٹ ہو جاتی ہیں۔

سمجھ گیا بابا اب یہ بتاؤ  کہ تمہاری کہانی میں آگے کیا ہوتا ہے؟ یاسر نے سوال کیا

یہی کہ ہندی فلموں کی مانند ناصر ڈورے تو ڈالتا ہے مگر نادرہ گھاس نہیں ڈالتی۔

یاسر بولا یہ پرفیکٹ ہندی فلم کا آغاز ہے اسے ہالی ووڈ میں نہیں بالی ووڈ میں بنانا پڑے گا۔

نادرہ بولی آپ نے نتائج پر پہنچنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر دیا۔ آگے تو دیکھئے کہ کیا کچھ ہوتا ہے؟

یاسر بولا معاف کرنا غلطی ہو گئی لیکن جو کچھ بھی ہوتا ہے آپ جلدی جلدی بتائیں۔

ناصر کے ذریعہ جلد بازی کا مظاہرہ نادرہ کو پسند آیا وہ بولی کوئی بات نہیں اب چپ چاپ سنو بیچ بیچ میں مت بولو کیا سمجھے۔ یاسر نے سر ہلا کر تائید کی۔

نادرہ کا سلسلۂ کلام جاری تھا وہ بڑے ذوق و شوق سے اپنی کہانی سنارہی تھی:

ایک دن صبح تڑکے نادرہ ایک سنسان پگڈنڈی پر تنہا چلی جا رہی تھی۔ یاسر نے سوچا یہ تو گلشن نندہ کی کہانی نقل ہے لیکن وہ خاموش رہا۔ اسی کچی سڑک پر عقب سے زیدی صاحب اپنی پشتینی بگھی پر چلے آ رہے تھے۔ جب ان کی بگھی نادرہ کے قریب پہنچی تو اچانک اس کا ایک پہیہ کسی گڑھے کے اندر چلا گیا۔ گھوڑی نے اسے نکالنے کے لیے زور لگایا تو بگھی کا توازن تھوڑا سا بگڑا اور نادرہ اس کے پہئے کی زد میں آ گئی۔ زیدی نے گھبرا کر چاروں جانب دیکھا دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ وہ نادرہ کو پہچان گئے تھے۔ زیدی صاحب نادرہ کے والد مرزا صاحب سے خوب واقف تھے اس لئے بہت گھبرائے اور وہاں سے نکل جانے میں عافیت سمجھی۔ نادرہ زمین پر پڑی ایڑیاں رگڑتی رہی۔

یاسر نے سوچا یہ عجیب بے وقوف عورت ہے اگر پہلے ہی منظر میں ہیروئن مر جائے تو بھلا آگے شائقین کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے آپ پر ضبط نہ رکھ سکا اور بولا نادرہ بیگم اب بس بھی کرو میرے اندر اس قدر غمگین کہانی سننے کی تاب نہیں ہے۔

آپ نے پھر …….یاسر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ بولا میں معافی چاہتا ہوں۔

نادرہ نے سخت لہجے میں کہا اب معافی نہیں سزا ملے گی آپ تو ہیرو کی آمد کا انتظار بھی نہیں کر سکے۔

یاسر بولا میں سزا کا خواستگار ہوں۔

نادرہ مسکرائی اور بولی آپ کی سزا یہ ہے کہ اب اس کہانی کے دوران اگر آپ نے زبان کھولنے کی جرأت کی تو …….

یاسر بول پڑا زبان کاٹ کر چیل کووں کو …….

نادرہ بولی جی ہاں صحیح سمجھے۔

نادرہ نے بات آگے بڑھائی تو پیچھے سے ناصر اپنے گھوڑے پر جھومتا گاتا چلا آ رہا تھا۔ اس نے جب نادرہ کو زمین پر پڑا دیکھا تو فوراً گھوڑے سے نیچے اتر پڑا اور اس کی نبض دیکھنے لگا اس لئے کہ بے حس و حرکت پر پڑی نادرہ کو دیکھنے کے بعد یہی لگتا تھا کہ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔

یاسر بولا اگر آپ ذرا آسان زبان استعمال …….

نادرہ نے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ آگے جانے والے زیدی صاحب کا ضمیر انہیں برابر کچوکے دے رہا تھا۔ حادثہ عمداً نہیں بلکہ سہواً ہو گیا تھا جو ان کے بس میں نہیں تھا لیکن اسے زخمی حالت میں چھوڑ کر بھاگنے کی غلطی انہوں نے قصداً کی تھی جس کا انہیں بے حد دکھ تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنی بگھی کا رخ موڑا اور نادرہ کی جانب چل پڑے۔ جب وہ جائے حادثہ پر پہنچے تو دیکھا نادرہ کو ناصر حکیم صاحب کے پاس لے جانے کے لیے پریشان ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیسے لے کر جایا جائے۔

زیدی کو قریب آتا دیکھ کر ناصر خوش ہوا۔ زیدی نے بنتے ہوئے ماجرا پوچھا اور اپنی بگھی پیش کر دی۔ ان دونوں نے بے ہوش نادرہ کو اس میں سوار کیا۔ ناصر نے اپنے گھوڑے کو پاس کے پیڑ سے باندھا اور خود بگھی میں نادرہ کو سنبھال کر بیٹھ گیا۔ زیدی صاحب کی بگھی تھوڑی دیر بعد گاوں کے حکیم صاحب کے دروازے پر گھڑی تھی۔ حکیم صاحب کا شمار گاوں کی معزز ہستیوں میں ہوتا تھا اور وہ مرزا صاحب کے قریبی دوست تھے۔ نادرہ ان کی گود میں پلی بڑھی تھی۔ انہوں نے فوراً نادرہ کا معائنہ کیا اور کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں نادرہ کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر اس کے پیر کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ممکن ہے وہ مستقل معذوری کا شکار ہو جائے۔

حکیم صاحب نے زیدی کو حکم دیا کہ وہ جا کر فوراً مرزا صاحب کو حادثے کی اطلاع دے اور اگر وہ راضی ہو جائیں تو انہیں اپنے ساتھ لیتا آئے۔ راستے میں زیدی سوچ رہا تھا کہ وہ مرزا صاحب کو کیا بتائے گا اور کیسے؟ مرزہ صاحب کی حویلی پہنچتے پہنچتے اس کا ذہن ایک خاص نتیجے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے مرزا صاحب سے صرف یہ کہا کہ حکیم صاحب نے انہیں فوراً اپنے پاس آنے کی درخواست کی ہے۔ اس لئے اگر وہ مناسب سمجھیں تو اس کے ساتھ چلے چلیں۔

مرزا صاحب نے سوچا ضرور کوئی نازک معاملہ ہو گا ورنہ حکیم صاحب اس طرح کسی قاصد کو نہیں بھیجتے۔ وہ چند منٹوں میں تیار ہو کر زیدی کی بگھی میں سوار ہو گئے اور پھر پوچھا ماجرا کیا ہے؟ کیا تمہیں اس کا اندازہ ہے۔

زیدی نے نہایت احتیاط کے ساتھ انہیں بتایا کہ نادرہ حادثے کا شکار ہو گئی ہے لیکن حکیم صاحب کے بقول وہ خطرے سے باہر ہے۔ پیر کی معذوری والی بات پر زیدی نے پردہ ڈال دیا۔

اس خبر نے مرزا صاحب کو بے چین کر دیا وہ بولے یہ حادثہ کیسے ہوا؟ کیا اسے اس کا کوئی علم ہے؟

زیدی نے یہاں بھی چالاکی سے کام لیتے ہوئے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور اپنی واپسی کے بعد کی تفصیل نہایت معصومیت کے ساتھ پیش کر دی۔

مرزا صاحب نے پو چھا کہ کیا اس نے کسی راہگیر کو راستے میں سامنے کی جانب سے آتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ مجرم کون ہے؟

زیدی نے کہا جی نہیں اس نے کسی کو راستے میں نہیں دیکھا بس ناصر ہی اسے نادرہ کے پاس نظر آیا تھا۔

مرزا صاحب نے راستہ کاٹنے کے لیے پھر سوال کیا تمہارا کیا خیال ہے اس میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟

زیدی بولے جناب میں کیا جانوں؟ میں نہ تو انتریامی ہوں اور نہ ہی حادثے کا شاہد اس لئے وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

مرزا صاحب کے ذہن میں ایک شک پیدا ہو گیا تھا جس کی وہ زیدی سے تائید چاہتے تھے۔ انہوں نے سوال کیا تمہارا ناصر کے بارے میں کیا خیال ہے؟

زیدی نے سمجھ گیا کہ گاڑی پٹری پر آ رہی ہے۔ اس نے کہا میں نے تو ناصر کو معاون و مدد گار پایا۔ اس نے بڑی منت سے مجھ سے مدد طلب کی اور اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر نادرہ کے ساتھ حکیم صاحب کے گھر تک آیا۔

مرزا صاحب بولے وہ تو ٹھیک لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کہ وہی اس حادثے کا ذمہ دار بھی ہو سکتا ہے؟

زیدی بولے چونکہ میں نے یہ دیکھا نہیں ہے اس لئے اتنا بڑا لازم کیسے لگا سکتا ہوں؟

مرزا صاحب نے پھر اصرار کیا اور بولے لیکن قیاس کیا کہتا ہے؟ تم سامنے کی سمت سے آ رہے تھے درمیان میں کوئی بستی نہیں تھی اگر کوئی مجرم ہوتا تو وہ تمہیں ضرور نظر آ جاتا۔

زیدی نے پھر اداکاری کرتے ہوئے کہا آپ کی بات درست ہے لیکن پھر بھی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔

مرزا صاحب اکھڑ گئے اور گھوڑے کی جانب اشارہ کر کے بولے مجھے نہیں لگتا کہ تمہارے اندر اور اس کے اندر کوئی فرق ہے۔

زیدی نے اپنی اس توہین کا ذرا بھی برا نہیں مانا اس لئے کہ ناصر کے خلاف فضا ہموار ہو رہی تھی۔ وہ بولا آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟

اس لئے کہ نہ وہ سوچتا ہے اور نہ تم سوچتے ہو مرزا صاحب نے کہا۔

زیدی نے متانت سے جواب دیا محترم وہ گوں گا جانور ہے بولتا نہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ سوچتا بھی نہ ہو؟

مرزا صاحب بولے اچھا میں تو تمہیں نہایت بھولا بھالا آدمی سمجھتا تھا لیکن تم نے یہ بات تو بڑے پتے کی کہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم جو نظر آتے ہو وہ نہیں ہو۔

زیدی نے دیکھا ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا آپ میرے والدِ محترم کے دوست ہیں اس لئے ادب و احترام ملحوظِ خاطر رکھنا بھی تو ضروری ہے۔

مرزا صاحب اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئے اور خوش بولے لیکن اس کا مطلب بھی نہیں کہ انسان بالکل گوں گا اور بہرا بن جائے؟

جی ہاں لیکن میں آپ کی ہر بات کو غور سے سن رہا ہوں اور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار بھی کر رہا ہوں۔

مرزا صاحب بولے وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے ایک آسان سے سوال پر تم نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ میرا سیدھا سوال یہ ہے کہ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ ناصر نے ہی …….مرزا صاحب کی زبان گنگ ہو گئی۔

زیدی کی باچھیں کھل گئیں وہ بولا جی ہاں مرزا صاحب اس کا امکان تو ہے لیکن یقین کے ساتھ پھر بھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

مرزا صاحب بولے اگر مجھے یقین ہوتا کہ زمین انسانوں کو کھا جاتی ہے تو میں تمہاری تائید کرتا۔

زیدی نے کہا جی ہاں جناب آپ کا قیاس بالکل درست ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ حملہ آور میرے آگے رہا ہو اور نادرہ کو زخمی کرنے کے بعد اسی سمت آگے بڑھ گیا ہو۔ اس کے بعد ناصر جائے حادثہ پر پہنچا ہو؟

زیدی کے سوالات اس کی ذہانت کے گواہ تھے اور مرزا صاحب اس سے متاثر ہو رہے تھے دلچسپ بات یہ تھی کہ زیدی اس شخص کی وکالت کر رہا تھا جس کو وہ اپنے جرم میں پھنسانا چاہتا تھا۔ مرزا صاحب دوچار منٹ خاموش رہے اور بولے جی ہاں تمہاری بات میں دم ہے لیکن اگر ایسا ہے تو وہ شخص ناصر کو ضرور نظر آیا ہو گا۔ اس کے معنیٰ ہیں اگر ناصر نے مجرم کو نہیں دیکھا تو وہ خود مجرم ہے۔ زیدی کا کام ہو گیا تھا۔ تیر بالکل اپنے نشانے پر جا کر بیٹھ گیا تھا جب حکیم صاحب کے گھر کے سامنے بگھی رکی تو وہ بے حد خوش تھا۔

حکیم صاحب کے گھر پہنچتے ہی موضوع بدل گیا تھا اب نادرہ زیرِ بحث تھی۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ نادرہ ویسے تو بھلی چنگی ہے۔ میں نے زخم پر مرہم پٹی کر دی ہے۔ وہ ہوش میں بھی آئی تھی لیکن چونکہ درد زیادہ تھا اس لئے میں نے سونے کی دوائی دی اس لئے اب وہ بے ہوش تو نہیں بلکہ گہری نیند میں سو رہی اور یہی اس کے حق میں فی الحال بہتر ہے۔

مرزا صاحب نے پوچھا لیکن زخم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

حکیم صاحب فکر مند ہو کر بولے بائیں پیر کا زخم خاصہ گہرا ہے۔ چوٹ بالکل جوڑ سے قریب ہے اور ہڈی ٹوٹ گئی ہے ایسے میں اگر اعصاب محفوظ ہوں گے تو دوچار مہینوں میں بیٹی ٹھیک ٹھاک ہو جائے گی ورنہ ……..حکیم صاحب خاموش ہو گئے۔

مرزا صاحب نے بے چینی کے ساتھ پوچھا ورنہ کیا حکیم صاحب آپ رک کیوں گئے؟ بولتے کیوں نہیں؟

ورنہ وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو جائے گی۔ وہ کسی سہارے کے بغیر……۔ نادرہ سمیت سارے لوگوں کو ایک بھیانک خاموشی نے اپنے اندر نگل لیا۔

ناصر یہ ساری باتیں خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا۔ مرزا صاحب کچھ دیر خلاء میں دیکھتے رہے پھر اپنا غم غلط کرنے کے لیے ناصر سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے پوچھا اچھا تو ناصر تم نے کیا دیکھا؟

مرزا صاحب کے اس سوال نے ناصر کے ساتھ ساتھ حکیم صاحب کو بھی چونکا دیا۔ ناصر کو حیرت تھی کہ مرزا صاحب کی زبان سے تشکر کا ایک لفظ تک نہیں پھوٹا بلکہ انہوں نے بالکل کسی تھانیدار کی مانند سوال کر دیا۔ ناصر کو یہ بھی سوال ناگوار گزرا اور اس سے قبل کے وہ طیش میں آ کر کچھ کہتا حکیم صاحب بول پڑے۔ انہوں نے کہا مرزا صاحب ہمیں ناصر کا ممنون اور شکر گزار ہو نا چاہئے جو اس نے نادرہ کو دیکھا اور بروقت یہاں پہنچا دیا۔ اس طرح کے حادثات میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر تاخیر ہو جائے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔

مرزا صاحب بولے وہ تو ٹھیک ہے لیکن زیدی کی بگھی کے بغیر نادرہ یہاں تک نہیں آ سکتی تھی اب اگر ناصر وہاں موجود نہ بھی ہوتا تو زیدی اسے لے آتا۔ ناصر پھر ایک بار مرزا صاحب کے تبصرے سے پریشان ہو گیا۔ ناصر کو اب اس احسان فراموشی پر غصہ آنے لگا تھا اس کا جی تو چاہ رہا تھا کہ بہت کچھ بول جائے لیکن احتراماً وہ خاموش رہا۔ ناصر نے ان لوگوں سے اجازت چاہی اور باہر نکل آیا۔ اس کے پیچھے زیدی بھی باہر آ گیا اور بولا چلو ناصر میں تمہیں اپنے گھوڑے تک چھوڑ دوں۔

ناصر بولا جی نہیں اس کی ضرورت نہیں میں پیدل چلا جاؤں گا۔ زیدی ہنس کر بولا یار تم کسی اور کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہے ہو؟ میں تو تمہارا دوست ہوں چلو بگھی میں بیٹھو میں لئے چلتا ہوں بزرگوں کی بات کا برا نہیں مانتے۔

ناصر بولا لیکن جب بزرگ سٹھیا جائیں تو نہ جانے کیا اول فول بکنے لگتے ہیں۔ میرا تو جی چاہ رہا تھا مرزا کا سر پھوڑ دوں تاکہ وہ بھی اپنی زخمی بیٹی کے پاس زیر علاج ہو جائیں۔ زیدی نے سوچا ناصر کا غصہ اس کے لیے مفید ہی ثابت ہو گا۔

ان دونوں کے چلے جانے کے بعد مرزا صاحب نے حکیم صاحب سے پوچھا آپ کیا سوچتے ہیں اس حادثے کے لیے کون ذمہ دار ہے؟

حکیم صاحب بولے میں تو معمولی حکیم ہوں نہ کوئی سراغ رساں اور نہ غیب داں جو کسی کشف و کرامت سے یہ پتہ لگا کر آپ کو بتا دوں کہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور کس نے کیا؟

مرزا صاحب نے کہا دیکھئے حکیم صاحب ایک سنسان علاقے میں یہ واقعہ رونما ہوا اور صرف دو لوگ اس کے گواہ ہیں تو کیا کوئی تیسرا فرد اس میں ملوث ہو سکتا ہے؟

حکیم صاحب نے کہا میں نے جب ناصر نے تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ نادرہ اسے بے ہوش اور زخمی حالت مجھے نظر آئی میں اسے لانے کی سبیل سوچ رہا تھا کہ زیدی اپنی بگھی سمیت وہاں پہنچ گیا اور وہ دونوں اسے یہاں لے آئے۔ اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا۔

مرزا صاحب بولے یہی بات مجھے زیدی نے بھی بتلائی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کے علاوہ کوئی تیسرا ہوتا تو اس کی مڑ بھیڑ ان دونوں میں سے کسی ایک ساتھ ہونی ضروری تھی۔

حکیم صاحب نے سر ہلا کر تائید کی۔ مرزا صاحب بولے میں نے قصداً یہ سوال زیدی سے پو چھا تو اس نے کہا کہ اسے کوئی راہگیر نظر نہیں آیا۔

حکیم صاحب بولے میں نے قصداً تو نہیں سہواً ناصر سے یہ پو چھا تھا کہ اسے راستے میں کوئی انسان یا جانور تو نظر نہیں آیا تو اس نے جواب دیا جی نہیں۔ اس نے نادرہ سے قبل اس راستے پر کسی کو نہیں دیکھا تھا اور بعد میں زیدی ہی پہلا شخص تھا جو اس سے ملا تھا۔

مرزا صاحب کے لیے جانور والا زاویہ نیا تھا۔ انہوں نے پوچھا کیا آپ کو نادرہ کے جسم پرکسی خونخوار وحشی کے ناخون یا دانت کے نشان نظر آئے؟

حکیم صاحب نے کہا جی نہیں مجھے لگتا ہے وہ کسی دھکے سے گری ہے لیکن اس کا بایاں پیر اتفاق سے ایک نوکیلی چٹان سے ٹکرا گیا جس نے کام خراب کر دیا۔ مرزا صاحب کا شبہ یقین میں بدل چکا تھا۔

ایک ہفتہ کے بعد نادرہ اپنے گھر آ گئی اس کا زخم تیزی کے ساتھ بھر رہا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کے گھٹنے کے اعصاب بری طرح متاثر ہوئے تھے اور حکیم صاحب کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا ان کا اندیشہ کہ اب نادرہ کبھی بھی اپنے قدموں پر بنا سہارے کے نہیں چل سکے گی درست ثابت ہو گیا تھا۔ نادرہ کے گھٹنے پر جیسے ہی دباؤ پڑتا تھا وہ چیخ اٹھتی وگرنہ بیٹھے ہوئے یا لیٹے ہوئے وہ ٹھیک ٹھاک رہتی تھی۔

مرزا صاحب چونکہ ناصر کو مجرم سمجھنے لگے تھے اس لئے انہوں نے اسے قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے گاوں کی پنچایت سے رجوع کیا۔ عدالت کو پہلے تو ان کا الزام عجیب و غریب لگا۔ سارے پنچوں کو ابتداء میں ناصر سے ہمدردی تھی لیکن جیسے جیسے مقدمہ آگے بڑھا مرزا صاحب کے دلائل نے سب کو ایک ایک کر کے قائل کر دیا اور پھر یہ طے پایا کہ ایک ہفتہ غور و خوض کے بعد سرپنچ اپنا فیصلہ سنائیں گے۔

یہ چونکہ ایک حیرت انگیز قسم کا مقدمہ تھا اس لئے اس رات پنچایت میں خاصی بھیڑ بھاڑ تھی۔ پنچایت کا حکم تھا کہ مدعا الیہ ناصر اور گواہ زیدی کے علاوہ مدعی نادرہ کا بھی فیصلے کے وقت حاضر ہو نا ضروری ہے۔ نادرہ کو ایک کرسی پر بٹھا کر لایا گیا تھا۔ نادرہ اور اس کے علاوہ دیگر لوگوں کی بھی یہ رائے تھی کہ مرزا صاحب بلا وجہ پنچایت کا وقت خراب کر رہے ہیں۔ یہ مشق اکارت جائے گی اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لیکن عدالت کے فیصلے زیدی اور مرزا صاحب تمام حاضری کو چونکا دیا۔

عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اس حادثے کا ذمہ دار ناصر ہے جس کے گھوڑے سے نادرہ زخمی ہوئی ہے اور سزا یہ سنائی چونکہ ناصر کی وجہ سے نادرہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئی ہے اس لئے اس کی سزا یہ ہے کہ ان دونوں کا بیاہ کر دیا جائے اور ناصر تمام عمر اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرے۔

نادرہ کل تک اس گاوں کی اس قدر خوبصورت اور معزز دوشیزہ تھی کہ کوئی بھی نوجوان اس سے نکاح کو اپنی سعادت سمجھتا لیکن اب وہ عمر بھرکے لیے معذور ہو گئی تھی اور ہر کسی کے لیے ایک بوجھ بن گئی تھی۔ ناصر کو ایک ناکردہ گناہ کی سزا دی جا رہی تھی وہ سوچ رہا تھا یہ عجب انصاف ہے کہ اس نے نادرہ کی جان بچانے کی کوشش کی اور اس کے بدلے اس کو سزادی جا رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو وہ اس کو نظر انداز کر کے گزر جاتا اس جھمیلے میں نہ پھنستا۔ اس کے چہرے پر سخت ناگواری کے تاثرات تھے۔

نادرہ نے جب اس کی جانب دیکھا تو وہ اس کی کیفیت کو تاڑ گئی۔ نادرہ کے لیے بھی سزا کے طور پر نکاح والی منطق ناقابلِ قبول تھی۔ اس نے پنچایت سے اجازت چاہی کہ کیا وہ کچھ کہہ سکتی ہے۔ پنچایت نے بصد شوق اجازت مرحمت فرما دی۔ نادرہ بولی میں نے جس قدر دین اسلام کو سمجھا ہے اس کے مطابق ایجاب و قبول کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہو سکتا۔

سرپنچ نے کہا جی ہاں بیٹی ہم تمہاری تائید کرتے ہیں۔ تمہاری سمجھ درست ہے۔

نادرہ بولی اگر ایسا ہے تو یہ کیسا نکاح ہے جس میں نہ ایجاب ہے نہ قبول؟

سرپنچ نے کہا چونکہ پنچایت نے یہ فیصلہ کر دیا ہے اس لئے ناصر کے اوپر یہ لازم ہے کہ وہ تمہارے سامنے نکاح کی پیشکش کرے۔

نادرہ بولی گویا یہ معاملہ برضا و رغبت کا نہیں بلکہ زور زبردستی کا ہے؟

سارے لوگ نادرہ کے ان معروضی سوالات سے حیرت زدہ تھے۔ ایک بزرگ پنچ بولے بیٹی ہمارے گاوں کی روایت یہ ہے کہ ہم لوگ پنچایت کے فیصلوں کو برضا و رغبت تسلیم کر لیتے ہیں۔

نادرہ بولی چلو مان لیا کہ ناصر نے پنچایت کے آگے سپر ڈال کر پیشکش کر ہی دی تو کیا میرے لئے لازمی ہو گا کہ میں اسے قبول کروں؟

سرپنچ مخمصے میں گرفتار ہو گئے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ بولے جی نہیں بیٹی تم بے قصور بلکہ مظلوم ہو تم کو سزا دینے کا پنچایت کو حق نہیں ہے اس لئے تم اگر چا ہو تو اسے قبول کرو یا مسترد کر دو۔

اگر ایسا ہے تو نادرہ بولی میں انکار کرتی ہوں مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔

نادرہ کے اس اعلان کے ساتھ ہی حاضرین کو سانپ سونگھ گیا۔ پنچایت کا فیصلہ پہلی بار مسترد ہو گیا تھا اور وہ بے دست و پا تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ ناصر عجب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا تھا اسے خوشی تھی کہ وہ نادرہ کے بوجھ سے بچ گیا لیکن بھرے بازار میں نادرہ کی جانب سے علی الاعلان اس کا مسترد ہو جانا اس کی مردانیت کی توہین تھی۔ وہ اپنی من مراد پوری ہو جانے باوجود ناخوش تھا۔

نادرہ خاموش ہو گئی تو ناصر نے پوچھا پھر آگے کیا ہوا؟

نادرہ بولی کچھ نہیں ٹائیں ٹائیں فش کھیل ختم پیسہ ہضم۔ ویسے مجھے خوشی ہے کہ آپ نے آخر میں یہ پوچھا کہ آگے کیا ہوا ورنہ میں تو ڈر رہی تھی کہ کہیں درمیان میں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ آج کے لیے بس اتنا کافی ہے باقی کل۔

ناصر بولا نادرہ اس میں شک نہیں کہ یہ کہانی نہایت دلچسپ ہے اور اس کے لیے میں تمہاری جس قدر تعریف کروں کم ہے۔ اس پر بننے والی انگریزی فلم تو خوب چلے گی اور کوئی بعید نہیں کہ اسے آ سکر ایوارڈ بھی مل جائے لیکن …….۔

نادرہ خوش ہو کر بولی لیکن کیا میرے سرتاج۔

ناصر بولا بالی ووڈ میں یہ آئیڈیا نہیں چل سکتا۔

نادرہ نے پوچھا وہ کیوں؟

ناصر نے جواب دیا اس لئے ہندی فلموں کے شائقین آخر میں شہنائی سننے کے عادی ہیں اگر تم نے سوگ کی دھن بجا دی تو تمہیں باکس آفس پر ماتم کرنا ہو گا۔

نادرہ کے پاس ناصر سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا وہ بولی لیکن اب کیا کیا جائے کہانی تو ایسی ہی ہے؟

ناصر بولا اگر تم مجھے اجازت دو تو میں اسے بالی ووڈ کے لیے تھوڑا سا آگے بڑھا دوں؟

نادرہ بولی کیوں نہیں ضرور۔ ناصر نے کہا پنچایت کے غیر متوقع فیصلے نے زیدی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کی اپنی غلطی کی سزا کسی اور دی جا رہی تھی اس لئے اس نے از خود اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا نادرہ نے مداخلت کر کے اس کو بولنے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن پھر بھی وہ خاموش نہ رہ سکا اور اس نے پنچایت سے اپنا مدعا رکھنے کی اجازت طلب کی۔ پنچایت اس پر راضی ہو گئی۔

زیدی بولا میں پنچایت اور حاضرین کی موجودگی میں محترمہ نادرہ مرزا کا ہاتھ مانگتا ہوں اگر ان کے لیے یہ رشتہ منظور ہو تو میں اسے اپنے لئے زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھوں گا۔ نادرہ نے سر جھکا کر اور مسکرا کر اس پیشکش کو قبول کر لیا اورسارے عالم میں شہنائی کے شور گونجنے لگا۔ یہ سن کر نادرہ تالی بجانے لگی۔

ناصر بولا شکریہ چلو مبارک ہو تمہاری فلم ہندی میں بھی ہٹ ہو گئی۔

نادرہ نے کہا آپ گریٹ ہیں ناصر آپ واقعی دنیا کے عظیم ترین کہانی کار ہیں۔

کیوں؟ ناصر نے سوال کیا۔

اس لئے کہ آپ نے اختتامی منظر میں ولن کو کہانی کا ہیرو بنا دیا۔

ناصر بولا بھئی کہانی تو وہی کہانی ہے جس میں دیکھتے دیکھتے ہیرو ولن بن جائے اور ولن ہیرو۔

نادرہ نے کہا اچھا اب یہ بتائیں کہ اب اس کا ولن کون ہے؟

ناصر نے کچھ سوچ کر کہا کیا ہر کہانی میں ولن کا ہونا کیا ضروری ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کسی کہانی میں سرے سے کوئی ولن ہی نہ ہو جیسے ہماری کہانی جس میں نہ تم، نہ زیدی اور نہ میں کوئی بھی ولن نہیں ہے۔

نادرہ نے سوچا ولن کیوں نہیں ہے۔ وہ خود اس کہانی ولن ہے لیکن اگر لوگ اسے ہیروئن سمجھتے ہیں تو اس میں ہرج کیا ہے؟ ان کی فلمی کہانی میں بھی تو زیدی ولن ہے لیکن لوگ اسے ہیرو سمجھیں تو اس میں کسی کا نقصان کیا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

چھنا چھن

 

صغیر زیدی کی موت کے بعد بھی مرزا صاحب کے طفیل گھوڑوں کی تجارت جاری و ساری تھی۔ بیوپاری اسی طرح گھوڑے لا کر بیچ جاتے تھے اور گاہک بھی پہلے کی طرح اپنی اپنی پسند کا جانور آ کر لے جاتے تھے۔ ناصر فیضی نے اب صغیر زیدی کی جگہ لے لی تھی۔ نوکر چاکر اس کی ویسے ہی خدمت کرتے تھے جیسے پہلے زیدی صاحب کی کیا کرتے تھے۔ نادرہ بیگم ناصر کے ساتھ اسی طرح صبح سویرے گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کرنے کے لیے نکل جاتی تھیں جیسے زیدی صاحب کے ساتھ جاتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ بھی نہیں بدلا لیکن یاسرالجابری کے لیے سب کچھ بدل گیا تھا۔

ناصر فیضی کو نادرہ کے نکاح نامہ نے ہندوستانی شہریت کا حقدار بنا دیا تھا گویا اب وہ فلسطین اور کینیا کے علاوہ ہندوستان کا بھی معزز شہری بن گیا تھا۔ کالج کے زمانے میں سرخ مثلث کی تین راسوں نے سوچا تھا کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد کینیا سے نکل کر کسی اجنبی ملک میں ہجرت کر جائیں گے لیکن ان کا کسی ایک ملک پر اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ یاسر فرانس جانا چاہتا تھا شنکر کو امریکہ کی خواہش تھی اور رابرٹ کو نہ جانے کیوں اٹلی پسند تھا۔ بالآخر کافی بحث و مباحثہ کے بعد ان لوگوں نے نیروبی ہی میں رہ کر سرخ مثلث کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اب یہ حال تھا کہ ان میں سے دو ہندوستان میں اور تیسرا ہنوز کینیا میں پھنسا ہوا تھا۔

دبئی میں گھوڑوں کی ایک بڑی نمائش کا اہتمام کیا جا رہا تھا جس میں دنیا بھرکے بڑے بڑے بیوپاریوں اپنے چنندہ گھوڑوں کے ساتھ شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس نمائش کی بین الاقوامی سطح پر اس قدر تشہیر کی گئی تھی کہ دنیا بھرکے شوقین گاہکوں کی شرکت متوقع تھی۔ دبئی کے حکمراں شیخ محمد مکتوم اس کا افتتاح کرنے والے تھے۔ وہ خود بھی اپنے گھوڑوں کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ یاسر نے اس نمائش میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا اور نادرہ فارم کے نام پر ایک باڑہ مختص کر لیا اور اپنے ساتھ نادرہ کا ہوائی ٹکٹ بھی بنوا لیا۔

تمام انتظامات کی تکمیل کے بعد ایک دن صبح سیر کے دوران یاسر نے نادرہ کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ نادرہ کے لیے یہ سب چونکا دینے والا عمل تھا اس لئے کہ صغیر زیدی نے اس کی توثیق کے بغیر کبھی پونہ شہر جانے کا بھی فیصلہ نہیں کیا تھا جبکہ یاسر نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ نادرہ کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ اب قوام وہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ نادرہ نے بڑی مشکل سے اس کڑوی گولی کو اپنے حلق سے اتار تو لیا لیکن مناسب موقع کا انتظار کرنے لگی۔

نادرہ جانتی تھی کہ ناصر چائے میں دو چمچے شکر لیتا ہے لیکن کبھی کبھار وہ صرف ایک چمچ شکر لیتا تھا اس لئے نادرہ کا معمول تھا کہ وہ جب اس کے لیے چائے بناتی پوچھ لیا کرتی ایک یا دو؟ اس روز نادرہ نے معمول کے خلاف دو چمچ شکر چائے میں ڈال کر پیالی یاسر کی جانب بڑھا دی۔ یاسر کو نادرہ کا یہ رویہ گراں بار ہوا۔ اس نے پیالی اپنے ہاتھ میں لی اور نیچے لان میں الٹ دی۔ نادرہ نے پوچھا اوہو یہ آپ نے کیا غضب کیاَ؟

یاسر بولا میں آج صرف ایک چمچ شکر لینا چاہتا تھا۔ تم نے پوچھے بغیر…….

نادرہ بولی اور اگر میں بھی دبئی کا ٹکٹ پھاڑ کر اسی طرح پھینک دوں جس طرح آپ نے ……..وہ خالی پیالی میں پھر سے چائے انڈیل رہی تھی۔

یاسر سمجھ گیا وہ بولا اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ ٹکٹ منسوخ کرنے کے لیے صرف اس کا نمبر کافی ہے اور ویسے بھی میرے پاس اس کی برقی نقل موجود ہے۔

نادرہ کو اس قدر سرد مہری کی امید نہیں تھی۔ وہ توقع کر رہی تھی کہ نادم ہو کر ناصر معذرت چاہے گا اس کے جواب میں وہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو معاف کر دے گی اور آئندہ اس طرح کی غلطی نہ کرنے کی تلقین کرے گی لیکن بازی الٹ گئی تھی۔ نادرہ نے ایک چمچ شکر ڈالنے کے بعد اسے ہلاتے ہوئے پوچھا اچھا تو آپ کو میرے ساتھ آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یاسر بولا کیوں نہیں بہت فرق پڑتا ہے لیکن میں زور زبرستی کا قائل نہیں ہوں اس لئے کہ میں خود بھی زورزبردستی برداشت نہیں کر سکتا۔ یاسر نے بڑی ہوشیاری سے اپنے موقف کا برملا اظہار کر دیا تھا۔ نادرہ کچھ اور نرم پڑی اور بولی اگر واقعی ایسا ہے تب بھی آپ مجھے سمجھانے منانے کی سعی تو کر ہی سکتے تھے۔ آپ تو سیدھے ٹکٹ ہی منسوخ کرنے پر تل گئے۔

یاسر بولا دیکھو نادرہ روٹھنے منانے کی ایک عمر ہوتی ہے، میرا خیال ہے کہ ہم لوگ اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔

نادرہ نے چائے کی پیالی یاسر کی جانب بڑھائی تو اس نے ایک اور چمچ شکر ڈال دی اور اسے ہلانے لگا۔

نادرہ بگڑ کر بولی آپ نے تو کہا تھا صرف ایک چمچ اور اس کے لیے چائے بھی پھینک دی تھی۔

یاسر ہنس کر بولا اس وقت کی بات اور تھی لیکن اب آپ کی باتوں کی تلخی کو کم کرنے کے لیے مزید ایک چمچ شکر کی ضرورت پیش آ گئی۔

نادرہ نے زچ ہو کر کہا لیکن آپ مجھ سے بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ایک چمچ اور شکر ڈال دوں۔

یاسر بولا کہہ تو سکتا تھا لیکن میں نے سوچا اگر میں پہلے ہی اپنی چائے خود بناتا اور اس میں اپنے ہاتھوں سے شکر ڈالتا تو یہ تلخی پیدا ہی نہ ہوتی۔ بات کافی آگے بڑھ چکی تھی۔ نادرہ نے چڑ کر کہا اگر سب کچھ خود ہی کرنا تھا تو پھر میرے ساتھ نکاح کیوں کیا؟

یاسر بولا نادرہ بیگم اس سوال کا جواب آپ بہتر جانتی ہیں۔

نادرہ کا پیمانۂ صبر چھلک چکا تھا۔ وہ پائیں باغ سے اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر تکیے میں سرچھپا کر رونے لگی۔ اسے ناصر سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اسے منانے آئے گا اس لئے کہ بقول اس کے اب وہ عمر گزر چکی تھی۔ نادرہ سوچنے لگی کہ وہ اس سے پہلے کب روئی تھی۔ بہت دیر تک سوچنے کے بعد اسے یاد آیا کہ جب اس کے والد صاحب کا انتقال ہوا تھا وہ روئی تھی اور اس سے پہلے؟ اس سے پہلے شاید وہ کبھی نہیں روئی تھی۔ مرزا صاحب اور زیدی صاحب نے اسے کبھی رونے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ زیدی صاحب کے حادثے پر جو آنسو ڈھلکا تھا وہ مشکوک تھا۔ نادرہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ غم کا آنسو تھا یا خوشی کا تھا۔

یاسر کا معمول تھا کہ وہ ناشتے کے بعد اصطبل کی جانب نکل جاتا تھا اور پھر دو تین گھنٹے بعد ہی لوٹتا تھا نادرہ نے سوچا اس دوران پاروتی سے اس مسئلہ پر گفتگو ہو جانی چاہئے۔ نادرہ نے پاروتی کو فون لگا کر اپنی ساری داستان ایک سانس میں سنا ڈالی۔ پاروتی نے پہلی بار اپنی سہیلی نادرہ کو پریشان پایا تھا۔ اس نے نادرہ کا غم غلط کرنے کے لیے کہا میری اچھی سہیلی نادرہ کیا تو جانتی ہے کہ سہاگن اپنے شوہر کی موت پر چوڑیاں کیوں توڑ لیتی ہے۔

نادرہ بولی لیکن اس سوال کا میرے مسئلہ سے کیا تعلق؟ تم تو جانتی ہو کہ مجھے سیرو سیاحت کا کس قدر شوق ہے۔ اسکول اور کالج میں کوئی ایک پکنک ایسی نہیں تھی جس پر میں نہیں جاتی تھی لیکن زیدی صاحب سے شادی کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ان کو ان خرافات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے انہیں کئی بار کہا اللہ کا دیا سب کچھ ہے چلو ایک بار یوروپ کی سیر کر آئیں لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور معذرت خواہانہ انداز میں کہتے رہے بیگم تم تو جانتی ہو۔ اگر چا ہو خود ہو آؤ لیکن مجھے ان بکھیڑوں سے معاف رکھو۔ اب میں ایسی بے غیرت بھی نہیں تھی کہ محرم کے بغیر تنہا غیر ملکی دورے پر نکل جاتی۔

پاروتی بولی لیکن نادرہ اب ماضی کے ماتم سے کیا حاصل وقت بدل گیا ہے اور تمہیں گھمانے پھرانے والا جیون ساتھی مل گیا ہے اس لئے عیش کرو ساری دنیا کی سیر کرو۔

نادرہ بولی یہی تو مسئلہ ہے۔ اب جو موقع آیا تو میں نے خود ہی اپنے پیروں کلہاڑی مار لی۔ تم ہی بتاؤ کہ اب کیا کیا جائے؟

پاروتی بولی دیکھو نادرہ یہ انا کی بیماری مردوں کی ہے جس کو وہ پالتے ہیں اور پریشان رہتے ہیں۔ تم عورت ذات ہو اس لئے تمہیں سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اسے بھول جانا چاہئے۔

نادرہ بولی وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر ناصر میرا ٹکٹ منسوخ کر کے تنہا دبئی چلا جائے تب تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اوہو نادرہ تمہارا تجربہ مجھ سے زیادہ پھر بھی تم نہیں جانتیں۔ وہ ٹکٹ وکٹ منسوخ نہیں کرے گا۔ تم ایسا کرنا کہ آج اس کے ساتھ بازار جانا اور اپنے سفر کا سامان خریدنا شروع کر دینا ناصر بھائی سمجھ جائے گا فیصلہ بدل گیا ہے اور وہ بھی ٹکٹ کینسل کرنے کرنے کا ارادہ بدل دے گا۔ ٹائیں ٹائیں فش۔ یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے۔

نادرہ بولی یہی تو میری مشکل ہے کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم اس سے کہو کہ وہ ٹکٹ منسوخ نہ کرے بلکہ زبردستی مجھے اپنے ساتھ لے کر جائے۔

پاروتی بولی لیکن وہ تو کہہ چکا ہے نہ کہ وہ زبردستی کرنے اور نہ سہنے کا قائل ہے۔

نادرہ بولی لیکن ابھی ابھی تو تم نے کہا تھا کہ مرد ایسی بہت ساری باتیں کہتے رہتے ہیں۔ انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا کرتے؟

جی ہاں لیکن اگر اس کو پتہ چلا کہ تم نے مجھ سے اس کی شکایت کی ہے تو کہیں وہ برا تو نہیں مانے گا پاروتی نے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔

نادرہ بولی تم کون سی غیر ہو؟ ناصر کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں تم دونوں کے سوا اس کا اپنا کوئی اور نہیں ہے۔

پاروتی بولی میں ایک ترکیب نکالتی ہوں۔ کیلاش کے پاپا کو بھی دبئی چلنے کے لیے تیار کرتی ہوں۔ اس کے بعد سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہو جائے گا۔

نادرہ بولی ہاں اگر تو ساتھ رہے گی تب تو بہت مزہ آئے گا۔ حالانکہ یہ منافقانہ جملہ تھا۔ وہ صرف اور صرف اپنے ناصر کے ساتھ یہ سفر کرنا چاہتی تھی۔ اب ایک کباب میں ہڈی اس نے از خود ڈال لی تھی۔ وہ دعا کر رہی تھی کہ کاش شنکر دبئی چلنے سے انکار کر دے۔

پاروتی کا فون بند کرنے کے بعد نادرہ کو وہ چوڑی والی بات یاد آئی جو ادھوری رہ گئی تھی۔ اس نے پھر فون ملایا۔ نادرہ سے پہلے پاروتی بول پڑی اب کیا ہو گیا؟ کوئی نیا ہنگامہ تو تم نے نہیں کھڑا کر دیا؟

نادرہ بولی میں نے اپنے نہیں تمہارے ہنگامے کے لیے میرا فون کیا ہے؟

پاروتی نے حیرت سے پو چھا میرا….؟

نادرہ بولی جی ہاں میری بات سننے کے بعد تم نے چوڑی والا سوال کیا اور جواب بتائے بغیر فون بند کر دیا۔ سچ میں پاروتی تم اب بھی بہت شریر ہو۔

پاروتی بولی نہیں نادرہ۔ وہ ایسا ہے نا کہ ازدواجی زندگی کا مزہ چوڑیوں کی مانند ہے کہ جب ازواج ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں تو چوڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر چھنا چھن، چھنا چھن بجتی رہتی ہے۔ لیکن جب بچھڑ جاتے ہیں تو جیون سونا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس شور شرابے سے پریشان ہونے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہونا سیکھو زندگی کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔

نادرہ نے کہا پاروتی میں نے تو تم کو لائبریری میں کبھی نہیں دیکھا؟ مجھے بتاؤ کہ یہ معرفت کی بات تم نے کہاں سے سیکھ لی۔

پاروتی بولی زندگی کے اسباق کتابوں میں نہیں روزمرہ رونما ہونے والے واقعات و حادثات کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں۔

نادرہ نے شکریہ ادا اور فون بند کر دیا۔

دوپہر کو کھانے کی میز پر نادرہ نے یاسر سے پوچھا کیوں نہ ہم آج پونے کے نئے مال میں جا کر سفر کی خریداری کر لیں؟

یاسر بولا ضرور نیک کام اور پوچھ پوچھ؟

نادرہ بولی میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے۔

یاسر نے پوچھا وہ کیا؟ ہم لوگ ساتھ جائیں گے اور ساتھ آئیں گے ضرور لیکن خریداری ایک ساتھ نہیں کریں گے؟

یاسر کو نادرہ کی بات میں سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ بولا اچھا تو جب تم خریداری کرو گی تو میں کیا کروں گا؟

نادرہ بولی خریداری کرو گے۔

یاسر نے پھر سوال کیا اور جب میں خریداری کروں گا تو تم کیا کرو گی؟

نادرہ نے وہی جواب دیا میں ! کہا نا خریداری کروں گی۔

یاسر پھر سے الجھ گیا وہ بولا لیکن تم نے تو کہا تھا کہ ہم لوگ…… ایک دوسرے …….کے ……۔

نادرہ بیچ میں بول پڑی خریداری نہیں کریں گے اور اب بھی میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔ نادرہ کو یاسر کے پریشان ہونے میں مزہ آ رہا تھا۔

یاسر زچ ہو کر بولا خیر ٹھیک ہے جو کریں گے سو کریں گے۔

نادرہ نے کہا نہیں پہلے آپ کو میری یہ شرط تسلیم کرنی ہو گی کہ…….

جی ہاں بابا مجھے تسلیم ہے کہ ہم لوگ ………

نادرہ ہنس کر بولی لیکن آپ کو یہ بتانا ہو گا کہ ہم لوگ یہ کیسے کریں گے؟

یاسر نے سوچا یہ عجیب زبردستی ہے کہ کیا کرنا ہے یہ کوئی اور طے کرے اور کیسے کرنا ہے یہ کوئی اور بتائے۔ یاسر بولا نادرہ ایسا ہے جوتم کہو گی وہ کریں گے اور جیسے کہو گی ویسے ہی کریں گے۔ بس اب تو خوش ہویا نہیں؟

نادرہ بولی یہ ہوئی نا بات اسے کہتے ہیں عقلمند خاوند۔

یاسر نے تائید کرتے ہوئے کہا نہ صرف عقلمند بلکہ سعادتمند ………

نادرہ بولی وہی تو میں کہتی ہوں سعادتمندی میں ہی عقلمندی ہے۔

یاسر نے پھر تائید کی۔

شہر کے سب سے بڑے میگا مول میں پہنچنے کے بعد نادرہ بولی آج ہم لوگ کپڑے اور جوتے وغیرہ خریدیں گے ٹھیک ہے؟

یاسر بولا جی ہاں بالکل ٹھیک۔

تو دیکھو یہاں پر دوسری منزل پر مشرقی اور مغربی کناروں پر دو بڑی دوکانیں ہیں ’شریمان جی‘ اور ’شریمتی جی‘ کیا سمجھے؟

یاسر نے کہاسمجھ گیا۔

نادرہ نے اٹھلا کر سوال کیا اب یہ بتاؤ کہ آپ کہاں جائیں گے؟

یاسر بولا ’شریمان جی‘ میں۔

نادرہ بولی جی نہیں غلط ہم نے کیا شرط طے کی تھی بھول گئے۔

نادر بولا اوہو معاف کرنا میں ’شریمتی جی‘ میں جاؤں گا۔

یہ درست ہے اور میں؟ نادرہ نے سوال کیا۔

تم ……تم ’شریمان جی‘ میں جاؤ گی۔ جی ہاں بالکل صحیح جواب۔

اور اپنی خریداری سے فارغ ہو کر ہم اسی جگہ دوبارہ ملیں گے ٹھیک ہے۔

یاسر جانتا تھا کہ نادرہ کسی شہ کے انتخاب میں کس قدر وقت ضائع کرتی ہے وہ بولا یہاں لابی میں انتظار کرنے کے بجائے کیوں نہ ہم دائیں جانب اسٹار بک کافی ہاؤس میں ملیں۔

نادرہ بولی اسٹار بک تو بائیں جانب ہے۔

یاسر نے کہا جی ہاں چونکہ ہم لوگ آمنے سامنے کھڑے ہیں اس لئے جو کچھ تمہارے …….

جی ہاں سمجھ گئی آپ تو مجھے نہایت ہی کند ذہن سمجھتے ہیں۔

یاسر بولا کہ کاش میں جو سمجھتا ہوں وہ حقیقت ہوتی۔

نادرہ چونک کر بولی کیا مطلب؟ آپ دل سے یہی چاہتے ہیں کہ آپ کی شریک حیات کند ذہن ہو؟

یاسر بولا نادرہ حقیقت پسند بنو۔ دنیا کی کون سی بیوی نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر کند ذہن ہو اور کون سا ایسا شوہر ہے جو چاہتا ہے کہ اس کی بیوی……….تم تو سمجھ گئی ہو گی۔ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔

یاسرجب مشرقی کنارے پر واقع ’شریمتی جی‘ نامی دوکان پر پہنچا تو وہاں ایک ٹوپی والا ماما (دیہاتی)چوکیدار سے الجھا ہوا تھا۔ چوکیدار اس سے کہہ رہا تھا کہ خواتین کے مصنوعات کی دوکان ہے اس لئے تم اندر نہیں جا سکتے۔

وہ بولا کیوں نہیں جا سکتا خواتین تو مردوں کی ساری دوکانوں میں بلا خوف و خطر آ جاتی ہیں تو ہم کیوں نہیں جا سکتے؟ یاسر کے لیے یہ دلچسپ بحث تھی اس لئے وہ ایک جانب رک کرسننے لگا۔

چوکیدار کہہ رہا تھا تم نے کبھی ریل گاڑی میں سفر کیا ہے؟

ماما بولا کیوں نہیں ضرور کیا ہے۔ میں برسوں پہلے کولہاپور سے ٹرین میں بیٹھ کر پونے آیا تھا اس لئے کہ میرے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے اور ریل گاڑی میں کوئی کنڈکٹر نہیں تھا۔

چوکیدار بولا ہاں ہاں توتو چہرے سے اچکا لگتا ہے لیکن کہیں تو لیڈیز ڈبے میں چھپ کر تو نہیں آیا تھا۔

ماما نے کہا نہیں بھیا میں غریب آدمی ضرور ہوں مگر لچا لفنگا ہر گز نہیں ہوں جو لیڈیز میں سفر کروں۔

اچھا چوکیدار بولا اور جس ڈبے میں تو تھا اس میں خواتین تھیں یا نہیں۔

کیوں نہیں بہت ساری خواتین تھیں۔

چوکیدار نے ڈانٹ کر کہا تو اب بھی تیری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیوں جا سکتی ہیں اور تو کیوں نہیں ……….۔

چوکیدار کا جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک آدمی اپنے اہل خانہ کے ساتھ باہر نکلتا ہوا نظر آیا۔ ماما بولا یہ کون ہے؟ اس کی ڈاکٹری جانچ کروا کر تم نے اندر جانے کی اجازت دی تھی کیا؟

چوکیدار ہنس کر بولا تو دیکھتا نہیں؟ اس کے ساتھ اس کی بیوی ہے اور تیرے ساتھ کون ہے؟

ماما نے کہا کوئی نہیں ہے تو کیا ہوا جیسے میں مرد ہوں اسی طرح وہ بھی مرد ہے۔

چوکیدار نے کہا لیکن اس کی نگرانی کے لیے اس کے ساتھ اس کی بیوی ہے اور تیری نگرانی کے لیے کون ہے؟ اب تو ہی بتا کہ مجھ جیسے دو چوکیدار کتنے گاہکوں پر نظر رکھیں گے؟

ماما پسیج گیا وہ گڑ گڑا کر بولا بابا تو کیوں میرے بیوی بچوں کا دشمن بنا ہوا ہے یہ بتا؟

چوکیدار نے کہا یہ درمیان میں تیرے بیوی بچتے کہاں سے آ گئے؟ جا گھر جا کر ان کو ساتھ لے آ میں تجھے نہیں روکوں گا۔

ماما نے کہا وہ یہاں آ کر کیا کریں گے؟ سوائے حسرت و یاس کے ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

چوکیدار بولا اگر ایسا ہے تو کیا پائے گا؟ چل بھاگ یہاں سے اور میری نوکری کا دشمن نہ بن۔

ماما بولا تجھے اپنی ملازمت کا چنتا ہے لیکن تو نہیں جانتا کہ اگر میں وہ لباس اپنے ساتھ لئے بغیر واپس گیا تو میری ڈائن جیسی مالکن مجھے ملازمت سے نکال دے گی۔

چوکیدار نے سوال کیا لیکن تیری مالکن کی پسند کا تجھے کیا پتہ؟

ماما بولا بالکل پتہ ہے۔ پچھلی مرتبہ جب وہ یہاں آئی تھی تو چار گھنٹے ضائع کرنے بعد بھی کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکی اور تین چار جوڑوں کی تصویر اپنے موبائل سے لے کر لوٹ گئی۔ اس کے بعد اس نے اپنی سہیلی کے ساتھ ان پر دو چار گھنٹے بحث کی اور اب مجھے اس جوڑے کی تصویر دے کر روانہ کر دیا۔

اچھا کہاں ہے وہ تصویر مجھے بتا؟ چوکیدار نے پوچھا۔

ماما نے اپنے موبائل میں وہ تصویر دکھلا دی۔

چوکیدار بولا اتنا قیمتی موبائیل کہیں سے ہاتھ مار کر لایا ہے کیا؟

ماما بگڑ کر بولا چور اچکا ہو گا۔ یہ مالکن کا موبائیل تھا۔ جب اس نے نیا خریدا تو پرانا والا مجھے انعام میں دے دیا۔

چوکیدار بولا اچھا اگر وہ جوڑا بک گیا ہو گا تو؟

ماما نے کہا مجھے یقین ہے کہ وہ نہیں بکا ہو گا۔ میں تو اسے مفت میں نہ لوں ایسا گھٹیا ڈیزائن ہے۔

چوکیدار نے کہا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی اور بے وقوف عورت کو وہ پسند آ گیا ہو؟

ماما بولا ہاں ہو تو سکتا ہے۔

چوکیدار نے کہا تب تو کیا کرے گا؟

ماما نے سوچ کر کہا میں اس سے ملتے جلتے دوچار ڈیزائنوں کی تصویر لے کر واپس چلا جاؤں گا اور اپنی مالکن کو دکھلا دوں گا اور پھر میری مالکن اپنی……..

چوکیدار پریشان ہو کر بولا مجھے پتہ ہے آگے کیا ہو گا تو پھر میرا دماغ چاٹنے کے لیے آئے گا اس لئے اب اندر جا اور ضرورت پڑنے پر لباس کی تصویر لینا لباس والی کی نہیں کیا سمجھا؟ ورنہ سیدھا جیل جائے گا اور تیری مالکن بھی تجھے چھڑانے کے لیے نہیں آئے گی۔ اس دوکان میں بڑے بڑے لوگ آتے ہیں کیا سمجھا؟

ماما شکریہ ادا کر کے اندر چلا گیا یاسر وہیں رکا رہا اور جب ایک بہت بڑی سی فیملی کو اندر جاتے ہوئے دیکھا تو ان کے درمیان خود بھی اندر چلا گیا۔ چوکیدار کو شک تک نہیں ہوا۔

پندرہ منٹ کے بعد کپڑوں کی تھیلیوں سے لدا پھندا یاسرکافی ہاؤس میں آ کر بیٹھ گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد نادرہ بھی آ گئی یاسر نے پوچھا کافی پینی ہے تو بولی میرے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں کس قدر مصروف خاتون ہوں۔

یاسر بولا جی ہاں گزشتہ ڈیڑھ گھنٹے کے اندر مجھے اس کا احساس کئی مرتبہ ہوا ہے اور میں تین کپ کافی پی چکا ہوں اس لئے چلتے ہیں۔

نادرہ منہ بسور کر بولی آپ میرا مذاق نہ اڑایا کریں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔

یاسر بولا میں معافی چاہتا ہوں۔

نادرہ چہک کر بولی یہ ہوئی نا بات چلئے میں نے آپ کو معاف کیا اس بات پر کافی پیتے ہیں۔

یاسر بولا کیا؟ اب وقت کہاں سے آ گیا۔

نادرہ نے کہا اپنے سر تاج کو خوش کرنے کے لیے وقت تو نکالنا ہی پڑے گا۔

یاسر بولا جی نہیں اس کی ضرورت نہیں میں اس کے بغیر ہی خوش ہوں۔

نادرہ بولی لیکن میں تو نہیں ہوں نا۔ آپ کو میرا بھی تو خیال کرنا چاہئے۔ یاسر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

گھر آنے کے بعد نادرہ بولی آپ نے میرے لیا جو خریداری کی ہے آپ پہلے بتائیں۔

یاسر بولا نہیں تم پہلے بتاؤ۔

کیوں؟ نادرہ نے کہا میں نے پہلے فرمائش کی اس لئے آپ کو پہلے بتانا ہو گا۔ یاسر بولا یہ لو اور اپنے بکسے کھول کر نادرہ کے سامنے رکھ دئیے۔

نادرہ انہیں دیکھ کر بولی یہ آپ کون سے زمانے کے فرسودہ ڈیزائن اٹھا لائے؟

یاسر بولا نادرہ تم یہ نہ بھولو کہ دبئی عرب دنیا میں ہے اور عربی لباس کے بارے میں مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے؟ یہ خالص عربی طرز کے کپڑے خریدے ہیں اور یہ جدید فیشن کے مطابق بھی ہے۔ نادرہ لاجواب ہو گئی۔ جب اس نے اپنے پکسے کھولے تو اس کے اندر مغربی طرز کے کاؤ بوائے والے کپڑے نکل آئے۔ موٹی کندھوں پر فلیپ والی قمیض۔ تنگ کاوڈرائے کی پتلون۔ لمبے جوتے اور فلیٹ ہیٹ۔

یاسر بولا نادرہ اگر میں یہ پہن کر نمائش میں جاؤں گا تو سامانِ نمائش بن جاؤں گا لوگ مجھے حیرت سے دیکھیں گے۔

نادرہ بولی مجھے پتہ تھا آپ کو میری پسند کبھی بھی اچھی نہیں لگے گی۔

یاسر بولا جی نہیں یہ اچھا لباس ہے مگر موقع محل کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔

نادرہ بولی کیا مطلب؟

یاسر نے کہا مطلب یہ کہ اسے تو پہن کر انسان کو کیلگیری کے سالانہ میلے میں جانا چاہئے۔

نادرہ نے پوچھا یہ کیلگیری کس بابا کا نام ہے۔ میں نے تو کبھی نہیں سنا۔

اوہو یاسر بولا یہ کسی بابا کا نہیں شہر کا نام ہے۔

نادر بولی اچھا تو وہ بھی میں نے نہیں سنا۔

یاسر نے کہا تم نے کناڈا کے سب سے بڑے صنعتی شہر کا نام نہیں سنا تعجب ہے۔

یہ کناڈا بیچ میں کہاں سے چلا آیا اور اس کا اس لباس سے کیا تعلق؟

یاسر بولا بالکل تعلق ہے۔ کیلگیری کے اندر ہرسال جون کے مہینے ایک میلہ لگتا ہے اور گھوڑوں کی ریس ہوتی ہے۔ اس میلے کے دوران خوب دوکانیں سجتی ہیں لوگ دور دراز سے اپنے گھوڑوں اور تانگوں کے ساتھ وہاں اپنے روایتی کاؤ بوائے والے لباس میں آتے ہیں۔ ہر دوسرا آدمی اسی طرح کے کپڑوں میں ملبوس نظر آتا ہے۔ میں بھی جب وہاں گیا تھا تو اسی طرح کا لباس زیب تن کیا تھا۔

نادرہ بولی اچھا۔ بہت خوب تو پھر ایک بار پہن لیجئے۔

یاسر نے کہا اس کے لیے ہمیں کناڈا جانا ہو گا۔

نادرہ بولی اگر ایسا ہے تو چلو کناڈا بھی چلے چلتے ہیں۔

یاسر بولا یہ آئیڈیا برا نہیں ہے۔ اگر ہم کیلگیری کا ٹکٹ امارات ائیر لائنز سے بنائیں تو دبئی کا سفر مفت ہو جائے گا۔

نادرہ بولی اچھا وہ کیسے؟

بھائی امارات ائیر لائنز کی فلائیٹ تو لازماً دبئی سے ہو کر جائے گی۔ ہم وہاں کچھ دنوں کے لیے رک جائیں گے۔

نادرہ چہک کر بولی میں آپ کی بھائی نہیں بیوی ہوں کیا سمجھے؟

یاسر بولا سمجھ گیا بھاگوان سب سمجھ گیا۔

لیکن میں آپ کی کیلگیری والی بات نہیں سمجھی۔

یاسر نے کہا اس میں سمجھنے کے لیے کیا ہے؟ ہم لوگ اپنا دبئی کا ٹکٹ منسوخ کروا کر کیلگری کا ٹکٹ اس طرح بنائیں گے درمیان میں ایک ہفتہ دبئی رک جائیں گے اور پھر آگے چلے جائیں گے۔ اس طرح دبئی کا آنا جانا بالکل مفت ہو جائے گا۔

نادرہ بولی تو اس کا مطلب ہے کہ کناڈا جانے کے بارے میں آپ سنجیدہ ہیں۔

یاسرنے کہا کیوں !تمہیں اس میں کوئی شک ہے؟

جی نہیں ایسی بات نہیں۔

یاسر بولا لیکن ایک مسئلہ ہے۔

نادرہ ناراض ہو کر بولی اب کون سا مسئلہ بیچ میں آ گیا؟

وہ در اصل بات یہ ہے کہ دبئی کی نمائش اور کیلگیری فیسٹیویل کے درمیان دو ہفتوں کا وقفہ ہے اس لئے ہمیں واپس آنا ہی پڑے گا۔

نادرہ نے کہا کیوں؟ کیا ہم دبئی نہیں گھومیں گے۔ بس نمائش ختم ہوئی اورواپس۔ یہ کوئی تجارتی دورہ ہے۔ میں بھی تو ہوں آپ کے ساتھ میرا بھی تو حق ہے؟

یاسر بولا میرا ارادہ ایک ہفتہ دبئی میں چھٹی منانے کا تھا لیکن دو ہفتے بہت ہوتے ہیں۔

نادرہ بولی دو کیوں؟ جب ایک کم ہو گیا تو ایک ہی بچا۔ میرے پاس اس مسئلہ کا بھی حل ہے۔

یاسر نے حیرت سے کہا اچھا بھئی ہماری نادرہ رانی تو اپنی زنبیل میں ہر ہر سمسیآ کا سمادھان رکھتی ہیں۔

یہ ہندی آپ نے کس سے سیکھ لی۔ تمہاری سہیلی روپوتی میرا مطلب پاروتی سے۔

نادرہ نے کہا ویسے روپوتی بھی برا نام نہیں ہے۔

یاسر بولا لیکن غلط ضرور ہے۔ خیر تم اپنا حل بتاؤ۔

یہ ذرا نازک معاملہ ہے اس لئے پہلے آپ وعدہ کریں کہ براتو نہیں مانیں گے۔

یاسر نے اکتا کر کہا ہاں بابا نہیں مانوں گا۔

نادرہ بولی ایسے نہیں۔

یاسر نے کہا پھر کیسے؟

آپ کو پتہ ہے کیسے؟

یاسر نے نے ہاتھ جوڑ دئیے اور بولا خدا کے لیے بتا دو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔

نادرہ بولی یہ ہوئی نا بات۔ وہ در اصل زیدی صاحب تھے نا۔ زیدی صاحب کا نام پہلی مرتبہ نادرہ کی زبان پر آیا تھا۔

یاسر بولا جی ہاں اب ان کو کیا ہو گیا؟

نادرہ نے کہا ان کو کیا ہونا ہے؟ وہ تو بیچارے اس دنیا سے سدھار گئے۔ ان کی ایک بہن اور ماں ہے۔

یاسر بولا جی ہاں ان دونوں کے بارے میں زیدی صاحب نے مجھے بتایا تھا۔

نادرہ نے بات جاری رکھی۔ ان لوگوں نے بچپن سے میرا بہت خیال رکھا ہے۔ میری والدہ کے انتقال کے بعد وہ میری ماں اور بہن بنی رہیں۔ جب شادی ہو گئی تو انہوں نے مجھے بہو اور بھابی بنا لیا۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ زیدی صاحب کی بہن نازیہ کی شادی ہوئی تو وہ ٹورونٹو چلی گئی اور جب زیدی صاحب کے والد خالد انکل کا انتقال ہو گیا تو ان کی اہلیہ اکبری چاچی بھی اپنی بیٹی کے پاس ٹورنٹو چلی گئیں۔

یاسر بولا جی ہاں سمجھ گیا سب لوگ ادھر اُدھر چلے گئے اب تم مجھے یہ داستان کیوں سنا رہی ہو؟

نادرہ بولی اس لئے کہ ٹورنٹو بھی کناڈا میں ہے۔ ہمارے پاس وقت بھی ہے۔ کیوں نہ ہم لوگ کیلگیری جانے سے قبل ٹورنٹو چلے جائیں؟ آپ یقین مانیں وہ دونوں مجھ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔

اور تم؟ یاسر نے سوال کیا۔

نادرہ بولی میں ! میں کیا بتاؤں کہ میں کتنا خوش ہووں گی؟ میں بیان نہیں کر سکتی۔

یاسر نے کہا میں سمجھتا ہوں لیکن میں ان کے گھر جانا مناسب نہیں سمجھتا۔

نادرہ نے پوچھا تو کیا میں ان سے نہ ملوں؟

یاسر بولا یہ میں نے تم سے کب کہا؟ ہم لوگ ایسا کریں گے کہ ٹورنٹو کے کسی ہوٹل میں ٹھہر جائیں گے۔ وہاں سے تم اکیلی جا کر ان سے مل آنا۔ اس کے بعد ہم دوچار دن ٹورنٹو کی سیر کریں گے اور پھر وینکوور چلے جائیں گے جو کیلگیری سے قریب ہے اور بالکل مختلف قسم کا شہر ہے وہاں دوچار دن گزار کر کیلگیری کے میلے میں آ جائیں گے۔

نادرہ بولی آپ کتنے اچھے ہیں؟

یاسر بولا جب تم اپنی داستانِ ہوشربا سنا رہی تھیں تو میرے دماغ میں ایک نیا آئیڈیا آیا۔

نادرہ بولی اچھا وہ کیا؟

ہم لوگ تمہارے گھوڑے نادر کو کیلگیری کے میلے میں لے کر جائیں گے۔

نادرہ نے سوال کیا نادر! وہ وہاں کیا کرے گا بلکہ کیسے جائے گا؟

ہم اسے پانی کے جہاز سے بھجوا دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ صحیح سلامت ہم سے پہلے وہاں پہنچ جائے گا۔

نادرہ نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ کرے گا کیا؟

وہ کچھ نہیں کرے گا میں کروں گا۔

نادرہ نے سوال کیا آپ کیا کریں گے؟

میں چیلنج کر دوں گا کہ جو کوئی اس گھوڑے کو قابو میں کرے گا میں اسے یہ گھوڑا مفت میں دے دوں گا۔

نادرہ نے کہا اچھا اور اگر وہ قابو میں نہ کر سکا تو؟

تو اس کا گھوڑا میں لے لوں گا۔ مجھے یقین ہے ہم بہت سارے گھوڑے جیت کر اپنے ساتھ لائیں گے۔

نادرہ بولی لیکن اگر کوئی نادر کو جیت کر لے گیا تو؟

لے گیا تو لے گیا۔ وہ بھی تو آخر گھوڑا ہی ہے۔

نادرہ بولی لیکن اتنے طویل عرصے ساتھ رہتے رہتے وہ ہمارے خاندان کا ایک فرد بن چکا ہے۔ میں اسے گنوا نہیں سکتی۔

یاسر بولا تمہاری بات درست ہے نادرہ لیکن ہر کوئی میری طرح ماہر شہسوار بھی تو نہیں ہے؟ نادرہ کی پلکیں نم ہو گئیں وہ بولی ہر کوئی؟ ؟ ؟ آپ کی طرح تو اس کائنات میں کوئی نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں !!! آپ بے مثال ہیں میرے سرتاج!لاثانی اوریاسر کے شانے پر سر رکھ کر مسکرانے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

 

دبئی

 

پاروتی سے نادرہ اپنے دبئی کے سفر کا ذکر کر چکی تھی اس لئے اس نے دوبارہ یاددہانی کرائی۔ پاروتی کے لیے ناممکن تھا کہ وہ شنکر کے بغیر سیاحت کے لیے تیار ہوتی اس لئے اس نے شنکر پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ شنکر کو ویسے ہی سیر سپاٹے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ اچھا خاصہ تاجر بن چکا تھا اور دن رات اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی فکر میں منہمک رہتا تھا لیکن پاروتی کا اصرار تھا کہ شادی کو اس قدر طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ لوگ کبھی مہابلیشور سے آگے نہیں گئے۔ وہ ناصر کی مثال دے کر اسے عار دلانے لگی کہ اپنے دوست کو دیکھے اور اس سے عبرت پکڑے جس نے شادی کے چند ماہ کے اندر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہنی مون پر جانے کا منصوبہ بنا لیا۔

شنکر نے جب یاسر سے اس بابت گفتگو کی تو اس نے بتایا کیسا ہنی مون اور کون سی سیاحت؟ وہ تو گھوڑوں کی نمائش میں جا رہا ہے اور یہ خالص تجارتی دورہ ہے۔ اسے یقین ہے کہ دبئی کا یہ سفر اس کے کاروبار کی وسعت کے لیے نئے باب کھولے گا اور وہ نادرہ فارم کو مرزا الطاف حسین بیگ کے قائم کردہ چوکھٹے سے نکال کر عالمی سطح پر لے جائے گا۔

شنکر کو یاسر کے عزائم جان کر بے حد خوشی ہوئی وہ بولا دوست جب سے تو آیا ہے میں تیرے لئے فکر مند تھا اور چاہتا تھا کہ تو بھی کسی طرح کاروبار میں لگ جائے لیکن تیرا یہ رویہ تھا کہ لاکھ توجہ دلانے پر بھی سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ میں تجھے میں اپنے ساتھ سنگاپورکے تجارتی دورے پر اپنے ساتھ اس لئے لے کر گیا تھا تاکہ اس بہانے کم از کم تیرے اندر دلچسپی پیدا ہو لیکن وہ کوشش بھی بے سود رہی۔ اب بھلا ہو نادرہ بھابی کا کہ جس نے چند دنوں کے اندر وہ کارنامہ کر دکھایا جو میں مہینوں میں نہیں کر سکا۔

یاسر بولا شنکر تمہیں کہیں یہ غلط فہمی تو نہیں ہو گئی کہ اس نمائش میں شرکت کرنے کی تجویز نادرہ کی ہے؟

شنکر بولا اس میں کیا شک ہے؟ تیری مجرمانہ کھوپڑی میں یہ آئیڈیا کیونکر آ سکتا ہے۔

یاسر نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا نہیں دوست تیرا قیاس سو فیصد غلط ہے۔

شنکر نے حیرت سے پوچھا اچھا تو آخر یہ چمتکار ہوا کیسے؟

یاسر بولا یار یہ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں نادرہ فارم میں ایک بیوپاری گھوڑے خریدنے آیا اور گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ وہ ان گھوڑوں کو دبئی کی نمائش کے لیے خرید رہا ہے۔ یہ میرے لئے دلچسپ انکشاف تھا پھر کیا تھا میں نے گوگل میں دبئی کے گھوڑوں کی نمائش کو تلاش کیا تو ساری تفصیل حاصل ہو گئی۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس نمائش کی سر پرستی سربراہِ مملکت کی جانب سے کی جا رہی ہے اور اس میں دنیا کے بڑے بڑے بیوپاری شریک ہو رہے ہیں اس لئے یقیناً  بڑے گاہک بھی اپنے آپ کھنچے چلے آئیں گے۔ میں نے فوراًاس نمائش میں اپنا باڑہ نما بوتھ مختص کرایا اور نادرہ کے ساتھ اپنا ٹکٹ بنا لیا۔ ویزہ کا بندوبست نمائش کے منتظمین کی ذمہ داری ہے ہوٹل ٹکٹ کے ساتھ بک ہو گیا ہے۔

شنکر بولا بلے ّ بلے ّ تو نے تو ایک تیر سے دو شکار کر لئے لیکن میں تو بلا موت مارا گیا۔

یاسر نے پو چھا وہ کیوں؟

بھئی نادرہ اور پاروتی کی دوستی ہم دونوں سے دو چھٹانک زیادہ ہی ہے۔ نادرہ نے اس کے کان میں صور کیا پھونکا وہ اپنی قبر سے باہر نکل آئی اور اب بولتی ہے مجھے ہر حال میں دبئی جانا ہے۔ تو وہاں پر اپنے گھوڑوں میں مگن رہے گا لیکن میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟

یاسر بولا۔ تو بھی وہی کر جو میں کروں گا۔

شنکر بولا یار مجھے تو گھوڑوں کے بارے میں کوئی معلومات ہے نہ دلچسپی ایسے میں وہاں پر میں کیا کر سکتا ہوں؟

یاسر بولا جب میں اس نمائش کی معلومات جمع کر رہا تھا تو مجھے پتہ چلا دبئی اس طرح کی نمائشوں کی آماجگاہ ہے ممکن ہے اس دوران وہاں پر تیری دلچسپی کی کسی نمائش کا اہتمام ہو؟

شنکر نے کہا ہاں اگر ایسا ہو تو  تب تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جائے۔

ان دوستوں نے جب تلاش شروع کی تو پتہ چلا انہیں تاریخوں میں طبی آلات کی ایک نمائش بھی ہو رہی ہے جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی سب سے بڑی نمائش ہے۔ اس نمائش میں یوروپ کی کئی ایسی کمپنیاں شریک ہو رہی تھیں جن کے آلات شنکر ہندوستان میں درآمد کر کے بیچتا تھا۔ شنکر نے سوچا یہ اچھا ہے ممکن ہے اس کو اس دوران کچھ نئے سپلائیرس مل جائیں اور وہ ان کی مدد سے اپنی تجارت کو مزید فروغ دے سکے؟ اب کیا تھا شنکر نے بھی پاروتی کے ساتھ دبئی کا ٹکٹ بنا لیا۔ پاروتی اور نادرہ مختلف خوش فہمیوں کے سبب بے حد خوش تھیں نیز یاسر و شنکر نے انہیں دور کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی اس لئے کہ اسی میں ان کی عافیت تھی۔

دبئی کے اندر شنکر نے اپنے مطلب کی طبی صنعت سے متعلق نمائش میں دن بھر مختلف یوروپی کمپنیوں کے بوتھ پر جا کر ان سے معلومات حاصل کرتا اور اپنا تعارف کرواتا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے ہندوستان کے بازار میں اپنا مال بیچنے کے لیے شنکر کے ساتھ تعاون و اشتراک کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس پیش رفت سے شنکر اس قدر خوش ہوا تھا کہ وہ دبئی کے اندر اپنی کمپنی کی ایک شاخ کھولنے کے بارے میں سنجیدگی سوچنے لگا تھا۔ یاسر کو بھی گھوڑوں کی نمائش میں بڑی مقبولیت ملی تھی۔ عربی زبان سے اس کی واقفیت کے سبب شاہی خاندان کے کئی لوگوں سے وہ رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ دن بھر وہ دونوں دوست اپنے اپنے کاروباری مصروفیات میں مشغول رہتے اور ان کی بیویاں خریداری میں لگی رہتیں۔ شام میں چاروں ایک ساتھ سیر و تفریح کرتے۔

شنکر نے ایک شام یاسرکو بتایا کہ مجھے دبئی کا تجارتی ماحول بہت پسند آیا ہے اگر یہاں کمپنی قائم کرنے کے لیے مقامی آدمی کی شراکت داری کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ جانے سے قبل اپنی شاخ قائم کر کے جاتا۔ جواب میں یاسرنے اسے یقین دلایا کہ وہ اس کی چنداں فکر نہ کرے۔ اس کے تعلقات کئی مقامی لوگوں سے استوار ہو گئے ہیں جن سے اس معاملے میں تعاون لیا جا سکتا ہے۔ شنکر کے لیے یہ بہت اچھی خبر تھی۔

یاسر کی حوصلہ افزائی کے بعد شنکر سرکاری دفاتر کے چکر لگا کر اپنی کمپنی کے قیام کے لیے دیگر لوازمات کی معلومات میں جٹ گیا لیکن اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں کسی سرمایہ دار کے لیے اپنا تجارتی ادارہ قائم کرنا ہندوستان کی بہ نسبت آسان تر ہے۔ دبئی میں ایک غیر ملکی جس آسانی کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کر سکتا ہے ہندوستان میں مقامی شہری نہیں کر سکتا اور سب سے خاص بات یہاں ٹیکس کا کوئی چکر نہیں ہے جس کے سبب نہ صرف درہم کی بچت ہوتی ہے بلکہ بہی کھاتے کے ہزار مصائب و مشکلات سے جان چھوٹ جاتی۔

نمائش کے تیسرے دن شنکر نے یاسر کو فون کیا اور اس کو خبر دی کہ آج شام اس نے پاروتی کے ساتھ ساری تفریحات کو ملتوی کر دیا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بھی نادرہ سے معذرت کر لے۔

یاسر نے پوچھا کوئی خاص بات؟

شنکر بولا در اصل میں آج تمہیں ایک خاص آدمی سے ملانا چاہتا ہوں لیکن اس کی تفصیلات ابھی صیغۂ راز میں ہیں اس لئے استفسار نہ کرو تو بہتر ہے۔ شنکر کی یہ راز داری یاسر کو عجیب لگی لیکن اس نے تفصیل میں جانے کے بجائے حامی بھر لی اور نادرہ کو اپنا فیصلہ بتا دیا۔ نادرہ کو چونکہ پاروتی نے بتا دیا تھا اس لئے وہ اس کی توقع کر رہی تھی اور ان دونوں نے گلوبل ولیج کی سیر کا اپنا متبادل پروگرام بھی بنا لیا تھا اس لئے وہ بلا پس و پیش راضی ہو گئی۔

دبئی کی پہچان جہاز نما برج العرب میں شنکر اور یاسر کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ یاسر کا ذہن بے شمار سوالات سے پراگندہ تھا اس کے باوجود اس نے شنکر سے مہمان کے بارے میں کوئی سوال نہیں تھا۔ گمانِ غالب تو یہ تھا کہ یہ کوئی صنعتکار یا سرمایہ دار ہو گا جس کے ساتھ شنکر کارو بار شروع کرنے کا خواہشمند ہو گا لیکن جب اس نے اپنے عقب سے اٹھنے والی ایک خاص چال کی آہٹ سنی تووہ چونک پڑا۔ جس شخص کو بڑی مشکل سے اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے سے نکال پھینکا تھا اس کی قربت کو وہ محسوس کر رہا تھا۔ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے شنکر کے چہرے پر آنے جانے والے تاثرات بھی یاسر کے شبہ کو یقین میں بدل رہے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ شنکر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔

یاسرنے حیرت سے دیکھا شنکر اور رابرٹ بڑی گرم جوشی کے ساتھ گلے مل رہے تھے۔ جب شنکر فارغ ہو گیا تو یاسر نے بھی بے دلی سے معانقہ کیا اور دیکھا چاروں طرف مختلف میزوں پر کئی مشکوک لوگ براجمان ہو چکے تھے۔ شنکر نے رابرٹ کو اپنے کاروبار اور اہل خانہ کے بارے میں تفصیل سے بتلایا۔ رابرٹ بہت خوش ہوا۔ اس نے کیلاش کو دیکھنے کی اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا اور اس کو اپنے ساتھ نہ لانے پر ناراضگی جتائی۔ شنکر نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا اگر نکلنے سے قبل اسے اس ملاقات کا اندازہ ہوتا تو کیلاش کو ضرور ساتھ لاتا۔ یاسر سمجھ گیا کہ آج کل کے اندر طے شدہ پلان ہے۔

اس کے بعد شنکر نے سوال کیا رابرٹ اپنی سناؤ کیا چل رہا ہے اپنے نیروبی میں؟ یاسر کے لئے اب نیروبی اپنا نہیں رہا تھا اس لئے شنکر کے ذریعہ اس اصطلاح کا استعمال اسے کچھ اٹپٹا سا لگا لیکن وہ چپی ّسادھے بیٹھا رہا۔

رابرٹ بولا نیروبی کا وہی حال ہے وہی جوتے وہی کھال ہے۔

شنکر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وقت ہر چیز کو بدل دیتا ہے تغیر کے علاوہ پر شہ تغیر پذیر ہے۔

رابرٹ بولا شنکر تم کافی کچھ فلسفہ بگھارنے لگے ہو کیوں؟ لیکن تمہاری یہ بات درست ہے۔ صدر مملکت کے بعد کینیا کی سیاست میں فی الحال سب سے زیادہ دبدبہ تمہارے اس دوست کا ہے اور لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ آئندہ انتخاب کے بعد وہ آخری قلعہ بھی فتح ہو جائے گا۔ اب یہ صرف وقت کی بات ہے۔ وہ تو انتخابات ملتوی ہو گئے ورنہ بہت ممکن ہے کہ ابھی تک …………۔

یاسر کو رابرٹ اور اس کی رعونت دونوں پر غصہ آ رہا تھا لیکن شنکر یہ سن کر پھولا نہ سما رہا تھا۔ اس نے پوچھا بھئی ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ یہ چمتکار کیسے ہو گیا؟

رابرٹ بولا سچ تو یہ ہے یار کہ میری زندگی کے سارے چمتکار صرف اور صرف سرخ مثلث سے وابستہ ہیں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی بدولت ہوں۔

یاسر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ بولا لیکن سرخ مثلث کہاں ہے رابرٹ؟

رابرٹ نے مسکرا کر جواب دیا اپنی قبر میں اور کہاں؟

شنکر نے کہا مگر………….

رابرٹ بولا بات یہ ہے سرخ مثلث ہمارے لئے ایک بیج کی مانند ہے جسے ہم نے اپنے بچپن میں بویا تھا۔ جب اس پودے پر پھول لگے تو ہم لڑکپن کی عمر میں تھے۔ کالج کے زمانے میں ہم لوگ اس کے رنگ و بو کے دیوانے بنے رہے۔ جب ہم لوگوں نے جوانی دہلیز پر قدم رکھا تو یہ شجر ثمر دار ہونے لگا تھا۔ ہم سب نے اس سے جی بھر کے استفادہ کیا۔

یاسر بولا لیکن اب تو اس سونے کے انڈے دینے والے مرغی کو تم ذبح کر کے کھا چکے ہو۔

رابرٹ نے کہا جی ہاں یاسر تمہاری بات درست ہے۔ اب اس پیڑ کی لکڑی میرے محل کی تعمیر کے کام آ رہی ہے۔

شنکر بھی رابرٹ کے اس رد عمل سے بے چین ہو گیا تھا۔ وہ بولا رابرٹ ویسے تو تمہاری بات درست ہے لیکن جس برگد کے سائے میں ہم لوگ پل بڑھ کر جوان ہوئے اس کے کٹنے کا تمہیں کوئی افسوس نہیں ہے۔ سرخ مثلث ہمارا ایک خواب تھا وہ ٹوٹ کر اس طرح بکھر جائے گا یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

رابرٹ نے جواب دیا شنکر سچ تو یہ ہے کہ اس آشیانے سے اڑ کر فرار ہونے والا سب سے پہلا پنچھی کوئی اور نہیں بلکہ تم ہی تھے۔ اب تمہیں تو کم از کم یہ نہیں کہنا چاہئے۔

شنکر نے پلٹ کر جواب دیا میں جن حالات میں فرار کے لیے کیوں مجبور ہوا تھا یہ تم سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا لیکن اس کے باوجود میری جذباتی وابستگی تو باقی ہی تھی۔

یاسر بولا اور تم نے اس گھر کو جلا کر اپنا محل بھی تو روشن نہیں کیا ۔

رابرٹ یاسر کا طنز سمجھ گیا تھا۔ وہ بولا میں تم دونوں کے جذبات کو سمجھتا ہوں اور ان کی قدر کرتا ہوں اس لئے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار تھے لیکن شنکر جیسا کہ تم نے شروع میں کہا تھا وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن پھر بھی میں نے اس قبر پر ایک یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟

یادگار؟ میں سمجھا نہیں۔ یاسر نے چونک کر پوچھا۔

وہ بات یہ ہے رابرٹ بولا چونکہ ہمارا اڈہ قلب شہر میں تھا اس لئے میرا ارادہ وہاں ایک بہت بڑا مول تعمیر کرنے کا ہے۔ اس مول کا نام سرخ مثلث مول ہو گا ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس میں ہم تینوں کی شراکت داری ہو۔ ویسے کچھ باہر کے لوگوں کو بھی ہم سرمایہ کاری کا موقع دے سکتے ہیں۔

رابرٹ کی اس تجویز کو سن کر شنکر کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی وہ بولا یار رابرٹ تم اپنے بچپن کی دوستی کا خیال رکھا اور میرے سامنے یہ پیشکش کی اس کے لیے میں تمہارا شکر گزار ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ اب تم مجھے اس سے دور رکھو تو یہی بہتر ہے۔ میں در اصل اب اس دنیا میں لوٹ کر جانا نہیں چاہتا۔

رابرٹ نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہا تم کس دنیا میں جانے کی بات کر رہے ہو شنکر۔ وہ دنیا جس سے تم خوفزدہ ہو وہ تو کب کی اجڑ چکی راکھ اس ڈھیر میں اب نہ کوئی شعلہ ہے اور نہ چنگاری ہے۔ میں تو تمہیں ایک تجارتی پروجکٹ میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ کل کو تم سوچو میں تنہا اپنے تینوں کی مشترکہ جائیداد پر غاصب بن کر بیٹھ گیا۔

شنکر بولا جی نہیں اب میں اس جانب مڑ کر بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔

رابرٹ بولا تو ٹھیک ہے پھر کبھی جذباتی لگاؤ کے کھوکھلے دعویٰ نہ کرنا اور یاسر تمہاری کیا رائے ہے؟

یاسر بولا رابرٹ جس چیز سے ہمارا لگاؤ ہے تم اس کی جانب ہمیں نہیں بلا رہے ہو بلکہ تم تو گدھوں کی مانند ہمیں اس کی لاش پر دادِ عیش دینے کی دعوت دے رہے ہو اور بہرحال میں اس قبر کی مجاوری کے لیے میں نہ اب تیار ہوں اور نہ کبھی ہو سکوں گا۔

رابرٹ ہنس کر بولا یاسر حقیقت پسند بنو بلکہ شاید یہ تمہاری مصلحت پسندی ہے جو تمہارے پیروں کی بیڑی بنی ہوئی ہے۔ اب بھابھی اور ان کا کاروبار تمہارے دل پر راج کر رہا ہے۔ ایسے میں بھلا نیروبی جیسے پسماندہ شہر کی جانب تم کیوں پھٹکو گے؟

یاسر بولا یار تم نے خود ہی ہمارے لئے نیروبی کے دروازے بند کئے اور اب خود ہی ہمیں موردِ الزام ٹھہرا رہے ہو یہ خوب چوری اور سینہ زوری کا معاملہ ہے۔

رابرٹ نے کہا یاسر میں پچھلے نصف گھنٹے سے تمہاری جلی کٹی سن رہا ہوں۔ تم دونوں نے اپنی اپنی دنیا بسا لی لیکن میں ہنوز ہوا میں لٹکا ہوا ہوں لیکن تم نے ابھی تک نہ ہمدردی ایک بول کہا اور نہ مجھے کوئی مبارکباد دی کیا دیرینہ دوستی کا یہی تقاضہ ہے؟

یاسر کا دل رابرٹ کی بات سے نرم ہوا۔ اس نے کہا جی ہاں رابرٹ مجھے افسوس ہے کہ میں نے تم سے تمہاری نجی زندگی کے بارے میں کچھ بھی دریافت نہیں کیا بولو گھر کے اندر کیا حال ہے سب لوگ کیسے ہیں؟

رابرٹ کا داؤں چل چکا تھا وہ بولا یار ہمارا ہے ہی کون؟ جس کے بارے میں پوچھ رہے ہو۔

یاسر بولا ایسی بات نہیں۔ کم از کم جولیٹ کے بارے میں بتا دو وہ کیسی ہے؟

جولیٹ کا نام آتے ہی رابرٹ کا موڈ خراب ہو گیا۔ وہ بولا یاسر مجھے شنکر نے بتایا تھا کہ آج کل تم گھوڑوں کا کاروبار کر رہے ہو کیا یہ درست ہے؟

یاسر نے کہا بھئی شنکر کی کون سی بات غلط ہے۔ اگر وہ کہہ دے کہ میں گدھے بیچ رہا ہوں تو میں اسے بھی تسلیم کر کے گدھوں کی تجارت شروع کر دوں گا۔

شنکر نے کہا یار تم مجھے اپنی نوک جھونک میں نہ گھسیٹو تو اچھا ہے۔

رابرٹ بولا ٹھیک ہے شنکر نہ سہی تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کل کو تم کتوں کا کاروبار شروع کر دو مجھے بتا دینا میں اس خارش زدہ کتیا کو پکڑوا کر تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ رابرٹ سے اس جواب کی توقع نہ تو یاسر کو تھی اور نہ شنکر کو۔ وہ دونوں ہکا بکا ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے لیکن اگر ان لوگوں نے رابرٹ اور جولیٹ کی آخری بات چیت سن لی ہوتی تو انہیں اس قدر حیرت نہ ہوتی۔

محفل کا ماحول بری طرح مکدرّ ہو چکا تھا۔ برج العرب کا بہترین کھانا بھی بالکل بد مزہ لگنے لگا تھا۔ رابرٹ نے بڑی سردمہری کے ساتھ دونوں سے مصافحہ کیا اور نکل لیا۔ یاسر نے چڑ کر کہا ایک دن اگر اس سرخ مثلث مول کو بم سے اڑا کر میں اس کی جگہ اس رابرٹ کے بچے کو زندہ دفن کر کے اس کی قبر تعمیر نہ کر دوں تو میرا نام بھی یاسر نہیں۔

شنکر بولا یار میرا خیال ہے ہماری آج کی یہ ملاقات نہ ہوتی تو اچھا تھا۔

یاسر نے تائید کی اور بولا نہ صرف میرا بلکہ رابرٹ کا بھی یہی خیال ہو گا۔ سرخ مثلث کا نہ صرف مادی وجود بلکہ قلبی تعلق بھی تین تیرہ ہو چکا تھا۔ سبھی کو اس کا افسوس تھا لیکن سارے ہی اس بابت بے بس و لاچار تھے۔ ہال کے کنارے پر کوئی سلمان احمد کی غزل غلط سلط گا رہا تھا ؎

وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو ہم نے مل جل کے کر لی بیعت

پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کناڈا

 

گلوبل ویلیج میں دونوں سہیلیوں کو بڑا مزہ آیا ان لوگوں نے گویا ایک شام میں دنیا کے مختلف مقامات کی سیر کر لی۔ بھانت بھانت کے کھانے پینے کی چیزوں کا لطف اٹھا لیا وہ لوگ جس گروپ کے ساتھ گئے تھے اس میں کئی ممالک کے لوگ تھے اس طرح کئی لوگوں سے بات چیت کا بھی موقع ملا اور واقعی محسوس ہوا کہ سیر و سیاحت ہو رہی ہے ورنہ کبھی تو خریداری اور کبھی دعوتِ طعاماس کے لیے اتنی دور آنے کی ضرورت ہی کیا تھی وہ تو پونے میں بھی ہوتی رہتی تھی۔ واپسی میں پاروتی نے نادرہ سے پوچھا بھئی ہماری تو کل شام کی فلائیٹ ہے ذرا ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ آپ لوگوں کاہنی مون کب تک ہے؟

نادرہ بولی چھوڑو پاروتی کیوں مذاق کرتی ہو۔ یہ ہماری بھی کوئی ہنی مون منانے کی عمر ہے؟

پاروتی بولی دیکھو نادرہ چونکہ انسان کی شادی کی کوئی عمر نہیں ہوتی اس لئے ہنی مون پر بھی کوئی قید نہیں ہے۔ میں نے سنا بلکہ پڑھا بھی ہے کہ ۱۰۰ سال کے لوگ بھی بیاہ رچاتے ہیں۔ اب جب بیاہ ہوتا ہے تو …….

نادرہ نے جملہ کاٹ دیا اور بولی لوگ نہیں مرد۔

پاروتی بولی ویسے سو سال کی بڑھیا سے بھلا کون شادی کرے گا؟ ویسے بھی سو سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے عورت کو اتنی سمجھ آ ہی جاتی کہ شادی کرنے سے بہتر ہے کہ یہ حماقت نہ کی جائے۔

نادرہ نے کہا لیکن اس معاملے میں مرد بالکل ہی عقل کے کورے ہوتے ہیں۔

پاروتی نے کہا تم نے میرا سوال گول کر دیا ویسے اگر نہ بتانا ہے تو کوئی بات نہیں۔

نادرہ بولی نہیں میری بنوّ میں کیوں چھپاؤں ہماری فلائیٹ بھی پرسوں ہے لیکن ہم لوگ پونے نہیں جا رہے ہیں۔ اچھا! میں سمجھ گئی سوئزر لینڈ جا رہے ہوں گے؟ اگر پہلے بتایا ہوتا تو میں بھی کوشش کرتی ویسے ان کا تیار ہونا مشکل ہی تھا خیر تمہارے طفیل یہاں آنے کا موقع مل گیا وہی بہت ہے۔

نادرہ نے کہا لیکن تم سے یہ کس نے کہا کہ ہم لوگ سوئزر لینڈ جا رہے ہیں۔

کسی کے کہنے کی کیا ضرورت پاروتی بولی یہ تو کامن سینس ہے کامن سینس؟

نادرہ نے کہا لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میری پیاری سہیلی پاروتی کا اندازہ صد فیصد غلط ہے۔

پاروتی نے کچھ دیر دماغ پر زور ڈالا اور بولی سمجھ گئی اب میں بالکل سمجھ گئی۔

اچھا! نادرہ نے کہا ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہماری پاروتی دیوی نے کیا سمجھا۔

پاروتی بولی بھئی بات نہایت آسان ہے۔ تم لوگ عرب دنیا میں تو آ ہی گئے ہو اب بھلا اتنے قریب آ کر بھی کوئی مکہ مدینہ کی زیارت کئے بغیر کیسے واپس جا سکتا ہے؟ ایسا کرنے والا تو نہایت بدبخت انسان ہو گا۔ پاروتی کا یہ جملہ نادرہ پر بجلی بن کر گرا۔ اسے حیرت تھی کہ جو بات اس کی ایک ہندو سہیلی کے دماغ میں آ گئی وہ ناصر اور اس کے دل میں کیوں نہیں آئی؟ احساسِ ندامت سے نادرہ کا چہرہ اتر گیا۔

پاروتی نے چہک کر کہا اس کا مطلب ہے میں جیت گئی اور میرا اندازہ درست نکلا

نادرہ بولی جی نہیں پاروتی کاش کہ میں نے تم سے پہلے اس بابت بات کی ہوتی اور تم نے یہ مشورہ دیا ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا گھر دیکھنے کی خواہش اپنے دل میں نہیں رکھتے ان کا بلاوہ بھی نہیں آتا لیکن اب یہ ارمان میرے دل میں پیدا ہوا ہے۔ میں اس کے لیے دعا کروں گی اور کوشش بھی کروں گی۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے جلد ہی اللہ کا مہمان بننے کی سعادت نصیب ہو گی۔

پاروتی نے کہا ضرور میں بھی پرارتھنا کروں گی لیکن اب تم خود ہی بتا دو کہ کہاں کا ارادہ ہے؟

نادرہ بولی ہم لوگ کناڈا جا رہے ہیں۔ کناڈا سنتے ہی پاروتی کے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ اسے لگا کہ اس کی سہیلی نادرہ از خود مصیبت کو دعوت دینے جا رہی ہے۔ پاروتی کو پتہ تھا کہ صغیر زیدی کی والدہ اور بہن فی الحال کناڈا میں ہیں وہ بولی کیوں اکبری چاچی نے بلایا ہے کیا؟ نادرہ نے کہا نہیں تو ان کو ابھی تک پتہ بھی نہیں ہے کہ ہم لوگ ٹورنٹو جانے والے ہیں۔ میرے اور ناصر کے علاوہ اب صرف تمہیں ہمارے کناڈا کے دورے کا علم ہے۔

پاروتی نے پوچھا تو کیا شنکر کو بھی یہ نہیں معلوم ہو گا؟

نادرہ بولی مجھے نہیں لگتا اس لئے کہا گر اسے پتہ چلتا تو وہ تمہیں ضرور بتاتا۔

پاروتی بولی ضروری نہیں ہے۔ یہ مرد ہماری طرح صاف گو تھوڑے ہی ہوتے ہیں کہ جو دل میں وہ زبان پر۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ کیا کہنا، کب کہنا ہے، کیسے کہنا اور کتنا کہنا یہ پہلے طے کرتے ہیں پھر بولتے ہیں۔

نادرہ بولی لیکن اس میں برا کیا ہے؟

پاروتی نے کہا برا تو کچھ نہیں لیکن اس میں ہمارا نقصان ضرور ہوتا ہے۔ ہم تو ان کو اپنے دل کی بات بتلا دیتی ہیں اور وہ کائیاں …… …..خیر ان کی بات چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ کناڈا جانے کا پروگرام تم نے کیوں بنا لیا اور وہ بھی ناصر کے ساتھ۔ مجھے لگتا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔

کیوں ٹھیک نہیں ہے؟ نادرہ نے پوچھا۔

پاروتی بزرگوں کے انداز میں بولی دیکھو نادرہ تمہاری شادی ابھی نئی ہے اور ان مردوں کو نہ جانے کیا بات کھَل جائے اس لئے مجھے تو ڈر لگتا ہے۔ اگر اکبری چاچی کو نہیں پتہ تو میری رائے یہ ہے کہ تمہیں ملاقات سے گریز کرنا چاہئے۔

نادرہ نے کہا لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔

پاروتی نے پوچھا کیوں؟

اس لئے کہ میں ناصر سے یہ کہہ چکی ہوں۔

پاروتی نے سوال کیا اچھا تو اس نے کیا کہا؟

اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ بولا تم ان سے مل آنا میں نہیں جاؤں گا۔

پاروتی کا اندیشہ درست نکلا وہ بولی وہی تو میں تو کہتی ہوں دنیا بھر میں اتنے سارے ممالک ہیں ایسے میں تم کو کناڈا ہی کیوں ملا کہیں اور نہیں جا سکتی تھیں؟

نادرہ اس گفتگو سے بیزار ہو گئی وہ بولی پاروتی کناڈا جانے تجویز میری نہیں بلکہ ناصر کی تھی وہ کیلگیری جانا چاہتے تھے درمیان میں وقفہ تھا تو میں نے ٹورنٹو کا اضافہ کر دیا۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ٹورنٹو جاؤں اور اکبری چاچی و نازیہ دیدی سے ملے بغیر واپس آ جاؤں بھلا انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے ایسا تو گھوڑے بھی نہیں کرتے۔

پاروتی بولی گھوڑوں میں رشتے ناطے نہیں ہوتے اس لئے ان سے اپنا موازنہ نہ کرو اور وہ انسانوں کی مانند حساس بھی نہیں ہوتے نہ ان میں انا ہوتی ہے وہ تو سیدھی سادی مخلوق ہے بیچاری۔

نادرہ بولی تمہاری ساری باتیں درست ہیں لیکن مجھے لگتا ہے بیچارے وہ نہیں ہم انسان ہیں جو اس قدر نفسیاتی بیماریاں پالتے ہیں۔ رشتوں ناطوں کے جنجال میں پھنسے رہتے ہیں اور انہیں نبھاتے نبھاتے زندگی بیت جاتی ہے۔

پاروتی نے کہا خیر میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں اپنا اور ہمارے ناصر بھائی کا خیال رکھنا۔ نادرہ بولی شکریہ۔

…………………………………

دبئی سے ٹورنٹو کی فلائیٹ تقریباً ۱۴ گھنٹوں کی تھی۔ نادرہ کے لیے یہ نہایت دلچسپ تجربہ تھا کہ وہ لوگ صبح پانچ بجے جہاز میں سوار ہوئے اور نو بجے وہاں پہنچ گئے درمیان کے آٹھ گھنٹے زمین کی گردش نے نگل لئے تھے۔ ٹورنٹو پہنچنے کے بعد پہلا دن تو آرام کی نذر ہو گیا۔ ہوٹل کے پاس ہی بہت وسیع و عریض باغ تھا۔ شام کے وقت وہ دونوں نے چہل قدمی کے لیے باغ کی سیر کے لیے نکل گئے اور اگلے دنوں کا پروگرام مرتب کرنے لگے۔ ویسے تو ٹورنٹو میں ان کی سیرو تفریح کا بہت سامان تھا لیکن ایک دن ان لوگوں نے نیاگرا فالس کے لیے مختص کر رکھا تھا جو تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر واقع تھا۔ اس کے علاوہ نازیہ کا گھر جس کا پتہ نادرہ کو بھی معلوم نہیں تھا۔

یاسر نے مشورہ دیا کہ نادرہ تم پہلے اپنے رشتے داروں سے نمٹ لو اس دوران میں اپنے گھوڑوں کا پتہ لگاتا ہوں کہ آیا وہ دبئی سے پونے اور پونے سے کیلگیری صحیح سلامت پہنچے ہیں یا نہیں۔ پھر ہم لوگ سکون سے گھومیں گے ٹھیک ہے۔ نادرہ نے تائید کی اور نازیہ کو فون لگایا۔ اتفاق سے نادرہ کا فون اکبری چاچی نے اٹھایا اور جیسے ہی انہوں نے نادرہ کی آواز سنی باغ باغ ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کیوں بیٹی کیسی ہو؟ خیریت تو ہے۔ بڑے دنوں بعد یاد کیا شکریہ۔ جب بھی تم سے بات ہوتی ہے اصغر یاد آ جاتا ہے۔

نادرہ بولی جی ہاں چاچی میرے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ نادرہ جھوٹ بول رہی تھی لیکن اکبری کو پتہ نہیں چلا۔ نادرہ نے انہیں بتایا کہ وہ ٹورنٹو آئی ہوئی ہے اور ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتی ہے۔ مجھے نازیہ دیدی کا پتہ چاہئے۔

اکبری نے یہ سنا تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا وہ بولی نازیہ کا پتہ کیوں؟ تم اس شہر میں اجنبی ہو۔ اپنا پتہ بتاؤ ہم لوگ خود تمہیں لینے کے لیے آ جائیں گے بلکہ تمہیں لے کر اپنے ساتھ آ جائیں گے۔ ہمارے ہوتے ہوئے تمہیں کہیں اور رہنے کی کیا ضرورت؟ نادرہ کو پاروتی کی بات یاد آئی۔ اسے لگا کہ ایک نئی مصیبت کو اس نے دعوت دے دی ہے۔ کاش کہ وہ فون ہی نہ کرتی خیر اب تو غلطی ہو چکی تھی۔ اکبری چاچی بولے جا رہی تھی دیکھو بیٹی نازیہ باہر گئی ہوئی ہے ابھی آتی ہی ہو گی۔ وہ آ جائے تو میں اس سے فون کرواتی ہوں۔

نادرہ بولی جی ہاں چاچی یہ اچھا ہے میرا یہ نمبر تو آپ کے فون میں محفوظ ہو گا۔

اکبری بولیں جی ہاں اس میں سارے نمبر وقت کے ساتھ محفوظ ہو جاتے ہیں۔

ہوٹل وسیع و عریض سیوٹ کے اندر نادرہ خوابگاہ میں بیٹھ کر فون پر بات کر رہی تھی اور باہر دیوان خانے میں یاسر اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ نادرہ سوچ رہی تھی کہ اکبری چاچی کو کیسے سمجھایا جائے کہ وہ اب ان کی بہو نہیں ہے۔ ان کے جس بیٹے کی وہ بیوی تھی اس کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ اب کسی اور کی زوجیت میں ہے۔ پہلی مرتبہ نادرہ کو ان رشتوں کی نزاکت کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ غیر خونی رشتے جن کا تعلق عقد سے ہوتا تھا اور عقد کا کیا ہے؟ ایک معاہدہ ہی تو ہے کہ جیسے وہ باندھا جاتا تھا اسی طرح ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ یہ عجیب و غریب معاہدہ ہے جو اجنبی لوگوں کو ایک دوسرے کا محرم بنا دیتا تھا اور جب ٹوٹتا تو وہ پھر سے نامحرم ہو جاتے ہیں۔

اس ادھیڑ بن میں کھوئی ہوئی نادرہ کے فون کی گھنٹی بجی۔ سامنے نازیہ تھی۔ جذبات سے عاری نازیہ نے پر تپاک خوش آمدید کہا اور پوچھا کیسی ہو نادرہ؟ کب آنا ہوا؟

نادرہ نے بتایا میں اچھی ہوں آج صبح ہی پہنچی، یہ بتاؤ آپ کیسی ہو؟

نازیہ نے کہا خدا کا شکر ہے اور قیام کہاں ہے۔

نادرہ بولی ہوٹل کارلٹن گرانڈ اسٹریٹ۔

نازیہ نے کہا اور ساتھ میں ……

جی ہاں وہ ہیں ناصر میاں تم تو سمجھ گئی ہو گی۔

نازیہ بولی جی ہاں مبارک ہو نادرہ ہم لوگوں کوبڑی فکر تھی اچھا کیا تم نے گھر بسا لیا۔ خیر امی تو چاہتی ہیں کہ تم یہاں آ کر ہمارے ساتھ رہو اور مجھے بھی خوشی ہو گی اگر تم ایسا کر سکو۔ ویسے تمہاری مرضی میں اصرار نہیں کروں گی۔

نادرہ بولی شکریہ نازیہ لیکن یہ ذرا………

نازیہ بولی مجھے اندازہ ہے خیر ابھی تو خاصی رات ہو گئی ہے اس لئے آرام کرو میں کل صبح دس بجے کے آس پاس تم سے ملنے کارلٹن آؤں گی ٹھیک ہے۔

نادرہ نے کہا جی ہاں بہتر خدا حافظ۔ شب بخیر فون بند ہو گیا۔

فون رکھنے کے بعد نادرہ نے ٹھنڈی آہ بھر کر اپنے آپ سے کہا کس قدر سمجھدار ہے نازیہ دیدی۔ یاسر جو اس گفتگو کو سن رہا تھا بولا تو کیا تمہاری اکبری چاچی احمق ہیں؟

نادرہ نے اس آواز پر چونک کر پیچھے دیکھا ۔ یاسر بولا کیوں ڈر گئیں؟

نادرہ بولی جی ! جی نہیں ایسی بات نہیں۔

یاسر نے کہا میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔

نادرہ بولی اکبری چاچی ……وہ بھی سمجھدار ہیں۔

یاسر بولا یہ کیسے ہو سکتا ہے دونوں سمجھدار بھی ہوں اور مختلف بھی ہوں؟

نادرہ بولی کیوں نہیں ہو سکتا۔ ساری سمجھداری یکساں تو نہیں ہوتی۔ ہم دونوں ہی کی مثال لے لو ہم لوگ سمجھدار بھی ہیں اور مختلف بھی اس لئے کہ ہماری سمجھ ایک دوسرے سے الگ ہے۔

یاسر نے کہا ٹھیک اب اپنے منہ میاں مٹھو نہ بنو اور یہ بتاؤ کیا پروگرام بنا؟

نادرہ نے بتایا کہ وہ لوگ کل صبح دس بجے یہاں آنے والے ہیں۔

یہ تو بہت اچھا ہے یاسر بولا اور پھر اس کے بعد؟

میں ان کے ساتھ جاؤں گی اور رات تک لوٹ آؤں گی ان شاء اللہ۔

یہ بھی بہت اچھا ہے اور اس کے بعد؟

اس کے بعد پرسوں ہم لوگ نیاگرا فالس گھومنے نکل جائیں گے۔ ٹھیک ہے؟ نادرہ نے سوال کیا۔

یاسر بولا بالکل ٹھیک۔ تم تو نازیہ سے بھی دو چھٹانک زیادہ عقلمند ہو۔

نادرہ بولی شکریہ۔ اس بیچاری نے یاسر کے جھوٹ پر یقین کر لیا تھا۔

نازیہ نے اپنی امی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نادرہ نکاحِ ثانی کر چکی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہے اس لئے ممکن ہے اسے ان کے ساتھ آنے میں تکلف ہو۔ میرا خیال ہے ہمیں اصرار نہیں کرنا چاہئے۔

اکبری نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے دونوں آ جائیں۔ میں تو نادرہ کو اس وقت سے جانتی ہوں جب وہ جھولے میں تھی۔ نادرہ بالکل تمہاری طرح میری گود میں پلی بڑھی ہے۔ بہو بننے سے قبل وہ میری بیٹی تھی اور اب پھر میری بیٹی بن گئی ہے۔

نازیہ نے سمجھانے کی کوشش کی وہ تو درست ہے۔ آپ کا نادرہ سے جو رشتہ ہے سو ہے لیکن اس کا شوہر ناصر تو آپ کا داماد نہیں ہے۔ آپ اپنی وجہ سے نادرہ کے لیے کیوں مسائل کھڑے کر رہی ہیں۔

اکبری بولی یہ عجب چائے سے گرم کیتلی والا معاملہ ہے۔ نادرہ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے تمہیں پریشانی ہے۔

نازیہ بولی ممی اگر کوئی ہمیں اپنی مشکل نہ بتائے تو ہمیں خود اسے سمجھنا چاہئے۔

اکبری بیگم بگڑ کر بولیں نازیہ چپ کرو، زیادہ زبان نہ چلاؤ تم بچپن ہی سے زبان دراز ہو۔ نازیہ بیچاری خاموش ہو گئی۔

………………………………….

ٹورنٹو میں یاسر کے کالج کے زمانے کا ایک دوست جون پینٹو رہتا تھا۔ یہ وہی جون پینٹو تھا جس نے فرگوسن کالج کی سالانہ تقریب کے لیے محمود و ایاز نام کا ڈرامہ لکھا تھا۔ اس ڈرامے نے یاسر سمیت شنکر اور رابرٹ کو کالج کا ہیرو بنا دیا تھا۔ جب یاسر نے فون پر جون سے رابطہ کیا تو وہ بے حد خوش ہوا اور فوراً اس سے ملنے کے لیے تیار ہو گیا۔ دوسری صبح نو بجے یاسر ناشتہ کر کے اس سے ملنے چلا گیا۔

اکبری اور نازیہ دس بج کر دس منٹ پر ہوٹل کارلٹن پہنچ گئیں۔ نادرہ نیچے لابی میں ان کا انتظار کر رہی تھی۔ جب اکبری نے نادرہ کو دیکھا تو ان کے دل میں اصغر کی یاد تازہ ہو گئی اور وہ اس سے لپٹ کر رونے لگیں۔ نادرہ کو زیدی صاحب موت کے بعد صحیح معنی میں آج یاد آئے۔ پاس میں کھڑی نازیہ کی آنکھیں بھی اپنے مرحوم بھائی کی یاد میں نمناک ہو گئی تھیں۔ ہوٹل کا عملہ ہندوستانی پاکستانیوں کو اکثر روتے دھوتے دیکھا کرتا تھا اس لئے اسے کوئی حیرت نہیں تھی۔ ایک ویٹر نے پانی کا ایک گلاس لا کر اکبری چاچی کو دیا تو ان کی طبیعت سنبھلی۔ نادرہ نے کہا چلو ماں جی اوپر کمرے میں چلتے ہیں ۔

کمرے میں آنے تک اکبری بیگم اپنے آپ کو سنبھال چکی تھیں وہ بولیں ارے ہمارا داماد راجہ کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔

نادرہ نے کہا وہ اپنے کسی کام سے صبح سات ہی بجے چلے گئے۔

اکبری نے کہا اوہو ایسا کیا کام؟ کیا اسے پتہ نہیں تھا کہ تمہاری چاچی اس سے ملنے آنے والی ہیں۔

نادرہ گھبرا گئی وہ بولی جی در اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے پہلے ہی سے کسی کو وقت دے دیا تھا اس لئے معذرت کر کے چلے گئے۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی آپ سے ملیں گے۔ نادرہ جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہی تھی۔

اکبری نے نازیہ کی جانب دیکھ کر کہا سنا تم نے؟ میں نہیں کہتی تھی؟ ؟ خیر نادرہ بیٹی اب ایسا کرو کہ تم ہمارے ساتھ گھر چلو کھانا وانا کھاتے ہیں پھر اطمینان سے بات کریں گے ٹھیک ہے۔ نادرہ تو پہلے ہی سے تیار تھی۔ اسی کے ساتھ یہ تین لوگوں کا قافلہ میسی ساگا کی جانب چل پڑا۔

نازیہ گاڑی چلا رہی تھی نادرہ اس کے بغل میں براجمان تھی اور اکبری بیگم پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ میسی ساگا کا فاصلہ تقریباً ۲۵ کلومیٹر تھا۔ راستے میں نازیہ نے پوچھا کتنے دن کا قیام ہے اور آگے کیا پروگرام ہے؟

نادرہ نے بتایا تین دن بعد وہ لوگ کیلگیری جائیں گے اور پھر وہاں ایک ہفتہ رک کر پونے لوٹ جائیں گے۔

اکبری بیگم نے کہا نازیہ کا میاں بھی کیلگیری آتا جاتا رہتا ہے اور فی الحال وہیں گیا ہوا ہے۔ جانے کیا رکھا ہے اس شہر میں کہ ہر کوئی اس کی جانب دوڑا چلا جاتا ہے۔

نازیہ بولی ماں جی وہ صنعتی شہر ہے پٹرولیم کے کارخانے وہیں لگے ہوئے اس لئے کاروباری لوگوں کو وہاں جانا پڑتا ہے۔ اچھا بتاؤ کل کی کیا مصروفیت ہے؟

نادرہ نے جواب دیا کل ہمارا ارادہ نیاگرا فالس دیکھنے جانے کا ہے۔

نازیہ بولی یہ بہت اچھا ہے اس لئے کہ وہ بہت اچھی جگہ بھی ہے اور ٹورنٹو سے اسی سمت میں ہے جس میں ہمارا گھر ہے۔ اگر تم مناسب سمجھو تو پہلے ہمارے یہاں چلی آنا ہم لوگ بھی ساتھ چلے چلیں گے ویسے تمہاری مرضی۔

نادرہ نے کہا میں ان سے پوچھ کر فون کروں گی۔

نازیہ نے نادرہ کے اندر بہت بڑی تبدیلی محسوس کی تھی پہلے وہ سارے فیصلے خود کر لیا کرتی تھی اور اس کا بھائی صغیر بلا چوں چرا سرِ تسلیم خم کر دیا کرتا تھا لیکن اب نادرہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ نازیہ کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ نادرہ کا نیا شوہر جو بھی ہے سخت گیر قسم کا انسان ہے۔

گھر پہنچنے کے بعد صرف اور صغیر زیدی کی باتیں ہوتی رہیں اکبری بیگم اس کے بچپن کے واقعات بتاتی رہیں۔ نازیہ اور نادرہ اس کے لڑکپن اور جوانی واقعات سناتی رہیں۔ نادرہ نے کچھ مرچ مصالحہ لگا کر صغیر زیدی کی موت کا واقعہ اس قدر پر اثر انداز میں سنایا کہ سارے لوگوں کا دل بھر آیا۔ صغیر زیدی کے ذکر میں کب شام ہوئی پتہ ہی نہیں چلا۔ مغرب کے بعد ان لوگوں نے رات کا کھانا کھایا اور پھر نازیہ نے سوالیہ نظروں سے نادرہ کی جانب دیکھا۔

نادرہ بولی اب مجھے چلنا چاہیے۔

نازیہ نے اپنی امی سے کہا آپ آرام کریں میں ان کو ہوٹل چھوڑ کر آتی ہوں۔

اکبری نے پوچھا اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو ……

نادرہ بیچ میں بول پڑی کیسی بات کرتی ہیں ماں جی ہم نے سوچا آپ کو زحمت ہو گی۔

اکبری بیگم نے کہا جی نہیں، ایسا نہیں ہے کچھ دیر ساتھ رہے گا دل بہلے گا۔

راستے میں نازیہ نے نادرہ کو ٹورنٹو اور اس کے آس پاس کے اہم سیاحتی مقامات کے بارے میں بتلایا اتفاق سے جس وقت وہ لوگ ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے یاسر باہر آ رہا تھا۔ یاسر ان تینوں کو دیکھ کر سمجھ گیا یہ اجنبی کون ہیں؟ جب یاسر نے انہیں سلام کیا تو ان دونوں نے بھی یاسر کو پہچان لیا۔

اکبری بولیں اوہو داماد راجہ خوش رہو۔ شاد رہو آباد رہو۔ چلو صبح نہ سہی تو شام میں ملاقات ہو گئی۔ دیکھو یہ ہماری بیٹی ہے نا نادرہ ……بڑی نازوں کی پلی ہے۔ اس کا بہت خیال رکھنا۔

یاسر نے کہا جی ہاں ماں جی آپ بے فکر رہیں۔ آئیے ہمارے ساتھ چائے پئیں

اکبری بولیں آج نہیں شکریہ۔ رات کافی ہو چکی ہے سنا ہے کل آپ لوگ آبشار دیکھنے جانے والے ہیں؟

یاسر نے کہا جی ہاں ارادہ تو ہے۔

اگر ایسا ہے تو تم لوگ صبح ہمارے یہاں آ جاؤ۔ ہمارا گھر راستے ہی میں ہے ہم لوگ ساتھ میں ناشتہ کریں گے اور چلے چلیں گے۔

یاسر نے فوراً حامی بھر لی اور بولا کیوں نہیں۔ کیا وقت مناسب رہے گا؟

اکبری نے کہا یہ تو آپ کی مرضی پر ہے۔

یاسر نے پوچھا ۹ بجے؟

نازیہ بولی یہ اچھا ہے۔ اسی کے ساتھ دعا سلام کر کے اکبری اور نازیہ لوٹ گئے۔ نادرہ اپنے یاسر کے ساتھ کمرے میں آ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

جون پینٹو

 

نادرہ نے کہا یہ اچھا ہوا کہ آپ کی چاچی سے ملاقات ہو گئی۔ صبح میں وہ ناراض ہو رہی تھیں۔

یاسر بولا جی ہاں یہ پرانے لوگ جو بظاہر کم سمجھلگتے ہیں روایات کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اور یہی ان کا بڑا پن ہے مجھے اندازہ تھا لیکن پھر بھی میں نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو ان سے میری ملاقات تمہارے دیرینہ تعلقات پر اثر انداز ہو خیر۔

نادرہ بولی آپ تو بڑی جلدی ان کے گھر چلنے کے لیے راضی ہو گئے مجھے توقع نہیں تھی۔

یاسر نے کہا یہ اکبری چاچی کا اخلاص و اپنائیت تھا کہ میں انکار تو دور بہانہ بھی نہ بنا سکا۔

نادرہ نے کہا اور آپ کا دن کیسا رہا؟ میں تو بس تھک گئی اب نیند آ رہی ہے۔ کیوں آپ لوگ کہیں گئے تھے کیا؟ یاسر نے پوچھا۔

نادرہ بولی نہیں تو۔ ہم لوگ گھر ہی میں بیٹھے رہے۔

اچھا تو آج پتہ چلا کہ لوگ باتیں کرتے کرتے بھی تھک جاتے ہیں۔

نادرہ نے کہا کیوں نہیں اگرانسان کام کی بات کرے تو ویسے ہی تھکتا ہے جیسے کام کے بعد، اگر یقین نہ آتا ہو تو آزما کر دیکھو۔

یاسر نے ہنس کر کہا اس آزمائش سے تو اچھا ہے انسان یقین کر لے۔ دونوں ہنسنے لگے نادرہ نے کہا شب بخیر اور سو گئی۔

یاسر کی آنکھوں سے نیند غائب تھی وہ جون پینٹو بلکہ سلطان پینٹو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سلطان صومالیہ کا رہنے والا تھا اور اس کے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا۔ کالج کے اندر ہونے والی سرخ مثلث کی سرگرمیوں میں وہ پیش پیش رہتا تھا لیکن جب تعلیم ختم کرنے کے بعد رابرٹ اور شنکر نے یاسر کے ساتھ مل کر ایک باقاعدہ مجرم گروہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو سلطان نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

وہ شمالی امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا۔ جب اس کو ٹورنٹو یونیورسٹی کے طبی شعبے میں داخلہ مل گیا تو وہ ایک دن یاسر سے ملنے کی خاطر آیا اور اس سے بولا یاسر تم کالج میں میرے سب سے اچھے دوست، ہمدرد و غمگسار ہو۔ اس اجنبی شہر میں تم نے مجھ پر بے شمار احسانات کئے ہیں جن کا قرض میں چکا نہیں سکتا لیکن میرا ایک دردمندانہ مشورہ یہ ہے کہ تم اس گروہ سے الگ ہو جاؤ۔

یاسر نے اس سے سوال کیا میرے دوست تم مجھے یہ مشورہ کیوں دے رہے ہو۔

جون بولا یہ چمکتی دمکتی جرائم کی دنیا ایک اندھا کنواں ہے۔ ابھی تم اس کی گہرائی میں نہیں اترے ہو۔ باہر نکل سکتے ہو۔ میں چاہتا ہوں تم بھی میرے پاس ٹورنٹو آ جاؤ وہاں پڑھو لکھو یا کوئی کام کرو۔ میرے لئے قیام اور اسکالرشپ کا اہتمام ہو چکا ہے۔ جو کچھ بھی مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا۔

یاسر نے جون کی پیشکش کا شکریہ ادا کیا اور معذرت کر لی۔ وہ بولا فی الحال میں ایسا نہیں کر سکتا لیکن الگ الگ راستوں پر چلنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کے دوست رہیں گے اور کون جانے کے راہیں کس موڑ پر ایک دوسرے سے آن ملیں۔ اس کے بعد یاسر جون کو چھوڑنے کے لیے ہوائی اڈے بھی گیا تھا اور وہ ان کی آخری ملاقات تھی۔

ٹورنٹو آنے کے بعد جب یاسر نے جون کو فون کیا تو وہ بہت خوش ہوا اور کارلٹن ہوٹل چلا آیا۔ اس کے بعد جب وہ لوگ جون کے گھر پہنچے تو یاسر کو کچھ بدلا بدلا سا ماحول لگا۔ سب سے پہلے تو وہ جانماز دیکھ کر چونکا لیکن جب اس نے اطراف و اکناف کا جائزہ لیا تو دیوار پر قرآنی آیت کا طغرہ اور طاق میں مصحف بھی رکھا ہوا تھا۔ چائے پیتے ہوئے یاسر نے پوچھا یار جون خیریت تو ہے مجھے بہت کچھ بدلا ہوا نظر آ رہا ہے؟

جون نے کہا تمہارا مشاہدہ درست ہے خدا کا شکر ہے کہ میری تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اب میں جون سے سلطان بن چکا ہوں۔

یاسر جون کے منہ سے یہ جملہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کھڑے ہو کر اس سے معانقہ کیا اور بولا مبارک ہو میرے سلطان بہت مبارک ہو۔ اس کے بعد یاسرنے پوچھا یار جون معاف کرنا سلطان یہ بتاؤ کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟

سلطان بولا وہ ایک طویل داستان ہے میرے دوست۔

یاسر نے کہا مختصر میں سہی لیکن مجھے بتانا ہو گا۔

سلطان بولا ایک معمولی سا واقعہ میرے لئے ایک بڑی مصیبت بن گیا اور اس مصیبت نے مجھے اپنی زندگی کی سب سے بڑی نعمت سے ہمکنار کر دیا۔

یاسر بولا یار یہ تو ایک معمہ ہے اس کی تہہ تک پہنچنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔

سلطان بولا بھئی صومالیہ کے حالات سے تو تم واقف ہی ہو۔ پہلے تو ایریٹیریا کو ہم سے بزورِ قوت الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد اب ہمارا ملک تین حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک اقوام متحدہ کے تحت نیم آزاد ہے دوسرا کلیتاً خود مختار۔ تیسرالشباب کے زیر اقتدار ہے۔ اس صورتحال میں اچانک ایک دن کینیائی فوجیں مغرب کی جانب سے سرحد پار کر کے داخل ہو گئیں اور امن کے نام پر کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جارحیت کے خلاف ٹورنٹو میں ایک احتجاج کا اہتمام کیا گیا جس میں شریک ہونے کی غلطی میں نے بھی کر ڈالی۔

یاسر بولا اس میں غلط کیا ہے؟ کناڈا ایک آزاد ملک ہے اور اپنے ملک میں ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کا تمہیں حق حاصل ہے۔

جی ہاں یاسر میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن یہ بھول گیا تھا کہ میرا گھر اقوام متحدہ کے زیر تسلط علاقے میں ہے۔ میں تعطیلات میں جیسے ہی ائیر پورٹ پر اترا خفیہ ادارے کے لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور تفتیش کے لیے مجھے ہوائی اڈے کے ایک نیم تاریک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ پہلے دن چند معمولی سوالات کئے گئے۔ میں گھبرا گیا۔ پہرہ بہت سخت نہیں تھا اس لئے دوسرے دن ٹورنٹو فلائیٹ کے وقت میں چوکیدار کی نظر بچا کر ائیر لائنز کے کاؤنٹر پر آ گیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر ڈرتے ڈرتے ایمیگریشن میں پہنچا مبادا وہاں نہ روک لیا جاؤں لیکن میرا اندیشہ غلط نکلا۔ ان لوگوں نے صرف میرا کینیڈین پاسپورٹ دیکھا اور پاسپورٹ پر مہر لگا کر مجھے آگے بڑھا دیا۔ مجھے پھر بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ لوگ مجھ کو جہاز سے نہ اتار لیں۔

اچھا تو تم اپنے شہر میں جا کر بھی کسی سے ملے بغیر واپس آ گئے؟ یاسر نے پوچھا۔

یہ سمجھ لو کہ جان بچا کر بھاگ آیا۔ ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے بعد یہاں میرے ساتھ پڑھنے والے ایک دوست اسلم کو فون پر واپسی کی اطلاع دی اور فون بند کر دیا۔ یہ وہی اسلم ہے جس کے ایماء پر میں نے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ وہ خاصہ متحرک بارسوخ نوجوان تھا۔ جب میرا جہاز ٹورنٹو پہنچا تو اسلم ہوائی اڈے پر میرے استقبال کے لیے موجود تھا۔

میں اس کے ساتھ باہر آیا تو وہ بولا چلو کہیں چائے پیتے ہیں میں نے حامی بھری تووہ مجھے ایک ویران سے کافی ہاوس میں لے گیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد اس نے سوال کیا تم دو دن کے اندر کیوں چلے آئے خیریت تو ہے؟ میں نے اپنی داستان سنا ڈالی۔ وہ بولا میں سمجھ گیا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے تمہیں عارضی طور پر روپوش ہو جانا چاہئے۔

یاسر نے حیرت سے پوچھا روپوش؟ وہ کیوں؟ ؟ تم کوئی مجرم تو نہیں تھے؟ ؟ ؟

سلطان بولا بالکل درست میں نے بھی یہی سوال اسلم سے کیا تھا؟ اس نے مجھے بتایا کہ دونوں ملکوں کی خفیہ پولس ایک دوسرے کے رابطے میں ہے۔ ممکن ہے یہ لوگ تمہیں یہاں گرفتار کر کے دہشت گرد کے طور پر ان کے حوالے کر دیں۔

یہ سن کر میں پھر سے ڈر گیا اور پوچھا لیکن میں کہاں جا سکتا ہوں؟

اسلم نے کہا تم فکر نہ کرو ایسے بہت سارے مقامات ہیں۔ اس نے فون پر دو چار لوگوں سے بات کی اور بولا یہاں سو۱۰۰  میل پر الوہ میں ایک اسکول ہے۔ اس کے اسٹاف کوارٹر میں میرا ایک دوست اکرم رہائش پذیر ہے۔ تم فی الحال وہیں چلے جاؤ۔ میں تمہارے کمرے کی نگرانی کرواتا ہوں۔ جب خطرہ ٹل جائے گا تو تمہیں بلوا لوں گا۔ تم اس بیچ کسی رابطہ نہ کرنا یہ سمجھ لو کہ تم صومالیہ میں چھٹیاں منا رہے ہو۔

یاسر نے کہا یہ تو تم کسی جاسوسی ناول کی سی کہانی سنا رہے ہو۔

سلطان ہنس کر بولا کہانی؟ کیسی کہانی؟ ؟ یہ میں تمہیں اپنی آپ بیتی سنا رہا ہوں اور تم یقین نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہے تو جانے دو کوئی اور بات کرتے ہیں۔

یاسر نے کہا یار تم بلاوجہ ناراض ہو رہے ہو میں تو یونہی دل لگی کر رہا تھا خیر بتاؤ پھر کیا ہوا؟

سلطان نے اپنا بیان جاری رکھا کچھ نہیں میں الوہ چلا گیا۔ وقتاً فوقتاً ایک نئے فون پر اسلم مجھ سے بات کرتا رہا اور مجھے بتاتا رہا کہ پولس اس کو تلاش کر رہی ہے۔ اس کے گھر پر چھاپہ مارا جا چکا ہے۔ ممکن ہے صومالیہ میں بھی اس کی تلاش جاری ہو؟ میں ان دنوں بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔ دن بھر کمرے سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ رات کے وقت جب اکرم نماز کے لیے جاتا تو اس کے ساتھ مسجد تک جاتا اور باہر صحن میں بیٹھا رہتا۔ جب وہ فارغ ہو جاتا تو اسی کے ساتھ واپس ہو لیتا۔

میں جس اسکول کے اساتذہ کے ساتھ روپوش تھا وہ عربی انتظامیہ کا قائم کردہ ایک اسکول تھا اور اس میں صومالیہ و سوڈان کے کئی اساتذہ تھے۔ آس پاس کے عربی طلباء وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے اس لئے کہ سرکاری نصاب کے علاوہ عربی زبان بھی پڑھائی جاتی تھی اور بچوں کو دین کی بنیادی تعلیم سے بھی روشناس کیا جاتا تھا۔ دور دراز کے چند طلباء بھی ہاسٹل میں مقیم تھے۔ اساتذہ کی رہائش کا انتظام اسکول کے عقب میں تھا جس میں اکرم کے کمرے میں میں قیام پذیر تھا۔ اس دوران میری ملاقات اویس نامی ایک استاد سے ہوئی جو نہایت متقی و  پرہیز گار انسان تھا۔ نماز کے بعد مسجد سے باہر آنے کے بعد وہ مجھ سے ملتا اور گفتگو کرتا۔

اکرم کی بے لوث خدمت اور اویس کی بہترین صحبت نے میرا دل بدل دیا تھا۔ ایک دن جب اویس مغرب کی نماز پڑھ کر میرے پاس آیا تو میں نے اس سے کہا میرا بھی جی چاہتا ہے کہ میں نماز پڑھوں۔ کیا میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟

اویس بولا کیوں نہیں؟ نماز تو اس رب کی عبادت ہے جو میرا، تمہارا اور ہم سب کا رب ہے۔ تم ایسا کرو کہ نہا دھوکر اکرم کے ساتھ عشاء کے وقت آنا اور ہمارے ساتھ نماز پڑھنا۔

اکرم حیرت سے اویس کا منہ دیکھ رہا تھا میں نے پوچھا نہا دھو کر آنا ضروری ہے کیا؟

اویس بولا بہتر ہے فرض کرو تم سو رہے اور میں تمہیں جگا کر کہوں یہ حلوہ کھاؤ۔ یمنی حلوہ ہے بہت ہی لذیذ تو تم کیا کرو گے؟

میں نے جواب دیا۔ شکریہ ادا کر کے تم سے حلوہ لے لوں گا۔

اچھا اور اس کے بعد کیا کرو گے؟ اویس نے اگلا سوال کر دیا

میں نے کچھ سوچ کر کہا کچھ نہیں۔

اس نے پوچھا کیا مطلب کھاؤ گے نہیں؟

میں بولا کیوں نہیں ضرور کھاؤں گا یمنی حلوہ مجھے بہت پسند ہے۔

اویس نے پھر سوال کیا۔ تم فوراً اس کو کھانے لگو گے یا……

میں نے بیچ میں کہہ دیا نہیں بھائی دانت صاف کروں گا منہ ہاتھ دھوکر کھاؤں گا۔

اس نے پوچھا کیوں؟

میں نے جواب دیا ہاں بابا میری سمجھ میں آ گیا میں نہا دھو کر اکرم کے ساتھ آؤں گا بس اب تو خوش ہو؟ اویس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی جو میرے سوال کا جواب تھی۔

عشاء کے وقت جب میں نکلا تو راستے میں مجھے اویس مل گیا وہ مجھے دیکھ کر سمجھ گیا کہ میں ابھی ابھی نہا کر آیا ہوں۔ اس نے کہا بہت خوب میرے دوست جون۔ یہ جو عبادت تم کرنے جا رہا ہو اس کا تعلق جسم سے بھی ہے اور روح سے بھی ہے۔

روح سے؟ میں نے سوال کیا؟

وہ بولا جی ہاں اگر ہم لوگ جسمانی طور پر اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں اور روح کہیں اور بھٹک رہی ہو تو کیا فائدہ؟

میں نے کہا جی ہاں یہ بھی درست ہے۔

اس پر اویس بولا اور رب کے سامنے کھڑے ہونے سے قبل جسم کا پاک ہونا ضروری ہے اسی طرح روح کی پاکیزگی بھی لازم ہے۔

اویس کی بات سن کر میں گھبرا گیا اور بولا جسم کی پاکی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن روح کیسے پاک ہوتی ہے؟

اویس بولا ایمان لانے سے۔

میں نے کہا وہ کیسے لایا جاتا ہے؟

اویس بولا کلمہ پڑھنے سے۔ کیا تم کلمہ پڑھنا چاہتے ہو؟

میں بولا جی ہاں میں اپنی روح کو پاک صاف کر کے نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔

وہ بولا بہت خوب نماز کے لیے ابھی دس منٹ باقی ہیں۔ آؤ ہم لوگ یہاں باہر بنچ پر بیٹھتے ہیں۔

یاسردلچسپی کے ساتھ یہ داستان سن رہا تھا جو پر پیچ ہونے کے باوجود نہایت سادہ اور سہل تھی۔ اس نے پوچھا پھر کیا ہوا؟

سلطان بولا اس کے بعد ہم تینوں وہاں بیٹھ گئے اویس نے میرے سامنے کلمۂ شہادت پڑھا اور کہا اگر تمہارا دل گواہی دیتا ہے تو تم بھی پڑھو۔ اویس کی زبان میں نہ جانے کیا تاثیر تھی میں نے کلمہ پڑھا۔ اکرم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے کھڑے ہو کر مجھے گلے لگایا اور دیر تک دل ہی دل میں نہ جانے کیا کیا دعائیں کرتا رہا۔ اس کے بعد اویس نے مجھ سے معانقہ کیا اور بولا میں وضو کروں گا۔

میں نے پوچھا یہ کہا ہے؟ وہ بولا ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہاتھ منہ دھونا۔ یہ در اصل نماز کی تیاری ہے۔

میں نے پوچھا نہا کر نہیں آئے ہو کیا؟

وہ بولا غسل تو میں نے کیا ہے پھر بھی۔ میں بھی اس کے ساتھ وضو خانے میں چلا گیا اور وہ جو کچھ کرتا رہا میں بھی وہی دوہراتا رہا اب ہم لوگ مسجد میں آ گئے تھے۔ میں پہلی بار اندر آیا تھا۔ وہاں میں ایک خاص قسم کا روحانی سکون محسوس کر رہا تھا۔

یاسر نے اشتیاق سے پوچھا پھر تم نے نماز پڑھی یا نہیں؟

کیوں نہیں سلطان نے جواب دیا اسی کام کے لیے تو میں وہاں گیا تھا۔ یاسر سوچ رہا تھا کہ اس نے نماز کیسے پڑھی ہو گی؟ سلطان نے اپنی بات جاری رکھی اور بولا اقامت کے شروع ہوتے ہی صف بندی ہونے لگی۔ میں نے گھبرا کر اویس کو دیکھا اور پوچھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہو گا؟ اویس نے بتایا جو سب کریں وہ تم بھی کرنا۔ میں بچوں مانند اٹھتا بیٹھتا رہا۔ در اصل میں بچہ ہی تو تھا اسلام کی گود میں ایک نوزائیدہ بچہ۔ باہر آتے ہوئے اویس نے کہا میں تمہیں نماز کی ایک کتاب دے دوں گا جس میں وہ سب لکھا ہو گا جو تمہیں دوران نماز پڑھا جاتا ہے۔

اس کے بعد اویس مجھے اسلام کے متعلق کتابیں دیتا رہا۔ میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو وہ میرے دل میں اترتا چلا گیا۔ دو ماہ کے بعداسلم نے مجھے بتایا کہ اب تمہارے کمرے کی نگرانی بند ہو گئی ہے لگتا ہے خطرہ ٹل گیا ہے اس لئے چا ہو تو لوٹ آؤ۔ کالج تعطیلات مزید ایک ہفتہ تک تھیں اس دوران میں الوہ سے سلطان بن کر لوٹ آیا۔ یاسر اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سلطان کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھ رہا تھا اس عرصے میں سلطان کہاں سے کہا پہنچ گیا تھا اور وہ……….؟ نہ جانے کب آئینہ بجھ گیا اوریاسر سو گیا۔

دوسرے دن صبح جب یاسر کی آنکھ کھلی تو نادرہ چلنے کی تیاری کر رہی تھی۔ یاسر بولا اوہو بیگم تو گھوڑے پر سوار ہیں۔

نادرہ ہنس کر بولی آپ تو گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ یاسر بولا اب اس کاروبار میں آ گیا ہوں تو اور کر بھی کیاسکتا ہوں؟

نادرہ بولی اب آپ یہ کریں کہ جلدی سے نہا دھو کر تیار ہو جائیں وہ لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔

یاسر نے پوچھا کون لوگ؟

نادرہ بولی وہی جن سے آپ نے رات وعدہ کیا اور اب بھول گئے۔

یاسر نے کروٹ بدل کر کہا۔ ایسا کرو کے تم بھی بھول جاؤ۔

نادرہ کو یاسر پر بہت غصہ آیا وہ بولی اب آپ یہ بتائیے کہ چلنا ہے یا میں چلوں؟

یاسر نے آنکھیں کھولے بغیر کہا یہ اچھا ہے تم جاؤ اور مجھے سونے دو۔

نادرہ نے سوچا عجیب پاگل آدمی ہے۔ وعدہ کر کے کس آرام سے مکر گیا۔ نادرہ نے غصے سے نازیہ کے گھر کا نمبر ملایا۔ یہ دیکھ کر یاسر فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے ہاتھ سے فون لے کر بولا السلام علیکم چاچی۔ اکبری بولیں جیتے رہو بیٹے وعلیکم السلام۔ میں سمجھ گئی تم نے کیوں فون کیا ہے؟ نادرہ ابھی سو کر اٹھی نہیں ہے۔ میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ جب وہ اٹھ جائے اسے لے آنا۔ نکلتے وقت فون کر دینا ہم لوگ تمہارے منتظر ہیں۔

یاسر خاموشی سے اکبری بیگم کا خطاب سنتا رہا اور بولا جی ہاں شکریہ چاچی۔ میں آپ کو فون کروں گا۔ خدا حافظ۔

نادرہ نے پوچھا تم تو کچھ بولے ہی نہیں بس شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔

یاسر بولا کچھ بولنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی اکبری چاچی تمہیں بچپن سے جو جانتی ہیں۔ اب مجھے سونے دو۔

نادرہ بولی لیکن بات کیا ہوئی مجھے بھی تو پتہ چلے۔ یاسر بولا یہی کہ انہوں نے کہا کوئی جلدی نہیں ہے جب نادرہ سوکر اٹھ جائے تو اپنے ساتھ لے آنا۔

نادرہ بولی میں سو کر اٹھ جاؤں؟ میں صبح چھے بجےس جاگ رہی ہوں تم نے ان سے جھوٹ کہا کہ میں سو رہی ہوں۔

یاسر بولا میں نے کچھ نہیں کہا تم اس کی گواہ ہو کہ میں نے تمہارا نام تک نہیں لیا۔

نادرہ نے پوچھا تو انہیں کیسے پتہ چلا؟

میں کہہ چکا ہوں۔ وہ تمہیں بچپن سے جو جانتی ہیں۔

نادرہ کی سمجھ میں یہ معمہ نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولی اب میں کیا کروں؟

یاسر بولا تم؟ تم بھی سوجاؤ میری طرح۔

آپ کی طرح؟ کیا مطلب؟ ؟

وہی جو ابھی ابھی تم نے کہا تھا یاسر بولا گھوڑے بیچ کر۔

نادرہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ یاسر نے کنکھیوں میں نادرہ کو اداس دیکھا تو اس کی نیند اڑ گئی۔ وہ فوراً اٹھ کر حمام میں گیا اور دس منٹ بعد چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہوٹل سے نکلتے ہوئے یاسر نے کہا ناشتے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

نادرہ بولی نیک خیال ہے؟

یاسر بولا تو چلو ریسٹورنٹ میں فٹافٹ ناشتہ زہر مار کر لیا جائے۔

نادرہ بولی مجھے لگتا ہے آج آپ نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہے جس سے آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

یاسر نے پوچھا کیوں؟

صبح سے آپ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ کیا میں جان سکتی ہوں کل آپ نے کس سے ملاقات کی؟

یاسر بولا کیا ناشتہ کرنا غلط ہے؟

نادرہ بولی کس نے کہا غلط ہے؟

تم تو کہہ رہی تھیں دماغ والی بات……

نادرہ بولی ناشتہ کرنا نہیں بلکہ یہاں کرنا غلط ہے۔ اگر ہم لوگ یہاں کھا پی کر جائیں گے تو وہاں کیا کریں گے؟

یاسر کندھے اچکا کر بولا معذرت…..

نادرہ بولی اکبری چاچی کے پاس معذرت نہیں چلتی۔

یاسر نے پوچھا اچھا تو کیا چلتا ہے؟

نادرہ بولی ڈنڈا چلتا ہے ڈنڈا۔

………………………………….

یاسر کی زندگی کا وہ ایک یادگار دن تھا۔ اکبری چاچی اور نازیہ نے ایسی خاطر کی کہ اس کو ایسا لگ رہا تھا گویا وہ اپنے قریبی رشتے داروں کے پاس آ گیا ہے۔ نیاگرا فالس لاجواب تھا۔ اس اونچائی سے اس قدر تیزی کے ساتھ پانی کو گرتے ہوئے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پانی کے ننھے ننھے آبی بخارات جب ہوا میں اچھلتے کودتے جلد سے ٹکراتے تو ایک عجیب قسم کی فرحت و تازگی کا احساس ہوتا تھا۔ یاسر کو افسوس تھا کہ اس سے پہلے جب وہ کناڈا آیا تھا تو نیاگرا فالس دیکھنے کیوں نہیں آیا؟ اسی کے ساتھ اسے خوشی بھی تھی کم از کم اس مرتبہ نادرہ کی بدولت اسے یہ سعادت نصیب ہو گئی۔

نیاگرا فالس کے قریب باغ میں زمین پر بیٹھ کر ان لوگوں نے کھانا کھایا جو نازیہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ اس کے بعد وہ لوگ پاس میں موجود مچھلی گھر میں گئے اور بھانت بھانت کی مچھلیاں دیکھیں اسی کے ساتھ ڈولفن کے مظاہروں کا شو بھی دیکھا جس میں ڈولفن بالکل انسانوں کی طرح حرکات کرتی ہوئی نظر آتی تھی۔ شام میں نازیہ ان کے ساتھ ہوٹل آئی اور جاتے ہوئے اکبری چاچی نے ان دونوں کو بہت دعائیں دیں اور پھر سے آنے کی دعوت دی۔ یاسر ان سے کہا کہ وہ پونے آئیں اور ان لوگوں کے ساتھ قیام کریں، اکبری چاچی اس پیش کش پر بہت خوش ہوئیں۔ اکبری چاچی کو ایسا لگ رہا تھا گویا ان کا بیٹا صغیر زیدی دوبارہ زندہ ہو کر لوٹ آیا ہے۔ یہ سوچ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں اور دعائیں دیتے ہوئے انہوں نے الوداع کہا۔ یاسر کے لیے سلطان پینٹو اور اکبری چاچی نے اس سفر کو یادگار بنا دیا تھا۔

٭٭٭

ناول کا دوسرا  حصہ پڑھیے

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید