FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

برطانیہ میں اُردو اور حبیبؔ حیدرآبادی

 

(تحقیق و تنقید)

 

 

                   ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

 

 

 

انتساب

 

اُردو کی عالمی بستیوں کے ادیبوں،  قلمکاروں

اور

اداروں کے نام!

جن کی کوشش سے اُردو کو عالمی سطح پر نئی زندگی مل رہی ہے۔

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ حیدرآباد دکن کے ایک جواں سال ادیب اور اسکالر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد کی تصنیف ’’ برطانیہ میں اُردو اور حبیبؔ حیدرآبادی‘‘ منظر عام پر آ رہی ہے۔ میں مصنف کتاب کو سوشیل میڈیا فیس بک سے جانتی ہوں۔ 2005ء میں انہوں نے ذریعے فون مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ وہ میرے شوہر عبدالقادر حبیبؔ حیدرآبادی کے فن اور شخصیت پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ میں اپنے بھائی مغنی تبسم مرحوم کی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اپنے بہنوئی حبیبؔ صاحب کی اردو خدمات کے تحفظ کے لیے تحقیقی کام کروایا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی سوشیل میڈیا پر فعال ہیں اور وہ اردو کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جوڑنے اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کے علمی، ادبی و معلوماتی مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اپنے عہد کو سمجھنے اور اس کی تعمیر کا جذبہ ہے۔ حیدرآباد اور ہندوستان کی ادبی خبریں مجھے ان کے فیس بک پوسٹ سے ملتی رہتی ہیں اور اکثر میں ان کا جواب بھی دیتی ہوں۔ انہوں نے بڑی عرق ریزی سے میرے شوہر حبیبؔ صاحب سے متعلق معلومات اکھٹا کیں اور ان کی تصانیف کا تعارفی اور تنقیدی انداز میں جائزہ لیا۔ اس کتاب سے قارئین کو برطانیہ میں اردو کے فروغ کی دو صدیوں کی تاریخ ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حبیبؔ صاحب اور ان کے دوست احباب کی جانب سے یہاں دیار غیر میں اردو کی شمع کو روشن کرنے والی ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات سے آگہی ہو گی۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی یہ تحقیقی تصنیف برطانیہ میں اردو کی تاریخ اور حبیبؔ صاحب کی فکر و فن کی عکاس ہے اور اس کتاب سے حبیبؔ صاحب کے علاوہ برطانیہ کی ادبی انجمنوں کی خدمات کا احاطہ بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا اسلوب نگارش رواں،  سادہ اور دلفریب ہے۔ تحقیقی کتاب ہونے کے باوجود اس کتاب میں قارئین کی دلچسپی برقرار رہے گی۔ اور یہ کتاب اردو کی بین الاقوامی مقبولیت کی ترجمان ثابت ہو گی۔

جہاں تک حبیبؔ صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کی بات ہے میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہنس مکھ چہر ہ،  کشادہ پیشانی،   ہا تھ میں پائپ لئے ہوئے،   چہرے پر اس بلا کا اطمینان جیسے اس مشینی زندگی سے ان کا سرو کار ہی نہیں یہ تھے میرے شو ہر عبد القا در حبیب۔ جو اردو کے ادبی حلقوں میں حبیبؔ حیدرآبادی کے نام سے مشہور ہوئے۔

۲۹ ؍ اپر یل ۱۹۲۹ء کو  حیدر آباد دکن کے ایک متوسط اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اردو فارسی،  عربی اور دینیات کی تعلیم اپنے والد محترم سے حا صل کی۔ اور بعد میں نظام کالج حیدر آباد دکن سے بی کام کی ڈگری لی۔ اپر یل ۱۹۵۲ ء میں ہماری شا دی ہو ئی۔

۱۹۵۵ ء میں ہم لوگ کراچی چلے آئے۔ کراچی میں دو سال رہ کر انگلستان کا رخ کیا۔ اور آ تے ہی حبیبؔ نے اکا ؤ نٹنسی کی مزید تعلیم حا صل کی۔ بعد میں یہیں سکو نت اختیار کر لی۔ اور لندن کی ایک فرم میں ڈائرکٹر اور چیف اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ انگلستان کے ابتدائی قیام کے زمانے میں انہیں کا فی جد و جہد کرنی پڑ ی۔ ابتدا ء ہی سے یہ محنت کے عادی رہے۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی کا لج سے فارغ ہو کر اپنے والد کی دکان پر ان کا ہا تھ بٹا یا کر تے تھے۔ ان کی طبیعت میں خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ہرکسی سے پیار محبت سے ملتے۔ جس سے ایک بار دو ستی کی اس کو ہمیشہ نبھانے کی کوشش کر تے۔ دو ستوں پر اپنے خلوص اور محبت کے پھول نچھاور کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے احباب کی ترقی  اور خو شی سے اس قدر خوش ہو تے جیسے یہ ان کی ہی خو شی ہو۔ با رہ سال کی عمر سے اپنا روز نامچہ لکھنے لگے۔

حبیبؔ بچپن ہی سے ادبی سرگرمیوں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیتے رہے۔ نظام کا لج کے میگزین ’’ نظام ادب ‘‘ کے حصہ اردو کے مدیر رہے۔ ۱۹۴۸ ء میں حیدر آباد میں اپنی نوعیت کی منفرد بچوں کی کا نفر نس منعقد کی۔ جس کو ہندو ستان اور حیدر آ باد کے اکابرین کی سر پر ستی حا صل رہی۔ حیدر آباد میں کئی آل انڈیا مشاعروں کے کنوینر رہے۔

ڈاکٹر محی الد ین قا دری زورؔ مرحوم بانی ادارۂ ادبیات اردو حیدر آباد کی ایک عظیم علمی و ادبی شخصیت تھے۔ حبیبؔ کے استاد بھی رہے ہیں۔ اپنے استاد سے حبیبؔ کو گہرا لگا ؤ رہا۔ اور زور صاحب بھی ان کو بہت چا ہتے تھے۔ اسی زمانے میں ادا رہ ادبیات اردو کے زیر اہتمام ’’ بچوں کا سب رس‘‘ نا می رسالہ شائع ہوتا تھا۔ جس کے یہ مدیر بھی رہے ہیں۔

حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی مرحوم اکثر حیدرآباد آ تے رہتے تھے۔ خواجہ صاحب کی حبیبؔ پر نظر خاص تھی۔ خواجہ صاحب ان سے ہمیشہ بہت ہی شفقت اور محبت سے پیش آ تے اور اکثر و بیشتر اپنے رسالہ ’’ منا دی ‘‘ میں حبیبؔ کا ذکر کر تے حقیقت تو یہ ہے کہ حبیب نے حسن نظامی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور ان کی زندگی پر خواجہ صاحب کی طرز فکر زند گی کے رکھ رکھاؤ کا گہرا اثر پڑا ہے۔ خواجہ صاحب کے کئی خطوط ان کے پاس محفوظ ہیں۔ حیدر آ باد سے دور ہونے کے بعد برطانیہ میں قیام کے دو ران حبیبؔ کا ہند وستان و پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں سے ذہنی ربط رہا ہے۔ ۱۹۶۷ ء میں جب یہ حیدر آباد گئے تھے۔ تب مخدوم محی الد ین،   سلیمان اریب،  ڈاکٹر وحید اختر،   شاذ تمکنت،  عوض سعید،   مغنی تبسم اور زبیر رضوی نے انتہا ئی تپاک سے حبیبؔ کو خوش آمد کہا۔ انگلستان میں آمد کے بعد حبیبؔ کے ابتدا ئی چند سال تو غم روز گار کی نذر ہو گئے۔ جب زند گی کچھ ہموار را ستے پر گامزن ہو ئی تو ادبی اور سما جی سرگرمیوں کی طرف رجوع ہوئے ناٹنگھم میں اپنی نوعیت کی پہلی اردو لائبریری قائم کی۔ ۱۹۶۶ ء میں ناٹنگھم میں پہلا آل انگلینڈ اردو مشاعرہ کیا جو بہت کامیاب رہا۔ اس کے بعد ناٹنگھم کے دور ان قیام میں ہر سال ایک مشاعرہ منعقد کر تے جس میں انگلستان کے مختلف حصوں سے شعرا شر کت کر تے۔ اور اب بھی ان مشاعروں کی یاد لوگوں کے دلوں میں تا زہ ہے۔ ڈارٹ فورڈ میں اکیڈمی آف اردو اسٹڈیز قائم کی۔ جہاں اردو کے ’’O ‘‘ اور ’’A ‘‘ لیول کے امتحانات کے لئے طلبا ء کی رہنما ئی کی جا تی تھی۔ اور سال میں دو مرتبہ اکیڈمی کی جانب سے تحریری مقابلے منعقد ہو تے اس طرح برطانیہ میں اردو جاننے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔

حبیب دھن کے پکے تھے۔ جو کام شروع کر تے تند ہی سے اس میں لگ جا تے۔ کام کے دوران انہیں اپنے آ رام چین کا بھی خیال نہیں رہتا۔ ۔ جہاں تک گھر یلو زندگی کا سو ال تھا حبیب بہت ہی منکسر المزاج تھے۔ حیدر آبادی رکھ رکھا ؤ اور مشرقی  روایات کے پیر و تھے۔ گھر یلو کاموں میں تنظیم کا خاص خیال رکھتے تھے۔ پرانے خطوط اور تصاویر انتہا ئی حفاظت سے رکھتے تھے۔ طبیعت میں مزا ح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دو ستوں کی محفلوں میں ہمیشہ ہنستے ہنسا تے رہتے تھے۔ اچھے کھانوں کے بہت شوقین تھے۔ ہر کھانے کو آخری کھا نا سمجھ کر کھا تے تھے۔ اپنے حلقہ احباب میں بسیار خو ری کے لئے مشہور تھے۔ کہتے تھے کہ میں دل کو ہمیشہ زندہ رکھتا ہوں۔ اگر یہ مر جائے تو پھر زند گی میں کچھ بھی باقی  نہ رہے گا۔ حساس طبیعت کے مالک تھے۔ خو شی اور غم کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے تھے۔ قد یم رو ایتوں کے دلدادہ تھے۔ اسی لئے نئی اور بد لتی قدروں کو مقبول کرنے میں بہت ہی احتیاط اور تا مل سے کام لیتے۔ اپنے ان خیالات کا اظہار شعر کی صورت میں یوں کیا ہے۔

؎ کچھ اس خیال سے کہ زمانہ نیا کہے    روشن حقیقتوں کو بھی جھٹلا رہا ہوں میں

حبیبؔ اپنے بزرگوں اور اساتذہ کی بہت عزت کرتے۔ اپنے بچوں رافع، واسع اور سلمیٰ سے نہایت شفقت سے پیش آتے۔ عموماً  رات کے کھانے کے بعد بچوں سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کر تے۔ حبیبؔ کے دوست احباب کا حلقہ کافی وسیع تھا۔ نامور شعرا اور ادیب فیض، مشتاق احمد یوسفی، افتخار عارف، رضا علی عابدی، یشب تمنا اور دیگر کے ہمراہ گھر پر محفلیں رہتیں۔ میں خود شاعرہ ہوں اور ایک شاعرہ کے شوہر ہونے کے باوجود حبیبؔ نے زندگی مثبت قدروں کے ساتھ گذاری۔ حبیبؔ کو ہم سے بچھڑے 25سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا۔ حبیبؔ نے اردو ادب کی جو خدمت کی تھی اسی کا سلسلہ ان کے بیٹے رافع اس انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ انگریزی کے اچھے نقاد ہیں اور انہوں نے اردو تحقیق و تنقید کے اہم گوشوں کو انگریزی میں متعارف کروایا۔ حبیبؔ صاحب کی یادوں کو پیش کرتی ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی یہ کتاب ہمارے لیے بھی ایک سرمایہ ہے کہ اس میں ایک محب اردو کی داستان حیات اور اس کے علمی و ادبی کارنامے محفوظ ہو گئے ہیں۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو مبارک باد پیش کرتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ ان کی یہ تصنیف برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقبول ہو گی۔

صدیقہ شبنم

لندن۔ برطانیہ

 

 

 

 

حرف آغاز

 

 

اردو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ اور اس زبان نے اپنی مٹھاس کے سبب عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی ہے۔ آج اردو بولنے اور اردو کو چاہنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ برصغیر سے پروان چڑھنے والی یہ زبان اب اردو کی عالمی بستیوں امریکہ یورپ افریقہ اور آسٹریلیاہر جگہ مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ اردو کی جو نئی عالمی بستیاں آباد ہوئیں ان میں برطانیہ بھی ہے۔ قصہ یوں ہے کہ ایک زمانے میں تاج برطانیہ کی حکومت مشرق سے مغرب تک بیشتر ممالک میں تھی۔ برطانیہ کے زیر نگیں ممالک نوآبادیات کہلائے جاتے تھے۔ ہندوستان بھی برطانیہ کی ایک نو آبادیات تھا۔ اور ہندوستان پر حکومت کے زمانے میں جہاں انگریز ہندوستان پر قابض رہے وہیں ہندوستان سے کچھ تعلیم یافتہ لوگ اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ جاتے رہے تھے۔ آزادی سے قبل لوگ اکثر کہا کرتے تھے کہ فلاں شخص ولایت جا کر آیا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے بشمول ہندوستانیوں کا ایک بڑا طبقہ معاشی فراخی کی تلاش میں ترک وطن پر مجبور ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ برطانیہ بھی پہونچے۔ اور وہیں بود و باش اختیار کی۔ جاتے جاتے وہ اپنے ساتھ اپنی پیاری اردو زبان بھی لے گئے۔ اردو کے ساتھ ان کی مشرقی اور ہندوستانی تہذیب بھی ساتھ گئی اور دیار غیر میں اردو اور ہندوستانی تہذیب کا بیج بویا گیا جو گزشتہ دو صدیوں میں پروان چڑھتے ہوئے ایک تناور درخت بن گیا۔ حیدرآباد سے برطانیہ منتقل ہونے والوں میں ایک اہم نام محمد عبدالقادر حبیبؔ حیدرآبادی کا ہے جنہوں نے اپنے قیام برطانیہ کے دوران نہ صرف وہاں اردو زبان اور اردو ذریعہ تعلیم کو فروغ دیا بلکہ اپنی تصانیف کے ذریعے برطانیہ میں اردو کی ترقی اور وہاں کی تہذیب و تمدن کو بھی محفوظ کیا۔ عبدالقادر صاحب حبیبؔ حیدرآبادی کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا مقبول عام تعارف یہ ہے کہ وہ اردو کے نامور محقق، نقاد و شاعر پروفیسر مغنی تبسم کے بہنوئی رہے۔ ان کی اہلیہ صدیقہ شبنم ایک اچھی شاعرہ ہیں اور نامور افسانہ نگار عوض سعید ان کے ہم زلف رہے ہیں۔ حبیبؔ حیدرآبادی ۱۹۶۰ ء کی دہائی میں حصول معاش کے لئے برطانیہ منتقل ہوئے۔ اور اپنی حیات کے باقی ایام میں انہوں نے وہاں فروغ اردو کے بے شمار کام انجام دئے۔ اردو امتحانات کا انصرام، اردو کی شعری و ادبی مجلسوں کا انعقاد اور اردو کتابوں کی تصنیف و تالیف ان کی خدمات ہیں۔ انہوں نے اپنی مقبول عام کتاب ’’ انگلستان میں ‘‘ لکھی۔ جس میں ان کے مضامین، انشائیے اور شاعری کا انتخاب شامل ہے۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’’ رہ و رسم آشنائی‘‘ کے نام سے مقبول ہوا۔ اسی طرح انہوں نے ’’ برطانیہ کی سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ‘‘ کے عنوان سے برطانوی اقتدار کے بارے میں اہم معلوماتی کتاب لکھی۔ انہوں نے ’’ محمد الرسول اللہ‘‘ نامی کتاب ترجمہ کی۔ ان کی تحریروں میں مزاح کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔

حبیبؔ حیدرآبادی کی فکر و فن اور برطانیہ میں اردو کی ترقی سے متعلق یہ کتاب راقم کی تحقیقی کاوش ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب سے اردو کی اہم عالمی بستی برطانیہ کے بارے میں ادبی و علمی معلومات فراہم ہوں گی۔ اس کتاب کے پہلے باب میں تفصیلی طور پر گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں برطانیہ ہوئی اردو کی ترقی کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی کی تصانیف کی روشنی میں انہیں بہ حیثیت مضمون نگار،  انشائیہ نگار، نقاد، خاکہ نگار، مزاح نگار،  مترجم، شاعر، سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں حبیبؔ حیدرآبادی کے بارے میں مشاہیر ادب کی رائے بھی پیش کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب برطانیہ میں اردو کی ترقی اور حبیبؔ حیدرآبادی کی دیار غیر میں پیش کردہ اردو خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب کے لیے حبیبؔ صاحب کی اہلیہ محترمہ صدیقہ شبنم صاحبہ نے لندن سے اپنا پیش لفظ تحریر کر کے روانہ کیا جس کے لیے میں ان کا شکر گذار ہوں۔ اس کی ساتھ ہی کتاب کی اشاعت کے لیے تعاون کرنے والے سبھی احباب کی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ادبی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی ہو گی۔

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

 

 

برطانیہ میں اردو کی ترقی

 

اردو ایک عالمی زبان ہے۔ اس ز بان کا آغاز ہند و ستان سے ہو ا۔ لیکن بہت کم عرصے میں یہ اپنے بولنے والوں کے سا تھ ایشیا ء،   افریقہ،   یو رپ امر یکہ اور آسٹریلیا تک پھیل گئی۔ اپنی وسیع القلبی،   دو سری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمیٹنے کی کشا دہ دلی،   اس کے شعر و ادب کی آفاقیت نے دو سری زبانیں بولنے والوں کو بھی اس کی جانب متوجہ کیا۔ آج جا پان،  انگلستان،  امر یکہ روس،   چین جر منی وغیرہ کے طالب علم ہند وستان کی جامعات میں اردو سیکھنے آ تے ہیں۔ اور ان ممالک سے  اردو میں ریڈیو کی نشریات جا ری ہیں جو بر صغیر کے سا معین کو مستفید کر تی ہیں۔ بر صغیر کے علا وہ دنیا میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے۔ برطانیہ میں اردو بولنے والوں  کی کثیر تعداد،   وہاں سے نکلنے والے اردو اخبار،  ادبی انجمنیں،  مشاعرے اور دیگر اردو سر گرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ خیال آ تا ہے کہ کہیں اردو برطانیہ کی دو سری سرکاری زبان تو نہیں۔ اردو کے جائے پیدائش ہندوستان اور برطانیہ کا ماضی میں حا کم اور محکوم قوموں کی بنا ء گہرا تعلق رہا ہے۔ مملکت برطانیہ کا دیگر ممالک کی طرح ہند و ستان پر دو سو سال سےزائد اقتدار تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس کے سیاہ و سفید دونوں پہلو سب پر عیاں ہیں۔ اردو برطانیہ میں کس طرح پہنچی اس کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔

 

برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی آ مد

 

دو سری جنگ عظیم سے قبل برطانیہ دنیا کی ایک طاقتور مملکت تھا جس کی وسعت کے بارے میں یہ جملہ مشہور ہو چکا تھا کہ ’’ مملکت برطانیہ میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ‘‘ کیوں کہ مشرق میں آ سٹریلیا سے لے کر مغرب میں آفریقہ اور امریکہ تک اس کی نو آ با دیات قائم تھیں۔ اس کے زیر نگیں ممالک میں ہند و ستان ایک بڑا ملک تھا۔ ہند و ستان میں بیسو یں صدی کے آغاز تک گاندھی جی کے زیر قیادت انگریزوں کے خلاف جد و جہد آز ا دی زور پکڑ چکی تھی۔ برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر ہند و ستانی سپاہی دوسری جنگ عظیم میں اس کی طرف سے لڑ یں تو وہ ہند و ستان کو جلد آز ادی دے گا۔ چنانچہ کثیر تعداد میں ہند و ستانی فو جیوں نے برطانیہ کی طرف سے لڑ تے ہوئے جان دی۔ دو سری جنگ عظیم میں جر منی کی طرف سے برطانیہ کو شد ید نقصان اُٹھا نا پڑ ا۔ انیسو یں صدی میں برطانیہ میں آئے صنعتی انقلاب کی بدولت ملک میں صنعتوں کا ایک جال پھیل چکا تھا۔ اس طرح صنعتیں انگلستان کی معیشت میں اضافہ کر تے ہوئے صنعتی ممالک کی فہرست میں اسے آ گے لے جانے کا باعث بنیں۔ برطانیہ کی اقتصادی ترقی  اور معاشی خوشحالی کا دارو مدار صنعتی پیدا وار اور بر آ مد ات پر تھا۔ دو سری جنگ عظیم میں ناز ی جر منی کے لیڈر ہٹلر نے برطانیہ کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے اس کی صنعتوں کو نشا نہ بنایا۔ شد ید بمباری سے لاکھوں انگریز لقمہ اجل بنے۔ برطانیہ کے سفر کے دوران برطانیہ کی عظمت کو بیان کر تے ہوئے مزا حیہ انداز میں مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں کہ :

’’ اب کی بار مغرب میں اس ملک کو جا رہے ہیں جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس زمانہ میں سو رج کتنا تھک جا تا ہو گا اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں ‘‘۔ ۱؎

جر منی کی بمباری سے مملکت برطانیہ میں کبھی نہ ڈوبنے والے سو رج کا کیا حال ہوا اسے مزا حیہ انداز میں نظام آ باد سے تعلق رکھنے والے ادیب و شاعر محمد ایوب فاروقی نے اپنے ایک مزاحیہ مضمون ’’ داخلہ پا لیسی‘‘ میں یوں بیان کیا :

’’ دو سری جنگ عظیم بڑے زور شور سے لڑی جا رہی تھی۔ ایک طرف ہٹلر اور دو سری طرف جا پانی اپنی خارجہ پا لیسیوں کو استحکام بخشنے میں بری طرح مصروف تھے برطانیہ عظمی جس کی مملکت اقتدار میں سو رج کبھی نہیں ڈوبتا تھا۔ آ سمانوں پر بمبار طیاروں کی مسلسل پروازوں کی وجہہ سو رج کو طلوع ہو تے دیکھنے کے لئے ترس رہا تھا ‘‘۔ ۲؎

بہر حال ہٹلر کی فو جوں کی بمباری سے برطانیہ کے کئی آ باد شہر بر باد ہو گئے۔ برطانوی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی صنعتوں کو نشا نہ بنانے کے لئے جر منی فضائیہ نے برطانیہ کے ان شہروں کا انتخاب کیا جہاں اس طرح کی صنعتیں قائم تھیں۔ چنانچہ جر من بمباری سے برطانیہ کے شہر بر منگھم،   کو لنٹری،   ڈربی،   لندن،   لیڈز شیفیلڈ اور مانچسٹر وغیرہ شدید متاثر ہوئے۔ اور کوئلے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ دو سری جنگ عظیم میں انگریزوں کو اپنی آ زا دی کی قیمت چکانی پڑ ی۔ جنگ میں بھا ری تعداد میں لوگ مارے گئے۔ ملک میں یکا یک افرادی قوت کی کمی محسوس کی گئی۔ جس سے ایک بحر ان کی صورت حال پیدا ہو گئی۔

جنگ کے بعد کچھ امن کی صورت حال پیدا ہوئی۔ حا لات قا بو میں آئے اور زندگی معمول پر آنے لگی تو جنگ سے تباہ حال انفرا سٹرکچر کی مر مت اور از سر نو تعمیر کے لئے بڑے پیمانے پر ماہرین اور کام کرنے والے مزدوروں کی ضر و رت محسوس کی گئی۔ انگریزوں کی نظر افریقہ اور ایشیا ء کے ان ممالک پر گئی جہاں کے لوگ جفا کش ہو تے تھے۔ اور جہاں اس وقت بھی انگریزوں کا تسلط قائم تھا۔ شکست خور دہ برطانیہ کی تعمیر نو کے لئے محکوم قوموں کا مزید استحصال انگریز اپنا حق سمجھتے تھے۔ سر مائے کی فرا ہمی انگریزوں کے لئے مسئلہ نہیں تھا کیوں کہ ہند و ستان جیسے محکوم علاقے اس کے لئے سونے کی چڑ یا بنے ہو تے تھے جہاں سے خام مال لے جا نا اور اس کے ذریعہ اشیا ء بنا کر دو لت کما نا انگریزوں کا معمول بن چکا تھا۔ چنانچہ اپنے ملک کی خستہ حال سڑکوں،   ریل کی پٹریوں کی مرمت،   رہائشی مکانوں،   کار خانوں اور فیکٹر یوں کی تعمیر نو کے لئے برطانیہ نے نو آ با دیات سے آنے والے محنت کشوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیے۔

انگریزوں نے برطانیہ میں لوگوں کو لانے کے لئے ابتداء میں جزائر غرب الہند کا رُخ کیا۔ ہند و ستان سے افراد لانے کا خیال اس لئے ترک کیا گیا کہ برطانیہ جنگ عظیم میں ہندوستانیوں کی شر کت کے بد لے انہیں جلد سے جلد آز ادی دینے کے اپنے وعدے سے پھر گیا تھا۔ اس لئے لوگوں میں تاج برطانیہ کے خلاف نفرت کا جذبہ بھر گیا تھا۔ چنانچہ  برطانیہ نے اپنے ملک کی تعمیر نو کے لئے غرب الہند سے کا رکن لائے۔ مردوں کو بسوں اور زیر زمین ٹیوب ٹر ینوں سے لا یا گیا عورتوں کو بطور نرس ہسپتالوں میں کام کے لئے رکھا گیا۔ اگر چہ غرب الہند کے جزائر سے بے شمار مزدوروں کو انگلستان لا یا گیا۔ تا ہم وہاں کی صنعتوں کے لئے مزید ہنر مند افراد کی ضرورت محسوس کی گئی۔ جسے تقسیم ہند کے بعد ہند و ستان اور پا کستان کے ہنر مندوں نے پورا کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ برطانوی صنعت کی تعمیر اور معاشرتی ترقی  اور خوشحالی میں ایشیا ئی تا رکین وطن کا سب سےز یا دہ حصہ ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔

انگریزوں کے ہند وستان پر قبضے کے بعد عام آ دمی کی زند گی مشکلات سے دو چار ہو گئی تھی۔ زمینداری اور سر ما یہ داری ختم ہو چکی تھی۔ زراعت بھی لگان کے سبب بڑے زمینداروں تک محدود ہو گئی تھی۔ یہ جہاز آسٹریلیا،  برطانیہ جنو بی افریقہ وغیرہ ملک ملک پھرا کر تے تھے۔ برطانیہ میں لنگر انداز جہا زوں سے کچھ مزدور  فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مقامی لوگ ایسے مفر ور لوگوں کو کارخا نوں اور فیکٹر یوں میں زیادہ اُجرت پر کام کی تر غیب دے کر لے جانے لگے۔ اور اس طرح کے جہاز سے مفر ور مزدوروں کو برطانیہ میں قدم جمانے کا موقع ہا تھ لگا۔ اس وقت چونکہ مزدوروں کی اشد ضرو رت تھی اس لئے انگریزی نہ جاننے والوں کو بھی ملازمتیں ملنے لگیں۔ اور لوگ وطن سے دور اپنے ساتھیوں کو برطانیہ میں ملنے والے ملازمت کے ان مواقع کا تذکرہ کرنے لگے۔ تین چار سال بعد جب یہ لوگ اپنے وطن واپس پہنچے اور اونچ نیچ کے سا تھ برطانیہ میں زیادہ دولت کمانے کے ساز گار حا لات بیان کرنے لگے تو ہند وستان و پا کستان کے لوگ بڑی تعداد میں برطانیہ کا رخ کرنے لگے۔ ۱۹۵۵ ء سے لے کر ۱۹۶۰ ء تک برطانیہ میں برصغیر سے آنے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ اپنے ملک میں بیرونی ممالک سے آئے لوگوں کے سیلاب کو رو کنے کے لئے برطانوی حکومت نے ۱۹۶۳ ء میں امیگریشن قا نون نافذ کیا۔ جس کی رو سے دولت مشترکہ کے ممالک کے لوگوں کے لئے (انٹری پرمٹ) داخلہ اجازت نامہ کے بغیر برطانیہ میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ تا ہم پہلے سے مقیم تا رکین وطن کو اپنی بیویوں اور سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کو اپنے پاس بلانے کا حق دیا گیا۔ اس سے بھی تا رکین وطن کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع ان ایشیا ئی تا رکین وطن کی زبان اردو تھی۔ اور یہ تا رکین وطن برطانیہ کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس لئے دفاتر باز ار،  بسوں،  ٹر ینوں،   ہو ٹلوں جہاں بھی یہ لوگ آپس میں ملتے اردو میں بات کر تے۔ اس طرح اردو زبان بول چال کی حد تک برطانیہ میں اجنبیت کی حدوں کو پار کر گئی۔ تا رکین وطن نے اپنی تہذیبی اقدار کی حفاظت اور ان کے بچوں میں ان قدروں کی منتقلی کے لئے محسوس کیا کہ انگریزی زبان میں تعلیم کے سا تھ اردو اور مذہبی تعلیم کا بھی انتظام ہو۔ اس ضمن میں ہونے والی سر گرمیوں کو بیان کر تے ہوئے حبیبؔ  حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ ماں باپ کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ ان کے بچے ان کے اپنے نقش قدم پر چلیں اور ایشیا ئی اقدار کو اپنائے رہیں اپنے مذہب کو تھا مے رہیں۔ اپنی ماد ری اور قو می زبان سیکھیں۔ اپنے ملک کی تاریخ اور معاشرے کے پس منظر سے واقف رہیں جہاں جہاں ایشیا ئی زیادہ تعداد میں ہیں مقامی طور پر گر دواروں میں پنجا بی اور ہندی اور مساجد میں عربی دینیات اور اردو کی تعلیم کا انتظام ہما ری اپنی انجمنوں نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ سر کا ری مدا رس میں ہفتہ یا اتوار کو یا پھر عام دنوں میں شام کو ما دری زبان سکھانے کے لئے کلاسیس کی اجازت بھی دی جا تی ہے‘‘۔ ۳؎

 

برطانیہ میں اردو کے ابتدا ئی نقوش

 

برطانیہ میں اردو زبان کے نقوش ویسے بھی کا فی قد یم ہیں۔ ۷ ؍ فر وری ۱۸۶۱ء کے ایک خط میں گا رساں دتاسی نے لکھا تھا کہ انگلستان میں اردو زبان کا چر چا دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ اس زبان کی اہمیت کا احساس لوگوں کو ہوتا جا رہا ہے۔ جا رج ہیڈ لے G. Hadelyنے ۱۷۷۰ء میں لندن سے اردو کی پہلی A grammar and vocabulary of Moors Language نا می کتاب شائع کی۔ ۴؎

اس وقت لفظ Moors مسلمانوں کے لیے استعمال کیا جا تا تھا۔ بعد میں یہی Moors Language ’’ ہند وستانی،   اور پھر ’’ اردو ‘‘ کہلا ئی۔ جا رج ہیڈ لے کے بعد ۱۷۷۳ء میں فرگوسن نے اردو کی ایک لغت لکھی۔ بعد میں Fallon اورPlatts کی لغات بھی مشہور ہوئیں۔ ان دنوں تجا رتی منفعت کی خاطر لغات لکھنے کی طرف زیادہ توجہ دی گئی۔ ۱۸۰۰ء میں فو رٹ ولیم کا لج کلکتہ میں قائم ہوا جس کا مقصد ہند و ستان میں کام کر رہے انگریز ملازمین کو اردو سکھا نا تھا۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر ۱۸۱۶ ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے لندن میں اپنے ملازمین کو اردو سکھانے کے لئے اورینٹل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔ اور اس کے لئے گلکریسٹ کی خد مات حا صل کی گئیں۔ ۱۹۱۶ ء میں لندن یو نیور سٹی میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز کا آغاز ہو ا۔ ۱۹۳۰ء  میں اس اسکول میں اردو زبان کا ایک با قا عدہ شعبہ بنا یا گیا۔ اس سے قبل ہار ورڈ اور کیمبرج یو نیور سٹی،   لندن کا لج،   کنگز کا لج اور اڈ نبرا یونیورسٹی میں اردو تعلیم کا نظم تھا۔ اور اکثر ہند و ستان سے آئے دولت مند طبقہ کے طلبا ء اس میں داخلہ لیتے تھے۔ بڑی تعداد میں ایشیا ئیوں کی برطانیہ میں آمد سے قبل بھی وہاں طالب علموں اور سیاست دانوں کے ذریعہ اردو پھلتی پھو لتی رہی۔ یو سف خاں کمبل پوش،   نو اب کر یم خاں وغیرہ ۱۸۴۰ ء کے آس پاس برطانیہ میں قیام کے دوران اپنی یاد داشتیں اردو میں لکھا کر تے تھے۔ ان کے علا وہ ہند و ستان کے را جا مہا راجہ نو اب جا گیر دار اورسیاست داں جیسے مو لا نا محمد علی جو ہر،  چو دھری رحمت علی سر عبد القا در،   محمد علی جناح،   پنڈت جواہر لال نہر و،   اقبال وغیرہ نے برطانیہ میں قیام کے دو ران اپنے آس پاس اردو ما حول بر قرار رکھا۔ ترقی  پسند مصنفین کے ادیبوں اور شعراء کی ملاقاتیں جیرالڈ اسٹریٹ کے شفیع رسٹور نٹ میں ہو تی تھیں۔

ہند و ستان سے آئے ادیب و شعراء محمد دین تاثیر۔ ڈاکٹر گھوش،   ملک راج آنند سجاد،   ظہیر وغیرہ نے ترقی  پسند تحریک کی داغ بیل برطانیہ میں ڈ الی۔ دو سری جنگ عظیم کے بعد بڑی تعداد میں مزدوروں اور ہنر مندوں کے قافلے برطانیہ میں سکو نت پذیر ہوئے۔ اور جب انہیں یہ احساس ہوا کہ برطانیہ میں ان کا قیام عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے تو انہوں نے اپنے مشرقی  اقدار اور زبان کی حفاظت پر توجہ دی۔ اور رضا کارانہ طور پر یہ کام ہونے لگا۔ اس کی بد و لت اردو کے فروغ کا تذکرہ کر تے ہوئے حبیب حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ جب صاحب بصیرت لوگوں نے محسوس کیا کہ اب انگلستان میں ہم سب کا قیام ایک مستقل نوعیت اختیار کرتا  جا رہا ہے تو وہ مشرقی  اقدار کی حفاظت کی تدابیر کرنے لگے۔ پر دیس میں چونکہ خدا ذ راز یا دہ یاد آ تا ہے۔ اس لئے مختلف مذہب کے ماننے والے سب سے پہلے اپنے اپنے عبا دت خانوں کی تعمیر و تشکیل میں مصروف ہو گئے۔ مندروں،   گرد واروں،   مسجدوں کی اور امام باڑوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہونے لگا۔ کوشش اس بات کی ہو تی رہی کہ یہ عبا دت خانے ہما ری تہذیبی،   ثقافتی اور ما دری زبان کی اشاعت و تعلیم کے مراکز بنیں۔ مذہبی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی جانے لگی۔ ۔ ۔ چوں کہ مذہبی تعلیم کا بہت سا را لٹریچر اردو میں ہے۔ اس لئے مسا جد میں مذہبی تعلیم کی زبان بھی اردو بن گئی۔ ۔ ۔ مقامی اداروں،   کو نسلوں اور محکمہ تعلیم نے جب دیکھا کہ رضا کارانہ طور پر اردو پڑھائی جا رہی ہے یہ کام یا تو انہوں نے خود اپنے ہا تھ میں لے لیا۔ یا پھر اردو کے کام کرنے والے افراد یا اداروں کی سر پر ستی کرنی شروع کر دی ‘‘۔ ۵؎

برطانیہ میں اردو اور ہند و ستانی تہذیب کا کس قدر بول با لا ہے اس بارے میں مزا حیہ انداز میں مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :

’’ پچھلے دنوں برطانیہ کے ایک صاحب دہلی کی جا مع مسجد کے سا منے کہنے لگے ’’ میاں ! دہلی میں اب صرف جا مع مسجد رہ گئی ہے۔ اس کی سیڑھیاں تو اب لندن میں پا ئی جا تی ہیں۔ یہاں کی نہا ری اب بر یڈ فو رڈ،   میں ملتی ہے۔ یہاں کی کرخنداری اب بر منگھم میں سنا ئی دیتی ہے۔ برطانیہ میں مقیم ایک حیدر آبادی دو ست نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا۔ ’’ میاں ! حیدر آبادی بریانی کی تلاش میں پتھر گٹی اور مچھلی کمان کے چکر کیوں لگا تے ہو۔ مچھلی کمان تو اب لندن میں آ گئی ہے ‘‘۔ ۶ ؎

مجتبیٰ حسین نے اپنے مضمون میں آ گے یہ بھی لکھا کہ برطانیہ کے آ ٹھ ہزار اس کولوں میں اردو پڑھائی جا تی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ میں ایشیا ئی کتنی تعداد میں تھے اور کس طرح انہوں نے اپنے بچوں کی اردو تعلیم کا نظم کیا۔

 

برطانیہ میں اردو کتب خانے

 

اردو تعلیم کے لئے ضرو ری ہے کہ اردو میں کتابوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ مو جود ہو۔ اور کتابوں کے بڑے ذخائر عموماً کتب خانے ہو تے ہیں۔ برطانیہ میں اردو کتا بیں جمع کرنے کے لئے بھی شعوری کوشش شروع ہو ئی۔ ۱۹۶۷ ء میں نو ٹنگھم میں برطانیہ کی پہلی اردو لائبریری قائم ہو ئی۔ ہند و ستان اور پا کستان کے سفیروں کی مو جود گی میں شیرف آف نو ٹنگھم نے لائبریری کا افتتاح کیا۔ نو ٹنھگم کارپوریشن نے لائبر یری کے لئے شہر کے وسط میں عمارت فر اہم کی۔ جہاں بچوں کی اردو تعلیم کا بھی نظم تھا۔ لو کل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت یہ طے کیا گیا کہ برطانیہ کی لائبریریوں سے تا رکین وطن کو ان کی اپنی ما دری زبان میں کتا بیں فر اہم کی جائیں۔ اس قا نون سے تمام بڑے کتب خا نوں سے اردو کتا بیں تا رکین وطن ایشیا ئیوں کے لئے فر اہم کی جانے لگیں۔ حبیبؔ  حیدر آبادی نے لکھا کہ ان کی کتاب ’’ انگلستان میں ‘‘ کی اشاعت کے بعد برطانیہ کی لائبر یریوں میں یہ کتاب چھ سو کی تعداد میں لی گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ میں اردو کتا بیں رکھنے والے کتب خانوں کی تعداد کتنی تھی۔

 

برطانیہ میں اردو تعلیم کا نظم

 

برطانیہ میں کثیر النسل لوگ مو جود ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو سے زیادہ ما دری زبانیں بولنے والے لوگ صرف لندن میں مقیم ہیں۔ ان تمام کے لئے ان کی ما دری تعلیم ایک مسئلہ بن جا تی ہے۔ اس کے با وجود اردو تعلیم کے ضمن میں حکو مت برطانیہ کا رو یہ مثبت رہا۔ ۱۹۸۵ ء میں لندن کے مختلف اس کولوں میں قریباً  چار ہزار بچے اردو تعلیم پا رہے تھے۔ کئی اسکول ایسے ہیں جہاں اسکول کے اوقات میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ بعض اسکولوں میں دو پہر کے کھانے کے وقفے یا اسکول کے مقررہ اوقات کے بعد اردو تعلیم کا نظم کیا گیا۔ اردو تعلیم کے لئے حکومت نے گرانٹ بھی مختص کی۔ اس کولوں کے علا وہ تعلیم بالغان کے اداروں اور مختلف کالجوں میں شام کے وقت اردو تعلیم کا نظم کیا گیا ہے۔ انگریزوں کو بھی تعلیم بالغان کے اداروں میں اردو سکھا ئی جا رہی ہے۔ لندن یا آکسفورڈ یو نیور سٹی میں 0 لیول کے اور لندن یو نیور سٹی میں A لیول کے اردو امتحانات کا آغاز کیا گیا۔ لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افر یکن اسٹڈیز میں اردو کے بی اے ( آنرز ) کی تعلیم دی جا تی ہے۔ اس کے بعد ایم۔ اے یا پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حا صل کی جا سکتی ہے۔ جہاں اردو کو ابتداء سے سیکھنے کے لئے پرائمری اسکول اور تعلیم بالغان کے اد ارے مو جود ہیں۔ وہیں بعض یو نیور سٹیوں میں پی۔ ایچ ڈی کی سطح تک اردو کی اعلی تعلیم کا نظام کیا گیا ہے۔ ان با توں سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ میں آ ہستہ آ ہستہ اردو تعلیم کا نظام پھیلتا گیا۔ اور اب وہاں ابتدا ئی جماعت سے ڈاکٹریٹ تک اردو کی تعلیم کا با قا عدہ نظم ہے۔

 

برطانیہ میں اردو صحافت

 

انسان ایک سما جی جا نو رہے۔ سماج کے بغیر وہ چین سے نہیں رہ سکتا۔ اور سماج کے بارے میں وہ جا نکاری بھی رکھنا چاہتا ہے۔ ہم جس سماج جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور احوال جاننے کی خواہش ایک فطری امر ہے۔ برطانیہ میں تا رکین وطن ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ۱۹۶۰ ء تک جمع ہو چکی تھی۔ یہ لوگ وطن سے دور تھے۔ اور وطن کی خبر یں جاننے کے لئے بے چین رہا کر تے تھے۔ تا رکین وطن کی ان ہی خواہشات کے تحت برطانیہ میں اردو صحافت کا آغاز ہو ا۔

برطانیہ میں اردو صحافت کے ابتدائی نقوش کھو جتے ہوئے سید عاشور کاظمی لکھتے ہیں :

’’ مغربی ممالک میں اردو صحافت اور اخبارات کی تاریخ انگلستان سے شروع ہو تی ہے۔ کہنے کو تو انیسویں صدی کی آ ٹھو یں دہا ئی میں چھپنے والے جوزف سا لٹر کے کتا بچے ’’ یو رپ میں ایشیا ئی ‘‘ کو بھی کسی نے اردو صحافت کے خانے میں درج کرنے کی کوشش کی۔ جسے نہ صحافت کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ کتا بچہ اخبار ورسائل کے زمرے میں آ تا ہے۔ اس کتا بچے کو اردو کی پہلی کتاب بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برطانیہ میں اس سلسلے کی پہلی کڑی اخبار ’’ ہند ‘‘ تھا جو ہند وستانی طلباء نے ۱۹۲۰ ء میں شروع کیا تھا اسی اخبار ’’ ہند ‘‘ کا نام بعد میں یونائٹیڈ انڈیا ( United India ) کر دیا گیا ‘‘۔ ۷؎

حبیب حیدر آبادی نے اپنی تحقیق کے مطابق اپنے مضمون انگلستان میں اردو میں لکھا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ۱۹۱۸ ء میں لندن سے فو جی اخبار کے نام سے ایک اخبار اردو میں شائع ہوتا تھا۔ سید عاشور کاظمی نے اپنی کتاب‘‘ بیسو یں صدی کے اردو اخبارات ورسائل مغربی دنیا میں ‘‘ میں برطانیہ سے جا ری ہونے والے جن اردو اخبارات اور رسائل کا تعارف پیش کیا ہے۔ ان کے نام اور مقام اشاعت ذیل میں دئے جا تے ہیں۔ ہفت روزہ نوائے وقت اوورسیز ایڈیشن۔ ہفت روزہ۔ مشرق۔ لندن ہفت روزہ ایشیا۔ بر منگھم،   روز نا مہ جنگ۔ لندن۔ روز نامہ ملت ، لندن۔ روز نا مہ اردو ٹائمز ، گلا سگو،   ہفت روز ہ ملت بر منگھم،   ہفت روزہ وطن۔ لندن،   ہفت روزہ عوام۔ لندن،   ہفت روزہ آزاد لندن،   ہفت روزہ دی نیشن۔ لندن،   ہفت روزہ ملا پ۔ لندن،   ہفت روزہ پر تاپ لندن،   ماہنامہ آفاق نو ٹنگھم،   ماہنامہ تصویر لندن،   ماہنامہ گھرانہ بر منگھم،   ماہنامہ شفق لندن،   ماہنامہ مجلہ جنبش نو لندن،  روز نا مہ آواز لندن،   ماہنامہ آدرش لندن،   ماہنامہ صدا لندن،   کمیو نٹی اخبار سالٹلے نیوز بر منگھم،   پند رہ روزہ جمہور آکسفورڈ،   ماہنامہ سجاد ما نچسٹر،  سہ ما ہی سفیر ما نچسٹر،   پند رہ روزہ خبر یں ما نچسٹر،   پند رہ روزہ آئینہ ما نچسٹر،   سہ ما ہی سیپ اولڈھم،   ماہنامہ عقاب۔ بر یڈ فو رڈ،   ماہنامہ خو شبو بر یڈ فو رڈ،   ماہنامہ پاکستان پو سٹ۔ لندن۔ ۸؎

ان اخبارات و رسائل میں بیشتر پا کستانیوں کی جا نب سے جا ری کر دہ تھے۔ کیوں کہ برطانیہ میں اردو صحافت و کتابوں کی اشاعت میں پا کستانی آ گے آ گے رہے۔ بعد میں ہندوستانیوں کی جا نب سے بھی اردو اخبارات و رسائل جا ری ہونے لگے۔

۱۹۶۰ ء کے بعد برطانیہ سے جا ری ہونے والا پہلا اردو اخبار ہفتہ وار ’’ مشرق ‘‘ تھا۔ جو یکم اپر یل ۱۹۶۱ ء کو لندن سے محمود ہاشمی کی اد رت میں شائع ہو ا۔ یکم مئی ۱۹۶۳ء کو بر منگھم سے ہفتہ وا را یشیا ء کا اجرا ء ہو ا۔ نو مبر ۱۹۶۴ ء کو استاد بٹٹنگی نے ماہنامہ ’’ آ فاق ‘‘ نو ٹنگھم سے نکالا۔

۱۴ جو لا ئی ۱۹۱۹ء کو عبد الرز اق نے لندن سے ہفتہ وار ’’ وطن‘‘ جا ری کیا۔ جو انگلستان میں کا فی مقبول رہا۔ ۱۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو میر خلیل الر حمن نے لندن سے اخبار ’’ جنگ‘‘ شروع کیا۔ ۱۹۷۶ ء میں مقصود الٰہی شیخ اور فریدہ شیخ نے بریڈ فورڈ سے ہفتہ وار ’’ را وی ‘‘ جا ری کیا۔ اس ہفتہ وار میں انگلستان کے ادیبوں کی تخلیقات بھی شائع ہو تی رہیں۔ ۱۹۶۵ ء میں رمیش سونی نے لندن سے ہفتہ وار ’’ ملاپ ‘‘ شروع کیا۔ اسی عنوان سے ہند و ستان میں دہلی،   جالند ھر اور حیدر آباد سے اخبار نکلتا ہے۔ ’’ ملا پ‘‘ کے مالکین کو جب یہ علم ہوا کہ ان کے اخبار کے نام سے لندن میں اخبار جا ری کیا گیا ہے تو وہ پریشان ہو اٹھے اور کسی طرح رمیش سونی کو نام بدلنے پر آ ما دہ کر تے رہے۔ لیکن ہند وستان کا قا نون لندن والوں پر لا گو نہیں ہوتا اور میش سونی نے بھی رجسٹریشن کے بعد ہی اخبار جا ری کیا تھا۔ ’’ ملا پ‘‘ ہند و ستان کے مالکین اور رمیش سونی کے در میان جا ری تنازعہ کے بارے میں سلطان محمود اپنی تصنیف ’’ برطانیہ میں اردو صحافت ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ روز نا مہ ’’ ملا پ‘‘ دہلی کے ارباب حل و عقد نے رمیش سونی کو اس امر پر آ ما دہ کرنے کی بے حد کوشش کی کہ وہ ’’ ملاپ ‘‘ کا نام نہ برتیں۔ لیکن ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق رمیش سونی ان کی مشکلات میں اضافہ کر تے چلے گئے۔ ’’ تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ روز نا مہ ’’ ملاپ‘‘ دہلی والوں کو بھی لندن سے اخبار نکالنا پڑ ا۔ چنانچہ  انہوں نے لندن سے ۱۴ جو لائی ۱۹۷۲ سے روز نامہ ’’ ملاپ ‘‘ کا ہفت روزہ ایڈیشن ( انٹرنیشنل ) لندن‘‘ کے نام سے اشاعت کا آغاز کیا۔ تب سے یہ اخبار یعنی اصلی ’’ ملاپ ‘‘ بھی بڑی با قاعدگی سے شائع ہو رہا ہے ‘‘۔ ۹؎

’’ ملاپ ‘‘ کے اس جھگڑے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافت کی دنیا میں نام کی کتنی اہمیت ہے۔ ۱۹۷۰ ء میں گر نام سنگھ سانی نے ہفتہ وار ’’پر تا پ‘‘ شروع کیا۔ یہ برطانیہ میں دو سرا ہند وستانی اردو اخبار تھا۔ برطانیہ میں اردو اخباروں کے اجراء میں رسہ کشی کو بیان کر تے ہوئے سلطان محمود لکھتے ہیں :

’’ برطانیہ میں اردو کے کسی اخبار کی شہ رگ کاٹنے کا مخالف عناصر نے جو آ سان تر ین اور موثر نسخہ ایجاد کر رکھا ہے۔ وہ یہ ہے کہ متعلقہ اخبار کے کاتبوں کو بغاوت پر اُکسا یا جائے۔ چنانچہ ما رچ ۱۹۷۵ ء میں ’’ پر تاپ ویکلی کا اکلو تا کا تب بے مروّتی ‘‘ پر اُتر آ یا۔ اُسے کسی اور جگہ سے زیادہ تنخو اہ کی پیش کش ہو ئی تو وہ ’’ پر تاپ ویکلی‘‘ کو خیر باد کہہ گیا۔ اس صد مے کی تاب نہ لا کر ۲۸ ما رچ ۱۹۷۵ ء کو ’’ پر تاپ ویکلی‘‘ بند ہو گیا ‘‘۔ ۱۰؎

’’ ملاپ ‘‘ اور ’’ پر تا پ‘‘ کے بعد بھی برطانیہ سے اردو اخبار ات و رسائل کے اجراء کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۹۷۲ء میں شمیم چشتی نے ماہنامہ ’’ گھرا نہ ‘‘ جا ری کیا۔ ۱۹۷۴ ء میں انعام عزیز کی ادا رت میں روز نامہ ’’ ملت ‘‘ کا اجراء عمل میں آ یا۔ ۱۹۷۶ء میں حبیب الر حمن نے ہفت وار ’’ آ زاد‘‘ جا ری کیا۔ اسی سال نصر اللہ خاں کی ادارت میں ہفتہ روزہ ’’ عوام‘‘ جا ری ہو ا۔ برطانیہ سے جا ری ہونے والے ماہنامہ جرائد میں شفق،   سکون،   سفیر،   روحانی ڈائجسٹ،   سویرا،   معنی،   دعوۃ الحق اور صراط المستقیم وغیرہ ہیں۔ برطانیہ سے جاری ہونے والے اردو اخبارات کے بارے میں تبصرہ کر تے ہوئے مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :

’’ یوں تو انگلستان سے کئی اردو ہفت وار اور ماہنامے نکلتے ہیں لیکن لندن سے دو اردو روز نا مے ’’ جنگ اور وطن ‘‘ بھی نکلتے ہیں۔ ہمیں افتخار عارف کے سا تھ روز نا مہ ’’ جنگ ‘‘ کے دفتر جانے کا موقع ملا۔ ’’ جنگ‘‘ لندن کے ایڈیٹر اشرف قاضی نہ صرف بہت تپاک سے ملے بلکہ نیوز ایڈیٹر قیصر امام اسٹنٹ ایڈیٹر زیڈ۔ یو۔ خان اور چیف رپورٹر ظہور نیا زی سے ہما را تعارف بھی کرایا۔ ہم نے ان کا پر یس بھی دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ جنگ ‘‘ میں چھپے بعض اشتہار ات کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ اردو کا اخبار چا ہے لندن سے نکلے یا مالیگاؤں سے وہ اپنے مزا ج اور کر دار کو بر قرار رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ’’ ملاپ ‘‘ بھی لندن سے نکلتا تھا۔ مگر اب نہیں نکلتا۔ ساؤ تھال میں ہند و ستان اور پا کستان کے سارے ادبی،   نیم ادبی اور غیر ادبی رسا لے مل جا تے ہیں ‘‘۔ ۱۱؎

لندن میں اخبار ات و ادبی رسائل کے علا وہ فلمی رسا لے بھی مقبول رہے۔ در اصل تارکین وطن کے لئے اپنے ملک میں بنی ہندی فلمیں تفریح کا ایک بڑا ذریعہ تھیں۔ ہند و ستانی فلمیں بہت مقبول تھیں اور ہندوستانیوں سے زیادہ پا کستانی ان فلموں کے دلدادہ تھے۔ سلطان محمود نے بر یڈ فو رڈ کے ایک عالم کے حوالے سے لکھا کہ :

’’ پا کستانیوں نے دیار فر نگ کے دیسی سینما گھروں میں جتنا وقت گزا را ہے اگر وہ اتنا ہی وقت عبا دت گزا ری اور حمد و ثنا میں صرف کر تے تو دوز خ اپنے لئے حر ام کر لیتے ‘‘۔ اقتصادی نقطۂ نظر سے میں یہ دعوی کرنے کی اجازت چا ہوں گا کہ میرے ہم وطن ہر ہفتے جتنی رقم برطانیہ میں فلم بینی پر اُڑاتے ہیں اتنی رقم سے پا کستان میں بڑی آ سانی سے ہر ہفتے ایک کار خانہ اور جد ید ترین قسم کا ہسپتال تیار ہو سکتا ہے ‘‘ ۱۲؎

دیسی فلموں کی تا رکین وطن میں مقبولیت صرف فلموں تک محدود نہیں رہی بلکہ اردو فلمی جرائد بھی عوام میں مقبول رہے۔ اس ضمن میں ہند و ستان کے مشہور اردو فلمی جرائد ’’ شمع‘‘ اور ’’روبی‘‘ کے برطانیہ میں ہزاروں خریدار تھے۔ اردو فلمی جرائد میں تا رکین وطن کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے برطانیہ میں فلموں کے ڈسٹری بیو ٹر جسونت سنگھ سدھونے ۱۹۷۰ء میں بر منگھم سے ماہنامہ ’’ تصویر‘‘ شائع کیا۔ اس فلمی رسالہ کے بارے میں سلطان محمود لکھتے ہیں :

’’ ماہنامہ ‘‘ ’’ تصویر ‘‘ بر منگھم،  برطانوی تاریخ میں اردو کا پہلا فلمی جریدہ اور برطانیہ میں بھا رتی صحافت کا سب سے زیادہ حسین اور معیاری شاہکار تھا جو کتا بت،   طباعت علم و ادب اور نفاست کے اعتبار سے پاکستانی اخبارات سے کسی طرح بھی کم تر نہ تھا بلکہ خوب صورتی کے لحاظ سے پا کستانی اخبارات سے با زی لے گیا تھا۔ یہ پہلا بھا رتی جریدہ تھا جسے قبول عام حا صل ہوا ‘‘۔ ۱۳؎

برطانیہ میں اردو صحافت کے اس جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کس حد تک برطانیہ میں قبول عام کا درجہ حا صل کر چکی ہے۔ ان میں سے بہت سے اخبار ات اب بند ہو چکے ہیں۔ لیکن جس ابتدائی زمانے میں برطانیہ میں فروغ اردو کے لئے انہوں نے کام کیا وہ لائق تحسین ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جبکہ ہا تھ کی کتا بت کا رواج تھا برطانیہ سے اتنی زیادہ مقدار میں نکلنے والے اردو کے اخبار،   رسائل و جرائد اس امر کی غمازی کر تے ہیں کہ وہاں صحافت کے ذریعہ اردو کو کا فی فروغ ملا۔

صحافت کے علا وہ ریڈ یو اور ٹیلی ویژن سے بھی برطانیہ میں اردو کو فروغ حا صل ہوتا رہا۔ ۱۹۴۲ ء سے ہی بی بی سی لندن ریڈیو نے اردو میں اپنے پر و گر ام شروع کرئے تھے۔ جو بر صغیر میں سنے جا تے تھے۔ لیکن ۱۹۶۰ ء کے بعد سے انگلستان کے مختلف شہروں میں بھی اردو نشریات کا آغاز ہوا۔ بی بی سی اردو سرویس کی ایک جانی پہچانی آواز رضا علی عابدی کی ہے۔ جنہوں نے ہندوستان اور پا کستان سے متعلق کئی دلچسپ پر و گر ام پیش کئے۔ آج بھی بی بی سی ریڈ یو بر صغیر میں اسی دلچسپی سے سنا جا تا ہے۔ بی بی سی اردو کی یہ نشریات انٹر نیٹ پر بھی بر اہ راست سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بی بی سی ارد و سر ویس ان دنوں سوشیل میڈیا کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اپنی ریڈیو نشریات کو فیس بک لائیو کے ذریعے براہ راست بھی پیش کر رہا ہے۔ بی بی سی اردو سر ویس کے  عہدیداروں میں مو جود اردو دانی کی ستائیش کر تے ہوئے مجتبیٰ حسین اپنے تجربات کو یوں بیان کرتے ہیں :

’’ ایک دن ہم بی بی سی میں اپنا انٹر و یو ریکارڈ کرانے گئے تو ہمارے دو ست اور بی بی سی کے پر و ڈیو سر مجیب صدیقی نے ہما را تعارف بی بی سی کے ایک انگریز عہدیدار سے کرا یا۔ ہم نے سو چا یہ انگریزی بولنے کا بہترین موقع ہے۔ لہذا ہم نے آ ؤ دیکھا نہ تا ؤ اُن پر اپنی انگریزی کا حملہ کر دیا اور لگے طرح طرح کے سوالات پوچھنے۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے سو چا تھا کہ ہماری اتنی سا ری انگریزی کے جوا ب میں بی بی سی کے انگریز عہدیدار مو صوف ضر ور اپنے مخصوص لہجہ میں انگریزی بو لیں گے اور اس کے جوا ب میں ہم پھر انگریزی بو لیں گے۔ اور یوں ہما را کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ لیکن ان انگریز عہدیدار نے اچانک نہایت فصیح اردو میں ہم سے کہا ’’ حضور والا ! آپ کھڑے کیوں ہیں ؟ تشریف رکھئے۔ یہ باتیں تو بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہیں۔ یہ انگریز عہدیدار تھے ڈیوڈ پیج جو بی بی سی کے اردو شعبہ کے سر بر اہ ہیں ‘‘۔ ۱۴؎

مجتبیٰ حسین کے تاثرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی بی سی اردو سرویس کے عہدیداروں میں اردو کا معیار کس قدر او نچا تھا۔ ریڈ یو کے علا وہ بی بی سی ٹیلی ویژن سے بھی اردو نشریات شروع ہوئیں۔ اکٹو بر ۱۹۶۵ء میں اردو اور ہندی پر مشتمل پر و گراموں کی ابتداء کی۔ اس پر و گر ام کو سب سے پہلے آل حسن مرحوم نے پیش کیا۔ اتوار کی صبح آ دھا گھنٹے کا پر و گر ام ’’ نئی زند گی نیا جیون ‘‘ کے نام سے ہوا کرتا  تھا۔ پر و گر ام پیش کرنے والوں میں سلیم شاہد اور مہندر کول بھی شا مل تھے۔ ۱۹۸۷ء میں یہ پر و گر ام بند ہو ا۔ ریڈ یو اور ٹی وی سے برطانیہ میں اردو زبان کو کا فی مقبولیت ملی۔

 

برطانیہ کی اردو انجمنیں اور ادارے

 

اردو بولنے والے اور اردو انجمنیں دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسی طرح برطانیہ اردو کی انجمنوں اور اداروں کا ملک بھی ہے۔ اردو انجمنوں کی بہتات کے بارے میں مزاحیہ انداز اختیار کر تے ہوئے مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :

’’ ایک صاحب نے بتا یا کہ برطانیہ میں ایک اندازے کے مطابق دس لا کھ اردو بولنے والے مو جود ہیں۔ اور کم از کم پا نچ سو اردو تنظیمیں ہیں ہم نے کہا دس لا کھ اردو بولنے والوں کی کم از کم بیس لا کھ اردو تنظیمیں تو ہونی ہی چائیں۔ ہما ری ہی مثال لیجئے۔ کہ اوّل تو ہم خود اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں۔ اس کے علا وہ ایک انجمن کے جنرل سکریٹری ہیں۔ دو سری انجمن میں ہم نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ تیسری انجمن سر پر ست کی حیثیت سے ہما ری پیش بہا خدمات سے استفا دہ کر تی ہے چو تھی انجمن میں ہم صد رکی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔ پانچویں انجمن کے ہم مشیر ہیں۔ ان کے علا وہ اور بھی کئی انجمنیں ہیں۔ جو ہم سے رہنما ئی سر پر ستی اور روشنی وغیرہ حا صل کر تی رہتی ہیں۔ غرض انجمن سا زی اور خانہ بر با دی اردو کلچر کی بنیا دی خصوصیات ہیں ‘‘۔ ۱۵؎

مجتبیٰ حسین کے اس مزاح سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ میں کئی ادبی سیا سی،   سماجی و مذہبی انجمنیں و تنظیمیں قائم ہیں۔ ۱۹۴۷ ء میں چو دھری اکبر خان نے لندن میں بزم تفریح کی بنیاد رکھی۔ جس میں ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا جا تا تھا۔ عبد العلیم صدیقی اس کے سر پر ست تھے۔ ڈاکٹر ایوب مرزا نے ۱۹۵۹ ء میں انجمن شمع فیض تشکیل دی۔ نو ٹنگھم میں مشاعرہ منعقدہ کیا جس میں فیض کو مدعو کیا گیا تھا۔ راجہ محمود صاحب کی صدا رت میں ۱۹۷۳ ء میں انجمن ترقی  اردو کی بنا ء پڑ ی۔ سید معین الد ین شاہ کچھ عرصہ تک اس انجمن کے معتمد رہے۔ اور شعری محفلیں منعقد کرتے رہے۔ اسی انجمن کے تحت لندن میں غالبؔ  کی صد سالہ بر سی منائی گئی۔ اپر یل ۱۹۷۸ء میں لندن میں اردو مجلس کا قیام عمل میں آ یا عباس زیدی انجمن کے معتمد ہیں۔ بزم کے لئے بیر سٹر غلامیز دانی،   نقی تنویر اور ابر اہیم رضوی اپنا تعاون پیش کر تے ہیں۔ ۱۹۸۱ ء میں لندن میں اردو مرکز کا قیام عمل میں آ یا۔ افتخار عا رف اس مر کز کے معتمد اعز ازی ہیں اس مر کزنے ہند و پاک،   امریکہ کنا ڈا اور یو رپ کے شعرا ء اور ادیبوں کو مد عو کر تے ہوئے شعر و ادب کی محفلیں منعقد کیں اردو مر کز کے زیر اہتمام کتا بوں کی اشا عت بھی عمل میں آئی۔ برطانیہ کی ایک اور سر کر دہ اردو تنظیم اردو مجلس یو کے ہے۔ اس انجمن کا پہلا اجلاس ۸ ؍ اپر یل ۱۹۷۸ ء کو لندن کے الا ئنیس ہال میں منعقد ہو ا۔ اردو مجلس کے با نیوں میں محمد عبد البا سط،   بیر سٹر غلامیز دانی،  بیر سٹر انور حسین،   سید مسعود علی،   نقی تنو یر اور نصیر اختر وغیرہ شا مل ہیں۔ بیر سٹر انور حسین اس انجمن کے پہلے صدر تھے۔ بیر سٹر غلامیز دانینے بھی اس کی صدا رت کی۔ اردو مجلس کے زیر اہتمام ۱۹۸۰ ء میں آل انگلینڈ اردو کا نفرس منعقد کی گئی۔ اردو مجلسنے اپنا ایک تر جمان ’’ حیا تِ نو ‘‘ بھی جا ری کیا۔ برطانیہ میں بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام ۱۹۸۴ ء میں لا یا گیا۔ ۱۹۸۵ ء میں انجمن کی پچا سو یں سالگرہ بین الاقوامی سطح پر منا ئی گئی۔ سید عا شور کا ظمی،   بخشی لا ئلپو ری،   قمر رئیس،   حکیم جا وید قر یشی اور فارغ بخارینے اس کے لئے اپنی خد مات پیش کیں۔ ۱۹۸۴ء میں مجا ہد تر مذینے فیض اکیڈ می قائم کی۔ اور فیض پر سمینار منعقد کیا۔ جس میں فیض کے علا وہ گو پی چند نا رنگنے بھی شر کت کی۔ برطانیہ کی دیگر اردو مجلسوں میں مجلس اقبا ل،  حلقہ فکر اقبال،   عر فان اردو،   حلقہ ادب،   اکیڈمی آف اردو اسٹڈیز علمی مجلس،   کل برطانیہ انجمن ترقی  اردو،   حلقہ ارباب ذ وق،   سمن زار،   برگ گل،   حیدر آباد دکن اسیو سی ایشن،   افر و ایشن لٹر یری سو سا ئٹی،   لٹر یری فو رم اور اسلا مک مشن وغیرہ شا مل ہیں۔ جن میں شعری اور ادبی محفلیں منعقد ہو تی رہتی ہیں۔ ان مجلسوں کے تحت بر صغیر کے نا مور شعراء اور ادیبوں کو برطانیہ مد عو کیا جا تا رہا۔ اور ان کی مہمان نو ازی کے ساتھ سا تھ یہاں ادبی محفلیں منعقد ہو تی رہیں۔ اور برطانیہ ہند و پاک کے شعراء اور ادیبوں کے لئے ایک مر کزی مقام بنتا گیا۔ بر صغیر سے جن شعراء اور ادیبوں کو برطانیہ مد عو کیا جا تا رہا ان میں سجا دظہیر،   فیض احمد فیض،   حفیظ جالندھری قد رت اللہ شہاب،   سبط حسن،   ابن انشا ء ملک راج آ نند،   کشور ناہید عصمت چغتا ئی،   علی سردار جعفری،   اختر الایمان،   کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ ،   کرشن چندر،   قرۃ العین حیدر،  گیان چند جین،   پروین شاکر،   احمد ندیم قا سمی،   حسن رضوی،   منیب الرحمن،   گوپی چند نارنگ،   قتیل شفائی صہبا لکھنو ی،  ضیا جالندھری،   مغنی تبسم،   شہر یار،   خلیق انجم مجتبیٰ حسین وغیرہ شا مل ہیں۔ بر صغیر کے نا مور شعراء اور ادیبوں کی مہمان نوا زی کر تے ہوئے برطانیہ کی ادبی مجلسوں نے اپنے ملک میں سر حدوں کے فرق کو مٹا دیا اور غیر منقسم ہند وستان کا ما حول پیدا کر دیا۔ یہ برطانیہ کی اردو تنظیموں کا اہم کارنامہ ہے۔ برطانیہ میں اردو تنظیموں کے علا وہ بعض مذہبی تنظیموں نے بھی فروغ اردو میں اپنی خد مات انجام دیں۔ ان تنظیموں میں اسلامک مشن اور اسلامک کلچرل سنٹر اور مسلم انسٹی ٹیوٹ شا مل ہیں۔

 

برطانیہ کے شاعر اور ادیب

 

برطانیہ میں اردو کے تیزی سے فروغ اور ادبی ما حول کی مقبولیت میں اضافہ کرنے والوں میں وہ شعراء اور ادیب شامل ہیں جنہوں نے برطانیہ میں مستقل سکو نت اختیار کر تے ہوئے وہاں کے ادبی ما حول کو رونق بخشی۔ لندن میں ابتداء ہی سے اردو کے نا مور شعراء اور ادیب مستقل یا عارضی طور پر سکو نت پذیر رہے ہیں۔ چنانچہ  لندن میں رالف رسل،   مشتاق احمد یوسفی،   زہرہ نگاہ عبد اللہ حسین،   اور افتخار عارف نے قیام کیا۔ احمد فراز،   فارغ بخاری اور شہرت بخاری نے اپنی عارضی جلا وطنی کے لئے لندن کا انتخاب کیا۔ ن۔ م راشد اور ابن انشاء نے اپنی زند گی کے آخری ایام لندن میں گذارے لندن،   بر منگھم اور انگلستان کے دیگر شہروں میں منعقد ہونے والی چھو ٹی بڑی شعری محفلوں میں کثیر تعداد میں شعراء اور ادیب شر یک ہو تے رہے۔ ان میں سحاب قزلباش،   اکبر حیدر آبادی،   عقیل دا نش،   اطہر راز،   میر شبیر،   اظہر لکھنوی،   راج کھیتی،   سو ہن را ہی،   صدیقہ شبنم،   محسنہ جیلانی،   فیر و زہ جعفر،   موج فرا زی،   طلعت سلیم،   حضرت شاہ،   مجیب ایمان،   عبد الرحمن بز می،   عطا جالندھری،   جوہر زاہر ی، سلطان الحسن فاروقی،  باقر نقوی،   سعید اختر درانی،   صفی حسن،   ساقی  فاروقی ،  بخش لائلپوری،   عاشور کاظمی،   خالد یوسف،   سجاد شمسی،  حسن اجمل مسرت،   حکیم غلام نبی،   غلام علی بلبل،  سلطان غوری محمود دیوان،   عامر مو سوی،   شاہین صدیقی،   وقار لطیف،   نجمہ عثمان،  حمیدہ معین رضوی،   اعجاز احمد اعجاز،   بے تاب سو ری،   پر وین مرزا، چمن لال چمن،   رحمت قرنی،   خواجہ محمود الحسن،   منیر دہلوی،   عبد الحلیم شرار اور زہرہ نسیم وغیرہ شا مل ہیں۔ مجتبیٰ حسین اپنے دورۂ برطانیہ کی یادوں کو تا زہ کر تے ہوئے وہاں ملنے والے شعراء اور ادیبوں کا ذکر یوں کر تے ہیں :

’’ اردو مرکز اور اس کے سکریٹری افتخار عارف کا ذکر پھر کبھی تفصیل سے کر یں گے۔ یہاں اتنا بتا دینا ضر وری سمجھتے ہیں کہ پکا ڈلی سر کس جب بھی جا تے تھے تو اردو مرکز میں وہ ضرور ٹھہرتے تھے۔ کیوں کہ یہاں احمد فر از،   شہرت بخاری،   فارغ بخاری اور کئی ادیبوں کے علا وہ اردو کے کئی رسالوں اور اخبارات کے مدیروں سے ملاقات ہو جا تی تھی۔ ان کے علا وہ لندن میں جن ادبی شخصیتوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں پر وفیسر ڈیوڈ میتھیوز،   سحاب قز لباش،   اکبر حیدر آبادی،   یاور عباس،  رضا علی عابدی وقار لطیف،   حسن عسکری،   حبیب حیدر آبادی،   صدیقہ شبنم، عامر مو سوی،   دھرم پال جی،   سوہن را ہی،   راج کھیتی،   عدیل صدیقی،   ایوب اولیاء،   باقر نقوی،   معین الدین شاہ،   چاند کرن ،شمس الدین آغا،   فر دوس،   عزیز الد ین احمد،   مصطفی شہاب مر یم کاظمی اور کرشن گو لڈ قا بل ذکر ہیں۔ ان احباب کی عنایتوں اور محبتوں سے ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم اپنے گھر میں نہیں ہیں۔ اسی لئے زیادہ خوش و خرم اور آ رام سے ہیں ‘‘۔ ۱۶؎

لندن میں مقیم اردو شعراء اور ادیبوں کی اس طویل فہرست سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دیار غیر میں اردو والوں نے کس قدر اردو کو اپنے گلے سے لگا رکھا ہے۔ آج اردو اپنے ہی گھروں سے نکالی جا رہی ہے۔ اور اردو والے اردو سے سو تیلا سلوک کر رہے ہیں۔ اردو کے نام پر اردو کی رو ٹی کھانے والے اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں پڑھا رہے ہیں۔ اور فروغ اردو کے جلسوں میں ز ور و شور سے اردو بچانے کی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ ایسے دو رخی ماحول میں برطانیہ کے یہ اردو شعرا ء اور ادیب قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے ملک میں انگریزی زبان کے مد  مقابل چراغ اردو کی لو کو بلند رکھا۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں ہفتہ کے اواخر میں اور خاص مواقع پر شعری محفلیں جمتی رہتی ہیں۔ حبیب حیدر آ با دی لندن میں ہونے والے مشاعروں کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ:

’’ لندن میں ہر ہفتے کہیں نہ کہیں کو ئی نہ کو ئی مشاعرہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ لندن تو فیض احمد فیضؔ کا سسر ال ہے۔ ان کی بیگم کا تعلق یہیں سے ہے۔ فیضؔ  اکثر لندن آ تے رہتے ہیں کبھی کبھار یہاں کے مشاعروں میں بھی شر یک ہو جا تے ہیں۔ زہرہ نگاہ پا کستان کی مشہور گلو کار شاعرہ بھی لندن ہی میں رہتی ہیں اور ایک دو بار ’’ انہیں مشاعروں میں غزل سرائی کر تے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ ہند و پاک کی ایک اور مشہور شاعرہ سحاب قزلباش بھی لندن میں رہتی ہیں۔ ۔ ۔کبھی کبھار یہ بھی یہاں کے مشاعروں میں حصہ لیتی ہیں ‘‘۔ ۱۷؎

لندن کے شاعروں اور مشاعروں کا احوال مزاحیہ انداز میں پیش کر تے ہوئے مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :

’’سنا ہے کہ لندن میں اب آل انگلینڈ مشاعرے بھی منعقد ہو تے ہیں۔ مقامی شاعروں اور بیرونی شاعروں کا چکر بھی وہاں چلتا ہے۔ اب انگلستان کے شاعروں کا مو از نہ انیسؔ و دبیرؔ  اور ’’ معرکہ انشاء و مصحفی ’’ بھی ہونے لگا ہے۔ یہ بڑی خوش آئند باتیں ہیں۔ اردو ادب میں پنپنے کی یہی تو باتیں ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی میں میں ہما ری ملاقات برطانیہ کے ایک اردو شاعر ریاض بر منگھوی سے ہو ئی تھی۔ دو گھنٹوں تک اپنا کلام ولایت نظام ہمارے گوش گذار کرنے کے بعد اپنے دو برطانوی شاعر دو ستوں فیض بر یڈ فو رڈ وی اور آ تش لیک ڈسٹرکٹوی کے مجموعہ ہائے کلام کے اعزا زی نسخے بھی ہمیں سو نپے اور خواہش کی ہے کہ ہم اپنی زرین رائے سے انہیں مطلع فر مائیں ‘‘۔ ۱۸؎

لندن کے شاعروں اور مشاعروں کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں شعر و شاعری کی فضا ء بر صغیر سے کہیں زیادہ ساز گار ہے۔ برطانیہ کے کئی شاعروں نے اپنے مجموعہ کلام خود شائع کروائے۔ کیوں کہ وہاں انہیں اپنے کلام کی اشاعت کے لئے کسی ادا رہ یا اکیڈمی سے تعاون نہیں ملتا تھا۔ برطانیہ میں شاعروں کے علا وہ اردو کی دیگر نثری اصناف میں لکھنے والوں کی بھی اچھی تعداد مو جود ہے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اردو کے اہم افسا نہ نگاروں میں مقصود الٰہی شیخ،   جتندر سنگھ بلّو،   چاند کرن،   محسن شمسی،   محسنہ جیلانی،   فیر و زہ جعفر،   صفیہ صدیقی،   قیصر تمکین،   ابو الخطیب اور حمیدہ معین رضوی قا بل ذکر ہیں۔ اردو کے ایک نا مور محقق ضیا ء الد ین شکیب ان دنوں لندن میں مقیم ہیں۔ اردو شعر و ادب پر ان کے محققانہ اور عالمانہ مضامین برطانیہ کے علا وہ بر صغیر کے اہم ادبی رسائل کی زینت بنتے ہیں۔ انگلستان کے شعر و ادب اور وہاں کے ادبی ما حول کے تذکروں پر مبنی چند ایک کتا بیں مشہور ہیں۔ جن میں شریف بقاء کی ’’ برطانیہ میں اردو،   حبیب حیدر آ بادی کی ’’ انگلستان میں،   جو ہر زاہری کی ’’ شعر ائے لندن ‘‘ ہیں۔ رضا علی عابدی نے ایک کتاب ’’ کتب خانہ ‘‘ لکھی جس میں ہند و پاک کے اہم کتب خانوں کا تعارف پیش کیا ہے۔ را لف رسل کی اردو سیکھنے کی کتا بیں،   محمود ہاشمی کے اردو قاعدے برطانیہ سے شائع ہونے والی دیگر اہم کتا بیں ہیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دیگر محققین میں انڈیا آ فس لائبر یری کے سلیم قریشی،   بر ٹش میوزیم لائبر یری کے قاضی محمود الحق،   ڈاکٹر خالد حسن قا دری،   ڈاکٹر فا خر حسین اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی مشہور ہیں۔ برطانیہ میں اردو کی ترقی  سے انگریزی ادب بھی متاثر ہو ا۔ اردو ادب کو انگریزی میں متعارف کر وا یا گیا۔ را لف رسل،   ڈیوڈ میتھیوز،   کر سٹو فر شیا کل،   وکٹر کیر ین محمود جمال اور رافع حبیب نے اردو کے شعراء کو انگریزی میں متعارف کرا یا۔ محمود جمال نے ’’ ما ڈرن اردو پو ئٹری ‘‘ کے نام سے اپنی تصنیف میں اردو شعراء کو انگریزی میں متعارف کر وا یا۔ رافع حبیب نے ن۔ م راشد کی نظموں کا انگریزی میں تر جمہ کیا۔

برطانیہ کے بعض ریلوے اسٹیشنوں کے نام انگریزی کے سا تھ اردو میں بھی تحریر کر دہ ہیں۔ بر یڈ فو رڈ اور سا ؤ تھال میں دکانوں کے سائین بورڈوں پر اردو دکھا ئی دیتی ہے اس طرح مجموعی طور پر برطانیہ میں اردو ترقی  پذیر ہے۔ اور اس کے مستقبل کے بارے میں کسی قسم کی ما یو سی دکھائی نہیں دیتی۔ حبیبؔ  حیدر آ بادی برطانیہ میں اردو کی صورتحال پر طائر انہ نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ اسکول آف اورینٹل اینڈ آ فر یکن اسٹڈیز،   انڈیا آ فس لا ئبر یری اور برٹش میوزیم لائبریری کی سا ٹھ ہزار اردو کتا بیں اور بے شمار نا در مخطوطات و قلمی نسخے،   اردو مرکز کے علا وہ سینکڑوں ادبی انجمنیں،   آئے دن منعقد ہونے والے ادبی اور شعری اجتماعات،  نا مور شاعروں اور ادیبوں کی لندن میں مو جود گی،   مقامی ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات میں روز افزوں اضافہ،   اردو بولنے والوں کی اپنی زبان سے دلچسپی،   بے لوث اور مخلص اردو کے خد مت گذاروں کی انگلستان کے اکثر شہروں میں مو جود گی،   اس کولوں کا لجوں اور یو نیور سٹیوں میں اردو تعلیم کا انتظام،   ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اردو کے پر و گر ام،   روز ناموں،   ہفتہ وار اور ماہناموں کا اجراء،   ہند و پاک،   امریکہ اور کینڈا سے اردو کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی آمد و رفت،   مرکزی یا مقامی محکموں سے اردو کی انجمنوں کی ما لی امداد اور انگلستان سے اردو کا تاریخی گہرا رشتہ لندن کو اردو کا تیسرا مرکز بنائے ہوئے ہے۔ اور بقول با بائے اردو مولوی عبد الحق ’’ ہم انگلستان کے رہنے والے اردو کے گاڈ فادر بنے ہوئے ہیں ‘‘۔ ۱۹؎

حبیبؔ  حیدر آ بادی نے مختلف عنوانات کے تحت برطانیہ میں ہو رہی اردو کی ترقی  کا تذکرہ کر تے ہوئے مولوی عبد الحق کے جس قول پر اپنی بات ختم کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بر صغیر کے بعد اردو کا اہم مرکز برطانیہ بن گیا ہے۔ جہاں ہند وہ پاک کے ادیب اپنی سرحدوں کی قید سے آ زاد مل بیٹھتے ہیں۔ اور شمع اردو کی روشنی کو بلند کر تے ہیں۔ آج برطانیہ،   امر یکہ،   کنا ڈا اور یو رپ کے کئی شہر اردو کی نئی بستیاں بن گئے ہیں۔ اور اردو ایک عالمی زبان بن گئی ہے۔

حبیبؔ  حیدر آ بادی برطانیہ کے ایسے ہی اردو ما حول کی پید اوار ہیں ہند وستان سے برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے اپنی تحریروں اور شاعری سے برطانیہ کے شعر و ادب میں قا بل لحاظ اضافہ کیا۔ زیر نظر کتاب کے آئندہ ابو اب میں حبیبؔ  حیدر آ بادی کا بہ حیثیت مضمون نگار،   انشائیہ نگار،   خاکہ نگار،   مزاح نگار،   نقاد و شاعر کے طور پر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

 

حوالے

 

۱؎        مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے مر تبہ حسن چشتی۔ دہلی ۲۰۰۳ ء۔ ؎ص ۱۲۷

۲؎       محمد ایوب فاروقی۔ مضمون،   داخلہ پا لیسی ’’ روز نا مہ منصف۔ قد یم

۳؎       حبیب حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔  حیدر آباد ۱۹۸۱   ص ۲۵

۴؎       حبیب حیدر آبادی۔ رہ ورسم و آشنائی       دہلی ۱۹۸۸ ء    ص۸۱

۵؎       حبیب حیدر آبا دی۔ رہ و رسم و آشنائی۔                       ص ۸۳

۶؎       مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے۔                    ص ۱۳۰

۷؎       سید عاشور کاظمی۔ بیسو یں صدی کے اردو اخبارات و رسائل مغربی دنیا میں۔ دہلی۔ ۲۰۰۲ء۔ ص ۱۶

۸؎       بحوالہ۔ بیسو یں صدی کے اردو اخبارات ورسائل مغربی دنیا میں۔      ص ۷۔ ص ۸

۹؎       سلطان محمود۔ برطانیہ میں اردو صحافت۔     لاہور ۱۹۷۸ ء    ص ۱۲۲

۱۰؎      سلطان محمود۔ برطانیہ میں اردو صحافت۔                     ص ۱۲۴

۱۱؎       مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے۔                    ص ۱۶۰

۱۲؎      سلطان محمود۔ برطانیہ میں اردو صحافت۔                     ص ۱۲۵

۱۳؎      سلطان محمود۔ برطانیہ میں اردو صحافت۔                     ص ۱۲۶

۱۴؎      مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے۔                    ص ۱۵۸

۱۵؎      مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے۔                    ص ۱۵۸

۱۶؎      مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے۔                    ص ۱۵۹

۱۷؎      حبیبؔ  حیدر آبا دی۔ انگلستان میں۔                         ص ۲۲۱

۱۸؎      مجتبیٰ حسین۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے۔                    ص ۱۳۰

۱۹؎     حبیبؔ حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی                         ص۱۳۳

٭٭٭

 

 

 

 

 حبیبؔ  حیدر آبادی حا لات زندگی فن اور شخصیت

 

 

حیدر آباد ایک تہذیبی شہر ہے۔ اپنی گنگا جمنی تہذیب،   اردو زبان چار مینار و مکہ مسجد جیسی تاریخی عمارتوں،   ما در علمیہ جا معہ عثمانیہ اور یہاں کے لوگوں کی مخصوص معاشرت کے سبب ساری دنیا میں جا نا پہچا نا جا تا ہے۔ یہ شہر کئی تہذیبوں کو پروان چڑھانے کے بعد اپنی تا سیس کے چار سو سال مکمل کر چکا ہے۔ بانی حیدر آباد محمد قلی قطب شاہ نے جب اس شہر کی بنیاد رکھی تو خلوص دل کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا مانگی کہ

؎        میرا شہر لو گاں سوں معمور کر

رکھیا جوں توں در یا میں من یا سمیع

یعنی اے خدا تو میرے بسائے ہوئے اس شہر کو لوگوں سے ایسا آباد رکھ جیسے دریا میں مچھلیاں ہو تی ہیں۔ شائد وہ گھڑی قبو لیت دعا کی ہو گی کہ محمد قلی قطب شاہ کا بسا یا ہوا شہر ایسا آ باد ہوا کہ آج اس شہر کی تہذیب دنیا بھر میں اپنے اثر ات چھوڑ رہی ہے۔ قطب شا ہی فر ماں رواؤں نے اس شہر میں جو لسانی اور تہذیبی روایتیں چھوڑ ی تھیں اُنہیں آصف جاہی سلاطین نے آ گے بڑھایا۔ اور آ صف سابع میر عثمان علی خان کے آنے تک ان بادشاہوں نے جا معہ عثمانیہ،   عثمانیہ دوا خانہ، سا لار جنگ میوزیم،   ہا ئی کو رٹ،   عثمان سا گر،  حمایت سا گر،  اور دیگر کئی یادگاریں چھوڑ یں جن سے زمانہ آج بھی فیض اُٹھا رہا ہے۔ آج یہ سلا طین نہیں رہے لیکن اُن کے فیض کا در یا آج بھی جا ری وسا ری ہے۔ آ زادی کے بعد ریا ست حیدر آباد کا ہند یو نین میں انضمام عمل میں آ یا۔ بد لتے زمانے کے ساتھ حیدر آبادی تہذیب نے بھی ترقی  کی سمت قدم بڑھایا۔ اور آج زندگی کے ہر شعبے میں حیدر آبادی آگے ہیں۔

۱۸۵۷ ء کی جنگ آز ادی کے بعد ہند وستان میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ انگریز ہند وستان پر قابض ہو گئے۔ حیدر آباد میں ۱۹۴۸ تک اگرچیکہ نظام کی حکو مت قائم تھی لیکن سر سید اور دیگر مصلحین قوم نے لوگوں کے لئے نو شتہ دیوار پڑ ھ کر سُنا دیا تھا کہ اب جا گیر دارانہ دور ختم ہو چکا ہے۔ اور ہندوستان والوں کو زیور علم سے آراستہ ہو کر تلوار کے بجائے قلم کو اپنا ہتھیار بنا نا ہو گا۔ حیدر آبادی نظام میر عثمان علی خاں آ صف سابع نے اپنی فر است اور دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے بیسویں صدی کی دوسری دہا ئی میں حیدرآباد میں جا معہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لا یا۔ اور لوگوں کے لئے اعلی تعلیم کے مواقع فر اہم کئے۔

جا معہ عثمانیہ سے فارغ ہونے والے لائق سپو توں نے نہ صرف اُس وقت کی ریا ست حیدر آباد کے لئے عظیم خد مات انجام دیں بلکہ آ زادی کے بعد ملک و بیر ون ملک اپنی علمی و ادبی خد مات سے نہ صرف اپنا اور مسلمانوں کا نام روشن کیا بلکہ اپنے تہذیبی شہر حیدرآباد کو بھی سرخ رو کیا۔ عظیم مادر علمیہ جا معہ عثمانیہ سے فارغ ہونے والے حیدر آباد دکن کے ایک لائق سپوت محمد عبد القا در حبیب حیدر آبادی ہیں۔ جنہوں نے اس جا معہ سے فراغت کے بعد ترک وطن کیا۔ اور برطانیہ میں مستقل سکو نت اختیار کی۔ اور اپنی علمی و ادبی خد مات سے وہاں فروغ اردو کے لئے نما یاں خدمات انجام دیں۔ حبیبؔ  حیدر آبادی جیسے فارغین جا معہ عثمانیہ جب دنیا کے دیگر مقامات پہونچے تو اُنہوں نے اردو کو فروغ دیا۔ اور اردو کی نئی بستیاں آ باد ہونے لگیں۔ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ما یہ ناز سپوت اور حبیبؔ حیدر آبادی کے عزیز ڈاکٹر او صاف سعید قو نصل جنرل ہند شکاگو امریکہ نے ۱۵؍ ستمبر ۲۰۰۵ء کو جدہ میں منعقدہ گولڈن جو بلی مشاعرے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کی بین الا قو امی مقبولیت کے بارے میں کہا کہ :

’’ اردو اب کسی خاص علا قے کی زبان نہیں۔ یہ ہر اعتبار سے بین الاقوامی زبان بن چکی ہے۔ اور چہار دانگ عالم میں اس کی شہرت کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ امر یکہ،   برطانیہ،   فر انس،   اور کینڈا سمیت متعدد یورپی اور مغربی ممالک میں اُردو کی شمع پو ری آب و تاب کے سا تھ چمکتی نظر آ رہی ہے۔

مغربی یو نیور سٹیوں اور اکیڈ میوں میں اُردو کی تعلیم کا با قا عدہ بند و بست ہے۔ ۔ ۔ اردو کی ہر دل عزیزی اور بڑھتی ہوئی مقبولیت اور دنیا بھر میں آئے دن اردو کی نئی بستیوں کے پیش نظر ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ع سا ری دنیا میں دھوم ہماری زبان کی ہے ‘‘ ۱؎

ڈاکٹر او صاف سعیدنے اردو کی جن نئی بستیوں کاذ کر کیا اُن میں ایک اہم بستی برطانیہ ہے۔ جہاں گذ شتہ دیڑ ھ سو سال سے اُردو کا فروغ جا ری ہے۔ برطانیہ میں حیدرآباد دکن سے ترک وطن کر کے آنے والوں میں ایک نما یاں نام حبیبؔ  حیدر آبادی کا ہے۔ جنہوں نے زائد از تیس سال وہاں گذارے۔ اور اپنی انشا پردازی،   شاعری اور فروغ اردو خد مات کے ذریعہ بہت نام کما یا۔ جسٹس آف پیس کہلائے اور حیدر آبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت بن گئے۔ ذیل میں حبیبؔؔ ؔ حیدر آبادی کے حا لات زندگی پیش کئے جا رہے ہیں۔

 

آباء  و اجداد

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کے آباء و اجداد کا تعلق گلبرگہ کے مشہور بز رگ چندا حسینی سے ملتا ہے۔ جن کے جد امجد شاہ چندا حسینی تھے۔ اُن کا مزار گو گوئی شریف گلبرگہ میں واقع ہے۔ آپ کا سلسلہ نصب حضرت نظام الد ین اولیاءؒ سے ملتا ہے۔ حضرت شاہ چندا حسینی حضرت سید محمد گیسو درازؒ بندہ نو از کے صاحبزادے تھے۔ جن کا مزار شریف گلبرگہ شریف میں مرجع خاص و عام ہے۔

 

خاندان

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کے دادا شیخ عبد القا در چندا حسینی کے صاحبزادے تھے۔ چندا حسینی کے جدّ امجد حضرت سید جلال الد ین المقلب شاہ چندا حسینی تھے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کی دادی حضرت لاڈ لے مشائخ کی اولاد میں تھیں۔

 

والدین

 

شیخ عبد القا در کی اولاد میں ایک صاحبزادے شیخ محبوب قادری تھے۔ جو حبیب حیدر آبادی کے والد تھے۔ یہ سر رشتہ تعلیمات سے وابستہ تھے اور اس اسکول میں ٹیچر تھے جہاں کے صدر مد رس شو کت علی خاں فانیؔ  تھے۔ شیخ محبوب قادری دینیات اور تاریخ اسلام کے درس دیتے تھے۔ اور لوگ اُن کے درس سے فیضیاب ہو تے تھے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کے والد پیشہ تدریس سے وابستہ رہنے کے علا وہ کا رو بار بھی کر تے تھے۔ اُن کی برف کی دکان تھی جس کا نام ’’ حبیب برف لیمن ڈپو ‘‘ تھا۔ اس دکان کی حیثیت ٹی ہا ؤس یا کا فی ہا ؤس کی سی تھی جہاں شعراء اور ادیب کثرت سے آ تے تھے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کی والدہ کا نام حسینی بیگم تھا یہ ایک خدا ترس خاتون تھیں۔ اُن کے والد یعنی حبیبؔ  حیدرآبادی کے نا نا کا نام حا جی احمد تھا جو بڑے متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔ اور کا ٹھیا واڑ کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کے والد نے سلسلہ قادریہ میں مو لا نا سید محمد بادشاہ حسینی قادری معتمد مجلس علمائے دکن کے ہا تھ پر بیعت کی تھی۔

 

پیدائش

 

حبیبؔ  حیدر آ بادی ۱۶؍ اپریل ۱۹۲۹ ء مطابق ۲۹ شو ال المکرم ۱۳۷۴ ء بروز چہار شنبہ کو حیدر آ باد میں پیدا ہوئے۔ حبیبؔ حیدر آبادی نے بھی اپنے مضمون ’’ اپنے بارے میں ‘‘ اپنا تاریخ پیدائش ۱۶؍ اپر یل ۱۹۲۹ ء ہی لکھا۔ جبکہ اُن کی اہلیہ صدیقہ شبنم نے ’’ راوی ‘‘ میں شائع شدہ مضمون ’’ میرے شوہر میری نظر میں ‘‘ میں اُن کا تاریخ پیدائش ۲۹؍ اپریل ۱۹۲۹ ء لکھا۔ لیکن قرین قیاس ہے کہ قمری تاریخ۲۹؍ شوال کو سہواً اُنہوں نے ۲۹؍ اپریل قیاس کیا ہو۔ لیکن صحیح تاریخ ۱۶؍ اپر یل ۱۹۲۹ ء ہی ہے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کے والدین متوسط غریب تھے۔

 

نام

 

۱۶؍ اپریل ۱۹۲۹ ء کو الحاج مولوی شیخ محبوب قا دری اور حسینی بیگم کے گھر جس لڑکے نے آنکھ کھو لی اُس کا نام محمد عبد القا در رکھا گیا۔ لیکن محمد عبد القادر نے آ گے چل کر اپنا تخلص حبیبؔ  اختیار کیا۔ اور دنیائے ادب اور خاص طور سے انگلستان کی اردو ادب کی تاریخ میں حبیبؔ  حیدرآبادی کے نام سے مشہور ہوئے۔ اور اپنے نام کے ساتھ حیدر آ بادی کی اضافت لگاتے ہوئے اُنہوں نے حیدر آ با دی تہذیب کا نام روشن کیا۔

 

بھا ئی بہن

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کے تین بھا ئی وحید،   قدیر اور نعیم اور تین بہنیں عزیزہ غوثیہ اور رشیدہ ہیں۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کے سا تھ اُن کے چھوٹے بھا ئی قدیر بھی برطانیہ گئے تھے۔ جبکہ بہن عزیزہ یہیں حیدرآباد میں مقیم ہیں۔

 

بچپن

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کے والد ین کا سلسلہ نسب دکن کے بزرگ خاندانوں سے ملتا ہے۔ اس لئے ابتداء ہی سے اُن کی پر ورش دینی ما حول میں ہو ئی۔ والد کے دوست فانیؔ  مرحوم کی شفقت اور والد کی تر بیت میں انہیں حصول علم کا شوق پیدا ہوا۔ اور اُن کی تر بیت دینی ما حول میں ہونی شروع ہوئی۔ بچوں کی جس ماحول میں تر بیت ہوتی ہے وہ اُسی طرح کے کھیل اپنا تے ہیں۔ اپنے بھا ئی کے بچپن کے کھیلوں اور مشاغل کے بارے میں اُن کی بہن عزیزہ لکھتی ہیں :

’’ بچپن ہی سے اُنہیں علماء بزرگان دین اور مشائخین کا ما حول ملا۔ جس کی بہتر ین خصوصیات کو وہ اپنا تے رہے۔ اُسی زمانے سے وہ قوالی کے شوقین تھے۔ کبھی وہ ابا جان قبلہ کی شیر وانی اور شملہ کو زیب تن کر لیتے۔ اور ہم بچوں کو اپنا مر ید تصور کر تے ہوئے قوالی کرواتے۔ اُن کے ایک دوست قوال بنتے قوالی کے مندرجہ ذیل اشعار اُنہیں بہت پسند تھے۔

اجی مورے لال کچھ ایسا رنگنا

جو دیکھے منہ تکنا تکنا

ہا تھ پکڑ کر بھول نہ جا نا

لاج ہماری رکھنا رکھنا

ہمارے پیر و مر شد کو وجد بھی آ تا جس کے ساتھ ہی وہ کھڑے ہو جا تے۔ تعظیماً ہم سب کو کھڑا ہو نا پڑ تا۔ آ خر میں نذرانے پیش کرنے کا حکم ہو تا۔ جس کی تعمیل ضروری تھی ‘‘۔ ۲؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کے بچپن کے کھیل اور مشاغل مو لا نا ابو الکلام آزادؔ  کے بچپن کے کھیلوں سے مشابہ تھے۔ وہ اپنے والد کی پگڑی باندھ کر بہنوں کے سا منے بہت بڑے مقرر ہونے کا کھیل کھیلتے تھے۔ آ گے چل کر مو لا نا آ زاد بہت بڑے قومی رہنما بنے۔ اور حبیبؔ  حیدرآبادی نے بھی علم و عمل سے بہت نام کما یا۔

 

ابتدائی تعلیم و تر بیت

 

زمانے کے دستور کے مطابق حبیبؔ  حیدر آبادی کی ابتدائی تعلیم و تر بیت گھر پر ہوئی اور والد جناب شیخ محبوب قادری سے اردو۔ فارسی۔ عربی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی۔ چا در گھاٹ حیدر آباد کے تحتانیہ اور وسطانیہ اسکولوں میں تعلیم حا صل کی۔ اسکول میں وہ تقریری اور تحریری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔ اور اپنی قابلیت کے جو ہر دکھا تے تھے۔

حبیبؔ  حیدر آبادی کو بچپن ہی میں حضرت خواجہ حسن نظامی،   حضرت سید محمد بادشاہ حسینی،   ڈاکٹر سید محی الد ین قادری زوؔر اور مشہور رباعی گو شاعر امجدؔ حیدر آبادی سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ ان بز رگوں کے فیض تر بیت سے حبیبؔ  صاحب کی اردو دانی کو جلاء ملی۔

 

بچپن کی یا دیں

 

حبیبؔ  حیدر آبادی نے بچپن ہی سے اپنی قابلیت کے جو ہر دکھانے شروع کر دئے تھے۔ آ ٹھ سال کی عمر میں انجمن اتحاد اطفال کے نام سے ایک ادارے کی بنا ڈالی۔ بہا در یار جنگ اُس بزم میں شر یک رہتے تھے۔ بزم ادب کاچی گوڑہ اور بزم احباب سے بھی اُن کا تعلق تھا۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کے بچپن کے ایک دوست ڈاکٹر سدھیشور راج ہیں۔ وہ اپنے دوست حبیبؔ حیدرآبادی کے بچپن کے دنوں کی یاد کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ حبیب کے والد اور بھا ئی۔ میرے والد اور بھائی بہن سے اس قدر ما نوس تھے کہ اگر آج ان باتوں کو دہرا یا جائے تو لوگ اسے قصّہ سمجھیں گے۔ رو زہ رکھائی،  روزہ کشائی،   محرم میں،   بقر عید اور رمضان کی عید میں،   میں ہمیشہ مو جود رہتا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جبکہ حیدر آباد میں پر دہ کا کا فی رواج تھا۔ لیکن حبیبؔ کی والدہ بڑی آ پا،   عزیزہ،   غو ثیہ وغیرہ نے مجھ سے کبھی پر دہ نہ کیا۔ اگر حبیبؔ نماز کے وقت ہمارے گھر ہو تے تو مجھے خوب یاد ہے کہ میری والدہ اُن کے لئے جا نماز دیو ان خانے میں بچھا یا کر تی ‘‘۔ ۳؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کا بچپن سیاسی انقلاب کا زمانہ تھا۔ ہند وستان میں انگریزوں کے خلاف جد و جہد آ زادی زور پر تھی۔ بالآخر ۱۵؍ اگسٹ ۱۹۴۷ ء کو ہندوستان آ زاد ہو ا۔ لیکن آ صف سابع کے زیر اقتدار ریا ست حیدر آباد اب بھی خود مختاری کا دعویٰ کر رہی تھی۔ سر دار پٹیل حیدر آباد کو ہند یو نین میں ضم کرنے کی ساز ش کر تے رہے۔ اور بالآخر پو لیس ایکشن کے خو نیں ڈرامے کے ذریعہ حیدر آبادکوہندوستان میں ملا لیا گیا۔ اُس وقت حیدر آباد کی سیاست پر بہا در یار جنگ چھائے ہوئے تھے۔ رضا کار تنظیم بنائی گئی تھی۔ قاضی پو رہ کے صد رکی حیثیت سے حبیبؔ حیدر آ بادی کو چنا گیا۔ اُس وقت مسلمانوں کی نمائندہ جماعت انجمن اتحادالمسلمین تھی۔ جس کی صد ارت بہا در یار جنگ،   ابو الحسن سید علی مو لا نا مظہر علی کا مل اور قا سم رضوی وغیرہ نے کی۔ حبیبؔ حیدر آبادی کو قا سم رضوی کی جذباتیت بہت میل کھا تی تھی۔ بہادر یار جنگ کی شعلہ بیانی سے بھی وہ متاثر تھے۔ پولیس ایکشن کی یادوں کو بیان کر تے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ :

’’ ایک عرصے تک حیدر آباد ہندو مسلم اتحاد کا گہوارہ بنا رہا۔ ۔ ۔ بعد میں ہوا کچھ ایسی بگڑی نفرت اور اختلاف کے چشمے پھوٹے وہ زہر پھیلا کہ ساری فضاء مسموم ہو کر رہ گئی۔ اور پھر حیدر آباد پر پو لیس ایکشن ہو ا۔ اس کے بعد ہندو ستان کے اور علاقوں کی طرح اس ریا ست میں بھی فر قہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑ ے۔ ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کے ہوش و حواس جا تے رہے۔ آ چار یہ وینوبا بھا وے،   پنڈت سندر لال اور پنڈت نہر و کی کوششوں سے مسلمانوں میں پھر سے زندگی کے آ ثار پائے جانے لگے۔ حیدر آباد کی تعمیر ملت نے بھی میرے دوست خلیل اللہ حسینی کی قیادت میں حیدر آباد کے مسلمانوں میں نئے سرے سے اعتماد پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ‘‘۔ ۴؎

پو لیس ایکشن کی یا دوں اور اُس دور کے پر خطر ما حول میں حبیبؔ حیدر آبادی نے اپنا بچپن گذارا اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ ۱۹۵۰ ء میں حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنے دوست سدھیشور راج کے سا تھ مل کر بچوں کی مثالی کا نفرنس کی تھی۔

جس کے لئے اُس وقت کے ہند وستان کے گورنر جنرل راج گو پال چاری نے مزاحیہ انداز میں یہ پیغام دیا تھا۔

Presently we will have a govt of the children by the children and for the children.

ڈاکٹر زورؔ حبیب صاحب کو بہت چا ہتے تھے۔ چنانچہ اُن کے زیر سر پر ستی نکلنے والے ادارۂ ادبیات اردو کے پرچے ’’ بچوں کا سب رس ‘‘ کی ادارت حبیبؔ صاحب کو سو نپی گئی جسے انہوں نے بخوبی نبھا یا۔ خود حبیبؔ صاحب پرچے میں ادبی معمے دیا کر تے تھے۔ جون ۱۹۴۹ ء کے شمارے میں پہلا معمہ دیا گیا جس کے اشارے اور جواب اس طرح ہیں :

’’ —        حیوانِ ناطق ہے ( انسان )

علم — میں عرب مشہور تھے ( قیافہ )

مگر بلبل کے لب پر رہ گئی آہ و فغاں — ( باقی  )

یعنی سر — جھکانے کی دیر ہے ( نیاز )

—- بر سنا ایک محاورہ ( ہن ) ‘‘ ۵؎

بچپن کی ان ہی علمی و ادبی،   سیا سی و سما جی سر گرمیوں کے ساتھ حبیبؔ حیدر آبادی نے کا لج کی زندگی میں قدم رکھا۔

 

اعلیٰ تعلیم

 

حبیب حیدر آبادی نے ۱۹۴۷ ء میں دسو یں کا امتحان کامیاب کیا۔ ۱۹۴۹ ء میں دار العلوم کا لج سے انٹر کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے نظام کا لج میں داخلہ لیا جہاں سے ۱۹۵۲ ء میں بی کام کی ڈگری لی۔ حبیبؔ حیدر آ بادی اس دوران اپنے والد کی برف کی دکان پر بھی بیٹھا کر تے تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ :

’’ اسکول کی نو کری کے علا وہ میرے والد صاحب کی برف کی دکان تھی۔ جس کا نام ’’ حبیب برف لیمن ڈپو ‘‘ تھا۔ اس دکان پر میں صبح سے شام تک برف بیچا کرتا  تھا۔ اسکول اور کا لج کے اوقات میں تعلیم حا صل کرنا اور باقی  اوقات اپنے اور اپنے افراد خاندان کے لئے روٹی کمانا بس یہی دو کام تھے ‘‘۔ ۶؎

حبیبؔ  حیدر آبادی نے نظام کالج میں بھی اپنی ادبی سر گر میاں جا ری رکھیں۔ اور کا لج کے میگزین ’’ نظام ادب ‘‘ کے حصہ اردو کے مدیر رہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی کو ڈاکٹر زورؔ سے بڑی عقیدت تھی۔ زورؔ صاحب کے ذریعہ ادارۂ ادبیات اردو کے ایوانِ اردو میں منعقد ہونے والے ادبی اجلا سوں میں سر کر دہ علمی و ادبی شخصیات آ یا کر تی تھیں۔ اور زورؔ صاحب کے ذریعہ حبیبؔ  صاحب کو بھی ان شخصیتوں سے ملاقات کا موقع حا صل ہو تا۔ چنانچہ حبیبؔ  حیدر آبادی نے ڈاکٹر ذاکر حسین،   پر وفیسر یو سف حسین خاں،   پر و فیسر محمد مجیب،  مولوی عبد الحق،   کرشن چندر سیا ست دانوں میں قائد اعظم محمد علی جناح،   پنڈت نہرو اور وجے لکشمی پنڈت وغیرہ سے ملاقات کی۔ انہیں عظیم شخصیات کے آ ٹو گر اف لینے کا شوق تھا۔ چنانچہ اُن کی آ ٹو گر اف کی کتاب میں محمد علی جناح،   پنڈت نہرو،   سروجنی نائیڈو،  وجے لکشمی پنڈت سر دار پٹیل،   میر لائق علی،   لیاقت علی،   فاطمہ جناح،   راجہ کشن پر شاد حسرت مو ہانی،   سیدہ اختر،   ڈاکٹر ذاکر حسین،   پروفیسر یوسف حسین خان پر وفیسر محمد مجیب،   مولوی عبد الحق،   کرشن چندر،   جگر مر اد آ بادی،   سا غر نظامی،   کیفی اعظمی،   مجروح سلطانپوری،   فراق گور کھپو ری،   علی سر دار جعفری،   صفی اور رنگ آبادی،   سا حر لدھیانوی،   مکیش حیدر آ بادی مخدوم محی الد ین،   ہا رون خاں شیر وانی،   ڈاکٹر وحید اختر اور فیض احمد فیضؔ وغیرہ کے آ ٹو گر اف شا مل ہیں۔

حبیبؔ  حیدر آبادی جس وقت ڈگری کی تعلیم حا صل کر رہے تھے اُس وقت نظام کا لج کے سا لا نہ مشاعرے بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوا کر تے تھے۔ ان مشاعروں میں جگرؔ  مراد آبادی،   جوشؔ ملیح آ بادی،   ساغرؔ نظامی،   ساحرؔ لدھیانوی،  کیفی اعظمی مجروحؔ سلطانپوری،   فراقؔ گورکھپوری،   سر دار جعفری،   صفی اورنگ آبادی امجدؔ حیدرآبادی وغیرہ شر کت کر تے تھے۔

 

شادی

 

حبیبؔ  حیدرآبادی ۱۹۵۲ ء میں بی کام کر چکے تھے۔ اور کسی ملازمت کی تلاش میں تھے کہ اُن کے گھر والوں نے اُن کی شادی کی تیاری شروع کر دی۔ اپنی ہونے والی اہلیہ کے تعارف کے طور پر اُنہوں نے لکھا کہ اسکول کے زمانے میں اُن کی بہن عزیزہ نے اپنی ایک ہم جماعت لڑ کی صدیقہ شبنم کا یہ شعر سُنا یا تھا۔

؎        شبنم کبھی نہ بد لی طرزِ نگاہ اُن کی

یوں تو ہزار پہلو بد لا کیا زمانہ

بعد میں اُنہوں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ کو ریا کی جنگ کے دوران عالمی امن تحریک کے لئے اسٹاکہوم امن اپیل پر دستخط لینے کی مہم میں ویمنس کا لج کی پہلے سال کی طالبہ صدیقہ شبنم نے اپنے خون سے امن اپیل پر دستخط کئے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی نے تعجب کا اظہار کیا کہ آ گے چل کر اسی لڑ کی سے اُن کی شا دی ہو ئی۔ بہر حال ۱۲؍ اپریل ۱۹۵۲ ء کو اُن کی شا دی حیدر آبادی میمن گھرانے کی لڑکی صدیقہ سے ہوئی۔ صدیقہ حیدر آباد کے نامور ادیب و شاعر نقاد و اردو کے پر وفیسر،   مغنی تبسم کی بہن ہیں۔ صدیقہ کے والد عبد الغنی صاحب مرحوم سب جج تھے۔ صدیقہ کی ایک بہن فاطمہ ہیں جن کے شو ہر عوض سعید کے فر زند ڈاکٹر او صاف سعید انڈین فا رن سر ویس میں قو نصل جنرل ہند متعینہ شکاگو امریکہ ہیں۔ بیٹی سیما ڈاکٹر ہیں جو اپنے شو ہر ڈاکٹر وجاہت کے سا تھ امر یکہ میں رہتی ہیں۔ حبیبؔ  حیدرآبادی اور صدیقہ مثالی میاں بیوی رہے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی اپنی بیوی کی بہت قدر کر تے تھے۔ چنانچہ اُن کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ سچا ئی اور خلوص کی وہ جہاں خود پیکر بنی رہتی ہیں۔ اپنے شو ہر،   بچوں اور دو ستوں سے بھی یہی توقع رکھتی ہیں کہ ان کو اُن سب میں اپنا عکس نظر آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ازدواجی زندگی میں کئی ایسے نازک مواقع آئے جہاں ایک یا دوسرے کے قدم ایک دوسرے کی رضا ء و خو شی کے سید ہے راستے سے ہٹے بھی ہوں لیکن عمداً ہم سے ایسی غلطیاں ہو تی رہیں جو ایک دو سرے کے لئے قابل معافی بنتی گئیں لیکن غلطی کا احساس اور پھر ایک دوسرے کی رضا و خو شی کے راستے پر واپسی نے ہماری ازدواجی زندگی کو ایک ایسا آئینہ خانہ بنا دیا جس میں ہر وقت ہم دونوں نہ صرف ایک دوسرے کو دیکھتے رہے بلکہ سا تھ ہی ہمیں اپنے آپ کو غور سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا ‘‘۔ ۷؎

صدیقہ شبنم جو خود ایک اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ اپنے شو ہر کے بارے میں اپنی شادی کی سلور جو بلی کے موقع پر لکھے گئے ایک مضمون میں لکھتی ہیں :

’’ ہنس مکھ چہرہ،   کشا دہ پیشانی،   ہا تھ میں پائپ لئے ہوئے چہرے پر اس بلا کا اطمینان جیسے اس مشینی زند گی سے اُن کا کو ئی سروکار ہی نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ طبیعت میں خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہر کسی سے بہت ہی خلوص سے ملتے ہیں۔ جس سے ایک بار دوستی کی اُسے نباہنے کی کوشش کر تے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی اس ۲۵ سالہ ازدواجی زند گی پر نظر کر تی ہوں تو اپنے مالک کا لا کھ لا کھ شکر ادا کر تی ہوں کہ ایک انتہا ئی نیک اور محبت کرنے والے شوہر میرے ساتھی بنے ‘‘۔ ۸؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے اپنی بیوی کے بارے میں اور صدیقہ شبنم کے اپنے شوہر کے بارے میں خیالات جاننے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے دونوں کو شائد ایک دو سرے کے لئے بنا یا تھا۔

 

اولاد

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کو خدا نے دو بیٹے اور ایک بیٹی دی۔ بیٹوں کے نام رافع اور واسع ہیں۔ جبکہ بیٹی کا نام سلمیٰ ہے جو ۱۹۶۱ ء میں ناٹنگھم برطانیہ میں پیدا ہوئی۔ حبیبؔ  حیدر آبادی اور صدیقہ شبنم نے نا مساعد حالات میں بھی اپنے بچوں کی دینی و دنیا وی تعلیم میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ چنانچہ ان کے تینوں بچوں نے اعلیٰ تعلیم حا صل کی اور شادی کے بعد اپنے اپنے خا ندانوں میں خوش ہیں۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کا بڑا بیٹا رافع ہے۔ جو رافع حبیب کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ن۔ م راشد پر تحقیقی کام کیا۔ اور آ کسفورڈ یو نیو رسٹی سے ڈا کٹر یٹ کی ڈگری حا صل کی۔ اور اب نیو جر سی امر یکہ میں انگریزی کے پر و فیسر ہیں۔ اُن کی شادی یا سمین سے ہوئی۔ رافع حبیب کے دو لڑ کے حشام اور حسن ہیں۔ رافع اکثر ہندو ستان بھی آ یا کر تے ہیں۔ رافع کے چھوٹے بھا ئی واسع ہیں اُنہوں نے گا ئلس ہا سپٹل لندن یو نیو رسٹی سے ڈنٹسری کی ڈگری لی۔ نیو کاسل ہا سپٹل میں ہیلتھ آ فیسر رہے اور اب انگلینڈ ہی میں ڈنٹل سر جن ہیں اُن کی اہلیہ کا نام سعیدہ ہے۔ واسع کی شادی بڑے بھا ئی رافع سے پہلے ہوئی۔ اس لئے واسع کے بچوں کی عمر یں زیادہ ہیں۔ بڑے لڑکے کا نام عا صم ہے اور چھو ٹے لڑ کے کا نام منعم ہے۔

حبیبؔ  حیدر آبادی کی بیٹی جر نلسٹ ہیں۔ اور ان دنوں انگریزی ہفتہ وار اخبار May – Say times کی ایڈیٹر ہیں یہ اخبار لندن سے نکلتا ہے۔ سلمیٰ کے شوہر اور حبیبؔ  حیدرآبادی کے داماد کا نام عرفان ہے یہ پبلشر ہیں۔ ان کی اولادوں میں ایک بیٹی حانیہ اور ایک بیٹا ریحان ہے۔ اس طرح حبیبؔ  حیدر آبادی کے تینوں بچے اپنی اپنی جگہ زندگی کے عملی میدانوں میں خوش ہیں صدیقہ شبنم اور حبیبؔ حیدر آبادی نے مثالی والدین کی طرح اپنے بچوں کی تر بیت کی۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :

’’صدیقہ اور میں نے کوشش یہی کہ ہم دونوں اپنے بچوں سے گھل مل کر رہیں۔ اور بچے ہم کو اپنا رفیق،   دوست اور ہمدرد سمجھیں۔ ہمارے اس طرزِ عمل کی وجہہ سے ہم کو ذہنی سکون اور طمانیت قلب حا صل ہوئی۔ ہم اپنے بچوں سے محبت کر تے ہیں۔ اور وہ ہماری عزت کر تے ہیں۔ گھر کے ہر کام میں ہر فرد کا مشورہ شامل رہتا ہے۔ اور ہماری اپنی مشاورتی کمیٹی ہے۔ جو ہر فرد خاندان کے حقوق و فرائض پر نظر رکھتی ہے۔ خاندان کا ہر فرد اپنے حقوق و فرائض کا بھی جائزہ لیتا رہتا ہے ‘‘۔ ۹؎

 

ابتدائی ملازمت

 

حبیبؔ  حیدر آ بادی شا دی کے بعد فکر معاش میں سر گر داں رہے۔ اُس وقت حیدر آ باد میں سر کا ری ملازمت ملنا دشوار تھا۔ کچھ دنوں تک وہ اپنے والد کے کا رو بار میں ہا تھ بٹا تے رہے۔ اپنے دوست احباب کے تعاون سے ایک ٹیو ٹو ریل قائم کیا۔ دو چار برس اسی طرح گذر گئے۔ س دو ران اُن کے دو بچے بھی ہو گئے تھے۔ معاشی حا لات نا ساز گار تھے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی اپنے لئے نہ سہی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ترک وطن کرنا چا ہتے تھے۔

 

 

ترک وطن

 

تقسیم ہند کے بعد شما لی ہند سے بیشتر مسلم خاندان پا کستان منتقل ہو رہے تھے۔ جنوب میں اس کے اثر ات کم تھے لیکن حیدر آباد اور علا قہ تلنگا نہ کے حضر ات پا کستان کو مسلمانوں کا حقیقی وطن تصور کر تے ہوئے اپنے افراد خانہ کے ہمراہ ہند وستان چھوڑ کر جا رہے تھے۔ ان ہی لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آ بادی ۱۹۵۵ ء میں کراچی پا کستان منتقل ہو گئے۔ وہاں اکا ؤ نٹس آ فیسر رہے۔ کراچی میں قیام کیا۔ لیکن وہاں اُن کا دل نہیں لگا۔ اسی دوران بر صغیر سے بے شمار لوگ پانی کے جہا زوں سے برطانیہ کے رُخ کر رہے تھے۔ کیوں کہ وہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد کار خانوں میں کام کرنے کے لئے افرادی قلت ہو گئی تھی۔ اور مزدوروں کو جزائر غرب الہند سے لا یا جا رہا تھا۔ اور بر صغیر سے جانے والوں کو بھی قبول کیا جا رہا تھا۔

 

برطانیہ میں آمد

 

حبیبؔ  حیدر آبادی ڈیڑھ دوسال تک پا کستان میں رہنے کے بعد ۱۹۵۷ ء کو انگلستان منتقل ہو گئے۔ اُن کے ساتھ اُن کی بیوی صدیقہ دو بچے رافع اور واسع اور چھو ٹا بھائی قد یر بھی تھا۔ انگلستان میں قدم جمانے کے لئے ابتداء میں اُنہیں سخت جد و جہد کرنی پڑی۔ انگلستان میں آ مد کے فو ری بعد اپنی جد و جہد بھری زندگی کے بارے میں خود حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ :

’’ یہاں آنے کے بعد بڑے پا پڑ بیلنے پڑ ے۔ مزدوری کرنی پڑی۔ گو داموں میں کام کرنا پڑ ا۔ بس کنڈکٹری کی۔ ٹکسی چلانی پڑ ی۔ کوئی کام ایسا نہیں ہو گا جو میں نے یہاں آنے کے بعد نہ کیا ہو۔ صبح چار بجے سے رات کے بارہ بجے کئی کئی مہینوں مسلسل کام کرنا پڑ ا۔ ۔ ۔ ۔ مو زوں مکان آ سانی سے نہیں ملتے تھے۔ اور اگر ملتے بھی تھے تو اُن کا کرایہ میری استطاعت سے بہت زیادہ ہوتا تھا۔ کئی مہینے ہم سب کو صرف ایک ہی کمرے میں گزار نا پڑ ا۔ ان دنوں میری ہفتہ وار آمدنی صرف سات پونڈ تھی۔ صدیقہ نے جز وقتی کام شروع کیا اُن کو دو پاؤنڈ ہر ہفتہ مل جا یا کر تے تھے۔ اس طرح نو پاؤنڈ میں ہمارے کنبے کی گزر بسر ہو تی تھی ‘‘۔ ۱۰؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے انگلستان میں آ مد کے فو ری بعد اکا ؤ نٹنسی کی مزید تعلیم حا صل کی۔ ابتدائی جد و جہد کے بعد اُنہیں ایک برٹش فرم میں چیف اکا ؤ نٹنٹ کا عہدہ ملا۔ ۱۹۵۰ ء میں اُنہوں نے ناٹنگھم میں اپنا پہلا مکان خریدا۔ ناٹنگھم میں تقریباً ً پند رہ سال گذارنے کے بعد وہ ۱۹۷۲ ء میں لندن کے قریب کینٹ منتقل ہو گئے۔ ایک برٹش کمپنی میں ڈا ئرکٹر کے عہدے پر اُن کا تقرر ہو ا۔ پھر کمپنی سکریٹری اور چیف اکا ؤ نٹنٹ بنائے گئے۔ ۱۹۷۶ ء میں مجسٹریٹ بنائے گئے۔ اُنہیں جسٹس آف دی پیس (Justice Of The Peace) کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ برطانیہ میں تا رکین وطن کے ساتھ پو لیس کے غلط رویے اور اور مقامی گورے غنڈوں کے ساتھ غیر ضروری نر می اور اُن کے اعزاز کے سبب ملنے والی راحت کے بارے میں حبیبؔ  حیدر آبادی اپنی زندگی میں پیش آئے ایک واقعہ کو یوں بیان کر تے ہیں :

’’ میں کینٹ جسٹس آف پیس ہوں۔ اپنے آپ کو ذمہ دار شہری سمجھتا ہوں۔ دو سال قبل جبکہ میں لندن سے رات میں ٹرین سے سفر کر رہا تھا۔ ایک گورے غنڈے نے مجھ پر حملہ کیا۔ اور مجھے چلتی ٹرین سے باہر ڈھکیلنے کی کوشش کی۔ اللہ نے مجھے ہمت دی۔ میں نے اپنے سے دہرے آدمی کا مقابلہ کیا۔ اور ٹرین کی زنجیر کھینچنے میں کامیاب ہو ا۔ واٹر لو اسٹیشن پر ٹرین رُکی۔ پو لیس آئی۔

سب سے پہلے مجھے گرفتار کر لیا۔ گورے غنڈے سے ہمدردی کی جا رہی تھی اس لئے کہ میں نے اپنی مدافعت میں اسے لہو لہان کر دیا تھا۔ پو لیس اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد جب مزید بات چیت ہوئی تو پولیس نے مجھ سے معافی چاہی اور مجھے گھر جانے کی اجازت دی اور اس گورے غنڈے کو اولڈ بیلی یعنی یہاں کی سب سے بڑی عدالت میں سزا ہوئی ‘‘۔ ۱۱؎

حبیبؔ  حیدر آبادی نے معاشی فراغت ملنے کے بعد اپنے آپ کو علمی،   ادبی و سما جی خد مات کے لئے وقف کر دیا۔

 

علمی و ادبی خدمات

 

حبیبؔ  حیدر آ بادی کو بچپن ہی سے علمی و ادبی ما حول ملا تھا۔ اور انہیں اپنے وقت کے نامور اساتذہ و بز رگوں کی صحبت نصیب ہوئی تھی۔ والد کی تر بیت کے علا وہ فانیؔ  اور خواجہ حسن نظامی سے فیض حا صل کرنے کا موقع ملا۔ جس سے اُن کی شخصیت کا ادبی خمیر تیار ہوا۔ اُن کے ہم زلف عوض سعید ’’ حبیبؔ  حیدر آبادی ‘‘ خاکے میں بڑی شخصیتوں سے حبیبؔ  صاحب کے اکتساب کا حال یوں بیان کر تے ہیں :

’’ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ حبیبؔ صاحب نے آنجہانی مہا راجہ کشن پر شاد کی شعری محفلوں میں بھی شر کت کی ہے۔ انہیں کلام سنا تے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ جب یہ باتیں حبیبؔ صاحب مجھے سُنا رہے تھے تو میں فرطِ حیرت میں ڈوبا ہوا تھا۔ ’’ اس وقت آپ کی عمر کیا رہی ہو گی ‘‘۔ میرے اس سو ال پر حبیبؔ صاحب نے کہا۔ ’’ یہی کوئی پا نچ برس ‘‘۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ہر وہ پر انی محفل جس میں حبیبؔ صاحب نے بطور معزز مہمان کے شرکت کی تھی۔ اس وقت بھی اُن کی عمر پا نچ ہی برس تھی۔ اس طرح پا نچ برس کی عمر میں اُنہوں نے وہ ساری ادبی محفلیں دیکھ لیں جو اب تاریخ کا ایک سنہری باب بن چکی ہیں ‘‘۔ ۱۲؎

حبیبؔ  حیدر آبا دی کو خواجہ حسن نظامی مرحوم سے خاص ارادت حا صل تھی،   جب بھی خواجہ صاحب حیدر آباد آتے حبیبؔ  صاحب اُن سے ضرور ملتے۔ اور خواجہ صاحب بھی حبیبؔ  صاحب سے شفقت کا اظہار کر تے۔ اور اکثر و بیشتر اپنے رسالہ ’’ منا دی ‘‘ میں حبیبؔ  صاحب کا ذکر کر تے۔ خواجہ صاحب کو روز نامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ اُن کے روز نا مچے اپنے عہد کے حا لات اور اُن کی انشا پردازی کے لئے مشہور ہیں۔ خواجہ صاحب کے طرز پر حبیبؔ  حیدرآبادی کے دوست سید معین الدین شاہ اُن کی ڈائری لکھنے کی عادت کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ حبیبؔ  حیدرآبادی اپنا روز نامچہ شادی سے پہلے مستقل لکھا کر تے تھے۔ اس روز نامچے کی حیثیت اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اس میں مفصل سیاسی،   معاشرتی،   مذہبی،   علمی اور ادبی تذکرے ہیں۔ اور شخصیات کا حال ہے۔ یہ تاریخی دستاویز ہیں۔ اور بہت اہم ہیں۔ اس میں زوال حیدرآباد کا بھی ذکر ہے۔ راقم الحروف کو کہیں کہیں ان روز نا مچوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اُن کا اسلوب بیان دلکش اور شگفتہ ہے۔ اور کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں حسن نظامی کا  روز نامچہ پڑ ھ رہا ہوں ‘‘۔ ۱۳؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کا روز نامچہ اب دستیاب نہیں لیکن کہا جا تا ہے کہ اُن کی تصنیف ’’ انگلستان میں ‘‘ اُسی روز نامچے کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ اور اس کتاب میں بھی متفرق مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ روز نا مچہ لکھنے کی عادت نے حبیبؔ حیدرآبادی کو انشا ء پردازی کی طرف مائل کیا۔ اور اُن کے اندر کا ادیب انگلستان میں آنے کے بعد اردو کا خد مت گذار بن گیا۔ برطانیہ میں آمد کے بعد اُن کے ابتدائی چند سال مشکلات میں گذرے۔ اور جب ایک مر تبہ زندگی کی گاڑی چلنے لگی تو حبیبؔ حیدر آبادی نے ابتدائی زمانے میں جبکہ برطانیہ میں فروغ اردو کا کوئی خاص کام نہیں ہوتا تھا اپنے بل بوتے پر ٹھوس خد مات انجام دیں چنانچہ اُنہوں نے ۱۹۶۳ ء میں قائم کر دہ اردو تنظیم پا کستان فرینڈز لیگ کی ایک سال تک صد ارت کی۔ ناٹنگھم میں قیام کے دوران ایک اُردو لائبریری قائم کی۔ جس میں پا نچ ہزار اردو کی کتا بیں جمع کی گئیں۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی اُردو لائبریری تھی جو برطانیہ میں قائم ہوئی تھی۔ لائبریری کا افتتاح ناٹنگھم کے مئیر نے کیا۔ اور اس تقریب کو ٹیلی ویژن پر بھی دکھا یا گیا۔ اس لائبر یری میں ہندوستان و پاکستان کے ادیبوں اور شعرا ء کی کئی کتا بیں جمع تھیں۔

حبیبؔ  حیدرآبادی کی اس لائبریری کے لئے مو لا نا مودودی کے علا وہ فیضؔ  احمد فیضؔ ،   آل احمد سرور،  ڈاکٹر گو پال ریڈی،   حبیب الر حمن عبد الحمید بو ہیرے مدیر صبح اُمید۔ خواجہ حسن ثانی نظامی اور پروفیسر مغنی تبسم وغیرہ نے کتا بیں عنایت فر ما ئی تھیں۔ فروغ اردو کی طرف ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے حبیبؔ  حیدرآبادی نے انگریزوں اور تا رکین وطن کے بچوں کو اردو سکھانے کے لئے اردو جماعتوں کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۶ ء سے ۱۹۷۰ ء تک جا ری رہا۔ کئی بچوں نے اُردو سیکھی۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کی ناٹنگھم میں قائم کر دہ لائبریری کی افتتاحی تقریب اور انگریزوں کو اردو سکھانے کے پرو گر ام کو ٹیلی ویژن پر بطور خاص دکھا یا گیا تھا۔ اس پرو گر ام کی ریکا رڈ نگ سلیم شاہد نے کی اور مہندر کول نے اسے پیش کیا۔ ڈارٹ فو رڈ میں رالف رسل کے تعاون سے لندن یونیورسٹی میں اکیڈمی آف اردو ا اسٹڈیز قائم کی۔ جس کی طرف سے طلبا ء کے لئے ’O،   اور ’A،   لیول کے امتحانات منعقد ہوا کرتے تھے۔ سال میں دو بار اکیڈمی کی جا نب سے تحریری مقابلے منعقد ہوا کر تے تھے تا کہ اردو پڑھنے والے طلبا ء کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

حبیبؔ  حیدر آبادی اس اکیڈمی کے اعزازی معتمد رہے۔ صلہ وستا ئش کی تمنا کے بغیر اور لوگوں کی مخالفت کے با و جود حبیب حیدر آ بادی فروغ اردو کے لئے کام کرتے رہے۔ وہ دھن کے پکے تھے۔ کام کرنے سے اُنہیں ذہنی سکون ملتا تھا۔ اس لئے آ رام کا خیال کیے بغیر مسلسل کام کئے جا تے رہے۔ برطانیہ میں حبیبؔ  حیدرآبادی کی اردو خد مات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محمد یوسف الدین خاں لکھتے ہیں :

’’ اس ملک میں اُردو کی بقا ء کے لئے حبیبؔ نے جو کارنامے انجام دیے وہ ایک ضخیم کتاب کا موضوع بن سکتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے۔ اردو کی تعلیم و ترویج کے لئے انہوں نے خاموشی سے جتنی ٹھوس خد مات انجام دی ہیں۔ وہ شاید انجمنوں کے بس کا بھی روگ نہیں۔ برسہا برس تک یہ ہر سال مختلف عمروں کے طالب علموں میں اُن کی عمر اور تعلیمی لیاقت کے مطابق تحریری مقابلے کرواتے رہے۔ اور اپنے ہی خرچ سے ان مقابلوں کی ملکی سطح پر تشہیر بھی کر وائی اور انعامات بھی دیے۔ یہ بات میں وثوق سے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کئی سال تک میں نے ان مقابلوں میں حکم کا رول ادا کیا۔ ۔ ۔ انجمنوں کے قیام سے پہلے مقامی ہوں کہ مہمان۔ ادیبوں اور دانشوروں کا ایک ہی مرکز تھا۔ حبیبؔ کی قیام گا ہ۔ اردو کے ہر بڑے ادیب و دانشور کے اعزاز میں اُن ہی کی قیام گاہ پر تقریبیں ہو تی تھیں ‘‘۔ ۱۴؎

برطانیہ میں اردو کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ مشاعرے ہیں۔ اور وہاں آل انگلینڈ مشاعروں کی ابتداء حبیبؔ  حیدر آبادی نے ہی کروائی۔ ناٹنگھم میں اس طرح کے مشاعروں کا آغاز ہوا۔ ۱۹۶۱ ء میں منعقدہ مشاعرے میں فیضؔ نے بھی شر کت کی۔ فیضؔ  اُن کے گھر بھی آئے تھے۔ حبیبؔ صاحب نے فیضؔ  کی بیگم ایلس سے انٹر ویو بھی لیا۔ حبیبؔ  صاحب کی ایما ء پر بر صغیر سے نامور شعراء انگلستان آئے ان میں ن۔ م۔ راشد۔ ساقی  فاروقی۔ علی سر دار جعفری،  مغنی تبسم،   اکبر حیدر آبا دی،   عقیل دانش ڈاکٹر فا خر حسین،   ادیبوں میں مشتاق احمد یو سفی اور صحافیوں میں رضا علی عابدی وغیرہ شا مل ہیں۔ حبیبؔ  حیدرآبادی نے مشاعروں کی جو ابتداء کی تو لندن میں کئی انجمنوں اور تنظیموں کی جا نب سے مشاعرے منعقد ہونے لگے۔ جن میں حبیبؔ  صاحب اور ان کی اہلیہ صدیقہ شبنمؔ  کو بھی مدعو کیا جاتا۔ نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں اور اردو کے فروغ کی راہیں نکلتیں۔

۱۹۷۲ ء میں حبیبؔ  حیدر آ بادی کینٹ منتقل ہوئے۔ جو لندن سے قریب تھا۔ اس طرح اُنہیں ادبی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ لینے کا موقع ملا۔

 

تصنیف و تالیف

 

کینٹ میں قیام کے دوران حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنی بیٹی سلمیٰ کی فر مائش پر گلب پا شا (John Bagot) کی تصنیف The Life and Times of Mohammad کا اردو تر جمہ ’’ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عنوان سے کیا۔ حبیبؔ  حیدر آبادی نے ۱۹۷۲ ء سے تر جمہ کا آغاز کیا اور تقریباً ایک سال بعد ۲۷ جون ۱۹۷۳ ء کو تر جمہ کا کام مکمل ہو ا۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کی خواہش تھی کہ یہ کتاب اُن کی زندگی میں شائع ہو جائے چنانچہ پا کستانی نا شر محمد مقیم قریشی کو کتاب کی اشاعت کا کام سو نپا گیا۔ لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ چنانچہ یہ کتاب حبیبؔ  حیدر آبادی کے انتقال کے بعد کراچی پا کستان سے ۱۹۸۹ ء میں شائع ہوئی۔

حبیبؔ  حیدرآبادی ۱۹۸۰ ء کو لندن منتقل ہو گئے۔ جہاں اُنہوں نے اپنی پہلی کتاب ’’ انگلستان میں ‘‘ لکھی۔ یہ کتاب ۱۹۸۱ ء میں اکیڈمی آف اردو اسٹڈیز ڈارٹ فورڈ کینٹ یو کے کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ اور اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔ اور پہلے ایڈیشن کی ہزار جلد یں ہاتھوں ہاتھ نکل گئیں۔ اور بر صغیر کے علا وہ برطانیہ،   یورپ اور امر یکہ میں اس کتاب کا چر چا ہوا۔ اس کتاب پر اپنی رائے دینے والوں میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس) ہاشم علی اختر (وائس چا نسلر علی گڈ ھ یو نیو رسٹی ) پدم شری عابد علی خاں مدیر روز نا مہ سیا ست ( حیدر آباد دکن ) خواجہ عبد الغفور  ( بمبئی) افتخار عارف۔ اردو مرکز ( لندن) اکبرؔ حیدر آبادی ( آ کسفورڈ ) عقیل دانش ( لندن) ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز ( لندن) ڈاکٹر ضیا ء الدین شکیب ( لندن) ڈاکٹر حسن عسکری ( لندن) شریف بقاء ( لندن) ڈاکٹر سدھیشور راج سکسینہ ( لندن) پر و فیسر گیان چند جین۔ سنٹرل یو نیور سٹی آف حیدرآباد۔ حیدر آ باد دکن۔ وقار لطیف ( لندن)آغا سعید ( حیدرآباد) ڈاکٹر شہر یار۔ علی گڈھ یونیورسٹی۔ حسن اجمل مسرت ( آئر لینڈ) راجکماری اندرا دھن راج گیر جی۔ حیدر آ بادی اور محمد خالد اختر کراچی وغیرہ شامل ہیں۔

حبیبؔ  حیدرآبادی کی کتاب ’’ انگلستان میں ‘‘ پر رائے دینے والوں کی اس کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے کتاب کی مقبولیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ لیکن خود حبیبؔ  حیدرآبادی کو ڈر تھا کہ کتاب لوگوں کے ہا تھ پہنچ جانے کے بعد انجام کیا ہو گا۔ اُن کے خد شات کو پیش کر تے ہوئے عوض سعید لکھتے ہیں :

’’کتاب چھپنے کے بعد حبیبؔ  صاحب کو اس طرح دعا مانگتے میں نے بھی دیکھا ہے وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے معبود تو کسی اور کی لاج رکھ یا نہ رکھ۔ مگر انگلستان میں رہنے والے ایک جلا وطن Justice of peace کی لاج ضرور رکھ۔ ویسے تجھے علم ہے کہ میں نے بذریعہ ship دنیا کے کونے کونے میں اپنی کتا بیں پھیلا دی ہیں۔ معبود تو میری لاج رکھ لے مجھے دوسروں کی عزت سے کوئی سرو کار نہیں ہے ‘‘۔ ۱۵؎

حبیبؔ حیدرآبادی کی اس دعا سے لگتا ہے کہ خدا نے اُن کی دُعا سُن لی اور اُن کی کتاب کو قبول عام کا شرف ملا۔ ’’ انگلستان میں ‘‘ کی اشاعت کے بعد حبیبؔ  حیدرآبادی کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ چل پڑا اور یکے بعد دیگرے اُن کی دو کتا بیں منظر عام پر آئیں ایک کتاب کا نام ’’ برطانیہ کی سیا سی جماعتیں اور پا رلیمنٹ ‘‘ ہے جو مارچ ۱۹۸۸ ء میں شائع ہوئی جبکہ دوسری کتاب ’’ رہ ورسم آشنائی ‘‘ہے۔ یہ کتاب بھی ما رچ ۱۹۸۸ ء میں شائع ہوئی۔ دونوں کتابوں کی رسم اجرا ایک ساتھ لندن میں ہوئی۔ یہ تقریب ۱۶؍ ڈسمبر ۱۹۸۸ ء کو اورینٹ اینڈ افریکن اسٹڈیز یو نیور سٹی آف لندن میں ہفتہ وار ’’ راوی‘‘ کے مدیر مقصود الٰہی شیخ کی صد ارت میں اردو مرکز کی جانب سے منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں ادیبوں اور شعراء نے حبیبؔ  حیدر آبادی کی شخصیت اور فن پر مضامین پڑھے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کی تصنیف ’’ برطانیہ کی سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ ‘‘ میں پہلی مر تبہ برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کی تار یخ بیان کی گئی۔ اور پارلیمنٹ کا تعارف پیش کیا گیا۔ اس کتاب کے بارے میں تبصرہ کر تے ہوئے کتاب کے فلیپ پر مو جود تحریر میں پرو فیسر عرفان حبیب۔ صدر شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یو نیو رسٹی و چیر مین انڈین کو نسل فار ہسٹاریکل ریسرچ حکو مت ہند لکھتے ہیں :

’’ حبیبؔ  حیدرآبادی نے اس کتاب میں برطانوی سیاسی نظام کی بڑی شگفتہ تشریح پیش کی ہے علمیت اور غیر جانبداری میں ذاتی رنگ اور پُر لطف قصوں کی چاشنی پڑھنے والے کی دلچسپی شروع سے آ خر تک قائم رکھتی ہے برطانیہ کے جمہوری نظام کو پسند ید گی کی نظر سے دیکھنے کے ساتھ سا تھ اُن کو اس نظام کے مسائل اور حدود کا پو ری طرح احساس ہے۔ ایک نو آ باد برطانوی شہری کی حیثیت سے اُن کے رویے میں کسی الجھن کا شائبہ تک نہیں ہے۔ بلکہ وہ نہایت واضح طور پر اپنے نئے ملک کو اصل وطن کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ یہ کتاب دو تہذیبوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حبیب حیدرآبادی صاحب کی یہ کتاب بہت مقبول ہو گی ‘‘۔ ۱۶؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کی تصنیف ’’ رہ ورسم آشنائی ‘‘ انشائیوں اور خاکوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی بھی اردو حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ اس کتاب پر تبصرہ کر تے ہوئے لندن سے یشب تمنا لکھتے ہیں :

نہیں معلوم اردو ادب میں اس کتاب کا کیا مقام متعین ہوتا ہے۔ مگر ایک بات بغیر کسی تردد کے کہی جا سکتی ہے کہ برطانیہ کے اردو ادب کی تاریخ اس کتاب کے تذکرے کے بغیر نا مکمل ہو گی۔ جناب حبیبؔ نے جس شگفتگی کے ساتھ اپنے ذاتی اور غیر ذاتی واقعات کو تحریر کیا ہے۔ اس سے اُنہوں نے صنف انشائیہ کی خوبصورتی میں خاطر خو اہ اضافہ کیا ہے۔ اور خاص طور پر برطانیہ میں اس صنف ادب کو عام کرنے میں بھر پور حصہ لیا ہے ‘‘۔ ۱۷؎

حبیبؔ  حیدرآبادی نے نثر میں چار کتابوں کے علاوہ اپنا تھو ڑا بہت شعری سرما یہ بھی چھو ڑا ہے۔ جو اُن کی تصنیف ’’ انگلستان میں ‘‘ آ خر میں شامل ہے۔ ان کے شعری سر ما یہ میں غزلیں اور نظمیں شا مل ہیں۔ اُن کے کلام کا جائزہ اس کتاب کے باب ’’ شاعر ‘‘ میں پیش کیا گیا ہے۔ حبیب حیدرآبادی نے اپنی علمی و ادبی خدمات کے علا وہ برطانیہ میں سما جی خدمات بھی پیش کیں۔ تا رکین وطن کے مسائل کے حل کے لئے وہ ہمیشہ آ گے رہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی طور پر اُن سے جو بھی ہو سکا اُس کے لئے اُنہوں نے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ مختلف سما جی اداروں سے وابستہ رہے۔ ذمہ دار انگریزوں سے تعلق رکھا۔ لندن کی وائی ایم سی اے کے خازن رہے۔ اور وہ دیگر جماعتوں سے بھی وابستہ رہے۔ ہندوستانی ہونے کے با و جود برطانیہ کی زندگی میں گھل مل گئے تھے۔

 

سفر

 

حبیبؔ حیدرآبادی ۱۹۵۷ ء میں برطانیہ منتقل ہوئے تھے۔ وہاں معاشی فراغت حاصل کرنے میں کا فی عرصہ لگا۔ اس دوران کبھی کبھار وہ ہند وستان آ تے جا تے رہے۔ لیکن اپنے افراد خاندان کے ساتھ تقریباً ۲۰ سال کے عرصے میں پہلی مر تبہ اُنہوں نے تفصیلی سفر کا ارادہ کیا۔ اور پیرس،   جدہ،   کراچی،   دہلی،   حیدرآباد اور بمبئی کا تفصیلی دورہ کیا۔ احباب سے ملاقاتیں کیں۔ اور وطن عزیز کی یا دوں کو مٹا یا۔ حبیبؔ  حیدرآبادی نے حج بیت اللہ کی سعا دت بھی حا صل کی۔ اور اپنے سفر کی تفصیلات پر مبنی ایک مضمون ’’ سفر ہے شر ط‘‘ لکھا۔ جو اُن کی کتاب ’’ انگلستان میں ‘‘ میں شا مل ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی اس سفر کے ذریعہ اپنے بچوں میں مشرقی  تہذیب کی عظمت اجاگر کر انا چا ہتے تھے۔ چنانچہ سفر کے بعد بچوں کے رد عمل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

’’ جس منشا ء و مقصد کے تحت ہم اپنے بچوں کو مقامات مقدسہ اور پا کستان اور ہندوستان لے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس میں ہمیں صد فیصد کا میا بی حا صل ہوئی۔ اب ہمارے بچوں کو اپنے ہندوستان و پاکستان پر ناز ہے۔ مشرقی  اقدار اُن کی سمجھ میں آنے لگے ہیں ‘‘۔ ۱۸؎

 

بیماری اور انتقال

 

حبیبؔ  حیدرآبادی زندگی کے آخری ایام میں سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ انسانی زندگی میں خوشی کے بعد غم،   صحت کے بعد بیماری اور حیات کے بعد موت فطری امر ہے۔ انسان فانی ہے۔ اور اُسے یہ دنیا چھوڑ کر جا نا ہے۔ لیکن جان لیوا بیماریاں چلتے پھر تے ہنستے بو لتے انسان کو فریش بنا دیتی ہیں۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو ا۔ برطانیہ میں اُن کا علاج معالجہ ہوا دو مر تبہ آپریشن بھی ہوا لیکن مرض بڑھتا ہی گیا۔

ضیا ء الد ین شکیب اُن کی بیماری کا حال بیان کر تے ہوئے کہتے ہیں :

’’ رہ ورسم آشنائی ‘‘ کے مضامین اُن کی صلاحیت کے نمائندہ ہیں۔ جس زمانے میں وہ یہ مضامین لکھ رہے تھے کینسر کے مو ذی مرض میں مبتلا تھے۔ اور ریڈ یم تھیراپی سے علاج ہوتا تھا۔ اس قدر اذیت ناک مرض میں مبتلا رہنے کے با و جود کاغذ و قلم بستر پر ہو تا۔ اور وہ ایسی شگفتہ تحریر لکھتے رہے۔ دوستوں کے خطوط کے جو اب بھی اسی بستر بیماری سے دیتے کہ اس قدر دلکش و شاداب کہ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ خط کینسر کا تڑ پتا ہوا مریض لکھ رہا ہے ‘‘۔ ۱۹؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کی عیادت کو جو بھی دوست احباب آ تے وہ اُن سے مسکرا کر بات کرنے کی کوشش کر تے لیکن صاف ظاہر ہوتا کہ وہ درد کی کسک کو دبا رہے ہیں۔ انتقال سے چند دن قبل مرض نے شدت اختیار کر لی تھی۔ وہ اس وقت Lexhum Garden کے اپنے مکان ہی میں مقیم تھے۔ لوگوں سے ملنا جلنا بہت کم ہو گیا تھا۔ درد کو مارنے والی دوائیں دی جاتیں لیکن وہ بھی بے اثر ثا بت ہوتیں۔ حبیبؔ حیدرآبادی کے دوست اور مشہور شاعر افتخار عارف حبیبؔ  حیدرآبادی کے انتقال سے ایک رات قبل کا دلسوز منظر اپنے تاثراتی مضمون میں یوں بیان کر تے ہیں :

’’ وہ بھی عجیب رات تھی۔ جس رات کے پچھلے پہر حبیبؔ ہم سب سے رخصت ہوئے تھے۔ اردو مرکز کے دفتر سے روانہ ہو تے ہوئے میں نے اپنے رفیق کار فاروق حیدر صاحب سے کہا کہ مجھے لگتا ہے اب حبیبؔ زیادہ دنوں تک ہم میں نہیں رہیں گے۔ ۔ ۔ میں گھر جانے کے بجائے معمول کے مطابق سیدھا لیکزھم گارڈنز پہنچا۔ صدیقہ نے دروازہ کھو لا بجائے ڈرائنگ روم کے ہم سیدھے اُن کے کمرے میں پہنچے۔ سلمیٰ سلمہاکا چہرہ دیکھا نہیں جا تا تھا۔ حبیبؔ کے پاس بیٹھنے کے بجائے اُن کا ہا تھ اپنے ہا تھ میں لیا۔ اُنہوں نے آنکھیں کھو لیں۔ نقاہت اپنی انتہا کو تھی۔ غشی طاری ہو تی پھر ہوش آ جا تا۔ درد کو کم کرنے کی غرض سے دوائیں بھی اس طرح کی دی جا رہی تھیں کہ زیا دہ وقت بے ہو شی کی کیفیت طاری رہتی۔ ایک طرف صدیقہ،   ایک طرف سلمیٰ ایک طرف عرفان سلمہ۔ حبیبؔ نے آنکھیں کھو لیں بو لے۔ ہمارے محبوب آئے ہوئے ہیں کہا اور پھر غشی میں۔ میں نے درود شریف کی تلاوت شروع کی۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے بغیر آنکھیں کھولے آپ ہی آپ میری آواز میں ملا تے ہوئے درود پڑھنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ میں نے سلمیٰ سے کہا کہ اب میں چلتا ہوں۔ اُن سے پا نچ منٹ کے پیدل کے فا صلے پر میرا گھر ہے اگر رات کوئی پریشانی ہو تو بلا ترددّ مجھے فون کر دینا۔ جانے کیوں مجھے احساس ہو رہا تھا کہ آج کی رات حبیبؔ سے آخری ملاقات ہوئی ہے۔ سویرے وہی ہو ا۔ ہم سب اس کے لئے تیار سے تھے ‘‘۔ ۲۰؎

اس طرح سرطان جیسے مو ذی مرض سے لڑ تے ہوئے حبیب حیدر آبادی ۷؍ مارچ ۱۹۸۹ ء بروز منگل صبح کی اولین ساعتوں میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیْہِ رَاجِعُوْنْ)۔ ان کی تدفین لندن میں ہی عمل میں آئی جس میں دوست احباب ادیبوں اور شعرا کی کثیر تعداد نے شر کت کی۔ جمعہ ۱۷؍ ما رچ کو اردو مرکز لندن میں حبیبؔ حیدرآبادی کی یاد میں تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا۔ جلسہ کی صد ارت مشتاق احمد یو سفینے کی۔ اور اظہار تاثر ات۔ اکبر حیدرآبادی۔ رضا علی عابدی۔ یو سف الدین خاں اور ڈاکٹر سدھیشور سکسینہ نے کیا۔ جلسہ میں کئی ادیبوں اور شعراء نے شر کت کی۔ تعزیتی اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے رضا علی عابدی کہتے ہیں :

’’ مرنے والے اس جہان فانی سے گذر جا تے ہیں اور اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی احساس ضرور چھوڑ جا تے ہیں جب کسی کی رحلت ہوئی کچھ اس قسم کی باتیں سنی گئیں کہ وہ اپنے پیچھے ایک خلا ء چھوڑ گئے ہیں۔ وہ ایک عالم کو سو گوار چھوڑ گئے ہیں۔ وہ ایک باب ادھورا چھوڑ گئے ہیں وہ ہمیں اورسب کو رو تا چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مگر اس بار معاملہ مختلف ہے۔ حبیب بھا ئی کہیں نہیں گئے ہیں۔ یہیں تھے یہیں رہیں گے۔ اگر وجود کا مٹ جا نا موت ہے تو یقیناً اُن کی موت واقع ہو گئی۔ لیکن اگر وجود کے احساس کا مٹنا موت ہے تو ابھی وہ بہت جئیں گے۔ ہم نے اُن کی آخری نماز پڑھی،   آخری آرام گاہ کو مٹی دی،   اُن کے جسد خاکی کو ہم وہیں چھوڑ آئے۔ مگر اُن کا احساس ہمارے ساتھ واپس چلا آ یا ‘‘۔ ۲۱؎

حبیبؔ حیدرآبادی کے بارے میں رضا علی عا بدی کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک لوگوں میں مقبول تھے۔ انہوں نے ۱۹۲۹ ء تا ۱۹۸۹ ء کل ۶۰؎ سا ٹھ سال عمر پا ئی۔ لیکن اس دو ران اُنہوں نے اپنی شخصیت کے ان مٹ نقوش چھوڑ ے اسی لئے اُن کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ

ع      خدا بخشے بڑی خو بیاں تھیں مرنے والے میں

 

شخصیت

 

حبیبؔ  حیدرآبادی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ صدیقہ کے لئے وہ پیار کرنے والے،   جان نثار کرنے والے اور ہمدرد شوہر تھے۔ رافع،   واسع اور سلمیٰ کے لئے مشفق و محترم باپ تھے۔ دوست احباب کے لئے زندہ دل انسان تھے۔ اردو کے لئے ایک فعال کا رکن اور سہارا تھے۔ شر افت،   زندہ دلی،   ہمدردی خلوص،   ایثار و محبت چند ایسی خو بیاں تھیں جن سے حبیب حیدرآبادی کی شخصیت کی تعمیر ہوئی تھی۔

 

سر اپا لباس

 

در میا نہ قد۔ گٹھیلا جسم،   گول،   رعب دار چہرہ،   سیاہ بڑی بڑی آنکھیں،   گال بھرے ہوئے،   رنگ گو راستواں ناک،   کا لے اور سفید بال،   کشا دہ پیشانی،   چہرے سے فراست ٹپکتی ہوئی یہ ہے حبیب حیدرآبادی کا سر اپا۔ سوٹ،   ٹائی پہنے وہ ایک سر براہ مملکت لگتے تھے۔ حبیب حیدرآبادی مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے انگریزی آداب مجلس اختیار کرنے کے لئے مجبور تھے۔ اس لئے انشائیہ ’’ ہماری ہجرت ‘‘ میں اعتراف کر تے ہیں کہ :

’’ انگلستان میں ہم گز شتہ تیس برس سے ہیں۔ سوٹ پہنتے ہیں۔ ٹائی باندھتے ہیں۔ کبھی کبھی چھری کا نٹے اور چمچے کا بھی استعمال کر تے ہیں مقامی لوگوں کی بری با توں کو زیادہ اور اچھی با توں کو کم اپنائے ہوئے ہیں پھر بھی یہاں کی صحافت ہم کو مہا جر سے مخاطب کر تی ہے ‘‘۔ ۲۲؎

 

غذا

 

حبیبؔ  حیدرآبادی کو تمام اچھے کھانے پسند تھے۔ ’’ ہماری دعوتیں ‘‘ کے عنوان سے اُنہوں نے ایک انشائیہ بھی لکھا جس میں دعوت کے انتظار میں رہنے کا ذکر کیا۔ در اصل کھانے کے معاملے میں اُن کے ذوق کی تسکین صدیقہ کی بدولت تھی جو اُن کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتی تھیں۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کے تقریباً سبھی دوستوں نے صدیقہ اور حبیبؔ  صاحب کی مہمان نوا زی کا ذکر کیا ہے۔ ضیا ء الد ین شکیب صدیقہ کے پکو ان اور اُن کے گھر ہونے والی ضیافتوں کا ذکر کر تے ہوئے کہتے ہیں :

’’ اچھے کھانے پکانے میں اُن کی بیگم صدیقہ کو بڑی دستگاہ ہے۔ حالانکہ وہ خود بڑی اچھی شاعرہ ہیں۔ اور ان دونوں کو کھلانے کا بھی بڑا ذوق رہا ہے۔ ۔ ۔ جب کوئی نما یاں شخصیت انگلستان آ تی تو یا تو وہ حبیبؔ  صاحب کے پاس ٹھہر تی یا حبیب صاحب کے یہاں اُن کی ضیافت کا اہتمام ہو تا۔ وہ لوگ جن کی ضیافتوں شر یک رہا ہوں اُن میں فیض احمد فیض،   علی سر دار جعفری گو پی چند نا رنگ،   شہر یا ر، ،   احمد فر از کے نام قا بل ذکر ہیں۔ اس کے علا وہ ہر ہفتہ حبیبؔ  حیدرآبادی کے مکان پر ایک ادبی محفل ہو تی جس کے بعد نہایت پر تکلف کھانے کا انتظام ہو تا۔ ان محفلوں میں جو لوگ پا بندی سے شریک ہو تے تھے ان میں مشتاق احمد یو سفی اور بیگم یو سفی،   افتخار عارف اور ان کی بیگم ریحانہ،  رضا علی عابدی اور اُن کی بیگم ماہ طلعت،   شاہدہ احمد اور ان کے میاں عزیز تو تقریباً  ہر محفل میں ہو تے۔ اُن کے علاوہ ایک عرصے تک ان محفلوں میں شہرت بخاری بھی شر یک ہو تے رہے ‘‘۔ ۲۳؎

اردو کے شعرا اور ادیب،   دعوتوں،   محفلوں شعرو شاعری کے رسیا ہو تے ہیں انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ محفلوں کا ایک عنصر مے نو شی بھی ہو تی ہے۔ لیکن عموماً  اس کا تذکرہ نہیں ہو تا۔ انگلستان کی ادبی محفلوں میں با دہ و جام شائد عام بات ہو۔ حبیب حیدرآبادی مئے نو شی کرتے تھے یا نہیں اس کے واضح اشارے تو نہیں ملتے لیکن اُن کی تحریر سے محفلوں کے رنگ واضح ہوتے ہیں۔ ساقی  فاروقی کے گھر منعقدہ ایک محفل میں ن۔ م راشد کے تذکرے کے بعد ساقی  فاروقی  کی پیشکش کا ذکر حبیب حیدرآبادی یوں کر تے ہیں :

’’ راشدؔ مرحوم پر باتیں ہو تی رہیں۔ اُن کی پر خلوص اور دلاویز شخصیت پر تبصرے ہو تے رہے۔ اُن کی نظمیں پڑھی گئیں۔ رات کے دس بجے واپسی کے لئے جب میں اُٹھنے لگا تو ساقی نے مجھ سے کہا کہ ’’ اماں یار اور ٹھہرو۔ راشد صاحب کی باتیں کر و۔ شر اب پیو۔ مٹھا ئی کھاؤ۔ راشد صاحب روز روز تو نہیں مر یں گے ‘‘۔ ۲۴؎

 

مذہبی عقائد

 

حبیبؔ حیدرآبادی کو بچپن ہی سے مذہبی ما حول ملا تھا۔ اُن کے والد قادریہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح حبیب حیدرآبادی سُنّی مسلمان مسلک کے پیر و تھے۔ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ نما زوں کے پا بند تھے۔ ان کے دوست سدھیشور سکسینہ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے گھر میں بھی نماز کے وقت وہیں نماز ادا کر لیتے تھے۔ حبیب حیدرآبادی کو بچپن ہی سے محفل سماع اور قوالی کا شوق تھا۔ حضرت خواجہ حسن نظامی سے اُن کی ملاقاتیں تھیں۔ اور اُنہی کے طرز پر وہ روز نامچہ لکھا کر تے تھے۔ زندگی کی خو شی اور غم میں وہ خدا کا شکر ادا کر تے رہتے تھے۔ نعمتوں پر شکر کرنا اور آزمائش میں مشیت الٰہی آ گے سر بسجود رہنا اُنہیں خوب آ تا تھا۔ تصوف کے ما حول میں رہے تھے۔ صاحب سلسلہ تھے۔ جب بھی اپنے مر شد کا ذکر کر تے سر کو جھکا تے اور آنکھوں سے آ نسو جا ری ہو جا تے قران سے خصوصی شغف تھا اور اُس کے مطالب پر گہری نظر تھی۔ مضامین میں اکثر قران کی آیتوں کا حوالہ دیتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و صلعم،   صحابہ کرامؓ اور اہلبیت اطہار سے بے پناہ محبت تھی۔ حبیب حیدرآبادی کو حج و عمرہ کی سعا دت بھی نصیب ہوئی۔ برطانیہ میں قیام کے دوران وہ اپنے بچوں کی صحیح تر بیت کے لئے فکر مند تھے۔ ’’ اقبال اور تا رکین وطن‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مضمون میں اپنے مذہبی خیالات ظاہر کر تے ہوئے حبیب حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ ہمارا دین ہمارے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جب تک ہم اس نعمت کی قدر کر تے رہیں گے زندگی کے حُسن کو دو با لا کر تے رہیں گے۔ اپنے بچوں کی رہنما ئی کے لئے ہمیں خود مثال بننا پڑے گا۔ اچھی مشرقی  اور مغربی قدروں کے امتزاج کو اسلا می اقدار کی صورت میں سا منے لا نا ہو گا۔ صاحب بصیرت مجتہد ین کو یہاں کے پیدا کر دہ مخصوص مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ مجھ جیسے عامی کو اپنے ہر ہر عمل کا قرآن کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا ہو گا۔ ۔ ۔ دنیا اور دین میں توازن بر قرار رکھتے ہوئے ہم ہر زمانے کا مقابلہ کر سکتے ہیں ‘‘۔ ۲۵؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دین و دنیا میں توازن قائم رکھنے پر یقین رکھتے تھے اور اُنہوں نے اپنی عملی زندگی سے یہ ثا بت کر دیکھا یا کہ ایک مسلمان مغربی معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے دین پر قائم رہسکتا ہے اور مشرقی  اقدار کی پا سد اری کر سکتا ہے۔

 

ازدواجی زند گی

 

جیسا کہ پہلے لکھا گیا۔ حبیب حیدرآبادی اور صدیقہ مثالی میاں بیوی تھے۔ صدیقہ حبیب کے لئے اور حبیب صدیقہ کے لئے جان نچھاور کرتے تھے۔ اپنی بیوی کی تعریف میں انہوں نے دو مضامین لکھے۔ تو صدیقہ نے بھی اپنے شو ہر کی صفات بیان کر تے ہوئے ایک اچھا سا مضمون لکھا۔ حبیب صاحب کی معاشی تنگی کے ابتدائی دنوں میں صدیقہ نے اُن کا بھر پو رسا تھ دیا۔ پاکستان اور انگلستان کی ابتدائی زندگی میں دونوں نے ملازمت کی اور ایک کمرے کے چھوٹے سے گھر میں رہنا گوارا کیا۔ صدیقہ کے کر دار کی صفات بیان کر تے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ صدیقہ میں بڑا و صف اُن کی خدمت گز اری کا جذبہ ہے۔ ایثار اور قربانی اُن کی فطرت میں داخل ہیں۔ سلیقہ،   وضع داری،   رکھ رکھا ؤ اور میز بانی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ طبیعت میں بلا کی سنجیدگی ہے۔ ملنسار ہونے کے با وجود اپنے حلقہ،   احباب کو مخصوص اور محدود رکھنے کی کوشش کر تی ہیں۔ ہمارے گھر جو بھی مہمان آتے ہیں وہ صدیقہ کی شائستگی اور حسن اخلاق سے خاص طور پر متاثر ہو تے ہیں ‘‘۔ ۲۶؎

’’ رہ ورسم آشنائی ‘‘ میں شا مل انشائیہ ’’ ہماری شاعرہ بیگم صدیقہ ‘‘ میں حبیبؔ  حیدرآبادی صدیقہ کے سا تھ گذارے زندگی کے سفر کا تجزیہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ سچائی اور خلوص کی وہ جہاں خود پیکر بنی رہتی ہیں اپنے شوہر بچوں اور دوستوں سے بھی یہی توقع رکھتی ہیں کہ اُن کو اُن سب میں اپنا عکس نظر آئے۔ ۔ ۔ مغربی معاشرے میں ایک فنکار ماں کا اپنے بچوں سے پیار،   اُن کی تر بیت میں بچوں کو مذہبی اور تہذیبی اقدار سے واقف کر وا نا اور بچوں کے مستقل کو بنا دینا ہو سکتا ہے کہ اُن کی شاعری یا ادب کے معیار اور مقدار پر اثر انداز ہوا ہو۔ ۔ ۔

ہمارے بچے خوش قسمت ہیں کہ اُن کی ماں نے اُن کے لئے بہت بڑی قربانی دی۔ ہما ری ازدواجی زندگی میں کئی ایسے نا زک مواقع آئے جہاں ایک دوسرے کے قدم ایک دوسرے کی رضا و خو شی کے سیدھے راستے سے ہٹے بھی ہوں لیکن عمداً ہم نے ایک دوسرے کی دل شکنی کبھی نہیں کی۔ ۔ ۔ ازدواجی زندگی میں سسر ال،   میکے،  رشتہ دار،  دوست احباب اپنے اور پر ائے سب ہی میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کی عزت پیا ری ہو تی ہے۔ اور دونوں ایک دو سرے کی عزت کے ضامن ہو تے ہیں اس عزت کو بر قرار اور آئے دن استوار کرنے میں صدیقہ نے ایک مثالی بیوی کا کر دار ادا کیا ‘‘۔ ۲۷؎

اپنی بیوی سے پیار کے ثبوت کی خاطر حبیب حیدرآبادی نے اپنی پہلی تصنیف ’’ انگلستان میں ‘‘ کو صدیقہ کے نام کیا ہے۔ صدیقہ خود ایک نامور شاعرہ ہیں۔ شبنمؔ  تخلص رکھتی ہیں۔ اُن کا پہلا مجموعہ کلام ’’تنہائی‘‘ کے عنوان سے نو مبر ۱۹۸۶ ء میں مکتبہ شعرو حکمت حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ کتاب کا مقدمہ پر و فیسر گوپی چند نا رنگ نے لکھا۔ کتاب پڑھنے کے بعد فیض احمد فیض نے صدیقہ کو دعا دی کہ جیتی رہو اچھے شعر کہتی ہو۔ سید عاشور کاظمی صدیقہ شبنمؔ کے مجموعہ ’’ تنہا ئی ‘‘ پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ صدیقہ شبنمؔ  وہ شاعرہ ہے جس نے کسی ادبی نظر یا تی گروپ میں شمولیت کا واضح اعلان تو نہیں کیا لیکن اپنی شخصیت کی تکمیل کا بھر پور خیال رکھا ہے۔ اس کی گفتار صداقت،   اس کا کردار شر افت اور اُس کے اشعار دیا نت کے آئینہ دار ہیں ‘‘۔ ۲۸؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے صدیقہ کو اپنی شاعری کے پروان چڑھانے میں بھر پور سا تھ دیا۔ دونوں اکٹھے مشاعروں میں شر کت کر تے تھے۔ اور صدیقہ کو جب اُن کے شعروں پر داد ملتی تو وہ یہ طے نہیں کر پا تے تھے کہ داد صدیقہ کو دی جا رہی ہے یا اُن کی شاعری کو۔ لیکن صدیقہ کی شاعری کے ساتھ حبیب حیدرآبادی بھی اچھے خاصے شعر کہنے لگے تھے۔ صدیقہ آج بھی مخصوص محفلوں میں شعر کہتی ہیں۔ چنانچہ ۱۵؍ ستمبر ۲۰۰۵ ء کو جدہ میں منعقدہ گولڈن جو بلی مشاعرے میں اُنہوں نے شرکت کی۔ اس مشاعرے میں ہندو ستان سے اُن کے بھا ئی پر وفیسر مغنی تبسم نے بھی شرکت کی تھی۔ صدیقہ نے جو اشعار سنائے اُن میں سے چند یوں ہیں :

؎        کیسی ہوائیں تیز تھیں سارے چراغ بجھ گئے

دل تو ابھی بھی جل رہا ہے وہ تو دیا ہی اور ہے

؎        دکھ اور طرح کے ہیں عذاب اور طرح کے

اس راہ میں آ تے ہیں سر اب اور طرح کے

؎        شبنمؔ رہین نسبت نام رسول ہے

سارے چراغ نور اسی در سے آئیں گے ۲۹؎

شاعرہ ہونے کے با وجود صدیقہ نے اپنی ذمہ داریاں بھر پور طریقے سے نبھائیں۔ جب حبیبؔ  حیدرآبادی سرطان جیسے مو ذی مرض میں مبتلا ہوئے تو یہ صدیقہ ہی تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کی تیمار داری کا فریضہ نبھا یا اور اُن کی عیادت کرنے آنے والوں کا استقبال کیا۔ حبیبؔ  صاحب کے انتقال کے بعد صدیقہ نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بچوں کے سا تھ رہیں۔ اُنہیں والد کی جدائی کے احساس کو کم کرنے میں مدد دی۔ صدیقہ آج بھی برطانیہ میں ہی مقیم ہیں۔ اور اکثر ہند وستان آتی رہتی ہیں۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کی رفاقت میں اُنہوں نے زندگی کی جو بہار یں گذاری تھیں اُن کی یا دوں کو اپنا سر ما یہ بنائے وہ زندگی کے کا رواں میں شا مل ہیں۔

 

دوست احباب کے سا تھ برتاؤ

 

حبیبؔ  حیدرآبادی کے دوست احباب کا حلقہ کا فی وسیع تھا۔ اُن کے بچپن کے دوستوں میں مصباح الد ین شکیل سدھشیور راج سکسینہ زبیر رضوی،   ڈاکٹر سید محبوب علی وغیرہ تھے۔ راشد آذر،  منیر صفوی اُن کے خاص دوستوں میں شمار کئے جا تے ہیں برطانیہ میں اُن کا حلقہ احباب بڑھا۔ اور ادبی محفلوں و مشاعروں میں شر کت اور مشاعروں کے اہتمام کی بناء بر صغیر کے تمام نامور شاعر اُن کے دوست تھے۔ ان میں بطور خاص،   افتخار عارف رالف رسل،   اکبر حیدرآبادی،   سید معین الد ین شاہ،   ادھر ہند وستان میں مجتبیٰ حسین،   عوض سعید،  مغنی تبسم وغیرہ شا مل ہیں۔

 

زندہ دلی

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے زندہ دل طبیعت پا ئی تھی۔ وہ یاروں کے یار تھے۔ بات میں بات پیدا کر نا۔ زور سے قہقہے لگا نا۔ خود ہنسنا دوسروں کو ہنسا نا اُن کے مزاج کی خاص بات تھی۔ اُن کے سبھی دوستوں نے اُن کی شخصیت کے اس پہلو پر اظہار خیال کیا ہے۔ ضیا ء الدین شکیب کہتے ہیں :

’’ پہلی ہی ملاقات میں جو بات غیر معمولی طور پر محسوس ہوئی وہ حبیب حیدرآبادی کی حس مزاح ہے اُن کی طبیعت میں بلا کا چُلبلا پن تھا۔ کیسی ہی سنجیدہ محفل ہو۔ کیسی ہی شخصیت ہو۔ وہ فقرہ چست کرنے میں چو نکتے نہیں تھے۔ اس طرح سا ری محفل کو ہنسا دیتے تھے۔ اور اس سے بڑ ھ کر یہ کہ خود بے تحاشہ ہنستے۔ اتنا ہنستے کہ اُن کی ہچکیاں بند ھ جا تی تھیں نیا دیکھنے والا ان کے اس انداز کو دیکھ کر پریشان ہو اُٹھتا تھا ‘‘۔ ۳۰؎

بیماری کے زمانے میں بھی وہ عیادت کے لئے آنے والوں کو دیکھ کر درد کی تکلیف کے با وجود مسکرانے کی کوشش کر تے تھے۔ اپنی بہن عزیزہ کے نام ایک خط میں اُنہوں نے لکھا کہ ’’ میری بیماری میں خدمت کر کے صدیقہ کا دل کھٹا ہو گیا ہے اور اُتر گیا ہے اور اب خود مرنے سے پہلے میری موت کی منتظر ہے ‘‘۔ اس طرح حبیب حیدرآبادی کی طبیعت میں مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہمیشہ ہنستے اور ہنسا تے رہنا اُن کی عادت تھی۔ با وجود تکلیف کے نہ صرف مسکراتے بلکہ قہقہے لگا تے۔ وہ ہر محفل میں جان محفل بنے رہتے۔ ایک بار ملنے والا بار بار ملنے کا خواہش مند رہتا۔

 

مزاج کی دیگر خوبیاں

 

حبیبؔ حیدرآبادی کی شخصیت کر دار کی اعلیٰ خوبیوں کا مجموعہ تھی۔ مزاج میں نفاست پسندی تھی۔ رہنے سہنے کے معاملے میں حبیبؔ حیدرآبادی اور صدیقہ دونوں نہایت خوش ذوق رہے ہیں۔ مکان حد درجہ صاف ستھرا،   آرائش میں نہایت اعلیٰ ذوق۔ حتیٰ کہ اُن کے گھر کا پائیں باغ بھی گوشۂ فر دوس بنا رہتا تھا۔ حبیبؔ  حیدرآبادی دھن کے پکے تھے۔ جس کام کی دھن ہو اس میں تند ہی سے لگے رہتے یہاں تک کہ اُن کو اپنے آ رام اور چین کا خیال بھی نہیں رہتا۔ ذاتی فائدے سے کوسوں دور رہتے اور خد مت خلق کے جذبے کے تحت کام کر تے اردو لائبریری کے قیام اور امتحانات کے انعقاد کے وقت اُن پر تنقید یں بھی ہوئیں لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اُن کی طبیعت میں حسا سیت بھی تھی۔ جب کبھی اپنے بزرگ خواجہ حسن نظامی،   آ صف سابع میر عثمان علی خاں اور شہید ان کر بلا کا ذکر آ تا اُن کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں۔ اور آواز گلو گیر ہو جا تی۔

 

مشرقی  تہذیب سے پیار

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی زندگی کے قیمتی تیس پینتیس سال انگلستان میں گذارے جو مغربی تہذیب کا گہوارہ ہے لیکن اُنہوں نے مشرقی  تہذیب کو اپنائے رکھا۔ اپنی تحریروں اور قول و فعل سے اُنہوں نے مشرقی تہذیب کی پا سداری کا ثبوت دیا۔ وہ چا ہتے تھے کہ برطانیہ میں پر ورش پانے والے تا رکین وطن کی نئی نسل بھی مشرقی  اقدار کو اپنائے۔ اپنے گھر کا حال بیان کر تے ہوئے حبیب حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ زندگی کے ہر شعبے میں ہم نے اعتدال پسندی کا خیال رکھا ہے۔ مشرق اور مغرب کی مفید اور اچھی قدروں کو اپنانے کی کوشش کی۔ اپنے مذہب اور دین کو اپنی زندگی کے لئے نعمت جانتے ہیں اور اپنی کامیابیوں اور کا مر انیوں کا منبع سمجھتے ہیں۔ ہم نے مذہب کو و بال جان کبھی نہیں بنا یا۔ تنگ نظری تعصب اور احساس کمتری یا بر تری کا شکار کبھی نہیں ہوئے۔ میرے تینوں بچوں نے قرآن مجید کو شروع سے آ خر تک پڑھا ہے اور اپنے دین کی عظمت سے واقف ہیں ‘‘۔ ۳۱؎

حبیبؔ  حیدرآبادی کے خیالات سے اظہار ہوتا ہے کہ وہ جس مشرقی  تہذیب کی پا سد اری کی بات کر تے ہیں اُن کے بچوں نے بھی اُسے اپنا یا۔ اُنہوں نے اپنی ذات اور صفات سے بھی برطانیہ میں مقیم ایشیا ئی تارکین وطن میں مشرقی  اقدار اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اور اُن کی زندگی اسی جستجو سے عبارت ہے۔

 

زندگی کا فلسفہ

 

حبیبؔ  حیدرآبادی نے سا ٹھ ۶۰ سال کی عمر پائی۔ زندگی کے نشیب و فراز دیکھے۔ مسائل کا سامنا کیا۔ اور اپنے لئے راہ بنائی۔ اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے تھے۔ اپنی زندگی کا فلسفہ بیان کر تے ہوئے حبیب حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ میرے ملا قا تیوں میں ہر قسم کے لوگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ہر ایک سے میں نے کچھ نہ کچھ اکتساب کی کوشش کی۔ اور ہمیشہ اپنے جہل کا اعتراف کرتا  رہا۔ جس کسی کے پاس بھی علم اور فن دیکھتا ہوں اس کا گرویدہ ہو جاتا ہوں۔ ۔ ۔ میرے احباب کی خو شی میری اپنی خو شی ہو تی ہے۔ اُن کی خو شی میں دل بھر کر خوش ہوتا ہوں۔ اپنی خوشیوں کے خزانے میں جب احباب کی مسرتیں بھی شا مل ہو جاتی ہیں تو زندگی بڑی حسین اور دلکش لگتی ہے۔ ۔ ۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فر مائی تھی کہ اے اللہ مجھے محسو دین میں بنا حا سدوں میں نہیں۔     میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے ہمیشہ پر خلوص اور نیک دوست ملتے رہے۔ ۔ ۔ صاحب بصیرت صاحب علم صاحب کر دار اور اصحاب فن کے آ گے ہمیشہ میری آنکھیں جھکی رہتی ہیں۔ ہمیشہ ان خصوصیات کے حا مل میرے دل میں جگہ پا تے رہے ہیں۔ عجز و انکسار کو میں خدا داد نعمت سمجھتا ہوں اور اللہ کی اس عطا کر دہ نعمت پر ہمیشہ مجھے ناز رہا کرتا  ہے ‘‘۔ ۳۲؎

حبیبؔ حیدرآبادی کے حا لات زندگی،   شخصیت اور اُن کی علمی و ادبی خد مات اُنہیں ایک بھر پور انسان کے طور پر پیش کر تے ہیں۔ عام انسانی کمزوریوں اور خطاؤں سے قطع نظر وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ انہوں نے برطانیہ میں اردو کو سہا را دیا۔ پھلنے پھو لنے کا موقع دیا۔ اور محسن اردو کے طور پر اُبھر ے۔ برطانیہ میں اردو ایک تناور درخت کی شکل میں مو جود ہے۔ اور کہیں نہ کہیں اپنے محسن حبیبؔ  حیدرآبادی کی یاد دلا تی ہے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کے حا لات زندگی کے بعد زیر نظر کتاب کے آئندہ ا بو اب میں برطانیہ میں اردو کا پس منظر اور حبیب حیدرآبادی کا بحیثیت مضمون نگار،   انشائیہ نگار خاکہ نگار،   مزاح نگار،  نقاد،   شاعر و ادیب اور متر جم کے طور پر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

٭٭٭

 

حوالے

 

۱؎       اوصاف سعید۔ ڈاکٹر۔ بحوالہ ماہنامہ ’’ سب رس ‘‘ حیدرآباد۔ ڈسمبر ۲۰۰۵ء    ص ۷۱۔ ۷۲

۲؎      عزیزہ محبوب۔ مضمون۔ میرے بھا ئی جان۔ حبیب حیدرآبادی۔ غیر مطبو عہ

۳؎      سد ھیشور راج ڈاکٹر۔ مضمون۔ ہم دونوں بچپن کے سا تھی۔ راوی۔ بر یڈ فورڈ۔ حبیبؔ  حیدرآبادی نمبر۔

۴؎      حبیبؔ  حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔ حیدرآباد۔        ۱۹۸۱ ء۔ ص ۵۱

۵؎      حبیبؔ  حیدرآباد ی۔ بچوں کا سب رس۔ جون۔ جو لا ئی۔ حیدرآباد۔      ۱۹۴۹ ءص ۱۰

۶؎      حبیبؔ  حیدرآباد ی۔ انگلستان میں۔                 ص ۴۹

۷؎      حبیبؔ  حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۸۔ ۹

۸؎      صدیقہ شبنم۔ مضمون۔ میرے شوہر میری نظر میں۔ راوی۔ حبیب حیدرآبادی نمبر        ص ۸۔ ۹

۹؎      حبیبؔ  حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔ ص ۵۳۔ ۵۴

۱۰؎     حبیبؔ  حیدرآبادی۔ انگلستان میں   ص۵۱۔ ۵۲

۱۱؎      حبیبؔ  حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔ ص ۱۸

۱۲؎     عوض سعید۔ خاکے۔ حیدر آباد۔   ۱۹۸۵ ء        ص ۱۳۰

۱۳؎     سید معین الد ین شا ہ۔ مضمون۔ حبیبی حبیبی ’’ را وی۔ حبیب حیدر آ بادی نمبر۔ ص ۸

۱۴؎     محمد یو سف الد ین خاں۔ مضمون حبیبؔ  شخصیت اور فن۔ راوی۔ حبیب حیدرآبادی نمبر۔ ص ۱۳

۱۵؎    عوض سعید۔ خاکے۔              ص ۱۲۵

۱۶؎     عرفان حبیب۔ برطانیہ کی سیا سی جماعتیں اور پارلیمنٹ۔ از حبیب حیدرآبادی۔ مارچ ؍ ۱۹۸۸ ء دہلی۔        ص فلیپ صفحہ

۱۷؎     یشب تمنا۔ مضمون۔ حبیب کا انشائیہ۔ راوی۔ حبیب حیدر آبادی نمبر۔ ص ۱۲

۱۸؎     حبیبؔ  حیدرآبادی۔ ’’ انگلستان میں ‘‘۔             ص ۱۰۴

۱۹؎     ضیا ء الد ین شکیب۔ شخصی انٹر ویو۔ حیدرآباد۔ ۲۵؍ اپر یل ۲۰۰۴ ئ

۲۰؎    افتخار عارف۔ مضمون ’’یاد حبیب دلنو از ‘‘ غیر مطبوعہ

۲۱؎     رضا علی عابد ی۔ مضمون تعزیتی جلسہ کی روئداد۔ غیر مطبوعہ

۲۲؎    حبیبؔ  حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔ مارچ ؍ ۱۹۸۸ ء دہلی۔ ص ۱۱

۲۳؎    ضیا ء الد ین شکیب۔ شخصی انٹر ویو۔ حیدر آباد۔

۲۴؎    حبیب حیدرآباد ی۔ انگلستان میں۔         ص ۱۵۱

۲۵؎    حبیب حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔ ص ۸۲۔ ۸۳

۲۶؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔ ص ۱۷۲

۲۷؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔        ص ۸۔ ۹

۲۸؎    سید عاشور کاظمی۔ بحوالہ تحقیقی مقالہ۔ ڈاکٹر مغنی تبسم حیات اور کارنامے  ۔ مخز ونہ یو نیو رسٹی آف حیدرآباد۔ از شاہدہ تسنیم باب حا لات زندگی

۲۹؎     صدیقہ شبنم۔ بحوالہ۔ سب رس۔ حیدرآباد۔ ڈسمبر ۲۰۰۵ ء    ص ۸۴

۳۰؎    ضیاء الدین شکیب۔ شخصی انٹر ویو۔ حیدرآباد۔

۳۱؎     حبیبؔ  حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔ ص ۵۴

۳۲؎    حبیب حیدرآبادی۔ انگلستان میں۔ ص ۵۹۔ ۶۰

٭٭٭

 

 

 

 

 

حبیبؔ حیدر آ بادی بہ حیثیت مضمون نگار

 

 

حبیبؔ حیدر آ بادی بنیا دی طور پر انشائیہ نگار و مضمون نگار ہیں۔ ان کی دو کتا بیں ’’ انگلستان میں ‘‘ اور ’’ رہ و رسم و آشنائی ‘‘ ان کے تحریر کر دہ انشا ئیوں اور مضامین پر مشتمل ہیں۔ زیر نظر باب میں حبیبؔ حیدر آ بادی کے تحریر کر دہ ان مضامین کا جائزہ لیا جائے گا جو ان کی تصنیف ’’ انگلستان میں ‘‘ کے ابتدائی حصّے میں ہیں۔ ان مضامین میں سید ہے سادے انداز میں موضوع کے مطابق معلومات دی گئی ہیں۔ اور ان مضامین میں انشائیہ کی طرح لطافت اور جذبات نگاری نہیں پا ئی جا تی۔

حبیبؔ  حیدر آ بادی کا بہ حیثیت مضمون نگار جائزہ لینے سے قبل یہ ضر و ری ہے کہ مضمون کا مفہوم معلوم کیا جائے اور مضمون اور انشائیے میں پائے جانے والے فرق کو بیان کیا جائے۔

 

مضمون کی تعریف

 

مضمون کے لئے انگریزی لفظ ’’Essay ‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اور Essay کا تر جمہ بعض ماہرین نے مقالہ یا انشائیہ کے لئے کیا ہے اور بعض نے مضمون کے لئے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی تصنیف ’’ انشائیہ کی بنیاد ’’ میں لفظ ’’ مضمون‘‘ کی وضاحت مختلف ما ہر ین کے حوالوں کی پیشکشی سے کی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’’ کئی نقاد اب تک Essay کے لئے مضمون ہی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر سید عبد اللہ نے اپنی تالیف ’’سر سید احمد خاں اور ان کے رفقاء کی نثر کا فکری اور فنی جائزہ‘‘ طبع سوم ۱۹۸۹ ء میں۔ Essay کے لئے مضمون کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان کے بقول مضمون سے میری مراد وہ صنف ہے جسے انگریزی میں Essay کہا جا تا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سیدہ جعفر نے اپنی تالیف ’’ ما سٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقا ء میں ان کا حصہ ‘‘میں ماسٹر رام چندر کے مضامین کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ : رام چندر نے لفظ مضمون انگریزی کے Essay کے لئے استعمال کیا ہے جس سے ایک خاص صنف ادب مر اد ہے۔ محمد حسین آزاد نے ’’ نیر نگ خیال ‘‘ کے دیبا چہ میں Essay کے لئے ’’ جو اب مضمون ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے یہ لکھا ’’ میں نے انگریزی انشا پر دا زوں کے خیالات سے اکثر چراغ شوق روشن کیا ہے۔ بڑی بڑی کتا بیں ان مطالب پر مشتمل ہیں جنہیں یہاں Essayجو اب مضمون کہتے ہیں ‘‘ ۱؎

 

انشائیہ اور مضمون میں فرق

 

ڈاکٹر نصیر احمد خاں ’’ مضمون ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے اسے انشائیہ سے قریب کی صنف قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’اردو کی اصناف نثر میں انشائیہ مضمون کے زیادہ قریب ہے۔ یہ قربت ان کی الگ الگ شناخت کو مشکل بنا دیتی ہے۔ لیکن ان دونوں کی تعریفوں کو مد نظر رکھ کر اگر ہم غور کر یں تو یہ الجھن دور ہو سکتی ہے۔ مضمون کی فضا ء رسمی ہوتی ہے۔ جہاں پر بات،   ہر جملہ اور ہر پیرا گر اف مرکزی خیال کی منطقی وضاحت کرتا  ہے۔ جبکہ انشائیہ غیر رسمی ما حول میں لکھا جا تا ہے اس میں محض تاثرات ہوتے ہیں۔ جو ذہنی تر نگ کے طابع ہوتے ہیں۔ مضمون میں موضوع پر سنجید گی سے بحث ہوتی ہے۔ اس میں صراحت اور وضاحت کی بنیاد دلائل پر ہوتی ہے۔ ۔ ۔ مضمون یا مقالے میں بات کو عالمانہ انداز سے کہتے ہیں۔ اور معلومات فرا ہم کرنے پر خاصا زور ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ تر علم و حکمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ انشائیہ میں خاص زور انداز بیان پر ہوتا ہے۔ مضمون کے موضوعات محدود ہوتے ہیں جبکہ انشائیہ میں کسی بھی موضوع پر قلم اُٹھا یا جا سکتا ہے۔ انشائیہ نگار اپنی تحریر میں ذات کا انکشاف کرتا  ہے۔ اس کی تحریر میں داخلی کیفیات کا بیان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مضمون میں خارجی با توں کا ذکر ہوتا ہے ‘‘۔ ۲؎

انشائیہ اور مضمون کے اس فرق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ مضمون کسی موضوع پر مربوط انداز میں معلومات فرا ہم کرنے والا نثر کا حصہ ہوتا ہے۔ جسے مقالہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں جذبات سے زیادہ معروضیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ اور حقائق کا بیان سید؂ھی سا دھی نثر میں کیا جا تا ہے۔ عام طور پر علمی موضوعات کے بیان کے لئے مضمون لکھا جا تا ہے۔ جبکہ ادبی اور جذباتی نوعیت کے خیالات کے اظہار کے لئے انشائیہ لکھا جا تا ہے۔

 

 حبیبؔ حیدر آ با دی کی مضمون نگاری کا جائزہ

 

’’مضمون ‘‘ کی مبادیات سے واقفیت کے بعد آئیے دیکھیں کہ حبیبؔ حیدر آبا دی کی مضمون نگاری کی صفات کیا ہیں۔ حبیبؔ حیدر آ بادی کے مضامین پر مشتمل کتاب کا نام ’’ انگلستان میں ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مختلف عنوانات پر حبیبؔ حیدر آ بادی کے ۴۳ مضامین ہیں۔ ان میں صنف مضمون کی قید میں آنے والے معلوماتی مضامین کی تعداد صرف پا نچ ۵ ہے۔ جبکہ دیگر مضامین انشائیہ نما تحریریں اور شاعری پر تنقید ہیں۔ حبیبؔ حیدر آ بادی کی یہ کتاب ۱۹۸۱ ء میں اکیڈمی آف اردو اسٹڈیز کے زیر اہتمام ڈارٹ فو رڈ کینٹ یو کے سے شائع ہو ئی۔ کتاب کی ترتیب و تزئین مغنی تبسم کی ہے۔ سر ورق۔ کی تصویر میں حبیبؔ حیدر آ بادی کو لندن کی مشہور عمارت Big ben کے پس منظر میں ٹھہرا ہوا دکھا یا گیا ہے۔ اس طرح سرو رق کتاب کے عنوان ’’ انگلستان میں ‘‘ سے منا سب رکھتا ہے۔ ’’انگلستان میں ‘‘ کتاب کی کتا بت محمد عارف الدین نے کی۔ اور اس کتاب کو اکسل پرنٹنگ پریس چوک حیدر آباد سے چھا پا گیا۔ کتاب پر برطانیہ ہند وستان و پا کستان اور امر یکہ کے پتے دئے گئے جہاں پر یہ کتاب دستیاب ہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی نے یہ کتاب اپنی شر یک حیات ’’ صدیقہ ‘‘ کے نام کیا۔ اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انتساب میں خود صدیقہ شبنم کا یہ شعر پیش کیا۔

؎          ’’ کبھی قدم جو تھک گئے غموں کی رہ گذار میں

تری نظر کا نور تھا جو حوصلے بڑھا گیا (صدیقہ شبنمؔ )

کتاب کے اگلے صفحہ پر حبیبؔ  حیدر آ بادی کا یہ شعر دیا گیا۔

؎          اس مشینی زند گی میں کون کس کا آشنا

جب بھی آئینہ میں دیکھا خود کو بیگانے لگے     ( حبیبؔ  )

اظہار تشکر کے عنوان سے حبیبؔ حیدر آبادی نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں صدیقہ شبنم کے بھا ئی مغنی تبسم سے عجز و انکسا ری کے سا تھ اظہار تشکر کیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’ انگلستان میں کتا بت و طباعت کی دشواریوں کی وجہ سے اس کتاب کو حیدر آ باد دکن میں چھپوا نا پڑ ا۔ کسی بھی کتاب کی اشاعت کے لئے جن دشوار گزار مرحلوں سے گزر نا پڑ تا ہے ان سے دور دور تک بھی میری آشنائی نہیں۔ اس جان لیوا کام کے لئے میں نے اپنے عزیز تر ین دوست اور میری رفیقہ،   حیات صدیقہ کے بڑے بھا ئی ڈاکٹر مغنی تبسم کا انتخاب کیا۔ جو ادبی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مغنی تبسم ہی کی کا وشوں اور توجہ کا ثمر ہے کہ میری یہ کتاب آپ کے سامنے ہے۔ ۔ ۔ اگر مغنی کا تعاون میرے شامل حال نہ ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ میری زند گی میں تو یہ کتاب ترتیب نہ ہونے پاتی اس کرم کے لئے میں ان کا دلی شکر گذار ہوں ‘‘ ۳؎

اظہار تشکر کے بعد ’’ فہرست ‘‘ مضامین دی گئی ہے جس میں۔ میرے تجربات ’’ کے تحت چھ ۶ مضامین۔ ’’ یا دیں ‘‘ کے تحت سات ۷ مضامین ’’ انگلستان میں ادبی سما جی اور مذہبی سر گر میاں ‘‘ کے تحت آ ٹھ ۸ مضامین۔ ’’ انگلستان میں اردو کے ادیب اور شاعر ‘‘کے تحت بیس ۲۰ مضامین دئے گئے ہیں۔ کتاب کے آخر میں ’’ میری شاعری ‘‘ کے تحت گو شہ میں حبیبؔ حیدر آ بادی کا منتخبہ کلام دیا گیا ہے جو غزلوں،   نظموں اور قطعات پر مشتمل ہے۔ کتاب ۳۰۴ صفحات پر مشتمل ہے۔

 

حبیبؔؔ حیدر آ بادی کے معلوماتی مضامین

 

 انگلستان میں

 

حبیبؔ حیدر آ بادی کی تصنیف ’’ انگلستان میں ’’ کے ‘‘ ’’میرے تجربات‘‘ گو شے میں شا مل پہلے مضمون کا عنوان ’’ انگلستان میں ‘‘ ہے جو اس کتاب کا عنوان بھی ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے انگلستان میں تارکین وطن کی آ مد کی وجوہات،   تا رکین وطن کی آمد سے انگلستان کی سما جی و تہذیبی زند گی میں پیدا ہونے والی صورتحال،   لوگوں کے مسائل،   ملازمت کے مواقع،   تعلیم کی سہو لتیں اور بیر ون ملک سے آئے لوگوں کو ملنے والی سہو لتوں کا ذکر کیا ہے۔ انگلستان میں بیر ون ملک سے آنے والے ہنر مندوں کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حبیب حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ دو سری جنگ عظیم کے بعد جب یہاں کی معاشی حا لت ابتر ہو ئی اور اس ملک کے بہت سے مرد جنگ میں مارے گئے تو یہاں مزدوروں کی کمی محسوس کی جانے لگی۔ اور کارخانے چلانے کی خاطر با ہر کے ملکوں سے مزدور بھرتی کئے جانے لگے۔ با ہر سے جو بھی آ تا اس کو یہاں فوری کام مل جا یا کرتا  تھا۔ چوں کہ ہمارے اپنے ملکوں کا معاشی معیار ابتداء ہی سے پست رہا ہے۔ اس لئے ہندوستانیوں کو یہاں کی ہفتہ وار یا ما ہا نہ آ مدنی ان کی توقع سے کہیں زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ اس لئے جو معاوضہ بھی ان کو دیا جا تا ا سی میں وہ بہت خوش رہا کرتے تھے۔ اور ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی جو ہم لوگوں کے سپرد کیا جا تا تھا وہ تشکر و امتنان کے جذبات کے سا تھ انجام دیتے تھے ‘‘۔ ۴ ؎

انگلستان میں تا رکین وطن کی آمد کی وجہ بیان کرنے کے بعد حبیبؔ حیدر آبادی نے لکھا کہ ۱۹۵۰ ء کے بعد ہندوستان و پاکستا ن،  ویسٹ انڈیز اور افریقہ سے لوگ برطانیہ میں آ کر جمع ہونے لگے۔ مختلف تہذیبوں کے لوگ جب ایک نئے ملک میں جمع ہوتے ہیں۔ اور نئے ملک کی تہذیب کے بجائے اپنی تہذیب پر قائم رہتے ہیں۔ اور اپنی تہذیبی روایات کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک تہذیبی ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی ایسی ہی ٹکرا ؤ کی صورتحال کے بارے میں حبیبؔ  حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ ایک سید ہے سادے معاشرے سے یہاں کے پیچیدہ معاشرے میں اچانک چلے آنے کی وجہہ سے جہاں تا رکین وطن کو مختلف آزمائشوں کا سا منا کرنا پڑا وہیں یہاں کے مقامی لوگوں کو ہمیں سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آ ئی۔ ہم اپنی سا ری اچھا ئیاں اور سا ری برائیاں اپنے ساتھ یہاں لے آئے۔ اپنی روایات کو اپنی اقدار کو اپنے مذہب کو اپنے کھانے پینے کے طریقوں کو اپنے عاد ات و اطوار کو یہاں بھی بر قرار رکھنے کی کوشش کی۔ ہمارے جسم یہاں تھے۔ لیکن دل و دماغ میں ہمارے اپنے ملک بسے ہوئے تھے ‘‘۔ ۵؎

حبیبؔ  حیدر آ بادی تا رکین وطن کی انگلستان میں آمد کے بعد ان کے لئے پیدا ہونے والے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں آ گے لکھتے ہیں کہ لوگ بنیا دی طور پر دو لت پس انداز کر کے اپنے وطن روانہ کرنا چا ہتے تھے۔ تا کہ اپنے ملک میں خوشحالی کے دن دیکھ سکیں اس کے لئے وہ نہایت پست معیار زند گی کے سا تھ انگلستان میں زند گی گذارتے تھے۔ یہ بات انگلستان والوں کو نا گوار گذرتی تھی۔ حبیبؔ حیدرآبادی ۱۹۵۰ ء کے بعد ہی انگلستان منتقل ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تا رکین وطن کی انگلستان میں ہونے والی ترقی  اور انہیں پیش آنے والے مسائل دونوں کا قریبی مشاہدہ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ زند گی کے تمام اہم شعبوں میں ایشیا ئیوں کو مواقع ملنے لگے۔ ایشیا ئیوں کے برطانیہ کے مو سم اور ما حول سے ہم آہنگ ہونے میں آ ئی دشوار یوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ جو لوگ ۱۹۵۰ ء کے بعد یہاں آئے ان کو ابتداء میں سخت آزمائشوں کاسا منا کرنا پڑا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ ان کے لئے یہاں کا مو سم ثا بت ہو ا۔ سر ما میں تین بجے دن سے اندھیرا شروع ہو جا تا ہے۔ گر ما میں رات کے ۱۱ بجے تک روشنی رہتی ہے۔ دھوپ نکل جائے تو ایک نعمت معلوم ہوتی ہے۔ کبھی با رش،   کبھی کہر،   کبھی ہوا،   کبھی برف،   اور ہمیشہ سر دی،   ابتدا ء میں تو بڑی جان لیوا معلوم ہوتی تھی۔ یہاں کے مو سم کا مقابلہ ایک طرف تھا تو دو سری طرف ذریعہ معاش کی تلاش ‘‘۔ ۶؎

حبیبؔ حیدر آ بادی انگلستان کے مو سم کی سختیوں کا ذکر کرنے کے بعد وہاں گورے لوگوں کی جا نب سے رنگ دار لوگوں سے تعصب بر تنے نسل پر ستی کو بڑھاوا دینے اور ٹرین میں ان پر ایک گورے غنڈے کی جا نب سے ہونے والے حملے کی تفصیلات بیان کیں۔ پو لیس کے معاندانہ رو یے،   ایشیا ئیوں کے غیر قانونی طور پر انگلستان میں داخلے اور انگلستان میں تیزی سے بڑھنے والی غیر مقیم افراد کی بستیوں کے احوال حبیب حیدر آبادی نے اس انداز میں پیش کئے کے اردو کے ایک قا ری کو گھر بیٹھے برطانیہ کی زند گی کے حا لات سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ انگلستان میں لوگوں کو سیا سی،   سما جی اور معاشی تحفظ کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے اُنہوں نے لکھا کہ لوگ طرح طرح کے ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن اس بد لے میں ان کا علاج اور بچوں کی تعلیم مفت ہو جاتی ہے اور بوڑھوں اور بے روز گاروں کو حکو مت وظیفے دیتی ہے۔ ایشیا ئی کی لوگوں کی تہذیبی و ثقافتی پیشرفت کو بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے لکھا کہ بی بی سی ٹیلی ویژن سے ایشیا ئیوں کے لئے پر و گر ام نشر ہوتے ہیں۔ اور بر صغیر کے فنکاروں کے پر و گر ام اسٹیج ہوتے ہیں۔ ایشیائیوں کے برطانیہ میں قدم اتنے مضبوط ہو گئے کہ وہ برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں حصّہ لئے اور پارلیمنٹ کے لئے منتخب بھی ہوئے۔ اس طرح حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنے مضمون ’’ انگلستان میں ‘‘ ۱۹۵۰ ء کے بعد برطانیہ آ کر بسنے والے غیر مقیم افراد کی زند گی کے مختلف پہلو بیانیہ انداز میں پیش کئے ہیں۔ اس مضمون سے ایشیا ئی لوگوں کے برطانیہ میں قیام اور انہیں در پیش مسائل کے بارے میں کا فی معلومات حا صل ہوتی ہیں۔ حبیب حیدر آبادی نے خود ان حالات کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اور انہیں مضمون کی شکل دی۔ ایک ایشیا ئی کی نظر سے انہوں نے بیسو یں صدی کے نصف آخر میں برطانیہ کی زند گی کا بھر پور نقشہ پیش کیا ہے۔ اور اپنے پہلے ہی مضمون سے اردو مضمون نگا ری میں اپنے کمال کا ثبوت پیش کر دیا۔

 

ہمارے مسائل

 

’’ انگلستان میں ‘‘ تصنیف میں شا مل اگلے مضمون کا عنوان ’’ ہمارے مسائل ‘‘ ہیں۔ اس مضمون میں حبیبؔ حیدر آبادی نے اپنی طرف سے برطانیہ میں مقیم تمام تا رکین وطن با لخصوص ایشیا ئی باشندوں کے مسائل کا بڑی خو بی سے احاطہ کیا ہے۔ لوگ عموماً  سمجھتے ہیں کہ ہند وستان کے با ہر جو بھی کمانے کے لئے جا تا ہے۔ وہ نہ صرف دو لت کما تا ہے اور گھر میں خوشیاں لا تا ہے بلکہ خود بھی خوش و خرم رہتا ہے اس خیال کو غلط قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے برطانیہ میں با ہر سے آئے لوگوں کی زند گی میں آنے والے مسائل کو پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ انگریز لوگوں کا رنگ دار لوگوں سے تعصب بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس کے لئے اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب انگریز ہم پر محکوم تھے تو ان کی خو شا مد کے لئے ہم نے ان کی زبان،   تہذیب،   رسم و رواج عادات و اطوار سب سیکھے لیکن فائدہ کچھ نہ ہو ا۔ اور جب انگریزوں کے ملک میں رہنے کا موقع ملا تو وہاں انہیں نسلی تعصب کا شکار ہو نا پڑا۔ انگریزوں کے اس طرح کے بر تا ؤ کو بیان کرتے ہوئے حبیب حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ رنگ کی بنا ء پر ہم سے امتیاز بر تا جانے لگا۔ ۱۹۵۰  اور ۱۹۶۰ء کے درمیان ہم لوگوں کو مکانات ملنے میں دشواری ہوتی تھی۔ اچھے علاقوں میں ہمیں مکان فروخت نہیں کیا جاتا تھا۔ مکانات خریدنے کے لئے قرضے دینے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی تھیں انشورنس کا یریمیم زیادہ لیا جاتا تھا۔ ہم کو صرف جسمانی کاموں کا اہل سمجھا جا تا تھا۔ ذمہ دار عہدے نہیں دئیے جاتے تھے۔ کام کرنے کے اوقات مقامی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے تھے۔ اُجرت مقامی لوگوں کے مقابلے میں کم دی جاتی تھی ‘‘۔ ۷ ؎

مقامی عوام کے علا وہ سیا سی پا رٹیوں کی جا نب سے تار کین وطن کی مخالفت اور ان کے لیڈروں کی مخالفت پر مبنی تقا ریر،   ایشیا ئی باشندوں کی اپنے حقوق کے حصول کے لئے جد و جہد وغیرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی نے لکھا کہ کسی طرح لوگ وہاں آ باد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اپنی تہذیب و ثقافت کا دامن نہیں چھوڑ ا۔ چنانچہ برطانیہ میں بر صغیر والوں کی مذہبی و تہذیبی سر گرمیوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ ہم ایشیا ئیوں کی سینکڑوں جماعتیں اس ملک میں ہیں اور ہما ری مذہبی،  تہذیبی،   ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں بڑے زور و شور سے یہاں جا ری رہتی ہیں۔ میلاد النبیؐ کے جلسے بھی ہوتے ہیں۔ گرو نانک صاحب کا جنم دن بھی منا یا جا تا ہے دیو الی کے موقع پر دکانوں پر چراغاں بھی ہوتے ہیں۔ گاندھی جی اور قائد اعظم کی پیدائش کے دن بھی منائے جاتے ہیں۔ کوی در بار سجائے جاتے ہیں۔ مشاعروں کی محفلیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ ان سرگرمیوں میں مقامی انگریزوں کو بھی مدعو کیا جا تا ہے ‘‘۔ ۸ ؎

ایشیا ئیوں کے مزید مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے لکھا کہ زبان ایک اہم مسئلہ تھی۔ عورتوں اور بچوں کی انگریزی سے نا واقفیت سے مسائل پیدا ہوئے۔ مختلف اداروں میں انہیں انگریزی سکھانے کا انتظام کیا گیا۔ جبکہ ایشیا ئیوں نے اپنے بچوں کی انگریزی تعلیم کے ساتھ ان کی مذہبی تعلیم اور ما دری زبان سیکھنے کا نظم کیا۔ بچوں کی منا سب اخلاقی  تر بیت ایک بڑا چیلنج ہے۔ ریڈ یو ٹی وی اور اخبارات کے اثر ات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ دونوں ملازمت کرتے ہوں تو ان گھروں کے بچوں کی تر بیت مسئلہ ہے۔ برطانیہ کے آ زاد معاشرے میں بچوں کو آ زادی دیتے ہوئے بھی ان پر کنٹر ول رکھنا ایک مسئلہ ہے۔ اگر آز ادی زیادہ ہو جائے تو اس کے نتائج بد اخلاقی  کے واقعات کی صورت میں سا منے آتے ہیں انگریز لڑکوں سے ایشیا ئی لڑکیوں کی شا دی کرنا ایک نا پسندیدہ عمل ہے جو مخلوط معاشرے کے ثمرے کے طور پر سا منے آ یا ہے۔ تہذیبی شناخت کی برقراری کو برطانیہ کے تا رکین وطن کا ایک اہم مسلہ قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آ بادی لکھتے ہیں کہ بر صغیر کے لوگ اپنی شناخت کی برقراری کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مضمون کے آ خر میں برطانیہ میں مقیم ایشیا ئیوں کے بارے میں بر صغیر کے لوگوں کے غلط تاثر کو بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ عام طور سے ہند و ستان اور پا کستان کے عوام میں یہ تاثر ہے کہ انگلستان میں دو دھ اور شہر کی ندیاں بہتی رہتی ہیں اور ہمارے لئے یہاں کے دن عید ہیں تو راتیں شب برأت کچھ اسی قسم کی اُلٹی سیدھی رائے ان لوگوں کی بھی رہتی ہے جو عارضی طور پر یہاں آتے ہیں بڑی بڑی ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں یا اپنے خاندان یا دو ست احباب کی مہمان نوا زی کا لطف اُٹھا کر یہاں سے و اپس جاتے ہیں ان کو یہاں کی مٹی بھی سو نا نظر آتی ہے پتھروں کو بھی ہیروں کا مقام دینے لگتے ہیں اور ہمارے مسائل کو سمجھے بغیر اُلٹے ہم کو ہی اپنے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں ‘‘۔ ۹ ؎

اس مضمون کے ذریعہ حبیبؔ حیدرآبادی نے برطانیہ میں مقیم تارکین وطن کے کئی معاشی، تہذیبی و سماجی مسائل کو بیان کیا ہے۔ رواں اسلوب میں درد بھرے لہجے میں جس اندازسے انہوں نے وہاں کے حالات بیان کئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حبیبؔ حیدرآبادی نے بھی ان مسائل کا سامنا کیا ہو گا۔ تب ہی ان کی تحریر میں سبھی ایشیائیوں کا درد سمٹ آیا۔ موضوع سے متعلق مواد پیش کرتے ہوئے انہوں نے مضمون کو معلوماتی اور تاثراتی بنا دیا۔

 

انگلستان کی معیشت اور ہم

 

حبیبؔ حیدرآبادی کے تحریر کردہ اگلے مضمون کا عنوان ‘‘انگلستان کی معیشت اور ہم‘‘ ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے برطانیہ کے نظام کے نقصانات بیان کئے ہیں۔ انہوں نے سود کے ذریعہ لوگوں کے استحصال کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھا کہ لوگ سرمایہ دار کی مدد سے مکان قرض پر خریدتے ہیں لیکن ابتداء میں اسی تا نوے فیصد سود ادا کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ۲۵ سال تک جاری رہتا ہے۔ یہ طریقہ کار کار اور دیگر قیمتی اشیا ء کی خر یدی میں بھی جا ری رہتا ہے۔ اگر لوگ قرض واپس نہ کر یں تو انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا تا ہے۔ اور ان سے دیا گیا سا مان ضبط کر لیا جا تا ہے۔ خوشحالی کے لئے برطانیہ میں مر دوں کے سا تھ عورتیں بھی کام کرتی ہیں۔ عورتوں کے کام کرنے سے ہونے والے فائدوں اور نقصانات بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ گھر کی خوشحالی میں یہاں عورت کا بڑا حصہ ہے۔ زند گی کے ہر شعبے میں اب عورتوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ گز شتہ چند سال سے عور توں کو بھی قا نون کی رو سے مرد کے برا بر اُجرت دینی پڑتی ہے۔ با ہر کے کاموں میں عور توں کے بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لینے کی وجہ سے جہاں گھر کی معاشی حا لت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ وہیں اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ خاندانی زند گی میں ابتری کے عنصر داخل ہونے لگتے ہیں شو ہر اور بیوی کے آ پس کے تعلقات میں اُلجھا ؤ شروع ہو جاتا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال برا بر نہیں ہونے پا تی۔ ۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کے دل میں اپنے ان ماں باپ کے لئے وہ جگہ نہیں رہتی۔ جو عام طور سے ایک غریب لیکن صحت مند معاشرے میں دیکھی جا سکتی ہے ‘‘۔ ۱۰؎

حبیبؔ  حیدر آ بادی اس طرح کے خیالات پیش کرتے ہوئے ناصح بن جاتے ہیں۔ اور وہ مغرب کی ترقی  کے مقابلے میں مشرق کی تہذیب،   اخلاقی  تر بیت کو وہ گھر سے با ہر نکل کر عورت کے ملازمت کرنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے مضمون میں آ گے تبصرہ کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آ بادی لکھتے ہیں کہ لوگ اپنے معیار زند گی کو بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ آ سائشوں کے حصول کی خاطر جذبات کو قربان کرتے ہوئے ایک مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ جس کے سبب بیمار ہوتے ہیں۔ اور کبھی کبھی ان کے دما غوں پر بھی اثر پڑنے لگتا ہے۔ اس طرح حبیب حیدر آبادی نے ’’ انگلستان کی معیشت اور ہم ‘‘ کے عنوان پر لکھے گئے مضمون میں برطانیہ میں مقیم ایشیا ئیوں کے معاشی مسائل اور دو لت کے حصول کے لئے کی جانے والی حد سے زیادہ محنت کے مضر اثرات بیان کئے۔ اور عورتوں کی ملازمت سے ہونے والی اخلاقی اور سما جی برائیوں کو اصلا حی انداز میں پیش کیا۔ ان مضامین میں حبیبؔ حیدر آ بادی ایک درد مند انسان کے طور پر اُبھر کر آتے ہیں۔ اور ان کا مقصد دیار غیر میں مشرقی  تہذیب کا تحفظ دکھا ئی دیتا ہے۔

 

شا ہی جمہوریت

 

حبیبؔ حیدر آ بادی کی تصنیف ’’ انگلستان میں ‘‘ شامل اگلے مضمون کا عنوان ’’ شا ہی جمہو ریت ‘‘ ہے۔ اس مضمون میں اُنہوں نے برطانیہ کے جمہوری نظام معیشت پر کڑی چوٹ کی ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کا تعارف کرا یا ہے۔ جو شا ہی اور پارلیمنٹ کے نظام پر مشتمل ہے۔ اس مضمون میں حبیبؔ حیدر آبادی نے شا ہی کے فرائض،   ان کے جاہ و جلال پارلیمنٹ پر ان کی با لا دستی،   پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں دار لا مرا ء اور دار  العوام،   وغیرہ کا تعارف پیش کیا ہے۔ اور لکھا کہ وہاں کا جمہوری نظام کس طرح چلتا ہے۔ برطانیہ کے سیاسی نظام کو چوں چوں کا مر بہ قرار دیتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ برطانیہ کو اپنے مو جود ہ سیا سی نظام کی ایک بھا ری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ایک طرف شا ہی،   دوسری طرف جمہو ریت تیسری طرف انتظامیہ اور عدلیہ کی مکمل آ زا دی،   چو تھی طرف مقامی کونسلوں کی اپنی دمہ داری اور ان سب سے بڑھ کر انفرادی آ زاد ی۔ کبھی کبھی یہ سو چنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان کے ڈانڈے آ خر کہاں شروع ہوتے ہیں۔ اور کہاں جا کر ختم ہوتے ہیں۔ شا ہی جمہوریت کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ جمہوریت شاہی کا سہا را لئے ہوئے ہے۔ دونوں ایک دو سرے کے پیچھے چھپے رہنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی کو ئی جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی کوئی۔ نہ تو یہاں پر مکمل شہنشاہیت ہے اور نہ ہی یہاں کی جمہو ریت یہاں کی شا ہی کے بغیر اپنا گذارا کر سکتی ہے ‘‘۔ ۱۱؎

اس مضمون میں حبیبؔ حیدر آبادی نے برطانیہ کی مو جو دہ شہنشاہ ملکہ ایلز بتھ کی ستائش کی جنہوں نے نہ صرف جمہو ریت کو اپنی قا بو میں رکھا بلکہ اپنے ولی عہد شہزادہ چار لس کو بھی شہنشاہیت کے گر سکھائے۔ مضمون کے آ خر میں انہوں نے لکھا کہ یہاں کی شا ہی،   جمہوریت کو حکو مت چلانے میں رہنما ئی کرتی ہے تو جمہو ریت شا ہی کو اپنی آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنی تصنیف ’’ برطانیہ کی سیا سی جماعتیں اور پارلیمنٹ ‘‘ میں برطانیہ کے سیا سی نظام کا مفصل تعارف کرا یا ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ زیر نظر کتاب کے باب ’’ حبیبؔ  حیدر آ بادی کی سیا سی تحریر یں ‘‘ میں شا مل ہے۔

 

کمیشن بر ائے نسلی مساوات

 

برطانیہ سے متعلق حبیبؔ حیدر آ بادی کا ایک اور معلوماتی مضمون ’’ کمیشن بر ائے نسلی مساوات ‘‘ ہے۔ اس مضمون میں برطانیہ میں ۱۹۷۶ ء میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ قا نون کے تحت قائم کر دہ کمیشن بر ائے نسلی مساوات کے قیام،   اس کے دائرہ کار اور اس کے تحت ہونے والے کام کو بیان کیا ہے۔ حبیب حیدر آبادی نے اپنے سابقہ مضامین میں برطانیہ میں انگریزوں کی جا نب سے رنگ داروں کے سا تھ برتے جانے والے نسلی تعصب پر اپنے شد ید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ اس مضمون میں وہ نسلی مساوات کمیشن کے ذریعہ ہونے والے کام کو پیش کرتے ہیں۔ اس کمیشن کی ذمہ دار یاں بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آ با دی لکھتے ہیں :

’’ ہر قسم کے نسلی امتیاز کو ختم کرنے کے لئے مشترکہ کوشش مختلف النسل لوگوں کے لئے زند گی کے مختلف شعبوں میں مواقع کی فرا ہمی میں یکسا نیت۔ قا نون کے نفاذ پر گہری نظر اور اس میں تبدیلی کی ضرورت پر سکریٹری آف اسٹیٹ کو نئی تجاویز پیش کرنے کی ہدایت ‘‘۔ ۱۲؎

حبیبؔ حیدر آ بادی اس کمیشن کے بارے میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے آ گے لکھتے ہیں کہ برطانیہ میں تارکین وطن کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا تا ہے۔ اور ان کے لئے مسائل کھڑے کئے جاتے ہیں۔ کمیشن برائے نسلی مساوات کے لئے حبیبؔ حیدر آ بادی نے اس مضمون میں اہم تجاویز پیش کیں۔ جن میں تا رکین وطن کے بچوں کی ما دری زبان اور مذہبی تعلیم،   سیا ست میں تا رکین وطن کے داخلے کے امکانات وغیرہ ہیں۔ مضمون کے آ خر میں انہوں نے برطانیہ میں قائم ریس ریلیشن کمیشن اور اس کے عہدیداروں کا تعارف کراتے ہوئے اس ادارے کے مقاصد بیان کئے ہیں۔

حبیبؔ  حیدر آ با دی کا یہ مضمون بھی ان کے سابقہ مضامین کی طرح برطانیہ میں مقیم تارکین وطن کے مسائل کا احاطہ کرتا  ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے قائم کر دہ مساوات کمیشن کا تعارف پیش کرتا  ہے۔ یہ ایک معلوماتی مضمون ہے۔ جو اپنے عنوان کی منا سبت سے منا سب مواد رکھتا ہے۔

حبیبؔ  حیدر آ بادی کی تصنیف ’’ انگلستان میں ‘‘ میں شا مل ابتدائی پا نچ مضامین انگلستان کی زند گی سے متعلق معلومات پر مبنی ہیں۔ ان مضامین میں موضوع سے متعلق مواد پیش کیا گیا ہے۔ تا ہم اس کتاب کے اگلے حصے ’’ یاد یں ‘‘میں حبیبؔ حیدر آ با دی کے چند ادبی مضامین بھی ہیں جن کا جائزہ ذیل میں پیش ہے۔

 

حبیب حیدر آ بادی کے ادبی مضامین

 

حبیبؔ  حیدر آ بادی کے چند ایک ادبی مضامین پر دیسیوں کے امام۔ بیاد خسروؔ،  بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر،   اقبال اور تا رکین وطن اور انگلستان میں اردو اور پر دیسیوں کے امام ہیں۔

 

 پر دیسیوں کے امام

 

مضمون ’’ پر دیسیوں کے امام ‘‘ میں حبیبؔ حیدر آبادی نے واقعہ کر بلا میں با طل سے لڑتے ہوئے حق کی سر بلندی کے لئے سر کٹانے والے نو اسہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم امام حسینؓ کی شہا دت کے فسلفہ کو ادبی انداز میں پیش کیا ہے۔ امام حسینؓ کی تعریف جذباتی انداز میں کرتے ہوئے حبیب حیدر آ بادی لکھتے ہیں :

’’ رسول اللہؐ کے دامن میں تر بیت پا کر بڑا ہونے والا قران کی عظمت کو رسول اللہ کی زند گی میں دیکھنے والا اَ نَا مَدِ یْنَۃُ الْعِلْم وَعَلِیُ بَا بھََا جن کی شان میں کہا گیا ان کا بیٹا خاتون جنت سیدہ فا طمۃ الزہرا کا لخت جگر کسیے نور سے ظلمت کی طرف جا سکتا تھا۔ کیسے وہ ان کی اطاعت کرتا۔ جن کا منبع طاعت ہی اپنی جگہ سے ہٹ گیا تھا حسینؓنے اس اطاعت سے انکار کر دیا ‘‘۔ ۱۳؎

حبیبؔ  حیدر آ با دی اس مضمون کے ذریعہ نہ صرف مذہب اسلام پر اپنے گہرے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ امام حسینؓ کے فلسفۂ شہا دت کو پیش کرتے ہوئے حق کی راہ میں جد و جہد کرنے اور باطل کے آگے نہ جھکنے کی لوگوں کو تلقین کرتے ہیں۔ یوم عاشورہ کے ضمن میں پڑ ہے گئے اس مضمون میں انہوں نے تا رکین وطن مسلمانوں کی طرف سے حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

’’ آج جہاں جہاں مسلمان ہیں اسی حد تک حکو مت کے احکام پر عمل پیرا ہیں اور رہیں گے جس حد تک قانونِ قد رت اور ان کے اپنے ضابطہ حیات یعنی قرآنی احکامات میں تضاد نہ ہو۔ جہاں بھی یہ تضاد پا یا جا تا ہے مسلمانوں پر یہ فرض ہو جا تا ہے کہ ایسے قا نون کو ٹھکرا دیں۔ امام حسینؓ کی ذات گرامی نے اس سلسلے میں ہم سب کی بڑی رہنما ئی کی ہے اس عنایت کے لئے ہم تا رکین وطن خلوص دل سے ان کے شکر گذار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ سید  الشہداء کی ذات گر امی ہم سب کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے خصوصاً ہم مہا جر ین کے لئے جو اپنے وطن سے دور ہیں۔ اپنے معاشرے سے دور ہیں۔ اپنے چاہنے والوں سے دور ہیں۔ ہر قسم کے ذہنی کرب کا شکار ہیں۔ سید الشہداء کی حیات اور ان کے شہا دت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ۔ ۔ سلام ہو سید الشہداء پر۔ اور ہم پردیسیوں کے امام پر ‘‘۔ ۱۴ ؎

حبیبؔ  حیدر آ با دی اس مضمون کے ذریعہ نہ صرف مذہب اسلام پر اپنے گہرے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ امام حسینؓ کے فلسفہ شہا دت کو پیش کرتے ہوئے حق کی راہ میں جد و جہد کرنے اور با طل کے آگے نہ جھکنے کی لوگوں کو تلقین کرتے ہیں۔ یوم عاشورہ کے ضمن میں پڑ ہے گئے اس مضمون میں انہوں نے تا رکین وطن مسلمانوں کی طرف سے حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ا س مضمون میں حبیبؔ  حیدر آبادی نے امام حسینؓ کی قربانی کی عظمت بیان کرتے ہوئے امجدؔ حیدر آ بادی کی یہ رباعی بھی پیش کی۔

مشکل ہے بہت صاحب ایماں ہو نا

کچھ کھیل نہیں ہے حق پر قرباں ہو نا

یاں مثل حسین سر قلم ہوتا ہے

امجدؔ آ ساں نہیں مسلماں ہو نا         امجد حیدرآبادی

اس مضمون میں حبیبؔ  حیدر آبادی نے قرآن کی مختلف آیات کا حوالہ بھی دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے بارے میں بھی گہری معلومات رکھتے تھے۔ اور ادبی مضامین کو وقیع بنانے کے لئے ضرورت پڑنے پر آیات قرآنی اور احادیث شریفہ کا بھی حوالہ دیتے تھے۔

 

بیاد خسرو

 

حبیب حیدر آبادی کے اگلے ادبی مضمون کا عنوان ’’بیادِ خسر و حضرت نظام الد ین اور حضرت امیر خسروؔ ‘‘ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے مشہور صوفی بز رگ حضرت نظام الدینؒ دہلوی کے شا گرد امیر خسروؔ  کو نابغہ بغیر روز گار شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کی عظمت شعر و ادب کے آئینہ میں بیان کی ہے۔ کسی کو پہچانے بغیر اس کا لو ہا ماننے والی شخصیات کو نابغہ قرار دیا۔ اس مضمون میں فلسفہ عشق کو بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’خو دی کی قند یل کی روشنی کی تمنا نے مو سی کو طور کی زیارت کر وائی۔ عیسیٰ کو صلیب پر چڑھوایا۔ کرشن جی سے بنسی بجوائی۔ محمد الرسول اللہ پر قرآن اُتر وایا۔ علیؓ کے لئے یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَا بًا کہلوا یا۔ حسینؓ کے خون سے کر بلا کی مٹی کو رنگین کر وا یا۔ گرو نانک صاحب سے وحدت کے گیت سنو ائے۔ ۔ ۔ ۔ بندگانِ زمانہ بے بصری کے با زار میں اپنی متاع عزیز کا سودا کرتے نظر نہیں آتے بلکہ پر توِ اولین کا شرف بخشے جانے پر ایک پر اسرار لذت میں اپنے آپ کو گم کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حضرت امیر خسر و کے سا تھ ہوا‘‘۔ ۱۵؎

دنیا کی چند عظیم ہستیوں کے سا تھ پیش آئے واقعات کے تذکرے کے ذریعہ حبیبؔ  حیدر آ با دینے لکھا کہ عشق حقیقی میں بندے اور اس کے مالک حقیق کے در میان عجیب و غریب تعلق قائم ہو جا تا ہے۔ امیر خسروؔ  کے احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ آ ٹھ برس کی عمر میں ان کے والد امیر سیف الدین محمود نے انہیں حضرت نظام الدینؒ کی تر بیت میں دے دیا تھا۔ ان کی تر بیت سے امیر خسروؔ نے جو مقام حا صل کیا اسے بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ز مانے کے ہر باد شاہ نے یعنی سات بادشاہوں نے اپنے اپنے دور حکو مت میں ان کو خلعت بخشی۔ جلال الد ین خلجی نے امیر کا خطاب عطا کیا۔ مصحف برداری کے اعز از سے نو از ا۔ اس طرح حضرت نظام الدینؒ نے خسروؔ  کے دامن کو دامانِ باغبان بنا دیا۔ ادھر دنیا وی زند گی کی وہ آن بان کہ ہا تھی کے وزن کے بر ابر سونے اور چا ندی سے نوازے جاتے تھے۔ ادھر شاعری کی وہ شان کہ ان کے مقابل نہ فر دوسی ٹھہرے نہ سنا ئی،   نہ صائب،   نہ جا می نہ نظامی نہ سعدی۔ دو لا کھ شعر لکھے۔ نظامی کی پا نچ مثنویوں کا جو اب لکھا نثر میں اعجاز خسر وی،   خزائن الفتوح اور افضل الفوائد لکھے‘‘۔ ۱۶؎

حبیبؔ حیدر آ با دینے امیر خسرو اور نظام الدینؒ کے بارے میں یہ مضمون صوفیانہ رنگ میں لکھا ہے۔ چنانچہ آ گے اس کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ لندن کی ما دی،   مشینی اور مخلوط سو سائٹی میں پیری مر یدی کی بات کرنا اور امیر خسر و اور حضرت نظام الدینؒ کی آ پسی گفتگو کا ذکر ایک نئی بات ہو اور آ سانی سے سمجھ میں نہ آئے۔ تا ہم حبیبؔ حیدر آبادی کہتے ہیں کہ امیر خسر و اور حضرت نظام الدینؒ کی زند گیاں خلوص و محبت پر مبنی ہیں۔ اور لوگوں کے لئے مثالی ہیں۔ مر شد و مر ید کے آپسی خلوص کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’خلوص بھی ایسا جو مر شد کو یہ کہنے پر مجبور کرتا  ہو کہ اگر خدا مجھ سے پو چھے کہ تو میرے لئے کیا ہدیہ لا یا ہے تو میں کہوں امیر خسرو۔ اور دوسری طرف خسر و اپنے مر شد کے نعلین ایک لا کھ سکہ رائج الوقت دے کر خریدتے ہیں حبیبؔ حیدر آبادی مر شد و مر ید کے خلوص سے بے حد متاثر دکھا ئی دیتے ہیں۔ اپنے مر شد سے بے پناہ لگا ؤ کی عملی مثال پیش کرتے ہوئے امیر خسرونے حضرت نظام الدینؒ کے انتقال کے چھ مہینے بعد ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’حضرت نظام الدینؒ محبوب الٰہی نے ۹۵ برس کی عمر میں وفات پا ئی۔ اس وقت خسر و دہلی سے با ہر گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں اطلاع ملی کہ صدر نگ گلستان اس جہاں سے رخصت ہو چکا تو جو کچھ بھی ان کے ہاں مال و متاع تھا سب لٹا دیا روتے روتے دہلی پہنچے مزار کو دیکھا تو کہا :

؎ گو ری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس

چل خسر و گھر آ پنے رین بھئی چہوں دیس

اس کے بعد خسر و کی زندگی بہ فیض بے دلی توقیر درد کی نذر ہو گئی۔ چھ مہینے ہی گذرے تھے کہ وہ بھی اپنے مر شد کے غم میں انتقال کر گئے۔ اور اپنے چاہنے والے کے پائیں میں جگہ پا ئی‘‘ ۱۷ ؎

حبیبؔ  حیدر آبادی نے یہ مضمون ۲۰ ؍ ما رچ ۱۹۷۶ ء کو لندن میں منائے گئے یوم خسرو کے موقع پر پڑھا تھا۔ چنانچہ مضمون کے آ خر میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خسروؔ  کی سات سو سا لہ تقا ریب کے ضمن میں لندن میں منعقدہ یہ جلسہ خسر و کے لئے خر اج عقیدت ہے۔ اور امید کہ خسر و کا سا خلوص دل،   محبت،  انسا نیت،  وسیع النظری اور خُدا پر ستی ہم لوگوں میں بھی آئے۔ خسروؔ کے بارے میں حبیبؔ  حیدرآبادی نے اپنے خلوص کا اظہار عقیدت مندی کے ساتھ کیا۔ اور ان کی تعریف توصیف کے لئے جو زبان استعمال کی ہے۔ اس سے عقیدت کی کر نیں جھلکتی ہیں۔ اس طرح حبیبؔ حیدر آبادی کا یہ مضمون اپنی دلچسپ نثر کے سا تھ ادبی شان لئے ہوئے ہے۔ اور ان کے مضامین کے ذخیرہ میں اچھا اضافہ ہے۔ اس مضمون سے ان کے اسلوب کی نیرنگیاں بھی جھلکتی ہیں۔ حبیبؔ حیدر آبادی کے مضامین کی خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی قسم کا موضوع ہو اس میں انگلستان کا تذکرہ کرنا ضر وری سمجھتے ہیں۔ امام حسینؓ کے مضمون اور اس مضمون میں بھی انہوں نے اپنے ہم وطنوں کے ذکر کا موقع نکال لیا۔ امیر خسرو پر اردو میں بے شمار مضامین لکھے گئے۔ لیکن ایک مرشد اور مر ید کے ما بین گہری محبت اور خلوص کو اُجاگر کرتا  حبیبؔ حیدر آبادی کا یہ مضمون اپنے اظہار کے دلچسپ انداز کے سبب یقیناً منفرد تصور کیا جائے گا۔

 

بہت جی خوش ہوا حالیؔ  سے مل کر

 

حبیب حیدر آبادی کا تحریر کر دہ ایک اور ادبی مضمون ’’بہت جی خوش ہوا حالیؔ  سے مل کر‘‘ ہے۔ یہ مضمون انہوں نے ۲۱ ؍ جو لا ئی ۱۹۷۹ ء کو حفیظ جالندھری کی صد ارت میں لندن میں منعقدہ یوم حا لی کی تقریب میں پڑھا تھا۔ اس مضمون میں حبیب حیدرآبادی نے حالی کے بارے میں اپنی یا دوں کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں انہوں نے حالی پر حیدر آباد والوں کے احسان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ سر سید احمد خاں کی فرمائش پر ۱۸۸۷ ء میں صدر المہام آ سمان جاہ نے حالیؔ  کے لئے ۷۵ روپئے ماہوار وظیفہ مقرر کیا تھا جسے بعد میں بڑھا کر ۱۰۰ روپئے کر دیا گیا۔ اس وظیفہ کے سبب حالیؔ  اپنی تصنیف و تالیف کے کام میں دل لگا سکے تھے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی نے لکھا کہ جس طرح مثنوی کے ساتھ مو لا نا رومی اور گلستان اور بو ستاں کہنے پر جس طرح سعدی یاد آتے ہیں۔ اُسی طرح مسدس کے نام کے ساتھ ہی حالی یاد آ جاتے ہیں انہوں نے لکھا کہ حا لینے حیدر آباد کے دورۂ کے موقع پر پہلی بار اپنی نظم ’’منا جات بیوہ‘‘ سنائی تھی۔ جد ید اردو تنقید اور جدید اردو شاعری کے فروغ میں حالیؔ  کی خدمات کو خر اج تحسین پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آ با دی لکھتے ہیں :

’’وہ شاعری کو ’’روح عصر‘‘ کی صورت میں دیکھنا چا ہتے تھے۔ شائد حالیؔ  ہی کی آرزوؤں،   امیدوں اور دعاؤں کا اثر تھا کہ لاہور میں زندہ دلان لاہور نے اپنا ایک حلقہ قائم کیا۔ ترقی  پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی۔ حلقہ احباب ذوق و جود میں آ یا۔ مر وجہ الفاظ اور تراکیب کو نئی جھلک عطا کی جانے لگی۔ ۔ ۔ اردو کو قو می شاعری عطا کرنے والوں میں حا لی کا نام سر فہرست ہے اقبال،  جوش اور حفیظ جالند ھری کی قو می شاعری نہیں معلوم کس حد تک حا لی کے افکار اور دل کی پکار کی رہین منت ہے‘‘۔ ۱۸؎

حالیؔ  کی قو می شاعری کے تذکرے کے علا وہ ان کی نثر میں انگریزی الفاظ کے استعمال اور ان کی تنقید میں انگریزی شعراء اور ادیبوں کے حوالوں کی مو جو دگی کو ان کی لاہور کی ملازمت کے مر ہون منت قرار دیتے ہوئے مضمون کے آ خر میں حبیبؔ حیدر آ با دینے حا لی کو جد ید ادب کا معمار اول قرار دیا۔ حالیؔ  کی شخصیت اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کو اُجاگر کرتا  حبیبؔ حیدر آبادی کا یہ مضمون تاثراتی نوعیت کا ہے۔ جس میں حالیؔ  کی مدح سرائی کی گئی ہے۔

 

اقبال اور تا رکین وطن

 

حبیب حیدر آبادی کے اگلے ادبی مضمون کا عنوان ’’اقبال اور تارکین وطن‘‘ ہے۔ اس مضمون میں حبیبؔ حیدر آبادی نے جذباتی انداز میں کلام اقبال سے تارکین وطن کو ملنے والے سبق کو یاد کیا ہے۔ مغربی تہذیب میں رہنے والے مشرقی  تہذیب کی پاسدا ری کیوں کر کر سکیں گے۔ اس مضمون میں اس کی جھلک دکھا ئی گئی ہے۔ مضمون کے آغاز میں حبیبؔ حیدر آبادی نے اقبال کے وہ اشعار پیش کئے جو انہوں نے لندن میں تعلیم کی غرض سے آئے اپنے بیٹے جا وید کو لکھے تھے۔ وہ اشعار یوں ہیں۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زنا نہ نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو

سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خو دی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر    اقبالؔ

اقبالؔ  کے یہ اشعار پیش کرنے کے بعد حبیبؔ حیدر آ بادی نے ان اشعار کی روشنی میں اپنی ذات کا احتساب کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’معیشت کی چکی میں ہم تا رکین وطن ایسے پسے جا رہے ہیں کہ دیار عشق میں مقام پیدا کرنا تو دور کی بات ہے اپنے گھر کی چار دیو اری ہی میں اپنا مقام آپ متعین کرنا اپنی ہی شوخیِ افکار کی بساط اُلٹنا ہے۔ عالم ایجاد اور صاحب ایجاد ہو کر زمانہ کو طواف تو کیا کرواتے اپنا طواف آپ کرنا پڑ رہا ہے۔ خو دی کا گوہر یگانہ بولہبی کے حوالے ہو رہا ہے۔ نگار خانہ آ رز و میں چاروں طرف اپنی ہی حرص و ہوس کی جلوہ سا مانیاں ہیں۔ کا شانۂ دل لغزش مستا نہ کی آماجگاہ بن رہا ہے‘‘۔ ۱۹؎

حبیبؔ حیدر آبادی نے اقبال کے فا رسی اور اردو اشعار کو پیش کرتے ہوئے مغربی تہذیب سے اپنی بیزار گی اور مشرقی  تہذیب سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ۲۰ سال کے عرصے میں ان جیسے کئی ایشیا ئیوں نے آسائشوں کے سا مان اپنے گھر میں لا لئے ہیں۔ لیکن مشینی زند گی گذارنے کے در میان اخلاص،   سوز و گداز،   مشرقی  اقدار کہیں زند گی سے چھوٹتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ اسی لئے وہ تا رکین وطن کے بچوں کو کلام اقبال سے سبق لینے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اقبال کے کلام سے جو سب سے بڑا سبق مل سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کی زند گی کا سنہرا زمانہ علم و فن کی نذر ہو۔ ایسا علم جس کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو سکے۔ ایسا علم جس سے تاریکی اور روشنی میں فرق کیا جا سکے۔ ایسے ہی علم سے خود فکری،   اور خود نگہی جیسی نعمتوں سے اپنے آپ کو ما لا کیا جا سکتا ہے۔ زند گی کی رعنا ئیاں گلے کا ہار بنتی چلی جاتی ہیں اندھی تقلید اور غلا ما نہ روش سے احتراز انفرادی اور اجتماعی رسوائی سے بچائے رکھتے ہیں۔ اندھی تقلید سے بچا رہنے والا اقلیت میں رہنے کے با و جود اپنی انفرادیت کی بقا ء کا کچھ اس طرح سا مان کرتا  ہے کہ اس کو اپنی انفرادیت کی بقا ء میں امت کی بقا ء نظر آتی ہے۔ بہار ہو کہ خزاں ہر چمن میں اسے لا الٰہ الا اللہ کا سبق ملتا رہتا ہے‘‘۔ ۲۰؎

حبیبؔ حیدر آبادی ایک ناصح کی طرح تا رکین وطن سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ اقبال کے مرد مومن کی صفات اپنے اندر پیدا کر یں۔ اور مشرق و مغرب کی اچھی قدروں کے سا تھ اسلا می زندگی بسر کر یں۔ حبیبؔ حیدر آبادی ایک عہد نا مہ کی طرح لکھتے ہیں کہ :

’’صاحب بصیرت مجتہد ین کو یہاں کے پیدا کر دہ مخصوص مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ مجھ جیسے عامی کو اپنے ہر ہر عمل کا قران کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا ہو گا۔ اپنے من سے پو چھ۔ ملّا سے نہ پو چھ۔ دنیا اور دین میں توازن برقرار رکھتے ہوئے ہم ہر زمانے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہر شعبہ حیات کے ہر جدید فرعون کے لئے موسیٰ بن سکتے ہیں۔ ذہنی جمود کو توڑتے ہوئے سراپا حرکت بن سکتے ہیں۔ اقبال کا کلام جو قرانی تعلیمات کی بازگشت ہے ہم تارکین وطن کی ہمت اور حوصلوں کو بڑھاتا ہے۔ ہم کو اس قابل بناتا ہے کہ ہم دنیا کی زندگی میں بھی شاد و با مراد رہیں اور آخرت میں بھی سرخ رو اور با اقبال‘‘۔ ۱۲؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کے ان خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیار غیر میں رہتے ہوئے کس طرح ان میں مذہبی جذبہ اُبھر کر آ یا تھا۔ کہتے ہیں کہ وطن میں لوگوں کو نہ اپنی زبان و تہذیب کی قدر ہوتی ہے نہ مذہبی اقدار کی۔ لیکن وطن سے دور جب رہنا ہو تو وہاں ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ کے مصداق وطن کی ہر بات اچھی لگنے لگتی ہے۔ اور مذہب کے معاملے میں مشاہدہ ہے کہ بر صغیر سے یو رپ اور امر یکہ جانے والے مسلمانوں کی حالت یہ ہو ئی کہ اپنے وطن میں تو یہ لوگ صرف نام کے مسلمان تھے اور رسمی طور پر مذہبی فرائض انجام دیتے تھے لیکن دیار غیر میں جانے کے بعد انہیں مغربی قدروں کے آ گے اپنے مذہب کی باتیں اچھی لگیں۔ چنانچہ لوگ اپنی مذہبی قدروں سے گلے لگ گئے۔ انہیں نہ صرف خود اپنا یا بلکہ دوسروں کو بھی ان اچھی قدروں کی تلقین کرنے لگے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی بھی ایک ایسے ہی مسلم ہند وستانی تھے۔ ویسے حیدر آ با دمیں بھی قیام کے دو ران حضرت خواجہ حسن نظامی جیسے صوفی بزرگ سے ان کی صحبتیں تھیں اور وہ مذہب اسلام سے قریبی لگا ؤ رکھتے تھے۔ لیکن انگلستان جانے کے بعد وہاں کے مغربی ما حول سے وہ اس قدر چو کنا ہو گئے کہ ان کی تحریروں میں جگہ جگہ مغربی تہذیب سے بیزار گی نظر آتی ہے۔ اور وہ اپنے بچوں اور تا رکین وطن کی آنے والی نسلوں کو مغربی تہذیب کی یلغار سے بچا نا چا ہتے ہیں۔ اقبال کے کلام سے اچھی قدروں کو اخذ کرنے کی تلقین کرتا  ہوا ان کا یہ مضمون اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں حبیبؔ  حیدر آ با دینے نہایت درد بھرے انداز میں ایک مفکر کی طرح لوگوں کو کلام اقبالؔ  سے فیضیاب ہونے کا مشورہ دیا ہے۔

 

سفر ہے شرط

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کا ایک مضمون ’’سفر ہے شرط‘‘ ہے۔ یہ مضمون در اصل ایک مختصر سفر نا مہ ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے اہل خاندان کے سا تھ برطانیہ سے،   پیرس،   سعو دی عرب پا کستان و ہند وستان اور ہند و ستان کے شہروں دہلی حیدر آباد وغیرہ کے سفر کے حا لات دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں۔ اردو ادب میں سفر ناموں کی اپنی تاریخ ہے۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نا مے کا فی مشہور ہیں ’’جا پان چلو‘‘ وغیرہ ادیبوں اور شاعروں کے سفر ناموں کے مطالعہ سے ان مقامات کی سیر کے علا وہ بہت سے کارآمد باتیں بھی معلوم ہو جاتی ہیں۔ خصوصاً  زبان و تہذیبوں کے بارے میں سفر کرنے والے ادیبوں کے خیالات معلومات سے بھر پور ہوتے ہیں۔

حبیبؔ  حیدر آبا دی اپنے سفر نا مے کے آغاز سے قبل تمہید کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ تا رکین وطن کے بچے مغربی ما حول میں پر ورش پاتے ہوئے مشرقی  تہذیب کو بھو لتے جار ہے ہیں۔ ان کے والدین کا وطن خود ان کا بھی ہے۔ لیکن وہ اپنے وطن کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اپنے وطن کے بارے میں منفی سوچ رکھنے بچوں کے رو یے کو مغربی میڈیا اور پر یس کی کا رستانی قرار دیتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائے جا رہے ہند وستان و پا کستان کے تاثر کو جذباتی انداز میں یوں بیان کرتے ہیں :

’’یہاں کا پر یس،   ریڈ یو،   ٹیلی ویژن اور سارے معلوماتی وسائل مغربی بر تری ہی کے گن گاتے ہیں۔ مشرق یا مشرقی  اطوار سے ان کو ابھی تک چڑ ھ ہے۔ ٹیلی ویژن پر ہند وستان یا پاکستان کا جب بھی ذکر آئے گا یا جب بھی کو ئی فلمی خاکہ دکھا یا جائے گا ان سے سننے والا یا دیکھنے والا یہی تاثر لے گا کہ ہند وستان یا پا کستان یا مشرق وسطی کے ملک انتہا ئی گندے ہیں وہاں کے رہنے والے اُجڈ اور گنوار ہیں۔ زند گی کی بنیا دی ضروریات سے وہ سب کے سب محروم ہیں تعلیم عنقا ہے۔ تہذیب و تمدن بس یو نہی ہیں۔ ہمارے ملک کا نام آئے گا تو ان کے ذہنوں میں جنگل کے شیر دوڑنے لگیں گے۔ سانپ رینگنے لگیں۔ بچھو ڈنک مارتے نظر آئیں گے۔ مکھیاں یلغار کرتی ہو ئی دکھا ئی دیں گی۔ مچھر پے در پے حملے کرتے رہیں گے ہم سارے کے سارے جنگلوں میں پتوں سے اپنے جسم کو چھپاتے ہوئے ان کے تصو رات میں بسے ہوئے ہیں‘‘ ۲۲؎

مغربی پر یس کی اس زہر افشانی سے متاثرہ لوگوں کو حبیبؔ حیدر آبادی غصّے میں جاہل کہتے ہیں۔ اور انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ ان کے بچے بھی ان ہی جاہلوں کے در میان پلے ہیں۔ اور بڑے ہونے کے بعد اپنے وطن کے بارے میں ان کا بھی کچھ اچھا خیال نہیں ہے۔ اپنے وطن کی حقیقی تصویر دکھانے اور اچھی قدروں کا احساس دلانے کے لئے حبیب حیدر آبادی بچوں کے ہمراہ وطن کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ جس کا مفصل احوال انہوں نے اپنے اس مضمون ’’سفر ہے شرط،  ،   میں دیا ہے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنے سفر کے احوال کا آغاز پیرس سے کیا۔ انہوں نے سن کا ذکر نہیں کیا پیرس کے بعد جدّہ پہونچنے اور مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے کی تفصیلات لکھیں۔ جس میں ان کے والد کے مزار کی زیارت اور دوران سفر سفری کاغذات اور زیور و رقم کے کھونے سے ہونے والی دشواریوں کو بیان کیا۔ حبیبؔ حیدر آبادی کے سفر کا اگلا پڑاؤ پا کستان تھا۔ پا کستان میں احباب سے ملا قا توں اور اہم مقامات کی تفریح کا ذکر کیا۔ کراچی والوں کے احوال بیان کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’کراچی میں ایک بات جو خاص طور پر محسوس کی گئی وہ یہ کہ لوگ خوش ہیں۔ خوش حال ہیں۔ اگر بنک میں نہیں تو ان کی جیبوں میں پیسہ ضرور ہے۔ اچھا کھاتے ہیں اچھا پہنتے ہیں۔ مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ نماز کے وقت مسا جد میں چہل پہل رہتی ہے۔ کراچی کے اکثر مقامات صاف ستھرے ہیں۔ ہر طرف نئی نئی بستیاں بستی جا رہی ہیں۔ آ با دی پھیلتی جا رہی ہے قائد اعظم کے مزار پر بھی حاضری کا موقع ملا۔ بہت ہی عالی شان مقبرہ تعمیر کر وا یا گیا ہے بہت ہی دیدہ زیب اور پر وقار جگہ ہے‘‘۔ ۲۳؎

کراچی کے مختصر دورے کے بعد حبیب حیدر آبادی نے دہلی میں اپنی آمد اور وہاں کی مصر وفیات مفصل بیان کیں۔ حبیب حیدر آبادی نے لکھا کہ دہلی ان کی جائے پیدائش نہیں اس کے با وجود انہیں دہلی سے اس لئے محبت ہے کہ یہاں حضرت نظام الدینؒ محبوب الٰہی اور حضرت خواجہ حسن نظامی مد فون ہیں پنجاب کے شاعر اور حبیبؔ حیدر آ با دی کے دوست جسبیر سنگھ بسمل کی مہمان نوا زی،   ان کے ہمراہ دہلی کے اہم مقامات کی سیر،   درگاہ حضرت نظام الدینؒ پر حا ضر ی۔ مغرب کی نماز میں بسمل کی شرکت،   خواجہ حسن ثانی نظامی سے ملاقات،   حیدر آباد کے ما یہ ناز سپوت حسن الد ین احمد سے ان کی ملاقات،   زبیر رضوی سے ملاقات،   پر دیپ نامی نوجوان کا دوستانہ رو یہ،   راج گھاٹ،   جا مع مسجد دہلی،   لال قلعہ،   قطب مینار،   مقبرہ ہما یوں،   مقبرہ صفدر جنگ،   جنتر منتر اور تاج محل وغیرہ مقامات کی سیر و تفریح کی تفصیلات حبیب حیدر آ با دی نے اس انداز میں پیش کی ہیں کہ قا ری بھی ان کے سا تھ ان مقامات کا نظارہ گھر بیٹھے کر لیتا ہے۔ اپنے دورہ دہلی کے دوران ایک سکھ اور ایک ہند و کے ان کے سا تھ دوستا نہ رویے کی ستائش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’لوگ جب فر قہ پر ستی کی باتیں کرتے ہیں تو مجھے ان کی با توں پر مشکل سے یقین آ تا ہے۔ سکھ دوست کا میرے سا تھ نماز پڑھنا ہند و نو جو ان کا مجھ پر اللہ واسطے احسان کرنا،   لوگوں کے داستان سرائی ہو تو ہو۔ میرے لئے تو ایک حقیقت ہے اس ہند و بچے کا ہی مجھ پر احسان رہا۔ اسنے مجھے اس کے سا تھ کچھ حسن سلوک کا موقع ہی نہیں دیا۔ زندہ باد پر دیپ۔ ان با توں کا میرے بچوں پر غیر معمولی اثر ہو ا۔ انگلستان میں غیر تو غیر اپنوں سے بھی اس قسم کی غیر معمولی مہر بانیوں کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ باتیں میرے بچوں کے لئے نئی تھیں۔ وہ ہر ہر قدم پر انسا نیت کا نیا درس لے رہے تھے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ہند وستان کے جن لوگوں سے ہمیں سابقہ پڑا کتنے نیک نفس،   کتنے بے ریا اور کتنے مہر بان ہوتے ہیں‘‘۔ ۲۴؎

حبیب حیدر آبادی نے دورۂ دہلی پر اپنے تاثرات سے یہ واضح کیا کہ ہند وستان میں لوگوں کی ہمدردی کا جذبہ ان کے مشرقی  اقدار کی عکاسی کرتا  ہے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی اپنے بچوں پر شاید یہ واضح کرنا چا ہتے تھے کہ وہ جس مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں وہاں ایثارو ہمدردی کے جذبے ناپید ہیں۔ دہلی کی بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنے سفر حیدرآباد کے احوال بیان کئے۔ حیدرآباد اُن کا وطن تھا۔ اس سرزمین کے ذرے ذرے سے انہیں پیار تھا۔ انہوں نے جس دور میں حیدرآباد میں تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اُس دور میں اپنے زمانے کی مشہور شخصیتیں حیدرآبادی تہذیب کو متاثر کر رہی تھیں۔ حبیبؔ حیدرآبادی نے جن شخصیات سے فیض حاصل کیا اُن کے نام گناتے ہوئے اُنہوں نے لکھا کہ مہاراجہ کشن پرشاد شاد،  مہاراجہ نرسنگ راج عالی، نواب بہادر یار جنگ، مولانہ الیاس برنی،  فانی بدایونی، حسرت موہانی، عبد القدیر صدیقی حسرت، سیدمحی الدین قادری زور، عبدالقادرسروری، نصیرالدین ہاشمی، ڈاکٹر غلام دستگیر رشید۔ امجد حیدرآبادی۔ صفی اورنگ آبادی،   سروجنی نائیڈو۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی،  اعلیٰ حضرت حضور نظام آصف سابع وغیرہ سے ملاقاتیں رہیں اور اُن کا زمانہ دیکھا۔ حیدرآباد میں ان کے ہم زلف افسانہ نگار عوض سعید،  جگری دوست راشد آذر وغیرہ سے ملاقاتوں کے احوال حبیبؔ حیدرآبادی نے دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں۔ عرض سعیدکے گھر جاتے وقت ہونے والی تیز رفتار بارش اور اُس کے بعد گھر کے سامنے موجود جھونپڑی والوں کو ہونے والے نقصان اور نقصان کے باوجود غریبوں کی معمول کی زندگی پر حبیبؔ حیدرآبادی کے بچوں نے جس حیرت کا اظہار کیا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حبیب حیدرآبادی نے مشرق و مغرب کے تضاد کو ان لفظوں میں بیان کیا :

’’میرے بچوں نے جب یہ دلخراش منظر دیکھا تو اُن کو اپنی نظروں پر اپنی سماعت پر دھوکہ ہو رہا تھا کہ اتنی بڑی مصیبت نازل ہو جانے کے باوجود بھی وہ ہشاش بشاس تھے گا نا گا رہے تھے۔ ہنسی مذاق سے اپنی بر با دی کا غم غلط کر رہے تھے۔ اگر ایسا سانحہ انگلستان میں ہو گیا ہوتا تو نہ جانے کتنے ہو ئی جہاز،   کتنے ہیلی کوپٹر مقام واردات پر پہنچ گئے ہوتے کتنی پو لیس اور کتنی فوج اور کتنے سماجی اد ارے مصیبت زد گان کی مصبیت کو دور کرنے وہاں آ جاتے۔ ہند وستان کے لوگوں میں مصائب بر داشت کرنے کا ما دہ زیادہ ہے اسی لئے شاید اکثر و بشتر ان لوگوں پر آسمانی یا سلطانی بلائیں نا زل ہوتی رہتی ہیں‘‘۔ ۲۵؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کا دل برطانیہ جانے کے بعد بہت حساس ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ انسانی جذبات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ ہند وستان میں مزدور پیشہ لوگ اکثر آفات سما وی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ وہ زند گی میں مسائل جھیلنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لیکن مغربی ممالک میں آفات سما وی کے بعد جس طرح فوری امداد پہنچ جاتی ہے شائد ہند وستان کے متاثر ین کے لئے اتنی جلدی نہ پہنچے۔ مسائل سہنے کی ان مزدوروں کی عادت پر حبیبؔ حیدر آ با دی کا اظہار تعجب ان کے مزاج کی تبدیلی کا پتہ دیتا ہے۔ مضمون کے آ خر میں حبیبؔ حیدر آبادی نے اپنے افراد خانہ کے ہمراہ اپنے سفر کے آخری پڑاؤ بمبئی کے سفر کا حال پیش کیا۔ جہاں ان کی میزبانی کا شرف ’’صبح امید‘‘ کے مدیر عبد الحمید صاحب کو حا صل ہو ا۔ بمبئی کے اہم مقامات کی تفریح کے ذکر کے سا تھ ہی حبیبؔ حیدر آ با دی کا سفر نا مہ ختم ہوتا ہے۔ مضمون کے آ خر میں حبیبؔ حیدر آ با دی اس اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سفر سے ان کے بچوں کی ذہن ساز ی میں بڑی مدد ملی۔ اور ان کے بچے مشرقی  قدروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’اب ہمارے بچوں کو اپنے ہند وستان اور پا کستان پر ناز ہے مشرقی  اقدار اُن کی سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ جو باتیں ہم ان سے اب تک کہتے آ رہے تھے۔ ان کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان با توں کی افادیت کو تسلیم کیا۔ اب وہ ہند وستان اور پا کستان کا ذکر پیار و محبت سے کرتے ہیں اُنہیں وہاں کی غر بت افلاس،   اور دوسری مادی خرابیوں سے ہمدردی ہے۔ ان کی دعا ہے کہ ہند وستان اور پا کستان کی غر بت دور ہو جائے اور وہاں کا معیار زند گی بھی دنیا کے مالدار ملکوں کی طرح ہو جائے‘‘۔ ۲۶؎

مضمون کے آخر میں اظہار تشکر کے الفاظ کہتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے با لآ خر اس طمانیت کا اظہار کر دیا جس کی کمی کا اظہار انہوں نے اپنے سابقہ مضامین میں کیا تھا۔ حبیبؔ حیدر آبادی کے یہ چند ایک معلوماتی و ادبی مضامین کا انفرادی تجزیہ تھا۔ جب ان مضامین پر مجموعی طور پر طائر انہ نظر ڈالی جائے تو یہ مضامین اردو کے ایک ایسے ادیب کے دکھی دل کی داستان لگتے ہیں۔ جو اپنی زندگی کو بہتر بنانے دیار غیر میں اپنا ٹھکا نہ جمانے پر مجبور تھا۔ برطانیہ میں زمانے کے سرد گرم نے اسے حساس بنا دیا تھا۔ اپنی زند گی کی کشتی کو پار لگانے کے دوران اسنے برطانیہ میں جو کچھ مشکلات و مسائل سہے انہیں ان معلوماتی و ادبی مضامین میں سمو دیا۔ حیدرآبادی تہذیب کے دلدادہ حبیبؔ حیدرآبادی نے برطانیہ میں بھی اپنی تہذیبی روایات کو برقرار رکھا اور اردو کے فروغ  کے ساتھ اردو زبان میں برطانیہ میں مقیم تارکین اور ایشیائی باشندوں کے سماجی،   معاشی،  معاشرتی مسائل کو پیش کیا۔ حبیبؔ حیدرآبادی کے مضامین آج بھی برطانیہ کی زندگی کو قریب سے سمجھنے والوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعہ حبیبؔ حیدر آبادی نے ایشیا ئی باشندوں اور برطانوی باشندوں کو قریب لانے کی کوشش بھی کی۔ ان مضامین کی نثر سا دہ لیکن پر اثر ہے۔ ایسے مواقع پر جہاں حبیبؔ حیدر آ با دی ناصح بن کر پیش ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر میں اثر انگیزی بڑھ جاتی ہے۔ انگلستان میں معیار زند گی کو بہتر بنانے کے لئے شو ہر اور بیوی دونوں کام پر جاتے ہیں۔ لیکن اس بات کا منفی پہلو پیش کرتے ہوئے درد بھرے انداز میں حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’شو ہر اور بیوی کے ہمہ وقتی کام کرنے کے جو مضر نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس کا تجربہ ہمارے بہت سے تا رکین وطن کو بھی ہو ا۔ جن گھرانوں میں بچوں کی ابتدا ئی نشو و نما میں غفلت برتی گئی۔ اور جو بچے والدین کی ہمہ وقتی محبت سے محروم رہے ان گھرانوں کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑی۔ اپنے بچوں کو اپنے رنگ میں اسی وقت ڈھا لا جا سکتا ہے جب کہ ماں کی آغوش ہی سے ان کی تر بیت کا خیال رکھا جائے۔ بچے جب چھوٹے ہوں ان سے تغافل بر تا جائے۔ شو ہر اور بیوی پونڈ میں اضافہ کرتے رہیں۔ گھر کی ما دی خوش حا لی کی طرف اپنی ساری تو انا ئیاں صرف کریں۔ اور جب بچے بڑے ہو جائیں تو ان سے یہ توقع کی جائے کہ وہ ماں باپ کی آرزوؤں کو پو را کرتے رہیں۔ اور ماں باپ کی ضعیفی میں ان کا سہا را بنیں عمل اور رد عمل کے مسلمہ قا نون سے انحراف کرنا ہے‘‘۔ ۲۷؎

حبیبؔ حیدر آبا دی معلوماتی مضامین میں سیدھا سا دہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ اور معلوماتی مضامین کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ اس میس گنجلک اور جذباتی انداز بیان اختیار نہ کیا جائے۔ اور ادبی مضامین میں وہ اپنے اسلوب کی نیرنگی ظاہر کرتے ہیں۔ اور اپنے خیالات کو دلکش پیر ائے بیان میں پیش کرتے ہوئے بطور تمہید لکھتے ہیں :

’’خدا کے عطا کرنے اور بخشنے کے طریقے بھی ہیں۔ عطا کی جلوہ گری غیریت کے دورا ہے پر نہیں ہوتی بلکہ اپنائیت کے سنہرے جزیرے پر ہوتی ہے۔ وہاں ہوتی ہے جہاں حسِ ازل حیات مجسم کو وقت کے دھاروں میں بہا نہیں لے جاتی بلکہ اپنے آپ کو عشقیہ تفکر اور غم آگہی کے سپرد کر دیتی ہے۔ خو دی کی قند یل خود بہ خود روشن ہونے لگتی ہے۔ کہیں یہ فطرت کا تقاضہ بن جاتی ہے کہیں اکستا بی صورت اختیار کر لیتی ہے‘‘۔ ۲۸؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کے اسلوب کی یہ نیرنگی ان کی مضمون نگاری میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ حبیب حیدر آبادی نے اپنی تصنیف ’’انگلستان میں‘‘ میں معلوماتی و ادبی مضامین کے علا وہ تنقیدی اور دیگر مضامین بھی لکھے ہیں جن میں خاکوں اور انشا ئیوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ زیر نظر مقالے کے دیگر ابو اب میں ان مضامین کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔

سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار نذیر احمد،   حالی،   شبلی،  محسن الملک وقار الملک،   آ زادؔ   وغیرہ نے علی گڑ ھ تحریک کے زیر اثر اردو نثر کو سا دگی عطا کرنے کی جو تحریک اردو مضمون نگاری کے ذریعہ شروع کی تھی۔ بیسو یں صدی میں اسے فروغ حا صل ہو ا۔ اردو کی نثری اصناف افسا نہ اور ناول کے بعد اب اردو مضمون نگاری بھی بطور صنف اپنی شناخت بنا چکی ہے۔ انشا ئیوں سے قطع نظر علمی انداز کے مضامین پر مشتمل اردو مضمون نگاری نے بھی اردو ادب کے ذخیرہ میں اضافہ کیا ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی بھی اردو ادب کی تاریخ میں ایک سلجھے ہوئے مضمون نگار کے طور پر یاد کئے جائیں گے۔ برطانیہ کی سیا سی و سما جی زند گی کے احوال پر مبنی ان کے یہ مضامین اردو زبان میں انفرادیت کے حا مل ہیں۔

 

 حوالے

 

۱؎       سلیم اختر ڈاکٹر۔ انشائیہ کی بنیا د۔             دہلی    ۱۹۸۸ ء ۔ ص ۱۵۵

۲؎      نصیر احمد خاں۔ ڈاکٹر۔ آ زا دی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ دہلی۱۹۹۳ ء۔ ص ۱۳

۳؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔ حیدر آباد ۱۹۸۱ ء   ۔ ص ۵

۴؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۱۳

۵؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۱۴

۶؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۱۶

۷؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۲۲

۸؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۲۴

۹؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۲۸

۱۰؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۳۲

۱۱؎      حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۳۹

۱۲؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۴۱

۱۳؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۶۴

۱۴؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۶۶

۱۵؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۶۸

۱۶؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۷۰

۱۷؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۷۱

۱۸؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۷۶

۱۹؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۷۹

۲۰؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۸۱

۲۱؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۸۳

۲۲؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۹۵

۲۳؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۹۷

۲۴؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۱۰۱

۲۵؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۱۰۳

۲۶؎     حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۱۰۵

۲۷؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۳۳

۲۸؎    حبیب حیدر آبادی۔ انگلستان میں۔          ص ۶۸

٭٭٭

 

کتاب کا دوسرا حصہ