FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حصہ اول کے لیے

ربط

 

فہرست مضامین

حبیبؔ حیدر آبادی بہ حیثیت انشائیہ نگار

 

حبیبؔ حیدر آبادی بنیا دی طور پر انشائیہ نگار اور مضمون نگار ہیں۔ شاعر،   خاکہ نگار متر جم وغیرہ اُنکی ذات کی اضافی خو بیاں ہیں۔ اُن کی ایک تصنیف ’’رہ و رسم آشنائی‘‘ ہے۔ یہ کتاب انشائیوں اور مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں شامل انشا ئیوں سے حبیبؔ  حیدر آبادی بلند پایہ انشائیہ نگار قرار پاتے ہیں۔ حبیبؔ حیدر آبادی کی تصنیف ’’رہ و رسم آشنائی،  پہلی مر تبہ ما رچ ۱۹۸۸ ء میں ایجو کیشنل پبلشنگ ہا ؤس دہلی سے شائع ہوئی۔ کتاب کی تر تیب و تز ئین پر وفیسر مغنی تبسمنے کی۔ حبیبؔ حیدر آبادی نے کتاب کا انتساب اپنے دوست و مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یو سفی کے نام کیا۔ ۸۹ صفحات پر مشتمل کتاب میں ۱۸ مضامین شا مل ہیں جن کے عنوانات اس طرح ہیں۔ ہماری شاعرہ بیگم صدیقہ،   ہماری ہجرت،   ہماری شاعری،   ہماری انجمن سا زی،   ہما ری انکساری،   ہماری وضع داری،  ہماری ہجرت،   ہماری دعوتیں،   ہماری دعائیں،   ہمارے اقوال،   ہم دادا بن گئے،   ہم نا نا بھی بن گئے،   انجمن انسداد بے رحمی شوہران،  ایک ملا زم کی تلاش،   گا لیوں کے آ داب،   صوفی صاحب،   ما سٹر صاحب اور سارے جہاں سے اچھا برطانیہ ہما را۔ ان انشا ئیوں میں سے،   ہماری شاعرہ بیگم صدیقہ،   ہماری ہجرت،   صوفی صاحب،   ما سٹر صاحب،  سارے جہاں سے اچھا برطانیہ ہمارا اور انگلستان میں اردو کا جائزہ دیگر ابو اب میں پیش کیا جا چکا ہے۔ اس باب میں حبیب حیدر آبادی کے انشا ئیوں کا جائزہ پیش ہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی کی انشائیہ نگاری کے جائزے سے قبل ضروری ہے کہ انشائیہ کی تعریف اور اُس کی مبادیات اور اردو میں انشائیہ نگاری کی روایات کا جائزہ لیا جائے۔

 

انشائیہ کی تعریف

 

انشائیہ لفظ نشا سے مشتق ہے۔ جس کے لغوی معنیٰ پیدا کرنا ہے۔ بات میں معنویت پیدا کرنا نشائی قوت کہلا تا ہے۔ انشائیہ کے ما دہ نشا ء کے لغوی معنیٰ سے اصطلاحی معنیٰ تک سفر میں کوئی تبدیلی نہ آنے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’’لفظ جب اپنے لغوی معنیٰ کے گہوارہ سے نکلتا ہے تو مخصوص معانی کی حا مل ایک اصطلاح بننے تک وہ کئی مدارج طے کرتا  ہے۔ یعنی وہی قطرہ کے گو ہر بننے والی بات۔ اسی لئے تو بعض اوقات اصطلاح لفظ کی اصل سے میلوں کے فا صلے پر نظر آتی ہے۔ لیکن انشاء نے جب انشائیہ کا لبا دہ زیب تن کیا تو وہ لغوی معنیٰ کے حدود سے باہر نہ نکلا۔ یعنی کچھ بات دل سے پیدا کرنا اور خو بی عبارت۔ یوں دیکھیں تو تمام تکنیکی اور فنی مباحث کے با و جود بھی انشائیہ اپنی اساس یعنی انشا ء کی حدود کو توڑ تا نہیں۔ توڑنا تو کجا وہ تو مزید فن کا ری اور جمالیاتی او صاف سے انشا ء کے سونے پر سہا گہ کرتا ہے‘‘۔ ۱ ؎

بطور اصطلاح اردو میں لفظ انشائیہ انگریزی لفظ Essay سے آ یا۔ جو فر انسیسی لفظ Essai کا مترادف ہے۔ سو لہو یں صدی میں فر انسیسی ادب کے ایک عظیم فنکار آ دم دی مون تین نے غالباً سب سے پہلے اس نثری صنف کا استعمال کیا۔ وہاں سے یہ صنف انگریزی میں منتقل ہوئی اور کا فی مقبول ہوئی۔ انگریزی میں بیکن،  ایڈ سین،   اسٹیل،   چار لس لیمب اور ہیر لیٹ وغیرہ نمائندہ انشائیہ نگار کہلاتے ہیں۔ جن کی تحریروں سے انشائیہ نگاری کو عالمی سطح پر مقبولیت حا صل ہوئی۔ انشائیہ کی تعریف کے بارے میں مغربی ادیبوں کے حوالے سے ڈاکٹر نصیر احمد خاں لکھتے ہیں :

’’بیکن‘‘ انشائیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نثری اصناف میں انشائیہ ایک ایسی مختصر تحریر کا نام ہے جس میں بغیر کسی تجسس اور کھوج کے حقیقت کا اظہار ہو۔ مون تین شخصیت کے اظہار کو انشائیہ کا اہم جز و قرار دیتا ہے۔ جا نسن کے خیال میں انشائیہ ذہن کی ایک تر نگ ہے‘‘۔ ۲ ؎

اردو کے ادیبوں اور نقادوں نے بھی اپنے اپنے انداز میں انشائیہ کی تعریف کی ہے۔ پر وفیسر سیدہ جعفر انشائیہ کے بارے میں لکھتی ہیں :

’’انشائیہ ایک ہلکا پھلکا پر لطف اور شگفتہ مضمون ہوتا ہے۔ جس میں انشائیہ نگار کی شخصیت اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ انشائیہ ایک طرح سے ادب لطیف اور رومانی طرز نگارش کا پرور دہ ہوتا ہے‘‘۔ ۳؎

انشائیہ کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر صابرہ سعید لکھتی ہیں کہ :

’’انشائیہ ایک مختصر صنف ادب ہے۔ اس کی ضخامت کا تعین تو نہیں کیا گیا ہے لیکن اسے اتنا طویل نہیں ہو نا چاہئیے کہ کوئی کتاب یا کتا بچہ بن جائے۔ اور اُس کے مطالعہ کے لئے کا فی وقت در کار ہو۔ علمی اور سائینسی مقالوں کی طرح اس میں خیالات کو میکا نیکی انداز میں ترتیب نہ دیا جائے اور نہ انہیں منطقی طور پر ثا بت کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بر خلاف اس کا انداز بیان شگفتہ بے تکلف اور غیر رسمی ہو نا چاہئیے‘‘۔ ۴؎

نصیر احمد خاں انشائیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

’’انشائیہ نثری اظہار کی ایک ایسی صنف ہے جس میں حقیقت کا اظہار شخصی رد عمل،   عدم تکمیل،   رمزیت و اشاریت،  غیر منطقی ربط،  اختصار دعوت فکر،  مسرت بہم پہنچانے کی صلاحیت،   زبان و بیان میں بانکپن اور مرکزی بات سے کچھ ضمنی با توں کا ذکر جیسی خصوصیات پائی جاتی ہوں‘‘۔ ۵؎

انشائیہ کی تعریف کے بارے میں مختلف ماہرین ادب نے لفظی اُلٹ پھیر سے الگ الگ تعریفیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ’’انشائیہ ایک ہلکی پھلکی تحریر ہوتی ہے۔ جس میں معلومات نثری پیر ائے میں جذبات و احسا سات کے ساتھ دلچسپ اسلوب بیان کے ذریعہ اس انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ قاری موضوع کی عمو میت کے با وجود انشائیہ نگار کے انداز بیان کی ندرت کے سبب تحریر کو پڑھنے پر مجبور ہو جا تا ہے‘‘۔ انشائیہ کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ نثر سے زیادہ شعر و سخن کا فن ہے اور جس انشائیہ میں زیادہ سے زیادہ ایمائیت اور اشارے کنائے ہوں۔ اتنا ہی وہ کامیاب انشائیہ ہو گا۔ غزل کی طرح انشائیہ نگاری بھی وہ مخصوص صنف ہے جس سے اردو تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ ایک کامیاب انشائیہ نگار کے لئے اردو تہذیب سے واقفیت ہی کا فی نہیں بلکہ اس میں رچا بسا ہو نا ضر وری ہے۔ ایک مضمون اور انشائیہ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ مضمون میں ادیب موضوع پر لکھتے ہوئے بر اہ راست اپنے علم کا اظہار کرتا  ہے۔ اور موضوع سے منحرف نہیں ہو تا۔ مگر انشائیہ نگار موضوع کے ساتھ سا تھ موضوع سے منسلک دوسری با توں پر اس انداز میں اظہار خیال کرتا  ہے کہ قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے علم کا اظہار کر رہا ہے اور یہی ایک کامیاب انشائیہ نگار کی پہچان ہے اردو کی اصناف نثر میں انشائیہ صنف مضمون سے زیادہ قریب ہے۔ لیکن انشائیہ کی اپنی الگ خصوصیات ہیں۔ انشائیہ غیر رسمی ما حول میں لکھا جا تا ہے۔ اس میں محض تاثر ات ہوتے ہیں جو ذہنی اختراع بھی ہو سکتے ہیں۔ انشائیہ میں داخلیت کار فر ما ہوتی ہے ایجاز و اختصار،   رمز و اشاریت انشائیہ کا حُسن ہیں انشائیہ میں زور بیان پر توجہ کی جاتی ہے۔ اس میں واقعات سے زیادہ واقعات کے رد عمل سے سروکار ہوتا ہے۔ انشائیہ میں موضوع کی کوئی قید نہیں۔ زندگی کے کسی موضوع پر انشائیہ لکھا جا سکتا ہے انشائیہ نگار اپنی تحریر میں ذات کا انکشاف کرتا  ہے۔ اُس کی تحریر میں داخلی کیفیات کا بیان ہوتا ہے۔

 

اردو میں انشائیہ کی روایت

 

اردو میں انشائیہ کے آغاز کی بحث بھی دلچسپ رہی ہے۔ انشائیہ چونکہ مغرب سے متعارف صنف ہے۔ اس لئے اسے مکمل طور پر اردو میں آنے میں وقت لگا۔ اور اب ایجاز و اختصار رمز و کنایہ کے ساتھ جو انشائیے ہمارے سا منے مو جود ہیں انہیں تخلیق پانے میں کافی وقت لگا۔ لیکن انشائیہ کی خصوصیات کے ساتھ ما سٹر رام چندر،   سر سید احمد خاں محمد حسین آزاد اور میر نا صر علی نے جو مضامین لکھے ہیں اُنہیں اردو میں انشائیہ نگاری کے اولین نقوش تسلیم کیا جا تا ہے۔

انیسو یں صد کے اوائل میں ما سٹر رام چندر نے انگریزی ادیبوں بیکن،   ایڈ سن اور اسٹیل وغیرہ کی تحریروں سے متاثر ہو کر اردو میں Essay نما مضامین لکھے۔ یہ مضامین علمی نوعیت کے ہیں۔ لیکن اردو کی قدیم مقفّیٰ و مسجع عبارت آ رائی کے مقابلے میں سادہ اور با مقصد نثر کی پہلی باقاعدہ کوشش ہے۔ سر سید احمد خاں کے مضامین ’’گذرا ہوا زمانہ،   کا ہلی،   امید، خوشا مد بحث و تکرار میں انشائیہ کی خو بیاں پائی جاتی ہیں۔ محمد حسین آزاد کے مجموعہ نیر نگ خیال میں تمثیلی رنگ ہے۔ میر نا صر علی مولوی ذکا ء اللہ نے بھی ابتدائی زمانے میں اچھے انشائیے لکھے۔

ادب لطیف کے دور میں عبد الحلیم شرر،   رتن نا تھ سر شار،   سجاد حیدر یلدرم خواجہ حسن نظامی،   فرحت اللہ بیگ،   ملا واحدی، خلیقی دہلوی،   نیاز فتح پوری،  مہدی افادی،  سجاد انصاری نے جو مضامین لکھے اُن میں انشائیہ کی کم و بیش تمام خو بیاں پائی جاتی ہیں دہلی سے تعلق رکھنے والے اہم انشائیہ نگاروں میں اشرف صبوحی یوسف بخاری،   خواجہ محمد شفیع،   آ صف علی،  مرزا محمود بیگ،  مہیشور  دیال،  جاوید وششٹ،  ضمیر حسن دہلوی،   مو لانا ابو الکلام آ زاد،   پطرس بخاری،   سید عابد حسین،  کرشن چند ر،  فرقت کا کو روی،  سید آوارہ،  اندر جیت لال،   محمد حسن،   جو گندر پال مجتبیٰ حسین وغیرہ ہیں۔ دہلی سے باہر انشائیہ نگاروں کی فہرست میں رشید احمد صدیقی سلطان حیدر جوش،   اختر اورینوی،   سید محمد حسنین،  سجاد انصاری اور احمد جمال پا شاہ وغیرہ ہیں۔ پا کستان سے تعلق رکھنے والے ہم انشائیہ نگاروں میں مشتاق احمد یو سفی داؤد رہبر،   جا وید صدیقی،   وزیر آغا جمیل آذر،  نظر صدیقی،   مشکور حسین یاد،  محمود اختر اقبال انجم اور شمیم ترمذی وغیرہ ہیں۔ ترقی  پسند تحریک کے زیر اثر حقیقت نگاری کو رواج ملا۔ اور ادب لطیف یا رومانیت کی تحریک کمزور پڑ گئی۔ اس کی جگہ اسلوب میں طنز و مزاح جگہ پانے لگا۔ رشید احمد صدیقی اور پطرس بخاری کے مضامین اس کی اچھی مثال ہیں۔ انشائیہ نگاری کے سبب اردو نثر کو اظہار کا نیا انداز ملا اور اسلوب میں کا فی تنوع و نکھار پید ہوا۔ انشائیہ سے اردو نثر کو ہونے والے فائدوں کے بارے میں نصیر احمد خاں لکھتے ہیں کہ :

’’انشائیے نے اردو نثر کے پر تکلف انداز بیان کو غیر رسمی اور بے تکلف بنا یا۔ ۔ ۔ انشائیہ نے اردو نثر کو داخلیت کے اظہار کا سلیقہ سمجھا یا۔ ایجاز و اختصار بھی اردو میں انشائیہ کی دین ہے رمزیت جو شاعری کا وصف ہے۔ نثر میں انشائیہ کے تو سل سےائی ہے۔ انشائیہ کا غیر رسمی انداز فکر جو تحریر کو بو جھل ہونے سے بچا تا ہے اردو نثر میں انشائیہ کے ذریعہ ہی پہنچا ہے۔ ۔ ۔ انشائیوں نے اردو کو استعما راتی نثر لکھنے کی تر غیب بھی دی ہے۔ ۔ ۔ اس صنف میں قدم قدم پر زبان و بیان کے نت نئے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ جس سے زبان کا دامن وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اردو نثر انشائیہ کی احسان مند ہے‘‘۔ ۶؎

آ زادی کے بعد اردو انشائیہ نگاری میں ٹھہراؤ کی کیفیت رہی۔ ترقی  پسند تحریک کے بعد ادب میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت جیسی اصطلاحیں وجود میں آئیں۔ افسا نہ اور شاعری کو رواج ملا۔ آ زادی کے بعد زندگی کے سامنے نئے مسائل آئے۔ جن کے حل کے لئے ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ افسانہ و شاعری کے ذریعہ خیالات کا اظہار کیا گیا۔ انشائیہ کا اسلوب حقیقت نگاری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس میں جذبات واحسا سات کی چاشنی لازمی ہے۔ بیسو یں صدی کی آخری دہائی اور اب اکیسو یں صدی میں اردو کے اخبارات و رسائل کے ذریعہ اردو انشائیہ نگاری کو فروغ حا صل ہو رہا ہے۔ مزاح نگاری کی طرز پر ہلکے پھلکے انشائیہ نما مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کے مضامین نئے دور کے اہم انشائیے ہیں۔ یوسف ناظم کی تحریروں میں بھی مزاح کے ساتھ ساتھ انشائیہ نگاری دکھا ئی دیتی ہے۔ تا ہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری یا افسا نہ نگاری کے مقابلے میں انشائیہ نگاری کی ترقی سست رفتار ہے۔ اردو کے قارئین کی کمی،   اردو رسم الخط کے بارے میں ما یو سی اور نثر نگاری کو شاعری سے کم تر سمجھنا چند ایسی وجوہات ہیں جو انشائیہ نگاری کی راہ میں مانع ہیں۔ لیکن اردو اخبارات کے ذریعہ مل رہی حوصلہ افزائی سے کہا جا سکتا ہے کہ انشائیہ کا مستقبل تابناک ہے۔

 

حبیب حیدر آبادی کے انشا ئیوں کا جائزہ

 

حبیبؔ حیدر آبادی کے تحریر کر دہ انشائیے اُن کی تصنیف ’’رہ ورسم آشنائی‘‘ میں شا مل ہیں۔ پہلے انشائیے کا عنوان ’’ہما ری شاعرہ بیگم صدیقہ‘‘ ہے۔ اس انشائیہ میں شامل خاکے کے عنا صر کا تجزیہ ’’حبیب حیدر آبادی بحیثیت خاکہ نگار‘‘ باب میں پیش کیا جا چکا ہے۔ زیر نظر باب میں اس مضمون میں شامل انشائیہ کے عناصر کا جائزہ پیش ہے۔

 

ہماری شاعرہ بیگم صدیقہ

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کا یہ مقبول انشائیہ ہے۔ جس میں اُنہوں نے پر لطف انداز بیان اختیار کرتے ہوئے ایک شاعرہ کے شو ہر ہونے کے نا طے سامنا کرنے والے حالات بیان کئے ہیں۔ اس انشائیہ کی خاص بات حبیبؔ حیدر آبادی کا اسلوب بیان ہے۔ ایک شاعرہ کے شو ہر کی مظلوم حالت بیان کرنے کے بعد اسے حاصل ہونے والے فائدہ کا ذکر کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ایک شاعرہ کا شو ہر ہونے کے نا طے لوگ ہم کو شاعر کہتے ہیں۔ دوسروں کی خوش فہمی کو مجروح نہ کرنے کی خاطر ہم نے یہ تہمت بھی خو شی خو شی مول لی۔ اس کا صلہ ہمیں یہ ملتا رہا کہ ہماری شاعری سننے والے ہماری شاعری کا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ فوراً ہماری بیگم کی شاعری سے شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی بیگم آپ سے بہتر شعر کہتی ہیں۔ ہم شعر نہ کہیں تو شعر کہنے پر مجبور کئے جاتے ہیں شعر پڑ ہیں تو بیگم کے طفیل میں رسوا ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی ہم سے فرمائش نہ بھی کرے تو ہماری بیگم بضد رہتی ہیں کہ ہم مشاعروں میں شعر پڑ ہیں تا کہ اچھے اور برے کلام میں امتیاز ہوتا رہے‘‘۔ ۷؎

حبیبؔ حیدر آبادی نے دلچسپ انداز میں اپنی اور اپنی اہلیہ کی رفاقت کے احوال پیش کئے۔ شو ہر کی بیماری پر ایک شاعرہ بیوی کس انداز میں تیمار داری کرتی ہے۔ اس کی جھلک پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’دوا خانے سے جب ہم مکان واپس ہوئے تو مزاج پر سی کے لئے احباب نے زحمت کی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ بیمار کی مزاج پر سی کرنے والوں کی تواضع کبھی بریانی سے کی جا رہی ہے تو کبھی گا جر کے حلوے سے۔ ہماری مزاج پُرسی کرنے والے جانے سے پہلے ہماری شاعرہ کی غزل سننے کی فرمائش کرتے اور یہ تھیں کہ مزے لے لے کر اپنی وہ غزل سناتیں جس میں ایک مصرعہ ہے۔ ایک آ سیب ہے دن رات ستاتا ہے مجھے ۸؎

ایک شاعرہ کا شوہر کس طرح اپنی زندگی صبر سے گذار دیتا ہے ان خیالات کے اظہار کے ساتھ حبیبؔ حیدر آبادی نے اس انشائیہ کو ختم کیا ہے۔ حبیب حیدر آبادی نے یہ انشائیہ صدیقہ شبنمؔ  کے مجموعہ کلام ’’تنہائی‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پرسنایا تھا۔ اور محفل زعفران زار بن گئی تھی۔ اس مضمون کے ضمن میں فیروزہ جعفر لکھتی ہیں :

’’حبیبؔ  صاحب کے یہاں جمال کی خواہش کی جو شدت نظر آتی ہے۔ وہ بھی شعری ذوق بن کر اُبھری ہے اور کبھی انسانی کمزوریوں پر ہلکے سے طنز اور لطف لیتے مزاح کی صورت میں اس کو سنوارنے اور سجانے میں اُن کی بیگم صدیقہ کا بھی ایک حصہ ہے۔ حبیب صاحب کو بعض قدروں پر بہت گہرا اعتماد ہے۔ یہی اُن کی جمال پر ستی ہے۔ اور زندگی کے حسن سے محبت کرنے کی خواہش نے انہیں لکھنے کا سلیقہ بخشا ہے اور یہ خو بصورت نثر وجود میں آئی‘‘۔ ۹؎

لوگ دوسروں کی شخصیت کو مزاح کا موضوع بناتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی محفل جس میں اپنی شاعرہ بیوی کے مجموعہ کلام کی رسم اجراء انجام دی جا رہی ہو اُس کی ذات کو محور بناتے ہوئے انشائیہ میں دلچسپ اسلوب کے ساتھ شاعرہ بیوی اور اُس کے شو ہر کے احوال بیان کرنا دل والے سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور حبیبؔ  حیدرآبادی نے یہ کام کر دکھا یا۔ اس طرح اُن کا یہ انشائیہ نثر میں قارئین کے لئے تفریح فراہم کرتا  ہے۔

 

ہماری ہجرت

 

حبیبؔ حیدر آبادی کے اگلے انشائیہ کا عنوان ’’ہماری ہجرت‘‘ ہے۔ اور عنوان سے ظاہر ہے کہ اس انشائیہ میں حبیبؔ حیدر آبادی نے اُن کے ترک وطن کر کے برطانیہ منتقل ہونے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور اُن کی برطانیہ ہجرت کے حالات کو شگفتہ انداز میں پیش کیا ہے۔ برطانیہ میں ایک عرصہ زندگی گذارنے کے بعد جب اُنہیں مہا جر کہا گیا تو پچھتاتے ہوئے اُنہوں نے لکھا کہ اپنے وطن میں کیا کچھ نہیں تھا۔ وطن کی یا دوں کو تا زہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ہمارے اپنے وطن میں ہما را اپنا مکان تھا۔ ملازمت تھی۔ ماں،   باپ بھا ئی بہن رشتہ دار،   دوست احباب ہم کو قرض دے کر ہم سے دعوتیں کھانے والے،   ہم سے قرض لے کر ہم سے روپوش ہونے والے۔ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر ہم لندن جیسی اجنبی سر زمین پر پہنچ گئے۔ جو ہمارے لئے ایک تاریک کنو یں کے بر ابر ثا بت ہوئی۔ یہاں کی مشکلات کا علم ہمیں یہیں آنے کے بعد ہوا‘‘۔ ۱۰؎

برطانیہ ہجرت کے فائدے اور نقصانات بیان کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی نے لکھا کہ انگریزوں کے سامنے مشرقی اقدار کی پا سداری مشکل ہے۔ انگریز صرف کام سے کام رکھتا ہے۔ اُسے اور کسی اخلاقی یا تہذیبی بات میں دلچسپی نہیں لیکن فائدہ یہ رہا کہ زندگی کی سہو لتیں آ سانی سے میسر آ جاتی ہیں اور ان کے حا صل کرنے کے لئے کسی قسم کی رشوت دینے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کے آ خر میں فکر معاش کو اپنی ہجرت کا جو از قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’سنتے ہیں کہ مختلف قسم کے پرند بھی اپنے دانے دنکے کے لئے ہزار ہا میل کی مسافت طے کرتے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ شائد ہماری ہجرت کا سبب بھی ہماری اپنی روزی ہے۔ جہاں دو وقت کا کھا نا آ سانی سے مل جائے وہی جگہ ہمیں اپنا لیتی ہے۔ جسم ہمارا وہیں کا ہو کر رہ جا تا ہے۔ روح بھٹکتی پھرتی ہے۔ ہمارا جسم یہاں رہتا ہے اس لئے کے جسمانی ضروریات کی تکمیل یہاں بہتر طریقے سے ہوتی ہے۔ ہماری روح اور ہمارے ذہن کا مرکز اپنا وطن بنا رہتا ہے‘‘۔ ۱۱؎

ہجرت کے موضوع کو دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے اپنا یہ انشائیہ ختم کیا ہے اس انشائیہ میں حبیبؔ حیدر آبادی نے نہایت شگفتہ اور لطیف انداز میں ہجرت جیسے موضوع کو پیش کیا۔ اور ہجرت کے بعد پیش آنے والے حا لات پر اپنے احسا سات کا اظہار کیا۔ اگر کسی کو کسی بات پر دکھ درد بھی پہنچے تو اُس کا اظہار شگفتہ انداز میں کرنا یہ حبیبؔ  حیدرآبادی کا ہی وصف ہے

 

ہما ری شاعری

 

حبیبؔ حیدر آبادی کے اگلے انشائیہ کا عنوان ’’ہماری شاعری‘‘ ہے۔ اس انشائیہ میں اُنہوں نے ایک مر تبہ پھر اپنی ذات کو محور بنایا ہے۔ اور مشاعروں میں اپنی شرکت،   دوسرے شعراء کے مصرعوں پر غزل سنانا،   کبھی تو کسی شاعر کی مستعا رلی ہوئی مکمل غزل ہی سنا دینا،   برطانیہ کے ما حول میں ہر کس و نا کس کا شعر مو زوں کرنا وغیرہ اُمور کو دلچسپ انداز میں بیان کیا۔ مشاعروں میں شاعروں کی شر کت کا حال بیان کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’شاعر مشاعروں میں دوسرے شعراء کا کلام سننے نہیں جاتے بلکہ اپنی باری کا انتظار کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ اپنے کلام سے سامعین کو فیض یاب کر دیتے ہیں مشاعرے میں اُن کی آمد کا مقصد پو را ہو جا تا ہے۔ وہ دوسرے شعراء کا کلام سنے بغیر خوشی خوشی مشاعرے سے رخصت ہو جاتے ہیں‘‘۔ ۱۲؎

دوسروں کی غزل سنانے کو جائز قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب اردو ادب میں بھی ہر چیز کہیں نہ کہیں سے مستعا رلی ہوئی ہے۔ کبھی فرانس سے کبھی انگلستان سے،   کبھی اسپین تو کبھی لاطینی امر یکہ سے۔ جب بڑے بڑے شاعر اپنی زمین کو چھو ڑ کر دوسروں کے خیالات و تجربات سے استفادہ کر رہے ہوں تو کسی شاعر کا کلام سنا دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ شاعری کے بارے میں ایک نیا نکتہ پیش کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں حبیبؔ حیدر آبادی نے لکھا کہ دنیا کی ہر تعلیم کے لئے اس کول،   کا لج اور یو نیو رسٹی قائم ہے جبکہ شاعری کے لئے کوئی اسکول نہیں۔ اس لئے اسے لا وارث قرار دیتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’شاعری ہی ایک ایسی یتیم صنف ادب ہے۔ جس کا کوئی وارث نہیں۔ جس کا جی چاہے اس پر ہا تھ صاف کرے۔ شاعر کے لئے نہ تو علم کی قید ہے۔ اور نہ ہی تجربے کی۔ سر میں سودا سما جائے کا فی ہے۔ اسی لئے اردو دنیا میں شاعروں کی بہتات ہے اور اردو ادب کی اسی افراتفری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم بھی چپکے چپکے شعر کہتے رہتے ہیں‘‘۔ ۱۳؎

اس انشائیے میں حبیب حیدر آبادی نے اپنی شاعری پر خود طنز کرنے کے علا وہ اردو شاعری کے عام ما حول پر بھی طنز کیا ہے۔ اور پر لطف انداز میں شعر و ادب کے ما حول کی او نچ نیچ بیان کی۔

 

ہماری انجمن سازی

 

’’ہماری انجمن سازی‘‘ حبیبؔ حیدر آبادی کے تحریر کر دہ اگلے انشائیے کا عنوان ہے۔ اس انشائیہ میں اُنہوں نے انجمن سا زی میں ایشیائی باشندوں کی مہا رت اور دلچسپی کو طنز و مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ عام طور پر ایک انسان اپنی تعلیم کے سہارے ایک سے زائد موضوعات پر کچھ نہ کچھ بول سکتا ہے۔ اور جب بول سکتا ہے تو وہ اس شعبہ سے اپنا تعلق بحیثیت ایک فرد کے نہیں بلکہ ایک عہدیدار کے طور پر رکھنا چاہے گا۔ لوگوں کے وقت واحد میں ایک سے زیادہ انجمنوں سے تعلق کی عادت کو مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبا دی لکھتے ہیں :

’’ہم تو وقت واحد میں ایک ہی انجمن کا سہا را لیتے ہیں۔ ہمارے بعض با ہمت دوست ایک سے زیادہ بیویوں کی طرح ایک ہی وقت میں دو دو تین تین چار چار انجمنیں اپنے تصرف میں رکھتے ہیں۔ اور ٹھوس طر یقے سے اپنی خد مت انجام دیتے ہیں‘‘۔ ۱۴؎

حبیبؔ حیدر آبادی نے یہ انشائیہ برطانیہ میں اردو کے نام پر قائم ہونے والی آئے دن کی ایک نئی انجمن اور اس کے تحت ہونے والے مشاعروں اور ادبی اجلاسوں کی کثرت دیکھ کر لکھا ہے۔ انجمن کے تحت ہونے والے مشاعروں یا ادبی اجلا سوں کا انتظام کیسا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’بعض ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں جو ہم جلسہ کرتے ہیں تو خیال اس بات کا رکھتے ہیں کہ ہال صاحب حیثیت ہو۔ اشیائے خور دو نوش پر تکلف ہوں دعوت نامے خو بصورت ہوں۔ اور ویڈیو کا انتظام ہو۔ جب اوسط طبقے کے ادیبوں اور شاعروں کے لئے کچھ کرنا پڑے تو اس بات کا خاص خیال رکھا جا تا ہے کہ ہال بھی شاعر یا ادیب کے قد و قامت کے بر ابر ہو اور کھانے کے لوازمات میں بھی اعتدال اور توازن باقی  رہے اور دعوت نامے ایسے ہوں جو جا مہ سے باہر ہوتے نظر نہ آئیں‘‘۔ ۱۵؎

انشائیہ کے آ خر میں حبیب حیدر آبادی نے اپنی قائم کر دہ ایک انجمن کا ذکر کیا جس کے اراکین کے ناموں میں اُن کے بچے شا مل تھے۔ اس کی وجہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے بانی کی عزت و عصمت باقی رہتی ہے۔ اور کسی کی مداخلت کا امکان نہیں رہتا۔ انجمنوں کے بارے میں کڑوی سچائیوں کو پر لطف انداز میں بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے اس انشائیہ کو پُر لطف بنا دیا۔ اس انشائیہ میں حبیبؔ حیدر آبادی نے ایشیائی باشندوں کی انجمنوں اور مغرب کے لوگوں کی انجمنوں کے فرق کو بیان کیا۔ کتابوں کی رسم اجراء کے ضمن میں آئے دن ہونے والے جلسوں کا ذکر کیا۔ بین الاقوامی سطح پر کتابوں کی رسم اجراء اور اس موقع پر مصنف کی تعریف و توصیف کرنے کا گر بتاتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’آج کل اتنی کتا بیں لکھی جا رہی ہیں کہ روزانہ ایک کتاب کی رسم اجراء با آ سانی کی جا سکتی ہے۔ اگر نئی کتاب کے آنے میں دیر ہو تو ایک ہی کتاب کی رسم اجراء ایک ہی شہر میں دو دو تین تین بار بھی کی جا سکتی ہے۔ ۔ ۔۔ اگر ادیب یا شاعر تعلقات عامہ کے گر سے واقف ہو اور مالی اعتبار سے اس موقف میں ہو کہ سفر،  ہال کا کرا یہ اور دعوت ناموں کے اخراجات خود برداشت کر لے تو ایک ہی کتاب کی رسم اجراء دنیا کے مختلف مقامات پر بیسیوں مرتبہ کروا سکتا ہے۔ سا معین تو پکے ہوئے آم کی طرح جلسہ گاہ میں ٹپک پڑتے ہیں۔ مقر رین ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ کسی کتاب پر تقریر کرنے کے لئے اُس کتاب کا پڑھنا کو ئی ضروری نہیں۔ خود ہم نے کئی کتابوں کی رسم اجراء پر کتاب پڑھے بغیر کتاب اور صاحب کتاب پر بہت دیر تک کہا اور بہت کچھ کہا‘‘۔ ۱۶؎

حبیبؔ حیدر آبادی نے اس انشائیے میں اردو کی ادبی محفلوں کے احوال دلچسپ انداز میں بیان کئے۔ اور اردو ادب اور ادیبوں کے بارے میں اپنی وسیع تر معلومات کی جھلک بھی دکھا ئی۔ انشائیہ کے آ خر میں وہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اردو کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ہر اردو داں شخص ایک نہ ایک انجمن ضرور بنائے۔

 

ہماری انکساری

 

حبیبؔ حیدر آبادی کے تحریر کر دہ اگلے انشائیے کا عنوان ’’ہماری انکساری‘‘ہے۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کے انشائیوں کے عنوانات کی یہ خصوصیت ہے کہ اُن کا آغاز ہماری یا ہما را سے ہوتا ہے۔ یعنی وہ جو بھی بات کرتے ہیں اپنے حوالے سے کرتے ہیں اور پس پردہ دوسروں کو بھی اپنی بات میں شامل کر لیتے ہیں۔ انشائیہ ’’ہماری انکساری‘‘ میں حبیبؔ حیدر آبادی اپنی ذات کا انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شادی سے قبل اُنہیں بات بات پر غصہ آ تا تھا۔ لیکن شادی کے بعد بیوی کے کہنے پر اُن کے مزاج میں بدلا ؤ آ گیا اور وہ منکسر المزاج بنتے گئے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ :

’’ہمیں منکسر المزاج بنانے کا سہرا ہماری بیگم کے سر جاتا ہے۔ سراپا آگ کو خاک بنانے میں اور پھر اس مشت خاک کو خاکسار بنانے میں اُن کا بڑا حصہ رہا ہے۔ خاکساری یوں ہی نہیں آ جاتی اس کے لئے بڑی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ بڑے ریاض کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے نفس پر بڑا جبر کرنا پڑ تا ہے اقبال کا شاہین بننا پڑتا ہے جسے پہاڑوں کی چٹانوں پر نہیں بلکہ پہاڑیوں سے گھری ہوئی وادیوں میں بسیرے کی ضرورت پڑتی ہے‘‘۔ ۱۷؎

بیوی کے کہنے پر خاکسار ہونے کو حبیبؔ حیدر آبادی نے فنا الزّوجہ کہا ہے۔ جب انسان نہایت ہی خاکسا رو انکساری والا ہو جا تا ہے تو اُس کے کر دار کی جو حا لت ہوتی ہے اُسے حبیبؔ حیدر آبادی نے معصومیت بھرے انداز میں یوں بیان کیا ہے :

’’لوگ جب ہم سے ہماری عمر دریافت کرتے ہیں تو انکساراً ہم اپنے آپ کو اپنی عمر سے آ ٹھ دس سال کم بتاتے ہیں۔ لوگ جب ہماری تنخواہ پو چھتے ہیں تو یہاں بھی انکسارسے کام لیتے ہوئے آمدنی کو دگنی بتا نا پڑ تا ہے تا کہ پو چھنے والے ہماری آمدنی سے مرعوب ہو کر ہمارے وارے نیارے ہوتے رہیں یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے جیتے جی یا مرنے کے بعد ہماری آمدنی یا جائیداد منقولہ و غیر منقولہ سے اُنہیں ایک پائی بھی نہیں ملے گی۔ یار لوگ جب ہم سے ہمارے بچوں کے تعلق سے دریافت کرتے ہیں تو انکساری کا تقاضہ یہ رہتا ہے کہ بچوں کی تعداد زیادہ بتلا ئی جائے تا کہ اپنی ازدواجی زندگی کا اُن سے لوہا منوایا جائے اور سا تھ ہی ساتھ اُن کی نظروں میں مظلوم بھی ٹھہر یں‘‘۔ ۱۸؎

انکساری کی مثالیں اوراقسام کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنا یہ انشائیہ تمام کیا ہے۔ موضوع کو گہرائی و تفصیلی انداز میں پیش کرتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی نے واضح کیا کہ انہوں نے اپنی ذات اور ما حول کا کس قدر گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ بہ ظاہر انکساری ایک کیفیت کا نام ہے۔ لیکن اس کیفیت کو جس انداز میں اُنہوں نے دلچسپ اسلوب کے ساتھ لفظوں کا جا مہ پہنا یا ہے یہ اُن کی انشا پردازی پر مضبوط گرفت کی دلا لت کرتا  ہے۔

 

ہما ری وضع داری

 

اپنی ذات کے عرفان میں ڈوب کر لکھے گئے حبیبؔ حیدر آبادی کے اگلے انشائیے کا عنوان ’’ہما ری وضع داری‘‘ ہے۔ اس انشائیہ میں اُنہوں نے مشرقی اقدار کی ایک خو بی وضع داری کو مغربی ما حول میں شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اپنے آپ کو واجبی سا وضع دار انسان قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی اعتراف کرتے ہیں کہ عارضی طور پر اُن سے سر زد ہونے والی اچھی باتوں کے درمیان اکثر اُن سے خطائیں سر زد ہوتی رہتی ہیں۔ مشرقی  ماحول میں گھر والوں اور اساتذہ کی جانب سے غلطی پر بھیا نک سزاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے لکھا کہ بچوں پر اس طرح کی سزاؤں کا اطلاق صرف مشرق میں ہوتا ہے۔ اگر یہ عمل مغرب میں دہرا یا جائے تو بچے اپنے والدین کا کیا انجام کرتے ہیں اس ضمن میں حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں کہ :

’’یہ بھی زمانہ آ گیا ہے کہ ان ہی سیدھی سادی اور غیر مضرت رساں سزاؤں کا اطلاق آج اگر ہم اپنے بچوں پر کر یں تو یہ پو لیس اسٹیشن جا کر رپورٹ لکھوا دیں اور اپنے ماں باپ کو حوالات میں بند کر وا دیں ہم کو حوالات سے چھڑوانے کے لئے نفسا نفسی کے اس دور میں کون ہماری مدد کرتا۔ زندگی میں لے دے کے ادبی حلقہ کی رکنیت اختیار کی تھی۔ ادبی حلقے کے ارکان ایسے طوطا چشم ہوتے ہیں کہ وہ ہماری گرفتاری پر افسانے لکھ سکتے ہیں ہما را نفسیاتی تجزیہ کر سکتے ہیں مگر عملی طور پر ضمانت دے کر ہم کو حراست سے نکال نہیں سکتے۔ اسی لئے حرا ست سے نکلنے کا ہم کو ایک ہی راستہ نظر آ تا ہے کہ مچلکہ نیک چلنی پر بچوں کے سامنے دستخط کی جائے اُن سے تحریری وعدہ کیا جائے کہ آئندہ سے ہمارا چال چلن اُن کے ساتھ ٹھیک رہے گا آئندہ ہم اُن کو کبھی سزا نہیں دیں گے‘‘۔ ۱۹؎

حبیبؔ  حیدر آبادی نے اپنی وضع داری کی یہ ایک مثال پیش کی۔ آ گے مزاحیہ انداز میں اُنہوں نے لکھا کہ وضعداری کا یہ تقاضہ ہے کہ باہر کی باتیں گھر میں اور گھرکی باتیں باہر نہ کی جائیں۔        حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ وضعداری نبھاتے نبھاتے آ دمی کو چین نہیں ملتا۔ بچپن میں والدین،   اساتذہ،   پڑ وسی جان پہچان والے انسان پر نظر رکھتے ہیں۔ ماں باپ کے دور حکمرانی کے بعد بیوی شوہر کی نگران اعلی بن جاتی ہے۔ اولاد ہوئی تو ایسے دور میں ہوئی جبکہ بچے ماں باپ کے اچھے برے پر نظر رکھنے کے حق دار قرار پائے۔ اب اولاد کی اولاد دادا نانا کی خیریت پوچھنے لگے تو خدا ہی حافظ ہے۔ چنانچہ مضمون کے آ خر میں اپنی وضعداری پر خو شی کا اظہار کرتے ہوئے حبیبؔ

حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ہماری وضعداری نے ہمیشہ ہمارا حتساب کیا۔ دل کی بات زبان پر لانے سے منع کیا۔ ہر ناگوار سے نا گوار بات کو سنتے رہے۔ دیکھتے رہے وضعداری نے زبان پر مہر لگا دی۔

؎        خیال خاطر احباب چاہئیے

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

اس شعر کو عملی زندگی میں بر تنے کے لئے کس کس منافقانہ روش سے ہم کو گذر نا نہیں پڑا۔ اسی منافقانہ نہ رویے کو زمانے وضعداری کا نام دیا جسنے جس شدت سے منافقانہ زندگی گذاری وہ اتنا ہی وضعدار کہلا یا۔ حق بات تو یہ ہے کہ ہماری وضعداری ہمارے کام آ رہی ہے۔ ہم خود بھی خوش ہیں۔ اور ہم سے ہماری دنیا بھی خوش ہے یہاں سے مراد ہماری بیوی ہے‘‘۔ ۲۰؎

اپنی زندگی میں وضع داری نبھاتے ہوئے اور بیوی اور بچوں سے ڈرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی کی شخصیت تو وضعدار ہو گئی لیکن وہ دوسروں کی دل بہلا ئی اور شگفتگی کا سا مان کر گئی۔ اس تحریر میں جو معصومیت اور بھو لا پن ہے۔ اس سے قاری کو گمان ہونے لگتا ہے کہ واقعی حبیبؔ حیدرآبادی نے وضع داری میں ڈوب کر یہ انشائیہ لکھا ہو گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اُن کی انشا پردازی کا کمال ہے کہ جس موضوع کا وہ انتخاب کرتے ہیں اس میں ڈوب کر بات کہتے ہیں۔ وضعداری کے جو ادوار اُنہوں نے بیان کئے آج کل کے اکثر مرد حضرات اُن سے گذر رہے ہیں۔ اور کبھی صراط اہلیہ اور کبھی صراط اولاد پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو معصومیت اور وضعداری کی مثال بنا رہے ہیں۔

 

ہماری دعوتیں

 

حبیبؔ حیدر آبادی کے اگلے انشائیہ کا عنوان ’’ہماری دعوتیں‘‘ ہے اس انشائیہ میں حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنے گہرے مشاہدے کو بروئے کا رلاتے ہوئے دعوتوں میں شر کت کرنے والوں کی نفسیات بیان کی ہیں اور خود کے احوال بیان کئے ہیں۔ ایک ما ہر نفسیات کی طرح کسی دعوت کے موقع پر کھانے سے قبل اور بعد میں مہمانوں کی کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے حبیب حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’دستر خو انی گفتگو کی نوعیت ہی کچھ اور ہوتی ہے کھانے سے پہلے بھوک کی مو جو دگی میں گفتگو کچھ اور انداز اور موضوع کچھ اور ہوتے ہیں کھانے کے بعد سیر چشمی کی گفتگو کچھ اور رنگ اختیار کر لیتی ہے کھانے سے قبل بحث و  مباحثہ میں گرمی کا عنصر خواہ مخواہ داخل ہو جا تا ہے اور ساری محفل پر بھوک ہی بھوک طاری رہتی ہے۔ کھانے کے بعد ہر شخص اپنی اصل پر لوٹ آ تا ہے‘‘۔ ۲۱؎

شعرا اور دعوت کا ایک خاص تعلق رہا ہے۔ اور دعوت میں شعر سنانے سے شعرا حضر ات کبھی نہیں چوکتے۔ دعوت میں محفل شعر کا کیا فائدہ ہے اور کس طرح مہمان شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’ہم نے دیکھا کہ بعض شاعر حضرات کی شاعری اگر اُن کی کتاب میں پڑھی جائے تو کتنی بے مزہ،   سپاٹ اور واہیات ہوتی ہے۔ مگر اسی شاعری کو شاعر بہ نفیس نفیس جب سنا تا ہے تو اپنی اداؤں تر نم اور فقروں سے سامعین کو اپنی تعریف کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ خصوصاً کسی دعوت میں کھانے کے بعد جب وہ شعر سنا تا ہے تو سا معین یوں محسوس کرتے ہیں جیسے اُن کا کھا نا ہضم ہو رہا ہے۔ اسی لئے دولت مند،   با عزت اور ثقہ لوگ عقیقہ،  چھٹی چھلہ اور ختنہ کی تقا ریب میں اپنے

مہمانوں کا کھا نا ہضم کروانے کے لئے کھانے کے بعد ایک شعری نشست کا بھی اہتمام فر ما دیتے ہیں۔ شعراء ہیں کہ اس موقع کو غنیمت جان کر جھوم جھوم کر شعر سناتے ہیں‘‘۔ ۲۲؎

دعوتوں کے بارے میں دو سروں کے رد عمل کو ظاہر کرنے کے بعد حبیبؔ حیدر آبا دینے اس موضوع پر اپنی ذات کو شامل کرتے ہوئے لکھا کہ وہ بھی دعوتوں کے انتظار میں ٹیلی فون کے قریب بیٹھے رہتے ہیں۔ خود بھی دعوتیں کرتے ہیں۔ اُن دوستوں کی تعریف کرتے ہیں جو اُنہیں دعوت میں بلاتے ہیں۔ اُن شعراء کے کلام کی داد دیتے ہیں جو انہیں دعوت میں مدعو کرتے ہیں۔ مذہبی مواقع پر اکثر بغیر دعوت کے بھی کار ثواب سمجھ کر شر کت کرتے ہیں اور اکثر شعرا اور ادیبوں سے ملاقات کر لیتے ہیں۔ مذہبی دستر خوان کا حال بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی تصوف کے رنگ میں ڈوب جاتے ہیں :

’’ہر مذہبی دستر خو ان پر اپنی مو جود گی کار ثواب سمجھتے ہیں۔ جہاں ہماری شکم سیری کے سامان فراہم ہوتے ہیں۔ وہیں ان مذہبی دستر خوانوں پر علم کلام،   تصوف واحدانیت،   وحدت الو جو د،  عرفان اور خود ی کو بلند کرنے کے مو ضوعات پر گفتگو سن کر ہماری روح بھی وجد کرنے لگتی ہے اور اشتہا میں بھی ہر آن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے کھا نا حلق سے نیچے اتر تا جاتا ہے۔ ویسے ویسے ہم کو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے روحانی مدا رج بلند ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ ۲۲؎

مذہبی مواقع کی دعوتوں کے علا وہ حبیبؔ حیدر آبادی نے شا دی بیاہ کی تقاریب میں معہ اپنے خاندان کی شرکت،   دعوتوں میں سیا ست دانوں،  مذہبی رہنماؤں اور صحافیوں وغیرہ کے الگ الگ انداز بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے دعوت کے موضوع پر اپنے قلم کے ذریعہ چاشنی بکھیر دی۔ اور قاری کو ان دعوتوں کا حال پڑھ کر بیٹھے بیٹھے دعوت کا مزہ آ جاتا ہے۔ اور کسی اچھی دعوت میں شرکت کرنے کی خواہش لیے اُس مضمون کے آخر میں حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ اُن کا سارا بھرم دعوتوں پر قائم ہے جس دن دعوتیں ختم ہو جائیں یہ اُن کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔ دعوتوں کے بارے میں حبیبؔ  حیدر آبادی کا یہ انشائیہ سماج کے گہرے مطالعہ اور اُس مطالعہ کو اظہار کے سانچے میں ڈھالنے کی اُن کی صلاحیت کو ظاہر کرتا  ہے۔

 

ہماری دعائیں

 

حبیبؔ حیدر آبادی کے اگلے انشائیے کا عنوان ’’ہماری دعائیں‘‘ ہے۔ اس انشائیہ میں حبیبؔ  حیدر آبادی نے زندگی کے مختلف مرحلوں میں بدلنے والے دعاؤں کے موضوعات کو شگفتہ انداز میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا کہ بچپن میں ایمان و عقیدے کی پختگی،  حصولِ علم نیک توفیق کی دعا مانگا کرتے تھے بڑے ہوئے تو ملازمت اور پھر شادی کی دعا مانگا کرتے تھے۔ اُنہوں نے مزاحیہ انداز میں لکھا کہ خدا نے اُن کی شادی کی دعا اتنی جلد قبول کر دی کہ شادی کے بعد ایک عرصہ تک اُنہیں دُعا مانگنے کا ہوش نہیں رہا۔ ترک وطن کے بعد جہاں زندگی کی چال ڈھال بدلی وہاں دعاؤں کے عنوانات بھی بدلے۔ اس ضمن میں اپنے مشاہدات کو پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’جب ہم انگلستان آئے تو ہم نے زندگی کے اور شعبوں کے ساتھ ساتھ اپنی دعاؤں کو بھی ماڈرن کیا۔ روایات سے منحرف ہوتے ہوئے دعاؤں کو جدیدیت کا رنگ دیا۔ پہلے ہم صرف اپنی عام صحت کے لئے دعا مانگا کرتے تھے اب جب دعا مانگتے ہیں تو ہا رٹ اٹیک،  کینسر،  السر اور بر ین ہیمریج سے بچے رہنے کی دعا مانگتے ہیں۔ ہوائی جہا ز،  ٹرین،  بس،  ٹیوب ٹرین اور ٹکسی کے حادثات سے محفوظ رہنے کی دعائیں کرتے ہیں بن بلائے مہمانوں کے اپنے گھر نہ آنے کی دعا مانگتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں بیویوں کو اپنے شوہروں کی سلا متی کے لئے دعا مانگنی پڑتی تھی۔ اپنے وطن میں ماں باپ اپنے بچوں کے لئے نیک توفیق کی دعا مانگتے تھے۔ یہاں بچے ماں ماپ کی نیک چلنی کی دعا مانگتے ہیں اپنے وطن میں بچے دعا کرتے تھے کہ وہ اپنے ماں باپ کے اطاعت گزار رہیں۔ یہاں ماں باپ دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کے خد مت گزار بنے رہیں‘‘۔ ۲۴؎

مشرق و مغرب کی زندگی کا فرق بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے دعاؤں کی شکل میں انسانی خواہشات کے لامتناہی سلسلے کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ اور دعاؤں اور خواہشات کے بیان کے پس پر دہ مغربی تہذیب کا مذاق بھی اُڑا یا۔ برطانیہ کے تا رکین وطن کی دلی خواہشات کو اپنے موضوع کے دائرہ کا رمیں لاتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ یہاں کے لوگ اکثر ما دی آ سائشوں کی دعا مانگا کرتے ہیں جس پر اُن کے بچے آمین کہتے ہیں کیوں کہ ما دہ پرست ما حول میں انسان کی روحانیت پر ما دیت غالب آ جاتی ہے۔ اس ضمن میں حبیبؔ  حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’انگلستان میں جیسے ہی ہمارے قدم پڑے ہم نے ہر اُس نعمت کے حصول کے لئے دعا مانگی جو یہاں کی مادی اور خوشحال زندگی کا خاصہ ہے۔ مثلاً اچھی ملازمت یا کامیاب تجار ت،  دو گیاریج والا بڑا سا مکان معہ ایک وسیع باغ اور سو یمنگ پول۔ گڑ گڑ اکر ہم نے ایک نئی مر سڈیز کے لئے دعا مانگی۔ جہاں تک قیمتی قالین،   ریشمی پر دے،   بہتر ین فر نیچر فریز ر،  رفر یجرئیٹر،  ٹیپ ریکارڈر،  واشنگ میشن،  ڈش و اشر اور ویڈیو کیمرے کا تعلق ہے۔ ہماری خواہش کے مطابق ہماری دعا پر ہماری بیگم اور بچے ایک ساتھ بہ آواز بلند آمین کہتے تھے‘‘۔ ۲۵؎

حبیبؔ حیدر آبادی نے اس انشائیے میں دعاؤں کا ذکر کرتے ہوئے مغربی معاشرے میں پائے جانے والی مادی زندگی اور اُس کے حصول کے لئے روحانیت کو پس پر دہ ڈال کر مرد و عورت کے کام کے پیچھے لگے رہنے کو موضوع بحث بنا یا ہے۔ اور واضح کیا کہ معاشرہ بدلنے سے کیسے انسان کی سوچ بھی بدل جاتی ہے۔

 

ہمارے اقوال

 

حبیبؔ حیدر آبادی نے اس عنوان سے اپنی جانب سے تیار کردہ چند اقوال کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ حبیب حیدر آبادی نے کل ۲۶ اقوال تحریر کئے۔ ان اقوال میں اُن کی زندگی کے تجربات کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے۔ اقوال کے موضوعات متفرق ہیں۔ چند منتخبہ اقوال اس طرح ہیں :

’’بڑھاپے میں جو انی جیسی حر کات مت کر و۔ مر جا ؤ گے۔ جوانی میں خوابوں کے سہارے مت جیو۔ زندگی کمزور ہو جائے گی۔ زندگی کا یہ دور تو عمل کا ہوتا ہے۔ فوج اور پو لیس کے سامنے تسلیم و رضا کے ساتھ ہتھیار ڈال دو ورنہ پٹائی ہو گی۔ شادی کے لئے شا دی کے قابل ہو نا ضروری ہے۔ رشوت آمدنی اور خرچ کے توازن کو بڑھانے کا نام ہے۔ گنا ہوں کے جو از کے لئے شریعت کا سہا را مت ڈھونڈو۔ عمرہ اور حج آج کل فیشن بن چکے ہیں۔ کتابیں خر ید کر پڑھنے والے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کتاب کے متن کو سمجھے۔ قاری کے ساتھ زیادتی کرنا ہے‘‘۔ ۲۶؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے تخیل کی پید اوار فقرہ نما یہ اقوال زبان و بیان پر اُن کی قد رت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان اقوال میں نصیحتیں بھی ہیں۔ طنز بھی ہے۔ مزاح بھی ہے۔ قاری کے لئے اسلوب کی دلچسپی بھی ہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ان اقوال سے جھلکتا ہے۔ اُنہوں نے عمرہ اور حج کو جس طرح فیشن قرار دیا اُس کی صداقت آج لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی نے چند ایک اقوال پر ہی اکتفا کیا۔ اگر وہ چاہتے تو اقوال کی ایک کتاب تیار کر سکتے تھے۔

 

ہم دادا بن گئے

 

اپنی ذات کو موضوع بحث بناتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی کے اگلے انشائیہ کا عنوان ’’ہم دادا بن گئے‘‘ ہے۔ اس مضمون میں اُنہوں نے کم عمری میں دادا بن جانے پر احباب کے اظہار حیرت اور عمر چھپانے کی لوگوں کی نفسیات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں شاعرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’اپنی عمر کے حوالے سے اگر ہماری زندگی کے شب و روز کا جائزہ لیا جائے تو متن میں ساری کی ساری جد ید اور آزاد شاعری کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ زندگی کو کلا سیکل شاعری بنائے رکھنے کی ارادی کوششوں کے باوجود زمانے کی رفتار فکر و نظر کو مختلف دھاروں پر بہا لے جاتی ہے‘‘۔ ۲۷؎

اپنے آپ کے دادا بن جانے کا تجزیہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی سوال کرتے ہیں کہ ایک دادا بننے کے لئے جو ذہنی پختگی درکار ہوتی ہے کیا اُن میں ہے۔ ادبی حلقوں کے اپنے دوستوں کی تحریروں کی پختگی اُن میں پائی جانے والی نصیحتوں کا حوالہ دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ یہ لوگ ایک پوتے کے دادا تو نہیں ہیں لیکن اپنی تحریروں سے ضرور دادا لگتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’لندن کے ادبی ما حول پر نظر دوڑائیے۔ ہر انجمن کے کرتا  دھرتا اور ’’راوی‘‘ میں لکھنے والے سب کے سب چا لیس اور پچاس کے درمیان عمر والے ملیں گے۔ یہ سب ایسے ہیں جو دادا یا نا نا بن چکے ہیں یا دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسال میں بن جائیں گے۔ اگر حقیقی پوتے اور نو اسے اُن کے نہیں بھی ہیں تو منہ بو لے نو اسوں اور پو توں کی کمی نہیں۔ انجمنوں کی کارکردگی اور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات ملاحظہ ہوں۔ ان سب میں ایک دادا چھپا ہوا ہے۔ وہی احساس بز رگی،   وہی متانت،   وہی خود کلامی۔ وہی احساس سپر دگی،  وہی تیکھا لہجہ وہی مر بیانہ انداز،  وہی چڑچڑاہٹ دادا بننے پر نازاں بھی ہیں اور دل ہی میں خوش بھی ہو رہے ہیں اور اپنی عمر کا خیال آتے ہی اپنے روز و شب کے پیش نظر شرمندہ بھی‘‘۔ ۲۸؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے ہم عمر دیگر احباب دادا نا نا بنیں یا نہ بنیں لیکن حبیبؔ حیدر آبادی کو اپنے دادا ہونے پر فخر ہے۔ چنانچہ وہ اپنے پوتے کو گود میں لئے اسے اپنی شاعری اور انشائیے سنا کر نہ صرف اُس کا دل بہلاتے ہیں بلکہ اپنے دادا ہونے کا احساس بھی دلاتے رہتے ہیں۔ اپنے موضوع کے بیان کے اعتبار سے حبیبؔ حیدر آبادی کا یہ انشائیہ بھی دلچسپی کا حا مل ہے۔

 

ہم نا نا بھی بن گئے

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کے احسا سات اور زندگی کے مشاہدات پر مبنی اُن کا ایک انشائیہ ’’ہم نا نا بھی بن گئے‘‘ ہے۔ انشائیہ کے ابتداء میں اُنہوں نے لکھا کہ گھر میں ہنگامہ آ رائی کے لئے بچوں کا رہنا ضروری ہے۔ مشرق میں باپ اور بیٹا یا بیٹی کے ساتھ ساتھ صاحب اولاد ہوتے رہنے کو اسلاف پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے مزاح پیدا کیا ہے بچوں کی نفسیات کو ایک ماہر نفسیات کے طور پر پیش کرتے ہوئے اُنہوں نے بچوں کے رونے،   کھیلنے اور دیگر حر کات وسکنات کا جائزہ لیا۔ برطانیہ میں بچوں کے بے شمار کھلونوں اور اُن سے دل لگانے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’برطانیہ کے خوش حال معاشرے میں ان شیر خواروں پر جو اخراجات ہوتے ہیں۔ اُن کو دیکھ کر ہماری آنکھیں چند ھیا جاتی ہیں ان بچوں کی ہر چیز اتنی مہنگی اور اتنی خو بصورت کہ دل چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی ان ہی میں ہو تے۔ ان کے سا مان اور کھلونوں سے بچے کم کھیلتے ہیں۔ اور بڑے زیادہ۔ دادا دادی،  نا نا نانی کی وقت گزاری کا مشغلہ بچوں کے یہی کھلونے ہیں۔ ہمارا اکثر وقت ان بچوں کے ساتھ کم اور ان کے کھلونوں میں زیادہ گز رتا ہے۔ ہمارے بچپن میں ہمارے ماں باپ کھلونوں پر کم اور بچوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ آج کل کے ماں باپ بچوں پر کم اور کھلونوں پر زیادہ مہر بان نظر آتے ہیں‘‘۔ ۲۹؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے اس انشائیے میں بھی تہذیبوں کا ٹکراؤ دکھا ئی دیتا ہے۔ مغربی تہذیب کی ظاہر داری پر طنز کرتے ہوئے انشائیہ کے آخر میں حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ لوگ دادا یا نا نا بننے کی عمر تک بھی اپنے آپ کو جو ان ظاہر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اور اُن کے نو اسے نواسیاں پوتے پوتیاں اُن کے لئے افسا نہ بن جاتی ہیں۔

 

انجمن انسداد بے رحمی شوہران

 

حبیبؔ حیدرآبادی کا تحریر کر دہ ایک اور دلچسپ و مزاحیہ انشائیہ ’’انجمن انسداد بے رحمی شوہران‘‘ ہے۔ جس میں انہوں نے بیویوں کے مظالم کے شکار شوہروں کے لئے ایک انجمن کے قیام اور اُس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ہے۔ انشائیہ کے آغاز میں اُنہوں نے دبستان دہلی کے مشہور شاعر مر زا مظہر جانِ جاناں کی ترش رو بیوی اور اُس کے زیر اثر مظہر جا ناں کی بز رگی میں اضافے کے واقعہ کو تفصیلی طور پر بیان کیا۔ اور اس کے بعد ایک ایسی انجمن کے خد و خال بیان کئے جو مظلوم شوہروں کی ہر طرح سے مدد کا دعوی پیش کرتی ہے۔ چنانچہ حبیبؔ حیدرآبادی انجمن کی طرف سے پیش کی جانے والی سہو لتیں یوں بیان کرتے ہیں :

’’جو شو ہر اپنی بیویوں کے سلوک سے گھبرا کر کہیں بھاگ جا نا چا ہتے ہوں یا کسی جگہ مستقل طور پر رو پوش ہو نا چا ہتے ہیں۔ اُن کے لئے ایک دار الا مان بر ائے شوہر ان کر ام کا قیام بھی عمل میں لا یا جا رہا ہے۔ جو شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی بیویوں نے اُن پر جا دو ٹو نا کیا تو اُس جا دو ٹونے کے اثر کو انجمن درگا ہوں کے مجاوروں اور پیروں کے تعویذ اور گنڈوں کے ذریعہ شوہر کے دوستوں پر منتقل کروانے کا انتظام کرے گی۔ جن شوہروں کو شکایت ہے کہ اُن کی بیویاں اُن سے نفرت کرتی ہیں تو انجمن وہ وسائل اختیار کرے گی کہ اُن کی بیویوں کی نفرت میں اور اضافہ ہوتا کہ نفرت کے نتائج جلد بر آمد ہوں‘‘۔ ۳۰؎

حبیبؔ حیدر آبادی کو احساس تھا کہ دنیا میں مظلوم شوہروں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لئے انہوں نے مجو زہ انجمن کے اراکین کی تعداد ایک لا کھ رکھی۔ آ خر میں رکنیت کی فیس دی گئی جس کی شرحیں انگلستان،   امر یکہ اور ہند وستان و پاکستان کے حساب سے الگ الگ رکھی گئیں۔ حبیبؔ حیدر آبادی نے اس انشائیہ میں بھی اپنی ذات کو محور بنایا۔ اُن کی بیوی صدیقہ شبنم مشہور شاعرہ ہیں۔ اور ایک مشہور شاعرہ کا شو ہر ہوتے ہوئے وہ اپنے آپ کو مظلوم تصور کرتے تھے۔ اس لئے شوہروں کی بے رحمی کی انجمن کے جو اغراض و مقاصد و شرائط بیان کی گئی ہیں وہ تمام کی تمام اُن پر بھی صادق آتی ہیں اس کے علا وہ نئے زمانے میں بیویوں کے مظالم کے شکار شوہروں کی بڑھتی تعداد ایک عام مسئلہ ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی انگلستان کے جس ما حول میں رہ رہے تھے وہاں سینکڑوں طرح کی ادبی،   سما جی،   معاشرتی و تہذیبی انجمنیں تھیں۔ چنانچہ ایک نئی طرح کی انجمن کی بناء ڈالنا اُن کے لئے کچھ مشکل مسئلہ نہ تھا۔ اس انشائیہ میں طرح طرح کی شکایات پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے جزئیات نگاری پر اپنی مہا رت کا بھی ثبوت دیا ہے۔ ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ یہ ایک اچھا انشائیہ ہے۔

 

ایک ملا زم کی تلاش

 

حبیبؔ حیدر آبادی نے اس انشائیہ میں اپنے سفر حیدرآباد کے تاثر ات بیان کئے۔ جبکہ وہ ایک ایسے گھر میں مہمان تھے۔ جہاں ملا زم تو کئی تھے لیکن سب کسی نہ کسی طرح کے معذور۔ حبیبؔ صاحب چا ہتے تھے کہ ان ملا زمین پر ایک ہیڈ ملا زم کا تقرر کر دیا جائے جو ہر فن مو لا ہو اور بقیہ ملا زمین کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتے ہوئے اُن سے کام کر وا تا رہے۔ چنانچہ وہ ’’ہیڈ ملازم کی تلاش‘‘ کا اشتہار اخبار میں دے دیتے ہیں۔ حبیبؔ  حیدر آبادی کو احساس ہے کہ یہاں کے اردو اخبارات سے بہت سے کام آ سانی سے بن جاتے ہیں۔ ملازم میں درکار خوبیوں کے بارے میں حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’امید وار ہر فن مو لا ہو۔ عربی،   فارسی،   اردو اور انگریزی میں نہ صرف بلا جھجک گفتگو کر سکتا ہو بلکہ ہمیں پڑھا بھی سکتاہو۔ ۔ ۔ ۔ اُسے اردو شاعری کے اسرار و رموز اوزان اور صرف و نحو سے بھی واقفیت ہو۔ ہمارے بعض اشعار جو وزن سے خارج ہوتے ہیں اُن کی اصلاح کرتا رہے۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے سر میں درد ہو تو سر کی مالش کرے۔ وقت ضرورت پاؤں بھی دابے صاحب خانہ کی باورچن جب نزلہ،   زکام یا بخار کی شکار ہو تو اس کی جگہ لے۔ شب بیدار اور صوم و صلوۃ کا پا بند ہوتا کہ اُس کی عبا دتوں کی وجہہ سے صاحب خانہ کے گھر میں ہمارے قیام کے دوران ہر لمحہ بر کتوں کا نزول ہو۔ ۔ ۔ ۔ قناعت پسند ہو تاکہ کم سے کم تنخواہ پر اپنی ملازمت جاری رکھ سکے۔ حریص اور لالچی نہ ہو‘‘۔ ۳۱؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنا زور قلم استعمال کرتے ہوئے ملازم میں درکار اور بھی کئی خوبیاں گنوائیں۔ اور یہ تاثر دیا کہ اُن کا ملازم اپنی ذات میں ایک انجمن ہو۔ تا ہم لوگ اپنے ملازمین میں جتنی خوبیاں تلاش کرنا چا ہتے ہیں۔ آج کل کے ملا زمین بھی اپنے مالکین میں خوبیاں ڈھونڈتے ہیں۔ اور اُن کی نظر یں کم کام اور زیادہ آمدنی پر ہوتی ہیں۔ حبیبؔ  حیدرآبادی نے انٹرویو کے لئے آئے کئی ملا زمین میں سے جب ایک ملازم کو گھر میں کام کے لئے منتخب کیا تو وہ ملازم اپنے صاحب کا انٹر ویو اس طرح لیتا ہے :

’’صاحب جب تک یہاں کا کو ئی بنک مینجر آپ کی مالی حیثیت کا صداقت نا مہ نہ دے اور کوئی شریف آدمی آپ کے نیک چال چلن کی تصدیق نہ کر دے ہم آپ کی ملازمت کے لئے ہاں نہیں کہہ سکتے۔ ۔ ۔ ۔ اُن کے ایک سوالنے تو ہماری غیرت کو جگا دیا۔ سوال یہ تھا کہ آپ دونوں دن میں کتنی دفعہ کھاتے ہیں۔ اور ہر کھانے پر لوازمات کیا ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ دیکھو ہم خود یہاں مہمان ہیں۔ ہمارے میز بان جو بھی ہمیں کھلاتے ہیں ہم شوق سے کھا لیتے ہیں۔ جو ہم کھائیں گے وہی آپ کو بھی پیش کر یں گے۔ انہوں نے یہ کہہ کر ملازمت قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ جو شخص خود دوسروں کا کھا رہا ہو وہ کسی اور کو کیا کھلائے گا‘‘۔ ۳۲؎

حبیبؔ حیدر آبادی کو جب ملا زم سے سخت جو اب ملتا ہے تو وہ نہ چا ہتے ہوئے بھی اپنا سا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایک اچھے ملا زم کی تلاش میں زندگی کے کئی رموز سے واقفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی ما دیت اور روحانیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ بر صغیر کی معاشی و معاشرتی ترقی کا جائزہ لیتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ہند و پاک کی معاشی،   صنعتی اور تجارتی ترقی نے یہاں کے عوام کو مادی نہیں تو کم از کم ذہنی طور پر بہت آ سو دہ کر دیا ہے۔ سب کے سب دنیا کی ترقی  کا ذہنی طور پر ساتھ دے رہے ہیں۔ مساوات کا پرچم ہر ایک کے ہا تھ میں بلند ہے۔ زمانے کی دوڑ میں ہر ایک حصہ لے رہا ہے۔ جہاں ما دّی ترقی نہیں ہے۔ روحانیت اُن کو آ گے بڑھا رہی ہے غریب سے غریب کو بھی جینے کے لئے ایک سہا را موجود ہے چا ہے وہ درگا ہوں پر حاضری اور پیروں،   پنڈ توں اور مرشدوں کی دعائیں ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ ۳۳؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے ان خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں طرح کی بات کر سکتے ہیں۔ ایک ملا زم کا ڈھونڈنا فی زمانہ کس قدر مشکل ہے۔ اس کا احساس اس انشائیہ کو پڑھ کر بخوبی ہو جا تا ہے۔ لوگوں کو ملا زم ملے یا نہ ملے لیکن قارئین حبیبؔ حیدر آبادی کی پر لطف تحریر سے ضرور محظوظ ہوتے ہیں۔

 

گا لیوں کے آ داب

 

حبیبؔ حیدرآبادی کے اگلے انشائیہ کا عنوان ’’گا لیوں کے آداب‘‘ ہے۔ اس مختصر سے انشائیہ میں حبیبؔ  حیدر آبادی نے توجہ دلائی کہ گالیاں کس طرح مختلف طبقات کے انسانوں کی بات چیت کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ گالیوں کے اقسام میں سیاسی گالی،  مذہبی گالی،  ادبی گالی،  جذباتی گا لی،  عریاں گالی،  عاشقانہ گالی،  فاسقا نہ گالی وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی نے لکھا کہ گالی امیر اور غریب سب دیتے ہیں گالی دینے کو ایک آرٹ قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’گالی دینا ہمیشہ سے ایک آ رٹ رہا ہے۔ اس آ رٹ کو عمد گی سے استعمال کرنے کا غالبؔ نے بھی تو مشورہ دیا تھا۔ گالیوں کے اپنے آ داب ہوتے ہیں۔ اس فن کو سیکھنے کے لئے فن کے ماہر ین کے آ گے آشنا ئی ہوتی ہے۔ بغیر گا لیوں کے بے تکلف دوستوں کی محفلیں بڑی سونی لگتی ہیں۔ جس محفل میں زیادہ گالیاں دی جاتی ہیں وہی محفل زندہ رہنے کے لئے ایک اور بہا نہ بن جاتی ہے‘‘۔ ۳۴؎

حبیبؔ  حیدر آبادی نے اس انشائیہ میں گالیوں کی مثالیں تو نہیں دیں تاہم گالی دینے والوں کے احوال نہایت ہی ادبی انداز میں پیش کئے۔ گالیوں کے معاملے میں انگریزی کے مقابلے میں اردو زبان کو زرخیز قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ :

’’انگریزی زبان میں گالیوں کے الفاظ کا ذخیرہ اُن کے کھانوں کی اقسام کی طرح بہت ہی محدود ہے۔ وہ تنوع نہیں ہے جو اردو زبان میں خدا کی دین ہے۔ اردو زبان پر اہل زبان کا احسان ہے کہ نت نئی گا لیوں سے لغت کے الفاظ میں اضافہ کیا۔ ہر گا لی اپنا ایک وقار رکھتی ہے۔ ہر گا لی اپنی جگہ جا معیت اور معنویت میں منفرد ہوتی ہے ہر گالی کا اپنا ایک تیکھا پن ہے‘‘۔ ۳۵؎

اردو کے ادیبوں میں شائد حبیبؔ حیدرآبادی وہ واحد ادیب ہیں جنہوں نے ’’گا لی‘‘ جیسے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ اور ادبی انداز میں گالی دینے والوں کی اقسام،   گالیوں کی قسمیں اور گالیوں کے دیگر متعلقات بیان کئے۔

 

صوفی صاحب

 

حبیبؔ حیدر آبادی کا ایک دلچسپ انشائیہ ’’صوفی صاحب‘‘ ہے۔ اس انشائیہ میں پائے جانے والے خاکے کے عنا صر خاکہ نگاری کے باب میں پیش کئے گئے ہیں۔ اس باب میں بطور انشائیہ اس مضمون کا جائزہ پیش ہے۔ صوفی صاحب کی شکل میں حبیبؔ حیدر آبادی نے ایک مست مولا قسم کے انسان کو پیش کیا ہے۔ جو اپنی ماڈرن بیوی سے نالاں رہتے ہوئے اپنے اوپر صوفی کا لبا دہ اوڑھے رہتے ہیں۔ صوفی صاحب کا تعارف کراتے ہوئے حبیبؔ  حیدر آبادی لکھتے ہیں :

’’مو صوف بڑے جذباتی تھے۔ پل میں تولہ اور پل میں ما شہ۔ شام اپنے مخصوص دوستوں کو لے کر قریبی پب میں چلے جاتے اور لاگر اور بئیر پیتے ہوئے تصوف کے رموز واسرار پر گفتگو کر تے۔ نو جو ان لڑکیوں کو تصوف کی طرف مائل کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کی سخت مزاجی کی وجہہ سے لڑکیوں کو گھر پر نہیں لاتے لیکن بیوی سے یہ کہہ کر کہ فلاں جگہ پر تصوف کا لیکچر ہے راتوں میں دیر گئے تک باہر رہتے۔ بیوی کی سختی دن بہ دن اُن کو تصوف کی طرف مائل کرتی رہی‘‘۔ ۳۶؎

علم تصوّف کی اصطلاحوں کو انشائیہ میں استعمال کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے پر  مزاح تحریر پیش کی ہے۔ اور صوفی صاحب اور اُن کی تیز و طرار بیوی کی نوک جھو نک کو صوفیا نہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بیوی کے غصّے کو بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’موصوفہ نے کہا کہ جب دیکھو یہ فنا اور نفی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ مجھے اپنی زندگی سے نفی کرنا چا ہتے ہیں۔ شادی ہوئے بیس سال ہو گئے۔ بیس دن بھی اس شخص نے مجھے خوش نہیں رکھا سارا تصوّف میرے لئے ہوتا ہے۔ ساری خسا ست اور تنگی میرے لئے ہوتی ہے۔ شریعت کا سارا اطلاق مجھ پر کیا جا تا ہے خود طریقت کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ وجود کا ذکر آ تا ہے تو آفس کی لڑکیاں اُن کے ذہن میں گھومتی ہیں۔ فنا کا ذکر آ تا ہے تو نظروں کے سا منے بیوی کھڑی نظر آتی ہے۔ خاک میں جائے ایسا تصوّف‘‘۔ ۳۷؎

صوفی صاحب پر اُن کی بیوی کے غصّے کے ذریعہ حبیبؔ  حیدرآبادی نے ایک ایسے شخص کی کر دار نگاری کی ہے کہ جس کی عادتوں کو دیکھ کر یار لوگوں نے اُن کا نام صوفی رکھ دیا تھا۔ حبیبؔ حیدرآبادی کی انشائیہ نگاری اس انشائیہ میں عروج پر دکھا ئی دیتی ہے۔ تصوّف جیسے موضوع کو شگفتہ انداز میں بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی انشا پردازی کے کمال کا اظہار کیا ہے۔

 

ما سٹر صاحب

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کا ایک اور خاکہ نما انشائیہ ’’ما سٹر صاحب‘‘،   ہے۔ اس انشائیے میں اُنہوں نے ایک ماسٹر کا حال بیان کیا ہے جو اپنی عجیب و غریب عادتوں کے سبب منفرد تھے۔ اس انشائیہ میں بھی حبیبؔ حیدرآبادی نے ما سٹر صاحب کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اپنی فنکارانہ انشا پردازی کے جو ہر دکھائے ہیں۔ ما سٹر صاحب کی چھڑی کا حال بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’بچوں کو سدھارنے میں اُن کی چھڑی بہت کام آئی۔ چونکہ ما سٹر صاحب ایک ہی مدرسے میں تیس سال سے ملازمت کرتے آئے تھے۔ اس لئے بہت سے طالب علموں کے والد صاحبان بھی ما سٹر صاحب کی چھڑی کا لطف اُٹھا چکے تھے۔ ما سٹر صاحب کی چھڑی جب ذرا،  پُرانی ہو جاتی تو کسی کھاتے پیتے گھرانے کے طالب علم سے فرمائش کرتے کہ وہ اپنے باپ سے کہہ کر اُسی سائز کی چھڑی خرید کر ماسٹر صاحب کو نذر کر ے۔ نئی چھڑی جب تحفتًہ آ جاتی تو تحفہ دینے والے طالب علم ہی پر اُس کی مشق کی جاتی‘‘۔ ۳۸؎

حبیبؔ حیدر آبادی نے ما سٹر صاحب کی تین بیویوں کے احوال،   اُن کے ملازمت،   جراحت،  شاعروں کے لئے دعوتیں کرنا،   اپنی بکر یوں اور مرغیوں پر شعر کہلوانا جیسے واقعات کے بیان کے ساتھ انشائیہ میں حُسن پیدا کیا ہے۔ ما سٹر صاحب کی ادبی اصلاح کی تحریک کے بارے میں حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’بعض اوقات تو وہ خراب شاعری کرنے والوں کو بُری بُری گالیاں دیتے تھے۔ دو ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ محلہ کے لونڈوں سے خراب شعر کہنے والوں کی پٹا ئی کروا دی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ماسٹر صاحب کو ادبی اصلاح کا شوق چرایا تھا۔ جس دالان میں یہ ادبی اور شعری نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اُس کا نام اُنہوں نے ادبی اصلاح خانہ رکھا تھا۔ ادبی اور شعری اصلاح کے نام پر ما سٹر صاحب نے وہ طوفان بر پا کئے کہ ہر ادیب اور شاعر کی زبان پر بُرے بُرے الفاظ روزمرہ گفتگو کا جزو بن کر آنے لگے۔ کچھ دنوں تک تو پلے نہیں پڑ رہا تھا کہ کون سی تخلیق ادبی ہے اور کون سی غیر ادبی‘‘۔ ۳۹؎

اپنے بچپن کی یا دوں کو تا زہ کرتے ہوئے اور چالیس سال قبل کے ما سٹر صاحب کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے یہ انشائیہ ختم کیا ہے۔ اس انشائیہ میں واقعات سے زیادہ اہمیت اسلوب بیان کی ہے،   ماسٹر صاحب کی شعراء کی آؤ بھگت،   شاعری کی اصطلاح بکر یوں اور مرغیوں پر اشعار کہلوانا جیسے اُمور کو حبیب حیدرآبادی نے نہایت شگفتہ انداز میں پیش کیا ہے۔

 

سارے جہاں سے اچھا برطانیہ ہمارا

 

برطانیہ کی زندگی اچھا ئیاں اور برائیاں بیان کرتا  حبیبؔ  حیدرآبادی کا ایک انشائیہ ’’سارے جہاں سے اچھا برطانیہ ہمارا‘‘ ہے۔ اس انشائیہ میں حبیبؔ حیدرآبادی نے ایک مضمون کی طرح برطانیہ میں تارکین وطن کے احوال پیش کئے۔ تاہم اس پیشکشی کے دوران وہ اپنی انشا ء پردازی کی جھلک بھی دکھاتے جاتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں زندگی کی آ زادی پر طنز کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’زندگی کے ہر عمل پر تو ملکی قا نون لا گو نہیں ہوتا۔ بیوی اگر خراب کھا نا پکائے تو ملک کا قا نون تو اُسے سزا نہیں دے گا۔ شوہر کے رین بسیرے اگر بد لتے رہیں تو ملکی قا نون اُسے کچھ نہیں کہے گا۔ ماں باپ پیسے کے لا لچ میں اگر اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے تغافل برتیں تو حکومت کے قوانین اُن کا کیا بگاڑ لیں گے۔ جوان اولاد اگر اپنے ضعیف والدین سے آنکھیں چرا لے تو ان سما جی یا معاشرتی کمزوریوں کی بنا ء پر تو اُنہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ ان سب با توں میں ہم سب آ زاد ہیں۔ اپنی اپنی صلیب اپنے اپنے کندھوں پر اُٹھائے من مانے اپنا سفر آپ طے کر رہے ہیں‘‘۔ ۴۰؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی بیشتر تحریروں میں برطانیہ میں اپنی آمد کو مجبوری قرار دیا۔ مشرقی اقدار کی پاسداری میں آنے والی رکاوٹوں اور اولاد کی غلط ما حول میں تر بیت کے اندیشوں کے دوران اُنہیں احساس تھا کہ برطانیہ کا ما حول تا رکین وطن ایشیائی مسلمانوں کے لئے ساز گار نہیں ہو گا۔ لیکن حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی شخصیت سے لوگوں کا ایک گروہ تیار کر لیا تھا جو مغرب میں بھی مشرقی قدروں کو پروان چڑھانے میں آ گے تھے۔ مشرق و مغرب کے تہذیبی تصادم کو بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں کہ :

’’ہماری سوچ میں مشرقیت رہتی ہے۔ ہمارے بچوں کی فکر پر مغربی چھاپ ہے۔ مشرق و مغرب کا تصادم یہاں کے ہر ایشیائی گھر میں واضح طور پر نظر آ تا ہے۔ جیو اور جینے دو کے اُصول پر ہم اور ہمارے بچے گامزن ہیں۔ والدین نہ اپنی خو چھوڑنے پر راضی ہیں۔ اور نہ بچے اپنی وضع بدلنے پر۔ ہمارے لئے اب بھی اپنی مادری زبان ایک کشش رکھتی ہے۔ اور زندگی کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ ہم اب بھی تصور میں اپنے آ با و اجداد کی قبروں پر فاتحہ دیتے نظر آتے ہیں‘‘۔ ۴۱؎

برطانیہ کی زندگی میں بہتر سہو لتوں کی ستائیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے یہ انشائیہ ختم کیا ہے۔ اس انشائیے میں حبیبؔ حیدرآبادی کا قلم دکھ درد کا احساس دلا تا ہے۔ ایک اچھے انشائیے کی یہ پہچان ہے کہ اس کی تحریر سے جذبات کا اظہار ہو۔ اور حبیبؔ  حیدرآبادی کے انشائیے بھی اپنی تحریروں کے ذریعہ خو شی و غم،   مسرت،   دکھ درد،  اور زندگی کے دیگر جذبات کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔

 

حبیبؔ  حیدر آبادی کی انشائیہ نگاری کا اجمالی جائزہ

 

حبیبؔ حیدرآبادی کے انشائیوں کے مطالعے سے مجموعی طور پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے ہلکے پھلکے لیکن شگفتہ طرز تحریر کے ذریعہ اپنے موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ اُن کے انشا ئیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اُنہوں نے زیادہ تر انشا ئیوں میں اپنی ذات کو محور بنا یا ہے۔ اور ہمارے یا ہماری کے ساتھ موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ انشائیے ہماری شاعرہ بیگم صدیقہ،   ہماری ہجرت،   ہماری شاعری ہماری انجمن سا زی،  ہماری انکساری،  ہماری وضع داری،  ہماری دعوتیں،   ہماری دعائیں،   ہمارے اقوال،  ہم دادا بن گئے اور ہم نانا بن گئے میں حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی ذات کو پیش نظر رکھ کر انشائیہ نگاری کی ہے۔ حبیبؔ حیدر آبادی ایک زندہ دل انسان تھے۔ اور اُن کی تحریروں سے بھی زندہ دلی جھلکتی ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی کی زندگی جد و جہد اور عمل سے معمور ہے۔ انہوں نے زندگی کی کشتی کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کے لئے کا فی جد و جہد کی۔ زندگی کے آخری ایام مو ذی مرض میں مبتلا رہ کر گذارے۔ خود ہنستے رہے لوگوں کو ہنساتے رہے۔ ان کے انشائیے خود اُن کی زندہ دل شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔ حبیبؔ حیدرآبادی کی شخصیت کے اس پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے لندن سے فیروزہ لکھتی ہیں :

’’حبیب صاحب کسی بھی قانون کو مجروح کئے بغیر خود انکشافی کے تخلیقی عمل سے ایسے گذرے ہیں کہ کہیں کہیں انکشاف ذات خود احتسابی کے دستور کی کوئی دفعہ ہی نظر آ تا ہے۔ ان کی حس مزاح کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس آدمی کو سمجھ لیا جائے جو ہزار دکھ اُٹھا کر بھی زندگی کی خواہش رکھتا ہے۔ اور جس کے چہرے کے گرد انسانی خوابوں کے ہا لے اور اُس کی آنکھوں اور ہونٹوں پر اس ازلی انسان کی مسکراہٹ ہے جو آخر کار ہر غم پر قا بو پا کر کامران ہو گا‘‘۔ ۴۲؎

حبیبؔ حیدرآبادی کے انشائیے زندگی سے بھر پور ہیں وہ بات کو عام فہم لیکن دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اُن کے موضوعات عمومی ہیں لیکن عام موضوعات کو بھی انشا پردازی کا رنگ دے کر اُنہیں خاص بنا دیا۔ اُن کے انشا ئیوں میں ہلکا پھلکا مزاح ہے لیکن طنز یا کسی کی دلآزاری نہیں ہے ’’رہ ورسم آشنائی‘‘ میں شامل انشا ئیوں میں خوش دلی اور خوش مزاجی ہے کبھی کبھی وہ پر لطف انداز میں بھی پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ ’’ہمارے اقوال‘‘ میں حبیبؔ صاحب نے مزاح کے پس منظر میں اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’گھر کا سکون چا ہتے ہو تو گھر کے ہر فرد کو وہ سب کچھ کرنے دو جو وہ کرنا چاہے۔ دیکھتے رہو اور زبان بند رکھو۔ شادی کے لئے شادی کے قا بل ہو نا ضروری ہے۔  بیمار کی عبا دتیں بھی بیمار ہوتی ہیں صحت مند عبا دتیں صحت مندی کے         دوران ہوتی ہیں۔ بے حیائی کا تصور صرف حیا داروں کا نصیب ہے۔  تباہ ہونے کے لئے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں۔ صرف ہمت درکار ہے‘‘۔ ۴۳؎

حبیبؔ حیدرآبادی کے یہ اقوال اُن کے وسیع مشاہدہ اور بات میں بات پیدا کرنے کی صلاحیت کی غمازی کرتے ہیں۔ حبیبؔ حیدرآبادی کی تحریروں سے انسا نیت کے دکھ درد بھی جھلکتے ہیں مغربی معاشرے میں روزگار کی تلاش میں گئے ایشیا ئیوں کی زندگی کو ایک امتحان تصور کرتے ہوئے اُنہوں نے جہاں کہیں مغربی معاشرے کے اثرات دیکھے اُن پر ایک مصلح قوم اور ہمدرد انسان کی طرح اظہار خیال کیا۔ حبیبؔ حیدرآبادی اپنے انشائیوں میں بھی جا بجا دل کے احسا سات بیان کرتے ہیں۔ اس پہلو کو بیان کرتے ہوئے فیروزہ جعفر لکھتی ہیں :

’’حبیب صاحب کے انشا ئیوں میں ذاتی اور سما جی دکھ یکجا ہو گئے ہیں۔ دکھوں کے تجربے نے غالبؔ کی طرح اُنہیں بھی ہنسی بخشی یہ بھی عرفان ذات کی ایک قسم ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر اپنے گر دو پیش کے کر داروں کا مرقع پیش کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طور سے آ دمی کی اپنی ذات میں بھی شا مل ہیں اور خارجی حیثیت سے اس تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی خوشبو لہو میں رچی بسی ہے۔ ۔ ۔ وہ تحریروں میں کمال چا بکدستی سے زندگی کی گرمیوں کو بے حد نرم روی اور میانہ روی سے کھو لتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کے انشائیے اُن میں چھپی نرم نرم حس مزاح،   جو تلخی سے قطعی عاری ہے اس شائستگی اور سنجید گی سے پیدا ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی آ دمی ہنسی سے پھٹ پڑ تا ہے‘‘۔ ۴۴؎

حبیبؔ  حیدر آبادی کے ان انشا ئیوں کی ایک اہم خو بی یہ ہے کہ یہ مختصر ہیں۔ طوالت والے مضامین قارئین میں بو ریت پیدا کرتے ہیں اور خود انشائیہ نگار اپنے موضوع سے ہٹ جا تا ہے۔ مختصر لیکن مفید کے مصداق حبیبؔ حیدرآبادی کا ہر انشائیہ دو تین صفحات سے زیادہ طویل نہیں ہے۔ لیکن ان مختصر انشا ئیوں میں زندگی بھر پور طریقے سے سما ئی ہو ئی ہے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کے انشا ئیوں میں زندگی کے مختلف رنگ تلاش کرتے ہوئے با نو احمد لکھتی ہیں کہ :

’’حبیبؔ صاحب نے زندگی کو قریب سے ہی نہیں بلکہ چھو کر دیکھا ہے۔ ان مضامین میں جہاں خلوص اور صداقت بکھری ہوئی ہے۔ زندگی کی تلخیاں،   غریب الوطنی کے کٹھن تجربات معاشی افکار،   احسا سِ تنہا ئی ذمہ دار یوں کا بوجھ غرضیکہ اُنہوں نے زندگی کو بے نقاب کیا ہے‘‘۔ ۴۵؎

حبیبؔ حیدر آبادی کے انشا ئیوں کو منفرد اور کامیاب بنانے میں ان کے دلچسپ اسلوب کا بھی دخل ہے۔ مضمون اور انشائیے میں بنیادی فرق اسلوب کا ہوتا ہے۔ اسلوب جس قدر نکھرا ہوا ہو گا اُسی قدر انشائیہ کامیابی کی سمت گامزن ہو گا۔ حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی زندگی میں مشہور انشائیہ نگار خواجہ حسن نظامی سے فیض پا یا تھا اُن ہی کی طرز پر روز نامچہ لکھا کرتے تھے۔ مزاح نگاروں میں صاحب طرز اسلوب کے مالک مشتاق احمد یو سفی سے اُن کی اچھی شناسائی تھی اُنہوں نے ضرور اپنے دوست کی تصانیف پڑھی ہوں گی کیوں کہ ان کے اسلوب پر ان دو انشا پردازوں کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے۔ تا ہم حبیبؔ حیدرآبادی نے اسلوب کے لئے اپنی راہ الگ بنائی۔ اُنہیں لفظوں کو بر تنے کاسلیقہ آ تا تھا۔ الفاظ کا ذخیرہ ضرب الا مثال،   محاوروں کے استعمال سے اُنہوں نے اپنے اسلوب میں جان ڈالی ہے۔ مزاح کی چاشنی اُن کے اسلوب کو دو بالا کر دیتی ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی کے دلچسپ اسلوب کی ایک جھلک اُن کے انشا ئیوں سے حا صل کر دہ ان اقتباسات سے ہوئی ہے :

’’یوں بھی کسی فن کار یا ادیبہ یا شاعرہ کا شوہر بننا اور بنے رہنا اپنے کر دہ اور نا کردہ گنا ہوں کا خمیازہ بھگتنے کے بر ابر ہوتا ہے اگر کسی محفل میں ایک شاعرہ غزل سرا ہوتی ہیں تو ایک شوہر کے لئے یہ پتہ چلا نا مشکل ہو جا تا ہے کہ سا معین شعر کی داد دے رہے ہیں یا شاعرہ کی (ہماری شاعرہ بیگم صدیقہ )

’’پٹھان سے رہا نہ گیا اُس نے تلوار سونت لی۔ اور چاہتا تھا کہ بیگم جانِ جاناں کا سر قلم کر دے مظہر جانِ ناں نے نماز توڑ کر پٹھان کو ملازمت سے بر خا ست کرتے ہوئے کہا میاں میری ساری بزرگی اور سارے تقدس کا سر چشمہ میری بیوی ہے۔ اگر ہر وقت اس نیک بخت کی زیادتی مجھ پر نہ ہوتی تو میرے روحانی مدارج میں کس طرح اضافہ ہوتا     ( انجمن انسداد بے رحمی شوہران )

’’ہمیں منکسر المزاج بنانے کا سہرا ہماری بیگم کے سر جاتا ہے۔ سراپا آگ کو خاک بنانے میں اور پھر اس مشت خاک کو خاکسار بنانے میں اُن کا بڑا حصہ رہا ہے‘‘۔         ( ہماری انکساری )

حبیبؔ حیدر آبادی کے انشا ئیوں سے اخذ کر دہ یہ اقتباسات اُن کے اسلوب کی انفرادیت کو پیش کرتے ہیں۔ شگفتہ طرز تحریر،   مزاح کی چاشنی،   مسائل کی پیشکشی میں انسا نیت کا درد عرفان ذات جیسی خوبیوں کی بہ دولت حبیب حیدرآبادی ایک کامیاب انشا پرداز قرار پاتے ہیں۔ اور اردو انشائیہ نگاروں کی فہرست میں انہیں نمایاں مقام حا صل ہے۔ اور خاص طور سے برطانیہ کی ادبی تاریخ میں حبیبؔ حیدر آبادی کی تصنیف ’’رہ ورسم آشنائی‘‘ کو انفرادی حیثیت حا صل ہے۔ یشب تمنا اُن کی انشائیہ نگاری کو خراج پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’نہیں معلوم اردو ادب میں اس کتاب کا کیا مقام متعین ہوتا ہے۔ مگر ایک بات بغیر کسی تردد کے کہی جا سکتی ہے کہ برطانیہ کی اردو ادب کی تاریخ اس کتاب کے تذکرے کے بغیر نا مکمل ہو گی۔ جناب حبیبؔ نے جس شگفتگی کے سا تھ اپنے ذاتی و غیر ذاتی واقعات کو تحریر کیا ہے۔ اس سے اُنہوں نے صنف انشائیہ کی خوبصورتی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ اور خاص طور پر برطانیہ میں اس صنف ادب کو عام کرنے میں بھر پور حصہ لیا ہے‘‘۔ ۴۶؎

یشب تمنا کے خیالات اس بات کی صداقت کرتے ہیں کہ حبیبؔ حیدر آبادی ایک صاحب طرز انشا پرداز ہیں۔ عمر نے اُن کے سا تھ وفا نہیں کی ورنہ اُن کے مزید انشائیے سا منے آتے لیکن اُنہوں نے انشا ئیوں کا جو کچھ ذخیرہ چھو ڑا وہ بھی اردو ادب کے لئے بیش بہا سر ما یہ ہے۔

 

حوالے

 

۱؎       سلیم اختر ڈاکٹر۔ انشائیہ کی بنیا د۔     دہلی    ۱۹۸۸ ء ص ۱۴۶

۲؎      نصیر احمد خاں ڈاکٹر۔ آ زادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ دہلی۱۹۹۳ ء ص ۱۱

۳؎      سیدہ جعفر پر وفیسر۔ ’’اردو مضمون کا ارتقا ء ۱۹۵۰ء تک۔ ۱۹۷۲ء  ص ۱۳۔ ص ۱۴

۴؎      صا برہ سعید۔ اردو میں خاکہ نگاری‘‘                ص ۶۷۔ ص ۶۸

۵؎      نصیر احمد خاں۔ ڈاکٹر۔ آ زادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ ص ۱۲

۶؎      نصیر احمد خاں۔ ڈاکٹر۔ آ زادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ ص ۲۱

۷؎      حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔        دہلی    ۱۹۸۸ ء ص ۶

۸؎      حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۸

۹؎      فیروزہ جعفر۔ راوی۔ لندن۔ حبیب حیدرآبادی نمبر۔ ص ۱۱

۱۰؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۱۲

۱۱؎      حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۱۶

۱۲؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۲۰

۱۳؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۲۱

۱۴؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۲۶

۱۵؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۲۶

۱۶؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۲۵

۱۷؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۲۸

۱۸؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۳۰

۱۹؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۳۳

۲۰؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۳۶

۲۱؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۳۷

۲۲؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۳۸

۲۳؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۳۹

۲۴؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۴۳۔ ۴۴

۲۵؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۴۴

۲۶؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۴۸

۲۷؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۵۰

۲۸؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۵۱

۲۹؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۵۴

۳۰؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۵۸

۳۱؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۶۱

۳۲؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۶۲

۳۳؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۶۳

۳۴؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۶۷

۳۵؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۶۶

۳۶؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۶۸

۳۷؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۷۰۔ ۷۱

۳۸؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۷۴

۳۹؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۷۵

۴۰؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۷۸

۴۱؎     حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۷۹

۴۲؎    فیروزہ جعفر۔ راوی۔ لندن۔ حبیبؔ  حیدرآبادی نمبر  ص ۱۱

۴۳؎    حبیب حیدرآبادی۔ رہ ورسم آشنائی۔                ص ۴۶۔ ۴۸

۴۴؎    فیروزہ جعفر۔ راوی۔ لندن                       ص ۱۱

۴۵؎    با نو احمد۔ راوی۔ لندن                   ص ۱۰

۴۶؎    یشب تمنا۔ راوی۔ لندن                 ص ۱۲

٭٭٭

 

 

 

حبیبؔ حیدرآبادی بہ حیثیت نقاد و تذکرہ نگار

 

 

حبیبؔ حیدرآبادی نامور انشا پرداز،   شاعر و ادیب ہونے کہ ساتھ ایک اچھے نقاد و تذکرہ نگار بھی ہیں۔ اُن کی تصنیف ’’انگلستان میں‘‘ کے گوشہ ’’انگلستان میں اردو کے ادیب و شاعر‘‘ میں انگلستان میں مقیم شعرا اور ادیبوں کے کلام کا نمونہ دیا گیا ہے۔ جسے حبیبؔ حیدرآبادی نے بہ حیثیت انتخاب پیش کیا ہے۔ حبیبؔ  حیدرآبادی کا یہ انتخاب اُردو تذکرہ نگاری کی یاد دلاتا ہے۔ تذکرہ نگاری بھی تنقید کی ایک قسم ہے۔ اور اردو تنقید کے ابتدائی نقوش میں شامل ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی کی تحریروں میں تنقید اور تذکرہ کے نقوش کی تلاش سے قبل آئیے دیکھیں کے تنقید کی تعریف کیا ہے۔ تنقید کی مبادیات کیا ہیں۔ اور تنقید کی ابتدائی قسم تذکرہ نگاری کا انداز کیا تھا۔

تنقید کیا ہے ؟ :-لفظ ’’تنقید‘‘ نقد سے مشتق ہے۔ جس کے معنیٰ جانچنا،   کھوج اور پرکھ کے ہیں۔ اصطلاح ادب میں کسی فن پارے یا تخلیق کے محاسن و معائب بیان کرتے ہوئے ادب میں اس کے مقام کا تعین کرنا تنقید کہلاتا ہے۔ ہر زمانے میں تنقید کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔ کسینے ادب کا مقصد مسرت و حظ پہنچانا بتایا اور تنقید کا کام تخلیق میں مسرت کے پہلوؤں کو تلاش کرنا بتایا۔ کسینے ادب کو تغیر حیات کا نام دیا اور زندگی کے تغیر و تبدل کے زیر اثر ادب میں رو نما ہونے والے مسائل اور تبدیلیوں کو دیکھنا تنقید کے لئے لازم قرار دیا۔ دراصل کسی ادب کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقیدی عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ جب فنکار کے ذہن میں کسی فن پارے کی داغ بیل پڑتی ہے تو تنقیدی عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی شاعر نظم لکھنے کا ارادہ کرے تو اس کا تنقیدی شعور اُس کی رہنمائی کرتا ہے کہ نظم کیسے شروع ہو۔ کس طرح آگے بڑھے اور کہاں ختم ہو۔ غرض یہ کہ جب کوئی فن پارہ فنکار کے ذہن میں جنم لینے لگتا ہے تو یہیں سے تنقید اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ کیوں کے بیش تر تخلیقات خوب سے خوب تر کی تلاش کے بعد ہی وجود میں آتی ہیں۔ اسی خیال کو پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شارب ردولوی لکھتے ہیں :

’’آج زندگی ہر وقت رواں دواں ہے۔ اس میں ہر لمحہ ایک نئے نظریے اور نئی فکر کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے ناقص اور بہتر کی تمیز کے لئے تنقید ضروری ہے۔ تنقیدی شعور کے بغیر نہ تو اعلیٰ ادب کی تخلیق ہو سکتی ہے اور نہ فنّی تخلیق کی قدروں کا تعین ممکن ہے۔ اس لئے اعلیٰ ادب کی پرکھ کے لئے تنقید لازمی ہے‘‘ ۱؎

تخلیق کا مقصد ترسیل ہوتا ہے۔ فنکار چاہتا ہے کہ اُس کی تخلیق کو لوگ دیکھیں پڑھیں سمجھیں۔ تخلیق کو دیکھنے والے ناظرین اور پڑھنے والے قارئین کی ذہنی سطح کے مطابق اپنی اپنی تنقیدی نظر ہوتی ہے۔ لوگوں کے پاس کسی فن پارے کی پسند یا نا پسند کے اپنے اپنے پیمانے ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنی پسند یا نا پسند کا سبب نہیں بتا سکتے۔ چنانچہ تنقید فن پارے اور اُس کے پڑھنے والے کے درمیان مستحکم رشتہ قائم کرتی ہے۔ یہ فن پارے کو جانچتی اور پرکھتی ہے۔ اس کی خوبیوں اور خرابیوں کا پتہ لگاتی ہے۔ اعلیٰ درجہ کی تنقید اچھے بُرے کا دو ٹوک فیصلہ نہیں کرتی۔ بلکہ فیصلہ کرنے میں قاری کی مدد کرتی ہے۔ ایسا کرنے میں وہ اپنا راستہ لمبا کر لیتی ہے۔ کبھی وہ فن پارے کی صراحت کرتی ہے۔ کبھی تشریح و ترجمانی اور کبھی تحلیل و تجزیے سے کام لیتی ہے۔ اس لئے تنقید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ادب کے لئے اس طرح ضروری ہے جس طرح زندہ رہنے کے لئے سانس۔ تنقید کسی تخلیق کے محاسن اور معائب کو اُجاگر کرتے ہوئے غیر جانبداری سے اُس کی قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے۔ تنقید کے لئے غیر جانبداری اہم ہے۔ تاہم نقاد کسی نظریے کا حامل ہو سکتا ہے۔ بغض و عناد سے پاک تنقید کے لئے ضروری ہے کہ اس میں خارجیت اور معروضیت ہو۔ ایک اچھے نقاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ادب کا وسیع مطالعہ کرے فلسفہ،   جمالیات،   سائنس،   عمرانیات،   معاشیات،   اقتصادیات اور نفسیات جیسے علوم سے واقفیت رکھتا ہو۔ عالمی ادب کے قدیم و جدید رجحانات سے پوری طرح واقف ہو نہ روایت کا پرستار ہو نہ اس سے بیزار وسیع النظر ہو۔ اس طرح کے نقاد کی تنقید بھی تخلیق کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔         ایک نقاد کسی فن پارے کو دو پہلوؤں سے پرکھتا ہے۔ ایک یہ کے اس میں کیا پیش کیا گیا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ اس کیا اور کیسے کے لئے تنقید کی اصطلاح میں دو نام مواد اور ہئیت ہیں۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ادب کی پرکھ کے انداز بھی بدلے۔ اردو میں تنقید کے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملتے ہیں۔ حالیؔ نے اپنی تنقیدی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے ذریعہ جدید اردو تنقید کا آغاز کیا۔ بعد میں تنقید کے کئی دبستان وجود میں آئے۔ جن میں رومانی تنقید،   جمالیاتی تنقید سائنٹفک تنقید،   تاثراتی تنقید،  نفسیاتی تنقید وغیرہ شامل ہیں۔ تنقید کے ابتدائی نظریے تعریف،   تشریح،   توضیح اور تجزیے کی شکل میں ہیں۔ سائنٹفک تنقید ادیب اور فن کار کے تمام پہلوؤں سے بحث کرتی ہے۔ اور اُس کے ذریعہ تخلیق میں زمانے کے سماجی حالات اور خیالات کا عکس تلاش کیا جاتا ہے۔ جمالیاتی تنقید میں کسی بھی ادبی تخلیق کے مطالعے یا جائزے سے ذہن پر پڑنے والے تاثر کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور تخلیق میں حظ،   مسرت،   اور حسن کے پہلو تلاش کئے جاتے ہیں۔ تاثراتی تنقید میں کسی بھی ادبی تخلیق کے مطالعے یا جائزے سے ذہن پر پڑنے والے تاثر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مارکسی تنقید میں ادب کا تعلق زندگی سے دیکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ ادب وہی ہے جو اپنے عہد کی سچّی تصویر پیش کرے اور انسانی مقاصد کی ترجمانی کرے۔ نفسیاتی تنقید میں فرد پر زور دیا جاتا ہے۔ اور تخلیق کار کی نفسیاتی الجھنوں اور تشنگیوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ اس تنقید کا نظریہ یہ ہے کے انسان کی دبی ہوئی خواہشات ادب اور آرٹ کی شکل میں رونما ہوتی ہیں۔

تنقید کا تعلق تحقیق اور تخلیق سے بھی ہے۔ تینوں میں فضیلت کا معاملہ زیر بحث رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کے تحقیق کے بغیر تنقید ممکن نہیں۔ اور تنقید کے لئے تخلیق ضروری ہے۔ اچھی تخلیق کے لئے سلجھے ہوئے تنقیدی شعور کی ضرورت ہے۔

 

اردو میں تذکرہ نگاری

 

اردو تنقید کے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملتے ہیں۔ تذکرہ نگاری اردو تنقید کی ایسی ابتدائی شکل ہے جس میں شعرائے اردو کے دستیاب حالات زندگی کے ساتھ اُن کے کلام سے چند منتخبہ اشعار یا کچھ حصّہ دیا جاتا تھا۔ اور کبھی کبھی تذکرہ نگار کلام پر اپنی رائے بھی قائم کر دیتا تھا۔ اردو میں تذکرہ نگاری کے ابتدائی نقوش کے بارے میں پروفیسر اشرف رفیع لکھتی ہیں :

’’ادب پارے کے ساتھ ہی تنقید بھی جنم لیتی ہے۔ مگر اس کے قواعد و ضوابط اور سانچے وجود میں آنے تک خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ ہمیں اپنے ادب میں تنقید کے ابتدائی نقوش دکنی کے ادبی دور ہی سے ملتے ہیں۔ اس دور میں تنقید کا کوئی تصّور ہی نہیں تھا۔ صرف حسن و قبح کی نشاندہی چند بندھے ٹکے لفظوں اور جملوں سے کی جاتی ہے۔ یہاں سے آگے بڑھے تو کچھ تنقیدی اشارے اردو تذکروں میں ملتے ہیں۔ ان تذکروں میں بھی حسنِ کلام اور طرز بیان پر زور دیا جاتا ہے۔ ۲؎

اردو کے ابتدائی تذکروں کو مشاعروں کی واہ واہ سے تشبیہہ دیتے ہوئے حسین الحق لکھتے ہیں کہ :

’’اردو کے ابتدائی تذکروں کی مثال ’’مشاعروں کی ’’واہ واہ‘‘ کی ہے۔ ان تذکروں میں تذکرہ نگار پر ذاتی پسند و نا پسند غالب ہے۔ اور اس ذاتی پسند و نا پسند کے لئے بھی تذکرہ نگار ہمیشہ دلیل مہیا کرنے کا جھنجھٹ مول نہیں لیتا۔ زیادہ تر اُس کی گفتگو شاعرو فن کارِ مذکور کے اخلاق،   بزرگی اور علم کے بارے میں ہوتی ہے۔ اور جتنے اشعار تذکرہ نگار کو یاد رہتے ہیں یا اُس کو دستیاب ہوتے ہیں۔ اُنہیں وہ بلا جھجک درجِ دفتر کر دیتا ہے۔ نتیجتاً بعض شعراء کے پچاسوں اور سینکڑوں اشعار ملیں گے اور کچھ کے پانچ دس اور کچھ غریبوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ صرف نام یا تخلص بیان کر کے تذکرہ نگار آگے بڑھ جاتا ہے‘‘ ۳؎

شعرائے اردو کے تذکرے جس عہد میں لکھے گئے تھے اُس وقت وسائل محدود تھے۔ اور کتابوں کی اشاعت اُن کی ترتیب اور دیگر اُمور اُس جیسے نہ تھے جیسے آج ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ ادب اور تنقید کے ترقی یافتہ ماحول سے واقف ہونے کے بعد قدیم دور کے تذکروں کی تنقیدی اہمیت کم قرار دینا ایک طرح سے تنقیدی زیادتی ہے۔ کلیم الدین احمد جیسے نقادوں نے اردو تذکروں پر کڑی تنقید کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’یہ تنقید محض سطحی ہے۔ اس کا تعلق زبان،   محاورہ اور عروض سے ہے۔ لیکن یہ شاید کہنے کی ضرورت نہیں کہ تنقید کی ماہیت اور اُس کے مقصد اور اُس کے صحیح اسلوب سے بھی تذکرہ نویس واقفیت نہ رکھتے تھے۔ ان تذکروں کی اہمیت تاریخی ہے۔ اور دنیائے تنقید میں اُن کی کوئی اہمیت نہیں۔ ۔ ..۔ .. اب ادبی دنیا اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ ہمیں تذکروں سے کچھ سیکھنا نہیں ہے۔ جہاں تک تنقید کا واسطہ ہے ان تذکروں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے‘‘ ۴؎

کلیم الدین احمد یوں بھی اپنی تنقید میں اپنے شدت پسند نظریات کے لئے مشہور ہیں۔ تذکروں کے بارے میں دوسرا رُخ مولوی عبدالحق پیش کرتے ہیں :

’’ہمارے شعرا کے تذکرے گویا جدید اُصول کے مطابق نہ لکھے گئے ہوں۔ تاہم ان میں بہت سی کام کی باتیں مل جاتی ہیں۔ جو ایک محقق اور ادیب کی نظروں میں جواہر ریزوں سے کم نہیں‘‘ ۵؎

تذکروں کے بارے میں مولوی عبدالحق نے حقائق پر مبنی بات کہی ہے۔ تذکروں کی پرکھ کے معیار کے ضمن میں نورالحسن نقوی لکھتے ہیں :

’’یہ حقیقت ہے کہ تذکروں سے جو تنقیدی معیار مرتب ہوتے ہیں۔ اُن پر آج کے ادب کو پرکھنا ممکن نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ جدید پیمانے قدیم ادب کو جانچنے کے کام نہیں آ سکتے۔ جو ادب جس زمانے میں تخلیق ہوا اسے اُسی زمانے کے اُصول اور اُسی عہد کی پسند نا پسند کی کسوٹی پر کسا جانا چاہئے۔‘‘ ۶؎

اردو تذکروں کی اہمیت اس وجہہ سے بھی ہے کہ ان سے اردو نقادوں کو جِلا ملی دراصل یہ ہماری تنقید کے ابتدائی نقوش ہیں۔ جو بے عیب نہیں ہو سکتے۔ اردو تذکروں کو اہم ادبی سرمایہ قرار دیتے ہوئے حنیف نقوی لکھتے ہیں :

’’تذکرہ ہمارے سرمایہ ادب کا ایک گراں قدر حصّہ ہے۔ جسے نظر انداز کر کے نہ تو ہم اردو شاعری کے مطالعے ہی میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اور نہ اپنے ادبی تنقیدی شعور کے آغاز و ارتقاء کی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے قدیم شاعروں کو انہیں تذکروں کے ذریعہ جانا اور پہچانا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری ناقدانہ بصیرت بھی انہی تذکروں کی فضا میں پروان چڑھی ہے‘‘ ۷؎

اردو کے اہم تذکرہ نگاروں میں میرؔ،   مصحفیؔ،   شیفتہؔ،   محمد حسین آزادؔ،   مرزا علی لطف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ اردو کے اہم نقادوں میں حالیؔ،   شہلیؔ،   عبدالحق،   نیاز فتح پوریؔ،   مجنوں گورکھپوری،   آل احمد سرور،   احتشام حسین،   کلیم الدین احمد،   محمد حسن عسکری،   خورشید الاسلام،   محمد حسن،   گوپی چند نارنگ،  شمس الرحمٰن فاروقی وزیر آغا،   قمر رئیس،   سلیم احمد،   مغنی تبسم،  سلیمان اطہر جاوید وغیرہ شامل ہیں۔

اردو تنقید اور تذکرہ نگاری کے اس جائزے کے بعد بعد آئیے دیکھیں کے حبیبؔ حیدرآبادی کی تحریروں میں تنقید کا رنگ کیا ہے۔ اور اُن کے مضامین کس حد تک شعرائے اردو کے تذکروں سے میل کھاتے ہیں۔

 

’انگلستان میں اردو کے ادیب اور شاعر‘ مضامین کا جائزہ

 

اچھا شاعر اچھا دوست ساقیؔ فاروقی

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے انگلستان میں شعرائے اردو سے ملاقاتوں کے بعد اپنے تاثرات اور شعراء کے کلام کے انتخاب کے ساتھ جو مضامین تحریر کئے ہیں ان میں ایک مضمون کا عنوان ’’اچھا شاعر اچھا دوست ساقیؔ فاروقی‘‘ ہے۔ مضمون کے عنوان سے ہی حبیب حیدرآبادی کا تنقیدی رویہ جھلکتا ہے کہ وہ ساقی فاروقی کی شخصیت اور شاعری سے متاثر ہو کر یہ مضمون لکھ رہے ہیں۔ مضمون کے آغاز میں حبیبؔ حیدرآبادی نے انگلستان میں اپنی آمد کے بعد معاشی مصروفیتوں کی وجہہ سے اردو ادب سے اپنی دوری کا عذر بیان کیا اور لکھا کہ دس پندرہ سال کے وقفے میں انہیں جو اچھا شاعر لگا وہ ساقیؔ فاروقی تھے۔ اس کے بعد انگلستان میں مختلف محفلوں میں ساقیؔ فاروقی سے ملاقاتوں کے احوال بیان کئے۔ جن سے ساقی کی شخصیت کے بارے میں حبیبؔ حیدرآبادی کے تاثرات عیاں ہوتے ہیں۔ ساقیؔ کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ساقیؔ کے ہاں اپنی شعری عظمت کا احساس ہو سکتا ہے کہ دوسروں کو کھٹکتا ہو۔ میرے لئے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ۔ ..۔ . بہت کم لوگوں کو میں نے ساقیؔ جیسے وسیع مطالعے کا حامل پایا۔ ساقیؔ مطالعے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اُن کا مشورہ اپنے دوستوں کے لئے یہی رہتا ہے کہ پڑھو زیادہ اور لکھو کم۔ ۔ ..۔ . ساقیؔ کی جدے دیت کا مجھے اس وجہہ سے بھی قائل ہونا پڑتا ہے کہ اُن سے جب بھی میرا ملنا ہوتا ہے میں نے محسوس کیا کہ ذہن کے گوشے دور دور تک جاگ اُٹھتے ہیں۔‘‘ ۸؎

ساقی کی یادوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے اپنی پسند سے ساقیؔ کے چند منتخبہ اشعار پیش کئے

ہیں جن میں سے چند اشعار یہ ہیں :

مجھ کو میری شکست کی دہری سزا ملی

تجھ سے بچھڑ کے زندگی دنیا سے جا ملی

؎        ناموں کا ایک ہجوم سہی آس پاس

دل میں وہ ایک نام دھڑکتا ضرور ہے

؎        ایک مدت سے چراغوں کی طرح جلتی ہیں

اُن ترستی ہوئی آنکھوں کو بجھا دو کوئی

؎        میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا

تو مگر کونسا بادل ہے برسنے والا

( ساقیؔ فاروقی )

ساقیؔ فاروقی کی غزلوں سے منتخبہ اشعار پیش کرنے کے علاوہ حبیبؔ حیدرآبادی نے اُن کی چند ایک نظموں ’’ایک ویران رات‘‘ , ’’مردہ خانہ‘‘ وغیرہ پر بھی تبصرہ کیا۔ مضمون کے آخر میں اُنہوں نے ساقیؔ کے آسٹرین بیوی گنڈی کی تعریف کی۔ اور لکھا کہ وہ اپنے گھر میں مشرقی ماحول کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور مہمانوں کا بھی اُسی انداز میں استقبال کرتی ہیں۔ ساقیؔ اور گنڈی کی بیٹی انگا کے حق میں بھی حبیبؔ حیدرآبادی نے دعائیں دی ہیں۔ اس طرح ساقیؔ فاروقی پر حبیبؔ حیدرآبادی لکھا مضمون اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس مضمون میں اُنہوں نے ساقیؔ فاروقی کی یادوں کے سہارے اُن کی شخصیت کو متعارف کرانے کی کوشش کی اور اُن کے کلام سے منتخب اشعار پیش کرتے ہوئے بطور شاعر اُن کے مقام کو واضح کیا۔ اس دوران حبیبؔ حیدرآبادی ایک تاثراتی نقاد کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔

 

اکبرؔ حیدرآبادی

 

اردو تذکرہ نگاری کے طرز پر لکھا گیا حبیبؔ حیدرآبادی کا ایک مضمون  ’’اکبرؔ حیدرآبادی‘‘ ہے۔ جس میں اُنہوں نے اپنے ایک شاعر دوست کو متعارف کرایا ہے۔ اکبرؔ حیدرآبادی کی ادبی حیثیت کیا ہے۔ اسے پیش کرنے کے لئے حبیبؔ حیدرآبادی نے خود اکبرؔحیدر آبادی کا اپنے بارے میں لکھے گئے ایک خط کو پیش کیا جس میں پہلی مرتبہ اُنہوں نے حبیبؔ حیدرآبادی سے دوستی کی خواہش کی ہے۔ اکبرؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’میں ولیؔ و سراجؔ کے وطن سے تعلق رکھتا ہوں۔ ۔ ..۔ .. سینکڑوں ریڈیائی،   عام اور مخصوص شعری محفلوں میں حصّہ لے چکا ہوں۔ کثرت سے ہندو پاک کے رسالوں میں چھپ چکا ہوں۔ اتنا کے داد تحسین کی خواہش اور شہرت کا ولولہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب کبھی کبھار کہیں کوئی چیز بھیج دیتا ہوں۔ حال میں ادب لطیف کے تین شماروں میں شامل رہا ہوں۔ اب تمنّا صرف یہی ہے کہ اگر کوئی اچھی صحبت مل جائے تو کبھی کبھی کچھ سنادوں اور کچھ اچھی چیزیں سنلوں بس۔‘‘ ۹؎

اکبرؔحیدرآبادی کی زبانی اُن کے تعارف کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے بارہ سال سے اُن کی رفاقت جاری رہنے کا ذکر کیا۔ اور آگے ایک تذکرہ نگار اور مورخ ادب کی طرح اکبرؔ حیدرآبادی کے آباء و اجداد،   تاریخ پیدائش،   تعلیم،   انگلستان میں آمد،   شادی اولاد وغیرہ کا تذکرہ ترتیب وار کیا۔ شاعری کو اکبرؔ حیدرآبادی کی زندگی قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں کہ :

’’اکبرؔ صاحب کے لئے شعر گوئی دل بہلائی کا مشغلہ یا وقت گزاری کا ذریعہ نہیں رہی۔ شاعری اُن کی زندگی ہے۔ یہی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اُن کے مشاہدات اور تجربات اُن سے ریاضت اور مجاہدہ کرواتے ہیں۔ حقائق و معارف کی گہرائی اُن کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ زمانے کی کروٹیں اُن کی ذہنی سکون کو بے چینی میں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ تحقیق و تجسس کی راہیں اُن کی اپنی راہیں ہیں علم اور اہل علم دونوں کے وہ گرویدہ ہیں۔ جس دور اور جس ماحول میں وہ رہتے ہیں۔ اُس کا تجزیہ کرتے رہنا اُن کی عادت ہے۔ اُن کے ذہنی دریچے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ بات چاہے کسی موضوع پر کیوں نہ ہو۔ اس سے دلچسپی لینا اور بات میں بات پیدا کرنا،   کہنے والے کی سُننا اور گفتگو کو دلچسپ بنانا اکبرؔ صاحب کی عادت ہے۔‘‘ ۱۰؎

حبیبؔ حیدرآبادی شعرا کے احوال بیان کرنے کے دوران شعر و ادب پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اکبرؔ حیدرآبادی کی شاعری پر تبصرہ کے دوران شاعری کو اپنے وقت کی آواز قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں کہ :

’’غزل کے اپنے مزاج کی طرح ہر دور اور ہر عہد کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ ان پر دو مزاجوں سے شناسائی اور ان دونوں کے امتزاج ہی سے کلام میں تازگی اور شگفتگی پیدا ہوتی ہے۔ شاعری بے وقت کی راگنی نہیں ہونے پاتی۔ وقت کی آواز بن جاتی ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو زندگی کی خلاء کو پُر کرتی جاتی ہے۔ اس کے لئے شاعر کو ہمیشہ اپنے آپ تجزیہ کرنا پڑتا ہے۔ ماضی حال اور مستقبل تینوں زمانوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ جب کہیں زندگی کی ٹھوس حقیقتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ اور واقعیت کا اظہار خود بہ خود ہونے لگتا ہے۔‘‘ ۱۱؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے اکبرؔ حیدرآبادی کے کلام سے جو منتخب اشعار پیش کئے ہیں۔ اُن میں سے چند اشعار اس طرح ہیں :

حالت میری اب یہ ہو گئی ہے

جیسے کوئی چیز کھو گئی ہے

؎        صبح کا وقت ہے اب صبح کی باتیں کیجئے

رات کے ساتھ گئے رات کے افسانے بھی

؎         آباد کس قدر ہے خیالوں کی انجمن

تنہا بھی ہوں تو جیسے ہزاروں کا ساتھ ہے

؎        ہمیں قبول ہے ہر تجربہ زمانہ کا

ہمارے شوق کا دامن بہت کشادہ ہے

؎        تم سلسلہ غم کو مرے سہل نہ جانو

منسوب کئی درد کے رشتے ہیں مرے ساتھ

( اکبرؔ حیدرآبادی )

حبیبؔ حیدرآبادی نے اکبرؔ حیدرآبادی کے اشعار پیش کرتے ہوئے جہاں تہاں اُن کے کلام پر اپنی رائے بھی دی۔ تاہم اُن کی شخصیت کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اُن کے اشعار پیش کرتے گئے۔ اُن کی شاعری کی خصوصیات پیش کرتے ہوئے تاثراتی انداز میں حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’اکبرؔ صاحب کے ترنم میں ایک عجیب جاذبیت ہے۔ سحر انگیزی ہے۔ اُن کے اشعار کی پُر تاثیر نغمگی،   اُن کی خوش الحانی،   ترنم اور موسیقیت،   بحروں کا تنوع،   حُسن انتخاب،   شعروں کی گہرائی،   رچاؤ متانت اور پختگی،   کو دیکھ کر فراقؔ کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے‘‘ ۱۲ ؎

؎                باتوں سے فراقؔ اُس کی معطر ہے سماعت

ہر لفظ میں خوشبوئے دہن کھیل رہی ہے

مضمون کے آخر میں اکبرؔ حیدرآبادی کی شاعری پر تبصرہ سے قاصر رہنے اور اپنے آپ کو عامی قرار دیتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی اکبرؔ حیدرآبادی اور اُن کی اطالوئی بیوی لینا کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ یہ مضمون بھی حبیبؔ حیدرآبادی کے تاثراتی جذبہ کو اُجاگر کرتا ہے۔

 

زہرہ نگاہ

 

حبیبؔ حیدرآبادی کے تاثراتی مضامین کے سلسلہ میں شامل اگلے مضمون کا عنوان ’’زہرہ نگاہ‘‘ ہے۔ اس مضمون میں اُنہوں نے برطانیہ کی شعری محفلوں میں اپنی مترنم آواز اور شاعری سے متاثر کرنے والی خاتون غزل گو شاعرہ کے احوال پیش کئے۔ زہرہ نگاہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’زہرہ نگاہ کی عظمت یہ ہے کہ خود ایک نفیس شاعرہ ہونے کے باوجود اپنے سے عظیم تر شعراء کی عظمت کو اپنے خوبصورت ترنم کے نذرانے سے نہ صرف خود تسلیم کرتی ہیں بلکہ اوروں کو بھی اس عقیدت میں شریک کر لیتی ہیں‘‘ ۱۳؎

زہرہ نگاہ کے اس تعارف کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی اُن کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ حیدرآبادی نواب نثار یار جنگ مزاجؔ کی بیٹی ہیں۔ اُن کے شوہر ماجد علی ہیں۔ اُن کا مجموعہ کلام ’’شام کا پہلا تارہ‘‘ ہے۔ جس کے رسم اجراء میں مشتاق احمد یوسفی،   ساقیؔ فاروقی،   افتخار عارف وغیرہ نے شرکت کی۔ فیض لندن میں اُن ہی کے مکان پر ٹھہرتے ہیں۔ فیض کی نظموں کو ترنم سے پڑھا۔ زہرہ نگاہ اور اُن کے شوہر ماجد علی کی زندگی کے بارے میں حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’ماجد علی ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہیں۔ رنگا رنگ شخصیت کے مالک ہیں۔ بہ ظاہر بڑے خاموش نظر آتے ہیں۔ مگر زندہ دلی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ۔ ..۔ . رموز شاعری سے واقف ہیں۔ شاید اُن ہی کے نکھرے ہوئے ادبی اور اعلیٰ شعری ذوق کا نتیجہ ہے کہ زہرہ نگاہ صرف اچھے شعر کہنے پر مجبور ہیں۔ ان دونوں میاں بیوی کی وضع داری،   سادگی،   شرافت،   اور شائستگی سے میں کافی متاثر ہوا‘‘ ۱۴؎

زہرہ نگاہ کی ادبی محفلوں میں شرکت اور معروف شعراء کے کلام کو اپنے ترنم سے سنانے جیسی تفصیلات کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے زہرہ نگاہ کے کلام سے منتخب اشعار پیش کئے۔ جن میں سے چند اشعار اس طرح ہیں :

؎ اپنا ہر انداز آنکھوں کو ترو تازہ لگا

کتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا

؎برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو

آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو

؎اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے

کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے

؎گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے

خالی گل دانوں سے باتیں کر کے سو جائیں گے ہم

؎ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی

تم جو آئے تو منزلیں لائے

( زہرہ نگاہ )

زہرہ نگاہ کی شخصیت اور کلام کے تعارف پر مبنی یہ مضمون بھی تذکرہ نگاری کے انداز پر لکھا گیا ہے۔ اور کلام پر تبصرہ کے بجائے شخصیت پر تبصرہ کیا گیا۔

 

صدیقہ

 

حبیبؔ حیدرآبادی کا اگلا تاثراتی مضمون ’’صدیقہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں اُنہوں نے اپنی شاعر بیوی کا تعارف اور کلام کا نمونہ پیش کیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں زمانہ طالب علمی میں صدیقہ کی شاعری کے چرچے بیان کئے۔ اور اپریل ۱۹۵۲ء میں اپنی شادی،   دو اولادوں کے بعد فکر معاش،   برطانیہ منتقلی اولاد کی تعلیم و تربیت میں صدیقہ کا رول،   صدیقہ کی انتظامی صلاحیت،   شائستگی رکھ رکھاؤ وغیرہ کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے اُنہیں ایک مثالی بیوی قرار دیا۔ صدیقہ کی خدمات بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’انگلستان میں صدیقہ سماجی کاموں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہیں۔ نوٹنگھم میں محکمۂ تعلیمات کی طرف سے انہیں جو نیراسکولوں کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی ریڈیو نوٹنگھم کی مشاورتی کمیٹی کی رکن رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ نوٹنگھم کی انڈین ویمنس اسوسی ایشن کی فاؤنڈر ممبر ہیں۔ ۔ ..۔ .. صدیقہ پہلے محض اپنے ذوق کی تسکین کے لئے شعر کہہ لیا کرتی تھیں۔ مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتی تھیں۔ اور اب بھی مخصوص محفلوں ہی میں شعر سُنا نا پسند کرتی ہیں۔ اس کے باوجود انگلستان کے علاوہ بر صغیر میں بھی ایک منفرد اسلوب کی خوش فکر شاعرہ کی حیثیت سے شہرت پا چکی ہیں۔ شعری محفلوں میں فیض احمد فیض،   ن-م-راشد،   سجاد ظہیر،   ڈاکٹر خورشید الا سلام،   مصطفیٰ زیدی،   ساقی فاروقی،   اکبر حیدرآبادی جیسے سخن وروں اور سخن فہموں سے اپنے کلام کی داد لے چکی ہیں۔‘‘ ۱۵؎

اپنی بیوی کے بارے میں تفصیلی معلومات کی فراہمی کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے اُن کے کلام کا نمونہ پیش کیا ہے۔ جس سے چند اشعار پیش ہیں :

؎ ملتا نہیں کوئی بھی شناسا کئی دن سے

بدلا نہیں اس شہر کا نقشہ کئی دن سے

؎خود میرا ہی سایہ ہے یہاں مجھ سے گریزاں

ہے پاس نہ اپنا نہ پرایا کئی دن سے

؎وقت کم ہے کچھ کہو پھر ان کہا رہ جائے گا

زندگی بھر دل میں ورنہ وسوسہ رہ جائے گا

؎ہزار نغمے سرِ راہ غم اُبھر جائیں

تمہاری یاد کے لمحے جدھر جدھر جائیں

؎؎جاتے ہوئے لمحوں کو ذرا روک کے کہنا

وہ شخص ہمیں یاد نہ آیا کئی دن سے

(صدیقہ شبنم)

صدیقہ کی شاعری کے نمونے کے ساتھ ہی اس مضمون کا اختتام عمل میں آتا ہے۔

 

ڈاکٹر سعید اختر درّانی

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے اس مضمون میں پاکستان کے ایک جوہری سائنس داں اور عاشق اقبالؔ شاعر کو پیش کیا ہے۔ حبیب حیدرآبادی کی ڈاکٹر درّانی سے ملاقات ایک ادبی محفل میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر درّانی کی علمی مصروفیات کے بیان کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے اُن کی ادبی سرگرمیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا :

’’شعر و ادب سے زمانہ ’ طالب علمی سے شغف رہا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلّے ’’راوی‘‘ کے مدیر معاون،   سندھی ترجمہ سوسائٹی کے سکریٹری اور بزم اقبال کے نائب مہتمم رہے۔ ’’ادبی دنیا‘‘ ’’مخزن‘‘ اور ’’الحمرا‘‘ میں ان کے ترجمے اور نظمیں چھپتی رہتی ہیں۔ ۱۹۷۷ ء اور ۱۹۷۸ ء میں انجمن ترقی اردو برمنگھم کے صدر رہے۔ انہیں کی صدارت کے دوران برمنگھم میں بہت بڑے پیمانے پر علامہ اقبال کا صد سالہ جشن منایا گیا۔ ۔ ..۔ .سائنس اور شاعری میں ربط پیدا کرنے والے جن شاعروں نے ادب کی افادیت میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے۔ ان ہی شاعروں میں ان حضرت کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ۱۶؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے ڈاکٹر سعید اختر درّانی کے حسب ذیل اشعار بطور انتخاب پیش کئے ہیں۔

؎ جب بھی چاہا کہ خود کو پہچانوں

راہ میں اپنی ذات آئی ہے

؎ گر نہیں کائنات میں کوئی

پھر کہاں سے حیات آئی ہے

؎ایک ٹوٹا ہوا تارہ ہوں میں

گر کے بھی گوہر یکتا ٹھہرا

؎مجھے فقط گلہ ترکِ گفتگو ہی نہ تھا

ستم تو یہ ہے کہ تو میرے روبرو ہی نہ تھا

؎شب فراق بھی،   میں بھی تیری تمنا بھی

سبھی شریک محفل تھے محفل میں ایک تو ہی نہ تھا

( سعید اختر درّانی )

 

میر بشیر کی نجی محفلیں

 

حبیبؔ حیدرآبادی کے تحریر کردہ اگلے مضمون کا عنوان ’’میر بشیر کی نجی محفلیں‘‘ ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک وضع دار شخصیت میر بشیر صاحب کے احوال پیش کئے۔ جنہیں شیر و ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ ۱۹۴۷ ء کے بعد حیدرآباد سے انگلستان منتقل ہو گئے تھے۔ کاروباری آدمی تھے۔ لیکن شعر و ادب کے لئے وقت نکال ہی لیتے تھے۔ بشیر صاحب کی محفلوں کا حال بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’بڑی ہی صاف ستھری،  نکھری ہوئی محفلیں ہوتی تھیں۔ چند شعراء اور ادیبوں کو مدعو کیا جاتا تھا اور بڑی خاطر و مدارت سے حاضرین کی تواضع کی جاتی تھی۔ ۔ ..۔ .. ان کی محفلوں میں شریک ہونے والے حکیم غلام نبی،   رحمت قرنی،   بے تاب امروہی،   حسن ڈبائیوی،   سجاد حسن شمسی،   بیگم شمسی،   اکبرؔ حیدرآبادی،   حسن شاداں وغیرہ تھے۔ اُن کی محفلوں میں اکثر و بشیر مہمانِ خصوصی بھی ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ فیض تھے۔ دوسری دفعہ سجاد ظہیر تھے۔ تیسری دفعہ عبادت بریلوی تھے۔ چوتھی دفعہ افضل اقبال‘‘ ۱۸؎

حبیبؔ حیدرآبادی نے بشیر صاحب کے کلام کا جو نمونہ پیش کیا ہے وہ یوں ہے :

؎         زندگی تعظیم کے آداب سے غافل نہیں

سر جھکائے جاری ہے موت کے آغوش میں

؎         تصّورات کی موہوم سجدہ گاہوں میں

یہ کس کو ڈھونڈ رہا ہوں خود کی راہوں میں

میر بشیرؔ

 

شریف بقا

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے اس مضمون میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعر شریف بقا کے حالات اُن ہی کی زبانی بیان کئے اور اُن کے کلام کا نمونہ پیش کیا جو اس طرح ہے۔

؎        ہم سزاوارِ عنایاتِ زماں تھے کل تک

زندگی ہم سے مگر آج خفا ہے یارو

؎        جس کو آتا ہی نہیں راہ نمائی کا طریق

آج وہ سب کے لئے راہ نما ہے یارو

؎        متاع عظمت آدم کی ہے تلاش عبث

جہاں میں کوئی بھی تو خبر آدمی نہ رہی

شریف بقاؔ

 

عقیل دانش

 

اس مضمون میں حبیبؔ حیدرآبادی نے او دھ کے سا دات گھرانے سے تعلق رکھنے والے عقیل دانش کا تعارف کرایا ہے جنہوں نے پا کستان جا کر اعلی تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں لندن یو نیو رسٹی سے وابستہ ہوئے۔ اقبالیات پر کام کیا۔ اُن کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’وہ کوئی صاحب دیو ان شاعر نہیں۔ جتنے بھی اُن کے شعر ہیں اُن میں زندگی ہے تازگی ہے اُن میں اُن کی زندگی کا درد ہے۔ اُن کے اشعار میں اُن کی اپنی ہی جلوہ گری ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے نظر آتے ہیں۔ نہ تصنع ہے نہ بناوٹ نہ جدیدیت کے نعرے ہیں نہ قد امت پسندی کی چھاپ ہے۔ فکر و نظر میں بڑا توا زن ہے بات کو خوبصورتی سے کہنا اُنہیں آتا ہے‘‘۔ ۱۸؎

عقیل دانش کی شاعری پر تبصرہ کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے اُن کا کچھ منتخب کلام پیش کیا ہے۔ جس سے چند اشعار اس طرح ہیں :

؎        ہر لمحہ بکھر بکھر کے دانش

تنظیم حیات کر رہا ہوں

؎        ہمیں یقین ہے کہ ہم پر ستم تمام ہوئے

ہمارے بعد کسی پر ستم نہیں ہوں گے

؎        جو خون دل کو جلاؤ تو میرے ساتھ چلو

کہ دور دور کہیں راہ میں چراغ نہیں

؎        کوئی بھی لفظ نہیں باعثِ نشاط نظر

تمہارے نام سے پہلے تمہارے نام کے بعد

؎        دل کتنا پریشان ہے نظر کیوں نہیں آتے

اب شام ہوئی لوٹ کے گھر کیوں نہیں آتے

عقیل دانشؔ

 

اطہر رازؔ

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے زیر نظر مضمون میں لندن کے ایک مقبول شاعر اطہر رازؔ کا تعارف کروایا ہے۔ جو انجمن ترقی اردو کے معتمد رہے۔ اُنہیں اُردو کا خدمت گزار کہتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے اُن کے کلام سے نظم ’’ہپّی‘‘ اور ’’صدر مشاعرہ کی تلاش‘‘ بطور انتخاب پیش کی ہے۔ نظم ’’ہپّی‘‘ کہ چند اشعار اس طرح ہیں :

؎        وحشت کے طلب گار تمدن سے ہیں بے زار

فی الحال جو لندن میں نظر آتے ہیں ہپّی

؎        گھر در ہے نہ بستر ہے نہ تکیہ ہے نہ چادر

آرام سے فٹ پاتھ پر سو جاتے ہیں ہپّی

؎        تہذیب سے باغی ہیں تغافل کے پرستار

اس دور میں انسان کو شرماتے ہیں ہپّی       اطہر رازؔ

طنز و مزاح نگار : -اس عنوان سے حبیبؔ حیدرآبادی نے لندن کے چند مزاحیہ شعراء کا مختصر تعارف اور کلام کا نمونہ پیش کیا ہے جس سے برطانیہ میں طنزو مزاح کی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذیل میں حبیبؔ حیدرآبادی کے انتخاب سے مزاحیہ شعراء کے نام اور اُن کے کلام کا نمونہ پیش ہے۔

حکیم غلام نبی :-

کل شام کو کچھ مہماں گھر میں ہمارے آئے

کھانا پکا رکھا تھا جو مہماں سارا کھا گئے

ایسا بھی ہوتا ہے کبھی کچھ اور کھانے کو نہ تھا

بچے لگے رونے تو ان کے کان میں ہم نے کہا

بچو انہیں جا لینے دو تم چُپ رہو تھوڑا سا اب

یہ جائیں تو پھر ہم اکھٹے بیٹھ کے روئیں گے سب

بے تابؔ امروہی : –

جدھر دیکھو اکڑتے پھر رہے ہیں بھائی لندن میں

کہ اپنی ڈارلنگ کو لے گئے تھے کل وہ ہلٹن میں

بھلا پوچھو کہ آزادی اُنہیں کیا خاک راس آئی

چھٹے قید فرنگی سے پھنسے دامِ فرنگن میں

استاد بٹنگی مرحوم : –

آئے جب اس خطۂ ناپاک میں

مل گئیں سب آرزوئیں خاک میں

شاعری اور عشق میں ایسے پڑے

ہم بٹنگی کے بٹنگی ہی رہے

جی -اے بُلبل : –

؎        مزاج یار موسم کی طرح اکثر بدلتا ہے

یہ انگلستان کی آب و ہوا معلوم ہوتا ہے

؎        لڑکا نظر آتی ہے لڑکی نظر آتا ہے

مغرب کا جو سیدھا ہے اُلٹا نظر آتا ہے

صداقت حسین سوزؔ : –

( ایک خاتون کو نو بچوں کی ولادت پر کہی گئی نظم )

نو برس میں نہ کر سکے کوئی

نو مہینوں میں کر دکھایا ہے

پون درجن کی اس ولادت نے

منصوبہ بندی کا منھ چڑایا ہے

دیکھ کر فوج نونہالوں کی

قحط بنگال یاد آیا ہے

لوگ مسرور ہیں خبر سُن کر

ہم کو بیگم پر غصّہ آیا ہے

 

ڈاکٹر برلاس مرحوم: –

ہم مصائب آشنا جب دیس اپنے جائیں گے

یاد میں انگلینڈ کی ہم گیت ہر دم گائیں گے

خود کبھی بہکے تھے اب اوروں کو بھی بہکائیں گے

یہ مگر سوچا تھا کہاں سے ہم کرایہ لائیں گے

گھر کو واپس لوٹنا لانا ہے جوئے شیر کا

ایک پہلو یہ بھی ہے پردیس میں تقدیر کا

 

لندن کے شاعر

 

اس عنوان کے تحت حبیبؔ حیدرآبادی نے لندن میں مقیم ملکی و بیرون ملک تارک وطن شعراء کا تعارف اور کلام کا نمونہ پیش کیا ہے۔

حسن ڈبائیوی :۔

کم ہو تو جنوں کا اور دامن بھر جائے

گھٹ جائے جو واسطہ تو الجھن بڑھ جائے

وہ چپ ہوں تو جذبات کا دم گھٹنے لگے

وہ بات کریں تو دل کی دھڑکن بڑھ جائے

محمد صادق جامیؔ : –

؎        ذرا یہ دیکھئے اپنوں نے ساتھ چھوڑ دیا

اور عین وقت پر کام آ گئے ہیں بیگانے

؎        کوئی منزل ہو ہمت چاہئے سرہو ہی جاتی ہے

مگر لٹتے ہیں رستے میں ہزاروں کا رواں پہلے

؎        مختصر عمر میں کیا کیا نہ اُٹھائے صدمے

دل میں رستے ہوئے ناسور رہے ہیں کیا کیا

جمیل احمد مدنی : –

؎        پھر کسی تازہ الم سے ہے تقابل شاید

مطمئن سا ہے مرا قلبِ حزیں آج کی رات

؎        حاصل عشق کہوں یا کہ اسے ترکِ وفا

اے جمیل اُن کا تصوّر بھی نہیں آج کی رات

وقار لطیف : –

؎ جل جل کے جس میں ملک خس و خاک ہو گئے

اس آگ میں وقار مرا شہر بھی تو تھا

؎        محبت میں سکوں محرومیوں کے بعد آتا ہے

کہ جب ہر آسرا لٹ جائے تب ہی چین آتا ہے

؎        یہ کیا ضد ہے کہ دنیا بھی رکھو اور جی نہ میلا ہو

یہ دُنیا خوش ہی تب ہوتی ہے جب دل ٹوٹ جاتا ہے

ڈاکٹر سید مجیب ایمان : –

؎        لائی ہے صبا جب بھی تیری زلف کی خوشبو

یادوں کے جزیرے میں نئے پھول کھلے ہیں

؎        تسلیم کے ہر اہل نظر اہل نظر ہے

اے دوست توجہ کی نظر اور ہی کچھ ہے

؎        دل کا سکون ڈھونڈتے پھرتے ہیں دربہ در

تنہائیوں کا دوش پہ لاشہ لئے ہوئے

ڈاکٹر اظہرؔ  لکھنوی : –

؎        آتے ہی اضطراب کی باتیں نہ کیجئے

دم لیجئے شراب کی باتیں نہ کیجئے

؎        غر قاب ہو نہ جائے کہیں کشتیِ حیات

اب آپ انقلاب کی باتیں نہ کیجئے

؎        کی عرض زندگی کی حقیقت بتائیے

فرما دیا حباب کی باتیں نہ کیجئے

عابد نامیؔ : –

؎ وقت نے ایسی کروٹ بدلی پھول کھلے بدلی اُجڑی

وحشت کا وہ زور بڑھا آباد ہوا ویرانہ بھی

؎ تنہائی سے گھبرا کر ہم کیا کیا شکوے کرتے ہیں

لیکن جب سے آپ ملے ہیں دوست ہوا بیگانہ بھی

؎        دَم کے دَم میں دنیا بدلی بھیڑ چھٹی کہرام اُٹھا

چلتے چلتے سانس رُکی اور ختم ہوا افسانہ بھی

خالد یوسف : –

؎        سب کچھ بھلا کے آؤ پھر ایک بار ہم ملیں

ممکن ہے اس کے بعد یہ لمحے بھی کم ملیں

؎        بھٹکا ہے قافلہ تو تعجب کی بات کیا

جب دل ہوں پُر غبار تو کیسے قدم ملیں

سجاد حسین شمسی : –

؎        کئی بار گزرا قریب سے کئی بار منہ کو چھپا لیا

مرے ہاتھ اُٹھے ہی رہ گئے مری جان سلام کو

؎        یہ حیات چند روز اسی کشش سے گزری

کبھی موت کو پکارے کبھی زندگی کو ترسے

سلطان الحسن فاروقی : –

؎        جس کا ڈر تھا مجھ کو اے دل وہ مقام آ ہی گیا

تو نے دیکھا دیدہ تر اتہام آ ہی گیا

؎        کس قدر ذوق طلب تھا کس قدر شوق سفر

ہائے منزل پر پہنچ کر اختتام آ ہی گیا

ڈاکٹر عبدالغفار عزمؔ : –

؎        عرصہ شام و سحر وقفہ وصل و فراق

حلقہ دام تماشا ہیں نظارے کیا ہیں

؎        دردِ شل کیا ہے شب غم کی حقیقت کیا ہے

ایک تفسیر جنوں عشق کے مارے کیا ہیں

ڈاکٹر رحیم اللہ ناشاد : –

امتحاں لے چکے زمانے کا

اب ہمیں خود کو آزمانا ہے

دور انسانیت سے ہے انساں

کیسا ماحول کیا زمانہ ہے

نجمہ عثمان : –

حیات میں کسی لمحہ سکون پانے دو

فسانہ دلِ غمگین کو بھول جانے دو

نئی سحر کے لئے آج دل کرو روشن

فسردہ چاند ستاروں کو ڈوب جانے دو

شاہینؔ صدیقی : –

؎        زندگی سے موت تک کا فاصلہ

اک کلی سے پھول تک ناپا گیا

محسنہ جیلانی : –

وہ اک تاثر وہ ایک جذبہ

جو اس کے چہرے پر جل رہا ہے

جو درد کی گود میں پلا ہے

اُسے اگر تم جو دیکھ پاؤ

محمد علی منگلی : –

؎        عشق کا اپنے فسانہ ہم کسی سے کیا کہیں

چھوڑئیے قصّہ پُرانا ہم کسی سے کیا کہیں

خالق بھٹّی : –

ہم کو پیارا ہے اپنا طرز حیات

ملک پیارا ہے پیاری اپنی زمین

شہر لندن میں عارضی ہے اپنا قیام

یہ ولایت اپنا گھر تو نہیں

عبدالعلیم صدیقی : –

ظلمت کو مٹا کر دُنیا سے انوار نمایاں دیکھیں گے

ہم شامِ غریباں دیکھ چکے اب صبح غریباں دیکھیں گے

شمسی ہادی : –

؎تجلّی کہکشاں کی خوب تر ہے آسمانوں میں

میں ہر ذرّے کو خورشید درخشاں کر کے چھوڑوں گا

؎ہراساں میرے عزم جادہ پیمائی سے رہزن ہیں

رہِ منزل کی ہر مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا

بہار کاشمیری : –

؎        ایسے رُک رُک کے گزرتے ہیں یہ لمحے جیسے

وقت کے پاؤں میں کانٹا سا چُبھا ہوتا ہے

؎        پتھر کا شہر ہے یہاں پتھر کے لوگ ہیں

سر پھوڑ کر مرو گے یہاں جانتا ہوں میں

بخش لائل پوری : –

؎ذلّت کے سمندر میں ہم دم ہر شہر تمدن ڈوب گیا

وہ کونسی گلیاں باقی ہیں انسان جہاں نیلام نہیں

؎آئیں خدا کی نظروں میں انسان برابر ہیں سارے

حاکم تو کسی کی ذات نہیں محکوم کسی کا نام نہیں

سید احسن جاوید ہزاروی : –

؎ہمارے آنسو متاعِ ہستی ہماری دولت ہے زیب دامن

غرض زمانے کو اس سے کیا ہے ہم اپنی پونجی لٹا رہے ہیں

رحمت قرنی : –

؎ ہر گام پہ ٹھوکر کھا کھا کر انسان سنبھلتا جاتا ہے

ہر تلخ حقیقت کی لوسے احساس نکھرتا جاتا ہے

؎ملاح کی غیریت کا ماتم بے سود ہے اے کشتی والو

اب خود پتواریں ہاتھ میں لو طوفان بپھرتا جاتا ہے

عاقل ہوشیار پوری : –

؎خوش فہمیِ خیال کی اب ضد کا کیا علاج

ورنہ جو شام پاس سے گزرا تھا تو نہ تھا

؎عاقل غزل سے ڈھل تو گیا کچھ غبارِ غم

ہر چند یہ ہنر سببِ آبرو نہ تھا

ودیا ساگر آنند: –

؎یہ مظلموں کی آہوں کا اثر ہے دیکھ لو نِکسن

واٹر گیٹ کے حمام سے تم تر بہ تر نکلے

عامر موسوی : –

؎اچانک ٹوٹ جاتے ہیں کبھی جب پیار کے رشتے

یہ دُنیا کس قدر بے کار سی معلوم ہوتی ہے

؎جب ارادوں نے مات کھائی ہے

زندگی راستے پہ آئی ہے

راج کھیتی : –

؎زیست تاریک سمندر کا سفر تھی پہلے

ہم نہ ہوتے تو کہاں کوئی کنارا ہوتا

؎زندگی میں جو کبھی ساتھ تمہارا ہوتا

کا کل دہر کو ہم نے بھی سنوارا ہوتا

 

بر منگھم،   بریڈ فورڈ،   نوٹنگھم اور آئیر لینڈ کے شاعر

 

یوسف قمر : –

؎ہے کٹھن مرحلہ دار و رسن جانتے ہیں

تیرے دیوانے محبت کا چلن جانتے ہیں

؎دیار غیر میں اپنے دیار کی باتیں

ہوں جیسے عہد خزاں میں بہار کی باتیں

عطا جالندھری : –

؎ تصور کا حبس مرکز ہے ماضی

کوئی عہد جنوں کیسے بھلائے

عطا کس سے کریں ذکر حقیقت

کبھی اپنے جو تھے اب ہیں پرائے

سرمد جالندھری : –

؎اب آہٹوں سے خوف سا آنے لگا مجھے

یہ حال کر دیا ہے تیرے انتظار نے

عنایت حسین شاداں ؔ  : –

؎خدا جانے دماغِ آرزو میں کیا سمایا ہے

کہ بربادی میں بھی دل کی خوشی معلوم ہوتی ہے

ڈاکٹر حسن صفیؔ : –

؎دل میں بسا تو ہی ہے تری آرزو مگر

شعلہ سا اک قریبِ رگ جاں ہے دیکھئے

؎تجھی سے مانگوں،   زمانے سے کچھ طلب نہ کروں

کہ ظلمتوں میں بھی میں فکر روز و شب نہ کروں

طلعت سلیم : –

؎عقیدت سے سر خود بہ خود جھک گیا ہے

پھرائی ہے آنکھیں کس حسرت سے اپنی

؎بجھتی ہے پیاس روح کی جن کے جمال سے

مل کر وہ لوگ لگتے ہیں کیوں دل کو اجنبی

موج فرازی : –

؎احساس کو عریاں ہونے دو انسان کو انسان ہونے دو

یہ سارے اندھیرے باطل ہیں اک شمع فروزاں ہونے دو

؎اک کام تو ایسا کر جاؤ دُنیا میں بھرم کچھ رہ جائے

کچھ دیر تو اے دل والو تم جلوؤں کو پریشان ہونے دو

رازی پاکستانی : –

؎        یوں تو پہلے بھی بہار آئی تھی

بے کلی اب کے بڑی ہے یارو

؎        سامنا اس بت رعنائی کا

آزمائیش کی گھڑی ہے یارو

عاصی کاشمیری : –

؎        جب اندھیروں کا ذکر آتا ہے

ٹمٹماتی ہے لو اُجالوں کی

؎        جسنے دیا ہے درد ہمیں پیر کے عوض

ہم نے تو صبح و شام لیا ہے اُسی کا نام

حسن اجمل مسرت : –

؎        کیوں نہ احساس کی قندیل بجھا لی جائے

کوئی تدبیر تو جینے کی نکالی جائے

؎        تھے ہمارے بھی کبھی شہر میں چرچے لیکن

اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ قصہ کیا تھا

 

گھونگھٹ کے پٹ

 

حبیبؔ حیدرآبادی نے اس مضمون میں مشہور گیت کار سوہن راہی کے گیتوں پر تبصرہ کیا۔ اور اُن کے گیتوں کے مجموعہ ’’گھونگھٹ کے پٹ‘‘ پر اظہار خیال کیا۔ مضمون کے آغاز پر سوہن راہی سے اُن کی ملاقات اُن کی زبانی گیتوں کی سماعت گیتوں کے مجموعے کی اشاعت کی تفصیلات دینے کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے سوہن راہی کے گیتوں پر اظہار خیال کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’راہی صاحب نے بہت سے گیت بڑے ہی دُکھ بھرے دل کے ساتھ لکھے ہیں۔ ۔ ..۔ .. انہوں نے اپنے سارے غموں کی ترسیل اپنے گیتوں میں کر دی اور اپنے ہر غم کو غم جاناں کی نذر کر دیا۔ اُن کے گیتوں میں اُن کے اپنے جذبات کا نشیب و فراز ہے۔ وہ زندگی کو ہر رُخ سے دیکھنے کے عادی رہے۔ سوہن راہی صاحب نہ صرف یہ کے گوری کے من کو دیپ کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ اُس دیپ میں پیار کی جیوتی بھی۔‘‘ ۱۹ ؎

حبیبؔ حیدرآبادی سوہن راہی کے گیتوں کے اقتباسات بھی پیش کرتے جاتے ہیں۔ چند گیتوں کے مکھڑے اس طرح ہیں :

زندگی سپنوں کا ہے جھوٹا سفر

راستے ویران جھوٹی ہے ڈگر

نرم کلیوں کا بدن چھلنی رہا

دھوپ ننھی اوس کو ڈستی رہی

زندگی کی راہ میں منزل نہیں

موت کا کوئی یہاں قاتل نہیں

( سوہن راہی )

اُن کے نینوں سے مدرا برستی رہی

میں بھی پیتی رہی اور ترستی رہی

پیار گھٹتا رہا پیار بڑھتا رہا

روپ کا چاند گھونگھٹ بدلتا رہا

میں کبھی سو گئی یار کی گود میں

اور کبھی رات بھر میں تڑپتی رہی

اُن کی باہوں کے ہالے میں جھومتی

پھول بن کر کبھی سیج پر پھولتی

لے کے کلیاں کبھی بن لیا چاند سا

میں اکیلی ہی بنتی سنورتی رہی

(سوہن راہی )

سوہن راہی کے گیتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے مضمون کے آخر میں حبیبؔ حیدرآبادی نے لکھا کہ راہی صاحب انگلستان میں کئی برسوں سے مقیم ہیں۔ لیکن اُن کے گیتوں میں اپنے وطن کی تہذیب ہی جھلکتی ہے۔

 

لندن کے افسانے

 

انگلستان کے شعرا کے حالاتِ زندگی اور کلام سے تعارف کرانے کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے ’’لندن کے افسانے‘‘ کے عنوان سے ابوالخطیب صاحب کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں انہوں نے اردو افسانہ نگاری سے اپنے شغف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ابتداء میں اُنہوں نے خواجہ حسن نظامی مرحوم کے ’’غدر کے افسانے‘‘ پڑھے اُس کے بعد ڈپٹی نذیر احمد،   راشدالخیری،   سجاد حیدر یلدرم،   نیاز فتح پوری،   پنڈت ودیا ناتھ سدرشن،   گور بخش سنگھ اور پریم چند کے افسانے پڑھے۔ اردو افسانے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی نے مختصر طور پر داستانوں کے عناصر ناول کے آغاز کی وجوہات اور اردو کے اہم افسانہ نگاروں کا ذکر کیا۔ اور برطانیہ میں مقیم افسانہ نگار و ناول نگار ابوالخطیب کے فن کا جائزہ پیش کیا۔ جس میں اُنہوں نے ناولٹ ’’دل سے آگے کا سفر‘‘ ’’ذرا آنکھ لگی ہے‘‘ ’’میں ابھی زندہ ہوں‘‘ ’’افسانہ‘‘ ’’رات ذرا اندھیری ہے‘‘ وغیرہ کا جائزہ لیا ہے۔ ابوالخطیب صاحب کے دوسرے ناولٹ ’’ذرا آنکھ لگی ہے‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’تارکین وطن کو انگلستان کی زندگی کا پورا پورا احساس ہے۔ وہ جب یہ ناولٹ پڑھتے ہیں تو خود اُن کی زندگی کے تجربے اور واقعات ایک ایک کر کے اُن کے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطیب صاحب نے ہم سے انٹرویو لینے کے بعد ہمارے بعض احوال و تجربات کو اپنے ناولٹ میں شامل کر دیا ہے۔ لینڈ لیڈیز کا برتاؤ،   فیکٹری میں رنگ دار ہونے کی سزا،   مختلف قومیت اور معاشرت رکھنے والوں سے نباہ بہر حال یہاں کی زندگی کا تجزیہ خطیب صاحب نے خوب کیا ہے اور ناولٹ کو شروع سے آخر تک دلچسپ بنائے رکھا ہے۔‘‘ ۲۰ ؎

’’لندن کے افسانے‘‘ ابوالخطیب صاحب کی کتاب ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر افسانہ نگار کو حبیبؔ حیدرآبادی نے مبارک باد دی ہے۔ اور کتاب کے رسم اجراء کے موقع پر ۱۵ -ڈسمبر ۱۹۷۱ ء کو اُنہوں نے یہ مضمون پڑھا۔ جس میں ابوالخطیب کے فن افسانہ نگاری پر جائزے کے علاوہ اردو کے فسانوی ادب پر حبیبؔ حیدرآبادی نے طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ ’’لندن کے افسانے‘‘ مضمون کے ساتھ ہی حبیبؔ حیدرآبادی کے تنقیدی مضامین کا اختتام عمل میں آتا ہے۔

 

ایلس فیض کے ساتھ ایک شام

 

حبیبؔ حیدرآبادی کا ایک مضمون ایلس فیض کے ساتھ ایک شام ہے۔ یہ دراصل بیگم فیض سے لیا گیا ایک انٹرویو ہے جسے حبیبؔ حیدرآبادی نے لندن میں اپنے گھر پر ۲۹ ستمبر ۱۹۸۰ ء کو لیا تھا۔ ایلس فیض سے تعارف اور اپنی پہلی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیبؔ حیدرآبادی لکھتے ہیں :

’’۱۸ ستمبر ۱۹۸۰ ء ہفتہ کے دن سہ پہر میں لندن کے اردو مرکز نے فیض کے ایک نئے ریکارڈ کا اجراء کیا۔ کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ میں یہ پر وقار تقریب منعقد کی گئی تھی۔ جس کی صدارت رالف رسل نے کی۔ فیض مہمان خصوصی تھے۔ پاکستان کے مشہور فنکار ضیاء محی الدین نے فیض کی نظموں کے انگریزی ترجمے سنائے۔ زہرہ نگاہ نے فیض کی غزلیں پڑھیں۔ فیض نے مختصر تقریر کی اور پھر اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ آخر میں رالف رسل نے فیض کو اپنا خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اور اس محفل کو سجانے والے افتخار عارف نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اسی محفل میں بیگم فیض بھی موجود تھیں۔ یہیں اُن سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔‘‘ ۲۱ ؎

ایلس فیض سے تعارف کے تذکرے کے بعد حبیبؔ حیدرآبادی نے سوال و جواب کی شکل میں انٹرویو کی تفصیلات پیش کیں۔ کسی سے انٹرویو لینا ہو تو موضوع کے مطابق انٹرویو لینے والے کی معلومات بھی وسیع ہونی چاہئے۔ کہتے ہیں کے ’’سوال علم کی کنجی ہوتا ہے‘‘ یعنی سوال کریں گے تو اُس کا خاطر خواہ جواب ملے گا اور علم میں اضافہ ہو گا۔ اس لئے جواب سے پہلے کئے گئے سوالات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ حبیبؔ حیدرآبادی ایلس فیض سے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کے بارے میں انٹرویو لے رہے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے فیض کے بارے میں جو سوالات کئے ہیں اُنہیں ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان سوالوں کے ذریعہ حبیبؔ حیدرآبادی کی ادبی و تنقیدی بصیرت کا پتہ چل سکے۔ حبیبؔ حیدرآبادی کے پوچھے گئے سوالات اس طرح ہیں :

’’مختلف محفلوں میں فیض کی بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ لوگ اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ جب ان محفلوں میں آپ شریک ہوتی ہیں تو کیا آپ کبھی احساسِ کمتری کا شکار ہوتی ہیں کہ لوگوں کی توجہ فیض پر زیادہ ہے اور آپ پر کم ؟آپ کے سسرال والوں کا رویہ آپ کے ساتھ کیسے رہا ؟

آپ کی دونوں بیٹیوں میں کونسی بیٹی آپ کے زیادہ قریب ہے ؟ن -م -راشد سے آپ دونوں کے تعلقات کیسے رہے کیا فیض اور راشد میں کوئی رقابت تھی ؟فیض کی ہمہ گیر مقبولیت کے اسباب کیا ہیں ؟آپ کے اشتراکی خیالات کس حد تک فیض کے رہین منت ہیں ؟آپ اپنے آپ کو انگریز سمجھتی ہیں یا پاکستانی ؟اکثر و بیشتر آپ دونوں بڑے آدمیوں کے مہمان رہتے ہیں۔ فیض اور آپ اپنے آپ کو کس طبقے میں شمار کرتے ہیں۔ آیا امیر،   اوسط یا غریب ؟فیض کی مئے نوشی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کے صبح بستر سے اُٹھنے کے بعد سے رات دیر گئے بستر کو جانے تک وہ مسلسل پیتے رہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا اُن کی صحت کے لئے مضر نہیں ہے ؟بعض لوگوں کے اس بیان میں کہاں تک صداقت ہے کہ فیض اور آپ ہمیشہ دوسروں کی خاطر مدارات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جواباً اپنے مکان پر دوسروں کی خاطر مدارات یا تواضع نہیں کرتے ؟عام پاکستانیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟فیض کی پاکستان سے غیر حاضری یا اُن کے جیل جانے کے سبب کیا آپ کی بچیوں کی تربیت پر کوئی اثر پڑا ؟ ۲۲؎

حبیبؔ حیدرآبادی کے مندرجہ بالا سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نا صرف وہ فیض کی زندگی کے کئی پہلوؤں سے واقف تھے بلکہ ایک ادیب کی زندگی کے بارے میں کس طرح کے سوال کرنا چاہئے اُن سے بھی واقف تھے۔ چونکہ یہ انٹرویو فیض کی اہلیہ سے لیا گیا تھا۔ اس لئے حبیبؔ حیدرآبادی نے ایلس سے فیض کی شاعری یا فن کے بارے میں راست سوالات نہیں کئے بلکہ فیض اور ایلس کی خاندانی زندگی کو اُجاگر کرنے والے سوالات کئے۔ جب حبیبؔ حیدرآبادی نے ایلس سے اُن کے سسرال والوں کے رویے کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں ایلسنے اپنی زندگی کے احوال بھی بیان کئے چنانچہ ایلس کہتی ہیں :

’’ہماری شادی ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۱ ء کو سری نگر میں ہوئی۔ شیخ محمد عبداللہ نے نکاح پڑھا۔ شادی کے بعد ہم دہلی بھی گئے۔ ن- م- راشد اور اُن کی پہلی بیوی کے ہم مہمان رہے۔ میری بڑی بیٹی سلیمہ ۱۹۴۲ء میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ منیزہ ۱۹۴۵ء میں شملے میں پیدا ہوئیں۔ میرے سسرال والے ہم تینوں کو بہت عزیز رکھتے ہیں‘‘ ۲۲؎

ایلس فیض کے جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرویو کے ذریعہ بھی کسی ادیب یا شاعر کے بہت سے احوال قارئین تک پہونچائے جا سکتے ہیں۔ ایلس فیض سے لیا گیا یہ انٹرویو حبیبؔ حیدرآبادی کی شلجھی ہوئی تنقیدی بصیرت کا پتہ دیتا ہے۔

گذشتہ صفحات میں حبیبؔ حیدرآبادی کے جن مضامین کا جائزہ پیش کیا گیا۔ اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حبیبؔ حیدرآبادی ایک مستقل نقاد تو نہیں لیکن اُن میں ایک نقاد کی تمام خوبیاں بدرجہا تم موجود ہیں۔ حبیبؔ حیدرآبادی نے جس تحقیق اور چھان بین سے برطانیہ میں مقیم اردو کے شعراء اور ادیبوں کے احوال بیان کئے اور اپنی پسند سے جس طرح شعراء کے کلام کا انتخاب پیش کیا ہے۔ اس سے وہ برطانوی شعر و ادب کے مورخ اور نئے دور کے تذکرہ نگار کے طور پر اُبھر کر آتے ہیں۔ برطانیہ کے شعراء کے حالات زندگی اور کلام کے انتخاب پر مبنی اُن کے یہ مضامین ’’برطانیہ میں اردو شاعری‘‘ جیسی کسی تاریخ ادب کا اچھا خاصا مواد ثابت ہو سکتے ہیں۔ شعراء کے حالات اور کلام پر تبصروں کے دوران حبیبؔ حیدرآبادی ایک تاثراتی نقاد کے طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اپنی تحریروں کے ذریعہ جہاں وہ اپنی ادبی بے بضاعتی کا ذکر کرتے ہیں تو وہیں اُن کی تحریریں اُنہیں ایک اچھے نقاد،   محقق،   مورخ اور تذکرہ نگار کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ برطانیہ کے شعراء کو بر صغیر میں متعارف کرانے میں حبیبؔ حیدرآبادی نے ایک اہم کام کیا ہے۔ اور جب کبھی برطانیہ کے شعر و ادب کی تاریخ مرتب ہو گی اس وقت حبیبؔ حیدرآبادی کا یہ گلدستہ شعراء ضرور مورخین کے لئے کارآمد ثابت ہو گا۔

 

حوالے

 

۱؎ شارب ردولوی ڈاکٹر -جدید اردو تنقید اُصول و نظریات -لکھنو ۱۹۸۱۔         ص۴۹

۲؎ اشرف رفیع -پروفیسر -مضمون ادب میں تنقید کے جدید رجحانات -مشمولہ سب رس حیدرآباد -نومبر ۲۰۰۵  ص۲۶

۳؎ حسین الحق -مضمون -نقدِ اشرفی،   منظر پس منظر،   مشمولہ سب رس حیدرآباد -نومبر ۲۰۰۵ ص ۲۹

۴؎ کلیم الدین احمد -اردو تنقید پر ایک نظر      ص

۵؎ عبدالحق -مشمولہ – فن تنقید اور اردو تنقید نگاری از-نورالحسن نقوی -علی گڈھ ۲۰۰۱ ص ۹۸

۶؎ نورالحسن نقوی -فن تنقید اور اردو تنقید نگاری     ص ۱۰۰

۷؎ حنیف نقوی -مشمولہ -فن تنقید اور اردو تنقید نگاری۔      ص۱۰۶

۸؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                       ص۱۵۴

۹؎ اکبر حیدرآبادی -بحوالہ انگلستان میں۔                     ص ۱۶۰

۱۰؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص ۱۶۱

۱۱؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                       ص ۱۶۲

۱۲؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص۱۶۳

۱۳؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص ۱۶۷

۱۴؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص۱۶۸

۱۵؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص۱۷۴

۱۶؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                       ص۱۷۸

۱۷؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص ۱۸۴

۱۸؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص۱۹۲

۱۹؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                       ص۲۵۳

۲۰؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص۲۶۲

۲۱؎ حبیبؔ حیدرآبادی -انگلستان میں۔                      ص۱۳۹

۲۲؎ ایلس فیض -بحوالہ -انگلستان میں۔                      ص ۱۴۱ -۱۴۲

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے  اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید